صفحات

تلاش کریں

ناولٹ:سراب ازعبدالصمد

ناولٹ

میں بول رہا ہوں ، تم ہنس رہے ہو؟

میں بک رہا ہوں ، تم ہنس رہے ہو؟

ہنس لو، ہنس لو ، کہ اس کی بھی ایک عمر ہوتی ہے۔

کیا تم نے پیٹ بھرتے دیکھ کر پیٹ بھرتے سنا ہے ؟

تشفی ہو جاتی ہے کہ زندہ رہنے کی بہت بڑی وجہ ہے لیکن یوں بھی ہوتا ہے کہ خالی پیٹ دیکھ کر احساس ستانے لگتا ہے۔

مجھے ڈر ہے کہ میرے ساتھ رہ کر تم اپنی ہنسی نہ بھول جاؤ۔

یہ تم چاروں طرف کیا دیکھ رہے ہو؟

ڈھونڈ تو نہیں رہے کچھ؟

ڈھونڈو، ڈھونڈو، اگر کچھ ڈھونڈ سکو، بلکہ مجھے بھی اطلاع دینا۔

تم سنو تو میں تمھیں بتاؤں !

یہ جو تم چاروں طرف دیکھ رہے ہو یہ۔ یہ کوئی وہ نہیں ہے ( تمام خوبصورت مثالیں اور استعارے تو لوگ ہضم کر کے بیٹھ گئے ) بلکہ، بلکہ یہ ارے بھئی تین طرف تو خالص مٹی ہے ، چوتھی طرف بھی مٹی ہی ہے لیکن راستہ کے لیے دروازہ کا جڑاؤ کر دیا گیا ہے۔

یہ جگہ بڑی محفوظ ہے۔ یہاں میں آزاد ہوں کہ تم سے زور سے باتیں کروں یا آہستہ سے ، ہنس دوں یا  رو دوں۔ اور تو اور، میں چاہوں تو آسانی سے ننگا بھی ہوسکتا ہوں ، بلکہ یہ کہوں کہ بہت بار ہوا ہوں ، تو تم برا تو نہیں مانو گے ؟

یہ جگہ بڑی ٹھنڈی ، بہت گرم، بہت مرطوب ، بڑی خشک ، بہت نرم و نازک۔ بڑی سخت اور ذرا باہر نکل کر دیکھو تو۔

پھر تو ے ہی جگہ بے حد غیر محفوظ بہت ہی مخدوش اور خطرات میں گھری ہوئی۔

اس کے چاروں طرف خطرناک اور زہریلے جانور گھوم رہے ہیں ، جو موقع ملتے ہی کسی کو پھاڑ کھانے والے ہیں ، اور اوپر آدم خور گدھ اور چیل منڈلا رہے ہیں ، جن کا ابھی کسی پر بس نہیں چل رہا۔ اور میں ....

میں تو صرف اپنی سفید پوشی برقرار رکھنے کے لیے ے ہاں پناہ لیتا ہوں ، ورنہ خدا معلوم میرا کیا بنتا؟ یہ میرا ایک راز ہے کہ میں کسی طرح جانوروں سے بچ کر جاتا ہوں اور آتا ہوں۔ یہ بات آسانی سے نہیں بتانے کی۔ بس یوں سمجھوکہ میرے پاس چن سر ہے کہ جانور میرے قریب آنے سے بھڑکتے ہیں ورنہ میں کیا کرسکتا ہوں۔

میرے ساتھ رہنے کے لیے بڑا دل گردہ چاہیے۔

آنکھوں کے سامنے رونے ہنسنے ، غم و مسرت کی بہت سی وارداتیں ہوتی ہیں جو زندگی کے پیچھے لٹھ لیے گھومتی رہتی ہیں۔

پہلی شرط تو لوہے کی وہ چادر اپنے چاروں اور اوڑھ لینے کی ہے جو میں نے اوڑھ رکھی ہے۔ کپڑے کی چادر تو سبھی اوڑھے رہتے ہیں جو نظر تو نہیں آتی، لیکن ایک وقت آتا ہے ، جب دوسروں کو دکھائی دے ہی جاتی ہے۔ آنکھیں قصوروار ہیں۔

بازار میں مل جاتی ہیں ، بازار میں کون سی چیز نہیں ملتی۔

جو دل چاہے لیکن سب سے اچھی خرید کیفیتوں کی ہے کہ ایک خرید لو تو دوسری سے بے نیاز ہو جاؤ۔ جی بھر جائے تو دوسری خرید لو اور پہلی سے بے نیاز ہو جاؤ۔

دوسری شرط کہ .... سفیدی اور سیاہی کو نہ پوچھ بیٹھنا کہ سوالات کی عمر بہت لمبی ہوتی ہے اور جواب کی بہت مختصر۔

یوں میرا ہی ایک حصہ بن جاؤ۔ میرے انگ انگ میں شامل ہو جاؤ۔ میری سانسوں میں ضم ہو جاؤ اس طرح کہ میں ، میں نہ رہوں تم ، تم نہ رہو۔ پھر یوں ہو گا کہ سوال، سوال نہ رہے گا، جواب ، جواب نہ رہے گا اور یہ چیز ہمارے درمیان سمجھوتے کی کیفیت پیدا کر دے گی۔

میں جو کچھ بولنا چاہوں گا اپنے آپ سے بولوں گا اور جانتے ہو تم ؟ آدمی جب خود سے مخاطب ہوتا ہے تو پھر وہ غلط نہیں بول سکتا، جھوٹ نہیں بول سکتا، سچ کے سوا کچھ نہیں بول سکتا۔

میں ابھی ابھی اپنی جائے پناہ سے خطرناک اور آدم خور جانوروں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر نکل آیا ہوں اور سڑک تک آتے آتے تھک گیا ہوں۔ بعض دفعہ آنکھوں سے بھی تھکا جاتا ہے۔

میں چل رہا ہوں لوگ دیکھ رہے ہیں۔

یہ سڑک ، یہ بلڈنگیں ، یہ دوکانیں .... یہ پیڑ پودے سبھی مجھے دیکھ رہے ہیں ،ے ہاں تک کہ سورج بھی مجھے تک رہا ہے بلکہ میں تو ے ہاں تک کہنے کو تیار ہوں کہ وہ میرا پیچھا کر رہا ہے۔

لمبی چوڑی سڑک ہے چم چم کرتی ہوئی۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اتنی صاف و شفاف کیسے رہ پاتی ہے۔ اتنے میں تو ....اتنے میں تو شاید اس کے پاس بھی کوئی نسخہ اور ہونا ہی چاہیے۔

یہ تو نسخوں کی جگہ ہے۔

صرف سوچنے کی بات ہے۔

آدمی سوچنے پر آئے تو صرف سڑک ہی کو سوچ لے ،پھر آگے سوچنے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہ جاتی، کہ زندگی اس میں تمام ہو جائے گی اور بہت سے خسین استعارے اور مثالیں ذہن میں کلبلاتے رہ جائیں گے۔

یہ سڑک ....

مجھے اس سڑک سے محبت سی ہے کیوں کہ اس کی چمچماہٹ میں ، اکثر میں اپنی تصویر دیکھ لیا کرتا ہوں اور اکثر حیران ہو ہو کے نارمل ہوا ہوں کہ میری ہڈیاں ، میرا گوشت اور میرا خون.... سب کچھ تو وہی ہے .... شاید وہی ہے ....آدمی اور سڑک....!

سڑک میری ماں ہے کہ جب بادل اپنے حسن میں چمکتی اور کڑکتی بجلیوں سے چار چاند لگاتا تھا تو رعب حسن سے میرے قدم اکڑ جاتے تھے اور تب .... تب ماں کی گود میں مجھے پناہ ملتی تھی کہ سورج کی روشنی میں ستارے دم توڑ جاتے ہیں۔

بجلی آ کر گرتی ہو گی تو وہ میری ماں کی زلفوں میں اُلجھ جاتی ہو گی۔ اور شاید سڑک میرا باپ ہے کہ جب محلے کے لڑکے کمزور اور اپنا حق جان کر مجھے مارتے اور تنگ کرتے تو میں فوراً بسورتا ہوا اپنے باپ کے پاس جاتا اور میرا باپ محلے بھر کی پتھریلی دیواروں پر کانٹی ٹھونکا کرتا۔

اور سڑک میرا.... میرا....

سوچنے کی بات ہے کہ سڑک نہ ہوتی تب۔ تب میں ....؟

شاید نہیں کہ زہریلے ، خطرناک اور آدم خور جانوروں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر میں کہاں جاتا، جب کہ کہیں بھی جائے پناہ نہ ہوتی.... کہیں بھی جائے امان نہ ہوتی....

میرے سارے بدن میں چیونٹیاں ہی رینگ رہی ہیں ....

نہیں نہیں ، یہ چیونٹیاں نہیں ہیں۔ یہ تو نظروں اور نگاہوں کے وہ چھوٹے چھوٹے اور ننھے منے تیر ہیں جو بے جان اور جاندار کمانوں سے چھوٹ چھوٹ کر مجھ پر برس رہے ہیں اور میں ....

میرے پاس کوئی ڈھال نہیں کہ اپنے کو بچا سکوں۔

لوہے کی وہ چادر جو میں نے کبھی سے اوڑھ رکھی ہے ، بالکل ناکافی ہے ....

میں اتنے تیر کھاتا ہوا بھی چپ چاپ رہتا ہوں کہ کبھی کبھی بڑے مصیبت سے بچنے کے لیے چھوٹی مصیبت مول لینی پڑتی ہے۔

لوک مجھے بے وقوف سمجھ رہے ہیں ....شاید اس لیے .... سر جھکا کر چل رہا ہوں۔ میں انھیں کیسے بتاؤ کہ میں انھیں کپڑے اتار اتار کر دیکھ رہا ہوں۔

میرے پاس شیو کی وہ تیسری آنکھ ہے جو اس دنیا میں ہر انسان کو ملتی رہی ہے۔ اندھوں کی بات میں نہیں کرتا ، وہ بے چارے خود کو نہیں دیکھ سکتے ، دوسروں کی تو بات ہی کیا؟

اور....

میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ تمام لوگ جو میرے آگے دائیں بائیں چل رہے ہیں ، اپنی جیبوں میں پستول ،چھرے اور دوسرے ہتھیار چھپائے ہوئے ہیں اور اک ذرا صرف موقع کی تلاش میں ہیں۔

صرف ایک لمحہ.... اور پھر نہ جانے کیا ہو۔

کاش وہ لمحہ وقت کی کوکھ میں دم توڑ جائے۔

کیوں کہ

کیوں کہ خطرہ تو اصل مجھے ہے کہ میرے پاس بچاؤ کی کوئی صورت نہیں۔ ایک مصیبت سے تو میں اپنی حکمت عملی سے بچ آیا ہوں لیکن وہ بات وہیں کے لیے تھی۔ ے ہاں کوئی اور نسخہ چلے گا۔

اور میں .... دیکھ رہا ہوں کہ تہہ بہ تہہ عمارتوں کی کھڑکیوں میں خطرناک ہتھیار فٹ ہیں اور صرف نشانہ کی صرف کسی کے زد میں آ جانے کی دیر ہے اور پھر....

ماہر سپاہیوں کی موجودگی بھی ٹیکساس کے بھرے بازار کو مقتل بننے سے نہیں روک سکتی۔ میں کیسے اپنی نظریں ان تمام لوگوں کو دے دوں جو نہیں دیکھ رہے ہیں کہ ان تمام دوکانوں اور پیڑ پودوں تک میں خطرناک ہتھیار چھپے ہوئے ہیں اور بچارے لوگ۔

وہ اتنا نہیں سمجھ پاتے کہ وہ جن دوکانوں میں اپنی ضرورتیں پوری کرنے ہنسی خوشی جا رہے ہیں وہاں ان کے قتل کا پورا سامان موجود ہے ، اور جن پیڑ پودوں کے سایہ میں سکون و اطمینان تلاش کر رہے ہیں وہ ان پر قہر برسانے کے لیے کس قدر بے تاب ہیں۔

دیر ہے تو صرف موقع ملنے کی۔

کاش وہ یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے۔ کاش میں انھیں اپنی آنکھیں دے سکتا۔

لیکن یہ سڑک۔

یہ سڑک ہی ہے کہ انھیں کوئی موقع نہیں مل پاتا۔ مگر کب تک؟

سڑک کیا وہاں تک جائے گی جہاں سورج برف کو آگے بنا دیتا ہے ؟

میں سوچ کا سلسلہ بند کر دوں کہ میرے کرب میں کچھ کمی ہو۔

میں سورج کو کبھی بھی مغرب کی بجائے مشرق میں غروب ہوتے نہیں دیکھ سکوں گا۔

میں چپ چاپ سر جھکائے چل رہا ہوں۔

کہا ں جا رہا ہوں ، کیوں جا رہا ہوں۔ سب کچھ بھول چکا ہوں۔

ابھی تھوڑی دیر پہلے جب میں اپنی جائے پناہ سے نکلا تھا، تو مجھے سب کچھ یاد تھا لیکن اب۔

اب۔

یہ پرابلم روز روز کا ہے۔ جب میں اپنے ٹھکانے پر ہوا کرتا ہوں تو مجھے سب کچھ یاد ہوتا ہے ، ے ہاں تک کہ رات میں آنکھیں بند کرتے وقت آموختہ کی طرح دہرا لیا کرتا ہوں۔ صبح بھی نہیں بھولتا اس لیے جلد سے جلد نکلنے کے لیے بے تاب ہوتا ہوں لیکن ....

بس نکلنے کی دیر ہے۔

میں اپنے پیالے میں زور زور سے چمچہ ہلاتا ہوں لیکن تہہ میں پڑی ہوئی چیز سطح پر نہیں آتی اور تھک ہا ر کر میں سوچنے لگتا ہوں کہ یہ اتنے سارے لوگ بسوں پر ، ٹیکسیوں اور کاروں پر، آٹو رکشاؤں پر، پکوں پر.... دو ٹانگوں پر، یہ سب کہاں بھاگے جا رہے ہیں ، کیوں بھاگے جا رہے ہیں ؟

جی میں آتا ہے کہ پوچھ لوں ، کہ شاید مجھے بھی وہیں جانا ہو لیکن کس سے پوچھوں ؟ ان لوگوں سے جن کی جیبوں میں ، میں چھرے اور پستول صاف دیکھ رہا ہوں کہ وہ موقع ملتے ہی مجھ سے اتار دیں۔

بہتر ے ہی ہے کہ انھیں بھاگنے میں مصروف رکھا جائے ورنہ جہاں وہ رکے اور سب کچھ یاد آیا۔

بے چارے بھولے بیٹھے ہیں ، اچھا بھولے ہی رہیں۔

ایک لمحہ کے لیے میں سوچ لوں کہ کدھر جاؤں۔

میں اپنی جیب میں کوئی قطب نما تلاش کرتا ہوں۔

لیکن میرے پاس ایسا کوئی قطب نما نہیں ہے ، جس سے میں اپنی سمت معلوم کرسکوں۔

نہ کبھی پہلے تھا اور نہ کبھی شاید ہو گا۔

کتنا اچھا ہوتا اگر اپنی سمت معلوم ہو جایا کرتی۔ پھر تو نپے تلے با وقار قدم اٹھتے اور سبک رفتاری سے راستہ طے ہوتا۔

یہ بھاگا بھاگ۔ یہ بے سمتی!

تھوڑی دیر تک سوچتے رہنے کے بعد میں ایک طرف کو چل پڑا ہوں کہ ہمیشہ سے ے ہی ہوتا آیا ہے۔

سڑک پر سواریاں بھاگی جا رہی ہیں اور میں ان میں سے کسی کو روک نہیں رہا کہ اس سے جہاں دے دگی میں فرق آتا ہے۔

لیکن سچی بات اس سے الگ ہے 

در اصل میں چنگھاڑے ہوئے ڈبّے میں چڑھنے سے ڈرتا ہوں۔

میں اس لمحے کا تصور کرتے ہوئے بھی ڈرتا ہوں جب میں اس ڈبے میں داخل ہوں اور وہ لوگ جن کی جیبوں میں خطرناک ہتھیار ہیں ، مجھے گھور گھور کر دیکھنے لگیں۔

پھر وہ سوچنے لگیں کہ انھیں کیا کرنا ہے۔

اور تب۔

تب وہ لوگ وہ سب کچھ کر بیٹھیں ، جس کا انھیں ہمیشہ سے انتظار ہے ، جس کا مجھے ہمیشہ سے انتظار ہے۔

اور بھیڑ....

بھیڑ.... انسان کی حفاظت کی ضامن ہے۔

بھیڑ.... انسان کا بہترین پردہ ہے۔

بھیڑ.... خودی کو بھلا دینے کا بہترین ذریعہ ہے۔

بھیڑ.... سوچ اور فکر کے لیے بہترین تلوار ہے۔

مجھے بھیڑسے ہمیشہ سے پیار ہے ، بھیڑ میں اچانک موت بھی آ جائے تو منظور۔ یوں سڑک پر بھیڑ بہت زیادہ تو نہیں ہے ، پھر بھی میرے جیسا کمزور و نحیف انسان تو اس میں کھپ ہی سکتا ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ چلنے سے مجھے ہمیشہ بے انتہا فائدہ محسوس ہوا ہے۔ زندگی کو یوں ہی دیکھا جاسکتا ہے۔ اگر دنیا کے سارے انسان ایسا ہی کریں تو پلکوں میں چھپی ہوئی وہ تمام تصویریں دیکھ لیں جو دھندلکوں نے .... دھبّوں نے چھپا رکھی ہیں۔

سڑک پر زندگیاں بھاگی جا رہی ہیں اور سواریوں نے اپنی تیزی میں انھیں یوں چھپا لیا ہے کہ گنتی میں صرف سواریاں رہ گئی ہیں۔

سبھی اتنی جلدی اپنے راستے طے کرنا چاہتی ہیں کہ نکڑوں پر سڑک پاکر کرنا ایک جہاد بن گیا ہے۔

مجھے تو سبھوں سے بچ بچ کر چلنا پڑ رہا ہے۔

چوراہوں پر مجھے لمحوں کے کئی پل صراط پاکر کرنے پڑ گئے ہیں۔

یکایک زمین میرے قدم تھام لیتی ہے۔

سامنے ....مجھ سے چند قدم کے فاصلے پر ایک بس نے ایک مریل سے کتے کو کچل ڈالا ہے۔

خون کے چھینٹے سڑک پر بکھر گئے ہیں اور لوگوں نے اپنی ناکوں پر رومال رکھ لیے ہیں۔

میں رک کر غور سے کتے کی بھرتہ بنی لاش کو دیکھتا ہوں اور مجھے محسوس ہوتا ہے جیسے میرے ہاتھوں میں کچھ بھاری بھاری سی چیز آ گئی ہے۔ شاید دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن بھیڑ کے دھندلکوں میں کچھ دکھائی نہیں پڑتا۔

شاید.... لعل و جواہرات کے دو ٹکڑے۔

شاید.... کھانے کے مزید ار لڈو۔

شاید .... لوہے کے دو گولے۔

کچھ پتہ نہیں چلتا، لیکن اتنا ضرور معلوم ہوتا ہے کہ ہے قیمتی چیز کہ ان کا وزن اس بات  کا ضامن ہے۔

میرے دل میں ان کی حفاظت کا جذبہ پیدا ہو گیا ہے۔

اور موقع یہ ہے کہ میں ایسوں کے درمیان چل رہا ہوں جن کی جیبوں میں چھرے ، پستول اور دوسرے خطرناک ہتھیار ہیں۔

میں اپنے سامنے سواریوں کی قطاریں دیکھ رہا ہوں ، اور صاف دیکھ رہا ہوں کہ بسوں اور کاروں اور دوسری سواریوں کے بدن سے لمبے لمبے ناخن والے لوہے کے ہاتھ نکل پڑے ہیں اور دوڑتے ہوئے مجھے پکڑنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن میں اپنی حکمت عملی اور احتیاط کی وجہ سے ہاتھ نہیں آتا۔ وہ مجھ سے بس ذرا سا دور لپک رہے ہیں۔

کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ میں ان کی مد میں آ جاتا ہوں۔ لیکن یوں بھی کہ فوراً نکل جاتا ہوں۔ ہر موڑ پر .... ہر نکڑ پر.... ہر چوراہے پر.... جب کہ میں لمحوں کے پل صراط کو پار کر رہا ہوتا ہوں ، ان خطرناک ہاتھوں کی مد میں آ جاتا ہوں اور مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ اگر ایک بار میں ان کے ہاتھ آگیا تو پھر میرا بچنا محال ہے۔

وہ بس ایک ہی جھٹکے میں میرا کام تمام کر دیں گے۔

ان ہاتھوں کی سفاکی صاف جھلک رہی ہے۔

میں ان میں سرخ مالائیں دیکھ رہا ہوں جو وہ میری گردن میں پہنانا چاہتے ہیں۔ میں بے حد چوکنا ہو گیا ہوں۔

اور میری سوچ کے سمندر میں ایک تنکا ضربیں لگا رہا ہے کہ اگر کسی موڑ پر کہیں پر کبھی بھی پیالے میں کوئی اُبال آگیا تب .... تب....؟

چلتے چلتے اور بچتے بچتے میں بے حد تھک گیا ہوں۔ میرے تلووں میں چھالے پڑ گئے ہیں اور میرے پاس لمحوں کا کوئی حساب نہیں ہے کہ میرے چھالے برف ہوسکیں۔

اور مجھے پہلی بار سواری کی اشد ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ اپنی تمام تر خطرناکیوں اور حشر سامانیوں کے باوجود۔

کبھی کبھی خطرہ اور آنکھوں کے درمیان ایسا پردہ حائل ہوتا ہے۔ ایسا پردہ حائل ہوتا ہے کہ لاکھ آنکھیں پھاڑ کر دیکھنے سے بھی کچھ سجھائی نہیں دیتا۔

اگلے موڑ کے آگے بس سٹاپ ہے اور مجھے میری منزل مل گئی ہے۔

بس آ رہی ہے ، جا رہی ہے۔

لمبے ناخنوں والے لوہے کے ہاتھ مجھے پکڑنے کے لیے لپک رہے ہیں۔

میں بچنے کی کوشش کر رہا ہوں۔

میں ے ہاں کیوں کھڑا ہوں۔

کوئی آئے اور دیکھے۔ میں ے ہاں کیوں کھڑا ہوں۔

میرے سارے بدن میں تیر پیوست ہیں۔ انھیں کوئی نہیں نکال سکتا۔ ہڈیوں اور گوشت والی انگلیاں تو ہر گز نہیں .... کوئی ہاتھ لوہے والا....

اور میں .... میں تو تیار ہوں کہ ایسا کوئی ہاتھ مجھے تھام لے۔ تھامنے والا ہاتھ کوئی نہیں۔ سبھی پکڑنے والے ہاتھ!

لوہے کے ہاتھ اب بھی میری طرف لپک رہے ہیں لیکن وہ میرے ہاتھ نہیں آ رہے۔ دور ہی دور چڑھانا.... اور انگوٹھا دکھانا....

اور میں انھیں تھامنے کے لیے کبھی دائیں دوڑتا ہوں۔ اور کبھی بائیں ....

وہ کوئی اور ہوتے ہوں گے جن کی چِت بھی اپنی ہوتی ہے اور پَٹ بھی۔

یوں میں چاہوں تو ان لپکتے ہاتھوں میں دوڑے ہوئے جاسکتا ہوں لیکن وہ جو چلتے چلتے کبھی ہاتھوں میں کچھ تھما دیا گیا تھا۔

رک جاتا ہوں کہ وہ جابر ہاتھ میری طرف بڑھیں گے تو سوائے ان کے اور مجھ سے کیا چھین سکیں گے۔ میرے پاس ہے بھی کیا؟

میرے آس پاس جو لوگ کھڑے تھے وہ تو کب کے جا چکے۔ ان کی جگہ پر دوسرے لوگ آئے وہ بھی جا چکے۔ ان کی جگہ پر اور میں کھڑا دھول پھانک رہا ہوں۔

میں محسوس کر رہا ہوں کہ زمین نے میرے قدم پکڑ لیے ہیں اور میں بند کی طرح اس کے گرد گھوم رہا ہوں۔

میرے پاس اس عذاب سے بچنے کی صرف ایک ہی ترکیب ہے۔

میں ان خطرناک اور سخت ہاتھوں میں چلا جاؤں لیکن .... لیکن پھر یوں ہوتا ہے کہ ایک بس آتی ہے ، لپکتے ہوئے اور دوڑتے ہوئے ہاتھ سست پڑ جاتے ہیں۔

میں صرف ایک لمحے کو اپنی مٹھی میں دبائے ڈارون کی پوری تھیوری پھلانگ جاتا ہوں۔

ایک لمبی چھلانگ....!

اور پھر مٹھی میں بند لمحے کو اپنے سارے بدن پر پھیر ڈالتا ہوں اور جیسے ساری خطرناکیوں سے محفوظ ہو جاتا ہوں۔

بس میں جتنے لوگ بیٹھے ہیں ، اس سے زیادہ کھڑے ہیں۔ لٹکے ہوؤں کا تو معاملہ ہی الگ ہے۔ بس در اصل چند لوگوں کے لیے ہے اور کام لے رہے ہیں بہت سارے دوسرے لوگ۔

میں پہلے لٹکے ہوؤں میں تھا۔ پھر بہت سارے لٹکے ہوئے لوگ اندر چلے جاتے ہیں تو میں بھی چلا جاتا ہوں اور اب اطمینان سے لوہے کے کھمبے سے ٹک کر کھڑا ہوں۔

کنڈکٹر.... جیسے منکر نکیر....

”ٹکٹ....؟“

”ٹکٹ....؟“

یہ تو مجھے پتہ نہیں کہ جانا کہاں ہے لیکن پھر بھی۔

”جہاں تک یہ بس جائے !“

”تو گھومنے نکلے ہیں .... دیہات سے آئے ہو؟“

.... صرف ایک اطمینان بھر اسانس

ٹکٹ میرے ہاتھ میں پھسل رہا ہے اور میں نے اسے کلائی میں بندھی سورج کی پرچھائیوں کے قید خانے کے پیچھے دبا دیا ہے۔

”آگے بڑھئے۔ آگے بڑھئیے ....“

ایک دنیا چلی آ رہی ہے اور میں آگے کھکستا جا رہا ہوں۔

سیٹ خالی نہیں ہوتی ہے اور جو خالی بھی ہوتی ہے اور وہ رومال یا کتاب سے ریزرو ہو جاتی ہے۔

کھڑا کھڑا تھک جاتا ہوں لیکن بیٹھنے کی جگہ نہیں ملتی۔

”ادھر آ جائیے۔“

میں بغیر سوچے سمجھے آواز کی طرف لپکتا ہوں لیکن تب تک ایک صاحب بہادر سیٹ پر بیٹھ جاتا ہے۔ پکارنے والا بس سے اتر کر چلا جاتا ہے اور میں اس کے چہرے پر یہ نہیں پڑھ پاتا کہ اس صاحب بہادر کو ہی پکارتا تھا۔

میری پشت پر اچانک کچھ گڑنے لگا ہے۔ چوں کر پیچھے دیکھتا ہوں۔ ایک طالب علم بہت سی کتابیں تھامے کھڑا ہے۔ مجھے مڑتے دیکھ کر اس نے کتابیں ذرا سی ہلا دی ہیں۔

”ایکس کیوز می!“

”کوئی بات نہیں .... بھیڑ بہت ہے۔“

طالب علم مسکرا دیتا ہے اور اپنے بغل کی سیٹ پر براجمان صاحب کو ایک کتاب تھماتا ہے ، کچھ دیر بعد وہ صاحب اٹھتے ہیں تو کتاب سیٹ پر رکھ دیتے ہیں۔ طالب علم کتابوں کو گود میں تھامے بیٹھ جاتا ہے۔

میں اپنا جائزہ لیتا ہوں۔ میرے پاس تو کچھ بھی نہیں جس سے سیٹ پر قبضہ کرسکوں۔ کوئی کتاب کوئی رومال، کچھ بھی تو نہیں۔

”آئیے نا آپ بھی بیٹھ جائیے۔“

طالب علم مجھے بلاتے ہوئے دو میں تین کی جگہ بناتا ہے۔ اس کے ساتھ والے صاحب ناک بھوں چڑھاتے ہیں۔

”سیٹ تو دو کی ہے ، آپ کہاں بلا رہے ہیں۔“

”ارے تو کیا ہوا.... چلتا ہی ہے دو میں تین۔ تین میں چار، ہر نمبر اپنے سے آگے ہوتا ہے۔“

”تین نہیں چار بٹھا لینا۔ میں اگلے سٹاپ پر اتر جاؤں گا۔“

طالب علم کچھ بول نہیں پاتا کیوں کہ میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا ہے۔

اگلے سٹاپ پر جگہ خالی ہو جاتی ہے تو میں بیٹھ جاتا ہوں۔

بیٹھنے کی قدر اب جا کر معلوم ہوئی ہے۔ میں نے شہادت کی انگلی سے پیشانی پر اُبھرے پسینے کو پونچھ کر کھڑکی کے شیشے پر چھڑک دیا ہے۔

تیز اور ٹھنڈی ہواؤں نے بڑی فرحت بخشی ہے۔

ہمارے آگے والی سیٹ پر اچانک دو شناسا شخص مل گئے ہیں۔

”ارے راکیش....تم ؟“

”ارے موہن.... تم ے ہاں کہاں بھائی؟“

”پھر تو ملتے کیوں کر۔ بساط کے مہر ے خود سے اپنی جگہیں نہیں پھلانگتے۔“

موت اور نوالے جگہ جگہ بکھیر دے ے گئے ہیں اور ہم انھیں پانے کے لیے ادھر ادھر دوڑتے پھرتے ہیں اور دوڑ دھوپ میں کہیں ہم مل جاتے ہیں کہیں تم....“

”بھئی کیا کر رہے ہو؟“

”ایک کام ہو تو بتاؤں۔“

”پھر بھی....؟“

”پڑھائی ختم کی تو ایک اسکول میں ٹیچر ہو گیا.... پھر چھوڑ دیا۔“

”کیوں چھوڑ دیا؟“

”بس یوں ہی.... جی نہیں لگا۔ بات یہ ہے کہ میرا مقصد تو تھا نہیں۔ پھر ایک فرم میں نوکری کی، تھوڑے دن کام کیا، اسے بھی چھوڑا۔“

”اب کیوں ....؟“

”ارے وہی مقصد.... پھر ایک چھوٹی سی دوکان کر لی۔ کچھ جی نہیں لگا کچھ دوکان نہیں چلی، اسے بھی چھوڑا....“

”....؟“

”پھر ایک سرکاری نوکری ملی، لیکن وہاں دو رنگ کی.... سفید اور کالے رنگ کی روٹی ملا کر پکتی تھی اور حلق میں پھنس جاتی تھی نتیجہ یہ ہوا کہ اسے بھی چھوڑنا پڑا ہے۔ یوں بھی یہ میرا مقصد نہیں تھا۔ اب سلیس (Sales) ایجنٹ ہوں۔ جگہ جگہ گھوم کر چائے کی پتی بیچتا ہوں۔ لیکن میرا Aim یہ بھی نہیں ہے۔“

”پھر....؟“

”کچھ سمجھ میں نہیں آتا.... لو میرا اسٹاپ تو آگیا۔ اچھا یار پھر ملیں گے۔ یہ رہا میرا کارڈ....“

”کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ لو میرا اسٹاپ تو آگیا.... اچھا یار پھر ملیں گے۔ یہ رہا میرا کارڈ....“

”اور میرا کارڈ....؟“

”بابو جی.... آپ کہاں اترو گے ؟“

”ساؤتھ ایکسٹینشن.... ٹی وی بلڈنگ کے پاس۔“

میں چونک کر اپنے بارے میں سوچنے لگتا ہوں۔

”آپ.... آپ کیا کرتے ہیں ؟“

طالب علم پوچھ رہا ہے۔

”میں میں لیکچرر ہوں پولیٹیکل سائنس کا۔ اور آپ....؟“

”میں اکانمکس میں ایم اے کر رہا ہوں۔“

میں طالب علم کے چہرے پر کوما، فل سٹاپ، سوالیہ نشان، تحیر کا نشان۔ اُبھرتے ہوئے صاف دیکھ رہا ہوں۔

اس کی نظریں ان آرائشوں کے ساتھ میرے کالر میں گھسی جا رہی ہیں۔ کالر کے دونوں کھلے ہوئے لب میری گردن پر بوسہ لے رہے ہیں اور مجھے اس گد گدی سے بڑا مزا مل رہا ہے۔

طالب علم کی نگاہوں کی پھواریں مجھ پر پڑ رہی ہیں اور میں سوچ رہا ہوں کہ میں کتنا خوش ہوں۔ خوشی حاصل کر لینا تو بہت ہی آسان ہے ، اک ذرا دل راضی ہو جائے۔

(کاش میں کارپوریشن کی بلڈنگ میں آگے لگا سکتا)

بس کی کھڑکیوں سے شہر کا شور ہواؤں کے دوش پر سوار داخل ہو رہا ہے۔ میں کھڑکی کے شیشے گرا دینا چاہتا ہوں ، لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ جام ہو گیا ہے۔ شاید کھلے کھلے ایسا ہوتا ہے۔

طالب علم نے اپنی کتابوں کے بیچ سے ایک مڑا تڑا اخبار نکال لیا ہے اور اسے اپنی گود پر پھیلا لیا ہے۔ ے ہاں تک کہ اخبار میری گود پر بھی پھیل گیا ہے۔

اخبار میں خبریں ہیں۔ ہڑتالوں کی، ریلیوں کی ، مہنگائیوں کی، مسائل کی، قتل و خون کی.... پھر چند تصویریں ، فلم اور دواؤں اور دوسری چیزوں کے اشتہارات اور ....اور....

”کیا خیال ہے آپ کا؟“

طالب علم اخبار پر نظر گاڑے گاڑے مجھ سے پوچھ رہا ہے۔

”کیا....؟“

میں چونک پڑتا ہوں۔

”موجودہ حالا ت پر!“

”اوہ....“

میں اطمینان کی ایک سانس لے کر مسکرانے کی کوشش کرتا ہوں۔ گھبرا گیا تھا سوال پر .... پتہ نہیں کیا پوچھ لے۔

”کیا کہہ سکتا ہوں۔ مسائل پر ہمارے کوئی اختیارات نہیں۔ نہ ان کے پیدا ہونے پر ، نہ ختم ہونے پر.... بالکل اسی طرح جیسے خود ہمارے پیدا ہونے اور مرنے پر ہمارا کوئی اختیار نہیں !“

میں نے بہت پڑھے لکھوں کے انداز میں بول دیا ہے۔ خوب سوچ سمجھ کر بولو تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ طالب علم کو شاید میری بات پسند نہیں آئی ہے ، کیوں کہ اس کی نظریں اخبار پر سے نہیں ہٹ رہی ہے ں۔ اس نے مزید کوئی بات بھی نہیں پوچھی ہے۔ میں ہی پوچھتا ہوں۔

”آپ کی کیا رائے ہے۔ آپ تو معاشیات کے آدمی ہیں۔“

اتنے میں بس کسی اسٹاپ پر رُک گئی ہے اور طالب علم پاس گزرتے ہوئے خوانچے والے سے پیاز کی تلی ہوئی پھلکیاں خرید رہا ہے۔ خوانچہ والے نے چار پھلکیاں اخبار پر رکھ دی ہیں جیسے طالب علم نے خود ہی تہہ کر کے اس کی طرف بڑھایا ہے۔ بس چل پڑی۔

”کھائیے نا....؟“

”ارے .... ہاتھ گندے ہو جائیں گے۔“

”چھوڑیے بھی۔ ہاتھ صاف کرنے کے لیے کیا ہے ، کپڑے ہیں ، کاغذ ہے۔ سیٹ ہے۔ سیٹ ہے ....؟“

میں بہت احتیاط سے ایک پھلکی اٹھا لیتا ہوں اور کھانے لگتا ہوں لیکن چکنائی میرے ہاتھوں پر لگ ہی جاتی ہے۔ بالکل پھیکا پھیکا اور خراب سا مزہ ہے۔

پھلکیاں جلد ہی ختم ہو گئی ہیں لیکن اخبار کی شکل بالکل مضحکہ خیز ہو کر رہ گئی ہے۔ جہاں جہاں پر خبریں ، تصویریں اور اشتہارات ،وہاں وہاں پر تیل، چکنائی اور صرف تیل پھیلا ہوا ہے۔ ہم دونوں نے ہاتھ بھی اخبار ہی سے صاف کر لیں ہیں اور اخبار اب پڑھنے کے قابل بالکل نہیں رہا ہے۔

”آپ نے جو سوال کیا تھا میں اسے بھولا نہیں ہوں۔“ طالب علم اپنے ذہین ہونے کا یقین دلا رہا ہے۔

میں اسے بڑی پر امید نظروں سے دیکھ رہا ہوں۔

”آپ نے جو بات کہی تھی نا، وہ تو کتابوں کی بات تھی، اور ہم وہ تو نہیں کرتے جو کتابوں میں ہوتا ہے۔ یہ جو اتنے سارے مسائل ہیں۔ مہنگائیاں ہیں ، بدعنوانیاں ہیں ، ہنگامے ہیں۔ جانتے ہیں یہ سب کیوں ہو رہے ہیں؟“

میں انکار میں فوراً سرہلا دیتا ہوں ، حالاں کہ دوسرے ہی لمحے میں مجھے احسا ہوتا ہے کہ یہ میں نے صحیح نہیں کیا۔

”میں آپ کو بتاؤ ں گا۔ یہ سب اس لیے ہو رہے ہیں کہ ہم نے اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں اور کانوں میں روئی ٹھونس رکھی ہے۔ ہمارے چاروں طرف مچھر دانی لگا دی گئی ہے اور ہم اتنے اندھے ہیں کہ اس کے کونوں میں چھپے ہوئے کھٹمل اور مچھروں کو بھی نہیں دیکھ سکتے ، پکڑ نہیں سکتے۔ ہم آرام کی نیند سونا چاہتے ہیں لیکن یہ ہمیں ایسا نہیں کرنے دیتے انھوں نے ایسے ایسے ڈنک لگائے ہیں کہ ہم ان کی زہر ناکیوں کو نکال بھی نہیں سکتے۔“

طالب علم بہت جوش سے بول رہا ہے او رمیں اس کی ایک ایک بات سے متفق ہوتا دکھائی دیتا ہوں۔

”.... آپ جانتے ہیں ہم نے کیا کیا.... ہم نے .... ہم نے ....“

بس ایک جھٹکے کے ساتھ رک گئی ہے اور طالب علم باہر دیکھتا ہوا چونک پڑتا ہے۔

”ارے .... یہ تو آر کے پورم ہے۔ بہت آگے .... مجھے تو بہت پیچھے اُترنا تھا۔“

وہ تیزی سے اُٹھ کر کنڈکٹر کے پاس پہنچ کر تیز تیز لہجے میں اس سے بول رہا ہے۔ کنڈکٹر اس سے بھی زیادہ زور سے بولنے لگا ہے۔

”میں کیا جانوں کہ کسے کہاں اترنا ہے۔ ے ہاں سب اپنی فکر خود کرتے ہیں اور خود ہی پہچان کر اترتے ہیں۔“

طالب علم نے کنڈکٹر کا گریبان پکڑ لیا ہے۔ اتنے میں ڈرائیور بھی وہاں پر پہنچ جاتا ہے اور اب ہنگامہ بڑھنے ہی والا ہے۔

میں اُٹھتا ہوں اور طالب علم کو سمجھاتا ہوں۔ پہلے تو وہ میرا ہاتھ بھی جھٹک دیتا ہے ، پھر چند لمحوں کی رفاقت آڑے آ جاتی ہے۔

میں اپنی جیب سے اسے منزل پر پہنچنے کے لیے آفر کرتا ہوں جسے وہ قبول نہیں کرتا لیکن کنڈکٹر کا گریبان چھوڑ دیتا ہے اور گالیاں بکتا ہوا بس سے اتر جاتا ہے۔

بس پھر چل پڑی ہے۔ میں جھانکتا ہوں۔ طالب علم بہت بپھرے ہوئے موڈ میں بس کو تکتا ہوا دوسری بس کے انتظار میں کھڑا ہے۔

میں کھڑکی سے ہاتھ نکال کر اسے ٹاٹا کرنا چاہتا ہوں لیکن وہ دیکھ نہیں پاتا اور مجھے اس بات کا افسوس رہ جاتا ہے کہ ایک ہونہار طالب علم میرے ساتھ زیادہ دیر نہیں رہ پایا۔

فضا میں بارود کی بو پھیل گئی ہو جیسے۔

میری سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ کیسے اتروں۔ آخر کہیں تو اترنا ہے۔ بس سے سانسوں کا رشتہ تو نہیں جڑ سکتا۔

کنڈکٹر اور ڈرائیور کئی بار مجھے مشکوک نظروں سے گھور چکے ہیں اور میں صرف نظریں چراتا رہا ہوں۔

نظریں چار بھی کیسے کرسکتا ہوں۔ جسے اپنے بارے میں بھی پتہ نہ وہ آنکھیں کیسے ملا سکتا ہے۔

بس میں کتنی انجانی صورتیں نظر آئیں اور دیکھتے دیکھتے غائب ہو گئیں اور اب تو سارے ہی مسافر انجانے نظر آ رہے ہیں۔

صرف میں ے ہا ں ہوں۔

کیوں ہوں ؟

بس کی دنیا بھی عجیب ہے۔ سڑک چلتے لوگوں کو گن نہیں سکتے لیکن بس میں گن سکتے ہیں۔

”ایک .... دو .... تین .... چار....

پھر

”ایک .... دو .... تین.... چار

”ایک .... دو .... تین....

ایک .... دو....

ایک....

لیکن نہ یہ گنتی ختم ہو گی نہ میرا سفر ختم ہو گا۔

کنڈکٹر نے مجھ سے پھر ٹکٹ کٹوا لیا ہے۔ اب تک وہ مجھے دھکے دے کر نکال باہر کر چکا ہوتا، لیکن میں اپنے کو ایک شریف آدمی ثابت کر چکا ہوں اس لیے از راہِ شرافت وہ بھی چپ ہے۔

بس ایک جگہ رکی ہے تو اس میں دھڑ دھڑا کر کچھ لوگ چڑھ گئے ہیں۔

اونچے تہہ بند اور لمبے کرتے پہنے اور سرپر گول ٹوپیاں اوڑھے ، گالوں اور ٹھڈیوں پر کوئی جنگل اور کوئی باغ اگائے۔

ان کے آتے ہی بس میں ایک چہل پہل سی شروع ہو گئی ہے۔ نو یا دس آدمی ہیں۔ جگہیں خالی ہیں لیکن وہ نہیں بیٹھتے ، ے ہاں تک کہ ان میں ایک بیٹھنے کو کہتا ہے اور وہ سبھی بیٹھ جاتے ہیں۔

پھر وہ آدمی بہ آواز بلند کہتا ہے۔

”سفر شروع کرنے کو سوچ لو۔“

وہ زور سے کچھ پڑھتا ہے اور سبھی اسے دہراتے ہیں۔

وہی آدمی پھر حکم لگاتا ہے۔

”سبھی اپنے اپنے کام میں مصروف ہو جائیں۔ ہمیں اس سفر سے فائدہ اٹھانا ہے ، اسے کارآمد بنانا ہے۔“

اور ان میں کوئی تو تسبیح ہلانے لگتا ہے۔ کوئی چھوٹی سی کتاب کھول کر کچھ یاد کر رہا ہے۔ اور کوئی آپس میں کسی موضوع پر مذاکرہ شروع کر دیتا ہے۔

تو یہ ہیں ان کے کام!

میں بہت غور سے ان کی حرکات و سکنات کو دیکھ رہا ہوں۔

وہ لوگ کسی اور ہی دنیا کی مخلوق معلوم ہوتے ہیں۔

انھوں نے اپنی خواہشوں اور ارادوں کا گلا گھونٹ دیا ہے اور اپنی گردنوں میں پٹے باندھ لیے ہیں جن کی نکیل صرف ایک شخص کے ہاتھ میں ہے۔

وہ شخص انھیں جدھر چاہے ، گھما سکتا ہے۔

گھما رہا ہے۔

بس ایک جگہ رکتی ہے تو سنترہ بکتا نظر آتا ہے۔

ان میں سے کسی ایک کی خواہش سنترہ لینے کی ہوتی ہے۔

لیکن وہ خود نہیں لیتا بلکہ اس کے جس کے ہاتھوں میں تکمیل ہے ، کان میں کچھ کہتا ہے۔ وہ سنترہ لیتا ہے اور اس کی برابر قاشیں سبھوں میں تقسیم کر دیتا ہے۔

وہ تین عورتیں مانگوں میں سیندور لگائے ، ماتھے پر جھمکا سجائے آ جاتی ہے ں تو انھیں بیٹھنے کو جگہ نہیں ملتی۔

وہ اِدھر اُدھر دیکھتی ہیں لیکن بس میں ان کی نگاہوں کو نہیں پڑھنے والے جاہل بیٹھے ہیں۔ نکیل والا شخص اچانک انھیں دیکھتا ہے اور خود بھی اٹھتا ہوا ساتھیوں سے سیٹ چھوڑ دینے کو کہتا ہے۔

سبھی اس کی تقلید کرتے ہیں اور عورتیں .... دو پر ایک بیٹھ جاتی ہیں۔

بس کی سیڑھیوں پر ایک بوڑھا اندھا معذور شخص چڑھنے کی کوشش کرتا ہے لیکن چڑھ نہیں پاتا۔

ساتھیوں میں سے ایک دوڑتا ہوا نیچے اترتا ہے اور اسے چڑھنے میں مدد دیتا ہے۔ معذور شخص چڑھ جاتا ہے ، لیکن وہ نہیں چڑھ پاتا اور بس کھل جاتی۔

”ارے .... ارے ....“

لوگوں میں جیسے کسی نے چابی گھما دی ہو۔

”کوئی بات نہیں .... وہ دوسری بس سے چلا آئے گا۔“

نکیل والا شخص مسکراتا ہوا کہتا ہے اور سبھی مسافر دنیا کا آٹھواں عجوبہ دیکھ رہے ہیں۔ مجھے ان لوگوں میں بڑی کشش محسوس ہوتی ہے۔

اور جی میں آتا ہے ان سے پوچھوں۔

لیکن وہ اتنے مگن ہیں کہ ہمت ہی نہیں پڑتی۔

عورتیں اگلے اسٹاپ پر اتر جاتی ہیں تو سبھی اپنی جگہوں پر بیٹھ جاتے ہیں۔ نکیل والا شخص اپنی جگہ پر اکیلا ہے۔ میں اس کی بغل میں جا کر بیٹھ جاتا ہوں۔ وہ تھوڑا سمٹ کر میرے لیے جگہ بناتا ہے اور مسکراتا ہوا میری طرف دیکھتا ہے۔

میری ہمت جوان ہو جاتی ہے۔

”آپ لوگ .... میرا مطلب ہے کون ہیں ؟“

”وہ اپنی مسکراہٹ کو ایک ابدی لمحہ بخش دیتا ہے اور میرے کاندھے تھپتھپاتا ہے۔

”ہم لوگ انسان ہیں اور آدمی کی تلاش میں نکلے ہیں !“

”کیا آپ بہیا کے جنگل اور بودھ گیا کے ویرانوں کی سیر آئے !“

کر آئے جی.... اور تھک گئے .... جنگل بہت گھنا تھا۔ اور ویرانے لا محدود تھے۔انسان تو تھک ہی جایا کرتے ہیں۔“

”لیکن سمندر میں کھنگالنے سے زیادہ تھکنے کا کام نہ ہو گا۔“

”آپ جانتے ہیں۔ کشتی تو سمندر میں چلتی ہے اس طرح کہ ایک بھی قطرہ پانی کا اس کے اندر نہیں جاتا۔“

”سوال یہ ہے کہ آپ کے پاس کون سا جادو ہے۔؟“

”جادو؟“ جادو تو ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہم صرف آواز لگاتے پھرتے ہیں کہ اپنے اپنے کپڑے خشک کر کے کشتی میں کود آؤ۔“

جن کے کپڑے خشک ہو گئے ، وہ آ گئے۔ جو بے چارے اپنے کپڑے خشک نہیں کرسکے ، سمندر انھیں ہڑپ کر گیا۔“

”لیکن یوں تو کشتی بھر جائے گی اور آپ بھی ڈوب جائیں گے۔“

”کشتی بے شک بھر جائے گی لیکن ایک خاص وقت پر ڈوبے گی۔ جب کہ ہم کناروں پر پہنچ چکے ہوں گے۔“

”کیا آپ کے پاس مسخرکرنے کا بھی کوئی نسخہ ہے ؟“

”کپڑے خشک ہونے پر پانی کا اثر خود بخود ختم ہو جاتا ہے۔“

خشک کرنے کے لیے کون سا ہیڑا استعمال کیا جاتا ہے ؟“

”دیکھئے صاحب میں آپ کو بتاتا ہوں۔ آپ یوں سمجھئے کہ آپ کے سارے جسم میں سوئیاں چھبی ہیں۔ آپ نے سیکڑوں سورج کی روشنی نے ایک ایک سوئی کو چن لیا لیکن آنکھ کی سوئی باقی رہ گئی ، جسے آپ نہیں نکال سکتے .... پھر؟ پھر آپ کیا کریں گے ؟“

”ظاہر ہے آنکھ والا ڈھونڈ نا ہو گا۔“

”آنکھوں والا ہے کون؟ سبھی صرف ٹٹولنے والے ہیں۔ خود کھوئی ہوئی چیزیں خود نہیں ملا کرتیں ، دوسرے ڈھونڈ دیا کرتے ہیں اور اسی دوسرے کی تلا ش میں ہم سرگرداں ہیں۔

”لیکن تلاش کے لیے تو خشکی کا راستہ ہمارے بزرگوں نے استعمال کیا اور اس پر اپنے قدم کے نشان چھوڑے۔ پھر وہ آسان راستہ چھوڑ کر یہ سمندر والا کٹھن راستہ؟“

”ہوا کی رفتار آپ کو معلوم ہے ؟“

”....؟“

”ہوائیں چلتی ہیں ، بہت تیز چلتی ہیں اور اپنے ساتھ ساتھ بہت سی دھول کو بھی چلاتی ہیں ، لیکن ان کا ساتھ زیادہ دیر تک نہیں دے پاتیں اور انھیں ادھر اُدھر ڈال دیتی ہیں۔

لیکن جانتے ہیں ، کمال یہ ہے کہ یہ ہوائیں چن چن کر قدموں کے نشان ہی پر دھول ڈالتی ہیں ، اس طرح پر کہ پھر ان میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا۔

سمندر میں ایسا کوئی پرابلم نہیں ، قدموں کے نشان کی کوئی زحمت نہیں ، ہزاروں ٹن والا جہاز گزار دو، تب بھی کچھ نہیں۔ ے ہاں تو اپنی راہ نکالنی ہے۔“

وہ شخص مجھے سمجھانے کے انداز میں بول رہا ہے اور میرے دماغ میں سینکڑوں بچھو کلبلا رہے ہیں۔ میں انھیں پکڑنے کی کوشش کر رہا ہوں لیکن وہ پھسل پھسل جاتے ہیں۔

اور .... اب وہ ڈنک بھی لگا رہے ہیں۔

میرے دماغ کی دیواروں پر کئی سوراخ ہو گئے ہیں ،جن سے زہریلی ہوائیں در آ رہی ہیں اور میں تکلیف سے بلبلا کر چیخنا چاہتا ہوں۔ بلکہ چیخ رہا ہوں۔

لیکن شاید کوئی آواز نہیں کہ میرے آس پاس کے لوگ مجھے چونک کر نہیں دیکھتے ، اپنے کانوں میں انگلیاں نہیں ڈالتے۔

میری چیخ ڈبے میں بند ہو کر رہ گئی ہے جس کا ڈھکن ایر ٹائٹ کر دیا گیا ہے۔

اندر میری چیخ بری طرح کچو کے لگا رہی ہے لیکن باہر نہیں آ پاتی۔

میں اس شخص کو بڑی پُر امید نظروں سے دیکھ رہا ہوں کہ شاید وہ میری مشکل آسان کر دے۔

اور میں جیسے اس سے Air Tight ڈھکن کھولنے کے لیے کہتا ہوں۔

”بھئی۔ مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلو، میں بھی تو دیکھو!“

Air Tight ڈھیلا پڑ گیا ہے جس سے مجھے کچھ سکون سا ملا ہے۔ وہ شخص بے حد خوش ہو گیا ہے۔

بس وہاں پہنچ گئی ہے جہاں ان لوگوں کو اترنا ہے۔

اس شخص نے ہاتھ پکڑ کر مجھے اتار لیا ہے اور اب نیچے سبھی مجھے گھیرے کھڑے ہیں۔

وہ شخص اپنے ساتھیوں سے میرا تعارف کرا رہا ہے اور وہ سب بہت خوش خوش مجھ سے ہاتھ ملا رہے ہیں اور مبارکباد دے رہی ہیں۔

سبھی اپنے سامان پیٹھوں پر لادے چل پڑے ہیں۔ میں بھی ان کے پیچھے ہوں۔ وہ مجھے بہت سی باتیں بتا رہے ہیں لیکن میں کچھ نہیں سن رہا۔

میرے پیر آسمانوں پر جا ٹکے ہیں اور دماغ زمین کی طرف متعلق ہو کر رہ گیا ہے۔ میں ان کی باتیں سننے کی کوشش کرتا ہوں لیکن کچھ پلّے نہیں پڑتا۔

ایسی بات نہیں ہے کہ میں بہرہ ہو گیا ہوں ، ورنہ ڈھول باجے کی وہ آواز میں نہیں سنتا جو بہت دور سے میرے کانوں کے پردے پھاڑے دے رہی ہیں۔

بس سے اتر کر میری نظروں میں بالغ النظری آ گئی ہے۔

میں ہر چیز کو ایک ہی جھلک میں پورا دیکھ لیتا ہوں۔ آدمی ہے تو سر سے پیر تک۔

عمارت ہے تو اوپر سے نیچے تک۔

سطح ہے تو تہہ تک۔

اب میں نے غور سے دیکھنے کی عادت بھی چھوڑ دی ہے اور اس سے بھی مجھے بڑا فائدہ محسوس ہو رہا ہے۔

میں جانتا ہوں کہ کسی نے بھی اپنی جیبوں سے چھرے ، پستول اور دوسرے خطرناک ہتھیار نکال نہیں پھینکے ہیں ، لیکن اب وہ میری نظروں سے اوجھل ہیں۔

میری آنکھوں کے سامنے چمک رہے ہیں ، نہ میرے دل و دماغ میں روشنی پیدا کر رہے ہیں۔ میں انسانوں کے نرغے میں چل رہا ہوں اور اپنے آپ کو اتنا ہی محفوظ سمجھ رہا ہوں ، جتنا مجرم جلاد کی تلوار کے نیچے۔ زندگی سے ....

ڈھول باجے ، شور شرابے قریب ہوتے جا رہے ہیں اور میرے کانوں میں شیرینیاں سی گھل رہی ہیں۔ میں اپنے ساتھیوں کو اس طرف متوجہ کرنا چاہتا لیکن وہ توجہ ہی نہیں کرتے۔ صرف اپنے آپ میں مگن ہیں۔

اتنا پھیلاؤ ہے ان لوگوں میں ، کہ نظروں کے پار کی کوئی چیز نظر ہی نہیں آتی۔ مجھے بے حد غصہ آتا ہے ، کیوں کہ آوازوں سے میں کیسے آنکھیں موند سکتا ہوں۔ میں انھیں جھنجھوڑ کر چپ ہو جاتا ہوں کیوں کہ وہ اتنے آسان نہیں ہیں۔

آوازیں میرے قریب ہوتی جا رہی ہیں۔

ابھی وہ کئی موڑوں پر سے گزرتی ہیں اور شاید جلد ہی میرے سامنے آ جائیں گی۔ میں سوچ رہا ہوں۔

دنیا ے ہی ہے ایک بس کے اندر۔ دوسری اس کے باہر اور دونوں ایک دوسرے سے جدا۔

بس کے اندر ایک شور ہنگامہ، آوازیں اور آوازیں۔ بہت نزدیک دیتے ہوئے بھی بہت دور۔

بس کے باہر بھی شور، ہنگامہ آوازیں اور آوازیں۔ لیکن بہت دور ہوتے ہوئے بھی بہت قریب۔

شاید زندگی اور موت کا فرق۔

میرے سامنے ایک موڑ ہے اور ٹھیک وہیں پر ایک بہت بڑی عمارت ہے کہ دوسری طرف کی چیزیں بالکل دکھائی نہیں پڑتیں۔

آوازیں اسی عمارت کے پیچھے چھپ گئی ہیں اور کوئی دم میں سامنے ہی آنا چاہتی ہیں۔ میری جماعت کے لوگوں کی رفتاریں تیز ہو گئی ہیں اور راہبر کہ رہا ہے۔

”بھئی نگاہیں نیچر کھنا، ورنہ کھو بیٹھو گے۔

اس وقت سب سے قیمتی چیز ہماری نگاہیں ہیں اور ہمیں ان کی ہر قیمت پر حفاظت کرتا ہے۔ نگاہیں ضائع ہوتی ہیں مٹی کی سلائیاں پھیرنے سے اس لیے ....اس لیے۔

او ر سبھی نے اپنی اپنی مٹی کی سلائیاں پھینک دی ہیں ، اور پرسکون ہو گئے ہیں۔

میں نے بھی ایسا چاہا ہے لیکن سلائیاں میرے ہاتھ نہیں آئی ہیں اور میں صرف کوشش کرتا رہ گیا ہوں۔ ے ہاں تک کہ آوازوں کے خد و خال واضح طور پر ہمارے سامنے آ گئے ہیں۔

ایک بہت بڑا جلوس ہے۔ لاتعداد ہاتھیوں ، گھوڑوں اور اونٹوں سے مزین۔ جلوس کے آگے ایک بہت بڑے سفید گھوڑے پر ایک کالا بد صورت شخص بہت ہی زرق برق لباس پہنے بیٹھا ہے۔ اس کے پیچھے گھوڑوں کی ایک لمبی قطار ہے جن پر اسی جیسے لوگ بیٹھے ہیں۔ اس کے پیچھے ہاتھیوں کی قطار پھر اونٹوں کی ایک پر کئی کئی زیرو والا مجمع۔

پٹاخے ، آتش بازیاں ، پھولوں کے بڑے بڑے گلاستے خوش نما رنگین روشنیاں اور نعرے .... آوازیں .... مسرت و شاد کامی کے طویل لمحے .... اور .... اور

مجھے یہ سب کچھ بہت اچھا معلوم ہو رہا ہے اور میں مبہوت ہو کر دیکھ رہا ہوں۔ روشنیاں میری آنکھوں کو خیرہ کر رہی ہیں۔

میرے اندر شان و شوکت کا ایک پتلا آ کر لپٹ گیا ہے۔ میں تھپک تھپک کر اسے سلا رہا ہوں۔

اپنے قریب سے گزرتے ہوئے ایک آدمی سے میں نے پوچھا۔

”یہ سب کیا ہے ؟“

”اسے جلوس کہتے ہیں .... ریلی!“

اس آدمی نے سر سے پیر تک مجھے دیکھا ہے اور میرے کاندھوں پر گھبراہٹ اور ندامت پیر لٹکا کر سوار ہو گئے ہیں۔

میں پھر کسی سے پوچھنا چاہتا ہوں ، لیکن وہ لات چلا چلا کر مجھے بولنے نہیں دیتے۔

سورج نے کتنے قدم بڑھائے۔ چرخی کتنی بار گھوم گئی۔ مجھے کچھ پتہ نہیں کہ جلوس نے میرے کان اور آنکھوں پر پورا قبضہ جما لیا ہے۔

میں جدوجہد میں ہوں کہ ان سے میرا پیچھا چھوٹے۔

لیکن .... نہ میں جیت رہا ہوں نہ وہ ہار رہے ہیں۔ ے ہاں تک کہ بھیڑ ختم ہو گئی ہے۔

میں اپنے کانوں اور آنکھوں کو ٹٹول ٹٹول کر دیکھ رہا ہوں۔ سبھی سلامت ہیں۔

لیکن .... مجھ پر انکشاف ہوا ہے کہ میں اپنی جماعت سے بچھڑ گیا ہوں۔

میرے آس پاس بہت سے لوگ ہیں۔

پر میں اکیلا ہوں۔

میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر انھیں ڈھونڈ رہا ہوں۔

دوڑ بھاگ کر انھیں دیکھ رہا ہوں۔

لیکن وہ ہوں تب تو ملیں۔

میں لوگوں سے پوچھنا چاہتا ہوں لیکن کیا پوچھوں۔ میں تو ان کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا ، پوچھوں تو کیا پوچھوں ؟

میں دیر تک کھڑا رہ جاتا ہوں .... بچھڑا فرد کیسا ہوتا ہے ؟

مجھے بے حد شدت سے وہ بس یاد آ رہی ہے جس میں اور کچھ نہیں تو بیٹھنے کی جگہ تو تھی۔

میں زیادہ دیر تک ایک جگہ کھڑا رہنا مناسب نہیں سمجھتا ہوں کہ کیوں کہ لوگ تو پھر لوگ ہی ہیں۔

اور پھر جب کہ ان کی جیبوں میں ....

میں اپنی آنکھیں پھوڑ سکتا تو پھوڑ لیتا تو پھر آسانی سے چل پھر سکتا۔ ایک جگہ کھڑا رہ سکتا۔ لیکن میں یہ کرسکتا ہوں نہ وہ کرسکتا ہوں۔

چلتے چلتے مجھے یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے کوئی دبلا پتلا سا جانور میرے اندر گھس گیا ہے اور مسلسل چیخ رہا ہے۔

بعض جانور ایسے بھی ہوتے ہیں جنھیں جتنا مارا جائے اتنا ہی چیختے ہیں۔ میں اس کی چیخ سے سراسیمگی محسوس کر رہا ہوں۔

آس پاس کے لوگ سنیں گے تو کیا کہیں گے ؟

میں اسے بہلانے کی کوشش کرتا ہوں۔

چمکار نے کی کوشش کرتا ہوں۔

لیکن وہ ایک ضدی بچہ ہے جو بے جا لاڈ پیار میں بگڑ کر رہ گیا ہے اور اب وہ کوئی کھولنا دینے سے کوئی چاکلیٹ دکھانے سے بھی چپ نہیں ہوتا۔ مجھے لوگوں سے بڑا خوف محسوس ہو رہا ہے۔

میں ویسے بھی ایک خوف زدہ آدمی ہوں اور اس حالت میں تو میری جو گت بھی بن جائے۔

تھک ہار کر میں اپنے کو اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہوں۔

اس کے تابع ہو جاتا ہوں۔ جہاں چاہے مجھے لے جائے۔

لیکن ....اگر ضدی بچہ چاند تارے کی فرمائش کر بیٹھے تب؟

شکر ہے کہ ایسی بات نہیں ہوتی ہے۔ ہو بھی جاتی تو میں کیا کر لیتا؟

میں اپنے آپ کو ایک اجنبی جگہ کھڑا پاتا ہوں اور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہا ہوں۔ مجھ پر یہ انکشاف ہوتا ہے کہ جگہ تو اجنبی ہرگز نہیں ہے ، میں ے ہاں بہت بار آیا ہوں۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ میں ے ہاں آ کر ہمیشہ اجنبی بن جایا کرتا ہوں۔

جانے کیوں میرے سامنے ایک مردہ جسم اور زندہ روح چاند کی سی روشنی میں سامنے آ کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس طرح کہ ان کی طرف دیکھے بغیر کوئی چارہ نہیں۔

اجنبیت کے مسئلے کااس سے کیا تعلق ہے ؟

میں آہستہ اندر قدم بڑھاتا ہوں۔

میرے اندر کا چیختا ہوا جانور خاموش ہو گیا ہے اور اس کے بعد والی کچھ ہانپتے۔ کچھ سسکنے کی سی کیفیت میں مبتلا ہے۔

اندر اشتہار جگہ جگہ سنگ مر مر کے بت کی طرح استادہ ہے۔

اس کے ہونٹوں پر مصور نے ایک ایسی ابدی مسکراہٹ بکھیر دی ہے کہ جو اِدھر دیکھے وہ اسی طرح دیکھتا رہا۔

یہ جادو سوائے ے ہاں کے اور کہیں نظر نہیں آتا۔

ے ہاں آ کر پتہ چلتا ہے کہ میری طرح اور بہت سے لوگوں کے پیٹوں میں وہ جانور گھسا ہوا ہے اور سبھی اس کے چیخنے اور شور مچانے سے پریشان ہو کر ے ہاں آ پہنچے ہیں۔

میں اس کے ہانپنے اور سسکنے کی آوازیں بخوبی سن رہا ہوں۔

میں خود اس کیفیت سے دوچار ہوں ، اس لیے جانتا ہوں۔

میں ایک کرسی پر بیٹھ جاتا ہوں۔ میرے سامنے ایک خوبصورت تکونہ ٹیبل ہے جس کی اوپری سطح پر دبیز شیشہ بچھا ہے۔

ٹیبل اور شیشے کے درمیان ایک مکھی دبی پڑی ہے ، جو بغور دیکھنے ہی سے نظر آتی ہے ، کیوں کہ ٹیبل سیاہ ہے۔ مکھی بھی سیاہ ہے۔ صرف شیشہ اجلا ہے۔ آئینہ کی طرح شکل و صورت اس میں صاف نظر تو نہیں آتی لیکن حرکات و سکنات کا کیمرہ ہے۔

مجھے ے ہاں بیٹھے ہوئے ابھی کچھ بھی دیر نہیں ہوئی ہے۔

لمحوں نے ابھی تک اپنا کھاتہ نہیں کھولا ہے۔

ایک سفید پوش شخص میرے سر پر آ کھڑا ہو گیا ہے۔

” کیا چاہیے صاحب!“

تو گویا میں کچھ چاہنے کے لیے ے ہاں آیا ہوں۔

میں اپنے آس پاس دیکھتا ہوں۔

سبھی اپنی اپنی میزوں پر جھکے کچھ چاہ رہے ہیں۔

”بھئی تمھارے ہاں ہے کیا کیا؟“

اس نے میز کی دراز کھینچی ہے اور اس میں سے ایک چار صفحے کا پرچہ نکال کر مجھے تھما دیا ہے۔

کشمیری دم آلو، مصالحہ بھر ے ٹنڈے۔ آلو مٹر بھری شملہ مرچ، فرائی پرول، دال اڑد، دال ارہر، دال مسور، دہی بڑے ، ہری بھنڈی، مرغ کا ایرانی قورمہ، مچھلی کے کباب، مٹن چاپ، کباب سیخ، ایش ٹو، پیاز کا قلیہ.... باقر خانی روٹی، آلو بھرے پراٹھے ، گوبھی بھرے پراٹھے ، مولی بھرے پراٹھے ، عام سادہ پراٹھے مکھن میں تلے ہوئے سادہ چپاتیاں ، تنوری نا، فرائی کٹھل، اچار، مٹھائیاں ....

پڑھتے پڑھتے میری آنکھوں ، ناک اور کانوں سے گرم گرم ہوائیں نکلنے لگی ہیں۔ کانوں کا پچھلا حصہ اچانک گرم ہو گیا ہے اور جبڑوں میں ایک عجیب تناؤ سا پیدا ہو گیا ہے۔

میں جلدی سے کہہ دیتا ہوں۔

”سادہ چپاتیاں اور آلو بھری شملہ مرچ!“

اور .... میرے سامنے گرم گرم چپاتیاں اور مرچ رکھے ہیں اور میرے اندر کے جانور کی سسکیاں اور اس کا ہانپنا ختم ہو گیا ہے ، اور ہنسی نے ان کی جگہ لے لی ہے۔

گال اور آنکھیں آنسوؤں سے بھیگے ہوں اور بچے کی ضد پوری ہو جائے تب اس کی ہنسی کیسی ہوتی ہے ؟

میں روٹی سے مرچیں پکڑ کر کھاتا ہوں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ میں روٹی کو پکڑ رہا ہوں یا مرچوں کو۔

تھوڑی دیر بعد میں اس کھیل سے ادب جاتا ہوں۔

مجھے یہ سب کچھ اچھا نہیں لگتا۔

میری زبان پر ناگ پھن اُگ آیا ہے اور میری طبیعت اندر ہی اندر متھنے لگی ہے۔ میں اشارے سے بیرا کو بلاتا ہوں۔

”لے جاؤ اسے میرے سامنے سے .... کیا ہے یہ؟“

”کیا صاحب؟“

وہ میری طرف حیران نظروں سے دیکھ رہا ہوں۔

”کیسامزہ ہے ؟“

وہ کچھ سمجھتا ہوا ایک طرف کو جاتا ہے اور جلدی سے ہاتھ میں ایک سفیدشیشی لیے ہوئے آ جاتا ہے۔ کچھ سفید سفید سی چیز مرچوں پر چھڑک رہا ہے۔

”ابھی لیجئے صاحب۔ میں سمجھ گیا۔ کیا بتاؤ کمبخت باورچی کبھی چکھ کر ہی نہیں دیتا!“

میں پھر شروع کرتا ہوں۔ لیکن پھر وہی.... میں چیختا ہوں۔

”اے بیرا.... لے جاؤ فوراً.... نہیں تو میں اٹھا کر پھینک دوں گا۔“

”اب کیا ہوا صاحب۔“

”کچھ نہیں ، بس لے جاؤ۔“

میرے اندر کا جانور پھر بلکنے لگا ہے اور میں پھر گھبرا رہا ہوں اور بیرے کو بلاتا ہوں۔

”جاؤ کباب، قتلے اور تنوری روٹی لے آؤ۔

فوراً تعمیل ہوئی ہے ، اور میرے سامنے کباب اور قلتوں کی چیخ چیخ کر بلانے والی خوشبو اڑ رہی ہے۔

پھر وہی کھیل.... اور اس سے پھر اوب جانا۔

”اے بیرا.... ادھر آؤ۔ یہ کس طرح کے کباب ہیں۔ اور یہ قتلے دیکھو تو۔“

”کیا ہوا صاحب، خرابی کیا ہے ؟“

”خرابی؟“ اس میں خرابی نہیں ہے ؟ نہیں تو پھر خرابی کسے کہتے ہیں ؟“

”آپ کہیے تو سہی!“

”دیکھو تو .... دیکھو تو....“

”کیا دیکھوں ؟“ اوہ سمجھ گیا، صاحب ابھی لایا.... میں بھول گیا تھا آپ حکم کرتے ....“

بیرا بھاگ کر جاتا ہے اور ایک طشتری میں پیاز کے چند قتلے لے آتا ہے۔ میں پیاز کے تراشوں کے ذریعہ گاڑی آگے بڑھاتا ہوں لیکن گاڑی میں خرابی ایسی ہوئی ہے کہ ڈرائیور بے چارا لاچار ہو کر رہ گیا ہے۔

”اے بیرا.... لے جاؤ یہ کباب، قتلے اور پیاز.... جا کر کسی کتے کو دے دو۔ یہ کھانا ہے ؟“

”اب کیا ہوا صاحب؟“

”کچھ نہیں .... بس لے جاؤ....“

لیکن کم بخت جانوروں کو کبھی عقل آئی ہے ؟

میں آہستہ آہستہ چلتا ہوا مینیجر تک جاتا ہوں۔

”آپ کے ہاں سب سے لذیر چیز کیا ہوتی ہے ؟“

”صاحب.... یہ تو اپنے اپنے ذوق اور ذائقے پر ہے۔“

”پھر بھی آپ بتائے تو سہی۔“

”صاحب.... مجھے تو باقر خانی روٹی اور مرغ کا ایرانی قورمہ بہت پسند ہے ، آپ کو....“

”بس .... بس ٹھیک ہے۔ وہی بھجوا دیجئے۔“

اور .... میرے سامنے باقر خانی روٹی رکھی ہے ، سرخی مائل ، اور تِل کی ہوائیاں .... اور ایرانی قورمہ....بے حد خوشبودار مرغ کا سفید گوشت، کاجو، بادام اور کشمکش!

میں بڑا بے صبر ہو جاتا ہوں اور پرانی کھیل شروع کر دیتا ہوں۔ لیکن اس دفعہ میں بیرا کو نہیں بلاتا ہوں ، بلکہ سیدھا منیجر کے پاس پلیٹیں لیے چلا جاتا ہوں۔

”دیکھئے صاحب.... یہ آپ کے ہاں کا ایرانی قورمہ اور باقر خالی روٹی ہے۔“

”کیوں ، کیا بات ہے ؟“

”ذرا چکھ کر تو دیکھئے ....“

منیجر ہنس دیتا ہے (کم بخت ) اور ایک کانٹے سے گوشت کا ایک ٹکڑا پھنسا کر منھ میں رکھ لیتا ہے۔

میں بڑی پُر امید نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہا ہوں۔

”خاصا تو ہے۔ آپ کو کیا شکایت ہے ؟“

”شکایت.... آپ شکایت کو پوچھتے ہیں ، یہ پوچھیے مجھے کیا شکایت نہیں ہے۔“

”آخر کچھ بولیے تو....“

”کیا بولوں ؟ اس میں تو اس میں تو۔“

”کیا نمک....؟“

”نہیں ....“

”مرچ....؟“

”نہیں ....“

”چینی....؟“

”نہیں .... نہیں ....“

”نہیں تو پھر کھٹائی.... آخر کیا؟“

”نہیں .... نہیں ....یہ سب کچھ نہیں ....“

منیجر مسکرارہا ہے اور میں اس شخص کی طرح حیران و پریشان کھڑا ہوں جس سے اس کا نام پوچھا گیا ہو، اور وہ یکلخت اپنا نام بھول گیا ہو۔

”اچھا.... اچھا .... آپ چائے پیجئیے ، آپ کی طبیعت خراب معلوم ہوتی ہے ، اور جب طبیعت خراب ہوتی ہے تو زبان کا ذائقہ کسی بھی چیز کو قبول نہیں کرتا۔ اے بیرا.... چائے !“

میں چپ چاپ بیٹھ جاتا ہوں۔ چائے آتی ہے تو میں اسے ہونٹوں سے پکڑنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن....

”اے بیرا، لے جاؤ چائے۔ یہ بھی....“

”کیا یہ بھی؟“

”منیجر جلدی سے پوچھتا ہے۔ شاید اسے کچھ توقع پیدا ہو گئی ہے۔

”ہاں یہ بھی؟“

”بتائیے تو سہی۔ تاکہ آئندہ آپ کو شکایت کا موقع نہ ملے۔“

”میں کیا بتاؤ ، کوئی میری بات ہی نہیں سمجھتا۔ کسی کے پاس میری آنکھ نہیں ، میری زبان نہیں ۹ میں کیا کروں ؟“

منیجر، بیرے اور تمام لوگ مجھے عجیب نظروں سے گھور رہے ہیں۔ اور مجھے لگ رہا ہے ، جیسے وہ مجھے زنجیروں سے جکڑ رہے ہیں۔ جکڑ رہے ہیں۔ اس کے بعد اس کے بعد۔

میں جلدی سے تمام ادھوری چیزوں کا بل ادا کرتا ہوں اور باہر نکل آتا ہوں اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ میرا پیٹ ہمیشہ یوں ہی بھرا ہے۔

سورج اپنا منھ چھپائے پھر رہا ہے۔

اسے ندامت ہے ؟

دن بھر کی!

تو یوں ہوا کرتا ہے دن....

میں اُجالے سے اندھیرے کی طرف سفر کر رہا ہوں۔

ذرا اُسے بھی تو دیکھوں۔

لیکن .... کیا میں خود دیکھ رہا ہوں۔

.... دکھایا جا رہا ہوں۔

کیا میں اپنی خوشی سے اُجالے۔ اندھیرے اور اندھیرے اُجالے کی طرف بھاگ سکتا ہوں ؟

سڑک پر جگہ جگہ سورج کے ان گنت ٹکڑے کر دیے گئے ہیں۔

کانٹے دار جھاڑیوں پر ململ کا ایک ٹکڑا پھیلا دیا گیا ہے اور پھر بے دردی سے کھینچ لیا گیا ہے۔

میں ایک سہارے سے لگ کر ہانپ رہا ہوں۔

میرے تھوڑے سے فاصلے پر چند کتے خوش فعلیاں (بد فعلیاں ) کر رہے ہیں۔

ان میں کون کیا ہے۔ میں نہیں دیکھ سکتا۔

کتے اور پھر اندھیرا!

کچھ پتہ نہیں چلتا۔

سوال یہ ہے کہ یہ موسم کون سا ہے ؟

”شاید وہی....!“

شاید وہی....!“

اگر پانی یوں برسے ، دھوپ یوں پھیلے ، سردی یوں لگے ، کچھ گھروں کو منتخب کر لیا کرے ، تب .... تب....؟

لیکن ایسا کیوں ہونے لگا کہ سورج کے اُگنے اور ڈوبنے میں رتی برابر فرق نہیں آیا ہے۔

میں پانی ں سے شرابور ہو رہا ہوں۔

میں گرمی سے ....

میں سردی....

میں ایک ایسا ٹھنڈا گلاس ہوں ،جس میں بہت گرم پانی بھر دیا گیا ہے کہ اس کی باہری دیواروں پر بھاپ کی نمی چپک گئی ہے۔

کوئی آئے اور مجھے پی لے ....

میرے قدم اپنے ٹھکانے کی طرف اُٹھ رہے ہیں۔

لیکن گلاس چلا نہیں کرتے۔

کنواں پیاسے کے پاس نہیں جاتا۔

بلکہ ....

یوں ہوتا ہے کہ انسان صرف حکم ماننا جانتا ہے۔

سر سے پاؤں تک کسی نہ کسی چیز کی حکمرانی ہوتی ہے اور انسان حکم نہ مانے تب؟

تب اس کے پر ہو جایا کریں اور وہ اڑ جایا کرے۔

Rule of Things

کون سی جگہ ہے یہ؟

یہ کیسی زبانیں لپک رہی ہیں اور کیسے ناخن بڑھتے چلے آ رہے ہیں۔

میں اجنبی کیوں ہو گیا ہوں ؟ کیوں ہو جایا کرتا ہوں ؟

یہ تو کوئی اچھی بات نہیں کہ میں جب صبح اُٹھوں اور اپنا نام پوچھوں ؟

.... سورج کے اُگنے اور ڈوبنے کی چرخی میں اگر کوئی چھپا ہوا دن کنکر کی طرح گر پڑا، جس میں میں اپنا نام خود کو نہ بتا سکا؟

تو....؟

شاید وہ دن وہی ہو گا۔

جب....؟

پرابلم یہ پیدا ہو گیا ہے کہ میں وہ منتر بھول گیا ہوں جس سے میں محفوظ ہو جایا کرتا ہوں۔

بہت زور دینے پر بھی کچھ نہیں ہوتا۔

صرف یہ پتہ چلتا ہے کہ پیالے میں جو بچھو کلبلایا کرتے تھے وہاں کتے بھونک رہے ہیں۔

انھیں چپ کیسے کرایا جائے ؟

گلاس کے اندر گرم پانی کا دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔

ناک اور کانوں تک سے گرم پانی اُبلنے لگ ہیں۔

تیز نکیلے دانت....زبان اور ناخن!

کرنا کیا ہے .... ضرورت کو ضرورت سے کر اس حاصل ؟

حاصل کو کسی نے دیکھا ہے آج تک؟

آنکھیں میری کھڑکیاں ہیں جن پر خوشنما پردے کھینچ دیے گئے ہیں۔ اس پردے سے دیکھو تو گمان کے ہاتھ پاؤں نظر آ جائیں گے۔

اور پھر یوں ہو گا کہ.... کہ....

لیکن ے ہاں پر اصل پرابلم تو یہ ہے کہ میں وہ منتر بھول گیا ہوں جس سے میں اپنے آپ کو بچایا کرتا ہوں۔

تھوڑی دیر تک پیالے میں .... سمندر میں کنکری مارتا ہوں ، لیکن کوئی اتھل پتھل پیدا نہیں ہوتا اور لہریں گننا تارے گننا ہیں !

اور پھر دباؤ....

اس کے ساتھ ایک مصیبت اور نازل ہوئی ہے۔

کسی کانٹے دار چھڑی میں مجھے کباب کی طرح پرو دیا  گیا ہو، اور کوئی چھڑی گھما رہا ہو۔ گھما رہا ہو....

منتر مجھے یاد بھی ہوتا تب بھی یاد نہیں ہوتا۔

اور نکیلے دانت.... زہریلی زبان اور تیز ناخن سبھی کباب کی طرح میرے ساتھ پرو دیے گئے ہیں۔ ایک ہی چکی میں پیس دیے گئے ہیں۔

میں لمحوں کی کڑیوں میں پڑی گرہ کو ایک جھٹکے میں کھول ڈالتا ہوں۔

پل صراط راستہ طے کرنے کی نہیں ، صرف گزر جانے کی چیز ہے۔

صرف ایک لمحہ۔

اور پھر اس کے کئی ٹکڑے۔

پھر سورج سے روشنی کا انسان تک پہنچ جانا اور بجلی کا سکنڈوں کے خانے میں بٹ جانا۔

پردے والے آنکھوں کی کھڑکیوں سے کچھ نظر نہ آئے لیکن لمس کی آنکھوں سے (کہ جن کے پردے ایک نا معلوم صدی میں جلا دیے گئے تھے ) صاف نظر آتا ہے کہ کباب سے کانٹے دار چھڑی کھینچ لی گئی ہے اور مسالے رسنے لگے ہیں۔

زخم بھرتے دیر نہیں لگتی.... صرف ایسا لگتا ہے۔

میں گرم پانی کے دباؤ کو کم کرنے کے لیے عجب عجب حرکتیں کرتا ہوں۔ کبھی سر کے بل کھڑا ہوتا ہوں ، کبھی کمرے میں چکر کاٹنے لگتا ہوں۔

کبھی .... کبھی۔

یوں کہ میں بھٹی میں جل رہا ہوں۔ آگ مجھے جلا کر خاکسترکرنا چاہتی ہے اور تب ایسے میں میں وہ منتر ڈھونڈتا ہوں جو گلزار بنا دے .... گلزار!

آگ نے میرے کپڑے جلا ڈالے ہیں اور میں نشیب و فراز سے پُر ایک ایسا رات بن گیا ہوں جو اتفاق سے حرکت بھی کرسکتا ہے اور پھر وہی.... پھر وہی کچھ....

کپڑے تو میرے جل ہی چکے ہیں۔

اب میں مکمل طور پر AT EASE ہونا چاہتا ہوں۔

اور ایک ایک کر کے اپنے دونوں کان، ناک اور آنکھیں اُتار کر کھونٹیوں پر ٹانگ دیتا ہوں۔ ان آرائشوں کی اپنے کمرے میں ، کیا ضرورت ہے۔

سجنے دھجنے کی ضرورت تو باہر نکلتے وقت ہوتی ہے۔

لیس ہونے کی ضرورت تو اس وقت ہوتی ہے۔

جب ہوا، پانی اور دھوپ سے مطلب ہوا کرتا ہے۔

اور .... میں ایک ایسا سمندر بن گیا ہوں جس میں کنکری پھینکنے سے کوئی ہلچل نہیں مچتی۔ صرف لہریں پیدا ہوتی ہیں۔

لہریں .... جو نیند لاتی ہیں۔

کھڑکی کی روشنی میں ، میں کمرے کے کونے میں خوبصورت بکس کو صاف دیکھ رہا ہوں اور دوڑتا ہوا اور اِدھر جاتا ہوں۔

ڈھکن اُلٹتا ہوں۔

.... میری بچی نے گھر سے خط لکھا ہے کہ اس کی بارہویں سال گرہ پر میں اسی کے سائز کی گڑیا اسے بھیج دوں۔

میں پس انداز کیسے ہوئے پیسے سے گڑیا تو نہیں بھیج سکا کہ اس کا موقع ہی نہیں ملا اور....

بنانے والے نے روح بنانے میں کامیابی حاصل نہیں کی۔ ورنہ اس کا شاہکار کہا جاتا....

اُبھار.... خم.... تمتماہٹ.... پھسلن.... صناعی.... تراوٹ.... چکناہٹ.... پیچ در پیچ.... اور....

بھول بھلیاں اسیی کہ ہر چکر میں راستہ بند!

اور پھر آگے کے لیے اپنی سی کوششیں۔

پلاسٹک کی، موم سی، جوان گڑیا، خوبصورت لباس میں ملبوس میری طرف دیکھ دیکھ کر مسکرارہی ہے۔ میں کمر سے پکڑ کر اسے اٹھاتا ہوں۔ وہ بڑی آسانی سے میرے پاس آ جاتی ہے۔

کوئی مزاحمت نہیں۔ کوئی شکن نہیں۔

میں اپنے بستر پر اسے لٹا دیتا ہوں۔

پھر .... میں سوچتا ہوں ، سب سے پہلے اس پر سے کیا چیز ہٹاؤں۔ فوراً سوچ لیتا ہوں اور اس کے گرد لپٹی چادر.... نہیں نہیں .... ساری کو کھینچ لیتا ہوں۔

پردہ اُٹھتا ہے۔

ایک در کھلتا ہے۔

پھر دوسرا پردہ اُٹھتا ہے۔

اور.... دوسرا در کھلتا ہے۔

پھر تیسرا....

پھر....

میں سمجھ نہیں پاتا، کہ آخری در کون سا ہے ؟

کہنے سننے والوں کی باتوں پر ،آنکھیں بند کر کے یقین کرنا۔ میں کھڑکی بند کر دیتا ہوں جس سے میونسپلٹی کے لیمپ پوسٹ کی روشنی اندر آتی ہے۔

کمرے میں مکمل اندھیرا چھا جاتا ہے۔

ایک نئی روشنی پیدا ہوتی ہے۔

اتنی نازک ، اتنی پتلی، اتنی موہوم.... کہ صرف نپے تلے قدم انھیں ، تب ٹھیک ورنہ گرنے کا اندیشہ زیادہ۔

میں گڑیا میں خود کو پھنسا دیتا ہوں ، یا وہ مجھ میں پھنس جاتی ہے۔ پتہ تو نہیں چلتا، لیکن اتنا ضرور معلوم ہوتا ہے کہ ایک دلدل ہے لیکن بڑا عجیب و غریب۔ کوئی پاتا ل نہیں ....کوئی لامتناہی سمندر....

....جگہ جگہ پاؤں ٹک جاتے ہیں ....

لمحوں کی الجھی ڈور کو تھوڑی دیر تک سلجھانے کے بعد میں کھڑکی کھول دیتا ہوں تو باہر کی روشنی میں میں اور گڑیا دونوں جگہ جگہ سے پچکے پچکے ہوئے نظر آتے ہیں ، جیسے ہم دونوں پر زلزلے گزر گئے ہوں۔

گڑیا اسی طرح مسکرارہی ہے۔ اس کی یہ ادا مجھے اکثر پسند آتی ہے۔

میں برسات کی گرمی بن گیا ہوں۔

مرطوب گرمی۔

مجھے ایسی حالت میں نیند نہیں آتی، اور میں کپڑے اٹھا کر گلی والے نل کے پاس جاتا ہوں۔ لیکن نل خشک ہے۔ نالیاں بھی خشک ہیں۔

میں پھر اپنے کمرے میں واپس آتا ہوں اور اپنے کمرے ہی میں پانی ڈھونڈتا ہوں تو پتہ چلتا ہے کہ بالٹی، گھڑے اور صراحیاں .... سبھی خالی برتن ہیں اور پانی کا نام و نشان تک نہیں ہے۔

الجھی ڈور میں ایک گرہ اور پڑ گئی ہے۔

میں گھوڑے کو اِدھر اُدھر دوڑاتا ہوں کہ کہیں پانی ملے۔

پانی نظر آتا ہے لیکن کافی دور.... شہر کے کنارے ندی بہتی ہے۔ لیکن شاید بد روحیں وہاں رہتی ہیں اور وقت رات کا ہے۔

میری نگاہ اس کھڑکی پر پڑتی ہے جس سے روشنی آتی ہے اور اب ہوا بھی آ رہی ہے۔

تنی ہوئی کمان سے تیر نکل پڑتا ہے۔

میں اپنے تہہ بند کو کھڑکی میں ٹانگ دیتا ہوں۔

باہر کی روشنی میں میرے کپڑے پر دنیاؤں کے نقشے اُبھر رہے ہیں .... باہر کی ہواؤں سے ہلتے ہوئے۔

میں کمرے میں ٹہل ٹہل کر اپنے کو خشک کر رہا ہوں۔

عجب ایک Process سا بن گیا ہے۔

پھر یوں ہوتا ہے کہ دنیاؤں کے نقشے مٹ جاتے ہیں۔ صرف ہلنا باقی رہ جاتا ہے۔

میں اس ہلنے کو خود میں منتقل کر لیتا ہوں۔

سمندر میں ایک قطرہ مل کر فنا ہو جاتا ہے۔

فنا اور بقا کی داستان کو اپنے اندر انڈیل کر میں پرستانوں کی سیر کرنا چاہتا ہوں ، لیکن وہاں کا ٹکٹ بہت مشکل سے کٹتا ہے۔

.... ٹکٹ نہیں کٹتا ہے تو میں اپنے کان اتار کر خود میں ٹانگ لیتا ہوں لیکن یہ مجھ میں داخل کرنا چاہتے ہیں۔

مجھ سے الگ رہ کر انھوں نے بہت سی دوسری چیزیں اخذ کر لی ہیں اور مجھ سے انجکٹ کرنا چاہتے ہیں۔

بہت دور سے رونے کی آواز آتی ہے۔ بہت سے لوگ چیخ چیخ کر رو رہے ہیں ، یعنی رو رو کر چیخ رہے ہیں۔

سمندر میں کسی نے بندوق داغ دی اور سمندر کی مچھلیاں بیتابانہ بھاگ رہی ہیں۔ پناہ کی تلاش میں ....

لیکن پناہ....؟

میرے کان نے مجھ میں انجکشن کی سوئی پھنسا دی ہے اور میں تکلیف سے بلبلا رہا ہوں اور چاہتا ہوں کہ اسے پھر سے اتار کر ٹانگ دوں۔ لیکن اب ایسا نہیں کرسکتا۔

سمندر میں دودھ کا پیالہ ڈال کر میں پھر سے دودھ حاصل نہیں کرسکتا....

چیخوں کی آوازیں مسلسل آ رہی ہیں۔ ایسا لگتا ہے جسے ان چیخوں نے مقناطیس کے ذریعہ اپنی آوازیں فضا میں پھیلا دی ہیں اور مقناطیس مجھے اپنی طرف کھینچ رہے ہیں ....

.... کھینچ رہے ہیں ....

میں گالی....؟ بکتا ہوا اٹھ کھڑا ہوتا ہوں اور آنکھوں اور ناک کو کھونٹیوں پر سے اتار کر اپنے آپ پر چڑھا لیتا ہوں ، اور لیس ہو کر اپنے کمرے سے نکلتا ہوں۔

سمت معلوم کر کے ایک طرف کو چل پڑتا ہوں۔

رات کسی حسینہ کے سرکی کالی گھٹا بن گئی ہے اور اپنے سائے میں سکون و اطمینان کے پھول کھلا رہی ہے۔

میرے کمرے کے چاروں طرف منڈلانے والے جانوروں نے بھی شاید اپنی آرائش کی چیزوں کو کہیں پر ٹانگ دیا ہے اور اب بے پروا سے ہو کر پڑے ہیں۔ میرے لیے یہ ایک خوشی کی بات ہے کہ ....

منتر، میں بھلا چکا ہوں ....

آوازوں کے مقناطیس کی طرف میں کھینچتا چلا جا رہا ہوں۔ کھنچتا چلا جا رہا ہوں۔

یہ سلسلہ حتم ہی نہیں ہو پاتا اور میں تھک جاتا ہوں۔

کافی دیر کے بعد احساس ہوتا ہے کہ میں غلط راستے کی طرف جا رہا ہوں۔ کیوں کہ آوازیں تو مخالف سمت سے آ رہی ہیں۔

چلتا چلا جا رہا ہوں لیکن کوئی سرا ہی نہیں ملتا۔

راستے میں دور سے ایک شخص آتا دکھائی دیتا ہے۔

میں ٹھٹھک کر کھڑا ہو جاتا ہوں ،شاید اس نے 

سنیے بھائی....جس طرف سے آپ آ رہے ہیں ادھر سے میں آوازیں سن رہا ہوں۔ آپ نے دیکھا....؟

وہ شخص چند لمحوں کو اپنی مٹھی میں کستے ہوئے جواب دیتا ہے۔

”نہیں .... اُدھر ایسی کوئی بات نہیں۔ شاید اُدھر سے آ رہی ہوں ....؟“

اس نے ایک نئی سمت کی طرف اشارہ کر دیا ہے۔

”آؤ.... مل کر ڈھونڈیں ....“

میں اسے دعوت دیتا ہوں اور وہ میرے ساتھ ہو جاتا ہے۔

آوازیں میری نگاہوں سے اب بھی اوجھل ہیں۔

اس شخص میں ، میری طرح کوئی چابی نہیں دے رہا۔

”کیا آپ آوازیں سن رہے ہیں ؟“

”فرق کیا پڑتا ہے۔ دیکھتا تو ایک ہی ہے ،تلاش سبھی کرتے ہیں ....“

.... راستے میں ہم دونوں کو سرپٹ بھاگتے دیکھ کر ایک شخص مٹی کی بیڑی اپنے پاؤں میں ڈال لیتا ہے۔

”کون ہو؟ کیا ہے ....؟“

”کیا تم آواز سن رہے .... ہم اسی کو دیکھنے جا رہے ہیں .... آ  تم بھی آ جاؤ....“

”لیکن .... میں تو ادھر ہی سے آ رہا ہوں۔ میں نے تو کوئی آواز نہیں دیکھی۔“

”او۔!“

ہمارے پیروں میں بیڑیاں پڑ جاتی ہیں۔

”تب....؟“

.... اس شخص سے ہماری ساری امیدیں وابستہ ہیں۔

”مخالف سمت میں چلو۔ شاید کہیں دیکی پڑی ہو۔“

ہم اپنی اپنی بیڑیاں اپنے ہاتھوں سے کاٹ ڈالتے ہیں۔

لیکن .... آواز، ساتویں در پر بیٹھی قہقہہ مار رہی ہے اور ہم اس کی تلاش میں کبھی خود کو دیکھتے ہیں ، کبھی اپنے ہمسفروں کو....

بہت سے لوگ دوڑتے چلے آ رہے ہیں۔

”ضرور انھوں نے اسے پکڑ لیا ہے۔ رک جاؤ ، ہم بھی دیکھ لیں۔ اور پھر چلو چھٹی ہوئی۔“

لوگ قریب آتے ہیں اور ہم متوحش لہجے میں ان سے ہم آہنگ ہوتے ہیں۔

”آپ لوگوں نے کچھ سنا؟ آوازیں .... مسلسل آوازیں ہم لوگ اسی کی تلاش میں نکلے ہیں .... آپ نے دیکھی ہو تو....“

”....!“

ہم کالے پہاڑ پر دن کا انتظار کر رہے ہیں۔

”نہیں دیکھی ہو تو پھر آئیے۔ ساتھ مل کر دیکھیں ....“

”وہ تو ٹھیک ہے ، مگر سوال یہ ہے ....“

”سوال جواب کچھ نہیں ہے۔“

قطب نما نہیں ہے تو پھر ہم کیسے مان لیں کہ پورب، پچھم نہیں ہے اور اتر دکھن....

در اصل بات یہ ہے کہ پورب، پچھم ،ات ،دکھن ایک ہی محور پر ناچ رہے ہیں .... ناچنے میں جگہ متعین نہیں ہوتی.... اور ہم ....

میں کالے پہاڑ پر دن کے انتظار کی مزید زحمت نہیں اٹھا سکتا میں نے اپنی تیسری آنکھ پر چشمہ چڑھا لیا ہے اور میں دیکھ رہا ہوں ....میں سب کچھ دیکھ رہا ہوں ....

”میرے دونوں ساتھی، میری طرف اشارہ کر رہے ہیں۔

”یہی ہے وہ شخص جس نے ہمیں گمراہ کیا ہے ....“

”مارو.... پکڑو۔“

میں اپنی ٹانگوں سے التجا کرتا ہوں۔ وہ میری وفاداری پر مستعد ہیں۔ میں بھاگ نکلتا ہوں۔

وہ میرے پیچھے ہیں۔

”پکڑو.... مارو....حرام زادے کو.... جانے نہ پائے ....“

میرے پاؤں مجھے اپنے سر پر رکھے سر پٹ بھاگے جا رہے ہیں۔

میں ڈر رہا ہوں۔ کہیں وہ برسرِ عام اپنے بوجھ کو پٹک نہ دیں۔

میں بھاگا جا رہا ہوں۔

وہ میرے پیچھے تیز ہو رہے ہیں .... تیز ....اور تیز .... اور تیز....

میں چاہتا ہوں انھیں روک کر پوچھوں۔

میرا قصور کیا ہے ؟

لیکن میں درمیانی چیز سے ڈرتا ہوں۔

میں درمیانی چیز سے ہمیشہ ڈرتا ہوں۔

صرف ایک وقفہ۔

خلا میں معلق اور بے نام۔

اور .... پھر وہی کچھ۔

جس کا ہمیشہ سے انتظار تھا۔ جس کا ہمیشہ سے انتظار ہے۔

صحیح اور غلط کی خبریں ہمیشہ آنے والی نسلوں کو ہوا کرتی ہیں۔

میرے پاؤں بوڑھے ہوتے جا رہے ہیں اور میرا بھاری، بھرکم بوجھ ان کے لیے بہت زیادہ ہو گیا ہے۔

میں نے آنکھوں سے پناہ کی التجا کی ہے۔

آنکھیں میری کمزور ہیں لیکن مجھ سے زیادہ تیز واقع ہوئی ہیں اور بہت جلد اپنا کام کر کے واپس آ گئی ہیں۔

کہیں کوئی پناہ نہیں ....

صر ف سلسلے پہاڑوں کے ....

.... کالے پہاڑ....

اجلے پہاڑ....

مٹی کے پہاڑ....

روٹی کے پہاڑ....

........

........

اور پناہ....؟؟

میرا پیچھا کرنے والے لحظہ لحظہ تازہ دم ہوتے جا رہے ہیں اور اب وہ بس میرے پاس آنا ہی چاہتے ہیں۔

ایسے میں کہیں بھی چھپ جانا میرے لیے بے حد ضروری ہو گیا ہے۔ معاً میری نظر سامان سے لدے ایک ٹرک پر پڑ جاتی ہے جو سڑک پر کھڑا کھڑا رات گزار رہا ہے۔

بورے اور بورے اور بورے ....

میں جلدی سے اس کے نیچے جا چھپا ہوں۔

پیچھا کرنے والے گزرتے جا رہے ہیں۔

میں سڑک کے نیچے لیٹا لیٹا قدموں کی قبریں دیکھ رہا ہوں۔

جب یہ قبریں مجھ سے بہت دور ہو جاتی ہیں تو میں دل ہی دل میں مسکراتا ہوں۔

زندگی کی ایک بھرپور مسکراہٹ۔

اب تو انھیں آواز بھی نہیں ملے گی کہ انھیں سمت کا بھی پتہ نہیں ہے۔ آنکھ والا ایک ہی ہوتا ہے۔ تلاش بھی کرتے ہیں۔

ان سے آنکھ اور تلاش دونوں کھو گئے ہیں۔

.... جب قبریں مجھ سے دور ہو جاتی ہیں تو میرے کان پھر میرے اندر انجکشن دینے لگتے ہیں ....

پھر وہی آوازیں ....

بہت دور اور بے سمت.... میں پھر سننے کی کوشش کرتا ہوں لیکن جلد ہی باز آ جاتا ہوں .... باہر کا تجربہ میرا اچھا نہیں رہا ہے اس لیے میں اندر کی طرف جا رہا ہوں .... اندر .... روشنی اور اندھیرے کی جھرمٹ میں آوازیں ہی آوازیں ....اور .... سلسلے پہاڑوں کے ....

کالے پہاڑ....

اجلے ....

مٹی کے ....

روئی کے ....

تمام آوازیں پہاڑوں میں چھپ گئی ہیں اور ان کی تہہ در تہہ گونج بازگشت لگا رہی ہے ....

کہیں بھی جائے اماں نہیں ہے ....

مجھے کچھ اور نہیں سوجھتا تو میں ایک پھاؤڑا لے کر پہاڑوں پر پل پڑتا ہوں اور....ایک ایک کر کے مسمار کرنے لگتا ہوں۔

کالے پہاڑ....

اجلے پہاڑ....

........

ملبوں کا ٹھیر لگ جاتا ہے۔

اسے بھی مجھے ہی صاف کرنا پڑتا ہے۔

تب .... ایک لق و دق میدان نظر آتا ہے جس میں دور دور تک کہیں کوئی رکاوٹ نہیں۔ صرف بیچ میں ایک آدمی تنہا کھڑا اوپر دیکھ رہا ہے۔

وہ کوئی اور نہیں ، میں ہوں۔

میرے اندر آوازیں ہی آوازیں بھر گئی ہیں۔

ہر طرح کی.... ہر رنگ کی آوازیں۔

اور یہ سبھی آوازیں میرے اندر سے اب ایک چیخ بن کر نکلنا چاہتی ہیں۔ میں دیر تک اس زہر کو اپنے اندر نہیں رکھ سکتا۔

چیخ.... اور اس کی زندگی کا وسیلہ ایک لق و دق میدان ، میدان مجھے میسر آگیا ہے اور میں چیخنا چاہ رہا ہوں۔

لیکن ....؟

میں چیخ رہا ہوں لیکن کوئی آواز نہیں آتی۔

اتنے بڑے لق و دق.... بنا کسی رکاوٹ کے میدان میں بھی آواز کو اس کو موت اچک رہی ہے .... ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے میں کسی فلم ہال میں بیٹھا فلم دیکھ رہا ہوں۔

حرکتیں .... چلتی پھرتی حرکتیں ....!

لیکن آواز ندارد۔

شاید .... صرف سائے اور سائے ....

شاید.... !....

٭٭٭


ماخذ: اردو تہذیب ڈاٹ نیٹ

تدوین اور ای بک: اعجاز عبید