سمندر کا پھوڑا۔۔۔ آج بقعہ نور بنا ہوا تھا !-لیکن اب وہ سمندر کا پھوڑا نہیں کہلاتا تھا۔۔ اس کے بہت سے نام تھے - نوجوانوں میں وہ لڑکیوں کے جزیرے کے نام سے مشہور تھا- ویسے سرکاری کاغذات پر وہ سمندر کا پھوڑا ہی لکھا جاتا ہے- انگریزوں نے اسے یہی نام دیا تھا اور وہ بندرگاہ سے چار میل کے فاسلے پر واقع تھا-8177ع سے پہلے اس کا نام سمندر کا پھوڑا بھی نہیں تھا-اس وقت شاید اس کا کوئی نام ہی نہیں تھا-۔۔۔۔ ہو سکتا ہے کہ ویران جزیرے کے نام سے اسے یاد کیا جاتا رہاہو-1877ع میں انگریزوں نے اس پر بحری فوج کی ایک چھوٹی سی چوکی قائم کی-اور وہ جزیرہ آہستہ آہستہ آباد ہوتا گیا! - پھر ٹھیک دس سال بعد 1887ع میں وہ یک بیک تہہ نشین ہو گیا- بہت تھوڑے سے آدمی اپنی جانیں بچا سکے -۔۔۔۔ لیکن ان میں ان کے ارادے کو دخل نہیں تھا! سینکڑوں لاشیں بڑی بڑی گہروں کے ساتھ شہری ساحل سے آ لگیں تھیں ۔ ان لاشوں میں کچھ بیہوش آدمی بھی تھے جب کی جانیں بر وقت طبی امداد سے بچ گئیں تھیں -- اس جزیرے کا ڈوبنا انیسویں صدی کی سب سے بڑی ٹریجڈی تھی !-اس کا ماتم عرصے تک ہوتا رہا ! پھر آہستہ آہستہ لوگ بھول ہی گئے کے وہاں بھی کوئی جزیرہ ہوتا تھا ۔۔۔۔!
1905ع میں جزیرہ پھر سمندر کی سطح پر ابھر آیا !-۔۔۔ لیکن چونکہ اس سے بڑی تلخ یادیں وابستہ تھیں -اس لئے اس کی طرف دھیان تک نہ دیا گیا-اور وہ اسی طرح پڑا رہا! اور سرکاری طور پر “ سمندر کے پھوڑے “ کے نام سے یاد کیا جاتا رہا !۔۔۔۔
دس پندرہ سال بعد اس کی ہیئت بدل گئی پہلے وہ ریت کا ایک بہت بڑا تودہ معلوم ہوتا تھا- مگر اب اس پر ہریالی نظر آنے لگی تھی -۔۔ خاصی زرخیز زمیں معلوم ہوتی تھی لیکن وہ ویران ہی رہا!۔۔۔ اکثر ماہی گیر وہاں شب بسری کر لیے کرتے تھے ! ۔۔۔
پھر آہستہ آہستہ وہ ایک تفریح گاہ میں تبدیل ہوتا گیا- لوگ وہاں پکنک کے لئے جانے لگے ۔۔۔ پھر ایک بار دوسری جنگ عظیم کے دوراں وہان ریڈ کراس چیریٹی فنڈ کے سلسلے میں تقریبات منعقد کی گئیں !۔۔۔۔ اسی دن سے سمندر کا پھوڑا ایک بہترین تفریح گاہ قرار دے دیا گیا۔۔۔ شہر کی سالانہ نمائش کے لئے منتخب کر لیا گیا! لہذا آج بھی وہ جزیرہ روشنیوں کا جزیرہ معلوم ہو رہا تھا-۔۔۔۔ شہر سے یہاں تک بے شمار لانچیں اور بادبانی کشتیاں چل رہی تھیں ۔۔۔ پہلے پہل تو نمائش کے منتظمیں کے درمیان کچھ اختلاف رائے ہو گیا تھا-۔۔۔۔۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ یہاں اس ویرانے میں تجارتی نقطہ نظر سے نقصان ہی ہوگا-۔۔۔ لیکن ان کا یہ خیال غلط نکلا کیونکہ پہلے ہی دن وہاں اتنا اژدھام ہو گیا کہ منتظمین کے ہاتھ پیر پھول گئے-!۔۔۔
صد ہا سال کے ویران جزیرے پر رنگ و نور کا طوفان سا آ گیا تھا!-شاید ہی کوئی درخت ایسا رہ گیا ہو جس پر رنگین برقی قمقمے نظر نہ آتے ہوں !-مائیکروفون فضا میں موسیقی منتشر کر رہا تھا اور زمین پر حسن کی مورتیں متحرک نظر آ رہی تھیں -اور یہ اس وقت سچ مچ لڑکیوں کا جزیرہ معلوم ہو رہا تھا -
تماشائیوں کا انہماک اتنا بڑھا ہوا تھا کہ جیسے انہیں یہ رات یہیں گزارنی ہو!- کوئی بھی جلدی میں نہیں معلوم ہوتا تھا---
آج نمائش کا پہلا ہی دن تھا مگر عمران وہاں تفریح کی غرض سے نہیں گیا تھا-ان دنوں اس کے پاس ایک کیس تھا - حالانکہ کیس کی نوعیت ایسی نہیں تھی جس کا تعلق ایکس ٹو یا اس کے محکمے سے ہوتا۔ لیکن عمران اس میں دلچسپی لے رہا تھا!- یہ ایک گمنام لڑکی کے قتل کا کیس تھا-جس کی لاش شہر کی ایک سڑک پر پائی گئی تھی!۔۔۔۔لڑکی گمنام ہی ثابت ہوئی تھی کیونکہ اس کی لاش شناخت نہیں ہو سکی تھی !- مگر کیس پراسرار تھا۔۔۔۔
پراسرار یوں کہ جس شام شہر کے ایک بڑے آدمی کے مینیجر کی لڑکی کے اغوا کی رپورٹ درج کرائی گئی اس رات کو لاش بھی ملی! مغویہ لڑکی کے حلیہ شناخت میں اس کا ایک زخمی پیر بھی شامل تھا جس پر پٹی چڑہی ہوئی تھی!۔۔۔
لاش کے داہنے پیر پر بھی ویسی ہی پٹی پائی گئی ۔۔ سینے پر خنجر کا زخم تھا۔۔۔ چہرے کی شناخت مشکل تھی کیونکہ وہ کار یا ٹرک کے پہیوں کے نیچے آ کر بری طرح کچلا گیا!لیکن اس کے جسم پر وہ ہی لباس تھا جو مغویہ لڑکی کے جسم پر بیان کیا جاتا تھا !۔۔۔
لڑکی کے باپ نے لاش شناخت کر لی ! لیکن ماں نے تسلیم نہیں کیا کہ یہ اس کی لڑکی کی لاش ہے اس نے محکمہ سراغرسانی کے سپرنٹنڈنٹ کو اپنی لڑکی رابعہ کی ایک خاص پہچان بتائی جو اس کے باپ کو بھی معلوم نہیں تھی !۔۔۔۔ پھر کیپٹن فیاض بھی مطمئن ہو گیا کہ یہ رابعہ کی لاش نہیں! ہے اب کیپٹن فیاض نے اس کے باپ کو پکڑا جو اسے مغویہ ہی کی لاش سمجھنے پر مصر تھا۔۔۔۔ بڑی ردو قدح کے بعد باپ رو پڑااس نے بتایا کہ اسے بھی یقین نہیں ہے کہ یہ اس کی لڑکی کی لاش ہے لیکن وہ چاہتا ہے کہ بات وہیں ختم ہو جائے ۔۔ بدنامی کے اس دھبے کو موت ہی مٹا ڈالے!۔۔۔۔
پھر وہ لاش کس کی تھی اور اسے مغویہ لڑکی ثابت کرنے کی کوشش کیوں کی گئی تھی-یہ ایک الجھا ہوا سوال تھا جس کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا! کیپٹن فیاض مغویہ کے باپ سے کچھ معلوم نہیں کر سکا-
عمران اس کیس میں دلچسپی لے رہا تھا ! اور یقیناً یہ الجھاوا ہی اس کی دلچسپی کا باعث تھا- ورنہ اگر کوئی سیدھا سادا قتل کیس ہوتا تو وہ اس کی طرف توجہ بھی نہیں دیتا - کیونکہ اس کیس کا اس کے فرائض سے کوئی تعلق نہیں تھا!۔۔۔
وہ یہاں اس لئے آیا تھا کہ کم از کم مغویہ کے باپ ہی پر ایک نظر ڈالے !۔۔۔۔ یہاں اس سے گفتگو کا موقع بھی مل سکتا تھا کیونکہ وہ بھی نمائش کے منتظمین میں شامل تھا!۔۔۔ لیکن یہ بھی ایک اتفاق تھا کہ وہ عمران سے نہیں مل سکا-عمران کو اتنا ہی معلوم ہو سکا کہ وہ کچھ دیر پہلے یہاں موجود تو تھا لیکن کسی ضرورت کے تحت شہر واپس چلا گیا!۔۔۔
عمران منتظمین کے آفس سے نکل کر ایک جگمگاتی روش پر آ گیا-یہاں جگ جگہ خوشنما پودوں کے درمیاں روشیں بنائی گئی تھیں -عمران نے اس طرح اپنی پلکیں جھپکا کر دیدے نچائے جیسے سچ مچ وہ کوئی الو ہو اور اسے کوئی اس روشنی کے طوفان میں زبعدستی چھوڑ گیا ہو! حالانکہ یہاں اس وقت اس قسم کی ایکٹنگ کی ضرورت نہیں تھی - مگر عمران عادتاً سچ مچ احمق ہوتا جا رہا تھا !
عورتوں اور مردوں کے غول کے غول اس کے قریب سے گزر رہے تھے-۔۔۔ اور عمران کے چہرے پر برسنے والی حماقت کچھ اور زیادہ بڑھ گئی تھی ۔۔۔ اور اسے دوسری طرف جانے کے لئے تقریباً تین منٹ تک کھڑا رہنا پڑا-۔۔۔ کیونکہ ابھی تک اس روش سے گزرنے والوً کے درمیاں اتنا فاصلہ نہیں دکھائی دیا تھا جس سے گزر کر وہ دوسری روش تک پہنچ سکتا!
اچانک دو لڑکیاں اس کی طرف مڑیں اور دفتر والی روش پر آ گئیں ۔۔۔۔۔ عمران سمجھا تھا کہ اس کے قریب سے گذر کر شاید آفس میں جائیں گی! لیکن وہ دونوں اس کے سامنے رک گئیں !
“کیوں! یہی حضرت تھے نہ“ ایک نے دوسری سے کہا -
“شاید یہی تھے“ دوسری نے کہا!
“ نہیں ! سو فیصد یہی تھے“-
“ہائیں“ عمران آنکھیں پھاڑ کر بولا “ میں تھا نہیں بلکہ ہوں “-
“ تم نے پچھلے سال مجھے گالی دی تھی“ پہلی لڑکی بولی !
“آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے ! وہ میرے بڑے بھائی صاحب رہے ہونگے! میری ہی جیسی صورت شکل والے ہیں ! خیر اب آپ کیا چاہتی ہیں ! بات تو سال بھر پہلے کی ہے “
“ کہیں اطمینان سے بیٹھ کر باتیں ہونگی“ جواب ملا ۔۔ “ کیفے رونیک میں ۔۔۔۔ کیوں ؟“
اس نے دوسری لڑکی کی طرف دیکھا اور سر ہلا کر بولی “ٹھیک ہے!“
“ ٹھیک ہے تو چلئے “- عمران لا پروائی سے بولا-
“نہیں! انہوں نے گالی نہیں دی ہوگی“- دوسری لڑکی نے پہلی سے کہا-
“ یہ تو بڑے اچھے آدمی معلوم ہوتے ہیں“-
“جی ہاں!مجھے گالی آتی ہی نہیں “۔۔۔۔۔۔ صرف ایک جانتا تھا وہ کیا ہے ! حرازمادہ۔۔۔۔ ہمارزادہ۔۔۔ ارر یہ بھی بھول گیا ۔۔۔۔۔ کیا کہتے ہیں اسے ۔۔۔ لاحول والا۔۔۔۔ نہیں یاد آئے گا! حراد مازہ۔۔۔۔“
عمران کے چہرے پر حماقت آمیز سنجیدگی تھی!الجھن کے آثار تھے بالکل ایسے ہی جیسے یادداشت پر زور دیتے وقت پیدا ہوجاتے ہیں ۔۔۔۔۔ لڑکیوں نے حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا! اور پھر بے ساختہ مسکرا دیں - آنکھوں ہی آنکھوں میں کچھ اشارے ہوئے اور پھر پہلی بولی-
“تو چلئے نہ وہیں گفتگو ہوگی!“
عمران چل پڑا ! اس کی چال بھی بڑی بے ڈھنگی نظر آ رہی تھی- لیکن اب لڑکیاں بھی سنجیدو ہو گئیں تھیں ! ۔۔۔۔۔ وہ کیفے رونیک میں آئے !۔۔۔۔۔ نمائش میں شاید یہی سب سے شاندار کیفے تھا! ۔۔۔۔۔۔ ورنہ وہ لڑکیاں اسی کا نام کیوں لیتیں!
صرف تین یا چار میزیں خالی تھیں !۔۔۔۔۔ لڑکیوں نے ایک منتخب کر لی۔۔۔۔۔ جیسے ہی وہ بیٹھے ایک ویٹر سر پر مسلط ہو گیا!۔۔۔۔
“کیا لاؤں!۔۔۔۔ “ وعٹر نے جھک کر نہایت ادب سے پوچھا!
لڑکیاں عمران کی طرف دیکھنے لگیں اور عمران بوکھلائے ہوئے لہجے میں بولا“ تت۔۔۔۔۔ تین گلاس پھنڈا ٹانی۔۔۔۔۔۔۔!-
“ جی صاحب۔۔۔۔“
“ ٹھنڈا پانی۔۔۔۔۔!“
“ اوہ نو۔۔۔۔۔ نو!“ ایک لڑکی ہنستی ہوئی لپک کر دوہری ہوگئی !“ گرلڈ چکن تین پلیٹ۔۔۔۔۔ تین اسٹک ۔۔۔۔ اور کافی جاؤ۔۔۔۔!“-
اب عمران کے چہرے کی حماقت انگیز سنجیدگی میں بوکھلاہٹ بھی شامل ہو گئی تھی!
“ کیوں ڈیئر ! ۔۔۔تم پریشان کیوں ہو ۔۔۔ “ ایک لڑکی نے عمران کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بڑی محبت سے کہا اور عمران اس طرح اپنا ہاتھ کھینچ کر شرما گیا جیسے کسی کنواری لڑکی سے اس کے ہونے والے شوہر کا نام پوچھ لیا گیا ہو!۔۔۔“
“ تم مجھے بڑے اچھے لگتے ہو !“ دوسری نے جھک کر اس کی آنکھوں میں دیکھ کر آہستہ سے کہا !
“ میں گھر ۔۔۔۔ جاؤں گا!“ عمران پیچھے ہٹنے کی کوشش کرتے ہوئے بولا- اور اس کی کرسی الٹ گئی !۔۔۔۔۔ وہ بھی کرسی پر ہی تھا !۔۔ پھر وہ کیوں نہ الٹتا! بہیترے لوگ اچھل کر کھڑے ہو گئے-! کچھ ہنسنے لگے! دونوں لڑکیاں سناٹے میں آ گئیں ! جب عمران پڑا ہی رہا تو وہ بھی اٹھ کر اس کی طرف جھپٹیں ! عمران آنکھیں بند کئے گہری گہری سانسیں لے لے رہا تھا !-
“ انور بھائی ۔۔۔۔۔ انور بھاےئ “ ایک لّکی نے عمران کو جھنجھوڑ کر ہانک لگائی مگر عمران کے پپوٹوں میں بھی حرکت نہ ہوئی !-
“ کیا ہوا۔۔۔۔۔ ! “ “ کسی نے پوچھا“
“ بے ہوش ہو گئے ہیں !“ دوسری لڑکی نے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا-
پہلی لڑکی عمران کے کوٹ کے بٹن کھولنے لگی اور عمران نے محسوس کیا کہ اس کا پرس اندرونی جیب سے اوپر کی طرف کھسک رہا ہے - لیکن وہ دم مارے پڑا ہی رہا- پرس اس لڑکی نے اس کی جیب سے کھسکایا تھا جس نے روش پر اس کو چھیڑا تھا!۔۔۔۔۔ عمران نے اسے بھی محسوس کر لیا! کیونکہ وہ ہی اس کے کپڑوں کو چھیڑ رہی تھی مگر اب بھی اس طرح پڑے رہنا دانشمندی سے بعید تھا-
عمران کو ہوش آ گیا! وہ دو تین بار ہولے ہولے کراہا پھر اٹھ بیٹھا! اس کے گرد کافی بھیڑ اکٹھا ہو گئی تھی ! لوگ بیہوشی کی وجہ پوچھنے لگے اور عمران کسی گھبرائے ہوئے بچے کی طرح ہاتھ اٹھا کر بولا “ باہر !“-
لڑکیوں نے اس کے دونوں بازو پکڑتے ہوئے کہا “ چلئے چلئے ! “ عمران لڑکھڑاتا ہوا باہر آیا۔۔۔۔۔ اس کے پیچھے شور ہو رہا تھا ! لوگ ہنس رہے تھے ۔۔ قہقہے پگا رہے تھے!۔۔۔۔ کبھی کبھی کوئی فقرہ بھی کس دیتا! ۔۔۔۔۔ بہرحال لوگوں کا خیال تھا کہ وہ پئے ہوئے ہے !-
“ آ پ کو کیا ہوگیا تھا ! “ ایک لڑکی نے پوچھا-
“ پتہ نہیں ! میں نہیں جانتا! مجھے گھر پہنچا دیجئے “ عمران گھگھیایا!
“ کیوں ! اب گھر بھی پہنچادیں ! واہ یہ ایک ہی رہی “
“ خدا کے لئے ۔۔۔۔۔۔ ورنہ میں لانچ سے سمندر میں گر کر ۔۔۔۔۔۔۔ ارے باپ رے !“
ایسا معلوم ہوا جیسے عمران سچ مچ سمندر میں ڈوب رہا ہو!وہ دونوں بے تحاشہ ہنسنے لگیں ! ان میں سے ایک نے جس نے پرس اڑایا تھا کھسک جانے کا موقع ڈھونڈ رہی تھی!
یہ دورہ جب بھی پڑتا ہے ایک گھنٹے کے بعد پڑتا ہی چلا جاتا ہے ! ۔۔۔۔ خدا کے لئے مجھے گھر پہنچا دیجئے !۔۔۔ جو معاوضہ چاہئے لے لیجیئے “ ہزار ۔۔۔ دو ہزار ۔۔۔ پانچ ہزار!“
“ ہائیں ہائیں ! کیوں الو بناتے ہو!“
“ میں کوئی مفلس آدمی نہیں ہوں ایک بڑی عمارت میں تنہا رہتا ہوں ! لاکھوں کا مالک ہوں !“
“ دوسرے گھر والے۔۔۔۔۔“
“ سب اللّہ کو پیارے۔۔۔۔ ہو گئے ! ایک دن میں بھی مر جاؤں گا!“
“ دوسرے گھر والے۔۔۔۔۔“
“ سب اللّہ کو پیارے۔۔۔۔ ہو گئے ! ایک دن میں بھی مر جاؤں گا!“
“ نہین تم زندہ رہوگے ڈارلنگ ۔۔۔۔“ دوسری اس کا بازو تھپتھپا کر بولی !-
“ہایہں ڈارلنگ۔۔۔۔۔ یہ کیا سن رہا ہوں میں !۔۔۔۔۔ ڈارلنگ ۔۔۔۔“ عمران لفظ ڈارلنگ اس طرح مزے لے لے کر دھراتا رہا جیسے یہ لفظ زندگی مٰن پہلی مرتبہ اس کے لئے استعمال کیا گیا ہو۔۔۔۔۔۔ پھر وہ طویل سانس لے کر گلوگیر آواز میں بولا !“ تم لوگ بڑی اچھی ہو ! مجھے اج تک کسی بھی ڈارلنگ نہیں کہا۔۔۔!۔۔۔۔ بچپن میں میرے ماں باپ بالکل مر گئے تھے!بالکل کیا بس مر گئے تھے!۔۔۔۔۔ پھر آج تک کسی نے بھی مجھ سے پیار محبت سے باتیں نہیں کیں !“
لڑکیوں نے ایک دوسرے کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھا پھر وہ لڑکی بولی جس نے پرس اڑایا تھا-
“ یہ تمہیں گھر پہنچا دے گی ! مجھے ایک ضروری کام یاد آ گیا ہے “
“ نہیں تم بھی چلو! چلو ورنہ میں یہیں کسی پٹھر سے اپنا سر ٹکرا دوں گا!“
عمران نے کچھ اس طرح غل غپاڑے کے سے انداز ظاہر کئے کہ دونوں لڑکیاں بوکھلا گئیں!
“ اچھا! اچھا ۔۔۔۔ چپ رہو! ہم چلتے ہیں ! تمہارے پاس کار ہے !“ پرس اڑانے والی نے پوچھا!
“ ایک نہیں تیں ہیں !“
“ تم صبح ہمیں کار سے شاداب نگر بھجوا دوگے!“
“بالکل! بالکل ۔۔۔۔ دوناں کو الگ الگ کاروں سے ۔۔۔۔۔ پروا نہ کرو !“ عمران سر ہلا کر بولا! پھر دونوں لڑکیاں عمران کو چھیڑنے لگیں ! اور عمران شرماتا ہوا لجاتا ہوا نمائش کے احاطے سے باہر نکلا!۔۔۔۔۔۔ اب وہ ساحل کی طرف جا رہے تھے جو ایک فرلانگ سے زیادہ فاصلے پر نہیں تھا! یہاں بہت بھیڑ تھی ! خصوصاً اس حصے میں جہاں لانچ رکتے تھے انہیں بدقت تمام ایک لانچ میں جگہ مل سکی !
ساحل سے کافی دور نکل جانے کے بعد عمران بو کھلائے ہوئے انداز میں اپنی جیبیں ٹٹولنے لگا! پرس اڑانے ولی اس سے کچھ دور کھسک گئی ! پھر اس نے اسے ہنستے دیکھا!
“ کیا بات ہے“ پرس اڑانے والی نے گھبرائے ہوئے لہجے میں اس سے پوچھا- وہ اسے اس طرح ہنستے دیکھ کر کچھ خوفزدہ ہو گئی تھی!
“ جیب صاف ہوگئی!“ عمران نے قہقہہ لگا کر کہا!
“ کیا!“ دوسری لڑکی متحیرانہ لہجے میں بولی “ اوہ آپ اس طرح ہنس رہے ہیں !“
“ ارے کیوں نہ ہنسوں! گرہ کٹ بھی تو سر پیٹ پیٹ کر رویا ہوگا!“
“کیوں ؟“ پرس اڑانے والی نے پوچھا-
“ میرے پرس میں صرف ساڑھے چار آنے تھے!-۔۔۔ ہاہاہا۔۔۔ مرگا بنا دیا اس کو۔۔“
“ ساڑھے چار آنے؟“
“ ہاں میں جب بھی کسی بھیڑ بھاڑ میں جاتا ہوں تو یتنے ہی پیسے ہوتے ہیں ۔۔ بڑے نوٹوں کے لئے ہمیشہ اپنے کوٹوں میں چور جیبیں بنواتا ہوں !۔۔۔۔
عمران نے اپنے پرس کے بارے میں جو بھی کہا تھا بالکل سچ کہا تھا ۔۔ اس کے پرس میں ساڑھے چار آنے ہی تھے وہ زیادہ رقمیں عموماً چور جیبوں میں ہی رکھتا تھا!۔۔
“ تو اب لانچ کا کرایہ ہم سے ادا کرواؤگے“ ایک لڑکی نے کہا-
“ فکر نہ کرو پائی پائی ادا کر دوں گا اس کے علاوہ اور بھی جو خدمت۔۔۔۔ جی ہاں!“
شہر کے ساحل پر پہنچ کر عمران نے ایک ٹیکسی لی اور ٹیکسی ڈرائیور کو دانش منزل کا پتا بتایا۔۔۔ دانش منزل جو سیکرٹ سروس کے پراسرار چیف آفیسر کا ہیڈ کوارٹر تھا--
لڑکیاں دانش منزل کے کمپاؤنڈ میں پہنچ کر بڑبڑائیں “ واقعی اپ سچ کہتے تھے مگر یہاں بہت اندھیرا ہے!“
“ اب میں روشنی کروں گا“
“نوکر کہاں ہیں ؟“
“ میں پڑھے لکھے نوکر چاہتا ہوں مگر سب جاہل ملتے ہیں اس لئے نوکر رکھتا ہی نہیں ہوں !۔۔۔۔ کھانا ہوٹل سے آتاہے۔۔۔۔ اور مروں گا ہسپتال میں ۔۔ کیوں کیا خیال ہے!“
“ شادی نہیں کی!۔۔۔۔“
“ کم از کم ایسی بیوی چاہتا ہوں جو فرنچ اور جرمن بول سکتی ! لاطینی اور عبرانی لکھ سکتی ہو!“
“ ہا۔۔۔۔ یہ ایک بہت بڑی ٹریجڈی ہے“ ۔۔ عمران نے مقفل میں کنجی گھماتے ہوئے کہا- “ میں تمہیں سب کچھ بتاؤں گا شاید تمہاری نظروں میں کوئی ایسی لڑکی ہو!“
دروازہ کھول کر اس نے راہداری میں روشنی کر دی- نیچے پوری راہداری میں قالین بچھے ہوئے تھے- تھوڑی ہی دیر میں وہ عمارت کا ایک ایک کمرہ دیکھتی پھر رہی تھیں-
“ آپ بہت بڑے آدمی ہیں “ پرس اڑانے والی نے ایک جگہ رک کر کہا!
“ہاں مگر لوگ مجھے خبطی کہتے ہیں اور میں
ہوں بھی کچھ کریک!“ عمران نے جواب دیا وہ انہیں نشست کے کمرے میں لایا!-۔۔۔ پھر وہ اطمینان سے بیٹھ گئیں تو عمران نے اس لڑکی کو مخاطب کیا جس نے پرس اڑایا تھا-
“ اب میرا پرس واپس کرو!“ لڑکی کے چہرے پر ہوائیوں اڑنے لگیں -
“ ضروری نہیں کہ خوبصورت عورتیں دل کی بھی اچھی ہوتی ہوں !“ جی ہاں میرا پرس واپس کیجئے -“ بہتری اسی میں ہے !“
دوسری لڑکی جھپٹ کر کھڑی ہوگئی- عمران کو چند لمحے گھورتی رہی پھر بولی-
“آپ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے- سمجھے اگر ہم نے شور مچا دیا تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔!“
“ کوشش کرو ! اس کمرے کے دروازے مقفل ہیں اور دیواریں ساؤنڈ پروف ۔۔ تیز سے تیز آواز بھی گونج کر رہ جائے گی۔۔۔ شاباش کرو نا کوشش ۔۔۔۔!“
“ آپ کیا چاہتے ہیں !“ پرس اڑانے والی نے کپکپاتی ہوئی آواز میں کہا!
“ اپنا پرس “ عمران نے اس کی طرف دیکھے بغیر کہا!-
لڑکی نے اپنے بیگ سے اس کا پرس نکال کر اس کی گود میں پھینک دیا! عمران نے بڑی لا پروائی سے اس میں سے ساڑھے چار آنے نکالے اور اس کے سامنے پھینکتے ہوئے کہا انہیں رکھو!
“ میں جاؤنگی !“ وہ اٹھتی ہوئی بولی!
“ ابھی سے! میں وعدہ کرتا ہوں کہ تمہیں شاداب نگر پہنچا دیا جائے گا۔۔۔۔ اور ہاں اب مجھے یاد آ گیا ہے کہ میں نے تمہیں شاداب نگر میں کہاں دیکھا تھا!-
“ میں جاؤنگی !“ وہ ایک دروازے کی جانب جھپٹی اور اسے کھول لینے کے لئے اپنا پوارا زور صرف کرنے لگی- لیکن وہ آٹومیٹک دروازے تھے! ۔۔۔ جن کے اندر سیسہ بھرا ہوا تھا!۔۔۔۔ اب وہ ایک مخصوص خود کار قفل کو استعمال کئے بغیر نہیں کھل سکتے تھے!-دوسری لڑکی چپ چاپ بیٹھی رہی ۔۔ ویسے اس کے چہرے پر بھی گھبراہٹ کے اثار تھے- “ بیکار ہے محترمہ!۔۔۔ واپس آئیے ۔۔۔ آخر آپ کس بات سے ڈر رہی ہیں ؟“ ۔ عمران نے کہا-“ میں آپ کو پولیس کے حوالے نہیں کروں گا!“
وہ اس طرح واپس آئی جیسے خواب میں چل رہی ہو!
"بیٹھ جائیے! کیا آپ شاداب نگر کے موڈل سکول کی ایک استانی نہیں ہیں!"
لڑکی دہڑام سے کرسی میں گر گئی۔ اس کے چہرے پر پسینے کی ننھی ننھی بوندیں تھیں!
"آپ کون ہیں!" دوسری لڑکی نے بھرائی ہوئی آواز میں پوچھا!
میں پاگل ہوں! لیکن مجھے اپنی یاداشت پر بڑا اعتماد ہے میں نے یہ بات غلط تو نہیں کہی۔ کیا یہ محترمہ ٹیچر نہیں ہیں! اور کیا موڈل گرلز سکول شاداب نگر سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔"
دوسری لڑکی نے بھی اس کا کوئی جواب نہیں دیا! ان دونوں کی حالت غیر ہوتی جا رہی تھی پھر پرس اڑانے والی نے پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیا۔
"تمہارا پیشہ بڑا معزز ہے! تم اپنی طالبات کو بھی اسی قسم کی تعلیم دیتی ہوگی! کیوں؟۔۔۔ تم اور زیادہ محنت کرکے اپنے اخراجات ایمانداری سے نہیں پورے کر سکتیں!"
لڑکی روتی رہی!۔۔۔ عمران نے دوسری لڑکی سے کہا "اب تم بتاؤ! تم کون ہو! تم بھی مجھے کسی شریف ہی گھرانے کی فرد معلوم ہوتی ہو! کیا میں غلط کہہ رہا ہوں!"
"آپ کون ہیں!" لڑکی نے پھر سہمی سی آواز میں سوال کیا!
میں کوئی بھی ہوں! تمہیں اس سے سروکار نہیں ہونا چاہئے! اور میں ابھی تمہیں دھکے دے کر یہاں سے نکال دوں گا! بری عورتوں کا حسن مجھے ذرہ برابر بھی متائثر نہیں کرسکتا!"
"شیلا چپ رہو!"۔۔۔ رونے والی نے کہا۔۔۔
"کیوں چپ رہیں شیلا!" عمران نے کسی جھلائی ہوئی عورت کی طرح کہا! "نہیں شیلا تم بولو! آخر تم مجھے کیا سمجھتی ہو!"
کر دیجئے!" شیلا نے مضمحل آواز میںکہا " میں اس زندگی پر موت کو ترجیح دیتی ہوں!"
پھر رونے والی کی طرف دیکھ کر بولی "ناہید! میں اب سب کچھ کہہ دوں گی... ویسے بھی ان حالات میں مجھے خود کشی کرنی پڑتی! کبھی نہ کبھی ضمیر ضرور جاگ پڑتا!"
"نہیں! تم ایسا نہیں کر سکتیں!" ناہید یک بیک اچھل کر کھڑی ہو گئی! اب اس کی آنکھوں میں آنسو نہیں تھے. وہ چند لمحے شیلا کو گھورتی رہی پھر بولی "میں اپنی اندھی اور بوڑھی ماںکے لئے زندہ رہنا چاہتی ہوں! میں اپنے چھوٹے بھائیوں کے لئے جینا چاہتی ہوں! تم اپنی زبان بند رکھو گی شیلا! خدا کے لئے رحم کرو! اتنی ظالم نہ بنو..."
"نہیں میں مجبور ہوں!" شیلا نے ناخوشگوار لہجے میں کہا.
"ہاں ہاں! ٹھیک ہے!" عمران سر ہلا کر بولا "ضمیر بہرحال ضمیر ہے... وہ ماں باپ بھائی بہن کسی کی بھی پروا نہیں کرتا!.. ناہید بیٹھ جاؤ!"
"شیلا رحم کرو! اگر کسی نے ہمیں یہاں آتے ہوئے دیکھ لیا ہو تو...!"
"تو کیا ہوگا..." عمران اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا "کیا تمہیں اپنی بدنامی کا ڈر ہے!"
"مجھ سے سنیئے!" شیلا نے اسے مخاطب کیا!"مگر آپ کے پاس کیا ثبوت ہے کہ آپ سرکاری سراغ رساں ہیں!"
"میرے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے!... میں کب کہتا ہوں کہ میں سرکاری سراغ رساں ہوں! مگر اب... میں تم دونوںکا راز معلوم کروں گا! تم مجھ سے کیا کہنا چاہتی تھیں!"
"تب تو پھر بتانے سے کوئی فائدہ نہیں!"
"شیلا!" ناہید پھر چیخی!
"نہیں میںکچھ نہ بتاؤں گی تمہیں غلط فہمی ہوئی تھی یہ سرکاری جاسوس نہیں ہیں!"
"خدا کے لئے ہمیںجانے دیجئے!" ناہید نے رو دینے والی آواز میں کہا!" ویسے پرس نکالنے کے جرم میں جو سزا دل چاہے دے لیجئے!... رحم کیجئے!"
"تم شاداب نگر کے ایک گرلز سکول کی ٹیچر ہو نا!" عمران نے پوچھا!
جی ہاں! مجھے اس کا اعتراف ہے!"
"وہاں تمہیں کتنی تنخواہ ملتی ہے...!"
"ایک سو بیس روپے... اس میں بسر اوقات نہیں ہوتی!... پانچ چھوٹے بھائی ہیں! ایک اندھی ماںہے! آج کل ٹیوشن بھی نہیں ملتے پھر بتائیے کیا کروں!"
"کیا تم لوگوں کے ساتھ ان کے گھر بھی چلی جاتی ہو!"
لڑکی نے اس کا جواب جلدی نہیں دیا!... وہ چند لمحے خاموش رہی پھر سر جھکا کر مردہ سی آواز میں بولی "جی ہاں"
"میں سمجھا!" عمران سر ہلانے لگا!"مگر اس میں تو کوئی ایسی بات نہیں ہے جس کے لئے تمہیں کسی سرکاری سراغ رساں سے ڈرنا پڑے!... اس شہر کی بہتیری عورتیں اس قسم کی حرکتیں کھلم کھلا کرتی ہیں!"
"جج. جی ہاں!... مم... مگر میں ڈرتی ہوں!... اگر اسکول کے سیکرٹری کو اس کی اطلاع ہو گئی تو ملازمت جاتی رہے گی... بس اب رحم کیجئے!..."
"تم تو اس طرح سینکڑوں کما لیتی ہوگی! لہٰذا تمہیں ایک سو بیس روپے کی ملازمت کی پروا ہونا بڑی غیر فطری سی بات ہے."
ناہید پھر کچھ سوچنے لگی... شیلا کے چہرے پر اکتاہٹ کے آثار تھے اور اب وہ زیادہ خوفزدہ نہیں معلوم ہو رہی تھی!... ناہید نے تھوڑی دیر بعد کہا!"کل جب میں بوڑھی ہو جاؤں گی تو میرا کیا بنے گا!... اسی لئے میں ملازمت برقرار رکھنا چاہتی ہوں!"
"اب تم فلسفیوں کی سی باتیں کرنے لگیں... کوئی بہت بڑی حقیقت چھپا رہی ہو! تم مجھے احمق ہی سمجھ کر یہاں آئی تھیں نا!... لیکن اب بتاؤ کیا میں احمق ہوں..."
"نہیں ڈارلنگ!" شیلا اٹھلائی!"تم تو شرلاک ہومز کے بھی نانا ہو! اسے جانے دو! میں یہیں ٹھہروں گی اس کی اندھی ماں رو رو کر مر جائے گی!"
"تم یہاں رہو گی!"
"ہاں! میں یہاں ٹھہروںگی! مجھے بہت سی کہانیاں یاد ہیں! اگر تمہیں ان سے بھی نیند نہ آئی تو میںلوریاں سناؤں گی!"
"اچھا تو تم جا سکتی ہو!" عمران نے ناہید کی طرف دیکھ کر کہا!" لیکن جب کبھی میری ضرورت محسوس ہو! دانش منزل کے پتہ پر ایک خط ڈال دینا!"
عمران نے اٹھ کر دروازہ کھولا!... ناہید اٹھی لیکن شیلا بدستور بیٹھی رہی! دونوں جیسے ہی باہر نکلے دروازہ خود بخود بند ہو گیا!
پھر جب وہ برآمدے سے نیچے اتر رہی تھی! عمران نے ہمدردانہ لہجے میں پوچھا "کیا تمہیں پیسوں کی ضرورت ہے!"
"نہیں!" ناہید نے رکے بغیر جواب دیا! اور تیز قدموں سے پھاٹک کی طرف جانے والی روش طے کرنے لگی!... پھر عمران اس وقت تک وہیں کھڑا رہا جب تک کہ وہ پھاٹک سے نکل نہیں گئی!
پھر وہ اسی کمرے میں واپس آیا! شیلا ایک آرام کرسی پر نیم دراز تھی!
"تین سو روپے!" وہ خواب آلود آواز میں گنگنائی!
"تین ہزار روپے بھی میرے لئے کم ہیں!" عمران نے بھی راگ بنانے کی کوشش کی!
"مجھے کچھ نہیں چاہئے!" شیلا سیدھی بیٹھتی ہوئی سنجیدگی سے بولی "مجھے اپنی حقیقت سے آگاہ کردو! تم سچ مچ بہت چالاک معلوم ہوتے ہو! میں تمہیں بالکل گاؤدی سمجھی تھی!"
"ناہید نے غلط نہیں کہا تھا! میں سرکاری سراغ رساں ہوں! ورنہ میں وہاں خود کو احمق ظاہر کرکے تمہیں یہاں کیوں لاتا!"
"کیا تم ہمارے متعلق پہلے سے بھی کچھ جانتے رہے ہو!"
"ہو سکتا ہے!" عمران اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا!
"کیا جانتے ہو!"
"بہت کچھ جانتا ہوں" لیکن اگر تم خود ہی مجھے بتاؤ تو زیادہ اچھا ہوگا ویسے تم نے یہ تو دیکھ لیا کہ میں کتنا رحم دل آدمی ہوں. میں نے ناہید کو چلی جانے دیا... ورنہ..."
"ہاں میں نے یہ دیکھا ہے اب بھی محسوس کر رہی ہوں کہ تم کوئی برے آدمی نہیں ہو. میں اطمینان کر لینا چاہتی ہوں کہ تم سرکاری سراغ رساں ہی ہو!"
"میں کہتا ہوں! اگر نہ ہوتا تو اس سے تمہیں کیا نقصان پہنچتا!"
"نقصان... یہ نہ پوچھو!... میں جو کچھ بتاؤںگی اپنی زندگی سے ہاتھ دھو کر بتاؤں گی. یہ لوگ بڑے چالاک ہیں انہیںایک ایک پل کی خبر ہوتی ہے. کہ کون لڑکی کیا کر رہی ہے! ایک نہیں. ایسی کئی لڑکیاں موت کا شکار ہوتی ہیں اور اب میں مرنا چاہتی ہوں! اس زندگی سے اکتا گئی ہوں! مجھے ہر وقت محسوس ہوتا ہے جیسے گردن تک غلاظت میں غرق ہو گئ ہوں!"
"میں تمہیں اس غلاظت سے نکال سکتا ہوں. یقین کرو! وہ کتنے ہی چالاک آدمی کیوں نہ ہوں مجھ پر قابو نہ پا سکیں گے!"
"آں... ہاں!"مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے یہ میری زندگی کی آخری رات ہو!"
وہ عمران کی طرف نشیلی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی! اور اس کے ہونٹوں پر ایک مضمحل مسکراہٹ تھی... عمران کچھ نہ بولا! اسے اب خود انتظار تھا کہ وہ خود ہی اصل موضوع پر آجائے.
"کبھی میں بھی ایک اچھی لڑکی تھی!" شیلا نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا"مگر اب نہیں ہوں! انہوں نے مجھے غلاظت کا ڈھیر بننے پر مجبور کر دیا! میں ایک گرلز سکول میں ٹیچر تھی. تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا. تعلیم ختم کرنے کے بعد ملازمت کی فکر ہوئی! اسی دوران میں میری جان پہچان ایک ایسے گھرانے سے ہوئی جو بہت با رسوخ تھا! اس نے مجھے ایک ماہ کے اندر ہی اندر ایک گرلز سکول میں ملازمت دلا دی! میں اس کی شکر گذار تھی! وہ مجھ سے برابر ملتا رہا!... اس کے احسان کا بار میرے کندھوں پر تھا!
اس نے مجھ سے شادی کا وعدہ کیا تھا! لیکن ایک دن وہ اچانک غائب ہو گیا! آج تک غائب ہے۔ اس دن سے اس کی شکل نہیں دکھائی دی!۔۔۔ بہرحال اس کے غائب ہو جانے کے دو ماہ بعد مجھے بذریعہ ڈاک چند تصویریں موصول ہوئیں! یہ میری اور اس آدمی کی ایسی تصویریں تھیں جو میری زندگی برباد کر سکتی تھیں۔ پہلے صرف تصویریں موصول ہوئیں! پھر ایک خط ملا جو کسی گمنام آدمی کی طرف سے ٹائپ کیا گیا تھا! جس میں کہا گیا تھا کہ صرف ایک ہی تصویر مجھے ملازمت سے برطرف کرا دینے کے لئے کافی ہوگی۔ میں بری طرح سہم گئی۔ میری ملازمت سے گھر والوں کو بڑا سہارا ہو گیا تھا! اور زندگی تھوڑی بہت خوشحالی میں بسر ہو رہی تھی! تیسرے دن پھر ایک خط ملا اور مجھے یقین ہو گیا کہ خط لکھنے والا کوئی بلیک میلر ہے اس خط میں لکھا گیا تھا کہ میں اس کے لئے ہر ہفتہ پچاس روپے مہیا کروں! روپیہ مہیا کرنے کی تدبیر بھی بتائی گئی تھی یعنی میں مردوں کو اپنے جال میں پھنسا کر روپے پیدا کروں!۔۔۔ وہ ایک بڑا بھیانک تجربہ تھا! مجھے پچاس روپے مہیا کرنے پڑے۔ یہ میں نے قرض لئے تھے۔ کچھ دن تک قرض سے کام چلاتی رہی پھر قرض خواہوں کے تقاضے جان کو آئے !۔۔۔ اب تو میں بہت مشتاق ہو گئی ہوں! اب مجھے ہر ہفتہ پانچ سو روپے ادا کرنے پڑتے ہیں۔ اسکول کی ملازمت عرصہ ہوا ترک کر چکی ہوں۔ گھر والوں سے اب کوئی تعلق نہیں رہ گیا !"
"تو پھر اب تمہیں کس بات کا ڈر ہے!" عمران نے پوچھا۔ "اگر اب وہ بلیک میلر تمہیں بے نقاب کردے تب بھی تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا!"
"ٹھیک ہے! اب مجھے نہ اس کا خوف ہے کہ ملازمت سے برطرف کردی جاؤں گی! اور نہ اس کا ڈر کہ گھر والوں کو علم ہو جائے گا۔ پھر بھی میں ہر ہفتہ پانچ سو روپے ادا کرنے پر تیار ہوں!"
"آخر کیوں؟"
"ٹھہرو، بتاتی ہوں!" یہ کوڑے کے نشانات ہیں! جب دوسرے ہفتے بھی رقم نہیں پہنچتی تو مجھے اس وقت تک پیٹا جاتا ہے! جب تک میں بیہوش نہیں ہو جاتی!"
"تو پھر تم انہیں جانتی ہو!" عمران نے مضطربانہ انداز میں کہا!
"نہیں میں ایک کو بھی نہیں جانتی!"
"یہ کیسے ممکن ہے!"
"میں بتاتی ہوں!۔۔۔ اس دوران میں جہاں کہیں بھی ہوتی ہوں مجھے زبردستی اٹھوا لیا جاتا ہے! کہاں؟۔۔۔ یہ مجھے آج تک علم نہیں ہو سکا! کبھی کبھی تو ایسا بھی ہوا ہے کہ میں اپنے کمرے میں سوئی ہوئی ہوں! آنکھ کھلی تو کوڑے پڑتے ہوئے محسوس کئے۔ ایسے مواقع پر میں میری آنکھیں چمڑے کے تسمے سے جکڑی ہوئی ہوتی ہیں" میں اندھوں کی طرح مار کھاتی ہوں پھر غشی طاری ہو جاتی ہے!۔۔۔ اور جب ہوش آتا ہے تو خود کو اپنے پلنگ پر پڑا پاتی ہوں، اپنے ہی کمرے میں! لیکن مجھے یقین ہے کہ میں نے کبھی اپنے کمرے میں مار نہیں کھائی ورنہ وہ لوگ پکڑے جاتے! کیونکہ پٹتے وقت میں جانوروں کی طرح آسمان سر پر اٹھا لیتی ہوں۔ پھر بتاؤ ایسی صورت میں کیا میرے پڑوسیوں کو خبر نہ ہوتی! میرا کمرہ اس کمرے کی طرح ساؤنڈ پروف نہٰں ہے۔"
عمران تھوڑی دیر اس کی آنکھوں میں دیکھتا رہا پھر بولا! "تم وہ روپے کسے اور کس طرح ادا کرتی ہو!"
"پوسٹ بکس نمبر دو سو تیرہ کے پتہ پر منی آرڈر کر دیتی ہوں!"
"کیوں مذاق کرتی ہو یار!" عمران ہنس کر بولا "یہ تو بہت آسانی سے معلوم کیا جا سکتا ہے کہ پوسٹ بکس نمبر کس کا ہے!"
"مگر اتنی ہمت کون کرے! دو تین لڑکیوں نے اس کی کوشش کی لیکن انہیں ملک الموت کا منہ دیکھنا پڑا۔ وہ کسی نہ کسی طرح مار ڈالی گئیں اور اس کی اطلاع سارے شکاروں کو دی گئی تھی۔ ایک خط مجھے بھی ملا تھا جس میں تحریر تھا کہ یہ پوسٹ بکس نمبر کے متعلق چھان بین کرنے کا نتیجہ ہے کچھ لڑکیاں پولیس سے گٹھ جوڑ کر رہی تھیں۔ انہیں بھی ختم کر دیا گیا! اس کی اطلاع بھی مجھے اس بلیک میلر سے ملی تھی! ظاہر ہے کہ وہ دوسری لڑکیوں کو بھی اس سلسلے میں باخبر ہی رکھتا ہوگا۔ دیکھئے ٹھہریئے میں بتاتی ہوں! چند روز قبل بھی شہر میں ایک لڑکی کی لاش ملی تھی شاید آپ کو اس کا علم ہو۔۔۔ اس کا چہرہ کسی کار یا ٹرک کے پہیئے کے نیچے آ کر کچلا گیا تھا اور سینے پر خنجر کا نشان تھا! وہ ہمیشہ مقتولوں کے چہرے کو ناقابل شناخت بنا دیتے ہیں!"
"اوہو!" عمران سیدھا ہو کر بیٹھ گیا! پھر اس نے پوچھا "کیا اس قتل کی اطلاع بھی تمہیں ملی تھی!"
"ہاں ملی تھی!"
"اور تم ان حالات کے باوجود بھی مجھے یہ سب بتا رہی ہو!"
"ہاں! میں اب مرنا چاہتی ہوں! مسٹر! کتنی بار کہوں! میرا چھٹکارا بس اسی طرح ہو سکتا ہے کہ میں مر جاؤں! آج کی دنیا شریف آدمیوں کے لئے نہیں ہے! ہر آدمی اسے اس کی زندگی میں کوئی نہ کوئی کمینہ پن ضرور سرزد ہوتا ہے خواہ وہ کتنا ہی دامن بچائے!"
"ضروری نہیں ہے کہ تم بھی مر ہی جاؤ! میں تمہاری حفاظت کروں گا!"
"جس کے وہ لوگ دشمن ہوں اسے کوئی نہیں بچا سکتا! کیا ان لڑکیوں کو پولیس کا سہارا نہ ملا ہوگا! پھر وہ کس طرح قتل کر دی گئیں! مجھے تو یقین ہے کہ اس وقت یہ عمارت بھی ان لوگوں نے گھیر لی ہوگی!"
"یہ عمارت! نہیں یہ ناممکن ہے!" عمران نے مسکرا کر کہا!"یہ عمارت میرے قبضہ میں ہے۔"
"مگر تم یہاں تنہا ہو!۔۔۔ انہیں کیسے معلوم ہوگا کہ تم یہاں ہو! کیا وہ ہر لڑکی کے پیچھے لگے رہتے ہیں!"
"ناہید!۔۔۔ وہ ضرور انہیں اطلاع دے گی! اسے یقین ہو گیا ہے کہ میں تمہیں ضرور کچھ نہ کچھ بتاؤں گی!۔۔۔"
"وہ کیوں اطلاع دینے لگی۔ وہ خود بھی تو اس پیشے سے بیزار معلوم ہوتی ہے!" عمران نے کہا۔
"ہوگی بیزار۔۔۔! لیکن شاید تمہیں یہ نہیں معلوم کہ اگر اس کی دی ہوئی اطلاع ان لوگوں کے لئے صحیح ثابت ہوئی تو چار ہفتوں کی رقم معاف کر دی جائے گی۔۔۔ یعنی ناہید کو دو ہزار روپے نہ دینے پڑیں گے۔ چار ہفتوں تک خواہ وہ خود اپنے لئے کمائے یا صرف آرام کرتی رہے!"
"تب تم نے بہت ہی بڑی غلطی کی!۔۔۔ اسے کیوں جانے دیا!" عمران نے تیز لہجے میں کہا!
"میں کتنی بار کہوں کہ میں سچ مچ مرنا چاہتی ہوں!"
"میں تمہیں بچانے کی کوشش کروں گا!"
اچانک اس کمرے میں سرخ اور نیلی روشنی کے جھماکے ہونے لگے!۔۔۔نیلے اور سرخ بلب جلدی جلدی جل اور بجھ رہے تھے۔۔۔ عمران اچھل کر کھڑا ہو گیا۔
.........................................
2
جولیانا فٹر واٹر نے سرہانے رکھا ہوا لیمپ بجھا دیا!۔۔۔
اور لیٹے ہی لیٹے ایک طویل انگڑآئی لی پھر اس نے سونے کے لئےکروٹ لی ہی تھی کہ فون کی گھنٹی
بچی! اس نے لیٹے ہی لیٹے اندھیرے میں ہاتھ بڑھا کر فون کا ریسیور اٹھا لیا۔
دوسرے ہی لمحہ میں
اسے اپنے پراسرار آفیسر ایکس ٹو کی بھرائی ہوئی آواز سنائی دی۔
"جولیا۔۔۔ ہیلو۔۔۔ جولیا۔۔۔"
"یس
سر!"
"دانش منزل کے کمپاؤنڈ میں کچھ مشتبہ آدمی موجود ہیں۔ اپنے تین آدمیوں کو فون کرو کہ وہ
وہاں فوراً پہنچ جائیں۔ بات بڑھانے کی ضرورت نہیں ہے! انہیں صرف یہ معلوم کرنا ہے کہ وہ لوگ کون
ہیں! میرا خیال ہے کہ وہ لوگ عمارت کے اندر داخل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں!"
"بہت بہتر جناب!۔۔۔
ابھی!۔۔۔"
دوسری طرف سے سلسلہ منقطع ہو گیا!۔۔۔ جولیانا فٹز واٹر نے سیکرٹ سروس کے ساتوں اراکان
کے نمبر یکے بعد دیگرے ڈائیل کرنا شروع کر دیئے۔۔۔! تیسرے آدمی کو ایکس ٹو کا پیغام دے کر اس نے
ریسیور رکھ دیا اور ایکس ٹو کے خواب دیکھنے لگی! اسے اس پراسرار شخصیت سے عشق سا ہوتا جا رہا
تھا!۔۔۔ وہ اسے دیکھنا چاہتی تھی۔ اس سے ملنا چاہتی تھی! اسے خوشی تھی کہ ایکس ٹو جیسا ذہین
ترین آدمی اس کی ذہانت کا مداح ہے۔۔۔ اس کی قدر کرتا ہے! اسے اپنے ماتحتوں میں سب سے اونچا درجہ
دیتا ہے!
وہ اس کے محیر العقول کارناموں کے متعلق سوچتی رہی! وہ کیسا دلیر۔۔۔ کیسا پھرتیلا اور
ہمہ داں ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہر وقت اس کی روح شہر پر منڈلاتی رہتی ہو!۔۔۔ محکمہ خارجہ کی
سیکرٹ سروس کا عملہ محض اسی کی وجہ سے نیک نام تھا!۔۔۔
جولیانا فٹز واٹر اس کی نئی نئی ذہنی
تصویریں بناتی۔۔۔ وہ ایسا ہوگا!۔۔۔ وہ ایسا ہوگا!۔۔۔ لیکن آواز سے کوئی بوڑھا خرانٹ معلوم ہوتا
تھا!۔۔۔ مگر آواز۔۔۔! وہ اپنے دل کو سمجھاتی۔۔۔ آواز تو یقیناً بناوٹی ہوگی۔۔ ورنہ کوئی بوڑھا
آدمی اتنا پھرتیلا ہرگز نہیں ہوسکتا۔
جولیا نے سونے کی کوشش کی! مگر نیند کہاں!... دفعتاً وہ اٹھ بیٹھی!... یہ بات تو اس نے ابھی تک سوچی ہی نہیں تھی کہ آخر اس وقت دانش منزل میں کیا ہو رہا ہے!... وہ لوگ کون ہیں جن کی طرف ایکس ٹو نے اشارہ کیا تھا! اس نے کہا تھا کہ انہیں چھیڑا نہ جائے... بات بڑھانے کی کوشش نہ کی جائے... صرف یہ دیکھا جائے کہ وہ کون آدمی ہیں! کیا ایکس ٹو اس وقت دانش منزل میں ہی موجود ہے! جولیا جانتی تھی کہ اس عمارت میں ایک کمرہ ایسا بھی ہے جس کے در و دیوار ساؤنڈ پروف ہیں! اور اسی کمرے میں خطرے کی روشنیاں اور گھنٹیاں بھی موجود ہیں!... وہ کمرہ ایسا ہے کہ باہر سے اس میں داخل ہونا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے! جولیا نے کیپٹن خاور، کیپٹن جعفری اور تنویر کو وہاں بھیجا تھا! وہ ان کی طرف سے مطمئن نہیں تھی. ان کی دلیری میں شبہ نہیں تھا مگر وہ زیادہ چالاک نہیں تھے! اکثر دلیری کے جوش میں ان سے حماقتیں بھی سرزد ہو جاتی تھیں! اسے حقیقتاً وہ تین آدمی نہیں مل سکے تھے جنہیں وہ بھیجنا چاہتی تھی!... یہ ساجد، پرویز اور سلطان تھے! سارجنٹ ناشاد کو تو وہ قطعی نا پسند کرتی تھی!... پتہ نہیں ایکس ٹو نے اسے اپنے سٹاف میں کیوں رکھا تھا!... جولیا اس کی شاعری سے تنگ آ گئی تھی! جب بھی وہ کوئی نئی غزل کہتا! انگریزی میں اس کا ترجمہ اسے ضرور سناتا اگر روبرو نہ سنا سکتا تو فون پر بور کرتا... اسے عورت، شعر اور شراب کے علاوہ دنیا کی کسی چوتھی چیز کی پروا نہیں تھی! ویسے وہ ڈرپوک بھی نہیں تھا!... ایک اچھا نشانہ باز بھی تھا! مگر جولیا کا خیال تھا کہ وہ دو کوڑی کا آدمی ہے!
جولیا نے گھڑی کی طرف دیکھا! ایک بج چکا تھا! اس نے بڑی تیزی سے جیکٹ اور پتلون پہنی! اعشاریہ دو پانچ کا پستول جیب میں ڈالا اور فلیٹ سے نکل کر دانش منزل کی طرف روانہ ہوگئی! خنکی زیادہ نہیں تھی. سڑکیں قریب قریب سنسان ہو چکی تھیں. اس لئے وہ بے خطر اپنی چھوٹی سی آسٹن دوڑائے لئے جا رہی تھی.
دانش منزل سے کچھ ادھر ہی اس نے کار روک دی اور پیدل ہی دانش منزل کی طرف روانہ ہو گئی!... اسے پھاٹک بند نہیںملا. کمپاؤنڈ میں اندھیرا تھا! اچانک کسی نے پیچھے سے اس کے شانے پکڑ لئے...!
"حرکت نہ کرنا اپنی جگہ سے!" کسی نے آہستہ سے کہا. لیکن وہ اس کی آواز صاف پہچان گئی! یہ کیپٹن خاور تھا!
"میں ہوں!" جولیا نے جواب دیا!
"اوہو!" اس کے شانے چھوڑ دیئے گئے!
"کیا رہا!" جولیا نے پوچھا!
"نکل گئے! وہ چار تھے! اندھیرے کی وجہ سے ہم ان کی شکلیں بھی نہیں دیکھ سکے!"
"تب پھر کیا کیا تم نے!" جولیا نے جھنجھلا کر کہا!
"کیا تم نے یہ نہیں کہا تھا کہ بات نہ بڑھائی جائے. صرف یہ دیکھنا تھا کہ وہ کون ہیں!"
"کہا تھا!... لیکن...! تم انہیں نہیں دیکھ سکے!"
"تم تو بعض اوقات حکومت ہی چلانے لگتی ہو!" کیپٹن خاور بھی جھنجھلا گیا.
جولیا نے جواب میں کچھ نہیںکہا!... اتنے میں تنویر اور جعفری بھی وہاں پہنچ گئے.
"آہا!... کون ہے!" تنویر نے کہا جو شاید جولیا کی آواز سن چکا تھا!
جولیا خاموش رہی! تنویر نے کہا! "میرا خیال ہے کہ ایکس ٹو اندر موجود ہے! کیوں جولیا کیا خیال ہے! اسے دیکھو گی!... تمہیں بڑی خواہش ہے!..."
"ارے میں تو بیچاری عورت ہوں!" جولیا نے جلے بھنے لہجے میں کہا "تم مرد ہو! ذرا برآمدے ہی میں قدم رکھ کر دیکھو!"
"مگر اب ہمیں کیا کرنا چاہیئے!" جعفری نے پوچھا!...
"کیا کرو گے؟" جولیا بولی "وہ تو نکل ہی گئے! کیا تم میں سے کوئی ان کا تعاقب بھی نہیں کر سکتا تھا!..."
"ہم نے انہیں پھاٹک سے نکلتے ضرور دیکھا تھا! لیکن! پھر پتہ نہیں وہ کہاں غائب ہو گئے!"
"کسی جاسوسی ناول کے مجرم رہے ہوں گے!" جولیا نے طنزیہ انداز میں کہا"زمین پھٹی ہوگی اور وہ سما گئے! یا منہ میں جادو کا بٹن رکھا اور غائب..."
"یہ بات نہیں ہے!" جعفری نے غصیلی آواز میں کہا "تم خود کو نہ جانے کیا سمجھتی ہو! کیا تمہیں نہیں معلوم کہ یہاں سے ڈیڑھ فرلانگ کے فاصلے پر ایک سنیما ہال ہے! سیکنڈ شو کے تماشائی غول در غول ادھر سے گذر رہے تھے! وہ چاروں یقنی طور پر ان میں مل گئے ہوں گے."
"ختم کرو! مجھے کیا!" جولیا نے بیزاری سے کہا!"مجھے جو حکم ملا تھا تم تک پہنچا دیا! اس کے بعد میرا کام ختم ہو جاتا ہے!..."
"کیا عمارت میں داخل ہونے کے لئے نہیں کہا گیا تھا!" تنویر نے پوچھا!
"نہیں! اب تم لوگ جو کچھ بھی کرو گے اپنی ذمہ داری پر!" جولیا نے کہااور پھاٹک سے نکل آئی
3
عمران نے شیلا کی طرف دیکھا جو بڑے اطمینان سے سیگرٹ کے ہلکے ہلکے کش لے رہی تھی!... اس کے انداز سے معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ اپنے ہی مکان کے کسی کمرے میں بیٹھی ہو!
"تم مطمئن رہو! وہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے!" عمران نے اس سے کہا! "خصوصاً اس کمرے میں!"
"تم اپنا وقت برباد کر رہے ہو!" شیلا لاپرواہی سے بولی!
"کیوں؟"
"تم مجھے مرنے سے نہیں روک سکتے! میں خود مرنا چاہتی ہوں
میں تمہارے خیالات کی قدر کرتا ہوں! لیکن تمہارے مرنے سے کسی کا کوئی فائدہ نہ ہوگا! کیونکہ تم مجھے ان لوگوں کے متعلق بہت کچھ بتا چکی ہو! ویسے تمہاری زندگی ملک و قوم کو ضرور فائدہ پہنچا سکتی ہے!"
"مجھے ملک و قوم سے بھی کوئی دلچسپی نہیں ہے! کیونکہ اسی ملک و قوم نے مجھے نقصان ُُپہنچایا ہے ..."
عمران مایوسانہ انداز میں سر ہلا کر خاموش ہو گیا... تھوڑی دیر تک سوچتا رہا! پھر بولا "خیر... تم یہ رات تو اسی کمرے میں گزارو گی! تم نے وعدہ کیا تھا!..."
"وہ دوسری صورت تھی!... اب بات کہیں اور جا پڑی ہے، پہلے میرا خیال تھا کہ میں تم سے کم از کم دو ہفتوں کی رقم ضرور اینٹھ لوں گی!"
"میں تمہیں چار ہفتوں کی رقم سے سکتا ہوں! لیکن تمہیں میرے کہنے پر عمل کرنا پڑے گا!"
"میرا پیچھا چھوڑو!" شیلا جھنجھلا گئی... پھر تھوڑی دیر بعد نرم لہجے میں پوچھا!"کیا تم یہاں شراب نہیں رکھتے!"
"یہاں شراب کا نام لینا بھی جرم ہے!"
"تمہارا نام کیا ہے...!"
"خچر!"
"خچر ہی معلوم ہوتے ہو! کوئی سمجھدار آدمی شراب کے متعلق ایسی سخت بات نہیں کہہ سکتا!... اگر تم میرے لئے شراب مہیا کر سکو تو میں رات یہیں گزار دوں گی!"
"شراب اس عمارت میں ممنوع ہے!"
"تب پھر تم مجھے یہاں روک بھی نہیں سکتے!"
"اچھا تو چلی جاؤ!" عمران ہاتھ پھیلا کر بولا!
"ان خودکار دروازوں پر تمہیں گھمنڈ ہے!" شیلا ہنسنے لگی! مگر یہ ہنسی بڑی کھوکھلی تھی! ایسا معلوم ہوا تھا جیسے کسی مشین سے نکلی ہو!...
عمران کچھ نہ بولا! وہ کمرے میں ٹہل رہا تھا... ایک بار وہ ایک دروازے کے قریب گیا اور اسے کھول کر باہر نکل آیا اور دروازہ پھر بند ہو گیا!... اس نے گھوم پھر کر پوری عمارت کا جائزہ لیا پھر بیرونی برآمدے میں نکل آیا. کمپاؤنڈ سنسان پڑی تھی اور جھینگروں کی جھائیں جھائیں کے علاوہ اور کوئی آواز نہیں سنائی دے رہی تھی!
وہ تقریباً دس منٹ تک وہاںکھڑا رہا! پھر نیچے اتر کر عمارت کے عقبی حصے کی طرف چل پڑا تھوڑی دیر یہاں بھی ٹھہر کر وہ دوبارہ صدر دروازے پر پہنچ گیا.
اسے کہیں بھی کسی آدمی کی موجودگی کا احساس نہیں ہوا تھا!... اس نے ساؤنڈ پروف کمرے کا دروازہ کھولا لیکن دوسرے ہی لمحہ میں بری طرح بوکھلا گیا کیونکہ شیلا وہاں نہیں تھی!... وہ وہاں سے نکل کر تیر کی طرح کمپاؤنڈ کے پھاٹک پر آیا... مگر وہاں تو اب قدموں کی آہٹیں بھی نہیں تھیں! سامنے والی سڑک بالکل ویران ہو چکی تھی!
"شامت!" وہ آہستہ سے بڑبڑا کر رہ گیا.
4
دوسری صبح عمران دیر سے اٹھا! دھوپ پھیل چکی تھی اور اس کے فلیٹ پر الو بول رہے تھے! اس کا نوکر سلیمان تین دن سے غیر حاضر تھا... پلنگ پر پڑے ہی پڑے اس نے ہاتھ پیر پھیلا کر ایک طویل انگڑائی لی اور گذشتہ رات کے سارے واقعات ایک ایک کرکے اسے یاد آنے لگے. اس نے ایک زبردست غلطی کی تھی! ایک نہیں بلکہ دو غلطیاں! پہلی غلطی تو یہ کہ اس نے شیلا سے ایک اہم ترین بات نہیں پوچھی تھی! ظاہر ہے کہ مجرم خود کو پس منظر میں رکھ کر بڑی رقمیں بنا رہے تھے! لہٰذا ان سے کسی ایسی غلطی کا ارتکاب ممکن نہیں تھا. جس سے ان کی گردن پھنس جاتی! پھر آخر ناہید نے انہیں کن ذرائع سے شیلا کے متعلق اطلاع دی ہوگی!...اسے اس کے متعلق شیلا سے ضرور پوچھنا چاہئے تھا! پھر! دوسری غلطی اس کی بے احتیاطی تھی! اس نے خود کار دروازوں کا استعمال اس طرح کیا تھا کہ شیلا اس سے واقف ہو گئی تھی! ویسے وہ یہی سمجھتا رہا تھا کہ شیلا اس سے لاعلم ہے! اب اس کے ہاتھ میں صرف دو کارڈ رہ گئے تھے! ایک تو پوسٹ بکس نمبر دو سو تیرہ اور دوسرا کارڈ... ناہید. اس کا پتہ اسے معلوم تھا!... مگر یہ پوسٹ بکس نمبر والا معاملہ بھی اس کی سمجھ سے باہر تھا. یہ بھی گردن ہی پھنسا لینے والی بات تھی!
بہرحال اس نے اسی دن سے تفتیش کا سلسلہ شروع کر دیا!... پوسٹ بکس نمبر شہر کے سب سے زیادہ چھپنے والے ایک ماہنامے کا نکلا.
ماہنامہ "کمر لچکدار" جس کی دھوم سارے ملک میں تھی!... وہ ادب اور ثقافت کا علمبردار تھا! ادب کا علمبردار یوں تھا کہ اس میں فلم ایکٹرسوں کی کمزوریاں اچھالی جاتی تھیں! اور ثقافت کا علمبردار اس لئے کہا جا سکتا تھا کہ سرورق پر کسی لنگوٹی بند امریکن چھپکلی کی تصویر ہوتی تھی...!
عمران نے اپنا فائل نکالا جس میں اس کی کئی اوٹ پٹانگ کہانیاں تھیں! کسی زمانے میں اسے کہانیاں لکھنے کا خبط بھی تھا!... اس نے لیکاک کے Nonsense novels کے طرز پر کئی کہانیاں لکھ ڈالی تھیں!...
اس نے ایک کہانی نکالی اور ماہنامہ "کمر لچکدار" کے دفتر کی طرف روانہ ہو گیا!
دفتر کافی شاندار تھا! تقریباً ڈیڑھ درجن آدمی مختلف قسم کے کاموں میں مشغول نظر آ رہے تھے!
"فرمائیے!" ایک نے عمران کو ٹوکا!
"میں ایڈیٹر صاحب سے ملنا چاہتا ہوں!" عمران نے جواب دیا!
"کیا کام ہے!"
"کم کچھ بھی نہیں ہے! زیادہ ہی نکلے گا!" عمران نے سنجیدگی سے کہا!
"کم نہیں کام!" اس نے تصحیح کی!...
"اوہ... کام... ان سے جا کر کہہ دیجئے کہ ایک بہت بڑا افسانہ نگار ملنا چاہتا ہے!"
"جب!" وہ آدمی اس کی حماقت آمیز شکل دیکھ کر مسکرایا اور پھر اسے نیچے سے اوپر تک دیکھتا ہوا بولا "نام کیا بتاؤں!"
"ابن ہدہد!"
وہ ہنستا ہوا... ایڈیٹر کے کمرے کی طرف چلا گیا! عمران کی سنجیدگی میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں آیا تھا! تھوڑی دیر بعد اس نے واپس آ کر کہا"جائیے."
عمران اکڑتا ہوا کمرے کے دروازہ پر آیا چق ہٹائی اور اندر چلا گیا! ایڈیٹر دونوں ہاتھوں کو میز پر رکھے قہر آلود نظروں سے دروازے کی طرف گھور رہا تھا!
"تشریف رکھیئے!" وہ غرایا!"
یہ ایک لمبا تڑنگا اور صحت مند آدمی تھا! عمر چالیس اور پچاس کے درمیان رہی ہوگی!
"آپ بھی ابن ہیں!" اس نے عمران کو کینہ توز نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا!
"جی ہاں! بندے کو ابن ہدہد کہتے ہیں!"
"کیا یہ ابن کوئی بیماری ہے! جسے دیکھئے نام کے ساتھ ابن لگائے چلا آ رہا ہے! بیٹھئے نا! بہت سی باتیں کروں گا آپ سے!"
عمران بیٹھ گیا
"اپنی ایک کہانی لایا ہوں"
"مگر! آپ کو اپنا نام بدلنا پڑے گا! میرے پرچے میں جاسوسی کہانیاں نہیں شائع کی جاتیں!"
"اجی یہ رومانی افسانہ ہے!"
"پھر تو آپ کو نام بدلنا پڑے گا...!"
"اچھا تو پھر ہدہد کر دیجئے گا! جی ہاں!... چلے گا یا نہیں ویسے ابن ہدہد بھی چل جاتا!"
"نہیں! آپ نہیں جانتے! ہماری دشواریوں سے واقف نہیں ہیں! ابھی حال ہی میں میرے ایک دوسرے نے اپنے رسالے میں اردو کے ایک بہت اچھے شاعر کی نظم چھاپی تھی! اتفاق سے ان کے نام میں بھی "ابن" موجود ہے! آپ جانتے ہیں کہ اس بیچارے کو اس سلسلے میں کس طرح کے قسم کے خطوط موصول ہوئے ہیں!"
عمران نے نفی میں سر ہلا دیا!"ٹھہریئے!" ایڈیٹر نے میز کی دراز کھینچ کر اس میں رکھے ہوئے کاغذات الٹتا پلٹتا ہوا بولا "میں آپ کو ایک خط سناؤں گا! سنئے اور عبرت پکڑئیے!"
اس نے ایک پوسٹ کارڈ نکال کر پڑھنا شروع کیا!
"جاناب ایڈیٹر صاحب!"
شالا تم کیا چار شو بیش ریشالہ نکالتا ہے! اوپر لکھتا ہے... لکھنے والے ابن عبدل یہی نام تھا! یا دوسرا تھا... یاد نہیں!... ابن ضرور تھا!.... اوپر ابن لکھتا ہے اور اند رمیں گجل ٹھونس دیتا ہے... ہمارا پیشہ واپش کرو! ہم جاشوشی افشانہ سمجھ کر کھریدا تھا! یہ چار شو بیشی کا دھندا کب تک چلے گا! تم شالا پبلک کو دھوکا دیتا ہے.
ہم ہے تمہارا باپ
اللہ رکھا
"ارے توبہ! توبہ!" عمران اپنا منہ پیٹنے لگا! لاحول ولا!... میرا افسانہ... جاسوسی ہرگز نہیں ہے! میں نام بھی بدل دوں گا! آپ مطمئن رہیئے! افسانے کا نام ہے! حاتم طائی!"
"نہیں چلے گا! بہت پرانی چیز ہے!"
آپ دیکھئے تو سہی اسی میں جدت ہے... یہ فینٹسی بھی نہیں ہے بس دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے! بالکل نئی جدت دیکھئے گا... غور سے سنیئے! ہاں!"
عمران صفحات کو اپنے چہرے کے برابر رکھ کر پڑھنے لگا"صبح کا سہانا وقت تھا!..."
"ٹھہرئیے"... ٹھہرئیے!..." ایڈیٹر ہاتھ اٹھا کر بولا "یہ نہیں چلے گا!... صبح کا سہانا وقت تھا تو پڑھنے والوںکو اس سے کیا سروکار... نہیں یہ بہت پرانا اسٹائل ہے!"
"اچھا... اچھا... میں پورا منظر نکالے دیتا ہوں!... خیر جانے دیجئے! آگے سنیئے... حاتم اپنے خیمے سے نکل کر ایک تمباکو فروش کی دوکان پر آیا!... اور وہاں سے سوئیٹ کراپ کا تمباکو خرید کر طائی کے خیمے کی طرف چل پڑا..."
"کس خیمے کی طرف..." ایڈیٹر حیرت سے آنکھیں پھاڑ کر بولا!
"طائی کے خیمے کی طرف! ط سے طائی... تائی نہیں... حاتم کی کوئی تائی نہیں تھی!... طائی اس کی محبوبہ کا نام تھا...!"
"یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ!" ایڈیٹر نےکچھ ایسے انداز میں کہا جیسے عمران نے اسے کوئی بہت بری خبر سنائی ہو!
"کیا میں نے آپ کو کوئی صدمہ پہنچایا ہے!" عمران بوکھلا کر بولا!
"آپ تاریخ کے گلے پر چھری چلا رہے ہیں..."
"کیوں جناب...!"
"آپ طائی کو حاتم کی محبوبہ بتاتے ہیں! حالانکہ حاتم قبیلہ بنی طے کا ایک فرد ہونے کی بناء پر طائی کہلاتا تھا!"
"کیا بات کہی ہے آپ نے!" عمران نے قہقہہ لگایا! دیر تک ہنستا رہا پھر بولا.
"آپ کے فارمولے سے تو پھر مجنوں لیلٰی کا باپ تھا!... یا لیلٰی بنی مجنوں سے تعلق رکھتی تھی!... وامق قبیلہ بنی عذرا سے تعلق رکھتا تھا. ہیر رانجھا کی چچی تھی... مہینوال سوہنی کا ابا تھا!... کیا فضول باتیں کر رہے ہیں آپ... میں اپنا سر پیٹ لوں گا!"
عمران کے چہرے پر یک بیک شدید ترین غصے کے آثار نظر آنے لگے.
"کہیں آپ نشے میں تو نہیں ہیں" ایڈیٹر اسے گھورتا ہوا بولا.
"نشے میں ہوں گے آپ!... اتنے بڑے ایڈیٹر ہو کر جہالت کی باتیں کرتے ہیں!" عمران اچھل کر کھڑآ ہو گیا!
"آپ بدتمیز ہیں!" ایڈیٹر بھی کھڑا ہو گیا! عمران کی زبان پر جو کچھ بھی آ رہا تھا. بے تکان بکتا جا رہا تھا!... کمرے میں کئی لوگ گھس گئے! ان میں ایک لڑکی بھی تھی! جس نے مردانہ لباس پہن رکھا تھا... نیلے رنگ کا جیکٹ اور سرخ پتلون!...
"آپ دنیا کے سب سے بڑے کریک ہیں!" ایڈیٹر نے ان لوگوں کی طرف دیکھتے ہوئے عمران پر نظر ڈال کر کہا!
"کیا بات ہے!" کسی نے پوچھا!
"آپ ایک کہانی لائے ہیں! حاتم طائی... جس میں طائی حاتم کی محبوبہ ہے." ایڈیٹر نے کہا. لوگ ہنس پڑے مگر لڑکی عمران کو بڑی سنجیدگی سے گھورتی رہی. اس کے ہونٹوں پر خفیف سے مسکراہٹ بھی نمودار ہوئی تھی!.
"اور اب آپ لڑنے مرنے پر آمادہ ہیں!" ایڈیٹر مسکرا کر بولا. پھر عمران کو اپنی طرف متوجہ کرکے کہا "آپ اپنے پیروں پر چل کر جانا پسند کریں گے یا... میں اپنے آدمیوں کو آپ کی خدمت پر آمادہ کروں! میرا خیال ہے کہ آپ کافی سمجھدار آدمی ہیں!"
"جی ہاں... جی ہاں!" عمران نے غصیلے انداز میں دانت نکال کر کہا "میں جا رہا ہوں. آپ کی قابلیت کا بھانڈا بھی عنقریب پھوٹ جائے گا!... مجھ سے غلطی ہوئی جو یہاں چلا آیا... ماہنامہ "ترچھی نجریا" والے مجھے پوجتے ہیں...!"
"گیٹ آؤٹ!" ایڈیٹر حلق پھاڑ کر چیخا!
جی ہاں!... میں جا رہا ہوں!" عمران جانے کے لئے مڑا... لیکن ابھی دو ہی چار قدم چلا تھا کہ مردانہ لباس والی لڑکی نے اس کی ٹانگوں میں ٹانگ ماری اور عمران دھڑام سے فرش پر گر گیا! ایک بار پھر قہقہوں کا طوفان امنڈا... اور لڑکی بڑی سنجیدگی سے چھت کی طرف دیکھنے لگی. اس بار بھی اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تک نہیں تھی!
عمران اٹھا اور مڑ کر دیکھے بغیر چھپٹتا ہوا باہر نکل آیا... سڑک پر پہنچ کر اس نے ادھر ادھر دیکھا اور سامنے والے ریستوران میں گھس گیا! اس نے ایک ایسی میز منتخب کی جہاں سے ماہنامہ "کمر لچکدار" کے دفتر کے زینے صاف نظر آتے تھے!
وہ تقریباً دو گھنٹے تک اسی میز پر جا رہا... پھر دفتر کے بند ہونے کا وقت آ گیا اور وہاں کام کرنے والے باہر آنے لگے! چار آدمی اس ریستوران کی طرف بھی آ رہے تھے! ان میں وہ لڑکی بھی تھی جس نے عمران کو گرایا تھا جیسے ہی ان کی نظر عمران پر پڑی وہ رک گئے! عمران پہلے ہی سے اپنی کہانی کے صفحات سامنے رکھے ان میں فاؤنٹین پن سے کاٹ چھانٹ کر رہا تھا! وہ چاروں آپس میں سرگوشیاں کرنے لگے! ادھر عمران کے انداز سے ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے اسے ان کی آمد کی خبر ہی نہ ہو! وہ چاروں اس کی میز کے اطراف میں کرسیاں کھینچ کر بیٹھ گئے! اور عمران چونک کر احمقوں کی طرحایک ایک کی شکل دیکھنے لگا!
لڑکی عمران کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولی "بولو دوست کا کیا رنگ ہیں!"
"اوہو!" عمران جھینپی ہوئی سی ہنسی کے ساتھ بولا "مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں نے آپ کو کہیں دیکھا ہے!"
"ضرور دیکھا ہوگا!" لڑکی بڑے پیار سے بولی "کیا چائے نہیں پلواؤ گے!"
"اوہ...ضرور ضرور... اے بھائی صاحب... ارے بھائی صاحب!" اس نے ویٹر کو آواز دی!
وہ حد سے زیادہ بے ڈھنگے پن کا مظاہرہ کر رہا تھا! ویٹر کو سب کے لئے چائے اور سموسوں کا آرڈر دے کر وہ پھر انہیں احمقوں کی طرح دیکھنے لگا!
"کیا لکھ رہے تھے...!" لڑکی نے پوچھا!
"مم... میں افسانہ نگار ہوں!" عمران نے سر جھکا کر بڑے شرمیلے انداز میں جواب دیا!
"کہیے!... آپ کو یاد آیا کہ آپ نے ہمیںکہاں دیکھا تھا!" ایک آدمی نے پوچھا!
"نہیں یاد نہیں آیا! مگر میں دعوٰی سے کہہ سکتا ہوں کہ کہیں دیکھا ضرور ہے!"
"آپ کا نام کیا ہے...!" لڑکی نے پوچھا!
"ابن ہدہد! آپ کو میرے نام پر ہنسی آئے گی!... مگر میں بڑا جدت پسند آدمی ہوں! شاعر لوگ مختلف قسم کے پرندوں کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں! لیکن بیچارے ہدہد کا کوئی نام بھی نہیں لیتا! حالانکہ ہدہد کا ذکر آسمانی کتابوں میں بھی آیا ہے... ہدہد سلیمان اور ملکہ صبا کا قاصد تھا!"
"تو آپ کو صرف ہدہد ہونا چاہیئے تھا اس میں ابن کیوں لگا دیا!"
"آج کل ابن ہی چالو ہے!" عمران نے دانشوروں کے انداز میں کہا.
"نہیں صرف ہدہد..." لڑکی نے سنجیدگی سے کہا "تم سو فیصدی ہدہد معلوم ہوتے ہو."
"ہوتا ہوں نا!... ہاہا... اچھا اب اجازت دیجئے!" عمران اٹھتا ہوا بولا!
"ارے... چائے تو منگوائی تھی"...! لڑکی نے کہا.
"کیا کروں! شاید وہ کہیں دور نکل گیا ہے."
"کون؟"
"وہی جس سے چائے کے لئے کہا تھا! میں سمجھا تھا شاید یہیں سے لائے گا!"
عمران پھر بیٹھ گیا!... اچانک اس نے محسوس کیا کہ لڑکی اب کچھ گھبرائی ہوئی سی ہے! وہ بار بار ایک کھڑکی کی طرف دیکھ رہی تھی! یہ کھڑکی سڑک کی طرف تھی. دفعتاً لڑکی کچھ کہے سنے بغیر اٹھی اور باہر نکل گئی! انداز کچھ ایاس تھا جیسے وہ اتنی سی دیر میں یہ بھی بھول گئی ہو کہ وہ وہاں تنہا نہیں آئی تھی بلکہ اس کے ساتھ تین آدمی اور بھی تھے دوسری حیرت انگیز بات یہ تھی اس کے اس طرح چلے جانے پر اس کے ساتھیوں پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا! وہ بدستور اطمینان سے بیٹھے ہوئے عمران کو چھیڑتے رہے...
"میں جا رہا ہو!" عمران اٹھتا ہوا بولا!
"اور چائے کا بل کون ادا کرے گا!" ایک آدمی نے کہا!
"میں کیا جانوں!"
"تم نے آرڈر دیا تھا...
"آہا...!" عمران دیدے نچا کر بولا " تو کیا تمہارے لئے آرڈر دیا تھا! وہ چلی گئیں!... اب میں بھی جا رہا ہوں. واہ یار ذرا اپنی شکل تو دیکھو! میں تمہیں چائے پلاؤں گا! ہاہا... ہپ!"
"شرافت کے دائرے سے باہر نہ نکلو!..."اسی آدمی نے غصیلے لہجے میں کہا!
"میں ازلی کمینہ ہوں!" عمران نے سنجیدگی سے کہا!"افسانہ نگار ہونے کا یہ مطلب تو نہیں کہ میری اصلیت بدل جائے!... اگر لڑنے بھڑنے کا ارادہ ہو تو اس کیلئے بھی تیار ہوں!"
"اچھا نکلو باہر...! ہم دیکھتے ہیں تمہیں!"
اتنے میں بیرے نے چائے لا کر میز پر رکھ دی! جانے کے لئے مڑا ہی تھا کہ عمران نے اسے روک کر کہا!"میرا بل لاؤ اس چائے کے دام یہی لوگ ادا کریں گے!"
وہ تینوں پیچ و تاب کھا کر رہ گئے! لیکن کچھ بولے نہیں!... ویٹر چلا گیا!...
"اچھا پھر کبھی سمجھیں گے تم سے!" ان میں سے ایک آنکھیں نکال کر بولا!
"الجبرا اور جومیٹری سمجھا سکتا ہوں! ارتھمیٹک کمزور ہے!... وہ کسی اور سے سمجھ لینا! ہاں!" عمران بالکل اسی طرح بولا جیسے کوئی استاد اپنے شاگردوں سے ہمکلام ہو!
ویٹر بل لایا اور عمران نے اس کی قیمت ادا کی پھر تینوں کی طرف ایک چڑا دینے والی مسکراہٹ اچھالتا ہوا اٹھ گیا!.
وہ سمجھا تھا کہ شاید وہ لڑکی فٹ پاتھ ہی پر مل جائے گی... مگر اسے مایوسی ہوئی!... وہ دراصل اس لڑکی کے متعلق الجھن میں پڑ گیا تھا!... حالانکہ بظاہر کوئی ایسی خاص بات نہیں تھی جس کی بناء پر اسے اس لڑکی کی طرف سے کوئی تشویش ہوتی!... ویسے اس نے "کمر لچکدار" کے دفتر میں اس سے بڑا مضحکہ خیز برتاؤ کیا تھا!
الجھن اس کی بھی نہیں تھی!... فی الوقت وہ خود بھی اس الجھن کو نہیں سمجھ سکا!... کبھی کبھی اس کے ساتھ ایسا بھی ہوتا تھا! وہ چند لمحے رک کر ایک طرف چل پڑا.
ابھی اسے پوسٹ بکس نمبر دو سو تیرہ کے متعلق مکمل معلومات نہیں حاصل ہوئی تھیں!... اسے یقین تھا کہ وہ کوئی کلیو نہیں ہو سکتا... مگر اس کے متعلق اسے ایک ایسی عورت نے بتایا تھا جس کے سر پر شاید موت ہی سوار تھی! اس لئے وہ اسے نظر انداز بھی نہیں کر سکتا تھا!... عمران خیالات میں اس طرح کھویا ہوا تھا کہ پیدل ہی چلتا رہا!... دن بھر کی تھکی ہوئی بھیڑ کارخانوں اور دفتروں سے نکل آئی تھی!... اور فٹ پاتھ پر گذرتے وقت لوگ ایک دوسرے سے ٹکرا رہے تھے. عمران کو اس بھیڑ کا احساس بھی نہیں تھا!... وہ شانوں سے شانے رگڑتا... رکتا... رکاتا چلتا رہا! وہ سوچ رہا تھا کہ اسے محکمہ سراغرسانی کے سپرنٹنڈنٹ کیپٹن فیاض سے اس لڑکی کے متعلق کچھ اور معلومات بھی فراہم کرنی چاہیئے جس کی لاش ڈیڑھ ہفتہ پہلے شارع عام پر پائی گئی تھی. وہ ایک پبلک کال بوتھ میں گھس کر فیاض کے نمبر ڈائیل کرنے لگا. مگر یہاں بھی اسے ناکامی ہوئی. فیاض گھر پر موجود نہیں تھا اور اس وقت آفس میں اس کی موجودگی ممکن تھی!... عمران بوتھ سے باہر آ گیا! فی الحال اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اسے تفتیش کا آغاز کہاں سے کرنا چاہئے اسے شیلا یاد آئی. مگر وہ اسے کہاں تلاش کرتا! ویسے وہ بری طرح ذہن سے چپک گئی تھی!
عمران پھر چلنے لگا!... ماہنامہ "کمر لچکدار" کے آفس میں یا اس کے سامنے والے ریستوران میں اس نے وقت نہیں برباد کیا تھا!... کم از کم وہاں کے ماحول سے اس نے یہی
اندازہ لگایا تھا کہ اگر وہ پوسٹ بکس نمبر وہیں کا ہے تو اسے کچھ نہ کچھ اہمیت ضرور دی جا سکتی ہے!
کیا وہ ایک بار پھر اس جزیرے کا رخ کرے؟`اس نے سوچا! ساتھ ہی اسے یہ بات بھی یاد آئی کہ وہ وہاں گیا ہی کیوں تھا؟... اسے مقتولہ کے باپ سے ملنا تھا! لیکن اس سے ملاقات نہیں ہوئی تھی! اس کے پاس اس کی شہری جائے رہائش کا پتہ بھی موجود تھا!...
وہ چلتے چلتے ایک گلی میں مڑ گیا! دراصل وہ ایک ٹیکسی چاہتا تھا اور خالی ٹیکسی اسے دوسری سڑک پر مل سکتی تھی!.
ٹیکسی کے لئے اسے بہت زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا. تھوڑی دیر بعد وہ مقتولہ کے باپ کا پتہ ٹیکسی والے کو بتا رہا تھا.
لیکن تھوڑی ہی دور چلنے کے بعد اسے ٹیکسی رکوا دینی پڑی کیونکہ ایک دوکان میں اسے وہی لڑکی نظر آئی تھی جس نے ماہنامے کے دفتر میں اسے گرا دیا تھا! وہ بڑی جلدی میں ٹیکسی ڈرائیور کے ہاتھ میں کچھ رقم دیتا ہوا نیچے اتر گیا.
مگر وہ کہیں رکا نہیں سیدھا اسی دوکان میں گھستا چلا گیا! یہ ایک جنرل سٹور تھا! عمران لڑکی کے پیچھے کھڑا ہو کر شوکیسوں پر نظر ڈالنے لگا! پھر کچھ ہی دیر بعد آہستہ سے بولا "آپ کی چائے ٹھنڈی ہو رہی ہے!"
لڑکی یکلخت اس کی طرف مڑی اس کی آنکھوں سے حیرت جھانک رہی تھی اس نے دوکان دار سے کہا. "میں پھر آؤں گی." اور باہر نکل گئی! لیکن عمران نےا س کا پیچھا نہیں چھوڑا. فٹ پاتھ پر پہنچ کر وہ رک گئی.
"کیا ارادے ہیں!" اس نے عمران کو گھورتے ہوئے کہا!
"تمہیں چائے پلاؤں گا!"
"تم مجھے وہ نہیں معلوم ہوتے جو نظر آتے ہو!"
"میں حقیقتاً چمگادڑ ہوں! مگر عام طور پر لوگ مجھے طوطا کہتے ہیں!"
"کس چکر میں ہو!"
"تمہارے چکر میں! اب میں اتنا گاؤدی بھی نہیں ہوںکہ حاتم طائی کو لیلٰی مجنوں کی طرح جوڑا بنا دوں!"
"پھر؟" لڑکی کے ہونٹ بھنچ گئے! اس کی آنکھوں میں ایک خونخوار سی چمک لہرا رہی تھی!
"میں دراصل تم تک پہنچنا چاہتا تھا!" عمران نے سر جھکا کر شرمیلے لہجے میں کہا.
"کیوں؟"
"پتہ نہیں کیوں؟ جب سے تمہیں دیکھا ہے!"
"شٹ اپ... کیا شامت آئی ہے!"
"مجھے یہی توقع تھی!" عمران نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا اور مغموم انداز میں سر ہلانے لگا! پھر بولا "تم اس نابکار ایڈیٹر کومجھ سے قابل سمجھتی ہو."
"ہوش میں ہو یا نہیں! ہم پہلی بار ملے ہیں!"
"نہیں ہم میں تو بہت پرانی بے تکلفی ہے! اگر یہ بات نہ ہوتی تو تم ٹانگ مار کر گراتی کیوں!"
"میں یہاں اس جگہ بھی تمہارے ساتھ یہی سلوک کر سکتی ہوں!"
"ارے جاؤ. جاؤ! میں کیا تم سے کمزور ہوں. اب کے گرا کر دیکھو چٹنی بنا کر رکھ دوں گا! یہ تو تمہیں شادی کے بعد ہی معلوم ہوگا کہ میں کیسا آدمی ہوں!"
"تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے! اگر اب میرے پیچھے آئے تو خیریت نہیں."
"خیریت کی ایسی کی تیسی! وہ انگوٹھی کہاںہے؟"
"کیسی انگوٹھی؟"
"منگنی کی انگوٹھی! جو پچھلے سال میں نے تمہاری انگلی میں ڈالی تھی! اس کے بعد تم غائب ہو گئی تھیں. آج ملی ہو! میں کہتا ہوں کہ یہ رشتہ ضرور ہوگا. تمہارے والدین کو اب بھی منظور ہے!"
"میں کہتی ہوں دفع ہو جاؤ یہاں سے ورنہ بہت برا ہوگا.!"
"کیا برا ہوگا؟ ذرا ٹھہرو! میں اس ڈیوٹی کانسٹیبل کو بھی اطلاع دے دوںکہ تم میری منگیتر ہو. دیکھو بڑا بکھیڑا ہو جائے گا! بھیڑ لگ جائے گی یہاں! میں بڑا بے حیا آدمی ہوں. میرا کچھ نہ بگڑے گا. میں انسلٹ پروف ہوں."
"تم کیا چاہتے ہو!" لڑکی نے اکتائے ہوئے لہجے میں پوچھا.
"وہ تمہارے گھر کا پتہ تاک مجھے بار بار دفتر کے چکر نہ لگانے پڑیں!"
لڑکی چند لمحے کچھ سوچتی رہی. پھر اپنے پرس سے ایک وزیٹنگ کارڈ نکال کر اس کی طرف بڑھا دیا.
"میں کل ضرور آؤں گا... شکریہ!"
"ٹھہرو!..." لڑکی ہاتھ اٹھا کر بولی!"مقصد کیا ہے!"
"جب تک تم پتلون پہننا نہ چھوڑو گی! میں تمہارا پیچھا نہ چھوڑوں گا. جس دن میں نے تمہیں غرارے، شلوار یا سکرٹ میں دیکھ لیا اسی دن سے تم میری شکل بھی نہ دیکھو گی!"
"تم سے مطلب میں جو چاہے پہنوں! تم کون ہوتے ہو!"... لڑکی پھر جھنجھلا گئی.
"میں تمہارا منگیتر ہوتا ہوں! اور اس وقت تک رہوں گا جب تک پتلون!... تم مجھے نہیں جانتیں! مجھے ایک عورت کے چلنے کا انداز ناپسند تھا!... لہٰذا میں نے اس کے شوہر سے اسے طلاق دلوا دی!... حالانکہ میرے پانچ ہزار روپے ضرور خرچ ہو گئے!... لیکن!... شہر میں وہ چیز تو نہ رہی جو مجھے ناپسند تھی! تم پر بھی دو چار ہزار خرچ کروں گا. پھر تمہیں یا تو شہر چھوڑنا پڑے گا یا پتلون!"
"ارے تم خدائی فوجدار ہو!" لڑکی دانت پیس کر بولی!
"خدائی فوج کا حوالدار میجر!..." عمران نے سنجیدگی سے سر ہلا کر کہا!
لڑکی چند لمحے کچھ سوچتی رہی پھر بولی "اگر میں شور مچا دوں کہ تم مجھ سے بدتمیزی کر رہے ہو تو؟"
"ارے خدا کے لئے شور مچاؤ بھی! میں یہی چاہتا ہوں کہ تم شور مچاؤ! اتنی دیر سے جھک کیوں مار رہا ہوں! مقصد یہی ہے. کہ تم شور مچاؤ!..."
"کیا کرو گے تم...!"
"دنوں کا کام گھنٹوں میں ہو جائے گا! تم کل ہی پتلون پہننا چھوڑ دو گی!... کہو تو پوری اسکیم بتا دوں!... تم شور مچاؤ گی تو لوگ اکٹھا ہوں گے! میں کہوں گا کہ یہ میری بیوی ہے. دو سال گزرے اپنے دادا زاد بھائی کے ساتھ بھاگ گئی تھی. کارڈ پر تمہارا نام زیبا تحریر ہے. میں جنت بی بی بتاؤں گا! کہوں گا کہ یہ اسی لئے پتلون ڈالے پھرتی ہے کہ اسے کوئی پہنچان نہ سکے... چلو شور مچاؤ... ہاہا!"
وہ کلکلا کر زیر لب کچھ بڑبڑائی.!
"میں صرف دو منٹ تک اور تمہارے شور مچانے کا انتظار کروں گا!"
لڑکی یکلخت دوسری طرف مڑ کر چل پڑی. عمران نے بھی وہی حرکت کی. وہ مخالف سمت میں مڑا تھا... پھر چلتے چلتے دونوں نے ایک ساتھ مڑ کر ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر چل پڑے.
بظاہر عمران کی یہ حرکت احمقانہ تھی!... لیکن حقیقتاً اس کی تہہ میں بہت کچھ تھا... زیبا کی بجائے اگر کوئی اور لڑکی ہوتی تو عمران کی اس حرکت پر ہلڑ مچائے بغیر ہرگز نہ مانتی... مگر وہ صرف جھنجھلا کر رہ گئی تھی! ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ بڑی مشکل سے ضبط کر رہی ہے. عمران نے اس سے ایک ہی نتیجہ نکالا کہ اس کے ہاتھ ضرور ملوث ہیں اسی لئے وہ اپنی تشہیر سے ڈرتی ہے. اس وقت اس کا کسی قسم کا اقدام بھی پولیس کیس بن سکتا تھا. لیکن وہ پولیس کی نظر میں آنے سے کتراتی ہے. کیونکہ خود اس کا ضمیر بھی احساسِ جرم کا شکار ہے
5
سیکرٹ سروس کے آٹھوں ممبر جزیرے والی نمائش میں چکراتے پھر رہے تھے۔ انہیں شیلا نامی ایک لڑکی کی تلاش تھی جس کا حلیہ ایکس ٹو نے بتایا تھا۔۔۔۔ لیکن انہیں یہ نہیں معلوم تھا کہ ایکس ٹو اس لڑکی کی تلاش میں کیوں ہے!۔۔۔۔
جولیا نافٹزواٹر اور سارجنٹ ناشاد ساتھ چل رہے تھے! سارجنٹ ناشاد بڑا پر رُعب چہرہ رکھتا تھا۔ اس کی چڑھی ہوئی بھوری مونجھیں ہی چہرے پر سب کچھ تھیں! لوگ اس کی صورت ہی دیکھ کر لرز جاتے تھے۔ مگر وہ خوف اسی وقت تک قائم رہتا تھا جب تک وہ بولتا نہیں تھا۔ جہاں اس نے گفتگو شروع کی سارا وقار رخصت ہو گیا۔ جولیا کو اس سے کچھ چڑ سی ہو گئی تھی۔ لیکن کام کی حد تک تو برداشت کرنا ہی پڑتا تھا۔ ویسے اگر وہ تنہا ہوتی تو تنویر ساتھ لگ گیا ہوتا اور تنویر کی معیت میں کوئی کام کر لینا ناممکن نہیں تو دشوار ضرور تھا کیونکہ وہ اسے اپنے دکھے ہوئے دل کی پکار سنانا شروع کر دیتا تھا! سارجنٹ ناشاد کی بکواس کی دنیا پر صرف اس کے اشعار کے انگریزی ترجموں ہی تک محدود رہتی تھی۔ مگر آج وہ کچھ چپ چاپ سا تھا۔ جس کی وجہ شاید یہ تھی کہ اسے شام سے شراب نہیں ملی تھی۔ یہاں نمائش کے کسی بار میں بیٹھ کر وہ اپنی پیاس کو بھجا سکتا تھا۔ مگر ایکس ٹو کا خوف! اسے ہر حال میں اطلاع ہو جاتی کہ سارجنٹ ناشاد نے ڈیوٹی پر شراب پی تھی۔
"یہ لڑکی شیلا۔۔۔۔" وہ آہستہ سے بڑ بڑایا۔۔ "کہیں ہمارے ایکس ٹو کی کوئی منظور نظر نہ ہو۔"
"بکواس ہے۔۔۔۔ ایکس ٹو جیسے لوگ عورتوں کی پرواہ کم کرتے ہیں۔" جولیا نے برا سا منہ بنا کر کہا۔ وہ ایکس ٹو کے متعلق کوئی برا ریمارکس سننا پسند نہیں کرتی تھی۔
"ایکس ٹو!" سارجنٹ ناشاد نے ایک طویل سانس لی۔" وہ شاید ہماری قبروں میں بھی گھس آئے گا۔"
اچانک وہ چلتے چلتے رک گیا اور جولیا کو یہی محسوس ہوا جیسے ناشاد کو بتائے ہوئے حلیے کی لڑکی نظر آگئی ہو۔ مگر ناشاد بڑبڑایا۔
"یہ عمران یہاں کیا کرتا پھر رہا ہے۔"
"وہی جو دوسرے ہزاروں آدمی کرتے پھر رہے ہیں۔ کیا تم بھول گئے کہ یہ نمائش گاہ ہے۔"
"میرا مطلب یہ ہے کہ کہیں یہ بھی اسی لڑکی کے چکر میں نہ ہو۔"
"یہ کیونکر ممکن ہے۔"
"اس آسمانی تحریر والے کیس میں کیسے ممکن ہوا تھا! مجرم تک کون پہنچا تھا!" ہم یا عمران۔۔۔۔ اسے کس نے پکڑا تھا ایکس ٹو نے یا عمران نے۔۔۔۔"
"اگر عمران نہ بکڑتا تو اسے ایکس ٹو ہی پکڑتا۔۔۔۔ تمہیں کس نے اطلاع دی تھی کہ عمران اور جولیا مجرموں کو لا رہے ہیں۔!"
"تم ایکس ٹو کی اتنی طرفدار کیوں ہو۔۔۔۔"
"وہ میرا آفیسر ہے۔۔۔۔ کیا طرفدار ہونے کے لئے اتنا ہی جواز کافی نہیں ہے۔۔۔۔"
"میں تم سے بحث نہیں کرنا چاہتا۔۔۔۔ میرا خیال ہے کہ عمران کو اس لڑکی کے سلسلے میں ٹٹولنا چاہئے۔۔۔۔ مگر تم شاید اس کی مخالفت کرو۔ کیونکہ اس نے ایک بار تمہاری جان بچائی تھی۔"
"یہ غلط ہے اگر عمران نہ ہوتا تب بھی ایکس ٹو کچھ نہ کچھ ضرور کرتا کیونکہ وہ حالات سے باخبر تھا!"
"میرے خدا۔۔۔۔! تم بڑی احسان فراموش ہو جولیا!۔۔۔۔"
"اس میں احسان فراموشی کی کوئی بات نہیں ہے!" اگر عمران بھی اس وقت کسی مصیبت میں پھنس جاتا تو کیا ہوتا! تم خود سوچو! کیا اس وقت ایکس ٹو ہم دونوں کو بچانے کی کوشش نہ کرتا۔!"
"اونہہ چھوڑو۔۔۔۔ میں تو چلا۔۔۔۔ کچھ دیر اس سے چھیڑ چھاڑ ہی رہے گی۔ اس سےگفتگو کرنے میں بڑا مزہ آتا ہے۔"
سارجنٹ ناشاد نے آگے بڑھ کر عمران کو جا لیا۔ غیر ارادی طور پر جولیا بھی اسی طرف چل پڑی۔
"کس چکر میں ہو دوست!" سارجنٹ ناشاد نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔
"کچھ نہیں سوچ رہا تھا کہ ابابیل کو لاطینی میں کیا کہتے ہیں!" عمران نے مڑ کر جواب دیا۔ پھر جولیا پر نظر پڑتے ہی بولا "اوہ مس فولیا۔۔۔۔!"
"جولیا" جو لیا نے برا سا منہ بنا کر تصیحح کی!
"اوہ معاف کیجئے گا۔۔۔۔ نام مجھے ہمیشہ اسی طرح یاد آتے ہیں اور میں کیا خدمت کر سکتا ہوں آپ لوگوں کی! ویسے آج یہاں آٹھوں موجود ہیں۔!"
"یہ بہت بُری بات ہے کہ تم آٹھوں کو پہچانتے ہو!۔۔۔۔" سارجنٹ ناشاد نے کہا! "شاید شہر میں تم تنہا آدمی ہو جسے ہمارا علم ہے۔"
"اس میں برائی کیا ہے سارجنٹ شاداب!"
"شاداب نہیں ناشاد۔۔۔۔ ناشاد۔۔۔۔!"
"ایک ہی بات ہے!۔۔۔۔ ہاں تو کیا برائی ہے!" عمران نے لاپروائی سے سر ہلا کر کہا۔
"برائی تو اسی وقت معلوم ہو گی جب تم کسی سے اس کا تذکرہ کرو گے!"
"یعنی جس سے بھی اس کا تذکرہ کروں گا وہ تمہیں گالیاں دے گا! کیوں؟"
"تم تذکرہ کر کے دیکھ لو!۔۔۔۔ کیا حشر ہوتا ہے تمہارا۔۔۔۔؟"
"سارجنٹ ناشاد!" جولیا نے اسے مخاطب کیا!۔۔۔۔ "اس جگہ کتنی دیر ٹھہرنے کا ارادہ ہے؟"
"جب تک بیچارہ عمران آپ لوگوں کی حیثیث نہ بھول جائے"
عمران نے سر ہلا کر مغموم لہجے میں کہا۔
"اچھا دوست پھر تم دیکھ ہی لینا۔۔۔۔" سارجنٹ ناشاد کہتا ہوا آگے بڑھ گیا! جب جولیا بھی چلنے لگی تو عمران نے کہا!" کیا خیال ہے۔۔۔۔ اس موسم میں کافی اچھی رہے گی۔"
"نہیں شکریہ!۔۔۔۔" جولیا نے کہا اور آگے بڑھ گئی۔
وہ جانتی تھی کہ عمران اس کا تعاقب نہیں کرے گا! اس کی دانست میں اسے اس کا علم ہی نہ رہا ہو گا کہ سیکرٹ سروس والے یہاں کیوں آئے تھے۔
ایک جگہ وہ سب آملے۔۔۔۔ ان کی آپس کی گفتگو کا ماحصل یہ تھا کہ وہ شیلا کا پتہ لگانے میں اب تک ناکام رہے تھے۔۔۔۔ عمران جولیا نافٹز واٹر اور سارجنٹ ناشاد کے علاوہ اور کسی کو نہیں ملا تھا اس لئے اس کا تذکرہ نہیں کیا گیا۔۔۔۔ وہ سب ہی اسے پہچانتے تھے لیکن اس کے متعلق ان کی رائے اچھی نہیں تھی۔
"اب ہمیں واپس جانا چاہئے!" تنویر نے کہا۔
جولیا کے علاوہ اور سب نے اس سے اتفاق کیا۔ جولیا کا خیال تھا کہ وہ اس وقت تک ٹھہرے گی جب تک نمائش کا اختتام نہ ہو جائے اور اس نے ان سے بھی یہی کرنے کو کہا۔
"بے کار بات ہے!۔۔۔۔" جعفری بولا۔ "ہم نے یہاں کوئی جگہ ایسی نہیں چھوڑی جہاں سے تلاش نہ کیا ہو۔ اور پھر کیا یہ آرڈر تھا کہ نمائش کے اختتام تک ہم یہاں رکیں۔"
"میں تو رکوں گی۔۔۔۔" جولیا نے کہا۔ اس کی یہ بات فیصلہ کن بھی تھی! کیونکہ تھوڑی ہی دیر بعد اس کے علاوہ اور سارے ممبر وہاں سے چلے گئے۔۔۔۔
جولیا مختلف ہوٹلوں اور ریستورانوں کے چکر لگاتی رہی۔۔۔۔ وہ آج بڑی پر کشش نظر آرہی تھی کیونکہ آج اسکرٹ کی بجائے ساڑھی میں تھی۔ ساڑھی میں وہ ہمیشہ بہت اچھی لگتی تھی!۔۔۔۔ اس کی عمر چوبیس سے کم نہیں تھی۔ لیکن نہ جانے کیوں ابھی تک چہرے پر پکا پن نہیں آیا تھا انداز میں بعض اوقات شرمیلے پن کی جھلکیاں نظر آنے لگتی تھیں۔۔۔۔ اسے ایکس ٹو کے خواب آنے لگے تھے۔ جب بھی کوئی سنجیدہ اور پر وقار آدمی اسے نظر آتا وہ اس کے متعلق سوچنے لگتی کہ کہیں وہ ایکس ٹو ہی نہ ہو۔۔۔۔ وہ ایسے آدمیوں کو دیر تک گھورتی رہتی حتی کہ وہ لوگ بھی اسے محسوس کر لیتے۔ ان میں بعض تو غلط فہمی ہی میں مبتلا ہو جاتے۔۔۔۔ جولیا سے یہ سب کچھ عموماً بے خیالی ہی میں سرزد ہوتا تھا اور پھر جب وہ خیالات کی دنیا سے باہر آتی تو اسے بڑی شرمندگی ہوتی۔ آج بھی کچھ ایسا ہی واقعہ پیش آیا۔ وہ چلتے چلتے تھک گئی تھی لہٰذا وہ سستانے کے لئے ایک ریستوران میں جا بیٹھی ویٹر سے کافی کے لئے کہا۔ اگر ایکس ٹو کو شراب ناپسند نہ ہوتی تو شاید وہ شراب ہی طلب کرتی پہلے وہ کبھی کبھار پی لیا کرتی تھی۔ لیکن جب اسے یہ معلوم ہوا کہ ایکس ٹو شرابیوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتا۔ تب سے ایک بوند بھی اس کے لئے حرام ہو گئی تھی۔
وہ کافی کی چسکیاں لیتی رہی۔ ساتھ ہی اس کی نظر بھی چاروں طرف بھٹکتی پھر رہی تھی۔ یہاں درجنوں خوش پوش جوڑے نظر آرہے تھے اچانک اس کی نظر ایک آدمی پر رک گئی اور اس کا دل دھڑکنےلگا یہ آدمی بھی ایسا ہی تھا جس پر ایکس ٹو کا دھوکا ہو سکتا تھا۔ یہ قریب قریب حولیا ہی تھا جیسا وہ ایکس ٹو کو سمجھتی تھی یعنی ایکس ٹو کی جیسی تصویر اس نے اپنے ذہن میں بنا رکھی تھی! بھرا ہوا سا پر وقار چہرہ، کشادہ پیشانی اور آنکھیں سوچ میں ڈوبی ہوئی سی! جسم پر معمولی کپڑے کا سوٹ، لیکن رکھ رکھاؤ میں سلیقہ اور ستھرا پن۔۔۔۔ سادہ سی ٹائی!
وہ خیالات میں کھو کر اسے گھورتی رہی۔۔۔۔ بار بار اس کا دل چاہتا تھا کہ وہ چیف آفیسر ایکس ٹو ہے۔ اس سے سوال کر بیٹھے۔ اس سے پوچھے کہ کیا وہ اس کا پر اسرار۔۔۔۔
پھر وہ اس وقت چونکی جب بیرا خالی برتن سمیٹنے لگا اب وہ آدمی بھی اسے کنکھیوں سے دیکھ رہا تھا۔ جولیا نے جلدی سے بل ادا کیا اور باہر نکل آئی۔ ابھی تھوڑی ہی دور گئی تھی کہ کسی نے اس کے قریب ہی سے کہا۔ "ذرا سنئےگا۔"
جولیا رک کر مڑی۔ لیکن دوسرے ہی لمحہ میں اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ کیونکہ یہ وہی آدمی تھا جسے وہ ریستوران میں ایکس ٹو سمجھ کر گھورتی رہی تھی۔
"کیا آپ مجھ سے کچھ پوچھنا چاہتی ہیں!" اس نے بڑے ادب سے کہا۔
"جی۔۔۔۔ ن۔۔۔۔ نہیں! کیوں؟"
"میں سمجھا تھا شاید! آپ مجھے اسی طرح دیکھ رہی تھیں جیسے پہچاننے کی کوشش کر رہی ہوں۔!
"آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے!" جولیا نے کہہ کر آگے بڑھنے کا قصد ہی کیا تھا کہ قریب سے گزرتی ہوئی بھیڑ میں سے کسی نے دھکا دیا اور وہ گرتے گرتے بچی، اچانک اس کے قریب کھڑےہوئے آدمی نے مجمع پر ایک چھلانگ لگائی اور ایک کو گریبان سے پکڑتے ہوئے ایک طرف کھینچ لایا۔
"یہ کیا حرکت تھی؟" اس نے اس کا گریبان جھنجھوڑتے ہوئے کہا۔ یہ آدمی بھی خوش پوش ہی تھا وہ اس سے الجھ پڑا۔ لیکن ریستوران والا آدمی اس سے زیادہ طاقتوار معلوم ہوتا تھا۔ اس نے دو ہی چار گھونسوں میں اسے زمین دکھا دی۔۔۔۔ ان کے گرد مجمع اکٹھا ہو گیا۔ جولیا بری طرح بوکھلا گئی تھی۔ لوگوں کے پوچھنے پر اس آدمی نے کہا "اس نے ان خاتون کو جان بوجھ کر دھکا دیا تھا۔۔۔۔"
"پولیس کو۔۔۔۔ پولیس کو دو" چاروں طرف سے آوازیں آئیں۔ اور وہ آدمی جولیا کی طرف دیکھنے لگا۔ جولیا جلدی سے بولی "نہیں جانے دیجئے! میں خواہ مخواہ بات نہیں بڑھانا چاہتی۔۔۔۔ آپ کا بہت بہت شکریہ!"
"آپ ہی لوگوں کی رحم دلی کی وجہ سے غنڈے سرکشی کرنے لگے ہیں!" اس نے جواب دیا۔
مارکھانے والا زمین پر بیٹھا بغلیں جھانک رہا تھا۔ اچانک وہ اٹھ کر بھاگا اور لوگ اس کے پیچھے دوڑنے لگے۔
"ہمیں یہاں سے ہٹ جانا چاہئے۔" جولیا ہانپتی ہوئی بولی۔
"جیسی آپ کی مرضی! ویسے میں محوس کر رہا ہوں کہ اس کے دوسرے ساتھی بھی اس بھیڑ میں موجود تھے۔ لیکن مصلحتًا خاموش رہ گئے۔ ہو سکتا ہے کہ نمائش کے باہر ان سے بھی نپٹنا پڑے۔"
"ہو سکتا ہے!" جولیا نے کہا "پھر آپ کیا کریں گے۔۔۔۔"
"کچھ نہیں دیکھا جائے گا۔۔۔۔ ان کم بختوں سے کوئی جگہ خالی نہیں ہے۔ پہلے یہ غیر ملکیوں سے گھبراتے تھے۔ اب انہیں بھی پریشان کرنے لگے ہیں۔ آپ شاید اطالوی ہیں۔"
"نہیں۔۔۔۔ سوئیس۔۔۔۔"
"او ہو! تب ہی آپ میں اتنی مشرقیت ہے۔ اطالوی اور سوئیس لڑکیاں ہماری ہی لڑکیوں کی طرح شرمیلی ہوتی ہیں۔۔۔۔ دیکھئے آپ اس مشرقی لباس میں قریب قریب مشرقی ہی معلوم ہوتی ہیں۔ ویسے میں صرف آپ کے لہجے ہی سے آپ کو غیر ملکی سمجھا تھا۔ اچھا چلئے۔ میں آپ کو گھاٹ پر پہنچا دوں۔"
"نہیں آپ کو تکلیف ہو گی۔"
"اس کی فکر نہ کیجئے! ورنہ آپ کو شکایت ہو گی کہ ایک اجنبی دیس میں آپ کے ساتھ بد سلوکی کی گئی تھی!"
"نہیں میرے دیس میں بھی برے آدمی بستے ہیں اور آپ کی طرح شریف بھی!"
وہ چلتے رہے حتیٰ کہ نمائش کے احاطے سے نکل آئے۔ باہر بھی آنے جانے والوں کی خاصی بھیڑ موجود تھی اور اس کا سلسلہ گھاٹ تک تھا۔
دفعتًا کسی نے قریب ہی سے کہا "یہی تھا" اور تین چار آدمی جولیا کے ساتھی پر ٹوٹ پڑے۔ جولیا اچھل کر ایک طرف ہٹ گئی۔ لیکن اس کا ساتھی اتنی ہی دیر میں دو آدمیوں کو نیچے گرا چکا تھا۔ پھر تیسرے کو بھی جولیا نے خلاء میں اچھلتے دیکھا۔ ایک ہی گھونسے نے اسے بھی زمین پر پہنچا دیا۔ بقیہ دو بھاگ نکلے لوگ پھر ان کے گرد اکٹھا ہونے لگے۔ دیکھتے ہی دیکھتے خاصی بھیڑ ہو گئی اور ان تینوں کو بھی نکل جانے کا موقع مل گیا۔ بمشکل تمام انہوں نے لوگوں کے استفسارات سے پیچھا چھڑایا۔۔۔۔ اور اب وہ بھی تیزی سے گھاٹ کی طرف جارہے تھے۔
"میں پھر کہتا ہوں کہ پولیس کو رپورٹ دے دی جائے۔" جولیا کے ساتھی نے کہا۔
"ہونا تو یہی چاہئے۔" جولیا نے ہانپتے ہوئے کہا۔ "لیکن بعد کی پریشانیاں درد سر ہو جائیں گی۔ تفتیش ہو گی۔۔۔۔ مقدمہ قائم ہو گا۔ ایسی دوسری سیکنڑوں جھنجٹیں!"
"ہاں!۔۔۔۔ یہ تو ٹھیک ہے۔" اس کے ساتھی نے آہستہ سے کہا۔
بہر حال جولیا کی جان میں جان آئی کہ وہ اس بحث کو آگے بڑھانے کی بجائے اس سے متفق ہو گیا تھا۔
دونوں جلد ہی گھاٹ پر پہنچ کر ایک لانچ میں بیٹھ گئے۔
6
ٹھیک تین بجے رات کو جولیا کے فون کی گھنٹی بجی۔ وہ بے خبر سورہی تھی۔ گھنٹی متواتر بجتی رہی اور جاگنا ہی پڑا۔ ظاہر ہے کہ اس وقت ایکس ٹو کے علاوہ اور کون فون کر سکتا تھا۔۔۔۔ جولیا اسے پوجتی تھی۔ لیکن میٹھی نیند شاید دنیا کی ساری لذتوں سے افضل ہوتی ہے۔ ورنہ وہ اس پر جھنجھلاتی کیوں؟ اس نے لیٹے ہی لیٹے ہاتھ بڑھا کر ریسیور اٹھا لیا۔
"ہیلو!" اس نے پھرائی ہوئی آواز میں کہا اور اسے جواب میں ایکس ٹو کی آواز سنائی دی۔
"کیوں! کیا؟ وہ تمہارے گھر میں بھی آیا تھا!"
"کون؟"
"وہی جس نے تمہں غنڈوں سے نجات دلائی تھی!۔۔۔۔"
"تو کیا سچ مچ وہ آپ ہی تھے!" جولیا نیند کی جھونک میں پوچھ بیٹھی۔ وہ اب بھی اونگھ رہی تھی۔
"احمق لڑکیوں کی طرح خواب نہ دیکھا کرو!" ایکس ٹو کی غصیلی آواز نے اسے چونکا دیا۔
وہ کہہ رہا تھا۔ "تمہیں معلوم ہونا چاہئے۔ میں ایک ایسے گروہ کے چکر میں ہوں، جو شریف اور بھولی بھالی لڑکیوں کو پیشہ کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔"
"اوہو!" جولیا کی نیند بالکل غائب ہو گئی۔ "میں نہیں سمجھی۔"
"حالانکہ تمہاری آواز سے صاف ظاہر ہے کہ تم سب کچھ سمجھ گئی ہو۔"
"جی۔۔۔۔ تو کیا!"
"ہاں!۔۔۔۔ تم اسی گروہ کے ایک آدمی کے چکر میں پڑ گئی ہو!۔ وہ اسی وقت سے تمہارے پیچھے لگا ہوا تھا۔ جب تم اپنے دوسرے ساتھیوں سے الگ ہوئی تھیں۔ بہر حال کہنے کا مطلب یہ کہ اس آدمی سے ہوشیار رہنا وہ جو کچھ بھی ہوا تھا ایک اچھا خاصا ڈراما تھا!"
"تو کیا آپ نے اسی لئے مجھے وہاں بھیجا تھا؟" جولیا نے شکایت آمیز لہجے میں پوچھا۔
"نہیں میں یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ تم پر ڈورے ڈالنے کی کوشش کریں گے۔ کیونکہ تم ایک اسمارٹ قسم کی لڑکی ہو!۔۔۔۔ مگر اسے کیا کہا جائے کہ ساڑھی میں تم بالکل بدھو معلوم ہونے لگتی ہو! ویسے حسن ضرور بڑھ جاتا ہے!۔۔۔۔"
جولیا اس ریمارک پر شرما گئی۔۔۔۔
"اچھا سنو!" ایکس ٹو کی آواز پھر آئی۔ "ہاں تم نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا۔ کیا وہ تمہارے ساتھ تمہارے فلیٹ میں بھی آیا تھا۔"
"جی نہیں! میں نے اخلاقاً اسے کہا بھی تھا۔۔۔۔ مگر وہ جلدی کا بہانہ کر کے چلا گیا!"
"اپنی شرافت اور بے غرضی ظاہر کرنے کے لئے! بہر حال وہ پھر تم سے ملے گا مستقبل قریب ہی میں! لیکن تم یہ نہ ظاہر ہونے دینا کہ اس کی طرف سے مطمئن ہو! اس سے خائف ہونے کی ضرورت نہیں! وہ تمہیں جب بھی ملے گا! میں تم سے زیادہ فاصلے پر نہیں ہوں گا!"
"کاش میں آپ کو دیکھ سکتی ہوں!"
"کیا کرو گی!۔۔ یہ ایک فضول خواہش ہے جو شاید کبھی نہ پوری ہو سکے!"
پھر ایکس ٹو نے جولیا کے جواب کا انتظار کئے بغیر سلسلہ منقطع کر دیا! جولیا نے ایک طویل سانس لی اور ریسور رکھ کر کھڑکی کے باہر جھانکنے لگی! اس کی آنکھوں میں غم کے سائے نظر آرہے تھے۔
7
دوسری شام عمران اسی لڑکی کے مکان کے سامنے موجود تھا! جس سے ماہنامہ "کمر لچکدار" کے دفتر میں ملاقات ہوئی تھی! پہلے اس نے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی تھی کہ وہ گھر میں موجود ہے یا نہیں! شاید وہ ابھی دفتر سے واپس نہیں ہوئی تھی! عمران نے ذرا ہی سی دیر میں اس کے متعلق بہتری معلومات فراہم کرلیں! وہ وہاں تنہا رہتی تھی۔۔۔۔ پڑوسیوں سے اس کی شناسائی نہیں تھی! کبھی کوئی اس سے ملنے کے لئے نہیں آتا تھا! راتیں گھر ہی پر گذارتی تھی! پڑوسیوں کا خیال تھا کہ وہ بہت مغرور ہے!۔۔۔۔ کسی نے آج تک اسے زنانہ لباس میں نہیں دیکھا تھا!۔۔۔۔ سردیوں میں پتلون اور چمڑے کی جیکٹ پہنتی تھی! اور گرمیوں میں قمیض اور پتلون۔ پتلونیں بھی زنانہ تراش کی نہیں ہوتی تھیں!
ٹھیک چھ بجے وہ مکان کی طرف آتی دکھائی دی! عمران نے آگے بڑھ کر اس کا استقبال کیا!۔۔۔۔ لیکن وہ عمران کو دیکھتے ہی کچھ گھبرا سی گئی!
"ہائیں!۔۔۔۔" عمران دیدے نچا کر بولا "پھر وہی پتلون!"
"یہاں تم پٹ جاؤ گے!" لڑکی نے خود کو سنبھال کر کہا! "بہتر ہے کہ چپ چاپ چلے جاؤ!"
"پٹ جانا میرے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتا! سمجھیں!۔۔۔۔ لیکن اب تمہیں یہ شہر چھوڑ دینا پڑے گا!۔۔۔۔ تم شاید میری باتوں کو مذاق سمجھتی ہو!۔۔۔۔ تمہیں یقین نہیں آئے گا کہ میں پچھلی رات ایک منٹ کے لئے بھی نہیں سو سکا!۔۔۔۔ رات بھر تمہاری پتلون مجھے غصہ دلاتی رہی میری ہڈیاں سلگتی رہیں! اور آج صبح سے ہی میں نے تمہارے خلاف مواد اکٹھا کرنا شروع کر دیا تھا!۔۔۔۔ اس وقت میرے پاس اتنی طلاعات ہیں کہ خدا کی پناہ!۔۔۔۔ اب آخری بار پھر کہتا ہوں کہ یا پتلون پہننا ترک کر دو! یا اس شہر سے کہیں اور چلی جاؤ!"
"شٹ اَپ!" اس نے برا سامنہ بنا کر کہا اور آگے بڑھ گئی!
پوسٹ بکس نمبر دو سو تیرہ!" عمران نے بلند آواز میں کہا! اور وہ اچانک اس طرح پلٹی جیسے پشت پر گولی لگی ہو!۔۔۔۔ وہ پلکیں جھپکائے بغیر دیر تک عمران کو دیکھتی رہی پھر آہستہ آپستہ چلتی ہوئی عمران کے پاس واپس آگئی۔۔۔۔ عمران نے اسے بولنے کا موقع دیئے بغیر کہا۔
"شاید "کمر لچکدار" کے ایڈیٹر کو اس کی اطلاع نہیں ہے کہ تم بڑی رقموں کے منی آرڈر بھی وصول کرتی ہو!۔۔۔۔ کیوں"
"تم کون ہو!" لڑکی نے آہستہ سے پوچھا۔
"خدائی فوجدار! تمہیں اس سے کیا غرض۔ بس پتلون پہننا چھوڑ دو! پھر کبھی میری شکل بھی نہ دیکھو گی! بس یہ ہے کہ آج صبح سے اب تک میں نے تم پر تقریباً پانچ سو روپے صرف کئے ہیں۔!"
"مجھ پر کیوں"
"آہا تو کیا یہ معلومات مجھے مفت حاصل ہوئیں ہیں! اب اگر میں نے کل بھی تمہیں پتلون میں دیکھا تو تم جیل میں دکھائی دو گی!"
لڑکی کچھ نہ بولی اس کے چہرے پر سراسیمگی کے آثار تھے۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ بھرے بازار میں چوری کرتے پکڑی گئی ہو!
"بس میں کل تک اور انتظار کروں گا!" عمران بڑبڑایا!" صبح ہی تمہارے دفتر کے سامنے تم پر ایک نظر ڈالوں گا!۔۔۔۔ اگر تم نے میرا کہنا مان لیا تو پھر تو کبھی مجھے اپنے قریب نہیں دیکھو گی۔ سمجھیں!۔۔۔۔ دوسری صورت میں کیا ہو گا! یہ تم خود ہی سمجھ سکتی ہو۔ ویسے تمہیں اسکرٹ، غرارے یا ساڑھی میں دیکھ کر میں یہ بھی بھلا دوں گا کہ تم مجرموں اور سازشیوں کے ایک گروہ سے تعلق رکھتی ہو!"
"اب میں پتلون نہیں پہنوں گی! وعدہ کرتی ہوں!"
"ہا ہا!۔۔ ویری گڈ!" عمران احمقانہ انداز میں ہنس کر واپسی کے لئے مڑا۔۔۔۔
"سنیئے تو سہی!" لڑکی نے اسے روکا۔
"بس اب سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے! پرواہ مت کرو!" عمران نے اس کی طرف مڑے بغیر کہا۔ اور تیز قدموں سے چلتا ہوا ایک گلی میں مڑ گیا!
8
کیپٹن جعفری باہر جانے کے لئے تیار تھا! جیسے ہی اس نے کوٹ کی آستینوں میں ہاتھ ڈالے فون کی گھنٹی بج اٹھی۔۔۔۔ جعفری نے جھلا کر کوٹ کو میز پر ڈال دیا اور ریسیور اٹھا کر دہاڑا۔
"ہیلو!"
"آہا!" دوسری طرف سے آواز آئی۔ "تم یقیناً اپنے فون کے میٹر کو صدمہ پہنچاؤ گے!"
"اوہ۔۔۔۔ آپ! گڈ مارننگ سر!" جعفری بوکھلا گیا کیونکہ آواز ایکس ٹو کی تھی!
"مارننگ" دوسری طرف سے آواز آئی!" تمہارے لئے ایک کام ہے!"
"فرمائیے جناب!"
"ماہنامہ کمر لچکدار" کے دفتر میں ایک لڑکی کام کرتی ہے۔۔۔۔ مس زیبا! نصروانجی بلڈنگ کے گیارہویں فلیٹ میں رہتی ہے! اس کے متعلق معلومات فراہم کرنی ہیں۔ وہ کن لوگوں میں اٹھتی بیٹھتی ہے! اس کے متعلق صبح و شام تک کی رپورٹ مجھے ہر روز چاہئے! تمہاری آسانی کے لئے یہ بھی بتا دوں دفتر کے فرائض میں ڈاک وصول کرنا بھی اسی کے ذمہ ہے! اور وہ پوسٹ آفس جا کر براہ راست وہیں سے ڈاک وصول کرتی ہے! پوسٹ بکس نمبر دو سو تیرہ ہے! تمہیں دیکھنا ہے کہ وہ روزانہ کتنے کے منی آرڈر وصول کرتی ہے اور دفتر میں کتنی رقم جمع کراتی ہے!"
"پوسٹ بکس نمبر۔۔۔۔ کس پوسٹ آفس کا ہے!"
"جعفری کبھی کبھی عقل بھی استعمال کر لیا کرو۔"
"میں نہیں سمجھا جناب!" جعفری پھر بوکھلا گیا!
"جب پوسٹ بکس نمبر کے ساتھ آفس کا نام نہ لیا جائے تو وہ نمبر ہر حال میں جنرل پوسٹ آفس ہی کا ہوتا ہے!"
"اوہ۔۔۔۔ جی ہاں۔۔۔۔ جی ہاں! میں سمجھتا ہوں!"
"خیر۔۔۔۔ تو فی الحال تمہیں اتنا ہی کرنا ہے!"
"بہت بہتر جناب!"
سلسلہ منقطع ہو گیا! اور جعفری ریسیور رکھ کر کوٹ پہننے لگا! ساتھ ہی وہ برا سا منہ بنائے ہوئے کچھ بڑبڑاتا بھی جا رہا تھا۔
9
سارجنٹ ناشاد ایک غزل کہہ رہا تھا!۔۔۔۔ سامنے رکھے ہوئے کاغذ پر اس نے بہت سے قوافی لکھ رکھے تھے! ان قافیوں میں ایک ایک مصرعہ کہہ کر ان پر گرہیں لگاتا جا رہا تھا! اچانک ایک مصرعے میں اسے گاڑی رکتی ہوئی سی معلوم ہونے لگی! اس نے اس کی تقطیع شروع کردی!
غم جاناں۔۔۔۔ ابے کھٹ کھٹ۔۔۔۔ لہو بن کر۔۔۔۔ ابے کھٹ کھٹ۔۔۔۔ ہا۔۔۔۔ ٹھیک تو ہے۔۔۔۔ غم جاناں لہو بن کر ٹپک آنکھوں سے کچھ یوں بھی۔۔۔۔ ابے کھٹ کھٹ۔۔۔۔ ابے کھٹ کھٹ۔۔۔۔ ابے کھٹ کھٹ۔۔۔۔ ابے کھٹ کھٹ!"
سارجنٹ ناشاد اسی طرح مصرعوں کی تقطیع کرتا تھا!۔۔۔۔ "قاعلاتن فاعلات" کے بکھیڑے آج تک اس کی سمجھ ہی میں نہیں آتے تھے!۔۔۔۔ ویسے وہ اکثر دوسرے شعرأ کو عروض سے واقف اور بالکل ہی کندہ نا تراش بتایا کرتا تھا!
جب بھی کبھی کسی نشست میں شعروشاعری کی بات چھڑتی سارجنٹ ناشاد عروض لے بیٹھتا!۔۔۔۔ اور اس کے ہم نشین جو اس سے زیادہ نہیں ہوتے تھے اس کی ہاں میں ہاں ملاتے!۔۔۔۔
سارجنٹ ناشاد فوجی آدمی تھا! تعلیم بھی واجبی سی تھی! لیکن اس کے باوجود اسے جگت استاد ہونے کا دعویٰ تھا! اور اس کے ساتھ والے اس کی استادی کے قائل بھی تھے!۔۔۔۔ کیونکہ اکثر اس کے اشعار میروغالب جیسے اساتذہ کے اشعار سے بھی لڑ جاتے تھے!۔۔۔۔ ایسے ہی ایک موقع پر کسی نے اعتراض کر دیا۔۔۔۔ سارجنٹ ناشاد دہڑے بولا "تولد ہوا ہے!" اس پر ایک زور دار قہقہہ پڑا پھر اچانک اسے یاد آیا کہ اسے "تولد" نہیں "توارد" کہتے ہیں! مگر اب کیا ہو سکتا تھا! اس نے یہی مناسب سمجھا کہ اب خود بھی قہقہوں میں شریک ہو جائے! مشاعروں میں بڑے ٹھسے سے جاتا!۔۔۔۔ اس وقت اس کے جسم پر فوجی وردی کی بجائے چوڑی دار پاجامہ ہوتا۔۔۔۔ اور پھولدار ۔۔۔۔۔۔۔کی آچکن!۔۔۔۔ سر پر لکھنوی طرز کی ٹوپی! گلے میں پان دبا کر اس طرح چلتا جیسے پنڈلیاں درد سے پھٹی جاری ہوں!۔۔۔ مگر اس وقت وہ نشے میں ضرور ہوتا تھا!۔
بہر حال یہ تھا ناشاد!۔۔۔۔ اس محکمے میں کیوں تھا؟ اس کا جواب شائد عمران کے علاوہ اور کوئی نہ دے سکتا!
اس وقت ناشاد بہت زور و شور سے غزل کہہ رہا تھا!۔۔۔۔ منتحب شدہ قوافی میں مصرعے ہو چکے تھے! صرف گرہیں لگانی باقی تھیں کہ فون کی گھنٹی بجی اور وہ اس طرح اچھل پڑا جیسے اسے کسی مشاعرے کے ڈائس سے نیچے پھینک دیا گیا ہو۔ وہ جانتا تھا کہ فون یا تو جولیا کا ہو گا یا ایکس ٹو کا! اس نے بڑی احتیاط سے ریسیور اٹھایا!
"ناشاد۔۔۔۔" دوسری طرف سے ایکس ٹو کی آواز آئی۔ "غزل ہو رہی ہے!"
"نہیں جناب!۔۔۔۔ میں پرانے کیسوں کے فائل الٹ رہا تھا! قسم لے لیجئے جو سال بھر سے آدھا مصرعہ بھی ہوا ہو!"
"اچھا تو سنو! تمہیں شاداب نگر جانا ہے! وہاں ماڈل گرلز اسکول میں ایک استانی ہے، ناہید! اس کے متعلق معلومات فراہم کرنی ہیں۔ کس قسم کی معلومات فراہم کرنی ہیں؟"
"وہ یعنی۔۔۔۔ یعنی کہ۔۔۔۔!" سارجنٹ ناشاد ہکلا کر رہ گیا!
"میں اس کی عمر نہیں معلوم کرنا چاہتا!۔۔۔۔ نہ عاشقوں کی تعداد سمجھے!"
"جی ہاں! جی ہاں!" ناشاد بوکھلا کر بولا!
"پھر کیا معلوم کرنا چاہتا ہوں؟"
"جی۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔ یہ!"
"شٹ اَپ! وہ بہت حسین عورت ہے!" ایکس ٹو نے کہا!" تم اس پر نظم کہنے کی کوشش نہیں کرو گے! تمہیں یہ معلوم کرنا ہے کہ وہ کس قسم کے لوگوں سے ملتی جلتی ہے!۔۔۔۔ اور یہ کہ کوئی اس کی نگرانی تو نہیں کر رہا ہے!"
"جی ہاں! میں سمجھ گیا!"
"تم شراب پی کر تفتیش کے لئے نہیں نکلو گے!"
"ارے جناب! لاحول ولاقوۃ۔۔۔۔ میں نے بالکل ترک کر دی ہے! یعنی میرا مطلب ہے کہ ڈیوٹی پر بالکل نہیں پیتا۔ یقین فرمائیے!"
"اس سے عشق کرنے کی کوشش نہیں کرو گے!"
"بہت بہتر جناب!۔۔۔۔"
10
کیپٹن خاور ایکس ٹو کے حکم سے اس لڑکی کے باپ کے متعلق چھان بین کر رہا تھا جس کی لاش سڑک پر پائی گئی تھی۔۔۔۔ اس نے اپنی رپورٹ مکمل کر کے ایکس ٹو کے مخصوص نمبر ڈائیل کئے جو ٹیلیفون ڈائریکٹری میں نہیں تھے۔
"جی ہاں!۔۔۔۔" اس نے ماؤتھ پیس میں کہا " اب وہ بھی یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ وہ اس کی لڑکی ہی کی لاش تھی! وہ مسٹر ہار پر کا منیجر ہے!۔۔۔۔ ہارپر کو تو آپ جانتے ہی ہوں گے!۔۔۔۔ بے انداز دولت کا مالک ہے۔"
"ہاں میں ہارپر کو جانتا ہوں! تم نے مقتولہ کے متعلق اور کیا معلوم کیا!"
"وہ ایک خوش مزاج اور باسلیقہ لڑکی تھی! دائرہ احباب زیادہ وسیع نہیں تھا! جس لڑکے سے شادی کرنا چاہتی تھی۔ وہ اس کے والدین کو پسند نہیں تھا!"
"بس تم نے یہی ایک کام کی بات معلوم کی ہے!۔۔۔۔ اچھا پھر اس لڑکے کا کیا بنا!"
"او ہو!۔۔ اس کے متعلق باتیں بھی کچھ نہیں کر سکا!" کیپٹن خاور نے کہا!
"ہاں تمہیں سب سے زیادہ فکر اس بات کی تھی کہ لڑکی کی خوشی مزاجی اور خوش سلیقگی کے متعلق پہلے معلوم کرو!۔۔۔۔ کیپٹن خاور!"
"عالی جناب!۔۔۔۔"
"آج کل تم لوگوں نے اپنی عقلوں کو چھٹی دے رکھی ہے!۔۔۔۔" ایکس ٹو نے ناخوشگوار لہجے میں کہا "اچھا مجھے اس لڑکے کا نام اور پتہ بتاؤ!"
"عادل پرویز۔۔۔۔! سردار منزل۔۔۔۔ فلیٹ نمبر سات!"
"اچھا بس! تمہارا کام ختم!" ایکس ٹو نے کہا اور سلسلہ منقطع ہو گیا۔
11
جولیا نافٹز واٹر اس ملاقات کو اتفاقیہ سمجھتی اگر ایکس ٹو سے اس موضوع پر پہلے ہی گفتگو نہ کر چکی ہوتی!۔۔۔ وہی آدمی جس نے لڑکیوں کے جزیرے میں اسے غنڈوں سے بچایا تھا ایک جنرل سٹور میں مل گیا! جولیا کوسمیٹکس خرید رہی تھی! یک بیک اس کے نظر کاؤنٹر پر داہنی طرف پڑی۔ اور اسے وہی آدمی نظر آیا! وہ مختلف قسم کے پائپ دیکھ رہا تھا اور اس میں اتنا منہمک تھا کہ شاید اسے وہاں جولیا کی موجودگی کی خبر ہی نہیں تھی۔۔۔۔ پہلے تو جولیا نے سوچا کہ چپ چاپ نکل ہی جائے! لیکن پھر۔۔۔۔ ایکس ٹو کی ہدایت کا خیال آگیا! وہ سوچنے لگی ممکن ہے ایکس ٹو بھی یہیں کہیں موجود ہو۔
دفعتاً ایک بار دونوں کی نظریں ملیں۔۔۔۔ لیکن اس آدمی کے چہرے پر بدستور وہی اجنبیت سی پائی جاتی رہی!۔۔۔۔ وہ پھر پائیپوں کی طرف متوجہ ہو گیا!۔۔۔۔ ایسا معلوم ہوا جیسے وہ جولیا کو پہچانتا ہی نہ ہو جولیا نے کاسمیٹکس خریدیں اور انکا پیکٹ سنبھالتی ہوئی باہر نکل آئی۔ وہ شاید ابھی تک کوئی پائپ منتخب نہیں کر سکا تھا!
جولیا غیر ارادی طور پر باہر رک گئی! اس کے بازوؤں میں سنبھلا ہو پیکٹ زیادہ وزنی نہیں تھا! اس لئے اسے وہاں ٹھہرنا گراں بھی نہیں گزرا۔۔۔۔
تھوڑی دیر بعد وہ بھی باہر آیا۔۔۔۔ فٹ پاتھ ہی پر رک کر چاروں طرف اس انداز میں دیکھنے لگا جیسے اسے کسی کی تلاش ہو!۔۔۔۔ جولیا آہستہ آہستہ اس کی طرف بڑھی!۔۔۔۔ اس نے ایک بار پھر جولیا کی طرف دیکھا اور اس انداز میں دوسری طرف دیکھنے لگا" جیسے بعض اجنبی راہ گیر ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں!
"کیا آپ نے مجھے نہیں پہچانا!۔۔۔۔" جولیا نے اس کے قریب پہنچ کر کہا۔
وہ چونک پڑا اور ندامت آمیز مسکراہٹ کے ساتھ بولا "معاف کیجئے گا یہ میری بدقسمتی ہے!۔۔۔۔ ویسے میں یاد کرنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ میں نے آپ کو کہاں دیکھا تھا!"
"تعجب ہے آپ اتنی جلدی بھول گئے! ابھی چار ہی دن پہلے کی بات ہے! ہم دونوں جزیرے والی نمائش میں ملے تھے! اور آپ نے مجھے ان غنڈوں سے بچایا تھا!"
"اوہ۔۔۔۔ اہا!۔۔۔۔ اف فوو!۔۔۔۔ میں بھی کتنا بھلکڑ ہوں!۔۔۔۔ مجھے یاد آگیا کہیے آپ اچھی تو ہیں نا۔"
ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ جلد سے جلد جولیا سے پیچھا چھڑانا چاہتا ہو۔ لیکن کسی مجبوری نے پیر پکڑ رکھے ہوں۔۔۔۔ وہ بار بار سر اونچا کر کے ادھر ادھر دیکھنے لگتا تھا۔
"کیا آپ کو جلدی ہے!" جولیا نے پوچھا!
"آہاں!۔۔۔۔ جی ہاں!۔۔۔۔ مگر کوئی ٹیکسی نہیں نظر آرہی! میری کار تین دن سے ایک گیراج میں پڑی ہوئی ہے۔"
"اوہو! تو چلئے! میری گاڑی موجود ہے! اس میں پریشانی کی کیا بات ہے!"
"نہیں آپ کو تکلیف ہو گی!"
"ہائیں! اس میں تکلیف کی کیا بات ہے! مجھے تو خوشی ہو گی!"
وہ اسے اپنی کار کے قریب لے گئی اور وہ پچھلی نشست کا دروازہ کھول کر اندر بیٹھ گیا۔
"وہیں بیٹھیں گے آپ" جولیا نے پوچھا۔
"جی ہاں ٹھیک ہے۔"
جولیا نے کار اسٹارٹ کرتے ہوئے پوچھا! "کہاں چلئے گا۔"
"گیرال اسکوئر میں رہتا ہوں۔۔۔۔ ریکسٹن اسٹریٹ!۔۔۔۔ دیکھئے آپ کو تکلیف ہو رہی ہے!"
جولیا نے ہلکا سا قہقہہ لگایا۔۔۔۔۔ اور کار چل پڑی!۔۔۔۔ ریکسٹن اسٹریٹ تک خاموشی ہی رہی۔۔۔۔ نہ جولیا کچھ بولی اور نہ اس پراسرار آدمی ہی نے کچھ کہا!
گیرال اسکوئر کے سامنے کار روک کر جولیا بھی نیچے اتر آئی۔۔۔۔ لیکن اس کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب اس نے یہ دیکھا کہ وہ آدمی پچھلی سیٹ پر نہیں ہے! جولیا راستے بھر خیالات میں کھوئی رہی تھی!۔۔۔۔ اس نے ایک بار بھی پیچھے مڑ کر دیکھنے کی زحمت نہیں گوارا کی تھی!۔۔۔۔
ویسے یہ تو لازمی بات تھی کہ روانگی کی جگہ سے یہاں تک اس نے ٹریفک کانسٹیبل کے اشارے پر کئی چوراہوں کے قریب گاڑی روکی ہو گی۔ وہ پچھلی سیٹ کی طرف گئی! مگر سیٹ خالی نہیں تھی! اس پر کپڑے کی ایک گٹھری سی نظر آرہی تھی! مگر اس نے یہ گٹھری اس پر اسرار آدمی کے پاس نہیں دیکھی تھی!
وہ اسے کھولنے کے لئے جھک پڑی! لیکن دوسرے ہی لمحے میں اسے ایسا محسوس ہونے لگا جیسے وہ کسی ہیلی کوپٹر میں بیٹھی ہوئی ہو! اور وہ ہیلی کاپٹر بڑی تیزی سے زمین کی طرف جا رہا ہو!۔۔۔۔ اس کی آنکھوں تلے اندھیرا آگیا! پیشانی پر پسینہ پھوٹ آیا۔
گٹھری میں ایک نوزائیدہ بچے کی لاش تھی! وہ اسے بدحواسی میں جلدی سے ڈھانک کر اگلی سیٹ کی طرف بڑھی!۔۔۔۔ اور دروازہ کھول کر اسٹیرنگ کے سامنے ڈھیر ہو گئی! وہ جلدی سے وہاں سے نکل جانا چاہتی تھی!۔۔۔۔ پر حال میں!۔۔۔۔ لیکن ابھی وہ کار اسٹارٹ بھی نہیں کر پائی تھی کہ ایک آدمی دروازہ کھول کر اس کے برابر آبیٹھا! یہ صورت ہی سے کوئی لفنگا معلوم ہوتا تھا!۔۔۔۔۔ ہر لحاظ سے وہ کوئی برا آدمی تھا۔ جولیا کانپ کر رہ گئی! اس نے پر سکون لہجے میں کہا "گھبراؤ۔۔۔۔ نہیں سب ٹھیک ہو جائے گا!" اس نے جملہ انگریزی میں ادا کیا تھا! مگر لہجہ پڑھے لکھے آدمیوں کا سا تھا! اس نے پھر کہا۔ "گاڑی چلاؤ اور اسے دریا کی طرف لے چلو!۔۔۔۔ بقیہ باتیں راستے میں ہوں گی!"
جولیا نے بادل ناخواستہ کار اسٹارٹ کی۔۔۔۔ لیکن اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے!۔۔۔۔ کار چل پڑی اور اس آدمی نے کہا۔ "محترمہ ایسے کام رات کی تاریکی میں انجام دیئے جاتے ہیں! وہ تو کہیے! میری نظر پڑ گئی! ورنہ آپ بڑی مشکل میں پڑ جاتیں۔۔۔۔ اب میں بہت تھوڑے معاوضے پر آپ کا یہ کام کرا دوں گا!۔۔۔۔ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو گی! مگر یہ کیا حماقت تھی! آپ بیچ سڑک پر کار روک کر گٹھری کھولنے لگیں!" جولیا کچھ نہ بولی۔ اس کا سر بری طرح چکرا رہا تھا۔
"یہ شاید!" اس آدمی نے کہا" آپ کی کسی سہیلی کا بچہ ہے! یا آپ کی بہن کا! آپ کا تو نہیں ہو سکتا! مجھے یقین ہے!"
"میں کچھ نہیں جانتی!" جولیا نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا "کسی نے مجھے پھنسانے کی کوشش کی ہے!"
"ارے اب مجھے سے کیا پردہ۔ میں تو آپ کی مدد کرنے جا رہا ہوں۔ اس طرح اسے ٹھکانے لگاؤں گا کہ کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہو گی!۔۔۔۔ آپ صرف سو روپے مجھے دیجئے گا!۔۔۔۔ غریب آدمی ہوں! زیادہ تکلیف نہیں دیتا! ویسے اگر آپ کسی بڑے دادا کے چکر میں پڑ گئی ہوتیں تو وہ ایک ہزار سے کم نہ لیتا!" جولیا کچھ ایسی بدحواس تھی کہ سب کچھ بھول گئی تھی اسے صرف بچے کی لاش یاد تھی اور یہ آدمی جو بیک اس طرح مسلط ہو گیا تھا۔۔۔۔
اس نے پھر کہا! "ایسے کاموں کے لئے مجھے ہمیشہ یاد رکھئے!۔۔۔۔ میں آپ کو اپنا پتہ دوں گا!
اوہ!۔۔۔۔ ذرا ٹھہریئے!۔۔۔۔ وہ اگلی گلی ہے نا!۔۔۔۔ اس کے سامنے کار روک لیجئے گا! وہاں چائے خانے میں میرا ایک دوست ہے! اسے بھی ساتھ لے لوں وہ مجھ سے زیادہ چالاک ہے!"
جولیا نے سوچا موقع بہت اچھا ہے!۔۔۔۔ یہ اپنے ساتھی کو بلانے کے لئے جائے گا اور میں چپ چاپ کھسک لوں گی۔ مگر وہ جولیا سے بھی زیادہ ہوشیار تھا!
جولیا نے گلی کے پاس کار روک دی! اسے توقعی تھی کہ وہ اتر کر جائے گا لیکن اس نے کار ہی میں بیٹھے بیٹھے پان والے کو آواز دی!۔۔۔۔ وہ اس کی طرف متوجہ ہوا تو اس نے پکار کر کہا "ذرا شارٹی کو بھیج دے!"
پان والے نے جولیا کو اس طرح گھور کر دیکھا جیسے وہ کوئی عجوبہ ہو! پھر وہ خود ہی اپنی دوکان سے کود کر چائے خانے میں جا گھسا!۔۔۔۔ دو یا تین منٹ بعد ایک آدمی ہوٹل سے نکلا اور سیدھا کار کی طرف آتا دکھائی دیا۔۔۔۔ وضع قطع سے کوئی دیسی عیسائی معلوم ہوتا تھا۔
"شارٹی! پیچھے بیٹھ جاؤ!" جولیا کے قریب بیٹھے ہوئے آدمی نے کہا"
"یہ خاتون مصیبت میں ہیں! میں ان کی مدد کرنا چاہتا ہوں!"
"بڑی اچھی بات ہے!" شارٹی نے پچھلا دروازہ کھول کر اندر بیٹھتے ہوئے کہا! کار پھر چل پڑی آگے بیٹھے ہوئے آدمی نے کہا "دریا کی طرف محترمہ!" پھر وہ شارٹی کو بتانے لگا کہ کس طرح اسے ایک بچے کی لاش دکھائی دی۔ جب وہ ریکسٹن اسٹریٹ میں کسی کا انتظار کر رہا تھا۔ اور اب اسے ہر حال میں ان خاتون کی مدد کرنی ہے۔
"تم بالکل گدھے ہو!" شارٹی بولا "خواہ مخواہ دوسروں کے پھٹے میں پاؤں ڈالتے ہو!۔۔۔۔
آپ ہی سمجھ بوجھ لیتیں ان سے پوچھو دے بھی سکیں گی سو روپے! کام تو بڑا خطرناک ہے!"
اتنی دیر میں جولیا کو سچ مچ یہ محسوس ہونے لگا تھا جیسے وہ مجرم ہی ہو! نوزائدہ بچے کی لاش اسی کی ذات سے تعلق رکھتی ہو!
"میں دوں گی۔۔۔۔ سو روپے؟" اس نے گٹھی گٹھی سی آواز میں کہا! "لیکن یہاں اس وقت میرے پاس موجود نہیں ہیں۔"
"دیکھا بیٹا!" شارٹی نے قہقہہ لگایا! "میں نہ کہتا تھا! کیوں اپنا وقت برباد کر رہے ہو!"
"آپ کے پاس سو روپے نہیں ہیں!" آگے بیٹھے ہوئے آدمی نے غصیلی آواز میں پوچھا!
"نہیں! یہاں نہیں ہیں! لیکن واپسی میں آپ میرے گھر چل سکتے ہیں!"
"میں گھر ور نہیں جانتا!" وہ ہتھے سے اکھڑ گیا! "یا تو آپ یہیں سو روپے ادا کیجئے۔ یا پھر میں آپ کو سیدھا پولیس اسٹیشن لے جاؤں گا۔"
پولیس اسٹیشن کے نام ہی سے جولیا بوکھلا گئی! وہ وہاں اپنی اصلی حیثیث بھی نہیں ظاہر کر سکتی تھی۔ اصلی حیثیث ظاہر کرنے کا تو یہ مطلب تھا کہ وہ محکمے ہی سے الگ کر دی جاتی! اور محکمے سے الگ ہو جانے کے بعد زندگی جیسی گذرتی ظاہر تھی! محکمہ اتنی معقول تنخواہ دیتا تھا کہ وہ ایک کار بھی رکھ سکتی تھی! ریئسوں کی طرح زندگی بسر کر سکتی تھی! اس کے خیال سے وہ کانپ گئی!۔۔۔۔ ویسے اسے اطمینان تھا کہ ایکس ٹو کو ان حالات کی خبر ضرور ہو گی! اور وہ اس کی طرف سے غافل نہ ہو گا!۔۔۔۔ مگر اس وقت وہ کیا کرتی! پولیس اسٹیشن تک معاملات کا پہنچ جانا ایکس ٹو کے لئے بھی ناقابل برداشت ہو گا۔
"دیکھئے آپ اتنی مہربانی کیوں نہیں کرتے۔" جولیا منمنائی۔۔۔۔!
"ہم جیسے لوگ اگر مہربانی کرنے لگیں تو خود بھوکوں مر جائیں۔ ہم سے تو کسی کو ہمدردی بھی نہ ہو!"
"پھر آپ جو کچھ بھی کہیے میں کرنے کو تیار ہوں!"
"پولیس اسٹیشن!" وہ غرایا!
"یہ نہیں ہو سکتا! اس کے علاوہ۔۔۔۔!"
"ٹھہریئے! میں بتاتا ہوں!" شارٹی نے پچھلی سیٹ سے کہا! "آپ ہمیں ایک تحریر دے دیجئے گا!"
"نہیں!" اگے بیٹھے ہوئے آدمی نے غصیلی آواز میں "تحریر کیا ہو گی! نہیں روپے!"
"تم پھر گدھے پن کی باتیں کررہے ہو!۔۔۔۔ ایک شریف خاتون ہیں ان کا اعتبار کرو! بس ایک تحریر کافی ہو گی جب یہ ہمیں رقم ادا کر دیں گے ہم تحریر واپس کر دیں گے!"
"تحریر کیا ہو گی!" جولیا نے پوچھا!
"یہی کہ میں ایک نوزائیدہ بچے کی لاش چھپا کر پھینکنے کے لئے جا رہی ہوں! بچے کی بائیں ران پر ایک سیاہ داغ ہے۔ یہ میری سہیلی اومادیوی کا ناجائز بچہ تھا! میں نے اس کا گلاگھونٹ کر مار ڈالا۔ میں اومادیوی کو بدنامی سے بچانا چاہتی ہوں! میں یہ سب کچھ باہوش و حواس لکھ رہی ہوں!"
"اس تحریر سے کیا ہو گا!" جولیا نے پوچھا!
"اگر آپ روپے ادا کر دیں گی تو یہ تحریر آپ کو واپس کر دی جائے گی! ورنہ دوسری صورت میں اس کا پولیس اسٹیشن جا پہنچنا لازمی ہو گا! لاش ہم اپنے ساتھ لے جائیں گے!"
جولیا تھوڑی دیر تک کچھ سوچتی رہی پھر بولی!" مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے!"
"بس تو پھر ٹھیک ہے!" گاڑی روکیئے! میں آپ کو کاغذ اور قلم دیتا ہوں! یہ رہی میری ڈائری بس اسی پر لکھ دیجئے! پھر ہم آپ کو آگے جانے کی بھی زحمت نہ دیں گے!"
جولیا نے سڑک کے کنارے کار روک دی! اب اس کے چہرے پر سراسیمگی کے آثار نہیں تھے! اس نے کہا "لیکن اس کی کیا ضمانت ہے کہ تحریر دے دینے کے بعد بھی آپ مجھے دھوکا نہ دیں گے! یعنی ہو سکتا ہے کہ آپ اس کے بعد بھی لاش میری کار ہی میں چھوڑ جائیں!"
"نہیں! ہم بد عہدی نہیں کریں گے!"۔۔۔۔ شارٹی نے اسے اطمینان دلایا!
تھوڑی دیر بعد جولیا اس کی ڈائری پر اس کے قلم سے لکھ رہی تھی۔ وہ جو کچھ بھی بولا جولیا لکھتی چلی گئی! آخر میں اس نے اپنا صحیح نام اور پتہ بھی لکھ دیا وہ مطمئن تھی اسے یقین تھا کہ وہ جو کچھ بھی کر رہی ہے ایکس ٹو کی پسند کے مطابق ہو گا! ہو سکتا ہے! وہ اسے چارہ بنا کر شکار کھیل رہا ہو۔ ایسی صورت میں اسے وہی کرنا چاہئے جو یہ لوگ کہہ رہے ہیں!۔۔۔۔
"اب اس کی کیا ضمانت ہے کہ یہ نام اور پتہ درست ہی ہو گا!" شارٹی نے ڈائری واپس لیتے ہوئے کہا!
"اگر آپ میرا ڈرائیونگ لائسنس دیکھنا چاہیں تو پیش کر دوں! اس پر بھی یہی پتہ تحریر ہے"
"اوہ۔۔۔۔ ہاں! یہ ٹھیک ہے!۔۔۔۔۔ ذرا دکھائیے!"
جولیا نے اسے اپنا ڈرائیونگ لائسنس دکھایا! اور وہ مطمئن ہو گیا!
"مگر" جولیا نے کہا "آپ ان روپیوں کی ادائیگی کس طرح چاہتے ہیں!"
"جب آپ کہیں!۔۔۔۔ ہم وصول کر لیں گے!"
"آپ میں سے ایک آدمی اس وقت بھی میرے ساتھ چل سکتا ہے! لیکن دوسرے کو لاش اٹھا کر یہیں اترنا پڑے گا!"
"ارے بس ختم کیجئے!" شارٹی نے ہنس کر کہا!" ہمیں آپ پر اعتماد ہے۔ ہم کسی دن بھی آپ کے گھر پر آ جائیں گے!"
"جب دل چاہے۔" جولیا بولی!
وہ دونوں اتر گئے! شارٹی گٹھری اٹھائے ہوئے تھا! یہ لوگ دریا سے زیادہ فاصلے پر نہیں تھے!
لہذا یہ سڑک بھی قریب قریب ویران ہی تھی! جولیا نے بڑی جلدی میں کار گھمائی اور شہر کی طرف بھاگ نکلی۔
12
عمران کافی دیر سے زیبا کو ہنسا رہا تھا اور وہ اس طرح گھل مل گئی جیسے دونوں برسوں پرانے ساتھی ہوں! وہ اب ساڑھی میں رہنے لگی تھی! اور آج خود ہی عمران کو سڑک کے ایک فٹ پاتھ پر ٹوکا تھا! ورنہ عمران تو منہ چرا کر نکلا جا رہا تھا!۔۔۔۔ عمران نے اسے کہا بھی کہ وہ اسے نہیں پہچانتا۔۔۔۔ دونوں زندگی میں پہلی بار مل رہے ہیں لیکن زیبا سر ہو گئی اور کہنے لگی جو کچھ بھی ہو!
وہ اس کی دوستی کی خوہشمند ہے اور اب زندگی بھر پتلون نہیں پہنے گی! پھر وہ دونوں ایک چھوٹے سے کیفے میں جا بیٹھے! ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے زیبا اسے چھوڑنا ہی نہ چاہتی ہو!
عمران نے کئی بار اٹھنے کا ارادہ کیا۔ لیکن زیبا نے ہاتھ پکڑ کر بٹھا لیا۔
"اچھا زیبا صاحبہ! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں! حالانکہ اس سے مجھے کوئی غرض نہیں ہے!"
"ضرور پوچھئے! میں آپ سے کچھ نہیں چھپاؤں گی! اپنے متعلق سب کچھ بتاؤں گی!"
"پوسٹ بکس نمبر دو سو تیرہ کے متعلق بھی بتا دیجئے گا!" عمران نے بڑے بھولے پن سے پوچھا! اور زیبا کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔ لیکن اس نے جلدی ہی خود کو سنبھال لیا!
"اس کے متعلق!" اس نے ایک طویل سانس لے کر کہا "آخر آپ اس میں اتنی دلچسپی کیوں لے رہے ہیں!"
"بس یونہی مجھے الجھاؤوں سلجھانے میں لطف آتا ہے۔۔۔۔ تمہارے متعلق چھان بین کرتے وقت یہ چیز سامنے آئی تھی اور میں اب بھی الجھن میں ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ تم نے پچھلے چار دنوں میں کتنی رقم وصول کی ہے اور کتنی ماہنامے کے دفتر میں جمع کی ہے!"
"یہ مجھ سے نہ پوچھئے!" زیبا نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔
"خیر نہ بتاؤ!۔۔۔۔ لیکن میں جانتا ہوں کہ تمہیں ایک دن میری مدد کی ضرورت محسوس ہو گی!"
"آپ میری کیا مدد کریں گے!"
"میں!۔۔۔۔ میں تمہیں اس طرح نہیں مرنے دوں گا جس طرح دوسری لڑکیاں مر جاتی ہیں! میں تمہارے چہرے پر کسی وزنی گاڑی کا پہیہ نہیں چلنے دوں گا! اگر تمہیں ایسے ہی انجام کا خوف نہ ہوتا تو تم نے میرے متعلق ان لوگوں کو بہت کچھ بتا دیا ہوتا!۔۔۔۔ تم جانتی ہو کہ وہ تمہیں ایسی صورت میں زندہ رکھنا پسند نہیں کریں گے! جب تمہاری اصلیت کسی دوسرے پر ظاہر ہو جائے!۔۔۔۔ ماہنامے کا ایڈیٹر تم پر اعتماد کرتا ہے لیکن تمہاری اصلیت سے واقف نہیں ہے!۔۔۔۔ اور تم اسے دھوگا بھی نہیں دیتیں اس کی رقومات ان کے حساب میں جمع ہو جاتی ہیں!۔۔۔۔ مگر بڑے منی آرڈروں اور بیموں کا اسے بھی علم نہیں ہے!"
"آپ بہت کچھ جانتے ہیں! سچ بتائیے آپ کون ہیں!" زیبا نے اس کے ہاتھ ہر ہاتھ رکھ کر کپکپاتی ہوئی آواز میں کہا۔
"میں ایک بے ضرر شہری ہوں! بس اور کچھ نہیں!۔۔۔۔ مجھے تفریحات کے لئے بہت وقت ملتا ہے! اور میری تفریح یہی ہے کہ میں بے تکی حرکتیں کرتا پھروں! مثلاً یہی کہ تمہیں پتلون کا استعمال چھوڑ دینے پر مجبور کر دیا!"
"آپ میرے دوست ہیں!"
"یقیناً!" عمران سر ہلا کر بولا!
"تو پھر اب آپ اس گفتگو کو یہیں ختم کر دیجئے! ورنہ سچ مچ میری زندگی خطرے میں پڑ جائے گی!"
"ختم کر دیا! اچھا اب اپنے متعلق مجھے کچھ بتاؤ!۔۔۔۔ ہم دوست ہی کیسے جب ایک دوسرے کے متعلق کچھ نہ جانیں!"
"میرے متعلق بھی آپ بہت کچھ جانتے ہوں گے!"
"کچھ نہیں جانتا! سوائے اس کے کہ تمہارا نام زیبا ہے!۔۔۔۔ لیکن زیبا خود تمہارا ہی منتخب کردہ نام ہے! ورنہ تمہارا نام زہرہ جمال ہے مگر تمہیں مرد بننے کا خبط ہے!۔۔۔۔ ایک زمانے میں تم زہرہ جمال کی بجائے مریخ جلال ہوگئی تھیں! اور اسی وقت تم پتلون پہنتی آرہی تھیں!۔۔۔۔ پھر تم نے اپنا نام زیبا رکھ لیا۔۔۔۔ کیونکہ مریخ جلال مضحکہ خیز معلوم ہوتا تھا!۔۔۔۔ اس کے علاوہ اور میں کچھ نہیں جانتا! مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ تم اس گروہ میں کیسے آ پھنسیں تھیں!"
"گروہ۔۔۔! میرے خدا!۔۔۔۔ آپ سب کچھ جانتے ہیں! اور اگر آپ یہ سب کچھ جانتے ہیں تو یقین کیجئے کہ آپ! ایک بہت خطرے سے دو چار ہیں! وہ لوگ آپ کو زندہ نہ چھوڑیں گے!"
"میں سمجھتا ہوں! میں جانتا ہوں کہ وہ انتہائی خطرناک لوگ ہیں! مگر اب میں اس گروہ کا قلع قمع کرنے کا تہیہ کر چکا ہوں! اسے توڑ دوں گا! تم دیکھتی رہو!"
"مجھے یقین نہیں ہے! کیا آپ کی پشت پر پولیس ہے!"
"نہیں میں بالکل تنہا ہوں! ہر وقت تنہا رہتا ہوں! حتیٰ کہ میری جیب میں ایک قلمتراش چاقو بھی تمہیں نہ ملے گا! اس کے باوجود بھی مجھے یقین ہے کہ میں اس گروہ کو توڑ دوں گا! کیا کبھی تمہارا ضمیر ملامت نہیں کرتا!"
"کبھی نہیں!" زیبا نے غصیلے لہجے میں کہا!" میرے دل میں انسانیت کے لئے ذرہ برابر بھی ہمدردی نہیں ہے! میں تباہی اور برباد دیکھنا چاہتی ہوں نوع انسانی کی تباہی اور بربادی خواہ وہ ایٹم بمبوں کے ذریعے ہو! خواہ ان ایٹموں کے ذریعہ جو خود انسان کے جسم و ذہن میں پائے جاتے ہیں! میں جو کچھ بھی کر رہی ہوں اس سے شرمندہ نہیں ہوں۔ مجھے آدمیوں ہی نے تباہ کیا ہے! مجھے میرے باپ نے تباہ کیا ہے! سوتیلی ماں نے تباہ کیا ہے۔ وہ دونوں مجھ پر بے پناہ مظالم کرتے تھے! میں بچی تھی! جوان تھی! اس وقت میرا باپ مجھے بیتوں سے پیٹا کرتا تھا! سوتیلی ماں جو عمرمیں مجھ سے تھوڑی ہی بڑی تھی۔ مجھے بھوکا رکھتی تھی!۔۔۔۔ خواہ مخواہ مجھے آوارگی اور بد چلنی کے الزام دیتی تھی! حالانکہ میں مقدس فرشتوں کی قسم کھا سکتی ہوں کہ اس وقت میں پاکدامن تھی! مجھے نفرت ہو گئی! عورتوں سے نفرت ہو گئی۔ مردوں سے نفرت ہو گئی!۔۔۔۔ حتیٰ کہ ماں بننے سے بھی نفرت ہو گئی جو ہر عورت کی سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے! اب میں بہت خوش ہوں!۔۔۔۔ لڑکیاں خود کو بیچتی ہیں! میں ان سے رقمیں وصول کر کے انہیں پہنچاتی ہوں جو ان لڑکیوں کو عصمت فروشی پر مجبور کرتے ہیں! وہ لڑکیاں خود تباہ ہوئی ہیں اور اب معاشرے کو تباہ کر رہی ہیں۔ میرے باپ کا کلیجہ ٹھنڈا ہو رہا ہے اور میری سوتیلی ماں ایسی لڑکیاں جن رہی ہے جو اس کا کلیجہ ٹھنڈا کریں گی۔۔۔۔ اس سیلاب کو کون روک سکے گا!۔۔۔۔ کوئی نہیں! کوئی بھی نہیں!"
"نہیں تم اتنی بری نہیں ہو! جتنی خود کو سمجھتی ہو!" عمران نے سر ہلا کر سنجیدگی سے کہا!
"تمہارا ضمیر زندہ ہے! تم اسے برا سمجھتی ہو۔ اسے تباہی سمجھتی ہو! مگر تم خود ایک آگ میں سلگ رہی ہو اس لئے تمہیں اس عظیم جہنم کی آنچ محسوس نہیں ہوتی ویسے تم اسے جہنم ہی سمجھتی ہو! جنت نہیں! وہ لوگ جو اس کے ذمہ دار ہیں ان کے ضمیر البتہ مردہ ہو چکے ہیں کیونکہ یہ ان کا بزنس ہے!۔۔۔۔ ظاہر ہے کہ اس کام سے تمہیں مالی منفعت نہ ہوتی ہو گی!"
"نہیں میں اپنا پیٹ پالنے کے لئے ماہنامے کے دفتر میں کام کرتی ہوں! انہوں نے مجھ سے بھی پیشہ کرانا چاہا تھا مگر میں نے صاف کہہ دیا کہ میں مرد ہوں! پھر وہ کافی عرصہ تک مجھے نئی لڑکیوں کو پھانسنے کا کام سونپتے رہے! پھر اس کام پر لگا دیا! اچھا بس میں اب اور کچھ نہیں بتاؤں گی!"
"میں خود ہی نہ پوچھوں گا!۔۔۔۔ کیونکہ اس سے زیادہ تم جانتی ہی نہ ہوگی۔ کیا تم اس آدمی سے واقف ہو جو اس گروہ کا سر غنہ ہے!"
"نہیں میں نہیں جانتی!"
"پھر تم سے کچھ پوچھنا فضول ہی ہے! میں یہ بھی نہیں پوچھوں گا کہ تم وہ رقمیں کسے بھیجتی ہو!"
"میں اگر بتادوں تو تمہیں کوئی فائدہ نہ ہوگا!"
"ختم کرو۔۔۔۔ میں جانتا ہوں کہ تم ساری رقم کو بڑے نوٹوں میں تبدیل کر کے ایک پیکٹ بناتی ہو اور سڑک کے کنارے لگے ہوئے ایک لیٹر بکس میں ڈال دیتی ہو پیکٹ سادہ ہوتا اور اس پر کسی کا نام یا پتہ تحریر نہیں ہوتا!"
"کیا آپ کوئی سرکاری سراغرساں ہیں!" زیبانے اسے گھور کر پوچھا!
"نہیں میں ایک بیضرر شہری ہوں! تم اس کی فکر نہ کرو! اگر تمہارا دل چاہے تو اپنے گروہ والوں سے بھی میرا تذکرہ کر سکتی ہو۔ حالانکہ ان میں سے کسی کو بھی تم نہ جانتی ہوگی! میرے علم میں یہی ہے میں ان لوگوں کے طریق کار سے بھی واقف ہوں! تم اگر چاہو تو اس پیکٹ میں ایک خط رکھ سکتی ہو! سرغنہ کو میرے وجود کا علم ہو جائے گا!"
"میں ایسا نہیں کروں گی!"
"جان کے خوف سے!" عمران نے پوچھا!
"نہیں مجھے اپنی زندگی کی پروا نہیں ہے!۔۔۔۔"
"پھر کیا بات ہے!"
"کچھ بھی نہیں! میں صرف اپنا کام انجام دینا جانتی ہوں! اور بس! میرے گرد و پیش کیا ہو رہا ہے اس سے مجھے کوئی سروکار نہیں!"
"خیر۔۔۔۔!" عمران نے ایک طویل انگڑائی لی! اس شہر میں ایک دن خون کے دریا ضرور بہیں گے! اس کی تمام تر ذمہ داری مجھ پر ہی ہوگی!"
"ہاں تم مجھے ایسے ہی معلوم ہوتے ہو!" زیبا نے کہا اور خاموش ہو کر کچھ سوچنے لگی!
13
فون کا ریسیور بڑی دیر سے جولیا نافٹزواٹر کے ہاتھ میں تھا! اور وہ ایکس ٹو کو اپنی بپتا سنا رہی تھی۔ جب وہ خاموش ہوئی تو دوسری طرف سے آواز آئی۔
"تم بالکل پروا نہ کرو! سب کچھ میری نظر میں ہے!۔۔۔۔ میں اس وقت بھی تم سے زیادہ دور نہیں تھا ! جب تم شارٹی کی ڈائری پر لکھ رہی تھیں!۔۔۔۔ اگر تم اسے وہ تحریر نہ دیتیں تو مجھے بڑا صدمہ ہوتا!۔۔۔۔ تم واقعی ذہین ہو!"
"مگر اس کا انجام!"
"انجام!۔۔۔۔ تم مطمئن رہو! ان میں سے کوئی بھی تم سے سو روپے وصول کرنے نہیں آئے گا! اب سارا کام خط و کتابت کے ذریعہ ہو گا۔۔۔۔ تم چونکہ غیر ملکی ہو! اس لئے اونچے طبقے میں بہت جلد مقبولیت حاصل کر سکتی ہو۔ لٰہذا خیال ہے کہ تم سے کم از کم ایک ہزار روپے ہفتہ وار کا مطالبہ کیا جائے گا!"
"لعنت ہے! میں ایک آدھ کو شوٹ کر دوں گی!" جولیا جھنجھلا گئی۔
"اس طرح تم سارا کھیل بگاڑ دو گی! میں کہتا ہوں نا کہ کوئی تمہارا بال بھی بیکا نہ کر سکے گا۔"
"اب میرے لئے کیا کام ہے!"
"اب تمہارے لئے ایک بہت ہی اہم کام ہے تمہارے علاوہ اور کوئی اسے انجام نہیں دے سکتا!۔۔۔۔ سردار منزل کے فلیٹ نمبر سات میں ایک لڑکا عادل پرویز رہتا ہے! اس سے دوستی کرو۔ وہ اس مقتولہ کا دوست تھا جس کی لاش کچھ دن ہوئے ملی تھی!۔۔۔۔ تم نہایت آسانی سے اس لڑکی رابعہ کی سہیلی بن سکتی ہو! بلکہ تم اس سے یہ بھی کہہ سکتی ہو کہ تم رابعہ کی رازدار تھیں! یعنی ان دونوں کے رومان کا تمہیں علم تھا!۔۔۔۔ وہ کہہ سکتا ہے کہ رابعہ نے کبھی تمہارا تذکرہ نہیں کیا!۔۔۔۔ اس کے جواب میں زیادہ باتیں بنانے کی کوشش نہ کرنا بلکہ لا پروائی سے کہہ دینا کہ نہ کیا ہوگا۔۔۔۔ بقیہ میں تمہاری ذہانت پر چھوڑتا ہوں!"
"کیا آپ میرے کام سے مطمئن ہیں!۔۔۔۔"
"بہت مطمئن ہوں! فٹنز واٹر!۔۔۔۔ تم بہت ذہین ہو! بقیہ آدمیوں سے کہیں زیادہ!"
"میں آپ کو دیکھنا چاہتی ہوں!" جولیا نے کسی ننھی سی بچی کی طرح منمنا کر کہا!
"کیا کرو گی!۔۔۔۔ اس سے کیا فائدہ! تم نے مجھے سینکڑوں بار دیکھا ہے! لیکن نظر انداز کر گئیں! میں اس قابل ہی نہیں ہوں کہ تم مجھے ایکس ٹو سمجھ سکو!"
"میں آپ کو۔۔۔۔!" جولیا کچھ کہتے کہتے رک گئی!
"ہاں کہو! کیا کہنا چاہتی ہو!"
"اوہ کچھ نہیں! جناب!۔۔۔۔ میں خود بھول گئی!" جولیا بوکھلا کر بولی!
"اچھا بس۔ اب اپنا کام شروع کر دو!"
دوسری طرف سے سلسلہ منقطع کر دیا گیا!۔۔۔۔ جولیا بڑی دیر تک ریسیور ہاتھ میں لئے کھڑی رہی!۔۔۔۔
14
شیلا غائب !۔۔۔۔ ناہید غائب! شیلا کا تو خیر پتہ ہی نہیں معلوم تھا! لیکن ناہید فی الحقیقت شاداب بگر کے ماڈل گرلز اسکول کی ایک استانی تھی! گرلز اسکول میں معلوم ہوا کہ وہ ایک ماہ کی چھٹی پر ہے!۔۔۔۔ اور گھر پر یہ معلوم ہوا کہ وہ پچھلے کئی دنوں سے لاپتہ ہے۔۔۔۔ عمران کے لئے یہ ایک لمحہ فکریہ تھا! یوں تو اس کے سامنے بہتیرے مجرم تھے اور وہ انہیں ہر وقت پکڑ سکتا تھا۔ مگر فی الحال یہ اس کے پروگرام میں نہیں تھا! وہ تو دراصل اس گروہ کا طریق کار معلوم کرنا چاہتا تھا! کیونکہ اسی کے ذریعہ اس کی رسائی اصل مجرم تک ہو سکتی تھی پوسٹ بکس نمبر دو سو تیرہ کے متعلق تفتیش کرا کے وہ زیبا تک پہنچاتھا!۔۔۔۔ پھر زیبا کے ذریعہ وہ لیٹر بکس اس کے علم میں آیا جس میں وہ ایک مخصوص تاریخ پر بڑے نوٹوں کا پیکٹ ڈالا کرتی تھی! اب وہ لیٹر بکس اس کی توجہ کا مرکز تھا۔
ناہید کی تلاش اسے اس لئے تھی کہ وہ اس سے صرف ایک بات پوچھنا چاہتا تھا! وہی بات جس کی طرف شیلا نے اشارہ کیا تھا یعنی ناہید ان لوگوں کو اطلاع دے گی کہ شیلا ایک سرکاری سراٖغرساں کے چکر میں پھنس گئی ہے! شیلا کی یہ بات درست بھی نکلی تھی! کیونکہ تھوڑی دیر بعد دانش منزل کی کمپاؤنڈ میں چند نامعلوم آدمی نہ صرف داخل ہوئے تھے بلکہ انہوں نے عمارت میں گھسنے کی بھی کوشش کی تھی!۔۔۔۔ ایسی صورت میں فی الحال اس کے علاوہ اور کیا سوچا جا سکتا تھا کہ ناہید ہی نے انہیں اطلاع دی ہو گی!۔۔۔۔ لٰہذا اب عمران یہ معلوم کرنا چاہتا تھا کہ ناہید نے انہیں اطلاع دینے کے لئے کون سا طریقہ اختیار کیا تھا۔
عمران نے ناہید کے لئے بہت تگ و دو کی لیکن اس کا سراغ نہ مل سکا!۔۔۔۔ ابھی ایک پیچیدہ مسئلہ اور باقی تھا مقتولہ رابعہ کی لاش!۔۔۔۔ جسے اس کی ماں نے رابعہ کی لاش تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا! لیکن اس کے جسم پر رابعہ ہی کے کپڑے تھے! حتیٰ کہ پیر کے زخم پر پٹی بھی وہی تھی جو رابعہ نے اپنے پیر کے زخم پر باندھی تھی!۔۔۔۔ لیکن اب یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی تھی کہ وہ رابعہ کی لاش ہر گز نہیں تھی۔ رابعہ کی ماں اگر اپنا بیان نہ دیتی تب بھی اس میں شبہ باقی رہ جاتا کہ یہ رابعہ ہی کی لاش ہے!۔۔۔۔ کیونکہ پیر کے زخم کے متعلق پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کچھ اور ہی کہہ رہی تھی!۔۔۔۔ ڈاکٹروں کا متفقہ فیصلہ تھا کہ پیر کا زخم موت سے پہلے کا نہیں ہو سکتا وہ موت کے بعد ہی وجود میں آیا ہوگا!۔۔۔۔ بہر حال اس سے عمران نے نتیجہ اخذ کیا کہ کسی دوسری کی لاش رابعہ کی لاش بنا کر منظر عام پر لائی گئی تھی!۔۔۔۔ مقصد جو کچھ بھی رہا ہو۔ مقصد ہی معلوم کرنے کے لئے جولیا نافٹزواٹر کو عادل پرویز کے پیچھے لگایا تھا۔
آج تو عمران زیبا اور لیٹر بلکس کے چکر میں تھا! کیونکہ آج معمول کے مطابق وہ اس پیکٹ کو لیٹر بکس میں ڈالنے والی تھی! عمران کو یقین تھا کہ زیبا نے اس کی اور اپنی گفتگو کے متعلق اپنے گروہ والوں کو مطلع نہ کیا ہوگا!۔۔۔۔ وہ کافی چالاک تھی۔ اس نے بھی یہ سوچا ہوگا کہ گروہ والوں کو آگاہ کر دینے کے بعد وہ محفوظ نہ رہ سکے گی! وہ کسی ایسے آدمی کو کب چھوڑنے لگے جو پولیس کی نظر میں آگیا ہو!
عمران کی دانست میں ناہید اور شیلا کا غائب ہو جانا بھی اس بات کا کھلا ہوا ثبوت تھا کہ وہ گروہ والوں کی کسی نئی سازش کا شکار ہوگئیں! اور یہ بات اسے شیلا ہی نے بتائی تھی کہ گروہ کے لئے کام کرنے والی لڑکیوں کے برے انجام کی اطلاع ہر لڑکی کو دی جاتی ہے۔ انہیں متنبہ کیا جاتا تھا کہ پولیس کی نظر میں آجانے کے بعد ان کا بھی وہ انجام ہو سکتا ہے!
عمران آج صبح ہی سے زیبا کے پیچھے لگا رہا تھا! آج یہ کام وہ خود ہی کرنا چاہتا تھا اس لئے اسے میک اپ بھی کرنا پڑا تھا۔۔۔۔ چونکہ زیبا اسے بہت قریب سے دیکھ چکی تھی اس لئے اسے میک اپ کے بغیر چلنا دشوار ہی تھا!۔۔۔۔
زیبا نے حسبِ معمول پوسٹ بکس نمبر دو سو تیرہ کے منی آرڈر وصول کئے! پوسٹ آفس سے واپسی کے بعد بقیہ وقت دفتر ہی میں گذرا۔۔۔۔ پھر اپنے فلیٹ کی طرف چل پڑی۔ پانچ بجے سے آٹھ بجے رات تک فلیٹ میں رہی۔۔۔۔ آٹھ کے بعد پھر باہر آئی۔۔۔۔ ایک ٹیکسی لی اور کسی نامعلوم منزل کی طرف روانہ ہو گئی! عمران اپنی ٹوسیٹر میں بیٹھا اس کا تعاقب کر رہا تھا! گیرال اسٹریٹ کے موڑ پر زیبا ٹیکسی سے اتر گئی! اب وہ گیرال اسٹریٹ میں پیدل چل رہی تھی۔ عمران نے اس کے ہاتھ میں سرخ رنگ کا ایک پیکٹ دیکھا!۔۔۔۔ وہ اسے علانیہ لئے جا رہی تھی! اچانک ایک جگہ عمران نے اسے جگ کر کوئی چیز اٹھاتے دیکھا! وہ جلدی سے آگے بڑھ آیا! زیبا وہی پیکٹ زمیں سے اٹھا رہی تھی۔ وہ غالباً ایک کیفے سے نکلنے والے پانچ چھ آدمیوں کی بھیڑ سے الجھ گئی تھی اور اسی دوران میں پیکٹ بھی اس کے ہاتھ سے گر گیا تھا!۔۔۔۔ جو بات بھی رہی ہو! عمران یہ نہیں دیکھ سکا کہ یہ پیکٹ کیسے گرا تھا۔۔۔۔! زیبا پیکٹ اٹھا کر ہونٹوں میں کچھ بڑبڑاتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔ عمران اس کے پیچھے چلتا رہا! لیکن اسے دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ اس کا تعاقب کر رہا ہے!۔۔۔۔
15
لیٹر بکس گیرال اسٹریٹ کے سرے پر تھا! زیبا نے وہ پیکٹ اس میں ڈال دیا اور بغیر توقف سے آگے بڑھ گئی!۔۔۔۔ عمران وہیں کھڑا رہا جہاں رکا تھا! پھر تھوڑی دیر بعد وہ بھی آگے بڑھا اور جیب سے ایک لفافہ نکال کر لیٹر بکس میں ڈالنے لگا۔ وہ دراصل لیٹر بکس میں لگے ہوئے قفل کی ساخت دیکھنا چاہتا تھا۔
وہ پھر اپنی جگہ پر واپس آگیا!۔۔۔۔ چونکہ پہلے سے اس مہم کا پروگرام تھا اس لئے ساری تیاریاں مکمل تھیں۔ وہ رات بھر یہیں سڑک پر رک کے لیٹر بکس کی نگرانی کرنا چاہتا تھا! کار اس نے سڑک پر چھوڑ دی تھی!۔۔۔۔ اسی کار میں پھٹے پرانے کپڑوں کا جوڑا تھا!۔۔۔۔ عمران نے ایک دوکان سے سلیمان کو فون کیا کہ وہ کار وہاں سے لے جائے۔ اس کا نوکر سلیمان ایک اچھا خاصا ڈرائیور بھی تھا!۔۔۔۔ اسے فون کرنے کے بعد کار کی طرف آیا! اس میں سے پرانے کپڑوں کی گٹھری نکالی اور قریب ہی ایک پبلک پیشاب خانے میں جا گھسا۔
تھوڑی دیر بعد جب وہ وہاں سے برآمد ہوا تو حلیہ ہی اور تھا! جسم پر وہی پھٹا پرانا لباس تھا اور اس طرح لنگڑاتا ہوا چل رہا تھا جیسے پیر میں شدید ترین تکلیف ہو! بغل میں ایک گٹھری تھی جس میں شاید وہ کپڑے تھے جنہیں کچھ دیر قبل پہنے ہوئے تھا!
ٹھیک لیٹر بکس کے سامنے سڑک کی دوسری طرف اس نے ڈیرہ ڈال دیا۔۔۔۔ رات بھیگتی جا رہی تھی ایک بجے تک سڑک سنسان ہوگئی! عمران ایک عمارت کی دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھا رہا۔ وہ تنہا نہیں تھا! دونوں طرف فٹ پاتھوں پر کئی بے خانماں پرے سو رہے تھے! کچھ دیر بعد عمران بھی لیٹ گیا لیکن اس کی نظر لیٹر بکس ہی پر تھی!۔۔۔۔ پھر کہیں کے گھڑیال نے چار بجائے! عمران نے اپنی رانوں میں زور زور سے چٹکیاں لے کر نیند کو بھگانے کی کوشش کر رہا تھا! نہ جانے کیوں یہاں اس فٹ پاتھ پر اسے گھر سے زیادہ آرام مل رہا تھا۔ آرام اور نیند میں چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے۔۔۔۔ نیند آتی رہی اور وہ اسے اپنے ذہن سے جھٹک دینے کی کوشش کرتا رہا!
"یہ تو کچھ بھی نہ ہوا۔۔۔۔" وہ اس وقت بڑابڑایا جب اجالا پھوٹنے لگا! رات بھر لیٹر بکس کے قریب کوئی سایہ تک نظر نہیں آیا تھا!
اب وہ اس پیکر کا انتظار کرنے لگا جو ڈاک نکال کر لے جاتا! اس نے سوچا ممکن ہے۔۔۔۔ وہ پیکر بھی اسی گروہ کا کوئی آدمی ہو! مگر یہ بات قرین قیاس نہیں تھی! ضروری نہیں کہ ایک ہی آدمی ہمیشہ ڈاک نکالتا رہے! لہٰذا یہ طریقہ تو اختیار کیا ہی نہیں جا سکتا! پھر دھوپ بھی پھیلنے لگی! عمران جہاں تھا وہیں رہا۔
تقریباً سات بجے ایک آدمی ڈاک نکالنے کے لئے لیٹر بکس کا قفل کھولنے لگا! عمران سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ اس نے خطوط نکالے ان میں سرخ رنگ کا وہ پیکٹ موجود تھا! نہ جانے کیوں پیکر نے اسے اٹھا کر دور سڑک پر پھینک دیا۔
لیٹر بکس کے قریب والی پان کی دوکان کا مالک اپنی دکان کھولنے جا رہا تھا! اس نے پیکر سے پوچھا! "کیوں چاچا! کیا پھینک دیا!"
"ارے لالہ۔ وہی پیکٹ! نہ جانے کون حرامزادہ مجھ سے مذاق کرتا ہے۔" پان والا اپنا کام روک کر پیکٹ کی طرف جھپٹا اور پھر اسے وہاں سے اٹھا کر واپس آیا۔ وہ اسے چاک کرتا ہوا کہہ رہا تھا پچھلی بار والے پیکٹ سے دو تین بڑی مزیدار تصویریں نکلی تھیں!"
اس نے پیکٹ کو کھول ڈالا مگر دوسرے ہی لمحہ میں بولا "دھت تیری کی! یہ تو پرانا اخبار ہے۔" اور پھر اس نے اخبار نکال کر زمین پر پٹخ دیا! اور لفافے کے پرزے اڑا دیئے! عمران کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی تھیں! اور وہ بار بار اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیر رہا تھا! یہ تو کچھ بھی نہ ہوا وہ سوچنے لگا!۔۔۔۔ ان دونوں کی گفتگو سے یہی ظاہر ہوا تھا جیسے اس سے پہلے بھی وہ اسی قسم کے پیکٹوں سے دو چار ہو چکے ہیں۔ خصوصاً پیکر کا رویہ۔۔۔۔ اس نے جھلاہٹ ہی میں اسے دور پھینک دیا تھا! گویا اس سے پہلے بھی پرانے اخبار ہی کی طرح کی فضول چیزیں پیکٹوں سے برآمد ہوتی رہی تھیں۔ یہ بھی تو ممکن نہیں تھا کہ کسی نے اصل پیکٹ لیٹر بکس سے نکال کر اس کی جگہ دوسرا ڈال دیا ہو۔ اگر ایسا ہوا بھی تو عمران کو کیوں نہ خبر ہوئی کیونکہ وہ رات بھر لیٹر بکس کی نگرانی کرتا رہا تھا۔ عمران الجھن میں پڑ گیا آخر اس پیکٹ میں ردی اخبار ہونا کیا معنی رکھتا ہے۔
عمران وہاں سے اٹھ کر دوسرے فٹ پاتھ پر چلا آیا! اسی پان والے سے دو سگریٹ خریدے ایک سلگا لیا اور دوسرے کو کان پر رکھ کر نیچے پڑا ہوا اخبار اٹھانے لگا!۔۔۔۔
اخبار کو اٹھا کر وہ وہاں سے چل پڑا۔۔۔۔ وہ سوچنے لگا! کیا زیبا نے اسے الو بنایا تھا! مگر وہ تو ابھی حال ہی میں اس بات سے واقف ہوئی تھی کہ کوئی اس کی نقل و حرکت پر نظر رکھتا ہے!۔۔۔۔ ڈاک نکالنے والے پیکر اور پان والے کی گفتگو کا ماحصل اس کے علاوہ اور کیا ہو سکتا تھا کہ اس قسم کے پیکٹ ہمیشہ لیٹر بکس میں ملتے رہے ہیں اور ان میں سے فضول چیزیں ہی برآمد ہوتی رہی ہیں۔ یہ مسئلہ چکرا دینے والا تھا!
گھر پہنچ کر اس نے غسل کیا اور لباس تبدیل کرنے کے بعد ناشتے کے لئے غل غپاڑہ مچانے لگا! اس کی دوست روشی اب اس کے ساتھ نہیں رہتی تھی!۔۔۔۔ سارا کام اس کا نوکر سلیمان ہی سنبھالے ہوئے تھا۔
ناشتہ کر چکنے کے بعد عمران نے وہی اخبار میز پر پھیلا دیا جو اس پیکٹ سے نکلا تھا پچھلی تاریخوں کا اخبار تھا۔ ایک جگہ حاشیے پر اسے نیلی روشنائی کی تحریر نظر آئی۔۔۔۔ مگر یہ کچھ بھی نہیں تھا!۔۔۔۔ کچھ رقمیں جوڑی اور گھٹائی گئی تھیں! اکثر لوگ اخبار کے حاشیوں پر اس قسم کی حرکتیں کرتے رہتے ہیں! پھر اسے کچھ دستخط نظر آئے اور عمران بے ساختہ جھک کر انہیں غور سے دیکھنے لگا! پھر یک بیک کرسی سے اچھل پڑا!۔۔۔۔
15
جولیا نافٹزواٹر وہ خط دیکھ کر سرا سیمہ ہو گئی! حالانکہ ایکس ٹو نے پہلے ہی اس کی پیشگوئی کر دی تھی!۔۔۔۔ خط کسی نامعلوم آدمی کی طرف سے بھیجا گیا تھا!۔۔۔۔ تحریر نایپ میں تھی۔۔۔۔ اس میں جولیا سے کہا گیا تھا کہ وہ ہر ہفتہ سات سو روپے ادا کرے ورنہ اس کی وہ تحریر پولیس کے حوالے کر دی جائے گی جو اس نے ایک نوزائیدہ بچے کی لاش کے سلسلے میں دی تھی!۔۔۔۔ رقم پوسٹ بکس نمبر دو سو تیرہ کے پتہ پر بھیجنی چاہئے اور بہتیری دھمکیاں تھیں۔۔۔۔ آخر میں کہا گیا تھا کہ وہ یہ رقم ادا کر سکتی ہے کیونکہ اگر وہ چاہے تو اعلٰی طبقے کے لوگوں کو بہ آسانی پھانس سکتی ہے! بہر حال لب لباب یہ تھا کہ اگر وہ جائز طریقوں سے رقم حاصل نہیں کر سکتی تو اسے اپنی جان بچانے کے لئے کوئی ناجائز طریقہ اختیار کرنا ہی پڑے گا۔
جولیا نے خط لکھنے والے کو بے شمار گالیاں دیں اور فون پر ایکس ٹو کے نمبر ڈائیل کرنے لگی لیکن دوسری طرف سے کوئی جواب نہیں ملا!۔۔۔۔ پھر اس نے کئی بار اس سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہ ہوئی! اس کے پاس عادل پرویز کے متعلق بھی ایک اہم خبر تھی!
دو بجے کے قریب خود ایکس ٹو کا فون آیا۔ جولیا اسے موصول ہونے والے خط کے متعلق بتا کر بولی۔ "عادل پرویز کے متعلق سنیئے اب اس نے وہ بات مجھے بتائی ہے جو پولیس کو بھی نہیں بتائی تھی! وہ کہتا ہے کہ حقیقتاً ان دونوں نے فرار ہو جانے کا پروگرام بنا لیا تھا! مگر عین وقت پر وہ پر اسرار طریقہ سے غائب ہو گئی!۔۔۔۔ اس کے بیان ہے کہ وہ شادی کرنا چاہتے تھے مگر رابعہ کا باپ اس رشتے کو پسند نہیں کرتا تھا! وہ دونوں ایک ہی دفتر میں کام کرتے ہیں!"
"یعنی مسٹر ہارپر کے دفتر میں!" ایکس ٹو نے پوچھا!
"جی ہاں!۔۔۔۔" جولیا نے جواب دیا! مگر یہ مرد بھی بڑے الو کے پٹھے ہوتے ہیں! عادل پرویز کو مجھ میں رابعہ کی جھلکیاں نظر آنے لگی ہیں! وہ گھنٹوں میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لئے روتا رہتا ہے۔۔۔۔ کہتا ہے کہ تم دن میں ایک بار اپنی صورت ضرور دکھا دیا کرو۔ ورنہ میں مر جاؤں گا!"
جواب میں ایکس ٹو نے قہقہہ لگایا اور بولا "عورتیں بھی ایسی ہی الو کی پٹھی ہوتی ہیں! کوئی خاص بات نہیں ہے۔ وہ آدمی کو بری طرح الو بناتی ہے۔۔۔۔ وہ ورڈسورتھ ہو جاتا ہے کیٹس ہو جاتا ہے۔۔۔۔ بائرن ہو جاتا ہے۔۔۔۔ میر ہو جاتا ہے غالب ہو جاتا ہے دفتر کے دفتر سیاہ کرتا ہے!۔۔۔۔ مگر مقصد۔۔۔۔ مقصد ان سب کا صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک بچے کا باپ بننا چاہتے ہیں!۔۔۔۔ یہ ایک بحث طلبہ مسئلہ ہے۔۔۔۔ مگر میرے پاس فی الحال وقت نہیں ہے! پھر کبھی سمجھانے کی کوشش کروں گا!"
"آپ بڑے کھر درے ہیں!" جولیا بولی!
"ہاں میں کھردرا ہوں۔۔۔۔ اس لئے ہر وقت خوش رہتا ہوں! مجھے کوئی غم نہیں ہے!" جولیا کی سمجھ میں نہیں آیا کہ اب کیا کہے۔۔۔۔ اور ایکس ٹو نے بھی سلسلہ منقطع کر دیا!۔۔۔۔ نہ جانے کیوں جولیا اداس ہو گئی تھی۔۔۔۔
16
عمران زیبا سے پھر ملا! وہ دونوں ماہنامہ "کمر لچکدار" کے دفتر کے سامنے ہی ایک دوسرے سے ٹکرا گئے تھی! زیبا اسے دیکھ کر ہنس پڑی!۔
"میں آج کل دن رات تمہارے متعلق سوچا کرتی ہوں، نہ جانے کیا بات ہے!"
"سوچتی ہو گی کہ اس کی بدولت ضرور جیل نصیب ہو گی۔"
"ہونہہ! اس کی مجھے پروا نہیں ہے اگر مجھے اس کا خیال ہوتا تو تمہیں اتنا کچھ کبھی نہ بتاتی!"
"مجھ ان ساتھی لڑکیوں سے ہمدردی ہے جو اس جال میں پھنس گئی ہیں!" عمران نے کہا۔
"اچھا سچ بتانا پتلون کا کیا قصہ تھا!۔۔۔۔"
"کچھ بھی نہیں! مجھے عورتیں صرف اپنے لباس میں اچھی لگتی ہیں!۔۔۔۔ اچھا آؤ چلو کہیں بیٹھیں گے!"
وہ کچھ دور تک پیدل چلتے رہے پھر ایک ریستوران میں جا بیٹھے!
"تمہارا خیال غلط ہے!" عمران اس سے کہہ رہا تھا!" میرا تعلق پولیس سے نہیں ہے! لیکن میں اس گروہ کا قلع قمع کئے بغیر نہ مانوں گا!"
زیبا ہنسنے لگی بالکل اسی طرح جیسے کسی بچے کی لاف و گزاف پر ہنس رہی ہو! عمران چڑ گیا!
"کیا تم مجھ الو نہیں سمجھتی ہو!"
"نہیں تم نے حالات کا غلط اندازہ لگایا ہے! یہ گروہ بہت بڑا ہے! اور ایک کو دوسرے کی خبر نہیں۔ جس کے سپرد جو کام کر دیا گیا ہے وہ اسے آنکھیں بند کر کے انجام دیتا رہتا ہے! میری ہی مثال لے لو۔۔۔۔ میں منی آرڈر اور بیمے وصول کرتی ہوں اور انہیں ایک پیکٹ میں رکھ کر ایک مخصوص لیٹر بکس میں ڈال دیتی ہوں لیکن مجھے علم نہیں کہ وہ پیکٹ کس کے پاس پہنچتا ہے!
کیونکہ اس پر نہ تو کسی کا پتہ لکھا جاتا ہے اور نہ ٹکٹ لگائے جاتے ہیں!"
"کل والے پیکٹ میں تھا!"
"نوٹ تھے!۔۔۔۔"
"کیا وہ ہمیشہ سرخ رنگ کا ہوتا ہے!"
"ہاں ہدایت یہی ہے!۔۔۔۔"
عمران کچھ سوچنے لگا! پھر تھوڑی دیر بعد بولا "کل وہ پیکٹ تمہارے ہاتھ سے پہلی بار گرا تھا! یا اکثر اسی طرح گر جاتا ہے!"
"اوہو!" زیبا چونک کر عمران کو گھورنے لگی پھر آہستہ سے بولی!" تو تم میرا تعاقب کر رہے تھے!۔۔۔۔ خیر مجھے اس سے بحث نہیں البتہ پیکٹ کے گرنے کا معاملہ عجیب ہے! وہ ہمیشہ کہیں نہ کہیں میرے ہاتھ سے گرتا ضرور ہے! شروع سے دیکھتی آرہی ہوں! اور اس کے مطابق ہدایت یہ ہے کہ میں اسے لیٹر بکس میں ڈالنے کے لئے علانیہ طور پر لے جاؤں!"
"اور وہ پیکٹ کسی بھیڑ ہی میں پھنس کر گرتا ہو گا!"
"ہاں یہی ہوتا ہے! لیکن تم یہ کیوں پوچھ رہے ہو!"
"کچھ نہیں یونہی۔۔۔۔ خیر ہٹاؤ۔۔۔۔ دیکھو تم اس شلوار اور جمپر میں کتنی اچھی لگتی ہو!" پھر وہ اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے رہے اور عمران تھوڑی دیر بعد وہاں سے اٹھ گیا!
17
عمران زیبا سے پھر ملا! وہ دونوں ماہنامہ "کمر لچکدار" کے دفتر کے سامنے ہی ایک دوسرے سے ٹکرا گئے تھی! زیبا اسے دیکھ کر ہنس پڑی!۔
"میں آج کل دن رات تمہارے متعلق سوچا کرتی ہوں، نہ جانے کیا بات ہے!"
"سوچتی ہو گی کہ اس کی بدولت ضرور جیل نصیب ہو گی۔"
"ہونہہ! اس کی مجھے پروا نہیں ہے اگر مجھے اس کا خیال ہوتا تو تمہیں اتنا کچھ کبھی نہ بتاتی!"
"مجھ ان ساتھی لڑکیوں سے ہمدردی ہے جو اس جال میں پھنس گئی ہیں!" عمران نے کہا۔
"اچھا سچ بتانا پتلون کا کیا قصہ تھا!۔۔۔۔"
"کچھ بھی نہیں! مجھے عورتیں صرف اپنے لباس میں اچھی لگتی ہیں!۔۔۔۔ اچھا آؤ چلو کہیں بیٹھیں گے!"
وہ کچھ دور تک پیدل چلتے رہے پھر ایک ریستوران میں جا بیٹھے!
"تمہارا خیال غلط ہے!" عمران اس سے کہہ رہا تھا!" میرا تعلق پولیس سے نہیں ہے! لیکن میں اس گروہ کا قلع قمع کئے بغیر نہ مانوں گا!"
زیبا ہنسنے لگی بالکل اسی طرح جیسے کسی بچے کی لاف و گزاف پر ہنس رہی ہو! عمران چڑ گیا!
"کیا تم مجھ الو نہیں سمجھتی ہو!"
"نہیں تم نے حالات کا غلط اندازہ لگایا ہے! یہ گروہ بہت بڑا ہے! اور ایک کو دوسرے کی خبر نہیں۔ جس کے سپرد جو کام کر دیا گیا ہے وہ اسے آنکھیں بند کر کے انجام دیتا رہتا ہے! میری ہی مثال لے لو۔۔۔۔ میں منی آرڈر اور بیمے وصول کرتی ہوں اور انہیں ایک پیکٹ میں رکھ کر ایک مخصوص لیٹر بکس میں ڈال دیتی ہوں لیکن مجھے علم نہیں کہ وہ پیکٹ کس کے پاس پہنچتا ہے!
کیونکہ اس پر نہ تو کسی کا پتہ لکھا جاتا ہے اور نہ ٹکٹ لگائے جاتے ہیں!"
"کل والے پیکٹ میں تھا!"
"نوٹ تھے!۔۔۔۔"
"کیا وہ ہمیشہ سرخ رنگ کا ہوتا ہے!"
"ہاں ہدایت یہی ہے!۔۔۔۔"
عمران کچھ سوچنے لگا! پھر تھوڑی دیر بعد بولا "کل وہ پیکٹ تمہارے ہاتھ سے پہلی بار گرا تھا! یا اکثر اسی طرح گر جاتا ہے!"
"اوہو!" زیبا چونک کر عمران کو گھورنے لگی پھر آہستہ سے بولی!" تو تم میرا تعاقب کر رہے تھے!۔۔۔۔ خیر مجھے اس سے بحث نہیں البتہ پیکٹ کے گرنے کا معاملہ عجیب ہے! وہ ہمیشہ کہیں نہ کہیں میرے ہاتھ سے گرتا ضرور ہے! شروع سے دیکھتی آرہی ہوں! اور اس کے مطابق ہدایت یہ ہے کہ میں اسے لیٹر بکس میں ڈالنے کے لئے علانیہ طور پر لے جاؤں!"
"اور وہ پیکٹ کسی بھیڑ ہی میں پھنس کر گرتا ہو گا!"
"ہاں یہی ہوتا ہے! لیکن تم یہ کیوں پوچھ رہے ہو!"
"کچھ نہیں یونہی۔۔۔۔ خیر ہٹاؤ۔۔۔۔ دیکھو تم اس شلوار اور جمپر میں کتنی اچھی لگتی ہو!" پھر وہ اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے رہے اور عمران تھوڑی دیر بعد وہاں سے اٹھ گیا!
وہ پھر سوچنے لگا! آخر اس نے کہا! "اقرار نامہ نکالو!۔۔۔۔ مگر تیس ہزار بہت ہیں کچھ کم کرو!"
"چلو دس پانچ کم کر لو!۔۔۔۔ اس سے زیادہ کی گنجائش نہیں ہے! تمہیں شرم آنی چاہئے! اتنا کماتے ہو پھر بھی صرف تیس ہزار ماہانہ پر جان نکلتی ہے!۔۔۔۔ میرے اخراجات بہت وسیع ہیں ورنہ میں یکمشت دو چار ہزار کم کر دیتا!۔۔۔۔ یہ لو۔۔۔۔ یہ رہا اقرار نامہ! اسے اچھی طرح پڑھ لو تاکہ بعد میں کوئی شکایت نہ پیدا ہو اور ہمارے تعلقات خوشگوار رہیں!"
ہارپر اقرار نامہ اس کے ہاتھ سے لے کر پڑھنے لگا! یہ شاید اس کی سیاہ کاریوں کی پوری روداد تھی کیونکہ آہستہ آہستہ اس کے چہرے کی رنگت پھیکی پڑتی جا رہے تھی اور وہ بار بار اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیر رہا تھا!
"تم بہت خطرناک آدمی معلوم ہوتے ہو! میرے ساتھ مل کر کام کرو۔۔۔۔! بہت فائدہ میں رہو گے!" اس نے کہا!
"میں مفت کی روٹیاں توڑنے کا عادی ہوں! کام مجھ سے نہیں ہو سکتا! جب تیس ہزار گھر بیٹھے ملیں گے تو مزید کام کرنے کی کیا ضرورت ہے!"
"اچھا فی الحال ایک کام کر دو!۔۔۔۔ اس کے لئے میں تمہیں پچاس ہزار دوں گا!"
"چلو بتاؤ! ممکن ہے! میں وہ کام کسی نہ کسی طرح کر ہی ڈالوں! مگر آدھی رقم کام سے پہلے ہی لے لوں گا! آدھی بعد میں!"
"منظور ہے! کام یہ ہے کہ کسی طرح ان تینوں لڑکیوں کو ٹھکانے لگا دو! آج کل میرے ستارے گردش میں ہیں اس لئے میں یہ کام خود نہیں انجام دینا چاہتا!"
"دیکھو! میں خود تو نہیں کر سکتا یہ کام لیکن میرے پاس ایسے آدمی ضرور ہیں جو یہ کام انجام دے ڈالیں لیکن وہ کم از کم دس ہزار کا مطالبہ کریں گے اس لئے پچاس ہزار کم ہے! ہاں ساٹھ ہزار پر معاملہ طے ہو سکتا ہے!"
"اچھا تو آؤ میرے ساتھ!"
"پہلے اس پر دستخط کر دو۔۔۔۔!"
"یہاں میرے پاس قلم نہیں ہے!"
"میرے پاس ہے قلم!" سیاہ پوش نے قلم نکال کر اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
ہارپر ایک کرسی پر بیٹھ گیا!
"آہا!۔۔۔" سیاہ پوش بولا!" نہیں دوست!۔۔۔۔ میں وہ دستخط چاہتا ہوں جو تم اپنے چیکوں پر کرتے ہو!۔۔۔۔ کاروباری کاغذات پر کرتے ہو! وہ دستخط چاہتا ہوں۔ جو اس ہفتے والے پیکٹ کے پرانے اخبار پر تھے۔ انہیں دستخط کی بناء پر تو میں تم تک پہنچا ہوں اور ہاں آئندہ کے لئے نصیحت پکٹرو! اپنے دستخط اِدھر اُدھر نہ بنایا کرو! اگر اس اخبار پر تمہارے دستخط نہ ملتے تو میں قیامت تک تمہیں نہ پا سکتا!"
"تم واقعی بہت چالاک ہو! تم سے چالاکی نہیں چل سکے گی!" ہارپر ہنس کر بولا! اور اسنے وہی دستخط بنا دیئے جو سیاہ پوش چاہتا تھا! پھر بڑے خلوص سے کہا! "اب تو اپنی شکل دکھا دو!"
"کیا ان سینکڑوں لڑکیوں نے تمہاری شکل دیکھی ہے! جنہیں تم بلیک میل کرتے ہو!ً آج سے میں تمہیں بلیک میل کروں گا اور تم زندگی بھر پتہ نہیں لگا سکو گے کہ میں کون ہوں! سیاہ پوش اس کے پیچھے کھڑا تھا، جیسے ہی وہ اقرار نامے کو میز سے اٹھانے کے لئے جھکا ہارپر نے اچھل کر اس کے چہرے پر اپنا سر مار دیا! سیاہ پوش اس غیر متوقع حملے کیلئے تیار نہیں تھا! وہ کراہ کر دوسری طرف الٹ گیا! چوٹ شاید اس کی ناک پر لگی تھی پستول اس کے ہاتھ سے نکل گیا! قبل اس کے کہ وہ اٹھ سکتا ہارپر نے جھپٹ کر پستول اٹھا لیا! نال سیاہ پوش کی طرف اٹھی اور ٹریگر دبا دیا گیا! لیکن اس میں سے گولی کی بجائے پانی کی دھار نکلی!۔۔۔۔ دوسری طرف سیاہ پوش نے قہقہہ لگایا! پھر اگر وہ ایک طرف ہٹ نہ گیا ہوتا تو پستول اس کی پیشانی پر پڑتا!
یہ وار بھی خالی جاتے دیکھ کر ہارپر بھاگ نکلا!۔۔۔۔ سیاہ پوش اس کے پیچھے جھپٹا! لیکن وہ میز پر سے اقرار نامہ اٹھانا نہیں بھولا تھا!۔۔۔۔
ہارپر کوٹھی سے باہر نکل جانے کی کوشش کر رہا تھا! لیکن اسے کامیابی نہیں ہوئی! شاید سیاہ پوش نے اس کا انتظام پہلے ہی کر لیا تھا!۔۔۔۔ اس نے ہارپر کو ایک کمرے میں گھستے دیکھا!۔۔۔۔ وہ تیزی سے آگے بڑھا!۔۔۔۔ لیکن کمرہ خالی تھا! ہارپر کہیں نظر نہ آیا! دوسری طرف کوئی دروازہ بھی نہیں تھا! سیاہ پوش نے معنی خیز انداز میں سر ہلایا! ایسا معلوم ہوا جیسے اسے کچھ یاد آگیا ہو۔۔۔۔ پھر وہ اس گول میز کی طرف جھپٹا جو کمرے کے وسط میں بچھی ہوئی تھی! اس کا اوپری حصہ دونوں ہاتھوں سے گھمانے لگا! اچانک ایک کھٹاکا سنائی دیا اور کمرے کے فرش میں ایک جگہ ایک چھوٹی سی خلا پیدا ہو گئی! اتنی چھوٹی کہ ایک ہی آدمی اس سے گذر سکتا تھا!۔۔۔۔ سیاہ پوش بڑی تیزی سے اسے اس خلاء میں اتر گیا!۔۔۔۔ جیسے ہی وہ آخری زینے پر پہنچا اوپر کی خلا ایک آواز کے ساتھ بند ہو گئی! وہ ایک تہہ خانے میں تھا! لیکن یہاں کافی روشنی تھی اور گھٹن کا احساس نہیں ہوتا تھا! وہ کچھ اسی طرح بنایا گیا تھا۔ مگر تہ خانے کے اس حصے میں سناٹا تھا!۔۔۔۔ یہاں کوئی بھی نظر نہیں آیا۔ سیاہ پوش آگے بڑھا۔ اور دروازے سے گذر کر دوسرے کمرے میں پہنچا! یہاں تین لڑکیاں موجود تھیں۔ اور چوتھا ہارپر تھا! سیاہ پوش کو دیکھ کر اس کے منہ سے ایک گندی سی گالی نکلی اور وہ اس پر ٹوٹ پڑا۔ؔ! مگر اس بار سیاہ پوش نے بڑی پھرتی دکھائی! وہ ایک طرف ہٹ گیا! اور ہارپر دیوار سے جا ٹکرایا! تینوں لڑکیاں کھڑی ہو گئی تھیں۔ ان کے پیروں میں زنجیریں تھیں! اور وہ ایک ایک گز سے زیادہ آگے نہیں بڑھ سکتی تھیں۔
ہارپر پھر پلٹا! لیکن اس بار سیاہ پوش کا گھونسہ اس کے جبڑے پر پڑا اور لڑکیاں بے تحاشہ ہنسنے لگیں! ہارپر گالیاں بکتا ہوا فرش سے اٹھ رہا تھا!۔۔۔۔
"کیوں خواہ مخواہ جان دے رہے ہو!" سیاہ پوش ہنس کر بولا!" ابھی اتنے دن تو جیو کہ لوگ تمہاری پھانسی کی خبر سن سکیں!۔۔۔۔"
ہارپر اٹھ کر چپ چاپ کھڑا ہو گیا اس کا چہرہ زرد تھا! اور ہونٹ خشک ہو گئے تھے!
"چالیس ہزار ماہانہ!" اس نے آہستہ سے کہا۔
"اب تم نے عقلمندی کی بات کی ہے!" سیاہ پوش ہنس کر بولا "اچھا ان لڑکیوں کی بیڑیاں کھول دو!"
"کیا کرو گے؟"
"انہیں اپنے ساتھ لے جاؤں گا مگر ساٹھ ہزار!"
"میں دوں گا!" ہارپر نے کہا اور اپنی جیبیں ٹٹول کر ایک کنجی نکالی! دوسرے لمحے میں وہ جھکا ہوا بیڑیاں کھول رہا تھا! لڑکیاں آزاد ہو گئیں!
"اب تم چپ چاپ! ایک جگہ کھڑے ہو جاؤ!"
"کیوں؟"
"ان لڑکیوں سے تمہیں جوتے کھلواؤں گا!" سیاہ پوش نے زہریلے لہجے میں کہا!
لڑکیاں ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگیں! اور ہارپر چیخا!" تم ایسا نہیں کر سکتے!"
"ضرور کروں گا! میں تم سے زیادہ طاقتور ہوں!"
ہارپر ایک بار پھر اس پر جھپٹ پڑا۔ مگر اس دفعہ سیاہ پوش نے اسے اپنے سے بلند کر کے اس زور سے فرش پر پٹخ دیا کہ ہارپر کی چیخیں نکل گئیں! اب ہارپر میں اٹھنے کی سکت نہیں رہ گئی تھی!۔۔۔۔ وہ فرش پر پڑے ہی بڑے مغلظات اڑا رہا تھا!
"کیوں لڑکیو!" سیاہ پوش بولا "کیا تم اس پر جوتے نہیں برساؤ گی!"
"نہیں ہم اس کمینے کی بے بسی سے فائدہ نہیں اٹھائیں گے!" شیلا نے کہا!
واقعی تم شریف ہو۔۔۔۔ اپنا سب کچھ کھو چکنے کے بعد بھی تم نے کچھ نہیں کھویا!" سیاہ پوش نے کہا پھر رابعہ کی طرف دیکھا جو ان دونوں سے کہیں زیادہ حسین تھی!
"تم اس کے ہاتھ کیسے لگی ٹھیں!" سیاہ پوش نے اس سے پوچھا!
"اس نے مجھے زبردستی پکڑوا لیا تھا!" رابعہ نے مردہ سی آواز میں کہا۔
"کیا اسے معلوم تھا کہ تم عادل پرویز کے ساتھ فرار ہونے والی ہو!"
رابعہ نے اس کا جواب فوراً نہیں دیا! اس کے چہرے پر شرمندگی کے آثار تھے! سیاہ پوش کے دوبارہ استفسار پر اس نے کہا "وہ مجھ سے کئی بار کہہ چکا تھا کہ میں اس سے سول میرج کر لوں۔ لیکن میں تیار نہیں ہوئی! اس نے کسی طرح پتہ لگا لیا ہو گا کہ عادل پرویز میرا دوست ہے!"
"ہوں! اور ناہید! تم نے اسے کسطرح اطلاع دی تھی کہ شیلا دانش منزل میں ایک جاسوس کے چکر میں پڑ گئی ہے!" ناہید رونے لگی! بڑی مشکل سے اس کے حلق سے آواز نکل سکی!
"میں نے کیفے اٹالیانو کے منیجر کو فون کیا تھا!"
"ہوں! تو وہ بھی اس کا آدمی ہے۔ خیر۔۔۔۔ اب باہر چلو!"
"کیا آپ وہی ہیں!" شیلا نے پوچھا!" جو اس رات مجھے ملے تھے! دانش منزل والے۔۔۔۔!"
"نہیں!۔۔۔۔ وہ آدمی تو ایک عام شہری ہے! اس نے ہمارے محکمے کو اطلاع دی تھی!"
18
دوسرے دن اخبارات کا انداز چیخنے کا سا تھا! پولیس کی غفلت اور محکمہ سراغرسانی کی لا پروائی کو جی بھر کے اچھالا گیا تھا! اخبارات کو اس کا علم نہ جانے کیسے ہو گیا تھا کہ یہ کیس سیکرٹ سروس والوں کی طرف سے محکمہ سراغراسانی کو سونپا گیا تھا! محکمہ سراغراسانی کے سپرنٹنڈنٹ کیپٹن فیاض کی بوکھلاہٹیں قابلِ دید تھیں! وہ صبح سے افسران بالا کے سامنے قلا بازیاں لگا رہا تھا!۔۔۔۔ اور سیکرٹ سروس والوں کو دل ہی دل میں گالیاں سے رہا تھا! جنہوں نے اس چیز کی بھی تشہیر کرا دی تھی کہ یہ کیس انہوں نے محکمہ سراغراسانی کو دیا ہے۔
اسی شام کو عمران زیبا سے ملا۔۔۔۔ وہ آفس سے نکل رہی تھی! عمران کو دیکھتے ہی اس کی طرف جھپٹی۔
"معاف کیجئے گا! میں نے آپ کو پہچانا نہیں!" عمران نے بے رخی سے کہا!
"ارے۔۔۔۔ مجھے نہیں پہچانا! یا اب میرے بھی ہتھکڑیاں لگوانے آئے ہو! کیا تمہارا تعلق سیکرٹ سروس سے ہے!"
"نہیں میرا تعلق کسی سے بھی نہیں ہے! میں نے تم سے کہا تھا کہ گروہ ٹوٹ جائے گا! وہ ٹوٹ گیا میں نے تم سے کہا تھا کہ تم پتلون پہننا چھوڑ دو گی۔ تم نے چھوڑ دیا! اب میں کہتا ہوں کہ تم آئندہ شرافت سے زندگی بسر کرو گی!۔۔۔۔ یہ بھی تمہیں کرنا پڑے گا!"
زیبا کچھ نہ بولی وہ حیرت سے عمران کو دیکھ رہی تھی!
"آج میں نے ایک کہانی لکھی ہے!" "حاتم کی خالا" کیا تمارے رسالے میں چھپ جائے گی!"
"تم دوسروں کو الو کیوں بناتے ہو!"
"پھر کیا بناؤں! الو کے علاوہ اور کوئی پرندہ مجھے پسند نہیں۔"
"تم آخر ہو کیا بلا!"
"ایک بگڑا ہوا ریئس! لیکن تم میرے متعلق کسی سے کچھ نہیں کہو گی! ورنہ تمہیں بھی عدالت میں حاضر ہونا پڑے گا اور پھر تم باعزت طور پر زندگی بسر نہ کر سکو گی! اس دفتر سے الگ کر دی جاؤ گی! اور پھر کوئی دوسرا ادارہ بھی تمہیں لینے پر تیار نہ ہو گا!"
"میں سمجھتی ہوں! میں کبھی کسی سے تذکرہ نہیں کروں گی!" زیبا کی آنکھوں میں آنسو آ گئے! اور عمران ہنستا ہوا آگے بڑھ گیا!۔۔۔۔
اس نے گھر واپس آ کر جولیا کو فون کیا!
"اوہ!" دوسری طرف سے جولیا کی آواز آئی! "آپ نے اکیلے ہی یہ مہم سر کر ڈالی۔"
"ہاں! یہ موقع ہی ایسا تھا!"
"مجھے اس کے متعلق بتائیے!"
عمران نے اسے بتایا کہ وہ ہارپر تک کیسے پہنچا تھا!۔۔۔۔ اس سلسلے میں اسے یہ کہانی شروع سے چھیڑنی پڑی۔ کس طرح وہ لڑکیوں کے جزیرے میں پہنچا تھا! کس طرح ناہید اور شیلا ملیں اور اس کے بعد ہی سے کڑیاں ملتی چلی گئیں پھر بات زیبا سے گذرتی ہوئی اس پرانے اخبار تک پہنچی جس پر ہارپر کے دستخط ملے تھے! ہارپر صاف پڑھا جاتا تھا۔ اس نے ہارپر کے بینکوں میں تفتیش کی اور یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی اخبار پر ہارپر ہی کے دستخط تھے۔
"اب میں نے ہارپر کے متعلق تفتیش شروع کی!" عمران نے ماؤتھ پیس میں کہا "اور اس نتیجے پر پہنچا کہ ہارپر بھی اس میں یقیناً ملوث ہے! مگر اس وقت تک مجھے یقین نہیں تھا کہ ہارپر ہی اس گروہ کا سرغنہ ہو گا! میں نے اپنی کئی راتیں اس کی کوٹھی میں برباد کیں۔ اسی دوران میں مجھے اس تہ خانے کا سراغ مل گیا جس میں تینوں لڑکیاں قید تھیں! لیکن اب بھی میں وثوق سے نہیں کہہ سکتا تھا کہ ہارپر ہی سرغنہ ہے! ویسے شبہ ضرور تھا! لٰہذا اس شبے کی تصدیق کرنے کے لئے مجھے بھی ایک بد معاش کا روپ دھارنا پڑا۔۔۔۔ بہر حال اس نے مجھے بھی اپنی ہی برادری کا کوئی آدمی سمجھ کر سب کچھ اگل دیا!۔۔۔۔ اسے یقین آ گیا تھا کہ میں صرف اسے بلیک میل کرنا چاہتا ہوں! بہر حال اسکے اعتراف کرتے ہی میں نے اقبال جرم کے مسودے پر اس کے دستخط لے لئے۔"
"یہ کیس پولیس یا محکمہ سراغراسانی کے بس کا نہیں تھا!" جولیا کی آواز آئی!
"اخباروں نے اچھی دھجیاں اڑائی ہیں!"
"پتہ نہیں! انہیں کیسے علم ہو گیا کہ یہ کیس میرے محکمے نے انکے سپرد کیا ہے!" عمران نے کہا!
"یہ اطلاع میں نے بہم پہنچائی تھی!" جولیا نے فخریہ انداز میں کہا!
"جولیا!" عمران کا لہجہ سخت ہو گیا "تم آئندہ ایسا نہیں کرو گی!"
"بہت اچھا جناب! میں معافی چاہتی ہوں!"
"میری رائے لئے بغیر کوئی کام نہ کرو!"
"بہت بہتر۔۔۔۔ جناب!"
عمران نے سلسلہ منقطع کر دیا!
روشی دروازے میں کھڑی اسے گھور رہی تھی!
"کون تھی!" اس نے پوچھا!
"خالاسوسان!" عمران نے بڑی سنجیدگی سے جواب دیا!" ان کی بکری نے بچہ دیا ہے۔۔۔۔ لٰہذا وہ مجھ سے زچہ و بچہ کے حق میں دعائیں وصول کر رہی تھیں!"
"تم جھک مارتے ہو!" روشی بگڑ گئی! "مجھے بتاؤ کہ یہ جولیا کون ہے!"
"یہ بتانا بہت مشکل ہے! ویسے میں اس کے نواسے کا نام تمہیں بتا سکتا ہوں۔ اس کا نام ڈاکٹر اٹپلر تھا! مگر تم یہ سب پوچھ کر کرو گی کیا!"
"تم آوارہ عورتوں کے ساتھ نہیں رہ سکتے! سمجھے!"
"اچھا تو کہیں سے کوئی شریف ہی لا دو!۔۔۔۔" عمران نے کہا! پھر بڑے زور سے دہاڑا!
"کیوں بے سلیمان کے بچے تو کیا سن رہا ہے!"
روشی نے مڑ کر دروزے کی طرف دیکھا! اتنے میں عمران دوسرے دروانے سے باہر نکل گیا!۔ سلیمان کا دور دور تک پتہ نہیں تھا!۔۔۔۔
روشی بڑبڑاتی ہوئی کمرے سے چلی گئی!۔۔۔۔
(ختم شد)