صفحات

تلاش کریں

ناولٹ: اندھیرا، موت اور مسیح سہرا ( مشرف عالم ذوقی)

باب اول
(۱)


زندگی آپ میں سے کچھ نہ کچھ خالی کر جاتی ہے۔ پیدائش سے موت تک یعنی آخری سانس تک روح کا باقی اثاثہ بھی آپ سے چھین لیتی ہے اور سرد جسم دیکھنے والوں کے لیے چھوڑ جاتی ہے۔ اس سرد جسم کا قصہ یوں ہے کہ کچھ دیر تک یونہی لا وارث چھوڑ دیجیے تو مکھیاں بیٹھنے لگتی ہیں کچھ دیر اور چھوڑ دیجیے تو چیونٹیاں سوراخوں سے نکل کر خوراک بنا لیتی ہیں۔ اور کچھ ہی گھنٹوں میں اس سرد جسم کی بدبو پھیلنے لگتی ہے جو کچھ دیر پہلے یا کچھ ماہ قبل جب زندہ تھا تو خواہشات کا مجسمہ تھا۔ اس مجسمے میں تپش بھی تھی اور خواہش بھی۔ روح کا اثاثہ چلا گیا تو ایک بے حس جسم، جس پر کوّے بھی منڈرائیں گے اور گدھ بھی۔ اور مسیح سہرا کے لیے یہ معاملہ یوں دلچسپ تھا کہ اس نے خود کو زندگی میں ہی مردہ تصور کر لیا تھا۔ وہ تین زبانیں جانتا تھا۔ اردو، ہندی اور انگریزی۔ اسی لیے وہ سوچتا تھا اور اس وقت سوچتا تھا جب اس نے خود کو مردہ تصور نہیں کیا تھا کہ انگریزی میں موت کو دیتھ کہا جاتا ہے۔ دیتھ سے د نکال دیجیے تو ایٹ یا کھانے کے لیے اُمنگ کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ یعنی پیدا ہوتے ہی موت آپ کا شکار کرنے یا آپ کو کھانے بیٹھ جاتی ہے۔ ہندی میں موت کے لیے مرتیو کا لفظ ہے۔ آپم نکال دیجیے تو ریتو کی موسیقی پیدا ہوتی ہے۔ مگر یہ موسیقی اس قسم کی ہے جو آپ کو اداسی اور موت کی طرف لے جاتی ہے۔ یعنی موت کا موسم۔ موت قریب ہے۔ آپ بدنصیب ہیں کہ پیدا ہو گئے۔ اب ساری زندگی مرتیو کی رتیو کا انتظار کیجیے۔ اردو میں مرنا سےم نکال دیجیے تو یہ احساس ہوتا ہے کہ آپ رورہے ہیں۔ اور یہ رونا زندگی کی صداقت ہے۔ پیدائش سے موت تک انسان روتا ہی ہے۔ موت سےم نکال دیجیے تو بھوت کا تصور پیدا ہوتا ہے۔ یعنی انسان پیدائش سے موت تک بھوت رہتا ہے۔ ہندی میں بھوت ماضی کو کہتے ہیں۔ یعنی انسان زندگی نہیں گزارتا ہے بلکہ ایک طرح سے بھوت کال یا ماضی میں ہوتا ہے جہاں تاریخ کے گڑے مردے ہوتے ہیں اور یہ مردے زندہ انسانوں کے ساتھ ساتھ چلتے رہتے ہیں۔

مسیح سہرا کو موت کا خیال کسی سایے کی طرح نظر آتا تھا، ایسا سایہ جو سفید لباس میں معلق ہو یا نیلے آسمان پر چلتے سفید بادلوں میں وہ موت کا عکس دیکھا کرتا تھا۔ اور جب اس نے سوچ لیا کہ وہ مر چکا ہے تو سب سے پہلے اسے سرد خانے میں کام کرنے والے ملازم مجومدار کا خیال آیا۔ ایک زمانہ تھا جب وہ مجومدار سے کئی بار ملا۔ اور مجومدار سرد خانہ کے بارے میں بہت دلچسپ باتیں بتایا کرتا تھا۔ جیسے مجومدار نے بتایا کہ مردے خاموش رہ کر باتیں کرتے ہیں اور ان کی باتیں اتنی مزیدار ہوا کرتی ہیں کہ سرد خانے کے آہنی گیٹ سے باہر نکل کر، باہر کی دنیا کو دیکھنے کا خیال بھی اسے ناگوار گزرتا ہے۔ یہ مجومدار نے ہی بتایا کہ سرد خانے کے آہنی گیٹ سے باہر جو دنیا ہے، وہ بھی ایک مردہ خانہ ہے۔ وہاں شور ہے، سازشیں ہیں اور یہاں تنہائی۔ کوئی سازش نہیں۔ مجومدار نے ہنستے ہوئے بتایا۔۔۔۔۔ دیکھو یہ سینگیں۔۔۔۔۔‘

’سر میں؟‘

’لو، سینگیں کہاں ہوتی ہیں؟‘

’لیکن سر میں سینگیں۔۔۔۔ نظر تو نہیں آتیں۔‘

’مجھے آتی ہے۔ سینگیں چیختی بھی ہیں۔‘

’لیکن سینگیں کہاں سے آئیں۔؟‘

’ٹھنڈ سے۔‘

’ٹھنڈ سے؟‘

’لاشوں سے اور ان کی باتوں سے۔‘

مسیح سہرا کے لیے اس کی بات پر یقین نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ بیسیوں بار وہ ایسی سینگیں اپنے سر پر بھی محسوس کر چکا تھا، جب اس کی بیوی زندہ تھی اور کسی بات پر غصہ ہو جاتی تھی تو اچانک اس کے سر پر بھی سینگیں پیدا ہو جاتی تھیں۔ وہ ہنستا تو مرحومہ کے سر کی سینگیں اور بڑی ہو جاتی تھیں۔ پھر کچھ دیر میں یہ سینگیں غائب ہو جاتی تھیں۔ سڑک پر آوارہ گردی کرتے ہوئے کتنے ہی لوگوں کے سروں پر اس نے یہ سینگیں دیکھی تھیں۔ اس لیے مسیح سہرا کو مجومدار کی سینگوں میں کوئی زیادہ دلچسپی نہیں تھی، مگر مجومدار نے مردہ خانے کے بارے میں جو کچھ بتایا، اس کے تجسس میں اضافہ کرنے کے لیے کافی تھا۔

’زندہ یہی لوگ ہیں۔ جو باہر ہیں، سب مرے ہوئے ہیں۔۔۔۔۔ اور اسی لیے میں بھی زندہ ہوں، کیونکہ ان کے درمیان ہوں۔‘

مجومدار ہمیشہ سفید کرتہ اور پائجامہ میں ہوتا تھا۔ سفید چادروں سے ڈھکی لاشوں کے درمیان ایک زندہ سفید لاش۔۔۔۔۔ بقول مجومدار، دودھیا رنگ کے سفید جمے پانیوں میں تیرتے اجنبی سیاح۔۔۔۔ ایک کولڈ اسٹوریج۔۔۔۔ سنگ مرمر کا سفید فرش۔ آہنی دروازہ کے کھلتے ہی ایک مختصر راہداری۔ رات میں مردے گفتگو کرتے ہوئے دروازے تک آ کر ٹہلتے رہتے ہیں۔۔۔۔ اور دلچسپ یہ کہ چلتی پھرتی لاشیں موسم بہار اور موسم خزاں دونوں پر گفتگو کرتی ہیں اور جیساکہ اس نے سنا، موسم خزاں کا لطف یہ مردے زیادہ اٹھاتے ہیں۔ مجومدار نے یہ بھی بتایا کہ کئی بار اس کی ملاقات موت کے فرشتے سے بھی ہو چکی ہے۔ وہ کبھی بیل پر سواری کرتا ہوا آتا ہے کبھی عورت کی شکل میں جس کی آنکھیں بڑی بڑی اور چہرے پر سفید رنگ کا نقاب ہوتا ہے۔ سہرا کی دلچسپی ان باتوں میں اس لیے بھی نہیں تھی کہ اب وہ بھی خود کو مردہ سمجھ رہا تھا بلکہ اس کو یقین تھا کہ وہ مر چکا ہے اور گھر کو اصل مردہ خانے میں تبدیل کرنے کے لیے اسے کچھ انتظام بھی کرنے ہوں گے۔ گھر میں کل ملا کر چھ کمرے تھے۔ ہر کمرے میں دیوار پر گھڑیاں سجی تھیں۔ وقت رُک گیا تھا، اس لیے گھڑیاں بھی رُکی پڑی تھیں۔ مردوں کو وقت سے کیا کام۔ وقت سے کام تو زندوں کو ہوتا ہے اس لیے مسیح سہرا نے پہلا کام یہ کیا کہ ایک ہتھوڑا لیا اور گھڑیوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے۔ پھر ان ٹکڑوں کو ڈسٹ بین میں ڈال آیا۔ موہن سہرا نے گھر کی دیواروں کا جائزہ لیا۔ دیواریں بے رونق تھیں۔ سفیدی سیاہی میں تبدیل ہو چکی تھی۔ مردے چلتے ہیں، جیساکہ مجومدار نے بتایا تھا اور اس لیے گھر سے باہر نکلنے میں اسے کوئی پریشانی نہیں تھی۔ سہرا آرام سے باہر نکلا۔ سڑکوں پر ٹہلتا رہا۔ ٹریفک کو دیکھ کر اور سڑکوں پر چلتے ہوئے لوگوں کو دیکھ کر اسے ہنسی آ رہی تھی۔ یہ لوگ کل نہیں ہوں گے۔ ان میں سے کوئی بھی نہیں ہو گا اور یہ لوگ اپنی موت سے کس قدر بے خبر ہیں۔ سہرا نے شاپنگ کی اور گھر آ گیا۔ سفید چادروں کا ایک بنڈل تھا، جو اس نے دیواروں پر سجانے کے لیے خریدا تھا۔ ایک ہالی وڈ کی ہارر فلم میں اس نے مردہ خانہ کی یہ تصویر دیکھ رکھی تھی۔ پورے گھر کو سفید چادروں سے ڈھک دیا گیا تھا۔ یہاں تک کہ کھڑکی، روزن کو بھی۔ گھر کے چھ کمروں میں سفید چادریں دیواروں پر چڑھاتے ہوئے اسے پانچ گھنٹے لگ گئے۔ ایک بار تو اسے ایسا لگا جیسے کوئی اور بھی ہے جو اس کے ساتھ کام میں شریک ہے۔ ہو سکتا ہے مرحومہ کی روح ہو۔ سفید سفے چادروں کے درمیان اب ایک دھندلکا طاری تھا۔ اسے ایسا محسوس ہوا جیسے ان سفید چادروں سے نکلنے والی دھند نے کمرے کو اپنے حصار میں لے لیا ہو۔ اس نے گھر کی ساری بتیاں بجھا دیں۔ ہوا میں لہراتے سفید پردے تھے جو دیواروں پر جھول رہے تھے۔ کچھ دیر کے لیے مسیح سہرا زمین پر لیٹ گیا۔ اس نے آنکھیں بند کر لیں اور اچانک اس نے محسوس کیا، ایک عورت نقاب لگائے ہوئے اس کے کمرے میں داخل ہوئی۔ مجومدار نے اس عورت کو موت کا فرشتہ کہا تھا۔ سہرا کے اندر کہیں بھی خوف کا احساس نہیں تھا۔ بلکہ وہ آہستہ آہستہ بدبدا رہا تھا۔ وہ مردہ گھر میں ہے۔ اور اب اسے اسی حال میں رہنا ہے۔ موت ہر حال میں زندگی سے بہتر ہے۔ موت آپ کے اندر سے احساس اور جذبات کا سمندر لے جاتی ہے۔ موت آپ کو بے نیاز اور خوش رکھتی ہے۔ مسیح سہرا کو کچھ ایسے جابر اور ظالم حکمراں بھی یاد آئے جو خود کو زندہ رکھنے کے لیے اور عمر بڑھانے کے لیے عجیب عجیب طریقے اپنایا کرتے تھے۔ برما کا ایک سابق حکمراں ڈولفن مچھلی کا خون پیتا تھا۔ چنگیز خاں کو جانوروں اور انسانوں کے خون کی مہک پسند تھی۔ کچھ ایسے بھی حکمراں تھے جو جوان اور کنواری لڑکی کو ہلاک کر کے، اس کے لہو سے غسل کیا کرتے تھے۔ مسیح سہرا کو حیرت تھی، ایک بے مقصد اور بد تر زندگی کے لیے خون پینا، غسل کرنا، عیاشی کرنا، سفر کرنا، آوارہ گردی کرنا، ان مشاغل کی کیا ضرورت ہے۔۔۔۔؟ اور اسی لیے پہلے دن جب مردہ ہونے کا خیال آیا تو اس نے اپنی پرانی خادمہ کو، جو اہلیہ کے انتقال کے بعد اس کی ضرورتوں کا پورا خیال رکھتی تھی، بلایا اور ڈرائنگ روم میں رکھا ہوا بڑا سا ٹی وی اور کچھ روپے اس کے حوالے کرتے ہوئے کہا، اب تم جاؤ اور آج سے، تم سے جو بھی جسمانی رشتہ تھا، اس کو ختم کر رہا ہوں۔ سہرا جانتا تھا کہ یہاں جسمانی رشتے کا مفہوم وہ نہیں تھا، جو عام طور پر لیا جاتا ہے۔ اب وہ ایک مردہ دنیا سے وابستہ تھا، جہاں رشتے صرف روح کے ہوتے ہیں۔ برسوں پرانی خادمہ نے خوف سے اس کے چہرے کو دیکھا۔ جھک کر سر ہلایا۔ ایک آٹو والے کو بلایا اور ٹی وی کا ڈبہ لے کر چلی گئی۔ اب اس گھر میں تفریح کا کوئی سامان نہیں تھا۔ ویسے بھی مردوں کو تفریح کی ضرورت نہیں ہوا کرتی۔ اور سہرا کے لیے یہ خیال کافی تھا کہ وہ مر چکا ہے اور اس کا زندگی سے ہر طرح کا تعلق ختم ہو چکا ہے۔ بقول مجومدار وہ ایک انجانے جزیرے کا سیاح ہے اور اس کے چہار اطراف دودھیا نہر بہہ رہی ہے۔ اسے احساس ہوا، باہر کتے رو رہے ہیں اور بلّیاں بھی۔ رونے کی ان آوازوں کا تعلق بھی موت سے ہے اور جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ بلّیاں اور کتے انسانوں سے زیادہ موت کی آہٹ کو محسوس کرنے کی حس رکھتے ہیں۔ مسیح سہرا ہر انسانی کیفیات سے باہر نکلنا چاہتا تھا۔ مگر جس وقت وہ لیٹا ہوا تھا اور خود کو موت کی آغوش میں محسوس کر رہا تھا اور اس عورت کو جو موت کا فرشتہ تھی اور نقاب میں تھی، اس کو بھی قریب سے دیکھ رہا تھا، ٹھیک اسی لمحہ اس کے موبائل کی گھنٹی بجی اور اسے احساس ہوا کہ وہ اپنی پرانی خادمہ کو موبائل دینا بھول گیا۔ یہ انسانی تحفہ اسے آگے بھی پریشان کر سکتا ہے۔ کچھ دیر تک موبائل کی گھنٹی بجتی رہی۔ پھر گھنٹی خاموش ہو گئی۔ مسیح سہرا کو موت کی ان وادیوں میں بس ایک ہی بات کا خطرہ تھا کہ ریحانہ کے رشتے دار اس سے ملنے آ سکتے ہیں۔ ریحانہ، اس کی اہلیہ، جس کی موت ایک ماہ قبل ہوئی تھی اور جس کے رشتے دار دور دراز علاقے میں کافی تھے۔ یہ رشتے دار کبھی بھی آ سکتے تھے اور اسے موت کی وادیوں سے الگ ایک بیزار، بد مزہ اور خوفناک زندگی کے تجربوں میں واپس لا سکتے تھے۔ مسیح سہرا نے کروٹ بدلی۔ پھر اٹھ کھڑا ہوا۔ میز پر موبائل پڑا تھا اس نے موبائل پر یہ دیکھنا ضرور نہیں سمجھا کہ کس نے فون کیا تھا۔ موبائل آف کرنے کے بعد وہ ریوالونگ چیئر پر بیٹھ گیا۔ سفید سفید چادروں کے درمیان اس وقت وہ ایک مجسمہ تھا اور ریوالونگ چیئر کو ہلانے کی کوشش کر رہا تھا اور بلا مبالغہ، ایسا کرتے ہوئے اسے سکون مل رہا تھا، پھر اس نے دیکھا کہ سفید چادروں کے درمیان سے ایک عقاب نکلا اور کمرے میں رقص کرنے لگا۔ وہ جنگلی بھیڑیوں کی آوازیں سننا چاہتا تھا۔ دوسرے ہی لمحے اس کے کانوں میں بھیڑیوں کے چیخنے کی آوازیں گونجنے لگیں۔ اب وہ خلا میں سفید گھوڑوں کو اڑتے اور قلابازیاں کھاتے ہوئے دیکھنا چاہتا تھا۔ سفید چادروں سے سفید گھوڑے برآمد ہوئے اور ہوا میں تیرنے لگے۔ اس نے ایک ہالی وڈ کی فلم میں سفید پروں کو پھیلائے ایک راج ہنس کو دیکھا تھا جو بادلوں کے درمیان اڑ رہا تھا۔ یہ منظر بھی زندہ ہو گیا۔ مسیح سہرا کو خوشی تھی کہ وہ موت کے انجان جزیرے میں داخل ہو چکا ہے اور محیر العقل واقعات کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے اس نے شیش ناگ کا تصور کیا اور اچھل کر شیش ناگ پر بیٹھ گیا۔ ٹھیک اسی وقت دروازے کی بیل بجی۔ سہرا کو غصہ تھا کہ یہ انسان ’موت‘ سے جینے بھی نہیں دیتے۔ وہ کرسی سے اٹھا۔ دروازہ کھولا۔۔۔۔ سامنے دودھ والا تھا۔ اس نے دودھ والے کا حساب برابر کیا۔ اور کہا۔

’اب یہاں کوئی نہیں رہتا۔‘

’آپ جات ہو؟‘

’اب یہاں کوئی نہیں رہتا۔‘

مسیح سہرا نے چیخ کر کہا۔ دودھ والا گھبرا کر دو قدم پیچھے ہٹا پھر سائیکل چلاتا ہوا نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ مسیح سہرا نے دروازہ بند کیا اور دوبارہ ریوالونگ چیئر پر آ کر بیٹھ گیا۔ اسے احساس ہوا، کوئی چیز ہے جو چمک رہی ہے اور جس سے اس کا قریبی رشتہ بھی رہا ہے۔ اُف۔۔۔ اس نے دھیان سے دیکھا۔ پردے کے پاس اہلیہ کی ریڈیم کی تسبیح تھی، مرحومہ تسبیح ہمیشہ اسی جگہ رکھتی تھیں۔ اس سے ان کو سہولت ہوتی تھی۔ زندگی نہیں ہونے کے باوجود اپنی نشانیوں میں یاد رکھی جاتی ہے۔ جبکہ مسیح سہرا کی حقیقت یہ تھی کہ وہ زندگی سے وابستہ ہر شئے، پریشانی کو بھولنا چاہتا تھا۔ اس نے آنکھیں بند کیں اور خود کو ایک نیلی جھیل کے درمیان پایا۔ جھیل میں بطخ تیر رہے تھے اور پھر مسیح سہرا نے کرنل سدھو کو دیکھا۔ کرنل سدھو، جو ایک زمانے میں ان کے ساتھ جاگنگ کیا کرتے تھے۔ فوج سے ریٹائر ہو چکے تھے۔ گورے چٹے اور کیا جسم پایا تھا۔ لحیم شحیم۔ سب سے زیادہ دلچسپ ان کی باتیں ہوا کرتی تھیں وہ فوج کی بات کم ہی کرتے تھے۔ مستقبل کی باتیں زیادہ ہوا کرتی تھیں۔

مسیح سہرا نے خیال کیا کہ وہ کرنل سدھو کے ساتھ جاگنگ پر ہیں۔ کرنل ٹھہاکے لگا رہے ہیں۔

’ایک بیوی بہت دنوں تک ساتھ نہیں دیتی۔۔۔۔ ہا۔۔۔ ہا۔۔۔‘

’پھر کیا کرو گے کرنل۔؟‘

’مرغابیوں کا شکار کریں گے۔‘

’اس عمر میں مرغابیاں ملنے سے رہیں۔‘

’ہاہا۔۔۔۔ یہ عمر۔۔۔ اصل تو یہی عمر ہے سہرا ۔ لڑکیاں اسی عمر پر فدا ہوتی ہیں۔ یہ بات تم کو کون سمجھائے۔‘

’پھر شادی بھی کرو گے۔‘

’نہیں یار، لڑکیاں پٹاؤ۔ عشق لڑاؤ۔ پتنگیں کاٹو اور بھول جاؤ۔۔۔۔۔ ہاہا۔۔۔۔‘



مسیح سہرا کو ایک دوسری ملاقات یاد آئی، جس میں کرنل سدھو نے ساتھ ساتھ جاگنگ کرتے ہوئے امرت کور کے بارے میں بتایا تھا۔

’اسے فوجی پسند ہیں۔‘

’یعنی کوئی مل ہی گئی۔‘

’تازہ انار کا جوس ہے۔ تم کیا جانو ذائقہ۔‘

’پھر آگے کیا پروگرام ہے۔‘

’دو روز بعد ہم نینی تال جا رہے ہیں۔‘

’امرت کور کے ساتھ۔۔۔۔؟‘

’ہاں۔۔۔۔ ہا ہا۔۔۔۔‘

کرنل سدھو نے ٹھہاکہ لگایا۔ اور اس کے ٹھیک دوسرے دن، جب آسمان پر کہرا چھایا تھا۔ دس بجے تک دھوپ غائب تھی، سردی میں بستر چھوڑنا ظلم تھا، موبائل کی گھنٹی بجی اور مسیح سہرا کو فون پر سدھو اس کے بیٹے نے بتایا، کرنل نینی تال نہیں گئے، بہت دور نکل گئے۔ مسیح سہرا ٹھنڈک کے جان لیوا احساس کو بھول گیا۔ سدھو دو دن بعد نینی تال جانے والا تھا، یہ کیسے ممکن ہے۔؟ دو دن قبل جاگنگ کرتے ہوئے اس کے ٹھہاکے گونج رہے تھے۔ کرنل سدھو کا مسکراتا ہوا چہرہ یاد آ رہا تھا۔ اس عمر میں کہیں بوجھل پن یا تھکاوٹ نہیں تھی، بھر پور زندگی کا احساس تھا۔ بیمار بھی نہیں تھے۔ مگر اچانک۔۔۔ منصوبے دھرے رہ گئے۔ آسمان کی فلائٹ پکڑ لی۔ یہ چور دروازے سے موت کیوں آتی ہے؟ موت پیچھا کرتی ہے بلکہ موت دیکھ رہی ہوتی ہے۔ جاگنگ کرتے ہوئے کرنل سدھو نے بھی موت کو دیکھا ہو گا۔ موت نے ممکن ہے اشارے بھی کئے ہوں گے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ موت سال بھر سے اشارے کرنے شروع کر دیتی ہے۔

سہرا نے کرنل سدھو کے مردہ جسم کو دیکھا —سرد چہرے کو۔ چہرہ بولتا ہوا، جیسے کرنل ابھی ٹھہاکے لگائیں گے۔ سہرا کو پتہ نہیں، وہ ان کے بیٹے سے کیا کیا باتیں کرتا رہا۔ حیرت و خوف نے اس کے الفاظ کو برف بنا دیا تھا۔

’ہاں وہ تھا۔۔۔۔۔ اور موت بھی تھی، جس وقت ہم جاگنگ کر رہے تھے اس نے سیاہ نقاب لگا رکھی تھی اور وہ ایک عورت تھی۔ وہ کرنل کے پیچھے پیچھے چل رہی تھی۔ لیکن کرنل اسے دیکھ نہیں رہے تھے۔۔۔۔ جبکہ میں۔۔۔۔ اور یقیناً میری آنکھیں اس کا تعاقب کر رہی تھیں۔۔۔۔۔ اور ذرا فاصلے پر مرغابیاں تھیں۔۔۔۔۔‘

کرنل سدھو کے بیٹے نے غصے سے سہرا کی طرف دیکھا۔ پھر وہ کسی کے ساتھ سیاست کی باتیں کرنے لگا۔ ’پنجاب میں ڈرگس کا کاروبار بڑھ گیا ہے۔ پنجاب کی سیاست میں اس کی دلچسپی ہے۔ ڈیڈی کو سیاست پسند نہیں تھی۔۔۔۔ اور مرغابیاں۔۔۔۔۔‘

مرغابیاں کہتے ہوئے پلٹ کر اس نے سہرا کی طرف غصے سے دیکھا۔ سہرا کو دھوئیں سے بھرے آسمان میں کرنل سدھو کا چہرہ نظر آیا۔ وہ ٹھہاکے لگا رہا تھا۔



کمرے میں ایک چوہا آ گیا تھا۔۔۔۔۔ اور سفید چادروں کے درمیان گھسنے کی تیاری کر رہا تھا۔ مسیح سہرا اٹھا لیکن اس نے چوہے کو بھگانے کی کوشش نہیں کی۔ اسے یقین تھا کہ وہ مرنے کی ریہرسل نہیں کر رہا ہے بلکہ وہ مرچکا ہے اور اس یقین کو پختہ کرنے کے لیے اس وقت اسے بازار کے لیے نکلنا ہو گا۔ یہ ضروری بھی ہے اور ایسا کرنا اس کے یقین کو مضبوط کرنے کے لیے اہم ہے۔ وہ بازار کے لیے نکلا۔ کافی دوڑ دھوپ کے بعد اس کو ایک عورت کا ایک مجسمہ نظر آیا۔ عورت شان سے پتھروں میں لپٹی ہوئی اس طرح کھڑی تھی کہ زندہ معلوم ہو رہی تھی۔ وہ اس مجسمہ کو لے کر گھر آ گیا۔ چادروں کے درمیان اس نے مجسمہ کو رکھ دیا۔ مجسمہ پر سفید چادر لپیٹ دیا۔ سر پر سیاہ نقاب ڈال دیا۔ اب ایک چھڑی کی کمی تھی۔ برسوں قبل اس کا ایک دوست واشنگٹن سے آیا تو اس کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی۔ یہ چھڑی سانپ کی طرح آڑی ترچھی تھی اور دیکھنے میں خوبصورت لگتی تھی۔ سہرا وہ چھڑی لے آیا اور چھڑی کو عورت کے ہاتھ میں دے دیا۔ پھر ایک دیوار سے لگ کر کھڑا ہو گیا۔ دودھیا چاندنی میں اب وہ عورت موت کا فرشتہ معلوم ہو رہی تھی۔ سفید چادروں کے درمیان کھڑی، جیسے اسے لے جانے آئی ہو۔ وہ اس منظر سے خوش تھا۔ ایک لمحے کے لیے زمین پر لیٹے لیٹے اس نے موسم بہار کا تصور کیا۔ پھر وہ اپنے رفیقوں کی تلاش میں نکلا۔ اس نے چڑیوں کی چہچہاہٹ محسوس کی۔۔۔۔ اور خیال کیا کہ جادوگر کے کرشمہ کی طرح آنکھیں بند کرتے ہی اس کا جسم ہوا میں معلق ہو سکتا ہے۔۔۔۔ اور یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ انجانے جزیرے پر، جہاں موت کے فرشتے کا ساتھ ہو گا، یہ مناظر اس کے ہمراہ ہوں گے اور جیسا کہ ڈاکٹر سدھاکر کہتا ہے، ہم ایک دھند میں رہتے ہیں اور ایک دن یہی دھند ہمارا شکار کر لیتی ہے۔



ڈاکٹر سدھاکر کو یاد کرنا مسیح سہرا کو خاصہ تقویت دے رہا تھا۔ ایک خوبصورت شخص، جس کی باتیں جسم میں گرمی پہچانے کا کام کیا کرتی تھیں اور جب وہ اپنی آنکھوں سے حیرانیوں کا اعتراف کرتا تو ایک خاص قسم کا چمکتا ہوا ہیرا ہوتا، جو اس کی آنکھوں میں نظر آتا تھا اور اس ہیرے سے روشنی پھوٹتی تھی۔ ڈاکٹر سدھاکر مذہب کو نہیں مانتا تھا بلکہ کسی بھی طرح کے عقیدے کو نہیں مانتا تھا۔ وہ کہتا تھا، ہم ایک بے ڈھب گوشت کے لوتھڑوں کے ساتھ آنکھیں کھولتے ہیں۔ پھر یہ بے ڈھب گوشت کا لوتھڑا ایک دن مردہ گھر میں کھو جاتا ہے۔

مگر اس دن، جیسا کہ مسیح سہرا کو یاد ہے، ڈاکٹر سدھاکر سیاست کی باتیں کر رہا تھا۔ بدلتے ہوئے حالات پر اس کی ناراضی تھی اور وہ ساری دنیا میں آگ لگانے کی باتیں کر رہا تھا۔ اس کی حیرانیوں میں وہ چمکتا ہوا ہیرا مسیح سہرا کو صاف نظر آ رہا تھا۔

’میں نے ایک خطرناک انجکشن تیار کیا ہے۔ یہ ڈرون اور میزائیل کی شکل کا ہو گا اور یہ اس شخص کو ہلاک کرے گا جو سیاست کا بدترین مجرم ہے۔‘

’سیاست کا بد ترین مجرم؟‘

’اس کے لیے جس نے ہندوستان کو ایک گندے میلے تالاب میں تبدیل کر دیا۔‘

ڈاکٹر سدھاکر ہنسا۔

’تم سائنسداں کب سے ہو گئے؟‘

’ڈاکٹر بھی سائنسداں ہوتا ہے۔‘

’سیاست میں کیوں نہیں جاتے؟‘

’یہی تو مشکل ہے۔ سیاست گندے ریس کا میدان بن چکی ہے۔ یہ ہم لوگوں کے لیے نہیں ہے۔‘

ڈاکٹر سدھاکر مسکرائے۔ ’اب دیکھو، کل کی فلائٹ سے لندن جا رہا ہوں۔ لندن میں ایڈز پر ایک سمینار ہے۔ گندے لوگ اور گندی سیاست نے ہمیں ایڈز کا تحفہ دیا ہے۔ وہاں سے واپس آ کر تم سے ملتا ہوں۔‘

’کل کتنے بجے کی فلائٹ ہے۔؟‘

’شام کی۔‘

دھند میں سدھاکر کا چہرہ تیرتا ہے۔ سدھاکر لندن سمینار کا حصہ نہیں بن سکا۔ صبح ہارٹ اٹیک ہوا۔ لندن کی جگہ عدم آباد پہنچ گیا۔ صبح ہی صبح ڈاکٹر کستوری نے موبائل پر یہ خوفزدہ کرنے والی خبر سنائی۔ وہ سنتا رہا۔ سہرا کی آواز کہیں کھو گئی تھی۔ چہرہ سرد تھا۔ جسم بھی۔ کافی دیر تک وہ موبائل تھامے رہا۔ جب تک کستوری کی آواز گم نہیں ہو گئی۔ یہ کیسے منصوبے ہیں؟ کرنل ڈیٹس پر جانے والے تھے۔ ڈاکٹر سدھاکر لندن۔ منصوبے میں جھول آ گیا تھا۔ جھول میں نقاب والی عورت۔ ایک رات۔ کچھ لمحے۔ لیکن ڈاکٹر سدھاکر نہیں جانتا تھا کہ صرف کچھ گھنٹوں کے بعد کیا ہونے والا ہے۔

اس دن وہ آخری تماشے کا حصہ نہیں بنا۔۔۔۔ اس دن وہ دیر تک سڑکوں پر آوارہ گردی کرتا رہا۔ اسے یقین تھا کہ یہ گاڑیاں جو سڑکوں پر دوڑ رہی ہیں، ابھی اچھال لیں گی اور ایک دوسرے سے ٹکرا کر بکھر جائیں گی۔ یہ لوگ جو سڑکوں پر چل رہے ہیں، یہ گھر جانے سے قبل ہی موت کو پیارے ہو جائیں گے۔ اس دن وہ گھر لوٹا تو ریحانہ اور اپنے کاشف کو حیرت سے دیکھا۔ اس دن آخری بار اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ مثال کے لیے اس نے کاشف سے پوچھا۔۔۔۔

’تو تم ہو نا۔۔۔۔۔؟‘

’ہاں پاپا کیوں۔۔۔۔۔‘

’نہیں۔ کچھ نہیں۔ تم ہو اور یہ میرے لیے مزے کی بات ہے۔‘

یہی سوال اس نے ریحانہ سے کیا۔

’تو تم ہو نا۔۔۔۔۔؟‘

’کیوں؟‘

’پتہ نہیں۔ میری تسلی نہیں ہوئی۔‘

’یعنی میں نہیں ہوں؟‘

’ہو سکتا ہے۔‘

ریحانہ نے مسیح سہرا کو عجیب نظروں سے دیکھا۔ پھر پوچھا۔ ’تو آج تم نے پھر سے بلڈ پریشر کی دوا نہیں لی۔‘

’بھول گیا۔‘

’بھولا مت کرو۔ اس دوا میں ایک جنگلی بلی ہوتی ہے، جو تمہیں تھپکیاں دے کر نارمل کر دیتی ہے۔‘

’جنگلی بلّی۔‘ سہرا زور سے ہنسا۔

ریحانہ پتلی دبلی سی عورت تھی۔ شادی کے بعد بھی اور کاشف کی پیدائش کے بعد بھی اس میں ذرا سی بھی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ اس کی آنکھیں گہری تھیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کی ذات مکمل طور پر ریحانہ پر منحصر تھی۔ ناشتہ، کھانا، دوا، یہاں تک کہ باہری خرید و فروخت کے لیے بھی ریحانہ نے کبھی اس کو پریشانی میں نہیں ڈالا۔ عام طور پر اس کا چہرہ سپاٹ رہتا تھا اور اندازہ لگانا مشکل ہوتا تھا کہ کس وقت وہ کس فکر میں غلطاں ہے۔ کاشف اٹھارہ کا ہو گیا تھا اور اب سہرا کو کاشف کے کیریر کو لے کر فکر ہو رہی تھی۔ کاشف موٹر سائیکل تیز چلاتا تھا اور کئی بار سہرا نے کاشف کو تیز چلانے سے روکنے کی کوشش بھی کی تھی۔ ڈاکٹر سدھاکر کے جانے کے بعد ٹی وی اینکر سمیتا میں اس کی دلچسپی بڑھی تھی۔ یہ ملاقات بھی اچانک ہوئی تھی انڈیا انٹرنیشل کیفے میں، جہاں وہ ہندوستانی سیاست کو لے کر ایک سابق سیاستداں سے کچھ سوال کر رہی تھی۔ سہرا ، انڈیا انٹر نیشنل کا ممبر تھا۔ سمیتا میں اس کی دلچسپی پیدا ہوئی۔ اچانک سمیتا نے اس کی طرف دیکھا۔ پھر چونک گئی۔

’آپ۔۔۔۔۔۔؟‘

’تو آپ مجھے جانتی ہیں؟‘

سمیتا کھلکھلا کر ہنسی۔ ’سیاست میں سو سال بھی کم ہوتے ہیں۔ یہاں سب کو جاننا ہوتا ہے۔ ایک چھوٹی سی بائیٹ دیں گے۔‘

’کیوں نہیں۔‘

اب سمیتا نے مائک کا رخ سہرا کی طرف کر دیا۔

’حکومت کے اچھے کاموں کی تعریف میں کچھ لوگ بخالت سے کیوں کام لیتے ہیں؟‘

سہرا کو ہنسی آئی۔ ’آپ نے جارج آرویل کا ۱۹۸۴ پڑھا ہے؟‘

’ہاں۔‘

’تعریف بدل دیجیے۔‘

’مطلب؟‘ سمیتا چونکی۔

’اچھے کو برا بنا دیجیے۔ بُرے کو اچھا۔ مثال کے لیے چنگیز اور ہلاکو اچھے لوگ تھے، سمیتا مسکرائی۔ ’تعریف بدلنے سے کیا ہو گا؟‘

’پھر آپ یہ سوال نہیں پوچھیں گی۔‘

اس دن سمیتا نے ساتھ بیٹھ کر کافی شیئر کی۔ دوبارہ ملنے کا وعدہ کیا اور انڈیا انٹر نیشنل سینٹر میں اس سے ملاقاتوں کا سلسلہ طویل ہوتا چلا گیا۔

سہرا نے ایک ملاقات کے دوران پوچھا۔

’تم نے شادی کیوں نہیں کی؟‘

’پہلے ایک فلیٹ خریدنا چاہتی ہوں۔‘

’اسی لیے حکومت کی چاپلوسی ہو رہی ہے۔؟‘

’ہاں۔‘ وہ کھلکھلا کر ہنسی۔ اس کے دانت موتیوں کی طرح سفید تھے اور سفید موتیوں سے الفاظ آبشار کی طرح بہتے تھے۔

’نہیں کروں گی۔ تو پیسے تم دو گے؟‘

’سہرا مسکرایا۔‘

’دو دن بعد ہی ایک فلیٹ بُک کر رہی ہوں۔ پھر شادی۔‘

’فلیٹ دیکھ لیا۔؟‘

’ہاں۔ گریٹر نوئیڈا میں ہے۔ خوش ہوں کہ اب اپنے فلیٹ میں چلی جاؤں گی۔‘

سمیتا نے بتایا کہ ایک خبر کے لیے آج شام وہ دہرا دون جاری ہے۔ کل صبح واپس ہو گی۔ ٹیم کے ساتھ جا رہی ہے۔‘

’میں تمہارے نئے فلیٹ میں تم سے ملنے آؤں گا۔‘

’ضرور۔‘

سمیتا کے جانے کے بعد مسیح سہرا باہر آیا۔ دیر تک دیواروں پر آویزاں پینٹنگس کو دیکھتا رہا۔ آسمان پر پرندوں کا ایک ہجوم جا رہا تھا۔ ایسے مناظر اسے پسند تھے۔ اس نے ایک خوشحال زندگی گزاری تھی۔ باہر گاڑیاں مسافروں کو اتار کر آگے بڑھ رہی تھیں۔ سہرا کو آنکھوں کے آگے دھند کا احساس ہوا۔ اسے یقین تھا، خالی وقت میں یہ لوگ موسیقی بھی سنتے ہوں گے، ہوٹل میں بیٹھ کر شراب بھی پیتے ہوں گے۔ عیاشیاں بھی کرتے ہوں گے۔ معصوم لوگ، جو بہت زیادہ آگے یا مستقبل کی فکر کرتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ ایک دن دھند میں آسمان اور نہ ختم ہونے والی فصیلیں بھی گم ہو جاتی ہیں۔ کیا یہ ایک واہیات دن تھا یا خوشیوں بھرا دن کہ سمیتا کے ساتھ کچھ لمحے گزارنے کا موقع ملا تھا۔ لیکن جس وقت سمیتا اس کے پاس سے اٹھ کر جا رہی تھی، مسیح سہرا کو احساس ہوا کہ ہوا میں معلق ایک صلیب ہے، جس پر موٹی موٹی کیلیں ہیں اور ان کیلوں میں سمیتا جھول رہی ہے۔ یہی لمحہ تھا جب اس کے چہرے پر جھریاں پیدا ہوئیں اور اسے اپنے چہرے کی جلد کے سرد ہونے کا احساس ہوا۔ جہاں پر وہ کھڑا تھا، اس سے کچھ دوری پر دو عورتیں تھیں جو مچھلی کے شکار کی باتیں کر رہی تھیں اور ایک بوڑھا شخص دیوار سے لگا کھڑا تھا جو ایک نوجوان کو اپنی عشق کی داستان سنا رہا تھا۔ مسیح سہرا کو احساس ہوا کہ عشق و محبت کی داستان کے درمیان صلیبیں آ جاتی ہیں اور مچھلیاں کیلوں میں پھنس جاتی ہیں۔ پھر یہی عورتیں نگاڑے ڈھول کے درمیاں جنگل میں مناسب جگہ تلاش کر کے بھنی ہوئی مچھلیوں کا ذائقہ لیتی ہوں گی۔۔۔۔۔ انڈیا انٹر نیشنل کے دروازے سے باہر نکل کر اس نے ایک پولیس والے کو دیکھا جو ہتھکڑیاں لگائے ایک قیدی کو ساتھ لیے جا رہا تھا اور مسکرا مسکرا کر اس سے بات بھی کر رہا تھا۔ کہیں نہ کہیں زندگی کی رمق موجود ہے۔ تنہائی میں، احساس جرم میں، قید خانے کی گھٹن میں اور جنگل کی وادیوں میں۔ اس دن گھر پہنچنے کے بعد ریحانہ نے اس کے چمکتے دمکتے چہرے کو دیکھ کر پوچھا تھا۔

’شکار کیا؟‘

’کس کا؟‘

’مچھلیوں کا۔؟‘

’اب یہ عمر مچھلیوں کے شکار کی نہیں رہی۔‘

’جھوٹ۔ مچھلیاں اس عمر میں بغیر کانٹے کے بھی پھنس جاتی ہیں۔‘

’یہ تمہارا تجربہ ہے؟‘

’تمہارے تجربے سے ایش ٹرے بناتی ہوں۔‘

’پھر ایش ٹرے میں راکھ کس کی ہوتی ہے؟‘

’تمہارے اندر کی خواہشوں کی۔ ان میں سگریٹ سے زیادہ کاربن ہوتا ہے۔‘

’سگریٹ کی مہک آ رہی ہے۔؟‘

’باہر کوئی قیدی پی رہا ہو گا۔ ایک تم بھی جلا لو اپنے لیے۔‘



اس رات خواب میں صلیبیں دوبارہ روشن ہوئیں۔ پھر اس نے آگ کے بڑے بڑے تندور دیکھے جہاں مچھلیوں کو بھونا جا رہا تھا۔ اس نے اس بوڑھے کو بھی دیکھا جو اپنی خادمہ کے ساتھ ہم بستری کر رہا تھا۔۔۔۔ اور جب صبح اس کی آنکھ کھلی تو کھڑکی کے باہر کا آسمان سیاہ تھا اور ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی۔ اس سے پہلے کہ وہ بارش کی موسیقی کے مزے لیتا، موبائل کی گھنٹی نے خیالوں کے بنتے ابھرتے سلسلے کو روک دیا۔ اسے خبر ملی کہ دہرا دون سے واپس آتے ہوئے کار ایکسیڈینٹ میں سمیتا اور تین لوگوں کی موت ہو گئی۔ سمیتا واپسی کے بعد اپنے فلیٹ میں جانا چاہتی تھی۔ شادی کرنا چاہتی تھی۔ وہ کل تک تھی مگر اب نہیں تھی۔۔۔ صلیبیں، کیلیں۔۔۔ بارش۔۔۔ اب وہ کچھ نہیں دیکھ سکتی۔

دھند میں اب ایک نورانی گھوڑا تھا جس کو کافی عرصہ پہلے مسیح سہرا نے ایک جیل کے برآمدے میں دیکھا تھا جب وہ بیرکوں اور کچھ قیدیوں کے معائنہ کے لیے گیا تھا۔ وہی اسپ نورانی اس وقت اس کی نگاہوں کے سامنے تھا اور نظروں میں وہ بزرگ قیدی تھے جو اب زندگی سے تھک چکے تھے۔ مسیح سہرا نے اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھا۔ کوئی جنبش نہیں۔ لیٹے لیٹے اس نے پاؤں اٹھانے کی کوشش کی مگر محسوس ہوا، پاؤں اکڑ چکے ہیں۔ اس نے سر ہلانے کی کوشش کی تو اس کوشش میں بھی ناکام رہا۔ دھند میں سفید چادروں کے درمیان نقاب والی عورت سامنے تھی۔ سہرا کو احسا ہوا، اس عورت نے پلٹ کر اس کی طرف دیکھا ہے۔۔۔۔ اور اب وہ اس کی طرف بڑھ رہی ہے۔

اور جب راتیں چاند پر مہربان تھیں کہ چاند ستاروں کے درمیان اٹکھیلیاں کرتا ہوا نیلگوں آسمان کے درمیان یوں تیر رہا تھا جیسے بد مست مجذوب ہو یا نشے کی حالت میں دنیا و مافیہا سے بے خبر شرابی یا پھر وجد کی وادیوں میں رقص کرتا ہوا صوفی یا پھر آسمانی چادر پر اڑتا ہوا پرندوں کا ہجوم اور مسیح سہرا نے دیکھا کہ ایک پرانی عمارت ہے اور اس شہر میں ہے، جسے بندروں نے گھیر رکھا ہے۔ وہ زیر لب بڑبڑایا۔ شرارتی بندر— اور اس کے بعد اسے کچھ بھی یاد نہیں رہا۔

٭٭٭









(۲)
خانہ بدوشوں کا مقدمہ



وہ تعداد میں کئی تھے اور انہیں جاننے والا کوئی نہیں تھا۔ وہ الگ الگ شہروں سے جمع ہوئے تھے اور ان میں ایک تھا جو خود کو مارخیز کے شہر کا خانہ بدوش کہتا تھا اور یہ بھی کہ سو سال کی تنہائی میں اس نے اس بوڑھے کو طوطے کا تحفہ دیا تھا جو انسانی آواز میں بولنا جانتا تھا— اور یہ وہ شخص تھا، جس کے سرکے بال نہیں تھے۔ چہرے کا رنگ گورا تھا— اور اس وقت جو بھی خانہ بدوش تھے، وہ ان سب سے زیادہ پڑھا لکھا تھا اور زیادہ انسانوں جیسی باتیں کر سکتا تھا جبکہ ان میں وہ بھی تھے جو ابھی بھی سرخ گرم آگ پر چھریاں تیز کر رہے تھے۔ ان میں وہ بھی تھے جن کے ہاتھوں میں ترشول تھے اور ان خانہ بدوشوں میں ایسے بھی تھے جنہوں نے اپنے اپنے ہاتھوں میں ایک ایک اینٹ سنبھالی ہوئی تھی۔ اینٹ کسی اچھی بھٹی سے نکالی ہوئی تھی۔ اس لیے اینٹیں بھری بھری نہیں تھیں بلکہ سخت تھیں اور ان پر ہندی میں کچھ لکھا ہوا تھا، جسے آسانی سے پڑھا جا سکتا تھا۔ ان میں کوئی بھی قطار کا مطلب نہیں جانتا تھا اور یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ یہ وحشت کی تہذیب کو لے کر اس ہال میں جمع ہوئے تھے، جس کی دیواریں بے رونق تھیں۔ دروازہ ٹوٹا ہوا تھا اور دروازے کے بعد دور تک گھاس اُگی ہوئی تھی۔ اور گھاس پر اس وقت بھی گائیں آرام سے گھوم رہی تھیں اور جس وقت مندر سے بھجن کی آواز آئی، خانہ بدوشوں میں سے پانچ شخص ایسے تھے جنہوں نے گردن میں لپٹے ہوئے رو مال کو نکالا اور پیشانی پر باندھ لیا۔ اب وہ پوری طرح سے لچے اور شہدے نظر آ رہے تھے اور کمال یہ کہ خود کو اس حالت میں محسوس کر کے وہ خوش تھے کہ زندگی کی بدلی ہوئی تعریف میں اب یہی تعریف ایسی تھی، جس کے ذریعہ خانہ بدوش کی زندگی کو ایک نئی سیاسی زندگی میں تبدیل کیا جا سکتا تھا۔ غارت ہو اس سیاہ روشنی کا کہ بھجن کے دوران ہی پاس کی کسی مسجد سے اذان کی آواز آنی شروع ہوئی۔ بوڑھا، جو انسانی آواز میں بولنا جانتا تھا، اس وقت اس کے تیور بدل گئے تھے اور وہ ایسی آواز میں باتیں کر رہا تھا، جیسے وہ بھیڑیوں کے منہ سے نکلی ہوئی آوازوں کے مطلب سمجھتا ہو۔ اذان کی آواز ختم ہونے کے بعد اس نے حونق بھیڑ کی طرف دیکھا۔ اور مسکرا یا۔ اس کی باتوں کا جواب دینے والے کئی خانہ بدوش تھے۔ اس وقت جن کے ناموں کا جاننا ضروری نہیں۔ جن کی شناخت خانہ بدوش کے طور پرہی تھی اور جو یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ وہ یہاں کس لیے اکٹھا ہوئے ہیں۔ مگر وہ خوش تھے کہ نئے موسم میں اور اس نئی صبح میں ایک نئے کھیل کی شروعات ہونے والی ہے اور ان سب کے پیچھے وہ بوڑھا ہے، جسے خود پر ضرورت سے زیادہ یقین ہے اور جو طوطے کی طرح اس بات کو فراموش کر گیا ہے کہ زیادہ یقین سے آپ کیڑے لگی ہوئی گیلی لکڑی کی طرح کھوکھلے ہو جاتے ہیں اور ایک ایسے خانہ بدوش میں تبدیل ہو جاتے ہیں جس کے لیے صرف رحم کے الفاظ رہ جاتے ہیں۔ وہ خوش تھا کہ وہ اپنی ذات کے جنوں خانے سے نکل کر اس قبیلے کا حصہ بنا تھا، جسے ’گھومنتو‘ قبیلہ کہا جاتا ہے۔ اور اس قبیلے کو اس بات کی اجازت نہیں تھی کہ شعوری فکر کے روزن میں روشنیوں کو آنے دیں۔ روشن خیال و افکار کی دھوپ جمع کریں۔ کیونکہ جب مرغابیاں گاتی ہیں تو سازندے اس گیت کے سر میں سرملاتے ہیں۔ پھر جو نغمہ گونجتا ہے وہ کمزور ذہنوں کی آبیاری کرتا ہے اور اس لیے خانہ بدوشوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ مذہبی عبادت گاہوں پر چڑھ جائیں۔ اینٹ سے اینٹ بجا دیں اور خانہ بدوشی کی تعلیمات میں نئے علم کا اضافہ کریں کہ دو اور دو مل کر ایک سو بیس کروڑ بھی ہو سکتے ہیں۔ اس وقت بوڑھا مارخیز کی سو سال کی اداسی کے صفحات سے نکل کر ان چراغوں کو دیکھ رہا تھا جن کی ٹمٹماہٹ وقت کے ساتھ کمزور پڑتی گئی تھی اور ایک دن ایسا بھی آیا جب سیاسی دیے بجھ گئے۔ ان دیوں میں روشنی کا فقدان تھا۔ ان دیوں میں تیور نہیں تھے، خانہ بدوش نہیں تھے۔ پتھر پھینکنے والے اور پتھر سنبھال کر رکھنے والے اور غیض و غضب سے پیدا شدہ نسل کو ہر طرح کی فکر سے محروم کرنے والے اور خانہ بدوش نسل میں قبیلے کی قدیم لڑاکو تہذیب کے جراثیم رکھنے والے اور اپنی چنگیزی طبیعت سے ایک مخصوص طبقے کو غلام بنانے والے اور اسی لیے ۱۹۲۵ کے دھندلے آسمان سے، آسمانی اور دھارمک منتروں کے ذریعہ قبیلہ نے وش کا پیالہ حاصل کیا تھا اور بوڑھے کو امید تھی کہ وش کا پیالہ پیتے ہی طوطے کی جان چلی جائے گی مگر سمندر منتھن کی طرح اس بار فتح دیوتاؤں کے حصے میں نہیں آئے گی بلکہ فاتح راکشس ہوں گے کہ ایک طبقے کو غلام کرنے کے لیے کبھی کبھی راکشس کی پناہوں میں بھی جانا پڑتا ہے۔ لہذا بنجاروں کو اجازت دی گئی کہ وہ مہینوں جانوروں کے ساتھ رہیں اور اپنا وقت جنگل میں گزاریں اور خطرناک جانوروں کی بولیوں کو ازبر کریں کہ مستقبل قریب میں ان آوازوں سے فائدہ اٹھانا ہے۔ بانسری، طبلے، ہارمونیم، تنبورے کے سریلے راگوں میں درندگی کی موسیقی کا سر پیدا کرنا ہے۔ اور اسروں ( راکچھس) کی جماعت میں شامل ہو کر ملک کو آزاد کرنا ہے۔ اس لیے گھروں کو مقفل کر کے مذہبی عمارت سے اینٹیں لے کر قومی سلامتی کی راہ پر آگے بڑھنا ہے اور طوطے سے بچے وش کو ساتوں سمندر، دریاؤں، پہاڑوں پر اچھال دینا ہے۔

بوڑھے کے دماغ میں اس وقت بھی سیٹیاں بج رہی تھیں جب سورج کا گولہ گرم ہونے کی تیاری کر رہا تھا اور اپنی اگنی شعاعوں سے دسمبر کی برف کو پگھلانے کی کوشش کر رہا تھا۔ تاریخ کے تناظر میں ہم قدیم خانہ بدوش ٹھہرے مگر ملا کیا؟ جب ملک کی ہوا سہ رنگی پرچم میں رنگ بھرنے کی تیاری کر رہی تھی کچھ سریلے فنکار، فلاسفر اور تاریخ داں بوسیدہ دیواروں پر بجھی ہوئی راکھ سے آزادی اور سیکولرزم کے نعرے کو لکھ رہے تھے۔ خانہ بدوش حیران کہ یہ رنگ مٹے نہیں تو جبریہ طاقت اور ذہن کیسے پیدا ہو گا۔؟

ایک خانہ بدوش نے دریافت کیا۔ ’ماچس ہے۔؟‘

’نہیں۔ مگر تیلیاں ہیں۔‘

’تیلیاں آگ پکڑیں گی؟‘

’تیلیاں نقشوں کو جلانے میں ماہر ہیں مگر تیلیوں کو گرم پتھروں سے رگڑ کر چنگاری پیدا کرنا ہو گا۔‘

’کیا چنگاری سے چھریاں تیز ہوں گی؟‘

’ترشول بھی؟‘

’کیا مذہبی عمارت پر چڑھنے میں مدد ملے گی؟‘

’اگر پیسے ملتے ہیں تو ہم خانہ بدوش پجاری بن جائیں گے۔‘

بوڑھے کو ہنسی آئی۔ وہ ان خانہ بدوشوں کی باتیں سن رہا تھا۔ اور یہ کہ اسے ماچس کی تیلیوں میں آگ کا سمندر نظر آ رہا تھا اور وہ خوش تھا کہ آگ کے سمندر سے اس وقت چیخیں نمودار ہو رہی تھیں اور وہ ان چیخوں میں موسیقی تلاش کر رہا تھا۔ اس نے پھر ان خانہ بدوشوں کی طرف دیکھا جنہوں نے اپنی پیشانی کو سرخ رو مال سے باندھ رکھا تھا اور ان کے کھلے دانت پیلے تھے اور ان میں کیڑے لگے ہوئے تھے۔

’کیا ہمارے رسم و رواج عجیب نہیں تھے؟‘

’تھے۔‘

’ہماری طرز زندگی، ہماری زبان۔۔۔۔۔؟‘

’ان میں اخروٹ کی سختی شامل تھی اور چھریوں کی دھار۔‘

’ہم ننگے رہتے تھے اور جسم پر نقش و نگار بناتے تھے۔‘

’اور یہ باتیں ہمیں گندے تہذیبی لوگوں سے دور رکھتی تھیں۔‘

’لکڑی اور گھاس پھوس کے گھر ہوتے تھے۔ زمین میں بڑے بڑے کندے نصب کرتے اور دوسروں کی جھوپڑیوں میں رات کے وقت آگ لگا دیتے۔‘

’خانہ بدوشی کا اپنا ذائقہ ہے۔‘

’کیا ہم دسمبر کے بارے میں سوچ سکتے تھے؟‘ ان میں سے ایک نے پوچھا جو ابھی تک ایک بڑے سے چھرے کو پتھر پر رگڑ رہا تھا۔

’دسمبر، جہاں آگ روشنی دیتی ہے۔ کدال اور پھاوڑے گنبدوں کو ڈھا دیتے ہیں اور پرندے آسمانوں میں چھپ جاتے ہیں۔‘

’خوب۔ دسمبر۔‘ اور بوڑھے نے فرض کیا کہ اس کے ہاتھ میں بھی ایک اینٹ ہے، جس پر سنسکرت زبان میں کچھ لکھا ہوا ہے۔ کاش وہ سنسکرت کی سمجھ رکھتا۔ مگر اس نے اپنے لیے یاترائیں چنیں۔ تیرتھ یاترا۔ رتھ یاترا۔ رتھ یاترا اور دسمبر، جب کہرے آسمان پر چھا جاتے ہیں اور رتھ یاترا کے ٹائر اس طرح گھومتے ہیں اور ناچتے ہیں جیسے سفید گھوڑے آسمانوں پر رقص کر رہے ہوں۔ جب رات کو ٹمٹماتے دیے بجھ رہے تھے، وہ خانہ بدوشوں کو جمع کر رہا تھا اور یہ خانہ بدوش پورے ملک کے جنگلوں سے آئے تھے۔ یہ مہذب دنیا کے بارے میں زیادہ تفصیلات نہیں جانتے تھے۔ یہ پتھروں سے آگ نکالنا، جھوپڑیوں کو جلانا بخوبی جانتے تھے۔ یہ ایک دوسرے سے الگ تھلگ رہتے تھے اور انسانی رشتوں کی پہچان نہیں رکھتے تھے۔ ایسا قدیم زمانے سے چلا آ رہا تھا اور بوڑھے نے ایک بار انڈمان کے جزیرے میں ان قبائلیوں کو دیکھا تھا جو ننگے رہتے تھے اور خوب ہنستے تھے۔ بوڑھے نے ان قبائلیوں کے ساتھ رقص بھی کیا تھا اور بتایا تھا کہ حضرت نوح کی طرح وہ بھی ایک کشتی کی تعمیر کر رہا ہے مگر یہ رتھ ہو گا اور یہاں جنگلی سور ہوں گے جن کی چمڑیاں سخت ہوں گی اور جو گندے کیچڑوں میں لوٹتے ہوں گے۔ انڈمان کے روایتی قبیلے والوں نے بتایا کہ ایسے بے شمار سور ان کے پاس ہیں، جن کا شکار وہ تیر بھالوں سے کرتے ہیں۔ پھر پتھروں سے آگ جلا کر سوروں کو بھون کر جشن مانتے ہیں اور بوڑھے نے کہا تھا، اب ان سوروں کو جلانے کی ضرورت نہیں ہے۔ انھیں بھی ہتھیار دینے کی ضرورت ہے۔ ہم تمہیں ان سؤروں کے لیے مناسب رقم دیں گے۔ بوڑھے کو یقین ہے کہ اس ہجوم میں انڈمان کے قبائلی بھی ہوں گے، کیونکہ ان خانہ بدوشوں میں کئیوں کے پاس لباس نہیں تھے مگر ہاتھوں میں اینٹیں موجود تھیں۔

وہ عمارت کے سب سے بد نما کمرے میں کھڑے تھے اور ایک عجیب سی بدبو تھی جو ماحول میں پیدا ہو رہی تھی اور ممکن ہے کہ یہ بدبو ان خانہ بدوشوں کے جسم سے آ رہی ہو، جنہوں نے پسینہ بہا کر مذہبی عمارت کے گنبد کو زمین میں دفن کر دیا تھا۔ آسمان سے پرندوں کا قافلہ اس طرح رخصت ہوا، جیسے اب کبھی واپس نہیں آئے گا۔ بوڑھے کو تاہم اطمینان ہے کہ اسے تمام اختیارات حاصل ہیں اور اس وقت خانہ بدوشوں کے درمیان اس کی حیثیت کسی راجہ یا مکھیا کی ہے، جس کے آگے سب کو سر جھکانا ہے۔ اس نے کٹورے سے پانی پیا اور اس لیے پیا کہ چلّاتے شور کرتے ہوئے اس کی زبان بیٹھ گئی تھی۔ گلے سے گھڑگھڑانے کی آواز آ رہی تھی اور مذہبی عمارت کی اونچی چوٹی پر دیر تک رہنے کی وجہ سے اس کے قدموں میں نقاہت آ گئی تھی۔ اس نے خانہ بدوشوں کی گفتگو کا رُخ قدیم زمانے سے آج کی تاریخی فتح تک موڑنے کی کوشش کی مگر سب کے سب ایسے ترشول لہرا رہے تھے جیسے بھالو اور خنزیروں کا شکار کرنے آئے ہوں۔ ان کے جسم توانا تھے اور بوڑھے کو یقین تھا کہ آج کے بعد اس کی عظیم الشان کامیابی کے درمیان محض چند قدم کا فاصلہ رہ گیا ہے۔ اس کے بعد مرغابیاں جھیلوں پر اتریں گی اور وش کا نغمہ سنائیں گی۔ وہ اچانک چونکا، جب اس نے ایک خانہ بدوش کی آواز سنی۔ اس خانہ بدوش کے ساتھ کئی دوسرے خانہ بدوش بھی کھڑے تھے۔

’تو تم اس وقت رو رہے تھے۔‘

’ہاں۔‘

’مگر کیوں؟‘

’میں نے پنکھوں والے ایک فرشتہ کو دیکھا جس کے ہاتھ میں لالٹین تھی۔‘

’سب غارت۔ فرشتہ کہاں سے آ گیا؟‘

’اس کے دوسرے ہاتھ میں چاقو بھی تھا۔‘

’۔۔۔۔ اور یقین ہے، تیسرا ہاتھ نہیں ہو گا۔‘

’اور تم اس لیے روئے کہ فرشتہ کے ہاتھ کی لالٹین بجھ گئی تھی؟‘

’نہیں۔ تیز ہوا کے باوجود جل رہی تھی۔ بلکہ لالٹین کے اندر سے شعلے نکل رہے تھے۔‘

پہلے نے گھور کر دیکھا۔ ’کیا تم اقبال جرم کر رہے ہو؟‘

’نہیں۔ اس نے کندھے اُچکائے۔ اس وقت میرے ہاتھ میں ایک کدال تھی اور میں فرشتہ کا سر قلم کرنا چاہتا تھا۔‘

’اوہ۔۔۔۔۔ ویسے تم اس قابل نہیں تھے۔ تم نے چار گھنٹے میں صرف چار اینٹیں جمع کیں۔ اور پاجامہ کو بہت حد تک گیلا کر دیا۔

بوڑھے کو ہنسی آئی اور ہنسی اس بات پر آئی کہ جس وقت وہ گنبد تک پہنچنے کی کوشش کر رہا تھا، ایک سیال اس کے پیٹ کے نیچے جمع ہو رہا تھا۔ اس نے چپچپاہٹ محسوس کی اور یقین کیا کہ اس کا پیشاب خطا ہو گیا ہے جو اکثر جوش جوانی میں ہو جاتا ہے۔ جسم میں رتھ یاتراؤں کی تھکاوٹ اب بھی موجود تھی اور جشن مناتی وہ بھیڑ بھی اب بھی نظروں میں گھوم رہی تھی کہ بوڑھے نے اپنی زندگی میں ایسی کسی بھیڑ کا تصور نہیں کیا تھا۔ سارے ہندوستان میں گھومتے ہوئے رتھ کا پہیہ ایک ایسے علاقے میں جام ہوا، جس کے بارے میں وہ جانتا تھا کہ یہاں سوروں کے شکار ہوتے ہیں اور یہاں کی زمین پتھریلی ہے۔ یہاں گنوار، دیہاتی مگر پڑھے لکھے لوگ رہتے ہیں جو اب بھی تہذیبی زبان سے واقف ہیں اور اس خطے میں اتنے گڑھے ہیں کہ رتھ کا پہیہ کسی وقت بھی اچھل کر رتھ سے نکل سکتا ہے یا رتھ کے پہیے پتھریلی زمین پر جام ہو سکتے ہیں۔ اسے یہ بھی خیال تھا کہ اگر پہیے اس خطے یا علاقے میں جام نہیں ہوتے تو اسے کامیابی نہیں ملتی۔ کیونکہ خانہ بدوش جماعت ناراض تھی اور غصے میں ترشول لہراتی ہوئی اس بات کو فراموش کر گئی تھی کہ بوڑھا تھک چکا ہے اور واپس دار السلطنت لوٹنا چاہتا ہے۔ اس کے ہونٹوں پر خون کی پپڑیاں جمی تھیں کیونکہ دو بار رتھ کے پہیے ایسے اچھلے کہ اس کا سر رتھ کی پشت سے ٹکرایا اور کمزور دانتوں نے ہونٹ کو زخمی کر دیا۔ اس نے خفیف سی جھرجھری لی کہ وہ گر بھی سکتا تھا اور گرنے کی صورت میں اس کی موت بھی ہو سکتی تھی۔ بوڑھے کو اس بات کا گمان تھا کہ وہ صفر سے طلوع ہوا اور رتھ کی کمان تھام کر ان خانہ بدوشوں کا امیر کارواں بن گیا۔ اس نے سنا۔، وہاں کچھ خانہ بدوش اور بھی تھے، جو اب سیاست کی اولادوں میں سے تھے اوہ یہ بھی جانتا تھا کہ پسند نہ کرنے کے باوجود یہ لوگ اس کے پیچھے پیچھے چلنے پر مجبور تھے اس نے کان لگایا اور ان کی باتوں پر دھیان دیا۔

’کیا اینٹیں نرم تھیں؟‘

’نہیں۔ اس میں سے انسانی خون کی بو آ رہی تھی۔‘

’اور تم نے ڈھانچے پر چڑھتے ہوئے ایک گارڈ کو مکّا مارا تھا۔‘

’مجھے وہ عمارت کی نگرانی کرنے والا معلوم ہوا۔‘

’جبکہ وہ بھی خانہ بدوش تھا اور بوڑھے کا قریبی۔‘

’یہ بوڑھا ان خانہ بدوشوں سے کیا کام لے گا؟‘

’وہ اپنی سلطنت بنائے گا۔‘

’لیکن اس سے قبل گماں آباد کے خانہ بدوش اسے چپ کرا دیں گے۔‘

’کیا تم تقدیر کو مانتے ہو۔؟‘

’نہیں۔ رتھ کو۔ مذہبی عمارت کو اور وحشتوں کو۔‘

’وحشتوں نے ہر دور میں ہمارا ساتھ دیا ہے۔‘

’اور اس بار بھی وحشتیں ساتھ دیں گی۔‘

بوڑھے نے اطمینان سے ان کی باتیں سنیں اور اسے پہلے سے علم تھا کہ ان میں اکثریت ایسے لوگوں کی بھی ہے، جو ابھی بستروں پر سیاہ حبشی کو بھی اپنے ساتھ سلا لیں۔ مگر ان میں آپس میں بھی اختلاف ہے اور یہ لوگ کسی حد تک اس کی شہرت اور مقبولیت سے بدگمان بھی ہیں۔ مگر وہ رتھ لے کر کافی دور نکل چکا تھا اور جہاں نکل آیا تھا، وہاں پتھر سخت تھے، دریا اونچائی پر تھا اور دسمبر کے زمانے میں زمین برف سے ڈھک چکی تھی۔ مشرق سے نکلتے ہوئے سورج کا گولہ ٹھنڈا تھا اور بوسیدہ دروازے کے باہر لوگوں کا ہجوم اس کا منتظر تھا۔ وہ تاریخ اور اپنے قریبی دوستوں کا شکر گزار تھا جنہوں نے سنبھل کر، آگے بڑھ کر مذہبی عمارت کا قفل کھولا تھا۔ پھر انہی دوستوں نے آگے بڑھ کر پتھر کے مجسمہ کو اس عمارت میں منتقل کیا تھا۔ لیکن منتقل کرتے ہوئے اور قفل کھولتے ہوئے وہ اس فن سے واقف نہیں تھے، جس سے وہ واقف تھا۔ اور اب آسمان سے زمین تک سارا نظارہ اسے سرخ نظر آ رہا تھا۔ اس سرخی سے اسے زعفران پیدا کرنا تھا اور ملک بھر میں زعفران کی کھیتی کرنی تھی۔ وہ ہجوم کے قریب آیا۔ چیختے چلاتے، جوشیلے قبائلیوں کو دیکھا۔ اس کے کمزور ہاتھوں میں جنبش ہوئی اور اس نے نرم لہجہ اختیار کیا۔ اس نے وحشتوں سے پر ہجوم کی طرف دیکھا اور اس ہجوم کے کسی گوشے میں بوڑھے کو لاٹھی ٹیکے ہوئے وہ ننگا فقیر بھی نظر آیا، جس کا وہ منکر تھا اور سخت نفرت کرتا تھا۔ مگر یہ نظر آنا ایک چھلاوہ تھا۔ در اصل آہنی دروازے کے باہر رکھا ہوا رتھ کا پہیہ تھا، جو اس مقام تک آتے آتے رتھ سے نکل گیا تھا۔ اس نے آنکھیں ملیں۔ دروازے کی بھربھری لکڑی کو دیکھا اور نئی مہم کے لیے روانگی سے قبل اپنے الفاظ کو جنبش دی۔

’وہ سفید فام نسل تھی، جو اس ملک میں آئے اور جن کے لیے ہم نے فرمانبرداریاں پیش کیں۔ ان کی عظمت کو سلام کہ وہ ہمیں سمجھتے تھے مگر وہ ہمیں ایک ایسی زمین دے کر گئے جہاں لاٹھی ٹیکنے والا ایک نیم برہنہ فقیر رہتا تھا، ہم نے کوشش کی اور فقیر کو غائب کر دیا۔ لیکن غائب ہونے کے بعد فقیر دوبارہ زندہ ہو گیا اور یہ اس کی تعلیمات کا جادو تھا کہ ہم رتھ کی لگام تھامے مستقل کھڑے رہے اور راستہ گم رہا۔ پھر میں آیا۔۔۔۔۔‘

بوڑھے نے شان سے ہاتھ ہلایا۔۔۔۔ اس وقت چناروں کے درمیان بجلیاں کڑک رہی تھیں اور برفیلی چٹانیں پگھل رہی تھیں۔ خوبصورت دھماکوں کے شور بھی تھے جو ہم اپنے ساتھ لائے تھے اور پھر میں رتھ پر بیٹھ گیا۔۔۔ ممکن ہے۔۔۔۔۔‘

بوڑھے نے ہجوم کی طرف دیکھا۔

’ممکن ہے، زنداں کا دروازہ کھل جائے۔ ممکن ہے، مذہبی عمارت کو گرانے کے عوض ہم پر مقدمہ چلایا جائے۔ مگر یہاں سب دوست ہیں جو زنداں کے پالن ہار ہیں، وہ بھی۔ جو بیڑیوں میں بند ہیں وہ بھی۔ جو وحشتوں کے اسیر ہیں، وہ بھی۔ جو سیاست کے مزدور ہیں، وہ بھی۔ جو حکومت کے طرفدار ہیں، وہ بھی۔ اس لیے تماشہ ضرور ہو گا مگر کوئی نتیجہ برامد نہیں ہو گا۔ کیونکہ سب اپنے ہیں اور ان کی تعداد بے حد کم ہے جو پرانی عمارت سے چپکے ہوئے ہیں۔‘

بوڑھے نے ایک بار پھر ہجوم کی طرف دیکھا۔۔۔۔۔ اسے احساس تھا کہ وہ ابھی اس وقت ایک مقدمے سے گزر رہا ہے۔۔۔۔۔ اور دسمبر کی ٹھنڈک کے باوجود زمین گرم ہے۔ یہاں وہ لوگ ہیں، جن کو غسل کیے ہوئے کئی روز گزر چکے ہیں اور جن کے لباس سیاہ پڑ گئے ہیں۔ مگر اس کے باوجود دھوپ میں ان کے چہرے چمک رہے ہیں اور بندوق کی جگہ اینٹوں کا تحفہ لے کر یہ خوش ہیں کہ زندگی میں سب سے بڑا انعام یہ حاصل کر چکے ہیں۔ بوڑھا مسکرایا اور قیاس کیا کہ وہ اپنے لو گوں کی عدالت میں ہے اور یہ صحیح وقت ہے کہ اس ہجوم سے مکالمہ قائم کیا جا سکتا ہے۔

’جب آسمان سرخ دھول سے غسل کر رہا تھا، کیا وہاں کوئی آبادی تھی، جہاں ایک پرانی عمارت کھڑی تھی؟‘

’بالکل بھی نہیں۔‘

بوڑھے کو یاد آیا، وہاں دور تک جنگل جھاڑ تھا۔ دھول بھری سڑک تھی۔ اور ٹیمپو والے مسافروں کو دھول بھری سڑک پر لا کر اتار دیتے تھے۔ اور جب بسوں، ٹرکوں میں بھر بھر کر لوگ اس مقام پر پہنچے تو فضا میں چاروں طرف دھول ہی دھول تھی اور عمارت کی جگہ ایک دلدل یا ملبہ نظر آ رہا تھا۔ چند قدموں کا فاصلہ اور مٹی کا ملبہ۔

’ہم پرانی کی جگہ نئی اور عالیشان عمارت کھڑی کریں گے اور ایک دن۔۔۔۔۔‘

’کیا اس دن سوروں کا گوشت تقسیم ہو گا۔‘

’بالکل بھی نہیں۔‘

’کیا اس دن مادہ کبوتروں کو حمل ٹھہرے گا؟‘

بوڑھے نے مڑ کر دیکھا۔ وہ ایک ناگا خانہ بدوش تھا — اور اس وقت اپنے برہنہ جسم کا مظاہرہ کر رہا تھا۔

’کیا اس دن فاختائیں ہوں گی؟‘

’اس دن ہم ہوں گے اور نئی عمارت ہو گی۔‘ بوڑھے نے جوش سے کہا۔

’— اور اس یقین کو گھسنے میں کتنے برس لگ جائیں گے۔؟‘

’جتنے دن جنگلی بلّیوں کے دانت نوکیلے ہونے میں لگتے ہیں۔‘

’جنگلی بلیاں۔ کیا ان بلیوں کا رنگ زعفرانی ہو گا۔؟‘

’ہاں۔ اور زمین کا رنگ بھی۔ اور ملک کے نقشے کا رنگ بھی۔ فصیلوں کا رنگ بھی۔ یہاں تک کہ ہمارے چہروں کا رنگ بھی۔‘

’کیا ہمارے لیے زنداں کے دروازے بھی ہوں گے۔؟‘

’ہاں ہوں گے۔ تب تک ہم اپنے گھوڑوں پر بہت آگے نکل چکے ہوں گے۔‘

بوڑھے نے اشارہ کیا۔ دو برس قبل ہم نے اسی مقام پر گولیاں کھائی تھیں۔ اور اب پرندے اڑ گئے۔ گنبد ٹوٹ گیا۔ ملبہ میں حیرتیں دفن ہیں۔‘

اس نے ہجوم کے درمیان سے آواز سنی، کوئی کہہ رہا تھا۔

’ایک دن تم بھی حیرتوں میں دفن ہو جاؤ گے۔‘

بوڑھے نے اس مکالمے کو نظر انداز کیا۔ دسمبر فتح کے لیے آتا ہے اور دسمبر میں دھوپ کی کرنوں پر دھند کی حکومت رہتی ہے۔ کچھ لوگ ابھی بھی دھند میں ہیں اور یقیناً درختوں پر چڑھے ہوئے، بندر ایسے لوگوں کا راستہ تنگ کر دیں گے۔ بوڑھا جب ان اطراف میں آیا تھا تو اسے چاروں طرف بندر ہی بندر نظر آئے تھے۔ مگر خانہ بدوشوں کو دیکھ کر یہ بندر بھی بھاگ کھڑے ہوئے تھے۔

’کیا ابھی بھی ہم بندروں کے ساتھ ہیں۔؟‘

’ہاں۔ وہ ہر چوراہے پر ہیں۔ درختوں پر بھی ہیں۔ ملبے کے آس پاس ہیں اور عمارتوں کی چھت پر بھی نظر آ رہے ہیں۔‘

’ہمیں ان بندروں کو بھی ساتھ لینا ہو گا۔؟‘

بوڑھے نے ہاتھ ہلایا اور ٹھیک اسی لمحہ اس نے دیکھا، ایک شخص نے جھک کر اس کے ہاتھ کو تھاما ہوا ہے۔ اس کے چہرے پر ہلکی سی داڑھی تھی۔ وہ دبلا پتلا تھا۔ کپڑے گندے اور دھول سے بھرے تھے۔ اور اس نے بوڑھے کے ہاتھوں کا بوسہ لیا اور عقیدت سے دریافت کیا۔

’آپ تھک گئے ہیں۔ میں آپ کے لیے چائے لے کر ابھی حاضر ہوتا ہوں۔

٭٭٭







(۳)
۱۹۹۲—



دور تک پھیلی ہوئی دھند میں مسیح سہرا کو اس بوڑھے کا چہرہ یاد تھا، جس کا نام وشال کرشن ناتھانی تھا جو ایک سندھی تھا اور تقسیم کے وقت جس کا خاندان ہجرت کر کے دار السلطنت میں آباد ہوا تھا۔ دھند میں اور کچھ تصویریں بھی تھیں، جو واضح نہیں تھیں، مگر مسیح سہرا خود کو اس دھند کے آئینہ میں دیکھ سکتا تھا۔ اس زمانے تک وہ ایک ڈیٹکٹیو رائٹر تھا اور مسیح سہرا کے نام سے ہی اس کے جاسوسی ناول شہرت یافتہ ادارہ پگمل سے شائع ہوا کرتے تھے۔ سراغ رسانی میں اس کی بچپن سے دلچسپی تھی مگر وہ سراغ رساں نہیں بن سکا۔ ہر چند کہ اس نے کوشش بہت کی مگر کامیابی نہیں ملی۔ پھر اسی زمانے میں اسے لکھنے کا شوق پیدا ہوا اور اس وقت اس کی عمر پچیس سال تھی۔ پہلا ہی ناول ’ناگن کا قاتل‘ نے کامیابی کے پرچم لہرائے تو پگمل کے ادارے سے باضابطہ پانچ برس کا معاہدہ ہو گیا۔ اس زمانے میں ٹی وی اور موبائل کا چلن نہیں تھا اور ایک بہت بڑی آبادی جاسوسی ناولوں میں دلچسپی رکھتی تھی۔ یہ بات سہرا جانتا تھا کہ تھکے ہوئے دماغ میں بہت زہر بھرا ہوتا ہے۔ زہر کی پوٹلی میں سازشیں ہوا کرتی ہیں۔ لذت وصل، گناہ اور قتل جیسے واقعات میں لوگوں کی دلچسپی ہوا کرتی ہے۔ اس عمر میں اس نے سینکڑوں ناول پڑھ رکھے تھے۔ سر آرتھر کانن ڈائل اور اگا تھا کرسٹی میں اس کی خاص دلچسپی تھی۔ کرداروں کا ہجوم اس کے آس پاس ہی رہتا تھا۔ مسیح سہرا نے کرنل سوامی اور مس کرشنا کے کردار کو گڑھا اور یہ کردار اتنے دلچسپ تھے کہ اس کے ناولوں کی مانگ بڑھتی چلی گئی۔ پیسے آنے لگے تو شادی کرنے میں دیر نہیں کی۔ ریحانہ سے شادی ہو گئی۔ مگر ان سب کے باوجود مسیح سہرا کو احساس تھا کہ اسے کچھ اور چاہیے، جس کا تصور ابھی ذہن میں واضح نہیں ہے۔ اس کی دلچسپی سیاست میں تھی مگر اس بات پر اس کو ہنسی آتی تھی کہ کہاں ایک جاسوسی ناول نگار اور کہاں سیاست۔ پھر اس عہد میں اس پر کون سی پارٹی مہر بان ہو سکتی ہے۔ اس نے کئی ناول لکھے —گنگا کنارے قتل، دوہرا قتل، قاتل عورت، قتل ایک چھلاوہ، قاتل کی واپسی، گنہگار کون، سیریل کلر— اس کی شہرت کا یہ عالم تھا کہ سنجیدہ ادیبوں سے لے کر سیاستداں تک اس کے ناول پڑھتے تھے۔۔۔۔ اور اس کا نام ایسے تمام لوگوں کے درمیان کسی تعارف کا محتاج نہیں تھا۔ اپنے ناول سیریل کِلر میں اس نے ایک سیاستداں کی زندگی پر روشنی ڈالی تھی جو معصوم تھا مگر رات کے اندھیرے میں خاموشی سے لڑکیوں کا قتل کیا کرتا تھا۔ یہ ناول اس قدر مشہور ہوا کہ دیکھتے ہی دیکھتے اس ناول کے کئی ایڈیشن آ گئے۔ اور اسی زمانے میں حکمراں پارٹی کے لیڈر مسٹر کمار سے ایک پارٹی میں اس کی ملاقات ہوئی۔ مسٹر کمار نے بتایا کہ وہ ان کے فین ہیں اور سہرا کے، اب تک کے تمام ناول انہوں نے پڑھ رکھے ہیں۔ مسٹر کمار نے حکمراں پارٹی کے کئی لیڈران سے اس کی ملاقات کرائی اور اس طرح جب پارٹی کا دعوت نامہ ملا تو سہرا انکار نہیں کر سکا۔ پارٹی میں پہنچ ہوئی تو راجیہ سبھا کے ایک ممبر کے فوت ہونے پر لاٹری سہرا کے نام کھلی۔۔۔۔ اور اس طرح مسیح سہرا راجیہ سبھا میں پہنچ گیا۔ یہ ایک لمبی چھلانگ تھی۔ مگر سہرا کی مجبوری تھی کہ وہ سیاست سے ناواقف تھا اور جذباتی آدمی تھا۔ اسے سیاست کے قاعدے قانون پسند نہیں آتے تھے۔ اس لیے راجیہ سبھا پہنچنے کے بعد جس ناول کے لکھنے کا آغاز اس نے کیا، وہ ایک جاسوسی ناول ضرور تھا، مگر سہرا اس ناول میں اپنے عہد کے المیہ کو بھی پیش کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔ اور اس لیے اس نے ناول میں سیاسی فضا پیدا کرتے ہوئے ایک اہم کردار کو، جس نے مذہبی عمارت کے ملبہ میں تبدیل ہونے کی کہانی کو آسان بنایا تھا، دلچسپ مکالمے کے ذریعہ عدالت میں پیش کر دیا تھا۔ جرح کے دوران اس سے پوچھا جاتا ہے۔

تم سب سے اعلیٰ عہدے پر فائز ہو۔

’ہاں، ایسا ہے۔۔۔۔‘

اور تم ایک سیاسی آدمی ہو۔

’منظور۔‘

’اور تم پر ذمہ داری تھی کہ پرانی عمارت۔۔۔۔۔‘

’میں ایک مذہبی آدمی بھی ہوں۔‘

’کیا مذہبی آدمی آئین اور دستور کا خیال نہیں رکھتا؟‘

’مذہب کا دائرہ ان دائروں سے زیادہ بلند ہے۔‘

’کیا تم کو معلوم ہے کہ افراتفری میں کتنے لوگوں کی جان گئی۔؟‘

’تین سو چھیاسی۔‘

’اور اس موقع پر کتنے شہروں میں فساد ہوا۔‘

’ایک سو باون۔‘

’ذمہ دار کون ہوا۔؟‘

’سلطان۔‘

’کیا سلطان نے پرانی عمارت کی تعمیر کی تھی۔؟‘

’ایسا ہی ہے۔‘

’کیا پرانی عمارت سے پہلے بھی کوئی عمارت تھی، اس کا کوئی ثبوت ہے؟‘

’آستھا ہے۔‘

’آستھا اور آئین کے درمیان کتنا فاصلہ ہے؟‘

’جتنا فاصلہ آپ کے اور ہمارے درمیان۔‘

’کیا آپ کو پرانی عمارت کے ٹوٹنے کا غم ہے۔؟‘

’نہیں۔ حادثہ یہ ہے کہ آپ مجھے عدالت میں لے کر آئے اور اس ملک میں یہ پہلی بار ہو رہا ہے۔‘

’کیا پہلی بار ایسا نہیں ہوا کہ بغیر جواز یا ثبوت کے ایک پرانی عمارت محض اس قیاس پر ڈھا دی گئی کہ اس کے نیچے کوئی اور عمارت موجود تھی؟‘

’آستھا۔‘

’آستھا کا تعلق کن لوگوں سے ہے؟‘

’صرف اکثریت سے۔‘

’اور اقلیت؟‘

’حکومت اقلیتوں کے ووٹ سے تعمیر نہیں ہوتی۔‘

’اقلیتوں کا خیال رکھنا بھی ضروری نہیں ہے۔؟‘

’ہاں۔‘

’کیا آپ جانتے ہیں کہ پرانی عمارت اب جبکہ ایک تاریخ کا حصہ بن چکی ہے، یہ تاریخ آپ کے مرنے کے بعد بھی دہرائی جاتی رہے گی اور آپ کا نام۔۔۔۔۔؟‘

’زندہ رہے گا؟‘

’آخری سوال۔ آپ کی حکومت کا رنگ کیا ہے؟‘

’زعفرانی۔‘

’اور جو دوسری پارٹی سامنے آئی ہے۔؟‘

’اس وقت سب سے بڑی طاقت زعفران ہے۔ جس کا حصہ مضبوط ہو گا، بندر اسی کے ہوں گے۔‘

’بندر کیوں؟‘

’ڈارون نے کہا تھا۔ ہم سب بندر ہیں۔‘

’اور بندر پرانی عمارت پر چڑھ کر، عمارت کو ملبہ بناسکتے ہیں؟‘

’آستھا۔ اب میری میٹنگ کا وقت ہے۔‘



ll

دھند بڑھ گئی تھی۔ سہرا کو احساس ہوا کہ اس کے پاس ریحانہ لیٹی ہوئی ہے اور اس کے ہاتھ ریحانہ کے پستانوں کو چھو رہے ہیں۔ اس نے جھینگا مچھلی کا تصور کیا اور گھٹنوں کے بل فرش پر بیٹھ گیا۔ سہرا کو احساس ہوا کہ وہ چیخنا چاہتا ہے مگر چیخ اس کے اندر اندر کہیں کھو گئی ہے۔ سفید سفید چادروں کے درمیان ایک نا معلوم جزیرہ آباد ہے اور وہ ایک ویران چوراہے پر کھڑا ہے، جہاں کچھ فاصلے پر تیزی سے گاڑیاں بھاگ رہی ہیں۔ موہن راؤ۔ یہ نام اسے یاد آیا۔ اور سہرا دوبارہ اپنی جگہ لیٹ گیا۔ یہ موہن راؤ تھا، حکمراں پارٹی کا سربراہ— اور وہ ناول جو اس نے لکھا، اس کا عنوان سیاسی قاتل تھا۔ آنکھوں کے آگے دھند کا سفر جاری تھا— اور اس سفر میں سہرا سیاسی قاتل کے صفحات کو کھول رہا تھا۔ کچھ اور بھی دلچسپ مکالمے تھے، جس کو لکھتے ہوئے راجیہ سبھا ممبر ہونے کے باوجود اس نے سکون محسوس کیا تھا۔

قومی صدر کے ذریعہ دریافت کیا جاتا ہے

’آپ نے پارٹی کے موقف کے خلاف کام کیا۔‘

’بالکل بھی نہیں۔‘

’پارٹی کا کام پرانی عمارت کو بچانا تھا نہ کہ مسمار کرنا۔‘

’جو اکثریت کو پسند تھا، میں نے وہی کیا۔‘

’کون سی اکثریت؟‘

’ہم، آپ اور کروڑوں۔‘

’لیکن یہ کروڑوں لباس کے اندر زعفران نہیں رکھتے۔‘

’یہ غلط فہمی ہے۔‘

’کیا میں بھی زعفرانی ہوں۔؟‘

’ہاں۔ کچھ اقلیتوں کو چھوڑ کر۔‘

’کیا ہم پہلے بھی یہی تھے۔‘

’آزادی کے بعد کی پہلی کابینہ سے لے کر اب تک۔‘

’پھر اقلیت ہمارے ساتھ کیوں ہیں۔؟‘

’ان کے پاس دوسرا کوئی راستہ نہیں۔‘

’کیا پرانی عمارت کے ڈھانے کے بعد بھی وہ ہمارے ساتھ ہوں گے؟‘

’وہ ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں گے۔‘

’کیوں۔؟‘

’کیوں کہ ہم نے انھیں خوفزدہ کر رکھا ہے۔‘

’کس سے۔؟‘

’زعفران سے۔‘

’بقول آپ کے، زعفرانی آپ بھی ہیں۔‘

’اور آپ بھی۔‘

’تو اقلیتیں ہم سے خوفزدہ کیوں نہیں۔؟‘

’کیونکہ ہمارے اندر کا زعفران انہیں نظر نہیں آتا۔‘

’فرض کیجیے نظر آ گیا۔ اس کے بعد۔؟‘

’کچھ نہیں ہو گا۔‘

’کیوں۔؟‘

’کیونکہ ان کے پاس لڑنے کے لیے کچھ بھی نہیں۔‘

’ہماری اصلیت واضح ہو جانے کے بعد وہ کس کو ووٹ دیں گے؟‘

’ہم کو۔‘

’کیوں۔؟‘

’کیونکہ ان کو یقین ہے، تحفظ ہم ہی دے سکتے ہیں۔‘

’ہا۔۔۔ ہا۔۔۔ ہا۔۔۔۔۔‘

قومی صدر نے قہقہہ لگایا۔ اور اس طرح یہ میٹنگ مشترکہ قہقہوں کے ساتھ ختم ہو گئی۔



مسیح سہرا آزادی سے قبل اور آزادی کے بعد کے اب تک کے واقعات سے آگاہ تھا۔ اس کے پاس عمرو عیار کی زنبیل ہوتی تو وہ تمام شاطر سیاست دانوں کا قتل کر چکا ہوتا۔ ریحانہ اسے خوب سمجھتی تھی۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ اسے قابو میں رکھتی تھی وہ کسی میٹنگ میں حصہ لینے کی تیاری کرتا تو ریحانہ پہلے اس کے ہاتھوں کو تھام لیتی اس سے قبل کہ وہ کچھ سمجھتا۔ ریحانہ اس کے ہاتھوں کو اپنے سر پر لے آتی۔‘

’میری قسم ہے۔۔۔۔۔‘

’کیا۔؟‘

’میٹنگ میں کسی سے بکواس نہیں کرو گے۔‘

’میں بکواس کرتا ہوں؟‘

’جھگڑا تو کرتے ہو۔‘

’سچ بولنا گناہ ہے؟‘

’اب تم کرائم رائٹر نہیں ہو۔‘

’یعنی انسان بھی نہیں ہوں۔‘

’یہی سمجھو۔ اب تم سیاست داں ہو۔ ایک نمبر کے جھوٹے۔‘

وہ ریحانہ کی باتوں کا مزہ لیتا۔ ’یعنی اب جھوٹا بھی ہو گیا۔؟‘

’تمہارا کوئی ساتھی سچ بولتا ہے کیا۔؟

’ہاں۔ یہ تو ہے۔‘

’اور سچ اب تم بھی نہیں بولتے، بہت ساری باتیں مجھ سے چھپا لے جاتے ہو۔‘

’یہ بھی ہے۔‘

سہرا قہقہہ مار کر ہنسا۔ پھر نازک سی ریحانہ کو اپنی آغوش میں بھر لیتا۔

’ایک بات کہوں۔؟‘

’ہاں۔‘

’اب لگتا ہے۔ سیاست میں آ کر اچھا نہیں کیا۔ پارٹی کا اس قدر پریشر رہتا ہے کہ ہم اپنی بات بھی نہیں کر پاتے۔‘

’تم ایک اقلیتی ڈنکی ہو۔‘

’اقلیت والے ڈنکی ہوتے ہیں۔‘

’ساری عمر بوجھ ڈھونے کے بعد ملتا کیا ہے، اقلیت والوں کو؟‘

’کیوں نہیں ملتا؟‘

’وہ ہمیشہ سے حاشیہ پر ہیں۔ اس لیے کہ تم جیسے لوگ بھی پریشر میں ہو۔‘



اسے پہلی بار احساس ہوا کہ ریحانہ سچ بول رہی ہے۔ ریحانہ اس دھند کو دیکھ چکی ہے، جس کے اس پار جھوٹ کے سمندر کے سوا کچھ بھی نہیں۔ یہاں آپ پارلیمنٹ میں ہیں تو اپنی مرضی سے تقریر بھی نہیں کر سکتے۔ کسی اخبار والے کو اپنے حساب سے بائیٹ بھی نہیں دے سکتے۔ پارٹی کا پریشر۔ آپ کے منہ میں پارٹی کی زبان ڈالی جاتی ہے اور پارٹی کیا ہے؟ کیا حقیقت میں پارٹی نے سیکولرزم اور جمہوریت کا لباس پہنا ہوا ہے؟ یا یہ سیکولرزم محض فریب ہے جیسا کہ وہ اپنے ناول میں لکھ رہا ہے۔ پرانی عمارت شہید ہو گئی۔ آپ اس کو پرانی عمارت، مذہبی عمارت بھی نہیں کہہ سکتے۔ پارٹی کے اصولوں کے مطابق آپ کو ڈھانچہ کہنا ہے۔ پارٹی اگر سیکولرزم کے اصولوں پر چلتی تو کیا آزادی کے بعد ہزاروں فسادات ہوتے۔؟ کیا پارٹی فسادات کو روکنے میں ناکام رہتی؟ راجیہ سبھا کا ممبر بننے کے بعد سہرا صاف دیکھ رہا ہے کہ گندگی کہاں ہے؟ فرق کہاں ہے؟ بھید بھاؤ کہاں ہے؟ اور اس فرق کو چھپانے کے لیے وعدے کیے جاتے ہیں۔ سفارشات لائی جاتی ہیں۔ کمیٹی بیٹھائی جاتی ہے۔ بار بار اقلیت کا نام لیا جاتا ہے۔ لیکن پارٹی نے اقلیت کی سطح پر کیا کیا ہے؟ سارے واقعات نظروں کے سامنے تھے۔ کلیم پورہ، جہاں بندوق کے نشانہ پر حکمراں پارٹی کی پولیس اقلیتوں پر گولی چلانے کے لیے لے گئی تھی۔ حسن پور، جہاں فسادات کے بعد ایک برسوں پرانا کنواں جلیاں والا باغ بن گیا تھا۔ سہرا کو احساس تھا کہ زعفران ہر جگہ ہے اور ملک میں بڑے پیمانے پر زعفران کی کھیتی ہو رہی ہے۔ اور سہرا کو اس بات کا بھی احساس تھا کہ بار بار اقلیتوں کا نام لینے سے ایک دن یہ اقلیت، اکثریت کے نشانے پر آ جائیں گے اور وشال کرشن ناتھانی، بانسری جوشی، شردھا بھارتی جیسے لوگ اس کا فائدہ اٹھائیں گے۔ ایک دن یہ چیخ ایک بہت بڑے نقصان میں تبدیل ہو جائے گی۔ سہرا کو احساس ہوا، ریحانہ کچھ غلط نہیں کہتی ہے۔ بلکہ ریحانہ اس سے کہیں زیادہ دور کی سوچتی ہے۔ اسے ریحانہ پر پیار آیا۔ وہ دیر تک ریحانہ کو آغوش میں لیے رہا۔ ایک عجیب سی ٹھنڈک کا احساس ہوا۔ نور کا جھروکا کھلا۔ اسے احساس ہوا۔ وہ نور کے اس جھروکے میں داخل ہو رہا ہے۔ مگر اس جھروکے میں بھی زعفران کھلا ہے۔ وہ فوراً ریحانہ سے الگ ہوا۔

’کیا ہوا۔؟‘

سہرا ہنسا۔ ’خوفزدہ ہو گیا۔‘

’کیا میری جگہ نتاشا کو دیکھ لیا؟‘

’نتاشا کون؟‘

’سیما کہہ لو۔۔۔ آصفہ کہہ لو۔۔۔ کچھ بھی۔ سیاستداں ہو۔۔۔۔‘

’سیاستداں کیا پانی میں تیرتے ہیں۔؟‘

’اکیلے نہیں۔ مگر تیرتے ہیں۔‘

’کس کے ساتھ؟‘

’نتاشا، آصفہ اور سیما کے ساتھ۔‘

’تم پاگل ہو۔‘

ریحانہ ہنسی۔ ’ایک شک تو رہتا ہے میرے اندر اور میرے اندر اس شک کو رہنے دیا کرو۔‘

’اس سے کیا ہو گا۔؟‘

’شک کی کھیتی سے بادام نکلے گا۔ بادام جسم کو طاقت پہنچاتا ہے۔‘

’اچھا۔ چلو۔۔۔۔۔ دروازہ بند کرو۔‘

بادام نکلے گا۔۔۔۔ وہ دیر تک اس محاورے پر غور کرتا رہا مگر آخر تک سہرا کسی نتیجے تک نہیں پہنچ سکا۔ پرانی عمارت کا قصہ تمام ہونے کے بعد ملک میں بی مشن کی تیاریاں شروع ہو چکی تھیں۔ اس مشن کے امام وشال کرشن ناتھانی تھے۔ لیکن پارٹی کو مضبوطی دینے کے لیے گردھر باجپائی کو آگے رکھا گیا تھا۔ گردھر باجپائی پارٹی کا سیکولر چہرہ تسلیم کیے جاتے تھے۔ پارلیمنٹ میں ان کی تقریر نپی تلی ہوتی تھی اور حکمراں پارٹی کے لیڈران بھی ان کو پسند کرتے تھے۔ دھوتی اور کرتا پسندیدہ لباس تھے۔ مشن کے پرانے ساتھی تھے اور یہ سمجھا جاتا تھا کہ ان کے آنے سے مشن کے نرم چہرے کو آگے رکھا جا سکتا ہے۔ جبکہ وشال کرشن ناتھانی کو آئرن مین کہا جا رہا تھا اور یہ پارٹی کا گرم چہرہ تھے۔ پرانی عمارت کا ٹوٹنا تاریخ کا ایک ایسا حصہ تھا، جس کے بارے میں سہرا سوچتا تھا کہ ملک کی تقدیر اب اسی عمارت کے بھروسے لکھی جائے گی اور سیاست میں تبدیلی یہی عمارت لے کر آئے گی۔ عمارت مسمار کرنے کے بعد وہاں ایک چہار دیواری کے چاروں طرف زعفرانی کپڑوں کی ایک دیوار کھڑی کر دی گئی تھی۔ ملک کا موسم اس وقت سے بدترین ہونے لگا تھا جب اس مقام پر دو سال قبل گولیاں چلائی گئی تھیں۔ ادھر چنار کے درختوں سے شعلے نکلنے شروع ہو گئے تھے۔ سہرا سیاست میں ان موسموں کو قریب سے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ اور یہ بھی محسوس کر رہا تھا کہ ہوا بدل رہی ہے اور اس ہوا میں نفرت کے کیڑے لگنے شروع ہو گئے ہیں۔

سیاسی قتل لکھنے کے دوران وہ حکمراں پارٹی کے ایک مسلم لیڈر سے ملا جو کبھی وزیر رہ چکے تھے۔ محمود خورشید۔ حکمراں پارٹی کے پرانے آدمی۔ وکیل بھی تھے۔ شاندار شخصیت کے مالک۔ اکثر پارلیمانی اجلاس کے بعد محمود خورشید کا ساتھ ہوتا تو گفتگو کا مزاج دلچسپ ہو جاتا۔ باہر سے تعلیم حاصل کر کے لوٹے تھے اور سیاست میں بلند مقام حاصل کیا تھا۔ اقلیتوں کے رہنما بھی تھے۔ مسیح سہرا نے محمود خورشید کو سیاسی قتل کے بارے میں بتایا تو وہ اچھل پڑے۔

’پارٹی سے بغاوت کرنا چاہتے ہیں؟‘

’یہ بغاوت ہے۔؟‘

’سیدھے سیدھے بغاوت۔ اور آپ کو اس کا اختیار نہیں ہے۔‘

’کیوں۔؟‘

’کیوں کہ ہم اس مہان آتما کے بندر ہیں۔ آنکھ بند۔ کان بند۔ زبان بند۔‘

’کیا یہ زبان بندی آپ کو پسند ہے؟‘

’پسند ناپسند کا سوال نہیں۔ سوال ہے کہ آپ پارٹی میں ہیں تو آپ کو پارٹی کے اصولوں پر چلنا ہے۔‘

’کیا پارٹی اپنے اصولوں پر چل رہی ہے۔؟‘

’نہیں۔‘

’کیا پارٹی ملک کو دھوکہ نہیں دے رہی ہے۔‘

’زبان بند۔‘

’کیا اقلیتوں کو نچایا نہیں جا رہا؟‘

’زبان بند۔‘

’کیا زبان بندی پہلی بار ہو رہی ہے۔؟‘

’نہیں۔ یہ ہمیشہ سے ہے۔ ہم سے پہلے جو آئے، انہوں نے بھی زبان بند رکھی۔‘

’آپ کو کیا لگتا ہے؟‘

محمود خورشید نے سہرا کی طرف دیکھا۔ ’دو ناؤ پر سواری ہماری پارٹی کو مشکل میں ڈال سکتی ہے۔‘

مسیح سہرا کو احساس تھا کہ پرانی عمارت کے ڈھانے کے بعد ملک کا موجودہ ثقافتی، سماجی، معاشرتی ڈھانچہ بھی تبدیل ہو گا۔۔۔۔ اور اس تبدیلی کی آہٹ سیاست سے سماج تک واضح تھی۔

اس رات ریحانہ کے برہنہ جسم سے کھیلتے ہوئے سہرا نے ریحانہ کے پستانوں پر ہاتھ پھیرا تو نرم پستانوں میں گرمی کا احساس نہیں ہوا۔ اس نے ریحانہ کے چہرے کو ہلایا۔

’تمہارے پستان بھی سیاسی ہو گئے ہیں۔‘

’مطلب؟‘ ریحانہ کھلکھلا کر ہنسی۔

’تمہارے مزاج و معیار سے چلتے ہیں۔ میری ہاتھوں کی پرواہ نہیں کرتے۔‘

ریحانہ نے قہقہہ لگایا۔ ’کرائم رائٹر بن گئے ہیں۔‘

’کون؟ پستان۔۔۔۔؟‘

’ہاں۔ جذبات کا پتہ لگنے نہیں دیتے۔‘

مسیح سہرا نے قہقہہ لگایا۔ اور دوسرے ہی لمحے اس نے محسوس کیا کہ ریحانہ کا جسم تندور بن چکا ہے اور پستانوں سے آگ کے شعلے نکل رہے ہیں۔

’سب سیاست۔‘

سہرا زور سے ہنسا اور سفید گھوڑے کی طرح ہوا میں اڑا اور ریحانہ کے جسم پر چھا گیا۔

٭٭٭









(۴)
قدیم شہر: زندگی یا ملبہ



پارلیمانی اجلاس میں، پرانی عمارت کو لے کر مختلف پارٹیوں کے لیڈران نے نہ صرف سوال اٹھائے بلکہ تخریبی عمل کی مخالفت بھی کی۔ کلال پاسبان جم کر گرجے۔ مسیح سہرا نے باہر نکل کر مبارکباد بھی دی۔ میڈیا نے بھی پرانی عمارت کا ساتھ دیا۔ اخبارات نے شرم کی سرخیاں لگا کر جمہوریت کی اہمیت کو واضح کیا۔ مگر محمود خورشید کا خیال تھا کہ یہ تمام باتیں پارلیمانی اجلاس تک محدود ہیں۔۔۔۔۔ اور ایسے تمام مقر رین کب چھلانگ لگا کر کہاں پہنچ جائیں، کوئی بھروسہ نہیں۔ مسیح سہرا نے اس قدیم شہر کا دیدار اس وقت بھی کیا تھا جب وہ پرانی عمارت موجود تھی۔ اور جب اس نے اس سرزمین پر قدم رکھا تھا، تو اس کا پہلا استقبال بندروں نے کیا تھا۔ اس وقت یہ تنازعہ ہنگامی شکل اختیار کر چکا تھا۔ جب اس نے اس سرزمین پر قدم رکھا۔ اس وقت بھی سردیوں کا موسم تھا۔ کچھ جگہوں پر الاؤ جل رہے تھے۔ سورج کے نمودار ہونے تک وہ اس مقام تک پہنچ جانا چاہتا تھا، جہاں پرانی عمارت واقع تھی۔ اب اس جگہ پر پولیس پہرہ دے رہی تھی۔ مگر پرانی عمارت شان سے کھڑی تھی۔ آس پاس جنگلی گھاس اُگی ہوئی تھی۔ عمارت بہت پرانی لگ رہی تھی اور جیسا کہ کہا جا رہا تھا کہ عمارت چارسو برس پرانی ہے۔ سہرا کو اس وقت بھی عمارت کے قریب جانے نہیں دیا گیا۔ مگر وہ اس تاریخی عمارت کو جی بھر کر دیکھنے کے بعد اپنی آنکھوں میں بسا لینا چاہتا تھا۔ درختوں کے جھرمٹ میں عمارت کے گنبد صاف کہتے نظر آئے کہ ابھی پولیس کا پہرہ ہے۔ مگر بھوکی نگاہیں میرا مشاہدہ کر رہی ہیں۔ کرگس آئیں گے اور ساتھ میں چیتے بھی۔ اس وقت دریا کا پانی سرخ ہو گا اور درختوں سے پتے زرد ہو کر زمین پر گر رہے ہوں گے۔ سہرا نے ایک نظر پولیس والوں کو دیکھا اور پھر احساس ہوا کہ قدیم شہر کی یہ قدیم عمارت آثار قدیمہ میں تبدیل ہو گئی ہے۔ بہت سے مزدور ہیں جو کھدائی کر رہے ہیں اور عمارت سے خوفزدہ کرنے والی آوازیں آ رہی ہیں۔



( قدیم آوازوں کی کٹنگ پیسٹنگ سے )



آوازیں بند ہو گئیں۔ سہرا خواب سے جاگا تو زندگی سرائے کا دروازہ بند تھا۔۔۔۔ اور کوئی اس سے دریافت کر رہا تھا کہ تاریخ کو فراموش کرنے میں کتنا وقت لگتا ہے؟ کیا تاریخ کی کوئی اہمیت ہے؟ کیا چار سو برس کی طویل مدت کے بعد بھی تاریخ بدل سکتی ہے؟ سہرا کو محمود خورشید کی باتیں یاد آئیں۔ اس نے ہنس کر کہا تھا کہ تاریخ میں اتنے سوراخ ہیں کہ جیل کی سلاخوں میں بھی نہیں ہوں گے۔ ان سوراخوں کے آر پار کچھ بھی نہیں ہے۔۔۔ اور ہے تو وہ تبدیل ہو جاتا ہے یا کر دیا جاتا ہے۔

سہرا کو مزدوروں کی آوازیں ابھی بھی پریشان کر رہی تھیں۔ ریحانہ کو اس نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔

’وہ اس قدیم شہر کو ایک بار پھر دیکھنا چاہتا ہے۔‘

’اس سے بہتر ہے کہ بھالو کا تماشہ دیکھ لو۔‘

’کیوں؟‘

’تم بھی جانتے ہو کہ موسم بدل چکا ہے۔‘

’اب اتنا بھی نہیں بدلا۔‘

’تمہاری فکر سے زیادہ بدل چکا ہے۔ بلکہ مجھے احساس ہے کہ تمہاری فکر میں بھی کیکٹس چبھ رہے ہوں گے۔‘

’کیوں؟‘

’یہ تو مجھ سے بہتر تم جانتے ہو۔ اور کیوں جانا چاہتے ہو مجھے پتہ ہے۔‘

’تم کچھ نہیں جانتی۔‘

’تم اپنی حیرانیوں کو مزید موقع دینا چاہتے ہو۔‘

’حیران ہونے کا۔‘

’ہاں۔ اور غمزدہ ہونے کا بھی۔‘

مسیح سہرا نے مسکرا کر پوچھا تھا۔ مجھے اتنا کیوں جانتی ہو؟‘

ریحانہ مسکرائی۔ اس لیے کہ میرے اندر کی جنگلی بلی زندہ رہے۔‘

’جنگلی بلّی۔‘

مسیح سہرا ریحانہ کی ان باتوں پر ہی فدا تھا۔ اس نے ایک نرم گداز بوسہ ریحانہ کے حوالے کیا اور دوسرے دن قدیم شہر کی پرانی عمارت کو دیکھنے نکل گیا۔



کبھی یہ قدیم شہر اودھ کے نوابوں کی جاگیریں ہوا کرتی تھیں۔ یہاں کی شان و شوکت اور تھی۔ واجد علی شاہ اس قدیم شہر کے آخری نواب وزیر تھے۔ جب واجد علی شاہ کا اودھ سے حقہ پانی ختم کیا گیا، بیگم حضرت محل نے اس جاگیر کی حفاظت کی۔ انگریز ۱۸۵۶ تک شہر پر شب خون مارنے سے گھبراتے رہے۔ اس شہر کو کر صرف ایک مذہب کی کہانیاں روشن نہیں تھیں، بلکہ اس قدیم شہر پر جین، مسلمان، بودھ سب کی نشانیاں موجود تھیں۔ ایک دفعہ اس قدیم شہر میں ایک گڑھی کو لے کر تنازع پیدا ہوا تو نواب واجد علی شاہ نے ہندوؤں کے حق میں فیصلہ سنایا۔

ہم عشق کے بندے ہیں، مذہب سے نہیں واقف

گر کعبہ ہوا تو کیا، بت خانہ ہوا تو کیا

عشق کے بندے، عشق سے دور ہو گئے، بت خانہ آباد ہوا اور پرانی عمارت ملبہ میں تبدیل ہو گئی۔ ۱۲ ویں سے ۱۷ ویں صدی تک اس شہر پر مسلمانوں کی حکومت رہی۔ شمال میں میلوں پھیلی ہوئی سرمئی زمین۔ کچھ مٹی کے ٹیلے۔ اسٹیشن پر وہی بندروں کا ہجوم۔ اور اسٹیشن پر قدیم شہر کی سواری چیختے ہوئے ٹیمپو والے۔ مغربی علاقے کی طرف کچھ کچے پکے مکانات۔ مسیح سہرا کی آنکھیں اس پرانی عمارت کو تلاش کر رہی تھیں۔ مگر اب وہاں ملبہ تھا اور ملبہ کا کچھ حصہ زعفرانی چادر سے گھرا ہوا تھا۔ مزدور پسینہ بہاتے ہوئے کھدائی کر رہے تھے۔ سہرا کو شہر کی فصیلیں نظر آ رہی تھیں۔ وہ دوبارہ ان آوازوں کی زد میں تھا، جو اس نے پچھلی بار سنی تھیں۔ مزدوروں کو یہ آوازیں سنائی نہیں دے رہی تھیں۔ کافی تعداد میں پولیس والے تھے۔ سہرا کو دور ہی روک دیا گیا۔ رسّیوں کا ایک گھیرا بنایا گیا تھا۔ گھیرے کے پاس کھڑے لوگ اب بھی چیخ رہے تھے اور نعرے لگا رہے تھے۔ مسیح سہرا کو اس وقت پہلی بار دورہ پڑا تھا۔

یہاں پرانی عمارت تھی۔

اب نہیں ہے۔۔۔

ابّا حضور تھے۔۔۔

اب نہیں ہیں۔۔۔

امّاں حضور تھیں۔۔۔

اب نہیں ہیں۔۔۔

پرانی عمارت میں تین گنبد تھے۔۔۔

اب کچھ بھی نہیں ہیں۔۔۔

— اس کے بچپن کا ایک دوست رفیق تھا۔

— اب نہیں ہے۔

پرانی عمارت تھی۔ اور یہ نظروں کا دھوکہ نہیں ہے۔

— مگر اب نہیں ہے۔۔۔

— صرف انسان نہیں گم ہوتے۔ نقشے گم ہو جاتے ہیں۔ عمارتیں گم ہو جاتی ہیں۔ مکاں گم ہو جاتے ہیں۔ مکیں گم ہو جاتے ہیں۔

مسیح سہرا ہے۔۔۔

مسیح سہرا بھی نہیں رہے گا۔

یہ مردوں کی بستی ہے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے کھنڈرات سے بلند ہونے والی آوازیں دوبارہ اس کے کانوں میں چنگھاڑنے لگیں۔ سہرا کو لگا، روحیں ہیں جو آثار قدیمہ میں بھٹک رہی ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے گھیرا بندی کرنے والی رسّی بوسیدہ دھاگے میں تبدیل ہو گئی اور اس نے الجھے دھاگوں کو ٹوٹتے ہوئے دیکھا۔ پھر اس نے دیکھا کہ جو لوگ رسّیوں کے پیچھے کھڑے تھے، وہ ارواح میں تبدیل ہو گئے۔ ان کے لباس سفید تھے۔ پاؤں ہوا میں معلق تھے۔ آسمان کا رنگ گیہواں تھا۔ ایک سفید گھوڑا تھا، جو آسمان پر اڑ رہ تھا اور بادلوں کے نرغے میں وہی عورت تھی، جو نقاب پہنے تھی۔ اس کی آنکھوں میں غصے کی چمک تھی۔ سہرا نے زیر لب بڑبڑانا جاری رکھا۔

وہ ہے۔۔۔

وہ نہیں ہے۔۔۔

پرانی عمارت تھی۔۔۔ پرانی عمارت اب نہیں ہے۔۔۔

ملبے کو دیکھنے والے ابھی، یہیں رسّیوں کے قریب جھول رہے تھے۔۔۔

اب یہ ارواح ہیں اور مر چکے ہیں۔

وہ مردوں کی بستی میں ہے اور مردوں کے ساتھ چل رہا ہے۔ سہرا کی سانسیں گھٹ رہی تھیں وہ اضطرابی کیفیت میں تھا۔ گھر لوٹنے تک وہ اسی کیفیت میں رہا۔ ریحانہ نے اس کی طرف دیکھا۔ مگر بے آواز رہی اور خاموشی سے اس کی طرف دیکھتی رہی۔

’کیا میں ہوں۔‘

’ہاں تم ہو۔ اور میں بھی ہوں۔‘

پھر اسے کچھ یاد نہیں۔ پرانی عمارت، ملبہ، ارواح جیسے کچھ الفاظ دہراتے ہوئے اس پر بے ہوشی طاری ہو گئی۔

ریحانہ کے مطابق وہ ۴ گھنٹے تک بے ہوش رہا۔

سہرا کو یقین ہے، یہ چار لمحے اس نے اس عورت کے ساتھ گزارے جو بادلوں کے درمیان نقاب لگائے کھڑی تھی اور اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔







(۵)



پارلیمانی اجلاس کے ساتویں دن گاڑی سے اترتے ہی کلّا پاسبان سے دوبارہ ملاقات ہو گئی۔ اس کی داڑھی بڑھی تھی۔ رنگ کالا تھا۔ لمبا تھا اور زیادہ تر سفاری سوٹ میں ہوتا تھا۔ وہ ان لیڈروں میں سے ایک تھا جو وقت کے ساتھ بھی تبدیل نہیں ہوتے۔ وہ اقلیتوں کے حقوق کی باتیں کرتا تھا۔ ملک کی سالمیت اور جمہوریت کی باتیں کرتا تھا اور ایک خاص طبقہ کے درمیان وہ مقبول ترین لیڈروں میں سے ایک تھا۔ مسیح سہرا نے پاسبان کے ہاتھوں کو گرمجوشی سے اپنے ہاتھ میں لیا۔

’آپ نے کمال کر دیا۔‘

’کیسا کمال۔‘

’اس دن جو آپ نے تقریر کی۔‘

’ارے یار‘ پاسبان مسکرایا۔ ’قیدیوں کی تکلیف سننے کے لیے کہاں جاؤ گے، ظاہر ہے جیل میں؟ وہاں ان کے پسینے کی بدبو بھی سونگھو گے۔ یہ اقلیت بھی قید میں ہیں اور صدیوں سے سسٹم انہیں قید کرتا رہا ہے۔ انہیں روشنی سے زیادہ پیار کی ضرورت ہے۔ یہ ہمارے اپنے ہیں۔ پرانی عمارت ڈھا دی گئی؟ بنیاد کیا تھی؟ محافظ ہی دشمن بن جائیں تو۔۔۔۔۔‘

’آپ اتنا سوچتے ہیں۔‘

’سوچنا پڑتا ہے اور بولنا تو آپ کو بھی چاہیے۔ ایک انہیں سسٹم لگاتار صاف کرنے پر مجبور ہے اور یہ سہارا چاہتے ہیں۔ سیاست میں آنے کا مطلب کیا ہے؟ سیاست میں ہمارے کون ہیں۔ یہی محدود اقلیت والے۔ ان کے حقوق کے لیے لڑنا ہو گا۔ اتنی زحمت تو اٹھانی ہو گی۔‘

’لیکن اقلیتوں کے بارے میں کون سوچتا ہے۔‘

’سوچنا تو ہو گا۔ اقلیتیں محض ووٹ بینک بن کر رہ گئی ہیں۔ ان کو اپنی مضبوطی کا احساس کرانا ہو گا۔ مسیح سہرا کے لیے یہ ایک بے حد خاص دن تھا۔ کلّا پاسبان کی باتوں نے اس پر اثر کیا تھا۔ مگر مجبوری تھی کہ پارٹی لائن کو دیکھتے ہوئے وہ زبان بندی کے لیے مجبور تھا۔ اس رات سیاسی مرڈر کے لیے اس نے ایک اور منظر لکھا۔ ایک واقعہ پیش آیا تھا۔ ہائی کورٹ کے ایک جج نے پریس کانفرنس میں اس بات کا اعلان کیا تھا کہ اس کی آواز کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ عدلیہ اور حکمراں طبقہ میں میل جول نہیں ہو سکتا۔ پھر اسی جج نے ناظم پورہ کے ان پولیس والوں کی رہائی کا حکم دیا تھا، جن کے قتل کے شواہد موجود تھے۔ یہ ایک دلچسپ منظر تھا اور مسیح سہرا نے اس منظر کو اسی طرح لکھا جس طرح یہ پیش آیا تھا۔ ناظم پورہ پولیس والوں کی رہائی کے بعد جب دوبارہ پریس کانفرنس ہوئی تو جج بھٹاچاریہ سے پریس والوں نے کئی طرح کے سوال پوچھے، لیکن بھٹاچاریہ کے پاس ہر سوال کا جواب موجود تھا۔

’جب پولیس والے بے گناہوں کو لیے جا رہے تھے۔۔۔۔۔؟‘

’میں وہاں نہیں تھا۔‘

’وہ اقلیت تھے اور خوفزدہ اور اپنے ہاتھ اٹھائے ہوئے تھے۔۔۔۔۔‘

’میں وہاں نہیں تھا۔‘

’کچھ دن پہلے آپ نے ایک پریس کانفرنس کی تھی۔۔۔۔‘

’مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ اور آپ بھی یاد رکھیے کہ آئین اور عدلیہ پر سوال اٹھانا بھی جرم ہے۔ آپ کو اس کی سزا مل سکتی ہے۔‘

’کیا پولیس والوں کا کوئی قصور نہیں تھا۔‘

’پولیس مجرموں کو پکڑنے کے لیے ہوتی ہے۔‘

’کیا وہ بے قصور تھے یا بے گناہ؟‘

’وہ مجرم تھے۔‘

’کیا اقلیت میں ہونا مجرم ہونا ہے۔؟‘

’مجرم کوئی بھی ہو سکتا ہے۔‘

’لیکن شواہد موجود ہیں۔۔ فوٹیج موجود ہے۔ تصاویر موجود ہیں۔‘

’ثبوت کوئی بھی نہیں۔‘

’ثبوت تو تصویریں ہیں۔‘

’تصویروں کو ثبوت نہیں مانا جا سکتا۔‘

’اچھا، ایک سوال اور۔۔۔۔۔۔ جو مجرم جیت کر پارلیمنٹ پہنچ جاتے ہیں۔‘

’پھر وہ مجرم نہیں رہتے۔‘

’سیاست بدل رہی ہے یا دنیا؟‘

’دونوں طرف تبدیلی کا استقبال کرنا چاہیے۔‘



ll

مسیح سہرا کو پرانی عمارت کا ڈھایا جانا ہندوستان اور سیاست کے لیے ایک ٹرننگ پوائنٹ لگتا ہے۔ اس موقع پر جشن منانے والوں کی کمی نہیں تھی۔ ایک بڑا طبقہ اسے فتح کے طور پر لے رہا تھا اور دوسرا طبقہ صدمے میں گم۔ مسیح سہرا جانتا تھا کہ یہ سیاست آگے بھی چلتی رہے گی اور ایک مخصوص طبقے پر اپنا اثر ڈالے گی۔ اس کا ناول سیاسی قتل مکمل ہو چکا تھا۔ وہ اس ناول پر ہونے والے ہنگامے سے واقف تھا لیکن یہ بھی جانتا تھا کے سیاست میں ایسا ہوتا رہتا ہے اور بہت سے راستے کھلے رہتے ہیں۔ سیاسی قتل پریس میں جا چکا تھا۔ ان دنوں ریحانہ امید سے تھی سہرا اس کا پورا خیال رکھتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اس موقع پر عورت کیا چاہتی ہے۔ اس کو آرام سے زیادہ شوہر کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ ایک اچھا شوہر بن کر دکھانا چاہتا تھا۔

پرانی عمارت گرنے کے بعد کئی شہروں میں فسادات ہوئے۔ نفرت کی آگ بڑھتی جا رہی تھی۔ اس رات سہرا نے پھر ایک خوفزدہ کرنے والا خواب دیکھا۔ یہ خواب وہ مسلسل قدیم شہر سے لوٹنے کے بعد دیکھ رہا تھا۔ وہی، وحشیوں کا ہجوم جو پرنی عمارت کے گنبد پر چڑھ گئے ہیں اور پرندوں کا ہجوم واپس جا رہا ہے۔ پھر اس وحشی ہجوم کو اس نے اپنے گھر کے دروازے پر دیکھا۔ لیکن ایک بات عجیب تھی۔ وحشی ہجوم کے گھیرے میں ریحانہ تھی۔ اور ریحانہ کے ہاتھ خون سے تر بتر تھے۔ خواب کی یہ تعبیر سہرا کو ایک ماہ بعد سمجھ میں آئی۔ جب رات کے پچھلے پہر ریحانہ کی تیز چیخ گونجی۔ سہرا خوفزدہ ہو کر اٹھ گیا۔ کمرے میں روشنی کی۔ ریحانہ کو دیکھا۔ وہ بستر پر تڑپ رہی تھی اور اس کے ہاتھ خون سے بھیگے تھے۔ رات کے وقت ہی سہرا ریحانہ کو لے کر مدر اسپتال گیا۔ وہاں کے معالج نے ریحانہ کو فوراً آپریشن تھیٹر بھیج دیا۔ کاریڈور میں کھڑا ہوا سہرا رب سے دعائیں مانگ رہا تھا۔

دھند۔۔۔۔ دھند میں کتنے چہرے کھو جاتے ہیں۔ عمارت کھو گئی۔ ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو گئی۔ کچھ ہی دیر بعد ڈاکٹروں نے آ کر بتایا کہ ۵ ماہ کا حمل تھا۔ سہرا زور سے چیخا۔ گوشت کا زندہ لوتھڑا۔۔۔۔؟

اس کی آنکھیں بند تھیں۔ وہ ریحانہ کے پیٹ میں تھا۔ پیٹ سے ہی چلا گیا۔۔۔۔ اندھیرے سے اندھیرے کی طرف۔ تین دن تک ریحانہ اسپتال میں رہی۔ وہ خود کو نارمل کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ مگر سہرا کو احساس تھا کہ وہ جلد نارمل نہیں ہو سکے گا۔ وہ پانچ ماہ کے گوشت کے لوتھّڑے کو دیکھ بھی نہیں سکا۔ لوتھڑا، جس میں اس کا خون بھی شامل تھا۔ ایسا بھی ہوتا ہے، جسم کے اندھیرے سے بھی ایک راستہ انجان جزیرے کی طرف جاتا ہے۔ ایک ایسے جزیرے کی طرف جہاں روشنی کا کوئی تصور نہیں ہے۔ گھر آنے کے ایک ہفتہ کے اندر ریحانہ نے بہت حد تک خود کو نارمل کر لیا تھا مگر مسیح سہرا پر دورے پڑنے شروع ہو گئے تھے۔ اور اس رات جب آسمان میں چاند روشن تھا، اس کا خیال تھا کہ شہر کی فصیلوں پر بھیڑیے دوڑ رہے ہوں گے۔ متواتر دوڑنے کے عمل سے دھول اڑ رہی ہو گی۔ گزر گاہوں سے بنجاروں کا قافلہ جا رہا ہو گا۔ بے نیاز۔ اور بھیڑیے اچانک بنجاروں پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔

تم نے آواز سنی۔۔۔۔ سہرا کا چہرہ سپید پڑ گیا تھا

کیا؟ ریحانہ نے پوچھا۔۔۔

وہ تھا۔۔۔۔۔

اب نہیں ہے۔۔۔۔

مگر وہ تھا۔ گوشت کا لوتھڑا۔

ریحانہ زور سے چیخی۔ میں بھول چکی ہوں۔ تم بھی بھول جاؤ۔

’کیسے؟ میں نے تو اسے دیکھا بھی نہیں۔ وہ تنہائی سے تنہائی میں گزر گیا۔ خیال سے خیال آباد میں، تاریکی سے نکل کر خوفناک تاریکی میں۔۔۔۔۔۔‘

’وہ نہیں ہے۔ اور تمہارے جذباتی ہونے سے۔۔۔۔۔‘

سہرا زور سے چیخا۔ میں جذباتی نہیں ہوں۔ اس سے رشتہ تھا میرا۔۔۔۔ اور اس کو میں دیکھ بھی نہیں سکا۔‘

سہرا سسک رہا تھا۔ دھند میں بنجاروں کی تکا بوٹی کی ہوئی لاشیں پڑی تھیں۔ سہرا کو کب نیند آئی اسے پتہ بھی نہیں چلا۔

صبح آسمان زرد تھا۔ ریحانہ نے بتایا کہ آندھی آئی تھی مگر وقفہ کم تھا۔ کچھ دیر میں ہی آندھی گزر گئی۔ وہ ڈرائنگ روم میں آ کر کچھ دیر تک اخبار پڑھتا رہا۔ اسے احساس ہوا کہ تمام باتیں جھوٹی ہیں۔ سیاست جھوٹ کے راستے پر چل پڑی ہے۔ اس کی انتہا خطرناک ہو سکتی ہے۔ اس کی خاموشی میں اجنبیت کا عنصر قائم تھا۔ اس وقت وہ خود کی شناخت نہیں کر پا رہا تھا۔ اس کی کتاب مارکیٹ میں آ چکی تھی۔ مگر وہ ابھی کتاب کے بارے میں کچھ بھی سوچنا نہیں چاہتا تھا وہ خود فراموشی کی کیفیت میں تھا مگر وہ لوتھڑا بار بار اس کی نگاہوں کے سامنے آ کر اس کو زخمی کر رہا تھا۔

ریحانہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی اس کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔

’تم اس پورے ہفتے کہیں نہیں گئے۔‘

’ہاں۔‘

’سیاست میں ہو۔ سیاست میں گرگٹ بننا پڑتا ہے۔‘

’میں نہیں بن سکتا۔‘

’پھر لومڑی بن جاؤ۔‘

’وہ بھی نہیں۔‘

’پھر سیاست میں کیوں ہو۔؟‘

’میرا خیال ہے۔۔۔۔۔ مسیح سہرا آہستہ سے بولا۔۔۔ سیاست مجھ سے اپنا رشتہ ختم کر رہی ہے۔ اور یہ بہت جلد ہو گا۔‘

’انتظام تم نے ہی کیا ہے۔‘

’ہاں۔ سیاسی قتل۔‘

’یہ قتل تمہارا بھی ہو سکتا ہے۔ سیاسی قتل۔۔۔۔۔‘

ریحانہ آہستہ سے بولی۔ اس کے بعد وہ رُکی نہیں۔ کمرے سے باہر نکل گئی۔

٭٭٭





(۶)



سہرا کے سر میں تکلیف ہے۔ بہت کچھ گڈ مڈ ہو رہا ہے۔۔۔۔ اور گڈ مڈ ہونے کا احساس کوئی نیا نہیں۔ مثال کے لیے اس وقت تیسری آنکھ سے وہ سب کچھ دیکھ سکتا ہے۔ وہ دیکھ سکتا ہے کہ اعلیٰ کمان تک اس کا ذکر ہو رہا ہے۔ وہ دیکھ رہا ہے کہ پارٹی میں اس کی موجودگی کو پسند نہیں کیا جا رہا ہے۔ اور وہ جانتا ہے کہ میٹنگ میں اس کے بارے میں کیا فیصلہ ہو سکتا ہے۔ اس وقت وہ سب کچھ دیکھ سکتا ہے اور اس کی تیسری آنکھ کھلی ہے۔ ناسترو دومس اس تیسری آنکھ میں خود آ کر بیٹھ گیا ہے۔ اور وہ اسے اس منظر کو دکھانے کی کوشش کر رہا ہے۔، جو وہ دیکھنا نہیں چاہتا۔ ایک ہال ہے۔ ایک بڑی سی میز ہے۔ محمود خورشید اور پارٹی کے دوسرے ممبرز خاموش بیٹھے ہیں۔ محمود خورشید انہیں ناول کے کچھ الگ الگ حصے پڑ کر سنا رہا ہے۔ اس منظر میں اعلیٰ کمان اور قومی صدر کی موجودگی نہیں ہے۔ ذمہ داری کچھ ممبرز پر ڈالی گئی ہے۔ محمود خورشید کچھ الگ الگ حصے سنانے کے بعد خاموش ہو جاتے ہیں۔

سنیتا میڈم کی آواز ابھرتی ہے۔ ویری بیڈ

اعظم قریشی کہتے ہیں۔ باسٹرڈ۔۔۔۔۔ اور چپ ہو جاتے ہیں۔

محمود خورشید کا بیان آتا ہے۔ زیادہ توجہ دینے کی ضرورت نہیں۔ تیسرے درجے کا ادیب ہے۔‘

اعظم قریشی کہتے ہیں۔ مگر عوام میں مقبولیت تو ہے۔۔

رنجن ریڈی کہتے ہیں۔ اقلیتوں کا ووٹ بینک ختم ہو جائے گا۔

محمود خورشید جواب دیتے ہیں۔ کم ہو سکتا ہے ختم تو نہیں ہو گا۔

نیل سریواستو کے چہرے پر الجھن ہے۔ سہرا کو سمجھنا تو چاہیے تھا کہ وہ پارٹی میں ہے۔ پارٹی کے کچھ اصول ہوتے ہیں۔ اس نے تو صاف صاف لکھ دیا کہ سب کچھ راؤ کی نگرانی میں ہوا۔ ذمہ دار راؤ ہے۔

محمود خورشید مسکرائے۔ سب کچھ صاف۔ بی مشن کی ذمہ داری کم۔ حکومت کی زیادہ۔ قاتل ہم ہیں۔ یہی پیغام دیا گیا۔

’یہ پیغام دور تک جائے گا۔‘

’ضرور جائے گا۔‘ رنجن ریڈی نے کہا، وہ عوام میں پسند کیا جاتا ہے۔ اس کی باتوں کو سنجیدگی سے لیا جائے گا۔

نیل سریواستو نے کہا۔ یہ سیدھے سیدھے بغاوت ہے۔

رجنی سنگھ نے ایک نظر سب کی طرف دیکھا۔ پھر کہا۔ لیکن کیا یہ غلط ہے۔ ایسا تو ہوا ہے۔ اس سے ایک اور پہلو سامنے آتا ہے کہ پارٹی میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو صرف کٹھ پتلی نہیں ہیں۔

’یہ پیغام کتنے لوگ سمجھیں گے۔؟‘

رجنی نے نیل سریواستو کی طرف دیکھا۔ کیا راؤ کی مرضی کے بغیر پرانی عمارت کو ڈھایا جانا آسان تھا؟‘

’آپ بھی سیدھے سیدھے بغاوت کر رہی ہیں۔‘

’ابھی بغاوت کئی لوگ کریں گے۔‘ رجنی کی آواز گونجی۔ میں بھولی نہیں ہوں۔ جب امرتسر گولڈن ٹیمپل میں گولیاں چلی تھیں۔ اب یہ حادثہ۔ کیا اس حادثہ کو روکا نہیں جا سکتا تھا۔؟

نور پٹیل نے لقمہ دیا۔ ’کیا آپ بھی راؤ پر الزام لگا رہی ہیں۔؟‘

’میں پوچھ رہی ہوں۔‘

’کیا اس طرح کی باتیں ان حالات میں پوچھنا مناسب ہے۔؟‘

محمود خورشید نے کہا۔ ’ہم یہاں مسیح سہرا پر فیصلہ لینے آئے ہیں۔‘

نور پٹیل نے سختی سے کہا۔ اعلیٰ کمان ناراض ہیں۔ بہتر ہو گا کہ اسے پارٹی سے بغاوت کرنے کے جرم میں۔۔۔۔۔‘

’یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ پارٹی مسیح سہرا کے خیال سے اتفاق نہیں کرتی۔‘

’یہ معاملہ طول پکڑ چکا ہے۔‘

’ہر معاملہ طول پکڑ تا ہے۔‘

’یہ آزادی کے بعد کا سب سے اہم معاملہ ہے۔‘

’اور ہماری ہی پارٹی کو قصوروار کہا جا رہا ہے۔‘

رجنی نے دوبارہ بولنا شروع کیا۔ ’پارٹی میں بولنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ پھر تو میں بھی جلد نکال دی جاؤں گی۔‘

نور پٹیل بولے۔ ’پھر تو آہستہ آہستہ سب بغاوت کرنے لگیں گے۔‘

’کبھی بغاوت کے بارے میں سوچا ہے۔؟‘ نور پٹیل نے مسکرا کر پوچھا۔ ’پارٹی کے لیے مشکل یہ ہو گا کہ ریاستی سطح کی پارٹیاں کامیابی کے ساتھ کھڑی ہو جائیں گی اور دوسرا راستہ بی مشن بن جائے گا۔ بی مشن کو کم نہ سمجھئے۔‘

’حالات کچھ ایسے ہی ہیں۔

’میں نہیں مانتا۔‘ نور پٹیل نے لقمہ دیا۔ وہ سنجیدہ تھے۔ ہماری پارٹی۔۔۔۔۔۔۔‘

’اب وقت بدل رہا ہے نور پٹیل صاحب۔‘

’ہندوستان میں اکیلی ہماری پارٹی ہے۔۔۔۔۔‘

’میں سوچتی ہوں۔‘ رجنی نے بات آگے بڑھائی۔ ریاستی سطح پر ہمارا زوال شروع ہو چکا ہے۔ ہمیں سوچ سمجھ کر فیصلہ لینا ہے۔ یہاں سے بغاوت ہو گی تو ریاستی پارٹیاں اور بی مشن کا راستہ کھلے گا۔ پارٹی کو گمان و غرور سے باہر نکلنا چاہیے۔

’پھر کیا کرنا چاہیے؟‘ محمود خورشید کی آواز کمزور تھی۔

’ہم ایک بار اعلیٰ کمان سے بات کریں۔ پھر کوئی مناسب فیصلہ لیں۔‘ رنجن ریڈی بولے

’بہتر۔‘

اعلیٰ کمان سے بات اور اگلی میٹنگ پر سب کی مہر لگ گئی — اور میٹنگ برخاست ہو گئی۔

سہرا کا خیال تھا کہ ابھی طوفان کا زور ختم نہیں ہوا ہے۔ ایک سلسلہ ہے، جو ابھی ختم نہیں ہو گا۔ ابھی ان طوفانوں کو آنا بھی باقی ہے جو ملک کی تقدیر کا نیا صفحہ لکھیں گے۔

سہرا کھڑکی کھولتا ہے تو سامنے عمارتیں نظر آتی ہیں۔ وہ کھڑکی کی سلاخوں کو تھامے سامنے اُگی ہوئی جھاڑیوں کو دیکھتا ہے۔ کچھ دیر بے بسی کے عالم میں یونہی باہر کی طرف دیکھتا رہتا ہے۔ واپس اپنے کمرے میں لوٹتا ہے تو دیوار سے لگے ریک پر سجی ہوئی اپنی کتابوں کو دیکھتا ہے۔ سرائے میں قتل۔۔۔۔ قاتل عورت، موت ہے دروازے پر۔۔۔۔ وہ اپنی ہی کتابوں سے خوفزدہ ہو جاتا ہے۔ اس کا دل کرتا ہے کہ وہ کچھ دیر کے لیے باہر نکل جائے، اس وقت اس کو کھلی اور خوشگوار ہوا کی ضرورت ہے۔۔۔۔ اور بند بند فلیٹ سے اس کو گھٹن ہو رہی ہے۔ دروازہ کھول کر وہ کچھ دیر کے لیے باہر نکلتا ہے۔ مخالف سمت میں جامن کے درخت ہیں۔ ایک چھوٹا سا پارک ہے پھر ایک قطار سے کچھ دکانیں بنی ہوئی ہیں۔ کچھ لوگ اسے پہچانتے بھی ہیں۔ مگر اس وقت وہ خود کو لوگوں کی نظروں سے چھپانا چاہتا ہے۔ اسے ایک بڑی تبدیلی کا احساس بھی ہوتا ہے۔ پرانی عمارت کے ڈھائے جانے سے اخلاق اور کردار دونوں متاثر ہوئے ہیں۔ اب ایک نئی بحث چل پڑی ہے۔ اسے شدت سے احساس ہے کہ وہ حاشیہ پر آ گیا ہے۔ اسے ریحانہ کی لہو سے تر انگلیاں نظر آتی ہیں۔ اس وقت وہ پریشان ہے۔ اس لیے ذہن و دماغ کی سکرین پر ایک کے بعد ایک منظر تبدیل ہو رہا ہے۔ اور شاید یہ سب بہت ڈراؤنا ہے۔ آنے والے وقت میں بہت کچھ تیزی سے بدل جائے گا۔ سامنے کے فلیٹ سے ایک لڑکی اترتی ہے۔ وہ اس لڑکی کو جانتا ہے۔ عام دنوں میں یہ لڑکی سہرا کی طرف دیکھ کر ہیلو انکل ضرور کہتی تھی۔ پھر یہ بھی پوچھتی تھی کہ ان دنوں آپ کیا لکھ رہے ہیں۔ اسے یقین ہے، لڑکی نے اسے دیکھا ہے۔ مگر وہ خاموشی سے آگے بڑھ گئی۔ ممکن ہے وہ جلدی میں ہو۔ مگر ایک پہلو اور بھی ہے کہ نظریں بدل رہی ہیں۔ اس وقت وہ شکست خوردہ ہے۔ اور اس لیے اس کے ساتھ پارٹی کوئی بھی فیصلہ سنا سکتی ہے —

اس کے پاس میڈیا والوں کے کئی فون آئے۔ اخبارات سے فون آئے۔ مگر وہ ایک خوفزدہ شخص ہے۔ اس لیے سہرا نے کسی سے گفتگو کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی۔ گھر کے فون بجتے رہے۔ اس نے ریحانہ کو بھی ہدایت کر رکھی تھی کہ فون نہ اٹھایا جائے۔ اسے کسی سے بات نہیں کرنی ہے۔ پبلشر کا فون آیا تھا کہ یہ کتاب سابقہ کتابوں سے زیادہ مقبولیت حاصل کر رہی ہے۔ بلکہ ریکارڈ بنا رہی ہے۔ سہرا کو یقین ہے کہ معاوضہ اس بار زیادہ ملے گا۔ اگر پارٹی سے الگ ہوتا ہے تو وہ دوبارہ لکھنے کی طرف لوٹ آئے گا اور بار پبلشر سے بڑی قیمت وصول کر لے گا اور نیا معاہدہ تیار کرے گا۔

سہرا اچانک ٹھہرتا ہے۔ وہی خانہ بدوشوں کی ٹولی۔ یہ خانہ بدوش دور سے اپنے لباس میں نظر آ جاتے ہیں۔ سہرا کو احساس ہوتا ہے، پہلے یہ خانہ بدوش ملک میں نظر نہیں آتے تھے اب بہت تیزی سے ان کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔۔۔۔ اور اسے یقین تھا کہ ایسے خانہ بدوشوں کے گھر بار نہیں ہیں۔ وحشیوں کے پاس احساس و جذبات نہیں ہوتے۔ یہ خانہ بدوش در اصل وحشیوں کے قبیلے سے ہیں اور یہ ہر وقت ہتھیار سے لیس رہتے ہیں۔۔۔ اور اب یہ ملک کے چپّے چپّے پر پھیل رہے ہیں۔

وہ دیر تک ان وحشیوں کو دیکھتا رہا جو نعرے لگاتے ہوئے سڑک سے گزر رہے تھے۔ سہرا کو خبر ملی تھی کہ رجنی سنگھ نے پارٹی چھوڑ دی اور خاموشی سے بی مشن کو جوائن کر لیا۔ جوائن کرتے ہوئے اس نے بیان دیا کہ پارٹی اپنے اصولوں سے الگ ہو کر کمزور پڑ گئی ہے۔۔۔۔ اور آہستہ آہستہ پارٹی کمزور ہو جائے گی۔ کلا پاسبان نے بیان دیا تھا کہ ملک کی جمہوریت اور ملت کو قائم رکھنے کے لیے سب کو ایک ساتھ ہو کر چلنا ضروری ہے۔ سہرا ان بیانوں کی حقیقت جانتا تھا۔ مگر اس وقت اس کے ذہن میں وحشی ناچ رہے تھے۔ کچھ دیر کی آوارہ گردی کے بعد وہ گھر آ گیا۔ ریحانہ نے خاموشی سے پوچھا۔

’تمھارے چہرے پر تین طرح کے تاثرات ملتے ہیں۔‘

سہرا ایکدم سے چونک گیا۔ ’وہ کیا۔؟‘

’پہلا تاثر۔ بغیر ہتھیار کے خود سے جنگ کر رہے ہو۔

’دوسرا؟‘

’خرگوش اور لومڑی میں فرق کرنا بھول گئے ہو۔‘

’مطلب۔؟‘

’کنفیوز ہو۔‘

’اور تیسرا۔؟‘

’ٹھگ بننے جا رہے ہو۔‘

’ٹھگ۔۔۔ امیر علی جیسا۔۔۔۔۔‘ سہرا نے چونک کر دیکھا۔

’امیر علی کیوں۔ دنیا میں صرف ایک ہی ٹھگ ہے کیا۔۔۔۔۔؟‘

’میں ٹھگ کیسے ہو گیا؟‘

ریحانہ زور سے ہنسی۔۔۔۔۔ ’تمھارے اندر جو کشمکش چل رہی ہے، اس کو مجھ سے زیادہ کوئی نہیں جان سکتا۔۔۔۔۔ اور کشمکش یہ ہے کہ سیاست سے الگ ہوتے ہو تو پبلشر کو ٹھگو گے۔۔۔۔۔‘

’مائی گاڈ۔‘

سہرا اداس موسم سے ایک لمحے میں باہر نکل آیا۔ یہ عورت؟ یہ عورت پاگل ہے یا ناسترودومس؟ یہ کتنا پہچانتی ہے اس کو۔ یہ اس کی آنکھوں کو پڑھتی ہے۔ اور دل کے تمام راز جان لیتی ہے۔ سہرا نے قہقہہ لگایا۔ کتنے دنوں بعد وہ کھل کر ہنسا تھا۔ اس کی چوری پکڑی گئی تھی۔ ریحانہ نے مسکراتی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھا۔

’چاند کو زیادہ مت دیکھا کرو۔ تمھارے لیے چائے لاتی ہوں۔‘

سہرا کے ہونٹوں کی مسکراہٹ گہری ہو گئی۔

’یہ تم ہی ہو جو مجھے قدیم شہر کے ملبے سے صاف نکال لیتی ہو۔‘

سہرا کو نہیں پتہ کہ ریحانہ تک اس کی آواز پہنچی یا نہیں پہنچی۔ کافی دنوں بعد گھر کا ماحول بدلا تھا۔ وہ ابھی کچھ اور سوچنے کی منزل میں نہیں تھا۔ سیاست سے اس کی نفرت بڑھتی جا رہی تھی۔









(۷)
پھر وہی خانہ بدوش



وہ ہتھیاروں سے لیس آسمان سے ٹپکے اور زمین پر چھا گئے۔ وہ زمانۂ قدیم کی تہذیبوں کو زندہ کرانے آئے تھے اور اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ پہلے بھی وہ خانہ بدوش تھے۔ صحرا صحرا بھٹکتے تھے۔ اور پتھروں سے آگ نکالتے تھے۔ چھریاں چاقو بناتے تھے اور خانہ بدوشوں کو زمین کا ہر خطہ اپنا لگتا تھا۔۔ وہ ایک بار پھر نئی تاریخ کے روبرو کھڑے تھے۔ جب پتھر نرم تھے اور ہاتھ کھردرے، وہ لہو کی نمائش دیکھنے آئے تھے۔۔۔ اور ان خانہ بدوشوں میں سے کچھ نے مہذب دنیا کو اختیار کیا ہوا تھا اور ان کے ارادے بلند تھے، ان کے گھوڑے ہوا سے باتیں کرتے تھے۔

وشال کرشن ناتھانی قدما کی کتابیں پڑھتا تھا اور نرم اسلحے جمع کرتا تھا۔ اسے یقین تھا، اس نے موجوں کا رُخ تبدیل کر دیا ہے۔ ہوا اس کے اشارے کی محتاج ہے۔ زمین پر خانہ بدوشوں کے قدم جم چکے ہیں اور اب لال قلعہ کی فصیلوں سے پرچم لہرانے کا وقت آ چکا ہے۔ اس وقت بانسری جوشی اس کے ساتھ تھے۔ موسم بہار کا تھا مگر گفتگو میں سنجیدگی تھی۔

— ملبے سے زلزلے کی آوازیں آ رہی ہیں۔

وہم ہے، بانسری جوشی نے کہا۔

—ہم ملبہ سے اٹھیں گے۔

’اور چاروں طرف پھیل جائیں گے۔‘

’مگر کچھ خانہ بدوش۔۔۔۔۔‘ بانسری جوشی کے لہجہ میں شک کے جراثیم تھے۔

’کچھ لوگ۔‘ وشال کرشن ناتھانی دیر تک کمرے میں ٹہلتے رہے۔ پھر بانسری جوشی سے مخاطب ہوئے۔ یہ کچھ لوگ ہمیشہ سے ہیں۔ ان خانہ بدوشوں کو ساتھ لے کر چلنا کبھی کبھی دشوار ہو جاتا ہے۔

’ان میں باغی بھی ہیں۔‘

’اور یہ فیصلہ کرنا مشکل کہ کون ہمارے ہیں اور کون باغی۔‘ وشال کرشن ناتھانی نے عینک اتاری۔ آنکھوں کو صاف کیا۔ بانسری جوشی کی طرف دیکھا۔

’کیا جمنا کا پانی مختلف سمت بہہ رہا ہے۔؟‘

’اس کا رخ ہماری طرف ہے۔‘

’یہاں سے لال قلعہ کی فصیلیں کتنی دور ہیں۔؟‘

’فاصلہ زیادہ نہیں۔‘

’کیا ان فاصلوں کو اور کم نہیں کیا جا سکتا۔؟‘

’ابھی اتنا بہت ہے کہ ہوا نے رُخ تبدیل کر دیا ہے۔‘

ناتھانی ہنسے۔۔۔۔ ’اور ہمارے گھوڑے ہوا میں اچھل رہے ہیں۔ قلابازیاں کھا رہے ہیں۔‘

’کیا ہماری سلطنت قائم ہو گی؟‘ بانسری جوشی نے آہستہ سے پوچھا۔

’اب دلّی چار قدم ہے۔‘ ناتھانی نے کہا۔

’یہ چار قدم بہت زیادہ نہیں۔؟‘

’مزید شرارتوں کے صفحے کھولے جا سکتے ہیں۔‘

’نقصان۔‘

’دھند میں سیکولرزم ہے۔‘

’آپ سیکولرزم کو دھند میں دفن نہیں کر سکتے؟‘

’ابھی مشکل ہے۔‘

بانسی جوشی نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔ ’یہ مت بھولیے کہ ہمارارتھ بیل گاڑی سے زیادہ کمزور تھا اور رتھ کی چال بھی دھیمی تھی۔‘

’مجھے احساس ہے۔‘

’کل کوئی میزائل لے آئے تو۔۔۔۔۔؟‘

’دیکھا جائے گا۔ ابھی سرور و نغمہ کا وقت ہے اور گھوڑے ہوا میں اڑ رہے ہیں۔‘

’ان گھوڑوں پر لگام لگائیے۔۔۔۔‘

’بانسری۔۔۔۔۔‘ ناتھانی نے بانسری کو غور سے دیکھا۔ انعام تو تمہیں بھی برابر کا ملے گا۔‘

’مگر تاج کسی اور کا ہو گا۔‘

’مجھے احساس ہے۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ ہم نے ملک کا نقشہ تبدیل کر دیا۔‘

’تاریخ بے رحم ہوتی ہے۔‘

’مجھے احساس ہے۔‘ اس بار ناتھانی کا لہجہ کمزور تھا۔ ’مگر حکمراں جماعت کے حوصلے ٹوٹ چکے ہیں۔ انہیں خبر ہے کہ آندھی آ سکتی ہے۔‘

’وہاں ہمارے لوگ بھی ہیں۔‘

’حکمراں جماعت یہ بات بھی جانتی ہے۔‘

’اب گھوڑے دوڑانے کا وقت ہے۔‘ ناتھانی نے گھڑی کی طرف دیکھا، جو دیوار سے لگی ہوئی تھی۔ ’وقت ضائع کیے بغیر ہمیں ایک اہم میٹنگ میں شامل ہونا ہے۔ انتخابات نزدیک ہیں۔ رتھ کے پہیے مضبوط کرنے ہوں گے۔‘

’میں کوشش کرتا ہوں۔‘ بانسری جوشی جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔



ll

ایک اور بغاوت ہوئی تھی۔ کلا پاسبان نے اپنی الگ پارٹی بنا لی تھی۔

۱۹۹۱ کے بعد آنے والی ہر تبدیلی پر سہرا کی نگاہ تھی۔ وہ سیاست کا کوئی ماہر کھلاڑی نہیں تھا، مگر آہستہ آہستہ سیاسی چہروں کو قریب سے شناخت کرنے لگا تھا۔ پارٹی دفتر میں اس کی طلبی ہوئی تھی اور سہرا جانتا تھا کہ کوئی بھی فیصلہ سنایا جا سکتا ہے۔ سہرا کو میجر جو جو کی یاد آئی جو کہا کرتے تھے کہ زندگی کے ہر فیصلے کو قبول کرنا چاہیے۔ شروع میں لگتا ہے کہ یہ فیصلہ زندگی کو ناکام بنا دے گا۔ پھر ہزار نئے راستے کامیابی کے کھل جاتے ہیں۔ اس نے آسمان کی طرف دیکھا۔ وہاں اسے میجر جوجو کا چہرہ نظر آیا۔۔۔۔۔ یہ کون لوگ ہیں۔ کہاں سے آتے ہیں اور پھر کہاں چلے جاتے ہیں۔

’ذرا سی تفریح چاہیے تمہیں۔ چلو شاپنگ کے لیے چلتے ہیں۔‘

اس دن ریحانہ کے ساتھ اس نے شاپنگ بھی کی۔ ریحانہ نے اپنے اور اس کے لیے کچھ نئے کپڑے خریدے۔ ریحانہ کے مطابق شاپنگ کا مطلب تفریح ہے۔ ذہن بوجھل ہو تو تفریح کر لو۔ وہ اس تفریح کے بعد گھر آیا تو اسے پارٹی میٹنگ کا خیال آیا۔ شام میں نور پٹیل اور محمود خورشید کے ساتھ اس کی میٹنگ تھی۔۔۔۔ اور اس میٹنگ میں اس کی سیاسی تقدیر کا فیصلہ ہونے والا تھا۔ وہ اس کے لیے تیار تھا اور اس لیے ذہنی طور پر اسے کوئی پریشانی نہیں تھی۔

میٹنگ آدھے گھنٹے تاخیر سے شروع ہوئی۔ نور پٹیل ٹریفک میں پھنس گئے تھے۔ پہلے مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوا۔ چائے پی گئی۔ کسی فیصلے پر پہنچنے تک اس طرح کی فارملٹی کا خیال رکھا جاتا ہے۔ نور پٹیل نے سہرا کی طرف معنی خیز نگاہوں سے دیکھا۔ پھر پوچھا۔

’کسی نئی پارٹی سے آفر تو نہیں۔؟‘

’کیوں؟ سب چھوڑ کر جا رہے ہیں اس لیے۔۔۔۔؟‘

’ایسا نہیں ہے۔ جو جا رہے ہیں، وہ نقصان میں رہیں گے‘

’یہ فیصلہ کون کرے گا، وقت؟‘ مسیح سہرا نے مسکرا کر پوچھا۔

’پہلے آپ یہ بتائیے کہ ہمارے علاوہ کوئی مستحکم پارٹی ہے؟‘ محمود خورشید نے اس بار مسکرا کر پوچھا۔

سہرا زور سے ہنسا۔ ’یہی خوش فہمی ہے۔ دروازہ بند کر لیجیے، آندھی آنے والی ہے۔‘

’آندھی۔‘ نور پٹیل چونک گئے۔

مسیح سہرا کا لہجہ اس بار تلخ تھا۔ چیل اڑ رہی ہے۔ سامنے عقاب دیکھ رہا ہے۔ گدھ منڈرا رہے ہیں۔ اگر سچ مچ ایسا ہے تو آپ اسے کیا کہیں گے؟ میں دیکھ رہا ہوں اور اس لیے میں مطمئن ہوں۔ آسمان گدھوں سے بھر گیا ہے۔۔۔ اور پارٹی کو اطمینان ہے کہ کوئی مصیبت اس پر نہیں آئے گی۔‘

’آپ کہنا کیا چاہتے ہیں مسٹر سہرا ؟‘ نور پٹیل کے تیور سخت تھے۔ آپ جانتے ہیں، آپ کی کتاب نے راؤ کا کتنا مذاق اڑایا ہے۔ اپوزیشن کے لوگ لطف لے رہے ہیں۔‘

’اس قدر سنجیدگی سے ناول کو پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ بھی لطف لیجیے۔ ایک مرڈر ہوتا ہے اور آخر میں مرڈر ایک سیاسی قتل ثابت ہوتا ہے۔ اب اس کے درمیان کیا کیا واقعات ہیں، اس پر خاک ڈالیے۔‘

’خاک ہی تو نہیں ڈالی جا سکتی۔ آپ راجیہ سبھا کے ممبر بھی ہیں۔‘

مسیح سہرا نے اس بار دونوں کی آنکھوں میں غور سے دیکھا۔ کمرے کی سفید دیواروں میں بے شمار چہرے پیدا ہو گئے تھے۔ ہر چہرے کی ایک تاریخ تھی۔ وقت کے ساتھ کتنے ہی چہروں پر گرد پڑ چکی تھی۔ ہال کے باہر سے آوازیں آ رہی تھیں۔ میجر جوجو کا چہرہ اب نظروں کے سامنے تھا۔ سہرا کو احساس ہوتا ہے، وہ دھول اور طوفان کی سمت دوڑ رہا ہے۔ اس کے پیچھے کچھ لوگ ہیں۔ دوڑتے ہوئے ایک دروازہ نظر آتا ہے۔ ایک پرانی عمارت ہے۔ یہاں ہوا کا گزر نہیں۔ ایک لیمپ ہے جو ٹمٹما رہا ہے۔ کوئی آہستہ سے کہتا ہے، اٹھارہویں صدی۔۔۔۔ کچھ لوگ ہیں، جن کے چہرے گھٹنوں کے درمیان چھپے ہوئے ہیں۔ ایک چہرہ سر اٹھاتا ہے تو یہ محمود خورشید کا چہرہ ہوتا ہے۔۔۔۔ مسیح سہرا کو اس خاموشی میں بھی خفت ہوتی ہے کہ وہ کن خیالوں کے درمیان ہے۔ یہاں اس کی سیاسی تقدیر پر مہر لگنے والی ہے اور وہ آندھیوں کا تعاقب کر رہا ہے۔

’آپ کیا سوچتے ہیں۔‘ نور پٹیل کی آنکھیں اس بار جھکی تھیں۔

’میرا سوچنا ضروری نہیں ہے۔ سوال ہے کہ آپ کیا سوچتے ہیں۔‘

’اعلیٰ کمان ناراض ہیں۔‘ محمود خورشید کی آواز ابھرتی ہے۔

’کیا آپ اس ہال کے باہر دیکھ رہے ہیں؟‘ مسیح سہرا دونوں کی آنکھوں میں جھانکتا ہے۔

’ہال کے باہر۔۔۔۔۔؟‘

’خانہ بدوش ہیں۔ ان کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ اور ایک طوفان ہے۔‘

’آپ مستقبل کی بات تو نہیں کر رہے؟‘ نور پٹیل کے چہرے پر سنجیدگی تھی۔

’ہال کے باہر ایک دھند ہے۔ ریاستی سطح کی پارٹیوں کے قد میں اضافہ ہوا ہے۔ اور بی مشن مضبوط۔ کھیلنے کا وقت پہلے بھی نہیں تھا مسٹر نور پٹیل۔ آزادی کے گواہ سب تھے لیکن مسلمان لٹو تھے۔ لٹو؟ لٹو جانتے ہیں آپ؟ میں نے نچایا ہے لٹو۔ مسلمان لٹو کی طرح ناچ رہے تھے۔ آپ ان کے ہاتھوں میں تسبیح تھما رہے تھے۔ پانچ وقت کی نماز اور پارٹی۔ آپ جانتے ہیں، اس راگ کا مطلب کیا ہے؟ آنے والے وقت میں مسلمانوں کے ہزار برس کا حساب لیا جائے گا اور آزادی کے بعد کے برسوں کا بھی۔ آپ کے پاس ایک ڈگڈگی تھی۔ جمہوریت کی۔ پرانی عمارت نے وہ ڈگڈگی چھین لی۔ پھر بھی آپ کو کرگس نظر نہیں آ رہے۔ نہ چیل نہ گدھ۔ میں تو بس یہی دیکھ رہا ہوں کہ پارٹی کی بنیاد رکھنے والا بھی ایک فرنگی تھا۔۔۔۔ اور پارٹی ایک خوبصورت یوٹوپیا میں جیتی رہی۔ مگر اب۔۔۔۔۔‘

’اب کیا؟‘ محمود خورشید کا چہرہ سرخ تھا۔

’اخروٹ توڑنے میں کبھی کبھی ہاتھ زخمی ہو جاتے ہیں۔‘

’یہاں اخروٹ کا ذکر کیسے آ گیا؟‘نور پٹیل کے چہرے پر ناراضگی تھی۔

’اخروٹ۔‘ مسیح سہرا نے قہقہہ لگایا۔ خانہ بدوشوں کو اخروٹ پسند ہیں۔ اور اب اخروٹ کا موسم آنے والا ہے۔‘

’واہیات۔‘

’بے بنیاد باتیں۔‘

’اخروٹ کا ذکر بے بنیاد ہے مگر راؤ کا نہیں۔ جبکہ پورا ملک یہ جانتا ہے کہ راؤ چاہتے تو پرانی عمارت محفوظ رہتی۔‘

’یعنی کھلی بغاوت۔‘

’ہم گلے میں پھندا ڈالے بیٹھے ہیں۔ ناتھانی اور جوشی ریس لگا رہے ہیں۔‘

’اس سے کیا ہو گا۔‘

’ایک دن تاریخ زرد پتے کی طرح جھڑ جائے گی۔ پھر آپ بھی حاشیہ پر ہوں گے۔‘

’بالکل بھی نہیں۔ غلط فہمی ہے آپ کی۔‘ محمود خورشید ذرا زور سے بولے۔

’جب تاریخ بدل رہی تھی ہماری لیڈر شپ یا تو قبرستانوں میں اونگھ رہی تھی یا دفن ہونے کی تیاری کر رہی تھی۔‘



مسیح سہرا اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔ اب اس کے پاس بولنے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ ہال کے باہر بہت سے لوگ کھڑے تھے۔ وہ سیڑھیاں اتر کر لان میں آ گیا۔ اسے یقین تھا، اب وہ آزاد ہے۔ اور وہ کسی قبرستان میں نہیں ہے۔ اس کو یاد آیا، اسے شاپنگ کرنی ہے۔ پبلشر سے ملاقات طے ہے۔ وہ کسی ریستوراں میں کھانا کھائے گا۔ اور اپنی آزادی کا جشن منائے گا۔ اس درمیان سہرا خاموشی سے اپنا جائزہ لے رہا تھا۔ اس کی آنکھوں کی گول گول پتلیاں حرکت میں تھیں۔ پاؤں تیزی سے اٹھ رہے تھے۔ ہتھیلیاں گرم تھیں۔ کچھ چھوٹ رہا ہے۔ ابھی وہ زیادہ دور نہیں گیا تھا۔ وہ پلٹا اور ایک بار پھر سے اس کمرے میں تھا، جس کی دیواریں سفید تھیں۔ زمین پر بھی سفید ٹائلس بچھے تھے۔ دیواروں پر کوئی پینٹنگس نہیں تھی اور چھت سے دو پنکھے جھول رہے تھے۔ نور پٹیل اور محمود خورشید نے چونک کر، پلٹ کر اس کی طرف دیکھا۔

سہرا مسکرایا۔ ’ایک بات رہ گئی تھی۔۔۔۔۔‘ وہ پھر مسکرایا۔۔۔ ’ان کمروں میں چھپکلی نہیں ہے۔ ہونی چاہیے۔۔۔۔ چھپکلی کیڑوں کا صفایا کر دیتی ہے۔‘ وہ مسکرا رہا تھا۔

’تو تم یہی کہنے آئے ہو۔۔۔۔‘ نور پٹیل نے پوچھا۔

’نہیں۔ پارٹی کی سب سے بڑی غلطی تھی کہ آزادی کے صرف دو برس بعد پرانی عمارت کا قفل کھول دیا۔ یہ قفل ذرا سی عقل اور رضامندی کے ساتھ بند کیا جا سکتا تھا۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔۔۔۔۔‘

’ہونہہ۔‘ محمود خورشید کا چہرہ فق تھا۔

’پھر آج جو کچھ ہو رہا ہے۔ اس کی ضرورت پیش نہیں آتی۔۔۔ اور بہتر ہے کہ۔۔۔۔‘

’کیا بہتر ہے؟‘ نور پٹیل کا چہرہ بھی زرد تھا۔

’ایسے تمام کمروں میں دو ایک چھپکلیاں ضرور ہونی چاہئیں۔‘

سہرا مسکرایا۔ اس کے بعد وہ ٹھہرا نہیں۔ گاڑی میں بیٹھا اور گھر کی طرف چل دیا۔ اسے ریحانہ کو ساتھ لے کر شاپنگ کے لیے جانا تھا۔ پروگرام میں تبدیلی آ گئی تھی۔ اس کے بعد اسے پبلشر سے ملنا تھا۔ اس نے کچھ اور بھی سوچ رکھا تھا۔ جیسے اسے کتّے پسند تھے۔ اس نے جنگلی کتّوں کے بارے میں کافی پڑھا تھا۔ کچھ کتے بھیڑیے کی نسل سے بھی تعلق رکھتے ہیں۔ وہ ایک بل ڈوگ پالنا چاہتا تھا۔ مگر کتے ریحانہ کو پسند نہیں ہیں۔ ریحانہ کہتی ہے، گھر ناپاک ہو جاتا ہے۔ کتوں کی موجودگی سے گھر میں فرشتے نہیں آتے۔ مسیح سہرا اب خود کو آزاد محسوس کر رہا تھا، جبکہ ابھی تک فیصلہ نہیں آیا تھا اور اسے علم نہیں تھا کہ اس کی سیاسی تقدیر کا فیصلہ کیا آنے والا ہے۔

آگے ٹریفک جام تھا۔ کوئی حادثہ ہو گیا تھا۔ سہرا نے دیکھا، ایک موٹر سائیکل والا تھا۔ وہ بری طرح زخمی تھا اور پولیس اسے اٹھانے کی کوشش کر رہی تھی۔ کچھ دیر میں ٹریفک صاف ہو گیا۔ اب سہرا کی گاڑی ہائی وے پر دوڑ رہی تھی۔

وہ اپنی آزادی کا جشن منانا چاہتا تھا۔ نئے ناول کا پلاٹ بھی اس نے سوچ رکھا تھا۔ مستقبل کی موت۔۔۔ اسے احساس تھا، خانہ بدوش اب مستقبل پر گولیاں چلا رہے ہیں۔ سارے خانہ بدوش ایک جیسے نہیں ہوتے۔ مگر کچھ۔۔۔۔۔ اسے ان جنگلی خانہ بدوشوں سے شکایت تھی جو ملک کی تقدیر بدلنا چاہتے تھے۔ اور اس کے لیے انسانی لہو سے کھیلنا ضروری تھا۔

٭٭٭









باب دوم
نئی دنیا، پرانی عمارت اور مردہ گھر





ایک دن

کھدائیوں سے صرف مردہ گھر نکلیں گے

لیکن ہم

ان مردہ گھروں کی شناخت نہیں کر پائیں گے







(۱)



سڑکوں، چوراہوں پر ترشول اٹھائے اب ان خانہ بدوشوں کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی۔ سہرا نے ان خانہ بدوشوں کو ہالی وڈ کی فلموں میں دیکھا تھا۔ مارخیز کے ناول میں یہ بھلے خانہ بدوش تھے جو ہر دن نئی دنیا سے ٹکرا رہے تھے۔ ان کا ایک سماج تھا اور اس سماج میں محبت جیسی شئے بھی قائم تھی۔ مگر ان خانہ بدوشوں کے چہرے سے زہریلے پوسٹر جھولتے تھے اور ان کے پیچھے وہ لوگ تھے جو تعلیم یافتہ تھے، مہذب معاشرے کے ٹھیکیدار تھے مگر ان کا تعلق اس کیمپ سے تھا، جس کی بنیاد پر نفرت کی فصیلیں قائم کر کے ہی یہ اپنی سلطنت کی بنیاد رکھ سکتے تھے۔

گلیشیرس پگھل رہے تھے۔ سائبریا میں گھاس اُگ رہی تھی۔ سائنس کی تجربہ گاہ میں انسان بنائے جا رہے تھے اور ناسا نئی دنیاؤں کی دریافت کے لیے تجربے کر رہا تھا۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد بھی جنگوں کے دروازے کھلے تھے۔ اب ایٹمی ہتھیاروں کی باتیں پہلے سے کہیں زیادہ ہونے لگی تھیں۔ دنیا کے چھوٹے چھوٹے ممالک بھی ایٹمی ہتھیار بنانے پر زور دے رہے تھے۔ اور جیسا کہ ہر من ہیسے نے اپنے ایک ناول میں لکھا تھا، ایک نئی دنیا، مرغی کے انڈے سے باہر نکلنے والی ہے۔۔۔۔ اور یہ دنیا ان لوگوں کے لیے خطرناک ہو گی جو پرانی دنیاؤں سے ابھی بھی چپکے ہوئے تھے۔

سہرا کی آنکھوں میں ایک ٹائم مشین فٹ تھی، جس سے ہو کر وہ اکثر ماضی کی وادیوں میں نکل جاتا تھا۔ اسے شدت سے احساس تھا کہ بچپن سے اب تک کافی حد تک تبدیلی آ چکی ہے۔ مگر اس تبدیلی کو بہتر ماننے سے وہ انکار کرتا تھا۔ جب کوئی سولت یا آسانیاں نہیں تھیں، جب گرمی کے موسم میں پنکھے بھی نہیں ہوتے تھے اور جسم پسینے سے تر بتر ہوا کرتا تھا تب ایک آزادی تھی۔ دوڑنے کی آزادی۔۔۔۔ خوش رہنے کی آزادی۔ اپنی بات کہنے کی آزادی۔ وقت کے چھلانگ لگاتے ہی آزادی کا تصور بہت حد تک ختم ہو گیا تھا۔



یہ دوسرے دن کی خوشنما صبح تھی۔

وہ باہر لان میں کرسیوں پر بیٹھا تھا۔ ریحانہ چائے کا طشت لے کر آ گئی۔ وہ آہستہ آہستہ چائے کا لطف لیتا رہا۔ اس نے ریحانہ کی طرف دیکھا جو اپنی دنیا میں کھوئی ہوئی تھی۔

’کیا تم مانتی ہو کہ نئی دنیا کا کوئی خیال ہے جو ہمارے ساتھ چلتا ہے۔‘

’نہیں، میں نہیں مانتی۔ در اصل یہ پرانی دنیا ہے، جس میں ہم زندہ ہیں۔‘

ریحانہ سہرا کی طرف دیکھ رہی تھی۔

’یعنی نئی دنیا کا کوئی تصور؟‘

’ایسا کوئی تصور نہیں۔ یہ وقت ہے جو آگے بڑھتا ہے اور اپنے حساب سے بڑھتا ہے۔ کبھی کبھی ہم یہ بھی کہہ دیتے ہیں، وقت تیزی سے بھاگ رہا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے۔ وقت تیزی سے کیسے بھاگ سکتا ہے۔؟ہم بچے ہوتے ہیں۔ پھر ایک دن بوڑھے ہو جاتے ہیں۔ صد ہا سال سے ایک ہی دنیا ہے جو ہمارا تعاقب کر رہی ہے۔‘

’سائنس، گلوبل تبدیلی۔۔۔۔۔ اور‘

’یہ سب نئی اصطلاحیں ہیں۔ ہم ہمیشہ پرانی دنیا کے تعاقب میں رہتے ہیں۔۔۔ اور نئی دنیا کے احساس کو قائم رکھنے کے لیے نئی اصطلاحیں گڑھتے رہتے ہیں۔‘

لیکن ایک نئی دنیا تھی اور اس دنیا میں بہت سی ایسی چیزیں تھیں جو سہرا نے اس سے قبل محسوس نہیں کی تھیں۔ نئی پرانی دنیا کے تصور میں وقت کا پیمانہ رہ جاتا ہے۔ ایک درزی ہے جو لباس کے لیے جسم کا ناپ لے رہا ہے۔ ایک وقت ہے جو کبھی پیچھے چلا جاتا ہے اور کھسک کر پاس آ جاتا ہے۔ ریحانہ اس تصور کو نہیں مانتی تھی مگر اس کے باوجود ایک نئی دنیا برآمد ہو رہی تھی۔ اس درمیان بغاوت کے جرم میں، سہرا کو پارٹی سے نکال دیا گیا۔ راجیہ سبھا سے استعفیٰ دینا پڑا۔ سہرا اپنی کرائم کی دنیا میں واپس آ گیا۔

۱۹۹۵ تک سیاست کی دنیا میں کئی طوفان آ چکے تھے۔ پرانی عمارت کا معاملہ گرم تھا۔ ایک نئی دنیا اور بھی سامنے تھی۔ اب ٹی وی گھر گھر پہنچ چکا تھا اور کتابیں پڑھنے کی روایت بہت حد تک کم ہو چکی تھی۔ جاسوسی، رومانی کتابوں کا مارکیٹ بھی زد میں آیا تھا۔ پبلشر نے کئی بار شکایت کی۔ اب ڈیمانڈ کم سے کم ہوتی جا رہی ہے۔ پتہ نہیں آنے والے برسوں میں کیا ہو گا۔ سہرا پر کئی سیاسی پارٹیوں کا دباؤ تھا مگر اس نے خود کو سیاست سے الگ رکھا۔ وہ اب اس دنیا سے خود کو علیحدہ کر چکا تھا۔ اس درمیان کاشف کی پیدائش ہوئی۔ اب ایک ننھے سے لوتھڑے کو چہرہ اور جسم مل چکا تھا۔ ریحانہ خوش تھی۔ سہرا کو بھی باپ بننے کی خوشی تھی۔ یہ خون کا رشتہ بھی کیسا عجیب ہوتا ہے۔ پہلے وہ کسی نو زائیدہ بچے کو دیکھتا تو چھونے سے بھی گھبراتا تھا اور اب۔ سارا دن وہ کاشف کے ارد گرد گھومتا رہا۔ سہرا زمانے کی چال کو دیکھ رہا تھا۔ مصروف ترین دنیا کے لوگ کتابوں سے کٹ گئے تھے۔ اب ٹی وی کی دنیا تھی اور نئے نئے سیریل۔ کچھ ایسے بھی سیرئیل تھے کہ دکانیں بند ہو جاتیں۔ سڑکوں پر سناٹا چھا جاتا۔ ہر شخص اپنا پسندیدہ سیرئیل دیکھنے کے لیے گھر میں وقت گزارنا چاہتا تھا۔ پھر ٹی وی پر فلمیں دکھانے کا رواج شروع ہوا تو کتابیں پڑھنے والوں کی تعداد اور کم ہو گئی۔ سہرا کو پبلشر نے بلوایا تھا۔ سہرا کو یاد ہے۔ پبلشر اداس تھا۔ وہاں کام کرنے والوں کی تعداد بھی کم ہو چکی تھی۔ پہلے بہت سے لوگ ہوا کرتے تھے۔ خاص کر رامیشور سے اس کی بہت بنتی تھی۔ رامیشور سیلس دیکھتا تھا اور اس کا قاری بھی تھا۔ پبلشر نے رامیشور کو بھی نکال دیا تھا۔ سہرا کو احساس ہوا کہ اب ایک ایسی دنیا سامنے ہے جہاں ہر طرح کی کتابوں کی ضرورت کم ہو چکی ہے۔ پہلے ٹرین، ہوائی جہاز ہر جگہ کتابیں پڑھتے ہوئے لوگ ملتے تھے۔ مگر اب، گلیشیرس پگھل رہے تھے اور کتابیں پانیوں میں تیر رہی تھیں۔

پبلشر نے ذرا ٹھہر کر کہا۔ ’سوچتا ہوں، کوئی اور پیشہ اختیار کروں۔‘

سہرا نے کچھ بھی نہیں کہا۔

’اب کتابیں نہیں بکتیں۔ پہلے لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہوتی تھیں۔ اب پڑھنے والے نہیں رہے۔‘

سہرا نے اس بار بھی خاموشی سے کام لیا۔

’آپ کیا سوچتے ہیں۔؟‘

سہرا مسکرایا۔ ’جب مارکیٹ نہیں۔ تو ہم بھی نہیں۔ ہم تو مارکیٹ کا حصہ ہیں۔ جب پڑھنے والے نہیں تو آپ بھی نہیں۔‘

’اب نیا بازار ہے۔‘ پبلشر کی آواز کمزور تھی۔

’بہتر ہے، آپ ماڈرن جوتوں کی ایک بڑی دکان کھول لیں۔‘

’ماڈرن جوتے۔۔۔۔؟‘

’کتابوں میں اور جوتوں میں فرق یہ ہے کہ جوتے ہمیشہ بکیں گے اور ایک دن ایک کتاب کا فروخت ہونا بھی بند ہو جائے گا۔‘

پبلشر مسکرایا۔ ’مجھ سے زیادہ آپ حالات کو سمجھ رہے ہیں۔‘

’میں بھی سوچ رہا ہوں۔۔۔۔۔۔‘

’کیا۔؟‘

’جب آپ جوتوں کی شاپ کھولیں گے تو وہاں نوکری کر لوں گا۔‘

مسیح سہرا باہر آیا تو اس کا سر گھوم رہا تھا۔ وہ سیاست سے پہلے ہی الگ ہو چکا تھا۔ اب کرائم بڑھ رہے تھے۔ مگر کرائم اسٹوری کوئی پڑھنا نہیں چاہتا تھا۔ ٹی وی پر کئی کرائم اسٹوری سیریز دکھائی جا رہی تھی۔ یہ بھی ایک تبدیلی تھی۔ سہرا نے خیال کیا، اس کے ساتھ کے لکھنے والے اچانک زمین پر آ گئے۔ ایسے لوگ جو کتابوں کی بدولت زندہ تھے اور جن کے فرضی ناموں کو ایک دنیا جانتی تھی، اب یہ فرضی چہرے وقت کی دھند میں گم ہونے کی تیاری کر رہے تھے۔ ایسا ہی ایک چہرہ اس کا بھی تھا۔ ایک فرضی چہرہ۔ لیکن سیاست میں اس نے کچھ پیسے بنائے تھے اور کچھ دولت کتابوں کی مارکیٹ سے بھی اس کے حصے میں آئی تھی۔ آگے کیا کرنا ہے، وہ زیادہ اس بارے میں سوچنا نہیں چاہتا تھا۔ مگر یہ خیال ضرور تھا کہ اس کو وقت کے ساتھ چلنا ہے۔ بدلے ہوئے موسم میں کبھی کبھی آسمان پر آنسوؤں کی جھلملاہٹ نظر آتی، جو بارش کی صورت برس تو جاتے لیکن اس سے ماحول پر زیادہ کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ کبھی کبھی آگ کی لپٹیں دکھائی دیتیں۔ شمال میں انگریزوں کا ایک پرانا چرچ تھا، جس کے بند دروازے کے اندر اکثر وہ چمگادڑوں کو الٹا لٹکے ہوئے اور کبھی کبھی اڑتے ہوئے دیکھتا تھا۔ وقت کی زد میں اب اقلیتی طبقہ بھی آ چکا تھا۔ گرمیاں شروع ہو گئی تھیں۔ اندھیری راتوں میں جب آسمان زمین پر جھکا نظر آتا تو تا حد نظر اسے کیکٹس کے درخت نظر آتے۔ یہ اس کا وہم تھا لیکن کیکٹس کے درختوں کو مسلسل دیکھنا اسے اچھا لگتا تھا۔ کیکٹس سے نکلے ہوئے کانٹے سیدھے اس کی روح کو زخمی کرتے تھے اور ان کی چبھن کا احساس پرانے گڑے مردوں کی یاد دلاتا تھا۔ دلی والے ویسے بھی اب دیر تک جاگنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ مگر سہرا کو یقین ہے، وہ ان شعلوں کو ضرور دیکھتے ہوں گے، جو کبھی کبھی آسمان سے اٹھتے ہوئے نظر آتے تھے۔

خانہ بدوش مطمئن تھے کہ بغاوت اب زیادہ دور نہیں۔ اور اسی طری پارٹی مطمئن تھی کہ ۱۹۲۵ سے اب تک یہ سرد الاؤ تو جلاتے رہے مگر حاصل کچھ نہیں ہوا اور اس لیے پرانی عمارت کا غم یا حادثہ دلوں سے جلد نکل جائے گا۔ وشال کرشن ناتھانی کو وہ شخص عزیز تھا جو اکثر ان کا خیال رکھتا تھا اور انہیں چائے پلایا کرتا تھا۔ جبکہ باجپائی نے کئی بار انہیں ہدایت دی تھی کہ لوگوں کے چہرے کو پڑھنا سیکھیں ورنہ آیندہ مشکل ہو سکتی ہے۔ اور ناتھانی اس بات کو نظر انداز کرتے ہوئے مطمئن تھے کہ فضا اب ان کے حق میں ہے۔ اور بدلتے ماحول میں نئی پارٹی کو اس کا فائدہ مل سکتا ہے۔

سہرا کاشف اور ریحانہ کو لے کر اب دوسرے فلیٹ میں آ چکے تھے۔ راجیہ سبھا والا مکان اب کسی اور ممبر کے حوالے کیا جا چکا تھا۔ اس بات سے سہرا کو کوئی زیادہ فرق نہیں پڑتا تھا۔ ہاں، اب وہ اپنے ناول کی تیاری کر رہا تھا اور اس ناول میں پرانی عمارت کا ذکر بھی تھا۔ پرانی عمارت کو مسمار کرنے کے درمیان ایودھیا میں ایک شخص کا قتل ہوا تھا اور تفتیش کا مرحلہ ایسا دلچسپ مرحلہ تھا کہ نئے نئے انکشافات سامنے آ رہے تھے۔ سہرا کو یہ بھی یقین تھا کہ بہت جلد پبلشر اپنی کتابوں کی دوکان بند کر دے گا اور دوکان کی جگہ بھلے جوتوں کی دکان نہ کھولے، کوئی دوسرا کاروبار تو شروع کر ہی دے گا۔ ایسا کاروبار جس میں منافع ہو۔

اس میں شک نہیں کہ سن ۲۰۰۰ء آتے آتے یہ پوری دنیا بہت حد تک تبدیل ہو چکی تھی۔ سیاست میں اخلاقیات کے معنی بدل چکے تھے۔ زندگی بدل چکی تھی۔ اور بدلنے کی رفتار اتنی تیز تھی کہ ہر دوسرے دن سائنس اور تکنالوجی کے نئے نئے کارنامے اور کرشمے سامنے آ جاتے تھے۔ سن ۲۰۰۰ء تک بچوں کی دنیا بدل چکی تھی۔ پہلے جہاں صرف دور درشن دکھایا جاتا تھا، اب بہت سے ٹی وی چینلز آ چکے تھے۔ اب کوئی سرکاری بھونپو کی طرف توجہ بھی نہیں دیتا تھا۔ کاشف پانچ برس کا ہو گیا تھا۔ ریحانہ شوگر اور دیگر امراض میں گرفتار ہو کر پریشان رہنے لگی تھی۔۔۔ اور آسمان پر عقاب اڑ رہے تھے۔ بی مشن نے حکومت بنا لی تھی۔ پارٹی کا غرور خاک میں مل گیا تھا مگر پارٹی کو اس کا علم تھا کہ ان کی واپسی ضرور ہو گی۔ مگر یہ علم نہیں تھا کہ ان کی واپسی کا کتنا اثر ملک کے عوام پر پڑے گا۔ کیونکہ عوام کے فکر میں بہت تیزی کے ساتھ تبدیلی آئی تھی۔ سب سے بڑی تبدیلی یہ تھی کہ نئے بچوں کے کھان پان کا تصور بدل گیا تھا اب فاسٹ فوڈ کا زمانہ تھا۔ بچے فاسٹ فوڈ کی دنیا میں، خود کو نئی زندگی میں محسوس کر رہے تھے۔ ماں باپ کے ساتھ یا خاندان کے ساتھ رشتوں کی ڈور بہت حد تک کمزور پڑ چکی تھی۔ یہ بدلا ہوا ہندوستان تھا۔ جبکہ صبح کی کرنوں میں ابھی بھی اس پرانے ہندوستان کی جھلک دیکھنے والوں کو نظر آتی تھی۔ گلابی دھوپ کا پیغام پڑھنے والوں کی کمی تھی۔ مگر زندگی تیز رفتار ہو گئی تھی۔ سن۲۰۰۰ء کی شروعات نے سب سے بڑا حملہ اقتصادیات پر کیا۔ کئی ملکوں میں چیخ پکار مچ گئی۔

ہندوستان میں کمرشیل نائٹ سروس کا آغاز ہوا۔ نوجوان بچے غیر ملکی اداروں سے وابستہ ہونے لگے جہاں پیسے بہت زیادہ تھے اور زندگی آپ کو زیادہ غور و فکر کرنے کا موقع نہیں دیتی تھی۔

۲۰۰۵ء تک کاشف دس برس کا ہو چکا تھا۔ سہرا کو اب کاشف کی فکر ہو رہی تھی۔ اس درمیان کئی ملکوں میں آنے والی سونامی نے بھی معیشت پر حملہ کیا تھا اور اس بات کا احساس دلایا تھا کہ ارنیسٹ ہیمنگ وے کا بوڑھا آدمی ہر مورچے پر کامیاب نہیں رہتا۔ سمندری غصے کے آگے انسان بے بس اور لاچار ہے۔ اور یہ لاچاری اس ملک میں اس وقت دیکھنے میں آئی جب گجرات میں ہونے والے فسادات نے ہندو اور مسلمانوں کو دو زہریلے حصوں میں تقسیم کر دیا تھا۔

اور اس میں شک نہیں کہ ریاست کے سربراہ نے معصوموں پر گولیاں چلوائی تھیں اور اس شخص کو یہ عہدہ کرشن ناتھانی کی خدمت سے ملا تھا۔ کرشن ناتھانی کا ایک خواب تو پورا ہوا لیکن جس خواب کے لیے انھوں نے رتھ یاترا سے سماج کو تقسیم کرنے کا بیڑہ اٹھایا تھا، وہ خواب ابھی مکمل نہیں ہوا تھا۔ مگر سیاست میں ناتھانی کی حیثیت مضبوط تھی۔ اور یہ وہی زمانہ تھا جب گاڑیوں کی زیادہ آمد و رفت کی وجہ سے جمنا کا پل کمزور ہو گیا تھا۔ ابھی فلائی اوورس کے جال نہیں بچھے تھے۔ ریاستی سطح کی نئی پارٹیاں سر نکال رہی تھیں اور سب سے بڑا خطرہ اس پارٹی کو تھا، جو اب تک خوش فہمی میں تھی کہ آیندہ بھی اسی کی حکومت قائم رہے گی، جبکہ عوام کی نفسیات، تبدیلیاں، ہوا کا رُخ، بدلتے موسم کو دیکھنے میں پارٹی پوری طرح ناکام رہی تھی۔ اس درمیان کئی سیاسی قائد آئے اور گئے۔ ملک ایک کھلونا تھا، جس سے کھیلنے والوں کی کمی نہیں تھی۔ پارٹی کو یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ ایک دن پارٹی میں روح پھونکنے والے قائد بھی حاشیے پر ڈالے جا سکتے ہیں اور یہی پارٹی کی سب سے بڑی کمی تھی کہ ان کے کسی بھی لیڈر کے پاس مستقبل کی پلاننگ یا دور اندیشی نہیں تھی۔



کاشف اب اسکول جانے لگا تھا۔ اور دس برس کی عمر میں ہی اس کی ڈیمانڈ یہ تھی کہ اس کو ایک موٹر سائیکل چاہیے۔ ریحانہ سے زیادہ سہرا خائف تھا۔ دس برس کا بچہ موٹر سائیکل کیسے چلائے گا مگر کاشف کا بچپن یہ تھا کہ وہ پستول، راکٹ لانچرس اور ایسے ویڈیو گیمس میں پناہ لیتا تھا، جو سہرا کے نزدیک بہتر نہیں تھے۔ دس برس کی عمر سے ہی اس نے گھر کے کھانوں سے انکار کر دیا تھا۔ اس کے لیے میک ڈونالڈ جیسی کمپنیوں سے پزا اور برگر کے آرڈر دیے جاتے تھے۔ اس کو چاؤمین پسند تھا۔ ریحانہ ناراض ہوتی تھی کہ اس کا اثر کاشف کی صحت پر پڑے گا۔ یوں تو کاشف دس برس کی عمر میں بھی متوازن شخصیت کا مالک تھا۔ مگر آہستہ آہستہ اس میں ایک خاص قسم کی بغاوت بھی پیدا ہو رہی تھی۔ دوسرے بچوں کو دیکھ کر اس کی فرمائشوں کے انداز بھی تبدیل ہو رہے تھے۔ سہرا نے سوچ رکھا تھا کہ ہر ممکن وہ کاشف کی مدد کرے گا۔ کیونکہ کاشف اور ریحانہ اس کی زندگی کے لیے سب سے زیادہ معنی رکھتے ہیں اور ان دونوں کو الگ کر کے وہ اپنی زندگی کے بارے میں کوئی تصور نہیں کر سکتا۔

لیکن کچھ باتیں تھیں جو سہرا کو ناگوار بھی گزرتی تھیں۔

’میرے دوست کے پاپا منسٹر ہیں۔‘

’ہوں گے۔‘

’وہ پوری فوج کے ساتھ آتا ہے۔‘

’آتا ہو گا۔‘

’اس کے پاس بہت مہنگی گاڑی ہے۔‘

’گاڑیاں سب ایک جیسی ہوتی ہیں۔‘

’وہ بہت تیز موٹر سائیکل چلاتا ہے۔‘

’اور میں ابھی تم کو موٹر سائیکل چلانے نہیں دے سکتا۔‘

’کیوں؟‘

’کیونکہ میرا ایک ہی بیٹا ہے کاشف۔‘

’یہ کیا بات ہوئی۔ وہ بھی اپنے باپ کا اکلوتا بیٹا ہے۔‘

’ان کی بات ہم سے مختلف ہے۔‘

’وہ زیادہ پیسے والے ہیں اس لیے۔‘

’یہ دنیا پیسے والوں سے نہیں چلتی۔‘

’پھر کس سے چلتی ہیں۔‘

’یہ بات آہستہ آہستہ تمہاری سمجھ میں آئے گی۔‘

’اور نہیں آئی تو؟‘

’اس کے ذمہ دار تم ہو گے۔‘

کاشف میں ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ زیادہ بحث نہیں کرتا تھا۔ مگر آہستہ آہستہ اس میں تبدیلی آ رہی تھی۔ پندرہ برس کی عمر میں اس نے اچھا خاصہ ہاتھ پاؤں نکالا تھا۔ ہلکی سی مونچھ بھی آ گئی تھی۔ وہ ایک خوبصورت نوجوان تھا۔ ریحانہ کا عالم یہ تھا کہ کاشف کہیں بھی جاتا، وہ اس کے لیے صدقہ نکالتی۔ دعائیں پڑھ کر پھونکتی، پھر اسے جانے دیتی۔ اور جب تک کاشف گھر نہیں لوٹتا، وہ پریشان رہتی تھی۔

۲۰۱۰ تک ہماری دنیا لینڈ لائن اور سرکاری فون سے باہر نکل آئی تھی۔ اب موبائل کا زمانہ تھا اور دنیا کے اڑنے کی رفتار بہت تیز تھی۔ ہم جس قدر سہولتوں کے عادی ہوتے ہیں، اسی سطح پر ہم ایک زمانے سے کٹ بھی جاتے ہیں۔ پریوں کی کہانیاں گم ہو گئیں۔ شہزادی شہزادے وقت کے اندھیرے میں کھو گئے۔ بادشاہوں کے قصے پرانے پڑ گئے۔ نصاب نئے ہو گئے، فکر بدل گئی، کمپیوٹر، موبائل اور لیپ ٹاپ نے بچوں کی زندگی کے مزاج اور معیار کو تبدیل کر ڈالا۔ سہرا کو احساس تھا، اسی تبدیلی سے ایک مردہ گھر پیدا ہو رہا ہے اور وہ اب مردہ خانے کے احساس سے خوفزدہ ہونے لگا ہے۔۔۔۔

’رجنی چلی گئی۔ مگر کیسے؟‘

’شارو چلا گیا۔ کیا بات؟‘

’مہندرو کی ابھی عمر ہی کیا تھی۔۔۔‘

’بڑی باجی کو کیا ہوا تھا؟‘

’منجھلی باجی کا بیٹا تو اب کاشف کے ساتھ کا تھا۔۔۔۔ ایسا کیسے ہو گیا۔۔۔؟‘

’ناظر میاں کے ساتھ تو کل اس نے شطرنج کھیلا تھا۔‘

’واصف بھائی کے ساتھ کل صبح جاگنگ کی تھی۔‘

’نارائن کیسے جا سکتا ہے۔۔۔؟‘

’رشمی کو کیا ہوا تھا۔۔۔۔۔؟‘

ہر دن ایک موت۔۔۔۔ اور اس میں شک نہیں کہ موت سہرا کے احساس کو قید کر لیتی ہے۔ سہرا کئی کئی دنوں تک موت کے احساس سے باہر نہیں نکل پاتا۔ یہ قریبی لوگ۔۔۔۔ دوست، رشتے دار۔۔۔۔ یہ سارے گم ہو کیسے سکتے ہیں؟جیسے جیسے عمر بڑھ رہی تھی، جانے والوں کا قافلہ تیز تھا۔ ہر دوسرے دن کسی نہ کسی کے بارے میں کوئی خوفزدہ کرنے والی خبر آ جاتی۔ کسی کو ہارٹ اٹیک، کسی کو ہیمرج، کسی کو کینسر۔۔۔۔۔ ایک بیمار دنیا، جہاں موت کا اندھیرا بڑھ چکا تھا اور کچھ لوگ اس بیمار دنیا میں نفرت کے پوسٹر لے کر کھڑے تھے۔ یہ تضاد اس کی سمجھ سے باہر تھا۔

پزا اور برگر کی دنیا کا ہر دن اب اسے تکلیف پہچانے لگا تھا اور کاشف کی کچھ باتیں بھی ایسی تھیں، جو اسے پسند نہیں تھیں۔

— میں چھٹیوں میں گوا جا رہا ہوں

— اسکول کے بچوں کے ساتھ دبئی جانا ہے۔

— فٹ بال کی پریکٹس کرنی ہے

— کرکٹ کے لیے جا رہا ہوں۔

’چوٹ مت لگانا۔‘ ریحانہ ہمیشہ ایک ہی بات کہتی۔ صدقہ اتارتی۔ دعا پڑھ کر پھونکتی پھر کاشف کو جانے دیتی۔ وہ کچھ سوال کرتا تو جواب ملتا، کاشف کو اب باندھ کر نہیں رکھا جا سکتا ہے۔ وہ بڑا ہو رہا ہے۔ باندھ کر رکھیں گے تو احساس کمتری میں مبتلا ہو جائے گا۔‘

’ہاں یہ تو ہے۔ کیونکہ ہم سے زیادہ بچے تبدیل ہو گئے ہیں۔‘

سہرا کو احساس تھا، یہ نوجوان بچے جس سمت نظریں دوڑائیں گے، وہاں منزل نما گرد کا غبار ہو گا۔ منزل نہیں۔ لاکھوں بچے اسی سمت دوڑ پڑتے ہیں اور ایک دن گرد و غبار میں کھو جاتے ہیں۔

ملک کے مختلف حصوں میں خانہ جنگی جیسا ماحول تھا۔ اس ماحول کو پیدا ہونا ہی تھا۔ سہرا جانتا تھا کہ سیاست نئی قدروں اور نئی اخلاقیات سے گزر رہی ہے۔ ۲۰۱۰ تک کتنی ہی آندھیاں آئیں۔ اس درمیان پبلشنگ ادارے بہت حد تک بند ہو چکے تھے۔ جاسوسی اور رومانی کتابیں اب کوئی نئی پڑھتا تھا۔ اس نے بھی لکھنا بند کر دیا تھا۔ اب وہ لائزننگ کا کام کرتا تھا۔ سیاست میں رہنے کا ایک فائدہ یہ تھا کہ نئے پرانے تمام چہروں سے ملاقات تھی۔ کئی چہرے تو اس کے دیکھتے ہی دیکھتے سیاست کے اُفق پر چھا گئے۔ لیکن یہ دوستی اب کام آ رہی تھی۔ بہت سے ایسے جاننے والے تھے، جن کا کام حکومت سے رہتا تھا۔ کسی کو پٹرول پمپ چاہیے۔ کسی کو ایڈمیشن۔ کچھ ایسے تھے جو منسٹر سے مل کر کی خوش ہو جاتے تھے۔ سہرا جانتا تھا کہ لائزننگ کے ذریعہ زندگی آسانی سے گزاری جا سکتی ہے۔ ایک برس میں تین لوگوں کا بھی کام ہو گیا تو کافی پیسے مل جائیں گے۔ کبھی کبھی سہرا سوچتا ہے اور ہنستا ہے کہ زندگی کے بھی کیا رنگ ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب وہ مسخرہ تھا۔ پھر جاسوس بننے کا خیال آیا۔ پھر کرائم اسٹوری لکھنے لگا اور یہاں سے چھلانگ لگا کر راجیہ سبھا پہنچ گیا اور اب یہ دلالی کا کام۔ لیکن اس کام میں کوئی برائی نہیں ہے، وہ اپنا حصہ لیتا ہے بس۔ اور اس لیے لیتا ہے کہ زندگی گزارنی ہے۔

وقت گزرنے کے ساتھ کاشف نے اب سوال کرنا شروع کر دیا تھا۔ سہرا خاموشی سے اپنے بیٹے کے چہرے کے تاثرات پڑھتا تھا۔ اس کے چہرے کی مسکراہٹ پر فدا ہوتا تھا۔ اس کے گلے شکوے کا حل نکالتا تھا اور جواب دیتا تھا۔ وہ اپنے بیٹے کو کسی صورت ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا۔ مگر کاشف اپنا مقابلہ اب اپنے دوستوں سے کرنے لگا تھا۔

آپ نے راجیہ سبھا کیوں چھوڑ دیا؟

وہاں ہوتے تو ہم منسٹروں جیسے ہوتے۔

مجھے آپ پر فخر ہوتا۔

’اب فخر نہیں؟‘ سہرا نے پوچھا۔

’کیا بتاؤں دوستوں کو کہ کیا کرتا ہے میرا باپ۔‘

’کہہ دینا کہ فروٹس بیچتا ہے۔‘

’نہیں۔ میں کہہ دیتا ہوں کہ وہ راجیہ سبھا کے ممبر تھے۔‘

’ماضی سے کھیلتے ہو؟

’کھیلنا پڑتا ہے ڈیڈ۔‘

ماضی۔۔۔۔ سہرا کو احساس تھا کہ ماضی سے کھیلنا پڑتا ہے کیونکہ ماضی ہر جگہ، ہر قدم آپ کے ساتھ ہوتا ہے۔ وہ ایک مہیب راستہ نکال کر آپ کے ذہن میں داخل ہو جاتا ہے۔ وہ پھر چور دروازے سے اور آپ کو اداس کر جاتا ہے۔ اور خاص کر جب آپ پریشان ہوتے ہیں، ماضی ذہن و دماغ میں وسیع مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ یعنی ڈپریشن۔ اس کے اوپر ڈپریشن۔ یہ ماضی کی تلوار ہمیشہ لٹکتی رہتی ہے۔ وہ اکثر تنہائی میں ماضی کی کتابیں کھول کر بیٹھ جاتا ہے۔ ابا حضور، اماں حضور، لئیق چاچا، شمو ماموں، حلیمہ نانی۔۔۔۔ کیسے کیسے چہرے۔۔۔۔ آئس کریم والا آیا نہیں کہ حلیمہ نانی کی آواز ابھرتی۔۔۔۔ ارے آئس کریم لے لو۔۔۔ لئیق چاچا شعر و ادب کا ذوق رکھتے تھے۔۔ خوبصورت آدمی تھے۔ شموں ماموں داستان گو تھے۔ ساری دنیا کی رامائن سن لیجیے۔ یہ احساس اس وقت کہاں تھا کہ یہ لوگ اوجھل ہو جائیں گے۔ پھر نظر نہیں آئیں گے۔ داستانیں گم ہو جائیں گی۔ کمرے خالی ہو جائیں گے۔ صحن ویران ہو جائے گا۔ ایک آواز آتی ہے۔ میرے لیے آئس کریم لے آؤ۔ آواز کے ساتھ ایک جسم ہوتا ہے۔ جسم جگہ گھیرتا ہے۔ پلنگ پر، مسہری پر، کہیں بھی۔ ایک دن آواز خاموش۔ جسموں کا گھیرا ختم۔ سب کچھ ختم۔

اس نے ریحانہ سے پوچھا۔۔۔۔ ہم کہاں ملیں گے؟

وہ بری طرح چونک گئی۔ کہاں ملیں گے؟

’جب نہیں ہوں گے۔‘

’فاسفورس کے ڈھیر میں چمک رہے ہوں گے۔‘

’نہیں۔ سچ بتاؤ۔ کیا جنت جیسی کوئی جگہ ہے؟‘

’مردہ خانہ تو ہے۔۔۔۔۔‘

مسیح سہرا پہلی بار چوکا تھا۔۔۔۔ مردہ خانہ؟

’چونکے کیوں؟‘

’تم نے مردہ خانہ کہا؟‘

’کیا جنت میں زندہ لوگ ہوں گے؟‘

’پتہ نہیں۔‘

’اور ہماری دنیا میں؟‘ ریحانہ زور سے ہنسی۔

’پتہ نہیں۔‘

’آدھے سے زیادہ مردے ہیں۔ چھپکلی۔‘

’چھپکلی کیوں؟‘

’دیواروں پر اس طرح تیرتے ہیں کہ کوئی بھی چھپکلی کی طرح مارسکتا ہے۔‘

ٹھیک اسی وقت سہرا نے ایک چھپکلی کو دیکھا جو روشنی کے ارد گرد منڈرا رہی تھی۔ مردہ خانہ۔۔۔۔ اس کے کانوں میں یہ لفظ دیر تک گونجتا رہا۔









(۲)



مردہ خانہ۔ دوسری بار یہ لفظ ۲۰۱۳ میں سنا۔ سیاست نئی کروٹ لے رہی تھی۔ پارٹی ملک کی کئی ریاستوں سے غائب ہو رہی تھی۔ بی مشن کا قبضہ ہر جگہ ہو رہا تھا۔ پرانی مذہبی عمارت کی گونج میں اضافہ ہو چکا تھا۔ سہرا کو وہ گنبد یاد تھا۔ پرانی عمارت کی یاد تازہ تھی۔ پھر وہ عمارت کا ملبہ بھی، جس کے چاروں طرف پولیس کا پہرہ تھا۔ پرانی عمارت کی جگہ نئی عمارت کی تعمیر نے اب سیاست پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمان محض ووٹ بینک بن گئے تھے اور اس بات سے سہمے ہوئے تھے کہ ان کا مستقبل کیا ہو گا۔ جبکہ پارٹی بھی مستقبل کو لے کر خوفزدہ تھی۔ عوام میں بگ میں کے نعرے گونج رہے تھے اور یہ نعرے اثر دکھا رہے تھے۔ اس بات کا احساس ہو چکا تھا کہ بگ میں کے آتے ہی ملک کی تقدیر بدل جائے گی۔ دستور بدل جائیں گے۔ مسلمان بدل جائیں گے۔ اقلیتیں بدل جائیں گی۔ ان حالات میں پارٹی بے حد کمزور نظر آ رہی تھی اور اس بات کا شدت سے احساس ہو رہا تھا کہ اگلے انتخابات کے لیے پارٹی نے ابھی سے اپنی شکست تسلیم کر لی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ پارٹی اور پارٹی سے وابستہ لوگوں میں جوش و خروش کی کمی تھی۔ اپوزیشن نے کرپشن اور قومیت کے معاملے کو اٹھا کر عوام کو متنبہ کر دیا تھا کہ یہ کمزور لوگ ہیں اور کمزور لوگ حکومت کے قابل نہیں ہوتے۔

سیاست سے الگ ایک حادثہ ہوا تھا۔ ایسا حادثہ جسے فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ کاشف اٹھارہ کا ہو چکا تھا۔ ایک بالغ نوجوان۔ اب اس کے پاس نئی موٹر سائیکل بھی تھی۔ وہ لمبا تھا۔ چہرہ پر کشش اور اس کے چہرے پر بلا کی معصومیت تھی ریحانہ کو ہمیشہ کاشف کو لے کر خوف کا احساس ہوتا رہتا تھا اور اس خوف کا کوئی علاج نہیں تھا۔

’وہ کبھی کبھی میٹھے سروں میں اپنے کمرے میں گاتا ہے۔‘

’اچھا۔‘

’موبائل پر گھنٹوں بات کرتا ہے۔‘

’بیٹا جوان ہو گیا ہے۔‘

سہرا ریحانہ کو دیکھتا ہے۔ ریحانہ اسے ایک پریشان ماں کے طور پر نظر آتی ہے۔ سہرا کا قیاس ہے کہ ماں کہیں نہ کہیں بیٹے کی مصروفیت میں خود کو تقسیم ہوتے ہوئے دیکھتی ہے۔ کاشف نے اب اپنا وقت اپنے دوستوں کو دینا شروع کر دیا ہے۔

یہ ایک بڑا سا کمرہ ہے، جہاں دونوں صوفے پر بیٹھے ہیں۔ دیوار پر ایک پینٹنگ ہے، جس میں درخت کی شاخ پر دو کبوتر خاموش بیٹھے ہیں۔ پینٹنگ کے قریب ہی ایک کھڑکی ہے۔ ریحانہ اس وقت کھڑکی کے باہر دیکھ رہی ہے۔ سہرا اس کی کشمکش کو پڑھ سکتا ہے۔ ماں ہمیشہ کمزور نہیں رہتی مگر وہ بیٹے کے لیے اکثر کمزور ہو جاتی ہے۔ ریحانہ اٹھ کر کھڑکی کے پاس جا کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ سہرا کو یقین ہے کہ اس وقت وہ باہر کے مناظر کی جگہ کاشف کو دیکھ رہی ہو گی اور یہ خیال کر رہی ہو گی کہ اس وقت وہ کہاں ہو گا۔ وہ اکثر تشویش میں مبتلا ہو جاتی ہے اور جیسا کہ دو روز قبل ہوا، کاشف رات کو تاخیر سے آیا۔ وہ دوستوں کے ساتھ پکچر دیکھنے چلا گیا تھا۔ ریحانہ دیر تک ٹہلتی رہی پھر کاشف کے آنے کے بعد اس کے صبر کا باندھ ٹوٹ گیا۔

’تم مجھے مار ڈالو گے۔‘

’کیوں؟‘

’ایک فون نہیں کر سکتے تھے؟‘

’سنیما ہال میں تھا۔ فون سائلنٹ پر تھا۔‘

’ایک فون تو کر سکتے تھے کہ دیری سے آؤ گے۔‘

’غلطی ہو گئی ممی۔‘

کاشف کے معافی مانگنے کے باوجود ریحانہ غصے میں رہی اور اب وہ اس بات پر پریشان ہے کہ کاشف جوان ہو گیا ہے۔ یعنی وقت کو اس تیزی کے ساتھ اڑنا نہیں چاہیے تھا۔ اس تیزی کے ساتھ پھڑپھڑانا نہیں چاہیے تھا۔

اسی دن چار بجے کے آس پاس سنگیت سوامی کا فون آیا۔ سنگیت سوامی داڑھی رکھتے تھے۔ کرتا پائجامہ پہنتے تھے۔ راجیہ سبھا کے ممبر بھی تھے۔ اب بزرگ ہو گئے ہیں گھر پر دوستوں کو بلا کر خود کو زندہ رکھنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ سنگیت سوامی نے کہا تھا، وقت ہو تو آ جاؤ۔ کچھ دیر عیش کریں گے۔ سوامی بولنے والے لوگوں میں تھے اور سہرا کا خیال تھا کہ سوامی کو راجیہ سبھا میں دوسرا ٹرم ملنا چاہیے تھا، جو انہیں نہیں مل سکا۔ شام کے وقت سہرا سنگیت سوامی سے ملنے گیا۔ کچھ دیر کی گفتگو کے بعد سنگیت سوامی نے گفتگو کا رخ پرانی عمارت کی طرف موڑ دیا۔ وہ اداس تھے اور پارلیمنٹ میں بھی دلیل کے ساتھ اپنی بات رکھا کرتے تھے۔

’ایک غیر محفوظ مستقبل تمہاری قوم کے لیے۔۔۔۔۔‘

’شاید۔۔۔۔‘

’شاید نہیں اب قبول کر لو۔ پرانی عمارت کو مرکز بنا کر ایک راستہ پکڑ لو۔۔۔۔ اور دیکھو، یہ راستہ کہاں تک جاتا ہے۔ یہ راستہ بی مشن کی حکومت تک جاتا ہے اور صرف دو برس بعد پارٹی نہیں ہو گی، بی مشن ہو گا۔ ان کے دستور ہوں گے۔ ان کے قاعدے قانون ہوں گے۔ میڈیا پہلے ہی فروخت ہو چکا ہے۔ کیا تمہاری پارٹی میڈیا کو خرید نہیں سکتی تھی؟ سکتی تھی۔ مگر تمہاری پارٹی کے پاس تجربے اور مشاہدے کی کمی تھی۔ بی مشن نے میڈیا پر قبضہ کر لیا۔ اب تمام ایجنسی پر وہ قبضہ کریں گے۔۔۔۔ اور وہی چاہیں گے، جو ان کے دل میں ہو گا۔‘

’کیا یہ آسان ہو گا۔؟‘

’صبح سورج نکلنے کی طرح آسان۔ وہ بہت آسانی سے تمہاری پارٹی کو ختم کر دیں گے اور پھر ہر جگہ وہ ہوں گے اور پرانی عمارت کا راستہ بھی آسان ہو جائے گا۔‘

’ناتھانی اور جوشی کا کیا ہو گا؟‘

’ان کے ہاتھ کا پراجیکٹ ہائی جیک کر لیا گیا ہے۔ اب ایسے لوگ کسی ڈارک بنگلے میں ڈال دیے جائیں گے۔‘

’کیا یہ لوگ جلد بازی میں ہیں؟‘

’جلد بازی میں ہوں گے تو اپنا بیڑا غرق کریں گے مگر مسیح سہرا ، کھیل مزیدار ہو گا۔‘

’مزیدار۔۔۔۔۔‘

’تم نے چوہوں کی کہانی سنی ہے۔ جب جہاز میں پانی آنے لگتا ہے۔۔۔۔۔؟‘

’چوہے اچھل اچھل کر بھاگتے ہیں۔‘

’یہ کہاں جاتے ہیں۔؟‘

سوامی ہنسے۔ ’بی مشن کے پاس۔ دیکھ لینا۔ تمام چوہے بی مشن کو اپنا لیں گے۔ اس وقت نہ کوئی اصول ہو گا اور نہ قانون۔ نہ سیاست کی اخلاقیات۔ تمام جرائم پیشہ افراد بڑے عہدوں پر ہوں گے اور میڈیا ایسے تمام لوگوں کو ہیرو بتا رہی ہو گی۔‘

’کیا آپ سورج کے پار دیکھ رہے ہیں؟‘

’تمہیں بھی دیکھنا چاہیے مسیح سہرا ۔ بلکہ تمہیں زیادہ دیکھنا چاہیے۔‘

’ہونہہ۔‘

’اقلیتوں سے زیادہ نشانے پر تم ہو گے۔۔۔۔ اور تم کچھ نہیں کر پاؤ گے۔

’اس کے آگے۔۔۔۔۔‘

سوامی ہنسے۔ ’کھلا کھیل فرخ آبادی۔ جیت کو ممکن بنانے کے لیے وہ کچھ بھی کریں گے اور تمہاری پارٹی دیکھتی رہ جائے گی۔ جانتے ہو فرق کیا پڑے گا۔‘

سوامی کی نگاہیں خلا میں دیکھ رہی تھیں۔ ’برسوں کی ملّت کو شراپ ملے گا۔ جمہوریت نہیں ہو گی۔ سیکولرزم کی باتیں کرنے والے غدار ہوں گے۔ راشٹر واد کا موضوع اٹھایا جائے گا۔۔۔ اور تمام سیکولر ذہن کو حاشیہ پر ڈال دیا جائے گا۔‘

سوای ٹھہر کر بولے۔ ’مجھے سیاست کا پرانا تجربہ ہے مسیح سہرا ۔ اس لیے اس وقت جو میں دیکھ رہا ہوں، تم نہیں دیکھ رہے ہو۔ سیاست تم لوگوں کو بھی اتنے حصوں میں تقسیم کر دے گی کہ شمار کرنا مشکل ہو گا کہ مشرق سے آئے ہو یا مغرب سے۔‘ سوامی ہنسے۔ ’مجھے خوف اس بات کا ہے کہ ملک کی حالت کیا ہو گی۔ لو چائے آ گئی۔‘

اس درمیان خادم چائے کی پلیٹ لا کر رکھ گیا۔ کچھ ڈرائی فروٹس بھی تھے۔

’حل کیا ہے؟‘

’ابھی حل کی مت سوچو۔ اپنے تحفظ کے بارے میں سوچو۔‘

’تحفظ۔‘

جو پہلے ہوا، اب اس سے کہیں زیادہ بھیانک ہو گا۔‘

چائے پینے کے بعد سنگیت سوامی سے اجازت لے کر سہرا گھر کی طرف چل پڑا۔ سوای نے مستقبل کا ذکر کر کے ان وحشتوں کو جگا دیا تھا، جس کے بارے میں سہرا ا بھی سوچنا نہیں چاہتا تھا۔ خانہ بدوش یہ لفظ دوبارہ اس کی زبان پر آیا۔ اور وہ بگ میں بھی جو کبھی ناتھانی کے لیے چائے لایا کرتا تھا۔ وقت کے ساتھ ناتھانی، جوشی حاشیہ پر چلے گئے تھے۔ گھوڑا جو ہوا میں اڑتا ہے، اسے زمین پر بھی اپنے پاؤں رکھنے ہوتے ہیں۔

پیچھے چھوٹی چھوٹی عمارتیں ہیں۔ سڑک اچھی ہے۔ سڑک کے دوسری طرف درختوں کی قطار ہے۔ سوامی جس جگہ رہتے ہیں وہاں کئی فلیٹ سابق فوجی افسروں کے ہیں۔ یہ فوجی افسر بھی اس مسخرے سے خوش نہیں جو آخری حد تک اقتدار پر قابض ہونے کے خواب دیکھتا ہے۔ سہرا ، سوامی کی گفتگو کے بارے میں سوچتا ہے تو آسمان سے اترتی ہوئی ایک دھند نظر آتی ہے۔ چھوٹی چھوٹی عمارتیں چھپ گئی ہیں۔ درختوں کی قطار بھی۔ اپنی گاڑی تک پہنچنے میں سہرا کو وقت لگتا ہے۔ یہ دھند کیوں پیدا ہوئی؟

اب دھند نہیں ہے۔ مگر دوسرے دن دھند کے اچانک پیدا ہونے کا جواز مل گیا۔ فون پر خبر ملی۔ سنگیت سوامی چلے گئے۔ رشتہ داروں کو شک ہے کہ کسی نے زہر دیا۔ پوسٹ مارٹم ہو گا۔ لاش مردہ خانے میں رکھی جائے گی۔ گھر نہیں آئے گی۔ وہیں سے شمشان لے جایا جائے گا۔ دنیا احمق انسان پر خرچ نہیں کرنا چاہتی۔ سوامی راجیہ سبھا میں ابھی بھی ہوتے تو شان کے ساتھ انہیں آخری آرام گاہ تک پہنچایا جاتا۔ مگر اب۔۔۔۔

سوامی کل تھے۔۔۔۔۔ پرانی عمارت کی باتیں کر رہے تھے۔ ملک کے مستقبل کی۔ کتنے گھنٹے گزرے ہیں؟ زیادہ نہیں۔ کل وہ زندہ تھے۔ اس کی طرف کاجو کی پلیٹ بڑھائی۔ دو بار اٹھ کر اندر گئے۔ کل تک گوشت پوست کے انسان تھے۔ کچھ گھنٹے پہلے تک مگر اب۔۔۔۔ سہرا موت سے ہمکلام تھا۔ اس پر وحشت طاری تھی وہ کافی دیر تک بستر پر لیٹا رہا۔ سوامی کا چہرہ یاد آتا رہا۔ سوامی کی آنکھیں، سوامی کے ہونٹ، سوامی کے لباس، مگر اب سوامی نہیں ہے۔ پوسٹ مارٹم کے بعد مردہ گھر۔ مردہ گھر سے شمشان۔ ایک زندہ انسان دیکھتے ہی دیکھتے غائب۔۔۔



شام کا وقت ہے۔ سہرا اسپتال کے مردہ گھر کے سامنے کھڑا ہے۔ کنارے گاڑیاں لگی ہوئی ہیں۔ سوامی کے دوچار رشتے دار کھڑے ہیں۔ وہ اسپتال کے چاروں طرف دیکھتا ہے۔ سامنے ایک چھوٹا سا دروازہ ہے۔ دروازے کے آس پاس بدبو ہے۔ یہ بدبو کہاں سے آ رہی ہے؟ وہ دیر تک مردہ گھر کے پیچھے کھڑا رہتا ہے۔ ایک سگریٹ جلاتا ہے۔ بدبو ابھی بھی ہے۔ اور یہ طے ہے کہ بدبو مردہ گھر سے نہیں آ رہی، پھر کہاں سے آ رہی ہے؟

وہ مریضوں اور رشتے داروں کو دیکھتا ہے۔ ہر کچھ فاصلے پر ایک نئی عمارت بنی ہوئی ہے۔ اور ایسا خیال آتا ہے، جیسے دنیا کے سارے مریض ایک ہی اسپتال میں جمع ہوئے ہوں۔ کوئی رو رہا ہے۔ کچھ لوگ ایک خاتون کو چپ کرانے میں لگے ہیں۔ بدبو؟ سہرا کو پھر بدبو کا خیال آتا ہے۔ یہ بد بو زندہ لوگوں کے جسم سے تو نہیں آ رہی؟ زندہ لوگ جو سوامی کی طرح غائب ہونے والے ہیں۔

اب وہ مردہ گھر کے گیٹ پر ہے۔ دروازے پرانے ہیں۔ اس وقت دروازے پر کوئی نہیں۔ وہ دروازے سے اندر جاتا ہے۔ اندر جاتے ہی احساس ہوتا ہے وہ کسی اور دنیا میں آ گیا ہے۔ اس دنیا کا تعلق باہری دنیا سے نہیں ہے۔ یہ خاموش لوگوں کی بستی ہے۔ یہاں جو لائے جاتے ہیں وہ ہر برائیوں سے پاک ہو جاتے ہیں۔ سفید ٹائلس لگے ہیں۔ دیواریں بھی سفید اور ٹھنڈی ہیں۔ یہاں کئی کمرے ہیں۔ ایک شخص نظر آتا ہے، جو ایک اسٹریچر لیے جا رہا ہے۔۔۔۔ وہ غور سے مردہ گھر کا جائزہ لیتا ہے۔ یہاں ٹھنڈ کافی ہے۔ مردہ جسم کی حفاظت کے لیے کمرے کو زیادہ سرد رکھا گیا ہے۔ پاس والے کمرے میں سفید چادریں رکھی ہیں۔ یہ اسٹور روم ہے۔ سامانوں سے بھرا ہوا— اس کے آگے ایک کمرہ ہے اور کمرے میں کئی اسٹریچر ہیں، جن پر مردے رکھے ہیں اور مردوں کے جسم پر سفید چادریں پڑی ہیں۔ ایک، دو، تین، چار۔۔۔۔۔۔ اسے ایک جسم میں حرکت نظر آئی۔ ممکن ہے یہ وہم ہو لیکن سہرا خوفزدہ ہو کر باہر نکل آیا۔

سات بجے سوامی کے مردہ جسم کو آگ کے حوالے کر دیا گیا۔ ایک جسم اب آگ کے شعلوں کے درمیان جھلس رہا تھا۔

’شکریہ کہ تم مر گئے ہو۔ ہم سب بھی بہت جلد مر کھپ جائیں گے۔‘

مسیح سہرا باہر نکل آیا۔۔۔۔ اور قیاس ہے کہ سڑک پر چلتے لوگوں کے درمیان اس نے موت کو دیکھا تھا اور اسے اس بات کا احساس ہو رہا تھا کہ موت اس کے تعاقب میں ہے۔ کچھ دور جانے کے بعد وہ مڑا تو سہرا کو اس کا قیاس صحیح معلوم ہوا۔ کوئی اس کا پیچھا کر رہا تھا اور یہ یقیناً موت کا فرشتہ ہو گا۔ اب اسے اس بات سے کوئی الجھن نہیں تھی۔











(۳)



۲۰۱۳ کی سردیوں کا آغاز ہو چکا تھا۔ اس درمیان دو بار اس نے مورچری کے چکّر لگائے۔ کیوں؟ وہ نہیں جانتا۔ اس نے مورچری اور مردہ گھروں کے بارے میں بہت ساری کہانیاں پڑھ ڈالیں۔ کچھ کہانیاں ہیبت ناک تھیں۔ لاش پر کیمیائی عمل کے بعد کسی مردہ کو گھر کے ڈرائنگ روم میں اس طرح رکھا جاتا جیسے وہ کرسی پر بیٹھا ہے یا صبح کا اخبار پڑھ رہا ہے۔ لیکن اب ان کہانیوں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ نہ کوئی پیدا ہوتا ہے نہ مرتا ہے۔ یہ سب وہم ہے۔ جیسے بچے کرکٹ یا فٹ بال کھیلتے ہیں، ایک زمین یا ایک گھر مل جاتا ہے۔ کچھ دن کھیلئے پھر مردہ گھر— پھر مردہ گھر آ جائیے اور زندگی کی مدت کس قدر کم ہوتی ہے۔ دنیا میں آنے والا وہ شخص خود سمجھاتا ہے کہ وہ زندہ ہے اور سانس لے رہا ہے اور باہر کمانے جا رہا ہے۔ اس نے گھر تعمیر کیا ہے۔ وہ صبح کو اخبار پڑھتا ہے۔ جسم کو ترو تازہ رکھنے کے لیے جاگنگ کرتا ہے۔ وہ کھانے کے لیے منہ میں نوالے ڈالتا ہے اور سارا دن گھرسے باہر بھاگتا رہتا ہے۔ گھر میں ایک بیوی لے آتا ہے۔ پھر بچے آ جاتے ہیں اور پھر ایک بچوں کی پرورش کے بعد سیر کرتا ہوا وہ شمسان یا قبرستان میں نکل جاتا ہے۔ پھر وہاں سے واپس نہیں آتا۔

اس درمیان ریحانہ کی طبیعت بھی خراب رہنے لگی تھی۔ سہرا پر بھی بزرگی چڑھنے لگی تھی۔ سردی کا موسم اس کے لیے خاصہ تکلیف دہ ثابت ہوتا۔ وہ جرابیں، دستانے نکال لیتا۔ رات اور دن میں بندروں والا کیپ لگائے رہتا۔ جسم کی بنیاد کمزور ہو چکی تھی۔ سردی سے بچنے کے لیے وہ دو دو سویٹر اندر ڈال دیتا۔ گرم لباسوں کے باوجود سارا دن اس کے بدن میں درد رہتا۔ اب یہ درد روز کا معمول بن گیا تھا۔ کبھی کبھی لگتا کہ پاؤں میں خون جم گیا ہے۔ گھٹنوں کا درد لاعلاج ہو چکا تھا۔ کبھی کبھی اچانک اٹھنے میں بھی تکلیف ہوتی تھی اور اسے احساس تھا کہ موت کا فرشتہ اسے دیکھ رہا ہے۔

ریحانہ کے پاس اب کاشف کے لیے زیادہ باتیں تھیں۔ وہ کاشف کو لے کر فکر مند رہتی تھی۔

’وہ گھر سے باہر کیا کرتا ہے؟‘

’اس کے دوست کیسے ہیں؟‘

’گھر کے باہر وہ کچھ کھاتا پیتا تو نہیں؟‘

’تم اس سے کچھ پوچھتے کیوں نہیں؟‘

کاشف کے پاس ہر بات ایک ہی جواب تھا۔

’اتنے سوال مت پوچھا کرو ممی۔۔۔۔۔‘

’اب میں بڑا ہو گیا ہوں۔‘

’بس مجھے ڈرایا مت کرو۔‘ کاشف غصے میں، اپنے کمرے میں چلا گیا۔ ریحانہ چونک کر بولی ابھی کیا کہا اس نے؟‘

’کچھ نہیں کہا۔‘

’نہیں۔ کچھ کہا ہے۔‘

’کچھ کہا ہوتا تو میں نے بھی سنا ہوتا۔‘

ریحانہ کا چہرہ سپید تھا۔ بچے بڑے ہو جائیں تو خوف ہوتا ہے۔ وہ کہاں جا رہے ہیں۔ کس کے ساتھ ہیں، یہ سب سوچنا پڑتا ہے۔ مگر کاشف کسی کی سنتا کہاں ہے۔ اپنی مرضی کا مالک ہے۔

کھڑکی ہوا سے کھل گئی ہے۔ اس وقت سہرا کے پاس کہنے کے لیے کچھ نہیں۔ کچھ دیر بعد سناٹا چھا جاتا ہے۔ ریحانہ اپنے کمرے میں چلی جاتی ہے۔ اس سناٹے میں سہرا اکیلا نہیں ہے، اس کے ساتھ سوامی بھی ہے۔ پرانی عمارت بھی ہے۔ نئی سیاست کا شور بھی ہے۔ انتخابات میں اب کم دن رہ گئے ہیں اور یہ قدیم خانہ بدوش جنگلوں سے نکل کر شہر شہر قریہ قریہ پھیلتے جا رہے ہیں۔

ریحانہ کو سہرا سے شکایت تھی۔ تم انہیں خانہ بدوش کیوں کہتے ہو۔؟یہ قدیم قبائل میں شمار ہوتے ہیں۔ حضرت مسیح، حضرت یعقوب کے زمانے میں بھی تھے۔ سردی، گرمی، بارش میں کھلے آسمان کے نیچے رہتے ہیں۔ محنت کرتے ہیں۔ ان کی ہنر مندی کی ہزاروں مثالیں موجود ہیں۔ ان کی عورتیں محلے گلیوں میں پھیریاں لگاتی ہیں۔ اور ان کے دلچسپ قصے ساری دنیا میں مشہور ہیں۔

’یہ وہ خانہ بدوش نہیں۔‘ سہرا نے ہنس کر کہا۔ یہ وہ ہیں جہاں تہذیب نے پردہ کر لیا ہے۔ وہ یہ ہیں جن کا استعمال حکومتیں کر رہی ہیں۔ یہ وہ ہیں جو منشیات کا کاروبار کرتے ہیں اور انسانوں کو کئی حصوں میں تقسیم کر رہے ہیں۔ یہ فرقہ پرست ہیں اور گروہوں میں آباد ہیں اور اب یہ پھیل رہے ہیں۔ ناسور بن رہے ہیں۔ اس کے لہجے میں سختی ہے۔۔۔ اور یہ موت فروخت کر رہے ہیں۔

۔۔۔۔۔ اور یہ بے رحم کی سردیاں تھیں، جب حقیقتاً سڑکوں چوراہوں پر موت فروخت کی جا رہی تھی۔ ایک طبقہ گھروں میں خوفزدہ تھا اور پارٹی نے آسانی سے خود کو ان کا شکار بننے دیا تھا اور ایک تصویر تھی جو ہر دو قدم پر لہراتی تھی اور جارج آرویل کے بگ برادر کی یاد دلاتی تھی۔

’یہ ہم کہاں آ گئے۔؟‘

مسیح سہرا کو احساس تھا کہ وقت اس فکر سے کہیں زیادہ خوفناک ہے، جو اس کی سوچ میں سفر کرتا ہے۔ سہرا کو ان اندھیروں کا احساس نہیں تھا جو سیّال کے مانند اس کے جسم میں اتر رہے تھے۔ تاہم اسے احساس تھا کہ کچھ ہونے والا ہے۔ جب آپ خود سے سوال کرتے ہیں کہ کیا ہونے والا ہے تو آپ کی چھٹی حس میں ایک اسکرین پر کچھ تصویریں جھلملاتی ہیں۔ یہ تصویریں کبھی کبھی یقیناً آپ کو خوفزدہ کر دیتی ہیں۔ کبھی کبھی انسان اس احساس سے باہر ہوتا ہے کہ ایک سونامی تیزی سے اس کی طرف بڑھ رہی ہے اور یہ سونامی ایک لمحہ کے اندر گھر کے شیرازے کو بکھیر سکتی ہے۔ آنکھوں کے آگے جو ایک فریم فریز ہے، کبھی کبھی ہم اس سے آ گئے نہیں دیکھتے۔ جبکہ تیز رفتار وقت اچانک اس فریم کو تبدیل کر دیتا ہے۔

فریم اچانک تبدیل ہوا تھا

’تو تم جا رہے ہو؟‘ ریحانہ نے کاشف سے پوچھا

’ہاں۔‘

’اور تم ہمیشہ کی طرح دیر سے آؤ گے۔‘

’ہاں۔‘

’زیادہ دیر تو نہیں ہو گی؟‘

’نہیں ممی۔‘

’پھر ٹھیک ہے۔ زیادہ دیر ہوتی ہے تو میری الجھن بڑھ جاتی ہے۔‘

کاشف مسکرایا۔ ’تم بھول جاتی ہو کہ تمہارا بیٹا بڑا ہو گیا ہے۔‘

’اب اتنا بھی بڑا نہیں۔‘ ریحانہ نے حکم دیا۔ ’موٹر سائیکل آرام سے چلانا۔ زیادہ تیز بھگانے کی ضرورت نہیں۔ اور اپنا خیال رکھنا۔‘

اس دن آسمان کی رنگت اچانک تبدیل ہو گئی۔ سیاہ بادل آسمان پر چھا گئے۔ کچھ دیر میں تیز بارش ہونے لگی۔ کھڑکی کے باہر خانہ بدوشوں کا ایک ’جتھا‘ تھا جو بھیگتا ہوا، نعرے لگاتا شور کرتا ہوا گزر رہا تھا۔ بارش کے رم جھم کی آواز آ رہی تھی۔ کھڑکی کے باہر ایک چھت پر دو کبوتر بھیگتے ہوئے اڑے اور درخت کے پتوں کے درمیان جگہ بنانے کی کوشش کرنے لگے۔

کو ئی ویرانی سی ویرانی ہے

دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا

دونوں صوفے پر بیٹھے تھے اور ماحول میں خاموشی تھی۔ سہرا نے ریحانہ کی طرف دیکھا، اس کی آنکھیں گہری سوچ میں گرفتار نظر آ رہی تھیں۔ ریحانہ نے اچانک سہرا کی طرف دیکھا۔

’خیال کیا ہے؟‘

’گاؤں کی پگڈنڈیوں پر چلتی ہوئی سائیکل۔‘

’اور جنون؟‘

’ڈگمگاتا ہوا ڈرون۔‘

’زندگی کیا ہے؟‘

’واہمہ۔‘

’خوف کیا ہے۔؟‘

’جسم میں ہر لمحہ اٹھنے والی سونامی لہر۔‘

’موت کیا ہے؟‘

’آہ۔۔۔ اس کا جواب میرے پاس نہیں۔‘

’اور میرے پاس بھی نہیں۔‘

ریحانہ کھڑکی سے باہر کی طرف دیکھ رہی تھی۔

سہرا کو اس کے سوالوں سے کوئی حیرانی نہیں تھی۔ اس کے برعکس وہ بھی اپنے دل کو ڈوبتا ہوا محسوس کر رہا تھا۔ مگر کیوں؟ اس کا جواب اس کے پاس نہیں تھا۔ کھلے دروازے سے غرّاتی ہوئی ایک بلّی کمرے میں داخل ہو گئی تھی۔ ریحانہ کو، بلی کو باہر بھگانے میں کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس نے دروازہ بند کیا۔ بارش ابھی بھی تیز تھی۔ آسمان سیاہ بادلوں کے نرغے میں تھا۔





ll

بارش کے باوجود خانہ بدوشوں کا شور کان کے پردے پھاڑ رہا تھا۔ بھیگتے ہوئے خانہ بدوش زور زور سے نعرے لگاتے ہوئے سڑک سے گزر رہے تھے۔ ان کے لہجے میں سختی تھی اور جسم میں بارود کے بھرے ہونے کا احساس ہو رہا تھا۔ اب یہ خانہ بدوش مطمئن تھے کہ یہ سڑک ان کی ہے، عمارتیں ان کی ہیں اور کچھ دن بعد ملک کی ہر شے پر ان کا حق ہو گا۔ بے خوف سڑک پر ادھر ادھر آتے جاتے انہیں ٹریفک کے ہونے نہ ہونے کا ذرا بھی احساس نہیں تھا۔ یہ پرچم ہوا میں لہراتے اس طرح ادھر ادھر اجا رہے تھے جیسے مقابلہ انہوں نے جیت لیا ہو اور اب ملک کی تقدیر لکھنے کی ذمہ داری ان کی ہے۔

یہی وقت تھا جب ایک خانہ بدوش کو بچاتے ہوئے ایک موٹر سائیکل ہوا میں اچھلی اور پھسلتی ہوئی کراسنگ سے ٹکرائی۔ اس سے قبل کہ پولیس آتی یا لوگ جمع ہوتے، موٹر سائیکل چلانے والا کراسنگ کے کھمبے سے ٹکرانے کے بعد بیہوش ہو چکا تھا۔ پولیس نے زخمی نوجوان کو کنارے کیا۔ کچھ دیر بعد شور کرتی ایمبولنس آئی اور زخمی نوجوان کو لے کر اسپتال روانہ ہو گئی۔ جہاں ڈاکٹروں نے معائنہ کے بعد اس کے مردہ ہونے کا اعلان کر دیا۔

سہرا نے فون پر خاموشی سے یہ خبر سنی۔

جذباتی لہجہ میں اس نے ریحانہ کو بتایا کہ اب خانہ بدوشوں سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ ریحانہ کو ہوش میں لانے میں کافی وقت گزر گیا۔

سہرا ایک بار پھر اسپتال کی عمارت میں تھا۔ چاروں طرف اسے مردے نظر آ رہے تھے۔ مورچری کا دروازہ ابھی بھی کھلا ہوا تھا۔ اسے یقین کرنا مشکل تھا کہ ایک دن اپنے پیارے بیٹے کے لیے اسے مورچری میں آنا ہو گا۔ اس کے قدموں میں لڑکھڑا ہٹ تھی۔ آنکھوں کے آگے دھند میں اضافہ ہو چکا تھا۔ وہ گہری نیند میں چل رہا تھا۔ اسے یقین تھا، کاروائی مکمل ہونے میں کافی دیر لگ جائے گی۔ رات ۳ بجے کی لاش کو لے جانے کا کلیرنس ملا۔ ظہر بعد تجہیز و تکفین کے لیے وقت مقرر ہوا۔ اس وقت تک دونوں ہوش میں نہیں تھے۔ بلکہ دونوں نیند کے مسافر تھے۔ انہیں گمان بھی نہیں تھا کہ وقت کے دریا نے انہیں کہاں اور کس مقام پر لا کھڑا کیا ہے۔

تجہیز و تکفین کے بعد سہرا جب گھر آیا تو گھر خالی خالی لگ رہا تھا۔ ریحانہ کسی مجسمہ میں تبدیل ہو گئی تھی۔ اس نے ہزاروں پتھروں کو دیکھا ہے۔ ریحانہ پتھروں کا ایک ایسا مجسمہ تھی، جس میں نہ حرکت تھی، نہ زندگی۔ وہ بستر پر نڈھال پڑی تھی۔ سہرا گول گول گھومتا ہوا کاشف کے کمرے میں آیا۔۔۔۔

وہ ابھی یہیں تھا۔۔۔

اسی کرسی پر بیٹھا ہوا۔۔۔

کل اسی وقت وہ گھر سے نکلا تھا۔ اس نے جینس پہن رکھی تھی اور وہ دنیا کا سب سے خوبصورت شہزادہ لگ رہا تھا۔۔۔۔۔

مگر اب۔۔۔ وہ نہیں ہے۔۔۔۔۔

پکارنے پر بھی نہیں آئے گا۔۔۔۔۔

سہرا دیر تک ادھر ادھر ٹہلتا رہا۔ اسے سکون نہیں تھا۔ جیسے کاشف اپنے ساتھ اس کے صبر و سکون کو بھی سمیٹ کر لے گیا ہو۔ وہ ایک بار پھر خیالوں کے مردہ گھر میں تھا۔ اور اس مردہ گھر میں لاشیں سجی تھیں۔ سوامی کی۔۔۔ کاشف کی۔۔۔ ایک خالی اسٹریچر تھا۔ سہرا اس اسٹریچر پر آنکھیں موند کر لیٹ جانا چاہتا تھا۔

خود کو سمجھنے سمجھانے کی تمام دلیلیں ناکام ثابت ہو گئی تھیں۔ آنکھوں کے آگے دھند بڑھ گئی تھی۔ سہرا کو احساس تھا، اب اس دھند سے باہر نکلنا دونوں کے لیے مشکل ہو جائے گا۔ کچھ دنوں تک ریحانہ کی دماغی حالت ٹھیک نہیں رہی۔ جیسے ایک دن رات میں اچانک وہ اٹھ کر بیٹھ گئی۔ پھر سہرا کو جھنجھوڑ کر اٹھایا۔

’ہاں وہ آیا تھا۔ اور اس نے مجھ سے بات بھی کی۔‘

’سو جاؤ ریحانہ۔‘

’نہیں۔ وہاں اسے کھانے پینے کی تکلیف ہے۔ پزا اور برگر نہیں ملتا۔‘

’میں اسے کچھ اچھا سا بنا کر بھیجنا چاہتی ہوں۔‘

’صدقہ کر دو۔‘

’صدقہ کرنے سے کاشف تک پہنچ جائے گا؟‘

’کیوں نہیں۔‘

’اچھا پھر آرام کرو۔‘

کچھ حادثوں کا اثر زندگی پر پڑتا ہے۔ کچھ حادثے آپ کے جسم کے ساتھ چپک جاتے ہیں۔ ایسے ہی کچھ چہرے ہر وقت آپ کے ساتھ چلتے ہیں۔ وقت گزرنے کے بعد بھی یادوں کا سلسلہ منقطع نہیں ہوتا اور ایسی یادیں بھی ساتھ چھوڑ دیں تو پھر زندگی کا مطلب کیا ہے۔ سہرا ان یادوں کے ساتھ چلتا رہا۔ مردہ خانے کا تصور پہلے سے کہیں زیادہ جگہ گھیرتا رہا۔ اب یہ گھر بھی اسے مردہ خانہ لگتا تھا۔ لیکن اس وقت تک اسے یہ یقین نہیں تھا کہ یہ گھر ایک دن حقیقت میں مردہ گھر ثابت ہو گا۔

وقت نے صفحے تیزی سے تبدیل کر دیے تھے۔

٭٭٭





(۴)
۲۰۲۰ جنوری



۲۰۱۴ بھی آیا۔ پھر وقت نے ۲۰۱۹ کا فاصلہ بھی طے کر لیا۔۔۔ اور ۲۰۲۰ کی صبح نمودار ہوئی۔ اس صبح کے آنے تک منظر صاف ہو چکا تھا۔ خانہ بدوش حکومت میں تھے۔ بگ برادر اور بگ مین کے علاوہ پارٹی میں اور کوئی بھی نہیں تھا، جس کے پاس طاقت ہو یا جس کی آواز میں ارتعاش ہو، کچھ کہنے کی ہمت ہو۔ خانہ بدوش سڑکوں پر آزادانہ گھوم رہے تھے۔ قتل کر رہے تھے اور ایک بڑی آبادی کو شہریت سے محروم کرنے کے میپ بنائے جا چکے تھے۔ عدلیہ کے فیصلوں پر حکومت کی مہر تھی اور تمام ایجنسیاں حکومت کی نگرانی میں کام کر رہی تھیں۔ میڈیا بھونپو بن کر رہ گیا تھا اور شہر میں جگہ جگہ چوراہے پر نفرت کی قندیلیں روشن تھیں۔ پرانی عمارت کا فیصلہ آ چکا تھا۔ اور آیندہ کے انتخابات کے لیے اس فیصلے نے تمام راستے صاف کر دیے تھے۔ اور جن دنوں فیصلے کی ۴۰ دن تک سنوائی ہو رہی تھی، یہ حادثہ انہیں دنوں پیش آیا۔

ریحانہ کی طبیعت بگڑتی جا رہی تھی۔ کاشف کی موت کے بعد وہ ایک دن بھی خوش نظر نہیں آئی۔ کئی بار وہ کمزور لفظوں میں کہہ چکی تھی کہ اسے کاشف کے پاس جانا ہے۔ کاشف اسے یاد کرتا ہے۔ اور جس دن عدلیہ مسلم ثبوتوں کا اعتراف کر رہی تھی اور یہ احساس ہو رہا تھا کہ پرانی عمارت کے فیصلے میں انصاف سے کام لیا جائے گا، اس دن ریحانہ کی طبیعت بگڑ گئی۔ اس کا چہرہ سرخ تھا اور اس کی پیشانی گرم۔ اس کو اٹھنے، چلنے میں پریشانی ہو رہی تھی۔ سہرا خاموشی سے اس نظام کو دیکھ رہا تھا، جہاں چپکے سے یا اچانک لوگ گم ہو جاتے ہیں۔ پھر نظر نہیں آتے۔ وہ شکست خوردہ ایک گوشہ میں بیٹھا تھا اور ذہن و دماغ پر مردہ گھر کے سوا کوئی تصور نہیں تھا۔

ان دنوں کا موسم کچھ اور تھا۔ موت انسانی حیرانیوں سے طلوع ہو رہی تھی۔۔۔۔ اور یہی وقت تھا جب سہرا نے اپنے کئی عزیزوں اور جاننے والوں کندھا دیا تھا۔ لوگ ایسے بھی جاتے ہیں کیا کہ کل تھے اور آج نہیں۔ صبح تھے۔ شام نہیں۔ ایک گھنٹہ قبل گفتگو کر رہے تھے اور ایک گھنٹے بعد کرہ ارض سے غائب۔ موت نے سہرا کا اعتبار کھویا تھا۔ وہ گھنے جنگلوں میں بھٹک رہا ہے۔ کوئی دور سے دوڑتا ہوا آتا ہے۔ سہرا اسے پہچانتا ہے۔

’چلو میرے ساتھ۔‘

’مگر کہاں؟‘

’سوال مت پوچھو۔۔۔۔ چلو میرے ساتھ۔۔۔‘

’اس جنگل سے باہر۔‘

’اب چاروں طرف گھنے جنگل ہیں۔ جہاں جاؤ گے وہاں جنگل۔ آواز سنو۔‘

’یہ آواز تو بھیڑیے کی ہے۔۔۔۔‘

’نہیں خانہ بدوش کی، یہ سارے خانہ بدوش بھیڑیے بن گئے ہیں۔‘

’مگر ان کے بارے میں کچھ بھی بولنا ممنوع ہے۔‘

’اور اسی لیے۔۔۔۔ چلو بھاگو۔۔۔۔ نکلو یہاں سے۔‘

کوئی اس کو تھامتا ہے۔ جنگلوں سے آگے پہاڑیاں ہیں۔ کچھ پہاڑیاں ایسی ہیں، جہاں سے بڑے بڑے پتھر کھسک کر ہزاروں فٹ نیچے کھائی میں گر رہے ہیں۔ ایک جگہ کچھ مزدور کھڑے ہیں۔ بارودی سرنگ اڑائی جا رہی ہے۔ کچھ دوری پر پولیس کے سپاہی ہیں۔ اس علاقے میں کھدائی چل رہی ہے۔

’یہاں سے بھی نکلو۔ دھماکہ ہونے والا ہے۔‘

’پھر ہم کہاں جائیں گے؟‘

’وہ سامنے دیکھو۔۔۔۔۔‘

’سامنے کیا ہے؟‘

’مردہ گھر۔‘

’مردہ گھر؟‘ وہ چونکتا ہے۔

یہاں پناہ ہے۔ سب کے لیے۔۔۔۔ جو مکانوں میں ہیں، سڑکوں پر ہیں، چوراہوں پر ہیں، دفتروں میں ہیں، خطرے میں ہیں۔ اور سنو۔ ان کی جیب بہت بڑی ہو گئی ہے۔‘

’جیب؟‘

’ہاں جیب۔ اس میں فلائی اوورز ہیں۔ نیشنل انٹر نیشنل بینک ہیں۔ عدلیہ ہے۔ ایجنسیاں ہیں۔ خانہ بدوش ہیں۔ مذہب ہے اور ہتھیار۔۔۔۔۔‘

’پھر باہر کیا ہے۔؟‘

’موت۔ اس لیے سوچو مت بھاگ چلو۔۔۔۔۔‘

سہرا دھند سے واپس آتا ہے تو ریحانہ کی کمزور آواز سنتا ہے۔۔۔۔۔ پانی۔۔۔۔ وہ ایک گلاس میں پانی لا کر دیتا ہے۔ تو ریحانہ اسے کافی کمزور نظر آتی ہے۔ کمزوری کے باوجود ریحانہ اس کی طرف مسکرا کر دیکھتی ہے۔

’تم سے کچھ باتیں کرنی ہیں۔ زیادہ وقت نہیں ہے میرے پاس۔۔۔۔ میں اسے دیکھ رہی ہوں اور بہت قریب سے دیکھ رہی ہوں۔‘

’کس کو؟‘ سہرا زور سے چیختا ہے

’آہ۔۔۔۔ چیخو مت۔ میری روح کو تکلیف ہوتی ہے۔‘

’کس کو دیکھ رہی ہو۔‘

’وہ ہے نا کمرے میں، اس وقت بھی۔ موت کا فرشتہ۔ وہ آ چکا ہے۔‘

’ریحانہ۔۔۔۔۔‘ سہرا کچھ کہتے کہتے ٹھہر جاتا ہے۔

’تمہیں اکیلا چھوڑ کر جا رہی ہوں۔ اس کا صدمہ ہے۔ تم بہت اکیلے رہ جاؤ گے — مجھے اس کا احساس ہے — مگر کاشف کے بعد۔۔۔۔ میں جینا بھول گئی۔ میں کاشف کے پاس جا رہی ہوں۔ وہ بار بار مجھے آواز دیتا ہے۔‘ ریحانہ دھند میں دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔ ’یہ پہیلی کچھ سمجھ میں نہیں آئی۔۔۔۔ اس کی آواز سنتی ہوں تو وہ سامنے کھڑا نظر آتا ہے۔ کتنے دنوں کی بات ہے وہ مجھ سے ناراض تھا۔ تمہیں یاد ہے نا۔۔۔۔ مجھے اس کا چہرہ۔۔۔۔ اس کی باتیں سب یاد ہیں۔۔۔ بلکہ میں کچھ بھی نہیں بھول سکی۔۔۔۔ اور کیوں بھولوں میں۔۔۔۔۔ وہ مجھے آواز لگاتا تھا۔۔۔۔ بہت پیار سے۔۔۔۔ مجھ سے جھگڑا کرتا تھا۔۔۔۔ یہ ایک لمحہ زندگی کو کہاں لے جاتا ہے۔؟‘

’ریحانہ۔۔۔۔‘ سہرا نے آہستہ سے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا۔۔۔۔ یہ سب کیوں سوچ رہی ہو۔ اور ہاں تم کہیں نہیں جا رہی ہو۔ تم مجھے جانتی ہو نا۔۔۔۔ میرے بارے میں سوچتی ہو نا۔۔۔۔ میں اس تاریکی کے بوجھ کو اکیلے اٹھانے کے قابل نہیں ہوں ریحانہ۔۔۔۔۔‘

پہلی بار سہرا پھوٹ پھوٹ کر رویا۔ صبر ہونٹوں تک آ کر باندھ توڑ گیا۔ آگ کی لپٹیں اٹھیں۔ اس نے ریحانہ کے چہرے کو غور سے دیکھا۔ یہ چہرہ ہر قسم کے تاثرات سے بے نیاز تھا۔ سرد۔ صرف آنکھیں تھیں، جن میں جان باقی تھی۔ جسم میں کوئی ہلچل نہیں۔ اس نے ریحانہ کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لیا۔ ایک لمحہ کے لیے اسے گھر گھومتا ہوا نظر آیا۔ خلا میں ایک جسم جھول رہا ہے۔۔۔ اور یہ اس کا جسم ہے۔ سہرا نے محسوس کیا، ریحانہ کچھ کہنا چاہتی ہے۔ کچھ کہنے کے لیے خود کو سمیٹ رہی ہے۔ ایک نور کا دائرہ ہے جو اس کے سر پہ منڈلا رہا ہے۔

’کچھ بہت برا ہونے والا ہے۔۔۔۔‘ ریحانہ کی آواز ابھری۔۔۔۔ مگر اس وقت تک میں نہیں رہوں گی۔ اب سوچتی ہوں، کاشف کا جانا غلط نہیں تھا۔ وہ اس ماحول میں زندہ نہیں رہ سکتا تھا۔ وہ معصوم تھا اور اب جو کچھ ہو رہا ہے۔۔۔۔ تم سمجھ رہے ہو نا۔۔۔ تم سے کچھ باتیں کر لوں۔۔۔ جی ہلکا کر لوں۔۔۔ سنو۔۔۔ کافی اندھیرا جمع ہو گیا ہے آنکھوں کے پاس۔ ان میں اجالے کی کہیں بھی کوئی کرن نہیں۔ تیس کروڑ لوگوں کو نکالنا ان کے لیے کوئی مشکل کام نہیں۔ کیونکہ ان کو کسی بھی طرح کی خوں ریزی سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔۔۔ مجھے خدشہ ہے کہ اس موسم میں تم کیسے رہو گے۔۔۔ تمہیں سیاست راس نہیں آئی۔ اور۔۔۔۔۔‘

ریحانہ کے لفظ کھو رہے تھے، سہرا نے محسوس کیا، ریحانہ کے چہرے پر سرخ رنگ کے ساتھ ایک تناؤ ہے۔۔۔ وہ گہری سوچ میں ہے۔۔۔۔ اور وہ خود نہیں جانتی کہ اس وقت وہ کیا کہہ رہی ہے۔ مگر وہ بہت کچھ سوچ رہی ہے اور اس کی فکر کا محور سہرا ہے۔۔۔ اس وقت ریحانہ جو کچھ بھی کہہ رہی ہے، وہ دیکھ سکتا ہے۔ اس کے اندر کی حرارت تھم رہی ہے۔ ہوا رک گئی ہے۔ ایک خوفناک ہوا ملک میں بہہ رہی ہے۔ ریحانہ کے چہرے پر اس ہوا کا اثر موجود ہے۔ اس کے چہرے کے آس پاس ایک جالہ سا بن گیا ہے وہ ایک ٹک سہرا کی طرف دیکھ رہی ہے۔۔۔۔ ہوا ساکت۔ پانی سے بہتے ہوئے بلبلہ میں کچھ چہرے بنتے ہیں۔ مٹ جاتے ہیں۔ کسی کے مر جانے پر موت ایک لکیر چھوڑ جاتی ہے۔۔۔ یہ لکیر کبھی کبھی صاف نظر آتی ہے۔ جیسے کاشف نظر آتا ہے۔ کبھی اس کمرے سے اس کمرے میں جاتا ہوا۔۔۔ کمرے میں روشنی اور ہوا کی ضرورت ہے۔ اس وقت تاریکی بہت زیادہ ہے۔ سہرا ہاتھ تھامے ہوئے ریحانہ کے چہرے کی طرف دیکھتا ہے۔۔۔

’تمہیں کچھ نہیں ہو گا۔ بس، تم خوفزدہ ہو گئی ہو۔ کاشف کے صدمے سے تم باہر نہیں نکل سکی۔ میں تمہیں اسی وقت اسپتال لے چلوں گا۔ ڈاکٹر ہے نا۔۔۔ تم ٹھیک ہو جاؤ گی۔۔۔ سنا تم نے ریحانہ۔۔۔‘

’تم مجھے دھند سے باہر لانا چاہتے ہو۔ میں دھند میں پاؤں بڑھا چکی ہوں۔‘ ریحانہ کی آنکھیں خلا میں دیکھ رہی تھیں۔۔۔ ایک بڑھیا ہوتی ہے جو چاند پر بیٹھ کر چرخہ کاتتی ہے۔ میں اکثر اس کو دیکھا کرتی تھی۔۔۔ کاشف اس کے پاس ہی ہوتا تھا۔ اب چرخہ کاتنے والی بڑھیا مجھے آواز دے رہی ہے۔۔۔‘

سہرا زور سے چلّایا۔ کیا بک رہی ہو تم۔۔۔۔

اسے احساس ہوا، اس کے پاس لفظ نہیں ہیں۔ ایک گہری کھائی ہے اور ریحانہ اس کھائی میں گرتی جا رہی ہے۔

’ٹھہرو۔۔۔۔‘

سہرا اٹھا۔ موبائل سے اس نے قریبی ڈاکٹر دوست کو فون لگایا۔۔۔ یہی لمحہ تھا، جب وہ ریحانہ کے پاس سے دور ہوا تھا۔ ڈاکٹر نے کہا کہ فوراً آ رہا ہے۔ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ دوبارہ ریحانہ کے پاس آیا تو ریحانہ کی آنکھیں ہوا میں معلق تھیں۔ اس نے ریحانہ کے پاتھوں کو چھو کر دیکھا۔ ہاتھ سرد اور بے جان تھے۔

سہرا گھبرا کر پیچھے ہٹا۔۔۔ ابھی تھی۔۔۔ کچھ دیر پہلے تک۔ چاند والی بڑھیا کا ذکر کرتی ہوئی۔۔۔۔ ابھی۔۔۔ ابھی نہیں ہے۔۔۔ اس کا سر گھوم رہا تھا۔ وہ زور زور سے ریحانہ کا نام لے کر چلّایا۔۔۔ مگر کوئی فائدہ نہیں۔

سہرا کو احساس تھا۔ وہ مردہ گھر میں ہے۔ یہاں کوئی زندہ نہیں۔ سب کے سب ابھی ہوتے ہیں اور ابھی نہیں۔ ایکدم سے اس طرح کھو جاتے ہیں، جیسے کوئی وجود کبھی رہا ہی نہیں ہو۔ یہ جسم نہ آواز۔۔۔ کچھ بھی نہیں۔ نہ نشانیاں۔۔۔۔ انسان جسم اور روح سے ہوتا ہے، نشانیوں سے نہیں۔ ریحانہ تھی۔ اب نہیں ہے۔۔۔۔ اور یہی سچ ہے۔ وہ ہے اور نہیں ہے۔۔۔ ایک مردہ گھر کا دروازہ کھلا۔۔۔ سہرا نے دیکھا۔۔۔ اس کے قدم مردہ گھر میں داخل ہو رہے ہیں۔ یہاں کچھ لوگ پہلے سے ہیں، کچھ لاشوں پر جھکے ہوئے ہیں۔۔۔ اور لاشوں پر سفید چادریں پڑی ہیں۔۔۔ اور یہاں بھی وہ عورت موجود ہے۔۔۔ نقاب لگائے۔ وہ دیوار کے پاس چھپ کر کھڑی ہے۔

اس وقت مردہ گھر میں ہونا اس کو سکون دے رہا ہے۔۔۔۔ وہ بھی مردہ ہے۔ کاشف کی طرح۔۔۔ ریحانہ کی طرح۔۔۔ چاروں طرف دھند ہے۔۔۔ وہ دھند میں معلق ہے۔۔۔ ہوا میں لہراتے لباس کی طرح جھول رہا ہے۔







(۵)



ریحانہ کی تدفین کے بعد وہ گھر آ گیا۔ دروازے بند کر لیے۔ زندگی واہمہ ہے اور موت حقیقت۔ پھر نمائشی زندگی کیوں ضروری ہے۔

اب وہ ایک مردے کی طرح زمین پر لیٹا تھا اور اسے یقین تھا مجسمہ والی عورت اس کی طرف دیکھ رہی ہے۔ سفید چادر یں سرسرارہی ہیں۔۔۔۔ اور اس مردہ گھر میں کسی اور کا وجود نہیں۔ اس نے کہیں پڑھا تھا، مردوں کو بھی بھوک لگتی ہے۔ اس لیے فلیٹ میں رکھے فریز سے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ کبھی کبھی گھر سے باہر جانے میں بھی۔ کیونکہ اسے یقین تھا، باہر جو لوگ ہیں، وہ بھی مردہ ہیں۔ ابھی ہیں۔ ابھی نہیں ہوں گے۔۔۔۔

اس نے آنکھیں بند کر لیں۔ اسے احساس ہوا، وہ کسی سرد خانے میں ہے۔ اور اس کے جسم کے اعضا بے جان اور بے حس ہو چکے ہیں۔



مسیح سہرا کی تیاری میں کوئی کمی نہیں تھی۔ گھر کے باہر مردہ خانے کا بورڈ لگانے کا بعد وہ مطمئن تھا کہ اب اس کے پاس کوئی نہیں آئے گا۔ مردہ خانے میں کون آتا ہے۔ سہرا کو یقین تھا کہ مردہ خانے کا بورڈ دیکھ کر اس سے ملاقات کے لیے آنے والے بھی راستہ بدل کر آگے بڑھ جائیں گے۔ اسے سکون کی ضرورت تھی۔ ایک ایسے سکون کی، جو صرف کسی مردے کے پاس ہوتی ہے، جس کے تمام اعضا اپنا کام بند کر چکے ہوتے ہیں۔ دماغ سوچتا نہیں۔ آنکھیں دیکھتی نہیں۔ ہونٹ بولتے نہیں اور وقفۂ سکون کو ابدیت تب نصیب ہوتی ہے جب یہ بولنا بند کر دیتے ہیں۔ اس نے سنا تھا کہ بلوغت کی عمر کو پہنچنے تک انسانی جسم میں تقریباً دس کھرب خلیات، حیاتیاتی اکائی کی صورت میں ہوتے ہیں۔ عضو آپس میں مل کر نظام اعضاء کو تشکیل دیتے ہیں۔ اس وقت ان خلیوں کے ٹوٹ پھوٹ کا عمل جاری تھا۔ ایک دلچسپ کھیل سہرا کے ہاتھ لگا تھا جبکہ وہ چاہتا تھا کہ اس کے سوچنے کے تمام سلسلے بند ہو جائیں۔ اس نے اپنے دونوں پاؤں کو دونوں ہاتھوں کی جگہ محسوس کیا اور چہرے کو پیٹ کے درمیان لے آیا۔ اسے یقین نہیں ہے کہ اس کے چہرے پر اس احساس کے ساتھ مسکراہٹ پیدا ہوئی ہو تاہم اس وقت وہ پیوند کاری کے بارے میں سوچ رہا تھا اور اعضاء کی پیوند کاری اسے بالکل پسند نہیں تھی۔ اس نے خیال کیا، مردے سوچا نہیں کرتے اور اس نے آنکھیں بند کرنے کے بعد خود کو نور کے دائرے میں دیکھا کہ اس کا قیاس تھا کہ ایک نور کا ہالہ ہوتا ہے جو روح مقدس کو اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔ مسیح سہرا نور کے ہالہ پر سوار تھا اور ٹھیک یہی وقت تھا جب دروازے پر دستک ہوئی۔ سہرا کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔ اسے غصہ اس بات پر تھا کہ اس دنیا کے لوگ مردوں کو چین سے رہنے نہیں دیتے۔

اس نے دروازہ کھولا تو سامنے ایک پولیس والا تھا۔ پولیس والے کے ہاتھ میں ایک ڈنڈا تھا اور وہ ڈنڈے سے بورڈ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھ رہا تھا۔

’یہ کیا ہے؟‘

سہرا کا لہجہ سرد تھا۔ ’مردہ خانہ‘

’کیوں۔۔۔۔‘ پولیس والے کے چہرے پر نا راضی تھی۔

سہرا نے کہنا چاہا کہ میں ایک مردہ ہوں، اس لیے، مگر وہ پولیس والے سے اس وقت الجھنا نہیں چاہتا تھا۔ کچھ دیر تک وہ جواب سوچتا رہا۔ اس درمیان پولیس والا کھلے دروازے سے اندر کی طرف دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔

’میں تنہائی چاہتا ہوں۔‘

’تو گھر کے باہر مردہ خانہ لکھ دو گے۔؟‘

’میں کسی سے ملنا نہیں چاہتا۔‘

’تو۔۔۔۔؟‘

’میں اکیلا رہتا ہوں‘

’تو۔۔۔۔؟‘

’مجھے دروازہ کھٹکھٹانے سے بھی دقت ہوتی ہے۔‘

’تو۔۔۔۔؟‘

پولیس والا گہری نظروں سے سہرا کی طرف دیکھ رہا تھا۔

’تمہارا نام؟‘

’مسیح سہرا ‘

’مسلمان ہو؟‘

’ہاں جی‘

’اوہ۔۔۔۔‘ پولیس والے کے چہرے پر ایک تناؤ نظر آ رہا تھا تاہم وہ اپنے غصے کو چھپانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اچانک وہ زور سے ہنسا۔

’مردہ خانہ۔۔۔۔ جانتے ہو یہ بورڈ لگانا قانوناً جرم ہے۔‘

’نہیں جانتا‘

’تو اب جان لو۔ رہائشی علاقے میں مردہ گھر نہیں ہو سکتا۔‘

’لیکن یہ مردہ گھر تو صرف میرے لیے ہے۔‘

’تمہیں اس کے لیے اجازت نہیں ہو گی۔۔۔ اور پولیس سے اس کی اجازت نہیں ملے گی۔ کورٹ بھی تمہیں اجازت نہیں دے گا۔ کہیں کوئی غیر قانونی کام تو نہیں کرتے۔۔۔۔؟

’میں مر چکا ہوں۔۔۔۔‘ سہرا کا لہجہ اس بار برف سے زیادہ سرد تھا‘

’کیا۔۔۔۔۔‘

پولیس والا پہلے چونکا۔ پھر اس نے کچھ سوچتے ہوئے اندر کی طرف قدم رکھا۔ وہ حیرت سے ادھر ادھر دیکھ رہا تھا۔ اچانک اس نے قدم پیچھے کیے۔ پولیس والے لہجہ اس بار سہما ہوا تھا۔

’اس بورڈ کو ہٹا دو۔‘

اس نے پولیس والے کو تیزی سے بھاگتے ہوئے دیکھا۔ سہرا کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ مردے کو دیکھ کر اکثر لوگ ڈر جایا کرتے ہیں۔ اسے بورڈ ہٹانا ہو گا۔ کیونکہ پولیس والا کہہ کر گیا ہے کہ قانون سے بھی اس کی اجازت نہیں مل سکتی۔ رہائشی علاقے میں مردہ گھر نہیں ہو سکتا۔ کیوں نہیں ہو سکتا؟ سہرا نے خود کو سمجھایا اور ذرا سی کوششوں کے بعد بورڈ اس کے ہاتھ میں تھا۔ بورڈ اس نے کچرے کے ڈبے میں ڈال دیا۔ اب اسے سکون و عافیت کے لمحے درکار تھے۔ اس کے گھر کے دو دروازے تھے، اس نے گھر کا پچھلا دروازہ کھولا۔ آگے کے دروازے پر قفل لگایا۔ پھر پچھلے دروازے سے اندر آ کر دروازہ بند کر دیا۔ دیواروں پر سفید چادریں جھول رہی تھیں اور ان سفید چادروں سے دھند کے جھاگ نکل رہے تھے اور ان چادروں کے پاس ایک طرف وہ مجسمہ تھا، جہاں حجاب والی عورت کو جگہ ملی تھی۔ موت کا فرشتہ، سہرا کو احساس ہوا کہ عورت کے چہرے پر بھی مسکراہٹ ہے گویا اس نے بھی پولیس والے کو بھاگتے ہوئے دیکھا ہے۔

سہرا دوبارہ زمین پر لیٹ گیا۔

آنکھیں بند کر لیں۔

اب وہ اپنی موت کی دنیا میں تنہائی چاہتا تھا اور اسے یقین تھا باہر قفل لگا ہوا دیکھ کر کوئی بھی اس سے ملنے کی کوشش نہیں کرے گا۔

سہرا نے خود کو ایک طویل نیند کے حوالے کر دیا۔ مگر یہ کیا۔ آنکھوں کے پردے پر ایک تصویر ابھر رہی تھی۔ اس تصویر میں دو لوگ تھے۔ کیا مردے خواب دیکھتے ہیں۔۔۔۔؟کیا مردے چلتے پھرتے ہیں؟ یہ دو لوگ جو باتیں کر رہے تھے، سہرا ان کی باتوں کو سن سکتا تھا۔





ll

ایک کا سر گنجا تھا۔ پستہ قد۔ موٹا بھائی۔ دوسرے کے چہرے پر گھنی داڑھی تھی۔ یہ ایک عالیشان کمرہ تھا۔ میز پر بریانی اور کباب کی خالی پلیٹ پڑی تھی۔ دروازے بند تھے۔ شیشے کے باہر صرف نیلا آسمان نظر آ رہا تھا۔ گھنی داڑھی والا اس وقت کسی گہری سوچ میں مبتلا تھا۔ جبکہ موٹا آدمی عینک صاف کرتا ہوا پرسکون تھا۔ وہ اتنا پر سکون تھا جتنا کوئی سمندر یا دریا ہو سکتا ہے۔ اس کے پرسکون رہنے کی ایک وجہ اور بھی تھی۔ کوئی بھی اس کے سامنے کچھ بھی بولنے کی ہمت نہیں کر سکتا تھا۔ ایسا وہ سوچتا تھا اور عملی طور پر ہوتا بھی یہی تھا۔ بساط اس کے کرتے کی داہنی جیب میں تھی اور بائیں جیب میں سکّے۔ وہ سکے اچھالتا تھا اور پھر اپنی مرضی مطابق بساط سمیٹ لیتا تھا۔ موٹے آدمی کو اس بات کی کوئی فکر نہیں تھی کہ سامنے والا آدمی کیا سوچتا ہے؟ لوگ کیا سوچتے ہیں؟ اس کے حریف اس کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟ اگر وہ یہی سب سوچتا رہتا تو شاید ملک کا سب سے طاقتور آدمی ثابت نہیں ہوتا۔

اور اس وقت جب سامنے، کھڑکی سے باہر نیلا آسمان تھا۔ میز پر بریانی کی خالی پلیٹ پڑی تھی، موٹے آدمی نے داہنی جیب سے لیمنیشن کرائی ہوئی بساط نکالی اور گھنی داڑھی والے کے سامنے میز پر رکھ دی۔

گھنی داڑھی والا مسکرایا۔ ’یہ بساط تمہاری جیب میں آ جاتی ہے۔؟‘

’میری جیب میں تو دنیا آ جاتی ہے۔‘

’ہو ہو۔۔۔۔‘ گھنی داڑھی والا ہنسا۔ ’لیکن تمہاری جیب تو چھوٹی ہے۔۔۔۔‘

’ہاتھ تو لمبے ہیں۔‘ موٹے بھائی نے اس بار چشمہ ٹھیک کیا۔

’پھر بھی۔ یہ بساط جیب میں رکھنے سے مڑ تڑ سکتی ہے۔‘

’سوال ہی نہیں۔‘ موٹا آدمی مسکر ایا۔ ’لیمینشن پر خون کے چھینٹے اور اس پر اسپرٹ۔ لیمنیشن مضبوط رہتا ہے۔‘

’ہو ہو۔۔۔۔‘ گھنی داڑھی والا مسکرایا۔ تم خون کے بغیر کوئی کام نہیں کرتے؟‘

’کیا خون کے بغیر کوئی کام ہو سکتا ہے سر۔‘

’لیکن بساط پر خون کے چھینٹے اور اس پر اسپرٹ؟‘

’اصل تو بساط ہے۔ سارا کام تو اس بساط کا ہے۔ خون کا چھینٹا دینا پڑتا ہے۔‘

’پورا بنیا۔‘ گھنی داڑھی والا ہنسا۔ ’تو تم کو ہر کھیل میں خون کے چھینٹے کی ضرورت ہوتی ہے۔؟‘

’ایسا نہیں ہے۔‘ موٹا بھائی ہنسا۔ ’بلڈ اسپرے، یہ جلدی کام کرتا ہے۔‘

’ہونہہ۔ ملک بیمار ہو گیا ہے۔‘ گھنی داڑھی والا کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا۔ ٹہلتا ہوا کھڑکی کے پاس آ گیا، جہاں سے نیلا آسمان جھانک رہا تھا۔ ’۔۔۔۔ کیا تم کو لگتا ہے کہ۔۔۔۔۔‘

’سر، کیا اب تک ہم ناکام ہوئے؟‘

’نہیں۔‘

’پہلے دن سے۔ اب تو بیس برس گزر گئے۔‘

’ہاں۔‘

’مگر کبھی کبھی تم سے ڈر لگتا ہے۔۔۔۔‘

’کیوں سر۔‘

’تم ذرا تیز بھاگتے ہو۔‘

’آپ سے بھی تیز۔۔۔۔؟‘

’ہاں۔‘داڑھی والا مڑا۔ اب وہ موٹے آدمی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ گو تمہارے فیصلے سے میں کبھی ناخوش نہیں ہوا۔ اور میں جس مقام پر ہوں، اس میں صرف تمہارا ہاتھ ہے۔ مجھ سے بھی کہیں زیادہ۔ میں کامیاب ہی نہیں ہوتا اگر تمہارا ساتھ نہ ہوتا اور یہی بات مجھے ڈراتی بھی ہے۔‘

’کیوں سر؟‘

’سیاست۔‘ گھنی داڑھی والے کا چہرہ اب بھی سنجیدہ تھا اور وہ اب عقاب جیسی نظروں سے موٹے آدمی کی طرف دیکھ رہا تھا۔

’آپ کو ڈرنا نہیں چاہیے سر۔‘

’کیوں؟‘

’مجھے آپ کے بغیر کوئی نہیں جانتا۔ لوگ آپ کو جانتے ہیں۔ مقبولیت آپ کی ہے اور میں فقط کیشئر ہوں۔ اس مقبولیت کو کیش کرتا ہوں۔ میں کبھی آپ نہیں بن سکتا۔ لوگ مجھے قبول بھی نہیں کریں گے۔‘

’لیکن تم پتے تیز چل رہے ہو۔‘

’تاش کے پتے ہیں سر۔‘

’ہاں۔ مگر ساری جیت تم اکیلے اپنے نام کر رہے ہو۔۔۔۔‘

موٹے بھائی کے چہرے پر تبدیلی آئی۔ ’نہیں سر۔ تاش بھی آپ کا۔ پتے بھی آپ کے۔ میں وہی کر رہا ہوں، جس کی اجازت آپ سے ملی۔‘

’چنار کی اجازت کیا مجھ سے ملی تھی۔؟‘

’صد فی صد تو نہیں۔‘

’اور ڈلواما کی۔۔۔۔۔؟‘

’وہ میری پلاننگ تھی مگر کام کر گئی۔‘

گھنی داڑھی والے نے ٹہلنا جاری رکھا۔ ’اور اسی لیے اب تم خطرہ بنتے جا رہے ہو۔۔۔۔‘

’ایسا نہیں ہے سر۔‘

گھنی داڑھی والا مسکرایا۔ خطرہ مت بننا۔ سب ہمارے دشمن ہیں۔ ایک نہیں دو جانیں جائیں گی۔‘

’میں سمجھتا ہوں سر۔‘

’کبھی کبھی میں ڈر جاتا ہوں۔۔۔۔‘ گھنی داڑھی والا کہتے کہتے رک گیا۔۔۔۔۔

’کیا۔۔۔۔؟‘

’نئے انتخاب سے پہلے۔ کیا مجھے امید تھی۔۔۔۔‘

موٹا بھائی ہنسا۔ ’آخری پریس کانفرنس میں آپ نروس تھے سر۔ مگر بساط۔۔۔۔۔ میں نے مہرے چل دئے تھے۔‘

’ہاں۔ اور تمہارے سارے مہرے کامیاب رہے۔‘

’مجھ پر یقین قائم رکھیے سر۔‘

’میں بھی تو بنیا ہوں۔‘ گھنی داڑھی والا مسکرایا۔ تم کو اب کیسا لگتا ہے، یہ لوگ مان جائیں گے؟‘

’کس بات پر؟‘

’پلّوں کو آؤٹ کرنے کے معاملے میں۔‘

موٹا بھائی مسکرایا۔ میرے مہرے کبھی نہیں پٹے سر۔ یہ عبارت تو کانگریس نے لکھی تھی۔ ملک کا بٹوارہ مذہب کے نام پر ہوا۔ آزادی کے بعد میں نے مذہب کا صفحہ کھول دیا۔‘

’اس دلیری کے ساتھ۔۔۔۔‘

’دلیری تو آپ سے سیکھی ہے سر۔‘

’زلزلہ آ جائے گا۔‘

’آنے دیجیے سر۔ مندر ہمارا ہو گیا۔ اب بہت کم مہرے بچے ہیں۔‘

’معیشت کی کشتی میں سوراخ۔۔۔۔۔۔؟‘

’اس سے کچھ نہیں ہو گا۔ لوگ سوکھی روٹی کھائیں گے مگر ہمارا ساتھ دیں گے۔‘

’اتنا اعتبار کہاں سے لاتے ہو۔۔۔۔۔؟‘

’بنیا ہوں سر۔ آپ سے سیکھا ہے۔‘

گھنی داڑھی والا دوبارہ کرسی پر بیٹھ گیا۔ ’بہت تیز جا رہے ہو اور اسی لیے کبھی کبھی تم سے ڈر لگتا ہے۔‘

’ابھی اور بھی تیز جانا ہے سر۔ بلڈ اسپرے۔۔۔۔۔‘

’بلڈ اسپرے۔‘ گھنی داڑھی والا مسکرایا۔۔۔۔ ابھی کچھ دن تک اس اسپرے کو بند رکھو۔ حالات کا جائزہ لو۔‘

’یس سر۔‘

میز کے آمنے سامنے دونوں بیٹھ گئے تھے۔ سامنے غروب آفتاب کا منظر تھا کمرے میں خاموشی چھا گئی تھی۔



مسیح سہرا کا چہرہ کھلا تھا۔ سفید چادروں کے درمیان موت کے فرشتہ نے جب اس کی طرف دیکھا تو اس نے آنکھیں بند کر لیں۔ اب وہ کچھ دیر نیند کی آغوش میں جانا چاہتا تھا۔ مگر اب اس کی نیند ٹوٹ گئی تھی۔ وہ اندھیرے کے دائرے میں تھا۔ موبائل، ٹی وی، اخبار۔۔۔۔۔ وہ سب سے کٹ چکا تھا۔ وہ ایک مردہ تھا بس۔۔۔۔۔

اس نے پھر آنکھیں بند کر لیں۔ اس بار کچھ لوگ تھے جو ایک مینارے پر چڑھے ہوئے تھے۔ جن کے پاس اسلحے تھے۔ ہتھوڑے تھے۔ کچھ لوگ نعرے لگا رہے تھے۔ وہ مینار کو مسمار ہوتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ پھر اس نے کبوتروں کے جھنڈ کو دیکھا۔۔۔۔۔ جو اڑتے ہوئے کسی سیاہ سوراخ میں سمانے کی کوشش کر رہے تھے۔ پھر اس نے جلتی ہوئی آگ دیکھی۔ کچھ قبائلی تھے جو ڈھول بجا رہے تھے اور رقص کر رہے تھے۔ وہ جس زبان میں گفتگو کر رہے تھے، مسیح سہرا اس سے واقف نہیں تھا۔ پھر اس نے کچھ سلگتے ہوئے گھر دیکھے۔۔۔۔ کچھ لوگوں کو جان بچا کر بھاگتے ہوئے دیکھا۔۔۔۔۔ مسیح سہرا کو یقین تھا۔ موت ہر جگہ ہے اور موت کے فرشتے ہر اس جگہ پہنچ چکے ہیں جہاں ایک بھی انسان باقی ہے۔۔۔

ایک دن مینار ٹوٹ جاتے ہیں۔۔۔

ایک دن پرندے اڑ جاتے ہیں۔۔۔

’اُڑ۔۔۔ اُڑ۔۔۔ چل خسرو گھر آپ نے سانجھ بھئی چودیس۔‘

اب مسیح سہرا گہری نیند میں تھا۔







(۶)



باہر کسی کے آہستہ آہستہ چلنے کی آواز تھی۔ پھر ایک ساتھ بہت سارے فوجی بوٹ کی آواز سنائی دی۔ جیسے کوئی لشکر گزر رہا ہو۔ کچھ دیر بعد سنآٹاچھا گیا۔ دروازے کے باہر کچھ لوگوں کے چلنے کی ہلچل تھی۔ سناٹے میں اچانک فائرنگ کی آواز گونجی۔ اس کے بعد پھر سناٹا چھا گیا۔ فائرنگ کس نے کی؟ فوجی کہاں جا رہے تھے؟ یا یہ سب دماغ کا وہم ہے۔ دماغ اندھیرے میں کچھ زیادہ ہی سوچتا اور کام کرتا ہے۔ کہیں وہ پولیس والا دوبارہ ادھر نہ آ جائے۔ دروازے پر قفل ہے۔ اس لیے وہ نہیں آ سکتا۔ وہ مر چکا ہے تو پھر ایسے خیال اسے کیوں آ رہے ہیں۔ مسیح سہرا کو پیاس محسوس ہوئی۔ فریز سے بوتل نکال کر ایک گھونٹ پیا۔ پھر زمین پر آ کر لیٹ گیا۔ کل اس نے برگر کھایا تھا۔ سامان کم ہو رہے ہیں۔ ایک ہفتہ میں شاپنگ کے لیے اسے باہر جانا پڑ سکتا ہے۔ مگر وہ مطمئن تھا۔ وہ مردہ ہے اور ادھر ادھر گھوم سکتا ہے۔ کھا پی سکتا ہے۔ مگر وہ مر چکا ہے۔ حقیقت یہی ہے۔ اس نے دوبارہ آنکھیں موند لیں۔ وہ ہر طرح کی فکر سے نجات حاصل کرنا چاہتا تھا۔ مگر یہ کیا۔ سامنے دونوں کھڑے تھے اور یہ کسی محل کی عمارت تھی۔ کمرہ بند تھا۔ وہ دونوں پھر سے موجود تھے۔ ایک گنجے سر والا۔ دوسرا گھنی گھنی داڑھی والا۔ دونوں عجب انداز میں ہنس رہے تھے اور اس وقت ان کے چہرے ڈارون کے قدیم بندروں جیسے تھے۔۔۔۔

’کیا تمہیں لگتا ہے۔۔۔۔۔‘ داڑھی والا کچھ پوچھتے ہوئے خاموش رہ گیا۔

’ایک سوراخ برابر غفلت اور ہم دونوں نہیں ہوں گے۔‘

’ہاں۔‘ گھنی داڑھی والا خیالوں میں کھویا تھا۔۔۔۔ ہم نہیں ہوں گے۔

’اور ہمارا ہم دونوں کے سوا کوئی نہیں۔‘ گنجے سر والے نے کہا۔

’یہ بھی صحیح۔ مگر ہمارا ایک ایک قدم۔۔۔۔۔‘

’ہم صحیح راستے پر ہیں۔ بس یہی راستہ ہمیں زندہ رکھ سکتا ہے۔‘

’شاید تم ٹھیک کہتے ہو۔‘ گھنی داڑھی والے کی آنکھیں چھوٹی تھیں۔ فکر کے دوران یہ آنکھیں اتنی چھوٹی ہو جاتی تھیں کہ ان آنکھوں کے نہ ہونے کا گمان ہوتا تھا۔۔۔۔ وہ ٹھہر ٹھہر کر بول رہا تھا۔

’ایک تاریخی فیصلہ۔۔۔۔‘

’اور بہت سارے مردے۔‘ گنجے سر والا ہنسا۔ اب دوہی ذات ہیں۔ زندہ اور مردہ۔‘

’کیا مردے بولیں گے؟‘

’کیا مردے بول سکتے ہیں۔‘ گنجے سر والا زور سے ہنسا۔

’تم نے چتر بنیا کہا تھا۔‘

’اس چتر بنیے کی لاش کو بھی دفن کر دیں گے۔‘

’اب تک سبھی کچھ ہماری مرضی سے ہو رہا ہے۔ یعنی جیسا ہم نے چاہا۔‘

’آگے بھی اپنی مرضی سے ہو گا۔ یعنی جیسا ہم چاہیں گے۔‘

’گڈ۔‘ گھنی داڑھی والا کچھ سوچ رہا تھا’۔۔۔۔۔ تم وہ مرگ نیتی لائے ہو۔۔۔‘

’کاغذ کہیے سر۔‘

’ہاں۔ کاغذ کا ڈھیر۔ لائے ہو؟‘

’اس کی ضرورت نہیں تھی۔‘

’ہاں اس کی ضرورت نہیں تھی۔ اور مجھے یقین ہے۔۔۔۔‘

’نئی تاریخ نئے کاغذ پر لکھی جائے گی۔‘

’سچ۔ بالکل سچ۔ یہی ہوتا رہا ہے۔ ہم ان سے سیکھ رہے ہیں، جنہوں نے ہم سے پہلے کچھ غلطیاں کیں۔‘

’نئے کاغذ پر نیا نقشہ بنے گا۔‘

’اوہ۔۔۔ میں زندہ ہوں۔ مجھے یقین نہیں آتا۔ مگر تم سے۔۔۔۔‘

’تم سے کیا سر۔‘

’تم سے ڈر لگتا ہے۔ تم جسمانی طور پربھی مجھ سے زیادہ طاقتور ہو۔‘

’ہو ہو۔۔۔۔‘ گنجے سر والا ہنسا مگر بولا کچھ نہیں۔

’گھوڑوں کی ریس ہے سر۔‘

’کچھ کمزور گھوڑے بھی ہوں گے۔‘

’ہاں انہیں پیچھے رکھا گیا ہے۔‘

’چلو۔ ریس دیکھتے ہیں۔‘



محل نما کمرے میں اب سناٹا تھا۔ مسیح سہرا کی آنکھیں کھل گئی تھیں۔ اب بہت سے گھوڑے تھے، جنہیں وہ ریس کورس میں دوڑتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ کچھ گھوڑے تیز دوڑ رہے تھے۔ کچھ گھوڑے نقاہت کی وجہ سے گر گئے تھے۔ کچھ گھوڑے آدھے راستے میں ہی دم توڑ گئے تھے۔۔۔۔ سفید چادروں کے درمیان والی عورت اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔

مسیح سہرا نے آنکھیں بند کر لیں۔

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید