صفحات

تلاش کریں

افسانوی مجموعہ: چوسر کا محور (ڈاکٹر سلیم خان)

إِنَّ فِی خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ لَآیَاتٍ لِّأُولِی الْأَلْبَابِ

﴿آل عمران۱۹۰﴾

زمین اور آسمانوں کی پیدائش میں اور رات اور دن کے باری باری سے آنے میں

اُن ہوش مند لوگوں کے لیے بہت نشانیاں ہیں۔








یہ قرض تو میرا ہے، چکائے گا کوئی اور

دکھ مجھ کو ہے اور، اشک بہائے گا کوئی اور

انجام کو پہنچوں گا میں انجام سے پہلے

خود میری کہانی بھی سنائے گا کوئی اور

(آنس معین)




















انتساب



جناب انیس امروہوی صاحب

کے نام

جن کی محبتوں نے میرے ادبی سفر میں مہمیز کا کام کیا ہے





فہرست





انتساب... 5

اپنی بات... 8

لیل و نہار. 11

مونا گونسا لویس... 48

چوسر کا محور. 122

خوابِ پریشاں.. 187

امیر سلطان اور ننھا غلام. 298

جیون ساتھی... 330

جشنِ آزادی. 356

حصار. 395

شاخ نازک... 412

اُلفت، دہشت اور سیاست.... 435

تراب محل... 495











اپنی بات



کائنات ہستی کا حقیقی خالق تو رب ذو الجلال ہے کہ جس کا کوئی شریک نہیں۔ اس نے انسان کے جسدِخاکی میں اپنی روح پھونک کر اسے پرواز تخیل سے نواز دیا۔ یہ ایسی عظیم نعمت ہے کہ جس کی مدد سے حضرت انسان نت نئی دنیا کی سیر کرتا ہے۔ تصور خیال میں ان چیزوں کو دیکھتا ہے جو موجود نہیں ہوتیں۔ ان لوگوں سے ملاقات کرتا جو عالم موجودات سے پرے ہوتے ہیں۔ یہ مشاہدات جب افکار سے نکل کر الفاظ کا جامہ پہنتے ہیں تو کہانی جنم لیتی ہے۔

خلیفہ ارض کی خامہ فرسائی ایک مجازی کائنات تخلیق کرتی ہے اور ایسا بھی ہوتا ہے کارساز ہستی اس کے خوابوں شرمندۂ تعبیر کر دیتا ہے۔ انسانی معاشرے کا تمدنی ارتقاء اس حقیقت کا شاہد ہے کہ ماضی کی طلسمی دنیا سے تعلق رکھنے والا ناقابل تسخیر جہاز ٹائٹن کے ۱۴ سال بعد ٹائٹانک بنایا گیا اور وہ بھی اسی طرح ڈوبا جیسا کہ ناول نگار مورگن رابرٹ سن نے بیان کیا تھا۔ فرانسیسی مصنف جولس ورن نے ۱۸۶۵ء میں انسان کے چاند پر قدم رکھنے کی پیشین گوئی کی جو ۱۰۰ سال بعد پوری ہوئی۔ جوناتھن سویفٹ نے مریخ کے دو چاند کا تصور کیا مگر اس حقیقت کا ادراک کرنے میں ماہرین فلکیات کو ۱۵۱ سال لگے۔ غرض کریڈٹ کارڈ، ایٹم بم، ائیر فون اور انٹر نیٹ وغیرہ پہلے کہانیوں میں اور پھر حقیقی دنیا میں نظر آئے۔ سائنسدانوں کے ذریعہ لیزر شعاعوں اور اڑن طشتری کی دریافت سے قبل ابن صفی نے الیکٹروگس اور فے گراف کو پہلے متعارف کرا دیا۔ اس لیے کوئی بعید نہیں کہ آج کے افسانے کل سچ ہو جائیں۔

کہانی سچ نہیں ہوتی مگر جھوٹ بھی نہیں ہوتی اس لیے کہ کہانی ہوتی ہے۔ یہ اپنے قاری کو دھوکا نہیں دیتی بلکہ فریب کے مایا جال سے نکال زندگی کے تلخ حقائق سے روشناس کراتی ہے۔ زندہ افسانے حقیقت کا وہ سایہ ہوتے ہیں جو بیک وقت موجود بھی ہوتے ہیں اور مفقود بھی ہوتے ہیں۔ جن کو دیکھا تو جا سکتا لیکن پکڑا نہیں جا سکتا۔ وہ کبھی آگے نکل جاتے ہیں تو کبھی تعاقب کرنے لگتے ہیں۔ کبھی طویل ہو جا تے ہیں تو کبھی سمٹ جاتے ہیں۔ پرچھائیں کی ہئیت و کیفیت میں تبدیلی اس کے سورج یعنی افسانہ نگار کی مرہون منت ہوتی ہے۔ صاحب سایہ کا اس پر کوئی اختیار نہیں ہوتا۔

بفضل تعالیٰ میرا پہلا افسانوی مجموعہ حصار ۲۰۰۶؁ میں شائع ہوا۔ وقت کے ساتھ اس کتاب کے سارے نسخے ختم ہو گئے لیکن تقاضہ باقی رہا۔ حصار کی دوسری طباعت کے بجائے میں نے کچھ نئے افسانوں کے ساتھ چند پرانی کہانیاں یکجا کر کے محمود و ایاز ترتیب دی اور باقی ماندہ کہانیوں کے ساتھ اتنے ہی نئے افسانے چوسر کا محور میں سجا دیئے۔ چوسر کی اس بساط پر ہر پرانے مہرے کے آگے پیچھے ایک نیا مہرہ یعنی نیا افسانہ موجود ہے۔ اب اس چوسر کا محور آپ ہیں۔ ان مہروں سے کھیلئے اور مجھے اجازت دیجیے۔

سلیم خان







لیل و نہار



دِن رُخصت ہو رہا تھا اور رات نمودار ہو رہی تھی۔

دن اور رات یعنی امروز اور سندھیا کا صدیوں سے معمول تھا کہ وہ چند لمحوں کے لئے ایک دوسرے نظریں دوچار کرتے اور پھر فراق کے کرب سے گذرنے کے بعد وصال کی لذت سے لطف اندوز ہونے کی خاطر ایک دوسرے سے جدا ہو جاتے۔ ملنے بچھڑنے کا یہ ناتمام سلسلہ نہ جانے کب سے جاری تھا۔

ایک روز الوداع کہتے ہوئے دن شام سے بولا۔ ’’سندھیا یہ وصال و ہجر کا سلسلہ آخر کب تک یونہی چلتا رہے گا؟ ‘‘

سندھیا شرما کر بولی۔ ’’میں نہیں جانتی امروز؟ میں سچ مچ نہیں جانتی۔ ‘‘

امروز نے بات آگے بڑھائی۔ ’’لیکن کیا تمہیں یہ اچھا لگتا ہے؟ ‘‘

سندھیا ایک لمحہ کے لئے اس سوال پر ٹھٹک گئی اور پھر اپنے آپ کو سنبھال کر بولی۔ ’’میرا جواب ہاں بھی ہے اور نہیں بھی۔ ‘‘

امروز نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ ’’یہ کیسا جواب ہے بھلا ! جو بیک وقت ہاں بھی ہے اور نا بھی۔ ان کا باہمی رشتہ تو لیل و نہار کا سا ہے جو کبھی یکجا نہیں ہو سکتے۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ ایک آتا ہے تو دوسرا اپنے آپ کھسک جاتا ہے۔ ‘‘

سندھیا بولی۔ ’’آپ بہت دُور نکل گئے اور اپنا سوال بھی بھول گئے۔ ‘‘

’’اچھا؟ ‘‘

امروز نے سوال کیا ’’ اچھا؟ وہ کیسے؟ ؟ ؟

’’آپ نے ملنے بچھڑنے کی بابت پوچھا تھا اور اس سلسلے میں میری عرض یہ ہے کہ مجھے ملنا ضرور اچھا لگتا ہے لیکن بچھڑنا۔۔۔۔۔۔‘‘ سندھیا کی سانس تیز ہو گئی۔ الفاظ اس کی پلکوں سے آنسو بن کر گرے اور زمین میں جذب ہو گئے۔

امروز کے لئے اِن آنسوؤں میں پیغامِ مسرت پوشیدہ تھا۔ اس کا حوصلہ بڑھا۔ اس نے پوچھا۔ ’’سندھیا کیوں نا کچھ ایسا کیا جائے کہ ’ہاں اور نا‘ بدل کر ’ہاں جی ہاں ‘ ہو جائیں؟ ‘‘

سندھیا نے حیرت سے کہا۔ ’’کیا ایسا بھی ممکن ہے؟ یہ تو نا ممکن ہے؟ ایسا کیونکر ہو سکتا ہے؟ میں نہیں جانتی۔ میں سچ مچ نہیں جانتی۔ ‘‘

’’میں جانتا ہوں۔ ‘‘ امروز بولا۔ ’’کیوں نہ ایسا کریں کہ ہم نکاح کر لیں؟ پھر وصال ہی وصال ہو گا۔ شبِ فراق کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ ‘‘

سندھیا نے اپنے دوپٹے میں انگلی کو لپیٹ لیا اور پیر کے انگوٹھے سے زمین کریدنے لگی۔ امروز نے گھبرا کر سوال کیا۔ ’’میری یہ تجویز تمہیں ناگوار تو نہیں گزری؟ اگر ایسا ہے تو۔۔۔‘‘

سندھیا کے چہرے کی سرخی شفق بن کر نیلے آسمان پر پھیل گئی تھی۔ ایک بار پھر شبنم کی پاکیزہ بوندیں سندھیا کے نینوں میں نمودار ہوئیں، جنھیں ہوا نے زمین پر گرنے سے قبل اُچک لیا اور لا کر امروز کی پیشانی پر سجا دیا۔ رات بھیگ رہی تھی۔ دُور گگن میں چاند اس حسین منظر کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔

امروز کے اصرار پر بھی جب سندھیا چپی سادھے رہی تو قمر میاں سے رہا نہ گیا۔ وہ بولے۔ ’’ا احمق کیا تجھے نہیں تو نہیں جانتا ان معاملات میں خاموشی منظوری کے مترادف ہے۔ ‘‘

امروز کی بانچھیں کھل گئیں۔ اس کو عالمِ غیب سے ایک پشت پناہ جو مل گیا تھا۔ وہ بولی۔ ’’ تو چاند ماموں آپ ہمارا تعاون کیوں نہیں فرماتے۔ ہم ممنون و مشکور ہوں گے۔ ‘‘

’’اس میں شکریہ کی کیا بات ہے؟ ‘‘ چاند نے کہا۔ ’’یہ تو کوئی مشکل نہیں ہے۔ میں ایسا کرتا ہوں کہ مریخ اور مشتری کو گواہ کے طور پر بلوا لیتا ہوں اور عطارد کو وکیل بنا دیتے ہیں۔ آسمان پر پھیلے ہوئے یہ بے شمار سیارے اور ستارے تمہارے باراتی ہیں اور شہنشاہ شمس فی الحال وہ کہیں اور مصروفِ عمل ہیں، اس لئے دور سے ہی ان کے آشیرو اد کا اہتمام کر لیں گے۔ کیوں ۔۔۔ کیا خیال ہے؟ ‘‘

’’نیک بلکہ بہت نیک خیال ہے۔ ‘‘ امروز کے دل میں لڈو پھوٹ رہے تھے۔

زہرہ نے آگے بڑھ کر سندھیا کو اپنے سینے سے لگایا اور اسے سجانے سنوارنے، دلہن بنانے کی خاطر نہ جانے کس کہکشاں میں اپنے ساتھ لے گئی۔ جب وہ واپس ہوئی تو محفلِ نکاح منتظر تھی۔ چاند ماموں نکاح کا خطبہ پڑھنے کے لئے تیار بیٹھے تھے۔ رسمِ ایجاب و قبول نے دیکھتے دیکھتے دو جانوں کو ایک قلب بنا دیا۔ امروز سندھیا کے آنچل میں چھپ کر سو گیا۔ صدیوں کا سفر منٹوں میں طہ ہو گیا اور اب سندھیا کی گود میں سحر کھیل رہی تھی۔ صبح انگڑائی لے رہی تھی۔ امروز نے کہا۔ ’’سندھیا مجھے سحر کی خاطر سفر پر نکلنا ہو گا۔ گردشِ ایام ہی ہمارا مقدر ہے۔ میں جلد ہی لوٹ آؤں گا۔ تم شام ڈھلے تک اس ننھی سی جان کا خیال رکھنا اور اپنا بھی۔ ‘‘

سندھیا نے با دلِ ناخواستہ امروز کو الوداع کہا۔ سورج کی تمازت سے دن روشن ہو گیا اور امروز لمحات کی تسبیح تھامے شام کی جانب رواں دواں ہو گیا۔ فراق کی گھڑیاں ٹک ٹک کر کے دم توڑتی رہیں، یہاں تک کہ وہ دوبارہ اپنی سندھیا کے دل پر دستک دے رہا تھا۔ اب امروز کا یہ معمول ہو گیا تھا کہ روزانہ صبح سویرے سحر کے سر پر ہاتھ رکھتا، اسے ایک پیار کا بوسہ دیتا اور اپنے سفر پر نکل جاتا۔ پاس میں کھڑی سندھیا اس دلکش منظر میں کچھ ایسے کھو جاتی کہ اسے احساس ہی نہ ہوتا کہ امروز اس سے دور کہیں دور جا چکا ہے۔ لیکن جب دن ڈھلنے لگتا، رات کا اندھیرا آسمانِ گیتی پر چھانے لگتا، شام جگمگا اُٹھتی تو وہ سحر کو کھلا پلا کر سلا دیتی اور ساری شب اپنے امروز کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتی رہتی۔ اپنی آنکھوں پر پٹی باندھے ’’امروز میں یہاں ہوں میرے سرتاج! میں یہاں ہوں ! یہاں ہوں، یہاں ہوں، یہاں ‘‘ کی صدا پر امروز دیوانہ وار لپکتا رہتا۔ یہاں تک کہ ننھی سحر نیند سے سیراب ہو کر بیدار ہو جاتی اور امروز اس کی پیشانی پر بوسہ دے کر اپنے دائمی سفر پر روانہ ہو جاتا۔ لیل و نہار کی گردش کا لامتناہی سلسلہ حسبِ معمول جاری تھا۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

گرمیوں کا زمانہ میں ایسا معلوم ہوتا تھا گویا سورج نصف النہار پر ٹھہر گیا ہے۔ دن کا وقفہ اپنے طویل ترین مراحل میں تھا۔ خدا خدا کر کے امروز کی مسافت ختم ہوئی اور تھکے ماندے امروز نے اپنے گھر کے دروازے پر دستک دی۔ اندر سے جواب ندارد۔ ایسا پہلی بار ہوا تھا۔ حیران پریشان امروز کی خاطر یہ ایک حیرت انگیز تجربہ تھا۔ ورنہ اکثر تو یہ ہوتا تھا کہ اس کی آہٹ سے بام و در کھل جایا کرتے تھے، دستک دینے کی نوبت ہی نہ آتی تھی۔ جب دستک کی سگبگاہٹ بیکار ہو گئی تو اس نے دروازے کو پیٹنا شروع کر دیا۔

اپنی دوسری سعی میں بھی ناکامی کے بعد وہ تھک کر بیٹھ گیا اور سوچنے لگا۔ ’’سحر اب بڑی ہو گئی ہے، سندھیا کو بہت زیادہ تھکانے لگی ہے۔ اسی باعث آنکھ لگ گئی ہو گی۔ جب دماغ ٹھنڈا ہوا تو امروز کو خیال آیا کہ وہ بلاوجہ پریشان ہو رہا ہے۔ گھر کی ایک چابی تو اس کے پاس موجود ہے۔ لیکن چونکہ ابھی تک اسے کبھی استعمال کرنے کا موقع نہ آیا تھا، اس لئے وہ موجود ہونے کے باوجود غائب سی ہو گئی تھی۔

اس نے پشیمان ہو کر جیب سے کنجی نکالی اور گھر کے اندر داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہے کہ یہاں چہار جانب خاموشی کا دور دورہ ہے۔ گہری قبرستان کی خاموشی نے اس کے گھر اور اہل خانہ کو نگل لیا ہے۔ سندھیا نیند کی گہرائیوں میں تیر رہی ہے اور سحر اس کی آغوش میں سمٹی ہوئی ہے۔ امروز دبے پاؤں کمرے میں داخل ہو گیا۔ چپ چاپ منھ ہاتھ دھوکر لباس تبدیل کئے اور اندھیرے کی چادر تان کر خود بھی نیند کے حوالے ہو گیا۔

اُس روز سحر کی ہلچل سے جب سندھیا کی آنکھ کھلی تو اس نے امروز کو اپنے پاس محوِ خواب پایا۔ وہ اپنی غفلت پر بے حد نادم تھی۔ وقت کا اندازہ کرنے کی غرض سے اس نے کھڑکی سے باہر ہاتھ نکالا تو شبنم کی بوندیں اس پر چمکنے لگیں۔ سندھیا نے آخری پہر کی تازگی سے امروز کا چہرہ روشن کر دیا۔ امروز ہوشیار ہو گیا۔ دونوں نے پیار سے ایک دوسرے کو دیکھا۔ سندھیا کی گود میں سحر کھیل رہی تھی۔ امروز نے اسے اپنے ہاتھوں میں اُٹھا لیا، اس کا ما تھا چوما۔ وہ ’’ابو۔۔۔ ابو ‘‘ کہہ کرتا لی بجانے لگی۔

امروز کی ساری خفگی اور ناراضگی ہوا ہو گئی۔ اس نے مسکرا کر پھر ایک بار سندھیا کی جانب دیکھا اور ہاتھ ہلا کر اپنے روزانہ کے سفر پر نکل کھڑا ہوا۔ سندھیا کا معمول اب یہ تھا کہ ہر روز سحر کو پہلے نہلا دھلا کر تیار کرتی۔ صاف ستھرے کپڑے پہناتی اور کھلا پلا کر اس کے ساتھ کھیلنے لگتی۔ ایک عرصے تک تو سندھیا کے لئے سحر ایک گڑیا کی مانند تھی اور سندھیا خود سحر کا ایک کھلونا تھی۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ دن بھر کھیلتے رہتے، ایک دوجے میں مگن رہتے۔

سحر جب کچھ اور بڑی ہو گئی تو اس نے کھلونوں کا مطالبہ کیا اور امروز اس کے لئے بے شمار کھلونے لے آیا۔ لیکن اس کے باوجود اس کا سب سے بڑا اور سب سے چہیتا کھلونا اس کی ماں سندھیا تھی۔ جب وہ اپنے کھلونوں سے بیزار ہو جاتی تو ماں سے کھیلنے لگتی اور جب اپنی ماں کے ساتھ کھیلتے کھیلتے تھک جاتی تو کھلونوں سے دل بہلانے لگتی۔

وقت کے ساتھ سحر نے اپنی زندگی کا ایک اور مرحلہ طہ کر لیا۔ اب وہ پڑھنے لکھنے لگی تھی۔ اس کے باوجود اسے کارٹون فلمیں بہت پسند تھیں۔ موگلی کی تو خیر وہ دیوانی تھی۔ اس کے علاوہ شیر، ہرن، خرگوش اور دیگر جنگلی جانور بھی اسے خوب بھاتے تھے۔ وہ اپنے ٹیلی ویژن کی مدد سے ہر روز جنگل کی سیر پر نکل جاتی تھی اور جب واپس ہوتی تو دوپہر کے کھانے کا وقت ہو چکا ہوتا۔ سندھیا اسے کھلا پلا کر سلا دیتی اور خود ٹیلی ویژن پر ڈراموں سے لطف اندوز ہونے لگتی۔

وقت کے ساتھ امروز نے حالات سے مصالحت کر لی تھی۔ جب کبھی سندھیاکو چوکھٹ پر انتظار میں نہ پاتا ہوا از خود دروازہ کھول کر اندر آ جاتا، ماں بیٹی کی نیند میں خلل ڈالنے کے بجائے خود بھی رات کی کالی چادر اوڑھ لپیٹ کر راضی خوشی سو جاتا۔ لیکن ایک دن جب وہ کمرے میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہے کہ سارا کمرہ ٹی۔ وی کے اجالے سے روشن ہے۔ سندھیا گہری نیند میں سوئی ہوئی ہے اور سحر موگلی کے کارٹون میں کھوئی ہوئی ہے۔

ویسے تو امروز کو ان دونوں پر غصہ آیا لیکن نیند کی آغوش میں دبکی سندھیا کی لاش پر غصہ اُتارنا بے سود تھا، اس لئے وہ سحر پر برس پڑا۔ ’’بیٹی۔۔۔ یہ کیا ہو رہا ہے؟ اتنی رات گئے تم کارٹون دیکھنے میں مشغول ہو؟ سونا نہیں ہے کیا؟

‘‘سحر بولی۔ ’’ابو جی۔۔۔ آج تو غضب ہو گیا۔ ‘‘

’’کیا؟ کیسا غضب؟ یہ تم کیا کہہ رہی ہو؟ ‘‘

’’جی ہاں ابو جی! آج تو موگلی کا شیر سے جھگڑا ہو گیا؟ ‘‘

’’ہو گیا تو ہو گیا، کسی نہ کسی کی، کسی نہ کسی سے لڑائی بھڑائی تو ہونی ہی ہے۔ ورنہ تم جیسے لوگ اس کے پیچھے اپنا وقت کیوں ضائع کرو گے؟ ‘‘ امروز نے بیزاری سے کہا۔

’’نہیں ابو، ایسی بات نہیں ہے۔ جنگل کے جانور تو آپس میں لڑتے بھڑتے رہتے تھے، لیکن موگلی اور شیر کے درمیان لڑائی اس سے پہلے کبھی بھی نہیں ہوئی۔ ایسا پہلی بار ہوا ہے۔ ‘‘

’’اوہو تو اس میں کیا خاص بات ہے۔ صلح اور جنگ کے معاملات تو چلتے ہی رہتے ہیں۔ آج جنگ ہوئی ہے تو کل صلح ہو جائے گی۔ دیکھو، ویسے بھی کافی دیر ہو چکی ہے۔ تم ایسا کرو کہ اپنی امی کی طرح فوراً سوجاؤ۔ ‘‘

سحر بولی۔ ’’ابو یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے بلکہ بہت ہی خاص بات ہے۔ اس سے پہلے جنگل کے دوسرے جانوروں کی آپس میں لڑائی ہوتی تھی تو وہ شیر یا موگلی کو اپنا ثالث بناتے اور ان سے آپسی تنازعات کا تصفیہ کرواتے تھے۔ اکثر تو یہ ہوتا کہ ایک فریق کا حکم موگلی اور دوسرے کا شیر ہوتا تھا۔ گویا یہ دونوں مل کر لوگوں کے جھگڑے کو چکا دیتے تھے۔

’’ہاں ہاں ۔۔۔ تو گویا دونوں مخالف فریق کے ساتھ ہوتے اور اب بھی ایک دوسرے کے مخالف ہیں۔ اس میں کون سی نئی بات ہے؟ میں ان تماشوں کو خوب جانتا ہوں۔ ‘‘

’’جی نہیں ابو ! آپ نہیں جانتے۔ وہ مخالفین کے ساتھ ہونے کے باوجود ایک دوسرے کے دشمن نہیں، بلکہ دوست ہوا کرتے تھے۔ جب ان میں سے کسی ایک کی جنگل کے کسی دوسرے جانور سے لڑائی ہو جاتی تو یہ دونوں اس کا متحد ہو کر مقابلہ کیا کرتے تھے۔ لیکن آج تو ان دونوں کے درمیان ہی ٹھن گئی۔ میں ۔۔۔ میں اس جنگ کا انجام دیکھے بغیر نہیں سو سکتی۔ مجھے ہرگز نیند نہیں آئے گی۔ ‘‘

امروز کا پارہ چڑھ گیا۔ اس نے لپک کر ریموٹ سحر کے ہاتھوں سے چھین لیا اور ٹیلی ویژن کو بند کر دیا۔ سارے کمرے کو اندھیرے نے نگل لیا۔ لیکن امروز کے کانوں سے معصوم سحر کی ہچکیوں کی آوازیں ٹکرا رہی تھیں۔ امروز اور سحر دونوں جاگ رہے تھے۔ امروز اپنے آپ کو کوس رہا تھا۔ وہ آج پہلی مرتبہ سحر پر اس قدر برسا تھا۔ اسے اپنی ذات پر غصہ آ رہا تھا۔ احساسِ جرم چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ اس نے اچھا نہیں کیا۔ اسے ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔ ننھی سی جان کو سمجھا منا کر سلا دینا بہتر تھا لیکن تیر کمان سے نکل کر خود اس کے سینے میں پیوست ہو چکا تھا۔ خون کا دریا بند توڑ کر بہہ نکلا تھا اور خود اس کی سیراب کردہ فصلوں کو روند رہا تھا۔

امروز کی آنکھیں بند ہوئیں اور خواب کا پردہ روشن ہو گیا۔ اس بار ریموٹ کنٹرول ننھی سحر کے ہاتھوں میں تھا۔ امروز اپنے بچپن کو دیکھ رہا تھا۔ امی اسے لوری سنا رہی تھیں لیکن وہ کھیل میں غلطاں کبھی ادھر دوڑ پڑتا تو کبھی ادھر لپک جاتا۔ بالآخر اس کی امی کا پیمانۂ صبر لبریز ہو گیا اور اس نے ڈانٹ کر کہا۔ ’’سوئے گا یا روئے گا؟ ‘‘

یہ سن کر ننھا سا امروز دہاڑیں مار مار کر رونے لگا۔ ماں اس نئی صورتحال سے مزید پریشان ہو گئی اور اسے خاموش کرنے کی غرض سے ایک تھپڑ جڑ دیا۔ پھر کیا تھا۔۔۔ امروز نے چیخ چیخ کر سارے گھر کو سر پر اُٹھا لیا۔

دوسرے کمرے میں بیٹھی دادی امی ہانپتی کانپتی دوڑی ہوئی آئیں اور بولیں۔ ’’بہو بیگم بچے مارنے پیٹنے سے سوتے نہیں روتے ہیں۔ ‘‘

’’سو تو میں دیکھ ہی رہی ہوں امی جان! میں اسے لوری سناتے سناتے تھک گئی، لیکن یہ ہے کہ کھیلنے سے نہیں تھکتا۔ ‘‘

’’اوہو!‘‘ دادی امی بولیں۔ ’’دیکھو، اب یہ بڑا ہو گیا ہے۔ صرف لوری سے کام نہیں چلے گا۔ ‘‘

’’پھر اسے سلانے کے لئے کیا کرنا پڑے گا؟ ‘‘ امی نے سوال کیا۔

’’ہاں ۔۔۔ اب اسے سونے کے لئے کہانی درکار ہے۔ ‘‘

کہانی کا نام سن کر امروز اپنی دادی کی جانب لپکا اور رونا بھول کر کہنے لگا۔ ’’دادی اماں دادی اماں ۔۔۔ مجھے کہانی سنائیے ۔۔۔ جنگل کی کہانی۔۔۔ شیر کی کہانی۔۔۔ جانوروں اور پریوں کی کہانی۔۔۔ بھوت کی اور موگلی کی کہانی۔۔۔ موگلی۔۔۔ ارے یہ موگلی کہاں سے آ گیا۔ موگلی تو اس وقت پیدا بھی نہیں ہوا تھا۔ ‘‘ امروز کے خواب میں سحر کی حقیقت سرائیت کر گئی تھی۔

امروز اپنی دادی کے آنچل میں لپٹ کر سو چکا تھا لیکن سحر کی آنکھوں میں نیند کا دُور دُور تک اتہ پتہ نہیں تھا۔ گھپ اندھیرے کے اندر غرقاب سحر سوچ رہی تھی۔۔۔ ’’اب کیا ہو گا؟ کیا موگلی شیر کو مار دے گا؟ لیکن شیر؟ شیر تو جنگل کا بادشاہ ہے۔ کیا وہ مر سکتا ہے؟ اس کے مر جانے سے جنگل کا امن و امان غارت ہو جائے گا اور چہار جانب انارکی پھیل جائے گی۔ قتل و غارت گری کا دور دورہ ہو جائے گا۔ سارے جانور بے خوف ہو کر اپنی من مانی کرنے لگیں گے۔ ایک دوسرے سے لڑیں گے، خونریزیاں کریں گے، کوئی ان میں صلح صفائی کرنے والا نہ ہو گا۔ تو ایسے جنگل میں موگلی کیسے رہ سکے گا جہاں امن و سلامتی نہ ہو اور ہر وقت جان کا کھٹکا لگا رہتا ہو؟ ایسے میں کیا موگلی جنگل سے نکل کر بستی میں آنے کے لئے مجبور ہو جائے گا؟ ‘‘

یہ نہایت عجیب و غریب سوال ننھی سحر کے ذہن میں کوند گیا۔ اس نے موگلی کو حقیقی انسان سمجھ لیا تھا اور اس کے بارے میں بے حد فکرمند ہو گئی تھی۔ وہ سوچ رہی تھی، ’’اپنے جنگل کے دوستوں کے بغیر موگلی کا دل انسانوں کے درمیان کیسے لگے گا؟ اور ویسے بھی بستی کے لوگ جنگل سے لوٹ کر آنے والے انسان کو کیوں کر اپنائیں گے؟ وہ اس پر اعتماد کرنے کے بجائے اسے اپنا دشمن سمجھیں گے۔ اس کے ساتھ حقارت آمیز سلوک کریں گے۔ جنگل کی آزاد فضاؤں میں رہنے ولا موگلی شہر میں گھٹ گھٹ کر مر جائے گا۔ موگلی کا انجام شیر سے بھی بُرا ہو گا۔ ‘‘ سحر کو موگلی سے بڑی ہمدردی تھی۔ وہ موگلی کی مدد کرنا چاہتی تھی لیکن اس اندھیرے کمرے میں، جہاں ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا تھا اور نہ موگلی نظر آتا تھا، وہ اس کی مدد کیسے کر سکتی تھی؟

سحر کو اپنے ابو پر بے حد غصہ آ رہا تھا۔ اس کا جی چاہ رہا تھا کہ دوبارہ ٹیلی ویژن چلا دے اور آگے کے مناظر دیکھے۔ لیکن امروز کے ہاتھوں سے ریموٹ لینے کی ہمت وہ نہیں جٹا پا رہی تھی۔ اس کے دل میں ایک اور خیال آیا۔۔۔ ’’کیوں نہ امی کو جگا کر ان سے سفارش کروائی جائے؟ ‘‘ لیکن پھرسوچا، جس طرح جنگل کے جانور شیر سے خوف کھاتے ہیں، اُسی طرح اس گھر کے باشندے ۔۔۔ سحر اور سندھیا۔۔۔ ابو جی سے ڈرتے ہیں اور ہر معاملے میں ایک دوسرے کا ساتھ دینے والے موگلی اور شیر کی طرح آج اس میں اور ابو میں ان بن ہو گئی تھی۔

سحر نے محسوس کیا، وہ بھی کسی جنگل میں ہے۔ اس کے ابو شیر کی مانند اس جنگل کے بادشاہ ہیں۔ وہ گھر میں سبھی کو اسی طرح اچھے لگتے ہیں جیسے شیر، جو خوفناک ہونے کے باوجود جنگل میں سب کے من بھاتا ہے۔ اس نے جب سوچا ایسا کیوں ہوتا ہے؟ تو اسے لومڑی خالہ یاد آ گئی جس نے ایک مرتبہ موگلی کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا۔۔۔ ’’دیکھو موگلی! تم سب کے چہیتے ہو، لیکن شیر سے سنبھل کر رہنا۔ اس لئے کہ وہ جنگل کا راجہ ہے۔ اگر تم نے کسی اور سے پنگا لے لیا تو بہت سارے جانور تمہاری حمایت میں کھڑے ہو جائیں گے اور شیر بھی تمہاری مدد کو آئے گا، لیکن اگر تمہاری شیر سے لڑائی ہو جائے تو تم بے یار و مددگار ہو جاؤ گے۔ کیا سمجھے؟ ‘‘

موگلی نے سوال کیا۔ ’’لیکن اگر میں حق پر ہوں اور شیر کا موقف ناحق ہو، تب بھی میرے ساتھ کوئی نہیں آئے گا؟ تم بھی نہیں؟ ‘‘

لومڑی بولی۔ ’’جی ہاں موگلی! نہ میں نہ کوئی اور۔۔۔ کوئی بھی نہیں؟ تم تنہا ہو جاؤ گے ‘‘

’’کیوں؟ اس کی وجہ؟ ‘‘ موگلی بھی سحر کی مانند ضدی تھا۔

لومڑی کے لئے اس سوال کا صحیح جواب دینا ایک بڑی آزمائش کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ وہ جانتی تھی موگلی میں بچپنا ہے۔ اگر اس نے کہیں نادانستگی میں بھی اس کا جواب شیر کو بتلا دیا تو وہ بے موت ماری جائے گی۔ لیکن موگلی اگر کسی بات کے پیچھے پڑ جاتا تھا تو مانتا کب تھا؟ لومڑی نے بات بناتے ہوئے کہا۔ ’’وہ ایسا ہے کہ شیر جنگل کے سارے جانوروں کو اچھا جو لگتا ہے۔ ہر بادشاہ اپنی رعایا کو اچھا لگتا ہے، اس لئے وہ اس سے بغاوت تو درکنار، اختلاف کی جرأت بھی نہیں کرتے۔ ‘‘

سحر سوچ رہی تھی کہ لومڑی کی واضح نصیحت کے باوجود موگلی نے شیر سے لڑائی کیوں مول لی؟ اس سوال کا جواب اس کے ننھے سے ذہن نے فوراً دے دیا۔ موگلی! موگلی جنگل میں رہتا ضرور تھا، اس کے باوجود وہ دوسرے جانوروں کی مانند شیر کی رعایا میں شامل نہیں تھا۔ اس کی حیثیت تمام جانوروں سے مختلف تھی۔ اسی لئے وہ چڈی پہن کر آزادی کے ساتھ کبھی پیڑوں پر اُچھلتا کودتا تھا تو کبھی پانی میں چھلانگ لگا کر تیرتا پھرتا تھا۔ موگلی کو اپنی امتیازی حیثیت کا احساس تھا۔ اسی لئے اس نے دوسرے جانوروں کے علی الرغم جو طاقت اور ڈیل ڈول میں اس پر فوقیت رکھتے تھے، بغاوت کی جرأت کر دی تھی اور شیر کے اقتدار کو للکار دیا تھا۔ سحر نے سوچا، ’’کاش کہ وہ بھی موگلی ہوتی؟ ؟ ‘‘

جب سحر نے اپنا تقابل موگلی سے کیا تو اسے لگا کہ شاید وہ غلطی پر ہے؟ موگلی اس حقیقت کو بھول گیا ہے کہ شیر جنگل کا سرپرست ہے۔ جنگل میں جو حفظ و امان اسے حاصل ہے، وہ صرف اور صرف شیر کی بدولت ہے۔ سحر سنجیدگی کے ساتھ یہ سوچنے لگی کہ شاید موگلی کا شیر کے خلاف اعلانِ جنگ درست نہیں ہے؟ اب سحر اندیشوں کا شکار ہونے لگی تھی۔ وہ اس جنگ کے انجام پر غور کرنے لگی تھی۔ بظاہر یہی لگتا تھا کہ شیر موگلی پر غالب آ جائے گا اور اسے ہلاک کر دے گا۔ اس خیال نے سحر کے جسم میں جھرجھری پیدا کر دی۔ وہ موگلی کے لئے فکر مند ہو گئی۔ موگلی! موگلی جو اس کا ہیرو ہے، وہ کیسے مر سکتا ہے؟ وہ نہیں مر سکتا! وہ کبھی نہیں مر سکتا؟ موگلی مر نہیں سکتا! اس لئے کہ وہ ہیرو ہے ہیرو۔ ہیرو۔۔۔ ہیرو۔۔۔ سحر چیخ رہی تھی اور قریب ہی اس کے والدین موت کی نیند سو رہے تھے۔

اس روز جب دور پہاڑوں کی اوٹ سے سورج کندھے اچکانے کی کوشش کر رہا تھا، سحر نیند کی گہری وادی میں قدم رکھ رہی تھی۔ سندھیا کی نیند بہر حال پوری ہو چکی تھی۔ اس نے آسمان کو روشنی کا سرمہ لگاتے دیکھا تو قریب میں پڑے امروز کو جھنجھوڑنے لگی۔ امروز فوراً اُٹھ بیٹھا۔ سب سے پہلے اس کی نظر ننھی سحر پر پڑی تو کیا دیکھتا ہے کہ وہ اپنی کشتی نما کرسی میں آنکھیں کھولے بے حس و حرکت بیٹھی ہے۔ یہ نہایت خوفناک منظر تھا۔ سندھیا اور امروز نے اپنی بیٹی کو ایسی حالت میں پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔

سندھیا نے گھبرا کر کہا۔ ’’ہماری بٹیا کو دیکھو۔۔۔ اسے کیا ہو گیا؟ یہ نہ کچھ بولتی ہے اور نہ ہی سنتی ہے۔ یہ خلاؤں میں نہ جانے کیا دیکھ رہی ہے؟ ‘‘

امروز کو رات کی بات یاد آ گئی، وہ بولا۔ ’’گھبراؤ نہیں۔ یہ سو رہی ہے۔ اسے سونے دو میری جان۔۔۔ اسے نہ جگاؤ!‘‘

’’کیا؟ سورہی ہے؟ یہ تو بیٹھی ہوئی ہے۔ ‘‘

’’تو کیا ہوا! سونے کے لئے لیٹنا ضروری تو نہیں؟ میں ہر روز دیکھتا ہوں، لوگ ممبئی کی لوکل گاڑی میں بھیڑ بھاڑ کے اندر کھڑے کھڑے سو جاتے ہیں۔ ‘‘

’’شاید آپ نے اس کی آنکھوں کو غور سے نہیں دیکھا؟ ان ٹکْر ٹکْر گھورتی ہوئی آنکھوں کے ساتھ بھی کوئی سو سکتا ہے؟ ‘‘

’’کیوں نہیں ! جب انسان اپنے کان اور منھ کو کھلا رکھ کر سو سکتا ہے، تو آنکھوں کو کیوں نہیں؟ اور اس میں حیرت کی کیا بات ہے؟ تم اس حقیقت کی فی الحال چشم دید گواہ ہو۔ اس کے باوجود تمہیں اپنی آنکھوں پر اعتبار نہیں؟ ‘‘

سندھیا بولی۔ ’’آپ کی منطق تودرست ہے لیکن پھر بھی میری سمجھ میں نہیں آتا۔ سوتے میں آنکھیں بند کر کے خواب دیکھنا تو سمجھ میں آتا ہے، لیکن کھلی آنکھوں کے ساتھ سب کچھ دیکھتے ہوئے سونا؟ ۔۔۔ اس کا ادراک ذرا مشکل ہی ہے۔ ‘‘

’’مشکل اس لئے ہے کہ تم نے یہ فرض کر لیا ہے کہ وہ کھلی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ وہ کھلی آنکھوں کے باوجود کچھ بھی دیکھ نہیں رہی۔ ‘‘

’’کوئی آنکھیں بھی کھلی رکھے اور دیکھے بھی نہیں، یہ کیسے ممکن ہے؟ ‘‘

’’بے شک ممکن ہے ۔۔۔ نیند کی حالت میں ہمارے کان کھلے ہوتے ہیں مگر ہم کچھ نہیں سنتے اسی طرح اگر آنکھیں کھلی ہوں تو ہم دیکھ کیسے سکیں گے؟ ۔ ‘‘

’’لیکن ایسا کیوں ہوتا ہے؟ کیا اس سوال کا کوئی جواب ہے آپ کے پاس۔۔۔؟ ‘‘

’’کیوں نہیں۔ کیا تم نہیں جانتیں کہ کبھی کبھار انسان مر جاتا ہے اور اس کی آنکھیں کھلی رہ جاتی ہیں۔ لیکن چونکہ قوتِ بصارت سے محروم ہو جاتی ہیں، اس لئے دیکھ نہیں پاتیں۔ ‘‘

سندھیا کو امروز کے دلائل مطمئن نہیں کرپا رہے تھے اس لئے وہ سوال پر سوال کئے جا رہی تھی ’’یہ تو آپ نے بڑی عجیب سی مثال دے دی، موت اور نیند کا بھلا کیا موازنہ۔ ایک اگر آتی ہے تو جاتی نہیں، یہاں تک کہ ساتھ لے جائے لیکن نیند آتی جاتی رہتی ہے۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اگر نیند آئے نہیں تو جائے کیسے؟ ‘‘

امروز بولا ’’جی ہاں ! اس بنیادی فرق کے باوجود دونوں میں بلا کی یکسانیت ہے۔ میں تو کہتا ہوں نیند موت کی چھوٹی بہن ہے۔ وہ بھی موت کی طرح حواسِ خمسہ کو سلب کر دیتی ہے۔ اعضا و و جوارح موجود ہونے کے باوجود نیند کا خمار یا حصار میں بے حس ہو جاتے ہیں۔ ‘‘

سندھیا نے سحر کی جانب اشارہ کر کے پوچھا ’’وہ تو ٹھیک ہے لیکن اب اس کا کیا کیا جائے؟ کیا اسے یوں ہی سوتاچھوڑ دینے سے کہیں اس کا جسم بیٹھے بیٹھے اکڑ نہ جائے؟ ‘‘

امروز بولا ’’تو ایسا کرتے ہیں کہ اسے یوں ہی اٹھا کر آہستہ سے بستر پر لٹا دیتے ہیں، ورنہ اس کی آنکھ کھل جائے گی۔۔۔ میرا مطلب ہے نیند ٹوٹ جائے گی۔ ‘‘ امروز نے فوراً اپنی اصلاح آپ کر دی۔

سندھیا اور امروز نے مل کر آہستہ سے سحر کو اپنی جگہ سے اُٹھایا اور بستر پر لٹا دیا۔ اسے پتہ بھی نہیں چلا کہ کیا ہوا۔ اس روز نیند کے گہرے بادل دیر گئے تک آسمان پر چھائے رہے اور رات کے بطن سے اچانک دن نکل آیا، گویا صبح بیچ سے کہیں غائب ہو گئی تھی۔ عوام نے اسے ایک خلاف معمول واقعہ سمجھ کر نظر انداز کر دیا۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

سندھیا کی اپنی کوئی ساس نہیں تھی، پھر بھی اس کو ٹی۔ وی کے پردے پر ’’ساس بہو کی تو تو میں میں ‘‘ بہت اچھی لگتی تھی۔ کبھی کبھار جب اس کا دل اس سے اُوب جاتا تو وہ ریموٹ کنٹرول کی مدد سے دوسرے چینلس کی جانب نکل جاتی اور اپنا ذائقہ بدل کر پھر واپس اپنے پسندیدہ چینل پر لوٹ آتی۔

ایک دن اسی چکر میں وہ ایک انگریزی چینل پر پہنچ گئی جہاں فلم چل رہی تھی۔ عدالت کا منظر تھا اور دلچسپ بات یہ تھی کہ مدعی اور مُدعا الیہ دونوں خواتین تھیں۔ مقدمہ بڑے زور و شور سے لڑا جا رہا تھا۔ ہر دو جانب کے وکیل جوش و خروش کے ساتھ اپنے گواہ پیش کرتے تھے اور حریفِ مخالف کے گواہ کی دھجیاں اُڑا کر لوٹا دیتے تھے۔ سندھیا نے اس چینل پر لنگر ڈال دیا اور ریموٹ کو ایک جانب رکھ کر فلم دیکھنے لگی۔

قضیہ ایک خاتون کا تھا جسے نیند میں چلنے کی بیماری تھی۔ وہ نیند کی حالت میں نہ صرف خود چل پڑتی تھی بلکہ بے خبری کے عالم میں اپنی گاڑی بھی چلانے لگتی تھی۔ یہ تمام کام نیند کی حالت میں ہوتے۔ اسے ذرّہ برابر احساس نہ ہوتا کہ وہ کیا کر رہی ہے۔ ایسے میں ڈینس نام کا ایک نوجوان گاڑی کی زد میں آ گیا اور اپنی جان گنوا بیٹھا۔

مقتول کی ماں نے عدالت سے رجوع کر کے اپنے بیٹے کے قاتل کیلئے سزائے موت کا مطالبہ کر ڈالا۔ تمام شواہد مقتول کے حق میں تھے، اس کے باوجود ملزمہ کا وکیل اطباء کی مدد سے یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا کہ اس کی مؤکل نیند میں چلنے یعنی ’’خواب گردی‘‘ نام کی بیماری میں مبتلا ہے۔

وکیلِ استغاثہ کی دلیل یہ تھی کہ اس کے مؤکل کا حالتِ نیند میں اپنے اعضاء کی حرکات و سکنات پر کوئی اختیار نہیں تھا۔ اس لئے کہ نیند کی حالت میں انسان کا اس کے اعضاء اور جوارح پر اختیار ختم ہو جاتا ہے۔ اس لئے، اس دلیل کے تحت کسی بے اختیار فرد کو موردِ الزام ٹھہرانا انصاف کے منافی ہے۔ اس دلچسپ بحث میں فرد اور اس کے اعضا دو مختلف وجود بن کر سامنے آ رہے تھے۔ اس لئے جج صاحب نے استفسار کیا کہ وہ ان میں سے کس کا وکیل ہے؟ یعنی اس کا حقیقی مؤکل کون ہے؟

وکیل نے بتلایا کہ وہ فرد کی وکالت کر رہا ہے، اعضا کی نہیں۔

’’اور قتل کس نے کیا؟ ‘‘

’’اعضا نے؟ ‘‘

’’لیکن یہ اعضا ء کس کے پاس ہیں۔ مثلاً اگر کوئی قاتل اپنی بندوق سے کسی کو ہلاک کر دے تو بندوق کو نہیں بلکہ اس کو چلانے والے کو سزا دی جائے گی۔ وکیل استغاثہ نے دلیل پیش کی۔

وکیل مدعی بولا۔ ’’جی ہاں، آپ کی دلیل بالکل درست ہے۔ قاتل چونکہ اپنی مرضی سے شعوری طور پر بندوق کا استعمال کرتا ہے، اس لئے وہ مجرم قرار پائے گا۔ لیکن اگر یہ عمل بے اختیاری طور پر وقوع پذیر ہو جائے تو صورتحال بدل جائے گی۔

لیکن انسان کوجیسے اسلحہ کے استعمال پر سزا ہو سکتی ہے اسی طرح اپنے اعضا کی کار کردگی پر سزا ہونی چاہئے۔ نسان کا اپنے اعضا کے اوپر سے اختیارکیسے ختم ہو سکتا ہے؟

’’کیوں نہیں جناب۔۔۔ میں تو یہ کہتا ہوں کہ ہماری یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے کہ ہمیں اپنے ہر عضو پر مکمل اختیار حاصل ہے۔ ہمارے اعضاء کی دو بڑی قسمیں ہیں۔ ایک جن کو ہم اپنی مرضی سے استعمال کرتے ہیں، مثلاً ہاتھ پاؤں وغیرہ۔ لیکن بہت سارے ایسے اعضاء و جوارح بھی ہیں جو ہمارے کے تابع و فرمان نہیں ہیں، مثلاً انسان نہ ہی اپنے دل کی دھڑکن پر کوئی اختیار رکھتا ہے اور نہ ہی اپنے جگر کی کار کردگی پر اثر اَنداز ہو سکتا ہے۔

وکیل مدعی نے اعتراض کیا۔ گاڑی چلانے میں جن ہاتھوں اور پیروں کا استعمال کیا جاتا ہے ان کے بارے میں آپ نے خود اعتراف کر لیا کہ وہ اختیاری اعضاء ہیں۔

وکیل استغاثہ بولا لیکن آپ نے میری بات کو درمیان سے اچک لیا۔ میں کہنے جا رہا تھا کہ یہ سب بھی حالتِ بیداری کی باتیں ہیں۔ نیند کی حالت میں سارے ہی اعضاء اپنے مالک کے اختیار و عمل سے آزاد ہو جاتے ہیں۔ اس لئے ایسے میں ان کی کسی حرکت کے لئے فرد کو موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا اور میں یہ ثابت کر چکا ہوں کہ میری مؤکل حادثے کے وقت ہوش کے عالم نہیں بلکہ نیند کی حالت میں تھی۔

اپنی پوزیشن کو کمزور ہوتا ہوا دیکھ کر مقتول کی ماں خود اپنی جگہ پر کھڑی ہو گئی اور بولی۔ ’’جج صاحب! مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں ہے کہ میرے بیٹے کا قاتل کون ہے؟ میں تو یہ جانتی ہوں کہ میرے لختِ جگر کا ناحق قتل ہوا ہے اور جس کسی نے یہ قتل کیا اسے قرار واقعی سزا ہونی چاہئے تاکہ آئندہ کوئی کسی کے دل میں اس کا خیال تک نہ آئے اور کوئی قانونی منہ شگافی کسی کے کام نہ آئے۔

مطالبہ نہایت معقول اور خاصہ جذباتی تھا، لیکن ملزمہ کے وکیل پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ وہ بولا۔ ’’جناب جج صاحب! چونکہ معاملہ زندگی اور موت کا ہے اس لئے اسے جذبات کی بنیاد پر سلجھانے کی کوشش مزید اُلجھا سکتی ہے۔ ‘‘ وہ نہایت اعتماد کے ساتھ اپنے دلائل رکھ رہا تھا۔ ’’انسانی زندگی اختیار و عمل کی آزادی کا دوسرا نام ہے۔ اس خودمختاری کا خاتمہ اُسے زندہ لاش میں تبدیل کر دیتی ہے۔ یہ تبدیلی ابدی بھی ہوتی ہے اور عارضی بھی۔ ویسے تو ابدی نیند کے بعد بھی تمام انسانوں کو ایک دن حساب کتاب کے لئے اُٹھایا جائے گا، یہ ایک دیگر بحث ہے۔ لیکن کسی فرد کی موت کے بعد دنیاوی عدالت اسے کوئی سزا نہیں دے سکتی۔ ‘‘

وکیل نے اپنی بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے سوال کیا ’’میری مؤکل نیند کی حالت میں وقتی طور پر موت کا شکار ہو گئی تھی، جیساکہ ہم سب ہو جاتے ہیں۔ حالتِ مرگ میں اس کے اعضاء نے جو حرکت غیر شعوری طور پر کی، اس کی سزا زندگی کی حالت میں میرے مؤکل کو دینا سراسر ظلم ہے۔ بلا ارادہ قتل کا جواب بلارادہ قتل نہیں ہو سکتا۔ یہ روحِ انصاف کے منافی ہے؟ ‘‘

’’اگر ایسا ہے تو قاتل کو نیند کی حالت میں سزا دی جائے۔ ‘‘ مقتول کی ماں نے عدالت سے گہار لگائی۔

جج صاحب بولے لیکن عدالت کا مسئلہ یہ ہے کہ سزا کے لئے پھانسی کے پھندے پر لے جانے کا عمل نیند کی حالت کو ہوشمندی میں تبدیل کر دیتا تھا، اور سزا از خود ساقط ہو جاتی ہے۔ جج نے شش و پنج کی کیفیت میں مقتول کی ماں سے پوچھا کہ اگر وہ کوئی ایسی صورت سجھا سکتی ہوں کہ جس کے ذریعہ ملزم کو اسی حالت میں، جس میں کہ اُس سے جرم سرزد ہوا ہے، سزا دی جا سکے تو عدالت کو اسے نافذ کرنے میں کوئی اعتراض نہ ہو گا۔

چند لمحات کے لئے عدالت میں خاموشی چھا گئی۔ اس کے بعد مقتول کی ماں اپنی جگہ سے اُٹھی اور بولی۔ ’’میری رائے یہ ہے اس قاتلہ کو نیند کی حالت میں گولی مار دی جائے۔ ‘‘

ان الفاظ کے ادا ہوتے ہی ملزمہ کی فلک شگاف چیخ عدالت میں بلند ہوئی۔ وہ کہہ رہی تھی۔ ’’میں نے قتل نہیں کیا۔۔۔ میں نے کسی کا قتل نہیں کیا۔۔۔ میں مرنا نہیں چاہتی۔۔۔ مجھے نہ مارو۔۔۔ مجھے ناحق نہ مارو۔۔۔ میں مرنا نہیں چاہتی۔۔۔‘‘ دھیرے دھیرے اُس کی آواز کسی غار میں گم ہو گئی اور وہ اپنی جگہ ڈھیر ہو گئی۔ اس کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر چکی تھی۔ ملزمہ کا جیتی جاگتی حالت میں بھری عدالت کے اندر قتل ہو گیا تھا۔ انصاف نے سسک سسک کر دم توڑ دیا تھا اور عدل کی لاش عدالت کے اندر سولی پر چڑھائی جا چکی تھی۔

ایک لمحہ کے لئے پردے پر اندھیرا چھا گیا اور اگلے منظر میں پھر ایک بار عدالت کا دربار سجا ہوا تھا۔ مقتول کی ماں مجرم کے کٹہرے میں کھڑی تھی اور اس پر عمداً قتل کا مقدمہ قائم ہو رہا تھا۔ فلم کا پردہ گرنے لگا۔ سندھیا کے پپوٹے بھاری ہو چکے تھے اور اس روز وہ دوپہر کے بجائے سرِ شام نیند کی آغوش میں جا رہی تھی۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

سحر نے جب آنکھیں کھولیں تو خلافِ عادت سندھیا کو سویا ہوا پایا۔ اس نے موقع غنیمت جانا اور ٹی۔ وی پر اپنے پسندیدہ چینل پر کارٹون فلم دیکھنے لگی۔ اپنی امی کی نیند کا خیال کر کے اس نے آواز کو اس قدر دھیمے کر دیا تھا کہ خود اسے بھی صاف سنائی نہیں دے رہا تھا۔ وقت کے ساتھ سحر سمجھدار ہو چلی تھی، دوسروں کی تکلیف کا پاس و لحاظ کرنے لگی تھی۔ کارٹون فلمیں دیکھتے دیکھتے وہ اس قدر طاق ہو گئی تھی کہ وہ آواز و الفاظ سے بے نیاز لبوں کے حرکات اور تاثرات سے ساری بات سمجھ جایا کرتی تھی۔ اس لئے اب وہ مختلف زبانوں کی کارٹون فلمیں دیکھنے لگی تھی اور وہ انہیں ایسے انہماک سے دیکھتی کہ دُنیا و مافیہا سے بے خبر ہو جاتی۔

گرمیوں کا وہ دن اس قدر طویل تھا کہ شام کا وقفہ درمیان سے غائب ہو گیا اور اچانک رات نمودار ہو گئی۔ تھکا ماندہ امروز اپنی حویلی کے آنگن میں پہنچا تو وہاں قبرستان کا سا سناٹا تھا۔ اس نے چابی نکالنے کی خاطر جیب میں ہاتھ ڈالا تو ہاتھ دوسری جانب سے باہر آ گیا۔ امروز کی جیب کٹ چکی تھی۔ نہ صرف اس کی چابی، بلکہ اس کا بٹوہ، شناختی کارڈ، انشورنس کارڈ، لائسنس اور اے۔ ٹی۔ ایم کارڈ سمیت غائب تھے۔ امروز نے موبائل کو ٹٹولا تو وہ بھی ندارد، اس کو ایسا لگا جیسے اس کا سب کچھ چھن چکا ہے۔ وہ کنگال بلکہ ادھورا ہو کر رہ گیا ہے۔ بے یارو مددگار امروز کو خارجی اشیاء پر شدید انحصا کا احساس اسے ان سب کے چھن جانے کے بعد ہوا۔

امروزو اپنے گھر کے ساتھ ساتھ اپنے خزانے اور صحت کی کنجی گنوا بیٹھا تھا۔ اس کا اپنا تشخص اس سے کھو گیا تھا۔ اس نے دروازے پر لگی کال بیل کو دبانے کی کوشش کی تو وہ عرصۂ دراز تک عدم استعمال کا احتجاج کر کے خاموش ہو گئی۔ اب وہ اپنی دھول سے اٹی اُنگلی کو صاف کر کے دروازے پر دستک دے رہا تھا۔ جیسے جیسے اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جاتا دستک کی شدت میں اضافہ ہوتا چلا جاتا تھا۔ کچھ دیر بعد وہ لاشعوری طور پر دروازے کو پیٹ رہا تھا لیکن کہاں صدر دروازہ اور کہاں مہمان خانے کے عقب میں خواب گاہ کا مضبوط باب جو قلعے کی مانند بند تھا۔ باہر آندھی چل رہی تھی اور اندر طوفان سے پہلے کی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ سحر کارٹون فلم اور سندھیا نیند کے گہرے سمندر میں غرق تھی۔

امروز کے پڑوس میں رات کی کوٹھی تھی، جس کے باہر صحرائی لیلیٰ کندہ تھا۔ پڑوسن کی شب کا دن نہ جانے کب حرص و ہوس کے چکر میں کسی لق و دق صحرا کی جانب نکل گیا تھا اور پھر راستہ بھٹک کر کہیں کھو گیا تھا۔ اپنے محبوب کے غم میں لیلیٰ نے ہوش و حواس کھو دئیے تھے۔ وہ پاگل ہو گئی تھی۔ بعد میں لوگوں نے اس کے مجنوں سے منسوب کر کے لیلیٰ کا نام صحرائی لیلیٰ کر دیا تھا۔ صدیوں سے بند اس خوفناک ویران حویلی کا دروازہ امروز کے شور و شغف سے پہلی بار چرمرایا اور ایک بھیانک آواز کے ساتھ کھل گیا۔ برسوں پرانی نیند سے ایک شرارت بیدار ہو رہی تھی۔ رات نے شر انگیز انگڑائی لی۔ اس کا سایہ باہر آیا اور امروز کے دروازے تک پھیل گیا۔ ہر طرف تاریکی کا دور دورہ تھا۔

لیلیٰ کی یادداشت لوٹ آئی تھی۔ وہ یاد کر رہی تھی ایک صبح اس کا دن، جس کا نام النہار تھا، حسب معمول شام میں لوٹ کر آنے کا وعدہ کر کے روانہ ہوا اور پھر لوٹ کر نہیں آیا۔ اُسے وہ دن بھی یاد آ رہے تھے جب اس کی آنکھیں اپنے دن کے انتظار میں دروازے پر ٹکی رہتی تھیں۔ اسے یقین ہوا کرتا تھا کہ صبح کا بھولا کسی نہ کسی شام ضرور لوٹ آئے گا۔ لیکن رفتہ رفتہ امیدوں کے سارے چراغ گل ہو گئے۔ اپنے مجنوں کی منتظر لیلیٰ تنہائی کی وادیوں میں کھو گئی۔

اور پھر صحرائی لیلیٰ کی یادداشت بھی اس کا ساتھ چھوڑ گئی۔ وہ بھول گئی کہ النہار کون ہے اور لیلیٰ کس کا نام ہے؟ اس کے بعد کیا کچھ ہوا، وہ نہیں جانتی تھی۔ ایک عالمِ بے خودی میں اس کی سانسوں کا تار چل رہا تھا۔ لیکن آج اچانک ایک نئی جھنکار نے دل کے تار کو چھیڑ دیا تھا۔ وہ پھر سے زندہ ہو گئی تھی۔ وہ اپنے دل کے دروازے پر ایک دستک محسوس کر رہی تھی۔ اس نے جھروکے کی اوٹ سے جھانک کر باہر دیکھا تو ایک عجیب و غریب منظر نے اسے چونکا دیا۔ امروز نے دروازہ سے سر ٹکرا ٹکرا کر اپنی پیشانی کو لہولہان کر لیا ہے، لیکن دروازہ ہنوز بند کا بند ہی ہے۔

لیلیٰ نے اپنا سر باہر نکالا اور آہستہ سے بولی۔ ’’آؤ۔۔۔ یہاں آ جاؤ! رات کافی گہری ہو چکی ہے۔ تم یہاں آ کر سو جاؤ۔ ‘‘ اس کی آواز میں بلا کی حلاوت و شیرینی گھلی ہوئی تھی۔

امروز نے اپنے عقب کی جانب مڑ کر دیکھا تو لیلیٰ مسکرا رہی تھی، وہ بولا۔ ’’شکریہ۔ لیکن میں اپنے بستر کے علاوہ کہیں اور نہیں سو سکتا۔ اس لئے کہ مجھے نیند نہیں آئے گی۔ ‘‘

لیلیٰ بولی۔ ’’کیسی باتیں کرتے ہو؟ نیند کا تعلق بستر سے نہیں، تھکن سے ہے۔ جب کوئی بوجھل ہو تو اسے پتھر پر بھی نیند آ جاتی ہے اور جب وہ تھکا ہوا نہ ہو تو نرم و نازک بستر بھی اس کے لئے بیکار ہوتا ہے۔ ‘‘

امروز بولا۔ ’’نہیں ۔۔۔ ایسا نہیں ہے۔ لوگ چھٹی کے دن آرام کرتے ہیں، اس کے باوجود اُنہیں نیند تو آتی ہی ہے۔ ‘‘

لیلیٰ کو ہنسی آ گئی، وہ بولی۔ ’’تم بہت بھولے ہو امروز۔۔۔ بالکل بچوں جیسی باتیں کرتے ہو۔ لوگ چھٹی کے دن جاگتے جاگتے تھکتے ہیں تو سو جاتے ہیں اور سوتے سوتے تھک جاتے ہیں تو بیدار ہو جاتے ہیں۔ تھکن تبدیلی کی طالب ہوتی ہے۔ مجھے پتہ ہے کہ دن بھر کے سفر نے تمہیں تھکا کر چور کر دیا ہے۔ ‘‘

’’تمہیں کیونکر پتہ ہے؟ میری حالت کا اندازہ تم نے کیسے کر لیا؟ ‘‘۔

’’مجھے پتہ ہے امروز۔ میرا النہار بھی تمہاری طرح صبح سویرے نکل جایا کرتا تھا اور شام ڈھلے تھکا ماندہ لوٹ کر آتا اور میرے شانے پر سر رکھ کر گہری نیند سو جاتا تھا۔ ‘‘

’’اچھا! کہاں چلا گیا وہ؟ اب وہ کیوں نہیں آتا؟ ‘‘

’’دیکھو امروز۔۔۔ ایسے سولات کر کے اپنا اور میرا وقت ضائع نہ کرو جن کا جواب نہ میں جانتی ہوں اور نہ جاننا چاہتی ہوں۔ آؤ سو جاؤ، اس لئے کہ تمہارا سونا بہت ضروری ہے۔ ‘‘

’’کیوں ۔۔۔ میرا سونا کیوں ضروری ہے؟ اگر میں بیدار رہا تو کیا ہو جائے گا؟ ‘‘ امروز کو لیلیٰ کی باتیں بھلی لگنے لگی تھیں۔

لیلی بولی۔ ’’دیکھو تمہاری نیند اس لئے بھی ضروری ہے کہ تم اگر سوؤ گے نہیں تو جاگو گے کیسے؟ اور اگر جاگو گے نہیں تو سارا جہان سوتا پڑا رہے گا۔ انسانوں کی ہوشیاری و غفلت تمہارے نظام الاوقات کی مرہونِ منت جو ہے۔ ‘‘

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

امروز بالآخر لیلیٰ کی دلیل کا قائل ہو گیا اور با دلِ ناخواستہ اس کی جانب بڑھا۔ لیکن جیسے ہی اس نے چوکھٹ کے اندر قدم رکھا، وہیں گر کر ڈھیر ہو گیا۔ لیلیٰ امروز کی سانسوں کو اُکھڑتا ہوا دیکھ رہی تھی۔ اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا گویا اس کا النہار کسی غیر کی چوکھٹ پر دم توڑ رہا ہے۔ رات کی تاریکی مزید گہری ہو گئی۔ آسمانِ گیتی سے سارے ستارے و چاند ایک لمحہ کے لئے غائب ہو گئے۔ وہ سب کے سب امروز کے جنازے میں شریک تھے۔ امروز کا تابوت ان کے کندھوں پر تھا۔ لیلیٰ بین کرتی ہوئی ان کے پیچھے چل رہی تھی اور اس کی نظریں النہار کو تلاش کر رہی تھیں۔ لیلیٰ کی پلکوں پر امید کا ایک ننھا سا دِیا روشن کر کے امروز اپنے آخری سفر پر روانہ ہو گیا تھا۔ لیکن اس سانحہ سے بے خبر باقی مخلوقات بشمول سندھیا اور سحر نیند کیا تھاہ گہرائیوں میں کھوئے ہوئے تھے۔

اگلے دن صبح سے قبل سندھیا نے آنکھیں کھولیں تو اپنے آس پاس امروز کو ٹٹولنے لگی۔ امروز کا کہیں اتہ پتہ نہیں تھا۔ شام کو سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس کا دن کہاں کھو گیا؟ یہ اچانک اسے کیا ہو گیا؟ گزشتہ شام کی فلم کے مناظر اس کی آنکھوں کے سامنے گھوم گئے۔ وہ سوچنے لگی کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ کسی نے نیند کی حالت میں اس کے امروز کو روند دیا ہو؟ اس کا دل کہہ رہا تھا یقیناً ایسا ہی ہوا ہے۔ لیکن پھر اس کے ذہن میں ایک اور سوال اُبھرا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ اس جرم کا ارتکاب کرنے والی کوئی اور نہیں، اُس کی اپنی ہی ذات ہے؟

سندھیا!! سندھیا ہی وہ آسیب ہے جس نے اپنے امروز کو نگل لیا؟ اس خیال سے وہ کانپ اُٹھی۔ اس نے سوال کو ذہن سے جھٹک دیا۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ وہ تو نیند کے خمار میں بھی اپنے امروز کو ایذاء نہیں پہنچا سکتی تھی۔

وکیل استغاثہ کا جملہ اس کے کانوں میں گونج رہا تھا۔ ’’جج صاحب۔۔۔ نیند کی حالت میں انسان کا اختیار ہی سلب ہو جاتا ہے۔ اس کے اعضا و جوارح پر اس کا بس نہیں چلتا اور ایسے میں کچھ بھی ہو سکتا ہے ۔۔۔ کچھ بھی۔ وہ ایسے تمام کام کر سکتا ہے جنھیں وہ کرنا نہیں چاہتا اور ان میں سے کوئی ایک بھی کام نہیں کر سکتا جن کو وہ کرنا چاہتا ہے۔ ‘‘

سندھیا نیند کی حالت کے بارے میں سوچ ہی رہی تھی کہ سحر جاگ گئی۔ اس نے اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے پوچھا۔ ’’امی۔۔۔ میرے ابو کہاں ہیں؟ کیا وہ چلے گئے؟ کیا وہ آج مجھ سے ملے بغیر ہی روانہ ہو گئے؟ ‘‘

’’نہیں بیٹی۔۔۔ تمہارے ابو تم سے ملے بغیر نہیں جا سکتے۔ وہ ابھی نہیں گئے۔ ‘‘

’’اچھا! اگر گئے نہیں تو میرے ابو کہاں ہیں؟ کہاں ہیں میرے ابو ۔۔۔ مجھے بتاؤ۔ ‘‘

’’بیٹی میں یہ تو نہیں جانتی کہ تمہارے ابو کہاں ہیں، لیکن یہ ضرور جانتی ہوں کہ وہ آج اپنے گردشِ روزگار پر نہیں گئے۔ ‘‘

’’آپ کو پتہ بھی نہیں اور پتہ بھی ہے؟ یہ کیسی کیفیت ہے امی؟ ‘‘

’’میری بیٹی سحر! ہر آنے والا دن چلا جاتا ہے، گویا جانے کے لیے آنا ضروری ہے۔ اب جو آیا ہی نہ ہو وہ کیسے جا سکتا ہے بھلا؟ وہ نہیں جا سکتا۔۔۔ کہیں نہیں جا سکتا۔ اسی لئے میں کہہ رہی ہوں کہ وہ نہیں گئے ۔۔۔ تمہارے ابو کہیں نہیں گئے۔ ‘‘

سندھیا کے بے ربط جملوں کو سمجھنا سحر کے لیے نا ممکن تھا۔ اس لئے وہ بولی۔ ’’امی یہ آپ کا آنے جانے کا فلسفہ میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ ‘‘

سندھیا نے جواب دیا۔ ’’جی ہاں بیٹی! تمہاری بات درست ہے۔ یہ معاملہ کا مکمل ادراک چونکہ خود مجھے نہیں ہے اس لئے تمھیں کیسے سمجھا سکتی ہوں؟ شاید مجھے صرف یہ کہنا چاہیے کہ میں نہیں جانتی تمہارے ابو کہاں ہیں۔ میں یہی جانتی ہوں کہ میں کچھ نہیں جانتی۔ ‘‘

لوگ سوتے سوتے تھک گئے تھے اور سورج دن کے انتظار میں کھڑا کھڑا تھک گیا تھا۔ ایسے میں سندھیا نے لب کشائی کی، وہ بولی۔ ’’بیٹی تمہارے ابو تو موجود نہیں ہیں لیکن اُن کا فرضِ منصبی تو قائم و دائم ہے۔ اب اس فرض کی ادائیگی کے لیے تمھیں کمربستہ ہونا پڑے گا۔ ‘‘

ماں کی اس درد انگیز التجا کو سن کر سحر تیار ہو گئی۔ سندھیا بوجھل قدموں کے ساتھ سحر کے ہمراہ دروازے تک آئی۔ اسے سینے سے لگا کر پیشانی پر محبت کا بوسہ دیا اور الوداع کر دیا۔

جیسے ہی سحر نے آنگن سے باہر قدم رکھا، سورج نے اپنی جگہ سے حرکت کی۔ مؤذن صبح کاذب کا اشارہ پا کر محراب کی جانب بڑھا۔ اور پھر جب نمازی مسجد سے لوٹ رہے تھے۔ ایک نئی صبح جلوہ نمائی کے لیے بیتاب تھی۔ دن کی روشنی سحر بن کر کائنات کو منور کر رہی تھی اور شام لمحات کی تسبیح کو ہاتھوں میں تھامے اپنی ننھی سحر کی واپسی کا انتظار کر رہی تھی۔







مونا گونسا لویس



وہ دونوں ایئر انڈیا کی ممبئی نیویارک فلائیٹ میں محو پرواز تھے۔ آدھی رات میں مونا ارونگ ویلس کا ناول ایئر پورٹ پڑھ رہی تھی اور منیر نیند کی آغوش میں گم تھا۔ درمیان میں جب منیر کی آنکھ کھلتی وہ ہینڈل میں لگا سوئچ آف کر دیتا اور اندھیرا چھا جاتا۔ مونا ناول کا مطالعہ بند کر کے مسکراتے ہوئے منیر کو دیکھتی اور جب اسے یقین ہو جاتا کہ منیر پھر گہری نیند میں ڈوب چکا ہے وہ بتی کا سوئچ آن کر کے کتاب میں غرق ہو جاتی۔

بارہ گھنٹہ کی طویل مسافت کے بعد جب وہ نیویارک پہونچے تو وہاں وہی وقت تھا کہ جب وہ ممبئی سے چلے تھے۔ رات کے دس بج رہے تھے منیر کی نیند پوری ہو چکی تھی اب اس کی صبح ہوئی تھی لیکن باہر سارا جہاں سو رہا تھا۔ وہ سوچنے لگا رات کہاں گئی؟ اس کیلئے وقت ٹھہر گیا تھا۔ گھڑی کے کانٹے رک گئے تھے۔ لیکن یہ صرف منیر کی کیفیت تھی۔ مونا پوری رات ناول کو دن کی طرح پڑھتی رہی تھی۔ اس کا دن کافی طویل ہو گیا تھا۔ بارہ کے بجائے چوبیس گھنٹے اس نے جاگتے ہوئے گذار دیئے تھے۔ نیند کے شدید غلبہ کا شکار مونا سونا چاہتی تھی۔

منیر کی آنکھوں میں نیند کا شائبہ تک نہ تھا۔ جس طرح انسانی بھوک کی ایک حد ہوتی ہے اسی طرح نیند کی بھی ایک انتہا ہوتی ہے۔ انسان نہ بے حدوحساب جاگ سکتا ہے اور نہ سو سکتا ہے۔ انسان کو چونکہ فطرت وسط پر پیدا کیا گیا ہے اس لئے انتہا پسندی اس کی فطرت کے خلاف ہے۔ ایئر پورٹ سے ہوٹل کے درمیان مونا کی آنکھیں جھپک گئیں لیکن منیر آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر نیویارک شہر کی روشنیوں کو اور رنگینیوں کو دیکھ رہا تھا۔

اس کی گاڑی جب ’’زیرو لینڈ‘‘ کے قریب سے گذری تو اس نے سوچا امریکیوں نے اس علاقے کو کس قدر منفرد نام منسوب کر رکھا ہے۔ ایک وسیع و عریض میدان جہاں کسی زمانے میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے دو حسین و جمیل جڑواں فلک بوس ٹاور بالکل منیر اور مونا کی طرح کھڑے تھے۔ وہ یادگار جنہیں ایک دھماکے نے تہس نہس کر دیا تھا۔ ایک زمانے تک وہ عمارتیں اکے پر اکے کی طرح تھیں۔ وہ ساری دنیا کو شئے تو دیتی تھیں مگر کسی سے مات نہ کھاتی تھیں۔ گردشِ زمانہ نے انہیں ایک بہت بڑے صفر میں تبدیل کر دیا تھا۔ وہ ایک خوفناک ماضی یادگار بن گئی تھیں۔ امریکی استعمار کی اس قبر میں ایک سپر پاور کا کبر و غرور دفن تھا۔ اس تربت پر عقیدت اور تعزیت کے پھول نچھاور کئے جاتے تھے۔

ٹیکسی جب ہوٹل کے احاطے میں رکی تو منیر نے مونا کو جگایا اور وہ دونوں اپنے اپنے کمروں کی جانب روانہ ہو گئے۔ جدا ہوتے وقت مونا نے منیر کو اپنا پڑھا ہوا ناول یہ کہتے ہوئے تھما دیا کہ میں تو اسے پڑھ چکی ہوں اب یہ تمہارے لیے ہے۔ منیر نے شکریہ کے ساتھ ناول لے تو لیا لیکن یہ حرکت محض دل بستگی کے لیے تھی۔ جس ضخیم ناول کو مونا نے رات بھر میں ختم کیا تھا اس کے چند اوراق کا مطالعہ بھی منیر کے لیے محال تھا۔

منیر اور مونا کے درمیان کوئی مشترک قدر نہیں تھی۔ مونا نہایت آزاد خیال مغربی تہذیب کی پروردہ دوشیزہ تھی۔ اس کے مزاج میں بلا کا نظم و ضبط تھا۔ اپنے کام کے تئیں وہ نہایت سنجیدہ تھی اور بے حساب محنت و مشقت اس کا شعار تھا۔ اس کے برعکس منیر ایک روایتی خاندان کا چشم و چراغ تھا۔ مشرقی ماحول میں پرورش پانے والے منیر کو اپنی تہذیب تمدن پر بڑا ناز تھا۔ ایک طرف تو وہ مذہبی اقدار کا پاسدار تھا لیکن زندگی اسی کے ساتھ دفتری مشغولیات کے حوالے سے بے نیاز طبیعت کا حامل تھا۔ کسی کام کو وہ بہت سنجیدگی سے نہیں لیتا تھا۔ نظم و ضبط سے اسے خدا واسطے کا بیر تھا۔ بلا کی صلاحیت اور صالحیت کے باوجود وہ محنت و مشقت سے جان چراتا تھا۔

اس فرق کے باوجود وہ منیر اور مونا ایک دوسرے کا بے حد خیال رکھتے تھے۔ کوئی ایسی حرکت، ایسا رویہ یا ایسے الفاظ تک استعمال نہ کرتے جو دوسرے پر گراں گزریں۔ یہ گویا مخالف قطب کی باہمی کشش کا نتیجہ تھا۔ وہ خود نہیں جانتے تھے کہ اس ناز برداری کی وجہ کیا ہے؟ بہرحال ان کے درمیان قائم انسیت کے ایک نامعلوم اور بے نام رشتہ کی معروضی توجیہ اگر نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور تھی۔

کمرے میں آنے کے بعد منیر نے خود اپنے ہاتھ سے کافی تیار کی اور بادل ناخواستہ ناول کو کھولا۔ چند ہی سطور کے بعد اس کی طبیعت اوب گئی۔ وہ کافی کاگلاس تھامے کھڑکی کے پاس کھڑا ہو گیا۔ دور لان میں اسے اوور کوٹ پہنے ہوئے دو سائے دکھائی دیئے۔ اسے لگا کہ وہ منیر اور مونا ہیں۔ وہ سوچإنے لگا کہ اگر منیر لان میں ہے تو اس کمرے میں کون ہے؟ اور مونا اس کے ساتھ ہے تو بغل والے کمرے میں کون سو رہا ہے؟ وہ کھڑکی سے واپس بستر پر آ گیا اور اس کی آنکھوں میں مونا سے اپنی اولین ملاقات کا منظر گھوم گیا۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

گریجویشن کی تعلیم سے فارغ ہو کر منیر نے کچھ وقت ملازمت کی تلاش کی لیکن پھر اپنے والد کی کتابوں اور اسٹیشنری کی دوکان پر بیٹھنے لگا جب والد کو اعتماد ہو گیا کہ بیٹے نے کام سنبھال لیا ہے تو وہ معاشی سرگرمیوں سے سبکدوش ہو کر مسجد و مکان کے درمیان محصور ہو گئے۔ منیر کی دوکان یوں تو لب سڑک تھی لیکن یہ غریب اور متوسط درجے کے لوگوں کا علاقہ تھا۔ سڑک سے گزرنے والی کوئی بڑی گاڑی یہاں ٹھہرتی نہ تھی اس لیے جب ایک روز اس نے اپنی دوکان کے سامنے ایک غیر ملکی چمچماتی گاڑی کو رُکتے دیکھا تو حیرت زدہ رہ گیا۔

گاڑی سے ڈرائیور باہر نکلا۔ ا س نے سمجھا کہ شاید پتہ پوچھ رہا ہو گا لیکن اس علاقے میں؟ ؟ ؟ اس کا گمان غلط نکلا۔ ڈرائیور سگریٹ کی دوکان پر رکا اور پھر وہاں سے دوسری سگریٹ کی دوکان کی جانب بڑھ گیا۔ شاید جو برانڈ وہ تلاش کر رہا تھا اسے نہیں ملا تھا۔ اس بیچ کار سے ایک خاتون نمودار ہوئی اور سیدھے اس کی دوکان پر پہونچی۔ اس نے پہلے تو لکھنے والا پیڈ خریدا اور پھر قلم دیکھنے لگی۔ منیر اس کو بیسیوں طرح کے قلم دکھلا چکا تھا لیکن ہر قلم کو دیکھنے کے بعد یا اس سے لکھنے کے بعد وہ بڑی بے نیازی سے اسے مسترد کر دیتی تھی۔

منیر بے زار ہونے لگا تھا۔ اتنے سارے قلم اس نے کسی ایک گاہک تو کجا اپنے سبھی گاہکوں کو بھی نہیں دکھلائے تھے۔ طویل وقفہ کے بعد اس خاتون نے ایک نہایت بھدّے قلم کا انتخاب کیا اور منیر سے اس کی قیمت دریافت کی۔ منیر تو پہلے ہی نالاں تھا اس نے پوچھا۔

’’آپ یہ قلم خریدیں گی؟ اتنے سارے اچھے اچھے قلم چھوڑ کر آپ نے اس کا انتخاب کیا۔ مجھے تعجب ہے۔ ‘‘

’’کیوں تمہیں کیوں تعجب ہے؟ کیا خرابی ہے اس قلم میں؟ اور اگر خراب ہے تو تم نے اسے اپنی دوکان میں بیچنے کے لیے رکھا ہی کیوں ہے؟ ‘‘

منیر کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا۔ اس نے کہا۔ ’’نہیں میڈم ایسی بات نہیں در اصل آپ نے اتنے سارے قلم دیکھے تو میں نے سوچا کہ شاید آپ اپنے شایانِ شان قلم تلاش کر رہی ہیں لیکن یہ قلم نہ آپ کے مزاج سے اور نہ ہی آپ کی شخصیت سے مطابقت رکھتا ہے ‘‘

یہ سن کر مونا چونک پڑی۔ ’’اچھا۔ تمہیں کیسے پتہ چلا کہ میرا مزاج کیسا ہے؟ اور میری شخصیت کے بارے میں تم کیا جانتے ہو؟ ‘‘

’’ویسے تو میں کچھ زیادہ نہیں جانتا لیکن پھر بھی میرا دل گواہی دیتا ہے کہ آپ نہایت خوش ذوق فطرت کی حامل ہیں۔ اسی لیے میں یہ کہہ رہا تھا کہ یہ قلم کسی صاحبِ ذوق کو زیب نہیں دیتا۔ ‘‘

’’اچھا تو اب مجھے قلم اپنی پسند سے نہیں بلکہ آپ کی پسند سے خریدنا پڑے گا۔ ‘‘

’’نہیں، کوئی زبردستی تو نہیں ہے۔ ‘‘منیر بولا۔ ’’لیکن میرے خیال میں اگر آپ اس کے بجائے یہ قلم خریدیں تو شاید یہ زیادہ مناسب ہو گا۔ ‘‘

مونا نے مسکرا کر پوچھا۔ ’’کیوں مہنگا ہے کیا؟ ‘‘

’’نہیں میڈم ایسی بات نہیں۔ آپ چاہیں تو بلا قیمت لے جائیں۔ ‘‘

اس بیچ کار کا ہارن بجا مونا نے قلم کے بکس پر لکھی قیمت ادا کی اور رسید لے کر گاڑی کی جانب چل پڑی۔ گاڑی میں بیٹھے پٹیل صاحب بولے۔

’’کیا مونا اتنا وقت ! یہ اس ڈبیا کی دوسری سگریٹ ہے۔ ‘‘

’’معاف کیجئے سر ان چھوٹی موٹی دوکانوں میں کوئی اچھی چیز مشکل ہی سے ملتی ہے اسی لیے دیر ہو گئی۔ ‘‘

پٹیل صاحب مسکرائے اور بولے ’’واقعی تم نے غلط دوکان کا انتخاب کیا۔ ‘‘

مونا نے کہا۔ ’’دوکان ضرور غلط تھی لیکن قلم صحیح ہے اور اس دوکان کے سامنے گاڑی آپ ہی نے روکی تھی۔ ‘‘ دونوں ہنسنے لگے۔

ہندوستانی نژاد روہت پٹیل عرصہ دراز سے امریکہ میں رہتے رہتے امریکی ہو گئے تھے۔ پچیس تیس سال قبل وہ گجرات سے اپنی آبائی اناج کی دوکان بند کر کے امریکہ روانہ ہوئے اور پھر پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔ اپنے خاندان کو امریکہ میں بلا لینے کے بعد ان کی دلچسپی وطن عزیز سے ختم سی ہو گئی تھی۔ لیکن حال میں ’’بی پی او‘‘ کا کاروبار شروع کرنے کے بعد انہیں مجبوراً دوبارہ ہندوستان کا رُخ کرنا پڑا تھا۔

روہت پٹیل کے امریکی کمپنیوں سے اچھے تعلقات تھے۔ اس کے لیے کام حاصل کرنا مشکل نہ تھا لیکن ہندوستان میں کام کو کروانے کا مسئلہ تھا۔ اسی لئے وہ ہندوستان آیا ہوا تھا۔ اسے اپنے کاروبار کی دیکھ ریکھ کیلئے ایک ایسے بھروسہ مند شخص کی تلاش تھی جس پراعتماد کر کے وہ امریکہ لوٹ جائے۔ اس کا منصوبہ یہ تھا کہ وہ وہاں پروجکٹ حاصل کر کے روانہ کرے اورسارا کام یہاں بحسن و خوبی انجام پذیر ہو جائے۔ اس طرح امریکہ میں بیٹھے بیٹھے ہندوستان میں اس کا کاروبار چلتا رہے۔ اپنے مقصد کے حصول کی خاطر اس نے بڑی تلاش اور جانچ پڑتال کے بعد موناگونسالویس کو چیف ایکزیکٹیو کے طور پر منتخب کیا تھا۔

مونا کی عمر ویسے تو کم تھی مگر اس نے کم عمری ہی میں ویپرو جیسی کمپنی کے اندر اپنی صلاحیت کا لوہا منوا لیا تھا۔ اب روہت اور مونا دفتر اور دیگر لوازمات کی فراہمی میں مصروف تھے۔ اسی سلسلے میں وہ ممبئی سے تربھے کی جانب جا رہے تھے کہ راستہ میں روہت کی سگریٹ ختم ہو گئی۔ ڈرائیور جب سگریٹ لانے کے لیے اترا تو مونا کو خیال آیا رائٹنگ پیڈ اور قلم دفتر میں رہ گئے ہیں۔ سامنے اسٹیشنری کی دوکان دیکھ کروہ قلم خریدنے کی غرض سے اتر گئی اور منیر سے ملاقات ہو گئی۔ مونا کافی پر وقار خاتون تھی کسی دوکاندار نے اس سے ایسی جرأت نہیں کی تھی کہ اپنی پسند کی کوئی شئے اس کے گلے مار دے۔ منیر کی خود اعتمادی اور بے نیازی نے اسے بے حد متاثر کیا تھا۔

اسٹیٹ ایجنٹ کے دفتر میں جب تفصیلات لکھنے کے لیے مونا نے اپنا قلم نکالا تو روہت نے کہا۔ ’’بھئی مونا تم نے قلم خریدنے میں وقت تو بہت صرف کیا لیکن قلم بھی نہایت عمدہ خریدا۔ میں تو سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس معمولی سی دوکان میں ایسا اچھا قلم موجود ہے ‘‘

’’سر آپ کو بھی یہ پسند آیا۔ ‘‘

’’ہاں بھئی تمہارا حسن انتخاب ہی کچھ ایسا ہوتا ہے کہ سبھی کو پسند آئے۔ ‘‘

’’شکریہ سر لیکن یہ میری پسند نہیں ہے۔ ‘‘

’’اچھا؟ ‘‘ روہت نے تعجب سے پوچھا۔

مونا نے فوراً پینترا بدلا۔ ’’سر یہ آپ کو پسند ہے تو آپ رکھیں۔ ‘‘

روہت نے کہا۔ ’’نہیں اس کی ضرورت نہیں۔ ‘‘

مونا نے اصرار کیا۔ ’’نہیں سر آپ اسے میری طرف سے تحفہ سمجھ کر قبول فرمائیں۔ ‘‘

روہت نے شکریہ ادا کیا اور قلم کو اپنے کوٹ کی جیب میں سجا لیا۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

روہت پٹیل امریکہ واپس جا چکا تھا۔ مونا نہایت مستعدی سے نئے کاروبار میں جٹ گئی تھی۔ ہر چیز میں وہ خود دلچسپی لیتی۔ وہ کسی معاملہ میں مصالحت کی قائل نہ تھی۔ چاہے سامان ہو یا افراد وہ بہترین کی قائل تھی۔ اس لیے کہ وہ جانتی تھی کہ یہ خدمت (Service) کی صنعت ہے یہاں بہترین خدمت کے لیے بہترین افراد اور بہترین وسائل کا ہونا ضروری ہے اور جو کوئی ان دونوں میں سے کسی بھی ایک معاملہ میں کمزور ہو گا اس کا وجود مٹ جائے گا۔

روہت پٹیل سے مونا کا روز ہی فون پر رابطہ ہوتا تھا وہ اسے امریکہ میں کاروبار کے توسیع و ترویج کی اطلاعات دیتا اور مونا تیاریوں کی تفصیلات سے آگاہ کرتی۔ روہت پٹیل مطمئن تھا کہ اس نے اپنا کاروبار نہایت قابل اعتماد ہاتھوں میں دے رکھا ہے۔ مونا بھی خوش تھی کہ اس کا باس نہایت کامیاب تاجر ہے وہ یقیناً بہت جلد بڑے بڑے ٹھیکے (کانٹریکٹ) حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا اور پھر کمپنی کے ساتھ ساتھ وہ بھی ترقی کی بلند منازل طے کرنے لگے گی۔ مونا بہت ہی زیادہ آرزو مند(ambitious)مزاج کی حامل فرد تھی وہ اپنی محنت اور جانفشانی سے نہایت سرعت کے ساتھ کامیابی کی عظیم ترین چوٹی سر کر لینا چاہتی تھی۔

بالآخر وہ دن بھی آ گیا جب روہت نے مونا کو خوشخبری سنائی کہ اس نے اپنی کمپنی کے لیے پہلے کنٹراکٹ پر دستخط کر دیئے ہیں اور اس مبارک موقع پر اس نے مونا کے عطا کردہ خوش بخت قلم کا استعمال کیا ہے۔

مونا نے روہت کو مبارکباد دی۔ روہت نے اس کا شکریہ ادا کیا۔ مبارک باد کے لیے اور قلم کے لیے بھی۔

قلم کے بار بار ذکر نے مونا کو منیر کی جانب متوجہ کر دیا۔ کام کی ریل پیل میں وہ منیر کو بھول ہی گئی تھی۔ لیکن پھر ایک بار وہ اتفاقی ملاقات اس کی نظروں میں گھوم گئی۔ اسے پہلی بار اس قلم کے گنوانے کا دکھ ہوا۔ مونا کو ایسا لگا جیسے اس نے کوئی قیمتی چیز کھو دی ہے۔ اس نے محسوس کیا جیسے وہ اس قلم کے بغیر ادھوری ہے۔

مونا ایک ادھیڑ بن میں گرفتار تھی کہ منیجر گریش اس کے کمرے میں داخل ہوا اور پوچھا۔ ’’میڈم آپ کچھ پریشان لگ رہی ہیں۔ کیا بات ہے؟ کیا میں کوئی مدد کر سکتا ہوں۔ ‘‘

’’نہیں گریش !کیا بات کرتے ہو۔ ابھی ابھی روہت کا نیویارک سے فون آیا تھا اس نے پہلا کنٹراکٹ حاصل کر لیا ہے جلد ہی اس کی تفصیلات ہمیں موصول ہو جائیں گی۔ آج تو ہمارے لیے عید کا دن ہے۔ اس دن کا ہم نہ جانے کب سے انتظار کر رہے تھے۔ کیک منگواؤ اور اپنے سارے اسٹاف کو یہ خوش خبری مٹھائی کے ساتھ سناؤ۔ آج جشن کا دن ہے۔ گریش ریڈی خوشی سے پاگل ہو گیا۔ اس نے باہر جا کر فوراً پہلے آرڈر کا اعلان کیا اور سب کو یہ بتلا دیا کہ آج دفتر میں پارٹی ہو گی۔

شام کو دھوم دھام سے جشن منایا گیا ہر کوئی خوش تھا۔ وہ لوگ جانتے تھے کہ سن ٹکنالوجی کا سورج آج طلوع ہوا ہے اور یہ نئی صبح ان سب کو خوش حالی کے نورسے مالا مال کر دے گی لوگ ایک دوسرے کو مبارک باد دے رہے تھے لیکن مونا کی حیثیت بالکل مالکن کی سی تھی۔ سینئر اسٹاف نے مونا کی خدمت میں نیک تمناؤں کے ساتھ پھولوں کے گلدستے پیش کیے۔ مونا نے بھی تمام اسٹاف کے لیے بونس کا اعلان کر کے سبھی کو خوش کر دیا۔

ان تمام ہنگاموں کے باوجود مونا اپنے اندر کا ایک نامعلوم خلاء پر نہ کر سکی اور پارٹی سے واپسی میں اس نے ڈرائیور کو حکم دیا کہ وہ گاڑی اکبر علیز نامی ڈیپارٹمنٹل اسٹور لے کر چلے۔ وہاں اتر کر وہ سیدھے اسٹیشنری سیکشن میں جا پہونچی اور وہ قلم تلاش کرنے لگی جسے اس نے روہت کو دیا تھا۔ وہ بالکل ویسا ہی قلم خریدنا چاہتی تھی اور بدقسمتی سے بیسیوں قلم دیکھنے کے باوجود اسے ویسا قلم نہ مل سکا۔ اس کا موڈ خراب ہو گیا۔ اس قلم کی محرومی نے اس دن کی خوشیوں پر گہن لگا دیا تھا۔

انسان بھی کیسی عجیب مخلوق ہے کہ جس آرڈر کا مونا نہ جانے کب سے انتظار کر رہی تھی اس کے ملتے ہی وہ اپنی اہمیت و وقعت گنوا بیٹھا تھا اور اس بیش قیمت کنڑاکٹ سے زیادہ اہمیت ایک ایسے معمولی سے قلم کو حاصل ہو گئی جس کے ملنے یا نہ ملنے سے کوئی فرق نہ پڑتا تھا۔ لیکن تو ایک خالص معروضی طرزِ فکر ہے۔ انسان کوئی دو اور دو چار کا حساب کرنے والی مشین تو نہیں ہے۔ اس کا اپنا نظر نہ آنے والا جذباتی وجود بھی ہے جو مادی حس سے قوی تر ہے۔ انسان کی خوشیاں اور غم بھی نظر نہیں آتیں لیکن ان کے بغیر انسان ادھورا ہے۔ اس کے اپنے خواب ہوتے ہیں، ان کی اپنی خلش ہوتی ہے اور اپنا خمار ہوتا ہے۔

جب مونا قلم کی دوکان سے خالی ہاتھ لوٹ رہی تھی تو وہاں موجود سیلز بوائے نے اپنے ساتھی سے کہا۔ ۰۰۰۰۰۰ ’’پاگل ہے۔ ‘‘

مونا رُکی اور پھر یہ سوچ کر آگے بڑھ گئی کہ شاید اس نے سچ کہا۔ فی الحال ایک جنون ہی تو اس پر سوار تھا۔ قلم سے محرومی کے قلق دو آتشہ ہو چکا تھا۔ وہ ہر قیمت پر اسے حاصل کرنا چاہتی تھی اسے منیر کی دوکان یاد نہیں تھی لیکن پھر بھی وہ اس کی تلاش میں نکل پڑی۔ مونا نے ڈرائیور کو اسی روڈ پر گاڑی لے چلنے کا حکم دیا جس پر قلم خریدا گیا تھا لیکن دن اور رات کے ماحول میں خاصہ فرق ہوتا ہے اور پھر وہ صرف ایک بار وہاں سے گذری تھی۔ راستہ بھر اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ دوکانوں کے بند ہونے کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا کہ اچانک اسے خیال آیا کہ اس کے پاس دوکان کی رسید ہے اوراس پر فون نمبر ضرور ہو گا۔ مونا نے ڈرائیور سے دفتر چلنے کے لیے کہا۔ ڈرائیور نے تعجب سے پوچھا۔

’’اس وقت؟ ‘‘

’’جی ہاں اسی وقت۔ ‘‘ مونا نے غصہ سے کہا۔

ڈرائیور گھبرا گیا اور گاڑی دفتر کی جانب موڑ دی۔ دفتر پہنچ کر مونا نے چابیوں کا گچھا اسے تھما کر دفتر کھولنے کے لیے کہا۔ اپنے کمرے میں آ کر وہ رسید کی تلاش کرنے لگی اور تھوڑی سی محنت سے کامیاب ہو گئی۔ اس پر حسب امید ٹیلی فون نمبر لکھا ہوا تھا۔ مونا نے فوراً نمبر ملایا۔ فون کی گھنٹی بجنے لگی لیکن بجتی ہی رہی کوئی اٹھانے والا نہیں تھا۔ مونا کو خیال آیا دوکانیں بند ہو رہی تھیں۔ شاید وہ دوکان بھی بند ہو چکی ہو۔ اس نے اگلے دن کے کاموں کی فہرست میں سب سے اوپر اس دوکان کا نمبر لکھا اور واپس آ کر گاڑی میں بیٹھ گئی۔

’’گھر چلو۔ ‘‘ ڈرائیور کی جان میں جان آئی ورنہ اسے ڈر تھا کہ جس طرح شام سے یہ میڈم اِدھر اُدھر گھما رہی ہیں کہیں یہ سلسلہ پھر دراز نہ ہو جائے۔

دوسرے دن دفتر میں آنے کے بعد مونا نے وہ نمبر آپریٹر کو دیا اور فوراً نمبر ملانے کے لیے کہا۔ سامنے سے جواب ملا۔ ’’پاپولر اسٹیشنری۔ ‘‘ آپریٹر نے کہا۔ ’’ہولڈ آن۔ ‘‘

منیر کو تعجب ہوا یہ صبح صبح کس کا فون ہے تھوڑی دیر بعد ایک اور نسوانی آواز آئی۔

’’میں مونا بول رہی ہوں۔ ‘‘

’’کون مونا؟ ‘‘ منیر نے پوچھا۔

’’مونا ‘مونا گونسالویس۔ ‘‘

’’مونا گونسالویس۔ کون مونا گونسالویس؟ میں کسی مونا کو نہیں جانتا۔ آپ کو کون چاہئے؟ ‘‘

’’مجھے کون چاہئے؟ ‘‘ اس سوال کو دہرا کر مونا ایک لمحہ کے لیے خاموش ہو گئی۔ پھر اس نے کہا۔ ’’دیکھئے جناب چند ہفتوں قبل میں نے آپ کی دوکان سے ایک قلم خریدا تھا۔ ‘‘

’’کون سا قلم خریدا تھا آپ نے؟ ‘‘ منیر نے سوال کیا۔

’’وہ در اصل اودے رنگ کا قلم تھا نہیں بلکہ آسمانی رنگ کا تھا۔ ‘‘

منیر نے دماغ پر زور ڈالا تو اسے فوراً بڑی سی گاڑی یاد آ گئی اس نے کہا۔ ’’اوہو تو آپ ایک بڑی سی ہونڈا اکارڈ میں ہماری دوکان میں تشریف لائی تھیں۔ مجھے یاد آیا ہاں فرمائیے میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں۔ ‘‘

’’در اصل مجھے وہ قلم دوبارہ چاہئے۔ ‘‘

’’میڈم وہ قلم تو آپ کو نہیں مل سکتا۔ ‘‘

’’کیوں؟ ‘‘ مونا نے پوچھا۔

’’اس لیے کہ وہ تو آپ ایک بار خرید چکی ہیں اور جب تک وہ قلم کسی صورت میرے پاس واپس نہ آ جائے میں اسے آپ کو بیچ نہیں سکتا۔ ‘‘

’’اوہو۔ ‘‘ مونا نے کہا۔ ’’آپ تو بات کا بتنگڑ بنا رہے ہیں میرا مطلب ہے وہ قلم نہیں بلکہ ویسا ہی دوسرا قلم۔ ‘‘

’’ہو بہو ویسا۔ ‘‘ منیر نے پوچھا۔

’’ہاں بالکل ویسے کا ویسا قلم مجھے چاہئے۔ ‘‘

’’اچھا تو وہ آپ کو اس قدر پسند ہے۔ ‘‘

’’جی ہاں وہ مجھے بے حد پسند ہے۔ ‘‘

’’ٹھیک ہے میں دیکھتا ہوں۔ اگر ویسا قلم موجود ہو گا تو میں آپ کو ضرور دے دوں گا لیکن اگر نہ ہوا تو؟ ‘‘

اس سوال کے جواب میں مونا رک گئی اور کچھ دیر ٹھہر کر بولی۔ ’’اگر نہیں ہوا تو آپ میری شخصیت اور مزاج سے واقف ہی ہیں جو بھی مطابقت رکھنے والا قلم ہو گا لے آئیے گا۔ ‘‘

’’لے آئیے گا۔ ‘‘ اس فقرہ کو منیر نے دوہرایا۔ ’’میڈم لے کر آنا پڑے گا؟ ‘‘

’’ہاں کیوں؟ آپ لوگ سامان پہونچاتے نہیں ہیں؟ ‘‘مونا کا سوال تھا۔

’’ویسے تو نہیں پہونچاتے اس لیے کہ اس کی نوبت ہی کبھی نہیں آئی لیکن پھر بھی آپ کے لیے پہونچا دیں گے۔ لیکن کہاں پہنچانا پڑے گا؟ ‘‘

مونا نے اسے اپنے دفتر کا پتہ لکھوا دیا اور فون بند ہو گیا۔

منیر نے سوچا یہ تو چار آنے کی مرغی اور بارہ آنے کا مصالحہ والی بات ہو گئی۔ پچیس روپئے کا پین اور آنے جانے کا خرچ پچاس روپئے۔ اس پر سے جو وقت صرف ہو گا وہ علیٰحدہ۔ اب اگر یہ سب کرنے کے بعد میڈم نے پچیس روپئے پکڑا دیئے یا یہ کہہ دیا کہ قلم مجھے پسند نہیں ہے تب تو بڑا نقصان ہو گا۔ خیر اس نے ویسا قلم تلاش کیا۔ حسب توقع موجود نہیں تھا اس کے بعد اس سے ملتا جلتا قلم اس نے منتخب کر لیا۔

دوپہر کے بعد گاہک کم ہوتے تھے اس لیے شام سے پہلے قلم پہونچا کر واپس آنے کے ارادے سے وہ نکل پڑا۔ مگر راستے میں اسے خیال آیا اتنی دور قلم پہونچانے جا رہا ہے اور پھر ایسی خراب پیکنگ میں۔ وہ اپنی دوکان میں واپس آیا، خوبصورت گفٹ پیپر میں اسے پیک کر کے اس پر نیک تمناؤں کا کارڈ لگایا اور پھر نکل پڑا۔

سن ٹکنالوجی کا دفتر آسانی سے مل گیا۔ اوپر پہونچنے کے بعد اس نے پوچھا۔

’’مونا گونسالویس یہاں ہوتی ہیں؟ ‘‘

استقبالیہ پر بیٹھی خاتون سٹپٹائی۔ ’’کیا مطلب؟ میڈم تو ہماری کمپنی کی چیف ایکزیکٹیو آفیسر ہیں۔ ‘‘

منیر نے کہا۔ ’’میں میڈم کے بارے میں نہیں مونا کے بارے میں پوچھ رہا ہوں۔ ‘‘

وہی تو ۔۔۔ مونا میڈم ۰۰۰۰بولو۔ کیا کام ہے ان سے؟ ۔ ‘‘

’’میں پاپولر اسٹیشنری سے آیا ہوں میرا نام منیر ہے۔ ‘‘

اس خاتون نے فون لگایا جو مصروف تھا اس نے منیر سے کہا۔ ’’انتظار کیجئے۔ ‘‘

منیر نے دفتر پر اچٹتی ہوئی نگاہ ڈالی۔ سامنے ایک بڑے سے پلے کارڈ پر لکھا تھا ’’ہم سب میڈم کو پہلے آرڈر کی مبارک باد دیتے ہیں۔ ‘‘ منیر نے دلچسپی سے اسے پڑھا۔ لیکن اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ یہاں کام کیا ہوتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد جب استقبالیہ پر بیٹھی خاتون نے اسے مونا کے کمرے کی جانب بھیجا تو منیر نے اپنا ذہن بنا لیا تھا کہ وہ اس قلم کی قیمت اور آنے جانے کا کرایہ نہیں وصول کرے گا۔

مونا کے کمرے میں داخل ہونے کے بعد منیر نے مونا کو نئے آرڈر کی مبارکباد دی اور نیک خواہشات کے ساتھ قلم تحفہ کے طور پر اس کی خدمت میں پیش کر دیا۔

مونا منیر کے اس رویہ سے بے حد خوش ہوئی۔ اس نے پوچھا۔

’’تمہیں اس نئے آرڈر کے بارے میں کیسے پتہ چل گیا؟ ‘‘ لیکن اب مونا کے سامنے ایک نئی مشکل کھڑی تھی کہ اگر وہ اس تحفہ کی قیمت پوچھتی ہے تو یہ بات منیر پر گراں گزرے گی لیکن پھر وہ کیا کرے بھی تو کیا کرے؟ اس کی قیمت کیسے ادا کرے؟ س مخمصہ میں گرفتار مونا نے سوال کر دیا۔ ’’یہاں پہونچنے میں آپ کو زحمت تو نہیں ہوئی؟ ‘‘

منیر نے جواب دیا۔ ’’کوئی خاص نہیں ٹرین چونکہ تاخیرسے چل رہی تھی اس لیے بھیڑ قدرے زیادہ تھی لیکن بس فوراً مل گئی اور پتہ تو نہایت ہی آسانی سے بغیر پوچھے مل گیا۔ ‘‘

مونا کو احساس ہوا کہ ایک معمولی سے قلم کی خاطر اس نے منیر کو کس قدر پریشانیوں کا شکار کر دیا تھا۔ اس نے کہا۔ ’’میں آپ کو زحمت دینے کے لیے معذرت چاہتی ہوں در اصل مجھے گاڑی بھجوا دینی چاہئے تھی۔ ‘‘

منیر نے کہا۔ ’’کیا؟ ‘‘

’’نہیں میرا مطلب ہے آپ ٹرین اور بس کی زحمت سے بچ جاتے۔ ‘‘

’’کوئی بات نہیں۔ ‘‘منیر نے جواب دیا۔

’’اچھا تو آپ کیا پئیں گے؟ چائے یا ٹھنڈا؟ ‘‘

منیر نے کہا۔ ’’چائے ٹھیک ہے۔ ‘‘

مونا نے فون اٹھا کر چائے کا حکم دیا اور قلم کا ریپر کھولتے ہوئے کہا۔ ’’آپ کے ذوقِ لطیف کی داد دینی پڑے گی آپ نے بڑے اہتمام سے اس تحفہ کو پیک کیا۔ ‘‘

’’ہم دوسروں کے تحفہ کو بھی اہتمام سے پیک کرتے ہیں یہ تو ہمارا اپنی سوغات ہے۔ ‘‘

چائے آنے تک قلم کا ڈبہ کھل چکا تھا اور اس میں سے ایک کے بجائے دو قلم برآمد ہوئے۔

’’یہ کیا۔ یہ دو قلم آپ کیوں لے آئے؟ میں نے تو صرف ایک کے لیے کہا تھا۔ ‘‘

منیر نے جواب دیا۔ ’’میڈم بات در اصل یہ ہے ہو بہو ویسا قلم تو موجود نہیں تھا اس لیے میں نے ایک کا انتخاب کیا پھر سوچا کہ شاید آپ کو پسند نہ آئے تو پھر دوسرا منتخب کر لیا کہ شاید یہ پسند آ جائے۔ ‘‘

مونا نے ناراضگی سے کہا۔ ’’یہ تو آپ نے ٹھیک نہیں سوچا کہ شاید پسند نہ آئے۔ خیر آپ کا پہلا انتخاب کون سا ہے؟ ‘‘ منیر نے ایک کی جانب اشارہ کیا۔

مونا نے کہا۔ ’’یہی میری پسند ہے اور یہ دوسرا قلم میری جانب سے تحفہ ہے۔ ‘‘

منیر کو اس طرح کے رویہ کی توقع نہیں تھی۔ وہ نہایت خوش تھا اور آہستہ آہستہ چائے کی چسکیاں لے رہا تھا کہ اس کے ذہن میں یہ سوال اُبھرا کہ آخر یہاں ہوتا کیا ہے؟

’’میڈم برا نہ مانیں تو ایک بات پوچھوں؟ ‘‘

مونا نے کہا۔ ’’پوچھو ضرور پوچھو۔ ‘‘

منیر بولا۔ ’’آخر اس شاندار دفتر میں کام کیا ہوتا ہے؟ آپ لوگ کیا بیچتے ہیں؟ ‘‘

مونا کو ’کیا بیچتے ہیں ‘ والی اصطلاح کچھ عجیب سی لگی اس نے جواب دیا۔ ’’ہم لوگ اپنی خدمات بیچتے ہیں۔ ‘‘

’’خدمات بھی بکتی ہیں؟ کسے بیچتے ہیں آپ لوگ اپنی خدمات؟ ‘‘ منیر ایک ساتھ دو سوال کر دئیے۔

’’ہم امریکی کمپنیوں کو خدمات بیچتے ہیں۔ ‘‘

’’امریکی کمپنیوں کو؟ ‘‘ منیر نے تعجب سے پوچھا۔ ’’یہاں بیٹھے بیٹھے آپ امریکی کمپنیوں کی خدمت کرتے ہیں یہ طلسماتی دنیا کی بات ہے۔ ‘‘

’’نہیں منیر یہ طلسماتی دنیا کی بات تھی لیکن اب یہ حقیقت بن گئی ہے۔ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ نے یہ سب ممکن بنا دیا ہے۔ ‘‘

منیر نے کہا۔ ’’آپ کہہ رہی ہیں تو یہ بات صحیح ہو گی لیکن مجھے یقین نہیں آتا۔ ‘‘

’’کیوں نہیں آتا؟ ‘‘ مونا نے پوچھا۔ ’’اچھا یہ بتلاؤ کہ تم اپنی دوکان پر مال کیسے منگواتے ہو؟‘‘

منیر نے کہا۔ ’’یہ تو بہت آسان ہے میں ہول سیلر کو فون کر دیتا ہوں یا کارخانے کے دفتر میں اپنا آرڈر لکھوا دیتا ہوں۔ ‘‘

’’وہ دفتر کہاں ہوتا ہے؟ ‘‘

’’ممبئی میں۔ ‘‘

’’اور کارخانہ کہاں ہوتا ہے؟ ‘‘

’’گجرات میں۔ ‘‘

’’ہول سیلر کے دفتر والے کیا کرتے ہیں؟ ‘‘

’’وہ آرڈر کارخانے والے کو بتلا دیتے ہیں اور مال ٹرانسپورٹ کے ذریعہ آ جاتا ہے۔ اس کے بعد بل روانہ کر دیتے ہیں۔ میں رقم ادا کر دیتا ہوں اور کام ختم۔ ‘‘

’’ہاں اب اگر وہ کارخانے کا دفتر ممبئی کے بجائے امریکہ میں ہو تو تمہیں کوئی فرق پڑے گا؟ ‘‘

’’امریکہ میں؟ ‘‘ منیر نے ہنس کر کہا۔ ’’کیا بات کرتی ہیں آپ؟ ‘‘

’’نہیں مجھے سنجیدگی سے جواب دو۔ تمہارا فون ممبئی کے بجائے امریکہ چلا جائے اور امریکہ سے فون کارخانے آ جائے تو تمہیں کوئی فرق پڑے گا؟ ‘‘

’’نہیں، لیکن مجھے امریکہ فون کرنا مہنگا پڑے گا۔ ‘‘

مونا نے پوچھا۔ ’’اگر فون مفت ہو۔ ‘‘

منیر نے کہا۔ ’’تب تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ‘‘

’’تمہارا کام ہو جائے گایا نہیں؟ ‘‘

’’بالکل ہو جائے گا۔ ‘‘

’’بس یہی ہم کرتے ہیں ای میل آپ اس دفتر سے پڑوس کے دفتر میں کرو یا امریکہ کرو۔ اتنی ہی تیزی سے جاتا ہے اور اتنا ہی سستا ہوتا ہے۔ اب اگر کسی کمپنی کا ہیڈ کوارٹر دہلی میں ہو یا امریکہ میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اسی طرح نیویارک میں ہو یا ممبئی میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہم یہاں بیٹھے بیٹھے اپنے گاہکوں کے دفتری کام کرتے ہیں اور تکمیل کے بعد ای میل سے بھیج دیتے ہیں۔ منٹوں کے اندر پیغام آتا ہے اور جاتا ہے۔ ‘‘

منیر حیرت کی دنیاؤں کی سیر کر رہا تھا۔ اس نے استفسار کیا لیکن میڈم اس دلچسپ تجارت کا نام کیا ہے اس لئے کہ میں نے ایسا کچھ نہیں سنا۔

مونا بولی ’’بی پی او‘‘ اسے ’’بزنس پروسیسنگ اوورسیز‘‘ کہتے ہیں۔ انٹر نیٹ اور ٹیلی فون کی آسانی کے باعث امریکی کمپنیوں نے اپنا بہت سارا کام ہندوستانی ٹھیکیداروں کے حوالے کر دیا ہے اب ان کاموں کے لیے وہ ہندوستانیوں کو امریکہ بلانے کے بجائے کام ہی ہندوستان بھیج دیتے ہیں اور ہندوستانی جو کام امریکہ میں جا کر کیا کرتے تھے وہ یہیں بیٹھے بیٹھے کر دیتے ہیں۔ اس سے امریکیوں کا خرچ بچتا ہے۔ ہندوستانیوں کی آمدنی بڑھتی ہے اور ساتھ ہی بے روزگاری میں بھی کمی واقع ہوتی ہے۔

’’لیکن اس میں ان کا میرا مطلب ہے امریکیوں کا کیا فائدہ ہے؟ ‘‘

’’بہت بڑا فائدہ ہے انہیں اپنے دفتر میں کسی ملازم کو جو تنخواہ دینی پڑتی ہے اس سے بہت کم قیمت پر یہاں پر بیٹھا آدمی ان کا کام کر دیتا ہے اور دفتر بنانے اور اس کی دیکھ ریکھ کا خرچ بھی بچ جاتا ہے۔ ان کو کسی ملازم کو ہندوستان سے بلا کر، دنیا بھر کی سہولتیں دینے کی زحمت سے چھٹکارہ مل جاتا ہے۔ اسے کہتے ہیں بی پی او کا کاروبار جو ہم یہاں اس دفتر میں بیٹھ کر کر رہے ہیں جس میں ہمارا اور ان کا دونوں کا فائدہ ہے۔ ‘‘

منیر نے پوچھا ’’عوام کا فائدہ تو سمجھ میں آ گیا لیکن کیا آپ کی کمپنی کو بھی کچھ ملتا ہے؟‘‘

مونا مسکرا کر بولی منیر کیا کوئی کاروبار بغیر منافع کے بھی چلتا ہے؟ فی زمانہ یہ اس قدرایسی منافع بخش تجارت ہے کہ اس کام کو کرنے والی ویپرو کا مالک ہندوستان کا سب سے امیر ترین شخص بن گیا ہے۔ جب ہندوستان میں براجمان عظیم پریم جی اور کرشنا مورتی نے اس کاروبار میں اپنے وارے نیارے کر لیے تو ہماری کمپنی کے مالک روہت پٹیل جیسے نیم امریکی کیسے خاموش رہتے۔ انہوں نے بھی اس میدان میں قدم رکھا۔ ‘‘

’’خیراس میں آپ کا اور وہاں کے سرمایہ داروں کا تو بہت فائدہ ہے لیکن امریکہ کی عوام کا تو نقصان ہی نقصان ہے۔ ‘‘

مونا نے کہا۔ ’’تم سوچتے بہت ہو۔ خیریہ بتلاؤ کہ کیا تمہیں اس کاروبار میں دلچسپی ہے۔ اگر ہے تو مجھے بتلانا میں ضروری ٹریننگ کے بعد تمہیں بھرتی کر لوں گی۔ ‘‘

’’اچھا۔ لیکن تنخواہ؟ ‘‘

’’یہی کچھ دس ہزار بارہ ہزار کے آس پاس۔ ‘‘

دس بارہ ہزار کا نام سن کر منیر کی باچھیں کھل گئیں۔ اس نے کہا۔ ’’میڈم آپ واقعی کہہ رہی ہیں یا میرا مذاق اُڑا رہی ہیں۔ ‘‘

’’میں مذاق نہیں کر رہی تم یہ نہ بھولو کہ تم امریکیوں کیلئے کام کرو گے جن کیلئے ہندوستان کے دس ہزار صرف دوسو ڈالر ہیں۔ ‘‘

منیر نے کہا۔ ’’جی ہاں یہ تو بہت کم ہے۔ ‘‘

مونا نے جواب دیا۔ ’’کم تو ہے لیکن اُن کے لیے ہمارے لیے تو ٹھیک ہی ہے۔ ان دس ہزار روپیوں میں آٹھ ہزار محنت کش کے ہیں اور دو ہزار ہمارے ہیں۔ ‘‘

’’یہ تو اچھا ہے آپ لوگ ہر آدمی پر دو ہزار ماہانہ کماتے ہیں اس طرح سو آدمی ہوں تو ۲ لاکھ روپیہ ماہانہ، یہ بہت بڑی آمدنی ہے۔ ‘‘

’’سو تو ہے اور پھر خرچ بھی تو ہے۔ یہ دفتر، یہ لوازمات اور پھر ان لوگوں کا خرچ جو باہر کے کام نہیں کرتے۔ ‘‘

’’مطلب جو باہر والوں کی نہیں بلکہ اندر والوں کی خدمت کرتے ہیں۔ ‘‘منیر نے مسکرا کر کہا۔ مونا نے اثبات میں جواب دیا۔

فون کی گھنٹی بجی مونا کسی سے گفتگو میں مصروف ہو گئی منیر نے اشارے سے اجازت طلب کی اور دفتر سے نکل گیا۔ راستے بھر وہ سوچتا رہا۔ کیا کرے یہ ملازمت اختیار کر لے یا دوکان ہی پر لگا رہے۔ وہ خود کلامی کرنے لگا تھا۔

عجیب کاروبار تھا دور دراز کسی اَن دیکھے آقا کی خدمت بجا لینا لیکن ٹھیک ہی تو ہے آقا جتنی دور ہو اس کی جانب سے آنے والی پریشانی اسی قدر کم ہوتی ہے۔

لیکن پھر یہاں اس کے غلام بھی تو ہیں جو پریشان نہیں کرتے نکال باہر کرتے ہیں۔

پھراس پیشہ میں استقلال کہاں؟ آج اس کمپنی کے پاس کنٹراکٹ ہے کل دوسری کے پاس۔ کنٹراکٹر بدل گیا تو اسٹاف بھی بدل جائے گا۔

لیکن پھر بھی جس کسی کے پاس کام ہو گا اسے بھی کام کرنے والے کی ضرورت تو ہو گی ہی۔ آقا اگر غلاموں کو بدلنے کے لیے آزاد ہیں تو غلام بھی آقا کو بدلنے کا اختیار رکھتا ہے۔ اسی ادھیڑ بن میں وہ اپنی دوکان پر پہنچ گیا جہاں اس کا دوست عارف غصے سے پیچ و تاب کھا رہا تھا۔

عارف بولا ’’کمال کے آدمی ہو دو گھنٹہ کے لیے گئے اور چار گھنٹہ بعد لوٹے۔ میں تو یہاں بیٹھا بیٹھا بور ہو گیا۔ ‘‘

’’کیا بس چار گھنٹہ میں بور ہو گئے۔ میں تمہیں مستقل یہیں بٹھانا چاہتا تھا۔ ‘‘

عارف نے پوچھا۔ ’’تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہو گیا؟ ‘‘

’’نہیں۔ میں پوچھتا ہوں تم نے گریجویشن کی تعلیم کب ختم کی تھی؟ ‘‘

’’تمہارے ساتھ ہی تو ختم کی تھی۔ ‘‘

’’یہ میں نے نہیں پوچھا کہ کس کے ساتھ ختم کی تھی۔ میرا سوال ہے کب ختم کی تھی؟ ‘‘

’’یہی آج سے تقریباً تین سال قبل۔ ‘‘

’’اور تب سے اب تک کیا کر رہے ہو؟ ‘‘

’’ملازمت کی تلاش کر رہا ہوں۔ ‘‘

’’اور کب تک تلاش کرتے رہو گے؟ ‘‘

’’میں نہیں جانتا۔ ‘‘

’’تو پھر سنو اس طرح نوکری کی تلاش میں دربدر بھٹکنے کے بجائے اس دُکان پر بیٹھ جاؤ۔ کاروبار کرو اور مجھے کرایہ دیتے رہنا۔ ‘‘

’’اور تم کیا کرو گے؟ ‘‘

’’میں ملازمت کروں گا۔ ‘‘

’’اچھا تو مجھے منع کر کے ت، خود وہی کرو گے؟ ‘‘عارف نے سوال کیا۔

’’نہیں۔ ‘‘منیر بولا۔ ’’میں نے تمہیں ملازمت کی تلاش سے منع نہیں کیا ہے۔ ملازمت تلاش کرنے اور ملازمت کرنے میں جو فرق ہے یہ مجھ سے زیادہ تم خود جانتے ہو۔ ‘‘

’’اچھا تو تمہیں ملازمت مل گئی ہے؟ ‘‘ عارف نے پوچھا۔

’’ہاں مجھے مل گئی ہے اور جب تمہیں مل جائے گی تم بھی اس دوکان کو چھوڑ دینا۔ ‘‘

معاملہ طے ہو گیا۔ اگلے روز سے پاپولر بک ہاؤس کو عارف چلا رہا تھا اور منیر اسے کاروبار کے گُر سکھا رہا تھا۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

سن ٹکنالوجی ایک ابھرتا ہوا تجارتی ادارہ تھا اور اس میں بہت زیادہ کام تھا۔ منیر اس میں لگا تو کچھ ایسا لگا کہ پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ صبح سے شام کب ہوتی پتہ نہ چلتا۔ لوگ ایک ایک کر کے نکل جاتے اور پھر دفتر میں صرف منیر اور مونا رہ جاتے۔ شام ڈھلے یہ لوگ اگلے دن کے کام کاج کے بارے میں باتیں کرتے ہوئے نکلتے۔ مونا اسے قریب کے بس اسٹینڈ پر چھوڑ کر اپنے گھر چلی جاتی اور منیر تھکا ماندہ گھر آ جاتا۔

منیر کی صلاحیتوں سے زیادہ مونا کو اس کی صاف گوئی نے متاثر کیا تھا۔ دفتر میں دو طرح کے لوگ تھے کچھ چاپلوس قسم کے جنہیں ہاں جی ہاں جی کرنے سے فرصت نہیں ہوتی اور دوسرے سازشی قسم کے لوگ جنھیں اپنے کام کے علاوہ ہر چیز میں دلچسپی ہوتی تھی۔ کب کس کی ٹانگ کھینچی جائے اس فکر میں وہ دن رات لگے رہتے تھے لیکن منیر ان دونوں قبیل کے لوگوں مختلف تھا۔ اس کو اپنے کام کے علاوہ کسی بات میں دلچسپی نہیں تھی۔ کون کیا کر رہا ہے؟ کیوں کر رہا ہے؟ اس کے کیا کرنے سے کیا ہو گا؟ کیا نہ ہو گا؟ یہ سب سوال اس کے لیے بے معنی تھے۔ وہ خود کیا کر رہا ہے؟ کیوں کر رہا ہے؟ اس کے کیا کرنے سے کیا ہو گا اور نہ کرنے کیا ہو گا یہ اس کی دلچسپی کے موضوعات تھے۔

جی حضوری تواس کے قریب سے بھی نہیں گذری تھی۔ جو چیز اسے بے سود یا غلط معلوم ہوتی وہ برملا اس کا اظہار کر دیتا۔ مونا نہایت سخت گیر خاتون تھی۔ اس سے اختلاف کی جرأت بہت کم لوگ کرتے تھے لیکن منیر کے لیے یہ کوئی مشکل کام نہ تھا وہ نہایت شائستگی سے اختلاف کرتا اور اپنی بات پر قائم رہتا۔ اسی وجہ سے مونا اس سے بہت خوش تھی۔

جس طرح کام کی کمی وقت کو بوجھل بنا دیتی ہے اسی طرح کام کا بوجھ وقت کو ہلکا کر دیتا ہے۔ منیر کو سن ٹکنالوجی میں ملازمت کرتے ہوئے دوسال کا وقفہ گذر چکا تھا لیکن ایسالگتا تھا گویا یہ ابھی کل کی بات ہو۔ روہت پٹیل امریکہ میں بہت خوش تھا۔ اس دوران اس کے گاہک خود اس کے مشتہر بن گئے تھے اور پہلے چند کنٹراکٹ حاصل کرنے کے بعد انہیں کی مدد سے وہ نئے نئے کام حاصل کیے جا رہا تھا۔ سن ٹکنالوجی کے کاروبار میں تیزی سے اضافہ ہو رہا تھا لیکن اب اسے کسی بہت بڑے شکار کی تلاش تھی جس کی مدد سے وہ چھوٹے تالاب کی بڑی مچھلی سے بڑے تالاب کی چھوٹی مچھلی بن جانا چاہتا تھا اور یہ مرحلہ بڑے تالاب کی بڑی مچھلی بننے کے لیے لازمی تھی۔ اس لیے کہ روہت کو پتہ تھا آج کی چھوٹی مچھلی ہی کل جا کر بڑی مچھلی بن جاتی ہے۔

روہت پٹیل ایچ پی کے کنٹراکٹ کو لے کر کوئی جوکھم اٹھانا نہیں چاہتا تھا اس لئے اس نے فیصلہ کن مرحلے میں گاہک کے سامنے پروجکٹ کی پیش کش کے لیے مونا کو امریکہ آنے کی دعوت دی۔ ایچ پی امریکہ کی بہت بڑی کمپنی تھی وہ انسانی وسائل کے شعبہ کا انتظام و انصرام ہندوستان کی کسی کمپنی کے حوالے کرنا چاہتی تھی۔ یہ شعبہ اس لیے بھی نہایت نازک تھا کہ وہ ایچ پی کے اپنے ملازمین کی خدمت پر معمور تھا اور اس میں کوتاہی چونکہ خود ایچ پی کے عملے کو متاثر کرتی تھی اس لئے براہ راست گاہک کے سامنے آ جاتی تھی۔

ہندوستان میں روزمرہ کی مصروفیتوں سے وقت نکال کر ایک پیش کش کیلئے امریکہ جانا گو کہ خاصہ نامعقول اقدام تھا لیکن مونا اس کے لیے تیار ہو گئی۔ ایچ پی والے بھی کنٹراکٹ دینے سے قبل ہندوستان میں اس پروجکٹ پر تعینات ذمہ داروں سے ملاقات کر کے اطمینان کر لینا چاہتے تھے۔ مونا جانتی تھی کہ ایچ پی کے سامنے اس کے تمام مسابقین پیش کش کر چکے ہوں گے اور انہیں متاثر کرنے کے لیے کسی کی نقل کام نہ آ سکے گی۔ اسے اپنے تمام اسٹاف میں منیر کی تخلیقی صلاحیتوں پر بلا کا اعتماد تھا اور وہ محسوس کرتی تھی کہ منیر ہی اپنے پریزنٹیشن میں ایسی ندرت پیدا کر سکے گا جو ایچ پی والوں کا دل جیت لے۔ اس لیے مونا نے یہ اہم کام منیر کو سونپ دیا۔

دفتر میں جب یہ خبر پھیلی کہ منیر نئے پروجیکٹ کی پیش کش تیار کر رہا ہے اور شاید وہی مونا کے ساتھ امریکہ جائے تو ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ گریش ریڈی جو اس انتظار میں تھا کہ ایک بار اسے روہت پٹیل سے ملنے کا موقع ملے تو وہ مونا کی چھٹی کر کے ہندوستان کی حد تک سن ٹکنالوجی کا بے تاج بادشاہ بن جائے اس خبر کو پا کر باؤلا ہو گیا۔ پہلے تو اس نے مونا سے ناراضگی کا اظہار کیا لیکن مونا کے آگے اس کی ایک نہ چلی۔

گریش ریڈی نے آگے بڑھ کر روہت پٹیل سے رابطہ کیا اور مونا گونسالویس پر اقربا پروری کا الزام لگا دیا۔ یہاں تک کہ اس کے کردار کشی کی کوشش بھی کر ڈالی لیکن اس کا اُلٹا اثر ہوا۔ روہت پٹیل نے مونا کو بتلائے بغیر ہی ریڈی کو ملازمت سے چھٹی کرنے کا فیصلہ کر لیا اور برخاستگی کا خط لکھ دیا۔ مونا نے جب یہ خط دیکھا تو اسے تعجب ہوا۔ اس نے روہت کو سمجھایا کہ اس طرح ریڈی کا کیریئر تباہ ہو جائے گا۔ اس نے تین سال ہماری کمپنی میں خدمات انجام دی ہیں اس لئے بہتر یہ ہے اس سے با عزت طریقے پر استعفیٰ لے لیا جائے۔ روہت کو مونا کے رویہ پر ہنسی آ گئی اور یہ معاملہ اس نے مونا پر چھوڑ دیا۔

مونا نے ریڈی کو کمرے میں بلایا۔ اسے روہت پٹیل کا خط دکھلایا۔ ریڈی کے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی۔ اس کے بعد اس نے خط کو واپس لے کر اسے چاک کر دیا اور ریڈی سے کہا کہ وہ از خود استعفیٰ دے کر چلا جائے اسی میں بھلائی ہے۔ ریڈی کی عجیب کیفیت تھی وہ شرمندہ بھی تھا اور مشکور بھی تھا وہ غمگین بھی تھا اور خوش بھی تھا۔ اس نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اپنا استعفیٰ ٹائپ کیا۔ اس پر اپنے دستخط ثبت کئے اور سر جھکائے مونا کے کمرے سے ہمیشہ کے لیے نکل گیا۔ ریڈی کے نکل جانے کے بعد اب سن ٹکنالوجی میں مونا کے بعد دوسرے نمبر پر منیر شمار ہونے لگا تھا۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

گزشتہ دو سالوں میں منیر کو ایک لمحہ کی بھی فرصت نہیں ملی تھی کہ جس میں ٹھہر کروہ اپنے ماضی، حال یا مستقبل کے بارے میں کچھ سوچتا۔ ہر روز صبح سے رات تک کام کرتا اور پھر صبح سویرے اٹھ کر کام میں جٹ جانا یہ اس کا معمول بن گیا تھا۔ آج اسے ایک رات زائد حاصل ہو گئی تھی۔ اتوار کی شام تک وہ دفتر میں بیٹھا تیاری میں لگا رہا۔ گھر میں بہ مشکل ایک گھنٹہ گزارنے کے بعد ایئر پورٹ آ گیا جہاں مونا اس کا انتظار کر رہی تھی۔ ہوائی جہاز میں بیٹھتے ہی دن بھر کی تھکن نے اسے نیند کی آغوش میں روانہ کر دیا اور اب جب کہ وہ اپنی نیند پوری کر کے جاگا تو یہاں سب لوگ سو رہے تھے۔ گویا اس کے لیے رات کے بعد صبح نہیں بلکہ رات ہو گئی تھی اس لحاظ سے یہ عجیب و غریب رات تھی۔

منیر حقیقت پسند آدمی تھا وہ سوتے ہوئے بھی خواب نہ دیکھتا اور گذشتہ دو سالوں میں اسے خواب دیکھنے کی فرصت بھی میسر نہیں آئی تھی لیکن آج اس کی آنکھوں کے سامنے ماضی کے یہ واقعات ایک خواب کی طرح چل رہے تھے۔ وہ سوچنے لگا حقیقت اور فسانے میں کس قدر کم فرق ہے بلکہ اس نے اپنے آپ سے سوال کیا۔ کیا فسانہ حقیقت سے زیادہ دلچسپ ہوتا ہے؟ جواب تھا نہیں اس لیے کہ فسانہ حقیقت سے بنتا ہے حقیقت فسانے سے نہیں بنتی۔ اس کے باوجود ان دونوں میں گہرا رشتہ ہے اسی طرح کا رشتہ جیسے مونا اور منیر کے درمیان تھا۔ مونا ایک حقیقت تھی اور منیر ایک فسانہ تھا۔ اسی لیے شاید منیر سے زیادہ مستحکم اور دلچسپ مونا تھی۔

امریکہ میں قیام کا ہفتہ برق رفتاری سے گزرا۔ پیش کش کا جائزہ۔ اس میں تبدیلیاں۔ اس کا اعادہ اور پیش کش کے بعد نتیجہ کا انتظار جسے نئے گاہکوں سے یکے بعد دیگرے ملاقاتوں سے پر کر دیا گیا تھا۔ ہر گاہک سے ملاقات کے بعد گفتگو کی رپورٹ اور پھر ان کی ضرورتوں کے مطابق پروپوزلس۔ مونا، منیر اور روہت پر کام کا جنون سوار تھا۔ علی الصبح دفتر میں ملتے اور شام ڈھلے روہت ان دونوں کو ہوٹل میں چھوڑ کر واپس جاتا۔ حالت یہ ہوتی کہ کسی طرح جلدی جلدی کھانا کھاؤ اور سو جاؤ۔ اکثر کھانا کمرے ہی میں منگوا لیا جاتا تاکہ سونے میں تاخیر نہ ہو۔

اتوار کی واپسی تھی اور جمعہ کی شام ان لوگوں کو خوش خبری مل گئی۔ ایچ پی کا کنٹراکٹ سن ٹکنالوجی کو مل چکا تھا۔ اس خبر نے ان تینوں کو دیوانہ بنا دیا۔ ایک خواب تھا جو دیکھتے دیکھتے شرمندۂ تعبیر ہو گیا تھا۔ اس خوشگوار شام کو جب مونا اور منیر کو ہوٹل میں چھوڑ کر روہت لوٹا تو دونوں کے قدم لابی میں منجمد ہو گئے۔ وہ وہاں بیٹھ گئے اور کافی دیر بیٹھے رہے۔ وہ دونوں نہ جانے کہاں کھوئے ہوئے تھے۔ مونا بولی

’’منیر آج کھانا ہم کمرے میں نہیں ریسٹورنٹ میں کھائیں گے۔ ‘‘

منیر کے خیالات کا تانتا ٹوٹ گیا۔ ا س نے مسکرا کر کہا۔ ’’باس کا حکم سر خم تسلیم ہے۔ ‘‘

’’یہ باس کا حکم نہیں ایک دوست کی خواہش ہے۔ ‘‘

’’ ہم اپنے دوست کی خواہش کا احترام کرتے ہیں۔ ‘‘

’’ہاں تو بتلاؤ کتنی دیر میں لوٹو گے؟ ‘‘

’’دیر کس بات کی؟ اگر آپ چاہیں تو میں یہیں بیٹھا رہوں۔ ‘‘

’’مذاق نہ کرو منیر میں سنجیدہ ہوں۔ ‘‘

’’ٹھیک ہے آدھا گھنٹہ بعد۔ ‘‘

’’آدھا گھنٹہ بہت ہے مجھے بہت بھوک لگی ہے۔ ‘‘مونا نے کہا۔

’’اچھا اگر ایسا ہے تو۔ ‘‘ منیر بولا۔ ’’ہم ایسا کرتے ہیں کھانے کا آرڈر ابھی دیئے دیتے ہیں اس لیے کہ یہ لوگ بھی روٹی کا آرڈر ملنے کے بعد گیہوں پیسنا شروع کرتے ہیں۔ ‘‘

’’یہ ٹھیک ہے۔ ‘‘

’’تو آپ فرمائیں کیا کھائیں گی؟ بیرا حاضر ہے۔ ‘‘ منیر نے کہا۔

مونا بولی۔ ’’آج میں تمہاری پسند کا کھانا کھاؤں گی۔ ‘‘

’’ٹھیک ہے۔ ‘‘

’’بائی بائی ‘‘ یہ کہہ کر وہ اپنے کمرے کی جانب چلی گئی اور جاتے جاتے ہاتھوں سے پندرہ منٹ کا اشارہ بھی کرتی گئی۔

سوئمنگ پول کے کنارے ایک نہایت پُرتکّلف میز مونا اور منیر کے لیے مخصوص کر دی گئی تھی۔ ساری دنیا سے الگ تھلگ بالکل تنہا ان دونوں کی طرح۔ ان کی آمد کے بعد موم بتی کو روشن کیا گیا۔ گہرے اندھیرے میں یہ موم بتی بالکل سورج کی طرح چمک رہی تھی۔ روشنی نے میز پر رکھے ’’سن ٹکنالوجی کے مونا اور منیر کا خیر مقدم ہے ‘‘ لکھے بورڈ کو روشن کر دیا۔

مونا نے غصہ سے کہا۔ ’’یہاں بھی سن ٹکنالوجی۔ ‘‘ اور اسے اٹھا کر نیچے پڑے کوڑے دان میں ڈال دیا۔ منیر سمجھ گیا آج میڈم کاروبار یا کمپنی کے بارے میں بات کرنا نہیں چاہتیں۔ لیکن پھر سوچنے لگا ان دونوں کے درمیان اس تمام عرصہ میں یہی واحد مشترک موضوع رہا ہے اب اگر اس پر بات نہ ہو تو کیا بات ہو؟ پہلی مرتبہ منیر قحط الخیال کا شکار ہو گیا تھا اور سوچ رہا تھا بولے تو کیا بولے۔ اس بیچ مونا نے کہا۔

’’منیر میں آج بہت خوش ہوں۔ ‘‘

منیر نے جھٹ جواب دیا۔ ’’میں بھی آپ کیا س خوشی میں شریک ہوں۔ ‘‘

مونا بولی۔ ’’مجھے خوشی ہے کہ کوئی میری خوشی میں شریک ہے۔ غم میں ہر کوئی شریک ہو جاتا ہے اس لیے کہ حزن کسی نقصان یا ناکامی کے باعث ہوتا ہے جوکسی دشمن کے دل میں بھی ہمدردی کا جذبہ پیدا کر دیتا ہے۔ لیکن خوشی کامیابی کے سبب ہوتی ہے اور کامیابی بیشتر لوگوں کے دل میں حسد و بغض کو جنم دیتی ہے اس لیے خوشی میں بہت سے لوگ شریک نہیں ہو پاتے ہیں۔ مگر حقیقی دوستوں کی بات ہی کچھ اور ہوتی ہے۔ جو سچے رفیق ہوتے ہیں وہ خوشی و مسرت میں بھی برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ ‘‘

منیر نے تائید کی۔ ’’مجھے یہ جان کر مزید خوشی ہوئی کہ مونا گونسالویس آئی میں میڈم کے اندر ایک فلسفی بھی چھپا ہوا ہے۔ ‘‘

مونا نے کہا۔ ’’یہ فلسفہ نہیں حقیقت ہے جس کا مشاہدہ تو ہم میں سے ہر کوئی کرتا ہے لیکن اس کا ادراک نہیں کر پاتا۔ خیر جب تک یہ ایچ پی کا آرڈر نہیں ملا تھا اس وقت تک یہی میرا مقصدِ حیات تھا لیکن اب جب کہ یہ مل گیا ہے اچانک اس کی اہمیت صفر ہو گئی ہے۔ نہ جانے ایسا کیوں ہوتا؟ کسی وقت سن ٹکنالوجی میں ملازمت کا حصول ہی مقصد زندگی تھا۔ لیکن جب وہ مل گئی غیر اہم ہو گئی اور پہلے آرڈر کے حصول کی دوڑ شروع ہو گئی جب اسے پا لیا اس نے اپنی اہمیت گنوا دی۔ اب اس آرڈر کو بخیر و خوبی بروئے کار لانا اہم ترین ہدف بن گیا۔

اپنی عادت کے خلاف مونا بولے جا رہی تھی۔ اس کے بعد نہ جانے کتنے آرڈر آتے رہے لیکن جب ایچ پی کی انکوائری آئی تو پھر ایک نیا ہدف سامنے آ گیا۔ ویپرو سے مسابقت نے اسے غیر معمولی اہمیت عطا کر دی اور پھر اس کے پیچھے بھاگتے ہوئے ہم ہندوستان سے امریکہ پہونچ گئے۔ آج صبح تک کس قدر بے کلی تھی۔ کس قدر تجسّس تھا۔ جوش اور امنگ تھا لیکن اب اچانک سب کچھ غائب ہو گیا۔ سارا ہیجان یکبارگی جھاگ بن کر اُڑ گیا۔ میں سوچتی ہوں ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ہر خوشی بام عروج پر پہونچ کر غبارہ کی طرح پھوٹ کیوں جاتی ہے؟ اور پھر وہ غبارہ کہاں چلا جاتا ہے؟ ‘‘

منیر بھی سوچ میں پڑ گ یا اس نے کہا۔ ’’ہم شاید غیر پائدار بنیاد پر پائدار خوشی حاصل کرنا چاہتے ہیں اگر مقصد ہی دائمی نہ ہو تو اس کے حصول کی خوشی بھی عارضی ہی ہو گی۔ یہ دنیا بھی تو ایک بہتا دریا اور اس میں ہماری زندگی پانی کا بلبلہ ہے اس روانی میں اگر ہر شئے وقتی اور عارضی ہے تو خوشی کس طرح ابدی و ازلی ہو سکتی ہے۔ ‘‘

مونا نے تائید میں سر ہلایا وہ بولی۔ ’’جی ہاں منیر تمہاری بات درست ہے۔ اس دنیا میں ہر چیز تقابلی ہے مگر ان چھوٹے موٹے اہداف کے مقابلے جو ہمیں دوران سفر میں پیش آتے ہیں زندگی تو نسبتاً پائدار ہے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ شاید ان اہداف کے چکر میں زندگی کو میں نے فراموش کر دیا تھا۔ میں ان عارضی اہداف کی مسرتوں کے بجائے زندگی کی ہر خوشی میں تمہیں شریک کرنا چاہتی ہوں۔ میں تمہیں اپنا شریک حیات بنا لینا چاہتی ہوں۔ ‘‘

مونا کا یہ جملہ منیر پر بجلی کی طرح گرا۔ بڑی مشکل سے اس نے اپنے آپ کو سنبھالا۔

’’کیا بات کرتی ہیں ۔۔۔ میڈ۔۔۔م۔ کہیں آپ مذاق تو نہیں کر رہی ہیں مجھ ۔۔۔ غریب۔۔۔ سے۔ ‘‘

’’نہیں منیر میں بہت ہی سنجیدگی سے یہ پیشکش (propose )کر رہی ہوں۔ ‘‘

منیر نے کہا۔ ’’میڈم یہ نہایت اہم معاملہ ہے اس لیے اس پر آپ سنجیدگی سے غور فرما لیں تو بہتر ہو گا۔ ‘‘

مونا بولی۔ ’’میں نے تو سوچ لیا ہے ہاں اگر تمہیں یہ رشتہ نامنظور ہو تو انکار کر سکتے ہو، مرضی تمہاری۔ ‘‘

’’م۔۔۔م۔۔۔ میں یہ جرأت کیسے کر سکتا ہوں۔ ‘‘

’’کیوں نہیں کر سکتے اور تمہاری ہچکچاہٹ کو مجھے انکار ہی سمجھ لینا چاہئے ۔۔۔ شاید‘‘

’’نہیں میڈم نہیں۔ آپ مجھے غلط سمجھ رہی ہیں آپ کا ہر فیصلہ سر آنکھوں پر۔ یہ تو میرے لیے عظیم سعادت کی بات ہے کہ سن۔۔۔‘‘

مونا نے بات کاٹ دی۔ ’’سن نہیں۔ ‘‘

’’جی ہاں جی ہاں مونا گونسالویس مجھے پیغام دے رہی ہیں۔ میں اس کے لیے تیار ہوں بالکل تیار ہوں۔ کل ہی سے میں تیاریوں میں لگ جاتا ہوں۔‘‘

’’کل سے نہیں۔ اب اور اسی وقت سے ہم اس رشتہ میں اپنے آپ کو باندھے لیتے ہیں اور ایک دوسرے کے زوج بن جاتے ہیں۔ ‘‘

’’نہیں میڈم یہ نہیں ہو سکتا۔ ‘‘

’’کیوں نہیں ہو سکتا؟ ‘‘مونا نے کڑک کر پوچھا۔

’’ہمارے یہاں رشتۂ ازدواج یونہی قائم نہیں ہو جاتا بلکہ اس کی کچھ شرائط ہیں اور اس کے بعد ہی یہ ہو سکتا ہے۔ ‘‘

’’شرائط؟ کیسی شرائط؟ تم مجھ سے جہیز کا مطالبہ تو نہیں کرنے جا رہے؟ ‘‘

’’نہیں۔ توبہ کیجئے۔ جہیز کے مطالبے کو تو میں نہ صرف ظلم زیادتی بلکہ حرام سمجھتا ہوں۔ لیکن بہرحال کسی قاضی کی موجودگی میں گواہ اور وکیل کے توسط سے یہ رشتہ قائم ہو گا اور پھر اس کا اعلان کیا جائے گا۔ ‘‘

’’لو پھر تم نے کر دی وہی ہندوستانیوں والی بات۔ یہ ہندوستان جیسے پسماندہ ممالک کی باتیں ہیں۔ تم یہ نہ بھولو کہ فی الحال امریکہ میں ہو۔ یہاں ان سب کی مطلق حاجت نہیں۔ ‘‘

’’نہیں میڈم ان چیزوں کا امریکہ یا ہندوستان سے کوئی تعلق نہیں۔ ہم جہاں کہیں بھی رہتے ہیں اپنی اقدار کے ساتھ رہتے ہیں۔ ٹوکیو ہو یا ٹمبکٹو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ‘‘

’’کیا دقیانوسی باتیں کرتے ہو منیر۔ پرانے وقتوں کے ان رسوم و رواج کی اس نئے زمانے میں کیا اہمیت ہے بھلا؟ ۔ ‘‘

’’بالکل ہے !کیوں نہیں ہے۔ یہ ضرورت بھی تو بہت پرانی ہے کہ انسان اپنے جوڑے کے ساتھ زندگی بسر کرنا چاہتا ہے۔ اس قدیم ترین جبلت کی تسکین کا طریقہ کار بھی اگر پرانا ہو تو اس میں قباحت کی کیا بات ہے؟ ‘‘

’’لیکن اس پیچیدہ اہتمام میں طویل وقت درکار ہے اور میں رُک نہیں سکتی۔ ‘‘

’’نہیں میڈم نہیں۔ یہ نہ پیچیدہ ہے اور نہ طویل مدت کا متقاضی ہے۔ یہ تو نہایت ہی آسان کام ہے۔ ہم لوگ کل صبح مسلم کمیونٹی سینٹر پر چلتے ہیں میں وہاں اپنے چند واقف کاروں کو بلوا لوں گا۔ انہیں میں سے کوئی قاضی بن جائے گا، کوئی وکیل اور گواہ۔ وہ تم سے پھر پوچھیں گے اور تمہاری رضامندی پر اپنی دعاؤں کے ساتھ ہمارے نکاح کا اعلان کر دیں گے۔ اس طرح حاضرین محفل کی موجودگی میں ہم ایک دوسرے کے میاں بیوی بن جائیں گے۔ ‘‘

’’اچھا تو یہ اس قدر آسان ہے میں تو سمجھتی تھی کہ ۔۔۔‘‘

منیر نے بات کاٹ دی۔ ’’میڈم آپ غلط سمجھتی تھیں یہ جو طریقہ میں نے بتلایا یہ اللہ کا بتلایا ہوا ہے ہم انسانوں نے اسے مشکل ضرور بنا دیا ہے۔ ‘‘

’’تو تمہارا مطلب ہے کل تک مجھے انتظار کرنا ہی ہو گا۔ ‘‘

’’جی ہاں میڈم۔ ‘‘

’’میڈم نہیں مونا۔ ‘‘

’’جی ہاں مونا۔ ‘‘

جی ہاں نہیں۔ ہاں ہاں مونا۔ لیکن ایک بات بتاؤ منیر تم مجھے شادی سے پہلے یہ تو نہیں کہو گے کہ میں اپنا مذہب چھوڑ کر اسلام قبول کر لوں۔ ‘‘

’’میں کہوں گا تو ضرور اور شادی سے پہلے کیوں؟ ابھی ابھی کہوں گا لیکن پھر تمہاری مرضی، چاہو تو میری بات مانو چاہو تو مسترد کر دو۔ ‘‘

’’لیکن کیا اس کے باوجود ہمارا نکاح ہو جائے گا۔ ‘‘

’’کیوں نہیں ہمارے مذہب میں اہل کتاب سے نکاح کی اجازت ہے اور پھر تم اہل کتاب تو ہو ہی۔ ‘‘

’’اچھا۔ میں تو سمجھتی تھی کہ اسلام بڑا ہی سخت اور مشکل مذہب ہے لیکن تم نے تو اسے بہت ہی آسان بنا دیا۔ ‘‘ مونا نے کہا۔

’’نہیں میڈم۔ سوری مونا۔ اسلام کو اس کے نازل کرنے والے خدائے بزرگ برتر نے ہی آسان بنایا ہے لیکن جیسا کہ میں آپ کو بت اچکا ہوں وہ انسان ہے کہ جو اسے مشکل بنائے ہوئے ہے۔ اب اس کا کوئی کیا کرے؟ ‘‘

’’اچھا پھر ٹھیک ہے۔ آج ہم آخری بار جُدا ہو رہے ہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایک ہو جانے کے لیے۔ ‘‘

’’اوکے پھر ملیں گے صبح ان شاء اللہ۔ ‘‘ منیر نے کہا۔

مونا بولی۔ ’’ان شاء اللہ۔ ‘‘

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

دوسرے روز نہایت سادگی کے ساتھ قریب کے اسلامک سینٹر میں منیر اور مونا کا نکاح ہو گیا۔ جس میں ان دونوں کے کچھ ذاتی دوستوں کے علاوہ روہت پٹیل بھی موجود تھا۔ یہ ہفتہ کا آخری اور چھٹی کا دن تھا۔ روہت ان کے ساتھ ہوٹل آیا اور مبارک باد دے کر چلا گیا۔ اس کے بعد دو دن یہ دونوں یوں تو امریکہ میں تھے لیکن در اصل ہواؤں، فضاؤں اور ایک دوسرے کی جنت میں کھوئے ہوئے تھے اور امریکہ سے واپسی پراسی طرح غمگیں تھے جس طرح حضرت آدم اور حوا جنت سے دنیا کی جانب آتے ہوئے رہے ہوں گے۔ لیکن بہرحال ان کی آزمائش دنیا میں مقدر تھی سو یہ دونوں ہندو ستان لوٹ آئے۔

راستہ میں جو سب سے اہم مسئلہ زیر بحث آیا کہ اب وہ لوگ کہاں رہیں گے؟ منیر کا آبائی گھر مونا کے لیے مناسب نہ تھا اور مونا کے گھر میں منیر جانا نہیں چاہتا تھا۔ بالآخر دونوں نے ایک نئے گھر میں منتقل ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ نئی زندگی جو ایک نئے ملک میں شروع ہوئی تھی ایک نئے گھر میں داخل ہو گئی۔ جب وہ دونوں ایئرپورٹ پر پہونچے تو سن ٹکنالوجی کا سینئر اسٹاف وہاں موجود تھا۔ ہر ایک کے ہاتھ میں دو گلدستے تھے۔ ہر کوئی آگے بڑھ کر پہلے مونا کو ایچ پی کے آرڈر کی مبارکباد دیتا اور پھر دوسرا گلدستہ منیر کے حوالے کرتے ہوئے اسے شادی کی مبارکباد دیتا۔ یکے بعد دیگرے جب یہی رویہ دوہرایا گیا تو منیر کوایسا لگا جیسے شادی صرف منیر کی ہوئی ہے اور ایچ پی کا آرڈر صرف مونا کو ملا ہے۔ منیر کا حاصل مونا اور مونا کا حاصل آرڈر ہے حالانکہ صورت حال اس کے بالکل برعکس تھی ایچ پی کا آرڈر در حقیقت منیر کی جانفشانی کا نتیجہ تھا اور شادی مونا کی پہل اور کوششوں سے ہوئی تھی لیکن لوگ اس کو اُلٹا سمجھ رہے تھے۔

شادی کے باوجود مونا اور منیر کے معمولاتِ حیات میں کوئی خاص فرق واقع نہ ہوا تھا بلکہ وہ دونوں پہلے سے زیادہ مصروف ہو گئے تھے۔ ایچ پی کے بعد روہت کو اور بھی کچھ نئے آرڈر حاصل کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی تھی جس کے باعث ان کی مصروفیات میں بے شمار اضافہ ہو گیا تھا۔ حقیقت تو یہ تھی کہ اس نئے شادی شدہ جوڑے کو نہ تو محبت کی فرصت تھی اور نہ لڑائی جھگڑے کے لیے وقت تھا۔ دفتر میں اور گھر میں ہر جگہ ان پر کام کا بھوت سوار رہتا تھا اور کام تھا کہ ختم ہونے کا نام ہی نہ لیتا تھا۔

کامیابی و کامرانی کا اپنا نشہ ہوتا ہے اور یہ خمار کام کی تمام تھکن کو نگل جاتا ہے۔ وہ دونوں بدمست مسافر ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کامیابی کی بلند تر منزلیں سر کرتے جاتے تھے۔ دیکھتے دیکھتے مزید چار سال کا طویل عرصہ نہ جانے کیسے گذر گیا۔ اب سن ٹکنالوجی کا شمار ہندوستان کی سب سے بڑی بی پی او کمپنیوں میں ہونے لگا۔ بی پی او مختصر سی دنیا میں ہر کوئی مونا اور منیر کو جانتا تھا اور ان کی جانب رشک سے دیکھتا تھا۔

روہت پٹیل کو مونا کی صلاحیتوں کا اعتراف تھا۔ اسے محسوس ہونے لگا تھا کہ اگر مونا کمپنی چھوڑ دیتی ہے تو اس کا سارا کھیل دھرا کا دھرا رہ جائے گا۔ اس لیے اس نے مونا کو کمپنی کے ملازم سے ترقی بنا کر شراکت دار بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس طرح وہ کمپنی میں مونا کی موجودگی کو یقینی بنانا چاہتا تھا اور اس کے لیے یہی سب سے آسان اور کارگر نسخہ تھا۔ اس مقصد کے تحت روہت مونا کو امریکہ آنے کی دعوت دی۔ منیر کا مونا کے ساتھ سفر کرنا امر لازمی تھا۔ ان دونوں نے ایک ہفتہ کے لیے امریکہ جانے کا پروگرام بنایا۔ چار سال میں پہلی مرتبہ یہ لوگ ایک ساتھ چھٹی منانے جار رہے تھے۔ اس بار فلائیٹ صبح میں تھی۔ ہوائی جہاز کے اُڑنے کے بعد منیر نے کہا۔

’’مونا کتنا اچھا لگ رہا ہے۔ ‘‘

مونا نے اثبات میں سرہلا یا۔ ’’آج مجھے پھر ایک بار اپنا پرانا سفر یاد آ رہا ہے۔ ‘‘ مونا بولی۔ ’’ ویسے اس سفر میں یاد کرنے کے لیے تھا ہی کیا تم راستے بھر سوتے رہے اور میں ناول پڑھتی رہی۔ ‘‘

منیر نے کہا۔ ’’یہ تو تم جاتے وقت کے سفر کی بات کر رہی ہو۔ مجھے تو واپسی کا سفر یاد آ رہا ہے جب ہم لوگ یہ بھول گئے تھے سن ٹکنالوجی کس بلا کا نام ہے اور ہم دونوں اس میں ملازم ہیں۔ ‘‘

’’جی ہاں اس وقت ہم دونوں صرف میاں بیوی تھے اور ہم صرف اپنے مستقبل کے سپنے سجاتے رہے۔ مجھے بھی یاد آ رہا ہے۔ ‘‘

’’لیکن مونا وہ خواب کہاں کھو گئے؟ ممبئی پہونچنے کے بعد ہم نے ان خوابوں کو یکسر بھلا دیا اور پھر کاروبار میں ایسے پھنسے کہ ہمیں یہ یاد ہی نہ رہا کہ ہماری اپنی بھی کوئی نجی زندگی ہے۔ ازدواجی زندگی۔ ‘‘

منیر تم سچ کہتے ہو ہم نے کامیابی کی بہت بڑی قیمت ادا کی۔ لیکن پھر بھی مجھے کوئی افسوس نہیں ہے اس لیے کہ دنیا میں کوئی بھی چیز مفت میں حاصل نہیں ہوتی اور کامیابی تو ہرگز ہرگز نہیں۔ مونا نے کہا۔

منیر نے تائید کی۔ ’’بے شک ہماری کامیابی بے مثال ہے لیکن آخر کب تک ہم اپنے کاروبار کے قدموں میں اپنا سب کچھ بھینٹ چڑھاتے رہیں گے۔ آخر اس کی بھی کوئی حد ہونی چاہئے۔ تمہیں یاد ہے سفر کے دوران ہم ایس یو این (SUN) سن کے بجائے ایس او این (SON) کے بارے میں سوچتے رہے تھے لیکن وہ SON بھی نہ جانے کہاں کھو گیا۔ حالانکہ اسے تو فطری انداز میں ابھی تک ہمارے درمیان آ جانا چاہئے تھا۔ شاید اس نئی زندگی سے ہمیں نئی زندگی مل جاتی ہمارا بچپن جوان ہو جاتا۔ ‘‘

مونا نے تائید کی۔ ’’ہاں منیر تم سچ کہتے ہو لیکن مجھ پر کامیابی کا ایسا جنون تھا کہ میں نے اسے اپنی راہ کی رکاوٹ سمجھا اور اسے آنے سے روک دیا۔ ‘‘

’’مونا تمہیں ایسا نہیں لگتا کہ یہ تمہاری بلکہ ہماری غلطی تھی۔ ‘‘

مونا نے کہا۔ ’’ہاں آج جب ہم ٹھہر کے سوچ رہے ہیں تو لگتا ہے کہ شاید یہ ہماری غلطی تھی۔ ہم بہت زیادہ خود غرض ہو گئے تھے۔ ہم اپنے وسائل کو، اپنے اوقات میں کسی اور سے تو کجا اپنے لخت جگر کے ساتھ بھی شریک کرنا نہیں چاہتے تھے۔ ہم نے خود اپنی آئندہ نسل سے دشمنی کی۔ ہم اس کے قاتل ہیں اور یہ ناقابل معافی جرم ہے۔ ‘‘

’’جی ہاں مونا تم سچ کہتی ہو۔ مال کی حرص وہوس نے ہمارے لیے کتنے سنگین گناہ کو کس قدر آسان بنا دیا تھا۔ ‘‘

مونا نے اثبات میں سرہلایا اور بولی۔ ’’منیر گذرا ہوا کل واپس نہیں آتا اس لیے اس کا ماتم چھوڑو اور آنے والے کل کے بارے میں سوچو۔ ‘‘

منیر نے کہا۔ ’’تم سچ کہتی ہو۔ آنے والے کل کے بارے میں میں صرف اتنا کہتا ہوں کہ آنے والا کل ہمارے سن (SON)کا ہو گا۔ ‘‘

فلائیٹ میں کھانا کھانے کے بعد دونوں کی آنکھیں لگ گئیں۔ یہ لوگ دن میں سونے کے نام و نشان سے واقف نہ تھے لیکن پھر بھی دونوں سو گئے اور سپنوں میں کھو گئے۔ دونوں کا خواب یکساں تھا ایک مشترک خواب دونوں دیکھ رہے تھے۔ دونوں نے خواب میں ایک بڑا سا باغ دیکھا جس میں بے شمار پھول تھے لیکن ہر پھول جڑواں تھا۔ دو گلاب، دو موگرا، دو چمیلی، دو کنول یہاں تک کہ سورج مکھی کا پھول بھی جڑواں تھا۔ جب بیدار ہونے کے بعد ان دونوں نے ایک دوسرے کو اپنا خواب سنایا تو حیرت زدہ رہ گئے۔

’’کیا خواب بھی جڑواں ہوتے ہیں؟ ‘‘ مونا نے پوچھا۔

منیر بولا۔ ’’کیوں نہیں۔ اگر حقیقت جڑواں ہو سکتی ہے تو خواب کیوں نہیں ہو سکتے۔ وہ دونوں اس جڑواں خواب میں کھو گئے جس کا تعلق ان کے ماضی سے بھی تھا اور مستقبل سے بھی تھا۔ جہاز سرزمین نیویارک پر اتر رہا تھا۔ باہر صبح ہو رہی تھی منیر نے کہا۔

’’مونا یہ جڑواں دن ہے دن کے بعد دن اور ہاں وہ جڑواں رات تھی رات کے بعد رات‘‘ پھر دونوں بولے۔ ’’اور یہ جڑواں خواب ہے خواب کے بعد خواب۔ ‘‘

روہت پٹیل نے ایئر پورٹ پر ان دونوں کا خیر مقدم کیا اور کہا۔ ’’آپ لوگوں نے آرام کیا یا نہیں اس لیے کہ ہندوستان میں فی الحال رات ہے۔ ‘‘

مونا بولی۔ ’’سارا راستہ آرام ہی رہا۔ کہو کیا بات ہے؟ ‘‘

روہت بولا۔ ’’بات در اصل یہ ہے کہ میں بورڈ آف ڈائرکٹرس کی ایک اہم میٹنگ کل رکھنا چاہتا تھا لیکن جیوتش نے بتلایا کہ کل کا شگون منحوس ہے اس لیے میں نے اچھا شگون نکال کر آج ہی گیارہ بجے صبح میٹنگ رکھ لی ہے۔ یہ میٹنگ صرف آدھے گھنٹہ کی ہے۔ کمپنی کے چند بنیادی فیصلوں کو آخری شکل دینی ہے۔ یہ میری گزارش ہے اگر زحمت نہ ہو تو اس کے بعد تم واپس آ کر آرام کر لینا۔۔۔‘‘

مونا بولی۔ ’’یہ شگون کیا ہوتا ہے؟ روہت صاحب آپ کب سے امریکہ میں رہ رہے ہیں انفارمیشن ٹکنالوجی کی جدید دنیا میں آپ شگون کی بات کرتے ہیں۔ ‘‘

روہت بولا۔ ’’مونا تم اسے نہ سمجھو گی لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بس میں تو یہ چاہتا ہوں کہ ۱۱؍ بجے آدھے گھنٹہ کے لیے تم نیچے ہوٹل کے بورڈ روم میں آ جانا جہاں یہ میٹنگ ہے اور پھر واپس جا کر کمرے میں آرام کرنا۔ مجھے امید ہے تم میری اس خواہش کا احترام کرو گی۔ ‘‘

’’بے شک میں میٹنگ میں آؤں گی لیکن اس لیے نہیں کہ وہ کوئی شبھ مہورت ہے۔ ‘‘

’’ٹھیک ہے۔ ‘‘ روہت نے ہنس کر کہا جب وہ واپس ہونے لگا تو منیر نے پوچھا۔

’’یہ میٹنگ تو کمپنی کے انتظامی امور سے متعلق ہے بزنس کی ترویج کے لیے تو ہے نہیں۔ اس لیے میرا آنا ضروری تو نہیں۔ ‘‘

روہت نے کہا۔ ’’ہاں منیر تم ٹھیک کہتے ہو۔ تم چاہو تو آرام کر سکتے ہو۔ ‘‘

منیر نے کہا۔ ’’شکریہ۔ ‘‘لیکن منیر کی لغت میں آرام نہیں تھا۔ وہ مونا سے پہلے تیار ہو کر باہر نکل گیا اور ہوٹل سے لگی دوکانوں میں گھومنے لگا۔ اسے ایک خاص دوکان کی تلاش تھی۔ بچوں کی دُکان جو اسے تھوڑی سی محنت کے بعد مل گئی۔ وہاں پہونچنے کے بعد اس نے دیوانہ وار چیزیں خریدنی شروع کر دیں۔ کھلونے، کپڑے، جھولا اور نہ جانے کیا کیا۔ جب سب کچھ پیک ہو گیا تووہ اُسے دیکھ کر گھبرا گیا۔ منیر نے دوکان والے کو اپنے کمرے کا نمبر دیا۔ چونکہ وہ دُکان اسی ہوٹل کا حصہ تھی جس میں ٹھہرا ہوا تھا دُکاندار خوشی خوشی اسے کمرے تک پہونچانے پر راضی ہو گیا۔

منیر جب کمرے میں میں آیا تو مونا میٹنگ میں جا چکی تھی۔ منیر مونا کو حیرت زدہ کرنا چاہتا تھا۔ اس نے جلدی جلدی تمام سامان کو کھولا اور اسے بالکل چھوٹے بچوں کی طرح کمرے میں سجانے لگا۔ بچے جس طرح گڑیوں کا سنسار سجاتے ہیں وہ بھی بالکل اسی طرح کھلونوں سے کھیل رہا تھا کہ دروازے کی گھنٹی بجی۔

منیر نے دروازہ کھولا۔ سامنے مونا کھڑی تھی۔ اس کی آنکھوں کی چمک بتلا رہی تھی کہ وہ بہت خوش ہے۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی وہ منیر سے لپٹ گئی اور دیر تک اس کے سینے میں اپنا سر چھپائے کھڑی رہی۔ اس کے بعد بولی۔

’’منیر تم جانتے ہو میٹنگ میں کیا ہوا؟ تمہیں یقین نہیں آئے گا کہ آج میٹنگ میں کیا ہو گیا۔ میں نے تو کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ ‘‘

منیر بولا۔ ’’آخر بولو گی بھی یا بس یونہی خوشی سے پھولی نہیں سماتی رہو گی۔ ‘‘

مونا بولی۔ ’’بتاتی ہوں بتاتی ہوں۔ در اصل سن ٹکنالوجی کے ۴۵ فیصد شیئر تو مارکٹ میں ہیں بقیہ ۵۵ فی صد میں سے روہت پٹیل نے مجھے ۲۵ فی صد کا مالک بنا دیا۔ اب ہم سن ٹکنالوجی کے ملازم نہیں بلکہ مالک بن گئے ہیں۔ ‘‘

منیر نے کہا۔ ’’ہم نہیں تم۔ ‘‘

ہاں ہاں ایک ہی بات ہے۔ ہم دونوں میں فرق ہی کیا ہے۔ اسی کے ساتھ بورڈ آف ڈائرکٹر کی میٹنگ میں اتفاق رائے سے روہت پٹیل کو چیئرمن اور مجھے کمپنی کا منیجنگ ڈائرکٹر بنا دیا گیا۔ اس طرح کمپنی کو چلانے کے سارے اختیارات اب ہمارے ہاتھ میں آ گئے ہیں۔ ‘‘

’’ہمارے نہیں تمہارے۔ ‘‘ منیر بولا۔

’’ہاں ہاں ایک ہی بات ہے۔ ہم دونوں تو ایک ہی ہیں اور جانتے ہو میں نے اپنی پہلی تقریر میں کیا اعلان کیا۔ ‘‘

منیر بولا۔ ’’ہاں ہاں بولو سن رہا ہوں۔ ‘‘

مونا بولی۔ ’’میں نے اعلان کیا کہ فی الحال سن ٹکنالوجی ہندوستان کی تیسرے نمبر کی بی پی او کمپنی ہے لیکن ہم اسے دو سال کے اندر پہلے نمبر پر پہونچا دیں گے۔ ‘‘

’’ہم نہیں میں۔ ‘‘ منیر بولا

’’ہاں ہاں ایک ہی بات ہے۔ ہم دونوں تو ایک ہی ہیں۔ بولو منیردرست کہا نا میں نے؟ ایسا ہو گانا؟ بولو نا ضرور ہو گا۔ ‘‘

منیر نے کہا۔ ’’مونا ڈارلنگ ضرور ہو گا۔ میری نیک خواہشات تمہارے ساتھ ہیں۔ ‘‘

’’نیک خواہشات ساتھ ہیں۔ کیا مطلب؟ تم خود ساتھ میں نہیں ہو؟ ‘‘

منیر بولا۔ ’’ہاں ہاں ایک ہی بات ہے میری خواہش اور میں الگ الگ تھوڑے ہی ہیں۔ ‘‘ منیر کو در اصل پریشانی اس بات کی تھی کہ اتنے ڈھیر سارے کھلونوں کی جانب مونا کی ذرّہ برابر بھی متوجہ نہیں ہوئی تھی۔ کتنے شوق سے اس نے ان تمام چیزوں کو سجایا تھا۔ اگر کوئی عام آدمی کمرے میں آتا تو اس کا پہلا سوال ہوتا ’’بچہ کہاں ہے؟ جس کے لیے یہ تمام لوازمات سجائے گئے ہیں ‘‘ لیکن مونا کے قلب و ذہن پر ایس او این SON نہیں بلکہ SUN سوار تھا اور اس کی چکا چوند نے مونا کی آنکھوں کو خیرہ کر دیا تھا۔ اسے کچھ بھی دکھائی نہ پڑتا تھا۔

بالآخر منیر نے خود پہل کی۔ ’’مونا یہ سب تو ٹھیک ہے لیکن اس خواب کا کیا جو ابھی پچھلے دن ہم نے دیکھا تھا۔ ‘‘

’’اوہو منیر آئندہ دو سالوں میں ہمیں پہلے نمبر پر آنا ہے اس لیے اب تو ہم کچھ اور سوچ بھی نہیں سکتے۔ ہم دو سال اور رک جاتے ہیں۔ ایک بار سب سے آگے ہو گئے تو پھر وہی سب کریں گے۔ ‘‘

منیر نے کہا۔ ’’نہیں میں اب رک نہیں سکتا۔ اس لیے کہ میں جانتا ہوں سب سے آگے ہونا جتنا مشکل ہے سب سے آگے بنے رہنا اس سے بھی زیادہ مشکل ہے۔ آج اگر آگے ہونے کے لیے ہم نے ملتوی کر دیا تو کل آگے رہنے کے لیے ہمیں اسے التوا میں ڈالنا پڑے گا اور پھر وہ کل کبھی نہ آئے گا۔ ‘‘

مونا بولی۔ ’’منیر اس خوشی کے موقع پر تم یہ کیا بکھیڑا لے کر بیٹھ گئے۔ اب ہمارے سامنے صرف ایک ہدف ہے۔ ‘‘

’’ہمارے نہیں تمہارے سامنے۔ ‘‘ منیر بولا۔

’’ہاں ہاں ۔۔۔‘‘

منیر نے بات کاٹ دی۔ ’’مونا یہ ایک ہی بات نہیں ہے۔ یہ الگ باتیں ہیں ہم ایک دوسرے کو بہلانے اور پھسلانے کے لیے ایک ہی بات کہتے ضرور ہیں لیکن ہمارے کہنے سے حقیقت نہیں بدل سکتی۔ ‘‘

’’منیر آج پہلی بار تمہاری باتیں میری سمجھ میں نہیں آ رہی ہیں نہ جانے کیوں؟ ‘‘

منیر نے جواب دیا۔ ’’میڈم اس لیے کہ شاید آج پہلی مرتبہ میں آپ سے اختلاف کرنے کی جرأت کر رہا ہوں۔ ‘‘

’’نہیں ایسا نہیں تم پہلے بھی مجھ سے اختلاف کرتے رہے ہو اور میں نے تمہارے اختلاف کا احترام کیا ہے۔ ‘‘

’’تم ٹھیک کہتی ہو لیکن اس سے پہلے بنیادی طور پر ہم میں اتفاق ہوتا تھا۔ اختلاف محض جزئیات میں ہوتا تھا اس لیے بات بگڑتی نہیں تھی لیکن آج اختلاف بنیادی ہے اس لیے آپ کی سمجھ میں نہیں آ رہی ہے۔ ‘‘

’’ہاں شاید ایسا ہی کچھ ہے۔ ‘‘ مونا نے کہا اور دونوں خاموش ہو گئے۔

تھوڑی دیر بعد مونا بولی۔ ’’دیکھو منیر آج جو کامیابی مجھے حاصل ہوئی ہے اس میں سب سے بڑا حصہ تمہارا ہے۔ آج بورڈ آف ڈائرکٹرس کی میٹنگ میں بھی سب نے اس کا اعتراف کیا لیکن۔۔۔‘‘ مونا رک گئی۔

منیر نے کہا۔ ’’میڈم آپ خاموش کیوں ہو گئیں؟ اپنی بات پوری کیجئے۔ ‘‘

’’بات در اصل یہ ہے کہ‘‘ مونا بولی۔ ’’میں تو چاہتی ہوں کہ تم آگے بھی کامیابی کے اس سفر میں میرے ساتھ ساتھ رہو لیکن ۔۔۔‘‘ مونا پھر رک گئی۔

منیر نے کہا۔ ’’میڈم آپ رک کیوں گئیں؟ آپ اپنی بات پوری کیجئے۔ ‘‘

مونا نے کہا۔ ’’لیکن مجھے ڈر ہے کہ کہیں تمہاری یہ ضد ہماری کامیابی کے راستہ کا روڑا نہ بن جائے۔ ‘‘

’’آپ ٹھیک کہتی ہیں میں جانتا ہوں سن ٹکنالوجی کے منیجنگ ڈائرکٹر کا ماں بننا کن مسائل کو جنم دے گا لیکن اب مجھے اپنے سن میں دلچسپی ہے روہت اور مونا کے سن میں نہیں اور تمہیں بھی ان دونوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑے گا۔ ‘‘

منیر بات در اصل یہ ہے کہ میرے سامنے آج سب سے بڑی مشکل یہی ہے اور اس سے پہلے میں نے اپنی ہر مشکل کے وقت تم سے رجوع کیا ہے۔ اس لیے اس بار بھی میں یہی کرتی ہوں میں جانتی ہوں کہ میرا تم سے بہتر دوست اور خیرخواہ کوئی اور نہیں ہے اور مجھے پوری امید ہے کہ تمہارا مشورہ میرے حق میں بہترین ثابت ہو گا۔ ‘‘

منیر بولا۔ ’’میڈم میں آپ کے اعتماد کی قدر کرتا ہوں اور میرا مشورہ ہے کہ جس موڑ سے ہماری راہیں جدا ہو جاتی ہیں۔ اس پر ہم دونوں کو الگ ہو جانا چاہئے۔ ‘‘

مونا کو منیر سے ایسی سرد مہری کی توقع نہیں تھی۔ وہ اس کے اس فیصلہ سے سٹپٹا گئی اور بولی۔ ’’کیا کہہ رہے ہو منیر؟ کیا ہم دونوں ایک دوسرے سے الگ ہو کر زندہ رہ سکتے ہیں؟ ‘‘

منیر بولا۔ ’’میں جانتا ہوں مونا کہ یہ نہایت مشکل کام ہے لیکن اب ہمارا ایک دوسرے کے ساتھ بھی تو زندہ رہنا اس سے مشکل تر ہے۔ انسان یا توساتھ رہ سکتا ہے یا علیٰحدہ۔ ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا متبادل ہمارے پاس نہیں ہے۔ علیٰحدہ رہنا ہماری چاہت نہیں بلکہ مجبوری ہے اور اس لیے ہے کہ زندگی مختلف نقطہ ہائے نظر کے ساتھ ایک ساتھ زندگی گذارنا عملاً غیر ممکن ہے۔ ‘‘

’’لیکن منیر دنیا میں لوگ اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گذارتے ہیں تو ہم کیوں نہیں گذار سکتے؟ ‘‘مونا نے پوچھا۔

منیر بولا۔ ’’تمہاری بات صحیح ہے لیکن وہ اختلافات جیسا کہ میں نے پہلے کہا فروعی نوعیت کے ہوتے ہیں بنیادی قسم کے نہیں ہوتے اور اگر بنیادی ہوتے ہیں تووہ آپس میں دست و گریباں ہوتے ہیں جو ہم نہیں ہو سکتے اس لیے ۔۔۔‘‘ منیر رک گیا۔

’’اس لیے کیا منیر! اس لیے کیا؟ ‘‘ مونا نے پوچھا۔

’’اس لیے بہتر یہی ہے کہ ہم لوگ احسن طریقہ پر جدا ہو جائیں۔ ‘‘

مونا بولی۔ ’’احسن طریقہ سے ملنا تو سنا تھا لیکن کیا اس طرح کی جدائی بھی ممکن ہے۔ ‘‘

’’ہاں کیوں نہیں اور اب یہی ہو گی۔ ‘‘

’’وہ کیسے؟ ‘‘

’’وہ ایسے کہ میں نے گواہوں کی موجودگی میں وکیل کے توسط سے اور تمہاری مرضی سے تمہیں اپنے نکاح میں لیا تھا۔ ہمارے درمیان ایک بندھن بندھ گیا ایک معاہدہ طے پا گیا تھا۔ اب میں اس معاہدہ کو ختم کیے دیتا ہوں اور تمہیں اس بندھن سے آزاد کر دیتا ہوں۔ پھر اس کے بعد ہم دونوں ایک دوسرے کے تئیں زن و شوہر کے رشتہ سے آزاد ہو جائیں گے۔ ‘‘

’’کیا یہ اتنا آسان ہے؟ ‘‘ مونا نے پوچھا۔

منیر بولا۔ ’’ہاں یہ اسی قدرآسان ہے جس قدر اس رشتے کا قائم ہونا تھا بلکہ اس سے بھی زیادہ سہل۔ ‘‘ پھر سے دونوں خاموش ہو گئے۔

کچھ دیر بعد مونا بولی۔ ’’منیر تم ہر مشکل کو آسان کر دیتے ہو لیکن ایک بات بتاؤ آج شام کو میرے تقرری کا جشن منایا جا رہا ہے۔ اسی ہوٹل میں زبردست پارٹی ہے جس میں امریکہ کے بڑے بڑے تاجر، صنعت کار اور پیشہ ور حضرات شریک ہو رہے ہیں کہیں ایسا تو نہیں کہ اس جدائی کے بعد اس پارٹی میں بھی تم شریک نہیں ہوؤ گے۔ ‘‘

منیر نے کہا۔ ’’مونا تم تو جانتی ہو میں پارٹیوں میں شرکت نہیں کرتا اور اس غیر حاضری کا تعلق جدائی سے نہیں ہے اگر ہم ساتھ ہوتے تب بھی میں شریک نہیں ہوتا۔ ‘‘

’’کیوں؟ آخر کیوں؟ ‘‘ مونا نے پوچھا۔

’’مونا جیسا کہ تم جانتی ہو ہماری کچھ اقدار ہیں جن پر ہم مصالحت نہیں کرتے۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے۔ ‘‘

مونا بولی۔ ’’منیر تم آج بھی ویسے ہی ہو جیسے سات سال پہلے تھے اس وقت بھی تمہاری یہی قدریں تھیں جب تم سن ٹکنالوجی سے منسلک ہوئے تھے۔ آج سے چار سال قبل بھی تم انہیں اقدار کے پاسدار تھے جب ہماری شادی ہوئی تھی اور آج بھی تمہاری وہی قدریں ہیں ۔۔۔‘‘ مونا رک گئی۔

منیر نے جملہ پورا کیا۔ ’’جب کہ ہماری طلاق ہو رہی ہے۔ ‘‘

مونا بولی۔ ’’سب کچھ بدل گیا لیکن تم نہیں بدلے ۔۔۔‘‘

منیر نے کہا۔ ’’اور شاید میں نہیں بدلوں گا اس لیے کہ کچھ چیزیں نہیں بدلتیں۔ ‘‘ وہ دونوں پھر خاموش ہو گئے۔

کچھ دیر بعد مونا نے پوچھا۔ ’’منیر میری زندگی کا مقصد اور لائحۂ عمل تو طے ہے اور تم اس سے واقف ہو آج شام کو پارٹی ہے کل سے چار دنوں تک انتظامی اور کاروباری میٹنگیں ہیں اور پھر جمعہ کو ہندوستان واپسی لیکن کیا میں جان سکتی ہوں کہ تمہارا کیا پروگرام ہے؟ ‘‘

منیر بولا۔ ’’میرا پروگرام اس طرح سے ہے کہ میں اب دوسرے کمرے میں منتقل ہو جاؤں گا اس کے بعد شام کی واپسی کا ٹکٹ بک کرا کے ہندوستان روانہ ہو جاؤں گا اور اس کے بعد ۔۔۔‘‘

مونا نے کہا۔ ’’بولو منیر اور اس کے بعد؟ ‘‘

منیر بولا۔ ’’اور پھر اس کے بعد پھر وہی اپنی پرانا پاپولر بک ڈپو۔ اس کی صاف صفائی کروں گا اور اسے کھول کر بیٹھ جاؤں گا۔ ‘‘

مونا نے کہا۔ ’’منیر تم کٹھن سے کٹھن صورت حال میں بھی مذاق کر لیتے ہو۔ یہ تمہاری سب سے بڑی خوبی ہے۔ ‘‘

’’مونا یہ مذاق نہیں حقیقت ہے اور ہرسچائی کی طرح تلخ۔ ‘‘

چند لمحوں بعد بیرا منیر کا سامان منتقل کرنے کی خاطر کمرے میں آ گیا۔ منیر نے اپنا بیگ دے دیا بیرے کے نکل جانے کے بعد۔ وہ دونوں خالی خالی نگاہوں سے بچوں کے کھلونے، کپڑے، جھولا اور گاڑی کو تکنے لگے۔

مونا نے پوچھا۔ ’’یہ سب؟ ‘‘

منیر بولا۔ ’’یہ وہ خواب ہیں جو تمہارے بغیر ادھورے ہیں اس لیے میں انہیں تمہارے ساتھ چھوڑے جاتا ہوں خدا حافظ۔ ‘‘

مونا نے کہا۔ ’’خدا حافظ۔ ‘‘ دروازہ بند کیا اور بچوں کی طرح رونے لگی۔ نہ جانے کتنے سال بعد وہ روئی تھی اور روئی بھی ایسے کہ بس روتی رہی۔ یہاں تک کہ دوپہر کو اس نے روہت کو فون پر بتلایا کہ اس کی طبیعت ناساز ہو گئی اور پارٹی میں شریک ہونے سے معذرت چاہتی ہے۔ روہت پریشان ہو گیا اس نے ڈاکٹر کے ساتھ آنے کی پیش کش کی لیکن مونا نے منع کر دیا۔ اس نے کہا کہ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ اس نے گذارش کی کہ اس کے آرام میں خلل اندازی نہ کی جائے۔ روہت کی سمجھ میں کچھ نہ آ رہا تھا لیکن اس نے پھر ایک بار اپنی خدمات پیش کیں اور نیک خواہشات کا اظہار کر کے فون بند کر دیا۔

روہت اور مونا گذشتہ دس سالوں سے ایک ساتھ کام کر رہے تھے لیکن مونا نے اس طرح کے رویہ کا اظہار پہلی بار کیا تھا۔ وہ اس کی کوئی توجیہہ نہیں کر پا رہا تھا خاص طور سے اس دن جس دن سن ٹکنالوجی میں وہ نہ صرف حصہ دار بن گئی تھی بلکہ تمام انتظامی امور کی باگ ڈور بھی اس کو سونپ دی گئی تھی۔

منیر نئے کمرے میں کیا آیا کہ نئی زندگی میں آ گیا۔ ایک ایسی زندگی جس میں سن ٹکنالوجی کا سورج نہ تھا بلکہ اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔ اس نے کبھی سوچا نہ تھا کہ یہ سورج اس طرح اچانک غروب ہو جائے گا۔ پچھلی مرتبہ رات کے بعد آنے والی رات اس کی زندگی میں نئی صبح بن گئی تھی اور اس مرتبہ دن کے بعد آنے والا دن اس کو اماوس کی رات لگ رہا تھا۔ امریکہ کی رات بھر اور ہندوستان کے دن بھر جاگنا اپنا اثر دکھلا رہا تھا وہ سو گیا۔ شام میں فون کی گھنٹی بجی یہ جگانے والا خودکار فون تھا وہ اٹھا اور سامان سمیٹ کر نیچے آ گیا۔

کار ایئر پورٹ جانے کے لیے تیار تھی۔ ہوٹل سے ایئر پورٹ کے راستہ میں جب کار ’’زیرو لینڈ‘‘ کے پاس سے گذرنے لگی تو اس نے ڈرائیور سے کہا وہ گاڑی روک دے۔ منیر نیچے اُترا اور جنگلے کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا۔ اسے ایسا لگا جیسے وہ کسی قبرستان کی دیوار کے پاس کھڑا ہوا جڑواں ٹاور کی یادگار کو دیکھ رہا ہے۔ جیسے یہ دو قبریں ہیں جن کے نیچے مونا اور منیر کی محبت دفن ہے۔ اس کی آنکھوں سے دو آنسو ٹپکے اور زمین میں جذب ہو گئے۔ منیر نے آنکھوں کو پونچھا اور واپس گاڑی میں بیٹھ گیا۔ گاڑی کے ڈرائیور نے سوچا کہ شاید منیر اپنے کسی عزیز کی موت پر آنسو بہا رہا ہے حالانکہ وہ اپنی محبت کا ماتم کر رہا تھا۔

منیر کو براہِ راست فائیٹ میں نشست نہیں مل سکی اس لئے وہ لندن سے ہوتا ہوا لوٹ رہا تھا۔ نیو یارک سے لندن کے درمیان منیر نے اپنے آپ کو دوبارہ پرانے حالات میں ایڈجسٹ میں لگا رہا۔ وہ دوکان، وہاں کے حالات، وہاں کے گاہک اور پھر بات جب مونا تک پہونچی تو وہ پریشان ہو گیا۔ اپنی پریشانی کو دور کرنے کے لیے اس نے آنکھیں بند کر لیں اور جب آنکھ کھلی تو جہاز لندن ایئر پورٹ پر اُتر چکا تھا۔ یہاں اسے دو گھنٹہ گذارنا تھا اور اس کے بعد جب وہ ممبئی کی فلائیٹ میں سوار ہوا تو اپنے بغل میں ویپرو کے عظیم پریم جی کو دیکھ کر چونک گیا۔ اس سے پہلے کہ وہ اپنا تعارف کراتا عظیم بھائی نے خود اپنا تعارفی کارڈ منیر کو تھما دیا اور کہا ’’مجھے عظیم پریم جی کہتے ہیں۔ ‘‘

منیر نے اپنا کارڈ بڑھایا تو اسے دیکھ کر عظیم پریم جی چونک پڑے اور بولے

’’اوہ منیر مونا گونسالویس۔ ‘‘

’’نہیں جناب میرے کارڈ پر منیر عباس بک والا لکھا ہوا ہے۔ ‘‘

’’ہاں ہاں میں دیکھ رہا ہوں لیکن ہماری دنیا میں مونا کو مونا منیر عباس اور منیر کو منیر مونا گونسالویس کے نام سے جانا جاتا ہے۔ میں جانتا ہوں تم دونوں نے مل کر سن ٹکنالوجی کو کہاں سے کہاں پہونچا دیا ہے۔ کیا تمہیں پتہ ہے تمہارے مسابقین تمہیں کس نام سے یاد کرتے ہیں؟ ‘‘

’’نہیں۔ ‘‘ منیر بولا۔

’’راہو کیتو۔ اس لیے کہ تم دونوں جس پروجکٹ میں ہاتھ ڈال دیتے ہو پھر اس سے متعلق تمام لوگوں کے ستارے گردش میں آ جاتے ہیں۔ لوگ واقعی مونا اور منیر کے ساتھ کو رشک و حسد کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ‘‘

منیر نے کہا۔ ’’آپ کی باتیں درست ہیں لیکن اب یہ سب تھا ہو چکا ہے۔ ‘‘

’’اچھا۔ کیا مطلب؟ ‘‘ عظیم نے پوچھا۔

’’میں نے سن ٹکنالوجی کو خیرباد کہہ دیا ہے۔ ‘‘

’’یہ خبر عظیم کے لیے بجلی سے کم نہ تھی وہ جانتا تھا کہ اس کے اول نمبر کی پوزیشن کو سب سے زیادہ خطرہ سن ٹکنالوجی سے ہے اور سن سے مراد مونا اور منیر سے۔ ان دونوں کا جدا ہو جانا اس کے لیے سب سے بڑی خوش خبری تھی لیکن وہ نہیں چاہتا تھا کہ یہ دونوں دوبارہ ایک دوسرے سے جا ملیں اور ایسا کرنے سے روکنے کی بس ایک صورت تھی۔ عظیم پریم جی کا دماغ سپر کمپیوٹر سے بھی زیادہ تیز کام کر رہا تھا۔ اس نے منیر سے کہا۔

’’منیر ویپرو میں ٹاپ پوزیشن خالی ہے یہ تو تمہیں پتہ ہی ہو گا۔ ‘‘

منیر نے کہا۔ ’’نہیں میں نے آج تک سن کے باہر کیا کچھ ہو رہا ہے یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کی۔ ‘‘

’’ہاں ہاں جانتا ہوں ویسے بھی مسابقین کی خبر رکھنا یا لینا مونا کا شعبہ ہے۔ خیر میں تمہیں ویپرو میں وہ پوزیشن آفر کرتا ہوں۔ ہمارے یہاں تمہیں وہ سب ملے گا جو سن ٹکنالوجی میں حاصل تھا بلکہ اس سے زیادہ اور ایک خاص بات یہ ہے کہ تم ہمارے یہاں منیر کی جگہ نہیں بلکہ مونا کے مقام پر فائز ہو جاؤ گے۔ ‘‘

تقدیر کے اس اُلٹ پھیر نے منیر کو دیوانہ بنا دیا تھا۔ لیکن وہ سوچ رہا تھا کہ منیر، مونا بن جانے کے باوجود کیا مونا کے بغیر خوش رہ سکے گا؟ اور کیا مونا، منیر کے بغیر خوش رہ سکے گی؟

’’نہیں شاید نہیں۔ ‘‘ وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑایا۔

عظیم نے پوچھا۔ ’’ کیا نہیں؟ ‘‘

منیر نے کہا۔ ’’نہیں نہیں میرا مطلب ہے ہاں ہاں مجھے آپ کی پیشکش منظور ہے۔ میں آپ کی کرم فرمائی کے لیے آپ کا مشکور ہوں۔ ‘‘

دو گھنٹے بعد منیر اس مقام پر پہونچ گیا تھا جہاں مونا دوسال بعد پہونچنا چاہتی تھی۔







چوسر کا محور



دگڑو ایک چوسر کی بساط پر محوِ خواب تھا۔ اس کی بساط حیات کے ہر کونے پر ایک جانور براجمان تھا۔ دگڑو کے بائیں جانب ایک چاک و چوبند مرغا کھڑا تھا جو عبادت و ریاضت کی علامت تھا اور دائیں طرف شاہی گھوڑا تیار تھا جو سیر تفریح کے کام آتا تھا۔ اس کے پیروں میں ایک حسین و جمیل گائے بندھی ہوئی تھی جس نے دگڑو کی معاشرت کو اپنی سینگ پر سنبھال رکھا تھا اور اوپرسر کی جانب وہ تنومند بیل بیٹھا ہوا تھاجواس کی معیشت کا بوجھ اٹھاتا تھا۔ ان چاروں کا مرکز و محور دگڑو پہلوان چین و سکون کی نیند میں غرق تھا کہ صبح کاذب کو نمودار ہوتا ہوا دیکھ کر مرغا اذان دینے لگا۔ دگڑو کی بیوی چھمیا بیدار ہو گئی اور غسل خانے میں جا کر نماز کی تیاری کرنے لگی۔ مرغے نے ایک نظر دگڑو پر ڈالی تو حیران رہ گیا۔ یہ کیا؟ ککڑوں کوں کی ک‘‘ سے بیدار ہو جانے والا دگڑو ہنوز سو رہا تھا۔

مرغے نے پھر ایک بار اذان دی۔ ایسی طول طویل اور گرجدار اذان کہ مردے بھی اپنی قبروں سے نکل کر باہر آ جائیں لیکن دگڑو پر اس کا بھی کوئی اثر نہیں ہوا۔ چھمیا نے دور سے دگڑو کے بے حس و حرکت جسم کو دیکھا تو اسے اندیشہ ہوا کہ کہیں دگڑو مر تو نہیں گیا، اس کی روح قفسِ عنصری سے پرواز تو نہیں کر گئی؟ اس لئے کہ اس کی طویل ازدواجی زندگی میں ایسا پہلی بار ہوا تھا۔ عام طور پریہ چھمیا کا معمول تھا کہ جس میں اس روز دگڑو گرفتار تھا۔ روزانہ دگڑو اول تو چھمیا کو جگا کر حمام میں جاتا اور واپس آ کر پھر اس کے چہرے پر پانی مارتا تب جا کر وہ بیدار ہوتی۔ اس کے بعد دگڑو مسکرا کر سلام کرتا اور اپنی جا نماز کی جانب بڑھ جاتا نیز چھمیا غسل خانے کا رخ کرتی۔

چھمیا نے واپس ہوتے ہوئے سوچا کیوں نہ دگڑو کے منہ پر چھڑ کنے کے لئے چلو ّمیں پانی لے لیا جائے؟ لیکن پھر خیال ہوا لاش پر بھلا چھینٹوں کا کیا اثر ہو سکتا ہے؟ جس کو صور اسرافیل بیدار کرنے میں ناکام ہو جائے، پانی کے چند قطرے اس کا کیا بگاڑ سکتے ہیں؟ چھمیا کو دگڑو کی موت سے زیادہ افسوس اس کے اس طرح سوئے پڑے رہنے کا تھا۔ موت تو یقینی ہے۔ اسے ایک نہ ایک دن آنا ہی ہے اور اگر آج آنا تھا تو آ گئی اس میں کیا عجیب ہے؟ لیکن مرغا اذان دے اور دگڑو نہ اٹھے یہ یقیناً حیرت انگیز ہے۔

چھمیا سوچنے لگی کہ اگر دگڑو کو مرنا ہی تھا تو اس نے اس وقتِ خاص کا انتخاب کیوں کیا؟ رات جس طرح اچھا بھلا سویا تھا۔ اسی طرح صبح اٹھتا۔ نماز پڑھتا۔ مویشیوں کو چارہ ڈالتا۔ کھیت میں جاتا۔ واپس آتا۔ کھانا کھاتا۔ اپنے گھوڑے پر بیٹھ کر سیرو تفریح کیلئے جاتا۔ گھر آ کر بچوں کے ساتھ دل بہلاتا۔ اس کے بعد چھمیا سے دن بھر کی روداد کہہ سن کر سو جاتا اور مر جاتا۔ یہ علی الصبح جاگنے کے وقت موت کے منہ میں چلے جانا کسی طور پر مناسب نہیں تھا۔ لیکن چھمیا نہیں جانتی تھی کہ جیسا وہ چاہتی تھی بعینہٖ ویسا ہی ہوا تھا۔ دگڑو نے کل وہی سب کیا تھا جو چھمیا آج پھر اس کو کرتے ہوئے دیکھنا چاہتی تھی۔ حقیقت تو یہ ہے چھمیا ہر روز دگڑو کو وہی سب کرتے دیکھنا چاہتی تھی۔

اپنی شادی کے بعد سے چھمیا یہ سب دیکھنے کی اس قدر عادی ہو گئی تھی کہ وہ چاہتی تھی دگڑو ان کاموں سے کبھی بھی باز نہ آئے۔ جس کے معنیٰ یہی تھے کہ وہ مرے ہوئے دگڑو کو دیکھنا نہیں چاہتی تھی۔ چھمیا یہ بھی جانتی تھی کہ اس دارِ فانی میں سب کچھ ممکن لیکن یہ نا ممکن ہے کہ دگڑو کو موت نہ آئے لیکن اس کے باوجود چھمیا یہ چاہتی تھی کہ دگڑو کو موت نہ آئے وہ تا قیامت زندہ رہے یا کم از کم اس کی موت سے قبل تو ہر گز موت کی آغوش میں نہ جائے۔ وہ دگڑو کی موت کو بھی اپنے قبضہ قدرت میں کرنا چاہتی تھی۔ وہ اپنے آپ کو دگڑو کی زندگی اور موت کا مالک جو سمجھنے لگی تھی۔

دگڑو کی سوچ بھی چھمیا سے مختلف نہیں تھی۔ وہ بھی اپنے ہوتے چھمیا کو کسی کی آغوش میں جانے کی اجازت نہیں دے سکتا تھا۔ وہ موت کے پنجوں سے بھی چھمیا کو چھڑا کر لانے کا عزم و حوصلہ اپنے اندر رکھتا تھا۔ وہ اس مقصد کے حصول کیلئے اپنی جان کی بازی لگا سکتا تھا اس لئے کہ چھمیا کے بغیر زندہ رہنا اس کیلئے ایک بے معنیٰ شغل تھا۔ ایک ایسا سفر جس کی کوئی منزل نہ ہو۔ چھمیا اس کی نہ صرف ہمسفر تھی بلکہ منزل مقصود بھی تھی۔

چھمیا نے اپنا کانپتا ہوا ہاتھ دگڑو کی پیشانی پر رکھا تو اسے بجلی کا جھٹکا لگا۔ اس کا اپنا ہاتھ سرد تھا اور دگڑو کی پیشانی گرم تھی۔ دگڑو زندہ تھا، چھمیا کو یقین نہیں آ رہا تھا۔ مرغے نے ایک نہیں دو بار اذان دی اور پھر بھی دگڑو نہیں اٹھا۔ باوجوداس کے کہ وہ زندہ ہے! تو یہ کیسی زندگی ہے؟ بے یقینی کے عالم میں چھمیا نے اپنی انگلی دگڑو کے نبض پر رکھ دی اوراس کے حیرت کی انتہا نہ رہی۔ نبض بدستورچل رہی تھی دگڑو کی رگوں میں خون زور و شور سے دوڑ رہا تھا لیکن اس کا جسم بے حس و حرکت پڑا تھا۔ چھمیا اس کیفیت کو سمجھنے سے قاصر تھی۔ مرغے کی آواز کے بعد چھمیا کا لمس بھی دگڑو کو بیدار کرنے میں ناکام ہو چکا تھا۔

چھمیا نے سوچا اسے نماز پڑھ لینی چاہیئے ورنہ سورج اس کا مذاق اڑائے گا کہے گا بے وقوف عورت وہ تو سو رہا تھا اس لئے نماز نہ پڑھ سکا لیکن تو ! تو تو جاگ رہی تھی۔ تجھے اپنے رب کے سامنے حاضری دینے سے کس چیز نے روک رکھا تھا؟ چھمیا بوجھل قدموں کے ساتھ جا نماز پر آ کر کھڑی ہو گئی۔ آج پہلی بار اس کے پاس پڑی دگڑو کی جا نماز ویران تھی۔ مرغے نے بھی یہ منظر اس سے قبل کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس صورتحال کیلئے اس نے اپنے آپ کو قصور وار ٹھہرایا اور دگڑو کے سوئے پڑے رہنے کو اپنی ناکامی پر قیاس کیا۔ اب کیا تھا غم و غصہ کے عالم میں اس نے تیسری اور فیصلہ کن اذان کا آغاز کر دیا۔

چھمیا دنیا اور مافیہا سے بے نیاز اپنی نماز میں کھوئی ہوئی تھی۔ وہ تھی اور اس کا رب تھا۔ سارے جہان میں کچھ اور نہیں تھا۔ نہ دگڑو تھا، نہ مرغا، نہ بچے تھے اور نہ گھوڑا۔ نہ گائے تھی، نہ بیل تھا، نہ کھیت تھا اور نہ گھر۔ سب کچھ موجود تھا اس کے باوجود کچھ بھی نہیں تھا۔ بس وہ تھی اور اس کا رب تھا۔ چھمیا اپنے رب سے سرگوشی کر رہی تھی اور مرغا اذان دے رہا تھا۔ دل کی گہرائی سے اٹھنے والی اس اذان نے سارے عالم کو بیدار کر دیا تھا۔ سورج اپنی گھڑی دیکھتا ہوا طلوع ہو رہا تھا مبادا اس سے تاخیر تو نہیں ہو گئی جو مرغا اس قدر غضبناک ہو رہا ہے۔ مرغے کی اس دیوانہ وار اذان نے شجر، حجر، ہوائیں، فضائیں اور کوہ و دمن سب کی نیند اڑا دی تھی۔ دگڑو کے دو ننھے بچے جو دیر گئے سونے کے عادی تھے وہ بھی جاگ گئے تھے۔ انہوں نے اپنے پہلو سے اپنی ماں کو غائب پایا تو چیخ چیخ کر رونے لگے۔

دنیا میں آنے کے بعد یہ ان بچوں کا دوسرارونا تھا۔ چھمیا ان کا اس قدر خیال رکھتی تھی کہ کبھی اس کی نوبت ہی آنے نہ دیتی۔ ان کی ہر ضرورت رونے چیخنے سے پہلے ہی پوری کر دیتی اور پھر ان معصوم بچوں کی ضرورتیں بھی کیا تھیں؟ نہایت ہی مختصر سی بھوک انہیں رلا سکتی تھی مگر چھمیا اس کے لگنے سے پہلے ہی انہیں کھلا پلا دیتی تھی۔ چھمیا کی ممتا کے آغوش میں وہ معصوم بچے دن رات کھیلتے کودتے، کھاتے پیتے اور سوتے جاگتے رہتے تھے۔ وہ کھیلتے کھیلتے تھک جاتے تو سو جاتے اور سوتے سوتے تھکتے تو کھیلنے لگتے۔ درمیان میں کھا پی لیتے تھے اس لئے کہ ایندھن کے بغیر یہ گاڑی چل نہیں سکتی تھے۔ غذا کے بغیر نہ کھیلنا ممکن تھا اور نہ سویا جاتا تھا۔

بچوں کی چیخ پکار نے دگڑو کو بیدار کر دیا۔ وہ بیداری کے عالم میں بھی خواب دیکھ رہا تھا۔ وہ اس خواب سے بیدار ہونا نہیں چاہتا تھا۔ خواب کا ایک ایک منظر اس کی آنکھوں کے آگے تیر رہا تھا۔ وہ حسین مناظر کے سرورمیں مست تھا لیکن بچے تھے کہ سارا مزہ کر کرا کئے دے رہے تھے۔ اسے یاد آیا ان بچوں کا پہلی بار رونا اسے کس قدر بھلا معلوم ہوا تھا۔ ایک رونے کے ہزار معنی تھے۔ پیدائش کے بعد رونے کی آواز سن کر دگڑو جھوم اٹھا تھا۔ دائی نے کہا تھا زندہ ہے ! صحتمند ہے ! قوت گویائی کا حامل ہے ! اسے بھوک لگی ہے ! یہ غذا کا طلبگار ہے ! اس کیلئے ہاتھ پیر مار رہا ہے ! اِدھر اُدھر تاک رہا ہے !

دگڑو جاگتے ہی بچوں کو بہلانے پھسلانے میں جٹ گیا۔ وہ اس بات کو پوری طرح بھول گیا کہ صبح کے وقت نماز بھی پڑھی جاتی ہے۔ مرغا، گائے، بیل اور گھوڑا سبھی اس منظر کو حیرت سے دیکھ رہے تھے لیکن سب سے زیادہ حیران چھمیا تھی۔ اس کیلئے ایک لاش اپنی جگہ پر اٹھ بیٹھی تھی۔ چھمیا نے قریب آ کر غصہ سے کہا یہ کیا؟ نماز وماز نہیں پڑھنی ہے کیا؟

نماز؟ کیسی نماز؟ ؟ دگڑو بولا سورج آنسو بہا رہا تھا اور ابلیس قہقہہ لگا رہا تھا۔ مرغا جھلا رہا تھا۔ بچے رو رہے تھے اور چھمیا شرم سے پانی پانی ہو رہی تھی۔

چھمیا کی آہٹ نے بچوں کو چپ کر دیا۔ ایک کلکاریاں مارنے لگا دوسرا تالی بجانے لگا دگڑو کیلئے یہ ماجرہ باعث حیرت تھا۔ جو بچے ہزار جتن کرنے پر نہیں مان رہے تھے اچانک چپ کیسے ہو گئے؟ دگڑو اپنے آپ سے یہ سوال کر رہا تھا وہ بے چارہ نہیں جانتا تھا کہ بچوں کو جو کچھ چاہیئے تھا سو مل گیا۔ ان کیلئے ماں ہی سب کچھ تھی۔ د گڑو کی ان کے نزدیک نہ کوئی حیثیت تھی اور نہ ضرورت، اس لئے وہ شور مچا رہے تھے۔ چھمیا کے پاس آتے ہی شور شرابے کی ضرورت ہی ختم ہو گئی تھی۔ چھمیا نے دونوں بچوں کو چھاتی سے لگایا اور وہ کھانے پینے میں لگ گئے۔ ان کا کھانا بھی وہی تھا اور پینا بھی وہی۔

چھمیا نے دگڑو سے پوچھا آج آپ کو یہ کیا ہو گیا؟ ایسا تو پہلے کبھی بھی نہیں ہوا؟ ؟

دگڑو ندامت بھرے انداز میں بولا جی ہاں چھمیا نہ جانے کیوں آنکھ ہی نہیں کھلی

آنکھ نہیں کھلی یا نہیں کھولی؟ چھمیا نے پوچھا

دونوں سمجھ لو اول تو کھلی نہیں اور جب کھلی بھی تو میں نے بند کر لی

چھمیا نے حیرت سے سوال کیا بند کر لی؟ کیا مطلب؟

مطلب یہ کہ بند کر لی اور کیا؟

یعنی جان بوجھ کر؟ اس کی کوئی وجہ بھی ہے یا بس یونہی۔۔ ۔۔ ۔۔

دگڑو بولا رات کی تھکن اور رات کا سرورنے مجھے اپنے پنجوں میں جکڑ لیا تھا چھمیا۔ میں ان سے اپنے آپ کو آزاد نہ کر سکا اور نہ جانے کب تک اس خمار میں گرفتار رہتا لیکن کمبخت اس مرغے نے سارا مزہ کر کرا کر دیا۔

مرغے نے؟ اس بیچارے نے ایسا کیا کیا جو آپ اس سے ناراض ہو رہے ہیں؟

دگڑو بولا آج تو ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے اس کا دماغ خراب ہو گیا ہے۔

چھمیا بگڑ کر بولی اس کا یا تمہارا؟ اس نے تو وہی کیا جو وہ ہر روز کرتا ہے ! کون سا نیا کام کر دیا اس غریب نے؟ ہر دن وہ اذان دیتا ہے اور تم اس کے ہر فقرے کا جواب دیتے ہو۔ یہی تو تمہارا چہیتا پرندہ بھی ہے چرندہ بھی۔ علی الصبح تمہیں جگاتا ہے۔ کھیت کے راستہ میں دور تک تمہارے پیچھے جاتا ہے اور شام کے وقت آنگن میں نکل کر تمہاری راہ دیکھتا ہے۔ تمہیں پتہ ہے کل جب تم رات دیر گئے تک نہیں آئے تو تمھارے فراق میں اس نے دانہ دنکا کچھ بھی نہیں چگا۔ میں نے سمجھایا پچکارا لیکن اس پر کوئی اثر نہ ہوا وہ ایک ٹک راستہ کو دیکھتا رہا یہاں تک کہ اندھیرے نے راستے کو نگل لیا اور نیند مرغے کو نگل گئی۔

اور تم خود بھی سو گئیں؟ دگڑو نے سوال کیا

جی ہاں میں بھی سو گئی اورسوتی نہیں تو کیا کرتی؟ دن بھر بچے، گھر، مویشی، کھانا، صفائی اور پھر جلدی اٹھنا بھی تو تھا۔ اگر رات گئے جاگتی تو صبح اٹھنے میں دقت ہوتی۔

اور ہاں یہ مرغا بھی تو ہمارے آرام کا دشمن ہے۔ یہ کب ہمیں اپنی نیند پوری کرنے دیتا ہے۔ دگڑو بولا

آپ بلا وجہ اس پر ناراض ہو رہے ہیں ! اس کا کیا قصور اس نے اپنا کام کیا، سوچا ہو گا کہ اگر آپ نہ جاگیں گے تو اس سے ناراض ہو جائیں گے۔

دگڑو بولا تم اس کی زیادہ طرفداری نہ کرو۔ یہ بڑا خودسر ہو گیا ہے اس کا کچھ نہ انتظام کرنا ہی ہو گا۔ ایک بار اذان دی ٹھیک ہے۔ دوسری بار اس کی کیا ضرورت تھی اور تیسری بار تو حد ہو گئی۔

چھمیا نے تعجب سے پوچھا تیسری بار؟

جی ہاں اس کی تیسری اذان سے ہی تو بچے جاگے تھے اور تم کو اپنے پاس نہ پا کر رونے لگے۔ مجبوراً مجھے اٹھنا پڑا اور تم۔

چھمیا منھ بسور کر بولی اور میں کیا؟ بچوں کو میں نے تو نہیں جگایا جو تم مجھ پر برہم ہو رہے ہو؟

نہیں ایسی بات نہیں مگر تم نہ جانے کتنی لمبی نماز پڑھ رہی تھیں۔ ایسا لگ رہا تھا گویا اپنی زندگی کی آخری نماز پڑھ رہی ہو۔ دگڑو نے جھلا کر کہا

چھمیا بولی نماز تو ایسے ہی پڑھی جاتی ہے۔ کیا کوئی اور طریقہ بھی ہے نماز کا؟

ارے بھئی عمر پڑی ہے ! اور بھی تو غم ہیں زمانے میں، ان کا بھی تو پاس و لحاظ کرنا چاہئے یہ کیا کہ دنیا و ما فیہا سے بے خبر کھڑے ہو گئے۔ کیا ہر نماز آخری نماز ہو سکتی ہے؟

آپ کی منطق بجا ہے لیکن یہ کیسے معلوم کیا جائے کہ کون سی والی آخری ہو گی؟

چھمیا ایک بات بولوں آج کل تم بھی اس مرغے کی مانند زبان دراز ہو گئی ہو۔ دونوں کسی چیز کے پیچھے پڑ جاتے ہیں تو مانتے ہی نہیں۔ دگڑو بیزاری و غصے سے بولا۔

چھمیا گھبرا گئی اس لئے کہ اب یہ بلا مرغے سے مڑ کر اس کی جانب آ رہی تھی۔ وہ بولی سچ تو یہ ہے کہ میں نے نہ تو مرغے کی تیسری بانگ سنی اور نہ بچوں کے رونے کا شور، خیر آپ منہ ہاتھ دھو لیں، کیا آج کھیتی باڑی کی چھٹی ہے؟

کیسی باتیں کرتی ہو چھمیا۔ کھیت نہیں جاؤں گا تو ہم کھائیں گے کیا؟ بچے دوبارہ سوچکے تھے۔ دگڑو غسل خانے کی جانب مڑا اور چھمیا باورچی خانے میں جا کر ناشتہ بنانے لگی۔ تھوڑی دیر تک اس نے دگڑو کے رویہ میں آنے والی تبدیلی پر غور کیا لیکن جب کچھ سمجھ میں نہیں آیا تو یہ سوچ کر وہ خیال جھٹک دیا کہ دماغ پر زور ڈالنے سے بہتر ہے آٹا گوندھا جائے اور پراٹھے سینکے جائیں۔ آلو کے گرم گرم پراٹھے جو دگڑو کو بے حد پسند ہیں۔

گھر میں بنے اصلی گھی کے پراٹھوں کو مٹی کے برتن میں جمے ہوئے دہی کے ساتھ کھا کر دگڑو کی طبیعت مست ہو گئی۔ اب وہ گرما گرم چائے سے لطف اندوز ہو رہا تھا کہ چھمیا نے سوال کر دیا رات کہاں نکل گئے تھے؟

دگڑو نے ٹھنڈی سانس بھر کے کہا چھمیا تم کیا جانو کہ دنیا کس قدر حسین و رنگین ہے۔

چھمیا نے پہلی بار دگڑو کی زبان سے اپنے علاوہ کسی اور کے حسن کی تعریف سنی تھی۔ وہ چڑ کر بولی مجھے پتہ ہے میں بھی زمین ہی پر رہتی ہوں آسمان پر نہیں رہتی۔

چھمیا تم نہیں جانتیں یہ جنگل، پہاڑ، جھرنے کتنے خوبصورت اور دلفریب ہیں۔ کھلے پربت پر ہواؤں اور فضاؤں میں کیسی تازگی اور سرور پایا جاتا ہے۔ کل میں اپنے گھوڑے پر بیٹھ کر دور جنگلوں میں نکل گیا تو پتہ چلا کہ قدرت کے مناظر میں عجب نغمگی ہے۔ بس یہ سمجھ لو طبیعت میں تازگی آ گئی اور سارا وجود روئی کے گالے کی مانند ہلکا پھلکا ہو گیا۔

ہلکا ہو گیا؟ چھمیا نے دگڑو کا جملہ دہرایا پہلے تو تم صبح صبح پھول کی مانند ہلکے پھلکے اٹھتے تھے جبکہ آج پتھر کی طرح ساکت و جامد پڑے ہوئے تھے۔ یہ کون سی تازگی ہے بھلا؟

چھمیا تم اس گھر کی چہار دیواری میں بند رہنے والی ایک بے وقوف عورت ہو تمہیں کیا پتہ کہ رات کیا ہوتی ہے؟ وہ اپنے اندر کیا کیا نیرنگیاں رکھتی ہے؟ میں تو صبح تک اس کے خمار میں مست تھا۔

لعنت ہو ایسے خمار پر جو صبح کا سرور چھین لے۔ کیا صبح میں کچھ بھی نہیں ہوتا؟

ہاں ہاں تو میں کب اس کا منکر ہوں۔ زندگی کی ابتداء تو سویرا ہی ہے۔ ابھی گنگا جمنا کے سامنے چارہ ڈال کر میں کھیت میں جانے کی تیاری کرتا ہوں۔ تم جمنا کا دودھ دوہنا میں گنگا کو اپنے ساتھ لے کر کھیت نکل جاتا ہوں۔

چھمیا نے مرغے کی جانب دیکھ کر کہا کیا صبح میں کچھ اور نہیں ہوتا؟

میں سب جانتا ہوں۔ تم مجھے نصیحت نہ لگاؤ۔ چھمیا چپ ہو گئی

ناشتے کے بعد دگڑو نے گنگا اور جمنا کو نہلانے دھلانے کے بعد ان کے آگے چارہ ڈالا اور خود کھیت میں جانے کیلئے کپڑے بدلنے لگا۔ لوٹا تو دروازے پر گنگا اور مرغا حسبِ معمول منتظر تھے۔ اسے آتا ہوا دیکھ کر دیکھ کر وہ دونوں بھی چل پڑے لیکن دگڑو کے اندر کا احساسِ جرم مرغے سے آنکھیں چرا رہا تھا۔ مرغا اس روز دگڑو کے ساتھ بہت دور تک اس امید میں چلتا رہا کہ دگڑو اسے واپس جانے کا اشارہ کرے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔

مرغے کے قدم بالآخر جم گئے وہ راستے ہی میں بیٹھ گیا اور دگڑو کو اپنے سے دور جاتا ہوا دیکھنے لگا۔ دور بہت دور کہیں دور۔ حالانکہ یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ ایسا تو ہر روز ہوتا تھا کہ دگڑو راستے میں ساتھ چھوڑ جاتا لیکن چونکہ بچھڑنے سے قبل وہ مرغے کو پیار سے گھر کی جانب روانہ کر دیتا تھا اس لئے یہ منظر دیکھنے کی نوبت پہلے کبھی نہیں آئی تھی۔

مرغے نے ٹھہر کر سوچا یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ اور کیوں ہو رہا ہے؟

ان سوالات کے جواب میں اس کا اپنا نفس بولا۔

اے بیوقوف مرغے تو کس کے پیچھے چلا جا رہا ہے؟

اب تیرے آقا کو تیری ضرورت نہیں رہی۔

اب تو اس کا اثاثہ نہیں بلکہ اس پر بوجھ بن چکا ہے۔

خوددار مرغا کسی پر بوجھ بن کر زندگی گزارنا نہیں چاہتا تھا اس نے اپنے مستقبل کے بارے میں ایک حتمی فیصلہ کر کے جنگل کا رخ کیا۔ اس جنگل کا جس کے بارے میں وہ کچھ بھی نہیں جانتا تھا لیکن اس کے باوجود وہ چل پڑا اور نہ جانے کب تک یونہی بے شعوری کے عالم میں چلتا چلا گیا۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

دگڑو کھیت میں پہونچتے ہی کام لگ گیا۔ گنگا کو ہل سے جوت کر چلانے لگا۔ دوپہر تک زمین نرم اور اس کا دماغ گرم ہو گیا۔ بھوک کی آگ اس کے سارے وجود کو جھلسا رہی تھی۔ ایسے میں چھمیا شبنم کی ٹھنڈک بن کر نمودار ہو گئی۔ وہ دونوں ایک گھنے پیڑ کے سائے میں بیٹھ گئے۔ پتے پنکھا جھل رہے تھے ان کی نمی ہوا کو خوشگوار بنا رہی تھی اور پھر گرم گرم گھی لگی روٹیاں، ساگ پنیر کے ساتھ ٹھنڈی لسی سب کچھ دلپذیر تھا۔ چھمیا پہلے دگڑو کو کھلاتی رہی اور جب وہ فارغ ہو گیا تو اس کی طشتری میں خود کھانے لگی۔

دگڑو پیڑ کے تنے سے ٹیک لگا کر سستا رہا تھا وہ شام کی سیر و تفریح کے بارے میں سوچ سوچ کر محظوظ ہو رہا تھا کہ اچانک اسے صبح کا خیال آیا اور پھر وہ مرغے کے بارے میں غور کرنے لگا۔ مرغا جو اس کا دشمن بنا ہوا تھا۔ اس کی نیند کا بیری، اس کی فرحت و شادمانی کا سوتن، جس نے صبح سویرے اس کی نیند غارت کر کے سارا مزہ کر کرا کر دیا تھا۔ چھمیا نے ہینڈ پمپ سے پانی نکال کر برتن دھوئے اور ایک برتن میں وضو کا پانی لے آئی۔

معمول تو یہ تھا کہ دگڑو کچھ دیر سستانے کے بعد ظہر کی نماز پڑھتا اور کام میں لگ جاتا چھمیا اپنے گھر کی جانب چل پڑتی۔ دگڑو وضو کر رہا تھا۔ چھمیا جا نماز بچھا کر اپنی گٹھری باندھ رہی تھی۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد دگڑو پھر ایک بار اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔ جب شام کے سائے لمبے ہونے لگے تو اس نے گنگا کے آگے چارہ پانی ڈالا۔ خود وضو کر کے نمازِ عصر ادا کی اور اپنے گھر کی جانب نکل پڑا۔ کھیت سے گھر آتے آتے مغرب کا وقت ہو جاتا تھا۔

دگڑو کا معمول تھا گھر آ کر مغرب کی نماز ادا کرنا اور اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر سیر کیلئے نکل جانا۔ عشاء تک واپسی اس کے بعد کھانا اور آرام تاکہ علیٰ الصبح اٹھ کر دوبارہ اپنی ذمہ داریوں کو ادا کیا جا سکے۔ لیکن گزشتہ کل اس میں ایک معمولی سی تبدیلی واقع ہوئی تھی۔ وہ عشاء تک لوٹ کر آنے بجائے دور دراز کے پربت پر نکل گیا اور واپس آتے آتے اس قدر تھک گیا کہ نماز پڑھے بغیر ہی بستر پر اس طرح ڈھیر ہوا کہ فجر کی نماز بھی ادا نہ کر سکا تھا لیکن اس کو کوئی افسوس نہیں تھا۔ اپنی تفریح سے شاداں و فرحاں وہ اب کچھ اور آگے جانے کا ارادہ رکھتا تھا۔ لیکن دگڑو بھول گیا تھا کہ جتنی لمبی مسافت اتنا زیادہ وقت اور اتنی ہی زیادہ تاخیر۔ دگڑو کسی ایسی ترکیب کے بارے میں سوچنے لگا جس کی مدد سے اپنے دن کو ۲۴ کے بجائے ۳۶ گھنٹے کا بنا سکے لیکن یہ بھلا کس کیلئے ممکن تھا جو اس کے لئے ممکن ہوتا؟

دگڑو کو اس بات کا افسوس تھا کہ اس قدر شاندار گھوڑا رکھنے کے باوجود وہ اپنی سیرو تفریح پر کس قدر کم وقت صرف کرتا تھا۔ لیکن اس کے معمولاتِ زندگی کسی رد و بدل کی اجازت ہی نہ دیتے تھے۔ اس ادھیڑ بن میں اس کے اندر چھپی لومڑی نے ترکیب سجھائی کیوں نا معمولات حیات میں معمولی سی تبدیلی کر کے وقت نکالا جائے؟

اس سوال نے ایک نئے سوال کو جنم دیا کہ آخر وہ کون سی تبدیلی ہے جو سب سے کم بے ضرر ہے؟ دگڑو زندگی میں پہلی بار خود اپنے بارے میں سوچ رہا تھا وہ بڑی سنجیدگی کے ساتھ اپنے روز و شب کی سرگرمیوں کا جائزہ لے رہا تھا تاکہ سیرو تفریح کے اوقات میں اضافہ کیا جا سکے۔ اس لئے کہ کسی نہ کسی غیر ضروری یا کم اہم کام کو کم کرنا لازمی تھا۔

اپنے دن کی ابتدا میں اسے جمنا نظر آئی لیکن اس پر صرف ہونے والے وقت میں کسی قسم کی کمی خطر ناک ہو سکتی تھی۔ جمنا کے دودھ پر اس کا پورا خاندان انحصار کرتا تھا۔ کس قدر مفید فردِ خانہ تھی یہ گنگا؟ دودھ، دہی، لسی، گھی اور پنیر سب کچھ اسی کی بدولت تھا۔ اس کی حق تلفی خود اپنی ذات سے لے کر بیوی بچوں تک کو ناحق پریشان کرنے کے مترادف تھی۔ دگڑو کی معاشرت کا محور یہی جانور تھا۔ اسی کے ساتھ دگڑو کی نگاہ میں جمنا کا احترام بڑھ گیا۔

جمنا کے بعد دگڑو کی توجہ گنگا کی جانب مبذول ہوئی تو اسے پتہ چلا یہ تو معیشت کی شاہِ کلید ہے اگر وہ گنگا کے ساتھ کھیت میں آ کر کام نہ کرے تو سارا خاندان بھوکوں مر جائے گا۔ موت کے خیال سے خوفزدہ ہو کر دگڑو نے گنگا کے بارے میں سوچنا بند کر دیا۔ اب لے دے کہ اس کی مختصر سی کائنات میں مرغا بچ گیا تھا جس کا بظاہر کوئی خاص فائدہ نہیں تھا۔ مرغا بس ایک کام کرتا تھا۔ صبح صبح اذان دے کر اسے بیدار بلکہ بیزار کرنے کا کام۔ اب وہ مرغے کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ کس طرح اس کا گلا گھونٹا جائے کیونکر اسے اپنی حرکت سے باز رکھا جائے۔ اسی اُدھیڑبن میں وہ گاؤں کے بازار سے گذر رہا تھا کہ اس کی نظر بڑھئی کی دوکان میں سجے ڈربے پر پڑی۔

دگڑو نے پوچھا یہ کیا ہے؟

مرغیوں کا ڈربہ ہے صاحب۔ لکڑو بڑھئی مسکرا کر بولا

اس کا کیا استعمال ہے؟ دگڑو نے دوسرا سوال کیا

کیسی بات کرتے ہیں آپ؟ جیسے انسانوں کا گھر ویسے مرغیوں کا گھر؟ اب گھر کی ضرورت اور فائدہ کون نہیں جانتا؟

دگڑو بولا لیکن میرا مرغا تو میرے ساتھ میرے اپنے گھر میں رہتا ہے۔ اس کیلئے تو میں نے کوئی علحٰدہ گھر نہیں بنوایا؟

یہ تو آپ کی محبت ہے صاحب کہ آپ اسے اپنے پاس رکھتے ہیں ورنہ عام طور سے لوگ انہیں اپنے سے دور رکھتے ہیں .

لیکن اس سے کیا فائدہ؟ دگڑو پر اس روز فائدہ اور نقصان کا بھوت سوار تھا

لکڑو بولا فائدے تو بہت ہیں مثلاً ان کی گندگی سے گھر محفوظ رہتا ہے۔

لیکن میرا مرغا تو گھر میں کوئی گندگی پھیلاتا ہی نہیں۔

اوہو آپ نے بڑا سمجھدار پرندہ پال رکھا ہے؟ لیکن شور شرابہ بھی تو ہوتا ہے؟

شور شرابہ! جی ہاں شور شرابہ؟ دگڑو کے چودہ طبق روشن ہو گئے۔ اس نے اپنے آپ سے کہا، میں اس ڈربے کو اپنی آرام گاہ سے دور رکھوں گا، بہت دور، اور اس مرغے کو اس میں بند کر دوں گا پھر وہ کمبخت جتنا چاہے شور مچائے؟ میری اور بچوں کی نیند نہیں خراب ہو گی۔ دس سیر دودھ اور فصل کی کٹائی پر ایک بورا گیہوں کے عوض دگڑو ڈربہ لے آیا۔

چھمیا نے جب بیل کی پیٹھ پر رکھا ڈربہ دیکھا تو پوچھا یہ کیا اٹھا لائے؟

دگڑو ناراضگی سے بولا دکھلائی نہیں دیتا۔ یہ ڈربہ ہے۔ مرغے کا آشیانہ۔ ہم بے وقوف لوگ ہیں جو اسے اپنے گھر میں رکھتے ہیں۔ میں اس کیلئے بھی ایک گھر لایا ہوں اور اسے گنگا جمنا کے طویلے سے آگے پچھواڑے کی جانب نسب کر دوں گا۔

چھمیا ہنس کر بولی کہ چونکہ مرغے کا گھر لے آؤ تو کم از کم ایک عدد مرغا بھی لے آنا

کیا مطلب؟ میں سمجھا نہیں دگڑو نے سوال کیا

مطلب صاف ہے۔ آج صبح ہمارا مرغا جو آپ کے ساتھ گیا تو واپس لوٹ کر نہیں آیا

اچھا ! لیکن دوپہر کو کھانے کے وقت تم نے اس کا ذکر نہیں کیا؟

جی ہاں وہ میری غلطی تھی۔ میں سوچ رہی تھی صبح کا بھولا شام تک لوٹ کر آ جائے گا لیکن اب تو مغرب کا وقت بھی نکل گیا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ شاید وہ اب کبھی واپس نہیں آئے گا۔

اچھا ہے خود ہی چلا گیا، خس کم جہاں پاک۔ ویسے بھی اس کے ہونے نہ ہونے سے ہمارا کون سا کام رکنے والا ہے؟

لیکن اب اس ڈربے کا کیا کریں؟

دگڑو بولا ہمارے بازار کا اصول یہ ہے کہ سودہ ہو گیا تو ہو گیا نہ مال لوٹایا جاتا ہے اور نہ اس کا معاوضہ۔ اس لئے اب لے آیا ہوں تو اسے رکھ لو۔ ہو سکتا ہے مرغا کبھی لوٹ ہی آئے اور ہمیں اس کی ضرورت پڑ جائے؟ چھمیا نے اپنے خاوند کی اطاعت میں ڈربے کو رکھ تو لیا لیکن اسے یقین تھا کہ اب وہ مرغا لوٹ کر نہیں آئے گا۔

مغرب کی نماز سے فارغ ہو کر دگڑو نے گھوڑے کو تیار کیا اور سیر کیلئے نکل گیا۔ مرغے کی غیر موجودگی نے اس کے سر سے ایک بوجھ ہلکا کر دیا تھا۔ اسے اطمینان تھا کہ وہ آج جس قدر دور جائے، جتنا بھی تاخیر سے آئے اور جتنا چاہے سوئے کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ دگڑو رات دیر گئے تک سیرو تفریح کرتا رہا اور صبح دن نکلے تک بستر میں پڑا رہا۔ جب جاگا تو گنگا جمنا کی خدمت میں لگ گیا۔ ان کو چارہ ڈالنے کے بعد خود غسل خانے میں گھس گیا۔ واپس آ کر ناشتہ کیا اور گنگا کے ساتھ کھیت کی جانب روانہ ہو گیا۔

چھمیا جمنا کا دودھ دوہتے ہوئے سوچ رہی تھی برسوں پرانی عادتیں کس قدر جلد بدل جاتی ہیں انسان واقعی جلد باز واقع ہوا ہے۔ لیکن دگڑو ان تبدیلیوں کے احساس سے یکسر بے نیاز تھا، اس کی زندگی سے مرغا اس طرح غائب ہو چکا تھا جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ ہاں اس کی یادگار کے طور پر ایک ڈربہ رہ گیا تھا جو بد قسمتی سے اس کے نکل جانے بعد وارد ہوا تھا۔ اب چھمیا کو اپنا پیٹ کاٹ کر ہر روز ایک سیر دودھ بڑھئی کو دینا تھا اور فصل تیار ہو جانے ہر ایک بورا اناج اسے بھی مرغے سے زیادہ قلق دودھ اور اناج کے خسارے کا تھا۔

ایک دن کھیت میں دوپہر کو اچانک مرغے کا ذکر نکل آیا تو چھمیا بولی مرغے کے چلے جانے کے بعد گھر میں کچھ خالی خالی سا لگتا ہے

دگڑو بپھر کر بولا خالی، خالی؟ کیا خالی؟ تمہارا دماغ تو درست ہے؟

چھمیا گھبرا گئی کچھ نہیں، بس وہ جو ڈربہ آپ اپنے ساتھ لائے تھے، اس میں چوہوں نے گھر بنا کر کافی ساری غلاظت پھیلا رکھی ہے۔ اگر مرغا ہوتا تو یہ سب نہ ہونے دیتا۔

اگر ایسا ہے تو یہ تمہاری غلطی ہے۔ اپنی لاپرواہی کی پردہ پوشی تم مرغے سے کر رہی ہو۔ ایسا لگتا تم آج کل خانہ داری کی جانب ٹھیک سے توجہ نہیں دیتیں۔

میں توجہ نہیں دیتی؟ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ آپ آج کل گھر پر ہوتے ہی کب ہیں؟ شام میں نکلے تو رات گئے لوٹے۔ صبح اٹھ کر مویشیوں کی خدمت اور دن بھر کھیتی باڑی۔ پرسوں بچے پوچھ رہے تھے۔ بابا کہاں ہیں؟

تو کیا سب چھوڑ کر تمہارے آگے بین بجاتا رہوں؟ اس سے ہمارا پیٹ بھر جائے گا؟

چھمیا گھبرا کر بولی نہیں میرا یہ مطلب ہر گز نہیں تھا

میں تمہارا مطلب اچھی طرح سمجھتا ہوں، ہماری شادی ابھی کل نہیں ہوئی ہے؟

خیر یہ بتاؤ کہ اس ڈربے کا اور ان چوہوں کا کروں؟

یہ مجھے بتانا پڑے گا؟ تم ایسا کرو ان چوہوں کو بھون کر کھا جاؤ۔

یہ کیسی بہکی بہکی باتیں آپ کر رہے ہیں آج؟

اس میں کون سی بہکی ہوئی بات ہے؟ جس طرح مرغا بھون کر کھاتے ہیں اسی طرح دنیا کے بہت سارے لوگ چوہا بھی کھا جاتے ہیں۔

لیکن ان میں اور ہم میں فرق ہے؟

فرق ہے میں یہ مانتا ہوں لیکن اسے ختم بھی تو کیا جا سکتا ہے۔ دوسروں کی خوبیاں اپنایا بھی تو سکتے ہیں؟

اچھا تو کیا یہ کوئی خوبی ہے؟

کیوں نہیں؟ ہم لوگ بہت زیادہ خود پسند ہو گئے ہیں، ہمیں صرف اپنے آپ میں، اپنے طور طریقوں میں خوبیاں دکھائی دیتی ہیں اور دوسروں میں ہم خامیاں ہی خامیاں دیکھتے ہیں بلکہ حد تو یہ ہے کہ ہمیں اپنی خامی بھی خوبی دکھائی دیتی ہے اوردوسروں کی خوبی، وہ بھی خامی لگتی ہے۔

دگڑو کی یہ الٹی منطق چھمیا کی سمجھ میں نہیں آ رہی تھی وہ زچ ہو کر بولی اچھا بابا کل میں آپ کیلئے دوپہر میں چوہا بھون کر لاؤں گی۔ چھمیا کی زبان سے یہ جملہ کیا ادا ہوا کہ دگڑو نے اس کے گال پر ایک طمانچہ رسید کر دیا۔ چھمیا کو دن میں تارے نظر آنے لگے۔ ایسا اس کے ساتھ پہلی بار ہوا تھا۔ اف تک نہ کہنے ولال دگڑو اس پر ہاتھ چھوڑ دے گا اس کا تصور بھی چھمیا نے نہیں کیا تھا۔

دگڑو بولا تم بھی مرغے کی طرح زبان دراز ہو گئی ہو۔

چھمیا روتے ہوئے بولی آپ نے جو کہا میں نے پہلے اس کی مخالفت کی اس پر آپ ناراض ہو گئے اور جب تائید کی تو برس پڑے۔ یہ آپ کو کیا ہو گیا ہے؟

چھمیا کے آنسووں نے دگڑو کو نرم کر دیا وہ اسے منانے لگا۔ چپ ہو جا چھمیا۔ خود میری سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ مجھے کیا ہو گیا ہے؟ میری پیاری چھمیا تو خدا کیلئے چپ ہو جاؤ۔

چھمیا نے پے در پے کئی سوال کئے۔ کس کیلئے؟ خدا کیلئے؟ یہ خدا کون ہے؟

میں نہیں جانتا! میں کچھ بھی نہیں جانتا، تم ایسا کرو گھر جاؤ کھیت میں بہت کام ہے۔ برساتی بادلوں کی آمد آمد ہے۔

چھمیا اپنا سامان سمیٹ کر گھر کی جانب چل پڑی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ مرغا، ڈربہ، طمانچہ اور خدا سب کچھ اس کی سمجھ سے باہر تھا۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

دسویں دن چھمیا بہت خوش تھی۔ کل سے چھمیا کے دودھ میں کوئی شراکت دار نہ ہو گا۔ سارا دودھ اس کے اور بچوں کیلئے ہو گا، لکڑو بڑھئی کا قرض ادا ہو جائے گا۔ اور قرض بھی بلا وجہ ایک ایسی شئے کیلئے لیا گیا جس کا کوئی مصرف نہیں تھا۔ چھمیا دودھ کی بالٹی لے کر جمنا کے قریب آئی تو چونک پڑی۔ ایک بھیانک وسوسے کو ذہن سے جھٹک وہ زمین پر بیٹھ گئی اور جمنا کا دودھ دوہنے لگی لیکن اب وہ اندیشہ حقیقت بن گیا تھا۔ جمنا کے تھن میں دودھ ندارد تھا۔ کافی کوشش کے بعد چند قطرات سے بات آگے نہ بڑھی۔

چھمیا گھبرا گئی اب کیا ہو گا؟ بچوں کا دودھ؟ دگڑو کی لسی اور روٹی پر لگنے والا گھی یہ سب کہاں سے آئے گا؟ اور ان سب سے بڑھ کر بڑھئی کا قرض اسے کیسے ادا کیا جائے گا؟ چھمیا یہ سوچ ہی رہی تھی کہ بڑھئی کا لڑکا دروازے سے داخل ہو گیا۔ چھمیا نے کہا۔ دیکھو بیٹے آج ہماری گائے بیمار ہے اس نے دودھ نہیں دیا۔ تم اپنے بابا سے کہہ دو کہ دودھ نہیں ہے۔

لڑکا گھبرا کر بولا چاچی میں یہ نہیں کہہ سکتا، آپ میرے بابا کو نہیں جانتیں وہ میری بات کا یقین نہیں کریں گے۔ سمجھیں گے میں نے گڑ بڑ کر دی ہے اور برس پڑیں گے۔

گڑبڑ؟ کیسی گڑبڑ؟ تم کیا گڑ بڑ کر سکتے ہو؟

کچھ بھی مثلاً پی گیا؟ گرا دیا؟ بیچ دیا وغیرہ وغیرہ وہ کچھ بھی سوچ سکتے ہیں۔

چھمیا نے سوچا ہے یہ تو بڑی اچھی ترکیب ہے۔ وہ بڑھئی سے کہہ دے گی اس نے بچے کو دودھ دیا اب نہ جانے اس نے کیا کیا؟ پی لیا یا گرا دیا وغیرہ وغیرہ۔ بس ایک معمولی جھوٹا سے قرض سے نجات دلا دے گا۔ چھمیا کو افسوس تھا کہ یہ ترکیب اسے پہلے کیوں نہیں سوجھی۔ بڑھئی کا لڑکا بدستور کھڑا تھا۔ چھمیا بولی تو کھڑا کھڑا کیا منہ دیکھ رہا ہے۔ میں نے کہا نا کہ تو جا میں کچھ دیر بعد آ کر تیرے بابا کو بتلا دوں گی۔

لڑکا بولا جی نہیں چاچی میں اکیلے نہیں جاؤں گا۔ میرا باپ جلاد صفت انسان ہے وہ آرے سے لکڑی کی طرح مجھے چیر دے گا۔ آپ میرے ساتھ چلئے۔ اب چھمیا کیلئے نیا مسئلہ تھا اس لڑکے کے ساتھ جانا اور جھوٹ بولنا خیر چھمیا چپل پہن کر اس کے ساتھ چل دی۔

لکڑو نے لڑکے کے ساتھ چھمیا کو آتے دیکھا تو سمجھ گیا کوئی گڑ بڑ ہے۔ چھمیا نے جیسے ہی سلام کیا وہ بول پڑا بہن کیا بات ہے سب ٹھیک تو ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ آج آپ کی گائے نے دودھ ہی نہیں دیا؟

چھمیا نے چونک کر پوچھا یہ آپ کو کیسے پتہ چل گیا؟

لکڑو بولا اس میں کو نسی نئی بات ہے۔ یہ تو پرانا بہانہ ہے۔ جب قرض کی ادائیگی کا وقت آتا ہے تو مویشی دودھ نہیں دیتے، فصل سوکھ جاتی ہے، پھل گر جاتے ہیں یہ سب تو ہوتا ہی رہتا ہے۔ آرے سے تیز چلنے والی لکڑو کی زبان لڑکے کی تصدیق کر رہی تھی۔

لکڑو کے ذریعہ لگائے گئے الزامات سے بے بس و مقروض چھمیا کو دکھ ہوا لیکن کیا کر سکتی تھی۔ وہ گھگیا کر بولی نہیں بھائی صاحب ایسی بات نہیں، آج واقعی گائے نے دودھ نہیں دیا آپ کو یقین نہ آتا ہو تو خود ساتھ چل کر دیکھ لیں۔

میں کیا دیکھوں۔ گائے بار بار تو دودھ نہیں دیتی۔

چھمیا پر یہ دوسرا بہتان تھا وہ شرمندہ ہو کر بولی بھائی صاحب میں معافی چاہتی ہوں کل آپ کا قرض ادا ہو جائے گا۔ وہ اپنے گھر کی جانب مڑی عقب سے لکڑو کی آواز آئی کیا آج کوئی خاص مہمان آنے ولا ہے یا کوئی خاص مٹھائی بنانی ہے؟ اگر ایسا ہے تو مٹھائی ہی بھجوا دینا۔ میں سمجھوں گا کہ قرض ادا ہو گیا۔ لکڑو چھمیا کے زخموں پر نمک مل رہا تھا۔ وہ دگڑو کا طمانچہ بھول گئی تھی لیکن عزتِ نفس کو مجروح کرنے والے ان تیروں کا زخم نہیں بھول سکتی تھی۔ چھمیا زندگی میں پہلی بار اس قدر خوار ہوئی تھی

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

بغیر گھی کے سوکھے پراٹھے اور لسی کے بجائے صرف پانی کی چھاگل دیکھ کر دگڑو بولا کیا چھمیا؟ دودھ گر گیا یا بگڑ گیا؟

چھمیا بولی دودھ نہیں بلکہ ہماری قسمت بگڑ گئی ہے۔ ایک تو جمنا نے دودھ نہیں دیا اور دوسرے اس منہ جلے لکڑو نے اس قدر برا بھلا کہا کہ میں خود اپنی نظروں سے گر گئی۔

اچھا اس کی یہ مجال؟ لیکن تم اس کے پاس گئی ہی کیوں؟

اس کے لڑکے نے کہا باپ جلاد ہے۔ آرے سے کاٹ کر پھینک دے گا اس لئے میں اس پر رحم کھا کر چلی گئی۔

آرے سے کاٹ کر۔۔ ۔۔ دگڑو کی رگوں میں خون سرد ہو گیا وہ ہنس کر بولا کوئی بات نہیں ایسا ہوتا ہے۔ جمنا کی طبیعت خراب ہو گئی ہو گی کل ٹھیک ہو جائے گی تو سب ٹھیک ہو جائے گا ویسے بھی گھی کے بغیر کوئی مر تو نہیں جاتا؟

لیکن بچوں کیلئے دودھ تو چاہئے؟

ہاں تو ایسا کرو کہ پڑوس سے ادھار لے لو۔

ادھار کا نام سن کر چھمیا کانپ گئی وہ بولی میں مر جاؤنگی لیکن ادھار نہیں لوں گی۔

کیسی باتیں کرتی ہو چھمیا۔ ہر کوئی لکڑو کی طرح بد مزاج نہیں ہوتا اور پھر یہ تو ہمارے برسوں پرانے ہمسائے ہیں۔

ہوا کریں لیکن میں تو قرض نہیں لوں گی، اور پھراس بات کا کیا اعتبار کہ کل جمنا دودھ دینے ہی لگے؟

کیا مطلب؟ دگڑو نے چونک کر پوچھا ابھی جمنا مری نہیں ہے۔ بس بیمار ہوئی ہے کل تک اچھی ہو جائے گی تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔

لیکن اگر وہ رات میں مر جائے تو؟

یہ بھی کوئی سوال ہے؟ اگر ایسا ہے تو یہ بھی ممکن ہے کہ آج رات لکڑو یا ہمارا پڑوسی مر جائے اور ہمیں قرض سے نجات مل جائے۔

چھمیا بولی جی ہاں ہونے کو تو کچھ بھی ہو سکتا ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ۰۰۰۰۰۰چھمیا کچھ بولتے بولتے رک گئی۔

دگڑو نے کہا بولو بولو! رک کیوں گئیں؟ بول دو جو کہنا چاہتی ہو۔

چھمیا نے جواب دیا کچھ نہیں !چھوڑو بھی ان باتوں کو۰۰۰۰۰۰۰۰۰

میں سمجھ گیا تم کیا کہنا چاہتی تھیں یہی نا کہ ہم ہی مر جائیں اور سارا قصہ تمام ہو جائے۔ تم بہت سوچنے لگی ہو چھمیا ایسا کچھ نہیں ہو گا۔ نہ جمنا مرے گی اور نہ لکڑو، نہ پڑوسی مریں گے اور نہ ہم۔ جمنا کے ساتھ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔

لیکن کیا علاج کے بغیر ہی جمنا اچھی ہو جائے گی؟ چھمیا نے سوال کیا

اچھا سوال کیا تم نے۔ میں شام میں حکیم صاحب کے پاس چلا جاتا ہوں

حکیم صاحب! کیا وہ جانوروں کا علاج بھی کرتے ہیں؟ چھمیا نے حیرت سے پوچھا

وہ انسانوں کو سماجی جانور مانتے ہیں اور دونوں کا یکساں علاج کر تے ہیں۔

اچھا تو حکیم صاحب کا خود اپنے بارے میں کیا خیال ہے؟ چھمیا کے اس سوال پر دونوں ہنس پڑے

اس شام دگڑو سیر کو جانے کے بجائے حکیم صاحب کے مطب پہنچ گیا۔ وہاں میلہ لگا ہوا تھا بڑی دیر کے بعد اسے موقع ملا تو اس نے جمنا کا حال کہہ سنایا۔

حکیم صاحب بولے دیکھو دگڑو آج پہلا دن ہے۔ اتنی جلدی کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ کوئی معمولی عارضہ بھی ہو سکتا ہے اور کو ئی لمبی بیماری بھی۔ دوچار دن علامات دیکھو اور اس کے بعد مجھے اس کی کیفیت بتلانا پھر دیکھیں گے۔ ویسے حال کے دنوں میں تمہارے گھر کے اندر کو ئی اہم تبدیلی تو واقع نہیں ہوئی۔

تبدیلی؟ کیسی تبدیلی میں سمجھا نہیں؟ دگڑو نے استفسار کیا

تبدیلی سے میری مراد گائے کے باندھنے کی جگہ تو نہیں بدل دی گئی؟

جی نہیں سو تو وہی ہے۔

اچھا اور اس بیچ تمہارے گھر میں کوئی نیا فرد آیا گیا تو نہیں؟

فرد سے آپ کی مراد انسان ہے یا جانور بھی اس میں شامل ہیں؟

حکیم صاحب مسکرا کر بولے تم تو جانتے ہی ہو کہ میں۔۔ ۔۔ ۔۔

دگڑو بولا جی ہاں آپ انسان کو بھی۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

حکیم صاحب نے بات کاٹ دی اور بولے ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔

ہمارے گھر میں ایک مرغا تھا جو پچھلے دنوں نہ جانے کہاں نکل گیا۔

نکل گیا کیا مطلب؟ کیا تم نے اس کا پتہ لگانے کی کوشش نہیں کی؟

جی۔۔ ۔ جی نہیں۔

کب سے تھا وہ تمہارے گھر میں؟

دگڑو نے دماغ پر زور ڈال کر حساب لگانے کی کوشش لیکن پھر ناکام ہو کر بولا کب سے؟ ہمیشہ سے۔ جب سے میں نے ہوش سنبھا لا اس کو اپنے گھر میں پایا

اچھا اس قدر طویل ساتھ اور اس کے باوجود تم نے اس کو تلاش نہیں کیا؟

جی۔۔ ۔ جی نہیں بات در اصل یہ ہے کہ وقت ہی نہیں ملا۔ آپ تو جانتے ہیں صبح سے رات تک اس قدر کام ہوتے ہیں کہ سر کھجانے کی فرصت نہیں ملتی۔

اگر ایسا ہے تو تمہیں آج فرصت کیسے مل گئی؟

کیا بتاؤں صاحب بڑی مشکل سے جمنا کیلئے یہ وقت نکالا ہے۔

اچھا اگر تمہاری بیوی یا بچہ کھو جائے تو کیا انہیں بھی بھول جاؤ گے؟

کیسی باتیں کرتے ہیں حکیم صاحب یہ تو انسان ہیں اور وہ۔۔ ۔۔ ۔۔

جانور؟ لیکن تم تو جانتے ہی ہو۔۔ ۔۔ ۔ حکیم صاحب بولے

جی ہاں جی ہاں مجھ سے غلطی ہو گئی۔ میں نے اس کیلئے نیا ڈربہ بھی خریدا تھا .

اچھا کہیں وہ ڈربے کی قید و بند سے گھبرا کر تو نہیں بھاگ کھڑا ہوا؟

نہیں صاحب جب میں ڈربہ لے کر گھر پہنچا تو مرغا غائب تھا .

لگتا ہے اسے پیشگی اندازہ ہو گیا کہ تم اس کے ساتھ کیا سلوک کرنے والے ہو۔

یہ کیسے ممکن ہے۔ خود مجھے بھی پتہ نہیں تھا کہ میں اس کیلئے ڈربہ خریدنے والا ہوں

پتہ چلانے کا ایک ذریعہ چھٹی حس بھی تو ہے، جس سے جاندار مخاطب کے اندر جھانک کر دیکھ لیتے ہیں کہ کیا کھچڑی پک رہی ہے؟

چھٹی حس کیا جانوروں کے اندر بھی ہوتی ہے؟

کیوں نہیں؟ جانوروں کے حواسِ خمسہ ہم سے زیادہ تیز ہوتے ہیں وہ دیکھتے ہم سے بہتر ہیں۔ وہ سنتے ہم سے اچھا ہیں۔ سونگھنے میں تو ہم ان کا مقابلہ کر ہی نہیں سکتے۔ ان کی جلد ہم سے زیادہ حساس ہوتی ہے اور ان کا اپنا ذائقہ ہوتا ہے جس سے علیٰ الرغم کسی شئے پر منہ نہیں مارتے ایسے میں چھٹی حس ہم سے کم تر ہو یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے۔

دگڑو بولا جی ہاں میں مان گیا کہ ان کی چھٹی حس ہم سے تیز ہوتی ہے۔

لیکن ہم انسانوں کی طرح جانور اس قدرتی انعام کا بیجا استعمال نہیں کرتے۔

میں سمجھا نہیں حکیم صاحب ہم بھلا اپنی کسی حس کا بیجا استعمال کیوں کرنے لگے؟

کیا ہم اپنے مستقبل کے بارے میں غیر ضروری اندیشوں کا شکار نہیں رہتے؟ اس کے برعکس جانوروں کا توکّل ہم سے زیادہ کامل ہوتا ہے وہ کل کی پرواہ نہیں کرتے اور کبھی بھوک سے نہیں مرتے۔ انسان بڑا ذخیرہ جمع کرتا ہے اور پھر اچانک اسے گنوا بیٹھتا ہے۔ بھوک سے نہ سہی صدمے سے مر جاتا ہے بلکہ کبھی کبھار خودکشی بھی کر گزرتا ہے کیا تم نے کسی جانور کو خودکشی کرتے دیکھا ہے؟ وہ ایسی حماقت کبھی بھی نہیں کر سکتا۔

حکیم صاحب آپ نے توانسان کو جانور سے بھی زیادہ کمتر قرار دے دیا .

نہیں دوست ایسا نہیں ہے میں تو صرف یہ کہہ رہا تھا کہ انسان احسنِ تقویم بھی ہے اور اسفلا لسافلین بھی۔ جانور کو جس قدر دماغ ملتا ہے وہ اس پر قانع ہوتا ہے اور ضرورت بھر اس کا استعمال کرتا لیکن انسان اپنے ذہن کے استعمال میں افراط و تفریط کا شکار ہو جاتا ہے اور ایسا کرتے ہوئے وہ کبھی ذہانت کی عظیم بلندیوں پر پہنچ جاتا ہے تو کبھی حماقت کی گہری پستیوں میں جا گرتا ہے۔

وہ سب تو ٹھیک ہے لیکن میری گائے کے بارے میں بھی تو کچھ بتلائیے۔

جی ہاں تم نے اچھا یاد دلایا میں بھی آخر انسان ہی ہوں کہیں سے کہیں نکل جاتا ہوں۔ تم یہ بتاؤ کہ وہ مرغا گائے کے ساتھ ہی رہتا تھا یا علیٰحدہ؟

جی ہاں مرغا تو بشمول گائے کے سبھی کے ساتھ رہتا تھا۔

دگڑو بولا لیکن صاحب مرغے کو گئے آج دس دن ہو گئے اور گائے اس بیچ دودھ دیتی رہی اس لئے ان دونوں واقعات میں مجھے بظاہر کو ئی تعلق نظر نہیں آتا؟

ہو سکتا ہے ان میں کوئی تعلق نہ ہو لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ گائے کو مایوس ہونے میں نو دن لگ گئے ہوں۔ مرغے کی واپسی سے متعلق وہ پر امید رہی ہو اور اب جا کر اسے یقین ہوا ہو کہ مرغا لوٹ کر نہیں آئے گا اچھا یہ بتلاؤ کہ گائے کا دودھ تم خود دوہتے ہو یا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔

جی نہیں میری بیوی چھمیا

بہت خوب تم اس سے پوچھ کر مجھے بتانا کہ آیا اس کے دودھ کی مقدار میں اس دوران کو ئی کمی تو واقع نہیں ہوئی؟

دودھ کے بارے میں تو مجھے پوچھنا پڑے گا لیکن چارہ میں خود ڈالتا ہوں اور اس کی خوراک میں بدستور کمی میں نے محسوس کی ہے۔

تمہیں اس پر تشویش نہیں ہوئی؟ دگڑو حکیم صاحب کی بات سن کر خاموش ہو گیا۔

حکیم صاحب بولے لگتا ہے تمہیں اس کے چارے میں نہیں بلکہ صرف دودھ میں دلچسپی ہے۔ جب تک دودھ دے رہی ہے چارہ کھائے نہ کھائے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا لیکن مسئلہ اس وقت کھڑا ہو گیا جبکہ اس نے دودھ دینا کم یا بند کر دیا ہے کیوں؟

دگڑو کا سر ندامت سے جھک گیا۔ جمنا کے سبب شرمندہ ہونے والا دگڑو سوچ رہا تھا سارے فتنہ کی جڑ کم بخت مرغا تھا۔ نہ وہ گھر سے فرار ہوتا اور نہ یہ ہنگامہ کھڑا ہوتا۔

حکیم صاحب سے اجازت لے کر دگڑو گھر آ گیا اور چھمیا سے پوچھا یہ بتاؤ اپنی جمنا نے دودھ دینا اچانک بند کر دیا یا اس کے دودھ کی مقدار میں بتدریج کمی ہو تی رہی .

چھمیا بولی وہ تو پچھلے دس دنوں سے کم کم دودھ دئیے جا رہی تھی پہلے کا بنا گھی تھا جو اب تک چل رہا تھا، سچ تو یہ ہے کہ گزشتہ دس دنوں سے میں نے مکھن ہی نہیں نکالا۔

اچھا اور مجھ سے چھپاتی رہیں۔۔ ۔ کیوں؟

آپ کو کیا بتاتی۔ آپ تو آج کل ہر بات پر لڑ پڑتے ہیں۔ میں جو سوچ کر کھیت میں جاتی ہوں بھول جاتی ہوں۔ شام میں آپ کے قدم گھر میں ٹکتے ہی نہیں۔ آپ سیر کی تیاری میں لگ جاتے ہیں رات دیر گئے آنے کے بعد صبح دیر تک سوتے رہتے ہیں پھر کھیت جانے کی جلدی۔ آخر انسان بتائے بھی تو کب بتائے؟

دگڑو بولا تم نے اپنے نسیان پر پردہ ڈالنے کی غرض سے ایک لمبی چوڑی تقریر کر کے سارا الزام میرے سر منڈھ دیا۔ اب یہ لعن طعن چھوڑو اور میرے لئے کھانا لگاؤ میرا سر درد سے پھٹ رہا ہے۔ حکیم صاحب نے میرا دماغ خراب کر دیا ہے۔

اچھا اگر ایسا ہے تو جمنا کے بجائے اپنے لئے ہی کوئی نسخہ لکھوا لاتے۔

اس کی ضرورت نہیں، ایسا کرو ان چوہوں کو مارنے کے لئے جو زہر تم لائی ہو اسی کو پروس دو ایک ہی بار میں کام تمام ہو جائے گا۔

چھمیا روہانسی ہو کر بولی۔ یہ آپ کو کیا ہو گیا ہے؟ آپ مذاق پر بھی ناراض ہو جاتے ہیں، آئندہ ایسا کہا تومیں زہر چوہوں کو بھی نہ دے کر پھینک دوں گی۔

اری بے وقوف عورت یہ رونا دھونا چھوڑ اور کچھ کھانے کیلئے لا ورنہ میں زہر کے بجائے بھوک سے مر جاؤں گا۔

کھانا پروستے ہوئے چھمیا بولی۔ گھی کے بغیر سبزی اور سوکھی روٹی سب کچھ بے مزہ ہو گیا ہے۔ مکھن نہ لسی یہ بھی کوئی کھانا ہے؟ ایک جمنا نے سارا ماحول خراب کر دیا۔

جمنا نہیں مرغا دگڑو نے جواب دیا اور کھانا کھانے لگا۔ اس روز دگڑو نہ صرف تفریح کیلئے جانا بھول گیا بلکہ اپنے پسندیدہ گھوڑے شیرو کو چارہ ڈالنا بھی اسے یاد نہیں رہا۔ کھانے سے فارغ ہو کر دگڑو وہیں پاس میں ڈھیر ہو گیا۔ بعد میں چھمیا نے سر کے نیچے آہستہ سے تکیہ رکھ دیا اور گھوڑے کو چارہ ڈالنے کیلئے چلی گئی۔

گھوڑے نے اپنے مالک کے بجائے چھمیا کو دیکھا تو منہ پھیر لیا۔ گزشتہ چند دنوں سے گھوڑا بھی سیرو تفریح کا عادی ہو گیا تھا۔ گھر کی چہار دیواری میں اس کا دم گھٹنے لگا تھا۔ سامنے گنگا مست جگالی کر رہا تھا اور جمنا مرغے کے غم میں دبلی ہو رہی تھی۔ وہ زبان حال سے کہہ رہی تھی کہ حکیم صاحب کی بات درست نہیں ہے۔ انسانوں اور جانوروں کے محسوسات یکساں نہیں ہوتے بلکہ وہ ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔

دگڑو رات جلدی سونے کے باوجود صبح دیر تک سویا رہا شاید اس لئے کہ اب کوئی بیدار کرنے والا نہیں تھا، چھمیا بھی سو رہی تھی اور بچے بھی۔ دگڑو نے غسل خانے میں جاتے ہوئے جمنا کو حیرت سے دیکھا اس کی پسلیاں صاف دکھائی پڑ رہی تھیں۔ آنکھیں اندر کو دھنس گئی تھیں وہ خاصی دبلی ہو چکی تھی ایسے میں اس کا دودھ نہ دینا کسی تحقیق کا محتاج نہیں تھا۔ نہانے کے بعد دگڑو نے سارے جانوروں کے آگے چارہ ڈالا شیرو کو پچکا رہ اور اس کی پیٹھ تھپتھپائی وہ مست ہو کر چارہ کھانے لگا۔ یہ جانور اپنے آقا کی ناراضگی یا بے توجہی کو کس قدر سنجیدگی سے لیتے ہیں لیکن انسان کس قدراحسان فراموش اور نا شکرا ہے۔

جانور اپنا پیٹ بھر رہے تھے اور دگڑو اپنا ناشتہ کر رہا تھا۔۔ ۔۔ اپنے بیل کے ساتھ کھیت کی جانب رواں دواں تھا۔۔ ۔۔ ۔ ہل چلا رہا تھا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ پسینہ بہا رہا تھا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ اس محنت و مشقت کے دوران وہ جمنا تو کجا شیرو کو بھی بھول جاتا تھا بلکہ اپنے بیوی بچے بھی اسے یاد نہ آتے تھے ایسے میں مرغے کا کیا شمار وہ تو دگڑو کی یادداشت سے حرفِ غلط کی مانند مٹ چکا تھا۔

اگلے دن تفصیل سے جمنا کی کیفیت سننے کے بعد حکیم صاحب بولے دیکھو دگڑو تمہاری گائے کا علاج ممکن تو ہے لیکن مشکل ہے۔

دگڑو نے کہا کوئی مشکل نہیں ہے حکیم صاحب، آپ بتلائیں میں اس گائے کیلئے سب کچھ کر سکتا ہوں اس لئے کہ میری گھر گرہستی، بیوی بچوں کا سوال۔۔ ۔۔ ۔

حکیم صاحب نے بات کاٹ دی اور بولے میں سمجھتا ہوں، تمہیں دو میں سے ایک کام کرنا ہو گا۔ پہلا تو یہ کہ اس مرغے کو تلاش کر کے واپس گھر لے آؤ۔ سارے مسائل اپنے آپ حل ہو جائیں گے۔

دگڑو بولا یہ نا ممکن ہے حکیم صاحب ساری مصیبت اس مرغے کے باعث ہے اب میں اسے واپس اپنے گھر میں نہیں لا سکتا۔

حکیم صاحب بولے مرغے کے باعث نہیں بلکہ اس کے چلے جانے کے سبب سے ہے میں اسے واپس لانے کی بات کر رہا تھا۔

جی نہیں حکیم صاحب اول تو اس کی تلاشا یک امرِ محال ہے اور پھر وہ خود سرجانور آنے پر راضی ہو جائے اس کا امکان بہت کام ہے۔ اس لئے آپ دوسرا متبادل بتائیں۔

میں تمہاری مشکل پسندی کی داد دیتا ہوں دگڑو ، تو سنودوسرا نسخہ یہ ہے کہ ہمارے گاؤں کے مغربی سمت جنگل ہیں جن میں اودے ببول کے چند درخت ہیں، ان پر پھول صرف رات کے آخری پہر کھلتے ہیں اور طلوع آفتاب سے قبل مرجھا جاتے ہیں۔ وہ پھول اگر پیڑ ہی پر مرجھا جائیں تو اپنی تاثیر سے محروم ہو جاتے ہیں۔ تمہیں کرنا یہ ہے کہ مرجھانے سے قبل انہیں توڑ کر گلاب کے پانی میں رکھ کے گھر لے آؤ اور جمنا کو کھلا دو۔

دگڑو بولا لیکن اگر جمنا اسے نہ کھائے تو؟

حکیم صاحب مسکرا کر بولے بڑا خیال ہے تمہیں اپنی جمنا کا لیکن یہ کام بہت آسان ہے تم چارے کے ساتھ ملا کر ان پھولوں کو اس کے سامنے ڈال دینا نادانستہ کھا جائے گی۔

دگڑو کو اس دوران ایک ترکیب سجھائی دی وہ بولا حکیم صاحب کیوں نہ میں اس پیڑ کو اکھاڑ کر اپنے آنگن میں لے آؤں۔

حکیم صاحب بولے میں تو تمہیں احمق سمجھتا تھا لیکن اب پتہ چلا کہ تم عقل کا استعمال بھی کرتے ہو۔ ویسے دگڑو یہ حماقت نہ کر بیٹھنا۔ اگر یہ ممکن ہوتا تو میں کب کا اسے منگوا کر اپنے آنگن میں لگو اچکا ہوتا اور مریضوں کو زحمت دینے کے بجائے تیار شدہ نسخہ بانٹتا۔ لیکن یہ نا ممکن ہے۔ جنگل کا یہ درخت بستی میں نہیں پھلتا پھولتا۔ اگر اسے یہاں لگا دیا جائے تو اس کی صرف شاخیں اور پتے ہوں گے۔ ان پر پھول تو وہیں جنگل میں کھلیں گے کیا سمجھے؟

کیسی بات کرتے ہیں حکیم صاحب وہی مٹی، وہی پیڑ اور وہی آب و ہو ا، ایک بار آزما کر دیکھنے میں کیا حرج ہے؟ آپ کہیں تو میں آپ کے آنگن میں لا کر نسب کر دیتا ہوں؟

نہیں دگڑو آب و ہوا بظاہر یکساں ہے لیکن اس میں خاصہ فرق ہے۔ رات کے آخری پہر جنگل کی تنہائی میں شبنم کے آنسووں سے سینچے گئے یہ پھول انسانوں کی گہما گہمی میں نہیں کھل سکتے۔ ان درختوں کو بستی میں بسانے کی ساری کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔ انسان فطرت سے لڑ تو سکتا ہے لیکن جیت نہیں سکتا۔

ٹھیک ہے حکیم صاحب میں اس کام کو کروں گا لیکن ایک مسئلہ اور ہے .

وہ کیا؟

آج کل چونکہ جمنا نے چارہ کھانا بہت کم کر دیا ہے اس لئے مجھے ڈر ہے کہ پھولوں کو نہیں کھائے گی اورساری محنت اکارت چلی جائے گی۔

اس کا حل یہ ہے کہ تم شام کے وقت جمنا کو ساتھ لے کر مشرق کی جانب پائی جانے والی چراگاہوں میں جانا شروع کر دو۔ وہاں کی کھلی فضا میں وہ چارہ کھانے لگے گی اسی دوران تم پھول بھی اس کے آگے ڈال دینا۔

لیکن کیا یہ پھول شام تک تر و تازہ رہیں گے دگڑو نے سوال کیا۔

جی ہاں اگر تم نے انہیں تازہ گلاب کے پانی میں رکھا تو وہ اگلی صبح تک نہیں مرجھائیں گے۔

اور اس کے بعد؟

مرجھا جائیں گے۔۔ ۔ یہ کیا احمقانہ سوال ہے ہر قسم کے پھولوں کا مقدر بالآخر مرجھانا ہے۔ وہ سرخ و سپید ہوں یا اودے۔ اس دارِ فانی میں حیات بخش پھولوں کو بھی اپنے وقت پر مرجھانا ہی پڑتا ہے۔

دگڑو نے سوچا حکیم صاحب کو گھیرنے کا اچھا موقع ہے اس لئے اس نے سوال کر دیا لیکن صاحب کا نٹوں کا کیا؟ ان کو کسی نے مرجھاتے ہوئے نہیں دیکھا۔

حکیم صاحب مسکرائے اور بولے دگڑو سچ تو یہ ہے کہ تم نے اس سوال سے میراجی خوش کر دیا۔ یہ بڑا اہم سوال ہے اس لئے اس کا جواب غور سے سنو۔ مرجھاتا وہی ہے جو کھلتا ہے۔ جس کو کھلنا نصیب نہیں ہوتا اس کو مرجھانے کا خوف بھی نہیں ہوتا۔ تم دیکھتے ہو کہ درخت بہار اور خزاں دونوں سے متاثر ہوتے ہیں جبکہ پتھر کے اوپر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ جی جناب آپ کی بات سمجھ میں آ گئی اب اجازت دیجئے اور دعا کیجئے۔ خدا حافظ

فی امان اللہ

نسخۂ ثانی کی مشکلات کا اندازہ دگڑو کو اس وقت ہوا جب اس نے اس پر عمل درآمد شروع کیا۔ سردیوں کی صبح آخر شب دشت نوردی بذاتِ خود ایک امرِ محال تھا۔ اس پر ببول کے پیڑوں میں پھول کم اور کانٹے زیادہ اور اودے ببول تو گویا کانٹوں سے لدے ہوئے تھے۔ ایسے میں پھولوں کو چننا ایک خطرناک تھا لاکھ احتیاط کے باوجود ہاتھ پیر لہو لہان ہو جاتے تھے لیکن چونکہ جمنا کی صحت پر سارے خاندان کی صحت وتندرستی کا دارومدار تھا دگڑو ان ساری مشقتیں برداشت کرنے لگا۔ ویسے یہ سلسلہ صبح میں ختم نہ ہوتا تھا۔ شام میں کھیت سے آنے کے بعد پھر سارے مویشیوں کے ساتھ چراگاہ کی طرف جانا اور تھک ہار کر لوٹتے ہی سو جانا۔

نئے معمولاتِ زندگی نے دگڑو کو اور دو نمازوں سے محروم کر دیا تھا۔ عشا اور فجر پہلے ہی سیر و تفریح کی نذر ہو چکی تھیں اب عصر اور مغرب کو جمنا کا علاج نگل گیا تھا۔ سیرو تفریح کے مواقع ختم ہو چکے تھے مگر دگڑو کسی قدر مطمئن تھا۔ جمنا کی صحت پر علاج کے مثبت اثرات نظر آنے لگے تھے۔ گنگا کو چراگاہ کی تازہ غذا اور فضا اچھی لگنے لگی تھی۔ شیرو نے حالات سے مصالحت کر لی تھی وہ بہت زیادہ خوش تو نہیں لیکن بالکل ناراض بھی نہیں تھا۔ دگڑو ہفتہ میں ایک آدھ بار اپنے بچوں کو بھی مویشیوں کے ساتھ چرا گاہ میں لے آتا تاکہ ان کا بھی دل بہل جائے۔ زندگی ایک نئے رخ پر چل پڑی تھی صبح و شام کے سارے معمولات بدل چکے تھے۔ ببول کے پھولوں کی خوشبو مرغے کے زخم پر مرہم کا کام کر رہی تھی۔ جمنا کی صحتیابی سے ہر کوئی مسرور و شادمان تھا۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

چھمیا نے کھانے کا تو شہ کھولا تو پراٹھوں پر لگے گھی کی خوشبو سے کھیت کی فضا معطر ہو گئی اور پھر ساگ کے ساتھ لسی کا گلاس دیکھ کر دگڑو کی طبیعت باغ باغ ہو گئی۔ ایک طویل عرصے کے بعد یہ نعمتیں جب دوبارہ حاصل ہوئیں تو ان کی قدر و قیمت میں خاصہ اضافہ ہو گیا۔ کسی حاصل شدہ شئے کا چھن جانا اس کی اہمیت کا احساس دلاتا ہے اور پھر مل جانا یک گونہ فرحت و انبساط کا سبب بن جاتا ہے۔ مبادا اسی سبب سے حضرتِ انسان کو دنیا میں بھیجنے سے قبل اللہ تعالیٰ نے عارضی طور پر جنت میں رہنے کا موقع دیا ہو تاکہ اس کی محرومی کا احساس انسان کے اندر دوبارہ بہشت کو پانے کی تڑپ پیدا کرے اور وہ دنیا کے اندر حصولِ جنت کی تگ و دو میں لگا رہے۔ افسوس کہ غافل انسانوں نے منزل کو بھلا کر راستے کو مقصودِ سفر سمجھ لیا۔

دگڑو نے چہک کر پوچھا لگتا ہے جمنا پوری طرح صحتیاب ہو چکی ہے

چھمیا نے تائید کی اور بولی جی ہاں وہ بڑی تیزی سے رو بہ صحت ہے حکیم صاحب کی حکمت اور آپ کی محنت رنگ لا رہی ہے۔ گو کہ پہلے کے بالمقابل دودھ کی مقدار ابھی نصف ہے پھر بھی بہتر ہے ورنہ تو میں تشویش میں مبتلا ہو کر ڈر گئی تھی۔

اس میں ڈرنے کی کیا بات؟ وہ نہیں اور سہی، اور نہیں اور سہی۔ کیا دنیا میں جمنا کے علاوہ دوسرے گائیں نہیں ہیں۔

گائیں تو ہیں لیکن ہمارے پاس تو ایک جمنا ہے۔ ہمیں دوسروں سے کیا سروکار؟

تم ٹھیک کہتی ہو چھمیا۔ دگڑو کھانا کھا رہا تھا اور گنگا سائے میں بیٹھا جگالی کر رہا تھا۔ پہاڑوں کی جانب سے چلنے والی سرد ہوا نے گنگا کو اپنی جگہ پر کھڑا کر دیا اور وہ بے خیالی کے عالم میں خراماں خراماں ٹہلتا ہوا کھیت کی باڑھ کے قریب آ گیا۔ گنگا اب پڑوس کے کھیت کی لہلہاتی فصل کو دیکھ رہا تھا کہ اسے درمیان میں گایوں کا ایک جھنڈ نظر آیا جس میں ایک بالکل جمنا جیسی تھی۔ اس جمنا کی مانند نہیں جیسی کہ فی الحال دگڑو کے گھر میں بندھی ہوئی تھی بلکہ ویسی جیسی کہ کئی سال قبل دگڑو اسے خرید کر لایا تھا۔ خوبصورت سفید چمکتی ہوئی جلد، بھرا بھرا سا جسم، ستواں ناک، بڑی بڑی آنکھیں، لمبا چہرہ جو جھریوں سے یکسر پاک تھا۔

گنگا نے سوچا جمنا بالکل ایسی ہی تھی، نہیں اپنے تمام حسن و جمال کے باوجود وہ اس قدر خوبصورت کبھی بھی نہیں تھی۔ گنگا نے اسے دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا لیکن اس کی حیرت اس وقت اپنے حدود سے تجاوز کر گئی جب اس نے دیکھا کہ وہ نئی نویلی گنگوتری بھی اس کی جانب متوجہ ہے۔ اسے محسوس ہوا گویا وہ دعوتِ نظارہ دے رہی ہے۔ گنگا کے قدم بے ساختہ اس کی جانب بڑھ رہے تھے۔ بے خودی کے عالم میں وہ نہ جانے کب اپنی حدوں سے گزر گیا اور پھر کیا تھا سارا آسمان کتوں کی بھونک سے گونج اٹھا۔ یہ بے شمار کتے نہ جانے کہاں سے اچانک نمودار ہو گئے تھے۔ پڑوسی کھیت کے مالک نے انہیں اپنے مویشیوں اور کھیت کی حفاظت کیلئے نہ جانے کس غار میں چھپا رکھا تھا۔

محافظ کتے گنگا پر ٹوٹ پڑے۔ وہ اپنی ذمہ داری ادا کر رہے تھے اور گنگا کے جسم کو نوچ رہے تھے بھنبھوڑ رہے تھے۔ گنگا ان سے بھڑ گیا تھا کبھی ایک کو سینگ پر اچھالتا تو کبھی دوسرے کو دوڑاتا۔ دور کھڑی گنگوتری اس کو دادِ عیش دے رہی تھی اور گنگا کے حوصلے بلند ہو رہے تھے لیکن اتنے سارے تربیت یافتہ کتوں کا بیک وقت مقابلہ کرنا گنگا کے بس کا روگ نہیں تھا۔ بالآخر وہ کتے گنگا پر قابو پانے میں کامیاب ہو گئے۔ ان لوگوں نے گنگا کو بری طرح زخمی کر دیا اس کے جسم سے خون رسنے لگا۔

اس ہنگامے کے دوران دگڑو اور پڑوس کے کھیت کا مالک بھی جائے واردات پر پہنچ گئے۔ پڑوسی اپنے کتوں کو قابو میں کرنے کے بعد دگڑو سے بولا معاف کرنا کتے نا سمجھ ہیں پاس پڑوس کا پاس و لحاظ نہیں جانتے۔

دگڑو بولا جی نہیں ایسی بات نہیں۔ کتوں نے اپنی ذمہ داری ادا کی۔ سارا قصور گنگا کا ہے جو اپنی حدود کو پھلانگ گیا۔

چھمیا اس منظر کو دیکھ کر فوراً حکیم صاحب کے پاس بھاگی اور انہیں ماجرا کہہ سنایا۔ حکیم صاحب نے حالات کی سنگینی کو محسوس کر لیا اور فوراً اپنے نائب حکو ّکے ساتھ دگڑو کے کھیت میں پہنچ گئے۔ سب سے پہلے تو انہوں نے گنگا کی مرہم پٹی کی اس کیلئے نسخہ لکھا اور پھر دگڑو سے بولے گنگا ایک نازک حالت میں ہے۔ ایسے میں ذرا سی بھی بے توجہی یا لاپرواہی کافی مہنگی پڑ سکتی ہے۔ اس لئے تمہیں اس کا بہت خاص خیال رکھنا ہو گا اس کے باوجود کوئی یقینی بات کہنا مشکل ہے۔

کیا مطلب حکیم صاحب، آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟

میرا مطلب ہے کچھ بھی ہو سکتا ہے اس لئے کہ کتوں کے اس کے اعضائے خصوصی کو بھی زخمی کر دیا ہے۔ ان کے دانتوں کے نشانات اس کی رگوں تک میں گڑ گئے ہیں

دگڑو بولا حکیم صاحب خدا کے لئے کچھ کیجئے اور میرے گنگا کو بچا لیجئے ورنہ اس کے بغیر میرا کھیت کھلیان سب ویران ہو جائے گا۔ میں ہل کیسے چلاؤں گا کھیت کیسے جوتوں گا، میں مر جاؤں گا، میرے بیوی بچے سب مر جائیں گے، میرا گھر سنسار اجڑ جائے گا اسے بچائیے حکیم صاحب خدا کیلئے اسے بچا لیجئے۔

حکیم صاحب بولے دیکھو دگڑو بیماری کا علاج تو میں کر سکتا ہوں لیکن موت کی دوا میرے پاس نہیں ہے اگر گنگا کی موت اسی طرح لکھی ہے تو میں کچھ نہیں کر سکتا۔

ایسا مت کہئے حکیم صاحب اگر یہ مر گیا تو میں مر جاؤں گا، ہم سب مر جائیں گے۔ یہ کہہ کر دگڑو پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ حکیم صاحب کو حیرت ہو رہی تھی۔ ایک بیل کو اس شخص نے اپنا پالنہار، پروردگارسمجھ لیا تھا .

دگڑو نے اپنے بیل کی خاطر کھیت ہی میں کٹیا بنا لی وہ دن رات وہیں پڑا رہتا۔ اب کھیت ہی اس کا گھر تھا اور بیل کی تیمار داری اس کا واحد مشغلہ، چھمیا صبح و شام کھیت میں روٹی لے کر آتی اور اسے کھلا پلا کر واپس چلی جاتی۔ دگڑو نے جمنا، شیرو بلکہ اپنے معصوم بچوں تک کو بھی بھلا دیا تھا، فی الحال اس کا سب کچھ گنگا تھا وہ ہر وقت گنگا کی تیمار داری میں لگا رہتا جو نیم غنودگی کے عالم میں بے حس و حرکت پڑا ہوا تھا۔ لیکن دگڑو پھر بھی خوش تھا۔ اس کے زخم دن بدن مندمل ہوتے جا رہے تھے اور حکیم صاحب کے لاکھ ڈرانے کے باوجود وہ ابھی مرا نہیں تھا۔ دگڑو کو یقین ہو چلا تھا کہ ایک دن جمنا کی طرح گنگا بھی پھر سے بھلا چنگا ہو جائے گا۔

حکیم صاحب کا نائب حکو ہر روز کھیت پر آ کر زخموں کی مرہم پٹی کر جاتا تھا۔ گنگا کے جسم میں حرکت ہونے لگی تھی وہ اپنے پیروں کو پھیلانے اور سمیٹنے لگا تھا۔ اس کی آنکھوں میں بھی روشنی دکھائی دینے لگی تھی۔ حکو نے دگڑو کو گھر جانے کی اجازت دے دی تھی مگر دگڑو کوئی خطرہ مول لینے کیلئے تیار نہیں تھا۔ چھمیا نے اصرار کیا پھر بھی وہ کھیت ہی میں پڑا رہا۔ اس بیچ جمنا کا علاج بند ہو گیا تھا اور اسی کے ساتھ اس کے دودھ میں اضافہ کا سلسلہ معمول پر آنے قبل ہی رک گیا تھا لیکن دگڑو یا چھمیا کو اس کی فکر نہ تھی۔ بے چاری جمنا فی الحال ترجیحی اعتبار سے ثانوی درجے پر چلی گئی تھی گنگا ساری توجہات کا مرکز بنا ہوا تھا۔

چھمیا نے ایک روز دوپہر کا کھانا کھاتے ہوئے کٹیا کے قریب کتے کے بھونکنے کی آواز سنی۔ وہ بے یقینی کے ساتھ بولی کتا؟ ؟

دگڑو بولا کیا بکتی ہو؟

میں نے ابھی ابھی کتے کے بھونکنے کی آواز سنی ہے۔

کتے کے بھونکنے کی آواز؟ تمہارے کان بجتے ہیں تم خوفزدہ ہو گئی ہو، دگڑو نے ہنس کر کہا تمہیں تو خواب میں بھی۔۔ ۔۔ ۔

چھمیا بولی وہ دیکھو پھر سے آئی آواز۔

دگڑو کو لگا شاید چھمیا صحیح بول رہی ہے۔ ہلکی سی آواز اس نے بھی سنی۔ دگڑو نوالہ چھوڑ کر کھڑا ہو گیا۔ کہیں پڑوس کے کتے اپنے کھیت میں تو نہیں گھس آئے؟ اس نے چھمیا سے پوچھا اور اپنی لاٹھی اٹھا کر گنگا کی جانب یہ سوچتا ہوا چل پڑا کہ اگر کوئی کتا ہاتھ آ جائے تو ایک وار میں کام تمام کر دے گا۔ لیکن دور دور تک کسی کتے کا نام و نشان نہیں تھا۔ دگڑو چھمیا سے بولا ہمیں شبہ تو نہیں گزرا چھمیا؟

چھمیا نے چونک کر کہا یہ کیا؟ سنا آپ نے یہ بھونکنے کی آواز گنگا نکال رہا ہے، اپنا گنگا بھونک رہا ہے۔

گنگا بھونک رہا ہے؟ کیا بکتی ہو چھمیا۔

کیا آپ نے ابھی وہ آواز نہیں سنی۔

جی ہاں سنی لیکن بیل کیسے بھونک سکتا ہے؟

یہ میں نہیں جانتی؟ یہاں کوئی کتا موجود نہیں ہے اور نہ تم بھونک رہے ہو نہ میں تو آخر۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ اس بار بھونکنے کی آواز بہت صاف تھی اور یہ گنگا ہی تھا دونوں حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ چھمیا بولی حکیم صاحب؟ اس بار دگڑو حکیم صاحب کے مطب کی جانب دوڑ پڑا اور سارا ماجرا کہہ سنایا۔

حکیم صاحب کا چہرہ لٹک گیا وہ غمگین ہو کر بولے۔ افسوس! دگڑو میں نے تمہیں پہلے ہی خبردار کر دیا تھا کہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اور مجھے اندیشہ ہے کہ اسی ناگہانی واردات کا وقت آ گیا ہے۔ تمہارے گنگا کے دن ختم۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔

کیا؟ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں حکیم صاحب۔ گنگا تو دن بدن صحتیاب ہوتا جا رہا تھا اس کے کئی زخم بھر چکے تھے آپ کو یقین نہ آتا ہو تو آپ اپنے نائب حکو سے پوچھ لیجئے۔ یہ نہیں ہو سکتا حکیم صاحب یہ نہیں ہو سکتا آپ کچھ کیجئے۔ کچھ کیجئے۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ دگڑو گڑگڑایا۔

حکیم صاحب بولے گنگا کے زخم اوپر سے بھر گئے لیکن زہر اندر ہی اندر رگ رگ میں پھیلتا چلا گیا۔ مجھے افسوس ہے کہ اب اس کا علاج میرے پاس نہیں ہے۔

اچھا تو میں کیا کروں؟ حکیم صاحب کیا میں بھی زہر پی کر اس کے ساتھ مر جاؤں

نہیں اس کی ضرورت نہیں۔ تم ایسا کرو کہ سب سے پہلے کلو قصائی کو ڈھونڈو اور اس کے ہاتھ گنگا کو فروخت کر دو تاکہ وہ اس کے گوشت اور کھال کا استعمال کر لے اور اس کے بدلے تمہیں کچھ معاوضہ بھی حاصل ہو جائے اس کے بعد آگے کی سوچیں گے۔ دیکھو دگڑو اس کام میں تاخیر نہ ہو ورنہ بات اور بھی بگڑ جائے گی .

بگڑ جائے گی؟ دگڑو نے حیرت سے پو چھا۔

اگر بیل مر گیا تو اس کا گوشت حرام ہو جائے گا اور کھال بھی سڑ جائے گی۔

دگڑو سیدھے کلو کے پاس بھاگا۔ حکو اسے خبر کر دے چکا تھا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے اس لئے وہ تیار بیٹھا تھا۔ جب دگڑو نے اس کائیاں قصائی کے سامنے از خود پیش کش کی تووہ بولا دیکھو یہ معاملہ ذرا سا نازک ہے اس لئے ایسا کرتے ہیں کہ بیل کو ذبح کرنے کا معاوضہ میں کھال کی صورت میں لے لیتا ہوں اور گوشت کے عوض جو کچھ ملے گا اسے آدھا آدھا بانٹ لیں گے۔

یہ کیا؟ بیل میرا اور مجھ سے زیادہ تمہاری کمائی؟ یہ انصاف نہیں ہے۔

کلو بولا میں نے اپنی بات بتا دی تم اس پر دوچار دن غور کرو تو ممکن ہے تمہاری سمجھ میں یہ تجویز آ جائے گی۔ کلو نے دگڑو کی مجبوری کا بھر پور فائدہ اٹھایا اور اپنی شرائط پر اسے راضی کر لیا۔ قدرت کی عجب ستم ظریفی کہ کل تک جس کھیت کو گنگا اپنے خون پسینے سے سبزہ زار کرتا تھا آج اس کے خون سے لالہ زار ہونے جا رہا تھا۔ جس دگڑو نے اس کی خاطر گھربار چھوڑ رکھا تھا آج وہ کلو کو اپنے ساتھ لے کر آیا تھا۔ دگڑو کی آنکھوں کے سامنے گنگا کو ذبح کیا گیا اور اس کی تکا بوٹی کی جانے لگی۔

گاؤں میں اس خبر کے ساتھ کہ دگڑو کے کھیت میں بیل ذبح ہوا یہ بات بھی پھیل گئی کہ بیل پاگل ہو گیا تھا۔ حکیم صاحب کے نائب حکو ّکا یہ دوسرا کارنامہ تھا۔ گاؤں کا دستور یہ تھا کہ جب بھی کو ئی مویشی ذبح ہوتا گاؤں والے اپنے پاس مو جود سامان کے ساتھ حاضر جاتے تاکہ اپنی پسند کا گوشت لے کر جا سکیں، جیسے جیسے گوشت کم ہوتا جاتا اناج، کپڑے، جوتے وغیرہ وغیرہ کا ڈھیر لگتا جاتا لیکن گنگا کا گوشت تیار ہو گیا اس کے باوجود کوئی خریدار نہیں آیا۔

دگڑو نے کلو سے مشورہ کیا جو کھال سمیٹ رہا تھا۔ کلو بولا ایک صورت ہے اگر حکیم صاحب تصدیق فرما دیں کہ اس گوشت میں کوئی خطرہ نہیں ہے تو حکو کا فتنہ مٹ جائے گا۔ دگڑو حکیم صاحب کے پاس آ کر منت سماجت کرنے لگا کہ وہ تصدیق کر دیں کہ بیل بیمار ضرور تھا لیکن پاگل نہیں ہوا تھا۔ حکیم صاحب اس کیلئے تیار نہیں ہو رہے تھے ان کا کہنا تھا کہ بیل تو یقیناً پاگل ہو گیا تھا اب دگڑو بحث پر اتر آیا اور کہنے لگا حکیم صاحب آپ کیسی پاگلوں جیسی بات کرتے ہیں۔ انسان تو پاگل ہو تے ہیں لیکن کیا جانور بھی کہیں پاگل ہو سکتے ہیں؟

حکیم صاحب بولے جی ہاں پاگل تو کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ جس طرح انسان کا وحشی بن جانا دیوانگی ہے اسی طرح بیل کا بھونکنے لگ جانا بھی پاگل پن ہی ہے۔

لیکن دگڑو کو پاگل کتوں نے نہیں بلکہ سیانے کتوں نے کاٹا ہے حکیم صاحب ایسے میں وہ کیسے پاگل ہو سکتا ہے؟

یہ ہماری غلط فہمی ہے کہ انسان صرف پاگل کتے کے کاٹنے سے ہی پاگل ہوتا ہے۔ انسانوں اور جانوروں کو پاگل کرنے کیلئے کسی بھی کتے کا کاٹنا کافی ہے۔

لیکن گوشت تو گوشت ہے؟ پاگل بیل کا ہو یا سیانے کا؟ کیا فرق پڑتا ہے؟

کاٹنے اور بیچنے والے کو تو نہیں لیکن کھانے والے کو پڑ سکتا ہے؟

دگڑو نے سوال کیا اچھا اگر کوئی کسی پاگل بیل کا گوشت کھا جائے تو کیا ہو گا؟

کچھ بھی ہو سکتا ہے؟ مثلاً یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کھانے والا خود بھی پاگل ہو جائے۔

دگڑو بولاکیسی بات کرتے ہیں حکیم صاحب کیا ایسا بھی ممکن ہے؟

جی ہاں دگڑو میں یقین کے ساتھ تو نہیں کہہ سکتا کہ ایسا ہی ہو گا لیکن اس امکان کو خارج بھی نہیں کیا جا سکتا .

اس کا مطلب یہ ہے کہ اس بات کا بھی امکان ہے کہ ایسا کچھ نہ بھی ہو؟

جی ہاں بے شک ایسا ممکن ہے؟ تم چونکہ بیچنے والے ہو اس لئے تم یہی کہو گے کہ ایسا ہر گز نہ ہو گا لیکن جسے کھانا ہے اسے تواس وقت تک احتیاط برتنا ہو گا جب تک کے اعتماد بحال نہ ہو جائے۔

اچھا حکیم صاحب اب لو گوں کو اعتماد لینے ہی کی کوئی ترکیب بتلا دیں۔

بھئی یہ کام تو بیک وقت آسان بھی ہے اور مشکل بھی۔

دگڑو بولا وہ کیسے؟

حکیم صاحب نے جواب دیا اگر کوئی اس گوشت کو کھا کر دکھلائے اور پاگل نہ ہو تو لوگ آسانی سے یقین کر لیں گے کہ خطرہ نہیں ہے لیکن پھر مشکل یہ ہے کہ آخر کھائے گا کون؟ ایسا خطرناک تجربہ کون کریگا بھلا؟

میں کروں گا یہ تجربہ! دگڑو نے اعتماد سے کہا مجھے یقین ہے کہ میرے بیل کا گوشت کھانے والا پاگل نہیں ہو سکتا۔

اچھا اگر ایسا ہے تو میں حکو سے کہہ دیتا ہوں یہ خبر گاؤں بھر میں آگ کی طرح پھیل جائے گی۔ لوگ تمہیں کھانے کے بعد اچھا بھلا دیکھ کر گوشت لے جائیں گے۔

دگڑو نے گھر آ کر چھمیا سے کہا تم اس گوشت کا سالن بناؤ میں سارے گاؤں والوں کے سامنے اسے کھا کر دکھلاؤں گا۔ مجھے یقین ہے کہ اس کے بعد لوگ گوشت لے جائیں گے اور اس گوشت کے عوض جو کچھ ہمیں حاصل ہو گا اس میں کچھ اور اناج ملا کر ہم گنگا کا متبادل اپنے گھر میں لے آئیں گے۔

چھمیا نے ڈرتے ڈرتے پوچھا لیکن اگر کہیں کچھ ہو گیا تو؟

دگڑو نے چڑ کر جواب دیا بے وقوف عورت میں جو کہتا ہوں سوکر۔ دماغ نہ خراب کر کیا سمجھی؟

چھمیا نے ہانڈی چڑھا دی اور سوچنے لگی اس بیل میں دماغ ہے ہی کہاں جو خراب ہو؟ اگر کسی کے پاس رتی بھر عقل ہو تب بھی وہ ایسا خطرہ مول نہ لے لیکن وہ جانتی تھی یہ دگڑو ہے۔ اس نے ایک بار زبان سے جو کہہ دیا وہ پتھر کی لکیر ہوتا ہے۔

دگڑو کے کھیت میں گاؤں والوں کا مجمع لگنے لگا۔ ہر کوئی گوشت لے جانے کیلئے اپنے ساتھ کچھ نہ کچھ لے کر آیا تھا۔ اتفاق سے ان میں ایک شکاری بھی تھا جو اپنے ساتھ جنگل سے ایک مرغا پکڑ لایا تھا۔ وہی مرغا جو کسی زمانے میں اس گھر کا ایک فرد ہوا کرتا تھا۔ یہ اس دور کی بات ہے جب اس گھر کے مالک پر پاگل پن کا دورہ نہیں پڑا تھا۔

دگڑو نے حکیم صاحب سمیت گاؤں والوں کے سامنے گوشت کھانا شروع کیا۔ حکیم صاحب نے اس بارے میں بزرگوں سے بہت کچھ سن رکھا تھا لیکن آج وہ اپنی آنکھوں سے ان باتوں کی تصدیق کرنا چاہتے تھے۔ دگڑو جیسے جیسے گوشت کھاتا جاتا اس کی طبعی کیفیات میں تبدیلی ہوتی جاتی۔ پہلے تو اس کی آنکھیں سرخ ہو گئیں پھر اچانک اس کا چہرہ لمبوترا ہونے لگا اور اب اس کے جسم پر بڑے بڑے بال اگ آئے تھے اور کان لمبے ہو کر لٹکنے لگے تھے۔ لوگ دم بخود ان حیرت انگیز مناظر کو دیکھ رہے تھے۔ ان کی قوت گویائی چھن گئی تھی اور ہاتھ پیر شل ہو گئے تھے۔

دیکھتے دیکھتے دگڑو کے دم نکل آئی وہ اپنے دونوں ہاتھوں اور پیروں کے بل زمین پر کھڑا ہو گیا اور زور زور سے بھونکنے لگا۔ دگڑو آسمان کی جانب سر اٹھا کر بے تکان بھونکے جا رہا تھا گویا اس نے کسی آسیب کو دیکھ لیا ہو۔ ایسا لگتا تھا کہ اب وہ بھونک بھونک کر مر جائے گا۔ کلو قصائی نے کھال کا تھیلا سمیٹا اور کھڑا ہو گیا۔ بھیڑ چھٹنے لگی۔ چند افراد جو اس درد ناک کہانی کا انجام دیکھنے کے متمنی تھے رکے رہے جن میں سے ایک شکاری بھی تھا۔

دگڑو کے بچے چیخ چیخ کر رونے لگے تھے حکیم صاحب انہیں دلاسہ دے رہے تھے چھمیا بولی۔ حکیم صاحب کچھ کیجئے اس کو مرنے سے بچا لیجئے۔ مجھے ڈر ہے کہ یہ اس طرح بھونک بھونک کر مر جائے گا۔

بیٹی چھمیا میں بیماری کا علاج تو کر سکتا ہوں لیکن موت کا نہیں۔ اس لئے کہ موت کوئی بیماری نہیں ایک فیصلہ ہے، ایسا اٹل فیصلہ جو اپنے وقت پر نافذ ہو کر رہتا ہے۔ اس پر کوئی اثر انداز نہیں ہو سکتا۔

لیکن حکیم صاحب آپ کم از کم کوئی ایسی دوائی تو دے سکتے ہیں جس سے وہ بھونکنا بند کر دے اور سکون کے ساتھ موت کی آغوش میں سوجائے۔

حکیم صاحب کے پاس چھمیا کے اس تقاضے کا بھی کوئی جواب نہیں تھا وہ دم بخود کھڑے تھے شکاری حیرت سے اس منظر کو دیکھ رہا تھا کہ اچانک اس کے مرغے نے اذان دینا شروع کر دی۔ موجود لوگوں نے کہا لگتا ہے مرغا بھی پاگل ہو گیا ہے جو بے وقت کی اذان دے رہا ہے .

حکیم صاحب بولے مرغا پاگل نہیں ہے وہ نمازِ جنازہ کیلئے سب کو بلا رہا ہے یہ اسی نماز کا وقت ہے۔

اذان جیسے جیسے بلند ہوتی گئی بھونکنے کی آواز گھٹتی چلی گئی۔ دگڑو کے جسم پر بڑھے ہوئے بال غائب ہو گئے۔ لمبوترا چہرہ معمول پر آ گیا اور دم غائب ہو گئی۔ اذان ختم ہوئی اور اسی کے ساتھ دگڑو کا بھی خاتمہ ہو گیا۔

اس صورتحال نے چھمیا کو عجیب بیم و رجا کی کیفیت میں مبتلا کر دیا۔ وہ غمگین تھی کہ دگڑو کو موت کی خاموشی نے نگل لیا ہے لیکن خوش تھی کہ وہ بھونک نہیں رہا ہے۔

وہ اپنے شوہر کی لاش پر غمگین تھی لیکن پھر مطمئن تھی کہ یہ کسی کتے کا نہیں بلکہ اس کے اپنے خاوند کا جسدِ خاکی ہے جس پر وہ آنسو بہا رہی ہے۔

حکیم صاحب نہ جانے کیا کیاسوچ رہے تھے۔

عبادت۰۰۰۰۰۰۰فرحت۰۰۰۰۰۰۰معاشرت۰۰۰۰۰۰۰۰معیشت ۰۰۰۰۰۰۰۰۰شہوت ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰اور نہ جانے کیا کیا؟







خوابِ پریشاں



نماز فجر کے بعد جیسے ہی گلریز نے حویلی میں قدم رکھا اندر سے ہاتھوں میں چائے کی دو پیالیاں لیے اس کی بہن صفیہ نمودار ہوئی۔ دونوں ایک ساتھ صحن میں پڑی ٹپائی کے پاس پہونچے اور بیت کی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ صفیہ نے اِٹھلاتے ہوئے کہا۔

’’آج تو بھیا کچھ زیادہ ہی سنجیدہ نظر آ رہے ہیں۔ کیا بات ہے؟ ‘‘

اس کے سوال کو پسِ پشت ڈال کر گلریز نے کہا۔

’’میں ابھی اسی وقت بڑے پیر صاحب کی خانقاہ جا رہا ہوں۔ ‘‘

’’کیوں خیریت تو ہے؟ یہ اچانک۔۔۔‘‘

اس نے جملہ کاٹتے ہوئے کہا۔ ’’ہاں اچانک۔ ‘‘

’’وجہ جان سکتی ہوں؟ ‘‘

گلریز چراغ پا ہو گیا۔ ’’ہر بات کی وجہ نہیں ہوتی اور پھر بتانا بھی ضروری نہیں ہوتا۔ ‘‘

بھائی کا غصہ دیکھ صفیہ سہم گئی اور گھگیا کر بولی۔ ’’نہیں، نہیں میں تو صرف اس لیے پوچھ رہی تھی کہ مجھے بھی چلنا تھا بڑے پیر صاحب کی خانقاہ۔ گذشتہ بار میں نے منّت باندھی تھی۔ ‘‘

’’تو چلو تم بھی چلو کس نے منع کیا ہے تمہیں۔ لیکن دیکھو جلدی سے تیار ہو جاؤ ورنہ میں رُکنے والا نہیں ہوں۔ ‘‘

’’لیکن بھیا میں آج کیسے چل سکتی ہوں۔ کیا آپ اسے ایک دو دن کے لیے مؤخر نہیں کر سکتے تاکہ اپنی بہنا کو بھی ساتھ لے جا سکو۔ ‘‘

’’نہیں، یہ نہیں ہو سکتا۔ چلنا ہے تو آج اور ابھی چلنا ہو گا ورنہ تم جانو اور تمہارا کام۔ ‘‘

’’لیکن بھیا آج میں کیسے چل سکتی ہوں۔ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ آج میری بچپن کی سہیلی شہناز کا نکاح ہے۔ میں اسے چھوڑ کر کیسے جا سکتی ہوں۔ ‘‘

’’ہاں ہاں تو کون کہہ رہا ہے کہ تم اپنی سہیلی کا نکاح چھوڑ کر میرے ساتھ چلو۔ آج نکاح ہے کل ولیمہ ہو گا اور پھر دیگر رسوم و رواج کا سلسلہ، لگی رہو ان سب میں۔ تم عورتوں کا اور کام ہی کیا ہے؟ ‘‘

’’لیکن بھیا دعوت تو آپ کو بھی ہے۔ ‘‘

’’مجھے ہے !‘‘

’’جی ہاں !مطلب پورے گھر کی دعوت ہے ‘‘

’’تو ٹھیک ہے سارا گھر تو شریک ہو ہی رہا ہے۔ ‘‘

’’اچھا آپ اپنے آپ کو گھر کا فرد نہیں سمجھتے؟ ‘‘

’’نہیں میری بہنا، بے شک میں اپنے آپ کو اس گھر کا ایک فرد سمجھتا ہوں لیکن جب سبھی لوگ شریک ہو رہے ہیں تو ایک آدھ کی غیر موجودگی سے کیا فرق پڑتا ہے۔ ‘‘

’’پڑتا ہے۔ فرق کیوں نہیں پڑتا۔ بہت فرق پڑتا ہے۔ شہناز ہماری پڑوسن ہے۔ بچپن کی ساتھی، ہم لوگ برسوں ساتھ ساتھ کھیلتے، مکتب جاتے، میلوں ٹھیلوں میں ساتھ ہوتے اور پھر یہ موقع بار بار تھوڑے ہی آتا ہے۔ اس سے برسوں کے تعلقات بگڑ جاتے ہیں۔ ہمیشہ کی ناراضگی پڑ جاتی ہے۔ ‘‘

’’دیکھو صفیہ صبح صبح بوڑھی خالاؤں کی طرح نصیحت بند کرو۔ چپ چاپ جا کر میرے کپڑے وغیرہ تیار کرو۔ میں نہا کر آتا ہوں تب تک بیگ تیار ہونا چاہئے۔ ‘‘ یہ کہہ کر گلریز حمام کی جانب چل پڑا۔

کپڑے تیار کرتے ہوئے صفیہ سوچ میں گم تھی۔ یہ پروگرام اچانک کیوں کر بن گیا اور گلریز کا پیر صاحب کی خانقاہ جانا بذاتِ خود ایک عجیب و غریب بات تھی۔ اس سے پہلے ایسا کئی بار ہوا کہ سارے خاندان نے خانقاہ جانے کا پروگرام بنایا لیکن گلریز نے کسی نہ کسی بہانے سے اپنا دامن چھڑا لیا۔ کبھی کبھار تو اسے والدین کی ناراضگی بھی سہنی پڑی لیکن وہ ماننے والوں میں سے نہ تھا جو ٹھان لی وہی کیا۔ دوسروں کی خوشی و ناراضگی سے بے پرواہ اپنی مرضی کا مالک تھا اس کا بھائی۔ لیکن جس طرح جب وہ نہ جانا چاہتا تھا تو اسے کوئی نہیں لے جا سکا تھا اسی طرح آج شاید اسے کوئی روک بھی نہ سکتا تھا اسی ادھیڑ بن میں بیگ تیار کر کے وہ باورچی خانہ میں آ گئی تاکہ اس کے لیے جلدی جلدی ناشتہ تیار کر دے ورنہ وہ بغیر کچھ کھائے پئے ہی چل دے گا۔ ابھی وہ اپنے کام سے فارغ بھی نہیں ہوئی تھی کہ گلریز کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔

’’صفو کہاں ہو تم؟ کہاں ہے میرا بیگ۔ میں نے کہا تھا ناکہ مجھے جلدی ہے میں تاخیر نہیں چاہتا۔ ‘‘

’’ہاں ہاں بھئی جلد باز خان ناشتہ کی میز پر بیٹھو میں ابھی آ رہی ہوں۔ ‘‘

’’میں نے کہا تھا بیگ باندھ دو۔ کیوں دیر کر رہی ہو۔ ‘‘

’’ہاں بھئی بیگ بندھا ہوا ہے لیکن ناشتہ باندھنے کے لیے نہیں کہا تھا۔ اس لیے میں دو منٹ میں اسے بیگ کے ساتھ حاضر خدمت کیے دیتی ہوں۔ ‘‘

ناشتہ کی میز پر جلدی جلدی ناشتہ کرتے دیکھ صفیہ کو ہنسی آ گئی اور پوچھ بیٹھی۔ ’’بھیا جان کی امان پاؤں تو کیا میں یہ پوچھنے کی جرأت کروں کہ آج سورج کس سمت سے طلوع ہوا۔ کہیں مغرب سے تو نہیں؟ ‘‘

’’کیا بکتی ہو؟ ‘‘

’’نہیں کچھ نہیں۔ پیر صاحب اور آپ۔ یہ اچانک اتنی جلدی جلدی۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے۔ آخر ہوا کیا ہے؟ کوئی خاص دعا کروانی ہے کیا؟ اور اگر دعا ہی کروانی ہے تو اب بہت دیر ہو چکی ہے۔ آپ کے گاؤں پہونچنے سے پہلے ڈولی اُٹھ چکی ہو گی۔ ‘‘

’’بکواس مت کرو۔ تمہارے اعصاب پر تو بس شہناز اوراس کا نکاح سوار ہے۔ ‘‘

’’لیکن کہیں آپ بھی تو اس تقریب سے راہِ فرار نہیں اختیار کر رہے۔ ‘‘

’’ارے بس بھی کرو۔ ‘‘

’’نہیں مجھے بتاؤ کوئی خواب دیکھا ہے کیا؟ ‘‘

’’ہاں ہاں خواب دیکھا ہے۔ ‘‘

’’اچھا تب تو مجھے کہنا پڑے گا خواب دیکھنے میں آپ نے بہت تاخیر کر دی اور ایک ایسا خواب دیکھ لیا جو اب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ ‘‘

’’اوہو تم پھر وہیں پہونچ گئیں۔ میں ان خوابوں کی بات نہیں کرتا جو تم سب سوتے جاگتے دیکھتی ہو۔ اور بھی غم ہیں زمانے میں ۔۔۔۔۔۔‘‘

’’اچھا تو کیا خواب دیکھا ہے میرے بھیا نے جو اس قدر پریشان ہیں، میں بھی تو جانوں۔ ‘‘

’’صفو ! وہ خواب ایک ایسا خواب ہے جس نے میرا چین مجھ سے چھین لیا ہے۔ شاید بڑے پیر صاحب ہی مجھے اس کی تعبیر بتا سکیں اور اسی لیے میں ابھی اسی وقت ان کی خدمت میں جا رہا ہوں۔ ‘‘

’’اچھا بابا جاؤ لیکن امّی ابّا سے ملتے جانا۔ انہیں میں نے تمہارا منصوبہ بتا دیا ہے۔ وہ بہت خوش ہیں اور اپنے کمرے میں اپنے لال کا انتظار کر رہے ہیں۔ ‘‘

’’ہاں ہاں میں جانتا ہوں تم تو آکاش وانی ہو۔ اسی لیے کوئی بات سارے گھر کو بتلانی ہو تو میں تمہیں بتلا دیتا ہوں اور پھر جنگل کی آگ کی طرح وہ خبر سارے گھر میں پھیل جاتی ہے۔ ‘‘

’’کیوں نہیں کیوں نہیں؟ ‘‘ صفیہ نے خود اپنی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے کہا۔ ’’ملک کے ذہین ترین اُبھرتے ہوئے صحافی کی بہن جو ہوں۔ اگر تمہاری خبریں سارے ملک میں پھیل جاتی ہیں تو کیا میری خبر سارے گھر میں بھی پھیل نہیں سکتی۔‘‘

ناشتہ کے ساتھ بھائی بہن کی نوک جھونک کا سلسلہ بھی ختم ہو گیا۔ گلریز والدین کے کمرے میں داخل ہوا۔ دونوں نے نہایت تپاک سے اسے پاس بلایا۔ فخر ومسرت سے دونوں پھولے نہیں سمارہے تھے۔ ماں نے کہا۔

’’دیکھو جی میں نہ کہتی تھی کہ اپنا بیٹا سمجھدار ہو گا تو اپنے خاندان کی روایت کو پروان چڑھائے گا۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے ماں نے بیٹے کی پیشانی پر بوسہ دیا۔ سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا۔ والد نے سینے سے لگایا اور مصافحہ کر دعاؤں کے ساتھ الوداع کیا۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

لاہور سے مراد پور کی مسافت تقریباً بارہ گھنٹے کی تھی۔ یہ سفر وہ آرام سے کرنا چاہتا تھا اس لیے ریلوے اسٹیشن پہونچنے کے بعد اس نے اپنا شناختی کارڈ نکالا اور اس کی مدد سے نہ صرف کرائے میں سہولت حاصل کی بلکہ ریزرویشن کرنے میں بھی کامیاب ہو گیا۔ ویسے ریلوے اسٹیشن کا اکثر و بیشتر عملہ اس کا واقف کار تھا۔ اس لیے یہ کام اس نے بہت پھرتی سے نمٹا لیا تھا۔ گاڑی کے آنے میں اب بھی کچھ وقت تھا اس لیے وہ کتابوں کی دوکان پر پہنچ گیا۔ وہاں سے اس نے کئی اخبارات اور جریدے خریدے اور پھر چائے کی دوکان کی جانب ہو لیا۔

چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے گلریز سوچنے لگا کہ یہ بات تو اس کے خواب و خیال سے پرے تھی کہ وہ کبھی مراد پور اپنے خاندانی مرشد کی خدمت میں حاضر ہو گا۔ لیکن رات جو خواب اس نے دیکھا تھا اس کی تعبیر کے لیے اسے کوئی راستہ سجھائی نہ دیا۔ حالانکہ شہر کے بڑے بڑے اہل علم حضرات سے اس کے مراسم ہیں۔ اچھے دانشوروں کے ساتھ اس کا اٹھنا بیٹھنا ہے لیکن اس کے دل نے ان سب کو اس کام کے لیے نا اہل قرار دے دیا۔ بڑے پیر صاحب کی مقناطیسی شخصیت جو بچپن میں اس کے دل میں گھر کر گئی تھی اچانک اُبھر آئی اور اس نے خانقاہ جانے کا فیصلہ کر لیا۔

خیالات کے اس سلسلے کو ریل گاڑی کی کوک نے توڑ دیا۔ اس نے اپنا بیگ اٹھایا اور اپنی نشست کی جانب چل دیا۔ کھڑکی سے ٹیک لگا کر وہ پھر ایک بار اپنے خواب میں کھو گیا۔ ڈبے کے اندر اور باہر ہنگامہ برپا تھا لیکن اس بھیڑ بھاڑ میں وہ یکا و تنہا سب کے درمیان سب سے الگ تھلگ اپنے خواب کی تعبیر میں سرگرداں رواں دواں تھا۔

ریل گاڑی رفتار پکڑ چکی تھی۔ تیز ہوا کے جھونکے اس کے چہرے سے ٹکرا رہے تھے۔ گلریز نے اپنی بند آنکھوں کو کھول کر آس پاس نظر دوڑائی تو کیا دیکھتا ہے کہ تمام اخبارات اپنی جگہ سے غائب ہیں۔ ہمسفر حضرات نے بلا اجازت اور بلا تکلف انہیں آپس میں تقسیم کر لیا ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ اپنے غم و غصہ کا اظہار کرتا پاس بیٹھا ایک نوجوان بول پڑا۔

’’معاف کرنا آپ آرام فرما رہے تھے اس لیے ہم نے خلل ڈالنا مناسب نہ سمجھا۔ ‘‘

’’اچھا تو یہ آپ کی کرم فرمائی تھی۔ میں تو یہ سمجھ رہا تھا کہ آپ لوگوں نے موقع غنیمت جان کر ہاتھ صاف کر لیا۔ در اصل ہمارے اُردو اخبارات کا المیہ یہی ہے کہ اس کا قاری پڑھنا تو چاہتا ہے لیکن خریدنا نہیں چاہتا۔ ‘‘

اس تلخ کلامی کے جواب میں وہ نوجوان پھر گویا ہوا۔ ’’آپ کسی اخبار کے دفتر میں ملازمت تو نہیں کرتے؟ ‘‘

’’کیوں اس سے تمہیں مطلب؟ ‘‘

’’نہیں نہیں ایسی بات نہیں۔ بات در اصل یہ ہے کہ آپ کے پاس اتنے سارے اخبارات اور پھر اخبارات کے بارے میں آپ کی پرسوز گفتگو۔ یہ تمام اخبارات آپ نے خریدے تو نہ ہوں گے؟ ‘‘

’’کیا مطلب؟ مجھے بھی اپنی ہی طرح مفت بین سمجھ رکھا ہے۔ سبھی کو اپنی طرح مفت خور سمجھتے ہو۔ ‘‘

’’نہیں صاحب ایسی بات نہیں۔ بات در اصل یہ ہے کہ ویسے تو ایک ہی اخبار کافی ہوتا ہے۔ آپ کے پاس اتنے سارے اخبارات دیکھ کر ہمیں لگا کہ شاید ۔۔۔‘‘ وہ رک گیا۔

’’رُک کیوں گئے؟ بولو بولو کہ شاید مفت میں ہاتھ لگ گئے ہوں گے۔ ‘‘

’’نہیں نہیں صاحب ایسی بات نہیں بات در اصل یہ ہے کہ ۔۔۔‘‘

اس نے غصہ سے ٹوک دیا۔ کیسی بات نہیں؟ بات در اصل کیا ہے؟ ‘‘

’’کچھ نہیں صاحب آپ تو بلاوجہ مجھ پر برس رہے ہیں۔ میں نے تو آپ سے معذرت بھی طلب کی پھر بھی آپ مجھ ہی کو ڈانٹ رہے ہیں حالانکہ سب لوگ ڈھٹائی کے ساتھ اخبار پڑھ رہے ہیں۔ آپ ان کو کچھ نہیں کہتے۔ ‘‘

’’کون کہتا ہے کہ میں ان کو نہیں کہتا۔ میں تو سبھی کو کہہ رہا ہوں لیکن مفت بینی انسان کو بے حس بنا دیتی ہے۔ یہ سن کر ایک صاحب کی حس بیدار ہو گئی اور اُنہوں نے کہا۔

’’دیکھئے صاحب! آپ کو قارئین کے ساتھ اس طرح کی بدزبانی نہیں کرنی چاہئے۔ ہم اخبارات پڑھتے ہیں تبھی تو اخبارات کا کاروبار چلتا ہے ورنہ ۔۔۔‘‘

’’ورنہ کیا اخبارات بند ہو جائیں گے۔ ہم لوگ بے کار ہو جائیں گے۔ بھوکوں مرنے لگیں گے۔ ‘‘

’’نہیں نہیں یہ بات نہیں۔ بات در اصل یہ ہے کہ ۔۔۔‘‘

گلریز کا پارہ چڑھ چکا تھا۔ اس نے کہا۔ ’’تم چپ رہو میں ان سے بات کر رہا ہوں۔ ‘‘

’’نہیں صاحب آپ بلاوجہ ناراض ہو رہے ہیں۔ میں نے یہ سب کب کہا؟ ‘‘

’’کہا نہیں لیکن کہنا تو یہی چاہتے تھے۔ کان کھول کر سن لو اخبارات تم جیسے مفت خوروں کی بدولت نہیں چلتے بلکہ ان کی وجہ سے چلتے ہیں جو انہیں خرید کر پڑھتے ہیں۔ ‘‘

’’ہاں ہاں ہم نہیں خریدتے تو آپ کہاں خریدتے ہیں۔ مفت میں مل جاتے ہیں تو اس قدر اتراتے ہیں۔ ‘‘ یہ تیسرے صاحب تھے۔

’’بھئی ہم جس سے اخبار مانگ کر پڑھتے ہیں وہ تو اخبار خریدتا ہے۔ ‘‘ چوتھا بولا۔

’’اس کی چھوڑو اپنی کہو۔ زبان صرف اس کی ہے یا تمہاری بھی ہے۔ اس کی بقاء و ترویج اسی کی ذمہ داری ہے یا تمہاری بھی ہے اور اپنی زبان کے اخبارات کے فروغ کا ٹھیکہ اسی نے لیا ہے یا تمہارا بھی اس میں کوئی حصہ ہے۔ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ جتنا روپیہ آپ لوگ سگریٹ کے دھوئیں میں اُڑا دیتے ہیں یا پان کی پیک کے ساتھ تھوک دیتے ہیں اگر اس کا عشر عشیر بھی اخبارات خریدنے پر صرف ہو تو اُردو اخبار بھی دنیا کے کثیر الاشاعت اخبارات میں شامل ہو جائے۔ ‘‘

اس تقریر کے بعد اس کے بالکل مدمقابل بیٹھے ہوئے بزرگ بولے۔ ’’برخوردار چہرے سے تو صحافی معلوم ہوتے ہو۔ لیکن لگتا ہے کام مارکٹنگ کے شعبہ میں کرتے ہو اور ہاں دنیا کے اخبارات کی تعداد اشاعت تو آپ لوگوں کو خوب دکھائی دیتی ہے لیکن ان کا معیار نظر نہیں آتا۔ کہاں ۲۰ سے ۳۲ صفحات پر مشتمل انگریزی اخبارات اور کہاں آٹھ دس صفحات والے اُردو اخبار بھئی کوئی موازنہ ہے ان دونوں میں اور اوپر سے قیمت دونوں کی یکساں۔ ‘‘

اس بات نے گلریز کے تن بدن میں آگ لگا دی۔ وہ بولا ’’ ذہنی غلامی کی بھی حد ہوتی ہے۔ جن اخبارات کی بات آپ کر رہے ہیں ان کا پچاس سے ساٹھ فی صد حصہ اشتہارات پر مشتمل ہوتا ہے۔ ان کے اشتہار کا نرخ ہمارے اخبارات سے کئی گنا زیادہ ہوتا ہے۔ ہم نہ اپنے اخبارات کو اشتہار دیتے ہیں اور نہ خرید کر پڑھتے ہیں اور مقابلہ ان اخبارات سے کرتے ہیں۔ پھر بھی اگر موازنہ ہی کرنا ہے تو آپ بتائیں کہ وہ کون سی اہم خبر ہے جو انگریزی اخبار میں چھپی ہے اور ہمارے اخبار میں نہیں چھپی۔ وہ کون سا موضوع ہے جس پر انہوں نے تبصرہ کیا اور ہم نے نہیں کیا۔ اخبار رنگ و روغن کا نام نہیں ہے وہ خبروں اور تجزیوں سے بنتا ہے۔ ‘‘

’’ لیکن آپ کو دلکش بنانے سے کس نے روکا ہے۔ اخبار کی زیبائش و آرائش پرکسی کی اجارہ داری ہے کیا؟ ‘‘

’’ہاں یہ سوال اہم ہے۔ در اصل ہم کو وسائل و ذرائع کی تنگی نے روکا ہے۔ انگریزی اخبارات کو خوشنما بنانے والا کوئی اور نہیں ہم ہی لوگ ہیں۔ لیکن وہاں ہمیں وسائل میسر ہیں اور یہاں ہم ان سے محروم ہیں۔ ‘‘

’’لیکن ذرائع کے حصول پر کس کی رکاوٹ ہے؟ ‘‘

’’رکاوٹ ہے آپ جیسے قارئین کی جو مفت میں اخبار پڑھتے ہیں۔ اس کے باعث تعداد اشاعت کم ہوتی ہے۔ اس وجہ سے اشتہارات کم ملتے ہیں۔ ‘‘

بزرگ پھر بول پڑے۔ ’’دیکھا آپ نے انہوں نے پھر ہمیں کو موردِ الزام ٹھہرا دیا۔ ان سے کوئی نہیں جیت سکتا۔ یہ اپنی کوئی غلطی تسلیم نہیں کریں گے۔ دو روپئے کا اخبار کیا دیا بیس روپئے کی باتیں سنا ڈالیں۔ ‘‘

’’جنابِ عالی میں صرف سنا نہیں رہا ہوں بلکہ سن بھی رہا ہوں اور آپ بھی صرف سن نہیں رہے سنا بھی رہے ہیں۔ ‘‘

بزرگ بولے ’’ آپ جو کچھ سنتے ہیں اس پر خفا ضرور ہوتے ہیں لیکن آپ کے کہنے سے مخاطب پر کیا گذرتی ہے اس کا احساس نہیں کرتے۔ ‘‘

گلریز نے جواب دیا ’’اور آپ لوگ! یہ بھی تو سوچیں کہ آپ نے مجھ سے اخبار بھی لیا اور مجھے ڈانٹ بھی پلائی۔ کیا یہ رویہ مبنی بر انصاف ہے؟ ‘‘ بالآخر اس کی حجت بازی سے زچ ہو کر لوگوں نے بیزاری سے اپنے ہاتھوں کے اخبار اس کے سامنے ڈال دیئے۔

ایک نے کہا۔ ’’بھئی غلطی ہو گئی۔ ہم معذرت چاہتے ہیں آپ جانیں اور آپ کے اخبار۔ خود ہی لکھیے خود ہی پڑھیے۔ خوشیاں منائیے اور ہمیں معاف کیجیے۔ ‘‘

صبح سے ہونے والی اس دوسری تلخ کلامی نے اس کا موڈ خراب کر دیا۔ اس نے پھر ایک بار کھڑکی سے سرٹیک کر آنکھیں موند لیں۔ وہ دوبارہ اس خواب میں ڈوب جانا چاہتا تھا جس نے اسے بے چین کر دیا تھا۔ لیکن آنکھوں میں نہ نیند تھی اور نہ خواب تھا۔ وہ سوچنے لگا انسان کس قدر بے اختیار ہے۔ اسے اپنے آس پاس رونما ہونے والے واقعات پر تو کجا اپنے خوابوں پر بھی اختیار حاصل نہیں۔ وہ اپنی مرضی کے خواب بھی نہیں دیکھ سکتا۔

گلریز کو جاں نثار اختر کا مشورہ یاد آ رہا تھا کہ جب خواب کانٹے کی طرح کھٹکنے لگے تو اسے آنکھوں سے نکال دینا چاہئے۔ لیکن کانٹا نکل جانے کے باوجود زخم چھوڑ جاتا ہے۔ درد باقی رہتا ہے۔ وقت کا مرہم سبھی زخموں کو بھر دیتا ہے لیکن کچھ ناسور کبھی نہیں بھرتے۔ شاید اس لیے کہ انسان خود انہیں ہرا رکھنا چاہتا ہے۔ گلریز کا خواب شاید ایسا ہی ایک زخم تھا جس کی ٹیس وہ محسوس کرتا تھا لیکن اس کے باوجود اسے اپنی پلکوں پرسجائے رکھنا چاہتا تھا۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

ریلوے پلیٹ فارم کے شور سے گلریز جاگ گیا۔ اس نے آنکھیں کھولیں اور آس پاس نظر دوڑائی تو کیا دیکھتا ہے گاڑی ایک چھوٹے سے اسٹیشن پر کھڑی ہے۔ آس پاس بیٹھے ہوئے مسافروں میں سے کچھ مونگ پھلیاں چبا رہے ہیں تو کچھ دھواں اُڑا رہے ہیں۔ سبھی نے بحث و مباحثہ کو بھول کر دوبارہ اخبارات کو اٹھا لیا ہے اور اس طرح محو مطالعہ ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہ تھا۔ لیکن اس کے بالکل مدمقابل بیٹھے ہوئے بزرگ نے اخبارات کی جانب دیکھا تک نہ تھا۔ وہ اب بھی منہ پھلائے بیٹھے تھے۔

باہر چائے والا آواز لگا رہا تھا۔ ’’گرم چائے گرما گرم چائے، سستی بھگائے چُستی بڑھائے، پی کر دیکھو۔ اچھی نہ ہو تو پیسے واپس۔ ‘‘ اُسے ہنسی آ گئی اس لیے کہ وہ یقین کے ساتھ کہہ سکتا تھا کہ چائے اچھی نہیں ہے۔ پھر بھی اس نے دو پیالیاں چائے دینے کو کہا۔ پہلی پیالی بزرگوار کی جانب بڑھائی۔ انہوں نے نا نا کہتے ہوئے ہاتھوں میں تھام لیا۔ دوسری پیالی سے وہ خود چسکیاں لینے لگا۔ اسے اپنی تلخ کلامی پر افسوس تھا اس لیے اس نے بزرگ ہمسفر سے معذرت طلب کی۔ چائے کی تلخی نے تلخ کلامی کے اثر کو زائل کر ہی دیا تھا۔ اب معذرت مصری کی ڈلی بن گئی۔ بزرگ نے ناصحانہ انداز میں کہنا شروع کیا۔

’’برخوردار تمہاری باتیں تو بجا ہیں لیکن انداز بیان غلط ہے۔ الفاظ سے زیادہ اثر انداز کا ہوتا ہے اور جب انداز الفاظ پر حاوی ہو جائے تو وہ انہیں بے معنی کر دیتا ہے۔ ویسے تم چہرے سے شریف اور دل کے اچھے معلوم ہوتے ہو۔ لیکن جذباتی ضرور ہو۔ خیر یہ بھی عمر کا تقاضہ ہے۔ ‘‘

گلریز بولا۔ ’’آپ میرے لیے دعا فرمائیں کہ اپنے جذبات قابو میں رکھ سکوں۔ ‘‘

’’ویسے بیٹے ایک تجربے کی بات بتاؤں جس طرح چائے اگر ٹھنڈی ہو جائے تو بے مزہ ہو جاتی ہے اسی طرح بحث کا لطف بھی اس کے گرما گرم ہونے میں ہے۔ ہاں تلخ کلامی سے احتراز کیا کرو کہ وہ اسے بد مزہ کر دیتی ہے۔ ‘‘

چائے ختم ہو چکی تھی۔ دونوں نے چائے کلھڑ کھڑکی سے باہر پھینکے۔ بزرگ کا غصہ گرم گرم چائے نے ٹھنڈا کر دیا تھا۔ اب کھڑکی کو ٹیک لگا کر اونگھنے کی باری ان کی تھی۔ گلریز متعجب تھا جس چائے نے اسے تر و تازہ کر دیا تھا وہی چائے اس کے ہمسفر کے لیے خواب آور دوائی بن گئی تھی۔ ٹرین کے شور میں بزرگ کے ہلکے ہلکے خراٹے موسیقی کا رنگ گھول رہے تھے۔ اسے چائے والے کا دعویٰ یاد آ رہا تھا۔ سستی بھگائے، چستی بڑھائے، پیسے واپس۔ ایسے میں اس کی نظر دوسری جانب بیٹھے ایک تنو مند مسافر پر پڑی جو عینک نکال کر اپنی آنکھوں سے آنسو پونچھ رہا تھا۔

اس کے ہاتھ میں ’’صبح امید‘‘ تھا۔ وہ اخبار جس میں گلریز ملازمت کرتا تھا۔ جب آگے جھک کر گلریز نے اخبار کو قریب سے دیکھا تو سامنے صفحہ اول کی وہی خبر مسکرا رہی تھی جسے خود اس نے قلم بند کیا تھا۔ وہ سوچنے لگا یہ آنسوؤں کا سلسلہ بھی عجیب ہے۔ جس وقت مذکورہ واقعہ کو دیکھنے کے لیے وہ جائے واردات پر پہونچا تو وہاں کا منظر دیکھ کر وہ خود نم دیدہ ہو گیا۔ دفتر آنے کے بعد جب اس نے اس خبر کو لکھ کر اپنے مدیر کے سامنے رکھا تو ان کے دیدے بھی تر ہو گئے۔ انہوں نے بڑی بڑی قومی و عالمی خبروں کو ہٹا کر اس معمولی سی خبر کو تصویر کے ساتھ شاہ سرخی کے ساتھ شائع کروا دیا اور اب قاری اسے پڑھ کر آنسو بہا رہا تھا۔

گلریز کی نظروں میں پھر ایک بار وہ منظر تازہ ہو گیا۔ جس میں ایک غریب اپنے علاقے کے کاؤنسلر کے سامنے گڑ گ ڑا رہا تھا۔ دہاڑیں مار مار کر رو رہا تھا اور بلدیہ کے بلڈوزر کی دہائی دے رہا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا۔

’’حضور مائی باپ آپ کچھ کریں، میری مدد کریں، میں تو برباد ہو گیا، میرا گھر اُجڑ گیا، بلڈوزر نے سب کچھ تہس نہس کر دیا، میرے بیوی بچے بے سروسامانی کے عالم میں سڑک پر آ گئے۔ ان کے سر پر اب صرف آسمان ہے اور آسمان میں بادل ہیں۔ بجلی کڑک رہی ہے، ہوا کے جھکڑ تیز ہوتے جا رہے ہیں۔ میرا ایک شیرخوار بچہ بھی ہے۔ حضور میرا کیا ہو گا؟ میں کہاں جاؤں گا؟ اگر برسات ہونے لگے تو میرا کیا ہو گا؟ میرے بیوی بچوں کا کیا ہو گا؟ میں تو تباہ ہو جاؤں گا۔ ‘‘

میونسپل کاؤنسلر اسے سمجھانے لگا۔ ’’دیکھو گھبراؤ نہیں، دل چھوٹا نہ کرو۔ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ میں ابھی انتظام کرواتا ہوں۔ بلڈوزر رکواتا ہوں۔ تم لوگ وقتی طور سے قریب کے ریلوے پلیٹ فارم پر چلے جاؤ۔ میں وہاں تمہارے لیے مدد منگواتا ہوں۔ تمہارے لیے کھانا اور کمبل وغیرہ کے لیے میں نے کہہ دیا ہے وہ بھی آتے ہی ہوں گے۔ تم لوگ وہاں چلو میں کچھ دیر میں آتا ہوں۔ ‘‘

’’لیکن وہاں ریلوے کے حفاظتی دستہ؟ ‘‘

’’اس کی فکر نہ کرو میں انہیں سمجھا دوں گا۔ کوئی تمہیں کچھ نہ کہے گا۔ میں جو ہوں تمہارا خدمت گار۔ ‘‘

’’ آپ عظیم انسان ہیں سرکار۔ آپ ہی ہمارے مائی باپ ہیں۔ اگر آپ نہ ہوں تو ہم جیسے غریبوں کی کون سنے گا۔ آپ مائی باپ ہیں سرکار۔ آپ کا احسان ہے مائی باپ۔ ‘‘ یہ کہتا ہوا وہ غریب اپنی نحیف بیوی اور لاغر بچوں کے ساتھ ریلوے پلیٹ فارم کی جانب ہولیا۔ گلریز کاؤنسلر کا انٹرویو لینے کے لیے آگے بڑھا تو اس کے ایک چمچے نے آ کر خبر دی کہ جناب پاس کے ہوٹل میں آپ کے لیے ٹیلی فون ہے۔

گلریز نے دیکھا پوری بستی اُجڑ چکی ہے لیکن اس ہوٹل پر آنچ تک نہیں آئی۔ کاؤنسلر اس ہوٹل کی جانب چل دیا۔ گلریز نے اپنے فوٹو گرافر سے کہا وہ اس بستی کی تصویریں لے اور پھر پلیٹ فارم پر جا کر وہاں بھی ان بے خانماں لوگوں کی حالت زار کو اپنے کیمرے کی آنکھوں میں قید کر لے۔ وہ کاؤنسلر سے بات کر کے وہاں پہونچ رہا ہے۔ یہ کہہ کر وہ تیز تیز قدم بڑھاتا ہوا ہوٹل میں جا پہونچا۔

کاؤنسلر کی بات چیت نے گلریز کے ہوش اُڑا دیئے۔ وہ کہہ رہا تھا۔

’’جی ہاں سیٹھ جی۔ کام ہو گیا۔ پورا ہو گیا۔ میدان صاف ہو گیا ہے۔ تمام لوگوں کو ریلوے پلیٹ فارم کی جانب ہانک دیا گیا ہے۔ اب کل سے یہاں بلدیہ کی جانب سے کانٹے دار باڑھ لگنی شروع ہو جائے گی تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ واپس آ جائیں ۔۔۔ پھر جب معاملہ بالکل ٹھنڈا ہو جائے گا پلاٹ آپ کے حوالے کر دیا جائے گا۔۔۔ جی ہاں آپ صحیح کہہ رہے ہیں۔ جلد بازی کرنا مناسب نہیں ہے۔ گرم گرم کھانے سے منہ جل جاتا ہے۔ میں اس بات کو سمجھتا ہوں۔ جلدی میں کام خراب ہو جاتا ہے۔ جی ہاں ‘ جی ہاں۔ آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ اور وہ کھانے کا کیا ہوا؟ دو دیگ چاول آ رہا ہے نا۔ کیا کہا نکل چکا ہے۔ بہت اچھا آپ تو بڑے تیز ہیں۔ میں بھی، نہیں صاحب ہمارا کیا۔ ہم تو آپ کے خدمت گار ہیں اور کمبل آپ بھول گئے۔ بھئی ایسا نہ کریں۔ اگر بارش ہونے لگے تو موسم ٹھنڈا ہو جائے گا اور پھر چھوٹے چھوٹے بچے بھی ہیں۔ خیال تو رکھنا ہی پڑتا ہے۔ اِنہی لوگوں نے اپنے قیمتی ووٹ سے ہمیں کامیاب کیا اور آپ کی خدمت کے قابل بنایا اور پھر دوبارہ ان کے ووٹ کی ضرورت تو پڑ گ ے گی۔ نہیں نہیں۔ واپس ہرگز نہیں آئیں گے۔ ہمارے چمچے انہیں کھانا اور کمبل تقسیم کرتے وقت دور کی ایک بستی کی نشاندہی بھی کر دیں گے۔ جب ٹرین آئے گی تو ان کا سامان بھی اس میں لدوا دیں گے۔ جی ہاں جی ہاں آہستہ آہستہ سبھی چلے جائیں گے اور جو نہ جائیں گے تو انہیں ریلوے کے حفاظتی دستہ سے دھمکا کر بھگا دیا جائے گا آپ فکر نہ کریں۔ یہ تو پہلے بھی ہو چکا ہے۔ یہ لوگ کسی وقت قلب شہر میں آباد تھے جہاں اب تاج محل ہوٹل کھڑا ہے وہاں سے انہیں اسی طرح دھکیل کر یہاں لایا گیا تھا۔ یہ آزمایا ہوا طریقہ کار ہے۔ اب یہ اس بستی سے نکالے گئے ہیں اور جلد ہی یہاں کراؤن پیلس ہوٹل کھڑا ہو گا۔ آپ فکر نہ کریں۔ ہمارا تعاون ہمیشہ ہی آپ کو حاصل رہے گا۔ ہم تو آپ کے پرانے خادم ہیں ۔۔۔ مبارک ہو۔ آپ کو بھی مبارک ہو۔ بہت بہت مبارک ہو آپ کو۔ ‘‘

فون پر اس گفتگو کو سننے کے بعد اس کا خون کھول گیا۔ گلریز غصہ سے پاگل ہو گیا۔ اس کا جی چاہا کہ اس سفید پوش کے چہرے سے حاتم طائی کی نقاب نوچ لے اور اس کا چنگیزی چہرہ عوام کے سامنے عریاں کر دے۔ لیکن وہ سیاسی رہنما اپنے غنڈے نما چمچوں کے درمیان گھرا کھڑا تھا۔ اس کے سر پر بڑے سیاست دانوں کا ہاتھ تھا۔ اس کی پشت پر بڑے سرمایہ داروں کی دولت تھی۔ اس کے بازوؤں میں انتظامیہ کا آہنی پنجہ تھا۔ لیکن سب سے افسوسناک پہلو یہ تھا کہ اس کی قدموں میں عوام کی عقیدت و حمایت کے پھول نچھاور تھے۔ وہ انہیں اپنے غلیظ پیروں سے روندتا جاتا تھا اور بھولے بھالے لوگ اسے اپنے لیے باعث صد افتخار سمجھتے۔

اس صورت حال میں گلریز نے اپنے آپ کو بالکل بے دست و پا محسوس کیا۔ لیکن پھر امید کی ایک کرن نمودار ہوئی اسے قلم اور اخبار کے خیال نے حوصلہ بخشا۔ وہ اپنے دفتر کی جانب چل دیا۔ اس واقعہ کو لکھنے کے بعد اس نے تصویروں کا انتخاب کیا اور ’’دیو استبداد جمہوری قبا میں میں پائے کوب‘‘ یہ سرخی لگا کر اپنے مدیر کی خدمت میں حاضر ہو گیا۔ اس کے دل کی بات نے مدیر کو متاثر کیا اور وہ اب قارئین پر اپنا اثر دکھلا رہی تھی۔ کسی اور اخبار نے اس خبر کو صفحہ اول پر جگہ نہ دی تھی۔ وہ بڑے بڑے انگریزی اخبارات جن کے معیار کی قسمیں کھائی جا رہی تھیں ان میں سے اکثر نے اس واقعہ سے مکمل صرف نظر کیا تھا۔ لیکن ان بے جان خبروں کے درمیان گلریز کی خبر دل کی طرح دھڑک رہی تھی۔ وہ در اصل زندگی کی علامت تھی اور صبح کی امید بھی تھی۔

ریل کی رفتار کم ہونے لگی تھی۔ بیشتر مسافر اپنے سامان سمیٹنے لگے تھے۔ تمام اخبارات اس کے سامنے جمع ہو گئے تھے۔ شاید کوئی بڑا اسٹیشن آنے والا تھا۔ گلریز نے دیکھا سامنے بیٹھے بزرگ اوپر سے اپنا وزنی بکس نیچے اتارنا چاہتے ہیں۔ وہ کھڑا ہو گیا۔ اس نے بکس کو نیچے اتارا اور کہنے لگا۔ ’’آپ فکر نہ کریں میں آپ کا سامان نیچے اتار دوں گا۔ ‘‘

’’نہیں نہیں آپ کیوں تکلیف کرتے ہیں۔ آپ نے اسے اوپر سے اتار دیا میں اسی کے لیے آپ کا احسان مند ہوں۔ اب میں قلی کی مدد سے نیچے اُتر جاؤں گا۔ ‘‘

گلریز نے کہا۔ ’’لگتا ہے ابھی تک آپ کی ناراضگی پوری طرح دور نہیں ہوئی حالانکہ میں نے معذرت بھی کر لی تھی۔ ‘‘

’’نہیں بیٹے ایسا نہ کہو۔ تم نے تو چائے پلا کر میرا دل جیت لیا اور اب میرا وزنی بکس اوپر سے اتار کر مجھ پر مزید احسان لاد دیئے اب ان کا بوجھ نہ بڑھاؤ میں بوڑھا آدمی ہوں اتنا زیادہ وزن نہ سہار پاؤں گا۔ ‘‘

’’کیسی باتیں کرتے ہیں۔ یہ تو ہماری اقدار ہیں، روایات ہیں۔ یہ احسان نہیں، آپ کا حق اور میری ذمہ داری ہے۔ اگر میرے ساتھ میرے والد صاحب ہوتے تو کیا میں انہیں قلی کی مدد سے اترنے دیتا۔ ‘‘

گلریز کی بات سن کر بزرگوار ٹھنڈے ہو گئے وہ اسے دعائیں دینے لگے۔ نیچے اتر کر اپنے سینے سے لگایا اور اسے حکمت و دانش مندی کی دعائیں دیتے ہوئے رخصت ہو گئے۔ گلریز کو ایسا لگا جیسے اس نے اپنی تلخ کلامی کا کفارہ ادا کر دیا ہے۔ وہ دوبارہ اپنی نشست پر آ کر بیٹھ گیا۔ پرانے مسافروں کی جگہ نئے مسافروں نے لے لی تھی۔ یہ سب چھوٹی مسافت کے مسافر تھے لیکن گلریز کا سفرلمبا تھا۔ سفر کی طوالت دوری سے نہیں جلدی سے ہوتی ہے۔ جس کے لیے اپنی منزل کا انتظار جتنا ہی شدید ہوتا ہے اسے طوالت کا احساس اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے۔ اس ریل گاڑی میں شاید گلریز سے زیادہ جلدی کسی اور کو نہ تھی۔ وہ جلد از جلد اپنے خواب کی تعبیر معلوم کر لینا چاہتا تھا اس لیے سب زیادہ لمباسفر اسی کا تھا۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

شام ہوتے ہوتے ٹرین جنگ پورہ ریلوے اسٹیشن پہونچ گئی۔ یہاں اترنے چڑھنے والے مسافر بہت کم تھے اس لیے بڑے آرام سے وہ باہر نکل آیا۔ باہر تو ویرانی ہی ویرانی تھی۔ چند سواریاں خستہ حال سائیکل رکشا کی جانب بڑھ رہی تھیں۔ ایک سائیکل رکشا والے نے اس سے پوچھ لیا۔

’’صاحب چلیں گے؟ ‘‘

گلریز نے جواب دیا۔ ’’ضرور چلیں گے۔ ‘‘

’’تو بیٹھئے۔ ‘‘

’’لیکن پہلے یہ بتلاؤ کہ بس اڈے کے کتنے روپئے لو گے؟ ‘‘

بس اڈے کا نام سن کر وہ چونک پڑا اور کہنے لگا۔ ’’صاحب کیوں مذاق کر رہے ہو۔ ‘‘

’’تم تو مجھے ایسے دیکھ رہے ہو جیسے میں تمہیں بھوت بنگلہ چلنے کے لیے کہہ دیا ہے۔ ‘‘

’’وہی تو۔ صاحب ہم بس اڈے کیسے جا سکتے ہیں۔ ‘‘

’’کیوں کیا وہاں کرفیو لگا ہوا ہے۔ گرفتار ہو جاؤ گے۔ چالان ہو جائے گا۔ مسئلہ کیا ہے؟ ‘‘

’’نہیں صاحب آپ تو بلاوجہ ناراض ہو رہے ہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ در اصل جنگ پورہ گاؤں اور اس کا بس اڈہ دس کوس کی دوری پر ہیں۔ ہم سائیکل رکشہ پر آپ کو کیسے لے جا سکتے ہیں۔ ہم تو یہیں آس پاس ریلوے کالونی، ڈنکا بازار، بڑا چوراہا تک جاتے ہیں۔ آپ کو بس اڈہ جانا ہے تو جائیے وہ عبدل کا اِکّا کھڑا ہے۔ وہ آپ کو وہاں لے جائے گا۔ ‘‘

اِکّے کے قریب آ کر گلریز نے پوچھا۔ ’’خانقاہ چلو گے؟ ‘‘

’’خانقاہ! کیا بات کرتے ہیں صاحب۔ ‘‘ اس کا انداز ایسا تھا جیسے اس علاقے میں کوئی خانقاہ پائی ہی نہ جاتی ہو یا بند ہو گئی ہو۔

’’کیوں خانقاہ نہیں جانتے کیا؟ ‘‘

’’جانتے ہیں صاحب بالکل جانتے ہیں لیکن اتنی رات کو وہاں کیسے جا سکتے ہیں۔ وہ تو بہت دور ہے پچاس کوس دور وہاں تو ہم دن میں بھی نہیں جاتے۔ ‘‘

’’اچھا تو لوگ کیسے جاتے ہیں، سائیکل رکشا پر بیٹھ کر؟ ۔ ‘‘

’’کیا بات کرتے ہیں صاحب جہاں عبدل کا اِکّا نہیں جاتا وہاں رکشا کیا جائے گا بھلا۔ ‘‘

’’تو پھر کیا کریں؟ پیدل جائیں۔ ‘‘گلریز نے جھنجھلا کر کہا۔

’’نہیں صاحب آپ تو بلاوجہ ناراض ہو رہے ہیں۔ پیدل جائیں آپ کے دشمن۔ آپ تو بڑے آرام سے اس امپالا میرا مطلب ہے عبدل کے اِکّے میں بیٹھ جائیں میں آپ کو بس اڈّے پہونچا دوں گا وہاں سے آپ کو بس یا جیپ وغیرہ مل جائے گی جو آپ کو سیدھے بڑی خانقاہ میرا مطلب ہے بڑے پیر صاحب کی خانقاہ پہونچا دے گی۔ ‘‘

’’ٹھیک ہے۔ ‘‘ وہ اِکّے پر بیٹھ گیا۔ گھوڑے کی ٹاپ اس ویرانے میں بالکل راک میوزک کے تھاپ کی طرح گونج رہی تھی۔ شام کی ٹھنڈی اور تازہ ہوا نے گلریز کو تازہ دم کر دیا تھا۔ کچھ دیر موسم کا لطف اٹھانے کے بعد گلریز نے سوال کیا۔

’’بھائی عبدل یہ تو بتاؤ کہ اس وقت بس اڈے سے خانقاہ کی جانب جانے والی سواری تو مل جائے گی نا؟ ‘‘

’’صاحب غیب کا علم تو اس بندۂ بے عمل کو اللہ تعالیٰ نے نہیں دیا اس لیے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ ‘‘

’’اب فلسفہ نہ بگھارو یہ بتلاؤ کہ عام طور سے اس وقت وہاں سے سواریاں خانقاہ کی طرف جاتی ہیں یا نہیں۔ ‘‘

’’صاحب سچی بات تو یہ ہے کہ اس وقت اس طرف کوئی سواری نہیں جاتی لیکن پھر بھی اگر پیر صاحب کا بلاوا آ جائے اور ان کا کوئی مرید اپنی ذاتی سواری میں اس طرف جاتا ہوا مل جائے تو آپ کی قسمت ورنہ۔۔۔‘‘

’’ورنہ کیا۔ ورنہ رات بھر مجھے اس ویران گاؤں میں پڑے رہنا پڑے گا۔ ‘‘

’’جی ہاں یقیناً آپ کو یہی کرنا ہو گا۔ اس لیے کہ اس کے سوا آپ اور کر بھی کیا سکتے ہیں۔ ‘‘

’’ہاں ہاں کر بھی کیا سکتے ہیں بے وقوف۔ ‘‘

’’صاحب آپ تو مجھ پر اس طرح برس رہے ہیں جیسے یہ سب میری وجہ سے ہو رہا ہے۔ میں نے آپ کو رات گئے یہاں آنے کی دعوت نہیں دی اور نہ ہی میں نے خانقاہ کی جانب جانے والی سواریوں کو روکا اور پھر آپ خانقاہ میں جا کر بھی کیا کریں گے؟ آرام کریں گے۔ یہاں آرام کر لیجئے کیا فرق پڑتا ہے۔ علی الصبح اٹھ کر نکل جائیے گا۔ ‘‘

اِکّے والے کی تقریر سن کر گلریز کا پارہ چڑھ گیا۔ اس نے کہا ’’اب بس کرو۔ رات بھر پڑے رہ کر بھی کیا کر سکتے ہو۔ تم گاؤں والوں کو اگر وقت کی اہمیت کا احساس ہوتا تو ملک کی یہ حالت نہ ہوتی۔ ‘‘

عبدل نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ ’’ہاں صاحب ہم خوب جانتے ہیں آپ شہر والوں کے نزدیک وقت کی بڑی اہمیت ہے اسی لیے آپ لوگ دفتر سے گھر اور گھر سے دفتر کے درمیان آنے جانے میں گھنٹوں برباد کر دیتے ہیں۔ کئی کئی گھنٹے ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھے رہتے ہیں۔ دنیا بھر کے ڈرامہ تھیٹر، سنیما ہال اور نائٹ کلب آباد کرتے ہیں اور پھر طرہ یہ کہ وقت کی اہمیت کا احساس ہے۔ ‘‘

گلریز نے کہا۔ ’’جسے تو وقت کا ضیاء کہہ رہا ہے اے کم عقل انسان وہ وقت کی بربادی نہیں ہے۔ روپیہ کمانے کے لیے سفر کی صعوبتیں برداشت کرنی ہی پڑتی ہیں اور زندہ رہنے کے لیے تفریح بھی تو ضروری ہے۔ ‘‘

’’اچھا تو انسان کو زندہ رہنے کے لیے روپیہ اور تفریح یہی دو چیزیں کافی ہیں۔ آپ لوگ روپیہ تو کمانا جانتے ہیں لیکن بچانا نہیں جانتے۔ یہی وجہ ہے کہ شہر کے اکثر و بیشتر لوگ تا عمر قرضوں کے بوجھ تلے دبے رہتے ہیں۔ سود کی چکی میں پستے رہتے ہیں اور جہاں تک تفریح کا سوال ہے اس سے غم غلط ضرور ہو جاتا ہے وہ لیکن مسرت و شادمانی میں نہیں بدلتا۔ ‘‘

عبدل کی باتوں نے گلریز کو تحیر زدہ کر دیا تھا۔ اس نے اپنی خجالت مٹانے کے لیے کہا۔ ’’بھئی اسے کہتے ہیں انگور نہ ملیں تو کھٹے۔ تم ایک دیہات میں رہتے ہو تمہاری حالت تو ایک کنویں کے مینڈک کی سی ہے جو اسے پوری کائنات سمجھتا ہے تم کیا جانو کہ شہر کی زندگی کیا ہے اور اس کے مزے کیسے ہوتے ہیں؟ ‘‘

’’نہیں صاحب ایسا نہ کہئے ہم خوب جانتے ہیں شہر انسانوں کی نہیں مشینوں کی بستی ہے۔ وہ دیواروں کا جنگل ہے جہاں ہر کوئی اپنی ذات کی چہار دیواری میں قید ہے۔ وہاں ہر کوئی اپنے لیے اور صرف اپنے لیے جیتا ہے۔ آپ نے صحیح کہا وہاں کسی کے پاس وقت نہیں ہے وہاں کسی کے پاس اپنے سوا کسی کے لیے وقت نہیں ہے۔ اسی لیے ماں باپ اپنی اولاد کی خدمت کو ترستے ہیں اور بال بچے اپنی ماں کی شفقت سے محروم ہیں۔ شوہر اور بیوی میں محبت کا نہیں ضرورت کا رشتہ ہے۔ وہ ایک دوسرے کی ضرورت بلکہ ایک دوسرے کا بوجھ اپنے کندھے پر ڈھوتے ہیں۔ جس طرح یہ گھوڑا اِکّے کے بندھن میں بندھا اپنے پیٹ کی بھوک مٹانے کی خاطر ہمارا بوجھ ڈھوتا ہے۔ ‘‘

حیران پریشان گلریز عبدل کا چہرہ دیکھ رہا تھا اور عبدل اپنے اکے کی رفتار سے بے تکان بولے چلا رہا تھا ’’ بابو شہر کی بات نہ کرو وہاں رشتہ داروں کے پاس صلہ رحمی کی فرصت نہیں ہے وہاں بچوں سے ان کا بچپن ایک انجان مستقبل کا ڈر دکھلا کر چھین لیا گیا ہے۔ ننھے منے بچوں کو درسی کتابوں میں محصور کر دیا گیا ہے۔ معصوم کے پیروں میں معیار زندگی کی بیڑی پہنا کر انہیں مسابقت کی دوڑ میں اتار دیا گیا ہے۔ تابناک مستقبل کے بھیانک خواب نے ان کے حال کو تاریک کر دیا ہے۔ مادہ پرستی نے ماں باپ کو بچوں کی خوشیوں کا دشمن بنا دیا ہے۔ خود غرضی اور حرص و ہوس نے انہیں خود اپنی ذات کا رقیب بنا دیا ہے۔ ‘‘

عبدل اِکّے والے کی تقریر نے گلریز کے بند دریچوں کو کھول دیا۔ اسے محسوس ہوا گویا وہ کسی عظیم دانشور کے ساتھ سرگرم سفر ہے۔ اس نے پوچھا۔

’’بھائی عبدل بات تم صحیح کہہ رہے ہو لیکن یہ تو بتاؤ کہ ان حقائق کی معرفت تمہیں کیسے حاصل ہو گئی۔ ہماری عمر شہروں میں رہتے گزر گئی لیکن ان باتوں کا احساس ہم کبھی نہ کر سکے۔ ‘‘

’’جناب بات یہ ہے کہ جن اقدار کا میں نے ذکر کیا ان کا احساس ان لوگوں کو نہیں ہو سکتا جن کی عمر شہروں کی نذر ہو گئی ہو۔ کسی شئے کی محرومی کا شدید احساس اس وقت ہوتا ہے جب اسے حاصل کر کے بعد انسان گنوا بیٹھے۔ ہم نے اپنا بچپن گاؤں میں گذارا۔ ہمیں یہ تمام چیزیں یہاں حاصل تھیں اس لئے شہر جا نے کے بعد ہمارے اندر احساس زیاں پیدا ہوا۔

وہاں جا کر ہم اپنے والدین سے دور ہو گئے۔ اپنے بیوی بچوں کو اپنے پاس نہ رکھ سکے۔ رشتہ دار اور دوست و احباب چھوٹ گئے۔ یہاں گھوڑے کی طرح زندگی کی گاڑی کو کھینچتے تھے وہاں گاڑی کی طرح دولت کے پیچھے گھسٹنے لگے۔ ہم نے سوچا آخر کب تک۔ کب تک یہ بے معنی زندگی جی جائے گی اور پھر ایک دن موت کا فرشتہ سب کچھ نگل جائے گا۔ یہ سوچ کر ہم نے مادیت کی زنجیروں کو توڑ دیا اور واپس لوٹ آئے۔ شہر میں گھوڑے کی سی زندگی گذار رہے تھے اب گاڑی بان بن گئے ہیں۔ ہمارے پاس مادی وسائل کا فقدان ضرور ہے لیکن اطمینان ہے۔ سکون ہے۔ خوشی ہے اور زندگی ہے اور جناب سامنے بس اڈہ بھی ہے۔ ‘‘ عبدل نے مسکراتے ہوئے کہا۔

بس اڈے پر قبرستان کی سی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ گلریز نے پوچھا۔ ’’کوئی امید؟ ‘‘

عبدل بولا۔ ’’آپ بیٹھیں میں پتہ کر کے آتا ہوں۔ ‘‘

اِکّے والا چلا گیا۔ کہاں گیا وہ نہ جانتا تھا اور نہ جاننا چاہتا تھا۔ عبدل کی گفتگو نے اسے یہ تک بھلا دیا کہ وہ کہاں سے آیا ہے اور اسے کہاں جانا ہے۔ وہ اچانک خوابوں سے حقیقت کی زمین پر اتر آیا تھا۔ یہ اس کی زندگی کا ایک یادگار سفر تھا جس میں اسے ان اقدار کی بازیافت ہوئی جن کے کھو جانے کا اسے ملال تک نہ تھا۔ چند منٹوں بعد عبدل لوٹ آیا اور اس نے اِکّے کو ایک جانب موڑ دیا۔

’’کیوں کیا ہوا؟ ‘‘

’’صاحب اب کوئی امید نہیں ہے صبح تک یہیں آرام کرنے کے علاوہ کوئی چارۂ کار نہیں ہے۔ ‘‘

’’وہ تو ٹھیک ہے لیکن یہ تو بتاؤ کہ اب تم مجھے کہاں لیے جا رہے ہو؟ ‘‘

’’اپنے گھر۔ ‘‘

’’کیا؟ ‘‘

’’جی ہاں ! صاحب میں آپ کو اپنے غریب خانے پر لیے جا رہا ہوں اور میں اسے تکلفاً غریب خانہ نہیں کہہ رہا بلکہ وہ ہے ہی اس غریب کا مسکن۔ ‘‘

’’میں نے سنا ہے یہاں کوئی مسجد والی سرائے بھی ہے وہیں لے چلو۔ ‘‘

’’ارے صاحب وہ سرائے اب کہاں وہ تو کسی زمانے میں ہوا کرتی تھی۔ دو کمرے مسافروں کے لیے اور ایک کمرہ اس کی دیکھ بھال کرنے والے اجو کے لیے۔ آگے چل کر ایسا ہوا کہ اجو کے بیٹے خیرو کا بیاہ ہو گیا اور اس کے بعد دو کمرے دیکھ بھال کرنے والوں کے تصرف میں آ گئے اور ایک کمرہ مسافروں کے لیے رہ گیا اور پھر جب اجو کی بیٹی کا نکاح ہوا تو اجو کا داماد گھر جمائی بن کر اس کے پاس چلا آیا۔ اس طرح تینوں کمرے دیکھ بھال کرنے والے کی نذر ہو گئے۔ اب مسافروں کے لیے اس مسافر خانے پر صرف ’’خالی نہیں ‘‘ کی تختی ہے جو مستقل جھولتی رہتی ہے۔ ‘‘

گلریز کو بڑی دیر بعد نادر موقع ہاتھ لگا۔ اس نے جھٹ کہا ’’شہر والوں کو تو تم نے خوب صلواتیں سنائیں لیکن یہ کارنامہ تو گاؤں والوں کا ہے کیوں؟ ‘‘ گلریز کے اس سوال سے شہری عصبیت کی بو آ رہی تھی جسے عبدل نے سونگھ لیا اور کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد گویا ہوا۔

’’یہ ہماری غلطی ہے ہم اس کی توجیح نہیں کرتے ہم اسے تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن صاحب ایک فرق ضرور ہے۔ یہ گناہ مجبوری میں کیا گیا ہے۔ شہروں میں اکثر حرص و ہوس گناہ کرواتی ہے۔ ھل من مزید کا چکر لوگوں کو دیوانہ بنائے رکھتا ہے۔ ‘‘

گلریز سوچنے لگا جو کچھ اس سرائے کے ساتھ ہوا وہی کچھ تو ملک و قوم کے ساتھ بھی ہو رہا ہے۔ کسی زمانے میں ہم نے ایک فلاحی ریاست کا خواب دیکھا تھا۔ امیروں پر ٹیکس لگایا گیا تھا تاکہ اس سے غرباء اور مساکین کو بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں۔ جو کچھ سرکاری خزانے میں جمع ہوتا تھا اس کا ایک چھوٹا سا حصہ حکومت چلانے والوں پر بھی خرچ ہوتا تھا۔ رفتہ رفتہ اس خرچ میں اضافہ ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ نوبت آئی کہ عوامی فلاح و بہبود کے لیے بیرونی سرمایہ داروں سے قرض لینے کی نوبت آ گئی لیکن اس قرض کی رقم بھی عوام پر خرچ ہونے کے بجائے بدعنوانی کے راستے سے خواص کی جیب میں جانے لگی۔

اب تو یہ نوبت آئی ہے کہ قرض کا سود ادا کرنے کے لیے قرض لیا جا رہا ہے۔ فلاحی ریاست کا خواب چکنا چور ہو چکا ہے۔ عوام غریب سے غریب تر اور ان کے سربراہ امیر سے امیر تر ہوتے جا رہے ہیں۔ عوام کا ووٹ اور عوام کا نوٹ دونوں ان کی جیب میں ہے۔ کبھی کبھار سیاسی رہنماؤں کی جگہ فوجی جرنل آ جاتے ہیں ان کی ایک جیب میں ووٹ کے بجائے بندوق ضرور ہوتی ہے لیکن دوسری نوٹ والی جیب میں نوٹ ہی ہوتے ہیں۔ اس طرح لوٹ اور کھسوٹ کا یہ بازار شہروں سے لے کر گاؤں تک ہر جگہ گرم ہے۔

گھوڑے کے رُکتے ہی گلریز کی سوچ کا سلسلہ اس طرح ٹوٹ گیا جیسے فون کی لائن اچانک کٹ جاتی ہے۔ گاڑی ایک پرانے مکان کے سامنے کھڑی تھی عبدل ابھی آیا، کہتا ہوا کود کر اپنے مکان میں داخل ہو گیا۔ گھر میں بچے سو چکے تھے لیکن اس کی بیوی اور ماں دونوں جگ رہے تھے۔ عبدل کو دیکھتے ہی ان کی باچھیں کھل گئیں۔ بیوی بولی۔ ’’اتنی دیر؟ ‘‘

اور ماں نے پوچھا۔ ’’بیٹے خیریت تو ہے۔ کچھ پریشان سے لگ رہے ہو؟ ‘‘

عبدل نے دونوں کو جواب دیا۔ ’’نہیں سب خیریت ہے۔ آج ٹرین تاخیر سے آئی اس لیے مجھے بھی دیر ہو گئی۔ وہ تو خیر سواری مل گئی ورنہ خالی ہاتھ لوٹنا پڑتا۔ ‘‘

’’اچھا تو سواری کسی اور گاؤں کی تھی کیا؟ ‘‘

’’نہیں اماں سواری کو تو بڑے پیر صاحب کی خانقاہ جانا ہے۔ اب اتنی رات گئے وہاں کے لیے کوئی بس وغیرہ تو ملے گی نہیں اس لیے میں انہیں اپنے ساتھ لے آیا۔ ‘‘

بڑے پیر صاحب کا نام سنتے ہی بڑھیا کے دل میں گلریز کے لیے جگہ بن گئی۔ در اصل انسان جس سے عقیدت رکھتا ہے اس کے عقیدت مندوں سے بھی محبت کرتا ہے۔ اگر کوئی قدر مشترک دو افراد کے درمیان پائی جاتی ہو تو وہ انہیں انسیت کے رشتہ میں جوڑ دیتی ہے۔ ماں بولی۔

’’جو پیر صاحب کا مہمان وہ ہمارا مہمان لیکن وہ سوئیں گے کہاں؟ ‘‘

عبدل بولا ’’یہیں اپنے گھر میں وہ آرام کریں گے اور ہم لوگ چھت پر چلے جائیں گے۔ ویسے بھی گرمیوں کی رات میں چھت پر سونے کا مزہ کچھ اور ہی ہوتا ہے۔ آج رات ہم لوگ اسی سے لطف اندوز ہوں گے۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا میں سوئیں گے بڑا مزہ آئے گا۔ ‘‘

بیوی بولی۔ ’’وہ تو ٹھیک ہے لیکن بچے جو سو چکے ہیں ان کا کیا؟ ‘‘

’’تم ان کی فکر نہ کرو۔ میں انہیں بڑے پیار سے چھت پر اٹھا کر لے جاؤں گا۔ ان کی نیند میں کوئی خلل واقع نہ ہو گا۔ ‘‘ رات کی خاموشی میں عبدل کی گفتگو حرف بہ حرف گلریز کے کانوں میں پڑ رہی تھی۔ وہ اس گفتگو کو سن کر عجیب و غریب احساس سے دوچار تھا۔ جیسا عبدل ویسے ہی اس کے اہل خانہ۔ راستہ کی گفتگو سے اس کے دل میں عبدل کی جو قدر و منزلت پیدا ہوئی تھی اس میں عبدل کے رویّے نے چار چاند لگا دیئے تھے۔ اس نے جو باتیں سنی تھیں اب وہ اس کے عملی مظاہر دیکھ رہا تھا۔ کیا ایسا بھی انسان ہوتا ہے؟ کیا ایسے گھر والے بھی ہوتے ہیں؟ وہ سوچ رہا تھا۔

’’عبدل باہر آؤ۔ ابھی فوراً باہر آؤ۔ ‘‘

عبدل ’’جی مالک۔ ‘‘ کہتا ہوا دوڑا چلا آیا۔

گلریز بولا۔ ’’معاف کرنا میں نے نادانستہ تمہاری گفتگو سن لی۔ گرمیوں میں چھت پر سونے کا مزہ کچھ اور ہی ہے اور تم تو اکثر اس کا مزہ لیتے ہی ہو۔ آج میں اس سے لطف اندوز ہونا چاہتا ہوں۔ ‘‘

’’لیکن صاحب آپ کھلے میں؟ ‘‘

’’جی ہاں عبدل اپنی عمر کا بڑا حصہ میں نے بند کمروں میں بند ذہن کے ساتھ گزار دیا۔ اب کھلی فضا میں سانس لینا چاہتا ہوں تم میری مدد کرو اور اپنے بچوں کی نیند میں خلل نہ ڈالو۔ انہیں سکون سے سونے دو۔ ‘‘

’’نہیں صاحب نہیں۔ آپ ان کی فکر نہ کریں۔ میرا پیشہ اِکّا بانی ہے۔ میں دن بھر سواریوں کا سامان اتارتا چڑھاتا رہتا ہوں اور وہ تو میرے بچے ہیں میں انہیں اس طرح پیار سے لے جاؤں گا کہ انہیں پتہ بھی نہیں چلے گا۔ ‘‘

’’دیکھو عبدل ایک بات کان کھول کر سن لو یا تو میں چھت پر سوؤں گا یا یہیں اِکّے میں پڑا رہوں گا۔ اب فیصلہ تمہاری مرضی پر ہے۔ ‘‘

’’نہیں صاحب نہیں۔ اِکّے میں پڑے رہیں آپ کے دشمن۔ آپ اگر چھت پر آرام کرنا چاہتے ہیں تو ضرور کریں جیسی آپ کی مرضی ہم تو ۔۔۔‘‘

گلریز نے بات کاٹ دی۔ ’’بس اب اس بات کا فیصلہ ہو چکا۔ ‘‘

عبدل نے کہا۔ ’’ٹھیک ہے ہم آپ کی بات مانے لیتے ہیں لیکن آپ کو بھی ہماری ایک شرط منظور کرنی ہو گی۔ ‘‘

’’وہ کیا؟ ‘‘

’’آپ پہلے چھت پر ہمارے ساتھ کھانا کھائیں گے اور پھر آرام فرمائیں گے۔ ‘‘

’’لیکن اتنی رات گئے تم ایک بِن بلائے مہمان کے لیے اپنے گھر والوں کو زحمت دو گے۔ ‘‘

’’نہیں صاحب نہیں۔ زحمت، کیسی زحمت؟ مہمان تو رحمت ہوتا ہے رحمت۔ اور پھر چونکہ یہ گاؤں ہے اس لیے آپ کو لگ رہا ہے بڑی رات ہو چکی ورنہ ابھی تو نو بھی نہیں بجے۔ شہر کی رات تو ابھی شروع بھی نہیں ہوئی۔ شہر میں خود میں بھی رات گیارہ سے پہلے کبھی بھی بستر میں نہیں جاتا تھا۔ اس لیے آپ بالکل تکلف نہ کریں۔ باہر حمام میں ایک بالٹی پانی رکھے دیتا ہوں آپ ہاتھ منہ دھو لیں تب تک چھت پر آپ کا بستر لگ جائے گا۔ ‘‘

گلریز نے ہینڈ پمپ کے گرم گرم تازہ پانی سے وضو کیا اور چھت پر آ کر اپنے مالک حقیقی کے آگے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو گیا۔

عبدل کی بیوی نے چولہے پر دال کا برتن رکھا اور جلدی جلدی آٹا گوندھنے لگی جنگ پورہ اس علاقے کا بڑا گاؤں تھا۔ لوگوں کو بس وغیرہ بدلنے کے لیے یہاں اترنا پڑتا تھا اس لیے عبدل کے گھر مہمانوں کا تانتا لگا ہی رہتا تھا۔ لیکن آج اچانک ایک شہری مہمان کے آ جانے سے وہ کچھ زیادہ ہی بوکھلا گئی تھی۔ کھانا تیار کرنے میں عبدل کی ماں بھی اپنی بہو کی مدد کر رہی تھی۔ یہ منظر چونکا دینے والا تھا اس لیے جو ’’ساس بھی کبھی بہو تھی ‘‘ اس کے لیے اپنی بہو کی مدد کرنا کیونکر ممکن تھا۔

گلریز نماز سے فارغ ہوا اور لالٹین کی روشنی میں کھانا دسترخوان پر لگا ہوا پایا۔ دیسی چولہے پر بنی ہوئی روٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو نے اس کی بھوک بڑھا دی تھی اور کھانے کا اصل ذائقہ اس میں پڑا ہوا مصالحہ نہیں بلکہ بھوک طے کرتی ہے۔ اس نے صبح ناشتہ کے بعد چائے اور پکوڑی کے سوا کچھ کھایا نہ تھا۔ اس لیے بھوک زوردار تھی اور کھلی فضا میں یہ قندیل ڈنر کیا خوب۔ گلریز کو اپنی چھوٹی سی صحافتی زندگی میں کئی بار فائیو اسٹار ہوٹلوں میں موم بتی کی ہلکی روشنی میں دعوتیں اُڑانے کا اتفاق ہوا تھا لیکن کہاں وہ تصنع اور کہاں یہ خلوص۔ ان دونوں کا موازنہ ہی کیا۔

سرمایہ داروں اور سیاستدانوں کی جانب سے دی جانے والی دعوتوں میں اسے رشوت کی بو آتی تھی۔ جہاں دبے الفاظ میں یہ تاکید کی جاتی تھی کہ نمک حلالی کا تقاضہ یہی ہے کہ میزبان کی خوبیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرو اور اس کی خامیوں پر پردہ ڈالو اور اگر ہو سکے تو اس کے عیوب کو خوبی بنا کر پیش کرو تاکہ مزید انعام و اکرام کے مستحق ٹھہر سکو۔ ان بڑی بڑی تقریبات میں خود غرضی کی بھینی بھینی مہک پھیلی ہوئی ہوتی تھی لیکن یہ سادہ سا کھانا اخلاص و ایثار سے معطر تھا۔ جس طرح کھانے کا ذائقہ بھوک پر منحصر ہے اسی طرح نیند کا انحصار تھکن پر ہے۔ آج وہ کافی تھک بھی گیا تھا۔ اس لیے بستر پر لیٹتے ہی سو گیا اور ایسی گہری نیند سویا کہ تین چار گھنٹوں میں کئی سالوں کی نیند پوری ہو گئی۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

اس تنہا رات میں جب تیسرے پہر اس کی آنکھ کھلی تو اسے دور کھڑی کوٹھی کے آنگن میں کچھ چہل پہل دکھلائی دی وہ چونک پڑا۔ یہ کون سا وقت ہے؟ لوگوں کے آنے جانے کا؟ کون لوگ ہیں اور کیوں جمع ہو رہے ہیں؟ یہ سوالات اس کے صحافی ذہن میں ابھرنے لگے۔ تجسس نے اسے اپنے بستر سے دور کر دیا۔ حقیقت کی تہہ تک پہونچنے کے لیے وہ جان پر کھیل جانے والوں میں سے تھا۔ اس نے فوراً اپنا ننھا سا کیمرہ اٹھایا اور اس کوٹھی کے عقب کی جانب چل پڑا۔

گلریز کوٹھی کے پڑوس والے مکان کے آنگن میں دیوار پھلانگ کر داخل ہو گیا۔ اندھیرے میں اس نے پچھواڑے کی سیڑھی تلاش کر لی اور چھت پر پہونچ گیا۔ گلریز کو اس مقام سے کوٹھی کے آنگن میں بیٹھے لوگ صاف صاف نظر آ رہے تھے۔ اس کے حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس نے دیکھا کہ یہاں تو باقاعدہ میٹنگ ہو رہی ہے۔ رات کے ان لمحات میں عوام سے چھپ کر کی جانے والی میٹنگ کے ارادوں کا اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا۔ جیسے ہی ایک شخص کچھ کہنے کے لیے کھڑا ہوا گلریز نے اپنا ٹیپ اور کیمرہ چالو کر دیا۔ وہ کہہ رہا تھا۔

’’سارے ملک میں جمہوریت کا دور دورہ ہے۔ ہر گاؤں میں انتخابات ہوتے ہیں پردھان کا چناؤ ہوتا ہے۔ خوب شور غل ہنگامہ ہوتا ہے نئے نئے لوگ اپنی اپنی قسمت آزماتے ہیں کسی کے حصہ میں جیت آتی ہے تو کسی کو ہار کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن ہمارے گاؤں جنگ پورہ میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا۔ ہر بار بغیر کسی مخالفت کے چودھری نعمت الٰہی کو چن لیا جاتا ہے اور سب کچھ ٹائیں ٹائیں فش ہو جاتا ہے۔ یہ تو سراسر جمہوریت کی توہین ہے یہ آزادی کی روح کے خلاف ہے۔ اس بار ہم اس قدیم روایت کو ختم کر دینا چاہتے ہیں اس بار فیصلہ اتفاق رائے سے نہیں بلکہ انتخاب کے ذریعہ ہی ہو گا۔ ‘‘

دوسرا کھڑا ہوا اس نے کہنا شروع کیا۔ ’’ویسے تو ہم سیاسی اعتبار سے ایک دوسرے کے مخالف ہیں لیکن چودھری نعمت الٰہی کو شکست سے دوچار کرنے کے لیے ہم ایک دوسرے کا تعاون کریں گے یہ در اصل ایک شخص کا نہیں ایک نظریہ کا معاملہ ہے۔ جمہوریت کی بقاء کے لیے ہمیں مل کر لڑنا ہو گا۔ اس بار ہم میں سے جو بھی جیتے لیکن چودھری کا ہارنا ضروری ہے۔ ایک مرتبہ اس کا کانٹا نکل گیا تو ہم ایک دوسرے کو ہراتے رہیں گے۔ ‘‘

ایک اور بولا۔ ’’چودھری کو ہرانا کوئی مشکل کام نہیں۔ وہ تو اسی وقت تک گاؤں کے مکھیا ہیں جب تک کہ انتخابات نہیں ہوتے اس لیے کہ وہ اپنی عزت و وقار کی خاطر انتخاب لڑیں گے ہی نہیں اور خود ہی باہر ہو جائیں گے۔ ‘‘

’’وہ تو ٹھیک ہے لیکن آخری وقت میں بھی ان کے کسی آدمی نے پرچہ نامزدگی داخل کر دیئے اور انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ دیا تو پھر سارا گاؤں اس کے پیچھے چلا جائے گا اور ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے رہ جائیں گے۔ ہماری تو ضمانتیں ضبط ہو جائیں گی‘‘۔

’’ اس مسئلہ کا بھی حل ہے۔ ہمیں اپنے حامیوں کی تعداد میں اضافہ کرنا ہو گا۔ ویسے یہ کام مشکل ہے۔ چودھری نعمت الٰہی کی جو ساکھ کئی سالوں میں بنی ہے اس کے مقابلے چند ماہ میں اپنی حمایت میں اس قدر اضافہ کر لینا کہ ان کا مقابلہ کیا جا سکے آسان ہدف نہیں ہے۔ ‘‘

جیسے ہی اس شخص نے اپنی گفتگو ختم کی دوسرا بول پڑا۔ ’’لیکن یہ نا ممکن بھی نہیں ہے۔ آج کی دنیا میں کوئی بات نا ممکن نہیں ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ صحیح منصوبہ بندی ہو اور اس پر چابکدستی کے ساتھ عمل درآمد کیا جائے۔ ‘‘

شرکاء میں سے آواز آئی۔ ’’یہ سب تو ٹھیک ہے لیکن ہمیں کن خطوط پر کام کرنا ہے۔ اس کی بھی تو کچھ وضاحت کی جائے ورنہ گذشتہ کی طرح اس بار بھی نشستندو گفتند و برخواستند کا معاملہ نہ ہو جائے۔ ‘‘

کچھ دیر خاموشی رہی پھر ان میں سے ایک سفید پوش اٹھا اور اس نے کہا۔ ’’آسان طریقہ تو یہ ہے کہ ہم مذہب کی بنیاد پر لوگوں میں نفرت ڈال دیں۔ اس گاؤں میں جہاں ۶۰ فی صد مسلمان رہتے ہیں وہاں چالیس فی صد ہندو اور سکھ لوگ بستے ہیں۔ اگر یہ چالیس فی صد نعمت الٰہی کے خلاف متحد ہو جائیں اور بقیہ ۶۰ فی صد کم از کم دو حصوں میں تقسیم ہو جائیں تو مقابلہ آرائی کی کیفیت پیدا ہو جائے اور ایک مرتبہ چودھری کا بت ٹوٹا تو پھر ہمارے لیے راستہ صاف ہو جائے گا۔ ‘‘

شرکاء میں سے ایک کھڑا ہوا اور کہنے لگا۔ ’’بھائی کم از کم جنگ پورہ میں یہ نا ممکن ہے۔ اس لیے کہ یہ ایک سرحدی گاؤں ہونے کے باوجود تقسیم ملک کے وقت بھی فرقہ واریت کے زہر سے محفوظ رہا اور یہ صرف اور صرف چودھری نعمت الٰہی کا کارنامہ تھا۔ انہوں نے مسلمانوں کو جذبات قابو میں رکھنے کی تلقین کی ہندوؤں کے اندر سے بے اعتمادی کا خوف مٹایا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ نہ تو یہاں سے ہجرت ہوئی اور نہ یہاں فسادات ہوئے اور آج بھی یہاں دونوں قوموں سے تعلق رکھنے والے لوگ آپس میں شیرو شکر ہیں۔ ‘‘

یہ سن کر ایک لیڈر نما شخص بھڑک گیا۔ اس نے کہا۔ ’’آخر یہ کب تک چلے گا۔ چودھری نعمت الٰہی نے نہایت چالاکی سے عوام کو اپنا ہمنوا بنا لیا اور گذشتہ ۳۳ سالوں سے اس کا فائدہ اٹھا رہا ہے۔ اب بہت ہو چکا ہم اور صبر نہیں کر سکتے۔ اب کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی ہو گا۔ ہمارے گاؤں کو جمہوریت کی نعمت سے مالا مال کرنے کی خاطر چودھری نعمت الٰہی کو بن باس پر بھیجنا ہی ہو گا۔ ‘‘

’’ ہاں تو اب کیا کیا جائے صبح ہونے والی ہے؟ ‘‘ ایک سوال ابھرا

’’ہم یہاں فرقہ وارانہ فساد کروا دیں گے۔ ہم لوگوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت کی چنگاری بھڑکائیں گے جو دیکھتے دیکھتے یہاں کا امن سکون غارت کر دے گی اور اس کی آگ میں نعمت الٰہی بھسم ہو جائے گا‘‘

’’ لیکن فسادات سے لوگ ہماری حمایت کیوں کر کرنے لگیں گے۔ ہو سکتا ہے وہ ہمارے دشمن ہو جائیں ‘‘۔

’’ نہیں ایسا ہر گز نہیں ہو گا۔ ‘‘

’’ہم اپنی اپنی قوم میں خوف کا احساس پیدا کر یں گے۔ انہیں دوسروں سے ڈرائیں گے اور اپنے آپ کو ان کا مسیحا بنا کر پیش کریں گے اور اس طرح وہ ہمارے دام میں از خود آ جائیں گے۔ اچھا تو کوئی یہ بھی بتلائے کہ آخر فساد کی شروعات کیسے کی جائے۔ ‘‘

’’اس سلسلے میں بھی ہماری ایک تجویز ہے۔ ہم لوگ ایک سُور اور ایک گائے ذبح کرتے ہیں۔ گائے کا گوشت مندر میں اور سُور کا گوشت مسجد میں پھینک آتے ہیں۔ جیسے ہی لوگ بھڑکے ہم اپنے آدمیوں سے ایک دوسرے پر حملہ کروا دیں گے اور عصمت دری کی افواہیں اُڑا دیں گے۔ بس پھر کیا عوام ایک دوسرے سے بھڑ جائیں گے اور ہمارا کام ہو جائے گا۔ ہم نفرت کے شعلوں کو اس قدر بھڑکائیں گے کہ چودھری ان کی نذر ہو جائے گا۔ ‘‘

یہ سب سن کر میٹنگ میں شریک ایک بوڑھا شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا۔ ’’تمہارا مقصد تو ٹھیک ہے مجھے بھی چودھری نعمت الٰہی سے پُرخاش ہے لیکن طریقۂ کار درست نہیں لگتا۔ یہ قتل و غارتگری معصوم لوگوں کے جان و مال سے کھلواڑ یہ بات کچھ جمتی نہیں۔ کوئی اور طریقہ نہیں ہے جس سے ہم یہ سب کیے بغیر اپنے مقصد کو حاصل کر سکیں۔ ‘‘

یہ بات سن کر میٹنگ میں موجود لیڈر غصہ ہو گیا وہ بھڑک کر بولا۔ ’’تم جیسے بزدلوں کے باعث چودھری اس گاؤں کا بے تاج بادشاہ بنا ہوا ہے۔ دوسرے طریقہ ہیں لیکن طویل اور ان میں کامیابی کے امکان بھی یقینی نہیں ہیں لیکن یہ آزمایا ہوا نسخہ ہے جو نہ صرف تیز اثر ہے بلکہ تیرِ بہدف ہے۔ اگر ہم اپنے گاؤں میں جمہوری قدروں کو قائم کرنے کے لیے یہ معمولی قربانی بھی نہیں دے سکتے تو پھر ہمیں چودھری کی غلامی سے کبھی بھی نجات حاصل نہیں ہو سکے گی۔ ‘‘

دوسرا بزرگ کھڑا ہوا۔ ’’ٹھیک ہے یہ سب کر دیں گے۔ جمہوریت آ جائے گی تو اس سے حاصل کیا ہو گا؟ ‘‘

’’حاصل کیا ہو گا؟ یہ کیسا بے تکا سوال ہے۔ اس سے ہمارا گاؤں ترقی کرے گا۔ لوگ خوش حال ہو جائیں گے۔ ‘‘

’’ لیکن آس پاس کے گاؤں میں انتخابات باقاعدگی کے ساتھ ہوتے ہیں اور خوش حالی کے معاملے وہ ہم سے بدتر حالت میں ہیں۔ ‘‘

’’یہ سب بکواس ہے وہاں کے پردھان کو دیکھو اور ہمارے پردھان کو دیکھو۔ ان کے درمیان کوئی مقابلہ ہے۔ وہ نئی بدیسی گاڑی میں گھومتا ہے۔ اس نے اپنے لیے محل نما مکان بنا لیا ہے اور ہمارے پردھان وہی عبدل کے اِکّے میں آتے جاتے ہیں اور پرانی کوٹھی میں پڑے ہوئے ہیں۔ بھئی شرم آتی ہے ہمیں جب ہم ان کے ساتھ کہیں جاتے ہیں۔ اور پھر اگر پردھان خود ہی خوش حال نہ ہوا تو عوام کیسے خوش حال ہو گی۔ گاؤں کی ترقی سے پہلے پردھان کی ترقی ضروری ہے اور ہمارے یہاں یہی نہیں ہو رہا۔ ‘‘

میٹنگ میں پھر کچھ دیر کے لیے خاموشی چھا گئی۔ پھر ایک شخص نے کہا۔ ’’بھائیو آج آپ سب کے سامنے منصوبہ رکھ دیا گیا ہے کام مشکل نہیں ہے۔ ذرا سی ہمت کی ضرورت ہے۔ اگر آپ تمام لوگ اس بات پر اتفاق کرتے ہیں تو پھر بغیر وقت ضائع کیے ہمیں آگے بڑھنا ہو گا۔ دونوں جانور گاڑی میں بندھے ہوئے ہیں۔ اگر آپ راضی ہیں تو جمہوریت کی دیوی کے قدموں پر اُن کو بھینٹ چڑھا دیا جائے۔ ‘‘

آہستہ آہستہ سب نے اتفاق کر لیا جو خاموش رہے ان کی خاموشی کا شمار بھی ہاں میں ہو گیا۔ چند لوگ اٹھے اور جانوروں کے ٹیمپو کی جانب بڑھے اور باقی لوگ ایک ایک کر کے رخصت ہونے لگے۔ گلریز نے اپنا ٹیپ بند کیا اور جانوروں کے ذبح کرنے کی تصویریں لینے لگا۔ آدھے گھنٹے کے اندر وہ لوگ دونوں جانوروں کا گوشت لے کر مندر اور مسجد کی جانب روانہ ہو گئے۔ گلریز نے ان کے نکلنے کی تصویریں بھی لیں اور پھر واپس عبدل کے مکان کی چھت پر آ گیا۔ گلریز کے کیمرے میں سازش کے فوٹو اور ٹیپ میں گفتگو محفوظ ہو گئے تھے۔

فجر کی اذان کے ساتھ ہی عبدل نے ہینڈ پمپ سے ایک بالٹی پانی نکالا اور گلریز کو جگانے کے لیے چھت پر پہونچ گیا تو کیا دیکھتا ہے گلریز تیار بیٹھا اس کا انتظار کر رہا ہے۔ گلریز نے عبدل کو اپنے پاس بلایا اور بٹھا کر رات بھر کی داستان مختصراً سنا ڈالی اور پھر وہ دونوں فوراً مسجد کی جانب چل دیئے۔ مسجد کے قریب ہنگامہ برپا تھا۔ رات کی منصوبہ بندی کا ایک اہم رکن مسجد کے باہر تقریر کر رہا تھا اور لوگ تعجب سے اسے دیکھ رہے تھے۔ اس لیے کہ یہ صاحب فجر تو کیا دن کی کسی نماز میں بھی مسجد کے قریب نہ پھٹکتے تھے۔ ہاں جمعہ کے جمعہ اپنی حاضری ضرور لگا جاتے۔ لیکن آج وہ صبح ہی صبح نہایت اہتمام سے مسجد کے باہر کھڑے آنے والے لوگوں سے کہہ رہے تھے۔

’’آپ لوگوں نے ہندوؤں کی احسان فراموشی کو دیکھ لیا۔ ہم نے تقسیم ملک کے وقت ان کی حفاظت کی۔ پاکستان بن جانے کے بعد انہیں اپنا بنائے رکھا لیکن اب ان کے حوصلے کس قدر بلند ہو گئے آج انہوں نے اپنی مسجد کی بے حرمتی کی۔ کل یہ ہمارے گھروں میں گھس آئیں گے۔ ان کے درمیان ہندوستان کے ایجنٹ آ گئے ہیں۔ ان لوگوں نے ان کو ہتھیاروں سے لیس کر دیا ہے ورنہ ان کی مجال کب ہوتی کہ ہماری طرف نظر اٹھا کر دیکھیں اور ہماری آج کی اس ذلت و رسوائی کے لیے صرف اور صرف ہمارے سرپنچ نعمت الٰہی ذمہ دار ہیں۔ انہوں نے ان ہندوؤں کو سر پر چڑھا رکھا ہے اور مسلمانوں کے ہاتھ باندھ رکھے ہیں ورنہ ہم اپنے گاؤں کو ان سے کب کا پاک کر چکے ہوتے۔ ‘‘

وہ شخص بولا رہا تھا اور لوگ دم بخود سن رہے تھے ’’ ہماری فراخدلی کا بدلہ انہوں نے آج یہ دیا کہ ہماری عبادت گاہ کو ناپاک کر دیا۔ میں پوچھتا ہوں کہاں ہے چودھری نعمت الٰہی؟ وہ آئیں اور ہندوؤں سے انتقام لینے میں ہماری رہنمائی فرمائیں اور اگر ان کے اندر اس کی ہمت اور حوصلہ نہیں ہے تو ہمارے راستہ سے ہٹ جائیں۔ ہم خود ان سے بدلہ لیں گے۔ اب ہم اس ذلت و رسوائی کو اور زیادہ برداشت نہیں کر سکتے۔ میں پوچھتا ہوں کہاں ہیں چودھری نعمت الٰہی؟ سنا ہے ہر روز اذان کے ساتھ ہی مسجد میں آ جاتے تھے آج کہاں غائب ہو گئے۔ کہیں ڈر کر چھپ تو نہیں گئے؟ چودھری صاحب! ‘‘ اس نے تمسخرانہ انداز میں کہا اور پیچھے سے جواب ملا۔

’’دوستو میں یہاں ہوں۔ آپ لوگ نماز کے لیے آئے ہیں نماز پڑھیں۔ وقت ہو چلا ہے۔ اس کے بعد میں آپ سے بات کروں گا۔ ‘‘

’’یہ ٹال مٹول نہیں چلے گی آج ہم پہلے انتقام لیں گے پھر نماز پڑھیں گے۔ ‘‘

’’چودھری صاحب نے عوام سے مخاطب ہو کر کہا۔ ’’یہ صاحب تو مسجد کی طرف نئے آئے ہیں یہ نہیں جانتے نماز کیا ہے۔ آپ لوگ پہلے نماز پڑھ لیں۔ ‘‘

لوگوں نے کہا یہ صحیح ہے پہلے نماز پڑھتے ہیں پھر دیکھیں گے۔ اس بیچ عبدل اور گلریز نے چودھری صاحب کو رات کی تمام تفصیلات سے آگاہ کر دیا تھا۔

نماز جیسے ہی کھڑی ہوئی وہ سیاسی رہنما محلے کی جانب روانہ ہو گیا اور سونے والوں کو جگانے لگا۔ ان کو بدلہ لینے کیلئے بھڑکانے لگا۔ وہ انہیں مسجد کی جانب بلا رہا تھا۔ عبادت کی خاطر نہیں انتقام کی غرض سے۔ نماز کے بعد چودھری صاحب مائک پر آئے۔ انہوں نے مسلمانوں سے کہا۔

’’مسجد کی بے حرمتی کا دکھ جتنا آپ سب کو ہے اس سے زیادہ مجھے ہے اس لیے کہ اس کی تعمیر میں تمہارے ساتھ ساتھ میرا بھی خون پسینہ لگا ہے۔ ہم اس کی بے حرمتی کرنے والوں کو اس کی سزا ضرور دیں گے لیکن بغیر ثبوت کے نہیں۔ میں آپ لوگوں سے گذارش کرتا ہوں آپ لوگوں کو خدا کا واسطہ دیتا ہوں کہ صبح نو بجے تک اپنے جذبات کو قابو میں رکھیں۔ تین گھنٹے بعد گاؤں کے چوپال میں پنچایت ہو گی اور وہاں یہ بات ثابت ہو جائے گا کہ یہ حرکت کس نے کی ہے؟ ۔ یقین رکھیں جس کسی کی یہ مذموم حرکت ہے اسے سزا ضرور سنائی جائے گی۔ میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ انصاف ہو گا۔ ‘‘

مسجد میں موجود لوگوں نے چودھری نعمت الٰہی کو یقین دلایا کہ وہ نو بجے تک صبر و ضبط کا مظاہرہ کریں گے۔ کسی کے بھڑکاوے میں آ کر کوئی الٹا سیدھا قدم نہیں اٹھائیں گے۔ اس یقین دہانی کے بعد چودھری صاحب عبدل کے اِکّے پر سوار ہو کر ہندوؤں کے محلے سے گذرتے ہوئے مندر کے احاطے میں پہونچ گئے۔

وہاں کا ماحول کچھ زیادہ ہی خراب تھا سیکڑوں ہندوؤں کو مندر کے احاطے میں جمع کر لیا گیا تھا۔ ایک نوجوان تلک دھاری سادھو مائک پر چنگھاڑ رہا تھا۔ ’’تم جانتے ہو یہ کون ہے؟ یہ گؤ ماتا ہے۔ ہم اسی کا دودھ پی کر جوان ہوئے ہیں۔ شاستروں میں لکھا ہے اس کے اندر دیوتا نواس کرتے ہیں۔ آج مسلمانوں نے اس کی ہتیا کر کے ہماری اسمتا کو للکارا ہے۔ ایسے میں جس ہندو کا خون نہ کھولے خون نہیں وہ پانی ہے۔ گؤ ماتا کے کام نہ آئے وہ بے کار جوانی ہے۔ مسلمانوں نے گؤ ماتا کی ہتیا کر کے ہمیں کھلا سنکیت دے دیا ہے کہ اب ہمارا دھرم، مان مریادہ اور ماں بہنوں کی عزت کچھ بھی سُرکشِت نہیں ہے۔ ‘‘

لوگ حیرت سے اس بھڑکیلے بھاشن کو سن رہے تھے اور وہ کہہ رہا تھا۔ ’’ ہم اس اپمان کو ہرگز سہن نہیں کریں گے۔ ہم اس کا بدلہ لیں گے۔ یہ جان لو کہ یہ جو کچھ بھی ہوا ہے وہ گاؤں کے مکھیا چودھری نعمت الٰہی کے اشارے پر ہوا ہے۔ بہت دنوں تک اس بھیڑیئے نے بکری کی کھال اوڑھ کر ہمیں دھوکہ دیا لیکن اب اس کا اصلی چہرہ ظاہر ہو گیا ہے۔ ہم اس کا انتقام لینے کے لیے مسلمانوں کے محلے پر حملہ کریں گے اور ہمارا اصلی نشانہ چودھری ہو گا جس کے کہنے پر گؤ ماتا کی ہتیا کی گئی۔ ‘‘

اس کا یہ جملہ پورا بھی نہ ہو سکا تھا کہ پیچھے سے چودھری نعمت الٰہی مائک کے قریب آ گئے اس کو ہٹایا اور کہنے لگے۔ ’’بھائیو میں کون ہوں تم جانتے ہو۔ ‘‘ اس آواز نے سب کو متحیر کر دیا۔ ‘‘ میں چودھری نعمت الٰہی ہوں۔ مجھ سے بدلہ لینے کے لیے آپ کو مسلمانوں کے محلے تک جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں خود تمہارے سامنے حاضر ہوں۔ اگر مجھ کو قتل کر کے تمہارا دل ٹھنڈا ہو جاتا ہے اور ہمارے گاؤں میں دوستی اور بھائی چارہ کا ماحول باقی رہتا ہے تو اس قربانی کے لیے میں حاضر ہوں۔ اٹھاؤ اپنا ترشول اور میرا ودھ کر دو۔ لیکن ایسا کرنے سے پہلے یہ بھی سن لو کہ جیسے آپ کے مندر کو گؤ ماس سے اپوتر کیا گیا اسی طرح ہماری مسجد کو بھی سُور کے گوشت سے ناپاک کر دیا گیا۔ اُدھر وہ آپ پر حملہ کی تیاری کر رہے ہیں اور اِدھر آپ ان پر حملے کی سوگندھ کھا رہے ہو لیکن یہ سب ایک ساتھ کیسے ہو گیا؟ ‘‘

اس سوال نے لوگوں کو چونکا دیا۔ تصویر کا دوسرا رخ دیکھ کر مندر میں موجود بھیڑ کا دماغ ٹھنکا۔ چودھری صاحب نے اپنا بیان جاری رکھا ’’ مجھے یقین ہے کہ ان دونوں حرکتوں کے کرنے والا ایک ہی گروہ ہے جو ہماری دوریوں کا فائدہ اٹھانا چاہتا ہے اور نفرت کی آگ میں اپنے مفاد کی روٹیاں سینکنا چاہتا ہے۔ وہ نہ ہندو ہے اور نہ مسلم۔ اس کا دھرم اس کا سوارتھ ہے اس کی راج نیتی گھرنا (نفرت) کی راج نیتی ہے۔ میں مسلمانوں کو سمجھا کر آیا ہوں کہ نو بجے تک صبر کریں۔ آپ سے بھی پرارتھنا کرتا ہوں کہ دھیرج رکھیں۔ صبح نو بجے پنچایت ہو گی۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ ‘‘

مندر میں موجود عوام اور خواص دونوں کو سانپ سونگھ گیا۔ انہوں نے وچن دیا کہ نو بجے پنچایت میں تووہ آئیں گے مگر اس وقت تک کسی کے بہکاوے میں نہیں آئیں گے۔

مندر سے واپس آنے کے بعد گاؤں میں موجود اکلوتے اسٹوڈیو کو کھلوایا گیا اور اسے نو بجے سے قبل تمام تصویریں تیار کرنے کے لیے کہا گیا۔ نو بجے گاؤں کی چوپال میں غیر معمولی بھیڑ اِکٹھا ہو گئی۔ چودھری نعمت الٰہی نے اپنی مختصر سی تقریر میں لوگوں کو بتلایا۔

’’بھائیو اس گاؤں کا نام جنگ پورہ ضرور ہے لیکن در حقیقت یہ امن کا گہوارہ ہے۔ اس زمانے میں بھی جب چاروں طرف آگ اور خون کی ہولی کھیلی جا رہی تھی اس گاؤں میں بے مثال امن قائم تھا لیکن آج رات کچھ مفاد پرستوں نے اس دوستی و بھائی چارہ کی فضا کو مکدّر کرنے کی مذموم کوشش کی۔ جس وقت یہ سازش رچی جا رہی تھی خدا کے فضل سے عبدل کے مکان کی چھت پر نامور صحافی گلریز خان مقیم تھے اور انہیں اس کا علم ہو گیا۔ ہم ان کے بے حد ممنون ہیں اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے گلریز کے ذریعہ نفرت و عناد کی بیخ کنی کروا دی۔ اب میں آپ لوگوں کو وہ کیسٹ سنانا چاہتا ہوں جو اس سازش کا پردہ فاش کرتی ہے۔ آپ خود اپنے دشمنوں کی آوازوں کو سنیے اور انہیں پہچان لیجیے۔ ‘‘

جیسے ہی لاؤڈ اسپیکر سے آوازیں آنی شروع ہوئیں لوگ چونک پڑے۔ یہ تو وہی لوگ تھے جو صبح مندر اور مسجد کے سامنے چیخ چیخ کر اس واقعہ کی مذمت کر رہے تھے۔ عوام میں انتقام کی آگ بھڑکا رہے تھے۔ کچھ دیر کے بعد چودھری صاحب نے دوبارہ اعلان کیا۔

’’دوستو رات جو تصویریں گلریز نے اتاری ہیں میں نے انہیں پنچوں کو دِکھلا دی ہے اور اب میں ان سے گذارش کرتا ہوں کہ پنچایت کے ہندو ممبران اپنے سماج کے دشمنوں کا نام بتلائیں اور مسلمان اپنے معاشرہ کے ناسوروں کی نشاندہی کریں۔ اس کے بعد آپ لوگ ان کے لیے جو سزا تجویز کریں گے وہ سزا انہیں دی جائے گی۔ ‘‘

عوام نے ایک زبان ہو کر کہا ’’پنچایت جو چاہے فیصلہ کرے۔ ہم اس کے فیصلے کو بسروچشم قبول کریں گے۔ ‘‘ اس کے بعد مجرمین کے ناموں کا اعلان ہوا اور ان کے لیے یہ سزا تجویز کی گئی کہ انہیں گاؤں سے باہر نکال دیا جائے گا تاکہ جنگ پورہ کا امن قائم رکھا جا سکے۔ فیصلہ سننے کے بعد عوام خوش ہو گئے۔ وہ چودھری نعمت الٰہی زندہ باد۔ گلریز خان زندہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے لوٹ گئے۔ اس منظر کو دیکھ کر گلریز کی آنکھیں بھر آئیں۔ اس نے محسوس کیا کہ آج اس نے ایک ایسا کام کیا ہے جو اس کی زندگی کا حاصل ہے۔ جب اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا عبدل کی یہی کیفیت تھی۔

ٍ دونوں ایک دوسرے سے لپٹ گے اور رونے لگے۔ یہ عجیب منظر تھا کہ ہر کوئی خوش تھا لیکن یہ دونوں رو رہے تھے۔ در حقیقت یہ ان کا رونا شکر کے جذبات کا اظہار تھا۔ یہ آنسو خوشی کے آنسو تھے۔ جب وہ ایک دوسرے سے جدا ہوئے پنچایت کے لوگوں نے ان دونوں کو مبارکباد اور دعائیں دیں۔ آخر میں چودھری صاحب نے ان کو اپنے گھر کھانے پر بلایا۔ عبدل اس حویلی کے باہر تک کئی بار آیا تھا۔ کبھی کبھار سامان پہونچانے اندر بھی آیا تھا لیکن آج اس کی حیثیت ایک معزز مہمان کی تھی۔ اس اعزاز و تکریم پر وہ پھولا نہ سماتا تھا۔ کھانے سے فارغ ہو کر گلریز نے چودھری صاحب کا شکریہ ادا کیا اور عبدل کے ساتھ بس اڈے کی جانب روانہ ہو گیا۔ رات سے جاری موضوع کو بدلتے ہوئے گلریز نے کہا۔

’’بھئی عبدل ایک بات بتاؤ کیا اب بھی تم یہی سوچتے ہو کہ گاؤں میں سب کچھ اچھا ہی اچھا ہے اور شہر میں سب کچھ خراب ہی خراب ہے۔ ‘‘

عبدل سمجھ گیا گلریز کیا کہنا چاہتا ہے۔ عبدل نے جواب دیا۔ ’’صاحب گاؤں ہو یا شہر وہ وہاں رہنے والے لوگوں کے باعث اچھے یا برے ہوتے ہیں۔ جس گاؤں میں اس طرح کی گھناؤنی سازش ہوتی ہے اس کے بارے میں کیسے کہا جا سکتا ہے کہ وہاں سب کچھ خیر ہی خیر ہے اورجس شہر میں آپ جیسے دلیر اور بہادر لوگ رہتے ہیں اس کے بارے میں یہ کہنا کہ وہاں شر ہی شر ہے مناسب نہیں ہے۔ دونوں جگہ خیر و شر کی طاقتیں سرگرم عمل ہیں۔ ایک دوسرے سے نبرد آزما ہیں۔ کبھی کوئی غالب ہو جاتا ہے اور کبھی کوئی مغلوب ہو جاتا ہے۔ اسی کا نام دنیا ہے۔ ‘‘

عبدل کی فلسفیانہ باتیں سن کر گلریز حیران ہو گیا۔ اس نے کہا۔ ’’عبدل تمہیں تو کسی کالج کا پروفیسر ہونا چاہئے۔ ‘‘

عبدل مسکرا دیا اس نے کہا۔ ’’صاحب یہ آپ کی ذرّہ نوازی ہے بات در اصل یہ ہے کہ ہم نے اپنی توقعات کو محدود کر لیا ہے۔ ہم سوچتے ہیں کہ سوچنے پر صرف دانشوروں کی اجارہ داری ہے۔ لیکن بڑے پیر صاحب جن کے پاس آپ جا رہے ہیں کہتے ہیں دماغ تو سبھی کے پاس ہے۔ مشاہدہ صرف محقق نہیں کرتا اس لئے کہ بینائی سبھی کو میسر ہے۔ حکمت و دانا ئی پر صرف انہیں کی میراث نہیں جن کے پاس بڑی بڑی ڈگریاں ہیں، ڈگری کا تعلق یادداشت سے تو ہو سکتا ہے لیکن دانائی سے نہیں۔ خیر یہ سامنے بس اڈے پر وہ بس کھڑی ہے جو آپ کو خانقاہ لے جائے گی۔ آپ آئیے ! میں آپ کے لیے سیٹ پکڑ کر آتا ہوں۔ ‘‘

گلریز نے کہا ’’نہیں شکریہ یہ بھی غلط فہمی ہے کہ پڑھا لکھا آدمی بھیڑ بھاڑ میں اپنے لیے سیٹ نہیں پکڑ سکتا۔ میں اپنا یہ کام خود کر لوں گا۔ ‘‘

عبدل کے نہلے پہ یہ گلریز کا دہلا تھا۔ بس کے قریب آ کر دونوں نے ایک دوسرے سے مصافحہ کیا۔ اب وہ ایک دوسرے کے دوست بن چکے تھے۔ عبدل نے کہا۔ ’’صاحب۔ ‘‘

گلریز نے ٹوکا۔ ’’کیا؟ ‘‘

عبدل نے اصلاح کی۔ ’’گلریز بھائی واپسی میں اس غریب کو۔۔۔‘‘

گلریز نے پھر ٹوکا۔ ’’کیا؟ ‘‘

’’اپنے دوست کو یاد رکھنا اس لیے کہ آپ کو دوبارہ یہیں سے لوٹ کر جانا ہے۔ ‘‘

گلریز نے قہقہہ لگایا۔ ’’یہ ہوئی نا دھندے والی بات‘‘ اور دونوں دوست ہنستے مسکراتے ایک دوسرے سے جدا ہو گئے۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

صدیوں پرانی بس اوبڑ کھابڑ راستوں پر کھچر پھچر کرتی رواں دواں تھی۔ جنگ پورہ سے خانقاہ کا فاصلہ تو تقریباً سو کلو میٹر تھا۔ کسی ترقی یافتہ ملک میں اس فاصلہ کو طے کرنے کے لیے ایک گھنٹہ سے کم وقت لگتا تھا لیکن اس پسماندہ علاقے میں بس چار گھنٹے سے قبل شاید ہی کبھی پہونچی تھی۔ شام چھ بجے کے آس پاس جب ڈرائیور نے آواز لگائی کہ جن سواریوں کو بڑی خانقاہ جانا ہے وہ یہیں اُتر جائیں تو گلریز نے جلدی جلدی اپنا سامان سمیٹا اور بس سے اتر گیا۔ یہاں پربھی ویرانی ہی ویرانی تھی۔ چند مسافر جو اس کے ساتھ اترے تھے اپنا سامان سمیٹ رہے تھے۔ تا حد نظر کوئی بستی کا سراغ دکھلائی نہ دیتا تھا۔ وہ گھبرا گیا اپنے پاس کھڑے ایک مسافر سے پوچھا۔

’’جناب بڑی خانقاہ یہیں قریب ہے؟ ‘‘

’’جی ہاں صاحب قریب ہی ہے۔ یہ جو سامنے ٹیلہ نظر آ رہا ہے اس کی پرلی طرف بڑے پیر صاحب کی خانقاہ ہے۔ ‘‘

’’اچھا تو فاصلہ کتنا ہو گا؟ ‘‘

’’یہی تقریباً پانچ کوس۔ ‘‘

’’پانچ کوس لیکن یہاں تو کوئی سواری دکھائی نہیں دیتی۔ کیا پانچ کوس کا سفر پیدل طے کرنا پڑے گا؟ ‘‘

’’جی ہاں جناب ہمارے ساتھ چلئے ہم لوگ بھی وہیں پاس کے گاؤں میں جا رہے ہیں۔ آپ کو خانقاہ چھوڑ دیں گے۔ ‘‘

’’وہ تو ٹھیک ہے لیکن پانچ کوس پیدل۔ ‘‘ وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑایا۔

’’بھئی آپ تو ماشاء اللہ جوان لگتے ہو پھر بھی۔ تعجب ہے۔ ‘‘

اب اسے غصہ آ گیا۔ اس نے کہا ’’جوان لگتا ہوں کیا مطلب؟ جوان ہوں بالکل جوان ہوں۔ اس میں شک شبہ کی کیا بات ہے؟ ‘‘

’’جی ہاں اس میں شک شبہ کی بات کیوں کر ہو سکتی ہے لیکن آپ اتنا گھبرا کیوں رہے ہیں؟ ‘‘

’’میں گھبرا رہا ہوں۔ ‘‘ اب توجیسے کسی نے آگ میں تیل ڈال دیا تھا۔ ’’آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ میں گھبرا رہا ہوں۔ آپ دلوں کا حال جانتے ہیں۔ ‘‘

’’جی نہیں دلوں کا حال تو ہم نہیں جانتے لیکن چہرہ بھی تو دل کا آئینہ ہوتا ہے۔ ‘‘

’’اچھا! آئینہ ہوتا ہے۔ تو آپ کہیں اس آئینہ میں خود اپنا ہی عکس تو نہیں دیکھ رہے ‘‘

’’نہیں جناب شیشے کے آئینہ اور چہرے کے آئینہ میں یہ فرق ہوتا ہے کہ شیشہ سامنے والے کا عکس دکھلاتا ہے اور چہرہ خود اپنے دل کی عکاسی کرتا ہے۔ ‘‘

اس دلیل سے وہ جھنجھلا گیا اور اس نے کہا۔ ’’بھئی ایک بات کہوں اس علاقے کے لوگ بڑے حجت باز ہیں۔ کل ریل گاڑی میں بھی حجت پھر اِکّے پر وہی سلسلہ اور اب بس سے اترنے کے بعد وہی سب کچھ۔ میری تو کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ ‘‘

’’لیکن ہماری سمجھ میں آتا ہے آپ نے اتنے سارے لوگوں کا ذکر کیا یہ سب کے سب تو حجت باز نہیں ہو سکتے کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ خود حجتی قسم کے انسان ہوں اس لیے کہ جس طرح تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی اسی طرح حجت بھی ایک منہ سے نہیں ہوتی۔ ‘‘

اس بات پر گلریز زچ ہو گیا اور اس نے ہتھیار ڈالتے ہوئے کہا۔ ’’ہاں بابا۔ میں نے مان لیا کہ میں حجت باز ہوں۔ غلطی میری ہی ہے اب مجھے معاف کرو۔ ساتھ والا دیہاتی دانت دکھا کر ہنسنے لگا۔ ’’ارے صاحب آپ تو بلاوجہ ناراض ہو گئے۔ آپ کچھ نہ بولیں گے تو کیسے چلے گا۔ ابھی تو پانچ کوس میں سے صرف ایک ڈیڑھ کوس کا فاصلہ طے ہوا ہے۔ راستہ کاٹنے کے لیے کچھ نہ کچھ بات چیت تو کرنی ہی ہو گی۔ ‘‘

’’کیا مطلب؟ ‘‘ گلریز نے کہا ’’تو کیا یہ سب وقت گزاری کے لیے کیا جا رہا ہے۔ سب ٹائم پاس ہے۔ ‘‘

’’جی ہاں صاحب یہی سمجھ لیجئے۔ یہ زندگی بھی تو ایک ٹائم پاس ہی ہے۔ کسی طرح گزار کے پھر لوٹ جانا ہے بابل کے گھر۔ ‘‘

گلریز کا غصہ ہوا ہو گیا۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’بھئی ایک بات بتاؤں آپ سب بڑے فلسفی قسم کے لوگ ہیں۔ موقع بے موقع فلسفہ جھاڑتے رہتے ہیں۔ ‘‘ اب وہ چھیڑ رہا تھا۔

’’دیکھئے صاحب یہ موقع بے موقع بھی اپنی سمجھ کے مطابق ہوتا ہے۔ ہو سکتا ہے جو آپ کے لیے بموقع ہو وہ ہمارے لیے بے موقع اور جو ہمارے لیے ۔۔۔‘‘

’’ہاں سمجھ گیا۔ ‘‘ گلریز نے کہا اور اسی طرح بے سر پیر کی باتوں نے پانچ کوس کی مسافت کو اس طرح نگل لیا جیسے اس کا کوئی وجود ہی نہ تھا۔ وقت گذر گیا اور خوب گذرا۔ سامنے خانقاہ کی روشنی ان کا استقبال کر رہی تھی۔ ان لوگوں نے گلریز کی توجہ اس طرف مبذول کرائی مصافحہ کیا اور ہنستے مسکراتے اپنے اپنے گھروں کی جانب ہو لیے۔

گلریز جب خانقاہ میں داخل ہوا تو لوگ عشاء کی نماز سے فارغ ہو کر لنگر کی جانب جا رہے تھے۔ کوئی کھانا لے رہا تھا کوئی کھانا کھا رہا تھا۔ بالکل جیل خانے کا منظر جس میں ہر قیدی اپنی پلیٹ اٹھائے ایک لائن میں دیگ کے قریب جاتا اور اپنا کھانا لے کر ایک طرف بیٹھ جاتا۔ طالب علمی کے زمانے میں ایک مرتبہ کسی بڑے احتجاج میں اسے بھی جیل جانے کا موقع ملا تھا۔ آج یہاں پھر وہ منظر تازہ ہو گیا۔ سامان سے لدا پھندا دیکھ کر ایک صاحب اس کے قریب آئے۔ انہوں نے اپنا تعارف کرایا۔

’’میرا نام محمود خواجہ ہے میں اس خانقاہ کا خادم ہوں۔ آپ جناب کہاں سے تشریف لا رہے ہیں؟ ‘‘

گلریز خان نے اپنا تعارف کراتے ہوئے جب یہ بتلایا کہ وہ گلباز خان کا بیٹا ہے تو خواجہ میاں نے اسے گلے سے لگا لیا۔ اس کی پیشانی کو بوسہ دیا اور اس کا سامان اپنے ہاتھوں میں لینے لگے۔ انہوں نے بتلایا کہ گلباز خان سے ان کے مراسم بڑے دیرینہ ہیں۔ کسی زمانے میں وہ بھی پھلوں کا کاروبار کیا کرتے تھے اور گلباز کے ہمراہ خانقاہ پر آتے جاتے تھے لیکن پھر ایک بار ایسے آئے کہ پلٹ کر دیکھا بس یہیں کے ہو رہے۔

خواجہ محمود نے گلریز سے کہا۔ ’’بیٹے فوراً ہاتھ منہ دھو کر آؤ لنگر کھل چکا ہے۔ تم بھی کھانا کھا لو اس لیے کہ ایک مرتبہ یہ سلسلہ بند ہوا تو بند ہی ہو جاتا ہے۔ ‘‘

گلریز نے سوال کیا۔ ’’چچا میاں پیر صاحب کہاں ہیں؟ پہلے ان سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں۔ اس کے بعد کھانا پینا ہوتا رہے گا۔ ‘‘

’’نہیں بیٹے تم ان سے ابھی نہیں مل سکتے۔ وہ پاس کے گاؤں میں اپنے کسی مرید کی لڑکی کے نکاح میں شریک ہونے کے لیے گئے ہوئے ہیں۔ رات نہ جانے کب لوٹیں گے۔ اب تمہاری ان سے ملاقات صبح ہی ہو سکے گی۔ اس لیے فوراً آؤ کھانا کھاؤ، آرام کرو اور پھر بعد نماز فجر پیر صاحب کا نیاز حاصل کر لینا۔ ‘‘

بات چیت کرتے کرتے وہ لوگ ایک بڑے سے ہال نما کمرے میں پہونچ گئے۔

خواجہ میاں نے کہا۔ ’’ دیکھو کچھ بستر لگے ہوئے ہیں جو جگہ خالی ہے ان میں سے کسی کا انتخاب کر کے تم بھی اپنا بستر لگا لو۔ ‘‘

اب اسے پھر ایک بار جیل کی بیرک یاد آ گئی تھی جس میں مختلف قیدی ایک کے بعد ایک لائن سے سویا کرتے تھے۔ گلریز نے خواجہ میاں کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ میں کھانے کے لیے ابھی حاضر ہوا۔

اس کے آنے تک لنگر کی قطار تقریباً ختم ہو چکی تھی۔ لنگر کا کھانا بانٹنے والے خود اپنے لیے کھانا نکال رہے تھے۔ ان لوگوں نے کھانا اس کی پلیٹ میں ڈال دیا اور وہ ان کے ساتھ آ کر ایک کونے میں بیٹھ گیا۔ کھانے کے دوران گلریز نے اپنے قریب بیٹھے ہوئے صاحب سے پوچھا۔

’’آپ کب سے یہ کام کر رہے ہیں؟ ‘‘

اس شخص نے تعجب سے پوچھا۔ ’’کب سے؟ کیا کام؟ ‘‘

’’میرا مطلب کھانے کی تقسیم۔ ‘‘

’’اوہو۔ کہیں آپ یہاں پہلی بار تو نہیں آئے۔ شاید آپ یہاں کے نظم و ضبط سے واقف نہیں ہیں۔‘‘

گلریز نے اپنی خجالت مٹاتے ہوئے کہا۔ ’’نہیں ویسے پہلی بار تو نہیں آیا بچپن میں والدین کے ساتھ آیا تھا لیکن کچھ یاد نہیں۔ ‘‘

’’اسی لیے۔ ‘‘ ان میں سے ایک نے قہقہہ لگایا۔ ’’کل اگر انہیں کی ڈیوٹی لگ جائے گی تو سب پتہ چل جائے گا۔ ‘‘

’’ڈیوٹی لگ جائے گی۔ میں سمجھا نہیں کیا پتہ چل جائے گا؟ ‘‘

’’ارے بھائی گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ یہ خانقاہ ہے۔ یہاں نہ کوئی ملازم ہے اور نہ کوئی خادم۔ سب کے سب پیر صاحب کے مرید ہیں اور پیر صاحب بھی ہم میں سے ایک ہیں۔ یہاں سب کام رضا کارانہ کیے جاتے ہیں۔ جو لوگ یہاں آتے ہیں وہ اپنے قیام کی مدت سے آگاہ کر دیتے ہیں اور پھر ہر روز صبح مختلف لوگوں کو مختلف کام تقسیم کر دیئے جاتے ہیں۔ جب تک آپ یہاں رہیں گے کوئی نہ کوئی کام آپ کے ذمہ آتا رہے گا۔ جب آپ چلے جائیں گے تو کچھ اور لوگ آ جائیں گے اور وہ کچھ نہ کچھ کرتے رہیں گے۔ اسی طرح یہاں کا نظام چلتا رہے گا۔ ‘‘

کھانا ختم ہوتے ہوتے اس نے ان سب کا تعارف بھی حاصل کر لیا تھا۔ کوئی کسی کمپنی میں چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ تھا تو کوئی کسی فارم ہاؤس کا منیجر تھا۔ ان میں سے ایک چائے کی دوکان والا بھی تھا اور دوسرا کسی دفتر کا چپراسی۔ ان سب میں اسے کوئی فرق نظر نہیں آتا تھا۔ سب ایک ساتھ کام کر رہے تھے۔ ایک ساتھ کھانا کھا رہے تھے اور ایک ہی ہال میں سونے جا رہے تھے۔ خانقاہ کا پہلا سبق گلریز نے بغیر پڑھائے پڑھ لیا تھا۔ وہ اس بات کو جان گیا تھا کہ لوگ یہاں آ کر روحانی سکون کیونکر حاصل کرتے ہیں۔

باہر کی دنیا میں دو وجوہات کی بناء پر انسان اپنا سکون گنواتا ہے۔ وہ تیرا ہے یہ میرا ہے کا جھگڑا۔ میں بڑا تو چھوٹا کا چکر۔ جب انسان تیرا اور میرا کے جھگڑے میں پھنس جاتا ہے تو دوسروں کے مال و جاہ پر اس کی نظر جاتی ہے۔ اس کے باعث اس کے دل میں حسد و بغض کے جذبات جنم لیتے ہیں اور پھر دوسروں کے مال کو اپنا بنانے کی حرص و ہوس میں وہ پاگل ہو جاتا ہے۔ اپنا چین و سکون گنوا بیٹھتا ہے۔ لیکن یہاں تو کچھ بھی کسی کا نہیں تھا۔ سب کچھ اسی کا تھا جس نے اسے پیدا کیا۔ یہاں مال و جاہ کا کوئی مالک نہ تھا۔ ہر کوئی امانت دار ضرور تھا مگر خیانت سے بچنے کے خوف نے اسے دوسروں سے بے نیاز کر دیا تھا۔

اپنے آپ کو بڑا سمجھنا اور دوسرے اسے بڑا کیوں نہیں سمجھتے؟ اس بات سے پریشان ہونا نیز دوسروں کو یہ سمجھانے کی کوشش میں پریشان کرنا ظلم و جبر کو جنم دیتا ہے۔ ظالم جس قدر ظلم دوسروں پر کرتا ہے اس سے زیادہ ظلم خود اپنے آپ پر کرتا ہے۔ اسی لیے کہ وہ جس قدر تگ و دودوسروں کا چین و سکون غارت کرنے کیلئے کرتا ہے خود اپنے آپ کو اسی قدر سکون و اطمینان سے محروم کر لیتا ہے۔ یہاں عبادت و ریاضت میں۔ کھانے اور پینے کے دوران سوتے جاگتے عملاً یہ تعلیم دی جاتی تھی کہ دیکھو تم سب یکساں ہو ایک آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے بنا ہے اور اسے مٹی میں مل جانا ہے۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

نماز سے فارغ ہو کر جیسے ہی گلریز بستر پر دراز ہوا۔ اسے صفیہ کی بات یاد آ گئی۔ ’’اگر ایک دن رک جاؤ گے تو کیا فرق پڑے گا۔ ‘‘ اس کی بہن صفیہ نے کس قدر معقول بات کہی تھی۔ ویسے بھی پیر صاحب سے ملاقات تو ہو نہ سکی۔ اگر ایک دن رک جاتا تو شہناز کے نکاح میں شریک ہو جاتا۔ شہناز کے نکاح نے اس کے ذہن کا ایک اور دریچہ کھول دیا۔ بچپن کا زمانہ تھا۔ شہناز اور صفیہ گلریز اور شہباز ساتھ ساتھ مکتب جاتے۔ کھیلتے کودتے۔ لڑتے جھگڑتے۔ کھاتے پیتے اپنے طفلانہ دن گذار رہے تھے لیکن ایک روز کچھ ایسا ہوا کہ یہ سب ختم ہو گیا۔

اس روز گلریز اپنے گھر پر اسکول کا کام کر رہا تھا کہ اچانک لکھتے لکھتے اس کے پنسل کی نوک ٹوٹ گئی۔ اس سے پہلے کہ وہ دوبارہ سانچہ سے پنسل کی نوک بناتا اسے خیال آیا کہ ابھی چند گھنٹے قبل اس نے ایک پنسل صفیہ کو دی ہے۔ اسنے فوراً آواز لگائی۔

’’صفیہ میری پنسل مجھے لوٹا دو۔ ‘‘

صفیہ جو دوسرے کمرے میں دیگر بچوں کے ساتھ کھیل رہی تھی وہیں سے بولی۔

’’ابھی نہیں بعد میں دے دوں گی۔ ‘‘

’’ابھی کیوں نہیں؟ مجھے ابھی کہ ابھی چاہئے۔ ‘‘

’’ابھی میں نہیں آ سکتی۔ آپ کو چاہئے تو آپ میرے بستہ میں سے لے لیں۔ ‘‘

گلریز کا پارہ چڑھنے لگا۔ ’’میں کیوں لوں؟ تم نے مجھ سے پنسل لی ہے تم لا کر دو۔ ‘‘

’’نہیں بھیا میں نے کہا نا میں ابھی نہیں آ سکتی۔ آج ہم لوگ شادی شادی کھیل رہے ہیں۔ شہناز کا گڈا اپنی بارات لے کر میری گڑیا سے بیاہ رچانے آ چکا ہے۔ اب ایسے میں میں کیسے آ سکتی ہوں تم ہی بتاؤ۔ ‘‘

گلریز نے پھر کہا۔ ’’اچھا بتاؤ تمہارا بستہ کہاں ہے؟ ‘‘

’’الماری میں۔ ‘‘ صفیہ نے بے زاری سے جواب دیا۔

گلریز زمین پر پیر مارتا ہوا الماری کے پاس پہونچا اور بستہ کا تمام سامان ادھر ادھر پھینک دیا۔ لیکن اسے بستہ میں پنسل نہیں ملی۔ اب وہ غصہ سے چیخا۔ ’’کہاں ہے پنسل؟ تمہارے بستہ میں تو نہیں ہے۔ ‘‘

صفیہ نے کہا۔ ’’ارے بھئی بستہ میں پنسل بکس ہے اور اس میں پنسل ہے۔ ‘‘

’’یہ کیا پاگل پن ہے تمہارے بستہ میں نہ تو پنسل بکس ہے اور نہ ہی پنسل ہے تم فوراً یہاں آ کر میری پنسل تلاش کر کے مجھے دو ورنہ۔۔۔‘‘

’’نہیں بھیا میں نے کہا نا کہ میں ابھی نہیں آ سکتی ابھی تو قاضی صاحب بھی آ گئے ہیں یہ دیکھو وکیل اور گواہ ایجاب و قبول کروا رہے ہیں۔ ‘‘

یہ سنتے ہی گلریز آپے سے باہر ہو گیا۔ ’’میرا کام رکا ہوا ہے اور تمہیں کھیل کی پڑی ہے۔ میں ابھی آتا ہوں اور سبق سکھاتا ہوں تم کو تمہارے قاضی کو گواہ کو وکیل اور گڈا گڈی کو۔ ‘‘ یہ کہتا ہوا وہ دندناتا دیوان خانے میں آ گیا جو شادی خانہ بنا ہوا تھا۔ تمام بچے نت نئے کپڑے پہنے کھیل میں مصروف تھے۔ گلریز کمرے میں داخل ہوا اس نے دولہن کی ڈولی کو پیروں تلے روند دیا اور دولہے کو گھوڑے سمیت کھڑکی سے باہر پھینک دیا۔ پوری بارات گاجا باجا سب درہم برہم ہو گیا۔ بچے رونے لگے۔ آناً فاناً صف ماتم بچھ گئی۔ بچے ادھر ادھر دبک گئے۔ ایسا لگا گویا کوئی ’’ڈائناسور‘‘ ننھے منے بچوں کے درمیان آ گیا ہے۔ لیکن ان سب کے درمیان سے شہناز اٹھی اس نے گلریز کا گریبان پکڑ لیا اور پوچھا

’’تم نے میرے گڈے کو کیوں پھینکا۔ بتاؤ تم نے اسے کیوں پھینکا۔ تمہیں ابھی کے ابھی میرا گڈا مجھے واپس لا کر دینا ہو گا ابھی کے ابھی۔ ‘‘

گلریز پہلے تو چونکا پھر اس نے اپنے آپ کو سنبھالا اور کہا چھوڑو میرا گریبان۔ چھوڑتی ہو کہ نہیں ورنہ میں تمہیں بھی تمہارے گڈے کی طرح اٹھا کر کھڑکی سے باہر پھینک دوں گا۔ ‘‘

شہناز ڈر گئی اس نے گلریز کا گریبان چھوڑ دیا اور وہ روتے روتے اپنے گھر بھاگ گئی۔ گلریز واپس اپنے کمرے میں آ گیا۔ صفیہ روتی دھوتی اباجی کے پاس گئی اور ان سے گلریز کی شکایت کر ڈالی۔

تھوڑی دیر میں ابا جی کا بلاوہ آ گیا۔ گلریز جانتا تھا کہ اسے کیوں بلایا جا رہا ہے۔ اباجی نے اُسے بلا کر پہلے تو خوب ڈانٹ پھٹکار سنائی اور پھر سمجھایا۔

’’بیٹے تم بڑے ہو طاقتور ہو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تم اپنے سے چھوٹوں پر ظلم کرو بلکہ بڑا ہونے کے باعث تمہارے اندر ان کے لیے شفقت ہونی چاہئے محبت ہونی چاہئے۔ ایثار و قربانی کا جذبہ ہونا چاہئے۔ تم نے اپنی طاقت کا غلط استعمال کیا ہے تمہیں یہ نہ بھولنا چاہئے کہ تم اگر ان سے بڑے ہو تو تم سے بھی تو کوئی بڑا ہے اور سب سے بڑا اللہ ہے وہی طاقت کا سرچشمہ ہے اس نے تمہیں قوت اس لیے نہیں دی کہ تم اس سے ظلم کرو۔ یاد رکھو جو طاقت دیتا ہے وہ چھین بھی سکتا ہے اور پھر یہ بات تو یقینی ہے کہ اس نے جو کچھ دیا ہے وہ اس کا حساب لے گا۔ ‘‘

اباجی کی ان باتوں کو سن کر گلریز کا دل پسیج گیا۔ اس نے کہا ’’اباجی میں آپ سے معافی چاہتا ہوں۔ ‘‘ انہوں نے کہا بیٹے مجھ سے معافی چاہنے سے کیا فائدہ تم نے جن کی دل آزاری کی ہے ان سے معافی مانگو۔ اگر وہ معاف کر دیں تو فبہا اور اگر وہ بدلہ لیں تو یہ ان کا حق ہے۔ اگر وہ تمہیں سزا دلوانا چاہیں تو یہ ان کی مرضی۔ ‘‘

گلریز گھبرا گیا۔ اس نے صفیہ کی جانب دیکھ کر کہا۔ ’’میری بہنا مجھ سے غلطی ہو گئی میں تم سے معافی چاہتا ہوں۔ اب بولو میری کیا سزا ہے؟ ‘‘

صفیہ پگھل گئی اس نے اپنے بھیا کو معاف کر دیا۔ دوسرے بچوں نے درگذر کر دیا لیکن شہناز وہاں نہیں تھی۔ اباجی نے کہا ’’بیٹے تم نے سب سے زیادہ جسے دکھ پہنچایا ہے وہ تو شہناز ہے اور وہ یہاں نہیں ہے۔ تمہیں اس سے بھی معافی مانگنی ہو گی اور یاد رکھو جو نقصان تم نے صفیہ اور شہناز کا کیا ہے اس کی بھرپائی بھی کرنی ہو گی۔ ‘‘

گلریز بولا۔ ’’لیکن وہ میں کہاں سے کروں گا؟ میرے پاس گڑیا خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ ‘‘

یہ سن کر امی جان بولیں۔ ’’میں دے دوں گی اپنے لال کو پیسے، تو کیوں گھبراتا ہے۔ ‘‘

ابا جی بولے ’’بچہ کی عادت خراب نہ کرو۔ اگر دینا ہی ہے تو قرض کی صورت میں دو اور جیب خرچ سے اسے ہر روز منہا کرتی رہنا۔ ‘‘

’’ہاں بابا ٹھیک ہے۔ ‘‘ امی جان بولیں آپ تو مجھے پھلوں کے نہیں بموں کے بیوپاری لگتے ہو ایک دم جلّاد۔ ‘‘

دوسرے روز گلریز بازار سے نہایت خوبصورت گڈا اور گڑیا لے آیا۔ جب اس نے گڑیا اپنی بہن کو دی تو وہ خوش ہو گئی۔ اب وہ گڈا لے کر شہناز کے گھر جا پہونچا۔ شہناز نے جیسے ہی اسے دیکھا پہلے دن کا واقعہ اس کی آنکھوں میں گھوم گیا۔ اس نے غصہ سے منہ پھلا لیا۔ گلریز اس کے قریب گیا اور کہنے لگا۔

’’شہناز مجھے معاف کر دو۔ غلطی تو صفیہ کی تھی اور میں نے تمہارا گڈا پھینک دیا۔ ‘‘

شہناز بولی۔ ’’مجھے اس کی ضرورت نہیں۔ جاؤ اپنا کام کرو۔ ‘‘

گلریز نے کہا۔ ’’اور سنو شہناز میں تمہارے لیے گڈا بھی لایا ہوں۔ ‘‘ یہ سنتے ہی شہناز کھل اٹھی اس نے کہا ’’کہاں ہے میرا گڈا؟ بتلاؤ کس حال میں ہے؟ اسے چوٹ تو نہیں آئی؟ ‘‘

گلریز ہنسنے لگا۔ اس نے کہا ’’اب بھول جاؤ اس گڈے کو یہ دیکھو میں تمہارے لیے نیا گڈا لایا ہوں۔ ‘‘

’’کیا؟ نیا گڈا مجھے نہیں چاہئے۔ مجھے تو وہی اپنا والا گڈا چاہئے۔ ‘‘

’’لیکن تمہارا وہ گڈا تو سامنے تالاب میں جا گرا تھا۔ اب میں اسے کیسے لا سکتا ہوں؟ ‘‘

’’کیسے لا سکتے ہو؟ اگر لا نہیں سکتے تو پھینکا کیوں تھا؟ یہ تو تمہیں پھینکنے سے پہلے سوچنا چاہئے تھا۔ ‘‘

’’اری بے وقوف اس وقت میں غصہ میں تھا اور پھر غصہ میں انسان کی سوچ سمجھ ویسے ہی غارت ہو جاتی ہے۔ یہ دیکھو۔ یہ گڈا تمہارے اس گڈے سے بھی اچھا ہے۔ ‘‘

شہناز نے چڑ کر کہا۔ ’’سوال اچھے یا برے کا نہیں ہے۔ سوال اپنے یا پرائے کا ہے۔ مجھے یہ تمہارا اچھا والا گڈا نہیں چاہئے۔ مجھے میرا خراب والا گڈا چاہئے۔ ‘‘ یہ کہہ کر وہ رونے لگی۔

گلریز کو کچھ سمجھ میں نہ آ رہا تھا۔ سارا بازار گھوم کر اس نے یہ بہترین گڈا تلاش کیا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اسے دیکھتے ہی شہناز اپنے پرانے والے گڈے کو بھول جائے گی۔ خوش ہو جائے گی لیکن اس بے وقوف لڑکی کو دیکھو وہ نہ اس کی طرف دیکھ رہی تھی نہ اسے ہاتھ لگا رہی تھی۔ شہناز کی اس حرکت پر اسے غصہ آنے لگا تھا۔ اس نے بیزاری سے کہا۔

’’دیکھو میں تمہارا گڈا تو اب لا نہیں سکتا ہوں اور اب یہ نیا گڈا تمہارے لیے چھوڑے جا رہا ہوں۔ اب تم جانو اور یہ جانے میں تو چلا۔ ‘‘

ابھی گلریز کا جملہ پورا بھی نہ ہوا تھا کہ شہناز نے لپک کر اس گڈے کو اٹھایا اور پوری طاقت سے اسے کھڑکی سے باہر پھینک دیا۔ گلریز نے دیکھا کہ دور تالاب میں دونوں گڈے تیر رہے ہیں۔ کچھ دیر تک وہ دونوں اپنی بے جان آنکھوں سے تالاب میں تیرتی دو لاشوں کو دیکھتے رہے اور پھر گلریز ناکام و نامراد لوٹ آیا۔

اس واقعہ کے بعد گلریز نے شہناز کے گھر کا رُخ کبھی نہ کیا۔ شہناز بھی اسے اپنے گھر میں کبھی نظر نہ آئی اور مکتب کے بعد وہ اسے باہر بھی نظر نہ آئی۔ پردہ کرنے لگی تھی۔ بچپن کے واقعہ کی یاد نے اس کے اندر احساس جرم پیدا کر دیا۔ وہ سوچنے لگا کہ اسے رک جانا چاہئے تھا۔ اگر اس موقع پر شہناز کو وہ بچپن کی شادی یاد آ گئی تو اسے گلریز کا خیال بھی ضرور آئے گا۔ ایسے میں اگر اسے پتہ چل جائے کہ گلریز بغیر کسی مجبوری کے اس تقریب میں شریک نہیں ہوا تو وہ کیا سوچے گی؟

گلریز نے اس خیال کو اپنے ذہن سے جھٹکنے کی کوشش کی۔ نکاح کی گہما گہمی میں اسے بچپن کی اس تلخی کا خیال کیوں آئے گا۔ وہ اپنے آپ سے ہم کلام تھا۔ لیکن اگر آ ہی گیا تو۔ آ ہی گیا تو وہ سوچے گی اچھا ہی ہے جو گلریز وہاں موجود نہیں ہے۔ کم از کم اس ظالم انسان سے اس کا دولہا محفوظ ہے۔ نہیں نہیں اب وہ سمجھدار ہو گئی ہے۔ اب وہ ایسا نہیں سوچے گی کہ گلریز جلّا دہے۔ اب اسے یہ خیال نہ گذرے گا کہ گلریز سے اس کے دولہے کو کوئی خطرہ ہے۔ ہو سکتا ہے وہ یہ نہ سوچے لیکن یہ تو سوچے گی کہ گلریز اس کی اس خوشی کے موقع پر کیوں موجود نہیں ہے۔ اتنے سارے مہمانوں میں کون شریک ہے کون شریک نہیں ہے اس کا حساب کون رکھ سکتا ہے اور پھر اس کا پورا گھر تو شریک ہے ہی۔ ایک فرد کے غیر حاضر رہنے سے کیا فرق پڑتا ہے۔

گلریز نے بہت کوشش کی خیالات کے اس تانتے کو توڑے لیکن وہ ان کے تانوں بانوں میں الجھتا ہی چلا گیا۔ اس کے اندر سے آواز آئی فرق پڑتا ہے فرق کیوں نہیں پڑتا؟ ان بے شمار مہمانوں میں سے کوئی ایسا تھوڑے ہی تھا جس نے اس کے گڈے کو تالاب میں پھینک دیا تھا اور کوئی ایسا بھی نہیں تھا جو اسے منانے اس کے پاس آیا تھا اور کوئی ایسا کب تھا جس کے تحفہ کو اس نے بھی تالاب میں پھینک دیا تھا؟ انتقام تو اس نے لے ہی لیا تھا حساب کتاب تو برابر ہو گیا تھا۔ اس لیے گلریز کو ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔ کیا نہیں کرنا چاہئے تھا؟ کیوں نہیں کرنا چاہئے تھا؟ گلریز اپنے آپ سے لڑ رہا تھا۔ زور زور سے بڑبڑا رہا تھا ایسے میں ایک تیسری آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔

’’کہاں کھوئے ہوئے ہو برخوردار۔ ‘‘ پہلے تو اسے لگا جیسے ٹیلی فون کا کراس کنکشن ہو گیا لیکن پھر پتہ چلا یہ خواجہ میاں کی آواز تھی۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

خواجہ میاں کی آمد نے اسے اپنے آپ سے جدا تو کر دیا لیکن خود کلامی کا کرب زائل نہ ہوا تھا۔ خواجہ میاں نے پھر پوچھا۔

’’کیوں برخوردار کس سے ہمکلام تھے۔ اس قدر جوش اور اس قدر غصہ۔ ‘‘

وہ بولا۔ ’’خواجہ میاں یہ میری ایک بہت بڑی کمزوری ہے کہ میں اپنے آپ پر قابو نہیں رکھ پاتا۔ مجھے غصہ بہت آتا ہے۔ ‘‘

خواجہ میاں بولے۔ ’’ویسے تو غصہ مختلف وجوہات پر آتا ہے لیکن اس کا سب سے عام سبب غلط توقعات ہیں۔ ہم مختلف لوگوں سے بے جا توقعات وابستہ کر لیتے ہیں اور جب وہ ان پر پورا نہیں اترتے تو بجائے اس کے کہ اپنی غلطی کا اعتراف کریں اس پر برس پڑتے ہیں۔ اگر انسان دوسروں کے بارے میں کم سے کم سوچے کہ انہیں کیا کرنا چاہئے اور اپنی فکر زیادہ کرے کہ اسے کیا کرنا چاہئے تو اسے دوسروں پر غصہ کم آئے گا۔ ‘‘

’’ لیکن لوگ غلطی بھی تو کرتے ہیں۔ ‘‘

’’جی ہاں لوگ یقیناً غلطی کرتے ہیں لیکن ان غلطیوں کے لیے وہ خود ذمہ دار اور جوابدہ ہیں لیکن اگر ہم ان پر آگ بگولہ ہو جائیں تو اس غلطی کے لیے وہ نہیں بلکہ آپ ذمہ دار ہیں۔ ا آپ کو اپنی ہر حرکت کی جوابدہی کرنی ہو گی کہ آپ نے اس کی اصلاح کے لیے کیا کیا۔ یہ تو خیر آخرت کا معاملہ ہے مگر اس دنیا میں بھی جب آپ کسی سے ناراض یا غصہ ہو جاتے ہیں تو خود اپنے آپ کے لیے بڑے مسائل کھڑے کر لیتے ہیں۔ آپ نہ صرف اس کی اصلاح سے رک جاتے ہیں بلکہ اپنے تزکیہ سے بھی غافل ہو جاتے ہیں۔ بیٹے تم جانتے ہو بے وقوف کسے کہتے ہیں؟ ‘‘

’’ہاں جانتا ہوں کم عقل کو۔ ‘‘

’’لیکن عقل ناپنے کا کوئی آلہ تو موجود نہیں پھر یہ کیسے پتہ چلے کہ کون عقل مند ہے اور کون بے وقوف۔ کسی کے ماتھے پر تو لکھا نہیں ہوتا۔ ‘‘

گلریز نے کہا۔ ’’پہیلیاں نہ بجھوائیں بلکہ آپ ہی بتا دیں۔ ‘‘

’’بیٹے وقوف کے معنی ٰ ٹھہرنے کے ہیں اب اگر کوئی رکنے کی جگہ نہ رکے تو وہ بے وقوف ہوا اور ایسا اکثر غصہ کی حالت میں ہوتا ہے۔ اس کیفیت میں گرفتار اپنے ساتھ دوسروں کا بھی نقصان کرتا ہے۔ ٹرافک کے سگنل کی مثال ہے اگر کوئی سرخ بتی پر بھی نکلتا چلا جائے تو اس کے اس عمل سے خود اس کی اپنی ذات اور دوسری جانوں کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔

گلریز نے محسوس کیا گویا خود اس کے بارے میں بات ہو رہی ہے۔ ’’خیر چھوڑیئے یہ بتلائیں کہ ان یادوں کا کیا جو بِن بلائے بلا روک ٹوک چلی آتی ہیں اور پھر لاکھ بھگانے پر بھی نہیں جاتیں۔ ‘‘

خواجہ میاں نے مسکرا کر کہا ’’ان یادوں کو عذاب نہ سمجھو کہ ان میں سے بیشتر حاصلِ حیات ہوتی ہیں۔ ویسے حضرتِ انسان کا قوتِ حافظہ اور بھول جانے کی صلاحیت دونوں ہی اللہ تعالیٰ کی بیش بہا نعمت ہے۔ مؤخر الذکر کی مدد سے ہم اپنی ناکامیوں کو بھلا کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ اگرایسا ممکن نہ ہو تو زندگی ایک ناسور بن جائے۔ انسان کا جیتے جی دم گھٹ جائے۔ اس کائنات میں ہر شئے کو فنا ہے۔ یادوں کی بھی اپنی ایک طبعی عمر ہوتی ہے جسے پورا کرنے کے بعد وہ فنا کی آغوش میں سو جاتی ہیں۔

گلریز نے کہا۔ ’’لیکن ان یادوں کا کیا جو فنا نہیں ہوتیں۔ ‘‘

خواجہ میاں بولے۔ ’’بیٹے جذبہ محبت وہ آب حیات ہے جو کسی یاد سے وابستہ ہو جائے تو اسے قضا و قدر کے قانون سے پرے لے جاتا ہے اور ابدیت عطا کر دیتا ہے۔ ‘‘

’’ لیکن مجھے تو ایسی یادوں سے ڈر لگتا ہے حالانکہ میں کسی سے نہیں ڈرتا۔ ‘‘

’’ محبت چیز ہی ایسی ہے۔ ‘‘ خواجہ میاں نے کہا ‘‘محبت کرنے والاکسی سے نہیں ڈرتا لیکن محبوب کی ناراضگی سے ڈرتا ہے۔ اسی لیے وہ بیک وقت نہایت بے خوف اور بہت زیادہ ڈرنے والا ہوتا ہے۔ ‘‘

گلریز نے پوچھا۔ ’’لیکن یہ سب آپ کیسے جانتے ہیں؟ ‘‘

’’ یہ تو ہر وہ شخص جانتا ہے جو محبت کرتا ہے۔ دینی اصطلاح میں اسی کو تقویٰ کہتے ہیں۔ متقی آدمی کسی سے نہیں ڈرتا لیکن خدا سے بہت زیادہ ڈرتا ہے۔ وہ تمام انسانوں کی لعنت ملامت سے بے نیاز ہوتا ہے لیکن خدائے بزرگ برتر سے ہر پل چوکنا اور ہوشیار رہتا ہے۔ ‘‘

گلریز نے کہا۔ ’’یہ تو نئی بات ہے میں بچپن ہی سے تقویٰ و پرہیز گاری پر وعظ و نصیحت سنتا آ رہا ہوں لیکن یہ بات کبھی بات نہیں سنی۔ ‘‘

خواجہ میاں بولے۔ ’’بات در اصل ایک ہی ہے۔ انداز جدا جدا ہیں۔ قاضی شہر اصلاح معاشرے کے لیے صرف حدود و تعذیب کا ڈر دکھا کر اپنا کام چلا لیتے ہیں لیکن پیر طریقت جذبہ محبت کو پروان چڑھا کر معرفت کی منزلیں طے کراتے ہیں۔ ‘‘

’’لیکن قرآن پاک میں بھی تو جہنم کے عذاب کا ذکر ہے۔ ‘‘ گلریز نے اعتراض کیا۔

’’ضرور ہے ہم کہاں اس کا انکار کرتے ہیں۔ کسی کو غلط کام سے روکنے کے لیے عذاب کا ذکر ضروری اور مفید ہے۔ یہ چیز اسے برائیوں سے روک تو سکتی ہے لیکن بھلائیوں کی بلندیوں پر نہیں پہونچا سکتی۔ اس کے لیے تو اس کے دل میں جنت کی طلب اور خوشنودیِ رب کی تڑپ کا ہونا لازم ہے اور وہ اللہ کی محبت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ ‘‘

گلریز کچھ الجھ سا گیا تھا اس نے سوال کیا ’’ اگر خواجہ صاحب محبت کرنے اور ڈرنے کے درمیان بنیادی فرق کیا ہے؟ ‘‘

خواجہ میاں نے کہا۔ ’’ اس فرق کو تم نفرت کی مدد سے سمجھ سکتے ہو۔ بیٹے یاد رکھو خالص خوف سے محبت میں نہیں بلکہ بسا اوقات نفرت میں بدل جاتا ہے اس کے برعکس محبت میں ڈر کے باوجود نفرت کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ ‘‘

گلریز کا غم خواجہ میاں کی محبت بھری باتوں نے غلط کر دیا تھا۔ گلریز کا دل ہلکا ہو گیا۔ آنکھیں بند ہونے لگیں خواجہ میاں نے اپنا ہاتھ اس کی پیشانی پر رکھا اور وہ نیند کی آغوش میں کھو گیا۔

صبح جب آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا ایک بزرگ اسے نیند سے بیدار کر رہے ہیں۔ جیسے ہی ان کے چہرہ پُر نور پر گلریز کی نگاہ پڑی اس نے فوراً سلام عقیدت پیش کر دیا۔ مسکراتے ہوئے سلام کا جواب دینے کے بعد درویش نما بزرگ بولے۔

’’گلباز خان کے فرزند گلریز خان کا ہم اس خانقاہ میں استقبال کرتے ہیں۔ رات جب میں لوٹا تو مجھے خواجہ میاں نے بتلایا کہ تم مجھ سے ملنے کے لیے بے تاب ہو۔ میں تمہاری نیند میں خلل ڈالنا نہ چاہتا تھا اس لیے صبح تک انتظار کیا۔ ویسے تمہیں انتظار کروانے کے لیے میں معذرت چاہتا ہوں۔ لیکن تمہیں تھوڑا سا انتظار اور کرنا ہو گا۔ نماز فجر کے بعد مختصر سی وعظ و نصیحت خانقاہ کا معمول ہے۔ اس سے فارغ ہو کر ساتھ ساتھ ناشتہ کریں گے اور گفتگو بھی ہو گی۔ ‘‘ یہ کہہ کر بڑے پیر صاحب مسجد کی طرف چلے گئے۔

گلریز حیران تھا۔ اس نے سوچا کہیں ایسا بھی ہوتا ہے۔ انہوں نے معذرت کیوں طلب کی اور انتظار کیوں کیا؟ وہ تو بنا بتائے آ دھمکا تھا اور پھر اسے اس پر بھی تعجب تھا کہ بڑے پیر صاحب اسے جگانے کے لیے خود بنفس نفیس کیوں آئے؟ کسی خادم کو بھیج دیتے۔ خواجہ میاں سے جگوا دیتے۔ نہیں اس کے دل نے کہا۔ اگر وہ ایسا کرتے تو اس کا دل ان کے احترام و محبت سے سرشار کیوں کر ہوتا؟ اسے خواجہ میاں کی رات والی بات یاد آئی ’’محبت ہی محبت کو جنم دیتی ہے۔ ‘‘ اگر انسان کسی سے محبت کرے تو وہ آپ سے آپ اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہے اور یہ جذبہ رشتوں کو جاوداں کر دیتا ہے۔ ‘‘

اس نے سوچا بڑے پیر صاحب کیا سوچیں گے انہوں نے خود اسے جگایا پھر بھی وہ بستر پر پڑا سستا رہا ہے۔ وہ فوراً کھڑا ہو گیا اور وضو گاہ کی جانب چل پڑا لیکن اب ایک نئی خلش اس کے دل میں سر اُبھار رہی تھی۔ نماز تو وہ اللہ رب العزت کی خاطر پڑھنے جا رہا ہے لیکن ڈر رہا ہے پیر صاحب کی ناراضگی سے۔ ایسا کیوں؟ اس سوال کا جواب بھی رات کی گفتگو میں سے ابھر آیا۔ شاید اس لیے کہ اس کے دل میں پیر صاحب کی محبت تو ہے لیکن اس کا دل اللہ رب العزت کی محبت سے خالی ہے۔ آدمی جس سے محبت کرتا ہے اسی سے ڈرتا بھی ہے۔

گلریز اپنے دل کی یہ کیفیت کے بارے میں سوچ رہا تھا آج یہ سب کیوں بدل گیا ہے جبکہ نماز تووہ بچپن ہی سے پڑھتا آ رہا ہے؟ اس سوال کا جواب اس کے دل نے دیا۔ جذبۂ محبت تو محسوس کرنے کی چیز ہے۔ اسے نہیں یاد کہ کبھی اس کو محسوس ہوا ہو کہ اللہ تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہے۔ وہ اس سے خوش ہو رہا ہے یا ناراض ہو رہا ہے؟ آج پہلی بار وہ اس خیال سے کانپ گیا کہ اگر وہ پیر صاحب کے ڈر سے یا ان کی محبت میں نماز پڑھے تو اللہ تعالیٰ کو یہ بات کیسی لگے گی؟ اسے ایسا لگا گویا وہ اللہ رب العزت کے سامنے نادم و شرمسار کھڑا ہوا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہیں۔

اس احساس نے اس کے دل میں اللہ رب العزت کی محبت پیدا کر دی اور اس کے کانوں سے اقامت کی آواز ٹکرائی اللہ اکبر۔ اللہ اکبر۔ اللہ بڑا ہے وہ سب سے بڑا ہے۔ اس کی محبت بھی سب سے بڑی ہے اور وہ تمام محبتوں پر محیط ہے۔ وہ رات گلریز کے لیے معراج کی رات تھی۔ اس کے ماں باپ نے اسے اسلام کی دولت سے ضرور مالا مال کیا لیکن ایمان کی حلاوت سے اسے خواجہ میاں نے روشناس کرایا تھا اور بڑے پیر صاحب نے اس کو احسان کی بلندیوں پر پہونچا دیا تھا۔ یہ ایسی معرفت تھی جس کے آگے کائنات اور اس کی وسعتیں سمٹ کر ایک نقطہ بن گئی تھی۔ بے ہنگم سا بے وقعت نقطہ!

ہر قوم کے لیے مہلت کی ایک مدت مقرر ہے۔ پھر جب کسی قوم کی مدت عمل پوری ہو جاتی ہے تو ایک گھڑی کی تاخیر و تقدیم نہیں ہوتی۔ نماز فجر کے بعد بڑے پیر صاحب نے حاضرین مجلس کوسورہ اعراف کی مندرجہ بالا آیت کے مفہوم و معانی سمجھائے۔ انہوں نے بتلایا کہ دنیا کے طاقتور لوگ جب اس حقیقت کو فراموش کر دیتے ہیں تو اپنے ہی جیسے انسانوں کے آقا اور خدا بن جاتے ہیں۔ وہ ان کو اپنی بندگی اور غلامی پر مجبور کرنے لگتے ہیں اور دنیا کے کمزور لوگ جب تک اس حقیقت سے نا آشنا ہوتے ہیں وہ اپنے جیسے بندوں کی غلامی پر نہ صرف راضی ہوتے ہیں بلکہ نازاں و شاداں ہوتے ہیں لیکن جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی ان پراسرار شہنشاہی کھلنے لگتے ہیں۔

قرآن مجید تمام انسانوں کو دنیا بھر میں چل پھر کر ان نشانیوں کے مشاہدے کی دعوت دیتا ہے جو خدائی کے زعم میں مبتلاء سرکشوں کی تباہی و بربادی کا نمونہ ہیں۔ سورہ اعراف میں آگے ان قوموں کا انجام پیش کیا گیا ہے جنھوں نے اپنی طاقت کے غرور میں پیغمبروں کی تکذیب کی اور عذاب الٰہی کے مستحق ہوئے۔ آئندہ دنوں میں ان قوموں کی تفصیل بتانے کا وعدہ کر کے پیر صاحب نے اپنی گفتگو کو سمیٹ دیا اور مریدین سے ملتے ملاتے باہر آ گئے۔ گلریز ان کے ساتھ تھا۔ اس نے پوچھا۔

’’حضرت جس سیاست سے بھاگ کر میں یہاں دور دراز خانقاہ میں آیا تھا اسے یہاں بھی موجود پایا۔ ‘‘

بڑے پیر صاحب نے اس کی جانب معنی خیز انداز میں دیکھا اور بولے۔ ’’برخوردار یہ تو قرآنی معرفت ہے۔ اب اگر لوگ اسے سیاست کہتے ہیں تو ٹھیک ہے۔ ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے اور بیٹے ایک بات یاد رکھنا اس سیاست سے پیچھا چھڑانے والے کو قرآن مجید سے راہ فرار اختیار کرنی پڑے گی ورنہ جہاں قرآنی ہدایت موجود ہو گی وہاں اس سیاسی فراست کی موجودگی ناگزیر ہے۔ ‘‘

گلریز نے پوچھا ’’لیکن کتاب ہدایت میں اس کی حکمت کیا ہے؟ ‘‘

بڑے پیر صاحب مسکرا کر بولے ’’قرآن مجید اگر مکمل کتاب ہدایت ہے تو وہ اس پہلو سے خالی کیسے ہو سکتی ہے۔ اپنی کتاب میں اللہ تعالیٰ نے ظالموں اور باغیوں کے انجام سے اسی لیے روشناس کرایا ہے کہ مومن ان جابروں کی طاقت سے مرعوب نہ ہوں۔ ان کے مقابلے کامیابی کے امکانات سے مایوس نہ ہوں بلکہ اللہ رب العزت پر اعتماد اور بھروسہ کر کے ان کے خلاف جہاد کریں اس یقین کے ساتھ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کے ساتھ ہے۔ اس کی سنت نہیں بدلتی اور ان کی تعذیب سے اسے کوئی نہیں روک سکتا۔ خیر تم نے یہ تو بتلایا ہی نہیں کہ گلباز کیسا ہے؟ تمہاری اماں اور بھائی بہن کا کیا حال ہے؟ ‘‘

یہ گفتگو انہیں ناشتہ کے دستر خوان پر لے آئی تھی۔ گھربار کی خیر خبر کے ساتھ وہ دونوں ناشتہ سے فارغ ہو گئے اور ہال نما قیام گاہ کے ایک کونے میں بیٹھ گئے۔ پیر صاحب نے پوچھا۔ ’’اب بتاؤ برخوردار کہ وہ کون سا خوابِ پریشاں ہے جو تمہیں شہر کی نیرنگیوں سے اس ویرانے میں لے آیا۔ ‘‘

گلریز نے جواب دیا۔ ’’وہ عجیب و غریب خواب ہے۔ نباتات و جمادات کی ایک طلسمی دنیا جہاں وہ باتیں کرتے ہیں۔ ‘‘

’’ نباتات کا بولنا کوئی تعجب خیز بات نہیں ہے۔ دنیا کی دوسری مخلوقات کی طرح وہ بھی تو اپنے خالق کی تعریف و تسبیح بیان کرتی ہیں۔ فریکونسی مختلف ہے جنھیں ہمارے کان محسوس کرنے سے قاصر ہیں۔ یہ ہماری معذوری ہے کہ ہم انہیں سن نہیں سکتے ایسا نہیں کہ وہ بول نہیں سکتے۔ لیکن یہ سب تو حقیقی دنیا میں ہوتا ہے اگر تم نے خواب میں ان کی گفتگو سنی ہے تو بتاؤ کہ کیا سنا اور کیا دیکھا۔ ‘‘

گلریز گویا ہوا ’’ وہ عجیب و غریب منظر، تین پہاڑ تھے ان میں سے ایک برف سے ڈھکا ہوا سفید پہاڑ، دوسرے پر لہلہاتے کھیت اور تیسرے پر اونچے سروقد پیڑ اور باغات اور پھر ان پہاڑوں کے دامن میں ایک وسیع و عریض لق و دق صحرا جس میں صرف دھوپ ہی دھوپ، کہیں کسی سائے کا نام و نشان نہیں۔ لیکن پھر منظر بدلنے لگا میں نے دیکھا کہ صحرا میں کچھ پیڑ اگنے لگے ہیں۔ جیسے جیسے صحرا پر سایہ بڑھتا جاتا تھا۔ سفید پہاڑ کی برف پگھلتی جاتی تھی۔ جب تمام برف پگھل گئی تو اندر سے سرخ خون آلود درانتی برآمد ہوئی۔ اس درانتی سے تازہ خون رس رہا تھا اس کے نوک پر ایک تارہ مسکرا رہا تھا۔ کچھ دیر بعد یہ خون سوکھ کر سیاہ ہو گیا اور درانتی زنگ آلود ہو گئی۔ تارے کی چمک بڑھ گئی اور اب اس پہاڑ پر صرف ایک تارہ رہ گیا تھا۔ برف اور درانتی دونوں غائب تھے۔

ادھر دوسرے پہاڑ پر موجود ہر پیڑ پر بے شمار تارے جگمگا رہے تھے۔ ان کی روشنی آنکھوں کو خیرہ کئے دے دیتی تھی۔ کھیتوں کے پودے، صحرا کی جھاڑ جھنکاڑ اپنے اپنے محور کا پتہ تاروں کی سمت سے لگاتے تھے سارا جہاں ان تاروں کے گرد گردش کر رہا تھا۔ صحرا میں اگے ہوئے اکا دکا پیڑوں سے چاند کے ہالے لٹک رہے تھے۔ یہ پیڑ اپنی روشنی کے لیے خود کفیل تھے۔ انہیں تاروں کی روشنی سے کوئی غرض نہیں تھی۔

جب ان پیڑوں سے لگے قمریوں کا ہالہ بڑھنے لگا اور روشنی پھیلی تو کیا دیکھا صحرا میں بھی ایک چمن آباد ہے۔ اس پر بے شمار پیڑ ہیں لیکن ان کی رنگت صحرائی درختوں سے یکسر مختلف ہے اور ان کی شاخوں پر چاند نہیں بلکہ تارے آویزاں ہیں۔ ان میں اور پہاڑوں پر لگے تاروں میں فرق یہ تھا کہ وہ پانچ کونی تھے اور یہ چھے کونی باقی سب کچھ یکساں تھا۔ برفیلے پہاڑ پر جب دوبارہ برف باری شروع ہوئی تو اس نے درانتی کے تمام نشان مٹا دیئے لیکن تارے کو چمکتا جھلملاتا چھوڑ دیا۔

اس منظر کو دیکھ کر پہاڑوں پر جشن چراغاں کیا گیا۔ ہر پتے پر لکھ دیا گیا کہ ’’ہم روشنی کے واحد علمبردار ہیں۔ دنیا بھر میں روشنی صرف ہمارے دم سے ہے۔ آج ہم نے روشنی پر مکمل اجارہ داری حاصل کر لی ہے۔ ‘‘ لیکن تاروں کے اس دعویٰ پر صحرا کے چاند مسکرا رہے تھے۔ جستہ جستہ صحرا میں نہ صرف پیڑوں کا اضافہ ہوتا جاتا تھا بلکہ ان کی شاخوں پر لٹکنے والے قمریوں کی تعداد بھی بڑھتی جاتی تھی۔

چاند کی روشنی جب صحرا کی جھاڑ جھنکاڑ پر پڑتی تو گویا اس میں نئی زندگی پڑ جاتی۔ وہ تناور درخت بن جاتے اور پھر ان میں نئے چاند جگمگانے لگتے۔ اس نئے تغیر نے ٹیلے والوں کو اپنی جانب متوجہ کیا۔ تارے والوں کی آنکھیں صحرا کے چاند سے چندھیا گئیں اور اب ان کو حسرت و یاس سے دیکھنے لگے لیکن بوڑھے برگد کی کیفیت بالکل مختلف تھی۔ اس نے اسے اپنے حق میں زہر ہلاہل سمجھا۔ اس نے محسوس کیا کہ چاند کی روشنی میں تاروں کو کون پوچھے گا؟

اب تو پہاڑوں کے پودے بھی چاند کو حسرت و یاس سے دیکھنے لگے تھے۔ وہ بھی اپنے آپ کو چاند سے مزین کرنا چاہتے تھے۔ اس تبدیلی نے برگد کے دل میں بغض و عناد پیدا کیا اس نے ایک اجلاس بلایا جس میں تمام پہاڑوں کے پیڑ شریک تھے۔ چھ تاروں والے درختوں کو مہمانِ خصوصی بنایا گیا تھا۔ کھیتوں کے پودے بھی محفل کی رونق بڑھا رہے تھے۔ ان کے ساتھ صحرا کے بانجھ درخت بھی موجود تھے جن پر چاند نہ کھلتا تھا۔

برگد نے اعلان کیا اس دنیا سے روشنی کا خاتمہ ہو رہا ہے۔ یہ چاند اس جہاں میں تاریکی پھیلا رہے ہیں اگر ان تمام پیڑوں کو جن پر چاند جگمگاتے ہیں جڑ سے اکھاڑ کر پھینکا نہ گیا تو وہ دن دور نہیں جب ساری کائنات تاریکی میں ڈوب جائے گی۔ حاضرین مجلس نے ایک زبان ہو کر تائید کی اور ایک قرار داد صحرا کے پیڑوں تک پہونچا دی گئی ’’تم خود اپنے چاند جھٹک دو ورنہ ہم تمہیں بے نور کر دیں گے۔ ‘‘

اس دھمکی کا جواب اس طرح سے آیا کہ ’’اے پہاڑ والو! اپنے غرور کا نشہ چھوڑو اور سب سے پہلے صحرا میں موجود ناجائز باغ کو یہاں سے لے جاؤ ورنہ ہم اسے بحر ظلمات کی نذر کر دیں گے۔ ‘‘ تارے والوں کو اس جواب کی امید نہ تھی ان کی انا کو ٹھیس پہونچی انہوں نے فیصلہ کیا کہ اپنی عظمت و سربلندی کو قائم رکھنے کے لیے چاند والوں کو نیست و نابود کر دیا جائے لیکن یہ کیسے ممکن ہو۔ اس کا فیصلہ کرنے کے لیے ایک اور اجتماع کا اہتمام کیا گیا۔ جس میں کئی تجاویز سامنے آئیں۔

صحرا میں موجود ستارہ پرستوں کی مدد لی جائے۔

چاند والوں کو آپس ہی میں لڑا دیا جائے یا

پھر خود آگے بڑھ کر ان کا قلع قمع کیا جائے۔

آخری تجویز پر اتفاق رائے ہونے کے اس پر عمل درآمد کا بعد سوال پیدا ہوا تو فیصلہ یہ ہوا کہ ہم اپنے تارے چاند والوں پر دے ماریں گے۔ لیکن پھر ایک مسئلہ یہ تھا کہ وہ تارے جو جا کر ٹکرائیں گے وہ تو بے نور ہو جائیں گے اور اس کے نتیجے میں حزن و ملال پیدا ہو گا۔ مایوسی پھیل جائے گی۔

اس مسئلہ کا یہ حل نکالا گیا ہم ان کی قربانیوں کی تعظیم و توفیر کریں گے ان کے گن گائیں گے۔ ان کو عظیم شہدائے وطن قرار دے کر خراج عقیدت پیش کریں گے اور ان کی یادگاریں بنائیں گے تاکہ دوسرے تاروں کو حوصلہ ملے ان میں جاں نثاری کا جذبہ پیدا ہو۔

لیکن یہ تو مشکل کام ہے ایک اندیشہ سامنے آیا۔

نہیں یہ مشکل نہیں ہے۔ اس کی پر زور تردید ہوئی۔ یہ بات ان کے قلب و ذہن میں اتار دیں گے کہ تاروں کا جہاں آباد رکھنے کی خاطر انہوں نے عظیم ایثار و قربانی پیش کی ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو ساری دنیا اندھیرے کی نذر ہو جاتی۔

لیکن اگر انہوں نے یہ سوال کر دیا۔ کہ تاروں کی جگہ اگر چاند لے لیں تو روشنی ختم نہیں ہو گی بلکہ بڑھ جائے گی تو ہم کیا کریں گے؟ ایک اور اندیشہ سامنے آ گیا

نہیں ہم ایسا کبھی نہ ہونے دیں گے۔ ان تاروں کے دلوں میں چاند کے خلاف ایسی نفرت ہو گی کہ ان کو چاند کی ہر خوبی معیوب نظر آئے گی اور وہ وطن پرستی میں اندھے ہو کر اندھیری کھائی میں کود جائیں گے۔

اس کے بعد میں نے دیکھا گلریز کہہ رہا تھا کہ اس مقصد کے حصول کی خاطر ذرائع ابلاغ کے استعمال سے سماں باندھا جا رہا ہے اور جب لوہا گرم ہو گیا تو پھر تاروں نے حملہ بول دیا۔ ایک حیرت انگیز کشمکش برپا ہو گئی جس میں تارے بجلی کی طرح چاند پر گرتے اور انہیں بے نور کر دیتے ساتھ ہی خود بھی بے جان ہو جاتے لیکن اس دوران ایک ایسا عمل شروع ہو گیا جس کی توقع تارے والوں نے نہیں کی تھی۔ چاند کے جتنے ٹکڑے زمین پر گرتے ہر ایک میں سے ایک نیا پیڑ نمودار ہو جاتا اور پھر اس پیڑ پر بے شمار چاند جھلملانے لگتے۔

تارے والوں کو اپنی حکمت عملی کے الٹے پڑنے کا احساس ہونے لگا۔ ان کے حملے نے قمریوں کی تعداد میں بے شمار اضافہ کر دیا تھا۔ اب ان لوگوں نے پینترا بدلا اور ایک چوٹی کانفرنس کا انعقاد کرتے ہوئے اس میں چاند والوں کو دعوت دی۔ ابتداء میں تارے والوں نے اپنے احسانات کا تذکرہ کیا اپنی عظمت و بلندی کے قصیدے پڑھے اور پھر چاند والوں سے کہا کہ آپ لوگوں کے باعث یہ کائنات اندھیروں میں ڈوبتی جا رہی ہے۔ ہم اجالوں کے علمبردار ہیں ہمیں اس بات کی فکر ستا رہی ہے کہ کہیں ساری کائنات تاریکی کی نذر نہ ہو جائے۔

چاند والوں نے کہا آپ اپنے آپ کو روشنی کا علمبردار کہتے ہیں اور اب تک نہ جانے کتنے چاند اور تاروں کو بجھ اچکے ہیں۔ کیا آپ کے قول و عمل میں تضاد نہیں ہے۔ بوڑھے برگد نے کہا ہرگز نہیں چاند کی روشنی در اصل اندھیرا ہے۔ اس تاریکی کو مٹانے کے لیے جو تارے بجھے وہ در اصل روشنی پھیلانے کے عمل میں کام آئے۔

اچانک ایک سوال ابھرا لیکن کیا روشنی بھی کہیں اندھیرا ہو سکتی ہے؟ یہ کیسی احمقانہ منطق ہے؟

یہ احمقانہ دلیل نہیں ہے۔ چاند کی روشنی در حقیقت تاریکی ہے اور رہے گی

کیا محض آپ کے کہنے سے روشنی تاریکی کہلائے گی؟

اس سوال کا جواب نہایت رعونت آمیز لہجے میں دیا گیا۔ جی ہاں ہمارے کہنے سے ! اس لیے کہ جو سچ ہوتا ہے وہ ہم نہیں کہتے بلکہ جو ہم کہتے ہیں وہی سچ ہوتا ہے۔ یہ عجیب و غریب دعویٰ کسی کی سمجھ میں نہیں آیا لیکن سب خاموش رہے۔

چاند والوں نے زچ ہو کر کہا گو کہ آپ کی بات ہماری عقل سے پرے ہے پھر بھی آپ یہ بتلائیں کہ آخر آپ چاہتے کیا ہیں؟

تارے والوں نے خوش ہو کر کہا ہم آپ کا تعاون چاہتے ہیں۔

کیسا تعاون؟

نہایت معمولی سی بات ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ صحرا بھی پہاڑوں کی طرح روشنی سے جھلملائے اس لیے آپ اپنی شاخوں سے چاند ہٹا کرتا رے سجا لیں۔ اس لیے کہ تاروں کی روشنی ہی روشنی ہے۔ باقی جو ہے سو اندھیرا ہے اور نہیں تو ہم نا سننے کے قائل نہیں۔

اس دھمکی آمیز لہجے نے ماحول مکدر کر دیا۔ سوال کیا اگر ہمیں یہ تجویز منظور نہ ہو تو؟

ایک اور قہر آلود دھمکی تو۰۰۰۰تو ہم تاروں کے علاوہ تمام چراغ بجھا دیں گے۔

لیکن یہ تو زور زبردستی ہے۔ قمریوں کے اس اعتراض میں احتجاج تھا۔

جواب ملا نہیں یہ زور زبردستی نہیں بلکہ زبردستی تو تم لوگ کر رہے ہو۔

کس پر؟

ان ظلمت کدوں پر جنھوں نے اپنی شاخوں پر چاند سجا لیے ہیں۔

لیکن یہ تو ان کا فیصلہ ہے جو برضا و رغبت کیا گیا ہے ا۔ ہم نے کوئی زبردستی نہیں کی۔

لیکن ہم کریں گے ! اس لیے کہ اس چاند کے نور کو ہم اپنے لیے زبردست خطرہ سمجھتے ہیں۔

خطرہ ! کیسا خطرہ؟ تاروں میں ایسی آب و تاب نہیں ہے کہ سارے عالم کو روشن کر سکے۔ صدیوں تک صحرا انہیں تاروں پر تکیہ کرنے کے سبب تاریکی میں ڈوبا رہا۔ اب اگر وہاں چاند کی روشنی پھیل رہی ہے تو آپ کو کیا پریشانی ہے؟

پریشانی ہے۔ اس روشنی نے ہمارے چہرے کو بے نقاب کر دیا ہے۔ یہ روشنی ہمارے استحصال کا پردہ فاش کرتی ہے۔ اس لیے ہم اسے بجھا دیں گے۔

یہ تو سراسر ظلم و زیادتی ہے۔

نہیں یہ چاند کی تاریکی کے خلاف اجالے کا چیلنج ہے۔

ہم اسے قبول نہیں کرتے ہیں۔ ہمیں یہ جبرو استبدادمنظور نہیں ہے۔

چوٹی کانفرنس مفاہمت کے بجائے ٹکراؤ پر ختم ہو گئی۔ تارے والوں نے اپنی کمک صحرا میں موجود اپنے باغ میں روانہ کر دی اور وہاں سے چاند والوں کے خلاف صلیبی جنگ کا اعلان ہو گیا۔ مختلف سمتوں سے تارے اُڑنے اور صحرا کے چاند پر برسنے لگے۔

اس درمیان اچانک آسمان پر چار چاند اچھلے اور دیکھتے دیکھتے وہ پہاڑ کی چوٹی پر موجود بوڑھے برگد کے آس پاس کھڑے دو سروقد پیڑوں سے جا ٹکرائے۔ ان پیڑوں پر سب سے زیادہ تارے تھے۔ دیکھتے دیکھتے دونوں پیڑ ڈھیر ہو گئے۔ ایک مسدس نما باغیچہ سے جا ٹکرایا اور تارے والوں کے ہوش اُڑا گئے۔ وہ ہذیانی کیفیت میں مبتلا ہو گئے۔ ان لوگوں نے ساری دنیا کے سامنے چھاتی پیٹنا شروع کر دی اور سب کو اپنی ناجائز جنگ میں شامل کرنا شروع کر دیا۔ انہوں نے دھمکی دے دی دنیا چاند اور تاروں کے درمیان تقسیم ہو چکی ہے اور جو تاروں کے ساتھ نہیں ہے وہ چاند کے ساتھ ہے اور وہ بھی اسی انجام کو پہنچے گا جو چاند والوں کا مقدر ہے۔

اب سارا آسمان بے ترتیب تاروں سے جگمگا رہا تھا۔ تارے مختلف سمتوں سے آسمان پر کوند رہے تھے مگر اسی کے ساتھ ساتھ مختلف جہتوں سے چاند بھی اچھلنے لگے تھے۔ سرد جنگ کی جگہ گرم جنگ نے لے لی۔ تاروں کا حملہ ایسا شدید تھا کہ چاند والوں کے بہی خواہ کانپ اٹھے لیکن چاند کے نور کا یہ عالم تھا کہ مدھم ہونے کے بجائے بڑھتا ہی جاتا تھا۔ اب تو پہاڑ کے نئے پودوں نے بھی اپنی شاخوں پر چاند سجانے شروع کر دیئے تھے۔

اس منظر نے بوڑھے برگد کو باؤلا کر دیا۔ وہ دیوانہ وار حملہ کرنے لگا کہ اچانک آسمان میں بادل گھر آئے بارش ہونے لگی۔ صحرا میں بارش قدرت کا ایک معجزہ ہی تھا۔ آسمان سے بیک وقت تارے اور بارش دونوں برس رہے تھے۔ اس دوہری تباہی نے صحرا والوں کے دل دہلا دیئے۔ ایسا لگنے لگا کہ یہ طوفان نوح تمام صحرا کو بہا لے جائے گا۔ یہ کائنات ہمیشہ کے لیے چاند کے نور سے محروم ہو جائے گی اور دنیا میں صرف تاروں کی روشنی باقی رہ جائے گی۔

صحرا والوں نے گھبرا کر جب آسمان کی جانب دیکھا تو وہ ششدر رہ گئے۔ اس لیے کہ بارش نہ صرف صحرا میں بلکہ پہاڑوں پر بھی ہو رہی تھی۔ وہاں طوفانی ہوائیں بھی چل رہی تھیں۔ بجلی کڑک رہی تھی۔ ایک ایک کر کے پہاڑوں کے درخت جڑ سے اکھڑتے جا رہے تھے۔ پہاڑی ندی اپنی طغیانی لہروں سے انہیں سمندر کے دہانے میں انڈیل رہی تھی۔ دیکھتے دیکھتے پہاڑوں کا سبزہ چٹیل میدان میں تبدیل ہو گیا لیکن صحرا کے درخت جن کی جڑیں زمین میں دور تک پھیلی ہوئی تھیں اپنی جگہ برقرار تھے۔ طوفانی بارش نے چاند کے تمام داغ تو دھو دئیے تھے اور پھر کائنات میں صرف چاند کی روشنی باقی رہ گی تھی۔ پہاڑوں پر نمودار ہونے والے نوزائیدہ پودے بھی اپنی شاخوں پر چاند سجا رہے تھے۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

گلریز اپنا خواب سنا کر ہانپ رہا تھا اور پیر صاحب مسکرا رہے تھے۔ انہوں نے کہا۔

’’بیٹے تم نے یہ تو نہیں بتلایا کہ تم کیا کرتے ہو لیکن میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ تم گلباز کی طرح پھلوں کی تجارت نہیں کرتے اور میرا قیاس ہے کہ تم صحافت کے پیشے سے منسلک ہو۔ ‘‘

’’ یہ قیاس نہیں کشف ہے ‘‘گلریز بولا۔ ’’آپ نے سچ فرمایا میں صحافی ہوں لیکن آپ کو اس کا علم کیسے ہو گیا۔ ‘‘

’’بیٹے ہر آدمی کا خواب دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ یوسف کا خواب زنداں کے ساتھیوں سے مختلف تھا اور بادشاہ کا خواب غلاموں کے خواب سے مختلف۔ در اصل بات یہ ہے کہ ہر آدمی ہر خواب نہیں دیکھ سکتا اور یہ خواب تو ایک صحافی ہی دیکھ سکتا ہے۔ ایک ایسا صحافی جس کے پاس نہ صرف بصارت بلکہ بصیرت بھی ہو۔ اس کے پاس قلم کے ساتھ ساتھ سوچنے سمجھنے والا دماغ اور دھڑکنے والا دردمند دل بھی ہے۔ ‘‘

’’آپ مجھے بہلاپھسلا رہے ہیں کر خواب کی تعبیر کو ٹال رہے ہیں۔ ‘‘ گلریز پیر صاحب سے بے تکلف ہو چکا تھا۔

’’نہیں بیٹے نہیں ایسا نہیں ہے۔ در اصل یہ خواب نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ وہ حقیقت ہے جو ہر دور میں عالم انسانیت کے سامنے عیاں ہوتی ہے اور پھر اوجھل ہو جاتی ہے۔

’’ابھی آپ نے کہا کہ میں ایسا ویسا صحافی ہوں اور ہمارا پیشہ حقیقت کا مشاہدہ کرنا ہے لیکن میں نے اپنی صحافتی زندگی میں کبھی بھی اس حقیقت کا مشاہدہ نہیں کیا۔ ‘‘

پیر صاحب پھر مسکرائے۔ انہوں نے کہا۔ ’’بیٹے اگر کوئی حقیقت اظہار کی محتاج نہیں ہوتی۔ اس کا مشاہدے سے محروم ہو نا اس کے حقیقی ہونے پر اثر انداز نہیں ہوتا۔ ‘‘

’’ آپ تو پہیلیاں بجھوانے لگے۔ حالانکہ میں حل کی تلاش میں یہاں حاضر ہوا تھا۔ ‘‘

پیر صاحب نے کہا۔ ’’حل جاننا چاہتے ہو تو ایک کہانی سنو۔ گتھی خودبخود کھل جائے گی۔ ویسے یہ حسن اتفاق ہی ہے کہ تمہارے والد گلباز کا کاروبار تمہارا خواب اور میری کہانی سب پیڑ پودوں کے گرد گھومتے ہیں۔ ہوا یوں کہ گرما کے موسم میں کھلنے والے ایک پھول نے اپنے قریب کھڑے برگد کے پیڑ سے پوچھا کہ آخر یہ سورج کیوں طلوع ہوتا ہے اور ہمیں جھلسائے جاتا ہے۔ اس عذاب سے تو بہتر تھا کہ ہم کھلتے ہی نہیں۔

برگد بولا بیٹے ایسا نہ کہو پھول تو ہر موسم میں کھلتے ہیں اور جو موسم گرما میں کھلتے ہیں انہیں گرمی و تپش کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔

اس پر پھول نے پوچھا یہ موسم کیا ہوتا ہے۔

پیڑ بولا دنیا کی آب و ہوا ہمیشہ یکساں نہیں ہوتی۔ کبھی گرمی ہوتی ہے اور کبھی سردی کبھی بہار تو کبھی خزاں موسم بدلتا رہتا ہے۔

ننھے سے پھول نے شوخی بھرے انداز میں انکار کیا میں نہیں مانتا۔ میں نے تو یہ سب نہیں دیکھا۔ جب سے آنکھ کھولی ہے تو سورج کو یونہی گھورتا ہوا پایا ہے۔ بلکہ میں دیکھ رہا ہوں اس کے غصہ میں بلاوجہ اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کے اس نے ہمارے چہرے کو جھلسا دیا ہے۔ اس کی تپش نے ہوا کو بھی گرم کر دیا اور اس کے تھپیڑوں نے ہم قبل از وقت مرجھا نے لگے ہیں۔ ہم نے تو بس یہی ایک موسم دیکھا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہی ایک موسم ہوتا ہے۔

برگد نے کہا کہ تمہاری بات سچ ہے اور میری بات بھی سچ ہے حالانکہ یہ دونوں ایک دوسرے کے متضاد ہیں۔ تمہاری زندگی اور تمہارا مشاہدہ نہایت مختصر ہے۔ تم نے چونکہ صرف ایک موسم دیکھا ہے اس لیے کسی اور موسم کا تصور بھی کرنا تمہارے لیے محال ہے لیکن میں نے نہ جانے کتنی بہاریں دیکھیں ہیں جن کا شمار تک نہ رکھ سکا۔ اس لیے مجھے تو کہنا ہی پڑے گا کہ گردش زمانہ موسم تبدیلی کا سبب بنتا ہے۔

بوڑھا برگد ننھے پھول کو سمجھا رہا تھا ویسے تم پھولوں کی شکایت بھی موسم کی طرح بدلتی رہتی ہے۔ سرما میں کھلنے والے ایک پھول نے بھی ایک مرتبہ مجھ سے تمہاری طرح سوال کیا تھا۔ یہ کیسا سورج ہے کہ اس میں نہ تپش ہے نہ شدت؟ یہ تو میری پنکھڑیوں پر جمی برف کو بھی پگھلانے سے قاصر ہے۔ میرا سارا حسن اور خوشبو ژالہ باری کا شکار ہے ایسے میں کون آئے گا میرے پاس؟ کون سجائے گا مجھے اپنی زلفوں میں؟ میرا تو کھلنا نہ کھلنا برابر ہی ہو گیا۔

بوڑھا برگد بولا اس وقت میں جوان تھا مجھے اس شکایت پر غصہ آ گیا میں نے ننھے پھول کو ڈانٹ کر کہا ارے بے وقوف اس موسم کو غنیمت جان اگر سورج کو غصہ آ گیا تو وہ تجھے جھلسا دے گا۔

اپنی بلا سے ! ننھے پھول نے سینہ پھلا کر کہا۔ جو پھول جھلستے ہیں ان کی عمر بھی ایک دن کی ہوتی ہے اور جو نہیں وہ بھی تو ایک ہی دن جیتے ہیں۔ مجھے اپنے جھلسے جانے کا خوف نہیں ہے بلکہ افسوس اس بات کا ہے کہ میرا حسن اور خوشبو رائے گاں دونوں رائے گاں ہو رہی ہے۔ کوئی اس سے مستفید نہیں ہو رہا ہے۔

برگد بولا ننھے منے پھول کے بڑی بڑی باتیں سن کر میں مجھے ہنسی آ گئی اور جھک کر میں نے اسے سلام کیا۔

برگد کا قصہ اپنے آخری مرحلے میں داخل ہو رہا تھا وہب کہہ رہا تھا لو اب بہار کے پھول کا مژدہ بھی سن لو جس نے شام کے دھندلکے میں مجھ سے پوچھا تھا کہ کتنی خوشگوار فضا ہے، ہوا ہے، بہار ہے، ہرسو سبزہ زار ہے۔ لیکن ابھی چند لمحوں میں ہم مرجھا جائیں گے اور پھر یہ دنیا حسن رعنائی سے، رنگ و خوشبو سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو جائے گی۔ میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ قدرت کو اس بربادی میں کیا دلچسپی ہے۔ اگر ہمیں اس طرح اجاڑنا ہی تھا تو آخر بسایاہی کیوں تھا؟

بوڑھے برگد نے کہا اس سوال کو سن کر میں پریشان ہو گیا اور غور و تدبر کے گہرے سمندر میں ڈوب گیا جہاں ایک بوسیدہ صدف میں حکمت کا نہایت قیمتی موتی میرے ہاتھ لگ گیا۔ میں نے واپس آ کر ننھے پھول کو نصیحت کی بیٹے یہ قانون فطرت ہے۔ اس کائنات کو آباد اور شاداب رکھنے یہ بربادی ناگزیر ہے۔ اگر گذشتہ کل کے پھول نہ بکھرتے تو آج تم نہ کھلتے اور اگر آج تم بکھرو گے تو کل نئے پھول کیوں کر کھلیں گے؟ اگر یہ تخریب و تحلیل کا عمل رک جائے تو دنیا تازہ پھولوں کے بجائے باسی پھولوں سے بھر جائے گی۔ تم جسے تخریب سمجھتے ہو وہ تعمیر کا پیش خیمہ ہے لیکن چونکہ تمہاری نظر محدود وقفہ پر ہے اس لیے دھوکہ کھا جاتا ہو۔

بڑے پیر صاحب نے کہانی ختم کرنے کے بعد گلریز سے پوچھا کچھ سمجھ میں آیا کہ اس کہانی میں کون سا درسِ عبرت پوشیدہ ہے؟

گلریز بولا تھوڑا بہت لیکن اگر آپ خود وضاحت فرما دیں تو عنایت ہو گی۔

بڑے پیر صاحب نے کہا در اصل اس کہانی کے پھولوں کا قصور یہ نہیں ہے کہ وہ مشاہدہ غلط کرتے ہیں بلکہ ان کی غلطی یہ ہے کہ کائنات کے لامحدود حقائق کا احاطہ اپنے محدود مشاہدہ سے کرنا چاہتے ہیں جو نا ممکن ہے۔ در اصل کائنات کے بے پایاں حقائق کا ادراک کرنے کی خاطر اس کے خالق کی الہامی ہدایت کی جانب رجوع کرنا ناگزیر ہے۔ اور جو ایسا نہیں کرتا وہ خود فریبی میں مبتلا ہو کرنادانستہ دوسروں کو فریب دینے لگتا ہے۔

اپنے پیر و مرشد کی گفتگو کے اختتام پر گلریز کے کانوں میں آسمانی کتاب کے الفاظ گونج رہے تھے۔

’’خشکی اور تری میں فساد برپا ہو گیا ہے لوگوں کے اپنے ہاتھ کی کمائی سے

تاکہ مزہ چکھائے ان کو ان کے بعض اعمال کا شاید کہ وہ باز آ جائیں

ان سے کہو کہ زمین میں چل پھر کر دیکھو

پہلے گذرے ہوئے لوگوں کا کیا انجام ہو چکا ہے

ان میں سے اکثر مشرک ہیں

اگر اس طرح اللہ ایک گروہ سے دوسرے گروہ کو ہٹاتا نہ رہتا

تو زمین فساد سے بھر جاتی۔

لیکن دنیا کے لوگوں پر اللہ کا بڑا فضل ہے۔ ‘‘

گلریز کو اپنے خواب کی تعبیر مل گئی۔ اس نے پر تشکر نگاہوں سے اپنے مرشد کو دیکھا اور ان سے دعا کی درخواست کی۔ روحانی باپ نے شفقت سے پیشانی پر بوسہ دیا اور کہا۔

’’بیٹے جاؤ اور اس خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے میں لگ جاؤ۔ اس لیے کہ اس سے پہلے تمہارے باپ ابراہیم نے جب اپنے خواب کو شرمندۂ تعبیر کیا اسے عالم انسانیت کی امامت سے نوازا گیا۔۔۔!









امیر سلطان اور ننھا غلام





ٹک چیں ٹک چیں ۰۰۰۰۰۰کی آواز فوجی بینڈ کی مانند فضا میں گونج رہی تھی۔ امیر سلطان اپنی قدیم حویلی کی بالائی منزل سے اتر کر صدر دروازے کی جانب رواں دواں تھے۔ چھڑی اور جوتی کے درمیان بلا کا تال میل تھا۔ ایسا لگتا تھا گویا دونوں نے ایک ساتھ سرسوتی کے چرنوں میں بیٹھ کر ریاض کیا ہے اور اپنے فن میں مہارت حاصل کر لی ہے۔ کسی زمانے میں اس پرانی حویلی کا نام’ عافیت منزل‘ ہوا کرتا تھا۔ اس حویلی کو تعمیر کرنے کی خاطر یہاں پر قائم ’غاصب محل‘ کو زمین دوز کیا گیا تھا اور بڑے تزک و احتشام کے ساتھ اس کی دیواروں کو اٹھایا گیا تھا۔ نہایت خوبصورت خواب سجائے گئے تھے لیکن وہ خواب اپنی تعبیر سے قبل ہی دیواروں میں چن دئیے گئے۔ وقت کے ساتھ لوگ خواب تو کجا حقائق کو بھی بھول کر اس ویران مکان کو پرانی حویلی کے نام سے پکارنے لگے۔ اس نئے نام پر چونکہ اندر والوں کو ئی اعتراض نہیں تھا اس لئے باہر والوں کو کیا دقت ہو سکتی تھی۔ اس لئے راوی چین لکھتا تھا۔

امیرسلطان کے آگے آگے ان کا ننھا غلام چنگو اپنے ہاتھ میں پرانی قندیل لئے چلا جا رہا تھا۔ حویلی میں روشن بجلی کے قمقموں نے قندیل کی ضرورت کو ختم کر دیا تھا لیکن یہاں قندیل ضرورت نہیں بلکہ حویلی کی ایک مقدس روایت تھی۔ اس لئے اسے ضرورت و اہمیت پر فوقیت حاصل تھی۔ حویلی میں رائج طور طریقوں کو بدلنا تو در کنار ان کے جواز پر غور کرنا بھی جرم عظیم میں شمار ہوتا تھا۔ یہ اصول صرف حویلی کیلئے مختص نہیں تھا بلکہ ناظم آباد کے سارے ہی معاملات پراس کا یکساں طور پر اطلاق ہوتا تھا۔ اس شہر کے عوام و خواص اس خام خیالی میں مبتلا تھے کہ جس دن ان فرسودہ اصول و ضوابط پر قائم و دائم نظام سے ذرہ برابر انحراف ہو گا یہ جہانِ ہست و بود درہم برہم ہو جائے گا۔

حویلی کی بے حس دیواریں باہر کی تبدیلیوں کو اپنی موٹی کھال میں پوری طرح جذب کر لیتی تھیں اور اپنے پیٹ میں رہنے والوں کو اس کا احساس تک ہونے نہیں دیتی تھیں اس لئے دروازے پر پہونچنے کے بعد آقا اور غلام دونوں کو احساس ہوا کہ باہر گرج چمک کے ساتھ بارش ہو رہی ہے۔ حویلی کی فلک شگاف فصیل روشنی، ہوا، پانی اور آواز ہر چیز کی دشمن تھی۔ کسی کو بلا تفتیش و اجازت اندر داخل ہونے کا یارا نہ تھا۔ ان پابندیوں پر کوئی حیرت کا اظہار نہیں کرتا تھا بلکہ سارے لوگ انہیں فخر و امتیاز کی علامت سمجھ کران پر ناز کرتے تھے۔ کچھ تو اس اندیشے کا بھی شکار تھے کہ مبادا اگر اسرافیل ؑ بھی حویلی کے باہر کھڑے ہو کر صور پھونکیں تو ممکن ہے آواز اندر نہ جائے۔ کچھ اور لوگوں کا گمان تھا کہ حضرت اسرافیلؑ اسی عمارت کی چھت پر کھڑے ہو کر صور پھونکیں گے جس سے حویلی سمیت سارا ناظم آباد تہس نہس ہو کر رہ جائے گا۔ اس گاؤں کے لوگوں کی کائنات گاؤں کی حد تک محدود تھی۔ ان کا خیال تھا کہ جس دن اس گاؤں پر قیامت برپا ہو گی دنیا کا چراغ آپ سے آپ بجھ جائے گا۔

آسمان پر کڑکتی بجلی کو دیکھ کر امیر سلطان گرجے۔ اوئے چنگو تیری آنکھیں ہیں یا بے جان آلو؟ دیکھتا نہیں باہر کیا حال ہے؟ جا دوڑ کر چھاتا لا۔

چنگو نے قندیل کو دروازے کی آڑ میں رکھتے ہوئے کہا سرکار غلطی ہو گئی معافی چاہتا ہوں۔ اندر کی جانب دوڑتے ہوئے اس کا جی چاہا کہ اپنے آقا سے پوچھے سرکار آپ ہی نے تو باہر جھانکنے سے منع کرتے ہوئے کہا تھا باہر نہ دیکھنا ورنہ آنکھیں پھوٹ جائیں گی۔ حویلی کا ایک ضابطۂ اخلاق یہ بھی تھا کہ ہمیشہ نظر نیچے اور کان کھڑے رکھے جائیں تاکہ احکامات کی تعمیل میں چنداں تاخیر نہ ہو۔

چنگو واپس لوٹا تو اس کے ہاتھ میں چھتری کے بجائے بر ساتی تھی۔ امیر سلطان کی آواز پھر گونجی چنگو تیرا دماغ تو نہیں چل گیا۔ میں نے تجھے چھاتا لانے کیلئے کہا اور تو برساتی اٹھا لایا؟ لگتا ہے تیرے کان اینٹھنے کا وقت آ گیا ہے تجھ سے جو کہا جائے تووہ نہیں سنتا بلکہ کچھ اور ہی کرتا ہے۔

چنگو بولا جی نہیں سرکار اس میں کان کا قصور نہیں ہے۔ اس نے صحیح سنا مگر وہ جو ان کانوں کے درمیان ہے وہ قصوروار ہے۔

امیر سلطان کی سمجھ میں کچھ نہ آیا وہ بولے کیا بکتا ہے؟

چنگو بولا یہی کہ میں نے سوچا اس تیز آندھی میں چھاتا آپ کے کس کام آئے گا؟ اس لئے دماغ چلا کر برساتی لے آیا۔

چنگو کو توقع تھی کہ اس کا آقا عقل کے استعمال پر خوش ہو گا شاباشی دے گا مگر اس کے بجائے ڈانٹ کا کوڑا اس کی سماعت پر برسنے لگا۔ اچھا تو تیرا دماغ خراب ہو گیا اور اب اسے درست کرنا ہو گا تو اپنی عقل چلاتا ہے بے وقوف؟ نہیں جانتا کہ یہاں دماغ نہیں بلکہ امیر سلطان کا حکم چلتا ہے اور پہلے یہ بتا کہ یہ کس کی برساتی تو میرے لئے اٹھا لایا؟

سرکار یہ کسی غیر کی نہیں بلکہ آپ کے منشی عبدالحسیب کی برساتی ہے۔ چنگو نے جواب دیا۔

تو میری توہین کرے گا؟ مجھے کسی اور کی برساتی پہنائے گا؟ کیا تجھے نہیں معلوم کہ حویلی کا ضابطہ کسی فرد کو کسی بھی صورت میں کسی اور کا سامان استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ امیر سلطان کو بھی نہیں؟

جی ہاں سرکار میں جانتا ہوں لیکن یہ برساتی کسی غیر کی کب ہے؟ یہ حویلی، اس کا سارا سازو سامان، اس میں رہنے اور کام کرنے والے لوگ، سب کے سب آپ کی ملکیت ہیں۔ اور ویسے بھی آپ ہی نے دس سال قبل یہ برساتی منشی جی کو دلوائی تھی۔ اس طرح یہ آپ کی۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

چنگو کا جملہ ابھی پورا نہیں ہوا تھا کہ اس کے گال پر ایک زوردار طمانچہ پڑا جس کی گونج آسمان میں گرجنے والے بادلوں سے زیادہ تھی۔ چنگو کے چودہ طبق روشن ہو گئے۔ کنارے پڑی قندیل کی لو بجھ گئی۔ چاروں طرف تاریکی چھا گئی۔ باڑے میں بندھی بکری اپنی جگہ سہم کر بیٹھ گئی۔ بارانِ رحمت ایک لمحہ کیلئے ٹھہر گیا اور خزاں کا ایک تیز جھونکا تیزی کے ساتھ گزر گیا۔

امیر سلطان نے چھاتا کھولتے ہوئے چنگو کو ہدایت دی دیکھ چنگو بارش تیز ہے دروازے کو ٹھیک سے بھیڑنا ورنہ پانی اندر آ جائے گا۔ چنگو کے منہ پر تالا پڑا ہوا تھا اسلئے اس نے دو تولہ کی زبان ہلانے کے بجائے دو من کا سر ہلانے کو ترجیح دی اور دروازہ بند کر کے اندر آ گیا۔

امیر سلطان جاتے جاتے چنگو کے گالوں پر جو چنگاریاں چھوڑ گئے تھے وہ مسلسل آگ اگل رہی تھیں۔ چنگو سوچ رہا تھا گو کہ اسے دماغ کا استعمال کرنے سے منع کیا گیا تھا اس کے باوجود وہ سوچ رہا تھا کہ:

آخر اس کا قصور کیا تھا؟

اسے کس جرم کی پاداش میں یہ سزا دی گئی؟

کیا کسی کی خیرخواہی کرنا بھی کوئی جرم ہے؟

کیا ہمدردی کی قدردانی اس طرح کی جاتی ہے؟

ننھے فرشتہ صفت غلام کے ذہن میں اس طرح کے بے شمار سوالات طوفان برپا کئے ہوئے تھے۔ حویلی کی دیوار سے ٹیک لگائے وہ مسلسل اپنے جرم کی تلاش میں دربدر ٹھوکریں کھاتا پھر رہا تھا۔ اسے یقین تھا کہ وہ غلطی کا مرتکب تو ضرور ہوا ہے ورنہ اسے سزا نہ ملتی۔ لیکن اپنے گناہ کی آگہی کا کرب اسے بار بار امیر سلطان کی چوکھٹ پر لے جاتا تھا اور پھر وہ گھبرا کر پلٹ آتا تھا۔ امیر سلطان اور ان سے کسی نسیان کا تصور بھی چنگو کیلئے محال تھا۔ ان کا مقامِ بلند بھول چوک کی سرحدوں سے پرے تھا۔

امیر سلطان سارے ناظم آباد کے متفقہ سر براہ ہیں۔ وہ چونکہ عوام کے منتخبہ نمائندے ہیں۔ اس لئے سربراہ کی غلطی پلٹ کر رعایا کی جانب آ جاتی ہے جس سے انتخاب کی غلطی سرزد ہوئی ہے۔ ویسے چنگو کے پاس اپنے مجرم ہونے اور سلطان کے معصوم ہونے کا ایک اور جواز موجود تھا۔ اس کے خیال میں سزا اسی کو ملتی ہے جو جرم کا ارتکاب کرتا ہے اس منطق کی رو سے چونکہ طمانچہ اسے پڑا تھا اس لئے وہی قصور وار ہوتا تھا۔ لیکن پھر گھوم کر وہی پہلا سوال پیدا ہو جاتا تھا کہ آخر اس کا قصور کیا تھا؟ بسا اوقات جرم کی آگہی بھی سزا کے کرب کو لذت میں بدل دیتی ہے۔ چنگونادانستہ طور پر اپنی سزا سے محظوظ ہونا چاہتا تھا اور شاید اسی لئے جاننا چاہتا تھا کہ آخر اس سے کون سی غلطی سرزد ہوئی ہے؟

حویلی کے اندر دماغ کا استعمال چند مخصوص کاموں کی حد تک جائز تھا جس میں سب سے اول امیر سلطان کا حکم سن کر یاد رکھنا۔ وقتِ ضرورت اس کی بہترین توجیہ کرنا اور بے چوں و چرا احکامات کی تعمیل بجا لانا۔ عقل کا استعمال کر کے اپنے طور پر کوئی فیصلہ کرنا گناہ صغیرہ میں شمار ہوتا تھا اور اس فیصلہ پر بغیر توثیق حاصل کئے عمل درآمد کر گزرنا گناہِ کبیرہ کہلاتا تھا۔ بھولا بھالا چنگو برساتی کے معاملے میں گناہِ کبیرہ کا مرتکب ہوا تھا اس لئے اس پر فوراً حد جاری کر دی گئی۔ چنگو کے کان جھنجھنا رہے تھے اور وہ کان پکڑ کر توبہ واستغفار کر رہا تھا۔ اس ترکیب نے اس کے سینے پر پڑے بوجھ کو ہلکا کر دیا اور پھر سب کچھ بھول کر اس نے کھڑکی کے پٹ کھول دئیے۔ اب وہ برسات کا مزہ لے رہا تھا۔

ہوا کے شریر جھونکے اس بات سے ناواقف تھے کہ یہ امیر سلطان کی پرانی حویلی ہے۔ وہ بے خوف بھی تھے کہ ان پر امیر سلطان کا کوئی اختیار نہیں تھا، اس لئے بار بار کھڑکی سے بارش سمیت حویلی کے دیوان خانے میں کود جاتے تھے۔۔ اپنی مرضی کی مختار ہوا کبھی الماریوں سے اٹھکیلیاں کھیلتی تو کبھی میز اور کرسی کو گیلا کرتی۔ کمرے کا دیگر سازو سامان بھی برسات کے پاک پانی سے تازگی حاصل کر رہا تھا۔ فرش کے ساتھ ساتھ قالین کا دامن بھی اس شوخ ماحول نے تر کر دیا تھا لیکن اس محفل کا شہزادہ اگر کوئی تھا تو وہ تھا چاند میاں دستگیر عرف چنگو۔ وہ مستی میں جھوم رہا تھا کہ اچانک ٹک ٹک کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔ چیں چیں کی صدا غائب تھی۔

چنگو سمجھ گیا سرکار کا جوتا بھیگ گیا ہے اس لئے اس کا گلا رندھ گیا ہے اور چیں چیں کی صدائے احتجاج بند ہو گئی ہے لیکن چھڑی پر خشکی اور تری کا کوئی اثر نہیں ہوتا تھا۔ چنگو فوراً قندیل سنبھال کر دروازے کی جانب لپکا تو کیا دیکھتا ہے سرکار ٹوٹا ہوا چھاتا ہاتھ میں لئے سر سے پیر تک برسات کے پانی میں شرابور تھر تھر کانپ رہے ہیں۔ چنگو نے قندیل کنارے رکھ کر ہاتھ بڑھایا اور چھاتا اپنے ہاتھوں میں لے کر امیر سلطان کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔

امیر سلطان کی نظر جیسے ہی دیوان خانے پر پڑی وہ آگ بگولہ ہو گئے اور بولے اوئے چنگو آج تجھے یہ کیا ہو گیا ہے؟ میں نے تجھ سے کہا نہ تھا کہ دروازہ ٹھیک سے بند کرنا ورنہ پانی اندر آ جائے گا اور تو بھول گیا۔ یہ دیکھ سارا کمرہ بھیگا ہوا ہے۔

چنگو نے نہایت سعادتمندی کے ساتھ کہا سرکار میں نے کوئی بھول نہیں کی۔ دروازہ خوب اچھی طرح بند کر دیا تھا۔

امیر سلطان نے چونک کر پوچھا اور پھر یہ پانی؟ چنگو نے کھڑکی کی جانب اشارہ کر دیا۔ امیر سلطان بولے اوہو تو تو نے کھڑکی کو کیوں کھلا چھوڑ دیا؟ کیا اسے بند نہیں کر سکتا تھا؟ چنگو نہایت سعادتمندی کے ساتھ سر جھکا کر بولا کھڑکی بھی بند کر سکتا تھا جناب لیکن چونکہ آپ نے صرف دروازہ بند کرنے کیلئے کہا تھا۔ اس کے بارے میں کوئی حکم نہیں دیا تھا اس لئے میں نے وہی کیا جو آپ نے کہا تھا۔

امیر سلطان بولے لیکن کیا تو نے پانی کو اندر آتے نہیں دیکھا؟ کیوں نہیں سرکار چنگو بولا آنکھوں نے دیکھا اور بہت اچھی طرح دیکھا مگر کان نے کہا اس حویلی میں عقل کا استعمال ممنوع ہے۔ جتنا کہا جائے اتنا کیا جائے، چاہے جو ہو جائے۔ ویسے اگر آپ کہیں تو میں آپ کے حکم سے ابھی کھڑکی بند کئے دیتا ہوں؟

امیر سلطان کے لبوں پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ پھیل گئی۔ قالین کی خرابی اور دیگر سازو سامان کے نقصان کا غم ہوا ہو گیا۔ انہیں ایک بار پھر یقین ہو گیا کہ اس حویلی کی بے تاج بادشاہت میں ان کا کوئی شریک نہیں ہے۔ ان کی مرضی کے بغیر یہاں کوئی پرندہ پر نہیں مار سکتا۔ وہ بولے بہت خوب چنگو شاباش آج تو نے تو میرا دل خوش کر دیا۔ اب تو ایسا کر کہ پہلے تو کھڑکی کو بند کر دے اس کے بعد گرما گرم چائے بنا کر میری خوابگاہ میں لے آ۔ تب تک میں غسل خانے سے کپڑے بدل کر آتا ہوں۔ ٹھیک ہے؟

امیر سلطان کو یقین تھا کہ ان کی خوابگاہ محفوظ ہو گی اس لئے کہ اس میں بارش اور ہوا تو کیا روشنی کی ایک کرن بھی داخل ہونے کی جرأت نہیں کر سکتی۔ چنگو بھی اپنے آقا کی آرام گاہ کے بارے میں سوچ رہا تھا جو ان کے مزاج کے مطابق ہمیشہ گرم اور خشک رہتی تھی۔ فطرت کی تبدیلیوں اور عالمی تغیرات سے بے نیاز امیر سلطان کی محفوظ و مامون آرام گاہ!

ناظم آباد کی موجودہ نسل نے جب سے ہوش سنبھالا تھا انہیں امیر سلطان ہمیشہ ہی اپنے یکساں اور منفرد حلیہ میں نظر آئے تھے۔ سر پر اونچی ٹوپی آنکھوں پر موٹی عینک۔ تن پر وضعدار شیرو انی اور پیروں میں نوکدار جوتی۔ جو ہر قدم پر چیں چیں کی صدائے احتجاج بلند کرتی رہتی تھی لیکن بشمول امیر سلطان کے سارا ناظم آباد اس کا درد محسوس کرنے کے بجائے اس کے ترنم سے محظوظ ہوتا تھا۔

امیر سلطان نے اپنی جوتی کے ساتھ جگل بندی کی خاطر چھڑی خرید رکھی تھی۔ امیر سلطان جب قدم اٹھاتے تو چھڑی زمین سے اپنا سر ٹکراتی اور ٹک کی صدا بلند ہو جاتی اور پھر جب وہ اپنا قدم زمین پر رکھتے تو جوتی ان کے بوجھ سے کچل کر چیں بول جاتی۔ اس طرح امیر سلطان کی چال پر اگر نظر رکھنی ہو تو چھڑی اور جوتی کی ٹک چین پر کان دھرنا کافی تھا۔

اس چھڑی کے دونوں سرے آہنی تھے ایک ان کے ہاتھ میں ہوتا تھا اوردوسرا زمین کی پیٹھ پر لیکن ان دونوں کی بناوٹ میں واضح فرق تھا۔ امیر سلطان کے ہاتھ والا سرا گول، نرم اور ملائم ہوا کرتا تھا اس کے بر عکس جو سرا زمین کے سر پر برستا تھا نوکدار، تیز اور سخت تھا۔ جب سخت زمین سے ٹکرا ٹکرا کر چھڑی کی نوک بجھ جاتی تواس کا گلا خراب ہو جاتا اورایسے میں بلا تاخیر اس کا گلا گھونٹ کر اسے بدل دیا جاتا۔ چھڑی کے نئی نال لگ جاتی۔ لیکن چھڑی کو بدلا نہیں جاتا۔

امیر سلطان نے اس چھڑی کو عہدِ شباب میں محض رعب ڈالنے کیلئے تھاما تھا۔ اس وقت انہیں اس کے سہارے کی چنداں ضرورت نہیں تھی لیکن پہلے تو یہ چھڑی ان کی عادت بنی اور پھر ضرورت بن گئی۔ اب تو انقلاب زمانہ نے یہ حال کر دیا تھا کہ چھڑی کے بغیر چند قدموں کا فاصلہ طے کرنا بھی سلطان کیلئے محال ہو گیا تھا۔ چند قدم پر سانس پھولنے لگتی تھی مگر جوتے کی چیں چیں اس کی پردہ پوشی کر دیا کرتی تھی۔

امیر سلطان کو اس چیں چیں کی اہمیت کا بھی خوب احساس تھا اس لئے جیسے ہی اس کے احتجاج میں کمزوری واقع ہوتی اسے نئی جوتی سے بدل دیا جاتا۔ جوتی کا انتخاب کرتے وقت نہ تو اس کا آرام دہ ہونا اہم قرار پاتا اور نہ ہی اس کی ہئیت و ماہئیت پر توجہ دی جاتی بلکہ کبھی کبھار اس کے باعث ہونے والی آبلہ پائی کو بھی برداشت کر لیا جاتا لیکن اگر کسی معاملے میں مصالحت نہ ہوتی تو وہ اس کی چیں چیں تھی۔ اس آواز کی خاطر سلطان اچھی خاصی قیمت بڑی آسانی سے چکا دیتے تھے۔ اس حقیقت سے چونکہ ناظم آباد کے سارے ہی جاروب کش واقف تھے اس لئے وہ امیر کی جوتی اسی صفت سے مرصع کر کے لاتے اور اپنا من چاہا انعام حاصل کر کے لوٹ جاتے۔

اس روز بارش میں بھیگی ہوئی جوتی دعا کر رہی تھی کہ کاش سوکھنے کے بعد جب اسے جانچا جائے تو اس کے حلق سے کوئی آواز نہیں نکلے اور اسے حقارت کے ساتھ کوڑے دان کی نذر کر دیا جائے۔ اس طرح ایک سنگدل انسان کے قدموں تلے روندے جانے کے عذاب سے اسے چھٹکارا مل جائے۔ ایک ایسا نادان جو زمین پر اس طرح اکڑ کر چلتا ہے گویا اسے پھاڑ ڈالے گا۔

حمام میں کپڑے بدلتے ہوئے امیر سلطان کو محسوس ہوا کہ ان کے جسم کا کچھ حصہ زیادہ بھیگا ہوا ہے اور کچھ کم۔ اپنی زندگی میں یکسانیت کے قائل امیر سلطان کیلئے یہ ناگوار صورتحال تھی اس لئے انہوں نے اپنے جسمانی وجود کویکسانیت سے شرابور کرنے کیلئے نہانے کا فیصلہ کیا۔ غسل کرتے ہوئے ان کا دماغ سوچ رہا تھا کہ آخر آج ان کا اندازہ کیونکر غلط ہو گیا۔ انہیں برسات کی کوئی توقع نہیں تھی ورنہ وہ باہر جانے کا قصد ہی نہ کرتے۔

اس ادھیڑ بن میں انہیں یاد آیا کہ یہ تو محکمۂ موسمیات کی شرارت تھی۔ صبح چلنے سے قبل انہوں اخبار دیکھا تھا جس میں کھلے آسمان کی پیشن گوئی کی گئی تھی۔ ان کا قصور تو صرف یہ تھا کہ وہ اس پر ایمان لے آئے تھے۔ اب کیا تھا۔ محکمۂ موسمیات میں تعینات افسر کو سزا کے طور پر معطل یا کم از کم تبادلہ کرنے کا ارادہ امیر سلطان نے حمام کے اندر ہی کر لیا لیکن کار روائی سے قبل وہ پھر ایک بار اخبار دیکھ لینا چاہتے تھے۔

اخبار پڑھنے کیلئے عینک کی ضرورت تھی اور عینک کے بغیر عینک کو تلاش کرنا ایک مشکل کام تھا۔ گردشِ زمانہ نے ان کی بینائی کو سب سے زیادہ متاثر کیا تھا۔ دور اندیش تو وہ کبھی بھی نہیں تھے لیکن قریب کی چیزوں کو بڑی باریک بینی سے دیکھا کرتے تھے۔ اب حال یہ تھا کہ دور کی کوئی شئے سرے سے دکھلائی ہی نہیں دیتی تھی اور جو کچھ قریب ہوتا وہ بھی دھندلا نظر آتا تھا مگر عینک کے ساتھ۔ عینک گویا ان کے آنکھوں کی روشنی بن گئی تھی اس کے بغیر ہر سو اندھیرا چھایا رہتا تھا۔ امیر سلطان کو یہ غلط فہمی تھی کہ انہیں عینک پہن لینے پر سب کچھ درست نظر آنے لگتا تھا حالانکہ حقیقت اس سے مختلف تھی۔

خالق کائنات نے انسان کو دو آنکھوں سے نوازہ اور وہ ہر چیز پر بیک وقت اس لئے پڑتی ہیں کہ انسان ان کے ذریعہ اپنے سامنے آنے والے حقائق کے مثبت و منفی دونوں پہلو دیکھے۔ وہ خوبیوں اور خامیوں پر یکساں طور پر نگاہ ڈالے اور اس کے بعد ہی اپنی رائے قائم کرے۔ امیر سلطان کی ترتیب اس کے برعکس ہوا کرتی تھی۔ ان کا معاملہ یہ تھا کہ وہ مشاہدے سے قبل اپنی ایک رائے قائم کر لیتے کہ آیاجس چیز کو دیکھنا ہے وہ اچھی ہے یا بری؟ اگر ان کی رائے اس کے متعلق اچھی ہوتی تو وہ دونوں آنکھوں سے بس اس کی خوبیاں ہی خوبیاں دیکھتے اور خامیوں سے صرفِ نظر کر جاتے لیکن اگر خدانخواستہ کسی وجہ سے ان کی رائے خراب ہوتی تب تو اپنے آپ وہ شئے خامیوں کا پلندہ بن جاتی۔ عیوب و نقائص کے علاوہ انہیں اس میں کچھ بھی نظر نہیں آتا۔

امیر سلطان کی عینک دو طرح کے شیشے لگے ہوئے تھے۔ ایک قریب کی اشیاء کو دیکھنے کے کام آتا تھا اور دوسرا دور کی چیزوں کیلئے استعمال ہوتا تھا لیکن ان کا استعمال بھی صحیح ڈھنگ سے نہیں کیا جاتا تھا اپنے قریب کے لوگوں کو وہ کمتر جانتے تھے۔ ان کی صلاحیتوں کو وہ کم کر کے آنکتے تھے۔ دور کے ڈھول انہیں سہانے لگتے تھے مگر اندیشوں کو وہ بڑھا چڑھا کر دیکھتے تھے اس لئے اکثر و بیشتر مایوسی اور حالت خوف میں مبتلا رہتے۔ اگر کسی کو اپنے وسائل پر اعتماد نہ ہو اور وہ غیروں کے بیجا اندیشوں میں گرفتار ہو تو اس کے اندر قوت فیصلہ کا فقدان از خود جنم لے لیتا ہے یہی کچھ امیر سلطان کے ساتھ بھی ہوتا تھا۔

عینک کو آنکھ کے آگے نصب کرنے کا کام کان کرتے ہیں۔ عینک لگا لینے پر دونوں کانوں کے درمیان رابطہ کا ایک پل بن جاتا ہے گویا بجلی کا سرکٹ مکمل ہو جاتا ہے۔ امیر سلطان کو اپنی سماعت پر بصارت سے زیادہ اعتماد تھا۔ کانوں کا جغرافیہ کچھ اس طرح ہے کہ دونوں کے درمیان رب کائنات نے ایک دماغ کو چھلنی کے طور پر نصب فرما دیا۔ اس کا کام یہ ہے کہ کان پڑی ہر بات کی چھان بین کرے اور کام کی بات کو اپنے اندر محفوظ کر لینے کے بعد باقی فضول باتوں کو دوسرے سے نکال دے۔

امیر سلطان نے اپنے دماغ کے اس شعبہ کو معطل کر رکھا تھا اس لئے وہ گوش گزار ہونے والی ساری باتوں کو بلا تحقیق محفوظ کر لیا کرتے تھے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ زبان کا تعلق دل سے ہو اس لئے کہ جیسے ایک دل ویسے ہی ایک زبان لیکن امیر سلطان نے اس رابطہ کو بھی منقطع فرما دیا تھا۔ اس لئے وہ لب کشائی سے قبل قلب کی جانب رجوع کرنے کی زحمت نہیں کرتے تھے۔ اپنی کمزور آنکھوں اور مضبوط کان پر مکمل انحصار و اعتماد کر کے جو منہ میں آتا بلا روک ٹوک کہہ ڈالتے۔ اس لئے بھی کہ مخاطب کے پاس ان کے احکامات کے آگے سرِ تسلیم خم کرنے کے علاوہ کوئی اور متبادل تو ہوتا نہ تھا۔ ہر کوئی ان کے آگے مجبور و مقہور تھا اس لئے مرتا کیا نہ کرتا ان کی ہر غلط یا صحیح بات مان جاتا۔ یہی وجہ تھی کہ کسی بات کو کہنے سے قبل اس کے نتائج پر غور کرنے کی عادت امیر سلطان کو پڑی ہی نہیں تھی۔

امیر سلطان نے اول تو چنگو کو عینک لانے کا حکم دیا جب وہ اسے لے آیا تو اخبار لانے کیلئے کہا وہ بھی حاضر ہو گیا تو چائے کے بارے میں دریافت کیا۔ اس کی کشتی بھی لنگر انداز ہو گئی۔ امیر سلطان کے کان جو بغیر کسی آلہ کی مدد سے اپنا کام کرتے تھے ان سے کہہ رہے تھے کمرے کی کھڑکی اب بھی کھلی ہوئی ہے۔ انہوں نے چنگو سے پوچھا چنگو کیا میں نے تجھے چائے بنانے سے قبل کھڑکی بند کرنے کیلئے نہیں کہا تھا؟

جی ہاں سرکار، اور میں نے کھڑکی بند بھی کر دی تھی۔

لیکن وہ تو ہنوز کھلی ہوئی ہے۔

چنگو بولا جی ہاں سرکار ہوا نے اسے پھر سے کھول دیا۔

کھول دیا؟ کیسے کھول دیا؟ کیا تو چٹخنی چڑھانا بھول گیا تھا؟

جی نہیں سرکار میں ایسی جرأت کیسے کر سکتا تھا؟

سلطان بولے کیا مطلب، میں سمجھا نہیں؟

میرے آقا چنگو نے کہا بات در اصل یہ ہے کہ آپ نے کھڑکی بند کرنے کا حکم تو دیا تھا لیکن چٹخنی کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا۔ آپ کہیں تو میں ابھی چٹخنی چڑھائے دیتا ہوں۔

چنگو کی سعادتمندی پر امیر سلطان کی باچھیں کھل گئیں۔ وہ ہنستے ہوئے بولے ہاں ہاں میں تجھے حکم دیتا ہوں کہ اب چٹخنی چڑھا دے لیکن کھڑکی بند کرنے کے بعد۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ۰۰۰۰۰۰

جی سرکار سرکار۔ چنگو کی آواز کے پیچھے اس کے آقا کا زوردار قہقہہ گونج رہا تھا۔ امیر سلطان نے دیکھا میز پر چائے کی کشتی میں کیتلی، پیالی، شکر دانی اور چھنی کے درمیان دودھ کا پیالہ بھی ادب سے ہاتھ باندھے سرجھکائے حکم کی تعمیل کا منتظر ہے۔ ان کیلئے یہ نہایت خوشگوار اور فرحت بخش منظر تھا۔ انہوں سب سے پہلے چمچہ کو دستِ شفقت سے نوازہ اور اس کی مدد سے چینی کو پیالی میں ڈال کر اس پر چائے انڈیلی تو عقب سے چنگو کے قدموں کی آہٹ کانوں میں پڑی۔ اپنا سر اٹھائے بغیر سلطان نے سوال کیا

چنگو یہ دودھ کہاں سے آ گیا؟

چنگو چہک کر بولا سرکار یہ اپنی بکری کا دودھ ہے، اپنی بکری کا۰۰۰ وہ خوشی سے بے قابو ہو رہا تھا۔

سلطان بولے کیا بات ہے؟ کل تک تو بکری بیمار تھی بلکہ مر رہی تھی اور آج اتنا سارا دودھ؟ کہیں یہ چراغ کے بجھنے سے قبل اس کی آخری پھڑ پھڑا ہٹ تو نہیں ہے؟

چنگو کو اپنے آقا کی یہ بات بہت بری لگی۔ اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی اس کے باوجود چنگو نے اپنے آپ کو قابو میں رکھتے ہوئے کہا جی ہاں سرکار بکری کی طبیعت گزشتہ ایک ماہ سے خراب چل رہی تھی اور کسی طور سنبھل نہیں پا رہی تھی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ہمارے محلے میں دواؤں کی فراہمی کا نظام متاثر چل رہا تھا۔

نظام کیسے متاثر ہو سکتا ہے؟ میں کچھ سمجھا نہیں۔

چنگو بولا وہ در اصل بات یہ ہے کہ میں اپنی بکری کو حکیم شیر خان کے پاس لے گیا تھا اور انہوں نے چار دوائیوں پر مشتمل نسخہ لکھ دیا تھا مگر ان میں سے دو تو ہمارے دوا فروش عبد المتین کے پاس موجود نہیں تھیں اور جو دو دوائیں موجود تھیں وہ بھی ضرورت سے کم مقدار میں۔ اس کے باعث مرض کی صحیح تشخیص کے باوجود علاج نہیں ہو پا رہا تھا۔

امیر سلطان نے اس معاملہ کو اپنی کوتاہی پر محمول کیا اس لئے کہ نظام آباد کے سارے محلوں کے انتظام و انصرام کو وہ اپنی ذمہ داری سمجھتے تھے اور اس کے بہترین ہونے پر فخر جتاتے تھے۔ انہوں نے چنگو سے پوچھا لیکن یہ اسٹاک کیوں کر ختم ہو گیا؟ کہیں دوائی بنانے والے کارخانے میں ہڑتال تو نہیں ہو گئی؟

جی نہیں جناب وہ ہوا یہ کہ انتظامیہ نے حال میں کچھ نئے ضوابط نافذ کئے۔ عبد المتین بیچارہ ان کی پاسداری میں ضروری کاغذات جمع نہیں کر سکا اس لئے سزا کے طور پر اس کا اجازت نامہ عارضی طور پر معطل کر دیا گیا ہے اور اس کی سپلائی بند کر دی گئی۔ عبد المتین بھی اس سخت اقدام کے جواب میں ناراض ہو کر بیٹھ گیا۔ ان دونوں کی لڑائی کا نتیجہ میں بیچاری بکری کی شامت آ گئی۔

امیر سلطان کو چنگو کا یہ تبصرہ پسند نہیں آیا وہ بولے ٹھیک ہے لیکن پھر یہ چمتکار کیسے ہو گیا؟ تمہاری پیاری بکری کیونکر صحت یاب ہو گئی؟

سرکار ہوا یہ کہ گزشتہ ہفتہ میں نے حکیم صاحب کو دہائیاں دیں اور کہا جناب ایک ماہ سے علاج ہو رہا ہے اس کے باوجود بکری کا حال دن بدن بگڑتا جا رہا ہے اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو جلد ہی یہ بیچاری اللہ کو پیاری ہو جائے گی۔ میری بات سن کر حکیم صاحب بولے دیکھو بیٹے میں تمہاری چنتا سمجھتا ہوں لیکن تمہیں بھی میری مشکل کو سمجھنا ہو گا۔ میرا کام بس نسخہ لکھنے کی حد تک محدود ہے۔ دوائی فراہم کرنا یہ میرے ذمہ نہیں ہے۔ اب اگر تم میرے نسخہ کے مطابق دوا نہ لا سکو اور اس کیلئے مجھے موردِ الزام ٹھہراؤ تو یہ کسی طرح مناسب نہیں ہے؟

امیر سلطان نے خوش ہو کر پوچھا پھر کیا ہوا؟

پھر کیا؟ چنگو بولا مجھے اپنی غلطی کا احساس ہو گیا میں نے ان سے معذرت طلب کی اور گہار لگائی جناب آپ، میں، دوا فروش اور محکمۂ صحت ہر کوئی مجبور ہے لیکن اس کی قیمت کوئی اور میرا مطلب ہے بیچاری بکری چکا رہی ہے۔ اس لئے آپ اس پر رحم فرمائیے اور کوئی راستہ نکالئے۔

حکیم صاحب بولے دیکھو چنگو راستہ تو ہے لیکن اس سے قانون اور ضابطہ کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ یہ سنتے ہی امیر سلطان کے کان کھڑے ہو گئے۔ چنگو بولا میں نے حکیم صاحب سے پوچھا آپ کا مطلب میری سمجھ میں نہیں آیا حکیم صاحب؟

حکیم شیر خان نے جواب دیا بات در اصل یہ ہے کہ ناظم آباد کے دستور کے مطابق ہر محلہ کے باشندے پر یہ لازم ہے کہ وہ دوائیں صرف اور صرف اپنے علاقے کے دوا فروش سے حاصل کرے۔ اس کام کیلئے دوسرے محلے سے رجوع کرنے کی سخت ممانعت ہے۔ اب چونکہ تمہارے اپنے محلہ کا دوا فروش فراہمی سے معذور ہے اس لئے کسی اور مقام پر جانے کے علاوہ کوئی چارۂ کار نہیں ہے۔ اگر تم چاہو تو پڑوس کے محلے کی مدد لے سکتے ہو۔ مجھے اللہ کی ذات سے قوی امید ہے کہ اگر تمہاری بکری کو ساری دوائیں بر وقت مل جائیں تو وہ باذن اللہ شفا یاب ہو جائے گی۔

یہ سنتے ہی امیرسلطان کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ حکیم شیر خان کی تجویز نے ان کی رگوں میں خون کی رفتار تیز تر کر دی انہوں نے غضبناک ہو کر پوچھا پھر؟

چنگو جوش میں بولے جا رہا تھا اس نے کہا میں یہ بات سن کر خوش تو ہوا لیکن پھر استفسار کیا اگر پڑوس کے محلہ کا دوا فروش قانون کی خلاف ورزی کرنے کی جرأت نہ کر سکے اور تعاون سے انکار کر دے تو کیا ہو گا؟

حکیم صاحب بولے کرنا تو اسے یہی چاہئے لیکن وہ ایک رحمدل انسان ہے۔ اگر تم اس کو اپنی بکری کا حال سناؤ گے تو اس کا دل پسیج جائے گا۔ ویسے میں بھیا س سے سفارش کر دوں گا ان شاء اللہ تمہارا کام ہو جائے گا۔

حکیم صاحب کی بات سن کر امیر سلطان کا خون کھولنے لگا ان کا پارہ پر چڑھ گیا۔ انہوں نے چیخ کر پوچھا پھر کیا ہوا؟ اس آواز کو سن کر صحن میں بندھی بکری بھی سہم گئی۔

چنگو نے سامنے کیتلی میں پڑی سردچائے کی مانند جواب دیا حکیم صاحب کا قیاس درست نکلا پڑوسی محلہ کے دوا فروش نے میرا بھرپور تعاون کیا اور مجھے بلا معاوضہ ساری دوائیں مہیا کر دیں۔ میں گزشتہ ایک ہفتہ سے وہ دوا بکری کو دے رہا ہوں اور اس کی صحت دن بدن بہتر ہوتی جا رہی ہے۔ آج تو اس نے دودھ بھی دیا جو آپ کے سامنے ہے۔

امیر سلطان یہ ماجرا سن کر آپے سے باہر ہو چکے تھے۔ انہوں نے آگ بگولہ ہو کر کہا بکری کے بارے میں تو میں کچھ نہیں جانتا لیکن یہ ضرور جانتا ہوں کہ تم تینوں کا دماغ خراب ہو گیا ہے۔ تم لوگوں نے مل کر ناظم آباد کے دستور کو پامال کیا ہے ضابطہ کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس لئے جو دوائی تم نے بکری کو پلائی ہے وہ تریاق نہیں بلکہ زہر ہے زہر۔

چنگو کی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آیا وہ بولا کیسی باتیں کرتے ہیں سرکار زہر کے استعمال سے تو موت واقع ہو جاتی ہے جبکہ اس دوائی نے بکری میں نئی جان ڈال دی ہے۔ اگر ہم سب یہ نہ کرتے تو وہ مر جاتی۰۰۰۰۰۰۰ بیچاری بکری ۰۰۰۰۰۔

امیر سلطان نے کڑک کر کہا مر جاتی تو مر جاتی !!! ایک بکری کے فوت ہو جانے سے کون سا آسمان پھٹ پڑتا۔ ہر روز نہ جانے کتنی بکریاں ذبح کر دی جاتیں اور کتنی اپنی فطری موت مر جاتی ہیں لیکن ناظم آباد کا مقدس دستور ۰۰۰۰۰وہ تو کبھی بھی پامال نہیں ہوتا۔ کبھی بھی نہیں۔ افسوس صد ہزار افسوس کہ اس کی پامالی ہوئی بھی تو خود امیر سلطان کی اپنی حویلی میں۔ تجھے کس نے اس کا حکم دیا تھا اے احمق کی اولاد۔ امیر سلطان ہذیانی کیفیت میں مبتلا ہو گئے تھے۔ وہ پاگلوں کی مانند چلّا رہے تھے۔ چنگو کو جھنجوڑ رہے تھے اور یہی پوچھے جا رہے تھے کہ تجھے اس جرم عظیم کے ارتکاب کی اجازت کس نے دی تھی؟ بتا کہ تو نے ایسا کیوں کیا؟ کس نے کہا تھا تجھے ایسا کرنے کیلئے؟

چنگو گھبرا گیا۔ اس نے کہا مجھے ۰۰۰۰۰ مجھے بکری کی بیماری نے کہا تھا سرکار

بیماری نے !اب امیر سلطان نے چنگو کے کندھوں کو پکڑ کر کہا۔ بکری بھی کہیں بات کرتی ہے۔ مجھے بے وقوف بناتا ہے۔

اسی لمحہ نہ جانے کیسے چنگو کے دل سے امیر سلطان کی دہشت ہوا ہو گئی۔ وہ بولا سرکار بکری تو کیا سارے چرند پرند، ہوا پانی، دریا پہاڑ سب بولتے ہیں بشرطیکہ کہ کوئی اس پرکان دھرے اور اگر ان سنی کر دے تو انسان بھی نہیں بولتے۔ ایسا لگتا تھا گویا چنگو کے اندر بکری کی آزاد روح حلول کر گئی ہے اور وہ بے خوف ہو کر اپنے دل کی بات بیان کر رہا ہے۔ وہ بے قابو ہو چکا تھا اور نہیں جانتا تھا کہ کیا بول رہا ہے اور اس کا انجام کیا ہو سکتا ہے؟

چنگو کا جواب سن کر امیر سلطان نے کہا زبان چلاتا ہے تقریر کرتا ہے میں تجھے اس کا سبق ضرور سکھاؤں گا ایسا سبق کہ جو سارے عالم کیلئے نشانِ عبرت بن جائے گا لیکن تو جا اور سب سے پہلے یہ زہر ملا دودھ اور وہ دوائیاں نالی میں بہا کر واپس آ۔ پھراس کے بعد میں تم تینوں باغیوں کا انتظام کرتا ہوں۔

سب سے پہلے تو میں فتنہ کی جڑ حکیم شیر خان کو چوہے کے پنجرے میں ڈال کر سمندر کی طہ میں ڈال دوں گا

اور پھر باغی دوا فروش عبدالحلیم کو اس کی دوکان کے اندر زندہ چنوا دوں گا تاکہ وہ اپنی دوائیاں کھا تے کھا تے موت کی نیندسوجائے۔

اور تجھے ۰۰۰۰۰۰۰ اور تجھے یہ کہتے کہتے ان کی آواز رندھ گئی تیری سزا میں سوچتا ہوں لیکن تو یہاں کیوں کھڑا ہے؟ جا دفع ہو اور فوراً وہ زہر جوتو عبدالحلیم سے لایا تھا پھینک کرواپس یہاں آ۔

چنگو بولا سرکار میں یہ نہیں کر سکتا میں اپنی بکری کا پاک دودھ نالی میں نہیں بہا سکتا اور وہ دوائی تو میں ہر گز ضائع نہیں کروں گا اس لئے کہ ابھی علاج مکمل نہیں ہوا ہے۔ اگر درمیان میں اسے روک دیا گیا تو بکری پھر سے بیمار ہو جائے گی بلکہ ممکن ہے اس کی موت واقع ہو جائے۔

چنگو کے علی الاعلان بغاوت کا تصور امیر سلطان تو کجا خود چنگو نے بھی کبھی نہیں کیا تھا۔ امیر سلطان کی آواز سے نہ صرف عافیت منزل بلکہ سارا ناظم آباد گونج رہا تھا بادل، بجلی، پہاڑ ہوا فضا ہر کوئی چنگو چنگو کی صدا لگا رہا تھا۔ سلطان نے کہا چنگو دیکھ آج تک اس حویلی میں ایسا کبھی بھی نہیں ہوا۔ تو ایسا کر کے فوراً یہاں سے نکل جا، اس سے پہلے کہ میں کچھ کر گزروں میری آنکھوں سے اوجھل ہو جا۔ نکل جا اس حویلی سے ۰۰۰ ورنہ۰۰۰۰۰۰۰۰ ورنہ ۰۰۰۰۰۰۰۰امیر سلطان کی آواز رندھ گئی۔

چنگو نے نہایت اطمینان سے جواب دیا سرکار آپ کا حکم سر آنکھوں پر، میں آپ کے حکم کی تعمیل میں یہاں سے چلا جاؤں گا لیکن اپنے ساتھ اپنی بکری کو بھی لیتا جاؤں گا۔

چنگو کے اس عزم مصمم نے امیر سلطان کو باؤلا کر دیا وہ بولے کیا؟

بکری کو لے جائے گا؟ کون لگتی ہے تیری یہ بکری؟

اس پر تیرا کیا حق ہے؟

یہ میری بکری ہے میری! کیا سمجھا؟

تو کون ہوتا ہے اس کو ساتھ لے جانے والا؟

تیری یہ مجال کہ اس کو اپنے ساتھ لے جائے؟

چنگو بولا سرکار آپ کی ساری باتیں بجا ہیں لیکن کل کو اگر یہ بکری مر جاتی ہے تو نہ یہ آپ کی ہو گی اور نہ میری اس لئے میں اسے مرنے نہیں دوں گا اور چاہے جو ہو جائے اسے اپنے ساتھ لے کر جاؤں گا۔ چنگو نے خم ٹھونک کر کہا۔

امیر سلطان کی زندگی میں پہلی بار کسی نے انہیں اس طرح سے چیلنج کیا تھا۔ اس دھماکہ سے ان کی انا اور عزت نفس دونوں بیک وقت پاش پاش ہو گئے تھے۔ امیر سلطان کے آگے اس لب و لہجہ میں بات کرنے کی ہمت عافیت منزل تو کجا سارے ناظم آباد میں کسی کے اندر نہیں تھی۔ وہ بولے چاہے جو ہو جائے ! اس کا مطلب تجھے ابھی پتہ چل جائے گا۔ تو یہیں رک میں ابھی تیرا انتظام کرتا ہوں۔ یہ کہہ کر وہ مہمان خانے سے نکل کر دوسرے کمرے میں چلے گئے۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

چنگو اپنے انجام سے بے پرواہ اپنی بکری کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں اپنے باپ کی موت کا منظر تھا۔ چنگو یعنی چاند میاں دستگیر اپنے باپ غلام میاں دستگیر یعنی گلو کے سرہانے بیٹھا ہوا تھا۔ گلو اپنے معصوم بیٹے کو نصیحت کر رہا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا میرے بیٹے اپنا اور اپنی اس بکری کا خاص خیال رکھنا۔ یہ بکری جوہے نا یہ تیری دائی ماں ہے۔ تیری ماں تو تیری پیدائش کے وقت ہی تجھے میرے حوالے کر کے ہمیشہ کیلئے رخصت ہو گئی۔ اپنے رب کے فیصلے پر راضی برضا ملک عدم کو کوچ گئی۔

اس کے بعد اس بکری کا دودھ تیرے لئے شیرِ مادر بن گیا۔ تیری رگوں میں دوڑنے والا خون اسی بکری کی مرہونِ منت ہے۔ یہ تیری دائی ماں ہے۔ تیری دائی ماں دیکھ تو اس کا خیال رکھنا تو مجھ سے وعدہ کر کے اس کا خیال رکھے گا اپنی دائی ماں کا ۰۰۰۰۰۰۰یہ کہتے کہتے غلام میاں دستگیر اپنے چاند کو چھوڑ کر اپنی اہلیہ ستارہ بیگم کی جانب ایسے روانہ ہوئے کہ پھر کبھی لوٹ کر نہیں آئے۔

اس دن وہ بہت رویا۔ بکری بھی بہت روئی۔ دوسرے دن چائے کی کشتی میں دودھ ندارد دیکھ کر امیر سلطان نے مسکرا کر پوچھا کیوں چنگو اپنے باپ کے موت سے غمزدہ ہو کر تو نے سارا دودھ خود ہی پی لیا۔

اپنے آقا کا زہر سے بجھا جملہ سن کر چنگو کا وجود دہک اٹھا وہ بولا نہیں سرکاربکری نے آج دودھ ہی نہیں دیا۔

دودھ نہیں دیا؟ یہ کیا بات ہوئی؟

چنگو بولاسرکار کل سے بکری نے چارہ کی جانب نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔

سلطان بولے اچھا بڑی غمگین ہے بیچاری لیکن ماتم کا یہ مطلب تو نہیں کہ اپنے فرضِ منصبی سے رو گردانی کی جائے۔

چنگو نے جواب دیا جی ہاں سرکار آزاد جانور ہے بکری، اپنے فرائض نہیں جانتی۔

لیکن میں نے تجھے بھی کل سے کچھ کھاتے پیتے نہیں دیکھا۔

جی ہاں سرکار بابا کے ساتھ بھوک بھی نہ جانے کہاں چلی گئی۔

سلطان بولے اچھا تو اب پتہ چلا کہ تم دونوں بھوک ہڑتال پر ہو۔ آج بکری نے دودھ نہیں دیا کل تم کام کرنا بند کر دو گے۔ آخر کہاں جا کر رکے گا یہ سلسلہ؟ جاؤ کھاؤ پیو اور بکری کے آگے بھی چارہ ڈالو۔ دیکھو تمہارے باپ کے مرنے کا غم ہمیں بھی ہے مگر ہمارے معمولاتِ زندگی پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ چنگو کا دل کہہ رہا تھا کہ امیر سلطان اپنے قول میں جھوٹے اور بکری اپنے عمل میں سچی ہے اس لئے وہی اس کی سچی ہمدرد و غمخوار ہے۔

امیر سلطان کے قدموں کی چاپ سے کمرے کا فرش لرز رہا تھا۔ اس روز ان کے ہاتھ میں چھڑی کے بجائے پشتینی تلوار تھی۔ نہ جانے کتنے برسوں بعد اسے نیام سے باہر نکلنا نصیب ہوا تھا۔ امیر سلطان نے کڑک کر پوچھا دیکھ چنگو میں تجھ سے آخری بار۰۰۰۰۰۰ چنگو نے جملہ کاٹ دیا اور کہا جی ہاں اب بھی میرا جواب وہی ہے میں اپنی بکری کے بغیر ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

امیر سلطان نے اسے اپنا جملہ پورا کرنے کا موقع نہیں دیا۔ تلوار ہوا میں لہرائی۔ خون کا ایک زوردار فوارہ اڑا۔ کھڑکی کا شیشہ ٹوٹنے کی گرجدار آواز گونجی اور چنگو کا سر نیچے باڑے میں بکری کے سامنے جا گرا۔ بکری اس سے قبل اپنے کئی بیٹوں کے کٹے ہوئے سر اور بے جان جسم دیکھ چکی تھی لیکن اپنے چنگو کا خون رستا بے دھڑ کا سر بھی اسے دیکھنا پڑے گا یہ اس نے کبھی نہیں سوچا تھا۔

بکری کی آنکھوں سے خون کے دو آنسو چنگو کی بے جان آنکھوں میں کیا گرے کہ ان میں زندگی کی رمق پیدا ہو گئی لیکن اسی کے ساتھ بکری کی آنکھیں پتھرا گئیں۔ اپنے رضاعی بیٹے کی لاش پر آنسووں کا نذرانہ پیش کر کے وہ خود بھی ملک عدم سدھار گئی۔

امیر سلطان دیوار سے ٹیک لگائے اپنے آنسووں سے تلوار پر لگے خون کے دھبوں کو دھونے کی ناکام کوشش کر رہے تھے مگر دیکھتے دیکھتے یہ خون کے دھبے شعلوں میں بدل گئے۔ اس آگ نے عافیت منزل سمیت سارے نظام آباد کو اپنی لپیٹ میں لے لیا

۰۰۰۰۰۰۰۰۰ اور پلک جھپکتے اونچی ٹوپی۔ موٹی عینک۔ لمبی شیرو انی۔ نوکیلی جوتی اور آہنی چھڑی سب جل کر خاک گئے۔











جیون ساتھی



ڈاکٹر اویناش اور ایڈوکیٹ سنتوش والی کے کنارے ایک اعلیٰ درجے کے ریسٹورنٹ میں بیئر کی چسکیاں لے رہے تھے۔ ان کی بیویاں شانتی اور آکانشا تھوڑی دور پر بیٹھ کرتا زہ پھلوں کے رس سے لطف اندوز ہو رہی تھیں اور ان کے بیٹے وکاس اور سبھاش پانی میں کھیل رہے تھے۔ باتیں کرتے ہوئے سنتوش کی نگاہ جب بچوں پر پڑی تو اس نے کہا۔

اویناش تمہیں یاد ہے کسی زمانے میں ہم دونوں بھی وکاس اور سبھاش کی طرح جوہو کے ساحل پر کھیلا کرتے تھے اور ہمارے والد صاحبان ایک طرف ہماری طرح بیٹھے سگریٹ پھونکا کرتے تھے۔

اویناش نے حامی بھری اور کہا۔ ہاں مجھے یہ بھی یاد ہے کہ ہماری مائیں ہم چاروں سے الگ تھلگ ایک دوسرے کے ساتھ اسی طرح محو گفتگو ہوتی تھیں جس طرح شانتی اور آکانشا

فی الحال لگی ہوئی ہیں۔ بالکل دنیا و مافیہا سے بے خبر۔

ہاں ہاں مجھے یاد ہے۔ سنتوش بولا۔ اور ان کی باتیں کبھی ختم نہ ہوتی تھیں جس طرح ان دونوں کی باتیں ختم نہیں ہوں گی اور پھر ہمارے والد صاحبان زبردستی ان دونوں کو الگ کر دیا کرتے تھے جس طرح تھوڑی دیر بعد ہم کریں گے اور پھر ہماری مائیں ہم کو بلاتیں جس طرح شانتی اور آکانشا، وکاس اور سبھاش کو بلائیں گی اور پھر ہم سے ناراض ہو جاتیں جیسے کہ وہ ان سے ہو جائیں گی اور پھر ہم با دلِ ناخواستہ اپنے اپنے والدین کی جانب چل پڑتے جس طرح یہ چل پڑیں گے۔ اور پھر ہم اپنے والد کی اسکوٹر پر بیٹھ کر اپنے گھروں کی جانب روانہ ہو جاتے جس طرح ابھی کچھ دیر بعد ہم اپنی اپنی گاڑیوں میں روانہ ہو جائیں گے۔

لیکن اس سے پہلے پانی پوری کے لیے ضد کرنا تمہیں یاد ہے؟ اور ہاں منع کرنے کے باوجود اصرار کرنا اور والدین کو مجبور کرنا بھی یاد ہی ہو گا۔ وکاس اور سبھاش بھی یہی کرنے والے ہیں۔

یار میں سوچتا ہوں زمانہ کتنا بدل گیا۔ تیس سالوں میں کہاں سے کہاں پہنچ گیا لیکن انسان نہیں بدلا۔

ہاں سنتوش تو صحیح کہتا ہے نہ نسلوں کے فاصلے کم ہوئے نہ جنس کی بنیاد پر موضوعات کے اختلاف میں کوئی تبدیلی آئی۔ پہلے بھی ہمارے ماتا پتا کی دلچسپی کے موضوعات علیٰحدہ ہوتے تھے ہم لوگ ان سے دور دور رہا کرتے تھے آج کل بھی وہی کچھ ہے۔ ایسا لگتا ہے کچھ نہیں بدلا۔

ڈاکٹر اویناش اور ایڈوکیٹ سنتوش بچپن کے یار تھے۔ ایک محلے میں رہتے، ایک اسکول میں پڑھتے، ایک ساتھ آتے جاتے، ایک ساتھ کھیلتے۔ حالانکہ دونوں کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ اویناش نہایت شوخ اور چنچل تھا جب کہ سنتوش نہایت سادہ اور خاموش طبع۔ اس کے باوجود ان کے اندر اٹوٹ دوستی تھی۔ بھائیوں سے زیادہ ایک دوسرے کو چاہتے تھے۔ اسکول کی تعلیم کے بعد دونوں کے راستے بدل گئے۔ ایک نے سائنس تو دوسرے نے آرٹس کا راستہ اختیار کیا۔ ایک ساتھ گریجویشن کی ڈگری کے بعد ایک نے ڈاکٹریٹ کا راستہ اختیار کیا اور دوسرا قانون کی کتابیں پڑھنے لگا۔

دونوں نے تقریباً ایک ساتھ تعلیم مکمل کی۔ اویناش کو ملک کی نامور تحقیقاتی تجربہ گاہ میں ملازمت مل گئی اور سنتوش کو ملک کے بہت بڑے تجارتی ادارے نے اپنا قانونی مشیر بنا لیا۔ اس کے بعد شادی کا وقت آیا تو وہ بھی تقریباً ایک ساتھ ہوئی۔ اویناش کی شادی کالج کے پرنسپل کی لڑکی شانتی سے ہو گئی اور سنتوش نے ایک بہت بڑے تاجر کی بیٹی آکا نشا سے بیاہ رچا لیا۔ دو سال بعد ان دونوں نے لڑکوں کو جنم دیا۔ وکاس اور سبھاش کی عمروں میں صرف تین ماہ کا فرق تھا ان دونوں دوستوں کی زندگی بے شمار اتّفاقات اور اختلافات سے بھری پڑی تھی۔

ڈاکٹر اویناش کا شمار بہت جلد ملک کے بڑے سائنسدانوں میں ہونے لگا تھا۔ رات دیر گئے وہ اپنی لیباریٹری میں کام کرتے رہتے تھے۔ جس کانفرنس میں جاتے چھا جاتے شرکاء کا دل موہ لیتے تھے آئے دن اخبارات میں ان کے انٹر ویو چھپتے انہیں کئی قومی اور بین الاقوامی تمغوں سے بھی نوازا گیا تھا۔ لیکن ان سب کے باوجود ان کی بیوی شانتی ان سے ناراض تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر اویناش گھر سے باہر جس قدر وقت صرف کرتے ہیں اس کا عشر عشیر بھی گھر میں نہیں دیتے، ساری دنیا کے لئے ان کے پاس فرصت ہے لیکن گھر والوں کے لئے نہیں، وہ کبھی بھی سورج ڈھلنے سے پہلے گھر نہیں آتے، وکاس کو اکثر سویا ہوا پاتے ہیں اور سویا ہوا ہی چھوڑ جاتے۔

شانتی اکثر ان سے کہتی کہ دیکھو تم سرکاری لیباریٹری میں کام کرتے ہو، ہماری کالونی کے سبھی لوگ اس میں کام کرتے ہیں۔ وہ کیسے آرام سے دفتر جاتے ہیں دوپہر کو کھانے کے لیے واپس گھر آ جاتے ہیں قیلولہ کر کے واپس جاتے ہیں۔ شام پانچ بجے اپنے گھر پر دوبارہ حاضر ہو کر بچوں کے ساتھ چائے ناشتہ کر کے چہل قدمی کے لیے نکل جاتے ہیں۔ شام میں تھوڑا بہت وقت بچے کی تعلیم پر بھی صرف کرتے ہیں۔ بیوی کے ساتھ ٹی وی کے سیرئیل دیکھتے ہیں۔ دوسروں کو اپنے گھر بلاتے ہیں اور خود دوسروں کے گھر جاتے ہیں۔

ڈاکٹر اویناش کی زندگی ان تمام چیزوں سے خالی تھی۔ ان کا کسی اور سے تو کیا خود اپنے گھر والوں سے بھی ملنا جلنا نہ ہو پاتا تھا۔ بس کام، کام اور کام۔ اس کے سوا کوئی کام نہ تھا۔ اویناش کے اس رویہ کے باعث شانتی اپنی زندگی میں ایک بہت بڑا خلاء محسوس کرتی تھی۔ جب بہت لمبا وقفہ اس طرح گذر جاتا تو آکانشا کو اپنے گھر بلا لیتی یا ان کے گھر جانے کا پروگرام بناتی۔ ڈاکٹر اویناش کے لیے یہی ایک دعوت ایسی ہوتی جس کا ٹالنا ممکن نہ تھا لیکن یہ موقع بھی سال میں ایک دو بار ہی آتا۔

ڈاکٹر اویناش کئی مرتبہ دیوالی اور ہولی کے موقع پربھی اپنے اہل خانہ سے دور رہتے۔ یورپ اور امریکہ میں ہونے والی سائنسی کانفرنسوں کا ان تہواروں سے کیا لین دین اور ڈاکٹر اویناش کے لیے ان میں شرکت اپنے اہل خانہ کے ساتھ تہوار منانے سے زیادہ اہمیت کی حامل تھی۔ اس لیے وہ بلا تکلف نکل جایا کرتے تھے۔ وہاں یاد آ گئی تو فون کر دیا ورنہ وہ بھی بھول گئے۔ ڈاکٹر کے اس رویہ نے شانتی کی زندگی میں اشانتی بھر دی تھی۔ لیکن یہ ایک ایسا کرب تھا جس کا اظہار کسی اور سے کرنا بھارتیہ ناری کیلئے مہا پاپ سے کم نہیں تھا۔

ادھر سنتوش کے گھر کا معاملہ اس کے بالکل برعکس تھا۔ سنتوش کی زندگی دفتر اور گھر کے درمیان طواف سے منسوب تھی۔ شام پانچ بجتے ہی دفتر سے نکلنے والی سب سے پہلی گاڑیوں میں سے ایک سنتوش کی ہوتی تھی وہ سیدھا اپنے گھر آتا، بیوی بچّے کی خبر لیتا، پہلے تو صبح کا اخبار دیکھتا اور پھر ٹی وی لگا کر شام کا اخبار پڑھنے لگتا۔ ٹی وی کا ریموٹ ہمیشہ اس کے ہاتھوں میں ہوتا۔ خبروں کے چینلس کا تو وہ دیوانہ تھا۔ اس بیچ بچّوں سے خوش گپّیاں کرتا، بیوی کھانا لگا دیتی تو کھانا کھا تا اور چہل قدمی کے لئے چل پڑتا۔ وہ آکانشا کو بھی ساتھ آنے کی دعوت دیتا لیکن آکانشا کو چہل قدمی کے بجائے ٹی وی پر خواتین کے ڈراموں میں زیادہ دلچسپی تھی۔ وہ امیر خاندانوں کی خواتین کی سیاست پر مشتمل ڈراموں میں کھو جاتی تھی۔

آکانشا کا تعلق بھی چونکہ ایک امیر تجارتی گھرانے سے تھا اس لئے ان ڈراموں کے کرداروں میں آکانشا کو کہیں اپنی ماں نظر آتی تو کہیں باپ، بھائی یا بھابی۔ سب کے سب دولت کے نشہ میں چور ایک دوسرے کو جائداد سے بے دخل کرنے کی کوششوں میں مصروف عمل، سازشوں اور چالوں کے تانے بانے میں الجھی ہوئی کہانیاں آکانشا کو بہت اچھی لگتی تھیں۔ اس بیچ ایک نیا سیرئیل بیرسٹر ونود شروع ہوا جس کا ہیرو ملک کا بہت نامور وکیل تھا۔ سارے ملک میں اس کے چرچے تھے۔ وہ بڑے سے بڑے مجرم کو چھڑا لیا کرتا تھا۔ معروف سیاستدان اس کے دوست ہوا کرتے تھے۔ آئے دن اس کی خبریں اخبارات میں شائع ہوتیں۔ عدالت کی ہر پیشی کے وہ ہزاروں روپئے لیتا اور ایک محل نما کوٹھی میں رہتا تھا۔

آکانشا جب بھی اس سیرئیل کو دیکھتی اسے سنتوش پر غصہ آنے لگتا اس لیے کہ وہ بھی ایک وکیل تھا لیکن اسے کبھی عدالت جانے کی توفیق نہیں ہوئی۔ ملک تو کیا پڑوس کے لوگ بھی نہیں جانتے تھے ایڈوکیٹ سنتوش کون ہے؟ آج تک اس نے کسی مجرم تو کیا بے گناہ ملزم کا بھی مقدمہ نہیں لڑا تھا۔ عجیب بے رنگ زندگی گذار رہا تھا یہ شخص۔ دنیا وی عیش و طرب سے اس کا کوئی لین دین ہی نہ تھا۔ اپنا دفتر، اپنا گھر، اپنا باس اور اپنی بیوی یہی اس شخص کی کل کائنات تھی اور وہ اسی میں مست تھا۔ آکانشا نے اسے کئی مرتبہ سمجھایا، جھنجھوڑا، ڈانٹا ڈپٹا سب کچھ کر کے دیکھ لیا لیکن سنتوش کے کان پر جوں نہ رینگتی تھی۔

ایک مرتبہ آکانشا نے زبردستی سنتوش کوبیرسٹر ونود دکھانے کے لیے روک لیا اور خاتمہ کے بعد پوچھا۔ تم ایسے کیوں نہیں بنتے؟

سنتوش نے جواب دیا۔ تم نے نہیں دیکھا یہ شخص کس قدر پریشان ہے۔ کس قدر دباؤ میں رہتا ہے۔ رات گئے تک قانون کی کتابوں میں غرق رہتا ہے جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنانے کی جد و جہد میں لگا رہتا ہے۔ کیسے کیسے لوگوں سے اس کے تعلقات ہیں۔ یہ سب میرے بس کی بات نہیں۔ میں یہ الٹی سیدھی فریب دہی نہیں کر سکتا۔

سنتوش کا تبصرہ سن کر آکانشا آگ بگولہ ہو گئی۔ اپنے چہیتے ونود کے بارے میں اتنی ساری منفی باتیں وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ آکانشا نے کہا۔ تمہیں اس میں صرف برائیاں ہی برائیاں نظر آتی ہیں کھوٹ ہی کھوٹ دکھائی دیتا ہے۔ تم نے اس کی شاندار حویلی نہیں دیکھی۔ اس کی شہرت تمہیں نظر نہیں آئی۔ اس کا ٹھاٹ باٹ، اس کی گاڑی، اس کی شان و شوکت یہ سب کچھ تمہیں دکھائی نہیں دیا۔ زندگی بھر کمپنی کے کوارٹر میں رہنے والے اس سے زیادہ سوچ بھی کیا سکتے ہیں اسی کو کہتے ہیں کھسیانی بلّی کھمبا نوچے۔

اپنی بیوی آکانشا کی تقریر سن کر سنتوش نے قہقہہ لگا کر کہا۔ آکانشا اگر تمہیں وہ فلمی کردار اتنا ہی پسند ہے تو کر لو اسی سے شادی۔ میں کل ہی تمہارے طلاق کے کاغذات تیار کر کے لے آتا ہوں لیکن یاد رکھو میں جیسا بھی ہوں اصلی وکیل ہوں۔ ایڈوکیٹ سنتوش رانا ایل ایل ایم اور بیرسٹر ونود نرا بہروپیا ہے بہروپیا۔

آکانشا غصہ سے بپھر گئی۔ اپنی بیوی کو طلاق کی دھمکی دینے کے علاوہ اور ایڈوکیٹ سنتوش کر بھی کیا سکتے ہیں۔ اس لیے یہ بھی کر کے دیکھ لو۔ مجھے اپنے میکے بھیج کر ہو جاؤ آزاد۔

سنتوش پھر مسکرا دیا۔ میری جان طلاق کی بات تو میں نے صرف تمہیں چھیڑنے کے لیے کہی تھی ورنہ کون ظالم اتنی اچھی بیوی کو طلاق دیتا ہے۔ لیکن محترمہ آپ کو یہ تو ماننا ہی پڑے گا میں حقیقت میں جتنا آپ کا خیال رکھتا ہوں، آپ کی خدمت کرتا ہوں وہ تمہارا بیرسٹر ونود ٹی وی کے اسکرین پر بھی اپنی بیوی کی ایسی خدمت نہیں کرتا۔

یہ سن کر آکانشا کچھ نرم پڑی۔ اس نے کہا۔ میں نے کب کہا آپ میرا خیال نہیں کرتے یا میری خدمت نہیں کرتے۔ وہ سب تو بے شک تم بحسن و خوبی کرتے ہو لیکن سنتوش!زندگی یہی سب تو نہیں ہے مجھے اس کے ساتھ کوٹھی، گاڑی، شان و شوکت، دولت شہرت اور بہت کچھ چاہئے۔ ان کے بغیر زندگی بے معنی لگتی ہے۔

لیکن یہ سب ایک ساتھ نہیں آتا۔ سنتوش نے کہا۔ ایک کو دوسرے کی قیمت پر حاصل کرنا پڑتا ہے اور میں اپنے ازدواجی راحت و سکون کو داؤں پر لگا کر کچھ بھی حاصل کرنا نہیں چاہتا۔ سنتوش نے جواب دیا اور آکانشا اُداس ہو کر اپنی خوابگاہ میں چلی گئی۔ اس مسئلہ پر سنتوش اور آکانشا کی نوک جھونک کوئی نئی بات نہیں تھی لیکن آج یہ توتو میں میں اپنے حدود کو پار کر گئی تھی۔ سنتوش دیر تک بیٹھا سوچتا رہا آخر کیا کرے اسے کچھ سجھائی نہ دے رہا تھا۔ ایسے میں بے ساختہ اسے اپنے دوست اویناش کا خیال آیا اور اس کی انگلی فون پر چلنے لگی۔ اویناش کے گھر پر فون اس کی بیوی شانتی نے اٹھایا۔ ہیلو کی آواز سنتے ہی سنتوش نے فون رکھ دیا۔ اس لیے کہ شانتی سے بات کرنے کا مطلب تھا آکانشا سے بات کروانا اور آج وہ نہیں چاہتا تھا کہ ان میں بات ہو۔ اس نے پھر موبائیل پر فون ملایا تو اویناش نے فوراً جواب دیا۔

بول سنتوش کیا حال ہے؟

سنتوش نے جواب دیا۔ یار حال اچھا نہیں ہے۔

یہ سن کر اویناش چونک پڑا۔ تیس سال کی دوستی میں پہلی بار سنتوش کے منہ سے یہ الفاظ اویناش نے سنے تھے اسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ اس نے پھر پوچھا۔ کیوں بھائی خیریت تو ہے مذاق تو نہیں کر رہے ہو؟

اویناش میں یہ کہہ چکا ہوں کہ خیریت نہیں ہے اور میں مذاق نہیں کر رہا ہوں فی الحال یہ بتلاؤ کہ تم کہاں ہو؟ شہر میں یا کہیں باہر۔

سنتوش نے جھنجھلا کر کہا۔ میں تو گھر ہی پر ہوں بتاؤ کیا خدمت کی جائے۔

اویناش بات در اصل یہ ہے کہ میں تم سے ملنا چاہتا ہوں۔

اتنی رات گئے۔ خیریت تو ہے۔

اویناش میں تم سے بار بار کہہ چکا ہوں کہ خیریت نہیں ہے۔ میں تم سے ابھی اسی وقت ملنا چاہتا ہوں۔

اویناش نے کہا۔ ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔ اب بتا کہاں ملنا ہے؟ تو میرے گھر آتا ہے یا میں آؤں؟

نہیں ہم لوگ گھر پر نہیں ملیں گے ہم کسی پارک یا ریسٹورنٹ میں ملتے ہیں۔

یہ سب باتیں اویناش کے لیے نئی تھیں۔ سنتوش رات گئے جاگنے کا عادی نہیں تھا۔ وہ اتنی جلد بازی میں کوئی کام نہ کرتا تھا۔ کسی بھی کام کو بڑے آرام سے کل پر ٹال دیتا تھا اور پھر گھر پر ہی ملنا پسند کرتا تھا کہیں اور بلانے کے لیے اسے کافی منانا پڑتا تھا لیکن آج سب کچھ اُلٹا ہو رہا تھا۔ اویناش اور سنتوش نے ملنے کے لیے جوہو کا ساحل طے کیا اور اویناش تیار ہونے لگا۔ شانتی نے پوچھا۔

ارے اتنی رات گئے کہاں کی سواری ہے۔

مجھے سنتوش نے بلایا ہے۔

سنتوش بھیا نے اس وقت؟ خیریت تو ہے۔ شانتی نے پوچھا۔

نہیں نہیں خیریت نہیں ہے۔ نہیں میرا مطلب خیریت ہے کوئی بات نہیں۔

شانتی ہنسنے لگی ارے آپ اس قدر بوکھلائے ہوئے کیوں ہیں۔ سنتوش ہی کے پاس جا رہے ہیں نا یا؟

ہاں بابا سنتوش کے پاس ہی جا رہا ہوں۔

میں بھی چلوں۔ شانتی نے پوچھا۔

اویناش جھلّا گیا۔ شک کی دوا تو حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں اور تم عورتوں کا شک تو بھگوان بچائے اس سے۔ چلو اگر چلنا ہی ہے لیکن پہلے ہی بتائے دیتا ہوں کہ سنتوش بھابی کے ساتھ نہیں اکیلے آ رہا ہے۔

شانتی نے ہنستے ہوئے کہا۔ آپ تو سنجیدہ ہو گئے میں تو یوں ہی مذاق کر رہی تھی۔ یہ جاننا چاہتی تھی کہ کہیں کوئی تجربہ تو یاد نہیں آ گیا اور ڈاکٹر صاحب تجربہ گاہ کی جانب تو نہیں چل دیئے۔ خیر گڈ بائی۔ گڈ بائی

سنتوش اور اویناش دس منٹ کے اندر متعینہ مقام پر پہنچ گئے۔ وہاں پہونچنے کے بعد سنتوش نے سارا واقعہ تفصیل سے سنا دیا اور کہا کہ اویناش اب پانی سر سے اونچا ہو چکا ہے۔ اب یہ سب قابل برداشت نہیں رہا۔ پہلے نوک جھونک کبھی کبھار ہوا کرتی تھی اب کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ تو تو میں میں نہ ہو۔ تم تو میرا مزاج جانتے ہی ہو یہ سب میرے بس کی بات نہیں۔

اویناش نے سنتوش کی بات سن کر کہا۔ یار یہ مسئلہ صرف تمہارا نہیں میرا بھی ہے۔ شانتی میری تمام تر کامیابیوں کے باوجود مجھ سے ناراض رہتی ہے۔ اس کے لیے میری شہرت میرے تمغے میرا نام نمود سب بے معنی ہے۔ وہ چاہتی ہے میں بھی دوسروں کی طرح شام پانچ بجے دفتر سے چھوٹ کر اس کی خدمت میں آ جایا کروں نہ دیر تک کام کروں نہ نئی نئی ایجادات کروں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا میں کیا کروں؟ اس کی بار بار روک ٹوک نے مجھے احساس جرم میں مبتلا کر دیا ہے۔ جو کچھ تمہارے ساتھ ہوا وہی کچھ میرے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ شانتی نرم آنچ ہے اور آکانشا شعلۂ جوالہ ہے۔ لیکن دوست آگ تو آگ ہے دونوں کے گھاؤ یکساں ہی ہوتے ہیں۔

ہم دونوں کو اس کا علاج تلاش کرنا ہی ہو گا ورنہ ہماری زندگی جہنم بن جائے گی۔

دونوں ساحل سے چل کر چائے خانے میں آ گئے۔ چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے دیر تک سوچتے رہے کیا کیا جائے؟ چائے ختم کرتے کرتے اویناش نے کہا۔

آئیڈیا۔ ہم ایسا کرتے ہیں ڈاکٹر نائک سے ملتے ہیں۔

یہ ڈاکٹر نائک کون ہے؟ تمہارے ساتھ کام کرتا ہے کیا؟ سنتوش نے پوچھا۔

نہیں۔ اویناش بولا۔ یہ ہماری لائن کا ڈاکٹر نہیں ہے بلکہ مشہور ماہر نفسیات ہے۔ ہمیں اس سے رجوع کرنا چاہئے۔

اویناش نے فون پر ڈاکٹر نائک کے دوا خانے سے اگلے دن کا وقت لیا اور سنتوش کو اس کے مطب کا پتہ بتلا کر اپنے گھر روانہ ہو گیا۔ سنتوش بھی واپس آ کر سو گیا۔

دوسرے دن دونوں دوستوں نے اپنی اپنی کہانی ڈاکٹر نائک کو سنائی۔ ڈاکٹر صاحب نے ان سے کئی سوالات کئے اور اپنی تشخیص ان کے سامنے رکھ دی۔ انہوں نے بتلایا چونکہ تم دونوں کے مزاج اپنی اپنی بیویوں کی ضد ہیں۔ اس لیے تمہاری ازدواجی زندگی کبھی بھی اطمینان بخش نہیں ہو سکتی۔

لیکن ڈاکٹر صاحب سنتوش بولا۔ ہم دونوں کے مزاج بھی تو ایک دوسرے سے مختلف ہیں اس کے باوجود پچھلے تیس سالوں سے ہم دونوں ہم پیالہ اور ہم نوالہ ہیں۔ اگر متضاد مزاج کے باوجود دوستی قائم رہ سکتی ہے تو رشتۂ ازدواج کیوں نہیں؟

ڈاکٹر نائک نے کہا۔ سوال دلچسپ ہے۔ دوستی اور شادی میں یہ بنیادی فرق ہے۔ دوستی میں محبت تو بہت ہوتی ہے لیکن باہم انحصار بہت کم ہوتا ہے لیکن شادی میں محبت ہو نہ ہو باہم انحصار بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اس لیے دوستوں کی شخصیت ایک دوسرے سے منفرد اور مختلف ہو سکتی ہے لیکن تعلقاتِ زن و شو میں اس سے مسائل کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ایک اور بات ہے۔ ڈاکٹر نائک بولے۔ رشتۂ ازدواج میں ایک دوسرے سے توقعات بہت زیادہ وابستہ ہوتے ہیں اور اسی کے باعث مایوسی کی مقدار بھی زیادہ ہوتی ہے۔ دوستی میں توقعات کی کمی کے باعث ایسا نہیں ہوتا۔

اویناش نے کہا۔ ڈاکٹر صاحب یہ سب تو ٹھیک ہے لیکن اب ہم کیا کریں؟ ہم خوش رہنا چاہتے ہیں۔

ڈاکٹر نائک نے کہا۔ اس حالت میں تو آپ لوگ خوش نہیں رہ سکتے۔

سنتوش نے پوچھا۔ لیکن صاحب اس حالت کے لیے کون ذمہ دار ہے؟ کون قصوروار ہے؟

ڈاکٹر نائک مسکرائے اور انہوں نے کہا۔ انفرادی طور سے تم چاروں کی کوئی غلطی نہیں ہے تم سب ٹھیک ٹھاک ہو نہ تم میں کوئی کمی ہے نہ خامی مگر تمہارا جوڑ درست نہیں ہے۔

دونوں نے ایک ساتھ پوچھا۔ کیا مطلب؟

نائک بولے۔ تم لوگ گاڑی چلاتے ہی ہو گے۔ اس لیے ایک مثال کے ذریعہ میں یہ بات تمہیں سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔ ایک شخص اپنی گاڑی کی رفتار طے کرنے کا حق اپنے پاس ضرور رکھتا ہے لیکن اسے اپنی رفتار کے لحاظ سے ٹریک کا انتخاب کرنا چاہئے۔ اگر دھیمی رفتار سے چلنے والا فاسٹ ٹریک پر گاڑی چلائے تو اسے پیچھے والے کے دباؤ کا شکار ہونا پڑتا ہے اور اسی طرح اگر تیز چلانے والا دھیمی ٹریک پر گاڑی چلائے تو اگلے کی رفتار پر جھنجھلاہٹ کا شکار ہوتا ہے۔ یہ دونوں حضرات دوسروں کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں حالانکہ قصور ان کا اپنا ہے۔

لیکن ڈاکٹر صاحب آپ نے کہا تھا ہر شخص کو اپنی رفتار کے تعین کا اختیار ہے۔

جی ہاں میں نے کہا تھا۔ ڈاکٹر نائک بولے۔ لیکن یہ بھی کہا تھا کہ ہر شخص کو اپنی رفتار کے مطابق ٹریک کا انتخاب بھی کرنا چاہئے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو مسائل پیدا ہوتے ہیں۔

اویناش پھر بولا۔ ڈاکٹر صاحب۔ وہ تو ٹھیک ہے لیکن ہم کیا کریں اب تو ہم اس ٹریک پر آ ہی چکے ہیں۔

ٹھیک ہے ڈاکٹر نائک نے کہا۔ آپ لوگ اپنی اپنی رفتار بدل دیجئے۔

ہم اپنی رفتار بدل دیں۔ سنتوش نے تعجب سے پوچھا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ تو بہت مشکل ہے۔

ڈاکٹر نائک بولے۔ بہت خوب تمہیں اپنی مشکل کا احساس ہے لیکن دوسروں کی نہیں جو چیز تمہارے لیے مشکل ہے وہ کسی اور کے لیے کیسے آسان ہو سکتی ہے؟

اویناش نے کہا۔ لیکن میں نے کہیں پڑھا تھا محبت ہر مشکل کو آسان کر دیتی ہے۔ اگر ہماری بیویوں کے دلوں میں ہمارے لیے محبت ہے تو ان کے لیے کوئی دقت نہیں ہونی چاہئے۔

ڈاکٹر نائک بولے۔ اویناش تمہاری یہ دلیل تو بڑی جاندار ہے۔ تمہیں سائنسداں کے بجائے سیاستداں ہونا چاہئے تھا۔ میں پوچھتا ہوں اگراسی منطق کے مطابق تمہارے دل میں ان کے لیے محبت ہے تو تمہیں بھی کوئی مشکل نہیں ہونی چاہئے۔ اب چونکہ تمہارے لیے مشکل ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ محبت نہیں ہے اور جب کہ تمہارے دلوں میں ان کے لیے محبت نہیں ہے تو ان کے دلوں میں تمہارے لیے محبت کیسے ہو سکتی ہے؟ اس لیے کہ محبت ہی تو ایک ایسا جذبہ ہے جس کا رد عمل بالکل یکساں اور برابر ہوتا ہے۔

سنتوش بگڑ گیا۔ ڈاکٹر صاحب آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ آپ کا مطلب ہے ہم لوگوں کے اندر ایک دوسرے کے لیے جذبہ الفت نہیں ہے اور اگر ایسا ہے تو کیا ہے؟

ڈاکٹر نائک بولے۔ سنتوش اطمینان رکھو حقائق کبھی کبھار تلخ ہوتے ہیں لیکن ان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ محبت اور حکومت میں بہت معمولی سا فرق ہے۔

اویناش اور سنتوش نے ایک ساتھ سوال کیا۔ وہ کیا؟ ؟

ڈاکٹر نائک بولے محبت میں حبیب اپنے محبوب کی مرضی میں ڈھل جانا چاہتا ہے اور حکومت میں حاکم اپنے محکوم پر مرضی چلانا چاہتا ہے۔ اب تم لوگ خود ہی فیصلہ کر سکتے ہو کہ تمہارے درمیان الفت ہے یا سیاست۔

لیکن ایک درمیانی شکل بھی تو ہوتی ہے مصالحت کی جس میں دونوں فریق اپنے اندر جزوی تبدیلی لائیں۔ کیا اسے آپ محبت نہیں کہیں گے۔ سنتوش نے پوچھا۔

نہیں۔ ڈاکٹر نائک بولے۔ وہ تو تجارت ہے اس لیے کہ ایسا کرنے کے بعد پھر حساب کتاب ہوتا ہے جس نے اپنے اندر کم تبدیلی برپا کی وہ اپنے آپ کو فائدے میں سمجھتا ہے اور جس کو زیادہ تبدیلی لانی پڑی وہ سمجھتا ہے کہ اس کا خسارہ ہو گیا۔

لیکن انسان ہر ایک کی مرضی کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال تو نہیں سکتا تو سب سے محبت کیسے کر سکتا ہے۔؟

ڈاکٹر نائک بولے۔ تمہاری بات صحیح ہے انسان کو اختیار ہے کہ کس سے محبت کرے کس سے نہ کرے لیکن وہ جس کسی سے محبت کرے گا اس کو یہی رویہ اختیار کرنا ہو گا جس کا میں نے ابھی ذکر کیا۔ انسان کو اس کی بھی آزادی ہے کس پر حکومت کرے لیکن وہ جس کسی پر حکومت کرے گا اسی طرح کرے گا جیسا کہ میں بت اچکا ہوں۔

دونوں خاموش ہو گئے پھر اویناش نے پوچھا۔ ڈاکٹر صاحب ایک بات بتائیے۔ حکومت میں محکوم حاکم پر اپنی مرضی چلانا نہیں چاہتا لیکن یہاں دونوں ایک دوسرے پر اپنی مرضی چلانا چاہتے ہیں؟

اس کی وجہ یہ ہے۔ ڈاکٹر نائک نے کہا۔ شوہر تو اس لیے چلانا چاہتا ہے کہ وہ شوہر کی حیثیت سے اپنے آپ کو بیوی کا آقا سمجھتا ہے اور بیوی اس خوف سے اس پر اپنی مرضی چلاتی ہے کہ کہیں یہ کسی اور کا محکوم نہ ہو جائے۔ اس لیے اسے اپنا تابع اور فرمانبردار بنا کر رکھنا چاہتی ہے۔ ویسے دونوں کے اندر رشتہ چونکہ محبت کے بجائے ضرورت کا ہوتا ہے اس لیے اگر ضرورت پوری ہوتی ہے تو رشتہ خوشگوار رہتا ہے اور جب وہ پوری نہیں ہوتی تو رشتوں میں تلخی آ جاتی ہے۔

لیکن ہم تو اپنی بیویوں کی ساری ضرورتیں پوری کرتے ہیں۔ سنتوش نے کہا۔

ڈاکٹر نائک بولے۔ عام طور پر مادی ضرورتوں کو ہی سب کچھ سمجھ لیا جاتا ہے حالانکہ احساسات و جذبات کو مادی ضروریات پر برتری حاصل ہے۔

ٹھیک ہے ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہماری نفسیات ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور ہم اسے بدل نہیں سکتے۔ سنتوش نے کہا۔ اس لیے آپ کوئی متبادل بتلائیں۔

ڈاکٹر صاحب بولے۔ متبادل تو یہ ہے کہ اگر تم اپنی رفتار نہیں بدل سکتے تو ٹریک بدل دیں یہ سہل تر ہے۔

ڈاکٹر نائک کا جملہ دونوں پر ایٹم بم کی طرح گرا۔ ان دونوں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ دونوں سکتے میں آ گئے۔ کافی دیر خاموش رہے۔ اویناش نے خاموشی کو توڑتے ہوئے کہا۔ بات تو شاید معقول ہے لیکن ۔۔۔اور رک گیا۔

ڈاکٹر صاحب نے پوچھا۔ لیکن کیا؟

لیکن میں پہل کرنے کی جرأت اپنے اندر نہیں پاتا۔

سنتوش نے بھی فوراً تائید کی۔

ڈاکٹر نائک بولے۔ آپ لوگ فکر نہ کریں میں ان کو سمجھانے کی کوشش کروں گا۔

دونوں نے بیک وقت کہا۔ یہ ٹھیک ہے۔ اس کے بعد دونوں دوست عجیب بیم و رجا کی کیفیت میں مبتلا ہو گئے۔ انہیں اپنی منزل سامنے دکھلائی دیتی تھی لیکن درمیان میں بہت بڑی کھائی تھی انہیں یقین تھا آکانشا اور شانتی اس تجویز کو سن کر بپھر جائیں گی اور ایسا کبھی بھی نہ ہو سکے گا۔ ڈاکٹر نائک سے آئندہ ملاقات کا وقت لے کر دونوں دوست واپس ہو لیے۔ دیر تک ساتھ ساتھ چلتے رہے لیکن ایک دوسرے سے ایک لفظ نہ کہا۔ عجیب و غریب حالت تھی ان کی زبانیں گنگ ہو گئی تھیں۔ ذہن سن ہو گئے تھے وہ لوگ رو بوٹ کی طرح چل رہے تھے۔ گاڑیوں کے قریب آ کر دو بے جان ہاتھ ایک دوسرے سے ملے اور جدا ہو گئے۔

دو روز بعد ڈاکٹر نائک سے ملنے وہ دونوں دوست اپنی اپنی اہلیہ کے ساتھ پہونچ گئے۔ ڈاکٹر نائک نے پہلے ہر ایک سے علیحدہ علیحدہ گفتگو کی اور پھر شانتی اور آکانشا کو ساتھ بلا کر گفت و شنید کی۔ خلاف توقع ان دونوں خواتین کی جانب سے اس طرح کے سوالات کی بوچھار نہیں ہوئی جیسے اویناش اور سنتوش کرتے رہے تھے۔ تجویز کو سننے کے بعد تھوڑے سے شش و پنج کے بعد آکانشا نے پوچھا۔

بات تو معقول ہے لیکن ۔۔۔ اور وہ رک گئی۔

ڈاکٹر نائک نے کہا۔ میں نے ان دونوں کو سمجھا دیا ہے۔

شانتی بولی۔ لیکن بچے؟

ڈاکٹر صاحب نے کہا۔ ویسے تو بچہ اپنے باپ کا ہے اور اس کی جائداد کا وارث ہے لیکن فی الحال آپ لوگ اس مسئلہ کو اس طرح حل کر سکتے ہیں کہ انہیں سے پوچھ لیں کہ وہ ماں کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا باپ کے ساتھ۔ بچہ جس کے ساتھ رہنا چاہتا ہو عارضی طور پر اس کے ساتھ رہنے دیا جائے۔

آکانشا اور شانتی جب ڈاکٹر نائک کے کمرے سے انتظار گاہ میں آئیں تو دیکھا دونوں دوست گم سم احساس شکست کے گہرے سمندر میں غوطہ زن ہیں۔ دونوں نے کنکھیوں سے ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرایا اور پھر آکانشا بولی۔

ہیلو ایوری باڈی۔ یہ کیا تم لوگ تو ایسے بیٹھے ہو جیسے آپریشن تھیٹر سے ہماری لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔ کیوں کیا بات ہے؟

اویناش بولا۔ نہیں نہیں کچھ نہیں۔ وہ تو بس یونہی ہم لوگ، کچھ نہیں کچھ بھی نہیں۔

شانتی نے اویناش کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا چلو اویناش وکاس اسکول کے باہر ہمارا انتظار کر رہا ہو گا۔ میں نے اسے میک ڈونالڈ لے جانے کا وعدہ کیا تھا۔

ہاں ہاں۔ اویناش بولا۔ میں تو بھول ہی گیا تھا۔

شانتی بولی۔ اس میں کوئی نئی بات نہیں۔ تمہیں یہ سب کب یاد رہتا ہے۔ اچھا آکانشا چلتے ہیں۔ ہمیں دیر ہو رہی ہے۔

ان دونوں کے چلے جانے کے بعد سنتوش بوجھل قدموں سے اٹھا اور آہستہ آہستہ گاڑی کی جانب بڑھنے لگا۔ وہ خاموش تھا اور کافی دیر خاموش رہا۔ جب گھر قریب آ گیا تو اس نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔ ڈاکٹر نائک نے کچھ کہا تو نہیں؟

آکانشا نے کہا۔ کیسی بات کرتے ہو سنتوش ڈاکٹر نائک سے ہم ملنے جائیں اور کچھ نہ کہیں۔ اگر وہ ایسا کریں گے تو انہیں فیس کون دے گا؟

سنتوش نے کہا۔ ہاں وہ تو ٹھیک ہے لیکن انہوں نے کچھ ایسا ویسا تو نہیں کہہ دیا۔

نہیں سنتوش۔ وہ اتنے بڑے ماہر نفسیات ہیں وہ ایسی ویسی بات کیسے کہہ سکتے ہیں۔ وہ ٹھیک ہی کہتے ہیں ہمیں حقیقت پسند ہونا چاہئے۔ آکانشا کے اس جملے نے سنتوش کے ہوش اُڑا دیئے۔

ایک ہفتہ کے اندر بچوں سے رائے معلوم کر لی گئی۔ اویناش کے وکاس نے ماں کے ساتھ رہنا پسند کیا اور سنتوش کے سبھاش نے باپ کے ساتھ۔ اس طرح دونوں بچے ایک ساتھ ہو گئے۔ سنتوش نے پہلی مرتبہ طلاق کے کاغذات تیار کیے اور وہ بھی اپنے اور اپنے جگری دوست اویناش کے اور اسی کے ساتھ شادی کے کاغذات بھی تیار کر لیے۔ جس دن ان کی طلاق کے کاغذ جمع ہوئے اسی دن طلاق نافذ ہو گئی اور شادی بھی رجسٹر ہو گئی۔

دوسرے دن اخبار میں خبر چھپی ڈاکٹر اویناش کھانولکر نے آکانشا بھاٹیا کے ساتھ شادی کر لی۔ کئی لوگوں نے اس کی سابقہ بیوی شانتی کے بارے میں لکھا اور اس پر ہونے والی نا انصافی پر غم و غصہ کا اظہار بھی کیا۔ لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ شانتی نے بھی سنتوش، وکاس اور سبھاش کے ساتھ اپنی زندگی کا نیا سفر شانتی پورن طریقہ پر شروع کر دیا ہے۔





جشنِ آزادی



زمانہ کہاں سے کہاں پہنچ گیا مگر وہ دونوں بدلو یعنی عبدل شیخ اور شیرو جس کا اصلی نام شیر خان تھا وہیں کہ وہیں رہے۔ بدلو قصائی کی ٹوٹی پھوٹی دوکان کے باہر شیرو موچی جوتے سیتے سیتے بوڑھا ہو گیا تھا۔ صبح کے اوقات میں بدلو قصائی کے یہاں لوگوں کا آنا جانا زیادہ رہتا تھا اور شام میں شیرو کے گاہک اسے مصروف کر دیا کرتے تھے لیکن دوپہر کے وقت دونوں نسبتاً فارغ ہوا کرتے تھے۔ وقت گذاری کیلئے وہ آپس میں گپ شپ کرنے لگتے اور اکثر اپنے ماضی کی داستان چھیڑ دیتے۔ اس روز بدلو اپنی گھریلو زندگی کے بارے میں بتلا رہا تھا۔ بدلو کی باتیں سن کر شیر خان کی دلچسپی میں اچھا خاصہ اضافہ ہو گیا اس نے بدلو سے سوال کیا یار اگر برا ا نہ مانو تو یہ بتاؤ کہ تمہاری خوشگوار ازدواجی زندگی کا راز کیا ہے؟

عبدل بولا مجھے پر آج اور ابھی یہ انکشاف ہوا ہے کہ میں ایک نہایت خوشگوار زندگی گذار رہا ہوں اور چونکہ تم نے مجھے یہ خوشخبری سنائی ہے اس لئے میں تمہارا ممنون و شکر گذار ہوں۔ ویسے کیا میں یہ جان سکتا ہوں کہ تم اس نتیجے پر کیسے پہنچے؟

شیرو کو بدلو قصائی سے اس طرح کے سوال کی امید نہیں تھی۔ وہ تو یونہی بدلو کو کرید کرید کر اپنا وقت کاٹ رہا تھا لیکن اپنے ہی سوال کے جواب نے شیر خان کیلئے پریشانی کھڑی کر دی وہ بولا بھئی یہ کون سی بڑی بات ہے؟ عام طور سے لوگ اپنی بیوی کی شکایت کرتے ہیں یا کم از کم خواتین کے خلاف لطیفے سنا کر اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہیں لیکن تم نے پچھلے دو گھنٹے میں ایسا کچھ بھی نہیں کیا اس لئے میں سمجھ گیا کہ ہو نہ ہو تم اپنی زوجہ سے بہت خوش ہو۔

عبدل بولا میں بہت زیادہ خوش تو نہیں لیکن ناراض بھی نہیں ہوں بس یہ سمجھ لو ہم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ہنستے بولتے نباہ کر رہے ہیں اللہ کا بڑا کرم ہے۔

بدلو نے ویسے تو گفتگو کا دفتر بند ہی کر دیا لیکن شیرو کب ماننے والا تھا وہ بولا اچھا بتاؤ کہ تمھاری شادی کیسے ہوئی؟

عبدل یہ سوال سن کر چونک پڑا۔ وہ بولا شیرو اب میں سمجھ گیا کہ پٹھانوں اور سرداروں پر لطیفے کیوں بنائے جاتے ہیں۔

شیرو نے چڑ کہا میں تمھیں بتاتا ہوں کہ یہ لطیفے بنانے والے در اصل ہمارا مقابلہ تو کر نہیں سکتے اس لئے جب ہار جاتے ہیں تو اپنے دل بھڑاس نکالنے کیلئے چٹکلوں سے دل بہلاتے ہیں لیکن اس بات کا میرے سوال سے کیا تعلق؟

اس تعلق کو سمجھنے کیلئے تمھیں خوش فہمیوں سے نکل کر حقیقت کی دنیا میں آنا پڑے گا۔ جو خان ہو کر بھی اپنی شیخی بگھارے وہ کوئی آسان سی بات بھی کیوں کر سمجھ سکتا ہے؟

شیرو بولا تم تو ہماری پوری برادری پر دشنام طرازی کر رہے ہو؟ اور یہ بھول گئے ہو کہ ہم لوگ کرتے پہلے ہیں اور سوچتے بعد میں ہیں۔

عبدل کا ایک فلک شگاف قہقہہ بلند ہوا وہ بولا یہی تو میں کہہ رہا تھا۔ اسی لئے لطائف بنتے ہیں اور میں تو کہتا ہوں کہ آپ لوگ بعد میں بھی بہت کم سوچتے ہو پھر جو سوچتے ہو اس میں بھی درست بہت کم ہوتا ہے ۰۰۰۰۰۰۰۰اس سے قبل کہ بدلو آگے کچھ کہتا شیرو نے اس کی گردن دبوچ لی۔

عبدل گھگیا کر بولا یار میں تو مذاق کر رہا تھا۔ عجیب احمق آدمی ہو اتنا بھی نہیں سمجھتے خیر تم نے سوال کیا تھا کہ میری شادی کیسے ہوئی تو اس کا جواب یہ ہے کہ ویسے ہی ہوئی جیسی کہ سب لوگوں کی ہوتی ہے۔ ہم لوگ بارات لے کر سسرال گئے۔ میری جانب سے ایک وکیل اور گواہ کو دلہن کے پاس بھیجا گیا اس نے اپنے گواہ کی موجودگی میں ایجاب و قبول کیا اور پھر وہ دن ہے آج کا دن ہم لوگ ’’ایک دوجے کیلئے ہو گئے ‘‘ آخری حصہ بدلو نے اپنی بھدی آواز میں گا کر سنایا۔

شیرو بولا وہ تو ٹھیک ہے لیکن مجھے نہیں لگتا کہ بر صغیر میں کوئی شادی بغیر کسی تنازع کے ہو جاتی ہے ورنہ اس موضوع پر اس قدر فلمیں کیوں بنتیں اور اتنے سارے لوگ انہیں دیکھنے کیلئے کیوں جاتے؟

بدلو بولا مجھے آج پتہ چلا کہ پٹھان بھی سوچتا ہے۔ اس کا مطلب ہے اس کے پاس دماغ بھی ہوتا ہے ورنہ تو میرا خیال تھا کہ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰شیر خان کا ہاتھ اٹھتے دیکھ کر بدلو کی زبان گنگ ہو گئی اس نے بات بدلتے ہوئے کہا میرا مطلب ہے مجھے خوشی ہے آج تم نے ایک بہت بڑی غلط فہمی دور کر دی۔ میں اس کیلئے پھر ایک بار تمھارا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ خیر یہ بتاؤ کہ تم کیا پوچھ رہے تھے؟ میں تمھارا سوال بھول گیا۔ بدلو کو یقین تھا کہ شیرو بھی وہ سوال بھول گیا ہو گا اور بات آئی گئی ہو جائے گی۔

شیرو بولا میں نے تمھاری شادی کی بابت پوچھا تھا اور یہ سوال میں اب تک تین بار کر چکا ہوں لیکن تم ہو کہ مچھلی مانند کبھی اِدھر پھسل جاتے ہو تو کبھی اُدھر نکل جاتے ہو لیکن یاد رکھو میں تمھیں چھوڑوں گا نہیں۔ تمھیں میرے سوال کا جواب دینا ہی ہو گا۔

عبدل بولا یار تمھاری یادداشت قابلِ رشک ہے یہ بتاؤ کہ تم اس کیلئے کیا کھاتے ہو؟

شیرو نے دیکھا کہ بدلو پھر سے بات بدل رہا ہے وہ بولا ویسے تو میں بدام، پستہ، اخروٹ، چلغوزہ اور بہت سارے میوہ جات کھاتا ہوں لیکن فی الحال تمھارا دماغ کھا رہا ہوں جو ان سب سے زیادہ لذیذ ہے۔

عبدل بولا جی ہاں شکریہ ذرہ نوازی در اصل ایک قصائی کا دماغ اگر تیز نہ ہو تو اس کی دوکان کیسے چلے گی خیر۔

شیرو بولا دیکھ بدلو اگر تو نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا تو بہت جلد تیرا دماغ چل جائے گا۔

عبدل نے زچ ہو کر کہا دیکھو شیرو میرا نکاح ویسے تو نہایت سادہ سی تقریب میں ہو گیا لیکن بعد ایک روز بیوی سے پتہ چلا کہ ایک بہت بڑا حادثہ ہوتے ہوتے ٹل گیا۔

شیرو قہقہہ لگا کر بولا اب آیا نہ اونٹ پہاڑ کے نیچے۔ تم میرا مذاق اڑا رہے تھے اور اب تم نے خود تسلیم کر لیا کہ اس بڑے حادثے کی اطلاع تمھاری زوجہ نے بہت بعد میں تمھیں دی اور خود تمھیں اس کا پتہ ہی نہیں چلا۔ اب بتاؤ کہ احمق کون ہے شیر خان یا شیخ بدلو؟

عبدل بولا میں ایک گناہ گار انسان ہوں مجھ پر کشف و کرامت تو ہوتے نہیں جو غیب کا علم حاصل ہو جائے۔

شیر خان بولا اوئے مردود کی اولاد خود تیرے ساتھ ہونے والا حادثہ ٹل گیا اور تجھے اس کی خبر نہیں ہوئی اس میں غیب کی کیا بات ہے؟

عبدل بول بولا غیب کی بات کیوں نہیں ہے۔ ہم اپنے بارے میں بہت کچھ نہیں جانتے بلکہ میرات و خیال ہے جو کچھ جانتے ہیں وہ اس کے مقابلے بہت کم جو کچھ نہیں جانتے اور جو جانتے ہیں اس کا درست یا نادرست ہونا بھی مشکوک ہوتا ہے؟

شیرو بولا زیادہ فلسفی نہ بن اور مجھے بتا کہ وہ کون سا حادثہ تھا جو ہوتے ہوتے رہ گیا۔

عبدل بولا یار شادی سے بھی بڑا کوئی حادثہ ہو سکتا ہے جس میں انسان نہ جیتا ہے اور نہ مرتا ہے۔

شیرو نے کہا لیکن خواتین اس قائدہ کلیہ سے اتفاق نہیں کرتیں اس لئے مجھے یقین ہے کہ تمھاری بیوی نے یہ نہیں کہا ہو گا۔

بدلو بولا اچھا اگر میں تمھیں بتا دوں کہ میری بیوی نے کیا کہا تو اس کے بدلے میں تم مجھے کیا بتاؤ گے؟

شیرو پھر ایک نئے سوال میں پھنس چکا تھا۔ اس نے کہا جو تم پوچھو گے وہ میں تمھیں بتاؤں گا۔

یہ جواب سن کر بدلو خوش ہو گیا۔ اس نے سوال کیا اچھا یہ بتاؤ کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ تمھاری کسی بات کو سن کر تمھاری بیوی لاجواب ہو گئی ہو؟ شیرو کیلئے یہ مشکل ترین سوال تھا اس نے بہت دیر تک دماغ پر زور ڈالا لیکن ایسا کوئی واقعہ اسے یاد نہیں آیا۔ بدلو نے سوال کیا۔ کیوں؟ کہاں گئی بدام اور چلغوزے والی یادداشت؟

شیرو بولا اس میں یادداشت کا کیا قصور؟

بدلو بولا اگر ایسا ہے تو یہ قابلِ شرم بات ہے۔ تمھاری اہلیہ تو تمھیں آئے دن لاجواب کرتی رہتی لیکن تم نے ایک بار بھی اسے ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰عبدل نے شیرو کی سب سے نازک رگ کو چھیڑ دیا تھا۔ وہ تلملا اٹھا۔ اس نے کہا ایسی بات نہیں۔ یہ تو ہوتا ہی رہتا ہے۔ میں تو یہ سوچ رہا تھا کہ ان بے شمار واقعات میں سے کون سا والا تمھیں سناؤں؟

بدلو ہنس کر بولا اس میں قدر غور و فکر کرنے کی کیا بات ہے کوئی سابھی سنا دو۔ اسے یقین تھا کہ شیرو اس کے جال سے نہیں نکل پائے گا۔

شیرو نے کہا ایک مرتبہ میری بیوی نے مجھ سے کہا اب تم پہلے جیسے نہیں رہے میرے سرتاج۔

بدلو بولا یہ تو ایک ایسا سوال ہے جو ہر بیوی اپنے شوہر سے نہ جانے کتنی بار کرتی ہے۔ جب اس کو کوئی مشکل کام نکالنا ہوتا ہے وہ اس سوال کے دام میں اپنے شوہر کو گرفتار کر لیتی ہے۔

شیرو پوچھا لیکن اس سوال میں بیوی کا کون سافائدہ پوشیدہ ہوتا ہے

بدلو بولا بھئی ویسے تو یہ نہایت فطری امر ہے۔ وقت کے ساتھ جو تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں ان پر کسی کا زور نہیں چلتا اس کے باوجود یہ سوال سن کر شوہر نامدار بلاوجہ ایک احساسِ جرم کا شکار ہو جاتا ہے اور اس کا فائدہ اٹھا کر بیوی اپنا کام نکال لیتی ہے۔ خیر یہ بتاؤ کہ تم نے اس کے جواب میں کیا کہہ کر ہماری بھابی کو لاجواب کر دیا؟

شیرو بولا میں نے کہا میری نورِ نظر تم نے شادی بعد چن چن کر میری ساری عادتیں بدل ڈالیں اور اب شکایت کر رہی ہو کہ میں پہلے جیسا نہیں ہوں۔

بدلو نے کہا میرے دو ست شیرو تم مجھے بے وقوف بنا رہے ہو۔ تم نے یہ بات نہیں کہی۔

شیرو نے چونک کے پوچھا یہ تمھیں کیسے پتہ کہ میں نے کیا کہا اور کیا نہیں کہا؟ جبکہ تم خود اعتراف کر چکے ہو کہ اس طرح کا سوال ہر بیوی اپنے شوہر سے کرتی رہتی ہے۔

بدلو بولا میں اس لئے یہ بات اتنے وثوق سے کہہ رہا ہوں کہ شادی سے قبل میں نے یہ لطیفہ سنا تھا لیکن جب بھی میری بیوی نے سوال کیا مجھے یہ سجھائی نہ دیا اور مجھے یقین ہے کہ جو کچھ میرے ساتھ ہوا وہی تمھارے ساتھ بھی ہوتا ہو گا۔ جب یہ سوال ہوتا ہے تو ہم سب کی سٹی گم ہو جاتی ہے اور ہم لوگ آئیں بائیں شائیں کرنے لگتے ہیں۔

بدلو بولا چلو تمھاری بات مان لیتا ہوں لیکن اب یہ تو بتاؤ کہ وہ کون سا حادثہ تھا جس کے تم شکار ہوتے ہوتے بچ گئے تھے۔

بدلو بولا یار تم نہیں مانو گے وہ در اصل شادی سے پہلے کی بات ہے جب ہمارا رشتہ طے ہو رہا تھا

شیرو کو موقعہ مل گیا وہ بولا بہت خوب کہیں تمہارا عشق وشق، پیار ویار کا معاملہ تو نہیں تھا یار تم تو بڑے چالو نکلے

نہیں شیر بھائی ایسی کوئی بات نہیں۔ در اصل شادی کے بعد ایک دن میں نے اپنی بیوی سے پوچھا کہ اس نے منہ دکھائی کے دوران وہ احمقانہ سوال کیوں کر دیا تھا جس کا مقصد میری سمجھ میں کبھی بھی نہیں آیا

میری بیوی نے چونک کر کہا اچھا تو تم نے بغیر سمجھے اس کا صحیح جواب کیسے دے دیا؟

میں بولا یونہی تکہ لگا دیا تھا میں نے۔ یہ سمجھ لو کہ غلطی سے وہ صحیح نشانے پر بیٹھ گیا

میری بیوی اس پر بہت ناراض ہوئی اور بولی کاش کہ اس بات کا پتہ مجھے اس وقت چل گیا ہوتا؟ اس وقت تو میں صاف انکار بھی کر سکتی تھی بلکہ کر دیتی۔

میں نے کہا کاش کے مجھے بھی پتہ ہوتا کہ تم کس جواب پر انکار کرنے والی تھیں۔ اگر مجھے پتہ ہوتا تو میں وہی جواب دیتا۔

کیا مطلب تم مجھ سے شادی کرنا نہیں چاہتے تھے؟ بیوی نے روہانسی آواز میں پوچھا۔ میں خاموش رہا لیکن وہ نہیں مانی اور مچل گئی مجھے قسم کھا کر سچ سچ بولنے پر اصرار کرنے لگی۔ بالآخر میں نے اعتراف کر لیا کہ میں واقعی اس سے شادی کرنا نہیں چاہتا تھا۔

اچھا تو تم کس کلموہی سے بیاہ رچانا چاہتے تھے۔ مجھے بھی تو پتہ چلے کہ وہ کون خوش قسمت تھی جس کا میری وجہ سے بھلا ہو گیا۔

میں گھبرا گیا اور بولا وہ کوئی نہیں تھی میرا مطلب تم بھی نہیں تھیں۔ میں کسی سے شادی نہیں کرنا چاہتا تھا۔

وہ بولی اچھا اگر ایسا ہے تو پھر تم نے مجھ سے شادی کیوں کی؟

اس لئے کہ میری ماں یہ چاہتی تھی۔

بیوی نے سر پکڑ لیا۔ وہ ٹھنڈی آہ بھر کر بولی کاش کے اس حقیقت کا علم مجھے اس وقت ہو گیا ہوتا کہ تم اپنی ماں کی وجہ سے میرے ساتھ شادی کرنے جا رہے ہو۔ اس صورت میں تو میں کسی حال میں تیار نہ ہوتی۔ لیکن یہ بتاؤ کہ پھر تمہارا جواب اس سے متضاد کیوں تھا؟ تم نے مجھ سے جھوٹ کیوں کہا؟

میں نے کہا اس توقع میں کہ اس جواب کو سن کر تم انکار کر دو گی

اچھا تو تم یہی چاہتے تھے کہ میں انکار کر دوں؟ کیوں؟ میری بیوی بگڑ کر بولی

میں نے اعتراف میں سر جھکا دیا اور وہ رونے لگی۔ وہ رو رو کر کہے جا رہی تھی تم جھوٹے ہو !دھوکے باز ہو!! مجھے پتہ ہوتا تو میں تمہارے ساتھ شادی کرنے کیلئے کبھی بھی تیار نہ ہوتی۔ تم نے یہ بات مجھ سے ابھی تک کیوں چھپائی۔ بتاؤ مجھے بتاؤ تم نے ایسا کیوں کیا؟ مجھے پتہ ہے کہ تم مجھ سے محبت نہیں کرتے بس ناٹک کرتے ہو ناٹک۔

میں پسیج گیا اور بولا میری جان یہ اس وقت کی بات ہے جب میں ناسمجھ تھا۔ اس بات سے واقف نہیں تھا کہ تم اس قدر سمجھدار اور وفا شعار زوجہ ہو۔ تمھیں قدرت نے کن کن خوبیوں سے متصف کر رکھا ہے۔ وہ تو مجھے بعد میں پتہ چلا کہ لوگ جنت کی حور پر اپنی زوجہ کو کیوں ترجیح دیتے ہیں۔

میری چکنی چپڑی باتوں کو سن کر میری بیوی ہنسنے لگی اور بولی خیر وہ تو اچھا ہی ہوا جو تم نے غلطی کی ورنہ میں بھی انکار کر کے اپنا کتنا بڑا خسارہ کر بیٹھتی۔ مجھے نہیں پتہ تھا کہ آپ اس قدر اچھے ہیں اگر پتہ ہوتا تو میں وہ سوال ہی نہیں کرتی

شیرو کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور وہ بولا یار بدلو تم بھی عجیب آدمی ہو گزشتہ نصف گھنٹے سے مجھے گھما رہے ہو لیکن یہ نہیں بتلاتے کہ آخر وہ سوال کیا تھا؟

بدلو بولا ارے چھوڑو بھی اس سوال کو اب دس سال بعد اس میں بھلا کیا رکھا ہے !

شیرو نے کہا دیکھو بدلو جلدی سے اس سوال کا جواب دو عصر کی اذان میں صرف آدھا گھنٹہ باقی رہ گیا ہے۔ اگر تم نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا تو مجھے نیند نہیں آئے گی اور میں خواب میں بھی تمہارے سوال کا جواب ڈھونڈتا پھروں گا۔

بدلو بولا بھئی شیرو تم بھی بڑے دلچسپ آدمی ہو بلکہ میں نے غلط کہہ دیادلچسپ پٹھان ہو۔

شیرو نے پوچھا کیوں پٹھان انسان نہیں ہوتا؟

بدلو بولا یہ میں نے کب کہا۔ پٹھان انسان تو ہوتا ہے مگر دلچسپ نہیں ہوتا۔ ابھی ابھی تم نے کہا کہ نیند نہیں آئے گی اور خواب میں جواب ڈھونڈو گے۔ کیا یہ بیک وقت ممکن ہے؟

شیرو بولا کیوں ممکن نہیں ہے۔ اس دور میں انسان چاند تک پہنچ چکا ہے۔ آج کل سب کچھ ممکن ہو گیا۔

بدلو بول اجی ہاں لیکن آدمی کو چاند پر بھی خواب دیکھنے کیلئے سونا لازمی ہے اگر نیند ہی نہیں آئے گی توتم خواب میں میرے سوال کا جواب کیسے تلاش کرو گے

شیرو نے جھنجھلا کر کہا دیکھو بدلو الفاظ سے نہ کھیلو یہ بتلاؤ کہ آخر وہ سوال کیا تھا ورنہ میں پاگل ہو جاؤں گا۔

بدلو بول جی نہیں اس کی ضرورت نہیں۔ وہ منہ دکھائی کا موقع تھا اس رسم کے دوران میری بیوی کے خالو بھی موجود تھے انہوں نے مجھ سے کہا اگر کوئی سوال پوچھنا ہو تو پوچھو میں خاموش رہا جس کے معنیٰ نہیں کے تھے۔

وہ بولے ٹھیک ہے تو تم اپنا فیصلے سے ہمیں آگاہ کر دینا۔

میں نے جواب دیا جی اچھا میں اپنی امی کو اپنا فیصلہ بتلا دوں گا۔ لیکن اس سے پہلے کہ محفل برخواست ہوتی میری ہونے والی بیوی خلاف توقع بول پڑی۔

اچھا؟ شیرو نے سوال کیا یہ تو غضب ہو گیا اس بے وقوف نے کہا کہہ دیا۔

وہی سوال جو تم بار بار پوچھے جا رہے ہو۔ وہ بولی کیا سوال کا حق یکطرفہ ہے؟

اس کے خالو یہ سن کر اسی طرح ہکا بکا رہ گئے جیسے کہ تم ابھی ہو

ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔ شیرو نے کہا آگے بتلاؤ کہ پھر کیا ہوا؟

پھر اس سے پہلے کہ اس کے خالو کچھ کہتے وہ مجھ سے مخاطب ہو کر بولی۔ کیا آپ یہ بتلانا پسند کریں گے کہ یہ شادی آپ اپنی پسند سے کر رہے ہیں یا اپنی امی کی پسند سے؟

اچھا تو تم نے کیا کہا؟

میں بولا اگر میں اس سوال کا جواب نہ دوں تو؟

آپ کی مرضی لیکن اس صورت میں میرا جواب آپ کو بہت جلد مل جائے گا اس لئے کہ میں کسی ایسے شخص سے نکاح نہیں کر سکتی جو اپنے دل کی بات زبان پر لانے سے گھبراتا ہو۔

اس کے اس فقرے نے میری مردانگی کو للکارا تھا۔ میں نے سوچا اچھا موقع ہے اس وقت میں ایک ایسا جواب دوں گا جس سے یہ ناراض ہو کر انکار کر دے گی اور میں اپنی امی کی ناراضگی سے بچ جاؤں گا۔

اس کی ناراضگی؟ اور اور تمہاری امی کی ناراضگی؟ بات کچھ سمجھ میں نہیں آئی شیرو نے سوال کیا .

بدلو بولا کمال کرتے ہو شیرو میں تو تمھیں بڑا ذہین آدمی سمجھتا تھا

شیرو نے کہا میری ذہانت کو بھاڑ میں ڈالو اور پہلے اس معمہ کو سلجھاؤ

ارے بھئی اس میں سمجھنے کی کیا بات ہے وہ میری امی کو پسند آ گئی تھی لیکن مجھے پسند نہیں تھی اب میں انکار کر کے اپنی امی کی دل آزاری نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن اگر وہ خود انکار کر دیتی تو میری جان چھوٹ جاتی

لیکن وہ تمہیں کیوں نہیں پسند تھی تمہارا کہیں اور کوئی چکر تھا کیا؟

اچھا تو تم نے بھی کر دی وہی عورتوں والی بات۔

اگر یہ بات نہیں ہے تو اصل بات کیا ہے؟

در اصل وہ چہرے سے مجھے احمق نظر آ رہی تھی اور میں پریشان تھا کہ اس بیوقوف لڑکی کو میری ماں نے کیوں پسند کر لیا اور میں اب اس سے کیسے پیچھا چھڑاؤں؟

لیکن اس کے اس سوال سے تو تمہاری غلط فہمی دور ہو گئی ہو گی؟ شیرو نے ایک اور سوال کر ڈالا

جی نہیں مجھے لگا اس احمق لڑکی نے سوال کر کے خود اپنے پیر پر کلہاڑی مارنے کا اہتمام کر لیا ہے اور میرے لئے بچ نکلنے کی راہ فراہم کر دی ہے

اچھا تو تم نے کیا جواب دیا اور کیوں؟

میں نے سوچا اگر میں یہ کہوں گا کہ میں اپنی امی کی نہیں بلکہ اپنی پسند سے شادی کر رہا ہوں تو یہ سوچے گی میں نافرمان اور بے مروت قسم کا انسان ہوں اور اس کے رد عمل میں وہ انکار کر دے گی۔

اچھا تو پھر کیا ہوا؟

ہوتا کیا جیسے ہی میں نے کہا امی ومی نہیں بلکہ میں تو اپنی پسند سے یہ شادی کرنے جا رہا ہوں وہ مسکرائی اور اٹھ کر اندر والے کمرے میں چلی گئی

اچھا پھراس کے بعد؟

اس کے خالو نے مجھ سے معذرت طلب کی اور بولے بیٹے اس کی بات کا برا نہیں ماننا میں اسے سمجھا لوں گا اور یہ کہہ کر وہ خود بھی اندر چلے گئے

اور پھر؟ شیرو کی بے چینی بڑھتی جا رہی تھی۔

ہونا کیا تھا۔ اس کے خالو نے اندر جا کر اسے سخت سست سنایا اور کہا اگر تمہیں یہی سب تماشہ کرنا تھا تو پہلے ہی انکار کر دیتیں۔ ہم سب کو غیروں کے آگے رسوا تو نہیں ہونا پڑتا، اب تمہاری اس بدزبانی سے ہم تو بعض آئے اس لئے خود ہی اپنے لئے رشتہ تلاش کر کے ہمیں بتا دینا ہم اپنی ناک کٹوا کر تمہارا نکاح کر دیں گے۔

میری بیوی نے پوچھا کیوں؟ کیا میرے سوال پر برہم ہو کر انہوں نے رشتہ کرنے سے انکار کر دیا؟

خالو بولے ان لوگوں نے تو نہیں لیکن تم نے جو انکار کر دیا .

وہ بولی یہ آپ سے کس نے کہا کہ میں نے انکار کیا اور وہ رونے لگی۔ اس کے خالو گھبرا گئے اور بولے معاف کرنا بیٹی میں غلط فہمی کا شکار ہو کر اول فول بکنے لگا۔ میں تم سے معذرت چاہتا ہوں اور ابھی منہ میٹھا کروا کر آتا ہوں۔

میں اس انتظار میں تھا کہ وہ شرمندہ اور پشیمان لوٹ کر آئیں گے اور میں ان کو دلاسہ دے کر خوشی خوشی لوٹ جاؤں گا لیکن ہوا اس کے بالکل بر عکس۔

اچھا!شیرو نے حیرت سے پوچھا

جی ہاں انہوں نے آتے ہی مٹھائی کا بڑا سا ٹکڑا میری جانب بڑھاتے ہوئے کہا بیٹے بہت بہت مبارک ہو۔ تم ہمارے سارے خاندان کو پسند ہو وہ تمہاری امی کو پسند ہے۔ اس لئے تمہیں بھی پسند ہے جبکہ تم بھی اسے پسند ہو اس لئے آئندہ ہفتہ ہم لوگ تمہارے گھر سگائی کی رسم ادا کرنے کیلئے آ جائیں گے۔

اچھا تو پھر تم نے کیا کیا؟ شیرو نے ہنس کر پوچھا

وہی کیا جو شادی بعد سے کرنا تھا

کیا مطلب میں سمجھا نہیں؟

اداکاری اور کیا؟ گو کہ میں دل سے اداس ہو گیا تھا لیکن چہرے پر میں نے ایک مصنوعی مسکراہٹ چپکا لی اور ہنستا مسکراتا اپنے گھر لوٹ آیا۔

بدلو سب تو ٹھیک ہے لیکن اس سوال کی ضرورت و اہمیت اب بھی میری سمجھ میں نہیں آئی؟ آخر اس میں ایسی کیا بات تھی کہ تمہاری بیوی نے اپنی زندگی کے اہم ترین فیصلے کو اس سے منسلک کر دیا؟

شیرو اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں۔ اس سوال کی وجہ نہ تو میری سمجھ میں آئی اور نہ اس کے خالو کی۔ اصل بات تو یہ ہے کہ اس سوال کا مطلب کوئی عورت ہی سمجھ سکتی ہے یہ ہم مردوں کے بس کی بات نہیں ہے۔

اچھا وہ کیسے؟

میں نے سگائی کے بعد ایک دن تنہائی میں اپنی بہن سے اس سوال کے بارے میں پوچھ لیا

اچھا تو وہ کیا بولی

اس نے بلا توقف جواب دیا بھیا آپ بھی نرے احمق ہیں۔ در اصل ہماری ہونے والی بھابی یہ نہیں چاہتیں کہ آپ اپنی امی کی پسند سے نکاح کریں بلکہ ان کی خواہش ہے کہ آپ خود اپنی مرضی سے انہیں پسند کریں۔

میں نے پوچھا کہ بہن اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟

وہ بولی آپ کو نہیں لیکن ہمیں پڑتا ہے؟ کسی اور کے طفیل کسی کی زندگی میں جانا اور خود اپنے بل بوتے پرکسی کے دل کو مسخر کرنا کیا یکساں ہے؟

اس سوال کی طرح میری بہن کی منطق بھی میری سمجھ میں نہیں آئی۔

شیرو نے کہا لیکن شادی کے بعد تم نے اپنی بیوی سے اس سوال کی وجہ دریافت کیوں نہیں کی؟

کیوں نہیں بالکل کی اسی نشست میں جس کا میں نے شروع میں ذکر کیا تھا میں اپنی بیوی سے اس بارے میں استفسار کیا

اچھا تو کیا اس نے بھی وہی جواب دیا جو تمہاری بہن کا تھا؟

جی نہیں بلکہ مجھے حیرت ہے کہ میری بیوی کا جواب بالکل مختلف تھا

اچھا ! تو وہ کیا تھا؟

میری بیوی نے بتلایا کہ ہر کوئی اس سے میری سعادتمندی کی تعریف کرتا تھا۔ اس کے والدین کے نزدیک میری سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ میں اپنی امی کا اس قدر فرمانبردار بیٹا ہوں کہ میں نے بغیر دیکھے سمجھے ان سے اتفاق کر لیا۔ حالانکہ میری بیوی کیلئے یہ خوبی نہیں بلکہ عیب تھا۔ وہ کسی امی کے ایسے سعادتمند بیٹے بیاہ نہیں کرنا چاہتی تھی جو آنکھ موند کر اپنی امی کی فرمانبرداری کرتا ہو بلکہ وہ تو ایسے پر وقار اور با اعتماد شخص کی پناہ میں آنا چاہتی تھی جو اپنے فیصلے سوچ سمجھ کر خود کرتا ہو اسی لئے اس نے یہ سوال کیا تھا۔

بہت خوب بدلو کی بات سن کر شیرو نے کہا سچ تو یہ ہے کہ عورت ذات اپنے آپ میں ایک ایسا معمہ ہے کہ اسے ہم لوگ نہ سمجھ سکے ہیں اور نہ کبھی سمجھ سکیں گے، اور ہم مردوں کی کیا بساط ایک عورت بھی دوسری عورت کو سمجھ نہیں پاتی.

جی شیر بھائی بلکہ میرات و خیال ہے وہ خود بھی اپنے آپ کو سمجھنے سے قاصر ہے۔

بدلو کا یہ جملہ ابھی پورا بھی نہیں ہوا تھا کہ عقب سے آواز آئی آپ لوگ اس عمر میں بھی عورتوں کی باتیں کرتے ہیں آپ کو شرم نہیں آتی۔

شیرو نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور بولا اس میں کیا حرج ہے ہم کسی غیر عورت کی بات تھوڑی نہ کرتے ہیں۔ اپنی بیوی کی بات کرنا بھی گناہ ہے کیا؟

بدلو بھی شیر بن گیا اور بولا آپ نے چھپ کے ہماری بات سنی کیا یہ درست بات قابلِ شرم نہیں ہے؟

وہ اجنبی عورت تو سوچ رہی تھی کہ میں نے ان دونوں کو رنگے ہاتھ پکڑ لیا اب ان کی خوب کھنچائی کروں گی لیکن یہاں تو بازی الٹ گئی وہ سٹپٹا کر بولی بھئی کانوں پر کوئی شٹر تو ہے نہیں میں یہاں اپنے جوتے سلوانے کیلئے آئی تو آپ کی بات کان میں پڑ گئی اس میں میرا کیا قصور؟

شیرو سمجھ گیا کہ وہ اس کی گاہک ہے۔ وہ بولا قصور نہ آپ کا ہے نہ ہمارا خیر کہیے میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں۔

وہ بولی یہ میرے جوتی کنارے سے ذرا سی کھل گئی ہے اسے درست کر کے ٹھیک ٹھاک پالش کر دو۔ بالکل چمکدار میں ابھی سبزی خرید کر آتی ہوں۔ یہ کہہ کر اس نے اپنے ہاتھ کی تھیلی شیرو کو تھمائی اور دوسری جانب مڑی۔

بدلو نے آہستہ سے کہا دیکھا بوڑھی گھوڑی لال لگام اسی کو کہتے ہیں۔

اس عورت نے پیچھے مڑ کر کہا کیا؟ بدلو ڈر گیا وہ بولا کچھ نہیں میں در اصل آپ سے نہیں ان سے کہہ رہا تھا۔

وہ بولی لیکن میرے متعلق کہہ رہے تھے۔ اس عمر میں ۰۰۰۰۰۰۰۰۰

بدلو بولا آپ بھی تو۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

عورت بولی میں بھی کیا؟

بدلو گھبرا گیا۔ وہ بولا یہی کہ اپنے جوتوں کا کس قدر خیال رکھتی ہیں۔

وہ عورت بولی تم مجھے نہیں جانتے میں اس اسکول کی نئی پرنسپل ہوں اور کل میں نے سارے اساتذہ کو ہدایت کی ہے وہ صاف ستھرے کپڑے پہن کر اسکول آئیں اور بچوں کو بھی اس کی تاکید کریں۔ اب کیا یہ مناسب ہے کہ میں دوسروں کو جس بات کی تلقین کروں اس پر خود عمل نہ کروں؟

شیرو بولا معاف کیجئے یہ بے وقوف عقل سے پیدل ہے۔ میں اس کی طرف سے معذرت چاہتا ہوں لیکن آخر کل ایسا کیا خاص ہے جو۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

وہ خاتون بولی ارے تم نہیں جانتے کل یوم آزادی ہے۔ سارے شہر میں اس کی تیاری چل رہی ہے۔ رات چراغاں کیا جائے گا۔ صدر مملکت قوم سے خطاب فرمائیں گے۔ اس کے بعد کل فوجی پریڈ ہو گی اس کے وزیر اعظم کی تقریر ہو گی جو ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے بھی نشر ہو گی۔ ساری سرکاری عمارتوں میں قومی پرچم لہرایا جائے گا۔ اسکولوں میں خصوصی تقریبات کا انعقاد ہو گا۔ اتنا سب ہو گا اور تمھیں کچھ نہیں معلوم آخر تم لوگ کس دنیا میں رہتے ہو؟

بدلو اور شیرو اس بن مانگے کی برسات میں بھیگ کر پانی پانی ہو گئے۔ بدلو بولا ہم بھی اسی دنیا میں رہتے ہیں لیکن ہمیں کسی نے بتایا ہی نہیں۔ وہ تو خیر آپ کے پھٹے ہوئے جوتے کی بدولت ہماری معلومات میں بیش قیمت اضافہ ہو گیا۔

وہ خاتون پہلی مرتبہ مسکرائی اور بولی جی نہیں یہ جوتے کا نہیں بلکہ جملے کا کمال ہے۔

شیرو بولا میں سمجھا نہیں میڈم؟

وہ بولی دیکھو اگر تمھارا دوست وہ فقرہ نہ کستا تو نہ میرا پارہ چڑھتا اور نہ میں یہ تقریر کرتی خیر جو ہوا اچھا ہوا اب جلدی سے اپنا کام کرو۔

کچھ دیر بعد جب وہ واپس آئی تو اس کا جوتا آئینہ کی طرح چمک رہا تھا شیرو نے دل لگا کر اسے چمکایا تھا۔ اس نے پوچھا کتنے روپئے ہوئے؟

شیرو بولا آپ شرمندہ کرتی ہیں۔ ابھی تو آپ نے کہا تھا کہ یوم آزادی قومی تہوار ہے۔ جیسے یہ آپ کا ہے ہمارا بھی ہے۔ چونکہ آپ نے اسے جشن آزادی کیلئے بنوایا ہے میں اس کی اجرت کیسے لے سکتا ہوں؟

اسکول کی پرنسپل بولی نہیں نہیں۔ تم کو اپنی محنت کا صلہ تو لینا ہی چاہئے۔

بدلو بیچ میں بول پڑا جی ہاں بائی جی میں بھی یہی کہتا ہوں۔ اگرگدھاگھاس سے دوستی کرے گا تو کھائے گا کیا؟

شیرو نے ڈانٹ کر کہا تو چپ کر تیری بے لگام زبان کی وجہ سے میری بڑی خواری ہوئی ہے۔ اگر گدھا ایک دن گھاس نہ کھائے تو کیا مر جائے گا؟

بدلو بولا تو کیا تو جشن آزادی کے دن روزہ رکھے گا؟

شیرو بولا روزہ تو نہیں رکھوں گا لیکن میں کل آزادی کا جشن اس طرح مناؤں گا کہ کسی سے پیسے نہیں لوں گا۔ اس کے بعد وہ اس خاتون کی جانب دیکھ کر بولا میڈم میں ایک غریب آدمی ہوں۔ کیا میں اتنا بھی نہیں کر سکتا؟

شیرو کے منھ سے یہ جملہ سن کر پرنسپل کی آنکھیں بھر آئیں وہ بولی کیوں نہیں کر سکتے؟ تم بہت کچھ کر سکتے ہو لیکن جو کرنا ہے کل کرنا آج تو پیسے لے لو۔

شیرو نے سرجھکا کر کہا میں آپ سے پیسے کیسے لے سکتا ہوں؟ آپ نے مجھے آزادی کے شعور سے نوازہ ہے۔ میں آپ کا۰۰۰۰۰۰۰۰

پرنسپل بولی شیرو تم نے مجھ سے الفاظ چھین لئے۔ میں گوں گی ہو گئی ہوں۔ یہ بتاؤ کہ اس انوکھے جشن آزادی میں تمھاری میں کیا مدد کر سکتی ہوں؟

بدلو بولا آپ یہ کریں کے اپنے بچوں کے ہاتھ ایک بورڈ لکھوا کر بھجوا دیں تاکہ لوگوں کو پتہ تو چلے کہ آزادی کے دن یہ خدمت مفت ہے۔

پرنسپل نے بدلو کی جانب دیکھ کر کہا یہ تم نے پہلی کام کی بات کہی ہے اگر شیرو کو اعتراض نہ ہو تو میں یہ کام بصد شوق کر سکتی ہوں۔

شیرو بولا مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ یہ تو میرے لئے سعادت ہے۔

پرنسپل چلی گئی۔ بدلو سوچنے لگا یہ شیرو پاگل تو نہیں ہو گیا ہے؟ کچھ دیر غور و فکر کرنے کے بعد اس کی سمجھ میں آیا کہ پاگل شیرو نہیں ہوا ہے بلکہ بدلو شیخ پاگل ہے اب وہ شیرو کے بورڈ کا انتظار کرنے لگا اس کا ذہن ایک خاص سمت میں چل پڑا تھا۔ تقریباً ً ایک گھنٹے بعد اسکول کے دو بچے ایک بورڈ لے کر آئے جس پر قومی پرچم بنا ہوا تھا اور لکھا تھا یوم آزادی مبارک۔ آج کے دن جوتوں کی مرمت مفت ہو گی۔ بدلو نے ان بچوں سے پو چھا یہ بورڈ تم لوگوں نے لکھا ہے؟

بچے بولے نہیں ہم تو صرف پہچانے آئے ہیں۔ یہ تو بڑی جماعت کے طلباء کا لکھا ہے۔ کیوں اس میں کچھ غلطی تو نہیں ہے؟

شیرو بولا یہ کون سا عالم فاضل ہے جو اس میں غلطی پکڑے گا بچو تم جاؤ اور اپنی پرنسپل صاحبہ کو ہماری جانب سے شکریہ کہہ دینا۔

بدلو نے پوچھا کیوں تم لوگ ایسا بورڈ نہیں لکھ سکتے؟

بچے بولے لکھ تو سکتے ہیں لیکن اتنا اچھا نہیں اور پھر اس طرح کا کارڈ بورڈ، رنگ، برش وغیرہ ہے تمھارے پاس؟

شیرو نے بدلو کا چہرہ دیکھا گویا کہہ رہا ہو دنیا میں عقل بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ بدلو بولا بچو چلو میں بھی تمھارے ساتھ چلتا ہوں۔ بدلو جب اسکول میں پہنچا تو وہاں دوسرے دن کی تیاریاں زور و شور سے چل رہی تھی۔ کچھ بچے گا بجا رہے تھے کچھ کرتب دکھلا رہے تھے۔ اساتذہ مختلف قسم کے بورڈس وغیرہ بنوا رہے تھے ایک ہنگامہ برپا تھا۔ بدلو نے بچوں سے پوچھا وہ تمھاری پرنسپل صاحبہ۰۰۰۰۰۰۰۰۰؟

بچوں نے کہا وہ فی الحال تو دفتر میں نہیں ہیں لیکن یہیں ساتھ میں پرنسپل کا مکان ہے جس میں وہ رہتی ہیں آپ بولو تو ان کو خبر کروں؟

بدلو نے کہا ناراض تو نہیں ہو جائیں گی؟

بچہ بولا ناراض ہوں گی بھی تو ہم پر۔ تمھیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟

بدلو نے پوچھا اور تمھیں؟

بچہ بولا ہمیں بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔

بدلو نے کہا اگر ایسا ہے تو جاؤ دیکھو کیا ہوتا ہے۔

بدلو اپنے خیالات میں گم تھا کہ بچے واپس آ گئے۔ ان لوگوں نے کہا میڈم نے آپ کو اپنے گھر پر بلایا ہے۔ بدلو ان کے ساتھ جب پرنسپل کے گھر پہنچا تو انھوں نے پوچھا کیوں بدلو خیریت تو ہے؟

بدلو سیدھے اپنے مطلب پہ آ گیا وہ بولا جی ہاں در اصل مجھے بھی ویسا ہی ایک بورڈ چاہئے۔

پرنسپل مسکرا کر بولیں تمھیں؟ کیا تم لوگوں کے بکرے مفت میں کاٹو گے۔ کل تو عید ہے نہیں؟

بدلو بولا میں آپ کی بات نہیں سمجھا میڈم

پرنسپل بولی بھئی ہمارے یہاں عید الالضحی یا شادی بیاہ کے علاوہ تو کوئی بکرے کٹواتا نہیں ہے؟ اور کل نہ بڑی عید اور نہ کسی کی شادی بلکہ یوم آزادی ہے۔

بدلو بولا مجھے پتہ ہے لیکن یوم آزادی کے دن لوگ گوشت تو کھاتے ہیں۔ میں کل سب کو گوشت مفت دوں گا۔

پرنسپل نے دیکھا بدلو نہایت سنجیدہ ہے۔ اس نے بدلو کو سمجھاتے ہوئے کہا بدلو پاگل نہ بنو شیرو کی صرف محنت ہے لیکن تم نے بکرے خریدے ہیں۔ اس لئے جذبات میں بہہ کر اپنا نقصان نہ کرو۔

بدلو بولا معاف کرنا میڈم میں اپنا فائدہ نقصان جانتا ہوں۔ اگر آپ بورڈ نہیں بنوا سکتی ہیں تو کوئی بات نہیں میں کسی پینٹر سے ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

پرنسپل نے درمیان میں ٹوک دیا اور بولی نہیں ایسی بات نہیں تم میرے دفتر میں بیٹھو میں ابھی آئی۔

پرنسپل نے بچوں سے ایک اور بورڈ بنانے کیلئے کہا جس پر لکھا تھا آج گوشت مفت ملے گا۔ یہ تلقین بھی کی کہ سب کام چھوڑ کر سب سے پہلے یہ کرو اور جب بن جائے تو اسے لے کر میرے دفتر میں آؤ۔ اس کے بعد وہ اپنے دفتر میں آ گئیں جہاں بدلو بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے بدلو کو سمجھایا دیکھو میں جانتی ہوں یہ چھوٹا سا گاؤں ہے پھر بھی تم کتنے لوگوں کو مفت گوشت دو گے مجھے تو ڈر ہے تمھاری دوکان میں کل بھگدڑ مچ جائے گی۔

بدلو بولا میرے پاس کل تین بکرے بندھے ہیں جب ان کا گوشت ختم ہو جائے گا تو میں بعد میں آنے والوں سے معذرت چاہ لوں گا۔

پرنسپل نے سوچا ان متوالوں کو سمجھانا محال ہے۔ وہ بولی دیکھو میں تم دونوں کے بے لوث جذبات کی قدر کرتی ہوں لیکن مشورہ یہ ہے کہ تم ہر ایک کو تھوڑا سا گوشت دینا تاکہ زیادہ لوگ فائدہ اٹھا سکیں۔ اس بچے بیچ بورڈ بنا کر لے آئے۔ بدلو اسے اپنے ساتھ لے کر دوکان پر لوٹ آیا۔ بدلو اور شیرو پہلے تو اساتذہ اور طلباء کے درمیان موضوع بحث بنے اور پھر ان کے والدین کے ذریعہ سارے گاؤں میں ان کا چرچا ہونے لگا۔ اس لئے کہ خود پرنسپل صاحبہ نے اپنی تقریر میں بڑے جوش کے ساتھ ان کا ذکر کیا تھا اور لوگوں کو ان سے ایثار و قربانی سے ترغیب دلائی۔

دوسرے دن بدلو نے اپنا پہلا بکرا ذبح کیا تو اس کا گوشت دیکھتے ہی ہوا ہو گیا۔ لوگوں کو یقین نہیں آ رہا تھا کئی لوگ آزمائش کیلئے آئے تھے بدلو ان سے گھر میں موجود افراد کی تعداد پوچھتا اور اس حساب سے گوشت تھما دیتا۔ جب بدلو دوسرا بکرا ذبح کر رہا تھا تب تک یہ بات سر کاری حکام تک بھی پہنچ گئی اور وہ لوگ سوچنے لگے کہ بدلو اکیلا کتنے لوگوں کو مفت میں گوشت کھلا پائے گا۔ پنچایت کے ارکان میں سے ایک بکروں کا بڑا بیوپاری بھی تھا اس نے پیشکش کی کہ میں اپنی طرف سے ایک ٹمپو بھر کے بکرے بدلو کی دوکان پر بھجوا دیتا ہوں۔ حاضرین محفل نے سیٹھ کروڑی مل کے اس بے پایاں جذبۂ ایثار کی تعریف کی۔

اس گاؤں اور بھی گوشت کی دوکانیں تھیں جن پر قصائی مکھی مار رہے تھے کوئی گاہک پھٹکنے کا نام نہیں لے رہا تھا جس وقت انہیں پتہ چلا کہ بدلو مفت میں گوشت بانٹ رہا ہے تو ان کو یقین ہو گیا آج ان کی دوکان میں کوئی نہیں آئے گا اور جب انہیں پتہ چلا کہ پنچایت نے دو درجن بکرے بدلو کے پاس بھیج دئیے ہیں تو انہیں یقین ہو گیا کہ آج گاہکوں کا انتظار فضول ہے۔ اس لئے وہ بھی بدلو کا ہاتھ بٹانے کیلئے اس کی دوکان پر آ گئے۔ اب نہ بکروں کی کمی تھی اور نہ قصابوں کی۔ سب سے بڑھ کر بات یہ تھی کہ گوشت لے کر جانے والوں کی لمبی قطار میں جتنے لوگ کم ہوتے اتنے ہی بڑھ جاتے۔ اس دوران لائن میں کھڑے ہوئے لوگ اپنے جوتوں کی مفت میں مرمت بھی کروا لیتے تھے۔

شام ہوتے ہوتے سارا کھیل ختم ہو گیا۔ اب نہ وہاں بکرے تھے نہ گاہک اور نہ قصائی۔ بدلو اور شیرو بھی دوکان سمیٹ کر گھر روانہ ہونے کی تیاری کر رہے تھے کہ پولس کی ایک گاڑی آ کر رکی۔ ان دونوں نے ایک دوسرے کی جانب حیرت سے دیکھا لیکن ایک سپاہی نے ان کے قریب آ کر پوچھا بدلو اور شیرو کون ہے؟ شیرو نے اپنی اور بدلو کی جانب اشارہ کر دیا۔ سپاہی بولا تو چلو گاڑی میں بیٹھو۔

بدلو بولا گاڑی میں؟ ہم نے کوئی جرم نہیں کیا ہم اس گاڑی میں کیوں بیٹھیں؟

سپاہی نے کہا تو کیا تمھیں ہم مجرم نظر آتے ہیں؟

شیرو بولا آپ کیسی باتیں کرتے سرکار؟ آپ تو ۰۰۰۰۰۰

وہی تو ہم لوگ بھی تو اس گاڑی میں آئے اور اسی میں بیٹھ کر واپس جائیں گے۔

بدلو نے کہا لیکن سرکار آپ تو آپ ہیں اور ہم ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

سپاہی نے اپنا ڈنڈا زمین پر ٹھونک کر کہا شرافت سے بیٹھو گے یا؟

بدلو اور شیرو کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔ گاڑی جب کچھ دور چلی گئی تو شیرو نے ڈرتے ڈرتے پوچھا جناب ہمارے خلاف کسی نے غلط شکایت تو نہیں درج کروا دی۔ ویسے بھی آج یومِ آزادی اور آپ ہم لوگوں بلا وجہ قید کر رہے ہیں۔

دوسرا سپاہی جو گاڑی کے اندر بیٹھا تھا بولا کیا اس نے تمھیں گرفتار کرنے کی جرأت کی ہے؟

پہلا سپاہی بولا نہیں صاحب میں نے کب انھیں گرفتار کیا۔ یہ لوگ شرافت سے آ نہیں رہے تھے تو بس تھوڑا سا ۰۰۰۰۰۰آپ تو سمجھتے ہیں نا صاحب؟

بدلو اور شیرو کی سمجھ میں یہ ماجرا نہیں آ رہا تھا۔ شیرو نے سوال کیا جناب ہم لوگ کہاں جا رہے ہیں؟

دوسرا سپاہی قہقہہ لگا کر بولا تم لوگ اپنی سسرال جا رہے ہو۔

یہ سن کر بدلو اور شیرو دونوں کو سانپ سونگھ گیا۔ اس لئے کہ ان کے بول چال کی زبان میں جیل کے لئے سسرال کا مخفف استعمال ہوتا تھا۔ کچھ دیر کے بعد بدلو ہمت جٹا کر بولا صاحب ہم شریف لوگ ہیں آپ چاہیں تو پرنسپل صاحبہ سے پوچھ سکتے ہیں۔

سپاہی بولا پرنسپل سے کیوں؟ کیا وہ تمھاری ساس لگتی ہے؟

شیرو بولا جی نہیں صاحب آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں۔ ساس نے بھی کبھی اپنے داماد کی تعریف کی ہے۔ آپ ان بچوں سے پوچھ لیں جو ہمارے پاس آئے تھے؟

کون بچے کیا وہ تمھارے داماد ہیں؟

دوسرا سپاہی ان دونوں کی پریشانی بھانپ گیا اور وہ بولا در اصل ہمارے صاحب ہمیشہ اپنے سسرالی رشتے داروں میں کھوئے رہتے اس لئے ہم ان کی بات کا برا نہیں مانتے۔

بدلو بولا اب سمجھا تب تو ہم ان کی سالی کے گھر جا رہے ہیں۔

پہلاسپاہی گھبرا کر بولا اوئے بیوقوف کیوں میری نوکری کا دشمن بنا ہوا ہے؟ ہم لوگ کلکٹر کی کوٹھی پر جا رہے ہیں اگر ان کو پتہ چل گیا کہ میں نے اسے اپنی سالی کا گھر کہا ہے تو وہ مجھے گولی مار دیں گے۔

شیرو بولا کیا انہیں پتہ نہیں ہے کہ تم ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

سپاہی نے غصے سے کہا تو اپنی چونچ بند کر ورنہ میں اپنے جوتے سے تجھے گنجا کر دوں گا۔

بدلو بولا صاحب یہ تو پہلے سے ہی گنجا ہے۔ ویسے آپ کا جوتا میرا سر اور اگر درمیان میں وہ پھٹ جائے تو آج شیرو اسے مفت میں سل دے گا۔

آج ہی کیوں؟ سپاہی بولا ہم سے اجرت لینے کی جرأت اس گاؤں میں کون کر سکتا ہے؟

شیرو بولا جی ہاں سرکار ہم لوگ سال میں ایک دن کیلئے آزاد ہوتے ہیں مگر آپ ! آپ کے کیا کہنے آپ تو ہر روز آزادی کا جشن مناتے ہیں۔

دوسرے سپاہی نے جواب دیا جی نہیں شیرو لامحدود آزادی کسی نہیں حاصل۔ اگر تم اسے اپنی بیوی کے آگے دم ہلاتے دیکھ لو تو کہو گے یہ بندہ تو جانتا ہی نہیں کہ آزادی کس چڑیا کا نام ہے؟

گاڑی ایک شاندار کوٹھی کے سامنے رک گئی۔ دروازہ کے اندر شاندار شامیانہ بجلی کے قمقموں سے جگمگا رہا تھا۔ معززین شہر ایک ایک کر کے اندر آتے اور اپنی اپنی نشستیں سنبھال لیتے۔ بدلو اور شیرو ایک جانب کھڑے ہو کر یہ مناظر حیرت سے دیکھ رہے تھے کہ ان کے عقب سے ایک رعب دار آواز آئی اچھا تو بدلو اور شیرو تم ہو؟ دونوں نے عقیدت سے سر جھکا دیا۔ سرپنچ نے دونوں سے مصافحہ کیا اور انہیں اپنے ساتھ اسٹیج پر لے گئے۔ یوم آزادی کی خصوصی دعوت تو ہر سال اسی طرح منائی جاتی تھی لیکن اس جشن میں اس بار شیرو اور بدلو بھی شامل ہو گئے تھے۔ اسٹیج پر بیٹھنے کے بعد شیرو نے بدلو سے پوچھا وہ گیٹ پر بڑا سا بینر کس چیز کا لگا ہوا تھا؟

بدلو بولا اس میں سیلاب زدگان کی مدد کیلئے اپیل کی گئی تھی۔ لکھا ہے لوگ اپنی اعانت سرپنچ کے دفتر میں جمع کروا سکتے ہیں جو اسی کوٹھی میں واقع ہے۔

اس بیچ تقاریر کا سلسلہ شروع ہو گیا مختلف لوگ اظہار خیال فرما رہے تھے۔ آخر میں ناظمِ شہر نے بدلو اور شیرو کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان دونوں کی بدولت آج پورے گاؤں نے بڑے جوش و خروش کے ساتھ آزادی کا جشن منایا۔ یہ خبر ہمارے وزیر اعلیٰ تک بھی پہنچی اور انھوں نے مجھے حکم دیا کہ میں ان کی پذیرائی کروں اور حکومت کی جانب سے دس ہزار روپئے نذرانۂ عقیدت کے طور پر ان کی خدمت میں پیش کروں۔

شیرو اس اعلان کو سن کر چونک پڑا وہ بولا لیکن سرکار ہم نے کسی انعام کی خاطر تو۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

بدلو بولا صاحب ہم غریب لوگ ہیں۔ ابھی تک ہم سیلاب زدگان کے فنڈ میں کوئی رقم نہیں جمع کر سکے لیکن آج، آج میں یہ انعام کی رقم ان لوگوں کیلئے ۰۰۰۰۰۰۰۰بدلو کی زبان رک گئی

شیرو صرف یہ کہہ سکا، میں بھی ۰۰۰۰۰۰ناظم صاحب میں بھی۔

سارے لوگوں کی آنکھیں نم تھیں بدلو اور شیرو نے جشنِ آزادی کا لطف دوبالا کر دیا تھا۔









حصار



ناسا کی خلائی مشین ’’انکشاف ۱۰۱‘‘ نہایت تیزی سے مشتری کی جانب رواں دواں تھی۔ آج عالمی تعطیل کا دن تھا۔ تمام اسکول اور کاروبار بند تھے۔ روئے زمین کا بچہ، جوان بوڑھے اور خواتین سب ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھے ابن آدم کی اس عظیم کامیابی کو اپنی آنکھوں میں بسا لینا چاہتے تھے۔ اس مہم میں لوگوں کی غیر معمولی دلچسپی ایک خاص وجہ سے تھی۔ چند سال قبل مشتری سے ایک اُڑن طشتری زمین پر پہونچی اس میں سے چند لوگ اترے انہوں نے اپنا جھنڈا نصب کیا اور ایک خودکار لیب یہاں چھوڑ کر واپس چلے گئے۔

یہ لیباریٹری نہایت جدید سائنسی شاہکار تھی زمین کے سائنسدانوں کو اسے کھولنے میں کئی دن لگے اور جب اس میں کامیاب ہو گئے تو ایک عظیم دھماکہ رونما ہوا جو اس لیب کے ساتھ ساتھ اس کے کھولنے والوں کو بھی نگل گیا۔ زمین کے سائنسدانوں کے لیے یہ ایک عظیم چیلنج تھا۔ عالمی سائنسی برادری نے اسے قبول کیا اور خلائی تحقیق کا رُخ مشتری کی تسخیر کی جانب مڑ گ یا۔ اس واقعہ نے پہلی مرتبہ زمین والوں کو احساس دلایا تھا کہ ان سے بہتر مخلوق بھی کائنات میں موجود ہے۔

اس سانحہ کو سائنسدانوں نے اسے اپنی توہین گردانا اور ’’ہم کسی سے ہم نہیں ‘‘ کی جد و جہد میں لگ گئے۔ لیکن یہ مہم آسان نہ تھی۔ پے در پے ناکامیوں کے بعد اس بار یقین کامل تھا کہ خلائی طیارہ ’’انکشاف ۱۰۱‘‘ ضرور مشتری پر اترے گا۔ وہاں اہل زمین کا جھنڈا نصب کرے گا اور اپنی حزیمت کا بدل اچکا دے گا۔ ساری دنیا کے انسانی جذبات اس مہم سے وابستہ کر دیئے گئے تھے ہر شخص یہ محسوس کر رہا تھا گویا وہ خود اس مہم میں شریک ہے بلکہ اکثر ایسا محسوس کر رہے تھے گویا وہ خلائی طیارے کے اندر ہیں۔

لوگ ٹیلی ویژن کی مدد سے اپنے گھر میں بیٹھے بیٹھے طیارے کے اندر کے احوال سے واقف ہو رہے تھے۔ طیارے میں موجود خلا باز بھی بہت خوش تھے وہ اپنے کو ساری دنیا کے لوگوں کا نمائندہ محسوس کر رہے تھے وہ اپنے ٹیلی ویژن اسکرین پر دنیا کے مختلف چینل دیکھ سکتے تھے آج ہر چینل چاہے وہ سائنسی ہو یا تفریحی، خبریں نشر کرنے والا ہو کھیل دکھلانے والا ہر کوئی خلائی سفر نشر کر رہا تھا۔ ہر ایک کے اپنے اناؤنسر ان تصویروں کے پیچھے کمنٹری دے رہے تھے۔ ہر ایک کا اپنا منفرد انداز تھا۔ اپنا لہجہ اور اپنی سوچ تھی جو ایک دوسرے سے مختلف تھی لیکن اسکرین پر دکھلائی جانے والی تصویریں یکساں تھیں۔ ان سب کا اس بات پر اتفاق تھا کہ ابھی چند لمحہ میں ہمارا ’’انکشاف ۱۰۱‘‘ مشتری کی تسخیر کرے گا۔

اس دوران اچانک پردے سے انکشاف غائب ہو گیا اور اس کے اندرونی و بیرونی مناظر سے رابطہ ٹوٹ گیا۔ اب صرف مشتری دکھلائی دیتا تھا لیکن انکشاف کا کہیں اتا پتہ نہیں تھا۔ سبھی نے اپنے اپنے انداز سے رابطہ کے ٹوٹ جانے کا اعتراف کیا اور جلد ہی اس کے قائم ہو جانے کی امید دلا کر ناظرین کو اشتہارات سے بہلانے لگے۔ اشتہارات کو کئی بار دکھلانے کے باوجود جب رابطہ قائم نہ ہو سکا تو انکشاف کی تیاری پر مبنی ڈاکو مینٹری سے ناظرین کو مصروف کر دیا گیا لیکن لوگ ماضی میں نہیں مستقبل میں دلچسپی رکھتے تھے۔ انہیں ناکامی نہیں بلکہ کامیابی سے غرض تھی اس لیے لوگوں نے ٹیلی ویژن بند کرنے شروع کر دیئے۔

ٹیلی ویژن چینلس کے ناشرین بھی اپنے گھسے پٹے پروگراموں پر آ گئے کہیں فلم تو کہیں میچ دکھلائی جانے لگی۔ خبروں کے چینلس نے ناسا کے سائنسدانوں کی رائے حاصل کرنا شروع کر دی۔ ابتداء میں تو وہ پُر اُمید تھے لیکن آہستہ آہستہ ان لوگوں نے اپنی ناکامی کا اعتراف کر لیا۔ اب خبروں والے خلا بازوں کی جانب متوجہ ہوئے۔ ان کے نمائندے خلا بازوں کے اہل خانہ اور رشتہ داروں تک پہونچ گئے ان کی تعریف و توصیف، غم و اندوہ اور ماتم کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

ادھر خلائی جہاز میں کیفیت بالکل مختلف تھی۔ گو کہ زمین کا رابطہ ان سے ٹوٹ چکا تھا لیکن ان کا رابطہ زمین سے قائم تھا۔ وہ لوگ مختلف چینلس پر اپنی بربادی کا ماتم دیکھ رہے تھے دنیا بھر کے لوگوں کے تعزیتی پیغامات جو خود ان کے اپنے لیے تھے وصول کر رہے تھے۔ یہ عجیب و غریب صورت حال اس لیے پیدا ہوئی تھی کہ ساری دنیا جنہیں مردہ سمجھ رہی تھی وہ زندہ تھے۔ در اصل ظاہر پرستی کا یہ المیہ ہے کہ جو چیز آنکھوں کے سامنے ہو اسے تو وہ موجود تسلیم کر لیا جاتا ہے لیکن جو شئے آنکھوں سے اوجھل ہو اس پر قیاس آرائی کرنا پڑتی ہے جو اکثر و بیشتر غلط ہوتی ہے۔ قیاس ایسے اعتماد کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے کہ اس پر حقیقت کا گمان ہوتا ہے اور ایمان لے آتے ہیں۔

’’انکشاف ۱۰۱‘‘ کے خلا بازوں پر یہ انکشاف اس وقت ہوا جب انہوں نے خود اپنی آنکھوں سے اپنا ماتم دیکھا اور خود اپنے کانوں سے اپنا مرثیہ سنا۔ اپنے ٹیلی ویژن اسکرین پر نشر ہونے والے مناظر میں وہ اس قدر کھو گئے کہ انہیں سمت سفر کا احساس تک نہ رہا۔ یہ ایک حقیقت تھی کہ مشتری کی راہ خلاء بازوں سے گم ہو گئی تھی مگر چونکہ زمین والے اسی کے آس پاس انہیں تلاش کر رہے ہیں اس لیے پریشان بلکہ مایوس ہو چکے تھے۔ لیکن پھر بھی یہ سوال اہم تھا کہ آخر وہ جا کہاں رہے ہیں؟

اس خلائی طیارے کا مکمل کنٹرول ناسا کی زمینی لیب سے ہوتا تھا۔ اب چونکہ یہ لوگ ان کے کنٹرول سے باہر ہو چکے تھے اس لیے انہیں خود آگے کا سفر کرنا تھا۔ اس موقع پر خلا بازوں پر ایک اور انکشاف ہوا کہ خلائی طیارے کے اندر دروازہ کھولنے یا بند کرنے کے علاوہ اور کوئی بھی سہولت موجود نہیں ہے۔ انہیں اچانک محسوس ہوا کہ ان کی تعریف و توصیف میں کہے جانے والے سارے الفاظ جھوٹ اور لغو کے سوا کچھ نہیں۔ ان کی حیثیت تو تجرباتی چوہوں کی سی ہے جن کو ایک تجربہ کی بھینٹ چڑھا دیا گیا تھا۔ وہ محض کٹھ پتلی ہیں جو اپنی مرضی سے نہ ہاتھ ہلا سکتے ہیں اور نہ ناچ دکھا سکتے ہیں

خلاء بازوں کے تار و پود جب تک محفوظ تھے اور ہلانے والوں کے اشارے پر وہ پھدک رہے تھے انہیں اس حقیقت کا احساس نہ ہوا تھا۔ اب صورت حال مختلف تھی۔ دھاگے ٹوٹ چکے تھے اور ان کے ہلانے والوں نے دھاگوں کے ٹوٹنے کو گڈوں کی موت کا شاخسانہ سمجھ لیا تھا۔ کچھ دیر ان آقاؤں نے دھاگوں کو جوڑنے کی کوشش کی لیکن مایوس ہونے کے بعد اب وہ سلسلہ بھی بند ہو گیا تھا۔ خلا بازوں کو یہ اندیشہ لاحق ہو گیا کہ اب ان کا کیا انجام ہو گا؟ ان کی بقاء کیونکر ممکن ہو سکے گی؟ خوف سے ان کے دل کانپ اٹھے۔ اگر یہ خلائی جہاز کسی چٹان سے جا کر ٹکرائے اور پاش پاش ہو جائے تو وہ موت کی آغوش میں پہونچ جائیں گے۔

اس کے بعد ایک اور خیال خلا بازوں کے ذہن میں آیا کہ وہ جن پر انحصار کیے ہوئے تھے ان لوگوں نے تو ویسے ہی ان کی موت کا اعلان کر دیا ہے۔ وہ لوگ اپنے نام نہاد آقاؤں کے لیے مر چکے ہیں اس موقع پر خلا بازوں نے سوچا ’’سہارا دینے والے بھی کمزور اور سہارا لینے والے بھی کمزور۔ ‘‘ وہ تو ایک مکڑی کا جال تھا جسے انہوں نے مضبوط قلعہ سمجھ رکھا تھا اور اب اس کے بکھر جانے کو اپنے لیے باعث تباہی و بربادی سمجھ رہے تھے حالانکہ وہ صحیح و سلامت تھے۔ انہوں نے اپنے آپ سے پوچھا۔

’’اگر مجازی خداؤں کی مدد کے بغیر وہ زندہ ہیں تو کون ہے جو انہیں زندہ رکھے ہوئے ہے؟ ‘‘

جب اس سوال نے سر اُبھارا تو ان کی نگاہیں نادانستہ آسمان کی طرف اُٹھ گئیں۔ آسمان سے آسمان کی طرف دیکھنے کا یہ ان کا پہلا موقع تھا۔ ابھی تک وہ آسمان میں ہونے کے باوجود زمین کی جانب ہی دیکھا کرتے تھے لیکن اب جب کہ ان کی نگاہیں اوپر کی جانب اٹھیں تو ہاتھ بھی اپنے آپ اُٹھ گئے اور دل جھک گئے۔ پیشانی بھی جھک گئی اس اوپر والے سہارے کے سامنے جو اس وقت بھی موجود تھا جب کوئی زمینی سہارا نہ تھا اور اس وقت بھی موجود ہے جب کوئی زمینی سہارا نہیں ہے اور اس وقت بھی ہو گا جب کوئی سہارا موجود نہ ہو گا اس لیے کہ تمام مجازی سہاروں کے درمیان وہی تو ایک حقیقی سہارا ہے۔ سجدے سے انہوں نے جب اپنا سر اٹھایا تو کیا دیکھتے ہیں کہ ان کا خلائی جہاز پلوٹو کی سرزمین پر سجدہ ریز ہے۔

پلوٹو نظام شمسی کا سب سے دور دراز اور سب سے چھوٹا سیارہ ہے۔ زمین کے لوگوں کو کبھی اس سیارے کی تسخیر کا خیال تک نہ آیا تھا لیکن ’’انکشاف ۱۰۱‘‘ پلوٹو کی سرزمین پر جا پہونچا تھا۔ حق کی معرفت نے خلا بازوں کے دل کو تکبر و غرور اور بغض و حسد سے پاک کر دیا تھا۔ وہ ساری کائنات کو اپنے خالق کی مخلوق سمجھنے لگے تھے۔ مشتری والوں کو مغلوب و مقہور کرنے کا خیال محو ہو چکا تھا۔ وہ محسوس کر رہے تھے کہ اس نئی دنیا میں انہیں ایک نئی زندگی عطا ہوئی ہے۔ وہ اپنی اس زندگی کو اپنے خالق کی نذر کرنا چاہتے تھے۔ اسی کے بھروسے وہ آگے بڑھے اور انہوں نے خلائی طیارے کا دروازہ کھول دیا۔

باہر ایک نیا جہاں آباد تھا۔ تا حد نظر سرسبز و شاداب کھیت و باغات دکھائی پڑتے تھے۔ ہوا کی اپنی تازگی تھی۔ کئی دنوں تک بند رہنے کے بعد وہ کھلی فضا میں سانس لیتے ہوئے پھولے نہیں سما رہے تھے۔ ایک دوسرے سے گلے مل رہے تھے، خوشیاں منا رہے تھے کہ اچانک ہیلی کاپٹر جیسی کوئی چیز ان کے قریب نمودار ہوئی اور اس میں سے چند لوگ اترے۔ یہ لوگ چہرے سے نہایت مہذب نظر آ رہے تھے۔

نو واردوں نے قریب آ کر اپنی زبان میں خلا بازوں سے کچھ کہا۔ وہ لوگ زبان تو نہ سمجھ سکے لیکن اندازہ لگا لیا کہ ان کا خیر مقدم کیا جا رہا ہے۔ اشارے سے خلا بازوں کو ہیلی کاپٹر کی جانب بلایا گیا اور بڑے احترام سے انہیں بٹھا کر ہیلی کاپٹر برسر پرواز ہو گیا۔ چند گھنٹوں کے بعد وہ ایک آبادی میں اترا۔ یہ ایک نہایت جدید اور ترقی یافتہ شہر تھا۔ وہ لوگ انہیں اپنے تحقیقاتی ادارے میں لے گئے۔ یہ نہایت ہی ترقی یافتہ لیباریٹری تھی۔

خلا بازوں کو اندازہ ہو گیا تھا پلوٹو کے لوگ سائنسی میدان میں زمین والوں سے کہیں آگے ہیں۔ لیکن یہاں کے باشندوں میں بلا کی انکساری اور بہترین اخلاق پایا جاتا ہے۔ اجنبیوں کی مہمان نوازی خلا بازوں کے لیے باعثِ حیرت و استعجاب تھی اس لیے کہ روئے زمین پر بسنے والے اجنبیوں کو ہمیشہ ہی مشکوک نگاہوں سے دیکھتے تھے۔ وہ غیروں کو اپنا دشمن سمجھتے تھے اور ان سے ہونے والے نقصان کے اندیشہ میں انہیں نقصان پہونچا دیا کرتے تھے۔ اہل زمین کا معاندانہ رویہ غیروں کو اپنے جیسا سمجھنے کا نتیجہ تھا۔ لیکن پلوٹو والوں کا قیاس زمین والوں سے مختلف تھا۔ ان کا معاملہ دوستانہ تھا۔

سب سے پہلے مہمانوں کی خورد و نوش اور آرام کا اہتمام کیا گیا اور پھر ان کو زبان و لغت کی تجربہ گاہ میں لے جایا گیا جہاں نہایت سائنٹفک انداز میں پلوٹو والوں نے زمین والوں کی زبان سیکھ لی۔ وہ مختلف چیزیں خلا بازوں کے سامنے رکھتے اور جیسے ہی یہ اس کا نام بتلاتے وہ اس آواز کو ریکارڈ کر لیتے۔ در اصل زبان مختلف اشیاء پر لگا ہوا آواز کا لیبل ہی تو ہے۔ جن سے اشیاء کو پہچانا جاتا ہے۔ ان آوازوں کے پلوٹو زبان میں مطالب اور متبادل آواز بھی مشین میں ریکارڈ کر لی جاتی تھی۔

آگے چل کر یہ مشین خلا بازوں سے جو آواز سنتی اسے متبادل پلوٹو الفاظ کی آواز میں بدل دیتی اور پلوٹو والے اپنی زبان میں زمین والوں کا مفہوم سمجھ لیتے۔ اسی طرح یہ مشین پلوٹو والوں کی آواز سن کر اسے زمین والوں کے متبادل مفہوم میں پیش کر دیتی۔ چند دنوں کے اندر ترسیل کا مرحلہ طے ہو گیا اور اب مشاہدے کا عمل شروع ہوا۔ پلوٹو والوں نے مہمانوں کی سیرو تفریح کا اہتمام کیا اور اپنے سیارے کو کھلی کتاب کی طرح ان کے سامنے پھیلا دیا۔

اہل زمین کیلئے جو چیز سب سے زیادہ حیرت کا سبب تھی وہ پلوٹو کے باشندوں کا مسلسل جاگتے رہنا تھا۔ وہ کبھی سوتے نہ تھے۔ وہ دن رات کام میں لگے رہتے تھے۔ خلا بازوں نے جب اس بات کی ستائش کی تو وہ جواب سن کر مبہوت رہ گئے۔ اس لیے کہ پلوٹو والے ان خلا بازوں کے اندر جس شئے کو بڑے رشک سے دیکھتے تھے وہ ان کا میٹھی نیند کی آغوش میں گم ہو جانا تھا۔

سورج جب نصف النہار پر پہونچتا تو یہ خلا باز کھا پی کر قیلولہ فرماتے اور جب چاند کی روشنی سارے عالم پر چھا جاتی یہ پھر ایک بار وہ نیند میں کھو جاتے۔ پلوٹو والوں سے گفتگو کرنے کے بعد خلا بازوں نے محسوس کیا انہیں نیند سے محرومی کا بڑا قلق ہے اور مسلسل جاگتے رہنے نے ان کی یادداشت پر بڑا بُرا اثر ڈالا ہے وہ کسی بات کو ایک دن سے زیادہ یاد نہیں رکھ سکتے۔

خلا باز حیران تھے اس قدر صحت مند خوش حال اور ترقی یافتہ لوگوں کی یہ کس قدر عظیم مجبوری تھی کہ وہ ہر بات کو ایک دن بعد بھول جاتے تھے۔ پلوٹو والوں نے اپنے زمینی دوستوں سے اس معاملہ میں مدد طلب کی اور کہا کہ وہ کچھ ایسا کریں جس سے ان کو بھی نیند کی نعمت نصیب ہو جائے۔ خلا بازوں نے انہیں اپنے تعاون کا تیقن تو کر دیا لیکن یہ کام بڑا پیچیدہ تھا۔ بہرحال بیڑہ اٹھا لیا گیا۔

ابتداء بیداری کی وجوہات تلاش کرنے سے کی گئی اور یہ بات سمجھ میں آئی کہ یہ لوگ اس لیے جاگتے رہتے ہیں کہ بے دار ہیں۔ یہ بات زمین والوں کے لیے مزید تعجب کا باعث تھی۔ پلوٹو کی کسی عمارت میں گھر یا دفتر میں دروازہ نہیں ہے۔ تمام کھڑکیاں اور دروازے کھلے ہوئے تھے۔ جس کے باعث وہ مسلسل ایک دوسرے کو دیکھتے رہتے ہیں۔ ان کا دوسروں کا دیکھنا اور دوسروں کا ان کو دیکھنا ان کے چین سکون کا اصل دشمن بنا ہوا ہے جس نے ان کی آنکھوں سے نیند چھین لی ہے۔

وہ لوگ جب دوسروں کی جانب دیکھتے ہیں اور دوسروں کو حاصل اشیاء پر ان کی نظر پڑتی ہے تو انہیں حاصل کرنے کی حرص ان کے اندر پروان چڑھتی ہے۔ وہ اسے حاصل کرنے کی جد و جہد میں اپنے آپ کو جھونک دیتے ہیں جس سے ان کا چین و سکون سب غارت ہو جاتا ہے۔ ساتھ ہی مسلسل دوسروں کے ذریعہ دیکھے جانے کا احساس بلکہ دباؤ ان کے سکون کو ختم کر دیتا ہے۔ ہر لمحہ گھورتی ہوئی آنکھیں ان کی آنکھوں کی نیند اڑا دیتی ہیں۔

غیروں کی جانب دیکھنے کے عمل نے انہیں خود فراموشی کا شکار کر دیا ہے وہ کبھی خود اپنے اندر جھانک کر نہیں دیکھتے۔ ان کی نگاہ ایسی اشیاء پر نہیں پڑتی جو انہیں نے اپنی مشقت و جد و جہد کے نتیجے میں حاصل ہوئی ہیں۔ عدم حصول کی محرومی نے انہیں حاصل شدہ نعمتوں کے اعتراف سے محروم کر دیا ہے وہ دیوانوں کی طرح حصول دنیا کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں۔ شدید جذبہ مسابقت نے انہیں ترقی یافتہ قوم ضرور بنا دیا تھا لیکن روحِ مطمئن سے محروم کر رکھا ہے۔

جب خلا بازوں نے اس خود فراموشی کا بنیادی سبب تلاش کرنے کی کوشش کی تو ان کی توجہ اس معرفت حق کی جانب مبذول ہو گئی جسے انہوں نے خلائی سفر میں حاصل کیا تھا۔ حقیقت یہی تھی کہ ’’خدا فراموشی نے انہیں خود فراموش بنا دیا تھا۔ ‘‘

اس نتیجے پر پہونچنے کے بعد خلا بازوں نے پلوٹو کے بڑے دانشوروں کے سامنے اپنی تحقیقات کا حاصل پیش کر دیا۔ دانشوروں نے اس پر غور و خوض کرنے کے لیے ایک اجتماع کا انعقاد کیا اور ان تجاویز پر گفتگو شروع ہوئی۔ دو باتیں تھیں ایک کا تعلق عقیدہ سے تھا اور دوسرے کا عمل سے۔ ان دونوں کا باہم تعلق چین و سکون سے تھا۔ دروازے کی تجویز کو اس بنیاد پر رد کر دیا گیا کہ یہ قدیم روایات کے خلاف تھی۔ صدیوں سے چلی آ رہی آباء و اجداد کے طریقہ کو ترک کرنا ممکن نہیں تھا۔ یہ ان کے خود ساختہ بنیادی حقوق کے تصور سے بھی ٹکراتا تھا۔ ان کے نزدیک شفافیت کے معنیٰ یہ تھے سارے لوگ ان تمام چیزوں کو دیکھ سکیں جو انہیں حاصل ہیں اور ان فعال پر نظر رکھ سکیں جو وہ کرتے ہیں۔ اس نام نہاد بنیادی حق سے دستبرداری کیلئے وہ کسی صورت تیار نہیں تھے۔

عقیدہ کی سطح پر ایک خدا کی پرستش بھی ان کے لیے ایک ناقابل قبول تھی۔ اس لیے کہ وہ دو خداؤں کے ماننے والے تھے۔ جب صبح ہوتی اور فسطائی سورج آگ کا گولہ بن کر طلوع ہوتا تو وہ اس کے آگے جھک جاتے اور اس سے دعائیں کرتے کہ انہیں نیند کی نعمت سے مالا مال کرے۔ لیکن جب شام کو وہ انہیں ناکام و نامراد چھوڑ کر غروب ہونے لگتا تو وہ اس سے مایوس ہو کر اس کا انکار کر دیتے اور جیسے ہی جمہوری چاند برف کی چادر اوڑھے نمودار ہوتا اُس کے آگے سر بسجود ہو جاتے اور اس سے نیند کی دعائیں کرنے لگتے۔ لیکن چند گھنٹوں کے بعد چاند بھی اُن کی آنکھوں کو نیند سے محروم چھوڑ کر اوجھل ہو جاتا تو پھر وہ سورج کے طلوع ہونے کا انتظار کرنے لگتے۔

صدیوں سے یہ عمل جاری تھا۔ وہ اپنی تمام تر مادّی ترقیات کے باوجود چین سکون سے محروم فسطائی و جمہوری خداؤں سے اُمید لگائے ہوئے تھے اور بھول جاتے تھے کل اسی نے انہیں مایوس کیا تھا۔ برسوں سے ان کی عبادت کرنا اور ان سے دھوکہ کھانا پلوٹو کے باشندوں کا معمول بن گیا تھا۔ انہوں نے اپنے آپ کو ایک ایسی زنجیر سے جکڑ رکھا تھا جس کا ایک سرا آگ کی طرح گرم اور دوسرا برف کی طرح سرد تھا۔ وہ اس غلط فہمی کا شکار ہو گئے تھے کہ اگر یہ زنجیر ٹوٹ گئی تو وہ برباد ہو جائیں گے حالانکہ حقیقت تو یہ تھی کہ یہی زنجیر ان کی تباہی و بربادی کا بنیادی سبب تھی۔ خلا باز بھی کسی وقت اس طرح کے مایا جال کا شکار تھے لیکن پلوٹو کے سفر نے انہیں اس گورکھ دھندے سے نجات دلا دی تھی۔ پلوٹو والوں کا اپنے آپ کو زنجیروں میں جکڑے رہنے کا اصرار خلا بازوں کو غمگین کر دیتا تھا لیکن وہ بھی مجبور تھے۔

’’خدا کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنی حالت کے بدلنے کی خاطر کمر بستہ نہ ہو۔ ‘‘پلوٹو والے مشیت ایزدی کے اس قانون کی زد میں آ گئے تھے۔ وقت گزرتا رہا وہی چاند، وہی سورج اور وہی بیداری کا عذاب جاری و ساری رہا۔ لیکن اچانک ایک معجزہ رونما ہو گیا۔

ایک صبح سورج اور چاند ایک ساتھ طلوع ہونے لگے۔ ایسا تو کبھی نہ ہوا تھا۔ مشرق سے سورج اور مغرب سے چاند دونوں ایک دوسرے کی جانب بڑھ رہے تھے۔ پلوٹو والوں کے لیے یہ منظر نیا تھا۔ ان کی سمجھ میں یہ نہیں آ رہا تھا کہ اب کس کی پرستش کی جائے؟ اس لیے کہ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ وہ گھبرا گئے۔ ان کے معبود انِ باطل جیسے جیسے ایک دوسرے کے قریب آتے ایک دوسرے کے اثرات کو زائل کرتے جاتے تھے۔ سورج کی آگ چاند پر موجود برف کی سِل کو پگھلا رہی تھی اور چاند کی ٹھنڈک سورج کی آگ کو نگلتی جا رہی تھی۔ جب دونوں آمنے سامنے آ گئے تو سورج کی آگ بجھ چکی تھی اور وہ ایک سیاہ دھبہ بن گیا تھا۔ چاند کی برف بھی پگھل چکی تھی اور وہ بے نور ہو چکا تھا۔ اس منظر کو دیکھ کر پلوٹو والے کانپ اٹھے۔ وہ دوڑے دوڑے خلا بازوں کے پاس آئے اور ان سے پوچھا۔

’’یہ کیا ہے؟ ‘‘

جواب ملا۔ ’’یہ قیامت ہے۔ ‘‘

’’قیامت کیا ہوتی ہے؟ ‘‘

’’مدتِ عمل کا خاتمہ۔ ‘‘ سورج اور چاند کا ٹکراؤ ایک زبردست چنگھاڑ میں تبدیل ہو گیا تھا۔ سب کچھ تہس نہس ہونے لگا تھا۔ پلوٹو والوں نے پوچھا۔ ’’اب ہم کہاں جائیں؟ ‘‘

جواب ملا۔ ’’اب کوئی کہیں نہیں جا سکتا۔ اب کسی کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں ہے۔ ‘‘

سوال ہوا۔ ’’اب ہم کیا کریں؟ ‘‘

’’انتظار کرو اور دوسری چنگھاڑ کا انتظار جو ہم سب کو موت کی نیند سلا دے گی۔ ‘‘

نیند کا نام سنتے ہی پلوٹو والوں کی باچھیں کھل گئیں۔ انہوں نے پوچھا۔

’’واقعی سب کو نیند کی نعمت نصیب ہو جائے گی؟ کیا واقعی ایسا ہو گا؟ اور اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کے لیے ہمیں یہ تمام تباہی و بربادی منظور ہے۔ ‘‘

’’لیکن یاد رکھو۔ ‘‘ خلا بازوں نے کہا۔ ’’وہ نیند بھی عارضی ہو گی جسے تیسرے صور کی آواز ختم کر دے گی اور پھر حساب کتاب ہو گا۔ جن لوگوں کے ہاتھ ناکامی لگے گی وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نیند سے محروم۔۔۔‘‘

جملہ پورا ہونے سے قبل دوسرا دھماکہ ہوا اور موت کی خاموشی نے سب کچھ نگل لیا۔









شاخ نازک



واشنگٹن کے وسیع و عریض ہال ٹاؤن ہال کا منظر جس میں یہ ایک اہم تقریب کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اس میں شرکت کرنے کیلئے آنے والے وزراء یعنی سکریٹریز، سابق صدور، مختلف ریاستوں کے گورنرس، بڑے شہروں کے میئرس اور دیگر مفکرین و دانشور حضرات مختلف چھوٹے گروہوں میزوں کے ارد گرد بیٹھے تھے یا کھڑے ہوئے تھے۔ نوجوان مائیکل بولٹن ان میں سے کسی بھی زمرے میں شامل نہیں تھا اس کے باوجود اس کی یاد فرمائی اپنے آپ میں اس بات کا اشارہ تھا کہ اب اس کا شمار قوم کے ممتاز افراد میں ہونے لگا ہے۔ اس نشست کی صدارت سکریٹری آف اسٹیٹ کرنے والے تھے۔ اجلاس کے افتتاح کا اعلان سارے لوگوں کو اپنی اپنی نشستوں پر لے آیا۔

ناظمِ اجتماع: ہم اپنے معزز مہمان عزت مآب سکریٹری آف اسٹیٹ کولن پاویل سمیت سارے حاضرین کا استقبال کرتے ہیں۔ اس اہم ترین نشست میں جس کا تعلق ہمارے مستقبل سے ہے میں جناب کولن پاویل کو اپنا کلیدی خطبہ پیش کرنے کی مؤدبانہ گزارش کرتا ہوں۔

پاویل نہایت پر وقار انداز میں مائک پر آئے۔ مسکرا کر چاروں جانب دیکھا اور بولے۔

دوستو آپ لوگوں کو شاید اس بات کا علم نہ ہو کہ سکریٹری آف اسٹیٹ کی حیثیت سے یہ میرا آخری خطاب ہے۔ کل میں اس عہدے سے سبکدوش ہو جاؤں گا۔ اس دوران آپ لوگوں نے میرے ساتھ جو تعاون کیا میں اس کیلئے آپ سب کا مشکور ممنون ہوں۔ قومی سطح پر یہ ہماری تاریخ کا نازک ترین دور تھا اس کے باوجود یہ میری زندگی کا ایک نہایت خوشگوار تجربہ تھا۔ اس دوران ہمیں کئی ایسے فیصلے کرنے پڑے جو خاصے مشکل تھے لیکن آج میں آپ کی توجہ ایک اہم ترین مسئلہ کی جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں جس پر نہ صرف قومی بلکہ عالمی سطح پر بھی بہت کم گفتگو ہوتی رہی ہے۔

ہال میں بیٹھے سارے لوگ حیرت و استعجاب کے عالم میں سکریٹری آف اسٹیٹ کو دیکھ رہے تھے۔ کولن پاویل نے مسکرا کر بات آگے بڑھائی مجھے یقین ہے کہ آپ سمجھ گئے ہوں گے وہ ۱۱ ستمبر یا عالمی دہشت گردی مسئلہ نہیں جس پر آج کل ہر ایرا غیرا بیان بازی کر رہا ہے۔ یہ ہمارے نوجوانوں کا نازک ترین مسئلہ ہے جو اندر ہی اندر سے ہمیں گھن کی مانند چاٹ رہا ہے۔ حاضرین کے چہرے پر ناگواری کا اظہارکاس حقیقت کی چغلی کھا رہا تھا کہ وہ ذہنی طور پر اس کیلئے تیار نہیں ہیں۔ وہ لوگ ایک خاص انداز کی جذباتی گفتگو سننے سنانے کے اس قدر عادی ہو گئے تھے کہ یہ سنجیدہ جملہ انہیں اٹپٹاسالگ رہا تھا۔

کولن پاویل نے حاضرین پر ایک غائر نگاہ ڈالنے کے بعد کہا مجھے اس بات کا کوئی افسوس نہیں ہے کہ آج کی اس تقریب میں باپ، بیٹا اور ان کی مقدس بلکہ معاف کیجئے غیر مقدس روح موجود نہیں ہے۔ (پاویل کا اشارہ بش سینئر، جونیئر اور ڈک چینی کی طرف تھا )۔ ویسے وہ تینوں موجود ہوتے بھی تو کوئی خاص فرق نہیں پڑتا اس لئے کہ انہیں ان مسائل میں کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے بلکہ یہ مسائل بہت حد تک انہیں کے عطا کردہ ہیں۔ ہال میں ایک ہلکا سا قہقہہ گونجا لوگ پاویل کی ظرافت سے لطف اندوز ہونے لگے تھے۔

دوستو میں آج بڑی صفائی کے ساتھ آپ لوگوں کے سامنے اپنے دل کی بات بیان کروں گا اس لئے کہ اب مجھے کسی شہ کے گنوانے کا اندیشہ نہیں ہے۔ مجھ کو جس چیز سے محروم کیا جا سکتا تھا کر دیا گیا ہے اس لئے میں مکمل طور پر بے خوف ہو گیا ہوں۔ کسی چیز کے چھن جانے کا خوف اس کو گنوا دینے کے نقصان سے زیادہ نقصان دہ ہوتا ہے۔ کئی مرتبہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی معمولی سی شہ کی طلب میں انسان اپنا قیمتی سرمایہ گنوا بیٹھتا ہے۔ وہ اپنے ضمیر کی آواز کچل کر مصالحت پر مصالحت کرتا چلا جاتا ہے حالانکہ جس شہ کیلئے یہ سب پاپڑ بیلے جاتے ہیں اس کا ملنا یقینی نہیں ہوتا۔ آج بلا خوف و خطر اپنی بات رکھنے میں کوئی رکاوٹ اس لئے بھی نہیں ہے کہ اب اس اقتدار سے مجھے کوئی توقع، طلب یا امید تک نہیں ہے۔

ہال میں موجود مجمع کو ایک پراسرار سناٹے نے اپنے اندر نگل لیا تھا۔ ساری نگاہیں کولن پاویل کی جانب مرکوز تھیں۔ وہ کہہ رہے تھے۔

خواتین و حضرات چیف آف آرمی اسٹاف کی حیثیت سے سبکدوش ہونے سے قبل ہم نے عراق کو کویت میں شکستِ فاش سے دوچار کر کے امریکی برتری کا پرچم سارے عالم پر لہرا دیا تھا۔ اس کامیابی کے سبب میں اپنے فرض منصبی کے تئیں میں خاصہ مطمئن تھا۔ آپ سوال کر سکتے ہیں کہ اگر ایسا تھا تو پھر میں نے میدانِ سیاست کا رخ کیوں کیا؟ اس دلدل میں قدم رکھنے کی غلطی کیوں کی؟ حاضرین میں سے جو لوگ اسے ایک رسمی تقریب سمجھ رہے تھے اب سنجیدہ ہونے لگے تھے۔ ان کے تجسس میں بتدریج اضافہ ہو رہا تھا۔ پالن نے بات جاری رکھی خواتین و حضرات میرے پرسکون وظیفہ یافتہ شب و روز میں ہنگامہ برپا کرنے والا وہی شخص ہے جو آج اپنی اہلیہ محترمہ کے ساتھ یہاں موجود ہے۔ پالن نے بل اور ہیلری کلنٹن کی جانب دیکھ کر کہا اور ان دونوں نے معنیٰ خیز انداز میں مسکرا کر جواب دیا۔

یہ غالباً ۱۹۹۴ء کی بات ہے جب جناب بل کلنٹن صدر نشین ہوا کرتے تھے۔ سوویت یونین کے مٹ جانے کے بعد ہم لوگ نئے عالمی نظام کے خوبصورت خوابوں میں کھوئے ہوئے تھے۔ اس وقت تک چونکہ ۱۱ ستمبر کا حادثہ رونما نہیں ہوا تھا اس لئے ہم لوگ جڑواں ٹاور کی مسماری سے برپا ہونے والی ہیجانی کیفیت میں مبتلا نہیں ہوئے تھے اور ہماری سوچ اور فکر مصنوعی خوف سے پاک تھی۔ ہمیں اپنے حقیقی مسائل کا ادراک تھا۔ مجھے یاد پڑتا ہے اس وقت میری ہی صدارت میں ’’ہمارا مستقبل کے موضوع ‘‘پر ایک محفل مذاکرہ کا انعقاد کیا گیا تھا۔ جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں ہر قوم کا مستقبل اس کے نوجوانوں سے وابستہ ہوتا ہے اس لئے فطری طور پر اس مجلس میں نوجوانوں کے مسائل زیر بحث آ گئے۔ محکمۂ انتظام و انصرام کی جانب سے اس موقع پر جو تشویشناک اعداد و شمار ہمارے سامنے پیش کئے گئے تھے انہوں نے ہماری نیند اڑا دی۔

ہمیں بتلایا گیا کہ ہمارے ۶۰ لاکھ نوجوانوں میں سے ۱۵ لاکھ یعنی ۲۵ فیصد نہ صرف غیر تعلیم یافتہ اور کسی بھی قسم کی ہنر مندی سے نابلد ہیں بلکہ محبت و شفقت سے بھی محروم ہیں۔ ان میں سے ۳۵ لاکھ یعنی نصف سے زیادہ نے غم غلط کرنے کی خاطر اپنے آپ کو منشیات کے عادی بنا لیا ہے۔ ۵ لاکھ اپنی زندگی سے اس قدر بیزار ہیں کہ وہ خودکشی کی ناکام کوشش کر چکے ہیں۔ ۱۷ سال سے کم عمر میں وہ شتر، بے مہار کی مانن دبلا حدود و قیود جنسی تجربات سے گزرنے لگے ہیں۔ حالت یہ ہو گئی ہے کہ ایک تازہ جائزے کے مطابق ہر چار میں سے تین امریکی خواتین تیس سال کی عمر سے قبل کسی غیر مرد کے ساتھ بغیر شادی کئے زندگی گزار چکی ہے۔

کولن پاویل نے اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے کہا اب یہ آسیب پھیل کر بڑوں کو اپنے شکنجے میں جکڑنے لگا ہے۔ جو جوڑے بغیر شادی کے ایک ساتھ رہتے ہیں انہیں سرکاری سہولیات اس وقت حاصل نہیں ہو پاتیں جب تک کہ وہ بچہ نہ پیدا کر دیں۔ اس لئے مراعات کی لالچ میں یہ اولاد کو جنم دے دیتے ہیں مگر آگے چل کر ان میں سے صرف ۴۰ فیصد رشتۂ ازدواج سے وابستہ ہوتے ہیں۔ ۳۳ فیصد بعد میں بھی اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتے اور ۲۷فیصد ایک دوسرے وابستہ ہی نہیں رہتے بلکہ جدا ہو جاتے ہیں اور ان کی اولاد کو اس جدائی کی سب بڑی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ اس میدان کچھ کرنے کی خواہش ہی مجھے میدانِ سیاست میں لے کر آئی۔ لیکن مجھے اس اعتراف میں کوئی جھجک نہیں ہے کہ میرا زیادہ تر وقت دہشت گردی کے خلاف افغانستان، عراق اور مشرق وسطیٰ میں لڑی جانے والی جنگ کی نذر ہو گیا۔ اس لئے میں نوجوانوں کی جانب خاطر خواہ توجہ نہیں دے سکا۔ سچ تو یہ ہے کہ مجھے افغانستان اور عراق کی ناکامیوں پر اس قدر تشویش نہیں جتنی کہ آئندہ نسل کے مسائل سے ہے۔ اس لئے کہ اس سے قبل ہم من حیث القوم ویتنام کی زبردست شکست کو جھیل چکے ہیں۔

کولن پاویل کی پر وقار آواز اور دلپذیر انداز نے سارے مجمع کو مسحور کر رکھا تھا۔ انہوں نے نہایت درد انگیز لہجے میں اپنا خطاب جاری رکھا اور بولے میرے خیال ہے کہ ہمیں اپنے آپ کو سنبھالنے کا یہ آخری موقع ہے۔ ہم لوگ ایک آتش فشاں کے دہانے ہر کھڑے ہوئے ہیں اگر ہم نے ٹھوس اقدامات نہیں کئے تو ہمیں شکست دینے کیلئے دشمن کو کوئی خاص محنت نہیں کرنی پڑیگی۔ ہم خود اپنے آپ سے ہار جائیں گے۔ یہ مسئلہ کسی بھی قوم کیلئے ایڈس جیسی بیماری کی مانند ہے۔ جس طرح ایڈس کی بیماری بذاتِ خود اپنے مریض کو زحمت نہیں دیتی اس میں انسان بظاہر صحتمند نظر آتا ہے مگر اس کی قوت مدافعت ختم ہو جاتی ہے اور جب کسی معمولی مرض کے جراثیم بھی اس پر حملہ آور ہوتے ہیں تو وہ نرم چارہ بن جاتا ہے۔

یہ ضرور ہے کہ جواعدادوشمار میں نے ابھی آپ کے سامنے پیش کئے وہ پرانے ہیں لیکن مجبوری یہ ہے کہ تازہ سروے ہمارے پاس موجود نہیں ہے۔ ویسے عام احساس یہی ہے کہ حالات ابتر ہوئے ہیں۔ اس احساس کے پیچھے ٹھوس اسباب ہیں۔ اولاً تو اس مسئلہ کا کوئی ٹھوس حل ہمارے پاس نہ پہلے تھا اور نہ اب موجود ہے۔ کئی سال قبل ہم لوگوں نے اس ذمہ داری کو رضاکار والدین پر ڈال کر اپنا ہاتھ جھٹک لیا تھا جو ناقابلِ عمل حکمتِ عملی تھی۔ ویسے حکومت اور انتظامیہ جن فروعی مسائل میں الجھ گئی تھی ان کے چلتے ہمیں اس کی فرصت بھی کب تھی کہ بنیادی مسئلے کو اہمیت دیتے۔ لیکن آج یا کل ہمیں اس جانب توجہ دینی ہی ہو گی ورنہ یہ داخلی دہشت گردی ہمارا نام و نشان مٹا کر رکھ دے گی۔

اس سے پہلے لوگ دہشت گردی کو صرف اور صرف القاعدہ سے منسوب سمجھتے تھے لیکن اس روز پہلی بار انہوں نے داخلی دہشت گردی کی اصطلاح سنی تھی جو تیر تفنگ سے خالی تھی اور اس کا مقابلہ کسی روایتی اسلحہ سے ممکن نہیں تھا۔ کولن پاویل کی تقریر اختتام کے مراحل میں داخل ہو گئی تھی۔ کولن پاویل نہایت درد انگیز لہجے میں کہا دوستو !سیاست کی دنیا کو الوداع کہنے سے قبل میں یہ بارِ امانت آپ کے حوالے کرنا چاہتا ہوں۔ میں ایک ادھورا خواب آپ سب میں تقسیم کر رہا ہوں اس امید کے ساتھ آپ کے اندر موجود مائیکل بولٹن جیسے نوجوان اس کو شرمندۂ تعبیر کریں گے۔ اسی کے ساتھ کولن پاویل نے اپنی نشست سنبھال لی۔

تقریر کے بعد تو جیسے مجمع کو سانپ سونگھ گیا ہر کوئی خاموش تھا لیکن یہ عالم سکوت تا دیر قائم نہ رہ سکا بزرگ سابق صدر جیمی کارٹر اپنی جگہ سے اٹھے اور بولے مجھے خوشی ہے کہ کولن نے اس سنجیدہ مسئلہ کی جانب ہم سب کی توجہ مبذول کرائی لیکن ہماری خاموشی اسے مزید سنگین بنا دے گی۔ ہمیں سوچنا ہو گا، بولنا ہو گا اور آگے بڑھ کر اس سے لوہا لینا ہو گا۔ اس عمل کی ابتدا یقیناً جائزے اور اعداد و شمار سے ہونی چاہئے تھی جو کولن نے کر دی ہے لیکن اس کا دوسرا مرحلہ احتساب ہے۔ خود احتسابی کے ذریعہ ہی ہم وجوہات سے روشناس ہو سکتے ہیں کہ پانی کہاں مرتا ہے۔ اس کے بعد ہی تدابیر تجاویز اور منصوبہ بندی کا مرحلہ آئے گا۔ انہوں نے مسکرا کر کہا لیکن دوستو میں ابھی جن چیزوں کا ذکر کیا وہ آسان تر افعال ہیں۔ جب تک کہ ہم اپنے منصوبے پر اخلاص کے ساتھ عمل درآمد نہیں کرتے اس وقت تک کچھ بھی نہیں ہو سکتا کچھ بھی نہیں !

سارے لوگوں نے اس تجویز کی تائید کی لیکن اس سے پہلے کہ وجوہات کی تلاش بمعنی خود احتسابی کا آغاز ہوتا ناظم اجتماع مائک پر آئے اور انہوں نے کہا ہم سکریٹری آف اسٹیٹ محترم کولن پاویل کے بے ممنون ہیں کہ انہوں نے نہایت ہی پر اثر انداز میں ہماری توجہ ایک نہایت سنگین مسئلہ کی جانب مبذول کرائی۔ اسی کے ساتھ ساتھ محترم جیمی کارٹر بھی خصوصی شکریہ کے مستحق ہیں کہ انہوں نے آگے ہونے والے مباحثہ کے خدوخال طے فرما دئیے۔ لیکن اس سے پہلے ہم سب اس اہم ترین گفت و شنید کی جانب بڑھیں میں ایک وقفہ کا اعلان کرتا ہوں تاکہ ہم چائے کافی کے ساتھ تازہ دم ہو کر اگلے حصے کا حق ادا کریں۔

لوگ پھر ایک مرتبہ پہلے کی مانند بکھر گئے۔ اپنی اپنی پیالیوں کے ساتھ حاضرین مختلف چھوٹے چھوٹے گروہوں میں میزوں کے ارد گرد بیٹھ گئے یا اِدھر اُدھر کھڑے ہو گئے۔ ہر کوئی فکر مند نظر آ رہا تھا۔

ناظم اجتماع نے وقفہ کے بعد شرکا کا خیر مقدم کرنے کے بعد کہا کہ جو خواتین و حضرات سوالات کرنا چاہتے ہیں یا تجاویز پیش کرنا چاہتے ہیں وہ اپنا ہاتھ اٹھائیں۔ مائک آپ تک پہنچا دیا جائے گا۔ ہمارے پاس ویسے تو وقت کی کوئی قید نہیں اس لئے ہم ان تمام لوگوں کو موقع دین گے جو کہ اس مباحثے میں حصہ لینا چاہتے ہیں پھر بھی میری مؤدبانہ گزارش یہ ہے کہ اگر آپ لوگ اختصار سے کام لیں اور تکرار سے گریز فرمائیں تو عنایت ہو گی۔

پہلا سوال ایک خاتون سنیٹر مسز مونیکا کی جانب سے آیا: والدین کے ذریعہ رضاکارانہ حل کا فیصلہ کیوں ناکامی سے دوچار ہوا؟

کولن پاویل: ایک تازہ جائزے کے مطابق اس سال یعنی ؁۲۰۰۷ میں پیدا ہونے والے بچوں کے ماں باپ نے نکاح کی ضرورت محسوس ہی نہیں کی۔ اس طرح اس نسل کا ایک بڑا طبقہ عملاً اپنے جائز والدین سے محروم ہو گیا؟ اب جن کا وجود ہی مفقود ہو وہ بھلا کر بھی کیا سکتے ہیں؟

ایک اور سائل: اگر ایسا ہے تو والدین کہاں غائب ہو گئے؟ انہیں زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا؟

جیمی کارٹر: نہ زمین نہ آسمان ان بیچاروں کو قصوروار ٹھہرانا درست نہیں ہے۔ کچھ والدین اپنی نفس پرستی کے دلدل میں دھنس گئے اور کچھ کو دنیا پرستی نے اچک لیا۔

سائل: انہوں ایک دوسرے کی مدد کیوں نہیں وہ اپنے شریک حیات کو اس انجام سے بچانے کی کوشش تو کر سکتے تھے؟

ہیلری کلنٹن: جی نہیں ان کیلئے یہ ممکن نہیں تھا۔ ان کے درمیان کا رشتۂ ازدواج نہایت کمزور ہو چکا تھا بلکہ ٹوٹ چکا تھا ان میں سے اکثر ایک دوسرے سے جدا ہو چکے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جن لعل و گہر کو اپنی ماں کے گلے کا ہار ہونا چاہئے تھا وہ زمانے کے گردو غبار میں بکھر گئے۔ جن نونہالوں سے ان کی ممتا چھن جائے یا جنھیں ان کا باپ اپنا سرمایہ حیات سمجھنے کے بجائے اپنے اوپر بوجھ سمجھنے لگے ان کے مقدر کو تاریک ہونا تھا سو ہو گیا۔

گفتگو کا زاویہ بدلنے لگا تھا۔ اب نوجوانوں کے بجائے ان کے والدین زیر بحث آ گئے تھے۔

سائل: تب تو اس بات کا پتہ چلانا ضروری ہے کہ وہ کون سے عوامل تھے جن کے سبب رشتے کا دھاگہ ڈھیلا پڑ گیا؟

پروفیسر ٹام: جب مرد اپنی بیوی کو چھوڑ کر دوسری نامحرم خواتین پر ڈورے ڈالنے لگیں اور خواتین بھی اسے معیوب سمجھنا چھوڑ دیں تو اس کے نتیجے میں ازدواجی زندگی غیر محفوظ ہو جاتی ہے۔ وہ لوگ جو اپنے گھر میں اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھنے لگے ہوں ان کی ساری توجہات کا مرکز ان کی اپنی ذات کا بن جانا فطری امر ہے۔ ایسے میں لازماً اولاد کی جانب سے بے توجہی ہونی تھی سو ہوئی۔

ڈاکٹر کیتھی: تو گویا مرد کا شتر بے مہار ہو جانا سارے مسائل کی جڑ ہے؟

مائیکل نے حیرت سے پوچھا۔ تو کیا قصور صرف مردوں کا ہے

ڈاکٹر کیتھی: ہو سکتا ہے لیکن ابھی ہم کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچے ہیں مگر یہ بھی ممکنہ وجہ تو ہو ہی سکتی ہے۔ لوگ نہایت سنجیدگی کے ساتھ معروضی گفتگو کر رہے تھے۔

سائل: یہ مسئلہ صرف اولاد تک محدود نہیں ہے اپنے والدین کو بھی تو ہم بھولے ہوئے ہیں۔ جی ہاں کئی شرکاء نے بیک آواز اس کی تائید کی

پروفیسر ٹام: ہماری نسل کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہم صرف اپنے حال میں جی رہے ہیں۔ اپنے ماضی اور مستقبل سے ہمارا رشتہ ٹوٹ چکا ہے۔ ہمارے والدین اور اولاد ان دونوں سے ہم بے نیاز ہو چکے ہیں۔

بزرگ سائل: لیکن ایسا پہلے تو نہیں تھا؟ کوئی زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ جب ہم اپنی اعلیٰ اقدار کے ساتھ یوروپ سے یہاں آئے تھے۔ خود ہمارے اپنے والدین ہم پر جان نچھاور کرتے تھے اور وہ اپنے والدین کا بھی بے حد خیال رکھتے تھے۔ یہ ہماری آنکھوں دیکھی بات ہے۔

فادر جوزف: مجھے تو لگتا ہے اس کی بنیادی وجہ خدا فراموشی ہے جو آگے چل کر خود فراموشی میں بدل گئی۔ سچ تو یہ ہے کہ جو خدا کو بھول جاتا ہے وہ اپنے آپ سے بھی غافل ہو جاتا ہے۔ اس صورتحال میں اسے اپنے نفع نقصان کا شعور بھی نہیں رہتا۔ وہ ایک جانور کی مانند کام و دہن کا بندہ بن جاتا ہے۔ وہ بیچارہ نہیں جانتا کہ کس نے اسے جنم دیا اور اس سے کون پیدا ہوا؟

سائل: آپ کی بات درست ہے فادر جانوروں اس کا پتہ نہیں ہوتا لیکن انہیں اس کی ضرورت بھی نہیں ہوتی لیکن ہم تو انسان ہیں اشرف المخلوقات ہمارے لئے تو یہ اقدار ناگزیر ہیں۔ اگر ہم ان سے دستبردار ہو گئے تو آج ہمارے بزرگ اور کل خود ہم سرکاری اولڈ ہاؤس میں تنہائی کے آغوش میں من جانب موت گھسٹنے پر مجبور ہو جائیں گے اور ہماری اولاد بے یار و مدد گار در در کی ٹھوکریں کھاتی پھرے گی۔ یہ نہ صرف قومی بلکہ ہم سب کا انفرادی مسئلہ بھی ہے۔ بحث خاصی گرم ہو چکی تھی

مائیکل: جناب مجھے ایسا لگتا ہے کہ ہم سب صرف ظاہری علامات پر گفتگو کر رہے ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ بنیادی عوامل کی جانب رخ کیا جائے۔

جیمی کارٹر: جی ہاں یہ نوجوان صحیح کہتا ہے۔ میرے خیال میں رشتۂ ازدواج کے تقدس کی پامالی تمام مسائل کی جڑ ہے جب تک نکاح کے ادارے کو دوبارہ بحال نہیں کیا جائے گا اس وقت تک شاخوں پر پتے چھانٹنے سے خاطر خواہ فوائدنہیں حاصل ہوں گے۔ ناجائز رشتوں کے بطن سے کڑوے کسیلے پھل نمودار ہوتے رہیں گے اور ہمارے کرب و الم کا اضافہ جاری رہے گا۔

سائل: میرا اعتراض یہ ہے کہ کیا محض چند نظری بحثوں سے یہ آسیب قابو میں آ جائے گا؟ مجھے تو ایسا نہیں لگتا۔ ہمیں کچھ ٹھوس قسم کے عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔

مائیکل: جی ہاں میں اس کی تائید کرتا ہوں۔ ماں کی ممتا اولاد کا سب سے بنیادی حق ہے۔ اور بچوں کیلئے اس حق کو یقینی بنانے کیلئے ضروری ہے خواتین کی توجہ اپنے دفتر کے بجائے گھر کی جانب مبذول کرائی جائے۔ مائیکل کی اس تجویز نے بہت سارے حاضرین محفل کو چونکا دیا۔

مسز مونیکا: مجھے لگتا کسی رجعت پسند بزرگ کی روح اس نوجوان کے اندر حلول کر گئی ہے۔ یہ پھر سے چاہتا ہے کہ ہمیں گھر کی چہار دیواری میں مقید کر دے۔ ہم اسے کسی صورت برداشت نہیں کریں گے۔

بل کلنٹن: بیٹے اگر تمہاری بات درست ہو تب یہ کوئی آسان کام نہیں ہے کہ ان با صلاحیت اور ہنر مند خواتین کے شب و روز کو چولہا چوکی تک محدود کر دیا جائے۔ صدیوں کی جد و جہد کے بعد بڑی مشکل سے ہم انہیں گھر سنسار کی زنجیروں سے آزاد کر کے باہر کی دنیا کے اندر لانے میں کامیاب ہوئے ہیں اب گھڑی کا یہ کانٹا دوبارہ پیچھے کی جانب نہیں مڑ سکتا۔ ان خواتین کو اب دوبارہ گھر کے اندر لے جانا نا ممکن ہے۔

مائیکل: اس میں کون سی ایسی مشکل ہے؟ یہ نا ممکن کیوں ہے؟

پروفیسر ٹام: مائیکل تم نے بل کے جواب پر غور سے نہیں کیا ورنہ تمہیں یہ سوال کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔ بل کے خیال میں باصلاحیت خاتون کا گھر میں رہنا ضیائے وقت ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ بچوں کی پرورش اور نگہداشت کیلئے کوئی ہنر مندی درکار نہیں ہے۔ گھر سنسار کے اندر رہنا زنجیروں میں جکڑے رہنے کے مترادف ہے۔ ان سے آزادی ایک عظیم نعمت ہے۔ یہ صرف بل کی نہیں بلکہ ہم سب کی سوچ ہے اور جب تک اس فکری گمراہی میں ہم لوگ مبتلا رہے ہیں گے اس طرح کے مسائل پیدا ہوتے رہیں گے اور کوئی ان کا کوئی حل ہمیں سجھائی نہیں دے گا۔

مس ویرونیکا: یہ محض کوئی فکری عیاشی کا معاملہ نہیں ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ امورِ خانہ داری کو غیر پیداواری عمل قرار دے کر اشتراکی اور سرمایہ دارانہ دونوں ہی نظریات نے حقیر بنا دیا ہے۔ اب اسے دوبارہ محترم بنانا کارِدارد ہے۔

مسز مونیکا: میں ویرونیکا کی تائید کرتی ہوں لیکن اس نفسیاتی پہلو کے علاوہ اس کا ایک معاشی زاویہ بھی ہے۔ جو خواتین برسرِ روزگار ہیں انہیں پنشن ملتی ہے لیکن جو گھر کے اندر ہی رہیں گی وہ اپنی آخری عمر میں ہر طرح کی قومی امداد سے محروم ہو جائیں گی اس لئے اس طرح کی بچکانہ تجویز کوئی ناتجربہ کار نوجوان ہی دے سکتا ہے جس نے ابھی دنیا نہیں دیکھی۔

ہیلری کلنٹن: مائیکل کم عمر اور نا تجربہ کار ضرور ہے لیکن کیا آپ سوویت یونین کے سابق صدر گوربا چیف کیلئے بھی آپ یہی القاب استعمال کرنے کی جرأت کریں گی؟

مسز مونیکا: کیا آپ میخائیل گورباچیف کی بات کر رہی ہیں؟ اگرایسا ہے تو میں ببانگِ دہل اعتراف کرتی ہوں کہ ان سے زیادہ ذہین اشخاص ہماری نسل میں خال خال ہی پائے جاتے ہیں۔

ہیلری کلنٹن: اگر ایسا ہے تو آپ یہ کریں کہ ان کی مشہورِ زمانہ کتاب پریسٹوئیکا کو اٹھا کر دیکھ لیں۔

سائل: پریسٹوئیکا تو سویت یونین سے متعلق لکھی ہوئی کتاب ہے اس کا امریکہ سے کیا لینا دینا؟

ہیلری: آپ کیسی بات کرتے ہیں اس کے اندر خواتین اور نوجوانوں کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے وہ کسی جغرافیائی حدود و قیود کا پابند نہیں ہے۔ وہ لکھتے ہیں ہم خواتین کو تحقیقی تجربہ گاہوں سے لے کر تعمیری سائیٹس تک لے گئے لیکن اس کے سبب ہم نے ان کے خصوصی مسائل کی جانب سے صرفِ نظر کیا۔ ہم نے خواتین کو ان کی حقیقی ذمہ داری یعنی خاندان کی تعمیر کا انہیں موقع ہی نہیں دیا نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارا معاشرہ زبردست خلفشار کا شکار ہو گیا۔ اب ہمارے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ خواتین کو ان کے حقیقی مشن یعنی خاندان کی تعمیر کی جانب کیسے راغب کیا جائے؟

پروفیسر ٹام: میں سوویت یونین یا روس کے بارے میں تو نہیں جانتا لیکن ہمارے معاشرے کی حد تک یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ گورباچیف اس معاملے کو جس قدر آسان سمجھتے ہیں ایسا نہیں ہے۔ ہمارے اعصاب پر ھل من مزید کا بھوت سوارہے۔ اس لئے معیارِ زندگی کو بلند سے بلند تر کرنے کے لئے دونوں میاں بیوی کا برسرِ روزگار ہونا لازمی ہو گیا ہے۔

ڈاکٹر کیتھی: پروفیسر صاحب آج کے حالات میں اسے آپ محض ہوس پرستی سے منسوب نہیں کر سکتے۔ آپ کو پتہ ہو گا کہ روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باعث متوسط طبقہ کے لوگ اپنی روزمرہ کی ضروریات کو بھی پورا کرنے میں دقت محسوس کر رہے ہیں۔

مسز مونیکا: جی ہاں میں کیتھی سے اس اضافہ کے ساتھ اتفاق کرتی ہوں کہ معاشی بحران کے پیشِ نظر آج کل جو غیر یقینی صورتحال پیدا ہو گئی ہے اس میں کسی بھی وقت ملازمت کے چلے جانے کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔ نت نئے قوانین آئے دن کاروبار کو بند کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں ایسے میں اگر گھریلو آمدنی کا سارا انحصار ایک فرد پر ہو تو وہ خاندان معاشی نقطۂ نظر سے خاصہ غیر مستحکم ہو جاتا ہے۔ اس لئے دونوں ازواج کا برسرِ روزگار ہونا ہماری مجبوری بن گیا ہے۔

کولن پاویل: مجھے خوشی ہے کہ آپ سب اس بحث میں نہایت دلچسپی کے ساتھ حصہ لے رہے ہیں۔ میں نے جب اس موضوع کو چھیڑا تھا تو مجھے خود اندازہ نہیں تھا کہ یہ اس قدر ہمہ جہتی پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔

جیمی کارٹر: جی ہاں بحث تو دلچسپ ہو گئی ہے اس میں کوئی شک نہیں مگر مجھے افسوس ہے کہ ہم لوگوں کی گفتگو قومی سطح سے اتر کر خاندانی اور ذاتی زندگی میں محدود ہو گئی ہے۔

سنیٹر شمعون: جی ہاں ہم مائیکل کی اس احمقانہ تجویز سے اپنی قومی معیشت پر پڑنے والے مضر اثرات سے بے پرواہ نہیں ہو سکتے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ رجعت پسندی ہماری تفریح کی صنعت میرا مطلب فلمیں اور ٹی وہ سیریل کو بھسم کر دے گی۔ اس کے علاوہ ایک اور صنعت عریاں فلموں کی بھی ہے جس میں سرمایہ کاری بڑی بڑی صنعتوں سے تجاوز کر گئی ہے۔ دنیا بھر میں فی الحال عریاں فلموں کا کاروبار ۶۲ بلین ڈالر ہے جن میں سے ۱۲ بلین ہمارا اپنا حصہ ہے۔ آپ نے سوچا ہے اس صنعت کا کیا ہو گا۔ اس کے ذریعہ سے روزگار پانے والے لوگ بے کار ہو جائیں گے۔ اس لئے میرا مشورہ یہ ہے ہم لمبی لمبی ہانکنے کے بجائے اس مسئلے کا شارٹ ٹرم حل اس طرح نکالیں کہ جو موجودہ نظام سے نہ ٹکرائے میرا مطلب ہے سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔

جان ڈیو: سنیٹر شمعون کی دانشمندی کو میں قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں اور شارٹ ٹرم حل کی تجویز کی مکمل تائید کرتا ہوں بلکہ آپ کو یہ جان کر خوشی ہو گی کہ حکومت اس جانب ایک قدم آگے بڑھ اچکی ہے۔

سائل: ہم جان کی بات نہیں سمجھے۔ وہ چونکہ پالیسی ساز ہیں اس لئے وضاحت فرمائیں تو بہتر ہو گا۔

جان ڈیو: جی ہاں ضرور۔ آپ حضرات ہمارے معاشرے کا مکھن ہیں اس لئے آپ سے کیا چھپانا۔ ہم نے عراق کا محاذ یہی سوچ کر کھولا ہے اور اپنے نوجوانوں کو وہاں مرسینری کے طور پر بھیج رہے ہیں۔

جیمی کارٹر: لیکن یہ کیسا حل نہ ہے؟ آج نہیں تو کل وہ نوجوان واپس بھی تو آ جائیں گے پھر ہم کیا کریں گے؟

جان ڈیو: جی ہاں ان میں سے کچھ تو کام آ جائیں گے اور کچھ واپس آئیں گے لیکن یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ آج عراق، کل ایران اور پھر شام، مصر اور سوڈان یا کوریا۔ دنیا بھر میں بے شمار محاذ ہمارے منتظر ہیں یہ لوگ کہیں نہ کہیں مصروفِ کار کر دئیے جائیں گے اور بالآخر چین تو موجود ہی ہے جس سے ہمیں لمبی لڑائی لڑنی ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ حکمتِ عملی ہماری تین چار نسلوں تک کیلئے کافی ہے۔ اس کے بعد جو ہو گا دیکھا جائے گا۔

جان ڈیو کی اس تجویز پر ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ چہار جانب سے صدائے احتجاج بلند ہونے لگی۔ یہ تو نسل کشی ہے۔ یہ ہماری قوم کا دشمن ہے۔ یہ ہمارے نوجوانوں کا قاتل ہے۔ اس کو سب سے پہلے عراق بھیجو۔ اور وہیں دفن کر دو۔ یہ ہماری قوم کا ناسور ہے۔ اس طرح کے الفاظ سے فضا مکدر ہو گئی۔ پاویل نے سوچا اس احمق شخص نے سب کئے دھرے پر پانی پھر دیا۔ جب تک ایسے لوگ موجود رہیں گے آئندہ نسل کا اللہ ہی حافظ ہے۔

کولن پاویل: خواتین و حضرات آپ سب کو اندازہ ہو گیا ہو گا یہ مسئلہ کس قدر الجھا ہوا ہے اس لئے کسی ایک نشست میں یہ گتھی سلجھ نہیں سکتی۔ لیکن اگر ہم نے غور و خوض کا سلسلہ جاری رکھا تو مجھے یقین ہے کہ جلد یا بدیر کوئی نہ کوئی حل نکل ہی آئے گا۔ اگر آپ لوگوں کے پاس مزید کوئی اور سوال نہ ہو تو میرے خیال میں یہی بہتر ہے کہ آج کی نشست کے خاتمہ کا اعلان کیا جائے؟

سائل: محترم ! کیا آپ جاتے جاتے یہ بتلانا پسند کریں گے کہ آپ کی برطرفی کے پیچھے کیا عوامل کارفرما تھے؟

کولن پاویل: ( مسکرا کر)کیوں نہیں ! سیاست کی اس دنیا میں آنے کے بعد بڑے عرصے تک تو میں بغیر سوچے سمجھے کام کرتا رہا گویا من عن اطاعت کرتا رہا۔ اس کے بعد میں نے اول تو سوچنا شروع کیا یہ نہایت بے ضرر عمل تھا اس لئے اس کا کوئی رد عمل نہیں ہوا۔ اس کے بعد میں جو کچھ سوچتا تھا وہ بولنے لگا۔ اسے جمہوری نظام میں موجود اظہار رائے کی آزادی کے زمرے میں ڈال کر برداشت کر لیا گیا لیکن جب میں نے اس پر عمل درآمد شروع کیا تو بات بگڑ گئی۔

مائیکل: تو کیا اس کا مطلب سمجھا جائے کہ ہمارے نظام سیاست میں صرف سوچنے اور بولنے کی آزادی ہے کرنے کی نہیں؟

کولن پاویل: کون کہتا ہے کہ ہمیں کچھ کرنے کی آزادی نہیں ہے لیکن اس لکشمن ریکھا کے اندر ہے جو آپ کے سوامی رام نے کھینچ رکھی ہو۔

مسز مونیکا: اور اگر کسی نے اس کے باہر قدم رکھا تو؟

کولن پاویل: تو اسے بن باس پر بھیج دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ مجھے بھیج دیا گیا ہے۔ اچھا تو چلا میں بن باس مجھے اجازت دیجئے۔ تالیوں کی گڑگڑاہٹ پر یہ الوداعی تقریب اختتام پذیر ہوئی اور پھر ایک بار لوگ بکھر گئے۔ کچھ میزوں کے آس پاس اور کچھ اِدھر اُدھر کھڑے ہو کر گفتگو کرنے لگے۔ ہر کوئی انتشار فکر کا شکار تھا۔







اُلفت، دہشت اور سیاست



شرجیل کے گھوڑے کی ٹاپ سے سارا جنگل گونج رہا تھا۔ بدحواس ہرن بے تحاشہ بھاگ رہا تھا اور اس کے پیچھے شرجیل دیوانہ وار دوڑ رہا تھا۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا کہ تیر شرجیل کی کمان سے نکلا اور نشانہ چوک گیا۔ وہ اپنی اس ناکامی سے بوکھلا گیا تھا اور ہر صورت میں ہرن کو اپنے قابو میں کر لینا چاہتا تھا۔ ہرن تیزی سے گھنے جنگل میں داخل ہو گیا۔ شام کے سائے لمبے ہونے لگے۔ شرجیل کی مشکلیں بڑھنے لگیں لیکن لفظ شکست کا شرجیل کی لغت میں کوئی وجود نہ تھا وہ جس چیز کا ارادہ کرتا اسے ہر صورت حاصل کر لینے کا قائل تھا۔ ناکامی کے احساس نے اسے پاگل کر دیا۔ اس دیوانگی کے عالم میں وہ ایک گہری کھائی کے دہانے پر پہونچ گیا۔ اس سے پہلے کہ وہ اپنے گھوڑے کو قابو میں کرتا گھوڑا پھسل گیا اور شرجیل ایک بے جان پتھر کی طرح نشیب کی جانب لڑھکنے لگا۔

جب شرجیل کو ہوش آیا تو اس نے اپنے آپ کو ایک جھیل کے کنارے پڑا پایا۔ شیبا اس کے منہ پر پانی چھڑک کر اسے ہوش میں لانے کی کوشش کر رہی تھی۔ پانی پینے کے بعد جب زخموں سے چور شرجیل نے گرد و پیش کا جائزہ لیا تو دیکھا کہ وہ ایک نہایت پُر فضا مقام پر پڑا ہے۔ شیبا اس کے ہوش میں آتے ہی حکیم جی کو بلانے دوڑ پڑی اور چند منٹوں میں حکیم صاحب کے ساتھ لوٹ آئی۔ پہلے شرجیل کے زخموں کو دھویا گیا پھر اس کی مرہم پٹی کی گئی اور اس کے بعد ایک گدھے پر ڈال کر اسے گاؤں میں لے آیا گیا۔ چونکہ شیبا نے سب سے پہلے اسے دیکھا تھا اس لیے قبائلی روایات کے مطابق وہ شیبا کا مہمان ٹھہرا۔ شیبا اپنی جھونپڑی میں بوڑھے باپ کے ساتھ رہتی تھی۔ اس کا عم زاد بھائی سعد قبیلہ کا سردار تھا۔ اس کی سگائی سردار کے چھوٹے بھائی سعید سے ہو چکی تھی اور اگلی بہار میں نکاح کی تیاریاں چل رہی تھیں۔

ایک ہفتہ کی دیکھ ریکھ کے بعد شرجیل صحت مند ہو گیا۔ وادیِ فردوس کی ہر چیز نے اس کی صحتمندی میں اپنا تعاون پیش کیا۔ یہاں کی ہوا، فضا، یہاں کے خوش خلق اور شفیق لوگ۔ حکیم صاحب کے کارگر نسخہ اور شیبا کی تیمار داری۔ اب جب کہ شرجیل چلنے پھرنے لگا تھا اسے لوٹ کر جانا تھا۔ شام میں قبائلی سردار نے اپنی جانب سے اس کی دعوت کا خاص اہتمام کیا اس لیے کہ فردوسی اور قحطانی قبیلوں کے درمیان بہت پرانے مراسم تھے۔

کسی زمانے میں یہ دونوں قبائل مرزوقی کہلاتے تھے اور قحطان ندی کے کنارے میدانی علاقے میں آباد تھے۔ یہ ایک نہایت زرخیز علاقہ تھا۔ زراعت ان کا پیشہ تھا۔ مویشیوں کی ان کے پاس کثرت تھی اپنے علاوہ آس پاس کے علاقوں کے لیے اناج بھی یہیں سے جاتا تھا۔ قدرتی وسائل نے ان لوگوں کو خوش حال بنا دیا تھا۔ خوش حالی کے ساتھ کبر و غرور، عیش کوشی اور دوسری اخلاقی خرابیاں رفتہ رفتہ ان کے معاشرے میں پنپنے لگی تھیں۔ بڑے بوڑھوں کے سمجھانے کو نوجوان گزرے زمانے کی باتیں کہہ کر نظر انداز کر دیتے اور موج مستی میں لگے رہتے۔ برسات ہر دو تین سال میں ایک بار ہوتی تھی مگر قحطان ندی سے کام چلتا رہتا تھا۔

ایک بار ایسا ہوا کہ مسلسل پانچ سال تک بارش نہ ہوئی۔ ندی کا پانی تو چوتھے سال ہی کم ہو گیا تھا۔ پانچواں سال آتے آتے ندی ایک بڑا سا میدانی نالا بن گئی۔ اناج کے گودام بھی خالی ہونے لگے۔ مویشیوں کا چارا ختم ہونے لگا۔ وقت کے ساتھ گاؤں کے بزرگوں نے اسے عذابِ خداوندی قرار دے دیا۔ چونکہ اس کو روکنے کی خاطر خواہ ذمہ داری انہوں نے ادا نہیں کی تھی اس لئے وہ خود اس کی زد میں آ گئے تھے۔

اس قحط نے مرزوقیوں کے اس زعم کو توڑ دیا تھا کہ ہم اس علاقے کے اَن داتا ہیں۔ اُن کے دم سے لوگوں کا پیٹ بھرتا ہے۔ مرزوقی خود دانے دانے کو محتاج ہو گئے تھے اور قطرہ قطرہ پانی کو ترس رہے تھے۔ یہ بات مرزوقیوں پر صادق آ رہی تھی کہ انسان نعمتوں کی قدردانی اسی وقت کرتا ہے جب وہ چھن جاتی ہیں۔ جب تک نعمت حاصل رہتی ہے نا قدری کرتا رہتا ہے۔ مرزوقیوں نے مجبوراً وادیِ قحطان سے ہجرت کا فیصلہ کر لیا۔ یہ بڑا سخت فیصلہ تھا اس لئے کہ انہیں اس سرزمین سے، ان کھیتوں اور کھلیانوں سے، ندی اور نالوں سے بے حد محبت تھی۔ وہ ان پر بڑا ناز کرتے تھے لیکن جب وہ سب بیکا رہو گئے اور ان کی افادیت صفر ہو گئی تو نقلِ مکانی کے سوا کوئی چارۂ کار نہ رہا۔

مرزوقیوں نے مخلوقات پر فریفتہ ہو کر اپنے خالق کو بھلا دیا تھا لیکن جب غفلت کا غرور ٹوٹا تون کی توجہ پھر سے اپنے خالق کی جانب مبذول ہوئی۔ قبیلے کے سردار نے اعلان کیا ’’مایوسی کفر ہے ہمیں اپنے کیے کی سزا مل رہی ہے۔ اس سزا کو اب کوئی طاقت ٹال نہیں سکتا، گو کہ تمام راستے بند ہو چکے ہیں۔ قحطان ندی خشک ہو چکی ہے لیکن اللہ کی زمین وسیع ہے۔ جس نے ہمیں زندگی دی ہے رزق بھی دے گا۔ اس کے سہارے اسی سے امید باندھے اس معتوب بستی سے نکل چلو۔ ‘‘ قبیلے کے تمام لوگوں نے سردا رسے اتفاق کیا اور رہنمائی کیلئے اس سے رجوع کیا۔ ہر آنکھ اپنے سردار سے سوال کر رہی تھی کہ اب کہاں چلنا ہے؟ سردار نے اعلان کیا۔ ’’چلو پہاڑوں کی جانب چلتے ہیں۔ شاید وہاں ہمارے نام کا رزق رکھا ہو۔ ‘‘

پہاڑوں کا نام سن کر کچھ تو گھبرا گئے اور کچھ مایوس ہو گئے۔ کسی نے کہا۔

’’یہ تو بڑی محنت کا کام ہے۔ یہ اب ہم سے نہیں ہو گا۔ ‘‘

کسی نے کہا۔ ’’اپنے مال واسباب کو لے کر پہاڑوں پر چڑھنا مشکل ہے۔ کیوں نہ ہم میدانوں ہی کی طرف چلیں۔ کیا ضروری ہے کہ پہاڑوں میں کامیابی ہاتھ آ ہی جائے۔ ‘‘

سردار نے کہا۔ ’’ہاں ضروری تو نہیں لیکن میری چھٹی حس کہتی ہے کہ ہمارا سامان زیست ضرور ان پہاڑوں میں کہیں چھپا ہوا ہے اور جہاں تک محنت کا سوال ہے اس کے بغیر تو کچھ بھی حاصل نہ ہو گا۔ بلکہ ہم پر آنے والے عذاب کی ایک وجہ عیش کوشی بھی ہے۔ اب ساز و سامان چکر چھوڑو اور چلو اوپر کی جانب ہمیں کوہسار بلاتے ہیں۔ ‘‘

سردار کی تقریر سے قبیلے کے کچھ لوگوں نے اتفاق کیا اور اس کے ساتھ ہو لیے۔ لیکن بڑا حصہ ہمت نہ کر سکا۔ انہوں نے سردار کی روانگی کے بعد ایک نئے سردار کا انتخاب کیا اور اپنے سازوسامان باندھنے کے لیے اپنے گھروں کی جانب روانہ ہو گئے۔ وہ زیادہ سے زیادہ سامانِ سفر اپنے ساتھ رکھنا چاہتے تھے۔ لیکن بھول گئے تھے مال و اسباب ہی نے ان کے سفر کو بوجھل کر دیا ہے۔ دو قافلے دو مختلف سمتوں میں رواں دواں تھے۔ ایک راستہ مشکل تھا لیکن چونکہ وہ ہلکے پھلکے تھے اس لیے تیزی کے ساتھ سرگرم سفر تھے اور دوسرا آسان راستوں کی جانب اس قدر سامان سے لدا پھندا تھا کہا قدم نہ اٹھتے تھے۔

پہاڑ والوں نے ابھی چند ٹیلے پار کیے تھے کہ انہیں ایک وسیع و عریض جھیل نظر آئی۔ ان کی آنکھوں کو یقین نہیں آ رہا تھا اس قدر عظیم وسیلہ حیات ان کے اس قدر قریب ہے۔ اس جھیل کا پانی ان کے لیے آبِ حیات تھا۔ جھیل کے اوپر سے ہو کر آنے والی ہواؤں کی خنکی انہیں تر و تازہ کر رہی تھی۔ سردار نے اپنے ہاتھ آسمان کی جانب اٹھائے اور شکر کے جذبات کا اظہار کرنے لگا۔ قبیلہ کے وہ تمام افراد جو اس کے پیچھے تھے وہ سب اس کے ہر جملہ بلکہ ہر لفظ پر آمین کہہ رہے تھے۔ یہ الفاظ زبان سے نہیں بلکہ دل سے ادا ہو رہے تھے۔ جھیل کے قریب پہونچ کر قافلہ کے سردار نے اعلان کیا یہ ہمارے لیے اللہ کی جانب سے جنت الفردوس کا تحفہ ہے۔ آج سے اس جھیل کا نام فردوس ہے اور اسی کے نام پر مرزوقی قبیلہ کے اس حصہ کو نیا تشخص حاصل ہو گیا اور وہ فردوسی کہلانے لگے۔

مرزوقیوں کے دوسرا گروہ میدانوں کی خاک چھانتا رہا۔ ہر صبح سورج کے ساتھ انہیں ایک سراب نظر آتا جس کے پیچھے وہ اپنے مال و اسباب کے ساتھ چل پڑتے اور شام ہوتے ہوتے ہوتے وہ سراب آنکھوں سے اوجھل ہو جاتا۔ وہ تھک کر بیٹھ جاتے کچھ کھاتے پیتے۔ اگلے دن کے سمت سفر پر غور و خوض کر تے اور سو جاتے۔ پہلے کچھ دن چونکہ سامان سفر کافی تھا ان کے حوصلہ بلند تھے لیکن جیسے جیسے مقدار کم ہونے لگی مایوسی گھر کرنے لگی۔ طرح طرح کے اندیشے جنم لینے لگے۔ کیا ہو گا جب چارہ ختم ہو جائے گا؟ کیا ہو گا جب مویشی مر جائیں گے؟ سواریوں کے بغیر سفر کیسے ممکن ہو گا؟ یہ خیال ان لوگوں کو ستانے لگا۔

ایک شام جب وہ سمت سفر پر غور و خوض کر رہے تھے ایک نوجوان نے اٹھ کر سردار کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ وہ کہہ رہا تھا ’’ کل میری دو بکریوں نے دم توڑ دیا آج میرا گدھا فوت ہو گیا۔ اب آگے کیا ہو گاجو سامان صبح میرے گدھے پر تھا اب میرے کندھوں پر ہے اب اسے سنبھالوں یا اپنے آپ کو سنبھالوں۔ کل اگر دوسرا گدھا بھی فوت ہو جائے تو میں کتنوں پر لدا بوجھ اٹھاؤں گا۔ میری حالت تو گدھے سے بھی بدتر ہو گئی ہے۔ ‘‘

سردار نے جھلا کر کہا۔ ’’اس میں میرا کیا قصور ہے میری حالت بھی تم سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ ‘‘

ایک اور شخص بول پڑا۔ ’’قصور کیوں نہیں ہے تم سردار ہو ہر روز سمت سفرطے کر کے ہمیں یقین دلاتے ہو کہ کل پرسوں میں ہمارا مسئلہ حل ہو جائے گا لیکن وہ کل ہر روز کل پر ٹل جاتا ہے۔ اب تو ہمارے کل پرزے ڈھیلے ہو گئے ہیں۔ ‘‘

سردار نے کہا۔ ’’دیکھو بلاوجہ مجھے موردِ الزام نہ ٹھہراؤ میں ہر روز تم لوگوں سے مشورہ کرتا ہوں اور تمہاری رائے سے سفر کا راستہ طے کرتا ہوں۔ اس لیے اس در بدری اور گمراہی میں تم بھی برابر کے شریک ہو۔ ‘‘

’’یہ تو زیادتی ہے۔ ‘‘ ایک نوجوان نے کہا۔ ’’ہم تمہیں الگ الگ مشورہ دیتے ہیں تم ان میں سے کسی ایک کو قبول کرتے ہو اور بقیہ کو رد کر دیتے ہو۔ میرا مشورہ تو آج تک تم نے کبھی بھی قبول نہ کیا ہمیشہ ہی مسترد کر دیا اور اب مجھے بھی اپنے گناہ میں شریک کر رہے ہو۔ ‘‘

سردار بولا۔ ’’بھئی یہ تو میری مجبوری ہے۔ سفر کی سمت تو ایک ہی ہو سکتی ہے چاہے غلط ہو یا صحیح۔ اب اگر تم متضاد مشورے دو گے تو میں ان سب کوکیسے قبول کر سکتا ہوں؟ اس لیے کسی ایک کو قبول کرنا پڑتا ہے۔ یہ تو عملی مجبوری ہے۔ ‘‘

’’لیکن رد و قبول کی بنیاد کیا ہوتی ہے۔ ‘‘

’’اپنا قیاس یا گمان جو بھی کہہ لو۔ ‘‘

’’تب تو یہ فیصلہ ہمارا کب رہا؟ یہ تو تمہارا اپنا ہو گیا۔ ‘‘

سردار نے سمجھاتے ہوئے کہا۔ ’’ارے بھئی مشورہ تو تم سے لیتا ہوں اور اسے قبول بھی کرتا ہوں۔ اب اور تمہیں کیا چاہئے؟ ‘‘

یہ سن کر ایک بزرگ کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہنا شروع کیا۔ ’’بس کرو یہ ڈھکوسلے بازی، ہم خوب سمجھتے ہیں تمہاری چال بازی۔ تم مشورے سبھی سے مانگتے ہو۔ اس دوران تمہارے حاری حواری وہ مشورے دے دیتے ہیں جو تمہاری اپنی مرضی کے مطابق ہوتا ہے اور تم انہیں قبول کر لیتے ہوا لیکن جب ناکامی ہاتھ لگتی ہے تو ٹھیکرا ہمارے سر پھوڑ دیتے ہو۔ انہیں مکاریوں نے ہمیں رحمتِ خداوندی سے محروم کر دیا ہے۔ ہم عرصۂ دراز سے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں ایک دوسرے کو بلکہ اپنے آپ کو احمق بنا رہے ہیں۔ ‘‘

بزرگ نے سردار کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھتے ہوئے سوال کیا۔ ’’اچھا تو یہ بتاؤ کہ زیادہ سے زیادہ سازوسامان لینے کی رائے کس کی تھی؟ ‘‘

سردار بگڑ گیا۔ ’’ہاں میری تھی۔ میں نے ہی تم سے یہ کہا تھا کہ زیادہ سے زیادہ سامان اپنے ساتھ رکھ لو اور وہ فیصلہ صحیح بھی تھا۔ اس لیے کہ اگر تم کنگال اور بدحال نکلتے تو اب تک کب کے فاقہ کشی کا شکار ہو کر مر کھپ گئے ہوتے۔ ‘‘

’’نہیں یہ غلط ہے۔ اگر ہمارے پاس سازوسامان کم ہوتا تو اب تک ہم کئی گنا زیادہ فاصلہ طے کر چکے ہوتے اور ہو سکتا تھا کسی ایسے مقام پر پہنچ چکے ہوتے جہاں ہمارے اور ہمارے مویشیوں کے لیے پانی اور غلہ وغیرہ موجود ہوتا۔ ‘‘

ایک اور نوجوان نے کہا۔ ’’سوال صرف رفتار کا نہیں ہے۔ اگر آدمی تیز رفتاری غلط سمت میں سفر کرے تب بھی منزل سے قریب ہونے کی بجائے دور ہو جاتا ہے۔ مجھے تو لگتا ہے ہم نے اپنے سفر کی صحیح سمت سے بیگانہ ہو گئے ہیں۔ ‘‘

ایک بزرگ کھڑے ہوئے انہوں نے کہا۔ ’’معاملہ صرف سمت کا نہیں بلکہ توکل ّکا بھی ہے۔ ہم نے تمام تر انحصار اپنی عقل فہم اور مادی وسائل پر کیا اور صحرا میں بھٹکتے رہے۔ اب جب کہ عقل نے جواب دیا وسائل کی ارزانی ہونے لگی تو ہم مایوسی کا شکار ہو رہے ہیں۔ ہماری خود اعتمادی کا مضبوط قلعہ زمین بوس ہو چکا ہے اور ہم باہم ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرانے لگے ہیں۔ ‘‘

بزرگ کی اس بات سے سبھی نے اتفاق کیا۔ سردار کی عقل بھی ٹھکانے آ گئی۔ اس نے خندہ پیشانی سے بزرگ کی جانب دیکھا اور سوال کیا۔ ’’آپ کی تمام باتیں درست ہیں۔ یقیناً ہم سے غلطی ہوئی ہم اس پر شرمندہ ہیں۔ لیکن اب آپ بتلائیں کہ ہم کیا کریں؟ ‘‘

بزرگ نے کہا۔ ’’اگلے وقتوں کی بات ہے جب ہم بچے تھے۔ اس وقت اگر ہم پر کوئی آفت و مصیبت آتی تو پروردگار کی جانب رجوع کرتے۔ اس سے مدد و نصرت کی التجا کرتے۔ ہمارا سردار استخارہ کرتا اور صبح اٹھ کر استخارے پر اپنے ساتھیوں سے مشورہ کرتا۔ اس طرح نہ صرف ہمیں منزل کا نشان بلکہ منزل مقصود بھی مل جاتی۔ ‘‘

’’اچھا تو ہم بھی ایسا ہی کریں گے۔ ‘‘ سردار نے تائید کی

سبھی لوگوں نے بزرگ سے درخواست کی کہ وہ دعا کریں۔ دعا کے خاتمے پر نم دیدہ سردار نے بزرگ سے استدعا کی کہ آپ رات استخارہ فرما کر صبح دم ہماری رہنمائی فرمائیں۔

بزرگ مسکرائے انہوں نے کہا۔ ’’بیٹے تمہارے آنسوؤں نے خطاؤں کے سب داغ دامن سے دھل دیئے ہیں۔ استخارہ تمہارا حق ہے اور رہنمائی تمہاری ذمہ داری ہے تم اللہ کے سہارے آگے بڑھو ہم سب تمہارے ساتھ ہیں۔ ‘‘

بزرگ کے ان مشفقانہ کلمات نے سردار کی آنکھوں کو ٹھنڈک بخشی اور وہ نیند کی آغوش میں چلا گیا۔

رات سردار نے ایک بھیانک خواب دیکھا۔ وہ اپنے قافلے کے ساتھ لق و دق صحرا میں رواں دواں ہے کہ اچانک گرد و غبار کی شدید آندھی آتی ہے۔ ہوا کی رفتاراس قدر تیز ہے کہ وہ اپنے ساتھ قافلے کا تمام مال و اسباب اُڑا لے جاتی ہے۔ قافلے کا ہر فرد خوف و دہشت سے کانپ رہا ہے۔ سب کے سر پر موت کا سایہ منڈلا رہا ہے۔ قافلے والوں کو یقین ہو جاتا ہے کہ اب ان کا آخری وقت آ چکا ہے۔ اب مرزوقی قبیلہ صفحۂ ہستی سے مٹ کر ایک داستان پارینہ بن جائے گا۔ لوگ توبہ اور استغفار کرنے لگتے ہیں۔ لیکن ہواؤں کی بڑھتی ہوئی رفتار چلا چلا کر یہ کہہ رہی ہوتی ہے کہ قبولیت دعا کی مہلت ختم ہو چکی ہے۔

اچانک ان آندھیوں کے ساتھ بادل نمودار ہونے لگتے ہیں۔ اس حقیقت کو جانتے ہوئے بھی کہ ان ہواؤں کے بادلوں کو وہ اپنے ساتھ لے جائے گی قافلے والوں کے دل میں اُمید کی کرن پھوٹ پڑتی ہے اور پھر معجزاتی طور پر وہ بادل برسنے لگتے ہیں۔ ایسا تو کبھی نہیں ہوا۔ ایسا کیونکر ہو سکتا ہے؟ لیکن ایسا ہو رہا ہے۔ قافلے والوں کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آتا۔ وہ پریشان ہو جاتے ہیں۔ یہ خواب ہے یا حقیقت۔ یہ حقیقت نہیں ہو سکتا ہے یہ خواب و خیال کی باتیں ہیں۔ قافلے میں شور اُٹھتا ہے یہ تو خواب و خیال کی باتیں ہیں۔

سردار جاگ جاتا ہے اور اسے یاد آتا ہے کہ وہ رات استخارے کی نیت اور دعا کر کے سویا تھا۔ صبح دم وہ بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے۔ انہیں اپنا خواب سناتا ہے۔ بزرگ اُسے اصحاب الرائے سے مشورہ کرنے کی تلقین فرماتے ہیں۔ ناشتے کے بعد سردار اپنے چنندہ ساتھیوں کے سامنے اپنا خواب پیش کر دیتا ہے۔ لوگ اس خواب کی تعبیر پر مختلف زاویوں سے غور کرتے ہیں۔ ایک نوجوان سوال کرتا ہے۔

’’آندھی کس رُخ سے آئی تھی۔ ‘‘

سردار اپنی یادداشت پر زور ڈال کر کہتا ہے۔ ’’مشرق کی جانب سے۔ لیکن ہمارے قافلے کا رُخ تو مغرب کی جانب ہے۔ ایسے میں ہم کیونکر اپنی منزل مقصود تک پہنچ سکتے ہیں؟ ‘‘

خواب کی تعبیر مل گئی۔ قافلے کا رُخ بدل گیا اور ایک نئی اُمید اور حوصلہ بھی حاصل ہو گیا۔ مزید ایک ہفتے کی مسافت کے بعد قافلہ جس مقام پر پہنچا یہ اُن کا جانا پہچانا علاقہ تھا۔ وہ لوگ گھوم پھر کر قحطان کے میدانوں میں آ گئے تھے۔ ان کی اپنی بستی اُن کی نظروں کے سامنے تھی۔ لیکن سب کچھ اُجڑا ہوا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے کسی شدید زلزلے کی نذر ہو گئی ہے یہ بستی۔

اس تباہی و بربادی کے باوجود وہ تمام لوگ زندہ اور صحیح سلامت تھے۔ انہوں نے سوچا اچھا ہی ہوا جو ہم یہاں سے نکل گئے۔ ورنہ جو حال ہماری عمارتوں کا ہوا ہے وہی حال ہمارا ہوتا۔ ہم ملبے میں پڑے تدفین کے منتظر ہوتے۔ اس خیال نے ان کے اندر زندگی کی اُمید پیدا کر دی تھی۔ اگر ہمیں مرنا ہوتا تو ہم مر چکے ہوتے۔ ہمیں زندہ رہنا ہے اسی لیے ہم زندہ ہیں۔ وہ دفعتاً اپنی پریشانیاں اور مصائب بھول گئے۔ ان کے دلوں میں جذبۂ شکر امڈ پڑا اور آسمان سے بوندا باندی شروع ہو گئی۔ دیکھتے دیکھتے سب کچھ جل تھل ہو گیا۔

قحطان ندی میں پہلے تو پانی کی ایک مہین سی لکیر نمودار ہوئی جو پھیلتے پھیلتے ایک وسیع دھارے میں تبدیل ہو گئی۔ ہر کوئی خوش تھا۔ ایک طویل صحرا نوردی کے بعد اُنہیں وہ سب حاصل ہو گیا تھا جو اُنہوں نے کھویا تھا۔ وہ اپنی زمین پر اپنی ندی کے کنارے تھے اور جانتے تھے کہ یہ نہایت زرخیز زمین قدرت کا انمول تحفہ ہے۔ اس کی ناقدری نے انہیں اس نعمت سے محروم کر دیا تھا۔ وہ تائب ہو چکے تھے۔ ایمان و یقین کی خوشگوار پھوار ان کے دلوں اور کھیتوں کو سر سبز و شاداب کرنے لگی تھی۔

قافلہ پھر سے قبیلہ بن چکا تھا۔ لوگ اپنے سردا رکو مبارکباد دے رہا تھے۔ اس حیات نو میں سردار نے خوش ہو کر اپنے قبیلے کا نیا نام عظیم قحط سے منسوب کر کے قحطانی رکھ دیا تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ قوم دوبارہ غفلت کا شکار ہو۔ اس کا خیال تھا کہ اگر وہ اس قحط کو یاد رکھیں گے تو پھر تن آسانی کا شکار نہ ہوں گے۔ عیش و طرب میں پڑ کر اپنی تباہیو بربادی کو دعوت نہیں دیں گے۔ اسی سردار سرخیل کا بیٹا شرجیل فردوسیوں کے یہاں اپنا علاج کروا رہا تھا۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

دوپہر کو شیبا کے والد نماز ظہر سے فارغ ہو کر گھر آئے کھانا کھایا اور آرام کرنے کی غرض سے اپنے بستر پر جانے لگے تو شرجیل نے ان سے کہا۔ ’’محترم چچا میں آپ سے کچھ ضروری بات کرنا چاہتا ہوں۔ ‘‘

عمرو چچا نے شفقت سے اسے پاس بلایا اور کہا۔ ’’ضرور بیٹے ضرور۔ کس بارے میں تم مجھ سے بات کرنا چاہتے ہو؟ ‘‘

’’شیبا کے بارے میں۔ ‘‘

یہ جملہ سنتے ہی شیبا کے کان کھڑے ہو گئے۔ والد کو کھانا کھلانے کے بعد وہ خود کھانے کے لیے بیٹھ رہی تھی۔

’’شیبا کے بارے میں؟ ‘‘عمرو چچا کو حیرت ہوئی انہوں نے پوچھا۔ ’’کیوں؟ اس سے کوئی گستاخی یا غلطی تو سرزد نہیں ہوئی؟ نادان لڑکی ہے۔ ‘‘

شرجیل نے نفی میں سرہلاتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی۔ ’’دیکھئے چچا ویسے تو فردوسی اور قحطانی ایک ہی آباء و اجداد کی اولادیں ہیں وہ تو حالات نے ان کو دو مختلف قبائل میں تقسیم کر دیا اور دوریوں کے باعث آپس میں اختلافات بھی پیدا ہوئے اور کبھی کبھار چپقلش بھی ہونے لگی۔ ‘‘

چچا عمرو نے تائید کی۔ ’’تم ٹھیک کہتے ہو۔ ‘‘

شرجیل نے بات بڑھائی۔ ’’میں چاہتا ہوں کہ ان دونوں قبیلوں میں قربت بڑھے۔ یہ پھر ایک دوسرے سے شیر و شکر ہو جائیں۔ ‘‘

’’بڑا نیک ارادہ ہے تمہارا۔ ہمارا سردار سعد بڑا کریم النفس انسان ہے۔ آج شام کی دعوت میں جب کہ سارا قبیلہ ایک جگہ جمع ہو گا، اگر تم نے اس خواہش کا اظہار کر دیا تو سب لوگ خوش ہو جائیں گے اور پھر تم قحطانیوں کے معمولی آدمی تو ہو نہیں تم سردار کے بیٹے اور مستقبل کے سردار ہو۔ تمہاری اس طرح کی سوچ تابناک مستقبل کی علامت ہے۔ ‘‘

شرجیل ان تاثرات سے خوش ہوا۔ اس نے کہا۔ ’’چچا یہ سب صرف باتوں سے نہ ہو گا۔ ہمیں کچھ عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ ‘‘

’’بجا کہتے ہو تم۔ لیکن عملاً کیا کیا جا سکتا ہے؟ ‘‘

’’میری تجویز یہ ہے کہ آپ شیبا کو میرے نکاح میں دے دیں۔ اگر فردوسیوں کی معزز خاتون قحطانی قبیلے کے سردار سے بیاہی جائے تو اس سے دونوں قبیلوں کے درمیان ایک فطری تعلق پیدا ہو جائے گا۔ پھر اس طرح کی رشتہ داریاں بڑھیں گی اور دوریاں اپنے آپ کم ہو جائیں گی۔ ‘‘

شرجیل کی اس تجویز کو سن کر عمرو چچا سکتے میں آ گئے انہوں نے کہا۔ ’’بیٹے میں تمہارے جذبات کی قدر کرتا ہوں ہماری عزت افزائی کے لیے تمہارا ممنون و شکر گزار ہوں۔ لیکن یہ نہیں ہو سکتا۔ ‘‘

’’کیوں نہیں ہو سکتا؟ ‘‘ شرجیل نے زور سے پوچھا۔ ’’میں جانتا تھا کہ آپ میری منافقانہ تائید کر رہے ہیں۔ فردوسیوں نے ہمیشہ ہی قحطانیوں کو اپنے سے حقیر سمجھا ہے اور یہی چیز آپ کو حامی بھرنے سے روک رہی ہے۔ ورنہ کس کی مجال ہے کہ اس علاقے میں قحطانی قبیلے کے سردار کی شادی کی پیشکش کو ٹھکرائے؟ ‘‘

’’نہیں بیٹے نہیں۔ بدگمانی سے بچو۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ بات در اصل یہ ہے کہ تمہارا پیغام تاخیر سے آیا ہے۔ شیبا کا نکاح تو بچپن ہی میں سعد سے طے ہو گیا۔ اور گزشتہ بہار میں سگائی کے بعد اس کا اعادہ بھی کر دیا گیا۔ ابھی چند دنوں بعد اس کا نکاح ہونے والا ہے۔ ایسے میں ہم تمہاری تجویز کو کیسے مان سکتے ہیں؟ ہمارے قبیلے میں بہت ساری ایسی لڑکیاں ہیں جن کی شادی ابھی طے نہیں ہوئی۔ تم جس سے چاہو نکاح کر لو ہم اسے اپنے لیے باعثِ فخر و سعادت سمجھیں گے۔ ‘‘

’’بہت خوب۔ ‘‘ شرجیل جھلایا ’’گویا میں نکاح اپنی پسند سے نہیں آپ لوگوں کی پسند سے کروں گا۔ جس سے میں نکاح کرنا چاہتا ہوں اس سے نہیں۔ جس سے آپ نکاح کروانا چاہتے ہیں اس سے شادی ہو گی یہ تو خوب زبردستی ہے۔ ‘‘

چچا عمرو اس اُلٹی دلیل پر چونک پڑے۔ ’’زبردستی میں نہیں، تم کر رہے ہو۔ اور اُلٹا مجھ ہی پر الزام لگا رہے ہو۔ یہ تو عجیب دھاندلی ہے۔ ‘‘

’’اچھا تو یہ زبردستی ہے۔ با عزت طریقے پر کسی کا ہاتھ مانگنا زبردستی ہے۔ کسی کو نکاح کا پیغام دینا دھاندلی ہے؟ ‘‘

’’نہیں بیٹے۔ نکاح کا پیغام دینا نہیں بلکہ جس دوشیزہ کا نکاح طے ہو چکا ہے اس کے لیے اصرار کرنا دھاندلی ہے۔ ہم تمہارے تعلقات کی استواری کی تجویز کا خیرمقدم کرتے ہیں اور تمہیں شیبا کے علاوہ جن کا نکاح طے نہیں ہوا ان میں سے کسی بھی لڑکی سے شادی کی پیش کش کرتے ہیں۔ ‘‘

’’یہ مشورہ آپ مجھے دے رہے ہیں۔ یہی بات آپ سعد سے نہیں کہہ سکتے کہ وہ ان میں سے جس سے چاہے نکاح کر لے۔ اس لیے کہ وہ آپ کے اپنے قبیلے کا آدمی ہے۔ آپ کے سردار کا بھائی ہے اور میں قحطانی ہوں۔ اسی کو عصبیت کہتے ہیں۔ ‘‘

’’دیکھو شرجیل تم بار بار بات کو گھما کر کسی اور جانب لے جاتے ہو۔ میں نے سعد سے وعدہ کیا ہے۔ ہم عہد کے پابند لوگ ہیں اور ہر صورت اس کی پاسداری کرتے ہیں۔ ‘‘

’’اچھا تو چچا عمرو سن لیجئے میں بھی شرجیل ابن سرخیل قحطانی ہوں۔ میں ’نہ ‘ سننے کا قائل نہیں ہوں۔ لفظ نا ممکن کا وجود میری لغت میں نہیں ہے۔ میں جو کرنا چاہتا ہوں کر کے رہتا ہوں۔ میں تو چاہتا تھا کہ دونوں قبائل کے تعلقات بہتر ہوں لیکن اگر آپ اسے خراب ہی کرنا چاہتے ہیں تو یوں ہی سہی۔ ‘‘

چچا عمرو نے شرجیل کو سمجھایا۔ ’’بیٹے تعلقات عدل و انصاف کی بنیاد پر استوار ہوتے ہیں۔ ظلم و زیادتی کی بنیاد پر تعلقات بگڑتے ہیں لیکن مجھے تمہارا ارادہ ٹھیک نظر نہیں آتا۔ ‘‘ یہ کہہ کر عمرو چچا اٹھے اور اپنے بستر پر دراز ہو گئے۔ وہ جہاندیدہ انسان تھے۔ سرخیل قحطانی کو انہوں نے بچپن سے جوان سے ہوتے دیکھا تھا اس کی ضد اور ہٹ دھرمی سے وہ اچھی طرح واقف تھے اور اب شرجیل میں بھی انہیں وہی سرخیل نظر آ رہا تھا۔

وہ خود سر سرخیل جس نے قبیلے کے سردار سے بغاوت کر کے پہاڑوں کے بجائے میدانوں کا رُخ کیا تھا۔ جس کے باعث مرزوقی دو حصوں میں تقسیم ہو گئے تھے۔ جسے اپنی خوش حالی پر کب رو غرور تھا۔ جس نے قحطان میں واپس آنے کے بعد آس پاس کے قبیلوں کو اپنے زیر اثر کر لیا تھا اور فردوسیوں پر دست درازی کی کوشش کی تھی۔ لیکن فردوسیوں کی جغرافیائی پوزیشن نے انہیں محفوظ رکھا تھا۔ پہاڑوں کے نشیب و فراز قحطانیوں کے لیے زحمت اور فردوسیوں کے لیے رحمت بنے ہوئے تھے۔

چچا عمرو عصر تک اپنے بستر پر پڑے رہے۔ لیکن انہیں نیند نہ آئی اذان کی آواز جیسے ہی بلند ہوئی وہ اپنے بستر سے اٹھے اور مسجد کی جانب روانہ ہو گئے۔

شیبا اپنے ہاتھوں میں چائے کی دو پیالیاں لے کر مہمان خانے میں آئی اور اپنے والد کو غیر حاضر پا کر چونک پڑی۔ اس لیے کہ ان کا معمول تھا وہ اذان کے بعد وضو کے لیے جاتے اس بیچ شیبا ان کے لیے چائے بنا کر لاتی۔ وہ جلدی جلدی چائے پی کر مسجد کی جانب روانہ ہو جاتے۔ جب سے شرجیل ان کے گھر آیا تھا شیبا ایک کے بجائے دو کپ چائے لاتی۔ ایک اپنے والد اور دوسرا شرجیل کے لیے۔ شرجیل نے شیبا کو دیکھا اور کہا۔

’’تمہارے والد مسجد جا چکے ہیں۔ آج میرا یہاں آخری دن ہے۔ رات الوداعی دعوت ہے اور کل صبح میں روانہ ہو جاؤں گا۔ جانے سے قبل تم سے کچھ اہم بات کرنا چاہتا ہوں۔ ‘‘

چونکہ شیبا نے شرجیل کی والد سے بات چیت سن لی تھی اس لیے وہ سمجھ گئی کہ شرجیل کیا کہنا چاہتا ہے اور یہ بھی جانتی تھی کہ اس بات چیت کا انجام کیا ہو گا۔ اس کے باوجود ازراہِ مروّت اس نے شرجیل سے کہا۔

’’کہیے کیا بات ہے؟ ‘‘

شرجیل نے کہا۔ ’’بات در اصل یہ ہے کہ تم نے مجھے نئی زندگی عطا کی ہے اگر تم وہاں نہ ہوتیں تو شاید میری لاش جنگل میں چیل اور کوؤں کی نذر ہو گئی ہوتی۔ یا جنگلی جانور اس سے اپنی بھوک مٹ اچکے ہوتے۔ ‘‘

’’نہیں شرجیل زندگی اور موت تو خدا کے ہاتھ میں ہے۔ کوئی شخص اپنے وقت سے پہلے نہیں مر سکتا اور وقت آ جانے پر کوئی اسے ٹال نہیں سکتا۔ ‘‘

شرجیل نے کہا۔ ’’تم فردوسیوں کے آگے کوئی منطق نہیں ٹکتی۔ تم لوگ تو ہر کسی کو لاجواب کر دیتے ہو۔ تمہاری بات درست ہے لیکن پھر تم نے میرے ساتھ جو احسان کا معاملہ کیا میرا خیال رکھا، علاج کرایا، تیمار داری کی میں اس احسان کا بدلہ کبھی بھی ادا نہیں کر سکتا۔ ‘‘

شیبا نے جواب دیا۔ ’’اس میں احسان کی کیا بات ہے۔ انسان ہونے کی حیثیت سے جو ہماری ذمہ داری تھی ہم نے ادا کی۔ کل تم پر وقت آیا تھا کل ہم پر وقت آ سکتا ہے۔ ایسے میں اگر کوئی دوسروں کے کام نہ آئے تو اسے انسان کہلانے کا حق نہیں ہے۔ ‘‘

’’شیبا تمہاری یہ بات بھی درست ہے لیکن میں اس احسان کے بوجھ کو ہلکا کرنے کے لیے تم سے نکاح کرنا چاہتا ہوں۔ ‘‘

’’لیکن یہ کیسے ممکن ہے۔ سعد سے میری سگائی ہو چکی ہے۔ ‘‘

’’سعدکا نام میرے سامنے نہ لو۔ وہ پہاڑوں کے درمیان گھرے ہوئے ایک معمولی سے قبیلے کے مستقبل کاسردار ہے۔ میرا نام شرجیل ہے میں لا محدود میدانوں میں پھیلے ہوئے قحطانی قبیلے کا ہونے والا سردار ہوں۔ تم جانتی ہو قحطانی قبیلے کا سکّہ سارے خطے میں چلتا ہے۔ ہر کوئی اس کا باجگذار ہے۔ تم جیسی خوبصورت اور ذہین خاتون کو فردوسی سردار کی نہیں بلکہ قحطانی سردار کی ہم نفس ہونا چاہئے۔ ‘‘

’’شرجیل کیا ہونا چاہئے اور کیا ہو چکا ہے اس میں بہت بڑا فرق ہے۔ میں نے کہا نا کہ سعد سے میری سگائی ہو چکی ہے اور نکاح ہونے والا ہے۔ ‘‘

شرجیل نے بات پکڑ لی۔ ’’دیکھو تم نے خود کہا نکاح ہونے والا ہے۔ ابھی ہوا نہیں ہے اور یہی نہیں ہونا چاہئے۔ ویسے سگائی وغیرہ تو بے جا رسوم رواج ہیں۔ ان کی کوئی شرعی حیثیت تو ہے نہیں۔ نکاح کی ہے جو ابھی ہوا نہیں ہے۔ ‘‘

’’ سگائی کی شرعی حیثیت تو نہیں ہے لیکن اس عہد کی شرعی حیثیت ضرور ہے جو والد نے سعید اور سعد سے کیا ہے اور بغیر کسی معقول وجہ کے توڑا نہیں جا سکتا۔ ‘‘

’’بغیر معقول وجہ کے توڑا نہیں جا سکتا یہ درست ہے۔ لیکن کون کہتا ہے کہ وجہ موجود نہیں ہے۔ ‘‘

شیبا مسکرا کر بولی ’’ اچھا ہمیں بھی تو پتہ چلے کہ وہ معقول وجہ کیا ہے ‘‘۔

شرجیل گرج کر بولا ’’ وجہ یہ ہے کہ میں نہ سننے کا قائل نہیں ہوں۔ ‘‘

شیبا نے بات کاٹتے ہوئے کہا۔ ’’اور نا ممکن میری لغت میں نہیں ہے۔ میں جو چاہتا ہوں وہ کر گزرتا ہوں کوئی مجھے اس سے روک نہیں سکتا، یہی کہنے والے تھے نا۔ میں جانتی تھی کہ آغاز جو بھی ہو اس گفتگو کا انجام یہی ہو گا۔ ‘‘

’’نہیں شیبا۔ تم نے مجھے غلط سمجھا۔ ‘‘ شرجیل نے پینترا بدلا۔ ’’نہیں شیبا نہیں۔ تمہارے والد کی طرح تم نے بھی مجھے غلط سمجھا۔ در اصل میں نے کہا تھا نا کہ تم نے مجھے نئی زندگی دی ہے اور یہ نئی زندگی تمہارے بغیر بے معنی ہے۔ ‘‘

’’تمہاری بات درست ہو سکتی ہے لیکن تم صرف اپنے بارے میں سوچتے ہو اور اپنی زندگی کو بامعنی بنانے کے لیے اوروں کی زندگی کو بے معنی بنانے میں تمہیں تامل نہیں ہے۔ تم ان جانوروں کو وحشی قرار دیتے ہو جو اپنے شکار کو ہلاک کر کے اس سے اپنی بھوک مٹاتے ہیں لیکن کیا مہذب کہلانے والے انسان کا زندہ انسانوں سے اپنی حرص و ہوس کی بھوک مٹانا مبنی بر انصاف ہے؟ ‘‘

’’شیبا تم مجھے پھر وہی جملے دوہرانے پر مجبور کر رہی ہو۔ ‘‘

’’نہیں شرجیل میں چاہتی ہوں کہ تم حقیقت پسند بنو۔ نہ سننے کے قائل بنو۔ اس لیے کہ نا ممکن نہ صرف ہر لغت میں بلکہ حقیقی زندگی میں موجود ہے۔ اس ہرن کے بارے میں سوچو جس کا شکار کرنے کیلئے تم نکلے تھے۔ جس نے تمہیں گہری کھائی میں پہنچا دیا۔ تمہارا گھوڑا مارا گیا اور تم زخمی ہو گئے۔ اس کے باوجود کیاوہ ہرن تمہارے ہاتھ لگی؟ نہیں۔ ایسا ہوتا ہے۔ اسی کا نام زندگی ہے۔ اسی کو تقدیر کہتے ہیں اور پھر مقدر کے لکھے کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔ ‘‘

شرجیل نے کہا۔ ’’یہ سب پرانے وقتوں کی باتیں ہیں۔ میں ان میں یقین نہیں رکھتا۔ میں تو یہ جانتا ہوں کہ میری تقدیر اس مٹھی میں ہے۔ میں جسے چاہوں گا اپنی مٹھی میں بند کر لوں گا اور دنیا کی کوئی طاقت اسے چھڑا نہیں سکے گی۔ ‘‘

چائے کی دونوں پیالیاں سرد ہو چکی تھیں۔ شیبا نے انہیں نالی میں بہا دیا۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

شام کو سارا گاؤں دعوت طعام کے لیے جمع ہو گیا تھا۔ لوگ بہت خوش تھے۔ طویل عرصہ کے بعد قحطانی قبیلہ کے سردار کا بیٹا ان کے درمیان تھا۔ فردوسیوں نے اس کی خوب تیمار داری کی تھی اور آج وہ صحت یاب ہو کر لوٹنے والا تھا۔ اس تقریب میں فردوسی قبیلے کے سردار سعد نے ماضی کے اوراق کو پلٹا۔ اپنے اور قحطانیوں کے قدیم رشتوں کا تذکرہ کیا اور مستقبل میں بہتر تعلقات کی امید ظاہر کر کے مہمان شرجیل سے چند کلمات ادا کرنے کی درخواست کی۔

شرجیل نے فردوسیوں کی مہمان نوازی کو سراہا۔ ان کا شکریہ ادا کیا۔ سعد کے مستقبل کی توقعات کو سراہا اور مجمع سے سوال کیا کہ کیا ان دو قبائل کے تعلقات محض زبانی جمع خرچ سے بہتر ہو جائیں گے یا انہیں کچھ ٹھوس اقدامات بھی کرنے پڑیں گے؟

مجمع میں موجود سارے لوگ بشمول سعد اور سعید، شرجیل کی تجویز سے خوش ہو گئے لیکن شیبا کے والد عمرو کا ما تھا ٹھنکا۔ سعد نے شرجیل سے کہا۔ ’’تم صحیح کہتے ہو عملی اقدامات ہونے چاہئیں اس بارے میں اگر کوئی مخصوص تجویز تمہارے ذہن میں ہو تو بتاؤ ہم اس پر مثبت انداز میں غور کریں گے۔ ‘‘

شرجیل کو جس موقع کی تلاش تھی وہ اسے طلائی طشتری میں رکھ کر پیش کر دیا گیا تھا۔ شرجیل نے بڑی چرب زبانی سے سعد کی تعریف و توصیف کے لفافے میں یہ بات رکھی کہ ’’ازدواجی رشتے دشمن قبائل کو بھی ایک دوسرے کے دوست بنا دیتے ہیں اور ہم تو بھائی بھائی ہیں۔ میں شیبا سے نکاح کا پیغام فردوسیوں کے سامنے رکھتا ہوں اس امید کے ساتھ کے جذبہ خیر سگالی کے تحت وہ اسے نہیں ٹھکرائیں گے۔ ‘‘

شرجیل کا جملہ تمام حاضرین پر بجلی کی طرح گرا ہر کوئی سکتہ میں آ گیا۔ چچا عمرو بے چینی سے پہلو بدلنے لگے لیکن قبیلہ کا سردار سعد نہایت پر وقار انداز میں آگے بڑھا اور اس نے کہا۔

’’برخوردار ہم تمہارے جذبات کی قدر کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ تم نے کم علمی کے باعث یہ پیام دیا ہے۔ در اصل شیبا کی سگائی ہو چکی ہے جلد ہی اس کا نکاح ہونے والا ہے۔ اس لیے ہم اسے مسترد کرنے پر مجبور ہیں۔ ویسے اگر کسی اور دوشیزہ کے لیے قحطانیوں کی جانب سے پیام آئے تو ہم اس پر ضرور غور کریں گے۔ ‘‘

شرجیل نے کہا۔ ’’اور دوشیزہ کے لیے اس لیے کہ شیبا کی سگائی آپ کے بھائی سعید کے ساتھ ہوئی ہے۔ اسی لیے تعلقات کی استواری کے تمام دعوے بے معنی ہو گئے۔ ‘‘

’’نہیں بیٹے نہیں۔ اگر شیبا کی سگائی قبیلہ کے کسی بھی نوجوان سے طے ہوئی ہوتی تب بھی ہمارا موقف یہی ہوتا۔ یہ ہماری روایات ہیں۔ ‘‘

شرجیل نے جواب دیا۔ ’’جناب اگر گستاخی معاف ہو تو ایک بات کہوں۔ میں روایت پرستی کا قائل نہیں ہوں اور خاص طور سے اگر روایت انصاف سے متصادم ہو جائے تو میں روایت کے بجائے انصاف کو قابل ترجیح سمجھتا ہوں۔ ‘‘

’’لیکن اس معاملہ میں نا انصافی کا سوال کہاں پیدا ہو گیا؟ کون ظلم کر رہا ہے اور کس کی حق تلفی ہو رہی ہے؟ ‘‘ سعد نے چونک کر پوچھا۔

شرجیل نے کہا۔ ’’سوال کا شکریہ۔ نا انصافی شیبا کے ساتھ ہو رہی ہے اور روایت پسندی کے نام پر پورا فردوسی قبیلہ اس کو سر انجام دے رہا ہے۔ ‘‘

خواتین کے مجمع میں بیٹھی شیبا یہ سن کر چونک پڑی۔ اس کے والد نے کھڑے ہو کر احتجاج کیا۔ ’’یہ سراسر جھوٹ ہے غلط بات ہے یہ۔ شیبا پر کوئی ظلم نہیں ہو رہا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس طرح کی بات کرنا ظلم کے مترادف اور ہماری ہتک ہے۔ ‘‘

شرجیل نے سعد کی جانب استفہامیہ انداز میں دیکھا گویا جواب دینے کی اجازت مانگ رہا ہو۔ سعد نے اشارے سے اجازت دے دی۔ شرجیل نے کہا۔ ’’چچا عمرو بے وجہ جذباتی ہو رہے ہیں ان کی جھلّاہٹ ان کے احساس جرم کا پتہ دیتی ہے۔ اس ظلم کے اولین شریک وہ خود ہیں۔ وہ مدعا الیہ ہیں ان کی گواہی قبول کرنا انصاف کے منافی ہے۔ ‘‘

اس قضیہ کا ایک شریک تو سعید بھی تھا جسے تماشائی بنا دیا گیا تھا۔ عمرو کو ملزم کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا گیا۔ سعد قاضی ٹھہرے اور شیبا مدعا الیہ بن گئی اور یہ سب کیسے ہو گیا سوائے مدعی شرجیل کے کوئی اور نہیں جان سکا۔ حالات نے دیکھتے دیکھتے ایسا پلٹا کھایا کہ عوامی دعوت ایک کھلی عدالت میں تبدیل ہو گئی۔ لوگ بھول گئے کہ وہ کس لیے جمع ہوئے تھے۔

سعد نے بات آگے بڑھائی ’’شرجیل روایت شکنی ضروری نہیں کہ انصاف پسندی ہی ہو اس لیے کہ یہ روایات عدل و انصاف کے قیام کی خاطر ہی رائج کی گئی ہیں۔ ‘‘

شرجیل نے نہایت ادب سے عرض کیا آپ بجا فرماتے ہیں جناب لیکن روایت پرستی بھی عدل و انصاف کی ضامن نہیں ہوتی۔ کبھی کبھار ہمیں روایات سے اوپر اٹھ کر بھی سوچنا چاہئے بلکہ جانچنا چاہئے کہ کہیں ہمارے رسوم رواج، عدل و انصاف کی بنیادی قدروں کو پامال تو نہیں کر رہے ہیں۔ ‘‘

’’لیکن شرجیل ! شیبا اور سعید کی سگائی کے بارے میں تمہارا کیا موقف ہے۔ ‘‘

’’جی ہاں یہی تو میں کہہ رہا تھا کہ سگائی کی آخر شرعی حیثیت کیا ہے؟ جس دین کے ہم ماننے والے ہیں اس میں نکاح کی بنیادی حیثیت ہے۔ یہ سگائی درمیان میں کہاں سے آ گئی اور اس غیر شرعی رسم کو ہم نے روایت بنا لیا۔ ‘‘

چچا عمرو سے رہا نہ گیا وہ کھڑے ہو گئے اور انہوں نے کہا۔ ’’میاں شرجیل آپ بلاوجہ بات کا بتنگڑ بنا رہے ہیں اور بھرے مجمع میں ہماری توہین کیے جا رہے ہیں آپ ہمارے مہمان نہ ہوتے تو ہم آپ کو دیکھ لیتے۔ کیا قحطانی احسانات کا بدلہ اسی طرح چکاتے ہیں۔ اب بھلائی اسی میں ہے کہ ہمارے صبر کا اور امتحان نہ لو۔ ‘‘

چچا عمرو کی اس تقریر نے شرجیل کی من مانی مراد پوری کر دی۔ اس نے کہا۔ ’’دیکھ لیا آپ نے ظالم چہرہ اور سن لیے آپ نے وہ جذبات جو سینوں کے اندر پل رہے ہیں۔ چچا عمرو نے نہ صرف قحطانیوں کی تذلیل کی ہے بلکہ ہمیں دھمکی دی ہے اگر ان کا احسان مجھ پر نہ ہوتا تو اسی وقت میری تلوار فیصلہ کر دیتی۔ میں تو پہلے ہی جانتا تھا کہ خیر سگالی کا یہ اظہار مصنوعی ہے صرف الفاظ ہیں الفاظ بے معنی الفاظ جن کی حقیقت کی دنیا میں کوئی قدر و قیمت نہیں۔ ‘‘

سعد نے محسوس کیا کہ شرجیل نے اپنی عیاری سے فردوسیوں کو نہ صرف ظالم و جابر بلکہ مکار بھی ٹھہرا دیا ہے حالانکہ یہ سب عیوب خود اس کے اندر کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے تھے۔ سعد نے کہا۔ ’’ٹھیک ہے۔ چچا عمرو اور شرجیل تو ایک دوسرے کو ظالم ٹھہر اچکے۔ اب فیصلہ کون کرے کہ ظالم کون ہے؟ ‘‘

مجمع نے کہا۔ ’’ہمارا سردار منصف ہے فیصلے کا حق اسی کو ہے۔ اس کا فیصلہ ہمارے سر آنکھوں پر ہم اسے نافذ کریں گے اور اس کی خاطر اپنی جان لڑا دیں گے۔ ‘‘

فردوسیوں کی جانب سے یہ شرجیل کی اس دھمکی کا جواب تھا جو اس نے چچا عمرو کے توسط سے دی تھی۔ سعد یہ دیکھ کر مسکرائے اور انہوں نے کہا۔ ’’نہیں اس کا فیصلہ میں نہیں کروں گا اس لیے کہ میں سعید کا بھائی ہوں۔ اس بات کا فیصلہ خود شیبا کرے گی اس لئے وہ مدعا الیہ ہے۔ وہی بتائے کہ ظالم کون ہے۔ یہ اس کا شرعی حق ہے کہ بتائے کس سے نکاح کرنا چاہتی ہے؟ ‘‘

سعد کے اس داؤ نے شرجیل کی چال کو مٹی میں ملا دیا اس لیے کہ وہ سعید کے بہانے سے سعد کے فیصلہ کو ٹھکرانا چاہتا تھا۔ شیبا آگے آئی اور بڑے اعتماد سے اس نے کہا۔ ’’ظالم شرجیل ہے اور وہ نہ صرف ظالم بلکہ احسان فراموش ہے۔ میں اپنے کریم النفس والد کا احترام کرتی ہوں ان کے ہر فیصلہ کو بسروچشم قبول کرتی ہوں اور انہیں کی مرضی سے اپنی ازدواجی زندگی گذارنے کا اعلان کرتی ہوں۔ ‘‘

شیبا کے پُر اعتماد بیان سے پورے قبیلہ میں خوشی کے لہر دوڑ گئی لیکن شرجیل نے اسے ماننے سے انکار کر دیا اس نے کہا۔ ’’شیبا کا یہ فیصلہ در اصل باپ اور قبیلہ کے دباؤ میں کیا گیا ہے یہ اس کے دل کی بات نہیں ہے۔ اس کے دل کی بات تو میں جانتا ہوں اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ لفظ نا ممکن کا وجود میری لغت میں نہیں ہے اور میں نہ سننے کا قائل نہیں ہوں میرا تعلق قحطانی قبیلہ سے ہے ہم اپنا حق لینا جانتے ہیں ہم تلوار کے دھنی ہیں اور فردوسیوں کو آگاہ کیے دیتے ہیں کہ انہیں یہ فیصلہ بہت مہنگا پڑے گا۔ ‘‘

سعد نے مختصر سا جواب دیا۔ ’’ہمیں تمہارا چیلنج منظور ہے۔ ‘‘

محفل برخواست ہو گئی۔ سب لوگ اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ اس رات کسی نے کھانا نہ کھایا نہ شرجیل نے نہ عمرو نے نہ شیبا نے نہ سعید نہ سعد نے اور نہ قبیلہ کے کسی اور فرد نے۔ سب بھوکے پیٹ اپنے اپنے بستروں پر کروٹیں بدلتے رہے یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

شرجیل قحطانیوں کے لیے مر چکا تھا۔ اس کی غیر موجودگی میں سرخیل نے اپنے چھوٹے بیٹے عقیل کو اپنا جانشین بنا لیا تھا۔ شرجیل کی غیر متوقع آمد نے سارے قبیلہ کو مسرت سے بھر دیا تھا۔ قبیلہ کے سردار نے شرجیل کی آمد پر عظیم جشن فرحت کا اعلان کیا لیکن اس کے لیے سب سے بڑی پریشانی عقیل کی ولی عہدی تھی۔ اس چھ ماہ کے عرصہ میں عقیل فہم و فراست اور حسن اخلاق کے باعث کافی مقبول ہو چکا تھا۔ ایسے میں اس کی جگہ دوبارہ شرجیل کو فائز کرنا ایک مشکل کام تھا نیز قبائلی روایت کے مطابق بڑے بھائی کی موجودگی میں چھوٹے بھائی کا ولی عہد ہو جانا بھی معیوب بات تھی۔ سرخیل نے اس بارے میں اپنے قریبی مصاحبین سے صلاح و مشورہ بھی کیا تھا لیکن وہ بھی کچھ کہنے کی حالت میں نہیں تھے اس لیے کہ ایک جانب قبائلی روایات تھیں اور دوسری جانب عقیل کی اخلاقی برتری و عوامی مقبولیت۔

شام میں جب سارا قبیلہ قحطان کے میدان میں جمع ہو گیا عقیل نے جشن میں شامل شرکاء کا خیر مقدم کیا۔ بھائی کی آمد پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے جانشین کے عہدے سے اپنی سبکدوشی کا اعلان کر دیا اور اپنے والد سرخیل سے استدعا کی کہ وہ پھر ایک بار شرجیل کو اس عہدہ پر فائز کر دیں۔ جشن مسرت میں شامل لوگوں پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔

وہ لوگ شرجیل کی ترش روئی سے واقف تھے اس کے کبر و غرور کا کوڑا ان میں سے کئی لوگوں کو اپنے عتاب کا شکار کر چکا تھا۔ اس کی ہٹ دھرمی نے کئی مرتبہ پورے قبیلہ کو آزمائش میں ڈال دیا تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ قبیلہ والوں کو شرجیل کے زندہ لوٹنے کی خوشی ضرور تھی لیکن اس کا ایک مرتبہ پھر سے ولی عہد کے عہدہ پر فائز ہونا پسند نہ تھا۔ لیکن بہرحال عقیل کے اس فیصلہ نے سرخیل کا مسئلہ حل کر دیا اس نے آگے بڑھ کر پہلے عقیل کو گلے لگایا اس کی پیشانی کو چوما اور پھر شرجیل کا ہاتھ پکڑ اوپر اٹھا دیا۔ یہ در اصل اس بات کا خاموش اعلان تھا کہ اب شرجیل دوبارہ ولی عہد کے طور پر بحال ہو چکا ہے۔

شرجیل کو اس بات کی توقع نہیں تھی کہ سب کچھ اتنے حسن و خوبی سے ہو جائے گا۔ لیکن شرجیل کی نگاہیں عوام کی آنکھوں میں جھانک رہی تھیں اور اس کے لیے اس بات کا اندازہ لگانا بہت آسان تھا کہ عوام اس تبدیلی سے خوش نہیں ہیں۔ اسے اپنے چھوٹے بھائی پر رشک آیا۔ عقیل کی سبکدوشی نے عوام کی اور اپنے والد کی نظروں میں اس کا قد اور بڑھا دیا تھا۔ شرجیل نے عوام کی جانب سے اپنا رُخ ہٹا کر پہلے اپنے چھوٹے بھائی کو شفقت کے ساتھ دیکھا اور پھر عقیدت کے ساتھ والد کی جانب دیکھ کر گویا ہوا۔

’’قبیلہ کے سردار اور والد محترم۔ آپ کا ہر فیصلہ ہم سب کے سر آنکھوں پر ہے۔ آپ کی خواہش ہمارے لیے حکم کا درجہ رکھتی ہے اور اس کو بسروچشم قبول کرنا ہم اپنے لیے باعث افتخار و سعادت سمجھتے ہیں لیکن۔۔۔‘‘ لفظ لیکن پر شرجیل ٹھہر گیا۔ سارے مجمع نے اپنی سانسیں تھام لیں۔ قحطان کا میدان زندوں کا قبرستان بن گیا جہاں لاشیں بیٹھی ہوئی تھیں۔ نہ وہ سانس لیتی تھیں اور نہ پلک جھپکاتی تھیں۔ لوگوں کے دلوں کی دھڑکن بھی لمحہ بھر کے لیے رک گئی تھیں۔

شرجیل آگے بڑھا۔ ’’لیکن میں والد محترم سے ایک استدعا کرنے کی جرأت کرنا چاہتا ہوں اور اس استدعا سے پہلے گذشتہ چھ مہینہ کے حالات آپ لوگوں کے سامنے رکھتا ہوں تاکہ آپ کو میری مجبوری سمجھنے میں سہولت ہو۔ ‘‘ یہ کہہ کر شرجیل نے حالات بیان کرنا شروع کر دیئے۔ فردوسیوں کی تعریف و توصیف کے بعد اس نے آخری دن کی گفتگو کو نہایت شاطرانہ انداز میں توڑ مروڑ کر بیان کیا۔

اس پوری گفتگو میں اس نے شیبا کی سگائی پر پوری طرح پردہ ڈال دیا اور اپنی کہانی اس بات پر ختم کی کہ فردوسیوں نے نہ صرف اس کی بلکہ پورے قحطانی قبیلہ کی توہین کر دی ہے اور اس تضحیک کا بدلہ صرف اور صرف شیبا کے قحطان قبیلے میں شامل کر کے ہی لیا جا سکتا ہے۔ نیز جب تک وہ انتقام نہیں لے لیتا اس وقت تک ولی عہدی کے فرائض نہیں ادا کر سکتا اس لیے اپنے والد شرخیل سے درخواست کرتا ہے کہ وہ وقتی طور پر اپنے اس فیصلہ کو ملتوی فرما دیں۔ جب تک فردوسی ذلیل و رسوا نہیں کر دیئے جاتے اور شیبا ان کے چنگل سے آزاد ہو کر قحطانیوں میں نہیں آ جاتی اس وقت تک عقیل ہی جانشینی کے فرائض انجام دیں اور اسے اس مہم کے لیے آزاد چھوڑ دیا جائے۔ ‘‘

شرجیل کی اس تقریر نے نقشہ ہی بدل دیا تھا۔ وہ ایک بے غرض اور بے لوث سردار کے طور پر لوگوں کے سامنے آیا گویا قبیلہ کا وقار بحال کرنے کی خاطر عظیم قربانی پیش کر رہا ہو۔ سرخیل کی آنکھوں میں محبت کے آنسو تھے وہ اپنی جگہ سے اٹھا اس نے پہلے شرجیل کو گلے سے لگایا اور پھر عقیل کا ما تھا چوما پھر دونوں کے درمیان کھڑا ہو کر دونوں کے ہاتھ پکڑے اور اوپر اٹھا لیا۔ لوگ اپنے سردار کا اشارہ سمجھ گئے۔ وہ شرجیل زندہ باد، عقیل زندہ باد اور سرخیل پائندہ باد کے نعرے لگانے لگے۔ ان فلک شگاف نعروں کے درمیان سرخیل نے عوام کو دسترخوان کی جانب چلنے کی درخواست کی اور پھر سارا قبیلہ دعوت شیراز میں منہمک ہو گیا۔

اس ایک محفل میں حالات اس قدر بدلیں گے اس کا کسی کو وہم و گمان بھی نہ تھا۔ لیکن بہرحال ہر کوئی خوش تھا جو کچھ ہوا اچھا ہوا۔ لیکن آگے کیا ہو گا اور کیا ہونے والا ہے اس کی خبر کسی کو نہ تھی۔ مستقبل کا غیب میں ہونا ان سب کے لیے باعث لطف و رحمت بن گیا تھا۔ قبیلۂ قحطان میں بوڑھے سرخیل کی حیثیت ملکۂ برطانیہ کی سی تھی عملاً سارے امور جانشین وزیر اعظم کی طرح دیکھتا تھا۔ گزشتہ رات کے غیر اعلان شدہ معاہدہ کے مطابق عقیل بدستور جانشینی کے عہدہ پر پھر ایک بار فائز ہو گیا تھا۔ شرجیل اپنی مہم کی تیاری میں لگ گیا تھا۔

قبیلہ کے شریر لوگ شرجیل کے گرد جمع ہونے لگے تھے اور شرجیل ان کے اندر نفرت و عناد کے جذبات کو پروان چڑھاتا جاتا تھا نیز نئے نئے لوگوں کو اپنی مہم میں شامل کرنے کی کوشش میں فردوسیوں کے خلاف بے بنیاد افواہیں اور غلط سلط باتیں پھیلاتا رہتا تھا۔ ایسا کیے بغیر شرجیل اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب نہیں ہو سکتا تھا۔ جیسا قلب و ذہن، ویسا فکرو عمل، جیسا فرد و خصلت ویسے ہی ارادے اور مقاصد۔ نیز جیسے گھناؤنے مقاصد ویسے ہی ناپاک وسائل و ذرائع قاعدۂ کلیہ شرجیل پر پوری طرح صادق آتا تھا۔ وہ اس بات سے واقف تھا کہ فردوسیوں کی سرکوبی اور شیبا کا اغوا ہی اسے قبیلہ کا وقار بحال کر سکتا ہے۔ ایسا کیے بغیر وہ عقیل سے زیادہ مقبولیت کو حاصل نہیں کر سکتا۔ وہ قبیلہ کی سرداری روایت کی خیرات میں نہیں بلکہ اپنے زور بازو سے حاصل کرنا چاہتا تھا۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

فردوسیوں کو جب شرجیل کی شرارتوں کا علم ہوا تو وہ لوگ کافی غم گین ہوئے۔ فردوسی نہایت شریف النفس مگر خوددار قبیلہ تھا۔ جب انہیں شرجیل کی تیاریوں کا پتہ چلا تو ان لوگوں نے معاملہ کی سنگینی کو محسوس کیا۔ سردار سعد نے اپنے مشیروں کی ایک نشست اس مسئلہ پر تبادلہ خیال کی خاطر طلب کی۔ لوگوں کے خیالات مختلف تھے کچھ لوگ گھبرائے ہوئے تھے انہیں اندیشہ تھا کہ قحطانی بہت طاقتور ہیں وہ آن کی آن میں انہیں کچل کر رکھ دیں گے اس لیے مصالحت کر لینی چاہئے۔ جس کا دوسرا مطلب یہ تھا کہ شیبا کی سگائی توڑ کر اس کا نکاح شرجیل سے کر دیا جائے لیکن ان لوگوں کے سامنے سب سے بڑی رکاوٹ یہ تھی کہ چچا عمرو اور شیبا اس کے لیے تیار نہ تھے۔ نیز کسی لڑکی اور اس کے سرپرست کی رضا مندی کے خلاف نکاح کی اجازت دینے کی گنجائش دین حنیف میں نہیں تھی۔

ان شکست خوردہ مصلحت پسندوں نے قومی تباہی و بربادی کا واسطہ دے کر باپ بیٹی کو سمجھانے کی کوشش کی تو ان کا جواب یہ آیا اگر آپ لوگ ہمیں اپنے لیے مصیبت سمجھتے ہیں تو ہم قبیلہ سے کہیں دور نکل جائیں گے، تنہا ظلم کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی جان دے دیں گے لیکن اس ظلم کے آگے نہیں جھکیں گے۔ شیبا کے دلیرانہ عزم و ارادے سے سعد اور سعید دونوں باغ باغ ہو گئے۔ ان لوگوں نے چچا عمرو کو یقین دلایا کہ ہم خون کے آخری قطرے تک تمہاری حفاظت کریں گے۔ آپ ہمارے قبیلہ کی عزت و ناموس کی علامت ہیں ہم ہر قیمت پر اس کی حفاظت کریں گے۔ فردوسی ذلت کی زندگی پر عزت کی موت کو ترجیح دیتے ہیں۔

اس کے بعد جن لوگوں کے دلوں میں روگ تھا انہوں نے دوسری تجویز پیش کی جس میں یہ کہا گیا تھا کہ ہم قحطانیوں کو سمجھائیں اور ان کی غلط فہمی دور کرنے کی کوشش کریں لیکن اس تجویز کو قبیلہ کے سردار نے مسترد کر دیا اس لیے کہ اس سے کمزوری کا اظہار ہوتا تھا اور اس طرح کا اشارہ ظالم کے کبر میں اضافہ کا باعث بنتا ہے۔ بالآخر یہ طے کیا گیا کہ ہم حتی الامکان مقابلہ کریں گے یہی پر وقار زندگی کا واحد راستہ ہے اور اپنے عزت و وقار کی بڑی سے بڑی قیمت ادا کریں گے لیکن ظالموں کے آگے سپر نہ ڈالیں گے۔

شرجیل نے جب حملہ کی تمام تیاریاں مکمل کر لیں تو اجازت لینے کی غرض سے اپنے والد کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس وقت عقیل بھی موجود تھا۔ شرجیل نے اسے چھیڑتے ہوئے کہا۔ ’’لگتا ہے میرا چھوٹا بھائی اس مہم سے خوش نہیں ہے۔ ‘‘

یہ سن کر عقیل نے مسکرا کر جواب دیا۔ ’’میرے بڑے بھائی کا خیال درست ہے۔ ‘‘

شرجیل نے کہا۔ ’’کیا میں وجہ جان سکتا ہوں۔ ‘‘

عقیل نے کہا۔ ’’اس روز جو تفصیلات آپ نے بیان فرمائیں ان میں موجود تضاد نے مجھے بے چین کر دیا ہے۔ اگر فردوسی ایسے برے لوگ ہیں تو انہوں نے آپ کی اس قدر خدمت کیوں کی؟ پھر آپ کے صحت مند ہو جانے پر جشن صحت کا اہتمام کیوں کیا؟ واپس آتے ہوئے کوئی ایذا رسانی کیوں نہیں کی؟ اس پورے علاقے میں ان کی پہچان ایک امن پسند قبیلہ کی ہے۔ انہوں نے کسی پراس وقت تک حملہ نہیں کیا جب تک دشمن خود ان کی سرحدوں میں داخل نہیں ہو گیا۔ ‘‘

شرجیل نے کہا۔ ’’تمہاری باتیں صحیح ہیں لیکن فردوسیوں نے اس سے پہلے ہمیں کئی بار کوہِ سرطان خالی کرنے کی دھمکی دی ہے۔ ابھی پچھلے دنوں ان لوگوں نے ہمیں جریان کی وادی سے اپنی فوجیں نکالنے کے لیے کہہ دیا۔ کیا تم یہ سب بھول گئے؟ ‘‘

’’نہیں۔ مجھے وہ سب یاد ہے لیکن حقیقت تو یہ ہے کوہِ سرطان فردوسیوں ہی کا علاقہ ہے جس پر ہم نے چند سال قبل قبضہ کر لیا تھا اور وادی جریان کے لوگ فردوسیوں کے حلیف ہیں اور ہماری فوجیں وہاں جریانوں کی مرضی کے خلاف ڈیرہ ڈالے ہوئے ہے۔ اس کے باعث جریانوں کے دلوں میں ہمارے خلاف نفرت کے جذبات پنپ رہے ہیں۔ ‘‘

شرجیل یہ سن کر آگ بگولہ ہو گیا۔ ’’عقیل تمہاری عقل گھاس چرنے تو نہیں گئی ہے۔ تم ان عظیم قربانیوں کو بھول گئے جن کے بعد کوہِ سرطان فتح ہوا تھا۔ تمہیں قبیلہ کی ناموس کا ذرّہ برابر خیال نہیں ہے۔ یہ نہ بھولو کہ جریان میں موجود ہماری فوجوں کے باعث ہی فردوسی گھبرائے ہوئے ہیں اور ہم پر حملے کی ہمت نہیں کر تے۔ جریان ہمارے لیے بے حد اہمیت کا حامل علاقہ ہے۔ اگر ہم وہاں سے فوجیں ہٹا لیں گے تو بالکل غیر محفوظ ہو جائیں گے۔ کل ہم جنوب کی جانب سے پیش قدمی کریں گے۔ مشرق کی جانب سے جریان میں موجود ہمارے سپاہی آگے بڑھیں گے مغرب کی جانب کھائی ہے اس طرح فردوسی پوری طرح گھر جائیں گے۔ یہ سب جنگی حکمت عملی ہے تم اسے نہیں سمجھ سکتے۔ ‘‘

’’نہیں بھائی شرجیل۔ ہم نے ماضی میں کئی غلطیاں کی ہیں جس کے باعث ہم لوگ اس خطے میں ایک ناپسندیدہ قابل نفریں شئے بن گئے ہیں۔ اب ہم اپنی پرانی خطاؤں کی اصلاح کرنے کے بجائے نئی غلطیاں کرنے جا رہے ہیں۔ یہ سب تباہی کا سازوسامان ہے۔ ‘‘

’’اچھے بھائی عقیل سرداری کے لیے سربازی لازم ہوتی ہے۔ اس روز تم نے نہیں دیکھا کس طرح لوگ انتقام کا مطالبہ کر رہے تھے ہمیں ان کے جذبات و احساسات کا خیال کرنا ہی ہو گا۔ ‘‘

عقیل مسکرایا اس نے کہا۔ ’’قائد لوگوں کے پیچھے نہیں چلتا وہ ان کی رہنمائی کرتا ہے۔ عوام ایسا اس لیے سوچتے ہیں کہ ہم نے انہیں ورغلایا ہے۔ ہمارا کام ان کی فکرِ غلط کی اتباع کرنا نہیں ہے بلکہ اصلاح کرنا ہے۔ ‘‘

سرخیل خاموشی سے اپنے دونوں بیٹوں کی گفتگو سن کر مسکرا رہا تھا۔ وہ اس بات سے بہت ہی خوش اور مطمئن تھا کہ باوجود شدید اختلاف کے دونوں بھائی نہایت شفقت و محبت کے ساتھ ایک دوسرے سے گفت و شنید کر رہے تھے۔۔ شرجیل نے کہا۔

’’شاید ہم اس مسئلہ میں فی الحال متفق نہیں ہو سکتے اس لیے اختلاف کا احترام ہی اتحاد کی واحد سبیل ہے۔ دونوں بھائیوں نے ہاتھ ملایا۔ سرخیل نے شرجیل کے سر پر دست شفقت رکھا اور شرجیل روانہ ہو گیا۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

شرجیل کو اس مہم کا راز داری کا پورا یقین تھا اور اہل جریان کی حمایت پر پورا بھروسہ تھا لیکن اس کی دونوں توقعات غلط ثابت ہوئیں۔ جریان والوں نے قحطانی فوجوں کے ساتھ تعاون کرنے سے انکار کر دیا جس کے باعث وہ فوج وہیں دھری کے دھری رہ گئیں۔ فردوسیوں نے اپنے ذرائع سے شرجیل کی تمام نقل و حرکت سے آگاہی اختیار کر لی اور راستہ ہی میں انہیں گھیر لیا۔ شب خون مارنے کے ارادے سے۔ جب آخری پہر شرجیل بیدار ہوا تو کیا دیکھتا ہے چاروں جانب الاؤ روشن ہیں اس منظر نے اس کے ہوش اُڑا دیئے۔ اس کے باوجود جریان سے مدد کی امید میں وہ آگے بڑھا لیکن اس وقت ترائی میں تھا۔ تیر اوپر سے برس رہے تھے بہت جلد شرجیل نے اپنی شکست کا منظر چشم تصور میں دیکھ لیا اور اپنی فوجوں کو واپس چلنے کا حکم دے کر واپس لوٹ گیا۔

شرجیل کے گھوڑے کی ٹاپ سے نکلنے والے نغمہ کی دھن اسے بہرہ کیے دے رہی تھی۔ لفظ نا ممکن میری لغت میں نہیں ہے۔ میں نہ سننے کا قائل نہیں ہوں۔ میں جو چاہتا ہوں کر کے رہتا ہوں۔ دنیا کی کوئی طاقت مجھے روک نہیں سکتی۔ قحطان لوٹنے کے بعد شرجیل نے اپنے مشیروں کو طلب کیا اور ان سے راز فاش ہونے کے متعلق سوال کیا لیکن کوئی بھی اسے تشفی بخش جواب نہ دے سکا۔ اس نے جھلا کر اپنی خبر رسانی کا محکمہ برخواست کر دیا۔ اس کے بعد اس نے جریان سے متعلق سوال کیا تو اسے بتلایا گیا کہ وہاں کے سردار نے فردوسیوں کے خلاف ہمارا تعاون کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اس کا کہنا یہ ہے کہ فردوسی ہمارے ہمسائے ہیں ہم ان سے دشمنی مول نہیں لے سکتے۔ جو ان کا دوست ہے وہی ہمارا دوست ہے اور جو ان کا دشمن ہے وہ ہمارا بھی دشمن ہے۔

یہ سن کر شرجیل پر ہذیانی کیفیت طاری ہو گئی۔ اس نے کہا۔ ’’یہ تو فردوسیوں سے بڑا جرم ہے۔ فوراً اس سردار کو قتل کر کے اس کی جگہ اپنا پٹھو بٹھا دیا جائے۔ ‘‘

شرجیل کے سپہ سالار نے کہا۔ ’’لیکن سرکار وہاں کی عوام۔ ‘‘

شرجیل نے جملہ کاٹتے ہوئے کہا۔ ’’ہم انہیں دیکھ لیں گے۔ تلوار کے زور سے ان کا دماغ درست کر دیں گے۔ اس سردار کا سر قلم کر کے وسط شہر میں لٹکا دیا جائے اسے دیکھ کر وہ دہشت زدہ ہو جائیں گے اور خود ہی راہ راست پر آ جائیں گے۔ ‘‘

شرجیل کے حکم پر فوراً عمل ہوا۔ جریان میں موجود قحطانی فوجوں نے وہاں کے سردار کا سر قلم کر کے اسے سربازارمیں لٹکا دیا اور اس کی جگہ اپنے ہمنوا نئے سردار کے ہاتھ میں زمام کار تھما دی۔ شرجیل نے نئے سردار کا خیر مقدم کیا دوستی کا ہاتھ بڑھایا، تعاون کا یقین دلایا، تحفہ تحائف سے نوازا اور فردوسیوں پر دوسرے حملے کی تیاریوں میں لگ گیا۔ اس بار شرجیل نہایت محتاط ہو گیا تھا اور کسی صورت ناکامی کا منہ دیکھنا نہ چاہتا تھا۔ سرخیل کی طبیعت دن بدن ابتر ہوتی جا رہی تھی۔ شرجیل باپ کی موت سے پہلے فردوسیوں کو شکست فاش سے دوچار کر کے شیبا کے ساتھ فاتح کی حیثیت سے اپنی ساکھ بنا کر سردار بننا چاہتا تھا۔

دوسرے حملے کی اطلاع جب فردوسیوں کو ملی تو سعد نے پھر اپنے مشیروں کو طلب کیا۔ اس بار مسعود نے کہا۔ ’’گذشتہ مرتبہ ہم لوگ جریانیوں کے باعث بچ گئے لیکن اب حالات بدل چکے ہیں۔ جریان کا نیاسردار شرجیل کا آدمی ہے اس نے اپنی فوج کے ساتھ قحطانیوں کو مشرقی سرحد پر تعینات کر دیا ہے۔ مغرب کی سمت کو راستہ نہیں ہے۔ جنوب سے قحطانی حملہ کرنے والے ہیں اب ہمارے سامنے مصالحت کے علاوہ اور کوئی راہ نجات نہیں ہے۔

مسعود کی بات کا جواب سعید نے دیا۔ ’’محترم چچا آپ جسے راہ نجات کہہ رہے ہیں وہ تو راہِ فساد ہے۔ ہم ہتھیار نہیں ڈالیں گے ہم مقابلہ کریں گے۔ ‘‘

سعد نے اپنے بھائی کو سمجھایا۔ ’’مسعود ٹھیک کہتے ہیں ہم مقابلہ نہیں کر سکتے لیکن ہم ہتھیار بھی نہیں ڈالیں گے ہم اوپر شمال کی جانب پہاڑوں میں چلے جائیں گے اور وہاں سے مقابلہ کریں گے۔ ان پہاڑوں میں قحطانی ہمارا کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔ یہ عیش پسند لوگ ہیں سخت کوشی ان کے لیے عذابِ جان ہے۔ یہ وہاں آئیں گے نہیں اور اگر آئے بھی تو ہم انہیں کچل ڈالیں گے۔ ‘‘

مسعود نے کہا۔ ’’سردار سعد آپ اپنی انا کے باعث پورے قبیلہ کو آزمائش میں ڈال رہے ہیں۔ ‘‘

سعد نے جواب دیا۔ ’’اللہ گواہ ہے کہ یہ جنگ انا کی نہیں عدل و انصاف کی جنگ ہے۔ میری قبیلہ والوں پر کوئی زبردستی نہیں ہے جو میرے ساتھ آنا چاہے میں اس کا تہہ دل سے خیر مقدم کروں گا جو کہیں اور جانا چاہے اس کو میں اجازت دیتا ہوں۔ جسے یہیں رہنا ہے وہ بھی آزاد ہے۔ ‘‘

مسعود کا چہرہ خوشی سے تمتما اٹھا اس نے کہا۔ ’’ہمارے سردار کا اقبال بلند ہو۔ ہم اس کی کشادہ دلی کی تعریف کرتے ہیں اور اس کی اجازت سے یہیں رہنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ‘‘

محفل برخواست ہو گئی۔ مسعود نے اپنا جاسوس شرجیل کی خدمت میں اس پیغام کے ساتھ روانہ کر دیا کہ سعد اور سعید علاقہ چھوڑنے پر رضا مند ہو گئے ہیں اور ہم آپ کا خیر مقدم کرنے کے لیے بے تاب ہیں۔ ‘‘

ادھر وادیِ فردوس میں قبیلہ کے لوگ جمع تھے ان کا سردار سعد نہایت دل سوزی کے ساتھ ان سے مخاطب تھا وہ کہہ رہا تھا۔ ’’فردوسیو یہ دنیا مقامِ آزمائش ہے اور زندگی آزمائش کا دوسرا نام ہے۔ زندگی اور آزمائش کے درمیان چولی دامن کا رشتہ ہے۔ اس سے پہلے ہم پر قحط پڑا وہ بھوک وافلاس کی سخت آزمائش تھی۔ اگر ہمیں مٹ جانا ہوتا تو ہم اسی وقت مٹ جاتے لیکن مشیت ایزدی نے اس امتحان سے گذرنے پر یہ جنت نما فردوس سے ہمیں نوازہ۔ اب پھر ایک بار ہم پر خوف کی آزمائش منڈلا رہی ہے۔ اگر اس بار بھی ہمیں اللہ بچانا چاہتا ہے تو کوئی مار نہیں سکتا اور اگر مارنا چاہتا ہے تو کوئی بچا نہیں سکتا۔ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ہمارا کام صراط مستقیم پر گامزن رہنا ہے۔

دوستو! یاد رکھو!! اس راستے کی موت، انحراف کی زندگی سے بہتر ہے اور انحراف کی زندگی موت سے بدتر ہے۔ ہمیں زندگی اور موت کے درمیان نہیں بلکہ ہدایت اور گمراہی کے بیچ کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے۔ اس لیے کہ مؤخر الذکر دونوں چیزیں ہمارے اختیار میں نہیں ہیں اور ہمیں یہ بھی نہ بھولنا چاہئے کہ زندگی فانی ہے اور موت تو آنی ہی ہے۔ میں شمال کی جانب جا رہا ہوں جن کو میرے پیچھے آنا ہے ضرور آئیں میں مڑ کرنہ دیکھوں گا کہ کون کون چھوٹ گیا اور جو چھوٹ گیا اس سے مجھے کوئی شکایت نہیں ہے۔ ‘‘

سعد شمال کی جانب چل پڑا اس کے پیچھے سعید تھا اس کے پیچھے عمرو چچا ان کے پیچھے شیبا تھی اور ان کے پیچھے جانبازوں کی طویل قطار تھی لیکن اسی کے ساتھ مسعود کے ساتھ بیٹھ رہنے والے بھی کم نہ تھے۔

ہرکارے کو امید تھی کہ مسعود کا پیغام سن کر شرجیل خوش ہو گا اور اسے انعام اکرام سے نوازے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ شرجیل نے چمک کرکہا۔ ’’یہ بتلاؤ کہ مسعود نے شیبا کے بارے میں کیا کہا؟ ‘‘

ہرکارہ خاموش تھا۔ شرجیل خاموشی کا مطلب سمجھ گیا۔ غصہ سے اس نے تلوار اٹھائی اور اسے ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا۔ خون کا فوارہ ایک لمحہ کے لیے اُڑا اور پھر پھیل گیا۔ ہرکارہ ٹھنڈا ہو چکا تھا لیکن شرجیل کا غصہ ٹھنڈا نہ ہوا۔ اس نے فوراً اپنا آدمی کو اس پیغام کے ساتھ دوڑایا کہ ہمیں لال قالین کا خیر مقدم نہیں چاہئے شیبا چاہئے۔ اسے روکو اور میرے حوالے کرو ورنہ ہم فردوس کی سرزمین کو خون سے لال کر دیں گے۔ لیکن ہرکارے کے پہونچنے میں کافی تاخیر ہو چکی تھی۔ سعد کا قافلہ اس کے تمام جانبازوں کے ساتھ آنکھوں سے اوجھل ہو چکا تھا۔

شرجیل جب اپنی فوج کے ساتھ فردوس میں داخل ہوا تو مسعود نے اس کا خیر مقدم کیا لیکن شرجیل کو جیت کی ذرہ برابر خوشی نہ تھی اسے فردوس کے پہاڑوں اور جھیل میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اس نے جسے حاصل کرنے کی خاطر تمام پاپڑ بیلے تھے وہ شیبا شمال کے پہاڑوں میں اس کے چین و سکون کے ساتھ کھو چکی تھی۔ اس نے اپنے کئی چھاپہ مار دستے ان پہاڑوں میں روانہ کیے لیکن کوئی بھی واپس نہ لوٹا۔ نہ جانے کیا بات تھی کہ جو بھی وہاں جاتا وہیں کا ہو جاتا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ بذات خود وہاں جانے کا حوصلہ نہیں جٹا پا رہا تھا۔ شیبا اس کے لیے ایک ایسا ناسور بن گئی تھی کہ نہ وہ اس کا کسی سے ذکر کر سکتا تھا اور نہ کوئی اور اس کا نام اپنی زبان پر لانے کی جرأت کرتا تھا۔

ایک روز شام میں وہ اپنے خیمہ کے باہر بیٹھا ہوا تھا کہ دور دراز سے آنے والے ایک گھوڑے کی ٹاپ اس کے کانوں سے ٹکرائی۔ اس کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ یہ گھڑ سوار شیبا کی خبر لایا ہے۔ شہسوار نے قریب آ کر اسے سلام کیا وہ اس کا یارِ غار اقلیم تھا۔ شرجیل فوراً کھڑا ہو گیا۔ اس نے آگے بڑھ کر اقلیم کو سینے سے لگا لیا۔ شمال کی پہاڑیوں سے زندہ لوٹنے والا یہ پہلا شخص تھا۔ شرجیل کی باچھیں کھل گئیں اس نے خیریت دریافت کی۔

اقلیم بولا۔ ’’کچھ نہ پوچھو میرے دوست وہ موت کی پیچ دار گھاٹیاں ہیں اور میں موت کے پنجہ سے نکل کر واپس آیا ہوں۔ وہاں جو بھی جاتا ہے مارا جاتا ہے یا قید ہو جاتا ہے۔ ‘‘

’’تمہارا کیا ہوا؟ ‘‘

’’میں ان کی قید میں تھا۔ ‘‘

’’تو پھر کیسے نکل آئے؟ ‘‘

’’میں نکل کر نہیں آیا۔ ان کی قید سے کوئی نکل نہیں سکتا۔ انہوں نے از خود مجھے چھوڑ دیا‘‘

’’چھوڑ دیا؟ کیوں چھوڑ دیا؟ ‘‘

’’در اصل انہوں نے پیغام رسانی کے لیے مجھے اس خیمے سے قریب لا کر چھوڑا۔ ‘‘

’’پیغام کیسا پیغام؟ کس کا پیغام اور کس کے لیے؟ ‘‘ شرجیل بے چین ہو گیا۔

اقلیم اس کی کیفیت دیکھ کر مسکرایا اور بولا۔ ’’پیغام تمہارے لیے ہے اور شیبا کی جانب سے ہے۔ ‘‘

’’شیبا کا پیغام میرے نام۔ بتاؤ میرے دوست کیا ہے وہ پیغامِ مسرت ہے؟ ‘‘ شرجیل نے لڑکھڑاتی زبان سے پوچھا۔

’’پیغام یہ ہے کہ شیبا کا نکاح سعد سے ہو گیا ہے۔ ان لوگوں نے اس نکاح میں جلدی نہیں کی بلکہ وقت مقر رہ کا انتظار کیا اس لیے کہ کہیں تم یہ نہ سوچو کہ تم سے خوفزدہ ہو کر ایسا کیا گیا ہے۔ ‘‘

شرجیل اس پیغام کو سن کر باؤلا ہو گیا۔ اس نے میان سے تلوار نکالی اور اقلیم کو موت کی آغوش میں پہونچا دیا۔ اقلیم جو یہ سمجھ رہا تھا کہ وہ موت کے چنگل سے نکل آیا ہے موت کو گلے لگا کر رو رہا تھا۔ اس لیے کہ یہ موت دشمن کے ہاتھوں نہیں دوست کے ہاتھوں ہاتھ آئی تھی۔

شرجیل اپنے دوست کی قبر پر بیٹھا شیبا کے غم میں آنسو بہا رہا تھا کہ اس کے ایک ساتھی نے آ کر اس کو والد سردار سرخیل کے موت کی اطلاع دی۔ یہ خبر اس پر بجلی بن کر گری۔ اس جنونی کیفیت میں وہ اس حقیقت کو فراموش کر چکا تھا کہ اس کا باپ نہایت ضعیف کے عالم میں بستر مرگ پر ہے۔ کسی بھی وقت وہ دارِ فانی سے کوچ کر سکتا ہے۔ اچانک باپ کے فوت ہونے کی خبر سنتے ہی اسے خدشہ ہوا کہ اگر اس نے قحطان پہونچنے میں دیر کر دی تو بہت ممکن ہے کہ قبیلہ والے اس کے چھوٹے بھائی عقیل کو سردار بنا دیں گے اور اگر ایسا ہو گیا تو اسے سردار بننے کے لیے عقیل کی موت کا انتظار کرنا پڑے گا۔

عقیل عمر میں اس سے دس سال چھوٹا تھا اس لیے کہ شرجیل کے بعد تین بہنیں تھیں اور چوتھا عقیل۔ ایسے میں یہ ضروری بھی نہیں تھا کہ اس کی زندگی میں یہ موقع ہاتھ آتا۔ اس لیے وہ اپنے قریبی مصاحبوں کے ساتھ بلاتاخیر قحطان کی جانب روانہ ہو گیا۔ فردوسیوں کے باغی سردار مسعود کو اس نے اپنے ساتھ لے لیا تھا تاکہ اس کے ذریعے سے اپنی تعریف و توصیف کروا کر اپنی پوزیشن مضبوط کر سکے۔

شرجیل ساری رات گھوڑا دوڑاتا۔ جب ایک تھک جاتا تو وہ دوسرے پر سوار ہو جاتا لیکن اس کے قریب تھکن کا نام و نشان نہ تھا۔ صبح تڑکے جب وہ قحطان پہنچا تدفین کی تیاری مکمل ہو چکی تھی۔ ہر کوئی اس کا منتظر تھا۔ عقیل آگے بڑھ کر اپنے بھائی سے لپٹ گیا اور بچّوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگا۔ شرجیل نے بھائی کے سر پر ہاتھ پھیرا اسے دلاسہ دیا اور باپ کے آخری دیدار کے لئے چل پڑا۔ ادھر مؤذن نے نماز فجر کی اذان دی۔ لوگ نماز کی تیاری کرنے لگے۔ نماز فجر کے بعد نماز جنازہ کا اہتمام کیا گیا اور تدفین ہو گئی۔

قبیلہ کی روایت کے مطابق اس شام نئے سردار کی تاجپوشی ہونی تھی۔ ہر بار یہ کام بہ آسانی سے ہو جایا کرتا تھا۔ مرحوم سردار کا بڑا بیٹا سردار بن جاتا اور وہ اپنے چھوٹے بھائی کو اپنا ولی عہد بنا دیتا۔ قبیلہ کی ایک اور روایت یہ بھی تھی کہ سردار جس بیٹے کے زانو پر دم توڑتا اُسے قبیلہ کا سردار بنایا جاتا۔ برسوں پہلے ایسا بھی ہوا تھا سردار نے بڑے بیٹے کے زانو پر نہیں بلکہ منجھلے کے زانو پر دم توڑا اور اسے سرداری پر فائز کر دیا گیا لیکن اکثر وبیشترسردار کی موت جانشین کی گود میں ہوئی تھی اس لئے کوئی تنازع کھڑا نہیں ہوا تھا لیکن اس بار پھر یہ صورتحال تھی کہ سردار کی موت شرجیل کے بجائے عقیل کی گود میں ہوئی تھی اس لیے ایک روایت کے مطابق وہ سرداری کا اہل ٹھہرتا تھا۔

شام جب سب لوگ میدان قحطان میں جمع ہو گئے تو ہر ایک کے سامنے شرجیل کی واپسی کا پرانا منظر آ گیا۔ جب عقیل آگے بڑھ کر اپنے عہدہ سے سبکدوش ہو گیا تھا اور شرجیل نے اسے عہدہ لوٹا دیا تھا لیکن اس بار قبیلہ کے صائب الرائے افراد نے عقیل کو سمجھایا کہ شرجیل کا سرداری پر فائز ہونا قبیلہ کے عظیم تر مصالح کے خلاف ہے۔ اس کی بے جا ضد نے پہلے ہی بہت نقصان پہونچا یا ہے اس لیے وہ روایت کے مطابق اپنے حصہ میں آنے والی ذمہ داری سے راہ فرارنہ اختیار کرے۔ عقیل کی عقل میں یہ بات بڑی آسانی سے آ گئی اس لیے اس نے خاموشی اختیار کر لی۔ شام میں جب قبیلہ کی سب سے معمر شخصیت ہاشم مرزوقی اعلان کرنے کے لیے اٹھے اور کہنا شروع کیا۔

’’قحطانی قبیلہ کی روایت۔۔۔‘‘ تو بیچ میں شرجیل کا حامی کفیل کھڑا ہو گیا اور اس نے کہا۔

’’یہ غیر معمولی صورت حال ہے اس لیے اس معاملہ میں کسی حتمی فیصلہ پر پہونچنے سے پہلے میں چند حقائق آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں گو کہ سردار کا انتقال ان کے بڑے بیٹے شرجیل کے زانو پر نہیں ہوا لیکن ہمیں یہ نہ بھولنا چاہئے کہ شرجیل سردار کے حکم و اجازت سے ایک جنگی مہم پر تھا اس لیے غیر موجودگی کے باوجود بڑا بیٹا ہونے کی حیثیت سے وہی سرداری کا حقدار ہے۔ ‘‘

مجمع میں خاموشی چھا گئی۔ ہاشم مرزوقی نے عقیل کی جانب دیکھا۔ عقیل اپنی جانب خاموش بیٹھا رہا لیکن اس کی جانب سے خلیل نے کھڑے ہو کر کہا۔ ’’کفیل کی یہ دلیل درست نہیں ہے۔ شرجیل کو مہم جوئی کا تجربہ تو ہے لیکن اس کی موجودگی میں بھی سرداری کی ذمہ داری عملاً عقیل ہی ادا کرتے رہے ہیں اور قبیلہ کے افراد بشمول سردار سرخیل اپنے بیٹے عقیل کی کار کردگی سے خوش اور مطمئن رہے ہیں اس لیے سرداری کے حقیقی مستحق عقیل ہی ہیں۔ ‘‘

اب ایک مباحثہ کا آغاز ہو گیا۔ کفیل نے کہا۔ ’’آج کل ہم لوگ فردوسیوں سے برسرجنگ ہیں۔ جریان میں بھی حالات قابل اطمینان نہیں ہیں ایسے میں ہمیں مہم جو سردار کی ضرورت ہے جو ہماری عظمت و شان بحال کر سکے اور دشمنوں کے مقابلے ہمارا تحفظ کر سکے۔ ‘‘

اس کے جواب میں خلیل نے کہا۔ ’’یہ تمام بحران خود ہمارے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے اور اس کے لیے شرجیل خود ذمہ دار ہے ہمارے تعلقات نہ صرف فردوسیوں سے اچھے تھے بلکہ جریان والے بھی ہمارے ہمنوا تھے لیکن شرجیل نے قحطانیوں کو خود ان کی اپنی سرزمین میں غیر محفوظ کر دیا۔ اس کے باوجود تحفظ کے نام پر اس کا دعویٰ پیش کیا جا رہا ہے۔ ‘‘

عوام دونوں فریقین کے دلائل سن رہے تھے ان کا حال یہ تھا کہ جس کی دلیل سنتے اسی سے اتفاق کر لیتے۔ اس لیے وہ ہر تقریر کے بعد اپنی رائے تبدیل کر دیتے تھے۔ بالآخر کفیل نے کہا۔ ’’خلیل ماضی کی بات کرتے ہیں۔ ایسا تھا اور ویسا تھا ہمیں حال کا سردار چاہئے جو مستقبل کو سنوار سکے ہم حال کی بات کرتے ہیں کہ ایسا ہے اور ان حالات میں شرجیل ہی ہماری رہنمائی کرنے کے اہل ہے۔ ‘‘

ہاشم مرزوقی نے بحث کو سمیٹتے ہوئے آخری موقع عقیل کو دیا اس لیے کہ بات شروع کفیل سے ہوئی تھی۔ خلیل نے کہا۔ ’’آج کا گذرا ہوا کل، گذرے ہوئے پرسوں کا مستقبل تھا اور حال گذرے ہوئے کل کا مستقبل ہے۔ ہمارے گذرے ہوئے کل یعنی پرسوں کے ماضی کو جس نے تباہ کیا اور کل کے مستقبل یعنی آج کو جس نے تاریک کیا ہم اس کے ہاتھوں میں آج اور اس مستقبل یعنی آنے والا کل نہیں دے سکتے۔ ایسا کرنا خود کشی کے مترادف ہے۔ ‘‘

یہ کہہ کر خلیل بیٹھ گیا۔ سارا مجمع خاموش تھا۔ وہ فیصلہ نہیں کر پا رہے تھے کہ آخر ان کے مستقبل کو سنوارنے والا کون ہے اور بگاڑنے والا کون ہے؟ جب انہیں اپنا خیال آتا تو عقیل اچھا لگتا اور جب دشمن کا خیال آتا تو شرجیل۔ خوف کے جذبات خلیل کے دلائل کو مات دے رہے تھے لیکن پھر بھی دل کہتا تھا کہ عقیل اچھا آدمی ہے۔ ذہن سوال کرتا کہ اس کی اچھائی تمہاری حفاظت کر سکے گی؟ عوام شش و پنج میں تھے۔

ہاشم مرزوقی پھر ایک بار اپنی جگہ کھڑے ہو گئے۔ عوام سے ان کی رائے طلب کرنے کی خاطر وہ بولے۔ ’’جو لوگ شرجیل کے حامی ہیں وہ اپنا دایاں ہاتھ اٹھائیں اور جو عقیل کے حمایت کرتے ہیں وہ بایاں ہاتھ اٹھائیں۔ ‘‘

ان کی آواز صدا بصحرا ثابت ہوئی ایسا لگتا تھا پورا مجمع گونگا بہرہ ہو گیا ہے۔ اس کے حواس خمسہ نے کام کرنا بند کر دیا ہے بلکہ وہ حواس باختہ ہو گئے ہیں۔ میدان قحطان پر قبرستان کا سا سناٹا چھایا ہوا تھا کہ اچانک گھوڑوں کی ٹاپ سنائی دینے لگی یہ شرجیل کی فوجیں تھیں جو واپس آ رہی تھیں لیکن شرجیل کے حواریوں نے افواہ پھیلا دی۔ فردوسی فوج ہم پر چڑھائی کے لیے آن پہونچی ہے جلدی سے فیصلہ کرو ورنہ دیر ہو جائے گی۔

جیسے ہی خبر پھیلی آہستہ سے ایک داہنا ہاتھ آسمان کی جانب اٹھا پھر دوسرا اور پھر تیسرا۔ دیکھتے دیکھتے خوف و دہشت سے کانپتے ہوئے بے شمار ہاتھ آسمان کی جانب اٹھے ہوئے تھے۔ ہاشم مرزوقی نے شرجیل کی سرداری کا اعلان کیا۔ عقیل نے آگے بڑھ کر اسے سینہ سے لگا لیا اور گھوڑوں کی ٹاپ بند ہونے لگی۔ آہستہ آہستہ پھر ایک بار میدان میں خاموشی چھا گئی۔ شرجیل کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ آنسو وصال سرداری کے ہیں یا فراقِ شیبا کے ۔۔۔!خود شرجیل بھی نہیں جانتا تھا۔

٭٭٭





تراب محل



مٹی کے رشتے ناطے، مٹی کے قسمیں وعدے سب مٹی میں مل گئے۔

تراب محل ڈھے گیا۔ مٹی کا وہ ننھا سا محل اپنے آپ میں کل کائنات تھا۔۔۔ ایک مکمل کائنات۔۔۔ وہ تمام نظام ہائے زندگی جن کا انسان تصور کر سکتا ہے بلکہ جو اس کے تصور و خیال سے پرے ہیں، سب کے سب اس کے اندر موجود تھے۔ روشنی کے دو مینار بینائی بنت بصارت لمحہ بہ لمحہ قرب و جوار کی ہر تصویر پر نظر رکھتی تھی۔ تمام نقوش نہ صرف محفوظ کر لئے جاتے تھے بلکہ وقتِ ضرورت انھیں حاضرِ خدمت بھی کر دیا جاتا تھا۔ بینائی بنت بصارت روتی بھی تھی اور ہنستی بھی تھی۔ بے زبان ہونے کے باوجود وہ بہت کچھ بولتی اور ہمیشہ سچ بولتی تھی۔ اس کی چمک زندگی کی علامت اور اس کا پتھرا جانا موت کا اعلان سمجھا جاتا تھا۔

عبدالسمیع آواز کی لہروں کا تجزیہ کرنے میں ہمہ تن گوش رہتے تھے۔ آواز کا اُتار چڑھاؤ، نرمی سختی، غنائیت و کرختگی، ہر ایک سے ان کی شناسائی تھی۔ بے ہنگم آوازوں کو بھی وہ معنی و مفہوم کا خوبصورت لباس فراہم کر دیا کرتے تھے۔ لیکن آواز کے حسین و نازک تار کسی اور مقام سے چھیڑے جاتے تھے۔ نغمہ بیگم نام کا آلۂ صوت اِن جڑواں بھائیوں کے درمیان حلق میں نصب تھا۔ یہاں سے حسبِ ضرورت فرحت و مسرت یا غم و اندوہ دونوں طرح کے جذبات کا اظہار ہوتا تھا۔ نشر و اشاعت کا مایۂ ناز شاہکار کبھی تو اُلفت و محبت کا نغمہ بکھیرتا اور کبھی نفرت و عداوت کے شعلہ برساتا۔ ہر کیفیت کی ترسیل پر اسے کامل قدرت حاصل تھی۔

نغمہ بیگم کے پاس زبان نامی ایک تیز طرار باندی بھی تھی۔ حالانکہ اس پر بتیس دانتوں کا پہرہ تھا، اس کے باوجود یہ نرم و نازک زبان بڑی چالاکی اور بے باکی سے اپنے فرائض منصبی انجام دیا کرتی تھی۔ آواز کو الفاظ کا جامہ پہنا کر ہوا میں اچھالنا اس کی اوّلین ذمہ داری تھی۔ اس کی کمان سے نکلا ہوا تیر کبھی واپس نہ آتا اور اس تیر سے لگنے والا زخم مشکل ہی سے بھر پاتا تھا۔

زبان کا ایک اور اضافی کام کھانے کو ترنوالہ بنا کر نگل جانا بھی تھا۔ لذتِ کام و دہن کا صدر مقام یہی تھی۔ باہر کی حرارت اسے سرخ کر دیتی تو اندر کی گرمی سے اس پر چھالے پڑ جاتے۔ اس کی گرمیِ گفتار سارے عالم کو بدمزہ کرنے کیلئے کافی تھی۔ ماہر طبیب اسے دیکھ کر اندر کا حال معلوم کر لیتے اور ظالم حکمراں صدائے حق کو کچلنے کی خاطر اس بیچاری کو تلوے سے اکھاڑ کے چیل کووں کے آگے ڈال دینے کی دھمکی بھی اسی کے توسط سے دیتے تھے۔

زبان و بیان کی آرائش و زیبائش کے پیشِ نظر اس کے صدر دروازے کو حسین و جمیل لبوں سے سجایا گیا تھا جنھیں دیکھ کر شاعروں کو گلاب کی پنکھڑی یاد آ جاتی تھی۔ اس بابِ دہن سے اوپر دو روشندان نصب تھے۔ ہوا کا داخلہ یہیں سے ہوتا تھا۔ اس مقام پر پہلے تو ہوا کی چھان بین ہوتی اور اس کے بعد ہی آگے پھیپھڑوں کی جانب بڑھنے کا پروانہ عطا کیا جاتا۔ یہاں نہ صرف ہوا کو صاف کیا جاتا بلکہ اس کا درجہ حرارت بھی درست کر دیا جاتا تاکہ وہ اندر کی گرمی سے ہم آہنگ ہو جائے۔

ان اونچے روشندانوں کے اندر ایک ننھا سا گھونسلہ ابو شامہ کا بھی تھا۔ ہوا کے دوش پر سوار خوشبو کا کوئی حسین جھونکا جب ابو شامہ سے مصافحہ کرتا تو اس سے سارامحل معطرہو جاتا۔ نیز جب کبھی وہ بدبو کی لپیٹ میں آتا تو محل کی فضا کو مکدر ہونے سے بچانے کی خاطر اپنے آپ کو سکیڑ لیتا۔ اس عظیم الشان محل کا فیوز بھی روشندان کے اندر نصب تھا۔ اگر کہیں کوئی دھماکہ ہوتا یا زوردار جھٹکا لگتا تو ہوشیار خبردار کرنے والے سرخ چراغ یہیں سے روشنی بکھیرنے لگتے تھے۔

تراب محل کے اندر ایک نادِرِ روزگار پمپ لگا ہوا تھا جو باہر سے نظر تو نہیں آتا تھا لیکن اپنا کام بدستور کرتا رہتا تھا۔ وہ نہ کبھی رُکتا تھا اور نہ تھکتا تھا۔ بس چلتا رہتا تھا۔ اس پمپ کی بدولت لطیف و پاکیزہ ہوا محل کے اندر آتی اور کثیف و آلودہ ہوا باہر پھینک دی جاتی۔ اندر آنے والی ہوا محض چند لمحات کے لیے پھیپھڑوں میں قیام کرتی لیکن اس مختصر سی مدت میں حیات بخش ایندھن یعنی آکسیجن کو خون کے اندر جذب کر لیا جاتا اور ساتھ ہی جسم کا فاضل کاربن اس کے آکسائیڈ کی شکل میں ہوا میں ملا دیا جاتا تاکہ اس کی نکاسی ممکن ہو سکے۔ اس آمد و رفت کے باعث یہ مٹی کا مکان ہر دم تازہ دم رہتا تھا۔

غذا اور پانی کے ساتھ بھی یہی معاملہ تھا کہ ان میں موجود مفید اجزا و دیگر نمکیات کو کشید کرنے والا ایک خودکار کارخانہ معدے کے اندر نصب تھا۔ اس کے مختلف شعبہ جات حسب ضرورت مختلف کیمیاوی عمل کرنے کی ذمہ داری بحسن و خوبی ادا کرتے۔ رطوبتیں خارج ہوتیں اور غذا کے اجزاء کو ایک دوسرے الگ کر کے قابلِ استعمال ایندھن میں تبدیل کر دیا جاتا۔

نظام انہضام ان سرگرمیوں کی نگرانی کرتا اور پھر محصول کو دو حصوں میں تقسیم کر دیتا۔ فوری ضرورت کے ایندھن کی مناسب ترین مقدار نظام نقل و حمل کے حوالے کر دی جاتی اور خون کی نلیوں کے ذریعہ اسے رگ رگ میں پہنچا دیا جاتا۔ فاضل ایندھن کو محفوظ صورت میں بدل کر جگر کے اندر موجود گودام میں رکھوا دیا جاتا تاکہ وقتِ ضرورت کام آئے۔ اس کارخانے میں بننے والے فاسد مادے کو نظام استخراج کے ذریعہ باہر کا راستہ دکھلا دیا جاتا تھا۔

نقل و حرکت میں بنیادی ضروریات کی حد تک یہ مکان خود کفیل تھا۔ اس کے دو پہیوں کا نام پاؤں پاؤں تھا۔ میاں پاؤں پاؤں کی رفتار محدود ضرور تھی لیکن ان کا سفر لامحدود اور ناگزیر تھا۔ نہ جانے کب سے یہ مصروفِ سفر تھے اور لاکھوں میل کا فاصلہ طے کر لینے کے باوجود ان کے اندر موجود جذبۂ عمل میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی تھی۔ لاکھ سواریوں کے باوجود ان کے بغیر انسان اپاہج گردانا جاتا تھا۔

لین دین کے لیے اس محل میں دست و بازو آراستہ و پیوستہ تھے۔ ان دونوں کے درمیان بلا کی مفاہمت تھی۔ کبھی تو لینے کے لیے دونوں ایک ساتھ آسمان کی طرف اُٹھ جاتے اور کبھی دینے کے لیے ایسے بڑھتے کہ ایک دیتا تو دوسرے کو خبر نہ ہوتی۔ محل کی عزت و وقار کا راز انہیں کے اندر پنہاں تھا۔ انہیں کی تعریف میں شاعر مشرق نے کیا خوب کہا ہے ؎

ہاتھ ہے اللہ کا، بندۂ مومن کا ہاتھ

غالب و کار آفریں، کار کشا کارساز

روز و شب خلیات کی تعمیرو تخریب کا عمل جاری و ساری رہتا۔ اس کی مدد سے ارتقا کے مراحل طے کرتا ہوا تراب محل اپنے منزل مقصود کی جانب رواں دواں رہتا تھا۔ اس تعمیر میں غیر معمولی انضباط اور اس کی تخریب میں احتیاط کا پہلو غالب تھا۔ ان حرکات و سکنات میں خیرو برکت کا سرچشمہ تعمیر و تخریب کے درمیان پایا جانے والا اعتدال و توازن تھا۔ اس نظم و ضبط کو قائم رکھنے کی ذمہ داری سلطان اعظم دماغ شاہ پر تھی۔ ویسے عمومی طور ہر اقتدار کی زمامِ کار انہیں کے ہاتھوں میں تھی یہ اور بات ہے کہ خود سلطان پر ملکہ دلربا حکمرانی کرتی تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ محل کی ساری رونق اسی ملکہ کی مرہونِ منت تھی۔ وہی محل کو شاد باد رکھتی تھی اور جب وہ غمگین ہو جاتی تو سب غمگین ہو جاتے تھے۔

شہنشاہ اور ان کی ملکہ ایک دوسرے سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ یہی جذبۂ اُلفت محل کی روحِ رواں تھا۔ دونوں ایک دوسرے پر جان چھڑکتے تھے اور ایک لمحہ کے لیے بھی اک دوجے سے غافل نہ ہوتے تھے۔ ایک دوسرے کی یاد، ایک دوسرے کا ذکر، ایک دوسرے کی فکر، یہی ان کا مقصدِ حیات تھا اور یہی زندگی کی سوغات تھی۔ محل کے تمام افراد بشمول مذکورہ مصاحبین کے، ان دونوں کا بڑا احترام کرتے تھے۔ ان کی تعریف و توصیف کو اپنے لئے باعثِ سعادت سمجھتے اور ان کی خدمت و فرمانبرداری کو مقصدِ وجود خیال کرتے تھے۔

اس اعتمادِ باہم کے باعث تعاون و اشتراک کی ایک ایسی صحتمند فضا قائم تھی کہ جس میں سب ایک دوسرے کو آرام و آسائش پہچانے کی تگ و دو میں لگے رہتے تھے۔ کسی ایک کو ہونے والی تکلیف کوسارے یکساں طور پر محسوس کرتے اور مل جل کر اس سے نجات کی سعی کرتے، انہیں اسباب کی بناء پر امن و آشتی اور چین و سکون اس محل کے مستقل مہمان بنے ہوئے تھے۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

وقت کی سیاہ و سپید پٹری پر رواں دواں یہ کارواں صحراؤں اور بیابانوں سے ہوتا ہوا سرسبز و شاداب میدان میں پہنچا اور سستانے کی خاطر ڈھیر ہوا چاہتا تھا کہ بادِ نسیم کا ایک خوشبودار جھونکا ابو شامہ سے ٹکرایا۔ بھینی بھینی خوشبو کی مہک نے ابو شامہ کے ہوش اُڑا دئیے، ابو شامہ نہ صرف خود جھوم اُٹھے بلکہ انہوں نے اس خوشبو سے تمام وجود کو معطر کر دیا۔ یہاں تک کہ پاؤں پاؤں اپنی جگہ جم گئے۔ اس سے پہلے کہ خوشبو کا نشہ ٹوٹتا، عبدالسمیع ایک مدھم سریلی آواز کے سحر میں گرفتار ہونے لگے۔ نغمے کا سرور ایسا تھا کہ انہوں نے بے ساختہ پاؤں پاؤں کو آواز کی جانب بڑھنے کا حکم صادر فرما دیا۔ پاؤں پاؤں اپنی رفتار سے فاصلوں کو نگلتے چلے جا رہے تھے اور اسی کے ساتھ نغمگی کا زہر رگ و پے میں سرائیت کرتا جا رہا تھا۔ یہاں تک کہ نغمہ بیگم بھی بے ساختہ گنگنانے لگیں ۔۔۔

نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا

کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا

مغنی نے اپنا سارا درد اپنی اس فریاد میں سمو دیا تھا۔ عبدالسمیع اور نغمہ بیگم کو غزل کی شوخی نے پیکرِ درد بنا دیا تھا۔ بینائی بانو مغنی کا دیدار کرنا چاہتی تھیں اور اس کوشش میں ان کی نگاہِ غلط رقاصہ پر جا کر ٹک گئی۔ رقاصہ کیا تھی، گویا عالمِ عجائب کی پری تھی۔ اس کی آنکھیں، اس کے لب، اس کا چہرہ و ناک نقشہ۔۔۔ سب کچھ طلسماتی تھا۔ اس کے باوجود اپنی ہر ادا سے وہ اپنے نقوش کے کاغذی ہونے کا شکوہ کرتی جاتی تھی۔ اپنے فانی ہونے پر کی جانے والی اس کی گریہ و زاری رقص کی ہر تھاپ میں گونجتی تھی۔ وہ اپنی سحر انگیز آواز میں بار بار دوہرائے جاتی تھی۔۔۔

نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا

کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا

حواسِ اربعہ کی مسحور کن کیفیت نے ملکہ دلربا کو حواس باختہ کر دیا۔ رقص و سرود کی اس محفل میں وہ بھی اپنا ہوش گنوا بیٹھی اور گنگنانے لگی۔۔۔

جذبۂ بے اختیارِ شوق دیکھا چاہئے

سینۂ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا

یہ پہلا موقع تھا کہ جبکہ وہ اپنے سلطان سے غافل ہوئی تھی۔ ایک عجیب و غریب تلذذ نے اسے اپنے آقا و محبوب سے بیگانہ کر دیا تھا۔ سلطان دماغ شاہ ان بکھیڑوں سے الگ تھلگ اپنے کاموں میں مصروف تھے کہ اچانک انہیں ملکہ کا خیال آیا۔ بڑی محبت سے وہ ملکہ کی جانب متوجہ ہوئے اور انہیں پکارا، لیکن جواب ندارد۔ اس غیر متوقع رویہ نے سلطان کو تشویش میں مبتلا کر دیا۔

وہ ملکہ جو ان کے دل کی دھڑکن تھی، ایک اشارے پر جان چھڑکتی تھی، خواہش کو حکم اور اطاعت و فرمانبرداری کو سعادت کے درجہ میں رکھتی تھی، وہ ملکہ دلربا بھی آنکھیں پھیر سکتی ہے؟ ہمہ تن گوش رہنے والی ملکہ سے بے رُخی کا تصور بھی سلطان کے لیے محال تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ صورتحال کی سنگینی کا ادراک کرتے مغنی نے اگلا شعر پڑھا جو سلطان نے بھی سنا۔۔۔

آگہی دامِ شنیدن جس قدر چاہے بچھائے

مدعا عنقا ہے میری شوخیِ تحریر کا

کافی غور و خوض کے بعد یہ مدعا سلطان کے زیر دام آیا۔ در اصل شاعر کے کربِ آگہی اور رقاصہ کی شوخی کے سحر نے ملکہ کو اپنے سلطان سے بیگانہ کر دیا تھا۔ سلطان کے نزدیک یہ ناقابلِ معافی جرم تھا۔ سلطان غیض و غضب سے باؤلا ہو گیا اور چاہا کہ ملکہ کے چیتھڑے اُڑا دے۔ لیکن محبت آڑے آ گئی۔ وہ بے پناہ محبت جو اس کے دل میں ملکہ کے تئیں موجزن تھی اس کے پیروں کی زنجیر بن گئی اور وہ مجبور محض ہو کر رہ گیا۔ لیکن اس کے باوجود غصہ کم ہونے کا نام نہ لیتا تھا۔

اس متضاد کیفیت نے سلطان کو مخمصہ میں ڈال دیا۔ وہ سزا دینا بھی چاہتا تھا اور نہیں بھی دے سکتا تھا۔ اب سلطان نے ایک درمیان کا راستہ نکالا۔ کیوں نہ اس بے توجہی کی بنیادی وجہ تلاش کی جائے؟ کیوں نہ اس مجرم کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے جس کے بہکاوے میں آنے کے سبب ملکہ سے یہ جرم سرزد ہوا۔ کون پس پردہ اس بے وفائی کے لیے ذمہ دار تھا؟ یہ ایک ایسا چور دروازہ تھا جس میں سلطان کی روح کے تسکین کا سامان پنہاں تھا۔

اسباب و علل کی دُنیا میں سلطان کی ملاقات سب سے پہلے شاعر، مغنی اور رقاصہ سے ہوئی لیکن یہ تمام افراد اس کے دائرۂ اقتدار سے باہر تھے۔ انہیں سزا دینے کی قدرت سلطان کے اندر نہیں تھی۔ اس پہلے محاذ پر ناکامی کے بعد وہ اپنے مصاحبین کی جانب پلٹا۔ اس مرحلہ میں اس پر یہ انکشاف ہوا کہ باہر سے بڑی خرابی تو اندرون میں پائی جاتی ہے۔ دوسروں کو موردِ الزام ٹھہرانے سے کیا حاصل جبکہ اندر سارا کا سارا نظام ہی تہہ و بالا ہے۔ ہر کوئی رقص و سرود کے نشہ میں جھوم رہا ہے۔ غفلت اپنے حدود سے تجاوز کر کے بغاوت کی مماثل بن گئی ہے۔

اس مشاہدے نے سلطان دماغ شاہ کو بیم و رجا کی کیفیت میں مبتلا کر دیا۔ ایک طرف تو اسے اپنے مصاحبین کی بغاوت کا غم تھا لیکن خوشی اس امر پر تھی کہ انہیں موردِ الزام ٹھہرا کر وہ اپنا غصہ ٹھنڈا کر سکتا تھا۔ دستوری ضابطہ کی بجا آوری بھی ہو رہی تھی اور ملکہ سزا پانے سے بھی بچ رہی تھی۔ چونکہ مصاحبین کے تحت سلطان کے دل میں کوئی خاص ہمدردی و غمخواری نہیں تھی۔ اس لیے انہیں سزا دینے میں کوئی مشکل بھی نہیں تھی۔ بغاوت و نافرمانی کی حد تک ملکہ دلربا بھی مصاحبین سے پیچھے نہیں تھیں لیکن ملکہ کے سینے میں سلطان کے تئیں جو محبت و الفت کے جذبات تھے انہوں نے ملکہ کو سلطان کا معشوق بنا دیا تھا۔

سلسلۂ تعذیب کی ابتداء پاؤں پاؤں سے ہوئی۔ دور دراز کے اس مسکین سپاہی پر پہلی گاز پڑی۔ اس لئے کہ پاؤں پاؤں ہی عملاً اپنے مضبوط کندھوں پر سوار کر کے ملکہ کو اس ہو شربا محفل میں لے کر گئے تھے۔ ریموٹ کنٹرول کے ایک جھٹکے سے دونوں پاؤں یکلخت شل کر دیئے گئے۔ پاؤں پاؤں نے سلطان کی خدمت میں آداب و تعظیم بجا لانے کے بعد اپنی صفائی پیش کی۔ ’’حضور، ہم تو معمولی خدمت گار ہیں۔ ہم اپنی مرضی سے کوئی پیش قدمی کرنے کے مجاز کب ہیں۔ ہم اپنے طور پر کہیں آنے جانے کی جرأت کر ہی نہیں سکتے۔ ہم نے صرف اور صرف بینائی بیگم کے احکامات کی تعمیل کی ہے۔ آپ کے محترم و مکرم مصاحبین کے احکام کی بجا آوری اگر جرم ہے تو یقیناً ہم اس کے سزا وار ہیں۔

پاؤں پاؤں کی التجا اس قدر معقول تھی کہ سلطان کے لیے اس کو نظر انداز کرنا محال ہو گیا۔ اسی کے ساتھ یہ رحم کی درخواست اصل مجرم کی نشاندہی بھی کر رہی تھی۔ اس سراغ کے ملتے ہی محل کے دونوں مینارۂ نور بے نور کر دئیے گئے۔ ان چراغوں کے بجھتے ہی چہار سو گہری تاریکی کا سامراج قائم ہو گیا۔ بینائی بیگم کو ہوش آیا تو دیکھا سلطان شاہ کی شعلہ بار نگاہیں اسے گھور رہی ہیں۔ وہ فوراً معاملے کی تہہ تک پہنچ گئیں۔ اصل مجرم تو ملکہ تھی لیکن ان کی جانب انگشت نمائی خلافِ حکمت تھی اس لیے عبدالسمیع کو نشانہ بنایا جو اب بھی سرورِ نغمہ میں مست تھا۔

بینائی بیگم سلطان کے حضور یوں گویا ہوئیں۔ ’’ظل سبحانی شہنشاہِ مملکت اگر جان کی امان پاؤں تو عرض کروں۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ جس عبدالسمیع نے ہمیں ورغلا کر اس فتنہ سامان محفل کی جانب متوجہ کیا، وہ تو عیش و طرب میں ڈوبا رہے اور عتاب کا کوڑا ہم پر برسے۔ اس کے باوجود آپ کی سزا سر آنکھوں پر مگر عبدالسمیع پر ہونے والی نظرِ عنایت مبنی بر انصاف نہیں بلکہ ظلم کے مترادف معلوم ہوتی ہے۔ ‘‘

بینائی بیگم کی پر آشوب گریہ و زاری سے سلطان شاہ کا دل پسیج گیا اور انہوں نے عبدالسمیع کے کان اینٹھنے کا ارادہ کیا۔ سلطان کی ایک غضبناک چنگھاڑ نے عبدالسمیع کے سارے تار کاٹ دئیے۔ مٹی کے اس ننھے سے محل میں ایک خوفناک سناٹا چھا گیا۔ قبرستان کی سی خاموشی نے تمام سرگوشیوں کو اپنے اندر نگل لیا۔ عبدالسمیع کو ہوش آیا تو اس کی دُنیا اُجڑ چکی تھی۔ آواز کو سننے اور سمجھنے کی صلاحیت سے وہ یکسر محروم ہو چکا تھا۔ اس کا مادی وجود تو باقی تھا لیکن اس کی روح پرواز کر چکی تھی۔ اپنی افادیت گنوا کر وہ اپنے مقصدِ وجود سے بے بہرہ ہو چکا تھا۔ اب وہ بے روح مٹی کا ایک پرزہ تھا اور اس سے پہلے کہ مٹی میں رل مل جاتا، سلطان کے حضور گویا ہوا۔

حضور عالی مقام اگر آپ اس جرم کی تہہ میں پہنچنا چاہتے ہیں تو میری عرض بھی سن لیں۔ در اصل ابتدا مجھ سے نہیں ابو شامہ سے ہوئی۔ وہی از خود بادِ نسیم سے جا ٹکرایا اور ہم سب کو خوشبو کی جانب متوجہ کیا۔ وہ خوشبو کا جھونکا در اصل ایک سراب تھا۔ اس کے پیچھے دوڑتے ہوئے ہم سب نہ جانے کہاں سے کہاں نکل گئے۔ چونکہ ابو شامہ نے ہی ہمیں اس سے متعارف کروایا تھا، اس لیے وہ نہ صرف ہمارے جرم میں برابر کا شریک ہے بلکہ اس گناہِ بے لذّت کا ہرکارہ ہے اور اسے سزا سے محروم رکھنا تقاضائے انصاف کے منافی ہے۔ ‘‘

سلطان کے دربار کا آخری شہسوار بھی مجرم پایا گیا تھا، اس لیے وہ بھی قابلِ گردن زدنی ٹھہرا۔ ابو شامہ کے ساتھ اس مٹی کے محل کی ناک کٹ گئی۔ یہ عجیب و غریب صورتحال تھی کہ مصاحبین عدل و انصاف کی دہائی دے کر اپنے ساتھیوں کو بچانے کے بجائے انہیں سزا دلوا رہے تھے اور سلطان عالمِ غیض و غضب میں اپنے درباریوں کی پے در پے تعذیب کئے جا رہا تھا۔ لیکن وہ اس حقیقت کو بھول گیا تھا کہ درباریوں کی خواری خود اس کی اپنی رسوائی ہے۔ اپنے مصاحبین کو مفلوج کر کے اس نے خود اپنے محل کو ویران کر دیا ہے۔ اب یہاں نہ خوشبو اور بدبو کی کوئی تمیز پائی جاتی ہے اور نہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی دیتا ہے۔ روشنی سے محروم اس ویران مکان میں ہر سمت خاموشی کا دور دورہ تھا۔ حرکت پر جمود غالب آ گیا ہے۔ گھر کے سارے افراد بدحواسی کا شکار ہو گئے ہیں۔

ملکہ دلربا ان اندوہناک مناظر کو دیکھتی جاتی تھی اور نادم و شرمسار اپنے آپ کو کوستی جاتی تھی۔ وہ اس بات سے واقف تھی کہ اس فتنہ سامانی کا بنیادی سبب خود اس کی اپنی ذات والا صفات ہے۔ یہ تمام لوگ تو بلا وجہ عتاب کا شکار ہوئے ہیں۔ یہ اس کی اپنی ذمہ داری تھی کہ نہ صرف وہ اپنے آپ کو رقص و سرود کی تباہی سے محفوظ رکھتی بلکہ دوسروں کو اس کے انجامِ بد سے خبردار کر کے روکنے کی سعی کرتی۔ لیکن وہ دونوں محاذ پر بُری طرح ناکام رہی تھی۔ وہ اپنا فرض منصبی ادا کرنے کے بجائے خود ان کے شانہ بشانہ چل پڑی تھی اور سارے محل کی بربادی کا بنیادی سبب بن گئی تھی۔

ملکہ کے لیے جب اپنے ضمیر کے کچوکے ناقابلِ برداشت ہو گئے تو وہ ہمت جٹا کر اپنے گناہ کا کفارہ ادا کرنے کی خاطر از خود سلطان کی خدمت میں حاضر ہو گئی۔ سب سے پہلے اس نے پلکیں جھکا کر سلطان کی خدمت میں ندامت کے آنسوؤں کا نذرانۂ عقیدت پیش کیا اور لرزتے ہوئے لبوں سے بولی۔ ’’میرے سرتاج۔۔۔ جہاں پناہ، اصل مجرم تو میں ہوں۔ آپ اگر سزا دینا چاہتے ہیں تو اپنی اس کنیز کو دیجئے۔ میرا سر قلم کر دیجئے۔ مجھے دیواروں میں چنوا دیجئے لیکن ان لوگوں کی جان بخشی فرما دیجئے۔ ان کے ساتھ عفو و رحم کا معاملہ کیجئے۔ ‘‘

اس منظر دیکھ کر سلطان کا دل پسیج گیا۔ اس سے پہلے تو یہ ہو رہا تھا کہ ہر نیا مدعی دوسروں کی شکایت لگاتا اور اسے اپنے جرم میں شامل کر کے سزا کا مستحق ٹھہراتا تھا، لیکن اس کے برعکس ملکہ نہ صرف اپنے آپ کو سزا کے لیے پیش کر رہی تھی بلکہ دوسروں کے لیے رہائی کی طلبگار تھی۔ دوسروں کے الزامات کو اپنے سر لینے کے انداز دلربائی نے سلطان شاہ کو متاثر ضرور کیا تھا مگر انہیں نظم و نسق کی فکر کھائے جاتی تھی۔ وہ جانتے تھے کہ اگر بغاوت کی کونپل کو پہلے ہی مرحلے میں اُکھاڑ کر نہ پھینکا جائے تو آگے چل کر یہ پر خار درخت اقتدار کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیتا ہے۔

سلطان دماغ شاہ بولے۔ ’’ملکۂ عزیز مجھے پتہ ہے آپ نہایت نرم خو ہیں۔ آپ رحم و کرم کا پیکرِمجسم ہیں۔ آپ کو ان کے کرب نے بے چین کر دیا ہے۔ لیکن یہ غمخواری کے بجائے اس سزا کے مستحق ہیں جس سے دوچار ہیں۔ ان میں کوئی بھی اپنی غلطی پر نادم نہیں ہے۔ وہ اپنے قصور کی ذمہ داری دوسروں کے سر تھوپتے ہیں اور ان کو اپنی سزا میں شریک کر کے سکون و اطمینان حاصل کرتے ہیں۔ جو باہم ایک دوسرے سے محبت نہیں کرتے وہ کسی رحمت و شفقت کے سزاوار نہیں ہوتے۔ آپ ان پر رحم نہ کھائیں بلکہ انہیں بھلا دیں، اس لیے کہ انہوں نے خود اپنے آپ کو بھلا رکھا ہے۔

ملکہ بولیں۔ ’’آپ بجا فرماتے ہیں۔ آپ کے تمام مشاہدات اور احکامات حق و صداقت کے پر تو ہیں مگر یہ بھی تو ایک حقیقت ہے کہ جو زمین والوں پر رحم نہیں کرتا، آسمان والا اُس پر نگاہِ کرم نہیں کرتا۔ میں آپ کو آسمان والے پاک پروردگار کا واسطہ دیتی ہوں جس نے خمیری مٹی کے گارے سے ہمارے جد امجد کو وجود بخشا اور ان کی نک سک اپنے دستِ شفقت سے درست کی۔ اس کے بعد اس جسدِ خاکی میں اپنی روح پھونک دی۔ میں اس خالق حقیقی کے واسطے سے التجا کرتی ہوں جس کے امر کن۰۰۰۰۰۰ الفاظ نے ملکہ کا ساتھ چھوڑ دیا اور اب صرف سسکیاں تھیں اور آنسو تھے۔ ملکہ کا دل ڈوبنے لگا تھا اور دھڑکن ٹھہرنے لگی تھی۔

تراب محل عظیم زلزلہ کی زد میں آ چکا تھا، دیواریں لرز رہی تھیں۔ بستیاں الٹ پلٹ ہونے لگی تھیں۔ سلطان کا چراغ بھی ٹمٹمانے لگا۔ وہ رب کائنات کی جانب پلٹا۔ استغفار کے لیے دستِ دُعا دراز کر کے اپنے اور اپنی رعایا کے لیے رحم و کرم کی بھیک مانگنے لگا۔ اُٹھے ہوئے ہاتھ ابھی جھکے بھی نہیں تھے کہ رحمتِ خداوندی جوش میں آ گئی۔ بارانِ رحمت یوں برسا کہ ایک ایک کر کے سارا کچھ معمول پر آنے لگا۔

پاؤں پاؤں نے اپنے اندر جنبش محسوس کی اور وہ اٹھنے گرنے لگے۔ گویا چلنے پھرنے لگے۔ اسی کے ساتھ زندگی کا کبھی نہ ختم ہونے والا لامتناہی سفر پھر شروع ہو گیا۔ بینائی بیگم کے روشن چراغوں نے سارے گھر کو منور کر دیا۔ ابو شامہ کی سانسیں حیات بخش مہک سے جھوم اٹھیں۔ عبدالسمیع کے سوئے ہوئے تار پھر جھنجھنا اُٹھے، پھر ایک بار دربار سج گیا۔

سلطان تخت نشین اور ان کے بغل میں ملکہ دلربا جلوہ افروز تھیں۔ مصاحب اپنی اپنی مسندوں پر گاؤ تکیہ لگائے بیٹھے تھے اور دربار کے باہر عوام کا جم غفیر زندہ باد پائندہ باد کے نعرے بلند کر رہا تھا۔ تراب محل کی فصیل پھر سے جگمگا اٹھی تھی۔ ہر طرف خوشی و شادمانی کے شادیانے گونج رہے تھے۔ ہر کوئی اس حادثہ کو حرف غلط کی مانند مٹا دینا چاہتا تھا، ایک بھیانک خواب کی طرح بھلا دینا چاہتا تھا حالانکہ اس میں عبرت کا بڑا سامان موجود تھا۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

حالات بظاہر معمول پر آ چکے تھے۔ جن لوگوں نے اپنی غلطی پر سزا پائی انہیں تو کوئی ملال نہیں تھا لیکن اس قہر آلود دور پر فتن میں کئی بے گناہ بھی بلاواسطہ عتاب کی زد میں آ گئے تھے۔ کئی خلیات ایسے تھے جو اپنی بے وجہ کی سرزنش کو بھول نہیں پا رہے تھے۔ سرطانی بغاوت کی چنگاری اندر ہی اندر سلگ رہی تھی۔ ان خلیات کے اندر تعمیر و تخریب کا توازن بگڑ گیا تھا۔ ان کے اندر جذبۂ تعمیر بے لگام ہو گیا اور یہ بے قابو تعمیر گرد و نواح کی تخریب کا سبب بن گئی۔

یہ باغی خلیات بظاہر احتساب کا مطالبہ کر رہے تھے لیکن حقیقت میں انتقام کے خواہشمند تھے۔ اپنے مطالبے کے مسترد ہونے کا بہانہ بنا کر انہوں نے سلطان کی حکمرانی کا قلادہ اپنے گلے سے نکال پھینکا تھا۔ انہوں نے اپنے آپ کو سلطان شاہ کی فرمانروائی سے آزاد کر لیا تھا۔ لیکن وہ دو بدو مقابلے کی طاقت اپنے اندر نہیں رکھتے تھے۔ سلطان کے وفاداروں سے انہیں اندیشہ تھا کہ مبادا وہ ان کی دست درازی کا شکار نہ ہو جائیں۔

وقت کے ساتھ سلطان کے تئیں اندر ہی اندر پنپنے والے بغض و عناد نے وفاداروں تک کو اپنے نرغے میں لے لیا۔ نفرت کی دھیمی دھیمی آنچ پھیلنے لگی۔ باغیوں نے اس کمزور چارے کو معتوب کر کے سلطان کو زک پہچانا شروع کر دیا۔ سرطان اپنا جال پھیلا رہا تھا اور نت نئے خلیات کو اپنے کانٹے دار پنجوں میں جکڑتا اور نگلتا جا رہا تھا۔ سلطان اور سرطان آمنے سامنے تھے۔

سلطان دماغ شاہ نے اس نئی صورتحال سے نمٹنے کی خاطر مصاحبین کا ایک خصوصی اجلاس طلب کیا۔ درباریوں کے اندر اس بات پر اتفاقِ رائے تھا کہ بیرونی حملوں کا مقابلہ کرنے کی فطری قوتِ مدافعت تو ہمارے اندر فطری طور پر ودیعت کی گئی ہے لیکن داخلی خلفشار سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت اور تجربہ دونوں سے ہم لوگ محروم ہیں۔ غور و خوض کا سلسلہ ابھی جاری تھا کہ اچانک بینائی بیگم ایک دور کی کوڑی لے کر آئیں۔ وہ بولیں۔ ’’کیوں نہ ہم بیرونی امداد طلب کریں؟ ‘‘

سلطان نے چونک کر استفسار کیا۔ ’’اندرونی بے چینی کو رفع کرنے کے لیے بیرونی مدد! یہ کچھ عجیب نہیں لگتا؟ مجھے تو یہ کسی صورت مناسب نہیں لگتا۔ ‘‘

عبدالسمیع بولے سرکار سوال معقولیت کا نہیں مجبوری کا ہے چونکہ معاملہ سنگین ہو گیا ہے اور ہمارے پاس کوئی اور متبادل موجود نہیں ہے۔ اس لیے کسی متبادل کی عدم موجودگی میں یہی چارۂ کار ہے۔

لیکن مجھے اس میں سے خطرات کی بو آتی ہے۔ ابو شامہ نے تشویش کا اظہار کیا۔ ’’اگر ہم خود بیرونی امداد طلب کر لیں گے تو اس سے نہ صرف ہماری کمزوری ظاہر ہو گی بلکہ مخالفین کو بھی اپنے آپ ایسا کرنے کا جواز فراہم ہو جائے گا اور اگر ایسا ہو جاتا ہے تو ہم ایک دوسرے کے خلاف بیرونی ہاتھوں کا کھلونا بن جائیں گے۔ وہ ہماری قیمت پر ایک دوسرے کے اوپر اپنی برتری کا سکہ جمائیں گے۔ ‘‘

نغمہ بیگم بولیں۔ ’’میں اس تجویز کی تائید کرتی ہوں۔ ہمیں اپنے محل کو دوسری طاقتوں کا اکھاڑہ بنانے کے بجائے ایک پر امن آشیانہ بنانے کی سعی کرنی چاہئے۔ ہم اقتدار میں ہیں اس لیے ہماری دوہری ذمہ داریاں ہیں۔ ایک تو بغاوت کا قلع قمع کرنا اور ساتھ ہی امن و آشتی کی فضا قائم رکھنا، ہمیں ایسی حکمتِ عملی سے گریز کرنا چاہئے جس کے نتیجے میں خانہ جنگی کی حالت رونما ہو جائے اور یہ چمن اُجڑ جائے۔

سلطان نے مداخلت کرتے ہوئے معترضین سے خواہش کی کہ وہ صرف مسائل کی نشاندہی کرنے کے بجائے ان کا حل بھی سجھائیں۔ اس لیے کہ نشست کی غرض و غایت یہی ہے۔ ‘‘

ملکہ بولیں۔ ’’میرا خیال ہے اپنوں کے ساتھ ہمیں مصالحانہ روش اختیار کرنا چاہئے۔ اپنی غلطی کا برملا اعتراف ان کے زخموں پر مرہم بن سکتا ہے۔ وہ مظلوم لوگ ہیں اور ایک فطری ردّ عمل کا شکار ہیں۔ اگر ہم نے ان سے معذرت طلب کر لی تو ممکن ہے بات بن جائے۔ ‘‘

ملکہ کی اس تجویز نے سب کو سکتہ میں ڈال دیا۔ بینائی بیگم نے چمک کر پوچھا۔ ’’ملکہ محترم۔۔۔ کیا یہ ممکن ہے؟ حکمران کا اپنی عوام کے سامنے معافی کا خواستگار ہونا سیاسی بصیرت کے منافی ہے۔ اس سے ہماری دھاک ختم ہو جائے گی اور رعب داب مٹ جائے گا۔ جو لوگ ہمارے خوف سے دبکے بیٹھے ہیں وہ بھی شیر ہو جائیں گے۔ ‘‘

’’ملکہ محترمہ کی بات یوں تو معقول معلوم ہوتی ہے ۔۔۔‘‘ ابو شامہ نے کہا۔ ’’لیکن اس سے ہماری ناک نیچی ہوتی ہے۔ اگر انہوں نے انکار کر دیا تو ہماری جگ ہنسائی ہو گی اور ہم کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔ ‘‘

پاؤں پاؤں نے ایک زبان ہو کر کہا۔ ’’اس میں ایک اور خطرہ بھی ہے۔ اگر انہوں نے معذرت کو ہمارا اعتراف جرم قرار دے کر قصاص کا مطالبہ کر دیا تو کیا ہو گا؟ ‘‘

’’قصاص!!!‘‘ دست و بازو جو ابھی تک چپ تھے، اچانک بول پڑے۔ ’’ہمیں ان کے کسی بیجا مطالبہ سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہئے۔ اگر انہوں کوئی نامعقول حرکت کی ہم اپنے آہنی پنجوں میں انہیں جکڑ لیں گے اور مسل کر رکھ دیں گے۔ ‘‘

نغمہ بیگم بولیں۔ ’’ہمیں اس طرح کے ہر اقدام سے گریز کرنا چاہئے۔ اس لیے کہ یہی وہ سوچ ہے جو خانہ جنگی کو جنم دیتی ہے۔ آخر ہم قصاص سے اس قدر کیوں ڈرتے ہیں؟ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ قصاص میں زندگی ہے؟ ‘‘

بینائی بیگم نے کہا۔ ’’انفرادی قصاص میں زندگی ضرور ہے لیکن اجتماعی سطح پر اگر اسے تسلیم کر لیا جائے تو اقتدار کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے اور اگر اقتدار ہی چھن جائے تو ایسی زندگی کس کام کی؟ میں تو کہتی ہوں اس سے بہتر موت ہے۔ ‘‘

اس مرحلے میں محفل کے اندر وقتی طور پر سناٹا چھا گیا۔ اس کے بعد عبدالسمیع نے اپنی پرانی تجویز کو دوہراتے ہوئے کہا۔ ’’ہمارے سامنے پر وقار زندگی گزارنے کا واحد راستہ بیرونی امداد ہے۔ اگر ہم نے آج اس کا فیصلہ نہ کیا تو ممکن ہے کل بہت دیر ہو چکی ہو۔ ‘‘ سلطان نے بوجھل من سے عبدالسمیع کی تائید کی بینائی بیگم چمک اُٹھیں اور فیصلہ ہو گیا۔

بیرونی طاقت تباہ کاری کے جدید اسلحہ سے لیس ہو کر تراب محل میں داخل ہو گئی۔ سرکار دربار کے لوگ سرخ قالین بچھا کر اُن کے استقبال میں صف بستہ ہو گئے تاکہ اپنوں کا خون اگر قالین پر بہے تو داغ دھبے محسوس نہ ہوں۔ مٹی کے محل میں پہلی مرتبہ کیمیاوی اسلحہ کا استعمال ہوا تھا۔ سرطانی بغاوت کو کچلنے کا یہ معروف بین الاقوامی طریقۂ کار تھا جسے کیمو تھراپی کے نام سے جانا جاتا ہے۔

گولہ بارود کی برسات اپنے اور پرائے میں فرق کرنے سے قاصر تھی۔ اس سے برپا ہونے والی آندھی باغیوں کے ساتھ ساتھ وفا داروں کو بھی بے خانماں کر رہی تھی۔ اربابِ اقتدار اپنے وفاداروں کی تباہ کاری پر غمگین تو ضرور تھے لیکن خاموش رہنے پر مجبور تھے۔ بے بسی انہیں اندر ہی اندر کھائے جا رہی تھی۔ صورتحال ہاتھ سے نکل چکی تھی۔ مسل کے رکھ دینے کا عزم رکھنے والے دست و بازو ہاتھ مل رہے تھے۔ اقتدار کی زمامِ کار غیروں کے پاس منتقل ہو چکی تھی۔ اقتدار کو بچانے کا خواب دیکھنے والے کٹھ پتلیوں کی مانند مسندوں پر بیٹھے ہوئے ضرور تھے لیکن قوتِ کار سے محروم ہو چکے تھے۔

سلطان دماغ شاہ اپنے حسین خرمن کو تباہ و تاراج ہوتا ہوا دیکھ رہا تھا۔ ابتدا میں باغی عناصر کو پیچھے ہٹنے پر مجبور ہونا پڑا اور ایسا محسوس ہوا کہ جلد ہی بغاوت کی آگ بجھ جائے گی۔ لیکن یہ خام خیالی جلد ہی دُور ہو گئی۔ سرطانی باغی دوسری بار پوری قوت کے ساتھ حملہ آور ہوئے تو بیرونی طاقتوں کا حوصلہ بھی پارہ پارہ ہو گیا۔ اس بار ان کی تعداد میں اچھا خاصہ اضافہ ہو گیا تھا۔ وہ تمام لوگ جو بے وجہ غیروں کی بمباری کا شکار ہوئے تھے، باغیوں سے جا ملے۔ اب وہ تباہی و بربادی کے خوف سے بھی بے نیاز ہو چکے تھے۔ کوئی حربہ اُن کے آگے کارگر نہیں ہو پا رہا تھا۔ سارے منصوبے یکے بعد دیگرے خاک میں ملتے جا رہے تھے۔ یہ دیکھ کر سلطان دماغ شاہ نے اپنے مصاحبین کا ایک ہنگامی اجلاس طلب کر لیا۔

مٹی کے محل کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ تھا جبکہ سرکاری اجلاس کی صدارت سلطان دماغ شاہ کے بجائے غیرملکی فوج کا سربراہ کر رہا تھا۔ یہ صدارت اپنے آپ میں اس بات کی علامت تھی کہ اقتدار کی باگ ڈور کس کے ہاتھوں میں ہے؟ اجلاس میں کافی بحث مباحثہ ہوا اور مختلف تجاویز و آراء سامنے آئیں۔ لیکن جب اختتامی تقریر کرنے کے لیے فوجی سربراہ اپنی نشست سے اُٹھا تو سارے مصاحبین بشمول ملکہ اور سلطان ہمہ تن گوش ہو گئے۔ اس نے کہا۔۔۔ ’’میں نے آپ لوگوں کے خیالات کوسنا اور آپ کو اپنی بات سمجھانے کی حتی الامکان کوشش کی۔ لیکن اب میں آپ کو اپنی حکومت کا حتمی فیصلہ سناتا ہوں جو نافذالعمل ہو کر رہے گا۔ لیکن فیصلے سے پہلے میں ہماری ناکامی کی وجوہات پر روشنی ڈالتا ہوں۔

خواتین و حضرات! آپ لوگوں کو جو مرض لاحق ہے، اس کا نام کینسرہے۔ اس مرض کا علاج دریافت کرنے میں انسانی ذہن ناکام ہو چکا ہے۔ سرطان اگر ابتدائی مراحل میں ہو تو اس پر قابو پانا کسی قدر ممکن ہوتا ہے، لیکن آپ کے یہاں یہ مرضِ لادوا بن چکا ہے۔ اب اس بغاوت کا قلع قمع ممکن نہیں ہے۔ ہم لوگ جو کچھ کر سکتے تھے، کر چکے۔ باغی عناصر پر قابو پانے کی خاطر، انہیں ڈرانے اور دھمکانے کی غرض سے جو کچھ بھی ممکن تھا، سو ہو چکا۔ لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ ہمارے سارے حربے ناکام ہو چکے ہیں۔ ہم آپ لوگوں کا دفاع لامتناہی مدت تک نہیں کر سکتے۔ اس لئے ہم مجبور ہو کر واپس جا رہے ہیں۔ ہمیں خوف ہے کہ اگر ہم نے مزید یہاں قیام کیا تو یہ مرض ہم سے بھی لپٹ جائے گا۔ اس لیے اب آپ خود اپنے مسائل سے نمٹیں اور ہمیں اجازت دیں۔ ‘‘

تقریب کے خاتمہ پر سب نے یک زبان ہو کر شکریہ ادا کیا اور سلطان نے اجلاس کے خاتمہ کا اعلان کر دیا۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

بیرونی طاقتوں کے نکل جانے کے باوجود بغاوت کے شعلے آسمان سے باتیں کرتے رہے۔ گھر کے باشندوں کے درمیان نفرت و عداوت کی ایسی کھائی بن گئی کہ جسے پاٹنا نا ممکن ہو گیا۔ مٹی کے محل کی دگر گوں حالتِ زار نے ہمسایوں میں تشویش پیدا کر دی۔ بستی کے اندر یہ خبر پھیل گئی کہ اس گلشن کے خاکستر ہونے کا وقت آ لگا ہے۔ پاس پڑوس کے لوگ جب عیادت کی غرض سے حاضر ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ سلطان دماغ شاہ تخت نشین نہیں ہے بلکہ اپنی سوگوار رعایا کے درمیان زمین پر دو زانو بیٹھا ہوا ہے۔ وہ ان کا حوصلہ بڑھا رہا ہے اور اپنے صفحۂ ہستی سے مٹ جانے کے غم کو اس طرح ہلکا کر رہا ہے ۔۔۔

آہ غافل موت کا رازِ نہاں کچھ اور ہے

نقش کی ناپائیداری سے نہاں کچھ اور ہے

ہم سایوں نے سلطان کی ڈھارس بندھاتے ہوئے کہا۔ ’’آپ اس طرح دل برداشتہ کیوں ہوتے ہیں؟ آپ نے یہ کیوں مان لیا کہ اب آپ موت کے آغوش میں جایا ہی چاہتے ہیں۔ ہم ایسا ہرگز نہ ہونے دیں گے۔ ہم ہر ممکن کوشش کر کے آپ کو موت کے پنجوں سے چھڑا لیں گے اور زندگی بلند پرواز پر لے چلیں گے۔ ‘‘ یہ سن کر ملکہ دلربا ہنس پڑی اور بولی۔ ’’موت اور زندگی کب کسی اختیار میں رہے ہیں اور ہوں گے۔ پھر ان دونوں کے درمیان کون سا ایسا بڑا فرق ہے؟ کیا تم نے نہیں سنا۔۔۔

موت تجدیدِ مذاقِ زندگی کا نام ہے

خواب کے پردے میں بیداری کا اک پیغام ہے

یہ سن کر پڑوسی ہکا بکا رہ گئے۔ ’’آپ لوگ موت سے متعلق ایسی باتیں کرتے ہیں۔ آپ کو ڈر نہیں لگتا۔ ‘‘ یہ سن کر نغمہ بیگم نے اجازت طلب نظروں سے سلطان اور ملکہ کی جانب دیکھا اور اجازت ملتے ہی بولیں۔

خوگرِ پرواز کو پرواز سے ڈر کچھ نہیں

موت اس گلشن میں جز سنجیدنِ پر کچھ نہیں

تراب محل اپنے داخلی خلفشار کے باوجود قرب و جوار میں خاصہ مقبول و معروف تھا۔ جب تک حالات سازگار تھے، لوگ دماغ شاہ کی شریف النفسی کی قسمیں کھاتے تھے اور محل کے اندر پائے جانے والے امن و امان کی مثال دیا کرتا تھا۔ اس کے بلند اخلاق اور سیرت و کردار کا لوہا سبھی مانتے تھے۔ اس لیے کوئی نہیں چاہتا تھا کہ یہ محل اُجڑ جائے۔ عیادت کرنے والوں کا تانتا لگا ہوا تھا۔ سبھی اس کی حیاتِ جاودانی کے متمنی تھے۔ دُعاؤں کی خاطر ایک ساتھ کئی ہاتھ آسمان کی جانب اُٹھتے تھے اور جب وہ جھکتے تو نئے ہاتھ اُٹھ جاتے۔ فرشتۂ اجل اس منفرد منظر سے حیران و سشدر تھا۔ اسے حکم تھا کہ جب سب ہاتھ گر جائیں تو وہ اس محل کو بے روح کر دیا جائے۔

وہ بڑی دیر تک حکم کی بجا آوری کے لمحے کا منتظر رہا۔ دل کو چھو لینے والے ان مناظر کا اثر خود اس پر اس طرح ہوا کہ بے ساختہ اس نے بھی اپنے ہاتھ آسمان کی جانب اُٹھا دئیے۔ فلکِ گیتی نے ملک الموت کی جانب سے کسی کی مہلتِ عمل میں اضافہ کی طلب کا منظر پہلی بار دیکھا۔ ندا آئی۔۔۔ ’’یہ نہیں جانتے کہ کیا چاہتے ہیں اور تم جانتے ہو کہ ہم جانتے ہیں۔ ‘‘

فرشتہ نے خندہ پیشانی سے اعتراف کیا۔ ’’یقیناً نہ میں جانتا ہوں اور نہ جان سکتا ہوں۔ میں حکم پر مامور ہوں اور بجا آوری کا منتظر ہوں۔ لیکن ایک آزمائش کی اجازت چاہتا ہوں۔ ‘‘

جواب ملا ’’ اجازت ہے۔ ‘‘

دعاؤں کا سلسلہ ابھی جاری و ساری ہی تھا کہ دُور پہاڑوں کے درمیان سے ایک ایک سرخ اونٹ نمودار ہوا۔ جس پر سفید لباس میں ایک باریش بزرگ سوار تھے۔ چہرہ ایسا پر نور کہ جیسا کبھی دیکھا نہ تھا۔ عیادت کو آنے والوں میں سے جو لوگ دُعا سے فارغ ہو چکے تھے، وہ بزرگ کے ارد گرد جمع ہو گئے۔ مجمع حیرت و استعجاب سے انہیں دیکھ رہا تھا لیکن لب کشائی کی جرأت کسی کے اندر نہیں تھی۔ بالآخر خود بزرگ نے خاموشی کو توڑا اور کہا۔ ’’میں تمہاری آنکھوں میں غم و اندوہ کی ویرانی دیکھتا ہوں۔ ‘‘

سب نے ایک زبان ہو کر تائید کی اور استفسار کیا۔ ’’آپ کون ہیں؟ کہاں سے آئے ہیں اور سفر کا قصد کس سبب سے ہے؟ ‘‘

بزرگ نے جواب دیا۔ ’’بیجا سوالات میں اپنا وقت ضائع نہ کرو۔ ‘‘ اس کے بعد انہوں نے دعا میں مصروف لوگوں کی جانب اشارہ کر کے پوچھا۔ ’’یہ لوگ کیا چاہتے ہیں؟ ان کے یہ ہاتھ آسمان کی جانب اُٹھے ہوئے کیوں ہیں؟ ‘‘

مجمع میں سے ایک بولا۔ ’’تراب محل ہمارا ہم سایہ ہے ۔۔۔ بہت ہی اچھا ہم سایہ۔۔۔ ہمیں یہ اندیشہ لاحق ہو گیا ہے کہ اب یہ ڈھے جائے گا۔ ہم در اصل اس کی زندگی کے خواستگار ہیں اور موت و حیات کے خالق و مالک سے التجا کر رہے ہیں کہ وہ اسے قائم و دائم رکھے۔ ‘‘

بزرگ نے کہا۔ ’’بہت خوب۔ تم کیا یہ چاہتے ہو کہ اسے ابھی موت نہ آئے یا کبھی بھی موت نہ آئے؟ ‘‘

سب نے بلا توقف یہ کہا۔ ’’کبھی بھی موت نہ آئے۔ ‘‘

’’اچھا، اب یہ بتاؤ کہ تم ایسا صرف اس کے لیے چاہتے ہو یا اپنے لیے بھی یہی چاہتے ہو؟ ‘‘

یہ سوال غیر متوقع تھا۔ اس کے باوجود سبھی فوراً بول پڑے۔ ’’ہم اپنے لیے بھی یہی چاہتے ہیں۔ ‘‘

بزرگ مسکرائے اور انہوں نے پھر پوچھا۔ ’’یہ تمہاری سوچی سمجھی خواہش ہے یا بس یوں ہی؟ ‘‘

لوگوں نے آہستہ سے جواب دیا۔ ’’سوچی سمجھی۔۔۔!‘‘ لیکن یہ جواب جوش و اعتماد سے خالی تھا۔

بزرگ نے بات آگے بڑھاتے ہوئے ایک اور سوال کر دیا۔ ’’کیا تم نے کبھی اپنی خواہش کے انجام پر بھی غور کیا ہے؟ ‘‘

لوگوں نے خلا میں دیکھتے ہوئے پوچھا۔ ’’ہم آپ کی بات نہیں سمجھے۔ ‘‘ سچ تو یہ ہے کہ اس سوال نے انہیں لاجواب کر دیا تھا

’’میں سمجھ گیا کہ تم نے اس پر غور فکر نہیں کیا ورنہ یہ تمنا کبھی نہ کرتے۔ اچھا یہ بتاؤ، اگر موت کا سلسلہ بند ہو جائے اور پیدائش کا سلسلہ جاری رہے تو کیا اس جہاں کی آبادی لامحدود نہیں ہو جائے گی؟ اور پھر محدود وسائلِ دُنیا اس لامحدود آبادی کو کیوں کر سہار پائیں گے؟ اگر اس مسئلہ کا کوئی حل کسی کے پاس ہو تو وہ مجھے بتائے۔ میں اس کا ممنون و مشکور ہوؤں گا۔ ‘‘

ان سوالات نے حاضرین کے قلب و ذہن میں طوفان برپا کر دیا۔ وہ وقتی طور پر تراب محل کو بھول کر اپنے وجود کی جانب متوجہ ہو گئے۔

کچھ دیر کے لیے موت کی خاموشی چھائی رہی۔ پھر ایک دانشور نما شخص بولا۔ ’’محدود دُنیا کی آبادی کو محدود رکھنے کا ایک طریقہ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ اس کے اضافہ کو روک دیا جائے۔ میرا مطلب ہے، نئے آنے والوں کا سلسلہ بند ہو جائے۔ ‘‘

بزرگ نے اس نادرِ روزگار تجویز کا خیر مقدم کیا اور پوچھا۔ ’’کیا تم جانتے ہو کہ اگر تمہاری یہ تجویز منظور ہو جائے تو کیا صورتحال بنے گی؟ ‘‘

جب کوئی کچھ نہ بولا تو بزرگ نے خود بات آگے بڑھائی۔ ’’اگر ایسا ہو جائے تو چند صدیوں بعد یہ دُنیا ضعیف و نحیف لوگوں سے بھر جائے گی۔ کیا کوئی ایسی دُنیا میں رہنا پسند کرے گا جس میں لوگ صرف عمر دراز ہوتے جاتے ہیں؟ نہ کوئی آتا ہے اور نہ کوئی جاتا ہے۔ جہاں تغیر کو جمود میں بدل دیا گیا ہے۔ جہاں لوگ بتدریج محتاج سے محتاج تر تو ہوتے جاتے ہوں، لیکن انہیں سہارا دینے والا کوئی موجود نہ ہے؟ ‘‘

اس ممکنہ صورتحال کے تصور سے لوگ کانپ اُٹھے۔ ایک نے کہا۔ ’’تغیر ہی تو زندگی کی علامت ہے۔ اس سے خالی حیات بھی ممات ہے۔ ہم میں سے کوئی بھی زندہ لاش کی مانند جینا نہیں چاہتا۔ ‘‘

بزرگ کے بھیس میں براجمان فرشتۂ اجل مسکرا کر بولا۔ ’’یہ نہ تم چاہتے ہو نہ کوئی اور چاہتا ہے۔ پھر بھی تم میں سے ہر کوئی اس کا طلب گار ہے؟ انسانوں کی ہر ایجاد چند سالوں کے اندر پرانی ہو جاتی ہے لیکن رب ذوالجلال کی یہ کائنات کبھی فرسودہ نہیں ہوتی۔ کیا تم جانتے ہو اس کی وجہ کیا ہے؟ ‘‘

’’ہم نہیں جانتے ! ہم نے کبھی اس سوال پر غور نہیں کیا۔ ‘‘

’’وجہ صاف ہے۔ اس کائنات کا پاک پروردگار اپنی مشیت کے مطابق پرانے لوگوں کو ہٹاتا رہتا ہے اور ان کی جگہ نئے لوگوں کو لاتا رہتا ہے۔ اس طرح یہ کائنات ہمیشہ جوان رہتی ہے۔ اس کائنات کی ترقی و ارتقا کا راز اسی موت و حیات کے سلسلے میں پنہاں ہے۔ کیا تم لوگ چاہتے ہو کہ یہ طلائی زنجیر منقطع کر دی جائے؟ ‘‘

’’جی نہیں ! ہم یہ نہیں چاہتے۔ ہم ہرگز یہ نہیں چاہتے۔ ‘‘

’’تب تم کیا چاہتے ہو؟ ‘‘

’’ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ موت زندگی کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ لیکن ہم تو بس یہ چاہتے ہیں کہ ہماری مہلتِ عمل میں کسی قدر اضافہ ہو جائے۔ یہ آئے تو ضرور، لیکن اتنی جلدی نہ آئے ۔۔۔ تاخیر سے آئے۔ ‘‘

ملک الموت نے سوچا یہ انسان بھی عجب مخلوق ہے کہ جب قوتِ عمل حاصل ہوتی ہے عملِ صالح سے غافل رہتا ہے اور جب قویٰ کمزور ہو جاتے ہیں تو مہلتِ عمل میں اضافہ چاہتا ہے۔ بزرگ گویا ہوئے اور لوگ ان کی جانب متوجہ ہو گئے۔ ’’خیر، عمومی بحث کو موقوف کر کے فی الحال تراب محل کی بات کرتے ہیں اس لئے کہ عیادت کیلئے آنے والوں کی تعداد بتدریج کم ہوتی جا رہی ہے اور اس کی مہلتِ عمل کے خاتمہ کا وقت قریب سے قریب تر ہوتا جا رہا ہے۔ ‘‘

سب نے تائید کی اور کہا۔ ’’جی ہاں ۔۔۔ یہ بہتر ہے۔ ‘‘

بزرگ نے پوچھا۔ ’’تم اس کی عمر میں کتنا اضافہ چاہتے ہو؟ چند سال۔۔۔ چند ماہ۔۔۔ کچھ دن یا کچھ ساعتیں؟ ‘‘

’’اگر چند سال بڑھ جائیں تو اچھا ہے۔ ‘‘

’’اچھا، چند برسوں کے لیے تو یہ ٹل سکتا ہے لیکن ایک معمولی سی شرط ہے۔ ‘‘

’’وہ کیا؟ ‘‘

’’جس قدر اضافہ تم اس کے لیے چاہتے ہو، اُسی قدر کٹوتی تمہیں اپنی عمرِ عزیز میں سے کروانی ہو گی۔ گوشوارے کا حساب تو برابر رکھنا پڑتا ہے نا؟ آمد و خرچ نیز بچت کا حساب برابر ہونا ضروری ہے۔ ہاں تو اب بتاؤ کہ کون اپنی عمر کا کتنا حصہ مرض الموت میں مبتلا اپنے اس دوست کے لیے ہبہ کرنا چاہتا ہے؟ ‘‘

بزرگ کا یہ سوال ایک خاموشی کا اژدہا ثابت ہوا جس نے آناً فاناً سارے مجمع کو نگل لیا اور تا حدِ نظر خاموشی کا سامراج قائم ہو گیا۔

بزرگ بولے۔ ’’شاید چند سال خاصہ طویل عرصہ ہے۔ خیر، کیا کوئی چند ماہ کے لیے تیار ہے؟ ‘‘

پھر خاموشی کا دور دورہ رہا۔۔ ’’مہینوں کی ضرورت نہیں چند ساعتیں سہی۔۔۔!‘‘

لب مقفل تھے۔ مکمل خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ جمود کو موت کہنے والے زندگی کی خاطر منجمد ہو گئے تھے۔

بزرگ نے پوچھا۔ ’’آپ سب چپ کیوں ہیں؟ کوئی کچھ بولتا کیوں نہیں؟ ‘‘

مجمع میں سے ایک شخص آگے آیا اور اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے بولا۔ ’’آپ بڑے پائے کے بزرگ ہیں۔ آپ نے باتوں باتوں میں ہماری آنکھوں پر لگی پٹی کھول دی۔ اب ہماری وسعتِ نظری زندگی سے آگے موت سے آنکھیں چار کر رہی ہے۔ موت جس سے مفر نہیں ۔۔۔ آج نہیں تو کل آلے گی۔ پھر اس سے فرار چہ معنی دارد؟ اور حیات میں اضافہ سے کیا حاصل؟ ‘‘

بزرگ انسانی مکاری پر مسکرائے اور کہا۔ ’’جس طرح موت سے تراب محل کو مفر نہیں، اسی طرح تمہیں بھی اس سے نجات ممکن نہیں ہے۔ ایسے میں جو تم اپنے لیے پسند کرتے ہو وہ اس کے لیے پسند کیوں نہیں کرتے؟ ‘‘

اس سوال کا جواب تو سب کے دل میں تھا لیکن کوئی اسے زبان پر لانے کے موقف میں نہیں تھا۔ زندہ رہنے کی حرص اس قدر بڑھی ہوئی تھی کہ کوئی اس میں سے کسی اور کے لیے ایک لمحہ بھی خیرات کرنا نہیں چاہتا تھا۔

فرشتۂ اجل مجمع سے مخاطب ہو کر بولا۔ ’’خیر کوئی بات نہیں، میں دیکھ رہا ہوں، اب بھی چند ہاتھ اس کے لیے دُعا گو ہیں۔ لیکن لگتا ہے یہ سلسلہ ختم ہوا چاہتا ہے۔ کچھ لمحات کے اندر اس کی مدت عمل کا خاتمہ ہو جائے گا اور میں اس کو اپنے ساتھ لے کر چلا جاؤں گا۔ لیکن جانے سے پہلے میں تم سے آخری سوال کرنا چاہتا ہوں۔ کیا تم اس کے لئے تیار ہو؟ ‘‘

’’جی ہاں ۔۔۔ پوچھئے، ضرور پوچھئے۔ ‘‘

’’اچھا، یہ بتاؤ کہ تمہارا پہلا سوال کیا تھا؟ ‘‘

مجمع نے اپنے ذہن پر خوب زور ڈالا، لیکن کوئی اس سوال کو یاد نہ کر سکا۔ بعد کی گفتگو میں وہ اس قدر محو ہو گئے تھے کہ اپنا سوال بھول گئے۔ ‘‘

بزرگ نے کہا۔ ’’اسی بھولنے کی انسانی جبلتِ نسیان کے باعث تم انسان کہلاتے ہو۔ تم نے مجھ سے پوچھا تھا کہ میں کون ہوں؟ کیا اب بھی تمہیں اس سوال کا جواب جاننے میں دلچسپی ہے؟ ‘‘

لوگوں نے کہا۔ ’’ہاں۔ بے شک، ویسے ہمیں کچھ کچھ اندازہ تو ہو گیا ہے پھر بھی تصدیق کر لینا چاہتے ہیں کہ آپ وہی ہیں جو ہم سمجھ رہے ہیں یا کوئی اور ہیں؟ ‘‘

’’میں تمہارا وہی دوست ہوں جس کے ساتھ تمہاری ملاقات روز ابد سے طے ہے۔ نہ صرف وقتِ ملاقات بلکہ جائے ملاقات بھی پتھر کی لکیر ہے کہ اس میں کوئی رد و بدل ممکن نہیں ہے۔ میں تم سب کو انفرادی طور پر جانتا ہوں اور تم سب سے ملنے ضرور آؤں گا۔ ‘‘

اس تحیر انگیز تعارف نے کچھ لوگوں کے تجسس میں مزید اضافہ کر دیا۔ وہ سوچ رہے تھے کہ یہ ہمیں کیوں کر جانتا ہے جبکہ ہم نے آج سے پہلے اس کو دیکھا تک نہیں، اور اس سے زیادہ پریشان کن سوال یہ تھا کہ یہ ہم سے ملنے کیوں آئے گا؟ ’’آپ ہم سے ملنے آئیں گے؟ کیا آپ اس ملاقات کی غرض و غایت پر روشنی ڈالیں گے؟ تاکہ ہم اس کی حسبِ حال تیاری کر سکیں۔ ‘‘ان میں سے ایک شخص نے سوال کیا۔

’’میں تم سے اس لیے ملنے آؤں گا تاکہ تمہیں مٹی کے اس بندھن سے آزاد کر دوں ۔۔۔ مٹی کے ان رشتوں ناطوں کو توڑ دوں جن میں تم دن رات جکڑے رہتے ہو۔ ‘‘

’’کیا آپ تمام رشتوں کو توڑنے کی طاقت و قوت رکھتے ہیں؟ ‘‘

’’بے شک میں تمام رشتوں کو یکلخت توڑ دیتا ہوں۔ یہاں تک کہ سانسوں اور دھڑکن کا اٹوٹ رشتہ بھی اس میں شامل ہے۔ لیکن صرف ایک رشتہ ایسا ہے جو میرے قبضۂ قدرت میں نہیں ہے۔ ‘‘

’’اچھا۔۔۔!!! وہ کون سا ناطہ ہے؟ ‘‘

’’وہ رشتہ۔۔۔ رشتۂ محبت ہے، میں وقتی طور پر محبت کی ڈور کو توڑ دیتا ہوں اور محبت کرنے والوں کے درمیان فاصلہ پیدا کر دیتا ہوں۔ لیکن ایسا کرنے سے وہ رشتہ کمزور ہونے کے بجائے مضبوط تر ہو جاتا ہے۔ مجھے پتہ ہے کہ یہ محبت کا رشتہ پھر ایک بار قائم ہو جائے گا تاکہ پھر کبھی نہ ٹوٹے۔ ‘‘

’’وہ کیسے؟ ‘‘

’’در اصل بات یہ ہے کہ جو جس سے محبت کرتا ہے، روزِ محشر وہ اس کے ساتھ اُٹھایا جائے گا اور پھر وہ لوگ ہمیشہ ساتھ رہیں گے۔ ‘‘

’’لیکن جن سے ہم محبت کرتے ہیں ان سے ہمیں کون ملائے گا؟ ‘‘

’’وہی پاک پروردگار جس نے تمہیں محبت کا شعور بخشا۔۔۔ اپنے محبوب سے متعارف کرایا۔ ‘‘

’’اچھا۔۔۔!! تو کیا یہ ملاقات ان سے بھی ہو سکے گی جن سے انسان دُنیا میں کبھی بھی نہ مل سکا ہو؟ ‘‘

’’کیوں نہیں؟ اس لیے کہ اس روز تو سبھی اگلے پچھلے میدان حشر میں جمع ہوں گے۔ انسان زمان و مکان کی قید و بند سے آزاد ہو چکا ہو گا۔ ‘‘

تراب محل اس تمام گفتگو کو نہایت صبر و سکون کے ساتھ سن رہا تھا۔ اس نے نہایت پر وقار انداز میں بصد احترام سوال کیا کہ حضرت اگر کوئی اسی ذاتِ والا صفات سے محبت کرتا ہو جس نے اسے محبت کا شعور بخشا ہے، تو کیا خالق حقیقی اپنے اس بندے سے ملاقات کرے گا؟ ‘‘

’’ہاں ہاں ۔۔۔ کیوں نہیں۔ یہ اس کا وعدہ ہے اور اس سے زیادہ اپنے عہد کو پورا کرنے والا کوئی اور نہیں ہے۔ ‘‘

’’لیکن وہ ملاقات عارضی تو نہیں ہو گی جیسی کہ عہدِ الست کے موقع پر ہوئی تھی؟ ‘‘

’’جی نہیں ! عہدِ الست کا واقعہ قبل از بجا آوریِ عہد تھا۔ لیکن جو پاک نفوس اس اپنے عہد کو دُنیا کے اندر نبھانے میں کامیاب ہو جائیں گے، ایسے لوگ جو اپنے رب کی یاد سے کبھی غافل نہیں ہوئے ہوں اور اگر ہوئے بھی تو اس کی جانب مسلسل پلٹتے رہے ہوں۔ یہاں تک اس سے ملاقات ہو جائے اور اس کی خوشنودی حاصل کر لیں تو ایسوں سے اس کی ملاقات دائمی ہو گی۔ کبھی نہ ختم ہونے والی ابدی ملاقات۔ ‘‘

’’اچھا!! اگر ایسا ہے تو وقت ضائع کرنے سے کیا حاصل؟ تاخیر سے کیا فائدہ؟ میں نہ جانے کب سے اس لمحہ کا انتظار کر رہا ہوں؟ ‘‘

اس سوال نے فرشتۂ اجل کو لاجواب کر دیا۔ دُور کسی وادی میں مغنی غزل سرا تھا۔۔۔

دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو

یہ کیا چیز ہے لذتِ آشنائی

کشادِ درِ دل سمجھتے ہیں اس کو

ہلاکت نہیں موت ان کی نظر میں

لوگ سوگوار نظروں سے مٹی کے عارضی گھر کو دھیرے دھیرے خاکستر ہوتا ہوا دیکھ رہے تھے، لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ دائمی بنیادوں پر تراب محل کی تعمیر کا آغاز ہو چکا تھا۔

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید