صفحات

تلاش کریں

افسانوی مجموعہ: زندگی افسانہ نہیں (سلام بن رزاق)



فہرست
























انتساب


ساجد رشید (مرحوم) کے نام








ایک جھوٹی /سچی کہانی



میرے بیٹے نے حسبِ معمول اس رات بھی کہانی کی فرمائش کی۔ میں کافی تھکا ہوا تھا۔ تِس پر ٹیلی ویژن سے ٹیلی کاسٹ ہوئی خبروں نے دل و دماغ کو اور بھی پژمردہ کر دیا۔ لگتا تھا پوری دنیا بارود کے ڈھیر پر بیٹھی ہے۔ اک ذرا سا ماچس دکھانے کی دیر ہے، بس۔ کیا انسان دورِ وحشت کی طرف لوٹ رہا ہے؟

دل بے چین اور دماغ پراگندہ تھا۔ میں نے بیٹے کو پچکارتے ہوئے کہا۔

’’آج نہیں بیٹا! آج پاپا بہت تھک گئے ہیں، کل سنائیں گے ہم تمہیں ایک اچھی کہانی۔‘‘

’’نہیں، ہم تو آج ہی سنیں گے۔‘‘ اس نے ضد کی۔

’’اچھے بچے ضد نہیں کرتے۔‘‘ میں نے پھر سمجھایا۔

’’بس ایک چھوٹی سی کہانی۔۔۔ ایک دم آِتّی سی۔‘‘ اس نے انگلی کی پور پر انگوٹھا رکھتے ہوئے ’اِتِّی سی‘ کی صراحت کی۔

اس کی اس معصوم ادا پر مجھے ہنسی آ گئی۔ میں نے تھک ہار کر کہا۔ ’’ٹھیک ہے، ہم کہانی سنائیں گے، مگر تم بیچ میں کوئی سوال نہیں پوچھو گے؟‘‘

’’نہیں پوچھوں گا۔‘‘

’’ہم تمہیں آج وہ کہانی سناتے ہیں جو تمہارے دادا جان نے ہمیں سنائی تھی۔‘‘

’’آہا۔۔۔‘‘ اس نے خوش ہوتے ہوئے نعرہ لگایا۔

’’پرانے زمانے کی بات ہے۔۔۔‘‘ میں نے کہانی شروع کی۔

’’کتنی پُرانی؟‘‘ وہ بیچ میں بول پڑا۔

’’اوں ہوں۔۔۔ میں نے کہا تھا نا تم کوئی سوال۔۔۔‘‘

’’اوہو۔۔۔ سَوری پاپا۔۔۔!‘‘

اس نے کسمساتے ہوئے معافی مانگی۔

’’ویسے بات بہت پرانی بھی نہیں ہے۔‘‘ میں نے کہانی جاری رکھتے ہوئے کہا۔

’’یہی کوئی پچاس برس ہوئے ہوں گے۔۔۔ یا ہو سکتا ہے سو دو سو برس پرانی ہو۔۔۔ زیادہ سے زیادہ ہزار بارہ سو برس پرانی ہو سکتی ہے یا پھر اس بھی زیادہ۔۔۔ کہتے ہیں اس اونچی پہاڑی کے پیچھے ایک بستی تھی۔ بستی البتہ سچ مچ بہت پرانی تھی، ہزاروں برس پرانی۔۔۔ بستی میں اونچے اونچے مکان تھے، مکانوں میں بڑے بڑے دروازے اور چوڑی چوڑی کھڑکیاں تھیں، روشن اور کشادہ کمرے تھے، جہاں صبح و شام ہوا اٹھکیلیاں کرتی گزرتی، مکانوں کے آنگنوں میں پھولوں کی کیاریاں لگی تھیں، جن میں رنگ برنگے پھول کھلتے تھے اور ہواؤں میں ہر دم بھینی بھینی خوشبو رچی رہتی تھی، بستی کے باہر باغات کا سلسلہ تھا، جن میں طرح طرح کے پھل اور پیڑ تھے، پیڑوں پر قسم قسم کے پرندوں کے گھونسلے تھے، پرندے صبح شام چہچہاتے رہتے، ان کی چہکار سے فضا میں موسیقی سی گھلتی رہتی، بستی کے پاس سے ایک ندی گزرتی تھی جس سے آس پاس کی زمین سیراب ہوتی رہتی، انسان تو انسان ڈھور ڈنگر تک کو دانے چارے کی کمی نہیں تھی، کوئی موسم ہو، کھیتوں میں اناج کے خوشے جھومتے رہتے اور گایوں کے تھن ہمیشہ دودھ سے بھرے رہتے۔

بستی کے لوگ بڑے خوش مزاج، ملنسار اور امن پسند تھے، مرد دن بھر کھیت، کھلیانوں اور باغوں میں کام کرتے، مویشی چراتے، دودھ دوہتے اور عورتیں چولہا چکی سنبھالتیں۔ خالی وقت میں وہ ایک دوسرے کی دعوتیں کرتے، دعوتوں میں لذیذ کھانے کھاتے، عمدہ مشروب پیتے، جھومتے گاتے اور رقص کرتے۔ بوڑھے اطمینان سے مونچھوں کے نیچے مسکراتے، گردنیں ہلاتے رہتے، گرہستنیں اپنے یجمانوں پر واری جاتیں اور کنوارے کنواریاں ایک دوسرے سے ہنسی ٹھٹھول کرتے اور کبھی کبھی ہنسی ہنسی میں ایک دوسرے کو زندگی بھر کے لیے جیون ساتھی چن لیتے۔ ان میں جو شہ زور تھے کشتیاں لڑتے، لاٹھی بلّم کھیلتے، مصور تصویریں بناتے اور شاعر گیت گاتے تھے، خوشیاں روز اس بستی کا طواف کرتیں اور غم بھولے سے بھی ادھر کا رخ نہ کرتے۔

کہتے ہیں بستی کے پاس ہی ایک گھنے پیڑ پر ایک پری رہتی تھی۔ ننھی منی، موہنی صورت اور معصوم سیرت والی، گلابی آنکھوں اور شہابی ہونٹوں والی، سنہرے بالوں اور سرخ گالوں والی پری۔ پری گاؤں والوں پر بہت مہربان تھی۔ وہ اکثر اپنے چمکدار پروں کے ساتھ اڑتی ہوئی آتی اور ان کے روتے ہوئے بچوں کو گدگدا کر ہنسا دیتی۔ لڑکیوں کے ساتھ ساون کے جھولے جھولتی، آنکھ مچولی کھیلتی، لڑکے بالوں کے ساتھ پیڑوں پر چڑھتی، ندی میں تیرتی، کبھی کسی کے کھلیان کو اناجوں سے بھر دیتی، کبھی کسی کے آنگن میں رنگ برنگے پھول کھلا دیتی۔ شادی بیاہ، تیج تہوار، میلے ٹھیلے یہاں تک کہ موت مٹی میں وہ ہر جگہ، ہر موقع پر ان کے ساتھ رہتی۔ بستی والے بھی اس کے اتنے عادی ہو گئے تھے کہ اگر وہ ایک دن بھی انہیں دکھائی نہیں دیتی تو وہ بے چین ہو جاتے۔

دن گزرتے رہے۔ وقت کا پرندہ کالے سفید پروں کے ساتھ اڑتا رہا اور موسم کا بہروپیا نت نئے روپ بدلتا رہا۔

پھر پتا نہیں کیا ہوا کہ ایک دن کسی نے ان کے کھیتوں میں شرارت کا ہل چلا دیا۔ بس، اس دن سے ان کے کھیت تو پھیلتے گئے مگر دل سکڑنے لگے۔ گودام اناجوں سے بھر گئے مگر نیتوں میں کھوٹ پیدا ہو گئی۔ اب وہ اپنی مقر رہ زمینوں کے علاوہ دوسروں کی زمینوں پر بھی نظر رکھنے لگے۔ نتیجے کے طور پر ان کے کھیتوں میں بد کرداری کی فصل اگنے لگی اور درخت ریا کاری کا پھل دینے لگے۔ لالچ نے ان کے دلوں میں خود غرضی کا زہر گھول دیا تھا۔ پہلے وہ مل بانٹ کر کھاتے تھے، مل جل کر رہتے تھے، مگر رفتہ رفتہ ان کی ہر چیز تقسیم ہونے لگی۔ کھیت، کھلیان، باغ، بغیچے، گھر آنگن یہاں تک کہ انہوں نے اپنی عبادت گاہیں تک آپس میں بانٹ لیں اور اپنے اپنے خداؤں کو ان میں قید کر دیا۔ ان کی آنکھوں کی مروت اور دلوں کی حمیت ہتھیلی پر جمی سرسوں کی طرح اڑ گئی، تصویروں کے رنگ اندھے اور گیتوں کے بول بہرے ہو گئے، اب نہ کوئی تصویر بناتا تھا نہ کوئی گیت گاتا تھا، ہر گھڑی ہر کوئی ایک دوسرے کو زک دینے کی فکر میں رہتا۔ آئے دن وہ ایک دوسرے کو برباد کرنے کے منصوبے بناتے رہتے۔

بستی والوں کے یہ بدلے ہوئے رنگ ڈھنگ دیکھ کر وہ ننھی پری بہت دکھی ہوئی۔

وہ سوچنے لگی، آخر بستی والوں کو کیا ہو گیا ہے؟ یہ کیوں ایک دوسرے کے بیری ہو گئے ہیں؟مگر اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔

وہ اب بھی بستی میں جاتی، بچوں کو گدگداتی اور عورتوں کے ساتھ گیت گاتی۔۔۔ لڑکی، لڑکوں کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتی۔۔۔ پیڑوں پر چڑھتی، ان کے کھیت، کھلیانوں کے چکر لگاتی، آنگنوں میں گھومتی پھرتی۔۔۔ مگر اب وہ سب اس کی طرف بہت کم دھیان دیتے۔

بستی والوں کی اس بے توجہی کے سبب ننھی پری اداس رہنے لگی۔ آخر اس نے بستی میں آنا جانا کم کر دیا۔ اگر کبھی جاتی بھی تو ڈری ڈری، سہمی سہمی سی رہتی اور جتنی جلد ممکن ہوتا وہاں سے لوٹ آتی۔ پھر ایک دن ایسا آیا کہ اس نے بستی میں آنا جانا بالکل ترک کر دیا۔

بستی والے آپس کے جھگڑے ٹنٹوں میں اس قدر الجھے ہوئے تھے کہ شروع شروع میں انہیں اس کی غیر موجودگی کا پتا تک نہیں چلا۔ مگر جب سہاگنوں کے گیت بے سرے ہو گئے اور کنواریوں نے پیڑوں کی ٹہنیوں سے جھولے اتار لیے اور بچے کھلکھلا کر ہنسنا بھول گئے تب انہیں احساس ہوا کہ انہوں نے اپنی کوئی قیمتی شئے کھو دی ہے۔ بستی والے فکر مند ہو گئے۔ اسے کہاں ڈھونڈیں، کیسے تلاش کریں؟

پہلے تو انہوں نے اسے اپنے گھروں اور آنگنوں میں تلاش کیا۔ مگر وہ وہاں نہیں تھی۔ پھر انہوں نے اسے کھیت، کھلیان اور باغ بغیچوں میں ڈھونڈا۔۔۔ وہ وہاں بھی نہیں تھی۔ وہ ندی کے کنارے گئے، میدانوں میں بھٹکے، پیڑوں اور گپھاؤں میں دیکھا، مگر وہ کہیں نہیں تھی۔ اب ان کی تشویش بڑھنے لگی۔ مگر بجائے اس کے کہ وہ مل بیٹھ کر سر جوڑ کر اس کے بارے میں سوچتے، وہ ایک دوسرے پر الزام دھرنے لگے کہ پری ان کی وجہ سے روٹھ گئی ہے۔ اب تو وہ ایک دوسرے سے اور بھی بدگمان ہو گئے۔ ان کے دلوں کی نفرت اور بھی گہری ہو گئی۔

اب انہوں نے ایک دوسرے کے کھیت کھلیانوں کو پامال کرنا اور مویشیوں کو چُرانا شروع کر دیا۔ دھوکہ فریب، لوٹ مار، قتل و غارت گری روز کا معمول بن گیا۔۔۔ اب نہ کسی کا جان و مال محفوظ تھا، نہ کسی کی عزت و آبرو سلامت تھی۔ ہر طرف افراتفری کا عالم تھا، بوڑھے اپنے گھر کی چہار دیواریوں میں بیٹھے گڑگڑاتے اور دعائیں مانگتے رہتے اور جوان تلواریں اور نیزے لیے ایک دوسرے کی تاک میں گھومتے رہتے۔ کوئی تلوار سے کسی کا سر قلم کر دیتا، کوئی نیزے سے کسی کا سینہ چھید دیتا۔ معصوم انسانوں کے لیے روز بروز زمین تنگ ہوتی جا رہی تھی۔

جب پانی سر سے اونچا ہو گیا اور بچاؤ کی کوئی صورت نہ رہی تب بستی والوں نے طے کیا کہ اس روز روز کے قضیے سے بہتر ہے اس قصے کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا جائے۔ وہ جان گئے تھے کہ جب تک کسی ایک فریق کا خاتمہ نہیں ہو جاتا، دوسرے کو راحت نہیں مل سکتی۔ لہٰذا انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ وہ اپنے دشمن کو ختم کیے بغیر چین سے نہیں بیٹھیں گے۔

اس فیصلے کے بعد وہ دو گروہ میں بٹ گئے۔ عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو گھروں میں بند کر دیا گیا اور سارے جوان ہاتھوں میں نیزے اور تلواریں لیے میدان میں ایک دوسرے کے مقابل آ کر کھڑے ہو گئے۔ ان کی آنکھوں سے غصے اور نفرت کی چنگاریاں نکل رہی تھیں اور ان کی مٹھیاں نیزوں اور تلواروں کے دستوں اور قبضوں پر مضبوطی سے کسی ہوئی تھیں۔ وہ اپنے حریف کو خونخوار نظروں سے گھور رہے تھے اور ایک دوسرے پر جھپٹ پڑنے کو تیار کھڑے تھے۔

تبھی ایک انہونی ہو گئی، فضا میں ایک مہین سا سُر بلند ہوا۔ جیسے کسی پرندے کا ملائم پر ہوا میں لرز رہا ہو۔۔۔ کوئی گا رہا تھا۔

انہوں نے آواز کی سمت دیکھا۔ پہلے تو انہیں کچھ دکھائی نہیں دیا۔ مگر جب انہوں نے بہت دھیان سے دیکھا تو انہیں ننھی پری ایک پیڑ کی ڈال پر بیٹھی دکھائی دی۔ مگر آج اس کا روپ بدلا ہوا تھا، اس کے بال بکھرے ہوئے اور گال آنسوؤں سے تر تھے، پَر نُچے ہوئے اور کپڑے پھٹے ہوئے تھے، جیسے وہ گھنی خار دار جھاڑیوں کے درمیان سے گزر کر آ رہی ہو، اس کے پاؤں ننگے اور تلوے زخمی تھے۔ وہ پیڑ سے اتر کر میدان کے بیچ میں آ کر کھڑی ہو گئی، اس نے دونوں ہاتھ فضا میں بلند کر رکھے تھے جیسے انہیں ایک دوسرے پر حملہ کرنے سے روکنا چاہتی ہو۔

تلواروں کے دستوں اور نیزوں پر کسی ہوئی مٹھیاں قدرے ڈھیلی ہوئیں۔

وہ گا رہی تھی۔ اس کی آواز میں ایسا سوز تھا کہ ان کے سینوں میں دل تڑپ اٹھے۔ وہ گا رہی تھی۔ اس کی آواز دھیرے دھیرے بلند ہوتی گئی، بلند ہوتی گئی، اتنی بلند جیسے ستاروں کو چھونے لگی ہو، اس کی آواز چاروں دِشاؤں میں پھیلنے لگی۔ پھیلتی گئی، پھیلتی گئی، اتنی پھیلی کہ چاروں دِشائیں اس کی آواز کی بازگشت سے گونجنے لگیں۔ لوگ حیرت سے آنکھیں پھاڑے، منہ کھولے اس کا گیت سنتے رہے، سنتے رہے۔ یہاں تک کہ ان کے ہاتھوں میں دبی تلواریں پھولوں کی چھڑیوں میں تبدیل ہو گئیں اور نیزے مورچھل بن گئے۔

انہوں نے محسوس کیا کہ پہاڑوں کی چوٹیوں پر جمی برف پگھل رہی ہے اور ان کے دلوں کی کدورت آنکھوں سے آنسو بن کر بہہ رہی ہے۔ پچھتاوے اور شرمندگی سے ان کی گردنیں جھک گئیں۔ گیت کے بول ان کے کانوں میں رس گھولتے رہے اور دھیرے دھیرے وہ سب ایک دوسرے سے ایک اَن دیکھی، اَن جان ڈور سے بندھتے چلے گئے، جیسے وہ سب ایک ہی مالا کے موتی ہوں، جیسے وہ سب ایک ہی ماں کے جائے ہوں۔

ادھر گیت ختم ہوا اور وہ اپنی آستینوں سے آنسو پونچھتے ہوئے ایک دوسرے کے گلے لگ گئے۔

جب اشکوں کا غبار کم ہوا تو انہوں نے اپنی محسن کو تلاش کرنا چاہا مگر وہ ان کی نظروں سے اوجھل ہو چکی تھی۔ بستی والوں نے اسے بہت ڈھونڈا، وادی وادی، جنگل جنگل آواز دی، منتیں کیں، واسطے دیے۔۔۔ مگر وہ دوبارہ ظاہر نہیں ہوئی۔ تب بستی والوں نے اس کی یاد میں ایک مجسمہ بنایا، اسے بستی کے بیچوں بیچ میدان میں نصب کر دیا۔

کہتے ہیں آج بھی بستی کے لوگوں میں جب کوئی تنازعہ ہوتا ہے، سب میدان میں اس مجسمے کے گرد جمع ہو جاتے ہیں اور اس گیت کو دہرانے لگتے ہیں۔ گیت کے ختم ہوتے ہوتے ان کے دل کی سلیٹیں دوبارہ اجلی اور صاف ہو جاتی ہیں، جیسے بارش کی پہلی پھوار سے پیڑوں کے پھول پتے دھُل جاتے ہیں۔ اس طرح بستی والے آج بھی اس گیت کی بدولت بڑے امن اور چین سے زندگی بسر کر رہے ہیں۔۔۔ جیسے ان کے دن پھِرے، خدا ہم سب کے بھی دن پھیر دے۔‘‘

میں نے کہانی ختم کر کے اپنے بیٹے کی طرف دیکھا۔ وہ مجھے عجیب نظروں سے گھور رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں کوئی تاثر نہیں تھا، چہرہ بالکل سپاٹ تھا۔ میں نے جماہی لیتے ہوئے کہا۔ ’’چلو اب سو جاؤ، کہانی ختم ہو چکی ہے۔‘‘

اس نے کہا۔ ’’پاپا! آپ نے کہا تھا، کہانی سناتے وقت بیچ میں کوئی سوال نہیں پوچھنا۔‘‘

’’ہاں۔۔۔ میں نے کہا تھا اور تم نے کوئی سوال نہیں پوچھا۔ تم بڑے اچھے بچے ہو۔ چلو، سو جاؤ۔‘‘

’’مگر پاپا! کہانی تو ختم ہو گئی۔ میں اب تو سوال پوچھ سکتا ہوں نا۔۔۔؟‘‘

میں نے ایک لمحہ توقف کیا۔ پھر بولا ’’چلو پوچھو۔۔۔ کیا پوچھنا چاہتے ہو؟‘‘

’’پاپا! وہ کون سا گیت تھا، جسے سن کر گاؤں والے دوبارہ گلے ملنے پر مجبور ہو گئے۔‘‘

میں نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ تھوڑی دیر چپ رہا، پھر بولا۔ ’’مجھے وہ گیت یاد نہیں ہے بیٹا۔‘‘

’’کیوں پاپا! آپ کو گیت کیوں یاد نہیں؟‘‘

’’کیوں کہ میرے پاپا یعنی تمہارے دادا نے بھی جب مجھے یہ کہانی سنائی تھی تو صرف کہانی سنائی تھی، گیت نہیں۔‘‘

’’آپ نے ان سے پوچھا نہیں۔۔۔؟‘‘

’’شاید ان کے پاپا نے بھی انہیں صرف کہانی سنائی ہو۔‘‘

’’نہیں پاپا۔۔۔!‘‘ میرے بیٹے نے مچلتے ہوئے کہا۔

’’مجھے وہ گیت سنائیے ورنہ میں سمجھوں گا کہ آپ کی کہانی ایک دم جھوٹی تھی۔‘‘

٭٭٭





مسیحا





(اپنے مرحوم دوست اِبراہیم نذیر کے نام)

ٹیلی ویژن سے یومِ آزادی پر وزیرِ اعظم کی تقریر ٹیلی کاسٹ ہو رہی تھی۔ تقریر کا ایک ایک لفظ اس کی روح کی گہرائیوں میں اترتا جا رہا تھا۔ بظاہر اس تقریر میں کوئی انوکھی بات نہیں تھی۔ وہ تقریر ایسی ہی تھی جیسی یومِ آزادی اور یومِ جمہوریہ کے موقع پر عموماً وزیرِ اعظم کرتے ہیں۔ جس میں خوش آئند وعدوں کے ساتھ ساتھ قوم کو سخت محنت، نظم و ضبط، نیز آنے والے مصائب کا مقابلہ کرنے اور ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار رہنے کی دعوت دی جاتی ہے۔

ویسے وہ تقریر تو بس ایک بہانہ تھی ورنہ وہ ایک عرصے سے محسوس کر رہا تھا کہاس کے کاندھے کسی نامعلوم ذمہ داری کے بوجھ سے جھُکے جا رہے ہیں اور کچھ کر گزرنے کا جذبہ اس کے اندر ایک طوفان سا برپا کیے رہتا ہے۔

تقریر سنتے سنتے اس کے لہو میں بجلیاں سی دوڑنے لگیں۔ چہرہ سرخ ہو گیا اور فرطِ جذبات سے اس کا دبلا پتلا لاغر جسم دھیرے دھیرے کانپنے لگا جیسے اسے کسی آسیب نے آ دبوچا ہو۔ تقریر کے اختتام پر وزیرِ اعظم کی آواز میں آواز ملا کر اس نے بھی بڑے زور سے ’جے ہند‘ کا نعرہ لگایا۔ اس کی دو برس کی سوتی بچی اس للکار سے جاگ پڑی اور زور زور سے رونے لگی۔ بیوی اس کی بچکانہ حرکت پر بہت خفا ہوئی مگر اس نے ذرا پروا نہ کی۔ وہ جانتا تھا کہ اس کی بیوی سات کلاس پاس ایک جاہل عورت ہے۔ اسے نہ تو حالات کی سنگینی کا علم ہے اور نہ ہی ملک و قوم کے مفاد یا نقصان کا احساس۔ اس کی ساری سرگرمیاں اپنے ڈیڑھ کمرے کے اس چھوٹے سے گھر کی چہار دیواری تک محدود تھیں۔ وہ اخبار پہلے بھی پڑھتا تھا مگر اس دن کے بعد سے وہ اخبار کو ایک ذمہ داری کے احساس کے ساتھ پڑھنے لگا۔ وہ دفتر سے لوٹنے کے بعد کپڑے تبدیل کر کے منہ ہاتھ دھوتا اور ٹی وی پر خبروں کا چینل کھول کر بیٹھ جاتا۔ ایک چینل149 سے خبریں ختم ہوتیں تو دوسرا چینل لگا دیتا اور پورے دھیان سے ایک ایک خبر سنتا۔ بیوی چائے کا پیالہ لیے پاس آ کر کھڑی رہتی مگر اس کی محویت میں ذرا فرق نہ آتا۔ بیوی اکتا کر پیالہ اسٹول یا میز پر رکھ دیتی اور بڑبڑاتی ہوئے چلی جاتی۔ اگر خبریں سنتے وقت اس کا بڑا لڑکا کارٹون دیکھنے کے لیے شور مچاتا یا چھوٹی بچی کسی بات پر رونے لگتی تو وہ انہیں بری طرح ڈانٹنے پھٹکارنے لگتا۔ بڑا لڑکا تو سہم کر چپ ہو جاتا۔ مگر چھوٹی اور زور زور سے رونے لگتی۔ اپنے کام سے فارغ ہو کر بیوی ٹی وی پر کوئی سیریل یا فلم دیکھنا چاہتی تو وہ بیوی پر برس پڑتا۔

’’تمہیں خبر بھی ہے دنیا میں کیا ہو رہا ہے اور ہماری ذمہ داریاں کس قدر بڑھ گئی ہیں۔ ان دو کوڑی کے سیریلوں سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ چیزوں کو ذرا گہرائی سے دیکھنے کی عادت ڈالو، سمجھیں!‘‘

بیوی چڑ جاتی۔ تھوڑی دیر تک دونوں میں تو تو میں میں ہوتی، پھر بیوی منہ پر دوپٹا لپیٹے کروٹ بدل کر سو جاتی۔ اور وہ دوبارہ ٹی وی پر نظریں جما کر بیٹھ جاتا۔ ایک دن اس نے ٹی وی پر سنا کہ ’’ضروری اشیاء کی قیمتوں پر قابو پا لیا گیا ہے۔‘‘ وہ اچھل پڑا، اس نے زور سے بیوی کو آواز دی۔ وہ بے چاری کچن سے دوڑتی ہوئی آئی۔ اس کے اس طرح اچانک چلانے سے وہ گھبرا گئی تھی۔

’’کیا ہے جی؟‘‘

’’ارے ابھی ابھی میں نے ٹی وی پر خبر سنی ہے کہ ضروری اشیا کی قیمتوں پر قابو پا لیا گیا ہے۔ کل سے اپنی دال سبزی تیل میں نہیں اصلی گھی میں بنا کرے گی۔

اس کے چہرے پر طفلانہ مسرت کے علاوہ ایک مجنونانہ جوش بھی تھا۔ بیوی بے چاری کیا بولتی۔ وہ اس کے تمتمائے ہوئے چہرے کی طرف فقط حیرت اور ترحّم کے ملے جلے جذبے کے ساتھ دیکھتی رہ گئی۔

ایک دن بیوی نے کہا۔ ’’برسات آ رہی ہے، چھت کی مرمت کروا لو۔ پچھلی برسات میں دیکھا تھا نا کتنی تکلیف ہوئی تھی۔‘‘

اس نے حقارت سے بیوی کی طرف دیکھا۔ جیسے کہہ رہا ہو، ہو نا آخر گنوار کی گنوار۔ پھر بیوی کو سمجھاتے ہوئے بولا۔

’’صبر سے کام لو، سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اب اس ٹوٹی پھوٹی چھت پر مزید خرچ کرنے کی ضرورت نہیں۔ سرکار ہمیں جلد ہی ڈھنگ کا مکان دینے والی ہے۔‘‘

’’سرکار کہاں سے دے گی؟‘‘ بیوی کا وہی احمقانہ سوال۔

’’ارے کہیں سے بھی دے گی۔ نہیں دے گی تو اسی کو توڑ کر پکا بنا دے گی۔‘‘

’’باپ مریں گے تب بیل بنٹیں گے۔‘‘بیوی نے چڑ کر کہا۔

اچانک اسے بیوی پر بے حد غصہ آ گیا۔ آخر اس عورت کو کب عقل آئے گی۔ جب اسے بات کرنا نہیں آتا تو چپ کیوں نہیں رہتی۔ اس نے اسے زور سے ڈانٹا۔

’’جب تمہیں کسی بات کی سمجھ نہیں تو بے کار میں کیوں اپنا سر کھپاتی ہو۔ سرکار کے پاس کیا جادو کی چھڑی ہے کہ گھماتے ہی گھر تیار ہو جائے گا۔ ہر کام کا وقت مقرر ہے اور وہ اپنے وقت پر ہی پورا ہوتا ہے۔ کروڑوں لوگوں کو ساتھ لے کر چلنا آسان تو نہیں ہے، ہم ہمیشہ یہ کیوں سوچتے ہیں کہ سرکار ہمارے لیے کیا کر رہی ہے۔ ہمیں یہ بھی تو سوچنا چاہیے کہ ہم سرکار کے لیے کیا کر رہے ہیں۔‘‘

بیوی کو اس کا یہ لیکچر بُرا لگا۔ اس نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے کہا۔ ’’میں تو گنوار ہوں۔ مجھے کچھ بھی نہیں معلوم۔ بھاڑ میں گئی آپ کی سرکار۔ میں اتنا جانتی ہوں کہ برسات سے پہلے چھت بن جانی چاہیے۔ ورنہ مجھے گاؤں لے جا کر چھوڑ دیجئے۔ یہاں ٹپکتی چھت کے نیچے کیچڑ پانی میں، مَیں اپنے بچوں کو بھیگتا، بلکتا نہیں دیکھ سکتی۔‘‘

بیوی تن تناتی ہوئی چلی گئی اور وہ اندر ہی اندر پیچ و تاب کھا تا رہ گیا۔ ایسے موقع پر اس کا بس نہیں چلتا کہ چابک لے اور بیوی کو سُوت کر رکھ دے۔ جہالت کی بھی حد ہوتی ہے۔ اس عورت نے تو قسم کھا رکھی ہے کہ کبھی مسئلہ کو سمجھ کر نہیں دے گی۔ مگر بیوی ہی کیوں؟ اس کے ارد گرد کتنے لوگ ہیں جو مسائل کو سمجھتے اور اپنی ذمہ داریوں کو نبھاتے ہیں؟ لوگ تو جیسے ایمانداری کا چلن ہی بھول گئے ہیں۔ سمجھانے کی کوشش کرو تو خفا ہوتے ہیں۔ اس دن محلے کے قصائی نے اچانک مٹن پر فی کِلو دس روپئے بڑھا دیے۔ پوچھنے پر کہنے لگا۔

’’گجرات میں زلزلے کی وجہ سے جانور کم آ رہے ہیں۔‘‘

اس نے کہا۔ ’’جانور کم آ رہے ہیں تو ایک کِلو کی بجائے آدھا کِلو کر دو مگر یہ دام بڑھانے کا کیا مطلب۔۔۔؟‘‘

قصائی نے پہلے تو اسے گھور کر دیکھا۔ پھر بولا

’’اے! اِدھر ٹائم کھوٹا نئیں کرنے کا کیا؟ لینا ہو تو لو نئیں تو پھُٹاس کی گولی کھاؤ۔ کیا سمجھے؟‘‘

’’میں اس دھاندلی کے خلاف پولس میں شکایت کروں گا۔‘‘

’’ابے جا، بڑا آیا پولس والا۔ پولس کیا اکھاڑ لے گی میرا۔۔۔؟‘‘

اچانک قصائی بپھر گیا۔ پھر اس نے کسی کو آواز دی۔

’’اے کالیا! دیکھ تو یہ چشمے والے کو کیا منگتائے۔۔۔‘‘

ایک موٹا کالا بھجنگ شخص اس کی طرف بڑھا جس کے دو دانت ڈرائکولا کی طرح باہر نکلے ہوئے تھے۔ آنکھیں انگاروں کی طرح دہک رہی تھیں۔ اس سے پہلے کہ وہ کالا بھجنگ اس سے کوئی بدتمیزی کرتا وہ وہاں سے چپ چاپ چلا آیا۔ مگر اس نے دل ہی دل میں قصد کر لیا کہ وہ اس قصائی کی کمپلینٹ ضرور کرے گا۔

رفتہ رفتہ لوگ اس سے بدکنے لگے۔ اس کے سارے پرانے دوست اس سے چھوٹ گئے۔ ملنے جلنے والوں نے بھی اس کے گھر آنا جانا ترک کر دیا۔ اس کے لیے بھی اب جاہل جٹ اور گنوار لٹھ قسم کے لوگوں سے ملنے میں کوئی دلچسپی نہیں رہ گئی تھی۔ دفتر میں بھی کوئی اس سے بات کرنے کا روادار نہیں تھا۔ کیوں کہ اس نے دفتر میں وقت پر آنا اور مسلسل آٹھ گھنٹے کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ لوگوں نے اس سے پوچھا۔ آخر وہ وقت کا اتنا پابند کس خوشی میں ہو گیا ہے؟ اس نے موزوں اور مناسب لفظوں میں لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کی کہ بغیر پابندیِ اوقات اور سخت محنت کے نہ ملک ترقی کر سکتا ہے نہ قوم خوش حال ہو سکتی ہے۔ اس کے اس جواب پر وہ سب دیر تک ہنستے اور قہقہے لگاتے رہے تھے۔ ایک نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ پچھلے کئی برس سے اس نے اس سے زیادہ دلچسپ لطیفہ نہیں سنا۔

مگر وہ لوگوں کے ایسے پوچ ریمارک سے کب بد دل ہونے والا تھا۔ ان سب کے ذہنوں پر تو غفلت کے پردے پڑے ہیں، انہیں بیدار کرنا اور انہیں مسائل کو صحیح تناظر میں سمجھنے کی ترغیب دلانا اس کا فرض ہے۔

ایک دن دفتر میں کامبلے، دیشمکھ اور سیّد بیٹھے حسبِ معمول گپّیں ہانک رہے تھے۔ سیّد میز پر پیر رکھے سگریٹ اڑا رہا تھا۔ کامبلے بیٹھا ہتھیلی پر سورتی مسل رہا تھا اور دیشمکھ کسی بات پر بھالو کی طرح اچک اچک کر مسلسل ہنسے جا رہا تھا۔ وہ تھوڑی دیر تک انہیں خاموشی اور ضبط سے دیکھتا رہا۔ جب کافی دیر گزر جانے کے بعد بھی ان کے ہنسی ٹھٹھے میں کوئی فرق نہیں آیا تو وہ اپنی کرسی سے اٹھا اور ان کے قریب پہنچ گیا۔ سیّد نے اسے دیکھتے ہی نعرہ لگایا۔ ’’ہیلو ہریش! آؤ تم بھی دم لگاؤ۔‘‘ سید نے سگریٹ کا پیکٹ اس کی طرف بڑھا دیا۔ اس نے اپنے چہرے کو کرخت بناتے ہوئے تیز لہجے میں کہا۔

’ ’مسٹر سیّد! تمہیں معلوم ہے میں ڈیوٹی ٹائم میں سگریٹ نہیں پیتا۔‘‘

’’اور جو پی ہی لو تو کون سی آفت آ جائے گی یار۔۔۔‘‘

’’پی لو۔۔۔ ہم صاحب سے نہیں کہیں گے۔‘‘

دیشمکھ نے لقمہ دیا۔ اس پر تینوں نے زور دار قہقہہ لگایا اور اس کی جانب تمسخرانہ انداز میں دیکھتے ہوئے دیر تک ہو ہو کر کے ہنستے رہے۔

اس نے ان کے تمسخر کو نظر انداز کرتے ہوئے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا۔

’’آپ لوگ اپنے فرض سے غفلت برت کر ملک اور قوم کا نقصان کر رہے ہیں۔‘‘

’’اے۔ اے۔ یہ کونسی بھاشا بول رہے ہو تم؟‘‘

کامبلے اپنی کرسی سے اچھلتا ہوا بولا۔ ’’ساری یار!‘‘ دیشمکھ نے اس کی بات کاٹتے ہوئے ہاتھ جوڑ دیے۔ ’ ’میں معافی چاہتا ہوں۔ اس لیے کہ میں آج تک تمہیں ہاف کریک سمجھتا تھا مگر تم تو پورے کریک نکلے۔۔۔ یُو آر ٹوٹلی میڈ۔‘‘ ایک چھت شگاف قہقہہ۔

وہ پھر ضبط کر گیا۔ ضبط کرتے کرتے اسے ضبط کرنے کی خاصی مشق ہو گئی تھی۔ سیّد نے انتہائی سنجیدہ صورت بنا کر اس سے پوچھا۔ ’ ’یار! یہ تمہیں آج کل ہوکیا گیا ہے۔ جب دیکھو کام، ڈسپلن، فرض، ملک، قوم۔۔۔ ان فضول کی باتوں سے تمہیں ملتا کیا ہے؟‘‘

اب اس کے لیے برداشت کرنا مشکل ہو گیا۔ اس کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ آنکھیں اپنے حلقوں سے ابل پڑیں۔ سانس تیز ہو گیا اور اس نے یک بیک چیخ کر کہا۔ ’’تم سب قوم کے غدّار ہو۔‘‘

"Treacherous of nation" اور وہ تیزی سے مڑ کر لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا اپنی کرسی میں آ کر ڈھیر ہو گیا۔ آنکھیں بند کر لیں اور گہری گہری سانسیں لینے لگا۔

سیّد، دیشمکھ اور کامبلے اسے حیرت سے منہ کھولے دیکھتے رہ گئے۔ دوسری میزوں پر بیٹھے کلرک بھی گردن اٹھا اٹھا کر ان کی جانب دیکھنے لگے۔ کامبلے نے آہستہ سے سرگوشی کی۔ ’’سالے کو ہو کیا گیا ہے؟‘‘

دیشمکھ نے غصّے سے کہا۔ ’ ’یہ ایک دن میرے ہاتھ سے پِٹے گا، تبھی سیدھا ہو گا۔‘‘

سیّد نے ترس کھایا۔ ’’جانے دو یار۔۔۔ میں سمجھتا ہوں آج کل یہ بیمار ہے۔‘‘

’’بیمار ہے تو مینٹل ہاسپٹل میں بھرتی ہو جائے، ہم کو کیوں بور کرتا ہے۔‘‘

اس دن کے بعد سے دفتر میں سبھی لوگ اس سے کترانے لگے۔ اور وہ پورے دفتر میں ’کریک‘ مشہور ہو گیا۔ مگر اسے ان باتوں کی پرواہ نہیں تھی۔ اسے یقین تھا کہ ایک نہ ایک دن سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہو جائے گا اور لوگ راہِ راست پر آ جائیں گے۔

اب وہ خود نظم و ضبط کا اس قدر پابند ہو گیا تھا کہ ہمیشہ سڑک کے بائیں طرف فٹ پاتھ پر چلنے کی کوشش کرتا۔ جب تک گرین سگنل نہ ہو جاتا سڑک پار نہ کرتا۔ ریلوے پل پار کرتے ہوئے، ’کیپ لیفٹ‘'Keep Left' کا برابر خیال رکھتا۔ اسے یہ دیکھ دیکھ کر کوفت ہوتی کہ لوگوں کو ابھی تک سڑک پر چلنے اور پل پار کرنے تک کا شعور نہیں آیا ہے۔ ہر گھڑی، ہر مقام پر لوگ ایک دوسرے کو دھکیلتے، روندتے یوں بے تحاشا بھاگ رہے ہوتے جیسے موت ان کے تعاقب میں ہو، ایسے مواقع پر وہ پل کے بیچوں بیچ کھڑا ہو جاتا۔ اور دونوں ہاتھ اٹھا کر چیخنے لگتا۔

’’بائیں طرف سے چلئے، بائیں طرف سے پلیز۔۔۔ کیپ لیفٹ۔‘‘

مگر زبردست شور میں اس کی آواز کوئی نہیں سنتا اور جو سنتا بھی تو توجہ نہیں دیتا۔ وہ کھڑا دونوں ہاتھ ہلا ہلا کر ’پلیز کیپ لیفٹ‘ چیختا رہتا۔

ایک دفعہ ایک دُبلا پتلا نوجوان سیدھے اس سے آ کر ٹکرا گیا۔ اس نے لپک کر اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔

’’وہاٹ اِز دِس مسٹر؟‘‘

’’وہاٹ ہیپّنڈ؟‘‘

نوجوان نے بھی تیوریاں چڑھائیں۔ اس نے پُل پر لگی ’کیپ لیفٹ‘ کی تختی کی طرف اشارہ کیا اور بولا۔

’’اس پر کیا لکھا ہے؟‘‘

’’اپن کو انگلش نہیں آتا۔‘‘ نوجوان نے جھٹکے سے اپنی کلائی چھُڑا لی۔

’’اس پر لکھا ہے ’کیپ لیفٹ‘، بائیں طرف چلئے۔‘‘

’’تو تم چلو۔۔۔ ہم کو کیا بولتا ہے۔ بڑا آیا سالا قانون سِکھانے والا۔‘‘

نوجوان منہ سے کف اڑاتا تیزی سے آگے بڑھ گیا۔

وہ چپ چاپ کھڑا اسے جاتا ہوا دیکھتا رہا۔ اسے نوجوان کے اس ہتک آمیز رویّے پر کوئی صدمہ نہیں ہوا۔ کیونکہ اب اس نے ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں کا بُرا ماننا چھوڑ دیا تھا۔

اس دن ریل کے ڈبّے میں بھی چند نوجوان طلبہ اس سے الجھ پڑے تھے۔

اس نے انہیں صرف الکٹرک سوئچ بار بار ’آن آف‘ کرنے سے منع کیا تھا۔

’’تم کون ہوتے ہو ہمیں روکنے والے؟‘‘

’’میں اس دیش کا ایک ذمہ دار ناگرِک ہوں۔‘‘

’’تو ہم بھی اس دیش کے بھاگیہ وِدھاتا ہیں۔‘‘

’’مگر آپ لوگ جنتا کی پراپرٹی کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔‘‘

’’ابے چوپ، جنتا کے بچّے، نہیں تو بتیسی اکھاڑ کر ہاتھ میں دے دوں گا۔‘‘

اگر دوسرے مسافر بیچ بچاؤ نہ کرتے تو وہ لوگ اسے سچ مچ پیٹ کر رکھ دیتے۔

جب اسٹیشن آیا تو وہ نوجوان ہو ہلّا کرتے ہوئے نیچے اتر گئے۔ ایک نے اترتے اترتے اس کے ایسی چپت لگائی کہ سر ڈبّے کی دیوار سے جا ٹکرایا۔ کسی نے فقرہ کسا۔ ’’اے بیوڑا!‘‘

مگر اس کے ماتھے پر شکن نہ آئی۔ اس نے بھی طے کر لیا تھا کہ خواہ کچھ ہو جائے، لوگ اسے کتنا ہی ذلیل کریں، گالیاں دیں، اذیتیں پہنچائیں، مگر وہ انہیں ان کی غلطیوں پر روکتا اور ٹوکتا رہے گا۔ آخر کب تک نہیں مانیں گے۔ ایک نہ ایک دن اپنی غلطی پر نادم ہوں گے اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے لگیں گے۔ اس خیال کے ساتھ ہی اس کے رویّے میں ایک طرح کی پیغمبرانہ شان پیدا ہو جاتی اور وہ زیادہ مستعدی سے لوگوں کو راہِ راست پر لانے کے مِشن پر لگ جاتا۔ جب اس کے سامنے کوئی غلط کام کرتا تو اسے لگتا اس کے اندر سے کوئی چیخ رہا ہے۔ ’ ’روکو اِسے غلطی سے روکو۔ اسے روکنا تمہارا فرض ہے کہ تم ایک سچے اور ذمہ دار شہری ہو مگر۔۔۔

پرسوں راجا رام پنواڑی کی دوکان کے پاس سے گزر رہا تھا کہ ’پچ‘ پان کی ایک پچکاری اس کے پاؤں کے پاس آ گری۔ وہ بال بال بچ گیا تھا۔ ورنہ اس کی پتلون کے پائینچے ’لالہ زار‘ ہو جاتے۔ اس نے نظر اٹھا کر دیکھا، ایک موٹا شخص پان چباتا ہوا اسی کو گھور رہا تھا۔ ’’ساری۔۔۔‘‘موٹے نے دوسری پیک کو منہ میں گھولتے ہوئے گردن ٹیڑھی کر کے کہا۔

’’مگر مسٹر! یہ بُری بات ہے۔ ایک ذمہ دار شہری کے ناطے آپ کو۔۔۔‘‘

’’ہم ساری بولا نا۔۔۔ ابھی کیا ہے؟‘‘

موٹے نے پاس ہی ایک دوسری پچکاری مارتے ہوئے کہا۔

’’مگر یہ نہایت غلط بات ہے کہ آپ۔۔۔‘‘

’’کمال ہے، ہم ’سَوری‘ بول دیا تم پھر بھی بھنکس کیے جا رہا ہے، دیکھو تمہارے پر ایک چھینٹا بھی نہیں اڑا ہے۔‘‘

’’مجھ پر چھینٹا اڑنے کی بات نہیں۔ اس طرح سڑک اور فٹ پاتھ پر پان کی پیک تھوکنا ایک ذمہ دار شہری ہونے کے ناطے آپ کو شوبھا نہیں دیتا۔‘‘

’’پن تم کیا مونسی پلٹی والا ہے؟ تمہارا پینٹ کھراب ہوا ہے تو بولو۔۔۔ نہیں تو رستہ پکڑو۔۔۔‘‘

’’حولدار صاحب!‘‘ اس نے پاس سے گزرتے ہوئے ایک حوالدار کو آواز دی۔

’’دیکھئے یہ صاحب سڑک پر تھوکتے ہیں۔‘‘

’’تو ہم کیا کریں گا۔۔۔؟‘‘ حوالدار کے ماتھے کے بل بڑھ گئے۔

’’مگر اس طرح سڑک پر تھوکنا ڈسپلن کے خلاف ہے۔‘‘

’’اے! ہم کو کانون مت بتاؤ۔ ہم کو مالوم ہے ڈسپلن کیا ہے اور کیا نہیں ہے۔ تم اپنا کام کرو۔۔۔ پچ۔۔۔‘‘

حوالدار نے اپنے منہ میں دبی ’سورتی‘ کی ایک پچکاری ماری اور ڈنڈا ہلاتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ ’’اونہہ۔۔۔ ڈِسّی پلّین۔۔۔‘‘ حوالدار بڑبڑا رہا تھا۔

موٹا یک بھدی سی ہنسی ہنسا۔ وہ دل مسوس کر رہ گیا۔ لوگ کس قدر بے اصولے ہو گئے ہیں، آخر لوگوں کی بے قاعدگی اس ملک کو کس نرک میں پہنچا کر دم لے گی۔ دُکھ، تردّد اور ندامت سے اس کے سینے میں مستقل درد رہنے لگا۔ ایک دن وہ بس کی قطار میں کھڑا لوگوں کے اتاولے پن کو دیکھ دیکھ کر کڑھ رہا تھا، جب بس آتی تو لوگ قطار توڑ توڑ کر بھیڑ بکریوں کی طرح ایک دوسرے کو ٹھیلتے، دھکیلتے بس کی طرف بڑھتے اور بس میں سوار ہونے کی کوشش میں ایک دوسرے پر پل پڑتے۔ جب چھ بسیں گزر گئیں اور اسے قطار میں ایک ہی جگہ کھڑے پون گھنٹہ ہو گیا تو وہ آگے بڑھا اور لوگوں کو ڈسپلن برقرار رکھنے اور قطار سے بس میں سوار ہونے کی اپیل کرنے لگا۔ مگر اس کی طرف دھیان دینے والا کون تھا؟ اس کا لیکچر جاری ہی تھا کہ اتنے میں ساتویں بس آ گئی۔ لوگ ایک بار پھر بس کی طرف جھپٹے۔۔۔

’’بھائیو! قطار میں چلو۔۔۔ ارے بھائی لائن میں آئیے۔‘‘

’’کونسی لائن؟‘‘

’’اے مسٹر پلیز! لائن میں۔۔۔ آپ تو پڑھے لکھے معلوم ہوتے ہیں۔‘‘

’’شٹ اپ‘‘

’’مہاشے! لائن سے آئیے۔۔۔ لائن سے۔۔۔‘‘

’’لائن کے بچے! راستہ چھوڑ۔۔۔‘‘

’’جنٹلمین۔۔۔ پلیز۔۔۔‘‘

جنٹلمین کا الٹا ہاتھ اس کے منہ پر پڑا اور جنٹلمین بھیڑ کو چیرتا ہوا ارنے بھینسے کی طرح بس میں گھُستا چلا گیا۔

اس قسم کے حادثے اب اس کے روزمرہ کا معمول بن گئے تھے۔ مگر اِن حادثوں سے اس کی ہمت پست نہیں ہوئی۔ اسے لگتا ایک دریائے آتشیں اس کے سامنے ٹھاٹھیں مار رہا ہے اور اسے پار کئے بغیر منزلِ مقصود تک پہنچنا مشکل ہے۔ اس نے دفتر سے لمبی چھٹی لے لی اور پورے جوش و خروش کے ساتھ لوگوں کے مردہ ضمیر جگانے کے عظیم کام میں جٹ گیا۔

وہ صبح سویرے کاندھے سے ایک جھولا لٹکائے گھر سے نکل پڑتا۔ گلی گلی، محلّہ محلّہ گھوم کر رشوت ستانی، بد عنوانی، کالا بازاری اور بے قاعدگی کے خلاف تقریریں کرتا، لوگوں کو سخت محنت، نظم و ضبط، معاشی ترقی اور سماجی انصاف کے لیے جد و جہد کرنے کی تلقین کرتا اور نتیجے کے طور پر کہیں مار کھاتا، کہیں گالیاں سنتا۔ جب بیوی گھریلو مسائل کی طرف توجہ دلاتی، اپنی اور اپنے بچوں کی بیماری کا ذکر کرتی، غربت و افلاس کی دہائی دیتی تو وہ بیوی کو سمجھاتا۔

’’بھاگیہ وان! کیوں پریشان ہوتی ہو۔ بہت جلد سب کے دلدّر دور ہو جانے والے ہیں۔ صبر سے کام لو۔ کچھ حاصل کرنے سے پہلے کچھ کھونا بھی پڑتا ہے۔ ہمیں قربانی دینی ہو گی۔۔۔ دینی ہی ہو گی۔‘‘

’’مگر قربانی ہمیں کیوں دیں؟ اور بھی تو کروڑوں لوگ ہیں۔‘‘

’’اگر سب اندھے بہرے ہیں تو کیا، ہم اندھے بہرے بن جائیں؟‘‘

’’مگر آپ اکیلے کیا کر سکتے ہیں؟‘‘

میں اکیلا کہاں ہوں۔ میرا یقین، میرے اصول میرے ساتھ ہیں۔‘‘

وہ ایک جنونی اعتماد کے ساتھ جواب دیتا۔

’’گھر میں نہیں ہیں دانے، میاں چلے بھنانے۔۔۔ میں کہتی ہوں کیا آپ نے ساری دنیا کو سدھارنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے اور پھر گھر میں آگ لگا کر سڑکوں پر دیے جلانا کونسی لوک سیوا ہے؟‘‘

’’تم ابھی ان باتوں کو نہیں سمجھو گی۔‘‘

’’میں سمجھنا بھی نہیں چاہتی۔ جہاں آپ سارے جگ کے لیے کام کر رہے ہیں، میرا بھی ایک چھوٹا سا کام کر دیجئے۔‘‘

’’کیسا کام؟‘‘

’’کہیں سے تھوڑا سا زہر لا دیجئے۔ میں اور میرے بچے کھا کر سو رہیں گے۔ اس کے بعد آپ جی کھول کر لوک سیوا کرتے پھرئیے۔‘‘

بیوی اپنے میلے آنچل سے آنسو پونچھتی ہوئی وہاں سے چلی گئی اور وہ حیران پریشان کمرے میں بیٹھا رہ گیا۔ مگر بیوی کے آنسو، بچوں کا بلکنا، یاروں کی خفگی، پڑوسیوں کی جھڑکی، لوگوں کی گالیاں، حقارت، دھُتکار اور تذلیل کوئی چیز اسے اپنے اِرادے سے باز نہ رکھ سکی۔ لوگ اس سے جتنا کھنچتے وہ اتنا ہی ان کے قریب ہونے کی کوشش کرتا۔ وہ باہر سے جتنا ٹوٹ رہا تھا، بھیتر سے اتنا ہی جُڑتا جا رہا تھا۔ صحت گر گئی تھی مگر قوتِ ضبط میں زبردست اضافہ ہو گیا تھا البتہ اس بیچ اس کی بیوی کی ساڑی مسک گئی اور روتے روتے اس کے زرد رخساروں پر آنسوؤں کی لکیریں نقش ہو گئیں۔ مُنّی کی کھانسی میں اضافہ ہو گیا۔ بڑا لڑکا اب کچھ زیادہ ہی سہما سہما سا رہنے لگا۔ خود اس کے پتلون کا رنگ اس قدر گدلا ہو گیا کہ اس کے اصلی رنگ کی شناخت نا ممکن ہو گئی۔ قمیض کا کالر پھٹ گیا۔ چپلیں ٹوٹ گئیں اور موچی ان میں ٹانکے لگاتے لگاتے عاجز آ گیا۔ مگر اس کے جوش و خروش میں کسی قسم کی کمی واقع نہیں ہوئی۔ بے پناہ ذمّہ داریوں کے بوجھ سے اس کے کاندھے دبے جا رہے تھے اور وہ زمین میں دھنستا چلا جا رہا تھا۔ مگر وہ اپنی پوری قوت سے زمین پر پیر گڑائے رکھنے کی کوشش کرتا، مبادا قدم ڈگمگا نہ جائیں۔

اور پھر یوں ہوا کہ ایک دن علی الصبح حسبِ معمول وہ مٹکے کا ایک گلاس ٹھنڈا پانی پی کر اپنا میلا جھولا کاندھے سے لٹکائے گھر سے باہر نکلا ہی تھا کہ دروازے پر ایک پولس کا سپاہی کھڑا دِکھائی دیا۔

’’کیا بات ہے؟‘‘اس نے استفسار کیا۔

’’کیا مسٹر ہریشچندر اِدھر رہتا ہے؟‘‘

’’جی۔۔۔‘‘ لمحے بھر کے لیے وہ کانسٹیبل کو دیکھتا رہا پھر بولا۔

’’فرمائیے، میں ہی ہریشچندر ہوں۔‘‘

’’تم کو انسپکٹر صاب نے چوکی پر بلایا ہے۔‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’اپنے کو نئیں مالوم۔ چوکی پر چل کر صاب سے پوچھو۔‘‘

’’مگر۔۔۔‘‘اس نے کچھ کہنے کے لیے ہونٹ کھولے، پھر کچھ سوچتا ہوا بولا۔

’’خیر۔۔۔ چلو۔۔۔‘‘

وہ کانسٹیبل کے ساتھ تھانہ پہنچا۔ کانسٹبل اسے ایک سیلن زدہ کمرے میں ایک بوسیدہ سی کرسی پر بٹھا کر باہر چلا گیا۔

تھوڑی دیر بعد کمرے میں ایک انسپکٹر داخل ہو۔ انسپکٹر پر نظر پڑتے ہی وہ کرسی سے اٹھ گیا۔ انسپکٹر نے اسے سر سے پیر تک گھور کر دیکھا۔ پھر اس کی آنکھوں میں جھانکتا ہوا بولا۔

’’تو آپ ہی مسٹر ہریشچندر ہیں۔۔۔؟‘‘

’’جی ہاں۔۔۔ آخر بات کیا ہے؟ مجھے یہاں کیوں بلایا گیا ہے؟‘‘

’’آپ کے خلاف شکایت ہے کہ آپ لوگوں کو پریشان کرتے ہیں اور ان کے کاموں کا ہرجہ کرتے ہیں۔‘‘

’’میں۔۔۔!‘‘ اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔

’ ’جی ہاں آپ!‘‘

مگر میں نے کسے پریشان کیا ہے؟ کس کے کام کا ہرجہ کیا ہے؟‘‘

ایک نہیں درجنوں شکایتیں ہیں۔‘‘

انسپکٹر دروازے کی طرف مڑا اور بلند آواز سے بولا۔

’’مہربانی کر کے آپ لوگ اندر تشریف لائیے۔‘‘

چق ہٹی اور ایک ایک کر کے لوگ اندر آنے لگے۔ اور وہ ان سب لوگوں کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ ان میں اس کے دفتر کے ساتھی کامبلے، سیّد اور دیشمکھ کے علاوہ ریلوے کمپارٹمنٹ کے نوجوان طلبہ، سڑک پر پان کی پیک تھوکنے والا موٹا شخص، بس کی کیو والا جنٹلمین، اس کے محلّے کا قصائی اور دوسرے درجنوں لوگ شامل تھے اور وہ سب نیم دائرے کی شکل میں اس کے گرد کھڑے اسے حقارت اور غصّے سے گھور رہے تھے۔ ان کی آنکھوں سے نفرت کی چنگاریاں نکل رہی تھیں۔ پیشانی پر بل پڑے ہوئے تھے اور مٹھیاں بھنچی ہوئی تھیں۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔ اس نے کچھ کہنے کے لیے ہونٹ کھولے مگر صرف بدبدا کر رہ گیا۔ الفاظ اپنا آہنگ کھو چکے تھے۔ اس کا سر چکرانے لگا۔ آنکھوں کے گرد تِرمِرے سے اڑنے لگے۔ انسپکٹر اس کی طرف انگلی اٹھا کر کہہ رہا تھا۔

’’مسٹر ہریش! میں تمہیں شہری ڈسپلن کو برباد کرنے اور شریف شہریوں کو پریشان کرنے کے جرم میں گرفتار کرتا ہوں۔‘‘

اس کی آنکھیں بند ہو چکی تھیں اور اسے انسپکٹر کی آواز دور کسی تہہ خانے سے آتی ہوئی محسوس ہوئی۔ اس پر غشی سی طاری ہو گئی اور دوسرے ہی لمحے اس کا سر کرسی کی پشت سے ٹک گیا۔

٭٭٭









یک لویہ کا انگوٹھا



پھر یوں ہوا کہ ساڑھے تین ہزار برس کے بعد یک لویہ نے ایک غریب دلت کے گھر دوبارہ جنم لیا۔ اتفاق سے اس بار بھی اس کے باپ کا نام ہرنیہ دھنش ہی تھا مگر اب کے ہرنیہ دھنش جنگل میں نہیں شہر میں رہتا تھا اور ایک مل میں مزدوری کرتا تھا۔

یک لویہ جب پانچ برس کا ہوا تو ہرنیہ دھنش نے اسے ایک میونسپل اسکول میں داخل کر دیا۔ یک لویہ بے حد ذہین تھا۔ پڑھائی میں ہمیشہ سب سے آگے رہتا۔ وہ بڑا ہو کر ڈاکٹر بننا چاہتا تھا۔ آخر اس نے ہائر سیکنڈری سائنس میں امتیازی نمبروں سے کامیابی حاصل کر لی۔ اسی دوران سناتن میڈیکل کالج کے فارم نکلے۔ یک لویہ نے فارم پر کر کے روانہ کر دیا۔ اسے یقین تھا کہ اس کا داخلہ ہو جائے گا اور جلد ہی اس کا دیرینہ خواب حقیقت میں بدل جائے گا۔

پندرہ دن بعد اسے انٹرویو کا بلاوا آ گیا۔ یک لویہ دل میں امید اور وشواس کی جوت جگائے کالج پہنچا۔ کالج میں امیدواروں کی کافی بھیڑ تھی۔ وہ اپنی باری کا انتظار کرنے لگا۔ مگر اسے حیرت ہوئی کہ اسے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا، چند منٹ بعد ہی چپراسی نے اس کا نام پکارا۔ وہ اپنی فائل بغل میں دبائے، دھڑکتے دل کے ساتھ پرنسپل کے کیبن میں داخل ہوا لیکن یہ دیکھ کر اس کے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی کہ سامنے پرنسپل کی اونچی کرسی پر گرودیو دروناچاریہ براجمان تھے۔ یک لویہ بہت گھبرایا۔ تبھی دروناچاریہ کی بھاری آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔

’’آؤ یک لویہ!۔۔۔ آؤ۔۔۔‘‘

یک لویہ نے بوکھلا کر پرنام کیلئے دونوں ہاتھ جوڑ دئیے۔

’’کہو یک لویہ! کیسے ہو؟‘‘ دروناچاریہ پوچھ رہے تھے۔

’’اچھا ہوں سر!‘‘اس نے مسمسی صورت بنا کر کہا۔ پھر ایک اندیش ناک خیال سے گھبرا کر بولا۔ ’’سر آپ نے مجھے پہچان لیا۔۔۔؟‘‘

’’تمہیں ہم کیسے بھول سکتے ہیں یک لویہ!‘‘ دروناچاریہ کے ہونٹوں پر ایک معنی خیز مسکراہٹ تھی۔ یک لویہ فیصلہ نہیں کر پایا کہ ان کے لہجے میں کیا تھا۔۔۔ ہمدردی۔۔۔ خوشی۔۔۔ یا طنز۔۔۔ دروناچاریہ پوچھ رہے تھے۔ ’’تمہارے پتا ہرنیہ دھنش کیسے ہیں؟‘‘

’’کشل منگل ہیں۔۔۔‘‘

’’کیا کرتے ہیں آج کل وہ؟‘‘

’’مل میں مزدوری کرتے ہیں سر!‘‘

’’اوہو! مزدوری کرتے ہیں اور بیٹے کو ڈاکٹر بنانا چاہتے ہیں؟‘‘

’’ڈاکٹر بننا تو میری اِچھا ہے سر!‘‘

’’ہُم۔۔۔‘‘ دروناچاریہ برابر مسکرائے جا رہے تھے۔ ’’ہم جانتے ہیں تم شروع سے کافی کریزی رہے ہو۔ تمہاری اِچھائیں ہمیشہ تم سے دو قدم آگے چلتی ہیں۔‘‘

’’سر! بس آپ کی کرپا کا ابھیلاشی ہوں۔‘‘

’’یک لویہ!‘‘ دروناچاریہ گمبھیر آواز میں کہہ رہے تھے۔ ’’کیا ہر جنم میں تم ہمیں اسی طرح دھرم سنکٹ میں ڈالتے رہو گے؟‘‘

یک لویہ نے بوکھلا کر دروناچاریہ کی طرف دیکھا۔ دروناچاریہ اسی کی طرف دیکھ رہے تھے۔ یک لویہ ان کی تیکھی نظروں کی تاب نہ لا سکا اور نگاہیں جھکا لیں۔ دروناچاریہ کہہ رہے تھے۔ ’’اس کالج میں سب اونچے گھرانے کے لڑکے آتے ہیں۔ ان کا کھان پان، رہن سہن، بات چیت سب کی ایک شان ہوتی ہے۔ یہی اس کالج کی پہچان ہے۔ یہ اونچی اڑان بھرنے والے پرندوں کا نشیمن ہے۔ تم اس بلندی تک پہنچنے کی کیسے سوچ سکتے ہو یک لویہ! تم میونسپل اسکول سے پڑھ کر آئے ہو۔ پچھڑی بستی میں رہتے ہو اور ذات سے۔۔۔‘‘ دروناچاریہ رک گئے۔ یک لویہ کا دل بیٹھنے لگا۔ اس نے گڑگڑاتے ہوئے دونوں ہاتھ جوڑ دئیے۔

’’سر! اگر آپ کی کرپا درشٹی ہوئی تو میں آسمانوں کو بھی چھو سکتا ہوں۔ اس بار بڑی آشا لے کر آیا ہوں۔ نراش مت کیجئے۔‘‘

دروناچاریہ ایک ٹک اسے دیکھتے رہے۔ اچانک ان کے چہرے کے عضلات نرم پڑ گئے۔ وہ ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولے۔ ’ ’خیر۔۔۔ خواب دیکھنے کا حق سب کو ہے۔ تمہیں بھی ہے لیکن تم میں ایک خوبی اور بھی ہے۔‘‘ یک لویہ انہیں کی طرف دیکھ رہا تھا۔ ’’تم میں خوابوں کو چکنا چور ہوتے دیکھنے کی ہمت بھی ہے۔‘‘ یک لویہ کانپ گیا۔ دروناچاریہ کہہ رہے تھے۔

’’زمانہ بدل گیا ہے۔ سمے کے ساتھ زمانے کے مولیہ بھی بدل جاتے ہیں۔ جو ورتمان کا ساتھ نہیں دیتا اسے آنے والا کل بھی ٹھکرا دیتا ہے۔ ہم بھی سمے کی دھارا کے خلاف نہیں جا سکتے۔ اس لیے ہم تمہیں بی۔ سی کوٹے سے سیٹ دینے کے پابند ہیں یک لویہ!‘‘

’’تھینک یو سر!‘‘ یک لویہ کی بانچھیں کھل گئیں۔ ’’میں آپ کا یہ اپکار زندگی بھر نہیں بھولوں گا سر!۔‘‘اس کا لہجہ احسان مندی کے جذبے سے سرشار تھا۔

’’نہیں یک لویہ! اس میں اپکار کی کوئی بات نہیں۔ پچھلے جنم میں ہم نے تمہیں دھنر ودیا سکھانے سے منع کیا تھا جس کے کارن اتہاس ہمیں آج تک کوس رہا ہے۔ اب تمہیں ششیہ بنا کر اپنے دامن سے اس داغ کو مٹانے کا ہمیں ایک موقع ملا ہے۔ ہم اس موقع کو کھونا نہیں چاہتے۔‘‘

’’آپ مہان ہیں سر!‘‘ یک لویہ نے دونوں ہاتھ جوڑتے ہوئے لجاجت سے کہا۔

دروناچاریہ نے ہاتھ اٹھا کر کہا۔ ’ ’جاؤ۔۔۔ کوشش کرو کہ اس کالج نے جو ماپ ڈنڈ بنائے ہیں اس پر کھرے اتر سکو۔‘‘

یک لویہ دروناچاریہ کے احسان مندی کے بوجھ سے دبا جا رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں تشکر کے آنسو چھلچھلا آئے۔ اس نے کانپتی آواز میں صرف اتنا کہا۔

’’سر! آپ اجازت دیں تو میں ایک بار آپ کے چرن اسپرش کرنا چاہتا ہوں۔‘‘

دروناچاریہ مسکرائے۔ یک لویہ نے آگے بڑھ کر ان کے چرن چھوئے۔ دروناچاریہ مسکراتے رہے مگر ان کے ماتھے کی سلوٹیں کم نہیں ہوئیں۔

آخر کار سناتن میڈیکل کالج میں یک لویہ کا داخلہ ہو گیا اور وہ اپنا مختصر سا سامان لے کر کالج کے ہوسٹل میں منتقل ہو گیا۔ پڑھنا تو اس کا من پسند مشغلہ تھا ہی۔ اب تو اس کے سامنے کالج کے معیار کو قائم رکھنے کی چنوتی بھی تھی۔ وہ کوئی لیکچر ناغہ نہیں کرتا تھا۔ اسے کھیل کود اور تفریح سے کوئی رغبت نہیں تھی۔ لیکچر اٹینڈ کرنے کے بعد وہ سیدھے لائبریری چلا جاتا وہاں اس وقت تک پڑھتا رہتا جب تک لائبریری کے بند ہونے کا وقت نہ ہو جاتا۔ لائبریری سے نکل کر سیدھا میس میں جاتا۔ کھانا کھاتا۔ کھانے کے بعد دوسرے طلبہ کیرم وغیرہ کھیلنے بیٹھ جاتے۔ بعض سگریٹیں پھونکنے کے لیے باہر نکل جاتے مگر وہ سیدھا اپنے کمرے میں آ جاتا۔ دروازہ بند کر لیتا اور دوبارہ پڑھنے میں جٹ جاتا۔ کالج کے ساتھی پڑھائی کے اس جنون کی وجہ سے اسے ’کاکروچ‘ کہہ کر پکارتے تھے۔ لیکن پروفیسر اس سے خوش تھے کیونکہ کلاس روم میں ہر سوال کے جواب کے لیے سب سے پہلے ہاتھ وہی اٹھاتا تھا۔

کبھی کبھی کلاس روم سے ہوسٹل آتے جاتے اسے پرنسپل دروناچاریہ بھی نظر آ جاتے۔ وہ ان کو دیکھتے ہی نہایت ادب سے دونوں ہاتھ جوڑ کر پرنام کرتا۔ دروناچاریہ گردن ہلا کر مسکرادیتے۔ شروع شروع میں کالج کے بعض لڑکے اس کے پڑھاکو پن کی وجہ سے اس سے الرجک تھے مگر جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ وہ ایک غریب دلت گھرانے سے آیا ہے تو ان پر اس کی اصلیت آشکار ہو گئی۔ وہ سمجھ گئے کہ بے چارہ گانٹھ کا کچا ہے بھلا موج مستی کرنا اس کی قسمت میں کہاں؟ نہ وہ دوسرے لڑکوں کی طرح بیئر باروں یا ڈسکو اڈوں کی سیر کر سکتا ہے نہ چرس اور حشیش کی سگریٹیں پھونک سکتا ہے۔ نہ اس کے پاس نت نئے فیشن ڈیزائن کی قیمتی پتلونیں، شرٹس ہیں کہ لڑکیاں اس کی طرف راغب ہو سکیں، نہ اس کے پاس کوئی موٹر بائک یا کار ہے کہ وہ اپنی کسی گرل فرینڈ کو لے کر ڈیٹ پر جا سکے۔ ایسے میں کتابوں میں سرگڑانے کے علاوہ وہ کیا کر سکتا تھا۔ دھیرے دھیرے لڑکوں نے اس کی طرف دھیان دینا ہی چھوڑ دیا۔ ایک طرح سے یہ یک لویہ کے حق میں اچھا ہی ہوا کہ اب اسے کوئی پریشان نہیں کرتا تھا۔ اس نے پوری دلجمعی سے خود کو پڑھائی کے لیے وقف کر دیا۔ اسے اب نہ کھانے کی سدھ رہتی نہ سونے کی۔ بس جب دیکھو کتابوں میں منہمک رہتا۔ پریکٹیکل میں بھی اس کے انہماک کا یہی عالم تھا۔ پریکٹیکل کے دن وہ سب سے پہلے لیبارٹری میں داخل ہوتا اور سب سے آخر میں باہر نکلتا۔

ایک دن دروناچاریہ نے رات میں اچانک ہوسٹل کا وزٹ کیا۔ ان کے ساتھ ہوسٹل کے وارڈن مسٹر گوکھلے بھی تھے۔ رات کے دس بج رہے تھے۔ بہت سے لڑکے اپنے اپنے کمروں میں روشنی گل کر کے سوچکے تھے۔ جب دروناچاریہ مختلف کمروں کا معائنہ کرتے ہوئے یک لویہ کے کمرے کے پاس پہنچے تو دیکھا اس کے کمرے میں روشنی ہو رہی تھی۔ وارڈن نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ تھوڑی دیر بعد یک لویہ نے دروازہ کھولا۔ سامنے پرنسپل اور وارڈن کو دیکھ کر وہ گھبرا گیا۔ ہکلاتے ہوئے بولا۔

’’نم۔۔۔ نمسکار۔۔۔ س۔۔۔ سر۔۔۔‘‘

پرنسپل اور وارڈن کمرے میں داخل ہوئے۔ وارڈن نے یک لویہ سے پوچھا۔

’’تم نے لائٹ آف نہیں کی؟‘‘

’’میں پڑھ رہا تھا سر!‘‘ یک لویہ کی گھبراہٹ برقرار تھی۔

’’مگر جانتے ہو نا کہ دس بجے تک سب کو سو جانے کا آرڈر ہے۔ پھر تم کیوں جاگ رہے تھے؟‘‘

’’سر! مجھے نیند نہیں آ رہی تھی اس لیے۔۔۔‘‘

دروناچاریہ کمرے کا جائزہ لینے لگے۔ سنگل بیڈ کا چھوٹا سا کمرہ تھا۔ انہوں نے دیکھا بیڈ کے سرہانے کتابوں کی ڈھیری بنی ہے۔ دو ایک کتابیں بستر پر بھی پڑی تھیں۔ پھر ان کی نظر اچانک بیڈ کے سرہانے دیوار پر پڑی۔ انہوں نے حیرت سے دیکھا کہ دیوار پر ان کا بڑا سا پورٹریٹ آویزاں ہے۔ انہوں نے یک لویہ کی طرف دیکھا جو اب بھی قدرے گھبرایا ہوا تھا اور رک رک کر وارڈن کے سوالوں کے جواب دے رہا تھا۔

’’ایک منٹ مسٹر گوکھلے!‘‘ دروناچاریہ نے ان کی گفتگو میں مداخلت کرتے ہوئے کہا۔

پھر یک لویہ سے مخاطب ہوئے۔ ’’تم نے یہ ہمارا پورٹریٹ یہاں کیوں لٹکا رکھا ہے؟‘‘

یک لویہ گردن جھکائے خاموش کھڑا تھا۔ وارڈن نے کہا۔

’’یک لویہ! پرنسپل صاحب تم سے کچھ پوچھ رہے ہیں۔‘‘

یک لویہ نے ڈرتے جھجکتے نظریں اٹھائیں۔ ایک نظر پورٹریٹ پر ڈالی۔ پھر نظریں جھکائے جھکائے بولا۔

’’سر! وہ آپ کی ایک فوٹو مجھے مل گئی تھی۔ میں نے اپنے ایک آرٹسٹ دوست سے یہ پورٹریٹ بنوایا ہے۔‘‘

’’مگر کیوں؟‘‘

یک لویہ چپ کھڑا اپنے پاؤں کے انگوٹھے سے زمین کرید رہا تھا۔

’’بولو۔۔۔ یک لویہ! ہم تمہارا جواب سننا چاہتے ہیں۔‘‘

یک لویہ کی آنکھ میں آنسو آ گئے۔ اس نے لرزتی آواز میں دھیرے سے کہا۔

’’سر۔۔۔ میں روزانہ اس کی پوجا کرتا ہوں۔‘‘

’’کیا۔۔۔؟‘‘ دروناچاریہ نے حیرت سے کہا۔ انہوں نے وارڈن کی طرف دیکھا۔ وارڈن بھی حیرت زدہ سا کبھی پورٹریٹ کو تو کبھی یک لویہ کو دیکھ رہا تھا۔

’’پوجا کرتے ہو۔۔۔ ہماری؟‘‘ دروناچاریہ کے لہجے میں استعجاب برقرار تھا۔

یک لویہ نے منہ سے کوئی جواب دینے کی بجائے اثبات میں صرف گردن ہلا دی۔

’’مگر کیوں؟‘‘

’’سر! آپ نے ایڈمیشن کے سمے کہا تھا کہ ہمارا گرو ششیہ کا رشتہ بہت پرانا ہے، میں آپ کا نام لے کر ابھیاس شروع کرتا ہوں تو سب کچھ ترنت یاد ہو جاتا ہے، اس لیے۔۔۔‘‘

’’اس لیے تم ہماری پوجا کرتے ہو۔‘‘ دروناچاریہ کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔

’’جی۔۔۔‘‘ یک لویہ نے گردن جھکا لی۔

’’مگر پوجا تو صرف ایشور کی کی جاتی ہے۔‘‘

یک لویہ نے ادب سے دونوں ہاتھ جوڑے اور وہ پرارتھنا دوہرانے لگا جو وہ اسکول کے زمانے سے پڑھتا آیا تھا۔

’’گرو برہما، گرو وشنو، گرو ردے اومہیشورا۔۔۔ گرو ساکشات برہما۔۔۔‘‘

یک لویہ آنکھیں بند کیے پرارتھنا دوہرا رہا تھا اور دروناچاریہ اسے حیرت سے دیکھے جا رہے تھے۔ جب یک لویہ پوری پرارتھنا دوہرا چکا تب دروناچاریہ چونکے۔ چونک کر کھسیانی ہنسی ہنس کے بولے۔ ’’یک لویہ، تم پاگل ہو۔‘‘

وارڈن یک لویہ کی اس ادا سے اتنا متاثر ہوا کہ اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اس نے بھیگی آواز سے کہا۔ ’’رہنے دیجئے سر! کرنے دیجئے اسے پوجا۔ اسے منع مت کیجئے۔ اس کی شردھا کو ٹھیس پہنچے گی۔ اس کا دل ٹوٹ جائے گا۔ ایسی شردھا رکھنے والے چھاتر آج کل کہاں ملتے ہیں سر۔۔۔ جو وہ کرتا ہے اسے کرنے دیجئے۔‘‘

دروناچاریہ تھوڑی دیر خاموش رہے۔ پھر یک لویہ کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر بولے۔ ’’ٹھیک ہے۔ اگر تمہیں اس سے آنند ملتا ہے تو ہم تمہیں منع نہیں کریں گے۔‘‘

’’تھینک یو سر!‘‘ یک لویہ نے جھک کر دروناچاریہ کے چرن چھوئے۔ دروناچاریہ نے آشیرواد کے لیے ہاتھ اٹھایا۔ وارڈن نے پیار سے یک لویہ کا گال تھپتھپایا اور دونوں کمرے سے باہر نکل گئے۔

وقت کی مسافت میں صدیاں غبار بن کر اڑ جاتی ہیں۔ پھر پانچ برس کا عرصہ ہی کیا!پلک جھپکتے پانچ برس بیت گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے امتحانات بھی ختم ہو گئے اور ایک دن رزلٹ بھی آ گیا، مگر اس رزلٹ نے سناتن میڈیکل کالج کے درو دیوار کی جڑ بنیاد ہلا دی۔ یک لویہ کے بارے میں سب کو اندازہ تھا کہ وہ اچھے نمبروں سے کامیاب ہو گا مگر یہ کسی کے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ وہ پورے کالج میں اول نمبرسے کامیاب ہو گا۔ سناتن میڈیکل کالج کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ ایک پچھڑی ذات کے لڑکے نے اعلیٰ ذات کے ہونہار سپوتوں کو شرمسار کر دیا تھا۔ سب کی گردنیں جھک گئیں۔ ان کے جذبۂ افتخار کو ٹھیس لگی تھی۔ کالج کی حرمت داغدار ہوئی تھی، اس کی امتیازی شان کو بٹا لگ گیا تھا۔

دوسری طرف رزلٹ کی خبر ملتے ہی یک لویہ کے محلے میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ سبھوں نے ہرنیہ دھنش کے گھر کو گھیر لیا۔ لوگ یک لویہ زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے۔ ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے تھے۔ مٹھائی تقسیم کر رہے تھے۔ لڑکے تالیاں بجا رہے تھے۔ پورے محلے میں جشن کا سا ماحول تھا۔ آخر ان کی برادری کا ایک لڑکا ڈاکٹر بن گیا تھا۔ ان کی گلی کے ایک نوجوان نے وہ کارنامہ انجام دیا تھا جس کی کلپنا وہ سپنے میں بھی نہیں کر سکتے تھے۔ سب خوشی سے پاگل ہوئے جا رہے تھے۔ شام تک پورے محلے میں اسی طرح دھما چوکڑی مچتی رہی۔

دوسرے دن یہ لویہ کالج پہنچا۔ اس نے سوچا رزلٹ شیٹ لے کر وہ سب سے پہلے پرنسپل صاحب کے آفس میں جائے گا اور ان کے چرن چھو کر ان سے آشیر واد لے گا۔ جب وہ رزلٹ شیٹ لینے آفس کلرک مشرا جی کے پاس گیا تو انہوں نے اسے مبارکباد دی اور بولے۔

’’یک لویہ بابو! آپ کی رزلٹ شیٹ تو پرنسپل صاحب کے پاس ہے۔ انہوں نے آپ کو آفس میں بلایا ہے۔ وہ اپنے ہاتھوں سے آپ کو رزلٹ شیٹ دینا چاہتے ہیں۔‘‘

یک لویہ خوش ہو گیا۔ وہ ’’تھینک یو مشرا جی‘‘ کہتا ہوا پرنسپل کے کیبن میں داخل ہو گیا۔ دروناچاریہ فون پر کسی سے بات کر رہے تھے، اسے دیکھ کر اندر آنے کا اشارہ کیا۔ یک لویہ ایک طرف ہاتھ باندھے چپ چاپ کھڑا ہو گیا۔ پرنسپل نے فون پر بات ختم کی اور ریسیور کو کریڈل پر رکھتے ہوئے بولے۔

’’ارے یک لویہ، تم کھڑے کیوں ہو۔ بیٹھو۔۔۔‘‘

’’نہیں سر، میں ٹھیک ہوں۔‘‘

ارے بھئی، اب تم ڈاکٹر بن کر ہماری رینک میں آ گئے ہو۔ بیٹھو، بیٹھو۔‘‘

یک لویہ جھجکتا ہوا کرسی پر بیٹھ گیا۔ دروناچاریہ اسے تھوڑی دیر تک غور سے دیکھتے رہے پھر مسکرا کر بولے۔ ’’آخر تمہاری اِچھا پوری ہو گئی، یک لویہ!‘‘

’’سر!سب آپ کی کرپا ہے۔‘‘

دروناچاریہ نے میز پر رکھی رزلٹ شیٹ اٹھائی۔ اس پر نظر ڈالی پھر بولے۔

’’تم نے نمبر تو کمال کے لیے ہیں یک لویہ! سناتن کالج کی پچھلے دس سالوں کی ہسٹری میں کسی نے اتنے اچھے نمبر نہیں لیے۔‘‘

’’تھینک یو سر!‘‘

’’یک لویہ! جانتے ہو ہم نے تمہیں آفس میں کیوں بلایا ہے؟‘‘

یک لویہ استفہامیہ نظروں سے ان کی طرف دیکھ رہا تھا۔ انہوں نے رزلٹ شیٹ ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا۔

’’یک لویہ یاد ہے جب ہم ہوسٹل میں تمہارے کمرے میں آئے تھے تو تم نے دیوار پر ہمارا پورٹریٹ لگا رکھا تھا۔‘‘

’’یس سر‘‘ یک لویہ نے جلدی سے گردن ہلا دی۔

’’اور تم نے کہا تھا کہ تم روزانہ اس پورٹریٹ کی پوجا کرتے ہو، کیونکہ تم ہمیں اپنا گرو مانتے ہو۔‘‘

’’یس سر، مجھے سب یاد ہے۔‘‘

’’پھر تو تم یہ بھی جانتے ہو گے یک لویہ کہ شکشا پوری کرنے کے بعد گرو کو گرو دکشنا دی جاتی ہے۔ یہ ہماری پرمپرا ہے۔‘‘

’’یس سر۔۔۔‘‘ یک لویہ کو اچانک محسوس ہوا کہ کچھ انہونی ہونے والی ہے۔ دروناچاریہ کی آواز اور ان کا لہجہ بدل گیا تھا۔ جیسے ان کے کنٹھ سے کسی اور کی آواز نکل رہی ہو۔

ان کے لہجے میں ایسی دھار تھی کہ اسے اپنے بھیتر کوئی شئے کٹتی سی محسوس ہوئی۔

دروناچاریہ کی آواز پھر گونجی۔ ’’تو یک لویہ! تم ہمارے لیے گرو دکشنا میں کیا لائے ہو؟‘‘

’’جی۔۔۔‘‘ یک لویہ اب پوری طرح بوکھلا گیا تھا۔

’’ہاں۔۔۔ یک لویہ تمہاری شکشا پوری ہو چکی ہے۔ اب تم گرو دکشنا میں ہمیں کیا دینے والے ہو؟‘‘

’’سر، آپ آگیہ دیجئے، اپنی جان بھی نچھاور کر سکتا ہوں۔‘‘

’’یک لویہ!‘‘ دروناچاریہ پرسکون لہجے میں کہہ رہے تھے۔

’’یہ ایک وڈمبنا ہے کہ اتہاس نے ہمیں پھر اسی استھان پر لا کھڑا کیا ہے جہاں ہم ہزاروں وَرش پہلے کھڑے تھے۔ اس سناتن پرمپرا کے انوسار جس نے ہمیں گرو ششیہ کے رشتے میں باندھ دیا تھا۔ ہم تم سے وہی گرو دکشنا طلب کرتے ہیں جو تم نے پچھلے جنم میں ہمیں بھینٹ کی تھی۔‘‘

’’سر۔۔۔!‘‘ یک لویہ حیرت اور خوف سے چیخ پڑا۔

’’ہاں، یک لویہ ہمیں گرو دکشنا میں تمہارے دائیں ہاتھ کا انگوٹھا چاہیے۔‘‘

یک لویہ کانپ گیا۔ اس کا رنگ ہلدی کی مانند زرد پڑ گیا۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اپنے پرنسپل کی طرف دیکھ رہا تھا مگر اب وہاں پرنسپل کہاں تھے۔ اس کے سامنے پرنسپل کی کرسی پر جو شخص بیٹھا تھا وہ تو کوئی اور ہی تھا۔ ماتھے پر بڑا سا تلک، سر منڈا ہوا، گدی کے پیچھے بڑی سی چوٹی۔ اس کی ویش بھوشا بھی بدل گئی تھی۔ ریشمی دھوتی، گلے میں جنے او، ہاتھوں میں باہوتران۔ کانوں میں جگ مگ کرتے رتن جڑت کرنا بھوشن۔

اسے لگا وہ ایسی ویش بھوشا میں اس سے پہلے بھی کسی ویکتی کو دیکھ چکا ہے۔ اس کی یادداشت میں ایک جھماکا ہوا اور اسے یاد آ گیا کہ اس نے ساڑھے تین ہزار برس پہلے جب وہ گرو دروناچاریہ سے ملنے راج محل کے رنانگن میں گیا تھا اور ان سے دھنر ودیا سکھانے کی پرارتھنا کی تھی تب وہ اسی ویش بھوشا میں ملے تھے۔

اب شک کی کوئی گنجائش باقی نہیں تھی۔ وقت کا پہیہ پیچھے کی طرف گھوم چکا تھا۔ تاریخ پوری سفاکی کے ساتھ ایک بار پھر اس سے خراج طلب کر رہی تھی۔ اسے ایک بار پھر اتہاس کے ماتھے پر اپنے لہو سے تلک لگانا تھا۔ اسے اس روایت کی لاج رکھنی تھی جس سے اس کی ذات منسوب ہو گئی تھی۔ اب وہ پیچھے نہیں ہٹ سکتا تھا۔ پیچھے ہٹنا بزدلی تھی اور وہ اپنے دامن پر بزدلی کا داغ لے کر زندہ نہیں رہ سکتا تھا۔ اس نے دیکھا کہ ماضی کے دھندلکے سے ایک بار پھر وہی منظر ابھر رہا تھا۔ جب اڑنے سے پہلے اس کی قسمت کے پر کتر دئیے گئے تھے۔ وہی جنگل، وہی بھیل پتر اور وہی راج گرو۔۔۔ اس نے لمحہ بھر توقف کیا۔ دو قدم آگے بڑھا۔ دونوں ہاتھ جوڑ کر دروناچاریہ کو پرنام کیا اور بجلی کی سرعت کے ساتھ ٹیبل پر رکھا قلم تراش چاقو اٹھا کر ایک جھٹکے سے اپنے دائیں ہاتھ کے انگوٹھے کو کھیرے کی طرح کاٹ کر اپنے جسم سے الگ کر دیا۔

اس واقعہ کو گزرے کئی برس بیت گئے۔ پرنسپل دروناچاریہ اب ریٹائرڈ ہو چکے تھے۔ ان کی گراں قدر خدمات کے پیشِ نظر دورانِ ملازمت ہی سرکار نے شہر کی سب سے پاش کالونی میں انہیں ایک بنگلہ الاٹ کر دیا تھا۔ وہ نوکروں کی ایک پوری ٹیم کے ساتھ اسی بنگلے میں سکونت پذیر تھے۔ انہوں نے شادی نہیں کی تھی۔ اپنی تیس سالہ ملازمت کے دوران انہوں نے سناتن میڈیکل کالج کو ایسی سربلندی عطا کر دی تھی کہ آج اس کا شمار ملک کے بہترین کالجوں میں ہوتا تھا۔ اپنی ذہانت، علمیت، اصول پسندی اور خوش انتظامی کے سبب انہیں سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کی جانب سے درجنوں ایوارڈ اور اعزازات سے نوازا جا چکا تھا۔ ان کی پر جلال شخصیت کے سامنے بڑے سے بڑا آدمی بونا نظر آتا تھا اوار اچھے اچھوں کی زبان گنگ ہو جاتی تھی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ان کی شہرت اور مقبولیت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی بلکہ ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے چاہنے والوں کا حلقہ مزید وسیع ہو گیا۔ اب انہیں ملک اور بیرون ملک مختلف دانش گاہوں اور یونیورسٹیوں میں میموریل لیکچرس اور توسیعی خطبات کے لیے مدعو کیا جاتا تھا۔ وہ جہاں جاتے لوگ انہیں سر آنکھوں پر بٹھاتے اور ان کے لیکچر نہایت شوق اور توجہ سے سنتے۔ کیونکہ ان کے لیکچروں میں میڈیکل سائنس کی دنیا میں آئے دن ہونے والی ایجادات اور انکشافات کی تفہیم و تشریح کے علاوہ خود ان کی زندگی کے تجربات کا نچوڑ ہوتا تھا۔ ان کی فکر و نظر، علم و دانش اور نکتہ سنجی کا ایک زمانہ لوہا مانتا تھا۔

سب کچھ ان کی مرضی اور منشا کے مطابق تھا مگر کبھی کبھی ایک خلش انہیں بے چین کر دیتی۔ یک لویہ نے جس بے جگری سے اپنا انگوٹھا کاٹ کر ان کے قدموں میں ڈال دیا تھا وہ منظر ان کی یادداشت میں خنجر کی طرح گڑ گیا تھا۔ ایسا نہیں کہ انہیں اس واقعہ کا کوئی ملال تھا۔ یا اس واقعہ کا ان کے ضمیر پر کوئی بوجھ تھا۔ البتہ یک لویہ کی اس ترت پھرت کار روائی نے انہیں ایک حیرت خیز صدمے سے دوچار کیا تھا۔ انہیں ہرگز توقع نہیں تھی کہ یک لویہ اتنی سہجتا سے ان کے مطالبے کو عملی جامہ پہنا دے گا۔ اصل میں انہوں نے گرو دکشنا کا پانسہ اس لیے پھینکا تھا کہ وہ یک لویہ کو ایسی آزمائش میں ڈالنا چاہتے تھے جس سے وہ کبھی عہدہ بر آ نہ ہو سکے۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کے مطالبے پر یک لویہ گھبرا جائے۔ ان سے دیا کی بھیک مانگے، روئے، گڑگڑائے، تب وہ اس پر ترس کھاتے ہوئے ایک شانِ استغنا کے ساتھ بخشش کا فرمان جاری کر دیں تاکہ وہ عمر بھر اس خجالت آمیز احساس کے ساتھ زندہ رہے کہ وہ ان کے مطالبے کو پورا کرنے کا اہل نہیں ہے۔ وہ اس پر ترس کھا کر اپنی پر غرور انا کو ایک بار پھر آسودہ کرنا چاہتے تھے جو ساڑھے تین ہزار برس سے ان کے نفس میں اسی طرح کنڈلی مارے بیٹھی تھی۔ بھلا انہیں اس کے انگوٹھے سے کیا لینا دینا تھا۔ وہ اس کا انگوٹھا نہیں۔۔۔ اس کی خود داری، خود اعتمادی اور عزم و حوصلے کو ہمیشہ کے لیے خصی کر دینا چاہتے تھے وہ اسے تاحیات اپنے انگوٹھے کے نیچے دبائے رکھنا چاہتے تھے مگر پانسہ الٹا پڑ گیا اور اس نے خود اپنا انگوٹھا کاٹ کر انہیں عمر بھر کے لیے حیرانی کی ایک ایسی اندھی گپھا میں دھکیل دیا جس سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ انہیں سجھائی نہیں دیتا تھا۔

اس واقعہ کے بعد یک لویہ اچانک غائب ہو گیا۔ اس کی تلاش میں جب ان کے کارندے اس کے گھر گئے تو چالی محلّے والوں نے بتایا کہ یک لویہ اور اس کے گھر والے کسی سے کچھ بتائے بغیر راتوں رات کہیں چلے گئے۔ کہاں؟ کسی کو نہیں معلوم۔۔۔ بس یہی بات دروناچاریہ کیلئے سب سے زیادہ پریشان کن تھی کہ آخر یک لویہ اچانک کہاں چلا گیا ہو گا؟ اپنا انگوٹھا گنوانے کے بعد یقیناًاسے احساس ہو گیا ہو گا کہ اب وہ ڈاکٹری پیشے کا اہل نہیں رہا۔ ممکن ہے دل برداشتہ ہو کر اس نے خود کشی کر لی ہو یا ممکن ہے کوئی دوسرا پیشہ اختیار کر لیا ہو۔ یا پھر یہ بھی ممکن ہے کسی دور افتادہ گمنام مقام پر کوئی معمولی نوکری کر رہا ہو۔ یا پھر۔۔۔ جب کوئی بات ٹھیک سے سجھائی نہیں دیتی تو وہ سوچنے لگتے۔ انہیں اس کے بارے میں اتنا سوچنے کی کیا ضرورت ہے اور وہ اپنے ذہن سے اس کے خیال کو جھٹک کر دوسرے کاموں میں لگ جاتے۔

دروناچاریہ کو ریٹائرڈ ہوئے دس سال کا عرصہ گزر چکا تھا۔ ایک دن وہ اپنے اسٹڈی میں بیٹھے اپنے لیکچر کے نوٹس تیار کر رہے تھے۔ کل ایک میڈیکل کانفرنس میں انہیں شریک ہونا تھا۔ وہ کانفرنس انہیں کی صدارت میں منعقد ہو رہی تھی۔ کانفرنس میں مختلف شہروں سے کئی نامی گرامی ڈاکٹر شریک ہو رہے تھے۔ بیرونِ ملک سے بھی کئی مندوبین کی آمد متوقع تھی۔ انہوں نے نوٹس مکمل کرنے کے بعد ایک انگڑائی لی اور ریوالونگ چیئر کی پشت سے ٹک کر آنکھیں بند کر لیں اور پاؤں پھیلا کر سستانے لگے۔ ابھی چند منٹ بھی نہیں گزرے تھے کہ فون کی گھنٹی بجی۔ اس وقت انہیں یہ گھنٹی بہت ناگوار معلوم ہوئی۔ وہ تھوڑی دیر تک یوں ہی آنکھیں بند کیے پڑے رہے۔ گھنٹی متواتر بجتی رہی۔ آخر انہوں نے آنکھیں کھول دیں اور پڑے پڑے ہی آلس کے ساتھ ہاتھ بڑھا کر ریسیور اٹھا لیا۔

’’ہیلو۔۔۔‘‘ انہوں نے بھرائی آواز میں کہا۔

’’پرنام سر!‘‘ دوسری طرف سے آواز آئی۔

’’کون؟‘‘ ان کی بھوئیں سکڑ گئیں۔

’’سر! آپ نے شاید مجھے نہیں پہچانا۔‘‘

ان کے ماتھے کے بل مزید گہرے ہو گئے۔ وہ ایسی بے تکلفی کے عادی نہیں تھے۔ ویسے آواز انہیں جانی پہچانی سی لگ رہی تھی۔ انہوں نے قدرے درشت لہجے میں پوچھا۔

’’کون ہیں آپ؟‘‘

’’سر میں یک لویہ بول رہا ہوں۔ آپ کا ایکس اسٹوڈنٹ، یک لویہ ہرنیہ دھنش۔‘‘

’’یک لویہ۔۔۔؟‘‘ وہ یک بیک سیدھے ہو کر بیٹھ گئے۔ ان کی پیشانی کے بل ڈھیلے پڑ گئے۔ دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔

’’کہاں سے بول رہے ہو؟‘‘انہوں نے اپنے لہجے کو حتی الامکان پرسکون بناتے ہوئے پوچھا۔

’’یہیں شہر میں ہوں سر!‘‘

اگرچہ ان کے ذہن میں ایک ہیجان برپا تھا لیکن وہ خاموش رہے۔

’’سر! میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔‘‘

دروناچاریہ چند لمحے تک کچھ سوچتے رہے۔ دس برس سے جس کا خیال انہیں رہ رہ کر ہانٹ کرتا رہا تھا، آج وہ ان سے مخاطب تھا۔ جواب نہ پا کر دوسری طرف سے پھر آواز آئی۔

’’اگر آپ کی اِچھا نہ ہو تو کوئی بات نہیں سر، پھر کبھی۔۔۔‘‘

’’نہیں۔۔۔ ایسی بات نہیں۔۔۔ آ جاؤ۔۔۔‘‘ دروناچاریہ نے ریسیور رکھ دیا۔ ان کا تجسس اضطراب میں بدلتا جا رہا تھا۔ وہ سوچ رہے تھے، دس برس بعد اچانک یہ کہاں سے وارد ہو گیا؟ کہاں تھا اتنے برس؟ کیا کرتا رہا؟ انگوٹھے کے بغیر اس کے شب و روز کیسے گزرے؟ ایک کے بعد ایک سوال ان کے ذہن پر دستک دے رہے تھے مگر کسی بھی سوال کا جواب ان کے پاس نہیں تھا۔ وہ کرسی سے اٹھ کر اسٹڈی میں ٹہلنے لگے۔ ان کی بے چینی میں اضافہ ہوتا رہا تھا۔ یک لویہ سے متعلق دس برس پہلے کی باتیں انہیں یاد آنے لگیں۔ کئی منظر ابھرے، ہر منظر ایک فلیش کی طرح چمک کر معدوم ہو جاتا۔ آخری منظر یاد آتے ہی وہ ٹہلتے ٹہلتے رک گئے۔ کرسی پر بیٹھ کر آنکھیں بند کر لیں۔ پورا کمرہ سرخ رنگ سے بھر گیا تھا۔ ’کھچ کھچ‘ کی آواز کے ساتھ چاروں طرف سے بے شمار انگوٹھے کٹ کٹ کر گر رہے تھے۔ یک لویہ کے چہرے کے نقوش ان کے تصور میں ابھرنے لگے۔ حیرت انگیز طور پر اس کا چہرہ پرسکون تھا۔ آنکھوں میں درد کا شائبہ تک نہ تھا۔ نہ چہرے پر کرب کے آثار تھے۔ الٹا وہ مسکرا رہا تھا جیسے کہہ رہا ہو۔ لیجئے میں نے تو آپ کی آگیہ کا پالن کر دیا۔ اب آپ کیا کریں گے؟ سچ مچ اس کے بعد وہ کچھ بھی تو نہیں کر سکے۔ اس نے انہیں کچھ کرنے کا موقع ہی کہاں دیا تھا۔۔۔ اور اب دس برس بعد۔۔۔

اتنے میں نوکر نے آ کر اطلاع دی کہ کوئی ان سے ملنے آیا ہے۔ ساتھ ہی اس نے ایک وزیٹنگ کارڈ ان کی طرف بڑھا دیا۔ وزیٹنگ کارڈ پر لکھا تھا۔ ڈاکٹر یک لویہ ہرنیہ دھنش۔۔۔ نیچے لکھا تھا، فزیشین اینڈ سرجن، ساتھ ہی کئی ڈگریاں درج تھیں۔ پتا لندن کا تھا۔ دروناچاریہ چکرا گئے۔ نوکر حکم کے انتظار میں کھڑا انہیں کی طرف دیکھ رہا تھا۔ انہوں نے ہڑبڑا کر کہا۔

’’انہیں۔۔۔ بٹھاؤ، ہم آ رہے ہیں۔‘‘

نوکر چلا گیا۔ دروناچاریہ نے ایک بار پھر غور سے کارڈ کو دیکھا۔ کارڈ پر بالکل صاف صاف حرفوں میں ڈاکٹر یک لویہ ہرنیہ دھنش۔ فزیشین اینڈ سرجن لکھا ہوا تھا۔ اور نیچے چونٹیوں کی قطار کی طرح ڈگریوں کی لائن تھی۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ وہ بڑبڑائے۔ پھر لڑکھڑاتے ہوئے واش روم میں گئے۔ ہاتھ منہ دھویا، آئینے میں اپنی شکل دیکھی۔ ایک تھکا تھکا سا جھریوں دار چہرہ انہیں گھور رہا تھا۔ آج پہلی بار انہیں محسوس ہوا وہ بہت بوڑھے ہو گئے ہیں۔

تیار ہو کر جب انہوں نے ڈرائنگ روم میں قدم رکھا تو انہیں لگ رہا تھا کہ وہ ایک لمبی مسافت طے کر کے آئے ہیں۔

ڈرائنگ روم میں کوئی پاؤں پر پاؤں رکھے صوفے پر نیم دراز اخبار پڑھ رہا تھا۔ ان کے قدموں کی آہٹ سن کر وہ چونکا۔ ان پر نظر پڑتے ہیں یکلخت کھڑا ہو گیا۔ انہیں اسے پہچاننے میں قدرے دقت ہوئی مگر وہ سچ مچ یک لویہ ہی تھا۔ پہلے کافی دبلا پتلا تھا۔ لیکن اب جسم متناسب ہو گیا تھا۔ اس کے سانولے رنگ پر کریم کلر کا سوٹ بہت کھِل رہا تھا۔ جس پر نیلے رنگ کی ٹائی اس کی شخصیت کو مزید جاذب بنا رہی تھی۔ اس کے سیاہ چمکیلے بال سلیقے سے جمے ہوئے تھے اور آنکھوں پر سنہری فریم کی خوبصورت عینک تھی۔ اس کے ہونٹوں پر ایک عجیب آسودہ سی مسکراہٹ رقصاں تھی۔ ان نے دونوں ہاتھ جوڑ کر انہیں پرنام کیا۔ ان کی نظریں اس کے ہاتھوں کو ٹٹولنے لگیں مگر وہ جو دیکھنا چاہتے تھے وہ نہیں دیکھ سکے کیونکہ اس کے دونوں ہاتھوں میں دستانے تھے۔ یک لویہ نے آگے بڑھ کر ان کے چرن چھوئے۔ دروناچاریہ عادتاً صرف ہاتھ اٹھا کر رہ گئے۔ دونوں آمنے سامنے بیٹھ گئے۔ دروناچاریہ اب بھی بے یقینی سے اسے دیکھ رہے تھے۔ یک لویہ نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔ ’’آپ کیسے ہیں سر!‘‘

’’آں۔۔۔ اچھا ہوں۔‘‘ دروناچاریہ نے چونک کر کہا۔ پھر سنبھل کر بولے۔

’’اور تم؟۔۔۔ کہاں تھے اتنے برس؟‘‘ اس کا وزیٹنگ کارڈ اب بھی ان کے ہاتھ میں تھا۔ انہوں نے ایک بار پھر وزیٹنگ کارڈ پر ایک نظر ڈالی اور پوچھا۔ ’’یہ کارڈ تمہارا ہی ہے نا؟‘‘

یک لویہ مسکرا رہا تھا۔ ’’یس سر۔۔۔‘‘

’’میں کل منعقد ہونے والی کانفرنس میں لندن کے ڈیلی گیشن کے ساتھ آیا ہوں سر! کل کانفرنس کے بعد مجھ سے درخواست کی گئی ہے کہ میں ایک اوپن ہارٹ سرجری کا ڈِمانسٹریشن کروں جسے تمام چینلز پر بیک وقت ٹیلی کاسٹ کیا جائے گا۔‘‘

’’بٹ ہاؤ اِز اِٹ پاسِبل؟‘‘ دروناچاریہ نے ایک بار پھر دزدیدہ نگاہوں سے اس کے ہاتھوں کی طرف دیکھا جو اب بھی دستانوں میں چھپے تھے۔ یک لویہ نے ایک لمحہ توقف کیا پھر ایک ایک لفظ پر زور دیتا ہوا نہایت اعتماد سے بولا۔

’’سر! زندگی شطرنج کا کھیل ہے۔ شطرنج میں ایک بار مات کھانے والا دوسری بازی کھیلتے ہوئے زیادہ چوکس رہتا ہے۔ اس لیے ایک ہی چال سے کسی کو دوبارہ مات نہیں دی جا سکتی۔ ماضی میں آپ نے ایک چال چلی اور مجھے مات دے دی تھی۔ ساڑھے تین ہزار برس کے بعد آپ نے پھر وہی چال چلی اور یہیں آپ مات کھا گئے۔‘‘

’’کیا مطلب؟‘‘ دروناچاریہ کے لہجے میں خوف، تجسس اور حیرت کی ملی جلی کیفیت تھی۔

’’سر! آپ نے سناتن پرمپرا کے انوسار گرو دکشنا میں مجھ سے سیدھے ہاتھ کا انگوٹھا مانگا تھا۔ سو میں نے دے دیا۔ مگر آپ کو شاید نہیں معلوم کہ میں یسیاری ہوں۔ میں اپنے سارے کام بائیں ہاتھ سے کرتا ہوں۔ حتیٰ کہ سرجری بھی۔۔۔ میرے بائیں ہاتھ کا انگوٹھا آج بھی سلامت ہے۔‘‘

دروناچاریہ آنکھیں پھاڑے حیرت اور تشویش سے اسے یوں دیکھ رہے تھے جیسے یک لویہ کے سر پر اچانک سینگ نکل آئے ہوں۔

اس کے بعد انہیں یاد نہیں کہ یک لویہ کب تک ان کے پاس بیٹھا رہا اور اس نے ان سے کیا باتیں کیں۔ جب وہ رخصت لے کر چلا گیا تو وہ اٹھے۔ تھکے تھکے قدموں سے اسٹڈی میں گئے اور وہ تمام نوٹس جو انہوں نے کل کے صدارتی خطبے کے لیے تیار کیے تھے، پھاڑ کر ڈسٹ بن میں ڈال دیے۔

٭٭٭







آخری کنگورا



وہ اپنے نشیمن رئیل اسٹیٹ ایجنسی کے آفس میں بیٹھا کسی کسٹمر کی فائل الٹ پلٹ رہا تھا، اس کا نوکر بابو اسٹول پر بیٹھا کسی اخبار میں چھپا معمہ حل کرنے میں منہمک تھا۔ اتنے میں ایک سیاہ رنگ کی کوالیس آفس کے سامنے آ کر رکی۔ کار سے تین لوگ اترے۔ ان کا لباس، حلیہ بظاہر عام لوگوں جیسا ہی تھا مگر ان کے چہروں کا سپاٹ پن جس سے قدرے کرختگی مترشح تھی ان کے سخت گیر رویے کی غمازی کر رہا تھا۔ ان میں سے ایک کی آنکھوں پر سیاہ چشمہ تھا، دوسرے کی بڑی بڑی مونچھیں تھیں اور تیسرے کے بائیں گال پر زخم کا گہرا نشان تھا۔ انہوں نے گردن اٹھا کر آفس کے سائن بورڈ پر نگاہ ڈالی۔ مونچھوں والے نے چشمے والے کی طرف دیکھا، چشمے والے نے گردن کو خفیف سی جنبش دی اور دونوں آفس میں داخل ہو گئے۔ وہ جس کے بائیں گال پر زخم کا گہرا نشان تھا، پتلون کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے دائیں بائیں ایک اچٹتی مگر چوکنّی نگاہ ڈالتا ہوا باہر ہی رک گیا۔ دونوں کے آفس میں داخل ہوتے ہی بابو ہڑبڑا کر کھڑا ہو گیا۔ اس نے فائل پر سے نظریں اٹھا کر ان کی طرف دیکھا۔ دونوں اس کی میز کے سامنے کھڑے اسے گھورنے لگے۔

’’یس۔۔۔؟‘‘ اس نے فائل بند کر دی اور ان کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھنے لگا۔

’’محمد علی کون ہے؟‘‘ سیاہ چشمے والے نے استفسار کیا۔

’’میں ہوں۔۔۔ مگر آپ لوگ؟‘‘

’’یہ آفس تمہارا ہے؟‘‘

’’جی۔۔۔ مگر آپ؟‘‘

چشمے والے نے سرد لہجے میں کہا۔ ’’پولس۔‘‘

پولس کا نام سنتے ہی محمد علی جھٹکے سے کھڑا ہو گیا۔

’’بیٹھیے۔‘‘ اس نے سامنے پڑی خالی کرسیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

’’تمہیں ہمارے ساتھ چلنا ہو گا۔‘‘ سیاہ چشمے والا اسی خشک لہجے میں بولا۔

’’کہاں؟‘‘

’’پولس چوکی۔۔۔‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’چلو۔۔۔‘‘ مونچھوں والا میز کے پیچھے پہنچ کر اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھتا ہوا بولا۔

’’مگر کیوں؟‘‘ اس کے لہجے میں ہلکا سا احتجاج تھا۔

’’انکوائری۔۔۔‘‘

’’کس سلسلے میں؟‘‘

’’بم بلاسٹ۔۔۔‘‘

’’اوہو،۔۔۔‘‘ اس نے پر تشویش لہجے میں ہونٹ سکوڑتے ہوئے کہا۔

’’پوچھئے کیا پوچھنا ہے؟‘‘

’’یہاں نہیں۔۔۔ پولس چوکی میں۔‘‘

’’مگر یہ میرے دھندے کا ٹائم ہے۔۔۔ میں شام کو پولس چوکی آ جاؤں گا۔‘‘

’’چلو، تھوڑی دیر میں واپس آ جانا۔۔۔‘‘ چشمے والا بولا۔

’’مگر سر! اس وقت۔۔۔‘‘ اس نے پھر کچھ کہنا چاہا۔ تبھی مونچھوں والاس کے کاندھے پر ہلکا سا دباؤ ڈالتا ہوا قدرے سختی سے بولا۔ ’’چلو۔۔۔‘‘

محمد علی نے قدرے ناگواری سے اس کی طرف دیکھا اور بولا۔ ’’چلتا ہوں، آپ کاندھے پر سے ہاتھ ہٹائیے۔‘‘

مونچھوں والے نے چشمے والے کی طرف دیکھا۔ چشمے والے نے لمحے بھر کے توقف کے بعد گردن کو ہلکی سی جنبش دی۔ مونچھوں والے نے اس کے کاندھے پر سے ہاتھ ہٹا لیا۔ وہ ان کے ساتھ چلتا ہوا بابو کی طرف مڑا جو پریشان سا کھڑا انہیں دیکھ رہا تھا۔

’’اگر مسٹر عثمانی آئیں تو انہیں سلور پارک کا فلیٹ دکھا دینا۔‘‘

بابو نے اثبات میں گردن ہلا دی۔ منہ سے کچھ بولا نہیں۔

وہ ان کے ساتھ آفس سے باہر آ گیا۔ اس نے کنکھیوں سے ادھر ادھر دیکھا۔ آس پاس کی دکان والے اپنی اپنی دکانوں کے دروازوں میں کھڑے انہیں تجسس آمیز دلچسپی سے دیکھ رہے تھے۔ شاہین بک ڈپو والے سید صاحب کی آنکھوں میں تجسس کی پرت کے نیچے ہلکی سی خوف کی جھلک بھی دکھائی دے رہی تھی۔

وہ کوالیس میں آ کر بیٹھ گیا۔ چشمے والا سامنے ڈرائیور کی بغل میں بیٹھ گیا۔ مونچھوں والا اور وہ جس کے بائیں گال پر زخم کا گہرا نشان تھا دونوں پچھلی سیٹ پر اس کے دائیں بائیں اس سے سٹ کر بیٹھ گئے۔ ان کے اس طرح چپک کر بیٹھنے سے ان کے پسینے کی بو اس کے نتھنوں سے ٹکرائی۔ اسے وحشت سی ہونے لگی۔ وہ ان سے ذرا سرک کر بیٹھنے کے لیے کہنا چاہتا تھا مگر ہمت نہیں ہوئی۔ کار میں بیٹھنے تک اس کا ذہن کسی بھی وسوسے سے پاک تھا مگر اب، اس بند کوالیس میں ان دو پولس والوں کے درمیان یوں سکڑ سمٹ کر بیٹھنے کے بعد اس کے ذہن میں ایک موہوم سا اندیشہ کسی سنپولے کی طرح رینگنے لگا۔ کوالیس پوری رفتار سے دوڑ رہی تھی۔ اس نے دائیں بائیں چور نگاہوں سے دیکھا۔ مونچھوں والا اور گال پر زخم کے نشان والا دونوں سامنے نظریں جمائے ساکت و صامت بیٹھے تھے۔ اتنے میں اس کا موبائل بجا۔ اس نے جیب سے موبائل نکالا مگر اس سے پہلے کہ وہ موبائل پر بات کرتا، سامنے کی سیٹ پر بیٹھے چشمے والے نے اسے ٹوکتے ہوئے کہا۔ ’ ’نہیں۔ تم فی الحال موبائل پر بات نہیں کر سکتے۔‘‘

چشمے والے کا جملہ پورا ہونے سے پہلے اس کے دائیں بیٹھے مونچھوں والے نے اس کے ہاتھ سے موبائل اچک لیا۔

’’یہ غلط ہے۔۔۔‘‘ اس نے مزاحمت کی۔ جواب میں کسی نے کچھ نہیں کہا۔ تینوں خاموش تھے۔ مونچھوں والے نے اس کے موبائل کا سوئچ آف کر کے اپنے پاؤچ میں ڈال لیا۔ وہ پریشان ہو گیا۔ اسے صریحاً اپنی ہتک محسوس ہو رہی تھی۔ اس نے دبے لہجے میں خفگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ ’’میں ایک عزت دار شہری ہوں۔ میں نے کوئی جرم نہیں کیا ہے۔ آپ مجھے پوچھ تاچھ کے لیے لے جا رہے ہیں۔ میں بنا حیل حجت کے آپ کے ساتھ چلنے کو تیار ہو گیا۔ میں آپ کے ساتھ پورا تعاون کر رہا ہوں۔ پھر اس طرح میرا موبائل چھین لینے کا مطلب؟ آپ میرے ساتھ ایسا سلوک نہیں کر سکتے۔ مجھے اپنے گھر فون کرنا ہے۔ پتا نہیں چوکی میں کتنی دیر لگے۔ میرے گھر والے پریشان ہو سکتے ہیں۔۔۔‘‘

اس نے دیکھا وہ تینوں اسی طرح خاموش بیٹھے تھے۔ ان پر اس کی تقریر کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ بلکہ ان کے چہرے اس قدر سپاٹ تھے کہ لگتا تھا انہوں نے اس کی تقریر کا ایک لفظ بھی نہیں سنا۔ اس نے اپنی آواز میں قدرے اعتماد پیدا کرتے ہوئے بلند آواز میں کہا۔

’’سن رہے ہیں آپ لوگ؟ میں اپنے گھر فون کرنا چاہتا ہوں۔‘‘

گال پر زخم کے نشان والا غرّایا۔ ’’اے! ایک بار کہہ دیا نا تو ابھی فون نہیں کر سکتا۔‘‘

’’مگر کیوں؟ میں فون کیوں نہیں کر سکتا؟ اب مجھے شبہ ہونے لگا ہے کہ آپ لوگ پولس والے ہیں بھی یا نہیں۔۔۔؟‘‘

مونچھوں والے نے اسے گھور کر دیکھا اور نہایت حقارت سے بولا۔

’’تو۔۔۔ تُو اب ہم سے پولس والا ہونے کا ثبوت مانگے گا؟‘‘

’’کیا مجھے نہیں مانگنا چاہیے؟مجھے اس کا پورا حق ہے۔ بتائیے آپ لوگ کون ہیں؟ اور مجھے کہاں لے جا رہے ہیں؟‘‘

آگے بیٹھا چشمے والا دفعتاً مڑا اور ہونٹوں پر انگلی رکھ کر سخت لہجے میں بولا۔

’’اے چُپ! ایک دم چُپ!!!۔۔۔ اب چوکی آنے تک تو ایک لفظ نہیں بولے گا۔‘‘

وہ چپ ہو گیا۔ بلکہ اچھا خاصا سہم گیا۔ کیوں کہ اب وہ لوگ تو تکار پر اتر آئے تھے۔ خفا ہونے پر ہاتھ بھی چھوڑ سکتے تھے۔ اس نے اپنے حواس بحال رکھے اور چہرے سے کسی بھی قسم کا تاثر ظاہر ہونے نہیں دیا۔ اس نے دل ہی دل میں طے کر لیا کہ اب وہ چوکی آنے تک کچھ نہیں بولے گا۔ اس نے اندازہ لگا لیا کہ ان لوگوں کے منہ لگنا، ذلت اٹھانے کے سوا کچھ نہیں۔ اس نے ایک گہری سانس لی اور سیٹ کی پشت سے ٹک کر آنکھیں بند کر لیں۔

تقریباً آدھے گھنٹے بعد کار رکی۔ وہ تینوں نیچے اترے۔ اسے بھی اترنے کو کہا گیا۔ وہ چپ چاپ نیچے اتر آیا۔ یہ ایک ویران جگہ تھی۔ ان کی کوالیس ایک پرانی دو منزلہ عمارت کے سامنے کھڑی تھی۔ جس پر دیوناگری میں ’نیشنل ہائے وے پولس چوکی‘ لکھا تھا۔ پاس ہی ایک پولس وین اور ایک جیپ گاڑی کھڑی دکھائی دی، عمارت کی بائیں جانب قبرستان تھا اور دائیں طرف فاصلے فاصلے سے اکّا دُکّا عمارت نظر آ جاتی تھی۔ چاروں طرف ایک منحوس سنّاٹا سا پھیلا تھا۔ قریب و دور کوئی متنفس دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ یہ پولس اسٹیشن تو اس کے گھر سے بہت دور ہے۔ اس کے محلے میں بھی تو ایک پولس اسٹیشن تھا پھر اسے اس دور افتادہ پولس اسٹیشن کیوں لایا گیا؟ اس کے ذہن میں اب سوالات ڈراؤنی شکلیں اختیار کرتے جا رہے تھے۔ پچھلے کچھ دنوں سے متواتر نشر ہونے والی ٹی۔ وی کی خبریں اور اخباروں کی سرخیاں اس کے ذہن میں ہیجان پیدا کرنے لگیں۔

عمارت میں داخل ہوتے ہیں جو منظر اسے نظر آیا وہ اس کے ہوش اڑانے کے لیے کافی تھا۔ یہ ایک ہال نما بڑا سا کمرہ تھا جس میں کم از کم پچیس تیس افراد جن میں زیادہ تر نوجوان تھے، فرش پر اکڑوں بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کے بدن قمیص کُرتے سے بے نیاز تھے اور ان کی ننگی پیٹھیں پسینے سے تر تھیں۔ ایک پولس انسپکٹر اپنے سامنے میز پر ایک رجسٹر کھولے ایک ایک کا نام اور پتا پوچھ پوچھ کر رجسٹر میں لکھتا جا رہا تھا۔ چشمے والا سامنے زینے کی طرف بڑھ گیا۔ مونچھوں والا اور گال پر زخم کے گہرے نشان والا اسے گھیرے میں لیے ہوئے اس کے پیچھے چل رہے تھے۔ زینہ طے کرنے کے بعد وہ لوگ ایک گلیارے سے گزرنے لگے جس کے دونوں طرف کمرے بنے ہوئے تھے۔ کمروں کے دروازے باہر سے مقفل تھے مگر اس نے ان میں سے بیشتر کمروں میں کچھ آہٹیں محسوس کیں۔ شاید اندر کچھ لوگ بند تھے۔ کون تھے یہ لوگ؟ اس کے ذہن میں مختلف جرائم پیشہ افراد کی خوفناک شکلیں ابھرنے لگیں۔

گلیارے کے اختتام پر وہ لوگ ایک کمرے کے سامنے آ کر کھڑے ہو گئے۔ کمرے کے دروازے میں تالا نہیں تھا۔ مونچھوں والے نے دروازہ کھولا اور وہ لوگ کمرے میں داخل ہو گئے۔ کسی نے ہاتھ بڑھا کر کوئی بٹن دبایا۔ ’چٹ‘ کی آواز آئی، کمرے کی چھت میں لٹکا ہوا ایک زرد بلب روشن ہو گیا۔ اس نے بلب کی ملگجی روشنی میں دیکھا کمرہ تقریباً خالی تھا۔ البتہ کمرے کے بیچ میں دو کرسیاں رکھی تھیں۔ کمرے کی میلی غلیظ دیواریں ایک دم ننگی تھیں، جن کا پلاسٹر کسی جذامی کے بدن کی طرح جگہ جگہ سے جھڑ گیا تھا۔ کسی دیوار میں کوئی کھڑکی نہیں تھی۔ بلب کی دھندلی روشنی میں چھت سے لٹکتے ہوئے مکڑی کے جالے صاف نظر آ رہے تھے۔ چشمے والا اس کی طرف مڑا اور کرسی کی طرف اشارہ کرتا ہوا بولا۔ ’’بیٹھو!‘‘ وہ چپ چاپ ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔ چشمے والا اس کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا۔ مونچھوں والا اور گال پر زخم کے نشان والا چشمے والے کے دائیں بائیں کھڑے ہو گئے۔ چشمے والے نے اپنا چشمہ اتارا اور اس کی طرف غور سے دیکھنے لگا۔ کمرے میں پھیلی دھندلی روشنی میں بھی اس کی آنکھیں سانپ کی آنکھوں کی طرح چمک رہی تھیں۔ وہ اسے چند لمحوں تک گھورتا رہا پھر سانپ ہی کی طرح پھُپھکارا۔

’’ایک بات دھیان سے سنو! ہم لوگ کرائم برانچ والے ہیں۔ سچ اگلوانا ہمارا پیشہ ہے۔ اس کے لیے ہم کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ اس لیے اچھا یہی ہے کہ ہمارے سوالوں کے صحیح صحیح جواب دو۔‘‘

اسے گھبراہٹ سی ہونے لگی مگر اس نے اپنی گھبراہٹ پر قابو پاتے ہوئے کہا۔ ’’پوچھئے۔‘‘

’’کیا محمد علی تمہارا اصلی نام ہے؟‘‘

وہ اس عجیب سوال پر چونکا اور سوالیہ انداز میں بولا۔ ’’کیا مطلب؟‘‘

’’تم سے جو پوچھا جائے اس کا جواب دو۔ فالتو بات نہیں۔‘‘ سانپ آنکھوں والا غرّایا۔

اسے ہر بار نئے سرے سے ذلت کا احساس دلایا جا رہا تھا۔ مگر ضبط کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ وہ بولا۔ ’’ہاں۔۔۔ یہ میرا اصلی نام ہے۔‘‘

’’تم کہیں کسی اور نام سے بھی کام کرتے ہو؟‘‘

’’میں سمجھا نہیں۔۔۔‘‘ اس کا اضطراب بڑھتا جا رہا تھا۔

’’ہاں یا نہیں۔۔۔‘‘

’’نہیں۔۔۔‘‘ اس نے اپنے اضطراب پر قابو پاتے ہوئے کہا۔

’’تم گیارہ جولائی کی شام کو کہاں تھے؟‘‘

وہ سمجھ گیا کہ اسے گھیرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

’’میں اپنے آفس میں تھا۔‘‘

سانپ آنکھوں والا تھوڑی دیر تک اس کی آنکھوں میں دیکھتا رہا پھر گال پر زخم کے نشان والے کی طرف ہاتھ بڑھا کر بولا۔ ’’پاؤچ۔۔۔‘‘

گال پر زخم کے نشان والے نے اپنے ہاتھ میں دبا پاؤچ اسے دے دیا۔ اس نے پاؤچ سے ایک شناختی کارڈ نکالا اور اسے دکھاتا ہوا بولا۔

’’یہ آئیڈنٹیٹی کارڈ تمہارا ہے؟‘‘

اس نے کارڈ کو غور سے دیکھا۔ اس پر اسی کی تصویر چسپاں تھی۔ اس نے جلدی سے کہا۔

’’ہاں۔۔۔ یہ کارڈ میرا ہی ہے۔ مگر یہ آپ کے پاس۔۔۔‘‘

’’یہ ہمیں اسی جگہ ملا ہے جہاں بلاسٹ ہوا تھا۔‘‘

اسے لگا اس کا قد گھٹتے گھٹتے مٹھی بھر رہ گیا ہے اور وہ ایک جالی دار پنجرے میں کسی چوہے کی طرح پھنس گیا ہے۔ اور وہ تینوں جادو کے زور سے خونخوار بلّوں کی شکل میں اسے گھیرے کھڑے ہیں اور ان کی تیز غراہٹوں سے اس کے لہو کی گردش تھم گئی ہے۔ اس نے لرزتی آواز میں کہا۔

’’اس روز دھماکے کی آواز سن کر سینکڑوں لوگ پٹریوں کی طرف بھاگ رہے تھے۔ میں بھی آفس بند کر کے پٹری کے پاس پہنچ گیا تھا۔‘‘

کہتے کہتے اس کی آنکھوں کے سامنے وہ بھیانک منظر گھوم گیا۔ چرمرائے ہوئے فولادی ڈبّے جن سے ابھی تک دھواں نکل رہا تھا۔ اِدھر ادھر بکھرے ہوئے خون میں لت پت انسانی اعضا اور لاشیں، زخمیوں کی کراہیں، لوگوں کی چیخ و پکار۔۔۔ اس نے ایک جھُرجھُری سی لی۔ سانپ آنکھوں والا کہہ رہا تھا۔ ’’آگے بولو۔۔۔؟‘‘

’’لوگ زخمیوں کو اٹھا اٹھا کر ہاتھ گاڑیوں، آٹو رکشاؤں اور ٹیکسیوں میں ڈال ڈال کر ہسپتال کی طرف بھاگے جا رہے تھے۔ میں بھی اپنے آپ کو روک نہیں سکا اور زخمیوں کو اٹھانے میں لوگوں کی مدد کرنے لگا۔ اسی افراتفری میں شاید میرا پاکٹ وہیں کہیں گر گیا ہو گا۔ جس میں میرا آئیڈنٹیٹی کارڈ بھی تھا۔‘‘

وہ دم لینے کو رُکا۔ اس نے اِدھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’پانی۔۔۔‘‘

اس کی درخواست پر کسی نے دھیان نہیں دیا۔ تینوں ایک ٹک اسے گھور رہے تھے جیسے اس کے بیان کی صداقت کو نظروں کے ترازو میں تول رہے ہوں۔ پھر سانپ آنکھوں والے نے اسے ایک پاکٹ دکھاتے ہوئے کہا۔ ’’تمہارا پاکٹ۔۔۔‘‘

’’ہاں۔۔۔ اس میں میرا سیزن ٹکٹ بھی ہے۔‘‘

’’تم دبئی میں کتنے برس تھے؟‘‘ سانپ آنکھوں والا اس کی بات اَن سنی کرتا ہوا بولا۔

دبئی کے نام پر وہ چونکا۔ اس کا مطلب انہوں نے اس کے بارے میں اچھی خاصی معلومات اکٹھا کر لی ہے۔ اس نے ایک گہری سانس لی اور بولا۔

’’دس برس۔۔۔‘‘

’’وہاں کیا کرتے تھے؟‘‘

’’سروس۔۔۔ ایک ڈپارٹمنٹل اسٹور میں سیلز مینیجر تھا میں۔۔۔‘‘

’’وہاں تم اس سے ضرور ملے ہو گے؟‘‘

’’کس سے؟‘‘

’’خیر۔۔۔ تم نے اسے وہاں کبھی دیکھا تو ہو گا؟‘‘

’’کس کو۔۔۔؟‘‘ اس نے پھر اپنا سوال دوہرایا۔

’’جانے دو۔ ویسے ایک بات بتا دوں، تم جتنا چالاک بننے کی کوشش کرو گے، اتنا ہی نقصان اٹھاؤ گے۔‘‘

’’پتا نہیں آپ کیا کہہ رہے ہیں۔‘‘

’’چھوڑو۔۔۔ تم دُبئی سے کب لوٹے؟‘‘

’’پانچ برس ہو گئے۔‘‘

’’اس کا مطلب، ترانوے کے بم بلاسٹ کے موقع پر تم دُبئی میں تھے۔‘‘

’’ہاں تھا۔ وہیں ٹی۔ وی پر میں نے وہ رونگٹے کھڑے کر دینے والا منظر دیکھا تھا۔‘‘

’’یہ اسٹیٹ ایجنسی کب سے چلا رہے ہو؟‘‘

’’تین برس سے۔۔۔‘‘

’’پتا چلا ہے کہ تم یہاں اپنی ایجنسی کی آڑ میں حوالے کا دھندا بھی کرتے ہو؟‘‘

’’کیسا حوالہ؟‘‘ دھیرے دھیرے جیسے اس کے گرد پھندا کستا جا رہا تھا۔

’’دبئی سے تمہارے پاس روپیہ آتا ہے اور پھر تم وہ روپیہ یہاں کچھ لوگوں میں تقسیم کرتے ہو؟‘‘

’’یہ جھوٹ ہے۔۔۔‘‘ وہ تقریباً چیخ بڑا۔ ’’میرے بارے میں کسی نے آپ کو غلط اطلاع دی ہے۔ میں نے دبئی میں نوکری کر کے جو روپے کمائے تھے انہیں روپیوں سے یہ آفس خریدا ہے۔‘‘

’’اچھا بتاؤ تمہارا تعلق کس گروہ سے ہے؟ سیمی سے؟ جیشِ محمد سے، لشکرِ طیبہ سے یا پھر سیدھے القاعدہ سے؟‘‘

’’میرا تعلق کسی سے بھی نہیں ہے۔‘‘ اس کی آواز روہانسی ہو گئی۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر تھام لیا۔ اب شک کی کوئی گنجائش نہیں تھی کہ انہوں نے اسے چاروں طرف سے گھیر لیا ہے، اس کے راستے مسدود کر دیے گئے ہیں اور اسے کسی وحشی جانور کی طرح مار گرانے کے لیے انہوں نے اپنی بندوقیں تان لیں ہیں اور بندوقوں کی نالیاں اسی کی جانب اٹھی ہوئی ہیں، اس نے دھیرے دھیرے گردن اٹھائی۔ سرخ سرخ آنکھوں سے تینوں کو دیکھتا ہوا رُک رُک کر بولا۔

’’آپ لوگ خواہ مخواہ مجھ پر شک کر رہے ہیں، دھماکے کی آواز سن کر سینکڑوں لوگ وہاں پہنچے تھے، ان میں میں بھی تھا۔ اسے میری بدقسمتی سمجھئے کہ میرا پاکٹ وہاں گر گیا۔ صرف وہاں آئیڈنٹیٹی کارڈ کے ملنے سے یہ کیسے ثابت ہو جاتا ہے کہ میں۔۔۔‘‘

بولتے بولتے وہ رُک گیا۔ اچانک اس کے ذہن میں ایک کوندا سا لپکا۔ اس نے قدرے جوش سے کہا۔ ’’وہاں میں نے ایک آدمی کی جان بھی بچائی تھی۔ اسے ہسپتال پہنچایا تھا۔ آپ چاہیں تو اس سے بھی پوچھ سکتے ہیں۔ وہ مہاتما گاندھی ہسپتال میں ایڈمٹ ہے۔‘‘

’’کیا نام ہے اس کا؟‘‘

’’پرمود سوناونے ْ‘‘

’’دیکھا جائے گا۔‘‘ سانپ آنکھوں والا لا پرواہی سے بولا۔ اور کرسی سے اٹھ گیا۔ پھر اچانک اس کی کلائی کی گھڑی کی طرف انگلی اٹھا کر بولا۔ ’’اِسے اتارو۔۔۔‘‘

’’کیوں؟‘‘ اس نے حیرت سے پوچھا۔

’’اتارو۔۔۔ واپسی پر تمہیں تمہارا موبائل اور گھڑی مِل جائے گی۔ چلو اتارو۔۔۔‘‘

’’اس نے چپ چاپ گھڑی اتار کر انہیں دے دی۔ مونچھوں والے نے اس سے گھڑی لے لی۔ پھر اسے الٹ پلٹ کر دیکھتا ہوا بولا۔ ’’دبئی کی لگتی ہے۔‘‘

اس پر تینوں بے ڈھنگے پن سے ہنس دیے۔ وہ کچھ نہیں بولا۔ تینوں دروازے کی طرف مڑ گئے۔ وہ بھی اپنی جگہ سے اٹھ گیا۔ سانپ آنکھوں والا اس کی طرف مڑا۔ ’’تم یہیں رُکو گے۔‘‘

’’کیوں؟‘‘

ابھی تمہاری انکوائری پوری نہیں ہوئی۔۔۔‘‘

’’تو پوری کر لیجئے نا۔۔۔ آپ مجھے اس طرح یہاں نہیں روک سکتے۔‘‘

’’ایسا کرنے سے ہمیں کون روک سکتا ہے۔‘‘ سانپ آنکھوں والا سفّاکی سے مسکراتا ہوا بولا۔

’’یہ غیر قانونی ہے۔ میں کوئی چور اچکّا نہیں ہوں۔ آپ کو جو کچھ پوچھنا ہے پوچھئے اور مجھے اپنے گھر جانے دیجئے۔۔۔‘‘

وہ تینوں کمرے سے باہر نکل چکے تھے۔ وہ ان کے پیچھے لپکا مگر تب تک دروازہ بند ہو چکا تھا۔ اس نے دروازے پر دو ہتھڑ مارے اور حلق کے بل چیخا۔ ’’مجھے۔۔۔ کم سے کم اپنے گھر پر ایک فون تو کر لینے دیجئے۔ دیکھئے۔۔۔ میرے گھر والے پریشان ہو رہے ہوں گے۔‘‘ مگر باہر سے کوئی جواب نہیں ملا۔ وہ تینوں جا چکے تھے۔ وہ تھوڑی دیر تک دروازے کو یونہی پیٹتا رہا۔ پیٹتے پیٹتے اس کے ہاتھوں میں درد ہونے لگا۔ بالآخر اس نے اپنے ہاتھ روک لیے۔ معاً اس کے پیٹ میں ایک گولا سا اٹّھا۔ اس کے سینے میں غبار سا بھر گیا۔ وہ غبار کسی بپھری موج کی مانند اس کی آنکھوں کی سمت بڑھ رہا تھا۔ اس کے منہ سے ایک سسکاری سی نکلی۔ اس نے جلدی سے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیا اور مڑ کر دوبارہ اسی پرانی کرسی پر آ کر ڈھیر ہو گیا۔ اس نے زندگی میں کبھی ایسی بے بسی محسوس نہیں کی تھی۔ اسے لگ رہا تھا کسی نے اس کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اسے گہرے کنویں میں پھینک دیا ہے اور وہ ڈوبتا جا رہا ہے، گہرے۔۔۔ اور گہرے۔۔۔ ہاتھ پیر مارنا چاہتا ہے مگر مار نہیں سکتا۔ شاید اب وہ کبھی سطح آب پر نہیں آ سکے گا۔ کیا یہی سیلن زدہ تاریک کمرہ اس کا مقبرہ بننے والا ہے؟ ہاں، بن بھی سکتا ہے۔ وہ چاہیں تو ایسا کر سکتے ہیں۔ ان کے پاس اس کے پورے اختیارات ہیں۔ یہ اختیارات انہیں کب ودیعت کئے گئے تھے کسی کو نہیں معلوم۔ کس نے ودیعت کیے تھے یہ بھی کسی کو نہیں معلوم۔۔۔ مگر یہ سچ ہے کہ یہ اختیارات ان کے پاس تھے۔ ان کے چہروں کی کرختگی سے، ان کی جارحانہ گفتگو سے، ان کی متکبرانہ حرکات و سکنات سے معلوم ہو جاتا تھا کہ ان کے پاس یہ اختیارات ہیں۔ انہیں اختیارات کی بدولت انہوں نے اسے حراست میں لیا تھا۔ وہ کسی بھی وقت، کسی بھی حال میں، کسی بھی جگہ، کسی کو بھی حراست میں لے سکتے تھے۔ جواز۔۔۔؟ جواز تو وہ پیدا کر سکتے تھے۔ جواز پیدا کرنا ان کے لیے مشکل کام نہیں تھا۔ بلکہ جواز پیدا کرنا ایک طرح سے ان کی پیشہ ورانہ مہارت کی کسوٹی سمجھا جاتا تھا۔ ان سلسلہ وار بم دھماکوں کے بعد ایک جگہ انہیں اس کا شناختی کارڈ ملا تھا۔ اس سے بڑا جواز انہیں اور کیا چاہیے۔

یک بیک اسے اپنا گھر یاد آیا، گھر کے افراد یاد آئے، بوڑھی ماں کا جھریوں بھرا شفیق چہرہ، بیوی کی پیار بھری مسکراہٹ، اس پر جان چھڑکنے والی جوان بہن، ہمیشہ فرسٹ آنے والا اس کا ہونہار بیٹا۔۔۔ عزیز رشتے دار، دوست و احباب، سب لوگ بے حد پریشان ہو گئے ہوں گے۔ شام تک انتظار کرنے کے بعد بابو نے آفس بند کر دیا ہو گا اور آفس کی چابی گھر پر لے جا کر دیتے ہوئے بتا دیا ہو گا کہ پولس اسے ساتھ لے گئی ہے۔ بیوی نے فوراً موبائل پر فون کیا ہو گا اور جواب نہ ملنے پر کس قدر پریشان ہوئی ہو گی۔ جب ماں کو معلوم ہوا ہو گا کہ پولس اسے لے گئی ہے تب اس کی حالت دگرگوں ہو گئی ہو گی۔ بہن کے آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے ہوں گے۔ شام کو بیٹا اسکول سے لوٹا ہو گا تو سب کو پریشان دیکھ کر بہت گھبرایا ہو گا۔ بیوی نے یقیناً اپنے بڑے بھائی کو فون پر بتایا ہو گا۔ بیچارے دمے کے مریض دوڑے دوڑے آئے ہوں گے۔ بہن کو تسلّی دی ہو گی۔ ماں کی ڈھارس بندھائی ہو گی۔ کسی کو ساتھ لے کر انکوائری کے لیے پاس کی پولس چوکی بھی گئی ہوں گے مگر جب وہاں کہا گیا ہو گا کہ ایسی کسی گرفتاری کا انہیں کوئی علم نہیں تب انہیں کس قدر مایوسی ہوئی ہو گی۔ واقعتاً اب یہ سوال اسے بھی بری طرح ستانے لگا تھا کہ انکوائری کے لیے اسے اپنے ہی علاقے کی پولس چوکی کی بجائے اس دور افتادہ، ویران پولس اسٹیشن کیوں لایا گیا ہے؟ آخر کیا ارادہ ہے اِن کا؟ کیا کرنا چاہتے ہیں یہ لوگ اس کے ساتھ؟ اس خیال سے بے شمار کن کھجورے اس کے دماغ میں رینگنے لگے اور اس کی پیشانی پسینے سے تر ہو گئی۔

اس نے ہتھیلی سے ماتھے کا پسینہ پونچھا اور کمرے میں چاروں طرف نگاہ ڈالی۔ کمرہ زرد مٹیالی روشنی سے بھرا ہوا تھا اور چاروں طرف ایک ہیبت ناک خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ دیواروں کا پلاسٹر ادھڑا ہوا تھا اور ادھڑے ہوئے پلاسٹر کی جگہ عجیب عجیب شبیہیں نظر آ رہی تھیں۔ کہیں دو پہلوان نما شخص کسی مظلوم کو آرے سے چیر رہے تھے، کہیں کسی بُل ڈوزر کے نیچے بے شمار انسان اس طرح دبے کچلے نظر آ رہے تھے کہ ان کی آنکھیں پھٹ گئی تھیں اور زبانیں باہر نکل آئی تھیں۔ کہیں دو گِدھ انسان کی لاش پر ٹھونگیں مار رہے تھے، کوئی نیزہ بردار نیزے کی انی پر کسی مقتول کا سر اٹھائے دیوانہ وار رقص کر رہا تھا، کہیں ہڈیوں کا کوئی ڈھانچہ کاندھے پر صلیب اٹھائے گھسٹ گھسٹ کر چل رہا تھا۔ اس نے چھت کی طرف دیکھا جہاں وہی گدلا سا بلب لٹک رہا تھا۔ اسے لگا بلب سے پھوٹتی یہ زرد روشنی ہی ہے جو کمرے کی ویرانی کو مزید وحشت خیز بنا رہی ہے۔ اس نے دونوں پیر سکوڑ کر کرسی پر رکھ لیے اور گھٹنوں میں منہ ڈال کر آنکھیں بند کر لیں۔ اس نے سوچا اسے اس طرح اپنا حوصلہ نہیں ہارنا چاہیے۔ یہ صرف لاک اپ ہے۔ وہ اسے لاک اپ میں زیادہ دیر تک نہیں رکھ سکتے۔ اسے اپنا وکیل دوست انعام دار یاد آیا۔ وہ انعامدار کو اسی وقت فون کر کے بلائے گا۔ اس نے موبائل کے لیے جیب میں ہاتھ ڈالا۔ تبھی اسے دھچکا لگا۔ اس کا موبائل تو انہیں لوگوں کے پاس ہے۔ اس نے مایوسی سے گردن ہلائی۔ تو کیا اب نجات کی کوئی صورت نہیں۔ اسے لگ رہا تھا وہ ایک ایسی سرنگ میں داخل ہو گیا ہے جس کا دہانہ بتدریج تنگ ہوتا جا رہا ہے۔ یکایک اس اندھی سرنگ میں ایک جگنو ساچمکا۔ اسے پرمود سوناونے یاد آیا، جس کی اس نے جان بچائی تھی۔

جب وہ زخمیوں کو اٹھانے میں لوگوں کی مدد کر رہا تھا وہاں اسے پرمود بھی زخمی حالت میں دکھائی دیا تھا۔ وہ سر سے پاؤں تک خون میں لت پت تھا۔ اس کے کپڑے جھلس کر چیتھڑوں کی شکل میں اس کے بدن پر جھول رہے تھے۔ وہ لپک کر اس کے قریب گیا اور اسے سہارا دے کر اٹھانے کی کوشش کی مگر وہ اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہو سکتا تھا۔ اس نے بعد میں دیکھا کہ اس کی ایک ٹانگ ٹوٹ کر لٹک گئی تھی۔ دو آدمیوں کی مدد سے اس نے اسے اٹھا کر آٹو رکشا میں ڈالا اور تُرنت ہسپتال کی طرف بھاگا۔ اب وہ مہاتما گاندھی ہسپتال میں ایڈمٹ ہے۔ وہ کوکن کا رہنے والا تھا مگر اس نے اپنے والدین کی مرضی کے خلاف ایک ساؤتھ انڈین لڑکی سے شادی کر لی تھی اسی لیے وہ یہاں شانتی نگر میں ایک فلیٹ لے کر رہ رہا تھا۔ یہ فلیٹ اسی نے اسے دلایا تھا۔ اس نے اس کا لون بھی پاس کرا دیا تھا۔ پرمود اس کا بڑا احسان مند تھا۔ مکان لینے کے بعد بھی وہ اکثر اس سے ملنے اس کے آفس آ جاتا تھا۔ ابھی پچھلی بقر عید پر ہی تو وہ اس کے یہاں بریانی کھانے آیا تھا اور آنے والی دیوالی پر اسے اپنے گھر آنے کی دعوت دے گیا تھا۔ پرمود اس کی بے گناہی کی گواہی دے سکتا ہے۔ اسے کسی بھی صورت میں پرمود سے رابطہ قائم کرنا ہو گا۔۔۔ مگر کس طرح؟ اس کا موبائل چھِن چکا ہے اور یہ لوگ اس کی کوئی بات سننے کو تیار نہیں۔

وہ کرسی سے اٹھ کر کمرے میں ٹہلنے لگا۔ اس کا اضطراب بڑھتا جا رہا تھا۔ وہ کبھی اپنے دونوں ہاتھ بغل میں دبا لیتا، کبھی پیچھے باندھ لیتا یا پھر اپنی انگلیوں کو چٹخانے کی کوشش کرتا جنہیں اس دوران وہ کئی بار چٹخا چکا تھا۔ جب ٹہلتے ٹہلتے تھک کر کرسی پر بیٹھا گہری گہری سانسیں لے رہا تھا کہ اسے کمرے کے باہر کچھ آہٹ سنائی دی۔ اس کے کان کھڑے ہو گئے اور وہ متوحش نظروں سے دروازے کی طرف دیکھنے لگا۔ تبھی اچانک دروازہ کھلا۔ دروازے میں اسے ایک کالا بھجنگ شخص دکھائی دیا۔ وہ اس قدر سیاہ فام تھا کہ اس کا چہرہ اندھیرے کا ایک حصہ معلوم ہو رہا تھا۔ البتہ اس کے بڑے بڑے سفید دانت اس کے ہونٹوں سے باہر جھانک رہے تھے اور ان دانتوں کی چمک ہی اس کے چہرے کے خدوخال کو نمایاں کر رہی تھی۔ وہ کہہ رہا تھا۔ ’’چلو!صاحب نے بلایا ہے۔‘‘

وہ لپک کر باہر آ گیا جیسے اسے خدشہ ہو کہ ذرا بھی دیری ہوئی تو دروازہ دوبارہ بند ہو جائے گا۔

باہر نکلتے ہی ہوا کے ایک لطیف جھونکے نے اس کا استقبال کیا اور اسے قدرے راحت کا احساس ہوا۔ باہر اس تنگ راہداری میں بھی ایک زرد بلب روشن تھا جس کی روشنی اتنی کم تھی کہ بمشکل زینہ دکھائی دے رہا تھا۔ وہ اس سیاہ فام کے ساتھ ٹٹول ٹٹول کر زینہ اترنے لگا۔ سیاہ فام آگے تھا اور اسے بار بار تیز چلنے کی تاکید کر رہا تھا۔ وہ گرتا پڑتا سیاہ فام کے پیچھے چلتا رہا۔ تھوڑی دیر بعد دونوں عمارت سے باہر آ گئے۔ سامنے تاروں کی چھاؤں میں اسے ایک کار کھڑی ہوئی دکھائی دی۔ شاید صبح والی کوالیس تھی۔ وہ چوں ہی کار کے قریب پہنچے دروازہ کھلا اور ساتھ ہی سیاہ فام شخص نے پیچھے سے اس کی بانہہ پکڑ کر اسے کار میں تقریباً دھکیل دیا۔ کار میں اندھیرا تھا۔ وہ گرتے گرتے بچا۔ ساتھ ہی شراب کا ایک تیز بھپکا اس کے نتھنوں سے ٹکرایا۔ اندر کچھ پرچھائیاں سی نظر آ رہی تھیں۔ وہ اندازاً ایک کونے میں سنبھل کر بیٹھ گیا۔ اتنے میں کسی نے اس سے پوچھا۔ ’’کیسے ہو؟‘‘ اس نے فوراً پہچان لیا، یہ سانپ آنکھوں والے کی آواز تھی۔ اس نے مری مری آواز میں کہا۔ ’’ٹھیک ہوں سر!‘‘

جوں ہی کار اسٹارٹ ہوئی، اس نے جلدی سے کہا۔

’’سر! مجھے ہائی وے پر اتار دیجئے، میں وہاں سے رکشا یا ٹیکسی لے لوں گا۔‘‘

کوئی کچھ نہیں بولا، لمحے بھر کے توقف کے بعد اس نے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہا۔ ’’تھوڑا پانی مل جاتا تو۔۔۔‘‘

’’یا لا پانی پازا‘‘(اِسے پانی پلاؤ) سانپ آنکھوں والے نے مراٹھی زبان میں کسی کو حکم دیا۔ اس کے بغل میں بیٹھے شخص نے پانی کی ایک بوتل اس کی طرف بڑھا دی۔ اس نے بوتل دینے والے کو غور سے دیکھا۔ اندھیرے میں بھی اس کی بڑی بڑی مونچھوں کی جھلک صاف دکھائی دے رہی تھی۔ اس کے پاس ہی ایک پرچھائیں اور نظر آئی۔ وہ یقیناً وہی ہو گا جس کے گال پر زخم کا گہرا نشان تھا۔ بوتل ہاتھ میں لینے کے بعد وہ چند لمحوں تک سوچتا رہا کہ اسے پانی پینا چاہیے یا نہیں۔ مگر پیاس اتنی شدید تھی کہ اس نے بالآخر بوتل کو منہ سے لگا لیا۔ اگرچہ پانی ٹھنڈا نہیں تھا مگر چند گھونٹ حلق سے اترتے ہی اسے قدرے طمانیت کا احساس ہوا۔ اس کا خوف دھیرے دھیرے زائل ہو رہا تھا۔ جیسے غبار چھٹ رہا ہو۔ اس نے سانپ آنکھوں والے سے پوچھا۔ ’’اس وقت ٹائم کیا ہوا ہے سر؟‘‘

’’اس وقت تمہارا ٹائم بہت خراب چل رہا ہے محمد علی!‘‘سانپ آنکھوں والے نے استہزائیہ انداز میں جواب دیا۔ اس پر سب ہنسنے لگے۔ اسے سانپ آنکھوں والے کے جواب سے زیادہ ان سب کی ہنسی بُری لگی۔ مگر وہ چپ رہنے کے سوا کر بھی کیا سکتا تھا۔

’’محمد علی! تمہاری فیملی میں کون کون ہے؟‘‘ سانپ آنکھوں والا پوچھ رہا تھا۔

اس سوال پر وہ سنبھل کر بیٹھ گیا۔ وہ اس کی فیملی کے بارے میں کیوں پوچھ رہا ہے؟اگر پوچھ رہا ہے تو اسے جواب دینا چاہیے یا نہیں؟جواب دینا ہی ہو تو کیا جواب دے؟ اسے خاموش دیکھ کر سانپ آنکھوں والا بولا۔

’’اچھا، جانے دو۔۔۔ یہ بتاؤ اگر تمہیں کچھ ہو جائے تو تمہاری فیملی کی ذمہ داری کس کے سر ہو گی؟

اس کی ریڑھ کی ہڈی میں ایک سرد لہر سی دوڑ گئی۔ ’’آپ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں؟‘‘

اس نے کپکپاتی آواز میں کہا۔

جواب دینے کے بجائے اس سے پھر پوچھا گیا۔ ’’تمہارا کوئی بیٹا ویٹا ہے؟‘‘

اس کی رگوں میں خون منجمد ہونے لگا۔ ساتھ ہی آنکھوں میں بیٹے کی صورت گھوم گئی۔ ’’آپ یہ سب کیوں پوچھ رہے ہیں؟‘‘ اس نے پھر وہی سوال دوہرایا۔

’’جو پوچھا جائے اس کا جواب دو۔‘‘ سخت لہجے میں کہا گیا۔

’’ہے۔۔۔‘‘

’’اس سال ایس ایس سی میں ہے۔‘‘

’’بھائی، باپ۔۔۔‘‘

’’نہیں۔۔۔‘‘

’’اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنی فیملی میں کمانے والے تم اکیلے ہو؟‘‘

اس کے دماغ میں آندھیاں سی چلنے لگیں۔ مگر اس نے اپنے بکھرتے حواس کو ایک بار پھر مجتمع کرتے ہوئے کہا۔

’’دیکھئے، مجھے آپ کی باتوں سے ڈر لگ رہا ہے۔ آخر آپ میری بات کا یقین کیوں نہیں کرتے؟ میں ایک سیدھا شریف آدمی ہوں۔ آپ میرے محلّے میں کسی سے بھی میرے بارے میں پوچھ سکتے ہیں۔ پڑوسیوں پر بھروسا نہ ہو تو پرمود سے پوچھئے۔ میں نے اس کی جان بچائی تھی۔ وہ مجھے اچھی طرح جانتا ہے۔ ذرا سوچئے! اگر بم بلاسٹ میں میرا ہاتھ ہوتا تو میں وہاں سے فرار ہونے کی بجائے پرمود کی جان کیوں بچاتا؟ اسے ہسپتال لے کر کیوں جاتا؟‘‘ بولتے بولتے وہ ایک دم چپ ہو گیا۔ اسے لگا وہ کچھ زیادہ جذباتی ہو گیا ہے۔ کار میں کچھ دیر سنّاٹا چھایا رہا۔ پھر سانپ آنکھوں والے کی ٹھہری ہوئی آواز آئی۔

’’مسٹر علی! ہو سکتا ہے تم سچ بول رہے ہو۔ مگر۔۔۔‘‘

’’مگر کیا؟‘‘ اس نے اتاولے پن سے پوچھا۔

’’ہم گاندھی ہسپتال گئے تھے پرمود کا بیان لینے۔ مگر پرمود بیان دینے کے قابل نہیں ہے۔ وہ کوما میں ہے۔‘‘

’’کوما میں۔۔۔‘‘ اس کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکل گئی۔ اس نے دانت پر دانت جما کر امڈتے طوفان کو روکا اور تقریباً ڈوبتی آواز میں بولا۔ ’’پھر۔۔۔؟‘‘

’’پھر کیا۔۔۔ ہمیں اس کے ہوش میں آنے کا انتظار کرنا ہو گا۔‘‘

’’ہوش میں آنے کا انتظار کرنا ہو گا۔‘‘اس نے دوہرایا پھر بولا۔۔۔ ’’کب تک؟‘‘

’’ڈاکٹر کہتا ہے کوما پیشنٹ کا کچھ ٹھیک نہیں۔ ہو سکتا ہے دو تین دن میں ہوش آ جائے۔ دو تین مہینے بھی لگ سکتے ہیں یا دو تین برس بھی یا پھر اسی حالت میں اس کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔‘‘

سانپ آنکھوں والا بول رہا تھا مگر اسے اس کی آواز بہت دور سے آتی محسوس ہو رہی تھی۔ اسے لگا وہ گہرے پانیوں میں ڈوبتا جا رہا ہے۔ اب وہ آخری کنگورا بھی اس کی نگاہوں سے اوجھل ہو چکا تھا جس پر نظریں جمائے وہ ہاتھ پاؤں مار رہا تھا۔ اس کا دم گھٹنے لگا۔ آنکھوں کے سامنے تِرمِرے سے اڑنے لگے۔ اس نے پوچھنا چاہا۔۔۔

’’ہم لوگ کہاں جا رہے ہیں۔‘‘

مگر ایک اندیش ناک خیال نے اس کے گلے میں پھندا ڈال دیا اور الفاظ ہونٹوں تک آنے سے پہلے ہی حلق میں پھنس کر رہ گئے۔

٭٭٭







استفراغ





آخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ میں جوں ہی جلسہ گاہ سے باہر نکلا کسی نے مجھے پیچھے سے آواز دی، میں مڑا۔ صفدر لمبے لمبے ڈگ بھرتا میری طرف آ رہا تھا۔

’’بھئی، سب سے پہلے تو اس انعام کے لیے تمہیں مبارکباد۔‘‘

اس نے تپاک سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا، میں نے مسکراتے ہوئے اس کا شکریہ ادا کیا۔

’’اور ہاں۔۔۔ تم جب بھی دلّی آتے ہو، آ کر چپ چاپ نکل جاتے ہو مگر اس بار میں تمہیں یوں جانے نہیں دوں گا۔ ہم آج تمہارے انعام کو سیلی بریٹ کریں گے۔‘‘

’’بالکل۔‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے خوش دلی سے کہا۔

’’تو پھر چلو۔ خواہ مخواہ دیر کرنے سے کیا فائدہ۔‘‘

’’کہاں؟‘‘

’’میرے گھر، اور کہاں؟‘‘

’’ارے نہیں، آپ کے گھر پھر کبھی آ جاؤں گا۔‘‘

’’آج بہانہ نہیں چلے گا۔ چلو، بیٹھو۔‘‘

اس نے بائک کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔

’’نہیں۔ صفدر بھائی، آج نہیں۔ کل چلیں گے۔ میں وعدہ کرتا ہوں۔‘‘

’’اے ذوقؔ تکلف میں ہے تکلیف سراسر۔‘‘

اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر بائک کی طرف کھینچتے ہوئے کہا۔

میں نے زیادہ حیل و حجت کرنا فضول سمجھا اور چپ چاپ بائک پر اس کے پیچھے بیٹھ گیا۔

ممبئی سے چلتے وقت دو ایک دوستوں نے تاکید کی تھی کہ دلی میں سب سے ملیو مگر صفدر سے بچ کر رہیو۔ اگر اتفاق سے مل بھی گیا تو کنی کاٹ جانا۔ خبردار اس کے ساتھ اس کے گھر تو ہرگز نہ جانا، ورنہ نتائج کے ذمہ دار تم خود ہو گے۔

میں نے پوچھا بھی تھا۔ ’’کس قسم کے نتائج؟‘‘

مگر کسی نے کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا تھا اور اب۔۔۔ اتفاق سے صفدر مل بھی گیا تھا اور اپنے گھر بھی لے جا رہا تھا۔ مجھے قدرے بے چینی محسوس ہوئی مگر فرار کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی تھی۔

صفدر کی موٹر بائک تیزی سے اس کے گھر کی طرف جا رہی تھی۔ صفدر زور زور سے کچھ بول بھی رہا تھا مگر موٹر بائک کی پھٹ پھٹ اور ٹریفک کے شور میں کچھ بھی صاف سنائی نہیں دے رہا تھا۔ میں بس ’ہوں ہاں‘ کیے جا رہا تھا۔ وہ بولتے بولتے زور زور سے ہنسنے بھی لگتا تھا۔ میں بھی بغیر کچھ سمجھے سنے خواہ مخواہ اس کے ساتھ ہنسنے لگتا۔ میری ہنسی سے اسے اور ترغیب ملتی اور وہ مزید جوش و خروش سے بولنے لگتا۔ میں نے گھڑی دیکھی۔ شام کے سات بج رہے تھے۔ سردی بڑھ چکی تھی۔ میں نے کوٹ تو پہن رکھا تھا مگر کان یخ ہوئے جا رہے تھے۔ سڑک کے دونوں طرف دکانوں کی نیون سائن کی روشنیوں سے پورا علاقہ جگر مگر کر رہا تھا۔ موٹر سائکل ٹریفک کے بہاؤ میں تیرتی چلی جا رہی تھی۔ ایک سگنل پر جب موٹر سائکل رکی تو میں نے موقعہ غنیمت جان کر ایک بار پھر اس سے کہا۔

’’صفدر بھائی! نو بجے ایک صاحب سے ملنے کا وعدہ ہے، وہ ہوٹل پر آنے والے ہیں۔ میں نے ان کے لیے کوئی میسیج بھی نہیں چھوڑا ہے۔ وہ بلاوجہ پریشان ہوں گے۔ آج مجھے جانے دیجئے۔ کل کی شام آپ جہاں کہیں گے میں چلوں گا۔ میں ابھی دو تین روز ہوں یہاں۔‘‘

’’یار تم خواہ مخواہ پریشان ہو جاتے ہو۔ ارے گھر پہنچ کر ہوٹل میں فون کر لینا، کاؤنٹر پر میرے گھر کا فون نمبر اور ایڈریس دے دینا۔ جب وہ صاحب آئیں گے تو فون پر بات کر لینا۔ اگر وہ آنا چاہیں تو انہیں بھی میرے گھر پر بلا سکتے ہو۔‘‘

نجات کی ایک موہوم سی امید بندھی تھی وہ بھی ختم ہو گئی۔ گرین سگنل روشن ہو گیا اور رکی ہوئی گاڑیاں ہارن دیتیں، چیختی چنگھاڑتیں دوبارہ روانہ ہو گئیں۔ صفدر کی موٹر سائکل بھی ایک جھٹکے سے آگے بڑھی۔ اب چھٹکارے کی کوئی امید نہیں تھی، بہاؤ کی مخالف سمت میں تیرنے کی کوشش فضول تھی۔ بالآخر میں نے تھک کر اپنے آپ کو موجوں کے حوالے کر دیا۔ اس سے ایک فائدہ یہ ہوا کہ یکلخت ذہنی تناؤ کم ہو گیا اور میں اپنے آپ کو ہلکا پھلکا محسوس کرنے لگا۔ اب صفدر کا چیخ چیخ کر کچھ کہنا اور بات بات پر قہقہے لگانا اتنا گراں نہیں گزر رہا تھا۔ میں نے سوچا لوگ آخر اس سے اسقدر بدکتے کیوں ہیں؟ اس میں بظاہر تو کوئی برائی نظر نہیں آتی۔ بس زیادہ بولتا ہے اور بات بے بات ہنستا ہے۔ خیر یہ تو کوئی ایسی بات نہیں جس کے سبب کسی سے بدگمان ہوا جائے۔ ممبئی میں وہ شمس الاسلام کیا کم بولتا ہے۔ دنیا کا ایسا کون سا موضوع ہے جس پر وہ اظہارِ رائے نہیں کر سکتا۔ اس پر طرہ یہ کہ اونچا بھی سنتا ہے۔ دورانِ گفتگو اگر آپ کچھ بولنا چاہیں تو وہ اپنے دونوں کانوں کے پیچھے ہتھیلیاں رکھ کر آپ کی طرف اسقدر جھک آئے گا کہ اس کے سانسوں کی بدبو آپ اپنے چہرے پر محسوس کر سکتے ہیں۔ پھر دوچار جملوں کے بعد ہی آپ کا کوئی ادھورا فقرہ یا کوئی لفظ اچک لے گا اور آپ کی بات کاٹ کر دوبارہ بولنا شروع کر دے گا۔ اس کے بہرے پن اور علّامیت کے پیشِ نظر دوستوں میں املا کے تھوڑے تصرف کے ساتھ وہ ’بہر العلوم‘ کے لقب سے مشہور ہو گیا ہے۔ آخر اسے بھی تو سب برداشت کرتے ہی ہیں۔ پھر صفدر میں ایسی کیا غیر معمولی برائی ہے کہ ہر کوئی اس سے گریزاں دکھائی دیتا ہے۔ اونہہ، ہو گی کوئی بات۔ اب سابقہ پڑ ہی گیا تو دیکھا جائے گا۔

موٹر سائکل ایک پتلی سڑک پر مڑ رہی تھی۔ ٹریفک کا شور پیچھے چھوٹ گیا تھا۔ صفدر کہہ رہا تھا۔

’’میرا خیال ہے تم پہلی بار آ رہے ہو میرے گھر۔‘‘

’’غالباً۔‘‘ میں نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا۔

’’ہم شاید آدرش نگر کالونی کے آس پاس ہی کہیں ہیں؟‘‘

’’بالکل۔ ہم آدرش نگر میں داخل ہو چکے ہیں۔ بس اس کے اختتام پر ہماری کالونی بھارت نگر ہے۔ کیا اس طرف آئے ہو تم کبھی؟‘‘

’’ہاں، دو تین بار آدرش نگر آیا ہوں میں۔ یہاں ایک دوست رہتا ہے۔ عادل عثمانی۔‘‘

’’وہ بلڈر؟‘‘

’’ہاں۔‘‘

’’تم سالے ایک ادیب، تمہاری دوستی بلڈروں سے کیسے؟‘‘

اس نے ایک استہزائیہ ہنسی کے ساتھ ریمارک دیا۔

مجھے اس کا یہ ریمارک ناگوار گزرا۔ ہم میں ایسی بے تکلفی نہیں تھی کہ وہ مجھے سالے کہہ کر مخاطب کرتا۔ تاہم میں ضبط کر گیا۔ پھر برا سا منہ بنا کر بولا۔

’’میں انسان کو اس کے پیشے سے نہیں رویّے سے پہچانتا ہوں۔‘‘

’’واہ، کیا کلاسیک جملہ ہے، خوب۔ اگرچہ تم نے مجھے منہ توڑ جواب دینے کی کوشش کی ہے مگر میں تمہاری بات سے اتفاق کرتا ہوں۔‘‘

میں کچھ نہیں بولا۔ موٹر سائکل ایک چھوٹے سے گیٹ کے سامنے آ کر رک گئی۔

’’چلو اترو۔ یہی ہے فقیر کی کٹیا۔‘‘

میں بائک سے اتر گیا۔ سامنے دور تک دو رویہ قطاروں میں رو ہاؤسیس کا ایک سلسلہ سا چلا گیا تھا۔ ہم رو ہاؤس کا چھوٹا سا گیٹ کھول کر اندر داخل ہوئے۔ سامنے مکان کی پیشانی پر اردو میں لکھا تھا ’کٹیا محل‘۔ ساتھ ہی اس کے نیچے انگریزی میں بھی درج تھا۔ Kutiya Mahal۔

مجھے شرارت سوجھی۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔

’’آپ نے مکان کا نام تو بڑا اچھا رکھا ہے۔ ’کٹیا محل‘ واہ۔‘‘

’’یار میں تو لٹھ فقیر آدمی ہوں۔ فقیر کا ٹھکانہ کٹیا ہی تو ہو سکتا ہے۔‘‘

’’وہ تو ٹھیک ہے۔ اردو میں تو لوگ اسے ’کٹیا محل‘ پڑھیں گے مگر انگریزی میں اسے کوئی ’کتیا محل‘ بھی پڑھ سکتا ہے۔ یعنی کتیا کا محل۔‘‘

وہ چلتے چلتے رک گیا۔ گردن اٹھا کر گھر کا نام زیرِ لب دہرایا۔ پھر زور دار قہقہہ لگا کر بولا۔

’’یار تم سچ کہہ رہے ہو۔ میں نے اس طرف کبھی دھیان ہی نہیں دیا۔‘‘

پھر ایک لمحہ رک کر بولا۔

’’خیر۔ اب یہاں کوئی انگریز تو آنے سے رہا جو کٹیا کو کتیا پڑھ سکتا ہے، البتہ اگر کوئی ہندوستانی کٹیا کو کتیا پڑھتا ہے تو سمجھ جانا چاہیے کہ اس کے ذہن میں کوئی کتّا پن موجو ہے۔‘‘

ساتھ ہی اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر گھر کی طرف کھینچتے ہوئے قہقہہ لگایا۔ ’’چلو‘‘

میں اندر ہی اندر تلملا کر رہ گیا۔ کمبخت نے میرا وار مجھی پر الٹ دیا تھا۔ مگر کیا کیا جا سکتا تھا۔ غلطی میری ہی تھی۔ مذاق مذاق میں میں نے کیچڑ میں پتھر مار دیا تھا۔

گھر میں داخل ہوتے ہی اس نے بلند آواز سے پکارا۔

’’کوثر۔ دیکھو کون آیا ہے؟‘‘

پھر میری جانب مڑ کر صوفے کی طرف اشارہ کرتا ہوا بولا۔

’’بیٹھو نا یار، کھڑے کیوں ہو؟‘‘

میں صوفے پر بیٹھ گیا۔ کمرہ خاصا کشادہ تھا۔ صوفے کے آگے بیضوی شکل کی بڑی سی تپائی رکھی تھی، جس کی سطح شفاف شیشے کی بنی تھی۔ تپائی پر ایک خوبصورت سا گلدان تھا جس میں پلاسٹک کے پھول سجے ہوئے تھے۔ کمرے کی تینوں دیواروں کے اوپری حصے میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک بک شیلف بنے ہوئے تھے جن میں کتابیں سلیقے سے لگی ہوئی تھیں۔ چھت کے درمیان ایک جھومر لٹک رہا تھا جس میں یقیناً برقی قمقمے لگے ہوں گے مگر اس وقت قمقمے روشن نہیں تھے۔ جھومر کے دونوں طرف پنکھے لگے ہوئے تھے، دونوں پنکھے بند تھے۔

’’ریلکس ہو کر بیٹھو یار۔ تم صوفے پر بھی یوں بیٹھے ہو جیسے موقعہ ملتے ہیں بھاگ کھڑے ہو گے۔‘‘

’’میں ٹھیک ہوں۔‘‘ میں نے قدرے پاؤں پھیلاتے ہوئے کہا۔

اتنے میں اندر کے کمرے کی چق ہٹی اور ایک خاتون باہر نکلیں۔ شاید وہ ابھی ابھی نماز سے فارغ ہوئی تھیں۔ انھوں نے پیازی رنگ کی ردا سے اپنا سر اور کان لپیٹ رکھے تھے۔ صرف ان کا چہرہ کھلا تھا۔ ان کا رنگ یقیناً گورا تھا مگر گورے رنگ کے نیچے ہلکی ہلکی زردی بھی جھلک رہی تھی۔ آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے سے نظر آ رہے تھے جس سے چہرہ اور بھی ملول لگ رہا تھا۔ آنکھوں سے ایک بے نام سی اداسی جھانکتی دکھائی دے رہی تھی۔ مگر ہونٹوں پر ایک پھیکی سی مسکراہٹ موجود تھی۔

’’کوثر۔ میری شریکِ حیات۔ شریکِ حیات کم، شریکِ غم زیادہ۔‘‘

اس نے پھر ایک بے تکا سا قہقہہ لگایا۔

’’اور کوثر، یہ اردو کے مشہور ادیب۔۔۔ جنہیں اس سال ’پریم چند‘ ایوارڈ سے نوازا گیا، ویسے یہ ہر سال کوئی نہ کوئی ایوارڈ لیتے ہی رہتے ہیں۔‘‘

ایک اور بے ہنگم قہقہہ۔ اس کے تعارفی کلمات سے طنز پھوٹا پڑ رہا تھا۔ خاتون نے پیشانی تک ہاتھ لے جا کر ’آداب‘ کہا۔ میں بھی صوفے سے اٹھ کر کھڑا ہو گا۔

’’آداب۔‘‘

یکبارگی پھر چق ہٹی، اب کے تین لڑکیاں باہر نکلیں۔ تینوں کی عمریں بالترتیب بارہ سے لے کر سات آٹھ برس کے درمیان رہی ہوں گی۔

’’یہ ہماری بیٹیاں ہیں۔ کاکل، سنبل اور زلفی۔‘‘

میں نے دیکھا کہ تینوں لڑکیوں کی شکلیں اپنی ماں سے بہت ملتی جلتی ہیں۔ تینوں نے ایک ہی رنگ کا شلوار کرتا پہن رکھا تھا اور تینوں نے اپنے سر اور کان لپیٹ رکھے تھے ماں کی طرح۔ تینوں کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ضرور تھی مگر لگتا تھا مسکراہٹ اندر سے نہیں پھوٹ رہی ہے بلکہ کسی نے باہر سے ان کے ہونٹوں پر چسپاں کر دی ہے۔ تینوں کی آنکھوں میں بھی ماں کی طرح ایک بے نام اداسی کی جھلک موجود تھی، غرض حلیے بشرے سے تینوں کی تینوں اپنی ماں کی پرچھائیاں معلوم ہو رہی تھیں۔

’’آپ چائے لیں گے یا کافی؟‘‘ خاتون نے پوچھا۔

اس سے پہلے کہ میں کوئی جواب دیتا، صفدر نے ترنت کہا:

’’نہ چائے نہ کافی۔ آج ہم ان کے ایوارڈ کو سیلی بریٹ کرنا چاہتے ہیں۔‘‘

میں نے دیکھا کہ خاتون کے چہرے پر لمحے بھر کو سایہ سا لہرا کر گزر گیا۔ بچیوں کی آنکھوں میں بھی ایک موہوم سا اضطراب کروٹ بدل کر غائب ہو گیا۔ میں نے پہلو بدلتے ہوئے کہا۔

’’صفدر بھائی، آج کے دن صرف چائے چلے گی۔ میں پھر کبھی آ جاؤں گا۔‘‘

’’سوال ہی نہیں آتا۔ میں اتنی دور سے تمہیں اغوا کر کے صرف چائے پلانے تھوڑی نا لایا ہوں۔‘‘

پھر وہ بیگم اور بچیوں کی طرف مڑ کر بولا۔ ’’چلو اپنے اپنے کام سے لگ جاؤ، اب ادھر کوئی نہیں آئے گا۔‘‘ اس کے لہجے میں کرختگی تھی۔

اتنا سنتے ہی بچیاں ایک جھٹکے سے کھڑی ہو گئیں۔ جیسے کسی نے خود کار کھلونے کا بٹن دبا دیا ہو۔ پھر تینوں مجھے جھک کر آداب کہتی ہوئی مڑیں اور چق ہٹا کر اندر چلی گئیں۔ صفدر کی بیوی بھی ’’آپ تشریف رکھئیے‘‘ کہہ کر بچیوں کے پیچھے روانہ ہو گئیں۔

صفدر نے ایک شیلف میں کتابوں کے پیچھے ہاتھ ڈالا اور وہاں سے وہسکی کی ایک بوتل برآمد کی۔ ہنستا ہوا بوتل کو میرے سامنے تپائی پر لا کر رکھ دیا۔ ’’کتاب اور شراب دونوں کی فطرت ایک ہے۔ دونوں انسان کے باطن کو آئینہ دکھاتی ہیں۔‘‘

میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ چپ چاپ اس کی حرکات و سکنات کو دیکھتا رہا، اس نے میرا پریم چند مومنٹو، پھولوں کا گلدستہ اور شال کو تپائی سے اٹھا کر میرے قریب صوفے پر رکھ دیا۔

’’سنبھالو اپنا سروسامان۔‘‘ میں نے اس کے لہجے میں ہلکی سی حقارت کی جھلک محسوس کی۔

’’صفدر بھائی میں ہوٹل فون کرنا چاہتا ہوں۔‘‘

’’ضرور۔‘‘ اس نے کمرے کے دوسرے گوشے میں رکھے کوارڈلیس فون کا ریسیور اٹھا کر میری طرف بڑھا دیا۔

میں نے ہوٹل کے نمبر ڈائل کیے۔ ریسپشنسٹ کو اپنا روم نمبر اور نام بتا کر صفدر کا فون نمبر نوٹ کراتے ہوئے ہدایت کی کہ اگر کوئی مجھ سے ملنے آئے تو اس نمبر پر رنگ کر دینا۔ میں فون کر کے مڑا، اتنی دیر میں تپائی پر وہسکی کی بوتل کے ساتھ دو گلاس، سوڈے کی بوتل اور گزک کی پلیٹیں سجادی گئی تھیں اور صفدر شراب کی بوتل سے گلاسوں میں شراب انڈیل رہا تھا۔

’’پانی یا سوڈا؟‘‘ اس نے پوچھا۔

’’مکس‘‘ میں نے گلاسوں کو گھورتے ہوئے کہا۔

جام بھر گئے تھے۔ ہم دونوں نے ایک ساتھ جام اٹھائے اور چیئرس کہتے ہوئے انہیں ہونٹوں سے لگا لیا۔ میں نے کلائی کی گھڑی پر نظر ڈالتے ہوئے کہا۔

’’صفدر بھائی، اس وقت آٹھ بج رہے ہیں۔ میں ٹھیک نو بجے اٹھ جاؤں گا۔‘‘

’’ارے یار، پہلی سپ ابھی حلق سے اتری نہیں اور تم جانے کی باتیں کرنے لگے۔ فکر مت کرو، زیادہ دیر ہو جائے تو یہیں سو جانا۔‘‘

’’بالکل نہیں۔ میں نو بجے اٹھ جاؤں گا۔‘‘

میں نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا۔

’’ٹھیک ہے، جیسی تمہاری مرضی۔ اب آرام سے شراب پیو۔ اور ہاں مجھے بار بار صفدر بھائی، صفدر بھائی کہہ کر مخاطب مت کرو۔ آج کل اس لفظ کا مفہوم ہی بدل گیا ہے۔ لفظ ’بھائی‘ سنتے ہی کانوں میں ٹھائیں ٹھائیں کی آوازیں گونجنے لگتی ہیں۔‘‘ وہ حسبِ معمول بھونڈے طریقے سے ہنسنے لگا۔

میں نے جواب میں کچھ کہنا مناسب نہیں سمجھا۔ سینگ کا ایک دانہ منھ میں ڈال کر چپ چاپ منھ چلانے لگا۔ گردن گھما کر دیوار پر لگے الگ الگ بک شیلفوں کو غور سے دیکھنے لگا۔ شاعری، تنقید، فلسفہ، سوانح ہر شیلف پر جلی حرفوں میں الگ الگ نام کی پرچیاں چسپاں تھیں۔ ایک طرف ایک بڑی سی الماری تھی۔ جس میں صرف انگریزی کی کتابیں قرینے سے لگی تھیں۔ ’’آپ کے پاس تو بڑا اچھا ذخیرہ ہے کتابوں کا۔‘‘ میں نے تحسین آمیز لہجے میں کہا۔ وہ کچھ بولا نہیں، شراب کا ایک بڑا سا گھونٹ بھر کر بک شیلفوں پر ایک اچٹتی سے نگاہ ڈالی۔ پھر آلو چپس کا ایک قتلہ منھ میں ڈال کر آہستہ آہستہ منہ چلانے لگا۔

’’سنا ہے کہ پہلے آپ لکھتے بھی تھے؟‘‘

’’ہاں بہت پہلے، مگر چھپا بہت کم ہوں۔‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’ہماری زبان میں ایسا کوئی رسالہ ابھی نہیں نکلا جو میری تخلیقات کے معیار پر پورا اترتا ہو۔‘‘

’’کیا۔۔۔؟‘‘ میں نے قدرے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔

اس کے ماتھے کی سلوٹیں گہری ہو گئی تھیں اور ہونٹوں پر ایک زہر خند تھا۔

’’آپ سنجیدہ ہیں۔‘‘ میں نے قدرے سنبھلتے ہوئے پوچھا۔

’’میرے خیال سے میں ہوں۔‘‘

’’اس طرح تو آپ ہماری زبان کے پورے ادب کو یکسر خارج کر رہے ہیں۔‘‘

’’پورے ادب کو نہیں۔ صرف آج کے ادب کو۔‘‘

’’آپ کا کوئی تو آئیڈیل شاعر یا ادیب ہو گا۔‘‘

’’میں خود ہی اپنا آئیڈیل ہوں۔‘‘ اس نے پھر ایک بار زور دار قہقہہ لگایا۔ بجلی کی روشنی میں اس کا چہرہ تمتما رہا تھا۔

’’یار میری بات کا برا ماننے کی ضرورت نہیں۔ میں جو کچھ کہتا ہوں وہ سب مجھ سے پہلے کہا جا چکا ہے، یہ الگ بات ہے کہ تم اس سے واقف نہیں ہو، مثلاً میں نے ابھی کہا کہ میں خود ہی اپنا آئیڈیل ہوں۔ تمہیں میری بات سن کر قدرے حیرت ہوئی ہو گی۔ ہو سکتا ہے ناگوار بھی گزری ہو، مگر آج سے سینکڑوں سال پہلے یہ بات ایک مشہور صوفی کہہ چکا ہے۔ ’ ’میرے جبے کے نیچے خدا ہے۔ میں ساقی ہوں، میں ہی پیالہ ہوں۔ میں ہی میخوار ہوں۔‘‘ بتاؤ میری بات اور صوفی کی بات میں کیا فرق ہے سوائے الفاظ کے۔ ادھر ہمارے عہد کے ایک اردو شاعر نے بھی کچھ ایسا ہی مضمون اپنے شعر میں باندھا ہے۔ ’میں ہی اپنی منزل کا راہبر بھی راہی بھی۔‘‘

میں نے کچھ کہنے کے لیے ہونٹ کھولے، اس نے ہاتھ اٹھا کر مجھے روک دیا اور پھر بولنا شروع کیا۔

’’میں نے اس لیے لکھنا چھوڑ دیا کیونکہ میں جو کچھ لکھ رہا تھا وہ مجھ سے پہلے لکھا جا چکا تھا، جو لکھا جا چکا ہے اسے دوبارہ لکھنے کا کیا مطلب! ویسے بھی باسی نوالے چبانے میں مجھے کوئی دلچسپی نہیں۔ مگر یہ بات کتنے لوگ سمجھتے ہیں۔ جو لوگ نہیں سمجھتے انہیں سمجھانا فضول ہے، اور جو لوگ سمجھ کر بھی سمجھنا نہیں چاہتے انہیں دنیا کا کوئی سمجھدار آدمی سمجھا نہیں سکتا۔ کیا سمجھے؟۔۔۔ دنیا میں اکثریت نا سمجھوں کی ہے، سمجھدار تو بس آٹے میں نمک کے برابر ہوتے ہیں۔ مگر کامیابی ہمیشہ ناسمجھوں کے ہی حصے میں آتی ہے کیونکہ وہ سمجھوتہ کرنے کے گُر سے واقف ہوتے ہیں اور سمجھدار ہمیشہ خسارے میں رہتے ہیں کہ ناسمجھوں سے سمجھوتہ ان کی فطرت کے خلاف ہے، اس دنیا میں سمجھ کی بات کوئی سمجھنا نہیں چاہتا۔ اسے اس طرح سمجھنے کی کوشش کرو۔‘‘ وہ بے تکان بولے جا رہے تھا۔ تکرارِ لفظی سے میرے دماغ کی رگیں پھٹنے لگی تھیں، درمیان میں جب وہ سانس لینے کو رکتا اور میں کچھ بولنے کے لیے منھ کھولتا تو وہ فوراً ہاتھ کے اشارے سے مجھے روک دیتا اور چند سیکنڈ کے وقفے کے بعد پھر بولنا شروع کر دیتا۔ وہسکی اس پر تیزی سے اثر انداز ہو رہی تھی اور اس کی تقریر کی روانی میں لمحہ بہ لمحہ اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ میری حالت اس شخص جیسی تھی جسے کوئی بال پکڑے پانی میں متواتر غوطے دیے جا رہا ہو۔ اگرچہ بول وہ رہا تھا مگر سانس میرا پھولنے لگا تھا۔

ابتدا میں تو اس کی گفتگو میں ربط و تسلسل برقرار رہا۔ الفاظ جگنوؤں کی مانند جلتے بجھتے ہلکی ہلکی روشنی دیتے رہے مگر رفتہ رفتہ اس کی باتوں میں بے ربطگی کی کیفیت پیدا ہونے لگی۔ الفاظ اپنی خیرگی کھونے لگے۔ جملوں کے تانے بانے ٹوٹ ٹوٹ کر بکھرنے لگے۔

وہ کبھی مذہب کی دقیانوسیت پر ضربیں لگاتا تو کبھی سیاست کی دھجیاں اڑاتا، کبھی بڑے بڑے فلسفیوں کے حوالے دیتا تو کبھی معاشیات کے اعداد و شمار گنوانا شروع کر دیتا۔ میں دو پیگ پی چکا تھا۔ میری کنپٹیاں بھی قدرے گرم ہونے لگی تھیں۔ اب اس کی گفتگو میری سماعت پر بے حد گراں گزر رہی تھی۔ مجھے کچھ کچھ اندازہ ہو چلا تھا کہ دوستوں نے اس سے ملتے وقت احتیاط برتنے کی تاکید کیوں کی تھی۔ اس کا جوش و خروش لمحہ بہ لمحہ بڑھتا جا رہا تھا۔ آنکھوں کی سرخی میں اضافہ ہو گیا تھا اور باچھوں کے کناروں پر کف جمع ہونے لگا تھا۔

بولتے بولتے وہ اچانک کھڑا ہو گیا، دونوں ہاتھ فضا میں بلند کیے۔ دیدوں کو دائیں بائیں گھمایا۔ پھر گردن اٹھا کر دور تک نگاہ ڈالی جیسے سامنے ہزاروں کا مجمع موجود ہو پھر قدرے پھنسی پھنسی مگر بھاری آواز میں گویا ہوا۔

’’اوہام کے سمندر میں حقائق کے موتی تلاش کرنے والو، سنو!

تمہاری بینائی کمزور اور تمہاری سماعت ناقص ہے۔ اس لیے تم گہرے پانیوں میں اترنے سے گھبراتے ہو، جس تہذیب کی تم دہائی دے رہے ہو اس کی گردن پر تو جنگلوں کا قصاص باقی ہے۔ لفظوں کی کوکھ سے معنی کے انڈے نہ نکلیں تو سمجھ لو تمہاری ماں دردِ زہ میں مبتلا ہو گئی ہے اور تمہارا باپ لچا، شہدا کبوتروں کے انڈے چرا رہا ہے۔ وہ اکیس مردوں کے ساتھ فارغ ہونے کے بعد ببانگ دہل پکار رہی ہے۔ کون ہوتا ہے حریفِ مئے مرد افگن عشق؟ ادب بے ادبوں کا زیور ہے اور تمدن کی تہہ میں نہ جانے کتنے چھید ہیں۔ مولانا روم کی مثنوی سے بال جبریل کے اجزا الگ کر دیں تو نطشے بغلیں جھانکتا نظر آئے گا۔ کیونکہ دریدا کی ٹوپی اوڑھ کر جب بھرتری ہری غائب ہو جاتا ہے تو ساری ساختیات پس ساختیات دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔ ادھر گوئٹے نے شیطان سے دوستی گانٹھ لی اور ادھر بے چارے غالب کے پرزے اڑ گئے۔ جانتے ہو شیکسپیئر کے سارے کردار مٹی کا چولہا بنانے کے فن سے نا آشنا تھے۔ پلکوں پر خواب سجانے سے اچھا ہے آدمی گھاس چھیلتے چھیلتے زمین کی کھاد بن جائے۔ باغِ عدن میں اہرمن ٹہل رہا ہے اور یزداں واشنگٹن کے کیفے ٹیریا میں سوم رس کی چسکیاں لے رہا ہے۔ یزداں بہ کمند آور اے ہمت مردانہ۔ مارکس نے نیوٹن کا بٹن دبایا اور فرائڈ کے گلے سے ایک دلخراش چیخ نکلی۔ معاشیات واشیات سب مداری کے کھیل ہیں ورنہ آج تک یہی ثابت نہیں ہو سکا ہے کہ ایک سے ایک مل کر دو ہوتے ہیں یا گیارہ۔ دانتے پل صراط سے گرتے گرتے بال بال بچ گیا، غنیمت ہے اسے ایلیٹ نے سنبھال لیا ورنہ دونوں جہنم رسید ہو چکے ہوتے۔ میر تقی میرؔ جب انیس کے گلے میں بانہیں ڈالے روتے ہیں تو نظیر اکبر آبادی آگرہ بازار میں ریوڑیاں بیچ رہے ہوتے ہیں۔ پریم چند یہ کس کا کفن سی رہے ہیں؟ اور منٹو کس کی کالی شلوار پہنے اترا رہا ہے۔ ٹالسٹائی، دوستووسکی، چیخف، گورکی سب ایک ہی تھیلے کے چٹے بٹے ہیں۔ آخر فلابیر کو موپاساں سے پنگا لینے کی کیا ضرورت تھی۔ مجھے دیکھو میں ستاروں میں سب سے روشن ستارہ اور گھوڑوں میں سب سے سرکش گھوڑا ہوں۔ وہ سمجھتا ہے اس کے سامنے جتنے لوگ بیٹھے ہیں سب بے لباسی کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں جبکہ خود اسے نہیں معلوم کہ اس کے خصیوں کی سلسلاہٹ کو زائل ہوئے زمانہ بیت چکا۔ باسی نوالے چباتے چباتے اس کے دانت جھڑ چکے ہیں لہٰذا اب وہ سوائے گھٹیا شاعری کا لالی پاپ چوسنے کے کچھ بھی کرنے سے قاصر ہے۔‘‘

وہ دائیں بائیں گردن گھماتا، ہاتھ نچاتا ہوا جانے کیا کیا کہے جا رہا تھا۔ میں حیرت سے اس کی شکل دیکھ رہا تھا۔ پہلے تو میں سمجھا شاید مجھے نشہ ہو گیا ہے مگر میں نے صرف دو پیگ ہی پیے تھے۔ تیسرا پیگ جوں کا توں میز پر دھرا تھا۔ پھر یہ کس قسم کی گفتگو ہے؟ وہ کیا بول رہا ہے؟ اس کی باتیں میری سمجھ میں کیوں نہیں آ رہی ہیں؟ ایک لمحہ کو لگتا وہ کوئی بہت معنی خیز بات کہہ رہا ہے مگر دوسرے ہی پل محسوس ہوتا کہ وہ محض یاوہ گوئی کر رہا ہے، میرا سر چکرانے لگا میں کسی طرح وہاں سے بھاگ جانا چاہتا تھا مگر فرار کی کوئی راہ سجھائی نہیں دے رہی تھی۔

اچانک میں نے محسوس کیا کہ وہ یکلخت چپ ہو گیا ہے۔ کمرے میں مرگھٹ کا سا سناٹا چھا گیا، صرف دیوار پر لگی گھڑی کی ٹک ٹک سے مجھے اپنے ہونے کا احساس ہو رہا تھا، یک بیک اس کے حلق سے ایک بے ہنگم سی خرخراہٹ نکلی۔ آنکھیں حلقوں سے ابل پڑیں۔ باچھیں چر کر کلوں سے جا لگیں۔ وہ دونوں ہاتھوں سے اپنا سینہ پکڑ کر جھکنے لگا۔ جھکتا گیا اور بھر ’بق۔ بق‘ کی مکروہ آواز کے ساتھ اس نے ایک بڑی سی قے کر دی۔ میں اچھل کر پیچھے ہٹ گیا۔ میز پر رکھے شراب کے گلاس الٹ گئے اور گزک کی پلیٹوں میں زرد اور سبزی مائل رنگ کا گاڑھا لعاب تیرنے لگا۔ مجھے متلی سی ہونے لگی۔ میں نے منھ پھیر لیا مگر ایک کھٹّی قسم کی بو میرے نتھنوں میں گھستی چلی گئی۔ وہ حلق سے ’بق بق‘ کی آوازیں نکالتا برابر قے کئے جا رہا تھا۔ اتنے میں اندرونی کمرے کی چق ہٹی۔ اس کی بیوی باہر نکلی۔ اس کا سر اور کان اب بھی ردا میں لپٹے ہوئے تھے۔ میں نے اسے دیکھتے ہی ہکلاتے ہوئے کہا۔

’’یہ دیکھئے۔ انھیں۔ پتا نہیں کیا ہو گیا ہے۔‘‘

اس نے کچھ نہیں کہا، اپنے شوہر کے قریب آئی۔ ایک ہاتھ اس کی پیشانی پر رکھا اور دوسرے ہاتھ سے اس کی پیٹھ سہلانے لگی۔ دھیرے دھیرے اس کی الٹیاں رک گئیں مگر اس کی ناک اور منہ سے لعاب کے لیس دار تار لٹک رہے تھے۔ بیوی نے تولیے سے اس کا منہ پونچھا۔ بوتل سے گلاس میں پانی انڈیل کر اسے دو گھونٹ پانی پلایا، وہ سنبھل گیا تھا۔ مگر اس کا چہرہ زرد پڑ گیا تھا۔ آنکھوں کی چمک بھی ماند پڑ گئی تھی اور اس کا نچلا ہونٹ اونٹ کے ہونٹ کی طرح لٹک گیا تھا۔ بیوی اسے سہارا دیتی ہوئی اندر جانے کے لیے مڑی۔ اندر جاتے جاتے میری طرف پلٹی۔ بے تعلق نظروں سے مجھے دیکھا اور پوچھا۔

’’آپ کھانا کھائیں گے؟‘‘

اس کا لہجہ ایک دم سپاٹ تھا۔ جیسے کوئی رٹا ہوا جملہ دہرایا گیا ہو۔ میں نے اس کی طرف دیکھا، اس کا چہرہ ہر قسم کے تاثر سے عاری تھا۔

میں نے نفی میں گردن ہلا دی۔

’’آپ جا سکتے ہیں۔ خدا حافظ۔‘‘

اس نے جھٹکے سے کہا اور اس کا ہاتھ پکڑے آگے بڑھ گئی۔ وہ کسی دیرینہ مریض کی طرح لڑکھڑاتے قدموں سے اس کے ساتھ چلا جا رہا تھا۔ اب میرے لیے وہاں رکنے کا کوئی مطلب بھی نہیں تھا۔ مجھے صریحاً اپنی توہین کا احساس ہو رہا تھا۔ میں نے اپنا جھولا اٹھایا اور باہر کے دروازے کی سمت مڑ گیا۔ جب میں دروازے سے باہر نکل رہا تھا تبھی پشت سے اس کی بیوی کی آواز سنائی دی۔

’’باہر گیٹ کا پھاٹک بند کر دیجئے گا۔ آوارہ کتے اندر آ جاتے ہیں۔‘‘

’سٹاک‘ مجھے لگا کسی نے پوری قوت سے میری پیٹھ پر چابک رسید کر دیا ہو۔ میں تڑپ کر پلٹا۔ اس سے پہلے کہ میں جواب میں کچھ کہتا وہ اسے لیے ہوئے اندر جا چکی تھی۔ معاً میری نظر لرزتی ہوئی چق پر پڑی۔ چق کی جھالر کے پیچھے سے چھ عدد متوحش آنکھیں مجھے گھور رہی تھیں۔

میں چپ چاپ مڑا اور لڑکھڑاتے قدموں سے گیٹ کے باہر نکل گیا۔

٭٭٭





زندگی افسانہ نہیں





جمیلہ نے اپنے فیصلے پر بہت غور کیا کہ کہیں اس سے کوئی غلطی تو سرزد نہیں ہونے جا رہی ہے۔ ایسی غلطی جس کی پھر کبھی تلافی نہ ہو سکے۔ مگر اسے محسوس ہوا کہ اس کے سامنے اب سوائے اس ایک راستے کے کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ اگر وہ آج ذرا بھی کمزور پڑی تو پھر عمر بھر یوں ہی گھٹتی اور کڑھتی رہ جائے گی۔ وہ گھٹن جو برسوں سے اس کے گرد کہرے کی طرح دبیز سے دبیز تر ہوتی جا رہی تھی اس سے نجات پانے کا اب صرف یہی ایک راستہ تھا۔ اگرچہ اس راستے میں خدشات تھے، بدنامی تھی، اپنوں کی ناراضگی تھی۔ برادری کی انگشت نمائی تھی۔ چھوٹے چھوٹے بھائی بہنوں سے بچھڑنے کا غم تھا، لیکن اس کے باوجود وہ راستہ کس قدر دل فریب تھا جیسے گرمی کی چلچلاتی دھوپ میں کوئی گھنا پیڑ نظر آ گیا ہو۔ ایک دل خوش کن تصور سے اس کا دل دھڑکنے لگا اور سارے جسم میں ایک عجیب مست کر دینے والی کپکپی سی دوڑ گئی۔ اس نے بے خود ہو کر آنکھیں بند کر لیں۔ آنکھیں بند ہوتے ہی اس کے سامنے اسلم آ کر کھڑا ہو گیا۔ مسکراتا ہوا، اپنے چمکتے سیاہ بالوں پر ہاتھ پھیرتا ہوا بانہیں پھیلائے اسے اپنی طرف بلاتا ہوا۔ اف! کتنا دلکش تصور تھا۔ یہ سوچ کر اس کی رگوں میں خون کی گردش تیز ہو گئی کہ چند گھنٹوں بعد یہ تصور حقیقت میں بدل جانے والا تھا۔ مگر دوسرے ہی لمحے ایک مہیب سایا ان کے درمیان حائل ہو گیا۔ اس نے دیکھا۔ یہ کوئی اور نہیں اس کے والد، مولوی جمال الدین تھے جو خشمگیں نگاہوں سے اسے گھور رہے تھے۔ ان کے ہاتھ میں بڑے دانوں کی تسبیح تھی، وہ جلدی جلدی تسبیح پھیرتے ہوئے زیرِ لب کچھ بد بدا بھی رہے تھے۔ ان پر نظر پڑتے ہی اسلم کی پھیلی ہوئی بانہیں گر گئیں۔ بلکہ دیکھتے ہی دیکھتے اس کا ہیولا فضا میں معدوم ہو گیا۔

اسے لگا مولوی جمال الدین اس سے کہہ رہے ہوں ’’یہ تم کیا کرنے جا رہی ہو؟ ایک دنیا تمہارے باپ سے ہدایت پاتی ہے اور تم، مولوی جمال الدین کی بیٹی ہو کر ان لوگوں کے راستے پر جا رہی ہو جو سراسر گمراہوں کا راستہ ہے اور جن پر عنقریب خدا کا غضب نازل ہونے والا ہے۔‘‘

اس نے گھبرا کر آنکھیں کھول دیں۔ نائٹ بلب کی سسکتی کراہتی روشنی کمرے میں چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی اور اس کے دائیں بائیں اس کی تینوں بہنیں اختری، اکبری اور انوری ایک دوسرے کے گلے میں بانہیں ڈالے بے خبری کی نیند سو رہی تھیں۔ اس کا چھوٹا بھائی رشید باہر ورانڈے میں سویا تھا۔ ماں گڑی مڑی بنی ایک طرف یوں پڑی تھی کہ کپڑوں کی ایک چھوٹی سی گٹھری معلوم ہو رہی تھی۔ تکیہ ہوتے ہوئے بھی اس کا دایاں ہاتھ اس کے سرہانے رکھا تھا۔ وہ اسی طرح سوتی تھی جیسے اسے کوئی لمبا سفر درپیش ہو۔ سوتی کیا تھی بس ذرا سا سستا لیتی تھی کہ دو گھڑی بعد اٹھ کر پھر سفر پر روانہ ہونا ہے۔ اس کی نوزائیدہ بہن ساجدہ ماں کے پہلو میں سوئی چسر چسر کر رہی تھی۔ پتا نہیں ماں کی سوکھی چھاتیوں میں دودھ تھا بھی یا وہ عادتاً انہیں چوسے جا رہی تھی۔ ننھا شکیل خود اس کی بغل میں سویا تھا اور نیند میں کسی بات پر مند مند مسکرارہا تھا۔ ماں کے بازو میں جو جگہ خالی تھی وہ اس کے باپ مولوی جمال الدین کی تھی۔ مگر وہ وہاں نہیں تھے۔ وہ تو تین دن پہلے اللہ کے راستے میں نکل چکے تھے۔

مولوی جمال الدین ایک خالص مذہبی شخص تھے۔ پانچ وقت کی نماز پڑھنا اور بے نمازیوں کو نماز کی ترغیب دینا ہی ان کی زندگی کا مقصد تھا۔ انہوں نے اپنے آپ کو سر تا پا دین کے لیے وقف کر دیا تھا۔ ان کی پیشانی پر سجدوں کا اتنا بڑا گٹّا تھا کہ ان کے چہرے پر سب سے پہلے اسی پر نظر پڑتی تھی اور لوگ عقیدت سے مغلوب ہو جاتے تھے۔ وہ کوئی سند یافتہ مولوی نہیں تھے مگر ایک عرصے سے محلّے کے مدرسے میں بچوں کو قرآن پڑھاتے پڑھاتے لوگ انہیں مولوی صاحب کہنے لگے تھے۔

وہ پہلے ایک فیکٹری میں مشین آپریٹر تھے۔ معقول تنخواہ تھی، رہنے کے لیے چالی میں دو کھولیوں کا مکان تھا۔ سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا کہ اچانک فیکٹری میں ہڑتال ہو گئی۔ ہڑتال نے اتنا طول پکڑا کہ آخر فیکٹری میں تالے پڑ گئے۔ تقریباً چار ساڑھے چار سو مزدور بیکار ہو گئے۔ ان میں جمال الدین بھی تھے۔ بیکاری کے ایّام میں جمال الدین نے نماز پڑھنا شروع کی۔ نماز پڑھتے پڑھتے ان میں ایک حیرت انگیز تبدیلی رونما ہوئی۔ انہوں نے داڑھی بڑھا لی۔ پینٹ شرٹ پہننا چھوڑ دیا اور کرتا پاجامہ پہننے اور ٹوپی اوڑھنے لگے۔ پانچوں وقت نماز پڑھنا اور جماعتوں کے ساتھ دعوت پر جانا ان کا معمول بن گیا۔ اسی دوران انہوں نے قرآن کی بیشتر آیتیں حفظ کر لیں۔ تبلیغی دوروں کے سبب ان کی دینی معلومات میں بھی خاصا اضافہ ہو گیا۔ انہیں دنوں محلّے کے مدرسے میں قرآن کا درس دینے والے بنگالی مولوی صاحب کا انتقال ہو گیا۔ محلہ کمیٹی نے مولوی صاحب کی جگہ جمال الدین کو درس و تدریس کے لیے رکھ لیا۔ اس طرح شیخ جمال الدین مولوی جمال الدین بن گئے۔ کمیٹی کی جانب سے انہیں تین ہزار روپئے تنخواہ ملتی تھی۔ وہ اپنی پوری تنخواہ بیوی کی ہتھیلی پر لا کر رکھ دیتے اور پھر مہینہ بھر گھر کے اخراجات کی طرف سے بے نیاز ہو جاتے۔ اگر بیوی گھر کے نا مساعد حالات کی طرف توجہ دلانا بھی چاہتی تو ان کے شانِ استغنا میں فرق نہ آتا۔ ایک طرف گھر کی مالی حالت دن بدن خستہ ہوتی جا رہی تھی اور دوسری طرف ہر دو تین سال کے بعد گھر میں ایک نئے مہمان کی آمد آمد شروع ہو جاتی۔ جب چوتھا بچہ وارد و صادر ہوا تو بیوی نے دبی زبان سے آئندہ کے لیے محتاط رہنے کو کہا۔ اور اشارتاً یہ بھی کہہ دیا کہ ’’جمیلہ بڑی ہو رہی ہے۔ اب ہمیں اس کی فکر کرنی چاہیے۔‘‘

مولوی صاحب کڑکے۔ ’ ’یہ کیا خرافات بکتی ہو؟ کیا تم لوگوں کا اللہ پر سے یقین اٹھ گیا ہے؟ کسی کی فکر کرنے والے ہم کون؟ قرآن میں صاف لکّھا ہے، ’’واللہ خیر الرازقین‘‘۔ جو پیدا کرتا ہے وہ کھلاتا بھی ہے۔ ارے جو مور و ملخ تک کو رزق بہم پہنچاتا ہو کیا اسے ہماری تمہاری فکر نہیں ہو گی۔ یاد رکھو! بچے خدا کی رحمت ہوتے ہیں اور رحمت سے منہ موڑنا کفرانِ نعمت ہے۔‘‘

مولوی صاحب دم لینے کو رکے پھر ادھر ادھر دیکھتے ہوئے قدرے دھیمی آواز میں بولے۔ ’’اور سنو! شوہر بیوی کا مجازی خدا ہے۔ مجازی خدا کی نافرمانی خدا کی نافرمانی ہے۔‘‘

ان کی موٹی موٹی دلیلوں کے بوجھ تلے بیچاری بیوی کا کمزور سا احتجاج بیمار کی سسکی کی مانند دم توڑ گیا۔ اس طرح بیوی کے احتجاج اور احتراز کے باوجود پانچواں بچہ روتا بسورتا عالمِ ظہور میں آ گیا۔

یہی وہ دن تھے جب جمیلہ کپڑا لینے لگی تھی۔ وہ ان دنوں آٹھویں جماعت میں پڑھتی تھی۔ پہلے کپڑے پر شلوار میں لگے لال لال خون کے دھبے دیکھ کر جمیلہ بہت گھبرائی تھی۔ وہ اسکول سے چھوٹ کر ہانپتی کانپتی گھر آئی اور بستہ ایک طرف پھینک کر ماں کی گود میں سر ڈالے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ اسے یوں گریہ کرتے دیکھ کر ماں بھی گھبرا گئی تھی۔ ماں کے بار بار پوچھنے پر جب اس نے ہچکیوں کے درمیان بتایا کہ اس کے پیشاب کے راستے سے خون آ رہا ہے اور وہ اب کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہی تب ماں نے اسے چھاتی سے لگاتے ہوئے کہا۔ ’’ارے توبہ! تو نے تو مجھے ڈرا ہی دیا۔ پگلی! اب تو بڑی ہو گئی ہے۔ چل اٹھ، منہ ہاتھ دھو، تھوڑا سا ٹھنڈا دودھ پی لے، سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘

رات کو جب مولوی جمال الدین کھانا کھا رہے تھے تو جمیلہ کی ماں نے موقع دیکھ کر پنکھا جھلتے ہوئے دبی زبان میں کہا۔

’’سنیے! جمیلہ بڑی ہو گئی ہے، آج ہی اس نے کپڑا لیا ہے۔‘‘

مولوی صاحب نے منہ چلاتے ہوئے انھیں گھور کر دیکھا۔ اور بولے۔ ’ ’اتنی جلدی؟‘‘

’’جلدی کہاں؟۔۔۔ اگلے مہینے وہ تیرہ پورے کر کے چودہویں میں قدم رکھے گی۔‘‘

’’ٹھیک ہے۔ اب اسے گھر میں بٹھا لو۔ جتنا پڑھنا تھا پڑھ چکی۔‘‘

انہوں نے خشک لہجے میں کہا۔

جمیلہ کی ماں نے سوچا تھا وہ اس خبر سے خوش ہوں گے۔ مگر بجائے خوشی کا اظہار کرنے کے جب انہوں نے ایسا طالبانی حکم صادر کیا تو انہیں بھی طیش آ گیا اور انہوں نے اسی دو ٹوک لہجے میں کہا۔

’’آپ کیسی بات کرتے ہیں۔ اسے پڑھنے کا کتنا تو شوق ہے۔ ہر سال کلاس میں اوّل آتی ہے۔ سب اس کی تعریف کرتے ہیں اور ایک آپ ہیں کہ اس پر علم کے دروازے بند کر دینا چاہتے ہیں۔ میں آپ کی یہ بات ہرگز نہیں مانوں گی۔ میں اسے پڑھاؤں گی جہاں تک وہ پڑھنا چاہتی ہے۔‘‘

بیوی کے بگڑے تیور دیکھ کر مولوی جمال الدین قدرے سٹپٹائے۔ ان کی تنی ہوئی بھوئیں جھک گئیں۔ مگر اپنی مردانہ ہیکڑی کو برقرار رکھتے ہوئے بولے۔

’’ٹھیک ہے، ٹھیک ہے۔ پہلے اس کے لیے برقعہ کا اہتمام کرو۔ یوں صبح شام اسے گلی محلے سے ننگے سر گزرتے دیکھ کر ہمارا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔‘‘

ماں نے جمیلہ کے لیے ایک نیا برقعہ خریدا اور جمیلہ نے برقعہ اوڑھنا شروع کر دیا۔ ابتدا میں برقعہ پہن کر چلنے میں اسے بڑی دقت ہوتی تھی۔ کئی بار الجھ کر گرتے گرتے بچی۔ دو ایک بار ماں سے شکایت بھی کی مگر ماں نے صاف کہہ دیا۔

’’نا بابا، اگر برقعہ نہیں اوڑھو گی تو تمہارے ابّو تمہاری پڑھائی بند کرا دیں گے۔‘‘

مجبوراً اسے برقعہ کو برداشت کرنا پڑا۔ اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ وہ برقعہ کی کچھ ایسی عادی ہو گئی کہ برقعہ اس کے لباس کا ایک جز بن گیا۔

جمیلہ نے میٹرک فرسٹ کلاس میں پاس کیا۔ اسکول کمیٹی نے اسے اسکالر شپ دے کر آگے پڑھانا چاہا مگر مولوی صاحب نے جمیلہ کو کالج بھیجنے سے صاف انکار کر دیا۔ کمیٹی کے کچھ ممبروں نے انہیں سمجھانا چاہا مگر بے سود۔

جمیلہ جب تک اسکول جاتی تھی اسے گھر کی زیادہ فکر نہیں تھی۔ وہ اتنا تو جانتی تھی کہ اس کی ماں گھر کا خرچ بڑی مشکل سے پورا کرتی ہے مگر اس کے لیے خود اسے کبھی فکر مند نہیں ہونا پڑا تھا کیونکہ ساری فکریں اس کی ماں جھیل لیتی تھی۔ اسے اپنی ماں کو دیکھ کر اونچی عمارتوں پر لگی برق موصل کی وہ فولادی چھڑی یاد آ جاتی تھی جو کڑکتی بجلیوں کا سارا زور اپنے اندر جذب کر کے عمارت کو تباہ ہونے سے محفوظ رکھتی ہے۔ مگر جب اسکول سے فارغ ہو کر وہ گھر میں بیٹھ گئی تو اب وہ ساری چھوٹی چھوٹی پریشانیاں ایک ایک کر کے جونکوں کی طرح اس سے چمٹنے لگیں۔ گھر کی خستہ حالت اور ماں کی روز بروز ڈھلتی صحت دیکھ کر جمیلہ کو بے حد فکر لاحق ہو گئی۔ تِس پر جب ماں چھٹی دفعہ امید سے ہوئی تو اس نے دل ہی دل میں اپنے باپ مولوی جمال الدین کو بہت کوسا۔

اِسی دوران اس نے چپکے چپکے ایک پرائیویٹ ادارے سے نرسری کا ایک سال کا مراسلاتی کورس کر لیا۔ آگے چل کر اسی کورس کے سبب اسے بڑی راحت ملی۔ محلے میں ایک نیا اسکول کھل رہا تھا۔ پڑوس کی آسو خالہ کے شوہر کمیٹی کے ممبر تھے۔ ان کی سفارش پر وہاں پرائمری سیکشن میں جمیلہ کو ٹیچر کی نوکری مل گئی۔ جمیلہ نے جب اپنی پہلی تنخواہ ساڑھے چار ہزار روپئے لا کر اپنی ماں کی ہتھیلی پر رکّھے تو ایک حیرت ناک خوشی سے اس کے ہاتھ کانپنے لگے۔ اس نے جمیلہ کو گلے لگا لیا اور بے اختیار اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ مولوی صاحب نے یہاں بھی نوکری کی مخالفت کی مگر جمیلہ کی ماں نے سمجھایا۔ ’’ساڑھے چار ہزار روپئے ہر ماہ گھر میں آیا کریں گے، کیا برا ہے؟ کچھ آپ کا ہی بوجھ ہلکا ہو گا۔ اور پھر نوکری کرنے کے لیے اسے کہاں کالے کوسوں دور جانا ہے۔ یہیں محلے کے محلے میں دس قدم پر تو اسکول ہے۔‘‘

جمیلہ کو نوکری کرتے ہوئے دو سال ہو گئے تھے۔ مولوی صاحب نے تو اب گھر آنا ہی چھوڑ دیا تھا۔ گھر کی فکر انہیں پہلے بھی نہیں تھی مگر اب وہ زیادہ آزادی اور بے فکری کے ساتھ’دعوت‘ کے کاموں میں جُٹ گئے۔ سارا سارا دن مدرسہ اور مسجد میں گزار دیتے۔ نمازیوں کو حدیثیں سناتے اور دین کی باتیں سمجھاتے۔ صرف ہفتے عشرے میں کبھی کبھی رات کو گھر آتے۔ وہ بھی وظیفۂ زوجیت ادا کرنے کے لیے۔ ورنہ اب ان کی اکثر راتیں بھی مسجد ہی کی نذر ہونے لگی تھیں۔ گھر کی ذمہ داری اب جمیلہ پر آ پڑی تھی۔ بے چاری ماں تو اتنی تھک گئی تھی کہ باتیں کرنے میں بھی ہانپنے لگتی تھی مگر اس حال میں بھی ڈیڑھ سال پہلے ساتواں بچہ پیدا ہو گیا تھا۔ تب پڑوس کی آسوخالہ کے سمجھانے بجھانے اور ہمت دلانے پر جمیلہ کی ماں نے ساتویں زچگی کے دوران ہی آپریشن کرا لیا تھا۔ شروع میں تو ماں نے یہ بات مولوی صاحب سے چھپائی مگر آخر ایک دن انہیں معلوم ہو گیا۔ بہت خفا ہوئے۔ کئی روز تک گھر نہیں آئے۔ بول چال بند کر دی۔ جمیلہ کی ماں نے بھی پرواہ نہیں کی۔ اسی بہانے انہیں آئے دن کی نوچا کھوچی سے نجات مل گئی تھی، یہی کیا کم تھا۔ مگر کب تک؟ ایک رات مولوی صاحب یہ کہتے ہوئے ان کے لحاف میں گھس گئے کہ ’’کیا تم نہیں جانتیں اپنے نفس کو مارنا رہبانیت ہے اور رہبانیت اسلام میں حرام ہے۔‘‘

جمیلہ دیکھ رہی تھی کہ اس کی ماں میں اب کچھ بچا نہیں تھا۔ ڈھیلے ڈھالے کپڑوں کے نیچے بس مٹھی بھر ہڈیوں پر سوکھی روکھی چمڑی مڑھی ہوئی تھی۔ آنکھیں اندر کو دھنس گئی تھیں اور گال پچک گئے تھے۔ ماں پوری طرح نِچڑ گئی تھی پھر بھی اس کا باپ اسے برابر نچوڑے جا رہا تھا۔ وہ سوچتی کیا وہ ماں کو آخری قطرے تک نچوڑ کر ہی دم لیں گے۔ کبھی کبھی اس کے جی میں آتا کہ بزرگی کا لحاظ کئے بغیر وہ باپ کو ایسی کھری کھری سنائے کہ ظاہر پرستی کا وہ لبادہ جو انہوں نے اوڑھ رکھا ہے تار تار ہو جائے۔ مگر وہ صرف خون کے گھونٹ پی کر رہ جاتی۔ یہ سب سوچ سوچ کر جب اس کا دم گھٹنے لگتا تو وہ آنکھیں بند کر کے اسلم کے تصور میں کھو جاتی۔ اسلم کا تصور اس کے لیے ایک ایسا جادو کا ڈبہ تھا جس میں اس کے کئی رنگین خواب بند تھے۔ اسلم اسی کی اسکول میں اسکاؤٹ ٹیچر تھا۔ لمبا قد، سانولا رنگ، معمولی ناک نقشہ مگر ہونٹوں پر ہمیشہ ایک دل آویز مسکراہٹ۔ اس کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے ایک عجیب سی طمانیت کا احساس ہوتا تھا۔ پچھلے سال یومِ والدین کے جلسے میں جمیلہ نے ننھی ننھی بچیوں کا ایک کورس گیت تیار کیا تھا۔ ’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری۔۔۔ زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری‘ جب چھوٹی چھوٹی بچیاں سفید فراک اور گلابی اسکارف باندھے، ہاتھوں میں جلتی موم بتیاں تھامے اندھیرے میں ڈوبے اسٹیج پر نظم کے اس شعر پر پہنچیں کہ ’دور دنیا کا مِرے دم سے اندھیرا ہو جائے، ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جائے‘ تو اسٹیج یکلخت روشنی میں نہا گیا۔ یہ منظر ناظرین کو اتنا بھایا کہ دیر تک ہال تالیوں سے گونجتا رہا۔ ہیڈ مسٹریس نے جمیلہ کی منہ بھر کر تعریف کی اور اسٹاف نے بھی خوب سراہا۔ دوسرے دن وہ اپنے آف پریڈ میں ٹیچرس روم میں بیٹھی کوئی چارٹ تیار کر رہی تھی کہ اسلم اندر آیا۔ اس نے سب سے پہلے اسے کل کے کامیاب کورس گیت پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا۔

’’آپ کا کورس گیت تو جلسے کی جان تھا۔‘‘

اس نے ایک شرمیلی مسکراہٹ کے ساتھ اس کا شکریہ ادا کیا۔ اور گردن جھکا کر اپنے کام میں منہمک ہو گئی۔ مگر اس کا دھیان اسلم کی طرف ہی تھا۔ وہ رو مال سے اپنی پیشانی کا پسینہ پونچھ رہا تھا۔ چند لمحوں تک کمرے میں سناٹا چھایا رہا پھر اسلم کی آواز کمرے میں ابھری۔ ’’جمیلہ صاحبہ! میں آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔‘‘ جمیلہ نے چونک کر گردن اٹھائی۔ اس کے دل کی دھڑکن بڑھ گئی تھی۔ اسلم دیوار پر لگے کیلنڈر کی طرف منہ کئے کھڑا تھا۔ اس نے جمیلہ کی طرف مڑے بغیر کہا۔

’’اگر میری ماں یا بہن ہوتی تو میں انہیں کے ذریعے یہ بات کہلواتا۔۔۔‘‘

وہ لمحے بھر کو رکا پھر بولا۔۔۔ ’’کیا آپ میری شریکِ زندگی بننا پسند کریں گی؟‘‘ اسلم کی مسکراتی آنکھوں میں ایک غم آلود متانت تیر رہی تھی۔ اس وقت جمیلہ کو اسلم پر بہت پیار آیا تھا۔ اس کا جی چاہا۔ وہ اٹھے، کچھ بولے نہیں بس اس کے گال پر چٹ سے ایک بوسا ثبت کر دے۔ مگر وہ ایسا کچھ نہیں کر سکی۔ نظریں جھکائے دھڑکتے دل کے ساتھ چپ چاپ بیٹھی رہی۔ قدرے توقف کے بعد اسلم نے پھر کہا۔ ’’میں آپ کے جواب کا منتظر ہوں۔‘‘

جمیلہ نے آہستہ آہستہ اپنی جھکی ہوئی پلکیں اوپر اٹھائیں۔ اسلم سراپا التماس بنا اسی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ جمیلہ صرف اتنا کہہ سکی۔

’’آپ ہمارے گھر آئیے نا۔۔۔‘‘ اور فوراً پلکیں جھکا لیں۔

’’سنا ہے آپ کے والد صاحب بہت سخت ہیں۔‘‘

’’میری ماں بہت اچھی ہیں۔‘‘ جمیلہ نے بے ساختہ کہا اور دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ چھپا لیا۔ جمیلہ کی اس ادا نے اسلم کے رگ و پے میں بجلی سے دوڑا دی۔ اس کا رواں رواں کھِل اٹھا۔ اس نے جھک کر صرف اتنا کہا۔ ’شکریہ۔‘ اور کسی شرابی کی طرح مستی سے جھومتا ہوا اسٹاف روم سے باہر نکل گیا۔ اس طرح چند لمحوں میں محبت کی وہ ساری منزلیں طے ہو گئیں جو بعض اوقات برسوں کی مسافت میں بھی سر نہیں ہوتیں۔ پچھلی عید پر اسلم ان کے گھر عید ملنے کے بہانے آیا۔ جمیلہ نے ماں سے اشارتاً اسلم کے بارے میں بتا دیا تھا۔ اسلم کو دیکھ کر ماں تو نہال ہو گئی مگر مولوی جمال الدین ٹال گئے۔ شاہد اب ہر ماہ ساڑھے چار ہزار روپئے کی رقم سے دست بردار ہو جانا ان کے لیے آسان نہیں تھا۔

چند روز بعد جب اسلم نے جمیلہ سے اس کے والد کا عندیہ معلوم کرنا چاہا تو جمیلہ نے سر جھکا لیا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اسلم اب جمیلہ کی خاموشی کی زبان بھی سمجھنے لگا تھا اور یہ تو اس کے آنسو تھے جو اس کا کلیجہ چیر کر نکلے تھے۔ اس نے آہستہ سے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ انگلی سے اس کی ٹھوڑی اوپر اٹھائی اور اس کی آنکھوں میں جھانکتا ہوا پیار سے بولا۔

’’جمی! تم ایک بہادر لڑکی ہو، آنسو بہا کر کمزور مت بنو۔ کوئی نہ کوئی سبیل نکل ہی آئے گی۔ میں ہوں نا تمہارے ساتھ۔۔۔‘‘

اسلم نے ’میں ہوں نا تمہارے ساتھ‘ والا فقرہ آنکھیں جھپکا کر ایک دلآویز مسکراہٹ کے ساتھ کچھ اس اعتماد سے کہا کہ اس کے دل کا سارا غبار کائی کی طرح چھٹ گیا اور وہ روتے روتے مسکرا کر بے اختیار اس کے گلے لگ گئی۔

’آہ! کتنا سکون تھا اس کی بانہوں میں‘۔ جب اس نے اس کی چوڑی چھاتی پر اپنا سر ٹکایا تو اسے لگا یہ دنیا ایک معمولی گیند ہے جسے وہ جب چاہے ٹھوکر سے اڑا سکتی ہے۔ اسلم اس کے کان میں پھسپھسا رہا تھا۔

’’تم فکر مت کرو۔ پونے میں میرے رشتے کے ایک چچا رہتے ہیں۔ ایک آدھ مہینے اور انتظار کر کے دیکھتے ہیں۔ اگر تمہارے ابا کے دماغ کی برف نہیں پگھلی تو اگلے مہینے میں خود اپنے چچا کو لے کر تمہارے گھر آ دھمکوں گا تمہارا ہاتھ مانگنے۔۔۔‘‘

’’اگر وہ تب بھی نہ مانے تو۔۔۔؟‘‘

’’تو کیا۔۔۔ پھر میں بھی ان کے ساتھ وہی سلوک کروں گا جو پرتھوی راج چوہان نے جئے چند کے ساتھ کیا تھا۔‘‘

اسلم نے آخری جملہ بالکل کسی فلمی اسٹائل میں ادا کیا اور جمیلہ روتے روتے اچانک ہنس پڑی۔

’’تم ور مالا لیے دروازے پر میرا انتظار کرو گی نا۔۔۔؟‘‘

’’یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے یو راج!‘‘ جمیلہ نے شرما کر اس کے سینے پر سر رکھ دیا۔

ابھی اس بات کو ہفتہ بھر بھی نہیں گزرا تھا کہ ایک دن مولوی صاحب نے اطلاع دی وہ چار مہینے کے لیے تبلیغی دورے پر جا رہے ہیں۔ تین چلّے پورے کر کے لوٹیں گے۔

ماں نے احتجاج کیا۔ ’’چار مہینے تک ان کا اور بچوں کا کیا ہو گا؟‘‘

مولوی صاحب نے دلیل دی۔ ’ ’تم دنیا کے لیے اتنی فکر مند ہو، عاقبت کی فکر نہیں کرتیں جہاں اس دنیا کے اعمال کا حساب کتاب ہونا ہے۔ دین کے کام میں تھوڑی بہت قربانی تو دینی پڑتی ہے۔ مدرسے والے ہر مہینہ کچھ روپئے لا کر دیں گے۔ پھر جمیلہ بٹیا بھی تو ہے۔ جو دین کی فکر کرتے ہیں خود اللہ ان کی فکر کرتا ہے۔‘‘

جب جمیلہ نے اسلم کو یہ خبر دی تو وہ بھی سنّاٹے میں آ گیا۔ اسے پہلے تو مولوی صاحب پر شدید غصہ آیا مگر جمیلہ کے جذبات کا لحاظ کرتے ہوئے غصے کو پی گیا اور ایک پھیکی ہنسی ہنستا ہوا بولا۔

’’اب تو پرتھوی راج چوہان کا کردار ادا کرنا ہی پڑے گا۔‘‘

جمیلہ متردّد لہجے میں بولی۔ ’’اسلم آپ کو مذاق سوجھ رہا ہے۔ میں رات بھر سو نہیں سکی ہوں۔‘‘

اسلم نے جمیلہ کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے اور نہایت پیار سے بولا۔

’’میں مذاق نہیں کر رہا ہوں جمی! ہمارے پاس اب بس ایک ہی راستہ رہ گیا ہے۔ پرتھوی راج چوہان والا۔‘‘

’’پتا نہیں آپ پر یہ پرتھوی راج چوہان کا بھوت کیوں سوار ہو گیا ہے۔‘‘

جمیلہ منہ بنا کر بولی۔

’’دیکھو جمی! مجھے لگتا ہے تمہارے والد دین کے راستے پر اتنا آگے نکل گئے ہیں کہ گھر کا راستہ ہی بھول گئے ہیں۔ اس لیے اپنا راستہ اب ہمیں خود تلاش کرنا ہو گا۔‘‘

جمیلہ کچھ نہیں بولی۔ اس کا چہرہ سراپا سوال بنا ہوا تھا۔

’’میرے ذہن میں ایک تجویز ہے۔ سن کر گھبرا تو نہیں جاؤ گی؟‘‘ اسلم نے پوچھا۔

’’آپ ہیں نا میرے ساتھ۔۔۔‘‘

’’تمہیں مجھ پر بھروسا ہے نا۔۔۔؟‘‘

’’اپنے سے زیادہ۔۔۔‘‘

تو پھر سنو! ہم کل ہی صبح ایشیاڈ بس سے پونے چلتے ہیں۔ میں چچا کو اطلاع دے دوں گا۔ وہ سب انتظام کر دیں گے۔ وہاں پہنچ کر ہم نکاح کر لیں گے۔‘‘

’’یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ؟‘‘ جمیلہ کے منہ سے حیرت اور خوف سے ہلکی سے چیخ نکل گئی۔

’’میں بالکل ٹھیک کہہ رہا ہوں۔ اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔‘‘

’’امّی یہ برداشت نہیں کر سکیں گی۔‘‘ جمیلہ نے لرزتی آواز میں کہا۔

’’پہلے پوری بات تو سنو! نکاح کے بعد ہم شام تک لوٹ آئیں گے۔ فی الحال امّی کو کچھ بھی بتانے کی ضرورت نہیں۔ دھیرے دھیرے انہیں اعتماد میں لے کر سب کچھ بتا دینا۔ ویسے بھی وہ ہماری شادی کے خلاف تو ہیں نہیں۔‘‘

’’نہیں اسلم!‘‘ یہ سب مجھے کچھ عجیب سا لگ رہا ہے۔‘‘

’’دیکھو جمی! یہ سب پیش بندی کے طور پر ہے۔ تم جانتی ہو تمہارے والد ہمیں شادی کی اجازت نہیں دیں گے مگر جب انہیں معلوم ہو گا کہ ہمارا نکاح ہو چکا ہے تو اس نکاح کو تسلیم کرنے کے سوا ان کے پاس کوئی چارہ نہیں ہو گا۔ کیونکہ تم قانوناً بالغ ہو۔‘‘ اسلم بولتے بولتے پل بھر کو رکا، جمیلہ کو غور سے دیکھا۔ پھر گویا ہوا۔ ’’جمی! میں تمہارے تذبذب کو سمجھ سکتا ہوں۔ تم اپنی امّی اور بھائی بہنوں کے لیے فکر مند ہونا؟ ہونا بھی چاہیے، مگر ایک بات یاد رکھّو، آج جو ذمہ داری تمہاری ہے، شادی کے بعد وہ ذمہ داری ہم دونوں کی ہو گی۔‘‘

’’اسلم!۔۔۔‘‘ کچھ کہنے کے لیے جمیلہ کے ہونٹ وا ہوئے، مگر حیرت اور خوشی سے اس کی آواز رندھ گئی۔ اس نے اسلم کی طرف نظر بھر کر دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں تشکّر کے آنسو چھلک رہے تھے۔ اسلم نے اس کے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں لیا اور آہستہ سے اس کی پیشانی چوم لی۔

صبح سات بجے ایشاڈ بس اڈّے پر ملنا طے پایا۔ اس نے ماں سے کہہ دیا کہ وہ چند سہیلیوں کے ساتھ پکنک پر جا رہی ہے۔ شام تک لوٹ آئے گی۔ ماں نے خوشی خوشی اجازت دے دی۔ وہ رات بھر بستر پر کروٹیں بدلتی رہی۔ تھوڑی دیر کے لیے آنکھ لگ بھی جاتی تو کوئی ڈراونا خواب اسے جھنجھوڑ کر جگا دیتا۔ کبھی اسے لگتا وہ ایک اندھی سرنگ میں چل رہی ہے، چل رہی ہے اورسرنگ ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ یا اللہ! اس سرنگ سے نکلنے کا کوئی راستہ ہے بھی یا نہیں؟تبھی اسے اپنے سے آگے کوئی شخص مشعل لیے ہوئے چلتا نظر آتا۔ وہ اندھیرے میں بھی اسے پہچان لیتی۔ وہ اسلم کے سوا کون ہو سکتا ہے۔ وہ اسے آواز دیتی ہے۔ ’اسلم۔۔۔ اسلم۔۔۔‘اسلم اس کی طرف مڑتا ہے۔ مگر یہ کیا؟ ہیبت سے اس کے پاؤں زمین میں گڑ جاتے ہیں کیونکہ وہ اسلم نہیں اس کے باپ مولوی جمال الدین تھے جن کی آنکھوں سے چنگاریاں نکل رہی تھیں۔

کبھی وہ سوچتی۔ یہ شادی اگر شادی کی طرح ہو رہی ہوتی تو کیسا ہنگامہ رہتا۔ گھر مہمانوں سے بھر جاتا۔ ہلدی، ابٹن اور مہندی کی رسمیں ادا ہوتیں۔ ڈھولک کی تھاپ پر گیت گائے جاتے، رتجگے ہوتے، عطر اور پھولوں کی خوشبو سے فضا مہک رہی ہوتی، بہنیں چہک رہی ہوتیں اور ماں واری واری جاتی۔ اور ابّو۔۔۔ باپ کا خیال آتے ہی وہ ایک بار پھر کانپ کر رہ گئی۔ وہ دہاڑ رہے تھے۔

’’بند کرو یہ خرافات۔۔۔‘‘

وہ رات بھر اسی طرح خواب اور بیداری کے درمیان ڈوبتی ابھرتی رہی۔

’’اللہ اکبر، اللہ اکبر۔ اچانک اذان کی آواز اس کے کانوں میں پڑی۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔

یقیناً یہ فجر کی اذان تھی۔ جلدی جلدی منہ دھویا۔ وضو کیا۔ اور مصلّی بچھا کر نماز کے لیے کھڑی ہو گئی۔ اس کی بہنیں، بھائی اور ماں اسی طرح بے خبر سو رہے تھے۔

اس نے نماز ختم کر کے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے۔ معمول کے مطابق وہ زیرِ لب دعا مانگنے لگی۔ ’’ربِّ اغفر وارحم و انت خیر الراحمین‘‘ اے میرے پروردگار! ہمارے قصور معاف کر اور ہمارے حال پر رحم فرما اور تو سب رحم کرنے والوں سے بہتر ہے۔‘‘

دعا مانگتے مانگتے اچانک اس پر کپکپی سی طاری ہو گئی اور اس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔ سینے میں ایک تیز بگولا سا اٹھا۔ حلق میں ایک زخمی پرندہ پھڑپھڑایا۔ قریب تھا کہ وہ ہچکیاں لے کر رونے لگتی، اس نے اپنے دوپٹے کا پلو پوری قوت سے اپنے منہ میں ٹھونس لیا۔ دو تین ہچکیاں پلو میں جذب ہو گئیں۔ فرطِ جذبات سے اس کا سانس پھول رہا تھا۔ وہ جلدی سے اٹھی، مٹکے سے پانی لیا اور غٹ غٹ پورا گلاس حلق سے اتار گئی۔ دھیرے دھیرے سانسیں معمول پر آ گئیں۔ اتنے میں اس کی ماں کی نِنداسی آواز آئی۔ ’’جمیلہ، چائے بنا دوں؟ ایک کپ چائے پیتی جا۔۔۔‘‘

اس نے جلدی سے کہا۔ ’’نہیں ماں! میں کینٹین میں پی لوں گی۔ دیر ہو رہی ہے، تم آرام کرو۔‘‘

’’سنبھال کر جانا بیٹا۔۔۔‘‘

’’تم فکر مت کرو ماں۔۔۔ اللہ حافظ۔۔۔‘‘

جمیلہ نے برقع اوڑھا اور اپنا شولڈر بیگ لے کر باہر نکل گئی۔ چند قدم پر ہی اسے آٹو مل گیا۔ اس نے آٹو میں بیٹھتے ہوئے کلائی کی گھڑی دیکھی۔ پونے سات ہو رہے تھے۔ سوا سات بجے کی بس تھی۔ وہ پندرہ بیس منٹ میں بس اڈّے پر پہنچ جائے گی، وہ عام طور پر محلے سے باہر نکلنے کے بعد اپنا نقاب اٹھا دیا کرتی تھی مگر اب کی احتیاطاً اس نے نقاب نہیں اٹھایا۔ آٹو جوں ہی ڈپو میں داخل ہوا اس کی نظر اسلم پر پڑ گئی۔ وہ کاندھے سے ایک جھولا لٹکائے، ہاتھ میں اخبار لیے اسی کا انتظار کر رہا تھا۔ اس نے آٹو والے کو پیسے دیے اور آٹو سے اتر گئی۔ اس نے اپنا نقاب الٹ دیا۔ اسلم لپک کر اس کے پاس آیا۔ ’’جمی! تم نے آج کا اخبار دیکھا؟‘‘

وہ کچھ گھبرایا ہوا سا تھا۔

’’نہیں۔۔۔ کیوں؟‘‘

’’آؤ میرے ساتھ۔۔۔‘‘ وہ کینٹین کی طرف بڑھ گیا۔ جمیلہ نے دوبارہ چہرے پر نقاب ڈال لیا اور اس کے پیچھے چلنے لگی۔ اسلم کو پریشان دیکھ کر وہ خود بھی پریشان ہو گئی۔ اس کے دل میں سینکڑوں وسوسے کلبلانے لگے۔ کینٹین میں پہنچ کر انہوں نے کونے کی ایک میز منتخب کی۔ اور جب آمنے سامنے بیٹھ گئے تب اسلم نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے دھیرے سے کہا۔

’’جمی! ہمیں اپنا پروگرام ملتوی کرنا پڑے گا۔‘‘

’’کیوں۔۔۔؟‘‘ جمیلہ کا وسوسہ خوف کی شکل اختیار کرتا جا رہا تھا۔

’’سرحد پر، مولوی صاحب اور ان کے ساتھیوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔‘‘

’’یا اللہ۔۔۔‘‘ جمیلہ پر جیسے بجلی گر پڑی۔

’’ہمّت سے کام لو۔‘‘ اسلم نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔

’’آپ سے کس نے کہا؟‘‘ برقع میں جمیلہ کی آواز کانپ رہی تھی۔

’’اخبار میں چھَپا ہے، وہ جماعت کے ساتھ سرحد کے پاس سے گزر رہے تھے کہ سیکیوریٹی والوں نے سرحد پار کرنے کے شبہ میں انہیں گرفتار کر لیا۔ باز پرس کے لیے انہیں قریب کی چوکی میں لے گئے ہیں۔‘‘

جمیلہ رونے لگی۔

’’جمی! سنبھالو اپنے آپ کو، وہ اکیلے نہیں ہیں پوری جماعت ان کے ساتھ ہے۔ شُبہ میں گرفتار کیا ہے۔۔۔ کل پرسوں تک خبر آ جائے گی کہ چھوڑ دیے گئے۔‘‘

جمیلہ کچھ نہیں بولی۔ مگر برقع کے اندر اس کا بدن لرز رہا تھا۔ رہ رہ کر ایک آدھ سسکی بھی نکل جاتی تھی۔

’’جمیلہ! اس طرح ہمت ہارو گی تو گھر والوں کا کیا ہو گا۔ چلو میں تمہیں آٹو میں بٹھا دیتا ہوں۔ تم گھر پہنچو۔ ایک آدھ گھنٹے کے بعد میں بھی پہنچتا ہوں۔ میں اسکول کمیٹی کے چئیرمین انصاری صاحب سے بھی بات کروں گا۔ کچھ نہ کچھ راستہ نکل آئے گا۔ یہ اکیلے مولوی صاحب کا نہیں پوری جماعت کا مسئلہ ہے۔ لو، تھوڑی چائے پی لو۔ پھر چلتے ہیں۔‘‘

قارئینِ کرام! یہاں تک پہنچنے کے بعد افسانہ نگار، افسانے کو ایک پُر امید نوٹ پر ختم کرنا چاہتا تھا کہ جمیلہ گھر آ گئی۔ اسلم نے اس سے وعدہ کیا کہ حالات معمول پر آتے ہی دونوں شادی کر لیں گے۔ جمیلہ کو اسلم پر پورا یقین ہے کہ وہ اپنا وعدہ ضرور پورا کرے گا۔

مگر قارئینِ کرام! زندگی افسانہ نہیں ہے۔ افسانہ نگار کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ افسانے کو جہاں چاہے ختم کر دے یا جس طرف چاہے موڑ دے، مگر زندگی کے تیز و تند دھارے پر کسی کا اختیار نہیں ہوتا۔ افسانہ نگار کا بھی نہیں۔ بعض اوقات زندگی کا بہاؤ اس قدر تیز ہوتا ہے کہ اس کا قلم بھی ایک حقیر تنکے کی طرح بہہ جاتا ہے۔ یہاں بھی ایسا ہی ہوا۔

ڈیڑھ مہینے تک حراست میں رکھنے کے بعد پولس نے مولوی جمال الدین کو رہا کر دیا کیونکہ پولس ان کے خلاف کوئی ثبوت مہیا نہیں کر سکی۔ رہائی کے بعد وہ ایک لٹے پٹے مسافر کی طرح پریشان حال، شکستہ خاطر گھر لوٹ آئے مگر گرفتاری کی ذلّت اور رسوائی نے انہیں توڑ کر رکھ دیا۔ آتے ہی ایسے بیمار ہوئے کہ پندرہ دن میں ہی اللہ کو پیارے ہو گئے۔ صدمے سے جمیلہ کی ماں کو فالج ہو گیا اور وہ بستر سے لگ گئی۔ چھوٹا بھائی رشید ایس ایس سی میں فیل ہو گیا۔ پھر پتا نہیں کیسے وہ جیب کتروں کی ایک ٹولی کے ہتھے چڑھ گیا اور ٹرینوں اور بسوں میں لوگوں کے پاکٹ مارنے لگا۔ ایک دن پکڑا گیا اور چلڈرنس ہوم بھیج دیا گیا۔ اسلم جمیلہ کا کب تک انتظار کرتا؟ اس نے پونے میں اپنے چچا کی لڑکی سے شادی کر لی اور وہیں کسی اسکول میں ملازم ہو گیا۔ جمیلہ کی ایک بہن اختری جو کالج میں پڑھ رہی تھی، ایک دن کالج گئی اور پھر واپس ہی نہیں آئی۔ پتا چلا کہ وہ گلی کے ایک آوارہ چھوکرے کے ساتھ بھاگ گئی ہے۔ باقی دونوں بہنیں بھی اپنی اپنی جماعتوں میں فیل ہو کر گھر بیٹھ گئیں۔

تین سال ہو گئے، فالج زدہ ماں چارپائی پر پڑی موت کا انتظار کر رہی ہے مگر موت ہے کہ دہلیز پر کھڑی اسے گھورتی رہتی ہے مگر اندر نہیں آتی۔ پہلے ماں جمیلہ کو دیکھ دیکھ کر روتی رہتی تھی مگر اب اس کی آنکھیں خشک جھیلوں کی مانند ویران ہو گئی ہیں۔ بس خالی خالی نظروں سے جمیلہ کو آتے جاتے ٹکر ٹکر دیکھتی رہتی ہے۔ جمیلہ کے بالوں میں چاندی کے تاروں کا اضافہ ہو رہا ہے۔ سال بھر پہلے صبح بال بناتے بناتے جب بالوں میں اسے پہلا چاندی کا تار نظر آیا تھا تو اس کا دل دھک سے رہ گیا تھا۔ وہ اس رات بہت روئی تھی۔ دوسرے دن اس نے بڑی احتیاط سے چاندی کے تار کو نوچ ڈالا۔ مگر اب تو اس کے بالوں میں کئی تار نکل آئے ہیں۔ اس نے انہیں نوچنا چھوڑ دیا ہے۔ پہلے جب اسے اسلم کی یاد آتی تھی تو راتوں کو تکیے میں منہ کھبو کر چپکے چپکے روتی تھی مگر رفتہ رفتہ اس کے دل میں اسلم کی تصویر کے نقوش دھندلے پڑنے لگے۔ اور اب تو ماضی کا ہر نقش اس کے دل سے مٹ چکا ہے۔ کیا آپ جمیلہ سے واقف ہیں؟ آپ کے گھر سے دو تین گھر چھوڑ کر ہی تو رہتی ہے وہ۔ آپ نے اسے ضرور دیکھا ہو گا مگر پہچان نہیں پائے ہوں گے کیونکہ وہ آج بھی برقع اوڑھتی ہے اور اس کے چہرے پر نقاب پڑا رہتا ہے۔

٭٭٭




آدمی اور آدمی



ٹرین قریب آ چکی تھی۔ پتہ نہیں وہ بچہ پٹری پر کس طرح گر گیا تھا۔ دونوں طرف کھڑے ہوئے مسافروں نے چیخنا شروع کر دیا تھا۔ بچہ پٹری پر ہاتھ ٹیکے اٹھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ مگر شاید اس کے کہیں گہری چوٹ لگی تھی۔ اس لیے اس سے اٹھا نہیں جا رہا تھا۔ لوگ ٹرین ڈرائیور کو رکنے کا اشارہ کرتے ہوئے بری طرح سے چیخ رہے تھے۔ غالباً ڈرائیور نے بھی بچے کو پٹری پر گرتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ وہ بوکھلا گیا تھا اور بریک لگاتے ہوئے وسل پر وسل دئیے جا رہا تھا مگر چلتی ہوئی ٹرین کا ایک جھٹکے سے رکنا آسان نہیں تھا۔ لوگوں کی چیخوں اور ٹرین کی سیٹی نے مل کر ایک عجیب دہشتناک شور پیدا کر دیا تھا۔ جو لوگ اس طرف متوجہ نہیں تھے اب وہ بھی متوجہ ہو گئے تھے اور سب مل کر بے تحاشا گلا پھاڑے جا رہے تھے۔

ٹرین اب صرف چند قدم کے فاصلے پر تھی اور اس کی رفتار اب بھی خاصی تھی۔ بچے تک پہنچتے پہنچتے ٹرین کے رک جانے کا کوئی امکان نہیں تھا اور بچہ ابھی تک پٹری پر ہاتھ ٹیکے اٹھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ بچے کی موت یقینی تھی۔ لوگوں کے چہروں پر خوف و دہشت اور کرب کی لکیریں گہری ہو گئی تھیں۔ بچے کی ماں پلیٹ فارم پر کھڑی سینہ پیٹ رہی تھی اور لوگوں کو دہائی دے رہی تھی کہ وہ کسی طرح اس کے بچے کو پٹری سے اوپر گھسیٹ لیں مگر ٹرین بالکل قریب آ چکی تھی اور کسی بھی شخص کے لیے ایسا کرنا قریب قریب نا ممکن تھا۔ بچہ ایک ہاتھ اپنی ماں کی طرف اٹھائے پٹری سے اٹھنے کی کوشش کر رہا تھا، عورت اپنے بچے کی یہ حالت دیکھ بار بار پٹری کی طرف لپک رہی تھی اور لوگ اسے بار بار روک رہے تھے۔

اسی لمحہ ایک معجزہ ہوا۔ لوگوں نے دیکھا کہ ایک نوجوان بجلی کی تیزی کے ساتھ پلیٹ فارم سے پٹری پر کودا اور بچے کو دونوں ہاتھوں سے سمیٹے ہوئے پٹری کی دوسری طرف لڑھک گیا۔ ٹرین کا اگلا حصہ اپنے بریک چرچراتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ نوجوان کو کودتے دیکھ کر لوگوں نے بے اختیار چیخنا شروع کر دیا۔ مگر ان چیخوں میں نوجوان کی چیخ سب سے زیادہ تیز تھی۔ ٹرین چند میٹر آگے بڑھ کر پلیٹ فارم پر رک گئی اور لوگ پٹری پر کود کر نوجوان کے قریب پہنچے۔ بچہ بالکل صحیح سلامت تھا مگر نوجوان کے بائیں پاؤں کی تین انگلیاں ٹرین کے پہیوں کے نیچے کچل گئی تھیں۔ اور وہ درد سے بری طرح کراہ رہا تھا۔ لوگوں نے نوجوان کو سہارا دے کر اٹھایا۔ بچہ پہلے ہی کھڑا ہو چکا تھا۔ دونوں کو پلیٹ فارم پر لایا گیا۔ بچے کی ماں نے پہلے تو لپک کر اپنے بیٹے کو سینے سے لگا لیا اور اسے بے اختیار چومتے ہوئے رونے لگی۔ پھر اچانک اس کی نظر نوجوان پر پڑی جو پلیٹ فارم کی ایک بینچ پر لیٹا گہری گہری سانسیں لے رہا تھا اس کی کچلی ہوئی انگلیوں سے خون ٹپک رہا تھا اور کچھ لوگ اسے گھیرے کھڑے تھے۔ عورت تیزی سے آگے بڑھی۔ اس نے اپنی ساڑی کا آنچل پھاڑا اور اسے پانی میں بھگو کر نوجوان کے زخم پر باندھنے لگی۔ اس کی آنکھوں میں اب بھی آنسو تھے۔ مگر وہ اس نوجوان کے لیے ممنونیت کے آنسو تھے۔ جذبات کی شدت سے اس کے ہونٹ پھڑ پھڑا رہے تھے۔ مگر آواز نہیں نکل رہی تھی۔ نوجوان نے آنکھیں کھولیں۔ عورت کی طرف دیکھا پھر اس لڑکے کی طرف دیکھا جو سہما سمٹا سا اس کے پاس ہی کھڑا تھا۔ نوجوان کے ہونٹوں پر ایک پھیکی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ لوگ اس کی بہادری اور جاں بازی کی تعریف کر رہے تھے۔ اتنے میں دو ریلوے مزدور اسٹریچر اٹھائے دوڑتے ہوئے آئے اور لوگوں نے مل کر اس نوجوان کو اسٹریچر پر ڈال دیا۔ عورت اب بھی کانپتے ہاتھوں سے اس کے پیروں کو تھامے کھڑی تھی۔ مزدوروں نے اسٹریچر اٹھایا اور اسٹیشن سے باہر نکلے۔ نوجوان کا ایک ساتھی ان کے ساتھ تھا۔ عورت اور بچہ بھی اس اسٹریچر کے ساتھ ساتھ چلنے لگے۔ نوجوان نے پلٹ کر عورت کی طرف دیکھا اور درد کو دباتے ہوئے انتہائی نرم لہجے میں بولا۔ ’’بہن جی! اب آپ کشٹ نہ کریں۔ میں بالکل ٹھیک ہوں۔ آپ بچے کو لے کر گھر جائیے۔‘‘

عورت نے احسان مندی کے جذبے سے سرشار ہو کر اس کی طرف دیکھا اور اس کے بازو کو دھیرے سے چھو کر اپنے بیٹے کی انگلی پکڑے ایک طرف ہٹ گئی اور مزدور اسٹریچر کو لیے ہوئے آگے بڑھ گئے۔

اس کی زخم کی ڈریسنگ ہو گئی تھی۔ زخم زیادہ گہرا نہیں تھا۔ دو انگلیوں کے ناخن اکھڑ گئے تھے۔ ڈریسنگ کے بعد ڈاکٹر نے اسے گھر جانے کی اجازت دے دی۔ اس کا دوست اسے سہارا دے کر ہسپتال کی عمارت سے باہر لایا۔ ٹیکسی رکوائی۔ دونوں ٹیکسی میں بیٹھ کر گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔

دوست نے اس کے مرجھائے ہوئے چہرے کی طرف پر تشویش نگاہوں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔ ’’تکلیف بہت زیادہ ہے کیا؟‘‘

’’نہیں کوئی خاص تکلیف نہیں۔‘‘ نوجوان کے ہونٹوں پر ایک پھیکی سی مسکراہٹ پھیل گئی۔

’’تمہیں اتنا بڑا خطرہ مول نہیں لینا چاہئے تھا۔‘‘

’’کمال کرتے ہو! ایک معصوم بچہ نظروں کے سامنے موت کے منہ میں جا رہا تھا۔ بھلا کیسے خاموش رہا جا سکتا تھا۔‘‘

’’وہ تو ٹھیک ہے مگر۔۔۔‘‘

’’مگر کیا۔۔۔؟‘‘

’’شاید تم نے غور نہیں کیا۔ وہ عورت اور اس کا بچہ دوسرے فرقے کے تھے۔ میرا مطلب ہے وہ لوگ ہمارے مذہب سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔ دوسروں کے لیے اپنی جان کو خطرے میں ڈالنا عقل مندی کی بات نہیں۔‘‘

’’اونہہ، ہٹاؤ یار۔ اس بچے کی پھٹی پھٹی خوفزدہ آنکھوں میں کچھ ایسی بات تھی کہ میں اپنے آپ کو روک نہیں سکا۔ بچہ بچہ ہوتا ہے خواہ کسی بھی مذہب کا ہو۔‘‘

’’اچھا بابا! اب زیادہ مت بولو۔ سیٹ کی پشت سے ٹک کر آرام سے بیٹھو۔‘‘

اچانک شہر میں فسادات پھوٹ پڑے۔ لوگ درندوں کی طرح ایک دوسرے کو بھنبھوڑنے لگے۔ فساد کا تیسرا دن تھا اور پورا شہر فساد کی لپیٹ میں آ چکا تھا۔ امن پسند لوگ بری طرح خوف زدہ تھے۔ لوگوں کا اپنے بیس تیس سال کے پڑوسیوں پر بھروسہ نہیں رہا تھا۔ بچپن کے ساتھ کھیلے کھائے ہوئے دوست لاٹھیاں، بلّم لے کر ایک دوسرے کے سامنے صف آرا ہو گئے۔ انسانیت، مروّت، دوستی، بھائی چارہ۔۔۔ سارے نازک جذبے نیزے کی نوک اور تلوار کی دھار پر تولے جا رہے تھے۔ عبادت گاہیں، سازشوں کے اڈے بن گئے تھے، جہاں روزانہ دشمن کو ختم کرنے کے منصوبے بنائے جاتے تھے۔

تیسری رات کو محلے والوں نے پڑوس کے دشمن محلے پر حملہ کرنے کا پلان بنا لیا۔ لاٹھیاں، بلم، سوڈا واٹر کی بوتلیں اور گھریلو دستی بموں کا کافی ذخیرہ جمع کر لیا گیا۔ رات کو بارہ کے بعد، حملہ کرنا طے پایا۔ وہ اس کارِ خیر میں پیش پیش تھا۔ مقر رہ وقت پر سب لوگ کیل کانٹے سے لیس ہو کر دشمن محلے کی طرف بڑھے۔ چند منٹ بعد ہی سارا محلہ درد ناک چیخوں اور فلک شگاف نعروں سے تھرّا اٹھا۔

’’مارو۔۔۔ کاٹو۔۔۔ جانے نہ پائے۔‘‘ کے شور سے آسمان کانپنے لگا۔ مکانوں کو آگ لگا دی گئی۔ لوگوں کو گھروں سے گھسیٹ کر قتل کیا جانے لگا۔ مرنے والے جتنی کربناک چیخیں مارتے، مارنے والے اس سے زیادہ وحشیانہ قہقہے بلند کرتے تھے۔

وہ اپنے دو تین ساتھیوں کے ساتھ چن چن کر دشمنوں کا صفایا کر رہا تھا۔ اتنے میں سامنے کے جلتے ہوئے مکان سے ایک گھبرائی ہوئی عورت نکلی۔ اس کا سات آٹھ سال کا بچہ اس کی انگلی تھامے ہوئے تھا۔ عورت کے جسم پر لپٹی ہوئی ساڑی آدھی سے زیادہ جھلس چکی تھی۔ وہ وحشت زدہ سی اپنے بچے کی انگلی تھامے ایک طرف کو بھاگی۔ اچانک اس کی اور اس کے ساتھیوں کی نظر دونوں پر پڑ گئی۔

’’دیکھو، شکار جا رہا ہے۔ بچ کر نہ جانے پائے۔‘‘ وہ تینوں بھوکے بھیڑیوں کی طرح عورت پر ٹوٹ پڑے۔ پلک جھپکتے میں عورت کے جسم پر کپڑے کا ایک تار بھی نہ رہا۔ عورت اور بچے کی چیخیں انتہائی کربناک تھیں۔ عورت کو نیچے گرا کر اس کی چھاتیوں کو نیزوں سے چھید دیا گیا۔ جب عورت کی چیخیں بند ہو گئیں تو وہ لوگ پلٹے۔ مگر وہ ٹھٹھک کر کھڑا ہو گیا۔ عورت کی خون میں لتھڑی ہوئی لاش سے اس کا آٹھ سالہ بچہ لپٹا بری طرح رو رہا تھا۔ نوجوان ایک لمحے تک اسے دیکھتا رہا۔ اچانک اس کا نیزہ بلند ہوا اور ایک ننھی طویل چیخ فضا میں بہت دور تک لہراتی چلی گئی۔ اس کے ساتھی چند لمحوں تک سکتے کی سی حالت میں کھڑے خاک و خون میں تڑپتی اس ننھی سی لاش کو دیکھتے رہ گئے۔ اتنے میں پولس کے سائرن کی آواز آئی اور سب بھاگو، بھاگو، چلاتے ہوئے اپنے اڈے کی طرف لوٹ گئے۔

’’تم نے کتنے شکار کئے؟‘‘

’’تین‘‘

’’اور تم نے؟‘‘

’’ساڑھے تین‘‘

’’ہا ہاہا۔۔۔ ساڑھے تین کا کیا مطلب؟‘‘

’’دو مرد، ایک بچہ اور ایک عورت۔‘‘

اچھا۔۔۔ اچھا۔۔۔ بچہ وہی نا۔۔۔ جسے پیپل کے نیچے تم نے نیزے سے چھید دیا تھا؟‘‘

’’ہاں وہی۔‘‘

’’اس وقت میں بھی تو موجود تھا مگر یار بچے کی آخری چیخ نے مجھے اندر تک دہلا دیا تھا۔‘‘

’’تم کم بخت ہو ہی کمزور دل کے!‘‘

’’نہیں یار! آخر بچے کا مذہبی جھگڑوں، ٹنٹوں سے کیا واسطہ؟‘‘

’’تم سمجھتے نہیں۔ سانپ کے ساتھ سنپولے کا سر بھی کچل دینا چاہیے۔‘‘

نہیں، آپ جیسا سوچ رہے ہیں، ویسا نہیں تھا۔ وہ بچہ وہ نہیں تھا جو ریل کی پٹری پر گرا تھا۔ وہ عورت بھی وہ نہیں تھی۔ وہ شخص بھی وہ نہیں تھا جس نے ریل کی پٹری پر بچے کی جان بچائی تھی۔ مگر سوال یہ ہے کہ اگر وہ سب لوگ وہ نہیں بھی تھے تو انسان کی بربریت پر کیا فرق پڑتا ہے!

٭٭٭





سبق





ابھی سورج طلوع نہیں ہوا تھا مگر چاروں طرف ملگجا اجالا پھیلنے لگا تھا۔ تمام بھکشو کلندک جھیل میں غسل کرنے کے بعد ’وینووَن‘ لوٹ آئے تھے۔ وینووَن کے چاروں طرف بانسوں کا جنگل تھا۔ بھکشوؤں نے بانسوں کو کاٹ چھانٹ کر چھوٹی چھوٹی کٹیائیں بنا لی تھیں۔ ہر کٹیا میں چار چار پانچ پانچ بھکشوؤں کا قیام تھا۔ ایک طرف بڑے سے پیپل کے پیڑ کے نیچے بُدھ کی کٹیا ایستادہ تھی۔ بدھ کی کٹیا کی بغل میں آنند کی کٹیا تھی۔ بدھ اور آنند رات کے پچھلے پہر ہی اٹھ جاتے اور دوسرے بھکشوؤں کے جاگنے سے پہلے غسل وغیرہ سے فارغ ہو جائے۔ غسل کے بعد آنند پیپل کی ٹہنی سے بندھے پیتل کے گھنٹے کو بجاتے، گھنٹے کی آواز سنتے ہی تمام بھکشو اپنی اپنی کٹیا سے نکل کر کلندک جھیل کی طرف نکل جاتے، جنگل میں صبح کی ضروریات سے فارغ ہونے کے بعد سب جھیل میں غسل کرتے۔ اپنی اپنی کفنیوں کو اتار کر دھوتے، پھر صاف ستھری گیروے رنگ کی کفنیاں گلے میں ڈالتے اورآہستہ خرامی کے ساتھ اپنی اپنی کٹیاؤں میں لوٹ آتے۔ جونہی سورج کی پہلی کرن پیپل کی سب سے اوپری پھُنگی کا ماتھا چومتی آنند ایک بار پھر پیتل کا گھنٹہ بجاتے اور بھکشو کٹیاؤں سے نکل نکل کر بُدھ کی کٹیا کے سامنے پیپل کے پیڑ کے نیچے جمع ہونے لگتے۔

حسبِ معمول آج بھی تمام بھکشو غسل سے فارغ ہو کر اپنی اپنی کٹیا میں بیٹھے دوسرے گھنٹے کا انتظار کر رہے تھے۔

سواستی، کمبِل، بھاردواج اور سنجے ایک ہی کٹیا میں مقیم تھے۔ کمبِل، بھاردواج اور سنجے تو آنکھیں بند کیے دھیان سا دھنا میں مگن تھے، مگرسواستی آنکھیں کھولے بار بار پہلو بدل رہا تھا، جیسے اپنی ساتھوں سے کچھ کہنے کے لیے بیتاب ہو۔ آخر تھوڑی دیر یونہی پہلو بدلنے کے بعد اس نے بلند آواز سے اپنے ساتھیوں کو پکارا۔

’’مترو!‘‘ اس کی آواز میں ہلکی سی کپکپی تھی۔ ’’میں آپ لوگوں سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔‘‘

کمبِل، بھاردواج اور سنجے نے آنکھیں کھول دیں اور سواستی کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے۔ سواستی کہہ رہا تھا۔ ’’مترو!آج میرا من بہت اشانت ہے۔ میں رات میں ٹھیک سے سو بھی نہیں سکا۔‘‘

اس کی بات سن کر تینوں ساتھی اسے حیرت اور تشویش سے دیکھنے لگے۔ انہوں نے کبھی کسی بھکشو کو ایسی شکایت کرتے نہیں سنا تھا۔ سواستی کو سنگھ میں شامل ہوئے صرف ایک مہینہ ہوا تھا۔ ابھی اسے سنگھ کے اصولوں اور دھیان سادھنا کے طور طریقوں کی پوری طرح آگاہی نہیں تھی۔ سنگھ میں شامل ہونے کا مطلب ہوتا ہے اپنے آپ کو پوری طرح سنگھ کے سپرد کر دینا۔ دھیان سادھنا کے ذریعے اپنے بے چین من کو شانت کرنا اور رفتہ رفتہ نفسانی خواہشات سے مُکتی پا لینا۔ اگر سواستی کا من بے چین ہے تو اس کا مطلب یہی ہوا کہ وہ موکش، شانتی، آنند اور دھرم مارگ سے دور ہوتا جا رہا ہے۔

اپنے ساتھیوں کی آنکھوں میں تشویش کے آثار دیکھ کر سواستی تھوڑا نادم ہوا پھر بولا:

’’آپ لوگ میری بات کا غلط مطلب نہ لیں۔ در اصل میں ایک چرواہا ہوں۔ سنگھ میں شامل ہونے سے پہلے بھینسیں چَرایا کرتا تھا۔ بھینسیں چراتے ہوئے جنگل میدان میں گھومنا، بھوک لگنے پر قند مول کھا لینا، پیاس لگنے پر ندی جھرنے کا پانی پی لینا اور نیند آنے پر پیڑ کے نیچے سورہنا، یہی میری زندگی تھی۔ میں پڑھنا لکھنا نہیں جانتا۔ نہ مجھے کبھی پڑھے لکھوں کی صحبت ہی نصیب ہوئی۔ اسی لیے بہت سی باتیں میری سمجھ میں نہیں آتیں۔ اگر آتی بھی ہیں تو دیر سے آتی ہیں۔ لیکن۔۔۔ یہ مت سمجھنا کہ سنگھ پر میرا وشواس نہیں ہے۔ میرا سنگھ پر پورا وشواس ہے مگر جب کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی تو من بے چین ہو جاتا ہے۔ آپ ہی لوگ میرا مارگ درشن کریں۔ ایسی حالت میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟‘‘

سنجے نے تفہیمی انداز میں گردن ہلاتے ہوئے کہا۔ ’’سواستی! تم ٹھیک کہتے ہو۔ جو بات سمجھ میں نہ آئے تو اسے سمجھنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ کسی بات کو بنا سمجھے قبول کرنا ایسا ہی ہے جیسے بغیر پیاس لگے پانی پینا یا بغیر بھوک لگے بھوجن کرنا۔ ویسے کیا تم بتانے کی کرپا کر سکتے ہو کہ ایسی کونسی بات ہے جو تمہاری سمجھ میں نہیں آئی؟‘‘

سواستی تھوڑی دیر گردن جھکائے بیٹھا رہا۔ پھر گردن اٹھا کر تینوں پر ایک اچٹتی نگاہ ڈالی۔ تینوں کی نظریں اس کے چہرے پر گڑی ہوئی تھیں۔ اس نے اٹکتے جھجکتے کہا: ’’کل کے پروچن میں تتھاگت نے کہا تھا ’شبدوں سے اس پرم ستیہ کو بیان نہیں کیا جا سکتا۔ صرف انوبھو کے ذریعے ہی اس پرم ستیہ کو پایا جا سکتا ہے۔‘ میں نے اِس پر بہت غور کیا مگر گرودیو کا یہ وچن میری سمجھ میں نہیں آیا۔‘‘

اس کے تینوں ساتھی ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ تھوڑی دیر بعد بھاردواج نے کہا۔ ’’سواستی! اگرچہ گرو دیو کا یہ وچن بہت صاف ہے پھر بھی وہ تمہاری سمجھ میں نہ آیا ہو تو تم آج پروچن کے بعد ان سے سوال کر کے اس کا مطلب پوچھ سکتے ہو۔‘‘

’’مجھے سب کے سامنے سوال پوچھتے ہوئے شرم آتی ہے۔‘‘ سواستی نے جھینپتے ہوئے کہا۔

’’گیان حاصل کرنے میں شرم کیسی؟‘‘سنجے نے اسے سمجھایا۔

سواستی تھوڑی دیر خاموش رہا پھر بولا: ’ ’ٹھیک ہے۔ آپ لوگ کہتے ہیں تو میں آج پروچن کے بعد تتھا گت سے اس وچن کا مطلب پوچھوں گا۔‘‘

تبھی گھن، گھن، گھن گھنٹے کی آواز سنائی دی اور چاروں ساتھی اٹھ کر کٹیا سے باہر آ گئے۔ دوسری کٹیاؤں سے بھی بھکشو ایک ایک دو دو کر کے باہر نکل رہے تھے۔ اس وہار میں تقریباً تین سو بھکشوؤں کا قیام تھا۔ صبح کے دھندلکے میں دور سے ان کے گیروے لباس یوں لگ رہے تھے جیسے بانس کے جنگل میں جگہ جگہ زعفران کے کھیت اگے ہوں۔ وہ سب شانت بھاؤ سے نپے تلے قدم اٹھاتے اس پیپل کے پیڑ کی طرف بڑھ رہے تھے جس کی چھاؤں میں تتھا گت مہاتما بدھ بیٹھ کر پروچن دیا کرتے تھے۔ تمام بھکشو زیرِ لب منتر پڑھتے جا رہے تھے۔

بدھم شرنم گچھامی

دھمم شرنم گچھامی

سنگھم شرنم گچھامی

گیروے رنگ کی کفنیوں میں لپٹے بھکشوؤں کے متحرک ہیولے، کفنیوں سے جھانکتے ان کے گھُٹے ہوئے سر، ہونٹوں سے نکلتے منتروں کی مدھم گونج، بانس کے پیڑوں کے درمیان سرسراتے ہوا کے جھونکے، درختوں کی ٹہنیوں پر پرندوں کی بے ہنگم پھڑپھڑاہٹ، کُل ملا کر فضا میں ایک عجیب سی پُراسراریت گھل مل گئی تھی۔ جس میں تقدس کی جھلک بھی شامل تھی۔

تھوڑی دیر میں تمام بھکشو پیپل کے نیچے اکٹھا ہو گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے سب اس طرح قطاریں بنا کر بیٹھ گئے جیسے پہلے سے یہ طے ہو کہ کس کو کہاں بیٹھنا ہے۔ نہ کسی کو کسی کا دھکا لگا، نہ کسی سے کسی کا کھوا چھلا۔ آنند پیپل کے نیچے کھڑے ان کا مشاہدہ کر رہے تھے۔ جب تمام بھکشو قطاروں میں بیٹھ گئے تب آنند نے ایک طائرانہ نگاہ ان پر ڈالی اور پلٹ کر بُدھ کی کٹیا کی طرف دیکھا۔ بدھ گیروا چولا دھارن کیے کٹیا سے باہر نکل رہے تھے۔ ان کا مکھ منڈل گہرے سمندر کی طرح شانت تھا اور ہونٹوں پر پُر سکون، دائمی مسکراہٹ تھی۔ بدھ پر نظر پڑتے ہی تمام بھکشو احتراماً کھڑے ہو گئے۔ بھکشوؤں کو دیکھ کر بدھ کی آنکھوں سے شفقت جھلکنے لگی۔ انہوں نے ہاتھ اٹھا کر بھکشوؤں کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ بھکشو بیٹھ گئے۔ بدھ بھی پیپل کے نیچے پڑے ایک اونچے پتھر پر پدماسن کی مُدرا میں براجمان ہو گئے۔ ان کے دائیں طرف آنند بھی آسن پر بیٹھ گئے۔ بدھ نے ایک نظر بھکشوؤں کو دیکھا اور ریشم سے ملائم لہجے میں گویا ہوئے۔ ’’بھکشوؤ! آج۔۔۔

ابھی بُدھ نے اتنا ہی کہا تھا کہ کہیں سے ایک خوبصورت پرندہ اڑتا ہوا آیا اور پیپل کی ڈال پر بیٹھ کر زور زور سے چہکنے لگا۔ بدھ نے نظر اٹھا کر پرندے کو دیکھا اور خاموش ہو گئے۔

پرندہ چہکتا رہا۔۔۔ بھکشوؤں نے بھی پرندے کو دیکھا۔ پرندہ اپنی ہی مستی میں چہکے جا رہا تھا۔ اس کی چہکار سے فضا میں سنگیت سا گھل رہا تھا۔ ایسا لگتا تھا پرندے کو وہاں سوائے اپنے کسی اور کے ہونے کا گمان تک نہیں ہے۔ بدھ آنکھیں بند کیے شانت بیٹھے تھے۔ بھکشو سمجھ گئے کہ تتھا گت اس پرندے کے گیت گان میں خلل ڈالنا نہیں چاہتے۔ بھکشو بھی خاموشی سے پرندے کی چہکار سنتے رہے۔ بعض بھکشوؤں کے دل میں آیا کہ ہُشکار کر پرندے کو اڑا دیں مگر بدھ کی محویت کو دیکھ کر وہ اس کی جرأت نہ کر سکے۔ لہٰذا وہ بھی خاموشی سے اس کی چہکار سنتے رہے۔ آخر چہکتے چہکتے یک بیک پرندے نے پر پھیلائے اور ایک غوطہ لگا کر ہوا میں اڑتا ہوا نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ بھکشوؤں نے اطمینان کا سانس لیا۔ بدھ نے آنکھیں کھول کر بھکشوؤں کی طرف دیکھا۔ بھکشو سنبھل کر بیٹھ گئے۔ وہ منتظر تھے کہ بدھ اپنا پروچن دوبارہ شروع کریں گے۔ مگر۔۔۔

یہ کیا؟ بدھ نے ہاتھ اٹھا کر نہایت شانت لہجے میں کہا۔

’’بھکشوؤ! آج کا سبق تمام ہوا۔۔۔ باقی کل۔۔۔‘‘

اور اپنے آسن سے اٹھ گئے۔ بدھ کے ساتھ آنند بھی کھڑے ہو گئے۔ بدھ اپنی کٹیا طرف جا رہے تھے۔ آنند ان کے پیچھے تھے۔ بعض بھکشوؤں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ بعض صرف گردنیں ہلا کر رہ گئے۔ بعض نے کوئی ردّ عمل ظاہر نہیں کیا۔ آخر سب اٹھ اٹھ کر اپنی اپنی کٹیا کی طرف روانہ ہو گئے۔

سنجے، بھاردواج، سواستی اور کمبِل بھی اپنی کٹیا کی طرف چل دیے۔ چاروں خاموش تھے۔ چلتے چلتے بھاردواج نے سواستی سے کہا۔

’’سواستی! تم نے بدھ سے اپنی شنکھا نہیں پوچھی؟‘‘

سواستی نے رسان سے کہا: ’’نہیں۔۔۔ آج کے پروچن سے میں ساری بات سمجھ گیا ہوں۔ اب میرے من میں کوئی شنکھا نہیں ہے۔‘‘

سنجے، بھاردواج اور کمبِل سواستی کو حیرت سے یوں دیکھنے لگے جیسے اس کے سر پر دو سینگ نکل آئے ہوں۔

٭٭٭







سودا





میری عمرچالیس سے تجاوز کر چکی ہے۔ میں نے ابھی تک شادی نہیں کی۔ آگے کرنے کا ارادہ بھی نہیں ہے۔ در اصل میں شادی کے انسٹی ٹیوشن پر یقین ہی نہیں رکھتا۔ سماج میں شادی کی بڑی اہمیت ہے، ہو گی۔ مذہب بھی اس پر خاص زور دیتا ہے، دیتا رہے۔ مگر میرا مشاہدہ تو یہ ہے کہ شادی کے نام پر مرد کے گلے میں گرہستی کی رسی باندھ دی جاتی ہے تاکہ کولہو کے بیل کی طرح گھومتا رہے اپنے ہی گھر پریوار کے گرد۔ مجھے ایسی بندش منظور نہیں۔ میں تو ایک آزاد پرندے کی طرح ڈال ڈال اڑنا چاہتا ہوں، پات پات چہکنا چاہتا ہوں۔ شادی کے بغیر تو آپ رہ سکتے ہیں مگر عورت کے بغیر کیونکر رہ سکتے ہیں۔ کسی دانش ور نے کیسی بلیغ بات کہی ہے کہ عورت کے ساتھ زندگی بسر کرنا مشکل ہے مگر عورت کے بغیر زندگی بسر کرنا اس سے بھی زیادہ مشکل ہے۔ میں نے بھی شادی نہیں کی مگر میں کنوارا بھی نہیں ہوں۔ عورت ہمیشہ میری دسترس میں رہی ہے بلکہ مزید صراحت سے کہوں تو میرے ’تصرف‘ میں رہی ہے۔

میں ایک مشہور کمپنی میں اونچے عہدے پر فائز ہوں۔ پانچ اعداد میں تنخواہ وصول کرتا ہوں، شہر کے صاف ستھرے علاقے میں ایک عمدہ فلیٹ ہے میرا۔ ایک شاندار کار بھی ہے میرے پاس۔ اکیلا آدمی ہوں۔ دِکھنے میں ٹھیک ٹھاک ہوں۔ جب عورتوں کو معلوم ہوتا ہے کہ میں کنوارا ہوں تو بطورِ خاص وہ مجھ پر مہربان ہونے لگتی ہیں۔ کنواری لڑکیاں تو بس یوں سمجھئے پکے پھل کی طرح ٹپک پڑنے کو بیتاب رہتی ہیں۔ اب گِریں تب گِریں۔

پچھلے بیس برس میں کچھ نہیں تو درجن بھر عورتیں میری دوست بنیں، میرے ساتھ رہیں، خوب گھلی ملیں اور پھر جدا ہو گئیں۔ بعض نے شادی کے لیے اصرار کیا مگر میں پہلے ہی جتا دیتا تھا کہ میں شادی وادی کے پھیرے میں نہیں پڑنے والا۔ ساتھ رہو، کھاؤ پیو، موج مستی کرو اور اپنی راہ لو۔ بعض نے مجھے بے حد متاثر بھی کیا۔ ان سے علاحدہ ہوتے ہوئے تکلیف بھی بہت ہوئی مگر میں اپنی افتاد طبع سے مجبور ہوں۔ کسی ایک عورت کے ساتھ بندھ کر رہنا میرے بس کی بات نہیں۔ دودھ پینے کے لیے گائے پالنا ضروری تو نہیں۔

پچھلے بیس برس میں صرف نتاشیا تھی جس کے ساتھ میں نے متواتر تین سال گزار دیے۔ اف! کیا لڑکی تھی نِتاشیا۔ تھی تو سانولی سلونی، بہت خوبصورت تو نہیں تھی بس قبول صورت کہہ سکتے ہیں۔ مگر اس کا بدن! قیامت تھا قیامت۔ کپڑے ایسے چست پہنتی تھی کہ جسم کی ایک ایک گولائی اجنتا ایلورا کا نظارا پیش کرتی تھی۔ وہ ہر اتوار کو صبح فلیٹ پر آ جاتی اور پھر رات دیر گئے تک میرے ساتھ رہتی۔ اس روز میں نہ ہوٹل جاتا نہ کلب، پورا دن نتاشیا کے ساتھ گھر ہی پر گزار دیتا۔ فلیٹ میں وہ صبح سے شام تک سراپا نیوڈ ماڈل بنی میرے ارد گرد منڈلاتی رہتی اور مجھے بھی سارا دن کپڑوں سے بے نیاز رہنے پر مجبور کرتی۔ مختصر یہ کہ اتوار کے دن میرا فلیٹ باغِ عدن بن جاتا اور ہم دونوں آدم اور حوّا کی طرح برہنگی کا لباس پہنے جنّت کے مزے لوٹتے۔

نتاشیا کے پیار کرنے کے انداز بھی نرالے تھے۔ پہلے تو وہ کسی بچے کی طرح میرے سر میں تیل ڈالتی۔ پھر اپنی نرم انگلیوں سے مالش کرتی۔ مالش کے بعد زبردستی پورے بدن کا مساج کرتی، مساج کیا کرتی، گُدگُدا، گُدگُدا کر میرا دم نکال دیتی۔ جب میں ہنس ہنس کر بے حال ہو جاتا تو مجھے کھینچ کھانچ کر باتھ روم میں لے جاتی۔ شاور کے نیچے خوب مل مل کر نہلاتی، تولیے سے بدن کا پور پور خشک کرتی۔ کھانے کی میز پر خود میری گود میں چڑھ کر بیٹھ جاتی اور مجھے کھانا کھلاتی۔ ہاتھ سے نہیں منہ سے، جیسے گوریا اپنے بچوں کو چوگا چگاتی ہے۔ بستر پر تو ہر لمحہ مچھلی کی طرح تڑپتی اور پھسلتی رہتی۔ اف! کیا لڑکی تھی، نتاشیا۔۔۔‘‘‘

’’چِر۔۔۔ چِر۔۔۔ چِر۔۔۔ ر۔ ر۔ ر۔ ر‘‘

’لیجئے، بریک نہ لگاتا تو ابھی ایکسی ڈینٹ ہو گیا ہوتا۔ میں بھول ہی گیا کہ گاڑی چلا رہا ہوں اور میرے دونوں ہاتھ نتاشیا کے کاندھوں پر نہیں گاڑی کی اسٹیئرنگ پر ہیں۔

تین مہینے ہو گئے نتاشیا مجھے چھوڑ کر چلی گئی۔ بہت روئی تھی آخری دن مجھ سے لپٹ کر۔ میں بھی آبدیدہ ہو گیا تھا۔ زندگی میں پہلی بار کسی عورت سے بچھڑتے ہوئے میرے دل کے کسی گوشے میں کچھ چٹختا سا محسوس ہوا تھا۔ اس نے تین برسوں میں مجھے بہت سکھ دیا تھا۔ اتنا سکھ شاید کوئی شادی شدہ عورت تیس برس میں اپنے مرد کو بھی نہیں دے سکتی۔ وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتی تھی۔ کہتی تھی۔ ’’زندگی بھر تمہارے چرن دھو کر پیتی رہوں گی۔ کبھی تمہیں شکایت کا موقع نہیں دوں گی۔ مجھے بیوی نہیں اپنی داسی سمجھ کر اپنا لو۔‘‘

مگر میں بھی کیا کرتا۔ میرے ہاتھ میں شادی کی لکیر ہی نہیں ہے۔ البتہ عورتیں ڈھیر ساری ہیں۔ آخری دن وہ ایک لمحے کے لیے بھی مجھ سے جدا نہیں ہوئی۔ سینے سے یوں چمٹی رہی جیسے مجھ سے الگ ہوتے ہی کافور بن کر ہوا میں تحلیل ہو جائے گی۔ رو رو کر میرا سینہ بھگوتی رہی۔ جب روتے روتے تھک جاتی تو دیوانوں کی طرح میرے ہونٹ، رخسار، پیشانی چومنے لگتی۔ بلکہ سر سے پاؤں تک پورے بدن کو بوسوں سے شرابور کر دیتی۔ سچ پوچھئے تو اس کے اس والہانہ پیار نے شام ہوتے ہوتے مجھے زیر کر ہی لیا تھا۔

لیکن ایک بات ایسی ہو گئی کہ سب کچھ الٹا پلٹا ہو گیا۔

میں نے نتاشیا کو سینے سے چمٹاتے ہوئے کہا۔

’’نتاشیا! تم مجھے بہت چاہتی ہو نا۔۔۔؟‘‘

’’اپنی جان سے زیادہ۔۔۔‘‘

’’پھر میری ایک بات سنو!‘‘

’’کہو۔۔۔‘‘

’’ایک ہفتے بعد تمہاری شادی ہو رہی ہے نا۔۔۔؟‘‘

’’ہاں۔۔۔‘‘

’’تم شادی کر لو۔ تمہارے شادی کر لینے سے ہماری محبت تھوڑی نا ختم ہو جائے گی۔ شادی کے بعد بھی ہم اسی طرح ملتے رہیں گے۔ میرے گھر کا دروازہ تمہارے لیے ہمیشہ کھلا رہے گا۔ میں وعدہ کرتا ہوں، میں سوائے تمہارے کسی دوسری عورت کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھوں گا۔‘‘

’’شٹ اپ۔۔۔‘‘

وہ چیخ پڑی، اور کسی ٹپّا کھائی گیند کی طرح میری گود سے اچھل کر کھڑی ہو گئی۔

’’یعنی شادی کسی اور سے رچاؤں اور ہوس تمہاری پوری کروں۔۔۔ تم نے آج میری محبت کو گالی دی ہے۔ میرے پیار کے منہ پر تھوکا ہے۔ مجھے نہیں پتا تھا کہ تم اس قدر ذلیل انسان ہو۔ بلکہ تم انسان ہی نہیں ہو۔ میں تمہارے ساتھ سونے کی بجائے کسی کتے کے ساتھ سوجاتی تو زیادہ بہتر ہوتا۔ یو سن آف دی بچ۔۔۔ بلڈی سوائن۔۔۔‘‘

وہ گالیاں دے رہی تھی۔ گالیاں دیتے دیتے روتی جا رہی تھی۔ اور روتے روتے کپڑے پہن رہی تھی۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اچانک وہ اس قدر برہم کیوں ہو گئی۔ آخر میں نے ایسی کونسی بات کہہ دی۔۔۔ جو وہ اپنے آپے سے باہر ہوئی جا رہی تھی۔ اس سے پہلے کہ میں سچویشن کو سمجھتا، سمجھ کر اسے سمجھانے کی کوشش کرتا، وہ کپڑے پہن کر اپنی بکنی میرے منہ پر مارتی ہوئی بولی۔ ’’لو۔۔۔ اسے زندگی بھر چاٹتے رہو۔۔۔ تم اسی قابل ہو۔‘‘

اور دروازہ کھول کر فلیٹ کے باہر نکل گئی۔ میں تو کئی منٹ تک ننگ دھڑنگ بستر پر بے حس و حرکت پڑا رہ گیا۔ میرے حواس ہی مختل ہو گئے تھے۔ تین مہینے سے زیادہ کا عرصہ ہو گیا۔ اس دن کے بعد سے مجھے نتاشیا پھر کبھی نہیں ملی۔ اف! کیا لڑکی تھی نتاشیا۔۔۔ وہ تو خیر مجھے جی جان سے چاہتی ہی تھی۔ اب غور کرتا ہوں تو مجھے ایسا لگ رہا ہے، شاید میں بھی اس سے پیار کرنے لگ گیا تھا۔ اسی لیے تو اس کے چلے جانے کے بعد سے میرے اندر عورت کی خواہش ہی سرد پڑ گئی تھی۔ وہ جو ہمہ وقت لہو میں ترنگیں اٹھا کرتی تھیں اب دور دور تک ان کا پتا نہیں تھا۔ طبیعت پر عجیب سی پژمردگی چھائی رہتی۔ میں دفتر سے سیدھا گھر آ جاتا، منہ ہاتھ دھونے کے بعد ٹی وی کھول کر بیٹھ جاتا۔ اور دیر رات تک اوٹ پٹانگ قسم کے پروگرام اور سڑی بسی فلمیں دیکھتا رہتا اور جب نیند آتی وہیں لڑھک کر سوجاتا۔ اتوار کا دن تو قیامت کی طرح گزرتا۔ نتاشیا کی اس قدر یاد آتی کہ بے چین ہو کر دیوانوں کی طرح کمرے میں گھنٹوں ٹہلتا رہتا۔ کبھی اس کی بکنی کو اپنے چہرے پر ملتا، کبھی اپنے سینے سے لگاتا، اس کے الفاظ میرے کانوں میں گونجتے رہتے۔

’’لو اِسے زندگی بھر چاٹتے رہو، تم اسی قابل ہو۔‘‘

کبھی کبھی میرے آنسو بھی نکل آتے۔ اگر کوئی مجھے اس حال میں دیکھ لیتا تو یقیناً پاگل سمجھتا۔ میں اندر سے اس قدر بجھ گیا تھا کہ لوگ جب قہقہے لگا رہے ہوتے مجھے مسکرانا بھی دوبھر معلوم ہوتا۔

تبھی ایک ایسا واقعہ پیش آیا کہ میرے لہو میں مدھم پڑتے چراغ ایک بار پھر لو دینے لگے۔ وہ اتوار کا دن تھا۔ چن چولی سے اچانک روشن علی آ گیا۔ آپ روشن علی کو نہیں جانتے۔ روشن علی پہلے ممبئی میں ہی رہتا تھا۔ میری اس کی کالج کے زمانے سے آشنائی تھی۔ بڑا دل پھینک، شوخ مزاج اور باتونی قسم کا شخص ہے۔ لڑکیوں کو تو چٹکیوں میں پٹا لیتا تھا۔ کالج کے زمانے میں اس کی بیک وقت کئی کئی گرل فرینڈز ہوا کرتی تھیں۔ مجھے بھی لڑکیوں کی لت در اصل اس کی صحبت میں ہی پڑی تھی۔ بلکہ پہلی بار بچو بھائی کی واڑی میں جمنا بائی کا گانا سننے مجھے وہی لے گیا تھا۔ اور اس کی ترغیب پر ہی پہلی بار میں عورت کے جسم کی لذت سے آشنا ہوا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ چند دنوں میں ہی میں ان گلیوں کا ایسا شناور ہو گیا کہ دوسروں کی رہنمائی کرنے لگا۔

کالج سے فارغ ہونے کے بعد روشن علی کسی کاروبار میں لگ گیا۔ البتہ کبھی کسی بار یا ہوٹل میں، کبھی بچّو بھائی کی واڑی میں اس سے ملاقات ہو جاتی تھی۔ اسی زمانے میں وہ ممبئی سے چن چولی منتقل ہو گیا۔ معلوم ہوا اس نے وہاں ایک ہوٹل اور بہت بڑا فارم ہاؤس بنوایا ہے۔ شروع شروع میں وہ مجھے کبھی کبھی فون کر لیا کرتا تھا۔ اس نے فون پر بتایا تھا کہ اب اس نے آوارہ گردی کرنا اور اِدھر اُدھر منہ مارنا ترک کر دیا ہے اور ایک شریف آدمی کی طرح صرف اپنی منکوحہ بیویوں پر ہی اکتفا کیے ہوئے ہے۔ اور یہ کہ آج کل وہ کثرتِ ازواج کے مزے لوٹ رہا ہے۔ وہ اکثر مجھے چن چولی آنے کی دعوت دیتا اور میں اپنی مصروفیات کی وجہ سے اس کی دعوت ٹالتا رہتا۔ اس روز تقریباً سات آٹھ برس بعد اسے یوں اچانک اپنے سامنے دیکھ کر میں حیران رہ گیا تھا۔ تھوڑی دیر کے لیے تو میں اسے پہچان ہی نہیں سکا۔ اس کا پورا حلیہ ہی بدل گیا تھا۔ پہلے وہ کلین شیو رہتا تھا اور اس کے بال سلیقے سے جمے رہتے اور اکثر وہ رنگین شرٹ اور جینس وغیرہ پہنے رہتا۔ مگر اب اس کے چہرے پر خشخشی داڑھی اگ آئی تھی۔ سر کے بال آدھے سے زیادہ اڑ چکے تھے اور پیشانی تالو سے جا ملی تھی۔ آنکھوں پر سنہری فریم کی عینک تھی اور بدن پر کریم کلر کا قیمتی سفاری تھا۔ قدرے موٹا ہو گیا تھا۔ کل ملا کر اس کی شخصیت خاصی رعب دار لگ رہی تھی۔ مجھے اپنی جانب اجنبی نظروں سے گھورتے دیکھ کر اس نے ڈپٹ کر کہا۔

’’یار! کیا گھور رہے ہو۔ پہچان نہیں پا رہے ہو کیا؟ ارے گھامڑ میں روشن علی ہوں روشن علی۔۔۔‘‘

میں نے تپاک سے اسے گلے لگایا اور خوش دلی سے بولا۔

’’یار! اچانک اس طرح، بغیر اطلاع دیے، بغیر فون کیے۔ اور پھر تمہارا حلیہ، پہلے دیو آنند لگتے تھے اب ایک دم سے انوپم کھیر لگ رہے ہو۔‘‘

میں نے اس کے نیم گنجے سر کی طرف اشارا کرتے ہوئے کہا۔

’’میرا تو حلیہ بدلا ہے۔ مگر تم نے اپنا یہ کیا حال بنا رکھّا ہے۔ کچھ لیتے کیوں نہیں؟‘‘

اس کے اس اشتہاری ریمارک پر ہم دونوں ہنس دیے۔ میں نے ہنستے ہنستے ہی کہا۔

’’مجھے کیا ہوا ہے۔ میں بالکل ٹھیک ہوں۔‘‘

’’کیا خاک ٹھیک ہو۔ یہ اترا ہوا چہرہ، آنکھوں کے گرد حلقے، بڑھا ہوا شیو، پورے دیو داس لگ رہے ہو دیو داس۔۔۔ دلیپ کمار والے دیو داس۔‘‘

فلموں سے مثالیں تراشنا ہمارا پرانا مشغلہ تھا۔

’’چھٹی کا دن ہے، آرام کر رہا ہوں یار۔‘‘

’’بکو مت، مجھے آدم گنجڑی نے فون پر سب بتا دیا ہے۔‘‘

آدم پھُکنیا ہمارا کالج کا ساتھ تھا۔ چرس کی سگریٹیں پھونکنا اور کوٹھوں کے چکر لگانا اس کا محبوب مشغلہ تھا۔ گھر جائیداد ورثے میں ملی تھی اس لیے روزی روٹی کی فکر نہیں تھی اسے۔

’’ایک نتاشیا کے چلے جانے سے اتنا غم کھانے کی کیا ضرورت۔ اس دنیا میں عورتوں کا کال ہے کیا؟‘‘

نِتاشیا کا ذکر آتے ہی میں ایک دم چپ ہو گیا۔

’’دیکھا دکھتی رگ پر انگلی رکھتے ہی کیسا چہرہ اتر گیا۔‘‘

’’ایسا کچھ نہیں ہے۔ تم تو جانتے ہو ادھر کی ادھر کرنا آدم پھکنیا کی پرانی عادت ہے۔‘‘

’’آدم کو مارو گولی، مگر تمہاری یہ اڑی اڑی رنگت بتا رہی ہے کہ تم اندر سے دکھی ہو۔ چلو میرے ساتھ، چن چولی کی کھلی ہوا میں چند روز رہو گے تو سب بھول جاؤ گے۔‘‘

روشن علی سے ہمدردی کے بول سن کر میرے اندر کچھ پگھلنے سا لگا۔ مگر میں نے چہرے پر کوئی بھاؤ آنے نہیں دیا۔ پھیکی ہنسی ہنس کر بولا۔

’’آؤں گا کسی روز۔ مگر ابھی نہیں۔ دفتر میں آج کل بہت کام ہے۔‘‘

روشن علی نے میری بات سنی ان سنی کر دی اور ایک آنکھ دبا کر بولا۔

’’نتاشیا کو بھی بھول جاؤ گے ایسے ایسے نظارے ہیں وہاں۔‘‘

میں نے بے دلی سے کہا۔

’’نہیں یار، پتا نہیں کیوں اب اس چوہا بلّی کے کھیل سے جی اوب گیا ہے۔‘‘

’’تو پھر میری طرح کوئی پرمننٹ بندوبست کر لو۔‘‘

’’او نو۔۔۔ شادی تو خیر کرنا ہی نہیں ہے۔‘‘

’’تو پھر کیا کرو گے۔۔۔ سنیاس لے لو گے؟‘‘

’’نہیں ایسی بات نہیں۔ بس ایک فیز آیا ہے۔ اس سے نکل جاؤں تو سوچوں گا۔‘‘

’’میری ایک بات سنو! یہ فیز ایک عورت کی وجہ سے آیا ہے۔ تمہیں ایک عورت ہی اس فیز سے نکال سکتی ہے۔ اگر تم کہو تو اس کا انتظام ہو سکتا ہے۔‘‘

’’مگر میں نے کہا نا۔۔۔ میں شادی۔۔۔‘‘

’’شادی کی بات نہیں عورت کی بات ہے۔ صرف عورت، جو بیوی کی طرح تمہارے ساتھ رہے مگر بیوی ہونے کا دعوی نہ کرے۔ بولو یس۔۔۔؟‘‘

’’ایسی عورت کہاں ملے گی یار۔۔۔!؟؟

میں نے بے کسی کی ہنسی ہنستے ہوئے کہا۔

’’ملے گی۔ تم ہامی بھرو، کل ہی ایسی عورت کا انتظام ہو جائے گا۔‘‘

میں اچانک سنجیدہ ہو گیا۔

’’یار روشن! در اصل میں ایسی ہی عورت چاہتا ہوں۔ معشوقاؤں کے ناز اٹھاتے اٹھاتے تھک چکا ہوں میں۔ مجھے اب واقعی ایسی ہی عورت چاہیے جو دن میں ایک نرس کی طرح میرا خیال رکھے اور رات کو بسترپر آکٹوپس کی طرح مجھ سے چمٹی رہے۔‘‘

’’مگر تم پر حق نہ جتائے۔‘‘ روشن علی نے درمیان میں میری بات کاٹتے ہوئے کہا۔

’’ہاں مجھ پر حق نہ جتائے۔ اس کے باوجود میں اسے وہ سب دوں گا جو اس کا حق ہے۔‘‘میں نے آگے بات مکمل کر دی۔

’’میں سمجھ گیا۔ تمہیں مل جائے گی ایسی عورت۔۔۔ مگر اس کے لیے کچھ دام خرچ کرنے ہوں گے۔‘‘

’’دام۔۔۔؟‘‘

’’ہاں۔۔۔‘‘

’’کتنے۔۔۔؟‘‘

’’وہ تو عورت پر منحصر ہے۔‘‘

’’کوئی جھمیلہ تو نہیں؟‘‘

’’کیسا جھمیلہ۔ یہ دنیا ایک بازار ہے، یہاں ہر چیز بِکاؤ ہے۔‘‘

’’کب تک مل جائے گی؟‘‘

’’کچھ دن صبر کرو۔ میں تمہیں فون کر دوں گا۔‘‘

روشن علی مجھے صبر کی تلقین کر کے چلا گیا۔ کیا واقعی اسے ایسی عورت مل جائے گی جیسی میں چاہتا ہوں۔ ایک نسائی پیکر تصور میں ابھرنے لگا جس کے نقش خاصے دھندلے تھے۔

دوسرے دن آدم گنجڑی مل گیا۔ میں نے پہلے تو اسے خوب پھٹکار سنائی کہ روشن علی کو میرے اور نتاشیا کے بارے میں بتانے کی کیا ضرورت تھی۔ اس نے حسبِ معمول میری بات کو چرس کے دھوئیں میں اڑا دیا۔ جب میں نے اسے بتایا کہ روشن علی کل آیا تھا اور اس نے مجھ سے کوئی عورت دلانے کا وعدہ کیا ہے تو آدم گنجڑی اچھل پڑا۔ بولا۔

’’اگر اس نے وعدہ کیا ہے تو ضرور پورا کرے گا۔ تم نہیں جانتے بہت پہنچا ہوا شخص ہے وہ۔ میں گیا تھا نا دو سال پہلے اس کے فارم ہاؤس پر۔ کیا ٹھاٹ ہیں یار اس کے۔ اور عورت! عورت تو وہاں گاجر مولی سے زیادہ سستی ہے۔ دیکھنا، وہ اپنا وعدہ پورا کر کے رہے گا۔‘‘

میں کچھ نہیں بولا۔ کچھ دن اور گزر گئے۔ روشن علی نے جانے کے بعد کوئی فون نہیں کیا۔ لیکن جانے کیوں مجھے بھی یقین تھا کہ اسے ایسی عورت ضرور مل جائے گی۔ اور جب بھی ایسا خیال آتا دل کے کسی انجان گوشے میں ایک مہتابی سی چھوٹتی۔

نتاشیا کی یاد اب کافی دھندلا گئی تھی۔ اس کی شادی ہو چکی تھی اور وہ اپنے شوہر کے ساتھ امریکہ چلی گئی تھی۔ نتاشیا کے جانے کے بعد دو تین سابقہ محبوباؤں نے اپنی خدمات پیش کیں مگر میں نے کوئی دلچسپی نہیں لی۔ سچ پوچھئے تو ایک ہی طرز کا کھانا کھاتے اکتا گیا تھا میں۔ سوچا روشن علی کو فون کروں۔ مگر پھر خیال آیا کہ خواہ مخواہ اتاولے پن کا مظاہرہ کرنا مناسب نہیں۔ اگر بندوبست نہ ہوا ہو تو اسے بھی شرمندگی ہو گی۔ امید و بیم کی کشمکش میں ڈیڑھ مہینے گزر گئے۔ روشن علی کے وعدے پر سے یقین اٹھنے لگا تھا کہ اچانک کل صبح روشن علی کا فون آیا۔ اس نے بتایا کہ حسبِ منشا عورت مل گئی ہے اور وہ اس عورت کے ساتھ ممبئی گوا روڈ پر اپنے فارم ہاؤس میں میرا انتظار کر رہا ہے۔ ساتھ ہی اس نے یہ بھی کہا کہ ایک لاکھ کا ایک چیک بھی لیتے آنا۔ مگر چیک پر کسی کا نام مت لکھنا۔ میں نے فوراً تیاری شروع کر دی۔ ایک لاکھ کا بیرر چیک لکھا۔ بینک سے کچھ رقم نکالی۔ دفتر میں چھٹی کے لیے فون کر دیا۔ اور آج صبح گاڑی لے کر روشن علی کے بتائے ہوئے پتے پر روانہ ہو گیا۔

روشن علی نے کہا تھا۔ کار سے تقریباً چار گھنٹے میں چن چولی پہنچ جاؤ گے۔ چن چولی پہنچ کر کسی سے بھی ’آرام گھر فارم ہاؤس‘ پوچھ لینا۔ میں نے گھڑی دیکھی۔ بارہ بج رہے تھے۔ میں صبح نو بجے چلا تھا۔ تین گھنٹے ہو گئے تھے۔ ایک آدھ گھنٹے میں چن چولی پہنچ جاؤں گا۔

ایک بار پھر ایک انجانا، ان دیکھا نسائی پیکر تصور میں ابھرنے لگا۔ نگاہوں میں ایک قوسِ قزح سی کھنچنے لگی، کبھی تصویر اس قدر دھندلی کہ محض ایک پرکشش ہیولے کے سوا کچھ نظر نہ آتا۔ کبھی اس قدر واضح کہ ہر نقش دامنِ دل کو کھینچتا سا محسوس ہوتا۔ لہو میں جل ترنگ سے بجنے لگے۔ اسٹیئرنگ پر انگلیاں تھرکنے لگیں، ہونٹ خود بخود سکڑنے لگے اور منہ سے سیٹی کی آواز کسی فلمی دھن میں ڈھلتی چلی گئی۔ ویسے تو میں ہمیشہ خوش رہنے کی کوشش کرتا ہوں مگر اس وقت میری خوشی عروج پر تھی۔ میری کار تو سڑک پر دوڑ رہی تھی مگر میری روح آسمانوں میں پرواز کر رہی تھی۔ میں نے مخمور نگاہوں سے اپنے اطراف نگاہ ڈالی۔ موسم بھی میری طرح مست خیز ہو گیا تھا۔ آسمان پر بادلوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے دھیرے دھیرے یوں تیر رہے تھے جیسے بے شمار جوڑے بانہوں میں بانہیں ڈالے فلور ڈانس میں مصروف ہوں۔ ہوا کبھی گالوں کو تھپتھپاتی، بالوں سے اٹھکیلیاں کرتی گزر رہی تھی۔ سڑک کی دونوں جانب درختوں کا سلسلہ سا چلا گیا تھا جن کی پھنگیاں آپس میں سر جوڑے سرگوشیاں سی کرتی معلوم ہو رہی تھیں۔ درختوں سے پرے تا حد نظر دھان کے کھیت ہی کھیت دکھائی دے رہے تھے۔ فصل کھڑی ہو رہی تھی مگر پودوں میں ابھی بالیاں نہیں آئی تھیں۔ ہوا کے جھونکوں کے ساتھ پودے لہلہاتے ہوئے ایک طرف کو یوں جھک جاتے جیسے کسی کی نادیدہ انگلیاں ان میں کنگھی کر رہی ہوں۔ اگر کوئی اور وقت ہوتا تو میں کچھ دیر رک کر اس دلکش نظارے سے ضرور لطف اندوز ہوتا۔ مگر اس وقت جلد از جلد ’آرام گھر‘ پہنچنے کا خیال ہر منظر سے زیادہ دلکش تھا۔

چن چولی پہنچ کر کسی سے ’آرام گھر‘ کا پتا پوچھنے کی نوبت نہیں آئی۔ دائیں جانب لبِ سڑک ہی ایک بڑا سا بورڈ لگا تھا جس پر ’آرام گھر‘ لکھا تھا اور تیر کا نشان بنا تھا۔ میں نے بغیر کسی سے پوچھے دائیں جانب گاڑی موڑ دی۔ یہ ایک نیم پختہ پتلی سی سڑک تھی۔ جس کی دونوں جانب سرکنڈوں اور کروندوں کی جھاڑیاں اگی ہوئی تھیں۔ کہیں کہیں جامن اور کاجو کے درخت بھی نظر آ جاتے تھے۔ سڑک ہر دو چار فرلانگ کے بعد ایک طرف کو مڑ جاتی تھی۔ یعنی اگر کوئی ہیلی کوپٹر سے سڑک کا نظارہ کرتا تو اسے یوں لگتا جیسے ایک بڑا لمبا سانپ جھاڑیوں کے درمیان سے رینگتا جا رہا ہے، اور میری سرخ رنگ کی ٹویوٹا۔ وہ تو بالکل ہی کسی بیر بہوٹی سے مشابہ نظر آتی۔ روشن علی کے مطابق واقعی پندرہ بیس منٹ کے بعد ہی میری کار ’آرام گھر‘ کے گیٹ پر کھڑی تھی۔ ہارن کی آواز سن کر چوکیدار نے دروازہ کھولا اور سلام کر کے ایک طرف کو ہٹ گیا۔ میں کار اندر لیتا چلا گیا۔ سامنے بنگلے کا پورچ نظر آ رہا تھا۔ کار جیسے ہی پورچ میں داخل ہوئی میں نے دیکھا بنگلے کے دروازے پر روشن علی کھڑا مسکرا رہا تھا۔ میں کار کا دروازہ کھول کر نیچے اتر آیا۔ روشن علی نے آگے بڑھ کر گرم جوشی کے ساتھ ہاتھ ملایا۔ ’’خوش آمدید۔۔۔ راستے میں کوئی دقّت تو نہیں ہوئی؟‘‘

’’بالکل بھی نہیں۔۔۔‘‘

’’چلو منہ ہاتھ دھولو۔۔۔ کھانا لگ گیا ہے۔‘‘

کھانے کی میز پر صرف ہم دونوں ہی تھے۔ میں نے دزدیدہ نگاہوں سے اِدھر ادھر دیکھا، مگر مجھے وہاں سوائے اس نیپالی بٹلر کے کوئی نظر نہیں آیا جو دوڑ دوڑ کر ہمیں گرم گرم پھلکے کھلا رہا تھا۔ کھانے کے دوران ہم دونوں زیادہ تر کچھ موسم کی اور کچھ موجودہ سیاست کی باتیں کرتے رہے۔ کھانے کے بعد روشن علی مجھے ڈرائنگ روم میں بٹھا کر یہ کہتا ہوا اندر چلا گیا کہ ’ ’تم تھوڑی دیر آرام کر لو۔ میں ابھی حاضر ہوتا ہوں۔‘‘

میں ڈرائنگ روم میں ڈنلپ کے گداز صوفے پر پسر کر بیٹھ گیا۔ چار گھنٹے کی ڈرائیونگ سے قدرے تھکن محسوس ہو رہی تھی تس پر کھانا بھی کچھ زیادہ ہو گیا تھا۔ میری آنکھیں خود بخود مندنے لگیں۔ پھر پتا نہیں مجھے کب جھپکی آ گئی۔

نیند میں بھی عجب دھکڑ پکڑ چلتی رہی۔ کبھی گھنگھروؤں کی آواز آتی اور بیس سال پہلے کی وحیدہ رحمان چھم چھم بھاگتی ہوئی دکھائی دیتی۔ کبھی کسی گانے کی آواز آتی اور محل کی مدھو بالا جھولے پر جھولتی نظر آتی۔ تبھی کسی آہٹ سے میری آنکھ کھل گئی۔ سامنے روشن علی کھڑا مجھے غور سے دیکھ رہا تھا۔

’’میرا خیال ہے تم تھک گئے ہو۔ آج یہیں میرے گیسٹ روم میں رک جاؤ، کل صبح چلے جانا۔‘‘

میں نے کلائی کی گھڑی کی طرف دیکھا۔ ساڑھے تین بج رہے تھے۔

’’نہیں بھائی! رات میں رکنے کا سوال ہی نہیں۔ کل ایک ضروری میٹنگ اٹینڈ کرنی ہے۔ مجھے تم چار بجے تک رخصت کر دو تو بہتر ہے۔‘‘

پھر میں نے قدرے جھجھکتے ہوئے کہا۔

’’میں۔۔۔ میں۔۔۔ تمہاری مطلوبہ رقم کا چیک لے آیا ہوں۔‘‘

’’ارے چیک کی کوئی بات نہیں۔ وہ تو مل ہی جائے گا۔ پہلے مال تو دیکھ لو۔‘‘

روشن علی نے ایک آنکھ دباتے ہوئے کہا۔

اگر چہ میں عورت کو سر آنکھوں پر بٹھانے والوں میں سے نہیں ہوں، تاہم جانے کیوں اس وقت روشن علی کا عورت کو ’مال‘ کہنا اچھا نہیں لگا۔ شاید اس لیے بھی کہ وہ جو کوئی بھی ہو عنقریب میری ملکیت میں آنے والی تھی۔ میرے مال کو کوئی اور مال کہے میں یہ کیسے گوارا کر سکتا تھا۔ اتنے میں اندر کے کمرے کا دروازہ کھلا۔ ایک عورت دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی ہماری طرف بڑھ رہی تھی۔ وہ سیاہ شلوار قمیض میں ملبوس تھی اور سیاہ دوپٹا جس پر سنہری رنگ کی گوٹ تھی اس کے گلے میں پڑا تھا۔ اس کا رنگ کھلتا ہوا تھا جو سیاہ رنگ کے لباس میں مزید کھل اٹھا تھا۔ عمر پچیس تیس کے آس پاس ہو گی مگر بدن کا کساؤ لباس کی بندشوں سے بغاوت کرتا نظر آ رہا تھا۔ چہرے کے نقوش خاصے دلآویز تھے۔ اس کا گلا اور ہاتھ زیوروں سے عاری تھے البتہ کانوں میں دو بندے لٹک رہے تھے جن کے موتی دو جگنوؤں کی مانند جل بجھ رہے تھے۔ وہ ہمارے سامنے آ کر کھڑی ہو گئی۔ اس کی پلکیں کھلی ہوئی تھیں مگر آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔ یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ وہ اندر رو رہی تھی یا سورہی تھی۔

میں نے روشن علی کی طرف دیکھا، وہ مجھے غور سے دیکھ رہا تھا۔ جیسے میرے تاثرات جاننے کی کوشش کر رہا ہو۔ اس نے آنکھوں ہی آنکھوں میں پوچھا۔

’’کیسی ہے؟‘‘ میرے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی تھی۔ میں نے بھی منہ سے کچھ کہنے کی بجائے آنکھیں جھپکا کر اپنی پسندیدگی کا اظہار کر دیا۔ عورت چند لمحے رکی رہی پھر روشن علی کا اشارہ پا کر الٹے قدموں لوٹ گئی۔

میں نے جلدی سے اپنا بریف کیس کھولا اور ایک لاکھ روپئے کا چیک روشن علی کی طرف بڑھاتا ہوا بولا۔

’’تم نے نام لکھنے کے لیے منع کیا تھا۔‘‘

’’ہاں۔۔۔‘‘ اس نے چیک لیتے ہوئے کہا۔ ’’یہ ایک لاکھ روپے ایک طرح سے بانو کا مہر بھی ہے اور کنیا دان بھی۔ یہ رقم اس کے نام پر بینک میں جمع کر دی جائے گی۔‘‘

’’کون بانو؟‘‘ میں نے چونک کر کہا۔

’’وہی جو ابھی آئی تھی۔‘‘

’’اوہو! مگر یہ بانو ہے کون؟‘‘

’’تمہیں آم کھانے سے مطلب، پیڑ گننے سے کیا فائدہ؟‘‘

’’پھر بھی جس کے ساتھ ایک ہی چھت کے نیچے رہنا ہو، اس کے بارے میں کچھ تو جانکاری چاہیے۔‘‘

’’ہُم۔۔۔‘‘ روشن علی نے ایک لمبی ہنکاری بھری۔ پھر بولا۔

’’بانو۔۔۔ میری بیوی تھی۔۔۔‘‘

’’کیا۔۔۔؟‘‘ مجھے جیسے بچھو نے ڈنک مار دیا ہو۔

’’تھی۔۔۔ اب نہیں ہے۔ میں نے اسے طلاق دے دی ہے۔ تم جب تک اسے رکھنا چاہو رکھو۔ جب چھوڑ دو گے میں دوبارہ اس سے رجوع کر لوں گا۔ کوئی پریشانی کی بات نہیں۔‘‘

روشن علی اتنے اطمینان سے یہ سب کہہ رہا تھا جیسے وہ اپنی بیوی کا نہیں بلکہ اپنی کسی سیکنڈ ہینڈ کار کا سودا کر رہا ہو۔ میں نے ہکلاتے ہوئے کہا۔

’’مگر تم نے ایسا کیوں کیا روشن علی! کوئی دوسری عورت بھی تو مل سکتی ہے۔‘‘

’’بانو بھی تو عورت ہی ہے۔‘‘

’’مگر مجھے یہ ٹھیک نہیں لگ رہا ہے۔‘‘

’’کیا ٹھیک نہیں لگ رہا ہے۔ میرا بانو کو طلاق دینا یا اسے تمہارے حوالے کرنا۔‘‘

’’یار روشن علی، سمجھنے کی کوشش کرو۔۔۔ وہ تمہاری بیوی ہے۔‘‘

’’ہے نہیں تھی۔۔۔ چاہو تو تم بھی اسے بیوی بنا کر رکھ سکتے ہو۔‘‘

وہ ایک لمحے کو رکا پھر جلدی سے بولا۔ ’’خیر یہ تمہارا ذاتی معاملہ ہے کہ تم اسے کس طرح رکھنا چاہتے ہو۔ میرا اس میں دخل دینے کا کوئی ارادہ نہیں۔‘‘

روشن علی کی باتیں سن کر مجھے تو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ روشن علی سے کیا کہوں، میں عجیب مخمصے میں تھا۔ میری زندگی میں کئی عورتیں آئیں اور گئیں مگر اس طرح کی سودے بازی سے کبھی سابقہ نہیں پڑا تھا۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ روشن علی اس قسم کا لین دین بھی کر سکتا ہے۔ جی میں آیا یکلخت انکار کر دوں مگر دوسرے ہی لمحے بانو کا پرکشش سراپا اور خوبصورت چہرہ آنکھوں میں گھوم گیا۔ مجھے خاموش دیکھ کر روشن علی بولا۔

’’اگر تمہیں میری باتوں سے اتفاق نہیں ہے تو تم اپنا چیک واپس لے سکتے ہو۔‘‘

’’نہ۔۔۔ نہیں۔۔۔ ایسی بات نہیں۔۔۔‘‘ میں نے جلدی سے کہا۔

’’پھر کیا بات ہے؟‘‘

’’تم نے مجھے کنفیوزڈ کر دیا ہے روشن علی! میں فیصلہ نہیں کر پا رہا ہوں۔‘‘

’’میں نے تمہارے مزاج کا خیال رکھتے ہوئے بانو کا انتخاب کیا تھا۔ تم جیسی عورت چاہتے تھے، مجھے یقین ہے بانو اس پر کھری اترے گی۔ ویسے آگے تمہاری مرضی۔۔۔‘‘ روشن علی اٹھ کر اندر جانے لگا۔ اس کی پیشانی پر بل پڑ گئے تھے۔

میں لپک کر اس کا راستہ روکتا ہوا بولا۔ ’’تم تو ناراض ہو گئے۔‘‘

’’پھر کیا کروں۔ میں تمہاری مدد کرنا چاہتا ہوں۔ اور تم خواہ مخواہ بحث کیے جا رہے ہو۔‘‘

’’اچھا بابا۔۔۔ مجھے منظور ہے بس۔‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے اس کے دونوں کاندھوں پر ہاتھ رکھ دیے۔

’’تم پر کوئی جبر نہیں۔۔۔‘‘ اس کی خفگی برقرار تھی۔

’’کہہ دیا نا۔۔۔ مجھے منظور ہے، آئی ایم سوری۔۔۔‘‘

اس کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آ گئی۔ ’’تم رکو، میں بانو کو لے کر آتا ہوں۔‘‘

روشن علی اندر چلا گیا۔

میں نے اس سے معافی تو مانگ لی تھی، مگر میرے اندر اب بھی ایک اتھل پتھل مچی ہوئی تھی۔ بچپن میں تتلیاں پکڑ کر ماچس کی ڈبیا میں بند کرنے کا شوق تھا مجھے۔ جب کوئی تتلی ڈبیا میں گھٹ کر مر جاتی تو میں بہت دکھی ہوتا اور عہد کرتا تھا کہ اب کوئی تتلی نہیں پکڑوں گا۔ مگر پھر کہیں سے کوئی رنگین تتلی اڑتی ہوئی آتی اور میں اس کے پیچھے بھاگنے لگتا۔ اس وقت بھی کچھ ویسی ہی عجیب و غریب کیفیت سے دوچار تھا میں۔۔۔ میں اسی ادھیڑ بن میں بے چینی سے ٹہلنے لگا۔ اچانک ایک کوندا سا لپکا۔ مجھے روشن علی کے الفاظ یاد آئے۔ ’ ’تم جب تک اسے رکھنا چاہو رکھو۔ جب چھوڑ دو گے میں دوبارہ اس سے رجوع کر لوں گا۔‘‘

دھت تیری کی۔۔۔ اتنی صاف بات میری سمجھ میں کیوں نہیں آ رہی تھی۔ یک بیک میرا سارا کنفیوژن ختم ہو گیا اور مجھے ایسی راحت محسوس ہوئی جیسے سخت حبس کے عالم میں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا در آیا ہو۔

اتنے میں روشن علی باہر نکلا۔ اس کے پیچھے بانو بھی تھی۔ اس کے کاندھے سے ایک چھوٹا سا شولڈر بیگ لٹک رہا تھا اور دائیں ہاتھ میں ایک پنجرا جھول رہا تھا۔ پنجرے میں ایک پہاڑی مینا اضطراب کے عالم میں گول گول گھوم رہی تھی۔ دونوں میرے قریب آئے۔ میں مینا کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ روشن علی بولا۔

’’بانو کو بہت عزیز ہے۔ اس کے ساتھ ہی رہے گی۔ کوئی حرج تو نہیں۔؟‘‘

’’نہیں، اس میں کیا حرج ہے۔‘‘ میں نے جلدی سے کہا اور بانو کی طرف دیکھا۔ وہ مینا کی طرف متوجہ تھی۔

ہم تینوں باہر نکلے۔ روشن علی میرے قریب آیا اور سرگوشی کے سے انداز میں بولا۔ ’’اطمینان رکھو، تمہیں مایوسی نہیں ہو گی۔‘‘

پھر اس نے مڑ کر بانو کے کاندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔ میں سمجھا روشن علی اس آخری لمحے میں شاید کچھ جذباتی ہو جائے گا۔ آخر بانو اس کی بیوی تھی۔ مگر اس کے چہرے پر کوئی ملال نہیں تھا۔ بانو نے ایک بار گردن اٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔ پھر پرس سے کالا چشمہ نکال کر آنکھوں پر چڑھا لیا۔ میں سمجھا شاید وہ اپنے آنسو چھپانا چاہتی ہے۔ مگر اس کا چہرہ بھی جذبات سے یکسر عاری تھا۔ میں حیران تھا کہ اس کا شوہر اسے دوسرے مرد کے حوالے کر رہا تھا۔ اس کا سودا ہو رہا تھا، وہ بیچی جا رہی تھی، مگر وہ بالکل لاتعلق دکھائی دے رہی تھی۔ جیسے یہ ساری کار روائی کسی اور کے ساتھ ہو رہی ہو۔

میں دروازہ کھول کر گاڑی میں بیٹھ گیا۔ ہاتھ بڑھا کر کار کا اگلا دروازہ کھولا۔ بانو چپ چاپ میری بغل میں آ کر بیٹھ گئی۔ مینا کا پنجرہ اپنی گود میں رکھ لیا۔ میں نے گاڑی اسٹارٹ کی اور ہاتھ اٹھا کر روشن علی کو ’الوداع‘ کہا۔ روشن علی بھی ہاتھ ہلا رہا تھا۔ مگر بانو نے ایک بار بھی مڑ کر اس کی طرف نہیں دیکھا۔ وہ پنجرے پر منہ رکھے مینا کو پچکار رہی تھی۔ میاں بیوی کا یہ رشتہ میری سمجھ سے بالا تر تھا۔

چنچولی تک نیم پختہ سڑک کا فاصلہ طے کرنے کے بعد ہم ممبئی گوا روڈ پر آ گئے۔ میں نے گھڑی دیکھی۔ پانچ بج رہے تھے۔ اگر کہیں رکے بغیر سفر جاری رکھا جائے تو نو بجے تک ممبئی پہنچا جا سکتا تھا۔ میں نے کار کی رفتار بڑھا دی اور کنکھیوں سے بانو کی طرف دیکھا۔ وہ مینا کے پنجرے پر جھکی ہوئی تھی اور مینا پنجرے میں لٹکتے جھولے پر الٹی لٹکی جھول رہی تھی۔ اس نے دوپٹے کے نصف حصے سے اپنے کان اور سر کو لپیٹ لیا تھا۔ باقی نصف حصہ اس کی گردن کے گرد لپٹا ہوا تھا۔ ڈھلتے سورج کی روشنی میں اس کا چہرہ دمک رہا تھا اور کانوں میں پڑے بندے دو چنگاریوں کی مانند سلگ رہے تھے۔ آنکھوں پر سیاہ چشمہ ہنوز لگا ہوا تھا۔

میں نے اسے اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے کہا۔

’’بڑا پیارا پرندہ ہے۔ کہاں سے خریدا تھا؟‘‘

اس نے گردن ترچھی کر کے میری جانب دیکھا۔ اور پھر دوبارہ پنجرے پر جھک گئی۔ مجھے اس کی خاموشی گراں گزرنے لگی تھی۔ میں نے قدرے لگاوٹ کے انداز میں کہا۔

’’کیا تم میرا نام بھی نہیں پوچھو گی بانو!‘‘

مگر اس کی خاموشی میں کوئی فرق نہیں آیا۔ وہ اسی طرح پنجرے پر جھکی رہی۔ مجھے اپنی ہتک سی محسوس ہونے لگی۔ میں نے طیش میں آ کر کار کی رفتار مزید بڑھا دی۔ اب کار ہوا سے باتیں کر رہی تھی۔ سامنے سڑک پر ایک گڈریا مویشیوں کا ریوڑ ہانکے لیے جا رہا تھا۔ راستہ تنگ تھا اس کے باوجود میں رفتار کم کیے بغیر کاوا کاٹ کر آگے نکل گیا۔ بانو پنجرے سمیت میری گود میں آ گری۔ مینا پنجرے میں بری طرح پھڑپھڑائی اور شور مچانے لگی۔ میں نے رفتار کم نہیں کی۔ بانو پھر سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔ بولی اب بھی نہیں۔ البتہ آنکھوں سے چشمہ اتار لیا۔ میں نے جھنجھلا کر زور سے بریک لگائے۔ گاڑی چرچراتی ہوئی سڑک کے کنارے رک گئی۔ بانو ایک ہاتھ سے پنجرے کو سینے سے لگائے، دوسرے سے ہینڈل تھامے بیٹھی تھی۔ میں نے چیخ کر کہا۔ ’ ’تم بولتی کیوں نہیں؟ کیا تم گونگی ہو؟‘‘ اس نے زخمی نگاہوں سے میری جانب دیکھا۔ مینا مسلسل شور مچا رہی تھی۔ وہ کچھ دیر اسے پچکارتی رہی۔ پھر اچانک پنجرے کا دروازہ کھول کر مینا کو باہر نکالا۔ اسے دونوں ہاتھوں سے تھام کر اپنے چہرے کے قریب لائی، اسے چوما اور دوسرے ہی لمحے کھڑکی سے باہر ہوا میں اچھال دیا۔ میرے منہ سے بے اختیار نکلا۔ ’’یہ کیا کیا؟‘‘ وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ اور دور فضا میں اڑتی مینا کو دیکھتی رہی جواب دھیرے دھیرے ایک متحرک نقطہ بنتی جا رہی تھی۔

٭٭٭






دی پراڈِگل سَن







’’جاؤ۔۔۔‘‘ حوالدار نے اسے اندر جانے کا اشارہ کیا۔

وہ چق ہٹا کر اندر داخل ہوا۔ سامنے ایک بڑی سی میز کے پیچھے وہی خونخوار چہرے والا جیلر بیٹھا کوئی فائل الٹ پلٹ رہا تھا، جِسے اس نے بار ہا قیدیوں کے بیرکس کا دورہ کرتے، قیدیوں کو گالیاں دیتے اور کبھی کبھی بے دردی کے ساتھ ان پر لات گھونسوں کی بارش کرتے دیکھا تھا۔

سامنے دو کرسیاں رکھّی تھیں مگر وہ کمرے میں ایک طرف ہاتھ باندھے کھڑا ہو گیا۔ جیلر نے اس کی طرف کوئی توجّہ نہیں دی۔ وہ اسی طرح فائل پر جھُکا رہا۔ میز کے بائیں کونے میں ایک ٹیلیفون رکھا تھا۔ دائیں طرف کی دیوار پر ایک پُرانے طرز کی پنڈولم گھڑی آویزاں تھی، جس کی ہلکی ہلکی ٹِک ٹِک یوں معلوم ہو رہی تھی جیسے وقت قطرہ قطرہ ٹپک رہا ہو۔ جیلر کے ٹھیک پیچھے دیوار پر مہاتما گاندھی کی تصویر آویزاں تھی جس میں وہ اپنے پوپلے منہ سے ایک مشفقانہ ہنسی ہنس رہے تھے۔ گول شیشوں والی عینک کے پیچھے ان کی آنکھوں میں بچّوں کی سی معصومیت تھی۔ معاً جیلر نے فائل پر سے گردن اٹھائی۔ اس پر ایک بھر پور نگاہ ڈالی اور بولا۔ ’’صابر حسین ولد جابر حسین شیخ یہی نام ہے نا تمہارا؟‘‘

’’جی۔۔۔ جی ہاں۔۔۔‘‘ اس نے حیرت سے جیلر کی طرف دیکھا۔ جیلر کے چہرے سے درشتگی مفقود تھی جو عموماً اس کے چہرے کو غضبناک بنائے رکھتی تھی۔ آواز میں بھی قدرے مُلائمت کی جھلک صاف محسوس کی جا سکتی تھی۔

’’تمہاری ہسٹری شیٹ میرے سامنے رکھّی ہے۔‘‘ جیلر نے میز پر رکھّی فائل پر اچٹتی نگاہ ڈالتے ہوئے کہا۔ ’’تمہارا باپ ایک کمپنی میں ملازم تھا۔ تین برس پہلے سال بھر تک بیمار رہنے کے بعد وہ مرگیا۔ تم اس وقت بی۔ کام کے فائنل ایئر میں تھے۔ تم نے فائنل ایگزام دینے سے پہلے کالج چھوڑ دیا۔ تم تین برس سے بیکار ہو۔ تم ڈرگ ایڈکٹ ہو۔ شراب بھی پیتے ہو۔ تمہیں جوئے کی بھی لت ہے۔ پچھلے سال ایک جوئے کے اڈّے پر پولس کی ریڈ پڑی جس میں تم پکڑے گئے۔ تمہاری ماں جیل میں تین بار تم سے مِلنے آئی تھی مگر تم نے اس سے مِلنے سے انکار کر دیا۔ وجہ؟ نہیں معلوم۔‘‘ وہ گردن جھُکائے کھڑا تھا اور جیلر کسی ٹیپ ریکارڈ کی طرح اس کی کیس ہسٹری دُہرا رہا تھا۔ جیلر خاموش ہو گیا۔ اس نے گردن اٹھا کر دیکھا۔ جیلر پان پراگ کا پیکٹ پھاڑ رہا تھا۔ پان پراگ پھانکنے کے بعد اس نے خالی پیکٹ کو مسل کر پاس کے ڈسٹ بِن میں ڈال دیا اور منہ چلاتا ہوا اس کی طرف دیکھنے لگا۔ اس نے نظریں جھُکا لیں۔ جیلر نے پان پراگ کو منہ میں گھولتے ہوئے کہا۔ ’’دیکھو، تم ایک پڑھے لکھّے نوجوان ہو۔ تم نے اپنی پڑھائی ادھوری کیوں چھوڑی، مُجھے نہیں معلوم۔۔۔ تمہیں ڈرگس اور جوئے کی عادت کیسے پڑی؟ مجھے نہیں معلوم۔۔۔ تمہارے ایک شناسا نے تمہاری ضمانت دینی چاہی تو تم نے منع کر دیا۔ وجہ، نہیں معلوم۔۔۔ تمہیں چھ مہینے کی جیل ہو گئی۔ پانچ مہینے پورے ہو چکے ہیں۔ جیل میں تمہارا برتاؤ اچھا تھا۔ اسی بنا پر میں نے تمہاری ایک مہینے کی سزا معاف کرنے کی سفارش کی تھی جو منظور ہو گئی ہے۔‘‘ اس نے چونک کر حیرت سے جیلر کی طرف دیکھا۔ جیلر مسکرا رہا تھا۔ اگر چہ اس کے کرخت چہرے سے اس کی مسکراہٹ ہم آہنگ نہیں ہو رہی تھی تاہم اسے اس گھڑی اس کی مسکراہٹ بہت بھلی لگی۔ جیلر کہہ رہا تھا۔

’’میں نے تمہیں اِسی لیے بلایا ہے اس وقت دس بج رہے ہیں، گیارہ بجے تمہیں رہا کر دیا جائے گا۔ تمہاری رہائی کے کاغذات مکمل کر لیے گئے ہیں۔ یہ تمہاری رہائی کا پروانہ ہے۔‘‘ جیلر نے ایک کاغذ دکھاتے ہوئے کہا۔ پھر ایک پوٹلی کی طرف اشارہ کر کے بولا۔ ’’اس پوٹلی میں تمہارے کپڑے اور تمہارا دوسرا سامان ہے۔ جاؤ کپڑے بدل لو۔‘‘ اس نے پوٹلی اٹھائی اور گردن جھکائے ہوئے باتھ روم میں چلا گیا۔ جیل کا باتھ روم اس قدر گندہ تھا کہ جب بھی اس میں جاتا اسے ابکائی سی آنے لگتی مگر آج اسے باتھ روم کی گندگی گراں نہیں معلوم ہوئی۔ اس نے باتھ روم میں ہاتھ منہ دھونے کے بعد جیل کا لباس اتارا۔ پوٹلی کھولی اور اپنے کپڑے پہنے۔ پوٹلی میں ایک رو مال بھی تھا جس میں اس کی گھڑی، موبائل فون اور پاکٹ بندھا ہوا تھا۔ موبائل کا سوئچ آف تھا۔ اس نے پاکٹ کھول کر دیکھا اس میں ستّر روپئے کے نوٹ تھے۔ دو چار روپیوں کی ریزگاری بھی تھی۔ اس نے پاکٹ اور موبائل کو جیب میں رکھ لیا اور گھڑی کلائی پر باندھ لی۔ گھڑی بند تھی۔

تھوڑی دیر بعد وہ چھوٹ جائے گا مگر چھوٹ کر کہاں جائے گا؟ چمپا کے کوٹھے پر؟ پُجاری کے جوا خانے میں؟ وہ تو پولس ریڈ کے بعد شاید بند ہو گیا ہو گا۔۔۔ ماروتی کے دارو اڈّے پر؟ اکبر، جانی، راجو، کُمار، پینٹل، غوث، ساونت یا پھر۔۔۔ گھر؟ گھر کے تصور کے ساتھ ہی ماں کا روکھا سوکھا غمزدہ چہرہ آنکھوں میں گھوم گیا۔ ماں کو دیکھے ہوئے عرصہ ہو گیا۔ آخری بار عدالت میں دیکھا تھا۔ جب جج نے اسے چھ ماہ کی سزا سنائی تھی۔ سپاہی اسے ہتھکڑیاں لگائے عدالت سے باہر لے جا رہے تھے۔ تب ماں عدالت کے باہر ایک ستون کی آڑ میں کھڑی رو رہی تھی۔ اس کی آنکھوں سے لگاتار آنسو بہہ رہے تھے اور وہ منہ میں پلّو ٹھونسے غالباً ہچکیوں کو روکنے کی کوشش کر رہی تھی۔ اس کا آنچل سر سے ڈھلک گیا تھا اور اس کے کھچڑی بالوں والا سر کھُل گیا تھا۔ ماں گھر میں بھی ہمیشہ سر پر پلّو ڈالے رہتی تھی، یہ اس کی پرانی عادت تھی اور آج اسے اس طرح ننگے سر دیکھ کر اسے چوٹ سی لگی مگر اس کا چہرہ پتھر کی سِل کی طرح سپاٹ ہی رہا، اس نے اِس سے پہلے اسے اس حال میں کبھی نہیں دیکھا تھا۔ باپ کی موت پر بھی وہ اس طرح بلک کر نہیں روئی تھی، نہ گریہ کیا تھا نہ سینہ کوبی کی تھی، نہ چیخی نہ چلائی۔ بس رشتے محلّے کی چند عورتوں کے درمیان ایک کونے میں بیٹھی چپ چاپ آنسو بہاتی رہی تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے اس نے ذہنی طور پر باپ کی موت کو بہت پہلے قبول کر لیا تھا۔ دو برس سے باپ کا علاج چل رہا تھا، پچھلے برس سے تو وہ بالکل ہی بستر سے لگ گیا تھا۔ کمپنی سے ملا ہوا پیسہ تھوڑا تھوڑا کر کے ختم ہو رہا تھا۔ ماں نے گھر میں سِلائی کا کام شروع کر دیا تھا، وہ کسی نہ کسی طرح گھر کا خرچ چلا رہی تھی۔ اسی میں باپ کی دوائیاں بھی آ جاتی تھیں۔ اس وقت وہ بی۔ کام کے سیکنڈ ائیر میں پڑھتا تھا۔ وہ جوں توں پاس ہو کر تھرڈ ائیر میں گیا۔ اسی سال باپ کا انتقال ہو گیا۔ باپ کے مرنے کا اسے کوئی خاص صدمہ نہیں ہوا۔ کیوں کہ پچھلے برس بھر سے وہ باپ کو تِل تِل مرتا دیکھتا رہا تھا۔ اسے باپ سے کوئی خاص لگاؤ تو کبھی نہیں رہا مگر بیماری کے دنوں میں‘ شروع شروع میں اس کی حالتِ زار پر اسے ترس آ جاتا تو دو گھڑی اس کے پاس بیٹھ کر اس کا سر یا پاؤں دبا دیا کرتا تھا مگر جس دن اسے معلوم ہوا کہ اسے ایڈز ہے اسی دن سے اس نے اس کے پاس جانا چھوڑ دیا تھا۔ اسے باپ سے نفرت ہو گئی اور یہ نفرت دن بدن شدید سے شدید تر ہوتی چلی گئی۔ مرنے سے تین دن پہلے باپ نے اسے اپنے پاس بلایا۔ نہایت نحیف آواز میں بولا۔ ’’بیٹا! میں تو جا رہا ہوں۔ اپنی ماں کا خیال رکھنا۔ اس نے بہت دُکھ اٹھائے ہیں اب تم ہی اس کا۔۔۔‘‘ رقّت آمیز نقاہت کے سبب باپ اپنا جُملہ پورا نہ کر سکا۔ ماں، باپ کے سرہانے بیٹھی آنسو بہا رہی تھی۔ اس نے باپ کو غور سے دیکھا۔ وہ جس گدڑی میں لپٹا پڑا تھا وہ کس قدر میلی تھی۔ اس کا پورا جسم گدڑی کے اندر تھا۔ صرف گردن گدڑی کے باہر تھی۔ سر کے بال اڑ گئے تھے۔ چہرہ کسی چھوہارے کی مانند سوکھ گیا تھا۔ گالوں کی ہڈیاں ابھر آئی تھیں۔ آنکھیں اندر کو دھنس گئی تھیں۔ ڈھیلوں میں بس دو جگنو سے جل بجھ رہے تھے۔ وہ اس وقت کسی دوسری دنیا کی عجیب الخلقت مخلوق معلوم ہو رہا تھا، عجیب الخلقت اور کریہہ المنظر۔ اس نے نفرت سے اپنا منہ پھیر لیا۔ باپ نحیف آواز میں کہہ رہا تھا۔

’’میں جانتا ہوں تم مجھ سے نفرت کرنے لگے ہو، میں اِسی قابل ہوں۔ مجھے خود اپنے آپ سے نفرت ہو گئی ہے۔ میں نے دو بار مرنے کی کوشش کی۔ ہر بار تمہاری ماں آڑے آ گئی۔ میں کیا کروں؟ مگر اب میرے دن پورے ہو چکے ہیں۔ میں اپنے گناہوں کی پوٹلی لیے اس دنیا سے جا رہا ہوں۔ میں تم لوگوں کا گنہ گار ہوں۔ میں نے تم لوگوں کو اتنی تکلیف دی ہے کہ معافی بھی نہیں مانگ سکتا۔‘‘ باپ کی آواز پھر اس کے حلق میں پھنس گئی۔ اس نے پلٹ کر اسے ناگواری سے دیکھا۔ باپ کی آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے اور اس کی دھندلی آنکھیں مزید دھندلا گئی تھیں۔ وہ مڑ کر تیزی سے باہر نکل گیا تھا۔

اس رات ماں نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔ ’’وہ تیرے باپ ہیں صابر۔‘‘

’’ہاں۔ ہیں۔ پھر۔۔۔؟‘‘

’’ان کا آخری وقت ہے۔ انہیں اپنے کئے پر پچھتاوا ہے۔ انہیں معاف کر دے۔‘‘

’’ہرگز نہیں۔ وہ ایک رنڈی باز شخص ہے۔ میرے دل میں اس کے لیے کوئی ہمدردی نہیں۔ اس نے اپنی عیاشی کے لیے ہماری خوشیوں کا سودا کیا ہے۔ اسے اسی طرح تڑپ تڑپ کر مرنا چاہیے۔‘‘ اس نے دوسری طرف منہ پھیر لیا اور کروٹ بدل کر سو گیا۔

وہ کپڑے تبدیل کرنے کے بعد جیل کا لباس بغل میں دبائے جیلر کے آفس میں آ گیا۔ جیلر کسی فائل پر جھُکا ہوا تھا۔ اس پر ایک اچٹتی سی نگاہ ڈالی اور گردن کو خفیف سی جنبش دے کر دوبارہ فائل پر جھک گیا۔ اس نے جیل کے کپڑوں کی پوٹلی وہیں ایک طرف رکھ دی اور ہاتھ باندھے چپ چاپ کھڑا ہو گیا۔

’’بیٹھو!‘‘ جیلر نے گردن اوپر اٹھائے بغیر کہا۔

وہ جھجھکتا ہوا ایک کُرسی پر ٹِک گیا۔ جیلر دو ایک منٹ تک فائل کے اوراق الٹتا پلٹتا رہا۔ پھر فائل بند کر کے میز کی دراز سے ایک لفافہ نکال کر اس کی طرف بڑھاتا ہوا بولا ’ ’اس میں تمہاری پانچ مہینے کی مزدوری کے پیسے ہیں۔ ایک سو اسّی روپے۔ اِدھر اِس واؤچر پر دستخط کر دو۔‘‘

اس نے خاموشی سے واؤچر پر دستخط کر دیے اور روپیوں کا لفافہ اٹھا لیا۔

’’گِن لو۔۔۔‘‘ جیلر نے کہا۔

’’ٹھیک ہے سر!۔۔۔ آپ نے میرا اتنا خیال رکھّا۔۔۔ تھینکس۔۔۔ اس دوران مجھ سے کوئی غلطی ہوئی ہو تو معاف کر دیجئے۔‘‘

’’یہاں غلطیوں کو معاف نہیں کیا جاتا۔ ان کا بھگتان ہوتا ہے۔ تم نے یہاں کوئی غلطی نہیں کی اسی لیے تو تمہاری سزا کم ہوئی ہے۔ دیکھو! تم کوئی عادی مجرم نہیں ہو، مجھے امید ہے کہ ان پانچ مہینوں میں جو کچھ تم پر بیتی، اس سے سبق لو گے اور کوشش کرو گے کہ دوبارہ یہاں آنے کی نوبت نہ آئے۔ تم جا سکتے ہو۔۔۔‘‘

اس نے دونوں ہاتھ جوڑ دیے اور کرسی سے اٹھ گیا۔

جیل کے گیٹ سے باہر نکلنے کے بعد اس نے ایک گہری سانس لی اور چاروں طرف نگاہ ڈالی۔ سڑک پر موٹریں دوڑ رہی تھی۔ سامنے چورا ہے پر ٹریفک کا سپاہی سیٹی بجاتا ہوا، ٹریفک کو کنٹرول کر رہا تھا۔ فٹ پاتھ پر راہ گیروں کی آمد و رفت جاری تھی۔ وہ اپنی پتلون کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے فٹ پاتھ پر چلنے لگا۔ ایک خالی ٹیکسی اسے کے پاس سے گُزری مگر اس نے اسے رکوانے کی کوشش نہیں کی۔ وہ چلتا رہا۔۔۔ چلتا رہا۔۔۔ وہ کہاں جا رہا تھا؟ وہ کہاں جانا چاہتا تھا؟ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔ بس وہ چلتا رہا۔۔۔ چلتے چلتے جب کافی دیر ہو گئی تو ایک بس اسٹاپ پر کھڑا ہو گیا۔ تھوڑی دیر بعد ایک بس آئی۔ کچھ لوگ لپک کر بس میں سوار ہو گئے۔ مگر وہ ایک طرف خاموش کھڑا رہا۔۔۔ دوسری بس آئی۔۔۔ کچھ اور لوگ بس میں سوار ہو گئے۔۔۔ وہ کھڑا رہا۔۔۔ تیسری بس آئی۔۔۔ اور باقی لوگ بھی اس بس میں سوار ہو گئے۔ اس نے چونک کر ارد گرد دیکھا۔ بس اسٹاپ پر اب وہ اکیلا کھڑا تھا۔ اتنے میں چوتھی بس آئی اور وہ غیر ارادی طور پر بس میں سوار ہو گیا۔ بس میں کافی سیٹیں خالی تھیں۔ وہ ایک ونڈو سیٹ پر جا کر بیٹھ گیا۔ کنڈکٹر آیا۔ اس نے نوٹ بڑھاتے ہوئے کہا۔ ’’لاسٹ اسٹاپ۔‘‘ کنڈکٹر ٹکٹ دے کر آگے بڑھ گیا۔ اس نے آنکھیں بند کر لیں اور سیٹ کی پشت سے ٹک گیا۔ آنکھیں بند کرتے ہی اس کے تصور میں یکے بعد دیگرے کئی منظر ابھرے۔ باپ کا جنازہ، چمپا کا کوٹھا، پُجاری کا جوا خانہ، ماروتی کا دارو اڈہ، پولس کی ریڈ، عدالت کا کمرہ، جیل کی کوٹھری، ماں کا روتا بلکتا چہرہ۔۔۔ پھر رفتہ رفتہ ایک ایک کر کے سارے منظر فیڈ آؤٹ ہوتے چلے گئے البتہ ماں کا آنسوؤں سے تر چہرہ نگاہوں میں نقش ہو کر رہ گیا۔ اسے یاد نہیں آتا کہ اس نے کبھی ماں کو کھل کر ہنستے ہوئے دیکھا ہو۔ وہ باپ کی موجودگی میں ہمیشہ سہمی سہمی اور بدحواس سی رہتی۔ بار بار سر کے پلّو کو اس طرح درست کرتی جسیے پلّو سر سے سرکتے ہی کو ئی ناشدنی ہو جائے گی۔ باپ کی ایک آواز پر وہ خود کار کھلونے کی مانند حرکت میں آ جاتی اور سارے کام چھوڑ کر تُرت پھُرت اس کا حکم بجا لاتی۔ اس کا حکم بجا لانے میں ذرا سی بھی تاخیر ہوتی تو باپ گھر سر پر اٹھا لیتا اور ماں بوکھلا کر کسی وحشت زدہ ہرنی کی طرح گھر بھر میں دوڑتی پھرتی۔ بارہا ایسا ہوا کہ ماں اسے کھانا پروس رہی ہے یا اس کے شرٹ میں بٹن ٹانک رہی ہے یا اس کے سر میں تیل ڈال رہی ہے۔ بیڈ روم سے باپ کی گرجدار آواز آتی اور ماں اس کا ادھورا کام چھوڑ کر پلّو درست کرتی ہوئی باپ کے پاس دوڑ جاتی۔ اس وقت اسے اپنے باپ پر بے حد غصہ آتا اور جب ماں کافی دیر تک لوٹ کر نہیں آتی تو اسے باپ سے زیادہ ماں پر غصہ آتا اور وہ اندر ہی اندر پیچ و تاب کھاتا رہتا۔ رفتہ رفتہ اس کے دل سے باپ کا احترام اٹھتا گیا۔ ساتھ ہی ماں کے لیے بھی دل میں ایک کڑواہٹ بھرتی گئی۔ باپ کی موت کے بعد ماں کی آنکھوں سے ہمہ وقت جھانکتی وحشت ضرور کم ہوئی مگر اس کے چہرے پر جمی ہوئی مستقل اداسی کی گرد صاف نہیں ہوئی۔ باپ کے مرنے کے بعد اس نے بھی ماں کی کوئی دلجوئی نہیں کی۔ بلکہ دن بدن اس کی بد دماغی، تلخ مزاجی اور خود سری میں اضافہ ہوتا گیا۔ وہ باپ کی زندگی میں ہی چوری چھپے سگریٹیں پینے لگ گیا تھا۔ باپ کے مرنے کے بعد سگریٹوں کے ساتھ چرس کے کش بھی لگانے لگا۔ پھر جانے کب پینٹل اور غوث کی صحبت میں اس نے دارُو پینا شروع کر دیا۔ ایک دن شراب کے نشے میں وہ راجو کے ساتھ چمپا کے کوٹھے پر چلا گیا۔ پھر تو کوٹھے کا ایسا چسکا لگا کہ وہ ہر دو تین دن کے بعد چمپا کے کوٹھے پر نظر آنے لگا۔ چمپا کو بھی وہ کچھ زیادہ ہی بھا گیا تھا۔ اس لیے اسے عام گاہکوں کے مقابلے میں خاص ’رعایت‘ حاصل تھی۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ چمپا خود اسے فون کر کر کے بلانے لگی۔ کبھی کبھی چمپا اپنی ’نائکہ‘ کی چوری سے اس کی جیب میں کچھ روپئے بھی رکھ دیتی۔ اسی دوران اسے جوئے کی لت بھی پڑ گئی اور وہ کمار کے ساتھ پُجاری کے اڈے پر جانے لگا۔ جس دن جیت جاتا ’چمپا‘ کے کوٹھے پر دل کھول کر روپے لٹاتا۔ ایک دن اس نے اتنے روپئے جیتے کہ چمپا پر نوٹوں کی بارش سی کر دی۔ ’نائکہ‘ نے خوش ہو کر پوری رات چمپا کو اس کے حوالے کر دیا۔ چمپا نے بھی اس رات اس پر لذتوں کے ایسے بھید کھولے جن سے وہ ابھی تک نا آشنا تھا۔ جس دن ہار جاتا، کئی کئی دن چمپا کے کوٹھے کا رُخ نہ کرتا، جوئے کی لت بھی شدید شکل اختیار کر چکی تھی۔ اب وہ پیسوں کے لیے ماں سے بھی زور زبردستی کرنے لگا۔ ماں سِلائی کر کے جوں توں گھر چلاتی تھی۔ اس کی ناجائز فرمائشیں کہاں سے پوری کرتی۔ وہ گھر کی چیزیں بیچنے لگا۔ سب سے پہلے باپ کی گھڑی اور دو انگوٹھیاں اس کے ہاتھ لگیں۔ ماں کے پاس سونے کی چار چوڑیاں تھیں۔ ایک دن انہیں بیچ آیا۔ باپ کے تین چار سفاری سوٹ تھے، انہیں بھی چِندی بازار میں اونے پونے داموں بیچ دیا۔ گھر میں تانبے اور پیتل کے برتن تھے، انہیں ٹھکانے لگایا۔ ماں ہر بار رو رو کر اسے روکتی اور سمجھاتی رہی مگر اس کے سر پر تو جنون سوار تھا۔ وہ چیخ کر کہتا۔

’’ان بیکار پڑی ہوئی چیزوں کا آخر فائدہ ہی کیا؟ جب پیسے آئیں گے نئی چیزیں خرید لیں گے۔‘‘ وہ اسے روتا سسکتا چھوڑ کر باہر نکل جاتا۔

آخر ایک ایک کر کے گھر کا سارا اثاثہ بِک گیا اور اس دِن۔۔۔

اس دن وہ صبح سے ہی گھر میں آنکھیں بند کیے اوندھے منہ پڑا تھا۔ اب گھر میں کوئی ایسی شئے نہیں بچی تھی جسے بیچ کر وہ اپنا شوق پورا کرتا۔ پتا نہیں اسے اندر سے ایسا کیوں لگ رہا تھا کہ آج اس کی ’لک‘ ضرور اس کا ساتھ دے گی۔ بس کہیں سے کچھ روپئے مل جائیں۔ آج وہ تاش کے ایسے ہاتھ دکھائے گا کہ اگلی پچھلی کسر پوری ہو جائے گی۔ صبح وہ ماں سے پیسے مانگ چکا تھا۔ اس نے اپنا خالی بٹوہ اس کے آگے ڈال دیا تھا۔ چمپا سے بھی کچھ ملنے کی توقع نہیں تھی۔ وہ خود ایک ہفتے سے بیمار چل رہی تھی اوراس کا دھندہ بند تھا۔

گھر میں سناٹا تھا۔ رہ رہ کر صرف ماں کی سلائی مشین کی گھر گھر سُنائی دے رہی تھی۔ اس نے اوندھے پڑے پڑے آنکھیں کھول دیں۔ ماں اپنی دستی مشین پر کوئی کپڑا سی رہی تھی۔ اس کا پلّو اس کے سر سے سرک گیا تھا۔ اور اس کے خشک کھچڑی بال کسی پرندے کے گھونسلے کا منظر پیش کر رہے تھے۔ اس کی آنکھوں پر موٹے شیشے کی عینک تھی اور وہ سر جھکائے کپڑا سینے میں محو تھی۔ وہ پڑے پڑے کمرے کا جائزہ لینے لگا۔ کمرہ اس کی ماں کی مانگ کی طرح ہی اجڑا اجڑا لگ رہا تھا۔ کمرے میں فرنیچر کے نام پر ایک پرانا صوفہ تھا جس پر وہ خود لیٹا تھا۔ ایک طرف دو خستہ حال کرسیاں پڑی تھیں جن میں سے ایک کے ہتھے اکھڑ گئے تھے۔ ایک ٹی۔ وی باکس تھا جو مرمت کے انتظار میں دھول کھا رہا تھا۔ ماں کی یہ ہاتھ مشین۔۔۔ ہاتھ مشین کا خیال آتے ہی اس کے ذہن میں ایک کوندا سا لپکا۔ دل زور سے دھڑکا۔۔۔ اس نے مشین کو غور سے دیکھا۔۔۔ تھی تو پُرانی۔۔۔ مگر دو چار سو تو کوئی بھی دے سکتا تھا۔ اس نے ماں کو دیکھا۔۔۔ وہ اسی طرح سر جھکائے مشین پر جھکی ہوئی تھی۔۔۔ نہیں۔۔۔ وہ ہرگز نہیں مانے گی۔۔۔ اگر اس نے مشین کا نام بھی لیا تو شاید وہ جان ہی دے دے۔ ویسے وہ خود بھی اتنا تو سمجھتا ہی تھا کہ اسی مشین کی بدولت گھر میں چولہا جل جاتا ہے۔ اس نے مشین کے خیال کو ذہن سے جھٹک دیا اور خالی خالی نظروں سے ماں کو دیکھتا رہا۔ اچانک اس کی نظر اس کے خالی گلے پر پڑی اور پھر کوئی خیال بجلی کی سرعت سے اسے کے ذہن میں کوند گیا۔ وہ جھٹکے سے اٹھ بیٹھا۔ ماں نے کپڑا سیتے سیتے گردن اٹھا کر ایک نگاہ اس پر ڈالی اور اپنے کام میں مشغول ہو گئی۔ وہ اٹھ کر بیڈ روم میں آیا۔ پلنگ کی بغل میں گودریج کا پُرانا کباٹ تھا۔ اس نے ہینڈل گھمایا۔ کباٹ کھل گیا۔ وہ کباٹ کے خانے ٹٹولنے۔ کباٹ کے ایک خانے میں اس کے اپنے کپڑے سلیقے سے گھڑی کئے ہوئے رکھے تھے۔ نیچے کے خانے میں ماں کے کپڑے تھے۔ تیسرے خانے میں کچھ پرانے کپڑے ٹھنسے پڑے تھے۔ ٹٹولتے ٹٹولتے آخر اسے ماں کے کپڑوں کے خانے میں کپڑوں کی تہوں کے نیچے دبا ہوا سرخ رنگ کا ایک بکس مل گیا۔ بکس کو کھولا۔۔۔ اس کی توقع کے مطابق باکس میں ماں کا منگل سوتر موجود تھا۔ اس کی بانچھیں کھل گئیں۔ اس نے منگل سوتر کو ایک رو مال میں لپیٹ کر پتلون کی جیب میں رکھ لیا۔ خالی باکس کو دوبارہ کپڑوں کی تہوں کے نیچے اسی جگہ رکھ دیا۔ کباٹ کا دروازہ بند کر کے جوں ہی پلٹا تو دیکھا سامنے ماں کھڑی اسے گھور رہی تھی۔ وہ سٹ پٹا گیا۔ ماں نے بھرائی آواز میں کہا۔ ’’آخر تو نے اسے ڈھونڈ ہی لیا۔ وہی ایک چیز تو باقی رہ گئی تھی۔‘‘

وہ کچھ نہیں بولا۔ پتلوں کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے گردن جھکائے چپ چاپ کھڑا رہا۔ ’’وہ میرے سہاگ کی نشانی ہے صابر!‘‘ ماں تڑپ کر بولی۔

’’سہاگ کی نشانی؟ جب سہاگ ہی نہیں رہا تو سہاگ کی نشانی کو سینے سے لگائے رکھنے کا کیا مطلب؟‘‘

’’جو بھی ہو۔ تو اسے جوئے میں نہیں ہار سکتا۔ اسے واپس رکھ دے۔‘‘

’’نہیں ماں۔ آج آخری بار مجھے منع مت کرو۔ آج میں نے بہت اچھا خواب دیکھا ہے۔ آج میں ضرور جیتوں گا، چلو تم کہتی ہو تو اسے بیچوں گا نہیں، گروی رکھوں گا اور جیتنے کے بعد چھڑا لوں گا۔ دیکھنا میں آج ضرور جیتوں گا۔‘‘ وہ دروازے کی طرف بڑھتا ہوا بولا۔ ’’صابر ضد نہ کرو۔‘‘ ماں دونوں ہاتھ پھیلائے دروازے میں کھڑی ہو گئی۔ وہ ماں کی بانہہ پکڑ کر اسے جبراً ایک طرف ہٹاتا ہوا دروازے سے باہر نکل گیا۔

پیچھے سے ماں ملتجی آواز میں چیخ رہی تھی۔

’ ’صابر!۔۔۔ صابر!۔۔۔ تجھے قسم ہے۔۔۔ رک جا۔۔۔ رک جا۔۔۔‘‘

پچھواڑے کے دروازے سے نکلتے نکلتے اس نے سنا ماں کی چیخ ایک درد ناک الاپ میں بدل گئی تھی۔۔۔

’’لاسٹ اسٹاپ۔۔۔‘‘کنڈکٹر کی آواز پر وہ چونک پڑا۔ پوری بس خالی ہو چکی تھی۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھا اور بس سے نیچے اتر گیا۔ مگر وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ شالیمار بس ڈپو کے پاس کھڑا ہے۔ یہاں سے اس کا مکان زیادہ دور نہیں تھا۔ وہ تذبذب میں پڑ گیا۔ کیا کرے؟ گھر جائے کہ نہ جائے؟کیا وہ ماں سے نظریں ملا سکے گا؟ کیا ماں اس کے سلوک کو بھول گئی ہو گی؟ وہ جیل میں تین بار اس سے ملنے آئی اور اس نے ملنے سے انکار کر دیا۔ آخر کیوں؟ وہ کس سے خفا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں وہ اپنے باپ کی بے اعتدالیوں اور زیادتیوں کا بدلہ ماں سے لے رہا ہو۔ اور ماں۔۔۔؟ وہ تو تب بھی برداشت کر رہی تھی اور اب بھی کر رہی ہے۔ کیا اس کی قسمت میں صرف برداشت کرنا لکھا ہے؟ ہر زیادتی کو۔۔۔ ہر ایک کی زیادتی کو۔۔۔ اسے اپنے سینے میں کچھ پگھلتا سا محسوس ہوا۔ اچانک اسے ٹھوکر لگی اور وہ ٹھٹھک کر کھڑا ہو گیا۔ وہ اس گلی میں داخل ہو گیا تھا جس کے آخری نکڑ پر اس کا مکان تھا۔ مکان کے سامنے کا ورانڈا دور سے نظر آ رہا تھا۔ اس کے باپ نے ان کے لیے کچھ اور کیا ہو یا نہ کیا ہو مگر چار کمروں کا ایک چھوٹا سا مکان ضرور بنوا دیا تھا۔ مکان کا دروازہ بھِڑا ہوا تھا۔ تھوڑے سے پس و پیش کے بعد وہ دروازہ کھٹکھٹانے کے لیے آگے بڑھا۔ معاً یہ سوچ کر رک گیا کہ وہ اکثر مکان میں پچھواڑے کے راستے سے داخل ہوتا تھا۔ وہ گھوم کر مکان کے پچھواڑے آیا۔ کمپاؤنڈ کا گیٹ کھلا تھا۔ وہ اندر داخل ہوا۔ سامنے ایک خستہ حال عورت کپڑے سکھا رہی تھی۔ آہٹ پا کر پلٹی۔ اس نے دیکھا وہ عورت اس کی ماں کے سوا کوئی اور نہیں ہو سکتی۔ کس قدر کمزور ہو گئی تھی وہ۔ ماں نے اپنی پیشانی پر ہتھیلی رکھ کر دھوپ سے بچتے ہوئے اس کی طرف دیکھا۔

’’کون ہے؟‘‘ اس کے حلق سے ایک مری مری سی آواز نکلی۔ اس کے جسم کی طرح اس کی آواز بھی کس قدر کمزور تھی۔ وہ کچھ نہیں بولا۔۔۔ اپنی جگہ چپ چاپ کھڑا رہا۔ وہ دھیرے دھیرے اس کی طرف بڑھی۔ غور سے دیکھا۔ اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔۔۔ صابر؟۔۔۔ تُو۔۔۔‘‘

اس کے لہجے میں کیا تھا؟۔۔۔ حیرت؟۔۔۔ غصہ؟۔۔۔ پیار؟۔۔۔ یا کچھ بھی نہیں۔

وہ اسی طرح بت بنا کھڑا رہا۔ وہ اسے چندھیائی آنکھوں سے دیکھتی رہی۔ گویا پہچان لینے کے بعد بھی پہچاننے کی کوشش کر رہی ہو۔ اس کی آنکھیں ڈبڈبا رہی تھیں۔ ہونٹ کانپ رہے تھے جیسے کچھ کہنا چاہتی ہو مگر کہنے سے قاصر ہو۔ وہ نظریں چرانے لگا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔۔۔ کیا بولے۔۔۔؟ کیا وہ تمام الفاظ گونگے ہو چکے ہیں جو ایک ماں اور بیٹے کے درمیان ترسیل کا کام کرتے ہیں۔ اتنے میں ماں کے ہونٹوں سے ایک آہ سی نکلی۔ اس نے ساڑی کا پلو آنکھوں سے لگایا۔ اپنے ہاتھ میں تھامے گیلے کپڑے کو پھیلا کر سامنے رسی پر ڈالا پھر اس کی طرف مڑی اور کھنکھار کر گلا صاف کیا اور بولی۔

’’دیکھ! تیرے کپڑے کتنے میلے ہو گئے ہیں۔۔۔ لا، دھو دُوں۔۔۔؟؟

اس نے حیرانی سے پہلے ماں کی طرف دیکھا پھر گردن نیوڑھا کر اپنے کپڑوں کو دیکھا۔ تب اسے پہلی بار احساس ہوا کہ واقعی اس کے کپڑے کس قدر میلے ہو گئے ہیں۔

٭٭٭

ماخذ: ریختہ ڈاٹ آرگ

تشکر: عامر صدیقی جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید