صفحات

تلاش کریں

نغمہ گر(احمد فراز کے مجموعہ"بے آواز گلی کوچوں میں" سے نظموں کا انتخاب)

فہرست
نا موجود. 5

دُوسری ہجرت... 6

بن باس.. 7

فیضؔ کے فراق میں... 11

قیدِ تنہائی کی چند عبارتیں... 13

آشیاں گُم کردہ 14

پچھلا پہر... 15

بیادِ جاناں.. 17

غزالاں تُم تو واقف ہو.. 18

پاس کیا تھا.. 19

اے شہر میں تیرا نغمہ گر ہوں.. 21

ندیم آنکھیں ندیم چہرہ 23

قاصد کبوتر. 29

عفریت... 31

میری عصر کے مُوسیٰ.. 34

ایک بد نُما صبح کے بارے میں۔۔۔کچھ نظمیں...... 39

حرف کی شہادت.. 45

دشمن کا قصیدہ 47

ہواؤں کی بشارت.. 49

مت قتل کرو آوازوں کو. 51

شہر آشوب... 53

محاصرہ 57










بے آواز گلی کوچوں میں غزل سرا ہے

شہرِ سخن کا ایک مُسافر تنہا تنہا





نا موجود



اَے خُدا تِری مخلوق

جبر کے اندھیروں میں

دفن ہو چُکی کب کی

تیرے آسمانوں سے

نامزد فرشتوں کی

اَب سفارتیں کیسی



بے وجود بستی میں

لوگ اب نہیں رہتے

سسکیاں سسکتی ہیں

سائے سرسراتے ہیں

سُورجوں، ستاروں کی

اَب بشارتیں کیسی

٭٭٭



دُوسری ہجرت



پھر مرے مکّہ سے پیغمبر

ہجرت کر کے چلا گیا ہے

اور اب پھر سے

کعبہ کہ رَم خوردہ بُت

اصنامِ طلائی

اپنی اپنی مسند پہ آ بیٹھے ہیں

سچ کا لہُو

اُن کے قدموں میں

عُنّابی قالین کی صُورت بچھا ہُوا ہے

کمخوابی خیموں کے اندر

بزمِ حریفاں پھر سجتی ہے

کذب و ریا کی دَف بجتی ہے

٭٭٭




بن باس



میرے شہر کے سارے رستے بند ہیں لوگو

مَیں اس شہر کا نغمہ گر

جو دو اِک موسم غُربت کے دُکھ جھیل آیا ہے

تاکہ اپنے گھر کی دیواروں سے

اپنی تھکی ہُوئی اور ترسی ہُوئی

آنکھیں سہلاؤں

اپنے دروازوں کے اُترتے روغن کو

اپنے اشکوں سے صیقل کر لُوں

اپنے چمن کے جلتے ہُوئے پودوں

اور گرد آلود درختوں کی

مُردہ شاخوں پر بین کروں

ہر مہجور ستُون کو اتنا ٹُوٹ کے چوموں

میرے لبوں کے خون سے

ان کے نقش و نگار بھی جی اُٹھیں

گلی کے لوگوں کو اِتنا دیکھوں

اِتنا دیکھوں

میری آنکھیں

برسوں کی ترسی ہوئی آنکھیں

چہروں کے آنگن بن جائیں

پھر میں اپنا ساز اُٹھاؤں

آنسوؤں اور مُسکانوں سے جھِلمل جھِلمل

نظمیں غزلیں گیت سناؤں

اپنے پیاروں

درد کے ماروں کا درماں بن جاؤں

لیکن میرے شہر کے سارے رستوں پر

اب باڑ ہے لوہے کے کانٹوں کی

شہ دروازے پر کچھ پہرہ دار کھڑے ہیں

جو مجھ سے اور مجھ جیسے دِل والوں کی

پہچان سے عاری

میرے ساز سے

سنگینوں سے بات کریں

میں اُن سے کہتا ہوں

دیکھو

میں اس شہر کا نغمہ گر ہُوں

برسوں بعد کڑی راہوں کی

ساری اذیت جھیل کے اب واپس آیا ہوں

اس مٹی کی خاطر

جِس کی خوشبوئیں

دنیا بھر کی دوشیزاؤں کے جِسموں کی مہکوں سے

اور سارے جہاں کے

سبھی گلابوں سے

بڑھ کر ہیں

مجھ کو شہر میں

میرے شہر میں جانے دو

لیکن تَنے ہُوئے نیزوں نے

میرے جِسم کو یوں برمایا

میرے ساز کو یوں ریزایا

میرا ہمکتا خون اور میرے سسکتے نغمے

شہ دروازے کی دہلیز سے

رِستے رِستے

شہر کے اندر جا پہنچے ہیں

اور مَیں اپنے جسم کا ملبہ

ساز کا لاشہ

اپنے شہر کے شہ دروازے

کی دہلیز پہ چھوڑ کے

پھر انجانے شہر کی شہراہوں پر

مجبورِ سفر ہُوں

جن کو تج کر گھر آیا تھا

جِن کو تج کر گھر آیا تھا

٭٭٭







فیضؔ کے فراق میں



اے ماٹی کے لال تجھے سب یاد کریں

یاد کریں بھیگی آنکھوں سے

اور دُکھتے دلوں سے یاد کریں

ہر سال

اے ماٹی کے لال تجھے سب یاد کریں

تیری کویتا میری تیری دھرتی کی سچّائی

تیرے بول ہیں سارے گونگے شہروں کی گویائی

تیرے گیت ہیں امن کی نَے اور آشتی کی شہنائی

آنگن اور چوپال تجھے سب یاد کریں

یاد کریں بھیگی آنکھوں سے

اور دُکھتے دلوں سے یاد کریں

ہر سال

اے ماٹی کے لال

کوئی تجھے دُنیا اپنائے لیکن اپنا شہر

اپنا شہر کہ جیسے حدِّ نظر تک لہُو کی نہر

یہ منصُور و مسیح کی سولی یا سُقراط کا زہر

ہم آشفتہ حال تجھے سب یاد کریں

یاد کریں ہر سال

اے ماٹی کے لال

ہجر کی رت کے روز رہے گی

اور فقط کچھ روز

وصل کی ساعت آ پہنچے گی

اور فقط کچھ روز

راہ کی ر دیوار گرے گی

اور فقط کچھ روز

گلے میں بانہیں ڈال، تجھ سب یاد کریں

اے ماٹی کے لال

تجھے سب یاد کریں

تجھے سب یاد کریں

(ستّرویں سالگرہ پر) ٭٭٭




قیدِ تنہائی کی چند عبارتیں



مانسر کیمپ 77ء


پہلی آواز



اتنا سنّاٹا کہ جیسے ہو سکوتِ صحرا

ایسی تاریکی کہ آنکھوں نے دُہائی دی ہے



جانے زنداں سے ے ادھر کون سے منظر ہوں گے

مجھ کو دیوار ہی دیوار دِکھائی دی ہے



دُور اک فاختہ بولی ہے سرِ شاخِ شجر

پہلی آواز محبت کی سنائی دی ہے

٭٭٭


آشیاں گُم کردہ



عجب منظر سوادِ شام کے آنکھوں میں پھرتے ہیں

ہَوا سورج کی مشعل کو جلاتی ہے ، بجھاتی ہے



اُفق پر کتنی تصویریں ابھرتی ہے ، بِکھرتی ہیں

شفق میں آشنا چہروں کی رنگت پھیل جاتی ہے



تو دامانِ نظر میں بے مَحابا پھول کھلتے ہیں

تو جیسے جوئبار یادِ یاراں گنگناتی ہے



وہ ہمدم مجھ کو حیران و پریشاں ڈھونڈتے ہوں گے

کہ جن کی مہرباں آنکھوں میں شبنم جھلملاتی ہے



قفس میں روزنِ دیوار و زخمِ در نہیں لیکن

نوائے طائرانِ آشیاں گُم کردہ آتی ہے ٭٭٭




پچھلا پہر



نہ کہیں شہرِ مہرباں کی ہوا

نہ کوئی یارِ ہمدم و دمساز



نہ سرِ بام زُلفِ آوارہ

نہ سرِ راہ چشمِ فتنہ طراز



نہ کہیں کوئے چاک داماناں

نہ کوئے دوستانِ فراز



نہ کوئی بیتِ بیدل و غالب

نہ کوئی شعرِ حافطِ شیراز



نہ کوئی شمع کشتۂ شب ہے

نہ کوئی عندلیبِ سینہ گداز



خلوتِ غم نہ بزمِ رسوائی

نہ سوالِ طلب نہ عرضِ نیاز



چار سُو اک فصیلِ بے در ہے

چار جانب حصارِ بے نیاز



نیند کے طائرانِ بے پروا

شاخِ مژگاں سے کر گئے پرواز



ایسی ویرانیوں سے گھبرا کر

جب اٹھاتا ہوں تیری یاد کا ساز



توڑ دیتی ہے سلسلے سارے

پہرہ داروں کی بد نُما آواز

٭٭٭


بیادِ جاناں



دل قفس میں بھی غزل خواں ہے بیادِ جاناں

غمِ جاں بھی غمِ جاناں ہے بیادِ جاناں



کب رگ و پے میں نہ تھا درد کا قاتل نشتر

آج پیوستِ رگِ جاں ہے بیادِ جاناں



یوں صبا آتی ہے گلگشت، جیسے زنداں

کوچۂ چاکِ گریباں ہے بیادِ جاناں

٭٭٭







غزالاں تُم تو واقف ہو



غزالاں تم تو واقف ہو سو ہو مجنوں پہ جو گزری

جو نال محملِ لیلیٰ میں تھا ہم بھی سمجھتے ہیں



ہَوس والوں کو کیا کیا ناز ہے اپنے قرینوں پر

مگر رسم و رہِ شہرِ وفا ہم بھی سمجھتے ہیں



یونہی آئے نہیں کوچۂ چاکِ گریباں میں

مزاجِ دل محبت کی ادا ہم بھی سمجھتے ہیں



"بہار آنے سے پہلے پیرہن میں آگ لگتی ہے "

بسانِ لالۂ آتش قبا ہم بھی سمجھتے ہیں

(کلیمؔ جلیسری)

٭٭٭






پاس کیا تھا



پاس کیا تھا کہ لوٹتی دنیا

ہم تو کل بھی تھے بے سر و ساماں



آج دیوار کھِنچ گئی ہے اگر

شہر کل بھی تھا صورتِ زنداں



کب مُیسّر ہوا تھا روزِ وصال

کب مقدر نہ تھی شبِ ہجراں



اک متاعِ سخن تھی پاس اپنے

ایک سازِ وفا تھا دولتِ جاں



اب بھی خوش بخت ہیں ترے وحشی

اب بھی خوش وقت ہیں ترے ناداں



درد قائم ہے ، یاد باقی ہے

اک تری دید چھِن گئی جاناں

٭٭٭







اے شہر میں تیرا نغمہ گر ہوں



گیتوں سے تجھے لُبھانے والا

خوابوں سے تجھے سجانے والا

میں تیری اُداس ساعتوں میں

رَونے والا، رُلانے والا

میں تیری خوشی کی محفلوں میں

نغموں کے چراغ لانے والا



ہر راہ میں تیرا ہم سفر ہوں

اے شہر میں تیرا نغمہ گر ہوں



اب ہاتھوں میں مرے ہتھکڑی ہے

اب پاؤں میں میرے بیڑیاں ہیں

اب دستِ صبا ہے دستِ قاتل

اب ابرِ کرم میں بجلیاں ہیں

اب حبسِ دوام میری قسمت

یا میرا نصیب پھانسیاں ہیں



میں اپنی خطا سے بے خبر ہوں

اے شہر میں تیرا نغمہ گر ہوں



پھر بھی نہیں جی کو رنج کوئی

اور آنکھوں میں اشکِ خوں نہیں ہے

پھر بھی نہیں درد دل گرفتہ

میں نالہ بلب ہوں، یُوں نہیں ہے

دیکھو تو بیاضِ شعر میری

اک حرف بھی سرنگُوں نہیں ہے



زنداں میں رہوں کہ اپنے گھر میں

اے شہر میں تیرا نغمہ گر ہوں

٭٭٭






ندیم آنکھیں ندیم چہرہ



ندیمؔ چُپ تھا

مگر سدا کی شفیق آنکھوں پہ

دکھ کی کائی جمی ہوئی تھی

سدا کے اُس مہربان چہرے کا زخم

جو کب کا بھر چکا تھا

وہ پھر ہوا ہو کے کنجِ لب سے دل و جگر تک پہنچ چکا تھا

ندیم چُپ تھا

مجھے تو ایسا لگا کہ جیسے

کِسی نے اُس کے نحیف شانوں سے

اُس کے زندہ وجیہہ سر کو ہٹا کے

زُوبیؔ کا ساختہ چہرۂ سفالیں

لگا دیا ہے

یہ کربِ ضبطِ الم کی حد تھی

بہت سے احباب جمع تھے

جب

عدالتِ عالیہ کہ ایواں سے

مَیں حراست میں

باہر آیا

اِدھر اُدھر لوگ حال احوال پوچھنے کے لئے

کھڑے تھے

تو کشورؔ و کامراںؔ کی آنکھوں میں سسکیاں

اور گلے میں آنسو اٹک گئے تھے

یہ وہ گھڑی تھی

کہ میرے اندر کے حوصلوں کی

سبھی چٹانیں تڑخ رہی تھیں

وہ زلزلہ سا وجود میں تھا

کہ میری بنیاد ہل رہی تھی

گناہ میری قلم کا سچ تھا

اور اُس کی پاداش میرے یاروں کو

میرے پیاروں کو مِل رہی تھی

یہ ساعتِ جانستاں کڑی تھی

اور اس سے پہلے کہ سچ کا پندار

واہموں سے شکست کھاتا

ندیمؔ کی مہربان آنکھیں

ندیمؔ کے دلنواز لب مجھ سے کہہ رہے تھے

فرازؔ ہم تم تو وہ ہیں

جن کے نصیب میں زندگی کی ساری اذیتیں ہیں

کہ جس مسافت پہ ہم چلے ہیں

وہ حرفِ حق کی مجاہدت ہے

ہمیں حرصِ حَشَم نہ مال و منال کی آرزو رہی ہے

بس اک قلم ہے کہ جس کی ناموس

ہم فقیروں کا کل اثاثہ ہے ، آبرو ہے

بس ایک سچ ہے

کہ جس کی حرمت کی آگہی سے

مرے بدن میں، ترے بدن میں

مرے قلم میں، ترے قلم میں

وہی لہو ہے

کہ جس سے عرفان کی نمو ہے

کہ جس سے انساں کی آبرو ہے

ابھی سے تم ڈولنے لگے ہو

ابھی سے سکھ کے مقابلے مین صعوبتیں تولنے لگے ہو

مجھے بھی دیکھو

کہ جس کے پیراہنِ دل و جاں پہ ساٹھ

پیوند لگ چکے ہیں

تمام پیوند زندگی کی ودیعتیں ہیں

مگر مجھے مضمحل بھی دیکھا!؟

کبھی مجھے مننفعل بھی دیکھا!؟

میں اب بھی دشتِ وفا میں گرمِ سفر ہوں، گرمِ سفر رہا ہوں

کہ میں سمجھتا ہوں

یہ وہ صحرائے درد ہے جس میں

تشنگی ہے ، گرسنگی ہے ، برہنگی ہے

یہاں ملامت کے سنگ۔۔۔طعنوں کے تیر

شرمندگی کے خنجر برس رہے ہیں

یہاں تو ہر راہرو کی گردن میں طوق، پاؤں میں بیڑیاں ہیں

یہاں زنداں کی ظلمتیں اور قتل گاہوں کی لالیاں ہیں

مگر کبھی میں رُکا نہیں ہوں، مگر کبھی میں جھکا نہیں ہوں

یہی تو دشتِ وفا ہے جس میں

تمہارے جسموں، ہمارے جسموں

کے ہر طرف استخواں پڑے ہیں

یہی تو وہ راستے ہیں جن میں

صداقتوں کے امیں لڑے ہیں

فقط ہمیں تو نہیں اکیلے

یہاں بہت سے عَلَم گڑے ہیں

انہیں کے ایثار سے ہی جانبر صداقتیں ہیں

انہیں کے افکار سے ہی

ہم اہلِ دل کی باہم رفاقتیں ہیں

تمہارے بازو ابھی توانا ہیں

جسم میں خون کھولتا ہے

قلم سے عہدِ وفا کیا ہے

قلم تو پھر سچ ہی بولتا ہے

اٹھاؤ آنکھیں کہ سچ امر ہے

قلم کا وجدان معتبر ہے

مَیں کنجِ زنداں میں آ چکا ہوں

مگر ابھی تک

مری نگاہوں کے سامنے ہیں

ندیم آنکھیں ندیم چہرہ

٭٭٭







قاصد کبوتر



یہ لہو

جس سے مرے

شہروں کے سارے رستے

گلگوں ہیں

اور ہر پیرہن کا رنگ عنابی ہے

کل کے موسموں

اور آنے والے

سورجوں

کا زمزمہ گر ہے

چلو تم نے تو

کالی سرخیاں

مقراض کر ڈالیں

سخن نخچیر کر ڈالے

قلم زنجیر کر ڈالے

مگر اب ان ہواؤں کو بھی روکو

جو تمہارے مقتلوں کی لالیاں

اور تازہ خوں کی خوشبوئیں

اور اُن کی آوازیں لئے

گلیوں سے

بازاروں سے

شہراہوں سے ہو کر

ہر طرف

قریہ بہ قریہ

پھیلتی جاتی ہیں

نادانو

ہوائیں نامہ بر بنتی ہیں

جب قاصد کبوتر قید ہوتے ہیں

٭٭٭







عفریت



خوفزدہ مائیں

بچوں کو سینے سے لپٹائے

تھر تھر کانپ رہی ہیں



بستی والے کہتے ہیں

برسوں سے

اس قریہ میں

اک آدم خور عفریت ہے

جس کے بہت سے چہرے ہیں

اور جس گھر میں بھی

کسی صدا کی سمع جلے

یا کسی دعا کا پھول کھِلے

وہ صبح سے پہلے

سارے گھر کو کھا جاتا ہے

کتنی بار کئی

دل والے

اپنے دکھی سینوں میں غم کے جَگر جَگر انگارے

اور زخمی آنکھوں میں

جگمگ جگمگ تارے لے کر

اس عفریت کی کھوج میں نکلے ہیں

لیکن اگلی شام

اس ٹیڑھی ترچھی پگڈنڈی پر

جو کالے سانپوں

اور پیلے کانٹوں والے

جنگل کو جاتی ہے

اُن کے سر

ان کے بازو

اُن کی آنکھیں

لہولہان

اور الگ الگ اور ٹکڑے ٹکڑے ملی ہیں

اس منظر کی دید سے اب تک

بستی والوں کے

منہ پر

اور آنکھوں پر

خود اُن کے اپنے ہاتھ دھرے ہیں

٭٭٭







میری عصر کے مُوسیٰ



مالگ

میں لفظوں کا گڈریا

حرفوں کے بُزغالے

میری دنیا ہے

اس دنیا اور اس کے دکھوں کے

بھونچالوں سے

جب بھی مجھے پل دو پل ملتے

اور تجھے

سارے افلاک

اور ساری زمینوں

کے سارے سارے بسنے والوں کے

سارے جھوٹ اور سارے سچ کے

جنجالوں سے مہلت ملتی

ہم آپس میں باتیں کرتے

سیدھی سچّی پیاری باتیں

جبر اور مکر سے عاری باتیں

تو شبنم تھا تو موتی تھا تو خوشبو تھا

میں پتّا تھا میں پتھر تھا میں آنسو تھا

لیکن میل رہا دونوں کا

دونوں ہی نے اکثر

سُنا کہا دونوں کا

مالک

میں نے اکثر سوچا

تُو جس کو

دن کا آرام

نہ راتوں کی نیندیں حاصل ہیں

ساری دنیاؤں کی مسافت

کرتے کرتے

اپنے گلّوں اور گلّوں کے چرواہوں کی

چاہت کا دَم بھرتے بھرتے

شہد کی نہریں زہر کے ساگر

تکتے تکتے

کبھی کبھی تھک جاتا ہو گا

تیرے گیسو

کاہکشاں کی دھُول سے اَٹ جاتے ہوں گے

اور تیرے شانے

سارے زمانے کے انبار سے

دُکھتے ہوں گے

تیرے پاؤں

ازل سے لے کر ابد تلک

پھیلے ہوئے صحراؤں کے سفر سے

چھالوں سے پٹ جاتے ہوں گے

اور تیرے پیوند لگے

ملبوس کے بخیئے

شاید جگہ جگہ سے

نکل چکے ہوں

مالک

تُو اک روز اگر

سارے زمانے سارے ٹھکانے سارے فسانے

بھول کے میرے پاس آئے تو

میں تیرے ریشم جیسے

لانبے بالوں کو

بستی کے واحد چشمے کے

چاندی جیسے پانی سے دھوؤں

تیرے تھکے ہوئے شانوں کو

آہستہ آہستہ دابوں اور سہلاؤں

تیرے چھلنی چھلنی پاؤں کے تلوؤں سے

ساری تھکن کے کانٹے چُن لوں

تیرے دریدہ پیراہن کے

اِک اِک چاک کو ٹانکوں

اور جب تجھ کو پیاس لگے

یا بھوک لگے تو

سچے لفظوں کی سب سے اچھی بھیڑوں کا

خالص تازہ دودھ پلاؤں

اور پھر تجھ کو

اپنی نَے کی روتی ہوئی آنکھوں کے

سسکتے گیت سناؤں

تاکہ تُو صدیوں کا جاگا تھکا ہوا

اس کھُلی فضا کے میدانوں میں

کچھ لمحوں کو سو جائے ۔۔۔آرام کرے

مالک

تو میری باتوں پر

کتنی محبت سے ہنستا ہے

لیکن میرے عصر کے مُوسیٰ

برہم ہیں

٭٭٭





ایک بد نُما صبح کے بارے میں۔۔۔کچھ نظمیں





جم گیا ہے آنکھوں میں ایک بد نُما منظر

اب تو سب کے سب چہرے قاتلوں سے لگتے ہیں





جلّاد



تو نے کب یہ سوچا ہے معصوم ہے کون اور قاتل کون

تو نے کب یہ دیکھا ہے کوئی چہرہ کیسا لگتا ہے

ایسے بھی ہوتے ہوں گے جن سے سُولی بھی شرماتی ہو

ایسے بھی جن سے دار کا تختہ سجا سجا سا لگتا ہے



جھوٹ کا عمّامہ ہے کوئی یا پرچم ہے سچائی کا

تو کیا جانے کس کے منارۂ سر پہ کمند افگندہ ہے

وہ منصور کا حرفِ انا ہو یا عیسیٰ کی شمعِ دُعا

تجھ کو کیا نخچیر ترا کوئی مولا ہے کوئی بندہ ہے



درباروں سے ہو کر جب انصاف کا قاصد آتا ہے

سب کو خبر ہے بے گُنہی کا اکثر جو انجام ہوا

میزانیں کِن ہاتھوں میں تھیں، جُنبشِ ابرو کس کی تھی

کس پر اہلِ عدالت گرجے ، کس پر لطفِ اکرام ہوا



محفل محفل مقتل مقتل سب بِسمل جلّاد ہے کون

کوئی سمجھ کر بھی نہیں سمجھے ، کوئی اشارہ جانے ہے

نام ہے کس کا، دام ہے کس کا اور یہاں صیّاد ہے کون

"جانے نہ جانے گُل ہی نہ جانے ، باغ تو سارا جانے ہے "

٭٭٭








چلو اُس شہر کا ماتم کریں



چلو اُس شہر کا ماتم کریں

جس کے سبھی موسم ہمیں پیارے تھے

وہ رُت چاک دامانی کی تھی

یا خون رونے کی

ہوائے مہرباں کی راہ تکنے کا زمانہ تھا

کہ فصلِ لالۂ لعلیں کی حسرت میں

بدن انگار ہونے کا

سبھی موسم ہمیں پیارے رہے اس شہر کے

جو بد مقدّر تھا

کہ جس کی ساری دیواریں فصیلیں تھیں

کوئی روزن نہ رکھتی تھیں

وہ جس کی دُود کش پہنائیاں

آنکھیں جلاتی تھیں

مگر روشن نہ رکھتی تھیں

ڈری سہمی ہوئی خلقت کی لاشیں

اس لئے گلیوں میں پھرتی تھیں

کہ وہ مدفن نہ رکھتی تھیں

مگر پھر بھی ہمیں اِس شہر سے

کتنی محبت تھی

محبت ہے

یکہ یہ شہرِ سحر نا آشنا

جس کا مقدّر رات تھی یا صبحِ کاذب تھی

گلی کوچوں میں

بازاروں میں

دہلیزوں پہ بیٹھے منتظر لوگو

تمہیں بھی صبحِ صادق کا تصوّر

خواب پیارا تھا

ہمیں بھی تھا

چلو تاروں کا قتلِ عام بھی ہم کو گوارا تھا

ہمیں بھی اور تمہیں بھی

جن سیہ راتوں نے مارا تھا

یہی سنتے رہے ہم تم

انہیں کے دامنوں میں صبحِ صادق کا ستارا تھا

مگر اس مرتبہ

جس جھٹپٹے کو

روشنی کا اوّلیں زینہ سمجھ بیٹھے

اُس کی آخری منزل پہ

اب سورج کی نیلی لاش رکھی ہے

(کسی آسیب نے شب خون مارا تھا)

مگر اب سب کے چہرے اس قدر فق

اور بازو اس قدر شل ہیں

کہ جیسے کور چشماں گورکن

مصلوب سورج کی بجائے

شہر کو دفنا کے آئے ہوں

چلو اُس شہر کا ماتم کریں

جس کے سبھی موسم ہمیں پیارے رہے

اور ہم جسے خود اپنے ہاتھوں سے

کفن پہنا کے آئے ہیں

جسے دفنا کے آئے ہیں

٭٭٭









حرف کی شہادت



آؤ جس عیسیٰ کو ہم نے سولی پر لٹکایا ہے

اُس کے لہو لہان بدن پر بین کریں

اور اشک بہائیں

فرض میں پورے اتر چکے

اب قرض چکائیں

اس کی کھڑاؤں وہ لے جائے

جس نے صلیب بنائی تھی

چادر کا حقدار وہی ہے

جس نے کیل لگائی تھی

اور کانٹوں کا تاج ہے اُس کا

جس کی آنکھ بھر آئی تھی



آؤ اب ہم سب عیسیٰ ہیں

لوگوں کو بتلائیں

مُردوں کو زندہ کرنے کا

معجزہ بھی دکھلائیں

لیکن اُس کا حرف تھا سب کچھ

حرف کہاں سے لائیں؟

٭٭٭







دشمن کا قصیدہ



ہم کہ تلوار کے دشمن تھے

کہ تلوار عدو تھی اپنی

اب مدح خواں ہیں

کہ تلوار کا کردار بھی تھا

اور حریف اپنا

کوئی یارِ جگر دار بھی تھا

اور وہ یارِ جگر دار طرحدار بھی تھا

نہ کہ بارود کی نالی

نہ کہ فولاد کا خول

نہ کہ بزدل کا مؤقف

نہ کہ کم ظرف کا بول

کہ ہمیشہ رہی تلوار

کسی حرفِ صفا کی مانند

سچ کے پرچم کی طرح

دل کی صدا کی مانند

نہ کہ مُلّا کی قبا اور ریا کی مانند

نہ منافق کی دُعا کی مانند

٭٭٭







ہواؤں کی بشارت



تمام ماؤں کے ہونٹ پتھر ہیں

اور آنکھوں میں زخم ہیں

اور دل تپکتے ہیں

رات کہتی ہے

"ان کے بیٹوں کو

شب گئے

چند لشکری

ساتھ لے گئے تھے

تو اب تلک اُن کی واپسی کی خبر نہیں ہے "

نہ واپسی کا گمان رکھنا

ہوائیں سہمے ہوئے چراغوں سے کہہ گئی تھیں

کہ آنے والی رُتوں کے آغاز تک

تمہارے نصیب میں روشنی کا کوئی سفر نہیں ہے

یہ مائیں پتھر بنی رہیں گی

اور اُن کے آنسو جمے رہیں گے

اور اُن کی آہیں تھمی رہیں گی

نہ جی سکیں گی

نہ مر سکیں گی

٭٭٭







مت قتل کرو آوازوں کو



تم اپنے عقیدوں کے نیزے

ہر دل میں اُتارے جاتے ہو

ہم لوگ محبت والے ہیں

تم خنجر کیوں لہراتے ہیں



اِس شہر میں نغمے بہنے دو

بستی میں ہمیں بھی رہنے دو



ہم پالنہار ہیں پھولوں کے

ہم خوشبو کے رکھوالے ہیں

تم کس کا لہو پینے آئے

ہم پیار سکھانے والے ہیں



اس شہر میں پھر کیا دیکھو گے

جب حرف یہاں مر جائے گا

جب تیغ پہ لَے کٹ جائے گی

جب شعر سفر کر جائے گا



جب قتل ہوا سُر سازوں کا

جب کال پڑا آوازوں کا



جب شہر کھنڈر بن جائے گا

پھر کس پر سنگ اٹھاؤ گے

اپنے چہرے آئینوں میں

جب دیکھو گے ڈر جاؤ گے

٭٭٭





شہر آشوب



اپنی بود و باش نہ پوچھو

ہم سب بے توقیر ہوئے

کون گریباں چاک نہیں ہے

ہم ہوئے ، تم ہوئے ، میرؔ ہوئے



سہمی سہمی دیواروں میں

سایوں جیسے رہتے ہیں

اس گھر میں آسیب بسا ہے

عامل کامل رہتے ہیں



دیکھنے والوں نے دیکھا ہے

اک شب جب شب خون پڑا

گلیوں میں بارود کی بُو تھی

کلیوں پر سب خون پڑا



اب کے غیر نہیں تھا کوئی

گھر والے دشمن نکلے

جن کو برسوں دودھ پلایا

ان ناگوں کے پھن نکلے



رکھوالوں کی نیّت بدلی

گھر کے مالک بن بیٹھے

جو غاصب تھے ، محسن کُش تھے

صوفی سالک بن بیٹھے



جو آواز جہاں سے اٹھی

اُس پر تِیر تَبر برسے

ایسے ہونٹ سلے لوگوں کے

سرگوشی کو بیے ترسے



گلی گلی میں بندی خانے

چوکی چوکی میں مقتل ہیں

جلّادوں سے بھی بڑھ چڑھ کر

منصف وحشی پاگل ہیں



کتنے بے گنہوں کے گلے پر

روز کمندیں پڑتی ہیں

بوڑھے بچے گھروں سے غائب

بیبیاں جیل میں سڑتی ہیں



اس کے ناخن کھینچ لئے ہیں

اس کے بدن کو داغ دیا

گھر گھر قبریں در در لاشیں

بجھا ہر ایک چراغ دیا



ماؤں کے ہونٹوں پر ہیں نوحے

اور بہنیں کُرلاتی ہیں

رات کی تاریکی میں ہوائیں

کیسے سندیسے لاتی ہیں



قاتل اور درباری اس کے

اپنی ہٹ پر قائم ہیں

ہم سب چور لُٹیرے ڈاکو

ہم سب کے سب مجرم ہیں



ہمیں میں کوئی صبح سویرے

کھیت میں مُردہ پایا گیا

ہمیں سا دہشت گرد تھا کوئی

چھُپ کے جسے دفنایا گیا



سارا شہر ہے مُردہ خانہ

کون اس بھید کو جانے گا

ہم سارے لا وارث لاشیں

کون ہمیں پہچانے گا

٭٭٭






محاصرہ



مرے غنیم نے مجھ کو پیام بھیجا ہے

کہ حلقہ زن ہیں مرے گرد لشکری اُس کے

فصیلِ شہر کے ہر بُرج ہر منارے پر

کماں بدست ستادہ ہیں عسکری اُس کے



وہ برق لہر بجھا دی گئی ہے جس کی تپش

وجودِ خاک میں آتش فشاں جگاتی تھی

بچھا دیا گیا بارود اُس کے پانی میں

وہ جوئے آب جو میری گلی کو آتی تھی



سبھی دریدہ دہن اب بدن دریدہ ہوئے

سپردِ دار و رسن سارے سر کشیدہ ہوئے



تمام صوفی و سالک سبھی شیوخ و امام

امیدِ لطف پہ ایوانِ کجکلاہ میں ہیں

معززینِ عدالت حلف اٹھانے کو

مثالِ سائلِ مبرم نشستہ راہ میں ہیں

تم اہلِ حرف کے پندار کے ثنا گر تھے

وہ آسمانِ ہنر کے نجوم سامنے ہیں

بس اک مصاحبِ دربار کے اشارے پر

گداگرانِ سخن کے ہجوم سامنے ہیں



قلندرانِ وفا کی اساس تو دیکھو

تمہارے پاس ہے کون آس پاس تو دیکھو



سو شرط یہ ہے جو جاں کی امان چاہتے ہو

تو اپنے لوح و قلم قتل گاہ میں رکھ دو

وگرنہ اب کے نشانہ کمانداروں کا

بس ایک تم ہو، سو غیرت کو راہ میں رکھ دو



یہ شرط نامہ جو دیکھا تو ایلچی سے کہا

اُسے خبر نہیں کہ تاریخ کیا سکھاتی ہے

کہ رات جب کسی خورشید کو شہید کرے

تو صبح اک نیا سورج تراش لاتی ہے



سو یہ جواب ہے میرا مرے عدو کے لئے

کہ مجھ کو حرصِ کرم ہے نہ خوفِ خمیازہ

اُسے ہے سطوتِ شمشیر پر گھمنڈ بہت

اُسے شکوہِ قلم کا نہیں ہے اندازہ



مرا قلم نہیں کردار اُس محافظ کا

جو اپنے شہر کو محصور کر کے ناز کرے

مرا قلم نہیں کاسہ کسی سبک سر کا

جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے



مرا قلم نہیں اوزار اُس نقب زن کا

جو اپنے گھر کی ہی چھت میں شگاف ڈالتا ہے

مرا قلم نہیں اُس دُزدِ نیم شب کا رفیق

جو بے چراغ گھروں پر کمند اچھالتا ہے



مرا قلم نہیں تسبیح اُس مُبلّغ کی

جو بندگی کا بھی ہر دم حساب رکھتا ہے

مرا قلم نہیں میزان ایسے عادل کی

جو اپنے چہرے پہ دُہرا نقاب رکھتا ہے



مرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی

مرا قلم تو عدالت مرے ضمیر کی ہے

اسی لئے تو جو لکھا، تپاکِ جاں سے لکھا

جبھی تو لوچ کماں کا، زباں تِیر کی ہے



میں کٹ گروں کہ سلامت رہوں، یقیں ہے مجھے

کہ یہ حصارِ ستم کوئی تو گرائے گا

تمام عمر کی ایذا نصیبیوں کی قسم

مرے قلم کا سفر رائیگاں نہ جائے گا



سرشتِ عشق نے افتادگی نہیں پائی

تو قدِ سرو نہ بینی و سایہ پیمائی!

٭٭٭



تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید