حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالیٰ نے عظیم صفات سے مُتصف فرماکر صحابہ میں ممتاز فرمایا ،جو اُن ہی کا حصہ ہے ۔ حیاکا ایساپیکر تھے کہ فرشتے بھی آپ سے حیا کرتے تھے ۔آپ عشرۂ مُبشرہ میں سے ہیں جن کو رسول اللہ ﷺ نے دنیا میں جنت کی بشارت دی ۔حضرت حسان بن عطیہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ اے عثمانؓ !اللہ تعالیٰ نے تمہارے اگلے اور پچھلے کام بخش دیئے اور وہ کام جو تم نے پوشیدہ کیے اورجو ظاہر کیے اوروہ جو قیامت تک ہونے والے ہیں ‘‘۔
ایامِ جاہلیت میں بھی آپ کا خاندان غیر معمولی وجاہت وحشمت کا حامل تھا۔اُمیہ بن عبدشمس کی طرف نسبت کے سبب آپ کا خاندان بنو اُمیہ کہلاتا ہے ، بنوہاشم کے بعد شرف وسیادت میں کوئی خاندان یا قبیلہ بنو اُمیہ کا ہم پلہ نہ تھا ۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا سلسلۂ نسب پانچویں پُشت میں عبدِ مناف پر رسول اللہ ﷺ سے جاملتاہے ۔حضرت عثمان کی نانی رسول اللہ ﷺ کی سگی پھوپھی تھیں ،اس رشتے سے آپ رسول اللہ اﷺْ کے قریبی رشتے دار تھے ۔
آپ کی ولادت عام الفیل سے چھٹے سال ہوئی ۔ اللہ رب العزت نے آپکو نہایت حسین وجمیل صورت سے نوازا تھا۔بچپن ہی میں پڑھنا لکھنا سیکھ لیاتھا۔ آپکا ذریعہ معاش تجارت تھا ۔ آپکے والد عفان نے ترکے میں بہت مال ودولت چھوڑا، آپ نے اپنی حکمت اور تدبر سے اپنے کا روبار کو بڑی ترقی دی۔ زمانہ جاہلیت میں بھی اپنی امانت ، دیانت ، راست گوئی اور حسنِ معاملہ کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔ دولت وثروت کی وجہ سے غنی کے نام سے مشہور تھے لیکن تمام اسباب ووسائل کا حامل ہونے کے باوجود سیر ت وکردار میں انتہائی پاکیزگی تھی۔ زمانہ جاہلیت کی برائیوں میں سے کوئی بھی آپکی ذات میں نہیں پائی جاتی تھی۔ یہاں تک کہ بتوں کی پرستش سے بھی ہمیشہ گریزاں رہے۔کردار کی پاکیزگی کیساتھ ساتھ اللہ رب العزت نے آپکو نہایت حسین وجمیل صورت سے نوازا تھا
سفید رنگت میں سرخی جھلکتی تھی۔ ریش مبارک گھنی تھی جسے حناء سے رنگین رکھتے تھے۔ چہر ے پر قدرے چیچک کے نشان تھے جو چھال میں اضافے کا سبب بنتے تھے۔ میانہ قد تھے، آپکی ہڈی چوڑی تھی، پنڈلیاں بھری بھری تھیں‘ ہاتھ لمبے لمبے تھے‘ جسم پر بال تھے‘ سر کے بال گھنگھریالے تھے۔ دونوں شانوں میں زیادہ فاصلہ تھا‘ دانت خوبصورت ‘کنپٹی کے بال بہت نیچے تک آئے ہوئے تھے۔ خود حضور اکرم ﷺنے آپکو حضرت ابر اہیم ؑسے مشابہ قرار دیا۔ حضرت عبد اللہ بن حزم کاقول ہے کہ میں نے حضرت عثمان کے بعد کسی بھی مرد اور عورت کو ان سے زیادہ خوبصورت نہیں دیکھا
رسول اللہ ﷺ کے اعلانِ نبوت کے بعد آپ چوتھے شخص ہیں ،جس نے اسلام قبول کیا ۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی صاحبزادی حضرت سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کا نکاح آپ کے ساتھ کردیا ،پھر حضرت عثمان غنیؓ اور حضرت رقیہؓ نے مکہ سے حبشہ ہجرت فرمائی ۔
حضرت رقیہ رضی اللہ عنہ کے انتقال کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اپنی دوسری صاحبزادی حضرت سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا کو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے نکاح میں دے دیا ۔حضرت سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہاکے وصال کے وقت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اگرمیری چالیس بیٹیاں بھی ہوتیں ، تومیں ان سب کو یکے بعد دیگرے عثمان کی زوجیت میں دے دیتا حتّیٰ کہ اُن میں سے کوئی باقی نہ رہتی ‘‘۔’’حضرت مرہ بن کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے فتنوں کا بیان کیا،اُس وقت ایک شخص کپڑا اوڑھے ہوئے گزرا ، آپ ﷺ نے فرمایا : ’’یہ شخص اُس دن(یعنی فتنوں کے دورمیں) ہدایت پر ہوگا ‘‘،میں نے جاکر دیکھا تو وہ شخص حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ تھے، (ترمذی ) ‘‘ ۔
ہر انسان فطری طور پر دولت سے محبت کرتا ہے ۔ مستقبل کے لئے کچھ پس انداز کر رکھنا شرعاً درست ہے ،صدقات وفطرات کے علاوہ اپنے مال سے انفاق فی سبیل اللہ کا بڑا اجر وثواب ہے اور جو دولت اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کی جائے ،اللہ تعالیٰ اُس کا اجر کئی سو گُنا بڑھا کر عطافرماتا ہے ۔
سورۂ بقرہ کی آیت261تا 266صدقۂ خیرات کی ترغیب دلائی گئی ہے ،ایک جگہ ارشاد فرمایا:ترجمہ؛’’جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنے مالوں کو خرچ کرتے ہیں ان کی مثال اس دانے کی طرح ہے ،جس نے سات ایسے خوشے اُگائے کہ ہر خوشے میں سودانے ہیں اوراللہ جس کے لیے چاہے ان کو دگنا کردیتا ہے اور اللہ بڑی وسعت والا بہت علم والا ہے ،(البقرہ:261)‘‘۔صحابۂ کرام کی زندگیاں صدق واخلاص ،وفاشعاری وجاںنثاری کا عملی اظہار ہیں ۔حضرت سیدنا صدیق اکبررضی اللہ عنہ اپنا تمام مال راہِ خدا میں لٹادیتے ہیں اور اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کی رضا کو اپنی متاعِ حیات کا بیش بہا خزانہ بنالیتے ہیں ،یہی جذبہ حضرت عمر فاروق وحضرت علی رضی اللہ عنہما کی زندگی میں نظر آتاہے لیکن حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ ہرمشکل موقع پر اسلام اور عظمتِ اسلام کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرتے نظرآتے ہیں ۔
صحابۂ کرام ؓجو صدق ووفاکا پیکر تھے اور راہِ خدا میں اپنا مال بے دریغ لٹاتے رہے ،ان آیاتِ قرآنی کی عملی تفسیر ہیں ۔مدینہ منورہ میں جب قحط پڑا تو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اپنا تمام مال صدقہ کردیا :ترجمہ:’’ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں (مدینہ میں) قحط پڑا،حضر ت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم صبح نہیں کروگے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تم پر(رزق ) کشادہ فرمادے گا ۔
اگلے دن صبح یہ خبر ملی کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ایک ہزاراونٹ گندم اور اشیائے خوراک کے منگوائے ہیں ،آپ نے فرمایا: مدینے کے تاجر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور دروازہ کھٹکھٹایا ، آپ گھر سے باہر تشریف لائے ،اس حال میں کہ چادر آپ کے کاندھوں پر تھی اور اُس کے دونوں سرے مخالف سمت میں کاندھے پر ڈالے ہوئے تھے ۔آپ نے مدینے کے تاجروں سے پوچھا کہ تم لوگ کس لئے آئے ہو ؟،کہنے لگے : ہمیں خبر پہنچی ہے کہ آپ کے پاس ایک ہزار اونٹ غلے کے آئے ہیں ،آپ اُنہیں ہمارے ہاتھ فروخت کردیجیے تاکہ ہم مدینے کے فقراء پر آسانی کریں ،آپ نے فرمایا : اندر آؤ ، پس وہ اندر داخل ہوئے ،تو ایک ہزار تھیلے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر میں رکھے ہوئے تھے ،آپ نے فرمایا: اگرمیں تمہارے ہاتھ فروخت کروں، تم مجھے کتنا منافع دوگے ؟۔
اُنہوں نے کہا : دس پر بارہ ، آپ نے فرمایا : کچھ اور بڑھاؤ ،اُنہوں نے کہا دس پر چودہ ،آپ نے فرمایا: اور بڑھاؤ ، اُنہوں نے کہا : دس پر پندرہ ،آپ نے فرمایا: اور بڑھاؤ ،اُنہوں نے کہا : اِس سے زیادہ کون دے گا ،جبکہ ہم مدینے کے تاجر ہیں ۔آپ نے فرمایا: اوربڑھاؤ ،ہر درہم پر دس درہم تمہارے لئے زیادہ ہیں ۔
اُنہوں نے کہا :نہیں ، پھر آپ نے فرمایا: اے گروہِ تجار تم گواہ ہوجاؤ کہ (یہ تمام مال)میں نے مدینہ کے فقراء پر صدقہ کردیا ۔ حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ رات گزری رسول اللہ ﷺ میرے خواب میں تشریف لائے ، آپ ﷺ سیاہی مائل سفید سواری پر تشریف فرماتھے ، آپ جلدی میں تھے اور آپ کے دست مبارک میں ایک قندیل تھی جس سے روشنی نور کی طرح پھوٹ رہی تھی ،نعلین مبارک کے تسموں سے نور پھوٹ رہا تھا ۔ میں نے عرض کیا : یارسول اللہ ﷺ ! میری ماں باپ آپ پر قربان میری رغبت آپ ﷺ کی جانب بڑھ رہی ہے،آپ ﷺ نے ارشادفرمایا: یہ عثمان کی اُس نیکی کا بدلہ ہے جو اُس نے ایک ہزار اونٹ اللہ کی راہ میں صدقہ کیے اور اللہ تعالیٰ نے اُسے قبول فرمایا اور اُس کا نکاح جنت کی ایک حور سے فرمادیا اور میں عثمان کی خوشیوں میں شریک ہونے جارہا ہوں ‘‘۔(اِزالۃ الخفا،جلد2،ص:224
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے بارہ سالہ دورِ خلافت میں اسلامی سلطنت کادائرہ وسیع ہوتاگیا ،آذربائیجان ،آرمینیا ،طرابلس ،الجزائر اور مراکش فتح ہوئے ۔28ھ میں بحیرۂ روم میں شام کے قریب قبرص جو بحری جنگ کے ذریعے فتح کیا ،30ھ میں طبرستان ،33ھ میں قسطنطنیہ سے مُتصل مرودر، طالستان اور جوزجان فتح ہوئے ۔فتوحات کا یہ سلسلہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد تعطل کا شکار ہوگیا ۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت کے اخیر حصے میں فتنوں اور سازشوں نے سراٹھالیا ۔کابل سے مراکش تک مفتوحہ علاقوں میں مختلف مذاہب کی ماننے والی سینکڑوں اقوام آباد تھیں ،فطری طورپر مسلمانوں کے خلاف انتقامی جذبات اُن میں موجودتھے ،نتیجۃً مسلمانوں کے خلاف سازشوں کا جال بچھایا گیا ،جس میں یہودی اور مجوسی پیش پیش تھے۔
اِسی سازش کے نتیجے میں بصرہ ،کوفہ اور مصر سے تقریباً دوہزار فتنہ پرداز (باغی) اپنے مطالبات منوانے کے لئے حاجیوں کی وضع میں مدینہ پہنچے ،حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے مکان کا محاصرہ کرلیا جو 40روزتک جاری رہا ،باغیوں نے کھانا پانی سب جانے کے راستے بند کردیئے ۔حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے کچھ کھانے پینے کی چیزیں پہنچانے کی کوشش کی تو باغیوں نے رسول اللہ ﷺ کے حرم محترم کا لحاظ رکھے بغیر بے ادبی سے مزاحمت کی اور اُنہیں واپس کردیا ۔
حالات کی سنگینی کا اندازہ کرتے ہوئے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی حفاظت کے لئے بھیج دیا ،حضرت عبداللہ بن زبیر بھی جانثاروں کے ساتھ حضرت عثمان کے گھر میں موجود تھے ۔محاصرہ کے دوران حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ آپ کے حامیوں کی عظیم جماعت یہاں موجود ہے ،ان باغیوں کو نکال باہر کیجیے ۔دوسری صورت یہ ہے کہ پچھلی جانب سے مکہ چلے جائیں ،مکہ حرم ہے ،وہاں یہ آپ پر حملہ کرنے کی جرأت نہیں کرسکیں گے ۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے پہلی صورت کا جواب یہ دیاکہ اگر میں باہر نکل کر ان سے جنگ کروں تو میں اس اُمّت کا وہ پہلا خلیفہ نہیں بننا چاہتا جو اپنی حکومت کی بقا کے لئے مسلمانوں کا خون بہائے ،دوسری صورت کا جواب دیاکہ مجھے ان لوگوں سے یہ توقع نہیں ہے کہ یہ حرم مکہ کی حرمت کا کوئی لحاظ رکھیں گے اور میں نہیں چاہتاکہ میری وجہ سے اس مُقدّس شہر کی حرمتیں پامال ہوں اور میں دارالہجرت اور دیارِ رسولﷺ کو چھوڑ کر کہیں بھی نہیں جانا چاہتا۔(مسند امام احمد بن حنبل )
حضرت زید بن ثابتؓ اور حضرت ابو ہریرہ ؓنے آکر جنگ کی اجازت چاہی کہ انصار دروازے پر منتظر کھڑے ہیں ،آپ نے اُنہیں منع فرمادیا ۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا محاصرہ کرنے والے دوہزار سے بھی کم افراد تھے اورحضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مکان کے اندر اور باہر ان کے جانثار اس سے کہیں زیادہ تعداد میں تھے ،آخری وقت تک یہ سب آپ سے اجازت طلب کرتے رہے کہ ہم باغیوں کا مقابلہ کریں گے اور اُن کا محاصرہ توڑیں گے ،لیکن آپ نے اُنہیں اس کی اجازت نہ دی ،آپ کا ایک ہی جواب تھا : ’’میں اپنی ذات یا اپنی خلافت کی خاطر مسلمانوں کی تلواریں باہم ٹکراتے نہیں دیکھ سکتا ‘‘۔جمعۃ المبارک اٹھارہ ذوالحجہ 35ھ کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے خواب میں رسول اللہ ﷺ کو دیکھاکہ رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما تشریف فرما ہیں اور رسول اللہ ﷺْ فرمارہے ہیں : عثمان جلدی کرو ،ہم تمہارے افطار کے منتظر ہیں ۔
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عثمان آج جمعہ میرے ساتھ پڑھنا ۔(طبقات ابن سعد)بیدار ہوکر آپ نے لباس تبدیل کیا اور قرآن مجید کی تلاوت میں مشغول ہوگئے ،تھوڑی دیر بعد باغیوں نے حملہ کیا اور آپ کو تلاوتِ قرآن فرماتے ہوئے شہید کردیا ،اس وقت آپ قرآن مجیدسورۂ بقرہ کی آیت: 137 ترجمہ؛ (تمہارے لئے اللہ کافی ہے اور اللہ تعالیٰ خوب سننے اور جاننے والا ہے) کی تلاوت فرما رہے تھے ۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت اور عظمت پر لاکھوں سلام ،کہ آپ نے اپنی ذات اور خلافت کے دفاع کے لئے مدینے کی سرزمین اور مسلمان کی حرمت کو پامال نہ ہونے دیا ۔جانثار آپ پر قربان ہونے کی اجازت طلب کرتے رہے لیکن آپ نے اجازت نہ دی ۔
شہید کا خون جس جگہ گرتاہے ،وہ جگہ اُس کی شہادت کی گواہی دیتی ہے۔ کسی کا خون کربلاکی سرزمین پر گرا ،کسی کا اُحد کی گھاٹیوں میں ،کسی کی شہادت گاہ میدانِ بدر ۔یہ مقامات اُن شہدا ء کی شہادت کی گواہی دیں گے لیکن اے عثمان غنی تمہار ے خون کی عظمتوں کو سلام جو قرآن کے اوراق پر گرا اور قیامت کے دن قرآن کریم کے اوراق آپ کی شہادت کی گواہی دیں گے ۔روزِ محشر ہر شخص اُس حال میں اٹھایاجائے گا جیساکہ اپنی موت کے وقت وہ دنیاسے گیا ،کوئی اَحرام باندھے ہوئے اٹھے گا ،کوئی سجدہ کرتے ہوئے ،آپ کی عظمتوں کو سلام کہ روزِ محشر آپ قرآن پڑھتے ہوئے اٹھیں گے ۔
سیدناعثمان ذوالنورینؓ کی حیات مبارکہ کے چند گوشے
سفید مائل زردی رنگت کے سفید ریش بزرگ اپنے مکان کے دریچہ پر کھڑے ہوئے تھے۔ بزرگ کے پر نور چہرے پر چیچک کے نشانات تھے۔ زلفیں کا ندھوں تک آئی ہوئی تھیں۔وہ اپنے گھر کا محاصرہ کیے ہوئے باغیوں سے انتہائی مشفقانہ انداز میں فرما رہے تھے:
’’میری دس خصال میرا رب ہی جانتا ہے مگر تم لوگ آج ان کا لحاظ نہیں کر رہے
٭میں اسلام لانے میں چوتھا ہوں
٭رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحب زادی میرے نکاح میں دی
٭جب پہلی صاحب زادی فوت ہوئی تو دوسری میرے نکاح میں دے دی
٭میں نے پوری زندگی کبھی گانا نہیں سنا
٭میں نے کبھی برائی کی خواہش نہیں کی
٭جس ہاتھ سے حضور ﷺکی بیعت کی اس ہاتھ کو آج تک نجاست سے دور رکھا
٭میں نے جب سے اسلام قبول کیا کوئی جمعہ ایسا نہیں گزرا کہ میں نے کوئی غلام آزاد نہ کیا ہو اگر کسی جمعہ کو میرے پاس غلام نہیں تھا تو میں نے اس کی قضاء کی
٭زمانۂ جاہلیت اور حالت اسلام میں کبھی زنا نہیں کیا
٭میں نے کبھی چوری نہیں کی
٭میں نے نبی ﷺکے زمانہ میں ہی پورا قرآن حفظ کر لیا تھا
اے لوگو! مجھے قتل نہ کرو اگر مجھ سے کوئی غلطی ہوئی ہو تو مجھ سے توبہ کرا لو۔ واللہ! اگر تم نے مجھے قتل کر دیا تو پھر کبھی بھی تم اکٹھے نماز پڑھ سکو گے اور نہ دشمن سے جہاد کر سکو گے۔ اور تم لوگوں میں اختلاف پیدا ہو جائے گا‘‘۔
یہ بزرگ تیسرے خلیفۂ راشد، سیدناعثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ تھے۔ آپؓ خاندان بنو امیہ سے تھے۔ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کاتب وحی بھی تھے اور ناشر قرآن بھی۔ آپ رضی اللہ عنہ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے چوتھے فرد تھے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دوہرے داماد تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی چار بیٹیاں تھیں سیدہ زینبؓ، سیدہ رقیہ ؓ، سیدہ ام کلثوم ؓاور سیدہ فاطمہؓ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری بیٹی سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کا نکاح سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے ہوا۔
سیدہ رقیہؓ سے سیدنا عثمانؓ کے فرزند حضرت عبداللہؓ پیدا ہوئے اور انہی عبداللہؓ کے نام پر سیدنا عثمانؓ کی کنیت ’’ابو عبداللہ‘‘ تھی۔مروج الذہب کے مطابق ان عبداللہؓ بن عثمانؓ کا انتقال 76سال کی عمر میں ہوا۔غزوۂ بدر کے موقع پر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا جو کہ اس وقت بستر علالت پر تھیں، کی تیمارداری کے لیے رک گئے اور غزوۂ بدر میں شریک نہ ہوسکے۔ مگر بقول نبی صلی اللہ علیہ وسلم، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو اصحاب ِبدر کے مثل درجہ عطا ہوا۔
سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کے انتقال پرُ ملال کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تیسری بیٹی، سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے کر دیا۔ جب وہ بھی وفات پا گئیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:اگر میری چالیس بیٹیاں بھی ہوتیں تو میں اسی طرح ایک کے بعد ایک، عثمان کے نکاح میں دیتا جاتا۔ خیال رہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ وہ واحد ہستی ہیں جن کے نکاح میں کسی پیغمبر کی دو بیٹیاں یکے بعد دیگرے آئی ہوں۔ اس صفت میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا کوئی شریک نہیں ہے۔ اسی وجہ سے سیدنا عثمانؓ کا لقب ’’ذوالنورین‘‘ یعنی ’’دو نوروں (روشنیوں) والا‘‘ ہے۔
سیدنا عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ 12 سال تک امت ِمسلمہ کے خلیفہ رہے اور کئی ممالک فتح کرکے خلافت اسلامیہ میں شامل کیے۔ آذر بائیجان، آرمینیا، ہمدان کے علاقوں میں بغاوت ہوئی، جس کا قلع قمع امیر المؤمنین سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ہی ہوا۔ اور اس بغاوت کا سدباب سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور کی بغاوتوں کے سدباب کی طرح ہی اہم تھا۔ مزید یہ کہ ایران کے جو علاقے مثلاً بیہق، نیشاپور،شیراز، طوس، خراسان وغیرہ بھی خلافت عثمانی میں ہی فتح ہوئے اور قیصر روم بھی آں محترمؓ کے دور میں ہی واصل نار ہوا۔
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ہی بحری جہاد کا آغاز ہوا۔ بحری جہاد کی ابتداء کرنے والے لشکر کے لیے جنت کی خوش خبری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی لسان مبارکہ سے ارشاد فرما چکے تھے۔سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ شرم و حیا اور جود و سخا کے پیکر تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے کبھی زنا نہیں کیا اور نہ ہی کبھی شراب نوشی کی۔ آپ رضی اللہ عنہ انتہائی نرم خو اور سخی تھے۔ متعدد مرتبہ نادار اور مجبور مسلمانوں کے لیے اپنا مال بغیر کسی قیمت کے فی سبیل اللہ خرچ کیا۔ اور کئی دفعہ جہاد کے لیے مالی طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مال و زر پیش کیا۔ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پنڈلی مبارک سے کپڑا نسبتاً زیادہ اوپر اٹھا ہوا تھا اسی اثناء میں علم ہوا کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ چلے آرہے ہیں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انتہائی عجلت میں کپڑا نیچے کر دیا۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے جانے کے بعد ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اس ضمن میں استفسار فرمایا تو آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جواباً ارشاد فرمایا کہ: کیا میں اُس سے حیا نہ کروں جس سے آسمان کے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں(مسلم)۔
صلح حدیبیہ کے سال نبی علیہ السلام اپنے صحابہ کرامؓ کی معیت میں عمرہ کے ارادہ سے جانب مکہ عازم سفر ہوئے مگر معلوم ہوا کہ کفار مکہ آپﷺ اور صحابہ کرامؓ کے عمرہ ادا کرنے میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں تو آپ ﷺ نے سیدنا عثمانؓ کو اپنا سفیر بنا کر گفت و شنید کے لیے مکہ بھیجا جہاں کفار نے سیدنا عثمانؓ کی شہادت کی افواہ اڑادی۔ اس پر نبی علیہ السلام کو انتہائی رنج و قلق ہوا اور آپﷺ نے سیدنا عثمانؓ کے قتل ناحق کا انتقام لینے کے لیے اپنے ساتھ موجود تقریباًڈیڑھ ہزار صحابہ کرامؓ سے فرداً فرداًبیعت لی، اسے بیعت رضوان کہا جاتاہے۔
بیعت ِرضوان کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست ِمبارک کو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا دست مبارک قرار دیتے ہوئے اُنؓ کی طرف سے بیعت کی۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی بدولت تقریباً ڈیڑھ ہزار مسلمانوں سے اپنی رضا کا اعلان فرمایا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا کہ اللہ آپ کو ایک قمیص پہنائے گا (یعنی خلافت عطا فرمائے گا) لوگ چاہیں گے کہ آ پ وہ قمیص اتار دیں(یعنی خلافت سے دست بردار ہو جائیں) اگر آپ لوگوں کی وجہ سے اس سے دست بردار ہوئے تو آپ کو جنت کی خوش بو بھی نہ ملے گی۔ یہی وجہ تھی کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ باغیوں کے پرُ زور مطالبہ کے باوجود بھی منصب ِخلافت سے دست بردار نہ ہوئے اور اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر جان لٹا دی۔
باغیوں کے محاصرہ کے دوران آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر کے دریچہ سے ظاہر ہو کر ان عاقبت نا اندیش باغیوں کو تنبیہ کی مگر اُن کی عقلیں ماؤف اور ضمیر مردہ ہو چکے تھے۔اسی سازش کے نتیجہ میں خلیفۂ وقت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کا محاصرہ کر لیاگیا۔ اور وہ بھی ایسے وقت میں کہ اکثر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور عام مسلمان بغرض حج مکہ مکرمہ میں تھے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو خلافت سے دست بردار ہونے کو کہا گیا مگر بحکم نبویﷺ آپ رضی اللہ عنہ نے یہ مطالبہ رَد کر دیا۔ اور چالیس دن بھوکے پیاسے روزہ کی حالت میں ان باغیوں کے محاصرہ میں اپنے گھر میں ہی مقید رہے۔ دن رات نماز و تلاوت قرآن میں مشغول رہے۔ اوربالآخر 18ذی الحج، 35ہجری کو دوران تلاوت شہید کر دیے گئے۔انا للّٰہ وانا الیہ راجعون
جود و سخا، پیکر شرم و حیا، کاتب ِوحی، ذوالنورین،خلیفۂ راشد سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی سیرت و منقبت کے تفصیلی احاطہ کے لیے یہ مضمون انتہائی مختصر ہے اس لیے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی سیرت مطہرہ کے محض چند پہلو سپرد تحریر کیے گئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سمیت تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرما ئے بروایت ترمذی ،نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ہر نبی کے کچھ رفیق ہوتے ہیں، میرے رفیق جنت عثمانؓ ہیں۔
بروایت بخاری، ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم، سیدنا ابوبکر صدیق، سیدنا عمر فاروق اور سیدنا عثمان ذوالنورین رضوان اللہ علیہم اجمعین احد پہاڑ پر چڑھ رہے تھے کہ پہاڑ ہلنے لگا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ احد! رک جا! اس وقت تجھ پر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہیں۔امیرالمؤمنین سیدنا عثمانؓ چوںکہ مکتب نبوت کے ایک اہم اور لائق شاگرد تھے انہوں نے اپنے مربی نبی کریمﷺ کی تربیت کے نتیجہ میں جہاں اور کئی مواقع پر آن حضرتﷺ کی تربیت کے مطابق قرآن و سنت کو سامنے رکھتے ہوئے احسن اندازاختیار فرمائے وہاں سیدنا عثمانؓ نے وقتاً فوقتاً علم و حکمت اور دانائی و تدبر سے بھر پور کلمات بھی ارشاد فرمائے جن میں سے چند ایک پیش ہیں :
٭اللہ کے ساتھ تجارت کرو تو بہت نفع ہو گا
٭بندگی اس کو کہتے ہیں کہ احکام الہٰی کی حفاظت کرے اور جو عہد کسی سے کرے اس کو پورا کرے اور جوکچھ مل جائے اس پر راضی ہو جائے اور جو نہ ملے اس پر صبر کرے
٭دنیا کی فکر کرنے سے تاریکی پیدا ہوتی ہے اور آخرت کی فکر کرنے سے روشنی
٭ متقی کی علامت یہ ہے کہ اور سب لوگوں کو تو سمجھے کہ وہ نجات پا جائیں گے اور اپنے آپ کو سمجھے کہ ہلاک ہو گیا
٭سب سے زیادہ بربادی یہ ہے کہ کسی کو بڑی عمر ملے اور وہ سفر آخرت کی تیاری نہ کرے
٭دنیا جس کے لیے قید خانہ ہو قبر اس کے لیے باعث راحت ہوگی
٭اگر تمہارے دل پاک ہو جائیں تو کبھی قرآن شریف کی تلاوت یا سماعت سے سیری نہ ہو
٭محاصرہ کے زمانہ میں جب اتمام حجت کے لیے آپ نے بالاخانہ سے سر باہر نکالا تو فرمایا مجھے قتل نہ کرو بلکہ صلح کی کوشش کرو، خدا کی قسم میرے قتل کے بعد پھر تم لوگ متفقہ قوت کے ساتھ قتال نہ کر سکو گے اور کافروں سے جہاد موقوف ہو جائے گا اور باہم مختلف ہو جاؤ گے٭محاصرہ کے زمانہ میں لوگوں نے پوچھا کہ امیرالمؤمنین! آپ تو مسجد نہیں جا سکتے انہی باغیوں میں سے کوئی شخص امام بنتا ہے، ہم اس کے پیچھے نماز پڑھیں یا نہ پڑھیں تو آپ نے فرمایا کہ نماز اچھا کام ہے جب لوگوں کو اچھا کام کرتے ہوئے دیکھو تو ان کے ساتھ شریک ہو جا یا کرو، ہاں برے کاموں میں ان کے ساتھ شرکت نہ کرو۔
جامع ُ القرآن حضرت عثمانؓ بن عفان
خلیفہ راشد حضرت عثمانؓ بن عفان خلفائے راشدین میں سے تیسرے خلیفہؓ تھے۔
جن کا دور حکومت خوش حالی کا دور تھا۔ آپؓ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی پھوپھی ام حکیم بیضاد کے نواسے تھے اس رشتے سے آپ ؓ نبی اکرم ؐ کے بھانجے ہوئے۔ ام حکیم حضرت عبداﷲ کی جڑواں بہن تھیں، اسلامی تاریخ میں حضرت عثمانؓ بن عفان کا مرتبہ بہت بلند اور فضائل بے شمار ہیں۔ سیرت و کردار اور اسلامی خدمات میں بلند درجے پر فائز ہیں، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی دو بیٹیاں حضرت ام کلثومؓؓ اور حضرت رقیہؓ یکے بعد دیگرے حضرت عثمان ؓ سے بیاہی گئیں، اس لیے آپؓ کو ’’ذوالنورین‘‘ کہاجاتاہے۔
دور جاہلیت میں آپؓ کا شمار ان چند اشخاص میں ہوتا تھا جو پڑھنا لکھنا جانتے تھے۔ اس لیے کاتب وحی تھے۔ پیشے کے لحاظ سے تاجر تھے۔ انتہائی دولت مند، فیاض اور غنی تھے۔ قبول اسلام کے بعد اپنی ساری دولت دین وملت کی نذر کردی۔ غزوہ تبوک جسے گرمی اور قحط سالی کی بناء پر ’’جیش العسرۃ‘‘ کہاجاتاہے۔
اس غزوہ میں آپؐ کی اپیل پر مسلمان مردوں اور عورتوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ حضرت ابو بکرؓ نے کل اثاثہ نذر کردیا، حضرت عمرؓ گھر کا نصف مال لے آئے، حضرت عثمانؓ نے اس موقع پر مسلمانوں کی تیس ہزار فوج کا ایک تہائی حصہ کا تمام خرچ برداشت کیا۔ دس ہزار فوجیوں کے لیے ایک ایک تسمہ تک ان کے روپوں سے خریدا گیا۔ اس کے علاوہ ایک ہزار دینار، ایک ہزار اونٹ، ستر گھوڑے مع ساز و سامان کے اﷲ کی راہ میں نذر کیے۔ اس خدمت پر حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم بے اختیار پکار اٹھے ’’آج کے بعد عثمانؓ کے کسی عمل پر نقصان نہیں ہوگا‘‘
حضرت عثمان ؓ تمام غزوات میں آںحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ جان و مال سے شریک رہے، البتہ غزوہ بدر (17رمضان المبارک2ھ) میں اپنی اہلیہ حضرت رقیہؓ کی علالت کی وجہ سے شریک نہ ہوسکے۔ آںحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے حکم پر وہ بیوی کی دیکھ بھال اور علاج کی خاطر مدینہ میں رک گئے، حضرت رقیہؓ صحت یاب نہ ہوسکیں اور ٹھیک اسی وقت حضرت زید بن حارثؓ غزوہ بدر کی فتح کی خوش خبری لے کر مدینہ میں داخل ہوئے اس وقت حضرت عثمانؓ اپنی زوجہ محترمہ صاحب زادی رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی تدفین میں مصروف تھے۔
تاہم چوں کہ غزوہ بدر میں آںحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل میں شرکت نہیں کی تھی، اس لیے آپؐ نے حضرت عثمانؓ کو بھی مال غنیمت میں سے مجاہدین کے ساتھ حصہ دیا۔6ھ میں صلح حدیبیہ کے موقع پر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے سفارت کے لیے حضرت عثمانؓ کو منتخب فرمایا۔ یہ عمل بذات خود حضرت عثمانؓ کی فضیلت اور ان پر مکمل اعتماد نبویؐ کی دلیل ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ جب حضرت عثمانؓ کی شہادت کی خبر آںحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپؐ نے فوراً ان کا بدلہ لینے کے لیے تیاری شروع کردی۔ اس کے علاوہ آںحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک کو حضرت عثمانؓ کا ہاتھ قرار دیا اور ان کی طرف سے اپنے سے بیعت لی۔ یہ اتنا بڑا شرف اور امتیاز ہے کہ اس میں کوئی اور شخص ’’ذوالنورین‘‘ کا شریک نہیں ہوسکتا۔
حضرت عثمانؓ آںحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اعلیٰ درجے کی مشاورتی کونسل کے رکن تھے۔ اس بنا پر کوئی غزوہ ہو یا کوئی اور اہم معاملہ اس میں شریک رہتے تھے۔ مکہ میں جب کفار قریش کے ظلم و ستم بڑھے تو اپنی زوجہ محترمہ کے ساتھ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے حکم سے حبشہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ مدینہ ہجرت کے بعد تعمیر مسجد نبویؐ میں عام لوگوں کی طرح شریک ہوئے، کچھ دن بعد یہ مسجد ضرورت کے لیے ناکافی پڑ گئی تو مسجد کے قریب کا ایک قطعہ پچیس ہزار درہم میں خرید کر نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ایماء پر مسجد میں شامل کردیا۔
ہجرت مدینہ کے وقت میٹھے پانی کی بڑی قلت تھی، شہر میں بیررو مہ نام کا ایک کنواں تھا جس کا مالک ایک یہودی تھا، حضرت عثمانؓ نے اس کنوئیں کو پینتیس ہزار درہم میں یہودی سے خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کردیا۔ اتباع سنت میں حد سے زیادہ بڑھے ہوئے تھے، عشق و محبت اور ادب و احترام نبویؐ ہر حال میں پیش نظر رکھتے تھے۔ خود بھی اہتمام کرتے اور دوسروں کو بھی تلقین کرتے۔ معاملہ کے انتہائی صاف تھے۔ فریق ثانی کی دل جوئی کا برابر خیال رکھتے تھے۔ تقویٰ اور طہارت آپؓ کا جوہر تھا۔
آپؓ کا سب سے بڑا وصف ’’حیا‘‘ تھا، وہ انتہائی شرمیلے، بے حد رحم دل، کم سخن، حلیم و متین تھے، نیکی سے محبت اور منکرات سے نفرت کرتے تھے، مکروہات سے طبعاً متنفر تھے۔ خلیفہ ہونے کے بعد آپؓ کا تمام وقت امور خلافت کی انجام دہی میں گزرتاتھا۔ اس لیے اپنے کاروبار کی نگرانی نہیں کرسکتے تھے۔ لیکن اس کے باوجود آپؓ بیت المال سے تن خواہ نہیں لیتے تھے، غلام آزاد کرنے کا بڑا اہتمام کرتے تھے، ایک روایت کے مطابق قبول اسلام کے بعد ہر جمعہ کو ایک غلام آزاد کرتے تھے، قرأت قرآن اور تجوید کے بھی ماہر تھے۔
حدیث سے بھی بڑا شغف تھا ۔آپؓ سے روایت کردہ احادیث کی تعداد 146ہے۔ فقہ میں درک حاصل تھا۔ اس وجہ سے ان کا شمار فقہاء صحابہ میں ہوتا ہے۔ عہد صدیقی اور عہد فاروقی میں مجلس افتاء اور شوریٰ کے رکن رہے، خصوصاً علم الفرائض اور علم المناسک میں آپؓ کا درجہ بہت بلند ہے۔ علم الفرائض میں زید بن ثابتؓ اور علم المناسک میں حضرت عبداللہ ؓ بن عمران کے ہم پلہ تھے۔ انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ آںحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ’’میری امت میں حیا میں سب سے زیادہ سچے عثمانؓ ہیں۔بے شمار مصروفیات اور مشاغل کے باوجود کثرت سے عبادت کرتے تھے۔ صائم الدھر اور قائم اللیل تھے۔ نماز انتہائی خضوع وخشوع سے پڑھتے ، اس درجہ محویت ہوتی کہ گرد وپیش کی خبر نہ ہوتی تھی۔ خلافت کے بعد نائب رسولﷺ کا سب سے اہم فرض مذہب کی خدمت اور اس کی اشاعت و تبلیغ ہے ، حضرت عثمانؓ بھی اس خدمت کے لیے ہر وقت تیار رہتے، جہاد میں بھی جو قیدی گرفتار ہوکر آتے ان کے سامنے اسلام کے محاسن بیان کرکے دین مبین کی طرف آنے کی دعوت دیتے تھے۔
اسلام کی خدمت میں ان کا سب سے بڑا کارنامہ قرآن مجید کو اختلاف و تحریف سے محفوظ کرنا اور ایک قرأت پر امت مسلمہ پر جمع کرناہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ آرمینہ اور آذربائیجان کی مہم میں شام، مصر، عراق وغیرہ کی فوجیں جمع تھیں ، جن میں زیادہ تر نو مسلم اور عجمی تھے، جن کی مادری زبان عربی نہ تھی حضرت حذیفہؓ بن یمان اس جہاد میں شریک تھے، انہوں نے دیکھا کہ اختلاف قرأت عثمانؓ سے ہے اور ہر ایک اپنے ملک کی قرأت کو درست سمجھتاہے۔
وہ جہاد سے واپس آئے تو حضرت عثمانؓ کو مفصل حالات بتائے اور عرض کی کہ امیر المؤمنینؓ! اگر جلد اس کی اصلاح نہ کی گئی تو مسلمان خدا کی کتاب میں بھی شدید اختلاف پیدا کرلیں گے۔ حضرت حذیفہؓ کی توجہ دلانے پر حضرت عثمانؓ کو بھی خیال ہوا اور انہوں نے ام المومنین حضرت حفصہؓ سے عہد صدیقی کا مرتب اور مدون کیا ہوا نسخہ حضرت زید بن ثابتؓ، عبداﷲ بن زبیرؓ اور سعید بن العاص ؓسے اس کی نقلیں کراکے تمام ممالک میں اس کی اشاعت کی ، اس طرح جامع القرآن ہونے کا شرف حضرت عثمانؓ کی قسمت میں آیا اور یہ اسلام کی اتنی اہم خدمت ہے۔
جس کے لیے حضرت عثمانؓ اکابر صحابہ میں شمار کیے جاتے ہیں۔ علامہ ذہبی نے لکھا ہے کہ حضرت عثمانؓ کے مرتبہ ومقام اور جلالت شان کا اندازہ وہی لوگ کرسکتے ہیں جو اس کو دیکھتے ہیں کہ انہوں نے کس طرح وقت کی اہم ضرورت کا احساس کرکے جمع قرآن کا حکم دیا اور حضرت عثمانؓ ان سب لوگوں میں افضل تھے جنہوں نے قرآن آںحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے پڑھا تھا، حضرت عثمانؓ میں دو صفتیں ایسی تھیں جو انہیں افضل بناتی ہیں۔ ایک ان کا کام جس کا انجام شہادت ہوا اور دوسری صفت پوری امت کو ایک قرآن پر جمع کردینا۔
آپؓ کی شہادت 18ذی الحجہ سن35ھ میں ہوئی۔ یہ جمعہ کے دن عصر کا وقت تھا۔