صفحات

تلاش کریں

ڈرامہ-رستم و سہراب(باب دوم)

سمنگان کا شاہی محل

تہمینہ:۔ امید اور انتظار میں ہوا کے جھونکے کی طرح زندگی کے سولہ برس گزر گئے ۔ یا خدا... عورت کا دل اس قدر کمزور اور مرد کا اتنا بے رحم ہوتا ہے ۔ عورت محبت کا نشہ پی کر تمام عمر ہوش میں نہیں آتی اور مرد پیالہ ہونٹوں سے جُدا ہوتے ہی اس شراب کی لذت اور سرور کو فراموش کر دیتا ہے ؂

دل کی فضا میں برق سی چمکی نکل گئی

کیا دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بدل گئی

پیالہ تھا ، مَے تھی ، عیش و خوشی کا شباب تھا

شادی نہ تھی وہ میری جوانی کا خواب تھا



(سین ختم)
توران کا شاہی محل

(امرائے سلطنت کے ساتھ جوش اور غصے کی حالت میں توران کے شہنشاہ افراسیاب کا داخلہ)

افراسیاب:۔ توران کے سب سے بڑے دشمن رستم کو اپنا مہمان بنا کر اسے اپنی بیٹی تہمینہ کا حسن و شباب نذر دینا ، اسی شادی کے شرمناک نتیجے میں سہراب کی پیدائش کا حل پندرہ برس تک اپنے آقا و شہنشاہ سے پوشیدہ رکھنا، کیا یہ مجرمانہ جرأت نہیں ہے ۔ کیا یہ تورانیوں کی توہین اور شہنشاہ توران سے کھلی بغاوت نہیں ہے ۔ سمنگان کے شاہی محل میں رہنے والے کتّے !مصلحت تیری سفارش کر رہی ہے اس لیے میری رگ میں گرجتا ہوا غصے کا طوفان ایران کی تباہی تک خاموشی اختیار کرے گا۔ اس کے بعد تیرے لیے نہ معافی ہے اور نہ زندگی ہے ۔ ہومان !بارمان!

ہومان ۔ بارمان:۔ ولیِ نعمت!

افراسیاب:۔ میرا حکم تھا کہ تورانی لشکر کے بارہ ہزار بہادر سامانِ جنگ کے ساتھ سفر کے لیے تیار رہیں۔

ہومان ۔ بارمان:۔ (ہاتھ باندھ کر) خداوند!

افراسیاب :۔ سمنگان کے بادشاہ کا نواسہ سہراب ، کیکاؤس کے سر کو شاہی تاج سے محروم کرنے کے لیے ایران کی سرزمین کو اپنے گھوڑے کی ٹاپوں سے روندنا چاہتا ہے ۔میرا خط اور تحفہ لے کر تم آج ہی سمنگاں روانہ ہو جاؤ۔ سہراب سے کہنا کہ ایران کی مغرور چھاتی میں توران کی عزّت کا جھنڈا گاڑنے جا رہے ہو اس لیے توران کا شہنشاہ افراسیاب تمھاری کامیابی کے لیے دعا کرتا اور فتح یابی سے قبل ہی تمھیں ایران کی فتح کی مبارک باد دیتا ہے ۔

ہومان:۔ جہاں پناہ نے جو حکم دیا ہے ہم دونوں غلام اس کے ایک ایک حرف کی تعمیل کریں گے ۔

افراسیاب:۔ سنو! قدر دانی یا ہمدردی کے جذبے نے مجھے سہراب کی مدد پر مائل نہیں کیا ۔سانپ کا بچہ بھی سانپ ہی ہوتا ہے اور بڑا ہو کر سانپ ہی کی طرح ڈستا ہے ۔ رستم کے خون اور طاقت کا وارث سہراب اگر زندہ رہا تو ایک دن وہ بھی توران کے تاجدار کے لیے دوسرا رستم ثابت ہو گا۔ ضرورت ہے کہ پہلے جوان بیٹے کے ہاتھوں بوڑھے باپ کو قتل کرا دوں ۔ اس کے بعد دعوت میں بلا کر زہر یا خنجر سے سہراب کا بھی خاتمہ کر دوں۔ اس لیے کوشش کرنا کہ میدان جنگ میں قسمت کا آخری فیصلہ ہونے تک باپ بیٹے ایک دوسرے کو پہچان نہ سکیں۔ سمجھ گئے ۔ جاؤ۔ دیوان خانے میں انتظار کرو ۔ میں بہت جلد تحفے کی کشتیاں اور اپنا خط تمھارے پاس بھیجتا ہوں ۔ سب کچھ بھولنا لیکن دو باتیں نہ بھولنا ، میرا حکم اور اپنا فرض۔

دونوں:۔ شاہی اقبال کی فتح ہو!

(دونوں جاتے ہیں)

افراسیاب:۔ (وزیر سے ) سنتے ہو ! میرا حکم ہے کہ آج سے ہر وقت گھوڑوں کی پیٹھ پر زین اور تورانی بہادروں کے جسم پر زرہ بکتر اور ہتھیار سجے رہیں۔ رستم کی موت کی خبر ملتے ہی بجلی کی طرح پوری طاقت کے ساتھ ایران کے سر پر ٹوٹ کر اُس کے غرور کو ریزہ ریزہ کر دوں گا اور وہی دن میری زندگی کا بہترین دن ہو گا۔

وزیر :۔ اعلیٰ حضرت !یہ سلطنت کا قدیم نمک خوار حضور کی خیر خواہی اور ملک کی بہبود کے خیال سے کچھ عرض کرنے کی اجازت چاہتا ہے ۔

افراسیاب:۔عرض ،عرض، تو ہمیشہ عرض اور گزارش کی آڑ میں ما بدولت کے جوش کو سرد کرنے کے لیے وعظ شروع کر دیتا ہے ۔ بول ، عرض کر۔ لیکن یہ خیال رہے کہ ایران پر حملہ کرو اور کیکاؤس کو تباہ کر دو، ان دو جملوں کے سوا میں اور کچھ سننا نہیں چاہتا ۔

وزیر:۔ میری یہ عرض ہے کہ آپ اپنی رعیت کے مالک ہیں لیکن آسمان کی گردش ، قسمت کی تحریر اور خدا کی مرضی کے مالک نہیں ہیں۔ یہی سبب ہے کہ اپنی طاقت ، اپنا خزانہ ، اپنی رعیت کے لاکھوں نوجوانوں کی زندگیاں برباد کر کے بھی آج تک ایران کو تباہ نہ کر سکے ۔ جب ایران کی تباہی خدا کوہی منظور نہیں ہے تو ایران پر حملہ کرنا خدا کی مرضی سے جنگ کرنا ہے ۔

افراسیاب:۔ میرا دماغ پچھلی ذلتوں کی یاد سے دوزخ بنا ہوا ہے اس لیے سہراب کو میں اپنے غضب کا حربہ بنا کر ایران سے ضرور بدلہ لوں گا۔

وزیر:۔ میں معافی مانگ کر پھر عرض کروں گا کہ ملک اور سلطنت کی بہبوداسی میں ہے کہ جو کچھ ہے اس کی حفاظت کیجیے اور جو نہیں ہے اور نہیں مل سکتا اسے زبردستی حاصل کرنے کا خیال ترک کر دیجیے ۔ ؂

نہ زندگی ہے ہمارے بس میں نہ موت ہی اختیار میں ہے

کسے بنانا کسے مٹانا یہ قبضۂ کردگار میں ہے

نہ رکھیے ایرا ن سے عداوت ، نہ ہو گا کچھ اور نہ ہو سکا ہے

اِدھر ہیں آپ اُدھر ہے قدرت اِدھر بشر ہے اُدھر خدا ہے

افراسیاب:۔ میں خدا کی مرضی کو مجبور کروں گا کہ ایران کی قسمت کی تحریر افراسیاب کے قلم سے دو بارہ لکھی جائے ۔ افراسیاب کی غلامی ، یہی ایران کی آخری قسمت ہے ۔

وزیر:۔ جہاں پناہ !بادشاہ رعیت کا باپ ہوتا ہے ۔ آپ باپ ہو کر اپنی رعایا کے بوڑھوں کو بے اولاد ،بچوں کو یتیم اور عورتوں کو بیوہ نہ بنائیے ۔ رعیت کے خون پسینے کی کمائی کا جو روپیہ آپ قہر و غضب کی نمائش ، فوج کی تیاری اور جنگ کا سامان خریدنے پر خرچ کر رہے ہیں وہی روپیہ رعایا کے بچوں کی تعلیم ، یتیموں اور بیواؤں کی پرورش ، بھوکے کسانوں اور غریب مزدوروں کی ترقی و فلاح میں خرچ کیجیے ؂

بچا تا ہے یہی دشمن کے حملوں اور بلاؤں سے

کوئی لشکر نہیں بڑھ کر رعایا کی دعاؤں سے

وہی ہے بادشہ رکھتا ہے جو حربہ محبت کا

زمانہ اس نے جیتا جس نے دل جیتا رعیت کا

افراسیاب:۔ تیری پچھلی وفاداریوں اور خدمتوں کا خیال کر کے میں اب تک تجھے معاف کرتا رہا ، لیکن اب دیکھتا ہوں کہ تو میرے رحم کو غضب سے بدلنا چاہتا ہے ۔

وزیر:۔ خداوند نعمت !تنخواہ اور انعام کے روپوں سے اپنی جیبیں بھرنے کے لیے اپنے آقا کو غلط راستے کی طرف لے جانا خدمت نہیں ہے بلکہ جان و مال سے بے پروا ہو کر مالک کی بھلائی کے لیے سچائی کا آئینہ بن کر اس کی بھول اس کے سامنے ظاہر کر دینا ہی حقیقی جاں نثاری اور سچی وفاداری ہے ؂

جسے خدا سے خطر فرض پر نگاہ نہیں

وہ زر کا یار ہے مالک کا خیر خواہ نہیں

جہاں میں جھوٹ، خوشامد ہی جس کا دھندا ہے

وہ صرف پیٹ کا کتّا ، غرض کا بندہ ہے

افراسیاب:۔ معلوم ہوا تو ضرور رشوت لے کر ایرانیوں سے مِل گیا ہے ۔ لے جاؤ اس دوست کے لباس میں چھپے ہوئے دشمن کو قتل کر دو۔ اگر یہ زندہ رہا تو اپنی نا مردانہ باتوں سے تمام تورانیوں کو بزدل بنا دے گا۔

(جاتا ہے )

وزیر :۔ ظالم بادشاہوں سے تمام زندگی کی خیر خواہی اور وفاداری کا آخر میں یہی انعام ملتا ہے ۔ ان غرور کے بولتے ہوئے پتلوں کی نظر میں سچ بولنا دنیا کا سب سے بڑا جرم ہے ۔ چوری ، ڈاکا ،دھوکا ، قتل ، بغاوت ، یہ ہر گناہ معاف کر دیتے ہیں لیکن سچائی کا جرم کبھی معاف نہیں کرتے ۔ (سپاہیوں سے ) چلو ! سچ بولنے کی سزا دینے کے لیے مجھے موت کی عدالت کی طرف لے چلو ؂

ریت کی دیوار پر بنیاد ہے ہر بات کی

بادشاہوں کی عنایت، دھوپ ہے برسات کی



(سین ختم)
سمنگان کا شاہی محل

(شاہِ سمنگان ، تہمینہ ، کنیزیں، بارمان اور ہومان موجود ہیں)

شاہِ سمنگان:۔ بیٹی !بادل کے کما ن سے نکل کر زمیں کی طرف آتا ہوا بجلی کا تیر اور سہراب کا ارادہ ہماری منتوں سے اپنا راستہ نہیں بدل سکتا اس لیے اپنی مامتا کو اس کی سرکش مرضی کے ساتھ صلح کرنے کے لیے مجبور کرو۔

تہمینہ:۔ ابّا جان !میری زبان نے مجبوری سے اسے ایران جانے کی اجازت دے دی ہے لیکن مامتا کی آگ سے جلتا ہوا دل ابھی تک اجازت دینے کے لیے تیار نہیں ؂

اُدھر کہتا ہے وہ ، ماں مجھ کو قسمت آزمانے دے

اِدھر کہتا ہے دل میرا ، نہ جانے دے نہ جانے دے

نہ وہ مانے نہ یہ مانے ، کروں کیا ، سخت مشکل ہے

اُدھر بپھرا ہوا سہراب ، اِدھر بگڑا ہوا دل ہے

ہومان:۔محترم بانو! توران کے شہنشاہ افراسیاب نے محبت کے تحفوں کے ساتھ تورانی فوج کے جو بارہ ہزار بہادر بھیجے ہیں ان میں ہر سپاہی بارہ ہزار دلیروں کی طاقت کا مالک ہے ۔ ان بارہ ہزار تورانی شیروں کے ساتھ آپ کانا مور فرزند جس زمین پر قدم رکھے گا ؂

سر جھکا دے گا زمانہ جبہ سائی کے لیے

آئے گی خود فتح بڑھ کر پیشوائی کے لیے

غم نہ کیجیے آپ اس کے نیک و بد کے واسطے

قسمت و اقبال حاضر ہیں مدد کے واسطے

(سہراب جوش میں داخل ہوتا ہے )

سہراب:۔ رستم کا فرزند اپنے بازو اور تلوار کے سوا کسی سے مدد کا طلب گار نہیں ہے ۔ (ہومان ، بارمان سے ) میں نے صرف ناشکر گزاری کے الزام سے بچنے کے لیے تاج دار توران کی فوجی مدد قبول کر لی ہے لیکن سہراب تورانی لشکر کے اعتماد پر نہیں اپنی جرأت و طاقت کے بھروسے پر ایران کے غرور کو للکارنے جا رہا ہے ۔ خدا میرا حافظ ، ہمت میری ہمدم، تلوار میری خادم، میدانِ جنگ میرا راستہ اور کیکاؤس کا تخت میرے سفر کی آخری منزل ہے ۔ اس سفر کے آغاز کا نام ہے استقلال اور اس سفر کے خاتمے کا نام ہے فتح۔

بارمان:۔ ہمیں کامل یقین ہے کہ آپ اپنے زورِ بازو سے ضرور ایران کی تاریخ بدل دیں گے ۔

سہراب:۔ ماں !جس رستم کی پیدائش پر آسمان زمیں کو مبارک باد دیتا ہے ، جس رستم کا نام سن کر بہادری غرور کے نشے سے جھوم اٹھتی ہے اس رستم کا بیٹا ہونا میرے لیے شرم کا نہیں فخر کا باعث ہے ۔ پھر آج تک میری حقیقت کو پردے میں رکھنے کی کیا وجہ تھی ؂

دل میں رکھا راز ، دنیا کو خبر ہونے نہ دی

شامِ گمنامی کی تم نے کیوں سحر ہونے نہ دی

تہمینہ:۔ اس غصے اور رحم بھرے سوال کا جواب ماں سے نہیں ماں کی مامتا سے پوچھ۔ تیری پیدائش کا راز ظاہر ہونے سے اندیشہ تھا کہ تیرا باپ تجھے اپنے پاس بلا کر میری دنیا کی روشنی مجھ سے چھین لے گا اور مجھ بد نصیب کی آنکھیں شوہر کے چہرے کی طرح بیٹے کی صورت دیکھنے کے لیے بھی بے رحم قسمت کے سامنے فریاد کرتی رہیں گی ؂

نہ زہر گھول دے تقدیر میرے جینے میں

چھپا رکھا تھا اسی سے یہ بھید سینے میں

سہراب:۔ماں ! رستم جیسا باپ اور سہراب جیسا بیٹا ۔ ان دونوں آفتاب و مہتاب کی موجودگی میں دنیا کو حقیر ستاروں کی ضرورت نہیں ہے ۔ میں خدا اور دنیا کے سامنے کیکاؤس کو تخت سے اتار کر اپنے باپ کو ایران کا بادشاہ اور تمھیں ایران کی ملکہ بنانے کا عہد کر چکا ہوں ۔ اس عہد کو پورا کرنے کے لیے اب تم سے آخری مرتبہ اجازت مانگنے آیا ہوں۔

تہمینہ:۔ (روتے ہوئے ) سہراب !

سہراب:۔ کیا ماں !روتی ہو ۔ روؤ نہیں۔ مائیں لائق کے لیے نہیں نا لائق اولاد کے لیے روتی ہیں ۔ تمھارا بیٹا عزت کی دنیا فتح کرنے جا رہا ہے اس لیے یہ رونے کا نہیں خوش ہونے کا وقت ہے ۔ ہنستے ہوئے ہونٹوں سے اجازت دے کر مجھے میدانِ جنگ کی طرف رخصت کرو ۔ سمنگان کے قلعے کے دروازے پر فوج اور ایران کی زمین پر شہرت تمھارے سہراب کا انتظار کر رہی ہے ۔

تہمینہ:۔ سہراب ،ایران کی زمین جادو کی زمین ہے جہاں جاتے ہی انسان اپنے پیاروں اور اپنی پچھلی محبت کو بھول جاتا ہے ۔ مجھے خوف ہے کہ یہاں سے جانے کے بعد اپنے باپ کی طرح کہیں تو بھی غریب تہمینہ کو نہ بھول جائے ؂

تری صورت تری باتیں مرے دوہی سہا رے ہیں

تجھی کو دیکھ کر دنیا میں اتنے دن گزارے ہیں

کلیجے سے لگا لینے کو پاؤں گی کہاں تجھ کو

کرے گا کون ضد مجھ سے کہے گا کون ماں مجھ کو

سہراب:۔ ماں!ماں !یہ تم کیا کہہ رہی ہو ؟ تم میری نجات کا وسیلہ ہو ، میری زندگی کی برکت ہو ؂

بھول جاؤں فرض کو ایسی نہیں اولاد میں

اپنی اک اک سانس میں تم کو کروں گا یاد میں

تہمینہ:۔ اچھا تو خدا کی مرضی پوری ہو ۔ (مہرہ نکال کر) یہ تیرے باپ کی دی ہوئی نشانی ہے ۔ اس نے سمنگان سے رخصت ہوتے وقت تاکید کی تھی کہ اگر لڑکی ہو تو مہرہ اسکے سر کے بالوں میں اور لڑکا ہو تو اس کے بازو پر ضرور باندھ دینا ۔ لا ہاتھ بڑھا ۔ پندرہ برس سے آج ہی کے دن کے لیے اس محبت کی یاد گار کی حفاظت کر رہی تھی ۔ اس مہرہ پر نظر پڑتے ہی باپ بیٹے کو ، خون خون کو پہچان لے گا (سہراب کے بازو پر مہرہ باندھ دیتی ہے ) میرے لال !تجھے سچّے بہادر اور سچّے سپاہی کا فرض سکھانے کی ضرورت نہیں ہے ، پھر بھی رخصت کرنے سے پہلے نصیحت کرتی ہوں کہ ہمیشہ تلوار کو کمزور کا محافظ سمجھنا ، ظلم کو ذلیل جاننا اور پیروں میں پڑے ہوئے دشمن کو رحم مانگنے پر معاف کر دینا ؂

دیکھنا جرأت و طاقت پہ نہ الزام آئے

لب پہ شاباش ہو سہراب کا جب نام آئے

سہراب:۔ پیاری ماں ! میں لوہے کے ہتھیاروں سے سج کر میدانِ جنگ کی طرف ناموری کی تلاش میں جا رہا ہوں ۔ یہ آہنی ہتھیار دشمن کی ہمتوں کو ، جسموں کو، فوجو ں کو اور قلعوں کو فتح کر سکتے ہیں لیکن عزت اور شہرت پر فتح پانے کے لیے مجھے ایک اور حربے کی ضرورت ہے ۔

تہمینہ:۔ میرے بچے وہ کون ساحربہ ہے ؟

سہراب:۔ (تہمینہ کے قدموں میں بیٹھ کر ) ماں کی دعا ؂

ہو نہ یہ حربہ تو پھر بیکار میرے ہاتھ ہیں

ساتھ ہے دنیا اگر ماں کی دعائیں ساتھ ہیں

تہمینہ:۔ (سہراب کے سر پر ہاتھ رکھ کے ) ؂

دعا دیتی ہوں تجھ کو وقتِ رخصت ، بخت یا ور ہو

زمانہ پاؤں کے نیچے ، خدا کا ہاتھ سر پہ ہو



(سین ختم)
ایرانی سرحد، قلعۂ سفید کا اندرونی حصہ

(قلعہ کے رئیس گستہم اور فوجی سردار بیٹھے ہوئے غمگین نظروں سے سامنے کھڑے ہوئے بہرام کی طرف دیکھ رہے ہیں)

بہرام:۔ سہراب زوال کا نقیب ، تخریب کا علمبردار ، فنا کا پیامی ، موت کی سانس کا شعلہ ہے ، ہمارا قلعۂ سفیدویرانۂ عبرت ، ہمارے نگارستانِ عیش مقتلِ آرزو، ہمارے محلات و باغات گھوڑوں کے طویلے بن جائیں، ہماری آسودگی ، معاشرتی شیرازہ ، ملکی نظام ، قومی دربار ، جنگی ذخیرے ، سربرآوردہ افراد اور بہترین سپاہیوں کی زندگیاں برباد ہوں، ان یقینی المناک نتائج کے سوا اِس لشکر کشی، صف آرائی کا اور کوئی حاصل نہیں ہے ۔ سہراب کی تلوار کی جھنکار کو ہمیں اپنی شومیِ قسمت کی طرف سے اعلانِ جنگ تصور کرنا چاہیے ۔

گستہم :۔ لیکن ہم نتیجے کے ظہور سے پہلے ہی کیوں یقین کر لین کہ تقدیر ہمارے خلاف اس جنگ کا فیصلہ کر چکی ہے ۔ جب تک ہمارے پاس قلعۂ سفید کی بلند و مستحکم دیواریں ہیں ، حوصلوں میں توانائی ہے ، آزادی کی محبت ہے ،سر فروشی کا جذبہ ہے ، جوشِ فدائیت کی فراوانی ہے اس وقت تک ایک کم عمر ، نو خیز قوت کے سامنے تلواریں پھینک کر ایران و توران کی نظر میں اپنے دعوائے شجاعت کو ذلیل نہ کرنا چاہیے ۔

سردار(۱):۔ بے شک!حوصلوں کی پستی ، ذلت کی طرف مرد کا پہلا قدم ہے ۔ مجھے ابھی تک ارادوں کی پسپائی کا کوئی معقول سبب نظر نہیں آتا ۔ دنیا امید کی جلوہ گاہ ہے ، مایوسی کا ظلمت کدہ نہیں ہے ۔احساس کا نام زندگی اور جوشِ عمل کا نام کامیابی ہے ۔

سردار(۲):۔ آپ کی رائے مرض کی صحیح تشخیص ہے ۔دشمن کا خوف حملے سے زیادہ ہیبت ناک ہوتا ہے ۔ یہ صرف ہمارا وہم ہے جو ہمارے سامنے شکست یافتہ مستقبل کی اشک بار تصویر پیش کر رہا ہے ۔

بہرام:۔ امید آپ لوگوں کی توقعات کو فریب دے رہی ہے ۔ ہوا میں گرہ دینے کی نا کام و بے نتیجہ کوشش نہ کیجیے ۔ اپنی طاقت کا غلط اندازہ کرنے پر آپ کی پہلی غلطی اور سہراب کو طفلِ شیر خوار یا معمولی نبرد آزما سمجھنا یہ دوسری غلطی ہے ۔ میں ملک کی بہبود کے لیے بہترین مشورہ دے کر اپنی ذمہ داری اور قومی فرض سے سبکدوش ہو چکا ۔ ہر شخص اپنی رائے کا مالک ہے ۔ لیکن خوش ہونے سے پیشتر ایک بار بھر متنبہ کرتا ہوں کہ آپ لوگ اپنے ہاتھوں سے اپنے لیے امن و آشتی کا دروازہ بند کر رہے ہیں۔ وقت کی آنکھیں بدل چکی ہیں۔ سہراب کے قوائے حربی اور فتوحاتِ جلیلہ کو ہیچ سمجھ کر اس سے بر سرِ جنگ ہونا جنگ نہیں خودکشی ہے ۔

گستہم:۔ (حاضرین سے ) مجھے اپنی رائے صائب یا خطا ہونے پر اصرار نہیں ۔ قیاس کی پیشین گوئی صحیح بھی ہوتی ہے اور غلط بھی۔ میں نے جلسۂ مشاورت کے سامنے اپنا ذاتی خیال پیش کر دیا ۔ اب آپ لوگ متفق ہو کر خود فیصلہ کریں کہ پیشِ نظر مشکلات میں کیا کرنا چاہیے ۔ جنگ یا صلح !

سردار (۳):۔ جب لشکر بے حوصلہ ، اسبابِ مدافعت کمزور ، حالات ناموافق ، تدبیر خلافِ امید ، فتحِ موہوم اور قوی بازو دشمن کے حملے کامیاب ہیں تو ایسے برگشتہ وقت میں ضرورتِ صلح کا احساس نہ کرنا، اپنی آسائشِ حیات اور ذرائع نجات سے دست بردار ہونا ہے ۔ میری رائے صلح کے حق میں ہے ۔

سردار(۴):۔سہراب کا حملہ اتفاقی آندھی ہے جو تھوڑی دیر مطمئن فضا میں اضطراب پیدا کر کے اپنی طاقت کی نمائش کے لیے دوسری طرف روانہ ہو جائے گی ۔ اس لیے ابلہانہ جوش سے مشتعل ہو کر ہنگامی آفت کو دائمی مصیبت نہ بنانا چاہیے ورنہ زندگی کی غلطیوں میں یہ سب سے زیادہ ہولناک غلطی ہو گی۔

گستہم :۔ (بہرام سے ) جب کثرتِ رائے جنگ کی مخالف ہے تو آپ ہماری جانب سے صلح کے قاصد بن کر جائیے ۔ سہراب سے کہیے کہ دوستی کی نسیمِ بہار سے دشمنی کا موسمِ خزاں ختم ہوا ۔ ہم جان و مال کی سلامتی کے وعدے پر اپنا قلعہ حوالے کرنے پر تیار ہیں ...

بہرام:۔ وقت کی یہی پکار تھی ۔ ضرورت و مصلحت کا یہی مطالبہ تھا۔ ملک کی بنیادیں آنے والے زلزلے کی دہشت سے کانپ رہی تھیں۔ آپ نے اس فیصلے سے بند باندھ کر خون اور تباہی کے سیلاب کو آگے بڑھنے سے روک دیا۔ بربادی کے ہاتھ کے حربے چھین لیے ۔ بدبختی کی امیدیں توڑ دیں ۔ میں آپ کی دانائی اور مآل اندیشی کو مبارک باد دیتا ہوں ۔ میری زبان سے سہراب کا شکریہ آمیز جواب سننے کے لیے آمادہ رہیے ۔

(جوش میں جانا چاہتا ہے ، گرد آفرید داخل ہوتی ہے اور اس کے سینے پر اپنی تلوار کی نوک رکھ دیتی ہے )

گرد آفرید:۔ ٹھہرو !کہاں جاتے ہو؟

بہرام:۔ صلح کرنے ۔

گرد آفرید :۔ کس سے ؟

بہرام:۔ سہراب سے ۔

گرد آفرید:۔ سہراب سے !ایران کے بدترین بدخواہ سے ، قوم کے دشمن سے ؟ جبر واستبداد کے نمائندے سے ؟ طاقتور سے کمزور کا ، پتھر سے شیشے کا ، آندھی سے تنکے کا کبھی اتحاد نہیں ہوتا۔ صلح برابر والوں میں ہوتی ہے اور طاقت کا ثبوت دینے کے بعد ہوتی ہے ۔ یہ غیر مساوی صلح پست ہمتی کا اظہارِ بے کسی ہے ، ذلت کی پرستش کا معاہدہ ہے ، ملک فروشی کی دستاویز ہے ، تمھاری غیرت کی پیشانی پر دائمی غلامی کی مُہر اور تمھاری مادرِ وطن کے پُر جلال چہرے پر شرم کی سیاہی کا داغ ہے ؂

مردود ہے وہ کوشش ، ملعون ہے وہ خامہ

آزادیِ وطن کا ، لکھے جو بیع نامہ

عزت سمجھ رہے ہو غیروں کی بندگی میں

مر جاؤ، گر ہے جینا ذلت کی زندگی میں

بہرام:۔ گرد آفرید !حریف کی طاقت اور ملک کی کمزوری کا صحیح اندازہ کرنے کے بعد رائے ظاہر کرو، غلط جوش عقل کی گمراہی ہے ۔ جس سہراب نے اس قلعۂ سفید کے محافظ ہجیر جیسے طاقت کے پہاڑ کو گھوڑے سمیت اٹھا کر مٹّی کے ڈھیلے کی طرح زمین پر پھینک دیا اس محبوبِ تقدیر و خداوندِ شمشیر کو ہم پا شکستہ تدبیروں اور مجنونانہ تقریروں سے فتح نہیں کر سکتے ۔

گرد آفرید:۔ فتح جرأت و عزیمت سے ملا کرتی ہے ۔ سوچنے ، رونے اور بیوہ عورت کی طرح ہائے ہائے کرنے سے نہیں ملتی ۔ فتح بے عزتی کے غلاموں کی ملکہ اور ہمت کے آقاؤں کی کنیز ہے ۔ بزدل قسمت سے فتح کی بھیک مانگنے اور جری قسمت کے منہ پر تھپڑ مار کر فتح کو اپنی مِلک اور حق سمجھ کر زبردستی حاصل کرتے ہیں ؂

جرأت ہے جس کے پاس وہی فتح مند ہے

جھُک جائے گا جہاں جو ہمت بلند ہے

اٹھو بڑھو دکھاؤ کہ طاقت ہے پاؤں میں

ملتی ہے فتح مرد کو خنجر کی چھاؤں میں

بہرام :۔ لیکن جب صلح کر لینے سے ہمارا قلعہ ، وجاہت ، ثروت، زندگی ، ہر شے شامت و ہلاکت سے محفوظ رہتی ہے تو فولاد پیکر سہراب سے پنجہ کشی کر کے ہمیں دنیا میں اپنی حماقت کا اعلان کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟

گرد آفرید:۔ شر م کر!شرم کر!خود غرضی کے بازار میں دولت و راحت کے مصنوعی سکّوں پر قوم کا اقتدار و حرمت فروخت کر دینے کو تو شرافت کا سودا جانتا ہے ؟ پالتو کتّے کی طرح گلے میں سہراب کی اطاعت کا پٹّا ڈال کر اس کے پاؤں چاٹنے کو عزت کی زندگی سمجھتا ہے ؂

تری زباں ہے فسا نہ نمک حرامی کا

سبق پڑھاتا ہے اوروں کو بھی غلامی کا

بہرام:۔خبردار !گردآفرید توکسی معمولی شخص سے ہمکلام نہیں۔میری شخصیت و حیثیت کا ادب کر ، جا گھر میں جا ۔ سلطنت کے انتظام میں عورت کو دخل دینے کا حق نہیں ہے ۔

گرد آفرید:۔ شرافت باختہ، بزدل،بے حیا !تو مجھے عورت کہتا ہے ۔ آ!عمل کے آئینے میں ہم دونوں اپنے چہرے دیکھیں ۔ اس وقت تیری حقیقت تیرے سامنے بے نقاب ہو جائے گی ۔ تیری نگاہیں شرم کے بوجھ سے دب کر زمین میں دفن ہو جائیں گی اور تجھے معلوم ہو جائے گا کہ گردآفرید عورت نہیں، بہرام عورت ہے ۔کیوں کہ میں عورت ہو کر بھی دنیا کے شریف ترین مرد کی طرح ملک اور قوم کے دشمن کا سراپنے پیروں سے روندنا چاہتی ہوں اور تو مرد ہو کر بھی ایک آبرو فروش عورت کی طرح اپنی پلکوں سے سہراب کے پاؤں کی گرد صاف کرنا اور اس کی پاپوش کو اپنے سر کا تاج بنانا چاہتا ہے ۔

بہرام:۔ ذلیل ! زبان دراز!

(بہرام گرد آفرید پر تلوار سے حملہ کرتا ہے ۔ گرد آفرید اسے اٹھا کر زمین پر دے مارتی ہے اور کلائی مروڑ کر تلوار چھین لیتی ہے )

گرد آفرید:۔کتّا شیرنی پر حملہ نہیں کر سکتا ۔ وطن کے دشمن !جا(لات مارکر) سہراب کے کفش برداروں کی فہرست میں نام لکھا کر اپنی عزت افزائی پر فخر کر ! تیری قسمت میں نہ شریفوں کی زندگی ہے نہ بہادروں کی موت۔

بہرام:۔ گرد آفرید !میں اس توہین کا خوفناک بدلہ لوں گا ۔ تجھ سے بھی اور جو یہ نظارہ دیکھ کر اپنی مجرمانہ خاموشی سے تیری تائید کر رہے ہیں ان سے بھی۔

(غصے میں سانپ کی طرح بل کھاتا ہوا چلا جاتا ہے )

گرد آفرید :۔ ایران کے دلیرو !یہ دوست نما منافق جس کے پاس مردانہ روح، شرم،ایمان کچھ نہیں ہے ۔ ذاتی مفاد کی نگہداشت جس کی سرشت، مطلب پرستی جس کی زندگی کا معیار و معراج اور دغا جس کا خمیر ہے ، اپنی گویائی کی حرارت سے تمھارے دل میں ہمت کے لہراتے ہوئے چشموں کو خشک کر کے تمھیں بھی اپنی طرح مردودِ خلائق بنانا چاہتا تھا۔خدا نے ہمیں اس نگوں ساری و خواری سے بچا لیا ۔ بہادرو ! سہراب اس دنیا میں ، دنیا سے علیٰحدہ کوئی چیز نہیں ہے ۔ وہ بھی تمھاری ہی طرح مٹی پانی سے بنا ہوا انسان ہے ۔ وہ بھی تمھاری طرح اپنی زندگی کی مدّت اور موت کے وقت سے بے خبر ہے ۔ اس لیے تنکے کو پہاڑ اور پہاڑ کو آسمان سمجھ کر اپنی قوتوں کو حقیر نہ سمجھو۔ اٹھو... اٹھو مست ہاتھی کی طرح جھوم کر ، آندھی کی طرح جھلا کر ، بادل کی طرح گرج کر، پُر غیظ بجلی کی طرح تلواریں کھینچ کر حفاظتِ وطن کے لیے اٹھ کھڑے ہو۔ جہاں بزدلی ہے وہیں شکست ہے اور جہاں جرأت ہے وہیں فتح ہے ۔

گستہم:۔ خوف ،خیال کا خواب ہے ۔ تم نے اس خواب سے ہمیں بیدار کر دیا۔

سب:۔ زندہ باد گردآفرید !

گرد آفرید:۔ زندہ باد ایران !

(سب جوش میں تلواریں کھینچ لیتے ہیں)

ٹیبلو

(سین ختم)
میدانِ جنگ کا ایک حصہ

(ہومان ، بارمان اور قلعۂ سفید کے محافظ ہجیر کے ساتھ سہراب کا داخلہ ، ہجیر کے دونوں ہاتھ کمند سے بندھے ہوئے ہیں)

سہراب:۔ تم قلعۂ سفید کے محافظ ہو؟

ہجیر :۔ ہاں!

سہراب:۔ تمھارا نام؟

ہجیر:۔ ہجیر۔

سہراب:۔ قلعے کے حاکم کا نام ؟

ہجیر:۔ گستہم۔

سہراب:۔ اگر قید کی زندگی کو جس کے سر پر موت کی تلوار لٹک رہی ہے آزاد زندگی میں بدلنا چاہتے ہو تو تنبیہ آمیز خط لکھ کر انجام سے غافل گستہم کو آگاہ کر دو کہ خوفناک مستقبل تباہی و بربادی کے جلو میں قلعے کے پھاٹک کے سامنے پہنچ گیا ہے اس لیے رحم و معافی حاصل کرنے کے لیے میرے حضور میں آ کر نذرانۂ اطاعت پیش کرے ۔

ہجیر:۔ قویٰ کے ساتھ میری قوتِ حافظہ بھی ضعیف ہو گئی ہے اس لیے عمر کے آخری دنوں میں غداری کا سبق یاد نہیں کر سکتا۔

سہراب:۔ یعنی ؟

ہجیر:۔تم نے میدانِ جنگ میں شکست دے کر میرے جسم کو قید کر لیا ہے میری روح تمھارے قید و بند میں نہیں ہے ۔ میرا ضمیر اور میرا جذبۂ وطن پرستی آزاد ہے اور ہمیشہ آزاد رہے گا۔ خلش و خطرہ سمجھ کر انتہائی عقوبتوں کے ساتھ قتل کر دو یا فتح کی یاد گار سمجھ کر زندہ رکھو۔ لیکن میں لالچ سے مغلوب اور تکلیفوں سے دہشت زدہ ہو کر اپنے ملک کی غلامی کے کاغذ پر کبھی دستخط نہ کروں گا۔

سہراب:۔عقل کی شرکت میں اپنی غلط کار رائے پر نظرِ ثانی کر۔موت کے جبڑے میں ملک کو نہ جھونک ۔ میری اطاعت ہی میں تیرے اہلِ وطن کی زندگی ہے ۔

ہجیر:۔ زمین پر رینگتے ہوئے حقیر کیڑوں کی طرح صرف حرکت کرنے اور سانس لینے کا نام زندگی نہیں ہے ۔ آزادی اور اختیار سے محروم ہو کر پامال گھاس کے مانند جینا انسانیت کی موت ہے ۔ میری تمنا اور دعا ہے کہ میرے اہل وطن جیئیں لیکن غلام بن کر نہیں ، آقا بن کر ۔ کتّے کی طرح نہیں ،شیر کی طرح۔

سہراب:۔ گستہم کو خط لکھ کر تسلیمِ شکست کا مشورہ دینا تری طرف سے اس وقت ملک کی سب سے بڑی خدمت تھی۔ تیرے انکار نے ثابت کر دیا کہ تو سخت بیوقوف ہے ۔

ہجیر:۔ ملک کے نمک حراموں کو ملک کے دشمن بھی احترام کی نظر سے نہیں دیکھتے ۔ میں بیوقوف کہلانا پسند کرتا ہوں لیکن بے داغ معزّز نام کے ساتھ دغا باز اور قوم فروش کے خطاب کا اضافہ نہیں چاہتا ۔

سہراب:۔ اچھا تو اب میرے غضب کی ہولناکیوں کو کوئی الزام نہیں دے سکتا ۔ (ہومان، بارمان سے ) خونریزی و تباہ کاری کے مقید درندوں کو زنجیریں کھول کر قلعۂ سفید پر حملہ آور ہونے کے لیے آزاد کر دو اور غم کی سیاہ رات میں برباد شدہ وطن کو تودۂ خاک پر اُلّو کی طرح ماتم کرنے کے لیے اس بدبخت کو قید میں رکھو ۔ لے جاؤ۔ یہی نا شکری کی کم از کم سزا ہے ۔

(ہومان ، بارمان ہجیر کو لے جاتے ہیں)

فریب خوردہ ، یہ نیم مجنوں ایرانی ، امید کی زمین میں ہنسی بور ہے ہیں ۔ لیکن انھیں جلد آنسوؤں کی فصل کاٹنی ہو گی ؂

میرے قدموں کو بوسہ دے گی جھک جھک کر جبیں تیری

بساطِ عجز بن جائے گی سجدوں سے زمیں تیری

اٹھا سکتا نہیں سرتیغِ جوہر دار کے آگے

سُن او ایران! جھک جا اب مری تلوار کے آگے

(مردانہ لباس میں انتہائی جوش و غضب کے ساتھ گرد آفرید داخل ہوتی ہے )

گرد آفرید:۔ ایران کی تاریخ شرفِ انسانیت و فتوحاتِ شرافت کا صحیفۂ زریں ہے ۔فروتنی و پامالی کا فسانۂذلّت نہیں ہے ۔ایران اپنی علمی ، اخلاقی ، تمدنی اور جنگی قوتوں کے سامنے دنیا کا سرجھکانے کے لیے پیدا ہوا ہے ۔ جھکنے کے لیے پیدا نہیں ہوا ؂

ایران کے قدموں میں ہے جیحون سے تا گنگ

اس خاک سے پیدا ہوئے طہمورث و ہوشنگ

ہر ذرّہ ہے خورشید کے ہم پایہ وہم رنگ

ہر قطرہ ہے طوفانِ قضا پوش دمِ جنگ

ہر فرد یہاں کوہ فگن ، زور شکن ہے

یہ شیروں کا گہوارہ ، شجاعت کا وطن ہے

سہراب:۔ تیرے پاس پُر شکوہ استعاروں اور فصیح و بلیغ لفظوں کا وافر سرمایہ معلوم ہوتا ہے لیکن تو اپنی گویائی کے اسراف سے ایرانیوں کے حوصلے کی بے مائیگی اور عزم و ہمت کے افلاس پر پردہ نہیں ڈال سکتا۔ قسمت کے افق پر صبحِ زوال کی پہلی کرن دکھائی دے رہی ہے ، پھر بھی احمق ایران ابھی تک زندگی کو شبِ راحت سمجھ کر دیرینہ عظمت کا خواب دیکھ رہا ہے ۔

گرد آفرید :۔ آفتاب کی عظمت و جلالت کا انکار بے بصر ہونے کا اقرار ہے ۔ غرور کے مرض سے تیری بینائی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے اس لیے تیری نظر پلکوں کی حدسے آگے نہیں بڑھ سکتی۔

سہراب:۔ جنگ کا میدان ، شاعروں کی بزمِ خیال، منطقیوں کی مجلس ، فلسفے کا مدرسہ نہیں ہے ۔ یہاں کی شعریت کا نام زخم ، منطق کا نام تلوار اور فلسفے کا نام طاقت ہے ۔ اچھا ظاہر کر ، تو کو ن ہے ؟ تیری موت کے بعد قلعۂ سفید میں کس نام سے تیرا ماتم کیا جائے گا۔

گرد آفرید :۔

دشمنِ نخوت حریفِ شعلہ سامانی ہوں میں

بس مرا نام و نشاں یہ ہے کہ ایرانی ہوں میں

سیلِ خوں میں موجِ آہن کی روانی دیکھ لے

آج تو بھی بُرّشِ تیغِ کیانی دیکھ لے

(سہراب پر حملہ ۔ دونوں میں خوف ناک جنگ ۔ گرد آفرید کی شکست ۔ گھوڑے سے زمیں پر گرتے وقت خود علیٰحدہ ہو جانے سے گرد آفرید کے بال کھل کر بکھر جاتے ہیں اور مرد کے لباس میں ایک حسین دوشیزہ کو دیکھ کر سہراب حیرت زدہ ہو جاتا ہے )

سہراب:۔ رعنائی انسانیت کی جمیل ترین تصویر ، مردانہ مرقع میں !حسن کی دنیا کا ماہِ کامل، زرہ بکتر کے بادل میں !!موسمِ بہار کے تبسم کی رنگینی ، جنگی نقاب میں !!! ؂

چمک رہا ہے نگارِ قدرت کا تاجِ زر خاک کی جبیں پر

کہ شاخِ انجم سے گر گیا ہے کوئی گلِ روشنی زمیں پر

طلوعِ قوسِ قزح کا عالم ہے جلوۂ جسم نازنیں پر

نثار ہے حسنِ شامِ جنت بہارِ گیسوئے عنبریں پر

حسین آنکھوں میں سحرِ ناطق نظر میں انداز دلبری کے

بلوریں گردن پہ روئے روشن، چراغ ہے ہاتھ میں پری کے

گردآفرید:۔ اقبال مند سہراب!ایران کی وہ بہادر لڑکی جس کے بازوؤں میں طاقت کا طوفان ، جس کی تلوار میں بجلیوں کا سیلاب ،جس کے حملے میں کوہِ آتش فشاں کا ہنگامہ پوشیدہ تھا ، جو حریف کو کتابِ زندگی کا مہمل لفظ اور فتح کو اپنے گُرز کی ضرب کی صدائے بازگشت سمجھتی تھی آج اس کے اعتقاد کی دنیا نا کامی کے زلزلے سے تباہ ہو گئی ہے ۔ اس کے یقین کا فلک بوس قلعہ بنیا دوں سے اکھڑ کر عاجزی کی سر زمین پر سرنگوں ہو گیا ہے ۔ مجھے امان دو، میں اظہارِ در ماند گی کے ساتھ اپنی شکست کا اقرار کرتی ہوں۔

سہراب:۔ بہادر نازنیں!زندگی کی سلطنت میں عورت حاکموں کی حاکم اور فاتحوں کی فاتح ہے ، جو خون کا ایک قطرہ گرائے بغیر اپنی رنگین مسکراہٹ سے ایک لمحے میں آدھی دنیا کو قتل کر سکتی ہے ، جو شرم آلود نگاہوں کے اشارے سے چشمِ زدن میں بادشاہوں کا تاج اور دلیروں کی تلوار چھین سکتی ہے ، اسے تیر و شمشیر لے کر میدانِ جنگ میں آنے کی کیا ضرورت ؟ جس کے مقابلے میں ہمیشہ مرد کے غرور کو شکست ہوتی ہے ۔ اٹھو ! یہ میری فتح نہیں ، تمھاری فتح ہے ۔

گرد آفرید:۔ (دل میں)کس قدر شریف !جتنا چہرہ خوبصورت ہے اتنا ہی دل بھی خوبصورت ہے ۔ (چونک کر) ارے !میں کدھر جا رہی ہوں۔

سہراب:۔ فتح یاب حسینہ!پنکھڑیوں کا دروازہ کھول کر باہر نکل آنے والی خوشبو کی طرح تم اپنی اصلی شکل میں عیاں ہو گئیں تو اب تمھیں اپنا نام و نشان بھی ظاہر کر دینا چاہیے ۔ یہ میرا حکم نہیں بارگاہِ حسن میں مؤدبانہ درخواست ہے ۔

گرد آفرید:۔ میرے نام میں کوئی ایسی شیرینی اور موسیقی نہیں ہے جس سے سماعت لذت اندوز ہو سکے ۔ میں قلعۂ سفید کے حاکم گستہم کی بیٹی گرد آفرید ہوں۔

سہراب:۔ اور جانتی ہو ، میں کون ہوں ؟

گرد آفرید:۔جس گرد آفرید کی ہیبت سے بہادروں کی رگوں کا سرخ خون زرد ہو جاتا تھا تم اسے شکست دینے والے سہراب ہو۔

سہراب:۔ تمھاری نظر تمھیں مغالطہ دے رہی ہے ۔ آفتاب کی تجلی میں شمع کی روشنی کی طرح میری ہستی تمھارے حسن کے جلال میں گم ہو گئی ہے ۔ اس چہرے کی پرستش کے لیے اب نیا نام ، نیا جسم ، نئی زندگی اختیار کی ہے ۔ ؂

مجروحِ شوق ، جور کشِ روز گار ہوں

زخمی جگر کا شور ، وفا کی پکار ہوں

دل کو نشہ ہے عشق کا آنکھوں کو دید کا

سہراب اب غلام ہے گرد آفرید کا

گرد آفرید:۔ (دل میں) اس کی باتیں فردوس کا نغمہ کیوں معلوم ہوتی ہیں!کیا میری روح میں تبدیلی ہو رہی ہے ؟

سہراب:۔ پیاری آفرید!عرضِ تمنا کے جواب میں تمھاری ایک مختصر ہاں عشق کی عقیدت مندی کا بہترین انعام ہے ۔ میرے دل کو تحفۂ محبت سمجھ کر قبول کرو۔

گرد آفرید:۔ (دل میں) ایک نامعلوم جذبہ انتقام کے شعلوں کو سرد کیے دے رہا ہے ۔ (چونک کر) مگر نہیں ، عظمتِ وطن کے قاتل کا جرم ، میں کبھی معاف نہیں کر سکتی ۔ ( سہراب سے ) سہراب تمھاری تلوار نے گردآفرید کو فتح کیا تھا لیکن تمھارے شریفانہ سلوک نے غیر مغلوب نفرت کو شکست دے کر گرد آفرید کی روح کے ہر گوشے اور دل کے ہر ذرے کو فتح کر لیا ۔ تم اب تک دشمن تھے لیکن اب میری جان کے مالک اور میرے ملک کے مہمان ہو۔ میں تمام ملک کی طرف سے تمھیں اور تمھاری بہادر فوج کو قلعۂ سفید میں تشریف آوری کی دعوت دیتی ہوں۔ اجازت دو کہ قلعہ جا کر تمھارے شاہانہ خیرمقدم کی تیاریوں سے جذبات کی فضا میں محبت کا بہشت تعمیر کروں۔

سہراب:۔ اب میں تمھاری مرضی کی مخالفت نہیں کر سکتا ، تمھارا حکم میری زندگی کا واجب الاطاعت قانون ہے کیوں کہ تم حسن کی سلطنت کی ملکہ ہو اور میں اس سلطنت کی وفادار رعیت ہوں ۔

گرد آفرید:۔ تم ... تم... میرے دل کی دنیا کے بادشاہ ہو ۔



(دونوں جاتے ہیں )

ٹیبلو

(سین ختم)
قلعۂ سفید کا دروازہ

(ہومان ، بارمان اور سردارانِ فوج مع لشکر موجود ہیں)

ہومان:۔ دنیا کے حربوں میں سب سے زیادہ خوفناک حربہ عورت کا حسن ہے ۔

بارمان:۔ اور حسن ہی کا دوسرا نام عورت کی فتح ہے ۔

ہومان:۔ یہاں بھی حسن و عشق کا معرکۂ کار زار شروع ہو گیا ہے ۔

بارمان:۔ پہلی جنگ میں گرد آفرید کو شکست ہوئی تھی، اس جنگ میں سہراب کو شکست ہو گئی۔

(از خود رفتہ حالت میں سہراب داخل ہوتا ہے )

سہراب :۔ محبت !محبت!تو زندگی کی حلاوت ہے ، دل کی جنت ہے ، روح کا نشہ ہے ، دنیا کا حسن ہے ، عروسِ آفرینش کا سنگار ہے ، دوشیزۂ قطرات کے رنگینیِ شباب کی فردوس آفرینی ہے ؂

زندہ ہے تجھ سے کیفِ طرب کائنات میں

تو نغمۂ ازل ہے ربابِ حیات میں

آسودگیِ روح، نشاطِ نظر نہیں

دنیا میں کچھ نہیں ہے محبت اگر نہیں

ہومان:۔ اے ضیغمِ توران !اے تورانیوں کے مرکزِ امید ! آپ معبدِ عشق میں حسنِ نسوانی کے بُتِ رعنا کے روبرو اظہار عبودیت کے لیے نہیں آئے ہیں۔ اپنا عہد و ارادہ یاد کیجیے ۔ میدانِ مبارزت میں محبت کی فتح یابی تورانیوں کی فتح نہیں ہے ۔

بارمان:۔ میری بھی یہی گزارش ہے کہ اس ارضِ دارو گیر میں ہستی و عدم کی درمیانی زمین پر آپ کے ولولہ حرب و ضرب کو صنم پرستی میں مشغول دیکھ کر محبت کے لفظ کی تکرار بیمار عقل کا ہذیان ہے ۔

سہراب:۔تم پتھر ہو،سرد ہو،بے کیف ہو،زندگی کی بہترین لذت سے محروم ہو ، تمھارے دل میں محبت کی حِس ہوتی تو تم بھی اقرار کرتے کہ دنیا کا نور عورت کا حسن ہے اور حسن گرد آفرید ہے ۔

ہومان:۔ افسوس!

سہراب:۔ افسوس ان کے لیے ہے جو محبت کے آبِ حیات کو زہر سمجھتے ہیں (قلعے کے پھاٹک کے قریب جا کر ) تعجب!!ابھی تک دروازہ بند ہے ۔ یہ کیا!

بارمان:۔ اور دنیا کے خاتمے تک بند ہی رہے گا

سہراب:۔ کیوں ؟

ہومان:۔تاکہ دنیا پر ثابت ہو جائے کہ آپ نے گرد آفرید کی نمائشی، مصنوعی پر فریب محبت پر یقین کر کے ناقابلِ تلافی غلطی کی ہے ۔

سہراب:۔ خبردار !تم میرے یقین کو دیوانگی کہہ سکتے ہو ، میری آنکھوں کو الزام دے سکتے ہو ، لیکن گرد آفرید کی محبت کو جھوٹی محبت کہنے کی جرأت نہیں کر سکتے ۔ تم نے ان پھول کی پنکھڑیوں سے شہد ٹپکتے نہیں دیکھا ۔ ایسے خوبصورت ہونٹ کبھی جھوٹ نہیں بولتے ۔

بارمان:۔اے دامِ فریب کے خوش اعتقاد اسیر !اب بھی اپنی غلطی کا اعتراف کر۔ دشمن کے جنگی قلعے کا دروازہ عورت کے وعدوں سے نہیں زورِ بازو سے کھُلتا ہے ۔

(فصیلِ قلعہ پر گرد آفرید دکھائی دیتی ہے )

سہراب:۔ (ہومان اور بارمان سے ) وہ دیکھو!اُدھر دیکھو اور اپنے قیاس کی ناتواں بینی پر نادم ہو ؂

کہتے تھے تم کہ مرہمِ زخمِ جگر نہیں

دنیائے انتظار میں شب ہے سحر نہیں

ہر ذرّہ چشمِ شوق ہے ارمانِ دید میں

پھیلا ہوا ہے نور فضائے امید میں

(بیتابانہ دیوارِ قلعہ کے نزدیک جا کر)

پیاری آفرید!روح سے قریب ہو کر اب اس قدر دور کیوں ہو ؟ فصیلِ قلعہ سے جلووں کی بارش ہو رہی ہے لیکن اس سے تشنہ تمناؤں کی تسکین نہیں ہو سکتی۔

(ہومان اور بارمان کی طرف اشارہ کر کے )

بجلی گرا دے ان کے خیال اور یقین پر

آ میرے دل کے چاند اترا زمین پر

گرد آفرید:۔ زمین کی لعنت !دنیا ،ظلم فروشی کا بازار ، غلام سازی کا کارخانہ ، وقارِ انسانیت کی قتل گاہ، عزتِ نفس کا مذبح نہیں ہے ۔ ہوا ، پانی ، روشنی کی طرح خدا کی عطا کردہ بے شمار نعمتوں میں سے آزادی بھی ایک نعمت ہے ۔ ہر خطۂ دنیا اُسے اپنا قدرتی ورثہ اور ہر انسان اسے اپنا پیدائشی حق سمجھتا ہے ۔ ایرانی قوم نے تیرے ملک کی آزادی ، دولت ، صنعت ، حرفت ، تجارت ، دنیا کی برکتوں میں سے کون سی برکت اور زندگی کی مسرتوں میں سے کون سی مسرت چھین لی تھی جو تو بِلا اشتعال ، بلا سبب ، بلا جرم ، اس کا تمدنی و معاشرتی نظام غارت کرنے اور اس کے دل کا اطمینان اور ملک کی متاعِ نشاط لوٹنے آیا ہے ؟ تو بہادر نہیں رہزن ہے ۔ جا !واپس جا!بہشت کے آستانے پرا ہر من کے کارندے کا اور قلعۂ سفید کے دروازے پر ایک ننگِ انسانیت ڈاکو کا خیر مقدم نہیں ہو سکتا ۔

سہراب:۔ پیاری آفرید!یہ اہلِ وفا کی زبان اور محبت کا لہجہ نہیں ہے ۔ تم اس طرح غیر شناسا بن کر گفتگو کر رہی ہو گویا ہماری ملاقات اس دنیا کے بدلے خواب و خیال کی دنیا میں ہوئی تھی ۔ کیا اتنی دو ر سے مجھے پہچان نہیں سکتیں ؟ غور سے دیکھو میں سہراب ہوں۔ وہی سہراب جو حسن کی پرستش کو عشق کا مذہب اور تمھارے تصوّرِ رنگین کو اپنی روح کی بہشت سمجھتا ہے ۔

گرد آفرید:۔خبر دار !ان سامعہ خراش لفظوں سے میرے مقدس حسن کی توہین نہ کر، مغرور !اپنی اتفاقی کامیابیوں کو وقت کی سِفلہ نوازی اور قسمت کی غلط بختی سمجھنے کے بدلے یہ سمجھ رہا ہے کہ تو جہان پر جابرانہ حکومت کرنے کے لیے اور یہ جہان مجبور بیل کی طرح اپنے زخمی کندھوں پر اطاعت کا جوا رکھ کر تیرے دائرۂ حکم میں گردش کرنے کے لیے پیدا ہوا ہے ۔ لیکن ارضِ ایران کی وسعت قلعۂ سفید کی چہار دیواری میں محدود نہیں ہے ۔ ہماری موت کے بعد بھی ایران اپنی قوت و صولت کے ساتھ زندہ رہے گا اور ثابت کر دے گا کہ سہراب وقت کے کھیلنے کا کھلونا اور اتفاقات کی ہوا میں قسمت کی لہروں میں ناچتے ہوئے بلبلے کا تماشا تھا ۔ ؂

آنکھوں میں تری حسن کھٹکتا ہے چمن کا

دشمن ہے مری قوم کا قاتل ہے وطن کا

مت دیکھ لٹیرے ہوسِ خام سے مجھ کو

نفرت ہے تری شکل ، ترے نام سے مجھ کو

سہراب :۔پیاری آفرید !عورت دنیا کی سب سے زیادہ حسین و محبوب شے ہے ۔ جذبات اس کا نام سنتے ہی ناچ اٹھتے ہیں ، روح اس کی تصور سے روشن ہو جاتی ہے اور عشق اپنی تمام نیاز مندیوں کے ساتھ اس کے قدموں پر سجدے میں گر پڑتا ہے ۔ تمھاری اس محبت آزار گفتگو سے اس کی رفعت و محبوبیت کو شدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے ۔ عورت کی تغیر پذیر فطرت کے بارے میں کتابوں کے ورق اور انسانوں کے تجربوں نے جو رائے دی ہے کیا تم اس غلط رائے کو آج صحیح ثابت کرنا چاہتی ہو ؂

کیوں کیا مخمور و بے خود بادۂ سر جوش سے ؟

کیوں دیا پیغامِ الفت نرگِس مَے نوش سے ؟

ایک فتنہ اور بالائے زمیں پیدا کیا

کیوں مرے دل میں محبت کا یقیں پیدا کیا؟

گرد آفرید:۔ محبت کا یقین دلائے بغیر تیری قید سے رہا ہونا نا ممکن تھا۔ بیوقوف سُن!اپنے اہلِ وطن کی روح میں نا مردانہ زندگی کی حقارت اور شجاعانہ موت کا احترام پیدا کرنے اور پیدا شدہ جذبے کو آخری سانس تک قائم و شعلہ فشاں رکھنے کے لیے مجھے زندہ رہنے کی ضرورت تھی۔ شکر ہے کہ میں زندہ ہوں لیکن سہراب کے لیے نہیں، اپنے ملک کے لیے ۔ محبت کے لیے نہیں ، اپنے وطن کی خدمت کے لیے ۔ تو مسمار گھروں اور بے کفن لاشوں پر قبضہ کر سکتا ہے لیکن ہماری زندگی میں ہمارے قلعے اور ہماری آزادی پر قبضہ نہیں کر سکتا ؂

جا ، پلٹ جا ، اور نہیں کہتی کہ خالی ہاتھ جا

حسرتوں کے ساتھ آیا ، ذلتوں کے ساتھ جا

سہراب:۔ (انتہائی حیرت سے ) گردآفرید؟ گرد آفرید؟

گرد آفرید:۔ رعونت کے پتلے !یہ ایران و توران کی کشاکش نہیں، مصافِ حیات میں خود غرضی و ظلم سے ایثار و قربانی کی آویزش ہے ۔ یہ جنگ جابروں کے لیے سرمایۂ لعنت اور ستم رسیدوں کے لیے تلقینِ خود داری و درسِ حرّیت ہے ۔اگر قسمت کی شرکت و اعانت سے تو کامیاب بھی ہوا تو تیری فتح شکست سے زیادہ ذلیل اور وقت کی نامساعدت سے ہم سپر انداز بھی ہوئے تو ہماری شکست فتح سے زیادہ شاندار ہو گی۔ تاریک سائے میں ڈوبتے ہوئے شام کے آفتاب کی طرح دنیا نظروں سے غائب ہو جاتی ہے ، اب دو چیزیں دھوئیں کے کاغذ پر لکھے ہوئے آگ کے حرفوں کی طرح دکھائی دے رہی ہیں معزز زندگی یا ۔ معزز موت۔

(چلی جاتی ہے )

سہراب:۔حسین جسم میں دغا باز روح !صندل میں سوزش !چاندنی میں دوپہر کی دھوپ کی تپش!(ہومان بارمان سے )تم سچ کہتے تھے !حسن نے کبھی وفادار دل کی قدر نہیں کی ۔ حملہ کرو... حملہ کرو... اس قلعۂ سفید ، اس حصارِ سنگین کی ہستی، عورت کے وعدے سے بھی زیادہ کمزور ہے ۔ اُف کتنا فریب!عورت !تو صرف ایک خوبصورت دھوکا ہے !! بِزَن ...

(تورانی لشکر حملہ کرتا ہے ۔ فصیلِ قلعہ سے کھولتے ہوئے تیل ، گراں وزن پتھروں اور تیروں کی خونی بارش ہوتی ہے ، شدید و مہیب جنگ کے بعد سہراب کے گرز سے دروازہ ٹوٹ کر گڑ پرتا ہے اور حملہ آور فوج قلعے میں فاتحانہ جوش کے ساتھ داخل ہوتی ہے )

ٹیبلو

(سین ختم)
قلعۂ سفید کا اندرونی حصہ

(جدال و قتال کے ہنگاموں ، زخمیوں کی چیخوں ، ہتھیاروں کی جھنکار، نعرہ ہائے جنگ ، بِزَن و بِگیر کا شور و غل سنائی دے رہا ہے ۔ بہرام منتظمانہ جذبات اور شریرانہ مسرت کے ساتھ داخل ہوتا ہے )

بہرام:۔گناہ اور سزا دونوں اعتقاد کے فریب ہیں ۔ نیکی و بدی کا تخیل ، بلند پروازِ عقل کی ترقیِ معکوس ہے ۔ آج سے پیشتر اپنی شمشیر و تدبیر سے ملک کے دشمنوں کی امداد کرنا، میں ایک شرمناک گمراہی ، ایک ہیبت ناک گناہ ، ایک پروردۂ لعنت جرم سمجھتا تھا مگر اب؟ اب نہیں ۔ موت ، آگ ، بربادی نے شہر کے ہر حصے کو گھیر لیا ہے ۔ کٹے ہوئے سر خون کی لہروں میں بلبلوں کی طرح تیر رہے ہیں ، ایک دریدہ دہن ، محرومِ فراست چھوکری کو ’’عقلِ کل‘‘ اور اس کی احمقانہ رائے کو دنیا کی دانش مندی کا ’’خلاصہ‘‘ سمجھنے والوں کی یہی سزا ہے ، میری تردید و توہین کا یہی انعام ہے ۔ ایران کی تاریخ میں میرا نام قاتلانِ قوم میں لکھا جائے گا۔ دنیا مجھے دشمنِ وطن کہے گی ، کہنے دو !عاقبت خراب ہو گی ، ہونے دو !مجھے تو قوم ، وطن ، عاقبت کچھ نہیں چاہیے ... انتقام !صرف انتقام!!چاہیے ... بہرام چل، دست بدست جنگ میں دوبارہ سہراب کی رہنمائی کر ... سہراب کی فتح ہی تیرے انتقام کی فتح ہے ۔

(بہرام کی روانگی ، خون آلود تلوار لیے ہوئے گرد آفرید داخل ہوتی ہے )

گرد آفرید:۔ موت ایک تغییرِ ہیئت ، ایک تبدیلیِ لباس ، ایک نقلِ مکانی ، ایک جدید آغازِ عمل کے سوا اور کچھ نہیں ہے ۔ سفرِ حیات میں مسافر کا پیکرِ خاکی و مقصدِ سفر بدل جاتا ہے ، لیکن منزل نہیں بدلتی ۔ موت ، جدید زندگی کی ابتدا ہے یعنی ہم موت کے دروازے سے ، معلوم دنیا سے نامعلوم دنیا میں داخل ہوتے ہیں ۔ یہی زندگی کا راز ہے اور یہ راز صرف شہیدانِ حق و حریت کو معلوم ہے ۔ شاباش!ایران کے فدائیو! شمعِ ملت کے پروانو !شاباش !تمھارے خون کا ہر قطرہ صبحِ عزت کا نو طلوع آفتاب اور ہماری جنگِ آزادی کا ہر لمحہ سعادتِ جاودانی کا سرمایہ دار ہے ۔ سرفروشانہ موت کے بعد بھی تم مستقبل کے غیر فانی حافظے اور بقائے دوام کی لازوال دنیا میں زندہ رہو گے !تمھاری حیرت آفریں قربانیوں نے مغرور سہراب ...

(سہراب کا نام زبان پر آتے ہی دل میں محبت کا جذبہ بیدار ہو جاتا ہے )

آہ کتنا شجاع !کیسا شریف !!اس کی تجلی بار چہرے کی طرف دیکھنے سے یہ احساس ہوتا ہے کہ اسی چہرے کے نور سے آفتاب و مہتاب کی آفرینش ہوئی ہے ۔ سہراب !میری روح کو محبت کی روشنی سے منور کرنے والے سہراب!تم توران میں کیوں پیدا ہوئے ؟ اگر تم مادرِ ایران کے فرزند ہوتے تو میں کنیز بن کر تمھاری خدمت کو کامرانی ، نشاط، اور تمھاری پرستش کو وسیلۂ نجات سمجھتی اور ... (خیال بدلتا ہے )... بیوقوف عورت !کیا عشق کی بجلیوں کی چمک کو جذبۂ جنگ کی تڑپ بن کر ، ملک اور قوم کے اعتبار کو دھوکا دے رہی ہے ؟ کیا تو دل سے نہیں، صرف زبان و تلوار سے سہراب کی مزاحمت کر رہی ہے ؟ ہوشیار! تیرا گنہگار خیال تجھے جرم کی مہیب دنیا میں کھینچے لیے جا رہا ہے ...اس دنیا میں جہاں لعنت ہے ، رحمت نہیں !سزا ہے ، کفارہ نہیں ! نفرت کر ، سہراب سے نفرت کر ، دل سے بھی اور روح سے بھی۔

(پھر شعلۂ محبت بھڑکتا ہے )

لیکن میں نفرت نہیں کرتی اور نہیں کر سکتی تو باعث تعجب کیوں ہے ؟ دنیا میں کون عورت ہے جو ایسے پیکرِ شجاعت ، وفادار، رحیم ، جمیل کو اپنا دل اور اپنا مقدر سپرد نہ کر دے گی؟ اسے دیکھنے کے بعد اس حسن و جاذبیت سے معمور دنیا کی کسی شے کی طرف دیکھنے کی تمنا باقی نہیں رہتی ۔ وہ صانعِ فطرت کی نظر افروز صنعت اور مصوّرِ قدرت کا حسین ترین شاہکار ہے (دوبارہ خیال کی رَو بدلتی ہے )...دور ہو !اے عورت کی فطری کمزوری دور ہو !محبت باغیانہ شورش ، فرض کی آواز اور ضمیر کی پکار کو مغلوب نہیں کر سکتی ۔ جس قدر کمینہ شرافت سے ، غدار اپنے ملک سے ، بزدل عزت کی موت سے نفرت کرتا ہے ، میں بھی، ہاں میں بھی ، اسی قدر سہراب سے نفرت کروں گی۔ اس کے چہرے کی نظر فریبی صرف ایک حسین لعنت ہے ۔ وطن کا دشمن اگر ارضِ وطن کی طرح خوب صورت ، نعرۂ آزادی کی طرح پُر جلال ، محبتِ قومی کی طرح قابلِ پرستش ہو تب بھی وہ دنیا کی بدترین ہستی ہے ۔ محبت پیچھے ہٹ! فرض آگے بڑھ!

(خوف و اضطراب کی حالت میں گستہم داخل ہوتا ہے )

گستہم:۔ اوہ !وہم بھی نہ تھا کہ وہ انسان جس کو چمنِ کائنات کا گلِ سرسَبد ، قدرت کا نقشِ آخر ، آفر نیش کا خلاصہ ، کتابِ تخلیق کا تکملہ کہا جاتا ہے وہ بھیڑیے سے زیادہ خونخوار اور کتے سے زیادہ رذیل ثابت ہو گا... اے خدا ! تو نے اس بد نہاد شخص ، اس متحرک لعنت کے ڈھیر کو کیوں پیدا کیا؟ کیا اس ننگِ ہستی کے بغیر تیرے بے عیب و مکمل نظام کی تکمیل نہیں ہو سکتی تھی؟

گُرد آفرید:۔ آپ کا ہر لفظ خطرے کا اعلان کر رہا ہے !کیا ہوا؟

گستہم:۔ دغا!شرمناک دغا۔

گرد آفرید:۔ دغا دی!کس نے !غیر ت نے ؟ ہمت نے ؟ قسمت نے ؟

گستہم:۔ ایرانی ماں کے پلے ہوئے سانپ نے ، قوم کُش ، خائنِ ملت بہرام نے ۔

گرد آفرید:۔ ملعون ... دوزخی !

گستہم :۔ اس نے سہراب کے پاس اپنا ایمان اور دوزخ کے پاس اپنی روح فروخت کر دی۔ اس کی جفا کوشی و بے حمیتی دیکھ کر مجھے تعجب ہو رہا ہے ۔

گرد آفرید:۔ تعجب کیوں کرتے ہو؟ ہمیشہ ملک کے نمک حراموں ہی نے غیروں کی غلامی کے طوق سے اپنے ملک کی گردن کی زینت افزائی کی ہے ۔ غداری کی تاریخ پڑھو ! بہرام کی وطن دشمنی دنیا کا پہلا عجیب واقعہ نہیں ہے ۔

گستہم:۔ اس کی امداد و رہنمائی سے سہراب کی فوج نے قلعہ کے محفوظ مقامات اور سامانِ جنگ کے ذخیروں پر قبضہ کر لیا ہے ۔ عنقریب قسمت جنگ کی کمان سے اپنے ترکش کا آخری تیر چلانا چاہتی ہے ۔ اب ہمارے لیے کوئی امید باقی نہیں رہی۔

گرد آفرید:۔(تڑپ کر)کیوں باقی نہیں رہی۔ جب تک غلامی سے نفرت باقی ہے ، غیرت باقی ہے ، جسم میں ایک بھی سانس اور قلعے میں ایک بھی جانباز باقی ہے ، امید بھی باقی رہے گی۔ ہم فانی دنیا میں لا زوال زندگی لے کر نہیں آئے ہیں۔ جب مدتِ حیات محدود ، فنا لازمی، اجل یقینی ہے تو عزت و شرافت کے ساتھ مرو۔ بہادروں کی طرح مرو ، بوڑھے ، اپاہج، ناکارہ ہو کر بیماری کے بستر پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کے مرنے کے بدلے قوم پر قربان ہو کر مادرِ وطن کی آغوش میں مرو۔ ناامیدی سامنے سے دور ہو ۔ آؤ!بس فتح یا موت۔

(تصویرِ غضب بنی ہوئی گستہم کے ساتھ جاتی ہے )

(بہرام اور سپاہیوں کے ہمراہ سہراب داخل ہوتا ہے )

سہراب:۔ گرد آفرید میری روح کی تمنا اور میرے خوابِ تمنا کی تعبیر ہے ۔وہ میری امید کی امید میری زندگی کی زندگی ہے ۔ اسے زندہ گرفتار کر لو ۔ خبردار !اس کے سر کے ایک بال اور پاؤں کے ایک ناخن کو بھی صدمہ نہ پہنچے ۔

بہرام:۔ لیکن گرد آفرید ہی نے ایرانیوں کی مردہ ہمتوں میں دوبارہ حرکتِ حیات اور قوتِ عمل پیدا کی تھی۔

سہراب:۔ اس لیے ؟

بہرام:۔ وہ رحم کی مستحق نہیں ہے ۔

سہراب:۔ عشق کی اتنی مجال نہیں کہ وہ حسن کو اس کے جرم کی سزا دے سکے ۔ جاؤ!(بہرام اور سپاہیوں کی روانگی ) ناز سراپا غرور۔ اور نیاز ہمہ تن شکر ہوتا ہے ۔ میں اس بے دید ، بے مہر سے صرف یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ خوبصورتی اور بے وفائی کا آپس میں کون سا رشتہ ہے ؟ چہرہ حسین ، دل بہادر ، آنکھیں بے مروت۔ میں نے دنیا میں ایسی عجیب عورت نہیں دیکھی۔

(گرد آفرید کی تلاش میں جاتا ہے )



(سین ختم)
اندرونِ قلعہ کا دوسرا حصہ

(دُور کُشت و خون کا ہنگامہ،بگیر و بزن کا شور ،آگ اور دھوئیں سے محصور گھروں کا نظارہ ،گرد آفرید تھکان سے نڈھال ، زخموں سے چور،لہو میں شرابور لڑکھڑاتی ہوئی داخل ہوتی ہے )

گرد آفرید:۔ آزادی کا آفتاب ،تلواروں کی فضا میں خون سے رنگین افق پر آخری بار چمک کر غروب ہو گیا ۔ دغا و خیانت نے قلعۂ سفید کی قسمت کو غدار بہرام کا تیار کردہ سیاہ کفن پہنا دیا ۔ بیواؤں کے شیون ، یتیموں کی فریاد ، خاک و خون میں لتھڑی ہوئی لاشوں کے سوا کچھ باقی نہیں رہا۔

(تلوار کو مخاطب کر کے )

تلوار!پیاری تلوار !!میں غارت شدہ حیاتِ قومی کا بقیہ ، آتشِ افسردہ کا دھواں،کا روانِ رفتہ کا پس ماندہ غبار ، ہنگامۂ تباہی کی آخری گونج ہوں۔ اس جسم سے روح کی علیٰحدگی کا وقت بھی قریب آ پہنچا ہے ۔ جب تک موت ان دونوں کو جدا نہ کر دے ، میری زندگی کی وفادار سہیلی !تو مجھ سے جدا نہ ہونا۔ ایک بار سہراب کے خون میں ۔ (جذبۂ محبت سے مغلوب ہو کر)... آہ کیسا خوبصورت نام ، کتنا شیریں نام !! اس نام کو سنتے ہی یہ معلوم ہوتا ہے کہ دل کی دنیا میں محبت کے زمزموں کی بارش ہو رہی ہے (خیال میں تبدیلی) محبت!کس کی محبت ؟ سہراب کی محبت!!خبردار ، دل !خبردار ۔ اگر تو نے تصور کے آئینے میں ملک و قوم کے دشمن کی محبت کا عکس بھی پڑنے دیا تو میں تجھے سینے سے نکال کر پیروں سے مسل کر ، ذلت کی ٹھوکر مار کر ، بھوکے کتّوں کے آگے پھینک دوں گی۔ آہ کیا تھا !اور کیا ہو گیا!انسانی امید اور انسانی زندگی بے حقیقت چیزیں ہیں ۔ وقت کی گردش نے ثابت کر دیا کہ امید تاریک فضا میں آسمان سے ٹوٹے ہوئے ستارے کی عارضی روشنی اور زندگی ہوا کی لہروں میں بہتے ہوئے پرندے کے متحرک پروں کا زمین پر بھاگتا ہوا سایہ ہے ۔

(تورانی سپاہیوں کے ساتھ بہرام داخل ہوتا ہے )

بہرام:۔ تلاش کامیاب ہوئی، گرفتار کر لو۔ گرد آفرید !میرے مشورے پر ہنسنے اور میری اہانت پر اظہارِ پسندیدگی کرنے والوں کی قسمت کا انقلاب دیکھا؟ کہاں ہیں آزادیِ ملت کے فدائی، کہاں ہے تیرا غرور ، کہاں ہیں تیرے گرجتے ہوئے دعوے ؟

دیکھ آئینے میں چہرہ ، زخم بھی ہے ، خاک بھی

خون میں ڈوبا ہوا ہے جسم بھی پوشاک بھی

گر رہے ہیں آنکھ سے آنسو تنِ صد پاش پر

رو رہی ہے کیوں کھڑی ہو کر وطن کی لاش پر

گرد آفرید:۔کیا تیری روح اہرمن کے دل کی تاریکی سے پیدا ہوئی ہے ؟ کیا تیری پرورش ایرانی ماں کے دودھ کے عوض درندے کے خون سے کی گئی ہے ؟ موذی ! ... جلاّد!اگر تیرے ایمان کی طرح تیری بصارت و سماعت بھی غارت نہیں ہو چکی ہے تو دشمنوں کی ٹھوکروں کی ضرب سے زخمی ملک کی درد ناک حالت دیکھ اور ڈوب مر!بندگی و بیچارگی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی مادرِ وطن کی شرر بار فریاد سن اور شرم کر! اِس خانماں ویرانی کا باعث ،اس سیلابِ ذلت کا منبع ، اس طوفانِ ہلاکت کا مخزن ، اس نا قابلِ عفو ، ناقابلِ کفارہ جرمِ عظیم کا مجرم کون ہے ؟... تو... یہ جگر شگاف ماتمی آوازے کسے ازلی وا بدی ملعون کہہ رہے ہیں؟تجھے !... جن بہادروں نے حفاظتِ ملّت کے لیے اپنے خون کا آخری قطرہ تک قربان کر دیا وہ تیرے قومی بھائی نہ تھے ؟ جن شریف عورتوں نے فرض کی قربان گاہ پر اپنے شوہروں ، بھائیوں اور بچوں کی جانیں نثار کر دیں کیا وہ تیری ملکی بہنیں نہ تھی ؟ اپنے بھائیوں کی زندگیاں،اپنی بہنوں کا سکون و آرام ، اپنے مرزبوم کی سطوت و قہرمانیت لٹوا کر ندامت کے زخم سے مر جانے کے بدلے خوش ہو رہا ہے ؟ ٹوٹے ہوئے دلوں ، ذبح کی ہوئی امیدوں ، خونِ جگر سے بھیگی ہوئی آہوں ، سوختہ قسمت قلعہَ سفید کی خاکِسترِ برباد پر آنسو بہانے کے عوض دوزخ کے مؤکل کی طرح بے رحمی سے ہنس رہا ہے ؟ ؂

نہ ہو گا تجھ سا بے غیرت کمینے سے کمینہ بھی

زمانے کے لیے لعنت تو بھی تیرا جینا بھی

بہرام:۔ عداوت کے بازار کا سودا اتنے ہی گراں داموں پر بکتا ہے ۔ تو نے مجھ سے میری نفرت مول لی تھی ۔یہ برگشتہ بختی اسی خرید کردہ نفرت کی قیمت ہے ۔ یہ زبوں حالی میرے جنسِ انتقام کا معاوضہ ہے ۔

گرد آفرید:۔ اگر تیرا دل مجھ سے انتقام لینے کے لیے بے قرار تھا تو شریف دشمن کی طرح تلوار سے میرا مقابلہ کرتا ۔ مقابلے کی جرأت نہ تھی تو کھانے میں زہر ملا دیتا ، یہ بھی نا ممکن تھا تو سوتے میں چھری بھونک دیتا لیکن غریب ملک نے تیرا کیا قصور کیا تھا جس قصور کی پاداش میں تو نے اس کے ہر گھر کو انسانوں کا مذبح اور ہر ذرّے کو عظمت و عزت کا ماتم کدہ بنا دیا ۔ تو سہراب کی نوازش کے سایے میں تباہ شدہ وطن کی خاک اور قوم کے زخمی دل کے خون سے اپنی دنیوی جنت بنانا چاہتا ہے ۔ لیکن یاد رکھ ! اس جنت کا ہر پھول تیرے مجرم ضمیر کو سانپ بن کر ڈستا اور یہ معصیت آباد ہمیشہ نفرت و لعنت کے زلزلوں سے کانپتا رہے گا ؂

اگر وہ جانتی ، دل ہے دغاؤں سے بھرا تیرا

تری ماں پیدا ہوتے ہی دبا دیتی گلا تیرا

یاد رکھ ! جرم کی زندگی ، اطمینانِ قلب کی موت ، اور گناہ کی بہار ، روح کی خزاں ہے ؂

راحتِ عصیاں سے بڑھ کر رنج عالم میں نہیں

جو جلن اس عیش میں ہے وہ جہنم میں نہیں

بہرام:۔ (ہمراہیوں سے ) کیا دیکھتے ہو ؟ گرفتار کر لو یا قتل کر دو۔

(سپاہی چاروں طرف سے یورش کرتے ہیں۔ گرد آفرید شکاریوں کی برچھیوں کے حلقے میں محصور شیرنی کی طرح ہر ایک کے حملے کا جواب دیتی ہے )

بہرام:۔ میرے گزشتہ انتقام کا آخری نوالہ۔

(پیچھے سے گرد آفرید کی پیٹھ میں خنجر بھونک دیتا ہے )

گرد آفرید:۔ آہ...دغا باز ...مارِ آستین...

(گرتے گرتے پلٹ کر دونوں ہاتھوں سے بہرام کا گلا پکڑ لیتی ہے )

اتنے گناہ کر چکا تھا یہ آخری گناہ نہ کرتا تو کیا دوزخ کے دروازے تیرے لیے بند ہو جاتے ؟ کتّے !تجھے زندہ رکھنا کمینہ پن کی عمر میں اضافہ ہے ۔ تیرا ایمان مر چکا ۔ انسانیت مر چکی... تو بھی مر!

(غصے میں جان لینے کے ارادے سے گلا دباتی ہے پھر رک جاتی ہے )

مگر نہیں !تو بد فطرت ہے ، نمک حرام ہے ، سنگ دل ہے ، قاتل ہے ، دنیا کی بدترین مخلوق ہے ،سب کچھ ہے ، پھر بھی میرا ہم وطن ہے (گلا چھوڑ دیتی ہے ) جا !قوم پرستوں کے مذہب میں بدی کا بدلہ بدل نہیں ہے ۔ میں اپنے وطن کی عزت کی خاطر اپنا خون معاف کرتی ہوں۔

(زمیں پر گر پڑتی ہے اس وقت سہراب داخل ہوتا ہے )

سہراب:۔ یا خدا !میں کیا نظارہ دیکھ رہا ہوں !قفس خالی، رنگیں نوا فاختہ، پیکرِ شجاعت کی حسین روح، شعلۂ حسن کی تجلی ، خون میں ڈوبی ہوئی ہے !! افسانۂ عزت کا عنوان ، صحیفۂ حرّیت کا سر نامہ ، جرأتِ نسوانی کی تاریخ کا ورقِ زرّیں خاک پر پڑا ہوا ہے !!

(گرد آفرید کا سر زانو پر رکھ کر)

آفرید !پیاری آفرید!! آنکھیں کھولو... میں تمھیں بے وفائی کا الزام دینے کے لیے نہیں ، اپنی وفاداری کا یقین دلاتے آیا ہوں۔ تمھارا تبسمِ ناز میری پرستش کا صلہ ہے ۔ کیا ناکامِ محبت کو اپنے لبِ نازک سے تسکین نہ دو گی؟ کیا اپنی مسکراہٹ سے میرے دل کی تاریکیوں میں امید کی صبح پیدا نہ کرو گی؟ ؂

کرو کچھ رحم میری التجا پر میری آہوں پر

اٹھو ، بولو، ہنسو، دیکھو میں صدقے ان نگاہوں پر

گرد آفرید:۔ (آنکھیں بند کیے ہوئے نیم بے ہوشی کی حالت میں) کس کی آواز؟ ستاروں کا گایا ہوا نغمۂ آسمانی زمین پر کون گا رہا ہے ؟

سہراب:۔ تمھارا شیدائی ، تمھارا پر ستار سہراب!

گرد آفرید:۔ (آنکھیں کھول کر) تم... تم ... اوہ... مرنا بھی مشکل ہو گیا ہے ۔

(جوشِ محبت سے اٹھنے کی کوشش کرتی ہے اور گر پڑتی ہے )

آؤ ۔ پیارے سہراب آؤ ۔ تمھیں دیکھ کر دل میں زندہ رہنے کی تمنا پیدا ہو گئی لیکن اب تمنا کا وقت نہیں رہا ، عدم کے مسافر کا سامان بندھ چکا ہے ۔ زندگی کے نظارے اسے ہمیشہ کے لیے رخصت کر رہے ہیں ۔ میرے دل کے مالک!میرے فرض نے مجھے بے مروت بننے کے لیے مجبور کر دیا تھا۔ حقِ وطن کا مرتبہ عشق سے بلند تر ہے ۔ اس لیے مجھے معاف کر دو اور جو ہوا اسے بھول جاؤ ۔ موت کے دروازے پر دنیا کی دوستی و دشمنی ختم ہو جاتی ہے ۔

سہراب :۔ پیاری آفرید ! تم نے دنیائے فرض کی ایک جدید حقیقت اور عورت کے دل کی عظمت کا ایک عظیم الشان راز ظاہر کر کے وہ بوجھ دور کر دیا جس سے میری روح پاش پاش ہوئی جا رہی تھی۔ میرا خیال تھا کہ تم مجھے اپنی محبت کا مستحق نہیں سمجھتیں اسی لیے اس قدر جوشِ مخالفت کے ساتھ جنگ کر رہی ہو۔

گرد آفرید:۔ آہ !تمھیں کیا معلوم، عشق و فرض کی کشمکش میں میری روح نے کتنے عذاب برداشت کیے ہیں ۔ کتنے طوفان ، کتنے زلزلوں سے تنہا وقفِ پیکار رہی ہے !! صدمہ نہ کرو ۔دوست اور دشمن ہم نام ہیں ۔ اس لیے تمھیں دھوکا ہوا۔ میں نے اپنے پیارے سہراب سے نہیں اپنے ملک کے مخالف سے جنگ کی ہے ؂

دمِ آخر بھی صیدِ عشق و وقفِ بے قراری ہوں

میں پھر اقرار کرتی ہوں تمھاری تھی تمھاری ہوں

سہراب:۔ آہ !ان لفظوں میں کتنا ترنم ہے اور کتنی امید نوازی ہے !!قسمت کی ستم ظریفی دیکھو ، تسکین کے پیاسے کو راحت کا آبِ حیات بھی پلا رہی ہے اور جدائی کا زہر بھی۔

(یکایک جوشِ غضب میں اٹھ کھڑا ہوتا ہے ۔ سپاہیوں سے )

کیا میری زبان کے واضح الفاظ ، معنی و مفہوم سے تہی دست تھے ؟ میرے حکم سے بے پروا ہو کر ، دنیا کی یہ سب سے زیادہ قیمتی زندگی کس نے برباد کی؟

بہرام:۔ (فخر یہ لہجے میں)... میں نے ؟

سہراب:۔ ...تو نے !... ایک ایرانی نے !... گرد آفرید کے ہم قوم وہم وطن نے !... کس لیے !

بہرام:۔ اس لیے کہ یہ میرا خیر خواہانہ فرض تھا۔ اس لیے کہ وہ تورانیوں کی دشمن تھی اور میں تورانیوں کا دوست ہوں۔

سہراب:۔ تو کتنا بے حیا!کتنا بد اصل !کتنا قابلِ نفرت ہے ۔ مرقعٔ شجاعت کی جس تصویرِ فدائیت نے ملک و قوم کی آبرو پر اپنی محبت ، راحت ، امید، زندگی کی ہر بیش بہا شے قربان کر دی۔ اس سینے میں ، جو عشقِ وطن سے معمور ہو رہا تھا ، خنجر بھونکتے وقت تیرے دل نے تجھ پر لعنت نہ کی ، تیرا ہاتھ قبضے تک پہنچنے سے پیشتر مفلوجِ نہ ہو گیا؟ اپنے باپ کی نا پاک یاد گار !ماں کی کو کھ کے ملعون نتیجے !سگِ دنیا !تیرے جسم کے ہر ذرے نے جس ایران کے نمک سے پرورش پائی ہے جب تو نے اس محسنِ ایران سے وفاداری نہ کی تو توران کا تو کب دوست ہو سکتا ہے ! جس منہ سے اپنے کو تورانیوں کا دوست کہتا ہے میں اس ذلیل منہ پر تھوکتا ہوں۔ تیرے رہنے کی جگہ دنیا نہیں دوزخ ہے ۔

(خنجر بھونک دیتا ہے )

بہرام:۔ دنیا کے لیے عاقبت خراب کی لیکن گناہ نے فریب دے کر عاقبت بھی تباہ کی اور دنیا بھی (مر جاتا ہے )۔

سہراب:۔ (گرد آفرید کو عالمِ نزع میں دیکھ کر) آہ!... دنیا کی پلکوں پر زندگی آمادۂ ترادش آنسو کے قطرے کی طرح تھر تھرا رہی ہے ۔ شعلۂ حیات آندھی میں رکھے ہوئے چراغ کی لَوکی طرح کانپ رہا ہے ...موت ! موت!!تو عشقِ پُر تمنا ، حسنِ روح افروز ، شبابِ معصوم پر کیا ظلم کر رہی ہے ؟ تو بے مہر و سنگ دل ہے ، لیکن باغِ ہستی کا اتنا حسین و رنگین پھول توڑ کر آخر میں تو بھی اپنی بے دردی پر نادم ہو گی ...رحم کر ... رحم ...

گرد آفرید:۔ فرشتے روشنی کی چادر میں لپٹے ، پھول اور نغمے بکھیرتے ہوئے آہستہ آہستہ زمین پر اتر رہے ہیں ، دنیا عالمِ نور سے بدل رہی ہے ۔ مرکزِ اصلی کی طرف مائلِ پرواز روح کے لیے آسمان کا دروازہ کھل گیا ہے کس نے پکارا؟۔ زندگی کے دروازے پر کون دستک دے رہا ہے ... موت !تو ہے ...نہیں سمجھتی تھی کہ تو اتنی خوبصورت ہو گی الوداع ! پیارے وطن الوداع... پیارے سہراب الوداع ؂

نہیں معلوم رازِ مرگ دنیا کے طبیبوں کو

اگر فرصت ملے تو یاد کرنا بد نصیبوں کو

(آخری ہچکی لے کر دنیا سے رخصت ہو جاتی ہے )

سہراب:۔ ٹھہر !اے حسین مسافرہ ٹھہر!تو کارگاہِ تمنا کو خرابۂ یاس، ایوانِ نشاط کو ماتم سرا، جلوہ زارِ ہستی کو مسکنِ ظلمت بنا کر کہاں جا رہی ہے ؟ واپس ا... اے نا معلوم منزل کے رہرو !واپس آ!تیرے جانے کے بعد دنیا میں صرف فریاد اور آنسوؤں کی آبادی رہ جائے گے ۔ آفتاب و مہتاب، آسمان کے دل کے داغ، تارے رات کے جگر کے آبلے اور رنگین پھول زمین کے جسم کے زخم معلوم ہوں گے ۔

(دیوانہ وار پکارتا ہے ) آفرید ... آفرید !!... آفرید... !!اے جمالِ ناطق! اے حسنِ گویا!تو کیوں خاموش ہو گیا؟ تو کیوں بے کس کی پکار کا جواب نہیں دیتا ؟ کیا میرے لیے اب تیرے پاس محبت کی ایک مسکراہٹ، تسکین کا ایک حرف بھی نہیں ہے ؟

ہائے کون جواب دے !پھول ہے ، خوشبو نہیں !مکان ہے ،مکین نہیں سلطنت ہے ! ملکہ نہیں۔(گرد آفرید کی لاش سے مخاطب ہو کر) قدرت نے کائنات سے اپنا عطیۂ عظمت واپس لے لیا ۔ دنیا کا حسن بہشت کے اضافۂ جمال کے لیے بلا لیا گیا۔ زمین کا چہرہ ، فخر کا جلال ، تاریکیِ عدم کو مطلعِ نور بنانے کے لیے چلا گیا۔

اے ملکۂ جمال ! تو نے فرض پر عشق کو اور ملک پر زندگی کو قربان کر کے ابدی حیات حاصل کر لی ۔ ایران کی آئندہ نسلیں ، تیرے ثبات و استقلال کے حیرت آفریں کارناموں پر فخر کریں گی ۔ ایران کی لڑکیاں تیری بہادری کے گیتوں سے اپنی زندگیوں کو مبارک بنائیں گی ۔ ایران کی تاریخ میں ایثار کے حرف ، تیرے پُر جبروت نام کی تجلیات سے صفحۂ دنیا پر آفتاب و مہتاب بن کر چمکتے رہیں گے ۔ اے پژمردہ بہارِ آفرینش!اے افسردہ شعلۂ وطن پر ستی! اے خوابیدہ طوفانِ شجاعت ، میں تیرے قدموں کو الوداعی بوسہ دیتا ہوں ۔ یہی اولین اور آخری بوسۂ محبت ہے ۔

(روتا ہوا گرد آفرید کے پیروں پر گر پڑتا ہے )

(ڈراپ سین )