ماخذ: کینوس ڈائجسٹ
یہ موسم بہار کی آمد سے پہلے اور جاتے ہوئے جاڑے کی ایک سرد گرم ملی جُلی شام تھی، مارچ کا تیسرا ہفتہ تھا جب اُس نے اپنی موندی موندی آنکھوں سے دنیا کو دیکھا اور پہچاننے کی کوشش کی تھی، ساتھ لیٹی ماں کی کراہیں تھیں جو شاید ہر بچے کی طرح اُس نے بھی سنی تھیں اور پھر بلک کر رو دی تھی، دنیا سے ہر انسان کا ہی تعارف اسی طرح رو کر ہوتا ہے اور بعد کا پھر سارا سفر انسان روتے اور رُلاتے ہوئے ہی طے کرتا ہے، وہ برسات کی جھڑی اپنے مقسوم میں لے کر آئی تھی یا جس دنیا میں آ گئی تھی وہاں اُس کی تقدیر اس سیاہی سے لکھی جانی تھی جسے آنسو کہتے ہیں ، وہ نہیں جانتی تھی، وہ تو یہ بھی نہیں جانتی تھی کہ اُس نے دنیا کے جس حصے میں آنکھ کھولی ہے اس کا تذکرہ معاشرے میں ہمیشہ ہتک سے، کراہیت سے کیا جاتا ہے اور یہ ہتک یہ کراہیت اس مخصوص جگہ کی ہیبت، رعب اور رنگینی کے اثرات کو کبھی بھی زائل نہیں ہونے دیتی، ہتک، کراہیت رکھنے کے باوجود وہ ’’دنیا‘‘ عام دنیا والوں کیلئے ایک عجیب ہی جادوئی تجسس رکھتی ہے، یہ وہ ’’ ممنوعہ علاقہ ‘‘ہے جس کی سرحد ہمیشہ مردوں نے رات کی تاریکی میں اپنی وحشت کے ہاتھوں زیر ہو کر پھلانگی ہے اور یہ وہ ’’حیرت کدہ ‘‘ہے جو ہمیشہ عورتوں کی ضرورت کی کوکھ سے جنم لیتا ہے اور پھر مرد و زن کے وحشت و ضرورت کے ’’ تال میل ‘‘سے ہی پھلتا پھولتا ہے اور پھر جو کہانیاں اس کے کارن وجود میں آتی ہیں وہ دنیا کی تاریخ کیلئے داستان اور انسانی اخلاقیات کی تاریخ کیلئے تازیانہ ثابت ہوتی ہیں ۔
سانولی سلونی، جھیل بھنور سیاہ گہری آنکھوں والی وہ دبلی پتلی بچی اپنی ساحر مسکراہٹ لئے ایک گود سے دوسری گود تک کا سفر قلقاریاں مارتے ہوئے کرتی رہی، اُس کے نین نقش دیکھ کر نام تجویز ہوا ’’پُتلی‘‘ جس نے بھی یہ نام اُسے دیا تھا بڑی ہی کالی زبان تھی اُس نیک بخت کی کہ ’’پُتلی‘‘ پھر ایک عرصہ ’’پُتلی‘‘ ہی بنی رہی اور جب رخصت ہونے لگی تو۔
مگر وقت رخصت سے قبل وہ حیرت کدے کی طلسم، رنگین گھور چکا چوند والی ہوشربا داستان ’’ان کہی‘‘ ہی چھوڑ گئی، وہ داستان کہ جس کا ظاہر بڑا ہی پُر رونق، سرور اور اور ہیجان انگیز ہے مگر جس کا باطن لفظ لفظ صرف اذیت ہے، تنہائی ہے اور عبرت ہے۔
٭٭٭
یہ سن انتالیس کا علی گڑھ ہے، وہ علی گڑھ جو مسلمانان ہند کی تعلیم و تربیت کی آماجگاہ ہے، جہاں مسلمانوں کی ہندوستان میں آئندہ زندگی سے متعلق اندازے و قیافے لگائے جاتے ہیں اور یہ منطقی نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ بر صغیر کے مسلمانوں کی بھلائی و عافیت اسی میں ہے کہ وہ علم کو اپنی قسمت کی لونڈی بنانے کی پھر سے کوششیں کریں ، آزاد مملکت کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے مگر وہ محلہ مسلمانان ہند کی تعلیم و ترقی، تربیت اور آزادی کے سلسلے میں کوئی کردار ادا نہیں کر رہا، وہ محلہ علی گڑھ میں خوبصورت اور طرح دار عورتوں ، اُن کے ناز و انداز، اُن کی چال ڈھال، ان کے گلے کے سُر اور پیروں کے نرت کے حوالے سے مشہور تھا، بڑی بڑی سکہ بند مغنیائیں اور رقاصائیں اس محلے کے فلک پر نمودار ہوئیں اور پھر تا دیر اپنے فن کے چاند اور جلووں کے ستارے بکھیرتے ہوئے آسمان کا سورج بنی رہیں ، اسی محلے کے ایک چوبارے میں اقبال بیگم پان کی گلوری منہ میں دبائے بیٹی کو سمجھانے کی کوشش میں مصروف تھی مگر بیٹی تو کچھ سننے سمجھنے جو گی ہی نہیں رہی تھی۔
’’دیکھ تُو خواہ مخواہ میں حجت کر رہی ہے، یہی وقت ہے بمبئی میں قسمت آزمانے کا، تجھے بچیوں کا خیال ہے نا تو بٹیا آخر تیری ماں کس مرض کی دوا ہے، مجھ پر چھوڑ انہیں ، میں اچھے سے سنبھال رکھوں گی‘‘۔
’’ماں ! میری بچیاں جیتی جاگتی انسان ہیں ،یہ آرائشی سامان نہیں ہیں جن کی دیکھ ریکھ کے خیال سے انہیں سنبھال کر رکھ دو گی‘‘ بیٹی نے بے حد سبھاؤ سے کہا تھا۔
’’تُو ایک فیصلہ ابھی کر لے، اگر تُو یہ چاہتی ہے کہ تیرا ہندوستان میں شہرہ ہو، تیرے نام کا ڈنکا پٹے، فلم کی بڑی ہیروئین کہلائے تو بٹیا یہ فن بڑی قربانی مانگتا ہے، لوہے کے چنے چبانے پڑتے ہیں تب کہیں جا کر کوئی مقام بنتا ہے ‘‘ اقبال بیگم کے لہجے میں جذبات نہیں تجربہ بولتا تھا۔
’’ماں ! میں کب انکاری ہوں ، شوق ہے میرا، پھر فن ہے خدا کا دیا ہوا لیکن یہ مامتا بھی تو خدا کی ہی دین ہے روشن تو چلو میں سوچ لیتی ہوں رہ لے گی کسی نہ کسی طرح لیکن پُتلی‘‘ لحظہ بھر کو وہ رُکی اور گود میں سوئی چند مہینوں کی پُتلی کو چھاتی سے لگا لیا ’’پُتلی تو دودھ پیتی ہے ماں ، اسے تو نہیں چھوڑ کر جا سکتی‘‘۔
’’تو پھر اسے ساتھ لے جا، دودھ پیتی بچی کو چھاتی سے لگا کر جس فلم کمپنی میں بھی جائے گی نا تو تجھے ’’ماں ‘‘ کا رول ہی ملے گا، ہندوستان کے جس سینے پر اپنے رقص اور خوبصورتی کا ترشول تُو گاڑنا چاہتی ہے وہ تیری ہی خواہش کے گلے پر چلے گا‘‘ اطمینان سے اقبال بیگم نے کہا تھا، وہ خاموش رہی، اقبال بیگم نے لمحہ بھر کیلئے اچٹتی سی نگاہ بیٹی پر ڈالی، لوہا گرم تھا اُسے بخوبی اندازہ ہو گیا تھا۔
’’اچھا چل، چند ماہ اور انتظار کر لیتے ہیں ، میں پیغام بھجوا دیتی ہوں تیری بہن کو، وہ کوئی بہانہ کر دے گی فلم کمپنی والوں سے ‘‘ نرم لہجے میں اقبال بیگم نے چارہ ڈالا تھا، ’’مگر یہ ذہن میں رہے یہ بھنک بھی اگر پڑ گئی نا کسی کو کہ تُو دو بیٹیوں کی ماں ہے تو سمجھ لے تُو کبھی بھی ہیروئین نہیں بن سکے گی، ارے تماش بین ہو یا فلم بین وہ تھیٹر ’’عورت‘‘ دیکھنے جاتا ہے، ’’ماں ‘‘ نہیں ‘‘ اقبال بیگم نے مزید کہا تھا۔
وہ ہنس پڑی تھی۔
’’ماں ! اب یہ بنیادی کاروباری نقطہ بھی مجھے تم سمجھاؤ گی ‘‘۔
اقبال بیگم طرح داری سے مسکرا دی تھی۔
اقبال بیگم کے اندازے کے عین مطابق چند ماہ لگے تھے اس کی بیٹی کو مامتا نامی جذبے کی تسکین کرنے میں اور جب یہ جذبہ کچی پکی نیند سو گیا تو ایک رات وہ علی گڑھ سے بمبئی جانے کیلئے ٹرین میں سوار ہو گئی، روشن کو بہلا نا پھسلانا خاصا مشکل امر رہا تھا لیکن وہ نئی گڑیاؤں اور میٹھی گولیوں کے لالچ میں بآسانی آ گئی تھی، رہ گئی پُتلی تو اُسے کوئی لالچ دے کر رام کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی تھی، وہ اس عمر میں تھی ہی کہاں کہ زبان سے کچھ کہہ پاتی، وہ ہاتھ پیر ہلا کر، بُری طرح کُرلا کر روتی تو شاید ماں کے اٹھتے قدموں کے آگے خندق آ جاتی، لیکن وہ تو میٹھی نیند سورہی تھی، ماتھے پر پیار لے کر، سینے کی گرمائش لئے، اُسے تو سویرے یا پھر آدھی رات کو پتا چلنا تھا کہ ماں اُسے چھوڑ کر نام کمانے نکل پڑی ہے۔
’’ماں ! ان کا خیال رکھنا، میں اپنا دل اور جگر چھوڑے جا رہی ہوں ‘‘ چوبارے کی سیڑھیاں اترتے ہوئے صرف ایک لمحے کیلئے وہ ’’ماں ‘‘ بنی تھی۔
’’فکر کا ہے کو کرتی ہے، تُو جانتی ہے اتنے بڑے کنبے کا خیال میں اکیلی جان برسوں سے کرتی آ رہی ہوں ، پھر کچھ دن جاتے ہیں میں بھی تیرے پیچھے ہولوں گی، امام ضامن باندھا ہے نا؟‘‘ اقبال بیگم نے تسلی دیتے ہوئے بات بدل دی تھی۔
اس وقت ایک عورت نے اپنی مامتا کی چیخ گلا پکڑ کر روکی تھی مگر پوری کائنات میں وہ خاموش چیخ پھر بھی بڑی زور سے گونجی تھی، چھاجوں مینہ برس رہا تھا، اُس وقت ایک بچی کا بھی گلا گھونٹا گیا تھا، لیکن اس کا ادراک کسی کو بھی نہ ہوا تھا، نہ اُس وقت، نہ آئندہ آنے والے سالوں کے کسی بھی لمحے میں ایسا ہونا تھا۔
یہ اُس چند ماہ کی پُتلی کی پہلی آزمائش تھی۔
خواہش کے ہاتھوں ہونے والی غیر فطری جدائی کب فطری اور ہمیشگی جدائی میں بدل جاتی ہے؟، کون جانے، کسے خبر۔
٭٭٭
بمبئی میں وہ ایک فلم کمپنی سے دوسری فلم کمپنی تک چکر لگاتی رہی تھی، خوبصورتی تھی، فن تھا، چال ڈھال نشست و برخاست میں وہ نسوانیت و نزاکت تھی جو اُس وقت کا فلم بین سکرین پر دیکھنا چاہتا تھا، رقص پر عبور حاصل تھا، علی گڑھ سے تعلق کی بنیاد پر تلفظ اور املا ایسا اعلیٰ تھا کہ گمان ہوتا تھا کہ ’’علیگی‘‘ ہو، پہننے اوڑھنے کا سلیقہ بھی تھا، آڈیشن کیلئے دھکے کھاتے ہوئے آڈیشن کا پروانہ بھی مل جاتا تھا، فلم کمپنی کے بڑے آڈیشن لیتے بھی تھے، ناپ تول کر پرکھتے بھی تھے، فائنل سکرین ٹیسٹ کیلئے بھی منتخب کر لیا جاتا تھا لیکن ’’قسمت‘‘ کیا چیز ہوتی ہے یہ اُسے ہر بار منزل پر پہنچنے سے چند قدم دور ہی منہ کے بل گرنے پر سمجھ آ جاتا تھا، نہیں ، سمجھ آ جاتا اگر تو وہ واپس علی گڑھ کا قصد کرتی کہ جہاں روشن چار سال کی ہوا چاہتی تھی تو پتلی نے تُتلا کر بولنا شروع کر دیا تھا، اقبال بیگم کے تار کے توسط سے یہ خبر تو ملتی رہتی تھی کہ بچیاں خیر خیریت سے ہیں لیکن وہ عجیب ہی ماں تھی جس کا اندر تین حصوں میں بٹا ہوا تھا۔
اولاد۔
بڑی ہیروئین بننے کا سپنا۔
علی گڑھ کو اپنے نام کا شہرہ دینا کہ اگلی کئی دہائیوں تک اقبال بیگم کا چوبارہ سب سے ممتاز، سب سے منفرد اور سب سے اونچا کہلا سکے۔
اور قسمت تھی کہ ان تینوں حصوں کی دیواریں آپس میں گڈ مڈ کئے جاتی تھی، تصویریں بنتی اور بگڑتی جاتی تھی۔
سارا سارا دن اسٹوڈیوز، فلم کمپنیز کے آفسوں میں جوتیاں چٹخاتی۔
ساری ساری رات جاگتی، تکان سے ہڈیاں ٹوٹتی رہتیں ۔
مستقبل کے اندیشے ناگ بچھو بن کر ستاتے۔
اور میلوں دور علی گڑھ میں بے چین بیٹیوں کا تصور چین سے کمر نہ ٹکانے دیتا ہر چند کہ کمخواب کا بستر تھا، پر چادروں پر جا بہ جا شکنیں راز کھول دیتیں کہ رات رات بھر کس بے آرامی کا دور دوراں تھا کہ خواب جلی نے کروٹیں ہی بدلیں ۔
’’ماں ! کچھ سمجھ نہیں آتا کہ آخر ہر بار کون سی کالی بلی راستہ کاٹ جاتی ہے ‘‘ وہ ہر تار میں کم و بیش یہی ماں کو لکھ بھیجتی۔
’’بٹیا! جب انسان وقت ضائع کرتا ہے تو پھر ضرب کے ساتھ وقت اپنا خراج انسان سے وصولتا بھی ہے، تُو نے محبت کی گٹھلی زندگی میں پھنسا لی چل کوئی بات نہیں ، تُو نے تو شادی کا پھندہ بھی گلے میں باندھ لیا، بٹیا ہم خاندانی طوائفیں ہیں ، ہمیں محبت اور شادی راس نہیں ، خیر،یہ بھی خدا کی کوئی مصلحت رہی پر تُو دل چھوٹا نہ کر، ہمت نہ ہار، کوشش جاری رکھ، تیری بہن کو بھی تاکید کی ہے کہ تیرا خیال رکھے، بلکہ دو چار محفلیں تو اپنی بہن کے گھر پر ہی سجا لے، کوئی بات بن جاتی ہے تو اچھی خبر، نہیں بنی تو دل میلا نہ کرنا، تقسیم تو ہونی ہی ہے اور یہ تو نا ممکن ہے کہ نئے وطن کی عمارت میں ہمارے وجود کی اینٹیں نہ لگیں ، ہم پاکستان جا بسیں گے، یقیناً وہاں بھی جلد ہی فلمی دنیا رونق افروز ہو گی‘‘ جواباً ماں تسلیوں کے ساتھ ساتھ اُس کی غلطیاں بھی گنوا بھیجتی، اچھے دنوں کی امید دلاتی۔
’’ماں ! بچیوں کی خیر خبر میں صرف چند سطریں ہی لکھ بھیجتی ہو، یہ چند سطریں سیراب نہیں کرتیں ، پیاس بڑھا دیتی ہیں ، ماں ! بچیوں کی چند تصاویر بھی بھیجو، میں بہت یاد کرتی ہوں انہیں ‘‘ اُس کی تڑپ قلم نہیں سمو سکتا تھا مگر وہ لکھے جاتی۔
’’بچیوں کی فکر نہ کر، ماشاء اللہ مزے سے ہیں ، عیش کر رہی ہیں ، ذرا دیر کو مچلتی ہیں لیکن میں بہلا لیتی ہوں ، روشن کو بتایا ہے میں نے کہ تیری ماں ہندوستان کی بڑی ہیروئین بننے والی ہے، بہت مشہور، سارا ہندوستان اُس کے گُن گائے گا، وہ بے چاری پلکیں جھپکائے بغیر پٹر پٹر مجھے تکتی جاتی ہے ، اُسے کیا خبر بڑی ہیروئین کیا شے ہوتی ہے، لیکن مانو بٹیا یہی عمر ہے ان دونوں کے کان میں یہ بات پہلے سبق کی طرح پڑ جانی چاہئے آخر انہوں نے ہی خاندان کا نام آگے روشن کرنا ہے ‘‘ اقبال بیگم بچیوں کی تصویروں کے ساتھ عجیب باتیں بھی لکھوا بھیجتی، بچیوں کی تصویریں کئی کئی گھنٹے اُس کے آنسوؤں سے تر رہتیں ، بس اپنی بیٹیوں کے بھی شمع محفل بننے والی بات پر وہ خاموش ہو رہتی،یہ خاموشی خاصی طویل ہو جاتی، وہ اقبال بیگم کی بیٹی تھی، اقبال بیگم جیسا جگر نہیں رکھتی تھی کہ خوشی خوشی اپنی بیٹیوں کا مستقبل بھی اسی چکا چوند چوبارے میں تاریکیوں کی زینت بن جانے دیتی۔
ہر کوشش ناکام جانے پر اقبال بیگم کے جی میں نہ جانے کیا سمائی کہ دونوں نواسیوں اور باقی رقاصاؤں اور خادموں کو لئے علی گڑھ سے بمبئی آن پہنچی۔
’’تُو نے بہتیری سبیل کر چھوڑیں ، اب میں بھی قسمت آزمائی کر لیتی ہوں ، ماں کوشش کرے گی تو کیسے نا نیا پار لگے ‘‘ اقبال بیگم نے بیٹی کو دیکھ کر وثوق سے کہا تھا جو اُس کی بات پر غور کرنے کے بجائے دونوں بچیوں کو سینے سے بھینچے مہینوں اور سالوں کی پیاسی مامتا کی تسکین میں مصروف تھی۔
اقبال بیگم نے بھی بمبئی کا کوئی نامی گرامی سمیت گمنام فلم ساز، فلم اور تھیٹر کمپنی نہ چھوڑی تھی، ہر جگہ وہ بیٹی کو لئے لئے پھری، کئی فلمساز تو پہلے بھی کئی بار سکرین ٹیسٹ اور آڈیشن وغیرہ لے چکے تھے مگر بیل منڈھے نہ چڑھ سکی تو وہ بھی کیا کرتے، نتیجہ یہی نکلنا تھا کہ کنی کترا جاتے یا ٹال دیتے جو اگر اقبال بیگم کی پشت پناہی نہ ہوتی لیکن یہ پشت پناہی کب کسی کی قسمت بدل سکی ہے۔
اقبال بیگم نے اپنی دوسری بیٹی کے گھر ہی اُس کیلئے محافل کا اہتمام کرنا شروع کر دیا کہ شاید کوئی جوہری بیٹی پر نظر کرم ڈال دے، تماش بینوں ، رقص اور گائیکی کے رسیا رؤساء اور امراء کا آنا جانا مزید بڑھتا گیا، اُس کی خوبصورتی کے جلوے جگر جگر جگمگاتے، کوئی تسلیم ہی نہیں کرتا کہ وہ دو بچیوں کی ماں ہے، سب کا متفقہ خیال تھا کہ وہ تو آسمان سے اتری ہی فلم کے پردے پر سماں باندھنے کیلئے ہے، جبکہ وہ ایسی ہر محفل میں اپنے رقص، آواز اور خوبصورتی کی رونمائی کرتے ہوئے یہی سوچتی رہی کہ جلد یا بدیر فلم کے پردے پر جلوہ گر ہو جاؤں گی تو ماں سے کہوں گی کہ اپنی بیٹیوں سے یہ کام نہیں کروانا میں نے، نری خواری ہی خواری جو اگر دل کو خواہش اپنی مٹھی میں کر لے تو ورنہ راحت ہی راحت ہے مگر یہ مشکل کام تھا، وہ جانتی تھی، ماں کسی قیمت پر بھی نہ مانتی،اُسے یہ بھی علم تھا، بغاوت کرنی پڑے گی، کر لے گی لیکن ہر ارادہ پانی کا قطرہ بن کر بکھرا، ہر خواہش نا آسودہ ہی رہ گئی، ہر خواب کانچ کی طرح ٹوٹا، ہوا کیا تھا صرف وبائی مرض پھیلا تھا جس کا وہ بھی شکار ہو چلی اور چٹ پٹ۔
اُس کے تو وہم و گمان میں بھی یہ بات نہ ہو گی کہ اتنی جلدی وہ یوں رخصت لے گی۔
ایک کردار کے چلے جانے سے کہانی کہاں رُکتی ہے۔
کہانی اپنے وقت پر اپنے انداز میں ہی ختم ہوتی ہے۔
یہ زندگی ہے جو جاری رہتی ہے۔
اقبال بیگم کے تو گویا چراغ جلنے سے پہلے ہی گُل ہو گئے، کیا کیا نہ سوچ رکھا تھا مگر ہونی نے ہو کر ہر چیز پر پانی پھیر دیا۔
اگلے کئی مہینے اقبال بیگم ٹھنڈی سانس کے ہنکارے بھرتی اور روتی بلکتی ماں کو تلاش کرتی ہوئی تین سالہ پُتلی کو دیکھ کر آنکھیں نم کرتی۔
روشن کو بہلانا ہمیشہ ہی اقبال بیگم کیلئے آسان رہا تھا، بس یہ پُتلی تھی جو اُسے چین سے بیٹھنے نہ دیتی۔
ساری ساری رات پُتلی روتی، ہتھیلیوں کے اشارے سے ماں کو بُلاتی، اقبال بیگم نے اُسے ایک گڑیا دی کہ یہ ماں ہے۔
پُتلی نے اگلے کئی سال اُس گڑیا سے لپٹ کر گزارے۔
٭٭٭
یہ پاکستان کا شہر کراچی ہے، نئی مملکت کے قیام کے کئی سالوں کے بعد اقبال بیگم اپنی دونوں نواسیوں اور دیگر اہل و عیال کے ساتھ پاکستان ہجرت کی اور کراچی کے نیپئر روڈ کے موسیقی محل میں سکونت اختیار کر لی،یہ وہ علاقہ ہے جہاں رقص و سرور کی رات جاگنے والی اور دن چڑھے تک سونے والی بستی آباد ہے، روشن بارہ برس کی تھی روایت کے مطابق اُس کے رقص اور گلوکاری کے رموز سیکھنے کا سلسلہ بھارت میں ہی شروع ہو چکا تھا، وہاں وہ اپنی خالہ سے تعلیم حاصل کر رہی تھی مگر یہاں ماسٹر غلام حسین کی خدمات حاصل کی گئیں ۔
’’روشن کا تو مشکل ہی ہے لیکن تم پُتلی کو تعلیم دلواؤ، آنے والے دور میں پڑھا لکھا ہونا بے حد سود مند ہو گا‘‘ اقبال بیگم کو ماسٹر صاحب نے مشورہ دیا تھا، اقبال بیگم دور اندیش اور جہاندیدہ خاتون تھیں چنانچہ بات دل کو لگی اور یوں پُتلی کو مقامی سرکاری سکول میں داخل کروا دیا گیا۔
پُتلی سارا دن سکول میں گزار تی۔
روشن سارا دن پیروں میں گھنگرو باندھے رقص سیکھتی یا ہارمونیم پر استاد کے ساتھ ریاض کرتی۔
رات میں دونوں بہنیں اپنے چھوٹے سے کمرے میں باہر مختلف چوباروں سے آنے والی محفلوں کی آوازوں سے بے نیاز دن بھر کی روداد ایک دوسرے کو سناتیں ۔
’’تم کتنا تھک جاتی ہو گی نا روشن گھنٹوں رقص کی مشق کرتے کرتے ‘‘ پُتلی اکثر بہن کے تلووں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتی۔
’’ہاں ! تھک جاتی ہوں مگر اب زیادہ محسوس نہیں ہوتی تکان‘‘ روشن متوازن لہجے میں کہتی۔
’’روشن! سکول میں دوسری لڑکیاں تو رقص اور گانا نہیں سیکھتیں ، پھر ہم کیوں ؟‘‘ وہ الجھتی۔
’’اُن کو ضرورت نہیں ہوتی ہو گی ہمیں تو ہے، ہمارا تو پیشہ ہی یہ ہے ‘‘ روشن اطمینان سے کہتی۔
’’مگر مجھے یہ کام اچھا نہیں لگتا‘‘ پُتلی ناک بھؤں چڑھاتی۔
روشن ہنس پڑتی ’’اچھا تو پھر تم کیا کرو گی؟‘‘۔
گڑیا پہلو میں دبائے وہ ایک لمحے کیلئے سوچ میں پڑ جاتی پھر چمک کر کہتی ’’میں وکیل بنوں گی، وکالت کروں گی‘‘۔
روشن ہنسی سے دوہری ہو جاتی ’’ اور وکیل بن کر کیا کرو گی؟‘‘۔
’’لوگوں کی مدد کروں گی‘‘ وہ بے حد عزم سے کہتی۔
روشن کے قہقہے بلند ہوتے تو وہ ناراضی کے اظہار کے طور پر گڑیا سمیت اُس سے رُخ موڑ کر لیٹ جاتی، تصور میں وہ با وقار عورت آ جاتی جسے اُس نے سکول میں دیکھا تھا، وہ وکیل عورت اُس کے سکول میں اینول فنکشن میں مہمان خصوصی کے طور پر آئی تھی، پُتلی نے اپنی جماعت میں اول آنے پر اُس وکیل عورت سے انعام وصول کیا تھا، اُس عورت نے جھک کر اُسے پیار کیا تھا اُس کی سانولی سلونی رنگت ذہین آنکھوں اور دل آویز مسکراہٹ نے کچھ اس طرح اُسے سحر میں جکڑا تھا کہ وہ اُسے پیار کرنے سے خود کو روک نہ سکی تھی۔
’’بڑی ہو کر کیا بنو گی؟‘‘ اُس نے پوچھا تھا۔
’’آپ جیسی بنوں گی‘‘ بے ساختہ معصومیت میں ڈوبا جواب آیا تھا۔
’’میں ، جانتی ہو میں کون ہوں ؟‘‘
’’آپ وکیل ہیں ‘‘ اُس نے میٹھے لہجے میں کہا تھا، کئی سال ہو گئے تھے اس بات کو مگر پُتلی کے ذہن سے وہ با وقار عورت، اُس کا پُر شفقت برتاؤ اور اپنا جواب نہیں نکلا تھا، بلکہ ہر دوسرے دن وہ ذہن میں اپنے اس ارادے کو دہراتی رہتی تھی۔
میٹرک سے قبل ہی موسیقی محل سے نہ جانے کس فتنے کی چھوڑی ہوئی چنگاری تھی جو سکول جا کر کچھ ایسے پھوٹی تھی کہ ساتھی بچے بچیوں ، اساتذہ اور پرنسپل کے تمسخرانہ لہجوں اور” تم ناچنے گانے والی ہو” کے ایک جملے نے وہ شعلے بھڑکائے کہ پُتلی کے سارے خواب جل کر خاکستر ہوئے ، اپنے نام پر اڑنے والے تمسخر اور کسی جانے والی پھبتیاں وہ سہہ گئی تھی مگر یہ ایک جملہ۔ ۔
اُس جملے نے اُس پر طبقاتی فرق منکشف نہیں کیا تھا، اُس جملے کو کہنے والوں نے اُس چودہ پندرہ سال کی حساس لڑکی کو ٹھونک بجا کر بتا دیا تھا کہ یہاں اخلاقی سطح پر تفرقہ رکھا جاتا ہے ، خود کو اونچے خاندان کا کہلوانے کا جنون کچھ ایسی شدت سے وار کرتا ہے کہ پاکبازوں کا ٹولہ، شرافت کا مینارہ اور اقدار پرستوں کا جھنڈ کسی کی ذہنی، نفسیاتی، شخصی ہستی کے چیتھڑے اڑا کر رکھ دیتے ہیں ۔
وہ روتی ہوئی گھر کو ہولی، نانی اقبال بیگم نے سمجھایا، روشن نے پیار سے چپ کروایا مگر پُتلی کی ہچکیاں ہی بندھی رہیں “تم ناچنے گانے والی ہو” نے محض ایک لمحے میں اُس کے آبائی پیشے کو گالی بنا ڈالا تھا، قابل نفرین۔ ذخیرہ اندوز، غاصب، غنڈے ، جواری و موالی تو دور کسی جھوٹے ، مکار، عیار و فاسد سے وہ نفرت نہیں ہوتی جو ایک ناچنے گانے والی سے مگر یہ بھی عجب ہی روایت ہے کہ یہ دنیا ایک پاکباز اور شریف عورت سے خوف نہیں کھاتی جس قدر ایک طوائف کی اہلیت ہے اچھے اچھوں کی ٹانگوں پر لرزا طاری کر دینے کی۔ اس کا سکول چھوٹا، اقبال بیگم نے رقص کی تربیت کیلئے زور و زبردستی، مار پیٹ ہر نسخہ آزما لیا، وہ بے چاری پُتلی کو سرکشی پر سزا دیتے ہوئے تیر سیدھا کرنے کی کوشش کرتی رہی مگر سب بے سُود۔
” تیری ماں نے بھی رقص سیکھا تھا، ارے ! مانو وہ تو ایسا ناچتی تھی کہ گُمان ہوتا تھا کہ پانی کے موتی ہوا کی تال پر بکھر رہے ہوں ، ایک ایک انگ ایسا کہ کیا خیام کی رُباعی حق ہاہ ! موت کے فرشتے کو بھی عین شباب میں لقمہ بنانے کیلئے وہی ملی تھی ورنہ آج زندہ ہوتی تو فلم کے پردے پر راج کر رہی ہوتی”، اقبال بیگم کی نگاہوں میں ناچتی ہوئی بیٹی کا عکس جھلملا گیا تھا اور نظروں کے سامنے وہ کل کی لونڈیا بیٹھی تھی جو تنفر سے انکاری تھی، اُس آبائی پیشے سے جس سے وہ نسل در نسل رزق حاصل کرتے آ رہے تھے وہ چھٹانک بھر کی لڑکی اُسے ہیچ سمجھتی ہے ” اور ایک تُو ہے ”، لہجے میں گرمی بڑھ گئی” بنو تیری ماں نے جو کام اتنی محبت اور عقیدت سے کیا تیری مجال کہ تُو اُس سے نظریں پھیرے ” اور ماں کے نام پر تو بڑے بڑے کیا کیا نہیں کر گزرتے اُسے تو پھر گھنگھرو باندھ کر استاد جی کے سامنے کھڑا ہونا تھا اور وہ ہو گئی تھی مگر علم ہوا کہ پُتلی کی ٹانگوں کو قدرت نے نرت بھاؤ کے تحت حرکت کرنے کی صلاحیت ہی نہیں دی۔
اور یہ جان کر کہ پُتلی بے تالی ہے زندگی بھر ناچ نہیں سیکھ سکتی اقبال بیگم کو غش آ گیا تھا مگر وہ تِلوں میں تیل نہیں ہے کو قبول کر لینے والوں میں سے نہ تھی، اُس کے خاندان کی لڑکی ہو اور اُسے کوئی فن نہ آئے یہ اقبال بیگم کیلئے ناقابل قبول تھا۔ پُتلی تو بے حد خوش تھی کہ چلو چھٹی ہوئی اب اُس کی گھنٹوں مشق کرنے کی مشقت سے خلاصی ہوئی وہ بے چاری انجان ہی رہی کہ اقبال بیگم اُس کیلئے کچھ اور ہی سوچ چکی ہے ، کچھ ایسا جسے جان کر پُتلی کی سانسیں رُک گئی تھیں ۔
٭٭٭
یہ 1954 کی بات ہے، پاکستان میں 1949 سے ہی فلمیں بننا شروع ہو چکی تھیں مگر یہ وہ وقت تھا جب وسیع پیمانے پر فلم سازی کیلئے کوششیں تیز کی جا رہی تھیں تاکہ باقاعدہ فلم انڈسٹری فعال ہو سکے، لاہور اور کراچی دونوں ہی فلم مرکز کے طور پر ہدایت کاروں ، فلم کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی آماجگاہ بنے ہوئے تھے، کراچی میں منگھوپیر روڈ پر ایسٹرن اسٹوڈیو کا قیام عمل میں آ چکا تھا اور وقت کے لحاظ سے بہترین مشینری اور ایکوئپمنٹس منگوا کر لگوائے گئے تھے، ساتھ ہی کراچی کے نامی گرامی تاجران اور امیر کبیر با اثر شخصیات کو بھی فلم سازی کی جانب راغب کیا جا رہا تھا، نئے موسیقار، لکھاری، کیمرہ مین، گلوکار، شعراء کے ساتھ ساتھ نئے نئے اداکار و اداکاراؤں کی کھوج بھی کی جا رہی تھی۔
نجم نقوی بھی انہی میں سے ایک تھے، متحدہ ہندوستان میں فلم نگری میں پہلی فلم میں 1936 ء ’’اچھوت کنیا‘‘ سے ہدایت کاری کا آغاز کیا تھا، صاحب ثروت تھے، تعلیم یافتہ تھے اور بے حد اچھے خاندان سے تعلق رکھتے تھے، تھیٹر کا شوق تھا جو بعد ازاں فلم کی جانب لے آیا، نجم نقوی نے ہندوستان میں چار فلمز کی ہدایت کاری کی اور چاروں ہی کامیاب رہیں ، ’’رنگیلی‘‘ کی نمائش کے وقت انہیں کراچی سے دعوت ملی کہ یہاں قائم ہونے والی نئی فلم انڈسٹری کو اپنے تجربے سے فیضیاب کریں چنانچہ کراچی چلے آئے۔
ماسٹر غلام حسین کا ایسٹرن اسٹوڈیو میں آنا جانا تھا، نجم نقوی سے بھی میل ملاقات کا سلسلہ تھا، نجم نقوی کی فلم کا سکرپٹ مکمل ہو چکا تھا، گانے کمپوز کئے جا رہے تھے، ہیرو بھی مل چکا تھا مگر ہیروئین کی تلاش ایک مہم بن چکی تھی، ’’بازار‘‘ نجم نقوی جانا نہ چاہتے تھے اور کسی غریب گھرانے میں بھی انہیں گوہر مقصود نہ مل رہا تھا، کھاتے پیتے گھرانوں کے تو لڑکوں کو اجازت نہ تھی کہ وہ بھانڈ میراثیوں والا کام کرتے کجا کہ لڑکیوں کا فلم لائین میں آنا، ماسٹر غلام حسین اس ساری دوڑ دھوپ سے واقف تھے اور در اصل اس انتظار میں تھے کہ نجم نقوی ہر کوشش میں ناکام ہو جائیں تو پھر وہ پُتلی کا ذکر چھیڑیں اور یہ موقع انہیں جلد ہی مل گیا تھا۔
’’آپ جانتے ہیں ماسٹر جی! میں بازار کی کسی لڑکی کو فلم میں نہیں لوں گا‘‘ نجم نقوی نے قطعیت سے کہا تھا۔
’’قبلہ ! ایک بار دیکھ لینے اور مل لینے میں کوئی حرج تو نہیں ‘‘ ماسٹر جی نے سبھاؤ سے کہا تھا۔
’’ماسٹر جی! جب اُن بدنام گلیوں میں جانا ہی نہیں تو پھر ملنے نا ملنے کی بات ہی نہیں ‘‘۔
’’قبلہ! پھر آپ کی فلم کی ہیروئین کہاں سے دستیاب ہو گی؟‘‘ ماسٹر جی چمک کر بولے۔
’’مل ہی جائے گی ماسٹر جی! ڈھونڈنے سے تو خدا بھی مل جاتا ہے ‘‘۔
’’خدا مل جاتا ہے حضور، خاندانی نجابت رکھنے والی ہیروئین نہیں مل سکتی، فلم و تھیٹر میں کام کرنے والیاں اسی بازار سے ہی آتی ہیں ، شرفاء اپنی بیٹیوں کو سکول کالج نہیں بھیجتے فلم میں کام کرنے ضرور دیں گے ‘‘ ماسٹر جی نے ٹھٹھا لگایا، نجم کے ماتھے پر شکنیں ابھری تھیں ۔
’’اتنے مہینوں کی تلاش بسیار کے بعد بھی آپ کو کوئی نہیں مل رہی تو بات واضح ہے، اور کتنے مہینوں تک فلم کو لٹکائیے گا، تھک ہار آپ کو ان بدنام گلیوں میں قدم رکھنا ہی پڑے گا تو پھر ابھی کیوں نہیں ؟‘‘ ماسٹر جی نے لوہا گرم دیکھ کر ایک اور ضرب لگائی تھی۔
’’ٹھیک ہے مگر پہلے آپ اُس لڑکی کی کچھ تصاویر دکھائیں پھر ہی فیصلہ کیا جائے گا‘‘ نجم نے بات سمیٹی تھی۔
ماسٹر جی نے اقبال بیگم کو ساری کتھا بلا کم و کاست کہہ سنائی۔
’’یہ تو بے حد اچھی خبر ہے ماسٹر جی، بس کل ہی تصاویر بنوانے کا بندوبست کئے دیتی ہوں ‘‘ اقبال بیگم نے فوری فیصلہ سنایا تھا، اقبال بیگم کا خیال تھا کہ ایک بار تصویریں نجم نقوی نے دیکھ لیں تو نا ممکن تھا کہ وہ اُسے اپنی فلم کیلئے منتخب نہ کرتے اور خیال ہی خیال میں اقبال بیگم نے پُتلی کو سپر سٹار بنتے ہوئے بھی دیکھ لیا تھا مگر، پُتلی کے انکار نے ارمانوں پر گویا اوس ہی ڈال دی۔
’’بٹیا رانی! یہ نہیں کرو گی تو پھر کیا کرو گی؟‘‘ اقبال بیگم نے ماتھے پر بل لائے بغیر کہا۔
’’وکیل بنوں گی‘‘دو ٹوک جواب۔
جواباً قہقہہ بلند ہوا، اُس نے حیران ہو کر اقبال بیگم کو دیکھا۔
’’ارے سنتے ہیں ماسٹر جی، روشن‘‘ اقبال بیگم نے ہانک لگائی ’’بٹیا رانی وکیل بنیں گی‘‘ قہقہے کا سلسلہ طویل ہوتا گیا،ادھر پُتلی کی حیرانی بڑھتی گئی۔
’’اس میں کونسا مذاق کا پہلو ہے؟‘‘ رہا نہ گیا تو پوچھ بیٹھی۔
’’بٹیا رانی! ہمارا جدی پشتی پیشہ ہے یہ اب تم نئی ریتیں پیدا کرو گی تو مذاق ہی لگے گا نا‘‘ اقبال بیگم نے ایک اور ٹھٹھا لگایا۔
’’بات یہ ہے بٹو! کہ تصویریں تو تمہیں بنوانی پڑیں گی اور فلم میں کام بھی کرنا ہو گا ‘‘ اُس نے کچھ کہنا چاہا تو اقبال بیگم نے درشتی سے ہاتھ اٹھا کر چپ رہنے کا حکم صادر فرما دیا ’’ناچنے کیلئے تم بنی نہیں ہو، بہتیری کوشش کر لی لیکن وہی بے تالی کی بے تالی، لہجے میں مٹھاس ہے، سُر ہے مگر گلا بے سُرا، اب یا تو تم فلم میں کام کرنے کی حامی بھرو یا پھر یہاں سے نکلنے کی تیاری‘‘ اُس نے سر اٹھا کر اقبال بیگم کا چہرہ دیکھا تھا اور سُن رہ گئی تھی، اقبال بیگم کے چہرے پر ایسے برفیلے تاثرات کبھی نہ دیکھے تھے۔
’’مگر جانے سے پہلے اب تک تمہارے اخراجات پر جو رقم ہم نے لگائی ہے وہ ادا کرنی ہو گی‘‘ اقبال بیگم کا لہجہ برف تھا یا زہر وہ سمجھ نہ سکی تھی شاید۔
’’لیکن بٹیا! تمہاری ابھی عمر ہی کیا ہے، زندگی میں دیکھا ہی کیا ہے تم نے ابھی، اس لئے مجھ پر بھروسہ کرو اور جیسا کہتی ہوں ویسا کرتی جاؤ، سکھ ہی سکھ‘‘ اس بار لہجے میں وہی مٹھاس تھی جس کیلئے اقبال بیگم جانی جاتی تھی، وہ خاموش ہو رہی۔
خاموشی سے ہی فوٹو شوٹ کروایا اور خاموشی سے جواب کا انتظار کرنے لگی اور خاموشی سے ہی دل ہی دل میں دعائیں بھی مانگنی شروع کر دیں کہ فلم کیلئے اُسے ناپسند کر دیا جائے، اُس کی تقدیر ان تصویروں کے ہاتھ میں تھی اور ان تصویروں نے تقدیر بدل ڈالی تھی۔
٭٭٭
نجم نقوی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ اپنی زندگی میں اُس وقت تک کا سب سے دلکش چہرہ دیکھنے والے ہیں ، ماسٹر غلام حسین نے تصویریں پیش کر دی تھیں اور ایک نظر پہلی تصویر پر ڈالنے کے بعد وہ پلکیں جھپکنا بھول گئے تھے، تیکھے نقوش، ساحر آنکھیں ، ستواں ناک، اٹھی ہوئی گردن، مسحور کن مسکراہٹ، وہ چہرہ ایسا چہرہ تھا جس سے کیمرہ عشق کرتا ہے، فوٹوجینک چہرے کی ایسی مثال نجم نقوی نے واقعی نہیں دیکھی تھی، اُسی وقت ملاقات کی بات ماسٹر جی سے کہہ دی گئی اور اگلے ہی ہفتے وہ نیپئر روڈ کے اُسی موسیقی محل کے ایک مکان میں بیٹھے تھے جن گلیوں میں قدم نہ رکھنے کا اُن کا چٹانی فیصلہ تھا۔
پُتلی کو لا کر اُن کے سامنے بٹھایا گیا، وہ بغور اُس کی چال ڈھال اور نشست و برخاست جانچ رہے تھے، اُس کی چال میں ایک شاہانہ پن تھا، چہرے پر ناپسندیدگی کے تاثرات تھے مگر وہ چپ چاپ ایک کرسی پر سر جھکا کر بیٹھی تھی۔
’’لکھنا پڑھنا جانتی ہو؟‘‘ پہلا سوال کیا گیا۔
’’جی ہاں ‘‘ میٹھی باریک آواز میں جواب آیا۔
’’فلم دیکھی ہے کبھی؟‘‘ دوسرا سوال کیا گیا۔
’’نہیں ‘‘۔
’’کیوں ؟‘‘
’’مجھے شوق نہیں فلم دیکھنے کا‘‘ نجم جواب سے زیادہ ’’شوق‘‘ کے ’’ق‘‘ پر اٹکے، اتنا عمدہ تلفظ۔
’’پھر میری فلم میں کام کرو گی؟‘‘ مسکرا کر پوچھا گیا۔
’’جی‘‘ مایوس لہجہ۔
’’لیکن تمہیں تو فلم پسند نہیں ‘‘۔
’’بہت کچھ کرنا پڑتا ہے زندگی میں جو انسان کو پسند نہیں ہوتا‘‘ میٹھے لہجے میں کم عمری کے باوجود زندگی کا نچوڑ تھا۔
’’ٹھیک ہے تم جاؤ‘‘ نجم نے اُسے جانے کا کہا تھا، وہ چپ چاپ اٹھ کر کمرے سے چلی گئی، بظاہر اُس دبلی پتلی لڑکی میں کچھ بھی نہیں تھا لیکن نہ جانے کیا بات تھی کہ نجم نقوی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے تھے، انہیں اُس سولہ سترہ سال کی لڑکی میں ایک جادو نظر آیا تھا ایسا جادو جو وہ تصویریں بھی نمایاں نہیں کر سکی تھیں ، عام سی شکل و صورت تھی، نقوش بے حد دل آویز تھے، زبان بے حد میٹھی تھی، تلفظ بالکل درست تھا، اُس دور میں جتنی بھی ہیروئینز فلم میں کام کر رہی تھیں اُن میں سے بیشتر کا اردو کا تلفظ اچھا نہیں تھا اور یہ خامی نجم کو ہمیشہ کھلتی تھی،یہ سب تھا یا پھر اس بازار سے تعلق ہونے کے باوجود وہ نگاہوں کی حیا اور اٹھنے بیٹھنے میں شرم تھی جس نے نجم نقوی کا دل موہ لیا تھا۔
باقی کے معاملات اقبال بیگم سے طے پائے، معاوضہ کی پہلی قسط اُن کو ادا کر دی گئی۔
اور یوں وہ ’’کنواری بیوہ‘‘ کی ہیروئین منتخب کر لی گئی۔
اقبال بیگم کیلئے وہ دن عید کا دن تھا، منتیں نہیں مانی تھیں لیکن پوری ہونے لگی تھیں ، خدا دن پھیرنے والا تھا، پُتلی کو ساتھ لئے لئے اگلے کئی دن وہ مختلف مزاروں اور امام بارگاہوں پر چڑھاوے اور نذرانے دیتی رہیں ، شہر کا کوئی مزار اور امام بارگاہ نہ چھوڑ رکھی تھی، اپنی خوشی میں محو اقبال بیگم نے ایک بار بھی پُتلی کے اترے ہوئے چہرے کو غور سے نہیں دیکھا تھا جس کی روئی روئی آنکھیں رات بھر گریہ وزاری کے راز کھولتی تھیں جن کی امین یا وہ خود تھی یا پھر روشن۔
’’تم کیوں روتی رہتی ہو رات رات بھر؟‘‘ روشن نے پوچھا تھا۔
’’روشن! تم رات رات بھر محفلوں میں ناچتی ہو تو میں کمرے میں رات رات بھر جاگتی ہوں ، تمہارے وجود کے آر پار ہوتی نظریں مجھے بند کمرے میں اپنے جسم پر رینگتی محسوس ہوتی ہیں ، تم محفلوں میں تھرک رہی ہوتی ہو اور میں کمرے میں تڑپ رہی ہوتی ہوں ، لیکن روشن تم تو چند لوگوں کے سامنے ایک بند محفل میں ہوتی ہو مجھے تو ہزاروں لوگ تھیٹر کے پردے پر دیکھیں گے، کیا کیا نہ ہو گا اُن کی نظروں میں ؟‘‘ وہ پھپھک پھپھک کر رو دی۔
’’تم ایک بات سمجھ لو دنیا میں صرف آب زم زم ہی نہیں ہے، گندے پانی کے کیچڑ بھرے جوہڑ بھی اسی دنیا میں ہیں ، کیچڑ کا انتخاب کوئی بھی نہیں کرتا لیکن پھر بھی بہت سے انسان وہاں اتار دیئے جاتے ہیں ، اس میں اُن انسانوں کا کوئی قصور نہیں ہوتا اور نہ ہی میٹھے پانی کے چشمے میں رہنے والوں کا اپنا کوئی کمال، بہتری اسی میں ہوتی ہے کہ انسان حقیقت کو قبول کر لے، اچھی ہے بری ہے یہی ہماری دنیا ہے، ہم اسی کیچڑ میں پیدا ہوئے ہیں اور ہمیں اسی میں رہنا ہے، ہم اگر یہاں سے نکلنا چاہیں گے بھی تو یہ جو دنیا ہے نا یہ ہمیں لات مار کر واپس دھکیل دے گی، منہ کے بل گرنے پر کیچڑ صرف وجود پر نہیں چہرے پر بھی لتھڑتی ہے ‘‘ روشن کی زبان سے اُس سے ایسی باتیں بھلا کب سنی تھیں ، وہ انگشت بدنداں رہ گئی تھی۔
’’رہی بات اس کی کہ فلم بین تمہیں کیسی کیسی نظروں سے دیکھیں گے؟، ہاں یہ چیز تم بدل سکتی ہو، یہ تمہارے اختیار میں ہے ‘‘ اس بار وہ مُسکرائی تھی۔
’’کیسے؟‘‘ وہ حیرانی سے پوچھ بیٹھی۔
’’یہ میں نہیں بتاؤں گی،یہ وقت آنے پر تم خود سوچو گی‘‘۔
نجم نقوی نے اُس کے مزیدفوٹو شوٹ کروائے تھے جنہیں فلمی پرچہ نگار کے سرورق پر نمایاں کر کے چھاپا گیا تھا، راتوں رات وہ پاکستان کے فلم کا شوق و ذوق رکھنے والے لوگوں میں مشہور ہو گئی تھی، ہر ایک اگلے کئی مہینوں تک اُس ساحر شکل و صورت کی سانولی سلونی لڑکی کے گُن گاتا رہا تھا اور اُس کی فلم کی ریلیز کا بے چینی سے انتظار کیا جانے لگا تھا۔
نجم نقوی نے ایک ماہ اپنی تمام تر نئے چہروں پر مبنی کاسٹ سمیت ریہرسلز کروائی تھیں ، باقی سب تو ٹھیک تھا لیکن کیمرے کی آنکھ سے وہ دلکش نظر آنے والی لڑکی جس کے شرمیلے پن نے انہیں متاثر کیا تھا وہی شرم اُن کیلئے درد سر ثابت ہو رہی تھی۔
نجم جانتے تھے کہ اکثر نئے اداکار کیمرے کے سامنے آنے پر گھبراہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں ،نا تجربہ کاری کی بناء پر اکثر لوگوں کے ارد گرد موجود گی کے باعث خائف بھی ہوتے ہیں لیکن پھر دھیرے دھیرے وہ اس طرح کام کرنے کے عادی ہو جاتے ہیں ،یہی وجہ تھی نجم نے گانوں کی عکس بندی بعد کیلئے اٹھا رکھی تھی اور وہ صرف رومانوی اور ڈرامائی مناظر پہلے شوٹ کر رہے تھے، دوسرے نئے اداکار تو آہستہ آہستہ اس طریقہ کار کے عادی ہو رہے تھے بس ایک پُتلی تھی جسے اس ماحول کا عادی ہونے میں مشکل پیش آ رہی تھی، ریہرسلز پر ریہرسلز کرنے کے باوجود جب وہ نئے ہیرو ایاز کے ساتھ رومانوی مکالمے بولنا شروع کرتی اور ہدایات کے مطابق اُسے ہیرو کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنا ہوتا یا قریب جانا ہوتا تو وہ کپکپانے لگتی، اُس کے پسینے چھوٹ جاتے، کبھی مکالمے بھول جاتی، کبھی پاس جانا، نگاہیں ملا کر مکالموں کو بھرپور اداکاری کے ساتھ تو نا ممکن بن کر رہ گیا تھا، چنانچہ پیک اپ ہو جاتا۔
’’مسئلہ کیا ہے آخر؟‘‘ جھنجھلانے کے بجائے نجم نقوی نے پیار سے پوچھا تھا۔
’’مجھے شرم آتی ہے ‘‘ روہانسے لہجے میں جواب۔
’’یہ قدرتی بات ہے شرم تو آئے گی لیکن آہستہ آہستہ عادی بناؤ اس کیلئے ورنہ تم اداکاری کیسے کرو گی‘‘ مشفق لہجہ، وہ خاموش رہی۔
’’بہت کچھ کرنا پڑتا ہے زندگی میں جو انسان کو پسند نہیں ہوتا، تم نے یہی کہا تھا نا؟‘‘ اس نے سر اثبات میں ہلایا تھا۔
’’گھر جا کر سوچنا اپنی اس بات کو، اب سیٹ پر تب آنا جب تم یہ ناپسندیدہ کام کرنے کیلئے خود کو تیار کر لو‘‘ نجم نقوی نے نرم لہجے میں کہا تھا۔
’’کنواری بیوہ‘‘ کے سیٹ سے یہ بات فلمی حلقوں میں مشہور ہو گئی تھی کہ نجم نقوی جس ہیروئین کو متعارف کروا رہے ہیں وہ اس قدر شرمیلی ہے کہ ڈر لگتا ہے کہیں ہیرو کو بھائی ہی نہ کہہ دے، اگلے کئی دن اخبارات میں ایسی خبریں لگتی رہیں اور فلمی مبصرین ہنستے رہے، لیکن اقبال بیگم کیلئے فاتحیہ ساری خبریں اور ہنسی ٹھٹھول مذاق نہیں تھیں ، ایک بار پھر وہ پُتلی کو سامنے بٹھا کر اُس کی گوشمالی کرنے بیٹھ گئی تھیں ، اُن کی تلخ و شیریں باتوں سے زیادہ یہ نجم نقوی کے احترام بھری ڈانٹ کا اثر تھا کہ دو ہفتے بعد جب وہ سیٹ پر پہنچی تو نجم صاحب کو شکایت کا ایک موقع بھی نہیں دیا۔
اور یہ 1956 ء کا قصہ ہے، جب ’’کنواری بیوہ‘‘ بھرپور تشہیر کے ساتھ ریلیز ہوئی اور بُری طرح ناکام رہی۔
اور یہ 1956 ء کا ہی واقعہ ہے جب پاکستان فلم انڈسٹری کو تاریخ پلٹ دینے والی ایک ایسی ہیروئین ملی جس کے وجود سے داستانیں رقم ہونی تھیں ۔
’’شمیم آراء‘‘ فاتح بننے کیلئے آ چکی تھی۔
٭٭٭
اپنی پہلی فلم کی نمائش کے موقع پر وہ دنیا کی پہلی ایسی ہیروئین تھی جو نہ تو خوش تھی اور نہ ہی فلم کا نتیجہ جاننے کی منتظر، نہ ہی اُس کی دھڑکنیں بے ترتیب تھیں ، نہ ہی وہ خدا سے دعائیں کر رہی تھی اور نہ ہی اُسے اپنے وجود کو تھیٹر میں پردے پر دیکھنے کی خواہش ہو رہی تھی، وہ سارا دن کمرہ بند کئے بیٹھی رہی تھی، اُس روز اُس کا دل روشن تک سے کھٹا تھا، بیزاری ہر چیز سے تھی، غصہ نہ جانے کس کس چیز پر آ رہا تھا اور نفرت پتا نہیں کس کس شے سے محسوس ہو رہی تھی اور جو اُس وقت مزید بڑھ گئی تھی جب اقبال بیگم نے زبردستی دروازہ کھلوا کر چٹا پٹ بلائیں لے ڈالی تھیں ، ماتھے پر بوسے دئیے تھے، خوب بھینچ کر گلے لگایا تھا، اقبال بیگم فرط مسرت سے کپکپائے جاتی تھی اور وہ برف کی سل بن گئی تھی۔
فلمی مبصرین نے فلم کی بارے میں جو لکھا سو لکھا لیکن ’’شمیم آراء‘‘ تو پردے پر پہلی جھلک دکھاتے ہی گویا اُن کے حواسوں پر چھا گئی تھی، تقریباً ہر اخبار کے فلم ایڈیشن نے شمیم آراء کی تصویریں نمایاں کر کے چھاپی تھیں ، فلم سازوں کی جانب سے آفرز کا انبار تھا جو اقبال بیگم کے حواس مختل کئے دے رہا تھا، الیاس رشدی نے اس سلسلے میں اقبال بیگم کو سمجھایا کہ یہ فلمی دنیا کا دستور ہے، ہر اُس نئے چہرے کیلئے یہ اپنی بانہیں کھول دیتی ہے جو لوگوں کے دلوں کو چھو جائے لیکن معمولی سی لغزش اس دنیا کے دروازے اُس پر ہمیشہ کیلئے بے دردی سے بند بھی کر دیتی ہے، لہذا محتاط ہو کر فلموں کا انتخاب کرنا ضروری ہے، اس سارے چکر میں کسی نے بھی اُس ’’پُتلی‘‘ کے بارے میں نہیں سوچا جو فلم کی ہیروئین بننے کے باوجود بالکل خاموش ہو کر رہ گئی تھی، فلمی نمائندے اقبال بیگم سے شمیم آراء کے انٹرویوز کیلئے آگے پیچھے پھرنے لگے تھے لیکن اقبال بیگم ہر ایک کو فی الحال ٹکا سا جواب دے رہی تھی،یہ اُن کا لائحہ عمل تھا اور جس کا نتیجہ اُن کے خیال میں یقیناً بہت اچھا نکلنا تھا۔
موسیقی محل میں چشم زدن میں اقبال بیگم کی گڈی آسمان کی وسعت چھونے لگی تھی، وہاں کی کوئی لڑکی ابھی تک فلم پردے پر نہیں آ سکی تھی یہ خیال بھی اقبال بیگم کی طمانیت کا باعث بن رہا تھا، اقبال بیگم اور الیاس رشدی کی مشورے پر ہی شمیم آراء نے کئی فلمز سائین کر لی تھیں اور کچھ فلم سازوں کو انتظار کرنے کا کہہ دیا گیا تھا۔
شمیم آراء چپ چاپ کسی اعتراض کے بغیر فلم کے سیٹ پر جا کر ریہرسلز اور شوٹ کروانے لگی تھی، الیاس رشدی ہر ممکن طور پر چاہتے تھے کہ شمیم آراء ایک کامیاب ہیروئین بن جائے، فلمی دنیا میں ایک بار جس ہیروئین پر ناکامی کی مہر لگ جائے تو پھر وہ کبھی نہیں ہٹتی، شمیم آراء اس حوالے سے خوش نصیب تھی کہ پہلی فلم کی ناکامی کے باوجود فلم ساز ہاتھوں ہاتھ اُسے اپنی فلمز کیلئے بُک کر رہے تھے، یہی بات انہوں نے شمیم آراء سے بھی کہی تھی جس پر وہ خاموش ہی رہی، الیاس رشدی نے اپنے اخبار کے تقریباً ہر ہفتے آنے والے ایڈیشن میں شمیم آراء کی کوئی تصویر یا کوئی خبر نمایاں کر کے لگائی، لاہور اور مشرقی پاکستان تک شمیم آراء کی دھوم مچنے لگی تھی لیکن اگلی فلم بھی ریلیز ہو کر ناکام رہی۔
’’یہ دل لگا کر کام کرے گی تو ہی کامیابی ہاتھ لگے گی نا‘‘ اقبال بیگم نے تلملاتے ہوئے کہا تھا۔
’’کیوں شمیم کیا تمہیں فلم میں کام کرنا پسند نہیں ؟‘‘ الیاس رشدی نے خاموش بیٹھی شمیم سے پوچھا۔
’’ایسی کوئی بات نہیں ‘‘ شمیم شاید دل کی بات دل تک رکھنے کا سبق سیکھنے لگی تھی۔
’’تو پھر نانی غلط کہہ رہی ہیں ؟‘‘۔
’’الیاس صاحب جو اداکار دل سے فلم میں کام کرتے ہیں کیا اُن کی فلمیں ناکام نہیں ہوتیں ؟‘‘ بے حد تمیز سے میٹھے لہجے میں شمیم نے الیاس صاحب کو لاجواب کر دیا تھا۔
’’ایک بات تو ہے، فلمی دنیا میں اتنی حاضر جواب اداکارہ پہلے کبھی نہیں آئی‘‘ الیاس رشدی نے توصیفی انداز میں کہا تھا۔
’’الیاس صاحب! حاضر جوابی دھری کی دھری رہ جائے گی جو اگر اس کی فلمیں ناکام ہوتی رہیں ‘‘ اقبال بیگم نے متاثر ہوئے بغیر کہا تھا۔
الیاس رشدی کی ہی کوششیں تھیں کہ شمیم آراء کو ’’انارکلی‘‘ میں دلا رام کا چھوٹا مگر اہم رول میں کاسٹ کر لیا گیا۔
یہ خیال بھی شمیم آراء کو خوش نہ کر سکا کہ وہ برصغیر کی ایک قد آور شخصیت کے ساتھ کیمرہ فیس کرے گی لیکن اُس شخصیت کو دل موہ لینا آتا تھا اور یہی وہ شخصیت تھی جس نے شمیم آراء کا دل بدل ڈالا تھا۔
٭٭٭
’’تم اتنی چپ چپ کیوں رہتی ہو؟‘‘ ایک روز انارکلی کے سیٹ پر مرکزی کردار ادا کرنے والی خوش گلو، خوش گفتار شخصیت نے اُس سے پوچھا تھا۔
’’یونہی‘‘ اُس نے قدرے جھجکے ہوئے انداز میں کہا تھا۔
وہ کھلکھلا کر ہنس پڑیں ’’یونہی تو کوئی بھی چپ نہیں رہتا‘‘۔
وہ خاموش رہی۔
’’کیا سیٹ پر آ کر کام کرنا اچھا نہیں لگتا؟‘‘ اُس شخصیت کے پاس تجربے کا میزان تھا جس کے پلڑے پر وہ بڑے بڑوں کو تول دیا کرتی تھیں وہ تو پھر کل کی آئی بچی تھی اُن کے آگے۔
’’نانی ٹھیک کہتی ہیں میرا چہرہ سب کچھ عیاں کر دیتا ہے ‘‘ اُس نے خود کو ڈپٹا تھا۔
’’بیٹے! جو دل میں ہو وہ چہرے پر کبھی نہیں آنا چاہئے زندگی تماشہ بن جاتی ہے ‘‘ انہوں نے بے حد پیار سے نصیحت کی۔
وہ خاموش ٹکر ٹکر چہرہ دیکھے گئی۔
’’تمہاری نانی تمہیں سب سے کامیاب اور بڑی ہیروئین بنانا چاہتی ہیں تم نہیں بننا چاہتیں ؟‘‘۔
اُس نے نفی میں سر ہلایا۔
’’اس لئے کہ تمہاری پکچریں ناکام ہو گئی ہیں ؟‘‘۔
’’نہیں ! کیونکہ میں وکیل بننا چاہتی ہوں ‘‘۔
’’اداکارہ بننا وکیل بننے سے زیادہ مشکل ہے، تم آسان کام کرنا چاہتی ہو؟‘‘۔
وہ چپ رہی۔
’’خواہش کی سب سے بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ یہ ختم ہو جاتی ہے اور بے حد آسانی سے اُس کی جگہ کوئی دوسری خواہش لے لیتی ہے، ابھی تمہیں یہ بات تکلیف دے رہی ہے کہ تم وکیل نہیں بن سکتیں ، کل تمہیں کامیابی کی تلاش تکلیف دینے لگے گی، اتنی ضروری ہو جائے گی کامیابی تمہارے لئے کہ تم پھر کسی اور چیز کے بارے میں سوچو گی ہی نہیں ‘‘ گال تھپکتے ہوئے بے حد پیار سے انہوں نے کہا تھا۔
بنگال کا جادو اگر انسانی بھیس میں ہوتا تو اُس کا نام ملکہ ترنم میڈم نور جہاں ہوتا، ’’انارکلی‘‘ کا ٹائٹل کردار ادا کرنے والی اس بے مثال اور لافانی عورت سے اقبال بیگم نے ہی گزارش کی تھی کہ شمیم کو سمجھائیں اور انہوں نے سمجھا دیا تھا۔
ہدایت کار انور کمال پاشا انار کلی میں شمیم آراء کے انہماک سے کام کرنے پر بے حد متاثر ہوئے جاتے تھے کہ شمیم آراء سے وعدہ کر بیٹھے کہ اگر اُس کی فلمز مسلسل ناکام بھی رہیں تو بھی وہ اپنی کم از کم دو فلموں میں مرکزی کردار میں اُسے ضرور کاسٹ کریں گے۔
اور یہ بات ہے سن اٹھاون کی۔
صدا ہوں اپنے پیار کی۔
جلتے ہیں ارمان میرا دل روتا ہے۔
تمہاری آرزو میں کوچہ قاتل تک آن پہنچے۔
کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں ۔
بانوری چکوری کرے دنیا سے چوری چوری۔
فلم کی ریلیز سے قبل ہی فلم کے گیت ملک کے گوشے گوشے میں گونجے اور مقبول عام ٹھہرے مگر ’’انارکلی‘‘ ریلیز ہو کر اوسط درجے کا ہی بزنس کر سکی، گیتوں کی مقبولیت کے علاوہ صرف شمیم آراء کی مختصر کردار میں متاثر کن اداکاری اور معصومیت تھی جس نے فلم بینوں کا دل موہ لیا تھا مگر چونکہ فلم خاطر خواہ بزنس نہ کر سکی چنانچہ ایک اور ناکامی شمیم آراء کے کریڈٹ پر آ گئی۔
اقبال بیگم کی تیوریوں پر مزید بل واہ رے زمانے، عالم آراء، فیصلہ، راز، سویرا، اپنا پرایا، جائیداد، بھابھی، عزت، دو استاد، رات کے راہی اور روپ متی راز بہادر کی ریلیز نے ڈالے، جو کہ تقریباً سب ہی ناکامی سے دوچار ہوئیں ، کمی نہ جانے کہاں تھی، کس چیز میں تھی، سلور سکرین پر نور جہاں ، صبیحہ خانم، مسرت نذیر، نیلو، نیئر سلطانہ وغیرہ کا راج تھا اور اُن کی موجود گی میں شمیم آراء کیلئے گنجائش نکل نہیں رہی تھی ہر چند کہ شمیم پر فلمائے گئے گیت مقبول و مشہور ہوئے جاتے تھے مگر فلمیں ناکام رہتیں ، قسمت اگر اداکارہ بنانے پر تُل ہی گئی تھی تو پھر پے در پے یہ ناکامیاں چہ معنیٰ۔
اقبال بیگم نے شمیم آراء پر صرف ہاتھ نہیں اٹھایا تھا باقی ہر تیر آزما چھوڑا تھا، نہ جانے کیا بات تھی کہ اقبال بیگم کے دل میں یہ دھڑکا جڑ پکڑنے لگا تھا کہ بیٹی کے بعد نواسی بھی کہیں اُس کے خوابوں کو چکنا چور نہ کر دے اور یہ خیال ہی اقبال بیگم کی جان نکالے دے رہا تھا دوسری جانب ’’رات کے راہی‘‘ کی ناکامی پر شمیم آراء کو میڈم نور جہاں کے کہے الفاظ صحیح معنوں میں سمجھ آئے تھے۔
مسلسل ناکامیوں نے اُس کے اندر ایک ضد پیدا کر دی تھی۔
وکیل بننے کی خواہش پیچھے رہ گئی تھی۔
اب صرف کامیاب ہونا تھا۔
ہر پچھلی فلم کے ناکام رہنے پر شمیم آراء اپنی اگلی فلم میں مزید محنت سے کام کرنے لگتی، انہماک، توجہ، دلچسپی کب اور کیسے پیدا ہو گئیں شمیم آراء کو احساس ہی نہیں ہو رہا تھا، بس یہ خیال دامن گیر رہنے لگا تھا کہ ناکامی کا یہ سلسلہ اب ختم ہونا چاہئے۔
1960 ء میں یہ فیصلہ بالآخر ہو گیا کہ شمیم آراء نے بوریا بستر نہیں سمیٹنا۔
فلم ’’سہیلی‘‘ ریلیز ہوئی اور سپر ڈپر ہٹ رہی۔
٭٭٭
تھیٹر میں بیٹھے مرد جمیلہ کے روپ میں اُس کی نٹ کھٹ معصومانہ شرارتی اداؤں کے دیوانے ہوئے جاتے، دو چٹیائیں باندھے اختر بھائی جان کا جینا حرام کئے دیتی جمیلہ ہال میں بیٹھے مردوں کو گدگدا جاتی ، اپنی سہیلی پر جان نثار ہوتی جمیلہ، اپنے محبوب کا انتظار کرتی ہوئی جمیلہ، خواتین جمیلہ کے عین شادی والے دن بیوہ ہو جانے پر صدمے سے نڈھال ہوئی جاتیں ، سکرین پر شمیم آراء جمیلہ بنی سکتے کے عالم میں طمانچے کھاتی اور ہال میں بیٹھی خواتین کے کلیجوں پر ہاتھ پڑتا، دیوانگی کے عالم میں پاگل جمیلہ سکرین پر قہقہے لگاتی اور ہال میں بیٹھی عورتیں دھاڑیں مار کر روتیں ، کورٹ روم میں چیخ چیخ کر اپنے قاتلہ ہونے کا اقرار کرتی اور ہال میں ایک جامد سناٹا چھا جاتا۔
تھیٹرز ہر شو میں کھچاکھچ بھرتے جاتے اور عوام کے یہی تاثرات دیکھنے کو ملتے جاتے۔
پاکستان سلور سکرین پر کسی اداکارہ نے کسی بے جان کردار کو ایسی زندگی اس سے قبل نہ دی تھی، شمیم آراء نے ’’جمیلہ‘‘ کو زندہ کر دیا تھا، پاکستانی فلمی افق پر وہ اداکارہ جلوہ گر ہو گئی تھی جو ’’گلیمر ‘‘ سے پاک تھی اور مردوں کے حواسوں پر سوار تھی، شرم و حیا اور پاکیزگی جیسے الفاظ کی عملی تفسیر بن کر گویا خواتین کی اولین پسند بن گئی تھی۔
فلمی تبصرہ نگار وں نے اخباروں کے صفحے کالے کر دیئے تھے۔
پاکستان کا ادبی طبقہ چونک کر رہ گیا تھا۔
پاکستان کے وہ دانش ورجن کی ناک کے نیچے کوئی چیز نہ ٹھہرتی تھی، داد دئیے بغیر نہ رہ سکے تھے۔
ایک اداکارہ آخر پردہ سیمیں پر اتنی خوبصورت کیسے لگ سکتی ہے۔
ایک اداکارہ طربیہ اور المیہ مناظر میں ’’فلمی آہنگ‘‘ بھرے بناء حقیقت کیسے لگ سکتی ہے۔
ایک اداکارہ اردو زبان کی اصل مٹھاس کو اپنے لہجے میں ڈبو کر مزید شیریں کیسے کر سکتی ہے۔
کیسے ممکن ہے کہ فلم بین کی نظریں اُس کے جسم کی پیمائش نہ کر سکیں وہ سکرین پر کچھ اس انداز میں نظروں کو کیسے باندھ سکتی ہے۔
پورے پاکستان میں کوئی ایسا نہ تھا کہ فلم سے شغف رکھتا ہو اور اُس نے ’’سہیلی‘‘ نہ دیکھی ہو اور سہیلی کی ’’جمیلہ‘‘ کو ذہن سے نکالنے میں کامیاب رہ سکا ہو۔
شمیم آراء جوڑا۔
شمیم آراء گھیردار فراک۔
شمیم آراء ساڑھی۔
شمیم آراء چوڑی دار۔
عوامی سطح پر ایسی پذیرائی فلمی جغادریوں نے ہندوستان میں دیکھی تھی مگر پاکستان میں اس سے قبل نہیں ۔
شمیم آراء ’’سٹارڈم‘‘ کی علامت بن کر فلمی آسمان پر جگمگائی تھی۔
پاکستان کے پہلے صدارتی فلم ایوارڈ (نیشنل فلم ایوارڈ) کی تقریب میں شمیم آراء کو بہترین اداکارہ کا ایوارڈ سے نوازا گیا اور سرخاب کے پروں میں ایک اور پر کا اضافہ ہو گیا۔
اور یہ پہلی بار تھا پوری زندگی میں جب ’’پُتلی ‘‘ نے ’’شمیم آراء‘‘ کے وجود کو دل سے تسلیم کرتے ہوئے گلے سے لگایا تھا، پوری طرح خوشی کو محسوس کیا تھا۔
اقبال بیگم کی سختیوں ، مطلق العنانیت اور کروفر کا گلہ و شکوہ دل سے نکلنے لگا تھا، وہ یہ ماننے لگی تھی کہ خواہ نانی نے اُس کی مرضی کے خلاف اُسے زبردستی فلم لائین میں ڈال دیا تھا مگر جو کامیابی اُسے مل رہی تھی یہ ثابت کرتی تھی کہ نانی کا فیصلہ درست تھا۔
یہ شمیم آراء بننے کے بعد ’’پُتلی‘‘ کی پہلی سنگین غلطی تھی۔
٭٭٭
فلم سازوں کا تانتا تھا جو شمیم آراء کے گھر اپنی اپنی فلموں میں کاسٹ کرنے کیلئے ہر آن آنے کیلئے تیار رہنے لگا تھا، لاہور کے فلمساز بھی بڑھ چڑھ کر شمیم کو اپنی فلموں میں کاسٹ کر رہے تھے، شمیم لاہور جانا نہ چاہتی تھی مگر الیاس رشدی کے سمجھانے پر ہی لاہور جا کر کام کرنے پر رضامند ہوئی، اخبارات، فلمی رپورٹرز ایک انٹرویو کیلئے اُس کے آگے پیچھے گھومتے رہتے، ریڈیو پاکستان کی انتظامیہ اپنی خصوصی ٹرانسمیشن میں سامعین کی فرمائشوں کے ڈھیر کی وجہ سے مجبور ہو کر شمیم کو مدعو کرنے لگی تھی، جب اتنا کچھ ہو رہا تھا تو کیسے ممکن تھا کہ کوئی بہت خاص اُس کی زندگی میں نہ آتا۔
پوری دنیا میں فلم میں کام کرنے والوں کی اپنی روایات ہیں ، اچھی بُری، صحیح یا غلط سے قطع نظر، ان میں سے ایک روایت ہیرو ہیروئین کا ایک دوسرے کی جانب ملتفت ہو جانا بھی ہے، قدرتی امر کہا جائے یا وقتی جذباتی تسکین یا عوام الناس میں مزید مشہور ہونے کیلئے نسخہ تیر بہدف، جو بھی نام دے لیں یہ روایت ہے اور شاید ہمیشہ رہے گی، شمیم آراء کامیاب تھی، ہر دل عزیز ہو چکی تھی چنانچہ انڈسٹری کے ہیرو نے اُس کی جانب نظر کرم کر دی تھی۔
درپن اپنے اعلیٰ خاندان، اداکاری کے لحاظ سے تو مشہور تھا ہی مگر صحیح معنوں میں وہ اپنی مردانہ وجاہت کے باعث انڈسٹری کا ممتاز ترین ہیرو تسلیم کیا جاتا تھا، ’’سہیلی‘‘ سے قبل “رات کے راہی” میں شمیم آراء کے ساتھ کام کر چکا تھا، ”سہیلی “کے دنوں میں ہی وہ شمیم کے قریب آیا، اُس کی زندگی میں آنے والا پہلا مرد جو دل پھینک بھی تھا، عاشق مزاج بھی اور بھنورہ صفت بھی، اُس کی لچھے دار باتوں، دلچسپ فقرے بازیوں اور بھرپور اور شاندار شخصیت نے شمیم آراء کو بے حد متاثر کیا تھا اور قبل اس کے کہ شمیم آراء مکمل طور پر درپن کی محبت میں گرفتار ہو جاتی اقبال بیگم نے شمیم آراء کو جالیا۔
’’بٹیا! ابھی تو تم نے اڑان بھری بھی نہیں ہے کہ پر کترنے کے سامان کرنے لگیں ، تمہیں یہ خوش فہمی کیسے لاحق ہو گئی بنو کہ وہ مر مٹا ہے تم پر؟‘‘۔
’’وہ دبے لفظوں میں محبت کا اظہار کر چکا ہے ‘‘۔
اقبال بیگم ہنس پڑیں ۔
’’خوب! بٹیا رانی ہماری دہلیز پار کرنے والے بیشتر مرد اپنی اپنی بیگمات کا دم بھرتے ہیں پھر بھی محبت بھرے مکالموں کی بھوک انہیں ہماری چوکھٹ پر لے آتی ہے، روپیہ ہمارے تلووں پر رکھتے ہیں ، رومانوی مکالمے ادا کرتے ہیں ، چھیڑخانی کرتے ہیں ، دل بھر جاتا ہے واپس گھر کو ہو لیتے ہیں ، نیت میں سیری نہیں آتی تو پلٹ کر ہمارے پاس آ جاتے ہیں اور تم اُس کے دبے لفظوں میں محبت کے اظہار کو حقیقت جان کر اپنی پار لگتی زندگی کو کنویں میں ڈبو دینا چاہتی ہو، بٹیا مرد میں وفاداری ہوتی نا تو ہمارے چولہے کبھی کے ٹھنڈے ہو چکے ہوتے ‘‘۔
’’مگر وہ مجھے اچھا لگتا ہے ‘‘۔
’’غلطی تمہاری نہیں ، قصور جوانی کا ہے، بڑی کمینی شے ہے ظالم، گدھی پر بھی آتی ہے تو وہ خود کو حور شمائل سمجھنے لگتی ہے مگر چندا تم گدھی تھوڑا ہی ہو، وہ اچھا لگتا ہے کوئی بات نہیں بات یہیں تک رہے تو ٹھیک ہے اس سے آگے نہ بڑھے ‘‘ لہجہ سخت کئے بغیر ہی اقبال بیگم نے فیصلہ صادر کر دیا اور پھر درپن کے ساتھ اُس نے اگلے کئی سال کام تو کیا مگر کوئی دوسرا تعلق پروان چڑھانے کی کوشش نہیں کی دوسری جانب اقبال بیگم نے فلمسازوں کو صاف لفظوں میں بتا دیا کہ شمیم کو اپنی فلموں میں کاسٹ کرنا چاہتے ہو تو وہ ہر فلم کے سیٹ پر اپنی نواسی کی حفاظت کے واسطے لازمی موجود ہوں گی، شمیم آراء کی ڈیٹس، معاوضہ ہر چیز کا انتظام اور دیکھ ریکھ اقبال بیگم نے اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا، نانی کی باتیں اُس وقت صداقت کے لبادے میں نظر آئیں جب درپن نے نیئر سلطانہ سے شادی کر لی۔
فلموں کو مکمل کرواتے ہوئے شمیم آراء نے یہ سوچ لیا تھا کہ جلد ہی وہ اس قابل ہو جائے گی کہ نانی نے جتنی رقم اُس پر خرچ کی ہے وہ ادا کر سکے، کچھ ہی سال میں نانی کا اُسے فلموں میں کام کروانے کا شوق بھی پورا ہو جائے گا اور تب وہ اُن سے درخواست کرے گی کہ بازار کی دوسری لڑکیوں کے برعکس وہ رونق محفل نہیں بلکہ گھر کا دیا بننا چاہتی ہے اور یہ خیال اُس کے دماغ میں بٹھانے والا تھا خوبرو ہیرو کمال۔
٭٭٭
سن ہے 1962 ء شمیم آراء اپنی نانی سمیت یونٹ کے دیگر افراد کے ساتھ سوات میں مقیم ہے جہاں فلم ’’زمانہ کیا کہے گا‘‘ کی شوٹنگ ہو رہی ہے، دن بھر شوٹ کے وقت اقبال بیگم یونٹ کے ساتھ موجود ہوتی تھی اور اُن کی موجودگی کا مطلب تھا کہ دنیا کا کوئی انسان، چرند پرند غرض ہوا، دھوپ اور چاندنی کے سوا کوئی مخلوق شمیم آراء کے نزدیک نہیں آ سکتی، صرف اسسٹنٹ ڈائریکٹر اور ڈائریکٹر کے علاوہ میک اپ میں ہی تھا جو شمیم آراء سے مخاطب ہو سکتا تھا۔
’’یار! یہ نانی بیگم چیز کیا ہیں ؟‘‘ کمال نے اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے منہ سے سنا تھا۔
’’وہ بند تالے کی کنجی ہیں ‘‘ کسی نے ہنس کر کہا تھا۔
رات کے وقت وہ سارے تاش کھیلنے کیلئے جمع ہو جاتے تھے، کمال خود بھی اس کھیل کے رسیا تھے اور شغل کے طور پر اکثر آؤٹ ڈورز میں اپنے یونٹ کے ساتھیوں کے ہمراہ رات گئے تک بازی سجائے رکھتے تھے۔
’’وہ کنجی نہیں ہیں ، پنجرے کا تالا ہیں اور شمیم پنجرے کی بلبل‘‘ کمال نے کہا تھا۔
’’مگر میرا خیال ہے کمال کہ تم اس بارے میں نہ ہی سوچو تو بہتر ہے ‘‘ ڈائریکٹر اقبال یوسف نے سمجھانا چاہا تھا، کمال سے بے حد گہری دوستی تھی اور وہ جانتا تھا کہ کمال ایک ستھرے خیالات کاسنجیدہ نوجوان ہے اور اپنے کام سے کام ہی رکھنا پسند کرتا ہے، شمیم آراء کیلئے اُس کی نگاہوں میں پسندیدگی کسی سے بھی مخفی نہیں تھی۔
اُس وقت تو کمال نے کچھ نہ کہا تھا مگر اگلے کئی دن شمیم آراء سے بات کرنے کی کوشش ضرور کرتا رہا تھا جو اقبال بیگم نے ناکام بنا دی تھی کہ وہ سائے کی طرح شمیم آراء کے ساتھ ساتھ رہتی تھیں اور اُن کی موجودگی میں شمیم آراء ’’ہوں ‘‘ بھی نہیں کرتی تھی ’’چوں چراں ‘‘ تو پھر بہت بڑی بات تھی۔
کمال کو اقبال بیگم کا رویہ ازحد کھٹک رہا تھا مگر چونکہ پڑھا لکھا اور تہذیب یافتہ انسان تھا لہذا اُس نے ایک بار بھی اقبال بیگم کے ساتھ غیر شائستگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔
’’زمانہ کیا کہے گا‘‘ بنیادی طور پر ایک سسپنس سے بھرپور جاسوسی و کامیڈی فلم تھی، کئی ایسے مناظر تھے جن میں شمیم آراء اور کمال کو چھپنے کی اداکاری بھی کرنی تھی اور ان مناظر کی عکس بندی کے دوران ڈائریکٹر کی کوشش رہا کرتی تھی کہ سیٹ پر کم سے کم لوگ موجود ہوں تاکہ دونوں اداکاروں کے چہروں پر حقیقی تاثرات ہوں ، ایسے ہی ایک منظر کی عکس بندی کے دوران بالآخر کمال کو شمیم سے بات کرنے کا موقع مل گیا تھا۔
’’آپ اس قدر مغرور کیوں ہیں ؟‘‘۔
’’میں ‘‘ بے حد چونک کر شمیم نے کمال کی جانب دیکھا تھا۔
’’جی! کسی سے بات ہی نہیں کرتی ہیں ‘‘۔
’’ایسی تو کوئی بات نہیں ہے، میں خاموش طبع ہوں ، مغرور تو نہیں ہوں اور غرور کروں گی بھی کس بات پر؟‘‘۔
’’کامیاب ہیروئین ہیں ، پاکستان مرتا ہے آپ پر، یہ غرور کیلئے کیا کم وجہ ہے؟‘‘۔
شمیم روہانسی ہو گئی تھی۔
کمال دنگ رہ گیا تھا۔
“یہ مغروریت نہیں ڈوب مرنے کی بات ہے ”
’’پیک اپ‘‘ کی آواز کے ساتھ ہی ان دونوں کی گفتگو کا سلسلہ بھی منقطع ہو گیا۔
کمال کی نظروں سے شمیم آراء کا روہانسا چہرہ محو نہ ہوتا تھا، کئی راتیں وہ جاگ کر اُس کے بارے میں سوچتا رہا۔
پھر ایک رات اسسٹنٹ سے گزارش کی کہ شمیم کو بھی ہال میں لے آئیں تاکہ وہ بھی تاش کے کھیل سے لطف اندوز ہو سکیں ، محفل جمی ہے اور شمیم اپنے کمرے میں مقید ہے۔
اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے بلانے پر شمیم نے ایک نظر سوئی ہوئی نانی پر ڈالی اور شال شانوں سے درست کرتے ہوئے ہال میں آ گئی جہاں محفل عروج پر تھی۔
زندگی میں پہلی بار شمیم نے بے ضرر سی تفریح کی تھی ورنہ کام، شوٹنگ، شوٹنگ سے گھر اور گھر سے سیٹ، بس یہی اُس کی زندگی کی پگڈنڈی تھی، ایک ایسی پٹڑی جس پر شمیم آراء کی زندگی کسی ٹرین کی طرح مقر رہ وقت پر گزرا کرتی تھی ایک اضافی شوق البتہ ضرور زندگی میں شامل ہو گیا تھا اور وہ تھا کُتب بینی، فلموں کے سکرپٹس پڑھتے ہوئے کہانیوں میں دلچسپی پیدا ہوئی، ایک بار فیض صاحب نے ایک نشست میں اُس سے کہا تھا کہ ’’شمیم تمہاری اردو اتنی اچھی ہے تم شاعری کے ساتھ دوسری کتابیں بھی پڑھا کرو، اداکاری کیلئے قوت مشاہدہ، حساسیت اور خداداد صلاحیت تو ضروری ہے ہی مگر کتابیں ذہن کو کھولتی ہیں ، تمہیں زندگی کی نئی نئی جہتیں کھوجنے کا موقع ملے گا‘‘ اور پھر فیض صاحب ہی نے اُسے کچھ کتابیں بھجوائی تھیں ، یت تنہائی کی ساتھی کتابیں اپنا کردار بے حد خوبی سے ادا کرنے لگی تھیں ۔
کئی راتوں تک اقبال بیگم کو کانوں کان خبر نہ ہوئی کہ رات گئے تک جمنے والی محفل میں اُن کی پُتلی بھی جلوہ افروز ہوتی ہے اور کھیل کے ساتھ ساتھ کمال کی سنگت میں بھی خوب محظوظ ہوتی ہے، کمال اور شمیم کے درمیان اجنبیت کی دیواریں آہستہ آہستہ زائل ہونے لگی تھیں ، جب تک اقبال بیگم کو خبر ہوئی تب تک خاصی دیر ہو چلی تھی، کمال شمیم آراء کے دل آنگن کے مکین ہو چکے تھے۔
فلم کا گیت ’’رات سلونی آئی بات انوکھی لائی
جو ہم کسی سے نہ کہیں گے۔۔۔ چپ رہیں گے ہم، ‘‘
کی فلمبندی کے دوران شمیم اور کمال دونوں ہی کو شدت سے یہ احساس ہوا تھا کہ دونوں ایک دوجے کیلئے ہی بنے ہیں ، اُس رات شوٹنگ کے بعد کمال نے شمیم آراء سے باقاعدہ طور پر محبت کا اظہار کر دیا تھا۔
وہ رات شمیم آراء کو اگلے کئی سالوں تک پوری پوری رات سونے نہ دیتی تھی۔
کمال نے کچھ اس انداز سے اُس رات کو یادگار بنا دیا تھا۔
٭٭٭
فلم کے یونٹ میں شامل اپنے قریب ترین دو تین دوستوں کی مدد سے کمال نے ہوٹل کے کمرے کے فرش کو گلاب کی پتیوں سے سجایا تھا جس کے وسط میں دل کی شکل ترتیب دی گئی تھی اور جس کے بیچوں بیچ جلتا ہوا دیا کمال کے دل میں شمیم کیلئے روشن محبت کا غماز تھا۔
شمیم اس کمرے میں آ کر ’’پُتلی‘‘ سے ’’بُت‘‘ بن گئی تھی۔
کمال نے محبت پاش نظروں سے اُسے دیکھتے ہوئے کہا تھا ’’میری محبت کا دیا ہے یہ شمیم، کیا تم میری شمیم بنو گی؟‘‘۔
آنکھوں میں برسات اور ہونٹوں پر بہار لئے شمیم نے ہاں کہہ دیا تھا۔
کمال نے کراچی پہنچتے ہی اقبال بیگم سے بات کرنے کا عندیہ دے دیا تھا، مگر کمال کو ایسی کوئی بات کرنی ہی نہیں پڑی۔
اقبال بیگم غفلت کی نیند سے جاگ گئی تھی۔
’’تم ایک بڑی ہیروئین ہو ! تمہیں اندازہ بھی ہے کہ تمہاری یہ محبت تمہاری لٹھیا ڈبو دے گی، جس ہیروئین کے پیچھے پاکستان دیوانہ ہے شادی کرتے ہی ایک ایک پروانہ اڑ جائے گا اور پیچھے رہ جاؤ گی تم ہاتھ ملتے ‘‘ اقبال بیگم نے بے لچک لہجے میں کہا تھا۔
’’نانی! میں لمبے عرصے تک فلم میں کام کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی‘‘ اُس نے دوٹوک مگر نرم لہجے میں زندگی میں پہلی بار اپنا فیصلہ سنایا تھا جو اقبال بیگم کو چراغ پا کر گیا تھا۔
’’تم اور تمہارے ارادے ‘‘ استہزائیہ ہنس کر اقبال بیگم نے اُس کی ارادے کو پھونک مار کر اڑا دیا تھا ’’تم کوئی بھی ارادہ باندھ لینے کی اہل نہیں ہو پُتلی بائی‘‘ ’’بائی‘‘ کہہ کر اقبال بیگم نے اُسے یاد دلادیا تھا کہ وہ کون ہے، کہاں سے تعلق رکھتی ہے، اُس کی نانی اور ماں کون ہیں ، وہ اُس دنیا سے ہے جہاں باپ جائز بھی ہو تو بھی اُس کی پہچان و شناخت صرف کاغذ تک محدود ہوتی ہے، باپ بذات خود وجود کی حیثیت سے کہیں نہیں ہوتا۔
’’میں جانتی ہوں کہ میں کون ہوں ، کمال بھی جانتا ہے اور اس کے باوجود مجھے اپنانے کا فیصلہ کر چکا ہے‘‘ میڈم نور جہاں نے کہا تھا کہ چہرے پر دل کی کیفیت کبھی نہ آنے دینا، اُس نے پلو سے باندھ لی تھی نصیحت، شمیم کا کہتے ہوئے دل رو پڑا تھا مگر چہرے پر پانی کے دو بوند تک نہ آئے تھے، نہ ہی آواز لڑکھڑائی تھی نہ لہجہ بھرایا تھا۔
’’اچھا! چلو دیکھے لیتے ہیں عاشق نامدار کو بھی‘‘ اقبال بیگم کے لہجے میں دھمکی تھی جس نے شمیم کو کپکپا دیا تھا۔
فلم مکمل ہو چکی تھی، شمیم اقبال بیگم کے ساتھ کراچی آ چکی تھی، چند دن کراچی میں آرام کرنے کے بعد وہ پھر لاہور چلی گئی جہاں اُسے دو تین فلموں کی شوٹنگ کروانی تھی، اس دوران کمال اور شمیم کے درمیان خط و کتابت کا سلسلہ رہا، شمیم اپنے تئیں نہایت احتیاط اور رازداری برت رہی تھی کہ نانی کو بھنک بھی نہ ہو کہ وہ کمال کے ساتھ رابطے میں ہے جبکہ اقبال بیگم نے جان بوجھ کر آنکھیں بند کر رکھی تھیں تاکہ شمیم اس دھوکے میں آ جائے کہ وہ کچھ نہیں جانتی ہیں ، کمال شمیم کو ہر خط میں یہ تسلی دیتا تھا کہ وہ پریشان نہ ہو، کوئی نہ کوئی سبیل ضرور نکلے گی، شادی وہ اُسی سے کرے گا، وہ دو تین سال مزید فلموں میں کام کرنا چاہتی ہے ضرور کرے اور وہ جب کہے گی تب ہی وہ اقبال بیگم سے اُس کا ہاتھ مانگے گا، کمال نے اس سلسلے میں اپنے گھر والوں سے بات کی تھی یا نہیں اس بارے میں کمال نے کبھی کوئی بات نہ لکھی تھی۔
اسی اثناء میں ’’زمانہ کیا کہے گا‘‘ ریلیز ہو گئی، پریمئر کے موقع پر کمال اور شمیم آراء روبرو آئے تھے، فلم کی ریلیز سے قبل ہی اُن دونوں کی رومانوی داستان نانی کے ظالمانہ کردار مرچ مسالوں کے ساتھ اخبارات کی زینت بنتی رہی تھی اور جسے فلموں کے شوقین چٹخارے لے لے کر پڑھتے رہے تھے، ان دونوں نے ہی ان خبروں اور باتوں کی تصدیق یا تردید نہیں کی تھی مگر پریمئر کے وقت فلمی صحافیوں نے اس بارے میں کئی بار سوالات کئے جس پر شمیم آراء کے پسینے چھوٹ گئے تھے لیکن کمال نے بے حد اعتماد سے ان سوالوں کو ٹال دیا تھا۔
لیکن فلم کا وہی گیت ’’رات سلونی آئی بات انوکھی لائی‘‘ تھا جو ہر راز سے پردہ ہٹاتا گیا تھا، ایک ایک فریم، ایک ایک منظر وضاحت سے دکھا رہا تھا کہ شمیم آراء اور کمال پردے پر اداکاری نہیں بلکہ حقیقت کو پیش کر رہے ہیں ۔
فلم کے پردے پر اس گانے میں شمیم کی ہر ناز و ادا کھل کر کمال کیلئے اپنی محبت کا اظہار کر رہی تھی اور کمال کے چہرے کے تاثرات محبت کی ہر پہیلی کو بوجھ رہے تھے۔
اقبال بیگم سے کسی صحافی نے جب اس بارے میں پوچھا تو اس نے مُسکرا کر صرف اتنا کہا تھا ’’کمال بہت اچھا اداکار ہے، اس رومانی گانے نے ثابت کر دیا ہے اور شمیم سیدھی سادھی اور بے وقوف‘‘ محفل کشت زغفران بن گئی تھی اُس وقت لیکن اقبال بیگم کے اس طنز کی کاٹ کو کمال اور شمیم نے بے حد شدت سے محسوس کیا تھا، اقبال بیگم ان دونوں کے درمیان غلط فہمی کا زہر گھولنا چاہتی ہے یہ بات کمال کو سمجھ آ گئی تھی اور اُس نے شمیم کو یہی بات سمجھانے میں قطعاً دیر نہ کی تھی۔
’’تم بس چپ رہ کر زیر تکمیل فلمیں مکمل کرواؤ، نانی کو یہ یقین دلاؤ کہ ہماری راہیں جدا ہو چکی ہیں ، صحیح وقت پر میں اُن سے رشتے کی بات کروں گا تب تم بھی اس پوزیشن میں ہو گی کہ انہیں رام کر سکو ‘‘ کمال نے اگلا لائحہ عمل بھی ترتیب دے دیا تھا۔
اپنے حساب سے کمال نے کمال کی پلاننگ کی تھی۔
اپنی غرض کے ہاتھوں اقبال بیگم نے غضب کی چال چلی تھی۔
اور ایک پانسہ اُس وقت قسمت کے ہاتھ تھا۔
جو جس کے حق میں بھی چلتا، بازی اُسی کے ہاتھ ہوتی۔
اور یہ بازی پُتلی بائی کو ’’کٹھ پُتلی‘‘ بنا گئی تھی۔
٭٭٭
اقبال بیگم کے ہاتھ میں شمیم آراء کی فلم ڈائری تھی، جس میں تاریخوں کا حساب کتاب، کس فلم ساز نے کس قدر معاوضے کی ادائیگی کر دی ہے اور کتنا معاوضہ باقی ہے، کس فلم کی کب سے شوٹنگ شروع ہو گی، کون سی فلم کیلئے کب سٹلز شوٹ ہوں گے، کس صحافی کو کب انٹرویو دینا ہے یہ سب اقبال بیگم کی انگلیوں کی پوروں پر ہوتا تھا، سن 63تک شمیم آراء کئی فلموں کیلئے بُک کی جا چکی تھی، اقبال بیگم کیلئے راوی چین ہی چین لکھ رہا تھا جب اس پُر سکون جھیل میں تلاطم برپا ہوا۔
ایورنیو پکچرز کی ’’قیدی‘‘ کی شوٹنگ زوروشور سے ایورنیوسٹوڈیو میں جاری وساری تھی، شمیم آراء کے مقابل درپن تھے، مگر اقبال بیگم کو اس کی چنداں فکر لاحق نہیں تھی، درپن نیئر سلطانہ سے شادی کر چکے تھے حالانکہ اُن کی عاشق مزاجی اور بھنورہ صفتی میں کوئی کمی تو نہ آئی تھی البتہ شمیم کا پیچھا وہ کافی عرصہ پہلے ہی چھوڑ چکے تھے، پھر شمیم کے سر پر کمال کا عشق بھوت بن کر سوار تھا، جس کے توڑ کی پلاننگ اقبال بیگم کر چکی تھی مگر اقبال بیگم کے ہاتھوں کے توتے اڑ گئے جب ’’قیدی‘‘ کے سیٹ پر اُس کے کسی غمخوار نے وثوق سے یہ پگھلا ہوا سیسہ اقبال کے کان میں انڈیلا کہ شمیم آراء نہایت چالاکی سے کئی فلمسازوں کو اعتماد میں لے کر مزید فلموں میں کام کرنے سے معذرت کر رہی ہے، وجہ دریافت کرنے پر وہ یہی کہہ رہی ہے کہ جلد ہی وہ اس حوالے سے پریس کانفرنس کرے گی۔
اقبال بیگم صبر کے گھونٹ بھر کر رہ گئی، وہ چاہتی تو تھی کہ اسی وقت شمیم کو آڑے ہاتھوں لیتی لیکن سمجھداری کا تقاضہ یہی تھا کہ کراچی واپس جانے تک چپ ہی سادھی رکھی جاتی، اقبال کو حیرت صرف اس بات کی تھی کہ جس پُتلی کو اس نے پال پوس کر بڑا کیا، اس قابل بنایا کہ وہ ایک کامیاب ترین ہیروئین بن گئی، وہ جو اُس کے کہے پر دل سے، بے دلی سے کبھی حجت کر کے تو کبھی خاموشی سے چلتی آئی تھی اتنی بڑی بات چھپا کر اتنے آرام سے بیٹھی تھی، فلم ساز اگر شمیم کو فلموں میں کاسٹ کرنا بند کر رہے تھے اور یہ خود شمیم کی ایماء پر تھا تو اس کا مطلب واضح تھا کہ کمال کے ساتھ ہر ایک کو اندھیرے میں رکھتے ہوئے شادی ’’ اور یقیناً اسی کا اعلان وہ پریس کانفرنس میں کرنے والی ہے ‘‘ اقبال بیگم نے کڑی سے کڑی جوڑ لی تھی جس کا نتیجہ صرف اور صرف ایک تھا۔
روشن ناچ گا کر جتنا کما لیتی تھی وہ شمیم کو ملنے والے معاوضے کا عشر عشیر بھی نہیں تھا، موسیقی محل میں اُس کی حیثیت ایک نائیکہ سے بڑھ کر نہیں تھی، شمیم کی بدولت وہ کسی راجدھانی کی ملکہ بن کر فلم انڈسٹری کے بڑوں پر حکم چلاتی تھی، کسی فلم ساز کی مجال نہ تھی کہ اقبال بیگم کے مزاج کے خلاف کوئی بات کہتا، فلم ساز و ہدایت کار اگر چاہتے تھے کہ اُن کی فلم مقر رہ وقت پر بناء کسی تعطل کے مکمل ہو سکے تو فلم کی ہیروئین سے زیادہ وہ ہیروئین کی نانی کو راضی رکھنے کی کوششوں میں مصروف رہتے تھے، اُس زمانے کا مہنگا ترین سگریٹ ’’تھری کیسل‘‘ اقبال بیگم کا مرغوب ترین سگریٹ تھا اور ہر فلم ساز پر یہ فرض تھا کہ جب تک شمیم اُس کی فلم میں کام کرتی تب تک وہ سگریٹ اقبال بیگم کی خدمت میں پیش کرتا رہے، ہند و پاک کی فلمی تاریخ میں پہلی بار تھا کہ فلم ساز کسی ہیرو یا ہیروئین کے اتنے نخرے نہیں اٹھاتے تھے جتنے پاپڑ انہیں ہیروئین کی نانی کے ماتھے پر بل نہ لانے کیلئے بیلنے پڑتے تھے اور شمیم کی فلموں سے کنارہ کشی اور شادی کا مطلب تھا کہ مسلسل ہونے والی بہترین آمدنی کے مستقل ذریعے کو ختم کر کے قلاشی کی طرف جانا اور ساتھ ہی اس پروٹوکول سے بھی ہاتھ دھو لینا جس کی وہ شمیم کی نانی ہونے کی حیثیت سے عادی ہو چلی تھی۔
لہذاٰ اپنی خود غرضی اور سنگ دلی کو سمجھداری اور دانش مندی کے غلاف میں چھپا کر اقبال بیگم نے شمیم سے اس حوالے سے کراچی پہنچتے ہی بات کی تھی۔
’’ایسی کوئی بات نہیں ہے، مجھے تو مشرقی پاکستان تک سے آفرز ہو رہی ہیں میں کیسے فلمسازوں کو منع کر سکتی ہوں ‘‘ شمیم نے نظریں چراتے ہوئے جھوٹ بولا تھا، اقبال بیگم مُسکرائی، گویا محبت کی ہر روایت کو پورا کرنے کی ٹھان چکی تھی اُس کی نواسی، محبت میں بڑے بڑے نظریں ملائے بغیر جھوٹ بولتے ہیں تو وہ کیا چیز تھی۔
’’کمال سے شادی کرنا چاہتی ہو؟‘‘ پینترا بدل کر پانسہ پھینکا گیا تھا، وہ ہکا بکا رہ گئی۔
’’جی ہاں ‘‘ سر جھکا کر دل میں بجتی ہوئی شہنائیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اُس نے کہا تھا، ہشش شریر یہ بھی کوئی وقت تھا شہنائیوں کا۔
’’ٹھیک ہے، مگر ایک سال کے بعد اس سلسلے میں بات ہو گی تب تک تم اپنی فلمیں مکمل کرواؤ اور ہاں میری پہلی شرط یہ ہے کہ اب تم فلمسازوں کو فلموں کیلئے منع نہیں کرو گی‘‘ شمیم نے حامی بھر لی اور پھر کمال کو فون پر ساری بات بتا بھی دی تھی۔
’’ اور تو کچھ نہیں کہا انہوں نے؟‘‘ ساری بات سن کر کمال نے گھمبیر لہجے میں کہا تھا۔
’’نہیں ‘‘۔
’’اس کا مطلب ہے شادی سے قبل اور بھی شرائط رکھی جائیں گی‘‘ کمال نے نتیجہ اخذ کیا تھا، جو کہ شمیم نے سوچا تک نہیں تھا۔
’’ہو سکتا ہے ‘‘ وہ یہی کہہ سکی۔
اگلے چند ماہ شمیم آراء لاہور میں اپنی فلموں کی عکس بندی میں مصروف رہیں ، کمال کی دلچسپی فلم سازی کی طرف مائل ہوئی تو اُس نے کراچی میں ہی دو فلموں کا اعلان کر دیا، کمال کے تو وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اُس کے فلمسازی کے منصوبے کو اقبال بیگم کس طرح ایک پیادے کے طور استعمال کرنے والی ہے۔
’’کمال نے تم سے کوئی مشورہ لینا تو دور تمہیں خبر تک ہونے دی کہ وہ فلمیں بنانا چاہتا ہے ‘‘۔
’’اس میں حیرانی کی تو کوئی بات نہیں ہے، مصروفیت کے باعث کئی دنوں سے میری فون پر اُس سے بات بھی نہیں ہو رہی‘‘ شمیم نے نپے تلے لہجے میں کہا تھا۔
’’ اور یہ فلمیں وہ بنائے گا کس کے سرمائے سے؟‘‘۔
’’کیا مطلب؟‘‘۔
’ظاہر ہے تم سے شادی کر رہا ہے وہ تو پھر تمہاری ساری آمدنی کا مالک بھی وہی ہو گا ناں ‘‘ اقبال بیگم نے جال پھینکا تھا۔
’’کمال کو قطعاً ضرورت نہیں ہے میرے سرمائے کی، وہ خود دار انسان ہے، عورت کی کمائی کبھی بھی پسند نہ کرے گا‘‘ زندگی میں پہلی بار شمیم نے تلخی اقبال بیگم کو دکھائی تھی۔
’’ٹھیک ہے پھر تم بلاؤ اُسے، میں اب قصے کا منطقی انجام کئے ہی دیتی ہوں ‘‘ اقبال بیگم نے مُسکرا کر کہا تھا۔
شمیم کی دعوت پر کمال اُس گھر میں داخل ہوا تھا جسے شمیم آراء کی آمدنی سے ہی خریدا گیا تھا، موسیقی محل کو چھوڑے ہوئے کافی عرصہ ہو گیا تھا اقبال بیگم کو، البتہ روشن اکثر وہاں جایا کرتی تھی، اقبال بیگم کی اگلی شرط تھی کہ کمال کے ساتھ اس ملاقات کے وقت وہ موجود نہ ہو گی، وہ جو بھی بات کریں گی تنہائی میں کریں گی، شمیم نے یہ شرط بناء کسی تردد کے مان لی تھی۔
کمال نے کچھ دیر رسمی گفتگو کے بعد اصل بات چھیڑ دی تھی۔
’’کمال! تم جانتے ہو نا کہ اس وقت شمیم سب سے زیادہ معاوضہ لینے والی ہیروئین میں سے ایک ہے‘‘۔
’’جی جانتا ہوں ‘‘ کچھ حیرت کا شکار ہوتے ہوئے کمال نے کہا تھا۔
’’ اور یہ بھی تمہارے علم میں ہے کہ انڈسٹری کی ہیروئین در اصل اپنے گھر اور خاندان کا مرد ہوتی ہے، رزق کمانے والا مرد؟‘‘۔
’’جی یہ بھی حقیقت ہے ‘‘ کمال چیں بہ چیں ہوا تھا، اقبال بیگم بات کو جس جانب لے کر جا رہی تھی وہ اُسے کچھ کچھ سمجھ آنا شروع ہو گیا تھا۔
’’پھر تم ہی کہو بیٹا! کہ اپنا کماؤ مرد میں تمہارے ساتھ رخصت کر دوں گی تو میرے پاس کیا رہ جائے گا؟‘‘ اقبال بیگم نے جال کو کسنا شروع کیا تھا۔
’’میں کیا کہہ سکتا ہوں ، کماؤ ہو یا نہ ہو ایک دن تو آپ نے شمیم کی شادی کرنی ہی ہے ‘‘۔
’’ظاہر ہے بیٹا! کرنی ہے بالکل کرنی ہے، مجھ سے زیادہ کسے ارمان ہو گا پُتلی بائی کو دلہن بنا دیکھنے کا‘‘ اقبال بیگم کا لہجہ ماہر شاطر کا سا تھا، کمال نے چپ رہنے میں ہی عافیت جانی۔
’’تو بیٹا! ایسا ہے کہ تم شمیم سے محبت کرتے ہو، اُسے گھر میں بسانا چاہتے ہو، میں بھی یہی چاہتی ہوں مگر میں بھوکوں مرنا بھی نہیں چاہتی لہذاٰ ایک سبیل ہے میرے ذہن میں ‘‘۔
’’جی! وہ کیا؟‘‘۔
’’تم دو لاکھ روپے دے دو اور شمیم سے شادی کر لو‘‘ اقبال بیگم نے جال کو گرہ لگا دی تھی۔
چند لمحوں کیلئے تو کمال کی سمجھ میں ہی نہ آیا کہ اقبال بیگم نے جو کہا ہے وہ کیا ہے، نہیں ، سمجھ تو خیر آ گیا تھا بس یقین ہی نہیں آیا تھا، کسی کو بھی نہ آتا۔
’’معاف کیجئے گا‘‘ کمال کا لہجہ روکھا ہوا، یعنی اقبال بیگم کا تیر ٹھیک نشانے پر۔
’’میں بیوی رخصت کروانا چاہتا ہوں ، خرید کر لے جانا نہیں ‘‘ کمال نے اپنی دانست میں جوتا بھگوئے بغیر اقبال بیگم کے مارا تھا مگر اقبال بیگم نے اُسے کسی تمغے کی طرح سر ماتھے پر قبول کیا تھا۔
’’ٹھیک ہے پھر، یہی میری آخری شرط ہے، تمہیں نہیں منظور تو کوئی بات نہیں ، شمیم کو میں سمجھا لوں گی‘‘۔
’’میں خود بات کروں گا شمیم سے، آپ اگر نہیں چاہتی ہیں کہ وہ عزت سے رخصت ہو تو پھر مجبوراً ہمیں کورٹ کی خدمات لینی پڑیں گی‘‘ کمال نے چال چلی تھی اور اقبال بیگم کو بازی پلٹتی دکھائی دینے لگی تھی۔
شمیم آراء کو کمال نے بے حد غم و غصے کے ساتھ اقبال بیگم کی شرط کے بارے میں بتایا تھا، شمیم آراء نے زندگی میں ایسی ذلت اس سے قبل محسوس نہ کی تھی۔
جب اُسے گھنٹوں ماسٹر جی کے سامنے رقص کا تورا کی بار بار مشق کرنی پڑتی تھی۔
جب سکول میں اُس کے بارے میں خبر پہنچی تھی کہ وہ ناچنے گانے والی ہے۔
جب اُس نے روشن کو مردوں کے سامنے ناچتے ہوئے دیکھا تھا۔
جب اُسے اپنی زندگی کی ان بدصورتی بھرے حقائق کا علم ہوا تھا۔
ایسی ذلت اُسے تب بھی محسوس نہ ہوئی تھی۔
اُس نے اقبال بیگم کی خاطر خواہش چھوڑی، ناچ سیکھا، فلمی دنیا میں آ گئی، ہیروئین بن گئی، شعوری کوشش کا نتیجہ تھا کہ وہ پاکستان کی واحد ایسی ہیروئین تھی کہ جس کے بارے میں کبھی کوئی فحش جملہ کسی نے نہ کہا تھا، کوئی گندا خیال کبھی کسی فلم بین کے ذہن میں نہ آیا تھا، وہ سکرین پر گلیمرس نظر آنے کے بجائے باوقار نظر آتی تھی، وہ نوٹ چھانپنے والی مشین بن گئی تھی، خود سے زیادہ اقبال بیگم اور اُس کے خاندان کا پیٹ پال رہی تھی، سخت سردیوں میں ہلکے کپڑوں میں ملبوس برفیلے علاقوں میں گانے عکس بند کرواتی تھی، سخت گرمیوں میں تپتے ہوئے سٹوڈیوز کے آگ برساتے ہوئے فلورز پر بھاری میک اپ اور موٹے کپڑے پہنے گھنٹوں ڈرامائی، المیہ مناظر فلم بند کروا رہی ہوتی تھی کس کیلئے؟، اقبال بیگم کیلئے، اور وہ اقبال بیگم اُسے دوکان میں بکنے والی کوئی شے سمجھتی تھی،یہ حیثیت تھی اُس کی،یہی وقعت تھی اُس کی، محض دو لاکھ، بہت بڑی رقم تھی، دو لاکھ معمولی رقم نہ تھی، چھے فلموں کی دن رات کئی کئی مہینے شوٹنگ کرواتی تب کہیں جا کر دو تین سال میں دو لاکھ روپے جمع ہوتے، مگر دنیا کے کسی بھی انسان کو اپنی قیمت دو لاکھ روپے ہمیشہ کم ہی لگنی تھی، اُسے بھی لگی تھی،یہ حد تھی۔
اسی وقت شمیم آراء نے اقبال بیگم سے کچھ بھی کہے بغیر، اقبال بیگم سے کوئی صفائی، کوئی وضاحت مانگے بغیر اُس گھر سے نکل جانا بہتر سمجھا جو اُسی کی کمائی سے بنا تھا۔
’’شمیم آراء کے اپنی نانی کے ساتھ اختلافات عروج پر‘‘۔
’’کمال کے ساتھ شادی نہ کئے جانے پر شمیم آراء نے گھر چھوڑ دیا‘‘۔
’’شمیم آراء کی نانی نے اداکار کمال سے شادی کے عوض دو لاکھ روپے کا مطالبہ کر دیا‘‘۔
’’شمیم آراء گھر چھوڑ کر ہوٹل میٹروپول میں قیام پذیر ہیں ‘‘۔
اگلے کئی ہفتوں تک یہ خبریں مختلف اخبارات کی سُرخیاں بنتی رہیں ، اتنی وضاحت کے ساتھ فلمی صحافیوں کو یہ خبریں کس نے دی تھیں یہ الگ داستان تھی لیکن یہ خبریں کمال اور اُس کی محبت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئیں ۔
آخری وار خالی نہیں گیا تھا۔
٭٭٭
اداکارہ بہار اور نیئر سلطانہ نے شمیم سے رابطہ کیا تھا، بہت سمجھانے کی کوشش کی تھی جو ہونا تھا وہ ہو گیا تھا مزید جگ ہنسائی کا سلسلہ رُک جانا چاہئے تھا۔
’’میں تھکنے لگی ہوں ، انسان ہوں یا نوٹ چھانپنے والی مشین، نانی کو میری زندگی سے صرف اتنی دلچسپی ہے کہ میں کماتی رہوں اور بس‘‘۔
’’ہم اداکارائیں ہیں شمیم، ہمیں انسان سمجھا ہی نہیں جاتا‘‘ بہار نے کہا تھا۔
’’مگر کیوں ؟‘‘۔
’’اس کا جواب ہم میں سے کسی کے پاس نہیں ، تم گھر واپس چلی جاؤ‘‘۔
’’بہار! میں ایک جیتا جاگتا انسان ہوں ، باقی اداکاراؤں کے بارے میں ، میں کچھ نہیں کہہ سکتی، اپنے بارے میں وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ گھر بسانا میری اولین خواہش ہے اور کمال ٹھیک کہتا ہے نانی میرا گھر کبھی بھی نہیں بسنے دیں گی جب میں گھر نہیں بسا سکتی تو پھر نانی کی خواہشوں کا پیٹ بھی نہیں بھروں گی‘‘ شمیم نے فیصلہ بے لچک الفاظ میں سنا دیا تھا۔
کمال اُس کی زندگی سے نکل جائے گا یہ تو اُس نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا اور اس قدر بدصورتی اور بدنامی کے ساتھ نکلے گا یہ اُس نے دیکھ لیا تھا، ہوٹل میں مقیم اُس نے کتنے ہی فون کمال کو کر ڈالے تھے، کتنے ہی پیغام تھے جو کمال کیلئے چھوڑے تھے، اخبارات اس سارے معاملے کو مسلسل اچھال رہے تھے، تبصرے ہو رہے تھے، کسی تبصرہ نگار، اخباری نمائندے سمیت فلم انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے کسی شخص سے لے کر عوام کا بیکراں سمندر جو مزے لے لے کر شمیم کی زندگی کے اس اہم ترین معاملے کو چٹخارے دار چاٹ کی طرح انگلیوں کی مدد سے چاٹ رہا تھا، نے ایک بار بھی یہ سوچنے کی زحمت نہ کی تھی کہ شادی اور محبت کے اس معاملے پر وہ دو انسان کیسا محسوس کر رہے ہوں گے۔
کمال، جس سے محبت کے دام دو لاکھ روپے مانگے گئے تھے۔
شمیم، جس کی قیمت کسی بھی شرمندگی، ندامت کے بغیر لگا دی گئی تھی۔
دنیا کا کیا کوئی بھی انسان اپنے اندر کسی دوسرے انسان کیلئے وہ چیز نہیں رکھتا جسے ساری دنیا کے ادیب، استاد، ریفارمرز، انسانی حقوق کے علمبردار اور مذہب و قانون کے ماہرین ’’احساس‘‘ کہتے ہیں ، جس کے کرنے کی تلقین کی جاتی ہے، جس کو انسانی معاشرے کی تشکیل کی بنیادی اکائی گردانا جاتا ہے، لیکن نہیں ۔
کمال تو پردہ سکرین پر شوخی و شرارت دکھاتا ہوا اپنی ہیروئین پر نثار ہونے والا محض ایک اداکار، اُسے کیا معلوم محبت کیا ہوتی ہے۔
شمیم تو ناچنے والیوں کی نسل ہے، ہزاروں لاکھوں دلوں کی دھڑکن ہے، اُسے کہاں محبت کی ضرورت ہوتی ہے۔
فلم انڈسٹری میں انسان تھوڑا ہی ہوتے ہیں ، وہ تو بس ’’تفریح‘‘ ہوتے ہیں ، چاہو تو ان کے کسی رومانی منظر پر دل کو گدگدا لو، چاہو تو اُن کی المیہ اداکاری پر آنسو بہادو، چاہو تو اُن کے تھرکنے اور ناچنے پر سکوں کی بارش کر دو، آخر روپیہ خرچ کر کے فلم بین انہیں یہی سب کرتے ہوئے دیکھنے جاتے ہیں ، ان اداکاروں کو کہاں محبت کی سمجھ ہوتی ہے، ان کی زندگی میں کیسے تاریکیاں بے حسی، مایوسی، کم مائے گی، ناکامی اور دھوکے کی صورت میں پنجے گاڑ کر بیٹھ سکتی ہیں ، دل تو انسانوں کے ٹوٹتے ہیں ، تکلیفوں اور ذلت سے تو انسان گزرتے ہیں ، اداکاروں کا ان باتوں سے کیایاراں ۔
الیاس رشدی پانی سر سے اونچا ہوتا دیکھ کر میٹروپول پہنچے تھے۔
’’شمیم! یہ کیسی دیوانگی ہے؟‘‘۔
’’جس عظیم زیادتی کا میں شکار ہوئی ہوں الیاس صاحب اچھے اچھے ہوش کھو بیٹھتے ہیں ، کمال میرا فون تک نہیں لے رہا، مجھ سے کوئی بات نہیں کر رہا اور آپ توقع کر رہے ہیں کہ میں ہوش وہواس میں رہوں ‘‘۔
’’کمال کنارہ کشی کر چکا ہے شمیم، جو ہوا بہت بُرا ہوا اور اس کے بعد اُس نے ایسا ہی کرنا تھا‘‘۔
’’آپ نے نہیں سمجھایا اُسے ‘‘۔
’’بہت سمجھایا، لیکن شمیم وہ اپنے باپ کے آگے ہار گیا ہے، اُس نے صاف لفظوں میں کہا ہے کہ اپنی محبت کی ایسی ذلت ہونے کے بعد بھی وہ تم سے شادی کر لیتا لیکن اپنے خاندان کی ناموس پر کوئی دھبہ وہ برداشت نہیں کر سکتا‘‘۔
شمیم خاموش ہو رہی۔
کمال مہذب بھی تھا، خاندانی بھی، وہ حساس اور عزت دار بھی تھا اسی لئے عزت کرنا بھی جانتا تھا اور عزت پر جان دینا بھی، اقبال بیگم نے جو پانسہ پھینکا تھا اُس کے بعد تو ہار یقینی تھی، شمیم نے پہلی بار اقبال بیگم کیلئے اپنے دل میں کچھ بھی محسوس نہیں کیا تھا، نہ نفرت، نہ غم و غصہ، نہ کوئی شکوہ نہ کوئی گلہ۔
’’ اور اب نانی کیلئے میرے دل میں کیا ہے؟‘‘۔
کافی دیر خاموش رہ کر وہ یہی سوچتی رہی تھی۔
الیاس رشدی بغور اُس کا چہرہ دیکھ رہے تھے لیکن اُس کے دل میں کیا تھا یہ جاننے میں ناکام رہے تھے۔
’’تم بھی اب کام پر لوٹو، بہت ہرج ہو رہا ہے ‘‘ الیاس رشدی نے اُس سے کہا تھا۔
’’ٹھیک ہے، الیاس صاحب! میں مشرفی پاکستان جا رہی ہوں آپ وہاں اطلاع کرا دیجئے ‘‘ بے حد صاف لہجے میں اُس نے کہا تھا۔
وہ کیا کرنا چاہ رہی تھی الیاس صاحب یہ بوجھنے میں ناکام رہے تھے۔
٭٭٭
یہ سن 63ہے، شمیم آراء مشرقی پاکستان(بنگلہ دیش) میں فلم ’’تنہا‘‘ کی شوٹنگ میں مصروف ہے، ادھر لاہور میں چہ مگوئیاں عروج پر ہیں کہ شمیم آراء اب مشرقی پاکستان مستقل بنیادوں پر سکونت اختیار کر لے گی اور کراچی میں اقبال بیگم بیچ و تاب کھائی جاتی ہے۔
’’آپ نے بے حد غلط حرکت کی ہے، آپ کو رتی بھر ملال نہیں محسوس ہوتا‘‘ الیاس رشدی فلم انڈسٹری کے مائی باپ تھے اور میں کہتا ہوں کہ وہ حق سچ کے مائی باپ تھے۔
’’الیاس صاحب میں بے حد عزت کرتی ہوں آپ کی، مگر کیا ہی بہتر ہو کہ آپ اس معاملے میں نہ بولیں ‘‘ اقبال بیگم نے ان کے آگے چائے کا کپ بڑھاتے ہوئے کہا تھا ’’آپ یہ بتائیں کہ شمیم میری اجازت کے بغیر ڈھاکہ کیسے چلی گئی، اُس نے تو پانی کا گلاس میری ایماء کے بغیر نہیں اٹھایا تھا، سارا کیا دھرا اُس ملعون کمال کا ہے مجھ سے بدظن کر چھوڑا رذیل نے؟‘‘۔
’’آپ یہ بتائیں کہ آپ کس کی اجازت سے شمیم کے ساتھ زیادتی پر زیادتی کر رہی ہیں ؟، آپ کچھ تو اپنے اندر نرمی پیدا کریں ، شمیم کس قدر دکھی ہے، کس طرح اُس کا دل کچلا ہوا ہے اس کی فکر کرنے کے بجائے آپ کو اُن فلمسازوں کی پریشانی کھائے جا رہی ہے ‘‘۔
’’اُن کیلئے پریشان نہ ہوں تو اور کس کیلئے ہوں ، شمیم کیلئے؟، وہ جو اتنی بڑی بے وقوفی کرنے چلی تھی‘‘۔
’’شادی تو کرنی ہی ہے ایک دن اُس نے، کتنے سالوں تک وہ ہیروئین رہے گی، شاید آپ اس حقیقت سے نظریں چرا رہی ہیں تو میں آپ کو یاد دلائے دیتا ہوں کہ ہیروئین کی عمر بہت تھوڑی ہوتی ہے صرف پانچ سے چھے سال، ہندوستان میں دیکھ لیں ، آپ نے تو یوں بھی اس دشت میں زندگی گزاری ہے ‘‘ الیاس صاحب نہ چاہتے ہوئے بھی طنز کر گئے تھے، یقیناً یہ نانی نواسی کا ذاتی معاملہ تھا مگر شمیم کی دلی کیفیت سے الیاس صاحب بے حد دکھی تھے، اپنے اخلاق، اپنی زبان، شائستگی اور رکھ رکھاؤ سے شمیم آراء اُن کوبے حد عزیز ہو چلی تھی۔
’’الیاس صاحب آپ جیسے کرم فرماؤں کا ساتھ رہا نا تو واقعی شمیم کا دانہ پانی جلد ہی اٹھ جائے گا اور رہی بات شادی کی تو وہ میں فیصلہ کروں گی کہ کب کرنی ہے اُس کی، الیاس صاحب میں نے ماں بن کر پالا ہے اُسے، ساری ساری رات اپنی ماں کیلئے روتی تھی میں ہی گود میں لئے ٹہل ٹہل کر بہلاتی رہی ہوں ، اب مجھے سنبھالنے کا موقع آیا ہے تو وہ فرض سے بھاگ رہی ہے ‘‘۔
’’وہ سارے فرائض ادا کر رہی ہے، آگے بھی کرے گی لیکن جو آپ نے اُس کے ساتھ کیا ہے کوئی کرے گا اُس سے شادی، کون سا عزت دار خاندان اُس کا ہاتھ مانگے گا‘‘۔
’’اس کی آپ فکر نہ کریں ، وقت آئے گا تو دیکھا جائے گا، آپ فی الحال کسی طرح میرا اُس سے ڈھاکہ میں رابطہ کروا دیجئے ‘‘ اقبال بیگم کو سمجھانا نا ممکنات میں سے تھا، یہ بات الیاس رشدی اُس روز جان گئے تھے۔
ڈھاکہ میں مقیم شمیم آراء ’’تنہا‘‘ کی عکس بندی میں مصروف تھی، فلم کے ہیرو ہارون اور ساتھی اداکاراؤں نیناں اور شبنم سے اچھے مراسم قائم ہو چکے تھے، ڈھاکہ کی خوبصورتی اور سادگی شمیم کو بہت بھلی لگ رہی تھی، شوٹنگ کے بعد وہ شام ڈھلے تک ڈھاکہ کی سڑکوں پر پیدل مارچ کیا کرتی تھی، اکثر لوگ پہچان جاتے تھے مگر زبان کے فرق کی بناء پر زیادہ بات چیت ممکن نہیں تھی لیکن محبت، پسندیدگی اور اپنائیت کی اپنی ہی الگ زبان ہوتی ہے، شمیم اُن سادہ لوح لوگوں کی محبت سے محظوظ ہوتی، ناریل پانی پیتی، بنگلہ کاٹن کی ساڑھیاں خریدتی، دل میں اٹھتے درد کو نظر انداز کرنے کی کوشش میں ہلکان ہوئے جاتی مگر ایک ٹیس کا شائبہ بھی چہرے پر نہ آتا۔
کمال کی باتیں ، کمال کا خیال رکھنا، کمال کی سنجیدگی و متانت، کمال کا دھیما لہجہ، کمال کی وارفتگیاں ، کمال کی محبت۔
ہر چیز بازگشت بن کر پیچھا کرتی، سڑکوں پر چلتے ہوئے کب اُس کی آنکھیں نمی سے بھر جاتیں ، کب وہ سسکیاں لینے لگتی اُسے احساس ہی نہ ہوتا، راتوں کو اٹھ اٹھ کر وہ ان ساری باتوں کو بھیانک خواب کی طرح دہراتی اور دعا کرتی کہ صبح آنکھ کھلنے پر سب کچھ پہلے جیسا ہو جائے مگر وہ بھیانک خواب نہیں تھا، تلخ حقیقت تھی۔
مشرقی پاکستان میں فلمی سرگرمیاں عروج پر تو نہ تھیں لیکن گہما گہمی ضرور تھی، اکثر فلم ساز اپنی مزید فلموں میں اُسے کاسٹ کرنے کے خواہاں تھے، وہ مُسکرا کر ٹال دیتی، دل تو بہت کر رہا تھا کہ یہیں کی ہو رہے مگر دھیرے دھیرے وہ تسلیم کرنے لگی تھی کہ وہ ان بدنصیبوں میں سے ہے جو خواہش کرتے ہی اس لئے ہیں کہ وہ کبھی پوری نہ ہو سکیں ، اُس کا اختیار بھی بس اتنا ہی ہے۔
وقت نے اُس کی زندگی کے کشکول میں سب کچھ ڈال دیا تھا، شہرت، دولت، اخبارات اُس کے کارناموں سے بھرتے جاتے تھے، مرد اُس کی ساحرانہ مُسکراہٹ پر جیتے تھے تو خواتین اُس کی خوش لباسی اور انداز گفتگو پر فدا تھیں ۔
وہ ’’عالم آراء‘‘ تھی۔
اور کیا قسمت تھی کہ محنت و جہد مسلسل نے دنیا کی ہر شے کو اُس کے آگے ہاتھ باندھ کر کھڑا کر دیا تھا، بس ایک محبت تھی جو بیڑی نہ پہن سکی تھی، کس نے سمجھنا تھا کہ حقیقی زندگی میں وہ ’’پُتلی‘‘ با اختیار نہیں ’’قیدی‘‘ تھی۔
اُسے حکم تھا کہ وہ کچھ سوچ نہیں سکتی۔
اُس پر پابندی تھی کہ وہ کچھ محسوس نہیں کر سکتی۔
اُسے زندگی کسی چاک پر دھرے کسی بے ہیئت اور بے شکل مٹی کے ڈھیر کی طرح گزارنی تھی جس کی قسمت کا سارا انحصار کمہار کی خواہش، ضرورت اور دلچسپی پر ہوتا ہے اور وہ چاہ کر بھی اُس کی خواہش، ضرورت اور دلچسپی پر اختیار حاصل نہیں کر سکتی۔
فلمی صحافی گھیرا تنگ کئے دیتے۔
’’آپ شادی کب کر رہی ہیں ، کس سے ہو گی، کون ہو گا وہ شہزادہ؟‘‘ ہر ایک انٹرویو کا یہ سوال لازم و ملزوم تھا۔
وہ سوال جو اُسے تختہ دار پر لٹکا کر میخیں گاڑ دیتا تھا۔
’’میں اُس سے شادی کروں گی جو کشمیر فتح کرے گا‘‘ فوجیوں میں اپنی مقبولیت کے باعث نہ جانے کیسے روانی سے یہ جواب نکل پڑا تھا زبان سے، صحافی ہنس پڑا تھا، اگلے کئی ہفتوں ، مہینوں اور سالوں تک شمیم کا یہ بے ساختہ جواب گفت و شنید کا مرکز بنا رہا، مگر اس جواب میں چھپے لاشعوری طنز کو کوئی نہ سمجھ سکا علاوہ اقبال بیگم کے، مگر اقبال بیگم کے سمجھ جانے سے بات کہاں بننی تھی، تقدیر تو تب پلٹنی تھی جب اقبال بیگم خود غرضی کی قلعی دل سے کھرچ دیتی۔
اور اقبال بیگم نے اپنے دل کی دیواروں سے لپٹی خود غرضی پر طمع کا ماند نہ پڑنے والا پانی چڑھالیا تھا۔
اپنی پُتلی کو ہر ایک کی پہنچ سے دور رکھنے کی سازشوں میں مصروف اقبال بیگم سردار رند کے آگے جھک گئی تھی۔
٭٭٭
سندھ کے بے حد با اثر خاندان اور بلوچ قبیلے کا چشم و چراغ سردار رند پر نئی نئی جوانی نہیں آئی تھی، وہ عمر رفتہ کی سینتیس بہاریں دیکھ چکا تھا، دو دو بیویوں کا شوہر تھا، لیکن چونکہ دولت، طاقت اور اثر و رسوخ اُس کی زندگی کی باندی اور چاکر تھی ایسے میں وہ پچاس کا بھی ہو جاتا تو بھی اُس کا دل کسی بھی خوبصورت عورت کو دیکھ جوان و تر و تازہ کبوتر کی طرح پھڑپھڑانا ہی تھا۔
انسان کے پاس دولت و مرتبہ، طاقت و حشمت ہو اور دنیا اُس کے آگے جھک جھک کر سلامیں نہ کرے، دنیا اپنے سیدھے ہاتھ سے اُس کے جوتے اتار کر اپنی زبان سے تلویں نہ چاٹے تو دنیا ’’دنیا‘‘ کیسے کہلائے۔
سردار رند کے تعلقات فلمی دنیا تک پہنچے ہوئے تھے، کراچی و لاہور کے کئی فلم ڈسٹری بیوٹرز اُس کے خاص دوست تھے، جب بھی لاہور جانا ہوتا تو انہی کے توسط سے اسٹوڈیوز کا بھی چکر لگ جاتا، کئی فلمساز اور ہدایت کار سمیت نامی گرامی ہیروز بھی اُس کے حلقہ احباب میں آ گئے تھے۔
سردار رند شمیم آراء کو جانتا تھا، کئی فلمیں بھی دیکھ چکا تھا اور یہ تسلیم کرنے میں اُسے کوئی عار نہ تھی کہ اُس نے اپنی زندگی میں فلم سکرین پر اتنا دلکش اور متاثر کن نظر آنے والا چہرہ شمیم سے پہلے نہیں دیکھا تھا، فلم ’’فرنگی‘‘ میں ایک پٹھان نٹ کھٹ و شوخ لڑکی کے کردار میں شمیم آراء کب اُس کے دل کی دنیا پر شب خون مار گئی تھی اُسے احساس ہی نہ ہوا تھا، بس اتنا تھا کہ فلم میں جب انگریز جیلر اُسے گولیوں سے بھون دیتا ہے تو اُس کا دل چاہا تھا کہ پردہ پھاڑ کر اُس شقی کا منہ توڑ ڈالے، اپنا یہ بچکانہ خیال وہ کسی سے کہہ سناتا تو جانتا تھا کہ خوب پھبتیوں کا شکار بنتا۔
ایورنیو اسٹوڈیو میں ایورنیو پکچرز کی ’’نائلہ‘‘ کی شوٹنگ جاری تھی، اپنے ایک دوست سے کہہ کر وہ سیٹ پر جا پہنچا، خوب آؤ بھگت ہوئی، ایک کونے میں شمیم کرسی پر بیٹھی سکرپٹ ہاتھ میں پکڑے اپنے مکالمے یاد کر رہی تھی، اسی دوست کے معرفت سردار رند کا تعارف شمیم سے کروایا گیا، ایک سرسری سی نگاہ سردار پر ڈال کر شمیم نے علیک سلیک کی تھی، اُس کا سارا انہماک اس وقت ایک بے حد مشکل سین کی جانب تھا جو کچھ دیر بعد فلم بند ہونا تھا ایسے میں کسی غیر فلمی انسان سے ملنا اور بات چیت کرنا شمیم کیلئے ممکن نہیں تھا۔
خودسردار رند نے بھی بات چیت کا سلسلہ آگے بڑھانے کی کوشش نہ کی، لیکن یہ ہوا کہ اگلے کئی ہفتوں تک شمیم آراء جس فلم کے سیٹ پر بھی ہوتی یہ لازم تھا کہ سردار رند وہاں موجود نہ ہوتے یا آ کر علیک سلیک نہ کرتے۔
شمیم کو حیرت اس بات پر تھی کہ کہاں تو نانی اُس کے نزدیک چڑیا کو بھی پر مارنے نہ دیتی تھیں اور عالم یہ ہے کہ سردار رند گھنٹوں آ کر سیٹ پر بیٹھا رہتا ہے، کچھ کرتا نہیں ہے صرف اُسے تکتے رہنے کے، اقبال بیگم اُس سے جس خوش اخلاقی سے بات کر رہی ہوتی، اُس کے آگے بچھ رہی ہوتی، دودھ سوڈا منگوایا جا رہا ہے، لاہور کے مخصوص کھانوں کا انتظام کروایا جا رہا ہے، یہی نہیں اُس روز حد ہو گئی جب اپنی گاڑی چھوڑ اقبال بیگم شمیم کو لے کر سردار کی گاڑی میں جا بیٹھی کہ وہ اُن کی رہائش گاہ تک ڈراپ کر دیں گے، شمیم جز بز ہوئی مگر کچھ بولی نہیں ۔
ڈھاکہ سے واپس آ کر اگلے کچھ ماہ وہ لاہور میں قیام پذیر رہی اور اپنا کام مکمل کرواتی رہی تھی، اسی دوران نگار ایوارڈز کی تقریب کراچی میں منعقد ہوئی تھی جس میں شرکت کیلئے الیاس رشدی کے بے حد محبت بھرے اصرار پر شمیم کو کراچی آنا پڑا تھا، چونکہ اُس تقریب میں شمیم آراء کو بہترین اداکارہ کا ایوارڈ ملنا تھا چنانچہ الیاس رشدی چاہتے تھے کہ وہ بھرپور انداز میں تقریب میں شرکت کرے، تقریب کے بعد ہونے والے عشائیے میں اقبال بیگم کے ساتھ اُس کا تصفیہ کروا دیا گیا تھا، اُس وقت فلمی صحافیوں سمیت تقریباً پوری فلم انڈسٹری وہاں موجود تھی لہذا ٰ شمیم نے کوئی تماشا کھڑا کرنا مناسب نہ سمجھا اور اقبال کے گلے لگ گئی تھی، مگر گلے لگ جانے سے ’’گِلے ‘‘ تو دور نہ ہوئے تھے، کمال کے سانحے کو شمیم بھولی تو نہ تھی لیکن وقت نے رستے ہوئے زخم پر گرد ضرور ڈال دی تھی، تب سے ہی شمیم اقبال بیگم سے کھنچی کھنچی تھی، اُن کی تمام تر ضروریات وہ پوری کر رہی تھی، ایک وجہ یہ بھی تھی کہ روشن شادی کر چکی تھی اور نانی کے بجائے اپنے میاں اور اُس کے خاندان کو پالنے میں مصروف تھی۔
’’یہ کیا نیا تماشا لگا لیا ہے آپ نے؟‘‘ اُس رات شمیم پھٹ پڑی تھی۔
’’کون سا تماشا؟‘‘ انجان بنتے ہوئے اقبال بیگم نے سگریٹ کا کش لگایا تھا۔
’’سردار ہر روز سیٹ پر کیوں پہنچ جاتا ہے اور آپ کو کیا ضرورت تھی اُسے گھر تک کا راستہ دکھانے کی؟‘‘ شمیم نے تحمل سے کہا۔
’’سردار صاحب اچھے آدمی ہیں ‘‘۔
’’اچھے کا تو کہہ نہیں سکتی لیکن فارغ ضرور ہیں ‘‘۔
’’وہ تمہارے لیے ہی آتے ہیں ‘‘۔
’’حیرت ہے آپ کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ، آپ جان بوجھ کر انہیں میرے نزدیک آنے دیتی ہیں ‘‘ شمیم نے کاری وار کیا تھا طنز کا۔
’’ہاں ! میں نے سوچا ہے کہ وہ اگر تمہارا ہاتھ مانگے گا تو میں انکار نہیں کروں گی‘‘ اقبال نے بے حد اطمینان سے اُس کے چراغ پا ہونے کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا تھا۔
’’یعنی! میری شادی کا ارادہ ہے آپ کا‘‘ اُس نے مزید طنز کیا۔
’’ظاہر ہے تمہاری شادی تو مجھے کرنی ہی ہے ‘‘۔
’’کمال سے تو آپ نے دو لاکھ روپے مانگے تھے، یہ سردار کتنے ادا کر رہا ہے؟‘‘ اقبال بیگم اُسے اُس نہج پر لے آئی تھی کہ سودے کے جس خیال سے اُس کا دل پھٹا جاتا تھا، ارمانوں ، خوابوں اور خواہشوں کے زخموں سے مسلسل لہو رستا رہتا تھا، جو قاتل خیال تھا، اُس کا ذکر وہ اس قدر آرام سے کر رہی تھی کہ ایک لمحے کیلئے دل بھی چپ ہو کر رہ گیا تھا، ناسور بنتے ہوئے زخم ادھڑ چلے تھے، آبلے پھوٹ بہے تھے مگر اپنی ذات کے اندر گونجنے والے نوحوں کی جانب سے اُس نے اپنے کان بند کر لئے تھے۔
’’بٹیا‘‘ اقبال بیگم کو زبان کی کاٹ کی نہیں شہد کی ضرورت تھی اور اقبال بیگم کے پاس اس کی ہرگز کمی تو نہ تھی ’’کمال کی لالچ اور خود غرضی کو جانچنے کیلئے چال چلی تھی میں نے کہ اگر وہ تمہارا سچا چاہنے والا ہوا تو روپے ادا کر دے گا، بھلا میں نے وہ روپے اپنے پاس رکھنے تھے کیا؟‘‘ پینترا بدلنے کا اگر کوئی مقابلہ بین الاقوامی سطح پر منعقد کیا جاتا تو اقبال بیگم دنیا کے ہر پینترے باز بازی گر کو پچھاڑ دیتی، شمیم اُسے دیکھ کر رہ گئی۔
’’میں اس موضوع پر کوئی بات نہیں کرنا چاہتی آپ بھی اب یہ سردار کا قصہ بند کر دیجئے، سیٹ پر وہ مجھے اب نظر نہ آئے ‘‘ قطعی فیصلہ کن لہجہ، جو اقبال بیگم کی ’’پُتلی‘‘ کا تو نہیں تھا، وہ تو بے حد ادب آداب والی، سر جھکا کر اپنا دل مار لیا کرتی تھی، وہ ’’شمیم آراء‘‘ کا لہجہ تھا، وہ شمیم آراء جو اپنے مٹھاس بھرے لہجے، رسانیت بھرے انداز اور مدلل گفتگو کے باعث سنجیدہ حلقوں کی پسندیدہ ترین اداکارہ تھی، وہ شمیم آراء جو اپنے رکھ رکھاؤ، تہذیب و اخلاق اور شائستہ اطوار کی وجہ سے فلم انڈسٹری کے ہر بڑے ڈائریکٹر سے لے کر چھوٹے سپاٹ بوائے تک کی چہیتی تھی، وہ شمیم آراء جس کے فن اور اداکاری تو دور کوئی اُس کے انداز تکلم تک پر انگلی نہ اٹھا سکتا تھا، وہ شمیم آراء فیصلہ سنا گئی تھی۔
بے حد عاقبت نا اندیش تھی شمیم آراء۔
بے حد بے وقوف تھی پُتلی۔
اقبال بیگم کو جان کر بھی اُس کی سرشت نہ پہچان سکی تھی۔
اقبال بیگم شہد میں زہر کی تاثیر کا نام تھا۔
٭٭٭
ذاتی زندگی میں شمیم تنہا سے تنہا ہوئی جاتی تھی۔
فنی اعتبار سے کامیابی کا سورج گویا گہنانا جانتا ہی تھا۔
ہر فلم کے ساتھ اداکاری میں پختگی۔
مکالموں کی ادائیگی میں تاثیر۔
گانوں کی پکچرائزیشن میں وہ، وہ کمال دکھا رہی تھی جو پاکستانی کی سلور سکرین پر کسی نے نہ دکھائے تھے۔
رومانی کرداروں کیلئے وہ اولین انتخاب تھی تو مشکل اور پیچیدہ کرداروں کیلئے بھی مصنفین اسی کا نام بے دھڑک لیتے تھے۔
وہ ’’پُتلی‘‘ جو پردہ سیمیں پر نمودار نہ ہونا چاہتی تھی، وہ جو گڑیوں میں ’’مامتا‘‘ تلاش کرتی تھی، وہ جو وکیل بننے کی آرزو کئے بیٹھی تھی ’’شمیم آراء‘‘ بن کر اپنے اندر موذی بیماری کی طرح پھیلتے ہوئے سناٹے سے چھٹکارے کیلئے فلموں میں پناہ ڈھونڈنے لگی تھی، دن بھر مشقت کاٹتے ہوئے، فلم سازوں ، ہدایت کاروں ، ساتھی اداکاروں ، ایکسٹراز کے ساتھ وقت گزارتی، اُن کے دکھ سُکھ سنتی، اقبال بیگم سیٹ پر موجود ہوتی مگر وہ انہیں نظر انداز کئے رہتی، ’’پالنے ‘‘ کا جو احسان ہر وقت اقبال بیگم گنواتی رہتی تھی اُس کی قیمت وہ ادا کر رہی تھی، کئے جا رہی تھی، دل کا آنگن ویران ہوتا جاتا تھا تو کسی کو کیا غرض، چاہے جانے کی فطری خواہش بیکراں ندی کی طرح اُسے ڈبونے کیلئے ٹھاٹھیں مارتی رہتی تو کیا فرق پڑتا ہے کسی کو، دولت و شہرت تو تھی نا اُس کے پاس، دل زیادہ پریشان کرتا، ہش ہش کرنے پر بھی، پچکارنے پر بھی قابو میں نہ آتا تو گھبرا کر لیبارٹری میں فلم کے پرنٹ کیسے ڈیولپ ہوتے ہیں ،یہ جا کر دیکھتی، ہدایت کاروں سے مناظر کی عکس بندی کے حوالے سے سوالات کرتی، کس منظر کیلئے کون سا لینس استعمال کرنا چاہئے؟، ٹیکنگ کیسے ہو؟، مکالموں کی ادائیگی، سکرپٹ کی تکمیل وہ ہر ماہر سے کسی طفل کی طرح سب کچھ جاننے کا تجسس لئے بیٹھ جاتی، وحشت سوا ہوتی تو کتابیں کھول لیتی، رضیہ بٹ کو پڑھتی جس سے اچھی دوستی ہو چلی تھی، ساتھی اداکاراؤں کو خوشگوار ازدواجی زندگی گزارتا دیکھتی تو دل ہوکتا، یہ جانے بغیر کہ اُن میں سے بیشتر کی ازدواجی زندگی ہر گز مثالی نہیں ، ویسی مثالی جیسی وہ چاہتی تھی، بس اک سفر تھا جو چلے جا رہا تھا، زندگی ایسی ٹرین بن گئی تھی جس کی کوئی منزل دور دور تک نہ تھی، ایندھن پھونکے جاتی، سیٹیاں مارے جاتی اور پٹری پر بھاگے جاتی۔
ستمبر 65 کی جنگ کی بازگشت دھیمی نہیں ہوئی تھی کہ ’’نائلہ‘‘ نے تہلکہ مچادیا۔
کامیابی کا کوئی آٹھواں آسمان ہوتا تو ’’نائلہ‘‘ کی ریلیز اور فقید المثال کامیابی یقیناً شمیم آراء کو آٹھواں آسمان دکھادیتی۔
’’غم دل کو ان آنکھوں سے چھلک جانا بھی آتا ہے ‘‘
شمیم نے ’’نائلہ‘‘ کو اس طرح اوڑھا کہ رضیہ بٹ بے اختیار کہہ اٹھیں کہ ’’ناول لکھتے ہوئے میرے ذہن میں شمیم نہیں تھی لیکن شمیم نے نائلہ بن کر ثابت کر دیا کہ میرا تخیل کتنا مبہم اور نامکمل ہے ‘‘۔
’’نائلہ‘‘ میں شمیم آراء نے اداکاری ہی تو نہیں کی تھی۔
پتا نہیں کیسے شمیم کو نائلہ کے تانے بانے پُتلی سے جڑے محسوس ہو گئے تھے۔
ٹوٹ کر جس کو چاہتی تھی اچانک روایات آڑے آ گئیں ۔ ، مامتا میں لپٹی خود غرضی اُس محبت کی دشمن بن گئی اورمحبوب نے مامتا کا کہا مانا، محبت کا دامن چھوڑ کر محبت سے محبت کی ہی قربانی چاہی۔ نائلہ کو سر جھکانا پڑ گیا مگر محبوب کے چھوٹے بھائی کو اپنا وجود سونپنا سوہان روح تھا چنانچہ۔
’’ہمیں آتا نہیں ہے پیار میں بے آبرو ہونا۔
سکھایا حسن کو ہم نے وفا میں سرخرو ہونا۔
ہم اپنے خون دل سے زندگی کی مانگ بھر دیں گے
یہ دل کیا چیز ہے ہم جان بھی قربان کر دیں گے۔
خلاف ضبط الفت ہم کو مر جانا بھی آتا ہے ‘‘
گنگناتے ہوئے شمیم ’’نائلہ‘‘ کے روپ میں باوقار انداز میں دنیا چھوڑ دیتی ہے۔
نائلہ کی ناقابل فراموش کامیابی نے شمیم آراء کو ناقابل تسخیر بنا دیا، چھوٹے بڑے ہر برانڈ کا بہترین اداکارہ کا ایوارڈ شمیم آراء کی جھولی میں آن گرا، معاوضہ پچاس ہزار سے تجاوز کر گیا، ہر فلمساز کی اولین خواہش شمیم کو اپنی فلم کی ہیروئین بنانا تھا، مردوں کی اجارہ داری کا گڑھ قرار دی جانے والی فلم انڈسٹری میں پہلی بار ایسا ہونے جا رہا تھا کہ طاقت کا سرجشمہ ایک عورت بن کر ابھر رہی تھی ، ایسا سورج جس کے غروب ہونے کا کوئی امکان دکھائی نہ دیتا تھا، فلم انڈسٹری کے نامی گرامی ہیروز اس بات پر معترض نہ ہوتے تھے کہ فلم کا مرکزی کردار شمیم کے پاس کیوں ہے ، پوری فلم کی کہانی شمیم کے گرد کیوں گھومتی ہے ، بر صغیر پاک و ہند میں ہیروئین شپ کے تصور کو شمیم آراء بناء کسی سوچ و بچار اور خواہش کے بدل رہی تھی، ، کمال پھانس سے ناسور بنتا جا رہا تھا ہر چند کہ ابھرتی ہوئی اداکارہ رانی سے کمال کی محبت کے قصے وہ سنتی رہتی تھی مگر پھر بھی دل سے اٹھنے والی ہوک کمال کے نام کی ہی عطا تھی، عجیب بات تھی جو چاہتی تھی وہ ہوتا دکھائی نہیں دیتا تھا ، جو ہو رہا تھا وہ چاہا نہ تھا اور جو ہونے والا تھا وہ اگلے کئی سالوں تک کیلئے ایک قصہ بن کر دہرایا جانے والا تھا ، کچھ ایسا جو اُس کی ہستی کو فنا کر کے جوالا مکھی بنا دینے والا تھا اور وہ انجان تھی کہ اقبال بیگم اُس پر کونسی بجلی گرانے والی تھی وہ بجلی جس سے فلم انڈسٹری ہی نہیں شمیم آراء کے مداح بھی تھرا کر رہ گئے تھے۔ ………………۔
” سردار رند سے شمیم آراء کی اچانک شادی”۔
( نامہ نگار، کراچی)پہلے سے شادی شُدہ ادھیڑ عمر سندھ کے با اثر شخص سردار رند سے شمیم آراء کی شادی آنا فانا کر دی گئی، ذرائع کے مطابق شمیم آراء کی شادی زبردستی کی گئی ہے کیونکہ وہ سردار رند سے شادی کرنا نہیں چاہتی تھیں ، بھیدی نے انکشاف کیا ہے کہ شمیم آراء کی نانی نے انہیں بیہوشی کا انجیکشن لگوا کر نکاح نامے پر اسی بیہوشی کی حالت میں انگوٹھا لگوایا تھا اور اسی حالت میں ہی شمیم آراء کی رخصتی ہوئی، شمیم آراء کی نانی اقبال بیگم سے اس بارے میں بات کرنے کیلئے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کچھ بھی کہنے سے صاف انکار کر دیا، یاد رہے اداکار کمال سے شمیم۔ آراء کی نانی نے دو لاکھ روپے شادی کے عوض مانگے تھے ممکن ہے کہ سردار رند سے بھی انہوں نے شادی کی مد میں رقم وصول کی ہو”۔
وہ عجیب شادی تھی، نہ شگن کے گیت گائے گئے تھے ، نہ ڈھولک بجی تھی، نہ کسی نے چاؤ پورے کیئے ، نہ تیل مہندی ہوئی، نہ ایجاب و قبول، نہ سہیلیوں کی سرگوشیاں اور نہ ہی دعاؤں کی چھپر چھایا میں رخصتی، بس رات اندھیرے اپنی طاقت کے رتھ پر سوار سردار آیا، دولت کی تلوار لہرائی ، نانی اقبال نے میر جعفر کا کردار بخوبی ادا کیا اور شمیم آراء فتح۔
ہوش میں آنے پر اُس بڑی حویلی میں خود کو سردار رند کے قرب میں پا کر وہ حیران سے زیادہ پریشان ہوئی تھی، سوالوں کا انبار ذہن میں اژدہے کے سو مونہوں کی طرح کلبلاتے ہوئے اٹھا تھا، وہ کیسے کسی ایسے شخص کے پہلو میں ہو سکتی تھی جس کے صرف نام، مرتبے اور اقبال بیگم کے ساتھ قریبی مراسم سے وہ واقف تھی اور وہ اپنا تعارف اُس کا شوہر کہہ کر کروا رہا تھا، اُس سے بے تحاشا لگاوٹ سے پیش آ رہا تھا۔
“مجھے نانی سے بات کرنی ہے ”، اُس کے ہاتھ کو اپنے کندھے سے ہٹاتے ہوئے شمیم نے کہا تھا۔
“نانی سے کیا بات کرنی ہے ہم ہیں ناں سرکار تمہاری ہر بات سننے ، ہر حکم پر سر جھکانے کیلئے ”، سردار کے لہجے میں عشق اپنے تمام تر بازاری پن کے ساتھ چھلکا تھا، سردار رند بھی بے چارہ کیا کرتا، اپنی دانست میں بیوی رخصت کروا کر لایا تھا، کہاں سے؟، بازار سے، کہنے کو بیاہ کر لایا تھا مگر ایسی بارات سے زیادہ رونق تو جنازوں میں ہوتی ہے۔۔۔ وہ اسی انداز میں مخاطب تھا جو بیویوں سے نہیں لونڈیوں سے مخاطب ہونے کا لہجہ ہوا کرتا ہے، شمیم اُسے دیکھ کر رہ گئی، فلمی دنیا نے اُسے لہجوں اور نظروں کی پرکھ خوب کروا دی تھی۔
” آپ کے لئے احکامات تو میں تب جاری کروں گی جب میں اس تعلق کو تسلیم کروں گی کیسی شادی ہے یہ؟ جس میں میری مرضی ہی شامل نہیں ”، شمیم نے بے حد سنجیدگی سے کہا تھا۔
“تمہارے لئے کیا اتنا کافی نہیں کہ سردار نے تمہیں پسند کیا اور اپنا لیا؟”، سردار نے نرمی سے کچھ اس انداز میں پوچھا جیسے کہہ رہا ہو کہ میرا زبان سے کہنا ہی سند ہے۔
“نہیں ! جس نکاح کے وقت میں ہوش میں ہی نہیں تھی اُس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ”، شمیم نے کسی بھی چیز سے متاثر ہوئے بغیر کہا تھا، اور سردار نے چند ہی دنوں میں وہ نکاح نامہ اُسے دکھا دیا جس کی حیثیت ردی کے ٹکڑے جتنی بھی نہیں ہوتی جو اگر کسی کا دل اسے تسلیم نہ کرتا ہو، مگر یہ بنیادی نقطہ اس معاشرے میں سمجھتا کون ہے؟، عدالتیں ۔۔۔ قانون۔۔۔ ، انسانی حقوق کے علمبردار۔۔۔ ، مولوی۔۔۔ ، کوئی نہیں ۔
“کتنے میں سودا کیا ہے اس نکاح نامے کا آپ نے؟”، شمیم نے پوچھا تھا۔
“محبت کے عوض جانِ رند”، سردار نثار ہی تو ہو گیا تھا، شمیم کی زبان سے ادا ہونے والا ہر فقرہ سردار کیلئے کسی فلمی مکالمے کی طرح ہوتا تھا، لاشعوری طور پر اُس کی نہ جانے کونسی نفسیاتی حس کی تسکین ہوتی تھی کہ “شمیم- فلم ہیروئین” حقیقی زندگی میں وہی ناز و انداز اسے دکھا رہی ہے جو وہ فلم کے پردے پر ہیرو کے ساتھ پیش کرتی تھی۔
“محبت خریدی نہیں جاتی سردار صاحب”، شمیم کا لہجہ سرد ہوا تھا، جواب میں سردار رند کی دیوانگی بڑھی تھی۔
“چلو! تو ہم نے یہ انہونی بھی کر دکھائی”، سردار کا لہجہ تھا کہ صرف اور صرف تفاخر کی للکار تھا، وہ دیکھتی رہ گئی۔
سردار کی وارفتگی، مد ہوشی شمیم کیلئے جھیلنا مشکل تھا مگر کوئی راہ فرار نہیں تھا، حیرت کی بات یہ تھی کہ اقبال بیگم کے ہر کاری وار کو وہ تقدیر کی رضا کہہ کر مارے باندھے قبول کرتی آئی تھی،یہ سردار رند تھا جسے وہ اپنا نصیب مان کر نہیں دے رہی تھی، “مجھے یہاں سے نکلنا ہی ہو گا مگر کیسے؟”، باہر کی دنیا سے اُس کا کوئی رابطہ نہیں تھا۔
یہ بھی عجیب تھا کہ وہ نہ روئی تھی اور نہ گڑگڑائی تھی، بس اتنا تھا کہ وہ سردار کی نظروں ، اُس کے وجود، اُس کے لمس، اُس کے لہجے کی تپش، ہر اُس چیز سے دور جانا چاہتی تھی جو اُس کے بدن کے روم روم کیلئے کینچوا بن رہی تھی۔
“نانی سے ملنے کب جا سکوں گی؟”، کچھ ہی ہفتوں بعد اُس نے سردار سے استفسار کیا تھا، جو اُسے حویلی لا کر دنیا و مافیہا سے خود تو بیگانہ ہو ہی گیا تھا ساتھ ہی اُسے بھی دنیا بھر سے کاٹ رکھا تھا، سینکڑوں خادمائیں تھیں جو سپر سٹار کی حیثیت سے نہیں اپنے مائی باپ کی نئی اور چہیتی بیوی کی حیثیت سے اُس کی ایک جنبش ابرو کی منتظر رہا کرتی تھیں ، سونے ہیرے جواہرات کے ڈھیر تھے جو سردار نے اُس کے سامنے کھول کر رکھ دئیے تھے اور ایک وہ تھی کسی بھی چیز کو کوئی اہمیت دیئے بغیر اچٹتی سی نگاہ ڈال کر نانی کا پوچھنے بیٹھ جاتی تھی۔
“اقبال بیگم کو تو تم بھول جاؤ، تم اب ہماری ہو، ہمارے دل کی ملکہ، یہاں راج کرنا ہے اب تمہیں ، شادی کیسے ہوئی یہ بھی اہم نہیں رہا، اہم یہ ہے کہ تم اب ہماری ملکیت ہو، ہماری محبت”، سردار اگلے کئی ہفتے شمیم سے محبت کا اظہار کرتا رہا، کب کس لمحے اُس کے دل پر شمیم نے شب خون مارا تھا، یہ بتاتا رہا، کون سی دلنواز ادا تھی جو سردار کو گھائل کر گئی یہ بتاتا رہا، محبت کی چاہ رکھنے کے باوجود شمیم کے “بت” میں وہ جو “پُتلی” کی روح تھی وہ سرشار ہونے کے بجائے بیزار ہونے لگی تھی، کیوں نہ ہوتی۔
سردار رند اُسے پہلی نظر میں اچھا نہیں لگا تھا اور اس کے قریب آ جانے پر اُس نے جانا تھا کہ وہ صرف برا ہی نہیں بلکہ بدقماش اور اوباش بھی تھا۔
شمیم کو اُس کے وجود سے گھن بھی آتی تھی اور کراہیت بھی، وہ اُس کی موجودگی میں ہی نہیں غیر موجودگی میں بھی گھٹن محسوس کرتی تھی، اُسے حویلی کی کھڑکی سے آسمان پر اڑتے، درختوں کی شاخوں پر جھولتے، معمولی سے دانہ دُنکے کی تلاش میں پھرتے ہوئے پرندوں پر رشک آتا تھا، کیسی عیاشی کی زندگی تھی اُن کی اور ایک وہ تھی، عالیشان حویلی میں سر ٹکرانے اور گھٹن سے مر جانے کیلئے جسے بھیج دیا گیا تھا اُس کی رضا کہ بغیر کس لئے نوٹوں کیلئے۔
روپیہ۔۔۔ ، بے حساب روپیہ جس کیلئے اُس کے انکار کو نانی اقبال نے چٹکیوں میں اڑا دیا تھا، سردار سے دو ٹوک بات کرنے سے پہلے ضروری تھا اقبال بیگم سے سچ اُگلوانا کہ آخر یہ شادی نامی سزا اُسے کیونکر دی گئی اور اس عوض اقبال نے کتنا مال بٹورا، شمیم کو کوئی جلتے توے پر بیٹھ کر بھی یقین دلاتا کہ سردار سے یہ شادی روپے کیلئے نہیں کی گئی، تب بھی وہ یقین نہ کرتی اور اُس کا یہ شک غلط نہیں تھا۔
سردار کے ساتھ سودا یکمشت ادائیگی کی صورت نہیں ہوا تھا سردار نے اقبال بیگم کی ماہانہ بھاری رقم کا مطالبہ صرف اس بات پر تسلیم کیا تھا کہ نانی اقبال اور اُس کے خاندان سمیت فلمی دنیا کے کسی شخص سے بھی شمیم کا کوئی تعلق نہیں رہے گا، کب تک؟، جب تک وہ نہ چاہے اور سردار رند نے شمیم کو کب تک چاہنا تھا یہ نانی اقبال کی شاطرانہ نظریں بہت پہلے بھانپ گئی تھیں ، اقبال بیگم کا حساب صاف تھا، سردار رند با اثر بھی تھا اور طاقت ور بھی، وہ اپنی وقتی محبت کے ہاتھوں اُس وقت شمیم آراء کو سونے میں بھی تول سکتا تھا اور اس قدر ضد میں آیا ہوا تھا کہ شمیم کے حصول کیلئے کسی بھی حد سے گزر سکتا تھا، وہ موٹی آسامی تھا اُس کا پھنسنا ہی اقبال بیگم کیلئے بہتر تھا رہ گئی اُس کی “پُتلی بائی” تو وہ ایسی موم کی ناک تھی جسے اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھالنا اقبال بیگم کیلئے کبھی دشوار نہیں رہا تھا۔ “شمیم”کے پر نانی کے ہاتھ میں تھے بس کترنے کی دیری تھی اور “پُتلی” نے ڈھیر ہو جانا تھا، بیہوشی کے انجیکشن لگا کر نکاح نامے پر شمیم کا انگوٹھا لگوانے کی بات بھی سردار نے شمیم کے دو ٹوک شادی سے انکار پر کی تھی اور نانی اقبال نے اسے بھی قبول کرنے سے دریغ نہیں کیا تھا۔
“ارے بٹیا بہتیرا سمجھایا تمہاری بہن کو مگر اُس کے تو کان پر جوں ہی نہیں رینگتی”، روشن نے ساری کتھا جان کر صرف ایک بار اعتراض کیا تھا، “وہ تو مجھے مانو دشمن ہی سمجھ بیٹھی ہے، کمال صرف اپنے مفادات کیلئے پُتلی بائی سے شادی کرنا چاہتا تھا، اُس سے شادی کر کے شمیم کو کچھ بھی نہیں ملنا تھا، سردار صاحب تو اتنے امیر ہیں ، اتنے طاقتور ہیں ، تمہاری بہن کی قسمت سنور جائے گی، جھولی بھر بھر کے دعائیں دے گی مجھے ”، اقبال بیگم نے روشن کے فرشتوں کو بھی بھنک نہ پڑنے دی تھی کہ یہ شادی، شادی نہیں “غرض” اور “خواہش” کا آپس میں گٹھ جوڑ ہے، اقبال کو بیش بہا روپیہ مل جائے گا اور سردار رند کو جذبات ٹھنڈے کرنے کیلئے کھلونا، باقی رہے نام اللہ کا اور روشن مطمئن ہو گئی تھی۔
نانی اقبال کو تو خیر خوف خدا تک نہیں تھا پھر فلمی صحافیوں اور شمیم آراء کے مداحوں کی کیا حیثیت تھی، اقبال بیگم نے اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کو قطعاً اہمیت نہ دی البتہ فلمسازوں کو وہ دھیرج رکھنے کی تلقین کرتی رہی “شمیم جلد ہی فلمی دنیا میں لوٹ آئے گی آپ سب اطمینان رکھیں ” اور فلمساز بے چارے اطمینان سے زیادہ صبر کے گھونٹ پی کر رہ گئے کیونکہ اُن سب کی ہی تقریباً پچاس پچپن فیصد فلمیں مکمل ہو چکی تھیں اور وہ متحمل نہیں تھے کہ اس مقام پر ہیروئین تبدیل کرتے، البتہ وہ فلمساز فائدے میں رہے جن کی فلموں کا دس بارہ فیصد ہی کام ہوا تھا۔
بے حسی تھی نا کہ ایک جیتے جاگتے انسان کو یوں بیچ دیا گیا اور لوگوں کو صرف غرض اس بات سے تھی کہ کہیں اُن کا روپیہ نہ ڈوب جائے۔
شمیم کے مداحین بھی بس نانی اقبال پر چار حرف بھیج کر چپ ہو جاتے بعض کے خیال میں یہ نا ممکن تھا، بھلا ایک طاقتور ہیروئین، روپے پیسے والی ہیروئین، ایک نامی گرامی ہستی کی شادی بھی بھلا اس طرح زور زبردستی ہو سکتی تھی، کس کی عقل نے یہ سچ تسلیم کرنا تھا؟، وہ ایک اداکارہ کی ایک رئیس آدمی سے شادی تھی، جس کے عوض بھاری رقم اینٹھنا ہی مقصد تھا اور بھلا طوائف زادیاں بھی کبھی کسی کُٹیا کا چراغ بننا پسند کرتی ہیں ، انسانوں کا یہ ہجوم بھلا کب اس بات پر متفق ہوا ہے کہ طوائف زادی، اداکارہ، عورت بھی انسان ہوا کرتی ہے، ”جسم” ہی نہیں “روح” بھی رکھتی ہے، “خواہش” ہی نہیں “احساس” بھی اُس کے وجود کا جزو ہوا کرتا ہے، ناخن گوشت سمیت اُس کی انگلی سے اکھیڑا جائے تو اسی قدر تکلیف محسوس وہ بھی کرتی ہے جتنی تکلیف تھیٹر میں بیٹھا “تماش بین” اور گھر میں بیٹھ کر لالچی اور بُری عورت کا فتوی دینے والی “شریف زادی”۔
فلمی حلقوں میں نانی اقبال بیگم کو ایک اور لقب دے دیا گیا تھا، ”چیل”، کوئی ذی روح ایسا نہیں تھا جو اقبال بیگم کیلئے زبان پر اچھا لفظ اور دل میں ستھرے خیالات رکھتا اور اقبال بیگم کو اس کی بھی چنداں فکر نہیں تھی۔
“یہ دنیا ہے، یہاں عزت نہیں روپیہ پیسہ کی اہمیت ہوتی ہے، یہ نہ ہو تو یہی دنیا جسے اخلاقیات کے دورے پڑتے ہیں غریب کو روٹی دکھا دکھا کر کھاتی ہے، اُس کے تن کے چیتھڑے بھی نوچ لیتی ہے ، مجھے جوتی برابر بھی پرواء نہیں کہ لوگ کیا کہتے ہیں ”، وہ واشگاف الفاظ میں کہتی تھی۔
دوسری جانب شمیم کی بیزاری اُس کے ہر ہر انداز سے سردار کو باور کروانے لگی تھی کہ اُس نے خسارے کا سودا کر لیا ہے، اپنے تئیں سردار رند پاکستان کی جس The Most Wanted عورت کو اپنے عشرت کدے کی زینت بنا کر لایا تھا کہ سارا پاکستان اُس کی قسمت پر رشک کرے، کئی مرد کرتے بھی ہوں گے وہ جو سردار رند جیسی سوچ رکھتے ہیں ، مگر وہ کسی بھی چیز سے خوش ہی نہ ہوتی تھی، محبت کے اظہار پر لب سل جاتے، لگاوٹ و دلداری کا مظاہرہ کرتا وہ برف کی سل بن جاتی، ہاتھ چھڑاتی، سمٹتی سردار یہ سب اُس کی ادائے دلبری پر معمور کرتا مزید ناز برداری کرنے لگتا، آخر کونسی چیز تھی جو اُسے بھا سکتی تھی، سردار نے اتنے نخرے اپنی پوری زندگی میں کسی کو دکھائے نہیں تھے جتنے وہ شمیم کے اٹھا رہا تھا، وہ اپنے “وجود”کو منوانے کیلئے اُس کے وجود کو”زیر” کرنے کی کوششوں میں سرگرم تھا، وہ کیا دنیا کا شاید کوئی بھی انسان اس بات کو نہیں سمجھ سکتا کہ وجود کا “کُل” دل ہوتا ہے اور دل اگر کسی کے وجود کو تسلیم نہ کرے تو خواہ کسی مملکت کے شہنشاہ کا وجود ہی کیوں نہ ہو، خاک سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا اور سردار کیلئے اگر “دل” کچھ معنی رکھتا تو وہ شمیم آراء کا دل جیتنے کی کوشش کرتا مگر سردار رند کا مسئلہ “پُتلی” سے محبت نہیں تھا، سردار رند کا مسئلہ “شمیم آراء” سے عشق تھا اور شمیم آراء دیگر باتوں کے ساتھ اس حقیقت کو بھی جاننے لگی تھی۔
سردار رند نے شادیوں پہ شادیاں کرنی ہی تھیں کیونکہ اُس کی نیت میں “سیری” نہیں تھی، شمیم سے شادی اس لئے کر لی تھی تاکہ وہ اگلے کئی سالوں تک اسی خیال سے شانے چوڑے کر کے اکڑ کر زمین پر چلتا رہے کہ پاکستان جس پر مرتا ہے وہ اُس کے تصرف میں ہے، جس کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے مرد اپنی عمر بھر کی پونجی لٹانے کیلئے تیار رہتے ہیں ، وہ عورت خلوت میں اُس کے مقابل ہوتی ہے، شمیم سے اگر محبت ہوتی سردار کو تو وہ اُسے “عورت” سمجھتا، ”ہیروئین” نہیں ، چند ہی ماہ میں وہ خمار ٹھنڈا ہونے لگا تھا کہ جس کی اقبال بیگم کو کامل توقع تھی۔
شمیم اُس کے ساتھ ویسا برتاؤ کر رہی تھی جیسا کوئی بھی عورت ناپسندیدہ مرد کے ساتھ کرتی ہے، سردار رند کی خواہش رہتی کہ وہ ٹھیک اسی طرح سج سنور کر رہے جیسے فلم کے پردے پر جگمگاتی تھی، وہ اُس کے ساتھ اسی طرح رومانوی مکالمے بولے جیسے فلم کے ہیرو کے ساتھ اُس کی آنکھوں میں ڈال کر بولتی تھی اور وہ اسی انداز میں اُس کیلئے گیت بھی گنگنائے، اپنی دانست میں سردار بازار سے بیوی لایا تھا مگر وہ مخصوص مردوں کا دل بہلانے والے بازاری لوازمات سے عاری تھی، سردار کو ہیروئین میں بیوی چاہیئے تھی جبکہ نہ تو شمیم کے پاس کوئی سکرپٹ تھا نہ ہی ہدایت کار جو ایکشن کی صدا لگاتا اور شمیم کردار میں ڈوب جاتی چنانچہ شمیم کا عام عورت کی طرح پیش آنا سردار کی غیرت، انا اور مردانگی کو گوارا نہیں تھا، وہ اپنے جذبات کی پذیرائی چاہتا تھا اور جواب میں شمیم آراء کی سرد مہری جو گلیشئر کو بھی ٹھٹھرا دیتی، پاتا، نتیجتاً جو کام چند سالوں میں ہونا تھا وہ تیسرے ماہ میں ہی ہو گیا، سردار رند کے دل سے شمیم آراء کے نام کا پانی اترنے لگا تھا، سردار رند کے بحث و تکرار پر شمیم آراء خاموش رہتی، وہ یہ بھانپ چکی تھی کہ اُس کی خاموشی سردار کو زچ کرتی ہے اور وہ خاموش رہ کر ہی اُسے کسی انتہائی فیصلے کیلئے اُکسانے لگی تھی لیکن ہوا کچھ الٹ، سردار نے اقبال بیگم کو معاوضہ دینا بند کر دیا اور اقبال بیگم کے چھکے چھوٹ گئے، جیسے تیسے وہ اندرون سندھ کے اُس علاقے تک جا پہنچی جہاں سردار کی وہ حویلی تھی جس میں شمیم کو رکھا گیا تھا مگر سردار کے کارندوں اور حفاظتی اہل کاروں نے اقبال بیگم کو شمیم آراء سے ملنا تو دور اُس تک یہ خبر بھی پہنچنے نہ دی کہ وہ اُس سے ملنے آئی ہے اور یوں اقبال بیگم آنسوؤں سے روتی ہوئی، سردار کی رعونت کو کوستی ہوئی واپس ہو لی۔
۔۔۔۔۔۔
وہ زعم دکھا سکتا تھا، دولت تھی، طاقت تھی اگر وہ اس خیال کے ساتھ زمین پر رعونت سے اکڑ کر چلتا تھا کہ اُس کے علاقے میں چڑیا پر نہیں مار سکتی تو کچھ عجب اور غلط تو نہیں تھا کیونکہ وہ ایسا کرنے کی قدرت رکھتا تھا، سودے کے کچھ عرصے بعد اگر اُس کی رغبت شمیم سے کم ہونے لگی تھی، عشق کا نشہ اترنے لگا تھا، خواہش دم توڑنے لگی تھی تو بھی کیا عجب تھا، قانون فطرت ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ گرم، سرد میں اور سرد، گرم میں بدلنے لگتا ہے اور پتا نہیں یہ اچھا ہوا یا بُرا کہ اس سے پہلے شمیم سردار کے ہاتھوں کوئی “بُرا” وقت دیکھتی ایک روز سڑک پر کھڑے ملک الموت نے سردار رند کو جا لیا جو شمیم کیلئے رحمت کا فرشتہ ثابت ہوا تھا کہ سردار رند سے بناء کسی تلخی کے ہی خلاصی کروا دی۔
جس حویلی سے ممکنہ طور پر اسے دھتکار کھا کر نکلنا تھا وہ اُس حویلی سے بیوگی کی چادر اوڑھ کر نکلی۔
***
سن ہے 1967 فلم “لاکھوں میں ایک” ریلیز ہو کر کامیابیوں کے اگلے پچھلے ریکارڈ توڑ ڈالتی ہے، وہی “لاکھوں میں ایک” جو بھارتی شومین راج کپور کو کچھ یوں بھائی کہ انہوں نے اسی کہانی کو جوں کاتوں رکھتے ہوئے اپنا ڈریم پراجیکٹ “حنا” کے نام سے بنایا۔
شمیم آراء “شکنتلا” کے روپ میں کچھ ایسے سکرین پر پیش ہوئی کہ اچھے اچھوں کی زبانیں تالو سے جا چپکیں ، نور جہاں کے گائے گیتوں نے ملک گیر شہرت پا کر تہلکہ مچا دیا۔
سُن ساجنا دکھی من کی پکار۔
چلو اچھا ہوا تم بھول گئے اک بھول ہی تھا میرا پیار۔
ساتھی کہاں ہو آواز تو دو پل پل میرا پیار پکارے۔ حالات بدل نہیں سکتے۔
من مندر کے دیوتا۔
کہانی، موسیقی اور ہدایت کاری ایک طرف مگر یہ شمیم آراء تھی جس نے ایک بار پھر شکنتلا کا سوانگ بھر کر میلہ لوٹا تھا وہ بھی دن دہاڑے، تقسیم کے وقت اپنے ہندو خاندان سے بچھڑ کر ایک مسلم خاندان میں پلنے والی شکنتلا جو بچپن کے سنگی سے محبت کر بیٹھتی ہے مگر پھر اُسے اپنے دیش جانا پڑتا ہے، اپنے مسلم باپ کو چھوڑ کر اچانک ہندو پتا کو اپنانا پڑتا ہے، اپنے ہندو منگیتر کی تعصبی سوچ کو برداشت کرنا پڑتا ہے اور بالآخر انسانیت اور دین دھرم کی کشمکش سے لڑتے ہوئے دونوں ملکوں کی سرحد پر گولیوں کا شکار ہو کے وہ دنیا چھوڑ دیتی ہے، شرارتی و شوخ و شنگ حسینہ اور بعد ازاں تلخ حقائق کے آگے مصلوب ہو جانے والی لڑکی کے اس لائف سائز کردار کو شمیم نے جس عمدگی اور خوبصورتی سے برتا وہ اپنی مثال آپ ہی تھا، گزشتہ ڈیڑھ برس کے عرصے میں شمیم کی شادی اور بیوگی کے بعد شمیم مخالف کیمپ فلم انڈسٹری میں متحرک ہو چکا تھا اور جگہ جگہ یہ بات گردش کر رہی تھی کہ شمیم آراء نامی چراغ اب بجھ چکا ہے، انڈ و پاک کے فلم بین شادی شدہ ہیروئین کو کسی صورت برداشت نہیں کر سکتے کُجا کہ ایک بیوہ ہیروئین۔
شمیم آراء کونے کھدروں میں اپنے مخالف گروہ کی سرگوشیوں سے بخوبی واقف تھی مگر اُس نے چپ سادھی رکھی، اس عرصے میں بہت کچھ ہوا جس پر شمیم آراء نے کسی قسم کا کوئی رد عمل نہیں دکھا یا، کوئی انٹرویو نہیں دیا، صحافیوں سے فلموں کے سیٹ اور اسٹوڈیوز کے آفسوں میں چائے کھانے پر بات چیت رہی لیکن اُس کی درخواست پر کسی صحافی نے شمیم آراء کا کوئی بیان کسی بھی حوالے سے شائع نہ کر کے شمیم آراء کیلئے اپنے دلوں میں موجود عزت و احترام کا ثبوت دیا، ہر ایک کے نزدیک یہ خاموشی کسی طوفان کا پیش خیمہ تھی اور پھر اسی فلم کیلئے ایک اور بہترین اداکارہ کا ایوارڈ وصول کرتے ہوئے شمیم آراء نے سٹیج پر وہ ایوارڈ اپنے ناقدین اور مخالفین کے نام کرتے ہوئے اپنے مخصوص میٹھے لہجے اور مختصر الفاظ میں ڈیڑھ سال مسلسل ہونے والی سنگ باری کا منہ توڑ جواب دے کر ایک بار پھر اگلے کئی ہفتوں تک ایک نئی بحث کیلئے موضوع جیسے پلیٹ میں سجا کر پیش کر دیا تھا۔
کئی ایک تھے جو اس بات پر حیران تھے کہ آخر یہ چمتکار ہو کیسے گیا کہ فلم بینوں نے ایک بیوہ اداکارہ کو ہیروئین کی حیثیت سے پھر قبول کر لیا، فلم نے ریکارڈ توڑ بزنس کر لیا، امسال بھی شمیم سارے ایوارڈز لے اُڑی اور اسی پر بس نہیں شمیم کی کردار نگاری اور اُس کے فنی قد پر خصوصی مقالے بھی لکھے گئے، تقریباً ہر ایک اس کایا پلٹ پر حیران تھا، شمیم آراء پلٹ کر جھپٹنے والی فطرت تو نہیں رکھتی تھی پھر۔ ۔
شمیم کو انگشت بدنداں کرنا آتا تھا اور وہ ایسا کر رہی تھی۔
اُن ڈیڑھ سالوں میں شمیم آراء کے مداحوں میں اس بیوگی کے باوجود اضافہ ہی ہوا تھا اور یہ چیز اکثریت کے ہاضمے کیلئے گرانی کا سبب بن رہی تھی۔ دوسری جانب ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں تھی جو شمیم آراء کو ویمپ بنا کر پیش کرنے کا موقع ہاتھ سے جانے دیتے کہ “بجائے بیوہ ہو کر اک کنارے پر ہو بیٹھنے کے کس قدر بے حس عورت ہے کہ لائم لائٹ میں واپس آ گئی”، خاص کر اداکارہ زیبا کو شمیم آراء کے اس “ظالمانہ فعل” سے شدید اختلاف تھا اور وہ اکثر انٹرویوز میں ڈھکے چھپے لفظوں میں شمیم آراء پر تنقید کرتی رہی تھی، زیبا چار پانچ سالوں میں ابھرنے والی وہ ہیروئین تھی جسے شمیم آراء کیلئے حقیقتاً خطرہ قرار دیا جانے لگا تھا، شمیم آراء کی اچانک شادی کا پیشہ ورانہ طور پر فائدہ زیبا کو ہی ہونا تھا، جو شمیم کے دوبارہ فلمز میں آ جانے پر ممکن نہ رہا تھا لیکن یہ پیشہ ورانہ حسد زیبا کی “پُرخاش” کا سبب نہیں تھا، زیبا کے دل میں شمیم کیلئے عناد کا بیج بنا تھا اداکار “محمد علی”۔
محمد علی کی زیبا یا زیبا کا محمد علی۔
شمیم آراء کے دل کا ناسور۔
***
سردار رند کی حویلی سے وہ لاہور واپس پہنچنے کے بعد بجائے اقبال بیگم کے پاس جانے کے سیدھی اداکارہ بہار کے گھر گئی تھی، فلمی حلقوں اور اخبار نویسوں کو شمیم آراء کی بیوگی کی خبر بہار کے ذریعے ہی ہوئی تھی، جس قدر شاک شمیم آراء کی اچانک شادی سے لوگوں کو لگا تھا اس سے کہیں زیادہ گہرا صدمہ اچانک بیوہ ہو جانے کا پہنچا تھا، روشن نے شمیم سے رابطہ کیا تھا(وہ مستقل بنیادوں پر کراچی میں ہی سکونت پذیر تھی اور محافل کا اہتمام بتدریج کم ہونے لگا تھا) شمیم بہن سے اپنے دل کی بات کہنا، اُسے اپنی روح پر لگنے والے چرکوں کے نشان دکھانا، عرصہ ہو چلا تھا بند کر چکی تھی، مادی دنیا کے مادیت پرست رشتوں نے ایسی خاک چٹائی تھی اُسے کہ زندگی کی ہر ترتیب الٹنے لگی تھی، روشن فون پر روتی رہی، شمیم چُپ چاپ سب کچھ سنتی رہی، اُس کی تسلیاں ، اُس کے دلاسے، اُس کی تعزیت، دُکھ کی اس گھڑی میں وہ خود کو تنہا نہ سمجھے، شمیم کے ہونٹوں پر آنے والی طنزیہ مُسکراہٹ کو بہار نے بے حد تعجب سے دیکھا تھا، وہ اس طرح تو کبھی نہیں مُسکراتی تھی۔
نانی اقبال بیگم اُسے لینے آئی تو اُس کا خیال تھا کہ شمیم ضرور اُس سے جھگڑے گی، اُسے سخت سست سنائے گی، ساتھ چلنے پر راضی ہونا تو پھر بڑی دور کی بات تھی مگر اُسے شدید حیرانی نے آن گھیرا جب شمیم نے ایسا کچھ نہیں کیا، نہ روئی، نہ کوئی گلہ نہ کوئی شکوہ، وہ بے حد سرد انداز میں نانی سے ملی تھی۔
“بس بٹیا سوچا تھا کہ تم راج کرو گی اتنی صعوبتیں جھیلیں تم نے ، اتنی محنت کی زندگی گزاری، اپنے تئیں تو تمہارا بھلا ہی چاہا تھا کیا خبر تھی کہ یہ پہاڑ جیسا غم بھی آن ٹوٹے گا”، اقبال بیگم نے مقدور بھر آنسو کھینچ کر آنکھوں سے نکال ہی لئے تھے۔
شمیم کی طنزیہ مُسکراہٹ نے اقبال بیگم کی حیرت کو دوآتشہ کیا تھا، ”تم ضرور دل میں گلہ پالے بیٹھی ہو، بات کرو بٹیا، بات کرو گی نہیں تو بات بنے گی کیسے؟”۔
“کیا میں اپنی زندگی پر کوئی اختیار رکھتی ہوں ؟”، شمیم نے اقبال بیگم کے ساتھ گھر پہنچتے ہی پہلا سوال کیا تھا۔
“ہاں ہاں کیوں نہیں ؟”۔
شمیم نے اطمینان سے سر ہلا کر اُس کمرے کو پھر آباد کر لیا تھا جو اُسی کی کمائی سے بننے والے اُس گھر میں اُس کی واحد پناہ گاہ تھا۔
اقبال بیگم کوئی اندازہ کوئی قیافہ جوڑنے میں ناکام رہی تھی کہ شمیم کیا کرنے چلی ہے اور شمیم نے جو کیا تھا اُس نے اقبال بیگم کے پیٹ میں گرہیں ڈال دی تھیں ۔
***
“تم ایڈوانس واپس کیوں کر رہی ہو؟”، اقبال بیگم نے لہجے کی کھولن کو بڑی مشکل سے قابو میں رکھا تھا۔
“اس لیئے کہ مجھے اب کام نہیں کرنا”، اطمینان سے جواب دیا گیا۔
“کام نہیں کرنا تو پھر کیا کرو گی آرام؟”، طنزیہ ہنکارا بھرتے ہوئے اقبال بیگم اُسے سمجھانے بیٹھ گئی تھی “بٹیا ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھے رہنے سے تو قارون کا خزانہ بھی ایک دن ختم ہو جاتا ہے، تم یوں ایڈوانس واپس کرو گی تو اپنے پلے کیا رہ جائے گا”، شمیم بے حد غور سے نانی کا چہرہ دیکھ رہی تھی، ڈھلتی ہوئی عمر نے اقبال کے چہرے پر کچھ نئی جھریاں ڈال دی تھیں ، اُس چہرے کے نقوش شمیم کیلئے پُرانے ہو چکے تھے مگر ہر بار اقبال بیگم کا وہ ایک نیا ہی چہرہ دیکھتی تھی، پتا نہیں شمیم کیسی مومن تھی کہ ہر بار دھوکہ کھا کر پھر اسی اقبال بیگم کے دام میں آ جایا کرتی تھی۔
“تمہاری جگہ کوئی اور ہوتی تو سردار سے اُس کی آدھی جائیداد تو ہتھیا ہی سکتی تھی ساری عمر کام آتی”۔
“ اور جو ہر ماہ بھاری رقم آپ وصول کرتی رہی ہیں اُس کھاتے کا کیا بنا ہے ”، ٹھنڈے لہجے میں شمیم نے کہا تھا اور اقبال کے پیروں سے زمین کھینچی تھی۔
چند لمحوں کے اندر اندر اقبال نے خود کو سنبھالا اور وضاحت دینے ہی لگی تھی کہ شمیم نے ٹوک دیا “میں اس بارے میں اب کوئی بات نہیں کرنا چاہتی اور آپ بھی مجھے مجبور نہ کریں کسی کام کیلئے ”۔ “شمیم”نے ایک بار پھر دو ٹوک فیصلہ سنایا تھا۔
“پُتلی” نے ایک بار پھر اپنے پیروں پر کلہاڑی ماری تھی۔
***
محمد علی شاندار و بارعب شخصیت، اونچے قد کاٹھ، مضبوط کاٹھی، آواز و لہجے کے زیر و بم اور آنکھوں میں بچوں کی سی شرارت رکھنے والا پاکستان کا پہلا اور اب تک کا آخری سپر ہیرو تھا، المیہ و طربیہ اداکاری میں یکتا تصور کیئے جانے والا محمد علی شمیم آراء کے ساتھ تب تک کام نہیں کر سکا تھا اور خواہش رکھتا تھا کہ پردہ سیمیں پر شمیم آراء کے مقابل بھرپور کردار میں جلوہ گر ہو جبکہ شمیم آراء اُس سے سینئر تھی۔
فلمی وفد محمد علی کی قیادت میں شمیم آراء سے تعزیت اور اظہار ہمدردی کے لئے ملا تھا لیکن درپردہ شمیم کو اس اقدام سے روکنا تھا اور اُسے قائل کرنا تھا کہ وہ فلموں میں کام نہ کرنے کا فیصلہ واپس لے لے۔
شمیم آراء محمد علی کی بہت عزت کرتی تھی اور یہ فلمی وفد کے کہے سے زیادہ محمد علی کا مان تھا جو شمیم آراء نے رکھا تھا۔
ہمایوں مرزا کی “آگ کا دریا” ہی وہ پہلی فلم تھی جو شمیم آراء نے بیوگی کے بعد سائن کی تھی اور جس میں مقابل محمد علی ہی تھا۔
“آگ کا دریا” باکس آفس پر کوئی خاص تہلکہ تو نہ مچا سکی لیکن شمیم کی مسلسل ناکام ہوتی فلموں کا سلسلہ کسی حد تک رُک گیا تھا، آگ کا دریا میں شمیم آراء اور محمد علی کے درمیان یہ غضب کی پیشہ ورانہ ہم آہنگی تھی جو فلم کے المیہ، رومانوی اور ڈرامائی مناظر میں بخوبی دکھائی دی تھی خاص کر دونوں ہی کو مکالموں کی ادائیگی پر عبور تھا چنانچہ سنجیدہ مزاج رکھنے والے فلم بینوں نے اُن کی مشترکہ پہلی فلم کو خاصا پسند کیا تھا اور کئ فلمسازوں نے اُن دونوں کو اپنی فلمز کیلئے بُک کر لیا تھا، شمیم آراء یہ بات جان گئی تھی محمد علی خود بھی فلمسازوں سے فرمائش کر رہا ہے کہ اُس کے مقابل شمیم کو کاسٹ کیا جائے اور وہ یہ بھی جانتی تھی کہ زیبا اور محمد علی کے درمیان کوئی سلسلہ ہے جس کی بازگشت فلمی حلقوں میں گونجتی رہتی ہے۔
زیبا اپنے ہی مزاج کی فنکارہ تھی کسی ساتھی اداکارہ سے اُس کی نہیں بنتی تھی، سب سے الگ تھلگ اور لئے دیئے انداز میں ہی رہا کرتی تھی، محمد علی زیبا کو بے حد پسند کرتا تھا مگر زیبا اُسے زچ کرنے ، چھیڑنے اور پریشان کرنے کا کوئی موقع گنوانا گویا اپنی ذات کی نفی گردانا کرتی تھی، چنانچہ محمد علی نے بھی جواباً زیبا کو جلانے کیلئے دیگر ہیروئنز کے ساتھ بے تکلفانہ ہنسی مذاق کرنا شروع کر دیا تھا، شمیم آراء کی جانب پیش بندی بھی اسی سلسلے کی اک کڑی تھی مگر نتیجہ الٹ نکلا، زیبا نے اداکار سُدھیر سے شادی کر لی اور جیسے محمد علی پر بجلی بناء کڑکے ہی گر پڑی تھی۔
شمیم آراء کے ساتھ محمد علی کی جوڑی کو سراہا جانے لگا تھا اور فلم بین اُن کی فلموں کے منتظر رہنے لگے تھے ، یہ وہ ایام تھے جب شمیم آراء کے روز و شب گھر کے بجائے سٹوڈیوز میں بسر ہوتے تھے ، یوں گُمان ہوتا تھا کہ وہ گھر کے تصور سے بھی فرار چاہتی ہے دوسری جانب محمد علی تھا جس کے ارمانوں پر چھریاں چلی تھیں یت وہ ایک دوسرے کے قریب آتے گئے ، شمیم کی فلمز ناکامی سے دوچار تو ہی رہی تھیں ، جذباتی لحاظ سے بھی وہ ایک کڑے دور سے گزر رہی تھی، زندگی میں کسی ایسے انسان کا نام و نشان تک نہیں تھا جو بیٹھ کر اُسے یہ نہ بتاتا کہ ہاں ! تمہاری زندگی جہنم بن چکی ہے ، مرعوبیت کا اظہار نہ کرتا کہ وہ کتنی کامیاب ہے، کتنی باکمال اداکارہ ہے، ریکارڈ معاوضہ وصول کرنے والی واحد سپرسٹار ہے ، اُسے تلاش تھی اُس ایک کی جو اُس سے ہمدردی نہ کرتا، اُس پر ترس نہ کھاتا بلکہ اُسے ایک انسان کی حیثیت سے چاہتا، اُس کی پیشہ ورانہ نہیں بلکہ انفرادی سطح پر اُس کی خوبیوں کا متعرف ہوتا، وہ اس مقام پر صرف اور صرف ایک ایسا انسان چاہتی تھی جو گزری کسی بات کا حوالہ دئیے بغیر اُس کے ساتھ مل کر مستقبل کے خواب بُنتا، ایک گھر کی بنیاد رکھتا ، محبت اور چاہت کے ساتھ زندگی کی شاہراہ پر ہمیشہ ساتھ چلتے رہنے کا خواہاں ہوتا اور محمد علی نے شمیم کے رستے زخموں کو نہ تو کُریدا اور نہ ہی کوئی مرہم رکھا، وہ بس شمیم کا ہاتھ تھام کر آگے بڑھنا چاہتا تھا، کراچی میں فلموں کی عکس بندی کے دوران اُن کی ملاقاتیں قائد اعظم کے سابق ڈرائیور اور ثانوی کردار ادا کرنے والے اداکار آزاد کے اُس گھر میں ہونے لگی تھیں جو اکثر اداکاروں ، ہدایت کاروں کی ملاقاتوں کا پسندیدہ مرکز سمجھا تھا۔
شمیم آراء نے کراچی میں سوسائٹی آفس (موجودہ P۔ E۔ C۔ H۔ S) کے مقام پر ایک گھر منتخب کر لیا تھا جس کی خریداری کیلئے رقم محمد علی اور شمیم نے مل کر ادا کرنی تھی، طے پایا تھا کہ سن 67 کے شروع میں وہ شادی کر لیں گے۔
بدلتی ہوئی ہوا کے رُخ کو اقبال بیگم نہ بھانپ پاتی تو اقبال بیگم کیسے کہلاتی، مگر سوال یہ تھا کہ اقبال بیگم اپنے ترکش میں موجود کونسا نیا تیر چھوڑتی جو محمد علی اور شمیم آراء کے تعلق کے سینے کو فگار کرتا، جبکہ حقیقت یہ تھی کہ اقبال بیگم کے ہاتھ صرف چلے ہوئے کارتوس ہی تھے ، جو جال اُس نے پُتلی بائی کے گرد تنگ کر رکھا تھا اُس میں جھول آنے لگا تھا، پھندے ڈھیلے ہونے لگے تھے “تو کیا میرا ستارہ گردش میں آیا چاہتا ہے ”، اُس کی زمانہ شناس نگاہوں سے شمیم میں آتی ہوئی تبدیلیاں مخفی نہیں رہی تھیں ، محمد علی بے شک سپر سٹار کے منصب پر جا بیٹھا تھا، بہت اچھے خاندان سے تھا مگر امارت و حشمت میں کہیں پیچھے تھا اور اقبال بیگم کی کسی فرمائش کو کسی صورت قبول نہ کرتا، پھر یہ بھی تھا کہ کمال اور سردار رند نے اقبال بیگم کے طمع اور خود غرضی کی انتہا کو جیسے کھول کر رکھ دیا تھا، دوسری جانب شمیم کی فلمیں خاطر خواہ بزنس نہیں کر رہی تھیں ہر چند کے ہر فلم میں شمیم کا ہی مرکزی کردار تھا، اُس کی اداکاری پر کوئی مائی کا لعل ایک حرف تنقید میں نہیں لکھ سکا تھا، فلمساز ریکارڈ معاوضے پر ہی اُسے کاسٹ کر رہے تھے مگر کب تک، یہ تسلیم کرنا کہ شمیم آراء کے چل چلاؤ کا وقت قریب آن لگا ہے خود اقبال بیگم کیلئے معاشی موت کا سندیسہ تھا مگر ایک چیز اور بھی تھی جس سے اقبال پہلو تہی نہیں کر پا رہی تھی اور وہ تھی بڑھاپے کی آخری حد کو چھوتی ہوئی زندگی، اقبال بیگم چراغ سحر تھی اب بجھی کہ تب مگر یوں اپنی پُتلی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہوئے، قطعاً نہیں ، ایسے میں اقبال بیگم کسی معجزے کی دعائیں کر رہی تھی اور وہ معجزہ رو نما ہوا اور اقبال بیگم کی بجھتی ٹمٹماتی امید کو پھر سے بھڑکا گیا۔
***
“تم دھوکہ کھا رہی ہو بٹیا”، اقبال بیگم نے ایک رات اُسے سمجھانا چاہا تھا۔
“اب تک کی زندگی میں دھوکہ ہی تو کھاتی آئی ہوں اور کیا ملا ہے مجھے؟”، شمیم کے جواب نے اُسے لا جواب کر دیا تھا مگر یہ وقت شمیم کو سمجھانے کا تھا۔
” میں جانتی ہوں تمہیں بہت سی شکایات ہیں مجھ سے، صحیح یا غلط ان پر پھر کبھی بات کریں گے ابھی جو مسئلہ درپیش ہے وہ زیادہ پیچیدہ ہے ”، اقبال بیگم نے سنجیدگی سے کہا تھا۔
“کیا پیچیدگی ہے؟، یہی کہ اس بار میری شادی سے آپ کوئی مالی فائدہ نہ اٹھا سکیں گی؟، نانی کیا واقعی آپ کو مجھ پر رحم نہیں آتا؟، لوگ کہتے ہیں میں پردے پر روتی ہوں تو اُن کا بس نہیں چلتا وہ اپنا کلیجہ نکال کر رکھ دیں ، اُن پر میری گریہ کا ایسا اثر ہوتا ہے، مگر وہ تو اداکاری ہے، جھوٹ ہے، یہ جانتے ہوئے بھی لوگوں کا دل پسیج جاتا ہے مگر میری حقیقت جانتے ہوئے بھی آپ کا دل نہیں لرزتا، آپ اتنی بے حس کیوں ہیں صرف میرے معاملے میں ؟”، شمیم رو پڑی تھی۔
“تم لاکھ مجھے بُرا بھلا کہہ لو بٹو مگر تمہیں اس طرح کنویں میں جانتے بوجھتے گرتا نہیں دیکھ سکتی میں ”۔ اقبال بیگم کے لہجے سے طنطنہ رخصت ہولیا تھا، گھگھیاہٹ آ گئی تھی مگر ایک چیز نہیں بدلی تھی اپنی پُتلی کیلئے اُس کی مطلق العنانیت۔
“بہتر ہو گا کہ آپ صاف صاف کہیں آپ علی سے میری شادی کے حق میں نہیں ہیں ، میں بالغ بھی ہوں اور خود مختار بھی بلکہ خدا کی مہربانی سے بیوہ بھی”، شمیم کا لہجہ طنزیہ تھا، یہ عجیب تبدیلی آئی تھی اُس میں ، سلاست سے بات کرنے والی، شگفتہ بیانی سے دل موہ لینے والی اب طنز کے وہ وہ تیر چلاتی تھی کہ ترازو ہو جایا کرتے تھے۔
“محمد علی تم سے شادی نہیں کرے گا شمیم، تمہیں کیوں دکھائی نہیں دے رہی یہ بات؟”، اقبال زچ ہی تو ہو گئی تھی۔
“اور یہ گُمان آپ کو کیونکر ہوا؟”، شمیم نے ناک سے مکھی اڑائی تھی۔
“میری بچی ساری دنیا کے علم میں ہے کہ زیبا عدت پوری کرتے ہی محمد علی سے شادی کرے گی تم کیوں نہیں سمجھ رہی ہو یہ بات؟”، اقبال بیگم کے بس میں ہوتا تو پیروں میں گر جاتی، شمیم کے دماغ کی زنگ کھائی ہر وہ کھڑکی کھول دیتی جس سے شعور کی کرنیں اُس کی سوچ کو منور کر دیتیں ۔
“زیبا چاہتی ہو گی، علی تو نہیں ، علی نے مجھ سے ہی شادی کرنی ہے اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ وہ کراچی والے گھر کیلئے بیعانہ دے چکا ہے ”، شمیم نہ جانے محبت میں اندھی ہوئی تھی یا ضد میں یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے یا پھر یہ قسمت تھی جو ایک بار پھر اُس کی زندگی کو بھنور کا شکار کرنے چلی تھی۔
اور سن 67 کے اُسی مہینے میں جس کا شمیم آراء کو شدت سے انتظار تھا کہ وہ باقاعدہ دلہن بنے گی ایک خبر نے شمیم آراء کی زندگی میں غدر مچا دیا تھا۔
“زیبا اور محمد علی کی کراچی میں شادی”۔
“تفصیلات کے مطابق زیبا اور محمد علی فلم تم ملے پیار ملا کی شوٹنگ کے سلسلے میں کراچی میں مقیم ہیں جہاں دونوں رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے، بتایا جاتا ہے کہ اُن کا نکاح اداکار آزاد کے گھر ہوا۔۔”
اخبار ہاتھ میں لئے شمیم اُس خبر کو پورا پڑھ بھی نہ سکی تھی، وہ ہونی ہو گئی تھی جس کے بارے میں صرف نانی نے ہی نہیں بلکہ علی سفیان آفاقی سمیت ہر ایک نے اُسے خبردار کیا تھا کہ زیبا کی سُدھیر سے طلاق کا معاملہ محمد علی سے شادی پر ہی ختم ہو گا مگر پہلے اُسے اقبال بیگم کا لالچ مار گیا تھا تو اس بار اندھا اعتبار۔
اُس خبر نے “پُتلی”کو ایسا بکھیرا کہ پھر وہ دم آخر سنبھل ہی نہ سکی۔
***
شمیم آراء سے محمد علی نے معذرت کر لی تھی،یہ شادی کیسے ہو گئی تھی؟ کیوں ہو گئی تھی؟ اُن وعدوں اور یقین دہانیوں کا کیا ہوا جو محمد علی اس ایک سال کے عرصے میں کرتا رہا تھا؟ یہ سارے سوال اپنا مطلب و مقصد کھو چکے تھے، بات سیدھی سی تھی محمد علی کو زیبا سے شدید محبت تھی اور محبت ایسی طاقت ہے جو انسان سے کچھ بھی کروا لیتی ہے، جی ہاں ، کچھ بھی، اس میں انسانوں کا خون بہا دینا جیسا چھوٹا اور معمولی کام بھی شامل ہے اور خوابوں کا قتل جیسا گھناؤنا اور کافر کام بھی، محمد علی کا قطعاً قصور نہیں تھا، محبت کی عدالت میں شمیم نے اُس پر کوئی دفعہ نہ لگائی ہاں اتنا ضرور تھا کہ اپنے دل سے وہ پھر محمد علی کو کبھی نکال ہی نہ سکی حالانکہ آفاقی صاحب شمیم کو دلاسہ دیتے رہے، سمجھاتے رہے مگر شمیم بہلنے پر جیسے آمادہ ہی نہیں تھی، فلمی حلقوں نے کہنا شروع کر دیا تھا کہ سہاگن بننا شمیم کے نصیب میں نہیں ، لاکھوں فینز شدت سے منتظر تھے کہ من پسند فنکارہ کو پیا دیس سدھارتے ہوئے دیکھیں ۔
اختیار ہوتا تو شمیم اپنے ہاتھ کی الجھی لکیروں میں چھپی قسمت کو کسی طرح باہر نکال لیتی، کسی جوتش سے وہ لکیر کھنچوا لیتی جو اُس کا نصیب بدل دیتی۔
شادی سب کچھ نہیں ہوتی مگر شادی کچھ تو ہوتی ہے، کسی نے کالم لکھ ڈالا کہ “کنواری بیوہ سے کریئر شروع کرنے والی شمیم کی قسمت اسی ٹائٹل کے زیر اثر آ گئی ہے، وہ کنواری نہ تھی مگر بیوہ بن گئی تھی”، اُس شام شمیم اپنا کمرہ بند کر کے پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی، اخبار کا پیٹ بھرنے والے کو شاید کبھی احساس ہی نہیں ہوتا کہ اُس کے چند لفظ کسی کی ذات کو اون کی بنی شے کی طرح ادھیڑ کر رکھ دیتے ہیں ۔
اگلے کئی ماہ شمیم کسی سے نہیں ملی، کمرہ بند کیئے وہ سارا سارا دن ساری ساری رات بیٹھ کر، اوندھے منہ لیٹ کر صرف اور صرف اپنی زندگی کے بارے میں سوچتی رہی تھی۔
ماضی۔۔۔ ۔
حال۔۔۔ ۔
ماضی پر اُس کا کوئی اختیار نہیں تھا کیونکہ ماضی میں وہ “پُتلی” تھی۔
حال “بے حال” تھا اس حقیقت کے باوجود کہ وہ پاکستان کی پہلی سپر سٹار ہیروئین تھی۔۔۔ وہ “شمیم آراء” تھی۔۔۔ ۔
پُتلی اور شمیم آراء میں فرق کیا تھا؟، کوئی تھا بھی تو کہاں تھا؟۔
اور مستقبل؟۔۔۔ ۔
وہ مستقبل کے بارے میں پہلی بار بنا روئے، بنا کسی قنوطیت کے، بغیر کسی شکوے و شکایت کے ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچنے بیٹھی تھی۔
وہ خطرناک حد تک ذہین عورت تھی مگر اُسے اپنی طاقت کا احساس ہی نہیں تھا، مگر اُس مقام پر ہو گیا تھا اور پھر ہفتوں بعد جب وہ اپنے کمرے سے باہر آئی تو سب کچھ اپنے اندر دفن کر کے آئی تھی۔
ناچ گانے سے نفرت۔
تماش بینی سے پُرخاش۔
سکول میں اپنی بے عزتی۔
روپے کیلئے بے نیازی۔
فلم لائین سے ناپسندیدگی۔
کمال کی محبت۔
سردار رند سے شادی۔
نانی اقبال بیگم کا خوف
اور پُتلی۔
ہاں ! وہ “پُتلی”کو بھی ہمیشہ کیلئے اپنے وجود میں ہی کہیں مار کر باہر آئی تھی، کیونکہ پُتلی کی موت ہی “شمیم آراء”کی زندگی تھی۔
***
“لاکھوں میں ایک”شروعات تھی، دوسرا قدم شمیم آراء کی جانب سے فلم سازی کا فیصلہ تھا، رضیہ بٹ کے ناول “صاعقہ” کے حقوق حاصل کر کے پاکستان فلم انڈسٹری کے مگرمچھوں میں شمیم نے کھلبلی مچادی تھی کیونکہ اس سے قبل کسی کتاب یا کہانی پر فلم بناتے ہوئے پاکستان میں کسی فلم ساز نے کبھی زحمت ہی نہیں کی تھی کہ وہ باقاعدہ اس کتاب یا کہانی کے حقوق حاصل کرتا علاوہ دو ایک بڑی فلم کمپنیوں کے، ”صاعقہ” بنانے کا اعلان ہی ہوا تھا کہ ہر طرف سے یہ شور اٹھنے لگا کہ آخر شمیم کو ایسی کیا ضرورت آن پڑی حتی کہ نانی اقبال بیگم نے بھی استفسار ضروری سمجھا، ”کیوں خواہ مخواہ میں اپنی محنت کا روپیہ ٹھکانے لگانے کے جتن کر رہی ہو، فلم تو اداکار ہی بناتے آئے ہیں وہ بھی شوقیہ ایک آدھ، کبھی کسی اداکارہ نے آج تک فلم نہیں بنائی”۔
“پھر میں بناؤں گی اور ایک نہیں ہمیشہ بناؤں گی”، مُسکراتے ہوئے اطمینان سے شمیم نے کہا تھا۔
“مگر کوئی وجہ بھی تو ہو؟”۔
” آپ وجہ پوچھ رہی ہیں ؟”، طنزیہ لہجے میں شمیم نے کہا تھا اقبال بیگم کچھ کہہ نہیں سکی۔
“فلم ہی اب میرا اوڑھنا بچھونا ہے نانی”، بے حد تھکے ہوئے لہجے میں وہ بولی تھی، ”اب یہی کام آتا ہے تو یہی کروں گی، فلمیں بناؤں گی کیونکہ کچھ سال بعد شاید ہیروئین کے طور پر مسترد کر دی جاؤں ، پھر میری کونسی شادی ہونی ہے تو مستقبل کیلئے پیش بندی تو کرنی ہی ہو گی”۔
“شادی کیوں نہ ہو گی میری بچی ضرور ہو گی”، کہتے ہی اقبال بیگم نے زبان ہونٹوں تلے دابی تھی، بڑا ہی غلط جملہ تھا جو بڑے ہی غلط موقع پر اُس کی زبان سے نکلا تھا، قسمت سے بڑا جادوگر کوئی ہے کیا وہ کروا دیتی ہے جو انسان نے سوچا ہی نہیں ہوتا، اقبال بیگم کا طنطنہ ختم ہوا چاہتا تھا تو انداز کا فرعون، لہجے کا کر و فر سب مٹی میں ملنے لگا تھا، شمیم نہ تو اجازت مانگتی تھی نہ مشورہ، اُسے جو کرنا ہوتا تھا وہ صرف سرسری انداز میں بتا دیا کرتی تھی، اس سے بڑھ کر کونسا کرارا جوتا ہو سکتا تھا اقبال بیگم کیلئے۔
“صاعقہ” کے سکرین پلے اور مکالموں کیلئے علی سفیان آفاقی کا انتخاب کیا گیا اور ہدایت کاری کیلئے لئیق اختر، جو کہ ایک ناکام ترین ہدایت کار تصور کیئے جاتے تھے، فلمی مبصرین کا کہنا تھا کہ ہدایت کار کے انتخاب میں شمیم نے اپنے پیروں پر کلہاڑی ماری ہے، بھلا جس ہدایت کار نے ایک بھی ڈھنگ کی فلم نہ بنائی ہو اُسے اپنی پروڈکشن کی اولین فلم تھما دینا کہاں کی عقل مندی تھی، موسیقی کا شعبہ نثار بزمی کے حوالے کیا گیا اور کاسٹ میں درپن، محمد علی کے ساتھ ڈبل یعنی ماں اور بیٹی اور ٹائٹل کردار میں شمیم آراء خود جلوہ گر تھیں ۔
فلمی نقاد اور مخالفین بے چینی سے شمیم کی اس پہلی فلم با الفاظ دیگر پہلی غلطی کے ریلیز ہونے کا انتظار کر رہے تھے تاکہ ڈنکے کے چوٹ پر شمیم آراء کا مذاق اڑا سکیں ، ہنس سکیں اور باور کروا سکیں کہ فلمسازی بچوں اور عورت کے بس کا کام نہیں ، شمیم آراء سے قبل نورجہاں ایک فلم کی ہدایت کاری کر چکی تھیں اور اُن کے بعد کم از کم فلم انڈسٹری کی کسی عورت نے ایسی حرکت نہیں کی تھی، کئی لوگوں کو اس بات کی بھی حیرانی تھی کہ شمیم آراء نے محمد علی کو کیونکر فلم میں کاسٹ کر لیا اور کچھ کا قیاس تھا کہ محمد علی تک دوبارہ رسائی کیلئے شمیم نے یہ چال چلی ہے جو اُسے دیوالیہ کر چھوڑے گی، مگر شمیم کی دور اندیشی کسی کی سمجھ نہ آ رہی تھی، شمیم نے بہت سوچ بچار اور باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ فلمسازی کا بیڑہ اٹھایا تھا، شمیم نے کہانی ایسی منتخب کی تھی جو کہ صرف ایک لڑکی کے گرد گھومتی تھی اور اُس میں وہ سارے لوازمات تھے جو خواتین فلم بینوں کو پسند آتے اور اُس زمانے میں خواتین اگر کسی فلم کو پسندیدگی کی سند بخش دیتی تھیں تو اس کا مطلب یقینی کامیابی تھا اور اسی مقصد کے تحت شمیم نے خواتین کی پسندیدہ مصنفہ کو اپنے ساتھ شامل کیا، ایک کمزور ہدایت کار کا انتخاب بھی اس لیئے کیا گیا تاکہ وہ اپنی مرضی چلانے کے بجائے شمیم آراء کی ایماء اور خواہش کے عین مطابق فلم بنا سکے اور شمیم جب چاہے جس بات پر چاہے اُسے ٹوک سکے، محمد علی کو کاسٹ کرنے کا مقصد فلم میں محمد علی کی سٹار پاور کو کیش کروانے کے ساتھ ساتھ اُن مہربانوں کا منہ بند کرنا بھی تھا جو محمد علی، زیبا اور خود شمیم کو مسلسل محبت کی ایک “تکون” کے طور پر پیش کر رہے تھے اور سب سے اہم نقطہ یہ تھا کہ اس سے پہلے شمیم آراء کا فنی کیرئیر حقیقت میں اختتام پذیر ہوتا وہ اپنے ہیروئین شپ میں ہی دھیرے دھیرے فلمسازی کی جانب متحرک ہو جاتی۔
سن 68 میں “صاعقہ” ریلیز ہوئی اور ایک بار پھر شمیم آراء کے مخالفین کو دھول چاٹنی پڑی، کہانی، مکالمے، موسیقی، منظر نگاری، اداکاری اور ہدایت کاری غرض فلم کا ایک ایک فریم گواہ تھا کہ شمیم نے کمال طریقے سے فلمسازی کا مشکل ترین کام سرانجام دیا، صاعقہ کو اُس سال کی بہترین فلم، بہترین اداکارہ، بہترین اداکار، بہترین مزاحیہ اداکار، بہترین موسیقار سمیت آٹھ ایوارڈز دیئے گئے جو کسی بھی فلمساز کیلئے اُس کی پہلی کاوش پر دیئے جانے والے سب سے زیادہ ایوارڈز تھے، بزنس کے لحاظ سے “صاعقہ” اس سال کی چند سب سے زیادہ بزنس کرنے والی فلموں میں شامل تھی جس نے گولڈن جوبلی کا اعزاز بھی حاصل کر کے شمیم آراء کو پہلی لکھ پتی اداکارہ بنا دیا تھا اور ٹھیک ویسا ہی ہوا تھا جیسا شمیم نے چاہا تھا بس ایک بات تھی جو شمیم کی منصوبہ بندی سے ہٹ کر ہوئی تھی مجید کریم سے شمیم آراء کی شادی۔
***
مجید کریم ایگفا فلم کمپنی کا مالک ایک وجیہہ اور تعلیم یافتہ انسان تھا، شمیم آراء کا مداح ایک فلم بین کی حیثیت سے تو تھا ہی لیکن فلم کے را مٹیریل کی خرید و ترسیل کے سلسلے میں شمیم آراء سے ملنے کے بعد وہ مزید شمیم آراء کا گرویدا ہوتا گیا، میٹھے لہجے میں متانت کے ساتھ سلجھی ہوئی نپی تلی گفتگو کرنے والی شمیم کب اور کیسے اُس کے اعصاب پر سوار ہوئی وہ خود بھی سمجھ نہیں سکا، غیر شادی شُدہ تھا اور گھر والوں کی طرف سے شادی کا دباؤ بھی تھا لیکن شریک سفر کے خاکے پر پوری اترتی ہوئی شمیم کا نام گھر والوں کے سامنے لینے سے ہچکچاہٹ محسوس کر رہا تھا لیکن کہا بھی نہ جائے رہا بھی نہ جائے کے مصداق بالآخر بہت سوچنے اور پھر کوئی راہ فرار نہ پا کر گھر والوں سے اس سلسلے میں بات کر ہی ڈالی، ماں کی جانب سے شدید ردعمل کا امکان تھا لیکن حیرت انگیز طور پر ماں کے علاوہ ہر ایک نے ہی اختلاف کیا، مجید کریم کیلئے ماں کا رویہ حوصلہ افزاء تھا چنانچہ شمیم کو فلم کی کامیابی پر مبارکبادی پیغام کے ساتھ ہی شادی کا پیام بھی بھجوا دیا گیا، شمیم کی حیرت کی انتہا نہ رہی تھی، عجیب بات تھی جب شادی کی امید چھوڑ ہی دی تب ہی باقاعدہ طور پر شادی کی پیشکش ہوئی تھی جس کے پیچھے سراسر پسندیدگی کا عنصر تھا اور کوئی دوسری تیسری خواہش نہیں تھی، نانی بیمار رہنے لگی تھی اور سارا دن فلم سٹوڈیوز میں گزار کر رات کو تنہائی شمیم کو پریشان بھی کرتی تھی لہذا بہت سوچ بچار کے بعد شمیم نے مجید کریم کی شادی کی پیشکش قبول کر لی تھی لیکن ساتھ ہی کچھ شرائط بھی شمیم نے مجید کے سامنے رکھی تھیں جن میں اولین شرط شمیم کا فلم انڈسٹری سے تعلق برقرار رکھنا تھی، مجید نے اُس وقت اس شرط کو قبول کیا تھا مگر شادی کے بعد یہی وہ شرط تھی جو اُن دونوں کی ازدواجی زندگی کیلئے قاتل ثابت ہوئی۔
***
وہ شادی اڑھائی برس تک چلی اور یہی پُتلی کی زندگی کے وہ اڑھائی برس تھے جو اُس نے شمیم آراء کو بھول کر، دنیا کی ہر فکر، ماضی کے ہر شکوے سے غافل ہو کر صرف خوشی کے ساتھ گزارے تھے، مجید کریم محبوب بھی تھا، ہمدم بھی، ساتھی بھی اور دوست بھی، فلمی سرگرمیاں اس دوران کچھ خاص نہیں تھیں علاوہ اس کے کہ شمیم نے اپنی زیر تکمیل فلموں کو تندہی سے مجید کی اجازت کے ساتھ مکمل کروایا البتہ مجید کا فلمی دنیا سے رابطہ برقرار تھا، کچھ اُن دنوں شمیم کو فلم کی کوئی بڑی آفر بھی نہ تھی کُچھ شمیم کا اپنا ارادہ بھی نہ ہوا کہ وہ گھر، گھر داری، شوہر اور نومولود بیٹے کو چھوڑ کر فلم کے سیٹ پر خوار ہوتی پھرتی، ہر چند کہ شمیم نے فلموں سے کنارہ کشی کا باقاعدہ اعلان نہیں کیا تھا لیکن قیاس تھا کہ شمیم اب فلموں میں کام نہیں کرے گی ہاں یہ ضرور سوال اٹھنے لگے تھے کہ ایک کامیاب اور معیاری فلم دینے کے بعد بھی کیا شمیم فلمسازی کو بھی خیرباد کہہ دے گی، اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے شمیم نے اگلی فلم کیلئے علی سفیان آفاقی سے کہہ دیا تھا کہ وہ ایک مزے دار کہانی سوچیں تاکہ پھر نئی فلم کی تیاریاں شروع کی جا سکیں ، مجید کریم نے اُس وقت تو نہ کوئی اعتراض کیا اور نہ ہی کوئی مثبت ردعمل دکھایا جس پر شمیم نے یہی سمجھا کہ مجید کو فلمسازی سے کوئی دلچسپی نہیں چنانچہ اُس نے مزید فلم کے متعلق کوئی بات بھی گھر میں کرنی چھوڑ دی، وہ اُس کی ہمراہی میں خوش تھی پھر کیوں وہ بات کرتی جس میں مجید کو کوئی دلچسپی ہی نہ ہو۔
آفاقی صاحب نے فلم کی کہانی مرتب کر کے شمیم کو سنائی جو اُسے بھی پسند آئی چنانچہ آفاقی فلم کا سکرپٹ لکھنے میں مصروف ہو گئے اور شمیم آراء بجٹنگ اور کاسٹنگ میں اسی دوران ہدایت کار حسن طارق نے اپنی فلم “وحشی” کیلئے شمیم آراء سے رابطہ کیا، کہانی اور اپنا کردار سُن کر شمیم آراء کے اندر کی فنکارہ مچل اٹھی اور وہ فوراً اُس چونکادینے والی موضوعاتی فلم کے مضبوط کردار کو کرنے کیلئے راضی ہو گئی، شمیم کا خیال تھا کہ اپنے فنی کیرئیر میں دوسری بار ایکینگ ٹو اولڈ کردار ادا کرنے کے بعد وہ اداکاری سے باقاعدہ ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دے گی مگر اس سے قبل ضروری تھا کہ وہ اپنی زندگی کی کبھی نہ بھولنے والی کردار نگاری فلم کے پردے پر پیش کرجاتی تاکہ فلمی تاریخ اور فلم بینوں کے ذہن میں وہ ہمیشہ کیلئے نقش ہو جائے، شمیم اس کردار کو ادا کرنے کیلئے جس قدر بے چین اور خوش تھی مجید کریم کا ردعمل اسی قدر منفی اور حوصلہ شکن تھا، شمیم کو حیرت ہوئی۔
“تم آخر کب اس حقیقت کو قبول کرو گی کہ تم اب اداکارہ نہیں ہو، تم میری بیوی ہو، میرے بیٹے کی ماں ہو، تمہارے ذہن سے فلم کا خناس کب نکلے گا”، اُس کے استفسار پر مجید جیسے پھٹ ہی تو پڑا تھا، یہ دوسرا جھٹکا تھا جو شمیم کو پہنچا تھا، یہ خناس آخر کب تھا اُس کے دماغ میں ، اڑھائی سال سے وہ خوش باش ازدواجی ذمے داریاں خندہ پیشانی سے نبھا رہی تھی، گھر پر سادہ سے کاٹن کے قمیض شلوار میں وہ امور خانہ داری انجام دیتی تھی، کھانا پکانا، سینا پرونا اُسے نہیں آتا تھا مگر اُس نے تین ماہ کے قلیل عرصے میں یہ سب سیکھ لیا تھا، مجید کو بیوی کے ہاتھ کا کھانا پسند تھا تو ڈھائی سال سے گھر میں خانساماں نہیں بلکہ خاتون خانہ کے بنائے کھانوں کی مہک پھیلا کرتی تھی، اُس کے کس عمل سے مجید کو ایسا لگا تھا کہ وہ بیوی اور ماں نہیں بلکہ ہیروئین ہے، وہ سوچ میں پڑ گئی تھی، بہت یاد کرنے پر بھی اُسے کوئی لمحہ ایسا یاد نہ آیا جو مجید کی شکایت پر مہر ثبت کرتا ہو۔
“مگر تم نے میری شرط مان لی تھی کہ تم مجھے کام کرنے سے نہیں روکو گے پھر۔۔۔ اور صرف اسی ایک فلم کی تو بات ہے میں یقین دلاتی ہوں تم، بچہ اور گھر نظر انداز نہیں ہوں گے ”، شمیم نے اُس کا عہد یاد دلا کر گویا ایک اور غلطی کی تھی۔
“ٹھیک ہے تب مان لی تھی نا وہ شرط اب انکاری ہوں بولو کیا کرو گی؟”، مجید کا انداز مشتعل اور لہجہ چیلنج کرتا ہوا تھا، شمیم نے خاموشی اختیار کر لی تھی اور ٹھیک دسویں روز مجید کو خبر مل گئی تھی کہ شمیم کی خاموشی کا اُس نے بالکل غلط مطلب نکالا تھا، شمیم سمجھ میں آنے والی عورت نہیں تھی۔
***
“اداکارہ شمیم آراء کے اپنے شوہر کے ساتھ اختلافات عروج پر”
” نامہ نگار (لاہور) شمیم آراء اور اُن کے شوہر مجید کریم کے درمیان اختلافات شدت اختیار کر گئے، تفصیلات کے مطابق شمیم آراء نے شوہر کے ساتھ اختلافات کی تصدیق کرتے ہوئے اختلافات کی نوعیت بتانے سے معذرت کر لی ہے ، بتایا جاتا ہے کہ شمیم آراء نے ہدایت کار حسن طارق کی فلم “وحشی” سائن کر لی ہے اور اسی کی وجہ سے مجید کریم شدید برہم ہیں ، فلمی حلقہ پُر امید ہے کہ جلد ہی اُن دونوں کے درمیان ناچاقی دور ہو جائے گی”۔
شمیم بے حد خاموشی سے فلم “وحشی” کیلئے ریہرسلز پر جاتی رہی، اس فلم کیلئے اُس نے فلم انڈسٹری میں اُس وقت تک کا سب زیادہ معاوضہ جو کہ پچانوے ہزار تھا، وصول کیا جبکہ فلموں کے ہیروز اُن دنوں ستر ہزار فی فلم چارج کر رہے تھے، وحشی بُردہ فروشی کے موضوع پر ایک انتہائی چونکادینے والی اعلی معیار کی فلم تھی اور شمیم کا کردار اس فلم کی ہائی لائٹ تھا، نانی اقبال بیگم سیٹ پر ایک بار پھر موجود رہنے لگی تھی لیکن اس بار شمیم نہیں بلکہ شمیم کے بیٹے کی دیکھ بھال کیلئے، وقت بھی کیا کیا چالیں چلتا ہے وہ اقبال جو سیٹ پر کسی مطلق العنان شہنشاہ کی طرح کر و فر سے بیٹھ کر تفاخر سے گردن اکڑائے صرف اس بات پر پیک اپ کروا دیا کرتی تھی کہ کھانا ٹھیک سے گرم کیوں نہیں ، وہی اقبال آیا گیری کا فرض سر انجام دے رہی تھی، کس نے جانا تھا کہ یہ شکست فاش وقت نے اُس کے مقدر میں شمیم کے ہاتھ ہی لکھی تھی اور شمیم کو وہ وقت اچھی طرح یاد تھا۔
مجید کے ساتھ تعلقات دن بہ دن سرد ہوئے جاتے تھے، وہ بالکل مجید کا حکم مان سکتی تھی، ڈھائی سالہ ازدواجی زندگی کو بھرپور کامیاب بنانے میں کسی قدر ہاتھ شمیم کی صلح جو فطرت اور مباحثے سے اجتناب برتنے کا بھی تھا، لیکن بدعہدی۔۔۔ ، یہ ایک چیز تھی جو شمیم کی لغت میں نہیں تھی، مجید نے غصے میں ہی سہی لیکن ایک غلط بات کہہ دی تھی اُس شمیم سے جو رشتوں کی ڈسی ہوئی تھی، جسے سردار رند نے یہ یقین دلادیا تھا کہ چونکہ اصل مقصد حیات اُس کے وجود کا حصول ہے لہذاٰ اس کیلئے ہر چال جائز ہے چنانچہ مجید کی غصے میں کہی بات کو شمیم اسی تناظر میں دیکھ رہی تھی، مجید چاہتا تو آگے بڑھ کر پہل کرتا، بات کی صفائی ہو جاتی اور رشتے میں آ جانے والا بھرم رہ ہی جاتا، مجید نے مگر اسے انا کا مسئلہ بنا کر لٹکایا اور لٹکتی ہوئی تلوار نکاح پر پڑی اور دو لخت کر گئی۔
اچھے وقتوں میں یونہی باتوں باتوں میں مجید نے وعدہ کر لیا تھا کہ خدانخواستہ علیحدگی ہوئی تو وہ بہ رضا و رغبت بیٹے کو شمیم کی سپردگی میں دے دے گا اور یہ کتنی عجیب بات تھی کہ ساری زندگی ساتھ نبھانے کا عہد پورا نہ کر سکنے والے نے یہ عہد نبھادیا تھا۔
***
” وحشی” سپر ہٹ رہی اور شمیم آراء نے فلم انڈسٹری کی دہائیوں سے سینہ بہ سینہ چلی آنے والی اندھی روایت کو توڑ مروڑ کر منہ پہ دے مارا تھا۔
انڈ و پاک فلم انڈسٹری میں ہیروئین کا دور پانچ سے چھے برس کا ہوتا ہے اس عرصے میں وہ جتنا اعلی کام کرنا چاہے کر سکتی ہے، پیسہ کمانا چاہے کما سکتی ہے، عاشقوں کی فوج جمع کرنا چاہے اکھٹی کر سکتی ہے کہ سا تواں سال لگتے ہی پھر یہی زاد راہ ہے جو اُس کے کام آتا ہے مگر شمیم آراء مسلسل سولہویں برس میں ہیروئین آ رہی تھی، ساتھی اداکار سنتوش، درپن اور حبیب کریکٹر رولز کرنے لگے تھے اور بعد میں آنے والے وحید مراد و ندیم شمیم آراء کے ساتھ ہیروز آنے لگے تھے، فلمسازی کا سلسلہ پھر شروع ہو چکا تھا، مجید کریم کے زندگی سے نکل جانے کے کچھ ہی عرصہ بعد نانی اقبال نے بھی رخت سفر باندھا اور سب مال و متاع اسی دنیا میں چھوڑ گئیں جس دنیا کو شمیم کیلئے جہنم بنانے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی تھی۔
شمیم آراء بالآخر آزاد اور کُلی خودمختار ہو چکی تھی۔
اور اس آزادی و مختاری کی شمیم نے کب، کہاں اور کیسی کیسی قیمت چُکائی تھی یہ کوئی “پُتلی” سے پوچھتا۔
***
فرید احمد پڑھا لکھا، وجیہہ اور آرٹسٹک طبیعت کا مالک نوجوان ہدایت کار تھا اپنی پہلی ہی فلم بندگی سے فلم کے سنجیدہ حلقوں کو چونکا چکا تھا، (بندگی آج تک سیمی آرٹ فلموں میں پاکستانی کلاسک مانی جاتی ہے )، فلم سے رغبت والد ڈبلیو زیڈ احمد سے ورثے میں پائی تھی جو خود بھی پچاس اور ساٹھ کی دہائیوں کے معروف اور اچھے ہدایت کار تھے، شمیم آراء اُس کی زیر ہدایات بننے والی فلم “انگارے ”میں ایک بہت ہی مختلف اور مضبوط کردار ادا کر چکی تھی، فرید احمد کچھ شمیم کی سلجھی ہوئی گفتگو سے متاثر تھا اور کچھ شمیم پر فرید احمد کی فنکارانہ صلاحیت کا اثر تھا چنانچہ شمیم آراء نے اپنی اگلی پروڈکشن “سہاگ”کی ہدایت کاری کیلئے فرید احمد کا انتخاب کیا تھا اور چونکہ فرید احمد شمیم آراء کا مداح تھا اور پھر اُسے فلم کی کہانی پسند آئی چنانچہ انکار سراسر بے وقوفی تھا، اس فلم کی خصوصیت ضیاء محی الدین تھے جو اُن دنوں Hollywood میں کام کر کے واپس آئے تھے اور اپنے مرکزی اور بھرپور نوعیت کے کردار کے ساتھ ساتھ شمیم کے ساتھ کام کرنے کے خیال سے بے حد پُرجوش تھے ، فلم کی تکمیل بناء کسی بدمزگی کے مقر رہ وقت پر ہوئی مگر اچھی کہانی، مسحور کُن موسیقی، فنکاروں کی اعلی اداکاری اور بہترین ہدایت کاری کے باوجود “سہاگ” ناکام رہی۔
شمیم آراء نے بناء کسی لاگ لپٹ کے یہ نتیجہ اخذ کر لیا کہ فلم بین اب اُسے ہیروئین کی حیثیت سے قبول نہیں کر رہے یت بہتر یہی ہے کہ وہ فن اداکاری سے کنارہ ہو جائے لیکن یہ فرید احمد تھا جس نے شمیم کو اپنی مزید دو فلموں “زیب النساء” اور “خواب اور زندگی” میں بطور ہیروئین کاسٹ کر لیا اور اس کے پیچھے مقصد وہ محبت تھی جس نے فرید احمد کو بے بس و مجبور کر دیا تھا۔
***
فرید احمد شادی شُدہ تھا اور ٹی وی کی مایہ ناز اداکارہ ثمینہ احمد سے اُس نے پسند کی شادی کی تھی، دو بچوں کا باپ ہونے اور شمیم آراء سے عمر میں چھوٹے ہونے کے باوجود وہ شمیم آراء کے سِحر سے خود کو نہ بچا سکا، یہ شمیم آراء کی شخصیت تھی، متانت و سنجیدگی تھی یا پُراثر انداز گفتگو جس نے فرید احمد کا دل دبوچا تھا یا پھر یہ محبت تھی۔ محبت بڑی ہی آوارہ ہے ، اس کی فطرت میں ہی آزادی ہے یہ بس ہو جاتی ہے۔
بیٹھے بٹھائے جیسے نزلہ زُکام، سر درد مگر اس سے زیادہ مہلک۔
اچانک چلتے چلتے انسان کا لڑ کھڑا جانا اور سنبھالے نہ سنبھلنا۔
جیسے یونہی سر اٹھا کر آسمان کی وسعتوں کو دیکھنے لگنا مگر راستہ گنوا بیٹھنا۔
یہ محبت بھی بس ایسی ہی ہوتی ہے اچانک ایک رات انسان بستر میں لیٹ کر سونے کیلئے آنکھیں موندتا ہے اور پلکوں کی ڈھکی غلاف کے نیچے پُتلی پر ایک شبیہہ نمودار ہو کر اگلی ہر رات کی نیند اپنے قبضے میں کر لیتی ہے اور پھر انسان کچھ اور دیکھنے ، کچھ اور سننے اور کچھ بھی سمجھنے کے قابل نہ رہتا۔ ۔ بس یہی حال تھا فرید احمد کا۔
فرید نے شمیم کو حال دل سنانے میں تامل سے کام نہیں لیا لیکن شمیم نے بغور سُن کر متانت سے کہا “آپ شادی شُدہ ہیں فرید صاحب؟ “۔
“مگر مجھے محبت ہے آپ سے ”۔
” اور ثمینہ سے محبت کیا ہوئی؟، ختم ہو گئی”۔
“نہیں ، ثمینہ سے بھی محبت ہے مجھے، میری بیوی ہے، میرے بچوں کی ماں ہے ”، مضبوط لہجے میں فرید نے کہا اور شمیم کو اُس کی یہ ادا بھائی، کسی بھی مرد کا یہی تو وصف ہوتا ہے کہ وہ پچھلی محبت سے ہاتھ نہ جھاڑے اُس میں اتنی جرات ہو کہ وہ نئی محبت کے سامنے پچھلی محبت کو فخر سے سینہ تان کر اپنی ذات، اپنے وجود اور اپنی زندگی کا حصہ ہونے کا اعتراف کرے اور فرید کی مردانگی شمیم کو اچھی لگی تھی، اُس نے دوسرے مردوں کی طرح اُس کی ہمدردیاں حاصل کرنے کیلئے اپنی بدحال ازدواجی زندگی کا رونا نہیں رویا تھا، اُس نے اپنی موجودہ بیوی کی برائیاں نہیں گنوائی تھیں اُس نے دھڑ لے سے اعتراف کیا تھا کہ ہاں ! وہ اپنی بیوی سے محبت کرتا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ اب اُس سے بھی محبت کرتا ہے۔
شمیم نے زندگی میں جیسے مرد کے خواب دیکھے تھے فرید احمد کو قریب سے جانا تو وہ قریب قریب اُس خاکے پر پورا اترتا تھا، ظاہری کشش اور خوبروئی کے علاوہ بھی قوت فیصلہ، ثابت قدمی اور صاف گوئی وہ اوصاف تھے جو اکثر مردوں میں عنقاء تھے مگر فرید احمد میں موجود تھے چنانچہ کچھ عرصہ پس و پیش سے کام لیتے ہوئے شمیم نے فرید احمد کی شادی کی پیشکش قبول کر لی تھی۔
بعض انسان دھوکے سے محبت کرتے ہیں اسی لئے اُن سے بڑھ کر شاطر دھوکے باز کوئی نہیں ہوتا ایسی شعبدہ گری دکھاتے ہیں کہ عقل کے سارے تالے زنگ کھا جاتے ہیں اور بعض انسانوں سے دھوکہ عشق کرتا ہے لاکھ دامن بچا کر، پھونک پھونک کر چلیں یہ انہیں جا لیتا اور ایسا دھوبی پٹکہ لگاتا ہے کہ بے چارے چاروں شانے چت۔
شمیم آراء کا شمار کن میں ہوتا تھا یہ چند دنوں میں اُسے پتا چل گیا تھا۔
اور آنے والے سالوں میں وہ کس درجہ بندی میں آنے والی تھی یہ چند سالوں بعد دنیا کو پتا چل جانا تھا۔
***
ثمینہ احمد کو فرید احمد اور شمیم آراء کے تعلق کے بارے میں علم ہو چکا تھا مگر وہ بے حد خاموشی سے تیل دیکھو، تیل کی دھار دیکھو پر عمل پیرا تھی اور کوئی بھی ردعمل دینے کیلئے صحیح وقت کے انتظار میں تھی، وہ پڑھی لکھی باشعور خاتون تھی اور جلد بازی میں کوئی بھی قدم اٹھانے سے گُریز کر رہی تھی پھر کسی حد تک وہ فرید کو Margin of error بھی دے رہی تھی کہ شوبز میں دھجی کو سانپ اور پر کو پرندہ بنانے کی روایت بھی رائج تھی، فرید احمد نے شمیم آراء سے شادی کی تاریخ طے ہوتے ہی سب سے پہلا کام گھر والوں کو اعتماد میں لے کر اُنہیں اپنی دوسری شادی کے بارے میں آگاہ کرنے کا کیا تھا، شمیم آراء خفیہ شادی نہیں چاہتی تھی اور خود فرید احمد بھی اُس وقت تک خود کو بے حد مضبوط تصور کرتا تھا اور اُسے یقین تھا کہ اُس کے پڑھے لکھے والدین اور کھلے دماغ کی بیوی اُس کی خواہش اور حق کا احترام کرے گی لیکن فرید احمد کو غش آ گیا جب ثمینہ سے پہلے والد ڈبلیو زیڈ احمد کا شدید ردعمل سامنے آیا۔
” کوئی وجہ بھی تو ہو؟”، فرید سناٹے میں رہ گیا تھا، “نہیں کوئی وجہ نہیں ہے بس ہم ایسا نہیں چاہتے تو نہیں چاہتے ”، باپ نے دو ٹوک الفاظ میں فیصلہ صادر کر دیا تھا، فرید نے ماں کو رام کرنا چاہا لیکن وہ بھی شوہر کی ہم خیال تھی، فرید احمد بُری طرح پھنسا تھا کیونکہ دوسری طرف شمیم آراء بڑی خوشی خوشی شادی کی تیاریوں میں مصروف تھی، الیاس رشدی کراچی سے لاہور پہنچ چکے تھے، آفاقی صاحب، بہار، نیئر سلطانہ اور وحید مُراد سمیت شمیم آراء پروڈکشن سے تعلق رکھنے والے تمام قریبی لوگ شمیم آراء کی اس خوشی میں شرکت کیلئے کافی بے چین تھے، گو کہ شمیم تک اُڑتی اُڑتی سُن گُن فرید احمد اور اُس کے گھر والوں کے درمیان شادی کے معاملے پر مباحثے کے بارے میں پہنچ گئی تھی لیکن اُسے یقین تھا کہ فرید احمد پیٹھ دکھانے والوں میں سے نہ تھا۔
فرید احمد نے ماں باپ اور بہن بھائیوں سے مایوس ہو کر بالآخر ثمینہ سے بات کرنے اور اُسے قائل کرنے کی کوشش شروع کر دی تھی، فرید احمد اس بات پر حیران تھا کہ ثمینہ نے سارا معاملہ جان جانے کے باوجود کوئی بھی ردعمل کیوں نہیں دکھایا تھا، ہر ایک بے خبر تھا کہ ثمینہ زندگی میں ملنے والے اس پہلے جھٹکے کے زیراثر تھی اور اس حد تک تھی کہ اگلے کئی دن اُس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی جیسے ثلب ہو گئی تھی، پہلے شک تھا تو پھر بھی صورتحال پر غور کرنا آسان تھا لیکن شک کے یقین میں بدل جانے کے بعد یہ بے یقینی تھی جس نے حواس مختل کر دیئے تھے، محبوب شوہر کی محبوب بیوی کیلئے یہ حقیقت تسلیم کر لینا کہ جس دل پر صرف اُس کا راج تھا اُس کا بٹوارا کرتے ہوئے حکمرانی کرنے کیلئے سلطنت دل پر کوئی اور بھی ہے جو اب شوہر کو بھی محبوب ہو گی اور کسی بھی عورت کیلئے یہ لفظ “بھی” اپنے ذات کیلئے ناقابل قبول ہوتا ہے۔
” فرید بہتر ہے کہ تم اپنے قدم روک لو جو تمہیں تباہی کی طرف لے کر جا رہے ہیں ”، ثمینہ نے سنجیدگی سے اپنا فیصلہ سنا دیا تھا۔
”یہ ممکن نہیں رہا میں زبان دے چکا ہوں ”، فرید احمد نے بے لچک کہا تھا اور ثمینہ نے اسی بے لچک طریقے سے بچوں سمیت گھر چھوڑ دیا تھا، وہ تباہی کا حصہ نہیں بن سکتی تھی، فرید کے ماں باپ ثمینہ کو سمجھانے اُسے واپس لانے کیلئے اُس کے گھر گئے تھے مگر ثمینہ کی پہلی اور آخری شرط لئے خالی ہاتھ لوٹے تھے کہ فرید کو سمجھا لیں پھر وہ بھی واپس آ جائے گی، قابل فخر بیٹے کے ہاتھوں انہیں یوں بھی زک اٹھانا تھا، فرید احمد کے والدین نے دُکھ سے سوچا تھا مگر وقت غمگین ہونے کے بجائے بیٹے کو باز رکھنے کا تھا ورنہ سب کچھ بکھر جانا تھا۔
اور یہ سن 73 کی بات ہے جب شمیم آراء تیسری بار دلہن بنی اپنے دولہا کا بے چینی سے انتظار کر رہی تھی، خوشیوں کے شادیانے بج رہے تھے، مہمانوں کی کثیر تعداد بارات کی منتظر تھی کہ ایک فون کال کر کے مطلع کر دیا گیا کہ چند ناگُزیر وجوہات کی بناء پر فرید احمد بارات لے کر نہیں آ سکے گا۔
***
کیا ذلت سی ذلت تھی جو دلہن بنی شمیم نے موجود مہمانوں کے سامنے محسوس کی تھی۔
کیا تحقیر سی تحقیر تھی جس نے شمیم آراء کی رگ رگ میں محشر برپا کر دیا تھا کہ جس شادی کے بارے میں سب باخبر تھے وہ بارات نہ آنے کی وجہ سے مؤخر ہو گئی اور اگلے کئی ہفتوں کیلئےTalk Of The Town بن گئی۔
اگر یادگار کہلانا ایسا ہوتا ہے تو شمیم سارے پاکستان کی یاد داشت کو کھرچ کھرچ کے مٹا ڈالنا چاہتی تھی۔
مہمانوں کے رخصت ہو جانے کے بعد اپنے وجود پر موجود سونے چاندی اور پھولوں کے زیورات شمیم نے نوچ نوچ کر پھینکے تھے ، لباس عروسی کو اتار کرتا ر تار کر دیا تھا، چہرے سے غازہ اور ہونٹوں سے لپ سٹک ایسے اتاری تھی کہ اگلے کئی دن چہرے سے ناخنوں کے نشان اور زیریں لب آ جانے والا زخم غائب نہ ہوا تھا۔ دماغ کی شریانیں پھٹی جاتی تھیں ، دل درد سے فگار ہوا جاتا تھا، مرچ مسالے کے شوقین صحافیوں اور چٹخارے لے لے کر تماش بینی کی فطرت رکھنے والے پاکستانیوں کو شمیم کی زندگی کا ایک اور جہنم مل گیا تھا، ہنسنے کا، لطف اٹھانے کا، مزے لے لے کر ایک دوسرے سے افسوس کرنے کا “تمہیں پتا چلا شمیم آراء کا تُک تُک ”
“بے چاری۔ ۔ دلہن بن کر بارات کا انتظار کر رہی تھی مگر بارات ہی نہ آئی، بدنصیب”۔
“ارے ان فلمی اداکاراؤں کو شادی کی ضرورت ہی کیا ہے دلہن تو یہ بنتی ہی رہتی ہیں ”۔
” ہاں یار اب اپنے سے کم عمر کا آدمی پھانسے گی تو یہی سب ہو گا”۔
یہ ہوتے ہیں اس معاشرے کے وہ جملے جو وہ خود کو “انسان” اور سکرین پر آنے والی اداکارہ کو”جسم” سمجھ کر کہتے ہیں نہ بجلی گرتی ہے نہ زمین شق ہوتی ہے …
مردودوں کے اس دیس میں گِدھوں کی سی فطرت رکھنے والے انسان نما مُردے جو جا جا قریہ قریہ انسان اور جسم، برتر اور بدتر کے مابین فرق کو ٹی بی زدہ تھوک کی طرح الٹتے پھرتے ہیں ۔
اگلے چند ہفتے شمیم آراء کسی سے نہیں ملی، کسی صحافی، کسی اخبار نویس، کسی دوست، فلم انڈسٹری کے کسی شخص…کسی سے بھی نہیں ۔ وہ بس کمرے میں مقفل اپنے بیٹے کے ساتھ وقت گزارتی رہی، ہر چٹپٹی خبر پڑھتی رہی، ہر پھبتی کستے ہوئے قیاس پر غور کرتی رہی، بناء روئے بناء تڑپے۔
اُس کے ساتھ ایسا کیوں ہوا تھا؟، بس یہ ایک سوال تھا جو ہر آتی جاتی سانس کے ساتھ اُس کے دل دماغ روم روم میں ہچکولے کھاتا رہتا تھا، وہ یہ تسلیم ہی نہیں کر پا رہی تھی کہ بعض دفعہ زندگی میں “ہاں ” کی قیمت بھی چکانی پڑتی ہے اور اُس نے محبت کے جھانسے میں آ کر ہاں کی تھی تو قیمت بھی دُگنی تگنی چوگنی ادا کرنی تھی، فرید اس طرح اُس کی تذلیل کرنے کے اُسے دو ٹوک الفاظ میں اگر بتادیتا کہ وہ شرمندہ ہے، حالات سازگار نہیں ہیں ، وہ بچوں اور ماں باپ کے آگے ہتھیار ڈال رہا ہے، وہ اُس سے شادی نہیں کر سکتا۔
آخر اُس نے شمیم کو شادی کی پیشکش کرتے ہوئے تو کچھ نہیں سوچا تھا، جس مردانگی اور جواں مردی سے اُس نے شمیم کو اپنانے کی بات کی تھی، محبت کی خوشنما بیلیں سجائی تھیں ، دنیا سے ٹکرا جانے اور حقوق و فرائض کی پاسداری کی قسمیں کھائی تھیں اور پھر ثابت کیا تھا کہ اتنی سی، ذرہ برابر، چٹکی بھر مردانگی بھی اُس میں نہ تھی کہ اُسے اطلاع کر دیتا کہ یہ سب ممکن نہیں ، وہ کیا کر لیتی؟، اُس کا گریبان پکڑ لیتی؟، اُس کے پیروں میں گر جاتی؟، اُس کے ماں باپ سے شکایت لگاتی کہ آپ کے بیٹے نے کتنی زیادتی کی ہے میرے ساتھ؟، نہیں وہ ایسا کچھ بھی نہ کرتی، اُس نے تو محمد علی تک کو گنجائش دے دی تھی، اُسے جانے دیا تھا، دل سے نکالا نہیں تھا تو اُس کیلئے دل میلا بھی نہ رکھا تھا، وہ اتنی کمزور اتنی تھڑڈلی تو نہ تھی۔
بہت بار ہو چکا تھا زندگی میں کہ شمیم منہ کے بل گرائی گئی تھی، سکول میں اُس کی ذات کو ناچنے والی کہہ کر تضحیک کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
گھنٹوں گھنٹوں وہ رقص کی مشق کرتی تھی اور اقبال کے طعنے سہتی تھی۔
دو لاکھ اُس کی قیمت لگا دی گئی تھی لیکن سودا نہ ہوا اور پھر بھی اُسے بیچا گیا۔
مجید کریم کی بدعہدی نے اُسے توڑا پھوڑا۔
محمد علی نے اُس کے سامنے کسی اور کو منتخب کر لیا۔
یہ سب وہ تھا جو اُس نے خود اپنے لئے منتخب نہ کیا تھا، مگر جو دن اُس کے اپنے انتخاب نے دکھایا تھا وہ…۔ ۔ پس تو ثابت یہ ہوا کہ وہ “پُتلی “ہر ایک کیلئے “پُتلی” ہی تھی جس کا دل چاہتا اُسے تماشہ بناتا اور “پُتلی گھر”کی رونق بڑھ جاتی، تذلیل و بے توقیری کا کہیں کوئی اختتام تھا بھی یا بس سلسلہ درد سے زنجیر کا صدا قائم ہی رہنا تھا، وہ غم و غصے سے پاگل ہو رہی تھی اور اُسے بس ایک فون کال کا انتظار تھا اور شدت سے انتظار تھا اور اسی کیلئے وہ گڑ گڑا گڑگڑا کر دعائیں مانگتی رہی تھی۔
***
فرید احمد نے ثمینہ احمد کو منالیا تھا، اُسے اور بچوں کو واپس گھر بھی لے آیا تھا، ماں باپ کے ساتھ بھی تعلقات بحال ہو گئے تھے ، بظاہر سب کچھ ٹھیک تھا لیکن دل میں چٹکی لیتی ہوئی کسک تھی جو بڑھتی ہی جا رہی تھی، مرد محبت حاصل نہ کر سکے تو پھر بپھرا ہوا شیر بن جاتا ہے چند ہفتے فرید احمد نے جیسے تیسے گزار لیئے لیکن شمیم کا خیال تھا کہ بے چینی و بے قراری کی برقی رو دل و دماغ میں دوڑا دیتا تھا، فرید حال سے بے حال تھا، محبت شدت سے جنون کی کیفیت میں ڈھلتی جا رہی تھی، شمیم کے صرف ایک پیغام، ایک کال کی دیر تھی وہ سر کے بل چلتا ہوا جاتا اور قدموں میں ڈھیر ہو جاتا مگر شمیم تھی کہ چُپ اور یہ چُپ فرید کو چرکے لگا رہی تھی اور بالآخر خود کو سنبھالنے ، قابو رکھنے میں ناکام رہنے پر فرید احمد نے شمیم سے رابطہ کیا تھا۔
“خیریت؟”، شمیم کے لہجے کی سرد مہری جھیلنا شمیم کی دوری سے زیادہ کٹھن تھا، فرید نے اعتراف کیا تھا۔
“گھر آنا چاہتا ہوں ”، فرید نے ندامت سے کہا تھا۔
” وہ تو تم آئے تھے۔۔۔ ، بارات لے کر۔۔۔ ”، شمیم نے نرم لہجے میں جوتا مارا تھا۔
“میں ۔۔۔ میں بہت شرمندہ ہوں شمیم، ”
” کس لئے؟”، فرید کو کوئی جواب نہ سوجھا، چند لمحے خاموشی کی نذر ہوئے پھر شمیم نے ہی پہل کی۔
“مجھے کبھی بھی اپنی خوش بختی کا یقین نہیں تھا فرید صاحب”، اُس کے لہجے ٹوٹے ہوئے کانچ تھے مگر وہ لفظ “صاحب” سے زخمی ہوا تھا، ”لیکن آپ نے مجھے یقین دلادیا کہ ہاں مجھ سے بڑھ کر سیاہ نصیب انڈسٹری میں کوئی عورت نہیں ”۔
” ایسا مت کہو پلیز”، فرید نے منت کی۔
شمیم ہنس پڑی “ہاں حقیقت کہنے والی چیز تھوڑا ہی ہے ”، وہ اگر روتی تو فرید کو اتنی تکلیف نہ ہوتی جتنی اذیت اُسے شمیم کی ہنسی نے پہنچائی تھی، وہ کوئی شکوہ کیوں نہیں کرتی، وہ اُسے گالیاں کیوں نہیں دیتی کیوں نہیں کہتی کہ تم نے میرا تماشہ لگوا دیا کسی سرکس میں اٹھنی چونی کے عیوض دیکھے جانے والا کرتب۔
فرید اُسی وقت شمیم کے گھر جا پہنچا تھا جہاں وہ اُسے روتی ہوئی ملی تھی، فرید میں اگر ذرا بھی سوُجھ بوجھ ہوتی تو وہ شمیم کی آنکھوں کے آنسوؤں کے بجائے شمیم کی نگاہوں کے تاثر پڑھتا جو اُسے ڈبونے کی پوری داستان عزم کے ساتھ سنا رہے تھے۔
فرید نے اُسے چُپ کرواتے ہوئے دوبارہ سے شادی کی پیشکش کی تھی بلکہ پیشکش نہیں حکم سنایا تھا اور “پُتلی” کو حکم کے آگے سر جھکا لینا آتا تھا یہ “شمیم” تھی جو حکم نامے کالر پر چڑھ آنے والی چیونٹی کی طرح انگلی کی ہلکی سی ٹھوکر سے اڑا دینے کا فن سیکھ گئی تھی۔
“پُتلی “نے حکم تسلیم کر لیا تھا۔
” شمیم” نے شرائط رکھ دی تھیں اور فرید نے سر تسلیم خم کر دیا تھا۔
فرید نے گھر چھوڑا، ماں باپ سے قطع تعلق کیا اور ثمینہ احمد کو طلاق دے کر بچے اُس کے حوالے کیئے اور شمیم آراء سے ڈنکے کی چوٹ پر شادی کر لی، اخبارات میں شائع ہونے والی ان تینوں خبروں نے بھونچال پیدا کر دیا، ہر ایک حیران، آنکھیں پھاڑے اُن سطروں میں چھپی تفصیل بار بار پڑھتا۔
لیکن یہ تو ابتداء تھی۔
اپنی شمیم کی ہر شرط پوری کرتے ہوئے وہ خوشی سے پھولا نہیں سمایا تھا لیکن عین شادی کی رات شمیم آراء نے اُس پر بجلی گرائی تھی۔
شمیم آراء نے مہینوں پہلے ذلت بھی محسوس کی تھی، اُسے رُسوائی کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا، وہ لوگوں کے سوالوں اور دنیا کی نظروں سے ڈر کے مارے چھپتی رہی تھی، وہ متانت اور سلجھاؤ جس کیلئے وہ سر آنکھوں پر بٹھائی جاتی تھی یکایک ڈھونگ اور بہروپ گردانا گیا، اتنا بڑا واقعہ ہو گیا اور وہ تھی کہ چُپ۔
اور اب اُسی شخص سے شادی۔
دنیا، دنیا نہیں ہے دو دھاری تلوار ہے۔
نہ اس پار جینے دیتی ہے نہ اُس پار مرنے۔
اور مسئلہ یہ بن گیا تھا کہ وہ بہت جی چکی تھی دوسروں کی خواہش اور ان کی ایماء پر، وہ جینا چاہتی تھی بھرپور زندگی اپنی ٹرمز پر اور بس یہی ذرا سی آرزو اُس نے کیا کر لی زندگی نے اُسے عجیب تال پر ہی نچانا شروع کر دیا۔
فرید احمد بالوں کو انگلیوں سے نوچتے ہوئے اُس سے اپنا جُرم، اپنا قصور پوچھتا رہا، چیختا رہا چلاتا رہا، اُس کے سامنے دلہن بن کر بیٹھی شمیم طنزیہ مُسکراہٹ اور برفیلی نگاہوں سے اُسے دیکھتی رہی تھی۔
اور پھر فرید احمد سے شادی کے ٹھیک تیسرے روز اُس نے ایک پریس کانفرنس کی، اپنی میٹھی آواز، متانت بھرے لہجے اور خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ نیوز رپورٹرز اور کاریسپانڈنس کے سامنے بیٹھ کر اُس نے فرید احمد سے اپنی طلاق کے مطالبے کے بارے میں صرف اتنا کہا تھا”محبت تو ہم کرتے ہیں لیکن مجبوری یہ ہے کہ وہ ازدواجی حقوق پورے کرنے کے قابل نہیں ہیں لہذا ایسی صورت میں طلاق ہی بنتی ہے ”۔
اور اگلے روز یہ خبر پاکستان کے طول و عرض میں پھیلی تھی اور فرید احمد کا دل ایسا سکڑا تھا کہ چند ہفتوں بعد ہی وہ دنیا چھوڑ گیا۔
اُس رات وہ دھاڑیں مار کر روئی۔
اُس رات وہ حلق پھاڑ قہقہے لگاتی رہی۔
***
اگلے کئی ہفتوں تک فرید احمد کی موت ایک اچنبھا بنی رہی تھی، ثمینہ احمد نے طلاق کے بعد سے اس بارے میں کوئی بات نہ کہی تھی اور پھر آج تک وہ اسی طرز عمل پر کاربند ہے، البتہ فرید کے ماں باپ نے کافی شور شرابہ کیا تھا کہ شمیم کے الزام نے اُن کے بیٹے کی جان لے لی،وہ اگر نارمل نہیں تھا تو ثمینہ سے اُس کے دو بچے کیونکر ہوئے، جب شمیم نے اُس کے ساتھ زندگی گزارنی نہیں تھی تو یہ سب کرنے کی کیا ضرورت تھی، یہ بھی عجیب ہی بات ہے کہ بیٹوں کے ماں باپ اُس وقت شور نہیں ڈالتے جب بیٹے عشق کے میدان میں بلے بازی کرتے ہوئے محبت اور وحشت کے چوکے چھکے لگا رہے ہوتے ہیں ، اُنہیں غدر مچانا تب یاد آتا ہے جب وہ اُس آوارہ محبت کو گھر کی دہلیز پار کروانا چاہتے ہیں اور اگر یہ محبت دل کا روگ بن جائے تو پھر سارا قصور عورت کا، مرد خود پر قابو نہیں رکھتا تو عورت پھر اُس کا مالی استحصال بھی کرتی ہی ہے اور جذباتی استحصال بھی، خیر شمیم آراء نے انتقام لیا تھا یا وہی تذلیل مخمل میں لپیٹ کر فرید احمد کو لوٹائی تھی یا جو بھی تھا، ایک چیز واضح ہو گئی تھی کہ وہ بھلوں کے ساتھ بھلائی کرے گی اور خود کو دھوکہ دینے والے کی تابوت میں آخری کیل بھی خود ہی ٹھونکے گی۔
مگر یہ شمیم کی خوش فہمی تھی۔
فرید احمد اور شمیم آراء کی اس محبت-نفرت کے تعلق کی آخری نشانی “زیب النساء”ریلیز ہو کر فلاپ ہوئی اور شمیم آراء نے ہیروئین شپ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا۔
اس مقام پر وہ گوشہ گمنامی اختیار نہیں کر سکتی تھی اور نہ ہی اُس کا سب کچھ تیاگ کر کسی دوسرے دیس جا بسنے کا ارادہ تھا، اچھا خاصا روپیہ بینک میں پڑا تھا لیکن وہ اچھا خاصا روپیہ ساری عمر ہی کام نہیں آنا تھا چنانچہ شمیم نے ساری توجہ فلمسازی کی جانب کر لی تھی اور اُس نے اپنی اگلی پروڈکشن “بھول” کو سیٹ کی زینت بنا دیا تھا، اس فلم سے شمیم آراء نے پاکستان فلم انڈسٹری کو باکس آفس پر راج کرنے والی “ممتاز” اور دلوں کو تسخیر کرنے والی “بابرہ شریف”کا تحفہ دیا تھا، سن 74 میں “بھول”نے نمائش پذیر ہو کر گولڈن جوبلی بزنس کیا اور شمیم آراء کو کامیاب ترین فلمسازوں کی فہرست میں لا کھڑا کیا۔
ذاتی زندگی میں شمیم بیٹے کے ساتھ تنہا کی تنہا ہی تھی، بہن سے رابطہ نہ ہونے کے برابر تھا، لاہور مستقل مسکن بن چکا تھا، فلم انڈسٹری ہی اُس کا خاندان تھی، وحید مُراد و ندیم بھائی بن گئے تھے، نیئر سلطانہ و بہار جان چھڑکنے والی سہیلیاں ، شبنم چھوٹی بہن، بابرہ اور ممتاز بیٹیاں ، شمیم آراء پروڈکشن سے منسلک کیمرہ مین، میوزک کمپوزر، نغمہ نگار، ایڈیٹر، لائٹ میں اور مصنف یہ سب اُس کا خاندان بن گئے تھے ، فلم انڈسٹری سے ملنے والے زخموں کو وہ بھولنے لگی تھی، ”بھول” کی پروڈکشن کے دوران ہدایت کار ایس سلیمان نے خاصا پریشان کیا تو بہت سوچ بچار کے بعد شمیم نے ہدایت کاری کا فیصلہ کیا اور اگلی فلم “جیو اور جینے دو” کی فلمساز ہی نہیں بلکہ مصنفہ اور ہدایت کارہ بھی رہی مگر بہت سوچ کر اٹھایا جانے والا یہ قدم غلط پڑا تھا، ”جیو اور جینے دو” بھارتی فلم”مدر انڈیا”کا ایک بے حد بُرا چربہ ثابت ہوئی تھی ، موسیقی اور ممتاز کے رقوص کے علاوہ فلم کا ہر شعبہ تنقید کی زد میں آیا اور شمیم آراء کو خاصی سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔
فلمی حلقوں کا مشورہ تھا کہ شمیم اب کسی فلم کی ہدایت کاری سے پرہیز ہی کرے تو بہتر ہے جبکہ مخالفین ایک بار پھر چھری کانٹے تیز کیئے میدان میں اُتر آئے تھے۔
شمیم نے بہت خاموشی سے اگلی فلم کی تیاریاں شروع کر دیں اور سن 78 میں لندن میں فلمائی ہوئی “پلے بوائے ” عید کے موقع پر پیش کی جو کہ گولڈن جوبلی ہٹ رہی، کہانی، موسیقی اور لوکیشنز کو کافی سراہا گیا ساتھ یہ بات بھی فلمی مبصرین نے نوٹس کی کہ اپنی فلموں میں روتی دھوتی، مظلوم عورت کے روپ میں پیش ہونے والی شمیم نے بطور فلمساز و ہدایت کارہ اپنی فلم کے ذریعے ہیروئین کی ایک نئی جہت پاکستانی سینما کی حد تک متعارف کروائی، شمیم کی فلم ہیروئین صرف مار نہیں کھاتی، وہ اپنا حق غصب کیئے جانے پر صبر کے آنسو آہیں بھر بھر کے نہیں پیتی بلکہ وہ آگے بڑھ کر گریبان بھی پکڑتی ہے، دو کے جواب میں چار ہاتھ بھی لگاتی ہے ، وہ صرف تقریریں ہی نہیں کرتی بلکہ ضرورت پڑنے پر کسی کے ہاتھ پاؤں بھی توڑ دیتی ہے۔ بابرہ شریف کے ساتھ شمیم آراء نے مس سیریز کی بنیاد رکھتے ہوئے “مس ہانگ کانگ” بنائی اور فلم انڈسٹری کو اب تک کا سب سے خوبصورت و وجیہہ ہیرو آصف رضا میر کی شکل میں دیا۔ ہانگ کانگ میں فلمائی ہوئی اس فلم کی ڈیولپنگ اور Technical Facilities شمیم آرا نے لندن سے حاصل کی تھیں اور “مس ہانگ کانگ” اُس دور میں خالصتاً تفریحی فلموں کے حوالے سے ایکTrend Setter ثابت ہوئی تھی یہی نہیں پاکستانی سینما کو شمیم آراء نے لیڈی جیمز بونڈ دینے کی ایک کامیاب کوشش بھی کی تھی، ڈائمنڈ جوبلی ہٹ بزنس کرنے کے باوجود سنجیدہ فلم بینوں اور فلمی مبصرین نے شمیم پر تنقید کی تھی کہ اپنی حساس کردار نگاری سے دلوں میں جگہ بنانے والی شمیم آراء ایک سنجیدہ فلم کیوں نہیں بنا رہی چنانچہ شمیم نے “میرے اپنے “شروع کی جس کیلئے شمیم نے اپنی پروڈکشن ٹیم میں بھی تبدیلیاں کیں اور سید نور کی بجائے آغا حسن امتثال سے فلم کا سکرپٹ لکھوایا، ”میرے اپنے ” کا مرکزی کردار شمیم نے خود ہی ادا کیا جو کہ شمیم کی ذاتی زندگی سے قدرے مماثلت رکھتا ہوا تھا، سن 82 میں “میرے اپنے ” سال کی ناکام ترین فلم ثابت ہوئی، یہ وہ دہائی تھی جب پاکستان ضیاء کے قبضے میں تھا اور خاص کر فن و ثقافت کی عزت و آبرو ضیاء الحق کی اسلامائزیشن کے ہاتھوں محفوظ نہیں تھی، عوام میں ایک خاص طرح کا غم و غصہ پایا جاتا تھا اور ایسے میں پاکستانی سینما پر سلطان راہی کی ایکشن فلمیں جن میں وہ طاقت ور عناصر سے ٹکراتا ہوا پیش کیا جاتا تھا اور وہ للکار اور بڑھکیں عوام کو اپنی نمائندگی محسوس ہوتی تھی، یت روتی دھوتی کہانیوں کی بالکل گنجائش نہ رہی تھی شمیم نے اپنے نقاد کو بے حد اطمینان سے اپنے مخصوص لہجے میں یہ کہہ کر خاموش کروایا تھا کہ”میں نے تو ایک گھریلو سنجیدہ موضوع پر فلم بنائی تھی، عوام تو دور جن کیلئے بنائی تھی وہ مخصوص طبقہ بھی دیکھنے تھیٹر نہیں گیا، فلم ماسسز کیلئے بنائی جاتی ہے اور پبلک جس طرح کی فلم دیکھناچاہتی ہے ہمیں ویسی ہی فلمیں بنانی ہوں گی، فاسٹ ٹیمپو، میوزیکل ایکشن فلم لوگ پسند کرتے ہیں اُن پر اپنی مرضی نہیں تھونپی جا سکتی اور پھر فلم ایک بزنس ہے اسے بزنس کے تناظر میں ہی دیکھنا چاہیئے ادبی لوگ ادب پڑھ کر ہی تسکین حاصل کریں ”۔
شمیم کا یہ بیان اکثریت کو چبھا لیکن مارشل لاء نے اُس مخصوص طبقے کو شمیم کے خلاف محاذ نہ بنانے دیا کہ اُس دور میں مخصوص نام پابند سلاسل تھے۔
سن 84 میں “مس کولمبو” ، سن86 میں ”مس سنگاپور”کی کامیابیوں نے شمیم کی بات پر تصدیقی مہر ثبت کی تھی۔
پیشہ ورانہ حوالے سے اداکارہ کے طور پر کامیابیاں اگر ناقابل یقین تھیں تو بحیثیت فلمساز و ہدایت کارہ پے در پے کامیابیاں بھی مثالی تھیں ، شمیم آراء پروڈکشنز نے بے شک ایک فلم بھی ایسی نہیں بنائی تھی جو انور کمال پاشا، خلیل قیصر، ریاض شاہد، خورشید انور ، شریف نیئر کے معیار کو چھوتی یا احمد بشیر اور اشفاق احمد کی کاوشوں کی طرح ناکام مگرآرٹسٹک آرٹ فلموں کی فہرست میں شمار پاتی لیکن شمیم نے طربیہ، میوزیکل فلموں کی داغ بیل ضرور ڈال دی تھی جن کی بڑی بڑی کامیابیوں نے ایک جانب شمیم آراء پروڈکشن کی ساکھ کو مستحکم کیا تھا، دوسری جانب چاروں سرکٹ میں (اُس دور میں بلوچستان اور کے پی میں اردو فلمیں بڑے شوق و ذوق سے دیکھی جاتی تھیں اور پاکستانی مارکیٹ کافی بڑی تصور کی جاتی تھی ) اُس کی بنائی فلمیں کامیاب رہی تھیں اور کوئی لاکھ تنقید کرے شوبز کی دنیا میں “جو ہٹ ہے وہی فٹ ہے ” کا فارمولا چلتا ہے ، شمیم سے قبل اس طرح مسلسل بیرون ملک فلمبندی کا رجحان بھی پاکستانی فلم انڈسٹری میں نہیں تھا، تکنیکی لحاظ سے اُس دور کے مرد فلمساز و ہدایت کار بھی ایسی فلمیں نہیں بنا پاتے تھے جس طرح وہ عورت ہو کر مردانہ وار ایکشن سیکوئنس شُوٹ کر لیا کرتی تھی البتہ ذاتی زندگی میں وہی تنہائی تھی جو سالہا سال سے دمساز تھی، بیٹے سلمان مجید کو اُس نے تعلیم کے سلسلے میں لندن بھیج دیا تھا، اسٹوڈیوز سے گھر تھکی ہاری آتی تو ٹوٹا بکھرا ماضی یاد کے پردے سے نکل کر آنکھوں کے سامنے آ جاتا، فلمی رونقیں اُس دور میں ایسی تھیں کہ گویا کسی دوشیزہ کے آنچل پر جگمگاتے ستارے ، ماند ہی نہ پڑتی تھیں ، شمیم کے گھر اُس کی پروڈکشن ٹیم کے ممبران جمع رہتے ، کھانے چلتے ، رونق میلہ لگا رہتا، بابرہ، ممتاز، آصف رضا میر، فیصل الرحمن، ثمینہ پیرزادہ و عثمان پیرزادہ شمیم کے گھر میں باقاعدہ محفل جما کر بیٹھے ہوتے ، کمال کی ڈالی ہوئی تاش کی عادت شمیم کے ساتھ ساتھ تھی اور زندگی بس یونہی بسر ہو رہی تھی، دل کا آنگن سُونا جو بالوں میں اُترتی ہوئی چاندی کے ساتھ گہرا ہی ہوتا جاتا تھا، کامیابی کا ہما سر پر تاج بن کر سجا تھا اس لیئے دُنیا جھک جھک کر سلامیں کرتی نہ تھکتی تھی لیکن سن87 کی “لیڈی سمگلر” کچھ اچھا بزنس نہ کر سکی اور سن 88 کی “لیڈی کمانڈو”کی ناکامی نے شمیم آراء کے پیروں تلے سے زمین کھینچی تھی، شبنم اور بابرہ عرصہ دراز کے بعد اس ایک فلم میں ایک ساتھ پیش ہوئی تھیں لیکن کمزور سکرپٹ اور شمیم کی پچھلی فلموں کے مقابلے میں کمزور Treatment فلم کی بدترین ناکامی کا سبب بنا، شمیم کو مالی طور پر اس حد تک جھٹکا لگا تھا کہ اگلے تین برس تک وہ کنگال ہو چکی تھی اور اس سے پہلے وہ فٹ پاتھ پر آ جاتی دبیر الحسن اُس کی زندگی میں باقاعدہ ایک ایجنڈے کے ساتھ داخل ہوا تھا۔
***
دبیر الحسن کا تعلق کراچی سے تھا، لکھنے پڑھنے سے شغف رکھتا تھا اور یہ خواب سالہا سال سے دیکھ رہا تھا کہ زندگی میں وہ بھی کبھی کسی فلم کا سکرپٹ لکھے ، فلم والوں سے وہ کئی برس سے رابطے کی کوشش میں مصروف تھا لیکن ایک تو کراچی میں فلمسازی نہ ہونے کے برابر تھی اور جو لوگ فلمیں بناتے بھی تھے تو اُن کی اپنی اپنی ٹیمیں تھیں جن میں ظاہر ہے دبیر کیلئے کوئی جگہ نہیں تھی، پھر یہ تصور کرنے کہ “میں بہت اچھا لکھ سکتا ہوں ” اور حقیقت میں یہ “قابلیت” رکھنے میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے اور دبیر صرف تصور ہی رکھتا تھا مگر اس کا ادراک نہیں ۔
یہ کہنے کی تو ضرورت ہی نہیں کہ دبیر بھی شمیم آراء کے لاکھوں مداحوں میں شامل تھا لیکن لاہور تک اُس کی کوئی رسائی نہیں تھی۔
دبیر بنیادی طور پر ایک بدنیت اور لالچی شخص تھا اور کئی طرح کے شعبوں سے منسلک رہ کر اپنا اور بیوی بچوں کا پیٹ پالتا آ رہا تھا۔
نوے کی دہائی کے ابتدائی سال میں پاکستان کا اُس وقت تک کا سب سے بڑا معاشی سکینڈل منظر عام پر آیا تھا، جس نے پوری دنیا کو ہی ہلا کر رکھ دیا تھا۔ BCCI پاکستانی پرائیوٹ بینک تھا جو ترقی کرتے ہوئے دنیا کا سا تواں بڑا بینک بن چکا تھا جو luxembourg میں رجسٹر تھا جبکہ اس کے ہیڈ آفسز کراچی اور لاہور میں تھے اور دنیا کے اٹہتر ممالک میں اس کی برانچیں تھیں ، اس مالیاتی فراڈ کیس کی وجہ سے صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا کے اٹہتر ممالک کے لاکھوں لوگ بینک کرپٹ ہو گئے تھے ، اب یہ فراڈ حقیقت تھا یاCIA کی مدد سے عالمی طاقتوں کی سازش یا کچھ اور یہ قصہ پھر کبھی سہی، دبیر الحسن بھی اس بینک کے ملازمین میں سے ایک تھا اور ہزاروں لوگوں کو اس بینک میں روپیہ جمع کروانے کا ذمے دار تھا، لیکن دبیر اپنی عادت یا فطرت سے مجبور ہو کر اکثریت کے روپے سے اپنا حصہ نکال کر سرکاری بینک میں جمع کرتا رہا تھا اور بینک سے بھی بھاری کمیشن تنخواہ کے علاوہ وصول کرتا رہا تھا یہی وجہ تھی کہ بینک کے بند ہو جانے کے بعد جہاں لاکھوں افراد کنگال ہوئے تھے وہیں دبیر لاکھوں کا مالک بن بیٹھا تھا۔ دبیر نے مزید کوئی نوکری ڈھونڈنے یا کوئی کاروبار کرنے کے بجائے لاہور کا قصد کیا تھا، جیب میں روپیہ تھا چنانچہ رائل پارک (لاہور کا فلمی مرکز) نے اپنی بانہیں اُس کیلئے کھول دی تھیں جہاں سے پہلے وہ نامُراد لوٹایا جاتا تھا، اس عرصے میں اُس کی کئی فلمی شخصیات سے دوستی ہوئی اور ظاہر ہے اس دوستی کے پیچھے اُس روپے کا ہی ہاتھ تھا اور کئی ہدایت کار دبیر کو Investor سمجھ کر گھیرنے کی کوششوں میں تھے لیکن دبیر کی نگاہیں شمیم پر ٹکی تھیں جو کہ تین سال سے کوئی فلم نہیں بنا رہی تھی۔
وہ ڈبل ورژن فلموں کا انتہائی ابتر دور تھا، اردو فلمیں دو تین سال میں گنتی کی ایک دو ہی بن رہی تھیں ، سکرین پر خون خرابے ، جان لیتے ، للکارتے ہیروز اور بھدی اور ناچتی ہوئی ہیروئنز کا راج تھا اور شمیم کا مزاج اس طرح کے آرٹ سے میل نہیں کھاتا تھا، کئی فلمسازوں کی پیشکش وہ ٹھکر اچکی تھی اول تو وہ کسی اور ادارے کیلئے فلم بنانے کے حق میں تھی ہی نہیں کیونکہ کوئی ادارہ اُسے وہ آزادی نہ دیتا جس کے ساتھ وہ کام کرنا چاہتی تھی، پھر کسی اور کی ہدایات پر کام کرنا اُسے نانی اقبال کی یاد دلاتا تھا چنانچہ اُس نے یہ عرصہ بیٹے کے پاس لندن میں ہی گزارا۔ سن 92 میں وہ پاکستان واپس آئی تھی اور فلم انڈسٹری کے حالات پر نئے سرے سے کُڑھ کر رہ گئی لیکن وہ کچھ نہیں کر سکتی تھی کہ فلمسازی کیلئے اتنا سرمایہ اُس کے پاس نہیں تھا، دبیر الحسن نے Eveready production کو کسی طرح رضا مند کر لیا( یہ ادارہ خود بھی فلمسازی سے پیچھے ہٹ چکا تھا) کہ وہ بھی کچھ رقم اس فلم پر لگائے گا بشرطیکہ وہ ہدایت کاری کیلئے شمیم کا انتخاب کریں ، ایوریڈی کے روح رواں شمیم خورشید کے شمیم آراء کے ساتھ بھی تعلقات اچھے تھے چنانچہ ادارہ اس شرط پر کہ دبیر کا نام کریڈٹ لسٹ پر نہیں آئے گا، فلم پروڈیوس کرنے کیلئے راضی ہو گیا، شمیم کو دبیر کی یہ ادا کافی بھائی اور اُن کے درمیان اچھے پیشہ ورانہ تعلق کا آغاز ہوا، شمیم کے بینک قرضے کو سود سمیت لوٹانے میں بھی دبیر نے کافی مدد کی جس پر شمیم احسان مند بھی تھی، سن 93 میں “ہاتھی میرے ساتھی”ریلیز ہوئی اور سالوں بعد کسی اردو فلم نے دونوں مرکزی سرکٹس میں کھڑکی توڑ بزنس کیا، خون خرابے سے پاک سری لنکا میں فلمائی ہوئی یہ فلم اپنی موسیقی، ہلکی پھلکی کامیڈی اور ریما کی جاندار اداکاری کی وجہ سے عوام میں بے حد مقبول ہوئی اور ایک بار پھر شمیم آراء کے قدم مستحکم ہوئے ، وہ دبیر کی بے حد مشکور تھی مگر اُس وقت حیران رہ گئی جب دبیر نے شادی کی پیشکش کر دی۔
“اب اس عمر میں ؟، نہیں دبیر صاحب میں مزید تماشہ نہیں بننا چاہتی”۔
دبیر ہنس پڑا تھا”اس عمر میں تنہا مر جانے سے تو بہتر ہے کہ کوئی ساتھی ڈھونڈ لیا جائے ”۔
دبیر کو شیشے میں اتارنا آتا تھا دوسرا شمیم کو بھی کسی ساتھی کی ضرورت محسوس ہوتی تھی پھر دبیر کی باتوں کا بھی اثر تھا جو گاہے بہ گاہے وہ کرتا رہتا تھا۔
” میں اکیلا ہوں شمیم بیوی بچوں کی زندگی میں میرے لیئے کوئی جگہ ہی نہیں ہے وہ بہت خوش ہیں میرے بغیر”۔
“کبھی کبھی میں سوچتا ہوں شمیم میری بھی کیا زندگی ہے پیسہ ہے کام ہے لیکن نصیب نہیں ہے ”، اور شمیم سوچ میں پڑ جاتی کہ کیا دنیا میں کوئی بھی خوش نہیں ہے، کیا دنیا کا ہر انسان ہی رشتوں کے معاملے میں سیاہ نصیب ہے، خالی ہاتھ ہے، کوئی رشتوں اور تنہائی کا ڈسا ہوا ہے میری طرح تو ہم شاید ایک دوسرے کا سہارا بن کر اچھی زندگی گزار سکیں ۔۔۔ شاید۔۔۔ شاید۔۔۔ اور شمیم نے دبیر سے شادی کر لی۔
بہت آسان ہوتا ہے کسی بھی انسان کے بارے میں یہ کہہ دینا کہ “اسے ضرورت ہی کیا تھی ایسا ویسا کچھ بھی کرنے کی، اچھی بھلی زندگی تھی، نام تھا شہرت تھی پیسہ تھا کامیابی تھی اولاد تھی”، کوئی بھی انسان کسی دوسرے انسان کی کسی ضرورت کے “ہونے ” یا “نہ”ہونے کے بارے میں فیصلہ کیسے کر سکتا ہے اور ایک کردار قسمت بھی تو ہے ، وہ لکڑی جو مجسم وجود نہیں رکھتی مگر ہر ایک پر پڑتی ہے اور دکھائی دے جاتی ہے اس پر کسی کا زور چلا ہے بھلا تو ہوا یوں کہ دبیر بڑی تدبیر سے اس کی زندگی میں آیا تھا۔
وہ شاید پیاس تھی۔
شاید چاہے جانے کی چاہ تھی۔
ذہنی تنہائی کا تریاق تھا۔
جو بھی تھا دبیر کے ساتھ تعلق ضرورت کا تھا اور ضرورت وہ کتیا ہے جس کی فطرت دیمک کی ہے۔ ہر دو انسانوں کے درمیان آتی ہے اور دو میں سے ایک کو چاٹ جاتی ہے۔ دبیر الحسن اسی دیمک کی فطرت والی کتیا کے پجاری تھا۔
شمیم کے بیٹے نے اس معاملے پر کوئی خاص رد عمل نہیں دکھایا تھا بس یہ تھا کہ اُس نے شمیم سے کہہ دیا تھا کہ وہ دبیر سے ملنا نہیں چاہتا، نہ ابھی نہ کبھی۔
شمیم کی اگلی فلم “بیٹا” بھی کامیاب رہی اور شمیم آراء پروڈکشن بالآخر اس پوزیشن میں دوبارہ آ گیا کہ فلم شروع کر دی جاتی، لیکن شمیم آراء پروڈکشن کی “آخری مجرا” اچھی کہانی، مسحور کُن موسیقی، نیلی کی اعلی اداکاری اور ریما کے رقص کے باوجود بُری طرح ناکام رہی، شمیم کیلئے یہ ایک بڑا سیٹ بیک تھا جو پیشہ ورانہ زندگی میں اُسے پہنچا تھا لیکن اُس کی ذاتی زندگی بھی مد و جزر کی لپیٹ میں آہستہ آہستہ آنا شروع ہو گئی تھی، دبیر بہت دھیرے دھیرے پیار محبت اور چاپلوسی کی اعلی اداکاری کے ذریعے شمیم کے ہر معاملے پر اثر انداز ہوتا جا رہا تھا اس حد تک کہ بابرہ اور ممتاز نے بھی شمیم سے پیشہ ورانہ تعلق ترک کر دیا تھا اور صرف عقیدت و احترام کا تعلق استوار رکھا تھا، شمیم آراء پروڈکشن کے ٹیم ممبران میں بھی دبیر کے مشوروں سے نمایاں تبدیلی آئی تھی، سید نور جو شمیم کی فلموں کا مستقل مصنف تھا سے دبیر نے اپنی نوسربازی کے باعث تعلقات میں پھندا ڈالا، خود سید نور بھی مستقل طور پر ہدایت کاری کی جانب چلا گیا تھا لہذٰا دبیر نے فلم کے سکرپٹ کیلئے اپنی خدمات پیش کر دیں ، شمیم متامل تھی لیکن دبیر نے پیار بھری دھونس سے کام چلایا شمیم اُس وقت بھی نہیں ٹھٹکی تھی۔
شمیم کی اگلی تینوں فلمیں “منڈا بگڑا جائے ”، “Love 95” اور “ہم تو چلے سسرال”بھی سپرہٹ رہیں ان تینوں فلموں کے سکرپٹس دبیر نے ہی لکھے تھے اور حیرانی کی بات تھی کہ فلم انڈسٹری کے کسی دوسرے فلمساز نے اتنی بڑی بڑی ہٹس کے مصنف کو اپنی کسی ایک فلم کا سکرپٹ لکھنے کے قابل نہیں سمجھا تھا وجہ یہی تھی کہ دبیر میں لکھنے کی صلاحیت ہی نہیں تھی، شمیم اُس وقت بھی نہیں ٹھٹکی جب “منڈا بگڑا جائے ” پر سنجیدہ حلقوں کے ساتھ ساتھ ماسسز نے بھی تنقید کی کیونکہ “منڈا بگڑا جائے “بھارت کی دو فلموں کا سرقہ تھی، شمیم نے دبیر سے بازپرس کی تو وہ یہ کہہ کر ٹال گیا کہ “اس سے کیا فرق پڑتا ہے یہ دیکھو کہ تم فلم انڈسٹری کی سب سے زیادہ بزنس کرنے والی فلم کی ہدایت کارہ ہو”، یہی خیال فلم کے فلمساز حاجی عبد الرشید کا بھی تھا اور بات بالکل ٹھیک تھی، ستر اسی لاکھ کی یہ فلم سن 95 میں چھے کروڑ کا ریکارڈ بزنس کرتے ہوئے اب تک کی واحد فلم ہے جس نے لاہور اور کراچی دونوں مراکز پر سو ہفتے یعنی ڈبل ڈائمنڈ جوبلی منائی۔
ریما کے فنی کیرئیر میں شمیم آراء کا سب سے اہم اور نمایاں کردار رہا ہے اور بابرہ کے بعد ریما ہی وہ اداکارہ تھی جو نئے منظر نامے میں شمیم کو اپنی فلموں کیلئے سب سے موزوں لگتی تھی، خود ریما بھی شمیم آراء سے بے حد لگاؤ رکھتی تھی، شمیم کی ہر فلم کی ہیروئین ریما ہی تھی اور صرف فلم کے سیٹ پر ہی نہیں اکثر شمیم کے گھر بھی پائی جاتی تھی کہ ایک وقت ایسا آن پڑا تھا کہ شمیم کا کھانا بھی ریما کے بغیر ہضم نہ ہوتا تھا اور دبیر کے دل میں ریما کیلئے کدورت دن بہ دن بڑھتی جا رہی تھی جس کی سب سے بڑی وجہ ریما کی سوجھ بوجھ اور ذہانت تھی، فلم “مس استنبول” کا پروڈیوسر افتخار احمد پاکستانی نژاد تُرکش تھا اور ریما کے عشاق میں سے ایک، وہ ریما کیلئے ہی فلم انڈسٹری میں آیا تھا، فلم “مس استنبول “ہالی ووڈ کلاسک Pretty Woman سے متاثر تھی جس کا سکرپٹ ریما ہی کی ضد پر شمیم آراء نے دبیر کے بجائے مظہر انجم سے لکھوایا جو دبیر کیلئے زہر میں بجھا ہوا تیر تھا، ریما کا کہنا تھا کہ ریشم اور می را کے فلمی پردے پر نمودار ہو جانے کے بعد یہ اُس کی بقاء کا سوال ہے کہ وہ اب ایسی فلمیں بھی کرے جن میں اُس کیلئے مضبوط کردار ہوں اور وہ صرف رقص اور گلیمر تک ہی محدود نہ رہے اور دبیر الحسن کبھی مر کر بھی ایک اچھی کہانی نہیں لکھ سکتا تھا خود شمیم بھی یہ بات محسوس کر چکی تھی کہ بے سروپا ہلکی پھلکی کہانیوں پر مبنی اُس کی فلمیں گو کہ سپرہٹ تو ہو رہی ہیں لیکن اُن کی وجہ سے شمیم پر تنقید بھی بہت کی جا رہی ہے ، چنانچہ شمیم نے ریما کی خواہش و ضد پر عمل کیا تھا، دبیر کیلئے ضروری ہو گیا تھا کہ وہ ریما کا پتا بھی صاف کرتا مگر اس کیلئے چال کی نہیں جال کی ضرورت تھی، وہ جانتا تھا کہ شمیم آراء کبھی بھیOne Woman of Film Industry سے نہیں بگاڑے گی یہ نوے کی دہائی کا وسط تھا جب پاکستان فلم انڈسٹری میں ایک ہی ہیروئین کی اجارہ داری تھی جو فلم انڈسٹری کا ہیرو بھی تھی “ریما” اور ریما کے دل پر بابر علی کا راج تھا یت دبیر نے بہت شاطر طریقے سے شمیم اور بابر علی کے درمیان پیشہ ورانہ تعلق کو “جسمانی تعلقات“ کا نام دے دیا یہ الزام بابر علی برداشت نہ کر سکا اور دبیر کا گریبان پکڑ لیا، ہا تھا پائی کے بعد بالآخر معاملہ بات چیت کے ذریعے ہی حل ہوا، بابر نے آئندہ شمیم کی کسی بھی فلم میں کام نہ کرنے کا اعلان کر دیا لیکن جس مقصد کیلئے دبیر نے اس قدر گھٹیاپن دکھایا تھا وہ پھر بھی حاصل نہ ہو سکا کیونکہ دبیر نہیں جانتا تھا کہ ریما کے دل پر بابر علی کا سہی لیکن ریما کے دماغ پر صرف ریما ہی کا راج تھا۔ “مس استنبول” ہٹ رہی اور شمیم کی کامیابی کا سورج ہمیشہ کیلئے غروب کر گئی۔
سن 97 کی تینوں فلمیں “ہم کسی سے کم نہیں ”، “دنیا ہے دل والوں کی “ اور “کرشمہ” بُری طرح ناکام رہیں ، فلمسازوں نے شمیم سے آنکھیں پھیرنا شروع کر دیں بہت ضروری تھا کہ شمیم اپنی ساکھ کی بحالی کیلئے فوری ایک کامیاب فلم مارکیٹ کو دیتی چنانچہ ایک ساتھ تین فلمیں شروع کیں جن کی کہانی، موسیقی ہر چیز پر شمیم نے بہت محنت کی لیکن شمیم آراء پروڈکشن کی اگلی فلم “کبھی ہاں کبھی نا” اور “چپکے چپکے ” بھی ڈیڈ فلاپ رہیں ، فلم “چپکے چپکے ” نے شمیم آراء کے اعصاب کو متاثر کیا اور دبیر کے چہرے سے نقاب کھینچ لیا تھا، ”چپکے چپکے ” کا ہیرو نعمان دبیر کا اپنا بیٹا تھا اور اُسے فلم کا ہیرو بنوانے کیلئے دبیر نے صرف شمیم پر ہاتھ نہیں اٹھایا تھا باقی ہر حربہ استعمال کیا تھا اور فلمی مبصرین نے اسُی لڑکے کو فلم کی ناکامی کی سب سے بڑی اور بنیادی وجہ قرار دیا تھا مگر شمیم “پل دو پل” کی ناکامی پر دل پکڑ کر بیٹھ گئی تھی جس کی تکمیل کیلئے شمیم نے اپنی تمام جمع پونجی داؤ پر لگا دی تھی، نصرت فتح علی خان کی مرتب کردہ موسیقی اس فلم کی اساس تھی، ٹریڈ رپورٹ اچھی ہونے کے باوجود یہ دبیر کی ضد تھی کہ سن 2000 کی عید کے بجائے سن 99 میں نومبر کے مہینے میں فلم ریلیز کی جائے ، ڈسٹری بیوٹر اور فلم ریلیز کرنے والے ادارے مسقطیہ انٹرپرائزز کے ساتھ سازباز کے ذریعے 2000 کا کوئی جمعہ بھی دبیر نے فلم “پل دو پل” کی ریلیز کیلئے شمیم کو ملنے نہ دیا چنانچہ دبیر کی نفسیاتی بیماری کے باعث “پل دو پل” رمضان سے محض دو ہفتے قبل بناء کسی تشہیر کے ریلیز ہوئی اور نتیجہ وہی نکلا جو دبیر چاہتا تھا، شمیم کی کمر ٹوٹ چکی تھی مگر ابھی ترکش میں تیر باقی تھے۔
شمیم آراء کو زندگی کا سب سے بڑا جھٹکا ایک سکینڈل سے لگا جس نے شمیم کی روح ہلا دی تھی۔ شمیم آراء بیرون ملک اپنی فلموں کی شوٹ کیلئے 120 افراد کا یونٹ لے کر جایا کرتی تھی، لیکن کچھ عرصے میں اچانک اس یونٹ کے افراد میں اضافہ ہونے لگا تھا جو جاتے تو یونٹ کے ہمراہ تھے مگر یونٹ کے ساتھ واپس پاکستان نہیں آتے تھے ، شمیم کے استفسار پر یہی سننے کو ملتا کہ وہ لوگ خود ہی واپس آ جائیں گے اور یوں بات آئی گئی ہو جاتی، مگر یہ راز 2000 نومبر میں کھلا کہ ہر یونٹ کے ساتھ تین چار اضافی لڑکے لڑکیاں جو تُرکی، سنگاپور، سری لنکا اور مالدیپ وغیرہ گئے تھے اُن کا ان ممالک میں سودا کر دیا گیا تھا یہHuman trafficking کی بدترین شکل تھی، اس سکینڈل کے منظر عام پر آتے ہی شمیم نے خود کو سنبھالنے کے فوری بعد ہی تفتیش شروع کی تھی اور اس سارے معاملے کی حقیقت و سچائی جانتے ہی شمیم نے دبیر سے باز پُرس کی تھی کیونکہ وہ لڑکے لڑکیاں دبیر کے جھانسے میں آ کر ہی لاکھوں روپوں کے عیوض صرف فلم میں چانس کیلئے اپنا سودا کروابیٹھے تھے اور نہ جانے کن حالوں میں تھے۔ دبیر نے اطمینان سے اس سب کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے وہ دستاویز شمیم کو دکھا دیئے جن کے مطابق ہونے والی اس سودے بازی میں دبیر کے بجائے شمیم کا نام درج تھا اور یہ سچ شمیم کو برین ہیمبریج کروا گیا۔ فالج کا حملہ بھی اسی دوران ہوا اور اگلے دو سال بعد وہ اس قابل ہو سکی کہ ہل جُل سکے ، بات کر سکے ، وہ چہرہ جو تیس چالیس سال تک اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جگمگاتا رہا تھا کہ جس کی تابناکی ماند نہ ہوئی تھی وہ فالج زدہ ہو کر بگڑ گیا تھا، چمکتی آنکھوں کی جوت ماند پڑ گئی تھی، آنسو جن کا نصیب ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بن گئے تھے ، ساتھی اور دمساز چھوٹے نہ تھے لیکن پاس بھی نہ تھے ، جان بچ گئی تھی، ہمت بھی باقی تھی، جمشید ظفر نے اپنی ہٹ فلموں کی ہدایت کارہ کو اس کڑے وقت میں اکیلا نہ چھوڑا اپنی فلم کی ہدایت کاری سونپ دی، ریما، ریمبو اور بابر علی جی جان سے فلم میں کام کرنے پر راضی ہوئے ، دبئی اور شارجہ میں فلم شوٹ ہوئی، بھرپور پبلسٹی کے ساتھ 2002 میں “کون بنے کا کروڑ پتی” کے نام سے ریلیز ہوئی اور ناکام رہی…شمیم کو بیٹا لندن لے گیا۔
دبیر پاکستان میں تنہا رہ گیا۔
وہ سکینڈل کب اور کیسے دب گیا کوئی نہیں جانتا، دبیر کی نیت وہ دیر سے سہی جان گئی تھی، اُس نے بالآخر طلاق کا مطالبہ کر دیا جواب میں دبیر نے کمینگی کی حد کرتے ہوئے جو بچا کھچا شمیم کے پاس تھا وہ مانگ لیا۔
شمیم نے خاموشی اختیار کر لی۔
دبیر نامی جونک اپنی زندگی میں وہ خود ہی لائی تھی۔
لندن میں بہترین علاج کروا کر شمیم ایک بار پھر 2010 میں پاکستان بیٹے کے لاکھ منع کرنے ، سمجھانے کے باوجود۔ ۔ پاکستان کی محبت، فلم انڈسٹری کے لوگوں کی محبت اُسے واپس کھینچ لائی، ہمت ہی تو نہ ٹوٹتی تھی شمیم کی…یہی تو مسئلہ تھا مگر اس ہمت کو پہلی ضرب فلم انڈسٹری کی مکمل تباہی نے لگائی، سٹوڈیوز کے تالے ، فلورز پر مکڑی کے جالوں ، کیڑوں مکوڑوں کی بہتات، مزدوروں کی بھوک سے فاقہ زدہ زندگی، شمیم بلبلا کر رو پڑی۔
خالی، اجڑے ویران فلورز کی دیواروں کو چھو چھو کر دیکھتی جاتی پوچھتی جاتی۔
کہاں ہو تُم سہیلیوں ۔ ۔ کہاں ہو تُم۔ ۔
آواز دو۔ ۔
میرے بھائی نور (سید نور) کو بلاؤ وہ تو بھول ہی گیا ہے مجھے۔
میری ایک بیٹی ہے بابرہ…اُسے بتا دو کہ میں واپس آ گئی ہوں ۔
میری ایک بیٹی ہے ریما۔ ۔ اُسے پتا ہے کہ میں زندہ ہوں ۔ ۔ وقت عجیب شے ہے اتنی مہلت بھی بھاگتی دوڑتی ہنگامہ پرور زندگی نہیں دیتی کہ انسان لڑکھڑا کر گر جانے والے ، پیچھے رہ جانے والے ساتھی کو دو ثانیئے کیلئے مڑ کر ہی دیکھ لے۔
اتنی فُرصت ہی نہ تھی کسی کے پاس کہ عیادت کر لی جاتی، ایک نظر دیکھ ہی لیا جاتا۔
یہ اُن رشتوں اُن چہروں کو دیکھنے ، ملنے کی خواہش نہیں تھی…یہ شمیم آراء کی حسرت تھی اُس خود غرضی کو قبول نہ کرپانے کی حالت تھی کہ جب وہ چڑھا ہوا، سلگتا سورج تھی، کامیابی کا چمکتا روشنی پھیلاتا ہوا مینارہ تھی تو لوگوں کا جھنڈ اُس کے نزدیک، اُس کے ارد گرد ہوا کرتا تھا، باجی شمیم، میڈم شمیم آراء کے ناموں کی صدائیں لگا کرتی تھیں اور وقت کی گرد نے کامیابی کو کھالیا تھا، روشنی بجھ گئی تھی لیکن وہ تو وہی تھی…باجی شمیم…میڈم شمیم آراء۔ ۔
نور کی بہن۔ ۔
بابرہ کی باجی۔ ۔ ماں ۔ ۔
ریما کیMentor۔
کیا خبر تھی ہمیں ٹوٹ جائے گا دل۔ ۔ خواب اشکوں کی صورت بکھر جائیں گے۔
وہ محمد علی کی قبر پر گئی تھی، محبوب کی مہندی ہاتھوں پر تو نہ لگ سکی تھی تو قبر کی مٹی ہی سہی…مانگ نہ سج سکی تھی تو کیا ہوا خاک ہی سہی۔ ۔
ہمیں آتا نہیں ہے پیار میں بے آبرو ہونا۔ ۔
سکھایا حسن کو ہم نے وفا میں سُرخرو ہونا۔ ۔
یہ دوسری ضرب تھی۔
تیسری و جان لیوا ضرب تھی کہ اپنا ٹھکانہ اپنا نہ رہا تھا۔
گلبرگ (لاہور) کا ظہور الٰہیٰ روڈ جہاں شمیم آراء کی کوٹھی تھی، زندگی بھر کی جمع پونجی، ساری عمر کی کمائی، سر چھپانے کا آسرا۔ ۔ وہ کوٹھی جو رات رات بھر فلمی ستاروں کے قہقہوں سے گونجتی تھی ، جہاں تاش کی محفلیں سجتی تھی، عشق و عاشقی کے درجے مرحلہ وار طے ہوتے تھے ، وہ عشرت کدہ جو سرور و لطف کی علامت تھا اور جو شمیم آراء کی ملکیت نہ رہا تھا۔
دبیر الحسن کا آخری کاری وار خالی نہ گیا تھا جو شمیم کی عدم موجودگی میں کسی کالج لیکچرار کو وہ کوٹھی فروخت کر کے واپس کراچی جا چکا تھا۔
شمیم کی ہمت آسمان سے منہ کے بل زمین پر آن گری تھی۔
حوصلہ پارے کی طرح بکھرا تھا۔
اس بار ہونے والا فالج کا حملہ اس قدر شدید تھا کہ شمیم ہمیشہ کیلئے ہی مفلوج ہوئی۔
کومے کی حالت میں ہی ریشم اور چند لوگوں کی مدد سے ایئر ایمبولینس کا بندوبست ممکن ہوا اور سلمان مجید اپنی ماں کو ہمیشہ کیلئے لندن لے گیا۔
کومے کی حالت میں اگلے چھے برس تک اُس عالم بے بسی میں وہ کیا محسوس کرتی رہی تھی کون جانتا ہے۔
آنکھیں بند کیئے سماعتیں کس کی آہٹ کی منتظر رہیں کسے خبر۔
یادداشت کے پروجیکٹر سے ذہن کے پردے پر کس کس کے چہرے ابھرتے ڈوبتے رہے تھے۔ ۔
ماں کی گرم آغوش…
“یہ لو۔ ۔ یہ ہے اماں ۔ ”۔ ۔ نانی نے گڑیا دیتے ہوئے کہا تھا۔ ۔ کب۔ ۔ کیوں ؟۔
“تم ناچنے گانے والی ہو”۔ ۔ لوگوں کے ہجوم کی آوازیں تھیں …وہ وکیل نہ بن سکی…وہ ہیروئین بن گئی…کس لیئے۔ ۔ کس کے کہنے پر…کس حق سے …
وہ “کنواری بیوہ “بنی…شادیاں ہوئیں …سہاگن نہ بنی…کبھی نہیں …کس وجہ سے …کون سی غلطی تھی اور کہاں ہوئی تھی۔ ۔
ضد، بدلہ، بے وقوفی…کب کیسے کیوں آ جاتی ہیں یہ زندگی میں … اور دبیر…۔ ۔ دھوکہ…کیسے ہو جاتا ہے یہ دھوکہ…محبت نہ ملے تو حسرت کیوں بن جاتی ہے … اور حسرت روگ کیوں بن جاتی ہے …کیا حق ہے روگ کے پاس کہ اچھے بھلے انسان کو گھُن کی طرح چاٹ جائے …
رونق، میلہ، ہنسی، روپیہ، اسٹار ڈم، عشاق کا ایک ہجوم۔ ۔ ۔ سب کچھ پیچھے ہی رہ جاتا ہے بس موت ہاتھ بڑھاتی ہے اور ساتھ لے جاتی ہے۔ ۔ نارسائی، کرب، تنہائی، ویرانی اور حسرت جیسی عفریتیں اور بھوت پریت سے موت یوں سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں آزاد کروا دیتی ہے۔
5 اگست 2016 کو موت نے یہی کیا تھا۔ ۔
“پُتلی” تو عرصہ پہلے مار دی گئی تھی۔ ۔
“شمیم آراء” اُس روز رخصت ہولی۔ ۔
انسان اور اُس کی خواہشیں …
کامیابی، دولت، طاقت۔
اور ملتا کیا ہے۔ ۔
تنہائی، کرب اور رُسوائی۔ ۔
اور دُنیا…دُنیا نے اُس کی موت کو بھی نہ بخشا تھا۔
“انا للہ افسوس ہوا لیکن بڑی ہی عجیب خاتون تھیں ”۔
“ہاں ساری عمر بس شادیاں ہی کرتی رہیں ”۔
“سُنا ہے کہ بازار سے تعلق تھا”۔
“اچھا! تبھی، خیر ہمیں کیا بس خدا اُن کی بخشش کرے۔ ”
“آمین! ویسے تمہیں پتا ہے انسانی سمگلنگ میں بھی ملوث تھیں دیکھ لو خدا نے کیسا عذاب دیا”۔
“ٹھیک کہتی ہو! ایسوں کا انجام ہی ایسا ہوتا ہے پھر”۔
مر جانے پر بھی نہ بخشنا اور اُس کی موت کو چٹخارا بنا دینے والوں کا اپنا کیسا انجام ہو…کوئی جانتا ہے؟۔۔۔ ۔
خاموشی…خاموشی… اور خاموشی۔ ۔ ! ! !
٭٭٭
ماخذ: کنواس ڈائجسٹ
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید