سوٹ پہن چکنے کے بعد عمران آئینے کے سامنے لچک لچک کر ٹائی باندھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اونہہ۔۔۔پھر وہی۔۔۔چھوٹی بڑی۔۔۔میں کہتا ہوں ٹائیاں ہی غلط آنے لگی ہیں۔ وہ بڑ بڑاتا رہا۔ اور پھر ٹائی ۔۔۔لاحول ولاقوۃ۔۔۔۔نہیں باندھتا!۔
یہ کہہ کر اس نے جھٹکا جو مارا تو ریشمی ٹائی کی گرہ پھسلتی ہوئی نہ صرف گردن سے جا لگی بلکہ اتنی تنگ ہو گئی کہ اس کا چہرہ سرخ ہو گیا اور آنکھیں ابل پڑیں۔
بخ۔۔۔بخ۔۔۔خیں۔۔۔اس کے حلق سے گھٹی گھٹی سی آوازیں نکلنے لگیں اور وہ پھیپھڑوں کا پورا زور صرف کرکے چیخا۔ ارے مرا۔۔۔بچاؤ! سلیمان
ایک نوکر دوڑتا ہوا کمرے میں داخل ہوا۔۔۔پہلے تو وہ کچھ سمجھا ہی نہیں کیونکہ عمران سیدھا کھڑا ہوا دونوں ہاتھوں سے اپنی رانیں پیٹ رہا تھا!
کیا ہوا سرکار۔ بھرائی ہوئی آواز میں بولا!
سرکار کے بچے مر رہا ہوں۔
ارے۔۔۔لیکن۔۔۔مگر۔۔۔؟
لیکن۔۔۔مگر۔۔۔اگر۔۔۔عمران دانت پیس کر ناچتا ہوا بولا۔ ابے ڈھیلی کر۔
کیا ڈھیلی کروں؟ نوکر نے متحیر آمیز لہجے میں کہا۔
اپنے باوا کے کفن کی ڈوری۔۔۔جلدی کر۔۔۔ارے مرا۔
تو ٹھیک سے بتاتے کیوں نہیں؟ نوکر بھی جھنجھلا گیا۔
اچھا بے تو کیا غلط بتا رہا ہوں؟ میں یعنی عمران ایم ایس سی، پی۔ ایچ۔ ڈی کیا غلط بتا رہا ہوں، ابے کم بخت اسے اردو میں استعارہ اور انگریزی میں میٹافر کہتے ہیں۔ اگر میں غلط کہ رہا ہوں تو باقاعدہ بحث کر مرنے سے پہلے یہ ہی سہی۔
نوکر نے غور سے دیکھا تو اس کی نظر ٹائی پر پڑی، جس کی گرہ گردن میں بری طرح پھنسی ہوئی تھی اور رگیں ابھری ہوئی سی معلوم ہو رہی تھیں اور یہ اس کے لئے کوئی نئی بات نہ تھی! دن میں کئی بار اسے اس قسم کی حماقتوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا!
اس نے عمران کے گلے سے ٹائی کھولی۔
اگر میں غلط کہہ رہا تھا تو یہ بات تیری سمجھ میں کیسے آئی؟ عمران گرج کر بولا۔
غلطی ہوئی صاحب!
پھر وہی کہتا ہے، کس سے غلطی ہوئی؟
مجھ سے!
ثابت کرو کہ تم سے غلطی ہوئی۔ عمران ایک صوفے میں گر کر اسے گھورتا ہوا بولا۔
نوکر سر کھجانے لگا۔
جوئیں ہیں کیا تمہارے سر میں! عمران نے ڈپٹ کر پوچھا۔
نہیں تو۔
تو پھر کیوں کھجا رہے تھے؟
یونہی۔
جاہل۔۔۔گنوار۔۔۔خوامخواہ بے تکی حرکتیں کرکے اپنی انرجی برباد کرتے ہو۔ نوکر خاموش رہا۔ یونگ کی سائکالوجی پڑھی ہے تم نے؟ عمران نے پوچھا۔
نوکر نے نفی میں سر ہلا دیا۔
یونگ کی ہجے جانتے ہو۔
نہیں صاحب۔ نوکر اکتا کر بولا۔
اچھا یاد کر لو۔۔۔جے-یو-این-جی۔۔۔یونگ! بہت سے جاہل اسے جنگ پڑھتے ہیں اور کچھ جونگ۔۔۔! جنہیں قابلیت کا ہیضہ ہوجاتا ہے وہ ژونگ پڑھنے اور لکھنے لگ جاتے ہیں۔۔۔فرانسیسی میں جے ژ کی آواز دیتا ہے مگر یونگ فرانسیسی نہیں تھا۔
شام کو مرغ کھائیے گا۔۔۔۔یاتیتر۔ نوکر نے پوچھا۔
آدھا تیتر آدھا بٹیر۔ عمران جھلا کر بولا۔ ہاں تو میں ابھی کیا کہہ رہا تھا۔۔۔۔وہ خاموش ہو کر سوچنے لگا۔
آپ کہہ رہے تھے کہ مسالہ اتنا بھونا جائے کہ سرخ ہو جائے۔ نوکر نے سنجیدگی سے کہا۔
ہاں اور ہمیشہ نرم آنچ پر بھونو! عمران بولا۔ کفگیر کو اس طرح دیگچی میں نہ ہلاؤ کہ کھنک پیدا ہو اور پڑوسیوں کی رال ٹپک پڑے۔ ویسے کیا تم مجھے بتا سکتے ہو کہ میں کہاں جانے کی تیاری کر رہا تھا۔
آپ! نوکر کچھ سوچتا ہوا بولا۔ آپ میرے لیے ایک شلوار قمیض کا کپڑا خریدنے جا رہے تھے! بیس ہزار کا لٹھا اور قمیض کے لیے بوسکی۔
گڈ۔! تم بہت قابل اور نمک حلال نوکر ہو! اگر تم مجھے یاد نہ دلاتے رہو تو میں سب کچھ بھول جاؤں۔
میں ٹائی باندھ دوں سرکار! نوکر نے بڑے پیار سے کہا۔
باندھ دو۔
نوکر ٹائی باندھتے ہوئے بڑبڑاتا جا رہا تھا۔ بیس ہزار کا لٹھا اور قمیض کے لئے بوسکی۔ کہئے تو لکھ دوں!
بہت اچھا رہے گا۔
ٹائی باندھ چکنے کے بعد نوکر نے کاغذ کے ایک ٹکڑے پر پنسل سے گھسیٹ کر اس کی طرف بڑھا دیا۔
یوں نہیں۔ عمران اپنے سینے کی طرف اشارہ کرکے سنجیدگی سے بولا۔ اسے یہاں پن کر دو۔ نوکر نے ایک پن کی مدد سے اس کے سینے پر لگا دیا۔
اب یاد رہے گا۔ عمران نے کہا اور کمرے سے باہر نکل گیا!۔۔۔راہداری طے کرکے وہ ڈرائنگ روم میں پہنچا۔۔۔یہاں تین لڑکیاں بیٹھی تھیں۔
واہ عمران بھائی! ان میں سے ایک بولی۔ خوب انتظار کرایا! کپڑے پہننے میں اتنی دیر لگاتے ہیں۔
اوہ تو کیا آپ لوگ میرا انتظار کر رہی تھیں؟
کیوں ؟ کیا آپ نے ایک گھنٹہ قبل پکچر چلنے کا وعدہ نہیں کیا تھا؟
پکچر چلنے کا؟ مجھے تو یاد نہیں۔۔۔میں تو سلیمان کے لیے۔۔۔عمران اپنے سینے کی طرف اشارہ کرکے بولا۔
یہ کیا؟ وہ لڑکی قریب آکر آگے کی طرف جھکتی ہوئی بولی۔ بیس ہزار کا لٹھا۔۔۔اور بوسکی! یہ کیا ہے۔۔۔اس کا مطلب؟
پھر وہ بےتحاشہ ہنسنے لگی۔۔۔ عمران کی بہن ثریا نے بھی اٹھ کر دیکھا لیکن تیسری بیٹھی رہی۔ وہ شاید ثریا کی کوئی نئی سہیلی تھی!
یہ کیا ہے؟ ثریا نے پوچھا۔
سلیمان کے لیے شلوار قمیض کا کپڑا لینے جا رہا ہوں۔
لیکن ہم سے کیوں وعدہ کیا؟ وہ بگڑ کر بولی۔
بڑی مصیبت ہے! عمران گردن جھٹک کر بولا۔ تمہیں سچا سمجھوں یا سلیمان کو۔
اسی کمینے کو سچا سمجھئے! میں کون ہوتی ہوں۔ ثریا نے کہا۔ پھر اپنی سہیلیوں کی طرف مڑ کر بولی۔ اکیلے ہی چلتے ہیں! آپ ساتھ گئے بھی تو شرمندگی ہی ہوگی۔۔۔کر بیٹھیں گے کوئی حماقت!
ذرا دیکھئے آپ لوگ۔ عمران رونی صورت بنا کر درد بھری آواز میں بولا۔ یہ میری چھوٹی بہن ہے مجھے احمق سمجھتی ہے ثریا میں بہت جلد مر جاؤں گا! کسی وقت! جب بھی ٹائی غلط بندھ گئی! اور بیچارے سلیمان کو کچھ نہ کہو۔ وہ میرا محسن ہے۔ اس نے ابھی ابھی میری جان بچائی ہے!
کیا ہوا تھا۔ ثریا کی سہیلی جمیلہ نے گھبرائی ہوئی آواز میں پوچھا۔
ٹائی غلط بندھ گئی تھی! عمران سنجیدگی سے بولا۔
جمیلہ ہنسنے لگی۔ لیکن ثریا جلی کٹی بیٹھی رہی۔ اس کی نئی سہیلی متحیرانہ انداز میں اس سنجیدہ احمق کو گھور رہی تھی۔
تم کہتی ہو تو میں پکچر چلنے کو تیار ہوں۔ عمران نے کہا۔ لیکن واپسی پر مجھے یاد دلانا کہ میرے سینے پر ایک کاغذ پن کیا ہوا ہے۔
تو کیا یہ اسی طرح لگا رہے گا؟ جمیلہ نے کہا۔
جیئو! عمران خوش ہو کر بولا۔میرا دل چاہتا ہے کہ تمہیں ثریا سے بدل لوں! کاش تم میری بہن ہوتیں۔ یہ نک چڑھی ثریا مجھے بالکل اچھی نہیں لگتی۔
آپ خود نک چڑھے! آپ مجھے کب اچھے لگتے ہیں۔ ثریا بگڑ کر بولی۔
دیکھ رہی ہو، یہ میری چھوٹی بہن ہے!۔
میں بتاؤں! جمیلہ سنجیدگی سے بولی! آپ یہ کاغذ نکال کر جیب میں رکھ لیجئے میں یاد دلا دوں گی۔
اور اگر بھول گئیں تو۔۔۔ویسے تو کوئی راہ گیر ہی اسے دیکھ کر مجھے یاد دلا دے گا۔
میں وعدہ کرتی ہوں!
عمران نے کاغذ جیب سے نکال کر جیب میں رکھ لیا۔۔۔ثریا کچھ کھنچی کھنچی سی نظر آنے لگی۔
وہ جیسے ہی باہر نکلے ایک موٹر سائیکل پورٹیکو میں آکر رکی جس پر ایک باوقار اور بھاری بھرکم آدمی بیٹھا ہوا تھا۔
ہیلو! سوپر فیاض۔ عمران دونوں ہاتھ بڑھا کر چیخا۔
ہیلو! عمران۔۔۔مائی لیڈ۔۔۔تم کہیں جا رہے ہو۔ موٹر سائیکل سوار بولا۔ پھر لڑکیوں کی طرف دیکھ کر کہنے لگا۔ اوہ معاف کیجئے گا۔۔۔لیکن یہ کام ضروری ہے! عمران جلدی کرو۔
عمران اچھل کر کیرئیر پر بیٹھ گیا اور موٹر سائیکل فراٹے بھرتی ہوئی پھاٹک سے گذر گئی۔
دیکھا تم نے۔ ثریا اپنا نچلا ہونٹ چبا کر بولی۔
یہ کون تھا۔۔۔! جمیلہ نے پوچھا۔
محکمہ سراغرسانی کا سپرنٹنڈنٹ فیاض۔۔۔مگر ایک بات میری سمجھ میں نہیں آسکی کہ اسے بھائی جان جیسے خبطی آدمی سے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے۔ یہ اکثر انہیں اپنے ساتھ لے جایا کرتا ہے۔
عمران بھائی دلچسپ آدمی ہیں! جمیلہ نے کہا۔ بھئی کم از کم مجھے تو ان کی موجودگی میں بڑا لطف آتا ہے۔
ایک پاگل دوسرے پاگل کو عقل مند ہی سمجھتا ہے۔ ثریا منہ بگاڑ کر بولی۔
مگر مجھے تو پاگل نہیں معلوم ہوتے۔ ثریا کی نئی سہیلی نے کہا۔
اور اس نے قریب قریب ٹھیک ہی بات کہی تھی۔ عمران شکل صورت سے خبطی نہیں معلوم ہوتا تھا۔ خاصا خوشرو اور دلکش نوجوان تھا عمر ستائیس کے لگ بھگ رہی ہوگی! خوش سلیقہ اور صفائی پسند تھا۔ تندرستی اچھی اور جسم ورزشی تھا۔ مقامی یونیورسٹی سے ایم ایس سی کی ڈگری لے کر انگلینڈ چلا گیا تھا اور وہاں سے سائنس میں ڈاکٹریٹ لے کر واپس آیا تھا اس کا باپ رحمان محکمہ سراغرسانی میں ڈائریکٹر جنرل تھا۔ انگلینڈ سے واپسی پر اس کے باپ نے کوشش کی تھی کہ اسے کوئی اچھا سا عہدہ دلا دے لیکن عمران نے پروا نہ کی۔
کبھی وہ کہتا کہ میں سائنسی آلات کی تجارت کروں گا! کبھی کہتا کہ اپنا ذاتی انسٹی ٹیوٹ قائم کرکے سائنس کی خدمت کروں گا۔۔۔بہرحال کبھی کچھ اور کبھی کچھ! گھر بھر اس سے نالاں تھا اور انگلینڈ سے واپسی کے بعد تو وہ اچھا خاصا احمق ہو گیا تھا۔ اتنا احمق کہ گھر کے نوکر تک اسے الو بنایا کرتے تھے۔ اسے اچھی طرح لوٹتے اس کی جیب سے دس دس روپے کے نوٹ غائب کردیتے اور اسے پتہ تک نہ چلتا۔
باپ تو اس کی صورت دیکھنے کا بھی روادار نہ تھا صرف ماں ایسی تھی جس کی بدولت وہ اس کوٹھی میں مقیم تھا۔ ورنہ کبھی کا نکال دیا گیا ہوتا۔ اکلوتا لڑکا ہونے کے باوجود بھی رحمٰن صاحب اس سے عاجز آگئے تھے!
پاگل وہ اسی وقت نہیں معلوم ہوتے جب خاموش ہوں۔ ثریا بولی۔ دو چار گھنٹے بھی اگر ان حضرت کے ساتھ رہنا پڑے تو پتہ چلے۔
کیا کاٹنے کو دوڑتے ہیں۔ جمیلہ نے مسکرا کر کہا۔
اگر ان میں اسی طرح دلچسپی لیتی رہیں تو کسی دن معلوم ہو جائے گا۔ ثریا منہ سکوڑ کر بولی
2
کیپٹن فیاض کی موٹر سائیکل فراٹے بھر رہی تھی اور عمران کیرئیر پر بیٹھا بڑبڑاتا چلا جا رہا تھا۔
شلوار کا لٹھا۔ بوسکی کی قمیض۔۔۔شلوار کا بوسکا۔۔۔لٹھی۔۔۔لٹھی۔۔۔کیا تھا لاحول ولا قوۃ
بھول گیا رکو۔ یار۔۔۔رکو۔۔۔شاید۔۔۔
فیاض نے موٹر سائیکل روک دی۔
بھول گیا۔ عمران بولا۔
کیا بھول گئے۔
کچھ غلطی ہو گئی۔
کیا غلطی ہوگئی۔ فیاض جھنجھلا کر بولا۔ یار کم از کم مجھے تو الو نہ بناؤ۔
شاید میں غلط بیٹھا ہوں۔ عمران کیرئیر سے اترتا ہوا بولا۔
جلدی ہے یار۔ فیاض نے گردن جھٹک کر کہا۔
عمران اس کی پیٹھ سے پیٹھ ملائے ہوئے دوسری طرف منہ کرکے بیٹھ گیا۔
یہ کیا؟ فیاض نے حیرت سے کہا۔۔۔
بس چلو ٹھیک ہے۔
خدا کی قسم تنگ کر ڈالتے ہو۔ فیاض اکتا کر بولا۔
کون سی مصیبت آگئی! عمران بھی جھنجھلانے لگا۔
مجھے بھی تماشا بناؤ گے۔ سیدھے بیٹھو نا!
تو کیا سر کے بل بیٹھا ہوا ہوں!
مان جاؤ پیارے۔ فیاض خوشامدانہ لہجے میں بولا۔ لوگ ہنسیں گے ہم پر۔
یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔
منہ کے بل گر پڑو گے سڑک پر۔
اگر تقدیر میں یہی ہے! تو بندہ بے بس و ناچار۔ عمران نے درویشانہ انداز میں کہا۔
خدا سمجھے تم سے۔ فیاض نے دانت پیس کر موٹر سائیکل سٹارٹ کردی اس کا منہ پچھم کی طرف تھا اور عمران کا پورب کی طرف اور عمران اس طرح آگے کی طرف جھکا ہوا تھا جیسے وہ خود ہی موٹر سائیکل ڈرائیور کر رہا ہو! راہ گیر انہیں دیکھ دیکھ کر ہنس رہے تھے۔
دیکھا یاد آگیا نا! عمران چہک کر بولا شلوار کا لٹھا اور قمیض کی بوسکی۔۔۔میں پہلے ہی کہہ رہا تھا کہ کوئی غلطی ہو گئی ہے۔
عمران تم مجھے احمق کیوں سمجھتے ہو؟ فیاض نے جھنجھلا کر کہا۔ کم از کم میرے سامنے تو اس خبطی پن سے باز آجایا کرو۔
تم خود ہوگے خبطی! عمران برا مان کر بولا۔
آخر اس ڈھونگ سے کیا فائدہ؟
ڈھونگ؟ ارے کمال کر دیا۔ اف فوہ! اس لفظ ڈھونگ پر مجھے وہ بات یاد آئی ہے جسے اب سے ایک سال پہلے یاد آنا چاہئے تھا۔
فیاض کچھ نہ بولا۔ موٹر سائیکل ہوا سے باتیں کرتی رہی۔
ہائیں٬ عمران تھوڑی دیر بعد بولا۔ یہ موٹر سائیکل پیچھے کی طرف کیوں بھاگ رہی ہے۔
ارے اس کا ہینڈل کیا ہوا۔۔۔پھر اس نے بے تحاشہ چیخنا شروع کر دیا۔ ہٹو۔۔۔بچو۔۔۔میں پیچھے کی طرف نہیں دیکھ سکتا۔
فیاض نے موٹر سائیکل روک دی اور جھینپے ہوئے انداز میں راہ گیروں کو دیکھنے لگا۔
شکر ہے خدا کا کہ خود بخود رک گئی! عمران اترتا ہوا بڑبڑایا۔۔۔پھر جلدی سے بولا۔ لاحول ولا قوۃ اس کا ہینڈل پیچھے ہے! اب موٹر سائیکلیں بھی الٹی بننے لگیں۔
کیا مطلب ہے تمہارا؟ کیوں تنگ کر رہے ہو؟ فیاض نے بے بسی سے کہا۔
تنگ تم کر رہے ہو یا میں؟۔۔۔الٹی موٹر سائیکل پر لئے پھرتے ہو! اگر کوئی ایکسیڈنٹ ہو جائے تو؟
چلو بیٹھو۔ فیاض اسے کھینچتا ہوا بولا۔
موٹر سائیکل پھر چل پڑی۔
اب تو ٹھیک چل رہی ہے۔ عمران بڑ بڑایا۔
موٹر سائیکل شہر سے نکل کر ویرانے کی طرف جا رہی تھی اور عمران نے ابھی تک فیاض سے یہ بھی پوچھنے کی زحمت گواراہ نہیں کی تھی کہ وہ اسے کہاں لے جا رہا ہے۔
آج مجھے پھر تمہاری مدد کی ضرورت محسوس ہوئی ہے۔ فیاض بولا۔
لیکن آج کل میں بالکل مفلس ہوں۔ عمران نے کہا۔
اچھا! تو کیا میں تم سے ادھار مانگنے جا رہا تھا؟
پتہ نہیں۔ میں یہی سمجھ رہا تھا! ارے باپ رے پھر بھول گیا۔۔۔۔لٹھ کا۔۔۔پائجامہ۔۔۔۔اور قمیض۔۔۔لاحول ولا قوۃ۔۔۔بوسکا۔۔۔
پلیز شٹ اپ۔۔۔عمران۔۔۔یو فول! فیاض جھنجھلا اٹھا۔
عمران۔۔۔کیپٹن فیاض نے ٹھنڈی سانس لے کر اسے مخاطب کیا۔
اوں۔۔۔ہا۔
تم آخر دوسروں کو بیوقوف کیوں سمجھتے ہو۔
کیونکہ۔۔۔ہا۔۔۔ارے باپ یہ جھٹکے۔۔۔یار ذرا چکنی زمین پر چلاؤ۔
میں کہتا ہوں کہ اب یہ ساری حماقتیں ختم کرکے کوئی ڈھنگ کا کام کرو۔
ڈھنگ۔۔۔لو یار۔۔۔اس ڈھنگ پر بھی کوئی بات یاد آنے کی کوشش کر رہی ہے۔
جہنم میں جاؤ۔ فیاض جھلا کر بولا۔
اچھا۔ عمران نے بڑی سعادت مندی سے گردن ہالئی۔
موٹر سائیکل ایک کافی طویل و عریض عمارت کے سامنے رک گئی! جس کے پھاٹک پر تین چار باوردی کانسٹیبل نظر آرہے تھے۔
اب اترو بھی۔ فیاض نے کہا۔
میں سمجھا شائد اب تم مجھے ہینڈل پر بٹھاؤ گے۔ عمران اترتا ہوا بولا۔
وہ اس وقت ایک دیہی علاقہ میں کھڑے ہوئے تھے جو شہر سے زیادہ دور نہ تھا یہاں بس یہی ایک عمارت اتنی بڑی تھی ورنہ یہ بستی معمولی قسم کے کچے پکے مکانوں پر مشتمل تھی۔ اس عمارت کی بناوٹ طرز قدیم سے تعلق رکھتی تھی! چاروں طرف سرخ رنگ کی لکھنوری اینٹوں کی کافی بلند دیواریں تھیں اور سامنے ایک بہت بڑا پھاٹک تھا جو غالبا صدر دروازے کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہوگا۔
کیپٹن فیاض عمران کا ہاتھ پکڑے ہوئے عمارت میں داخل ہو گیا۔۔۔اب بھی عمران نے اس سے یہ نہ پوچھا کہ وہ اسے کہاں اور کس مقصد کے تحت لایا ہے۔
دونوں ایک طویل دالان سے گذرتے ہوئے ایک کمرے میں آئے اچانک عمران نے اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لئے اور منہ پھیر کر کھڑا ہو گیا۔ اس نے ایک لاش دیکھ لی تھی جو فرش پر اوندھی پڑی تھی اور اس کے گرد خون پھیلا ہوا تھا۔
انا للہ و انا الیہ راجعون۔ وہ کپکپاتی آواز میں بڑ بڑا رہا تھا۔
خدا اس کے متعلقین کو جوار رحمت میں جگہ دے اور اسے صبر کی توفیق عطا فرمائے۔
میں تمہیں دعائے خیر کرنے کے لئے نہیں لایا۔ فیاض جھنجھلا کر بولا۔
تجہیز و تکفین کے لئے چندہ وہاں بھی مانگ سکتے تھے آخر اتنی دور کیوں گھسیٹ لائے۔
یار عمران خدا کے لئے بور نہ کرو۔ میں تمہیں اپنا ایک بہترین دوست سمجھتا ہوں۔ فیاض نے کہا۔
میں بھی یہی سمجھتا ہوں۔ مگر پیارے پانچ روپے سے زیادہ نہ دے سکوں گا۔ ابھی مجھے۔۔ لٹھی کا بوسکا خریدنا ہے۔۔۔۔ کیا لٹھی۔۔۔لو یار پھر بھول گیا! کیا مصیبت ہے۔
فیاض چند لمحے کھڑا اسے گھورتا رہا پھر بولا۔
یہ عمارت پچھلے پانچ برسوں سے بند رہی ہے۔ کیا ایسی حالت میں یہاں ایک لاش کی موجودگی حیرت انگیز نہیں ہے؟
بالکل نہیں۔ عمران سر ہلا کر بولا۔ اگر یہ لاش کسی امرود کے درخت پر پائی جاتی تو میں اسے عجوبہ تسلیم کر لیتا۔
یار تھوڑی دیر کے لئے سنجیدہ ہو جاؤ۔
میں شروع ہی سے رنجیدہ ہوں۔ عمران نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔
رنجیدہ نہیں سنجیدہ۔ فیاض پھر جھنجھلا گیا۔
عمران خاموشی سے لاش کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔ وہ آہستہ سے بڑبڑایا۔ تین زخم۔
فیاض اسے موڈ میں آتے دیکھ کر کچھ مسرور سا نظر آنے لگا۔
پہلے پوری بات سن لو۔ فیاض نے اسے مخاطب کیا۔
ٹھہرو۔ عمران جھکتا ہوا بولا۔ وہ تھوڑی دیر زخموں کو غور سے دیکھتا رہا پھر سر اٹھا کر بولا۔ پوری بات سنانے سے پہلے یہ بتاؤ کہ اس لاش کے متعلق تم کیا بتا سکتے ہو۔
آج بارہ بجے دن کو یہ دیکھی گئی۔ فیاض نے کہا۔
اونہہ۔ میں زیادہ عقل مندانہ جواب نہیں چاہتا۔ عمران ناک سکوڑ کر بولا۔
میں یہ جانتا ہوں کہ کسی نے اس پر تین وار کئے ہیں۔
اور کچھ! عمران اسے سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
اور کیا۔ فیاض بولا۔
مگر۔۔۔شیخ چلی دوئم۔۔۔یعنی علی عمران ایم ایس سی۔ پی۔ ایچ۔ ڈی کا خیال کچھ اور ہے۔
کیا؟
سن کر مجھے الو سہی احمق بٹا دو سمجھنے لگو گے۔
ارے یار کچھ بتاؤ بھی سہی۔
اچھا سنو! قاتل نے پہلا وار کیا!۔۔۔پھر پہلے زخم سے پانچ پانچ انچ کا فاصلہ ماپ کر دوسرا اور تیسرا وار کیا اور اس بات کا خاص خیال رکھا کہ زخم بالکل سیدھ میں رہیں۔ نہ ایک سوت ادھر نہ ایک سوت ادھر۔
کیا بکتے ہو۔ فیاض بڑبڑایا۔
ناپ کر دیکھ لو میری جان۔ اگر غلط نکلے تو میرا قلم سر کر دینا۔۔۔آن۔۔۔شائد میں غلط بول گیا۔۔۔۔میرے قلم پہ سر رکھ دینا۔۔۔عمران نے کہا اورادھر ادھر دیکھنے لگا اس نے ایک طرف پڑا ہوا ایک تنکا اٹھایا اور پھر جھک کر زخمون کے درمیانی فاصلے ناپنے لگا۔ فیاض اسے حیرت سے دیکھ رہا تھا۔
لو۔ عمران اسے تنکا پکڑاتے ہوئے بولا۔ اگر یہ تنکا پانچ انچ کا نہ نکلے تو کسی کی ڈاڑھی تلاش کرنا۔
مگر اس کا مطلب۔ فیاض کچھ سوچتا ہوا بولا۔
اس کا مطلب یہ کہ قاتل و مقتول دراصل عاشق و معشوق تھے۔
عمران پیارے ذرا سنجیدگی سے۔
یہ تنکا بتاتا ہے کہ یہی بات ہے۔ عمران نے کہا۔ اور اردو کے پرانے شعراٗ کا یہی خیال ہے۔ کسی کا بھی دیوان اٹھا کر دیکھ لو۔ دو جار شعر اس قسم کے ضرور مل جائیں گے جن سے میرے خیال کی تائید ہو جائے گی۔ چلو ایک شعر سن ہی لو۔
موچ آئے نہ کلائی میں کہیں سخت جاں ہم بھی بہت پیارے
مت بکواس کرو۔ اگر میری مدد نہیں کرنا چاہتے تو صاف صاف کہہ دو۔ فیاض بگڑ کر بولا۔
فاصلہ تم نے ناپ لیا۔ اب تم ہی بتاؤ کہ کیا بات ہو سکتی ہے۔ عمران نے کہا۔
فیاض کچھ نہ بولا۔
ذرا سوچو تو۔ عمران پھر بولا۔ ایک عاشق ہی شاعری کے مطابق اپنے محبوب کو اس بات کی اجازت دے سکتا ہے کہ وہ جس طرح چاہے اسے قتل کرے۔ قیمہ بنا کر رکھ دے یا ناپ ناپ کر سلیقے سے زخم لگائے یہ زخم بدحواسی کا نتیجہ بھی نہیں۔ لاش کی حالت بھی یہ نہیں بتاتی کہ مرے سے پہلے مقتول کو کسی سے جدوجہد کرنی پڑی ہو۔ بس ایسا معلوم ہوتا ہےجیسے چپ چاپ لیٹ کر اس نے کہا جو مزاج یار میں آئے۔۔۔
پرانی شاعری اور حقیقت میں کیا لگاؤ ہے؟ فیاض نے پوچھا۔
پتہ نہیں۔ عمران پرخیال انداز میں سر ہلا کر بولا۔ ویسے اب تم پوری غزل سنا سکتے ہو۔ مقطع میں عرض کر دوں گا۔
فیاض تھوڑی خاموش رہا پھر بولا۔ یہ عمارت تقریبا پانچ سال سے خالی رہی ہے۔۔۔۔ویسے ہر جمعرات کو صرف چند گھنٹوں کے لئے اسے کھولا جاتا ہے۔
کیوں؟
یہاں دراصل ایک قبر ہے جس کے متعلق مشہور ہے کہ وہ کسی شہید کی ہے چنانچہ ہر جمعرات کو ایک شخص اسے کھول کر قبر کی جاروب کشی کرتا ہے۔
چڑھاوے وغیرہ چڑھتے ہوں گے۔ عمران نے پوچھا۔
نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔ جس لوگوں کا یہ مکان ہے وہ شہر میں رہتے ہیں اور ان سے میرے قریبی تعلقات ہیں انہوں نے ایک آدمی اسی لئے رکھ چھوڑا ہے کہ وہ ہر جمعرات کو قبر کی دیکھ بھال کیا کرے!۔۔۔یہاں معتقدین کی بھیڑ نہیں ہوتی۔ بہرحال آج دوپہر کو جب وہ یہاں آیا تو اس نے یہ لاش دیکھی۔
تالا بند تھا؟ عمران نے پوچھا۔
ہاں۔ اور وہ یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ کنجی ایک لمحے کے لئے بھی نہیں کھوئی اور پھر یہاں اس قسم کے نشانات نہیں مل سکے جن کی بناٗ پر کہا جاسکتا کہ کوئی دیوار پھلانگ کر اندر آیا ہو۔
تو پھر یہ لاش آسمان سے ٹپکی ہوگی! عمران نے سنجیدگی سے کہا۔ بہتر تو یہ ہے کہ تم اسی شہید کی مدد طلب کرو جس کی قبر۔۔۔۔
پھر بہکنے لگے۔ فیاض بولا۔
اس عمارت کے مالک کون ہیں اور کیسے ہیں؟ عمران نے پوچھا۔
وہی میرے پڑوس والے جج صاحب۔ فیاض بولا۔
ہائے وہی جج صاحب! عمران اپنے سینے پر ہاتھ مار کر ہونٹ چاٹنے لگا۔
ہاں وہی۔۔۔یار سنجیدگی سے۔۔۔خدا کے لیئے۔
تب میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ عمران مایوسانہ انداز میں سر ہلا کر بولا۔
کیوں؟
تم نے میری مدد نیہں کی؟
میں نے۔ فیاض نے حیرت سے کہا۔ میں سمجھا نہیں۔
خود غرض ہونا۔ بھلا تم میرے کام کیوں آنے لگے۔
ارے تو بتاؤ نا۔ میں واقعی نہیں سمجھا۔
کب سے کہہ رہا ہوں کہ اپنے پڑوسی جج صاحب کی لڑکی سے میری شادی کرا دو۔
مت بکو۔۔۔ ہر وقت بے تکی باتیں۔
میں سنجیدگی سے کہہ رہا ہوں۔ عمران نے کہا۔
اگر سنجیدگی سے کہہ رہے ہو تو شائد تم اندھے ہو۔
کیوں۔
اس لڑکی کی ایک آنکھ نہیں ہے
اس لئے تو میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ وہ مجھے اور میرے کتوں کا ایک نظر سے دیکھے گی۔
یار خدا کے لئے سنجیدہ ہو جاؤ۔
پہلے تم وعدہ کرو۔ عمران بولا۔
اچھا بابا میں ان سے کہوں گا۔
بہت بہت شکریہ! مجھے سچ مچ اس لڑکی سے کچھ ہو گیا ہے۔۔۔ کیا کہتے ہیں اسے۔۔۔اوہ۔۔۔بھول گیا۔۔۔حالانکہ کچھ دیر پہلے اسی کا تذکرہ تھا۔
چلو چھوڑو کام کی باتیں کرو۔
نہیں اسے یاد ہی آجانے دو۔ ورنہ مجھ پر ہسٹیریا کا دورہ پڑ جائے گا۔
عشق۔ فیاض منہ بنا کر بولا۔
جیئو! شاباش! عمران نے اس کی پیٹھ ٹھونکتے ہوئے کہا۔ خدا تمہاری مادہ کو سلامت رکھے۔ اچھا اب یہ بتاؤ کہ لاش کی شناخت ہو گئی یا نہیں۔
نہیں! نہ تو وہ اس علاقہ کا باشندہ ہے اور نہ جج صاحب کے خاندان کے والے اس سے واقف ہیں۔
یعنی کسی نے اسے پہچانا نہیں۔
نہیں۔
اس کے پاس کوئی ایسی چیز ملی یا نہیں جس سے اس کی شخصیت پر روشنی پڑ سکے۔
کوئی نہیں۔۔۔مگر ٹھہرو۔ فیاض ایک میز کی طرف بڑھتا ہوا بولا۔ واپسی پر اس کے ہاتھوں میں چمڑے کا تھیلا تھا۔
یہ تھیلا ہمیں لاش کے قریب پڑا ملا تھا۔ فیاض نے کہا۔
عمران تھیلا اس کے ہاتھ سے لے کر اندر کی چیزوں کا جائزہ لینے لگا۔
کسی بڑھئی کے اوزار۔ اس نےکہا۔ اگر یہ مقتول ہی کے ہیں تو۔۔۔ویسے اس شخص کی ظاہر حالت اچھی نہیں۔۔۔لیکن پھر بھی بڑھئی نہیں معلوم ہوتا۔۔۔!
کیوں!
اس کے ہاتھ بڑے ملائم ہیں اور۔۔۔ہتھیلیوں میں کھردرا پن نہیں ہے۔ یہ ہاتھ تو کسی مصور یا رنگساز ہی کے ہو سکتے ہیں۔ عمران بولا۔
ابھی تک تم نے کوئی کام کی بات نہیں بتائی۔ فیاض نے کہا۔
ایک احمق آدمی سے اس سے زیادہ کی توقع رکھنا عقلمندی نہیں۔ عمران ہنس کر بولا۔
اس کے زخموں نے مجھے الجھن میں ڈال دیا ہے۔ فیاض نے کہا۔
اگر تم نے میرے زخموں پر مرہم رکھا۔۔۔تو میں ان زخموں کو بھی دیکھ لوں گا۔
کیا مطلب۔
“جج صاحب کی لڑکی!“ عمران اس طرح بولا جیسے اسے کچھ یاد آگیا ہو! “اس مکان کی ایک کنجی جج صاحب کے پاس ضرور رہتی ہوگی۔“
ہاں ایک ان کے پاس بھی ہے۔
ہی یا تھی۔
یہ تو میں نے نہیں پوچھا۔
خیر پھر پوچھ لینا۔ اب لاش اٹھواؤ۔۔۔پوسٹ مارٹم کے سلسلے میں زخموں کی گہرائیوں کا خاص خیال رکھا جائے۔
کیوں؟
اگر زخموں کی گہرائیاں بھی ایک دوسری کے برابر ہوئیں تو سمجھ لینا کہ یہ شہید مرد صاحب کی حرکت ہے۔
کیوں فضول بکواس کررہے ہو۔
جو کہہ رہا ہوں۔۔۔اس پر عمل کرنے کا ارادہ ہو تو علی عمران ایم۔ ایس۔ سی، پی۔ ایچ۔ ڈی کی خدمات حاصل کرنا ہے۔ ورنہ کوئی۔۔۔کیا نہیں۔۔۔ذرا بتاؤ تو میں کون سا لفظ بھول رہا ہوں۔
ضرورت! فیاض برا سا منہ بنا کر بولا۔
جیتے رہو۔۔۔ورنہ کوئی ضرورت نہیں۔
تمہاری ہدایت پر پورا عمل کیا جائے گا!۔۔۔ اور کچھ!
اور یہ کہ میں پوری عمارت دیکھنا چاہتا ہوں۔ عمران نے کہا۔
پوری عمارت کا چکر لگالینے کے بعد وہ پھر اسی کمرے میں لوٹ آئے۔
ہاں بھئی جج صاحب سے ذرا یہ پوچھ لینا کہ انہوں نے صرف اسی کمرے کی ہیئت بدلنے کی کوشش کیوں کر ڈالی جبکہ پوری عمارت اسی پرانے ڈھنگ پر رہنے دی گئی ہے۔۔۔ کہیں بھی دیوار پر پلاسٹر نہیں دکھائی دیا۔۔۔لیکن یہاں ہے۔۔۔
پوچھ لوں گا۔۔۔
اور کنجی کے متعلق بھی پوچھ لینا۔۔۔اور۔۔۔اگر وہ محبوبہ یک چشم مل جائے تو اس سے کہنا کہ تیر نیم کش کو کوئی میرے دل سے پوچھے۔۔۔شائد غالب کی محبوبہ بھی ایک آنکھ رکھتی تھی۔۔۔کیونکہ تیر نیم کش اکلوتی آنکھ کا بھی ہو سکتا ہے۔
تو اس وقت اور کچھ نہیں بتاؤ گے۔ فیاض نے کہا۔
یار بڑے احسان فروش ہو۔۔۔فروش۔۔۔شائد میں پھر بھول گیا کہ کون سا لفظ ہے۔
فراموش!
جیئو۔ ہاں تو بڑے احسان فراموش ہو۔ اتنی دیر سے بکواس کر رہا ہوں اور تم کہتے ہو کچھ بتایا ہی نہیں۔
دوسرے دن کیپٹن فیاض نے عمران کو اپنے گھر میں مدعو کیا۔ حالانکہ کئی بار کے تجربات نے یہ بات ثابت کر دی تھی کہ عمران وہ نہیں ہے جو ظاہر کرتا ہے نہ وہ احمق ہے اور نہ خبطی! لیکن پھر بھی فیاض نے اسے موڈ میں لانے کے لئے جج صاحب کی کانی لڑکی کو بھی مدعو کر لیا تھا۔ حالانکہ وہ عمران کی اس افتاد طبع کو بھی مذاق ہی سمجھا تھا لیکن پھر بھی اس نے سوچا کہ تھوڑی سی تفریح ہی رہے گی۔ فیاض کی بیوی بھی عمران سے اچھی طرح واقف تھی اور جب فیاض نے اسے اس کے ٬عشق٬ کی داستان سنائی تو ہنستے ہنستے اس کا برا حال ہو گیا۔
فیاض اس وقت اپنے ڈرائنگ روم میں بیٹھا عمران کا انتظار کر رہا تھا۔ اس کی بیوی اور جج صاحب کی یک چشم لڑکی رابعہ بھی موجود تھیں۔
ابھی تک نہیں آئے، عمران صاحب۔ فیاض کی بیوی نے کلائی پر بندھی گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
کیا وقت ہے۔ فیاض نے پوچھا۔
ساڑھے سات۔
بس دو منٹ بعد وہ اسی کمرے میں ہوگا۔ فیاض مسکرا کر بولا۔
کیوں۔ یہ کیسے؟
بس اس کی ہر بات عجیب ہوتی ہے۔ وہ اسی قسم کے اوقات مقرر کرتا ہے۔ اس نے سات بج کر بتس منٹ پر آنے کا وعدہ کیا تھا۔ لہٰذا میرا خیال ہے کہ وہ اس وقت ہمارے بنگلے کے قریب ہی کھڑا اپنی گھڑی دیکھ رہا ہوگا۔
عجیب آدمی معلوم ہوتے ہیں۔ رابعہ نے کہا۔
عجیب ترین کہئے! انگلینڈ سے سائنس میں ڈاکٹریٹ لےکر آیا ہے۔ لیکن اس کی حرکات۔۔۔ وہ ابھی دیکھ لیں گی۔ اس صدی کا سب سے عجیب آدمی۔۔۔لیجئے شائد وہی ہے۔
دروازے پر دستک ہوئی۔
فیاض اٹھ کر آگے بڑھا۔۔۔دوسرے لمحے عمران ڈرائنگ روم میں داخل ہو رہا تھا۔
عورتوں کو دیکھ کر وہ قدرے جھکا اور پھر فیاض سے مصافحہ کرنے لگا۔
غالبا مجھے سب سے پہلے یہ کہنا چاہیئے کہ آج موسم بڑا خوشگوار رہا۔ عمران بیٹھتا ہوا بولا۔
فیاض کی بیوی ہنسنے لگی اور رابعہ نے جلدی سے تاریک شیشوں والی عینک لگا لی۔
آپ سے ملئے، آپ مس رابعہ سلیم ہیں۔ ہمارے پڑوسی جج صاحب کی صاحبزادی اور آپ مسٹر علی عمران میرے محکمہ کے ڈائریکٹر جنرل رحمان صاحب کے صاحبزادے۔
بڑی خوشی ہوئی۔ عمران مسکرا کر بولا پھر فیاض سے کہنے لگا۔ تم ہمیشہ گفتگو میں غیر ضروری الفاظ ٹھونستے رہتے ہو۔ جو بہت گراں گذرتے ہیں۔۔۔رحمان صاحب کے صاحبزادے! دونوں صاحبوں کا ٹکراؤ برا لگتا ہے۔ اس کی بجائے رحمان صاحب کے زادے۔۔۔یا صرف رحمان زادے کہہ سکتے ہیں۔
میں لٹریری آدمی نہیں ہوں۔ فیاض مسکرا کر بولا۔
دونوں خواتین بھی مسکرارہی تھیں۔ پھر رابعہ نے جھک کر فیاض کی بیوی سے کچھ کہا اور وہ دونوں اٹھ کر ڈرائنگ روم سے چلی گئیں۔
بہت برا ہوا۔ عمران برا سا منہ بنا کر بولا۔
کیا؟ شائد وہ باورچی خانے کی طرف گئی ہیں۔ فیاض نے کہا۔ باورچی کی مدد کے لئے آج کوئی نہیں ہے۔
تو کیا تم نے اسے بھی مدعو کیا ہے۔
ہاں بھئی کیوں نہ کرتا میں نے سوچا کہ اس بہانے سے تمہاری ملاقات بھی ہو جائے۔
مگر مجھے بڑی کوفت ہو رہی ہے۔ عمران نے کہا۔
کیوں؟
آخر اس نے دھوپ کا چشمہ کیوں لگایا ہے۔
اپنا نقص چھپانے کے لئے۔
سنو میاں! دو آنکھوں والی مجھے بہتیری مل جائیں گی۔ یہاں تو معاملہ صرف اس آنکھ کا ہے۔ ہائے کیا چیز ہے۔۔۔ کسی طرح اس کا چشمہ اترواؤ۔ ورنہ میں کھانا کھائے بغیر واپس چلا جاؤں گا۔
مت بکو۔
میں چلا۔عمران اٹھتا ہوا بولا۔
عجیب آدمی ہو۔۔۔بیٹھو۔ فیاض نے اسے دوبارہ بٹھا دیا۔
چشمہ اترواؤ، میں اس کا قائل نہیں کہ محبوب سامنے ہو اور اچھی طرح دیدار بھی نصیب نہ ہو۔
ذرا آہستہ بولو۔ فیاض نے کہا۔
میں تو ابھی اس سے کہوں گا۔
کیا کہو گے۔ فیاض بوکھلا کر بولا۔
یہی جو تم سے کہہ رہا ہوں۔
یار خدا کے لئے۔۔۔
کیا برائی ہے۔۔۔ اس میں۔
میں نے سخت غلطی کی۔ فیاض بڑبڑایا۔
واہ۔۔۔غلطی تم کرو اور بھگتوں میں۔ نہیں فیاض صاحب۔ میں اس سے کہوں گا براہ کرم اپنا چشمہ اتار دیجئے۔ مجھے آپ سے مرمت ہو گئی ہے۔۔۔مرمت۔۔مرمت۔۔۔شائد میں نے غلط لفظ استعمال کیا ہے۔ بولو بھئی۔۔۔کیا ہونا چاہئے۔
محبت۔۔۔فیاض برا سا منہ بنا کر بولا۔
جیئو! محبت ہو گئی ہے۔۔۔تو وہ اس پر کیا کہے گی۔
چانٹا مار دے گی۔ فیاض جھنجھلا کر بولا۔
فکر نہ کرو میں چانٹے کو چانٹے پر روک دینے کے آرٹ سے بخوبی واقف ہوں طریقہ وہی ہوتا ہے جو تلوار پر تلوار روکنے کا ہوا کرتا تھا۔
یار خدا کے لئے کوئی حماقت نہ کر بیٹھنا۔
عقل مندی کی بات کرنا ایک احمق کی کھلی توہین ہے اب بلاؤ نا۔۔دل کی جو حالت ہے بیان کر بھی سکتا ہوں اور نہیں بھی کر سکتا۔۔۔وہ کیا ہوتا ہے جدائی میں۔۔۔بولو نا یار کون سا لفظ ہے۔
میں نہیں جانتا۔ فیاض جھنجھلا کر بولا۔
خیر ہوتا ہوگا کچھ۔۔۔ڈکشنری میں دیکھ لوں گا۔۔۔ ویسے میرا دل دھڑک رہا ہے ہاتھ کانپ رہے ہیں لیکن ہم دونوں کے درمیان دھوپ کا چشمہ حائل ہے۔ میں اسے برداشت نہیں کر سکتا۔
چند لمحے خاموشی رہی۔ عمران میز پر رکھے گلدان کو اس طرح گھور رہا تھا جیسے اس نے اسے کوئی سخت بات کہہ دی ہو۔
آج کچھ نئی باتیں معلوم ہوئی ہیں۔ فیاض نے کہا۔
ضرور معلوم ہوئی ہوں گی۔ عمران احمقوں کی طرح سر ہلا کر بولا۔
مگر نہیں! پہلے میں تمہیں ان زخموں کے متعلق بتاؤں۔ تمہارا خیال درست نکلا۔ زخموں کی گہرائیاں بالکل برابر ہیں۔
کیا تم خواب دیکھ رہے ہو۔ عمران نے کہا۔
کیوں؟
کن زخموں کی بات کر رہے ہو؟
دیکھو عمران میں احمق نہیں ہوں۔
پتہ نہیں جب تک تین گواہ نہ پیش کرو یقین نہیں آسکتا۔
کیا تم کل والی لاش بھول گئے۔
لاش۔ ار۔۔۔ہاں یاد آیا۔ اور وہ تین زخم برابر نکلے۔۔۔ہا۔۔۔
اب کیا کہتے ہو۔ فیاض نے پوچھا۔
سنگ و آہن بے نیاز غم نہیں۔۔۔ دیکھو ہر دیوار سے سر نہ مار۔ عمران نے گنگنا کر تان ماری اور میز پر طبلہ بجانے لگا۔
تم سنجیدہ نہیں ہوسکتے۔ فیاض اکتا کر بے دلی سے بولا۔
اس کا چشمہ اتروا دینے کا وعدہ کرو تو میں سنجیدگی سے گفتگو کرنے پر تیار ہوں۔
کوشش کروں گا بابا۔ میں نے اسے ناحق مدعو کیا۔
دوسری بات یہ کہ کھانے میں کتنی دیر ہے۔
شائد آدھا گھنٹہ۔۔۔وہ ایک نوکر بیمار ہو گیا ہے۔
خیر۔۔۔ہاں جج صاحب سے کیا باتیں ہوئیں؟
وہی بتانے جا رہا تھا! کنجی اس کے پاس موجود ہے اور دوسری بات یہ کہ وہ عمارت انہیں اپنے خاندانی ترکے میں نہیں ملی تھی۔
پھر۔ عمران توجہ اور دلچسپی سے سن رہا تھا۔
وہ دراصل ان کے ایک دوست کی ملکیت تھی اور اس دوست نے ہی اسے خریدا تھا۔ ان کی دوستی بہت پرانی تھی لیکن فکر معاش نے انہیں ایک دوسرے سے جدا کر دیا۔ آج سے پانچ سال قبل اچانک جج صاحب کو اس کا ایک خط ملا جو اسی عمارت سے لکھا گیا تھا اس نے لکھا تھا کہ اس کی حالت بہت خراب ہے اور شائد وہ زندہ نہ رہ سکے۔ لہٰذا وہ مرنے سے پہلے ان سے بہت اہم بات کرنا چاہتا ہے۔ تقریبا پندرہ سال بعد جج صاحب کو اس دوست کے متعلق کچھ معلوم ہوا تھا۔ ان کا وہاں پہنچنا ضروری تھا بہر حال وہ وقت پر نہ پہنچ سکے ان کے دوست کا انتقال ہو چکا تھا! معلوم ہوا کہ وہاں تنہا ہی رہتا تھا۔۔۔ہاں تو جج صاحب کو بعد میں یہ معلوم ہوا کہ مرنے والے نے وہ عمارت قانونی طور پر جج صاحب کی طرف منتقل کر دی تھی۔ لیکن یہ معلوم نہ ہو سکا کہ ان سے کیا کہنا چاہتا تھا۔۔۔
عمران تھوڑی دیر تک کچھ سوچتا رہا پھر بولا۔
ہاں! ۔۔۔اور اس کمرے کے پلاسٹر کے متعلق پوچھا تھا۔
جج صاحب نے اس سے لاعلمی ظاہر کی۔ البتہ انہوں نے یہ بتایا کہ ان کے دوست کی موت اسی کمرے میں واقعی ہوئی تھی۔
قتل۔ عمران نے پوچھا۔
نہیں قدرتی موت، گاؤں والوں کے بیان کے مطابق وہ عرصہ سے بیمار تھا۔
اس نے اس عمارت کو کس سے خریدا تھا۔ عمران نے پوچھا۔
آخر اس سے کیا بحث۔ تم عمارت کے پیچھے کیوں پڑ گئے ہو؟
محبوبہ یک چشم کے والد بزرگوار سے یہ بھی پوچھو۔
ذرا آہستہ۔ عجیب آدمی ہو اگر اس نے سن لیا تو۔
سننے دو!۔۔! ابھی میں اس سے اپنے دل کی حالت بیان کروں گا۔
یار عمران خدا کے لئے۔۔۔کیسے آدمی ہو تم۔
فضول باتیں مت کرو۔ عمران بولا۔ ذرا جج صاحب سے وہ کنجی مانگ لاؤ۔
اوہ کیا ابھی۔۔۔!
ابھی اور اسی وقت!
فیاض اٹھ کر چلا گیا۔ اس کے جاتے ہی وہ دونوں خواتین ڈرائنگ روم میں داخل ہوئیں۔
کہاں گئے۔ فیاض کی بیوی نے پوچھا۔
شراب پینے۔ عمران نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔
کیا؟ فیاض کی بیوی منہ پھاڑ کر بولی۔ پھر ہنسنے لگی۔
کھانا کھانے سے پہلے ہمیشہ تھوڑی سی پیتے ہیں۔ عمران نے کہا۔
آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔۔۔وہ ایک ٹانک تھا۔
ٹانک کی خالی بوتل میں شراب رکھنا مشکل نہیں۔
لڑانا چاہتے ہیں آپ۔ فیاض کی بیوی ہنس پڑی۔
کیا آپ کی آنکھوں میں کچھ تکلیف ہے۔ عمران نے رابعہ کو مخاطب کیا۔
جی۔۔۔ جی۔۔۔ جی نہیں۔ رابعہ نروس نظر آنے لگی۔
کچھ نہیں۔ فیاض کی بیوی جلدی سے بولی۔ عادت ہے تیز روشنی برداشت نہیں ہوتی اسی لئے یہ چشمہ۔۔۔
اوہ اچھا۔ عمران بڑبڑایا۔ میں ابھی کیا سوچ رہا تھا۔
آپ غالبا یہ سوچ رہے تھے کہ فیاض کی بیوی بڑی پھوہڑ ہے۔ ابھی تک کھانا بھی تیار نہیں ہو سکا۔
نہیں یہ بات نہیں ہے۔ میرے ساتھ بہت بڑی مصیبت یہ ہے کہ میں بڑی جلدی بھول جاتا ہوں۔ سوچتے سوچتے بھول جاتا ہوں کہ کیا سوچ رہا ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ میں ابھی یہ بھول جاؤں کہ آپ کون ہیں اور میں کہاں ہوں؟ میرے گھر والے مجھے ہر وقت ٹوکتے رہتے ہیں۔
مجھے معلوم ہے۔ فیاض کی بیوی مسکرائی۔
مطلب یہ کہ اگر مجھ سے کوئی حماقت سرزد ہو تو بلا تکلف ٹوک دیجئے۔
ابھی یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ فیاض واپس آگیا۔
کھانے میں کتنی دیر ہے۔ اس نے اپنی بیوی سے پوچھا۔
بس ذرا سی۔
فیاض نے کنجی کا کوئی تذکرہ نہیں کیا اور عمران کے انداز سے بھی ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ بھول ہی گیا ہو کہ اس نے فیاض کو کہاں بھیجا ہے۔
تھوڑی دیر بعد کھانا آگیا۔
کھانے کے دوران میں عمران کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ سب نے دیکھا لیکن کسی نے پوھچا نہیں خود فیاض جو عمران کی رگ رگ سے واقف ہونے کا دعوٰی رکھتا تھا، کچھ نہ سمجھ سکا۔ فیاض کی بیوی اور رابعہ تو بار بار کن انکھیوں سے اسے دیکھ رہی تھیں۔ آنسو کسی طرح رکنے کا نام ہی نہ لیتے تھے۔ خود عمران کے انداز سے ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے اسے بھی ان آنسوؤں کا علم نہ ہو۔ آخر فیاض کی بیوی سے ضبط نہ ہو سکا اور وہ پوچھ بیٹھی۔
کیا کسی چیز میں مرچیں زیادہ ہیں؟
جی نہیں۔۔۔ نہیں تو۔
تو پھر یہ آنسو کیوں بہہ رہے ہیں۔
آنسو۔۔۔کہاں۔ عمران اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرتا ہوا بولا۔ لل۔۔۔ لاحول ولا قوۃ۔ شائد وہی بات ہے۔۔۔ مجھے قطعی احسا س نہیں ہوا۔
کیا بات؟ فیاض نے پوچھا۔
دراصل مرغ مسلم دیکھ کر مجھے اپنے ایک عزیز کی موت یاد آگئی۔
کیا؟ مرغ مسلم دیکھ کر۔ فیاض کی بیوی حیرت سے بولی۔
جی ہاں۔۔۔
بھلا مرغ مسلم دیکھ کر کیوں؟
دراصل ذہن میں دوزخ کا تصور تھا۔ مرغ مسلم کو دیکھ کر آدمی مسلم کا خیال آگیا۔ میرے ان عزیز کا نام اسلم ہے مسلم پر اسلم آگیا۔۔۔پھر ان کی موت کا خیال آیا۔ پھ رسوچا کہ اگر وہ دوزخ میں پھینکے گئے تو اسلم مسلم۔۔۔ معاذ اللہ۔۔۔
عجیب آدمی ہو۔ فیاض جھنجھلا کر بولا۔
جج صاحب کی بیٹی بے تحاشہ ہنس رہی تھی۔
کب انتقال ہوا ان کا۔ فیاض کی بیوی نے پوچھا۔
ابھی تو نہیں ہوا۔ عمران نے سادگی سے کہا اور کھانے میں مشغول ہو گیا۔
یار مجھے ڈر ہے کہ کہیں تم سچ مچ پاگل نہ ہو جاؤ۔
نہیں جب تک کوکا کولا بازار میں موجود ہے پاگل نہیں ہو سکتا۔
کیوں؟ فیاض کی بیوی نے پوچھا۔
پتہ نہیں۔۔۔ بہرحال یہی محسوس کرتا ہوں۔
کھانا ختم ہوجانے کے بعد بھی شائد جج صاحب کی لڑکی وہاں بیٹھنا چاہتی تھی۔ لیکن فیاض کی بیوی اسے کسی بہانے سے اٹھا کر لے گئی شائد فیاض نے اسے کوئی اشارہ کر دیا تھا۔ ان کے جاتے ہی فیاض نے عمران کو کنجی پکڑا دی اور عمران تھوڑی دیر تک اس کا جائزہ لیتے رہنے کے بعد بولا۔
ابھی حال ہی میں اس کی ایک نقل تیار کی گئی ہے۔ اس کے سوراخ کے اندر موم کے ذرات ہیں۔ موم کا سانچہ۔۔۔ سمجھتے ہو نا!
4
رات تاریک تھی۔۔۔ اور آسمان میں سیاہ بادلوں کے مرغولے چکراتے پھر رہے تھے۔
کیپٹن فیاض کی موٹر سائیکل اندھیرے کا سینہ چیرتی ہوئی چکنی سڑک پر پھسلتی جا رہی تھی۔ کیریئر پر عمران الوؤں کی طرح دیدے پھرا رہا تھا اور نتھنے پھڑک رہے تھے۔ دفعتا وہ فیاض کا شانہ تھپتھپا کر بولا۔
یہ تو طے شدہ بات ہے کہ کسی نے والد یک چشم کی کنجی کی نقل تیار کروائی ہے۔
ہوں۔ لیکن آخر کیوں؟
پوچھ کر بتاؤں گا۔
کس سے؟
بیکراں نیلے آسماں سے تاروں بھری رات سے، ہولے ہولے چلنے والی ٹھنڈی اداؤں سے۔۔۔لاحول ولا۔۔۔ہواؤں سے۔۔۔!
فیاض کچھ نہ بولا۔ عمران بڑبڑاتا رہا۔ لیکن شہید میاں کی قبر کی جاروب کشی کرنے والے کی کنجی۔۔۔۔ اس کا حاصل کرنا نسبتا آسان رہا ہوگا۔۔۔بہر حال ہمیں اس عمارت کی تاریخ معلوم کرنی ہے۔ شائد ہم اس کے نواح میں پہنچ گئے ہیں۔ موٹر سائیکل روک دو۔
فیاض نے موٹر سائیکل روک دی۔
انجن بند کردو۔
فیاض نے انجن بند کر دیا۔ عمران نے اس کے ہاتھ سے موٹرسائیکل لے کر ایک جگہ جھاڑی میں چھپا دی۔
آخر کرنا کیا چاہتے ہو۔ فیاض نے پوچھا۔
میں پوچھتا ہوں کہ تم مجھے کیوں ساتھ لئے پھرتے ہو۔ عمران بولا۔
وہ قتل۔۔۔ جو اس عمارت میں ہوا تھا۔
قتل نہیں حادثہ کہو۔
حادثہ!۔۔۔ کیا مطلب؟ فیاض حیرت سے بولا۔
مطلب کے لئے دیکھو غیاث اللغات صفحہ ایک سو بارہ۔۔۔ ویسے ایک سو بارہ پر بیگم پارہ یاد آرہی ہے۔ بیگم پارہ کے ساتھ امرت دھارا ضروری ہے ورنہ ڈیوڈ کی طرح چندیا صاف۔
فیاض جھنجھلا کر خاموش ہو گیا۔
دونوں آہستہ آہستہ اس عمارت کی طرف بڑھ رہے تھے۔ انہوں نے پہلے پوری عمارت کا چکر لگایا پھر صدر دروازے کے قریب پہنچ کر رک گئے۔
اوہ۔ عمران آہستہ سے بڑبڑایا۔ تالا بند نہیں ہے۔
کیسے دیکھ لیا تم نے۔۔۔ مجھے تو سجھائی نہیں دیتا۔ فیاض نے کہا۔
تم الو نہیں ہو۔ عمران بولا۔ چلو ادھر سے ہٹ جاؤ۔
دونوں وہاں سے ہٹ کر پھر مکان کی پشت پر آئے۔ عمران اوپر کی طرف دیکھ رہا تھا۔ دیوار کافی اونچی تھی۔۔۔ اس نے جیب سے ٹارچ نکالی اور دیوار پر روشنی ڈالنے لگا۔
میرا بوجھ سنبھال سکو گے۔ اس نے فیاض سے پوچھا۔
میں سمجھا نہیں۔
تمہیں سمجھانے کے لئے تو باقاعدہ بلیک بورڈ اور چاک اسٹک چاہئے۔ مطلب یہ کہ میں اوپر جانا چاہتا ہوں۔
“کیوں؟ کیا یہ سمجھتے ہو کہ کوئی اندر موجود ہے۔“ فیاض نے کہا
نہیں یوں ہی جھک مارنے کا ارادہ ہے۔ چلو بیٹھ جاؤ۔ میں تمہارے کاندھوں پر کھڑا ہو کر۔۔۔
پھر بھی دیوار بہت اونچی ہے۔
یار فضول بحث نہ کرو۔ عمران اکتا کر بولا۔ ورنہ میں واپس جا رہا ہوں۔
طوعا و کرہا فیاض دیوار کی جڑ میں بیٹھ گیا۔ اماں جوتےتو اتار لو۔ فیاض نے کہا۔
لے کر بھاگنا مت۔ عمران نے کہا اور جوتے اتار کر اس کے کاندھوں پر کھڑا ہو گیا۔
چلو اب اٹھو۔
فیاض آہستہ آہستہ اٹھ رہا تھا۔۔۔ عمران کا ہاتھ روشندان تک پہنچ گیا۔۔۔۔اور دوسرے ہی لمحے وہ بندروں کی طرح دیوار پر چڑھ رہا تھا۔۔۔ فیاض منہ پھاڑے حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ عمران آدمی ہے یا شیطان۔ کیا یہ وہی احمق ہے جو بعض اوقات کسی کیچوے کی طرح بالکل بے ضرر معلوم ہوتا ہے۔
جن روشندانوں کی مدد سے عمران اوپر پہنچا تھا انہیں کے ذریعہ دوسری طرف اتر گیا۔ چند لمحے وہ دیوار سے لگا کھڑا رہا پھر آہستہ آہستہ اس طرف بڑھنے لگا جدھر سے کئی قدموں کی آہٹیں مل رہی تھیں۔
اور پھر اسے یہ معلوم کر لینے میں کوئی دشواری نہ ہوئی کہ وہ نامعلوم آدمی اسی کمرے میں تھے جس میں اس نے لاش دیکھی تھی۔ کمرے کا دروازہ اندر سے بند تھالیکن دروازوں سے موم بتی کی ہلکی زرد روشنی چھن رہی تھی۔ اس کے علاوہ دالان بالکل تاریک تھا۔
عمران دیوار سے چپکا ہوا آہستہ آہستہ دروازے کی طرف بڑھنے لگا لیکن اچانک اس کی نظر شہید مرد کی قبر کی طرف اٹھ گئی۔ جس کا تعویذ اوپر اٹھ رہا تھا۔ تعویذ اور فرش کےدرمیان خلا میں ہلکی سی روشنی تھی اور اس خلا سے دو خوفناک آنکھیں اندھیرےمیں گھور رہی تھیں۔
عمران سہم کر رک گیا وہ آنکھیں پھاڑے قبر کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔ اچانک قبر سے ایک چیخ بلند ہوئی۔ چیخ تھی یا کسی ایسی بندریا کی آواز جس کی گردن کسی کتے نے دبوچ لی ہو۔
عمران جھپٹ کر برابر والے کمرے میں گھس گیا۔ وہ جانتاتھا کہ اس چیخ کا ردعمل دوسرے کمرے والوں پر کیا ہوگا۔ وہ دروازے پر کھڑا قبر کی طرف دیکھ رہا تھا تعویذابھی تک اٹھا ہوا تھا اور دو خوفناک آنکھیں اب بھی چنگاریاں برسا رہی تھیں۔ دوسری چیخ کے ساتھ ہی برابر والے کمرے کا دروازہ کھلا ایک چیخ پھر سنائی دی جو پہلی سے مختلف تھی۔ غالبا یہ انہیں نامعلوم آدمیوں میں سے کسی کی چیخ تھی۔
بھوت بھوت۔ کوئی کپکپاتی ہوئی آواز میں بولا اور پھر ایسا معلوم ہوا جیسے کئی آدمی صدر دروازے کی طرف بھاگ رہے ہوں۔
تھوڑی دیر بعد سناٹا چھاہوگیا۔ قبر کا تعویذ برابر ہو گیا تھا۔
عمران زمین پر لیٹ کر سینے کے بل رینگتا ہوا صدر دروازے کی طرف بڑھا کبھی کبھی وہ پلٹ کر قبر کی طرف بھی دیکھ لیتا تھا لیکن پھر تعویذ نہیں اٹھا۔
صدر دروازہ باہر سے بند ہو چکا تھا۔ عمران اچھی طرح اطمینان کرلینے کے بعد پھر لوٹ پڑا۔
لاش والے کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ لیکن اب وہاں اندھیرے کی حکومت تھی۔ عمران نے آہستہ سے دروازہ بند کرکے ٹارچ نکالی۔ لیکن روشنی ہوتے ہی۔۔۔
انا للہ و انا علیہ راجعون۔ وہ آہستہ سےبڑبڑایا۔ خدا تمہاری بھی مغفرت کرے۔
ٹھیک اسی جگہ جہاں وہ اس سے قبل بھی ایک لاش دیکھ چکا تھا۔ دوسری پڑی ہوئی دکھائی دی۔۔۔ اس کی پشت پر بھی تین زخم تھے جن سے خون بہہ بہہ کر فرش پر پھیل رہا تھا۔ عمران نے جھک کر اسے دیکھا یہ ایک خوش وضع اور کافی خوبصورت نوجوان تھا۔ اور لباس سے کسی اونچی سوسائٹی کا فرد معلوم ہوتا تھا۔
آج ان کی کل اپنی باری ہے۔ عمران درویشیانہ انداز میں بڑبڑاتا ہوا سیدھا ہو گیا۔ اس کے ہاتھ میں کاغذ کا ایک ٹکڑا تھا جو اس نے مرنے والے کی مٹھی سے بدقت تمام نکالا تھا۔
وہ چند لمحے اسے ٹارچ کی روشنی میں دیکھتا رہا۔ پھر معنی خیز انداز میں سر ہلا کر کوٹ کی اندورنی جیب میں رکھ لیا کمرے کے بقیہ حصوں کی حالت بعینہ وہی رہی تھی۔ جو اس نے پچھلی مرتبہ دیکھی تھی۔ کوئی خاص فرق نہیں نظر آرہا تھا۔
تھوڑی دیر بعد وہ پھر پچھلی دیوار سے نیچے اتر رہا تھا۔ آخری روشندان پر پیر رکھ کر اس نے چھلانگ لگا دی۔
تمہاری یہ خصوصیت بھی آج ہی معلوم ہوئی۔ فیاض آہستہ سے بولا۔
کیا اندر کسی بندریا سے ملاقات ہوگئی تھی۔
آواز پہنچی تھی یہاں تک۔ عمران نے پوچھا۔
ہاں۔ لیکن میں نے ان اطراف میں بندر نہیں دیکھے۔
ان کے علاوہ کوئی دوسری آواز؟
ہاں۔۔۔شائد تم ڈر کر چیخے تھے۔ فیاض بولا۔
لاش اس وقت چاہئے یا صبح؟ عمران نے پوچھا۔
لاش؟ فیاض اچھل پڑا۔ کیا کہتے ہو۔ کیسی لاش؟
کسی شاعر نے دوغزلہ عرض کر دیا ہے۔
اے دنیا کے عقلمند ترین احمق صاف صاف کہو۔ فیاض جھنجھلا کر بولا۔
ایک دوسری لاش۔۔۔ تین زخم۔۔۔ زخموں کا فاصلہ پانچ انچ۔۔۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کے مطابق ان کی گہرائی بھی یکساں نکلے گی۔
یار بیوقوف مت بناؤ۔ فیاض عاجزی سے بولا۔
جج صاحب والی کنجی موجود ہے۔ عقل مند بن جاؤ۔ عمران نے خشک لہجے میں کہا۔
لیکن یہ ہوا کس طرح؟
اسی طرح جیسے شعر ہوتے ہیں۔۔۔ لیکن یہ شعر مجھے بھرتی کا معلوم ہوتا ہے جیسے میر کا یہ شعر
میر کے دین و مذہب کو کیا پوچھتے ہو اب اس نے تو
قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا
بھلا بتاؤ دیر میں کیوں بیٹھا جلدی کیوں نہیں بیٹھ گیا۔
دیر نہیں دیر ہے۔ یعنی بت خانہ۔ فیاض نے کہا پھر بڑبڑا کر بولا۔ لاحول ولا قوۃ میں بھی اسی لغویت میں پڑ گیا۔ وہ لاش عمارت کے کس حصے میں ہے۔
اسی کمرے میں اور ٹھیک اسی جگہ جہاں پہلی لاش ملی تھی۔
لیکن وہ آوازیں کیسی تھیں۔ فیاض نے پوچھا۔
اوہ نہ پوچھو تو بہتر ہے۔ میں نے اتنا مضحکہ خیر منظر آج نہیں دیکھا۔
یعنی۔
پہلے ایک گدھا دکھائی دیا۔ جس پر ایک بندریا سوار تھی۔۔۔ پھر ایک دوسرا سایہ نظر آیا جو یقینا کسی آدمی کا تھا۔ اندھیرے میں بھی گدھے اور آدمی میں فرق کیا جا سکتا ہے۔ کیوں تمہارا کیا خیال ہے؟
مجھے افسوس ہے کہ تم ہر وقت غیر سنجیدہ رہتے ہو۔
یار فیاض سچ کہنا۔ اگر تم ایک آدمی کو کسی بندریا کا منہ چومتے دیکھو تو تمہیں غصہ آئے گا یا نہیں؟
فضول۔۔۔ وقت برباد کر رہے ہو تم۔
اچھا چلو۔۔۔ عمران اس کا شانہ تھپکتا ہوا بولا۔
وہ دونوں صدر دروازے کی طرف آئے۔
کیوں خوامخواہ پریشان کر رہے ہو۔ فیاض نے کہا۔
کنجی نکالو۔
دروازہ کھول کر دونوں لاش کے کمرے میں آئے۔ عمران نے ٹارچ روشن کی۔ لیکن وہ دوسرے ہی لمحے اس طرح سر سہلا رہا تھا جیسے دماغ پر دفعتا گرمی چڑھ گئی ہو۔
لاش غائب تھی۔
یہ کیا مذاق؟ فیاض بھنا کر پلٹ پڑا۔
ہوں۔ بعض عقلمند شاعر بھرتی کے شعر اپنی غزلوں سے نکال بھی دیا کرتے ہیں۔
یار عمران میں باز آیا تمہاری مدد سے۔
مگر مری جان یہ لو دیکھو۔۔۔ نقش فریادی ہے کسی کی شوخی تحریر کا۔۔۔ لاش غائب کرنے والے نے ابھی خون کے تازہ دھبوں کا کوئی انتظام نہیں کیا۔ مرزا افتخار رفیع سودا یا کوئی صاحب فرماتے ہیں
قاتل ہماری لاش کو تشہیر دے ضرور
آئندہ تاکہ کوئی نہ کسی سے وفا کرے
فیاض جھک کر فرش پر پھیلے ہوئے خون کو دیکھنے لگا۔
لیکن لاش کیا ہوئی۔ وہ گھبرائے ہوئے لہجے میں بولا۔
فرشتے اٹھا لےگئے۔ مرنے والا بہشتی تھا۔۔۔ مگر لاحول ولا۔۔۔ بہشتی۔۔۔ سقے کو بھی کہتے ہیں۔۔۔ اوہو فردوسی تھا۔۔۔ لیکن فردوسی۔۔۔ تو محمود غزنوی کی زندگی میں ہی مر گیا تھا۔۔۔ پھر کیا کہیں گے۔۔۔ بھئی بولو نا۔
یار بھیجا مت چاٹو۔
الجھن۔ بتاؤ جلدی۔۔۔ کیا کہیں گے۔۔۔ سر چکرا رہا ہے دورہ پڑ جائے گا۔
جنتی کہیں گے۔۔۔ عمران تم سے خدا سمجھے۔
جیئو!۔۔۔ ہاں تو مرنے والا جنتی تھا۔۔۔ اور کیا کہہ رہا تھا میں۔۔۔
تم یہیں رکے کیوں نہیں رہے۔ فیاض بگڑ کر بولا۔ مجھے آواز دے لی ہوتی۔
سنو یار! بندریا تو کیا میں نے آج تک کسی مکھی کا بھی بوسہ نہیں لیا۔ عمران مایوسی سے بولا۔
کیا معاملہ ہے۔ تم کئی بار بندریا کا حوالہ دے چکے ہو۔
جو کچھ ابھی تک بتایا ہے بالکل صحیح تھا۔۔۔ اس آدمی نے گدھے پر سے بندریا اتاری اسے کمرے میں لے گیا۔۔۔ پھر بندریا دو بار چیخی اور وہ آدمی ایک بار۔۔۔ اس کے بعد سناٹا چھا گیا۔۔۔ پھر لاش دکھائی دی۔ گدھا اور بندریا غائب تھے۔
سچ کہہ رہے ہو۔ فیاض بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔
مجھے جھوٹا سمجھنے والے پر قہر خداوندی کیوں نہیں ٹوٹتا۔
فیاض تھوڑی دیر تک خاموش رہا پھر تھوک نگل کر بولا۔
تت۔۔۔ تو۔۔۔ پھر صبح پر رکھو۔
عمران کی نظریں پھر قبر کی طرف اٹھ گئیں۔ قبر کا تعویذ اٹھا ہوا تھا اور وہی خوفناک آنکھیں اندھیرے میں گھور رہی تھیں۔ عمران نے ٹارچ بجھا دی اور فیاض کو دیوار کی اوٹ میں دھکیل لے گیا نہ جانے کیوں وہ چاہتا تھا کہ فیاض کی نظر اس پر نہ پڑنے پائے۔
کک کیا؟ فیاض کانپ کر بولا۔
بندریا۔ عمران نے کہا۔
وہ کچھ اور بھی کہنا چاہتا تھا کہ وہی چیخ ایک بار پھر سناٹے میں لہرا گئی۔
ارے باپ۔۔۔ فیاض کسی خوفزدہ بچے کی طرح بولا۔
آنکھیں بند کرلو۔ عمران نے سنجیدگی سے کہا۔ ایسی چیزوں پر نظر پڑھنے سے ہارٹ فیل بھی ہو جایا کرتا ہے۔ ریوالور لائے ہو۔
نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ تم نے بتایا کب تھا۔
خیر کوئی بات نہیں!۔۔۔ اچھا ٹھہرو! عمران آہستہ آہستہ دروازے کی طرف بڑھتا ہوا بولا۔ قبر کا تعویذ برابر ہو چکا تھا اور سناٹا پہلے سے بھی کچھ زیادہ گہرا معلوم ہونے لگا تھا۔
5
ایک بج گیا تھا۔۔۔ فیاض عمران کو اس کی کوٹھی کے قریب اتار کر چلا گیا پائیں باغ کا دروازہ بند ہو کچا تھا۔ عمران پھاٹک ہلانے لگا۔۔۔ اونگھتے ہوئے چوکیدار نے ہانک لگائی۔
پیارے چوکیدار۔۔۔ میں ہوں تمہارا خادم علی عمران ایم۔ ایس۔ سی، پی۔ ایچ۔ ڈی لندن۔
کون چھوٹے سرکار۔ چوکیدار پھاٹک کے قریب آکر بولا۔ حضور مشکل ہے۔
دنیا کا ہر بڑا آدمی کہہ گیا ہے کہ وہ مشکل ہی نہیں جو آسان ہو جائے۔
بڑے سرکار کا حکم ہے کہ پھاٹک نہ کھولا جائے۔۔۔ اب بتائیے۔
بڑے سرکار تک کنفیوشس کا پیغام پہنچا دو۔
جی سرکار۔ چوکیدار بوکھلا کر بولا۔
ان سے کہہ دو کنفیوشس نے کہا ہے کہ تاریک رات میں بھٹکنے والے ایمانداروں کے لئے اپنے دروازے کھول دو۔
مگر بڑے سرکار نے کہا ہے۔۔۔
ہا۔۔۔ بڑے سرکار۔۔۔ انہیں چین میں پیدا ہونا تھا۔ خیر تم ان تک کنفیوشس کا یہ پیغام ضرور پہنچا دینا۔
میں کیا بتاؤں۔ چوکیدار کپکپاتی ہوئی آواز میں بولا۔ اب آپ کہاں جائیں گے۔
فقیر یہ سہانی رات کسی قبرستان میں بسر کرے گا۔
میں آپ کے لئے کیا کروں؟
دعائے مغفرت۔۔۔ اچھا ٹاٹا۔ عمران چل پڑا۔
اور پھر آدھے گھنٹے بعد وہ ٹپ ٹاپ کلب میں داخل ہو رہا تھا لیکن دروازے میں قدم رکھتے ہی محکمہ سراغرسانی کے ایک ڈپٹی ڈائریکٹر سے مڈبھیڑ ہوگئی جو اس کے باپ کا کلاس فیلو بھی رہ چکا تھا۔
اوہو۔ صاحبزادے تو تم اب ادھر بھی دکھائی دینے لگے ہو؟
جی ہاں۔ اکثر فلیش کھیلنے کے لئے چلا آتا ہوں۔ عمران نے سر جھکا کر بڑی سعادت مندی سے کہا۔
فلیش۔ توکیا اب فلیش بھی۔۔۔؟
جی ہاں۔ کبھی کبھی نشے میں دل چاہتا ہے۔
اوہ۔۔۔ تو شراب بھی پینے لگے ہو۔
وہ کیا عرض کروں۔۔۔ قسم لے لیجئے جو کبھی تنہا پی ہو۔ اکثر شرابی طوائفیں بھی مل جاتی جو پلائے بغیر مانتی ہی نہیں۔۔۔!
لاحول ولا قوۃ۔۔۔ تو تم آج کل رحمٰن صاحب کا نام اچھال رہے ہو۔
اب آپ ہی فرمائیے۔ عمران مایوسی سے بولا۔ جب کوئی شریف لڑکی نہ ملے تو کیا کیا جائے۔۔۔ ویسے قسم لے لیجئے۔ جب کوئی مل جاتی ہے تو میں طوائفوں پر لعنت بھیج کر خدا کا شکر ادا کرتا ہوں۔
شائد رحمٰن صاحب کو اس کی اطلاع نہیں۔۔۔ خیر۔۔۔
اگر ان سے ملاقات ہو تو کنفیوشس کا یہ قول دہرا دیجئے کہ جب کسی ایماندار کو اپنی ہی چھت کے نیچے پناہ نہیں ملتی تو وہ تاریک گلیوں میں بھونکنے والے کتوں سے ساز باز کر لیتا ہے۔
ڈپٹی ڈائریکٹر اسے گھورتا ہوا باہر چلا گیا۔
عمران نے سیٹی بجانے کے انداز میں ہونٹ سکوڑ کر ہال کا جائزہ لیا۔۔۔ اس کی نظریں ایک میز پر رک گئیں۔ جہاں ایک خوبصورت عورت اپنے سامنے پورٹ کی بوتل رکھے بیٹھی سیگرٹ پی رہی تھی۔ گلاس آدھے سے زیادہ خالی تھا۔
عمران اس کے قریب پہنچ کر رک گیا۔
کیا میں یہاں بیٹھ سکتا ہوں لیڈی جہانگیر۔ وہ قدرے جھک کر پولا۔
اوہ تم۔ لیڈی جہانگیر اپنی داہنی بھوں اٹھا کر بولی۔ نہیں۔۔۔ ہرگز نہیں۔
کوئی بات نہیں۔ عمران معصومیت سے مسکرا کر بولا۔ کنفیوشس نے کہا تھا۔۔۔
مجھے کنفیوشس سے کوئی دلچسپی نہیں۔۔۔ وہ جھنجھلا کر بولی۔
تو ڈی۔ ایچ۔ لارنس کا ہی ایک جملہ سن لیجئے۔
میں کچھ نہیں سننا چاہتی۔۔۔ تم یہاں سے ہٹ جاؤ۔ لیڈی جہانگیر گلاس اٹھاتی ہوئی بولی۔
اوہ اس کا خیال کیجئے کہ آپ میری منگیتر بھی رہ چکی ہیں۔۔۔
شٹ اپ۔
آپ کی مرضی۔ میں تو صرف آپ کو یہ بتانا چاہتا تھا کہ آج صبح ہی سے موسم بہت خوشگوار ہے۔
وہ مسکرا پڑی۔
بیٹھ جاؤ۔ اس نے کہا اور ایک ہی سانس میں گلاس خالی کر گئی۔
وہ تھوڑی دیر اپنی نشیلی آنکھیں عمران کے چہرے پر جمائے رہی اور پھر سیگرٹ کا ایک طویل کش لے کر آگے جھکتی ہوئی آہستہ سے بولی۔
میں اب بھی تمہاری ہوں۔
مگر۔۔۔ سر جہانگیر۔ عمران مایوسی سے بولا۔
دفن کرو اسے۔
ہائیں۔۔۔ تو کیا مر گئے؟ عمران گھبرا کر کھڑا ہو گیا۔
لیڈی جہانگیر ہنس پڑی۔
تمہاری حماقتیں بڑی پیاری ہوتی ہیں۔ وہ اپنی بائیں آنکھ دبا کر بولی اور عمران نے شرما کر سر جھکا لیا۔
کیا پیو گے۔ لیڈی جہانگیر نے تھوڑی دیر بعد پوچھا۔
دہی کی لسی۔
دہی کی لسی۔۔۔ہی۔۔۔ ہی۔۔۔ ہی۔۔۔ شائد تم نشے میں ہو۔
ٹھہریئے۔ عمران بوکھلا کر بولا۔ میں ایک بجے کے بعد صرف کافی پیتا ہوں۔۔۔ چھ بجے شام سے بارہ بجے رات تک رم پیتا ہوں۔
رم۔ لیڈی جہانگیر منہ سکوڑ کر بولی۔ تم اپنے ٹیسٹ کے آدمی نہیں معلوم ہوتے۔ رم صرف گنوار پیتے ہیں۔
نشے میں یہ بھول جاتا ہوں کہ گنوار نہیں ہوں۔
تم آج کل کیا کر رہے ہو۔
صبر۔ عمران نے طویل سانس لے کر کہا۔
تم زندگی کے کسی حصے میں بھی سنجیدہ نہیں ہو سکتے۔ لیڈی جہانگیر مسکرا کر بولی۔
اوہ آپ بھی یہی سمجھتی ہیں۔ عمران کی آواز حد درجہ دردناک ہو گئی۔
آخر مجھ میں کون سے کیڑے پڑے ہوئے تھے کہ تم نے شادی سے انکار کر دیا تھا۔ لیڈی جہانگیر نے کہا۔
میں نے کب انکار کیا تھا۔ عمران رونی صورت بنا کر بولا۔ میں نے تو آپ کے والد صاحب کو صرف دو تین شعر سنائے تھے۔۔۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ انہیں شعر و شاعری سے دلچسپی نہیں۔ ورنہ میں نثر میں گفتگو کرتا۔
والد صاحب کی رائے ہے کہ تم پرلے سرے کے احمق اور بدتمیز ہو۔ لیڈی جہانگیر نے کہا۔
اور چونکہ سر جہانگیر ان کے ہم عمر ہیں۔۔۔ لہٰذا۔۔۔
شپ اپ۔ لیڈی جہانگیر بھنا کر بولی۔
بہرحال یونہی تڑپ تڑپ کر مر جاؤں گا۔ عمران کی آواز پھر دردناک ہو گئی۔
لیڈی جہانگیر بغور اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔
کیا واقعی تمہیں افسوس ہے؟ اس نے آہستہ سے پوچھا۔
یہ تم پوچھ رہی ہو؟۔۔۔ اور وہ بھی اس طرح جیسے تمہیں میرے بیان پر شبہ ہو۔ عمران کی آنکھوں سے نہ صرف آنسو چھلک آئے بلکہ بہنے بھی لگے۔
ارر۔۔۔ نو مائی ڈیئر۔۔۔ عمران ڈارلنگ کیا کر رہے ہو تم! لیڈی جہانگیر نے اس کی طرف اپنا رومال بڑھایا۔
میں اس غم میں مر جاؤں گا۔ وہ آنسو خشک کرتا ہوا بولا۔
نہیں۔ تمہیں شادی کر لینی چاہئے۔ لیڈی جہانگیر نے کہا۔ اور میں۔۔۔ میں تو ہمیشہ تمہاری ہی رہوں گی۔ وہ دوسرا گلاس لبریز کر رہی تھی۔
سب یہی کہتے ہیں۔۔۔ کئی جگہ سے رشتے بھی آچکے ہیں۔۔۔ کئی دن ہوئے جسٹس فاروق کی لڑکی کا رشتہ آیا تھا۔۔۔ گھر والوں نے انکار کر دیا۔ لیکن مجھے وہ رشتہ کچھ کچھ پسند ہے۔
پسند ہے؟ لیڈی جہانگیر حیرت سے بولی۔ تم نے ان کی لڑکی کو دیکھا ہے۔
ہاں۔۔۔ وہی نا۔ جو ریٹا ہیورتھ اسٹائل کے بال بناتی ہے اور عموما تاریک چشمہ لگائے رہتی ہے۔
جانتے ہو وہ تاریک چشمہ کیوں لگاتی ہے؟ لیڈی جہانگیر نے پوچھا۔
نہیں۔ ۔۔۔ لیکن اچھی لگتی ہے۔
لیڈی جہانگیر نے قہقہہ لگایا۔
وہ اس لئے تاریک چشمہ لگاتی ہے کہ اس کی ایک آنکھ غائب ہے۔
ہائیں۔۔۔ عمران اچھل پڑا۔
اور غالبا اسی بناٗ پر تمھارے گھر والوں نے یہ رشتہ منظور نہیں کیا۔
تم اسے جانتی ہو۔عمران نے پوچھا۔
اچھی طرح سے۔ اور آج کل میں اسے بہت خوبصورت آدمی کے ساتھ دیکھتی ہوں۔ غالبا وہ بھی تمہاری ہی طرح احمق ہی ہوگا۔
کون ہے وہ میں اس کی گردن توڑ دوں گا۔ عمران بپھر کر بولا۔ پھر اچانک چونک کر خود ہی بڑبڑانے لگا۔ لاحول ولا قوۃ۔۔۔ بھلا مجھ سے کیا مطلب۔
بڑی حیرت انگیز بات ہے کہ انتہائی خوبصورت نوجوان ایک کانی لڑکی سے کورٹ کر لے۔
واقعی وہ دنیا کا آٹھواں عجوبہ ہوگا۔ عمران نے کہا۔ کیا میں اسے جانتا ہوں؟
پتہ نہیں۔ کم از کم میں تو نہیں جانتی۔ اور جسے میں نہ جانتی ہوں وہ اس شہر کے کسی اعلٰی خاندان کا فرد نہیں ہو سکتا۔
کب سے دیکھ رہی ہو اسے۔
یہی کوئی پندرہ بیس دن دے۔
کیا وہ یہاں بھی آتے ہیں؟
نہیں۔۔۔ میں نے انہیں کیفے کامینو میں اکثر دیکھا ہے۔
مرزا غالب نے ٹھیک ہی کہا ہے۔
نالہ سرمایہ یک عالم و عالم کف خاک
آسمان بیضہ قمری نظر آتا ہے مجھے
مطلب کیاہوا۔ لیڈی جہانگیر نے کہا۔
پتہ نہیں۔ عمران نے بڑی معصومیت سے کہا اور پر خیال انداز میں میز پر طبلہ بجانے لگا۔
صبح تک بارش ضرور ہوگی۔ لیڈی جہانگیر انگڑائی لے کر بولی۔
سر جہانگیر آج کل نظر نہیں آتے۔ عمران نے کہا۔
ایک ماہ کے لئے باہر گئے ہوئے ہیں۔
گڈ۔ عمران مسکرا کر بولا۔
کیوں۔ لیڈی جہانگیر اسے معنی خیز نظروں سے دیکھنے لگی۔
کچھ نہیں۔ کنفیوشس نے کہا ہے۔۔۔
مت بور کرو۔ لیڈی جہانگیر چڑ کر بولی۔
ویسے ہی۔۔۔ بائی دی وے۔۔۔ کیا تمہارا رات بھر کا پروگرام ہے۔
نہیں ایسا تو نہیں۔۔۔ کیوں؟
میں کہیں تنہائی میں بیٹھ کر رونا چاہتا ہوں۔
تم بالکل گدھے ہو بلکہ گدھے سے بھی بدتر۔
میں بھی یہی محسوس کرتا ہوں۔۔۔ کیا تم مجھے اپنی چھت کے نیچے رونے کا موقع دوگی۔ کفیوشس نے کہا ہے۔۔۔
عمران۔۔۔ پلیز۔۔۔ شٹ اپ۔
لیڈی جہانگیر میں ایک لنڈورے مرغ کی طرح اداس ہوں۔
چلو اٹھو۔ لیکن اپنے کنفیوشس کو یہیں چھوڑ چلو۔ بوریت مجھ سے برداشت نہیں ہوتی۔
تقریبا آدھ گھنٹے بعد عمران لیڈی جہانگیر کی خواب گاہ میں کھڑا اسے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہا تھا۔ لیڈی جہانگیر کے جسم پر صرف شب خوابی کا لبادہ تھا۔ وہ انگڑائی لے کر مسکرانے لگی۔
کیا سوچ رہے ہو۔ اس نے بھرائی ہوئی آواز میں پوچھا۔
میں سوچ رہا تھا کہ آخر کسی مثلث کے تینوں زاویوں کا مجمودہ دو زاویہ قائمہ کے برابر ہی کیوں ہوتا ہے۔
پھر بکواس شروع کر دی تم نے۔ لیڈی جہانگیر کی نشیلی آنکھوں میں جھلاہٹ جھانکنے لگی۔
مائی ڈیئر لیڈی جہانگیر۔ اگر میں یہ ثابت کردوں کہ زاویہ قائمہ کوئی چیز ہی نہیں ہے تو دنیا کا بہت بڑا آدمی ہوسکتا ہوں۔
جہنم میں جا سکتے ہو۔ لیڈی جہانگیر برا سا منہ بنا کر بڑبڑائی۔
جہنم۔ تو کیا تمہیں جہنم پر یقین ہے۔
عمران میں تمہیں دھکے دے کر نکال دوں گی۔
لیڈی جہانگیر۔ مجھے نیند آرہی ہے۔
سر جہانگیر کی خواب گاہ میں ان کا سلیپنگ سوٹ ہوگا۔۔۔ پہن لو۔
شکریہ۔۔۔ خواب گاہ کدھر ہے؟
سامنے والا کمرہ۔ لیڈی جہانگیر نے کہا اور بے چینی سے ٹہلنے لگی۔
عمران نے سر جہانگیر کی خواب گاہ میں گھس کر دروازہ اندر سے بند کر لیا لیڈی جہانگیر ٹہلتی رہی۔ دس منٹ گزر گئے۔ آخر وہ جھنجھلا کر سر جہانگیر کی خواب گاہ کے دروازے پر آئی۔ دھکا دیا لیکن اندر سے چٹخنی چڑھا دی گئی تھی۔
کیا کرنے لگے عمران؟ اس نے دروازہ تھپتھپانا شروع کر دیا لیکن جواب ندارد۔ پھر اسے ایسا محسوس ہوا جیسے عمران خراٹے بھر رہا ہو اس نے دروازے سے کان لگا دیئے۔ حقیقتا وہ خراٹوں ہی کی آواز تھی۔
پھر دوسرے لمحے وہ ایک کرسی پر کھڑی ہو کر دروازے کے اوپری شیشہ سے کمرے کے اندر جھانک رہی تھی۔ اس نے دیکھا کہ عمران کپڑوں سمیت سر جہانگیر کے پلنگ پر پڑا خراٹے لے رہا ہے اور اس نے بجلی بھی نہیں بجھائی تھی۔ وہ اپنے ہونٹوں کو دائرہ کی شکل میں سکوڑےعمران کو کسی بھوکی بلی کی طرح گھور رہی تھی۔ پھر اس نے ہاتھ مار کر دروازے کا ایک شیشہ توڑ دیا۔۔۔ نوکر شائد شاگرد پیشے میں سوئے ہوئے تھے۔ ورنہ شیشے کے چھناکے ان میں سے ایک آدھ کو ضرور جگا دیتے ویسے یہ اور بات ہے کہ عمران کی نیند پر ان کا ذرہ برابر بھی اثر نہ پڑا ہو۔
لیڈی جہانگیر نے اندر ہاتھ ڈال کر چٹخنی گرا دی۔ نشے میں تو تھی ہی۔ جسم کا پورا زور دروازے پر دے رکھا تھا۔ چٹخنی گرتے ہی دونوں پٹ کھل گئے اور وہ کرسی سمیت خواب گاہ میں جا گری۔
عمران نے غنودہ آواز میں کراہ کر کروٹ بدلی اور بڑبڑانے لگا۔۔۔ ہاں ہاں سنتھیلک گیس کی بو کچھ میٹھی میٹھی سی ہوتی ہے۔۔۔
پتہ نہیں وہ جاگ رہا تھا یا خواب میں بڑبڑایا تھا۔
لیڈی جہانگیر فرش پر بیٹھی اپنی پیشانی پر ہاتھ پھیر کر بسور رہی تھی۔ دو تین منٹ بعد وہ اٹھی اور عمران پر ٹوٹ پڑی۔
سور کمینے۔۔۔ یہ تمہاری باپ کا گھر ہے؟۔۔۔ اٹھو۔۔۔ نکلو یہاں سے۔ وہ اسے بری طرح جھنجھوڑ رہی تھی۔ عمران بوکھلا کر اٹھ بیٹھا۔
ہائیں۔ کیا سب بھاگ گئے۔۔۔
دور ہو جاؤ یہاں سے۔ لیڈی جہانگیر نے اس کا کالر پکڑ کر جھٹکا مارا۔
ہاں۔ ہاں۔۔۔ سب ٹھیک ہے۔ عمران اپنا گریبان چھڑا کر پھر لیٹ گیا۔
اس بار لیڈی جہانگیر نے اسے بالوں سے پکڑ کر اٹھایا۔
ہائیں۔۔۔ کیا ابھی نہیں گیا۔ عمران جھلا کر اٹھ بیٹھا۔ سامنے ہی قد آدم آئینہ رکھا ہوا تھا۔
اوہ تو آپ ہیں۔ وہ آئینے میں اپنا عکس دیکھ کر بولا۔۔۔ پھر اس طرح مکا بنا کر اٹھا جیسے اس پر حملے کرے گا۔۔۔ اس طرح آہستہ آہستہ آئینے کی طرف بڑھ رہا تھا جیسے کسی دشمن سے مقابلہ کرنے کے لئے پھونک پھونک کر قدم رکھ رہا ہو۔ پھر اچانک سامنے سے ہٹ کر ایک کنارے پر چلنے لگا۔ آئینے کے سامنے پہنچ کر دیوار سے لگ کر کھڑا ہو گیا۔۔۔ لیڈی جہانگیر کی طرف دیکھ اس طرح ہونٹوں پر انگلی رکھی جیسے وہ آئینے کے قریب نہیں بلکہ کسی دروازہ سے لگا کھڑا ہو اور اس بات کا منتظر ہو کہ جیسے ہی دشمن دروازے میں قدم رکھے گا وہ اس پر حملہ کربیٹھے گا۔ لیڈی جہانگیر حیرت سے آنکھیں پھاڑے اس کی یہ حرکت دیکھ رہی تھی۔۔۔ لیکن قبل اس کے وہ کچھ کہتی، عمران نے پینترہ بدل کر آئینہ پر ایک گھونسہ رسید ہی کر دیا۔۔۔ ہاتھ میں جو چوٹ لگی تو ایسا معلوم ہوا جیسے وہ یک بیک ہوش میں آگیا ہو۔
لاحول ولا قوۃ۔ وہ آنکھیں مل کر بولا اور کھیسانی ہنسی ہنسنے لگا۔
اور پھر لیڈی جہانگیر کو بھی ہنسی آگئی۔۔۔ لیکن وہ جلد ہی سنجیدہ ہوگئی۔
تم یہاں کیوں آئے تھے؟
اوہ۔ میں شائد بھول گیا۔۔۔ شائد اداس تھا۔۔۔ لیڈی جہانگیر تم بہت اچھی ہو۔ میں رونا چاہتا ہوں۔
اپنے باپ کی قبر پر رونا۔۔۔ نکل جاؤ یہاں سے۔
لیڈی جہانگیر۔۔۔ کنفیوشس۔۔۔
شپ اپ۔ لیڈی جہانگیر اتنے زور سے چیخی کہ اس کی آواز بھرا گئی۔
بہت بہتر۔ عمران سعادت مندانہ انداز میں سر ہلا کر بولا۔ گویا لیڈی جہانگیر نے بہت سنجیدگی اور نرمی سے اسے کوئی نصیحت کی ہو۔
یہاں سے چلے جاؤ۔
بہت اچھا۔ عمران نے کہا اور اس کمرے سے لیڈی جہانگیر کی خواب گاہ میں چلا آیا۔
وہ اس کی مسہری پر بیٹھنے ہی جا رہا تھا کہ لیڈی جہانگیر طوفان کی طرح اس کے سر پر پہنچ گئی۔
اب مجبورا مجھے نوکروں کو جگانا پڑے گا؟ اس نے کہا۔
اوہو تم کہاں تکلیف کروگی۔ میں جگائے دیتا ہوں۔ کوئی خاص کام ہے کیا؟
عمران میں تمہیں مار ڈالوں گی؟ لیڈی جہانگیر دانت پیس کر بولی۔
مگر کسی سے اس کا تذکرہ مت کرنا۔۔۔ ورنہ پولیس۔۔۔ خیر میں مرنے کے لئے تیار ہوں؟ اگر چھری تیز نہ ہو تو تیز کردوں۔ ریوالور سے مارنے کا ارادہ ہے تو میں اس کی رائے نہ دوں گا۔ سناٹے میں آواز دور تک پھیلتی ہے۔ البتہ زہر ٹھیک رہے گا۔
عمران خدا کے لئے۔ لیڈی جہانگیر بے بسی سے بولی۔
خدا کیا میں اس کے ادنٰے غلاموں کے لئےبھی اپنی جان قربان کر سکتا ہوں۔۔۔ جو مزاج یار میں آئے۔
تم چاہتے کیا ہو۔ لیڈی جہانگیر نے پوچھا۔
دو چیزوں میں سے ایک۔۔۔
کیا؟
موت یا صرف دو گھنٹے کی نیند۔
کیا تم گدھے ہو؟
مجھے سے پوچھتیں تو پہلے ہی بتا دیتا کہ بالکل گدھا ہوں۔
جہنم میں جاؤ۔ لیڈی جہانگیر اور نہ جانے کیا بکتی ہوئی سر جہانگیر کی خواب گاہ میں چلی گئی۔ عمران نے اٹھ کر اندر سے دروازہ بند کیا جوتے اتارے اور کپڑوں سمیت بستر میں گھس گیا۔
6
یہ سوچنا قطعی غلط ہوگا کہ عمران کے قدم یونہی بلا مقصد ٹپ ٹاپ کلب کی طرف اٹھ گئے تھے۔ اسے پہلے ہی سے اطلاع تھی کہ سر جہانگیر آج کل شہر میں مقیم نہیں ہے اوروہ یہ بھی جانتا تھا کہ ایسے مواقع پر لیڈی جہانگیر اپنی راتیں کہاں گزارتی ہے۔ یہ بھی حقیقت تھی کہ لیڈی جہانگیر کسی زمانے میں اس کی منگیتر رہ چکی تھی اور خود عمران کی حماقتوں کے نتیجے میں یہ شادی نہ ہوسکی۔
سر جہانگیر کی عمر تقریبا ساٹھ سال ضرور رہی ہوگی لیکن قوٰی کی مضبوطی کی بناٗ پر بہت زیادہ بوڑھا نہیں معلوم ہوتا تھا۔۔۔
عمران دم سادھے لیٹا رہا۔۔۔ آدھا گھنٹہ گذر گیا۔۔۔ اس نے کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی دیکھی اور پھر اٹھ کر خواب گاہ کی روشنی بند کردی۔ پنجوں کے بل چلتا ہوا سر جہانگیر کی خواب گاہ کے دروازے پر آیا جو اندر سے بند تھا اندر گہری نیلی روشنی تھی۔ عمران نے دروازے کے شیشے سے اندر جھانکا لیڈی جہانگیر مسہری پر اوندھی پڑی بے خبر سو رہی تھی اور اس کے ماتھے سے فاکس ٹیریئر کا سر اس کی کمر پر رکھا ہوا تھا اور وہ بھی سو رہا تھا۔
عمران پہلے کی طرح احتیاط سے چلتا ہوا سر جہانگیر کی لائبریری میں داخل ہوا۔
یہاں اندھیرا تھا۔ عمران نے جیب سے ٹارچ نکال کر روشن کی یہ ایک کافی طویل و عریض کمرہ تھا۔ چاروں طرف بڑی بڑی الماریاں تھیں اور درمیان میں تین لمبی لمبی میزیں۔ بہرحال یہ ایک ذاتی اور نجی لائبریری سے زیادہ ایک پبلک ریڈنگ روم معلوم ہو رہا تھا۔
مشرقی سرے پر ایک لکھنے کی بھی میز تھی۔ عمران سیدھا اسی کی طرف گیا جیب سے پرچہ نکالا جو اسے اس خوفناک عمارت میں پراسرار طور پر مرنے والے کے پاس سے ملا تھا وہ اسے بغور دیکھتا رہا پھر میز پر رکھے ہوئے کاغذات الٹنے پلٹنے لگا تھا۔
تھوڑی دیر بعد وہ حیرت سے آنکھیں پھاڑے ایک رائٹنگ پیڈ کے لیٹر ہیڈ کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اس کے ہاتھ میں دبے ہوئے کاغذ کے سرنامے اور اس میں کوئی فرق نہ تھا۔ دونوں پر یکساں قسم کے نشانات تھے اور یہ نشانات سر جہانگیر کے آباؤ اجداد کے کارناموں کی یادگار تھے جو انہوں نے مغلیہ دور حکومت میں سرانجام دیے تھے سرجہانگیر ان نشانات کو اب تک استعمال کر رہا تھا۔ اس کے کاغذات پر اس کے نام کی بجائے عموما یہی نشانات چھپے ہوئے تھے۔
عمران نے میز پر رکھے کاغذات کو پہلی سی ترتیب میں رکھ دیا اور چپ چاپ لائبریری سے نکل آیا۔ لیڈی جہانگیر کے بیان کے مطابق سرجہانگیر ایک ماہ سے غائب تھے۔۔۔ تو پھر!
عمران کا ذہن چوکڑیاں بھرنے لگا۔۔۔ آخر ان معاملات سے جہانگیر کا کیا تعلق۔ خواب گاہ میں واپس آنے سے پہلے اس نے ایک بار پھر اس کمرے میں جھانکا جہاں لیڈی جہانگیر سو رہی تھی۔۔۔ اور مسکراتا ہوا اس کمرے میں چلا آیا جہاں اسے خود سونا تھا۔
صبح نو بجے لیڈی جہانگیر اسے بری طرح جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر جگا رہی تھی۔
ول ڈن! ول ڈن۔ عمران ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا اور مسہری پر اکڑوں بیٹھ کر اس طرح تالی بجانے لگا جیسے کسی کھیل کے میدان میں بیٹھا ہوا کھلاڑیوں کو داد دے رہا ہو۔
یہ کیا بے ہودگی! لیڈی جہانگیر جھنجھلا کر بولی۔
اوہ۔ ساری۔ وہ چونک کر لیڈی جہانگیر کو متحیرانہ نظروں سے دیکھتا ہوا بولا۔
ہلو۔ لیڈی۔۔۔ جہانگیر۔ فرمائیے۔ صبح ہی صبح کیسے تکلیف کی۔
تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہوگیا؟ لیڈی جہانگیر نے تیز لہجے میں کہا۔
ہو سکتا ہے۔ عمران نے برا سا منہ بنا کر کہا۔ اور اپنے نوکروں کے نام لے لے کر انہیں پکارنے لگا۔
لیڈی جہانگیر اسے چند لمحے گھورتی رہی پھر بولی۔
براہ کرم اب تم یہاں سے چلے جاؤ۔ ورنہ۔۔۔
ہائیں تم مجھے میرے گھر سے نکالنے والی کون ہو؟ عمران اچھل کر کھڑا ہوگیا۔
یہ تمہارے باپ کا گھر ہے؟ لیڈی جہانگیر کی آواز بلند ہوگئی۔
عمران چاروں طرف حیرانی سے دیکھنے لگا۔ اس طرح اچھلا جیسے اچانک سر پر کوئی چیز گری ہو۔
ارے میں کہاں ہوں۔ کمرہ تو میرا نہیں معلوم ہوتا۔
اب جاؤ۔ ورنہ مجھے نوکروں کو بلانا پڑے گا۔
نوکروں کو بلا کر کیا کرو گی؟ میرے لائق کوئی خدمت۔ ویسے تم غصے میں بہت حسین لگتی ہو۔
شٹ اپ۔
اچھا کچھ نہیں کہوں گا۔ عمران بسور کر بولا اور پھر مسہری پر بیٹھ گیا۔
لیڈی جہانگیر اسے کھا جانے والی نظروں سے گھورتی رہی۔ اس کی سانس پھول رہی تھی اور چہرہ سرخ ہو گیا تھا۔ عمران نے جوتے پہنے۔ کھونٹی سے کوٹ اتارا اور پھر بڑے اطمینان سے لیڈی جہانگیر کی سنگھار میز پر جم گیا اور پھر اپنے بال درست کرتے وقت اس طرح گنگنا رہا تھا جیسے سچ مچ اپنے کمرے میں ہی بیٹھا ہو۔ لیڈی جہانگیر دانت پیس رہی تھی لیکن ساتھ ہی بے بسی کی ساری علامتیں بھی اس کے چہرے پر امنڈ آئی تھیں۔
ٹاٹا۔ عمران دروازے کے قریب پہنچ کر مڑا اور احمقوں کی طرح مسکراتا ہوا باہر نکل گیا۔ اس کا ذہن اس وقت بالکل صاف ہو گیا تھا۔ پچھلی رات کی معلومات ہی اس کی تشفی کے لئے کافی تھیں۔ سرجہانگیر کے لیٹر ہیڈ کا پراسرار طور پر مرے ہوئے آدمی کے ہاتھ میں پایا جانا اس پر دلالت کرتا تھا کہ اس معاملہ سے سر جہانگیر کا کچھ نہ کچھ تعلق ضرور ہے۔ اور شائد سر جہانگیر شہر ہی میں موجود تھا۔ ہو سکتا ہے کہ لیڈی جہانگیر اس سے لاعلم رہی ہو۔
اب عمران کو اس خوش رو آدمی کی فکر تھی جسے ان دنوں جج صاحب کی لڑکی کے ساتھ دیکھا جا رہا تھا۔
دیکھ لیا جائے گا۔ وہ آہستہ سے بڑبڑایا۔
اس کا ارادہ تو نہیں تھا کہ گھر کی طرف جائے مگر جانا ہی پڑا۔ گھر گئے بغیر موٹر سائیکل کس طرح ملتی اسے یہ بھی تو معلوم کرنا تھا کہ وہ ؔخوفناک عمارتؔ دراصل تھی کسی کی؟ اگر اس کا مالک گاؤں والوں کے لئے اجنبی تھا تو ظاہر ہے کہ اس نے وہ عمارت خود ہی بنوائی ہوگی۔ کیونکہ طرز تعمیر بہت پرانا تھا۔ لہٰذا ایسی صورت میں یہی سوچا جا سکتا تھا کہ اس نے بھی اسے کسی سے خریدا ہی ہوگا۔
گھر پہنچ کر عمران کی شامت نے اسے پکارا۔ بڑی بی شائد پہلے ہی سے بھری بیٹھی تھیں۔ عمران کی صورت دیکھتے ہیں آگ بگولہ ہو گئیں۔
کہاں تھے رے۔۔۔ کمینے سور!
اوہو۔ اماں بی۔ گڈ مارننگ۔۔۔ ڈیئرسٹ۔
مارننگ کے بچے میں پوچھتی ہوں رات کہاں تھا۔
وہ اماں بی کیا بتاؤں۔ وہ حضرت مولانا۔۔۔ بلکہ مرشدی و مولائی سیدنا جگر مراد آبادی ہیں نا۔۔۔ لاحول ولا قوۃ۔۔۔ مطلب یہ ہے کہ مولوی تفضل حسین قبلہ کی خدمت میں رات حاضر تھا۔ اللہ اللہ۔۔۔ کیا بزرگ ہیں۔۔۔ اماں بی۔۔۔ بس یہ سمجھ لیجئے کہ میں آج سے نماز شروع کر دوں گا۔
ارے۔۔۔ کمینے۔۔۔ کتے۔۔۔ تو مجھے بیوقوف بنا رہا ہے۔ بڑی بی جھنجھلائی ہوئی مسکراہٹ کے ساتھ بولیں۔
ارے توبہ اماں بی۔ عمران زور سے اپنا منہ پیٹنے لگا۔ آپ کے قدموں کے نیچے میری جنت ہے۔
اور پھر ثریا کو آتے دیکھ کر عمران نے جلد سے جلد وہاں سے کھسک جانا چاہا۔ بڑی بی برابر بڑبڑائے جا رہی تھیں۔
اماں بی۔ آپ خوامخواہ اپنی طبیعت خراب کر رہی ہیں۔ دماغ میں خشکی بڑھ جائے گی۔ ثریا نے آتے ہی کہا۔ اور یہ بھائی جان۔ ان کو خدا کے حوالے کیجئے۔
عمران کچھ نہ بولا۔ اماں بی کو بڑبڑاتا چھوڑ کر تو نہیں جا سکتا تھا؟
شرم نہیں آتی۔ باپ کی پگڑی اچھالتے پھر رہے ہیں۔ ثریا نے اماں بی کے کسی مصرعہ پر گرہ لگائی۔
ہائیں تو کیا اباجان نے پگڑی باندھنا شروع کر دی؟ عمران پر مسرت لہجے میں چیخا۔
اماں بھی اختلاج کی مریض تھیں۔ اعصاب بھی کمزور تھے لہٰذا انہیں غصہ آگیا۔ ایسی حالت میں ہمیشہ ان کا ہاتھ جوتی کی طرف جاتا تھا۔ عمران اطمینان سے زمین پر بیٹھ گیا۔۔۔ اور پھر تڑاتڑ کی آواز کے علاوہ اور کچھ نہیں سن سکا۔ اماں بی جب اسے جی بھر کے پیٹ چکیں تو انہوں نے رونا شروع کردیا۔۔۔ ثریا انہیں دوسرے کمرے میں گھسیٹ لے گئی۔۔۔ عمران کی چچا زاد بہنوں نے اسے گھیر لیا۔ کوئی اس کے کوٹ سے گرد جھاڑ رہی تھی اور کوئی ٹائی کی گرہ درست کر رہی تھی۔ ایک نے سر پر چمپی شروع کر دی۔
عمران نے جیب سے سیگرٹ نکال کر سلگائی اور اس طرح کھڑا رہا جیسے وہ بالکل تنہا ہو۔ دوچار کش لے کر اس نے اپنے کمرے کی راہ لی اور اسکی چچا زادہ بہنیں زرینہ اور صوفیہ ایک دوسرے کا منہ ہی دیکھتی رہ گئیں۔عمران نے کمرے میں آکر فلٹ ہیٹ ایک طرف اچھال دی۔ کوٹ مسہری پر پھینکا اور ایک آرام کرسی پر گر کر اونگھنے لگا۔
رات والا کاغذ اب بھی اس کے ہاتھ میں دبا ہوا تھا۔ اس پر کچھ ہندسے لکھے ہوئے تے۔ کچھ پیمائشیں تھیں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کسی بڑھئی نے کوئی چیز گھڑنے سے پہلے اس کے مختلف حصوں کے تناسب کا حساب لگایا ہو۔ بظاہر اس کاغذ کے ٹکڑے کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ لیکن اس کا تعلق ایک نامعلوم لاش سے تھا۔ ایسے آدمی کی لاش سے جس کا قتل بڑے پراسرار حالات میں ہوا تھا۔ ان حالات میں یہ دوسرا قتل تھا۔
عمران کو اس سلسلے میں پولیس یا محکمہ سراغ رسانی کی مشغولیات کا کوئی علم نہیں تھا اس نے فیاض سے یہ بھی معلوم کرنے کی زحمت گوارہ نہیں کی تھی کہ پولیس نے ان حادثات کے متعلق کیا رائے قائم کی ہے۔ عمران نے کاغذ کا ٹکڑا اپنے سوٹ کیس میں ڈال دیا اور دوسرا سوٹ پہن کر دوبارہ باہر جانے کے لئے تیار ہو گیا۔
تھوڑی دیر بعد اس کی موٹر سائیکل اسی قصبہ کی طرف جا رہی تھی۔ جہاں وہ خوفناک عمارت واقع تھی قصبے میں پہنچ کر اس بات کا پتہ لگانے میں کوئی دشواری نہ ہوئی کہ وہ عمارت پہلے کس کی ملکیت تھی۔ عمران اس خاندان کے ایک ذمہ دار آدمی سے ملا جس نے عمارت جج صاحب کے ہاتھ فروخت کی تھی۔
اب سے آٹھ سال پہلے کی بات ہے۔ اس نے بتایا۔ ایاز صاحب نے وہ عمارت ہم سے خود خریدی تھی۔ اس کے بعد مرنے سے پہلے اسے شہر کے کسی جج صاحب کے نام قانونی طور پر منتقل کرگئے۔
ایاز صاحب کون تھے۔ پہلے کہاں رہتے تھے۔ عمران نے سوال کیا۔
ہمیں کچھ نہیں معلوم۔ عمارت خریدنے کے بعد وہ تین سال تک زندہ رہے لیکن کسی کو کچھ نہ معلوم ہو سکتا کہ وہ کون تھے اور پہلے کہاں رہتے تھے۔ ان کے ساتھ ایک نوکر تھا جو اب بھی عمارت کے سامنے ایک حصے میں مقیم ہے۔
یعنی قبر کا وہ مجاور۔ عمران نے کہا اور بوڑھے آدمی نے اثبات میں سر ہلایا وہ تھوڑی دیر تک کچھ سوچتا رہا پھر بولا۔
وہ قبر بھی ایاز صاحب ہی نے دریافت کی تھی۔ ہمارے خاندان والوں کو تو اس کا علم نہیں تھا۔ وہاں پہلے کوئی قبر نیہں تھی۔ ہم نے اپنے بزرگوں سے بھی اس کے بارے میں کچھ نہیں سنا۔
اوہ۔ عمران گھورتا ہوا بولا۔ بھلا قبر کس طرح دریافت ہوئی تھی۔
انہوں نے خواب میں دیکھا کہ اس جگہ کوئی شہید مرد دفن ہیں۔ دوسرے ہی دن قبر بنانی شروع کر دی۔
خود ہی بنانی شروع کر دی؟ عمران نے حیرت سے پوچھا۔
جی ہاں وہ اپنا سارا کام خود ہی کرتے تھے۔ کافی دولت مند بھی تھے۔ لیکن انہیں کنجوس نہیں کہا جاسکتا کیونکہ وہ دل کھول کر خیرات کرتے تھے۔
جس کمرے میں لاش ملی تھی اس کی دیواروں پر پلاسٹر ہے۔ لیکن دوسرے کمروں میں نہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے۔
پلاسٹر بھی ایاز صاحب ہی نے کیا تھا۔
خود ہی؟
جی ہاں۔
اس پر یہاں قصبے میں تو بڑی چہ میگوئیاں ہوئی ہوں گی۔
قطعی نہیں جناب۔۔۔ اب بھی یہاں لوگوں کا یہی خیال ہے کہ ایاز صاحب کوئی پہنچے ہوئے بزرگ تھے اور میرا خیال ہے کہ ان کا نوکر بھی۔۔۔ بزرگی سے خالی نہیں۔
کبھی ایسے لوگ بھی ایاز صاحب سے ملنے کے لئے آئے تھے جو یہاں والوں کے لئے اجنبی رہے ہوں۔
جی نہیں۔۔۔ مجھے تو یاد نہیں۔ میرا خیال ہے کہ ان سے کبھی کوئی ملنے نہیں آیا۔
اچھا بہت بہت شکریہ۔ عمران بوڑھے سے مصافحہ کرکے اپنی موٹر سائیکل کی طرف بڑھ گیا۔
اب وہ اسی عمارت کی طرف جا رہا تھا اور اس کے ذہن میں بیک وقت کئی خیال تھے۔ ایاز نے وہ قبر خود ہی بنائی تھی اور کمرے میں پلاسٹر بھی خود ہی کیا تھا۔ کیا وہ ایک اچھا معماربھی تھا؟ قبر بھی وہاں پہلے نہیں تھی۔ وہ ایاز ہی کی دریافت تھی۔ اس کا نوکر آج بھی قبر سے چمٹا ہوا ہے۔ آخر کیوں؟ اسی ایک کمرے میں پلاسٹر کرنے کی کیا ضرورت تھی۔
عمران عمارت کے قریب پہنچ گیا۔ بیرونی بیٹھک جس میں مجاوررہتا تھا کھلی ہوئی تھی اور وہ خود بھی موجود تھا۔ عمران نے اس پر ایک اچٹتی سی نظر ڈالی۔ یہ متوسط عمر کا ایک قوی ہیکل آدمی تھا چہرے پر گھنی داڑھی اور آنکھیں سرخ تھیں۔ شائد وہ ہمیشہ ایسی ہی رہتی تھیں۔
عمران نے دو تین بار جلدی جلدی پلکیں جھپکائیں اور پھر اس کے چہرے پر اس پرانے احمق پن کے آثار ابھر آئے۔
کیا بات ہے۔ اسے دیکھتے ہی نوکر نے للکارا۔
مجھے آپ کی دعا سے نوکری مل گئی ہے۔ عمران سعادت مندانہ لہجے میں بولا۔ سوچاکچھ آپ کی خدمت کرتا چلوں۔
بھاگ جاؤ۔ قبر کا مجاور سرخ سرخ آنکھیں نکالنے لگا۔
اب اتنا نہ تڑپایئے۔ عمران ہاتھ جوڑ کر بولا۔ بس آخری درخواست کروں گا۔
کون ہو تم۔۔۔ کیا چاہتے ہو۔ مجاور یک بیک نرم پڑ گیا۔
لڑکا۔ بس ایک لڑکا بغیر بچے کے گھر سونا لگتا ہے یا حضرت تیس سال سے بچے کی آرزو ہے۔
تیس سال۔ تمہاری عمر کیا ہے؟ مجاور اسے گھورنے لگا۔
پچیس سال۔
بھاگو۔ مجھے لونڈا بناتے ہو۔ ابھی بھسم کر دوں گا۔
آپ غلط سمجھے یا حضرت۔ میں اپنے باپ کے لئے کہہ رہا تھا۔۔۔ دوسری شادی کرنے والے ہیں۔
جاتے ہو یا۔۔۔ مجاور اٹھتے ہوئے بولا۔
سرکار۔۔۔ عمران ہاتھ جوڑ کر سعادت مندانہ لہجے میں بولا۔ پولیس آپ کوبہت پریشان کرنے والی ہے۔
بھاگ جاؤ۔ پولیس والے گدھے ہیں۔ وہ فقیر کا کیا بگاڑ لیں گے۔
فقیر کے زیر سایہ دو خون ہوئے ہیں۔
ہوئے ہوں گے۔ پولیس جج صاحب کی لڑکی سے کیوں نہیں پوچھتی کہ وہ ایک مسٹنڈے کو لے کر یہاں کیوں آئی تھی۔
یا حضرت پولیس واقعی گدھی ہے۔ آپ ہی کچھ رہنمائی فرمائیے۔
تم خفیہ پولیس میں ہو۔
نہیں سرکار۔ میں ایک اخبار کا نامہ نگار ہوں۔ کوئی نئی خبر مل جائے گی تو پیٹ بھرے گا۔
ہاں اچھا بیٹھ جاؤ۔ میں اسے برداشت نہیں کر سکتا کہ وہ مکان جہاں ایک بزرگ کا مزار ہو وہ بدکاری کا اڈہ بنے۔ پولیس کو چاہیئے کہ اسکی روک تھام کرے۔
یاحضرت میں بالکل نہیں سمجھا۔ عمران مایوسی سے بولا۔
میں سمجھتا ہوں۔ مجاور اپنی سرخ سرخ آنکھیں پھاڑ کر بولا۔ چودہ تاریخ کو جج صاحب کی لونڈیا اپنے ایک یار کو لے کر یہاں آئی تھی۔۔۔ اور گھنٹوں اندر رہی۔
آپ نے اعتراض نہیں کیا۔۔۔ میں ہوتا تو دونوں کے سر پھاڑ دیتا۔ توبہ توبہ اتنے بڑے بزرگ کے مزار پر۔۔۔ عمران اپنا منہ پیٹنے لگا۔
بس خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا تھا۔۔۔ کیا کروں۔ میرے مرشد یہ مکان ان لوگوں کو دے گئےہیں ورنہ بتادیتا۔
آپ کے مرشد۔
ہاں۔۔۔ حضرت ایاز رحمتہ اللہ علیہ۔ وہ میرے پیر تھے۔ اس مکان کا یہ کمرہ مجھے دے گئے ہیں تاکہ مزار شریف کی دیکھ بھال کرتا رہوں۔
ایاز صاحب کا مزار شریف کہاں ہے۔ عمران نےپوچھا۔
قبرستان میں۔۔۔ ان کی تو وصیت تھی کہ میری قبر برابر کر دی جائے۔ کوئی نشان نہ رکھا جائے۔
تو جج صاحب کی لڑکی کو پہچانتے ہیں آپ!
ہاں پہچانتا ہوں۔ وہ کانی ہے۔
ہائے۔ عمران نے سینے پر ہاتھ مارا۔۔۔ اور مجاور اسے گھورنے لگا۔
اچھا حضرت چورہ کی رات کو وہ یہاں آئی تھی اور سولہ کی صبح کو لاش پائی گئی۔
ایک نہیں ابھی ہزاروں لاشیں ملیں گی۔ مجاور کو جلال آگیا۔ مزار شریف کی بے حرمتی ہے۔
مگر سرکار۔ ممکن ہے کہ وہ اس کا بھائی رہا ہو۔
ہرگز نہیں۔ جج صاحب کا کوئی لڑکا نہیں ہے۔
تب تو پھر معاملہ۔۔۔ ہپ۔ عمران اپنا داہنا کان کھجانے لگا۔
عمران وہاں سے بھی چل پڑا وہ پھر قصبے کے اندر جا رہا تھا۔ دو تین گھنٹہ تک وہ مختلف لوگوں سے پوچھ گچھ کرتا رہا اور پھر شہر کی طرف روانہ ہوگیا
7
کیپٹن فیاض کام میں مشغول تھا کہ اس کے پاس عمران کا پیغام پہنچا۔ اس نے اسے اس کے آفس کے قریب ہی ریستوران میں بلوا بھیجا تھا۔ فیاض نے وہاں تک پہنچنے میں دیر نہیں لگائی۔ عمران ایک خالی میز پر طبلہ بجا رہا تھا۔ فیاض کو دیکھ کر احمقوں کی طرح مسکرایا۔
“کوئی نئی بات؟“ فیاض نے اس کے قریب بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
“میر تقی میر غالب تخلص کرتے تھے!“
“یہ اطلاع تم بذریعہ ڈاک بھی دے سکتے تھے۔“ فیاض چڑ کر بولا۔
“چودہ تاریخ کی رات کو وہ محبوبہ یک چشم کہاں تھی؟“
“تم آخر اس کے پیچھے کیوں پڑ گئے ہو؟“
“پتہ لگا کر بتاؤ!۔۔۔ اگر وہ کہے کہ اس نے اپنی وہ رات کسی خالہ کے ساتھ بسر کی تو تمہارا فرض ہے کہ اس خالہ سے اس بات کی تحقیق کرکے ہمدرد دواخانہ کو فوراً مطلع کردو، ورنہ خط و کتابت صیغہ راز میں نہ رکھی جائے گی۔“
“عمران میں بہت مشغول ہوں!“
“میں بھی دیکھ رہا ہوں! کیا آج کل تمہارے آفس میں مکھیوں کی کثرت ہو گئی ہے۔ کثرت سے یہ مراد نہیں کہ مکھیاں ڈنڈ پیلتی ہیں۔“
“میں جا رہا ہوں۔“ فیاض جنجھلا کر اٹھتا ہوا بولا۔
“ ارے کیا تمھاری ناک پر مکھیاں نہیں بیٹھتیں"۔ عمران نے اس کا ہاتھ پکڑ کے بیٹھاتے ہوئے کہا۔
فیاض اسے گھورتا ہوا بیٹھ گیا! وہ سچ مچ جھنجھلا گیا۔
" اوہ! یہ تو مجھے بھی یاد نہیں رہا ! ۔۔۔ میرے خیال سے شاید میں تم سے چاول کا بھاؤ پوچھنے آیا تھا۔۔۔ مگر تم کہو گے کہ میں کوئی ناچنے والی تو ہوں نہیں کہ بھاؤ بتاؤں۔۔۔ ویسے تمھیں یہ اطلاع دے سکتا ہوں کہ ان لاشوں کے سلسلے میں کہیں نہ کہیں محبوب یک چشم کا قدم ضرور ہے۔ میں نے کوئی غلط لفظ تو نہیں بولا۔۔۔ ہاں!"۔
" اس کا قدم کس طرح؟"۔ فیاض یک بیک چونک پڑا۔
" انسائیکلوپیڈیا میں یہی لکھا ہے"۔ عمران سے ہلا کر بولا۔ " بس یہ معلوم کرو کہ اس نے وہ رات کہاں بسر کی!"۔
" کیا تم سنجیدہ ہو؟"۔
" اُف فوہ! بیوقوف آدمی ہمیشہ سنجیدہ رہتے ہیں!"۔
" اچھا میں معلوم کروں گا"۔
"خدا تمہاری مادہ کو سلامت رکھے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ مجھے جج صاحب کے دوست ایاز کے مکمل حالات درکار ہیں، وہ کون تھا کہاں پیدا ہوا، کس خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کے علاوہ دوسرے عزیز کہاں رہتے ہیں! سب مر گئے یا ابھی کچھ زندہ ہیں"۔
" تو ایسا کرو! آج شام کی چائے میرے گھر پر پیئو"۔ فیاض بولا۔
" اور اس وقت کی چائے"۔ عمران نے بڑے بھولے پن سے پوچھا۔
فیاض نے ہنس کر ویٹر کو چائے کا آرڈر دیا۔۔۔ عمران الوؤں کی طرح دیدے پھرا رہا تھا اور کچھ دیر بعد بولا۔
" کیا تم مجھے جج سے ملاؤ گے؟"۔
"ہاں میں تمھاری موجودگی میں ہی ان سے اس کے متعلق گفتگو کروں گا"۔
" ہی۔۔۔۔ ہی۔۔۔۔ مجھے تو بڑی شرم آئے گی"۔ عمران دانتوں تلے انگلی دبا کر دہرا ہوگیا۔
" کیوں۔۔۔ کیوں بور کر رہے ہو۔۔۔ شرم کی کیا بات"۔
" نہیں میں والد صاحب کو بھیج دونگا"۔
" کیا بک رہا ہے"۔
" میں براہِ راست خود شادی نہیں طے کرنا چاہتا"۔
" خدا سمجھے! میں ایاز والی بات کر رہا تھا"۔
" لا حول ولا قوۃ"۔ عمران نے جھینپ جانے کی ایکٹنگ کی۔
" عمران آدمی بنو"۔
" اچھا!"۔ عمران نے بڑی سعادت مندی سے سر ہلایا۔
چائے آگئی تھی۔۔۔ فیاض کچھ سوچ رہا تھا! کبھی کبھی وہ عمران کی طرف بھی دیکھ لیتا تھا جو اپنے سامنے والی دیوار پر لگے ہوئے آئنیے میں دیکھ دیکھ کر منہ بنا رہا تھا۔ فیاض نے چائے بنا کر پیالی اس کے آگے کھسکا دی۔
"یار فیاض! ۔۔۔ وہ شہید مرد کی قبر والا مجاور بڑا گریٹ آدمی معلوم ہوتا ہے"۔ عمران بولا۔
" کیوں؟"۔
" اس نے ایک بڑی گریٹ بات کہی تھی"۔
"کیا ۔۔۔ ؟؟"۔
" یہی کہ پولیس والے گدھے ہیں"۔
" کیوں کہا تھا اس نے"۔ فیاض چونک کر بولا۔
" پتہ نہیں۔ پر اس نے بات بڑی پتے کی کہی تھی"۔
" تم خواہ مخواہ گالیاں دینے پر تلے ہوئے ہو"۔
" نہیں پیارے ! اچھا تم یہ بتاؤ! وہاں قبر کس نے بنائی تھی اور اس ایک کمرے کے پلاسٹر کے متعلق تمھارا کیا خیال ہے"۔
" میں فضولیات میں سر نہیں کھپاتا"۔ فیاض چڑ کر بولا۔ " اس معاملے سے ان کا کیا تعلق"۔
" تب تو کسی اجنبی کی لاش کا وہاں پایا جانا بھی کوئی اہمیت نہیں رکھتا"۔ عمران نے کہا۔
" آخر تم کہنا کیا چاہتے ہو"۔ فیاض جھنجھلا کر بولا۔
" یہ کہ نیک بچے صبح اٹھ کر اپنے بڑوں کو سلام کرتے ہیں۔ پھر ہاتھ منہ دھو کر ناشتہ کرتے ہیں۔ پھر سکول چلے جاتے ہیں۔ کتاب کھول کر الف سے الّو! ب سے بندر ۔۔۔۔ پ سے پتنگ۔۔۔!"۔
" عمران خدا کے لیے"۔ فیاض ہاتھ اٹھا کر بولا۔
" اور خدا کو پر وقت یاد رکھتے ہیں"۔
" بکے جاؤ"۔
" چلو خاموش ہوگیا۔ ایک خاموشی پزار ٹلائیں بالتی ہیں۔۔۔۔ ہاہیں کیا ٹالیں۔۔۔ لا حول ولا قوّۃ۔۔۔ میں نے ابھی کیا کہا تھا؟"۔
" اپنا سر"۔
" ہاں۔۔۔ شکریہ! میرا سر بڑا مضبوط ہے۔۔۔ ایک بار اتنا مضبوط ہوگیا تھا کہ میں اسے بینگن کا بھرتہ کہا کرتا تھا"
" چائے ختم کرکے دفع ہو جائیے"۔ فیاض بولا۔ " مجھے ابھی بہت کام ہے شام کو گھر ضرور آنا۔
8
اسی شام کو عمران اور فیاض جج صاحب کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے ان کا انتظار کر رہے تھے، جج صاحب کی لڑکی بھی موجود تھی اور اس نے اُس وقت بھی سیاہ رنگ کی عینک لگا رکھی تھی۔ عمران بار بار اس کی طرف دیکھ کر ٹھنڈی آہیں بھر رہا تھا! فیاض کبھی کبھی رابعہ سے نظر بچا کر اسے گھورنے لگتا۔
تھوڑی دیر بعد جج صاحب آگئے اور رابعہ اُٹھ کر چلی گئی۔
" بڑی تکلیف ہوئی آپ کو!"۔ فیاض بولا۔
" کوئی بات نہیں فرمائیے"۔
" بات یہ ہے کہ میں ایاز کے متعلق مزید معلومات چاہتا ہوں"۔
" میرا خیال ہے کہ میں آپ کو سب کچھ بتا چکا ہوں"۔
" میں اس کے خاندانی حالات معلوم کرنا چاہتا ہوں تاکہ اس کے اعزہ سے مل سکوں"۔
" افسوس کہ میں اس کی بابت کچھ نہ بتا سکوں گا"۔ جج صاحب نے کہا۔ " بات آپ کو عجیب معلوم ہوگی لیکن یہ حقیقت ہے کہ میں اسکے متعلق کچھ نہیں جانتا حالانکہ ہم گہرے دوست تھے"۔
" کیا آپ یہ بھی نہ بتا سکیں گے وہ باشندہ کہاں کا تھا؟"۔
" افسوس میں یہ بھی نہیں جانتا"۔
" بڑی عجیب بات ہے۔ اچھا پہلی ملاقات کہاں پہ ہوئی تھی؟"۔
" انگلینڈ میں"۔
فیاض بےاختیار چونک پڑا۔۔۔ لیکن عمران بالکل ٹھس بیٹھا رہا۔ اس کی حالت میں ذّرہ بھر بھی کوئی تبدیلی نہ ہوئی۔
" کب کی بات ہے؟"۔ فیاض نے پوچھا۔
" تیس سال پہلے کی! اور یہ ملاقات بڑے عجیب حالات میں ہوئی تھی۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب میں آکسفورڈ میں قانون پڑھ رہا تھا۔ ایک بار ایک ہنگامے میں پھنس گیا۔ جس کی وجہ سو فیصد غلط فہمی تھی۔ اب سے تیس سال پہلے کا لندن نفرت انگیز تھا، انتہائی نفرت انگیز۔۔۔ اسی سے اندازہ لگائیے کہ وہاں کے ایک ہوٹل پر ایک ایسا سائن بورڈ تھا جس پر تحریر تھا۔' ہندوستانیوں اور کّتوں کا داخلہ ممنوع ہے۔۔۔!'۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ اب بھی ہے یا نہیں۔۔۔۔
بہرحال ایسے ماحول میں اگر کسی ہندوستانی اور انگریز کے درمیان میں کوئی غلط فہمی پیدا ہوجائے تو انجام ظاہر ہے۔ وہ ایک ریستوران تھا جہاں میرا ایک انگریز سے جھگڑا ہوگیا۔ علاقہ ایسٹ اینڈ کا تھا جہاں زیادہ تو جنگلی ہی رہا کرتے تھے! آج بھی جنگلی ہی رہتے ہیں! انتہائی غیر مہذب لوگ جو جانوروں کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں! اوہ۔۔۔ میں خواہ مخواہ بات کو طوالت دے رہا ہوں! مطلب یہ کہ جھگڑا بڑھ گیا۔ سچی بات یہ ہے کہ میں خود ہی جان بچا کر نکل جانا چاہتا تھا!۔۔۔ اچانک ایک آدمی بھیڑ کو چیرتا ہوا میرے پاس پہنچ گیا۔ وہ ایاز تھا۔ اسی دن میں نے اسے پہلے پہل دیکھا۔۔۔ اور اس روپ میں دیکھ کر آج تک متحیر ہوں۔۔۔ وہ مجمع جو مجھے مار ڈالنے پر تُل گیا تھا ایاز کی شکل دیکھتے ہی تتر بتر ہوگیا!۔ ایسا معلوم ہوا جیسے بھیڑوں کے گلے میں کوئی بھیڑیا گھس آیا ہو۔۔۔ بعد کو معلوم ہوا کہ ایاز اس جگہ کے بااثر لوگوں میں سے تھا۔۔۔ ایسا کیوں تھا مجھے آج تک معلوم نہ ہوسکا۔ وہ ہندوستانی ہی تھا لیکن مجھے یہاں تک بھی نہیں معلوم ہو سکا کہ وہ کس شہر یا صوبے کا باشندہ تھا"۔
جج صاحب نے خاموش ہوکر سگار کیس اس کی طرف بڑھا دیا۔عمران خاموش بیٹھا چھت کی طرف گھور رہا تھا۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے فیاض زبردستی کسی بیوقوف کو پکڑ لایا ہو! بیوقوف ہی نہیں بلکہ ایسے آدمی کو جو ان کی گفتگو ہی سمجھنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو! فیاض نے اسے کئی بار کنکھیوں سے دیکھا بھی لیکن خاموش رہا۔
" شکریہ"۔ فیاض نے سگار لیتے ہوئے کہا اور پھر عمران کی طرف دیکھ کر بولا۔ " جی یہ نہیں پیتے"۔
اس پر بھی عمران نے چھت پر سے اپنی نظریں نہ ہٹائیں، ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ خود کو تنہا محسوس کر رہا ہو! جج صاحب نے بھی عجیب نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔ لیکن کچھ نہ بولے۔
اچانک عمران نے ٹھنڈی سانس لے کر " اللہ " کہا اور سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ وہ منہ چلاتا ہوا اُن دونوں کو احمقوں کی طرح دیکھ رہا تھا۔
اس پر بھی فیاض کو خوشی ہوئی کہ جج صاحب نے عمران کے متعلق کچھ نہیں پوچھا۔ فیاض کوئی دوسرا سوال سوچ رہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ یہ دُعا بھی کر رہا تھا کہ عمران کی زبان بند ہی رہے تو بہتر ہے مگر شاید عمران چہرہ شناسی کا بھی ماہر تھا کیونکہ دوسرے ہی لمحے میں اس نے بھی بکنا شروع کر دیا۔
" ہاں صاحب! اچھے لوگ بہت کم زندگی لے کر آتے ہیں! ایاز صاحب تو ولی اللہ تھے۔ چرخ کج رفتار ردناہنجار کب کسی کو۔۔۔ غالب کا شعر ہے!"۔
لیکن قبل اس کے کہ عمران شعر سناتا فیاض بول پڑا۔ " جی ہاں قصبے والوں میں کچھ اس قسم کی افواہ ہے!"۔
" بھئی یہ بات تو کسی طرح میرے حلق سے نہیں اُترتی! سُنا میں نے بھی ہے"۔ جج صاحب بولے۔" اس کی موت کے بعد قصبے کے کچھ معزز لوگوں سے ملا بھی تھا انہوں نے بھی یہی ظاہر کیا تھا کہ وہ کوئی پہنچا ہوا آدمی تھا لیکن میں نہیں سمجھتا۔ اس کی شخصیت پُراسرار تھی۔۔۔ مگر ان معنوں میں نہیں!"۔
" اس کے نوکر کے بارے کیا خیال ہے جو قبر کی مجادری کرتا تھا"۔ فیاض نے پوچھا۔
" وہ بھی ایک پہنچے ہوئے بزرگ ہیں"۔ عمران نے تڑ سے بولا۔ جج صاحب اسے گھورنے لگے لیکن اس بار بھی انہوں نے اس کے متعلق کچھ نہیں پوچھا۔
" کیا وصیت نامے میں یہ بات ظاہر کر دی گئی ہے کہ قبر کا مجادر عمارت کے بیرونی کمرے پر قابض رہے گا"۔ فیاض نے جج صاحب سے پوچھا۔
" جی ہاں! قطعی!"۔ جج صاحب نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا۔ " بہتر ہوگا اگر ہم دوسری باتیں کریں! اس عمارت سے میرا بس اتنا ہی تعلق ہے کہ میں قانونی طور پر اس کا مالک ہوں۔ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ میرے گھر کے کسی بھی فرد نے آج تک اس میں قیام نہیں کیا"۔
" کوئی کبھی ادھر گیا بھی نہ ہوگا؟"۔ فیاض نے کہا۔
" بھئی کیوں نہیں! شروع میں تو سب ہی کو اس کو دیکھنے کا اشتیاق تھا! ظار ہے وہ حیرت انگیز طریقے سے ہماری ملکیت میں آئی تھی"۔
" ایاز صاحب کے جنازے پر نور کی بارش ہوئی تھی"۔ عمران نے پھر کڑا لگایا۔
" مجھے پتا نہیں"۔ جج صاحب بیزاری سے بولے۔" میں اس وقت وہاں پہنچا تھا جب وہ جا چکا تھا"۔
" میرا خیال ہے کہ وہ عمارت آسیب زدہ ہے"۔ فیاض نے کہا۔
" ہوسکتا ہے! کاش وہ میری ملکیت نہ ہوتی! کیا اب آپ لوگ مجھے اجازت دیں گے؟"۔
" معاف کیجئیے گا"۔ فیاض اٹھتا ہوا بولا۔ " آپ کو بہت تکلیف دی مگر معاملہ ہی ایسا تھا"۔
فیاض اور عمران باہر نکلے! فیاض اس پر جھلایا ہوا تھا۔ باہر آتے ہی اس پر برس پڑا۔
" تم ہر جگہ اپنے گدھے پن کا ثبوت دینے لگتے ہو"۔
" اور میں یہ سوچ رہا ہوں کہ تمھیں گولی مار دوں"۔ عمران نے کہا۔
" کیوں میں نے کیا کیا ہے؟"۔
" تم نے کیوں نہیں پوچھا کہ محبوبہ یک چشم فودہ تاریخ کی رات کو کہاں تھی"۔
" کیون بور کرتے ہو! میرا موڈ ٹھیک نہیں ہے"۔
" خیر مجھے کیا، میں خود ہی پوچھ لوں گا"۔ عمران نے کہا۔" سر جہانگیر کو جانتے ہو؟"۔
" ہاں، کیوں؟"۔
" وہ میرا رقیب ہے"۔
" کیس طرح پتا لگاؤ کہ وہ آج کل کہاں ہے؟"۔
" میرا وقت برباد نہ کرو"۔ فیاض جھنجھلا گیا۔
" تب پھر تم بھی وہیں جاؤ جہاں شیطان قیامت کے دن جائے گا"۔ عمران نے کہا اور لمبے لمبے ڈگ مارتا ہوا جج صاحب کے گیراج کی طرف چلا گیا۔ یہاں سے رابعہ باہر جانے کے لیے کار نکال رہی تھی۔
" مس سلیم"۔ عمران کھنکار کر بولا۔ " شاید ہمارا تعارف پہلے بھی ہوچکا ہے"۔
" اوہ جی ہاں، جی ہاں"۔ رابعہ جلدی سے بولی۔
" کیا آپ مجھے لفٹ دینا پسند کریں گی؟"۔
" شوق سے آئیے۔۔۔۔!"۔
رابعہ خود ڈرائیو کر رہی تھی۔ عمران شکریہ ادا کرکے اس کے برابر میں بیٹھ گیا۔
" کہاں اُترئیے گا؟"۔ رابعہ نے پوچھا۔
" سش پوچھئیے تو میں اُترنا ہی نہ چاہوں گا"۔
رابعہ صرف مسکرا کر رہ گئی۔ اس وقت اس نے ایک مصنوعی آنکھ لگا رکھی تھی اس لیے آنکھوں پر عینک نہیں تھی۔
فیاض کی بیوی نے اسے عمران کے متعلق بہت کچھ بتایا تھا۔ اس لیے وہ اسے احمق سمجھنے کے لیے تیار نہیں تھی۔۔۔!
" کیا آپ کچھ ناراض ہیں؟"۔ عمران نے تھوڑی دیر بعد پوچھا۔
" جی!"۔ رابعہ چونک پڑی۔ " نہیں تو!"۔۔۔ پھر ہنسنے لگی۔
" میں نے کہا شاید مجھ سے لوگ عموما ناراض رہا کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میں انہیں خواہ مخواہ غصہ دلا دیتا ہوں"۔
" پتہ نہیں! مجھے تو آپ نے ابھی تک غصہ نہیں دلایا"۔
" تب تو یہ میری خوش قسمتی ہے"۔ عمران نے کہا۔ " ویسے اگر میں کوشش کروں تو آپ کو غصہ دلا سکتا ہوں"۔
رابعہ پھر ہنسنے لگی ۔" کیجئیے کوشش!"۔ اس کے کہا۔
" اچھا کو آپ شاید یہ سمجھتی ہوں کہ یہ ناممکن ہے"۔ عمران نے احمقوں کی طرح ہنس کر بولا۔
" میں تو یہی سمجھتی ہوں کہ مجھے غصہ نہیں آتا"۔
" اچھا تو سنبھلئیے"۔ عمران نے اس طرح کہا جیسے ایک شمشیر زن دوسرے شمشیر زن کو للکارتا ہوا کسی گھٹیا سی فلم میں دیکھا جا سکتا ہے۔
رابعہ کچھ نہ بولی وہ کچھ بور سی ہونے لگی تھی۔
" آپ چودہ تاریخ کی رات کو کہاں تھی؟"۔ عمران نے اچانک پوچھا۔
" جی ۔۔۔۔"۔ رابعہ بےاختیار چونک پڑی۔
" اوہ! سٹیرنگ سنبھالیے۔ کہیں کوئی ایکسیڈنٹ نہ ہوجائے"۔ عمران بولا۔ " دیکھئیے۔ میں نے آپ کو غصہ دلا دیانا"۔ پھر اس نے ایک زوردار قہقہہ لگایا اور اپنی ران پیٹنے لگا۔
رابعہ کی سانس پھولنے لگی تھی اور اس کے ہاتھ سٹیرنگ پر کانپ رہے تھے۔
" دیکھئے" اس نے ہانپتے ہویے کہا۔ " مجھے جلدی ہے۔۔۔۔ واپس جانا ہوگا۔۔۔۔ آپ کہاں اُتریں گے ؟"۔
" آپ نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا"۔ عمران پُر سکون لہجے میں بولا۔
" آپ سے مطلب! آپ کون ہوتے ہیں پوچھنے والے؟"۔
" دیکھا۔۔۔ آگیا غصہ! ویسے یہ بات بہت اہم ہے اگر پولیس کے کانوں تک جا پہنچی تو زحمت ہوگی! ممکن ہے کہ میں کوئی ایسی کاروائی کرسکوں جس کی بناء پر پولیس یہ سوال ہی نہ اٹھائے"۔
رابعہ کچھ نہ بولی وہ اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیر رہی تھی۔
" میں یہ بھی نہ پوچھوں گا کہ آپ کہاں تھیں"۔ عمران نے پھر سے کہا۔ " کیونکہ مجھے معلوم ہے۔ مجھے آپ صرف اتنا بتا دیجئیے کہ آپ کے ساتھ کون تھا؟"۔
" مجھے پیاس لگ رہی ہے"۔ رابعہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی۔
" اوہو! تو روکئے۔۔۔۔ کیفے نبراسکا نزدیک ہی ہے"۔
کچھ آگے چل کر رابعہ نے کار کھڑی کر دی اور وہ دونوں اتر کر فٹ پاتھ پر سے گزرتے ہوئے کیفے نبراسکا میں چلے گئے۔
عمران نے ایک خالی گوشہ منتخب کیا! اور ہو بیٹھ گئے!۔۔۔۔ چائے سے پہلے عمران نے ایک گلاس ٹھنڈے پانی کے لیے کہا۔
" مجھے یقین ہے کہ واپسی میں کنجی اس کے پاس رہ گئی ہوگی"۔ عمران نے کہا۔
" کس کے پاس؟"۔ رابعہ پھر چونک پڑی۔
" فکر نہ کیجئیے مجھے یقین ہے کہ اس نے آپ کو اپنا صحیح نام اور پتہ ہرگز نہ بتایا ہوگا اور کنجی واپس کر دینے کے بعد سے اب تک ملا بھی نہ ہوگا"۔
رابعہ بالکل نڈھال ہوگئی اور مردہ سی آواز میں کہا۔ "پھر اب آپ کیا پوچھنا چاہتے ہیں؟"۔
" آپ اس نے کب اور کن حالات میں ملی تھیں؟"۔
" اب سے دو ماہ پیشتر!"۔
" کہاں ملا تھا؟"۔
" ایک تقریب میں! مجھے یہ یاد نہیں کہ کس نے تعارف کرایا تھا"۔
" تقریب کہاں تھی؟"۔
" شاید سر جہانگیر کی سالگرہ کا موقع تھا"۔
" اوہ!"۔۔۔۔ عمران کچھ سوچنے لگا۔ پھر اس نے آہستہ سے کہا۔ " کنجی آپ کو اس نے کب واپس کی تھی؟"۔
" پندرہ کی شام کو"۔
" اور سولہ کی صبح کو لاش پائی گئی"۔ عمران نے کہا۔
رابعہ بُری طرح ہانپے لگی۔ وہ چائے کی پیالی میز پر رکھ کر کرسی کی پُشت سے ٹِک گئی۔ اس کی حالت باز کے پنجے میں پھنسی ہوئی کسی نھنی منی چڑیا سے مشابہ تھی۔
" پندرہ کے دن بھر کنجی اس کے پاس رہی! اس نے اس کی ایک نقل تیار کرا کر کنجی آپ کو واپس کر دی! اس کے بعد پھر وہ آپ کو نہیں ملا۔ غلط کہہ رہا ہوں؟"۔
" ٹھیک ہے"۔ وہ آہستہ سے بولی۔ " وہ مجھ سے کہا کرتا تھا کہ وہ ایک سیاح ہے!"۔
" جعفریہ ہوٹل میں قیام پذیر ہے۔۔۔ لیکن پرسوں میں وہاں گئی تھی۔۔۔"۔
وہ خاموش ہوگئی، اس پر عمران نے سر ہلا کر کہا۔" اور آپ کو معلوم ہوا کہ اس نام کا کوئی آدمی وہاں کبھی ٹھہرا ہی نہیں"۔
" جی ہاں"۔ رابعہ سر جھکا کر بولی۔
" آپ سے اس کی دوستی کا مقصد محض اتنا ہی تھا کہ وہ کسی طرح آپ سے اس عمارت کی کنجی حاصل کر لے"۔
" میں گھر جانا چاہتی ہوں۔۔۔ میری طبعیت ٹھیک نہیں"۔
" دو منٹ"۔ عمران نے ہاتھ ہلا کر کہا۔" آپ کی زیادہ تر ملاقاتیں کہاں ہوئیں تھیں؟"۔
" ٹپ ٹاپ نائیٹ کلب میں"۔
" لیڈی جہانگیر سے اس کے تعلقات کیسے تھے؟"۔
" لیڈی جہانگیر۔۔۔"۔ رابعہ چڑ کر بولی۔" آخر ان معاملات میں آپ ان کا نام کیوں لے رہے ہیں"
" کیا آپ میرے سوال کا جواب نہ دیں گی؟"۔ عمران نے بڑی شرافت سے کہا۔
" نہیں! میرا خیال ہے کہ میں نے ان دونوں کو کبھی نہیں ملتے دیکھا"۔
" شکریہ! اب میں اس کا نام نہیں پوچھوں گا! ظاہر سے اس کا نام بھی صحیح نہیں ہوگا۔۔۔ لیکن اگر آپ اس کا حُلیہ بتا سکیں تو میں مشکور ہونگا"۔
رابعہ کو بتانا ہی پڑا۔ لیکن وہ بہت زیادہ مغموم تھی اور ساتھ ہی ساتھ خائف بھی
9
عمران فٹ پاتھ پر تنہا کھڑا تھا۔۔۔! رابعہ کی کار جا چکی تھی۔ اس نے جیب سے ایک چیونگم نکالی اور منہ میں ڈال کر دانتوں سے اسے کچلنے لگا۔۔۔ غور و فکر کے عالم میں چیونگم اس کا بہترین ساتھی ثابت ہوتا تھا۔۔۔ جاسوسی ناولوں کے سارغ راسانوں کی طرح نہ اسے سگار سے دلچسپی تھی نہ پائپ سے! شراب بھی نہیں پیتا تھا۔
اس کے ذہن میں اس وقت کئی سوال تھے اور وہ فٹ پاتھ کے کنارے پر اس طرح کھڑا ہوگیا جیسے سڑک پار کرنے کا ارادہ رکھتا ہو۔۔۔ لیکن یہ حقیقت تھی کہ اس کے ذہن میں اس قسم کا کوئی خیال نہیں تھا۔
وہ سوچ رہا تھا کہ ان معاملات سے سر جہانگیر کا تعلق ہو سکتا ہے، دوسری لاش کے قریب اسے کاغذ کا جو ٹکڑا ملا تھا وہ سر جہانگیر کے ہی رائٹنگ پیڈ کا تھا۔ رابعہ سے پُراسرار نوجوان کی ملاقات بھی سر جہانگیر کے ہی یہاں ہوئی تھی۔ اور لیڈی جہانگیر نے جس خوبصورت نوجوان کا تذکرہ کیا تھا وہ اس کے علاوہ اور کوئی نہیں ہو سکتا تھا۔۔۔ لیکن لیڈی جہانگیر بھی اس سے واقف نہیں تھی۔ لیڈی جہانگیر کی یہ بات بھی سچ تھی کہ اگر وہ شہر کے کسی ذی حیثیت خاندان کا فرد ہوتا تو لیڈی جہانگیر اس سے ضرور واقف ہوتی! فرض کیا کہ اگر لیڈی جہانگیر بھی کسی سازش میں شریک تھی تو اس نے اس کا تذکرہ عمران سے کیوں کیا۔ ہوسکتا ہے کہ وہ اس کی دوسری زندگی سے واقف نہ رہی ہو۔ لیکن پھر بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس نے تذکرہ کیا ہی کیوں؟ وہ کوئی ایسی اہم بات تھی! سینکڑون نوجوان لڑکیوں کے چکر میں رہے ہوں گے۔ چاہے وہ پانی پینے کے مشکیزے سے بھی بدتر کیوں نہ ہوں! پھر ایک اور سوال اس کے ذہن میں ابھرا! آخر اس مجاور نے پولیس والے کو رابعہ کے متعلق کیوں نہیں بتایا تھا۔ قبر اور لاش کے متعلق تو اس نے سوچنا ہی چھوڑ دیا تھا۔ حیرانگی اس بات کی تھی کہ وہ لوگ کون ہیں اور اس مکان میں کیوں دلچسپی لے رہے ہیں اگر وہ سر جہانگیر ہی ہے تو اس کا اس عمارت سے کیا تعلق؟۔۔۔ سر جہانگیر سے وہ اچھی طرح واقف تھا، لیکن یوں بھی نہیں کہ وہ اس پر کسی قسم کا شبہ کر سکتا۔ سر جہانگیر شہر کے معزز ترین لوگوں میں تھا۔ نہ صرف معزز بلکہ نیک نام!
تھوڑی دیر بعد عمران سڑک پار کرنے کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ روکتی ہوئی کار اس کی راہ میں حائل ہوگئی۔ یہ رابعہ ہی کہ کار تھی۔
" خدا کا شکر ہے کہ آپ مل گئے"۔ اس نے کھڑکی سے سر نکال کر کہا۔
" میں جانتا تھا کہ آپ کو پھر میری ضرورت محسوس ہوگی!"۔ عمران نے کہا اور کار کا دروازہ کھول کر رابعہ کے برابر بیٹھ گیا!۔۔۔ کار پھر چل پڑی۔
" خدا کے لیے مجھے بچائیے"۔ رابعہ نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا۔ " میں ڈوب رہی ہوں!"۔
" تو کیا آپ مجھے تنکہ سمجھتی ہیں"۔ عمران نے قہقہہ لگایا۔
" خدا کے لیے کچھ کیجئیے۔ اگر ڈیڈی کو اس کا علم ہوگیا تو۔۔۔۔؟"۔
" نہیں ہونے پائے گا"۔ عمران نے سنجیدگی سے کہا۔" آپ لوگ مردوں کے دوش بدوش جھک مارنے میدان میں نکلی ہیں۔۔۔۔ مجھے خوشی ہے۔۔۔ مگر آپ میں جانتیں کہ مرد ہر میدان میں آپ کو الّو بناتا ہے۔۔۔ ویسے معاف کیجئیے مجھے نہیں معلوم کہ الو کی مادہ کو کیا کہتے ہیں"۔
رابعہ کچھ نہ بولی اور عمران کہتا رہا۔" خیر بھول جائیے اس بات کو۔ میں کوشش کروں گا کہ اس ڈرامے میں آپ کا نام نہ آنے پائے! اب تو آپ مطمئن ہیں نا۔۔۔ غاڑی روکئے۔۔۔ اچھا ٹاٹا۔۔۔"۔
" ارے!"۔ رابعہ نے ہلکی سی چیخ نکالی اور اس نے پورے بریک لگا دئیے۔
" کیا ہوا؟"۔ عمران گھبرا کر چاروں طرف دیکھنے لگا۔
" وہی ہے"۔ رابعہ بڑبڑائی۔" اترئیے۔۔۔ میں اسے بتاتی ہوں"۔
" کون ہے؟ کیا بات ہے؟"۔
" وہی جس نے مجھے اس مصیبت میں پھنسایا ہے"۔
" کہاں ہے؟"۔
" وہ۔۔۔ اس بار میں ابھی ابھی گھسا ہے۔ وہی تھا۔۔۔ چمڑے کی جیکٹ اور کتھئی پتلون میں۔۔۔"
" اچھا تو آپ جائیے۔ میں دیکھ لوں گا"۔
" نہیں میں بھی۔۔۔۔"۔
" جاؤ!"۔ عمران آنکھیں نکال کر بولا! رابعہ سہم گئی! اس وقت احمق عمران کی آنکھیں اسے بڑی خوفناک معلوم ہوئیں۔ اس نے چُپ چاپ کار موڑ لی۔
عمران بار میں گھسا!۔۔۔ بتائے ہوئے آدمی کو تلاش کرنے میں دیر نہیں لگی۔ وہ ایک میز پر تنہا بیٹھا تھا۔ وہ گٹھیلے جسم کا ایک خوش رو نوجوان تھا۔ پیشانی کشادہ اور چوٹ کے نشانات سے داغدار تھی۔ شاید ہو سر کو دائیں جانب جھکائے رکھنے کا عادی تھا۔ عمران اس کے قریب ہی میز پر بیٹھ گیا۔
ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے اسے کسی کا انتظار ہو! کچھ مضطرب بھی تھا۔ عمران نے پھر ایک چیونگم نکال کر منہ میں ڈال لیا۔
اس کا اندازہ غلط نہیں تھا۔ تھوڑی دیر بعد ایک آدمی چمڑے کی جیکت والے آدمی کے پاس آگیا۔ اور پھر عمران نے اس نے چہرے سے اضطراب کے آثار غائب ہوتے دیکھے۔
" سب چوپٹ ہو رہا ہے"۔ چمڑے کی جیکٹ والا بولا۔
" اس بڈھے کو شق ہو گیا ہے!"۔ دوسرا آدمی بولا۔
عمران ان کی گفتگو صاف سُن رہا تھا۔ جیکٹ والا چند لمحے پُرخیال انداز میں ٹھوڑی کھجاتا رہا پھر بولا۔
" مجھے یقین ہے کے اس کا خیال غلط نہیں ہے! وہ سب کچھ وہیں ہے لیکن ہمارے ساتھی بوڑھے ہیں۔ آوازیں سنتے ہی اس کی روح فنا ہوجاتی ہے"۔
" لیکن بئی! آخر وہ آوازیں ہیں کیسی؟"۔
" کیسی بھی ہوں۔ ہمیں اس کی پروانہ نہیں کرنی چائیے"۔
" اور وہ دونوں کس طرح مرے؟"۔
" یہ چیز!"۔ جیکٹ والا کچھ سوچتے ہوئے بولا۔" ابھی تک میری سمجھ میں نہ آسکی! مرتا وہی ہے جو کام شروع کرتا ہے۔ یہ ہم شروع ہی سے دیکھتے رہے ہیں"۔
" پھر ایسی صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہئے؟"۔ دوسرے آدمی نے کہا۔
" ہمیں آج یہ معاملہ طے ہی کر لینا ہے!"۔ جیکٹ والا بولا۔" یہ بھی بڑی بات ہے کہ وہاں پہ پولیس کا پہرہ نہیں ہے"۔
" لیکن اس رات کو ہمارے علاوہ اور بھی کوئی وہاں تھا، مجھے تو اس آدمی پر شبہ ہے جو باہر والے کمرے میں رہتا ہے"۔
" اچھا اٹھو۔ ہمیں وقت نہیں برباد کرنا چاہئے"۔
" کچھ پی تو لوں! میں بہت تھک گیا ہوں۔۔۔ کیا پیئو گے۔۔۔ وسکی یا کچھ اور؟"۔
پھر وہ دونوں پیتے رہے اور عمران اٹھ کر قریب ہی ایک پبلک تیلیفون بوتھ میں چلا گیا۔ دوسرے لمحے وہ فیاض کا نجی فون نمبر ڈائیل کر رہا تھا۔
" ہیلو!۔۔۔ ہاں میں ہی ہوں!۔۔۔ خیریت کہاں۔۔ زکام ہوگیا ہے۔ پوچھنا یہ ہے کہ جوشاندہ پی لوں! ۔۔۔ ارے تو اس میں ناراض ہونے کی کیا بات ہے۔ دیگر احوال یہ ہے کہ ایک گھنٹے کے اندر اندر اور عمارے کے گرد مسلح پہرہ لگ جانا چاہئے۔۔۔۔ بس بس آگے مت پوچھو۔ اگر اس کے خالاف ہوا تو آئیندہ شرلاک ہومز ڈاکٹر وانسن کی مدد نہیں کرے گا"۔
ٹیلی فون بوتھ سے واپس آ کر عمران نے پھر اپنی جگہ سنبھال لی۔ جیکٹ والا دوسرے آدمی سے کہہ رہا تھا۔
" بوڑھا پاگل نہیں ہے اس کے اندازے غلط میں ہوتے"۔
" اونہہ ہوگا"۔ دوسرا میز پر خالی گلاس رکھتا ہوا بولا۔" صحیح ہو یا غلط سب جہنم میں جائے لیکن تم اپنی کہو۔ اگر اس لڑکی سے پھر ملاقات ہوگئی تو کیا کرو گے؟"۔
" اوہ"۔ جیکٹ والا ہنسنے لگا۔" معاف کیجئیے گا میں نے آپ کو پہچانا نہیں"۔
" ٹھیک، لیکن اگر وہ پولیس تک پہنچ گئی تو؟"۔
" وہ ہرگز ایسا نہیں کر سکتی۔۔۔ بیان دیتے وقت اسے اس کا اظہار بھی کرنا پڑے گا کہ وہ ایک رات میرے ساتھ اس مکان میں بسر کر چکی ہے۔ اور پھر میرا خیال ہے کہ شاید اس کا ذہن کنجی تک پہنچ ہی نہ سکے"۔
عمران کافی کا آرڈر دے کے دوسرے چیونگم سے شغل کرنے لگا اس کے چہرے سے اسے معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ سارے ماحول سے قطعی بےتعلق ہے۔ لیکن یہ حقیقت تھی کہ ان دونوں کی گفتگو کا ایک ایک لفظ اس کی یادداشت ہضم کرتی جا رہی تھی۔
" تو کیا آج بوڑھا آئے گا؟"۔ دوسرے آدمی نے پوچھا۔
" ہاں آج فیصلہ ہوجائے"۔ جیکٹ والا بولا۔
دونوں اٹھ گئے۔ عمران نے اپنے حلق میں بچی کچھی کافی انڈیل لی۔ بل وہ پہلے ہی ادا کر چکا تھا۔
وہ دونوں باہر نکل کر فٹ پاتھ پر کھڑے ہوگئے اور پھر ان دونوں نے ایک ٹیکسی رکوائی، کچھ دیر بعد ان کی ٹیکسی کے پیچھے ایک دوسری ٹیکسی بھی جا رہی تھی جس کی پچھلی سیٹ پر عمران اکڑوں بیٹھا سر کھجا رہا تھا۔ حماقت انگیز حرکتیں اس سے اکثر تنہائی میں سرزد ہو جاتی تھیں۔
ارکھیم لین میں پہنچ کر اگلی ٹیکسی رُک گئی۔ وہ دونوں اترے اور ایک گلی میں گھس گئے۔یہاں عمران ذرا سا چونک گیا۔ اس نے انہیں گلی میں گھستے ضرور دیکھا تھا۔ لیکن جتنی دیر میں وہ ٹیکسی کا کرایہ چکاتا وہ انہیں کھو چکا تھا!۔
گلی سنسان پڑی تھی۔ آگے بڑھا تو دائنے ہاتھ ایک دوسرے گلی دکھائی دی۔ اب اس دوسری گلی کو طے کرتے وقت اسے احساس ہوا کہ وہاں تو گلیوں کا جال بچھا ہوا ہے۔ لہذٰا سر مارنا فضول سمجھ کر وہ پھر سڑک پر آگیا۔ اور اس گلی کے سرے سے تھوڑے ہی فاصلے پر رک کر ایک بُک سٹال کے شو کیس میں لگی ہوئی کتابوں کے رنگ برنگ گردپوش دیکھنے لگا، شاید پانچ ہی منٹ بعد ایک ٹیکسی ٹھیک اسی گلی کے دہانے پر رکی اور ایک معمر آدمی اتر کر کرایہ چکانے لگا۔ اس کے چہرے پر بھورے رنگ کی ڈاڑھی تھی۔
لیکن عمران اس کی پیشانی کی بناوٹ دیکھ کر چونکا۔ شکل بھی جانی پہچانی معلوم ہو رہی تھی۔
جیسے ہی وہ گلی میں گھسا عمران نے بھی اپنے قدم بڑھائے۔ لئی گلیوں سے گزرنے کے بعد بوڑھا ایک دروازے پر دستک دینے لگا! عمران کافی فاصلے پر تھا! اور تاریکہ ہو جانے کی وجہ سے دیکھ لیے جانے کا خدشہ بھی نہیں تھا، وہ ایک دیوار سے چپک کر کھڑا ہوگیا! ادھر دروازہ کھلا اور بوڑھا کچھ بڑبڑاتا ہوا اندر چلا گیا۔ دروازہ پھر بند ہوگیا تھا۔ عمارت دو منزلہ تھی۔ عمران کافی پیچھے تھا لیکن وہ آسانی سے پیچھا نہیں چھوڑ سکتا تھا۔ اندر داخل ہونے کے امکانات پر غور کرتے وہ دروازے تک پہنچ گیا۔ اور پھر اس نے کچھ سوچے سمجھے بغیر دروازے سے کان لگا کر آہٹ سننا شروع کر دی لیکن شاید اس کا ستارہ ہی گردش میں آگیا تھا دوسرے ہی لمحے دروازے کے دونوں پٹ کھلے اور دونوں آدمی اس کے سامنے کھڑے تھے۔ اندر مدھم سی روشنی میں ان کے چہرے تو نہ دکھائی دئیے لیکن وہ کافمی مضبوط ہاتھ پیر کے معلوم ہوتے تھے۔
" کون ہے؟"۔ ان میں سے ایک تحکمانہ لہجے میں بولا۔
" مجھے دیر تو نہیں ہوئی"۔ عمران تڑ سے بولا۔
دوسری طرف سے فوراَ ہی جواب نہیں ملا۔ غالباَ یہ سکوت ہچکچاہٹ کا ایک وقفہ تھا۔
" تم کون ہو"۔ دوسری طرف سے سوال پھر دہرایا گیا۔
" تین سو تیرہ"۔ عمران نے احمقوں کی طرح بک دیا۔ لیکن دوسرے لمحے اسے دھیان نہیں تھا! اچانک اسے گریبان سے پکڑ کر اندر کھنچ لیا گیا۔ عمران نے مزاحمت نہیں کی۔
" اب بتاؤ تم کون ہو؟"۔ ایک نے اسے دھکا دے کر کہا۔
" اندر لے چلو"۔ دوسرا بولا۔
وہ دونوں اسے دھکے دیتے ہوئے کمرے میں لے آئے۔ یہاں سات آدمی ایک میز کے گرد بیٹھے ہوئے تھے اور وہ بوڑھا جس کا تعاقب کرتے ہوئے عمران یہاں تک پہنچا تھا شاید سردار کی حیثیت رکھتا تھا کیونکہ وہ میز کے آخری سرے پر تھا۔
وہ سب عمران کو دیکھنے لگے۔ لیکن عمران دونوں آدمیوں کے درمیان میں کھڑا چمڑے کی جیکٹ والے آدمی کو گھور رہا تھا۔
" آہا!"۔ یکایک عمران نے قہقہہ لگایا اور اپنے گول گول دیدے پھرا کر اسے کہنے لگا۔" میں تمیں کبھی نہیں معاف کروں گا۔ تم نے میری محبوبہ کی زندگی برباد کر دی!"۔
" کون ہو تم میں تمھیں نہیں پہچانتا"۔ اس نے تحیر آمیز لہجے میں کہا۔
" لیکن میں تمھیں اچھی طرح پہچانتا ہوں! تم نے میری محبوبہ پر ڈورے ڈالے ہیں۔ میں نہیں بولا! تم نے ایک رات اس کے ساتھ بسر کی میں پھر خاموش رہا لیکن میں اسے کسی طرح برداشت نہیں کر سکتا کہ تم اس سے ملنا جلنا چھوڑ دو"۔
" تم یہاں کیوں آئے ہو؟"۔ دفعتہَ اب بوڑھے نے سوال کیا اور ان دونوں کی گھورنے لگا جو عمران کو لائے تھے۔ انہوں نے سب کچھ بتا دیا۔ اس دوران عمران برابر اپنے مخاطب کو گھورتا رہا۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے دوسرے لوگوں سے اسے کوئی سروکار نہیں۔
پھر اچانک کسی کا گھونسا عمران کے جبڑے پر پڑا اور وہ لڑکھڑاتا ہوا کئی قدم پیچھے کھسک گیا! اس نے جھک کر اپنی فلٹ ہیٹ اٹھائی اور اسے اس طرح جھاڑنے لگا جیسے وہ اتفاقاَ اس کے سر سے گِر گئی ہو اور اب وہ جیکٹ والے کو گھورے جارہا تھا۔
" میں کسی عاشقیہ ناول کے سعادت مند رقیب کی طرح تمھارے حق میں دستبردار ہوسکتا ہوں!" عمران نے کہا۔
" بکواس مت کرو"۔ بوڑھا چیخا۔" میں تمھیں اچھی طرح جانتا ہوں! کیا اس رات کو تم ہی وہاں تھے؟"۔
عمران نے اس کی طرف دیکھنے کی زحمت گوارا نہ کی۔
" یہ زندہ بچ کر نہ جانے پائے"۔ بوڑھا کھڑا ہوتے ہوئے بولا۔
" مگر شرط یہ ہے"۔ عمران مسکرا کر بولا۔" میت کی بےحرمتی نہ ہونے پائے"۔
اس کے حماقت خیز اطمینان میں ذرہ بھر بھی فرق نہ ہونے پایا تھا۔۔۔ تین چار آدمی اس کی طرف لپکے۔ عمران دوسرے ہی لمحے ڈپٹ کر بولا۔" ہینڈز اپ"۔ ساتھ ہی اس کا ہاتھ جیب سے نکلا۔ اس کی طرف جھپٹنے والے پہلے تو جھجکے لیکن پھر انہوں نے بےتحاشہ ہنسنا شروع کر دیا۔ عمران کے ہاتھ میں ریوالور کی بجائے ربڑ کی ایک گڑیا تھی۔ پھر بوڑھے کی ایک گرج دار آواز نے انہیں خاموش کر دیا اور وہ پھر عمران کی طرف بڑھے۔ جیسے ہی اس کے قریب پہنچے عمران نے گڑیا کا پیٹ دبا دیا اس کا منہ کھلا اور پیلے رنگ کا گہرا غبارہ اس میں سے نکل کر تین چار فٹ کے دائرے میں پھیل گیا۔۔۔۔۔ وہ چاروں بےتحاشہ کھانستے ہوئے وہیں ڈھیر ہوگئے۔
" جانے نہ پائے"۔ بوڑھا پھر چیخا۔
دوسر لمحے میں عمران نے کافی وزنی چیز الیکٹرک لیمپ پر کھینچ ماری۔۔ اور زوردار آواز کے ساتھ بلب پھٹا اور کمرے میں اندھیرا پھیل گیا۔
عمران اپنی ناک پر رومال رکھے ہوئے دیوار کے سہارے میز کی سرے کی طرف کھسک رہا تھا، کمرے میں اچھا خاصہ ہنگامہ بھرپا ہوگیا تھا۔ شاید وہ اندھیرے میں ایک دوسرے پر گھونسہ بازی کی مشک کرنے لگے تھے، عمران کا ہاتھ آہستہ سے میز کے سرے پر رینگ گیا اور اسے ناکامی نہیں ہوئی جس چیز پر شروع سے ہی اس کی نظر رہی تھی۔ اس کے ہاتھ آچکی تھی۔ یہ بوڑھے کا چری ہینڈ بیگ تھا۔
واپسنی میں کسی نے کمرے کے دروازے پر اس کی راہ میں حائل ہونے کی کوشش کی لیکن عمران اس کے سامنے کے دو تین دانتوں کو روتا ہوا چلا گیا۔ عمران جلس دے جلد کمرے سے باہر نکل جانا چاہتا تھا کیونکہ اس کے حلق میں بھی جلن ہونے لگی تھی۔ گڑیا سے نکلا ہوا غبارہ پورے کمرے میں پھیل گیا تھا۔
کھانسیوں اور گالیوں کا شور پیچھے چھوڑتا ہوا وہ بیرونی دروازے تک پہنچ گیا۔ گلی میں نکلتے ہی قریب کی ایک دوسری گلی میں گھس گیا۔ فالحال سڑک پر نکلنا خطرناک تھا۔ وہ گافی دیر گھومتا ہوا گلی سے ایک دوسری سڑک پر آگیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ ٹیکسی میں بیٹھا اس طرح اپنے ہونٹ رگڑ رہا تھا جیسے سچ مچ اپنی محبوبہ سے ملنے کے بعد لپ سٹک کے نشان چھڑا رہا ہو
10
دوسری صبح کیپٹن فیاض کے لیے ایک دوسرے درد سری لے کر آئی۔ حالات ہی ایسے تھے کے براہِ راست اسے ہی اس معاملے میں الجھنا پڑا۔ ورنہ پہلے تو معاملہ سول پولیس کے ہاتھ میں جاتا تھا۔ بات یہ تھی کہ اس خوفناک عمارت کے قریباَ ایک یا ڈیڑھ فرلانگ کے فاصلے پر ایک نوجوان کی لاش پائی گئی۔ جس کے جسم پر کتھئ پتلون اور چمڑے کی جیکٹ تھی۔ کیپٹن فیاض نے عمران کی ہدایت کے مطابق پچھلی رات کو پھر عمارت کی نگرانی کے لیے کانسٹبیلوں کا ایک دستہ تعینات کروادیا۔ ان کی رپوڑٹ تھی کہ اس رات عمارت کے قریب کوئی نہیں آیا اور نہ ہی انہوں نے قرب و جوار میں کسی کی آواز سنی لیکن پھر بھی عمارت سے تھوڑے فاصلے پر صبح کو ایک لاش پائی گئی۔
جب کیپٹن فیاض کو لاش کی اطلاع ملی تو اس نے سوچنا شروع کر دیا کہ عمران نے عمارت کے آس پاس مسلح پہرہ بٹھانے کی تجویز کیوں پیش کی؟
اس نے وہاں پہنچ کر لاش کا معائنہ کیا۔ کسی نے مقتول کی داہنی کن پٹی پر گولی ماری تھی۔ کانسٹیبلوں نے بتایا کہ انہوں نے پچھلی رات گولیوں کی آواز بھی نہیں سنی تھی۔
کیپٹن فیاض وہاں سے بوکھلایا ہوا عمران کی طرف چل دیا۔ اسکی طبعیت بری طرح جھلائی ہوئی تھی۔ وہ سوچ رہا تھا کہ عمران نے کوئی ڈھنگ کی بات بتانے کی بجائے میر و غالب کے اوٹ پٹانگ شعر سنانا شروع کر دئیے تو کیا ہوگا۔ بعض اوقات اس کی بےتکی باتوں پر اس کا دل چاہتا تھا کہ اسے گولی مار دے پر اس کی شہرت کا کیا ہوتا۔ اس کی ساری شہرت عمران کے دم سے تھی اور وہ اس کے لیے کئی پیچیدہ مسائل سلجھا چکا تھا۔ بہرحال کام عمران کرتا تھا اور اخباران میں نام فیاض کا آتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اسے عمران کا سب کچھ برداشت کرنا پڑتا تھا۔
عمران اسے گھر پر ہی مل گیا!۔۔۔لیکن عجیب حالت میں۔۔۔۔ وہ اپنے نوکر سلیمان کے سر پر کنگا کر رہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ وہ کسی دوراندیش ماں کے سے انداز میں اسے نصحیتیں بھی کئے جا رہا تھا۔ جیسے ہی فیاض کمرے میں داخل ہوا۔ عمران نے سلیمان کی پیٹھ پر گھونسا جھاڑ کر کہ۔" ابے تو نے بتایا نہیں کہ صبح ہوگئی"۔
سلیمان ہنستا ہوا بھاگ گیا۔
" عمران تم آدمی کب بنو گے"۔ فیاض ایک صوفے پرگِرتا ہوا بولا۔
" آدمی بننے میں مجھے کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔۔۔ البتہ میں تھانےدار بننا ضرور پسند کروں گا"۔
" میری طرف سے جہنم میں جانا پسند کرو لیکن یہ بتاؤ کے تم نے پچھلی رات اس عمارت پر پہرہ کیوں لگوایا تھا؟"۔
" مجھے کچھ یاد نہیں"۔ عمران مایوسی سے سر ہلا کر بولا۔" کیا واقعی میں ایسی کوئی حرکت کی تھی؟"۔
" عمران"۔ فیاض بگڑ کر بولا۔" اگر میں آئیندہ تم سے کوئی مدد لوں تو مجھ پر ہزار بار لعنت"۔
" ہزار کم ہیں"۔ عمران سنجیدگی سے بولا۔" کچھ اور بڑھاؤ تو میں کچھ غور کرنے کی کوشش کروں گا"۔ فیاض کی قوتِ برداشت جواب دے گئی اور وہ گرج کر بولا۔
" جانتے ہو، وہاں صبح ایک فرلانگ کے فاصلے پر ایک لاش ملی ہے"۔
" ارے توبہ"۔ عمران اپنا منہ پیٹنے لگا۔
کیپٹن فیاض کہتا رہا۔" تم مجھے اندھیرے میں رکھ کر ناجانے کیا کرنا چاہتے ہو۔ حالات اگر اور بگڑے تو مجھے ہی سنبھالنے پڑیں گے لیکن کتنی پریشانی ہوگی۔ کسی نے اس کی داہنی کن پٹی پر گولی مار دی ہے، نہیں سمجھ سکتا کہ یہ حرکت کس کی ہے"۔
" عمران کے علاوہ اور کس کی ہو سکتی ہے!"۔ عمران بڑبڑایا پھر سنجیدگی سے پوچھا۔" پہرہ تھا وہاں؟"۔
" تھا۔۔۔۔ میں نے رات ہی میں یہ کام کیا تھا"۔
" پہرے والوں کی رپورٹ؟"۔
" کچھ بھی نہیں! انہوں نے فائر کی آواز بھی نہیں سنی"۔
" میں یہ نہیں پوچھ رہا۔۔ کیا کل بھی کسی نے عمارت میں داخل ہونے کی کوشش کی تھی"۔
" نہیں۔۔۔ لیکن میں اس لاش کی بات کر رہا ہوں"۔
" کئے جاؤ۔ میں تمھیں نہیں روکتا۔ لیکن میرے سوالات کے جوابات بھی دئیے جاؤ۔ قبر کے مجاور کی کیا خبر ہے!۔۔۔ وہ اب بھی وہیں موجود ہے کہ غائب ہوگیا!"۔
" عمران خدا کے لیے تنگ نہ کرو"۔
" اچھا تو علم عمران ایم۔ایس۔سی۔پی۔ایچ۔ڈی کوئی گفتگو نہیں چاہتا"۔
" تم آخر اس خبطی کے پیچھے کیوں پڑ گئے ہو"۔
" خیر جانے دو۔ اب مجھے اس کے متعلق کچھ اور بتاؤ"۔
" کیا بتاؤں!۔۔۔ بتا تو چکا۔۔۔ صورت سے بُرا آدمی نہیں معلوم ہوتا خوبصورت اور قدآور، جسم پر چمڑے کی جیکٹ اور کتھئی رنگ کی پتلون!"۔
" کیا؟"۔ عمران چونک پڑا۔ اور چند لمحے اپنے ہونت سیٹی بجانے والے انداز میں سکڑ کر فیاض کی طرف دیکھتا رہا۔ پھر ایک ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔
بے خطر کوس پڑا آتشِ نمرود میں عشق۔۔۔۔ نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
" کیا بکواس ہے!"۔ فیاض جھنجھلا کر بولا۔" اول تو تمھیں اشعار ٹھیک یاد نہیں پھر یہاں کہنے کا موقعہ کب تھا۔۔۔ عمران میرا بس چلے تو میں تمھیں گولی ماردوں"۔
" کیوں شعر میں کیا غلطی ہے؟"۔
" مجھے شاعری سے دلچسپی نہیں لیکن مجھے دونوں مصرعے بےربط معلوم ہوتے ہیں۔ لا حول ولا قوہ میں بھی انہیں لغویات میں الجھ گیا۔ خدا کے لیے کام کی باتیں کرو۔ تم نےجانے کیا کہہ رہے ہو!"۔
" میں آج رات کو کام کی بات کروں گا اور تم میرے ساتھ ہوگے لیکن ایک سیکنڈ کے لیے بھی وہاں سے پہرہ نہ ہٹایا جائے۔ تمھارا ایک آدمی پر وقت مجاور کے کمرے میں موجود ہونا چاہئے۔بس اب جاؤ!۔۔۔ میں چائے پی چکا ہوں ورنہ تمھاری کافی مدارت کرتا۔ ہاں محبوبہ کو ایک پیغام پینچا دینا کہ رقیب رو سیاہ کا سفایا ہوگیا! باقی سب خیریت ہے!"۔
" عمران میں آسانی سے پیچھا نہیں چھوڑوں گا! تمھیں ابھی اور اسی وقت سب کچھ بتانا پڑے گا"۔
" اچھا تو سنو۔۔۔ لیڈی جہانگیز بیوہ ہونے والی ہے!۔۔۔ اس کے بعد تم کوشش کرو گے کہ شادی اس کے ساتھ ہوجائے۔۔۔ کیا سمجھے؟"۔
" عمران!"۔ فیاض یک بیک مار بیٹھنے کے انداز میں سنجیدہ ہوگیا۔
" یس باس"۔
" بکواس بند کرو۔ میں ابھی تمھاری زندگی تلخ کردوں گا"۔
" بھلا وہ کس طرح سوپر فیاض؟"۔
" نہایت آسانی ہے!"۔ فیاض سگریٹ لگا کر بولا۔" تمھارے گھر والوں کو شبہ ہے کہ تم سارا وقت آوارگی اور عیاشی میں گزارتے ہو! لیکن کسی کے پاس اس کا ٹھوس ثبوت نہیں۔۔۔ میں ثبوت مہیا کر دونگا۔
ایک ایسی عورت کا انتظام کر لینا میرے لیے مشکل نہ ہوگا جو براہِراست تمھاری اماں بی بی کے پاس پہنچ کر اپنے لٹنے کی داستان بیان کردے"۔
" اوہ"۔ عمران نے تشویش آمیز انداز میں اپنے ہونٹ سکوڑ لیے پھر آہستہ سے بولا۔
" اماں بی بی کی جوتیاں آل پروف ہیں۔ خیر سوپر فیاض یہ بھی کر کے دیکھ لو تم مجھے ایک صابر اور شاکر فرزند پاؤگے!۔۔ لو چیونگم سے شوق کرو"۔
" اس گھر میں ٹھکانہ نہیں ہوگا تمھارا۔۔۔۔"۔ فیاض بولا۔
" تمھارا گھر تو موجود ہی ہے"۔ عمران بولا۔
" تو تم نہیں بتاؤ گے"۔
" ظاہر ہے"۔
" اچھا! تو اب تم ان معاملات میں دخل نہیں دوگے میں خود ہی دیکھ لونگا"۔ فیاض اٹھتے ہوئے خشک لہجے میں بولا۔" اور اگر تم اس کے بعد بھی اپنی ٹانگ اڑاتے رہے تو میں تمھیں قانونی گرفت میں لے لونگا"۔
" یہ گرفت ٹانگوں میں ہوگی یا گردن میں!"۔ عمران نے سنجیدگی سے پوچھا۔ چند لمحے فیاض کو گھورتا رہا پھر بولا۔" ٹھہرو!"۔ فیاض رُک کر اس اسے بےبسی سے دیکھنے لگا۔۔۔۔ عمران نے الماری کھول کر اسے وہی چرمی بیگ نکالا جسے وہ کچھ نامعلوم افراد کے درمیان سے پچھلی رات کو اُڑا لایا تھا۔ اس نے ہینڈ بیگ کھول کر چند کاغذات نکالے اور فیاض کی طرف بڑھا دئیے۔ فیاض نے جیسے ہی ایک کاغذ کی تہہ کھولی بے اختیار اچھل پڑا۔۔۔۔ اب وہ دوسرے کاغذات پر بھی نظریں دوڑا رہا تھا۔
" یہ تمھیں کہاں سے ملے؟"۔ فیاض تقریباَ ہانپتا ہوا بولا۔ شدتِ جوش سے اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔
" ایک ردیفروش کی دکان پر۔۔۔ بڑی دشواری سے ملے ہیں ورنہ وہ دو آنہ سیر کے حساب سے"۔
" عمران خدا کےلیے"۔ فیاض تھوک نگل کر بولا۔
" کیا کر سکتا ہے بےچارہ عمران!"۔ عمران نے خشک لہجے میں کہا۔" وہ اپنی ٹانگیں اڑانے لگا تو تم اسے اپنی قانونی گرفت میں لے لو گے"۔
" پیارے عمران! خدا کے لیے سنجیدہ ہوجاؤ"۔
" اتنا سنجیدہ ہوں کہ تم مجھے بی پی کی ٹافیاں کھلا سکتے ہو"
" یہ کاغذات تمھیں کہاں سے ملے ہیں؟"۔
" سڑک پر پڑے ہوئے ملے تھے اور اب میں نے انہیں قانون کے ہاتھوں میں پہنچا دیا۔ قانون کا کام ہے کہ وہ ایسے ہاتھ تلاش کرے جن میں ہتھ کڑیاں لگا سکے"۔
فیاض نےبسی سے اس کی طرف دیکھتا رہا۔
" لیکن اسے سن لو"۔ عمران قہقہہ لگا کر بولا۔" قانون کے فرشتے بھی ان لوگوں تک نہیں پہنچ سکتے"۔
" اچھا تو یہی بتا دو کہ ان معاملات سے ان کاغذات کا کیا تعلق؟"۔ فیاض نے پوچھا۔
" یہ تمھیں معلوم ہونا چاہئے"۔ عمران دفعتہَ سنجیدہ ہوگیا۔" اتنا میں جانتا ہوں کہ یہ کاغذات فارن آفس سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ان کا اُن بدمعاشوں کے پاس ہونا کیا معنی رکھتا ہے"۔ عمران بولا۔
" کن بدمعاشوں کے پاس؟"۔ فیاض چونک کر بولا۔
" وہی۔۔۔ اس عمارت میں"۔
" میرے خدا!"۔۔۔۔ فیاض مضطربانہ انداز میں بڑبڑایا۔ لیکن تمھارے ہاتھ کس طرح لگے"۔
عمران نے پچھلی رات کے واقعات دہرا دیئے! اس دوران فیاض بےچینی سے سنتا رہا، کبھی کبھی وہ رک کر عمران کو گھورنے لگتا! عمران اپنی بات ختم کر چکا تو اس نے کہا۔
" افسوس۔۔۔ تم نے بہت برا کیا۔۔۔ تم نے مجھے کل یہ اطلاع کیوں نہیں دی"۔
" تو اب دے رہا ہوں اطلاع۔ اس مکان کا پتہ بھی بتادیا جو کچھ بن پڑے کر لو"۔ عمران نے کہا۔
" اب کیا وہاں خاک پھانکنے جاؤں"۔
" ہاں ہاں کیا حرج ہے"۔
" جانتے ہو یہ کاغذات کیسے ہیں"۔ فیاض نے کہا۔
" اچھے خاصے ہیں۔ ردی کے بھاؤ بک سکتے ہیں"۔
" اچھا تو میں چلا!"۔ فیاض کاغذ سمیٹ کر چرمی جیکٹ میں رکھتا ہوا بولا۔
" کیا انہیں اس طرح لے جاؤ گے!"۔ عمران نے کہا۔" نہیں ایسا نہ کرو مجھے ابھی قاتلوں کا بھی سراغ لگانا پڑے"۔
" کیوں؟"۔
" فون کر کے پولیس کی گاڑی منگواؤ"۔ عمران ہنس کر بولا۔" کل رات سے وہ لوگ اس کی تلاش میں ہیں۔ میں رات بھر گھر سے باہر ہی رہا تھا۔ میرا خیال ہے کہ اس وقت مکان کی نگرانی ہو رہی ہوگی! خیر اب تم مجھے بتا سکتے ہو کہ کاغذات کیسے ہیں"۔
فیاض پھر بیٹھ گیا۔ اب وہ اپنی پیشانی سے پسینہ پونچھ رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے کہا۔
" سات سال پہلے ان کاغذات پر ڈاکہ پڑا تھا۔ لیکن ان میں سب نہیں ہیں۔ فارن آفس کا ایک افسر انہیں لے کر سفر کر رہا تھا۔۔۔۔ یہ نہیں بتا سکتا کہ وہ کہاں اور کس مقصد سے جا رہا تھا کیونکہ یہ حکومت کا راز ہے۔۔۔ آفیسر ختم کر دیا گیا تھا۔ اس کی لاش مل گئی تھی۔ لیکن اس کے ساتھ سکرٹ سروس کا ایک آدمی بھی تھا، اس کے متعلق آج تک نہ معلوم ہو سکا۔۔۔۔ شاید وہ بھی مار ڈالا گیا ہو۔۔۔۔ لیکن اس کی لاش نہیں ملی"۔
" آہا۔۔۔ تب تو یہ بہت بڑا کھیل ہے۔۔"۔ عمران کچھ سوچتا ہوا بولا۔" لیکن میں جلد ہی اسے ختم کرنے کی کوشش کرونگا"۔
" تم اب کیا کرو گے؟"۔
" ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا!"۔ عمران نے کہا۔" اور سنو ان کاغذات کو ابھی اپنے پاس ہی دبائے رہو اور ہینڈ بیگ میرے پاس رہنے دو۔ مگر نہیں اسے بھی لے جاؤ!۔۔۔ میرے ذہن میں کئی تدبیریں ہیں! اور ہاں۔۔۔ اس عمارت کے گرد دن رات پہرہ رہنا چاہئے"۔
" آخر کیوں؟"۔
" وہاں تمھارا مقبرہ بنواؤنگا"۔ عمران جھنجھلا کر بولا۔
فیاض اُٹھ کر پولیس کی کار منگوانے کے لیے فون کرنے لگا
11
اسی رات کو فیاض بوکھلایا ہوا فیاض کے گھر پہنچا۔ فیاض سونے کی تیاری کر رہا تھا۔ ایسے موقع پر اگر عمران کے بجائے کوئی اور ہوتا تو وہ بڑی بداخلاقی سے پیش آتا۔ لیکن عمران کا معاملہ ہی کچھ اور تھا۔ اس کی بدولت آج اس کے ہاتھ ایسے کاغذات لگے تھے جن کی تلاش میں عرصے سے محکمہ سراغراسنی سر مار رہا تھا۔ فیاض نے اسے اپنے سونے کے کمرے میں بلوایا۔
" کیا بات ہے۔۔۔ کہو؟"۔
عمران ٹھنڈی سانس کے کر بولا۔" کیا تم کبھی کبھی میری قبر پر آیا کرو گے؟"۔
فیاض کا دل چاہ رہا تھا کہ اس کا سر دیوار سے ٹکرا کر سچ مچ اس کو قبر تک جانے کا موقع مہیا کرے! وہ کچھ کہنے کی بجائے عمران کو گھورتا رہا۔
" آہ! تم خاموش ہو!"۔ عمران کسی ناکام عاشق کی طرح بولا۔" میں سمجھا! تمھیں شاید کسی اور سے پریم ہوگیا ہے"
" عمران کے بچے"۔
" رحمان کے بچے!"۔ عمران نے جلدی سے تصحیح کی۔
" تم کیا میری زندگی تلخ کیے ہوئے ہو"۔
" اوہو! کیا تمھاری مادہ دوسرے کمرے میں سوئی ہوئی ہے"۔ عمران چاروں طرف دیکھتا ہوا بولا۔
" بکواس مت کرو۔۔۔ اس وقت کیوں آئے ہو"۔
" ایک عشقیہ خط دکھانے کے لیے"۔ عمران جیب سے لفافہ نکالتے ہوئے بولا۔
فیاض نے اس کے ہاتھ سے خط لے کر جھلاہٹ میں پھاڑنا چاہا۔
" ہاں، ہاں!"۔ عمران نے اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔" ارے پہلے پڑھو تو میری جان مزہ نہ آئے تو محصول ڈاک بذمہ خریدار"۔
فیاض نے خط نکالا۔۔۔۔ اور پھر جیسے ہی اس کی نظریں اس پر پڑیں۔ بیزاری کی سارہ علامتیں غائب ہوگئیں اور اس کی جگہ اس تعاجب نے لےلی۔ خط ٹائپ کیا ہوا تھا۔
" عمران !۔۔۔ اگر وہ چرمی ہینڈ بیگ یا اس کے اندر کی کوئی چیز پولیس تک پہنچی تو تمھاری شامت آجائے گی! اسے واپس کر دو۔۔۔ بہتری اسی میں ہے ورنہ کہیں۔۔۔ کسی جگہ موت سے ملاقات ضرور ہوگی۔ آج رات کو گیارہ بجے ریس کورس کے قریب ملو، ہینڈ بیگ تمھارے ساتھ ہونا چاہیے! اکیلے ہی آنا! ورنہ اگر تم پانچ ہزار آدمی بھی ساتھ لاؤ گے تو تب بھی گولی تمھارے ہی سینے میں پڑے گی"۔
فیاض خط پڑھ چکنے کے بعد عمران کی طرف دیکھنے لگا۔
" لاؤ۔۔۔۔ اسے واپس کردو"۔ عمران نے کہا۔
" پاگل ہوگئے ہو"۔
"ہاں"۔
" تم ڈر گئے"۔ فیاض ہنسنے لگا۔
" ہارٹ فیل ہوتے ہوتے بچا ہے"۔ عمران ناک کے بل بولا۔
" ریوالور ہے تمھارے پاس؟"۔
" ریوالور!"۔ عمران اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونستے ہوئے بولا۔" ارے باپ رے"۔
" بس کرو"۔ عمران برا سا منہ بنا کر بولا۔" اس میں آواز بھی ہوتی ہے اور دھواں بھی نکلتا ہے! میرا دل بہت کمزور ہے! لاؤ ہینڈ بیگ واپس کردو"۔
" کیا بچوں کی سی باتیں کر رہے ہو"۔
" اچھا تو تم نہیں دوگے"۔ عمران آنکھیں نکال کر بولا۔
" فضول مت بکو مجھے نیند آرہی ہے"۔
" ارے واہ۔۔۔ فیاض صاحب! ابھی میری شادی نہیں ہوئی اور میں باپ بنے بغیر مرنا پسند نہیں کرونگا"۔
" ہینڈ بیگ تمھارے والد کے آفس میں بھیج دیا گیا ہے"۔
" تب انہیں اپنے جوان بیٹے کی لاش پر آنسو بہانے پڑیں گے! کنفوشش نے کہا تھا"۔
" جاؤ یار خدا کے لیے سونے دو"۔
" گیارہ بجنے میں صرف پانچ منٹ رہ گئے ہیں"۔ عمران گھڑی کی طرف دیکھتا ہوا بولا۔
" اچھا! چلو تم بھی یہیں سو جاؤ"۔ فیاض نے بےبسی سے کہا۔
کچھ دیر خاموشی ہی رہی پھر عمران نے کہا۔" کیا اس عمارت کے گرد اب بھی پہرہ ہے؟"۔
" ہاں!۔۔۔۔ کچھ اور آدمی بڑھا دیئے گئے ہیں لیکن آخر تم یہ سب کیوں کر رہے ہو۔ آفیسر مجھ سے اس کا سبب پوچھتے رہتے ہیں اور میں ٹالتا رہتا ہوں"۔
" اچھا تو اٹھو! یہ کھیل بھی اسی وقت ختم کر دیں! تیس منٹ میں ہم وہاں پہنچیں گے باقی بچے بیس منٹ! گیارہ سوا گیارہ بجے تک سب کچھ ہوجانا چاہئے"۔
" کیا ہونا چاہئے؟"۔
" ساڑھے گیارہ بجے بتاؤں گا۔۔۔! اٹھو!۔۔ میں اس وقت عالمِ تصور میں تمھارا عہدہ بڑھتا ہوا دیکھ رہا ہوں"۔
" آخر کیوں؟ کیوئی خاص بات؟"۔
" علی عمران ایم۔ایس۔سی۔پی۔ایچ۔ڈی۔ کبھی کوئی عام بات نہیں کرتا۔ سمجھے ناؤ گٹ اپ!"۔
فیاض نے لباس تبدیل کیا۔
تھوڑی دیر بعد اس کی موٹر سائیکل بڑی تیزی سے اس دیہی علاقے کی طرف جا رہی تھی جہاں وہ عمارت تھی! عمارت کے قریب پہنچ کر عمران نے فیاض سے کہا۔
" تمھیں صرف اتنا کرنا ہے کہ تم اس وقت تک قبر کے مجاور کو باتوں میں الجھائے رکھو جب تک میں واپس نہ آجاؤں۔ سمجھے! اس کے کمرے میں جاؤ ایک سیکنڈ کے لیے بھی اس کا ساتھ نہ چھوڑنا"
12
عمارت کے گرد مسلح پہرہ تھا۔۔۔! دستے کے انچارج نے فیاض کو پہچان کر سلیوٹ کیا۔ فیاض نے اس سے چند سرکاری قسم کی رسمی باتیں کیں اور سیدھا مجاور کے ۃجرے کی طرف چلا گیا اس کے دروازے کھلے ہوءے تھے اور اندر مجاور غالبأ مراقبے کی حالت میں بیٹھا ہوا تھا فیاض کی ٓہٹ پر اس نے ٓنکھیں کھول دیں جو انگاروں کی طرح دہک رہی تھیں۔۔
"کیا ہے اس نے جھلاءے ہوءے لہجہ میں کہا ۔۔
" کچھ نہیں میں دیکھنے ٓیا تھا کہ سب کچھ ٹھیک ہے یا نہیں "فیاض بولا۔۔
" میری سمجھ میں نہیںآتا کہ آ خر یہ ہو کیا رہا ہے انہی گدھوں کی طرح دیوانی ہو گءی ہے"۔۔
"کن گدھوں کی طرح"۔۔
" وہ ہی جو سمجھتے ہیں شہید مرد کی قبر میں خزانہ ہے۔۔"
" کچھ بھی ہو" فیاض بولا " ہم نہیں چاہتے کہ یہاں سے روزانہ لاشیں بر آمد ہوں اگر ضرورت سمجھی تو قبر کھدواءی جاءے
گی۔۔۔"
" بھسم ہو جاو گے " مجاور گرج کر بولا " خون تھوکوگے ۔۔۔۔ مروگے۔۔"
" کیا سچ مچ اس میں خزانہ ہے۔۔"
اس پر مجاور پھر گرجنے برسنے لگا۔!۔۔فیاض بار بار گھڑی کی طرف دیکھتا جا رہا تھا عمران کو گءے پندرہ منٹ ہو چکے تھے ۔۔ وہ مجاور کو باتوں میں الجھاءے رہا !۔۔۔۔اچانک ایک عجیب قسم کی آواز آءی ! مجاور اچھل کر مڑا ۔۔ اس کی پشت کی طرف دیوار میں ایک بڑا سا خلا نظر آرہا تھا !۔۔۔فیاض بوکھلا کر کھڑا ہو گیا وہ سوچ رہا تھا کہ یک بیک دیوار کو کیا ہو گیا۔۔۔وہ اس سے پہلے بھی کءی بار اس کمرے میں آیا تھا لیکن اسے بھول کر بھی یہ خیال نہیں آیا تھا کہ یہاں کوءی چور دروازہ بھی ہو سکتا ہے ۔۔مجاور چیخ مار کر اس دروازے میں گھستا چلا گیا ! ۔۔ فیاض بری طرح بوکھلا گیا تھا ۔۔ اس نے جیب سے ٹارچ نکالی اور پھر وہ بھی اس دروازے میں داخل ہو گیا! ۔۔۔ یہاں چاروں طرف اندھیرا تھا ۔۔ شاید کسی تھہ خانے میں چل رہا تھا ۔۔ کچھ دور چلنے کے بعد سیڑھیاں نظر آءیں۔۔۔۔یہاں قبرستاں کی طرح خاموشی تھی !۔۔۔۔اور جب وہ اوپر پہنچا تو اس نے خود کو مرشد مرد کی طرح برآمد ہوتے پایا جس کا تعویذ کسی صندوق کے ڈھکن کی طرح سیدھا اٹھا ہوا تھا۔۔۔
ٹارچ کی روشنی کا داءرہ صحن میں چاروں طرف گردش کر رہا تھا ۔۔ پھر فیاض نے مجاور کو کمرے سے نکلتے دیکھا۔۔۔
" تم لوگوں نے مجھے برباد کر دیا" وہ فیاض کو دیکھ کر چیخا " آﷺ اپنے کرتوت دیکھ لو" ۔۔ وہ کمرے میں گھس گیا ۔۔فیاض تیزی سے اس کی طرف جھپٹا۔۔
ٹارچ کی روشنی دیوار پر پڑی ۔۔ یہاں کا بہت سا پلاسٹڑ ادھڑا ہوا تھا اور اسی جگہ پانچ پانچ انچ کے فاصلے پر تیں بڑی پھیریاں نصب تھیں ۔۔فیاض اگے بڑھا! ادھڑے ہوئے پلاسٹر کے پیچھے ایک بڑا سا خانہ تھا-ان چھریوں کے دوسرے سرے اسی میں غائب ہوگئے تھے۔اب چھریوں کے علاوہ اس خانہ میں اور کچھ نہیں تھا-
مجاور قہر آلود نظروں سے فیاض کو گھور رہاتھا!-
“ یہ سب کیا ہے “فیاض مجاور کو گھور کر بولا-
مجاور نے اس ظرح کھنکار کر گلا صاف کیا جیسے کچھ کہنا چاہتا ہو- لیکن خلاف توقع اس نے فیاض کے سینے پر زوردار ٹکر ماری اور اچھل کر بھاگا!- فیاض چاروں شانے چت گر گیا- لیکن سنبھلنے سے پہلے اس کا دایاں ہاتھ ۔۔ہولسٹر سے ریوالور نکال چکا تھا-لیکن بے کار مجاور قبر میں چھلانگ لگا چکا تھا-
فیاض اٹھ کر قبر کی طرف بھاگا-لیکن مجاور کے کمرے میں پہنچ کر بھی اس کا نشان نہ ملا۔۔وہ کمرے سے باہر نکل آیا- ڈیوٹی کانستیبل بدستور اپنی جگہوں پر موجاد تھے-انہوں نے کسی بھاگتے ہوئے آدمی کے متعلق لا علمی ظاہر کی - ان کا خیال تھا کہ عمارت کے باہر کوئی نکلا ہی نہیں -
آخر اسے عمران کا خیال آیا- وہ کہاں گیا تھا- کہیں یہ اس کی حرکت نہ ہو- اس خفیہ خانے میں کیا چیز تھی- اب سارے معاملات فیاض کے ذہن میں صاف ہو گئے تھے- لاش کا راز، تیں ذخم جین کا درمیانی فاصلہ پانچ پانچ انچ تھا! دفعتاً کسی نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھ دیا- فیاض چانک کر مڑا- عمران کھڑا بری طرح منہ بسور رہا تھا-
“ تو یہ تم تھے-“ فیاض اسے نیچے سے اوپر گھورتا ہو بہ لا-
“ میں تھا نہیں ابھی ہوں - توقع ہے کہ ابھی دو چار دن تک زندہ رہوں گا“-
“ وہاں سے کیا نکالا تم نے “
“ چوٹ ہوگئی پیارے فرماؤ“ عمران بھرائی ہوئی آواز میں بولا- وہ مجھ سے پہلے ہی ہاتھ صاف کر گئے- میں نے تو بعد میں ذرا اس خفیہ خانے کے میکینزم پر غور کرنا چاہا تھا کہ ایک کھٹکے کو ہاتھ لگاتے ہی قبر تڑخ گئی-!“ -
“ لیکن وہاں تھا کیا“ -
“ وہ بقیہ کاغذات جو اس چرمی ہینڈ بیگ میں نہیں تھے“ -
“کیا“ ارے او احمق پہلے کیوں نہیں بتایا- فیاض اپنی پیشانی پر ہاتھ مار کر بولا-“ لیکن وہ اندر گھسے کس طرح “-“
“ آؤ دکھاؤں “ عمران ایک طرٍف بڑھتا ہوا بولا- وہ فیاض کو عمارت کے مغربی گوشے کی سمت لایا!یہاں دیوار سے ملی ہوئی قد آدم جھاڑیاں تھیں -عمران نے جھاڑیاں ہٹا کر ٹارچ روشن کی -فیاض کا منہ حیرت سے کھلا کا کھلا رہ گیا-دیوار مٰن اتنی بڑی نقب تھی کہ ایک آدمی بیٹھ کر باآسانی اس سے گذر سکتا تھا۔
"یہ تو بہت برا ہوا۔" فیاض بڑبڑایا۔
"اور وہ پہنچا ہوا فقیر کہاں ہے؟"
"وہ بھی نکل گیا! لیکن تم کس طرح اندر پہنچے تھے۔"
"اسی راستے سے! آج ہی مجھے ان جھاڑیوں کا خیال آیا تھا۔"
"اب کیا کرو گے بقیہ کاغذات!" فیاض نے بے بسی سے کہا۔
"بقیہ کاغذات بھی انہیں واپس کردوں گا۔ بھلا آدھے کاغذات کس کام کے۔ جس کے پاس رہیں، پورے رہیں۔ اس کے بعد میں باقی زندگی گذارنے کے لئے قبر اپنے نام الاٹ کرالوں گا۔
13
عمران کےکمرے میں فون کی گھنٹی بڑی دیر سے بج رہی تھی۔ وہ قریب ہی بیٹھا ہوا کوئی کتاب پڑھ رہا تھا۔ اس نے گھنٹی کی طرف دھیان تک نہ کیا پھر آخر گھنٹی جب بجتی ہی چلی گئی تو وہ کتاب میز پر پٹخ کر اپنے نوکر سلیمان کو پکارنے لگا۔
"جی سرکار!" سلیمان کمرے میں داخل ہوکربولا۔
"ابے دیکھ یہ کون الو کا پٹھا گھنٹی بجا رہا ہے۔"
"سرکار فون ہے۔"
"فون!" عمران چونک کر فون کی طرف دیکھتا ہوا بولا۔ "اسے اٹھا کر سڑک پر پھینک دے۔
سلیمان نے ریسیو اس کی طرف بڑھا دیا۔
"ہیلو!" عمران ماؤتھ پیس میں بولا۔ "ہاں ہاں عمران نہیں تو کیا کتابھونک رہاہے۔"
"تم کل رات ریس کورس کے قریب کیوں نہیں ملے؟" دوسری طرف سے آواز آئی۔
"بھاگ جاؤ گدھے۔" عمران نے ماؤتھ پیس پر ہاتھ رکھے بغیر سلیمان سے کہا۔
"کیا کہا!" دوسری طرف سے غراہٹ سنائی دی۔
"اوہ۔ وہ تو میں نے سلیمان سے کہا تھا!۔۔۔ میرا نوکر ہے۔۔۔ ہاں تو کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ پچھلی رات کو ریس کورس کیوں نہیں گیا۔"
"میں تم سے پوچھ رہا ہوں۔"
"تو سنو میرے دوست!" عمران نے کہا۔ "میں نے اتنی محنت مفت نہیں کی۔ ہینڈ بیگ کی قیمت دس ہزار لگ چلی ہے۔ اگر تم کچھ بڑھو تو میں سودا کرنے کو تیار ہوں۔"
"شامت آگئی ہے تمہاری۔"
"ہاں ملی! مجھے بہت پسندآئی۔" عمران نے آنکھ مار کر کہا۔
"آج رات تمہارا انتظار کیا جائے گا۔ اس کے بعد کل کسی وقت تمہاری لاش شہر کے کسی گٹر میں بہہ رہی ہوگی۔"ارے باپ! تم نے اچھا کیا کہ بتا دیا اب میں کفن ساتھ لئے بغیر گھر سے باہر نہ نکلوں گا۔"
"میں پھر سمجھاتا ہوں۔" دوسری طرف سے آواز آئی۔
"سمجھ گیا!" عمران نے بڑی سعادت مندی سے کہا اور سلسلہ منقطع کر دیا۔
اس نے پھر کتاب اٹھا لی اور اسی طرحمشغول ہوگیا جیسے کوئی بات ہی نہ ہو۔ تھوڑی دیر بعد گھنٹی پھر بجی عمران نے ریسیور اٹھا لیا اور جھلائی ہوئی آواز میں بولا۔
"اب میں یہ ٹیلیفون کسی یتیم خانے کو پریزینٹ کردوں گا سمجھے۔۔۔ میںبہت ہی مقبول آدمی ہوں۔۔۔ کیا میںنے مقبول کہا تھا مقبول نہیں مشغول آدمی ہوں۔"
"تم نے ابھی کسی رقم کی بات کی تھی۔" دوسری طرف سے آواز آئی۔
"قلم نہیں فاؤنٹین پن!" عمران نے کہا۔
"وقت برباد مت کرو۔" دوسری طرف سے جھنجھلائی ہوئی آواز آئی۔ " ہم بھی اس کی قیمت دس ہزار لگاتے ہیں!"
"ویری گڈ!" عمران بولا۔ "چلو یہ تو طے رہا! بیگ تمہیں مل جائے گا۔"
"آج رات کو۔"
"کیا تم مجھے اچھی طرح جانتے ہو۔" عمران نے پوچھا۔
"اسی طرح جیسے پہلی انگلی دوسری انگلی کو جانتی ہو۔"
"گڈ" عمران چٹکی بجا کربولا۔ "تو تم یہ بھی جانتے ہوگے کہ میں ازلی احمق ہوں۔"
"تم!"
"ہاں میں! ریس کورس بڑی سنسان جگہ ہے! اگر بیگ لے کر تم نے مجھے ٹھائیں کر دیا تو میں کس سے فریاد کروں گا۔"
"ایسا نہیں ہوگا۔" دوسری طرف سے آواز آئی۔
"میں بتاؤں! تم اپنے کسی آدمی کو روپے دے کر ٹپ ٹاپ نائٹ کل میں بھیج دو میں مدہوبالا کی جوانی کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ بیگ واپس کردوں گا۔"
"اگر کوئی شرارت ہوئی تو۔"
"مجھے مرغا بنا دینا۔"
"اچھا! لیکن یہ یاد رہے کہ تم وہاں بھی ریوالور کی نال پر رہو گے۔"
"فکر نہ کرو۔ میں نے آج تک ریوالور کی شکل نہیں دیکھی۔" عمران نے ریسیور کریڈل پر رکھ دیا۔ اور جیب سے چیونگم کا پیکٹ تلاش کرنے لگا
14
ٹھیک آٹھ بجے کے قریب عمران اپنی بغل میں ایک چرمی بیگ دبائے ٹپ ٹاپ نائٹ کلب پہنچ گیا قریب قریب ساری میزیں بھری ہوئی تھیں۔ عمران نے بار کے قریب کھڑے ہوکر مجمع کا جائزہ لیا آخرکار اس کی نظریںایک میز پر رک گئیں جہاں لیڈی جہانگیر ایک نوجوان عورت کے ساتھ بیٹھی زرد رنگ کی شراب پی رہی تھی۔ عمران آہستہ آہستہ چلتا ہوا میز کے قریب پہنچ گیا۔
"آہا۔۔۔ مائی لیڈی۔" وہ قدرے جھک کر بولا۔
لیڈی جہانگیر نے داہنی بھوں چڑھا کر اسے تیکھی نظروں سے دیکھا اور پھر مسکرانے لگی۔
"ہل۔۔او۔۔۔عمران۔۔۔!" وہ اپنا داہنا ہاتھ اٹھا کر بولی۔ "تمہارے ساتھ وقت بڑا اچھا گزرتا ہے! یہ ہیںمس تسنیم!
خان بہادر ظفر تسنیم کی صاحبزادی! اور یہ علی عمران۔"
!ایم۔ ایس۔ سی۔ پی۔ ایچ۔ ڈی"عمران نے احمقوں کی طرح کہا۔
"بڑی خوشی ہوئی آپ سے مل کر!" تسنیم بولی۔ لہجہ بیوقوف بنانے کا سا تھا۔
"مجھے افسوس ہوا۔"
"کیوں؟" لیڈی جہانگیر نے حیرت زدہ آواز سے کہا۔
"میں سمجھتا تھا کہ شائد ان کا نام گلفام ہوگا۔"
"کیا بیہودگی ہے!" لیڈی جہانگیر جھنجھلا گئی۔
"سچ کہاہوں! مجھے کچھ ایسا ہی معلوم ہوا تھا۔ تسنیم ان کے لئے قطعی موزوںنہیں۔۔۔ ہاں کسی ایسی لڑکی کا نام ہوسکتا ہے جو تپ دق میںمبتلا ہو تسنیم۔۔۔ بس نام کی طرح کمر جھکی ہوئی۔"
"تم شائد نشے میں ہو۔" لیڈی جہانگیر نے بات بنائی۔"لو اور پیو!"
"فالودہ ہے؟" عمران نے پوچھا۔
"ڈیئر تسنیم!" لیڈی جہانگیر جلدی سے بولی۔ "تم ان کی باتوںکو برا مت ماننا یہ بہت پرمذاق آدمی ہیں! اور عمران۔۔۔بیٹھو نا۔"
"برا ماننے کی کیا بات ہے" عمران نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔ "میں انہیں گلفام کے نام سے یاد رکھوں گا۔"
"مائی ڈیئرس! تم دونوں بیٹھو۔" لیڈی جہانگیر دونوں کے ہاتھ پکڑ کر جھومتی ہوئی بولی۔
"نہیں مجھے ایک ضروری کام یاد آگیا ہے۔" تسنیم نے آہستہ سے اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے کہا اور وہاں سے چلی گئی۔
"اور میں!" عمران سینے پر ہاتھ رکھ کر بولا۔"تم پر ہزاروں کام قربان کر سکتا ہوں"
"بکو مت! جھوٹے۔۔۔ تم مجھے خوامخواہ غصہ دلاتے ہو۔"
"میں تمہیں پوجتا ہوں! سوئیٹی۔۔۔ مگر اس بڈھے کی زندگی میں۔۔۔"
"تم پھر میرا مذاق اڑانے لگے!"
"نہیں ڈیئرسٹ! میں تیرا چاند تو میری چاندنی۔۔۔ نہیں دل کا لگا۔۔۔
"بس بس!۔۔۔بعض اوقات تم بہت زیادہ چیپ ہو جاتے ہو!"
"آئی ایم سوری۔" عمران نے کہا اور اس کی نظریں قریب ہی کی ایک میز کی طرف اٹھ گئیں۔ یہاں ایک جانی پہچانی شکل کا آدمی اسے گھور رہا تھا! عمران نے ہینڈ بیگ میز سے اٹا کر بغل میں دبا لیا پھر دفعتاً سامنے بیٹھا ہوا آدمی اسے آنکھ مار کر مسکرانے لگا۔ جواب میں عمران نے باری باری اسے دونوں آنکھیں ماریں! لیڈی جہانگیر اپنے گلاس کی طرف دیکھ رہی تھی اور شائد اس کے ذہن میں کوئی انتہائی رومان انگیز جملہ کلبلا رہا تھا۔
"میں ابھی آیا!" عمران نے لیڈی جہانگیر سے کہا اور اس آدمی کی میز پر چلا گیا۔
"لائے ہو۔" اس نے آہستہ سے پوچھا۔
"یہ کیا رہا۔" عمران نے ہینڈ بیگ کی طرف اشارہ کیا پھر بولا۔ "تم لائے ہو۔"
"ہاں آں!" اس آدمی نے لائے ہوئے ہینڈ بیگ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
"تو ٹھیک ہے!" عمران نے کہا۔"اسے سنبھالو اور چپ چاپ کھسک جاؤ۔"
"کیوں؟" وہ اسے گھورتاہوا بولا۔
"کپتان فیاض کو مجھ پر شبہ ہو گیا ہے ہوسکتا ہے کہ اس نے کچھ آدمی میری نگرانی کے لئے مقرر کردئے ہوں۔"
"کوئی چال!"
"ہرگز نہیں! آج کل مجھے روپوں کی سخت ضرورت ہے۔"
"اگر کوئی چال ہوئی تو تم بچو گے نہیں۔" آدمی ہینڈ بیگ لے کر کھڑا ہوگیا
15
وہ آدمی ہینڈ بیگ لیے جیسے ہی باہر نکلا کلب کی کمپاؤنڈ کے پارک سے دو آدمی اس کی طرف بڑھے۔
"کیا رہا۔" ایک نے پوچھا۔
"مل گیا۔" بیگ والے نے کہا۔
"کاغذات ہیں بھی یا نہیں۔"
"میں نے کھول کرنہیں دیکھا۔"
"گدھےہو۔"
"وہاں کیسے کھول کر دیکھتا۔"
"لاؤ۔۔۔ ادھر لاؤ۔" اس نے ہینڈ بیگ اپنےہاتھ میں لیتے ہوئے کہا! پھر چونک کر بولا۔ "اوہ! یہ اتنا وزنی کیوں ہے۔"
اس نے بیگ کھولنا چاہا لیکن اس میں قفل لگا ہوا تھا۔
"چلو یہان سے"تیسرا بولا "یہاں کھولنےکی ضرورت نہیں۔"
کمپاؤنڈ کے باہر پہنچ کر وہ ایک کار میں بیٹھ گئے۔ ان میں سے ایک کار ڈرائیو کرنے لگا۔
شہر کی سڑکوں سے نکل کر کار ایک ویران راستے پر چل پڑی آبادی سے نکل آنے کے بعد انھوں نے کار کے اندر روشنی کردی۔
ان میں ایک جو کافی معمر مگر اپنے دونوں ساتھیوں سے زیادہ طاقتور معلوم ہوتا تھا ایک پتلے سے تار کی مدد سے ہینڈبیگ کا قفل کھولنے لگا اور پھر جیسے ہی ہینڈ بیگ کا فلیپ اٹھایا گیا پچھلی سیٹ پربیٹھے ہوئے دونوں آدمی بے ساختہ اچھل پڑے۔ کوئی چیز بیگ سے اچھل کر ڈرائیور کی کھوپڑی سے ٹکرائی اور کار سڑک کے کنارے ایک درخت سے ٹکراتے ٹکراتے بچی۔ رفتار زیادہ تیز نہیں تھی ورنہ کار کے لڑ جانے میں کوئی دقیقی باقی نہیں رہ گیا تھا۔ تین بڑے بڑے مینڈک کار میں اچھل رہے تھے۔
بوڑھے آدمی کے منہ سے ایک گالی نکلی اور دوسرا ہنسنے لگا۔
"شپ اپ" بوڑھا حلق کے بل چیخا۔ "تم گدھے ہو۔ تمہاری بدولت۔۔۔"
"جناب میں کیا کرتا! میں اسے وہاں کیسے کھول سکتا تھا! اس کا بھی تو خیال تھا کہ کہیں پولیس پیچھے نہ لگی ہو۔"
"بکواس مت کرو۔ پہلے ہی اطمینان کر چکا تھا کہ وہاں پولیس کا کوئی آدمی نہیں تھا! کیا تم مجھے معمولی آدمی سمجھتے ہو۔ اب اس لونڈے کی موت آگئی ہے۔ ارے تم گاڑی روک دو۔" کار رک گئی۔
بوڑھا تھوڑی دیر تک سوچتا رہا پھر بولا۔
"کلب میں اس کے ساتھ اور کون تھا۔"
"ایک خوبصورت سی عورت! دونوں شراب پی رہے تھے۔"
غلط ہے! عمران شراب نہیں پیتا۔"
"پی رہا تھا جناب۔"
بوڑھا کسی سوچ میں پڑ گیا۔
"چلو! واپس چلو۔"وہ کچھ دیر بعد بولا۔"میں اسے وہیں کلب میں مار ڈالوں گا۔" کار پھر شہر کی طرف مڑی۔
"میرا خیال ہے کہ وہ اب تک مر چکا ہوگا۔" بوڑھے کے قریب بیٹے آدمی نے کہا۔
"نہیں! وہ تمہاری طرح احمق نہیں ہے!" بوڑھا جھنجھلا کر بولا۔ "اس نے ہمیں دھوکہ دیا ہےتو خود بھی غافل نہیں ہوگا۔"
"تبو وہ کلب ہی سے چلا گیا ہوگا۔"
"بحث مت کرو۔" بوڑھےنے گرج کرکہا۔ "میں اسے ڈھونڈ کر ماروں گا۔ خواہ وہ انے گھر ہی میں کیوں نہ ہو۔
16
عمران چند لمحے بیٹھا رہا پھر اٹھ کر تیزی سے وہ بھی باہر نکلا اور اس نے کمپاؤنڈ کے باہر ایک کار کے اسٹارٹ ہونے کی آواز سنی! وہ پھر اندر واپس آگیا۔
"کہاں بھاگے پھر رہے ہو۔" لیڈی جہانگیر نے پوچھا اس کی آنکھیں نشے سے بوجھل ہورہی تھیں۔
"ذرا کھانا ہضم کر رہا ہوں۔" عمران نے کلائی پر بندھی گھڑی کی طرف دیکھتئے ہوئے کہا۔۔۔ لیڈی جہانگیر آنکھیں بندکرکے ہنسنے لگی۔
عمران کی آنکھیں بدستور گھڑی پر جمی رہیں۔۔۔ پھر وہ اٹھا اب وہ ٹیلیفون بوتھ کی طرف جا رہا تھا۔ اس نے ریسیور اٹھا کر نمبر ڈائل کئے اور ماؤتھ پیس میں بولا۔
"ہیلو سوپر فیاض۔۔۔ میں عمران بول رہا ہوں۔۔۔ بس اب روانہ ہو جاؤ۔"
ریسیور رکھ کر وہ پھر ہال میں چلا آیا۔ لیکن وہ اس بار لیڈی جہانگیر کے پاس نہیں بیٹھا تھا۔
چند لمحے کھڑا ادھر ادھر دیکھتا رہا پھر ایک ایسی میز پر جا بیٹھا جہاں تین آدمی پہلے ہی سے موجود تھے اور یہ تینوں اسکے شناسا تھے اس لئے انہوں نے برا نہیں مانا۔
شائد پندرہ منٹ تک عمران ان کے ساتھ قہقہے لگاتا رہا لیکن اس دوران بار بار اسکی نظریں داخلے کے دروازے کی طرف اٹھ جاتی تھیں۔
اچانک اسے دروازے میں ایک بوڑھا دکھائی دیا جس سے اس نے چند روز قبل کاغذات والا ہینڈ بیگ چھینا تھا۔ عمران اور زیادہ انہماک سے گفتگو کرنے لگا لیکن تھوڑی ہی دیر بعد اس نے اپنے داہنے شانے میں کسی چیز کی تیز چھبن محسوس کی اس نے کنکھیوں سے داہنی طرف دیکھا! بوڑھا اس سے لگا ہوا کھڑا تھا اور اسکا بائیاں ہاتھ کوٹ کی جیب میں تھا اور اسی جیب میں رکھی ہوئی کوئی سخت چیز عمران کے شانے میں چبھ رہی تھی! عمران کو یہ سمجھنے میں دشواری نہ ہوئی کہ وہ ریوالور کی نالی ہی ہوسکتی ہے۔
"عمران صاحب!" بوڑھا خوش اخلاقی سے بولا۔ "کیا آپ چند منٹ کے لئے باہر تشریف لے چلیں گے۔"
"آہا! چچا جان!" عمران چہک کر بولا۔ "ضرور ضرور! مگر مجھے آپ سے شکایت ہے اس لئے آپ کو بھی کوئی شکایت نہیں ہونی چاہئے۔"
"آپ چلئے تو" بوڑھے نے مسکرا کر کہا۔ "مجھے اس گدھے کی حرکت پر افسوس ہے۔"
عمران کھڑا ہو گیا! لیکن اب ریوالور کی نال اس کے پہلو میں چبھ رہی تھی۔ وہ دونوں باہر آئے۔۔۔ پھر جیسے ہی وہ پارک میں پہنچے بوڑھے کے دونوں ساتھی بھی پہنچ گئے۔
"کاغذات کہاں ہیں۔" بوڑھے نے عمران کا کالر پکڑ کر جھنجھوڑتے ہوئے کہا۔ پارک میں سناٹا تھا۔ دفعتا عمران نے بوڑھے کا بائیاں ہاتھ پکڑ کر ٹھوڑی کے نیچے ایک زوردار گھونسہ رسید کیا۔ بوڑھے کا ریوالور عمران کے ہاتھ میں تھا اور بوڑھا لڑکھڑا کر گرنے ہی والا تھا کہ اس کے ساتھیوں نے اسے سنبھال لیا۔ "میں کہتا ہوں وہ دس ہزار کہاں ہیں؟" عمران نے چیخ کر کہا۔
اچانک مہندی کی باڑھ کے پیچھے سے آٹھ دس آدمی اچھل کر ان تینوں پر آپڑے اور پھر ایک خطرناک جدوجہد کا آغاز ہوگیا۔ وہ تینوں بے جگری سے لڑ رہے تھے۔
"سوپر فیاض۔" عمران نے چیخ کر کہا "داڑھی والا۔"
لیکن داڑھی والا اچھل کر بھاگا۔ وہ مہندی کی باڑھ پھلانگنے والا ہی تھا کہ عمران کے ریوالور سے شعلہ نکلا گولی ٹانگ میں لگی اور بوڑھا مہندی کی باڑھ میں پھنس کر رہ گیا۔
"ارے باپ رے" عمران ریوالور پھینک کر اپنا منہ پیٹنے لگا۔
وہ دونوں پکڑے جا چکے تھے! فیاض زخمی بوڑھے کی طرف جھپٹا جو اب بھی بھاگ نکلنے کے لئے جدوجہد کر رہ اتھا۔۔۔۔ فیاض نے ٹانگ پکڑ کر مہندی کی باڑھ سے گھیسٹ لیا۔
"یہ کون؟" فیاض نے اس کے چہرے پر روشنی ڈالی۔ فائر کی آواز سن کر پارک میں بہت سے لوگ اکٹھے ہو گئے تھے۔
بوڑھا بے ہوش نہیں ہوا تھا وہ کسی زخمی سانپ کی طرف بل کھا رہا تھا۔ عمران نے جھک کر اس کی مصنوعی داڑھی نوچ ڈالی۔
"ہائیں!" فیاض تقریبا چیخ پڑا۔ "سر جہانگیر!"
سر جہانگیر نے پھر اٹھ کر بھاگنے کی کوشش کی لیکن عمران کی ٹھوکر نے اسے باز رکھا۔
"ہاں سرجہانگیر!" عمران بڑبڑایا۔ "ایک غیر ملک کا جاسوس۔۔۔ قوم فروش غدار۔۔
17
دوسرے دن کیپٹن فیاض عمران کے کمرے میں بیٹھا اسے تحیر آمیز نظروں سے گھور رہا تھا اور عمران بڑی سنجیدگی سے کہہ رہا تھا۔ "مجھے خوشی ہے کہ ایک بڑا غدار اور وطن فروش میرے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچا۔ بھلا کون سوچ سکتا تھا کہ سر جہانگیر جیسا معزز اور نیک نام بندہ بھی کسی غیر ملک کا جاسوس ہو سکتا ہے۔"
"مگر وہ قبر کا مجاور کون تھا۔" فیاض نے بے صبری سے پوچھا۔
"میں بتاتا ہوں۔ لیکن درمیان میں ٹوکنا مت۔۔۔ وہ بیچارہ اکیلے ہی یہ سارا مرحلہ طے کرنا چاہتا تھا لیکن میں نے اس کا کھیل بگاڑ دیا۔۔۔ پچھلی رات وہ مجھے ملا تھا۔۔۔ اس نے پوری داستان دہرائی۔۔۔ اور اب شائد ہمیشہ کے لئے روپوش ہو گیا ہے۔ اسے بڑی زبردست شکست ہوئی ہے۔ اب وہ کسی کو منہ نہیں دکھانا چاہتا۔"
"مگر وہ ہے کون؟"
"ایاز!۔۔۔ چونکو نہیں میں بتاتا ہوں!۔۔۔ یہی ایاز وہ آدمی تھا جو فارن آفس کے سیکریٹری کے ساتھ کاغذات سمیت سفر کر رہا تھا! آدھے کاغذات اسکے پاس تھے اور آدھے سیکریٹری کے پاس! ان پر ڈاکہ پڑا۔ سیکریٹری مارا گیا اور ایاز کسی طرح بچ گیا۔ مجرموں کے ہاتھ صرف آدھے کاغذات لگے! ایاز فارن آفس کی سیکرٹ سروس کا آدمی تھا۔ لیکن اس نے آفس کو رپورٹ نہیں دی! دراصل وہ اپنے زمانے کا مانا ہوا آدمی تھا اس لئے اس شکست نے اسے مجبور کر دیا کہ وہ مجرموں سے آدھے کاغذات وصول کئے بغیر آفس میں پیش نہ ہو۔ وہ جانتا تھا کہ وہ آدھے کاغذات مجرموں کے کسی کام کے نہیں! وہ بقیہ آدھے کاغذات کے لئے اسے ضرور تلاش کریں گے۔ کچھ دنوں کے بعد اس نے مجرموں کا پتہ لگا لیا۔ لیکن ان کے سرغنہ کا سراغ نہ مل سکا! وہ حقیقتاً سرغنہ ہی پکڑنا چاہتا تھا!۔۔۔ دن گذرتے گئے لیکن ایاز کو کامیابی نہ ہوئی پھر اس نے ایک نیاجال بچھایا!
اس نے وہ عمارت خرید لی اور اس میں اپنے وفادار نوکر کے ساتھ زندگی بسر کرنے لگا۔ اس دوران میں اس نے اپنی اسکیم کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ایک قبر دریافت کی اور پھر یہ میکنزم ترتیب دیا۔ اچانک اسی زمانے میں اس کا نوکر بیمار ہو کر مر گیا۔ ایاز کو ایک دوسری ترکیب سوجھ گئی اس نے نوکر پر میک اپ کرکے اس دفن کردیا اور اس کے بھیس میں رہنے لگا۔ کسی کاروائی سے پہلے اس نے وہ عمارت قانونی طور پر جج صاحب کے نام منتقل کردی اور صرف ایک کمرہ رہنے دیا!۔۔۔ اس کے بعد مجرموں کو اس عمارت کی طرف متوجہ کرنا شروع کردیا۔ کچھ ایسے طریقے اختیار کئے کہ مجرموں کو یقین ہوگیا کہ مرنے والا سیکرٹ سروس کا آدمی تھا اور بقیہ کاغذات اسی عمارت میں کہیں چھپا کر رکھ گیا ہے۔ ابھی حال ہی میں ان مجرموں کی رسائی اس کمرے تک ہوئی جہاں ہم نے لاشیں پائیں! دیوار والے خفیہ خانے میں ہی کاغذات تھے! اس کا اشارہ بھی انہیں ایاز کی ہی طرف سے ملا تھا۔ جیسے ہی کوئی آدمی خانے والی دیوار کے نزدیک پہنچتا تھا۔ ایاز قبر کے تعویذ کے نیچے سے ڈراؤنی آوازیں نکالنے لگتا تھا اور دیوار کے قریب پہنچا ہوا آدمی سہم کر دیوار سے چپک جاتا!۔۔۔ ادھرایاز قبر کے اندر سے میکنزم کو حرکت میں لاتا اور دیوار سے تین چھریاں نکل کر اس کی پشت میں پیوست ہو جاتیں۔۔۔ یہ سب کچھ اس نے محض سرغنہ کو پکڑنے کے لئے کیا تھا۔۔۔ لیکن سرغنہ میرے ہاتھ لگا۔۔۔ اب ایاز شاید زندگی بھر اپنے متعلق کسی کو کوئی اطلاع نہ دے! اور کیپٹن فیاض۔۔۔۔ میں نے اس سے وعدہ کیا ہے کہ اس کا نام کیس کے دوران میں کہیں نہ آنے پائے گا! سمجھے! اور تمہیں میرےوعدے کاپاس کرنا پڑے گا! اور تم اپنی رپورٹ اس طرح مرتب کرو کہ اس میں کہیں محبوبہ یک چشم کا بھی نہ آنے پائے۔"
"وہ تو ٹھیک ہے۔" فیاض جلدی سے بولا! "وہ دس ہزار روپے کہاں ہیں جو تم نے سر جہانگیر سے وصول کئے تھے۔"
"ہاں ٹھیک ہے۔" عمران اپنے دیدے پھرا کربولا۔ "آدھا آدھا بانٹ لیں کیوں؟"
"بکواس ہے اسے میں سرکاری تحویل میں دے دوں گا۔"فیاض نے کہا۔
"ہرگزنہیں!" عمران نے جھپٹ کر وہ چرمی ہینڈبیگ میز سے اٹھا لیا جو اسے پچھلی رات سر جہانگیر کے ایک آدمی سے ملا تھا۔
فیاض نے اس سے ہینڈ بیگ چھین لیا۔۔۔ اور پھر وہ اسے کھولنے لگا۔
"خبردار ہوشیار۔۔۔" عمران نے چوکیدار کی طرح ہانک لگائی لیکن فیاض ہینڈبیگ کھول چکا تھا۔۔۔ اور پھر جو اس نے "ارےباپ" کہہ کر چھلانگ لگائی تو ایک صوفے ہی پر جا کر پناہ لی۔ ہینڈ بیگ سے ایک سیاہ رنگ کا سانپ نکل کر فرش پر رینگ رہا تھا۔
"ارے خدا تجھے غارت کرے عمران کے بچے۔۔۔ کمینے!" فیاض صوفے پر کھڑا ہوکر دھاڑا۔
سانپ پھن کاڑھ کر صوفے کی طرف لپکا فیاض نے چیخ مارکر دوسری کرسی پر چھلانگ لگائی۔۔۔ کرسی الٹ گئی اور وہ منہ کے بل فرش پر گرا۔۔۔ اس بار اگر عمران نے پھرتی سے اپنے جوتے کی ایڑی سانپ کے سر پر نہ رکھ دی ہوتی تو اس نے فیاض کو ڈس ہی لیا ہوتا۔ سانپ کا بقیہ جسم عمران کی پنڈلی سے لپٹ گیا اور اسے ایسا محسوس ہونے لگا جیسے پنڈلی کی ہڈی ٹوٹ جائے گی۔ اوپر سے فیاض اس پر گھونسوں اور تھپڑوں کی بارش کر رہا تھا۔ بڑی مشکل سے اس نے دونوں سے اپنا پیچھا چھڑایا۔
"تم بالکل پاگل ہو۔۔۔ دیوانے۔۔۔ وحشی۔" فیاض ہانپتا ہوا بولا۔
"میں کیا کروں جانِ من۔۔۔ خیر اب تم اسے سرکاری تحویل میں دے دو اگر کہیں میں رات کو ذرا سا بھی چوک گیا ہوتا تو اس نے مجھے اللہ میاں کی تحویل میں پہنچا دیا تھا!"
"کیا سر جہانگیر۔۔۔؟"
"ہاں!۔۔۔ ہم دونوں میں مینڈکوں اور سانپوں کا تبادلہ ہوا تھا!" عمران نے کہا اور مغموم انداز میں چیونگم چبانے لگا! اور پھر اس کے چہرے پر وہی پرانی حماقت طاری ہوگئی۔۔۔!
ختم شد