صفحات

تلاش کریں

احمد فراز


احمد فراز ۱۹۳۱ میں کوہاٹ میں پیدا ہوئے۔ن کے والد آغا محمد شاہ برق فارسی اور اردو میں شعر کہتے تھے۔ فراز پشاور کی قدیمی ادبی انجمن بزمِ سخن پشاور کے سیکریٹری تھے۔ پشاور میں طرحی مشاعرے بڑے تواتر کے ساتھ ہوتے۔ انہوں نے شرر برقی کے قلمی نام سے ان مشاعروں میں حصہ لینا شروع کیا۔ صوبہ سرحد میں ترقی پسند مصنفین تحریک کی پشاور شاخ کے سیکریٹری بننے پر انہوں نے اپنا قلمی نام احمد فراز رکھ لیا جو ان کی ابدی شناخت بنا۔
فارغ بخاری نے ۱۹۴۸ میں ایک ماہنامہ سنگِ میل کے نام سے جاری کیا۔اس کے سرحد نمبر میں احمد فراز صاحب نے لختنی کے موضوع پر نظم لکھی جو ایک یاد گار ہے۔ ان کا کلام ادبی سفر کی شروعات سے ہی احباب کے دلوں میں گھر کر گیا تھا۔ فارغ بخاری صاحب کی رہائش گاہ پر پشاور کی ایک ادبی تنظیم دائرہ ادبیہ کی محفلیں ہوا کرتیں تھیں، جن میں فراز بھی باقاعدگی سے شرکت کرتے تھے۔ ایسی ہی ایک محفل میں ان کا تعارف جناب زیڈ اے بخاری سے ہوا۔ بخاری صاحب فراز سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اوران کو کراچی ریڈیو پر آنے کی دعوت دی۔ کراچی کی ادبی محفلوں اور بخاری صاحب کی حوصلہ افزائی نے ان کی صلاحیتوں کو مزید نکھار بخشا اور ان کی فکر و نظر کا دائرہ وسیع ہو گیا۔
جب ان کا پہلا شعری مجموعہ “” تنہا تنہا “” شائع ہوا تو وہ بی اے میں تھے۔
کراچی سے وہ ریڈیو پاکستان پشاور کے پروڈیوسر کی حیثیت سے واپس آئے۔ انہوں نے اپنا تعلیمی سلسلہ دوبارہ شروع کیا اردو اور فارسی میں ایم اے کے بعد پشاور یونیورسٹی میں لیکچرار مقرر ہو گئے۔ تدریس کے شعبے سے دس سال منسلک رہے۔ اسی ملازمت کے دوران ان کا دوسرا مجموعہ “” درد آشوب “”چھپا جس کو پاکستان رائٹرزگلڈ کی جانب سے1966ء میں ” آدم جی ادبی ایوارڈ “” عطا کیا گیا۔
بعد ازاں وہ پاکستان نیشنل سینٹر (پشاور) کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ انہیں 1976 ء میں اکادمی ادبیات پاکستان کا پہلا سربراہ تعینات ہوئے۔ جنرل ضیاء کے دور میں انہیں مجبوراً جلا وطنی اختیار کرنی پڑی۔۔ جلاوطنی کے دور میں لندن کے ادبی حلقے میں بھی ان کو نمایاں حیثیت حاصل رہی۔
1989 سے 1990 چیرمین اکادمی پاکستان،1991 سے 1993 تک لوک ورثہ اور 1993 سے 2006ء تک "" نیشنل بک فاؤنڈیشن ""کے سربراہ رہے۔بعد ازاں ایک ٹی وی انٹرویو کی پاداش میں انہیں "" نیشنل بک فاؤنڈیش "" کی ملازمت سے فارغ کر دیا گیا۔
انہیں متعدد اعزازات سے نوازا گیا جن میں کمال فن ایوارڈ، ستارہ امتیاز اور ہلال امتیاز شامل ہیں۔
فراز صاحب پاکستان میں جتنے مشہور و معروف تھے،پوری دنیا بالخصوص بھارت میں بھی اتنے ہی مقبول تھے۔ وہ بھارت کو اپنا دوسرا گھر بھی کہتے تھے۔ کسی بھی بڑے بھارتی مشاعرے میں ان کی شرکت ضروی سمجھی جاتی تھی
انہیں 1988 ء میں بھارت کے فراق گورکھ پوری ایوارڈ ا، 1990ء میں "" اباسین ایوارڈ اور 1991ء میں اکیڈمی آف اردو لٹریچر ( کینڈا ) ، اور 1992 ء میں ""ٹاٹا ایوارڈ "" سے نوازا گیا۔ 2004 ء میں جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے دورِ صدارت میں انہیں ہلالِ امتیاز سے نوازا گیا جسے انہوں نے 2006 ء میں سرکاری پالیسیوں پر احتجاج کرتے ہوئے واپس کر دیا
احمد فراز کے کلام میں رومانوی رنگ غالب ہے، تاہم ان کی غزل میں نو کلاسیکی رنگ نمایاں ہے۔ انہوں نے مزاحمتی شاعری میں بھی ایک مقام پیدا کیا ہے ان کا کچھ کلام جدید شاعری کے زمرے میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ فیض احمد فیض کے برعکس ان کی شاعری مغربی زبانوں کی شاعری کی بجائے اردو اور فارسی کی خوشبو سے آراستہ ہے۔ ان کی غزلیں سودا ، میر مصحفی ، آتش اور مرزا غالب کے اسالیب کی پابند ہیں۔ لیکن انہوں نے اساتذہ کی پیروی کرتے ہوئے اپنا جداگانہ تشخص برقرار رکھا۔
احمد فراز کو ایک عرصے تک کبھی نوجوانوں کا شاعر قرار دیا جاتا رہااور کبھی لڑکیوں کا پسندیدہ۔ اُن کی شاعری پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی تمام عمر محبتوں میں گزری ہے تنہا تنہا سے لے کر جاناں جاناں تک محبت کے ٹوٹتے اور شروع ہوتے سلسلے نظر آتے ہیں۔ وہ اپنی رومان پرست طبیعت کے بارے میں کہتے ہیں،"میں مانتا ہوں رومانس میری شخصیت کا ایک حصہ ہے اور میری شاعری میں اس کا غلبہ ہے لیکن زیادہ موضوعات ہیں کہاں۔ کیا آپ مجھے محبت کے علاوہ کوئی موضوع بتا سکتے ہیں۔ ہر شاعر عہدِ قدیم سے لےکر آج تک محبت کے موضوعات پر اپنے تجربات کی روشنی میں لکھ رہا ہے ، لیکن یہ موضوع پھر بھی نیا ہے،"۔
فراز کا محبوب اردو شاعری کے روایتی محبوب سے کافی مختلف نظر آتا ہے۔ وہ دیو مالائی حسن کا مالک ہے نہ ستم پیشہ ہے اور نہ تیغ انداز ہے۔
فراز کی شاعری میں مزاحمتی رنگ اپنے معاصرین کے مقابلے میں زیادہ روشن نظر آتا ہے۔ فیض احمد فیض کے بعد حبیب جالب اور احمد فراز کو مزاحمتی شاعری کا نمائندہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ تاہم جالب کے برعکس ان کا حرفِ مزاحمت عریاں نہیں ہوتا۔ احتجاج میں بھی لہجے کی نرمی برقرار رکھنا ان کا ہی امتیاز ہے۔ ان کے اشعار میں کڑی سے کڑی بات بھی ذہن پر بوجھ نہیں بنتی۔

نہیں کہ درد نے پتھر بنا دیا ہے مجھے
نہ یہ کہ آتشِ احساس سرد ہے میری
……٭……
گواہ ہیں مرے احباب میرے شعر سبھی
کہ منزلِ رسن و دار گرد ہے میری
……٭……
فراز اپنا مقدر ہے سنگساری
ہم ہی اس عہد کے آئینہ گر ہیں
مزاحمتی شاعری میں فراز کا شمار ان کی نظم " پیشہ ور قاتلو" کے منظرِ عام پر آنے سے ہونے لگا تھا۔ یہ نظم آزادانہ دستیاب نہ تھی۔ ضیاء الحق کے دور میں فراز کی سرکشی اور مزاحمت عروج پر تھی۔ آمریت کے زمانے میں ان کی نظم محاصرہ عصرِ حاضر کا ترانہ بن گئی۔ مزاحمتی ادب کی تاریخ میں یہ نظم ایک امتیازی حیثیت کی حامل رہے گی۔ محاصرہ کی اختتامی سطور کچھ یوں ہیں

میرا قلم نہیں اوزار اس نقب زن کا
جو اپنے گھر کی ہی چھت میں شگاف ڈالتا ہے
میرا قلم نہیں اس دزدِنیم شب کا رفیق
جو بے چراغ گھروں پر کمند اچھالتا ہے
میرا قلم نہیں تسبیح اس مبلغ کی
جو بندگی کا بھی ہر دم حساب رکھتا ہے
میرا قلم نہیں میزان ایسے عادل کی
جو اپنے چہرے پہ دوہرا نقاب رکھتا ہے
میرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی
میرا قلم تو عدالت میرے ضمیر کی ہے
اسی لیے تو جو لکھا تپاکِ جاں سے لکھا
جبھی تو لوچ کماں کا، زبان تیر کی ہے
میں کٹ گروں یا سلامت رہوں، یقیں ہے مجھے
کہ یہ حصارِ ستم کوئی تو گرائے گا
تمام عمر کی ایذا نصیبیوں کی قسم
میرے قلم کا سفر رائیگاں نہ جائے گا
****************
مشہور زمانہ غزل مہدی حسن صاحب نے گائی۔

اب کے ہم بچھڑے شاید کبھی خوابوں میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں
ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی
یہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں میں ملیں
غم دنیا بھی غم یار میں شامل کر لو
نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں
تو خدا ہے نہ میرا عشق فرشتوں جیسا
دونوں انساں ہیں تو کیوں اتنے حجابوں میں ملیں
آج ہم دار پہ کھینچے گئے جن باتوں پر
کیا عجب کل وہ زمانے کو نصابوں میں ملیں
اب نہ وہ میں ہوں، نہ تو ہے، نہ وہ ماضی ہے فراز
جیسے دو سائے تمنا کے سرابوں میں ملیں۔
*************
احمد فراز کی بے شمار مشہور غزلوں میں سے ایک غزل

سنا ہے لوگ اس کو آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
سو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں

ان کی شاعری کی 14 مجموعے شائع ہوئے جو دنیا بھر میں مقبول ہیں۔ ان کی پہلی کتاب “تنہا تنہا” 1950 میں منظرِ عام پر آئی جس نے بھرپور قبولیت حاصل کی۔ ان کا تمام کلام “کلیاتِ احمد فراز” کے عنوان سے شائع ہو چکا ہے۔

  1. تنہا تنہا
  2. دردِ آشوب
  3. شب خون
  4. نایافت
  5. میرے خواب ریزہ ریزہ
  6. بے آواز گلی کوچوں میں
  7. نابینا شہر میں آئینہ
  8. پسِ اندازِ موسم
  9. سب آوازیں میری ہیں
  10. خوابِ گُل پریشاں ہے
  11. بودلک
  12. غزل بہانہ کروں
  13. جاناں جاناں
  14. اے عشق جنوں پیشہ
ان کا کلام علی گڑھ یونیورسٹی اور پشاور یونیورسٹی کے نصاب میں شامل ہے جامعہ ملیہ (بھارت ) میں ان پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا گیا جس کا موضوع “” احمد فراز کی غزل “” ہے۔ بہاولپورمیں بھی “” احمد فراز ۔ فن اور شخصیت “” کے عنوان سے پی ایچ ڈی کا مقالہ تحریر کیا گیا ہے۔ ان کی شاعری کا مختلف زبانوں میں ترجمہ کیاگیا ہے۔ جس میں انگریزی، فرانسیسی، روسی، پنجابی اور جرمن زبان شامل ہیں۔
احمد فراز 25 اگست 2008ء کو اسلام آباد میں قضائے الہٰی سے وفات پاگئے۔ وہ اسلام آباد کے مرکزی قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔
احمد فراز کے چند منتخب اشعار

یہ کیا کہ سب سے بیاں دل کی حالتیں کرنیں
فراز تجھ کو نہ آئیں محبتیں کرنیں

اور فراز چاہئیں کتنی محبتیں تجھے
ماؤں نے تیرے نام پر بچوں کے نام رکھ دیے

اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں
یاد کیا تجھ کو دلائیں تیرا پیماں جاناں

سلسلے توڑ گیا وہ سبھی سبھی جاتے جاتے
ورنہ اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے

سبھی کہیں میرے غمخوار کے علاوہ بھی
کوئی تو بات کروں یار کے علاوہ بھی

زندگی سے یہی گلہ ہے مجھے
تو بہت دیر سے ملا ہے مجھ