صفحات

تلاش کریں

ناولٹ:رام محمد ڈیسوزا (علی رضا)

کہانی کی کہانی

سن 1955 میں اس کہانی کا بنیادی خیال میرے ذہن میں آیا تھا۔ ایک سال تک اس کے مختلف پہلو اور کردار میرے دماغ میں نشو و نما پاتے رہے۔ 1956ء کے آخر میں میں نے اس کہانی کو مکمل کر لیا۔

مکمل ہونے کے بعد یہ کہانی مجھ پر مسلط ہو گئی اور میں اس کو فلمانے کی دھن میں لگ گیا۔

میں چاہتا یہ تھا کہ اس کے تینوں بنیادی کردار تین نئے اداکاروں کو دوں۔ میں نے ان کرداروں کی خصوصیات کے لحاظ سے ان کا انتخاب بھی کر لیا تھا۔ لیکن میں خود فلم کے کاروباری پہلو سے بالکل ناواقف تھا اور میں نے کبھی ڈائرکشن کیا بھی نہیں تھا اس وجہ سے کسی فائنانسر نے میری ہمت افزائی نہ کی۔ کہانی کی تعریف کر کے مجھ کو واپس کر دیتے تھے۔

’ملکۂ جذبات‘ نمّی کو اڑتے اڑتے اس کہانی کی خبر لگی اور پھر مجھ کو بلا کر میری زبانی بھی تفصیل سے سنی، وہ اس کی گرویدہ ہو گئیں اور مقری فلم آرٹسٹ کی معرفت یہ پیغام بھیجا کہ ان کے پاس جو سرمایہ ہے وہ بغیر کسی شرط کے مجھ کو اس کی فلم بنانے کے لئے دینے کو تیار ہیں۔ اس وقت سے میرے دل میں ان کا ایک بڑا مقام اور منزلت پیدا ہو گئی، لیکن میں نے ان کی مدد لینا مناسب نہیں سمجھا۔

ٹی تارا چند جواہرات کے بیوپاری ہیں، اور اب بہت بڑے ڈسٹری بیوٹرز بھی۔ انہوں نے مجھ کو رائے دی کہ اگر تینوں کرداروں کے لئے میں دلیپ کمار، راج کپور اور دیو آنند اور موسیقی کے لئے نوشاد کو رضا مند کر لوں تو وہ جس قدر پیسہ بھی فلم پر خرچ ہو، وہ لگانے کو تیار ہو جائیں گے۔ مجھ کو روشنی کی ایک نئی کرن نظر آئی اور میں اس کوشش میں لگ گیا۔

راج کپور نے جب کہانی سنی تو ان کے دل کو بھی کہانی نے اسی طرح پکڑ لیا جس طرح مجھ کو اسیر کیا ہوا تھا۔ وہ سمجھے کہ میں کہانی ان کو بیچنے کے لئے سنا رہا ہوں۔ وہ مجھ کو اس کے مونہہ مانگے دام دینے کو تیار ہو گئے۔ جب ان کو معلوم ہوا کہ میں ان کو بحیثیت آرٹسٹ کے فلم میں کام کرنے کا آفر لے کر آیا ہوں تو وہ کسی قدر مایوس ہوئے، بہرحال وہ ان تینوں کرداروں میں سے کوئی بھی کردار کرنے کے لئے بخوشی تیار ہو گئے، مگر چلتے وقت انہوں نے مجھ سے وعدہ کیا کہ اگر میں یہ فلم بنانے میں کامیاب نہ ہو سکا تو یہ کہانی صرف ان ہی کو دوں گا۔ اس وقت مجھ کو یہ بات کسی قدر ناگوار گزری لیکن بعد کو سمجھ میں آئی کہ انہوں نے فلمی دنیا کی سیاسیات اور کاروباری جکڑ بندیوں کی پوری سوجھ بوجھ ہونے کی وجہ سے یہ بات کہی تھی۔

نوشاد سے میری بات ہو چکی تھی اور وہ مجھ سے وعدہ کر چکے تھے لیکن جب میں نے ان کو کہانی سنائی تو وہ مجھ کو سمجھانے لگے کہ میرے لئے کاروباری حساب سے یہ کہانی فلمانا مناسب نہیں ہے۔ انہوں نے مجھ کو مشورہ دیا کہ میں کوئی اچھی سی محبت کی کہانی فلماؤں جس سے ان کو اپنے جوہر دکھانے کا موقع ملے اور یہ کہانی میں محبوب صاحب کو دے دوں۔ نوشاد صاحب مجھ کو اس قدر پیار کرتے ہیں کہ انہوں نے مجھ کو خود اپنی بہت سی کہانیاں سنائیں اور کہا کہ ان میں سے جو کہانی بھی مجھ کو پسند ہو وہ میں مفت لے سکتا ہوں۔۔۔ مگر کہانی ان کو دل سے پسند آئی تھی کیوں کہ دوسرے ہی دن انہوں نے محبوب صاحب کو سنائی اور اس بات پر زور دیا کہ وہ اسے فلمائیں۔

محبوب صاحب نے کہانی مجھ سے مانگی، مگر میں بضد تھا کہ اس کو خود ہی اپنے تصورات کے عین مطابق فلماؤں گا۔ اور اگر نہ فلما سکا تو راج کپور کو ہی دوں گا۔ میں محبوب صاحب کے یہاں نوکر تھا۔ میرے لئے ان سے انکار کرنا کچھ آسان کام نہ تھا لیکن میں نے صاف صاف بات کہہ دی اس دن سے ان کے دل میں میرے لئے ایک رنجش بھی پیدا ہو گئی۔

نوشاد کے انکار سے میرا دل ایک دم ٹوٹا نہیں کیوں کہ مجھ کو یہ یقین تھا کہ دلیپ کمار میرا ساتھ دیں گے تو نوشاد راضی ہو جائیں گے۔

راج کپور ایک سیلاب ہے ایک بگولا ہے ایک زلزلہ آگیں جذبہ ہے۔ دلیپ کمار عقل مجسم ہے، ان دونوں سے میری ملاقات اور پھر دوستی ’انداز‘ کے زمانے میں ہوئی تھی۔ لیکن راہ و رسم دلیپ سے ہی زیادہ بڑھے۔ دلیپ کمار کو کہانیاں بنانے کا بھی بے حد شوق ہے۔ سنٹرل اسٹوڈیو کے لان پر بیٹھ کر ہم نے مہینوں کنٹین کی چربی میں فرائی کی ہوئی کچی مٹن چانپ کھائی تھیں اور درجنوں کہانیاں ایک دوسرے کو سنا ڈالی تھیں۔

ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ زندگی میں کبھی نہ دلیپ کی کوئی کہانی مجھ کو پسند آئی ہے اور نہ میری کوئی کہانی ان کو۔ اس کے باوجود بھی ایک کم زور لمحہ میں انہوں نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ جب میں فلم بناؤں گا تو وہ اس میں ضرور کام کریں گے۔

دلیپ کو کہانی سنانے کی نوبت ہی مشکل سے آئی۔ ان کو سرے سے یہ خیال ہی نامناسب لگا کہ وہ راج اور دیو کے ساتھ برابر کے کردار ادا کریں۔ وہ کوشش میں تھے کہ فلمی دنیا میں صرف ان کا طوطی بولے، کاروباری حساب سے وہ اپنا واحد اور بلند ترین مقام پیدا کرنے کی جد و جہد میں تھے۔ اس میں وہ بالکل حق بجانب ہیں، مجھ کو اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک دن افق فلم پر ان سے زیادہ درخشاں ستارہ کوئی نہ ہو گا۔ مجھ کو یہ بتانے میں بھی تامل نہیں ہے کہ ان کو میری کہانی نے متاثر بھی نہیں کیا۔ اور کہانی کے معیار کے بارے میں ہماری پرانی زنجیر کی کڑی ٹوٹی نہیں۔ دلیپ اپنے اور اپنے کاروبار کے بیچ میں اپنے خدا کو بھی نہیں آنے دیتے، علی رضا کو کیا جگہ ملتی۔ لیکن تارا چند اور اس پروجیکٹ کے بیچ میں دلیپ کا ایک اہم مقام تھا۔ دلیپ کے انکار کے بعد ان کا بھروسہ ٹوٹنے لگا۔

اور آہستہ آہستہ میرے قدم بھی شل ہونے لگے۔ اس پراجیکٹ میں تارا چند نے صرف زبانی دلچسپی نہیں دکھائی تھی بلکہ میرے بھروسے پر پیسہ بھی خرچ کیا تھا جو اب تک مجھ پر ذاتی قرض ہے۔ اس منزل پر مجھ کو معلوم ہوا کہ ٹی تارا چند کی دلچسپی کے پیچھے نمی کی کارفرمائی تھی۔

راج، جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں ایک سیلاب ہے جو بلائے بے درماں کی طرح آتا ہے۔ کہانی ان پر اس طرح چھا گئی تھی کہ سوتے جاگتے، اٹھتے بیٹھتے وہ ہر جگہ اور ہر شخص کو یہ کہانی سنانے لگے۔ یہاں تک کہ ایک دن اندرا گاندھی کو بھی سنا ڈالی۔ اس طرح فلم انڈسٹری میں کہانی کا چرچا ہو گیا۔

میں نے آصف صاحب کے ساتھ کبھی کام نہیں کیا ہے لیکن میرے دل میں بحیثیت انسان کے ان کے لئے بہت بڑا مقام ہے اور وہ بھی مجھے عزیز رکھتے ہیں۔ وہ کہانی پر میری تنقید کے بہت قائل ہیں، جب بھی ملاقات ہوتی ہے کوئی نہ کوئی کہانی سناتے ہیں کیوں کہ وہ کہانی کے بارے میں میری بے باک رائے کی بڑی قدر کرتے ہیں۔ انہوں نے کسی سے یہ کہانی سنی اور کہانی کے تاثر نے ان کو اس طرح کھڑا کیا کہ وہ ایک دن میرے بھائیکلہ کے گھر پر آ گئے۔ میں دن کا کھانا کھا رہا تھا۔ دروازے کی گھنٹی بجی، دیکھا تو آصف صاحب پتہ پوچھتے پوچھتے ہوئے چلے آ رہے ہیں۔ میں ہکا بکا رہ گیا۔ میں نے کہا:

’’آئیے‘‘

کہنے لگے ’’میں کچھ مانگنے آیا ہوں، ہاں کیجئے تو اندر آؤں گا۔ ورنہ دروازے سے لوٹ جاؤں گا۔‘‘

میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ ’رام، محمد، ڈیسوزا‘ کی بات کریں گے، میں نے وعدہ کر لیا، وہ اندر آئے اور کہانی کی بات کی۔

میں اس زمانے میں بے حد تنگ دست تھا اور مجھ پر بہت قرضہ بھی ہو گیا تھا۔ آصف صاحب نے مجھ کو یقین دلایا کہ وہ نہ صرف مجھ کو اس کے مونہہ مانگے دام دیں گے بلکہ تارا چند کا پورا قرضہ بھی ادا کر دیں گے۔ اور اس فلم کو دلیپ، راج اور دیو کو لے کر ہی بنائیں گے۔ جو کام شاید راج کپور بھی نہ کر سکے گا، کیوں کہ وہ خود آرٹسٹ ہے اور فلم ڈائرکٹ بھی خود کر لے گا، اس وجہ سے شاید دوسرے آرٹسٹ اس کے ساتھ کام نہ کریں۔ میں نے ان سے اپنی تمنا اور راج سے وعدہ کی بات بتا کر معذرت کر دی لیکن وہ یہ کہہ کر چلے گئے کہ وہ خود راج سے بات کر کے اسے رضا مند کر لیں گے۔

فلمی کہانی کی قسمت یہ ہے کہ جو کہانی دلیپ محبوب کے لئے لاکھ روپے کے برابر ہو، شانتا رام کے لئے اس کی قیمت دو کوڑی کی نہیں ہوتی۔ شانتا رام کے لئے جو کہانی بے پناہ ہے وہ ایس مکرجی کیلئے ایک حماقت کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتی۔ لیکن اس کہانی کے تقریباً سب ہی گرویدہ تھے جب ایس مکرجی نے یہ کہانی سنی تو مجھ کو بلا کر اپنی کمپنی میں بنانے کا آفر دیا لیکن فلم کو ہٹ کروانے کے لئے جو تبدیلیاں انہوں نے مجھ کو تجویز کیں وہ میرے لئے ناقابل قبول ہوئیں اور میں نے انکار کر دیا۔

ابھی کچھ دن ہوئے آصف صاحب سے پھر ملاقات ہوئی۔ انہوں نے مجھ کو مشورہ دیا کہ اس کہانی کو میں ایک کتابی صورت میں شائع کرا دوں کیونکہ اس کا چرچا پوری فلم انڈسٹری میں ہو رہا ہے۔ اور انڈسٹری میں کچھ ایسے دیدہ دلیر بھی ہیں جن کی جسارت قابل داد ہے۔ مگر یہ کہانی اتنے لوگ سن چکے ہیں کہ مجھ کو یقین ہے کہ کوئی اس کو بغیر میری اجازت کے فلما نہیں سکتا۔ اس وجہ سے مجھ کو آصف صاحب کے خیال سے اتفاق نہیں ہوا۔

لیکن دو ایک دن کے بعد اچانک میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ ممکن ہے کہ کتابی شکل میں شائع ہونے کے بعد یہ کسی ایسے اہل نظر کی نظر سے گزرے جو مجھ کو میرے خوابوں کی تعبیر دے دے، اس خیال کے آتے ہی میں نے یہ فیصلہ کیا کہ اس کو ایک ناولٹ کی شکل میں لکھ کر شائع کروا دوں۔

علی رضا

6۔ اسٹار مینشن اے کرائسسٹ

چرچ روڈ، بھائیکلہ۔ بمبئی

17/ ستمبر 1958ء





کہانی کی کہانی
تیسرا ایڈیشن



اس کتاب کا پہلا ایڈیشن 1958ء میں چھپا تھا، دوسرے کی نوبت گیارہ برس بعد مارچ 1969ء میں آئی۔ اس گیارہ سال میں مجھ کو معلوم بھی نہیں ہوا کہ کتاب کس نے خریدی اور خریدی تو پڑھی بھی کہ اس سے چائے بنائی یا خود اس کی پڑیاں بنائیں۔ کوئی خیر خبر ہی نہیں ملی۔

لیکن تیسرا ایڈیشن دوسرے ایڈیشن کے تین چار ماہ بعد ہی شائع ہو رہا ہے، اور اس تین چار ماہ کے عرصہ میں جو مقبولیت اس کتاب کو حاصل ہوئی ہے وہ کسی بھی ادیب کے لئے باعث فخر ہے۔

ہندی، گجراتی، سندھی اور بنگالی ناشروں کے خط پر خط چلے آ رہے ہیں کہ وہ اس کتاب کو اپنی زبانوں میں شائع کرنا چاہتے ہیں۔ اور اب یہ کتاب ان زبانوں میں شائع ہو رہی ہے۔

ہندوستان کے چوٹی کے ڈاکومینٹری فلم کے پروڈیوسر ڈائرکٹر سکھدیو قومی یکجہتی پر بچوں کی فلم بنانے کے لئے کتاب کے اس دیباچہ کے حقوق لینے آ گئے جو میری بیوی نے لکھا ہے۔

ملک کے کونے کونے سے تعریفی خطوط تو اس طرح آنے لگے جیسے میں کوئی بڑا ہیرو بن گیا ہوں۔

پٹنہ کے شاعر جمیل مظہری نے ہوائی جہاز میں اپنے کسی ہم سفر سے لے کر جہاز میں ہی پڑھ ڈالی اور ان کو محسوس ہوا: ’’اگر ہندوستان کے کچھ لوگ بھی اس پر عمل کریں تو یہ ملک دنیا کے لئے ایک نمونہ بن سکتا ہے۔‘‘

ہندی کی ادیبہ، ویدانتی مہریش نے لکھا کہ:

’’بڑے بڑے پنڈت، مولوی اور پادری جو آج تک اس مسئلہ کو لے کر سر پھوڑتے رہے اور انسانیت سے دور بھاگتے رہے ان کو آپ نے راستہ دکھایا ہے‘‘ ۔

انڈین موشن پکچرز ایکسپورٹ کارپوریشن کے چیرمین طارق صاحب نے ایک بار نہیں کئی بار پڑھی۔۔۔ ان کا خیال ہے کہ ’’اس کا فلم بنانا ایک قومی خدمت ہو گی۔‘‘

ریاض نامی بمبئی کا ایک نوجوان میری ’زیارت‘ کرنے میرے گھر آ گیا۔ ’’کتاب پڑھ کر میری آنکھ سے چار آنسو ٹپکے، چوتھا آنسو شاید جیا کے اچھوت بھگوان کے نام تھا۔‘‘

ہریانہ کے چنن سنگھ ورک نے محسوس کیا کہ ’’یہ ناول چراغ راہ ہے۔‘‘

کلکتہ کے ریلوے انجینئر ایس۔ بی حسن کا خیال ہے کہ ’’رام محمد ڈیسوزا کو ہندوستان کے ہر بچہ کے لئے پڑھنا قانونی قرار دینا چاہئے۔‘‘

گلمرگ کے حسین شاہ اس کو ’’دنیا کی تمام مذہبی کتابوں کی روح‘‘ سمجھتے ہیں۔

کوئمبٹور کے سورج نرائن سنہا نے ’’مذہب کا مقصد‘‘ رام محمد ڈیسوزا پڑھ کر سمجھا۔

غرض شاید ہی کوئی ایسا شہر ہو جہاں سے مجھ کو تعریف کے خطوط نہ آئے ہوں۔

کتاب کا دوسرا ایڈیشن ختم ہونے کے بعد جب لوگوں کو یہ کتاب دوکانوں پر دستیاب نہیں ہوئی تو وہ ’’عبارت‘‘ کے دفتر پر آنے لگے اور اتنی تعداد میں آنے لگے کہ مجھ کو اخبارات میں اشتہار دے کر ان کو منع کرنا پڑا کہ کتاب کا دوسرا ایڈیشن ختم ہو چکا۔ کتاب کی مقبولیت کا یہ معجزہ کیسے واقع ہوا، اس کی بھی ایک کہانی ہے۔

دوسرا ایڈیشن ابھی تیار ہو کر آیا ہی تھا کہ ادریس دہلوی مدیر ’’شمع‘‘ میرے گھر آئے۔ ان کی خاطر کرنے کے لئے کچھ نہ تھا تو میں نے ان کو رام محمد ڈیسوزا کے کچھ حصے ادھر ادھر سے پڑھ کر سنائے۔ انہوں نے بیچ میں ہی ٹوک کر مجھ سے معذرت چاہی کیوں کہ وہ میرے گھر سے سیدھے ایرپورٹ جانے والے تھے۔ اور جہاز کا وقت ہو گیا تھا میں سمجھ گیا کہ میں نے ان کو جی بھر کے بور کیا۔ میرا دل رکھنے کے لئے وہ کتاب کے بغیر بندھے ہوئے جزو ساتھ لے کر چلے گئے کہ جہاز میں پڑھیں گے۔ لیکن دلی پہونچنے کے بعد بھی ان کا کوئی خط نہ آیا، مجھ کو سخت غصہ آیا اور جب یہ غصہ اپنے شباب پر تھا تو اچانک ادریس صاحب کے تاثرات شمع میں شائع ہونے لگے۔

مجھے اس بات کا اقبال کرنے میں ذرا بھی تامل نہیں ہے کہ میری اس ناولٹ کی مقبولیت کا معجزہ ’’شمع‘‘ کی بے پناہ مقبولیت اور ادریس کا خلوص ہے۔ ایک خط میں انہوں نے خود اعتراف کیا کہ شمع نے آج تک کسی کتاب کی اتنی زبردست پبلسٹی نہیں کی۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ شاید کوئی اور کتاب اتنی حق دار تھی بھی نہیں۔

کتاب کا یہ تیسرا ایڈیشن ادریس صاحب خود اپنی سرپرستی میں شائع کروا رہے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ اگر ان کا جوش اسی طرح قائم رہا تو ہندوستان میں کوئی کتاب اتنی زیادہ تعداد میں نہیں بکی ہو گی جتنی یہ ناول۔

علی رضا

یکم اکتوبر 1969ء







کہانی کی کہانی - حرفِ دوم



میں کوئی آٹھ برس کی تھی، چھوٹے سے دیہات میں اپنے نانا نانی کے پاس رہتی تھی، گڑیاں کھیلنا اور ان کا بیاہ رچانا میرا محبوب ترین مشغلہ تھا۔ میری سب گڑیوں میں زبیدہ میری سب سے چہیتی اور لاڈلی گڑیا تھی۔ میں اس کو بہت عیش و آرام میں رکھتی تھی۔ اس کے سونے کے لئے کنس کے میلہ میں سے جست کے پایوں کی پنچ رنگے دھاگوں سے بنی مسہری خریدی تھی، جالی کی مچھر دانی بنائی تھی، سنہری پٹی کی پاؤں کی جوتی، ریشمی کپڑے، کالی ساٹن کا برقعہ، مخمل کے توشک، تکئے، غرض کہ عیش و آرام کی ہر چیز اپنا پیٹ کاٹ کے پائی پائی جمع کر کے اس کے لئے مہیا کرتی تھی، گہنوں پاتوں سے تو خدا کے فضل سے زبیدہ لدی ہی رہتی تھی۔ کیا چیز تھی جو اس کے پاس نہیں تھی۔ اس پر بھی میں ہر روز اس کے لئے نت نئی چیزیں بنانے کی فکر میں لگی رہتی تھی۔ میرے کلیجہ کا ٹکڑا تھی وہ مجھ کو چاند سورج سے بھی زیادہ حسین لگتی تھی۔ زبیدہ پر میری ساری سہیلیوں کی نظر تھی، باری باری سب ہی اپنے گڈوں کے لئے زبیدہ کا رشتہ مانگ چکی تھیں لیکن میں نانی کی طرح ناک چڑھا کر صاف انکار کر دیتی تھی۔ زبیدہ کو اپنے سے جدا کرنے کو میرا دل ہی نہیں چاہتا تھا۔ جب محلہ میں کسی جوان لڑکی کی بات ہوتی اور چار عورتیں اس کی ماں سے ٹھنڈی آہ بھر کر کہتیں:

’’اب تو کر دو، اب تو کر دو کریماً کی ماں لڑکی کا رشتہ، جوان لڑکی کو کب تک گھر میں بٹھائے رکھو گی، عمر نکل گئی تو زندگی بھر ہاتھ پر ہاتھ دھر کے روتی رہو گی۔‘‘

تو میرا کلیجہ دھک سے رہ جاتا اور مجھ کو اپنی زبیدہ کا خیال آ جاتا۔ میری سہیلی مرادن میری بڑی ہمدرد اور جانثار سہیلی تھی۔ زبیدہ کی اس کو بھی بہت فکر تھی۔ وہ خوشی خوشی ایک دن رام پیاری کے شہر سے آئے ہوئے نئے گڈے کا پیغام لے آئی۔

گڈے کا رنگ بہت گورا تھا۔۔۔ اس کی آنکھیں بھی کھلتی بند ہوتی تھیں اور وہ بولتا بھی تھا۔ گڈے کی تعریف سن کر میں نے فوراً رشتہ منظور کر لیا۔

اناً فاناً بات پھیل گئی، بتاشوں کے ڈھول پر منگنی ہوئی، شگون دیکھ کر شادی کی تاریخ طے ہو گئی۔ دونوں طرف دھوم دھام سے تیاریاں شروع ہوئیں، شادی کا دن کیا آیا ایک قیامت آ گئی، میں نے خود رات بھر جاگ کر اپنے ننھے ہاتھوں سے کھانا پکایا، صبح بارات آئی سارے رسم و رواج بخیر و خوبی ادا ہوئے۔ لیکن جب پانت کا وقت آیا تو رام پیاری نے تڑاخ سے کہہ دیا کہ وہ مسلمان کے گھر کا کھانا نہیں کھا سکتی۔

مجھ پر تو گویا بجلی گر پڑی۔ اتنا دکھ شاید مجھ کو اپنی ماں کے مرنے پر بھی نہیں ہوا تھا۔ بتائیے جو میرے گھر کھانا بھی نہیں کھا سکتی۔ اس کے گھر میں میں اپنی زبیدہ کو کیسے بھیج دیتی۔ میں نے کہہ دیا کہ بارات واپس جائے گی۔ لیکن رام پیاری کی سہیلیوں نے یہ حق جتایا کہ زبیدہ تو ان کی ہو چکی، اب مجھے زبیدہ پر کوئی حق نہیں رہا۔ نہ کبھی میں اب اپنی زبیدہ کا کسی اور جگہ بیاہ کر سکتی ہوں۔

انہوں نے اپنی طرف سے اس کا نام بھی بدل کر ساوتری رکھ دیا تھا میں تو ایک دم حواس باختہ ہو گئی، اور میں نے بارات واپس لوٹا دی۔ رام پیاری چیختی چلاتی اپنے گھر چلی گئی اور میں اپنی زبیدہ کو سینہ سے چمٹائے اس کی بد نصیبی پر رات بھر سسکیاں بھرتی رہی۔

مولوی صاحب نے مجھ کو اللہ میاں کے قہر سے بہت سہما دیا تھا، زبان سے تو کچھ نہ کہہ سکتی تھی لیکن دل فریاد کر رہا تھا کہ اگر اللہ میاں نے سب ہی کو مسلمان یا سب کو ہندو بنایا ہوتا تو میری زبیدہ کا مقدر اس طرح تو نہ پھوٹتا۔

نہ جانے رام پیاری اب کہاں ہے؟ اس کا گڈا کدھر ہے؟ مجھے یہ بھی یاد نہیں کہ میری زبیدہ کدھر گئی، لیکن یہ بات یقینی طور پر جانتی ہوں کہ جو جہاں بھی ہو اب تک میری طرح نامراد ہو گا۔ سب کے مردہ ارمان ان کے دلوں میں اب تک دفن ہوں گے؟

ایک ڈیڑھ سال پہلے جب رضا صاحب نے اپنی کہانی ’’رام محمد ڈیسوزا‘‘ سنائی تو ان تینوں کرداروں میں مجھے اپنے بچپن کی معصوم روح تڑپتی نظر آئی اور ساتھ ہی یہ بھی خیال آیا کہ آج بھی میری طرح ان گنت معصوم روحیں ان توہمات کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں بھٹک رہی ہوں گی۔

کس قدر دکھ کی بات ہے کہ انسان جب لاکھوں انجانی حقیقتوں سے واقف ہو گیا ہے، وسعت عقل نے پھیل کر چاند تاروں کو اپنے دامن میں سمیٹ لیا ہے کوہ کے دامن کو چاک کر کے سمندر کی اتاہ گہرائیوں میں ڈوب کر جدید ترقیوں میں بجلی کی سرعت سے گامزن ہونے کے بعد بھی وہی انسان اتنی سی سطحی حقیقت کا اقرار کرنے کے لئے تیار نہیں ہے، کہ خالق ایک ہے، انسان ایک ہے۔

میں کوئی ادبی ناقد نہیں ہوں اور نہ ہو سکتی ہوں، کیونکہ اس کہانی کی روح اور اس کے پاکیزہ مقصد کے ہاتھوں بن داموں بک چکی ہوں اور یہ میرا عقیدہ ہے کہ ’’رام محمد ڈیسوزا‘‘ انسان کے خود اپنے پیدا کردہ طلسماتِ توہم کو توڑنے کا اسم اعظم ہے۔ چھوت چھات سے لتھڑے دماغوں کے لئے گنگا اشنان ہے، تفرقہ کی تاریک راہوں پر بھٹکنے والوں کے لئے مشعل راہ ہے۔ حق تو یہ ہے کہ آج یہی مقصد حیات ہونا چاہئے۔

میں نے جب یہ سنا کہ رضا صاحب اس کو خود فلمانا چاہتے ہیں تو میں نے اپنے مونہہ بولے بھائی اور ان کے دوست فلم آرٹسٹ مقری کے ذریعہ ان کو پیغام بھجوایا کہ میرے پاس جو کچھ بھی سرمایہ ہے وہ بغیر کسی شرط کے ان کے نذرانے کو حاضر ہے، لیکن انہوں نے اب تک اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ میں آج بھی منتظر ہوں۔

نمی

سمٹ، 8، ایس۔ پی۔ روڈ، ورلی، بمبئی نمبر 18

15/ اگست 1958ء



دیباچہ


سردار جعفری





علی رضا کے ناولٹ رام محمد ڈیسوزا کا تیسرا ایڈیشن اس وقت شائع ہو رہا ہے جب ہندوستان اور ساری دنیا میں مہاتما گاندھی کی پیدائش کا صد سالہ جشن منایا جا رہا ہے اور مجھے شانتی اور اہنسا کے اوتار کے یہ الفاظ یاد آ رہے ہیں کہ میں عیسائی بھی ہوں اور ہندو بھی، مسلمان بھی اور یہودی بھی۔

آج اگر گاندھی جی جسمانی اعتبار سے زندہ ہوتے تو رام محمد ڈیسوزا سے مل کر بہت خوش ہوتے، اور اس کے تینوں موالی متولیوں سے یہ پوچھتے کہ:

’’تم ان پڑھ ہو کر میرے دل کی یہ بات کیسے جان گئے کہ ہم سب کا بھگوان صرف ایک ہے، چاہے ہم اسے قرآن میں تلاش کریں چاہے زنداوستا اور تالمود میں، چاہے گیتا میں اور وہ سچائی اور محبت کا خدا ہے!‘‘

اور مجھے یقین ہے کہ تینوں غنڈے گاندھی جی کو یہ جواب دیتے کہ ’’ہم نے تو اپنے بھگوان خدا یا گاڈ کو اس لا وارث بچے کی معصوم آنکھوں میں دیکھا ہے‘‘ ۔ اور یہی انسانیت کی وحدت کے لئے عہد وسطی کے ان انقلابیوں کی دلیل تھی جنہیں بھگت صوفی اور مسلک کہا جاتا ہے۔

مو کوں کہاں ڈھونڈے بندے میں تو پڑے پاس میں

نا میں دیول نا میں مسجد نا کعبے کیلاس میں

نا تو کون کریا کرم میں نا ہیں پوگ بیراگ میں

کھوجی ہوئے تو ترتے ملیہوں پل بھر کی تالاس میں

کہیں کبیر سنو بھائی سادھو سب سوانسوں کی سانس میں

ترجمہ:

اے بندے تو مجھے کہاں ڈھونڈتا پھر رہا ہے، میں تو تیرے پاس ہی ہوں۔ نہ میں مندر میں ہوں، نہ مسجد میں، نہ کعبے اور کیلاش میں، نہ کسی ظاہری عبادت میں، نہ یوگ بیراگ میں۔ اگر سچے دل سے کھوجنے والا ہو تو پل بھر کی تلاش میں مل جاؤں گا۔۔۔ کبیر کہتے ہیں بھائی سادھو سنو وہ تو ہر سانس میں موجود ہے۔

مولانا جلال الدین رومی نے اختلاف مذاہب کے باوجود وحدت کو ایک دلچسپ حکایت کی شکل میں سمجھایا ہے۔ ایک شخص نے چار آدمیوں کو جو چار مختلف زبانیں بولتے تھے، ایک درم دیا۔ ایرانی نے کہا کہ اس سے انگور خریدے جائیں۔ عرب نے کہا انگور نہیں عنب۔ ترک نے کہا تم دونوں بکتے ہو میری رائے میں ازم خریدنے چاہیں۔ چوتھے نے استافیل کا نام لیا۔ اس بات پر چاروں لڑنے لگے۔ اور مرنے مارنے پر آمادہ ہو گئے۔ اس وقت اگر کوئی چاروں زبانوں کا جاننے والا موجود ہوتا تو ان بے وقوفوں کو بتاتا کہ تم سب ایک ہی چیز مختلف لفظوں میں مانگ رہے ہو۔ لڑائی اصل چیز پر نہیں ہے صرف الفاظ کے ظاہری روپ پر ہے۔

علی رضا کی کہانی میں سارا جھگڑا بھگوان، خدا اور گاڈ کے لفظی اختلاف پر ہو رہا ہے۔ نندن، رابرٹ اور رحیم تینوں کردار جاہل اور ان پڑھ ہیں اس طرح وہ ان تمام مہذب تعلیم یافتہ ہندوستانیوں کے لئے ایک گہرا طنز بن جاتے ہیں جو علم اور تہذیب کی دولت کے بعد بھی وہ نیکی اور شرافت حاصل نہیں کر سکے جو ایک ننھے سے بچے نے تین غنڈوں کو سکھا دی۔

میں نے آٹھ دس سال پہلے یہ کہانی علی رضا کی زبان سے سنی تھی اور مجھے بہت اچھی لگی تھی۔ اس میں ایک ایسی عجیب و غریب سادگی ہے اور سچائی ہے جو بظاہر ناقابل یقین معلوم ہوتی ہے۔ کہانی در اصل ایک تمثیل ہے جو کرداروں کے ذریعہ سے حقیقت کو بے نقاب کرتی ہے اور علی رضا نے اس حقیقت کو بے نقاب کیا ہے کہ سب سے بڑی نیکی سب سے بڑا مذہب انسان کی تلاش ہے۔ اور انسان صدیوں سے اپنی ہی تلاش میں سرگرداں ہے۔ ہندوستان نے ہزاروں سال پہلے مظاہر کی کثرت میں وحدت تلاش کرنے کی کوشش میں ویدانت اور اپنشد کو جنم دیا۔

علامہ اقبال کے الفاظ میں آج وحدت کے اندر کثرت کی جلوہ آرائی پھر دیکھنے کی ضرورت ہے اور یہ ایک قومی ہندوستان کے اندر مختلف مذاہب مختلف تہذیبوں اور مختلف زبانوں کی جلوہ گری ہے۔۔

حرف بدرا بر لب آوردن خطاست

کافر و مومن ہمہ خلقِ خدا ست

آدمیت احترام آدمی

باخبر شواز مقام آدمی

بندۂ عشق از خدا گیر و طریق

می شود بر کافر و مومن شفیق

ترجمہ:

بری بات زبان پر لانا غلطی ہے، کافر و مومن دونوں خدا کی مخلوق ہیں۔ آدمیت آدمی کے احترام کا نام ہے۔ آدمی کے بلند مقام سے باخبر ہونا ضروری ہے۔ اہل عشق خدا سے طریق زندگی سیکھتے ہیں اور کافر و مومن دونوں پر مہربان ہوتے ہیں۔

جو سادگی علی رضا کی کہانی میں ہے وہی ان کے حسن بیان میں ہے۔ ’سادگی و پرکاری بے خودی و ہشیاری‘ اور کیوں نہ ہو، یہ لکھنؤ کی پاکیزہ زبان کا کرشمہ ہے۔

سردار جعفری

2 جولائی 1969ء







تعارف



بیس سال ہوئے علی رضا تعلیم یافتہ ذہن، روشن دماغ، اور ترقی پسند شعور لئے ہوئے فلم میں آئے۔ اور چند ہی سال میں ہندوستانی اسکرین کے صف اول کے ڈراما نگار بن گئے۔

علی رضا کی ترقی عام فلمی عروج کی طرح اتفاقیہ نہ تھی۔ انہوں نے اپنے وسیع مطالعے کی روشنی میں فلم اور اس کی ضروریات کا تفصیلی جائزہ لیا۔ اور اپنی ذہانت سے فلم میں اعلی اور معیاری ادب پیدا کرنے کی کوشش کی۔ خوش قسمتی سے ان کی فلمی تربیت کا زمانہ ڈائریکٹر محبوب کے ساتھ گزرا۔ جو نئے رجحانات کے سب سے بڑے سرپرست تھے۔ محبوب مرحوم کے قریب رہ کر علی رضا کو ادب اور باکس آفس کے امتزاج کو سمجھنے کا بہترین موقع ملا۔ اور معیاری ادب کو عوامی کامیابی کے سانچوں میں ڈھال دینے کا گر انہیں اچھی طرح معلوم ہو گیا۔۔۔ آج فلمی حلقے میں علی رضا گنے چنے اہل قلم میں ہیں جو فلم کا آرٹ اور فلم کی کامیابی کے رموز صحیح معنوں میں سمجھتے ہیں۔ انداز۔ آن۔ مدر انڈیا، سرسوتی چندر، جیسی مختلف اور متضاد مزاج و فضا کی فلمیں بے انتہا کامیابی سے لکھ کر انہوں نے فلمی دنیا میں اپنی قابلیت کی دھاک جما لی ہے۔

علی رضا کا تہذیبی پس منظر، شعور اور رجحان ان کی ہر تخلیق میں موجود رہتا ہے۔۔۔ ان کی شرافت نفس، ان کا صحت مند تفکر اور ان کی پر خلوص انسان دوستی، ان کے فن کے عناصر ثلاثہ ہیں۔ علی رضا کی کہانی اور منظر ناموں میں ایک ایسی پاکیزہ فضا پیدا ہوتی ہے۔ جو عام فلموں سے کافی الگ اور مختلف ہوتی ہے۔ وہ عوامی پسند اور باکس آفس کا دل سے احترام کرتے ہیں۔ لیکن ان کے لئے اپنے اعلیٰ ذوق اور نظریوں سے کبھی انحراف نہیں کرتے۔

علی رضا میں وہ تمام صلاحیتیں اور خوبیاں موجود ہیں جو ادب میں بھی ان کو ایک بلند مقام دے سکتی ہیں۔ لیکن غالباً فلمی مصروفیات کی وجہ سے ابھی تک وہ ادبی، تصنیف و تالیف کی طرف متوجہ نہیں ہو سکے تھے۔ زیر نظر ناولٹ ’’رام محمد ڈیسوزا‘‘ ان کی پہلی ادبی تصنیف ہے۔

کہانی چونکہ فلم کے لئے لکھی گئی تھی۔ لہذا اس ناول سے زیادہ ڈرامائی رنگ موجود ہے۔ لیکن علی رضا کے ترقی پسند اور با مقصد ذہن کی اپج اس کے ہر کردار اور ہر واقعے میں نظر آتی ہے۔

یہ ایک مثالی کہانی ہے جس میں انسانی وحدت پر نندن رحیم اور رابرٹ کے غیر فطری مذہبی خیالات نے تقسیم کے فرضی خطوط کھینچ دئیے ہیں۔ اس تقسیم سے پیدا ہونے والی تضادیت (CONFLICT) سے پلاٹ میں ایک با مقصد اور دل چسپ کھنچاؤ پیدا ہوتا ہے اور کہانی ایک طوفان کی طرح آگے بڑھتی ہے۔

انسان ہندو مسلمان یا عیسائی نہیں۔۔۔ وہ بہ حال انسان اور صرف انسان ہے۔ مذاہب سکھائے ہوتے سبق ہیں۔ جن کو اصلیت سے کوئی واسطہ نہیں، یہی ہم علی رضا کی اس کہانی میں بھی دیکھتے ہیں۔

جب پلاٹ کی تضادیت اور ٹکراؤ کافی آگے بڑھ چکا ہے تو اس میں انسانیت ایک معصوم بچہ کی صورت میں نمودار ہوتی ہے۔ اور تینوں مذہب کے دیوانوں کے دلوں میں محبت کی روشنی کر دیتی ہے محبت کے آتے ہی تقسیم کے فرضی خطوط اور افتراق کا غیر فطری بٹوارہ غائب ہو جاتا ہے۔ اور نندن۔ رحیم۔ اور رابرٹ، ایک ہو جاتے ہیں۔ جس طرح جدید مصور، بھدے خطوط میں زندگی کی لطیف حقیقتوں کو ظاہر کرتے ہیں۔ علی رضا نے بھی توحید انسانیت کے اعلی خیال کو تین غنڈوں کے کرداروں میں پیش کیا ہے اور اس طرح تیکھے طنز کی پھلجھڑیاں چھوڑنے کے انوکھے موقع نکالے ہیں۔۔ کہانی کے تینوں غنڈے کرداروں نے مذہب کو جس طرح سمجھا اور دیکھا ہے اسے وہ اپنے اجڈ اور بھدے انداز میں اس طرح ظاہر کرتے ہیں کہ متین سے متین قاری ہنس دینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ غنڈوں کی جگہ اگر مصنف نے پنڈت، مولوی اور پادری کے کردار لئے ہوتے تو یہ بات کبھی پیدا نہ ہو سکتی۔

یہ غنڈے معاشرے کے بد ترین افراد ہیں، لیکن مصنف نے انہیں اس انداز سے پیش کیا ہے کہ ہم ان سے نفرت کی جگہ محبت کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ وہ خود سراپا شر ہیں۔ لیکن ان کے دل کی بنیادی نیکی، ان کے ہر فقرے میں جھلک اٹھتی ہے۔ میں اس کہانی کو ایک بہ ترین ادبی اور فلمی کہانی سمجھتا ہوں۔۔۔ اور میری دلی تمنا ہے کہ کتاب کی طرح یہ جلد سے جلد اسکرین پر بھی پیش ہو جائے۔

صفدر آہ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
بائیس سالہ عبدالرحیم بڑا کٹر مسلمان تھا، نگری ضلع میں جہاں وہ پیدا ہوا تھا، ہندوؤں اور عیسائیوں کی آبادی کافی تھی اور اس آبادی میں نندن اور رابرٹ جیسے حرام زادے بھی تھے جن کا پیشہ ہی دوسروں کی ٹوپیاں بیچ کر تاڑی پینا تھا، لیکن کسی مائی کے لال کی ہمت نہ تھی جو کبھی رحیم کی لال ترکی ٹوپی کو ہاتھ لگا دیتا۔

جس طرح الف لیلیٰ کے قصوں میں دیو کی جان طوطے کے دل میں رہتی ہے۔ اسی طرح رحیم کا اسلام اس کی ٹوپی میں سمٹ کر رہتا تھا۔ برسوں پہلے یہ ٹوپی اس کے پھوپا اللہ رکھا قوّال نے عید کی قوالی گانے کے لئے اس کو رشوت کے طور پر دی تھی۔ رحیم کی آواز بہت پاٹ دار تھی، اور گلے میں خدا داد سُر اور کشش۔ اللہ رکھا اس کو اپنا شاگرد بنا کر اپنی قوالی کی ٹولی میں رکھنا چاہتا تھا لیکن رحیم کو قوالی سے ذرا دلچسپی نہ تھی، وہ پہلوان بننا چاہتا تھا اور ہنومان اکھاڑے میں نندن کے ساتھ شنکرا پہلوان سے گنڈا بندھوانے کی فکر میں لگا رہتا تھا۔ لیکن ہنومان اکھاڑے میں رحیم کا گزر کیسے ہو سکتا تھا۔ اس بات کا دکھ نہ صرف رحیم کو تھا بلکہ خود شنکرا پہلوان کو بھی تھا کیوں کہ شنکرا پہلوان اپنی جگہ صرف اپنے شاگرد نندن کو دینا چاہتا تھا، لیکن نندن کو پہلوانی سے الجھن ہوتی تھی، وہ قوال بننا چاہتا تھا!

فخر اسلام اللہ رکھا کی قوالیاں زیادہ تر جمعہ مسجد کے برابر لنگر بابا کے مزار پر ہوتی تھیں۔ نندن اس میں شرکت نہیں کر سکتا تھا لیکن جب رحیم گاتا تو وہ سنے بغیر رہ بھی نہیں سکتا تھا۔ وہ مزار کے پاس لگے ہوئے پیپل کے گھنے پتوں میں چھپ کر بیٹھ جاتا تھا اور مزے سے رات رات بھر قوالیاں سنتا رہتا تھا۔ چھپتا وہ اس لئے نہیں تھا کہ وہ ڈرپوک تھا۔ در اصل وہ اپنے ہندو دھرم کی آبرو بچاتا تھا، کوئی مسلمان اگر اس کو اس طرح مزار کی قوالی سنتے دیکھ لیتا تو ساری بستی میں ہندوؤں کی ناک کٹ جاتی، اور کہیں اس کے استاد شنکرا پہلوان کو پتہ چل جاتا تو وہیں پیپل پر اس کی چتا بنا دیتا۔

نئی لال ترکی ٹوپی کے لہلہاتے ہوئے کالے پھندنے میں رحیم کو اسلامی شان نظر آتی تھی اور اس شان کو برقرار رکھنے کے لئے رحیم اس کو بار بار ہاتھ سے صاف کرتا رہتا تھا۔ مگر اس کے ہاتھ صاف رہنے لگے اور ٹوپی کالی ہوتی گئی۔ رحیم کے ہاتھوں کی برسہا برس کی چکنائی اور میل کی تہوں میں ٹوپی کا لال رنگ اندر چھپ کر اس طرح بیٹھ گیا جیسے کسی جلیل القدر حاجی کے دل میں اس کے جوانی کے گناہوں کا احساس۔ رحیم نے کئی مرتبہ اس کو صابن سے دھویا بھی مگر لال رنگ نے اپنا جلوہ نہ دکھانا تھا نہ دکھایا۔ اتنا ضرور ہوا کہ ٹوپی کے مختلف حصوں سے پسینہ مٹھائی، ٹھرے، گوشت اور تیل وغیرہ کی جو مختلف خوشبوئیں نکلتی تھیں وہ ایک مبہم بدبو میں مل گئیں۔ یہ بھی اچھا ہوا، الگ الگ خوشبوئیں نکلنے سے ایک بار قیامت ہوتے ہوتے رہ گئی تھی۔

ہوا یہ تھا کہ بقر عید پر رحیم نے تازہ تازہ گوشت کھا کر ٹوپی صاف کی تو گوشت کی مہک سے ٹوپی کا پھندنا بھی لہلہا اٹھا اور رابرٹ کے مریل کتے جارج کا دل بھی۔ جارج نے موقع پا کر پھندنا چبا ڈالا۔ رابرٹ، اس کے کتے جارج اور خود رحیم، تینوں کی موت اسی دن واقع ہو جاتی لیکن رابرٹ نے ہولی مدر کی قسم کھا کر وعدہ کیا کہ پیسہ ملتے ہی وہ رحیم کو نئی ٹوپی لا کر دے گا۔ اس واقعہ کو سات سال ہو چکے تھے لیکن یہ بھی واقعہ تھا کہ رابرٹ کے پاس اتنا پیسہ بھی ایک ساتھ جمع ہی نہیں ہوا۔۔۔

اس لئے رابرٹ کا وعدہ تو اپنی جگہ جما رہا، لیکن رحیم کی بغیر پھندنے کی ٹوپی سر سے اتر کر اس کے پاجامے کے نیفے میں پہونچ گئی۔۔۔ خاص خاص مواقع پر جس طرح کسی ملک کا پرچم سر بلند جگہوں پر لہرا دیا جاتا ہے اسی طرح اہم اسلامی تقریبات پر رحیم کبھی اپنی ٹوپی سر پر چڑھا لیتا تھا۔

اس کے علاوہ اچانک ٹوپی کی ضرورت اسی وقت پڑتی تھی جب مسجد کے پیش امام اور رحیم کا کسی گلے کوچے میں آمنا سامنا ہو جاتا تھا، پلک جھپکتے رحیم کی ٹوپی اس کے سر پر پہنچ جاتی تھی، اس کا گٹھیلا بدن موم کی طرح نرم پڑ جاتا، سارا پنڈا پسینہ میں ڈوب جاتا اور اس کا جسم پندرہ سولہ سال پہلے لی گئی پیش امام کی چٹکیوں سے پھوڑے کی طرح دکھنے لگتا تھا۔ اتنی چٹکیوں کے بعد بھی اس کو نماز یاد نہ ہو سکی تھی، کلمہ کے بعد اللہ اکبر اور بسم اللہ کے آگے اس کا اسلام نہ بڑھ سکا۔ اس منزل پر اس کے دماغ اور پیش امام کے صبر دونوں نے یہ کہہ کر ساتھ چھوڑ دیا کہ نندن اور رابرٹ کی سنگت میں رحیم جہنمی ہو گیا ہے اس لئے اس کو نماز یاد نہیں ہو سکتی۔

اس دن سے رحیم کو خود بھی یہ یقین ہو گیا تھا کہ جہنم کی آگ سے وہ کسی طرح نہیں بچ سکتا۔ اور بچتا بھی کس طرح، شراب تو شراب اس کو ہنومان کی پرشاد تک کھانے میں مزہ آتا تھا۔ خدا کے خوف سے رحیم کی جان نکلتی تھی لیکن وہی جان جاتی نندن اور رابرٹ پر تھی۔ مگر خدا رحیم کو اتنا پریشان نہیں کرتا تھا، جتنا پیش امام، کیوں کہ خدا رحیم کی سمجھ کے حساب سے ہمیشہ مسجد میں رہتا تھا اور رحیم بھول کر بھی کبھی مسجد کے سامنے سے نہیں نکلتا تھا۔ کہ کہیں خدا سے مڈبھیڑ نہ ہو جائے۔ لیکن خدا کا ٹھیکے دار پیش امام بستی میں اِدھر ادھر رحیم سے ٹکرا جاتا تھا۔

جب بھی پیش امام پر رحیم کی نظر پڑ جاتی تھی تو سارے دن اس پر غم و فکر کا بوجھ لدا رہتا تھا۔ اس کو جہنم میں نہ صرف خود جلنے کا خوف تھا بلکہ یہ غم اس سے بھی زیادہ تھا کہ اس کے دونوں دوست، نندن اور رابرٹ کو بھی اس میں جلنا پڑے گا۔ اس بھیانک انجام سے اپنے دونوں دوستوں کو بچانے کے لئے رحیم کے معصوم اور سچے دل نے بڑی سنجیدگی سے کئی بار نندن اور رابرٹ کو یہ صلاح دی تھی کہ وہ مسلمان ہو جائیں، اور سب برے کام چھوڑ کر تینوں حج کرنے چلیں۔ بستی کے کئی پیسے والے مسلمان جن کے بارے میں عجیب و غریب کہانیاں مشہور تھیں۔ حج کر کے جہنم کی آگ سے بچ آئے تھے۔ وہ تینوں بھی بچ سکتے تھے۔ لیکن مشکل یہ تھی کہ نندن اور رابرٹ دونوں بے وقوف تھے اور بجائے رحیم کی بات سننے کے اس سے بحث شروع کر دیتے تھے۔

رابرٹ کہتا تھا کہ: ’’خدا تو گاڈ سے بہت چھوٹا ہے کیوں کہ مسلمانوں کے محمد صاحب ہولی سن کے سینکڑوں برس بعد پیدا ہوئے تھے۔!‘‘

رحیم رابرٹ کو سمجھانے کی کوشش کرتا تھا کہ ’’گاڈ سرے سے ہے ہی نہیں، صرف خدا ہی خدا ہے!‘‘

اس پر رابرٹ اس کی جہالت کا بہت مذاق اڑاتا تھا اور رحیم سے کہتا تھا کہ پہلے اپنے پیش امام سے جا کر پوچھے کہ اس کے محمد صاحب انجیل کو گاڈ کی کتاب اور عیسیٰ مسیح کو اپنا بڑا بزرگ مانتے تھے کہ نہیں؟

اس بحث میں نندن کی دلیل سب سے زبردست ہوتی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ:

’’گاڈ اور خدا دونوں کا ہندوستان سے کوئی لینا دینا ہے ہی نہیں، یہاں ہمیشہ سے بھگوان کا ہی راج ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ مسلمان اور عیسائی دونوں باہر کے دیسوں سے ہندوستان آئے اور حالانکہ وہ بھگوان کو نہیں مانتے، گاڈ اور خدا کو مانتے ہیں، پھر بھی بھگوان نے صرف اس لئے ان سب کو زندہ رہنے دیا ہے کہ اس جنم کے بعد تو وہ سب کو ہندو بنا کر ہی پیدا کرے گا۔ خود رابرٹ اور رحیم بھی مرنے کے بعد ہندو بن کر پیدا ہوں گے!‘‘

اس مدلل اور دقیق بحث میں الجھ کر ان تینوں کے سر میں درد ہونے لگتا تھا، اور دماغوں میں تاریکی چھا جاتی تھی، نور کی کرن اسی وقت پھوٹتی تھی جب ان کو خبر ملتی کہ نگری یا اس کے آس پاس کے کسی قصبہ میں کوئی بیاہ ہے جہاں دو سو آدمیوں کا کھانا پکنے والا ہے۔ ان کے الجھے ہوئے تاریک دماغوں میں بجلی کی لہر دوڑ جاتی تھی اور وہ کمپیوٹر کی سرعت سے اپنی مہم کے سنگین سے سنگین مسئلہ کو حل کر لیتے تھے، سینکڑوں آدمیوں کے بیچ سے ڈیڑھ من بریانی کی آگ کی طرح جلتی ہوئی دیگ غائب کر دینا۔ پھر اس کو ایسی جگہ پہچانا جہاں وہ تینوں آرام سے دو تین دن کھا سکیں اور بستی کے کسی آدمی کی نظر نہ پڑنے پائے، کوئی ہنسی ٹھٹے کا کام نہیں۔ جو کرتا ہے اسی کا دل جانتا ہے اور پھر ہمیشہ عقل و سمجھ سے ہی کام نہیں چلتا تھا۔ کہیں کہیں دنگا فساد بھی کرنا پڑتا تھا اور ان تینوں کو اپنی زبردست طاقت کو بھی کام میں لانا پڑتا تھا۔ چھٹپن سے پیٹ بھرنے کی اس مشقت سے ان کے جسموں میں بے پناہ طاقت پیدا ہو گئی تھی۔ وہ تینوں مل کر پوری بستی کے لئے کافی تھے بستی کی پولیس چوکی والے بھی ان سے سوچ سمجھ کر بات کرتے تھے۔ اور پولیس والوں کو ویسے بھی بستی والے بیچ میں لاتے ہی نہیں تھے، کیوں کہ پولیس تو دو دن بند کر کے پھر مجرموں کو چھوڑ دیتی ہے، زندگی بھر تو بستی والوں ہی کو نباہ کرنا پڑتا ہے۔

شروع شروع میں نندن رابرٹ اور رحیم صرف کھانے پینے کے لئے ہی جد و جہد کرتے تھے۔ اس نہ مٹنے والی بھوک کو مٹانا ہی ان کا مذہب تھا۔ لیکن کچھ عرصہ کے بعد بستی والوں نے ان کو مال کی چوری ڈاکے پر بھی مجبور کر دیا۔ کوئی اپنی مرغیوں کو بستی میں کھلا نہیں چھوڑتا تھا۔ سب گھر کے آنگن میں بند رہتی تھیں۔ بکریوں کی گردنوں میں رسیاں پڑ گئیں اور بچوں کی جگہ گھر کے جوان چرانے جانے لگے حلوائیوں نے زیادہ مٹھائی بنانا ہی چھوڑ دی۔ بس اتنی ہی بناتے تھے جتنی کہ دن بھر میں بکری ہوتی۔ اوپر سے لوگ بھی دور اندیش ہو گئے جس کے یہاں کھانے پینے کی تقریب ہوتی وہ سب سے پہلے باقاعدہ نندن رابرٹ اور رحیم کو ہی دعوت دیتا تھا۔

دعوت نامہ ملتے ہی ان تینوں پر اس دعوت کا کھانا اڑانا اور دعوت میں بیٹھ کر کھانا دنوں ہی حرام ہو جاتے تھے۔ ان کی بھوک سکڑ کر آدھ آدھ پاؤ کی رہ جاتی تھی۔ ہر نوالہ حلق میں اٹکتا تھا۔ کیوں کہ ان کو یہ پوری طرح احساس رہتا تھا کہ وہ دعوت نہیں رشوت کھا رہے ہیں۔ ایسا کھانا جس کے حاصل کرنے میں ان کی اپنی محنت کا خون پسینہ شامل نہ ہو۔ ان پر حرام ہوتا تھا۔

کانوں میں یہ بھنک پڑتے ہی کہ بستی میں کسی کے یہاں کوئی شادی بیاہ ہے۔ یہ تینوں بستی سے غائب ہو جاتے تھے اور پوری کوشش کرتے تھے کہ کسی طرح ان کو دعوت نہ ملنے پائے مگر ان کا دعوت نامہ اس قدر اہم ہوتا تھا کہ اس کو ان تک پہچانے کی ذمہ داری بستی کے ہر فرد کا فرض ہو جاتی تھی، کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی ان کو دعوت نامہ پہنچا ہی دیتا تھا۔

اس طرح مجبور کر کے بستی والوں نے ان کو چور اور ڈاکو بنا دیا تھا جس کا ان تینوں کو خود بھی بہت دکھ تھا، مگر پیٹ کی خاطر تو سبھی کچھ کرنا پڑتا ہے۔ لیکن چوری وہ کرتے تو صرف کھانا مہیا کرنے کے لئے، ڈاکہ مارتے تھے تو صرف پیٹ کا ایندھن پاٹنے کے لئے۔

ان تینوں کی یہ چھوٹی سی دنیا سماج و مذہب کی جکڑ بندیوں سے آزاد تھی۔ جس پتیلے سے یہ بریانی یا جس تھال سے ایک ساتھ مٹھائی کھاتے تھے وہاں کوئی فرقہ نہ تھا۔ اس میں تینوں کے ہاتھ ایک ساتھ جاتے تھے۔ اس میں نہ ہنومان اکھاڑے کی پابندیاں تھیں نہ جہانگیر مسجد کی حد بندیاں اور نہ رابرٹ کے ماما کے ’’ہولی کرائسییٹ بینڈ‘‘ کی بندشیں۔

یہاں کوئی اللہ رکھا، رابرٹ اور نندن کو گالیاں دینے کے لئے نہیں تھا کہ انہوں نے رحیم کو جہنمی بنا دیا ہے۔ کوئی رابرٹ کا ماما سالو من موجود نہیں تھا جو نندن اور رحیم کو الزام دھرتا کہ انہوں نے رابرٹ کی زندگی اور آخرت دونوں برباد کر دئے ہیں۔ کسی شنکرا پہلوان کی دھمکیاں نہ تھیں کہ رابرٹ اور رحیم نے نندن کا دھرم نشٹ کر دیا ہے اس لئے وہ اپنے گرز سے ان دونوں کی ہڈیاں توڑ ڈالے گا۔

یہاں صرف ایک جذبہ اخوت اور الفت تھا، ان تینوں میں سے کسی کے حلق میں دوسرے کے بغیر نوالہ نہیں اتر سکتا تھا!

بھوک میں پیٹ بھرنے کی ایک ابدی مسرت جو انسان کو اپنے لئے ہوتی ہے وہ مسرت جو ہر خوشی کا سر چشمہ ہے۔ وہ مسرت رحیم، رابرٹ اور نندن کا پیٹ بھرنے میں محسوس کرتا تھا اور نندن، رحیم اور رابرٹ کا پیٹ بھرنے میں جیسے ان تینوں کے پیٹ مل کر ایک ہی پیٹ تھا۔

تلیہ گاؤں میں زبردست سیلاب آ گیا، سینکڑوں آدمی مر گئے ہزاروں بے گھر ہو گئے، گاؤں کے گاؤں بہہ گئے۔

ہندوستان میں کروڑوں آدمی بغیر کسی سیلاب کے آئے ہوئے بے گھر ہیں۔ لاکھوں یوں ہی روز مرتے رہتے ہیں۔ لیکن پتہ نہیں کیوں یہ اخبار سیلاب کی جان کے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔ سیلاب آتے ہی ایک ہنگامہ مچانا شروع کر دیتے ہیں۔ حالانکہ ان کو اچھی طرح معلوم ہے کہ سیلاب جہاں آتا ہے اس جگہ کو برباد کر ہی دیتا ہے، ورنہ وہ سیلاب ہی کیا ہوا۔ گٹر ہو گیا۔ اور کچھ نے تو قسم کھا رکھی ہے کہ ہر بلا گورنمنٹ کے سر منڈھ دیں گے۔ سیلاب کا الزام بھی بے چاری گورنمنٹ پر دھر دیتے ہیں کہ گورنمنٹ نے ملک کے دریاؤں کا مطالعہ نہیں کیا ہے، اس وجہ سے سیلاب کی روک تھام کا کوئی بندوبست ہی نہیں ہوا ہے۔ ان اخبار والوں کو اتنا بھی معلوم نہیں کہ اگر دنیا میں حوادث فطرت کے اسباب اور نتائج کا کہیں عمیق مطالعہ ہوا ہے تو صرف ہندوستان میں۔

ہزارہا سال کے مطالعہ اور فکر کے بعد اگر کوئی اس حقیقت تک پہونچا ہے کہ حوادث فطرت کا سبب خود فطرت ہے اور اس کا مقصد صرف پاپیوں کو نمٹانا اور نیک انسانوں کی فلاح و بہبود ہے تو وہ جگہ صرف ہندوستان ہے۔

یہ لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ ہر سیلاب زدہ علاقے کو گورنمنٹ مدد کے لئے پیسہ دیتی ہے۔ سینکڑوں کی تعداد میں بے کار سرکاری افسر جن کی گزر معمولی سی تنخواہ میں نہیں ہو سکتی۔ سیلاب زدہ علاقے میں اسی پیسے سے آباد ہو جاتے ہیں۔ سماجی انجمنوں کے لاکھوں کارکن ملک بھر سے کپڑا، پیسہ، کمبل، اناج، اکٹھا کر کے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں۔ اب اگر سیلاب زدہ علاقوں کے بچے سیلاب میں بہہ گئے ہیں تو وہ جمع کیا ہوا مال تو سیلاب میں بہا نہیں سکتے۔ آخر ان کے اپنے بچے بھی تو ہیں، ان کا بھلا بھی ملک اور قوم کا بھلا ہی ہے۔

لاکھوں کروڑوں روپیہ کمانے والے فلم کے ہیرو، ہیروئن کو بھی، موقع ملتا ہے کہ وہ چیریٹی شو کریں، جلوس نکالیں، چندہ جمع کریں، آخر گورنمنٹ ان کو بلیک منی لینے کا پدم شری تو دینے سے رہی۔ قدرت یہی مواقع ان کو فراہم کرتی ہے کہ وہ اپنے بیکس اور مفلس سماج کو پاس سے دیکھ کر یہ سمجھ لیں کہ انسان ہونے سے ہیرو ہیروئن ہونا زیادہ خوش نصیبی کی بات ہے۔

کچھ سیاسی جماعتوں کی قسمتیں تو سیلاب سے اس طرح کھل جاتی ہیں جیسے سیلاب زدوں پر روٹی بند ہو جاتی ہے۔ غرض ہر سیلاب زدہ علاقہ میں دیکھتے دیکھتے جنگل کا منگل ہو جاتا ہے۔ صرف اخبار والوں کو قدرت کا یہ تماشہ نظر نہیں آتا۔

نندن، رحیم اور رابرٹ کو ایسے مواقع پر ایک پتھر سے تین چڑیوں کا شکار مل جاتا تھا۔ سیلاب میں بہا ہوا مال۔ گورنمنٹ کا مال اور سیاسی سماجی انجمنوں کے ذریعے پہونچا ہوا پبلک کا مال، لوٹے ہوئے مال کو نقد کرنے میں ان تینوں کو کوئی مشکل نہیں پڑتی تھی، کیوں کہ قدرت کا ہر عمل اور نظام مکمل ہوتا ہے۔

لوٹ کا مال خریدنے کے لئے موقع واردات پر بہت سے کاروباری لوگ پہونچ جاتے ہیں، ٹھیکے داروں کے ٹرک جو مصیبت زدوں کی مدد کے لئے گورنمنٹ کا امدادی سامان لے کر جاتے ہیں وہی واپسی میں ان کا لٹا ہوا سامان بھر کر واپس لانے کے کام آ جاتے ہیں۔ اس طرح ان کا ٹرپ خالی نہیں جاتا اور ان کو بھی نقصان نہیں ہوتا۔

لیکن تلیہ گاؤں کا سیلاب نندن، رابرٹ اور رحیم کو راس نہیں آیا۔ حالانکہ سیلاب بہت بھیانک تھا، جب یہ تلیہ گاؤں پہونچے تو وہاں ابھی تک سرکاری امداد اور سماجی انجمنیں نہیں پہونچی تھیں۔ ہر جگہ صرف سیلاب کا پانی ہی پہونچا تھا۔ جھونپڑے اور کچے مکانات تو سرے سے نظر ہی نہیں آ رہے تھے، لیکن سیلاب کے پانی میں بہتے ہوئے چھپر، ٹوٹے ہوئے دروازے، ڈبہ اور پتیلیاں، خالی بوتلیں، پرانے کپڑے دیکھ کر تینوں نے اندازہ لگا لیا کہ اس جگہ غریبوں کی پاپ کی بستی ہو گی جو سیلاب سے دھل کر پاک ہو گئی، بکریوں، مرغیوں اور خرگوشوں کی بہتی ہوئی لاشوں کو دیکھ کر رحیم کی سمجھ میں نہیں آیا کہ آخر یہ معصوم جانور کس طرح گنہگار ہو سکتے ہیں؟ لیکن نندن یہ راز جانتا تھا کہ یہ جانور بھی اپنے کسی پچھلے جنم کے پاپ کا بھوگ بھگت رہے ہیں۔

کچھ دیر کے بعد ان تینوں کو ذرا دور پر ایک بہت بڑا تختہ تیرتا ہوا نظر آیا۔ جب وہ تینوں اس کے پاس تیرتے ہوئے گئے تو معلوم ہوا کہ وہ ایک مکان کی چھت ہے، پورے کا پورا مکان پانی کے نیچے ڈوبا ہوا ہے۔

چھت لرز رہی تھی جس سے تینوں کو احساس ہوا کہ مکان کی بنیادیں دم توڑنے والی ہیں اور کسی وقت بھی سیلاب پورے مکان کو بہا لے جائے گا۔

تینوں نے اپنی جان پر کھیل کر پانی میں غوطے لگائے اور مکان کے دروازے ڈھونڈھنے لگے تاکہ وہ مکان کے اندر داخل ہو سکیں۔ اندر داخل ہونے میں ان کو کچھ مشکل نہیں پڑی کیوں کہ مکان کی کئی دیواریں بہہ چکی تھیں، سیلاب کے گندے اور مٹیالے پانی کی وجہ سے ان کو مکان کا مال ڈھونڈنے میں بڑی محنت کرنی پڑی۔ لیکن نصیب نے ساتھ نہیں دیا۔ کیونکہ دیواریں ٹوٹنے کی وجہ سے مکان کا تقریباً سارا سامان بہہ گیا تھا۔

موت کا ہر قدم پر خطرہ تھا کیوں کہ آہستہ آہستہ مکان کی بنیادیں جگہ چھوڑ رہی تھیں۔ سانس لینے کے لئے وہ پانی کے اوپر آئے تو ان کے سر مکان کی چھت سے ٹکرا گئے۔ اندر کی چھت اور پانی کے درمیان صرف ایک دو ہاتھ کی جگہ باقی رہ گئی تھی۔ اس جگہ کافی اندھیرے کے باوجود تینوں نے دیکھ لیا کہ ایک لاش روشندان میں پھنسی ہوئی ہے۔ ان تینوں نے مل کر اس کو بڑے احترام سے روشندان سے نکالا۔ یہ ایک عورت کی لاش تھی جیسے ہی انہوں نے لاش کو روشن دان کے باہر گھسیٹا اسی وقت مکان کی چھت کوئی سات آٹھ انچ اور بیٹھ گئی۔ لاش کو احترام کے ساتھ بہا کر یہ لوگ جلدی سے مکان کے باہر نکل جانا چاہتے تھے، مگر روشن دان کے اندر سے دوسرے کمرے کی چھت نظر آئی اور ایک معصوم بچے کی چیخوں کی آواز سنائی دی۔ بچہ شیر خوار تھا جو ایک تخت پر پڑا ہوا تھا اور لکڑی کا تخت پانی پر تیر رہا تھا۔

چھت کوئی دم میں ہی بیٹھنے والی تھی۔ بس ایک جھٹکا، اور ان تینوں کی بچہ سمیت پانی کے اندر ہی قبر بن جاتی لیکن کسی کو بھی اپنی موت کا ڈر نہیں تھا۔ یہی فکر تھی کہ شیر خوار بچہ کو کس طرح بچایا جائے۔ نندن جو روشن دان کے سب سے قریب تھا سر ڈال کر روشن دان کے اندر گھسا۔ رحیم نے اس کی ایک ٹانگ پکڑ لی اور رابرٹ نے دونوں ہاتھوں سے روشن دان کے اوپری حصہ کو زور دینا شروع کیا تاکہ اس کو سہارا رہے اور وہ بیٹھنے نہ پائے۔ لکڑی کا تخت جس پر بچہ لیٹا ہوا تھا روشندان سے دور تھا۔ نندن نے کوشش کر کے اس کا ایک پایہ پکڑ لیا اور اس کو اپنی طرف گھسیٹا۔ تخت تیرتا ہوا اس کے پاس آ گیا۔ دوسرے ہاتھ سے اس نے تخت کو نیچے دبایا اور اپنے آدھے جسم کا زور اس پر ڈال دیا۔ نندن کے وزن کی وجہ سے تخت کا آدھا حصہ پانی میں ڈوب گیا۔ اور دوسری طرف کا حصہ کسی قدر پانی سے اوپر ہو گیا۔ اس طرح تخت ٹیڑھا ہونے کی وجہ سے بچہ لڑھک کر نندن کی طرف آ گیا اور اس نے بچہ کو اپنے دونوں ہاتھوں کے بیچ گردن سے روک لیا، نندن نے رحیم کو آواز دی اور رحیم نے اس کو اپنی طرف کھینچا۔ الٹے ہاتھ کا زور تخت پر دیتے ہوئے اور سیدھے ہاتھ میں بچہ کو اٹھائے ہوئے جیسے ہی نندن، رابرٹ اور رحیم والے کمرے میں آیا، بچہ والے کمرے کی چھت ایک دم بیٹھ گئی۔ پانی میں زور کا چھپاکا ہوا، پلک جھپکتے رحیم نے بچہ کو اپنی بائیں بغل میں دبا لیا اور اسی ہاتھ سے اس کا مونہہ اور ناک بند کر کے پانی میں ڈبکی لگا دی۔

مکان کے باہر نکلتے ہی رحیم کی سانس پھول گئی تھی اور دم ٹوٹ چکا تھا۔ اس نے پانی میں ہی بچہ کو رابرٹ کی طرف اچھال دیا، رابرٹ نے بچے کو دونوں ہاتھوں میں روک لیا، اور بچہ نے چیخنا شروع کر دیا۔ یہ چیخ بچہ کی زندگی کی علامت تھی، اس کا رونا سنتے ہی تینوں پانی میں پاگلوں کی طرح اچھل کود کرنے لگے، جیسے سڑک کے معصوم بچے گلیوں میں بارش کا پانی بھر جانے کے بعد اچھل کود کرتے ہیں۔

تینوں بچہ کو لے کر کنارے پہونچے تو موسلا دھار بارش پھر سے شروع ہو گئی تھی۔ کنارے پہونچ کر انہوں نے بچے کے کیچڑ سے لتھڑے کپڑے پھاڑ کر سیلاب میں بہا دئیے اور بارش کے پانی سے اس کو نہلا دھلا کر صاف کیا۔ جس طرح گھٹاؤں میں بجلی کوند جاتی ہے اسی طرح بچے کا غلاظت سے بھرا جسم چکا چک ہو کر نکھر آیا۔ گورا گورا، موٹا، موٹا، بلور جیسی آنکھیں، سرخ سرخ کشمیری آمری سیب کے جیسے گال۔

بچہ سردی سے ٹھٹھر رہا تھا، لیکن نندن اور رحیم کو اس کا بالکل خیال نہ تھا۔ رابرٹ نے دو زور کے مکّے دونوں کو رسید کئے۔ دونوں کا دھیان بچے میں لگا ہوا تھا۔ وہ رابرٹ کے مکوں کے لئے تیار نہ تھے، قلا بازیاں کھا کر کیچڑ میں لڑھک گئے۔ رابرٹ بچے کو لے کر اس برگد کے نیچے بھاگا جس کے نیچے ان تینوں نے پانی میں ڈبکی لگانے سے پہلے کپڑے اتار کر رکھ دئیے تھے اور وہاں اس کوا پنے موٹے پھٹے ہوئے کوٹ میں لپیٹ دیا۔

نندن نے کچھ بھیگی ہوئی لکڑیاں اور پتے جمع کر کے آگ جلانے کی کوشش کی۔ شعلے تو نہ نکل سکے لیکن بچہ کو گرمی پہونچانے بھر کا گرم دھوئیں کا سہارا ہو گیا۔

ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے بچہ کو خود ایک بھیانک خطرہ کا احساس تھا جس کی وجہ سے وہ ایک دم چپ تھا۔ لیکن جیسے ہی وہ خطرہ سے باہر ہوا اوراس کو آرا ملا وہ بھوک سے تلملا اٹھا۔ ان میں سے کسی کی سمجھ میں نہ آیا کہ بچہ کو اچانک کیا ہو گیا۔ وہ گھبرا گئے اور باری باری اس کو گود میں لے کر بہلانے کی کوشش کرنے لگے۔ ان کو ڈر تھا کہ بچہ کو کوئی بھیانک روگ لگ گیا ہے اور وہ مر جائے گا لیکن جیسے ہی نندن نے اس کو اپنے ننگے سینے سے چمٹایا ویسے ہی بچہ نے اپنا پیٹ بھرنے کی فطری کوشش شروع کی۔

رحیم بچے کی یہ حرکت دیکھتے ہی ایک چھلانگ مار کر بارش میں بے تحاشہ بھاگا۔ بہت دور، اس کو ایک بکری نظر آئی۔ رابرٹ نے اس کا اشارہ سمجھ لیا۔ وہ اس کے پیچھے بھاگا، چشم زدن میں وہ بکری کے پاس پہونچ گئے۔

بکری اچانک دو طرفہ حملہ سے پریشان ہو کر بھاگی اور اپنے مالک کے پاس پہونچ گئی۔

گھسیٹا گوجر کا شاید سب کچھ سیلاب کی نذر ہو چکا تھا۔۔۔ اس کی کل کائنات صرف یہی بکری موہنی رہ گئی تھی۔۔۔ سیلاب کا تو وہ کچھ بگاڑ نہیں سکا لیکن موہنی کے دو لٹیروں پر وہ اپنی لاٹھی اور گالیوں سے سیلاب کا سارا غصہ لے کر برس پڑا۔ وہ لاٹھیاں اور گالیاں برساتا رہا لیکن رابرٹ اور رحیم بکری کے پیچھے لگے رہے، رحیم نے بکری دبوچ لی اور رابرٹ نے گھسیٹے کو، رحیم بکری کو گردن پر لاد کر بھاگا اور رابرٹ گھسیٹے کی لاٹھی چھین کر۔

رابرٹ نے موہنی کی ٹانگیں پکڑ لیں تاکہ وہ جگہ سے ہلنے نہ پائے۔ نند نے بچہ کو گود میں لے کر اس کو بکری کے نیچے اس طرح سے ہاتھوں میں لیا کہ بچہ کا مونہہ ٹھیک موہنی کے تھنوں کے نیچے رہے۔ رحیم نے تھنوں کو دبا کر دودھ کی دھار بچہ کے مونہہ میں ڈالنا شروع کی۔ موہنی کو بھی شاید اپنے سب بچے سیلاب کی نذر کر کے یہ ایک بچہ ملا تھا معلوم ہوتا تھا اس کے تھنوں سے دودھ نہیں ممتا کی دھاریں بہہ رہی ہیں۔

ایسا نہیں ہے کہ بچے کے پیٹ میں اس کے مونہہ سے دودھ نہیں گیا۔ ضرور گیا ہو گا، لیکن بچہ کا پیٹ ناک کے ذریعہ بھرا اور اس دس منٹ کے عمل میں رحیم نے نندن اور رابرٹ کی جتنی مکروہ گالیاں کھائیں اتنی پورے پچیس سال میں نہیں کھائی تھیں۔ اتنی دیر میں گھسیٹے کے ساتھ بہت سے لوگ جمع ہو کر آ گئے۔ لیکن جب انہوں نے درخت کے نیچے کا منظر دیکھا تو وہ شرمندہ ہو گئے۔ گھسیٹا گوجر معافی مانگنے لگا۔

گاؤں والوں میں سے کسی نے بھی بچہ کو نہیں پہچانا۔ آباد گاؤں تھا۔ درجنوں بچے روز ہی پیدا ہوتے رہتے تھے کون کہہ سکتا تھا کہ کس کا بچہ ہو گا؟ اور پھر گاؤں میں زندہ بچے ہی کتنے لوگ تھے؟ گھر کے گھر خاندان کے خاندان نیست و نابود ہو چکے تھے۔

لیکن بچہ تو بہ حال ان ہی لوگوں کے گاؤں کا تھا۔ ان کا فرض تھا کہ بچہ کو لے کر اس کے کسی زندہ رشتہ دار کو پہنچا دیتے۔ مگر کون یہ ذمہ داری مول لیتا؟ سب کو اپنی اپنی جان اور اپنے اپنے لالوں کی فکر لگی تھی اور پھر شیر خوار بچہ کو ذرا بھی کچھ ہو جاتا تو لینے کے دینے پڑ جاتے۔ سب نے صاف انکار کر دیا اور یہی صلاح دی کہ اس کو پولیس کے حوالے کر دیا جائے یا کسی یتیم خانے میں رسید لے کر دے دیا جائے تاکہ اگر اس کا کوئی عزیز جیتا بچا ہو تو بعد کو رسید دکھا کر واپس لے آئے۔

بچہ کو اس کے ٹھکانے پر پہونچانے کے بعد رابرٹ، نندن، اور رحیم کا پروگرام سیلاب کا مال لوٹنے کا تھا۔ لیکن اب بیچ میں بچہ اور رابرٹ کی ضد آ گئی کہ وہ پہلے بچہ کو اپنے گاؤں پہنچائے گا۔ بچہ نے کچھ اس طرح نندن اور رحیم کا دل بھی موہ لیا تھا کہ وہ سیلاب زدہ گاؤں کو چھوڑ کر واپس اپنے گاؤں جانے پر رضا مند ہو گئے۔ اتنی بڑی قربانی انہوں نے اپنی زندگی میں کبھی کسی کے لئے نہیں کی تھی۔

رابرٹ نے اپنا اور اپنے دونوں دوستوں کا گاؤں والوں سے تعارف کرواتے ہوئے کہہ دیا کہ وہ بچے کو اپنے پاس رکھے گا اور اگر کوئی حق دار بچا ہو تو وہ کبھی بھی اس سےا کر لے جا سکتا ہے۔

نندن اور رحیم کو بچہ رابرٹ کے حوالے کرتے ہوئے کوئی اعتراض نہ ہوا، لیکن ان کی سمجھ میں نہ آیا کہ آخر وہ بچہ کا کرے گا کیا؟

’’میں یہ جولی کو پریزنٹ کروں گا۔‘‘ رابرٹ نے کہا۔

جولی شادی شدہ تھی، لیکن اس کا اور اس کے شوہر پنٹو کا سپریشن ہو چکا تھا اور ملاپ کبھی ہونے کا امکان بھی نہ تھا۔ پنٹو نے جولی سے بہت دھوم دھام سے شادی کی تھی اور ہنی مون پر گوا بھی لے گیا تھا۔ یہاں تک بات ٹھیک تھی لیکن ہنی مون سے واپسی پر جولی کے پاؤں بھاری ہو گیا۔ اس بات پر پنٹو کا دماغ پھر گیا۔ اس کو جولی کے کردار پر شک ہو گیا پنٹو کی مردانگی یہاں تک تو تھی کہ نامرد ہوتے ہوئے ایک حسین اور جوانی سے بھرپور دوشیزہ سے دھوم دھام سے شادی کر لے۔ لیکن اس کی بیوی اس سے بے وفائی بھی کر سکے یہ اس کو گوارا نہ ہوا جس راز کا صرف اسی کو علم تھا وہ اس نے بہ بانگ دہل ساری دنیا کو بتا دیا لیکن جولی کو گھر سے نکال دیا۔

جولی نے پنٹو کو بہت سمجھایا کہ بچہ کی وجہ سے اس کی مردانگی پر کبھی اور کسی وقت کوئی بھی شک نہ کر سکے گا اور پھر یہ کہ اس بچہ کی نیّا کے سہارے ان دونوں کی زندگیاں ہنستے کھیلتے پار لگ جائیں گی ورنہ کچھ دنوں کے بعد شاید دونوں کو خود کشی کرنا پڑے۔ لیکن پنٹو کی سمجھ میں یہ بات نہ آئی۔

پنٹو ہیوی ویٹ لفٹنگ میں کئی برس پہلے تیسرا آل انڈیا چیمپئن ہو چکا تھا۔ نہ جانے کتنی حسین لڑکیاں اس کے آٹو گراف لے چکی تھیں، اخباروں میں اس کے وہ پوز چھپ چکے تھے جس میں اس کے جسم کی ایک ایک مچھلی پتھر کے اسٹیچو کی طرح سخت اور سڈول نظر آتی تھی۔ اتنی زبردست آل انڈیا باڈی ہوتے ہوئے بھی جولی کو کسی اور چیز کی ضرورت محسوس ہو یہ اس کی عقل سے باہر تھا۔

آخر بیاہ سے پہلے جولی نے اس کی سادی باڈی دیکھی تھی، اسی پر وہ عاشق ہوئی تھی، پھر اب کیوں اسے بچہ کی ضرورت محسوس ہوئی؟

پنٹو در اصل فرشتوں کی طرح معصوم تھا، اس کی سمجھ میں یہ کبھی آیا ہی نہیں کہ بچہ جولی کے پیٹ میں بیاہ سے پہلے ہی موجود تھا، اور جولی نے اس سے شادی اسی لئے کی تھی، پنٹو، جولی کی باڈی کو خوب سمجھ بوجھ کر اس پر عاشق ہوئی تھی۔ لیکن پنٹو کے دماغ تک نہ پہونچ سکی تھی۔ ویسے بھی باڈی بلڈر کے دماغ تک پہونچنا ہر کس و ناکس کے بس کا کام نہیں ہے۔

جولی نے بچے کے لئے کام شروع کر دیا تھا۔ ویسے جولی جیسی خوب صورت لڑکی کے لئے کام کی کمی کہاں ہو سکتی تھی۔ وہ کام نہ کرتے ہوئے کام کرنے والوں سے زیادہ کما لیتی تھی اور اپنی کمائی کی پائی پائی اپنے بچہ پر خرچ کرتی تھی لیکن یہ خوشی ہر خوشی کی طرح چند روزہ ثابت ہوئی۔ بچہ کو پیلیا ہو گیا اور وہ مر گیا۔

رابرٹ جولی کو بچپن سے جانتا تھا۔ جب اس کو معلوم ہوا کہ پنٹو نامرد ہے اور جولی کا بچہ مر گیا ہے۔ اسی وقت سے رابرٹ کے دل میں دَیا پیدا ہو چکی تھی کہ وہ جولی کوکسی نہ کسی طرح ایک حسین بچہ مہیا کر کے دے گا۔ اس نے جولی سے پکا وعدہ بھی کر لیا تھا کہ وہ اس کو ایک بچہ دے گا۔ اس جولی نے بہت شرما کر نہ صرف اس کا شکریہ ادا کیا تھا بلکہ وہ وقتاً فوقتاً اشارۃً رابرٹ کو اس کا وعدہ یاد بھی دلاتی رہتی تھی۔ رابرٹ ہر بار اپنے وعدہ کو پختہ سے پختہ تر کرتا رہتا تھا۔ آخر آج وہ دن آ گیا جب رابرٹ سمجھا کہ وہ جولی کے سامنے سرخ رو ہو جائے گا۔!

رابرٹ بڑے فخر سے بچے کو لے کر جولی کے پاس پہنچا، لیکن اس کو یہ دیکھ کر بڑا تعجب ہوا کہ جب جولی نے بچہ دیکھا تو اس کا مونہہ اتر گیا، آنکھیں نم ہو گئیں اور چہرہ کا رنگ کچھ کالا پڑ گیا۔ وہ سمجھتا تھا کہ جب جولی بچہ دیکھے گی تو خوشی سے ناچنے لگے گی!

’’تم مجھ سے مذاق کرتی تھیں شاید؟‘‘ ’’اگر بچہ نہیں چاہئے تو میں واپس لے جا سکتا ہوں۔‘‘

رابرٹ نے جولی کی نا امیدی دیکھ کر کہا۔

لیکن جولی نے بچہ اس کی گود سے چھینتے ہوئے بس اتنا ہی جواب دیا۔

’’رابرٹ تو کھوپڑی کا ایک دم الٹا ہے۔‘‘

اس کا مطلب بھی رابرٹ کی سمجھ میں نہیں آیا کہ اس نے کون سا ایسا الٹا کام کیا ہے؟ بچہ کا وعدہ کیا تھا، بچہ لا دیا! ان عورتوں کی عقل ہوتی ہی ہے کچھ اوندھی!

لیکن جولی نے بچہ کو گود لینے کی رسم بہت دھوم دھام سے منائی۔ ویسے گاؤں کے عزت والے لوگ جولی سے کترا کر ملتے تھے اور اس کے گھر کم آتے جاتے تھے۔ مگر گود لینے کی رسم میں سارے عیسائی جمع ہو گئے کیونکہ گاؤں میں یہ چرچا شروع ہو گیا تھا کہ جولی کے یہاں پھر بچہ ہوا ہے اور اس بار بچہ رابرٹ کا ہے!

بچہ کو آنکھوں سے دیکھ کر لوگ اپنے شک کے وسوسے کو یقین کی مسرت میں بدلنا چاہتے تھے۔ عموماً کرسچین بڑی بوڑھیاں دل ہی دل میں جولی کو داد دے رہی تھیں کہ اس نے کس صفائی سے ان کی نظروں کے سامنے چلتے پھرتے کام دکھا دیا تھا اور ان کو بھنک بھی نہ لگی۔

نندن اور رحیم بھی ڈنر میں مدعو تھے۔ رابرٹ خاص طور سے ان کی خاطر کر رہا تھا، بچہ کو برف جیسے سفید کپڑوں میں دیکھ کر ان کے دل اس کی بلائیں لے رہے تھے۔ ڈنر میں دیر تھی۔ ابھی مہوہ کی خالص شراب مہمانوں کے سامنے چلی آ رہی تھی۔

ذرا ہی دیر میں فادر نیوٹن جولی اور بچہ کو بڑے چرچ میں بپتسما کروانے لے جانے کے لئے آ گئے۔ جولی نے رابرٹ سے کہا کہ وہ مہمانوں کی خاطر کرتا رہے، وہ خود تھوڑی ہی دیر میں بچہ کو گرجے سے واپس لے آئے گی۔ اس کے بعد ڈنر ہو گا۔

نندن اور رحیم دونوں مزے سے کھا پی رہے تھے اور بچہ کے مستقبل سے بہت خوش تھے لیکن فادر کے آتے ہی ان پر ایک نامعلوم سے گھبراہٹ سوار ہونے لگے۔ وہ چوکنے ہونے لگے۔

آخر یہاں فادر کا کیا کام ہے؟‘‘

’’فادر کا بچہ سے کیا لینا دینا؟‘‘

’’پھر بچہ کو یہ لوگ گرجے کیوں لے جا رہے ہیں؟‘‘

نظروں ہی نظروں میں بغیر ایک لفظ زبان سے نکالے نندن اور رحیم نے ایک دوسرے سے اتنے بہت سے سوالات کر ڈالے۔ آخر رحیم سے نہ رہا گیا۔

’’یہ آدمی بچہ کو کہاں لے جا رہا ہے؟‘‘

’’گرجا۔‘‘

’’کیوں!‘‘ نندن نے خشک لہجہ میں پوچھا۔‘‘ اس بچہ کا گرجا میں کیا کام ہے؟’’

رابرٹ اپنے دوستوں کی نظریں پہچانتا تھا، اس نے سمجھ لیا کہ ان کے تیور خراب ہیں۔ اس نے بات کو ہلکا بناتے ہوئے کہا۔

‘‘ یہ جولی اس کا بپتسما کروا رہی ہے۔ ’’

رحیم نے گردن کھجاتے ہوئے فادر سے پوچھا۔

‘‘ یار فادر یہ تمہارا بپتسما کیا چیز ہوتا ہے؟‘‘

ان دونوں کے اعتراضات سے مہمانوں میں ایک سناٹا چھا گیا تھا اور سب نے ان کو گھیر لیا تھا۔ فادر نے ان بدمعاشوں کے منہ لگنا ٹھیک نہ سمجھا اور نہ ہی رابرٹ نے مناسب جانا۔ وہ فادر اور رحیم کے بیچ میں آ گیا اور سمجھانے لگا کہ وہ دونوں بے کار بے کار باتوں کا بتنگڑ بنا رہے ہیں۔

’’بپتسما کچھ بھی نہیں ہوتا۔۔۔۔ بڑا فادر دعا پڑھ کر بچہ کو تھوڑے پاک پانی سے نہلائے گا اور اس کی وجہ سے بچہ ہمیشہ تن درست اور اچھا رہے گا اور اس کی عمر بھی بہت بڑھے گی۔‘‘

قصہ کو جلد ختم کرنے کے لئے تاکہ گرجے کا وقت نہ نکل جائے، جولی بیچ میں آ گئی اور بولی:

’’اور اس بچہ کا نام بھی تو رکھنا ہے، اس کا اب تک کوئی نام بھی نہیں۔ ہم نے اس کا نام ڈیسوزا رکھا ہے، کیسا نام ہے؟‘‘

نندن کے مونہہ میں شراب کا جو گھونٹ تھا، وہ اس نے بڑی حقارت سے ایک طرف تھوک دیا اور جس طرح کانکریٹ مکسچر مشین پتھر، سمینٹ اور بالو کو گھما گھما کر ایک گھنگھناہٹ کے ساتھ زمین پر اگلتی ہے، اسی طرح نندن نے کہا:

’’اس بچہ کا نام رام ہے رام۔ کیسا نام ہے؟‘‘

رحیم کی ٹوپی پلک جھپکتے اس کے سر پر پہنچ گئی، مگر اس نے جھگڑا مٹانے کے لئے بالکل سلجھی ہوئی بات کہی:

’’تم دونوں کو دنگا کرنا ہے تو ہم بھی جان لو ڈرتے نہیں، ورنہ سیدھی بات یہ ہے کہ یہ بچہ مسلمان ہے۔ جس بھائی کو شک ہو اس کی صورت اچھی طرح دیکھ لے۔ ایک دم ایمان کا نور ہے اس کے چہرے پر، سالا سیسہ میں بھی ایسی چمک نہیں ہو سکتی، جیسی مسلمان بھائی کے چہرے پر ہوتی ہے۔ یہ نور اسلام ہے کبھی چھپ نہیں سکتا، بولو کیا بولتے ہو؟‘‘

رابرٹ زور سے نہیں بول سکتا تھا، آج ایک حیثیت سے وہ میزبان تھا، اور جولی کی عزت کا نگہبان بھی۔ اس نے صلاح و آشتی سے ہی کام نکالنے کی کوشش کی۔ بیچ میں کچھ عیسائیوں نے ایک ہندو اور ایک مسلمان کو اکیلا پا کر دھمکانے کی جرات کی مگر رابرٹ ان سب پر الٹا برس پڑا کہ کسی کو کچھ بولنے کی ضرورت نہیں ہے اور اپنے دونوں دوستوں کو قائل کرنے کی کوشش کرنے لگا۔

’’دیکھو یار! یہ بچہ تم نے جولی کے لئے مجھے دے دیا تھا نا؟ اور اتنے دن سے یہ جولی بچہ کو اپنا دودھ پلا کر پال رہی ہے تو اب یہی اس کی ماں ہو گئی کہ نہیں؟‘‘

’’دودھ تو جولی سے پہلے اس نے بکری کا بھی پیا ہے، اور بکری کا نام موہنی تھا۔ موہنی۔‘‘

نندن نے فاتحانہ انداز میں، موہنی پر زور دے کر کہا۔

رحیم نے ان دونوں کی عقل کو ماں کی گالی دیتے ہوئے کہا:

’’دودھ تو بچہ باٹلی کا بھی پیتا ہے تو اس کی بہن کی۔۔۔۔ باٹلی بچہ کی ماں ہو جاتی ہے؟‘‘

قانونی دلیلوں اور بحث کی نہ کوئی حقیقت ہوتی ہے اور نہ ان کا کوئی انت۔ اصلی بات ہوتی ہے قبضہ۔ اس گُر کو سمجھتے ہوئے نندن بچہ کی طرف بڑھا۔ جولی بچہ کو لے کر دوسرے کمرے میں بھاگ گئی۔ نندن اس کے پیچھے جانا چاہتا تھا۔ لیکن رابرٹ نے اس کی کنپٹی پر ایک مکا رسید کیا۔ جس طرح گھوڑے کی لات گھوڑا ہی سہہ سکتا ہے، اسی طرح یہ تینوں ہی ایک دوسرے کے مکے سہہ سکتے تھے۔ عزت والوں نے تو وہاں رہنا مناسب ہی نہ سمجھا لیکن جن لوگوں نے رات کو گھر پر کھانا پکانے کا انتظام ہی نہیں کیا تھا وہ جولی کو اپنے کردار کی بلندی اور عظمت دکھانے کے لئے جمے رہے۔

گھر میں معلوم ہوتا تھا کہ ایک زلزلہ آ گیا ہے اور آج رابرٹ یا نندن ایک لاش گھر سے ضرور نکلے گی۔ دونوں کے جسم لہو لہان ہو رہے تھے کہ اچانک برابر والے کمرے میں ایک شور ہوا اور جولی روتی چلاتی ہوئی آئی۔

’’بچہ کو رحیم لے کر بھاگ گیا۔‘‘

جو مہمان لڑائی کا تماشا دیکھ رہے تھے، وہ باہر بھاگے تاکہ رحیم کے بھاگنے کی چکلس کی بھی ایک جھلک دیکھ لیں۔ لیکن رابرٹ اور نندن دونوں میں بھاگنے کا دم نہیں تھا۔ ان کی سانسیں پھول رہی تھیں، اور ہاتھ پاؤں شل ہو چکے تھے۔ لڑائی کا سبب ہی غائب ہو چکا تھا اس لئے لڑائی بند ہو گئی۔ جب نندن کی سانس میں سانس آئی تو وہ اٹھ کر جولی کی الٹی ہوئی کرسیاں، میزیں اور بکھرے ہوئے برتن قاعدے سے واپس ان کی جگہوں پر رکھنے لگا۔ رابرٹ اس کا ساتھ دینے لگا۔ جیسے جن دونوں لفنگوں میں ہا تھا پائی ہو رہی تھی وہ تو بھاگ گئے، اب یہ دو شریف مظلوم گھر والے اپنا گھر ٹھیک کر رہے ہیں۔

گاؤں میں رحیم کا کہیں پتہ نہیں تھا۔ رابرٹ اور نندن نے ایک ایک سے پوچھا، ویسے جس نے دیکھا بھی اس میں بتانے کی جرات کہاں تھی؟

رحیم رات کے اندھیرے میں چھپتا چھپاتا امام صاحب کے گھر پہنچ گیا۔ امام صاحب عشاء کی نماز پڑھ کر مسجد سے گھر لوٹ کر مدو کے یہاں کی نیاز کا قورمہ کھانے بیٹھے تھے۔ ان کا مزاج ذرا برہم تھا، اس مردار مدّو کو معلوم تھا کہ بیوی سمیت ان کے گھر میں نو نفر ہیں۔ اس کے باوجود اس نے قورمہ اور روٹیاں اتنی کم بھیجی تھیں کہ ان کا اور ان کی بیوی کا پیٹ بھی مشکل سے بھرتا۔ اوپر سے یہ کہلوا دیا کہ حلوہ ختم ہو گیا۔

بیوی نے قورمہ میں ایک آنے کے آلو، آدھی مٹھی نمک اور دو ڈونگے پانی ڈال کر بچوں کا حساب پورا کر دیا تھا۔ آخر کیا کرتی؟ امام صاحب کی عقل کو سمجھاتی رہتی تھی کہ:

’’آج کل کے مسلمانوں کا کوئی ایمان نہیں رہ گیا ہے۔ فاتحہ نیاز کا کھانا ساتھ بندھوا کر ہی لایا کرو۔‘‘

مگر امام صاحب اس کی بات پر دھیان نہیں دیتے تھے۔ اور حلوہ کے معاملے میں تو امام صاحب سے صریحاً چوک ہو گئی تھی۔ نیاز دینے کے بیچ میں ہی ان کو خیال آ گیا تھا کہ حلوہ گرم گرم ہے اور ذرا کم ہے۔ اس کو یہیں کھا لینا چاہئے۔ لیکن نیاز دینے کے بعد دوسرا منحوس خیال یہ آ گیا کہ کہیں مدّو یہ سمجھ لے کہ امام صاحب نے تو نیاز چکھ لی اب گھر بھیجنے کی کیا ضرورت ہے، تو بہت گڑبڑ ہو جائے گی۔

روٹیاں اور بوٹیاں بچے صاف کر چکے تھے۔ امام صاحب ایک آنے کی ڈبل روٹی سے شوربہ زہر مار کر رہے تھے۔ غلطی صریحاً ان کی تھی، بیوی سے گلہ کرنا آگ کو ہوا دینا تھا۔ اس وقت مناسب بات رسول مقبول کی وہ روایت ہی لگی کہ کھانا بہت مزے دار ہوتا تھا تو سرکار دو عالم اس میں پانی ملا کر کھاتے تھے۔ اتنے میں ان کے چھوٹے لڑکے بلال نے آ کر خبر دی کہ رحیم آیا ہے اور اس کے ہاتھوں میں ایک گٹھری سی ہے۔ امام صاحب کی آس بندھی کہ رحیم ضرور کچھ کھانا لایا ہو گا ورنہ اس کی ہمت کہاں کہ ان کے پاس آئے اور وہ بھی اتنی رات کو!

امام صاحب بیوی کو سرور کائنات کی دوسری روایت کا حوالہ دیتے ہوئے کہ سائل دروازے پر آتا تھا تو حضور کھانا چھوڑ کر کھڑے ہو جاتے تھے، خود بھی کھڑے ہو گئے، لیکن بیوی کی توجہ سرکار دو عالم کی روایت پر کم اور اپنے بچہ بلال کی اس روایت پر زیادہ تھی کہ رحیم کے دونوں ہاتھوں میں ایک گٹھری سی ہے۔ اس کو یقین ہو گیا کہ خدا نے اس کی سن لی ہے۔ اب امام صاحب بھوکے نہیں سوئیں گے۔

’’کیوں بے جہنمی۔ یہ حرام کاری بھی نہ چھوٹی تجھ سے مردود۔‘‘

امام صاحب بچے کو دیکھ کر گرجے اور مدو کا سارا غصہ وعظ بن کر رحیم پر برسنے لگا۔ رحیم نے قطع کلام کرنے کے لئے تلوار کا وار کیا۔

’’امام صاحب! اسلام خطرہ میں ہے!‘‘

’’اسلام؟‘‘

’’ہاں۔ یہ بچہ مسلمان ہے امام صاحب۔‘‘

’’کہاں ملا تجھ کو؟‘‘

’’ہم کو ایک جگہ پڑا ملا تھا۔‘‘

’’ابے پڑا ملا تھا تو مسلمان کیسے ہو سکتا ہے؟ پھر تو یقیناً ہندو ہو گا۔‘‘

’’نہیں امام صاحب آپ اس کو دیکھئے تو۔‘‘

یہ کہتے ہوئے رحیم نے بچہ کے منہ سے کپڑا ہٹایا۔

امام صاحب نے مٹی کے تیل کی کُپی بچہ کے قریب لا کر روشنی میں اس کی صورت دیکھی۔ جولی نے بچہ کے گلے میں چاندی کا ایک خوب صورت کراس پہنا دیا تھا اور بچہ چسنی کی طرح اس کو ہاتھ سے پکڑے چوس رہا تھا۔ امام صاحب پر جیسے بجلی گری۔

‘‘ ابے یہ تو کرسٹان ہے۔‘‘

رحیم نے بچہ کے ہاتھ سے کراس چھیننے کی کوشش لیکن بچہ رونے لگا۔ رحیم نے جلدی سے پھر کراس اس کے منہ میں دے دیا۔ بچہ کراس کو چوسنے لگا۔ اور رحیم امام صاحب کو سمجھانے لگا کہ یہ کراس زبردستی جولی اور رابرٹ نے بچے کے گلے میں ڈال دیا ہے۔ بچہ در اصل مسلمان کا ہے۔



رحیم امام صاحب کے گھر کو اسلام کا قلعہ سمجھتا تھا، اس کو یقین تھا کہ ایک دفعہ بچہ اگر اس قلعہ کے حصار میں پہنچ گیا تو اس پر کوئی آنچ نہیں آ سکتی۔ یہاں وہ دشمنوں سے ایک دم محفوظ رہے گا۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ ابھی کچھ دن ہوئے کہ امام صاحب کے گھر میں آٹھواں بچہ ہوا ہے۔ امام صاحب اس کو رکھ لیں گے تو بچہ کو خالص اسلامی دودھ بھی ملے گا۔ لیکن جتنا وہ بغیر دلیل کے زور دیتا گیا کہ بچہ مسلمان ہے اور اس کا نام چراغ محمد ہو گا اتنا ہی امام صاحب کو یقین ہوتا گیا کہ ہو نہ ہو بچہ اسی رحیم کا گناہِ کبیرہ ہے۔

’’اچھا امام صاحب آپ یہی سمجھ لیجئے، میں اس کو آپ کے پاس چھوڑوں گا نہیں۔ اپنے ساتھ لے جاؤں گا۔ لیکن ابھی بہت رات ہو گئی ہے اور یہ بھوکا ہے، آپ ذرا اس کو اپنے گھر میں لے جائیے۔ تھوڑی دیر کے لئے اسے اپنے گھر میں دے دیجئے۔۔۔۔‘‘

رحیم امام صاحب کی منت کرنے لگا۔ اس کا مطلب تھا کہ اپنی بیوی سے اس کو امام صاحب دودھ پلوا دیں۔ ایک معصوم شیر خوار مسلمان بچے کے لئے امام صاحب اتنی فراخ دلی ضرور دکھائیں گے یہ رحیم کو یقین تھا۔

مگر جیسے زلزلہ میں مسجد کا مینار لہرا جاتا ہے اسی طرح امام صاحب متزلزل ہو گئے اور اگر رحیم بچہ کو لے کر بھاگ نہ جاتا تو اس پر منہدم ہو کر شہید بھی ہو جاتے۔

رحیم کو امام صاحب پر غصہ نہیں آیا، خود اپنے اوپر غصہ آیا۔ اس کی زندگی کا جو چلن اور بدعنوانیاں تھیں، اس کی وجہ سے کوئی بھی شریف آدمی اس کی کسی بات کا بھروسہ نہیں کر سکتا تھا۔ بچہ کو گود میں دبائے وہ مندر کے تالاب کے پاس اندھیرے میں ایک چھوٹے سے ٹیلے پر بیٹھا تھا۔ مسلمانوں کے محلے کی طرف وہ جان کر نہیں گیا، اس کو معلوم تھا کہ اس کے دونوں دوست اسی ٹکڑی میں اس کے لئے گھوم پھر رہے ہوں گے۔ ایک مرتبہ پھر اس نے بچہ کی صورت کو غور سے دیکھا۔ وہ چاندی کا کراس چوستے چوستے سو گیا تھا۔ رحیم کو اس کے مونہہ میں کراس بہت برا لگا، کراس سے بچہ کا لگاؤ خواہ مخواہ رحیم کے دل میں ایک وسوسہ پیدا کرتا تھا۔ اس نے آہستہ سے بچے کے مونہہ سے کراس نکالا۔ لیکن بچہ کی آنکھ کھل گئی اور وہ رونے لگا۔ اس نے پھر جلدی سے کراس اس کے مونہہ میں دے دیا۔ بچہ نے رحیم کو اس طرح مسکرا کر دیکھا کہ رحیم کی روح نے آب زمزم سے غسل کر کے اس کے سارے وجود کو پاک کر دیا۔ اس نے بچہ کو سینے سے چمٹا کر پیار کر لیا۔

لیکن کراس کراس ہے، چسنی، چسنی۔

بچہ نے بھوک سے بلکنا شروع کر دیا، رحیم نے اپنے سینے کے پاس سے قمیص پھاڑ دی اور بچہ کو چمٹا لیا۔ بچہ نے ایک ہی منٹ میں اس کی چار سو بیسی پر اور زور سے فریاد شروع کر دی۔

گھبراہٹ نے رحیم کی عقل کو مفلوج کر دیا تھا۔ لیکن عبدالرحمن خلیفہ کے گھر کی باڑھ سے ایک بکری کی منمناہٹ نے اس کو پھر سے چکا چوند کر دیا۔ اس نے بچہ کو اپنی پیٹھ پر باندھ کر باڑھ کی کچی دیوار پھلانگ لی۔

اندھیرے میں بکریاں سائے کی طرح نظر آ رہی تھیں، رحیم کی چھلانگ سے بکریوں میں کھلبلاہٹ سی ہوئی اور خلیفہ جو حقّہ کی نال منہ میں لگائے لگائے اونگھ گیا تھا، گھبرا کر باہر آ گیا۔

رحیم بیری کے پیچھے چھپ گیا۔ خلیفہ بکریوں پر ایک طائرانہ نظر ڈال کر حقہ کی آگ دیکھنے اندر واپس چلا گیا۔ رحیم آہستہ آہستہ ایک بکری کی طرف بڑھا اور سیدھے ہاتھ سے اس نے اس کا مونہہ دبا کر دونوں بازوؤں پر اس کو اٹھا لیا، خلیفہ کے کان کھڑے ہو چکے تھے، وہ پھر گھبرا کر واپس آیا اور اس نے رحیم کو دیوار پھاندتے دیکھ کر شور مچانا شروع کر دیا۔

پاس پڑوس کے کچھ لوگوں نے رحیم کا پیچھا کیا، لیکن وہ سب کو داؤں دے کر جیا مالن کا ٹاٹ کا پردہ ہٹا کر اس کے مکان میں گھس گیا۔

جیا اپنے بچہ کو دودھ پلانے کے لئے جاگی تھی، گھبرا کر چیخی۔

’’کون ہے؟‘‘

رحیم نے آنکھیں نکال کر دھمکایا: ’’سالی تو نے آواز نکالی تو یہیں کاٹ کر ڈال دوں گا۔ تیری ماں کی۔۔‘‘

دھمکی کی ضرورت بھی نہیں تھی، جیا یوں بھی نہ چیختی، اس نے سوچا بھی نہ تھا کہ کسی رات کو وہ اس طرح جاگے گی کہ اس کے ساتھ اس کی تقدیر بھی جاگ اٹھے گی۔ رحیم کے لئے تو جیا دیوانی تھی، لیکن رحیم اس کو کبھی مونہہ نہ لگاتا تھا۔

نیند نے بچے کو تھوڑی طاقت دے دی تھی، اب وہ اپنا پیٹ بھرنے کے لئے پھر جد و جہد کرنے لگا۔ اتنے میں خلیفہ کچھ لوگوں کے ساتھ لالٹین لئے ادھر سے گزرا، اور جیا کو آواز دے کر آگاہ کیا کہ ایک چور ادھر آیا ہے، ذرا جاگتی رہے۔ جیا نے تڑاخ کر جواب دیا۔

’’ہمارے پاس مال دھرا ہے جو چور آئے گا، رستہ پکڑو، بے کار ہمارے چھورے کو جگا دیا۔‘‘

رحیم نے بچہ کو پیٹ پر سے کھول کر جیا کو حکم دیا کہ بکری کی ٹانگیں پکڑ لے۔ جیا بکری کی ٹانگیں پکڑنے کے بعد بے تحاشہ ہنسنے لگی، تب رحیم کو اپنی غلطی کا احساس ہوا، رحیم نے کھسیا کر بکری کو بہن کی گالی دے کر ایک لات ماری، اس کی ساری محنت بے کار تھی اندھیرے میں وہ بکرا اٹھا لایا تھا۔

بچہ بلک رہا تھا۔

جیا نے ایک جھپٹا مار کر بچہ رحیم کے ہاتھوں سے چھین لیا اور اسی کے سامنے اپنے سیدھے ہاتھ کے ایک جھٹکے سے اپنی چولی کو اوپر اٹھا کر دودھ پلانے بیٹھ گئی۔ رحیم بھونچکا رہ گیا۔ مارے شرم کے اس نے جیا کی طرف سے مونہہ پھیر لیا۔

جیا کو دیکھ کر رحیم کو ہمیشہ گھن سی آتی تھی، حالانکہ جیا جب بھی گاؤں میں نکلتی تھی، ہر آدمی اس سے کوئی نہ کوئی بات کئے بغیر اس کو گزرنے نہیں دیتا تھا، اکثر تو جیا کو چھیڑتے ہی اس لئے کہ تھے کہ اس کی گالیاں سنیں، مگر رحیم کو جیا کبھی اچھی نہیں لگی تھی۔ جس طرح بھوکا بھکاری حلوائی کے خونچہ کو للچائی نظروں سے دیکھ کر رال ٹپکاتا ہے۔ بالکل ایسی ہی نظروں سے جیا رحیم کو دیکھا کرتی تھی۔ رحیم کو ہمیشہ اس پر غصہ آتا تھا۔ جیا نے کبھی رحیم کو رحیم بھی نہیں کہا اس نے خود رحیم کو اپنا ایک نام دیا تھا: ’’راجہ‘‘ ۔

اور راجہ وہ ایسے ایسے لہجوں اور موقعوں پر استعمال کرتی تھی کہ اس ایک لفظ سے الگ الگ پورے پورے جملوں کے معنی نکلتے تھے۔ لیکن اس وقت اچانک جیا پوری کی پوری رحیم کو حسین نظر آنے لگی۔ جیا کی بد نصیبی تھی کہ وہ اچھی بھی لگی تو اتنے بھیانک وقت پر جب کہ رحیم کا دماغ چکر کھا رہا تھا۔

اب رحیم کو امام صاحب پر غصہ آ رہا تھا۔

اسلام کا کیا ہو گا؟

امام صاحب نے اللہ رسول اللہ کے واسطے بھی ایک معصوم بھوک سے بلکتے بچے کو دودھ نہیں پلوایا اور جیا سالی نے بغیر پوچھے گچھے سوچے سمجھے اس کو کلیجے سے لگا لیا۔

رحیم بڑے چکر میں پھنس گیا تھا۔ اب اس کو جیا کے پنجے میں تو ہمیشہ پھنسا رہنا پڑے گا۔ لیکن اگر نندن کو معلوم ہو گیا کہ بچہ کو دودھ پلانے کے لئے مسلمان تیار نہیں ہوئے، ایک ہندو نے ہی دودھ پلایا تو رحیم کو ہمیشہ کے لئے اپنا منہ کالا کر کے گاؤں سے بھاگ جانا پڑے گا۔

رحیم کی پیٹھ پھیر کر بیٹھنے کی ادا جیا کو بہت بھائی۔ بچہ دیر تک جیا کے دودھ کا لطف لیتا رہا اور جیا رحیم کی اس ادا کا۔ آخر جیا نے اس کو مخاطب کیا۔

’’اس کی ماں کون ہے راجہ؟‘‘

رحیم غصہ سے ایک دم جیا کی طرف پلٹ پڑا اور اپنی نظر تیر کی طرح اس کی نظروں میں گاڑ کر سخت لہجے میں بولا۔

’’دیکھ جیا۔۔۔۔ ۔۔۔‘‘

اتنا کہنے کے بعد اس کو یقین ہو گیا کہ اب وہ کبھی نظریں ملا کر تو جیا سے کچھ بھی نہیں کہہ سکتا، اس نے نظریں پھیر کر جملہ پورا کیا۔

’’حرام جادی تو نے کسی سے آج کی ایک بات بھی کہی تو خلیفہ کے استرے سے تیرا سر مونڈ دوں گا۔، سمجھی، میرا نام رحیم ہے رحیم۔ یاد رکھنا۔‘‘

رحیم اسلام کی عزت بچا رہا تھا لیکن جیا سمجھی حرام کر کے اب گاؤں میں بے عزتی سے ڈر رہا ہے۔

لیکن جیا کا دماغ قیاس آرائیاں کر رہا تھا کہ اس بچہ کی ماں کون ہو سکتی ہے۔ وہ ایک ناپید عورت کے مبہم تصور سے اپنی ایک ذاتی ہتک محسوس کر رہی تھی اور اس کی کاٹ کرنے کے لئے اس نے رحیم سے کہا۔

’’اس کو میرے پاس ہی چھوڑ جا۔ میں پال دوں گی راجہ۔‘‘

لیکن رحیم ’’دھت سالی‘‘ کہہ کے نیند سے مست بچے کو لے گیا۔

جولی بچہ کو ایک مضبوط ڈوری بنا کر رابرٹ کو اس سے باندھ لینا چاہتی تھی۔ بچہ کے جانے سے وہ ڈوری ٹوٹ رہی تھی۔ اس لئے جولی نے رونا پیٹنا شروع کیا۔ جتنی زیادہ وہ اپنی حالت خراب کرتی اتنا ہی رابرٹ کو اس کے پاس رہ کر تسلی تشفی دینا پڑتی تھی۔ جولی پولیس چوکی پر رحیم کی رپٹ لکھانا چاہتی تھی لیکن رابرٹ پولیس کے نام پر برہم ہو گیا۔ یہ تینوں دوست پولیس کو کوّے یا گیدڑ قسم کی کوئی چیز سمجھتے تھے جو ہر طرف ہوتی تو ہے لیکن عموماً انسان کا ان سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔ اب ہیں تو کیا کیا جائے ہونے دو، مگر ہم سے کیا مطلب۔۔

اول تو رابرٹ اپنے دوست سے اتنی بڑی غداری نہیں کر سکتا تھا۔ دوسرے یہ کہ اس کو بالکل یقین تھا کہ اگر وہ بچہ کا جھگڑا لے کر پولیس چوکی جائے گا تو چوکی کے انچارج سردار گوربچن سنگھ شاید ان تینوں سے بچہ چھین کو خود پالنے پوسنے لگیں۔

قصبہ والوں کی نظر میں سردار جی ایک عجیب و غریب چیز تھے، بہت سے لوگ ان کو دیوانہ سمجھتے تھے۔ تھے وہ پولیس انسپکٹر، مگر ان کو کبھی چوروں کے پیچھے بھاگتے ہوئے آج تک کسی نے نہیں دیکھا۔ لیکن قرآن شریف کے پیچھے وہ بہت دن دیوانے رہے! ان کی اسلامی تاریخ کی معلومات کی وجہ سے پیش امام کو یقین تھا کہ ہو نہ ہو یہ کوئی پنجاب کا عالم مسلمان ہے جو رنجنا (سردار جی کی بے حد حسین بیوی) کے چکر میں پھنس کر سردار گوربچن سنگھ بنا پھر رہا ہے۔

دوسرے پولیس افسروں کی طرح سردار جی کی زبان سے جرائم کے سنسنی خیز واقعات بھی کبھی نہیں سنے گئے۔ لیکن یوسف کے بھائیوں نے کس طرح یوسف کو ایک کنویں میں پھینک دیا اور پھر اپنے باپ کو ان کے خون بھرے کپڑے یہ یقین دلانے کے لئے دکھائے کہ یوسف کو جنگلی جانور مار کر کھا گئے۔ اور پھر کس طرح حضرت یوسف کو کچھ قافلہ والوں نے بچایا اور کس طرح یعقوب بیٹے کے غم میں روتے روتے اندھے ہو گئے؟

بائبل کے یہ قصے سردار جی اس قدر تفصیل اور یقین کے ساتھ سناتے تھے جیسے حضرت یوسف والا کنواں اسی حلقہ میں تھا، جس حلقہ کے گوربچن سنگھ انسپکٹر تھے۔ اور حضرت یوسف کے گیارہ مجرم بھائیوں کے نام بہ نام اسٹیٹ منٹس، بھی خود انہوں نے ریکارڈ کئے تھے۔ غرض بائبل اور اس کی کہانیوں میں سردار جی کی معلومات اتنی خطرناک تھیں کہ قصہ کے عیسائی مشن والوں کو یقین کامل ہو گیا تھا کہ وہ بس کسی گھڑی بھی عیسائی ہونے ہی والے ہیں! اسی لئے احتیاطاً ایک دو مشنریز سردار گوربچن سنگھ کے گرد منڈلاتے ہی رہتے تھے تاکہ جب وہ مبارک گھڑی آ جائے تو کچھ ذمہ دار لوگ موقع واردات پر موجود پائے جائیں!

حق دار کو اس کا حق اور مجرم کو اس کے جرم کی سزا دلانا سردار جی کی قانونی کتاب میں کہیں لکھا ہی نہیں تھا، سزا یا جزا دونوں پیتل کے ایک فٹ لمبے گلاس میں دہی کی ٹھنڈی لسی کی شکل میں ہی ملتی تھی۔ ایک بار دو گاؤں والوں کے بیچ لاٹھیوں کا گھمسان رن پڑ گیا۔ فریقین اپنے اپنے جتھوں کے ساتھ پھٹے ہوئے سر اور ٹوٹے پھوٹے ہاتھ پیر لے کر پولیس چوکی پہنچ گئے۔

سردار گوربچن سنگھ نے جگہ کی کمی اور فریقین کی زیادتی کی وجہ سے ان سب کو پولیس چوکی کے برابر ہی اپنے مکان پر بلا لیا۔ سردار جی کے پرانے دیو قامت نوکر بچہ سنگھ نے کمپاؤنڈ میں چارپائیاں اور مونڈھے کچھ ایسے بے تکے حساب سے بچھا دئے کہ فریقین کو گھل مل کر بیٹھنے کے سوا اور کوئی راستہ ہی نہیں رہا اور سردار گوربچن سنگھ ایسی خوشی خوشی گھر سے باہر نکلے اور انہوں نے اتنے تپاک سے سب لوگوں کا نام بنام خیر مقدم کیا، جیسے ان سب کو انہوں نے اپنے یہاں کسی تقریب میں مہمان بلایا تھا، کوئی ایسی تقریب جس میں ان سب کا شریک ہونا ضروری اور سردار جی کے لئے باعث فخر تھا۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ اتنے پر خلوص خیر مقدم کے باوجود سردار جی کی نظر کبھی بھول سے بھی نہ فریقین کے لہولہان کپڑوں پر پڑی نہ ان کے شکستہ سروں پر نہ ان کی شکستہ پائی پر۔ جیسے وہ نظروں سے کسی کو دیکھ ہی نہیں رہے ہوں، ایک اندھے کی طرح محض آواز کے ذریعہ ملاقات کر رہے ہوں، باتوں کا ایک نور تھا جو ان کے مونہہ سے پھوٹ رہا تھا۔ جس نور کی شعاعوں میں فریقین کا ہر فرد نہا رہا تھا اور یہ نور انسانی دکھ درد کی دلجوئی کا نور تھا۔

سردار گوربچن سنگھ کا پرانا دیو قامت نوکر بچہ سنگھ ایک کونے میں چھپا دہشت زدہ ہو کر زخمیوں کو حیرت سے تک رہا تھا کہ اتنے گہرے زخموں کے باوجود یہ لوگ زندہ کس طرح بیٹھے ہیں؟ ایک ایک کر کے مرنا شروع کیوں نہیں کرتے؟ کچھ آدمیوں سے خون دیکھا نہیں جاتا، وہ صرف آرام سے دوسروں کا خون پی سکتے ہیں، بچہ سنگھ بھی شاید اسی قسم کا آدمی تھا۔ غور سے اتنی دیر خون دیکھتے رہنے کی وجہ سے وہ چکرا کر گرنے ہی والا تھا کہ سردار گوربچن سنگھ فریقین میں سے ہی کسی کی سب سے خوب صورت لاٹھی اور اپنی سب سے خوب صورت گالی ’’الو دے پٹھے‘‘ لے کر شیر کی طرح اس پر جھپٹ پڑے۔

اب اس محلے میں ٹھہرنا رحیم کے لئے مناسب نہیں تھا۔ وہ آبادی سے کتراتا اس ٹکڑی سے دور جانے لگا۔ بچہ روتے روتے تھک گیا تھا، غنودگی نے اس کی مدد کی۔

نوکر اس قدر زیادہ دہشت زدہ ہو کر اندر بھاگا کہ دیکھنے والے ہکا بکا رہ گئے۔ سردار جی کی گھن گرج آواز۔ ان کی آدھی اردو آدھی پنجابی جملوں کا طوفانی دریا اور دہکتے ہوئے غصہ کی وجہ سے لوگوں کی سمجھ میں اصلی بات ذرا دیر میں آئی۔ بات یہ ہوئی تھی کہ سردار جی کی بیوی رنجنا نے اندر مہمانوں کے لئے لسی تیار کی تھی اور وہ بہت دیر سے نوکر کو آواز دے رہی تھی مگر وہ دن میں بھی بوتل چڑھا کر نشہ میں جھوم رہا تھا۔ جب کہ گھر میں اتنے مہمان ایک گھنٹہ سے آئے بیٹھے ہیں۔ سردار گوربچن سنگھ کی شرمندہ اور مغموم صورت دیکھ کر سب کو ایسا محسوس ہوا جیسے واقعی بچہ سنگھ نے سب کے سامنے سردار جی کی ناک کاٹ ڈالی ہے۔ اور اب فریقین کے لئے اصلی مسئلہ یہ ہے کہ سردار جی کی ناک اور بچہ سنگھ کی جان دونوں کو ایک ساتھ کیسے بچائیں!

بچہ سنگھ جب لسی کے گلاسوں کی ٹرے لئے ڈر سے کپکپاتا ہوا باہر آیا تو اس کے دیو قامت جسم پر اس کا ننھے بچہ کی طرح معصوم چہرہ دیکھ کر سب لوگوں کو اس پر اتنا ترس آیا کہ فریقین بھول سے لسی کے گلاس ایک دوسرے کو تقسیم کرنے لگے۔

لسی پینے کے دوران اپنے نوکر کے اخلاقی گناہ کو لاٹھی بنا کر اس کے سہارے سردار گوربچن سنگھ مہابھارت اور راجپوتی عہد کے سورماؤں کی اخلاقی بلندیوں کا ذکر کرنے لگے۔ ہمارے وہ آباء و اجداد جو کسی بڑے اصول یا پاکیزہ مقصد کے لئے خونی جنگ کرتے تھے۔ بھائی بھائی کے خلاف، دوست دوست کے خلاف، تلواریں نکال کر میدان میں دشمن بن جاتے تھے مگر شام کو جنگ کا نقارہ بند ہوتے ہی ایک دوسرے کے خیموں میں جا کر گلے ملتے تھے، ہنسی خوشی ساتھ کھاتے پیتے تھے، ایک دوسرے کے زخموں پر مرہم رکھتے تھے اور فن سپہ گری پر گفتگو کرتے تھے۔ یا وار کرنے والا، گھائل ہونے والے سے شرمندہ ہو کر اعتراف کرتا تھا کہ کمال اس کے وار کا نہیں تھا بلکہ اس نے زخم کھانے والے کی کسی مجبوری کا فائدہ اٹھا لیا تھا، یا جس کا سینہ چاک ہوا ہے وہ اس تلوار کی داد دیتا تھا جس تلوار کی کاٹ نے اس کا سینہ چاک کیا، اپنے قاتل کے ہاتھ چومتا تھا جس کے بے پناہ وار سے وہ بچ نہ سکا۔

اللہ کی کرنی کچھ ایسی ہوئی کہ کہانی کے اس موڑ پر سردار گوربچن سنگھ کی نظریں بھی مڑیں، اور اب ان کو فریقین کے زخم نظر آئے، وہ مہابھارت کے زخموں پر ہنستے ہنستے سیدھے قصبہ کے زخموں پر آ گئے اور فن لاٹھی گری کے نازک نکات کی بحث کرتے کرتے انہوں نے کئی ہاہوں کی اکھڑی ہوئی ہڈیاں ایک ایک 'کھٹاکے ' میں بٹھا بھی دیں۔ اور اپنی بیوی کا ریشمی دوپٹہ جلوا کر اس کی راکھ سر کے زخموں میں ان ہی ہاتھوں سے بھروا دی جن ہاتھوں نے وہ زخم لگائے تھے۔ کتوں کی طرح آپس میں لڑنے والے جنگلیوں کے دماغ اور دل انہوں نے مہابھارت سورماؤں کے بلند خیالات اور جذبات سے بھر کر ان کو انسان بنا دیا۔

سردار گوربچن سنگھ کی حسین بیوی رنجنا نے اپنا ریشمی دوپٹہ اس مسرت سے جلا کر اس کی راکھ بنائی جیسے وہ مکئی کا آٹا گوندھ کر مہمانوں کے لئے کھانے کے لئے گرم گرم روٹیاں بنا رہی ہو۔

آپس کی سر پھٹول کی وجہ سے رنجنا کے ریشمی دو پٹہ کی قربانی نے فریقین کو شرم سے پانی پانی کر دیا مگر دوپٹہ کی آگ میں ان کی آپس کی نفرت اور کدورت بھی جل کر راکھ ہو گئی۔

بس ایسا ہوتا تھا سردار گوربچن سنگھ کا انصاف۔ نہ حق دار کو اس کا حق ملتا تھا نہ مجرموں کو ان کے جرم کی سزا۔ جزا اور سزا دونوں بس بیوی کے ہاتھ کی لسی۔

بچہ کسی حد تک عیسائی بنایا جا چکا تھا۔ اس لئے عیسائی مشنریوں کی پوری مشین بغیر کسی آواز کے حرکت میں آ چکی تھی۔ کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہوئی لیکن ایک درجن مشنریز مرد اور عورتیں رحیم کی ٹوہ میں پھر رہے تھے۔ رابرٹ کو ان کی دخل در معقولات بہت بری لگ رہی تھی۔ اس نے ان سب کو بہت منع کیا کہ یہ مسئلہ صرف اس کا اور اس کے دوست کا مسئلہ ہے۔ رحیم اور بچہ کو ڈھونڈنے کے لئے اس کو اپنے کتے جارج پر پورا بھروسہ تھا کہ رحیم جہاں کہیں بھی ہو گا جارج اس کی کھوج لگا لے گا لیکن اب مشن والے اس اجڈ کو کس طرح سمجھاتے کہ یہ مسئلہ رابرٹ کا مسئلہ نہیں، گاڈ کا مسئلہ ہے۔ اس لئے ہولی سن [holy son] کا مسئلہ ہے، اس لئے پوپ کا مسئلہ ہے، رابرٹ کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔

نندن اپنے آپ کو دونوں دوستوں سے زیادہ سمجھدار اور سلجھا ہوا آدمی سمجھتا تھا، اس نے پاگلوں کی طرح رحیم کا پیچھا کرنا شروع نہیں کیا وہ اس مسئلہ کا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے فیصلہ کرنا چاہتا تھا۔ اس لئے اس نے ساری رات مراقبہ میں اس اٹل حل کی کھوج میں کاٹی جس سے رحیم اور رابرٹ کوئی منکر نہ ہو سکے۔

تلیہ میں مسلمان اور عیسائی مٹھی بھر تھے اس لئے بچہ کا عیسائی یا مسلمان ہونے کا امکان ہی بہت کم تھا۔ اس لئے سوکھی سخت مٹی کی مٹھی بھر کنکریاں لے کر ان کو اپنے تھوک سے نشان لگانے کے لئے گیلا کیا اور پھر ان کو سوکھی کنکریوں کی ساری ڈھیری میں ملا دیا اور آنکھیں بند کر کے ایک کنکری اٹھا لی۔ دیکھا تو یہ کنکری سوکھی تھی، اس کا یقین اور پکا ہو گیا کہ بچہ ہندو ہی ہے۔ اس نے یہ عمل کئی مرتبہ کیا، ہر دفعہ اس کے ہاتھ میں سوکھی کنکری ہی آتی تھی۔ اس کا جوش اس قدر بڑھ گیا کہ وہ سب کنکریاں اپنی قمیص کے دامن میں لے کر رابرٹ کے پاس پہنچا۔ رحیم کا تو پتہ نہ تھا اس نے سوچا کہ ایک ایک کر کے فیصلہ کر لینا چاہئے۔

نندن کی دلیل تو رابرٹ کی سمجھ میں آ گئی لیکن اس کا اقرار کرنا اس کے دل نے گوارا نہ کیا، نندن رابرٹ کی ہچکچاہٹ سمجھ رہا تھا اس لئے اپنی منزل کی طرف بڑھتا گیا، اس نے کنکریوں کا ڈھیر زمین پر ڈال دیا اور پھر ایک مٹھی اٹھا کر کہا۔

’’ہندوؤں کے مقابلہ میں عیسائی اس سے زیادہ نہیں ہو سکتے۔‘‘ یہ کہہ کر اور تھوڑی سی کنکری مٹھی کی کنکریوں میں ملا دیں تاکہ بعد کو رابرٹ یہ اعتراف نہ کر سکے کہ اس نے عیسائیوں کی تعداد کم رکھی تھی پھر اس نے مٹھی کی کنکریوں پر اچھی طرح تھوکا اور ان کو باقی سب ڈھیری میں اچھی طرح ملا دیا اور فتح کے یقین کے ساتھ رابرٹ سے کہا۔

’’رابرٹ اب تم خود آنکھیں بند کر کے اپنے ہاتھ سے ایک کنکری اٹھا لو، اگر سوکھی کنکری آئے تو سمجھ لو بچہ ہندو ہے اور اگر تھوک والی آئے تو مان لوں گا کہ بچہ عیسائی ہے، بند کرو آنکھیں۔‘‘

لیکن اس نے دیکھا کہ رابرٹ کے چہرے کا رنگ سرخ ہو گیا، رابرٹ نے کہا:

’’آنکھیں تو میری ہمیشہ سے بند تھیں، اب کھلی ہیں، نندن بچہ تو ویسے عیسائی تھا ہی لیکن اگر نہیں بھی تھا تو ہو چکا ہے۔ رہ گئی کنکریوں کی بات تو میں یہ بے عزتی ہرگز برداشت نہیں کر سکتا۔ میں تم سے اس کا بدلہ لے کر رہوں گا۔ تم نے یہ سب عیسائیوں پر تھوکا ہے۔‘‘

نندن کو اس قسم کا کوئی خیال بھی نہیں آیا تھا۔ وہ صلح آشتی سے ایک فیصلہ کرنے آیا تھا۔ تھوک تھوک نہیں تھا، ایک نشانی تھی، ایک پہچان تھی۔ اس نے رابرٹ کو یہ بات سمجھانے کی پوری کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکا، کامیاب تو تب جب رابرٹ کی سمجھ میں نندن کی بات نہ آ رہی ہوتی۔ رابرٹ سب سمجھ رہا تھا لیکن نندن کی اس بھیانک عملی دلیل سے بچ نکلنے کے لئے اس وقت تھوک سے بہتر کوئی اور ردِ دلیل نہیں ہو سکتی تھی!

قصبہ کے تالاب کی سیڑھیوں پر، کھیت کی منڈیر پر کسی پہاڑی یا ٹیلے کے دامن میں رحیم کہیں بھی آرام سے سو جاتا تھا، لیکن بچہ کو اوس، نندن اور رابرٹ سے محفوظ رکھنے کے لئے مسجد سے بہتر کوئی جگہ رحیم نہیں سوچ سکا۔ مگر مشکل یہ تھی کہ مسجد میں خدا تھا اور رحیم اپنے آپ کو جہنمی سمجھتا تھا۔ وہ شیر کی کچھار میں بلا کسی خوف و خطر کے جا سکتا تھا لیکن مسجد کے اندر قدم رکھنا اس کے لئے زندگی کا سنگین ترین مسئلہ تھا۔

مسجد کے شکستہ دروازہ کی کنڈی اندر سے بند رہتی تھی۔ یہ فرض آخری نمازی کا ہوتا تھا کہ جب وہ باہر آئے تو دونوں دروازوں کو بھیڑ دے۔ دونوں شکستہ دروازوں کو بند کرنے کے بعد بھی دونوں کے بیچ میں اتنی جگہ رہتی تھی کہ باہر سے پورا ہاتھ اندر ڈال کر کنڈی لگا دی جاتی تھی۔ یہ انتظام کتا، بکری وغیرہ کے لئے تھا کہ وہ اندر نہ جا سکیں۔

کنڈی کھولنے کے لئے اندر ہاتھ ڈالتے ہوئے رحیم ہچکچا رہا تھا جیسے ایک دم سے خدا اس کا ہاتھ پکڑ لے گا کہ: ’’کیوں بے آج آیا پکڑ میں، بہت بھاگا بھاگا پھر رہا تھا‘‘ ۔

ہاتھ ڈالنے سے پہلے اس نے بڑے احترام سے پاجامہ کے نیفہ میں اڑسی ہوئی ٹوپی سر پر پہنی، اس کا رواں رواں خوف سے کھڑا ہو گیا تھا۔ رگ رگ پھڑک رہی تھی۔ دل اتنی زور سے دھڑک رہا تھا، کہ وہ ڈرنے لگا کہ بچہ جاگ جائے گا۔ اس کے چہرہ پر پسینہ کی دھاریں بہنے لگیں، اس کا سارا وجود خدا سے اپنے تمام گناہوں کی معافی مانگ رہا تھا۔

’’میں تیرا گناہگار ہوں، میں تیرا کوئی حکم نہیں مانتا۔ میں تیری نماز بھی یاد نہ کر سکا۔ تو مجھ کو جہنم میں جلائے گا تو مجھ کو تجھ سے کوئی شکایت نہ ہو گی۔ لیکن میں تیرا ہی بندہ ہوں اور آج آخر مجھ کو تیرے دروازے پر پناہ کے لئے آنا پڑا ہے۔ یہ بچہ معصوم ہے۔ مسلمان ہے۔ اس نے کوئی گناہ نہیں کیا۔ اس کو اپنے گھر میں پناہ دے دے۔‘‘

اس نے ہاتھ سے کنڈی کھول کر دروازہ کو ذرا دھکا دیا۔ ایک کریہہ ’’قیں‘‘ کے ساتھ دروازہ کھل گیا۔ اور رحیم اچھل کر پانچ قدم پیچھے پہنچ گیا۔ اس نے دور سے داہنے بائیں ہو کر مسجد کے ہر گوشے کو دیکھا جیسے کسی نہ کسی جگہ خدا نظر آ جائے گا۔ لیک مسجد میں سناٹا تھا۔ دروازے کے آگے ایک بیری کا درخت لگا تھا۔ مسجد کے طاق میں ایک روشنی کا نقطہ تھا، بس۔ رحیم آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا مسجد کے اندر آیا۔ بیری کے درخت کے کچھ ہی آگے مسجد کی چوکھٹ شروع ہو جاتی تھی۔ اور اس کے آگے مسجد کا دالان۔ رحیم کے پیٹ میں جولی کی شراب تھی، اس خوف سے وہ مسجد کی چوکھٹ پر قدم نہ رکھ سکا۔ پاس پڑی ہوئی ٹوٹی بیری کی ایک سوکھی ڈال کو بانس بنا کر اس نے مسجد کے اندر سے چھوٹی چھوٹی چٹائیاں گھسیٹ لیں اور بیری کے نیچے ان کا گدّا بنا کر اس پر بچہ کو لٹا دیا اور ایک چٹائی اوڑھ کر خود بیری کے تنے کا ٹیکہ لے کر بیٹھ گیا۔

مسجد کی شکستہ حالت دیکھ کر رحیم کو خدا کی حالت پر ترس آ رہا تھا، خدا جس نے دنیا بنائی، چاند ستارے بنائے، جنت و دوزخ بنائی۔ اسی خدا کا اپنا گھر جیا مالن کے جھونپڑے سے بھی بدتر حالت میں تھا!

خدا کی یہ مصلحت اس کی سمجھ میں نہ آئی۔ لیکن آج وہ مسلمانوں کی مصلحت سمجھ گیا کہ وہ کیوں مسلمانوں کے علاوہ اور کسی دوسرے مذہب والے کو مسجد میں نہیں آنے دیتے۔ مسلمان بھائیوں کی اس سمجھ داری کی وجہ سے اس کو ایک خوشی بھی ہوئی۔ کیوں کہ اگر رابرٹ یا نندن مسجد کی یہ حالت دیکھ لیں تو کتنا مذاق اڑائیں، اس کے خدا کا۔ اگر وہ دونوں یہ مسجد دیکھ لیتے تو کیا یہ بات کہنے سے چوکتے کہ جو اپنا گھر بھی نہیں بنا سکتا اس نے بڑی دنیا کیا بنائی ہو گی! رحیم نے طے کیا کہ وہ مسجد کی مرمت کرے گا، سفید چونے سے مسجد کی محرابیں اور دیوار، ہرے رنگ سے مینار اور گنبد رنگے گا، نئی چٹائیاں اور تسبیحیں لائے گا۔ اس طرح اس کی روح نے اس کے دماغ کو سلا کر خود قربت الٰہی کی طرف آہستہ آہستہ پرواز شروع کی۔

رحیم نیند سے چونک کر بہت دیر تو ہکا بکا ہی رہا، وہ بس یہ دیکھ رہا تھا کہ امام صاحب آگ بگولہ بنے اپنی قرات دار گھن گرج آواز سے اس پر برس رہے ہیں، ان کی اذان سے بھی کبھی اتنے مسلمان اتنی صبح نماز کے لئے مسجد میں جمع نہیں ہوئے تھے جتنے اس وقت جمع ہو کر حیرت سے رحیم کی طرف دیکھ رہے تھے۔ مولوی صاحب کی گرج کے جواب میں صرف بچہ بلک بلک کر فریاد کر رہا تھا۔ جب اس نے بچہ کو گود میں لپٹایا، تب اس کو اچانک احساس ہوا اور اس پر بجلی سی گری۔ بچہ نے نمازیوں کی چٹائیوں پر پاخانہ کر دیا تھا۔ رحیم کی آنکھوں کے تلے اندھیرا چھا گیا۔ امام صاحب اس کو نظر نہیں آ رہے تھے لیکن وہ ان سے گڑ گڑا گڑ گڑا کر کہہ رہا تھا کہ وہ مسجد کی ساری چٹائیاں دھوکر پاک کر دے گا اور بہت سی نئی چٹائیاں لا دے گا۔ لیکن اس کے وعدوں سے امام صاحب کا غصہ اور زیادہ بڑھتا ہی گیا۔

’’تو مسجد سے نکل ملعون جہنمی۔‘‘

رحیم بچہ کو لے کر تالاب کی طرف بھاگا۔

پو پھٹنے والی تھی، گاؤں جاگنے لگا تھا، ہوا میں کافی خنکی تھی۔ گاؤں کے تالاب کی کچی سیڑھیوں پر شنکرا پہلوان اشنان کے لئے پہنچ گیا تھا، اس نے تالاب کے پانی میں انگلی ڈال کر دیکھا، پانی بہت ٹھنڈا تھا، اس نے پوری ہمت ایک نکتہ پر سمیٹ کر جلدی سے پیتل کی گول لٹیا اپنے سر پر انڈیل لی اور سردی کی کپکپاہٹ کے احساس کو کم کرنے کے لئے مونہہ ہی مونہہ میں کچھ اشلوک پڑھنے لگا۔ اس نے جلدی سے سوکھی دھوتی باندھ کر بھیگی دھوتی کو پانی میں پھینچ کر باقاعدہ تالاب کے پتھر پر اتنے احتیاط سے دھویا گویا اس کا اصلی جسم جس کی پاکیزگی بہت ضروری تھی وہ وہی دھوتی تھی۔ وہ بھگوان کے نام کا جاپ کرتے کرتے دھوتی نچوڑ رہا تھا کہ آواز آئی:

’’السلام علیکم!‘‘

’’السلام علیکم‘‘

جیسے شنکرا کی دھوتی کوے کی بیٹ گرنے سے اچانک پھر سے گندی ہو گئی ہو۔ اس نے اپنے جاپ کی اسی لے کو قائم رکھتے ہوئے ’’جے جے ہنومان‘‘ سے ’’السلام علیکم‘‘ کی کاٹ کی اور پھر سے دھوتی کو تالاب میں بھگو کر پتھر پر پھیچنے لگا۔

تالاب کی سیڑھیوں کے سب سے اوپر کی سیڑھی پر شانِ اسلام قوال گھٹنوں تک لنگی باندھے بائیں ہاتھ میں مٹی کا بندھنا لئے داہنے ہاتھ سے دتون کرتے ہوئے شنکرا کے ہٹنے کا دیر سے انتظار کر رہے تھے۔ وہ شنکرا کی حرکت کو تاڑ گئے۔

’’آپ کا اشنان ہو چکا ہو تو اب۔۔۔۔‘‘

’’بس ایک منٹ اسلام صاحب۔‘‘

شنکرا ’’شان اسلام‘‘ پورا نہیں کہہ پاتا تھا اس لئے اس نے اس کا مخفف ’’اسلام صاحب‘‘ کر لیا تھا۔

’’ہم ہندوؤں کی بڑی کٹھنائی ہے، ہم بنا اشنان کئے کبھی پوجا نہیں کر سکتے۔ آپ لوگوں کے مزے ہیں اپنے جمعہ کے جمعہ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔‘‘

اپنے مذہب کی سختی کی اس شکایت کے پیچھے جو شنکرا نے اپنے دھرم کی بڑائی اور اسلام پر ایک ضرب لگائی۔ وہ اسلام صاحب کے جگر کے پار ہوئی، وہ بلک اٹھے۔

’’مسلمان تو پیدا ہی پاک ہوتا ہے، ہم کو روز روز نہانے کی کیا ضرورت؟ اور پھر مسلمانوں کا غسل غسل ہوتا ہے، یہ نہیں ہوتا۔‘‘

اتنا کہہ کر اسلام صاحب نے شنکرا کے نہانے کی پوری نقل اسی طرح اتاری جس طرح وہ ابھی ڈرتے ڈرتے ایک لٹیا سے نہا کر کپکپا رہا تھا، پھر ایک للکار کے ساتھ انہوں نے شنکرا سے کہا:

’’اب مسلمانوں کا غسل دیکھو۔‘‘

یہ کہتے ہوئے اسلام صاحب نے ’’اللہ اکبر‘‘ کا نعرہ لگا کر اسی جگہ سے تالاب میں غوطہ لگا دیا۔

اڑتے ہوئے پانی کے چھینٹوں سے بچنے کے لئے شنکرا دھوتی لے کر تالاب کی چار پانچ سیڑھیاں چھلانگ گیا اور تین چار سیڑھیاں چڑھنے کے بعد اس نے تالاب کی طرف مڑ کر دیکھا۔ پانی کی سطح ہموار تھی اسلام صاحب کا پتہ نہ تھا۔ چار پانچ سیڑھیاں اور چڑھنے کے بعد شنکرا نے پھر نظر ڈالی مگر اسلام صاحب نظر نہ آئے۔ اب شنکرا کو ذرا گھبراہٹ ہونے لگی۔ تالاب کی آخری سیڑھی پر پہنچنے کے بعد بھی جب شان اسلام نے پانی سے سر نہ نکالا تو شنکرا سے رہا نہ گیا۔ وہ بھاگ کر نیچے آیا اور زور سے چیخا:

’’اسلام صاحب‘‘

تالاب سے بازگشت ہوئی اور رابرٹ کا بڑا بہنوئی ڈیلبی ’’گڈ مارننگ‘‘ کہتا ہوا پانی سے نکلا۔

ڈیلبی کو بچہ میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ وہ رابرٹ سے سخت عاجز تھا اور بچہ کے بارے میں عیسائی عورتوں نے جو یہ چرچا شروع کر دیا تھا کہ بچہ در اصل رابرٹ اور جولی کا ہی ہے، اس وجہ سے ڈیلبی اور بھی چراغ پا تھا۔ لیکن مشن کے سسٹروں اور فادروں نے اس کو یہ احساس دلایا تھا کہ سوال بچہ، جولی یا رابرٹ کا نہیں تھا بلکہ یہ پوری عیسائیت کے تحفظ کا مسئلہ تھا اور اس کو راضی کر لیا تھا کہ وہ قصبہ کے با اثر لوگوں سے بات کر کے اس مسئلہ کو حل کرے۔ ڈیلبی نے جب تالاب کے دوسرے کنارے سے شان اسلام اور شنکرا کو باتیں کرتا ہوا دیکھا تو سوچا کہ یہ موقع اچھا ہے دونوں مذہبوں کی سب سے با اثر ہستیاں ایک ہی جگہ موجود ہیں۔ وہ تالاب کے اس کنارے سے غوطہ لگا کر اس کنارے پر آیا، لیکن اس نے دیکھا کہ شان اسلام کا پتہ نہیں ہے۔

’’شان اسلام کدھر گل ہو گیا؟‘‘

’’لگتا ہے اسلام پر قربان ہو گیا۔‘‘

یہ کہہ کر شنکرا نے تالاب میں اسلام صاحب کو بچانے کے لئے غوطہ مار دیا۔ ڈیلبی اور بھی حیران ہو گیا، جب شنکرا کے غوطہ مارتے ہی شان اسلام نے پانی سے سر نکال کر پھولتی ہوئی آواز میں کہا:

’’اس کو کہتے ہیں اسلامی غسل، سمجھے۔‘‘

پھر شان اسلام کو اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ وہ شنکرا کی جگہ ڈیلبی سے باتیں کر رہے ہیں، انہوں نے پوچھا:

’’وہ شنکرا کدھر گیا؟‘‘

’’اسلام صاحب کو بچانے۔‘‘

ڈیلبی نے تالاب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

’’یہ تو صرف ایک ڈبکی تھی۔ جب تک تین ایسی ڈبکیاں نہ لگائی جائیں، اسلامی غسل کو غسل نہیں کہا جا سکتا۔ جب وہ نکلے تو اس سے کہہ دینا۔ اگر وہ نکلے!‘‘

’’اپنے کو تم دونوں سے بہت جروری بات کرنی ہے۔‘‘

’’میری نماز قضا ہو رہی ہے، میں کوئی بات نہیں کر سکتا۔ مجھ سے نماز کے بعد آ کر ملنا۔‘‘

یہ کہہ کر شان اسلام سردی سے لرزتے ہوئے چلے گئے۔ ان کے جانے کے بعد ہی شنکرا گھبرایا ہوا پانی سے نکلا اور ڈیلبی سے بولا۔

’’نہیں نکلا اب تک۔‘‘

’’وہ گیا۔ اور کہہ گیا ہے کہ یہ تو ابن کی ایک ڈبکی تھی، جب تک ایسی تین ڈبکیاں نہ لگائی جائیں اسلامی گسل گسل نہیں ہوتا۔‘‘

شنکرا کا دل کوفت سے ٹوٹ گیا۔ اس نے دل ہی دل میں مسلمانوں کو ایک گالی دے کر کہا۔

’’اسلام صاحب کے لئے میں نے اپنی پوجا کی دھوتی بھی بھگو لی اور وہ مجھ کو طعنہ مار کر چلا گیا۔ یہ مسلمان۔۔۔۔ ۔۔۔۔‘‘

ڈیلبی کو اہم بات کرنا تھی اس لئے اس نے ہندو مسلم کے اس جھگڑے میں پڑنا مناسب نہیں سمجھا۔

’’شنکرا اپن کو تم سے بہت جروری بات کرنا ہے۔ باہر آ جاؤ۔‘‘

لیکن شنکرا ابھی تک بپھرا ہوا تھا۔

’’ڈیلبی، تم پہلے پھیسلہ کرو، تم نے اسلام صاحب کی ڈبکی بھی دیکھی ہے اور میری بھی۔ کون سی ڈبکی لمبی تھی ہندو کہ مسلمان؟‘‘

شنکرا سمجھتا تھا کہ ڈیلبی کو اس سے کوئی غرض اٹکی ہے، اس لئے فیصلہ اس کے حق میں ہو گا۔ لیکن یہ ساری عیسائیت کے تحفظ کا مسئلہ تھا!

’’جو یہ بات ٹھیری ہے تو فیصلہ تم کرو، کرسچینٹی کا کوئی مذہب پوری دنیا میں مقابلہ نہیں کر سکتا۔‘‘

یہ کہہ کر ڈیلبی نے سینہ پر انگلی سے تثلیثی نشان بنا کر تالاب میں ڈبکی مار دی۔

شنکرا نے ’’دھت تیرے کی‘‘ کہہ کر بھیگی دھوتی اتار کر نچوڑی ہوئی دھوتی باندھ لی، مسجد سے اذان اور مندر سے گھنٹوں کی آوازیں آنے لگیں، اور شنکرا سیڑھیاں چڑھ کر مندر جانے لگا۔ لیکن چلتے چلتے اس کو ایک سچائی کا گیان ہو گیا، جو اس نے چلا کر ڈوبے ہوئے ڈیلبی سے کہہ دی۔

’’ہندو دھرم تلاب کے اندر شریر کی ڈبکیوں میں نہیں ہے، ڈیلبی، ہندو دھرم آتما کی ڈبکیوں میں ہے جو ہم پرماتما کی کھوج میں لگاتے ہیں۔ سنا تم نے۔۔۔۔ ۔۔۔ اب تم چاہے جندگی بھر ڈوبے رہو۔۔۔۔ ۔۔۔۔ اور ڈوبے ہی رہو تو اچھا ہے۔۔۔۔ ۔ پاپ کٹے گا۔‘‘

رحیم کو اس وقت ان لوگوں کی تکرار اچھی نہیں لگی، جس مسئلہ کا وہ فیصلہ کرنا چاہتے تھے اس سے کہیں اہم مسئلہ کا حل رحیم کو کرنا تھا۔ اس نے یہی ٹھیک سمجھا کہ تالاب کا یہ حصہ چھوڑ کر اس طرف چلا جائے جو حصہ نیچ ذات والوں کے لئے برسہا برس سے مقرر ہے۔ بستی کے دور کے حصے کی طرف تالاب کٹ کر ایک طرف نکل گیا تھا اور وہاں ایک چھوٹا سا گندا تالاب اور بن گیا تھا، رحیم اسی حصہ میں پہنچ گیا۔

یہاں سناٹا تھا اس نے بچے کے کپڑے اتار کر اس کو ننگا کیا اور تالاب کے کنارے پانی میں پاؤں ڈال کر اس طرح بیٹھ گیا کہ بچے کو اپنے دونوں گھٹنوں پر بٹھا کر نہلاسکے۔ نہلانے کا خیال آتے ہی رحیم کے دل میں جذبۂ اسلام دہک اٹھا۔ بچہ کو نہلانا پڑ ہی رہا ہے تو کیوں نہ اس کو اسلامی غسل دے کر تمام نجاستوں سے پاک کر لیا جائے؟

وہ گندا تو تھا ہی۔۔۔ آخر اس کو جولی نے بھی چھوا تھا اور نندو نے بھی پیار کیا تھا، اس جذبے کے تحت اس نے بچہ کو خوب رگڑ رگڑ کر نہلایا۔ بچہ جس قدر چیخ سکتا تھا چیخا، اس کو چپ کرانے کے لئے رحیم نے خود بھی چیخنا شروع کر دیا تھا۔ کبھی کوئی لوری، کبھی کوئی قوالی کبھی زور زور سے محض ’’ڑاڑاڑا‘‘ کی رٹ لگاتا تھا۔ بچہ چپ تو نہیں ہوا لیکن اس کی آواز رحیم کی آواز میں ڈوب کر گم ہو گئی اور بچہ صاف ستھرا ہو گیا۔

اب سوال آیا بچہ کو تین ڈبکیاں دینے کا۔ اس کے ایک دل نے اس کو ڈرایا کہ ممکن ہے کہ بچہ کو نقصان پہنچ جائے مگر جذبہ اسلامی نے یاد دلایا کہ وہ لوگ بچہ کو سیلاب سے نکال کر لائے تھے۔ اور بچہ کو کچھ نہیں ہوا۔

یہ خیال آتے ہی اس نے جسارت کر کے بچہ کو تین بار اللہ اکبر کہہ کر تین ڈبکیاں دے دیں اور بچے کے دھوئے ہوئے، نچوڑے کپڑوں سے جلدی جلدی پونچھ کر اس کو سوکھی گھاس کے بستر پر لٹا دیا۔

بچے کے گلے کا چاندی کا کراس اب بھی رحیم کے دل میں کھٹک رہا تھا، لیکن وہ کراس کو بچہ سے علیحدہ نہیں کر سکتا تھا، کیوں جب بھی بچہ روتا تھا وہی کراس اس کے مونہہ میں دے کر اس کو چپ کیا جا سکتا تھا، بچہ کو لٹا کر وہ خود جلدی سے کپڑے اتار کر تالاب میں کود گیا اور اپنے کپڑے دھوتے دھوتے بھی بچہ سے طرح طرح کی باتیں کرتا رہا تاکہ بچہ بہلا رہے۔ جیسے ہی اس نے اپنے کپڑے دھو کر کنارے پر پھینکے اس کو جیا تالاب کی طرف آتی ہوئی نظر آئی۔

جیا ہندو تھی، ناپاک تھی، بچہ غسل کر کے پاک ہو چکا تھا اس لئے اس نے تالاب کے اندر سے ہی جیا کو ڈانٹا کہ وہ بچہ کو ہاتھ نہ لگائے، لیکن بچہ نے جیسے ہی جیا کو دیکھا، کراس کو مونہہ سے نکال دیا، اور اپنے دونوں ننھے منے ہاتھ اس کی طرف بڑھا کر چیخنے لگا۔ جیسے وہ پہچان گیا کہ وہ اس کا دودھ پی چکا ہے، جیا سے نہیں رہا گیا۔

’’میں تم کو اس کی ہتّیا نہیں کرنے دوں گی سمجھے، تمہارا جو جی چاہے کر لو۔‘‘

یہ کہہ کر جیا نے ٹھنڈ سے سکڑتے ہوئے بچہ کو گود میں اٹھا کر اوڑھنی کے اندر چھپا لیا۔ رحیم تالاب سے للکارا۔

’’جیا میں تیری جان لے لوں گا۔‘‘

مگر جیا نے کوئی پرواہ نہیں کی۔ وہ رحیم کے کپڑے تالاب سے اور دور پھینک کر بچے کو اٹھا لے گئی، رحیم ننگا ہونے کی وجہ سے تالاب کے باہر نہیں نکل سکا۔ پانی کے اندر چیختا چلاتا رہ گیا۔

جب رحیم جیا کے گھر پہنچا تو اس کی ساری محنت پر پانی پھر چکا تھا، جیا چراغ محمد کو دودھ پلانے کے بعد اس کی آنکھوں میں کاجل اور ماتھے پر کالا ٹیکہ لگا کر اسے اپنے بچہ نتھی کے بستر پر اسی کے ساتھ سلا چکی تھی۔ اور دونوں معصوم بچے ایک دوسرے سے لپٹے محو خواب تھے۔ چراغ محمد آہستہ آہستہ خراٹے لے رہا تھا، بچہ کے اس آرام کو دیکھ کر رحیم کا غصہ غائب ہو گیا، جگا نے کی ہمت بھی نہ پڑی۔

جیا نے جوار کی موٹی روٹی بنائی تھی۔۔ بغیر بات کئے وہ کنکھیوں سے رحیم کی طرف دیکھ رہی تھی، رحیم اس سے دور بچہ کے اٹھنے کے انتظار میں بیٹھ گیا۔

’’تو نے کچھ کھایا۔‘‘

جیا نے پوچھا۔

رحیم نے کوئی جواب نہ دیا، اس نے جیا کا جملہ سناہی نہیں۔ وہ بہت دور کہیں گیا ہوا تھا، جیا نے پھر سے پوچھا۔

’’تو نے کچھ ناستہ پانی کیا؟‘‘

تو رحیم واپس آیا۔

’’جیا، سالی تو مسلمان کیوں نہیں ہو جاتی؟‘‘

جیا نے ایک ہی پل میں رحیم کا پورا سفر اور اس کی منزل سمجھ لی۔

’’مسلمان کیسے بنتے ہیں راجہ؟‘‘

’’امام صاحب بنا دیں گے تجھ کو!‘‘

’’وہ کیا کرے گا میرے ساتھ؟‘‘

’’کچھ بھی نہیں۔ بس بسم اللہ پڑھا کر کلمہ شریف پڑھا دیں گے، تیری جوانی جہنم کی آگ میں جلنے سے بچ جائے گی۔‘‘

’’مجھے پڑھنا کہاں آتا ہے، اور میری جوانی تو دنیا کی آگ میں بھسم ہو چکی، اب دھری کہاں ہے۔‘‘ لیکن اس احساس سے کہ وہ آج بھی رحیم کو جوان نظر آئی ہے جیا کے بدن میں ایک بجلی کا کوندا سا لپک گیا، جیسے پل بھر میں اس کی تمام پچھلی زندگی بھسم ہو گئی اور اس کو اسی پل ایک نیا جنم مل گیا۔ جیسے وہ شاید مسلمان ہو گئی۔

’’تجھ کو پڑھنا نہیں پڑے گا۔۔ امام صاحب جو بولیں گے بس تو وہی بول دینا۔‘‘

’’اور میرا نتھو کیسے تمہارے جہنم کی آگ سے بچے گا؟ وہ تو بول بھی نہیں سکتا۔‘‘

رحیم چکرا گیا۔ اس سوال کا جواب اس کے پاس نہیں تھا۔ بڑا آدمی تو کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو سکتا ہے لیکن جو بچہ بول بھی نہیں سکتا، وہ کیسے مسلمان ہو سکتا ہے اور اگر وہ مر جائے تو اس کا کیا ہو گا؟ اس کے دماغ میں یہ مسئلہ کبھی آیا ہی نہ تھا۔

رحیم کا دماغ الجھ گیا۔ گتھی حل کرنے کے لئے وہ بچوں کے پاس آ گیا اور دونوں پر سے جیا کی پھٹی ساڑی ہٹا کر دونوں بچوں کو غور سے دیکھنے لگا اس نے ان دونوں کے جسم کے ایک ایک عضو کو بہت غور سے دیکھا، لیکن اس کو کوئی بھی بنیادی فرق ان دونوں میں نظر نہیں آیا، اس کو دکھ ہوا۔

نندن سیلاب زدہ علاقے کے سینکڑوں آدمیوں سے مل چکا تھا کہ کسی طرح کوئی اس کو اس مکان کے رہنے و لوں کا پتہ نشان بتا دے جس مکان سے اس کو بچہ ملا تھا۔ وہ سیلاب میں مَرے ہوئے انسانون کی لاش میں اس عورت کی لاش کو ڈھونڈھنے میں بھی ناکامیاب ہوا تھا جس لاش کو ان تینوں نے مکان کے روشن دان میں سے نکالا تھا۔۔۔ خانماں برباد لوگوں کی ایک بستی گاؤں کے پاس ایک اونچے ٹیلے پر بس گئی تھی وہ سب اس انتظار میں تھے کہ جب پانی بہہ جائے گا تو اپنی اپنی زمینوں پر پھر آباد ہو جائیں گے۔

اسی بستی میں وہ ایک رات بھٹک رہا تھا کہ اس نے دیکھا کہ ایک انیس بیس سال کی خوبصورت سی لڑکی دہشت زدہ ہو کر ہانپتی کانپتی بھاگ رہی ہے۔ نندن اس کو دیکھ کر ہی سمجھ گیا کہ وہ کسی بڑی مصیبت میں ہے۔ اس نے بڑھ کر اس سے پوچھنے کی کوشش بھی کی لیکن وہ لڑکی اس سے ڈر کر ایک طرف باڑھ میں گھس گئی، ذرا سی دیر میں نندن نے دیکھا کہ چار مسٹنڈے شرابی اس کو ڈھونڈ رہے ہیں۔

’’اس کی ماں کی۔۔۔ جائے گی کدھر؟‘‘

’’کیوں بے ادھر کوئی لڑکی گئی ہے کیا؟‘‘

ایک بڑی مونچھوں والے نے نندن سے پوچھا۔

’’کون ہو تم؟ اس کے پیچھے کیوں لگے ہو۔‘‘ نندن نے پوچھا۔

’’میری لگائی ہے، سالی، آوارہ ہو گئی ہے۔‘‘ ایک اور نے بڑھ کر کہا۔

’’ادھر باڑھ میں گھستے دیکھا تھا، میں نے۔‘‘ نندن نے معصومیت سے بتایا۔

’’ارے ہاں۔۔۔۔ وہ رہی سالی۔‘‘

چاروں آدمی نندن کو چھوڑ کر باڑھ کی طرف بھاگے، لڑکی جھڑ بیڑی کی کانٹوں بھری جھاڑیوں میں گھس کر آہستہ آہستہ ہانپ رہی تھی۔ نندن نے جب ان لوگوں کو اس کا پتہ دیا تو وہ وہاں سے بھاگنے کی کوشش کرنے لگی۔ لیکن بیروں کی جھاڑیوں میں سوئیوں کی طرح کے کانٹے تھے جن میں اس کی اوڑھنی اور الجھ گئی۔ اس کے پیچھے ایک شرابی پہنچ گیا تھا۔ لڑکی نے آگے بڑھنے کے لئے زور لگایا تو چولی کے بند ٹوٹ گئے۔ وہ دونوں ہاتھوں سے اپنے سینے کو دبا کر زمین پر اوندھی پڑ گئی۔ پیچھے کے آدمی سے بچنے کے لئے اس نے اپنے پیر اندر سمیٹ لئے لیکن اس کا لہنگا تھوڑا باہر رہ گیا، جس کو شرابی نے پکڑ لیا اور اپنی طرف گھسیٹنے لگا۔ لڑکی نے دونوں ہاتھوں سے گھاگرے کو گھسیٹا تو وہ اس کے ہاتھ میں آ گیا۔ اس نے اپنی فتح پر ایک زور دار قہقہہ لگایا۔ اتنی دیر میں باقی تینوں آدمی جھاڑیوں کی دوسری طرف پہنچ چکے تھے اور انہوں نے لکڑیوں سے جھاڑیوں کو پیٹ پیٹ کر لڑکی تک پہنچنے کا راستہ بنا لیا تھا۔۔۔ پر نچے مرغی کے بچے کی طرح لڑکی گٹھری بنی پڑی تھی۔ اس کے گورے گورے ننگے بدن کو دیکھ کر گٹھیلے بدن اور بڑی بڑی مونچھوں والے نے لڑکی کو ایک بڑی سی گالی دے کر کہا ’’سالی کیا چیج ملی ہے۔‘‘



اور اپنے آپ کو لڑکی کے جسم پر پھینک دیا، باقی دونوں آدمیوں نے لڑکی کے دونوں ہاتھ پکڑ کر ایک ہی جھٹکے میں اس کو چت کر دیا۔

لڑکی نے ایک ایسی چیخ ماری جیسے اس چیخ میں اس کی روح بھی نکل گئی۔ اس کے ساتھ ہی نندن کا ہاتھ مونچھوں والے شرابی کی گدی پر اس زور سے پڑا کہ وہ سانس بھی نہ لے سکا۔ باقی دو آدمیوں نے نندن پر لکڑیوں سے حملہ کیا۔ نندن ہاتھ سے لکڑیوں کی مار روکتا رہا، اتنے میں تیسرا آدمی بھی پہنچ گیا، اس کے پاس کھٹکے دار رام پوری چاقو تھا۔ وہ پیچھے سے نندن پر ٹوٹ پڑا۔ چاقو اچٹتا ہوا نندن کے بازو میں لگا بھی لیکن وہ آدمی نندن کی گرفت میں آ گیا۔ اس کو الٹ کر نندن نے اس کی دونوں ٹانگیں دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر گھمانا شروع کیا۔ باقی دونوں آدمیوں نے لاٹھیاں نندن پر برسانی شروع کیں تو نندن سب لاٹھیاں اسی آدمی پر روکنے لگا۔ اپنے ساتھی کو بچانے کے لئے انہوں نے لاٹھیاں پھینک دیں اور دونوں نے نندن پر ٹوٹنے کی کوشش کی۔

نندن نے اس آدمی کو گھما کر اس کے ساتھیوں کے اوپر پھینک دیا، چاقو والے آدمی کے دل پر دہشت بیٹھ گئی تھی وہ قلا بازیاں کھاتا ہوا بھاگا اور اپنے ساتھیوں کو آواز دی۔

’’ابے بھاگ یہ بھوت ہے۔ بھوت، آدمی نہیں۔‘‘

باقی دونوں کے قدم بھی اکھڑ گئے اور نندن کی لاتیں کھاتے ہوئے گرتے پڑتے بھاگے۔

لڑکی کی آنکھیں کھلی تھیں، کانوں سے بھی وہ سب سن رہی تھی۔ پھر بھی اس پر ایسا سکرات تھا کہ وہ نندن کے سامنے ننگی پڑی رہی، اس کی بھولی معصوم صورت اور ماتھے پر بڑا سا بندیا کا لال گول ٹیکا دیکھ کر وہ نندن کو سرسوتی کی مورت نظر آنے لگی۔ نندن نے اس کا گھاگرا اس پر ڈال دیا پھر بھی لڑکی نے جنبش نہیں کی۔ اس کے بدن، ہاتھ اور گوری گوری پنڈلیوں پر مہین مہین خون کی لکیروں کا جال بن گیا تھا۔ کچھ لکیروں سے خون کے قطرے نکل کر تھوڑا بہے تھے اور کچھ پر خون کی بوندیں وہیں سوکھ گئی تھیں۔

نندن نے لڑکی کو کانٹوں کے بستر سے اٹھا کر اپنے کاندھے پر لاد لیا۔ اور ایک ایسی جگہ ڈھونڈھنے لگا جہاں وہ اسے آرام سے لٹا سکے۔

’’دیوی اب تو کہاں جائے گی؟‘‘

’’جہاں تم لے چلو۔‘‘

گلابو۔۔۔ نندن کی باندی بن چکی تھی، گاؤں کے سیلاب میں اس کا گھربار عزیزو اقارب سب ہی بہہ چکے تھے، اس کا کوئی ایک بھی باقی نہ تھا۔

بس اس کی جوانی اور اس کا حسن تھا جو ایک تنہا لڑکی کے لئے خود ایک سیلاب بن گیا تھا۔ ہر مرد اس کی بے چارگی اور کسمپرسی کا فائدہ اٹھانا چاہتا تھا۔

جیسے کسی بھیڑ کے موٹر کے نیچی زخمی ہوتے ہی گاؤں کے تمام کتے اس پر چاروں طرف سے ٹوٹ کر اس کو کھا جاتے ہیں۔ اسی طرح گلابو کو سیلاب بربادی کے بعد آوارہ مرد کھا جانا چاہتے تھے۔ اس حالت میں ایک انسانی فرشتے نے اس کو بچا لیا۔ اب نندن کو چھوڑ کر وہ کہاں جا سکتی تھی۔



نندن نے آج تک اپنی زندگی میں کوئی عورت اس طرح نہیں دیکھی تھی، کسی کو اپنی بانہوں میں نہیں لیا تھا۔ اس کی زندگی کے ڈھنگ نے اس کو یہ سوچنے کا موقع ہی نہیں دیا تھا کہ عورت کیا ہوتی ہے۔ اس نے پہلی بار ایک حسین عورت کو بالکل برہنہ دیکھا تھا، کسی دیوی کی مورتی اس کو اس قدر حسین اور پاک نہیں لگی تھی جتنی یہ لڑکی۔ اس نے اس کو اپنی بانہوں میں اٹھا لیا تھا۔ اس کے گداز جسم کی گرماہٹ کو محسوس کیا تھا، بس اتنے سے تجربہ سے اس کو گلابو سے ایسی قربت محسوس ہو رہی تھی جیسے وہ بہت دنوں سے اس کی بیاہتا بیوی ہو۔ کندھے پر گلابو کو لے جاتے جاتے اس نے پہلی بار عورت کے جسم کی مہک بھی سونگھی تھی، جو اب اس کے سارے وجود میں سما گئی تھی۔ اس کو خواہ مخواہ محسوس ہو رہا تھا جیسے یہ کوئی پوتر چیز ہے جس سے مس ہو کر وہ پاک ہو گیا۔

’’تم جس دھرم سنکٹ میں پھنسی ہو۔۔۔ ایسے ہی سنکٹ میں ہمارے ہندو دھرم کا ایک اور بالک بھی ابھی تک پھنسا ہے۔۔ جیسے میں نے تم کو بچایا ہے اسی طرح تم اس کو بچا سکتی ہو۔ تمہارے گاؤں کے سیلاب میں ایک ہندو دھرم کا بچہ ہم کو ملا ہے لیکن اس پر ایک مسلمان اور عیسائی نے قبضہ کیا ہوا ہے، تم میرا ساتھ دو تو ہم دونوں مل کر اس کو بچاسکتے ہیں۔ میری خاطر نہیں تو اپنے دھرم کی خاطر یہ کام کر دو میں جنم بھر تمہارے چرن نہیں چھوڑوں گا، تمہاری پوجا کروں گا۔‘‘

گلابو بڑی پریشانی میں پڑ گئی۔ گلابو مسلمان تھی، امیر جان کے کوٹھے پر ناچتی گاتی تھی۔ گلابو نے کوٹھے کے بوڑھے طبلچی سے سنا تھا کہ وہ حیدرآباد کے کسی شریف گھرانے کی لڑکی تھی جس کو اڑا لیا گیا تھا۔ امیر جان نے سوادو سو روپے میں خریدا تھا اور ناچ گانے کے ساتھ قرآن بھی پڑھایا اور نماز بھی سکھائی تھی۔ جوان ہو کر گلابو اس قدر حسین ہوئی کہ امیر جان نے اس کو لکھنؤ لے جا کر وہاں رؤسا میں تہلکہ مچانے کا بیڑا اٹھایا لیکن گلابو نماز پڑھ پڑھ کر دعا مانگتی تھی کہ کسی طرح اس زندگی سے نکل کر حیدرآباد پہنچ جائے۔

سیلاب نے امیر جان کو مع ان کے ارمانوں کے تہہ آب کر دیا اور گلابو کو نندو کے پاس پہنچا دیا جو اس میں دیوی کا روپ دیکھ کر ہندو دھرم کی رکھشا چاہتا تھا اور نندن میں گلابو کو رحمت کا فرشتہ نظر آ رہا تھا۔

وہ انکار کیسے کر سکتی تھی۔۔۔ اس نے سوچا کہ اگر وہ نندن کو سچ سچ اپنے بارے میں بتا دے گی تو نندن اس کو پھر بیچ منجدھار میں چھوڑ جائے گا۔

گلابو کی پوری زندگی ایک ایکٹنگ تھی، اس وجہ سے اس نے نندن کا سیکھا ہوا پارٹ بڑی خوبصورتی سے ادا کیا۔ نندن کے سبق کے مطابق وہ بچہ کا پتہ لگانے کے لئے جولی اور رابرٹ کے پاس پہنچی اور اس کے پاس دہائی دے کر بچہ جس کا نام رام سدن ہے وہ ٹھاکر سروپ سدن کا اکلوتا بچہ ہے۔



اس نے بتایا کہ ٹھاکر کے یہاں سات اولادیں ہوئی تھیں لیکن ان کا کوئی بچہ زندہ نہیں رہتا تھا۔ اس بچہ کے پیدا ہونے پر ٹھکرائین بھی مر گئی تھی۔۔ اس وجہ سے ٹھاکر نے یہ بچہ گلابو کو دے دیا تھا کہ اس کے نام کا ہو کر شاید بچہ جی جائے۔ اس نے بڑی تفصیل سے رابرٹ کو اس گھر کا نقشہ بتایا جہاں سے ان لوگوں نے بچہ کو بچا لیا تھا۔۔ ان کپڑوں کی تفصیل بھی بتائی جو بچہ پہنے ہوئے تھا۔ گلابو نے کہا کہ اس کو گھسیٹا گوجر سے پتہ لگا تھا کہ اس کے بچہ کو اس گاؤں کے آدمی اس کی بکری موہنی کا دودھ پلا کر اپنے گاؤں لے گئے ہیں اور جب وہ اس قصبہ میں آئی تو یہاں کے لوگوں سے معلوم ہوا کہ رابرٹ اور جولی نے اس کو عیسائی بنا لیا ہے۔ اس قدر تفصیل سننے کے بعد رابرٹ کو یقین ہو گیا کہ بچہ گلابو کا ہے۔ گلابو نے دیکھا کہ اس کا تیر نشانے پر بیٹھا ہے اور رابرٹ شرمندہ ہے تو اس نے ترپ چال چلی اور دھمکی دی کہ اگر رابرٹ نے بچہ اس کے حوالے نہ کیا تو وہ سیدھی پولیس چوکی جا کر رپٹ لکھائے گی کہ کرسٹانون نے اس کے ہندو بچے کو زبردستی کرسٹان بنا کر اس پر قبضہ کر لیا ہے۔

رابرٹ ڈر گیا کہ کہیں گاؤں میں فساد کھڑا نہ ہو جائے اور کرسچنیوں کی مصیبت ہو جائے۔ وہ گلابو کی خوشامد کرنے لگا کہ وہ پولیس میں نہ جائے۔ اور وعدہ کیا کہ وہ بچہ کو لا کر اس کے حوالے کر دے گا۔ اس نے گلابو کو سمجھانے کی کوشش کی کہ بچہ اس کے پاس نہیں ہے۔۔ اس کو رحیم چرا کر لے گیا ہے۔۔ لیکن گلابو نے اس بات کے ماننے سے انکار کر دیا اور کہا کہ رابرٹ جھوٹ بول رہا ہے۔ وہ بچہ کو چھپا رہا ہے۔ گلابو اپنا سر پیٹ کر اور بال نوچ کر اس طرح چلانے لگی کہ جولی اور رابرٹ دونوں اس کے پیروں میں گر گئے۔

رابرٹ سیدھا نندن کی مدد لینے اس کے پاس پہنچا، لیکن نندن سے ملاقات نہ ہو سکی۔ شنکرا پہلوان نے اس کو ڈانٹ کر بھگا دیا۔

اتنے میں اس کا مریل کتا جارج چیختا ہوا آیا اور اس کا پتلون پکڑ کر کھینچنے لگا۔ رابرٹ سمجھ گیا کہ اس نے رحیم اور بچہ کا پتہ لگا لیا ہے۔ وہ تیزی سے کتے کے پیچھے بھاگا۔ کتا خلیفہ عبدالرحمن حجام کے مکان کے پاس آ کر بھونکنے لگا۔ مکان کا دروازہ کھلا تھا اور وہاں کچھ مسلمان لونڈے جمع تھے، رابرٹ نے اندر جانا مناسب نہیں سمجھا۔ ایک لونڈے سے رحیم کو باہر بلوایا، رحیم باہر نہیں آیا۔ رابرٹ انتظار کرتا رہا، کہ اس کو اچانک بچہ کی چیخ سنائی دی، رابرٹ تڑپ کر اندر گھس گیا۔

مسلمانوں کی کوئی پیدائشی امتیازی نشانی نہیں ہوتی، لیکن ایک نشانی ایسی بنا لی جاتی ہے جو ہمیشہ کے لئے ایک اسلامی نشانی بن جاتی ہے۔ یہ رسم اسلام کے پہلے سے موجود ہے، اور ہندوستان کے کچھ صوبوں کے ہندوؤں میں بھی ادا کی جاتی ہے۔ اس کے باوجود ہندوستان کے عوام اس کو خالص اسلامی ٹھپہ سمجھتے ہیں۔ رحیم بھی یہی سمجھتا تھا۔

رابرٹ اندر گھسا تو اس نے دیکھا کہ رحیم کے سر پر ٹوپی ہے اور وہ اپنی دونوں بانہوں میں بچے کو اس طرح لئے ہوئے ہے جس طرح بچہ کو چھپا کرواتے ہیں۔ لیکن بچہ کی پیشاب کی جگہ سے خون کے قطرے بہہ رہے تھے۔

خلیفہ عبدالرحمن جس کا استرا وغیرہ اس کے پاس رکھا تھا بچہ کے مرہم پٹی کر رہا تھا۔ مسلمان لونڈے چیخ رہے تھے۔

’’وہ سونے کی چڑیا اڑ گئی۔‘‘

ایک بوڑھا سب کو لڈو بانٹ رہا تھا۔

رابرٹ نے اپنا سر پیٹ لیا۔

رابرٹ نے رحیم کو اونچ نیچ سمجھائی۔

’’یہ بڑی اچھی بات ہے کہ نندن کو شنکرا پہلوان نے گھیر رکھا ہے اور گلابو اس تک نہیں پہنچ سکی ہے۔ سمجھداری کی بات یہ ہے کہ بچہ کو گلابو کے حوالے کر کے رخصت کر دیا جائے ورنہ سارے گاؤں میں ہندو مسلم خون کی ہولی ہو جائے گی۔‘‘

رحیم کا دل کسی طرح یہ ماننے کو تیار نہیں ہوتا تھا کہ بچہ ہندو ہو سکتا ہے اور گلابو اس کی انّا ہے۔ لیکن جب گلابو نے بتایا کہ بچہ کے بائیں چوتڑ پر ایک ننھا سا کالا تل ہے اور وہ تل رحیم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تو کوئی چارہ نہ رہا۔

پھر بھی بچہ کا پیار اس کو جدا نہ کرنے کے راستے ڈھونڈنے لگا۔

نندن نے خود موقع واردات سے غائب رہ کر جو ترپ کے اکے کی چال چلی تھی، وہ بازی جیت لی۔ مگر اب رحیم اور رابرٹ نے یہ طے کیا کہ نندن کو بلایا جائے کیوں کہ گلابو کا کوئی والی وارث نہیں ہے۔ ہندو ہونے کی وجہ سے وہ رابرٹ یا رحیم کا سہارا لینے پر تیار نہ ہو گی اس لئے نندن کو تیار کیا جائے کہ وہ گلابو کو سہارا دے اور گلابو بچہ پالے!

نندن کو سین میں داخل ہوتے وقت بپھرے ہوئے شیر کی ایکٹنگ کرنی تھی۔ بپھرے ہوئے شیر تو وہ تینوں رہتے ہی تھے۔ لیکن ایک خاص موقع پر ایک خاص مقصد کے لئے بپھرے ہوئے شیر کی ایکٹنگ کرنا نندن کے بس کا کام نہیں تھا۔ وہ کر ہی نہیں سکتا تھا۔ لیکن دو باتوں نے اس کی مدد کی۔ ایک تو گلابو کے ذریعے ہتیا کر بچہ پالنے کا جو نندن کا ماسٹر پلان تھا وہ پلان اب رحیم اور رابرٹ کا ہو کر اس کو خیرات میں مل رہا تھا، دوسرے بچہ کے گلے میں جو عیسائیت لپٹی تھی اس کو تو وہ اتار کر پھینک سکتا تھا، مگر اس اسلامی ٹھپ کو کس طرح مٹائے؟ اس انمٹ کوفت کی شدت پوری طرح ان گھونسوں میں نکلی جو اس نے رحیم کو لگانا شروع کئے۔ رحیم آرام سے اس کے گھونسے اور خود قلا بازیاں کھاتا رہا۔ اگر وہ ایک وار بھی نندن پر کرتا تو بچہ سے اس کا تعلق ٹوٹ جانا۔۔۔۔ ہر گھونسے پر وہ ایسا محسوس کرتا تھا جیسے بچہ سے اس کا تعلق مضبوط تر ہو رہا ہے، لیکن نندن ان دونوں سے بات کئے بغیر گلابو اور بچہ کولے کر چلا گیا۔

گاؤں کی پچھمی حد پر نندن کی اک دور کی موسی درگا کا جھونپڑا تھا۔ وہ تقریباً اندھی تھی۔۔ وہ اپنی جوانی میں ایک مسلمان گھوسی لونڈے کے ساتھ بھاگ گئی تھی۔۔۔ گاؤں کے با اثر مسلمانوں نے معاملہ کو رفع دفع کرنے کے لئے اس مسلمان چھوکرے کو بھی گاؤں سے بھگا دیا، وہ درگا کو چھوڑ کر بھاگ گیا۔ لیکن برادری والوں نے درگا کو واپس قبول نہیں کیا۔ اس کے بعد سے درگا کو اپنی والہانہ محبت کا حقیقی جذبہ پاپ لگنے لگا اور وہ اس کا پرائشچت کرنے کے لئے سخت مذہبی ہو گئی، پھر بھی گاؤں والے اس سے کچھ لینا دینا نہیں رکھتے تھے۔ درگا اب بڑھیا ہو گئی تھی لیکن برادری والوں کا جذبۂ نفرت اسی طرح جوان تھا۔ درگا کی کھیتی تھی لیکن آنکھوں کی مجبوری کی وجہ سے سب کام اس کو دوسروں کی خوشامد کر کے کروانا پڑتا تھا۔ کھیتی کافی تھی لیکن پیداوار اس کو آخر میں اتنی ملتی تھی کہ بس اس کو بھیک مانگنا نہیں پڑتی۔ زمین پر بنئے کا بیاج بڑھتا جاتا تھا۔

نندو درگا کی کھیتی سنبھالے۔۔۔ اس شرط پر درگا۔۔ گلابو اور اس کے بچہ کو پناہ دینے پر راضی ہو گئی اور گلابو کو ٹھکانہ مل گیا۔

بچہ بھوک سے بلک رہا تھا اور گلابو حیران تھی کہ نندن کو کس طرح سمجھائے کہ وہ بچہ کو دودھ پلائے تو کس طرح؟

نندو سمجھتا تھا کہ عورت عورت ہوتی ہے اور عورت کے دودھ ہوتا ہے۔ اس کو گلابو پر سخت غصہ آیا کہ یہ ایسی کیسی عورت ہے جو بچہ کو دودھ نہیں پلا سکتی، اس نے گلابو کو غور سے دیکھا۔ اس کے سینے کے ابھار سے معلوم ہوتا تھا کہ گلابو ایک وقت میں سیر بھر دودھ آرام سے دے سکتی ہے۔

آخر بے شرم ہو کر گلابو نے نندن کو سمجھایا کہ دودھ بچہ ہونے کے بعد عورت کی چھاتیوں میں خود بخود اترتا ہے، اور اس کی تو ابھی شادی بھی نہیں ہوئی ہے۔

گلابو کو نندن کی اس سادہ لوحی پر بے پناہ پیار آیا۔ لیکن نندن ایک بھنور میں پھنس گیا تھا۔ رحیم اور رابرٹ کے لئے اس کے ناٹک میں گلابو بچہ کی انّا تھی۔ اگر یہ چوری پکڑی گئی تو کیا ہو گا؟ اس مسئلہ کا حل درگا نے دے دیا۔ درگا نے سمجھایا کہ جن دہشت زدہ مصیبتوں سے گلابو گزری ہے، اس کی وجہ سے اس کا دودھ خشک ہو گیا ہے، اس نے نندن سے کہا کہ وہ کسی دودھ پلانے والی کا بندوبست کرے۔ نندن کو یہ نکتہ رحیم اور رابرٹ سے بچاؤ کے لئے کافی لگا۔ لیکن دوسری مصیبت یہ تھی کہ بھوک سے تڑپ کر بچہ نے جو ہاتھ پاؤں مارے تو اس کے زخم سے خون رسنے لگا، نندن کو ایک بار پھر رحیم پر سخت غصہ آ گیا اور جی چاہا کہ رحیم کا قتل کر دے اس کے غصے کے ساتھ ہی رحیم بھی آ گیا۔

’’رحیم تو چلا جا میرے سامنے سے نہیں تو میں تیرا خون کر دوں گا۔‘‘

’’بچہ کا پھایا بدلنا ہے۔‘‘

رحیم نے بڑی معصومیت اور بھولے پن سے جواب دیا۔

’’کیسا پھایا سالے؟‘‘ نندن آگ بگولہ ہو کر بولا۔

’’یہ پھایا۔ دوا بھی لگانی ہے ورنہ زہر باد ہو جائے گا۔‘‘

نندو تڑپ کر رہ گیا اور بغیر ایک لفظ کہے اندر سے بچہ کو دونوں ہاتھوں میں اٹھا کر لے آیا۔ رحیم ایک بہت بڑے مشاق جراح کی طرح بچہ کے زخم کو پونچھ کر نیا مرہم لگا کر دسری پٹی باندھنے لگا، اس عمل میں جس قدر وقت وہ لگا سکتا تھا اس نے لگایا، بیچ بیچ میں وہ بچہ سے کھیلتا بھی جاتا تھا، اور پیار بھی کرتا جاتا تھا، نندن کو معلوم تھا کہ رحیم حرمزدگی کر رہا ہے لیکن وہ بے بس تھا، جب رحیم کا کام ختم ہو گیا اور وہ بچہ کو اندر لے جانے لگا تو اس نے تحکمانہ لہجہ میں رحیم سے کہا۔

’’اب اس طرف کا رخ کبھی نہ کرنا۔‘‘

’’پانچ دن اور پھائے بدلنے پڑیں گے اور سالے تو بہت احتیاط کرنا، ذرا بھی گڑبڑ ہو گئی تو اس کی زندگی برباد ہو جائے گی تیرا جیسا ہو جائے گا۔‘‘

نندن رحیم کو ماں کی گالی دے کر اندر جانے لگا تو درگا باہر نکل آئی اور رحیم سے مدد لینے کے لئے اس نے رحیم کو بتا دیا کہ گلابو کا دودھ خشک ہو گیا ہے، بچہ کے لئے جلد سے جلد کوئی انتظام ہو سکے تو کر دے۔

نندن کا سارا غصہ درگا پر پھٹ پڑا لیکن رحیم وعدہ کر کے بھاگ گیا۔

یا تو جو بکری نندن لایا تھا اس کے دودھ میں کچھ خرابی تھی یا بچہ کو جیا کے دودھ کا مزہ لگا تھا۔ پتہ نہیں کیا بات تھی، لیکن ساری کوششوں اور ترکیبوں کے باوجود اس نے بکری کے دودھ کا ایک قطرہ بھی حلق کے نیچے نہیں اتارا تھا۔ منہ میں جاتے ہی باہر تھوک دیتا تھا۔ سب پریشان تھے کہ اتنے میں رحیم جیا کو لے کر پہنچ گیا۔

رحیم ہندوؤں کو ہندو ہی سمجھتا تھا، اس کو یہ نہیں معلوم تھا کہ ہندوؤں میں ایک طبقہ ایسے ہندوؤں کا بھی ہے جو ہندو نہیں ہوتا۔ جیا اچھوت تھی، نندن اور درگا دونوں نے اس کا دودھ بچہ کو پلوانے سے انکار کر دیا تھا۔

بچہ جئے یا مرے اس سے رحیم کو کوئی لینا دینا نہیں ہے، وہ لوگ جو مناسب سمجھیں گے بندوبست کریں گے۔ رحیم کے دل میں آیا کہ وہ صاف صاف کہہ دے کہ بچہ نے جیا کا دودھ کئی بار پیا ہے۔ مگر اسلام کی ہتک کے خیال سے وہ چپ رہ گیا۔ لیکن جیا ان کو گالیاں دیتی ہوئی واپس آ گئی۔

نندن کو پتہ تھا کہ امریکن کرسچین مشن سے گاؤں کے پادری کے پاس دودھ کا پاؤڈر آتا ہے جو پانی میں گھول دینے سے بالکل عورت کے دودھ کا مزہ دیتا ہے۔ لیکن اپنی صفات میں عورت کے دودھ سے زیادہ مقوی ہوتا ہے۔۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ جولی اور رابرٹ بچہ کو یہی دودھ پلاتے تھے، لیکن اس کی ہندو آن بان نے یہ گوارا نہ کیا کہ اپنے دھرم کے بچے کو پالنے کے لئے رابرٹ اور جولی کے آگے ہاتھ پھیلائے، اس کی ضرورت بھی کیا تھی؟ گاؤں کے پادری کا گھر گرجے کے ہی ایک حصہ میں تھا، جہاں دودھ کے ڈبے تھے۔۔ ان کا مار لینا کام ہی کون سا مشکل تھا۔

رات کے ساڑھے گیارہ بجے وہ گرجے کی طرف چل کھڑا ہوا، رستہ میں اس کو ایک چھوٹی بطخ کا بچہ ملا جو پھٹ ہو کر کھو گیا تھا۔ اس سے نندن کا کام اور بھی آسان ہو گیا۔ اس نے بچہ کو دبوچ لیا اور گرجے کے پاس پہنچ کر پہلے بچے کو دیوار پر سے نیچے گرجے کے اندر پھینک دیا۔ بچہ نے زور زور سے ’’قیں قیں‘‘ کی اور نندو ذرا دبک گیا کہ اگر بوڑھا پادری اٹھ گیا تو کہہ دے گا کہ وہ اپنا بطخ کا بچہ لینے آیا ہے۔ لیکن پادری یا تو تھا ہی نہیں یا اس کی آنکھ نہ کھلی۔ نندن گرجے کا دروازہ کھول کر اندر پہنچ گیا۔ یہ ایک ٹیلا تھا، جس کو ایک نیچی سی کچی پکی دیوار سے گھیر کر گرجا بنا لیا تھا۔ میدان کے ایک کونے میں ایک چھوٹا سا سجا ہوا ٹیلا اور تھا جس پر پھول لگے تھے۔ اور اس کے ایک طاق میں اوپر کی طرف مریم ماں اپنے بچہ کو پیار سے دیکھ رہی تھی۔ چاند کی روشنی میں وہ مجسمہ بہت خوبصورت لگ رہا تھا نظر پڑتے ہی نندن نے ادب سے اس کو پرنام کر لیا۔ جیسے وہ کوئی اس کی اپنی دیوی ہو اور پھر خود اپنے عمل پر شرمندہ بھی ہوا۔ کیوں کہ اسے یاد آ گیا کہ یہ اس کی دیوی نہیں رابرٹ کی کوئی ہوتی ہے!

چاروں طرف نظر دوڑا کر وہ گرجے سے ملے ہوئے پادری کے گھر کے دروازے کی طرف چلا کہ اچانک اس کو مریم کی آواز آئی:

’’بچہ، تجھ کو کیا چاہئے؟‘‘

نندن کے پاؤں جیسے پتھر کے ہو گئے۔ دل دھڑکنے لگا اور چہرہ سے پسینہ پھوٹ نکلا۔ اس نے چاروں طرف نظر دوڑائی مگر مریم کے مجسمہ کے علاوہ اس کو کچھ نظر نہ آیا۔ نندن سمجھا کہ اس کو دھوکا ہوا ہے۔ یہ آواز اس کا وہم ہے۔ وہ پھر سے مڑا ہی تھا کہ مریم کی دوسری آواز آئی:

میرے پاس آؤ بیٹا! تجھے کیا دکھ ہے؟’’

نندن سر پر پاؤں رکھ کر گرجے سے بھاگا اور دور برگد کے پاس آ کر دم لیا، وہاں سے اس نے مڑ کر گرجے کی طرف دیکھا، گرجے کی دیوار کے اوپر سے مریم کا مجسمہ نندن کو برگد کے پاس سے بھی نظر آ رہا تھا۔۔ اس کی عقل چکرا گئی۔

چمتکار صرف اس کی دیوی دیوتا ہی دکھا سکتے ہیں۔ کیوں کہ وہ سچے ہیں حقیقی ہیں، لیکن یہ بھی چمتکار تھا۔ اس کی آنکھوں دیکھا چمتکار۔ مریم نے اس سے بات کی تھی یہ اس کا پکا یقین تھا۔ اس کو یہ شک بھی نہیں ہوا کہ مریم کے مجسمہ کے پاس لگے ہوئے درخت کے سائے میں بوڑھا پادری عبادت کر رہا تھا۔ جو کوشش کے باوجود بھی نندن کو نظر نہیں آیا۔ اور جو نندن کو اس طرح گرجے میں آتے ہوئے دیکھ کر اپنے پاس بلا رہا تھا۔

نندن نے برگد کے پاس سے ایک بار پھر مریم کے مجسمہ کو پرنام کیا اور دل ہی دل میں معافی مانگی کہ وہ بچہ کے لئے دودھ لینے آیا تھا، کوئی ایسی خاص چوری کی نیت اور ارادہ نہیں تھا۔

نندن گھر پہنچا تو اس کو ایک دھچکا اور لگا۔ رابرٹ اور جولی بچے کے لئے دودھ بنا رہے تھے اور گلابو اس کو شیشی سے پلا رہی تھی، نندن کو لگا جیسے مریم نے اس کے پہنچنے سے پہلے اس کی دعا قبول کر لی اور اس بچہ کا پیٹ بھر دیا، حالانکہ رابرٹ اور جولی کو رحیم نے خبر کی تھی۔

قاعدے سے رابرٹ اور جولی کو چاہئے تھا کہ دودھ کا پورا ڈبہ جواب ان کے لئے بے کار تھا گلابو کو دے جاتے۔ مگر رابرٹ نے ایسا نہیں کیا، یہ وعدہ ضرور کیا کہ وہ دونوں وقت دودھ بنا کر بچہ کو پلانے آیا کرے گا۔ نندن رابرٹ کی اس حرمزدگی کو سمجھ گیا کہ وہ دودھ کے بہانے بچہ پر اب بھی حق لگائے رکھنا چاہتا ہے۔ جیسے رحیم مرہم اور پھائے کے بہانے رشتہ قائم رکھنا چاہتا ہے، لیکن اس وقت اس کا جھگڑے کا خود موڈ نہیں تھا، اس کے دل و دماغ کی تہوں میں یہ مسئلہ گھوم رہا تھا کہ کیا مریم بھی کوئی سچی دیوی ہے جس کا ہندوؤں کو بھول کر اب تک پتہ نہیں چلا ہے؟

گلابو نے نندن کی شرافت، بہادری اور کردار کی بلندی کے سہارے اپنا مذہب بھلا دیا تھا اس نے ایک شرافت کی زندگی کو ہی اپنا مذہب بنا لیا تھا، لیکن اس کا وجود نندن اور درگا کے مذہبی رہن سہن اور رسم و رواج کو ہر لمحہ مجروح کر رہا تھا، اس نے بہانہ کیا کہ اس کو کھانا پکانا نہیں آتا۔ درگا کی پھٹکاریں اور گالیاں بھی سنیں، اس کے بدلے اس نے کھیت کا کام کاج شروع کیا، گھر سنبھالتی اور رات رات بھر درگا کے پاؤں دباتی تھی، اپنی انتھک محنت مشقت اور خدمت سے اس نے بڑھیا کو رام کر لیا تھا، پھر بھی ہر نیا لمحہ گلابو کے لئے خطرناک سے خطرناک تر ہوتا جا رہا تھا۔

بڑھیا زندگی بھر کی تنہائی سے اس قدر گھبرائی ہوئی تھی کہ ان لوگوں کے آنے سے اس کو ایک کنبہ مل گیا۔ اپنے دل میں وہ گلابو کی کہانی کو جھوٹ سمجھتی تھی۔ اس کا یقین تھا کہ بچہ گلابو کا ہے اور نندن سے ہے۔ پھر بھی یہ بات زبان پر نہ لاتی تھی، لیکن اس نے اس بات پر زور دیا کہ اس طرح گلابو کا نندن کے ساتھ رہنے اور کھیت پر کام کرنے میں دونوں کی بدنامی ہو گی اس لئے دونوں کو وواہ کر لینا چاہئے۔

نندن کو گلابو جی سے بھا گئی تھی وہ خود یہی چاہتا تھا مگر منہ سے کہہ نہیں سکتا تھا۔ گلابو کی بے پناہ خوبصورتی کی وجہ سے وہ گلابو کو اپنے سے بہت بلند اور برتر انسان سمجھتا تھا۔ درگا کے بات چھیڑتے ہی وہ راضی ہو گیا۔ گلابو منہ سے کچھ کہہ نہ سکی۔ لیکن اتنا بڑا دھوکہ اپنے محسن کو دے بھی تو کیسے؟ درگا نے بیاہ کا دن تاریخ بھی نکلوائی۔ کنڈلیاں بھی مل گئیں۔ کنڈلی ملنے پر گلابو کا خیال حیدرآباد کے دھندلکے میں بھٹکنے لگا۔ کہ ممکن ہے اس کے ماں باپ ہندو ہوں ورنہ اول تو اس کی کنڈلی نکلتی کیسے اور پھر نندن کی کنڈلی سے ملتی کس طرح؟ سب کو خبر ہو گئی، جوں جوں دن نزدیک آتے جاتے تھے گلابو کی کشمکش بڑھتی جاتی تھی۔ وہ بالکل تنہا تھی اپنے دل کا راز کسی سے کہہ بھی نہیں سکتی تھی۔

درگا کے سینے میں جذبات بھرا دل تھا۔ دل میں پیار کا طوفان بھی اٹھا تھا جس کو پیار کرتی تھی اس کی دلہن بننے کے لئے وہ اپنا سب کچھ تج کر بھاگی تھی لیکن وہ دن اس کو نصیب نہ ہوا تھا، وہ آج تک کنواری تھی، گلابو کے بیاہ پر اس کو ایسا لگا جیسے وہ خود دلہن بن رہی ہے، اس لئے وہ اپنے سارے ارمان ایک ایک کر کے گلابو کی معرفت پورے کر رہی تھی، یہ ارمان بھرے رسوم گلابو کی زندگی کو اور بھی جہنم بنا رہے تھے۔

درگا تیل چڑھانے کی رسم کی تیاری کرنے لگی، اس نے جھونپڑے کے باہر چوک پوتا، امرود کے پتوں کا منڈوا بھی تیار کر لیا۔ جب گلابو کے کپڑے بھی ہلدی میں رنگ دئے تو گلابو کی ہمت ٹوٹ گئی، وہ گھر سے بھاگ گئی۔

گلابو کو نہیں معلوم تھا کہ وہ کہاں جا رہی ہے اور اس کا سفر کہاں ختم ہو گا؟ وہ بس بھاگے چلی جا رہی تھی۔ نندن اور درگا کو بھیانک پاپ سے بچانے کے لئے۔

جب وہ تالاب کے کنارے سے گزری تو جیا کی نظر اس پر پڑی جیا کو گلابو کے بیاہ کی خبر تھی اور یہ بھی معلوم تھا کہ درگا تیل بھی چڑھانے والی ہے۔ اس طرح گلابو کو بھاگتے دیکھ کر وہ سمجھ گئی کہ کچھ گڑبڑ ہے، اس نے دوڑ کر گلابو کو پکڑ لیا۔ گلابو اس سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ جیا اس کو اپنے گھر لے آئی۔

جیا جاہل تھی، اجڈ تھی، مگر عورت تھی۔ اس کو سب سے پہلے یہ خبر رحیم کو دینا چاہئے تھی، مگراس نے ایسا نہیں کیا۔ وہ سیدھی نندن کے پاس پہنچی نندن سے بھی اس نے کچھ اور بات نہیں کی صرف یہی کہا کہ اس کو گلابو کا پتہ معلوم ہے وہ اس کے ساتھ چلے۔

گلابو کے بھاگنے سے نندن کا کلیجہ بیٹھ گیا تھا۔ وہ گلابو کو بے پناہ پیار کرتا تھا، گلابو کی مہک اب بھی اس کے سارے وجود کو مقید کئے ہوئے تھی وہ اس کو دیوی کے سمان سمجھتا تھا۔ جب گلابو بھاگ گئی تو اس کے بھولے دل نے یہی سمجھا کہ وہ خود اجڈ ہے، گنوار ہے، موالی ہے، بدمعاش ہے، ڈاکو ہے، گلابو اس کو پیار نہیں کرتی تھی، بس اس کے آسرے کے لئے اس کے پاس پڑی تھی۔ وہ بچہ کو گود میں اٹھا کر جیا کے ساتھ ہو لیا۔

جیا کے گھر پہونچ کر نندن کے آنسو بھر آئے، وہ جیا کے جھونپڑے کے اندر نہیں گیا۔ دروازے کے پاس بیٹھ کر اس نے گلابو سے ڈبڈبائی آواز میں کہا۔

‘‘ گلابو تو میرے لئے دیوی سمان ہے۔ میں تیری پوجا کرتا ہوں، مجھ کو معلوم ہے کہ میں تیرے لائق نہیں ہوں۔ میرا تیرا کوئی جوڑ نہیں ہے۔ میں ایک غنڈہ بدمعاش ڈاکو ہوں۔ تو مجھے معاف کر دے اور گھر چل۔ میں تجھ کو ہاتھ بھی نہیں لگاؤں گا۔ قسم ہے اس بچہ کی، تو اسی طرح میرے ساتھ رہ، جب تجھ کو کسی اپنے جوڑ کے آدمی سے پیار ہو جائے گا تو میں تیرا بیاہ اس کے ساتھ کر دوں گا۔ میں تیرے چرنوں کی سوگندھ کھاتا ہوں۔‘‘

گلابو کے آنسو بہہ رہے تھے، اب وہ ضبط نہ کر سکی، تڑپ کر نندن کے پیروں سے لپٹ کر رونے لگی۔

’’مجھے معاف کر دے نندو میں تیرے لائق نہیں ہوں، میں گنہ گار ہوں، میں تجھ سے پیار کرتی ہوں، میں تیرا دھرم نشٹ نہیں کر سکتی میں تجھ کو دھوکا نہیں دے سکتی۔ میں مسلمان ہوں۔‘‘

گاؤں کے تالاب کے اتر کی طرف کچی مٹی کی ایک پہاڑی تھی۔ جس پر سینکڑوں گھنے درخت اگے ہوئے تھے اور ایک چھوٹا سا اندھیرا جنگل تھا۔ بیالیس سال سے اس جگہ کی ملکیت کا مقدمہ تین آدمیوں میں چل رہا تھا، اس وجہ سے کوئی اس کی دیکھ بھال بھی نہیں کرتا تھا۔ یہ بھی مشہور ہو گیا تھا کہ اس میں بھوت رہتے ہیں، اس وجہ سے عموماً لوگ ادھر جاتے بھی نہیں تھے۔ نندن، رحیم اور رابرٹ کا یہی مسکن تھا۔ جب بھی وہ لوٹ مار کر کے غائب ہوتے یا کسی بارات کا کھانا اڑا کر گل ہوتے تھے تو اسی جنگل میں گھس جاتے تھے۔ بارش نے جنگل کی کچی زمین میں بہت سارے بڑے بڑے غار بنا دئے تھے جو ان تینوں کے گھر کا کام دیتے تھے۔

جب نندن کا چار سو بیسی کا بھانڈا پھوٹا تو بچے پر پھر سے سب کا حق لگ گیا اور یہی طے ہوا کہ بچہ کو ایسی جگہ رکھنا چاہئے جہاں تینوں اس کی سرپرستی کر سکیں اور وہ جگہ یہی جنگل تھی۔

غار میں ایک طرف کی مٹی کو ہموار کر کے نندن نے ایک چوکی لگا دی تھی جس پر دیوی کی مورتی استھاپت کر دی تھی۔ سامنے دیا تھا اور اوپر درخت کی ٹہنی سے کئی گھنٹیاں ڈوری میں باندھ کر اس طرح لٹکا دی تھیں کہ وہ مورتی کے سامنے بہت خوبصورتی سے جھولنے لگیں۔

اس کے سامنے غار کی کچی دیوار کھود کر رحیم نے ایک طاق بنایا اور دیوار کو کھرچ کھرچ کر اس طرح کاٹا تھا کہ ایک محرابی دروازہ بن گیا تھا۔ جس کے آگے مٹی کے ڈھیلے جمع کر کے رحل پر ایک قرآن شریف رکھ دیا تھا۔ اس کے آگے ایک اتنی بڑی چٹائی بچھا دی تھی جس پر تین چار آدمی آرام سے سو سکتے تھے۔ طاق کے ادھر ادھر دو تین پرانے اسلامی کیلنڈر لٹک رہے تھے، جن پر اللہ، محمد، علی موٹے موٹے حرفوں میں چھپا ہوا تھا۔ ایک پر خانہ کعبہ کی تصویر تھی لیکن نیچے دادر جوتوں کی تعریف لکھی تھی کہ وہ دنیا کے بہترین جوتے ہیں، ان کا پہننا عالم اسلام پر فرض ہے۔

غار کے تیسری طرف رابرٹ کا گرجا تھا، جو سب سے زیادہ خوبصورت تھا کیونکہ اس کو یسوع مسیح کا بت، مریم کا مجسمہ، صلیب اور انجیل سب ہی چیزیں مشن والوں نے مفت دی تھیں، جب کہ نندن اور رحیم کو اپنی جیب سے پیسے بھرنے پڑے تھے۔

گلابو سے نندن کا رشتہ ٹوٹ چکا تھا وہ نہیں چاہتا تھا کہ گلابو اس جنگل میں رہے، بات چیت بھی بند تھی، نندن کو گلابو پر بے پناہ غصہ تھا، وہ گلابو کی صورت بھی دیکھنا نہیں چاہتا تھا۔ در اصل وہ اپنی کیفیات کو سمجھ نہیں رہا تھا۔ اس کا غصہ گلابو پر نہیں تھا، خود اپنے مذہب کی ان زنجیروں پر تھا، جو زنجیریں انسانی رشتوں کو جکڑ بند کر کے انسان کو علیحدہ علیحدہ کوٹھریوں میں مقید کر دیتی ہیں۔

اس غصہ کی ایک وجہ اور بھی تھی، یہ معلوم ہوتے ہی گلابو مسلمان ہے۔ رحیم کا گلابو سے ایک اللہ واسطے کا رشتہ پیدا ہو گیا تھا جیسے وہ برسہا برس سے ایک دوسرے کو جانتے پہچانتے ہوں۔ گلابو کو اس غار میں رحیم لے آیا تھا۔ اسی نے اس کو یہاں رکھا تھا، اب گلابو کی ساری ذمہ داری رحیم کی تھی جیسے وہ رحیم کی ہی ملکیت تھی۔ جو نندن کے پاس صرف امانت کے طور رکھی تھی۔ یہاں بھی نندن کی بھولی بھالی سمجھ اس کا ساتھ نہیں دے رہی تھی، در اصل گلابو نے یہاں رہنا رحیم کی وجہ سے منظور نہیں کیا تھا۔ وہ یہاں صرف نندن کے لئے ہی پڑی تھی۔

جیا کو بھی رحیم اور گلابو کی یہ نئی رشتہ داری ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔ برسہا برس کی پیاس بجھانے کے لئے جب جیا کو ایک کلہڑ پانی نصیب ہوا تو گلابو نے اس کے مونہہ میں لگنے سے پہلے کلہڑ پھوڑ ڈالا اور وہ پیاسی کی پیاسی رہ گئی۔

وہ صفائی کرنے کے لئے اس جنگل میں آتی تھی، صفائی تو خیر بہانہ تھی وہ رحیم کو یہ احساس دلانے آتی تھی کہ کیوں راجہ میاں! اب ہم کچھ نہیں رہے تمہارے؟

اور وہ واقعی کچھ نہیں رہی تھی۔ بچہ یہاں آ کر اس سے چھن گیا تھا۔ وہ اچھوت تھی، نندن کا حکم تھا کہ وہ بچہ کو ہاتھ بھی نہیں لگا سکتی۔ اور کیونکہ جیا کی ذات ہندوؤں کے کھاتے میں درج تھی۔ اس لئے نندن کا حکم جیا پر پوری طرح لاگو ہوتا تھا۔ جس طرح گلابو پر رحیم کا حکم چلتا تھا۔ لیکن بچہ سب سے زیادہ جیا سے ہی ہلا ہوا تھا اب وہ گھٹنیوں چلنے بھی لگا تھا۔ اور ٹوٹے پھوٹے لفظ بھی بولنے لگا تھا۔

اس کے اتنے جلدی بولنے میں نندن، رحیم اور رابرٹ کی انتھک محنت کا بڑا ہاتھ تھا۔ وہ تینوں جب بھی بچہ سے کھیلتے تھے اس کو اپنے اپنے مذاہب کے الفاظ بلوانے کی مجنونانہ کوشش میں لگے رہتے تھے۔ بچہ رام کو ’’آم‘‘ صاف صاف بولتا تھا۔ دوسرا لفظ ذرا بحث طلب تھا، وہ ’’لالا‘‘ کہتا تھا۔ رحیم کا دعویٰ تھا کہ وہ ’’اللہ، اللہ‘‘ کہتا ہے، رابرٹ کہتا کہ وہ ’’لارڈ لارڈ‘‘ کہتا ہے۔

فیصلہ نندن پر چھوڑا گیا کہ وہ بچہ کی ’’لالا‘‘ غور سے سن کر اپنا بے لاگ فیصلہ دے کہ وہ ’’لالا‘‘ ، ’’اللہ، اللہ‘‘ ہے یا ’’لارڈ لارڈ‘‘ ؟

کیونکہ بچہ کے آم آم پر کوئی جھگڑا نہیں اٹھایا گیا تھا اور رابرٹ اور رحیم دونوں نے مان لیا تھا کہ وہ رام رام ہی ہے۔ اس وجہ سے دونوں کو یقین تھا رام بالکل غیر جانبدارانہ فیصلہ دے گا۔

نندن نے تین چار دن بہت غور سے بچہ کی لالا کو سن کر اپنا فیصلہ دیا کہ بچہ نہ اللہ اللہ کہتا ہے، نہ لارڈ لارڈ وہ صرف لٹو مانگتا ہے۔ نندن ان دونوں کے دل جلانے کے لئے ایک لٹو بھی لے آیا تھا، اور اس کو بچہ کے سامنے نچا نچا کر لالا کرتا رہتا تھا۔ لیکن بچہ کا سب سے چہیتا لفظ ’’آ‘‘ تھا جو جیا کا مخفف تھا، جیا کو دیکھتے ہی وہ کھل اٹھتا تھا اور ہمک ہمک کر اس کی طرف لپکتا تھا لیکن جیا، نندن کی موجودگی میں اس کو ہاتھ نہیں لگا سکتی تھی۔ بچہ جب اس کی طرف بھاگتا تو وہ بچہ سے بھاگتی تھی، یہ کھیل کبھی کبھی بچہ کے لئے دل شکن بھی ہو جاتا تھا جب بچہ تھک کر رونے لگتا تھا اور جیا بھاگ کر کہیں کونے میں اپنے ’’آنسو‘‘ پینے کے لئے چھپ جاتی تھی۔

جیا کی ذات کی بہت سی عورتیں مرد اپنا دھرم چھوڑ کر بدھ مت میں چلے گئے تھے، جیا بھی جانے والی تھی، اس میں جانے سے اس کی نیچتا ختم ہو سکتی تھی، چھوت چھات کے تمام بند ٹوٹ جاتے، لیکن پتہ نہیں کیوں اس نے ساری ذلالتوں کے باوجود اپنا دھرم چھوڑا نہیں، کونے میں چھپی آنسو پیتے پیتے وہ سوچتی تھی۔

یہ نیچتا کبھی ختم نہیں ہو سکتی۔ یہاں تین تین بھگوان براجمان ہیں، انہوں نے کیا کر لیا؟ نندن جو اس (جیا) کو اچھوت سمجھتا ہے، رحیم اور رابرٹ کے لئے خود ایک اچھوت ہے۔ رحیم کو نندن نیچ اور اچھوت سمجھتا ہے۔ آنکھوں میں آنسو پی کر وہ تینوں خداؤں کی طرف دیکھنے لگی جو تینوں مل کر بھی اس کو ایک معصوم بچہ کو پیار کرنے کا حق نہ دے سکے تھے۔ بدھ مت کے ایک اور چوتھے کو مان کر اس کے بھاگیہ کا لکھا کیسے بدل جاتا؟

اس کو محسوس ہونے لگا جیسے یہ سب خدا گڈے گڑیاں ہیں جن سے انسان کا بچپن کھیل رہا ہے۔

رابرٹ اور جولی نے اپنے مشن کے پاؤڈر کے دودھ کا ترپ کا اکا اپنے ہاتھ میں ہی رکھا، جولی بچہ کے لئے طرح طرح کے کپڑے اور کھلونے لے کر آتی تھی اور اس کے سارے کھلونے کسی نہ کسی زاویہ سے عیسائی مذہب کی تبلیغ کرتے تھے۔

ہر کھلونے پر کراس ضرور بنا ہوتا تھا، بچہ کھلونے ادھر ادھر پھینکتا رہتا تھا۔ مثلاً ایک دن نندن کو دیوی کی مورتی کے ہاتھ میں صلیبی نشان ملا جو بچہ نے ہی کھیل کھیل میں رکھ دیا تھا۔

یہ تینوں اب دن بھر تو بچے کے پاس رہتے نہیں تھے۔ ان کے زندگی کے نقشے بدل گئے تھے، اس ڈر سے کہیں ان کے مجرمانہ کام ان کو جیل میں پہونچا کر بچہ سے جدا نہ کر دیں، وہ اب کام کرنے لگے تھے۔ نندن نے درگا کی کھیتی لہلہا دی تھی۔ رحیٰم اب شان اسلام اللہ رکھا قوال کی باقاعدہ جگہ لے چکا تھا اور لنگر بابا کے مزار پر اس کی قوالیوں کی دھوم تھی۔ رابرٹ نے اپنے بہنوئی کا کام سنبھال لیا تھا۔ غرض تینوں باقاعدہ اتنے شریف بن چکے تھے کہ رحیم کو نماز تک یاد ہو گئی تھی۔

لیکن شرافت ایک الگ چیز ہے، مذہب الگ۔ اس لئے جب نندن نے اپنی پوتر دیوی کے ہاتھ میں صلیبی نشان دیکھا تو وہ آگ بگولا ہو گیا، اس کو یقین تھا کہ یہ ہو نہ ہو رابرٹ کی شرارت ہے۔



اسی طرح جب رحیم نماز کے لئے کھڑا ہوتا تھا اور بچہ کو اپنے ساتھ جاء نماز پر بٹھاتا تھا تو اس کی نماز شروع ہوتے ہی بچہ جا کر نندن کے مندر کی گھنٹیوں سے کھیل کھیل کر ان کو بجاتا تھا۔ رحیم نماز پڑھ بھی نہیں سکتا تھا اور توڑ بھی نہیں سکتا تھا۔ لیکن بعد کو پوری تحقیقات کرنے پر اس کا دل اسے یہی یقین دلاتا تھا کہ یہ نندن کی شرارت ہے جس نے بچہ کو بہلا پھسلا کر گھنٹیاں بجانے کی ترغیب دی ہو گی۔

بچہ سے رابرٹ کچھ بھی کہلوانے کی کوشش کرے لیکن بچہ اس وقت ’’آم، آم‘‘ کی ہی رٹ لگاتا تھا۔

حیات انسانی کے دھارے فرسودہ، کرم خوردہ اور مصنوعی سماجی جکڑ بندیوں کو توڑ کر ایک نئی منزل کی طرف لئے جا رہے تھے۔ نندن کو گلابو سے ٹکرایا، جیا کو رحیم کے دامن میں پناہ دی، امام صاحب سے بچہ کی سرپرستی کے لئے انکار کروایا، جیا کے دودھ سے اس کی پرورش کی۔ بچہ میں مجسم رواں رواں ہو کر عیسیٰ کے آگے رام اور اللہ تسبیح کروائی۔ دیوی کے بانہوں میں صلیب دی، نندن سے مریم کو پرنام کروایا۔ اور یہ مسافر اس بھنور میں ڈوبتے ابھرتے ہاتھ پیر مار رہے تھے۔ ساحل ان کو نظر نہیں آ رہا تھا، مگر وہ ساحل کی طرف بڑھ رہے تھے۔

کچھ ہی دنوں میں یہ بات صاف ہونے لگی کہ زندگی اس طرح نہیں چل سکتی۔ جب ایک میان میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں تو ایک جگہ تین خدا کیسے رہ سکتے تھے۔ ان لوگوں کے تفرقے بڑھتے گئے، ہر جھگڑا بچہ کی فلاح و بہبود کے لئے ہوتا تھا تینوں کو اسی بچہ کی بقا اور فلاح مقصود تھی اور اسی جنگ میں بچہ کا حلیہ بگڑا جا رہا تھا۔

جب رابرٹ نے اس کا بیپٹزم کروایا تو بھی قیامت برپا ہوئی۔

رحیم جب عید پر اس کو اسلامی کپڑے پہنا کر اور نئی ترکی ٹوپی لگوا کر عید گاہ لے گیا تو بھی جان پر کھیل کر لے گیا۔ جب نندو نے اس کا مونڈن کروا کے اس کو ٹھنڈے پانی سے اشنان کروایا، تو بھی مہا بھارت ٹھن گئی تھی، اس پر غضب یہ ہو گیا کہ سردی سے بچہ کو بخار ہو گیا۔

تینوں کے دل تڑپ اٹھے، نندن وید کو لے آیا، رحیم حکیم کو اور رابرٹ مشن کے ڈاکٹر کو، ڈاکٹر وید اور حکیم کی دواؤں سے متفق نہیں، وید اور حکیم ڈاکٹر کے انجکشنوں کے سخت خلاف، بچہ کو کیا دوا دی جائے جس سے بچہ اچھا ہو جائے۔ بخار بڑھتا گیا۔ رحیم موقع ملتے ہی اس کو حکیم کا چورن چٹا دیتا اور رابرٹ ڈاکٹر کا مسکچر، بخار کی تیزی سے بچہ کا رنگ سرخ ہو گیا۔ اس نے دودھ پینا بھی بند کر دیا، جب ذرا ہوش سے افاقہ ہوتا تھا، آ آ کی رٹ لگاتا تھا، نندن اسے طرح طرح سے بہلاتا تھا کہ کہ جیا اس کے پاس نہ آنے پائے۔ گلابو رات دن جاگ جاگ کر بچہ کے پاس بیٹھی رہتی تھی۔ نہ اس کو کھانے کا ہوش تھا نہ پینے کا۔

جیا پر ایک بپتا جو چار پانچ بار ٹوٹ چکی تھی آخری بار بھی ٹوٹی۔ پتہ نہیں اس کو اس کے کس پاپ کی سزا مل رہی تھی کہ اس کا کوئی بچہ جیتا ہی نہیں تھا۔ کئی ہوئے اور سب مر گئے، اسی لئے اس نے اپنے اس بچہ کی ناک کان چھید کر اس کا نام منتھنی رکھا تھا۔ شہری اسپتال کے ڈاکٹر کہتے تھے کہ اس کے مرد میں کچھ پیدائشی خرابی تھی جس کی وجہ سے اس کے بچوں کو ایک خاص عمر میں ایک خاص مرض ہو جاتا تھا اور وہ مر جاتے تھے۔ منتھنی کو بھی کئی روز سے اسی مرض نے پکڑا تھا، جیا کا دل سہم اٹھا کہ اس کی بھی رخصتی کا وقت ہے، اور وہی ہوا۔ بہت جھاڑ پھونک کروائی، مشن کے ڈاکٹر کی پڑیاں بھی کھلائیں لیکن منتھنی نہ بچا۔

اب جیا اس دنیا میں تنہا رہ گئی اس کا جذبہ مادری اس بچہ پر پھٹ پڑا، وہ بچہ جو اس کی کوکھ کا نہیں تھا، شاید نہیں مرے گا، جیا گلابو سے اس بچہ کی بیماری کی خبر سن کر تڑپ اٹھی۔

بچہ نے دودھ نہیں پیا تھا، وہ کئی دن کا بھوکا تھا، اس کو ہوش بھی نہیں تھا، جیا آئی تو جیسے اس کی مہک سے وہ کلبلا اٹھا اور ’’آ، آ‘‘ کرنے لگا، جیا دیوانہ وار اس کی طرف دوڑ پڑی، لیکن نندن بیچ میں آ گیا، اور اس نے جیا کو گالی دے کر روک دیا۔

گلابو اور رابرٹ کی خوشامد کرنے پر بھی جب نندن کا دل نہ پسیجا تو رحیم نے نندن سے کہہ دیا کہ بچہ نے جیا کا دودھ بہت بار پیا ہے، اور وہ شاید وہی دودھ مانگ رہا ہے، لیکن نندن اڑا رہا۔ اس پر رحیم اور رابرٹ دونوں بپھر گئے ان دونوں کا دل کہہ رہا تھا کہ بچہ شاید جیا کا دودھ پی کر جی جائے۔ ورنہ فاقہ سے مر جائے گا۔ لیکن نندن جان کی بازی لگائے تھا، رحیم اور رابرٹ اس کو دبوچ کر جیا سے دودھ پلوانا چاہتے تھے۔ ایک طرف دو شیر تھے ایک طرف ایک، مگر نندن نے جسارت کا حق ادا کر دیا، وہ دونوں کا مقابلہ کرتا رہا، جیا کی ممتا سے صبر نہ ہو سکا۔ وہ بچہ کو دبوچ کر بھاگ نکلی۔

نندن اس کے پیچھے بھاگا، رابرٹ اور رحیم نے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر جیسے نندن میں از خود غیبی طاقت آ گئی تھی۔ اس نے چیخنا شروع کر دیا۔

’’تم مجھ کو بچہ کا دشمن سمجھتے ہو، میں دشمن نہیں ہوں، میں اس کے لئے اپنی جان دے سکتا ہوں اور دیدوں گا، مگر جیا کا دودھ نہیں پینے دوں گا، اس لئے نہیں کہ وہ اچھوت ہے نیچ ہے بلکہ اس کے اس کی کوئی روگ ہے، اس کا کوئی بچہ جی نہیں سکتا۔ یہ بھی مر جائے گا، وہ بیمار ہی اس لئے ہوا ہے کہ اس نے جیا کا دودھ پیا ہے۔‘‘

نندن کے اس جذباتی سیلاب میں رحیم اور رابرٹ کا عزم بہہ گیا۔ جو خوف نندن کو گھیرے تھا اس نے ان دونوں کے دل میں بھی جگہ کر لی۔

نندن جیا کے پیچھے بھاگا۔

جولی یہ ہنگامہ دیکھ کر دہشت زدہ ہو گئی، اس کے دماغ میں اس کے سوا کوئی حل نہ آیا کہ پولیس میں خبر دے کر بچہ کو ان کے حوالے کر دے۔

چوکی کا انچارج سردار گوربچن سنگھ موقع کی نزاکت کو سمجھ گیا اور فوراً سپاہی لے کر ان تینوں کے اڈے پر پہنچ گیا۔ وہاں کسی کا پتہ نہیں تھا، ایک ہی جگہ پر خدا، بھگوان، اور لارڈ کا سنگم دیکھ کر مسکرا دیا اور بڑے احترام سے نکل کر ان تینوں کی فکر میں چل پڑا۔

جیا بیمار بچے کو لے کر زیادہ بھاگ نہیں سکتی تھی۔ وہ وہیں جوار کے کھیتوں میں دبک کر بیٹھ گئی، نندن وہیں اس کے پاس ہی اس کو تلاش کر رہا تھا، بچہ نے رونا شروع کیا تو وہ سہم گئی کہ اس کی آواز نندن کے کان میں نہ پہنچ جائے، اس نے بچہ کو زور سے سینے سے چمٹا لیا۔

رابرٹ، رحیم اور نندن ادھر ادھر جیا کو تلاش کر کے ذرا دور گئے تو جیا نے وہاں سے نکل کر جانا چاہا مگر بچہ کو دیکھا تو وہ گردن ایک طرف لڑھکا چکا تھا، جیا کو لگا اس کا دم گھٹ گیا ہے۔ وہ دیوانوں کی طرح چیخنے لگی، تینوں اس کی آواز سن کر اس کے پاس بھاگتے ہوئے آ گئے اور تینوں نے جیا کو مارنا شروع کیا اگر فوراً سردار گوربچن سنگھ نہ آ جاتے تو جیا زندہ بچ نہیں سکتی تھی۔

سردار گوربچن سنگھ نے بچہ کو مشن کے اسپتال میں پہونچا دیا، بچہ کو خناک ہو گیا تھا جس کی وجہ سے اس کا حلق بند ہو گیا تھا، ویسے بچنے کی امید تو اب بھی نہیں تھی لیکن اگر ایک لمحہ کی دیر بھی اور ہو جاتی تو وہ ختم ہو چکا تھا۔

اسپتال کے کھپریل کے برآمدے میں نندن، رحیم اور رابرٹ زار و قطار رو رہے تھے، اندر رام محمد ڈیسوزا کا گلا کاٹ کر اس کا آپریشن ہو رہا تھا۔

’’وہی بچہ ہے، تم اس کو رام کہتے ہو، تم محمد اور تم ڈیسوزا۔۔۔ بچہ تو ایک ہے۔‘‘

سردار گوربچن سنگھ نے تینوں کو ڈھارس دیتے ہوئے کہا۔

’’تم تینوں اس کی بھلائی چاہتے ہو اور اسی کی جان لے رہے ہو، جن کے نام پر تم جھگڑ رہے ہو، وہ بھی اس بچے کی طرح ایک ہے! میرے بھائیو، جاؤ یہاں تمہارا کام نہیں ہے، ڈاکٹر کا کام ہے۔ وہ اپنا کام کر رہا ہے تم اپنا کام کرو، اس کے لئے دعا کرو، تم میں سے جس کی روح اور آتما نیک ہو گی اوپر والا اس کی دعا ضرور سن لے گا۔ اور بچہ بچ جائے گا۔‘‘

یہ کہہ کر گوربچن سنگھ نے ان تینوں کو رخصت کر دیا۔

اتنے زور سے نندن نے شاید زندگی میں کسی مندر کے گھنٹے نہ بجائے ہوں گے جس والہانہ مد ہوشی سے وہ آج بجا رہا تھا۔ آج کیا اس کی آواز رحیم کے کانوں میں پہنچ ہی نہیں رہی تھی؟

رحیم اپنے معبود کے آگے سجدے میں گر کر آنسوؤں کی دھاروں کے ساتھ بچہ کے لئے جو دعا کر رہا تھا، وہ گھنٹے اس میں بالکل کوئی مزاحمت نہیں کر رہے تھے، نہ ہی رابرٹ کو اس سے کوئی فرق پڑ رہا تھا۔

آج ان کی روحوں کے سُر ایک تھے، مقصد ایک تھا، منزل ایک تھی۔ جیسے وہ تینوں ہی ایک تھے۔ اس مقام پر جہاں عقل و خرد پر نہیں مار سکتی، جہاں فلسفہ اور لاجک غبارہ راہ کی طرح پیچھے رہ جاتا ہے۔ ایک ایسا مقام جو روحِ انسانیت ہے۔

ان کو نہیں معلوم کہ کتنا وقت گزرا ہے، خود سردار گوربچن سنگھ کو بھی نہیں معلوم کہ وہ خود کتنی دیر سے یہ روح فرسا منظر دیکھ رہے تھے، بہرحال انہوں نے چونک کر ان تینوں کو مخاطب کیا۔

’’بھائیو! ڈاکٹروں کو بچے کے بچنے کی کوئی امید نہیں تھی لیکن وہ بچ گیا اور اب خطرہ سے باہر ہے۔ میرا خیال ہے وہ تم ہی میں سے کسی کی دعا سے بچا ہے۔ تم میں سے جس کی روح سب سے زیادہ پاک ہے، جس کا ایمان سب سے زیادہ سچا ہے، اسی کی دعا سے بچہ بچا ہے وہ چل کر اس کو لے لے۔ ورنہ میں اس کو یتیم خانے بھجوا دوں گا۔‘‘

’’میں تو سب سے زیادہ بے ایمان آدمی ہوں، میں نے زندگی میں بے ایمانی کے سوا کیا ہی کیا ہے، میری پرارتھنا کیسے سنی ہو گی پربھو نے؟ مجھے بچہ نہیں چاہئے۔‘‘

نندن نے روتے روتے سب سے پہلے قدم بڑھا کر کہا۔

’’میں تو مسلمان ہی نہیں ہوں، مجھ کو مسلمان کہنا بھی شرم کی بات ہے، میں تو سیدھا جہنم میں جاؤں گا انسپکٹر صاحب میرے لئے تو امام صاحب نے بھی یہی کہہ دیا تھا آپ ان سے پوچھ لیجئے۔ یہ دونوں بہت اچھے ہیں ان کو بچہ دے دیجئے میں بس اس کو دیکھ لیا کروں گا۔‘‘

رحیم نے انکار کرتے ہوئے کہا۔

’’بچہ کو یتیم خانہ نہ بھجوائیے۔ سردار جی۔‘‘

رابرٹ گڑگڑایا۔

’’ان دونوں کو دے دیجئے۔ وہ ہندو ہو کر جئے یا مسلمان، بس جی جائے۔ بڑا ہو کر اچھا آدمی بنے اور بس! میں تو سِنر ہوں، گنہ گار ہوں سالا حرامی ہوں میں تو۔ مجھ سے بہت دور رکھنا چاہئے اس کو۔‘‘

’’اس کو دیکھ تو لیجئے آپ لوگ۔‘‘

یہ کہہ کر گوربچن سنگھ ان تینوں کو اپنے ساتھ لے گئے۔ یہ سردار جی کا فرض نہیں تھا۔ بہ حیثیت ایک انسپکٹر کے یہ ان کی ڈیوٹی نہیں تھی۔ وہ ان تینوں کو بچہ کے اغوا یا اس کی زندگی کو خطرہ میں ڈالنے کے جرم میں حوالات میں بند بھی کر سکتے تھے۔ لیکن اس وقت وہ انسپکٹر نہیں تھے۔ وہ محسوسات کی ان ہی بلند منزلوں پر سفر کر رہے تھے، جن بلندیوں پر زندگی ان تینوں الھڑ، اجڈ، جنگلی غنڈوں کو لے پہنچی تھی۔

جیا کے دودھ کا ٹیسٹ لے کر ہی اس کا دودھ رام محمد ڈیسوزا کو دیا جا رہا تھا۔ بچہ کی گردن پٹیوں میں لپٹی تھی لیکن اب آنکھیں کھل چکی تھیں۔ اس نے ان تینوں کو دیکھا تو اس کے چہرہ پر ایک لطیف مسکراہٹ دوڑ گئی۔

تینوں کی روحیں جاگ اٹھیں، نندن نے دونوں ہاتھوں سے جیا کا شانہ اس پیار خلوص اور ندامت سے دبایا کہ جیا نے اس کے سارے گناہ معاف کر دئیے۔

بچہ کو دیکھ کر تینوں لوٹنے لگے تو تینوں ایک دوسرے کو دیکھ کر رکنے لگے، بچہ کو لینے کے لئے کوئی بھی خود رک نہیں رہا تھا۔ ہر ایک کی نظریں دوسرے سے التجا کر رہی تھیں کہ تو رک جا، اس کش مکش کو دیکھ کر سردار جی نے ان کو آواز دی اور کہا:

’’آپ لوگ ٹھہرئیے۔‘‘

’’میں بچہ کو یتیم خانہ نہیں بھیجوں گا، آپ تینوں کو ہی اس کو پالنا ہے، انسانیت کا نیا شوالہ جو آپ لوگوں نے بنایا ہے میرے خیال میں وہی انسان کا مستقبل ہے۔ وہیں اس بچہ کی پرورش ہونی چاہئے۔‘‘

جملہ ختم ہونے سے پہلے ہی نندن، رابرٹ اور رحیم ایک دوسرے سے لپٹ گئے۔

گلابو کا ہاتھ نندن کے ہاتھ میں تھا، جیا کا ہاتھ رحیم کے ہاتھ میں، رابرٹ کے پیچھے جولی تھی، اور ان کی بانہوں میں رام محمد ڈیسوزا، جو ان سب کی مجسم روح تھی، جب یہ ناچتے گاتے اپنے نئے شوالہ کی طرف قدم اٹھا رہے تھے، تو مستقبل کے نئے انسان اس دنیا میں آ رہے تھے۔

٭٭٭

ماخذ:


تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید