صفحات

تلاش کریں

افسانوی مجموعہ: رنجش (محمد علیم اسماعیل)

فہرست



































اپنی بات



الحمد للہ! ماں باپ کی دعاؤں کے صدقے میں، میں اپنے ہر نیک مقصد میں کامیاب ہوا۔ میرا دوسرا افسانوی مجموعہ ’رنجش‘ آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ 2018 میں پہلا افسانوی مجموعہ ’اُلجھن‘ شائع ہوا تھا۔ ادبی حلقوں میں اس مجموعے کی جو پذیرائی ہوئی، اس کے لیے میں تمام ادب نوازوں کا بے حد ممنون ہوں۔ زیر نظر مجموعے میں، میں نے جن موضوعات پر قلم اٹھایا ہے، وہ میں نے نہیں چنے، بلکہ ان موضوعات نے مجھے مجبور کیا کہ میں ان پر لکھوں۔ آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ان موضوعات نے مجھے چنا ہے۔ میں نے جو واقعات دیکھے، جن حادثات نے مجھے متاثر کیا، ان کو میں نے افسانوی پیکر میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے۔ میں اپنی اس کوشش میں کتنا کامیاب ہوا ہوں یہ آپ کو طے کرنا ہے۔ مجھے کم وقت میں ادب نوازوں سے خوب پیار ملا۔ اور میرے اپنے شہر ناندورہ کے ادبی حلقے نے بھی مجھے کم عزتوں سے نہیں نوازا۔ ورنہ سب جانتے ہے کہ سب سے زیادہ مخالفت تو اپنے شہر ہی میں ہوتی ہے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ افسانے نے عہد حاضر کی سب سے مقبول نثری صنف کی حیثیت اختیار کر لی ہے۔ آج کثیر تعداد میں افسانے لکھے اور پڑھے جا رہے ہیں۔ جو انسانی نفسیات، احساسات، جذبات اور زندگی کے نشیب و فراز کا مظہر ہیں۔ ان تمام باتوں کے باوجود افسانہ کیا ہے؟ یہ کس چڑیا کا نام ہے؟ یہ راز ابھی پردے ہی کے پیچھے ہے، اور اس موضوع پر بحث ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ افسانے نے رومانی، ترقی پسند، جدے دیت اور مابعد جدے دیت کے دور دیکھے اور ہر دور میں تبدیلیوں سے دوچار ہوا ہے کیوں کہ شاعری کی طرح افسانہ نگاری کے کوئی اصول متعین نہیں اور ہاں افسانے کو اصولوں کی چوکھٹ میں قید کرنا مناسب بھی نہیں۔

ویسے دیکھا جائے تو افسانے کی عمر زیادہ نہیں ہے لیکن اس چھوٹی سی عمر میں اس نے خوب ترقی کی ہے۔ پچھلے کئی برسوں میں افسانے نے کئی کروٹیں بدلیں۔ یہ مسلسل ارتقا اور تبدیلیوں کی زد میں رہا۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بدلتے ہوئے زمانے کے ساتھ ساتھ افسانے نے بھی اپنے آپ کو بدلا ہے اور یہی اس صنف کی سب سے بڑی کامیابی ہے، کیونکہ تبدیلی زندگی کی علامت ہے۔ اگر افسانہ وقت کے تقاضوں کے ساتھ اپنے آپ کو تبدیل نہ کرتا تو کب کا مر چکا ہوتا۔ اس لیے افسانے کو کسی اصول و قاعدے کی چوکھٹ میں قید کر لینا اب ممکن بھی نہیں۔

اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ مجھے، سلام بن رزاق، ڈاکٹر ایم اے حق، نورالحسنین، محمد بشیر مالیرکوٹلوی، ڈاکٹر اسلم جمشید پوری، معین الدین عثمانی، تنویر اختر رومانی، ڈاکٹر شاہد جمیل، ایم مبین، ڈاکٹر عظیم راہی اور دیگر سینئر قلمکاروں سے خوب محبت ملی ہے۔ میں تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں، نورالحسنین اور محمد بشیر مالیر کوٹلوی محترمین کا کہ انھوں نے اپنی گو نا گوں مصروفیات کے باوجود مجموعہ ’’رنجش‘‘ کے لیے مضامین قلم بند کیے۔ میں ممنون ہوں محترم تنویر اختر رومانی کا کہ انھوں نے مسودہ پر نظر ثانی فرمائی۔ وہ تمام دوست احباب جو میری تخلیقات پڑھ کر تاثرات سے نوازتے رہتے ہیں، میں ان تمام کا بھی تہہ دل سے شکر گزار ہوں، جس میں سینئر اور ہم عصر قلمکار، مقامی اور بیرونی، واٹس ایپ اور فیس بک کے دوست احباب شامل ہیں۔

محمد علیم اسماعیل







دیدۂ دل تو وا کرے کوئی
نورالحسنین
(اورنگ آباد، دکن)



پچھلے دس پندرہ برسوں سے اپنے معاصرین کی طرح مجھے بھی اس بات نے پریشان کر رکھا تھا کہ ہمارے بعد آنے والی نثر نگاروں کی ادبی نسل دور دور تک نظر نہیں آتی تو کیا نثر نگاری کے سورج غروب ہونے کا وقت آ گیا؟ میں نے بہت کوشش کی کہ یہ کارواں ہر حال میں جاری رہے۔ اس کوشش کے نتیجے میں دو چار نوجوان سامنے آئے ضرور لیکن معاشی ذمے داریوں نے اُن کے ہاتھوں میں سے افسانہ نگاری کا قلم چھین کر صحافت کا کیمرہ اور قلم تھما دیا اور بہت حد تک مجھے مایوس بھی کر دیا تھا۔ میں نے بھی یہ سوچ کر صبر کر لیا تھا کہ قلم کار بنائے نہیں جاتے، پیدا ہوتے ہیں، لیکن گزشتہ چند برسوں میں ہندوستان بھرسے نثر لکھنے والوں کی پوری ایک کھیپ صرف سامنے ہی نہیں آئی بلکہ اُن کی کتابیں بھی مطالعے کا حصہ بن گئیں۔ ان نوجوانوں میں کوئی افسانہ لکھ رہا ہے، کسی نے تنقید کی کیاری میں گل بوٹے اُگانا شروع کر دیے ہیں، کوئی مختلف موضوعات پر مضامین لکھ رہا ہے۔ اُن کی تخلیقات مسلسل اخبارات و رسائل میں شائع ہو رہی ہیں۔

ان ہی نوجوانوں میں ایک نام محمد علیم اسماعیل کا بھی ہے، جس کے افسانے اور مضامین آج کل مختلف رسائل و اخبارات میں تواتر کے ساتھ شائع ہو رہے ہیں اور جو نہایت تیزی کے ساتھ ادبی افق پر اپنی شناخت بنا رہا ہے۔ اس کے افسانے زندگی کی چھوٹی بڑی حقیقتوں کو نہایت روانی کے ساتھ پیش کرتے ہیں بلکہ اگر میں یہ کہوں تو غلط نہ ہو گا کہ اُس کے ہاتھ وہ سِرا لگ گیا ہے جو فرد کے داخلی اور خارجی مسائل، احساس و فکر کے کچوکوں سے جوجھتے ذہن، سیاسی ہتھکنڈوں میں جکڑی ہوئی بے بسی، تنہائی کا کرب، معاشی گھٹن، رشتوں کی پاسداری اور بے اطمینانی بھی، دکھ اور بیماریاں اور غیر محفوظ مستقبل کی وہ فکریں بھی، جس کا کرب چاروں طرف دکھائی دیتا ہے۔ بلا شبہ علیم ان موضوعات کو سلیقے سے برت رہا ہے۔

اس مجموعے میں شامل افسانوں میں افسانہ ’چھٹّی‘ خاندان کے اُس بڑے بیٹے کی کہانی ہے جو نہ صرف اپنے والدین کا فرماں بردار بیٹا ہے بلکہ اپنے چھوٹے بھائیوں کی تعلیم و تربیت اور اُن کے مستقبل کو سنوارنے میں بھی پوری دلچسپی لیتا ہے۔ وہ وکالت کے پیشے سے وابستہ ہے اور زیادہ تر اُن لوگوں کے مقدمات کی پیروی کرتا ہے جو پہلے ہی سے غربت کی سزا کاٹ رہے ہوتے ہیں یا پھر غلط الزامات میں پھنسے ہوئے ہوتے، اچانک وہ ایک ایسی بیماری کا شکار ہو جاتا ہے، جس سے جانبر ہونا نا ممکن ہے۔ ایسی حالت میں بھی وہ حوصلہ نہیں ہارتا لیکن اس بار وہ اپنی بیوی اور بچوں کے مستقبل کے لیے پریشان رہتا ہے اور چاہتا ہے کہ اُسے اسپتال سے جلد چھٹّی مل جائے۔ اُسے چھٹّی تو مل جاتی ہے لیکن زندگی کو ہار کر۔ یہ موضوع اگرچہ نیا نہیں ہے۔ بڑے بھائی کی قربانیوں پر بہت سارے افسانے لکھے جا چکے ہیں، لیکن محمد علیم نے اس افسانے میں جو کرب کی فضا باندھی ہے وہ حقیقت سے اس قدر قریب ہے گویا یہ افسانہ نہیں محمد علیم کی زندگی ہی میں رونما ہونے والا کوئی حقیقی سانحہ ہو۔

خوشحالی کا خواب انسان کو کیسی کیسی آزمائشوں میں مبتلا کرتا ہے۔ اپنی زمین سے ہجرت اور اپنوں سے دور کرتا ہے لیکن انسان جیسے جیسے دور ہوتا جاتا ہے، رشتوں کی ڈور اور محبتوں کا بندھن دِلوں کو مزید جکڑتا جاتا ہے۔ افسانہ ’ادھورے خواب‘ اسی کیفیت کو بیان کرتا ہے۔ افسانے کا کلائمکس رشتوں کی تڑپ اور محبت کی حقیقت کو ناقابل بیان بنا دیتا ہے۔ اسی لیے فسانہ، فسانہ ہوتا ہے اور اپنے قاری کو باندھے رکھتا ہے۔ کہیں جلد دولت مند بننے کا ارمان اور خوش فہمیوں کے خواب کس طرح سزا دیتے ہیں اُس کا احوال افسانہ ’ریجیکٹ‘ بیان کرتا ہے۔ افسانہ ’رنجش‘ ایک پُر تاثر افسانہ ہے جو اختتام کے بعد بھی قاری کے ذہن میں باقی رہتا ہے۔ افسانہ ’قصور‘ پر اثر ہے، لیکن کچھ انہونا سا لگتا ہے۔ افسانہ ’منٹو‘ منٹو کے نظریات اور قاری کی ذہنیت کی عمدہ عکاسی کرتا ہے۔ فیس بک کے ذریعے کیا کچھ ہو رہا ہے اس کی ایک مثال علیم نے بھی دی ہے۔ افسانہ ’جنون‘ خود کلامی کی تکنیک میں لکھی ہوئی ایک خوب صورت کہانی ہے جس کا سسپنس آخر تک باقی رہتا ہے۔

محمد علیم اسماعیل افسانوں کے ساتھ ہی ساتھ افسانچے بھی لکھتے ہیں۔ جو قاری کو چونکاتے بھی ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ افسانہ لکھنے کے لیے محمد علیم کو کسی بڑے موضوع کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ بہت اچھی بات ہے کہ مصنف اپنے اطراف و اکناف سے باخبر رہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ زندگی کے چھوٹے چھوٹے واقعات احتیاط کی ایک ایسی کلید ہیں جس کی وجہ سے کانوں کی قوت سماعت اور آنکھوں کی بصارت اور عمل میں پاکیزگی پیدا ہوتی ہے، لیکن ایک ایسے ماحول میں جبکہ دنیا سمٹ کر ایک گاؤں بن گئی ہے محمد علیم کو چاہیے کہ وہ اپنی افسانہ نگاری کے لیے موضوعات کے انتخاب میں احتیاط برتیں۔ آج اُردو افسانہ اپنے بیانیہ کے تمام اسرار اور اسلوب و ہیئت کی ساری گٹھریاں کھول چکا ہے۔ اُنھیں پامال موضوعات سے گریز کرتے ہوئے نئے اُفق تلاش کرنا ہے۔ وہ ایک باصلاحیت نوجوان قلم کار ہیں۔ اُردو افسانے کو اُن سے بڑی توقعات ہیں۔ وہ جس قدر بھی اپنے کو نکھاریں گے اُن کے فن میں پختگی پیدا ہو گی اور ایک ایسا وقت بھی آئے گا جب اُن کا فن اعتبار حاصل کر لے گا۔ میری نیک تمنائیں اُن کے ساتھ ہیں۔

٭٭٭







افسانے کا مستقبل: علیم اسماعیل
محمد بشیر مالیرکوٹلوی



جدے دیت کی بات کریں تو ادب کے اس دور نے اردو افسانے کو بہت نقصان پہنچایا۔ افسانے کی ہیئت اور اس کی روح سے کھلواڑ کیا۔ بے چارے افسانے سے پلاٹ چھین لیا گیا تھا اور اس کے اسلوب کو بھی بدل ڈالا گیا تھا۔ ہم لوگ نقال ہیں۔ آغاز سے ہی مغربی ادب کی نقل کرتے آئے ہیں۔ اس کے نئے نئے فیشن اپناتے چلے آئے ہیں۔ تجریدیت بھی مغربی ادبی فیشن کی دین تھی۔ ہوا یوں کہ سیدھی سادی بیانیہ کی ڈگر چھوڑ کر زیادہ تر افسانہ نگار اشاروں اور کنایوں میں بات کرنے لگے۔ عام قاری تو ان کے اشاروں اور علامتوں کو کیا سمجھتا، تخلیق کار خود ایک دوسرے کو سمجھ نہیں سکتے تھے۔ علامتیں اس دور میں ادب کے معیار کی ضامن بن گئی تھیں۔ علامتی ادیب ایک کڑوی سچائی کو بھول گئے کہ دنیا کا ہر ادب قاری کی پسندیدگی کا محتاج ہوتا ہے۔ وہی ادب نمو پاتا ہے جو قاری کی چاہت کے مطابق ہو۔ علامتی ادب کا بھی حال یہی ہوا۔ الجھی ہوئی علامتوں سے قاری بہت جلد اکتا گیا۔ لیکن کچھ ایسے جیالے افسانہ نگار بھی تھے جو علامتوں کے دور میں بھی بیانیہ افسانے تخلیق کرتے رہے۔ وقت نے افسانے سے علامت، تجرید اور تمثیل نوچ کر پھینک دی۔ کچھ زیادہ پڑھے لکھے افسانہ نگار آج بھی علامت کی بیساکھیوں اور شاعرانہ لفاظی کے سہارے چل رہے ہیں۔ افسانوں کی محفل میں جب ایسے افسانہ نگار افسانہ پڑھتے ہیں تو ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ سننے والوں کے چہرے لٹک جاتے ہیں۔ کیوں کہ الجھی ہوئی علامتیں حاضرین کی سمجھ سے بالاتر ہوتی ہیں۔ پاکستان میں علامتی افسانے آج بھی لکھے اور پڑھے جاتے ہیں۔ لاہور کی ایک افسانوی تقریب میں ایک صاحب نے مجھ سے سوال کیا کہ میرے افسانوں میں علامت کیوں نہیں ہوتی؟ میرا جواب تھا کہ بھائی میں دنیا کی بڑی جمہوریت کا شہری ہوں۔ بولنے اور براہ راست لکھنے کا مجھے قانونی حق حاصل ہے۔ میں اشاروں اور کنایوں میں بات کیوں کروں۔ علامت آپ کی مجبوری ہے، میری نہیں۔

علیم اسماعیل خالص بیانیہ افسانے تخلیق کرتا ہے۔ اگر میں کہوں کہ علیم اردو افسانے کا مستقبل ہے تو شاید درست ہی ہو گا۔ جب ہم اس جہاں سے چلے جائیں گے تو اردو ادب کی خدمت یہی نوجوان نسل کرے گی۔ ادب کی ذمے داری ان ہی کے کاندھوں پر ہو گی۔ جب ہم نوجوان تھے تو جوگندر پال، فکر تونسوی، ظفر پیامی، رام لعل وغیرہ بزرگ ہمیں دیکھ کر کہتے تھے کہ ہم ادب کا مستقل ہیں۔ اب ہمارے سامنے علیم اسماعیل، سلمان عبدالصمد، عمران عاکف خان، وسیم عقیل شاہ، ارشد منیم اور غزالہ اعجاز ہیں جو ادب کا مستقبل ہیں۔ ہمیں ان سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں۔ علیم اپنے ہم عصروں سے خصوصاً ً الگ ہے۔ علیم افسانے اور افسانچے ہی تخلیق نہیں کرتا، اپنے سینئرز کی تخلیقات کے تجزیے بھی کرتا ہے، ان کے فن اور شخصیت پر بھی لکھتا ہے۔

افسانوں پر تجزیہ وہی ادیب یا نقاد کر سکتا ہے جو افسانے کے رموز سے واقف ہو۔ میں تخلیق سے تنقید کو زیادہ مشکل کام سمجھتا ہوں۔ یہ دور علیم کے ادبی سفر کا آغاز ہی ہے۔ ابھی سے یہ ہونہار ادیب تنقید کی طرف راغب ہو گیا تو آگے چل کر کیا ہو گا۔ میں علیم کو اکثر کہا کرتا ہوں کہ علیم تنقید کا مستقبل مجھے تاریک ہی نظر آتا ہے۔ تم تنقید پہ زیادہ کام کرو تو بہتر ہے۔ فن کار مشہور ہو تو سب کی سنتا ہے مگر چلتا اس ڈگر پر ہے جس طرف اس کی طبیعت کا رجحان ہو۔ علیم میں ایک خاص بات یہ ہے کہ وہ اپنے بڑوں کی بات سنجیدگی سے سنتا ہے، بحث نہیں کرتا، اپنے سینئرز کی عزت کرتا ہے۔ اس کی یہی عادت اسے ایک دن بڑا ادیب بنائے گی۔ ان شاء اللہ!

پچھلے دھاکے سے مہاراشٹر میں تو جیسے افسانچوں کی باڑھ آ گئی۔ جسے دیکھو دو چار سو افسانچے لکھے بیٹھا ہے اور ادب میں سیندھ لگانے کی کوشش میں ہے۔ یار لوگوں نے افسانچہ تخلیق کرنا اتنا آسان سمجھ لیا۔ افسانہ سے افسانچہ تخلیق کرنا بہت مشکل ہے۔ اس افسانچوں کی باڑھ نے افسانچے کا معیار گھٹا دیا۔ علیم کی خوبی یہ ہے کہ یہ دوسرے افسانچہ نگاروں کی طرح تھوک میں افسانچے تخلیق نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ علیم کے افسانچوں میں معیار نظر آتا ہے۔ علیم کے افسانچوں کی بات کریں تو افسانچہ ’’مسکراہٹ‘‘ سیاسی لوگوں پر بھرپور طنز ہے۔ وزیر صاحب باتھ روم پر لکھا ہوا لفظ Sheنہیں پڑھ پاتے اور عورتوں کے باتھ روم میں گھس جاتے ہیں۔ آج کل الیکشن میں کوالیفکیشن دیکھی جانے لگی ہے۔ اسی لیے سیاسی لوگ الیکشن کمیشن کو جعلی سرٹیفکیٹ پیش کرنے لگے ہیں، یہ الگ موضوع ہے۔ افسانچہ ’’پردہ‘‘ میں اچھا طنز ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے مسلم خواتین مارکیٹ میں برقعہ پہن کر کھلے منہ گھومتی پھرتی ہیں اور جہاں کوئی جاننے والا دیکھا وہی پردہ گرا لیا۔ ’’جنون‘‘ یہ ایک منی کہانی ہے، جس میں لڑکا فیس بک پر ایک لڑکی پر فدا ہو جاتا ہے۔ میسج کے ذریعے عاشقی جنون کی حد تک پہنچ جاتی ہے۔ میسجز آنے بند ہو جاتے ہیں تو وہ اور بے چین ہو اٹھتا ہے۔ آخر میں ایک پیغام آتا ہے:

’’معاف کرنا بھائی میں بھی ایک لڑکا ہی ہوں۔‘‘

کوئی لڑکا اسے لڑکی بن کر بے وقوف بناتا رہا۔ دلچسپ کلائمکس ہے۔ آج کل ایسا ہونے لگا ہے۔ افسانچہ ’’مردہ پرستی‘‘ اچھا ہے، حقیقت کے قریب ہے۔ اس دور میں واقعی کسی ادیب کی موت کے بعد ہی اس کی تصویر ٹائٹل پر چھپتی ہے۔ اس پر گوشے نکلتے ہیں، نمبر نکلتے ہیں۔ زندہ ادیب اگر مدیران کا نقدی مطالبہ پورا کر دے تو اس کا بھی گوشہ نکلتا ہے۔ مردہ ادیب کے لواحقین سے بھی مدیران جیب بھر لیا کرتے ہیں۔ بھائی لوگوں نے ادب کو گھٹیا تجارت کا درجہ دے رکھا ہے۔ کچھ با ضمیر مدیران بھی ہے جو لالچ کی ان بیماریوں سے پاک ہیں۔ اردو ادب سے دو لوگ ہی فائدہ اٹھاتے ہیں۔ نمبر1 مدیران نمبر2 پبلشر صاحبان، ادیب تو بے چارہ کسمپرسی کی حالت میں ہی رہتا ہے۔

آئیے علیم کے افسانوں پر نظر ڈالیں۔ ادیب کسی جان لیوا غم کی وجہ سے درد سے بھر جائے تو اس کے لیے اظہار، وہ بھی قلم کے ذریعے مداوا ہوتا ہے۔ افسانہ ’’چھٹی‘‘ علیم کی زندگی میں المناک مرحلے کے گزرنے کا اظہار ہے۔ اس کے بڑے بھائی جو اچھے انسان اور شہر کے معروف وکیل تھے، گزر گئے۔ اس المیہ کو کاغذ کی چھاتی پر پھیلا کر موصوف کو ضرور کچھ راحت ملی ہو گی۔ افسانہ طویل ہے کیونکہ وکیل بھائی کی زندگی کے کچھ حالات کی عکاسی کرنا ضروری تھا۔ افسانہ ’’چھٹی‘‘ پڑھ کر قاری بھی غمگین ہو اٹھتا ہے۔ ایک فکشن نگار کا یہی وصف ہوتا ہے کہ قاری کا ہنسنا، رونا اور دلچسپی اپنی گرفت میں لے لے۔ ’’ریجیکٹ‘‘ اچھا افسانہ ہے۔ آخری جملے کی کاٹ اچھی ہے۔ یہ جملہ ملاحظہ فرمائیں: ’’نہیں بھائی۔۔ ۔۔ ۔ وہ گاڑی کوئی نہیں خریدے گا، جس کا انجن کھُل گیا ہو۔‘‘

افسانہ ’’عقلمند‘‘ ایک سبق آموز کہانی ہے۔ ’’قصور‘‘ کو علیم کی نمائندہ کہانی کہا جا سکتا ہے۔ یہ افسانہ علیم کو بھی بہت پسند ہے۔ ایک حساس اور غریب ویٹر اپنی غلطی کا کفارہ کس طرح ادا کرتا ہے، وہ بیان کیا گیا ہے۔ افسانہ پڑھ کر شک گزرتا ہے کہ اس دور میں ایسے بھلے لوگ بھی سانس لے رہے ہیں؟افسانہ ’’رنجش‘‘ میں دوستی کی ایک اچھی مثال پیش کی گئی ہے۔ کاظم کو گفٹ کاشف کے مر جانے کے بعد ملتا ہے، اچھا کلائمکس ہے۔ کہانی ’’منٹو‘‘ پڑھ کر بہت اچھا لگا۔ عنوان منٹو کی بجائے کوئی اور ہوتا تو بہتر تھا۔ عنوان سے راز کھل جاتا ہے کہ افسانے میں کچھ منٹو کے بارے میں ہی ہو گا۔ اچھا خیال ہے۔ منٹو کے دور کی تصویر کشی اچھی کی گئی ہے۔ جو لوگ منٹو کی مخالفت کرتے تھے، وہ منٹو کو پڑھتے بھی ضرور تھے۔ افسانہ اس جملے پر مکمل ہو جاتا ہے:

’’اچھا تو تو نے بھی ایک کاپی چرا لی ہے۔‘‘

علیم کی ’’رنجش‘‘ میں شامل سبھی افسانے اچھے ہیں۔

ہم سینئر لوگ یہاں ایک مشترکہ غلطی کر جاتے ہیں کہ نئے لکھنے والوں کو اپنے تجربات کی عینک سے دیکھنے لگتے ہیں، یہ نہیں سوچتے کہ ابھی اس جونیئر کے سفر کا آغاز ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہماری عمر میں پہنچ کر یہ کس قدر پختہ اور جامع قلم کار بن جائے گا۔ علیم کو ابھی پانچ چھ سال ہی ہوئے ہیں کہ اس نے ادب میں اپنا پاؤں رکھا ہے۔ اتنے قلیل عرصے میں اتنا کچھ کر گزرنا بڑی بات ہے۔ میں واضح طور پر علیم کے اندر ایک اچھا فن کار دیکھ رہا ہوں۔ علیم سے میری بہت سی امیدیں وابستہ ہو گئی ہیں۔ میں اپنے اس عزیز کو ایک اچھا نقاد بھی دیکھنا چاہوں گا اور یہ تبھی ممکن ہے جب یہ افسانے کے خدوخال کو اچھی طرح سمجھ لے۔ کیونکہ کسی پر تنقید کرنا بہت مشکل کام ہے۔ اگر نقاد ہلکی بات کر دے تو تماشا بن جاتا ہے۔ بہت سے نقادوں کو ہم جب پڑھتے ہیں تو سوائے افسانوں کی تعریفیں اور اپنی قابلیت کا سکہ جمانے کے اور کچھ بھی نہیں پاتے۔ تکنیکی غلطیوں کو تو وہ فراموش ہی کر جاتے ہیں۔

آخر میں بزرگ ہونے کے ناطے میں علیم سے کہوں گا کہ وہ اپنے افسانوں کے موضوعات چننے میں عجلت سے کام نہ لیا کریں۔ میری دعا ہے کہ افسانے کے متعلق علیم کی لگن یوں ہی قائم رہے اور یہ ادب کی بلندیوں کو چھو لے۔ آمین!

٭٭٭







چھُٹّی



وکیل صاحب تمھارے کمرے سے کھانسی کی وہ آوازیں اب آتی نہیں لیکن درد سے کراہتی تمھاری آہیں آج بھی ارد گرد محسوس ہوتی ہیں، جو رہ رہ کر دماغ میں گونجتی رہتی ہیں۔ اسپتال سے چھٹی مل جانے پر چھوٹا بھائی تمھیں لانے گیا تھا، پر اب وہ تمھاری لاش لے کر آ رہا ہے۔ ادھر گھر پر ہم تین بھائیوں نے ابا کو صرف اتنا بتایا کہ تمھاری طبیعت کچھ زیادہ بگڑ گئی ہے لیکن ہماری باتوں سے وہ سمجھ گئے اور بھرائی آواز میں کہا: ’’طبیعت خراب ہے یا انتقال ہو گیا ہے۔‘‘

اور ہم سب کے سب ایک ساتھ رو پڑے۔

ایسا لگتا ہی نہیں کہ تم چلے گئے۔ تمھارا چہرہ آنکھوں سے کیسے ہٹ سکتا ہے؟ بتاؤ تو بھلا!!تم ہمارے درمیان ہی موجود ہو۔ بس تھوڑے سے خاموش ہو گئے ہو۔ تم نے جب سے خاموشی کیا اختیار کی ہے، گھر میں سب ہی کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز ہو گئی ہیں۔ اور وہ آنسو آنکھوں میں جم سے گئے ہیں۔ جو نہ سوکھتے ہیں نہ ہی برستے ہیں۔

وکیل صاحب آج تم اس دنیا سے رخصت ہو گئے لیکن اپنی موت کا رونا تو تم پہلے ہی رو چکے تھے۔ تمھیں مرحوم کہتے ہوئے کلیجہ منہ کو آ رہا ہے۔ تم کہتے تھے:

’’دعا کرو میں اچھا ہو جاؤں نہیں تو میرے بچے تنہا رہ جائیں گے۔‘‘

اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتے تھے۔ اس وقت تو تمھاری بے بسی کسی سے دیکھی نہ گئی تھی جب اسپتال میں تمھارا علاج چل رہا تھا اور تمھیں اپنے صحت یاب ہونے سے زیادہ اس بات کی فکر تھی کہ تم نے جو کچھ اپنے بچوں کے لیے کمایا تھا وہ سب تمھاری بیماری پر خرچ ہو رہا تھا۔

بیماری کے اس دلدل سے تم جتنا باہر آنے کی کوشش کرتے رہے اتنا ہی دھنستے چلے گئے۔ زندگی تو تمھارے ساتھ وفا نہ کر سکی پر موت نے بھی کچھ اچھا سلوک نہیں کیا۔ جب انسان زندگی سے ہار جاتا ہے تب موت اسے گلے لگا لیتی ہے، پر موت دور کھڑی صرف تماشہ دیکھتے رہی۔ ایک کے بعد ایک آزمائشیں تمہاری زندگی میں سونامی کی طرح آتی گئیں۔ تم بڑے ہمت و حوصلہ والے تھے۔ کبھی آزمائشوں سے گھبراتے نہیں تھے۔

علاج میں سارا اثاثہ خرچ ہو گیا۔ جو کچھ جمع کیا تھا کچھ نہ بچا اور آخری وقت بیماری نے پھر سے غریبی کی دہلیز پر تمہاری لاش لا کر رکھ دی ہے۔

میں جب کبھی رات بے رات نیند سے جاگتا، تمھاری تکلیف دہ کھانسی کی مسلسل آتی آوازیں روح کو تڑپا دیتی تھیں۔

وکیل صاحب تم جلگاؤں خاندیش (مہاراشٹر) کے گوداوری اسپتال کے ایم آئی سی یو وارڈ میں 20 نومبر 2018 سے بھرتی تھے۔ وہاں تمہاری کڈنی کا علاج چل رہا تھا۔ بھرتی ہونے کو ابھی آٹھ دن ہی ہوئے تھے کہ تم چھٹی لے کر گھر جانے کی ضد کر رہے تھے۔ اس پر سب کا یہی کہنا تھا کہ علاج مکمل ہونے کے بعد ہی چھٹی لیں گے، تو تم غصّہ ہو گئے تھے اور کہنے لگے تھے:

’’یہاں رہ کر کیا مرنا ہے، یہاں میرا دم گھٹ رہا ہے، مجھے بس جلدی گھر جانا ہے۔‘‘

تم نے ایم۔ آئی۔ سی۔ یو۔ وارڈ سے باہر کھلی ہوا میں گھومنے کی خواہش بھی ظاہر کی تھی لیکن ڈاکٹر نے منع کر دیا تھا۔

تم چھٹی کی ضد لیے بیٹھے تھے اور ماننے کو تیار نہیں تھے۔ تب میں نے ڈاکٹر سے بات کی تو انھوں نے بتایا تھا:

’’تمھیں صرف اور چار دن رک کر علاج کروانا ہے۔ اس کے بعد تم اچھے ہو جاؤ گے اور چھٹی مل جائے گی۔‘‘

اس پر تم کو بھی اطمینان آ گیا تھا کہ صرف چار دن کی ہی تو بات ہے۔

آج سے تقریباً چھ سات مہینے پہلے ایک روز صبح جب تم نیند سے جاگے تو دم گھٹتا محسوس ہوا۔ تم گھبرا گئے کچھ سمجھ نہیں آیا کہ ہوا کیا ہے۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ تمھاری آواز میں گھبراہٹ تھی۔ سب ارد گرد جمع ہو گئے۔ یہ کیا ہو گیا؟ کچھ سمجھ نہ آیا۔ ڈاکٹر سے رجوع کیا تو معلوم ہوا کہ آنکھوں کی روشنی چلی گئی۔ اچانک تمہاری دنیا اندھیری ہو گئی۔ ارے کل رات تو سب کچھ اچھی طرح دیکھ رہے تھے، بیوی، بچے، باپ، بھائی سبھی کے چہرے۔۔ ۔۔ سب کچھ اچھی طرح۔۔ ۔۔ یا خدا یہ اچانک کیا ہو گیا کہ سب کچھ آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔ ایک عجیب سی دم نکال دینے والی گھٹن۔۔ ۔۔ ایسے لگا جیسے کسی نے اندھیری کوٹھڑی میں قید کر دیا ہو۔

پھر اِدھر اُدھر سے روپیوں کا انتظام کر کے اورنگ آباد میں آپریشن کیا تو چند فیصد بینائی واپس آ گئی تھی۔

تم نے ایک غریب مزدور کے گھر جنم لیا تھا۔ بلا کی ذہانت و قابلیت دی تھی خدا نے تمھیں۔ آج کیس کی فائل ہاتھوں میں دو، دوسرے دن جج کے سامنے آرگومنٹ کو کھڑا کر دو۔ اگر تم دس سال اور جی لیتے تو ضلع بلڈانہ میں وکالت کے آسمان کا ستارہ ہوتے۔ ہم پانچوں بھائیوں میں تم سب سے بڑے تھے۔ بہن نہیں تھی۔ والدہ تو 2010 میں ہی اس دار فانی سے کوچ کر گئی تھیں۔ چاروں چھوٹے بھائیوں کی تعلیم پر بھی تمھاری خصوصی توجہ رہی تھی۔

مجھے لکھنے پڑھنے کا بالکل بھی شوق نہیں تھا۔ سارا دن آوارگی میں گزر جاتا تھا۔ دسویں جماعت تک تو اردو بھی کمزور تھی، لیکن تمھارے ڈر سے پڑھنے بیٹھ جایا کرتا تھا اور دیکھو تمھاری دعا سے آج میں سرکاری ملازمت میں ہوں۔ علالت کی حالت میں تم گھر کے سب ہی افراد کو خوب دعائیں دیتے تھے۔

تمھاری لاش اسپتال سے گھر آ گئی ہے اور گھر کے اندر سے رونے کی مسلسل آوازیں آ رہی ہیں۔ میں اب بھی گھر کے باہر کھڑا ہوں، پر میری ہمت نہیں کہ گھر میں جاؤں۔ تمھاری تکلیف ناقابلِ برداشت تھی۔ اور آج تمھارا سکون بھی دیکھنا میرے لیے ممکن نہیں۔

اٹھو وکیل صاحب، ابھی تمھاری عمر ہی کیا ہے۔ صرف 42 سال، تمھاری بڑی لڑکی دسویں میں، منجھلی نویں میں اور چھوٹا لڑکا چھٹی جماعت میں ہی ہے۔ بچوں کی اچھی پرورش، تعلیم، شادی سب کچھ ابھی باقی ہے میرے بھائی۔ یہ منصوبے ہر کوئی بناتا ہے، تم نے بھی بنائے تھے۔ تمہارے بچے تمھارے ساتھ موٹر سائیکل پر گھومنے کی خواہش رکھتے تھے۔ انھوں نے تمہاری صحت یابی کے لیے دن رات دعائیں کی تھیں۔

کئی بے سہارا پریواروں کو تم نے حکومت کی ’نِرادھار‘ (بے سہارا) اسکیم کے تحت ماہانہ روپے شروع کروائے تھے اور آج اپنے ہی پریوار کے بے سہارا چھوڑ کر چلے گئے۔

دیکھو کتنے لوگ تمھیں دیکھنے آئے ہیں۔ بار ایسوسی ایشن کے تمام ایڈوکیٹ، جج، نگر پریشد کا صدر اور شہر کی بڑی بڑی ہستیاں، دوست احباب، رشتے دار، تمھارے بچپن کے ساتھی، دیکھو سارے کا سارا شہر امڈ پڑا ہے۔

تم بارہ دن سے اسپتال میں ایڈمٹ تھے بچوں سے دور تھے۔ اب آخری بار چیختے بلکتے تمھارے بچوں کو تو دیکھ لو وہ تمہارے جنازے سے لپٹ لپٹ کر رو رہے ہیں۔ دیکھو وکیل صاحب جن غریبوں کے کیس تم کم فیس پر یا فری میں لڑتے تھے وہ تمھارے جنازے کے پاس بار بار آ رہے ہیں، تمھیں دیکھ رہے ہیں اور اپنے آنسوؤں کو پونچھتے جا رہے ہیں۔ شاید انھیں یقین نہیں آ رہا ہے کہ اب تم اس دنیا میں نہیں۔

غریبوں اور جھوٹے مقدمات میں پھنسائے گئے بے قصوروں کی مدد کے لیے تم ہمیشہ تیار رہتے تھے۔ تمھاری رحلت ہمارے خاندان کے لیے ہی نہیں قوم ملت کے لیے بھی ایک بڑا نقصان ہے۔

بچے کی پیدائش کے وقت ایک ماں کے اندر جتنا درد جمع ہو جاتا ہے اس سے کئی گنا زیادہ درد تم نے مسلسل ایک سال تک سہا۔ تم نے کہا تھا:

’’میں کئی مہینوں سے سویا نہیں، اچھی خاصی وکالت چل رہی تھی وہ بھی جاتی رہی، ایک ایک کر کے کلائنٹ چلے جا رہے ہیں۔ میری تو زندگی برباد ہو گئی رے۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

سخت بیماری کی حالت میں بھی تم اپنی تکلیف اور پریشانی کبھی کسی پر آشکارا نہیں کرتے تھے۔ جب کوئی تمھیں دیکھنے آتا تو اس کے ساتھ تم بالکل نارمل برتاؤ کرتے تھے۔ اور اس کے چلے جانے کے بعد درد سے کراہنے لگتے تھے۔

تکلیفوں کے پہاڑ کا بوجھ اٹھاتے اٹھاتے آج تم اسی بوجھ تلے دب گئے ہو اور سکون کی نیند سو گئے ہو، بالکل غالب کے اس مصرعے کی طرح:

’’مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں‘‘

تمھارے بغیر گھر میں کوئی فیصلہ نہیں ہوتا تھا۔ آج ہم چاروں بھائی آنگن میں بیٹھے تمھاری تدفین کا فیصلہ کر رہے ہیں۔ ہم فیصلہ کہاں کر رہے ہیں بس ایک دوسرے کا منہ دیکھ رہے ہیں۔ دنیا کا سب سے بڑا بوجھ باپ کے کاندھے پر جوان بیٹے کا جنازہ ہوتا ہے۔ جب تمھارا جنازہ اٹھایا گیا اس وقت مجھے میرا یہ شعر یاد آ گیا۔

آنکھ در آنکھ سمندر ہے خدا خیر کرے

سوگ میں ڈوبا ہوا گھر ہے خدا خیر کرے

باپ کے کاندھے پہ میت ہے جواں بیٹے کی

کتنا دلدوز یہ منظر ہے خدا خیر کرے

تکلیف محسوس کی جاتی ہے اور اس کا تعلق دماغ سے ہوتا ہے۔ تمھارا دماغ آخری وقت تک پوری طرح صحت مند تھا۔ تمھارے جسم کے دوسرے اعضا کی طرح اگر تمھارا دماغ بھی کمزور ہو جاتا تو تمھیں تکالیف کا اتنا احساس نہ ہوتا۔ میں نے دیکھی ہے تمھاری تکلیفیں جو مجھ سے دیکھی نہیں جاتی تھیں۔ پیر سے کمر تک تمھارا جسم بے حس ہو کر پتھر ہو گیا تھا۔ ہاتھوں کی نرم جلد سے جسم میں جمع پانی رسنے لگا تھا۔ پورے وجود کو ہلا کر رکھ دینے والی کھانسی جو ذرا ٹھہرنے کا نام نہ لیتی تھی۔

شوگر کی بیماری کو بھی کوئی بغیر علاج کے چھوڑ سکتا ہے؟ بتاؤ تو بھلا!! تم نے چھوڑ دیا تھا۔ شاید تمھیں اس بات کا اندازہ بھی نہ ہو گا میرے بھائی کہ شوگر کی بیماری کا علاج نہ کرنے کے نتائج اتنے بھیانک بھی ہو سکتے ہیں، لیکن اپنی فکر تو تم نے کبھی کی ہی نہیں۔



گوداوری اسپتال میں تمھارے لیے وقت کاٹنا بڑا مشکل ہو گیا تھا۔ بار بار وقت پوچھتے کہ کتنے بج رہے ہیں اور جواب سننے کے بعد کہتے:

’’یہاں وقت جلد گزرتا ہی نہیں۔‘‘

چھٹی ملنے سے ایک دن پہلے چھوٹے بھائی وسیم کو موبائل پر کہا:

’’تو گاڑی لے کر آ جا کل مجھے چھٹی ملنے والی ہے، گھر جانا ہے۔‘‘

جیسے تیسے چار دن گزرے اور وہ وقت بھی آ گیا جب تمھیں یکم دسمبر 2018 کو چھٹی ملنے والی تھی۔ ڈسچارج کی کاغذی کاروائی چل رہی تھی۔ بھابی نے سب ساز و سامان باندھ رکھا تھا اور تم تیار ہو کر بیڈ پر ہی بیٹھے ہوئے تھے۔ چھوٹا بھائی وسیم جب کاغذی کاروائی کر کے واپس لوٹا تو تم نے اسے کہا: ’’تو جلد وہیل چیئر لے آ میں اس پر بیٹھ کر چلوں گا۔‘‘

بھابی تمھارے پاس ہی بیٹھی ہوئی تھی۔ اس وقت تمھارے چہرے پر گھر جانے کی خوشی صاف دیکھی جا سکتی تھی، اور تم نے خوش ہو کر کہا تھا: ’’چلو اچھا ہوا چھُٹّی ہو گئی۔‘‘

ابھی چھوٹا بھائی وہیل چیئر لے کر لوٹا بھی نہیں تھا وکیل صاحب کہ تم پر میجر ہارٹ اٹیک نے حملہ کر دیا اور بھابی کے ہاتھوں میں ہی تمھاری ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھُٹّی ہو گئی۔

کئی راتوں کی نیند باقی ہے میرے بھائی اب قبر میں سکون سے پوری کر لینا۔ تم نے دنیا میں اتنی ساری تکلیفیں صبر و شکر کے ساتھ برداشت کیں، جس نے تمھارے تمام گناہوں، خطاؤں کو ایسے جھڑا دیا جیسے پت جھڑ کے موسم میں درختوں سے پتے اور تم اب ایسے ہو گئے جیسے ابھی ماں کے پیٹ سے جنم لیا ہو۔

وکیل صاحب تمہارے درد کو اس مختصر تحریر میں قید کرنے کی کوشش کی ہے، جس کے تمام لفظوں نے کاغذ پر اتر کر میرے آنسوؤں میں غسل کیا ہے اور ایک دوسرے میں خلط ملط ہو گئے ہیں۔ دیکھو:

تمہاری درد بھری کہانی پڑھ کر آج قاری بھی رو رہا ہے۔

٭٭٭







قصور



کیا وہ اس کا قصور تھا یا وہ واقعہ محض ایک اتفاق تھا۔ وہ روز دوڑتا ہے، ٹکراتا ہے، گر جاتا ہے، پھر کھڑا ہوتا ہے اور ہانپتا رہتا ہے۔ آج آٹھ سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا، ایسا لگتا ہے جیسے وہ آج بھی بڑی تیزی سے بھاگ رہا ہے۔ اگر میرے اختیار میں ہوتا یا میرے پاس کوئی جادو ہوتا تو میں وقت کی طنابیں کھینچ کر، وقت کو پیچھے لے جاتا اور اسے اپنے سینے سے لگا لیتا پھر خوب باتیں کرتا۔ اس نے تو میرے قدموں تلے اپنی آنکھیں بچھا دی تھیں اور میں اُن آنکھوں کو روندتا ہوا گزر گیا تھا۔

جس ہوٹل میں وہ کام کرتا تھا وہاں وہ اب نہیں۔ اس کا پتہ بھی کسی کو معلوم نہیں۔ شاید وہ یتیم اور بے گھر تھا۔ وہ آج بھی اسی طرح بھاگ رہا ہے۔ ہاں! اسی جگہ جہاں وہ بھاگتے بھاگتے گر گیا تھا۔ اور مجھے الوداع کہا تھا۔ اس کا مسکراتا پر نور چہرہ آج بھی ویسا ہی چمک رہا ہے جیسے آٹھ سال پہلے تھا۔ میں اسے گھر جانے کا اشارہ کرتا ہوں لیکن وہ جاتا ہی نہیں۔۔ ۔۔ میرے خیالات سے۔۔ ۔۔ دل و دماغ سے۔ یا خدا اگر یہ سب بند نہ ہوا تو میں پاگل ہو جاؤں گا۔

میں ضلع جالنہ (مہاراشٹر) کے ایک سرکاری اردو اسکول میں مدرس تھا۔ 2010 میں میرا تبادلہ جالنہ سے بلڈانہ ہوا تھا۔ بس کے ذریعے میں بلڈانہ جا رہا تھا۔ راستے میں ایک ہوٹل پر بس رکی۔

ڈرائیور نے کہا۔ ’’بس یہاں بیس منٹ کے لیے رکے گی، جو لوگ کھانا کھانا چاہتے ہیں کھا سکتے ہیں۔‘‘

دوسرے مسافروں کی طرح میں بھی کھانا کھانے کے لیے اپنے بھاری بھر کم بیگ کے ساتھ بس سے نیچے اتر گیا۔ خوب کھایا، کھانا بہت ہی لذیذ تھا۔ میں کھانا کھا کر اٹھا ہی تھا کہ ہوٹل کے ویٹر نے چکن بریانی کی پوری پلیٹ میرے اوپر گرا دی، جس کی وجہ سے اوپر سے نیچے تک میرے کپڑے خراب ہو چکے تھے۔ اُدھر بس بھی چلنے کو تیار تھی۔

اسی ویٹر نے مجھ سے کہا۔ ’’صاحب آپ واش روم سے فریش ہو آئیں، میں بس کو روکتا ہوں۔‘‘

جب میں واش روم سے واپس آیا تو وہ ویٹر منہ لٹکائے کھڑا تھا اور وہاں بس نہیں تھی۔ اس کے چہرے پر افسوس اور شرمندگی کے واضح آثار موجود تھے۔ وہ ڈرتے جھجکتے گویا ہوا۔ ’’بس کو میں روکتا اس سے پہلے ہی وہ چل پڑی۔ میں نے بہت کوشش کی لیکن بس کو نہ روک سکا۔ صاحب، مجھے معاف کر دیجیے، میری وجہ سے آپ کی بس چھوٹ گئی۔‘‘

اس بس کے چھوٹ جانے سے میرا پورا پروگرام فیل ہو گیا تھا۔ مجھے مقررہ وقت پر پنچایت سمیتی ناندورہ میں ڈیوٹی جوائن کرنا تھا اور اگلی بس ٹھیک چار گھنٹے بعد تھی۔ میں کچھ دیر اسے گھورتا رہا۔ مجھے غصہ تو بہت آیا۔ دل چاہا ایک زور دار تھپّڑ اس کے کان کے نیچے لگاؤں اور خوب باتیں سناؤں۔ لیکن میں نے کہا۔ ’’خیر کوئی بات نہیں، میں اگلی بس سے چلا جاؤں گا۔‘‘

میرا جواب سنتے ہی اس کے چہرے پر خوشی پھیل گئی اور میرا بیگ اٹھا کر بولا۔

’’صاحب آپ اسی ہوٹل میں قیام کر لیں، میں کمرے میں آپ کا سامان رکھ دیتا ہوں۔‘‘

اس نے ہوٹل کے کمرے میں میرا بیگ رکھ دیا۔ میں نے ہوٹل میں آرام کیا لیکن وہ چار گھنٹے میرے لیے صدیوں سے کم نہ گزرے۔ اور میرے ذہن کے پردوں پر کئی سوالات ابھرتے رہے۔

’’مجھے صبح کے سیشن میں ہی جوائن کرنا تھا۔ اب پہنچتے پہنچتے دوپہر ہو جائے گی۔ کیا ایجوکیشن آفیسر صاحب مجھے صبح کے سیشن میں جوائن کروائیں گے؟ اگر انھوں نے دوپہر کے سیشن میں ہی جوائن کرایا تو میری سروس میں کھِنڈ (Gap) پڑ جائے گا۔ جس کی وجہ سے مستقبل میں میرا بہت نقصان ہو گا۔ نہیں نہیں۔۔ ۔۔ میں ان سے درخواست کروں گا، میری مجبوری بتا دوں گا۔۔ ۔۔ پر کیا وہ مانیں گے؟‘‘

اگلی بس کے وقت پر میں تیاری کر کے نکل ہی رہا تھا کہ وہ آ گیا اور میرا بیگ اٹھا کر بولا۔ ’’چلو صاحب آپ کی بس آ گئی ہے۔‘‘

میں نے کہا۔ ’’تم آگے بڑھو میں آتا ہوں۔‘‘

میں نے ہوٹل منیجر کو روم کا کرایہ دینا چاہا لیکن اس نے انکار کر دیا، وجہ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ اسی ویٹر نے کرایہ ادا کر دیا ہے۔ میں نے ویٹر کو ہوٹل کے کمرے کے کرائے کی رقم جو اس نے منیجر کو ادا کی تھی دینی چاہی لیکن اس نے لینے سے انکار کر دیا اور کہا۔

’’نہیں صاحب میری وجہ سے آپ کی بس چھوٹ گئی، یہ میں نہیں لوں گا۔‘‘

میں نے بہت کوشش کی کہ وہ رقم لے لے لیکن وہ کسی صورت نہ مانا۔

اس نے مجھے بس میں بٹھایا اور باتیں کرنے لگا۔ وہ مجھ سے اس طرح باتیں کر رہا تھا جیسے میں نے اس پر بہت بڑا احسان کیا ہو۔ میں اسے نظر انداز کیے جا رہا تھا لیکن وہ برابر مسکرا کر مجھ سے باتیں کیے جا رہا تھا۔ میں صرف ہاں، ہوں کر کے گفتگو میں شامل ہونے کا ناٹک کر رہا تھا۔

میں نے جیب سے موبائل نکالا اور اس میں مگن ہو گیا۔ پھر اچانک وہ نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ میں نے سکون کی سانس لی، لیکن وہ سامنے سے آتا ہوا دکھائی دیا۔ اس کے ایک ہاتھ میں ناشتہ تو دوسرے ہاتھ میں پانی کی بوتل تھی۔

’’صاحب لیجیے ناشتہ!‘‘ اس نے قریب آ کر کہا۔

’’اس کی کیا ضرورت تھی میں اتنی جلدی ناشتہ نہیں کرتا۔‘‘

’’صاحب سفر لمبا ہے۔۔ ۔۔ ساتھ رکھ لیجیے۔‘‘

اس کی بک بک پھر شروع ہو گئی تھی۔ خود ہی باتیں کرتا، خود ہی ہنستا جاتا۔ میں اس سے چھٹکارا پانا چاہتا تھا۔ اس لیے میں نے تھوڑے فاصلے پر موجود پھلوں کی دکان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے سیب لانے کی درخواست کی اور اس کی جانب پیسے بڑھائے لیکن وہ بنا پیسے لیے ہی پھلوں کی دکان کی طرف لپکا۔ اِدھر بس نے گنگنانا شروع کر دیا تھا۔ اس نے جلدی سے سیب لیے، پیسے گِنے بغیر ہی ادا کیے اور الٹے پاؤں دوڑا۔

بس رینگ رہی تھی اور وہ دوڑ رہا تھا۔ میں اس کی تڑپ دیکھ رہا تھا۔ بھاگتے بھاگتے نہ جانے وہ کس چیز سے ٹکرا گیا، دھڑام سے گرا۔ ہاتھوں سے سیب بھی گر کر بکھر گئے۔ سیب اٹھانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ سانسیں پھول گئی تھیں اور وہ بری طرح ہانپ رہا تھا۔ پھر اٹھ کھڑا ہوا اور اپنے کپڑے جھٹکے بنا ہی مجھے ہاتھ ہلا کر الوداع کہنے لگا۔ میں نے جواب میں اسے گھر جانے کا اشارہ کیا، لیکن شاید وہ سمجھ نہیں پایا تھا۔

میں نے بس کی نشست سے ٹیک لگاتے ہوئے ایک لمبی سانس لی اور اپنے دونوں ہاتھوں کو چہرے پر پھیرا۔ میرا چہرہ تمتما گیا تھا۔ کان دہکتا ہوا شعلہ بن گئے تھے۔ جسم سے آگ کی لپٹیں نکل رہی تھیں۔ باہر کھڑکی سے آنے والی سرد ہوا جسم میں گھسی جا رہی تھی۔ باہر سے آنے والی سرد اور جسم سے نکلنے والی گرم لہریں آپس میں ٹکرا رہی تھیں، جس نے میرے اندر سنامی پیدا کر دی تھی۔ کانوں میں عجیب سی آوازیں آنے لگتی تھیں، سیٹیاں بجنے لگتی تھیں، چنگھاڑتی، بھنبھناتی، ٹرّاتی ہوئی آوازیں ایک ساتھ خلط ملط ہو گئی تھیں اور میں نے دونوں ہاتھوں سے اپنے کان بند کر لیے تھے۔

بس کنڈکٹر دھیرے دھیرے مسافروں کو ٹکٹ دیتا ہوا میرے پاس آیا۔ میں نے ٹکٹ مانگا، اس نے ٹکٹ دیا، میں نے پیسے دینے چاہے لیکن اس نے انکار کرتے ہوئے کہا۔ ’’جو صاحب آپ سے باتیں کر رہے تھے انھوں نے آپ کی ٹکٹ کے پیسے پہلے ہی دے دیے تھے۔‘‘

٭٭٭





رنجش



رات کی تاریکی سناٹے کو اگل رہی تھی اور وہ ٹھٹھرتی کانپتی آگے بڑھ رہی تھی۔ اس کے منہ سے دھواں اس طرح نکل رہا تھاجیسے بدن میں کچھ جل کر خاک ہو رہا ہو۔ چاند آسمان کی قبا میں چھپ گیا تھا اور ستارے اپنی روشنیوں کے ساتھ ٹمٹما رہے تھے۔ پھر اچانک چاند کالے بادلوں سے باہر نکل آیا اور اپنی شعاعوں کو گوشے گوشے میں پھیل جانے کا حکم دے کر انھیں زمین پر آوارہ چھوڑ دیا۔ اس کے بعد اسے راستہ چلنے میں دشواری نہ ہوئی اور وہ کاشف کے دروازے تک آ پہنچی۔

رات دو بجے کاشف کے دروازے پردستک ہوئی۔ وہ نہیں اٹھا تو دروازہ زور زور سے کھٹکھٹایا گیا۔ جب اس کی آنکھ کھلی تو اسے دروازے پر کاظم کی بیوی کی آواز سنائی دی، وہ کہہ رہی تھی۔ ’’کاشف بھیا، جلدی چلیے، آپ کے دوست کاظم کی طبیعت بہت خراب ہو گئی ہے۔‘‘

لیکن کاشف نہیں اٹھا، نہ ہی دروازہ کھولا۔ وہ خاموش اپنے نرم بستر پر پڑا رہا۔ کاظم کی بیوی بہت دیر تک دروازہ کھٹکھٹا تی رہی۔ دروازے پر گڑگڑاتے کئی لمحے اس طرح بیت گئے جیسے صدیاں بیت گئی ہوں، لیکن دروازہ نہیں کھلا، نہ ہی کاشف مدد کے لیے باہر آیا۔ جاگنے کے بعد بھی وہ سونے کا ناٹک کرتا رہا۔

صبح کاشف نے دیکھا کہ کاظم کے گھر میں کچھ لوگ جا رہے ہیں اور کچھ لوگ باہر سے آ رہے ہیں۔ وہ گھبرا گیا اس کے دل کی دھڑکنیں تیز ہو گئیں۔ وہ آگے بڑھا اور کاظم کے گھر کا گیٹ کھول کر اندر داخل ہوا۔ آنگن میں اسے ایک چمچماتی سفید کار دکھائی دی۔ اس نے دو دفعہ مڑ کر کار کی طرف دیکھا۔ اس کے بعد گھر میں داخل ہوا تو ہال کے ایک کونے میں چند عورتیں تلاوت کر رہی تھیں، دوسرے کونے میں کاظم کی بیوی کھڑی رو رہی تھی اور پلنگ پر کوئی سفید کپڑا اوڑھے سویا ہوا تھا۔ اس نے آگے بڑ ھ کر منہ سے سفید کپڑا ہٹا یا اور دیکھا تو وہ کاظم تھا۔

کاظم کے سرہانے بیٹھے مولوی صاحب نے دوبارہ کپڑے سے منہ ڈھانک دیا اور کہا۔ ’’رات کو دل کا دورہ پڑا تھا۔۔ ۔۔ ۔ اللہ جنت نصیب کرے۔‘‘

اب وہ ایک زندہ لاش کی طرح کھڑا سوچ رہا تھا۔

’’یہ وہی میرا دوست ہے جو ہر وقت سائے کی طرح میرے ساتھ رہتا تھا، جس کے ساتھ میں نے اپنا بچپن گزارا تھا، جو مجھے ایک بھائی کی طرح پیار کرتا تھا، جو میرے لیے اپنی ہر خوشی قربان کر دیتا تھا لیکن ضرورت کے وقت میں نے اِس کی مدد نہیں کی۔ میری ناراضگی اِس کی موت کی وجہ بن گئی اور آج یہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مجھ سے جدا ہو گیا۔‘‘

کاظم کی بیوی اسے دیکھ کر بین کرنے لگی۔ ’’دیکھیے نا کاشف بھائی، آپ کے دوست ہم سب سے ناراض ہو گئے ہیں، مصیبت کے وقت میں ہر کسی کا دکھ بانٹنے والے آج ہمیں دکھ دے گئے ہیں۔‘‘

کاظم کی والدہ کا رو رو کر برا حال ہو گیا تھا۔ وہ کہہ رہی تھیں۔ ’’سائے کی طرح ہمارے آگے پیچھے گھومنے والے، ہر وقت ہماری خدمت میں رہنے والے بتا، آج ہم تیری کیا خدمت کر سکتے ہیں۔‘‘

کاظم کے والد کے چہرے پر برسوں کی اداسی اور مایوسی نظر آ رہی تھی۔ انھیں کچھ سمجھ ہی نہیں آیا کہ ہوا کیا ہے۔ ان کے ہوش و حواس گم ہو چکے تھے۔

جب جنازہ اٹھانے کا وقت آیا تو وہ کہنے لگے۔ ’’بتا کس طرح۔۔ ۔۔ جن کندھوں پر بٹھا کر تجھے دنیا گھمائی تھی آج ان ہی کندھوں پر تیرا جنازہ اٹھا کر کس طرح تجھے قبر کی آغوش میں دے دوں۔۔ ۔۔ بتا کس طرح۔‘‘

کاظم کی بیوی، ماں اور والد کے الفاظ کاشف کو ہتھوڑے کی ضرب کی مانند محسوس ہو رہے تھے۔ وہ بغلوں میں ہاتھ ٹھونسے، نظریں زمین میں گڑائے ساکت و جامد کھڑا تھا اور خیالات کے سمندر میں غرق ہو گیا تھا۔ ذہن کے پردوں پر پل پل منظر بدل رہے تھے، لیکن چہرے پر ایک ہی منظر تھا، وہ تھا مایوسی کا۔ اور آنکھوں میں ایک ہی منظر تھا، وہ تھا اداسی کا۔

کاشف کب سے خاموش کھڑا تھا۔ اس کی آنکھیں خشک ہو گئی تھیں جن سے آنسو کا ایک قطرہ بھی نہیں گرا۔ جنازہ قبر میں اترنے تک وہ بے حس و حرکت سب کچھ دیکھتا رہا۔ جب قبر نے جنازے کو اپنی آغوش میں لے لیا تب اچانک اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کا ایک سیلاب جاری ہوا۔ اسے سنبھالنے کی بہت کوشش کی گئی پر وہ کسی سے سنبھالانہیں گیا۔ درد اس کے وجود میں بھر چکا تھا۔ اس کے رونے کی آواز شیر کی دہاڑ سے کم نہ تھی۔

جب تمناؤں کا بازار گرم ہو جاتا ہے اور امیدیں بے سمتی کی راہ اختیار کر لیتی ہیں تب معمولی ناراضگی بھی نفرت کا ایک تناور درخت بن جاتی ہے۔ پھر مضبوط سے مضبوط رشتے بھی برف کی چادر تلے دب کر کراہنے لگتے ہیں۔

کاظم اور کاشف دونوں بچپن کے دوست تھے۔ دونوں ایک ساتھ کھیلے کودے، پڑھائی لکھائی کی، جوان ہوئے، شادی ہوئی۔ ان کی دوستی بہت گہری تھی۔ دونوں کے گھر آس پاس تھے۔ دونوں اپنا ہر کام ایک دوسرے کے رائے مشورے سے کرتے تھے۔ اگر کوئی چیز دونوں کو پسند آ جائے تو دونوں ایک دوسرے کو دے دینے کی کوشش کرتے اور اکثر کاظم بڑا ہونے کے ناطے اپنی پسندیدہ چیز کی قربانی دے دیتا تھا۔

دونوں کی دوستی نے ایک مضبوط دیوار کی مانند کئی مشکلات کا سامنا کیا تھا۔ کئی طوفان آئے اور گزر گئے پر دوستی کی بنیادیں لرزاں تک نہیں ہوئیں۔ لیکن اچانک ایک مہین سی دراڑ ان کے وجود کو ریزہ ریزہ کر گئی۔

ایک دن کاظم نے کاشف سے کہا تھا۔ ’’فلاں شخص کو روپیوں کی اشد ضرورت ہے اور وہ اپنی چار مہینے پرانی کار آدھی قیمت پر فروخت کر رہا ہے، چل دیکھ آتے ہیں۔‘‘

انھوں نے کار دیکھی جو دونوں کو بہت پسند آئی۔

کاشف نے کاظم سے کہا۔ ’’یار ایسا کرتے ہیں یہ میں خرید لیتا ہوں۔‘‘

کاظم نے انکار میں سر ہلایا۔ ’’نہیں یار مجھے کار کی ضرورت ہے، تو یہ میں ہی لوں گا۔‘‘

کاظم نے گویا فیصلہ صادر کر دیا تھا۔ پہلی بار اس کا اس طرح کا رویہ کاشف کو ٹھیک نہیں لگا۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ایک چھوٹی سی بات کو کاشف نے دل پر لے لیا تھا اور کاظم سے ناراض ہو گیا تھا۔ اس وقت کاشف کی حالت کچھ عجیب سی ہو گئی تھی۔ اس کے دل و دماغ میں بیک وقت کئی لہریں اٹھیں اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو شل کر گئیں۔ وہ محسوس کرنے لگا کہ کئی آوارہ لہریں پتھریلے ساحل سے ٹکرا کر دم توڑ رہی ہیں۔

کاظم کے انتقال کے تین دن بعد صبح چائے پیتے ہوئے کاشف کی بیوی نے اس سے کہا۔ ’’رات میں کاظم بھائی کی بیوی گھر آئی تھی، وہ بتا رہی تھی کہ کاظم بھائی نے بطور گفٹ(تحفہ) آپ کے لیے کار خریدی تھی، آپ جلد سو گئے تھے تو وہ یہ کار کی چابی دے کر چلے گئی۔‘‘

٭٭٭







شبِ سرخاب



میں ارقم کی تصویر سے اکثر باتیں کرتی رہتی ہوں۔

ارقم تم میرے پاس کب آتے تھے، جب تم چاہتے تھے اور جب میں چاہتی تھی تب نہیں۔ در اصل میرے جذبات کو تم نے محسوس ہی نہیں کیا۔ عورت زبان سے کبھی کچھ نہیں کہتی اور بہت کم مرد اس کے جذبات کو سمجھ پاتے ہیں۔ زندگی میں صرف ایک بار میں نے تم سے شکایت کی تھی۔

تب تم نے غصے سے کہا تھا: ’’کس چیز کی کمی ہے تمھیں، گھر میں عیش و عشرت کی تمام چیزیں موجود ہیں۔‘‘

اور پھر اتنے برہم ہوئے تھے کہ نوبت کشیدگی تک پہنچ گئی تھی۔ طلاق دینے کی دھمکی دیتے ہی میں ڈر گئی تھی، خاموش ہو گئی تھی۔ اس کے بعد تم نے میری طرف کبھی مڑ کر بھی نہیں دیکھا۔ میرے سارے ارمان ملیامیٹ ہو گئے۔ میرے والدین نے میری شادی پر سارا اثاثہ لٹا دیا۔ بعد میں ان کو چھوٹے بھائی کی فیس ادا کرنا بھی مشکل ہو گیا تھا۔ اس لیے میں تمھارے رحم و کرم پر پڑی رہی۔ نہیں تو میں کب کی تمھیں چھوڑ کر جا چکی ہوتی۔ کبھی کبھی مجھے اپنی قسمت پر خوب رونا آتا ہے اور پھر میرے ارد گرد بے شمار روتی سسکتی آنکھیں ابھر آتی ہیں اور میں سہم جاتی ہوں۔ گھر کاٹنے کو دوڑتا ہے اور لمحے صدیوں کے دائرے بنا لیتے ہیں۔

جب ماں جی سمجھ گئی تھیں کہ گھر میں کیا چل رہا ہے۔ تب انھوں نے تمھیں ٹوکا اور تم آگ بگولہ ہو گئے تھے، غصے میں اندھے ہو گئے تھے۔ تم نے ماں جی پر ہاتھ اٹھایا ہی تھا کہ میں نے تمھیں پکڑ لیا تھا۔ تب سے ماں جی بظاہر زندہ تو تھی لیکن ایک زندہ لاش سے کم نہ تھیں۔ وہ تو جیتے جی کب کی مر چکی تھی۔ گزری ہوئی یادیں اور باتیں پیچھا ہی نہیں چھوڑتیں جبکہ میں انھیں ذہن کی سلیٹ سے رگڑ رگڑ کر مٹاتی ہوں اور یہ وائرس کی طرح دوبارہ چلی آتی ہیں۔

در اصل میرے دکھوں کی شروعات شادمانی کی رات سے ہوئی۔ وہ رات جسے لوگ سہاگ رات یعنی خوشیوں کی رات کہتے ہیں، میری زندگی میں آئی لیکن خوشیاں ساتھ نہ لائی۔ میرے گمان میں بالکل بھی نہیں تھا کہ ایسا کوئی زخم لگے گا جو سیا نہ جائے گا۔ میں نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ شبِ زفاف میرے لیے شبِ سرخاب ثابت ہو گی۔

سہاگ رات کو میرے شوہر ارقم نے ہاتھوں میں ہاتھ تھاما اور مجھ سے کہا: ’’میں تم سے بہت ساری باتیں کرنا چاہتا ہوں۔‘‘

بس اتنا ہی یاد ہے مجھے۔ اس کے بعد میں کب نیند کی آغوش میں چلی گئی پتا نہیں۔ میں صبح بہت دیر تک سوتی رہی۔ جب اٹھی تو سر میں ہلکا ہلکا درد ہو رہا تھا۔ میں من ہی من بدبدانے لگی: ’’افسوس، مجھے نیند کیسے آ گئی۔۔ ۔۔ وہ کیا سوچ رہے ہوں گے۔‘‘

اس نئے اجنبی گھر میں کچھ بھی تو اجنبی نہیں تھا۔ سبھی ممبر اچھے تھے۔ مجھے بہت چاہتے تھے۔ سر پر شفقت کا ہاتھ پھیرنے والی ماں جی (ساس) بالکل میری ماں جیسی تھیں۔ اسی ماں کا دوسرا روپ اجالا بھابی جو پیار اور محبت کی دیوی تھی۔ جو گھر میں سبھی کی بہت خدمت کرتی۔ وہ ایک خوش مزاج اور اسم بامسمیٰ عورت تھی۔ جو صبح ہوتے ہی پورے گھر میں اجالا بکھیر دیتی تھیں۔ خمیدگی اس کے مزاج میں نام کو نہیں تھی۔ مجھے ایک بچی کی طرح عزیز رکھنے والے جیٹھ، جنھوں نے گھر کو غربت کی دلدل سے باہر نکالا تھا اور ان ہی کے پیسوں سے گھر میں ہر کسی کے شوق پورے ہو رہے تھے۔

حُکمِ حاکم مرگِ مفاجات کی طرح میں گھر کے تمام ممبران کی ہر بات سر آنکھوں پر سجا لیتی تھی۔ میں تو سمجھ رہی تھی کہ سارے جہاں کی خوشیاں میرے قدموں تلے سمٹ آئی تھیں۔ لیکن زمانے کے نشیب و فراز اور سرد و گرم سے ناواقف تھی۔ مجھے کیا پتا تھا کہ ظاہر کی آنکھیں اور ہیں باطن کی آنکھیں اور۔

رات میں سونے سے پہلے اجالا کبھی دودھ، کبھی مٹھائی، کبھی جوس، کبھی نمکین ڈش اور کبھی کولڈ ڈرنکس ہم تینوں کے لیے لے آتی۔ یہ اس کا روز کا معمول تھا۔ ہم تینوں ایک ساتھ مل بیٹھتے اور انجوائے کرتے ہوئے کھاتے پیتے تھے۔ اس گھر میں میرے ساتھ جو عجیب ہو رہا تھا وہ یہ تھا کہ نیند کا غلبہ روز بروز بڑھتا جا رہا تھا۔ شادی کو ایک ہفتہ ہو گیا تھا لیکن جیسے نیند نے مجھ پر قبضہ کر لیا تھا۔ ہر رات مجھے اتنی گہری نیند آتی کہ میں صبح دس بجے تک سوتی رہتی۔ بھلا ہو اس بے چاری اجالا کا جو کبھی مجھ پر بگڑی نہیں۔ میرے اٹھنے تک وہ گھر کے سارے کام نپٹا چکی ہوتی۔ مجھے یہ سب کچھ اچھا نہیں لگتا تھا۔ میں اسے کہتی کہ مجھے جگا دیا کرو۔ میں سوتی رہوں اور تم گھر کے سارے کام کرو یہ مجھے بالکل بھی پسند نہیں۔

جب ماں جی کہتیں: ’’دیکھو! مہارانی کو، سورج سر پر چڑھا ہے اس کی نیند کھلتی نہیں۔‘‘

تب اجالا ہی میری حمایت میں بولتی: ’’لوگ اچھی اور گہری نیند کے لیے دوا لیتے ہیں۔ نرم نرم بستر کے باوجود انھیں نیند کہاں نصیب ہوتی ہے۔ یہ نیند بھی تو خدا کی ایک نعمت ہے۔ لیکن میں تذبذب میں تھی کہ اس سے پہلے تو کبھی مجھے اس طرح نیند نہ آتی تھی۔

ایک روز میری سہیلی شبنم مجھ سے ملنے آئی۔ ہم دونوں نے ایک ساتھ نرسنگ کا کورس کیا تھا۔ میں اپنی تشویش کا اظہار کرنے ہی والی تھی کہ اس کی درد بھری کہانی سن کر میں حیرت و افسوس کی ملی جلی کیفیت سے دوچار ہوئی اور اپنی پریشانی بھول گئی۔ وہ ایک خطرناک بیماری میں مبتلا ہو گئی تھی۔ یہ بیماری اسے اپنے شوہر سے ملی تھی۔ جتنی ہو سکتی تھی میں نے اس کی دلجوئی کی اور وہ چلی گئی۔

پھر ایک رات کچھ آہٹ سی محسوس ہونے پر اچانک میری آنکھ کھل گئی۔ رات کا تیسرا پہر ہو گا۔ میں بستر پر اکیلی تھی۔ پریشان ہو بیٹھی کہ اتنی رات ارقم کہاں چلے گئے۔ میں اٹھ کھڑی ہوئی تو اچانک میری نظریں کولڈرنک سے بھرے اس گلاس پر اٹک گئیں جو رات کو سونے سے قبل اجالا نے مجھے دیا تھا۔ طبیعت ناساز ہونے کی وجہ سے، بعد میں پی لوں گی، یہ کہہ کر میں نے رکھ دیا تھا۔ سناٹا ایسا تھا کہ اگر سوئی بھی گر جائے تو آواز ہو اور اندھیرا برابر راج کر رہا تھا۔ کچھ آوازیں کانوں کے پردوں سے ٹکرانے لگیں۔ میں نے آواز کی طرف دھیرے دھیرے اپنے قدموں کو بڑھایا۔ آواز صاف ہوتی ہوتی کھسر پھسر اور کھلکھلاہٹ میں تبدیل ہو گئی۔ بڑھتے بڑھتے میں بھابھی کے کمرے تک پہنچ گئی۔ قفلی سوراخ کے ذریعے کنکھیوں سے دیکھا۔ تو حیرت کا طلسم مجھ پر حاوی ہو گیا۔ دل دوز منظر کی میں تاب نہ لا سکی اور کلیجا پاش پاش ہونے لگا۔ پیروں تلے سے زمین ہی کھسک گئی۔ میں صورت آئینہ دیکھتی رہ گئی۔ ضربِ مہلک نے میرے وجود کو ریزہ ریزہ کر دیا۔ اجالا اور ارقم نیم برہنہ حالت میں ایک دوسروں کی بانہوں میں لپٹے ہوئے تھے۔ ہنس رہے تھے، کھیل رہے تھے ایک دوسرے کے وجود سے۔

اجالا کہہ رہی تھی: ’’کل تمھارے بڑے بھائی بیرون ملک سے واپس آ رہے ہیں اس لیے ہم کچھ دنوں تک مل نہیں پائیں گے۔‘‘

یہ منظر دیکھ مجھے یوں لگا جیسے وقت میری گرفت سے پھسل گیا ہو۔ میرا سارا جسم شل ہو چکا تھا۔ میں نے اپنے چہرے کو چھوا، بازوؤں کو ٹٹولا اور سارے جسم پر انگلیاں پھیریں۔ سب کچھ موجود تھا۔ میں دھیرے دھیرے نپے تلے قدموں سے یوں اپنے کمرے کی طرف لوٹ رہی تھی جیسے زمین آہستہ آہستہ پیچھے کھسک رہی تھی۔ اچانک ایک دھکا لگنے سے کانچ کا گلاس گر پڑا، اور وہ دونوں باہر آ گئے۔ انھوں نے اِدھر اُدھر نظریں دوڑائیں پر جب تک میں سونے کا کامیاب ناٹک کر چکی تھی۔ دوسرے روز بڑے بھائی صاحب گھر آئے۔ لیکن وہ دونوں اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے۔ وہ کہتے ہیں نہ کہ بلی آنکھیں بند کر کے دودھ پیتی ہے اور سمجھتی ہے کہ اسے کوئی نہیں دیکھ رہا ہے۔ ایک ہفتہ جیسے تیسے گزر گیا۔ آخری دن بھائی صاحب جانے والے تھے اور اسی دن انھوں نے دونوں کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔ اجالا نے بڑی چالاکی سے خود کو بے قصور بتاتے ہوئے پورا الزام ارقم کے سر منڈ دیا۔ بھائی صاحب نے بھی اس کی باتوں پر یقین کرتے ہوئے ارقم کو پولیس کے حوالے کر دیا۔ بھائی صاحب نے بیرون جانا رد کر دیا۔ میں نفرت کرنے لگی تھی اجالا سے، جس نے میری زندگی برباد کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے شوہر کے بھروسے کا بھی خون کیا تھا۔ پر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ارقم محبت کرنے کے لائق تھا۔ تالی کبھی بھی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔

اجالا نے چپکے سے ارقم کے آوارہ دوستوں کی مدد سے اس کی ضمانت کروا لی۔

ایک روز بھائی صاحب بازار سے گھر آ رہے تھے۔ راستے میں دو موٹر سائیکل سوارآدمیوں نے انھیں گولیوں سے چھلنی کر دیا۔ پولیس نے تفتیش بہت کی پر ہاتھ کچھ نہ آیا۔ بھائی صاحب کے قتل کے دوسرے روز ہی وہ دونوں ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈالے لپٹے ہوئے تھے اور اجالا کہہ رہی تھی: ’’جو بھی ہمارے بیچ میں آئے گا اس کا یہی حشر ہو گا۔‘‘

پھر دونوں کے قہقہے میرے کانوں کو ناگوار گزر رہے تھے۔ اس کے بعد میری جان بھی مجھے خطرے میں محسوس ہو رہی تھی۔ ایک رات سونے سے کچھ وقت قبل میں نے اپنی سہیلی شبنم کو بلایا۔ کچھ راز کی باتیں کرنے کے بعد مدد کی التجا کی اور وہ تیار ہو گئی۔

’’خوب جمے گا رنگ جب مل بیٹھیں گے ہم تینوں‘‘ کہتے ہوئے میں ہال میں داخل ہوئی جہاں اجالا اور ارقم بیٹھے ہوئے تھے۔ میرے ہاتھ میں ایک ٹرے تھا جس میں کولڈڈرنکس کے تین گلاس تھے۔

اجالا نے کہا: ’’ارے تم نے تکلیف کیوں کی میں لانے ہی والی تھی۔‘‘

میں نے ہنس کر ٹال دیا: ’’کوئی بات نہیں، کیا ہوا آج میں لے آئی۔‘‘

اجالا ہچکچائی تو میں نے اس کی طرف دیکھا: ’’بھابھی کوئی بھی گلاس لیجیے، کوئی ملاوٹ نہیں سب ایک جیسے ہیں۔‘‘

ہم تینوں نے ہنستے ہوئے کولڈڈرنکس پی اور بے ہوش ہو گئے۔ شبنم میرے روم میں ہی بیٹھی ہوئی تھی۔ اس نے جلدی جلدی اپنا کام کیا اور چلی گئی۔ اس کے بعد ارقم کو میں نے کبھی روکنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ دونوں روز ملتے رہے اور تل تل مرتے رہے۔ اس رات شبنم نے اپنے خون کا نمونہ اجالا کی رگوں میں دوڑا دیا تھا۔

شبنم ایڈز کی مریضہ تھی۔

٭٭٭







ریجیکٹ



باہر بارش ہو رہی ہے۔ تین دن سے مسلسل رم جھم برس رہی برکھا آج ذرا تیز ہو گئی ہے۔ میں کھڑکی سے لگ کر بیٹھا برسات کے مزے لے رہا ہوں۔ میرے ٹھیک سامنے ٹیبل ہے، جس پر کاغذ اور قلم رکھے ہوئے ہیں۔

میں موسمِ باراں کے اِس قدرتی منظر کو لفظوں میں قید کرنے کے متعلق سوچ رہا ہوں۔ میں نے جیسے ہی کچھ لکھنے کے لیے ہاتھ میں قلم اٹھایا اسی وقت بیوی نے چائے لا کر میرے سامنے رکھ دی ہے۔ چائے دیکھتے ہی میں نے ہاتھ میں تھامے قلم کو نیچے رکھ کر چائے اٹھا لی ہے اور سرد ماحول میں اپنے آپ کو گرم کرنے لگا ہوں۔ ذہن تر و تازہ ہے، دماغ کام کر رہا ہے، ماحول خوشگوار ہے۔ ایسے وقت میں کہانی لکھنے کا موڈ ہو رہا ہے اور دماغ نے سوچوں کے گھوڑے دوڑانے شروع کر دیے ہیں۔ میں نے چائے ختم کی اور کچھ لکھنے ہی والا تھا کہ میرے دونوں بھائیوں کے بچے میرے گھر آ کر شور شرابہ کرنے لگے ہیں۔ اور میں ان سے کہہ رہا ہوں کہ بچو، تم لوگ دوسرے کمرے میں جاؤ، میں یہاں کام کر رہا ہوں۔ لیکن بچے تو بچے ہیں وہ کب کسی کی سنتے ہیں۔ میں نے پھر قلم اٹھایا اور دو/تین سطریں ہی گھسیٹی تھیں کہ بیوی میرے بازو کی کرسی پر بیٹھ گئی ہے۔ میں نے پھر سے قلم رکھ دیا ہے اور دونوں موسم کا نظارہ کر رہے ہیں۔ باتیں ہو رہی ہیں، ہنسی مذاق ہو رہی ہے۔ باتوں ہی باتوں میں بیوی نے مجھ سے کہا: ’’میں آپ کی اس بات کو ریجکیٹ کرتی ہوں۔‘‘

’’ریجیکٹ‘‘ اس کی زبان سے یہ لفظ نکلا اور میرے ذہن میں گونج گیا۔

’’اس طرح کسی کو ریجیکٹ کرنا ٹھیک نہیں۔۔ ۔ خدا کی بنائی ہوئی چیزوں کو ریجیکٹ کرنا، خود ریجیکٹ ہونے کے برابر ہے۔‘‘

’’یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ میں نے آپ کی ’بات‘ کو ریجکیٹ کیا ہے ’کسی کو نہیں‘۔ آپ تو سنجیدہ ہو گئے ہیں در اصل میں مذاق کر رہی ہوں۔‘‘

وہ جانے لگی تو میں نے ہاتھ پکڑ کر اسے بٹھا لیا اور کہا: ’’میں نے بھی یہ جملے تمہارے لیے نہیں کہے ہیں۔ در اصل لفظ ریجیکٹ سے جڑی ایک کہانی میرے ذہن میں چل پڑی ہے۔‘‘

’’اچھا تو پھر میں یہ کہانی ضرور سننا چاہوں گی۔‘‘

یہ اس وقت کی بات ہے جب میں اپنی پہلے اسکول بنام ضلع پریشد اردو اسکول، پٹھان ساوں گی (تعلقہ بھوکردن، ضلع جالنہ، مہاراشٹر) میں تدریسی خدمات انجام دے رہا تھا۔ ایک روز میں حمام سے نہا کر نکلا تو منّان خان اپنے موبائل میں کسی لڑکی کی فوٹو دیکھ رہے تھے۔ وہ کچھ پریشان سے نظر آ رہے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ کسی الجھن میں تھے یا کوئی فکر انھیں اندر ہی اندر کھائے جا رہی تھی۔ وہ کسی بھی کام کے تئیں بے فکر اور لا تعلق ہو کر بیٹھ جانے والے شخص نہیں تھے۔ ان کے متعلق میں اچھی طرح جانتا تھا کہ جب کسی کام کو کرنے کا وہ ارادہ کرتے تو پھر اس کام کو ذہن پر حاوی کر لیتے تھے۔ اتنا تو مجھے پتا تھا کہ وہ آج کل شادی کے لیے لڑکی تلاش کر رہے تھے اور بڑی شدت سے کر رہے تھے۔ سرکاری نوکری میں جب سے ان کا تقرر ہوا تھا گھر میں سبھی بہت خوش تھے اور ان کے لیے لڑکی دیکھنے میں جٹ گئے تھے۔

اس دن وہ موبائل پر اپنی امّی سے بات کر رہے تھے۔ اور امّی نے پوچھا تھا: ’’فوٹو کیسی لگی۔‘‘

’’ہاں اچھی ہے۔ لڑکی خوبصورت ہے، لیکن لوگ کیسے ہیں؟‘‘

’’بڑے شریف لوگ ہیں۔ اور ہاں غریب ہیں لیکن عزت دار بھی۔ لڑکی پڑھی لکھی ہے، خوبصورت ہے، سلیقہ مند ہے، مجھے تو بہت پسند آئی۔‘‘

’’ریجیکٹ کر دو۔‘‘

’’ارے کیوں بیٹا؟‘‘

’’میں نے کہا تھا نہ کہ بڑی پارٹی چاہیے۔‘‘

’’لیکن بیٹا۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

امّی کی بات منہ میں ہی ادھوری رہ گئی اور انھوں نے کال کٹ کر دی۔ وہ اس طرح برتاؤ کرنے لگے تھے گویا موسم کی سرد مزاجی ان کے لہجے میں رچ بس گئی ہو۔ انھیں بہت سی لڑکیاں دکھائی گئی تھیں لیکن وہ امیر گھرانے کی لڑکی تلاش کر رہے تھے۔ غریب گھر کی کئی لڑکیاں وہ ریجیکٹ کر چکے تھے۔ ریجیکٹ یہ لفظ میں نے ان کی زبان سے کئی دفعہ سنا تھا۔ آخر کار ان کا رشتہ ایک امیر گھرانے میں ہو ہی گیا۔ لڑکی خوبصورت تھی، لیکن ان کی اصل کسوٹی تو صرف بڑی پارٹی تھی۔

جس روز وہ واقعہ پیش آیا اس روز اسکول میں دماغی مشقت اور بچوں کے شور شرابے سے ہمارا ذہن تھک چکا تھا۔ چھٹّی کے بعد شام کو ہم روم پر آئے، تھوڑی چین کی سانس لی اور پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے کھانا بنانے کی تیاری میں لگ گئے تھے۔ گھر سے دور، ہم چار لوگ، الگ الگ جگہوں سے آئے، یہاں ایک ساتھ، ایک ہی کمرے میں رہ رہے تھے۔ نوکری تو سرکاری اسکول میں لگی تھی لیکن تین سال صرف تین ہزار روپے ہی ملنے تھے۔ جسے حکومت نے شکشن سیوک کا نام دیا تھا۔

26 نومبر 2008 شام کے وقت چولہے پر رکھے ہوئے پتیلے میں تیل اور مسالے کا پانی جھکولے مار تا ہوا ابل رہا تھا۔ منّان خان اس پتیلے میں چاول دھوکر ڈال رہے تھے۔ نہ جانے اچانک انھیں کیا ہوا کہ چاول کا برتن ان کے ہاتھوں سے دور جا گرا اور وہ برتن کی مخالف سمت میں گر پڑے۔ چولہے پر موجود پتیلے کو ان کا پیر لگا اور پتیلا ہوا میں اچھل کر ان کی طرف پلٹ گیا۔ اس میں موجود کھولتا گرم پانی ان کے اوپر گر پڑا۔ جس کی وجہ سے ان کے بدن کا نچلا حصہ بری طرح جھلس گیا۔ وہ زمین پر بے ہوش پڑے تھے اور منہ سے سفید جھاگ بہہ رہا تھا، زبان دانتوں تلے دب کر کٹ گئی تھی۔ جس کے سبب منہ سے خون بھی بہنے لگا تھا۔ انھیں فوراً دوا خانے لے جایا گیا۔ ان کی حالت دیکھتے ہی ڈاکٹر نے اپنا کام شروع کر دیا۔ تقریباً بیس منٹ بعد انھیں ہوش آیا، لیکن وہ بیس منٹ ان کی زندگی سے غائب ہو گئے تھے۔ کیوں کہ بے ہو شی کے دوران گزر چکے بیس منٹ ان کے ساتھ کیا ہوا، انھیں کچھ بھی یاد نہیں تھا۔ انھیں ہوش آنے کے بعد دیہات کے ڈاکٹر نے شہر کے بڑے اسپتال روانہ کر دیا۔

شہر کے اسپتال میں ان کے دماغ کا سی ٹی اسکین ہوا۔ رپورٹ دیکھ کر ڈاکٹر نے ٹکا سا جواب دے دیا: ’’آپ لوگ جلد انھیں ممبئی یا اورنگ آباد لے جائیے کیونکہ ان کے دماغ میں لیموں برابر کا ٹیومر ہے۔‘‘

اِدھر ان کے دماغ پر برین ٹیومر کا حملہ ہوا اور ادھر ممبئی پر 26/11 کا۔ اب کیا کریں، کہاں جائیں، کیسے جائیں، کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔ جیسے سبھی کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت شل ہو چکی تھی۔ فون سے ان کے گھر اطلاع دی گئی اور مزید دیر کیے بغیر اورنگ آباد کے لیے نکل گئے۔ سفر کافی لمبا ہو گیا تھا۔ وقت تھا کہ کٹتا ہی نہیں تھا۔ گاڑی میں بیٹھے سبھی افراد کبھی تو گہری سوچ میں نظر آتے ہیں اور کبھی ایک دوسرے کے چہروں کو تکتے رہتے تھے۔ خدا خدا کر کے ہم اورنگ آباد پہنچے، شام ہو گئی تھی، سائے لمبے ہو گئے تھے۔ ان کی امّی اور بھائی بھی اسپتال پہنچ گئے تھے، جن کے چہرے سے صاف نظر آ رہا تھا کہ ان پر مصیبت کا ایک پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا۔ اسپتال میں رات بھر سبھی کے سروں پر بے چینی کے سائے منڈلاتے رہے۔ وقت گزرنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ دور دور تک نیند کا نام و نشان نہ تھا۔ سبھی کی نگاہوں میں ایک عجیب سی حیرانی اور پریشانی نظر آتی تھی۔

صبح رپورٹ سامنے رکھ کر ڈاکٹر نے امریکہ لے جانے کا مشورہ دیا۔ اس کے بعد ہم واپس اسکول آ گئے۔ کبھی کبھی فون پر خیریت پوچھتے تو خبر ملتی کہ علاج چل رہا ہے۔

ایک دن کی بات ہے۔ اسکول کے درمیانی وقفہ میں کھانا کھانے کے بعد سبھی ٹیچرس اسکول کے میدان میں کرسی لگائے بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ اچانک ایک شخص نے اسکول کا صدر دروازہ (گیٹ) کھولا اور اندر داخل ہوا۔ مجھے لگا وہ منّان خان ہیں۔ پھر سوچا وہ کیسے آ سکتے ہیں؟ شاید ان ہی کی طرح دِکھنے والا کوئی دوسرا شخص ہو گا۔ اونچا قد، گٹھیلا بدن، فوجیوں کی طرح چھوٹے چھوٹے بال، سانولا رنگ، کھڑی کھڑی ناک، چمکتی ہوئی آنکھیں، چال وہی مستانی منّان خان والی، وہی پہلے جیسی چستی اور پھرتی کے ساتھ قدم اٹھاتے اور مسکراتے ہوئے ہماری طرف چلے آ رہے ہیں۔ انھیں دیکھ کر میں خوشی اور حیرت کی ملی جلی کیفیت سے دوچار ہوا۔

ملاقات کے بعد ہم نے ان سے پوچھا۔ تب انھوں نے بتایا: ’’ہم مایوس و نا امید ہو کر گھر واپس لوٹنے والے تھے، لیکن ابو نے فون پر ڈاکٹر صاحب سے کہا، ہم اتنی استعداد نہیں رکھتے کہ امریکہ جا کر علاج کرا سکیں اس لیے ہم آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ اگر ممکن ہو تو میرے بیٹے کا علاج آپ اپنے ہی اسپتال میں کریں باقی اللہ مالک ہے۔ اللہ کا کرم ہوا اور آپریشن کامیاب ہو گیا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے میں پہلے کی طرح چست و تند رست ہو گیا۔‘‘

برین ٹیومر کا آپریشن بڑا جوکھم بھرا ہوتا ہے۔ اس میں انسان کی زندگی داؤ پر لگی ہوتی ہے۔ استرے سے پہلے سر کے بال نکال لیے جاتے ہیں۔ اس کے بعد کھوپڑی کھول کر ٹیومر باہر نکالا جاتا ہے۔ بھیجے پر نسوں کا ایک جال پھیلا ہوا ہوتا ہے۔ دوران آپریشن اگر کوئی نس دب جائے تو جسم کا کوئی بھی حصہ بے حس و حرکت ہو سکتا ہے۔

ایک روز یوں ہی باتوں باتوں میں، میں نے ان سے پوچھ لیا: ’’شادی کب کر رہے ہیں جناب؟‘‘

’’نہ جانے میں نے کتنی لڑکیوں کو ریجیکٹ کیا، لیکن میری بیماری کی خبر سن کر، اس لڑکی نے، جسے میں سلیکٹ کیا تھا، مجھے ہی ریجیکٹ کر دیا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ زور زور سے ہنسنے لگے۔

مجھے اسی وقت اس بات کا احساس ہو گیا کہ میں نے غلط سوال کیا ہے۔ اس طرح کا سوال نہیں کرنا چاہیے تھا۔

میں نے تسلی دی: ’’آپ کو تو اس سے بھی اچھی لڑکی مل جائے گی جناب، آپ اب بھی کسی سے کم ہیں کیا۔‘‘

تب وہ قہقہے لگاتے ہوئے گویا ہوئے: ’’نہیں بھائی۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ وہ گاڑی کوئی نہیں خریدے گا، جس کا انجن کھُل گیا ہو؟‘‘

٭٭٭







اجنبی



کبیر ہر بات کو بخوبی سمجھتا تھا، اچھی طرح، پھر بھی، کبھی کبھی کچھ کام انسان کی دسترس سے خودبخود باہر ہو جاتے ہیں اور انسان وہ سب کچھ کر بیٹھتا ہے جس کا اسے گمان بھی نہیں گزرتا۔ کبیر کو احساس ہی نہیں ہوا کہ کب وہ جذبات کے دھاروں میں بہتا ہوا چلا گیا۔ کب اس کے ہاتھوں سے کانچ کا وہ قیمتی سامان چھوٹ گیا، جس کو وہ اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رکھتا تھا۔ وہ گراں قدر شے اس کے ہاتھوں سے جدا ہوئی، بے اعتمادی کی دیواروں سے ٹکرائی اور پاش پاش ہو گئی۔ اپنے اردگرد محسوس ہوتی آہوں اور سسکیوں کی آوازیں اب اسے سونے کہاں دیتی ہیں۔ گھر کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک گڈّو کی بھاگ دوڑ اور مسکان کی مسکراہٹ ہر جگہ نظر آتی ہے۔ وہ گھبرا کر دوڑتا ہوا کمرے سے باہر نکل جاتا ہے۔ پھر ایک ان دیکھی قوت اسے کمرے کی جانب کھینچتی چلی جاتی ہے، جہاں چاروں طرف ایک عجیب قسم کی پراسرار خاموشی اور تاریکی چھائی ہوئی ہے۔

تقریباً سال بھر پہلے کی ایک شام کا ذکر ہے۔ دھند نے ماحول کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ سردی کافی بڑھ گئی تھی۔ شام کے سائے گہرے ہو گئے تھے۔ مسکان نے گھر کی تمام لائٹس جلا دی تھیں، پھر آرام کرسی پر بیٹھ گئی تھی اور ٹکٹکی باندھے دروازے کی طرف دیکھ رہی تھی۔ وہ کبیر کا انتظار کر رہی تھی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی بے قراری میں اضافہ ہو رہا تھا۔ پرندوں کی چہچہاہٹ فضا میں گونجتی رہی۔ پھر قدرے توقف کے بعد خاموشی کی حکومت ہو گئی۔

جدہ سے آنے والی فلائٹ سے کبیر ممبئی اترا تھا اور گھر پہنچتے پہنچتے اسے رات ہو گئی تھی۔ کبیر کو دیکھتے ہی مسکان کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ چہرے پر ان گنت مسرت کے فوارے چھوٹ پڑے اور آنکھوں میں چمک در آئی تھی۔ گڈّو بھی پاپا، پاپا کہتے دوڑا چلا آیا تھا اور کبیر نے لپک کر اسے اٹھا لیا تھا۔

کبیر اکثر اپنے بزنس کے سلسلے میں باہر ملکوں کے سفر پر رہتا تھا۔ وہ جب کبھی واپس لوٹتا تو گھر میں قدم رکھتے ہی، اس کا سات برس کا لڑکا گڈو دوڑتا ہوا آتا اور اس سے لپٹ جاتا۔ وہ بھی اپنے بچے کو پوری شدت سے گلے لگاتا اور کہتا۔

’’تُو تو میری جان ہے۔۔ ۔۔ ۔ جب گلے لگتا ہے تو سفرکی تمام تھکاوٹ دور ہو جاتی ہے۔ دل چاہتا ہے کہ تجھے اور تیری ممی کو بھی سفر پر اپنے ساتھ لے جاؤں یا پھر تمھیں چھوڑ کر ہی نہ جاؤں۔‘‘

وہ گھر آ کر اپنی بیوی مسکان سے ہمیشہ یہی کہتا۔ ’’تم سے دور ہو کر تمہاری مسکان دیکھنے کو ترس جاتا ہوں۔‘‘

ایک بار مسکان نے اس سے سوال کیا تھا: ’’تم کو مجھ میں کیا اچھا لگتا ہے۔‘‘

اس نے فوراً جواب دیا تھا: ’’تمہاری مسکان۔‘‘

مسکان سیدھی سادی عورت تھی۔ عام عورتوں کی طرح وہ کبھی اپنے شوہر پر شک نہیں کرتی تھی۔ ہمیشہ اپنی دنیا میں ہی مست رہتی تھی۔ وہ کبیر پر اتنا ہی اعتماد کرتی تھی جتنا اسے خود پر تھا۔ کبیر بھی نہایت ہی شریف انسان تھا۔ مسکان دوسری عورتوں کی طرح ایک ہاتھ میں ہنڈی کا چمچہ تو دوسرے میں موبائل، ایک کان پریشر کوکر کی سیٹی پر تو دوسرا واٹس ایپ اور فیس بک رنگ ٹون پر، ایک آنکھ ٹی وی اسکرین پر تو دوسری شوہر کی حرکتوں پر بالکل بھی نہیں رکھتی تھی۔ وہ ہر کام دلجمعی اور یکسوئی کے ساتھ کرتی تھی۔ کبیر کی شرافت کو وہ کبھی اس بات سے تعبیر نہیں کرتی کہ کمینہ حوروں کے چکر میں پڑا ہے۔

کبیر کے دو قریبی دوست تھے، جن میں سے ایک نے اس سے سوال کیا تھا۔

’’مجھے غصہ بہت آتا ہے۔ اور میں اس پر قابو نہیں کر پاتا ہوں۔‘‘

اس وقت کبیر نے اپنے دوست کو سمجھاتے ہوئے کہا تھا۔ ’’جس طرح آگ سب کچھ جلا کر راکھ کر دیتی ہے۔ اسی طرح غصہ سب کچھ تباہ و برباد کر دیتا ہے۔ جب ہم غصے میں آپے سے باہر ہو جاتے ہیں تب ہم اپنی خوشیوں کو لہو لہان کر دیتے ہیں اور خود کو ہی نقصان پہنچاتے ہیں۔ غصے سے مسائل اور زیادہ الجھ جاتے ہیں۔ جب آپ کو محسوس ہو کہ غصے کی چنگاری بھڑکنے والی ہے تو اس وقت ضروری ہے کہ آپ معاملے کو پوری طرح سمجھنے کی کوشش کریں اور خود پر قابو رکھیں۔‘‘

اور کبیر کی باتوں سے وہ متاثر ہوا تھا۔

کبیر کا دوسرا قریبی دوست بڑا شکی مزاج تھا۔ وہ ہمیشہ اپنی بیوی پر شک کرتا تھا۔ بلا جواز اپنی بیوی پر کڑی نگاہ رکھتا اور اسے قصوروار گردانتا تھا۔ وہ ہر وقت یہ توقع کرتا کہ اس کی بیوی اپنی عفت کا ثبوت پیش کرے۔ بیوی کی خوش مزاجی، اچھا رہن سہن اور میک اپ کو وہ ہمیشہ مشکوک نگاہوں سے دیکھتا تھا۔ بیوی سے طرح طرح کے سوالات کرتا، اگر بیوی اس کے عتاب سے گھبرا کر جواب دینے میں ذرا بھی چوک جاتی یا سہم جاتی تو شک، زہریلے سانپ کی شکل اختیار کر لیتا اور سرکش ہو جاتا۔ پھر اپنا پھن پھیلائے ڈسنا شروع کر دیتا۔

کبیر نے اپنے شکی دوست کو سمجھاتے ہوئے کہا تھا۔ ’’میں نے پڑھا تھا کہ رشتوں میں بھروسہ اور موبائل میں نیٹ ورک نہ ہو تو لوگ گیمز کھیلنا شروع کر دیتے ہیں۔ بھروسہ رشتوں کا حسن ہے۔ ایک دفعہ جب بھروسہ ٹوٹ جائے تو وہ اپنی خوبصورتی اور مضبوطی کھو دیتا ہے۔‘‘

مسکان بہت ہی خوش مزاج، خوش کلام، مخلص اور ملنسار لڑکی تھی لیکن وہ اتنی ہی خوش نصیب نہیں تھی۔ مسکان تو مسکان کے چہرے سے کبھی جدا ہی نہیں ہوتی تھی۔ کبیر کا ہر وقت انتظار اس کا مقدر بن گیا تھا۔ جب کبیر گھر آ تا تو مارے خوشی سے اس کا چہرا کھل جاتا۔ ایک دن یہی مسکراہٹ، خوش مزاجی اور خوش کلامی اس کے لیے وبالِ جان بن گئی۔ ایک دفعہ کبیر نے مسکان کو کسی اجنبی سے بات کرتے ہوئے دیکھ لیا۔ اس کے بعد کبیر کے دل و دماغ میں شک کا پودا پنپنے لگا۔ دھیرے دھیرے وہ پودا ہرا بھرا ہونے لگا اور تناور درخت کی شکل اختیار کر گیا۔ اس نے مسکان سے کئی سوالات کیے مگر اسے اطمینان نہیں ہوا تھا۔

مسکان شوہر سے کبھی سوال نہیں کرتی تھی۔ گھر ہو یا باہر وہ مکمل طور سے شوہر کی تابع دار تھی۔ بالکل اعلیٰ ظرف موم بتی کی طرح جو ساری رات خاموشی سے پگھلتی رہتی ہے۔ رشتے اعتبار اور بھروسے سے بنتے ہیں اور چلتے بھی ہیں لیکن یہاں اعتماد کی مضبوط دیواریں کمزور ہو رہی تھیں۔ مسکان محسوس کر رہی تھی، کبیر کی لاپرواہی اور ناقدری کو۔ کبیر پہلے شکی مزاج نہیں تھا۔ لیکن دھیرے دھیرے اس کی سوچ سمجھ کے زاویے بدل گئے تھے۔ اس کے ذہن میں شک کے وائرس پنپنے لگے تھے۔

پڑوس کے ایک شخص نے ایک بار اس سے کہا تھا۔ ’’تمہاری بیوی تو بہت خوبصورت ہے۔‘‘

پھر اس کے کانوں میں کئی دنوں تک یہی جملہ گونجتا رہا۔ ’’تمہاری بیوی تو بہت خوبصورت ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ تمہاری بیوی تو بہت خوبصورت ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ تمہاری بیوی تو بہت خوبصورت ہے۔‘‘

اس کے بعد اس نے مسکان کا گھر سے باہر نکلنا بند کر دیا تھا اور سات پردوں میں رہنے کا حکم دے دیا تھا۔ سبزی والے، دودھ والے ان سب پر کڑی نظر رکھنے لگا تھا۔ مرد ڈاکٹر سے چیک اپ کرانا بھی اس کو پسند نہ تھا۔ گھر میں داخل ہوتے ہی کھڑکیوں کی چٹخنیاں بند کر دیتا تھا۔ بات بات پر شک، گویا جینا مشکل کر دیا تھا۔ دل و دماغ میں پل رہی شک کی چنگاریاں اس وقت شعلہ بن گئیں، جب پڑوس کی ایک عورت نے چھوٹی سی بات پر ہوئی بحث میں مسکان پر بد چلن ہونے کا بہتان لگا دیا۔ اس عورت کے لگائے اس الزام نے آگ میں تیل ڈالنے کا کام کیا۔ اس کے بعد کبیر نے بھی مسکان پر وہی تہمت تھوپ دی۔

وہ مسکان پر اتنا برسا اور اتنا بگڑا کہ یہاں تک کہہ دیا۔ ’’پتا نہیں یہ گڈّو میری اولاد ہے بھی یا نہیں۔‘‘

کبیر غصے کی آگ میں بھڑک اٹھا تھا۔ دونوں میں خوب بحث و تکرار ہوئی۔

مسکان نے کبیر سے کہا: ’’ایک تمہاری محبت کی خاطر میں سب کچھ چھوڑ کر آئی ہوں۔‘‘

لیکن کبیر نے اس کی ایک نہ سنی اور پھر غصے سے باہر چلا گیا۔ وہ صرف چاہت اور عزت کی طلبگار تھی۔ شوہر کی ایک مسکراہٹ سے باغ باغ ہو جاتی تھی، لیکن اب ٹوٹ چکی تھی اور زندہ لاش بن گئی تھی۔ اگر ایک دفعہ عورت ٹوٹ کر بکھر جائے تو دنیا کا کوئی مرد اس کو سمیٹ نہیں سکتا۔ کبیر کی باتیں اس کے ذہن سے چپک سی گئی تھیں۔ جن کی گونج اذیت ناک تھی۔ اس کے اندر زندگی کی لو کو مزید جلائے رکھنے کی خواہش گویا بجھ سی گئی تھی۔ بیزاری، مایوسی اور نا امیدی کے گھنے بادل چاروں طرف گھِر آئے تھے۔ کچھ گھنٹوں بعد کبیر گھر لوٹا اور جو منظر اس نے دیکھا تو پیروں تلے زمین ہی نکل گئی۔ پنکھے سے مسکان کی لاش لٹک رہی تھی۔ فرش پر گڈو کی لاش پڑی تھی۔

ٹیبل پر ایک خط پڑا تھا جس میں لکھا تھا:

’’جس مسکراہٹ سے آپ کو محبت ہوئی، اسی مسکراہٹ سے پھر آپ نے نفرت کی اور مجھے بد فعل ہونے کا داغ دیا۔ لیجیے، اب یہ مسکراہٹ ہمیشہ کے لیے خاموش ہوئی۔ جس بچے کو تم کبھی اپنی جان کہتے تھے، جسے گلے لگا کر تمہاری تھکان دور ہو جایا کرتی تھی پھر آپ نے اسے پرایا کیا، اب وہ ہمیشہ کے لیے پرایا ہوا۔‘‘

اپنے زانو پر گڈو کی لاش، ایک طرف مسکان کی لاش اور دوسری طرف تمام خوشیوں کی لاش لیے رات کے اندھیرے میں سنّاٹے کو چیرتی ہوئی کبیر کے رونے کی آواز آسمانوں سے ٹکرا رہی تھی۔

در اصل وہ اجنبی کسی کا پتہ پوچھ رہا تھا اور مسکان نے مسکراتے ہوئے اس کی مدد کی تھی۔

٭٭٭







مولوی صاحب



میں سمجھ نہیں پایا لوگ اتنے بے ایمان کیسے ہو سکتے ہیں؟ اتنے احسان فراموش کیسے ہو سکتے ہیں؟ کسی کی قربانیاں، کسی کے احسانات ایک ہی جھٹکے میں کیسے بھلا سکتے ہیں؟ میں سمجھ نہیں پایا۔ میں تم سے بات کرنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن تم میری جانب دیکھتے بھی نہیں۔ میں تمھارا شاگرد ہوں۔ کیا تم مجھے پہچانتے نہیں؟ وہ تم ہی تو تھے جنھوں نے نہ جانے کیا کیا برداشت کیا اور لوگوں کو جہالت کے اندھیروں سے باہر نکالا۔ تمھارے چاہنے والوں کی تعداد زیادہ تھی۔ کیا وہ چاہت وقتی تھی؟ لیکن تمھاری قربانیاں تو حقیقی تھیں۔ ہمارے گاؤں کے گھر گھر میں علم کی جو روشنی چمک رہی ہے نا وہ تمھارے ہی دم سے ہے اور آج کوئی تمھیں یاد بھی نہیں کرتا۔ کئی خرافات میں ڈوبا ہوا تھا یہ ہمارا چھوٹا سا گاؤں، جسے تم نے اپنی دن رات کی محنت سے، اپنی دعاؤں سے، اپنے عمل سے چمکا دیا۔ جس سے اللہ کی نظروں میں تمھارا رتبہ یقیناً بلند ہو گیا ہو گا۔ مولوی صاحب!تم آسمانوں پر چلے گئے اور ایسا چمکتا ہوا ستارہ بن گئے جو وہاں سے جھانکتا بھی ہے تو ’قمر پور‘ کو ہی دیکھتا ہے۔

مولوی صاحب! تمھاری موت کے بعد جب تمھیں میں نے پہلی بار دیکھا تو حیرت میں پڑ گیا تھا۔ تم اپنی مخصوص جگہ پر مسجد کے دائیں کونے میں تلاوت کر رہے تھے اور تمھارے اطراف نور کا ایک ہالہ حفاظتی غلاف بنائے تمھارے محافظ ہونے کا اعلان کر رہا تھا۔ پہلی بار تمھیں دیکھ کر میں ڈر گیا، دل دھک سے رہ گیا۔ دھڑکنیں تیز ہو گئیں۔ اور میں کشمکش میں مبتلا ہو گیا کہ انتقال کر چکا کوئی شخص کیسے زندہ ہو سکتا ہے، جبکہ تمہارے تمھارے جنازے میں، میں شروع سے آخر تک شریک تھا۔ تم روزانہ نماز کے بعد اپنی مقر رہ جگہ پر تلاوت کرتے نظر آ رہے تھے۔ جیسا کہ زندگی میں یہ تمھارا معمول تھا۔ یہ میرے ساتھ جو کچھ ہو رہا تھا بہت عجیب تھا۔ جب میں نے اپنے دوستوں کو یہ باتیں بتائیں تو وہ مجھ پر ہنسنے لگے۔ پھر دھیرے دھیرے مجھے اس بات کا احساس ہو گیا کہ تم صرف مجھے ہی دکھائی دے رہے ہوکسی اور کو نہیں۔ اب کے تمھارا چہرہ پہلے سے زیادہ پُر نور تھا۔ لمبی گھنی داڑھی، سُرمہ لگی ہوئی بڑی بڑی آنکھیں، کھڑی ناک، درمیانہ قد اور ہمدردی کا جذبہ تو تمھارے چہرے سے ہی صاف ظاہر ہو جاتا تھا۔ تم وہی تھے پہلے جیسے۔

یہ اس وقت کا ذکر ہے جب تم حیات تھے اور ایک مہینے کے لیے اپنے آبائی گاؤں گئے تھے۔ پھر جب واپس لوٹے تو گاؤں والوں نے تمھیں دوبارہ امامت کا عہدہ سونپنے سے انکار کر دیا تھا۔ تم نے خوب منت سماجت کی۔ طرح طرح سے لوگوں کو سمجھایا، لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اور تمھیں واپس اپنے گاؤں لوٹنا پڑا۔ جب تم جا رہے تھے تب خدا کی قسم کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ وہ منظر بڑا ہی دل دوز تھا۔ جسے دیکھ کر پورے جسم میں ایک جھر جھری سی پیدا ہو گئی تھی۔ من پر ایک بہت بڑا بوجھ آ کر ٹک گیا تھا۔ سینے میں ایک کیل دھیرے دھیرے اترتی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔ جو لوگ تمھیں سر آنکھوں پر بٹھاتے تھے، تمھارے لیے ہمیشہ اپنی آنکھیں بچھائے رکھتے تھے، ان ہی لوگوں نے تم سے منہ موڑ لیا تھا۔ اور تمھارے اپنے مولوی تم سے آنکھ ملا نہیں پا رہے تھے۔ اس وقت کا منظر ایسا تھا گویا تم پر آسمان ٹوٹ پڑا تھا۔

واپس لوٹنے کے بعد تم نے کہیں ملازمت نہیں کی۔ باہر آنا جانا بھی بند کر دیا تھا۔ ہر وقت گھر ہی میں رہنے لگے تھے، بیمار رہنے لگے تھے۔ پھر ایک دن تمھاری موت کی خبر آئی۔ خبر سنتے ہی میں دل تھام کر رہ گیا تھا۔ جسم میں بیک وقت کئی لہریں اٹھیں اور دماغ کے پردوں سے جا ٹکرائیں۔ پہلے قمر پور سے اور پھر اس دنیا سے ہی تمھارا آب و دانہ اٹھتا چلا گیا۔ یقیناً تمھارے انتقال کا غم کھانا بڑا ہی مشکل تھا۔ تم نایاب تھے اور آج کل تو تم جیسی شخصیات کا وجود عنقا ہے۔

یہاں سے بہت سے لوگ تمھارے جنازے میں شامل ہونے گئے تھے، جس میں میں بھی شریک تھا۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ تم قمر پور چھوڑ کر جاؤ لیکن تم تو دنیا سے ہی چلے گئے۔ میں نے دیکھا قمر پور میں تمھیں ایک پل بھی فرصت نہیں تھی لیکن اب سکون سے کفن اوڑھے پڑے تھے۔ جب تمھارا جنازہ اٹھایا گیا تب ایک قیامت کا شور برپا ہوا تھا۔ اعزہ و اقارب کے سینوں میں پیدا ہوا درد مچلنے لگا تھا۔ اور پھر وہی درد فلک بوس چیخ بن کر باہر نکل رہا تھا۔ اور کتنا مشکل تھا وہ مرحلہ جب لوگ تمھیں سپردِخاک کر رہے تھے۔ یقین کرنا مشکل تھا کہ اب تم زندہ نہیں۔

یہاں قمر پور میں تمھارے سامنے مسئلہ یہ نہیں تھا کہ تمھیں دوسری کسی مسجد میں امامت کا موقع نہیں ملے گا۔ مسئلہ تو یہ تھا کہ ایک گہرا لگاؤ تمھیں اس جگہ سے اور یہاں کے لوگوں سے ہو گیا تھا۔ تم چاہتے تو کسی دوسری مسجد میں بھی امامت کر سکتے تھے لیکن تم نے ایسا نہیں کیا۔ جب تم یہاں آئے تھے اُس وقت جوان تھے اور برسوں خدمت کرتے کرتے بڑھاپے کو پہنچ گئے تھے۔ ایسا بھی نہیں کہ یہاں تمھیں اچھی خاصی تنخواہ ملتی تھی۔ بس ہم یوں کہہ سکتے ہیں کے گزر بسر ہو جاتا تھا۔ اور کبھی کبھی تو تنخواہ کے بھی لالے پڑ جاتے تھے، لیکن تم شکایت نہیں کرتے تھے۔ اسی لیے تم نے مسجد سے لگ کر ایک چھوٹی سی کرانہ دکان کھول رکھی تھی۔

بستی کے لوگوں میں خرافات حد درجہ پھیلی ہوئی تھیں۔ ڈھول تاشے بجانا، ناچنا گانا، بت بنانا اور انھیں گلی گلی لے کر پھرنا۔ اس طرح غلط رسم و رواج گھر گھر پنپے ہوئے تھے۔ ان غلط رسم و رواج میں فضول خرچی بھی بہت ہوتی تھی۔ اور ان تمام خرافات کو مذہب سے منسوب کر دیا گیا تھا۔ تم قمر پور مسجد کے پہلے امام تھے اور میرے عربی کے پہلے استاد۔ تم ہر کسی کی نفسیات کو بخوبی سمجھتے تھے۔ کس شخص کا مزاج کیسا ہے اور اسے کس طرح سمجھانا ہے، یہ ہنر خدا نے تمھیں دیا تھا۔ اور یہی وجہ ہے کہ تم نے گاؤں میں پھیلی ہوئی خرافات کو دھیرے دھیرے تقریباً ختم کر دیا تھا۔ بچوں کو قرآن پڑھانے کا تمھارا طریقہ بھی کیا اچھا تھا! تم بچوں کے ساتھ ایسے گھل مل جاتے جیسے بہت پرانے دوست ہوں۔ بچوں کی نفسیات کو بھی تم بخوبی سمجھتے تھے۔

اس وقت مسجد کچی تھی، جس کی بنیاد تمھارے آنے سے کچھ روز پہلے ہی رکھی گئی تھی، جو بانس کے کھمبے، ٹاٹ کی دیواریں اور ٹین کی چھت سے بنائی گئی تھی۔ تم نے خوب محنت کی، تکلیفیں اٹھائیں، گھر گھر، گاؤں گاؤں، شہر شہر جا کر چندہ جمع کیا اور مسجد کی عمارت کی بنیادیں مضبوط کیں۔ جب مسجد کا کام چل رہا تھا تب تم خود مزدوروں کے ساتھ کام کر لیا کرتے تھے۔ اور میں بھی تمھارے ساتھ چھوٹے موٹے کام کر دیا کرتا تھا۔ میں تمھیں دل سے اپنا استاد مانتا تھا اور تمھاری بہت عزت کرتا تھا۔ کام میں استعمال ہونے والے پانی کا ذریعہ نل تھا اور نل رات میں چار بجے آتا تھا۔ تم رات میں اٹھ کر پانی بھرتے اور مسجد کی دیواروں کو دیتے تھے۔ تم نے لوگوں میں مذہب کی صحیح سمجھ پیدا کی لیکن کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو تمھارے لاکھ سمجھانے کے باوجود ہدایت سے محروم تھے۔ وہ ہر وقت تمھاری مخالفت کرتے اور تمھارے خلاف سازشیں رچتے، لیکن تم ان کی تمام سازشوں میں سے اس طرح پاک و صاف نکل جاتے تھے جیسے آٹے میں سے بال اور ہاتھوں میں سے مچھلی نکل جاتی ہے۔

میں جانتا ہوں تم قمر پور سے جانا نہیں چاہتے تھے، لیکن چلے گئے۔ میں تمھیں روک لینا چاہتا تھا لیکن روک نہیں سکا۔ اگر میں روک بھی لیتا تو کون میری سنتا؟ سب مجھے بچہ کہہ کر ٹال جاتے۔ میں بچہ تھا، تمہارا طالب علم تھا۔ آج بڑا ہو گیا ہوں تو رہ رہ کر وہ باتیں یاد آتی ہے۔ وہ مناظر نظروں کے سامنے گھوم جاتے ہیں اور ذہن سے چپک جاتے ہیں۔ مجھے پچھتاوا ہوتا تھا کہ میں کچھ نہ کر سکا۔ لوگوں نے تمھیں قمر پور چھوڑنے پر مجبور کیا اور تم تو دنیا ہی چھوڑ بیٹھے، لیکن آج مجھے اطمینان ہے کہ کوئی بھی طاقت اب تمھیں مسجد سے نکال نہیں سکتی۔

تم یوپی سے تعلق رکھتے تھے اور مہاراشٹر کے اس چھوٹے سے گاؤں قمر پور میں آ کر اپنی فیملی کے ساتھ بس گئے تھے۔ جو لوگ تمھارے مخالف تھے انھوں نے تمھیں مسجد سے اور گاؤں سے باہر نکالنے کی بہت کوششیں کیں لیکن ناکام رہے تھے۔ ایک روز تمھیں اپنے آبائی گاؤں جانا تھا۔ تم نے اپنے قریبی ایک مولوی کو بلایا اور اسے امامت کی ذمے داری سونپ کر ایک مہینے کے لیے چلے گئے تھے۔ ایک مہینے بعد جب تم واپس لوٹے تو گاؤں والے تمھیں قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ تمھارے قریبی دوست مولوی تمہاری جگہ مقرر ہو چکے تھے۔

٭٭٭









ادھورے خواب



وہ جلد گھر پہنچ جانا چاہتا تھا جیسے کوئی پرندہ اڑ کر ایک جگہ سے دوسری جگہ چلا جاتا ہے، بس اسی طرح۔ اس نے چھٹی کے لیے درخواست بھی دی تھی لیکن چھٹی منظور نہیں ہو رہی تھی۔ اسے اس بات کا ڈر تھا کہ اگر درخواست منظور کیے بغیر وہ اپنے گھر چلا گیا تو نوکری چلی جائے گی، اس لیے وہ ابھی نکلا نہیں تھا لیکن اب اس سے صبر بھی نہیں ہو رہا تھا۔ آفس میں ابھی بہت کام باقی تھا اور وہ ایک مشین کی طرح کام کرتا جا رہا تھا لیکن کام ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ اسے ایک گھٹن سی محسوس ہونے لگی اور دل میں ایک چبھن سی ہو رہی تھی۔ اپنی سوچ پر اب اس کا قابو نہیں رہا، بظاہر اس کا جسم کام کر رہا تھا لیکن دماغ کہیں اور تھا۔ اس کا سر گھن چکر بن گیا تھا۔ اس نے اپنے سر کو زور سے جنبش دی اورسوچنے لگا بھاڑ میں جائے نوکری پھر اپنا بیگ اٹھایا اور نکل پڑا۔

وہ سوچنے لگا بچپن میں جب کوئی اس سے لڑائی کرتا یا اسے مارتا تو اس کا بڑا بھائی ایک ڈھال بن کر سامنے کھڑا ہو جاتا تھا۔ بچپن سے لے کر اب تک بڑے بھائی کی ایک ایک قربانی اسے یاد آنے لگی۔ آنکھوں میں آنسوؤں کا ایک سیلاب امڈا اور برس گیا۔ اس نے اپنے آپ کو سنبھالنے کی بہت کوشش کی لیکن ایک کے بعد ایک مسلسل واقعات یاد آتے گئے اور آنسو بادلوں کی مانند امڈ امڈ کر برستے رہے۔

پانچ سال پہلے وہ لندن آیا اور آج گھر جا رہا تھا۔ اس کے دل میں تمناؤں نے سر اٹھا یا اور وہ ان کے آگے جھک گیا تھا۔ اخبار میں اس نے اپنے ملک کے ایک فرد کے امیر بننے کی کہانی پڑھی تھی کہ ایک شخص اپنے ملک میں پڑھائی مکمل کرنے کے بعد لندن چلا گیا اور ترقی کرتے کرتے بہت امیر بن گیا۔ تب سے اس کے دل و دماغ میں لندن جا کر امیر بننے کے فتور نے گھر کر لیا تھا۔ یہ عشق کا نہیں خوابوں کا فتور تھا۔ لندن جا کر امیر بننا اس کا خواب بن گیا تھا۔

اس نے لندن جانے کے تصور کو آنکھوں میں سجائے اپنی زندگی کے شب و روز گزارے اور اسی خواب کو برسوں جیتا رہا۔ وہ زندگی میں کچھ کرنا چاہتا تھا، بہت پیسے کمانا اور امیر بننا چاہتا تھا۔ وہ اپنے دوستوں سے کہتا مجھے اپنا کیرئیر بنانا ہے، بس یہی ایک چھوٹا سا خواب ہے میرا۔ گھر کے سبھی افراد نے سمجھایا، دوستوں نے بھی رو کا پر اس کی ضد کے آگے سبھی کی کوششوں نے دم توڑ دیا تھا۔ اس کے اندر پیدا ہوا خواہشات کا طوفان کسی سے روکے نہ رکا تھا۔

ایک ان دیکھی طاقت اس پر غالب ہو گئی اور وہ اسی کے ساتھ بہتا چلا گیا۔ اس کے اس فیصلے سے سب سے زیادہ دکھ اس کے ماں باپ کو ہوا۔ دکھ، یہ دکھ ان کے اندر گہرائی تک اترتا چلا گیا اور آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑیاں جاری ہوئیں۔ انھیں اپنے بچے کی مرضی کے آگے اپنی خوشی کا گلا گھونٹنا پڑا۔ ماں نے سینے پر پتھر رکھ کر اسے الوداع کہا۔ بظاہر ماں خاموش اور اداس تھیں لیکن رنجیدگی نے چہرے پر یوں جالا بن دیا تھا جسے دیکھ کریسا لگتا تھا جیسے اندر بھیگی آنکھوں کی فصل اگ آئی ہو اور اندر ہی اندر بہت کچھ ٹوٹ پھوٹ گیا ہو۔ باپ اور بڑے بھائی ایئر پورٹ تک چھوڑنے آئے تھے۔ اسے اپنے ملک میں بھی نوکری کے بہت سے مواقع ملے تھے لیکن وہ لندن میں نوکری کرنا چاہتا تھا۔

اسے الوداع کہنے سے پہلے باپ نے صرف اتنا کہا تھا۔ ’’بیٹا کیا ہمارے بزرگوں نے یہ دن دیکھنے کے لیے اپنی جان و مال کی قربانی دے کر آزادی حاصل کی تھی؟‘‘

وہ اپنی خواہشات کا پٹارا اپنے سینے میں دبائے لندن آ پہنچا تھا۔ گھر پر تمام افراد کے معمول میں فرق آ گیا تھا۔ ہر کسی کو اس کی کمی ستانے لگی تھی۔ گھر کے سبھی افراد اسے بڑے لاڈ پیار سے رکھتے تھے، اس کی پڑھائی میں خلل نہ ہو اس لیے اسے کوئی بھی کام نہیں کہتے تھے۔ اس کی ہر چھوٹی بڑی خواہش فوراً پوری کر دی جاتی تھی۔

لندن کی چکا چوند اسے خوب بھا گئی۔ وہ وہاں کی فضاؤں میں ایسا کھویا کہ اسے کسی کی یاد بھی نہ آئی۔ لندن میں اسے اچھی نوکری مل گئی تھی، خوب پیسے آنے لگے تھے۔ دوستوں کے ساتھ گھومنا پھرنا، بڑے بڑے ہوٹلوں میں کھانا کھانا اور بڑی بڑی پارٹیوں میں جانا اس کا معمول بن گیا تھا۔

ایک ماں تھی جو ہمیشہ اس کی فکر میں بے قرار رہتی تھی، ہر وقت اس کے ذہن میں صرف اسی کا ہی خیال رہتا تھا۔ وہ اکثر اکیلے میں سوچتی رہتی۔ ’’یہ زندگی بھی بڑی عجیب ہے۔ نہ جانے درد کے کتنے سمندر پار کرنے ہوتے ہیں۔‘‘ان خیالات میں کھو کر ماں کی آنکھیں نم ہو جاتی تھیں۔

ایک روز گھر کے فون کی بیل بجی، ماں نے فون اٹھایا، اس نے ماں کی خیریت پوچھنے کے بعد خوشی کا اظہار کیا۔ ’’آپ کو بہو مبارک ہو۔‘‘

اس کے بعد دونوں طرف خاموشی نے ڈیرا ڈال دیا۔ خاموشی کا وہ ایک پل کئی صدیوں سے کم نہ تھا۔ گھر کے تمام افراد کے چہروں پر ناراضگی پسر گئی تھی۔ لیکن یہ ناراضگی آخر کب تک قائم رہتی، اس کی خوشی کی خاطر گھر کے تمام افراد زہر کا یہ گھونٹ بھی امرت کی طرح پی گئے اور دلہن کو گھر لانے کی دعوت دی۔ تب اس نے کہا۔

’’ماں ہماری کمپنی کو ایک بڑا کنٹریکٹ ملا ہے، بہت کام کرنا ہے، اس لیے ابھی نہیں آ سکتا۔‘‘

یہ سن کر سبھی کے چہروں پر ماتم چھا گیا۔ بڑے بھائی نے فون پر بات کرتے ہوئے سمجھایا۔ ’’چھوڑ دو یہ لندن کی نوکری اور چلے آؤ اپنے ملک۔۔ ۔۔ ۔۔ دوسرے ملک کی ایک روٹی سے اپنے ملک کی آدھی روٹی بہتر ہے۔‘‘

اور اس نے جواب دیا۔ ’’بھیا، تم بھی شروع ہو گئے ماں کی طرح، اچھا ٹھیک ہے میں رکھتا ہوں، باس کی کال آ رہی ہے۔‘‘

دن گزرتے گئے، پانچ سال گزر گئے لیکن وہ لوٹ کر نہیں آیا اور نہ ہی گھر والوں کا انتظار ختم ہوا۔

پھر ایک دن اس کے بڑے بھائی کا ایکسیڈنٹ ہو گیا۔ وہ بری طرح زخمی ہو گئے تھے۔ ہر ممکن علاج کیا جا رہا تھا لیکن صحت میں سدھار نہیں تھا۔ جب اسے اس حادثے کی خبر ملی تو، اس کی چھٹی منظور نہ ہونے کے باوجود ’’بھاڑ میں جائے نوکری‘‘ کہہ کر وہ نکل پڑا۔ وہ ذہنی کشمکش میں مبتلا ہو گیا۔ بے چینی عروج پر پہنچ گئی اور سفر لمبا ہو گیا تھا۔ گھر کے سبھی افراداسے اپنے اردگرد نظر آنے لگے۔ جہاز مسلسل سفر میں تھاپر منزل کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔ وقت کاٹے نہیں کٹ رہا تھا۔ گویا لمحوں نے صدیوں کے دائرے بنا لیے تھے۔ پھر اس وقت کچھ سکون کا احساس ہوا جب ملک کی ہواؤں نے اسے چھوا۔ وہ ایئر پورٹ سے سیدھے اسپتال پہنچا، وہاں جا کر معلوم ہوا کہ اس کے بڑے بھائی اب اس دنیا میں نہیں رہے۔

اس کے ہوش وحواس نے کام کرنا بند کر دیا۔ اسے کچھ سمجھ ہی نہیں آیا کہ اب کیا کیا جائے۔ وہ رکشہ تلاش کر رہا تھا لیکن کوئی رکشہ دکھائی نہیں دیا۔ وہ بد حواسی میں بہت تیزی سے گھر کی طرف دوڑا، اس کا پیر پھسلا، وہ زمین پر گر ا، ایک بڑے پتھر سے اس کا سر زور سے ٹکرا گیا، سر سے خون بہنے لگا، سر چکرا گیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ پھر اٹھا اور بھاگتا ہواسیدھا گھر گیا۔ وہ گھر پہنچا تو دیکھا کہ گھر میں بڑے بھائی کی موت کا ماتم پسرا ہوا تھا۔

پھر محلے کے ایک شخص نے اس کے والدین سے کچھ کہا۔ وہ ان کے سامنے کھڑا تھا لیکن انھوں نے اس کی طرف دیکھا بھی نہیں اور اس کی آواز سنی بھی نہیں۔ وہ دل ہی دل میں کہہ رہا تھا کہ شاید وہ اس سے ناراض ہیں۔ اس لیے اس کی جانب دیکھ بھی نہیں رہے ہیں۔ اس کے والدین سیدھے گھر سے باہر بھاگنے لگے اور وہ ان کے پیچھے۔ والدین بھاگتے ہوئے اسی جگہ گئے جہاں وہ گرا تھا اوراس کا سر ایک بڑے پتھر سے ٹکرا گیا تھا، وہاں لوگوں کا ہجوم لگ گیا تھا۔ جب اس نے قریب جا کر دیکھا تو پتھر کے پاس اس کی لاش پڑی تھی، وہ مر چکا تھا۔ ابّا دور کھڑے تھے، ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کے دھاریں بہہ رہی تھیں اور ماں لاش سے لپٹ کر رو رہی تھی۔

٭٭٭







عقلمند



سردیوں کی ٹھٹھرتی ہوئی صبح تھی۔ دانت سے دانت بج رہے تھے۔ نوید اپنے نرم گرم بستر میں سویا ہوا تھا۔ وہ سویا کہاں تھا، کب کا جاگ گیا تھا لیکن اپنے آپ کو گرم رکھنے کے لیے ابھی رضائی میں ہی تھا۔ باہر سورج اپنی کرنیں ایک ایک کر کے زمین پر چھوڑ رہا تھا۔ ادھر نوید بڑھتے ہوئے پریشر کو برداشت کرتا ہوا اب بھی بستر میں ہی تھا کیونکہ سردیوں میں بستر سے باتھ روم تک کا سفر بڑا مشکل ہوتا ہے۔

اس کی آنکھوں میں نیند کا خمار صاف نظر آ رہا تھا۔ رات کے آخری پہر بڑی مشکل سے آنکھ لگی تھی اور اب حاجت روائی کے دباؤ نے سرور بخش نیند میں خلل ڈال دیا تھا۔

وہ باتھ روم سے فریش ہو آیا اور فرش پر بیٹھ گیا پھر سر اٹھا کر پنکھے کو دیکھا، رسی اٹھائی، اسٹول پر کھڑا ہو کر رسی کا ایک سرا پنکھے سے باندھا اور دوسرا سرا اپنے گلے میں باندھ کر اسٹول کو پیر سے ڈھکیل دیا۔ ایک جھٹکا لگا، گردن لمبی ہو گئی، زبان اور آنکھیں باہر آ گئیں۔ پھر ایک جھٹکا اور لگا اور وہ بیٹھے بیٹھے چونک پڑا۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا تھا کہ اس نے خودکشی کا سوچا ہو۔ اس سے پہلے بھی اس طرح کے خیالات اس کے دماغ کے پردوں سے ٹکرائے تھے۔ وہ اکثر اپنے کمرے میں زمین پر دیوار سے ٹیک لگائے، دونوں ہاتھوں سے اپنے سر کو تھام کر بیٹھ جاتا اور سوچ کی دھاروں میں بہتا ہوا چلا جاتا تھا۔

اس کی خواہشات نے اس کا جینا محال کر دیا تھا۔ چہرے پر ہمیشہ دمکنے والی آسودگی جیسے کہیں کھو گئی تھی۔ وہ اکثر یاد کرتا تھا اپنے طالب علمی کے زمانے کو جس میں نہ گزرے ہوئے کل کا غم ستاتا تھا، نہ آنے والے کل کی فکر کھائے جاتی تھی۔ اس نے زندگی میں اب تک صرف خواب ہی دیکھے تھے اور ان خوابوں کو پورا کرنے کے لیے شارٹ کٹ اپنائے تھے۔ جس لڑکی سے اس نے محبت کی اس کے والد نے یہ شرط رکھ دی کہ پہلے وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہو جائے، اس کے بعد شادی کے متعلق سوچیں گے، لیکن وہ اب تک وہیں کھڑا ہے جبکہ اس کی محبوبہ کا لڑکا اب دوڑ رہا ہے۔ ماں باپ نے ایک گھریلو لڑکی سے یہ سوچ کر اس کی شادی کرا دی کہ شادی کے بعد اسے ذمے داریوں کا احساس ہو گا اور کم از کم وہ اپنے والد کے کاروبار میں ہاتھ بٹائے گا، لیکن کوئی چھوٹا موٹا کام کرنا اسے بالکل پسند نہیں تھا۔

اس کی زندگی میں سوشل میڈیا کا عمل دخل بہت زیادہ تھا۔ وہ کوئی بھی کام کرنے سے پہلے سوشل میڈیا پر اپنے دوستوں کی رائے ضرور لیتا تھا۔

ایک روز اس نے فیس بک پر ایک پوسٹ لگائی ’’خودکشی کرنے کا کوئی آسان طریقہ بتاؤ؟ یا کوئی ایسا راستہ بتاؤ کہ میں ذہنی کشمکش سے آزاد ہو جاؤں اور جان بھی بچ جائے۔‘‘

بس پھر کیا تھا دھڑا دھڑ دوستوں کے کمنٹس آنے شروع ہو گئے۔

ٍ
کسی نے کہا۔ ’’شرم سے ڈوب مرو۔‘‘

تو کسی نے کہا۔ ’’چلو بھر پانی میں ڈوب مرو۔‘‘

کسی نے کہا۔ ’’دوسری شادی کر لو۔‘‘

تو کسی نے کہا۔ ’’باہر والی کے چکر میں پڑ جاؤ۔‘‘

کسی نے کہا۔ ’’بھاڑ میں چلے جاؤ۔‘‘

تو کسی نے کہا۔ ’’بے حس و بے غیرت بن جاؤ۔‘‘

لیکن دوستوں کی شوخ مزاجی اس کی طبیعت میں کوئی تبدیلی پیدا نہ کر سکی۔ اسے احساس نہیں تھا کہ بے موت مرنا اتنا آسان نہیں۔ از خود اپنی زندگی کو ختم کر دینا زندہ رہنے سے زیادہ مشکل ہے۔

اس روز وہ مایوسیوں کو ساتھ لیے گھر لوٹ رہا تھا۔ چورا ہے پر کھڑے کچھ لوگوں میں سے ایک نے اس کی جانب اشارہ کیا۔

’’یہ ہے پڑھا لکھا بے روزگار، آدھی عمر پڑھائی میں برباد کر دی اور آدھی نوکری تلاش کرنے میں لٹا رہا ہے۔‘‘

یہ سنتے ہی سبھی زور زور سے ہنسنے لگے۔ وہ خاموش رہا اور وہاں سے جلد نکل گیا۔ جیسے ہی گھر میں داخل ہوا بیوی نے کہا۔ ’’کوئی کام ملا یا نہیں یا آج بھی جیسے گئے تھے ویسے ہی چل پھر کے آ گئے۔‘‘

یہاں بھی وہ خاموش رہا اور لپک کر دوسرے کمرے میں چلا گیا۔ لوگوں کی جلی کٹی سن سن کر وہ جلے پاؤں کی بلی بن گیا تھا۔ اس کے چہرے پر نا امیدی اور مایوسی کے بادل صاف نظر آتے تھے۔

ایک روز وہ اپنی پریشان فکروں کے سا تھ گھر میں اکیلا بیٹھا تھا تب ماں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا۔ ’’لوگ کیچڑ اچھالتے ہیں، دامن کو داغ دار کرنے کی کوشش کرتے ہیں، طعنے کستے ہیں اور حوصلہ شکنی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ان کے اچھالے ہوئے کیچڑ اور غلاظت میں دفن ہو جائیں اور ہمت ہار کر خاک میں مل جائیں۔ ہمیں ان بیکار کی باتوں کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھنا چاہیے۔‘‘

نوید نے پیشانی پر بل ڈالے اور مخاطب ہوا۔ ’’کام تو مل رہا ہے ماں پر وہ میرے لائق نہیں۔ تم کیا چاہتی ہو، میں کوئی بھی چھوٹی موٹی نوکری کر لوں۔ پی ایچ ڈی تک تعلیم حاصل کرنے والا چپراسی کی نوکری کیسے کر سکتا ہے بھلا!!‘‘

ماں نے سمجھایا۔ ’’ہمیشہ قائم و دائم رہنے والی کامیابی کا راستہ نچلی سیڑھیوں سے ہو کر ہی اوپر کی طرف جاتا ہے۔‘‘

دوسرے روز پھر دن بھر نوکری کی تلاش، دیر رات تھکا ماندا گھر آیا اور سوچا کہ تھوڑا آرام کر کے کھانا کھاؤں گا، پر بستر پر گرتے ہی سو گیا۔

صبح نیند سے بیدار ہوا تو ابا بڑبڑانے لگے۔ ’’صاحب زادے ایسے ہی زندگی گزار دیں گے یا کچھ کام بھی کریں گے۔‘‘

اس کا دماغ چکرانے لگا۔ اس نے کوئی جواب نہیں دیا اور اپنی زندگی کو ختم کرنے کے ارادے سے گھر سے نکل پڑا۔ راستے پر چلتے چلتے سوچنے لگا: ’’لوٹ آتا ہوں ہر روز گھر کی طرف تھکا ہارا۔۔ ۔۔ سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔۔ ۔۔ زندگی جینے کے لیے نوکری تلاش کر رہا ہوں یا نوکری تلاش کرنے کے لیے جی رہا ہوں۔۔ ۔۔ شکایتیں تو بہت ہیں تجھ سے ائے زندگی۔۔ ۔۔ تھک گیا ہوں تجھے جیتے جیتے۔۔ ۔۔ اس سے تو موت بہتر ہے۔‘‘

اور اس کی زبان پر خواجہ میر درد کا یہ شعر برجستہ آ گیا:

زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے

ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے

چلتے چلتے جب وہ تھک گیا تو تھوڑی دیر آرام کے لیے ایک درخت کے نیچے بیٹھ گیا۔ جیب سے موبائل فون نکالا اور کچھ دیکھنے لگا۔ نظر فیس بک کی ایک کہانی پر ٹھہر گئی۔ کہانی کچھ اس طرح تھی:

’’راستے میں ایک بہت بڑی عمارت کا کام جاری تھا۔ مزدور سطح ہموار کرنے کے لیے ایک گہرے گڑھے میں مٹی ڈال رہے تھے۔ ایک گدھا اس گڑھے میں گر گیا اور اس کا ایک پیر ٹوٹ گیا۔ مزدوروں نے بہت کوشش کی، لیکن گدھے کو باہر نکال نہیں سکے۔ وہ باہر نکلنے کے لیے چلا رہا تھا، مزدوروں کو کام جلد ختم کرنا تھاپر ان کا وقت برباد ہو رہا تھا۔ انھوں نے سوچا، لنگڑا گدھا کسی کے کیا کام کا، یہیں دفن کر کے اس کی قبر بنا دیتے ہیں۔ تمام مزدور گدھے کے اوپر مٹی ڈالنے لگے۔ وہ چلا تا رہا پر مٹی ڈالنے والے ہا تھ نہیں رکے۔ پھر اچانک وہ خاموش ہو گیا۔ مزدور اس پر مٹی ڈالتے اور وہ اپنے جسم سے مٹی جھٹک دیتا۔ دیکھتے ہی دیکھتے سطح ہموار ہو گئی اور گدھا اپنے جسم سے مٹی جھٹک جھٹک کر اوپر آ گیا۔‘‘

یہ پڑھ کر اسے اپنی ماں کی تمام باتیں یاد آنے لگیں۔ جن باتوں کو اس نے ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیا تھا، وہ تمام باتیں دوسرے کان سے ہی واپسی کا سفر طے کر تے ہوئے سیدھے دماغ سے ٹکرانے لگیں:

’’لوگ کیچڑ اچھالتے ہیں، دامن کو داغدار کرنے کی کوشش کرتے ہیں، طعنے کستے ہیں اور حوصلہ شکنی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ان کے اچھالے ہوئے کیچڑ اور غلاظت میں دفن ہو جائیں اور ہمت ہار کر خاک میں مل جائیں۔ ہمیں ان بیکار کی باتوں کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھنا چاہیے۔‘‘

اب وہ سوچ میں پڑ گیا کہ گدھا ایک جانور ہے اور وہ انسان، جانوروں میں گدھے کو سب سے زیادہ بے وقوف سمجھا جاتا ہے اور انسان کو عقلمند۔

٭٭٭









سودا



میں روشنی سے جدا ہونا نہیں چاہتا تھا کیونکہ میں اسے چاہتا تھا لیکن وہ کسی اور کو۔ یہ مجھے منظور نہیں تھا کہ اس کا جسم میرے ساتھ رہے اور روح کہیں اور۔ میں اسے مکمل طور سے حاصل کرنا چاہتا تھا۔ نہیں تو، پھر کچھ نہیں۔ شادی کی پہلی رات، میں بے حد خوش تھا اور اس نے میرے ہاتھوں کو جھٹکا دیتے ہوئے کہہ دیا۔ ’’خبردار جو مجھے ہاتھ لگایا تو۔‘‘

میں ہکا بکا رہ گیا اور حیرت سے پوچھا۔ ’’کیوں؟‘‘

اس نے کہا۔ ’’میں کسی اور سے پیار کرتی ہوں۔‘‘

وہ میری زندگی کی روشن رات اچانک سیاہ ترین ہو گئی۔ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ جن آنکھوں میں قوسِ قزح کے رنگ گردش کر رہے تھے وہ یک بیک اندھی ہو جائیں گی۔ میں ذہنی کرب و کسک کے بھنور میں پھنس چکا تھا، بھونچکا ہو چکا تھا۔ پھر تیز نظروں سے اسے گھور رہا تھا اور ترش لہجے میں سوال کیا۔ ’’اور یہ شادی؟‘‘

’’میرے بابا جی نے زبردستی کی ہے۔‘‘

اور میں نے بھڑک کر کہا۔ ’’یہ تو تمہیں پہلے ہی سوچنا چاہیے تھا۔‘‘

اس نے سسک کر کہا۔ ’’میں نے تو بابا جی کو پہلے ہی شادی سے سخت انکار کر دیا تھا پر بابا جی کو ہارٹ اٹیک ہو گیا تھا۔‘‘

اس نے قسمت کو کوستے ہوئے سر پکڑ لیا اور دیوار سے ٹیک لگا کر فرش پر بیٹھ گئی۔ روتے ہوئے گڑگڑانے لگی کہ میں اسے اس کے عاشق سے ملا دوں۔ پھر ایک ہاری ہوئی عورت کی طرح اس نے کہا کہ اس کا بدن میرا ہو سکتا ہے لیکن من اور روح نہیں۔ میری غیرت مندی نے یہ گوارہ نہیں کیا کہ زبردستی اسے حاصل کروں۔ میں محبت سے اسے حاصل کرنا چاہتا تھا۔ اس لیے میں نے بھی طے کیا کہ جب تک وہ مکمل طور سے میری نہیں ہو جاتی میں اسے ہاتھ بھی نہیں لگاؤں گا۔

رات کی لرزہ خیز خاموشی میں سرسراتی ہوئی سرد ہوا سے دونوں کان سائیں سائیں کر رہے تھے۔ سینہ لمبی لمبی سانسوں سے پھول رہا تھا، جیسے کوئی پرندہ اپنے آخری وقت میں پھڑپھڑا رہا ہو۔ کچھ سمجھ نہیں آیا، میں روؤں یا ہنسوں یا چیخ چیخ کر فرش سے عرش تک ہلچل مچا دوں۔ مجھے ’’ہم دل دے چکے صنم‘‘ فلم یاد آ گئی اور میں نے ایثار و فراخ دلی دکھاتے ہوئے اس کی فرمائش قبول کر لی، یہ سوچ کر کہ ہماری کہانی کا اختتام بھی فلم جیسا ہی ہو گا، اور وہ آخر میں مجھ سے محبت کر بیٹھے گی۔ میں ساتویں پسلی کو قوت سے نہیں حکمت سے سیدھا کرنا چاہتا تھا۔

حسبِ منصوبہ میں اس کے محبوب کی چھان بین میں جٹ گیا۔ کسی کام میں من نہیں لگ رہا تھا۔ جیسے ہی کام سے فرصت ملتی میں تلاش و جستجو لگ جاتا۔

ایک روز وہ اداس بیٹھی ہوئی تھی۔ میں گھر میں داخل ہوا اور وہ ٹھٹھک گئی۔ میری جانب اس طرح دیکھنے لگی جیسے سارے جہاں کی خوشیاں اس کے قدموں تلے سمٹ آئی تھیں۔ دوڑتی ہوئی میرے قریب آئی اور بانہوں میں جھول گئی۔ محبت بھرے انداز سے کہنے لگی۔ ’’اب مجھے چھوڑ کر مت جانا۔‘‘

میں سمجھ گیا کہ وہ کیا محسوس کر رہی ہے۔ وہ لپٹی تو مجھ سے تھی پر تصّور میں کوئی اور تھا۔ اس کے گلے لگتے ہی میرے سینے میں سرور بخش لہریں دوڑ پڑیں۔ پھر یکا یک بجلی کی رفتار سے جدا ہوئی اور کہنے لگی۔ ’’دیکھو تم میرے قریب مت آنا۔‘‘

اس کے عاشق کے متعلق میں صرف اتنا جانتا تھا کہ اس کا نام راہل ہے اور وہ اس کے ساتھ پونہ میں گریجویشن کی تعلیم حاصل کرتا تھا۔ وہاں سے ہی دونوں ایک دوسرے کے رابطے میں آئے تھے۔

میں راہل کی تلاش میں تھا لیکن اب تک کامیابی نہیں ملی تھی اور مجھے ہمت ہارنا بھی نہیں تھا۔ پھر ایک روز کنواں پیاسے کے پاس آ گیا۔ منزل نے خود مسافر کا پتہ پوچھ لیا۔ اچانک میری، راہل سے ملاقات ہو گئی۔ در اصل وہ خود مجھ سے آ کر ملا تھا۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا وہ اپنا وزیٹنگ کارڈ تھما کر نکل گیا۔ جس پر اس کا پتہ نہیں تھا صرف موبائل نمبر درج تھا۔

تحقیق کی روشنی میں اس کے متعلق وہ حقیقت سامنے آئی کہ پیروں تلے زمین ہی کھسک گئی۔ وہ جسم فروشی کے بازار کا دلّا تھا۔ نئے زمانے کا نیا دلال جو اپنی پرسنالٹی کے بل بوتے پر لڑکیوں کو محبت کے جال میں پھانستا، بڑے بڑے ہوٹلوں میں، پارٹیوں میں لے جاتا، ڈرنکس میں نشیلی دوا ڈال کر بے ہوش کرتا اور ہوس کے درندوں کے حوالے کر دیتا۔

پھر ایک روز میں نے اس سے رابطہ کیا۔ اس نے شہر سے باہر ایک ہوٹل میں مجھے ملنے بلایا۔ جب میں اس سے ملنے گیا تو وہ موبائل پر کسی سے لین دین کی بات کر رہا تھا۔ اس نے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا، میں بیٹھ گیا۔ اب وہ میرے بالکل سامنے بیٹھا تھا۔

بات ختم کرتے ہی وہ گویا ہوا۔ ’’اچھا تو سمیر صاحب، روشنی کے شوہر۔ بھائی رومانس ہم نے کیا اور مصیبت آپ کے گلے پڑ گئی۔ جب ملو تب شادی کی ہی باتیں کرتی تھی، کب آ رہے ہو میرے گھر رشتہ لے کر، مجھے لڑکے والے دیکھنے آئے تھے، ابو شادی کے لیے پریشرائز کر رہے ہیں، لیکن میری بہانے بازی و اداکاری کام آئی اور جان چھوٹی۔‘‘

میں نے تلوار کھینچی اور اس کے سینے کے پار کر دی۔ پھر اسی تلوار سے اس کی گردن ماردی۔ بنا سر کا دھڑ زمین پر ٹانگیں رگڑ رہا تھا اور بنا دھڑ کا سر بغیر پانی کی مچھلی کی طرح تڑپ رہا تھا۔ میں نے تلوار پر لگا خون اپنے جسم سے پوچھ کر تلوار ہوا میں اچھال دی۔ قدرے توقف کے بعد اس کا جسم ٹھنڈا ہو گیا اور میں دھیرے دھیرے مسکرانے لگا۔ مسکراہٹ قہقہوں میں تبدیل ہو گئی، جس کی آواز سماعتوں کو ناگوار گزرنے لگی۔ میں نے دیکھا وہ میرے سامنے کھڑا ہنس رہا تھا۔ جاگتی آنکھوں کے خواب میں وہ تلوار کی موت مر چکا تھا۔

میں کچھ دیر تک اسے گھورتا رہا پھر کہا۔ ’’اسے بھول جاؤ۔‘‘

وہ پھر ہنسنے لگا۔ ’’یاد ہی کب کیا تھا جو بھول جاؤں۔‘‘

میں من ہی من سوچنے لگا۔ ’’یہ کیا میں پاگل پن کی باتیں کر رہا ہوں، روشنی کا دیوانہ وہ نہیں، میں ہوں۔‘‘

میں نے کھنکار کر کہا۔ ’’میں اس سے بہت پیار کرتا ہوں لیکن وہ تمہاری دیوانی ہے جبکہ تم اس سے پیار نہیں کرتے۔۔ ۔۔ تم اسے اپنی حقیقت بتا دو۔‘‘

’’ابے مجھے کیا پاگل کتّے نے کاٹا ہے۔‘‘

’’نہیں تو میں بتا دوں گا۔‘‘

’’یقین نہیں کرے گی۔‘‘

’’پھر تم کیا چاہتے ہو۔‘‘

’’وہ میری دیوانی ہے تو اسے مجھے سونپ دو۔ تمھیں بھی اچھے خاصے روپے مل جائیں گے۔ ہمارے ساتھ کام کرو خوب کماؤ گے۔‘‘

میں نے کہا: ’’تمہاری طرح کسی کے یقین و اعتماد کا خون کر کے دولت کمانا مجھے منظور نہیں۔‘‘

میں وہاں سے گھر چلا آیا۔ اس کی ایک ایک حقیقت میں نے روشنی کو بتائی کہ وہ لڑکا بہت بڑا فراڈ ہے۔ لڑکیوں کو محبت کے جال میں پھانسنا پھر انھیں جسم فروشی کے بازار میں بیچ دینا اس کا دھندا ہے۔ اسے میری باتوں کا یقین نہیں آیا۔ وہ سمجھ رہی تھی میں کوئی چال چل رہا ہوں، اسے حاصل کرنے کے لیے۔ میں سمجھا سمجھا کر تھک گیا تھا لیکن وہ کسی صورت ماننے کو تیار ہی نہیں تھی۔ آخر اس کی ضد کے آگے میں ہار گیا اور اسے راہل سے ملانے کا فیصلہ کر لیا۔ شہر کی ایک مشہور ہوٹل میں ملنا طے ہوا۔ ہوٹل میں روشنی راہل سے ملی اور مجھ سے جدا ہو گئی۔ علاحدگی کا درد سینے میں اچھال مار رہا تھا۔ کرب انگیز کیفیت سے طبیعت مضطرب ہو گئی تھی۔ اس کے ساتھ بیتے پل پل کے ذہنی نقشے بھاگتی فلم کی طرح بڑی تیزی سے ابھر رہے تھے اور میں ذہنی اختلاج میں مبتلا ہونے کے قریب تھا۔

جب میں اسے راہل کے پاس چھوڑ کر ہوٹل سے باہر نکلا تو میرے ہاتھ میں پیسوں سے بھرا سوٹ کیس تھا اور ذہن میں ابھی ابھی ہوٹل کے اندر کا سین تازہ تھا۔ میں راستے پر چل رہا تھا، قدم قدم روشنی سے دور ہوتا جا رہا تھا اور ذہن کے پردوں پر وہ منظر گردش کر رہا تھا جب میں راہل سے سودا کر رہا تھا۔ ’’کتنے ملیں گے؟‘‘

’’دو پیٹی۔‘‘

’’نہیں، چار سے کم میں نہیں دوں گا۔‘‘

٭٭٭







گریما



گریما، راستے پر چلتے چلتے من ہی من بدبدانے لگی: ’’بھگوان، میرے صبر کا امتحان لے رہا ہے اور میں اس کے ظلموں کا امتحان لے رہی ہوں۔‘‘

وہ راستے پر چل رہی تھی اور سوچ رہی تھی: ’’گھر جاؤں یا ندی میں کود کر مر جاؤں۔ اگر میں گھر گئی تو کیا میرا پتی مجھے قبول کرے گا؟ لیکن اب من نہیں کرتا کہ گھر جاؤں۔۔ ۔ نہیں نہیں، اس سے تو بہتر ہے میں مر ہی جاؤں۔‘‘ پھر سوچنے لگی: ’’اپنا گھر آخر اپنا ہی ہوتا ہے۔ کم از کم سر پہ چھت کا سایہ رہے گا اور عزت بھی محفوظ رہے گی۔ لیکن، کہیں وہاں۔۔ ۔‘‘ وہ ایک پل سوچتی کہ گھر جاؤں اور دوسرے ہی پل ارادہ کرتی کہ ندی میں کود کر مر جاؤں۔ وہ بہت دور تک چلی گئی تھی، لیکن تذبذب میں مبتلا تھی اور کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی۔

تقریباً تین سال پہلے اپنی بے رنگ آنکھوں میں امیدوں کے دیے جلاتے ہوئے اور زندگی کی پرچھائی تلاش کرتے ہوئے، وہ وجے عرف ببلو کے ساتھ گاؤں سے شہر بھاگ آئی تھی۔ کبھی خوابوں میں، کبھی حقیقت میں وہ اچانک چونک پڑتی ہے۔ وہ کیسے بھول سکتی ہے بھلا، دل کو دہلا دینے والی، روح کو جھنجھوڑ دینے والی اس حقیقت کو، جو اس کے ذہن پر نقش جاوداں ہو گئی ہے، وہ ایک جیتی جاگتی حقیقت ہے کوئی بھیانک خواب نہیں۔ گزرے دن جب ذہن میں گردش کرنے لگتے ہیں تو اسے اپنے آپ پر ہی غصہ آتا ہے۔ وہ اکثر سوچتی ہے، کتنے زانی ہیں وہ لوگ، کتنے ظلمی ہیں وہ لوگ، کیا بھگوان نے ان کے پیٹ میں بیٹیاں نہیں دیں!!! کیا ان کے دلوں میں اوپر والے کا کوئی ڈر خوف نہیں!!! اے بھگوان جب وہ ظلم کی داستان لکھ رہے تھے، اس وقت زمین کیوں نہیں کانپی، آسمان کیوں نہیں پھٹا۔۔ ۔۔ کیوں نہیں۔۔ ۔۔ ظالموں کو دھرتی ماں نے اپنی آغوش میں دبوچ لیا۔۔ ۔ کیوں نہیں۔۔ ۔

اس کے دکھوں کی شروعات تو اپنے ہی گھر سے ہوئی تھی۔ جو مان سمان اسے ملنا تھا، نہیں ملا۔ آخر اس کا قصور کیا تھا؟ وہ اپنی چھوٹی بہن کی طرح خوبصورت نہیں تھی۔ گھر میں چھوٹی کی بڑی اہمیت تھی، جو ماں باپ کی چہیتی بیٹی تھی۔ اسے رشک آتا تھا چھوٹی کی قسمت پر۔ کتنی بے بس تھی وہ اپنے ہی گھر میں۔ فرق آمیز برتاؤ۔۔ ۔۔ ماں باپ کا حقارت بھرا رویہ۔۔ ۔۔ ہمیشہ ڈانٹ پھٹکار۔۔ ۔۔ بس یہی سب اس کا مقدر تھے۔ گھر کے کام کاج کے لیے اس کا اسکول جانا بھی بند کرا دیا گیا تھا۔ گاؤں میں اس کی ہم نام دو تین لڑکیاں تھیں۔ اس لیے لوگ اسے کالی گریما کے نام سے پہچانتے تھے۔ وہ دن بھر نوکروں کی طرح گھر کے تمام کام کرتی، اس کے باوجود اسے دھتکار پھٹکار کے سوا کچھ نہ ملتا۔ وہ اپنے ماں باپ کی محبت چاہتی تھی اور ان کی چہیتی بیٹی بننا چاہتی تھی لیکن جیسے یہ اس کے نصیب میں نہیں تھا۔

ایک روز اس کے لیے اپنے ہی گاؤں کے ایک امیر، ضعیف، شخص لالا دھنی رام کا رشتہ آیا، جو اس کے دادا جی کی عمر کے تھے اور اس وقت اس کی عمر صرف اٹھارہ سال تھی۔ اس نے کئی دفعہ انھیں دادا جی کہہ کر مخاطب بھی کیا تھا۔ اس رشتے کو ماں باپ نے جھٹ سے قبول کر لیا اور سکون کی سانس لی، جیسے ان کے سر سے بہت بڑا بوجھ اتر گیا ہو۔ اس نے اس رشتے سے انکار کیا لیکن ماں باپ نے ایک نہ سنی۔ وہ، لالا جی کی ہونے والی چوتھی بیوی تھی۔ اس سے پہلے ان کی تین بیویاں مر چکی تھیں۔ لالا جی کے چار لڑکے تھے۔ تین کی شادیاں ہو چکی تھیں۔ چوتھے نمبر کا لڑکا شادی کے لائق ہو گیا تھا لیکن لالا جی اسے دولہا بنانے کی بجائے خود ہی نوشہ بن رہے تھے۔

گاؤں میں اس کی کوئی سہیلی بھی نہیں تھی کہ جس کے ساتھ وہ اپنا غم ہلکا کر سکے۔ البتہ ہم عمر لڑکیوں نے اس کا مذاق اڑایا۔ ’’کسی کی نظر نہ لگے، کیا اچھا جوڑا جما ہے، دولہا بھی کیا خوب ہے، تو تو بڑی قسمت والی ہے، چند دنوں کی ہی بات ہے، پھر راج کرے گی راج۔۔ ۔۔ دولہے کی انکم بھرپور ہے لیکن افسوس اس کے پاس دن کم ہیں۔‘‘

دوسری نے شوخ اداؤں سے اتراتے ہوئے کہا۔ ’’تو اچھا ہے نا، میں تو کہتی ہوں کل مرنے والا، آج ہی مر جائے۔‘‘ اور سبھی لڑکیاں کھل کھلا کر چہک اٹھیں۔

وہ دن بھی آ گیا کہ ماں باپ نے ہاتھ پکڑ کر اسے رخصت کر دیا اور کہا۔ ’’قسمت والی ہے جو اتنا بڑا گھر ملا۔‘‘ جب اسے معلوم ہوا کہ اس کے ماں باپ نے لالا دھنی رام سے پیسے لے کر شادی کرائی ہے تب اسے ایسا لگا جیسے ایک ہی ضرب میں اسے ہلاک کر دیا گیا ہو، آنکھوں سے آنسو نکل پڑے اور گالوں پر پھیل گئے۔ پھر کچھ وقت بعد سانسیں پھولنے لگیں، طبیعت گھبرانے لگی اور ماتھے پر پسینے کی ننھی ننھی بوندیں نمودار ہوئیں۔ سر چکرا گیا اور سینے پر ایک بوجھ محسوس ہونے لگا۔ ایک عجیب سا بوجھ جو لاشعوری طور پر ہر وقت کھٹکتا رہتا۔

لالا دھنی رام سے لیے پیسوں سے چھوٹی کی شادی کی گئی۔ لالا دھنی رام کو بیوی کے روپ میں اور اس کے بچوں کو ماں کے روپ میں نوکرانی مل گئی تھی۔ کھانا بنانا، برتن دھونا، کپڑے دھونا، صفائی کرنا اور گھر کے دیگر کاموں سے چوٗر چوٗر ہو جاتی۔ وہ اپنے پتی کو قبول نہیں کر پا رہی تھی۔ ’’اف یہ بھی کوئی زندگی ہے۔‘‘ بے بسی کے سمندر میں غوطے کھاتی ہوئی بے رنگ زندگی سے وہ تنگ آ چکی تھی۔

ایک دن وہ گھر میں اکیلی کام کر رہی تھی۔ اچانک لالا جی کے چھوٹے لڑکے سنجے نے اسے اپنی بانہوں میں بھر لیا اور زبردستی کرنے لگا۔ عین وقت لا لاجی گھر آ گئے اور بھاگ کھڑا ہوا۔

اس کے پڑوس میں ببلو نام کا ایک لڑکا رہتا تھا، جو ہر وقت اسے گھور گھور کر دیکھا کرتا تھا۔ گریما کو بھی وہ اچھا لگتا تھا۔ ببلو کی محبت بھری نگاہوں نے اس کی توجہ اپنی جانب مبذول کی۔ وہ دیر تک اس کے متعلق سوچتی رہی۔ ببلو اس کے گاؤں کا ایک لڑکا تھا۔ جسے شہر گئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا اور اس قلیل مدت میں اس کی زندگی ہی بدل گئی تھی، گویا غریبی نے خوشحالی کی چادر اوڑھ لی تھی۔ اچانک اتنا بدلاؤ، بات چیت کا انداز، رہن سہن سب کچھ تو بدل گیا تھا اس کا۔ وہ بن سنور کر آئینے کے سامنے کھڑی ہو جاتی اور سوچتی، ’’میں خوبصورت تو نہیں کہ ببلو مجھے پسند کرے۔‘‘ رنگ کالا، کالی کالی آنکھیں، کھڑی کھڑی ناک، چمکتا ہوا نمکین چہرہ۔ اسے شکایت تھی کہ اس کا رنگ دودھ جیسا سفید کیوں نہیں لیکن اس کا رنگ اگر سانولا بھی ہوتا تو شاید وہ مغرور ہو جاتی۔ اس کی ماں نے اسے بتایا تھا کہ جب وہ پیدا ہوئی تھی تو اس کا رنگ صاف تھا لیکن دھیرے دھیرے وہ اٹتا چلا گیا۔ نمکین چہرہ بڑا ہی پر کشش لگتا تھا۔ سامنے کی جانب تھوڑے سے نکلتے ہوئے دانت کشش میں اضافہ تھے۔ ببلو سے چھپ چھپ کر چند ملاقاتوں کے سلسلے کے بعد وہ اس کے ساتھ بھاگ کر شہر چلی گئی اور وہیں رہنے لگی تھی۔

ایک روز اس نے ببلو سے پوچھا۔ ’’اے ببلو سن نا۔‘‘

’’کیا ہے؟‘‘

’’کہیں تو مجھے دھوکہ تو نہیں دے گا؟‘‘

’’ارے پگلی گریما، میری پیاری گریما، میں اپنے آپ کو دھوکا دے سکتا ہوں پر تجھے نہیں۔‘‘

ببلو کی باتوں سے یقین و اعتماد کی لالی اس کے چہرے پر پھیل گئی تھی۔ ایک دن ببلو اسے میلا گھمانے لے گیا۔ وہاں بھیڑ بھاڑ میں ببلو کہیں کھو گیا۔ وہ گھبرائی، چلائی، روئی، لیکن ببلو نہیں ملا۔ وہیں کچھ لوگوں نے اکیلی پا کر اسے اغوا کر لیا اور ایک تاریک گودام میں قید کر دیا۔ وہ گودام کسی سنسان جگہ پر تھا، جہاں سے بھاگ جانا بڑا مشکل تھا۔ وہ تین آدمی تھے۔ ان میں سے ایک نے کہا: ’’اسے بیچیں گے بعد میں، پہلے خود ہی کھا لیتے ہیں۔‘‘

گریما نے کہا۔ ’’ٹھیک ہے۔۔ ۔ تمہیں جو کرنا ہے کرو، میں تمہیں روکوں گی نہیں، لیکن پہلے میری ایک بات سن لو۔‘‘

سبھی نے ایک آواز میں کہا۔ ’’کون سی بات۔‘‘

’’مجھے ایڈز ہے۔۔ ۔۔‘‘

اس کے بعد اسے کسی نے چھوا تک نہیں۔

ایک روز وہ لوگ اسے کار سے شہر لے آئے۔ ان کی باتوں سے پتا چل رہا تھا کہ وہ اسے بیچنے لے جا رہے تھے۔ انھوں نے ایک مقام پر گاڑی روکی، ان میں سے ایک شخص کچھ خریدنے قریب کی دکان پر اور دوسرا پبلک ٹائلٹ میں چلا گیا۔ تیسرا شخص وہیں کھڑا، سگریٹ کے کش لگانے میں مشغول تھا۔ گریما نے موقعے کا فائدہ اٹھایا اور وہاں سے بھاگ نکلی۔ دن بھر شہر میں یوں ہی چھپتے چھپاتے بھٹکتی رہی پھر شام کو کسی بھلے انسان نے اسے لڑکیوں کے شیلٹر ہوم پہنچا دیا۔ اس شیلٹر ہوم کی پیشانی پہ یہ بورڈ آویزاں تھا:

’’پھینکیں نہیں، ہمیں دیں‘‘

لڑکیوں کا وہ شیلٹر ہوم، در اصل ایک گودام تھا، ایک قید خانہ تھا۔ نہایت ہی گندا فرش، پھٹے ہوئے بدبو دار بستر اور میلے کچیلے تکیے۔ وہاں لڑکیوں کی اہمیت بھیڑ بکریوں سے زیادہ نہ تھی۔ لڑکیاں باہر کی تازہ ہوا کو ترستی تھیں۔ ہاں، انھیں باہر بھی لے جایا جاتا تھا۔ ہوٹل میں، کسی وی آئی پی کے آرڈر پر اور سامان کی طرح پروس دیا جاتا تھا۔ بے سہارا لڑکیوں کو سہارا دینے والا وہ شیلٹر ہوم، در اصل سرکاری امداد پر چلنے والا ریپ ہوم نکلا۔ وہاں لڑکیوں کی حفاظت کے لیے جس شخص کو مقرر کیا گیا تھا وہ بھیڑیا بن گیا تھا، گویا رکشک ہی بھکشک بن گیا تھا۔

اس شیلٹر ہوم کے سارے اسٹاف ملے ہوئے تھے۔ وہاں کا مالک راجیش ٹھاکُر، اپنے حکم کی تعمیل نہ کرنے پر لڑکیوں کو ہنٹر سے پیٹتا تھا۔ اس لیے لڑکیاں اسے ہنٹر والے انکل کہتی تھیں۔ شیلٹر ہوم کی حقیقت جب گریما پر آشکار ہوئی تب حیرت و تعجب کے رنگ چہرے پر پھیل گئے۔ ذہنی توازن بگڑنے لگا۔ سر سے پیر تک بدن سنسنا گیا۔ دھڑکنیں بے ترتیب ہو گئیں۔ دل بیٹھنے لگا۔ وہ کھڑی کی کھڑی رہی، پاؤں اُٹھ نہیں سکے۔

شیلٹر ہوم میں جب اس کے ساتھ زور زبردستی ہونے لگی تو اس نے ایچ آئی وی پوزیٹو والی بات بتائی لیکن وہاں جانچ کرنے کی تمام سہولیات موجود تھیں۔ حتی کہ حمل ضائع کرنے کا بھی انتظام تھا۔ جانچ میں اس کی بات جھوٹ ثابت ہوئی۔

وہاں ظلم و بربریت کا ایک ایسا سلسلہ چلتا رہا، جس نے سفید دودھیا لے بادلوں کو مٹ میلا کر دیا۔ عورتوں کی کتابوں میں بے حیائی کی وہ کہانیاں لکھ دی گئیں کہ جس کے آگے ظلم کی ساری داستانیں پھیکی پڑ گئیں۔ روز ظلم ڈھایا جاتا تھا۔ روز چیخیں اٹھتی تھیں اور اٹھتی چیخوں کا گلا گھونٹ دیا جاتا تھا۔ معصوم جانیں حال سے بے حال ہو جاتیں تب بھی ان کے جسموں کی بوٹی بوٹی نوچنے کا کھیل رکتا نہیں تھا۔ جیسے جیسے آسمان پر سورج ڈھلتا جاتا ویسے ویسے شیلٹر ہوم کے اندر ڈر پسرتا جاتا۔ رات کے اندھیرے میں لڑکیوں کی درد بھری صدائیں جب سسکنے لگتیں تو دیواروں کی اینٹیں بھی لرز جاتیں۔ پھول جیسی معصوم زندگیوں پر بے حیائی کی وہ کیلیں ٹھوک دی گئیں کہ درندگی بھی شرما جائے۔ رات ہوتے ہی وہاں کی رنگت بدلنے لگتی، رسوخ دار عیاش دبے پاؤں آتے اور معصوموں کے جسموں کو نوچتے، روندتے چلے جاتے۔

کمسن معصوم لڑکیوں کو نفس کی بھینٹ چڑھانے کے لیے، جسم فروشی کے مقصد سے جلد جوان کرنے کے لیے، ہارمونز کے انجکشن دیے جاتے، جس سے لڑکیاں عجیب لگتیں اور وقت سے پہلے ہی جوان ہو جاتیں۔ چھاتیاں بڑی ہو جاتیں اور کولہے پھیل جاتے۔

ایک روز گریما کو ایک پرانا اخبار ملا۔ اس میں ببلو کی تصویر شائع ہوئی تھی۔ تصویر دیکھ کر وہ چونک اٹھی۔ ببلو کے ہاتھوں میں ہتھکڑی لگی تھی اور اسے دو پولیس کانسٹبل پکڑ کر کھڑے ہوئے تھے۔ اس نے جھٹ سے پیپر کو ہاتھ میں اٹھا لیا اور خبر پڑھنے لگی۔ اس میں لکھا تھا کہ ببلو کو پولیس نے گرفتار کر لیا ہے، جو جسم فروش گروہ کا ایک کارکن تھا، وہ گاؤں کی بھولی بھالی لڑکیوں کو اپنی محبت کے جال میں پھانس کر شہر لاتا اور انہیں بیچ دیتا تھا۔ یہ خبر پڑھ کر اسے زوردار جھٹکا لگا۔ وہ اپنے حواس کھونے لگی۔ کچھ سمجھ نہ آیا کہ کیا کرے۔ اپنے چاروں طرف دھواں دھواں سا محسوس کرنے لگی۔ کانوں میں عجیب عجیب سی آوازیں آنے لگیں اور دماغ سُن ہوتا چلا گیا۔ جس کی یادوں کے سہارے وہ دن کاٹ رہی تھی وہ ہی۔۔ ۔۔ اب لفظ ’’محبت‘‘ سے اس کا بھروسا اٹھ گیا۔

شیلٹر ہوم میں آنے کے تقریباً دو سال بعد، وہ وہاں سے بھاگ نکلی۔ شیلٹر ہوم میں، اس کے پاس مسلسل آ رہے ایک گاہک ارجن نے بھاگنے میں اس کی مدد کی تھی۔ ارجن کو گریما سے محبت ہو گئی تھی لیکن اب گریما کے پاس لفظ ’’محبت‘‘ کے کوئی معنی نہیں تھے۔ وہ سیدھے پولیس اسٹیشن پہنچی۔ اس نے اپنی دکھ بھری کہانی اور شیلٹر ہوم میں چل رہے گھناؤنے کھیل کی ساری داستان انسپکٹر راجیش کو سنائی، سنتے ہی پولیس انسپکٹر کے چہرے پر ہوائیاں اڑ گئیں۔ اس نے گریما کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔ اس کے اکیلے پن کا کوئی اور غلط فائدہ نہ اٹھائے، اس لیے اسے بابا کام دیو کے آشرم میں رہنے کا مشورہ دیا۔

انسپکٹر میں مدد کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔ اس لیے وہ بذات خود اسے کام دیو کے آشرم تک چھوڑ نے گیا۔ پھر بابا کام دیو سے پیسے گن کر جیب میں ڈالے اور نکل گیا۔ بابا کام دیو، جسم کا پجاری اور پولیس والا جسم کا دلال نکلا۔ یہاں بھی وہی سب چل رہا تھا جو شیلٹر ہوم میں ہو رہا تھا۔ اس نے وحشت زدہ نظروں سے آس پاس کے ماحول کو دیکھا۔ چہرے پر فکر اور بے چینی پھیل گئی۔ ایک تلخ حقیقت چیخ چیخ کر سارا ماجرا بیان کر رہی تھی۔ گلا سوکھ کر کانٹا سا ہو گیا تھا۔ اس نے اپنے ہونٹ سختی سے بھینچ لیے، پھر ایک لمبی سانس لی اور آسمان کی طرف دیکھنے لگی۔ باہر موسم صاف تھا پر اچانک بوندا باندی شروع ہونے لگی، پھر دیکھتے ہی دیکھتے موسلا دھار بارش شروع ہو گئی۔ شاید اس کی بے بسی پر آج قدرت کو بھی رونا آ گیا تھا۔ بظاہر تو وہ خاموش تھی لیکن اس کا دل بھی بلند آواز سے رو رہا تھا۔

وہ بابا کی داسی بن کر رہ گئی تھی۔ وہاں اس نے کئی بار کھڑکی کا شیشہ توڑ کر ہاتھ کی نسیں کاٹنے کی کوشش کی تھی۔ وہ اب جینا نہیں چاہتی تھی، ختم کر دینا چاہتی تھی اپنے وجود کو۔ اسے گھن آتی تھی وہاں کے ماحول سے، وہاں کے لوگوں سے اور اپنے آپ سے۔ وہ خود کو ہی قصوروار ٹھہراتی، روتی، سسکتی، قسمت کو کوستی اور خاموش ہو جاتی۔ بابا کام دیو کے آشرم میں باہر کے شریف لوگ بھی آتے تھے۔ وہاں جسم کو نوچنے والوں میں حکومت کا ذمے دار بھی تھا، مذہب کا اجارے دار بھی تھا تو سماج کا ٹھیکے دار بھی۔ ایک جانب معصوم لڑکیاں اور عورتیں تھیں تو دوسری جانب مذہب، سماج اور حکومت کے ٹھیکے دار تھے۔ مخالف سمت میں کردار الگ الگ تھے پر کہانی ایک ہی تھی۔

این جی او کے ایک نمائندے کی مدد سے وہ بابا کام دیو کے آشرم سے نکلنے میں کامیاب ہوئی۔ اس نے جو باتیں این جی او کے نمائندے کو بتائیں ان سے صاف ظاہر تھا کہ اب بھی وہاں کی دیواریں گواہ ہیں کہ ہر اینٹ تلے دفن ہیں معصوم تمناؤں کی لاشیں، سفید پوشاک میں ملبوس لوگوں کی بے حیائی، اور شرمسار ہوتی انسانیت کے جنازے۔ وہ بڑے ہی رسوخ دار لوگ تھے کہ ان کے گریبان پر ہاتھ ڈالنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں تھی۔ پولیس سب کچھ جانتے ہوئے بھی خاموش تھی کہ ان لوگوں کا رسوخ ہی کچھ ایسا تھا۔ اس نمائندے کو پوری داستان بتاتے ہوئے اس نے شیلٹر ہوم کے مالک اور بابا کام دیو کے فوٹو پر تھوک دیا۔ گریما کی گریما تار تار ہوتی رہی۔ اس کی قسمت میں عصمت کا لٹنا لکھا تھا وہ روز رات کے اندھیرے میں اور دن کے اجالے میں لٹتی رہی۔

وہ راستے پر چل رہی تھی اور سوچ رہی تھی۔ ’’گھر جاؤں یا ندی میں کود کر مر جاؤں۔ پھر من ہی من کہنے لگی۔ ’’گھر سے نہ بھاگتی تو بہتر ہوتا۔ میری حالت ایسی ہو گئی جیسے ایک معصوم بلی غلطی سے کتوں کے علاقے میں آ گئی ہو، بس پھر کیا تھا، جسے جب موقع ملا اس نے بھنبھوڑا اور نوچ ڈالا۔ اگر گھر گئی تو کیا میرا پتی مجھے قبول کرے گا؟ لیکن من نہیں کرتا کہ گھر جاؤں۔ نہیں نہیں۔۔ ۔۔ اس سے تو بہتر ہے میں مر ہی جاؤں۔‘‘ وہ ایک پل سوچتی کہ گھر جاؤں اور دوسرے ہی پل ارادہ کرتی کہ ندی میں کود کر مر جاؤں۔ وہ بہت دور تک چلی گئی تھی لیکن تذبذب میں مبتلا تھی اور کوئی فیصلہ نہیں کر پائی تھی۔ چلتے چلتے وہ دورا ہے پر کھڑی ہو گئی، جہاں سے ایک راستہ اس کے گھر کی طرف جاتا تھا اور دوسرا ندی کی طرف۔ اس کے بعد بھگوان جانے وہ کس راستے کی مسافر ہوئی۔

٭٭٭







ظالم



شام کا وقت تھا۔ وہ کھڑکی سے لگ کر آرام کرسی پر بیٹھا اطمینان کی سانسیں گن رہا تھا۔ رہ رہ کر ہوا کے تیز جھونکے بن پئے ہی سرور پیدا کر رہے تھے اور شام کو رنگین بنا رہے تھے۔ موبائل ٹاور کی رینج سے پرندے جیسے غائب ہو گئے تھے۔ لیکن چند پرندوں کی چہچہاہٹیں موسم کو سہانا بنا رہی تھیں۔

اچانک اس کے کانوں سے ایک آواز ٹکرائی۔ ’’ظالم‘‘

وہ چونک اٹھا، ادھر ادھر دیکھا، کوئی نہیں تھا۔ اس نے پھر سے کرسی سے سر ٹکا کر آنکھیں بند کر لیں اور سکون کی سانسیں لینے لگا۔

’’ظالم۔۔ ۔۔ ۔ ظالم۔۔ ۔۔ ۔ ظالم‘‘

بار بار یہی آوازیں اس کے اردگرد گونجنے لگیں۔ سمجھ میں کچھ نہیں آیا کہ یہ آوازیں کہاں سے آ رہی ہیں، کدھر سے آ رہی ہیں۔

دفعتاً وہ زور سے چلایا۔ ’’کون ہو؟۔۔ ۔۔ کہاں ہو؟۔۔ ۔۔ ۔ سامنے کیوں نہیں آتے؟‘‘

جب فضا میں چاروں طرف لفظ ’’ظالم‘‘ ہی گونجنے لگا تو اُس نے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ لیے۔ تو پھر یہی لفظ اس کے اندر سرگوشیوں کی طرح سرسرانے لگا اور وہ بے بس ہو گیا۔

وہ ایک دیہات کی سرکاری اسکول میں معلم تھا اور اکثر اپنے ساتھیوں سے کہتا تھا۔ ’’یہ کھیڑے (دیہات)کے لوگ بھی بڑے ایڑے (بیوقوف) ہوتے ہیں، گندگی میں رہتے رہتے ان کی ذہنیت بھی گندی ہو جاتی ہے، چھوٹی چھوٹی باتوں پر اسکول چلے آتے ہیں شکایت کرنے۔‘‘

اس نے نغمہ کو سخت سزا دی تھی۔ سزا دینے کے بعد اسے اس بات کا ڈر ستا رہا تھا کہ کوئی آفت سر نہ آ جائے۔ وہ یہ سوچ سوچ کر پریشان ہو رہا تھا کہ اگر نغمہ کے والدین نے اس کی شکایت کی تو بڑی مصیبت ہو جائے گی کیونکہ حقِ تعلیم قانون کے تحت طلبہ کو کسی بھی قسم کی سزا دینا منع ہے۔

اس لیے اس نے نغمہ کو بلایا اور کہا۔ ’’میں نے تمھیں سزا دی تھی پر اس میں غلطی بھی تو تمھاری ہی تھی۔ میں نے کئی دفعہ سمجھایا تھا کہ جتنے مضامین ہیں اتنی بیاضیں خرید لو لیکن نہ جانے کیوں تمھاری سمجھ میں نہیں آتی۔‘‘

نغمہ نے معصوم لہجے میں کہا۔ ’’جی سر!‘

’’کیا سزا والی بات تم نے اپنے گھر پر بتائی؟‘‘

’’نہیں سر!۔۔ ۔۔ میں تو بتانا نہیں چاہتی تھی۔‘‘

’’تو تو۔۔ ۔۔ پھر؟‘‘

’’شاید کلاس کے کسی بچے نے بتا دی۔‘‘

’’اس کے بعد کیا کہا تمھارے والدین نے‘‘

نغمہ نے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں اپنے والدین کے جو تاثرات بتائے اس کا نچوڑ یہ تھا:

اگر استاد سے کوئی زیادتی سرزد ہو جائے اور سخت سزا دے تو طالب علم کو صبر کر لینا چاہیے۔ استاد کے عتاب کو برداشت کر لینا استاد کی محبت کو بر قرار رکھنے کا سبب بن جاتا ہے۔ جو شاگرد معلم سے بدتمیزی کرتا ہے وہ ساری زندگی جہالت کے اندھیروں میں رہتا ہے۔ اور دنیا و آخرت میں ذلیل و خوار ہوتا ہے۔

نغمہ کے والدین کا جواب سننے کے بعد وہ ایسا ہو گیا گویا منہ میں زبان نہ رکھتا ہو۔ اس کے چہرے پر ایک بے بس کر دینے والی خاموشی چھا گئی۔ غلط فہمی کی طنابیں ٹوٹ گئیں اور اداسی نے اپنے پیر پھیلا دیے۔

اس نے دل ہی دل میں کہا۔ ’’اتنی بے دردی سے مارنا ٹھیک نہیں۔۔ ۔۔ کیا واقعی میں ظالم ہوں؟‘‘

اب اسے ایک عجیب سی بے چینی رہ رہ کر ستانے لگی تھی۔ خاموش سمندر کی مانند اس کی پر سکون زندگی میں اچانک کوئی بڑا سا پتھر آ گرا تھا، جس کی وجہ سے زندگی میں تلاطم برپا ہو گیا تھا۔ اس نے اکیلے میں جا کر اپنے خود کے ہاتھ پر صرف ایک چھڑی دھیرے سے ماری تب اسے معلوم ہوا کہ اس نے کتنا ظلم کیا ہے۔

وہ اپنے آپ سے ہی سوال کرنے لگا۔ ’’میں کس لیے بچوں کو پڑھاتا ہوں؟۔۔ ۔۔ ایجوکیشن آفیسر کو جواب دینے کے لیے؟۔۔ ۔۔ ایجوکیشن آفیسر کو خوش کرنے کے لیے؟۔۔ ۔۔ اللہ تعالیٰ کو جواب دینے کے لیے؟۔۔ ۔۔ اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے کے لیے؟۔۔ ۔۔ موٹی تنخواہ پانے کے لیے؟۔۔ ۔۔ اپنی روزی کو حلال کرنے کے لیے؟۔۔ ۔۔ آخر کس لیے؟‘‘

لیکن ان سوالات کے جوابات اسے نہ ملے۔

نغمہ جماعت کی سب سے ہوشیار بچی تھی۔ وہ زیادہ تر سوالات کے درست جوابات دیتی اور سب سے پہلے دیتی۔ جب استاد اس کی تعریف کرتے تو پھولے نہ سماتی۔ چھٹی ہوتے ہی چوکڑیاں بھرتے ہوئے گھر جاتی اور خوشی خوشی اسکول کا حال سب کو سناتی۔

نغمہ کو سزا دینے والے واقعے کے چند روز بعد اسکول میں مضمون نویسی کا مقابلہ ہوا تھا۔ بچے نتائج جاننا چاہتے تھے لیکن پرچے ابھی تک جانچے نہیں گئے تھے۔ اس لیے اس نے یہ فیصلہ کیا کہ آج تمام پرچے جانچ لے گا، اور وہ تمام پرچے لے کر بیٹھ گیا۔ ایک ایک کر کے کچھ پرچے چیک کرنے لگا۔ پھر نغمہ کا پرچہ ہاتھوں میں آیا اور اس نے پڑھنا شروع کیا۔ پڑھتے پڑھتے اچانک آنکھوں سے آنسورواں ہو گئے۔ لاکھ ضبط کے بعد بھی آنسو رُک نہیں رہے تھے۔ آنسوؤں سے پرچے گیلے ہو رہے تھے۔ اس نے جب سے ہوش سنبھالا، اس طرح کبھی نہیں رویا تھا۔ ہاں۔ لڑکپن میں شاید کبھی رویا ہو۔ پر آج یہ کیا ہو گیا تھا کہ آنکھوں سے آنسوٹپ ٹپ گرتے جا رہے تھے۔ پچھتاوے کا غم اسے اندر ہی اندر کھائے جا رہا تھا۔ جلد از جلد تمام پرچے چیک کرنے تھے اور ہاتھ کام نہیں کر رہے تھے۔ تمام طلبہ کو رزلٹ بھی سنانا تھا۔ کیونکہ طلبہ بڑی بے صبری سے نتائج کا انتظار کر رہے تھے۔ پرچے جانچتے جانچتے وہ تخیل کی پرواز میں کھو گیا اور گزرے واقعات کو یاد کرنے لگا۔

اسے اپنی پوری جماعت پر بڑا اعتماد تھا۔ دوسرے اسکولوں کے معلمین سے، گاؤں کے لوگوں سے، محکمہ تعلیم کے افسروں سے، سماجی خدمت گاروں سے، وہ یہی کہتا تھا۔ ’’کبھی آئیے ہماری اسکول اور ہمارے بچوں کی تعلیم کا معیار دیکھیے۔ ان شاء اللہ متاثر ہو کر ہی جائیں گے۔‘‘

پھر ایک دن اسکول پر ای او (ایجوکیشن آفیسر) صاحب کی ویزٹ ہوئی تھی۔ ای او صاحب بچوں کی ترقی، اسکول کے نظم و ضبط، ماحول کی صاف صفائی، طلبہ کی ذاتی صاف صفائی اور عمدہ تحریری ریکارڈ سے خوش ہوئے تھے۔ اور اس کے کام کی بہت تعریف بھی کی تھی۔ آخر میں وہ بچوں کی بیاضیں چیک کر رہے تھے۔ نغمہ پروین نام کی طالبہ نے تمام مضامین کی مشق ایک ہی بیاض میں کی تھی۔ اس بات کو لے کر ای او صاحب ناراض ہو گئے۔ جو اب تک اس کی تعریف کر رہے تھے، اب باتیں سنانے لگے اور ناخوش ہو کر چلے گئے تھے۔ اس کی آرزو خاک میں مل گئی۔ غصّہ اس کے چہرے سے صاف عیاں تھا۔

ای او صاحب کے جانے کے بعد اس نے نغمہ کو بلا یا اور کہا۔ ’’میں نے کتنی دفعہ سمجھایا کہ جتنے مضامین ہیں اتنی بیاضیں تمہارے پاس ہونی چاہئیں۔ لیکن نہ جانے کیوں بات تمھاری سمجھ میں نہیں آتی۔‘‘

اوراس نے نغمہ کے دونوں ہاتھوں پر خوب بید برسائی۔ نغمہ روتے ہوئے کمرۂ جماعت کے ایک کونے میں بیٹھ گئی۔ اس کی آنکھوں سے آنسو گویا ابل رہے تھے۔ وہ کچھ وقت سسکیاں لیتی رہی پھر خاموش ہو گئی۔

اگلے دن اسکول میں مضمون نویسی کا مقابلہ تھا جس کا عنوان تھا ’’تعلیم اور دولت‘‘ مار کی وجہ سے نغمہ کے ہاتھ درد کر رہے تھے۔ پھر بھی اس نے چند لائنیں اس طرح لکھی تھیں:

’’سر میرا دل چاہتا ہے کہ میں بھی جتنے مضامین ہیں اتنی بیاضیں خرید لوں۔ سر تعلیم اور دولت میں دولت ہی بہتر ہے۔ کیونکہ سر اگر میرے ابو کو کام کے پیسے وقت پر مل گئے ہوتے تو میں بھی دوسرے بچوں کی طرح جتنے مضامین ہیں اتنی بیاضیں خرید لیتیں۔ لیکن میرے ابو نے وعدہ کیا ہے کہ پیسے ملتے ہی ہم بیاضیں خرید لیں گے۔‘‘

اس کے ان چند جملوں میں اتنا درد سما گیا تھا جتنا اسکول کے تمام کمروں میں نہ سما پاتا۔

٭٭٭









وقت



وہ اس بات کو جانتی تھی کہ جہاں حلال کی کمائی ایک نعمت ہے وہاں حرام کی کمائی سببِ زوال بھی ہے، لیکن حقیقت سے منہ موڑ بیٹھی تھی۔ جہاں ضرورت ہو وہاں لوگوں کی خوشنودی کے لیے پیسہ پانی کی طرح خرچ کر دیتی تھی۔ وہ اس بھرم میں تھی کہ اس کے عشرت کدے کا آفتاب کبھی غروب نہیں ہو گا۔ لیکن اسے اس بات کی سدھ بدھ کہاں تھی کہ سر سے کبھی چھاؤں ڈھلتی بھی ہے اور لاکھوں کا اثاثہ منٹوں میں راکھ ہو جاتا ہے۔

رضوان بڑی امیدیں لے کر اپنی چاچی حُسنہ کے پاس آیا اور کہا تھا۔ ’’ڈاکٹر نے بتایا ہے کہ شہر کے بڑے اسپتال میں داخل کرانا ہو گا۔ علاج میں بہت خرچ آئے گا۔ بہت پرانا ذیابیطس کا مرض ہے۔ پیسوں کی کمی کی وجہ سے مکمل علاج نہ کرا سکے اور اب بیماری گردے اور دل پر اثر انداز ہو گئی ہے۔ اب آپ ہی کا سہارا ہے۔ میری مدد کیجیے، میری بیوی کی زندگی اور موت کا سوال ہے۔ میں آپ کے پیسے جلد ہی واپس لوٹا دوں گا۔‘‘

چاچی نے کہا: ’’بیٹا یہ سن کر بہت دکھ ہوا۔ لیکن میں کیا کروں، آج کل کاروبار میں بڑا نقصان ہو رہا ہے۔ مجھے خود روپیوں کی بہت ضرورت ہے۔‘‘

رضوان نے درخواست کی۔ ’’پیسوں کی ضرورت تو دنیا کے سب سے امیر شخص کو بھی ہے چاچی۔۔ ۔۔ لیکن اس وقت میں مجبور ہوں اور میرے پاس کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں۔ آخر کار میں آپ کا بھتیجا ہوں کوئی پرایا نہیں۔‘‘

رضوان کی گڑگڑاہٹ نے چاچی پر کوئی اثر نہیں کیا۔ اس کی امیدوں پر پانی پھر گیا اور وہ چاچی کے دروازے سے خالی ہاتھ لوٹ گیا۔ چاچی کا سود کا کاروبار تھا۔ بڑا ہی عالیشان گھر تھا۔ چاروں طرف دولت کی ریل پیل تھی۔ ناشتے میں روزانہ پھل فروٹ استعمال ہوتے اور چکن پکتے تھے۔ گھر میں کاجو، بادام، کشمش وغیرہ سے ڈبے بھرے رہتے تھے۔ ہر کمرہ فانوس کی روشنی سے جگمگا تا تھا۔ ہر طرح کے عیش و آرام کی چیزیں ان کے عشرت کدے میں موجود تھی۔ حرام کمائی نے چاچی کے دل کو اس قدر پتھر بنا دیا تھا کہ اکثر سوالی ان کے دروازے سے خالی ہاتھ لوٹ جاتے تھے۔ گھر کے کام اور چاچی کی خدمت کے لیے ملازمہ تعینات تھی۔

چاچی کے سبھی رشتہ دار غریب تھے۔ ضرورت کے وقت وہ چاچی کا ہی دروازہ کھٹکھٹاتے تھے۔ اسی وجہ سے چاچی نے ان سبھی سے فاصلہ بنائے رکھا تھا۔

رضوان تعلیم یافتہ نوجوان تھا لیکن اب تک کوئی اچھی نوکری نہیں ملی تھی۔ وہ بہت سی جگہوں پر کام کر چکا تھا۔ ہر نئی جگہ پہ کچھ نہ کچھ مسائل تھے۔ جن میں سب سے بڑا مسئلہ معقول تنخواہ نہ ملنا تھا۔ وہ جب بھی نئی نوکری جوائن کرنے جاتا ماں دعا میں بیٹھ جاتی تھیں۔

رضوان کے ابو، رحمت اللہ تعلیم کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتے تھے، لیکن غریبی کی وجہ سے ان کی یہ حسرت پوری نہ ہو سکی۔ اس لیے انھوں نے اپنے چھوٹے بھائی عظمت اللہ کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی تھی اور اس کے تعلیمی اخراجات بھی برداشت کیے تھے۔ رضوان کے امّی ابّو بڑھاپے کو پہنچ گئے تھے۔ جن کی خدمت اور دوا دارو برابر جاری تھی۔ رضوان کولہو کے بیل کی طرح زندگی کی گاڑی کو کھینچ رہا تھا۔ وہ اکثر سوچتا تھا کہ جب وہ چھوٹا تھا تو ماں باپ کے چہرے کتنے رعب دار اور چمک دار تھے لیکن اب کتنے ٹوٹے پھوٹے ہو گئے ہیں۔

چاچا کو ملازمت مل جانے کے بعد ان کی شادی کرا دی گئی تھی۔ چاچی تعلیم یافتہ تھی لیکن صرف ڈگریوں کی حد تک کیوں کہ اقدار کسی بازار میں خریدے نہیں جاتے۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے چاچا بازار گئے ہوئے تھے۔ شہر میں فسادبرپا ہو گیا۔ انسان حیوان بن گئے۔ اپنے مذہب اور اپنے آقا کی حفاظت کے لیے انسان ہی انسانوں کو جانوروں کی طرح مار رہے تھے، کاٹ رہے تھے۔ جانے والے کو کون روک سکتا ہے بھلا۔ مرنے والے مر گئے لیکن وہ جس کے لیے مرے اس نے ہی ان کی حفاظت نہیں کی۔ اس فساد میں چاچا کی بھی ناگہانی موت ہو گئی تھی۔ تلوار سے ان کے جسم پر کئی وار کیے گئے تھے۔ ابھی ان کی شادی کو تین سال ہی تو ہوئے تھے، ابھی انھوں نے زندگی کی شروعات ہی کی تھی کہ اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ ان کی موت کے بعد کوئی روکنے ٹوکنے والا نہ رہا اور چاچی خود مختار ہو گئی۔ شوہر کی جواں مرگی کا کچھ دن سوگ منایا گیا پھر زندگی اپنے دھارے پر آ گئی۔ چاچی نے سود کا کاروبار شروع کر دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے کاروبار پھل پھول گیا۔ گھر میں دولت کی ریل پیل ہو گئی۔

8 نومبر 2016 کی شب کو حکومت ہند کی طرف سے اعلان ہوا کہ پانچ سو اور ایک ہزار کے نوٹ آج رات بارہ بجے کے بعد لیگل ٹینڈر نہیں رہیں گے۔ یعنی لین دین میں ان کا چلن بند ہو جائے گا۔ لہٰذا جس کسی کے پاس بھی پانچ سو اور ایک ہزار کے کرنسی نوٹ ہوں، وہ 31 دسمبر 2016 تک بینک میں جمع کرا سکتے ہیں۔ اگر آپ کے بینک اکاؤنٹ میں ڈھائی لاکھ سے زیادہ رقم جمع ہوتی ہے تو آپ کو اس کا حساب دینا ہو گا، اگر آپ جمع کی گئی رقم کا حساب نہ دے سکیں تو جمع رقم پر 200 فی صد جرمانہ اور قانون کے تحت سزا بھی ہو گی۔

ٹی وی پر یہ خبر سن کر چاچی کے ہوش اڑ گئے، طبیعت گھبرانے لگی، آنکھوں سے نیند اوجھل ہو گئی، ایک خوف ذہن پر طاری ہو گیا، کبھی دھڑکنیں اچانک تیز ہو جاتیں، کبھی بدن پسینے سے شرابور ہو جاتا۔ وہ ساری رات ایک لمحہ بھی سو نہ سکی۔ جیسے تیسے کروٹ بدلتے رات کٹی۔ صبح ہوتے ہی رضوان کو بلایا اور کہا۔ ’’تجھے اپنی بیوی کے علاج کے لیے پیسوں کی ضرورت تھی۔ یہ پچاس ہزار روپے ہیں، رکھ لے علاج میں کام آئیں گے۔ ویسے تیرا بینک اکاؤنٹ تو خالی ہی ہو گا۔ یہ دو لاکھ روپے ہیں، اسے تو اپنے اکاؤنٹ میں جمع کر دے پھر بعد میں نکال کر مجھے لوٹا دینا۔‘‘

رضوان نے انکار میں سر ہلاتے ہوئے کہا: ’’چاچی مجھے کسی غیر قانونی کام کا حصہ نہیں بننا ہے۔‘‘

وہ بغیر پیسے لیے ہی وہاں سے نکل گیا۔ اس کے بعد چاچی نے ایک ایک کر کے سبھی رشتے داروں کو بلایا پر کوئی بھی اس کام کے لیے راضی نہ ہوا۔ مجبوراً چاچی نے نوکر چاکر اور دوسرے جان پہچان کے لوگوں کے اکاؤنٹس میں اپنے ڈھائی ڈھائی لاکھ روپے جمع کروائے۔ پیسے جمع ہونے کے بعد ان لوگوں نے دوبارہ چاچی کو کبھی اپنی صورتیں نہ دکھائیں۔ پیسے کے لیے ناطہ توڑنے والے اب پیسے چھپانے کے لیے رشتے دار ڈھونڈ رہے تھے۔ جن لوگوں نے نوٹ کی بجائے دوست جمع کیے تھے انھیں کوئی پریشانی نہیں تھی کیونکہ دوست تو پرانے بھی چل رہے تھے۔

وقت کب کون سی کروٹ لے کوئی نہیں بتا سکتا۔ حکومت کے اس اعلان کے بعد چاروں طرف عجیب منظر تھا، جس کے پاس جتنا پیسہ وہ اتنا پریشان تھا۔ بند ہو چکے پرانے نوٹوں کو جمع کرنے کے لیے بینکوں کے باہر لمبی لمبی لائنیں لگی تھیں۔ کھانے کو کچھ ملے نہ ملے لیکن دھوپ تو سبھی کھا رہے تھے۔ حکومت کے اس فیصلے سے گیہوں کے ساتھ ساتھ گھن بھی پس گئے تھے۔ پھر ایک روز انکم ٹیکس افسران نے چاچی کے گھر چھاپا مارا۔ کالا دھن ضبط کر لیا گیا۔ کورٹ میں مقدمہ درج ہوا۔ جس گھر میں طرح طرح کی نعمتیں بنتی تھیں وہاں اب افلاس نے یوں ڈیرہ ڈال دیا کہ فاقہ کشی کی نوبت آ گئی۔

٭٭٭









زہر



مجھے اندازہ تھا کہ کیا ہونے والا ہے۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ یہ کس نے کیا اور اس میں کس کا قصور ہے۔ لیکن میں کچھ نہیں کر سکا۔ میں کچھ کر بھی نہیں سکتا۔ میں صرف تماشائی بنا رہا کیونکہ میں ایک انسان ہوں، ایک کمزور انسان۔ در اصل میرے بس میں کچھ بھی نہیں۔ میں نے جسے ووٹ دے کر اپنا لیڈر منتخب کیا تھا اب سب کچھ وہی ہے۔ وہ مجھے بھی غدار قرار دے سکتا ہے۔ آج کل وہ دیش بھکتی کے سرٹیفکیٹ بانٹ رہا ہے، نوجوانوں کو گمراہ کر رہا ہے ؛ لوگوں کی مجبوری کا فائدہ اٹھا رہا ہے۔

لیکن آج وہ سیاست داں بڑا بے قرار تھا۔ بار بار ایک سوال اس کے ذہن سے ٹکرا رہا تھا کہ کیا واقعی وہ اس بار ہار جائے گا؟ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ جلد از جلد کچھ کیا جائے۔ وہ ہار سکتا ہے، یہ سوچ سوچ کر وہ ایک اذیت ناک کرب میں ڈوبتا چلاجا رہا تھا۔ شعلہا فشانی کرتے وقت، سینہ تان کر جھوٹ بولتے وقت، اور نفرت کا بیج بوتے وقت اس کی زبان شل ہو جائے، ایسا بھی نہیں تھا۔ لیکن آج اپنی شکست کا ماحول دیکھ کر اس کی روح کانپ رہی تھی۔ اور غصے میں وہ سوچ رہا تھا کہ آسمانی چھت پھاڑ دے، زمین کا سینہ چیر دے، جو سامنے آئے تلوار سے اس کی گردن الگ کر دے، ہر وہ چیز جو ہار کا سبب بن سکتی ہے اسے تہس نہس کر دے۔

وہ سپنوں کا سوداگر، سپنے بیچنے میں بڑا ماہر تھا۔ غریبی، بے روزگاری اور مہنگائی کے بوجھ تلے دبے لوگ جب اس کی چکا چوند کر دینے والی سبھائیں دیکھتے اور تقریر یں سنتے تو اتنے متاثر ہوتے کہ ان کے جذبات میں ابال پیدا ہو جاتا اور زبان سے بے اختیار اس کے حق میں نعرے بلند ہو جا تے۔ جذبات سے کھیلنا اور انھیں بھڑکا کر لوگوں کی ہمدردی حاصل کرنا اسے اچھی طرح آتا تھا۔ بانٹو اور راج کرو کی پالیسی کے تحت وہ اپنی لفاظیوں سے نفرت کا بازار گرم کر دیتا تھا۔

اجلاس میں شامل بھیڑ کے ذہنوں میں خوف بھر نے، خود کو ان کا محافظ ثابت کرنے میں وہ کامیاب ہو گیا تھا اور لوگ اسے اپنا مسیحا سمجھنے لگے تھے۔ اس کی پر زور تقریر کے سحر میں پھنس کر ہر کوئی یہی محسوس کرتا کہ وہی تو ہے جو ان کی زندگی بدل سکتا ہے۔ جو غریبی، مہنگائی اور بے روز گاری سے نجات دلا سکتا ہے اور ان کی حفاظت کر سکتا ہے۔

عوام سے کئی وعدے کر کے اس نے اقتدار حاصل کیا تھا۔ لیکن اس کے جھوٹے وعدوں نے لوگوں کی امیدوں کو روند ڈالا تھا۔ لوگوں کے چہرے اتر گئے تھے۔ ان کے بھروسے کا خون ہو گیا تھا۔ آنکھیں سونی ہو چکی تھی جس میں نہ تو سپنے بچے تھے نہ ہی کوئی امنگ۔ اس کے دورِاقتدار میں پرانی تجارتیں بند ہو گئی تھیں۔ کیے ہوئے سبھی وعدے کھوکھلے اور سپنے جھوٹے ثابت ہوئے تھے۔ ملک کی معیشت کی کمر ٹوٹ گئی تھی اور بے روزگاری میں اضافہ ہو گیا تھا۔ ترقی، اچھی زندگی، روزگار، بینک اکاؤنٹ میں لاکھوں روپے۔۔ ۔۔ اس طرح کے لفاظی کے جال میں پھنس کر سبھی کے خواب چکنا چور ہو گئے تھے۔ حالانکہ اس کا نام زبان پر آتے ہی ایک خونی کی تصویر آنکھوں کے سامنے تیرنے لگتی تھی۔ وہ ایک ایسا درندہ تھا جس کے دامن میں خون کے کئی دھبے دفن تھے۔

اب دوبارہ الیکشن ہونے والے تھے اور وہ پریشان ہو گیا تھا۔ اس کا جادو پھیکا پڑ رہ تھا۔ لوگ اس کی چال بازیوں کو سمجھ چکے تھے۔ بے روزگار نوجوان سڑکوں پر جلوس نکال کر اس کی مخالفت میں اتر آئے تھے۔ اب وہ سوچ رہا تھا کہ ایسا کوئی کرشمہ ہو جائے، یکا یک فضا بدل جائے اور ماحول اس کے لیے سازگار ہو جائے۔

ادھر ٹی وی چینلس زہریلے اژدھے کی طرح آگ اگل رہے تھے۔ صبح صبح چائے کی گرم گرم چسکیوں کے ساتھ اردو اخبار کی نمایاں سرخی پڑھنے اور شام کو ہندی نیوز چینل پر خبریں دیکھنے کے بعد میں تذبذب میں پڑ گیا تھا۔ اور سوچنے لگا تھا، کیا میرا ذہن غلام ہو گیا ہے؟ کیا میں خود اپنی کوئی رائے قائم نہیں کر سکتا؟ کیا میری سوچ و فکر کے عناصر شل ہو چکے ہیں؟

ملک میں الیکشن کا بھوت ہر کسی کے سر چڑھ کر بول رہا تھا۔

اخبار کی نمایاں سرخی تھی ’’مسلمانوں میں اتحاد کی کمی۔‘‘

اور ٹی وی پر خبر نشر ہو رہی تھی ’’مسلمان طے کریں گے کہ کس کی سرکار بنے گی۔‘‘

ایک روز ایک غریب نوجوان روزگار کی تلاش کرتا ہوا اس سیاست داں کی دہلیز تک آ پہنچا تھا۔ وہ اپنے باپ کو، علاج کے لیے گاؤں سے شہر لے آیا تھا اور ماں گاؤں میں اکیلی تھی۔ اسے پیسے چاہیے تھے، اپنے باپ کے علاج کے لیے۔ باپ اسپتال میں کھانستے کھانستے بے دم ہو رہا تھا اور وہ پیسوں کا انتظام کرنے کے لیے دربدر بھٹک رہا تھا۔ وہ کچھ بھی کرنے کو تیار تھا کیونکہ اسے اپنے باپ کی جان بچانا تھی۔

وہ نوجوان شہر کی سڑکوں پر چلتے چلتے تھک گیا تھا۔ قسمت کے ستارے گردش میں آ گئے تھے۔ ہمت دم توڑ گئی تھی، قدم لڑکھڑا گئے تھے۔ اُمیدوں کے لاشے اس کے مقابل کفن پہنے پڑے تھے۔ دفعتاً اُمید کی ایک نئی کرن سینے میں جل اٹھی۔ روشنی دھیرے دھیرے بڑھنے لگی۔ اور ایک بالکل نئی انجان ڈگر پر وہ چلنے کو تیار ہو گیا۔

پھر ایک عبادت گاہ میں بم بلاسٹ ہوا۔ کئی بے گناہوں کی جانیں گئیں۔ سیاست داں نے اپنی زبان سے نفرت کے انگارے اُگلے۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک کا ماحول بدل گیا۔ چاروں طرف لوٹ مار، توڑ پھوڑ، قتل و غارت گری، خون خرابا اور وحشت و بر بریت کا ننگا ناچ ہو ا۔ کئی لاشیں گریں اور عوامی ملکیت نذر آتش کر دی گئیں۔ وہ پھر سے لوگوں کا مسیحا بن گیا اور الیکشن جیت گیا۔ جمہوریت خوف کی بیڑیوں میں جکڑی بے بس ہو گئی تھی۔ جیت کے نشے میں ڈوبا ہوا وہ اپنے ساتھیوں سے کہہ رہا تھا۔

’’اب کی بار الیکشن جیتنا بہت مشکل ہو گیا تھا، نہ کوئی آتنک وادی حملہ ہو رہا تھا، نہ کوئی فرقہ وارانہ فساد، اور نہ ہی مذہبی جذبات مجروح ہونے والا کوئی حادثہ پیش آ رہا تھا۔ اس لیے یہ سب کرنا پڑا۔‘‘

الیکشن جیت کر آئے ان کے ایک ساتھی نے سوال کیا۔ ’’لیکن بم بلاسٹ کرنے والا تو پڑوسی ملک کا واسی تھا؟‘‘

’’وہ ہمارا ہی آدمی تھا۔‘‘

’’کیسے؟۔۔ ۔۔ ۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ وہ ہمارے مذہب کا نہیں تھا اور تحقیقی رپورٹ بھی یہی کہتی ہے۔‘‘

’’وہ ہمارا ہی آدمی تھا، لیکن ہم نے اوپر سے نیچے تک اور اندر سے باہر تک اس کی پہچان بدل دی تھی۔ اور اسے بلی کا بکرا بنایا۔ وہ کچھ بھی کرنے کو تیار تھا کیونکہ اسے اپنے باپ کی جان بچانا تھی، لیکن افسوس اب دونوں باپ بیٹے اس دنیا میں نہیں رہے۔‘‘

٭٭٭







یہ ماجرا کیا ہے!



وہ پورا منظر بڑا ڈراؤنا تھا۔ سورج زمین پر قہر برسا رہا تھا۔ آگ شعلے اگل رہی تھی۔ اور یہ دیکھ کر سبھی کے چہروں پر خوف کی چادر تن گئی تھی۔ ہم ایک عمارت کی چوتھی منزل پر واقع کوچنگ سنٹر میں تھے اور پڑھائی میں محو تھے کہ ہمیں اپنے اطراف ہلکا ہلکا سا دھواں اٹھتا محسوس ہوا۔

ہمارے ٹیچر نے شک ظاہر کیا۔ ’’شاید باہر کوئی آگ جلا رہا ہو گا۔‘‘

پھر دھیرے دھیرے دھواں بڑھتا چلا گیا۔ اب کی بار جو دھواں اٹھا تو آگ کی لپٹیں بھی ساتھ لے آیا۔ سانس لینا مشکل ہو گیا تھا، دم گھٹتا جا رہا تھا۔ لمحے بھر میں ہم نے دیکھا کہ یکایک آگ ہمارے بہت قریب پہنچ چکی ہے اور پل پل شعلے اگل رہی ہے۔ پھر کیا تھا، چاروں جانب سے چیخ و پکار کی دلخراش آوازیں اٹھنے لگیں۔ کسی کی کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کیا جائے۔

وہ بہت بھیانک آگ تھی!! پتا نہیں کب، کیسے، کہیں سے ایک چنگاری پیدا ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے شعلوں میں تبدیل ہو گئی۔ ہم چہار جانب دہکتی ہوئی آگ کے گھیرے میں تھے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس آگ کے حصار سے کیسے باہر نکلیں؟ تمام راستے بند ہو گئے تھے۔ بس ایک ہی راستہ بچا تھا اور وہ تھا بلڈنگ کی چوتھی منزل سے نیچے چھلانگ لگانا۔ چھلانگ لگاؤ یا جل کر خاک ہو جاؤ۔ چھلانگ لگانے میں زندگی کا معمولی امکان ضرور تھا لیکن تب بھی ایک طرف کنواں تو دوسری طرف کھائی۔

مجھے اونچائی سے بڑا ڈر لگتا تھا۔ میں 10 فٹ کی اونچائی سے بھی نیچے دیکھتا تو میری آنکھیں گھومنے لگتی تھیں۔ اب آگ کی تپش میں نے اپنے بہت ہی قریب محسوس کی۔ اپنے آپ کو سمیٹ کر میں خود کو گویا چرانے کی کوشش کرنے لگا، مگر اس سے پہلے کہ میں سنبھل پاتا، آگ نے تقریباً مجھے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ میرے حلق سے ایک دل سوز چیخ نکلی مگر آگ کی لپٹوں سے تڑپتے بچوں کی درد ناک چیخ و پکار میں مل کر گم ہو گئی۔ میں نے دیکھا بہت سارے بچوں نے کھڑکی سے چھلانگ لگانے کا فیصلہ کر لیا تھا اور چند نیچے کود بھی چکے تھے۔ میں بھی ان میں ہو لیا اور حواسِ باختہ نیچے چھلانگ لگا دی۔

مجھے وہ منظر یاد آ گیا جب ایک بہت اونچی جگہ پر آگ لگی ہوئی تھی اور وہاں موجود کیڑے مکوڑے اپنی جان بچانے کے لیے ایک گہری و پتھریلی کھائی میں چھلانگ لگا رہے تھے۔ میری حالت کچھ ایسی ہی ہو گئی تھی، سامنے چوتھی منزل کیا؟ اگر گہری پتھریلی کھائی بھی ہوتی تو تب بھی میں کود ہی جاتا۔ اب سوچتا ہوں تو بڑی حیرت ہوتی ہے کہ نہ جانے اتنی ہمت مجھ میں کہاں سے آ گئی تھی؟

ماں بابا نے مجھے گھر سے اس امید پر رخصت کیا تھا کہ میں تعلیم حاصل کر کے زندگی جینے کے ہنر سیکھ سکوں۔ اسکول کی چھٹیاں چل رہی تھیں۔ ہم سب گھومنے کے لیے باہر جانے والے تھے۔

میں نے ماں سے کہا۔ ’’میں آج کی کوچنگ کلاس کر لیتا ہوں پھر چلیں گے۔‘‘

ماں نے کہا۔ ’’ٹھیک ہے جلدی آ جانا۔‘‘

جب میں گھر سے نکلا تھا تو ماں بابا نے میرے سر پر ہاتھ پھیر کر بالوں کو بے ترتیب کر دیا تھا اور کہا تھا۔ ’’ہمارا لال پڑھ لکھ کر بہت بڑا آفیسر بنے گا، اور ملک کا نام روشن کرے گا۔‘‘

ہے بھگوان! وہ اب بھی دروازہ کھلا رکھے ہوئے ہوں گے۔ اور سوچ رہے ہوں گے کہ معمول کے مطابق میں دوڑا دوڑا گھر آؤں گا۔ ابھی کچھ مہینوں پہلے ہی کی تو بات ہے، میں بھاگتے بھاگتے گھر کے چبوترے سے نیچے گر گیا تھا اور میرے گھٹنے میں زبردست چوٹ آ گئی تھی۔ یہ سب دیکھ ماں رو رو کر نڈھال ہو گئی تھیں اور بابا نے تو ڈاکٹروں کی ایک ٹیم کھڑی کر دی تھی۔

میں جب اوپر سے نیچے گر رہا تھا تو میری چیخیں نکل گئیں، بڑا ڈر لگ رہا تھا۔ پھیپھڑوں میں ہوا بھر گئی تھی۔ میں دھپ سے زمین پر آگرا۔ جسم بے حس ہو گیا تھا۔ آنکھوں کے سامنے گھپ اندھیرا چھا گیا تھا۔ پھر تھوڑی دیر بعد اچانک پورے جسم میں درد کی ایک سنامی اٹھی اور ایسا لگا جیسے جسم کی ساری ہڈیاں چکنا چور ہو گئی ہوں۔ اس سے پہلے کہ لوگ مجھے اٹھاتے اور اسپتال لے جاتے، میری روح خود بخود اٹھ کر کھڑی ہو گئی تھی۔

کسی نے بتایا کہ آگ شارٹ سرکٹ کی وجہ سے لگی تھی۔ اس ہال میں تقریباً تیس طلبہ تھے۔ جو امتحان کی تیاری کے لیے جمع ہوئے تھے۔ لیکن ہے بھگوان! یہ کیسے امتحان میں تو نے ڈال دیا کہ ہم اکیس بچے اپنی زندگی ہی ہار بیٹھے ہیں۔

حالانکہ ہمارا شہر سورت، جسے کپڑوں کا شہر کہتے ہیں کہ جہاں بہت بڑے پیمانے پر کپڑا تیار ہوتا ہے اور پورے ملک میں برآمد کیا جاتا ہے۔ لیکن نیچے کھڑے سبھی لوگ ہاتھوں میں موبائل لیے ویڈیوز بنا رہے تھے۔ اگر وہ اپنے ہاتھوں میں کچھ گز کپڑا پکڑ لیتے تو کیڑے مکوڑوں کی طرح چوتھی منزل سے کود رہے بچوں کو تھام لیتے۔ لوگ مددگار بن سکتے تھے لیکن تماشائی بن گئے، آخر یہ ماجرا کیا ہے!!!

٭٭٭







حادثہ



گنگا کے چہرے پر اداسی کی لکیریں کچھ زیادہ ہی نمایاں ہو گئی تھیں اور آنکھوں کی ویرانی تو شکستہ کھنڈرات کا منظر پیش کر رہی تھی۔ وہ چپ چاپ بیٹھی سوچوں میں گم تھی۔ شاید وہ اپنی زندگی کے نشیب و فراز پر غور کر رہی تھی۔ جو لوگ اس کی مدد کر رہے تھے اس کے لیے تو وہی اس کے بھگوان تھے۔ بھینچے ہوئے چہرے پر فکر کی لکیریں اور سوکھے ہوئے ہونٹوں پر جمی ہوئی پپڑیاں اس کی پریشانیوں کا کھلا اظہار تھیں۔ تقریباً تین برس پہلے کی ہی تو بات ہے کہ اس کے چہرے پر خوشیاں ہی خوشیاں ناچتی پھرتی تھیں۔ غم اور اداسی اس سے کوسوں دور تھے۔ لیکن جب سے اس کا شوہر اسے اکیلا چھوڑ کر اس دنیا سے چلا گیا تب سے اس کی زندگی ویران کھنڈرات کا منظر ہو گئی۔

تقریباً تین سال پہلے کا ذکر ہے۔

زندگی بڑی تیز رفتاری سے بھاگ رہی تھی۔ چہار سو انسان دوڑ رہے تھے۔ گویا گاڑیوں کی ریس لگی ہوئی تھی۔ صبح کے اجالے کب سے پھیل چکے تھے۔ صفائی والا اپنے کام میں مصروف تھا۔ بچے اسکول جا رہے تھے۔ چھن چھن کر آتی سورج کی کرنیں زمین پر رینگتی ہوئی پھیل رہی تھیں۔ بہت سے لوگ چہل قدمی کرتے ہوئے ادھر سے ادھر گزر رہے تھے۔ پرندوں کی چہچہاہٹ ایک سرور بخش سنگیت سے بھی زیادہ بھلی معلوم ہو رہی تھی۔ آسمان میں پرندوں کے غول نظر آ رہے تھے۔ سامنے کھلی ہوئی بڑی نالی پر مکھیوں کا جھلڑ بھنبھنا رہا تھا۔ قریب کی بلڈنگ پر بیٹھے چند کبوتر غٹرغوں کر رہے تھے۔ سڑکوں پر پیدل چل رہے راہ گیر، اُن قدرتی مناظر سے سے لطف اندوز ہو رہے تھے کہ اچانک بھاگتی دوڑتی زندگی تھم گئی، سڑک پر حادثہ ہو گیا، ارد گرد بھیڑ جم گئی۔ رانا وائن بار کے سامنے ہائی وے نمبر6 پر ایک مزدور پرکاش کا ایکسیڈنٹ ہو گیا اور موقعِ واردات پر ہی اس کی موت واقع ہو گئی۔ چند روز بعد اس حادثے کی خبر شہر کے ایک وکیل جوشی صاحب کو ہوئی تو انھوں نے کورٹ میں مقدمہ (Accident Claim) درج کرانے کا مشورہ دیا تاکہ متعلقین کو مالی امداد مل سکے۔ ایسے معاملات میں اکثر مقدمے کی پیروی کرنے والا وکیل ہی تمام بھاگ دوڑ کرتا ہے اور خرچ بھی خود ہی اٹھاتا ہے۔ اور ملنے والی رقم میں سے 10 یا 20 فیصد رقم بطورِ فیس وصول کرتا ہے۔ ایسے کیس میں بیمہ کمپنی اور گاڑی مالک کو پارٹی بنایا جاتا ہے۔ وکیل صاحب کے مشورے کے مطابق پرکاش کی بیوی گنگا نے مقدمہ درج کرانے کے لیے رضامندی ظاہر کی۔ کیس کی پیروی کرنا جوشی صاحب نے خوشی خوشی قبول کر لیا۔ کورٹ میں کیس داخل کرنے سے پہلے ضروری کاغذات تیار کرنے کے دوران جوشی صاحب نے گنگا سے چند سوالات کیے:

’’کیا تمہارا کسی بینک میں اکاؤنٹ ہے؟‘‘

’’نہیں صاحب۔‘‘

’’اور پاسپورٹ سائز فوٹوز ہیں؟‘‘

’’نہیں صاحب۔‘‘

’’ٹھیک ہے کوئی بات نہیں، میں بنا لوں گا۔‘‘

’’آپ ہمارے بھگوان ہیں صاحب۔‘‘

پھر وکیل صاحب نے اپنے جیب سے موبائل نکال کر اس کا فوٹو لے لیا۔ اور بہت سے ضروری کاغذات پر گنگا کے دستخط لیے۔ مقدمہ درج ہوا۔

گنگا پڑھی لکھی نہیں تھی لیکن اسے اپنا نام لکھنا آتا تھا۔ گنگا کی دو چھوٹی چھوٹی بیٹیاں تھیں۔ پرکاش کے دو بھائی تھے، دونوں ان پڑھ تھے اور مفلسی میں زندگی گزار رہے تھے۔ وہ بھی پرکاش کی طرح روز کنواں کھودتے اور روز پانی پیتے تھے۔ دو دن تک دونوں بھائیوں نے گنگا اور اس کی بچیوں کی فکر کی پھر انھیں ان کے حال پر چھوڑ کر چلے گئے اور اپنی اپنی زندگی میں مصروف ہو گئے۔ مسلسل دو سال تک مقدمہ چلتا رہا اور ایک اچھی خاصی رقم منظور ہو گئی۔ پیسے گنگا کے اکاؤنٹ میں جمع ہوئے۔ یہ خوشخبری گنگا کو سنانے کے لیے جوشی صاحب اُس کے گھر کی جانب نکل پڑے۔ وہ راستے میں تھے اور طرح طرح کے خیالات ان کے دماغ پر وار کر رہے تھے۔

وہ ان پڑھ ہے۔ میں نے کئی بار کورے کاغذات پر اس کے دستخط لیے ہیں۔ اس کا بینک اکاؤنٹ میں نے ہی کھلوایا تھا۔ اسے تو معلوم بھی نہیں کہ اس کا کوئی بینک اکاؤنٹ بھی ہے۔ اگر میں یہ روپے اسے نہ دوں تو اسے کچھ بھی معلوم نہیں ہو گا۔ نہیں۔۔ ۔۔ نہیں۔۔ ۔۔ ۔ وہ تو پوچھے گی، جو پیسے ملنے والے تھے اس کیس کا کیا ہوا۔ ہاں، اسے تھوڑی سی رقم دے دیتا ہوں، باقی سب میں رکھ لوں گا، یہ ٹھیک رہے گا۔۔ ۔۔ لیکن میں رکھوں گا کیسے؟۔۔

۔۔ پیسے تو اس کے اکاؤنٹ میں جمع ہوئے ہیں۔ ہاں، جس طرح میں نے اس سے پہلے کئی بار کورے کاغذات پر اس کے دستخط لیے ہیں۔۔ ۔۔ اسی طرح اور بھی لے سکتا ہوں۔۔ ۔۔ پہلے بینک سے چیک بک لوں گا۔ اس کے بعد چیک کے ذریعے وہ پیسے اپنے کھاتے میں ٹرانسفر کرا دوں گا۔۔ ۔۔ پیسے مل جانے کے بعد اس کا اکاؤنٹ بھی بند کرا دوں گا۔

جوشی صاحب نے اپنے منصوبے کے مطابق کام کیا۔ اور وہ رقم جو گنگا کے بینک کھاتے میں جمع ہوئی تھی، ان کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر ہو گئی۔ ایک روز انھوں نے پوری رقم بینک سے نکالی۔ اور اپنے گھر کی جانب چل دیے۔ ان کے ہاتھوں میں نوٹوں سے بھرا بیگ تھا۔ وہ سوچ رہے تھے: ’’پہلے گھر جاؤں گا۔ رقم کو محفوظ جگہ رکھ دوں گا۔ پھر اس میں سے تھوڑی سی رقم گنگا کو، اس کے گھر جا کر دے دوں گا۔‘‘

چلتے چلتے اچانک ایک پھٹکا لگا ان کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ پھر دھیرے دھیرے اندھیرا چھٹتا گیا اور دھندلا دھندلا سا کچھ دکھائی دینے لگا۔ تب انھوں نے دیکھا کہ ارد گرد بہت بھیڑ جمع ہو گئی تھی۔ وہ سوچ میں پڑ گئے یہ کیسی بھیڑ ہے۔ تھوڑی دیر بعد جب کچھ کچھ سمجھ آنے لگا تب انھوں نے دیکھا کہ وہ سڑک کے بیچوں بیچ پڑے تھے، خون میں لت پت تھے، سر پھٹ گیا تھا۔ بھیڑ سے آنے والی ایک آواز ان کے کانوں سے ٹکرائی: ’’وہ سفید رنگ کی کار تھی۔ کسی نے کار کا نمبر نوٹ کیا کیا؟‘‘

لوگ چہ میگوئیاں کر رہے تھے لیکن سوال کا کسی نے بھی کوئی جواب نہیں دیا۔ سامنے لگے بورڈ پر ان کی نظر پڑی، جس پر لکھا تھا:

رانا وائن بار ہائی وے نمبر 6

بورڈ پڑھتے ہی ان کے کانوں میں یہ آوازیں گونج اٹھیں

’’کیا تمہارا کسی بینک میں اکاؤنٹ ہے۔‘‘

’’نہیں صاحب۔‘‘

’’اور پاسپورٹ سائز فوٹوز ہیں۔‘‘

’’نہیں صاحب۔‘‘

’’ٹھیک ہے کوئی بات نہیں۔ میں بنا لوں گا۔‘‘

’’آپ ہمارے بھگوان ہیں صاحب۔‘‘

’’آپ ہمارے بھگوان ہیں صاحب۔‘‘

’’آپ ہمارے بھگوان ہیں صاحب۔‘‘

پھر ان کی آنکھوں کے سامنے دھیرے دھیرے دھندلاہٹ بڑھتی گئی اور گھپ اندھیرے میں تبدیل ہو گئی۔

٭٭٭







اعتماد



دن بھر زمین پر آگ کے شعلے برسانے کے بعد سورج اب ڈوب چکا تھا۔ ماحول میں گرم ہوا شامل ہو کر لُو کے تھپیڑے دینے لگی تھی۔ ٹھہری ٹھہری سی ہوائیں تیز ہو کر جھونکوں میں تبدیل ہو گئی تھیں اور ان جھونکوں کی سنسناہٹ رگ و پے میں سرایت کر رہی تھی۔ زمین پر پڑے سوکھے پتے لرز اٹھے تھے۔ چرند پرند چہک رہے تھے۔ لوگوں کی آمدورفت میں اضافہ ہو گیا تھا۔ گرمی کے قہر سے گھروں میں دبکے پڑے لوگ باہر نکل آئے تھے۔ دن بھر کام سے تھک ہار کر مزدور اور نوکری پیشہ لوگ گھروں کی جانب لوٹ رہے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب اندھیرے اجالے کا ملاپ ہو رہا تھا، پھر دھیرے دھیرے اندھیرا گہرا ہو گیا تھا۔ سڑکوں کے کنارے تعینات کھمبوں کے لائٹس ابھی جلے نہیں تھے۔ ماحول بڑا ہی خوش گوار ہو گیا تھا لیکن پریہ گھر کے ایک کونے میں اداس بیٹھی ہاتھوں کی لکیروں کا بغور جائزہ لے رہی تھی۔

پریہ کی حسرتیں ادھوری کی ادھوری رہ گئی تھیں۔ وہ حسرتیں جن کی بنیاد ایک مس کال نے رکھی تھی اور جن کا انجام ایک دھوکا یا سازش کے سوا کچھ نہ تھا۔ وہ حسرتیں جو دل میں اٹھی تو تھیں ایک خود غرض فیصلے کے ساتھ، ایک حسین اور من چاہی زندگی کا خواب لیے، لیکن اب چاروں طرف مایوسیوں کا اندھیرا تھا۔ دل پر گہرا اثر ہوا تھا۔ جس کی وجہ سے پریہ کا وجود کرچی کرچی ہو کر بکھر گیا تھا جسے سمیٹنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہو گیا تھا۔

جب پریہ نے اپنے موبائل پر آئی مس کال والے نمبر پر کال لگائی تو دو انجان نمبروں کا کنکشن ایک ساتھ جڑ گیا تھا۔ یہ کنکشن جڑنا بھی ایک سازش تھا یا اتفاق تھا۔ ایک جانب سریلی، مد ہوش کر دینے والی نسوانی آواز تو دوسری جانب کسی ہوئی مردانہ آواز تھی۔ دو انجان فرد پہلی دفعہ بات کر رہے تھے اور ایک دوسرے سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہے تھے۔ پھر دوستی ہوئی، پیار ہوا، اقرار ہوا اور شادی کے مضبوط رشتے میں بندھ جانے کے وعدے بھی ہوئے۔ موبائل پر چیٹنگ کا ایک سلسلہ چل پڑا تھا:

پریہ: ہائی بابو!

ملند: ہیلو جان!

پریہ: کیسے ہو بابو؟

ملند: اچھا ہوں جان، اور تم؟

پریہ: میں بھی اچھی ہوں بابو۔۔ ۔۔ کیا کر رہے ہو؟

ملند: بس تمھیں یاد کر رہا ہوں۔

پریہ: اچھا، میں بھی۔

ملند: آئی لو یو جان۔

پریہ: اوہ!کتنا پیار کرتے ہو بابو؟

ملند: بہت سارا۔

پریہ: اوہ!۔۔ ۔۔ سچی؟

ملند: قسم سے جان۔

پریہ: میں بھی بہت زیادہ چاہتی ہوں۔ کہیں دھوکا تو نہیں دو گے؟

ملند: کبھی نہیں، قسم سے۔

پریہ: ہمیشہ پیار کرو گے نا؟

ملند: زندگی بھر جان!

پریہ: تھینک یو بابو۔

ملند: تھینک یو کیوں؟

پریہ: سوری بابو!

ملند: سوری کیوں؟

پریہ: نو سوری بابو!

ملند: اوکے جان!

پریہ: کبھی چھوڑ کر تو نہیں جاؤ گے نا؟

ملند: کبھی نہیں جان۔ فکر کیوں کرتی ہو۔

پریہ: مس یو بابو!

ملند: مس یو جان!

دن بھر چیٹنگ، ویڈیو کالنگ، فون پر باتیں اور ملنا ملانا ان کا معمول بن گیا تھا۔ ایک روز چھپتے چھپاتے وہ پٹنہ سے دہلی بھاگ آئے اور ایک ہوٹل میں رہنے لگے تھے۔ پر یہ خوش تھی، ہاں بے حد خوش۔ اسے اپنا ہمسفر مل گیا تھا۔ جسے وہ ٹوٹ کر چاہ رہی تھی اور اسی کے ساتھ اپنی زندگی کے لمحات بتا رہی تھی۔

رات آدھی گزر چکی تھی۔ چاروں طرف ہولناک سناٹا چھا گیا تھا۔ پریہ نیند کی گہرائیوں میں جا چکی تھی۔ اس کی سوچیں نیند میں بھی فعال تھیں۔ وہ دیکھ رہی تھی کہ بے شمار بُری طاقتیں اس پر حملہ آور ہیں۔ ملند اس کے سامنے ڈھال بن کر کھڑا ہے اور ان طاقتوں سے مقابلہ کر رہا ہے۔ انھیں منہ توڑ جواب دے رہا ہے۔ وہ اطمینان سے ملند کے پیچھے کھڑی ہے اور اس کے چہرے پر اعتماد بھری مسکراہٹ بُری طاقتوں کا منہ چڑا رہی ہے۔

ایک مجرم عاشق بھی بن سکتا ہے۔ ایک عاشق مجرم بھی بن سکتا ہے۔ گناہ کے جراثیم جس کے وجود میں پلے بڑھے ہوں، اچانک جاگ بھی سکتے ہیں اور دولت کا لالچ، اچھے بھلے انسان کو دھوکے باز اور مکار بھی بنا سکتا ہے۔

اسی وقت ملند بستر سے اٹھا، کمرے کا بغور جائزہ لیا۔ ہر چیز اپنی جگہ ساکت و جامد تھی۔ ہر شے کے ریشے ریشے میں سکون طاری تھا۔ پریہ گہری نیند سو رہی تھی۔ اس نے آہستہ سے کمرے کا دروازہ کھولا اوراس طرح دبے پاؤں باہر نکل آیا گویا زمین پیچھے سرک گئی ہو۔ ہوٹل کے سبھی کمرے بند تھے۔ قریب قریب سبھی لوگ سو چکے تھے۔ ہاں کچھ کمروں کے کواڑوں سے روشنی کی ہلکی پھلکی لکیریں باہر پڑ رہی تھیں۔ ملند نے پورے اعتماد کے ساتھ جیب سے موبائل نکالا، نمبر ملایا اور کہا: ’’جلد از جلد بیس لاکھ روپیوں کا انتظام کیجیے، آپ کی لڑکی میرے قبضے میں ہے۔‘‘

٭٭٭







سر اٹھاتی شکایتیں



وہ قصے کہانیاں سنانے کے فن میں ماہر تھا۔ اس کی باتیں سبھی بڑی غور سے سنتے تھے۔ وہ ہمیشہ اوپر والے سے ہی لڑائی کرتا تھا۔ جب وہ باتیں کرتا تھا تو سوائے شکایت کے کچھ اور کرتا ہی نہیں۔ اس کی باتوں میں ایک تاثیر تھی جو سننے والوں پر اثر انداز ہوتی تھیں۔

شکایتیں اس کی زبان پر بڑھ چڑھ کر بولتی تھیں۔ ’’اللہ ہماری اس طرح سے مدد نہیں کرتا جس طرح صحابہ کرامؓ کی کرتا تھا، آج ہم گاجر مولی کی طرح کاٹے جا رہے ہیں، ہمارا کوئی یار و مدد گار نہیں، اللہ ہماری مدد کیوں نہیں کرتا؟ہم تو اس کے نام لیوا ہیں، اس کی عبادت کرتے ہیں، اس کے علاوہ کسی کو اپنا معبود نہیں مانتے، آج دنیا میں ہمارا خون پانی سے بھی زیادہ سستا ہو گیا ہے۔‘‘

رہ رہ کر اس کی زبان پر شکایتی کلمات یوں سر اٹھائے چلے آتے تھے جیسے سمندر کی بپھرتی موجیں۔ صحابہ کرامؓ کے بہت سے واقعات اس نے کتابوں میں پڑھے تھے۔ وہ موجودہ حالات پر تبصرہ کرنے کے ساتھ ساتھ صحابہؓ کے قصے بھی دوسروں کو سناتا تھا۔

جب اس نے وہ خبر سنی تو دل کی دھڑکنیں تیز ہو گئی تھیں۔ پھر دو دنوں میں وہ بارہ گھنٹے کھڑا رہا تھا اور اپنے پانچ ہزار روپے کو لے کر بہت پریشان ہو گیا تھا۔ اب اسے صبح ہونے کا بے صبری سے انتظار تھا۔ حکومت ہند کی جانب سے ۸؍ نومبر ۲۰۱۶ رات میں جب نوٹ بندی کا اعلان ہوا تو اس وقت اس کے پاس صرف پانچ ہزار روپے کے ہی پرانے نوٹ تھے۔ صبح ہوتے ہی، وقت سے ایک گھنٹہ پہلے وہ بینک کی طرف دوڑا تو وہاں لوگوں کا سیلاب امڈ چکا تھا۔ افراد کی اتنی بڑی لائن اس نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ لائن کی شروعات تو بینک سے ہوئی تھی پر اس کا اختتام کہاں تھا، اسے معلوم نہیں ہو رہا تھا، کیونکہ جہاں تک اس کی نظر جا رہی تھی وہاں تک اس کو آدمیوں کے سر ہی نظر آ رہے تھے۔ اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور بنا کچھ سوچے سمجھے لائن میں لگ گیا۔ جسم کو پگھلا دینے والی تیز دھوپ نے اس کے جسم پر سیدھا وار کیا، پسینے کی لہریں پھوٹ پڑیں۔ جب شام کے وقت اس کا نمبر آیا تو بینک کے بند ہونے کا وقت ہو گیا تھا۔ اب اسے دوسرے دن پھر سے لائن میں لگنا تھا۔ پہلے دن سات گھنٹے اور دوسرے روز پانچ گھنٹے، جملہ پندرہ گھنٹے لائن میں کھڑے رہنے کے بعد اس نے اپنے پرانے نوٹوں کو نئے نوٹوں سے تبدیل کر لیا تھا۔ نئے نوٹ مل جانے کے بعد اس نے سکون کی سانس لی۔ ان بارہ گھنٹوں میں اس نے سورج کی تپش، پیروں کا درد، بھوک پیاس کی شدت اور طہارت و بیت الخلا کے زور و شور اور گڑبڑاہٹ کو برداشت کیا تھا۔ کچھ روز پہلے کی بات ہے، ہندی فلم باہوبالی(دوم) کا ٹکٹ خریدنے کے لیے وہ تین گھنٹے لائن میں کھڑا رہا تھا لیکن پیروں میں درد کی شکایت کرتے ہوئے تراویح کی نماز ادا کرنے نہیں گیا تھا۔ مسجد میں تراویح کی نماز ہو رہی تھی اور وہ بازار میں بیٹھا چائے کی چسکیوں کا مزہ لے رہا تھا، پھر اچانک صحابہ کرام کا ایک قصہ جو اس نے کبھی پڑھا تھا ذہن کے پردوں پر اس طرح گردش کرنے لگا جیسے موت کے کنویں میں موٹر سائیکل۔ ’’صحابہ کرامؓ کے دور میں ان کے بچے پنجوں کے بل اس لیے کھڑے ہو گئے تھے کہ بڑا سمجھ کر جنگ میں شامل ہونے کی اجازت مل جائے۔‘‘

٭٭٭





منٹو



سعادت حسن منٹو کے زمانے کے لوگ نہایت ہی شریف واقع ہوئے تھے۔ بازار حسن کی طرف کبھی آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے تھے۔ پھر بھی گھروں سے زیادہ حسن کے بازاروں میں رونق رہتی تھی۔

منٹو معاشرے کی برائیوں سے دکھی تھا، اس لیے وہ لکھ رہا تھا کیونکہ اس برائی نے منٹو کو بھی نہیں بخشا تھا اور معاشرے کے لوگ منٹو سے دکھی تھے کیونکہ وہ لکھ رہا تھا۔ کوئی تن دکھی کوئی من دکھی، دکھی سارا سنسار۔

1941 میں ’دھواں‘، 1942 میں ’کالی شلوار‘، 1944 میں ’بو‘ اور 1949 میں ’ٹھنڈا گوشت‘ شائع ہونے کے بعد ایسا کوئی شخص نہ تھا جو منٹو کو گالیاں نہ دیتا ہو۔ ان چاروں افسانوں پر تعزیرات ہند کی دفعہ 292 کے تحت حکومتِ پنجاب، لاہور میں عدالتی مقدمے چلائے گئے۔

جیسے ہی منٹو کا افسانہ ٹھنڈا گوشت ایک رسالے میں شائع ہوا، لوگوں میں ہلچل سی مچ گئی۔ منٹو پریہ الزام لگا کہ وہ فحش افسانے لکھ کر سماج میں گندگی پھیلا رہا ہے۔

لوگوں میں چہ مگوئیاں ہونے لگیں۔ ایک شخص نے بلند آواز میں کہا۔ ’’منٹو کے ذہن میں گندگی بھری ہوئی ہے اور یہ ہمارے سماج کو بھی گندہ کر دے گا۔‘‘

دوسرے نے کہا۔ ’’ہم معاشرے کو فحاشی کی بھینٹ چڑھنے نہیں دیں گے۔‘‘

پھر بہت ساری آوازیں ایک ساتھ بلند ہوئیں۔ ’’ہاں ہاں ہاں۔۔ ۔۔ اگر ہم ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہے تو اس کے حوصلے یوں ہی بلند ہوتے رہیں گے۔‘‘

کچھ لوگ منٹو کو گالیاں دینے لگے۔ لوگوں کا غصہ عروج پر پہنچ گیا تھا اور بھیڑ نے منٹو کے گھر پر حملہ بول دیا، جس میں ادھیڑ عمر کے دو دوست راحیل اور اظہر بھی شامل تھے۔ منٹو گھر پر موجود نہیں تھا۔ معلوم ہوا کہ وہ سلطانہ کے کوٹھے پر گیا ہوا ہے اور مشتعل بھیڑ نے گھر کے سامان کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیا۔

کچھ لوگ سلطانہ کے کوٹھے کے باہر جمع ہوئے، لیکن ان میں سے کسی کی بھی ہمت نہ ہوئی کہ ذرا سی حرکت کرے۔ کچھ سرگوشیاں ہوئیں پر کسی کے قدم اٹھ نہ سکے۔

ٍ اس کے بعد ہجوم نے رسالے کے دفتر کا رخ کیا، وہاں پر بھی راحیل اور اظہر پیش پیش تھے۔ اب وہ دونوں مشتعل ہجوم کے رہنما بن گئے تھے۔

لوگوں نے دفتر میں توڑ پھوڑ شروع کر دی اور رسالے کی کاپیوں کو نذر آتش کرنے لگے۔ یہاں راحیل اور اظہر منٹو کو گالیاں دے رہے تھے۔ عین وقت پرپولیس آ گئی۔ پولیس نے ہجوم کو قابو کرنے کی کوشش کی لیکن جواب میں پولیس افسروں پر ہی پتھر برسائے گئے۔ تب پولیس نے لاٹھی چارج کر کے لوگوں کو راہِ فرار اختیار کرنے پر مجبور کر دیا۔ رسالے کی سبھی کاپیاں ضبط کر لی گئیں اور جلا دی گئیں۔

رسالہ کے دفتر سے لاٹھیاں کھا کر راحیل اور اظہر نے راہ گریز اختیار کر لی۔

بھاگتے بھاگتے، ہانپتے ہانپتے راحیل نے اظہر سے کہا۔ ’’میں نے رسالے کی ایک کاپی چھپا لی ہے، چل کہیں بیٹھ کر پڑھتے ہیں۔‘‘

اظہر نے اکھڑتی ہوئی سانسوں کو سنبھالتے ہوئے جواب دیا۔ ’’اچھا، تو تو نے بھی ایک کاپی چرا لی ہے۔‘‘

شراب کے نشے میں دھت، سگریٹ کے کش لگاتے ہوئے اور دھوئیں کے مرغولے ہوا میں لہراتے ہوئے، جب منٹو کوٹھے سے باہر نکلا تو راحیل اور اظہر ایک جگہ بیٹھے افسانہ ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ پڑھ رہے تھے۔

٭٭٭









جنون



’’گلنار!....ہمیں ہچکی بھی لگتی ہے تو ہم ڈاٹا آن کر لیتے ہیں، لیکن تم آن لائن ہو کر بھی بات نہیں کرتی۔ میں یہاں تمہارے انتظار میں دن رات فیس بک آن کیے بیٹھا ہوں۔ پہلے تو تم ایسی نہیں تھی، رات رات بھر باتیں کیا کرتی تھی، پیار بھری باتیں، محبت بھری باتیں، دل کو سکون دینے والی باتیں اور ہاں بہت جلد ہم ملنے بھی والے تھے جیسا کہ تم نے وعدہ کیا تھا۔ تمھاری یہ بے رخی میری جان لے لے گی۔ میں بہت پریشان رہنے لگا ہوں۔ اب کہیں بھی من نہیں لگتا۔ میں تمھارے بغیر نہیں رہ سکتا گلنار۔ تم میری کسی پوسٹ پر کمنٹ بھی نہیں کر رہی ہو، نہ ہی میری کسی پوسٹ کو لائک کر رہی ہو۔ مجھے بتاؤ بات کیا ہے؟ پچھلے تین چار مہینوں سے مسلسل میں تمھیں میسیج پر میسیج کر رہا ہوں۔ آخر تم میرے میسیج کا جواب کیوں نہیں دیتی؟ کیا مجھ سے کوئی غلطی ہوئی ہے۔ بتاؤ نا پلیز! پلیز....پلیز بتاؤ، تم کو میری قسم ہے۔

دیکھو کل یوں ہوا کہ میں تین گھنٹے ہمارے انتظار میں فیس بک بیٹھا رہا، اور تم آن لائن آئی ہی نہیں۔ پھر نہ جانے کب میری آنکھ لگ گئی، رات بھر کی نیند باقی تھی نا اس لیے۔ جب ایک گھنٹے بعد میں نیند سے جاگا تو پتا چلا کہ ابھی پانچ منٹ پہلے تک تم آن لائن تھی۔ تب مجھے اپنی نیند پر بہت غصہ آیا، کمبخت اسی وقت آنی تھی۔ میں تمھاری ڈیسک ٹاپ فوٹو کو گھنٹوں دیکھتا رہتا ہوں۔ پھر کیا کروں جب تم بات نہیں کرتی تو تمھاری فوٹو سے ہی دل بہلا لیتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں، سب سمجھتا ہوں، تم مجھے تڑپانا چاہتی ہو تاکہ جب تم شادی کرنے کے لیے کہو تو میں انکار نہ کر سکوں۔ لیکن تمھیں معلوم نہیں، اگر کوئی مجھے گہری نیند سے اٹھائے اور پوچھے کہ تم سے شادی کرو گے؟ تو میں کہوں گا ’’ہاں، چلو ابھی۔‘‘ لیکن تم پہلے بات تو کرو، تب بات آگے بڑھے گی۔ جو کچھ بھی ناراضگی ہے اسے چھوڑ دو، غصہ تھوک دو اور معاف کر دو۔

میں تو نہیں جانتا کہ مجھ سے کیا غلطی ہوئی ہے، لیکن اللہ کے واسطے مجھے معاف کر دو پلیز... اور میرے میسیج کا جواب دو۔ میں تمھارے جواب کا منتظر ہوں۔ ایک ایک لمحہ مجھ پر ایک پہاڑ کی مانند گزر رہا ہے۔ گلنار تم ایسا کرو اپنا موبائل نمبر مجھے دو میں ابھی تم سے بات کرتا ہوں ...میرے دوست بھی شکایت کرنے لگے ہیں کہ اب میں ان سے کم مل رہا ہوں۔ میں تو پہلے ان کے بغیر رہتا بھی نہیں تھا، لیکن اب من نہیں کرتا کہ باہر جاؤں اور دوستوں میں ہنسی مذاق کروں۔ میرے گھر کے سبھی افراد میرے لیے فکرمند ہو گئے ہیں۔ وہ پوچھتے ہیں مجھ سے ...بیٹا متین! تو اتنا گم صم کیوں رہنے لگا ہے، نہ ٹھیک سے کھانا کھاتا ہے، نہ پہلے جیسا ہنستا ہے، نہ بولتا ہے، کونسی فکر نے تجھے گھیر رکھا ہے ....ہر وقت تمھارا خیال ستاتا ہے کہ آخر تم اب بات کیوں نہیں کرتی؟ کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا ہے۔ ہاں قسم سے کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا ہے۔ میں کیا کروں؟‘‘

پھر ایک دن اس کا میسج آیا۔ ’’معاف کرنا بھائی، میں بھی ایک لڑکا ہی ہوں۔‘‘

٭٭٭









مردہ پرستی



آج عارف کا مضمون شائع ہو گیا، لیکن مضمون شائع ہونے سے پہلے وہ جتنا بے قرار تھا، آج اتنا خوش نہیں۔ وہ ساکت و جامد بیٹھا سوچتا رہا، ایسی پذیرائی کا کیا کرے کوئی، جسے دیکھنے کے لیے انسان زندہ ہی نہ رہے۔ مرنے کے بعد تو لوگ گناہ گار کو بھی اچھا کہتے ہیں۔ اکبر الہ آبادی بھی زندگی بھر سر سید احمد خان کی مخالفت کرتے رہے اور جب سر سید اس دار فانی سے کوچ کر گئے تو کہنے لگے کہ اپنی تو باتیں ہی باتیں ہیں، سید کام کرتا تھا۔

عارف اپنے ریسرچ ورک کے لیے ISSN والے رسالے میں اپنا تحقیقی و تنقیدی مضمون شائع کرانا چاہتا تھا۔ اس لیے اس نے کڑی محنت سے ایک اچھا مضمون قلم بند کیا تھا۔ تقریباً ایک مہینہ پہلے اس نے ایک سرکاری رسالے کو اپنا وہ مضمون ارسال کیا۔ مضمون میں ملک کے ایک مشہور و معروف شاعر کی ادبی خدمات کا احاطہ کیا گیا تھا، وہ شاعر کافی بزرگ ہو چکے تھے اور انھوں نے اپنی زندگی کے اہم ایّام ادبی خدمات میں گزارے تھے۔

عارف کورسالے سے جواب ملا: ’’آپ نے بہت اچھا مضمون قلم بند کیا ہے لیکن ہمارے یہاں زندہ شخصیات پر مضامین شائع نہیں ہوتے۔‘‘

جواب پڑھ کر وہ دیر تک سوچتا رہا، عجیب اصول ہے۔ اس دنیا میں حقیقی فنکاروں کی قدر نہیں ہوتی بلکہ ناکارہ اور چاپلوس لوگوں کی جئے جئے کار ہوتی ہے۔ لیکن چاپلوسی اور سفارش سے حاصل کیے گئے مقامات اور رتبے، چاپلوس انسان کے مرنے کے ساتھ ہی مر جاتے ہیں، جبکہ اصل فن کار تو مرنے کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں۔

یہ بات اس نے اپنے والد کو بتائی کہ فلاں رسالے سے اس طرح کا جواب ملا ہے۔ تب انھوں نے کہا: ’’بیٹا، ایک سچّے فن کار کی خدمات کا اعتراف اس کی زندگی میں ہی ہونا چاہیے۔ تخلیق کار خونِ جگر سے ادب کی خدمت کرتا ہے اور اپنی زندگی کا اہم حصہ قربان کر دیتا ہے۔ لیکن کیا کریں، یہ دنیا مردہ پرست ہے۔ دیکھنا مرنے کے بعد کئی ادارے انھیں ایوارڈز سے نوازیں گے۔ دنیا کا رواج بھی عجیب ہے۔ یہاں زندہ انسانوں کی اتنی قدر نہیں ہوتی جتنی مردوں کی ہوتی ہے۔ زندہ انسانوں کو یہ دنیا رلاتی ہے اور مردوں کے لیے رونے بیٹھ جاتی ہے۔ کسی کے مرنے کے بعد لوگ روتے ہیں اور اس کی موت کا ماتم کرتے ہیں جبکہ مردہ تو دنیا کے ظلم و ستم کا رونا پہلے ہی رو لیتا ہے۔‘‘ پھر انھوں نے ڈاکٹر خالد علیگ اور علی مزمل خان کے ایک ایک شعر پڑھے:

یہ قوم مردہ پرستی کے فن میں ماہر ہے

یہ مجھ کو روئیں گے کل، ان کو آج میں رو لوں

سب دلدر زندگی کے دور فرما گئے

بعد مرنے کے ہوئی اتنی پذیرائی کہ بس

ایک دن عارف ہوٹل میں بیٹھا چائے پی رہا تھا۔ اچانک اس کی نظریں اخبار پر جم گئیں۔ اخبار میں موصوف شاعر کی موت کی خبر چھپی تھی۔ خبر پڑھ کر اس کی زبان سے بیساختہ یہ جملہ نکلا: ’’چلو اب مضمون بھیج دیتا ہوں۔‘‘

٭٭٭









افسانچے


آگ



یہ آگ کب بجھے گی، کب بجھے گی یہ آگ؟ میں کچھ سمجھ ہی نہیں پایا تھا اور آگ کی لپٹوں نے مجھے اپنے حصار میں لے لیا۔ میں نے بچنے کی بہت کوشش کی لیکن اس کے حلقے سے باہر نکلنے کا راستہ ہی نہیں ملا۔

شادی کی پہلی رات سے لگی ہے یہ آگ اور اب تک لگی ہوئی ہے۔ اب مجھے پورا یقین ہو گیا ہے کہ یہ آگ میرے جسم کو راکھ بنا کر ہی دم لے گی۔

میں بڑا اتاولا ہو گیا تھا۔ شادی!شادی! شادی! اور ہو گئی شادی۔ وہ میری زندگی میں دلہن بن کر آ گئی۔ اور ہاں اِسی دن کا تو انتظار تھا مجھے۔ ہم دونوں ایک ہوئے۔ گویا جاگتی آنکھوں کے خواب پورے ہوئے۔

اور شادی کی پہلی رات ہی لائٹ چلی گئی۔

اس نے کہا: ’’آپ ماچس لائیے، میں موم بتی جلا دیتی ہوں۔‘‘

میں ماچس لے آیا، اس نے تیلی جلائی اور ماچس پھینک دی۔ میں نے مڑ کر دیکھا

ماچس کے اوپر ایک خوبصورت مسکراتی ہوئی دلہن کی تصویر تھی اور اس کے نیچے لکھا تھا:

’’دلہن ماچس۔۔ ۔۔ ۔ زندگی میں آگ لگا دے‘‘

٭٭٭




تعلیم



’’میرے پیارے بھائیو اور بہنو!۔ ہم نے گھر گھر تک تعلیم پہنچائی ہے۔ اب ملک کا ہر شہری پڑھا لکھا ہو گیا ہے۔‘‘

تقریر ختم کر کے منتری جی ٹوائلٹ گئے اور الٹے پاؤں ہی واپس لوٹ آئے۔ پھر

آگ بگولہ ہو کر وہاں کے ملازمین کو پھٹکارنے لگے۔

’’کیوں رے اس ٹوائلٹ کی باہری دیوار پر مرد اور عورت کا فوٹو کیوں نہیں بنایا۔ میں غلطی سے عورتوں کے ٹوائلٹ میں کھس گیا تھا۔‘‘

ملازم نے جواب دیا: ’’صاحب!باہری دیوار پر استری اور پُرش (مرد/ عورت) لکھا ہوا ہے۔‘‘

٭٭٭






تجربہ



انسان تجربات کی مدد سے سیکھتا ہے اور جب تک تجربہ حاصل نہیں ہوتا اس کا علم شک اور یقین کے درمیان لٹکا رہتا ہے۔ اس نے سنا تھا کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے لیکن اس قول پر اسے مکمل یقین نہیں تھا۔ ایک دن اس کا شک یقین میں بدل گیا۔ اس دن وہ ٹی وی دیکھ رہا تھا۔ اس نے بہت ہاتھ پاؤں مارے لیکن ناکام رہا۔ لاکھ کوششوں کے بعد بھی وہ چینل بدل نہ سکا تھا۔ جھنجھلاہٹ عروج پر پہنچ چکی تھی۔ غصے میں اس نے ریموٹ کو زمین پر پٹخ دیا۔ پھر اٹھایا اور دو چار تھپڑ جڑ دیے اور ریموٹ کام کرنے لگا۔

٭٭٭






مسکراہٹ



آج پٹرول کے دام پھر بڑھ گئے تھے۔ حکومت قیمت خرید سے دوگنا سے بھی زیادہ قیمت میں فروخت کر رہی تھی، جس کی وجہ سے مہنگائی بھی بڑھ رہی تھی۔

میں نے اپنی موٹر سائیکل میں ایک لیٹر پٹرول بھروایا، ٹنکی بند کی، پیسے ادا کیے اور نکلنے ہی والا تھا کہ نظر سامنے لگے بڑے سے بورڈ پر پڑی، منتری جی کا مسکراتا ہوا چہرہ میرا منہ چڑا رہا تھا۔

٭٭٭






پردہ



وہ ’’کڈز انگلش کانوینٹ‘‘ اسکول کے احاطے میں کھڑی تھی۔ چھٹی ہونے میں ابھی کچھ دیر باقی تھی۔ دوسرے لوگوں کی طرح وہ بھی کسی بچے کو لینے آئی تھی۔ اس احاطے میں اور بھی بہت سے لوگ بچوں کے انتظار میں کھڑے تھے۔

وہ برقعے میں تھی لیکن چہرہ کھلا تھا۔ میں دیکھتے ہی اسے پہچان گیا۔ اس کی بھی نظر جیسے ہی مجھ پر پڑی، اس نے چہرے پر نقاب لگا لیا۔ تب یہ بات میرے ذہن میں گونجنے لگی، ’’کیا برقعہ پوش عورتیں صرف جان پہچان والے مردوں سے ہی پردہ کرتی ہیں۔‘‘

٭٭٭







کوائف



نام: محمد علیم

قلمی نام: محمد علیم اسماعیل

ولدیت: محمد اسماعیل، محمودہ بی (مرحومہ)

تاریخ پیدائش: 22 جون 1982

جائے پیدائش: ناندورہ (ضلع بلڈانہ، مہاراشٹر)

تعلیمی لیاقت

ایم۔ اے (سنت گاڈگے بابا یونیورسٹی، امراؤتی)

بی۔ ایڈ (مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدر آباد)

نیٹ (یو۔ جی۔ سی)

سیٹ (مہاراشٹر اسٹیٹ)

ادبی کاوشیں

پہلی کاوش: مضمون: علامہ اقبال کی باتیں (مطبوعہ اردو ٹائمز، ممبئی۔ 30 اکتوبر 2013)

پہلا افسانہ: خیالی دنیا (مطبوعہ ممبئی اردو نیوز۔ 31 اگست 2016)

پہلا افسانچہ: شرمندگی (مطبوعہ عالمی انوارِ تخلیق، رانچی۔ موسم گرما 2017)

ادبی بلاگ: bahareurdu22.blogspot.com

تصانیف

۱۔ الجھن (افسانے و افسانچے)

۲۔ رنجش (افسانے)

زیرِ طبع تصانیف

1۔ افسانچوں کا مجموعہ

2۔ مضامین کا مجموعہ

3۔ بچوں کی کہانیوں کا مجموعہ

ایوارڈ

1۔ آئی سی ایم گریٹ سکسیس ایوارڑ 2015 (آئی سی ایم انسٹی ٹیوٹ، ناندورہ کی جانب سے)

2۔ طالبِ ادب ایوارڈ 2018 (مہا راشٹر کی ریاستی تنظیم AMUSS کی جانب سے)

3۔ تنویر ادب ایوارڈ 2019 (بزم ارباب سخن، ناندورہ کی جانب سے)

4۔ سفیرِتعلیم ایوارڈ2019 (بزم تحریکِ شعر و ادب کی جانب سے)

اعزاز:

اردو مضمون میں NET اور SET امتحانات کوالیفائی کرنے پر AIITA (ناندورہ)کی جانب سے 22 اپریل 2018 کواعزاز کیا گیا۔

ملازمت:

درس و تدریس (شعبۂ تعلیم ضلع پریشد بلڈانہ، مہاراشٹر)

عہدہ

صدر: فکشن ایسو سی ایشن، ناندورہ (FAN)

رابطہ

Mohd Alim Ismail

Ward No.15, Behind Police Station

At+Post+Taluka: Nandura(443404)

Dist-Buldana(Maharashtra)

Mob.: 08275047415

mohdalim82@gmail.com

https://www.facebook.com/mohd.alim.965

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید