1921-1980
پیدائش:
ساحر لدھیانوی ہندی سنیما کے ایک ایسے نغمہ نگار ہیں جن کی شعری اور ادبی صلاحیتوں سے انکار نہیں کیا جا سکتا، دنیائے سخن میں انہیں امتیازی مقام حاصل ہے۔ ترقی پسند تحریک سے تعلق رکھنے والے مشہور شاعر ساحر لدھیانوی 8 مارچ 1921ء کو لدھیانہ (پنجاب) میں پیدا ہوئے۔ ان کا حقیقی نام عبدالحئی تھا۔
سردار بیگم |
ساحر لدھیانوی کے دادا فتح محمد لدھیانوی کے ایک بہت بڑے رئیس زمیندار تھے۔ ساحر لدھیانوی کے والد کا نام چودھری فضل محمد تھا۔ چودھری فضل محمد نے 1920میں ایک معمولی خاندان کی لڑکی سردار بیگم سے نکاح کرلیا جبکہ ان کی پہلے سہی کئی بیویاں موجود تھیں ۔ وہ اپنے علاقے کے ایک بڑے جاگیر دار تھے او رکئی کئی بیویاں رکھنا ان کے لئے بڑی شان وشوکت کی بات تھی۔ عبدالحئی کی عمر جب صرف سات برس تھی تو سردار بیگم کا اپنے شوہر فضل محمد سے جھگڑا ہوگیا اور وہ عبدالحئی کو ساتھ لے کر اپنے بھائیوں کے گھر چلی گئیں۔ چودھری فضل محمد نے اس کو اپنی سرپرستی میں لینے کے لئے عدالت میں درخواست لگادی ۔ عدالت میں جب عبدالحئی سے پوچھا گیاکہ وہ والدین میں سے کس کے ساتھ رہنا چاہتا ہے تو اس نے اپنی کم سخن ماں کی طرف اشارہ کردیا اور اس طرح عبدالحئی ہمیشہ کے لئے اپنےباپ سے دستبردار ہوکر اپنی ماں کے حصہ میں آگیا۔
ابتدائی تعلیم اورآغازِشاعری:
لدھیانہ کے خالصہ اسکول میں 1928میں عبدالحئی کا داخلہ ہوا، اپنی والدہ کی سرپرستی اور نگرانی میں تعلیم پاتے رہے۔ ان کا شمار اچھے اور محنتی طالب علموں میں ہوتا تھا۔ اردو اور فارسی کی تعلیم انہوں نے مولانا فیاض ہریانوی سے حاصل کی اور ان ہی کے فیض تربیت سے نہ صرف ساحر کو ان زبانوں پر عبور حاصل ہوگیا بلکہ شعر وادب میں بھی انہیں خاصی دلچسپی پیدا ہوگئ کیونکہ مولانا فیاض ہریانوی خود بھی شعر وشاعری کا ذوق رکھتے تھے۔ 1937میں میٹرک کے بعد گورنمنٹ ایس سی دھاوان کالج لدھیانہ میں داخل لیا۔ 1939میں انٹر پاس کرنے کے بعد بی ائے کی صورت میں تعلیمی سلسلہ جاری رکھا۔ شعر وشاعری سے شوق رکھنے کے باوجود یہاں سیاست اور معاشیات کے مضامین پڑھنے میں بھی خاصی دلچسپی دکھائی ۔
اقبال کی شاعری کا مطالعہ کرتے وقت ان کی نظر اقبال کے ایک شعر پر ٹک گئی جو اس طرح ہے:
اس چمن سے ہوں گے پیدا بلبل شیراز بھی
سینکڑوں ساحر بھی ہوں گے صاحب اعجاز بھی
کہا جاتا ہے کہ اس شعر سے متاثر ہو کر انھوں نے اپنے تخلص کا انتخاب کیا اور ساحر کے نام سے شعری سفر کو آگے بڑھایا۔ اس نظریاتی وابستگی کے تحت انھوں نے جو نظم کہی اس کے اشعار کچھ اس طرح تھے:
جشن بپا ہے کٹیاؤں میں اونچے ایواں کانپ رہے ہیں
مزدوروں کے بگڑے تیور دیکھ کے سلطاں کانپ رہے ہیں
جاگے ہیں افلاس کے مارے، اٹھے ہیں بے بس دکھیارے
سینوں میں طوفاں کا تلاطم، آنکھوں میں بجلی کے شرارے
شاہی درباروں کے در سے فوجی پہرے ختم ہوئے ہیں
ذاتی جاگیروں کے حق اور مہمل دعوے ختم ہوئے ہیں
اس نظم کا عنوان 'طلوع اشتراکیت' تھا جو ان کے ابتدائی کمٹمنٹ کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس کے علاوہ اپنے جاگیردار باپ کا کردار اور حکمراں طبقے کی زیادتیوں کے اثر کے تحت ساحر نے 'جاگیر' نظم کہی۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں:
میں ان اجداد کا بیٹا ہوں جنھوں نے پیہم
اجنبی قوم کے سائے کی حمایت کی ہے
غدر کی ساعت ناپاک سے لے کر اب تک
ہر کڑے وقت میں سرکار کی خدمت کی ہے
سبز کھیتوں میں یہ دبکی ہوئی دوشیزائیں
ان کی شریانوں میں کس کس کا لہو جاری ہے
امرتا سے عشق اور شاعری میں پختگی:
ساحر کا ابھی کالج میں بی اے کا پہلا ہی سال تھا کہ انہیں امرتا کور سے عشق ہوگیا ۔ ساحر نے پر اپنی نظم پر چھائیاں میں امرتا سے اپنی محبت اپنے عشق کے نیک جذبے اور نفیس احساس کی بہترین عکاسی یوں کی ہے ؎
وہ پیڑ جن کے تلے ہم پناہ لیتے تھے
کھڑے ہیں آج بھی ساکت کسی امیں کی طرح
انھیں کے سائے میں پھر آج دو دھڑکتے دل
خموش ہونٹوں سے کچھ کہنے سننے آئے ہیں
نہ جانے کتنی کشاکش سے کتنی کا وِش سے
یہ سوتے جاگتے لمحے چُرا کے لائے ہیں
یہی فضا تھی ، یہی رُت، یہی زمانہ تھا
یہیں سے ہم نے محبت کی ابتدا کی تھی دھڑکتے دل سے، لرزتی ہوئی نگاہوں سے
حضورِ غیب میں ننھی سی ا لتجا کی تھی
کہ آرزو کے کنول کھل کے پھول ہو جائیں
د ل و نظر کی دعائیں قبول ہو جائیں
تصّورات کی پرچھائیاں اُبھرتی ہیں
کبھی گمان کی صورت کبھی یقیں کی طرح
ساحراورامرتا ملتے رہے، روحوں میں سماتے گئے۔ جب دونوں کی داستانِ عشق مقامی لوگ گنگنانے لگے، کالج کی دیواروں پر ان کی محبت کی داستاں پھلانگنے لگی تواس جسارت کی پاداش میں ساحر کو کالج سے نکال دیا گیا۔ جب ساحر ایک نامورشاعربن گئے تو اسی کالج میں ان کے اعزاز میں ایک جلسہ ہوا، جس میں ساحر نے اپنی مشہور زمانہ نظم ‘‘نذر کالج’’ پڑھی’جس کے آخری مصرعے یوں تھے…..
لیکن ہم ان فضاؤں کے پالے ہوئے تو ہیں
گریاں نہیں تو یاں کے نکالے ہوئے تو ہیں
بی اے کے چوتھے سال میں وہ لدھیانہ سے لاہور منتقل ہوگئے ،جہاں انہوں نے دیال سنگھ کالج میں داخلہ لے لیا اور اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر چنے گئے۔ سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے وہ بی اے کی ڈگری پوری نہ کر سکے۔ اگلے سال انہوں نے اسلامیہ کالج میں داخلہ لیا مگر وہاں کا ماحول بھی اُن کو راس نہ آیا۔ دِل اچاٹ ہونے کی وجہ سے آخر تعلیم کو خیر آباد کہہ دیا۔ ٹوٹے، بکھرے ، مجروح جذبات نے ساحر میں ایک نئی روح پھونک دی اور ان کی شاعری میں معیار اور پختہ پن جھلکنے لگا۔
1944 میں ساحر کا اولین مجموعہ کلام "تلخیاں" شائع ہوا اورانہوں نے ایک ابھر تے ہوئے نوجوان شاعر کی حیثیت سے ادبی دنیا میں اپنی شناخت قائم کرلی۔" تلخیاں" اتنا مقبول ہوا کہ شاید " دیوان غالب" کے بعد سب سے زیادہ اردو شاعری میں فروخت ہونے والی کتاب " تلخیاں " ہی ہے۔ اس مجموعے کے اب تک 50 سے زیادہ ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں، جس کے پہلے ہی صفحے پر ساحر کا یہ شعر درج ہے…..
دنیا نے تجربات وحوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں
اس شعر سے ہی ساحر کی شاعری کا رنگ وآہنگ اپنا تعارف کرادیتا ہے ۔ اس سے پہلے اور نہ بعد میں کسی اردو شاعر کو یہ امتیاز حاصل ہوا کہ اتنی کم عمر میں اتنی بڑی تعداد میں کسی کا کوئی شعری مجموعہ فروخت ہوا ہو۔
ضروریاتِ زندگی پورا کرنے کے لیے لاہور میں مکتبہ اردو والوں کے رسالہ ‘‘ ادب لطیف’’ میں چالیس روپے ماہانہ تنخواہ پر ایڈیٹر کی نوکری کرنے لگے۔
اس وقت تک امرتا کور، امرتا پریتم بن چکی تھیں اوروہ آل انڈیا ریڈیو ،لاہور میں اناؤنسر تھیں۔ ساحر کی امرتا پریتم سے تجدیدِ محبت کا باعث بننے والی پہلی ملاقات امرتسر کے قریب پریت نگر کے ایک ادبی سالانہ جلسے میں ہوئی۔ اس ملاقات کے طربیہ لمحات کا ذکر کافی رومانی ہے۔ جب امرتا پریتم کو پتہ چلا کہ ساحر اس میں مدعو ہے تو وہ مخبوط الحواس ہوکر موسم کی پرواہ کیے بغیر اس گاؤں پہنچ گئیں۔ مشاعرے کے بعد امرتا اور ساحر دونوں نے قریب 5 کلو میٹر کا فاصلہ ایک ساتھ پیدل طے کیا۔ امرتا نے ساحر کا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیااور رب سے فریاد کرتی رہی کہ یوں ہی ساحر کا ساتھ رہے اور اسی چہل قدمی میں ساری عمر بیت جائے۔
بعد ازاں لاہور میں ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوااور دوستی میں شدت آگئی۔ غالباّ یہی وہ زمانہ تھا جب امرتا پریتم کی اپنے شوہر سردار پریتم سنگھ سے علیحدگی ہوگئی تھی۔ شاید امرتا پریتم ساحر سے شادی کرنا چاہتی تھیں مگر ساحر اپنے ماضی کی تلخیوں سے ذہنی طور پر آزاد نہیں ہوسکے تھے۔ ایک بار ساحر نے امرتا پریتم کی ہتھیلی پر جو دستخط کیے تھے اُن کا اثر امرتا کی ہتھیلی سے ہوتا ہوا شائید شریانوں میں اتر گیا تھا جسے اس نے تاعمر سنجو کر رکھا اور وہ ازدواجی رشتے میں نہ بندھ کر بھی ہمیشہ ساحر کی رہی۔
امرتا اور ساحر کی دوستی ادبی حلقوں میں کافی عرصہ گفتگو کا موضوع بنی رہی ۔خود امرتا پریتم نے اپنی سوانح ‘‘رسید ی ٹکٹ’’ میں ساحر سے اپنی دوستی کے واقعات بڑی ایماندارانہ بے باکی کے ساتھ تحریر کیے ہیں۔
ساحراورامرتا کاعشق روایتی قصے کہانیوں سے ہٹ کر تھا۔ امرتا پریتم کے مطابق ساحر اور ان کے درمیان ایک خاموشی کا رشتہ تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ جب ساحر ان سے ملنے لاہور آتے تو دوسری کرسی پر خاموش بیٹھ جاتے۔ وہ ایک کے بعد ایک سگریٹ پیتے جاتے۔ دل کی بے چینی اور جذبات کا یہ عالم ہوتا کہ آدھی سگریٹ پی کر بجھا دیتے اور فوراً دوسری سگریٹ جلا لیتے۔ اس طرح جب رخصت ہوتے تو کمرے میں آدھی بچی ہوئی سگریٹوں کا ایک ڈھیر لگ جاتا جسے وہ بڑے اہتمام سے اپنی آلماری میں رکھ لیتیں اور تنہائی میں ان سگریٹوں کو نکال کر جب اپنی انگلیوں میں پکڑتیں تو انھیں ساحر کی انگلیوں کے لمس اور ان کی قربت کا احساس ہوتا۔ اس عمل نے امرتا پریتم میں سگریٹ نوشی کی عادت ڈال دی تھی۔
امرتا پریتم ذکر کرتی ہیں کہ کافی عرصے بعد ایک بار ساحر نے انھیں بتایا کہ جب ہم دونوں لاہور میں رہتے تھے تو اکثر وہ ان کے گھر کے پاس آ کر ایک کونے میں کھڑے ہو جاتے۔ کبھی پان کی دوکان سے پان لیتے تو کبھی سگریٹ اور کبھی سوڈے کا گلاس ہاتھ میں لے کر وہ ان کے گھر کی کھڑکی کی طرف، جو کھڑکی سڑک کی طرف کھلتی تھی، گھنٹوں اُدھر نہارتے رہتے۔
اعترافِ محبت کرتے ہوئے امرتا کہتی ہیں کہ 1946 میں جب میرا بیٹا میرے جسم کی آس بنا تھا۔تب میں نے اپنے خیالات اور اپنے تصّور میں ساحر کے چہرے کو بسا ئے رکھا، جسے زندگی میں نہ پاسکی۔ اسے خوابوں میں پالینے کی ایک کرشمہ ساز کوشش،جسم کا ایک آزادانہ عمل صرف روایت ہی سے نہیں خون اور نسل کی گرفت سے بھی رہائی۔ جب3 جولائی 1947 میں بچے کا جنم ہوا اور جب پہلی بار میں نے اس کی شکل دیکھی تو اپنی خلاقی پر یقین ہوا اور بچے کے واضح ہوتے ہوئے خد و خال کے ساتھ اپنا تصور واقعی ساحر کا متشکل ہوتا نظر پڑا اور میرے بیٹے کی کی صورت سچ مچ ساحر سے ملتی تھی۔
اکتوبر 1945 ء میں اردو کے ترقی پسند مصنفین کی کل ہند سطح پر کانفرنس حیدرآباد میں منعقد کی گئی تھی ۔ "تلخیاں" کی مقبولیت لی وجہ سے ساحر کو اس کانفرنس میں مقالہ پڑھنے کے لیے خاص طور پر مدعو کیا گیا۔ کانفرنس میں نو جوان ساحر کے مقالے کی بہت تعریف کی گئی۔ سجاد ظہیر نے ساحر کو گلے لگالیا اور مبارکباد دی ۔ کانفرنس کے اختتام کے بعد سجاد ظہیر، کرشن چندر ، مجاز اور سردار جعفری نے ساحر کو بمبئی منتقل ہونے پر قائل کیا۔ لاہور سے ساحر پہلے لدھیانہ اور پھر جنوری 1946میں بمبئی منتقل ہوئے ۔ تقسیمِ ہند کے زمانے میں جب مشرقی پنجاب (انڈین) میں مسلمانوں کے قتلِ عام اور مسلمان آبادی کے انخلا کا سلسلہ شروع ہوا، تو ساحر کی والدہ مہاجر ٹرین کے ذریعے لدھیانہ سے مسلمان مہاجرین کے ساتھ لاہور پہنچ گئیں۔ ستمبر 1947میں ساحر بمبئی چھوڑ کر لاہو رآئے اور کافی جد وجہد کے بعد والدہ کو تلاش کرلیا۔ایبٹ روڈ پرایک مکان الاٹ کرایا اور اپنی والدہ اورحمید اختر کے ساتھ رہنے لگے۔ انہی دنوں امرتا پرتیم اپنے شوہر اور سسرال والوں کے ساتھ ہندوستان چلی گئیں۔
ساحر لدھیانوی احمد ندیم قاسمی کے ساتھ ’سویرا‘ کی مجلس ادارت میں شامل ہوئےتاہم سویرا کے صرف چند شماروں کی ادارت کی۔
ان کی ادارت میں شائع ہونے والا آخری شمارہ سویرا کا چوتھا شمارہ تھا۔ اس شمارے میں ساحر لدھیانوی کی مشہور نظم ’نیا سفر ہے، پرانے چراغ گل کر دو‘ شائع ہوئی۔ اسی شمارے میں ان کی دو نثری تحریریں بھی شائع ہوئیں جن میں سے ایک تقسیم کے دوران اغوا شدہ عورتوں کے مسئلے کے موضوع پر تھی اور دوسری تحریر شیخ عبداللہ کے ’کشمیر کے جشن آزادی‘ میں شمولیت کے دعوت نامے کا جواب تھا۔
اس خط میں ساحر لدھیانوی نے لکھا تھا کہ ’جس دن کشمیر فی الواقع آزاد ہو جائے گا اور وہاں کے عوام اپنی جدوجہد اور قربانیوں سے بیرونی اور اندرونی لوٹ کھسوٹ سے نجات پا لیں گے اس دن میں کشمیر کی سرزمین پر حاضر ہوں گا اور کشمیر دیس میں بسنے والے عام مردوں اور عورتوں کو، ان کے آہنی عزم کو، ان کی تحریک کو اور ان کی تحریک کے رہنمائوں کو خلوص نیت سے سلام کروں گا۔ وہ دن صرف کشمیر کی زندگی کا ہی نہیں میری اپنی زندگی کا بھی مبارک دن ہوتا۔ میری دعا ہے کہ وہ دن جلد آئے۔‘
’سویرا‘ ترقی پسند مصنّفین کا رسالہ تھا اور اس کی سرگرمیوں پر پاکستانی خفیہ پولیس کی نظر رہتی تھی۔ خفیہ پولیس والے ’سویرا‘ کے دفتر کے چکر لگاتے رہتے تھے اور احمد ندیم قاسمی اور ساحر لدھیانوی کی سرگرمیوں پر نظر رکھتے تھے۔ساحر نے بہت سے مضمون حکومت کے خلاف چھاپے تھے۔ پولیس اور خفیہ ایجنسیوں نےساحر کاجینا حرام کردیا.
ساحر کو یقین دلایا گیا کہ اُن کو امروز کے نام سے شروع کیے جانے والے اخبار کے ایڈیٹوریل بورڈ میں شامل کیا جائے گا۔ آخر کار جب امروز شروع ہوا تو ساحر کی جگہ مولانا چراغ حسن حسرت کو بطور ایڈیٹر رکھا گیا- حالات سے دِل برداشتہ ہوکرساحر نے جون 1948 کے ایک کڑکڑاتے دن چپکے سےشرلاک ہومز کے جیسا لباس (مفلر، اوور کوٹ، سیاہ چشمہ اور انگریزی ٹوپی لگا کر) پہنا اور دہلی منتقل ہوگئے جہاں وہ بدر صاحب اور محمد یوسف جامعی صاحب کے ادارے حالی پبلشنگ ہاؤس سے وابستہ ہوگئے اور ماہنامہ ‘‘شاہرہ’’ کا اجرا کیا۔
اس رسالے میں پرکاش پنڈت ان کے معاون مدیر کے طور پر کام کرتے رہے۔ یہاں انھوں نے اس جریدے کے دو شمارے شائع کیے۔ ساتھ ہی ساتھ سردار گور بخش کے رسالے پریت لڑی کی بھی ادارت کی۔ دہلی میں ان کی ملاقاتیں جوش ملیح آبادی، کنور مہندر سنگھ بیدی، عرش ملسیانی، بلونت سنگھ، بسمل سعیدی، جگن ناتھ آزاد اور کشمیری لال ذاکر سے رہیں
امرتا پریتم دہلی میں مقیم تھیں۔ ساحر امرتا سے ملاقات کے لیے کئی دفعہ دہلی گئے اور دونوں کی طالبِ علمی میں ہوئی پہلی محبت کی یادوں کو آباد و شاداب کیا۔ ساحر سے اپنے تعلقات کو امرتا پریتم نے ایک کہانی کی شکل میں دلّی سے شائع ہونے والے ایک رسالہ 'آئینہ' میں بھی بیان کیا ہے جس کا عنوان 'آخری خط' ہے۔امرتا کے مطابق ایک دن ساحر تھکا تھکایا میرے گھر دہلی پہنچ گیا۔ میں نے جب اس کے ماتھے کو چھوا تو اسے تیز بخار تھا۔ اس کے گلے میں خشکی، سانسوں میں کھنچاؤ کی کیفیت۔ اس روز میں پیروں پر کھڑی، پوروں سے، انگلیوں اور، ہتھیلیوں سے اس کے چھاتی اور گلے پر وِکس ملتی رہی اور رب سے فریاد کرتی رہی۔ ’اسی کیف میں گُم، اسی حالت میں میری زندگی تمام ہو جائے۔ بے خودی میں اُٹھے قدموں کا حوالہ دیتے ہوئے امرتا کہتی ہیں کہ ’’ جب مجھے پتہ چلا کہ ساحردہلی آیا ہے۔ میں ملاقات کے لیے امروز کے ہمراہ اس ہوٹل پہنچ گئی جہاں ساحررکا ہوا تھا۔گپ شپ بحث کے بعد ٹیبل پر تین گلاس میں شراب چھلک گئی، نہ میں نے اور نہ ہی امروزنے،بس ساحر اکیلا ہی پیتا رہا۔ کچھ دیر بعد ہم دونوں وہاں واپس گھر نکل گئے۔ آدھی رات قریب 12 بجے ساحر نے مجھے فون کیا۔ساحر نے اپنی اس تنہائی میں لکھی نظم مجھے سنائی ؎
محفل سے اُٹھ جانے والو، تم لوگوں پر کیا الزام
تم آبا د گھروں کے باسی، میں آوارہ اور بد نام
تم دنیا کو بہتر سمجھے، میں پاگل تھا خوار ہوا
تم کو اپنانے نکلا تھا، خود سے بھی بیزا ر ہوا
دیکھ لیا گھر پھونک تماشہ، دیکھ لیا اپنا انجام
میرے ساتھی، خالی جام
فلمی نغمہ نگاری:
1948 کے آخر میں فلمساز کلونت رائے کی دعوت پرفلم ‘‘آزادی کی راہ پر’’ کےلئے گانے لکھنے کے لیے ساحر دوسری بار بمبئی گئے ۔ اس فلم کے چار گانے ساحر نے لکھے تھے۔ پہلے گانے کے بول تھے….
یہ اجڑی اجڑی بستیاں، یہ لوٹ کی نشانیاں
وہ اجنبی پہ اجنبی کہ ظلم کی کہانیاں
اب دکھوں کے باہر، نکل رہی ہے زندگی
بدل رہی ہے زندگی
فلم کامیاب تو نہیں ہوئی البتہ ساحر نے فلم نگری بمبئی پردستک دے دی۔
دہلی میں ساحر کو اپنے کامیاب مستقبل کی کوئی امید انھیں نظر آ رہی تھی! اچانک ہی دہلی چھوڑ دینے کا فیصلہ کیا۔ اپنی امی کو وہیں دہلی میں پرکاش پنڈت کے پاس چھوڑ کر اور خود ’بمبئی ‘ پہنچ گئے اور بمبئی میں چار بنگلہ میں کرشن چندر کے پاس رہنے لگے۔ مئی 1949میں ساحر نے مستقل طور پر دہلی کوالوداع کہہ کر بمبئی میں سکونت اختیار کرلی اور فلمی نعمہ نگاری پر پوری توجہ لگادی ۔ بعد ازاں فلمی زندگی کی مصروفیات نے ساحر کو اس طرح گھیر لیا کہ تخلیقی شاعری کے لئے مناسب وقت نکالنا ان کے لئے مشکل ہوگیا۔ اس کی تلافی انہوں نے اس طرح کی کہ فلمی گیتوں کو اپنے تخلیق اظہار کا ذریعہ بنا لیا اور فلموں کےلئے انہوں نے جو گیت او رغزلیں لکھیں ، ان میں اپنے سیاسی اور سماجی تصورات کے اظہار کی بھی گنجائش نکال لی۔ 1951 میں فلم ’ نوجوان ‘ کے نغمے لکھے۔ جس کے موسیقار تھے ’برمن دادا‘۔ ساحر کے لکھے ان فلمی نغموں نے دھوم مچائی۔ نغموں کو فلمی شائقین نے بے حد پسند کیا ؎
ٹھنڈی ہوائیں، لہرا کے آئیں
رت ہے جواں، ان کو یاہاں، کیسے بلائیں
چاند اور تارے، ہنستے نظارے
مل کے سبھی، دل میں سکھی، جادو جگائیں… ٹھنڈی ہوائیں
ہدایت کار گرودت اور موسیقار برمن دادا کی ’بازی‘ اور اس کے بعد ’پیاسا‘ ان فلموں کے نغموں نے مقبولیت کے سارے ریکارڈ تو ڑ ڈالے اور ساحراب فلمستان بمبئی کے افق کا جگمگاتا روشن ستارہ بن گیا ۔ اب پروڈیوسر کا خواب ہوتا کہ ان کے فلم کے نغمے ساحر کے لکھے ہوئے ہوں۔
ہندوستانی فلمیں اکثر فلمی نغموں کے وجہ سے ہی کامیاب ہوتی ہیں مگر فلموں میں صرف موسیقار کا نام ہی نمایاں ہوتا ہے، پردوں پر ظاہر ہوتا ہے۔ انصاف پسند ساحر نے بڑی ہمت، اور دلیری سے پروڈیوسر سے تکرار کی کہ’’ جتنی رائیلٹی کی رقم موسیقار کو ملتی ہے اس سے ایک روپیہ زیادہ نغمہ نگار کو ملنا چاہیے ‘‘۔ سارے پروڈیوسر پہلے تو کافی پریشان ہوئے، پر جب انھوں نے غور کیا اور ان کی فلموں کی کامیابی کا جائزہ لیا تو وہ جان گئے کہ ان کی فلموں کی کامیابی کے روح رواں تو فلمی نغمے ہی ہیں۔ تب انھوں نے ساحر کی شرط مان لی اور یہ بھی تسلیم کر لیا کہ ہر فلم کے ’موسیقار‘ کے نام کے ساتھ ساتھ ’نغمہ نگار ‘ کا نام بھی نشر ہوگا اور چھپے گا۔
1958میں ساحر لدھیانوی نے فلمساز رمیش سہگل کی فلم ‘‘ پھر صبح ہوگی’’ کے نغمے لکھے۔ یہ فلم عالمی شہرت یافتہ ناول نگار دوستوسکی کےمشہور زمانہ ناول ‘‘کرائم اینڈ پنشمینٹ ’’ کے مرکزی خیال پر بنائی گئی تھی۔ راجکپور کے پسندیدہ میوزک ڈائریکٹر شنگر جےکشن اس فلم کا میوزک تیار کرنے والے تھے۔ مگر ساحر نے کہا کہ اس فلم کا میوزک وہی بنائے گا جس نے مذکورہ ناول پڑھا ہوگا۔ تب موسیقار خیام کو اس فلم کا میوزک دیا گیا اور انہوں نے ساحر کے نغمہ …..‘‘وہ صبح کبھی تو آئے گی….’’ کی دھن تیار کی، اورمکیش نے اس نغمے کو بہت خوبصورت انداز میں گایا۔
ساحر اپنے دور میں نہ صرف ہندوستان کے سب سے محبوب اور ہر دلعزیز شاعر تھے ، بلکہ عالمی اہمیت کے شعرا میں انہوں نے اپنامقام پیدا کرلیا تھا۔ دنیا کی مختلف زبانوں جیسے انگریزی ،فرانسیسی ،چیک، روسی، فارسی اور عربی میں ان کی شاعری کے ترجمے کئے جاچکے ہیں۔ ساحر جتنے بڑے شاعر تھے، اتنے ہی عظیم انسان تھے۔ ان کی زندگی اور ان کے فن میں کوئی بھید بھاؤ نہیں تھا۔ اپنی شاعری میں انہوں نے انسان اور انسانیت کا جو تصور پیش کیا ہے، وہ خود بھی اس معیار پر بڑی حد تک پورا اترتے تھے۔ انہوں نے اپنی ادبی شاعری میں جہاں عورت کی عزت وعصمت کی حمایت کی ہے، وہیں اپنے فلمی گیتوں میں بھی وہ عورت ہو پرنے والے ظلم وستم کے خلاف کھل کر آواز اٹھاتے ہیں۔ فلم ‘‘سادھنا’’ کا نعمہ….‘‘عورت نے جنم دیا مردوں کو ….’’ اور فلم ‘‘انصاف کا ترازو ’’ میں ساحرکا لکھا گیت…..’’ لوگ عورت کو فقط جسم سمجھ لیتے ہیں …..’’ اس بات کے بہترین شاہد ہیں۔
ساحر کی شاعری محض زلف ورخسارکی آئینہ دار نہیں بلکہ پر خیال ہے۔ ساحر کی بے پناہ مقبول نظموں میں ‘‘تاج محل’’ کو اتنا پسند کیا جاتا تھا کہ جب کبھی کسی مشاعرے میں ساحر مائک پر آتے تھے تولوگ ‘‘تاج محل تاج محل’’ کہہ کر چلانے لگتے تھے۔ حالانکہ تاج محل پر ساحر سے پہلے اور بعد میں بھی کئی شاعروں نے نظمیں لکھی ہیں، مگر اردو شاعر ی میں ساحر تنہا ایسے شاعر ہیں جنہوں نے صدیوں سے محبت اور عظیم اور لاثانی یادگار مانے جانے والے ‘‘تاج محل’’ کے سائے میں اپنے محبوب سے ملنے سےانکار کردیا اور تاج محل کے بارے میں ایک بالکل نیا اور اچھوتا نظریہ عوام کے سانے پیش کیا۔ حالانکہ یہ بھی ایک حقیقیت ہے کہ اس نظم کو لکھنے سے پہلے تک ساحر نے تاج محل دیکھا بھی نہیں تھا۔
ساحر لدھیانوی اور مجروح سلطانپوری سے پہلے فلمی نغمہ نگار ی میں ٹھیٹ ادبی قسم کی لفظیات اور ادبی نظموں کے استعمال کی قطعی گنجائش نہیں تھی لیکن ساحر نے اپنی تمام ادبی نظموں کو فلموں میں اس خوبصورتی کے ساتھ استعمال کیا کہ وہ فلم کا حصہ ہی معلوم ہوتی ہیں ۔ فلم ‘‘لیلیٰ مجنوں’’ کے ایک نغمے کا یہ بند ملاحظہ ہو…
بہت رنجور ہے یہ، غموں سے چور ہے یہ
خدا کا خوف کھاؤ، بہت مجبور ہے یہ
ساحر میں خودداری اور انا کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ ساحر لدھیانوی کی انا اور خودداری کی ہی بات تھی جو گلوکار ہ لتا منگیشکر کے ساتھ ان کے کاروباری اختلافات ہوگئے اور ساحر نے ایک نئی گلوکارہ سدھا ملہوترہ کو آگے بڑھاناشروع کیا۔ اسی دوران سدھا ملہوترہ سے ان کےعشق کی داستانیں عام ہونے لگیں ، اور دونوں شادی کرنے کےلئےآمادہ بھی ہوگئے۔ مگر سدھا ملہوترہ کے والدین اس شادی کےخلاف تھے۔ لہٰذا انہوں نے سدھا کی شادی کہیں دوسری جگہ طے کردی۔ سدھا ملہوترہ کی ضد پر ہی ساحر اس کی منگنی شریک ہوئے او رانہوں نے وہاں بھری محفل میں اپنی مشہور زمانہ نظم ‘‘چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں ….’’ سنائی اور سدھا ملہوترہ دلہن بنی زار وقطار روتی رہی۔ یہ بھی سنا جاتا رہا کہ سدھا ملہوترہ سے پہلے ساحر لتا منگیشکر سےشادی کرنا چاہتے تھے اوراس ناکامی کی وجہ سے ہی ساحر اور لتا میں اختلافات ہوئے تھے۔
ساحر کی خودداری کا ایک اور واقعہ اس طرح ہے کہ ایک بار یش چوپڑا کے کسی فلمی نغمے کی ریکارڈنگ تھی جس میں ساحر بھی موجود تھے،کیونکہ وہ نغمہ ساحر نے ہی لکھا تھا۔ ساحر سے یش چوپڑا کی بہت اچھی دوستی بھی تھی ۔ ریکارڈنگ کے وقت جب لتا منگیشکر آئیں تو ان کا بڑا پرُ تپاک خیر مقدم کیا گیا، گلدستے پیش کیے گئے اور پھولوں کے ہار گلے میں ڈالے گئے ۔ جبکہ ساحر کے ساتھ ایسا کچھ نہیں کیا گیا تھا۔ یہ بات ساحر کو بہت ناگوار گزری ۔انہوں نے شام سے ہی خوب شراب پی اور دیر رات تک ایک بجے یش چوپڑا کو فون کیا۔ اتنی رات کو فون پر ساحر کی آواز سن کر پش چوپڑا گھبرا گئے۔ ساحر نے یش چوپڑا سے فون پر پنجابی لہجے میں کہا ۔‘‘اوئے یش! لتا کی آواز بہت خوبصو رت ہے نا…..تم ایسا کرو کہ اس کی آواز ریکارڈ کرا لو اور میرے لفظ واپس دے دو۔’’ یش چوپڑا نے فون پر ساحر کو سمجھانے کی بہت کوشش کی مگر وہ اپنا ہی جملہ دوہراتے رہے ۔صبح کو یش چوپڑا نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ وہ ساحر کے گھر ‘‘پر چھائیاں’’ پہنچے اور اس بات کے لئے ساحر سے معذرت کی ۔
بائیں سے دائیں: ساحر لدھیانوی، یش چوپڑہ اور موسیقار روی |
فلم ‘‘بازی’’ کے نغمے ساحر نے لکھے تھے اور موسیقار ایس۔ ڈی برمن نے دھنیں تیار کی تھیں۔ اس فلم کے سارے گیت ہٹ ہوئے تھے ۔ اس کے بعد ایک فلمی پارٹی میں ایس ۔ٹی برمن نے ساحر کی موجودگی میں یہ کہا کہ میری دھنوں کی وجہ سے اس فلم کے نعمے مقبول ہوئے ہیں، نہ کہ ساحر کی شاعری کیوجہ سے ۔لہٰذا ساحر نے اسی وقت طے کرلیا کہ وہ اب کسی مشہور میوزک ڈائریکٹر کے لئے گیت نہیں لکھے گا اور دنیا کو بتادے گا کہ میوزک ڈائریکٹر سے کہیں زیادہ بڑا شاعر ہوتا ہے۔ فلم ‘‘ بازی ’’ کے بعد ساحر نے کسی مخصوص یا سکہ بند میوزک ڈائریکٹر کے لئے گیت نہیں لکھے ،بلکہ نئے نئے موسیقاروں کےلئے نغمے تحریر کیےجو مقبول ہوئے۔
ساحر لدھیانوی جس لب و لہجے میں شاعری کرتے تھے، وہ الگ ہی پہچانا جاتا ہے ۔18فروری 1969میں مرزا اسد اللہ خاں غالب کےصد سالہ جشن پیدائش پر تاریخی لال قلعہ کے ایک عالیشان مشاعرے میں ساحر نے جو نظم پڑھی ، وہ نہ صرف ساحر کے لب ولہجہ کی غماز ہے بلکہ اس نظم میں اردو زبان کے لیے ساحر کے دلی احساسات کی ترجمانی بھی ہوتی ہے ، اور ہمارے اس جمہوری نظام کی آئینہ دار ی بھی ہوتی ہے کہ جس طرح اس ملک کی پیدا ہوئی ، پرورش ہوئی او ر یہاں کے محلوں ،گلی کوچوں میں بسنے والی زبان کو سیاست کی بدبودار کیچڑ میں رچے بچے کو سیاستدانوںص نے غدار ٹھہرا دیا اور بتیس دانتوں کے درمیان رہتے ہوئے یہ زبان آج بھی غیر محفوظ ہے۔ یہ نظم صرف ساحر ہی کہہ سکتے تھے۔ ملاحظہ ہو……
اکیس برس گزرے آزادی کامل کو
تب جاکر کہیں ہم کو غالب کا خیال آیا
تربت ہے کہاں اس کی مدفن ہےکہاں اس کا
اب اپنے سخن پر ور ذہنوں میں سوال آیا
سوسال سے جو تربت چادر کو ترستی تھی
اب اس پہ عقیدت کے پھولوں کی نمائش ہے
اردو کے تعلق سے کچھ بھید نہیں کھلتا
یہ جشن یہ ہنگامہ خدمت ہے کہ سازش ہے
جن شہروں میں گونجی تھی غالب کی نوابرسوں
ان شہروں میں اب اردو بے نام ونشاں ٹھہری
آزادی کا مل کا اعلان ہوا جس دن
اس ملک کی نظروں میں غدار زباں ٹھہری
جس عہد سیاست نے یہ زندہ ز باں کچلی
اس عہد سیاست کو مرحوموں کا غم کیوں ہو
غالب جسے کہتے ہیں اردو ہیا کا شاعر تھا
اردو پہ ستم ڈھاکے غالب پہ کرم کیوں ہو
یہ جشن یہ ہنگامے دلچسپ کھلونے ہیں
کچھ لوگوں کی کوشش ہے کچھ لوگ بہل جائیں
جو وعدۂ فردا پر اب اٹل نہیں سکتے تھے
ممکن ہے کہ کچھ عرصے اس جشن سے ٹل جائیں
یہ جشن مبارک ہو پر یہ بھی صداقت ہے
ہم لوگ حقیقت کے احساس سے عاری ہیں
گاندھی ہوکہ غالب ہو انصاف کی نظروں میں
ہم دونوں کے قاتل ہیں دونوں کے پجاری ہیں
(نظم : غالب اور جشن جمہوریت)
تصانیف:
ساحر لدھیانوی کے متعدد شعری مجموعے شائع ہوئے جن میں تلخیاں، پرچھائیاں، گاتا جائے بنجارا اور آئو کہ کوئی خواب بنیں سرفہرست ہیں۔
ایوارڈز:
ساحر لدھیانوی کو 1963میں سب سے پہلے فلم ‘‘تاج محل’’ کے نغموں کے لئے فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ حکومت ہند کی طرف سے انہیں 1971میں پدم شری سے نوازا گیا اورا ن کے تیسرے شعری مجموعہ ‘‘آؤ کہ کوئی خواب بنیں ’’ کے لیے 1972میں سوویت لینڈ نہرو ایوارڈ سے نوازا گیا۔ بعد ازاں مہاراشٹر اردو اکیڈمی اور مہاراشٹر اسٹیٹ ایوارڈ سے بھی ان کو نوازا گیا۔ 1976میں فلم ‘‘کبھی کبھی ’’ کےلئے فلم فیئر ایوارڈ ملا۔
وفات:
25؍ اکتوبر1980 کے دن ان کی بہن انور سلطانہ ساحر کو ڈاکٹر کپور کے یہاں لے گئیں۔ اس وقت ساحر اچھے خاصے تھے۔ڈاکٹر سے باتیں کر رہے تھے کہ اچانک ان کا سر ڈھلک گیا ۔ اس طرح 57 سال کا ایک شخص اور پل دو پل کا ایک شاعر، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگیا
میں پل دو پل کا شاعر ہوں پل دو پل مری کہانی ہے
پل دو پل میری ہستی ہے پل دو پل مری جوانی ہے
مجھ سے پہلے کتنے شاعر آئے اور آکر چلے گئے
کچھ آہیں بھر کر لوٹ گئے کچھ نغمے گا کر چلے گئے
وہ بھی اک پل کا قصہ تھے میں بھی اک پل کا قصہ ہوں
کل تم سے جدا ہو جاؤں گا گو آج تمہارا حصہ ہوں
کل اور آئیں گے نغموں کی کھلتی کلیاں چننے والے
مجھ سے بہتر کہنے والے تم سے بہتر سننے والے
مگر اس کے اپنے الفاظ میں ….
جسم کی موت کوئی موت نہیں ہوتی ہے
جسم مرجانے سے انسان نہیں مرجاتے ہیں
دھڑکنیں رکنے سے ارمان نہیں مرجاتے ہیں
ہونٹ جم جانے سے فرمان نہیں مرجاتے
جسم کی موت کوئی موت نہیں ہوتی ہے
تدفین ممبئی میں ہوئی۔ ان کی قبر پر ان کے چاہنے والوں نے ایک مقبرہ تعمیر کیا تھا لیکن جنوری 2010ء میں اسے منہدم کر دیا گیا۔ اب ان کی قبر کا بھی کچھ نشان پایا نہیں جاتا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭