صفحات

تلاش کریں

افسانوی مجموعہ : چاند کی قاشیں (خاور چودھری)

انتساب



حضرتِ شمس الرحمان فاروقی

[انڈیا]

اور

حضرتِ گلزار

[انڈیا]

کے نام

اُردو زبان و اَدب تا دیر جن کی وجہ سے ضو فشاں رہیں گے










مچانِ ذات سے باہر پڑا ہوں

تری دہلیز پر سجدہ کیا تھا



خاور چودھری







فہرست










































سرودِ عصر



زمین و آسماں کے ربّ! یہ منظر مضطرب کیوں ہیں!

پہاڑوں پر مچلتی برف شعلوں میں بدل آئی

صنوبر کے درختوں پر طلسماتی ہوئیں شاخیں

جہاں باغات سیبوں کے، وہاں بنجر تماشا ہے

اِدھر چاول کی فصلوں میں بلائیں راج کرتی ہیں

کبھی ستلج کی موجوں میں ہَلاہَل تیرتا آئے



خدایا! پھر مجھے وہ قاف کی پریاں بُلاتی ہیں

سنہری کشتیوں کی بادباں آرا چٹانوں پر

جھپٹتی مچھلیوں کی سُرخ یاقوتی جواں آنکھیں

سمندر کے کُہن چاندی کے تختوں پر مچلتی تھیں

تمنّاؤں کی بوڑھی داشتہ رقصاں جہاں رہتی

وہاں صدیوں کا زندانی مچھیرا غوطہ زَن ٹھہرا

کہ جس کی اُنگلیوں سے مچھلیوں کا خوش نما منظر

سرک کر گِر گیا تھا زنگ آلودہ سمندر میں

وہ حکماً ڈھونڈتا ہے گمشدہ منظر زمانوں سے

مچلتی مچھلیاں رُو پوش ہیں، خاموش ہیں، تب سے

اُدھر جھریوں کی بوسیدہ طنابیں زرد رُو ہیں

دھڑکتی سانس کا گریہ سرابوں میں تڑپتا ہے

خدایا! قاف کی پریاں غضب آلود ہو جائیں

عجب کیا؟ روٹھ جائیں، چھوڑ جائیں یا تڑپ جائیں

مجھے صدیوں کے زندانی مچھیرے کو چھڑانا ہے

مجھے اپنے قبیلے کی شکستہ آنکھ کا ڈر ہے

مگر وہ قاف کی پریاں مجھے پھر آزماتی ہیں

تمنّاؤں کی بوڑھی داشتہ کا رقص تھم جائے

مجھے یاقوت سی آنکھیں گرفتِ عکس کرنی ہیں

جسے دُشوار ہے، اُس کو مری آنکھیں عطا کر دے

مری آنکھیں پرو لے نوکِ خارا پر، مگر کچھ دَم

ترے دربار میں اُلجھی رداؤں کی گِرہ کھولے



خداوندا! مرے ہمراہ ایسے لوگ کر دے تُو

جبینوں پر وفا جن کی، نگاہوں میں سویرا ہو

مجھے زندانیوں کے وہ خمیدہ سر اُٹھانے ہیں

قبیلے کی جھکی گردن، نگاہوں میں سما لوں پھر

کہ جس کی پشت پر صدیاں ہراساں تلملاتی تھیں

کہ جس کے عکس سے ڈر کر سمندر بھی لرزتے تھے



زمین و آسماں کے ربّ! سمندر مضطرب کیوں تھے!

وہاں خیبر شکن کی گونج پھیلی تھی ہزاروں اور

یہاں وحشت کے عریاں تخت رقصاں، گنگناتے ہیں

مجھے اِن سے رہائی ہو، تری سرکار میں پہنچوں

٭٭









خاور چودھری کے افسانے پر چند سطریں


پروفیسر ڈاکٹر انوار احمد

[سابق صدر نشیں مقتدرہ قومی زبان، پاکستان]



ہماری تخلیقی نثر پر ایک طرح سے شباب آیا ہوا ہے۔ پورے ملک میں یادداشتیں، سفر نامہ اور افسانہ لکھا جا رہا ہے۔ کہیں کہیں تراجم اور ناول بھی اپنی بہار دکھا رہے ہیں۔ اِنھی کی قائم کردہ تخلیقی فضا میں ایک افسانہ نگار خاور چودھری اُبھر کر سامنے آئے ہیں، جن کا مجموعہ ’’چاند کی قاشیں‘‘ زیرِ اشاعت ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ خاورؔ کو اپنی شاعری زیادہ عزیز ہے، اسی لیے وہ اپنے بعض افسانوں میں اپنے اشعار بھی درج کر دیتے ہیں۔

اُن کا قبیلہ بہت بڑا ہے یعنی رومانوی افسانہ نگاروں کا۔ کہیں کہیں گمان ہوتا ہے کہ اُن پر حجاب امتیاز علی کا اثر ہے یا پھر اُسی دور کے ایسے لکھنے والوں کا جنھوں نے عورت اور مرد کے تعلق پر جذبات انگیز انداز میں لکھا۔ لیکن خاورؔ کی افسانوی دنیا ایسی سادہ نہیں کہ اُس کے روبرو موجودہ دنیا بھی ہے، جہاں خادمِ حرمین شریفین امریکی صدر کے سامنے نہ صرف تلواریں لے کر رقص کر رہے ہوتے ہیں، بلکہ اپنے پیش رو اور معاصر حکمرانوں کی طرح ان کے قدموں میں قیمتی تحائف بھی نچھاور کر رہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح اس دنیا میں لوگوں کی یادداشت کے نقش مٹانے پر تُلی میٹرو بھی بن رہی ہوتی ہے اور اُس کے لیے راج ہٹ دائیں بائیں خندقیں کھود رہی ہوتی ہے۔ تاہم اس دنیا میں زندگی موت تک کا سفر اتنی تیزی سے طے کرتی ہے یا کوئی وسوسہ معصوم رشتے کو اتنی تیزی سے چاٹ جاتا ہے یا ڈرون حملے میں بچ جانے والی گل اندام کو زنجیروں میں جکڑی کالی بھُتنی میں بدل دیتے ہیں یا رقیب رُو سیاہ کے لیے متکلم کے اندر شفقتِ پدری پیدا ہو جاتی ہے یا انسانوں کو طبقات اور امتیازات میں بانٹنے والے، قبروں کے کتبے توڑنے والے ایک بڑے آہنگ کے ساتھ ظہور پذیر ہو جاتے ہیں، مگر دیگر رومانوی افسانہ نگاروں کی طرح اپنے افسانوں کے عنوانات مصرعوں یا پُر پیچ تراکیب کی صورت میں نہیں لاتے، زیادہ تر اُنھیں سادہ اور مفرد رکھتے ہیں۔ جیسے: ’’دروازہ، داغ، تھال، شناخت، دیوانہ، سائیکل، فتح، روشنی، تابوت یا سیلاب‘‘ وغیرہ۔

خاور چودھری زبان کے حوالے سے کچھ تجربے بھی کرتے ہیں۔ اُن کے پہلے افسانے پر یوں گمان گزرتا ہے کہ وہ کسی تجریدی افسانے کا آغاز ہے۔

’’عجیب بستی تھی، جس کا ہر دروازہ مقفل تھا۔ مکینوں کو اُن کی مکانیت سمیت پتھریلی دیواروں اور فولادی دروازوں میں یوں قید کر دیا گیا تھا، جیسے ہر نفس جمود آشنا کر دیا گیا ہو۔ کہیں کوئی دریچہ اور کوئی روزنِ دیوار بھی تو نہیں تھا۔ ایسا کب ہوا____کیوں ہو____کس نے کیا؟ ان سوالات کے جوابات کسی کے پاس نہیں تھے۔ اس بستی کے مکینوں کی یہی زندگی تھی۔ باہر والے نہیں جانتے تھے کہ بستی میں کون رہتا ہے؟ ان کا پیمانہ زندگی کیا ہے؟ اور لوگ کون سی وضع قطع اختیار کیے ہوئے ہیں؟ زبان کیا بولتے ہیں ____کیا پہنتے اوڑھتے ہیں ____کیا کھاتے پیتے ہیں ____اور کیا بیچتے خریدتے ہیں؟ کچھ بیچتے، خریدنے، کھاتے پیتے اور پہنتے اوڑھتے بھی ہیں یا پھر منجمد پتھروں کی مانند ساکت و جامد، نمود و حرکت کے جذبوں سے عاری اور حیات و ممات کی بو قلمونیوں سے آشنا ہیں‘‘۔ اسی افسانے میں یہ بات مبہم ہو جاتی ہے کہ حاکم کے کارندے، کسی کا دایاں ہاتھ یا بائیں ٹانگ کیوں کاٹتے ہیں؟ پھر اس کا انجام بھی کاٹے ہوئے کانوں، زبانوں، ناکوں، ٹانگوں اور بازوؤں کو چیونٹیوں، کتوں، گدھوں اور بھیڑیوں کے حوالے کیوں دکھاتا ہے؟۔ کچھ ایسی ہی فضا ان کے افسانے ’’دشت خواب‘‘ کی ہے لیکن زیادہ تر وہ کوشش کرتے ہیں کہ وہ اپنے قاری کے صبر کو زیادہ نہ آزمائیں۔ ’’نواب زادی نور محل‘‘ اُن کا زیادہ اچھا افسانہ ہو سکتا تھا اگر وہ اس کے انجام پر نظر ثانی کے لیے تیار ہو جاتے۔ تاہم اُن کا یہ مجموعہ میں نے دلچسپی سے پڑھا ہے۔







خاور چودھری کا افسانہ


محمد حامد سراج



’’عجیب بستی تھی، جس کا ہر دروازہ مقفل تھا۔ مکینوں کو اُن کی مکانیت سمیت پتھریلی دیواروں اور فولادی دروازوں میں یوں قید کر دیا گیا تھا، جیسے ہر نفس جمود آشنا کر دیا گیا ہو۔ کہیں کوئی دریچہ اور کوئی روزنِ دیوار بھی تو نہیں تھا۔ ایسا کب ہوا ___ کیوں ہوا ___ کس نے کیا ___؟ ان سوالات کے جوابات کسی کے پاس نہیں تھے۔ اس بستی کے مکینوں کی یہی زندگی تھی۔ باہر والے نہیں جانتے تھے، کہ بستی میں کون رہتا ہے؟ ان کا پیمانۂ زندگی کیا ہے؟ اور لوگ کون سی وضع قطع اختیار کیے ہوئے ہیں؟ زبان کیا بولتے ہیں ___ ___کیا پہنتے اوڑھتے ہیں ___ __کیا کھاتے پیتے ہیں ___ اور کیا بیچتے خریدتے ہیں؟ کچھ بیچتے خریدتے، کھاتے پیتے اور پہنتے اوڑھتے بھی ہیں یا پھر منجمد پتھروں کی مانند ساکت و جامد، نمو و حرکت کے جذبوں سے عاری اور حیات و ممات کی بوقلمونیوں سے نا آشنا ہیں؟

یہ ناشناسی دو طرفہ تھی ___ اندر والے بھی نہیں جانتے تھے، کہ باہر کی دُنیا کیسی ہے۔ بس اتنا جانتے تھے، کہ اُن کی بستی دُنیا کا ایک چھوٹا سا منطقہ ہے اور دُنیا بہت بڑی ہے ___ اتنی بڑی کہ بستی والے ہزاروں سال مسافر ت اختیار کریں تو بھی تمام منطقوں کو محیط نہیں ہو سکتے ___ دُنیا میں بسنے والوں کی زبانوں سے آشنا نہیں ہو سکتے ___ سبھوں جیسا اور سبھوں کے ساتھ نبھاؤ بناؤ اُن کی رفعتِ پرواز سے بہت بلند ہے ___ وہ ایسی کوتاہ ہمتی کا شکار کیوں تھے؟ یہ وہ خود بھی نہیں جانتے تھے۔ بس ایک خاص مدار میں ہی اُن کے شب و روز گزرتے تھے۔ بستی کی زندگی میں کوئی بھی بات نئی بات نہیں تھی۔‘‘

’’میں اس بستی میں صدیوں سے قید ہوں یہاں ایک رحم دل بادشاہ ہے۔‘‘ میں نے خاور چودھری سے عرض کیا:

’’یہ بادشاہ سفاک ہے ____؟‘‘

’’وہ کیسے ____؟‘‘

’’کل رات ایک عورت اپنے بیٹے کو ساتھ لائی جسے سوچنے کی بیماری تھی اور اس کا کہنا تھا کہ یہ کہتا ہے کہ اس مقفل آبادی سے باہر بھی ایک دنیا ہے۔ بادشاہ نے اسے نرمی سے سمجھایا لیکن جب وہ وہاں سے بادشاہ کے سپاہیوں کے ساتھ نکلا تو حاکم کے کارندوں نے اُس کا دایاں ہاتھ اور باہنی ٹانگ کاٹ دی کہ یہ باغی ہے۔ اس بستی کا عذاب یہ ہے کہ یہاں سوچنے پر پابندی ہے۔‘‘ اس افسانے میں افسانہ نگار نے کمال ہنر کاری سے علامت کو برتا ہے لیکن کہانی کا تاگا نہیں ٹوٹنے دیا۔

خاور چودھری کی ایک خوبصورتی یہ ہے کہ انھوں نے جاپانی صنف سخن ہائیکو میں طبع آزمائی کی ہے اور ان کے کریڈٹ پر ایک نہیں سیکڑوں ہائیکو ہیں، جس میں انھوں نے اپنے وطن اور وسیب کے ساتھ پاکستانی تہذیب و تمدن اور ہجر و فراق کے ساتھ محبت کو برتا ہے اور کمال کیا ہے۔ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ دسمبر ۲۰۰۷ ء میں شائع ہوا۔ جس میں موجود افسانے اپنے بطون میں کہانی پن لیے ہوئے ہیں۔

اس کتاب کے ایک افسانہ میں افسانہ نگار کا کہنا ہے: ’’پرانی وضع کا یہ دفتر انگریزوں کی باقیات میں سے ایک تھا۔ اونچے اونچے محرابی دروازوں کے عقب میں طویل دالانی کمرے، جوں پرانی عدالتوں کے بڑے برآمدوں کے اندر کمروں میں سے نکلتے ہوئے کمرے ہوا کرتے ہیں۔ جن کی چھتیں آج کے نسبت دوگنا اونچی اور دیواریں ڈیڑھ گنا چوڑی۔ ان دفتروں کی چھتوں پر دیودار کے دیو قامت شہتیر جہاں اپنی کہنگی کا احساس دلاتے تھے، وہاں عہدِ رفتہ کی عظمتوں کے بھی امین تھے۔ چوبی کھڑکیوں کے اندر ایک انچ سے نکلتے ہوئی موٹی سلاخیں، جس طرح جیلوں اور بارکوں میں ہوا کرتی ہیں۔ یہاں دفتروں کی ایک قطار تھی، جہاں مختلف وزارتوں کے اعلیٰ افسران بیٹھا کرتے تھے۔ کسی زمانے میں یہاں ٹائپنگ مشین کی کھٹ کھٹ گونجتی تو گزرنے والوں کو اندازہ ہوتا جیسے وہ کسی سحرآفریں عہد میں جی رہے ہیں۔ اب وہ زمانہ بھی لد چکا تھا، جب دفتری امور نبٹانے کے لیے منشی ہوا کرتے، اب تو کمپیوٹر نے سارا انداز ہی بدل ڈالا تھا، پھر افسران کے وہ مزاج اور شاہانہ ٹھاٹ بھی تغیر آشنا ہو چکے تھے۔ سطوت اور حکمرانی کا پرانا ڈھنگ نہ رہا تو ان دفتروں کی وہ شان بھی باقی نہ رہی۔‘‘ میں سوچ رہا تھا یہ جو جزئیات نگاری ہے، مشکل فن ہے۔ افسانہ قرات کرتے ہوئے میں رک گیا۔ میں نے انگریزوں کی باقیات میں کافی وقت گزارا۔ خاور چودھری نے منظر میں روح ڈال کے اسے زندہ کر دیا۔ شناخت کے سلسلے میں بھٹکتا میں اپنی شناخت کھو بیٹھا۔ ہر انسان جہد للبقاء کی تگ و دو میں عمر بھوگ دیتا ہے۔ کتبہ گھر پر ہو یا لحد پر، سب فنا ہے۔ رہے نام اللہ کا، باقی سب فنا ہے۔ خاورؔ معصوم اور سادہ افسانے بھی لکھتا ہے۔ بلا وجہ علمیت جھاڑ کر قاری کو مرعوب نہیں کرتا۔

’’کیکروں پر پیلے پھولوں کی بہار تھی، راتوں کو جب ہوائیں تھل میں ناچنے لگتیں تو اُس کا جی چاہتا کوئی ایسا ہو جو اُس کی کمر میں بانہیں ڈال کر مد ہوش کر دینے والی مشک سے مہکا دے ___ اُس کے انگ انگ میں رَس گھول دے، اُس کا رواں رواں سیراب کر دے ___ بس ایسے ہی، دھیان میں کوئی خاص نہیں تھا۔ البتہ ایک ہیولا سا کبھی اُس کی آنکھوں میں لہرا جاتا تھا۔ بلند قامت، گھنے بالوں سے اَٹا کشادہ سینہ، سلوٹوں سے بھری کھلی پیشانی، لمبی اُنگلیاں جو اُس کے بالوں میں سیر کریں تو وہ دُنیا بھر سے بے نیاز ہو جائے ___ اور طاقت ور ایسا ہو، جب کَس کے جپھی ڈالے تو ایک بار پسلیاں آپس میں گتھم گتھا ہو جائیں ___ وہ خود بھی دراز قد تھی، رنگ نکھرا ہوا، البتہ طاقت ور تو کسی طور بھی نہیں تھی۔ وہ تو جانوروں کو چارہ ڈالنے سے بھی بیزار ہو جایا کرتی۔ چند مٹھی گھاس کاٹنی پڑ جاتی تو جیسے پہاڑ کاٹنا سر ہو جاتا۔ موسم کی ذراسی شدت اُسے بے تاب کر جاتی۔ اُدھر تھل کی سر پھر ی ہواؤں کا رقص جاری ہوتا، اِدھر اسے کھانسی کے دورے پڑنے لگتے ____ جی توڑ دینے والی کھانسی اُسے بے بس کر دیتی۔ ذرا فضا میں خنکی اُترتی، اُسے زکام، نزلہ اور بخار آ لیتا۔ کیکروں کی بھینی خوشبو اُس کی بے قراری میں مسلسل اضافہ کیے جاتی تھی ___ مگر خوابوں کا شہزادہ اُسے مل نہیں رہا تھا۔ اُس نے سوچا:

’’کیا مجھے نیم پاگل عامر کے ساتھ رخصت کر دیا جائے گا؟‘‘

کیا اسے نیم پاگل عامر کے ساتھ رخصت کر دیا گیا۔۔۔؟ کیا اس کی جنسی تشنگی کو کو قرار آ گیا۔۔۔۔؟

بہت سے سوالات ہیں۔ افسانے میں جنس کو برتنا ایک جاں گسل مرحلہ ہے۔ اکثر عریانیت اور فحش جملے در آتے ہیں، جن کی وجہ سے افسانہ اپنا حسن کھو دیتا ہے لیکن اس افسانے میں افسانہ نگار کا قلم کہیں بھی نہیں پھسلا اور نہ حد ادب سے گرا ہے۔ عرض کیا تھا نا____ کہ خاور چودھری معصوم اور نوکیلے افسانے بھی لکھتا ہے:

’’میں لفظوں کا رَسیا اور خوابوں کا اسیر سنہرے، اودے، سُرخ اور سفید مرمریں خوابوں کو چاندی، روبی اور سونے کے صندوقچوں میں چھپائے صدیوں سے منزل کی جانب گامزن ہوں۔ یہ فاصلہ اربوں کوس کو محیط ہے اور میرے خوابوں کی گٹھریوں میں ہر نئے آنے والے لمحے میں ایک اور خواب کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ یوں میں اپنے خوابوں کے بوجھ تلے دبتا چلا جاتا ہوں۔ نہ منزل کا سراغ ملتا ہے اور نہ ہی خواب تعبیر آشنا ہوتے ہیں۔

کل میں نے ایک صدی کی جانب پلٹ کر دیکھا تو میری گٹھری میں بہت تھوڑے سے خواب بچے تھے۔ ان سرمئی اور دودھیائی خوابوں میں ایک ایسا خواب بھی تھا، جو میرا اصل ہے۔ لیکن بہت سے دوسرے خواب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کُملا گئے تھے یا پھر وقت کی دبیز تہوں تلے آ گئے۔ شاید ان خوابوں کی جون بدل گئی ہویا پھر یہ اپنی قدر و منزلت کھو چکے ہوں۔ بہ ہر حال ایک فطری رچاؤ اور بہاؤ کی موجودگی میں پرانی چیزوں کی جگہ نئی چیزیں لیتی رہتی ہیں۔ اس کے باوجود میری کُرلاہٹ اور تلملاہٹ کا عالم یہ ہے، کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہتھے سے اُکھڑ جاتا ہوں اور پھر دیر تک اپنی اس آوارہ مزاجی کے باعث حزن آشنا رہتا ہوں۔ غالباً یہ بھی فطری امر ہے، کہ میری جبلت میں سیماب پائی ہے۔ کسی ایک منطقے میں ٹھہر جانا شاید انسان کے شایانِ شان نہیں۔ انسان خلیفۃ الارض ہے لیکن زمین پر اس نے پانی اور خون کے تناسب کو زیر و زبر کر ڈالا ہے۔‘‘ افسانہ نگار کے افسانوی سفر میں دشت خواب ایک ایسا افسانہ ہے، جس میں عالمی منظر نامے کی تلخیاں عذاب رُلا دیتے ہیں۔ ایسا افسانہ ایک انتہائی حساس انسان ہی لکھ سکتا ہے۔

میرا یہ مزاج ہے کہ مجھ سے روایتی دیباچہ نہیں لکھا جا سکتا۔ اوبھ جاتا ہوں، اس میں گھڑے گھڑائے جملے بٹھا دیے جاتے ہیں اور ہر افسانے کی سمری، پریسی، شامل کرنا آسان ہوتا ہے۔ میں تخلیق کا نقاب اُلٹنے کا قائل نہیں، یہ کام، یہ خوشی قاری کے حصہ میں آنی چاہیے۔ اور حق بھی قاری کا ہے۔ دیباچہ نگاری میرا پیشہ بھی نہیں اور اب صحت کے مسائل نے نڈھال کر دیا ہے کسی سے وعدہ نہیں کرتا تا کہ میری وجہ سے کسی کو انتظار کی کوفت اور تکلیف نہ ہو۔ خاور چودھری کے ساتھ عمر جڑی ہے۔ یہ جو لکھا گیا، جانے جنوں میں کیا کیا لکھا ____یہ خاور کی بے لوث محبت میں الفاظ کو جوڑنے کی ایک کوشش ہے۔ وہ ایک اچھا تخلیق کار ہی نہیں بہترین انسان بھی ہے ____ جتنا اور جیسا لکھا گیا اسے قبول کیا جائے۔









افسانے کا تازہ چلن اور ’’چاند کی قاشیں‘‘ میں شامل افسانوں کا ایک مطالعہ


اسد محمود خان



(۱)

افسانے کا تازہ چلن کیا ہے اور کیا افسانے کے تازہ چلن پر بالید روِش کا نخرہ جچتا ہے؟

موجود صدی، معلومات کی صدی سے تعبیر کی جاتی ہے، جہاں سانس لینے والا ادب، بے شک ’’عہدِ استخبار‘‘ میں زندہ ادب کہا جائے گا۔ انیسویں صدی کے پہلے حصّے میں صنعتی انقلاب کی افتادگی، دوسرے حصّے میں صنعتی ماحول کی گرد آلود فضاؤں میں آنکھ کھولنے والے زمانے کو ہی ’’انفارمیشن اَیج‘‘ یا ’’عصر المعلومات‘‘ یا ’’عہدِ استخبار‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ امریکی ناول نگار اور ماہرِ تاریخ ’’کالِب کار‘‘ (Caleb Carr) نے اپنے ناول ’’کلنگ ٹائم‘‘ میں لکھا: ’’انفارمیشن اَیج، ہماری زندگیوں کی ایک عظیم ترین سچائی ہے‘‘۔ تمام تر سچائی اور حقیقت کے باوجود برطانوی اخبار ’’دِی گارڈین‘‘ نے لکھا: ’’کتاب، انفارمیشن اَیج کے زیرِ اثر تبدیلی سے متاثر ہونے والا ایک اہم ترین جزو ہے‘‘۔ عمر، علم اور تجربے کی مثلث کی گتھی سلجھاتے ہُوئے افریقی لکھاری اور بلاگ رائٹر ’’اَیوور‘‘ نے کہا: ’’ہم عمر اور تجربے کی منتقلی کے درمیان معلق نہیں، علم اور معلومات کے زمانے میں زندہ ہیں‘‘۔ اِسی معاملے کو مشرقی وسطیٰ کی ’’عائشہ تریام‘‘ نے یُوں لکھا: ’’ہمارے گرد معلومات کا طوفان، در اصل پہاڑی شگاف سے پھوٹی ایک ندی تھا، جس میں اب سیلاب کی سی صورت درپیش ہے‘‘۔ جب کہ ’’لیوراِن برنڈت‘‘ نے ’’انفارمیشن اَیج‘‘ کو ’’نفسیاتی معاملہ‘‘ سے تشبیہ دیتے ہُوئے کہا: ’’The information age is Psychotic!!!‘‘، عہدِ استخبار ایک نفسیاتی معاملہ ہے۔

روزمرہ بدلتی زندگی، اِس حقیقت سے بخوبی آشنا ہے کہ جب بھی عالمی ادب نے ’’تغیر و مبادلہ‘‘ کی صورت کا سامنا کیا تو پہلے پہل ایک مضبوط مزاحمتی ردِ عمل پیش کیا، نظم و نثر میں شدت اُتری، جو بعد ازاں قبولیت کی سمت بڑھی اور نئی اصنافِ ادب کا باعث بھی رہی ہے۔ ’’عہدِ استخبار‘‘ کا بڑھتا ہُوا رجحان، سہولت اور جدتِ استعمال نے جہاں ادب کی ترسیل و ترویج میں ’’متوازی البعاد‘‘ (Parallel Dimensions) کو فروغ دیا وہاں کثیر الجہت سہولیات کو بھی متعارف کرایا، ایسی صورت میں نقادینِ ادب کی مزاحمت کاری نے ایک طرف تو کہانی کے بچاؤ کی تدبیر کی تو دوسری جانب کہانی کے زمینی و زمانی پھیلاؤ کی صورت بھی بنائی، جو کہانی اور افسانے کا نیا چلن بنانے اور متعارف کرانے میں معاون و مددگار ثابت ہُوئی ہے۔ اسی حوالے سے امریکی محقق اور نقاد پروفیسر ڈاکٹر ٹیڈ سٹریفاس (Dr. Ted Striphas) اپنی کتاب ’’دی لیٹ ایج آف پرنٹ‘‘ میں لکھتا ہے:

’’قلم و قرطاس کی فکری تاریخ نے جب بھی جدت پسند تحریک کا سامنا کیا، عصرِ حاضر کی روایت کو بے اثر کرنے کی بازگشت بہت دیر تک اور دُور تک سنائی دی، جو ظاہری سطح پر لفظ و معنی، موجود و میسر اور حال و ارادہ کا بچاؤ لے کر میدانِ عمل میں آ جاتی ہے، شاید اِس سے بڑھ کر ایک ایسی مزاحمتی تاریخ جو متنازعہ، متضاد اور منفی اثرات کی حامل سمجھی گئی ہے‘‘۔

انقلابِ معلومات کے زیرِ اثر تخلیق کی جانے والی طویل و مختصر کہانیاں (ناول اور افسانے) ٹیکنالوجی تک رسائی اور بے حجابانہ استعمالات، جدید رجحانات کا ادراک اور کمالات کے براہِ راست زیرِ اثر نہ بھی ہوں تو کہانی کار (ناول نگار اور افسانہ نگار) کے زیرِ اثر تو ہوتی ہیں، جہاں دونوں میں براہِ راست مکالمے کی ایک خوشگوار فضا بنتی ہے۔ اِس حقیقت سے نہ تو انکار ممکن ہے اور نہ ہی گلو خلاصی ہے کہ عہدِ جدید میں معلومات کا حصول ایک ایسی ضرورت ٹھہر چکا ہے، جو وسیع تر پیمانے پر بہاؤ اور تیز ترین رسائی، خصوصاً جدید ٹیکنالوجی کا ا ستعمال اہم ترین صورت اختیار کر چکا ہے، ایسے حالات میں کہانی اور کہانی کار دونوں کا دامن بچا کر چلنے سے زیادہ اہم دامن سنبھال کر چلنا بنتا ہے۔ بے شک کہانی کار اِن تبدیلیوں کے زیرِ اثر اپنی کہانی کے لیے نئی روِش اپنانے اور سدھارنے کی دانستہ یا نادانستہ کاری گری برتتا ہے جو کہانی کاری کی تازہ فضا میں جنم لینے والی کہانی کے تازہ چلن کو بنانے، بتانے، سنوارنے، سنبھالنے اور نبھانے کی روایت اپناتا ہے، جہاں تازگی کے پہلو بہ پہلو جامعیت اور بین الاقوامیت کا عنصر بھی پیش نظر آتا ہے۔



(۲)

کیا خاور چوہدری، افسانے کے تازہ چلن کے ساتھ چلتا ہُوا ایک افسانہ نگار، کہا جا سکتا ہے؟

افسانے کا تازہ چلن، انفارمیشن اِیج کی خبروں کے بیچ پروان چڑھا ہے، جہاں شش جہتی اضافت نے اِس پر غیر محسوس اثرات چھوڑے ہیں۔ اوّل: ’’فلیش فکشن‘‘ جسے مائیکرو فکشن، مائیکرو اسٹوریز، شارٹ اسٹوریز، ویری شارٹ اسٹوریز، سڈن فکشن، پوسٹ کارڈ فکشن اور نانو فکشن بھی کہا گیا ہے۔‘‘ اردو ادب کی افسانوی دنیا میں بھی کچھ ایسی تراکیب کودانستہ یا نادانستہ برتنے کی کوشش کی گئی لیکن زیادہ تر کا ذریعۂ اظہار خبر کی دنیا سے جڑا ہُوا ہے۔ ایسی برتی جانے والی کوششوں میں ’’سو لفظوں کی کہانی‘‘ کی مختصر تاریخ کے بارے میں، انفارمیشن ایج کی ایک مخبر ’’ویکی پیڈیا۔ دِی فری انسائیکلو پیڈیا‘‘ پر موجود تحریر سے استفادہ ہو سکتا ہے، جہاں لکھا گیا:

’’اردو میں سو لفظی کہانیاں لکھنے کا آغاز مبشر علی زیدی نے کیا۔ پہلی بار ان کی کہانیوں کو روزنامہ دنیا لاہور نے ان کی کتاب سے اقتباس لے کر شائع کیا۔ بعد ازاں مستقل اشاعت کی شروعات روزنامہ جنگ اخبار نے مارچ 2014 سے کی، جس کا عنوان ’’100 الفاظ کی کہانیاں‘‘ ہے بعد ازاں ایکسپریس میں بھی لکھا‘‘۔

مبشر علی زیدی کے علاوہ سید انور محمود، اعجاز احمد اور چند دیگر شوقیہ کہانی کاروں کی پیغام نما کہانیاں موبائیلوں میں گھومتی نظر آ جاتی ہیں لیکن بہر طور یہ حقیقت دکھائی دیتی ہے کہ خبر سے جڑے شوقیہ کہانی کار ’’عہدِ استخبار‘‘ کی مجموعی ضرورتوں کے زیرِ اثر ’’فلیش فکشن‘‘ کی پیروی کرنے پر مجبور دکھائی دیتے ہیں۔ دوم: ’’ہائبرڈیٹی‘‘، جس کی بڑی وجہ عہد استخبار میں سکڑ جانے والے زمینی و زمانی فاصلے ہیں، جو ایک بٹن کی دُوری پر نئی شکل اختیار کرنے کی سعی میں ہیں۔ لاطینی زبان کا لفظ جو پہلی بار ۱۶۰۱ء میں باقاعدہ استعمال میں لایا گیا، [۱۰] اِس کی تعریف کے مطابق ’’A blend of two diverse cultures or traditions‘‘۔ اردو ادب کی افسانوی روایت میں برتی جانے والی زبان و بیان میں مخلوطی حسن کاری کے چند افسانوں کے ناموں میں ’’آشا پربھات‘‘ کا ’’ایکوریم‘‘، ’’اسماء حسن‘‘ کا ’’نیم پلیٹ‘‘، ’’پروین عاطف‘‘ کا ’’ڈیزل میں لتھڑی چڑیا‘‘، ’’شبیر احمد‘‘ کا ’’سفوکلس کا المیہ‘‘، ’’انوار زیدی‘‘ کا ’’بائسکوپ دن‘‘ اور ’’طلعت زہرہ‘‘ کا ’’کاکروچ کی کتھا‘‘ شامل ہوتے ہیں۔

سوم: ’’انٹر نیشنلزم‘‘ یا ’’بین الاقوامیت‘‘، جہاں زمینی فاصلے سمٹ کر ہتھیلی پر پہنچ چکے ہیں، جہاں لفظ اُنگلیوں کے پُوروں میں خیمہ ڈال کر بیٹھ چکے ہیں، جہاں وقت کی گرد اور رنگ سمیٹتے کاغذ کو ’’ملٹی اسکرینز‘‘، پبلک اور ذاتی کتب خانوں کو ’’اِی بکس‘‘ اور اِی لائبریریوں‘‘ نے تبدیل کر دیا یا کسی حد تک اپنی کوشش میں کامیاب ہو رہی ہیں۔ چہارم: ’’سماجیت اور شناخت‘‘ بھی عہدِ استخبار کی رَوِش میں کہانی کا چلن بنانے میں اپنا کردار نبھا رہی ہے۔ مجموعی سطح پر انفرادی شناخت ختم جب کہ اجتماعی شناخت قائم ہو رہی ہے۔ آج دنیا کے کسی بھی کونے میں برتی جانے والی کسی بھی انفرادی زیادتی کے حق میں زمینی حدود و قیود سے دُور ’’ہیومن رائٹس‘‘ کی اجتماعی شناخت کو لے کر معاملات بڑھائے جائیں گے۔ اِس اجتماعی شناخت نے کہانی کے نئے چلن پر بھی اثرات دکھائے ہیں، جہاں ہمیں دنیا کے کسی حصے میں بھی اپنے حصے کی کہانی مل جاتی ہے۔ پنجم: ’’جنسیت اور نفسیات‘‘ کی تہہ داری ہے، جس نے کہانی کے چلن کو سب سے زیادہ اپنے رنگ میں رنگنے کی کوشش کی ہے۔ ششم: ’’سپرا سپیشلیٹی سینڈرَوم‘‘ کہا جا سکتا ہے، جہاں موجودہ صدی میں ہر مہارت کی آخری حد کو چھونے یا حاصل کرنے کی تگ و دو اپنے عروج پر دکھائی دیتی ہے۔ کہانی بھی اپنے اطوار میں ایک ایسی سمت بڑھنے کے لیے پر تول رہی ہے، جہاں مجموعی طور پر ’’سپر فکشن‘‘ کی تخلیق اپنے قد کاٹھ کے ساتھ نظر آئے۔ موجودہ دور میں کہانی کار، اپنی کہانی اور ناقدین، اینٹی کہانی کی مسلسل لڑائی میں کہانی کو راستہ دینے کی کوشش میں ہیں۔

خاور چودھری بھی ایک ایسا ہی کہانی کار ہے، جو انفارمیشن اِیج کے بیچ خبروں کی بھرمار سے اپنی کہانی کشید کرنے کاہنر آزماتا ہے۔ ان کے حوالے سے پروفیسر ڈاکٹر فرمان فتح پُوری ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’اردو ادب سے وابستہ بہت سے ایسے ادیب و شاعر اور افسانہ نگار و ناول نگار نویس ہیں، جو شہری مراکز سے دور مضافات میں خاموشی سے اپنے اپنے شعبوں میں سرگرمِ عمل ہیں اور تاوقتیکہ ان کی تحریریں پرنٹ میڈیا یا دیگر ذرائع سے عامۃ الناس تک نہ پہنچیں، اں کا شخصی و علمی تعارف و پس منظر بھی سامنے نہیں آتا، خاور چودھری سچی لگن سے اپنے کالموں، کہانیوں اور مختصر افسانوں میں حالاتِ حاضرہ، انسانوں کے رویّے، باہمی سلوک، منافقانہ و جارحانہ صورتِ حال اور سیاسی و معاشرتی حالات و واقعات اور اہم بین الاقوامی حالات کی بھر پُور عکاسی کرتے ہیں‘‘۔ مزید کہتے ہیں: ’’اِن افسانوں نے اپنے گرد و پیش میں رونما ہونے والے سیاسی و معاشرتی اور نفسیاتی حالات و واقعات، سانحات و حادثات اور زمانے کے تغیرات کے نتیجے میں انسانی فکر، سوچ، شعور، احساس اور روّیوں میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں اور بین الاقوامی سطح پر ملکوں اور قوموں کے بدلتے ہُوئے حالات و واقعات سے اپنی کہانیوں کے موضوعات کا انتخاب کیا ہے‘‘۔ محمد حامد سراج خاورؔ کے افسانوں کی پہلی کتاب ’’چیخوں میں دبی آواز‘‘ کے فلیپ پر لکھتے ہیں:

’’افسانہ نگار کی تخلیقی آنکھ صرف ظاہری منظروں کو Capture نہیں کرتی بلکہ باطنی آنکھ سے معاشرے میں بسنے والے کرداروں کے Inner-Self میں اُتر کر وہ منظر مصور کر لاتی ہے، جہاں تک عام شخص کی نگاہ نہیں پہنچ پاتی۔ خاور چودھری کے من میں جو Video Camera فٹ ہے، جب وہ قلم کی آنکھ سے کرداروں کے باطنی منظر Picturise کرتا ہے تو حیرت انگیز طور پر قاری تحیر کے آسمان پر دھنک رنگوں میں اپنا رنگ تلاش کر لیتا ہے۔ افسانے میں منظر نگاری کے ساتھ ساتھ انفرادی اور معاشرتی دکھ بیان کرنا شاید آسان ہو لیکن کرداروں کی باطنی کیفیات کو Personify کرنا مشکل ترین مرحلہ ٹھہرتا ہے اور اِسی مرحلے سے خاورؔ کامیاب گزرے ہیں‘‘۔

پروفیسر ہارون الرشیدخاورؔ کے حوالے سے کہتے ہیں: ’’آدمی عموماً جب لکھنا شروع کرتا ہے تو اسے اکثر اوقات یہ احساس نہیں ہوتا کہ وہ کیا لکھتا ہے اور کس کے لیے لکھتا ہے، اس سے اِس کی بے چینی بڑھتی ہے۔ وہ کبھی جملے بناتا ہے، کبھی قرطاس پر آڑی ترچھی لکریں کھینچتا ہے اور کبھی لفظوں کے درمیان اپنے اندر کی بے چینی اور اضطراب کو پھیلانے کی کوشش کرتا ہے۔ اِس سے اِس کا کتھارسس تو ہو جاتا ہے لیکن حقیقی طمانیت نہیں ہوتی، طمانیت کا پہلا زینہ کام کی نوعیت طے کرنا ہے، جب کام کا تعین ہو جاتا ہے تو سوچ، ذہن اور خیال اعتدال پر آ جاتے ہیں۔ یہیں سے ادب کی منزل شروع ہوتی ہے۔ میری دانست میں، انھوں نے پہلے اپنے کام کا تعین کیا اور اپنے اندر کے آدمی کو مطمئن کرنے کے لیے شاعری، افسانہ نگاری اور صحافت کا جامہ پہن لیا‘‘۔ ملک مشتاق عاجزؔاپنی رائے پیش کرتے ہُوئے لکھتے ہیں:

’’وہ حقیقت کو اخباری کالم میں لکھنا جانتا ہے مگر یہ بھی جانتا ہے کہ افسانے کے نام سے حقیقت کیسے لکھتے ہیں اور یہی وہ بات ہے، جو افسانے کو اخباری کالم سے ممیز کرتی اور ایک کالم نگار کو افسانہ نگار بھی ماننے کا جواز مہیا کرتی ہے‘‘۔

ناصر شمسی نے لکھا: ’’صحافی ہونے کے ناطے ہمارے ماحول میں پلنے والے ناسور اور ان کے نتیجے میں نمودار ہونے والے المیے خاور چودھری کے شعور کی دسترس میں ہیں اور ان کے قلم کی گرفت میں بھی، اِن کے افسانوں کے عنوانات، مشاہدات و تجربات کا اشارہ دیتے ہیں‘‘۔ دُردانہ نوشین خان اپنی رائے کا اظہار یُوں کرتی ہیں: ’’حیات کے امروز و فردا سے چسپاں کوئی درد، زیست کی پگڈنڈی پر بکھرے سنگ ریزے کی چبھن، آنکھ کے چھجوں کے پار ہوتی دھُوپ، سانس کے ریشم سے اُلجھتی ریتلی خبریں یا کرب میں ڈوبے زمینی منظر نامے جب زخم خوردہ دل کی چیخ بن کر نکلتے ہیں تو یہ اخبار کے دامن میں سمٹا کالم کہلاتے ہیں، جب یہ چیخ میں دبی آواز کو اَوڑھتے ہیں تو انہیں افسانہ کہتے ہیں‘‘۔ جب کہ نصرت بخاری کہانی کاری کے کٹھن کام کو ایک اذیت سے تشبیہ دیتے ہُوئے کہتے ہیں: ’’کہانی تراشنا ایک مشکل اور اذیت ناک کام ہے، اوّل تو کہانی ملتی نہیں اور اگر کہانی تک ہاتھ پہنچ جائے تو اس کو اَفسانوی پیکر دینے میں اپنا وجود تڑخنے لگتا ہے‘‘۔



(۳)

’’چاند کی قاشیں‘‘ میں شامل کہانیوں کا افسانہ کے تازہ چلن سے تال میل بنتا ہے؟

کہانی کا چلن کہانی کار کا چلن بھی تو ہوتا ہے، کہ کہانی کار، اپنی کہانیوں میں تقسیم کردہ ہر سانس کے ساتھ جیتا اور مرتا ہے۔ ’’چاند کی قاشیں‘‘ کہانیوں کے اکٹھ کی صورت ہی نہیں، کہانی کار کی عطا کردہ سانسوں کی لڑی کی صورت بھی تو ہے، جہاں عہدِ استخبار کی گمبھیرتا میں بے شکل کہانی کی صورت گری ایک ماہر کہانی کار کی عطا کردہ ہوتی ہے۔ ’’چاند کی قاشیں‘‘ میں شامل اکیس افسانوں کو چاند کی اتنی قاشیں کہ سکتے ہیں، جو متنوع الزاویہ اخراج کے بعد بھی روشنی کی ہمہ گیریت اور مرکزے سے جڑی ہُوئی ہیں۔ ’’چاند کی قاشیں‘‘ میں روایت کا ساتھ نبھاتی موجود کی شش جہتی اضافت کا رچاؤ کہانی کے نئے چلن سے راہ ورسم نکالنے کی صورت بھی ہے۔ ’’فلیش فکشن‘‘ کی ذیل میں شامل کیے جانے والے افسانوں میں ’’فتح‘‘، اُداس قفس‘‘ اور ’’مراجعت‘‘ اپنے مختصر پن جب کہ ’’داغ‘‘ اور ’’روشنی‘‘ نثر و شاعری کی آمیزش پر پورے اُترتے ہیں۔ ’’ہائبرڈیٹی‘‘ کی تصویر بناتے افسانوں میں ’’بند آنکھوں سے‘‘، ’’داغ‘‘ اور ’’شناخت‘‘، ’’انٹر نیشنلزم‘‘ یا ’’بین الاقوامیت‘‘ کے زمرے میں شامل کیے جانے والے افسانوں میں ’’دشتِ خواب‘‘، ’’داغ‘‘ اور ’’تھال‘‘، سماجیت اور شناخت کی مذکورہ تعریف پر پورے اُترتے افسانوں میں ’’دروازہ‘‘، ’’شناخت‘‘، ’’دیوانہ‘‘، ’’بے چہرگی‘‘ اور ’’شکستہ معبد‘‘، جنسیت اور نفسیات کی تہہ داری نبھاتے افسانوں میں ’’تھال‘‘، ’’سائیکل‘‘، ’’بے اَنت‘‘، ’’آسیب گاہ‘‘، ’’چیجک‘‘، ’’روشنی‘‘، ’’تابوت‘‘، ’’نواب زادی نور محل‘‘ اور ’’سیلاب‘‘ جب کہ ’’سپرا سپیشلیٹی سینڈرَوم‘‘ کی لڑائی لڑتے افسانوں میں ’’چاند کی قاشیں‘‘ جیسے افسانہ کو شامل کیا جاتا ہے۔

کہانی اور اینٹی کہانی یا روایت اور نئے چلن کے بیچ موجود ایک باریک لکیر کے آس پاس اپنے وجود کی دائمی حقیقت کی متلاشی کہانی کے بارے میں خورشید حیات نے ’’کہانی مشک سے پھوٹتی خوشبو‘‘ میں بڑی خوب صورت بات کہی تھی:

’’کیا سوچتے ہیں آپ سب بہت آسان ہوتا ہے، بھیڑ کو بھیڑ سے جدا کرتے ہُوئے ایک عام آدمی کا تخلیق کار بن جانا، کولتار کی سڑکوں کو کنکریٹ کی چھاتیوں سے جدا کرتے ہُوئے، کہانی گاؤں کی پگڈنڈی بن جانا، روایت پر چلتے ہُوئے بڑی خاموشی سے بغاوت کر جانا اور کبھی کہانی کی سنہری روایت سے یکسر بغاوت نہ کرتے ہُوئے نئی روایت کا حصہ بن جانا، آئینہ ادب میں سچائی کی تمثیل بن جانا، آج کی اردو کہانی کی نئی ’روا‘ بن جانا، کبھی یہ بن جانا، کبھی وہ بن جانا۔ بہت مشکل ہوتا ہے، کہانی مشک سے پھوٹتی، خوشبوؤں کو محسوس کرنا، داخلی دنیا سے خارجی دنیا کا سفر اور جبھی بدلتے ہوئے کہانی موسم میں خارجی دنیا سے داخلی دنیا کا سفر اور اس سفر میں موضوع کا از خود اسلوب کی تعمیر کر لینا، بہت مشکل ہوتا ہے، ٹاٹ میں لپٹی ہُوئی زندگی کو اِک نیا اعتبار دے جانا۔‘‘

مشرف عالم ذوقی نے نئے افسانے کے چلن پر بات کرنے کے لیے نئے مکالموں کی ضرورت پر بات کرتے ہُوئے لکھا تھا: ’’آج اردو افسانے کو پھر ایک بار نئے مکالموں کی ضرورت ہے۔‘‘ لیکن ساتھ ہی نئے چلن کی وضع بنانے کے لیے درپیش مقابلوں کی سمت نشاندہی بھی کی تھی:

’’نئے لکھنے والوں کے لیے بھی ایک چیلنج ہے کہ وہ محض مارکیز، بورخیس، اوہان پامک جیسے بڑے تخلیق کاروں کی پیروی نہ کریں بلکہ اپنی مثال پیش کریں کہ ان کے اسلوب اور ڈکشن پر مغرب میں بھی گفتگو کے راستے کھل سکیں۔ اس غریب زبان کو اپنی تنگ دامنی کا پتہ ہے لیکن اس تنگ دامنی کے باوجود اُردو والوں کو ایک بڑی پہچان بنانے کی ضرورت ہے۔‘‘

’’چاند کی قاشیں‘‘ میں شامل کہانیوں کا افسانہ کے تازہ چلن سے تال میل کا درست اندازہ ذیل میں شش جہتی اضافت کو مد نظر رکھ کر کی جانے والی ایک تجزیاتی بحث کارآمد ثابت ہو سکتی ہے، جو تازہ کاری کے ساتھ ساتھ بالید رَوِش کا پرتو بھی کھولے گی۔



(۴)

بیسویں صدی کے اواخر تک، انگریزی ادب میں ’’فلیش فکشن‘‘ کو ’’شارٹ شارٹ فکشن‘‘ کی ’’سب کیٹگری‘‘ میں رکھا اور برتا جاتا رہا ہے۔ ’’فلیش فکشن‘‘ کی بیان کردہ تعریفوں میں مختصر مختصر کہانی کی ذیل میں لفظوں کی تعداد یا مجموعی اختصار کی صورت کو بھی شمار میں لیا جاتا ہے، یُوں لفظوں کی مجموعی تعداد کی تعریف پر ’’چاند کی قاشیں‘‘ میں شامل کہانیاں ’’فتح‘‘ اور ’’اُداس قفس‘‘ کہی جائیں گی، جب کہ مجموعی اختصار یا نثر و نظم کا بدلاؤ بھی جس صورت سے روشناس کراتا ہے، اِسے بھی اسی ذیل میں رکھ کر بات بڑھانے سے نئی کہانی، نئے چلن اور ’’چاند کی قاشیں‘‘ میں شامل کہانیوں کا تجزیاتی مطالعہ سہل کاری کی سمت بڑھے گا۔ دوسری ذیل میں ’’مراجعت‘‘، ’’دیوانہ‘‘، ’’تابوت‘‘ اور ’’داغ‘‘ شمار میں آتے ہیں۔ ’’فتح‘‘ میں لفظوں کی گنتی بمشکل ساڑھے چھ سو تک جب کہ ’’اُداس قفس‘‘ میں ساڑھے آٹھ سو تک ہی جاتی ہے، جہاں یہ ’’سڈّن فکشن‘‘ کی تعریف کی زد میں آ کر اپنا آپ موجودہ رَوِش کے حوالے کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے، جیسا کہ ٹیکنالوجی ماہر ’’جوسے فلّیویو نو گیورا گیمارس‘‘ (José Flávio Nogueira Guimarães) نے ’’The Short-Short Story: A New Literary Genre‘‘ میں لکھا ہے:

"The prevailing criterion for inclusion of those texts in a short-short collection is not form but, as the name indicates, length. In Sudden Fiction, none of the texts exceeds 1,500 words".

دوسری جگہ مزید وضاحتی انداز میں یُوں لکھا:

"In a more recent anthology, with the title of Flash Fiction Forward: Eighty Very Short Stories (2006), the texts are even briefer, averaging between 250 and 750 words".

’’فتح‘‘ میں کم لفظوں کے اندر اندر کئی سمتوں میں بڑھتی ایک مکمل تازہ کہانی اپنے نئے انداز کے ساتھ روایتی تہ داری کو بھی گھیرے ہُوئے مل جاتی ہے۔ انسانی نفسیات کے الجھاوے میں اپنا راستی ڈھونڈتی کہانی میں ہمہ جہتی فلیش، تخلیقی تکمیلیت کے ساتھ ساتھ کہانی کار کی باریک نگاہی اور کہانی کی محبت کا پتہ بھی مل جاتا ہے۔ کہانی کار کی اپنی کہانی بچانے کے لیے محنت، ریاضت اور محبت کا ایک امتزاج دیکھ لیتے ہیں:

’’کیکروں پر پیلے پھولوں کی بہار تھی، راتوں کو جب ہوائیں تھل میں ناچنے لگتیں تو اس کا جی چاہتا کوئی ایسا ہو، جو اُس کی کمر میں بانہیں ڈال کر مد ہوش کر دینے والی مشک سے مہکا دے، اُس کے انگ انگ میں رَس گھول دے، اُس کا رواں رواں سیراب کر دے، بس ایسے ہی، دھیان میں کوئی خاص نہیں تھا، البتہ ایک ہیولا سا کبھی اُس کی آنکھوں میں لہرا جاتا تھا۔‘‘ (افسانہ: فتح)

’’اُدھر تھل کی سر پھر ی ہواؤں کا رقص جاری ہوتا، اِدھر اسے کھانسی کے دورے پڑنے لگتے، جی توڑ دینے والی کھانسی اُسے بے بس کر دیتی۔ ذرا فضا میں خنکی اُترتی، اُسے زکام، نزلہ اور بخار آ لیتا۔ کیکروں کی بھینی خوشبو اُس کی بے قراری میں مسلسل اضافہ کیے جاتی تھی، مگر خوابوں کا شہزادہ اُسے مل نہیں رہا تھا۔‘‘ (افسانہ: فتح)

’’اداس قفس‘‘ میں فلیش فکشن کی جھلک دیکھنے کے لیے آنکھ جھپکانے کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی، جہاں لفظی گنتی کے کل ملا کر ساڑھے آٹھ سو الفاظ نے موجودہ صدی کی سب سے ہولناک کہانی کا سرا پکڑ کر ایک لمحے میں قاری کے ہاتھ میں تھما دیا ہے:

’’آٹھویں آسمان کی تلاش میں نویں سمت میں سفر کرنے والے مسافر نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو حدِ نگاہ تک سُرخ لکیر تھی۔ وقت کے رِستے زخموں اور مسافر کے نتھنوں سے جاری خون نے ایک ساتھ بہ کر صحرائی زمین کو سیراب کرنے کی لا محال کوشش کی تھی۔‘‘ (افسانہ: اداس قفس)

’’مسافر آٹھویں آسمان کی تلاش میں تھا اور اس کے لیے لازم نہیں تھا کہ وہ کسی چیونٹی کی طرح اپنے پیچھے آنے والی دوسری چیونٹیوں کے لیے مادے کی خوش بو بُنتا کہ اُس کے نقشِ قدم پانے والے بھی منزل آشنا ہو جاتے۔ مسافر تو خود یک تنہا آٹھویں آسمان کا متلاشی تھا۔ آٹھویں آسمان کی تلاش میں نویں سمت کا یہ سفر محض معمولی لکیر کا ذائقہ چھوڑنے کے باوجود بھی مسافر کی رُوح اُچک لینے کو بہت تھا۔ لیکن وہ کوتاہ ہمت نہیں تھا، اس لیے چلتا رہا، جلتا رہا۔‘‘ (افسانہ: اداس قفس)

’’آٹھویں آسمان کی تلاش میں نویں سمت سفر کرنے والا مسافر عجیب منزل میں تھا۔ اُس نے دوبارہ سفر کا ارادہ کیا تو اُس کے پاؤں میں زمین بھر کیلیں گڑی ہوئی تھیں۔ اُس کے ہاتھ لوہے کی ہتھکڑیوں میں جکڑے تھے، اُس کی روح کوجُل دے کرسنہرے جال میں پھنسایا جا چکا تھا۔ کعبے کے رُخ پر ایستادہ آئینے میں اپنا آپ دیکھاتوخوف کے رنگ میں بے بسی کا رنگ بھی رَچ چکا تھا۔‘‘ (افسانہ: اداس قفس)

یہاں افسانہ کے چلن کا تال میل ڈھوندنے کے لیے روایت سے جڑی ایک بات لکھنا پڑے گی، جو نئی رَوِش کی صورت گری کرے گی، کیوں کہ پروفیسر ڈاکٹرفرمان فتح پُوری نے کہانی کار کے لیے ہی ایک جگہ پر لکھا تھا: ’’تمام افسانے اپنے موضوع، مواد اور اسلوب و زبان کے لحاظ سے مصنف کی ایک بہت کامیاب اور قابلِ ستائش پیش کش قرار دیے جا سکتے ہیں۔‘‘ موجودہ چلن میں بھی یہی بات من وعن کہی جا سکتی ہے اور حوالے کے طور پر محمد حامد سراج کی ایک بات کو لکھ دینے سے مزید تقویت مل جائے گی، انھوں نے لکھا تھا: ’’افسانے میں منظر نگاری کے ساتھ ساتھ انفرادی اور معاشرتی دکھ بیان کرنا شاید آسان ہو لیکن کرداروں کی باطنی کیفیات کو Personify کرنا مشکل ترین مرحلہ ٹھہرتا ہے اور اِسی مرحلے سے خاورؔ کامیاب گزرے ہیں۔‘‘ بے شک یہاں تک بات بنتی نظر آ جاتی ہے، جب کہ آگے کی صورت، آگے ہی واضح ہو کر سامنے آئے گی۔ مجموعی اختصار یا نثر و نظم کا بدلاؤ سے رو شناسی کا معاملہ نئی کہانی، نئے چلن اور زیرِ بحث دوسری کہانیوں سے ’’مراجعت‘‘، ’’دیوانہ‘‘، ’’تابوت‘‘ اور ’’داغ‘‘ کو بھی مذکورہ ذیل میں ہی برتاؤ کا کہتا ہے۔



(۵)

فلّیویو، نے ہائبرڈیٹی کے معاملے کو لے کر ایک ایسی جامع بات کہی کہ ادب کو لے کر اُٹھنے والے ابہام کو ایک روشن سمت دکھائی دینے کی امید بن آتی ہے۔ ’’جوسے فلّیویو نو گیورا گیمارس‘‘ نے لکھا ہے:

"The postmodern short-short story is seen as emerging from this trend, a hybrid genre with characteristics of the narrative language of other prose genres such as the short story and the journalistic writing".[31]

عہدِ استخبار میں خبر اور کہانی کی گھمن گھیری سے جو ایک صورت نکلتی ہے، اُسے بھی ہائبرڈیٹی کہا جائے گا اور ایسی مخلوطیت کے درمیان کہانی کو سانسیں دینا ایک کہانی کار کا سلیقہ کہا جائے گا۔ یُوں خبروں کے بیچ پھنسی کہانی کو تلاش لینے کا ہنر سب کو میسر آ جاتا تو کہانی یُوں اپنے نئے چلن کی شناخت ڈھونڈنے کی کوشش میں سرگرداں نظر ہی نہیں آتی تھی۔ ایسی ہی صورت کے لیے ملک مشتاق عاجز نے لکھا تھا:

’’اَن گنت انسانوں کی آنکھیں نُورِ بصارت سے روشن اور اُن کے عدسے شفاف ہیں، لاتعداد ذہنوں کے پردے آنکھوں کے کیمرے سے لی گئی تصاویر کا عکس محفوظ رکھنے کے اہل ہیں، جب کہ بے حدو بے حساب وہ لوگ بھی موجود ہیں، جن کی آنکھوں پر غفلت کے پردے پڑے ہیں اور اُن کے عدسے اچھے برے منظر کے واضح عکس اُتارے کے قابل نہیں رہے، جن کے ذہنوں پر کثافتوں کی تہ جمی ہے اور وہ کسی تصویر کا واضح اور نمایاں نقش نہیں اُبھار پاتے، جن کے دل زنگ آلود ہو چکے ہیں اور خیر و شر کا تجزیہ کر کے خوب صورت و بد صورت میں تمیز کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھے ہیں۔ خاور چودھری، صحافی کی نگاہ سے دیکھتا، کہانی کار کے ذہن سے سوچتا اور افسانہ نویس کے قلم سے لکھتا ہے۔ اِس کی چشمِ بصیرت وہ عدسہ ہے جو باریک سے باریک تر کی تصویر اُتار لیتا ہے۔ اُس کا ڈش انٹینا اتنا زود حس ہے کہ کوئی آہٹ، کوئی جنبش، اس کی گرفت سے باہر نہیں۔ وہ صدائے بازگشت بھی سن لیتا ہے، اِس نے چنگیز خان کو دیکھا ہے نہ ہلاکو کو مگر ماضی کی خون آلود تاریخ سے مظلوموں کی آہ وبقا کشید کر لیتا ہے اور ایک چیختی، چلاتی، احتجاج کرتی کہانی، اِس کے افسانے کا روپ دھار لیتی ہے۔‘‘

’’بند آنکھوں سے‘‘، ’’داغ‘‘ اور ’’شناخت‘‘ ایسی ہی کہانیوں کی صورت ہیں، جو صحافیانہ نگاہ کے حامل عدسہ سے دیکھی گئیں لیکن ایک کہانی کار کے ذہن سے سوچی گئی ہیں۔ ’’بند آنکھوں سے‘‘ میں اُتری محبتوں کی حقیقت جنھیں خواب سچائی دیتے ہیں، کہانی میں ایک شاعر اور ایک تاریخ دان مل ایک خوب صورت مزاج بناتے ہیں، یہ ایک صدی کے قریب مسافت کا المیہ ہے، جہاں تقسیم کا درد ابھی تک باقی ہے، جہاں ہجرتوں کی داستان ابھی تک جاری ہے:

’’یہ خواب ہماری کہانی سے جڑا ہوا ہے، اس کی دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ہم نے دو راتوں میں مل کر دیکھا ہے، بالکل سوئی ہوئی آنکھوں سے، ایک حصہ اُس پر وارد ہوا اور دوسرا مجھ پر، پھر ہم دونوں نے اسے یک جان کر دیا، ہاں یاد آیا، اس خطے کی تاریخ مت بھولیے گا۔ اس طرح آپ کو ہمارا خواب سمجھنے میں آسانی ہو گی۔‘‘

یہ خواب بھی کتنے عجیب ہوتے ہیں، آنکھ کھلتے ہی سارا منظر بدل جاتا ہے، بالکل بے گانے ہو جاتے ہیں اور جب انسان یاد کرنے کی کوشش کرے تب بھی اجنبیت برتتے ہیں۔‘‘ (افسانہ: بند آنکھوں سے)

’’داغ‘‘ اور ’’شناخت‘‘ میں کی جانے والی منظر نگاری، حالات کا نوحہ اور موجودہ تناظر میں برتی جانے والی عورت کی تذلیل کا قصہ بڑی نفاست سے چُنا اور بُنا گیا ہے۔ کہانی بنتے بنتے افسانہ نگار کے اندر بیٹھا ایک شاعر بھی مچل رہا ہے، جو کہانی کے درمیان اپنی جگہ بنانے میں یُوں خوب صورتی سے کامیاب ہو جاتا ہے کہ گمان ہی نہیں ہوتا اور نہ ہی کہانی کی روانی میں کہیں ٹھہراؤ یا جھٹکا محسوس ہوتا ہے۔ یہاں ادبی سطح پر مخلوطیت کے حامل چند اقتباس ملاحظہ ہوں:

’’آہا! دیکھتے ہیں، تم نے ورڈز ورتھ کو تو پڑھا ہو گا، میں اس کا ایک سانیٹ سُناتا ہوں‘‘۔ (افسانہ: داغ)

’’آسمان خاموش تھا اور زمین پر ننھی آواز دھاڑ رہی تھی، اس آواز کی خاک کو ’’کھیوین‘‘ کا نام دے دیا گیا، ابھی کچھ ہی دن گزرے تھے کہ اُنھیں رات کے اندھیروں میں کسی اور منزل سے آشنا کر دیا گیا، یہاں بھی وہی نوچ کھسوٹ اور پھر وقت سے پہلے دنیا میں آنے والی ایک اور ننھی روح کو ’’ایونز‘‘ کا نام دینا پڑا۔‘‘ (افسانہ: داغ)

’’اُس نے سوچا: جورجینا کے جسم و جان پر داغ کس کے ہیں، میرے، مائیکل ڈی سوزا کے، پالی کمہار کے، رانا کل دیپ یا پھر ابو نصیر کے … اگر طے ہو جائے تو بچوں کو اُن کی دُرست نسبت کے ساتھ یاد کرنے کا انتظام ہو سکتا ہے۔‘‘ (افسانہ: داغ)

’’احمد حبیب کے دھیان میں ایک تصویر اُبھری، اُس نے غور کیا، کافکا ہے شاید۔ نہیں کانٹ یا پھر ڈیکارٹ، او! نہیں نہیں! ژاں پال سارتر! نہیں شاید سگمنڈ فرائیڈ یا پھر ژولاں بارتھ، ٹیگور کی تصویر ہو گی، اقبال، فیض، جالب، بیدی، محمود درویش، موپساں، نہ جانے کس کی تصویر تھی؟ ایک بار پھر اُس نے تمام خیالات جھٹک کر دماغ پر دستک دینے والے عکس کے متعلق سوچا۔ اس بار بھی کوئی واضح شبیہ ظاہر نہ ہوئی۔ وہ اپنا مغز ہتھیلی پر رکھ کر اُس تصویر کو آنکھوں سے دیکھنا چاہتا تھا، وہ چاہتا تھا کہ تصویر مجسم ہو کر اُس کے سامنے کھڑی ہو جائے اور وہ جانے والی گھڑیوں اور بیت جانے والے لمحوں سے متعلق اُس سے گفتگو کرے۔‘‘ (افسانہ: شناخت)



(۶)

عہدِ استخبار کی شش جہتی اضافت اور شناخت میں ’’انٹر نیشنلزم‘‘ یا ’’بین الاقوامیت‘‘ کا عنصر اپنی جدت پسندی، وسعت پذیری اور سرعت انگیزی کے سبب تفوقیت کے زُمرے میں آتا ہے۔ احسان بن مجید نے کہا تھا: ’’فنِ افسانہ نگاری میں کا ایک خاص پہلو، افسانہ میں لکھاری کی Involvement ہے۔‘‘ بے شک یہ مشارکت ہی در اصل حدود وقیود کی جبری رَوِش سے آزاد اپنے فکری اور تخلیقی سفر پر روانہ رہتے ہُوئے نئے چلن کی صورت گری بھی کرتی ہے۔ ’’اَوبافیمی‘‘ نے ایک لیکچر ’’Literature and Society on the Border of Discourse‘‘ میں کہا تھا: ’’ادب، سرحد پار دیگر ضابطوں کی سمت بڑھنا چاہیے تاکہ مجموعی انسانی ثقافت کا احاطہ ممکن ہو۔‘‘

’’چاند کی قاشیں‘‘ میں ایسی کئی صورتیں ملتی ہیں، جہاں مجموعی سطح پر حدود و قیود کو غیر محسوس انداز میں پار کیا گیا تاکہ مجموعی انسانی ثقافت کا احاطہ ممکن ہو پائے۔ ’’دشتِ خواب‘‘ ایک ایسی ہی کہانی ہے، جہاں غنائی نثر بولتی ہے، شاعری جاگتی ہے، جہاں موجودہ صدی میں مجموعی ’’انٹر نیشنلزم‘‘ یا ’’بین الاقوامیت‘‘ کی قلعی کھلتی اور ہماری بے بسی بولتی ہے:

’’اب چاہتا ہوں میرے لا تعبیر، پُر تقصیر اور پا بہ زنجیر ان خوابوں کو اذنِ رہائی ملے یا پھر کوئی بادشاہِ حجاز، امیرِ قطر، رئیسِ سندھ، نوابِ ہند، شہنشاہِ برطانیہ، صدرِ امریکا یا سورمائے چین انھیں خرید لے۔ ہاں! خرید لے۔ یہ عنبریں، صندلیں، خشمگیں خواب، جو میں نے تتلیوں، پرندوں، پتوں، ہواؤں، خلاؤں، ستاروں اور مہِ تاباں کے رُخِ شرر فشاں پر دیکھے اور سجائے تھے۔‘‘ (افسانہ: دشتِ خواب)

’’اچھا چھوڑو … خوابوں کی قیمت لگاؤ۔‘‘ (افسانہ: دشتِ خواب)

’’تم میرے خوابوں کے عوض محض دھونس، دھمکی، دھاندلی اور دہشت گردی دے سکتے ہو۔ زہریلی سبزیاں، سیماب اُگلتی چمنیاں، کیمیکل ملا دودھ، بِس سے اَٹا پانی، پانی سے بھرا گوشت یا پھر مجبوری اور مقہوری میں لپٹی ہوئی جمہوریت دے سکتے ہو۔ خوف میں دبکی ہوئی عدلیہ، گرداب میں گھرا ہوا میڈیا، سسکیوں میں سلگتا ہوا شہر یا پھر راہوں میں بھٹکتا ہوا انصاف دے سکتے ہو؟ ہاں! تم یہ دے سکتے ہو۔‘‘ (افسانہ: دشتِ خواب)

’’خاموش! ____گستاخ____ لعین____ میں نے تمھاری پشت مضبوط کی، تمھیں دشمن سے بچایا____ احسان فراموش، پاجی، کمینے!‘‘ (افسانہ: دشتِ خواب)

’’ہر گز نہیں، تم نے میری لاش پر اپنا قد بلند کیا، اَب میں تیرے لوبھ میں نہیں آؤں گا۔ میں اپنے خواب تمھارے اسلحے اور جہازوں کے عوض نہیں فروخت کروں گا، اَب میں تمھارے دھوکے میں نہیں آؤں گا۔‘‘ (افسانہ: دشتِ خواب)

’’انٹر نیشنلزم‘‘ یا ’’بین الاقوامیت‘‘ کی سادہ تعریف اور عمدہ مثال کی تلاش ’’چاند کی قاشیں‘‘ میں آ کر تھم جاتی ہے تاکہ طرفۃ العین جاری ایک کشمکش اور چلن کی اصل کھل کر سامنے آ جائے، اگر چہ اردو ادب کا کئی فیصد حصہ ایسی کہانیوں سے عبارت ہے لیکن بہ ہر طور، عہدِ استخبار کا عمدہ نوحہ ہے۔ دیگر کہانیوں میں، ’’داغ‘‘ اور ’’تھال‘‘ کے ساتھ ساتھ اردو ادب کی نمائندہ کہانیوں میں ’’الطاف فاطمہ‘‘ کا افسانہ ’’دید وادید‘‘، ’’نیلوفر اقبال‘‘ کا افسانہ ’’اوپریشن مائس‘‘ اور ’’سرخ دھبے‘‘ (اوپریشن مائس۔ II)، ’’پروین عاطف‘‘ کا افسانہ ’’ایند آف ٹائم‘‘ چند نمایاں افسانے ہیں۔

موجودہ عہد میں ’’شناخت اور ثقافت‘‘ کو ’’ڈیجیٹل شناخت‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ’’ڈیجیٹل شناخت‘‘ کے اِس پُر فتن دور میں ’’چاند کی قاشیں‘‘ میں شامل کہانیوں کی غیر محسوس انداز میں اپنی شناخت اور ثقافت کی نمائندگی، حفاظت کی ارادی یا غیر ارادی کوشش اور مجموعی شناخت(عالمی افسانوی رَوِش) کے خال و خط میں اپنی اردو کا طرزِ عمل یا ردِ عمل نظر آتا ہے۔ ’’شناخت‘‘ میں یہی المیہ پورے اہتمام سے برتا گیا، جہاں شناخت مٹانے کی کوشش میں بھی کئی لوگوں کی شناخت بن جاتی ہے، جو اِس بات کا ثبوت ہے کہ نام بنانے والوں کا نام تو زندہ رہتا ہے، جہاں بہروپ اور چہرے پہ چہرہ چڑھانے کی رَوِش سر اُٹھاتی ہے۔ موجودہ عالمی تناظر میں لڑی جانے والی شناخت مٹاؤ لڑائی میں بھی شناخت مٹتی نہیں۔ ’’دروازہ‘‘، خدشات و امکانات کے نئے راستوں کی ایک نشاندہی ہے، جہاں مقید سوچوں کو راستہ دینے سے منظر بدلتے اور منزل سنورجاتی ہے، حالات کا نوحہ جہاں سوچ کو ایک مخصوص دائرے میں قید اور سوچنے کا عمل گناہ سے تعبیر ہو جاتا ہے۔ ’’دیوانہ‘‘ شناخت کے انسانی معیارات پر جمی آنکھ سے پرے کا منظر کھولتی ہے۔ ’’بے چہرگی‘‘ میں شناخت اور تشخص کے بحالی کی کوشش ہے، جہاں فی زمانہ کثیر الجہتی قوتیں مل کر دوسروں کی شناخت مٹانے پر سرگرداں ہیں۔ ’’شکستہ معبد‘‘ بھی برسوں کی شناخت بچانے کے لیے زندگی کی قربانی کا ایک نمونہ ہے۔ ذیل کے چند اقتباسات سے ’’شناخت اور ثقافت‘‘ کے موقف کی تائید کی صورت نکلتی ہے:

’’احمد حبیب کے دھیان میں ایک تصویر اُبھری، اُس نے غور کیا، کافکا ہے شاید۔ نہیں کانٹ یا پھر ڈیکارٹ، او! نہیں نہیں! ژاں پال سارتر! نہیں شاید سگمنڈ فرائیڈ یا پھر ژولاں بارتھ، ٹیگور کی تصویر ہو گی، اقبال، فیض، جالب، بیدی، محمود درویش، موپساں، نہ جانے کس کی تصویر تھی؟ ایک بار پھر اُس نے تمام خیالات جھٹک کر دماغ پر دستک دینے والے عکس کے متعلق سوچا۔ اس بار بھی کوئی واضح شبیہ ظاہر نہ ہوئی۔‘‘ (افسانہ: شناخت)

’’کیوں؟ کب؟ کیسے؟ کیا؟ کہاں؟ اور کس نے؟ جیسے سوالات اُس کے دماغ کی دیواروں پر ہتھوڑے برساتے ___ یہ عامیوں کا کام نہیں، تمھیں کس نے اختیار دیا ہے کہ تم اتنی بڑی بڑی باتیں سوچو؟ ____اِسی کش مکش میں ایک رات اُس کا اکلوتا ہاتھ سوئی ہوئی ماں کی گردن سے لپٹ گیا اور بڑھیا کی نرخرے میں اَٹکی ہوئی جان نے بستی کے اُوپر سے اُٹھ کر اُس کے اندر پناہ لے لی____ سیاہ آہنی دروازہ جس کی دونوں جانب دیو قامت دربان ایستادہ تھے۔ یہ دروازہ رنگت کے اعتبارسے سلوری تھا، اس دروازے کے باہر بھی دو تنو مند، پست قامت اور پختہ سیاہ رنگت کے حامل دربان کھڑے تھے، جو آتشیں اسلحے سے لیس تھے۔ تیسرا دروازہ یوں معلوم ہوتا تھا، جیسے دیودار کے فلک بوس درختوں کو جوڑ کر بنایا گیا ہو۔ چوتھے دروازے پر پانیوں کا گمان ہوتا تھا، پانچواں دروازہ کھلا تو اندر کا منظر نہایت بھیانک تھا، بیضوی، گول، چوکور، مستطیل اور چھے کونا جھکے ہوئے چبوتروں پر ننگ دھڑنگ جسموں کے انبار تھے۔ چھٹا دروازہ شیشے کا تھا، اُس نے ذرا غور کیا تو زمین پر چوہے، سانپ، نیولے، چیونٹیاں اور کچھوے بھی رینگتے ہوئے نظر آنے لگے۔ ساتواں دروازہ کسی غار کے دہانے کی مانند تھا۔ جس کی ہر طرف سبز کائی کی وحشت ناکیوں کا رقص جاری تھا، آٹھواں دروازہ بہت ہی عجیب تھا۔ یوں معلوم ہوتا تھا، جیسے کسی نے آتش فشاں کی کوئی چٹان لا کر یہاں رکھ دی ہو، وہ گھبرا کر آنکھیں بند کرتا ہے تو اُس کی سوچوں کا دروازہ کھل جاتا ہے۔‘‘ (افسانہ: دروازہ)

’’وہ حرامی نہیں جو دوسروں کا خون چوستے اور ماس کھاتے ہیں، کم سن بچوں کو استعمال کرتے ہیں، جانوروں اور بے زبانوں کے ساتھ منھ کالا کرتے ہیں۔ وہ حرامی نہیں؟ جو سود کھاتے اور منشیات بیچتے ہیں، وہ جو قوم اور دین کی خدمت کا نعرہ بلند کر کے ووٹ لیتے اور بھول جاتے ہیں، میں حرامی ہوں تو یہ سب کون ہیں؟‘‘ عمر حیات بولے جا رہا تھا: ’’چاند میں بیٹھ کر جب تم نے پانچ سائے نیچے پھینکے تھے، میں انھیں دیکھ رہا تھا، اُن کے چہرے دوسری طرف تھے لیکن میں نے کوشش کر کے سب کو پہچان لیا تھا۔ یہ سائے اُلّو، سور، بندر، بلی اور گائے کے تھے، اُن سب کے سر نیچے اور پاؤں اُوپر کی طرف تھے۔ تم نے انھیں اُلٹا کر پھینکا تھا۔ میں بے دھیانی میں درختوں کے جھنڈ سے باہر نکل آیا تھا، تب اچانک یہ پانچوں سائے سانس کے راستے سے میری رگوں میں اُترے اور پھر میرے خون میں شامل ہو گئے۔ میں بہت چیختا چلاتا رہا مگر وہاں میری مدد کے لیے کوئی نہ آیا، اب میں تھا اور صحراؤں کی ویرانی تھی۔‘‘ (افسانہ: دیوانہ)

’تم خود سے مل سکتے ہو مگر اس کا راستہ بہت کڑا ہے۔ تم اپنی شناخت قائم رکھ سکتے ہو مگر اس کے لیے تمھیں اپنی راکھ سے زندہ ہونے کا ہنر آزمانا پڑے گا۔‘‘ (افسانہ: بے چہرگی)

’’اُس نے چیختے ہوئے جج کو مخاطب کیا: ’’آپ کسی عبادت گاہ کو گرانے کا حکم کیسے دے سکتے ہیں؟ آپ ایسا نہیں کر سکتے: میں پچاس سال سے وہاں اپنے شوہر کی عبادت کر رہی ہوں، بتائیں کیا شوہر مجازی خدا نہیں ہوتا؟ کیا اُس کی عبادت ناجائز ہے؟ کیا داسی کو مندر میں رہنے کا کوئی حق نہیں؟ ____اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے سارا گھر ملبے کے ڈھیر میں بدل گیا، بڑھیا اپنی آنکھوں کے سامنے معبد کو ملبے میں بدلتے دیکھ رہی تھی: تب کسی نے داسی کی طرف پلٹ کر دیکھا تو اُس کی گردن ایک طرف لڑھک چکی تھی۔‘‘ (افسانہ: شکستہ معبد)



(۷)

افسانے کے نئے چلن میں ’’جنسیت اور نفسیات‘‘ کی باریکیوں پر توجہ قابل دید بھی ہے اور قابل داد بھی ہے۔ کہانی کار، کہانی کی جزئیات سے نہیں قاری کی نفسیات کے مقابل ہوتا ہے، جبھی تو ایک پراثر کہانی کا وجود کہانی کار سے نکل کر خاص و عام کی محفلوں میں پہنچ جاتا ہے۔ احسان بن مجید نے کہانی کار کی ایسی ہی حالت کے بارے میں لکھا: ’’افسانہ نگار کے اپنے تجربات، اپنے احساسات، جو کہانی کے لطف کو دوبالا کرتے ہیں اور یقیناً قاری کے لیے دلچسپی کا باعث ہوتے ہیں لیکن یہ تب ہی ممکن ہوتا ہے، جب افسانہ نگار خود کہانی کا ہر کردار بن جائے، جو خوشی کے لمحات میں جھومے اور رنج و غم میں خون تھوکے، افسانہ نگار کے اِس عمل سے کہانی میں Originality ابھرتی ہے اور لکھاری حقیقت کے قریب ترین ہو جاتا ہے۔‘‘ یہاں، کہانی کی نفسیات کے مقابل قاری کی نفسیات کو مدِ نظر رکھنے کا معاملہ ہرگز روایت سے انحراف یا کہانی کی جزئیات سے کنارہ کشی کی کوشش ہوتی ہے بلکہ یہ دو طرفہ کہانی کا معاملہ ہے جہاں سلجھاؤ کی کوشش، در اصل افسانے کے نئے چلن کا خاصہ بن جاتی ہے۔ جبھی تو ناصر شمسی نے برملا اظہار کیا ہے: ’’ہم سب جانتے ہیں کہ افسانہ زندگی کی عکاسی اور تشریح کرتا ہے مگر اِس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ مصنف افسانے میں زندگی کا وہ عکس دکھائے جو وہ چاہتا ہے (چاہے وہ عکس کتنا ہی حسین رُخوں سے سجا ہو) بلکہ زندگی جیسی بھی ہو وہ نظر آنا چاہیے۔‘‘

’’چاند کی قاشیں‘‘ میں شامل افسانوں کی نفسیاتی تہ داری ہی در اصل کہانی کے وجود کا معاملہ حل کرنے میں پیش آتی ہے، جب کہ جنسیت کا معاملہ بھی ایک موجود ضرورت کے تحت نئی رَوِش کے ساتھ کھلتا ہے۔ افسانہ ’’سائیکل‘‘ کے جملوں کی بُنت سے جنسیت اور اختتام سے نفسیات کے دو طرفہ مزاج کی ایک صورت کھلتی ہے۔ ’’بے انت‘‘ معاشرتی نفسیات اور مظلومیت کی داستان رقم کرتی ہے۔ ’’آسیب گاہ‘‘ کم عمری کی شادی اور مرے ہُوئے خاوند کے نام پر سانسوں کی جکڑ بندی کے ساتھ ساتھ سماجی رویوں کی نفسیات کا معاملہ بھی ہے۔ ’’چینجک‘‘ نفسیاتی تہ داریوں کی ایک عمدہ مثال جب کہ ’’روشنی‘‘ ہم جنس پرستی پر پڑا مہین پردہ اُٹھانے کی کوشش ہے۔ ’’تابوت‘‘ بھی نفسیاتی رویوں کے گرد کہانی کا وجود بنانے کی کاوش ہے، ’’نواب زادی نور محل‘‘ لمحۂ موجود کی ڈیجیٹل محبت اور جنسیت کی طلب میں دوڑتی ہُوئی ایک کہانی ہے، جب کہ ’’سیلاب‘‘ محبت کی نفسیات کا معاملہ کہا جائے گا۔ ’’چاند کی قاشیں‘‘ میں شامل افسانوں سے جنسیت اور نفسیات کے معاملہ کی جانچ پرت کے لیے چند اقتباس حوالے کا کام کریں گے:

’’میں نے کبھی اس کا کیرئیر نہیں لگایا۔ جانتا ہے نا کیوں؟ اس لیے کہ تیرے جیسوں کو اپنے سامنے ڈنڈے پر بٹھاتا ہوں ____ یہ اُس کے رُخسار تھپتھپاتے ہوئے فرمائش کرنے لگتا: ملتا رہا کر، تیرا باپ بھی مجھ سے ملا کرتا تھا۔ باپ کی ملاقات کا بتاتے وقت ایک مخصوص مسکراہٹ اُس کے لبوں پر پھیل جاتی اور وہ ایک خاص انداز سے زبان اپنے ہونٹوں پر پھیر لیتا، جیسے شہد چاٹ لیا ہو، نظروں ہی نظروں میں لڑکے کا سراپا ٹٹولتا اور آگے بڑھ جاتا۔‘‘ (افسانہ: سائیکل)

’’شیداں پھر اُمید سے تھی اور اس کے ہاں ساتواں بچہ ہونے لگا تھا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی نظریں شیداں کی چھاتیوں اور پیٹ کا طواف کرنے لگتی ہیں، سینے کے اُبھار بھرے ہوئے اور اُن کے سرے بھیگ چکے تھے۔‘‘ (افسانہ: بے انت)

’’کچی عمر میں ہو جانے والے اپنوں کو تو مرتے دَم تک نہیں بھلایا جا سکتا۔ پھر جنگوں کی نفسیات اور حالات سے مجھے بڑی حد تک شناسائی ہے، ایسے میں متاثرہ علاقوں میں انسانی زندگی ہی کیا، حیوانی اور نباتاتی زندگیاں بھی داؤ پر لگ جاتی ہیں۔‘‘ (افسانہ: آسیب گاہ)

’’اُسے لڑکیوں کے ساتھ کھیلنا بہت اچھا لگتا تھا، وہ اُن کے ساتھ گیٹی چھُپان کھیلتا، رَسی تَرَپ میں حصہ لیتا، چینجک تو اِس شوق سے کھیلتا کہ عموماً اپنا سانس تڑوا بیٹھتا، نڈھال ہوتا پھر بھی اس کھیل سے اُس کا جی سیر نہ ہوتا۔‘‘ (افسانہ: چینجک)

’’وجہی نوجوان کو ہاتھ سے پکڑ کر ایک کمرے میں لے جاتا ہے، پھر کوٹھی کو روشن کرنے والے تمام قمقمے گُل ہو جاتے ہیں۔‘‘ (افسانہ: روشنی)

’’دوسرے دن تین تابوت قطار میں پڑے تھے، گاؤں والے دُکھی دل کے ساتھ جنازے میں شریک تھے، میرے ذہن میں بڑھیا کی بددعا کے الفاظ گونج اُٹھے۔‘‘ (افسانہ: تابوت)

’’میلی سی چادر میں لپٹی ہوئی دراز قد پختہ رنگت ایک لڑکی اُس کی جانب بڑھ رہی تھی، ابھی جنید اُس کو آتے دیکھ اور سوچ رہا تھا کہ شاید یہ نواب زادی صندل کی خادمہ ہو، بوڑھی بھٹیارن تیزی کے ساتھ اپنی جگہ سے اُٹھی اور دوڑتے ہوئی اُس لڑکی کو آ لیا، مسلسل دو ہتڑ اُس کے کندھوں پر مارتے ہوئے کہنے لگی: بینو! کم بخت ماری، اَب اس کے ساتھ بھاگ جاؤ گی کیا؟‘‘ (افسانہ: نواب زادی نور محل)

’’تاجاں کے صحن کے سامنے بیری کے درخت کے ٹنڈی شاخوں کے نیچے ساقا کی پھولی ہوئی لاش پڑی تھی، جس کی لنگڑی ٹانگ ایک چُنری سے بندھی ہوئی تھی، خان سائیں یہ معما حل نہ کر سکے لیکن تاجاں کے رُخساروں پر گرم آنسوؤں کی قطار روانہ ہو چکی تھی، سبززمین پر پیلے پھولوں والی چُنری اُسی کی تھی۔‘‘ (افسانہ: سیلاب)

’’سپرا سپیشلیٹی سینڈرَوم‘‘ نے کہانی اور کہانی کار کے وجود کو ایک ہجوم میں لا کھڑا کیا ہے، جہاں خبر اور کہانی میں تمیز کی حد نہ جاننے والوں کو بھی گمان غالب آنے لگا ہے کہ وہ کہانی اور کہانی کے وجود پر حقِ ملکیت کا دعویٰ رکھتے ہیں۔



(۸)

کیا افسانے کے تازہ چلن پر بالید روِش کا نخرہ جچتا ہے؟

ڈاکٹر انوار احمد نے اپنی کتاب ’’اردو افسانہ: ایک صدی کا قصہ‘‘ میں جون راک ویل سے منقول کیا ہے: ’’کہانی بلاشبہ سماج کی پیداوار ہے مگر یہ سماج کو پیدا بھی کرتی ہے‘‘ جب کہ نصرت بخاری نے کہا تھا: ’’کہانی تراشنا ایک مشکل اور اذیت ناک کام ہے۔‘‘ عہدِ استخبار میں جہاں کہانی، سماج کی خبروں سے اشارہ دینے کی سعی میں ہے، وہاں خبروں سے جڑا ہُوا کہانی کار بھی، اپنی کہانی کا وجود بنانے، بچانے اور سنبھالنے کی تگ و دو میں پہلے سے زیادہ اذیت برداشت کر رہا ہے۔ ڈاکٹر سیلم اختر نے کہانی کے نئے چلن پر امید کا استعارہ باندھتے ہُوئے کہا تھا: ’’اردو افسانہ کی عمر اِس صدی جتنی ہے اور اس کا سفر شاندار بھی، دلچسپ بھی اور تحیّر خیز بھی ہے، چنانچہ اب اردو افسانہ جو بھی راستہ اپنائے گا، مجھے یقین ہے کہ اس کا اگلا سفر بھی اتنا ہی شاندار، اتنا ہی دلچسپ اور اتنا ہی تحیّر خیز ہو گا کہ اِس کے پاس کہانی کا عصا ہے‘‘۔ جبھی تو حمید شاہد نے بھی بڑے وثوق سے کہہ دیا ہے: ’’کہانی، وقت اور پلوں کے نیچے سے بہتے پانیوں میں یہی قدر مشترک ہے کہ وہ جہاں سے گزر جاتے ہیں، گزر جاتے ہیں۔ اپنے حصّے کی تاریخ رقم کر کے۔ آنے والا وقت، پانی اور کہانی نئے عہد سے پیوست تجربہ لے کر آتے ہیں۔ یہی آج کے افسانے کا قصہ ہے، جو قطعاً خیالی نہیں ہے اور جس پر آپ بجا طور پر فخر کر سکتے ہیں۔‘‘

٭٭٭







دروازہ



عجیب بستی تھی، جس کا ہر دروازہ مقفل تھا۔ مکینوں کو اُن کی مکانیت سمیت پتھریلی دیواروں اور فولادی دروازوں میں یوں قید کر دیا گیا تھا، جیسے ہر نفس جمود آشنا کر دیا گیا ہو۔ کہیں کوئی دریچہ اور کوئی روزنِ دیوار بھی تو نہیں تھا۔ ایسا کب ہوا ___ کیوں ہوا ___ کس نے کیا ___؟ ان سوالات کے جوابات کسی کے پاس نہیں تھے۔ اس بستی کے مکینوں کی یہی زندگی تھی۔ باہر والے نہیں جانتے تھے، کہ بستی میں کون رہتا ہے؟ ان کا پیمانۂ زندگی کیا ہے؟ اور لوگ کون سی وضع قطع اختیار کیے ہوئے ہیں؟ زبان کیا بولتے ہیں ___ کیا پہنتے اوڑھتے ہیں ___ کیا کھاتے پیتے ہیں ___ اور کیا بیچتے خریدتے ہیں؟ کچھ بیچتے خریدتے، کھاتے پیتے اور پہنتے اوڑھتے بھی ہیں یا پھر منجمد پتھروں کی مانند ساکت و جامد، نمو و حرکت کے جذبوں سے عاری اور حیات و ممات کی بوقلمونیوں سے نا آشنا ہیں؟ ___ یہ ناشناسی دو طرفہ تھی ___ اندر والے بھی نہیں جانتے تھے، کہ باہر کی دُنیا کیسی ہے۔ بس اتنا جانتے تھے، کہ اُن کی بستی دُنیا کا ایک چھوٹا سا منطقہ ہے اور دُنیا بہت بڑی ہے ___ ___ اتنی بڑی کہ بستی والے ہزاروں سال مسافر ت اختیار کریں تو بھی تمام منطقوں کو محیط نہیں ہو سکتے ___ دُنیا میں بسنے والوں کی زبانوں سے آشنا نہیں ہو سکتے ___ سبھوں جیسا اور سبھوں کے ساتھ نبھاؤ بناؤ اُن کی رفعتِ پرواز سے بہت بلند ہے ___ وہ ایسی کوتاہ ہمتی کا شکار کیوں تھے؟ یہ وہ خود بھی نہیں جانتے تھے۔ بس ایک خاص مدار میں ہی اُن کے شب و روز گزرتے تھے۔ بستی کی زندگی میں کوئی بھی بات نئی بات نہیں تھی ___ صدیوں سے ایک ہی طرز تھا اور اگر کوئی تبدیلی آتی بھی تو اہلِ بستی بہ ظاہر اُس سے بے نیاز رہتے ___ بس کچھ دن کسی نئی چیز اور متحیر کر دینے والی بات پر سوچتے اور پھر اُنھی مشغولات و معمولات میں خود کو قید کر لیتے، جنھیں وہ اپنا نصیب خیال کرتے تھے۔

فرجاد اُن میں سے ایک تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا، کہ کب اُس کی سانسوں کا سلسلہ یہاں استوار ہوا، البتہ یہ ضرور اُس کے علم میں تھا، کہ اس کارگہِ آب و گِل میں آنے کے بعد اُس کی پہلی چیخ اسی بستی میں سنی گئی ___ اِسی بستی میں اُس نے پہلا خواب دیکھا ___ اور اسی بستی میں اُس کے جسم میں پہلی انجانی تحریک ہوئی، جس نے اُسے کئی راتوں تک سونے نہیں دیا تھا۔

اُس کی ماں بھی یہیں پیدا ہوئی تھی اور پھر اُس کی ماں اور پھر اُس کی ماں ___ اور پھر اُس کی ماں بھی ___ اہلِ بستی کہاں سے آئے اور کیسے آئے؟ یہ سوالات بھی کسی گہرے معمے سے کم نہ تھے۔ ایک آدھ بار ماں نے اُسے بتایا تھا: ’’ایک سیلابِ بلاخیز آیا تھا، گاؤں کو چاٹ گیا، سیکڑوں پانی میں بہہ گئے اور جو زندہ بچ گئے، وہ یہاں مقید ہو گئے۔‘‘

اس بیان کے ایک حصے کو تو وہ مان لیتا تھا، دوسرے حصے پر اُسے ہمیشہ تکلیف کا سامنا رہا۔ آفتیں آیا ہی کرتی ہیں مگر قید کر دینا کہاں کا دستور ہے؟ شروع شروع میں وہ بہت سی نئی باتیں سوچا کرتا اور نئے نئے سوالات اُس کے ذہن میں کلبلاتے تھے ___ عمل البتہ اُس کا بستی کے مکینوں سے الگ نہیں تھا۔ انھی کے طور طریقوں کے مطابق زندگی کی کشتی کھینا اُس کے معمولات میں سے تھا۔ سوچ پر البتہ پہرے کیسے بٹھائے جا سکتے ہیں؟ کیوں ___؟ کب ___؟ کیسے ___ ___ _؟ کیا ___؟ کہاں ___؟ اور کس نے؟ جیسے سوالات اُس کے دماغ کی دیواروں پر ہتھوڑے برساتے ___ طرفہ تماشا تو یہ تھا، کہ ان ہتھوڑوں کی شدت جس قدر زیادہ ہوتی، دیواروں کی طاقت میں بھی اضافہ ہوتا چلا جاتا۔ کوئی رُوزن بنتا تو اُسے ان سوالات کے جوابات میسر آتے۔ وہ سوچتا:

’’بستی کے آفتاب و ماہتاب کہاں ہیں، اس کے مقدر کے جھرنے اور باغات کیا ہوئے، اس کے نصیب کی ندیاں اور موسم کہاں گئے، اس کی قسمت کی خوشبوئیں اور ذائقے کون لے گیا؟ کبھی تو اُسے اِس بات پر بھی وحشت ہوتی کہ اُس کے سوا کوئی دوسرا کیوں اس طرح نہیں سوچتا ___؟ کیا اہلِ بستی میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں، جو اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دے ___؟ ایک بات جو اُسے بہت کھٹکنے لگی تھی، وہ یہ تھی کہ آخر تمام دروازے مقفل کیوں ہیں ___؟ اور ان پتھریلی دیواروں اور فولادی دروازوں کا حصار کوئی توڑتا کیوں نہیں ___؟

پہلے پہل وہ خود اِن باتوں پر حیران ہوتا تھا۔ پُرتجسس رہتا تھا، کہ آخراس جانب اہلِ بستی کا دھیان کیوں نہیں جاتا ___؟

رفتہ رفتہ مگر وہ بھی اسی زندگی کا عادی ہوتا گیا ___ اب کبھی اُسے دَر و دیوار میں روزن کرنے کا خیال آتا تو کانپ اُٹھتا ___ اپنے آپ میں سوچتا، اُس کا دھیان اس طرف گیا ہی کیوں ___؟ اُسے لگتا کہ وہ کسی غیر معقولیت کا شکار ہونے جا رہا ہے۔ بھلا یہ بھی کوئی سوچنے کا ڈھب ہے؟ ساری بستی ایک جانب بڑھ رہی ہے، اُسے البتہ عجب خیالات نے آ لیا ہے ___ اور یہ خیالات آتے ہی کیوں ہیں؟ کارِ تخریب میں یہ انہماک بڑھتا کیوں ہے ___؟

اصل میں ایک بار اُس کی سوچیں اُس کی ماں پر منکشف ہو گئیں ___ بس یہی وہ مقام تھا، جہاں اُسے اپنے احساسات و جذبات کی گٹھری دفنانے کا حکم ملا، اُس پر واضح کر دیا گیا:

’’یہ عامیوں کا کام نہیں ___ ____ تمھیں کس نے اختیار دیا ہے کہ تم اتنی بڑی بڑی باتیں سوچو؟‘‘

ہوا یوں کہ اُس کی ماں پر وحشت سے لرزہ طاری ہو گیا۔ وہ سوچنے لگی کہ:

اہلِ بستی اس کے بیٹے کو باغی تصور کریں گے اور عین ممکن ہے کہ اسے قتل کر دیں۔ اس لیے وہ خود حاکمِ بستی کے پاس فریاد گزراننے پہنچ گئی۔ سارا ماجرا کہہ سنایا ___ حاکم رحم دل تھا ___ اُس نے سزا کی بجائے تنبیہ کر کے لوٹ جانے کا حکم دے دیا ___ لیکن حاکم کے کارندوں نے اُس کا دایاں ہاتھ اور باہنی ٹانگ کاٹ دی ___ زخم مندمل ہونے کے بعد وہ البتہ یہ سوچتا تھا:

’’جب حاکم نے اس سب کا حکم نہیں دیا تھا تو کارندوں نے یہ ظلم کیوں کیا ___؟ اور اگر یہ ظلم ہو ہی گیا تھا تو حاکم نے خاموشی کیوں اختیار کی؟‘‘

ایک دن یہ خیال بھی اُس کی ماں کے کانوں تک پہنچ گیا ___ وہ پھر دوڑا دوڑی فریاد گزاری کے لیے حاضر ہو گئی۔

’’سرکار! ___ سرکار! ___ وہ باغی نہیں ہے ___ نہیں معلوم ایسے خیالات اُس کے ذہن میں کیوں کرآ جاتے ہیں؟ اُسے معاف کر دیں ___ معاف کر دیں سرکار ___!‘‘

حاکم رحم دل تھا ___ اُس نے سزا کی بجائے محتاط رہنے کی ہدایت کر کے روانہ کر دیا ___ لیکن اُس کے کارندوں نے اَب کی بار اُس کے دونوں کان، زبان اور ناک کاٹ دیے ___ اُنھیں کسی نے کہہ دیا تھا کہ:

’’اس کے سننے، بولنے اور سونگھنے کی حس چھین لی جائے تو سوچنے اور سمجھنے کا سلسلہ خود بہ خود ختم ہو جائے گا۔‘‘

٭



زندگی کی ناؤ کا کھویا منجدھار سے نکالنے کے جتن کرتا رہا مگر کھینے کے اس عمل میں کہیں کوئی جھول رہ جاتا، کوئی کجی ٹھہر جاتی جو گرداب میں دھکیلنے کا سبب بن رہتی، سوچتاوہ اَب بھی تھا ___ سوالات اَب بھی اُس کے سر کی دیواروں سے ٹکراتے اور شور بلند کرتے تھے مگر وہ اَب اپنی ماں سے محتاط ہو چکا تھا۔ وہ جانتا تھا، جب کبھی اُس کی ماں خوف زدہ ہوئی، اُسے مزید اعضا سے محروم ہونا پڑے گا۔ بادی النظر میں وہ اپنی ماں سے زیادہ اپنی زندگی اور اپنے جسم کے بقا کی فکر میں تھا ___ اسی کش مکش میں ایک رات اُس کا اکلوتا ہاتھ سوئی ہوئی ماں کی گردن سے لپٹ گیا اور بڑھیا کی نرخرے میں اَٹکی ہوئی جان نے بستی کے اُوپر سے اُٹھ کر اُس کے اندر پناہ لے لی۔ اب وہ ہر خطرے سے آزاد تھا ___ مطمئن تھا کہ اس کے خیالات حاکم تک نہیں پہنچ سکیں گے ___ اَب وہ پھر انھی مقفل فولادی دروازوں اور پتھریلی دیواروں میں دریچے بنانے کا تمنائی رہنے لگا تھا۔ ہر وقت اس کے دھیان میں قفل ٹوٹنے اور دیواروں میں رُوزن بنانے کا خیال رہتا ___ تب ایک رات جب وہ اپنے بستر پر محوِ استراحت تھا، اچانک کیا دیکھتا ہے کہ اُس کے سامنے والی دیوار پر منظر اُبھرنے لگے۔ پہلے منظر میں ایک سیاہ آ ہنی دروازہ تھا، جس کی دونوں جانب دیو قامت دربان ایستادہ تھے۔ اُن کے ہاتھوں میں برچھیاں پکڑی ہوئی تھیں اور گردنوں میں مختلف رنگ کے پتھروں کی کنٹھا اور مالائیں تھیں، جو اتنی طویل تھیں کہ دربان جب چلتے تو وہ زمین پر گھسٹتی رہتیں۔ دروازے کے بالکل سامنے ایک اور دروازہ تھا ___ اور دونوں جانب پتھریلی چٹانیں کھڑی تھیں ___ وہ متجسس تھا، سوچتا تھا اور وحشت زدہ تھا ___ یہ دروازہ رنگت کے اعتبار سے سلوری تھا، البتہ یہ بھی فولادی ساخت کا تھا۔ اس دروازے کے باہر بھی دو تنو مند، پست قامت اور پختہ سیاہ رنگت کے حامل دربان کھڑے تھے، جو آتشیں اسلحے سے لیس تھے۔ ان کی گردنوں میں بھی مالائیں جھولتی تھیں اور اس قدر چمک دار تھیں کہ دیکھنے والے کی آنکھیں چندھیا جائیں۔ جھولتی ہوئی کنٹھوں کی جلترنگ اور ان کی وحشت ناک صدائیں ناظر و سامع کو آنکھیں چرانے کے ساتھ کانوں میں اُنگلیاں ٹھونسنے پر مجبور کر دیتیں ___ اُس کی اُنگلیاں بھی بے دھیانی میں کان کی طرف بڑھیں مگر وہاں تو کان ہی نہیں تھے ____تیسرا دروازہ یوں معلوم ہوتا تھا، جیسے دیودار کے فلک بوس درختوں کو جوڑ کر بنایا گیا ہو۔ اُسی طرح کی دراز قامتی اور اُسی طرح کی خاص رنگت۔ دروازے کی دونوں جانب دیودار کے درختوں سے بھی کہیں زیادہ بلند چوب دار موجود تھے، جن کے ہاتھوں میں آسمان کو چھوتے ہوئی لٹھیں تھیں۔ ان کے جسم کے مخصوص حصوں پر دھجیوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ یہ اس قدر ہیبت ناک تھے کہ اندر کا خوب صورت منظر خود ہی آنکھوں سے دُور ہوتا چلا جاتا تھا ___ حالاں کہ دونوں روشیں سفید گلاب سے اَٹی ہوئی تھیں، گلاب، جن کی ٹہنیاں صنوبر سے بلند اور سرو سے زیادہ مخروطی تھیں۔ قطار اندر قطار یہ سفید گلاب بھی چوب داروں کی بدصورتی ختم نہیں کر پائے تھے۔

چوتھے دروازے پر پانیوں کا گمان ہوتا تھا، ایسا لگتا تھا جیسے جھرنوں کو مجسم کر دیا گیا ہو۔ اس کا چوکھٹا چمپئی تھا، جس پر گہرے زمردیں پتھروں کو ایک خاص وضع سے ٹانکا گیا تھا۔ دروازے کے باہر صندلی خوشبوؤں میں لپٹی ہوئی سرو قامت دوشیزائیں تھیں، جن کے ہاتھوں میں اژدھے جیسی چوبی لاٹھیاں پکڑی ہوئی تھیں۔ اُن اَپسراؤں کے ہونٹوں پر مدہوش کر دینا والا گیت، رقص کی دھُن کو اشارہ کرتا ہوا دکھائی دیتا تھا ___ دروازہ کھلتے ہی اندر کی جانب دو کریہہ صورت اور بدہیئت محافظ موجود تھے۔ دونوں جانب منقش دیواریں اور ہر دیوار پر ساحلوں کی دیوی کے قد آدم مجسمے تھے، جنھیں سرمئی، بنفشی، چمپئی، اودی اور سفید پتھریلی چٹانوں کے وجود میں سے گھڑ کر نکالا گیا تھا ___ ان مجسموں کے پاؤں تلے انسانی کھوپڑیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ تھا۔

پانچواں دروازہ چاندی کو ڈھال کر بنایا گیا تھا۔ اس کے چوکھٹے میں ڈھلا ہوا یاقوت کسی اَپسرا کے ترشے ہوئے ہونٹوں سے زیادہ پُر لطف دکھائی دیتا تھا ___ یہاں کوئی دربان نہیں تھا ___ بس ایک تارِ عنکبوت کی نگہبانی تھی۔ دروازہ کھلا تو اندر کا منظر نہایت بھیانک تھا ___ بیضوی، گول، چوکور، مستطیل اور چھے کونا جھکے ہوئے چبوتروں پر ننگ دھڑنگ جسموں کے انبار تھے، ایسے معلوم ہوتا تھا، جیسے کباڑ خانوں، کچرا گھروں اور گلیوں سے اُٹھا کر لائے گئے ہوں اور اب ’’ری سائیکلنگ‘‘ کے عمل کے منتظر ہوں ___ یہ دیکھ کر اُسے جھرجھری سی آئی اور پھر یکبارگی اُس کے دانت بجنے لگے ___ اتنے بجے کے سامنے کے چار دانت ٹوٹ کر زمین پر بکھر گئے۔ منظر اُبھر رہے تھے اور وہ سارے منظر دیکھنے کا تمنائی بھی تھا، جانتا تھا کہ اَب ٹوٹے ہوئے دانتوں کی جگہ نئے دانت نہیں نکلیں گے، پھر بھی نیا منظر دیکھنے لگا۔

چھٹا دروازہ شیشے کا تھا اور یہ بھی دربانوں کے بوجھ سے آزاد تھا۔ دوسری جانب کا منظر واضح تھا۔ گلہریاں اِدھر اُدھر بھاگتی ہوئی صاف دکھائی دیتی تھیں۔ اُس نے ذرا غور کیا تو زمین پر چوہے، سانپ، نیولے، چیونٹیاں اور کچھوے بھی رینگتے ہوئے نظر آنے لگے۔ آسمان کی جانب نگاہ اُٹھائی تو چمگادڑ، گدھ، اُلو اور کوے بھی ہزاروں کروڑوں کی تعداد میں اُڑتے ہوئے دکھائی دیے۔ شاید فضا بہت زیادہ متعفن تھی، مردار خور جانوروں کے غول بھی ایک جانب سے بھاگتے ہوئے دوسری طرف نکل گئے ___

ساتواں دروازہ کسی غار کے دہانے کی مانند تھا۔ جس کی ہر طرف سبز کائی کی وحشت ناکیوں کا رقص جاری تھا۔ غار کے اُوپر بندروں کی لڑائی جاری تھی اور اندر کی جانب ثقیل مگر سیاہ مادہ بہتا ہوا دکھائی دیتا تھا۔ اُس نے غور سے دیکھا تو اُس گاڑھے سیال مادے میں کئی ایک مگر مچھ، مچھلیاں، کچھوے، بط اور دوسری آبی مخلوق پھنسی ہوئی بہہ رہی ہے۔ یہ مخلوق اس پانی سے نکلنے کی کوشش کرتی ہے مگر مزید بے بس ہوتی چلی جاتی ہے ___ یہ منظر دیکھ کراُس کا حلق آنسوؤں سے بھر جاتا ہے ___

آٹھواں دروازہ بہت ہی عجیب تھا۔ یوں معلوم ہوتا تھا، جیسے کسی نے آتش فشاں کی کوئی چٹان لا کر یہاں رکھ دی ہو۔ دیو قامت مگر بد ہیئت مجسموں کا ایک ہجوم اس دروازے کو دھکیل کر ایک جانب ہٹاتا ہے ___ سامنے کا منظر دیکھ کر وہ اپنے اکلوتے ہاتھ کی انگلیاں چبا ڈالتا ہے ___ اس کی آنکھوں کے سامنے وہی بستی تھی، جس کا ہر دروازہ مقفل تھا ___ ایک سرے سے دوسرے سرے تک فولادی دیواریں ___ یہ بستی اُس کی دیکھی بھالی تھی مگر تجسس سے انسان کی جان کہاں چھوٹتی ہے ___؟ وہ دیکھتا گیا، یہاں تک کہ اُس کی نگاہوں نے دیکھا: اُس کے کاٹے گئے کانوں، زبان اور ناک کو چیونٹیاں گھسیٹ کر لے جا رہی تھیں ___ اُس کی کٹی ہوئی ٹانگ اور بازو کتوں کی تھوتھنیوں میں دبے ہوئے تھے ___ گدھ اور بھیڑیے اُس کی ماں کے بے جان جسم کو نوچ رہے تھے ___ یہ منظر جان لیوا تھا لیکن اس کے لیے نہیں، کیوں کہ ابھی منظر آرائی باقی تھی ___ اُس نے دیکھا: اُس کی بستی کے آفتاب و ماہتاب، جھرنے اور باغات، ندیاں اور موسم، خوشبوئیں اور ذائقے ایک تعفن زدہ بوریے میں لپٹے پڑے ہیں، جن پر ایک دیو قامت، بد ہیئت اور تارکولی رنگت کا حامل پہرے دار متعین ہے۔ وہ گھبرا کر آنکھیں بند کرتا ہے تو اُس کی سوچوں کا دروازہ کھل جاتا ہے۔

[ادب دوست، لاہور، مارچ ۲۰۱۸ء]

٭٭٭





داغ



گہرے نیلے قالین کے بالکل وسط میں کہکشاں کا عکس اُتارا گیا تھا۔ دیواروں پر بنفشی رنگوں کی دھاریں سُرخ زمین کے بیچوں بیچ یوں اُبھری تھیں، جیسے دھنک میں سے کئی رنگ ایک ساتھ نمایاں ہوتے ہیں۔ آتش دان میں سلگتی لکڑیوں سے اَب دھواں اُٹھنے لگا تھا۔ ابھی کچھ دیر پہلے جب الاؤ پوری طرح روشن تھا، اُس نے جورجینا کے چہرے کو بہت کرب و الم سہتے ہوئے دیکھا تھا۔ پنجوں سے چھدے ہوئے رُخساریوں نظر آئے جس طرح دیوار پر بنفشی رنگ، سُرخ رنگ کے بیچ سے نکلتا ہوا آنکھوں میں اُترا تھا۔ اُس نے یاد کے آتش دان میں ایک ایک کر کے سارے خیالات جلانے کی کوشش کی مگر ہر بار سلگتے خیالوں سے بدبو کا ایک بھبکا اُٹھتا، جو اُس کے نتھنوں کو چیرتا ہوا اُس کی سانس میں پھانس کی طرح اٹک جاتا۔ اس عمل سے وہ کئی بار گزرا اور ہر بار اُس نے زخمی آنکھوں کو جورجینا کی دل شکن صورت میں کاشت کر دینا چاہا لیکن وہ تاب بھی تو نہیں رکھتا تھا۔ تب نہیں معلوم کب اُس نے شکست تسلیم کرتے ہوئے اپنے ہی سینے میں آنکھیں اُتار لیں۔

یہ جسموں کو چیرتی ہوئی سخت برفانی ہواؤں کا موسم تھا۔ پولینڈ کے شہر ژیلونا گورا میں جب پہلی بار اُس نے گیونتھ کے ساتھ لوشیا کو ایک جھلک دیکھا تھا تو صدیوں کا فیصلہ ایک آن میں کر لیا۔ اُس نے اپنی بہن گیونتھ سے کہا تھا:

’’پیاری! تُو جانتی ہے نا مجھے برفیلی پہاڑیوں پر ایستادہ دودھیائی خیموں میں رات گزارنا کتنا اچھا لگتا ہے۔ پانچ سال اُدھر کے دسمبر میں جب میں اور بریڈپٹ زاکو پانا میں ایک کیمپنگ کے دوران برفانی خیموں میں بیٹھے رات کی سرگوشیاں سن رہے تھے تو آتش دان میں صندلی لکڑیوں کی لپٹ نے ہمیں ایک خاص سحر میں مبتلا کر دیا تھا۔ میں نہیں جانتا کیا ایسا خاص طلسم تھا لیکن ہم دونوں کسی جادوئی احساس میں گھرے ہوئے تھے ___ یا شاید میں تنہا ___ بریڈ پٹ تو بہت ہی زیادہ مسرور تھا ___ اور شاید اس کے انبساط کو لوئزے کی بے پناہ محبت اور گرم جوش ساتھ نے مزید بڑھاوا دیا تھا_ _ _ _ _ _ میں تمھیں بتاؤں وہ رات مجھ پر بہت بھاری ہو گئی تھی ___ ہاں گیونتھ! اُن برفیلے فلک بوس پہاڑوں سے بھی زیادہ بھاری۔ میرا احساس بُری طرح کچل چکا تھا۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے اس وسیع و بسیط کائنات میں میری ہستی ایک چیونٹی سے زیادہ نہیں اور بریڈپٹ ساری کائنات پر چھایا ہوا ہے۔ جب وہ اور لوئزے اُٹھ کر اپنے خیمے میں شب بسری کے لیے چلے گئے توباہر کی تمام برفیلی رُت نے میرے اعصاب جکڑ لیے تھے۔ الاؤ پوری طرح روشن تھا مگر میرا وجود برف اوڑھ چکا تھا اور دماغ میں کوئلے سلگناشروع ہو گئے تھے۔ گیونتھ! تمھیں کیسے بتاؤں میری پیاری ___ کیسے بتاؤں؟ ___ آہ! میرا داغ دار سینہ!‘‘

گیونتھ نے محسوس کیا جیسے اُس کا بھائی کوئی نفسیاتی گتھی سلجھانے کی کوشش میں ہے یا پھر کسی نا آسودگی کا جان لیوا احساس اُس کے اعصاب پر طاری ہو رہا ہے۔ اُس نے بات کاٹتے ہوئے کہا:

’’اسٹالر! ٹھیک تو ہونا میرے پیارے بھائی! ___ میں متجسس ہوں اور سچ کہوں تو حیرت آمیز دُکھ محسوس کرتی ہوں۔ تم جلدی سے کہو جو بھی کہنا ہے۔‘‘

’’گیونتھ! یہ دیکھ ___ ہاں دیکھ یہ خنجر کا نشان ___ یہ اُسی رات کا تحفہ ہے ___ میں نے وہ پہاڑ ایسی ٹھنڈی رات اپنے خون سے گرم کی تھی۔ میری چیخیں سُن کر بریڈ پٹ اور لوئزے دیوانہ وار بھاگتے چلے آئے تھے ___ تب میں بے ہوش ہو چکا تھا اور جب ہوش آیا تو زاکوپانا کی یخ بستہ پہاڑیوں سے پانچ میل دُور ایک چھوٹے سے طبی مرکز میں تھا۔‘‘

’’میرے بھائی! تم نے تو ماں کو بتایا تھا کہ کیمپنگ کے دوران خیمہ تانتے ہوئے تمھیں زخم آیا۔‘‘

’’ہاں ___! یہی بتایا تھا ___ پیاری گیونتھ! ہماری ماں کتنی حساس تھیں، کیا تم نہیں سمجھتی ہو میں اُنھیں سچ بتا دیتا تو وہ میرے دُکھ میں بہت تیزی سے گھُل جاتیں۔ کیا بھول گئی ہواَبا نے جب کسی اور میں دلچسپی لینا شروع کی تھی، تب ماں نے بغیر انتظار کیے اُن سے علاحدگی اختیار کر لی تھی اور پھر اپنی ساری جوانی ہماری خواہشوں پر قربان کر دی ___ میں کیسے اُنھیں مزید دُکھ دے سکتا تھا ___ کیسے گیونتھ! تم کہو ___‘‘

باہر تیز ہواؤں کا شور درختوں کی ٹہنیوں کو رونے اور کُرلانے پر اُکسا رہا تھا ___ کہیں کہیں پرندوں کی پھڑپھڑاہٹ اور چیخ چاخ بھی سماعتوں میں اُترتی جاتی تھی۔ یہ اکتوبر کی شام تھی۔ ہلکی سردی مگر دونوں نے گرم کپڑے پہن رکھے تھے۔ غالباً دونوں کو تنہائی کے یخ بستہ موسموں نے چاٹ لیا تھا ___ یاپھر ___ واقعی باہر کے منظر نے برفیلی صورت اختیار کر لی تھی۔ ہلکے سبز رنگ کی دیواروں میں کھدی ہوئی کھڑکی پر گہری سبز رنگت کے پردوں کے ارتعاش نے دونوں کو باہر پھیلنے والے منظر کی جانب متوجہ کیا۔ دفعتاً گیونتھ نے لپک کر پردہ ہٹایا تو ان کے چھوٹے سے صحن میں زمانوں سے ایستادہ درخت زمین کا منھ چوم رہا تھا۔ شاید بادِ صرصر نے اُس کے پتوں اور ٹہنیوں کے ساتھ ساتھ اُس کی جڑیں بھی اکھاڑ دی تھیں ___ ایک لمحے کے لیے گیونتھ کو خیال آیا:

’’شاید اس کی بے ثمری نے اسے ندامت سے مار دیا ہے ___‘‘ پھر دوسرا خیال آیا: ’’تو کیا بانجھ درختوں کو جینے کا کوئی حق نہیں؟‘‘

پھر خود کلامی کرتے ہوئے وہ بڑبڑائی تو اسٹالر کو عجیب سا احساس ہوا ___ بالکل عجیب ___ وہ نہیں سمجھ سکا کہ اُس کی بہن نے کیا کہا ___ اسٹالر نے سوچوں کا انبار جھٹک کر اپنے دماغ سے ہٹا دیا ___ اُس نے برادرانہ محبت سے اپنی بہن کے دونوں کندھوں پر ہاتھ رکھے ___ اُس کے ماتھے پر بوسہ ثبت کیا اور پھر کھڑکی سے ہٹا کر واپس کرسی پر لے آیا۔ وہ جانتا تھا کہ اَب دوبارہ اس موضوع کو اُستوار کرنا مشکل ہے، کیوں کہ گیونتھ ایسے حالات میں ہیجان کا شکار ہو جایا کرتی تھی۔ خود اسٹالر کا بھی یہی حال تھا۔ شاید والدین کی جدائی اور پھر ماں کی اچانک موت نے دونوں کو خوف زدہ کر دیا تھا ___ یا پھر ضرورت سے زیادہ محتاط ___ من کی من میں رہی ___ اور _ _ _

اگلی صبح بڑی گرم جوشی سے گیونتھ نے ناشتے کی میز پر اپنے بھائی کو بتایا کہ ان کے پڑوس میں ایک ہندوستانی خاندان آ کر آباد ہوا ہے۔ ان لوگوں نے کدو کا حلوا بھیجا ہے۔ یہ خاص سوغات ہے۔ ہمارے یہاں تو کدو کا ایسا استعمال کبھی نہیں ہوا ___ لیکن اسٹالر بات وہیں سے شروع کرنا چاہتا تھا، جہاں سے رات منقطع ہوئی۔ اُس نے اپنی بھنوؤں کو ایک خاص انداز سے سکیڑتے ہوئے تجسس ظاہر کیا۔ بہن نے پلیٹ اُس کی جانب بڑھائی۔ چمچ بھر حلوا اُس نے اپنی پلیٹ میں ڈالا اور دوبارہ بات شروع کی:

’’تو میں تمھیں بتا رہا تھا مجھے برفیلے پہاڑوں پر وقت گزارنا کتنا اچھا لگتا ہے ___ اُس سانحے کے بعد ہمت ہی نہیں ہوئی ___ اب جو لوشیا کو دیکھا ہے تو ___‘‘

اُس نے ملتجیانہ نظروں سے بہن کی جانب دیکھا تو وہ ایک خفیف سی مسکراہٹ لبوں پر لا کر پھر کھڑکی کے پاس جا کھڑی ہوئی۔ طوفانی ہواؤں نے ہر جانب اُداسیاں پھیلا دی تھیں۔ اُن کے صحن میں قدموں سے اُکھڑا ہوا درخت کسی بے موت مرنے والے کی مانند بے طرح پڑا تھا۔ دفعتاً گیونتھ نے کہا:

’’اسٹالر! میں سوچتی ہوں ہمیں فوراً یہ درخت یہاں سے ہٹا دینا چاہیے۔ زخموں اور داغوں کا جس قدر ممکن ہو علاج ہو جانا چاہیے۔‘‘

’’ہاں! شاید ___ تم ٹھیک کہتی ہو ___ میں آرا اور کلھاڑی نکالتا ہوں ___ آج اندازہ ہوا اَماں نے یہ اوزار کیوں گھر میں رکھے تھے ___ وہ جانتی تھیں کہ زخموں اور داغوں کو خود ہی سنبھالنا پڑتا ہے ___ گیونتھ میں کہ رہا تھا ___ لوشیا ___‘‘

’’اسٹالر! کل شام آندھی آنے سے پہلے یہاں پرندوں کی چہچہاہٹ کیا بھلی معلوم ہوتی تھی۔ یہ بار آوری کا زمانہ نہیں ہے لیکن پھر بھی بعض پرندوں نے گھونسلے بنا رکھے ہیں۔ دیکھو، یہ ٹوٹی شاخ ابھی تک آشیانے کالمس محسوس کرتی ہے ___ بالکل اسی جگہ ___ ہاں اسٹالر اسی جگہ پرندوں کا گھونسلا تھا ___ تم جانتے ہو نا! پرندے مضبوط اور خم دار ٹہنی پر گھونسلا بناتے ہیں۔ ایسے مقام کا انتخاب کرتے ہیں، جہاں ہوا کا دباؤ کم ہو جائے ___ جہاں ___‘‘

’’پیاری گیونتھ! تم کیا پہیلیاں بجھوا رہی ہو ___؟ میں نہیں سمجھتا کہ میری اتنی اہم بات کو تم ایسی باتوں میں کیوں اُڑا رہی ہو۔ میں کہہ رہا تھا لوشیا بہت پیاری ہے ___ تمھارا کیا خیال ہے؟‘‘

’’شاید ___ __ اسٹالر! گھونسلے ٹوٹنے کے لیے ہی بنتے ہیں ___ ہر بار تباہ کن ہوائیں پرندوں کو بے گھر کر جاتی ہیں ___ پرندے آشیانے بنانے سے نہیں رُکتے اور ہوائیں تباہی پھیلانے سے ___ یہ آفاقی سچ ہے لیکن اپنے بانجھ درخت پر ٹوٹنے والے گھونسلے نے بہت دُکھی کر دیا ہے۔ میں رات بھر نہیں سوئی میرے بھائی! بالکل ایک لمحے کے لیے بھی نہیں۔ میں سوچتی رہی کہ موسم کس طرح اپنا غصہ کم زوروں پر اُتارتے ہیں ___ ___ کس طرح شاخیں ٹوٹتی اور درخت جڑوں سے اُکھڑتے ہیں ___ کس طرح زمین کا سینہ چھلنی ہو کر داغ بن جاتا ہے۔‘‘

’’میری بہن! تو لوشیا کے بارے میں کیوں نہیں سوچ رہی؟ تمھاری سہیلی ہے ___ تم اُسے اچھی طرح جانتی ہو ___ بتاؤ نا کیسی ہے وہ؟‘‘

’’یہ دیکھو! ظالم ہوا نے میری نئی پینٹنگ کا بھی ناس مار دیا ___ کل ہی تو آخری ٹچ دیا تھا اِسے۔ صورتیں بھی تو بگڑنے کے لیے ہی بنتی ہیں ___ اچھا چھوڑو ___ جینا ہے، تو مرنا ہے _ _ _ _ بننا ہے، تو بگڑنا ہے ___ تم لوشیا کا پوچھ رہے ہو؟‘‘

’’ہاں ہاں ___ ہاں ___ میری پیاری گیونتھ جلد بتاؤ نا کیسی ہے وہ ___؟‘‘

’’اسٹالر! کیا تم نہیں چاہو گے کہ تمھیں ایک تازہ دم بلکہ تر و تازہ پھول اپنے کالر میں سجانے کو ملے ___؟‘‘

’’مائی لَو! کیوں نہیں ___ میں ہمیشہ سے یہی سوچتا آیا ہوں ___ لوئزے کی طرح بے پناہ اور گرم جوش محبت کرنے والا ساتھی۔‘‘

’’لیکن لوشیا غنچۂ نوبہار نہیں۔ اُس کا بوائے فرینڈاُسے چھوڑ چکا ہے۔ اُس کی گود میں ننھی اساریہ بھی ہے۔‘‘

زاکوپانا پر پھیلی ہوئی برف کی تہیں اب براہِ راست اسٹالر کو اپنے سینے پر محسوس ہو رہی تھیں۔ اُس نے سوچا شاید گیونتھ اسی لیے اُس کی بات ٹالتی رہی ___ مگر ___ نہ سہی غنچۂ نوبہار ___ ابا نے بھی تو چھے بچوں کی ماں کے لیے ہماری اماں کو چھوڑ دیا تھا ___ شاید لوشیا، لوئزے کی طرح گرم جوش ہو اور اُس کا ساتھی زاکوپانا کی یخ بستہ چٹانوں کی مانند ___ لیکن میں ایسا نہیں ہوں ___ میری ساتھ وہ خوش جیے گی۔ اسٹالر نے نہایت تیزی سے اپنی سیاہ شرٹ کا بٹن چھاتی کے پاس سے کھولا اور سینہ ننگا کر کے اپنی بہن کو دکھایا:

’’پیاری گیونتھ! تم چاہتی ہو میرے سینے پر ایک اور داغ کا اضافہ ہو جائے ___؟‘‘

’’ہرگز نہیں ___ __ہر گز بھی نہیں ___ تم اپنے فیصلوں میں آزاد ہو ___ ہر کوئی اپنے فیصلوں میں آزاد ہے ___ پرندے گھونسلا بنانے میں اور ہوائیں تباہی مچانے میں آزاد ہیں۔‘‘

٭



لوشیا اور اسٹالر کا ساتھ چار سال سے کچھ دن زیادہ رہا۔ اُس نے بہت چاہا کہ کسی طرح ایک رات کے لیے ہی سہی، وہ اُس کے ساتھ زاکوپانا کی اُس چوٹی پر شب بسری کے لیے چلی چلے، جہاں اُس نے بریڈپٹ اور لوئزے کو گرمیِ محبت میں سرشار دیکھا تھا ___ جہاں اُسے پہلی بار احساس ہوا تھا، کہ عورت کا وجود ایک مرد کے لیے کتنا ضروری ہے ___ جہاں اُسے لگا تھا کہ کائنات کے تمام رنگوں میں پختہ رنگ عورت کا ہے۔ تمام ذائقوں میں سب سے رسیلا ذائقہ عورت کا ہے۔ تمام خوشبوؤں میں سب سے مسرور کن اور سحر آمیز خوشبو زلفوں کی ہے۔ اب مگر وقت جوں جوں گزر رہا تھا، اُس کے محسوسات میں اُداسی بڑھتی جاتی تھی۔ اسٹالر کوبا رہا یہ گمان گزرا کہ یا تو وہ زاکوپانا کے برفیلے تودوں کی مانند ہو گیا ہے یا پھر لوشیا ___ پھر اَساریہ کے چوکڑی بھرتے قدموں کو پکڑنے والا بھی تو کوئی نہیں آ سکا تھا۔ اسٹالر نہیں سمجھ سکا تھا آخر چار سال میں ایک بار بھی شاخوں پر بُور کیوں نہیں آیا؟ اُس کا تنومند، تر و تازہ، گرم جوش اور جذبوں سے بھرا ہوا جسم بے نمو ہو گا ___ وہ ایسا نہیں سوچتا تھا ___ پھر لوشیا کی گود میں تو اساریہ _ _ _ _ __ یہ خیال اُس کی جان لینے کو بہت تھا۔ تب تیز طوفانی ہواؤں نے شاخوں سے گھونسلا جھٹک دیا۔

٭

زمانوں تک وہ اپنے ریزہ ریزہ وجود کے تنکے چنتا رہا ___ چنتا گیا ___ یہاں تک کہ اُس نے اپنی قوت مجتمع کر لی۔ یہ ایسٹر کی رات تھی۔ اُس نے سوچا:

’’نئی رُتوں سے ہم کلامی نہ سہی، کسی کو ہم کلام ہوتے دیکھنے میں کیا حرج ہے؟ ___ میں ضرور کلب جاؤں گا ___ جی بھر کے رقص کروں گا ___ جام چھلکاؤں گا ___ نڈھال ہو جاؤں گا ___ تو نہال ہو جاؤں گا۔‘‘

رات بہت گہری اور پُر اسرار تھی اور اُس کے محلّے کی بے چراغ گلیوں میں زمانوں بعد قمقموں کی بہاریں اُتری تھیں۔ اُس نے دودھیائی رنگت کا ٹوپیس سوٹ زیبِ تن کیا اور اُس پر نہایت سُرخ رنگ کی ٹائی یوں لگائی جیسے ابھی کسی بندھن میں بندھنے جا رہا ہو۔ کوٹ کی جیب میں سُرخ اَدھ کھلا گلاب ایک خاص وضع سے ٹکایا اور پھر ایل بَو پرفیوم سے اپنا سراپا معطر کر لیا۔ یہ معمول کے خلاف تھا، اس لیے کہ اُس کا پسندیدہ پرفیوم تو پلے بوائے تھا۔ اتنا پسندیدہ کہ کبھی کبھی تو اُسے لگتا تھا کہ پلے بوائے کمپنی نے یہ پرفیوم اسی کے لیے تخلیق کیا ہے۔ اب مگر ایل بَو کی لپٹیں اُس کے آس پاس کے وسیع رقبے کو مہکا رہی تھیں۔ اُس نے قدِ آدم آئینے میں اپنا سراپا دیکھا۔ ٹائی کی گرہ دُرست کی۔ بھنویں ہموار کیں۔ اُنگلیوں سے بال سنوارے اور پھر کندھے اُچکا کربہ غور اپنا جائزہ لیا۔ باہر نکلنے سے پہلے اُس نے کوٹ کے دونوں کندھے دُرست کیے۔

ایک مخصوص میز پر اُس کا دوست اِیگرسن پہلے سے موجود تھا۔ اسٹالر کی ترو تازگی موجبِ حیرت تھی تو باعث خوشی بھی۔ کچھ کچھ تو وہ دیکھتے ہی بھانپ گیا ___ پھر بھی وہ چاہتا تھا کہ اسٹالر خود بتائے زمانوں بعد اسے کلب آنے کا خیال کیوں کرآیا ___ آخر کیوں ___؟

’’اِیگرسن! تم نے مچلتے تاروں کو اندھیری شب میں کبھی دیکھا ہے؟‘‘

’’کچھ خاص نہیں ___ تمھیں کیا لگا؟‘‘

’’بس یوں سمجھ لو میں جینے کی آرزو میں ہوں اور شبِ تاب میں اپنا حصہ تلاش کرنے نکلا ہوں ___ ہاں اپنا حصہ ___‘‘

’’تو گویا چاند کو گرہ لگانے کی خواہش میں ہو۔‘‘

’’کہہ سکتے ہو ___ تم سناؤ۔‘‘

مینو کارڈ پیش کرتے ہوئے ایک اَپسرا اُس کے سامنے یوں کھڑی تھی، جیسے دیودار کا فلک بوس درخت کہساروں میں ایستادہ۔ کھنکتی ہوئی آواز میں لفظ کیا تھے، سُروں کا جلترنگ تھا، گویا بادِ نسیم کی مانند سانسوں میں گھل گئے ہوں۔ اسٹالر عالمِ محویت میں یہ سوچ بھی نہ سکا کہ کہاں بیٹھا ہے۔ تب اِیگرسن نے سکوت کی دیوار کاٹتے ہوئے کہا:

’’یہ جورجینا ہے۔ کلب کی نئی منیجر ___ نئے آنے والے مہمانوں کا استقبال کرنے خود آتی ہے۔ یہ اس کا انداز ہے اور مہمان نوازی کا خاص جذبہ بھی۔‘‘

’’ہوں نہہہ ہہ ہ ہ ___ اچھا اچھا ___ اچھا لگا انھیں دیکھ کر۔‘‘

وہ تو مسکراہٹیں بکھیر، آڈر لے چلی گئی لیکن اسٹالر کی آنکھوں میں مجسم منظر چھوڑ گئی۔ اُسے یوں لگا جیسے وہ اسی لمحے کا منتظر تھا۔ اُس نے ایگرسن کو مخاطب کر کے کہا:

’’پیاری ہے نا ___؟‘‘

’’بہت پیاری ___ لیکن مچھلی ہے ___ تیرے ہاتھ نہیں آنے کی۔‘‘

’’آہا ___!! ___ دیکھتے ہیں ___ تم نے ورڈز ورتھ کو تو پڑھا ہو گا ___ میں اس کا ایک سانیٹ سُناتا ہوں۔ ایسی ہی کسی کیفیت میں اُس نے کہا ہو گا، جس کا میں شکار ہوا ___ سُنو تو:

حسن میں ڈوبی ہوئی یہ شامِ آزاد و خموش

اور یہ درماندہ سورج، یہ غروبِ بے صدا

یوں فضاؤں میں مقدّس وقت ہے ٹھٹکا ہوا

جیسے کوئی رہبر محوِ دعائے بے خروش

لے رہا ہے چرخ، سطحِ آب پر انگڑائیاں

جاگتا ہے چرخ پر یزدانِ توانا و غنی

سرمدی حرکت میں ہے اس طرح محوِ سرخوشی

گونجتی ہو جس طرح پیہم کوئی برقِ تپاں

تْو مرے ہمراہ ہے اس وقت مری جانِ جاں

تجھ پہ گو فکرِ گراں کا یہ فسوں طاری نہیں

فطرتِ احساس الوہیت سے تو عاری نہیں

خْلد کی آغوش میں دیتی ہے تجھ کو لوریاں

بارگاہِ ایزدی میں سرنگوں تیری جبیں

تْو خدا سے ہم نوا، ہم کو خبر کچھ بھی نہیں

لیکن خالی تو میں بھی نہیں ہوں ___ ایمانی جذبوں سے لبریز دل ___ بھرپور جوان_ _ _ _ _ کئی دلوں کو شکار کرتا ہوا ___ کیا ہوا جو سکوت اوڑھ کے سو گیا تھا۔ اب آنکھ بھی نہیں جھپکوں گا۔‘‘

اسٹالر نے اپنی سوچ کو نیا زاویہ دے کر ایگرسن سے رخصت چاہی۔

یہ کرسمس تھی، جب جورجینا سفید براق جیسی پوشاک پہن، فرشتوں جیسی اُجلی تازگی چہرے پر اُتار، اُس کے من آنگن کو مہکانے کے لیے موجود تھی۔ پھر یوں ہی مہینے گزر گئے۔ وقت کہاں رُکتا ہے ___ آس پاس کے سبھی علاقوں کی سیاحت ہو چکی تھی اور زاکوپانا کی برفیلی فضاؤں میں شب بسری کی تمنا بھی بر آئی تھی ___ جورجینا بالکل لوئزے کی طرح گرم جوش، محبت سے بھرپور اور لاجواب کر دینے والی تھی ___ اسٹالر کی تو جیسے من کی مراد پوری ہوئی تھی۔ گھومتے گھماتے وہ دونوں وسط ایشیائی ریاستوں تک آ گئے تھے۔ اُس نے جورجینا کو بتایا تھا کہ ہندوستان بہت خوبصورت ہے۔ ان کے پڑوسیوں کے خوان پر کدو کا حلوا بھی ہوتا تھا۔ اس سیاحت میں بھی ہندوستان کی یہ سوغات کھانا ان کے ارادوں میں شامل تھا۔ افغانستان کے علاقے واخان سے ہو کر اُنھوں نے ترچ میر کے دامن تک پہنچنا تھا ___ واخان میں کیمپنگ کے دوران اسٹالر کو ایک شب یہ احساس البتہ ضرور ہوا کہ شاخِ مراد نہال ہو کر بھی ہری نہیں ہوئی ___ اس کے لیے البتہ وہ زیادہ فکر مند نہیں تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ ملک واپسی کے بعد ضرور ڈاکٹر سے رجوع کرے گا ___

اب مگر اُن کی دُنیا بدل چکی تھی۔

جورجینا کا نچا ہوا چہرہ اُس کا سینہ چیرتا تھا۔ پانچ سال ___ ہاں پانچ سال سے وہ دونوں نت نئے ہاتھوں تک پہنچتے رہے۔ پہلی بار تو اُس نے جورجینا کی فلک شگاف چیخیں سنی تھیں۔ دس بارہ مسلح افراد اُسے زبردستی اُٹھا کر لے گئے تھے۔ پھر یہ معمول ہو گیا۔ اُس کی چیخیں آسمان کو پھاڑتی رہیں ___ وہ اُس کے زخم سہلاتا، حوصلہ دیتا رہا ___ اپنی گرم رُو محبت سے اُسے سرشار کرنے کے جتن کرتا رہا مگر وہ زاکوپانا کی برفیلی دبیز تہیں اوڑھ چکی تھی ___ پھر کچھ ہی عرصہ بعد اُس کے وجود میں ایک نئی زندگی نے سرسراہٹ لی۔ آسمان خاموش تھا اور زمین پر ننھی آواز دھاڑ رہی تھی۔ اس آواز کی خاک کو ’’کھیوین‘‘ کا نام دے دیا گیا ___ ابھی کچھ ہی دن گزرے تھے کہ اُنھیں رات کے اندھیروں میں کسی اور منزل سے آشنا کر دیا گیا ___ یہاں بھی وہی نوچ کھسوٹ اور پھر وقت سے پہلے دنیا میں آنے والی ایک اور ننھی روح کو ’’ایونز‘‘ کا نام دینا پڑا۔

نیلگوں قالین کے وسط میں اُترا ہوا کہکشاں ماند پڑ رہ تھا۔ اسٹالر نے بوٹوں کی مخصوص آواز پہچان کر سرگوشی میں کہا:

’’جورجینا! مجھے معاف کر دینا ___ میں تمھاری گرم رو محبت کی تمنا میں تمھیں کانٹوں میں گھسیٹ آیا ___ درندوں کے سامنے ڈال آیا۔‘‘

وہاں لفظ مگر مر چکے تھے ___ ___ جذبے راکھ ہو چکے تھے ___ خواہشیں مٹی اوڑھ چکی تھیں ___ وہ کیا کہتی ___!!

بوٹوں والے اُسے لینے آئے تھے مگر اس کس مپرسی میں دیکھ کر شاید انھیں رحم آ گیا ___ یا شاید اُن کا جی اس طرف مائل ہی نہیں تھا ___ کچھ بھی تھا، لیکن اَنہونی تھی ___ اب ایک اور نادیدہ منزل اُن کے سامنے تھی ___ کھیوین اور ایونز خاک میں چوکڑیاں بھرتے تھے۔ انھوں نے ماں کو داغ دار ہوتے محسوس کیا تھا ___ دیکھا تھا، برتا تھا ___ اب ایک طرف وہی داغ دار وجود تھا ___ تو دوسری جانب اسٹالر کا بے بس جسم ___ایک گہری اور تصور کو قتل کر دینے والی خاموشی کا راج تھا، ایسے میں اسٹالر کو ایک بھیانک خیال نے آ دبوچا ___ ایسا خیال جو اُس کی روح کو زخمی کیے جا رہا تھا _ _ _ _ اُس نے سوچا:

’’جورجینا کے جسم و جان پر داغ کس کے ہیں ___ ____؟ میرے ___ مائیکل ڈی سوزا کے ___ پالی کمہار کے ___ رانا کل دیپ ___ یا پھر ابو نصیر کے ___ اگر طے ہو جائے تو بچوں کو اُن کی دُرست نسبت کے ساتھ یاد کرنے کا انتظام ہو سکتا ہے۔‘‘

[ثبات، شعبہ اُردو، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، اسلام آباد، جون تا دسمبر ۲۰۱۷ء، جلد۱۔ شمارہ۱]

٭٭٭







تھال



گُل دان کے اطراف میں زرد گلاب کی پتیاں ایک ایک کر کے بکھر چکی تھیں، ان میں سے بعض نم آلود تھیں اور کچھ بالکل سوکھی ہوئیں۔ نیم خشک ننھی ٹہنیاں پھولوں کے بار سے جس زاویے میں ایک جانب جھک گئی تھیں، اَب بھی اُسی حالت میں تھیں۔ اُس نے اکلوتے ہاتھ کی باقی ماندہ دو انگلیوں سے پتیاں چُنیں اور پھر ایک خاص احتیاط کے ساتھ تپائی پر پڑے ہوئے طلائی تھال میں رکھ دیں۔ یہ منقش تھال اُسے بہت عزیز تھا، اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز۔

پھولوں سے والہانہ لگاؤ اور گمراہ کن حد تک محبت اُس کے ایمان کا حصہ تھی۔ وہ سمجھتا تھا کہ پھول اس کائنات کا اصل حسن ہیں، ان کے بغیر سب کچھ بے معنی ہے۔ یہ عشق نیا نہیں تھا ___ _بلکہ بہت ہی پُرانا تھا۔ تب وہ اپنی بیوہ نانی کے پاس گاؤں میں رہا کرتا تھا۔ گاؤں کیا تھا، تسبیح کے دانوں کی طرح بکھرے ہوئے چند مکانات تھے، جن کی چھتیں جستی چادروں سے ڈھکی ہوئیں اور دیواریں گارے اور پتھروں سے بنائی گئیں مگر سبزے سے اَٹی ہوئیں۔ بیش تر مکانات میں کم تراشیدہ لکڑیوں کی چھتیں تھیں اور فرنیچر بھی ایسا ہی تھا۔ چارپائیوں کی بجائے بھیڑوں کے اُون سے بنے ہوئے گدیلے استعمال ہوتے تھے۔ سردیوں میں لوگ اناج اور لکڑیاں اکٹھی کر لیتے اور برف باری کے دنوں میں دہکتے آتش دانوں کے سامنے جم جاتے۔ اکثر گھرانوں میں سبزیوں اور پھلوں کے ساتھ گوشت بھی خشک کر لیا جاتا، جو سرد رُتوں میں اُن کے یخ بستہ جسموں کو توانائی بخشتا۔ کم کم لوگوں کے پاس جانور تھے اور پھر برفانی موسموں میں جانوروں کو سنبھالنا بھی تو ایک امتحان تھا۔ اس موسم میں تو ہر چیز جمود کا شکار ہو جاتی تھی، حتیٰ کہ سیب، خوبانی، اخروٹ، ناشپاتی اور چیری کے پُر کیف درختوں پر بھی سکوت طاری ہو جاتا تھا۔ ہفتوں میں کہیں ایک بار سورج کی نارنجی کرنیں اُس بستی میں دکھائی دیتیں تو لوگ کچھ دیر کے لیے اُن سے لطف اُٹھانے کی خاطر اپنے ٹھکانوں سے باہر آ جایا کرتے ___ _ اصل میں گاؤں کی چار جانب سر بہ فلک پہاڑ تھے اور اُن دنوں پہاڑوں پر برف کی تہوں میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا تھا۔ ایسے عالم میں بھی وہ پھولوں کی طلب میں دُور دُور تک نکل جاتا، بعض اوقات تو اُس کی بوڑھی نانی اُسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے نڈھال ہو جایا کرتی۔ ملنے پراُسے دیر تک سمجھاتی رہتی کہ توضیعِ اوقات کی بجائے کچھ ڈھنگ کا کام کر لینا چاہیے۔

ایسے ہی دنوں کی بات ہے، جب وہ پھولوں کی تلاش میں نکلا تو شام ڈھلنے تک نہ لوٹا۔ اُس کی ناتواں نانی ایک ایک پڑوسی کے یہاں جا کر منت کرتی، کہ کسی طرح اُس کے نواسے کو ڈھونڈ نکالیں۔ ہر کوئی یہی کہتا:

’’آ جائے گا ___ _کہاں جانا ہے اُس نے؟‘‘ پھر وہ لوٹ بھی آیا۔ متفکر نانی کے پوچھنے پر کہنے لگا:

’’نانی! پھول نہیں ملے تو میں نے سوچا آج سورج ہی اُٹھا لاتا ہوں۔ میں مگر جتنا اُس کی جانب بڑھتا گیا وہ آگے کھسکتا گیا اور پھر پہاڑ کی دوسری جانب غار میں اُتر گیا۔ کل جب اِس طرف آئے گا رو میں صبح دَم ہی اُسے گرفت کر لوں گا۔‘‘

نانی نے پریشانی کے عالم میں اپنا ماتھا پیٹ لیا اور لٹھ اُس کی طرف اُٹھاتے ہوئے کہنے لگی:

’’اَب جو تُو گھر سے نکلا تو میں تیری ٹانگیں توڑ دوں گی۔‘‘

وہ ہمیشہ ایسی دھمکیاں لگایا کرتی تھی اور یہ ہر بار سر جھکائے اپنے جوتوں کی نوک سے زمین کا سینہ کھرچنے کی کوشش کرتا۔ بڑھیا کو اس ادا پر بھی بہت پیار آتا تھا۔ ایسے عالم میں وہ اپنے لفظوں کو شہد میں گھول لیا کرتی اور پھر بڑھ کر اُسے سینے سے لگا کر سمجھانا شروع کر دیتی۔ وہ سب کچھ خاموشی سے سنتا ___ _وعدہ کرتا ___ _یقین دلاتا ___ _لیکن پھولوں کی محبت میں ہر بات دھُول ہو کر اُڑ جاتی۔ نانی نواسا اِس عہد و پیماں اور عہد شکنی کے عادی ہو چکے تھے۔

٭



اُن دنوں غیر ملکی سیاحوں کا ایک گروہ اُس کے یہاں ٹھہرا ہوا تھا ___ اصل میں وہ گائیڈ کی حیثیت میں بہت شہرت رکھتا تھا۔ اس کوہستانی سلسلے کے سبھی خوب صورت، پُر اسرار اور ہزار داستان تعلقوں کے حوالے سے جتنی کہانیاں اور قصے اُسے اَزبر تھے، کوئی دوسرا اُس کے مقابل نہیں تھا۔ یہی وجہ تھی اکثر سیاح اُس کی رفاقت میں خوشی محسوس کرتے ___ _ داستان گوئی میں وہ طاق تھا، اِس سلیقے سے کہانیاں بُنتا کہ سننے والے انگشت بہ دنداں رہ جاتے۔ اُن کہانیوں کا بڑا حصہ تو اُس کے مشاہدوں اور ذاتی تجربوں پر مشتمل تھا اور کچھ حصہ اُس کی نانی کی سنائی ہوئی کہانیوں کو محیط بھی۔ اِن سنی سنائی داستانوں کو بھی اُس نے ایک نیا ڈھنگ عطا کر رکھا تھا۔ مقامی لوگ بھی جب انھیں سنتے تو حیرت سے اُس کا منھ تکتے رہ جاتے۔ یہی حالت غیر ملکی سیاحوں کی ہوتی۔ وہ اپنے علاقے کے پھولوں، درختوں، جانوروں، موسموں، حتیٰ کہ پتھروں کو بھی اِس لائق بنا کر پیش کرتا کہ سننے والوں کے دل اَز خود جھکتے چلے جاتے اور وہ احتراماً ماحول میں بکھری ہوئی چیزوں اور پھیلی ہوئی فضا کی غیر علانیہ پرستش شروع کر دیتے ___ _!!

گہری نیلی آنکھوں اور سورج کی کرنوں جیسے سنہری بالوں والی جرمن نژاد خوب رُو دوشیزہ ایملی فنلے نے جب یہ سُنا کہ پہاڑ کی اُس جانب زمرّد کی کان ہے اور پھر لطف یہ ہے کہ وہاں بہنے والی آبشاریں یہ زمرّدیں موتی خود اُگلتی ہیں ___ _اُس سے رہا نہ گیا اور فوراً گویا ہوئی: ’’ہم جائیں گے اُدھر___ _ ہم سب جائیں گے اُدھر۔‘‘

اُس کے تمام ساتھی مگر خاموش تھے۔ کوئی ایک بھی تو ایسا نہیں تھا، جو پہاڑ کی اُس جانب جانے کا حوصلہ رکھتا۔ البتہ سب متجسس، متحیر اور خواہش مند ضرور تھے ___ _ پُر جوش مگر وہی اکیلی تھی۔

٭



کوہ پیما کی حیثیت میں دونوں میاں بیوی کی شہرت تھی۔ دُور دیس کے سیاحتی رسالوں، دستاویزی فلموں اور حکومتی وزارتوں میں اُن کے قصے عام تھے۔ پہاڑوں کی چوٹیاں تو سبھی سر کرتے ہیں اور بہت سے ایسے بھی ہیں جو بار بارسر کرتے ہیں، اِس جوڑے کا امتیاز یہ تھا کہ اِن کی محبت میں کوہ پیمائی اور گل گشتی ایک ساتھ تھی۔ اس شوق میں دونوں ایک دوسرے سے آگے نکل چکے تھے۔ دوسروں کے ساتھ جہاں مقابلوں میں وہ بڑھ چڑھ کر حصے لیتے تھے، وہاں آپس میں بھی مسابقت کی کوششیں کم نہ پڑتیں۔ ایک تفوق انھیں یہ بھی تھا کہ وہ اپنے کم سن بیٹے کو بھی اُن برف پوش فلک بوس پہاڑوں پر اپنے ساتھ رکھتے۔ دیکھنے اور سننے والے ششدر ہوتے مگر اُن کے لیے یہ عادتِ ثانیہ تھی۔ جس طرح پھول خوشبو پھیلانے میں بخل سے کام نہیں لیتا، اِسی طرح یہ خاندان بھی فطرت سے محبت اور مؤدت میں پیش پیش تھا۔

جب پہلی بار اُنھوں نے کوہ پیمائی کے عالمی مقابلے میں حصہ لیا تھا تو انھیں خود بھی یقین نہیں تھا کہ وہ چوٹی سر کر لیں گے۔ دُنیا نے مگر سُنا کہ کوہ پیما جوڑے نے اپنے کم سن بیٹے سمیت نہ صرف چوٹی سر کی، بلکہ پہاڑ کی اُس جانب بہتی آبشاروں سے زمرّد کا یک گونا خزانہ بھی حاصل کر لیا ___ عالمی ذرائع ابلاغ اور کوہ پیماؤں پر اُن کی دھاک بیٹھ چکی تھی ___ قومی اور بین الاقوامی سطح پر اس پذیرائی کا فطری نتیجہ یہ تھا کہ وہ اس شوق میں آگے نکل جائیں ___ اور پھر یہی ہوا۔ اُن کا گھر تمغوں سے بھرتا چلا گیا۔ طلائی، کانسی اور چاندی کے تمغوں اور رنگا رنگ تعریفی وثیقوں اور اسناد سے اُن کی کارنسیں اور دیواریں سجنے لگیں ___ پھر ہر آتے سال اُن میں اضافہ ہی ہوتا چلا گیا۔ ادھر بیٹے کی عمر میں بھی ہرسال ایک گرہ اور لگ جاتی۔

٭



بوڑھے کوہ پیما کے اکلوتے ہاتھ کی بچ جانے والی دو اُنگلیاں تھال میں بنے نقش و نگار اور کندہ کی گئی تصویر پر زرد گلاب کی پتیاں پھیلا رہی تھیں۔ یہ اُس کا معمول تھا ___ شروع میں یہ تھال چوبِ اخروٹ سے بنی الماری میں شیشے کی اوٹ میں پڑا رہتا تھا۔ پھر اسے الماری سے نکل کر دیودار کی لکڑی سے آراستہ پُر شکوہ دیوار کے سینے پر ٹانک دیا گیا۔ پہلے پہل وہ اس تھال پرسُرخ پھولوں کا ہار لٹکاتا تھا، جب برفیلی رُت پھیلنے لگتی ___ اور پورا تعلقہ تھکا دینے والی سرد رُت میں دَب جاتا تو وہ تھال کو چوبی میز پر رکھ کر اُس میں خشک پتیاں بکھیر دیتا۔ یہی روایت اب باقی تھی۔

اچھے دنوں میں جب کبھی غیر ملکی سیاح، کوہ پیما یا پھر ذرائع ابلاغ سے وابستہ افراد اُن سے ملنے یا پھر اُن کے انٹرویو کے لیے آتے تو بہت شوق اور جوش کے ساتھ یہ تھال آنے والوں کو دکھایا جاتا تھا___ _ _ _ اور کیوں نہ دکھایا جاتا کہ کوہ پیماؤں کی عالمی تنظیم نے یہ تب عطا کیا تھا، جب اُنھوں نے ایک بین الاقوامی مقابلے میں کوہستانوں کو سر کرنے کی دھن رکھنے والے ہر ایک کو شکست دی تھی۔ اُس شاندار تقریب میں ایک کانسی کا مجسمہ بھی انھیں پیش کیا گیا تھا ___ یہ مجسمہ در اصل انھی میاں بیوی کا تھا، نقد انعام اس کے علاوہ تھا۔ حکومت کی جانب سے بھی اُنھیں تمغے عطا ہوئے۔ جس وقت وہ چوٹی سر کر رہے تھے، اُنھیں احساس تھا کہ پذیرائی ہو گی لیکن اس قدر زیادہ! ___ یہ وہ نہیں سوچتے تھے۔

پچھلے دس سال کے دوران اُس کے مشغولات میں تبدیلی آ چکی تھی۔ وہ گھر سے باہر کم کم جایا کرتا تھا، زیادہ سے زیادہ اشیائے ضروریہ کے حصول کے لیے ___ پھولوں سے محبت اور قربت کا حل اُس نے یوں ڈھونڈ نکالا تھا، کہ اپنے گھر کے آس پاس ایک مناسب رقبے پر رنگ بہ رنگ اور متنوع النسل پھولوں کی باڑیں لگا دیں ___ ان میں بعض پھول موسمی تھی اور کچھ سدا بہار ___ لیکن برف تو انھیں بھی ڈھانپ دیتی تھی۔ اُس نے دوسرے ملکوں سے بھی تخم منگوا کر اپنے یہاں اُن کی خوشبوئیں پھیلانے کا اہتمام کر رکھا تھا ___ اب مگر کئی کئی دن پھولوں کی یہ روشیں بھی اُس کے لمس سے محروم رہ جاتی تھیں۔

٭



برفانی تودے کے نیچے آ جانے سے جہاں وہ اپنے ایک بازو اور بچ جانے والے ہاتھ کی تین انگلیوں سے محروم ہوا تھا، وہاں اپنی محبوب بیوی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا تھا ___ یہ سرد موسم تھا ___ وہ حسبِ عادت پہاڑ کی طرف نکلے تھے۔ اُن کا ارادہ تھا کہ ایک خاص حد تک چڑھنے کے بعد لوٹ آئیں گے، ایسا ہو نہیں سکا۔ اچانک گلیشیر کے سینے میں تحریک پیدا ہوئی اور ایک بڑا سا ٹکڑا اُس نے نیچے کی طرف اُچھال دیا ___ بیوی مکمل طور پر تودے کے نیچے دَب گئی اور اس کے جسم کا بھی ایک حصہ مفلوج ہو گیا۔ فوری طور پر امدادی کار روائی تو ہو نہیں سکی، البتہ کچھ روز بعد اس کی بیوی کی نعش نکال لی گئی۔ اس مرگِ مفاجات نے جہاں اس کے حوصلوں کا کوہِ گراں پاش پاش کیا، وہاں اس کی جسمانی معذوری نے بھی اسے باہر کی دُنیا سے کاٹ کر رکھ دیا ___ کچھ ماہ تک تو اُن کا ذکر ہوتا رہا ___ اِکا دُکا شخص بھی اُس کے پاس آ جاتا ___ پھر لوگوں نے آنا چھوڑ دیا۔ تنہائی میں وہ تصویری کتابیں دیکھتا۔ اپنے کارناموں سے متعلق مطبوعہ کتابچے پڑھتا۔ سیاحتی اداروں کی جانب سے دیے گئے انعامات، اسناد اور تمغے نکالتا ___ نہال ہوتا لیکن تابہ کے؟ لوگ منھ نہ موڑتے تو ممکن تھا کہ اُس کا نظامِ حیات بہت اچھا نہ سہی لیکن اچھا چلتا۔ کوہ پیمائی نہ سہی گائیڈ کا کام تو وہ کر سکتا تھا۔ یہ بھی نہ ہوتا داستان گوئی میں تو وہ اپنا ثانی اَب بھی نہیں رکھتا تھا ___ اپنے وقت کا یہ مہم جُو لیکن اب کسی کے کام کا نہیں رہا تھا۔ کبھی کبھی لوگوں کے اس رویے پر وہ بہت تلخ بھی ہو جاتا، سوچتا کہ اُس نے اپنے ملک اور قوم کو کتنا بڑا اعزاز اور شہرت عطا کی۔ اپنے خاندان کی زندگی داؤ پر لگا کر ملک کا نام روشن کیا مگر آج چولھا ٹھنڈا پڑ رہا ہے، اعصاب ٹوٹ رہے ہیں، مستقبل تاریک ہو رہا ہے تو کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ___!!

٭



بوڑھے کوہ پیما نے بیٹے کی تعلیم کے لیے اپنا سب کچھ خرچ دیا تھا۔ یہاں تک کہ اُس کی خواہش پوری کرنے کے لیے اپنا مکان گروی رکھ کر اُسے دوسرے ملک بھی بھیجا ___ بیٹا کہتا تھا: ’’اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے آؤں گا، تو سب کچھ واگزار کرالوں گا۔‘‘

وہ اپنی بجھتی آنکھوں کی واحد روشنی کو کیوں کر انکار کرتا؟ بیٹا پلٹ آیا لیکن تعلیم کا زیور اُسے چھو تک نہیں گیا تھا۔ کچھ عجیب سی عادتوں میں پڑ گیا تھا۔ باپ سے کہنے لگا: ’’یہیں رہ کر کوئی کام کروں گا۔‘‘ ___ ایک دن اعلان کیا: ’’ایکسپورٹ امپورٹ کا بزنس کرتا ہوں۔‘‘

بوڑھے نے پوچھا: ’’رقم کہاں سے آئے گی؟‘‘

بیٹے نے معنی خیز نظروں سے باپ کو گھورا ___ پھر دفعتاً اپنی جگہ سے اُٹھا اور کارنس پر سجے ہوئے تمغوں میں سے ایک کو اٹھا کر کہنے لگا: ’’یہ کب کام آئیں گے؟ مارکیٹ میں ان کی بڑی ویلیو ہے۔ میں انٹرنیٹ پر ان کی تشہیر کروں گا۔ اچھا بزنس چلے گا۔‘‘

بوڑھا اپنی جگہ سے بلند ہوا تاکہ بیٹے کے ہاتھ سے تمغا لے کر واپس کارنس پر سجا دے لیکن چکرا کر ایک طرف ڈھے سا گیا۔ اُس کی آنکھوں کی روشنی منعطف ہونے کی بجائے منعکس ہو رہی تھی۔ اُس کی زندگی کے آثار معدوم ہوتے جا رہے تھے ___ پہلے سارے تمغے نیلام ہوئے ___ وثیقے فروخت ہوئے اور پھر کانسی کا مجسمہ بھی ایکسپورٹ ہو گیا ___

اور اَب بوڑھے کی محبت، بہادری، جاں فشانی اور فتح مندی کی آخری نشانی یہی تھال اُس کی کل متاع تھا۔ تھال سے بے پناہ محبت کا ایک زاویہ تو اس پر کندہ میاں بیوی کی تصویر تھی اور دوسرا دونوں کی مشترکہ پذیرائی۔

٭



بہت دنوں سے وہ باہر نہیں نکلا تھا اور اُس کا بیٹا بھی کہیں گیا ہوا تھا ___ سرد موسم میں ویسے بھی لوگ اپنے لحافوں اور گرم کمروں میں دبکے پڑے ہوتے ہیں ___ اُس نے گلاب کی زرد اور خشک پتیوں کو پہلے تو تھال میں یونہی ڈال دیا تھا ___ پھر کچھ سوچ کر اُس نے ان پتیوں سے دو نام لکھے، ’’ایملی فنلے‘‘ ___ ’’وجیہہ الحسن‘‘ پھر ایک خفیف سی مسکراہٹ کے ساتھ اُس نے تھال کو بوسہ دیا اور آنکھوں میں اُترنے والے ستاروں کو اپنے اکلوتے ہاتھ کی دونوں انگلیوں میں کاشت کر لیا۔ دوبارہ تھال کو چھُوا تو جیسے اُس کی انگلیاں وہیں جم کر رہ گئیں۔

سورج کی نارنجی کرنیں بستی کے اُوپرسے گزر رہی تھیں، ایک بوڑھے پڑوسی نے متفکر انداز میں اُس کے گھر کی جانب دیکھا۔ پھر کچھ پریشان ہو کر عمارت کے قریب آ گیا ___ صدا لگائی:

’’نجم الحسن! ___ او نجم الحسن! ___ آؤ تو ___ آؤ باہر نارنجی کرنیں تمھارا پوچھتی ہیں۔‘‘

وہاں مگر سکوت کی بسیط اور عمیق تہوں کی حکمرانی تھی۔

٭

[ادب دوست، لاہور۔ مئی ۲۰۱۸ء]

٭٭٭







شناخت



دماغ کے اندر چیونٹیاں سی رینگ رہی تھیں۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے اُس کی کھوپڑی ہڈیوں کے ڈھانچے کی بجائے ریل کی پٹری ہو، جن پر طویل مسافت طے کرنے والی ریلوں کا سفر جاری رہتا ہو۔ اُس کے خیالات منتشر اور بے سمت، جوں چورا ہے کی بھیڑ میں احساس ہوتا ہے۔ دو ایک مرتبہ تو احمد حبیب نے اپنی نشست بدلی مگر اس کی بے قراری میں کمی ہو کر ہی نہیں دی۔ دفتر کے سیاہ شیشوں کے اُس پار صدیوں کی رفاقت برت آنے والے بوڑھے پیپل کی پھیلی ہوئی بانہیں اپنے ہی وجود سے لپٹنا چاہتی تھیں۔ ایک بچہ بہت دیر سے پیپل کی شاخوں کو پکڑنے کی کوشش کر رہا تھا مگر برابر ناکام ہوتا جا رہا تھا۔ بہ ظاہر اس کی نگاہیں بچے کی حرکات و سکنات پر مرکوز تھیں لیکن اس کے دماغ میں عجیب سے جھکڑ چل رہے تھے۔ مختلف رنگ بہ یک وقت اُس کی حیرتوں میں اضافہ کر رہے تھے، ہزار ہا تصویریں اس کے تصور میں جاگتی بجھتی تھیں۔

پرانی وضع کا یہ دفتر انگریزوں کی باقیات میں سے ایک تھا۔ اونچے اونچے محرابی دروازوں کے عقب میں طویل دالانی کمرے، جوں پرانی عدالتوں کے بڑے برآمدوں کے اندر کمروں میں سے نکلتے ہوئے کمرے ہوا کرتے ہیں۔ جن کی چھتیں آج کے نسبت دو گنا اونچی اور دیواریں ڈیڑھ گنا چوڑی۔ ان دفتروں کی چھتوں پر دیودار کے دیو قامت شہتیر جہاں اپنی کہنگی کا احساس دلاتے تھے، وہاں عہدِ رفتہ کی عظمتوں کے بھی امین تھے۔ چوبی کھڑکیوں کے اندر ایک انچ سے نکلتے ہوئی موٹی سلاخیں، جس طرح جیلوں اور بارکوں میں ہوا کرتی ہیں۔ یہاں دفتروں کی ایک قطار تھی، جہاں مختلف وزارتوں کے اعلیٰ افسران بیٹھا کرتے تھے۔ کسی زمانے میں یہاں ٹائپنگ مشین کی کھٹ کھٹ گونجتی تو گزرنے والوں کو اندازہ ہوتا جیسے وہ کسی سحر آفریں عہد میں جی رہے ہیں۔ اب وہ زمانہ بھی لد چکا تھا، جب دفتری امور نبٹانے کے لیے منشی ہوا کرتے، اب تو کمپیوٹر نے سارا انداز ہی بدل ڈالا تھا، پھر افسران کے وہ مزاج اور شاہانہ ٹھاٹ بھی تغیر آشنا ہو چکے تھے۔ سطوت اور حکمرانی کا پرانا ڈھنگ نہ رہا تو ان دفتروں کی وہ شان بھی باقی نہ رہی۔

احمد حبیب کے دھیان میں ایک تصویر اُبھری، اُس نے غور کیا ___ کافکا ہے شاید۔ نہیں کانٹ یا پھر ڈیکارٹ ___ او ___ نہیں نہیں ___ ژاں پال سارتر ___ نہیں شاید سگمنڈ فرائیڈ یا پھر ژولاں بارتھ ___ ٹیگور کی تصویر ہو گی ___ اقبال، فیض، جالب، بیدی، محمود درویش، موپساں ___ نہ جانے کس کی تصویر تھی ___؟ ایک بار پھر اُس نے تمام خیالات جھٹک کر دماغ پر دستک دینے والے عکس کے متعلق سوچا۔ اس بار بھی کوئی واضح شبیہ ظاہر نہ ہوئی۔ وہ اپنا مغز ہتھیلی پر رکھ کر اُس تصویر کو آنکھوں سے دیکھنا چاہتا تھا ___ وہ چاہتا تھا کہ تصویر مجسم ہو کر اُس کے سامنے کھڑی ہو جائے اور وہ جانے والی گھڑیوں اور بیت جانے والے لمحوں سے متعلق اُس سے گفتگو کرے۔

’’میں منتقم ہوں یا مزاحمت کار ___؟‘‘

اس نے سوچا اور پھر نہ چاہتے ہوئے بھی ’’کی بورڈ‘‘ باہر کی طرف کھینچ کر دفتری کاموں میں اُلجھ گیا ___ وہ ان کاموں میں اُلجھتا ہی تھا کیوں کہ اس نے کبھی پورے انہماک سے دفتری کام نہیں کیا تھا۔ غالباً روزی روٹی کے چکر میں اُس نے یہ نوکری کر لی تھی، ورنہ اس کے مزاج کی وسعت آشنائیوں کے سامنے اس ملازمت کا دامن بہت تنگ تھا۔

شام کے پانچ بجے حسبِ معمول جب وہ اپنے دفتر سے نکلا تو گردیزی صاحب کا کمرا کھلا ہوا تھا۔ دو تنومند بلکہ سانڈ کی سی جسامت والے نوجوان میز کے سامنے کرسیوں پر یوں بیٹھے تھے، جیسے کبھی نہ اُٹھنے کا تہیہ کر رکھا ہو ___ بٹ صاحب کے کمرے میں ان کا پرسنل سیکرٹری بیٹھا کام کر رہا تھا ___ بگھیو صاحب اپنے دفتر سے نکل چکے تھے اور ان کا ڈرائیور دستی بیگ تھامے تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا۔ ایک قطار میں بنے ہوئے ان دفاتر کے سامنے ناموں کی تختیاں آویزاں تھیں، جو تیز ہوا سے جھولنے لگتیں۔ احمد حبیب کے اپنے دفتر کے سامنے بھی ایک ایسی ہی تختی لٹک رہی تھی، جس پر اُس کا نام درج تھا ___ _ اُس نے چلتے چلتے تختیاں پڑھنا شروع کیں: چودھری مرتضیٰ احسن، راجا نوروز سلطان، سید احتشام الدین، سردار سمیع اللہ خاں، ملک ریاض الحق، سلطان جہاں زیب قاضی، راحیل جونیجو، نسیم اختر چانڈیو، نواب فیصل بگٹی، قدرت اللہ مگسی، عظمت خان جمالی ___ عوسجہ خان زادہ ___

یہ نام روزانہ اس کی بصارتوں سے ٹکراتے اور ہر روز نفرت سے اس کا حلق سوکھ جاتا۔ قبائلی شناخت پر اِترانے والے ان لوگوں سے اسے اس قدر شدید نفرت تھی کہ اس کی زبان خود ہی گالیاں بکنا شروع کر دیتی اور وہ چاہتا کہ تمام کتبے اکھاڑ پھینکے۔ بعض اوقات اس کے دفتر میں تعارف کراتے ہوئے کوئی اسے اپنی قبائلی شناخت بتاتا تو وہ ایک دم غصے سے بے قابو ہونے لگتا ___ دو دن پہلے بھی کسی نے ایک جاگیر دار منسٹر کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ وہ اُس کا عزیز ہے، تب احمد حبیب نے فائل اُٹھا کر اُسے تھماتے ہوئے کہا تھا:

’’جاؤ یہ کام انھی سے کروا لو۔‘‘

٭



چہل قدمی کے لیے اس نے شہر سے دُور کا ایک علاقہ منتخب کر رکھا تھا۔ علی الصبح جب وہ بیدار ہوتا تو گاڑی نکال کر وہاں چلا جاتا، پھر وہاں موجود چھوٹے چھوٹے ٹیلوں پر گھومتا، پھلاہی کے پست قامت درختوں کے جھرمٹ سے نکل کر نسبتاً ایک اونچے ٹیلے پر بنے ہوئے قبرستان تک جاتا ___ یہ قبرستان علاقے کا مشہور اور بڑا قبرستان تھا۔ اندازہ نہیں کتنی صدیاں پہلے یہاں پہلا انسان آ کر آباد ہوا تھا۔ صبح کی سیر کے بعد جب لوٹتا تو خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرتا اور یوں اس کے دن کا باقاعدہ آغاز ہو جاتا۔ دفتر کے وہی معمولات تھے، جو اُسے سخت ناپسند تھے ___ ایک دن تو اُس کے معاون نے یہ تک کہ دیا تھا:

’’صاحب جی! آپ ریٹائرمنٹ کیوں نہیں لے لیتے؟‘‘

وہ جانتا تھا اس سوال کا مرکز کیا ہے ___ جواباً اُس نے معاون کو صرف گھورا اور فائل میں خود کو مصروف کر لیا۔

جب وہ گھر پہنچا تب بھی اُس کے ذہن میں اُبھرنے والا خاکہ نا مکمل تھا ___ ایک مبہم تصویر جاگتی اور دفعتاً گم ہو جاتی۔ وہ اس کرب کو صبح سے جھیل رہا تھا۔ اُس نے خود کلامی کرتے ہوئے کہا:

’’آخر ان نام وَر لوگوں کا عکس میرے دماغ میں کیوں روشن ہوتا ہے؟ ___ کیا یہ مزاحمت کار تھے یا منتقم ___؟ ان کے ہاتھوں میں تلواریں تو نہیں تھیں، پھر یہ کیسے مزاحم ہو سکتے تھے ___ کیسے انتقام لے سکتے تھے ___؟ یہ کیسی مزاحمت اور کیسا انتقام تھا؟ جہاں تلواروں کی بجائے احساس اور لفظوں سے جنگ لڑی جا رہی تھی ___ تو کیا میں بھی انھی میں سے ہوں، لفظوں کے سہارے جینے، لڑنے اور مرنے والا ___؟ کیا اس پیکار میں مجھے بھی ناکام ہونا پڑے گا؟ ہواؤں کے اُوپر اور سمندر کی تہوں میں حکمرانی کرنے والوں کا میں کبھی کچھ نہیں بگاڑ پاؤں گا؟ کیا وہ سبھی لوگ مات کھا چکے تھے؟ تو پھر میں انھیں کیوں یاد کر رہا ہوں ___؟ شکست خوردہ لوگوں کو بھلا دینا ہی بہتر ہے۔‘‘

اس کے من بھیتر سے ایک گونج دار آواز برآمد ہوئی:

’’نہیں! ___ وہ سب اپنے اپنے زمانے کے فتح یاب لوگ تھے ___ راستہ دکھانے والے اور سچ کی خاطر دُکھ اُٹھانے والے، وہ ہارے ہوئے نہیں تھے، تم چت ہو رہے ہو ___‘‘

اس کے دماغ میں چیونٹیاں اُسی طرح رینگ رہی تھیں اور وہ پہلے سے زیادہ بے تاب تھا۔

اگلی صبح دفتر پہنچا اور اخبار اپنے سامنے پھیلا دیا ___ اخبار میں کوئی بھی خبر اُسے عجیب نہیں لگی۔ وہی معمول کی خبریں: ’’چینی خلا بازوں کی خلا میں چہل قدمی۔‘‘ دوسری سُرخی تھی ’’امریکی طیاروں کی سرحدی خلاف ورزی، مسجد پر حملہ، کئی بے گناہ ہلاک اور زخمی۔‘‘ ایک اور خبر تھی ’’بستی عالمانی کے ’’مقیم‘‘ نامی شخص نے اپنا نومولود بیٹا سو روپے میں فروخت کر دیا۔‘‘

ان جیسی کئی ایک خبریں اور بھی تھیں۔ کچھ دیر بعد وجدانی صاحب اس کے دفتر میں آئے تو کہنے لگے:

’’آج اخبار میں ایک نہایت عجیب خبر شائع ہوئی ہے۔ کوئی گروہ قبروں کے کتبے اکھاڑ رہا ہے۔‘‘

’’کیا ___ کیوں ___؟‘‘

’’کیا خبر ___‘‘

’’کفن تو نہیں چرائے جاتے؟‘‘

’’نہیں ___ صرف کتبوں سے متعلق لکھا ہوا تھا۔‘‘

’’وجدانی صاحب! کتبے چرانے سے آپ کیوں پریشان ہو رہے ہیں؟‘‘

’’شناخت مٹ جاتی ہے نا ___‘‘

’’تو کیا مدارس و مساجد اور قرآن کے نسخوں پر بمباری سے شناخت نہیں مٹتی ___؟‘‘

’’آپ سیاست نکال لائے ہیں۔‘‘

’’سیاست ___؟ میں نے تو شناخت کی بات کی ہے۔‘‘

’’دہشت گردوں کا خاتمہ ضروری ہے۔‘‘

’’زندوں کو مار دینا چاہتے ہیں اور قبروں کے کتبے اکھڑنے پر فکر مند ہیں۔‘‘

’’اچھا خیر ___ آج منسٹر صاحب کے یہاں ڈنر ہے، میں جا رہا ہوں، شام کو وہیں ملاقات ہو گی۔‘‘

احمد حبیب نے نکٹائی کو ڈھیلا کیا ___ اور پھر تیز تیز سانس لینے لگا۔ گراں طبعی تو اُس کی زندگی کا لازمی جزو بن کر رہ گئی تھی۔ اس کی دلچسپی کے لیے اس دنیا میں شاید کچھ بھی نہیں بچا تھا۔ کوئی بات اس کے لیے انوکھی اور نئی نہیں تھی اور نہ ہی کوئی خبر عجیب ___

’’جہاں زندوں کو مسجدوں کے اندر جلا کر خاکستر کر دیا جاتا ہو، کم سنوں سے اجتماعی زیادتیاں ہوتی ہوں، مفلس خود کشی پر مجبور کر دیے جاتے ہوں، وہاں قبرستان کی فکر ___!‘‘

اس نے خیالات کے بھاگتے ہوئے گھوڑے کی لگام کھینچی اور پھر کام میں اُلجھ گیا ___ اس روز بھی اس کا معاون اسے کچھ کہنا چاہتا تھا مگر اس نے اُسے نظرانداز کر کے اپنے لیے سہو لت پیدا کر لی۔

وقت دریا کی طرح آگے ہی بڑھتا رہا اور وہ اپنی لگی بندھی زندگی میں___

کچھ دن بعد پھلاہی والے قبرستان میں اُس نے وہ منظر دیکھ لیا، جس کے متعلق وجدانی صاحب نے اُسے بتایا تھا۔ کوئی شخص صبح سویرے ہی سے قبروں کے کتبے اکھاڑنے میں مگن تھا ___ وہ آہستگی سے اُس کی جانب دیکھتا اور بڑھتا گیا۔ تخریب کار نے پہلے ایک قبر سے کتبہ اکھاڑ کر اُسے زمین پر پٹخا پھر مسلسل ہتھوڑے برسا کر چکنا چور کر دیا، دوسری اور تیسری قبر کے کتبوں کے ساتھ بھی اُس نے یہی سلوک کیا۔ احمد حبیب نے یہ سارا منظر جھاڑیوں کی اوٹ سے دیکھ تو لیا ___ مگر اَب اس میں مزید حوصلہ نہیں رہا تھا۔ وہ تیز قدموں سے تخریب کار کی جانب بڑھنے لگا، کتبے اکھاڑنے والے نے اپنا چہرہ چادر سے ڈھانپ رکھا تھا، اس کے ایک ہاتھ میں بڑا ہتھوڑا اور دوسرے میں چھِنی تھی۔ اگرچہ اس بات کا خطرہ موجود تھا کہ تخریب کار اسے نقصان پہنچا دیتا لیکن پھر بھی اُس نے ہمت سے کام لیا اور دبے قدموں اس قبر تک پہنچ گیا جس کا کتبہ اکھاڑا جا رہا تھا ___ تخریب کار پورے اطمینان کے ساتھ شناخت مٹانے میں منہمک تھا۔ احمد حبیب نے دفعتاً اُس کی شناخت کے لیے نقاب جو کھینچا تو حیرت سے اُس کا اپنا دم گھٹنے لگا ___ بہت مشکل اور ضبط کے بعد اُس کی زبان سے ایک جملہ برآمد ہوا:

’’وجدانی صاحب! آپ ___؟‘‘

٭

[ماہنامہ بیاض، لاہور، جنوری ۲۰۰۹ء]

٭٭٭









دیوانہ



یہ خلافِ معمول تھا، میں صبح سویرے اُٹھتے ہی حجام کے پاس چلا آیا۔ شیو تو میں گھر پر ہی بنا لیتا ہوں مگر بال بنانے کے لیے حجام کے پاس آنا ہی پڑتا ہے۔ صبح دم آنے کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ حجام بالکل فارغ بیٹھا تھا، البتہ تین آدمی لکڑی کے بنچ پر پاؤں لٹکائے یوں بیٹھے تھے جیسے زندگی کے منتظر ہوں۔ میں سلام کہ کر آئینے کے سامنے پڑی گھومنے والی کرسی پر بیٹھ گیا ___ کمر سیدھی کرتے ہوئے میں نے اپنے سامنے آئینے میں دیکھا تو اُس میں اُن افراد کا عکس واضح نظر آ رہا تھا، جو پیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ اَب بھی خاموش تھے، شاید میرے آنے کی وجہ سے سلسلۂ کلام منقطع ہو گیا تھا یا پھر اُن کے لفظوں کی پوٹلی خالی ہو گئی تھی ___ جو بھی تھا، اُن کے لبوں پر تالے پڑے ہوئے تھے۔ میں نے غور سے تینوں کے چہروں کا جائزہ لیا۔ وہی بے چہرگی تھی، جو ایسے موقعوں پر ہوتی ہے۔ تأثر سے خالی ان چہروں میں کوئی بھی تو خاص بات نہیں تھی۔ البتہ چوہے کی سی مونچھوں والے، سر پر تازہ استرا پھر وائے ہوئے شخص کی آنکھیں کچھ کہنا چاہتی تھیں۔

چالیس کے سن کو چھوتا ہوا پختہ رنگت کا حامل یہ شخص بار بار اپنی گول اور سیاہ آنکھوں کو یوں گھماتا جیسے گاڑی کا پہیہ گھومتا ہے، پھر بے زاری ظاہر کرتے ہوئے باہر دیکھنے لگتا۔ کبھی کبھی وہ اپنے ہاتھ کو ساتھ بیٹھے ہوئے شخص کے گھٹنے پر یوں مارتا جیسے زندگی کے دروازے پر دستک دے رہا ہو ___ حجام کی دکان میں موجود ہم پانچوں افراد سکوتِ پیہم میں مبتلا تھے ___ تاہم قینچی چلنے کی آواز سے زندگی کا ثبوت مل رہا تھا۔ ایک لمحے کے لیے میرے دماغ میں یہ بات آئی کہ شاید یہ حجام کی دکان نہیں، ورنہ اس قدر خاموشی نہ ہوتی۔ میں نے اپنے گلے پر لپٹے ہوئے کپڑے کی سختی کو اُنگلی ڈال کر کم کرتے ہوئے سانس تازہ کیا اور حجام سے کہا:

’’نصرت فتح علی خاں کی کوئی قوالی ہی سنا دد۔‘‘

’’کون سی سنیں گے ___؟‘‘

’’تم اک گورکھ دھندہ ہو ___‘‘

ڈیک میں کیسٹ ڈالتے ہوئے حجام نے کہا:

’’پروفیسرنیازی جب بھی آتے ہیں، یہی کیسٹ سنتے ہیں اور یہ عمر حیات بھی بار باراسی کیسٹ کو سنانے کا مطالبہ کرتا ہے۔‘‘

’’او ___ اچھا ___‘‘

میں نے آئینے میں سے بولتی ہوئی آنکھوں والے عمر حیات کا دوبارہ جائزہ لیا۔ اِدھر نصرت کی آواز برآمد ہوئی، اُدھر عمر حیات کی بولتی ہوئی آنکھوں پر پلکوں کا پردہ آن پڑا ___ وہ اپنے سر کو خاص انداز سے گھمانے لگا، یوں جیسے کسی بات کی تردید کر رہا ہو۔ میں نے بھی اپنی آنکھیں میچ کر دھیان قوالی پر لگا لیا۔ اَب حجام کی قینچی کی آواز طبلے کی تھاپ اور قوالوں کے الاپ میں کہیں کھو گئی تھی، بالکل اسی طرح جیسے کچھ دیر پہلے ان تین آدمیوں کی آوازیں معدوم تھیں۔ نصرت کی آواز کا جادو ہمیشہ سر چڑھ کر بولتا ہے۔ میں تو جب بھی اسے سنتا ہوں، دل و دماغ کی حالت بدل جاتی ہے، جس احتیاط سے یہ لفظ ادا کرتا ہے، کسی اور قوال کے ہاں وہ بات ہی نہیں ___ اور پھر آواز ___!

اب جو آنکھ کھولی تو کیا دیکھتا ہوں عمر حیات باقاعدہ جھوم رہا ہے اور اُس کے ہونٹ بھی مسلسل ہل رہے ہیں، یکایک ساکت و مبہوت ہو کر ہماری طرف گھورنے لگتا ہے۔ ایک زور دار چیخ اُس کے حلق سے برآمد ہوتی ہے اور پھر حجام سے کہتا ہے:

’’بند کرو ___ میں کہتا ہوں بند کرو اسے ___‘‘

حجام میری طرف دیکھتا ہے تو میں آنکھوں کے اشارے سے اُسے اجازت دے دیتا ہوں۔ سرگوشی کے انداز میں حجام کہتا ہے:

’’اسے دورہ پڑا ہے، اب نہ جانے یہ کیا کیا کہے گا، میں تو کہتا ہوں یہ کھسکا ہوا ہے۔‘‘

میں نے حجام کی بات سنتے ہوئے دوبارہ آئینے میں سے عمر حیات کا جائزہ لیا۔ اَب وہ بینچ پر دوبارہ بیٹھ چکا تھا اور اپنی داہنی ہتھیلی سے اپنے گھٹنوں پر مسلسل دستک دیتا جا رہا تھا۔ خاموشی نے ایک بار پھر ڈیرے ڈال لیے تھے ___ کچھ دیر تو میں نے اُس کا جائزہ لیا پھر کسی انہونی کے ظاہر نہ ہونے پر آنکھیں موند لیں۔ چند ساعتیں ہی گزری ہوں گی پھر ایک گونج دار آواز نے ماحول پر لرزہ طاری کر دیا:

’’میں حرامی ہوں ___ میں ___؟

اور وہ حرامی نہیں ہیں جو دوسروں کا خون چوستے اور ماس کھاتے ہیں، کم سن بچوں کو استعمال کرتے ہیں، جانوروں اور بے زبانوں کے ساتھ منھ کالا کرتے ہیں۔ وہ حرامی نہیں ہیں؟ جو سودکھاتے اور منشیات بیچتے ہیں ___ وہ جو قوم اور دین کی خدمت کا نعرہ بلند کر کے ووٹ لیتے اور بھول جاتے ہیں _ _ _ _ _ _ میں حرامی ہوں تو یہ سب کون ہیں؟‘‘

عمر حیات کا انگ انگ غصے سے کانپ رہا تھا۔ یوں لگتا تھا وہ اچانک کوئی چیز اُٹھا کر ہم میں سے کسی کو دے مارے گا ___ اُس کی بے لاگ چیخ آمیز باتوں کا سلسلہ جاری تھا۔ حجام بار باراُسے چلے جانے کے لیے کہتا مگر وہ اپنی جگہ سے نہ ہلتا۔ میں نے حجام سے پوچھا یہ روز یہاں آتا ہے کیا؟ اُس نے بتایا نہیں مگر جب آتا ہے، پریشان کرتا ہے۔ اس سے جان چھڑانی مشکل ہو جاتی ہے۔ عمر حیات بولے جا رہا تھا:

’’چاند میں بیٹھ کر جب تم نے پانچ سائے نیچے پھینکے تھے، میں انھیں دیکھ رہا تھا ___ اُن کے چہرے دوسری طرف تھے لیکن میں نے کوشش کر کے سب کو پہچان لیا تھا۔ یہ سائے اُلّو، سور، بندر، بلی اور گائے کے تھے، اُن سب کے سر نیچے اور پاؤں اُوپر کی طرف تھے۔ تم نے انھیں اُلٹا کر پھینکا تھا۔ میں بے دھیانی میں درختوں کے جھنڈ سے باہر نکل آیا تھا ___ تب اچانک یہ پانچوں سائے سانسوں کے راستے سے میری رگوں میں اُترے اور پھر میرے خون میں شامل ہو گئے۔ میں بہت چیختا چلاتا رہا مگر وہاں میری مدد کے لیے کوئی نہ آیا ___ اب میں تھا اور ___ صحراؤں کی ویرانی تھی۔ پھر میں ایک سمت میں چلنے لگا ___ کتنے ہی سال چلتا رہا، تب کہیں جا کر مجھے میرے جیسے لوگ ملے۔ میں اجنبی تھا اور وہ مجھے اپنے لیے خطرہ سمجھتے تھے، میری بات کا اعتباز نہیں کرتے تھے ___ پھر اُنھوں نے مجھے قتل کرنا چاہا لیکن تم نے مجھے لکڑی کے تختے پر بٹھا کر پانی کی لہروں میں ڈال دیا۔ میرے خون میں اُترے ہوئے سائے مجھے بے چین کرتے تھے۔ میں پہاڑوں، جنگلوں، بیابانوں اور غاروں میں پناہ ڈھونڈتا رہا مگر سکون کہیں نہ ملا ___ میرے پاؤں زخمی ہو چکے تھے اور میرے ہونٹوں پر پیڑیاں بن چکی تھیں۔ لق دق صحراؤں میں چلتے چلتے میں پیاس اور بھوک سے نڈھال ہو چکا تھا، تب میں زمین پر گر پڑا اور تڑپتے ہوئے اپنے پاؤں زمین پر رگڑنے لگا ___ میرے پاؤں ریت سے اُلجھ اُلجھ کر ریتلے اور گرم ہو چکے تھے، پھر تپتے ہوئے صحرا کے سینے سے چشمہ جاری ہو گیا اور میں نے خوب سیر ہو کرپانی پیا، اپنے اندر اور باہر کو دھویا۔‘‘

’’اوئے عمر حیات ___! اوئے ___! چل اُٹھ اب نکل ادھر سے ___‘‘

حجام نے ایک بار پھر اُس سے کہا مگر وہ یوں اپنی خود کلامی میں محو تھا جیسے اُس نے کچھ سنا ہی نہ ہو ___ حجام نے اُسے بازو سے پکڑ کر اُٹھانا چاہا مگر ناکام رہا۔ اُس نے اپنا بازو چھڑاتے ہوئے کہا: ’’چائے منگواؤ پھر چلتا ہوں۔‘‘ حجام اُسے چائے پلانا نہیں چاہتا تھا۔

’’دو پہاڑوں کے بیچ کیا ہوتا ہے ___؟ تم جانتے ہو۔ روحیں تو ہزاروں سال سے اُتر رہی ہیں اور اُترتی رہیں گی۔ میرے اندر پانچ سائے لڑتے رہیں گے اور تم چاند میں بیٹھے رہو گے۔‘‘

میں عمر حیات کی باتیں سُن کر دُور نکل آیا تھا، اتنی دُور اگر عمر حیات پھر نہ چیختا رو میں نہ پلٹ سکتا۔

’’میں حرامی ہوں ___ میں ___؟ اگر مولوی کے ہاں پیدا ہوتا تو لوگ میرے ہاتھ چوم رہے ہوتے، پاؤں میں بیٹھتے اور نذر نیاز دیتے۔ مجھے حرامی کہتے ہو ___ تم؟ میری بہن کے پرس میں کنڈوم نہیں ہوتا ___ میں دوسروں کے گھروں میں نہیں جھانکتا ___ اورتم ___ تم اور تمھاری بہن ___‘‘

قینچی کی دھار کام دکھا چکی تھی۔ عمر حیات کی پسلیاں خون آلود تھیں اور وہ ایک جانب بے سدھ پڑا تھا۔

٭

[حدیثِ دیگراں، مرتب سید نصرت بخاری، ستمبر ۲۰۰۸ء]

٭٭٭







سائیکل



باہر تیز بارش اور تند ہوائیں تھیں، بارش کا ساز جو عام دنوں میں اُسے بہت بھاتا تھا، آج کانوں میں رس گھولنے کی بجائے اضطراب پیدا کر رہا تھا۔ رہ رہ کر چودھری کو کچھ یاد آتا اور پھر وہ ایک عجیب سی خشمگیں نگاہ رمضو پر ڈال کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگتا۔ ڈیڑھ صدی پرانی دُکان کے چوبی کواڑ اپنی خستگی کے باعث مضمحل تو تھے ہی، ایسے میں جھکڑ کے تھپیڑے انھیں مزید زخمی کر رہے تھے۔ چودھری نے سرد اور طویل آہ کھینچتے ہی رمضو کو ایک موٹی سی گالی دی اور پھر بڑبڑاتے ہوئے سلسلہ کلام جوڑا:

’’اِس باپ کے سامنے ٹاٹ ہی باندھ دیتا تو یہ برفانی ہوائیں کلیجہ نہ چیرتیں۔‘‘

’’چودھری صاب! بڈھے ہو گئے ہو، جبھی تو اس معمولی سردی میں تمھارے دانت بج اور ہڈیاں چٹخ رہی ہیں۔‘‘

’’تیری ماں کی ___ _!! بڈھا نہیں ہو گیا ہوں، اَب بھی تیرے جیسے کئی ایک پھڑکا دوں۔‘‘

چودھری پینسٹھ اڑسٹھ سال کی عمر کا ایک منحنی سا شخص تھا۔ تھوڑی بہت زمین بھی اس کے پاس تھی۔ اُس نے جوانی کمال رنگین گزاری۔ حد تو یہ کہ شراب کباب کا ایسا رسیا، کہ اس عمر میں بھی کوئی رگ پھڑک جاتی توایک بار ضرور ہونٹ رسیلے کر لینے کی دھُن میں نکل جاتا۔ کچھ لوگ کہتے تھے کہ بھلے زمانوں میں وہ بڑے شہروں کی رنگین دنیا میں وقت گزارتا رہا۔ اس شوق میں وہ کئی شہر گھوم آیا تھا۔ جب کبھی ترنگ میں ہوا کرتا، پرانے قصے لے بیٹھتا اور اس رَس جَس کے ساتھ بیان کرتا کہ زاہدوں اور عابدوں کی رالیں ٹپکنے لگتیں۔ کئی لوگ تو ان قصوں سے حظ اُٹھانے کی خاطر ہی اُس کی راہ تکتے رہتے۔ وہ بھی انتہائی ملنسار، ہنس مکھ اور کسی حد تک ہر ایک سے راہ و رسم بڑھانے کا تمنائی تھا۔ نہیں معلوم یہ اُس کی رنگین مزاجیوں کی باقیات میں سے ایک روش تھی یا پھر فطرتاًاُس کی زندگی میں یہ سب شامل تھا۔ وہ بلا کا ذہین اور جگت باز بھی تھا۔ قومی اور بین الاقوامی معاملات پر حاشیہ آرائی کرتا۔ ہر چھوٹے بڑے پر جملے کستا، سُنتا، مسکراتا، گالی بکتا اور نکل جاتا۔ یہاں تک کہ بالکل اجنبی لوگوں کے ساتھ بھی چند لمحوں میں گھل مل جاتا۔

بھلی عمر میں وہ چلتے چلتے اجنبی لڑکیوں اور کبھی کبھی تو شادی شدہ عورتوں کے خال و خط اور نین نقشے کی بغیر دیکھے یوں تعریف کر دیا کرتا جیسے برسوں دیکھا برتا ہو۔ یہ سب وہ بے خوف ہوکے کرتا، بالکل انجام سے بے نیاز۔ اَب البتہ یہ کام اُس نے نوخیز لڑکوں کے لیے مخصوص کر رکھا تھا۔ سیاہ بھجنگ ہی کیوں نہ ہو چودھری ایک بار ضروراُسے آواز لگاتا۔ انجان لڑکوں کو بلا تا تو وہ احتراماً کہتے:

’’بابا جی! خیریت ہے؟ ہماری کوئی مدد درکار ہو تو کہیں ___‘‘

’’اوئے دو گھڑی ٹھہرو! ___ کس گاؤں سے آئے ہو؟ ___ کس کے بیٹے ہو ___؟‘‘

ایسے میں اُس کے منھ سے تھوک کی ٹکڑیاں نکل کر سامنے والے کے منھ پر پڑ جاتیں اور اگر کسی کی طبیعت میں ان ٹکڑیوں سے اضمحلال پیدا ہوتا بھی تو چودھری کی بلا سے۔ لڑکا کچھ سہم سنبھل کر جواب دیتا ہی تھا، یہ اُس کے رُخسارتھپتھپاتے ہوئے فرمائش کرنے لگتا:

’’ملتا رہا کر ___ تیرا باپ بھی مجھ سے ملا کرتا تھا۔‘‘

باپ کی ملاقات کا بتاتے وقت ایک مخصوص مسکراہٹ اُس کے لبوں پر پھیل جاتی اور وہ ایک خاص انداز سے زبان اپنے ہونٹوں پر پھیر لیتا، جیسے شہد چاٹ لیا ہو ___ نظروں ہی نظروں میں لڑکے کا سراپا ٹٹولتا اور آگے بڑھ جاتا۔

اُس کے پاس مرزا کی سائیکل سے بھی کہیں صدیوں پرانی سائیکل تھی۔ ہیئت اور ڈھانچہ تو اُس کا سائیکلوں جیسا ہی تھا، البتہ جب چودھری اُسے آدھ کلو میٹر فی گھنٹا کی رفتارسے لے کر گاؤں سے نکلتا تو اُس کے ہر ایک حصے سے چوں چراں، تڑخ پٹخ، رِیں ریں اور گھیں گھیں کے ساز بجنے لگتے۔ میری عمر کے لوگوں نے چودھری کو اسی سواری پر دیکھا۔ کچھ لوگ بتاتے ہیں، چودھری نے سکھر کی ایک طوائف کے لیے سوکنال زمین فروخت کر دی تھی اور ساری رقم ایک گانا سننانے کا انعام ٹھہرایا۔ ایک لڑکے کے حسن پر فدا ہو جانے کے بعد اُس کی خوشی کی خاطر نئی کار بھی خریدی تھی۔ چودھری کھلے پائنچوں کی شلوار اور چھوٹی وضع کی قمیص پہنے سارا دن سائیکل کی گراریاں گھساتا رہتا اور وہ لڑکا موٹر کار پر شہر شہر گھومتا۔ چودھری کے پاس تبھی پلٹتا جب اُسے پیسوں کی ضرورت ہوتی۔ ورنہ چودھری ہر ایک سے اپنے محبوب کا پوچھتا پھر تا۔ جاننے والے اُسے چھیڑنے کے لیے اُس کے کسی رقیب کا نام لے لیتے اور یہ منھ بھر بھر گالیاں دیتا ہوا آگے بڑھ جاتا۔ چودھری کی داستانِ عشق میں یہی دو حادثے نہیں تھے بلکہ کئی کہانیاں تھیں، جو اُس کے ہم عمر سناتے اور کبھی کبھی وہ خود بھی لہر میں آ کر سنانے بیٹھ جاتا۔

٭

رمضو نے سائیکل کو پنکچر لگاتے ہوئے کہا:

’’چودھری صاب! جب میں مسکین استاد کے پاس کام سیکھ رہا تھا، تب بھی یہ سائیکل تمھارے پاس اسی حالت میں تھی اور اِس بات کو بھی تیس سال ہو گئے ہیں۔ کوئی ایک پرزہ بھی اس کا اپنا نہیں لگتا۔ اس کے پیڈل، گراریاں، چین، رِم، ہینڈل اور اسٹینڈ سبھی کچھ تو بدل چکا ہے۔ پتا نہیں کس کس مردے سے کفن اُتار کر تم نے اس کو زندگی بخشی ہے۔‘‘

’’تیری بہن کی ___!! یہ تمھاری ماں تاریخی سائیکل ہے، تو اُس کی خوبیاں اچھی طرح جانتا ہے۔ تم نے بھی سائیکل چلانی اسی پر سیکھی۔ پھر یہ بھی یاد ہو گا کہ میں نے کبھی اس کا کیرئیر نہیں لگایا۔ جانتا ہے نا کیوں ___؟ اس لیے کہ تیرے جیسوں کو اپنے سامنے ڈنڈے پربٹھاتا ہوں۔‘‘

سیاہ بھجنگ رمضو جو چالیس پینتالیس سال کی عمرکا ایک بد ہیئت شخص تھا، جھینپ سا گیا۔ پھر خفت مٹانے کے لیے سائیکل میں ہوا بھرنے کی اداکاری کرنے لگا۔ چودھری اپنی سائیکل کی بقا کے لیے اس کے پرزے تبدیل کرتا رہتا۔ اس کام کی غرض سے وہ شہر بھر کے کباڑیوں کی دکانیں ماپتا، خراب پرزہ کباڑی پر فروخت کرتا اور اُس کے بدلے میں استعمال شدہ نسبتاً بہتر پرزہ حاصل کر لیتا۔ رمضو بھی بالعموم دوسری سائیکلوں سے اُترے ہوئے پرزے اُسے لگا کر دیتا رہتا تھا ___ اس لیے چودھری کی ذہنیت اور اُس کی سائیکل کی رگ رگ سے اچھی طرح واقف تھا۔ کچھ دیر بعد پھر بولا:

’’مجھے لگتا ہے فریم بھی اس کا اپنا نہیں ہے۔‘‘

’’ٹھیک کہتے ہو، یہ بھی میں نے بدل ڈالا تھا ___ چٹے کا بیٹا سوہنا ایک بار لے گیا تھا اور ماں اپنی کو ٹریکٹر تلے دے آیا۔ خود مر جاتا تو اچھا تھا____ کنجر نے ہاتھ لگانے بھی نہیں دیا تھا ___ اور میری سائیکل تباہ کر دی۔ فریم ٹیڑھا کر لایا ___ بڑی مشکل سے یہ مل سکا تھا۔‘‘

’’چودھری صاب! قسم کھاؤ سچ کہتے ہو ___ اُس نے ہاتھ نہیں لگانے دیا تھا؟ ڈنڈے پر تو تم نے ضرور اُسے بٹھایا ہو گا ___؟‘‘

’’ہاہا ہاہا ___ پتا ہے نا پھر تمھیں ___ ہاہا ہاہا ___‘‘

رمضو ہی کیا ___ چودھری ہر ایک کے ساتھ اسی انداز میں گفتگو کرنے کا عادی تھا۔ بازار کی مسجد میں آئے ہوئے ایک واعظ نے جب ’’دین کی نسبت‘‘ کے حوالے سے گفتگو شروع کی تو چودھری کہیں دُور خلاؤں میں گھورنے لگا۔ نہیں معلوم ناصح کیا کیا کچھ کہتا رہا، تب اچانک چودھری نے کہا:

’’تم اصغر ہو ___ اصغر کوٹ شیدے والا؟‘‘

’’جی ___!‘‘

’’ہم دسویں جماعت میں ایک ساتھ ہائی اسکول میں پڑھتے تھے ___ میں نوروز ہوں ___ نوروز رنگ باز ___ تمھیں ہم سب اصغر سانڈ کہا کرتے تھے ___ یاد ہے؟‘‘

’’جی جی! ___ ____ یاد آیا ___ بہت خوشی ہوئی ___ اتنے سال بعد یوں اچانک ملاقات، ___ سبحان اللہ، الحمد للہ۔‘‘

’’پھر تو گلستان سینما پر دیکھی ہوئی تمام فلمیں بھی یاد آ گئی ہوں گی ___؟‘‘

اب تو ناصح کی حالت ایسی بگڑی لاحول پڑھتے ہی بنی ___

’’بس کم عمری کی نادانیاں ___ اللہ معاف فرمائے۔‘‘

’’اور وہ تزئین کمال بھی یاد ہو گا ___؟ وہی جس کا باپ کھاد کے ڈپو پر منشی تھا ___‘‘

اس سے پہلے کہ چودھری کچھ اور اسرار کھولتا، حضرتِ ناصح کو نو دو گیارہ ہو جانا ہی غنیمت لگا۔

٭



رمضو اپنے کام میں لگ گیا تھا ___ باہر اُسی شدت کے ساتھ بارش ہو رہی تھی۔ اچانک بادل کی خوف ناک گرج نے دونوں کو اللہ کی یاد دلا دی ___ اس قدر گھن گرج اور چمک سے دونوں سہم گئے۔ چودھری نے کچھ دیر بعد ایک کواڑ دھکیل کر دیکھا تو سڑک گھٹنوں تک پانی سے بھر چکی تھی اور گھنگھور گھٹاؤں نے رات کا سماں پیدا کر دیا تھا۔ کواڑ بند کرتے ہوئے چودھری پھر رمضو کی طرف متوجہ ہوا:

’’کیا خیال ہے پھر ___؟ موسم بھی ہے، تم بھی ہو ___ ہاہاہا ___‘‘

رمضو نے سائیکل کے تار کستے ہوئے موضوع بدلنے کے لیے پھر چودھری سے کہا:

’’چودھری صاب! اس ملکہ وکٹوریہ کی جان چھوڑتے کیوں نہیں ___؟ جب اس کا کوئی ایک تار بھی اوریجنل نہیں ہے، تو ___‘‘

چودھری نے کوئی جواب نہ دیا ___ بس ایک نہ ختم ہونے والی خاموشی میں کھو گیا ___ رمضو منتظر تھا، کوئی بات ہو، باہر کی وحشت ناک فضا کا اثر ٹوٹے ___ لیکن چودھری جیسے بھنگ پی کر سو گیا تھا۔ اب سیاہ بادل چودھری کے دل و دماغ میں گرج رہے تھے۔ بجلیاں اُسے راکھ کر رہی تھیں، رمضو نے دیکھا کہ اُس کی آنکھوں کا بند ٹوٹ چکا تھا۔ جس طرح بچے روتے روتے ہچکیاں اور سسکیاں لینے لگتے ہیں، اسی طرح چودھری کا حال تھا۔ رمضو نہیں جانتا تھا، اچانک ایسا کیا ہو گیا، جس نے چودھری نوروز جیسے زندہ دل، ہنس مکھ اور مستی بھرے بڈھے کو رُلا دیا۔ رمضو پریشان تھا ___ سوچتا تھا ___ تڑپتا تھا ___ پھر بھی ہمت کر کے پوچھ لیا:

’’چودھری صاب! لگتا ہے یہ سائیکل وسیم کی نشانی ہے، وہی جس کے لیے تم نے انگلینڈ سے کار منگوائی تھی۔‘‘

’’نہیں اوئے ___ نہیں رمضو نہیں ___ یہ شہروز کی نشانی ہے۔ میرے لیے وہ اپنی دو نشانیاں چھوڑ کر گیا تھا، ایک تو مجھ سے چھن گئی ہے اور دوسری یہ سائیکل ہے۔ ہم دونوں بھائی اسی سائیکل پر اسکول جایا کرتے تھے۔ وہ جب فوج میں کپتان ہوا تو اُنھی دنوں مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو رہا تھا، شہروز وہیں متعین تھا اور پھر ہم اُس کی راہ تکتے رہ گئے۔ اُس کی شہادت کا المیہ تو اپنی جگہ لیکن اس کی قبر کا نشان بھی نہ ملنا ایسا دُکھ ہے جو ہماری زندگیوں کا ناسور ہے۔ تحسین، شہروز کی منگ تھی، پرکھوں کی عزت اور خاندان کے قائم کردہ اصولوں کے مطابق اُسے میری دلھن بنا دیا گیا، میرے رونے اور چیخنے کے باوجود ___ اور میں مرتے دم تک اُس سے بھابھی کا رشتہ نبھاتا رہا ___ پہلی رات ہی اُسے بتا دیا تھا، تم شہروز کے نام پر ہی جیو اور مرو گی، قبول ہے تو رہو، ورنہ چلی جاؤ۔ اُس نے بھی کبھی یہ حد نہیں توڑی۔ اسی غم میں وہ گھلتی رہی اور پھر شہروز کو یاد کرتے رہنے کے لیے مجھے تنہا چھوڑ گئی۔ جانتے ہو ___! جب ہم بھائی اسکول جایا کرتے تھے، تب بھی اس سائیکل کا کیرئیر نہیں تھا اور میں شہروز کواسی ڈنڈے پر ہی بٹھا کر لاتا لے جاتا تھا۔‘‘

باہر طوفانی بارش کا سلسلہ تھم چکا تھا لیکن رمضو اور چودھری کی اشک بار آنکھوں اور ہچکیوں سے ڈیڑھ صدی پرانی دکان کے در و دیوار لرز رہے تھے۔

٭

[سہ ماہی ’’فن زاد‘‘ سرگودھا، دسمبر۲۰۱۸ء]

٭٭٭







بند آنکھوں سے



جیون کے کورے کاغذ پر لکھے دو حرف تو مجھ سے پڑھے نہیں جاتے مگر پھر بھی ہزاروں کاغذ کالے کر چکا ہوں۔ ان ہزاروں کاغذوں پراَن گنت لوگوں کی کتھائیں لکھی ہیں۔ ان قصوں کو پڑھنے والوں کا خیال ہے کہ میں وقت کا نبض شناس ہوں اور صحیح طور پر حالات کا تجزیہ کر سکتا ہوں۔ لوگوں کے بطون میں اُتر کر ان کی اصلیت کو پرکھ سکتا ہوں۔ میں جب اس بات پر غور کرتا ہوں تو خود پرہنسی آتی ہے۔ بھلا کوئی بے سمت شخص بھی سمت نمائی کا ہنر رکھتا ہے ___؟ میری اس بات کو کوئی نہیں مانتا کیوں کہ جو مجھے پڑھتے ہیں وہ مجھے دانا و حکیم سمجھتے ہیں، حالاں کہ یہ اوصاف میری شخصیت میں کبھی شامل ہی نہیں رہے ہیں۔ اُس نے بھی یہی کہا تھا:

’’تمھارے حرف سچے موتیوں کی طرح ہیں یا پھر بارش کی اُن بوندوں جیسے جو صدف کے سینے کو منور کر دیتے ہیں۔ تمھاری سوچ سنبل و ریحان کی طرح ہے، جس نے میرے وجود کو عنبریں کر دیا ہے۔ میرا انگ انگ خورشید ہو گیا ہے، میرا رواں رواں خوش بو سے مہکتا ہے۔‘‘

اندھیرے اور دھول میں لپٹا ہوا شخص کیسے کسی کی زندگی میں ایسی تبدیلیاں پیدا کر سکتا ہے ___؟ کیوں کر ممکن ہے کہ میرے لفظوں سے وہ سب ہو گیا ہے، جو وہ کہتی ہے۔ نام سے کیا فرق پڑتا ہے ___ نادر ___ نادر تو صرف نام ہے۔ اور بھی بہت سے لوگ ہیں، جن کے اتنے اچھے اور پیارے نام ہوتے ہیں مگر جب اُن کے نصیب کی چادر کو جھٹک کر دیکھا تو یک سر تضاد۔ کوئی شخص اسم بامسمّیٰ کب ہو سکتا ہے؟ یہ تو محض کتابی باتیں ہیں۔ میں اُسے بہت سمجھاتا ہوں مگر وہ کسی بات کو ماننے کے لیے تیا رہی نہیں ہے۔ وہ کہتی ہے:

’’جب روحیں تخلیق ہو رہی تھیں تو خالق نے ہم دونوں کو ایک بنایا تھا، پھر دُنیا میں ہم جدا ہو گئے اور اَب پھر سے آن ملے ہیں۔ اب روحوں کا پُر زور ملاپ ہو گا، بس وقت کا تعین باقی ہے۔‘‘ وہ یہ بھی کہتی ہے:

’’میں اس بات پرکیسے یقین کر لوں کہ ہم ایک نہیں ہیں، جب کہ تمھارے نام کی تسبیح میری زبان اور سانسوں پر رہتی ہے اور دل تیرے نام پر دھڑکتا اور رُکتا ہے۔ کوئی ایسا لمحہ نہیں آتا جب میرے تصور میں تم نہیں ہوتے۔‘‘

میں اُس کی ان باتوں پر ایک آدھ بار تو جھنجھلا بھی گیا تھا۔ جس شخص سے نہ ملاقات ہوئی، نہ تعلق رہا، نہ رشتے داری، نہ کوئی اور واسطہ ___ حد تو یہ ہے کہ دیکھا تک نہیں، اُس کے بارے میں ایسی پختہ باتیں اور محبت ___؟ کیسے مان لیا جائے اور پھر میرے جیسے ڈھلتی عمر کے شخص سے کوئی کیوں محبت کرے گا؟ جو برتا ہوا بھی ہو۔

مجھے یاد ہے جب میں نے اُسے یہ سب کہا تھا تو اُس نے رونا شروع کر دیا تھا ___ یوں محسوس ہوتا تھا ابھی میرے کان سے لگے ہوئے موبائل فون سیٹ سے اُس کے آنسو بہنا شروع ہو جائیں گے۔ تب میرے دلاسے، یقین دہانیاں اور حرف سب کچھ چھوٹے ہو گئے تھے اور اُس کا جذبہ، باتیں پہاڑوں جیسی بلند۔

’’محبت بھی عجیب جذبہ ہے، جب اُبھرتا ہے تو ایسے وارد ہوتا ہے جیسے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ___ جو بغیر کسی تمیز کے ہر سانس کو معطر کر جاتا ہے۔ خوش بو اور روشنی بھلا کیوں کسی کو محروم رکھیں گے۔‘‘ جب اُس نے یہ کہا تھا تو میں اپنے قد سے مزید چھوٹا ہو گیا۔ ایک انجان لڑکی جس کے بارے میں، میں کچھ بھی نہیں جانتا وہ مجھے مجھ سے زیادہ کیسے جان سکتی ہے ___؟ کیسے وہ یہ دعویٰ کر سکتی ہے کہ میں بھی اس کی محبت کا گرفتار ہوں ___؟ لیکن اُسے تو یہ بھی یقین ہے کہ میں اُس کے بغیر اب جینے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔

اپنے مسائل کے گرداب میں گھرا کوئی بھی شخص میری ہی طرح سوچ سکتا ہے۔ میں نے وہی کیا جو کرنا تھا ___ اُسے اپنے اردگرد کے حالات سے باخبر کیا۔ اپنی اُلجھنوں، پریشانیوں، مشکلوں، مصیبتوں سے آگاہ کیا۔ میرا خیال تھا کہ ان حقیقتوں کو جان لینے کے بعد وہ اپنا فیصلہ بدل لے گی اور یوں حالات معمول پر آ جائیں گے ___ مگر اُس کا اصرار مزید بڑھ گیا۔ میں نہیں جانتا آئیڈل ازم کی حقیقت کیا ہے مگر اُس کا خیال ہے کہ میں اُس کا آئیڈیل ہوں اور جو منظر میری زندگی میں روشن ہے، وہ اُس کا پسندیدہ ہے۔

پتھر میں بھی دراڑ آ جاتی ہے اور میں تو پھر گوشت پوست کا انسان ہوں۔ پھر یہ احساس ہی کتنا بڑا ہے کہ کوئی ہمیں چاہتا ہے، ہمیں سوچتا ہے، ہمارے نام کی تسبیح پڑھتا ہے، ہمارے نام سے اپنی صبحیں روشن کرتا ہے اور راتیں اُجالتا ہے۔ تب میں بھی پتھر سے موم میں ڈھل گیا اور سارے کا سارا پگھل گیا۔ اُس کی محبت کے گیت لکھنے لگا ___ میرے وہ سارے حرف جو کبھی اپنے لیے تھے، اُس کے لیے مخصوص ہو گئے۔ اب میں ہوں اور اُس کی محبت ___

بلوچی زبان کا میرا لیکچرر دوست مجھ پر اُس روز بہت ہنسا تھا، جب اُسے میں نے بتایا کہ میں ان دنوں اس کیفیت سے گزر رہا ہوں۔ پھر وہ خود ہی کہنے لگا:

’’تم فلاں فلم دیکھو بالکل یہی کہانی ہے۔ دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا ہوا نہیں ہوتا مگر ایک دوسرے پر مرتے ہیں۔‘‘

وقت اپنی رفتارسے گزرتا رہتا ہے ___ یہ تو انسان کی کیفیات ہوتی ہیں، جوکبھی اُسے یوں محسوس کراتی ہیں کہ وقت نے پر باندھ لیے ہیں اور کبھی یوں احساس ہوتا ہے جیسے کسی چٹان تلے آ گیا ہے۔ ہمارے تعلق میں وقت نے بہت سا فاصلہ طے کر لیا ہے۔ یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ ہم نے ابھی تک ایک دوسرے کو نہیں دیکھا بلکہ اب تو اُس کی یہ بات سچ دکھائی دیتی ہے جیسے ہم جنم جنم سے ساتھ ہیں ___ مگر ___ وقت ___ ہاں وقت رُکا تھا ___ وقت تب رُکا تھا، جب ایک رات میں سوتے میں اُسے زور زور سے پکار بیٹھا۔ میرے پہلو میں سوئی ہوئی میری بیوی نے مجھے جھنجھوڑا اور پھر نفرت کا اظہار کر کے مجھ سے دُور ہو گئی۔ میں شرمندہ تھا اور کچھ اُس سے چھپانے کی بھی کوشش کر رہا تھا مگر وہ سب جان چکی تھی۔ وہ جو اتنے برسوں سے میری محبت کا دم بھرتی تھی، نفرت پر اُتر آئی اور پھر یہ خلیج اتنی بڑھ گئی کہ مجھے کہنا پڑا:

’’ساتھ بہے جائیں

کابل دریا اور نیلاب

ایک نہیں ہوتے

تو اور میں بھی ایسے ہیں

گل اور کانٹے جیسے ہیں‘‘

میں سوچتا ہوں کیا محبت اپنی جون بدل لیتی ہے یا پھر انسان کے دل میں محبت کا بیج مردہ ہو جاتا ہے ___؟ کیسے ممکن ہے کہ یوں اچانک آپ اُس سے نفرت کرنے لگیں جو کبھی آپ کی آنکھ کا تارا رہا ہو اور پھر یہ کیسے ہو جاتا ہے کہ آپ بہ یک وقت کئی لوگوں سے محبت کریں؟ لیکن میرے ساتھ ایسا ہوا ___ اگر چہ یہ ایک لہر ہی ہے اور احمد فراز کی وہ بات بھی یاد آتی ہے کہ موسم آتے جاتے رہتے ہیں، زمانہ تو ایک ہی ہوتا ہے مگر میں اس سے متفق بہ ہر حال نہیں ہوں۔ ہو سکتا ہے رتی بھر کسر رہ جاتی ہو جو بعض اوقات راستے میں رکاوٹ کا سبب بنتی ہو۔ میرا خیال ہے میری بیوی مجھے سمجھنے میں کچھ غلطی کر رہی ہے۔ میں تو یہی کہہ رہا ہوں کہ مجھے دونوں کا خیال ہے مگر اُسے میری یہ بات ہضم نہیں ہو رہی۔ اور اب حالت یہ ہے کہ میں چکی کے دو پاٹوں کے درمیان پس رہا ہوں۔

٭

وہ رات میرے لیے بہت تکلیف دہ تھی جب میری بیوی نے مجھ سے کہا تھا:

’’مجھے مت چھونا! میں تجھے بند آنکھوں سے پرے کچھ نہیں کرنے دوں گی۔ تم اگر میرے وجود میں اُسے تلاش کرو گے تو میں تجھے راکھ کر کے رکھ دوں گی ___‘‘

اُس کی اس بات نے یقیناً مجھے راکھ کر دیا ہے، کیوں کہ میرے تصور میں تو اُس سے جسمانی تعلق کبھی قائم نہیں ہوا تھا۔ میری اور اُس کی گفتگو اور تعلق تو اعلیٰ و ارفع نظریوں اور تصورات کے گرد گھومتے ہیں ___ ایسا تو بہت کم ہوتا ہے، جب ہم یہ خواہش کریں کہ: ’’برستی بارش میں دونوں اپنی ہتھیلیوں کو ملا کر اُن میں بارش کی بوندیں بھریں اور پھر اپنے اپنے چہروں پر مل لیں۔‘‘ اور یہ بھی سیکڑوں میل کی دوری میں کی گئی خواہش ہی ہوتی ___ جب ایک دوسرے کو دیکھا ہی نہیں تو اس طرح کا خیال کیوں کر آ سکتا تھا؟ تب فیصلے کی گھڑی تھی ___ سال ہا سال کی رفاقت ختم کر دی جائے یا پھر وہ تعلق جو زندگی کو محیط ہونے جا رہا ہے ___ لیکن میں تو خیالوں کی بھٹی میں سلگنے کے لیے جیسے رہ گیا ہوں، چاہوں بھی تو کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا۔ وہ کہتی ہے:

’’نادر! تم میرے خون میں سرایت کر چکے ہو، میں تیری محبت پر ایمان لائی ہوں، تم چھوڑو گے تو میں دُنیا چھوڑ دوں گی۔‘‘

ایک آدھ بار جب میں نے کچھ فاصلہ بڑھانے کی کوشش کی تو اُس نے اپنے نسیں کاٹ لیں اور دوسری بار تو اُس نے ایسا کوئی محلول پی لیا تھا، جس کی وجہ سے اُس کے منھ، ناک اور کانوں سے خون بہنا شروع ہو گیا اور پھر وہ بے ہوش ہو کر گر گئی۔ اُس کی پھوپھی زاد نے جب فون کر کے مجھے یہ بتایا تھا کہ وہ ہسپتال میں داخل ہے تو میری کیفیت عجیب ہو گئی تھی ___ مگر یہ سب تو میری بیوی بھی میری محبت میں کر چکی ہے۔ اُس رات بہت شدید بارش تھی، بجلی بھی بند تھی ___ میں نے دیکھا وہ کوئی چیز اُٹھا کر باہر نکل رہی ہے۔ مجھے شک پڑا، اُٹھ کر اُس کا ہاتھ پکڑنا چاہا تو اُس نے کوئی چیز اپنے پیچھے پھینک دی۔ تلاش پر معلوم ہوا خالی سرنج ہے ___ وہ کئی دنوں سے اپنی نسیں کاٹ رہی تھی۔ اُسے کسی نے بتایا تھا کہ خالی سرنج سے ٹیکا لگایا جائے تو انسان کی موت واقع ہو سکتی ہے۔ تب میرا ہاتھ بھی اُس پر اُٹھ گیا اور وہ شدت غم سے بے ہوش ہو گئی تھی ___ کئی دن ہسپتال میں داخل رہی ___ روتی رہی ___ کُرلاتی رہی۔

٭

کیا مجھے خود کو ختم کر دینا چاہیے ___؟ ایسے میں جب کہ میری وجہ سے بہ یک وقت دو زندگیاں متاثر ہو رہی ہیں یا پھر ایسا راستہ مل جائے، جس سے دونوں زندگیاں بچ جائیں ___ ایسا راستہ کون سا ہو سکتا ہے؟ ایسا راستہ توہے ہی نہیں ___ ایسا راستہ تو ہو سکتاہی نہیں ___ ___ اور اگر میں راستے سے ہٹ جاؤں تو کیا دونوں کی زندگیاں آسان ہو جائیں گی؟ میں اپنے اس خیال کو دونوں کے سامنے پیش کر چکا ہوں اور دونوں نے جواباً یہی کہا ہے کہ: ’’اگر تم نے ایسا کچھ کیا توہم بھی اپنی زندگیوں کا خاتمہ کر لیں گی۔‘‘

وہ جو کہا جاتا ہے کہ محبت قربانی دیتی ہے ___ تو کون سی محبت ہوتی ہے بھلا ___؟ میرے جیون کی پڑیا میں تو بِس بھر گیا ہے۔ دو خانوں میں بٹی ہوئی زندگی کا خوش کن پہلو کون سا ہوتا ہے ___؟ جب کہ طعنوں کے تیر ہر وقت برستے ہوں ___ ایسے میں تو میرے لبوں پریہ شعر آنا فطری ہے:

خاورؔ اپنے ہونٹ سی، پتھروں کا شہر ہے

وہ مزاج آشنا جانیے کدھر گئے؟

میں اور وہ اکثر خواب دیکھتے ہیں ___ اپنے خواب ___ لوگوں کے خواب، زمانے کے خواب اور پھر ان خوابوں میں سے نیا خواب بن لیتے ہیں۔ وہ اپنے دیکھے ہوئے خواب مجھے سناتی ہے اور میں اُسے ___ اور پھر دونوں خوابوں کی تعبیر میں اُلجھ جاتے ہیں۔

در اصل میں آپ کو ایک خواب سنانے جا رہا تھا کہ اس کی اوٹ سے وہ پس منظر بھی جھانکنے لگا جو آپ پہلے ہی سن چکے ہیں۔ یہ خواب ہماری کہانی سے جڑا ہوا ہے ___ بلکہ یوں کہنا چاہیے یہ خواب ہماری تاریخ، ہمارا آج اور ہمارا مستبقل ہے۔ اس کی دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ہم نے دو راتوں میں مل کر دیکھا ہے، بالکل سوئی ہوئی آنکھوں سے ___ ایک حصہ اُس پر وارد ہوا اور دوسرا مجھ پر ___ پھر ہم دونوں نے اسے یک جان کر دیا ___ ہاں یاد آیا ___ اس خطے کی تاریخ مت بھولیے گا۔ اس طرح آپ کو ہمارا خواب سمجھنے میں آسانی ہو گی۔

میں حیران ہوں آج دوسری رات ہے اور ایک جیسا ہی خواب دیکھ رہا ہوں۔ اُسے بتایا تو وہ کہنے لگی میں نے بھی کچھ ایسا ہی دیکھا ہے۔ بعض اوقات وہی منظر خوابوں میں روشن ہوتا ہے، جو خیالوں میں ہوتا ہے مگر جب خیال میں ایسی کوئی بات تھی ہی نہیں تو ایسا خواب یقیناً سوچنے کا موقع دیتا ہے۔ عجیب خواہش کا اظہار اُس نے کیا۔ کہتی تھی: ’’میری ڈولی وہاں اُترے گی، جہاں تم پیدا ہوئے۔‘‘ کتنی مشکل بات تھی یہ جہاں چالیس سال پہلے میں پیدا ہوا تھا، وہاں کیوں کر دوبارہ لوٹ سکتا تھا میں __ _ _ _ _؟ اور ویسے بھی وہ رہائش ہمارے خاندان کی تو نہیں تھی۔ وہ انگریز کے زمانے کا ہندو مجسٹریٹ تھا، جس نے وہ بنگلا بنایا تھا۔ نام اُس کا ’’سکھ داس‘‘ تھا۔ بٹوارہ ہوا تو وہ اپنا یہ بنگلہ چھوڑ کر انڈیا چلا گیا۔

مگر اُس کی ڈولی وہیں اُتری ___ یقیناً میرے لیے دوہری خوشی تھی۔ محبوب کا وصال اور پھر اس کی خواہش کا پورا ہونا ___ مگر پہلی ہی رات اُس نے ایک اور خواہش ظاہر کر دی __ خواہش کیا فیصلہ تھا___کہنے لگی:

’’جس نے یہ گھر بنوایا ہے، ہم اُس سے ملنے جائیں گے۔‘‘

میں نے ہامی بھر لی ___ کچھ روز بعد ہم انڈین سفارت خانے میں تھے۔ عملے کے ایک رکن نے جب سوال کیا کہ: ’’ہم کیوں وہاں جانا چاہتے ہیں؟‘‘ تو مجھ سے پہلے وہ بول اُٹھی: ’’تاج محل دیکھیں گے، سکھ داس سے ملیں گے، اجمیر شریف جائیں گے۔‘‘ افسر نے لمبی سی ہونہہہ ہہ ہ ___ کی اور پھر پوچھا: ’’یہ سکھ داس کون ہے؟‘‘ تب میں نے مختصراً بتا دیا۔ پھر افسر نے اُسے مخاطب کر کے پوچھا: ’’کیا آپ نے ساحرؔ لدھیانوی کی وہ نظم نہیں پڑھی، جو تاج محل کی عظمت کو ملیامیٹ کرتی ہے۔‘‘ تب اُس نے بڑی تیزی سے جواب دیا:

’’آپ اور ساحرؔ کیا جانیں محبت کیا چیز ہے؟‘‘ اور میرے دماغ میں امرتا پریتم کا سراپا سرسرا رہا تھا _ _ _ _ _ _ افسرخاموش ہو گیا اور یوں آسانی سے ہمارے ویزے بھی لگ گئے اور پھر مقررہ دن ہم سفر پر روانہ بھی ہو گئے۔

٭

ریل کا سفر بھی کس قدر رومان انگیز ہوتا ہے۔ ملن کی سرخوشی اور بچھڑنے کا دُکھ اس سفر میں جتنا محسوس ہوتا ہے، شاید کسی اور سفر میں ہوتا ہو۔ ساتھ ساتھ چلنے والے راستے اور ہرے بھرے کھیت جب صحراؤں اور پہاڑوں میں بدلتے ہیں تو کتنا عجیب لگتا ہے ___ مگر جب پہلو میں یار ہو تو ہر منظر ہرا رہتا ہے۔ اس اعتبار سے ہم دونوں بہت خوش تھے۔ بارش ہوئی تو کچھ قطرے میرے چہرے پربھی پڑے، تب اُس نے اپنی انگلیوں کے پوروں سے وہ قطرے چنے اور پھر اپنے چہرے پر اُنگلی سے میرا نام لکھ کر پوچھا: ’’بتاؤ تو کیسا لکھا ہے؟‘‘ میں اُس کی ایسی اداؤں کاہی تو قتیل ہوں۔ جب ہم ملے نہیں تھے، تب بھی وہ ایسی ہی باتیں کیا کرتی تھی۔ مجھے یاد ہے ہماری پہلی گفتگو فون پر رات کے وقت میں ہوئی تھی اور نصف شب کے بعد جب وہ رخصت ہونے لگی تو اُس نے کہا تھا:

’’اچھا! اب ٹانگیں پھیلاؤ، میں ان پر سر رکھ کے سونا چاہتی ہوں۔‘‘ اس کی یہ وارفتگی اور خود سپردگی ہی مجھے اپنا اسیر کر گئی تھی۔

کس قدر تعجب کی بات ہوتی ہے کہ کسی دوسرے ملک میں کوئی انجان آپ سے آ کر پوچھے کہ: ’’آپ فلاں ہیں؟ آئیے میرے صاحب آپ کے منتظر ہیں۔‘‘ ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ اُس نے بتایا کہ وہ سکھ داس کاردار ہے اور ہمیں لینے آیا ہے۔ میں نے اُسے اور اُس نے مجھے گھورا ___ پھر کہنے لگی: ’’نادر! ہم نے تو سکھ داس کو اطلاع نہیں دی تھی آنے کی، پھر اُنھیں کیسے خبر ہو گئی؟‘‘ میں نے ہونٹ سکیڑے کہ خود نا آگاہ تھا۔ اُس کا خیال تھا کہ پہلے ہم تاج محل جا کر محبت کی یادگار دیکھیں گے ___ میں چاہتا تھا ہم نظام الدین اولیا کے مزار پر حاضری دیں اور پھر کچھ دیر اسد اللہ خاں غالبؔ سے گفتگو ہو مگر وہ بہ ضد تھی ___ سکھ داس کے کاردار نے کہا: ’’چلیے صاحب! سرکار آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔‘‘

وہ منظر ہی عجیب تھا ___ وہاں تو گاڑی کی بجائے بگھی تھی اور اُس میں دو سفید رنگ کے گھوڑے جتے تھے۔ یہ شاہانہ استقبال تو ہمیں ہماری قسمتوں پر رشک کرنے کے لیے اُکساتا تھا۔ پہلو بہ پہلو بیٹھ کر کیا گیا یہ سفر تو یقیناً زندگی کا حاصل ہے ___ اگلا منظر اس سے بھی زیادہ حیران کن تھا۔ ہمیں تو یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ ہم دوسرے ملک میں ہیں، ہماری آنکھوں کے سامنے وہی بنگلا تھا، جسے ہم پاکستان میں چھوڑ کر آئے تھے۔ وہی رنگ، وہی احاطہ، وہی قطعہ ___ یہاں تک کہ دروازوں اور کھڑکیوں کا رنگ بھی اُسی جیسا ۔ راہ داری کو چھوڑ کر جب ہم سامنے بڑھنے لگے تو دائیں جانب کے کمرے سے گونج دار آواز میں کہا گیا: ’’مسز نادر! میں یہاں ہوں تشریف لائیے۔‘‘ وہ مجھ سے آگے چل رہی تھی اور میں پیچھے ___ کمرے میں داخل ہوئے تو بانس کی ساختہ کرسی پر انتہائی وجیہہ اور خوش شکل، خوش لباس، سفید ریش بزرگ بیٹھے ہیں۔ قریب پہنچے تو اُنھوں اُٹھ کر دونوں سے ہاتھ ملایا اور پھر اپنے ہاتھ سے حافظ شیرازی کا دیوان ایک طرف رکھتے ہوئے کہنے لگے: ’’کہو سفر کیسا رہا ___؟‘‘ ہم تو حیرت میں مبتلا تھے، کیا جواب دیتے ___؟ بزرگ نے بتایا کہ وہ سکھ داس ہیں، پھر خود ہی کہنے لگے:

’’حیران مت ہوئیے، اس بنگلے کی کوئی چیز اُس سے مختلف نہیں ہے، جسے آپ پاکستان میں چھوڑ کر آئے ہیں۔ یہ میں نے بنوایا ہے اور وہ کملا دیوی نے بنوایا تھا ___‘‘ بزرگ کی آنکھوں میں آنسو تیرتے تھے، شاید پہلی بار بند ٹوٹنے کو تھا۔ اُس نے متجسس نگاہوں سے سکھ داس کی جانب دیکھا، تو وہ کہنے لگے:

’’وہ لیلاوَتی تھی اور میں غریب بالک ___ کسی طرح کچھ پڑھ لکھ کر وکیل ہو گیا ___ وہ بھی وکیل تھی۔ دونوں جی پیار کر بیٹھے ___ سماج میں یہ مشکل فیصلہ تھا مگر وہ بہت جی دار تھی، کسی کو خاطر میں نہ لائی اور میرے ساتھ پھیرے ڈال لیے۔ تب اُس نے بڑی چاہ سے وہ بنگلا بنوایا تھا، ابھی کچھ ہی عرصہ ہوا ہو گا کہ دیش میں بٹوارے کی آوازیں سنائی دینے لگیں ___ رنج یہ نہیں تھا کہ ہم سے ہمارا سب کچھ چھوٹ جائے گا بلکہ دکھ یہ تھا کہ محبت کی یادگار کے ساتھ نہ جانے کیا سلوک ہو۔‘‘ دو موتی اُن کی آنکھوں سے چھلک کر رخساروں پر راستہ بناتے ہوئے ٹھوڑی تک جا پہنچے تھے۔ انھوں نے بازو کے پلو سے انھیں صاف کیا اور پھر اپنا حلق تازہ کرتے ہوئے مجھ سے مخاطب ہوئے:

’’مسٹر نادر! مسز نادر کا دل کبھی نہیں دکھانا ___ محبت بہت انمول جذبہ ہے، اس کی قدر کرنا اور کبھی اپنی مردانگی کے زعم میں مسز نادر کو کچل نہیں دینا۔‘‘

میں صرف ’’جی ___‘‘ کہہ کر خاموش ہو گیا، تب وہ میری طرف شرارت سے دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھی:

’’دیکھیے نا داس جی! یہ مجھے تاج محل پہلے نہیں لے جانا چاہتے اور اصرار کرتے ہیں، پہلے نظام الدین کے مزار پر حاضر ہوں گے۔‘‘

ایک میٹھی سی مسکراہٹ بزرگ کے ہونٹوں پربھی پھیل جاتی ہے۔ ہمیں آرام کی ہدایت کر کے وہ پھر حافظ شیرازی کا دیوان اُٹھا لیتے ہیں۔

٭

ہم ایک کمرے میں داخل ہوتے ہیں ___ حیرت اور مزید حیرت ___ کمرہ بھی وہی جس میں ہم نے سہاگ رات منائی اور پھر سجاوٹ بھی ویسی ہی ___ میں نے کہا: ’’مجھے تو سکھ داس گیانی لگتے ہیں، پہنچی ہوئی ہستی ___ ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ انھیں ہماری ہر بات کا پورا پورا پتا ہوتا اور یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہمارے آنے کی خبر انھیں پہلے سے ہی ہو گئی ___‘‘ تب وہ کہتی ہے: ’’محبت سے بڑا گیان کیا ہو سکتا ہے؟ جس تن میں پریم کا بیج پھوٹتا ہے، وہ تن گیانی ہو جاتا ہے، دوسرے کی طلب میں خود کو بھول جانا یا اپنی شناخت ختم کر ڈالنا ہی اس کا ریاض ہے اور اس کے پھل سے ہی آدمی سکھ داس ہو جاتا ہے۔‘‘

ہم نے آرام کیا کرنا تھا بس آنے والے وقت اور سکھ داس کے بارے میں ہی باتیں کرتے رہے ___ شام کے کھانے پر مجھ سے زیادہ اُسے اشتیاق ہوا تھا کہ وہ کملا دیوی سے متعلق جانے اور سکھ داس شاید اپنے کھرنڈ آئے ہوئے زخموں کو ادھیڑنا نہیں چاہتے تھے ___ مگر اس کا اصرار بڑھا تو وہ کہنے لگے:

’’میں اُس وقت گھر سے بہت دُور تھا ___ جب شام سمے پہنچا تو گھر کہاں تھا؟ غزنوی کے بیٹوں نے جے پال کی بیٹیوں کی راکھ ہوا میں اُڑا دی تھی۔ صرف کملا دیوی اکیلی نہیں تھی، کئی اور بھی تھیں جن میں سے کسی کا سر تن سے جدا تھا، تو کسی کا سینہ چاک، کوئی برہنہ سلگ رہی تھی ___ میں دیوانہ وار آگ میں کود گیا مگر جلنے والیوں میں کملا دیوی نے پہل کی تھی۔ اُس نے اپنے وجود تک غیر لمس پہنچنے سے پہلے ہی خود کو راکھ کر لیا تھا ___ میرے کپڑوں میں آگ لگ چکی تھی، کچھ لوگوں نے مجھے پکڑ کر پہلے آگ بجھائی پھر ہسپتال میں ڈالا اور آخر جیل میں ___‘‘

مجھے یوں لگا جیسے سکھ داس کے سینے میں ابھی تک آگ سلگ رہی ہے ___ میں نے ہمت کر کے کہا: ’’بابا! جے پال کے بیٹوں نے بھی تو آپ کے دیش میں غزنوی کی بیٹیوں کی عزتیں پامال کیں اور ان کی راکھ ہوا میں اُڑائی__‘‘ تب اُن کے آنسو ضبط کھو چکے تھے اور وہ اپنی جگہ سے اُٹھے اور میرا کندھا تھپتھپاتے ہوئے بولے:

’’ہاں نادر! آدم کے بیٹوں نے حوا کی بیٹیوں کی لاج کہیں بھی نہیں رکھی ___‘‘ پھر طویل خاموشی چھا گئی ___ کھانا طشتریوں میں پڑا پڑا ٹھنڈا ہو گیا تھا ___ شاید سب کی بھوک مر گئی تھی اور سب کے اندر آگ جل رہی تھی۔ وہ اٹھی اور خاموش بیٹھے سکھ داس کے ہاتھوں کو پکڑ کر چومنے لگی۔ سکھ داس نے اُس کے سر پر ہاتھ رکھا____شاید راجپوتانہ خون کی کوئی مہک تھی یا پھر محبت کا لحاظ ___ سکھ داس کی سفید اور خوب صورت آنکھوں میں خون تیرنے لگا تھا اور میرے چہرے پر بھی گرم آنسو رواں ہو چکے تھے۔

رات گزری ___ جیسے قیامت ___ مگر صبح ناشتے میں سب کسی حد تک تازہ دم تھے ___ اُس کی خواہش کے مطابق پہلے تاج محل جانا تھا۔ بگھی تیار تھی ___ ناشتہ ہوا مگر اب اچانک اُس کے تیور بدل چکے تھے، کہنے لگی: ’’مجھے تاج محل نہیں جانا ___‘‘ میں نے اور سکھ داس نے بہ یک وقت سوالیہ نظروں سے اُس کی جانب دیکھا تو بولی:

’’میں کملا دیوی کی سمادھی پر جاؤں گی ___ پریم کی اس یادگار پر جس سے میری زندگی کے دھاگے بھی جڑے ہیں ___ جس کے ماضی میں میرا حال ہے اور جس کی محبت سے میری محبت کا گہرا تعلق ہے۔‘‘

ایک بار پھر سکھ داس کی آنکھیں نم تھیں ___ انھوں نے اپنی ہتھیلیاں ہمیں دکھائیں۔ دونوں سے لکیریں معدوم ہو چکی تھیں۔ سپاٹ اور سادہ ہتھیلیاں ___ انھوں نے بتایا:

’’میں نے گرم شعلے اپنے ہاتھ میں بھرے تھے کہ جب راکھ ہو جائیں گے تو میں اپنے سینے میں بھر لوں گا مگر ___ مگر ان لوگوں نے وہ شعلے بھی میرے ہاتھ میں نہ رہنے دیے ___ اب کملا دیوی کی سمادھی میرا سینہ ہے۔ اسی میں وہ سہاگن کے روپ میں جیتی ہے اور اسی میں مدفون بھی ہے۔‘‘

اب سب کی نظریں اپنے قدموں کو چومتی تھیں ___ تاج محل، نظام الدین اولیا اور غالبؔ کا مزار پس منظر میں چلے گئے تھے اور سکھ داس اور کملا دیوی کی محبت کا الاؤ روشن تھا۔ میں نے اُس کا ہاتھ پکڑا اور واپسی کی راہ لی ___ کہ وہاں بھی حماد الدین اور مہ جمال کی محبت آگ میں جل گئی تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ حماد الدین سکھ داس جتنا قابل نہیں تھا یا پھر نئی مٹی میں اُس کے لیے قوتِ نمو کم تھی، ورنہ وہ بھی اپنی مہ جمال کی یادگار بنا لیتا۔

٭

یہ خواب بھی کتنے عجیب ہوتے ہیں، آنکھ کھلتے ہی سارا منظر بدل جاتا ہے، بالکل بے گانے ہو جاتے ہیں اور جب انسان یاد کرنے کی کوشش کرے تب بھی اجنبیت برتتے ہیں ___ وہ خواب بھی جو ہم کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کس قدر عجیب ہے ___ بھلاجس شخص کو دیکھا بھی نہیں، اُس سے اتنی محبت کیوں کر کی جائے؟ ___ اور پھر میں ___؟ وہ کہتی ہے: ’’میں اُس کے خون میں تیرتا ہوں اور جب کبھی نکلنے کی کوشش کروں گا تو وہ بھی زندہ نہیں رہے گی ___ اور میں اُسے چھوڑنا چاہوں تو بھی نہیں چھوڑ سکوں گا ___‘‘ وہ اتنا بڑا دعویٰ کیسے کر سکتی ہے؟ کیا وہ بھی سکھ داس کی طرح گیانی ہو گئی ہے؟ جنھیں دوسروں کے دل میں جھانکنے کا ہنر آتا ہے ___ مجھ پر تو ہر راستہ بند ہو رہا ہے ____میں تو چکی کے دو پاٹوں میں آ چکا ہوں۔ شاید آنکھ روشن ہو تو میں بھی اپنا راستہ پالوں یا پھر بند آنکھوں سے فیصلہ کر کے کسی انجان دُنیا میں گم ہو جاؤں۔ کھلی اور بند آنکھوں دیکھے گئے ان خوابوں کی تعبیر پالوں یا پھر شبیرحسن اختر کی نظم ’’بائیوگرافی‘‘ کو اپنا ترجمان کر لوں:

کورا کاغذ

کاغذتے ڈُو اکھر

اووی پُٹھے سِدھے

نہ زیراں ___ نہ زبراں

نہ حرف بننٹر ___ نہ سطراں

ایہامیڈی بائیوگرافی، ایہولیکھ متھے دا

ایہہ بے کار نکما کاغذ

کتھاں سانبھ کے رکھاں ___؟

مگر میں تو ___ ___ ___!!!!!!!

٭

[سنگم، گورنمنٹ ڈگری کالج حضرو، ۲۰۱۰ء]

٭٭٭









فتح



کیکروں پر پیلے پھولوں کی بہار تھی، راتوں کو جب ہوائیں تھل میں ناچنے لگتیں تو اُس کا جی چاہتا کوئی ایسا ہو جو اُس کی کمر میں بانہیں ڈال کر مد ہوش کر دینے والی مشک سے مہکا دے ___ اُس کے انگ انگ میں رَس گھول دے، اُس کا روں روں سیراب کر دے ___ بس ایسے ہی، دھیان میں کوئی خاص نہیں تھا۔ البتہ ایک ہیولا سا کبھی اُس کی آنکھوں میں لہرا جاتا تھا۔ بلند قامت، گھنے بالوں سے اَٹا کشادہ سینہ، سلوٹوں سے بھری کھلی پیشانی، لمبی اُنگلیاں جو اُس کے بالوں میں سیر کریں تو وہ دُنیا بھر سے بے نیاز ہو جائے ___ اور طاقت ور ایسا ہو، جب کَس کے جپھی ڈالے تو ایک بار پسلیاں آپس میں گتھم گتھا ہو جائیں ___ وہ خود بھی دراز قد تھی، رنگ نکھرا ہوا، البتہ طاقت ور تو کسی طور بھی نہیں تھی۔ وہ تو جانوروں کو چارہ ڈالنے سے بھی بیزار ہو جایا کرتی۔ چند مٹھی گھاس کاٹنی پڑ جاتی تو جیسے پہاڑ کاٹنا سر ہو جاتا۔ موسم کی ذراسی شدت اُسے بے تاب کر جاتی۔ اُدھر تھل کی سر پھر ی ہواؤں کا رقص جاری ہوتا، اِدھر اسے کھانسی کے دورے پڑنے لگتے ____ جی توڑ دینے والی کھانسی اُسے بے بس کر دیتی۔ ذرا فضا میں خنکی اُترتی، اُسے زکام، نزلہ اور بخار آ لیتا۔ کیکروں کی بھینی خوشبو اُس کی بے قراری میں مسلسل اضافہ کیے جاتی تھی ___ مگر خوابوں کا شہزادہ اُسے مل نہیں رہا تھا۔ اُس نے سوچا:

’’کیا مجھے نیم پاگل عامر کے ساتھ رخصت کر دیا جائے گا؟‘‘

عامر اُس کا پھوپھی زاد تھا، جس کے ساتھ بچپن میں ہی اُس کا رشتہ طے کر دیا گیا تھا۔ کائی زدہ چہرہ، اُبھری ہوئی ہڈیوں پر کھال منڈھی ہوئی، تنگ پیشانی، سوکھے ہوئے نیلے ہونٹ، ہر وقت سانس پھولی ہوئی، چہرہ، بھنویں، سینہ اور سر چھلنی بالوں میں لپٹا ہوا۔ خاندان والے کہتے تھے اُسے سایہ ہو گیا ہے۔ کچھ برس پہلے اُس نے پھلاہی کی نوکیلی شاخوں کے جھنڈ میں سے شہد کی چھوٹی مکھیوں کا چھتا اُتارا تھا، وہیں سے اُسے کوئی جن چمٹ گیا۔ ہذیانی کیفیت اُس کی جان نہیں چھوڑتی تھی، روز کوئی نئی خبر آ جاتی ___ کبھی پتا چلتا وہ کسی کنویں کے کنارے گر کربے ہوش پڑا ہے ___ کبھی معلوم ہوتا وہ چنے کے کھیتوں میں تڑپ رہا ہے ___ کبھی اطلاع ملتی وہ شہر جانے والی سڑک کے کنارے وحشیوں کی طرح اپنے کپڑے اور بال نوچ رہا ہے۔ گھر والوں نے اپنے طور پرعلاج کی بہتیری کوشش کی، لیکن اُس کی حالت نہ سنبھلی۔ ایک سیانے نے کہ دیا تھا: ’’شادی ہو جانے پر عامر مکمل طور پر تندرست ہو جائے گا۔‘‘ یہی ایک موہوم امکان تھا، جو عامر کے ساتھ اس کے ذہنی رشتے کو قائم رکھے ہوئے تھا، ویسے بھی اس کے خاندان میں وَٹا سٹا کا رواج تھا، عامر کی بہن اُس کے بڑے بھائی منیر کے ساتھ بیاہی جا چکی تھی۔ ایسے میں امکان یہی تھا کہ وہ عامر کے ساتھ ہی بیاہی جائے گی ___ پھر بھی وہ کسی اور سے شادی کے خواب دیکھتی رہتی۔ آج تو حد ہو چکی تھی ___ صحن میں بچھی بان کی کھری چارپائی اُس کے نرم پینڈے کو سلگا رہی تھی، ساتھ والی چارپائی پر اُس کی بوڑھی ماں تھکاوٹ سے نڈھال ہو چکنے کے بعد مکمل طور سو چکی تھی۔ اُس کا بوڑھا باپ باہر جانوروں کے پاس چارپائی بچھا کر پڑ رہتا تھا اور ذرا ذرا دیر بعد کھانستارہتا ___ آج باپ مگر خاموش تھا، شاید میٹھی نیند سورہا تھا۔ کیکر کے پھولوں کی خوشبو نے جیسے اُس کے اعصاب میں پارہ بھر دیا تھا، وہ اپنی جگہ سے اُٹھی، صابن سے اچھی طرح نہائی اور تیز خوشبو کا پرفیوم لگا کر واپس اپنے بستر پرآ گئی، نیند پھر بھی اُس سے کوسوں دُور تھی۔ خوابوں کا شہزادہ اُسے گدگدا رہا تھا۔ دن میں اُس کی سہیلی سدرہ نے بتایا تھا:

’’کل رات ہماری بکری اچانک بہت زور زور سے چیخنے لگی، اَبا جاگ گئے، کیا دیکھا ایک شخص بکری کو قابو کیے اُس پر فتح پانے کی کوشش میں ہے۔ اَبا اُس کے پیچھے دوڑے لیکن وہ اپنی دھوتی ہاتھ میں پکڑ کر بھاگ نکلا ___ پتا ہے کون تھا؟ صوبی کا بھائی ___‘‘

٭٭٭









مراجعت



آج اُسے مس رچنا بے طرح یاد آ رہی تھی۔ مس رچنا کی سفید پنڈلیوں پرجب پہلی بار اُس کی نظر پڑی تو پھر وہیں ٹھہر گئی تھی اور اُسے یاد ہی نہیں رہا تھا کہ پنڈلیوں سے اُوپر بھی جسم بلکہ مکمل جسم موجود ہے۔ پھر یہ معمول بن گیا، مس رچنا جب اپنے دفتر کی سیڑھیاں چڑھ رہی ہوتی یہ اپنے کیبن سے نکل کر اُس کی پنڈلیوں پر نگاہیں جما لیتا۔ روئی کے گالوں جیسی سفید پنڈلیاں تو اُس کے اوسان میں پیوست ہو کر رہ گئی تھیں۔ اُٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے ہمہ وقت ایک وہی تو عکس تھا، جو اُس کے ذہن کے پردے پر منور رہتا۔ تب کہیں اس کا یہ انہماک مس رچنا کی تاک میں آ گیا۔ اگلے روز جب وہ پوری طرح اس عمل میں منہمک تھا تو پنڈلیاں اچانک تھم گئیں، پھر پلٹیں۔ اُسے تب احساس ہوا جب مس رچنا نے اُس کی ٹھوڑی کے نیچے اپنی انگلی ٹکا کر حکم دیا کہ وہ اُس کی طرف دیکھے۔ وہ اتنی جرأت کہاں رکھتا تھا ___ اور اَب تو وہ پوری طرح زمین میں گڑ چکا تھا۔ اُس کی چوری پکڑی گئی تھی اور وہ خود کو دنیا کا غلیظ ترین شخص سمجھ رہا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا بھلا مس رچنا کی شفاف پانیوں جیسی پنڈلیاں اس لائق ہیں کہ اُن پر نظروں کا میلا بوجھ رکھا جائے ___؟

سوچیں دُور کہیں بھٹک رہی تھیں اور دل و دماغ اُس کا ساتھ چھوڑ گئے تھے، جب وہ کانپنے لگا تو مس رچنا نے کہا:

’’خوف زَدہ ہو! پھر دیکھتے کیوں ہو؟‘‘ وہ تو اپنی زندہ لاش کے سرہانے کھڑا تھا۔ لفظ ہوتے تو اُس کا ساتھ دیتے۔ رچنا اُسے اپنی لاش پر روتا ہوا چھوڑا کر سیڑھیاں چڑھ گئی۔ پھر وہ اپنی کیبن سے کبھی نہ نکل سکا۔

ایک روز مس رچنا اچانک اس کے پاس آ گئی۔ ہاتھ میں کافی کا مگ بھی پکڑا ہوا تھا۔ وہ رچنا کو دیکھ کر یوں اُچھل کر اپنی جگہ پر کھڑا ہوا جیسے اسپرنگ کو دبا کر چھوڑ دیا گیا ہو۔ زبان اُس کی اب بھی کچھ کہنے سے قاصر تھی اور نگاہیں اُس کے اپنے ہی جوتوں کوماپ رہی تھیں۔ تب رچنا نے کہا:

’’دیکھو! زندگی اس کا نام نہیں، میں نے یہ تو نہیں چاہا تھا کہ تم یوں سہم کر بیٹھ جاؤ۔ میں تو تمھیں صرف یہ بتانا چاہتی تھی کہ دُنیا میں پھیلی ہوئی تمام خوب صورتیاں انسان کے لیے ہیں مگر یہ ضروری نہیں کہ ہر شے پر اسے قدرت بھی ہو۔ بس اتنی سی بات ہے۔ تم اچھے ہو بلکہ بہت اچھے ہو مگر میری پنڈلیاں تمھاری نظروں کی کاٹ نہیں برداشت کر سکتیں، کیوں کہ وقت بہت پہلے مجھے کسی اور کے حوالے کر چکا ہے اور اَب میں بارہ سالہ بیٹے کی ماں ہوں۔ تم سمجھتے ہو گے میں اس بڈھے جارج موہن کی سیکرٹری کسی مالی ضرورت کے تحت بنی ہوں تو یہ تمھارا مغالطہ ہے۔ میرا شوہر بہت امیر آدمی ہے۔ شہر میں اُس کا بہت بڑا کاروبار ہے اور سیکڑوں لوگ اُس کے ہاں ملازم ہیں۔ میں تو ___ اچھا چلو چھوڑو۔ تم زندگی سے اپنا حصہ کیوں نہیں لے لیتے ___؟ جوان ہو، خوب صورت ہو اور پھر قابل بھی۔‘‘

وہ مسلسل خاموش تھا اور مس رچنا اُس پر اپنا آپ ظاہر کر کے جا چکی تھی۔ اُسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے اُس کے بازو کندھوں کے جوڑوں سے اُکھڑ کر زمین پر گرنے جا رہے ہوں۔ وہ اپنے ایک ہاتھ سے دوسرے کو سہارا دینے کی ناکام کوشش کرتا رہا۔ ری پیٹر گن اُس کے ہاتھ سے گر کر کیبن کے ایک کونے میں لڑھک گئی اور وہ خود کرسی پر ڈھے گیا۔ ایک معمولی سیکورٹی گارڈ کی حیثیت ہی کیا ہوتی ہے؟ جوکسی کے سامنے لب کشائی کی جرأت کر سکے۔ سکوت کی تہ اُس کی زندگی پر پڑی تو مسلسل چٹان بنتی گئی اور وہ پتھر ہو گیا۔

مس رچنا پارسی خاندان کے ایک نہایت امیر گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔ اُس کا والد کئی غیر ملکی کمپنیوں کا حصہ دار تھا۔ اُس کا شوہر ہوٹلوں کی ایک بڑی چین کا ملک تھا ___ شوہر کی بے پناہ مصروفیات نے اُسے احساسِ تنہائی کا شکار کر دیا تھا۔ وہ سمجھ سکتی تھی کہ ایسے میں اُسے کیا کرنا چاہیے۔ اُس کے لیے ایک راستہ تو یہ تھا کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ کام میں ہاتھ بٹائے لیکن یہاں اُسے ایک تجربے نے بد ظن کر دیا ___ وہی جو ایسے حالات میں ہوتا ہے۔ بہت سی لڑکیوں کے ہجوم میں شوہر کی موجودگی اور پھر کہیں کہیں رچناسے پہلو تہی۔ شاید یہ اُس کا وہم تھا۔ ایک بار اُس نے یہ سوچا اور پھر خود کو ملامت کر کے گھر بیٹھ گئی۔ تنہائی کا آسیب دوبارہ سر ہوا تو اُس نے ایک غیر ملکی کمپنی میں چیئرمین کی سیکرٹری کی جاب کر لی اور اسی کمپنی کا گارڈ اُس پر دل و جاں سے فدا ہو گیا تھا یا پھر ___!!

بہت دنوں بعد اُسے اپنے زندہ ہونے کا گمان گزرا تو وہ اپنا حصہ ڈھونڈنے کے لیے انسانوں کے ریلے میں بہہ گیا۔ اُس نے بہت کوشش کی کہ وہ اُن پنڈلیوں کو بھول جائے مگر وہ توجیسے اُس کے دماغ میں اُگی ہوئی تھیں، کسی کروٹ اُسے چین ہی نہیں لینے دیتی تھیں۔ وہ زندگی سے اپنا حصہ وصول کرنے کے لیے بہت لمبا سفر کر آیا تھا۔ اَب وہ سیکورٹی گارڈ چھوٹی سی فرم کا مالک تھا اور ایک خوب صورت سیکرٹری ہر وقت اُس کے سامنے موجود رہتی، پورے اور پکے ہوئے پھل کی طرح۔ وہ جب چاہتا اُسے کھا سکتا تھا۔ اُس کی پنڈلیاں رچنا سے کہیں زیادہ پُر کشش تھیں مگر اُس کے لیے نہیں۔ وہ تو اپنی اس حِس کو پندرہ سال پہلے گروی رکھ آیا تھا۔

وہ صبح اُس کے لیے بہت تحیر خیز اور فرحت آمیز تھی، جب عینی نے اُس کے دفتر میں ملازمت کے لیے درخواست دی۔ عینی نے اُس کے سوئے ہوئے جذبات کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ اُس کی سنہری پنڈلیاں اُسے رچنا سے بھی خوب صورت دکھائی دی تھیں۔ وہ یہ موقع ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا، اس لیے فوراً اُسے ملازمت دے دی۔ وہ چاہتا تھا فوراً ان سارے خوب صورت لمحوں کواپنی بانہوں میں سمیٹ لے اور زندگی سے اپنا پورا پورا حصہ وصول کر لے ___ پھول کا سارا رس کشید کر لے مگر ہر بار اُس کے اندر موجود بزدل سیکورٹی گارڈ اُس کا راستہ روک لیتا۔ اسی کشمکش میں کئی ماہ گزر گئے اور اُس کا سفر سنہری پنڈلیوں کے طواف تک ہی رہا۔ اُس کی نگاہیں اسی عمل کو مسلسل دوہراتے جا رہی تھیں۔ بھونچال تو تب آیا جب عینی نے اپنی شادی کا دعوت نامہ اُس کے سامنے رکھا اور اصرار کیا کہ وہ اُس کی شادی میں ضرور شریک ہو۔ ایک بار پھر اُس کے بازو کام چھوڑ چکے تھے اور اس کے وجود پر لرزہ طاری تھا۔ اُس کی نظریں اس کے اپنے ہی جوتوں کو ماپتی تھیں۔ عینی نے اُس کی حالت بگڑنے پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا: ’’سر! سب خیریت تو ہے؟‘‘ پھر جلدی سے کانچ کے پیالے میں اُسے ٹھنڈا پانی ڈال کر پلایا لیکن اُس کے من میں روشن ہونے والا الاؤ اُسے جلا کر راکھ کر رہا تھا۔ اُس نے سوچا ہر بار زندگی میں اُسے ہی اپنے حصے کے لیے کیوں تگ و دو کرنا پڑتی ہے؟ وہ بڑبڑایا اور صرف اتنا کہا:

’’نہیں! اَب میں ایسا نہیں ہونے دوں گا۔‘‘

عینی چلی گئی مگر وہ وقت کی بھاری سلوں تلے آ چکا تھا۔ ٹھنڈے پسینے اُسے نڈھال کر رہے تھے۔ پھر اُس نے ایک فیصلہ کیا، بزدل سیکورٹی گارڈ کا نہیں بلکہ دلیر عاشق کا۔ کم از کم وہ یہی سمجھتا تھا کہ وہ بہادر ہے اور عشق اور جنگ میں سب کچھ جائز ہوتا ہے۔

اُس کے آدمی عادل کو اُٹھا کر لے آئے تھے اور اُس کے ہاتھ پشت کی جانب بندھے ہوئے تھے۔ نکلتے ہوئے قد کا یہ سانولا سا نوجوان کسی بھی طرح عینی کے لائق نہیں تھا، ’’عینی اس سے کیوں شادی کرنے جا رہی ہے ___؟ پھر یہ دو ٹکے کا چھورا عینی کودے بھی کیا سکتا ہے؟ جب کہ میں اُسے ہر طرح کی راحت دے سکتا ہوں۔ محل نما بنگلے میں رکھ سکتا ہوں اور پوری محبت کر سکتا ہوں، پورے کا پورا اُس کا ہو سکتا ہوں۔‘‘ اُس نے سوچا۔ پھر اُس نے اپنے کوٹ کی جیب سے پستول نکال کر عادل کی کنپٹی پر رکھ دی اور تلخ لہجے میں کہا: ’’چھوڑ دو عینی کو ___‘‘

’’اوہ ___ اب سمجھا، میں اُسے نہیں چھوڑ سکتا۔ آپ چلائیں گولی، اس طرح آپ کا راستہ صاف اور منزل آسان ہو جائے گی۔‘‘

نوجوان دھن کا پکا تھا۔ اُس سے بھی زیادہ بہادر اور محبت کرنے والا۔ تب اچانک اُسے رچنا کے کہے ہوئے جملے یاد آ گئے۔ اُس کی قوت کا مینار اُس کے اندر ہی گر کر چُور ہو چکا تھا اور وہ پستول کو اپنی جیب میں ڈالنے کے بعد عادل سے مخاطب تھا: ’’ویل ڈن جوان! میں تمھیں آزما رہا تھا کہ تم میری بیٹی کے قابل ہو بھی یا نہیں۔‘‘

اُس کی آنکھوں میں وہی آنسو تھے جو مس رچنا کے کیبن سے پلٹنے کے بعد اُس کے رخساروں پر رقص کناں تھے۔

٭ [سہ ماہی تجدید نو، لاہور جنوری تا جون ۲۰۱۱ء]

٭٭٭







بے چہرگی



یہ جسموں کو چیرتی ہوئی سردرُتوں کی صبح تھی۔ رات بارش بھی کچھ زیادہ ہی شدت سے ہوئی تھی. یوں معلوم ہوتا تھا جیسے مری کی پہاڑیوں پر اُترنے والی برف بہ کر اسلام آباد کی گلیوں میں آ گئی ہو یا پھر دیوسائی کا کوئی ستون ٹوٹ کر فضا میں بکھر گیا ہو۔ ابھی پو نہیں پھٹی تھی اور پوش ایریا میں اِکا دُکا شخص ہی دکھائی دیتا تھا۔ مجھے ایک دوست کی عیادت کے لیے جانا تھا۔ کچھ دن پہلے اچانک اُس کے سینے میں درد نے کروٹ لی اور اتنی شدید کہ اُس کے گھر والوں نے خیال کیا، اب گیا، تب گیا۔ پھر مقامی سی ایم ایچ اسے منتقل کر دیا گیا۔ اب وہ شفا انٹرنیشنل سے علاج کروانے کے بعد اپنے اسلام آباد والے بنگلے میں مقیم تھا۔

منھ اندھیرے مجھے اس لیے آنا پڑا کہ اُسے آٹھ بجے اپنے گاؤں کے لیے نکلنا تھا اور میری بے پناہ مصروفیات مجھے پانچ سو کلو میٹر کا سفر کرنے سے روکتی تھیں۔ میں نے رات ہی اُسے فون پر اطلاع دے دی تھی کہ ناشتا اُس کے ساتھ کروں گا۔ ابھی میں اپنی سیاہ چمکتی ہوئی گاڑی سے اُترا ہی تھا کہ سُرخ برساتی میں لپٹا ہوا ایک موٹر سائیکل سوار میرے شفاف کپڑوں پر تجریدی آرٹ بناتا ہوا زن سے گزر گیا۔ غصے نے اس قدربے حال کیا کہ میں نے فوراً گاڑی اُس کے پیچھے دوڑائی اور سیونتھ ایونیو کے پاس اُسے جالیا۔ اب وہ میرے سامنے سر جھکائے کھڑا تھا۔ سردی کی شدت نے اسے ہیلمٹ کے اندر بھی اپنا منھ چھپانے پر مجبور کر رکھا تھا اور بارش کے یخ بستہ قطرے ہیلمٹ کا سینہ چیرتے ہوئے اُس کے نتھنوں پر چمک رہے تھے۔

میں نے اُس کے گریبان کی طرف ہاتھ بڑھانا چاہا تو اُس نے برق رفتاری سے میری کلائی پر اپنی گرفت مضبوط کر لی۔ اب میرے لیے حیرتوں کا سماں تھا کہ بہ ظاہر ایک دُبلا سا لڑکا اس قدر جی دار بھی ہو سکتا ہے۔ میں نے دوسری ہتھیلی اُس کی کلائی پر جمائی اور قدرے شدت سے جھٹکا دے کراُس کا ہاتھ اپنی کلائی سے الگ کر لیا۔ اب میرے لیے مزید حیرتوں کے در وا ہوئے۔ نوجوان کی کلائی میں کانچ کی ہری، پیلی اور گلابی چوڑیاں جو کچھ دیر پہلے رقص کناں تھیں، اب ٹوٹ کر زمین پر بکھر چکی تھیں۔ میں نے دیکھا کہ اُس کی کلائی پر سُرخی کی کئی لکیر دوڑ گئیں۔ دفعتاً جو اُس کے منھ سے سسکی نکلی تویوں محسوس ہوا جیسے کوئی پھول ہوا میں سرسراتا ہو یا پھر پتوں کی پازیب بجی ہو۔ شاید وہ سہم گیا تھا اور اُسے یوں محسوس ہوا جیسے وہ مات کھا کرتڑپ رہا ہو۔ میں نے بہت تیزی دکھاتے ہوئے اُس کے سرسے ہیلمٹ جدا کیا تو میرے سامنے آسمانی اپسراکادمکتا ہوا چہرہ تھا۔ ترشا ہوا، نکھرا ہوا، شرم سے تپتا ہوا۔ میری ساری مردانگی ہوا ہو گئی اور غصہ ایک طرف دھرا رہ گیا۔ مجھے اپنے شفاف کپڑوں پر پڑی ہوئی چھینٹوں سے کہیں زیادہ اپنے دل و دماغ میں بکھری ہوئی گندگی نظر آئی۔ میری نگاہیں اُس کا سراپا چھونے کی بجائے میرے ہی قدموں کے گرد لپٹتی تھیں۔ میں نے جھکی نظروں سے اُسے مخاطب کر کے کہا:

’’معافی چاہتا ہوں ___ شناخت ہو جاتی تو کبھی تعاقب نہ کرتا۔‘‘

’’اب معذرت خواہی کا کیا فائدہ ___؟ اور شناخت تو آپ کو اپنی بھی نہیں۔‘‘

’’میں شرمندہ ہوں۔‘‘

’’شرمندگی سے کیا حاصل ___؟‘‘

’’میرا رد عمل فطری تھا ___ میں ایک دوست کی عیادت کے لیے آیا تھا ___ اس حال میں اُس تک جاتے ہوئے عجیب احساس ہو رہا ہے۔‘‘

’’لیکن مجھے آج تک میری ماں کے علاوہ کسی نے نہیں چھوا تھا ___ اور ___‘‘

’’میں نے کہانا ___ شرمندہ ہوں۔‘‘

’’آپ نے میری روح کو بھی خجل اور ننگا کر دیا ہے۔‘‘

’’میں یوں نہیں چاہتا تھا۔‘‘

’’نہ چاہتے ہوں ___ مگر‘‘

’’بدلہ لے لیجیے۔‘‘

’’بدلہ ___ ہاں بدلہ ___ فتح مندی مبارک ہو۔‘‘

’’فتح مندی کیسی ___ میں تو اپنے آپ میں مرگیا ہوں ___ میری روح نادم اور شکستہ ہے۔‘‘

اس کے الفاظ میرے دل و دماغ پر ہتھوڑے کی طرح برس رہے تھے۔ نہیں معلوم کتنا وقت گزرا اور وہ کب مجھے غرقِ ندامت کر کے چلی گئی تھی۔ بس دماغ کی تہوں میں یہی بات ٹھہر گئی تھی، کہ اُس نے مجھے شناخت کے جوہر سے تہی کہا ہے۔ اور آج زمانوں بعد پھر مجھے ایسی ہی کیفیت کا سامنا تھا، لیکن ایک نئے منظر نامے میں۔

کچے رستے پر چلتے چلتے جب میں تھک گیا تو میں نے اُس سے پوچھا آخر تو مجھے کیا دکھانا چاہتا ہے۔ کہنے لگا:

’’میں تمھیں تم سے ملانے جا رہا ہوں، خاموشی سے میرے پیچھے آتے رہو۔‘‘

میں بوجھل قدموں کے ساتھ خود کو گھسیٹتے ہوئے دوبارہ اپنے ٹوٹتے ارادوں کی پوٹلی اُٹھا کر چل پڑا۔ میں نے سوچا نہ جانے ایسی کیا بات ہے جو یہ مجھ سے دفتر میں نہیں کر سکتا تھا۔ مجھے خود پر رہ رہ کر غصہ آ رہا تھا ___ خواہ مخواہ اس بڈھے کھوسٹ کی باتوں میں آ گیا۔ بھلا یہ بھی کوئی دانش مندی ہے کہ اتنی سخت دھوپ میں اتنا طویل سفر پیدل کیا جائے۔ اگر مجھے اندازہ ہوتا کہ یہ مجھے اتنی دُور لے کر جائے گا تو کم از کم میں سواری کا بندوبست ہی کر لیتا۔ اس فضول شخص نے تو مجھے چلا چلا کے ما رہی دیا تھا۔

آسمان پر سورج اپنی حدت سے پگھل رہا تھا۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے مجھے جلانے کے لیے ہی یہ سارا انتظام ہوا ہو۔ اس کی لہریں سرکے راستے پورے وجود میں یوں اُتر رہی تھیں، جیسے آرا لکڑی کا سینہ چیرتا چلا جاتا ہے اور آخر اُسے دو لخت کر دیتا ہے۔ مجھے لگا کہ میں بھی دو لخت ہو چکا ہوں اور اب کٹے وجود کو اپنے شل بازوؤں میں سمیٹنے کی کوشش کر رہا ہوں ___ مگر ہر بار ناکام ہو کر بکھر جاتا ہوں۔ اَب مجھ میں دَم نہیں رہا تھا۔ کچے رستے سے لپٹی ہوئی جھاڑیوں کا سلسلہ دُور تک پھیلا ہوا تھا۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے یہ سلسلہ اپنے دامن میں بہت سی کہانیاں چھپائے بیٹھا ہے۔ میں بھی اپنی کہانی اُس کے سپرد کرنے والا تھا۔ میں نے بڈھے کو دوبارہ پکارا ___ وہ بغیر جواب دیے آگے بڑھتا رہا۔ میں نے پھر آواز دی اُس نے کوئی جواب نہ دیا۔ تب میں جھاڑیوں کی اوٹ میں بیٹھ گیا۔ گرمی کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ پوراجسم پسینے سے تر ہو گیا۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے دریا میں نہایا ہوں۔ دفعتاً تیز ہوائیں چلیں۔ کچے رستے پر پھیلی ہوئی ریت کا ناچ شروع ہوا۔ کبھی وہ زمین پر لوٹ پوٹ ہو کر مچلتی، تو کبھی کچھ بلند ہو جاتی۔ یوں جیسی کوئی ماہر نرتکی پورے سبھاؤ سے اپنے انداز ظاہر کرتی ہے۔ میرے دماغ کے مردہ خلیوں کے اندر کوئی چیز سرسرانے لگی۔ میں نے پوری کوشش کی کہ اُسے گرفت کر سکوں مگر ناکام ہوا۔ سرسراہٹ بڑھتی گئی ___ بڑھتی گئی ___ بڑھتی گئی۔ میں خود کو بھول گیا تھا۔ ہوا کا تیز جھونکا آیا اُس نے ریت کو اپنی جھولی میں بھرا اور پل بھر میں لا کر میرے منھ پر ڈال دیا۔ اَب میرا چہرہ، میری آنکھیں اور میری سانسیں گرد گرد تھیں۔ میں پہلے سے زیادہ نڈھال ہو چکا تھا۔

میرے اندر کوئی صدا جاگی۔ میں نے غور کیا تو مجھ سے میری شناخت پوچھی جا رہی تھی۔ میں اُلجھ سا گیا، حیران تھا کہ میرا اندر بھی مجھ سے بے خبر ہے اور مجھے نہیں جانتا۔ دھول سے اَٹا چہرہ یوں ہو گیا جیسے خارش زدہ ہو یا پھر جذام نے آلیا ہو۔ آنکھوں میں حیرت اُگ آئی ہو اور سانسوں میں آکسیجن کی بجائے زہر بھر گیا ہو جیسے ___ ایک جھاڑی نے سرگوشی میں کہا:

’’اپنا آپ مجھے سونپ دو، تمھاری شناخت مٹ چکی ہے۔ اَب تم زندہ نہیں ہو اور جو مر جائیں اُن کی شناخت ختم ہو جاتی ہے۔‘‘

مجھے لگا جیسے میری وجود میں اچانک کسی نے بجلی بھر دی ہے۔ میں تیزی سے اُٹھا اور جھاڑی کو للکارتے ہوئے اُسے جڑ سے اکھاڑ پھینکا____

’’میں زندہ ہوں، ثابت وسالم ___ میرا ہنر زندہ ہے، میرا اندر اور باہر سلامت ہیں۔ میری شناخت کوئی نہیں چھین سکتا۔‘‘

پر میری شناخت ___؟ اگر میں خود کو جانتا ہوں تو یہ بڈھا مجھے کس سے ملانے لے جا رہا ہے؟ وہ بہت دُور جا چکا تھا، شاید اُس نے پلٹ کر بھی دیکھا ہو۔ میں بھاگم بھاگ اُس تک جا پہنچا۔ میں نے شکوہ کیا کہ:

’’وہاں جھاڑیاں مجھے سے لپٹ گئی تھیں اور مجھ سے میری شناخت چھیننا چاہتی تھیں مگر تم نہیں رُکے۔‘‘

بڈھے نے میری طرف دیکھا اور کہا:

’’تم بزدل ہو۔‘‘

میں چیخا ___ ’’نہیں ____! میں بزدل نہیں ہوں ___ میں نے اُسے جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہے۔‘‘

اُس نے مجھے یوں گھورا جیسے کوئی وحشی جانور اپنے شکار کو گھورتا ہے، میں ڈر کر سہم سا گیا۔ وہ بھانپ گیا، کہنے لگا:

’’ڈرو مت! ___ خاموشی سے میرے پیچھے چلتے رہو۔‘‘

میری تنی گردن پھر ڈھے گئی ___ میرے وجود کی بجلی پھر مر گئی اور میں بجھتے قدموں کے ساتھ اُس کے پیچھے چلنے لگا۔

٭

یہ صدیوں پرانا قبرستان تھا۔ اس کے سینے میں بہت سی کہانیاں دفن تھیں۔ کتنے ہی امیر زادے، نواب زادے، خان زادے، ملک زادے، راجپوت، چودھری اور سید زادے اس کی خاک میں خاک ہو چکے تھے۔ میرے دماغ میں ایک خیال نے پھر سرسراہٹ پیدا کر دی۔ کیا یہاں ساری خاک مل کر ایک ہو جاتی ہے یا پھر ہر ایک خاک یہاں بھی اپنی جداگانہ شناخت رکھتی ہے؟ امیر زادہ خاک، خان زادہ خاک، سید زادہ خاک ___؟ میری سوچیں باہم بر سر پیکار تھیں، بڈھے کی آواز گونجی:

’’تمھاری تم سے ملاقات ہوئی یا نہیں ___؟‘‘

میں ششدر اُس کی طرف دیکھنے لگا ___ کہنے لگا:

’’اُلجھتے کیوں ہو ___؟ دیکھو یہاں سب ایک ہی زمین کا پیوند ہیں، سب خاک ہیں، سب کا تکبر اس خاک کا رزق ہو چکا ہے، سب کی شناخت یہ مٹی ہے۔ یہ ساری قبریں ہیں ___ صرف قبریں۔ یہاں کوئی امیر زادہ، سید زادہ، ملک زادہ یا خان زادہ نہیں ہے۔‘‘

مجھے بڈھے کی باتوں پر سخت غصہ آنے لگا تھا ___ شناخت نہ ہوتی تو یہ کتبے کیوں لگے ہوئے ہوتے؟ میں نے کچھ کتبے پڑھ کر اُسے سنائے اور فرق بتایا۔ اُس کے قہقہے فضا میں بلند ہونا شروع ہوئے ___ وہ ریت کی طرح محو رقص ہو گیا، کبھی زمین پر لوٹ پوٹ ہو جاتا تو کبھی اُس کے پاؤں زمین سے اُٹھ کر فضا میں بلند ہونے لگتے۔ وہ ناچتا رہا، ناچتا رہا اور اُس کے سارے منظر میری آنکھوں میں جمتے رہے۔ میں نے بڑھ کر اُسے روکا ___ جھنجھوڑا ___ اُس سے پوچھا:

’’تم مجھے یہاں کیوں لائے تھے ___؟ ملاؤ نا مجھے مجھ سے ___‘‘

بڈھے نے قدرے کرختگی سے کہا:

’’تم لوگ ظاہر میں گم ہو جانے والے ہو ___ تم سامنے کے منظر کو سب کچھ مانتے ہو ___ تمھارے دل و دماغ سوجھ سے عاری ہو چکے ہیں ___ تم سایوں کا تعاقب کرتے ہو اور اصل کو چھوڑ دیتے ہو۔ تم خود سے نہیں مل سکتے ___ نہیں مل سکتے۔‘‘

اب مجھے اُس سے زیادہ خود پر غصہ آنے لگا تھا۔ میں نے سوچایہ میری سیدھی باتوں کو خود نہیں سمجھ رہا اور اُلٹا مجھے قصور وار ٹھہراتا ہے۔ میں ظاہر میں کہاں بھٹکا ہوا ہوں ___؟ میں کب اس بات کو مان رہا ہوں کہ سب خاک میں مل کر ایک ہو جاتے ہیں؟ میں تو کہتا ہوں کہ یہاں بھی ہر ایک کی خاک الگ ہے۔ یہ کیوں کر ممکن ہے کہ گناہ گار اور زاہد کی خاک یکجا ہو جائے ___؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ زانی اور متقی کی خاک آپس میں مل جائے؟ ایسا نہیں ہو سکتا ___ مالک نے ہر ایک کے ساتھ انصاف کرنا ہے اور انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ سب کی شناخت قائم رہے۔ گناہ گار اور متقی اپنے چہروں سے پہچانے جائیں۔ میں نے اپنی سوچوں کو الفاظ دے کرسب کچھ بڈھے سے کہ دیا۔ اَب وہ قہقہے نہیں لگا رہا تھا بلکہ توجہ سے میری باتیں سُن رہا تھا۔ اُس نے سامنے سے آ کر مجھے کندھوں سے پکڑا اور کہا:

’’تم خود سے مل سکتے ہو مگر اس کا راستہ بہت کڑا ہے۔ تمھیں عیش و آرام کی زندگی چھوڑنا ہو گی۔ صحراؤں اور پہاڑوں میں بسیرا کرنا ہو گا، سمندروں اور خلاؤں میں تیرنا ہو گا، آسمانوں اور زمینوں کے اندر اُترنا ہو گا۔ تم یا تو اپنی کٹیا میں بیٹھ کرمست ہو جاتے ہو یا پھر مکتبوں میں بیٹھ کرسب کچھ بھولنے لگتے ہو۔ کائنات وسیع ہے اور اس کی تسخیر تمھارے ذمے ہے۔ تم اس حکم کو بھول بیٹھے ہو۔ خود کو پہچانو اور ملو ___ اَب لوگ تمھیں تمھارے گھر میں آ کر مار جاتے ہیں اور تم اسے اپنی ’’عظیم فتح‘‘ سمجھتے ہو۔ لوگ تمھارے منھ میں ہاتھ ڈالتے ہیں تو تم کہتے ہو: ’’دوبارہ ایسا ہوا تو نظرِ ثانی کریں گے۔‘‘ تم اپنی شناخت قائم رکھ سکتے ہو مگر اس کے لیے تمھیں اپنی راکھ سے زندہ ہونے کا ہنر آزمانا پڑے گا۔‘‘

جانے کیا کیا کچھ وہ کہتا رہا اور میں سنتا رہا ___ مگر جب خود کو سنبھالنے کی کوشش کی تو بدن ٹوٹنے جا رہا تھا۔ اسلام آباد کی وہ یخ بستہ صبح میرے اندر ایک بار پھر بیدار ہو چکی تھی۔ چٹخ کر ٹوٹ جانے والی چوڑیوں کی خراشوں نے ہتھیلیوں میں دوبارہ آگ بھر دی تھی۔

٭٭٭









اُداس قفس



آٹھویں آسمان کی تلاش میں نویں سمت میں سفر کرنے والے مسافر نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو حدِ نگاہ تک سُرخ لکیر تھی۔ وقت کے رِستے زخموں اور مسافر کے نتھنوں سے جاری خون نے ایک ساتھ بہہ کر صحرائی زمین کو سیراب کرنے کی لامحال کوشش کی تھی ___ فقط اس ایک لکیر سے نہ توریت کی تشنگی ختم ہونی تھی اور نہ ہی یہ باریک منحنی سی لکیر نشانِ منزل کا پتا بتانے کے ہنر سے واقف ہو سکتی تھی۔ مسافر آٹھویں آسمان کی تلاش میں تھا اور اس کے لیے لازم نہیں تھا کہ وہ کسی چیونٹی کی طرح اپنے پیچھے آنے والی دوسری چیونٹیوں کے لیے مادے کی خوش بو بُنتا کہ اُس کے نقشِ قدم پانے والے بھی منزل آشنا ہو جاتے۔ مسافر تو خود ایک تنہا آٹھویں آسمان کا متلاشی تھا۔ آٹھویں آسمان کی تلاش میں نویں سمت کا یہ سفر محض معمولی لکیر کا ذائقہ چھوڑنے کے باوجود بھی مسافر کی رُوح اُچک لینے کو بہت تھا۔ لیکن وہ کوتاہ ہمت نہیں تھا، اس لیے چلتا رہا، جلتا رہا۔

ذرا ٹھہریے مسافر پا بہ جولاں تھا۔ اس کے پاؤں میں رسم و رواج اور احساسات کی بھاری بیڑیاں بھی تھیں۔ ان بیڑیوں کا بوجھ اس کی پنڈلیوں کوچھیلتا تھا ___ مگر ___ مگر اس کی پنڈلیوں سے نکلنے والے خون کا رنگ اس کے نتھنوں سے نکلنے والے خون سے یک سر مختلف تھا۔ کہیں گاڑھا سیال اور کہیں زمردیں اور کہیں گہرا نیلا۔ خون کے اس اختلاف کے باوجود بھی مسافر ایک تھا اور اس کی منزل آٹھواں آسمان تھی۔ اُس نے اپنے پیچھے آنے والی لکیر مٹانے کا سوچا مگر یہ اس کے بس میں نہیں تھا، کیوں کہ وہ پیچھے مڑ کے دیکھ تو سکتا تھا مگر مڑ نہیں سکتا۔ اگر مڑنے کی کوشش کرتا تو اُس کے لیے آگے کے راستے بند ہو جاتے۔ وہ اس دوہرے خوف کی گٹھری اُٹھائے وقت کے زخموں میں اپنے نتھنوں کا خون ملائے چلا جاتا تھا۔

پاؤں نے صدیاں اوڑھ لیں مگر آٹھویں آسمان تک رسائی ممکن نہ ہوئی۔ مسافر نے بھی حوصلوں کا پہاڑ پی رکھا تھا مگر تا بہ کے؟ اس کے پنجرے سے گوشت اُدھڑنے لگا ___ وہ یوں ہڈیوں کا ڈھانچہ ہو گیا، جوں کسی سائنس کی لیبارٹری میں پڑا ہوا ہو۔ اب اس کے خوف میں بے چہرگی کا دُکھ بھی شامل ہو چکا تھا اور اس کے اندر خوف کی تکون پیدا ہو چکی تھی۔ پیچھے رہ جانے والے نشانات کا خوف، آگے آنے والے راستوں کا ڈر اور بے چہرگی سے نمو پانے والی وحشت ___! تب مسافر کے کانوں میں اذان کی صدا گونجی: ’’نماز، نیند سے بہتر ہے۔‘‘ لیکن مسافر تو سفر میں تھا، شاید اُس کے احساس کو موت نے آ لیا تھا ___ نہیں ___ نہیں نہیں وہ تو آٹھویں آسمان کی تلاش میں نویں سمت میں گام زَن تھا۔ مؤذن خاموش نہیں ہوا تھا۔ اب اُس کے لب ’’لا الہَ الا اللہ‘‘ کی صدا بلند کرتے تھے۔ میں جو مسافر کی تباہ کن حالت دیکھ کر وحشت کی ردا اوڑھے کانپنے لگا تھا، اچانک ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھا۔ میرے چاروں اور وحشت رقص کناں تھی۔

جنوری کی یہ سردترین رات مجھے پسینے میں شرابور کر رہی تھی۔ موبائل فون کے ٹارچ کی مدد سے میں نے بلب کا سوئچ دبایا۔ کمرے میں روشنی کی لہروں نے ایک خاص وضع کا ارتعاش پیدا کیا۔ کعبے کے رُخ پر ایستادہ آئینے میں اپنا آپ دیکھا تو جیسے آٹھویں آسمان کی تلاش میں نویں سمت چلنے والا مسافر میں خود ہی تھا۔ ابھی صبحِ کاذب تھی۔ دُنیا سوتی تھی ___ رات جاگتی تھی۔ میں نے اپنی کلائی سے نم آلود جبین کو صاف کیا اور خوف سے کانپتے ہوئے ڈھانچے کو سمیٹ کر بستر پر ڈھیر کر دیا۔ کمرہ روشن تھا مگر میری آنکھوں میں ظلمت کدہ آباد ہو گیا۔

تو کیا میں صدیوں کی مسافت کر آنے والا مسافر ہوں ___؟ میرے پاؤں میں سال ہاسال کی بے حساب گرہیں سفر کرتی ہیں ___؟ ساری قوتیں جمع کر کے میں نے اپنے آپ کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی ___ لیکن شاید کہیں زندگی کی کوئی رمق تھی ہی نہیں ___ اور اگر تھی تو پھر میری قوتیں اُسے جگانے کے قابل نہیں رہی تھیں۔ دھیان میں پیوست سوئیاں اپنے سفر میں تھیں اور میں اپنی بے چہرگی کے تصور سے کانپ رہا تھا۔ ہڈیوں کا ڈھانچہ جس کے پاؤں میں صدیاں بندھی تھیں اور اُسے آٹھویں آسمان کی تلاش میں نویں سمت کی مسافرت جاری رکھنا تھی۔ دفعتاً میرے اوسان میں فہیم احمد کا ہیولا لہرایا۔ وہی فہیم احمد جو میری نوجوانی میں میرے ساتھ کراچی کی سڑکوں پر آوارہ گردی کیا کرتا تھا۔ تب کہیں اُس نے یہ نظم ’’ایک خبر چین سے چین تک‘‘ کہی تھی:

بند کمرے کی کھڑکی میں سایہ لہرایا

میں سمجھا کوئی آیا

آنے والے کی آہٹ پرکان دھرے

میں بدلتے سمے کی بہار

دیکھتا رہتا!

شہد سے میٹھی وحشی سروں کی لے میں ڈوبا

پانیوں میں بہتا رہتا

مجھ کو جُل دے کے جال میں پھنسوایا گیا

ہوشیار، تیز دھار ناخنوں سے نوچ کھایا گیا

کیمیا گری ہوئی

آگ ہی سے کشتِ آرزو ہری ہوئی

تقویمِ نقشِ نگار و مصوری ہوئی

شکستِ سوز و سازِ فسوں گری ہوئی

چین کی گھڑی ہوئی ___!!!

چین سے چین تک صدیوں کا فاصلہ تھا اور مسافر نے نویں سمت کے سفر میں آٹھواں آسمان تلاشنا تھا۔ تضادات پر توہمات مستزاد اور پھر خطِ مستقیم پر خط استرداد ___ کرے تو کیا کرے؟ سفر در سفر کہانی بُنتی زندگی مسافر کی زندگی تھی بھی او بطر نہیں بھی۔ ایسے میں اُسے اپنے ہونے کی شہادت کی ضرورت تھی اور اُس کے ہم جنسوں میں کوئی بھی تو شاہد نہیں تھا۔ سبھی چور ___ اور چوروں سے شناخت کروانا بجائے خود فکر مندی کی بات تھی۔ اب مرحلہ بے چہرگی سے بھی سوا تھا اور منزل تک رسائی کی خواہش بھی سلامت تھی۔ اگر منزل مل بھی جائے تو اُس بے چہرگی کے عالم میں اُس کا فائدہ بھی کیا ہونا تھا ___؟ اور اگر منزل نہ ملے اور بے چہرگی بھی سلامت رہے تو ایسے میں دُکھ چہار چند ہو جاتا۔ کانوں میں مؤذن کی گونج باقی تھی۔ شاید جاگنے یا پھر سونے کی سی کیفیت تھی۔

اُدھر دُور کہیں اس کے بہت سے ہم جنسوں کے لاشے قطار اندر قطار بے گور و کفن پڑے تھے۔ ان لاشوں پر بوڑھے اور جواں گدھ نیچی پروازیں کرتے تھے، جوں ہی چلتے پھرتے زندہ لاش آدم زاد اپنا مقام بدلیں، یہ مرے ہوؤں کو نوچ کھائیں۔ لیکن زندوں نے مر جانے والوں کی راکھ سے سونا اُگانا تھا۔ اس لیے وہ اپنی آرزوکو یوں گدھوں کے حوالے نہیں کرنا چاہتے تھے۔ عجیب وقت تھا، مسافر کو آٹھویں آسمان کی تلاش کا خیال بودا لگا۔ اُس نے نویں سمت کا سفر منسوخ کرنے کی ٹھان لی۔ اُس نے سوچا کہ مجھے واپس اپنوں میں لوٹ جانا چاہیے، جہاں سات آسمانوں اور سات ہی زمینوں پر یقین رکھنے والے لوگ بستے ہیں۔ جہاں زمین کو ماں کہا جاتا ہے، جہاں ماں کے پاؤں تلے جنت ہوتی ہے اور جہاں ماں ___!

قدم واپس مڑتے تھے اور زمین لپٹتی تھی مگر اُسے سات سروں کی سرزمین پلٹنا تھا۔ اُس کا سایہ اُس کے سامنے بھاگتا تھا اور وہ اُس کے خوف سے لرزکر رفتار مزید بڑھا دیتا تھا۔ جوں جوں وہ تیز بھاگتا، سایہ اُس سے آگے نکلتا چلا جاتا۔ یہاں تک کہ وہ اُس مقام تک پہنچ آیا، جہاں سے چلا تھا۔ اُس کے ہم جنس پہلے جیسے ہی تھے۔ اُس نے وقت کے آئینے میں اپنا عکس دیکھا تو اُس کے چہرے کا ماس سلامت تھا۔ اس کے خال و خط اسی طرح جواں اور روشن تھے۔ اُس کی زمین پر شاہ زادوں اور پریوں کے قصے تھے۔ شاہ اور پیادوں کی داستان تھی۔ جاہ و جلال اور منصب تھے۔ سبھی کچھ تھا ___ اگر نہ تھا تو زمین کو ماں ماننے کا دستور نہ تھا اور اگر نہ تھی تو ماں کے قدموں تلے جنت نہ تھی۔

آٹھویں آسمان کی تلاش میں نویں سمت سفر کرنے والا مسافر عجیب منزل میں تھا۔ اُس نے دوبارہ سفر کا ارادہ کیا تو اُس کے پاؤں میں زمین بھر کیلیں گڑی ہوئی تھیں۔ اُس کے ہاتھ لوہے کی ہتھکڑیوں میں جکڑے تھے ___ اُس کی روح کو جُل دے کر سنہرے جال میں پھنسایا جا چکا تھا۔ کعبے کے رُخ پر ایستادہ آئینے میں اپنا آپ دیکھا تو خوف کے رنگ میں بے بسی کا رنگ بھی رَچ چکا تھا۔

٭

[غنیمت، ماہنامہ، کراچی، مارچ ۲۰۱۳ء]

٭٭٭







بے انت



توت کی مخروطی اُنگلیوں پر جگہ جگہ اُبھار ظاہر ہو رہے تھے ___ کہیں کہیں یہ اُنگلیاں زمرد سار ہونے لگی تھیں۔ بارش کے ننھے منے قطرے ان اُبھرتے اور ظاہر ہو جانے والے حصوں پر سے یوں پھسل جاتے، جیسے توت کو بار کے لطف سے آشنا کر کے رخصت ہو رہے ہوں ___ ہمیشہ کے لیے، کبھی نہ پلٹنے کے لیے۔ صحن کی کچی مٹی بارش کے پانی سے گارے میں بدل چکی تھی ___ تب اچانک اس کے دھیان میں چاک آ گیا اور ایک کمہار کمال ہنر مندی سے اپنے سامنے پھیلے ہوئے چاک کے اُوپر اُس گارے کو چڑھانے لگا، جو اُس کے صحن کی مٹی سے بارش نے خود بہ خود بنا دیا تھا ___ ہنر مند ہاتھ اپنی فن کارانہ اداؤں اور سبک مزاجی سے چاک پر چڑھی مٹی کے گرد طواف کر رہے تھے ___ اور یہ مٹی بہ یک وقت کئی صورتوں میں ڈھل رہی تھی، کئی شکلیں تخلیق کر رہی تھی۔ یکایک اُن ہنر مند ہاتھوں نے ایک انسانی چہرہ تخلیق کیا ___ وہ چہرہ جو ایک زمانے سے اس کے دل و دماغ میں موجود تھا، خوب صورت، معصوم، کھلکھلاتا ہوا چہرہ۔ دفعتاً اُسے اپنی گود میں گرمی محسوس ہوئی۔ اس کے پہلو گرمی کی شدت، نٹ کھٹ اور شریر لمس سے چٹخنے لگے ___ یوں جیسے اُس کی جھولی میں کسی نے سُرخ انگارے انڈیل دیے ہوں۔ وہ بے تابی سے اپنی جگہ سے اُٹھی اور دامن جھاڑ کر کچی مٹی سے بنے ہوئے باورچی خانے میں جا بیٹھی ___ مٹی کی ہانڈی ٹھنڈی تھی۔ اس نے جلدی سے خاشاک کے تنکے بجھے ہوئے چولھے میں رکھے اور پھر دائیں گھٹنے پر ہاتھ رکھ کر قدرے جھکی اور بجھتی ہوئی راکھ میں چنگاریاں تلاش کرنے لگی۔ ابھی چند لمحے پہلے جس قدر اُس کی جھولی سلگ رہی تھی، اُس کے برعکس کہیں زیادہ چولھا سرد تھا ___ پھونکیں مار مار کر اُس نے خود کو نڈھال کر لیا مگر کوئی چنگاری سلگ کر ہی نہ دی ___!

اپنے پھیلے ہوئے پینڈے کو اُس نے سمیٹا اور دونوں ہاتھ گھٹنوں پر رکھ کر کمرسیدھی کی۔ باورچی خانے کے پست چھت کے ٹیڑھے شہتیر میں ٹکی ہوئی دیا سلائی کی ڈبیا اُس نے کھینچی اور کچے فرش پر گرا دی ___ پھر دونوں ہاتھ گھٹنوں پر رکھ کر ڈھیر ہو گئی۔

اُس کے سسر کا معمول ہے کہ وہ ظہر کی نماز پڑھنے سے دو گھنٹے پہلے دوپہر کا کھانا کھا لیتا ہے اور اگر ذرا سی دیر ہو جائے تو وہ ساری متانت، پرہیز گاری اور اخلاق ایک طرف رکھ کر اُس کے خاندان کے بخیے ادھیڑ ڈالتا ہے۔ اپنے پُرکھوں کے قبریں کھُدنے کے خوف سے وہ اپنی ساری قوتیں جمع کر کے چولھے میں آگ سلگانے کی کوشش کرنے لگی ___ دھریک کی خشک ٹہنی سے اُپلوں کے ڈھیر میں سے کچھ اُپلے اپنی طرف لڑھکائے اور پھر اپنے کھردرے ہاتھوں میں ایک اُپلا پکڑ کر اُسے دو حصوں میں بانٹ دیا۔ چولھے میں ایک ٹکڑا دائیں اور ایک بائیں رکھ کر خاشاک کے تنکوں کو اُن سے اُوپر اٹھایا اور پھر قمیص کے پلو سے ہوا دینے لگی۔ آگ سے پہلے دھواں اُٹھا اور کچھ ہیولے سے بن گئے ___ اُس کے تصور میں وہی من موہنی صورت پھر جاگ اٹھی تھی۔ وہ دیکھتی ہے کہ من موہ لینے والا وہ خوش شکل چہرہ اُس کی چھاتیوں سے ٹکراتا ہے اور ___ وہی مانوس لمس جب اُسے محسوس ہوتا ہے تو ایک دم بدک کر پھر سے چولھے میں آگ ٹھیک کرنے لگتی ہے ___ یہ اس کا معمول تھا۔ جب کبھی وہ فارغ ہوتی یا زیادہ اُلجھ جاتی تو یہی چہرہ اور اس کا لمس اُسے شدت سے ستانے لگتا۔

بارش تھم چکی تھی مگر توت کے پھیلے ہوئے ہاتھ کی انگلیاں ابھی تک اس کے اثر میں تھیں ___ ان انگلیوں سے پانی قطرہ قطرہ صحن میں ٹپکتا لگتا ہے۔ بیٹھک سے اُس کے سسر کے کھانسنے کی آواز آتی ہے تو یہ سلور کی ساختہ تھالی میں سالن ڈال کر چنگیر میں روٹیاں رکھتی ہے اور پھر منوں بھاری قدموں کے ساتھ بیٹھک کی جانب بڑھ جاتی ہے۔ چارپائی پر بیٹھے بوڑھے سسر کے سامنے کھانا رکھ کر پانی لینے کے لیے پلٹنے لگتی ہے تو گرج دار آواز تحکمانہ انداز میں گونجتی ہے:

’’کبھی سلیقے سے بھی پکا لیا کرو ___ ہمیشہ اناج ضائع کرتی ہو۔‘‘

وہ خاموشی سے نکل کر تپائی پر رکھے ہوئے کائی زدہ گھڑے میں سے مٹی کے بٹھل میں پانی ڈالتی ہے اور اسی خاموشی کے ساتھ جا کر سسر کے سامنے رکھ دیتی ہے۔ بیٹھک کے کچے فرش پر اپنے ٹوٹتے وجود کو احتیاط سے رکھتی ہے، مبادا کوئی جوڑ الگ ہو کر زمین پرہی آن پڑے۔

’’طفیل کا فون آیا تھا ___؟‘‘ وہی گرج دار آواز گونجتی ہے۔

’’نہیں بابا ___‘‘

’’یہ موبیل بھی شیطانی آلہ ہے ___ ہر دم عزت لٹنے کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔ طفیل کا خیال نہ ہو تو اُسے پتھر پر رکھ کر پیس دوں۔‘‘

بوڑھا یہ کہ کر ہاتھ کے اشارے سے کھانے کے برتن اُٹھانے کا حکم دیتا ہے۔

ایک گرم انگارہ اُس کے کانوں کو چیرتا ہوا دماغ تک پہنچ جاتا ہے مگر وہ اپنے چہرے سے کوئی تاثر ظاہر نہیں کرتی ___ جس احتیاط سے بیٹھی تھی، اُسی احتیاط سے اُٹھ کر برتن سمیٹتی اور باورچی خانے میں جا گھستی ہے، اُسی تھالی میں اپنے لیے سالن ڈالتی ہے اور وہیں ننگی زمین پر کھانے کے لیے بیٹھ جاتی ہے ___ جوں ہی پہلا لقمہ اس کے حلق سے اُترتا ہے اور ہاتھ دوسرے نوالے کی طرف بڑھتا ہے، وہی خوش شکل اور معصوم چہرہ اُس کی آنکھوں میں اُتر آتا ہے ___ بے دھیانی میں گم وہ نوالہ اپنے منھ کی طرف لانے کی بجائے سامنے کی طرف بڑھا دیتی ہے۔ پھر کتنے ہی نوالے من موہ لینے والے معصوم بچے کے منھ میں ڈالے اور اپنی بھوک بھول گئی ___!

’’تائی! مرغیوں کو سالن کے ساتھ کھانا کھلانا کب سے شروع کیا ___؟‘‘ اس کے دیور کے منجھلے بیٹے نے چہکتے ہوئے چھیڑا۔

’’ہونہہہ ہ ہ ___‘‘ وہ کچھ سٹپٹا سی گئی۔ جب اپنے سامنے بکھرے ہوئے نوالوں پر مرغیوں کو ٹوٹ پڑتے دیکھا تو حیرت سے اُس کا منھ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ اُس کے میل چڑھتے رُخساروں پر دو گرم آنسو بہ نکلے۔ اپنی قمیص کی میلی آستین سے اپنے چہرے اور آنکھوں کو صاف کرتے ہوئے اُس نے لقمہ اپنے منھ میں رکھا۔

٭

صحن کے کچے فرش پر آٹے اور چوکھر کی خالی بوریاں بچھی ہوئی تھیں اور اُن پر محلے کے بچے قبلہ رُخ بیٹھے قرآن شریف پڑھنا سیکھ رہے تھے ___ وہ جب سے یہاں بیاہ کر آئی تھی، اسی معمول کے ساتھ بچے پڑھنے آ رہے تھے۔ بارہ سال ___! بارہ سال بہت ہوتے ہیں۔ کئی بچوں نے قرآن پاک ناظرہ پڑھ کے ختم کر لیا تھا اور کئی لڑکیاں تو شادی کر کے اپنے گھروں کی بھی ہو گئی تھیں، بلکہ ان میں سے اکثر کے یہاں دو دو ایک ایک بچہ بھی پیدا ہو چکا تھا ___ اور اَب اس کے سامنے بیٹھی عاصمہ بھی قرآن مجید ختم کرنے والی ہے۔ ٹھیک دو ماہ بعد اس کی بھی شادی ہو جانی ہے اور پھر اس کے ہاں بھی خوب صورت چہرے اُتریں گے ___ _ احسن التقویم کہے گئے ننھے منے انسان___ وہ بھی انھی بوریوں پر بیٹھ کر اپنا پہلا سبق لیں گے۔

محلے کی بوڑھی پھپھا کٹنی زہرا ماسی کو آتے دیکھ کر وہ اور زیادہ محویت سے بچوں کو پڑھانے لگی تھی تاکہ زہرا ماسی اسے مصروف جان کر اُس کی دیورانی کے کمرے میں چلی جائے۔ وہ محلے کی ایسی بوڑھیوں سے ہمیشہ چڑ کھاتی تھی ___ یہ بوڑھیاں جب بھی آتی تھیں، اس کے غم میں اضافہ کر جاتیں اور پھر خوش شکل چہرہ اور اُس کا میٹھا لمس اُسے ستانے لگتا۔ زہرا ماسی اپنے چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ پھیلائے اسی کے پاس آ بیٹھی تھی اور آتے ہی پہلا تیر اس کے سینے میں پیوست کر دیا:

’’اری ___! کیوں ان پر جان گالتی ہے؟ یہ کم بخت مارے کون سا تیرے بطن جنے ہیں ___ کچھ اپنی فکر کر، کب تک دوسروں کے بچوں کے لیے مشقت اُٹھائے گی؟ میں تو کہتی ہوں اس بار طفیل چھٹی آئے تو اُس کے ساتھ کسی سیانے ڈاکٹر کے پاس چلی جا ___ بھر لے اپنی جھولی۔‘‘

زہرا ماسی کا سبق طول پکڑنے لگا تو اُس نے بات کاٹتے ہوئے کہا:

’’ماسی! یہ سب بچے میرے ہی تو ہیں ___ میں بھی جن لوں گی، کون سا بوڑھی ہو گئی ہوں۔ تو جا اندر ___ شیداں بیٹھی ہے، اُس سے گل کتھ کر میں ذرا سبق پڑھا لوں۔‘‘

ماسی تو تیر پھینک کر چلی گئی مگر آنے والی ساری گھڑیاں اسے بے تاب کر رہی تھیں ___ آنکھوں کا بند نہ توڑ سکنے والے خون کے قطرے اس کے حلق کے راستے سے دل میں اُتر گئے۔

’’لوگوں کو دوسروں کی فکر کیوں ہوتی ہے ___؟ کیوں یہ لوگ مجھے آرام سے جینے نہیں دیتے، کیوں یہ مجھے بانجھ ہونے کا احساس دلاتے رہتے ہیں ___؟‘‘

وہ سوچتی رہی اور مسلسل کرب کی آندھیوں کی زد پر تھی ___ تب اچانک اس کی دیورانی شیداں اُس کے سامنے آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئی ___ شیداں پھر اُمید سے تھی اور اس کے ہاں ساتواں بچہ ہونے لگا تھا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی نظریں شیداں کی چھاتیوں اور پیٹ کا طواف کرنے لگتی ہیں ___ سینے کے اُبھار بھرے ہوئے اور اُن کے سرے بھیگ چکے تھے۔ دو ایک روز میں شیداں ___! مگر وہ کیوں ماں نہیں بن سکتی؟ اس کی چھاتیاں کیوں نہیں بھرتیں، کوئی بچہ اُس کی چوٹی کیوں نہیں کھینچتا؟ اُسے لگا جیسے غم سے اُس کا سینہ پھٹ جائے گا اور وہ جسم، جسے ایک عرصے سے اُس نے سنبھال کر رکھا تھا، لیر لیر ہو جائے گا ___ اس کا جسم چیتھڑوں میں بدل جائے گا ___ شیداں کی آواز کسی اندھے کنویں سے آ رہی تھی:

’’ماسی ٹھیک کہتی ہے، طفیل آ جائے تو اپنا چیک اپ کرا لے ___ صادق بھائی کے ہاں بھی تو اولاد نہیں ہو رہی تھی، انھوں نے علاج کرایا تو اب ماشاء اللہ ان کی پیاری سی بیٹی ہے۔‘‘

’’شیداں! بس کر ___!‘‘

یہ کہ کر وہ اپنی جگہ سے اُٹھی، اپنے خستہ اور کچے کمرے میں پڑی بان کی چارپائی پر آ کر ڈھیر ہو گئی۔ اس کے دماغ پر مختلف تصویریں رقص کرنے لگیں ___ اپنے سسر کی کڑوی کسیلی تو وہ برداشت کر ہی رہی تھی، اب پورے گاؤں کے منھ پر ہاتھ کون رکھے؟ ہر کوئی اس کے خالی آنگن میں جھانکتا اور اسے مشورے دیتا ___ اور ___ اب تو طفیل کے لیے دوسری لڑکی تلاش کی جا رہی تھی، تاکہ اس کے لوٹتے ہی دو بول پڑھا لیے جائیں۔ بابا کہتا:

’’بانجھ شجر سے امید لگانا کم عقلی اور نادانی ہے ___ طفیل ماشاء اللہ وجیہ ہے، گبرو جوان ہے۔ کب تک اس شنڈ عورت کا انتظار کرے گا؟ پانی سر سے گزر جائے گا تو کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔‘‘

ایسی باتیں سن کر اُسے یوں محسوس ہوتا جیسے اس کے دماغ کی رگیں چٹخ رہی ہوں، آنکھوں سے آنسوؤں کی جگہ خون جاری ہو اور دل کی جگہ پارہ پڑا ہو۔ اچانک سیلولر فون کی گھنٹی بجی اور وہ اپنے اوسان بہ حال کر کے کارنس سے فون اٹھا کر رندھی ہوئی آواز میں ’’ہیلوووووو ___‘‘ کہنے لگی۔ دوسری طرف طفیل تھا ___ اس کا مجازی خدا، جو لوگوں کی نظر میں روزی کمانے لیے عرب ممالک کی خاک چھان رہا تھا۔ وہ اپنی بیوی کو تنہا نہیں چھوڑنا چاہتا تھا ___ مگر ___ اس کے گاؤں کے لڑکوں اور بوڑھیوں نے اس کا جینا دو بھر کر رکھا تھا۔ ہر کوئی اُس کی مردانگی پر شک کرتا تھا یا پھر اُسے دوسری شادی کے لیے اُکساتا۔ وہ لفظوں کی تلواروں سے بچنے کی خاطر اپنی محبوب بیوی کے ہجر کی سزا کاٹ رہا تھا ___ دس دن بعد وہ گھر لوٹنے ولا تھا ___!!

٭

طفیل سے بات کرنے کے بعد وہ اپنے سن ہوتے وجود میں زندگی کی حرارت محسوس کرنے لگی تھی۔ غم اور خوشی نے مل کر ایک ایسی گھڑی تشکیل دی، جو اس سے پہلے اس پر نہیں اُتری تھی، طفیل کے آنے کی خوشی تھی تو دوسری جانب اس کے چھن جانے کا خوف بھی موجود تھا۔ اگر طفیل نے دوسری شادی کر لی تو اس کی زندگی بالکل ہی بے رنگ ہو جائے گی ___ بے لطف اور غارت ہو جائے گی ___!

اُس نے اپنے منھ پر ہاتھ پھیرا تو یوں محسوس ہوا جیسے کسی کھردری اور سخت لکڑی سے ہاتھ چھو گیا ہو ___ یہ احساس اسے پہلے تو کبھی نہیں ہوا تھا ___ یاپھر ___ شاید اُس نے کبھی اپنے رُخسار چھوئے ہی نہیں تھے اور چھوتی بھی کس لیے ___؟ جب سراہنے والا ہی موجود نہیں تھا۔ اب جو وہ آ رہا تھا تو اُسے اپنے سراپے کی فکر ہوئی۔

اُسے اپنے کالج کے دن یاد آنے لگے، جب وہ بن سنور کر اپنی سکھیوں کے ہم راہ اپنے قصبے کے کالج جایا کرتی ___ کالج کے راستے پر لڑکے تاکنے کے لیے بیٹھے ہوتے اور یہ اپنی ہم جولیوں کی بھیڑ میں سب سے نمایاں ہوتی۔ طفیل سے اس کی مڈ بھیڑ اسی زمانے میں ہوئی تھی۔ مارچ کا اخیر تھا اور یہ کسی عزیز کے ہاں شادی پر موجود تھی ___ تب طفیل سے اس کی آنکھیں چار ہوئیں اور دونوں ایک دوسرے کو دل دے بیٹھے۔ بہت منت سماجت کے بعد اس کے گھر والوں نے رشتہ دینے کی رضا مندی ظاہر کی تھی۔ اگر چہ دونوں گھرانوں میں پہلے سے رشتے داریاں موجود تھیں لیکن اُس کا خاندان طفیل کے گھرانے کی نسبت نہ صرف خوش حال تھا بلکہ زیادہ تر لوگ پڑھے لکھے تھے۔ طفیل کی محبت میں وہ سب کچھ چھوڑ کراس کچے مکان میں اُتر آئی تھی، جو اُس کے لیے کسی جنت سے کم نہیں تھا ___ ہم سفر چاہنے اور جان چھڑکنے والا ہو تو پھر سفر کی صعوبتیں کہاں نظر آتی ہیں؟ وہ ایک دوسرے کی رفاقت میں چلتے رہے ___ چلتے رہے ___ چلتے رہے ___ ایک سال، دو سال، تین، چار، چھے ___ اور پھر آٹھ سال گزر گئے۔ بہ ظاہر دونوں میں کوئی نقص نہیں تھا مگر پھر بھی اس کی گود خالی تھی۔ پہلے تو طفیل اسے تسلیاں دیتا، اس کا دل بہلاتا، پھر وہ خود بھی مایوس ہو گیا ___ اگر کبھی وہ کسی ڈاکٹر کے پاس جانے کی بات کرتی، تو وہ ٹال جاتا۔ یوں اس کی خواہش اس کے اندر ہی ٹوٹتی بنتی رہی ___ اب تو چار سال ہوئے طفیل بھی دُور رہنے لگا تھا ___

سارے غم، طعنے اور جھڑکیاں اس اکیلی جان کے لیے رہ گئی تھیں ___ مگر وہ ثابت قدم رہی، اس لیے کہ اس کا خاوند آج بھی اس سے بے پناہ محبت کرتا تھا ___ لا محدود اور ناقابلِ یقیں حد تک ___ یادوں کے جھروکوں میں جھانکنے سے اُسے دکھائی دیا کہ طفیل جب پچھلی بار چھٹی آیا تھا تو اُس نے اپنے بابا کے سامنے دوسری شادی سے صاف انکار کرتے ہوئے کہا تھا:

’’لائبہ سے شادی میں نے اولاد کی خاطر نہیں کی ___ کیا ہوا اگر بچے نہیں ہوئے؟ میں دوسری شادی ہرگز نہیں کروں گا۔‘‘

طفیل کے اس کورے جواب سے وہ کس قدر نہال ہوئی تھی، اسے کوئی دوسرا نہیں بیان کر سکتا۔ اس کے دل کی دھڑکن سانس کی لے پر مسلسل رقص کرتی رہی اور وہ اپنے آپ میں سمٹتی پھیلتی رہی۔ اسے یقین تھا کہ اس کے گھر میں نقب کوئی نہیں لگا سکتا لیکن اب ایک بار پھر گھر میں طفیل کی دوسری شادی کی باتیں ہو رہی تھیں۔

٭

ٍ بہت خوشامد کر کے وہ طفیل کو ڈاکٹر کے پاس جانے کے لیے رضا مند کر چکی تھی ___ _علاج شروع ہوا، دونوں دوا کھانے لگے ___ _اُس کی آنکھوں میں مچلتی ہوئی صورت ہر وقت اُسے نہال کرتی رہی۔ وہ سوتی جاگتی سے آنکھوں ایک ہی خواب دیکھتی، کب اُس کے کانوں میں اپنے بچوں کی صدائیں گونجیں گی، کب اُس کے کانوں میں رس گھلے گا ___ _؟ طفیل نے ایک بار پھر شادی سے انکار کر دیا تھا۔ لائبہ ہر وقت مسرور دکھائی دیتی تھی، پھر اُس کی یہ خوشی عارضی ثابت ہوئی، طفیل کام پر لوٹ گیا تھا ___ _ اب پھر اُس کی تنہائی اور لوگوں کے کچوکے تھے۔ تب اچانک روشنی کی ایک کرن نمودار ہوئی۔ ننھے مہمان کی آمد کی خبر نے سبھی کا رویہ بدل ڈالا تھا۔ بابا بھی مسکرا کر بات کرنے لگے تھے، دیورانی کا رویہ بھی بھلا تھا، ماسی زہرا بھی اپنے مشورے کا عوضانہ چاہتی تھی اور بار بار جتلا کر کہتی: ’’خوشی کے موقع پر مجھے بھول نہ جانا۔‘‘ سب گھر والے چاہتے تھے فوراً طفیل کو خوش خبری سنائی جائے لیکن وقت بھاری سلوں تلے کہیں دب گیا تھا۔ ادھر لائبہ نے میکے رہنے کا فیصلہ کر لیا ___ _ وہاں دیکھ بھال کرنے والے تھے، مشقت کا کوہِ گراں نہیں تھا ___ _ یہاں تو ہر وقت اُسے کاموں کی ناؤ کھینے کے سوا کوئی مشغلہ نہیں تھا۔ بابا تو اُسے کسی صورت آنکھ سے اوجھل کرنے کے لیے تیار نہیں تھا، اُن کی آنکھوں میں بھی ایک زمانے سے خواب تھے اور اَب جب خوابوں کی تعبیر ملنے والی تھی، لائبہ نے میکے جانے کی ٹھان لی تھی۔ دل پر پتھر رکھ کر بابا نے اجازت دے تو دی لیکن اس کے بعد ہر وقت لائبہ اور اُس کے ہونے والے بچے کے لیے سوچتے رہتے۔ بابا طفیل سے محبت بھی تو بہت زیادہ کرتے تھے، طفیل بھی باقاعدگی سے بابا کے لیے ریال بھجواتا، اُس کی ضرورت کی چیزیں بھیجتا۔

شادی کے تیرہ سال کس طرح اس خاندان نے کاٹے تھے؟ یہ دکھ وہی جانتے تھے، اَب قسمت اُن پر مہربان ہوئی تھی۔ اتفاق ایسا تھا کہ لائبہ کی بہن عارفہ بھی اُمید سے تھی اور دونوں بہنیں میکے میں ایک ساتھ ٹھہری ہوئیں تھی ___ _ عارفہ کے گلشن میں چوتھا پھول کھلنے لگا تھا۔ یہ ساونوں کی ایک رات تھی۔ دونوں بہنوں کے یہاں ایک وہی وقت میں بچے ہوئے، دونوں لڑکے۔ لیکن عارفہ کا بیٹا کچھ ہی دیر بعد زندگی سے منھ موڑ گیا ___ _ اگر چہ سب دُکھی تھے لیکن لائبہ کے سسرالی تو بہت مسرور تھے۔ انبساط کے ان دنوں میں بابا نے خاص اہتمام کر کے پورے محلے میں مٹھائی بانٹی۔ قریبی رشتے داروں کو کھانے پر مدعو کیا اور دراز قد کے دو جسیم بکرے بھی ذبح کر کے غریبوں میں بانٹے۔ مبارک سلامت کا طویل سلسلہ تھا۔ بابا نے پوتے کو سہیل نام دیا ___ _ طفیل کو اطلاع تو کر دی گئی تھی لیکن اُس نے ابھی تک لائبہ سے بات نہیں کی تھی ___ _ وہ اس خاموشی پر پریشان تھی، سوچتی تھی اتنی بڑی خبر کے بعد اُس کا یوں خاموش رہنا کچھ عجیب سا ہے۔ ادھر سہیل کو اپنی ماں کی چھاتی سے کوئی رغبت نہیں تھی ___ _ سبھی اس بات پر فکر مند تھے لیکن یہ کوئی انہونی نہیں تھی۔ بہت سے بچے اپنی ماؤں کا دودھ نہیں پیتے۔ انھیں گائے، بھینس، بکری یا پھر ڈبے کا مصنوعی دودھ پلایا جاتا ہے۔ سہیل کے لیے بھی ایسا ہی اہتمام کر لیا گیا تھا۔ گھر کے سارے کام دیورانی نے سنبھال رکھے تھے، لائبہ رانیوں کی طرح سارا دن چارپائی پر بیٹھی سہیل کو لوریاں سناتی، چومتی چاٹتی، دیکھ دیکھ مسکراتی اور گھر والے اُس کی یہ وارفتگی دیکھ کر خوش خوش ہو جایا کرتے ___ _کیوں نہ ہوتے کہ اَب طفیل مرد ثابت ہو چکا تھا اور لائبہ کو بھی بانجھ ہونے کا طعنہ کوئی نہیں دے سکتا تھا۔ وہ خود بھی دَبے لفظوں میں کئی بار دیورانی کو جتا چکی تھی۔ سلسلہ ہائے شب و روز اسی رفتار سے چل رہے تھے ___ _ _ _ لیکن طفیل خاموش تھا۔

٭

وہ طفیل کی خاموشی پر حزن آشنا تھی، ہر وقت اُسے سوچتی۔ فون کی گھنٹی بجی تو اُس نے بے تابی سے کارنس پر پڑا موبائیل فون اُٹھایا۔ وہ کس قدر مسرور تھی، چاہتی تھی خوشی کا ایک ایک احساس طفیل کے گوش گزار کر دے اور اُس نے طفیل کو سنے بغیر سب کچھ اُسے کہہ سنایا۔ شکوے کیے، جھوٹ موٹ روٹھنے کا ادا دوہرائی ___ _ طفیل مگر جب بولا تو لائبہ کے کانوں میں جیسے اُبلتا ہوا سیسہ ڈال دیا:

’’کنجری! بدکار! تو کیا سمجھتی ہے میں تیری حرام کاریوں کو اپنے گھر میں پناہ دوں گا ___ _؟ مجھے ڈاکٹر نے واضح طور پر کہہ دیا تھا میں کبھی باپ نہیں بن سکتا ___ _پھر یہ حرام کا پِلہ کہاں سے آ گیا؟ تم نے میرا اعتماد توڑ دیا ہے ___ _ میری محبت کو دھوکا دیا ہے، کتنی چاہ سے میں تمھیں لایا تھا ___ _ تم ___ _ لائبہ تم ___ _ طلاق دیتا ہوں، طلاق طلاق۔‘‘

لائبہ چیختی رہی ___ _ کُرلاتی رہی ___ _ تڑپتی رہی، طفیل نے اُس کی بات ہی نہیں سنی۔ اُسے صفائی کا موقع ہی نہیں دیا۔

کوئی نہیں جانتا تھا کیا ہوا ہے، سبھی دکھ میں تھے۔ بابا، دیورانی، دیور سبھی طفیل کے اس عمل سے ناخوش تھے، مگر کیا کر سکتے تھے؟ مجبوراً لائبہ کو گھر چھوڑنا پڑا ___ _وہ میکے میں بیٹھی اپنے نصیب کو رو رہی تھی، جیسے زندگی سے ہر تعلق ختم کر چکی ہو ___ _ اُس کی بہن عارفہ کی چھاتیوں سے چمٹا ہوا بچہ چسڑ چسڑ دودھ چوس رہا تھا ___ _عارفہ کا اپنا بچہ ___ _ سہیل۔

٭

[سہ ماہی قرطاس، گوجرانوالہ، شمارہ ۱۵۔ جولائی تاستمبر۲۰۰۸ء]

٭٭٭











آسیب گاہ



میری طبیعت صبح ہی سے کسمسا رہی تھی، غالباً موسم کی تبدیلی کا اثر تھا۔ حویلی سے نکل کر جب میں ڈھلوانوں میں پھولی ہوئی سرسوں کے کھیتوں کی جانب بڑھا تو اُن سے کچھ پہلے گلاب کی روشوں نے میرا استقبال کیا۔ پندرہ سال کی مسلسل محنت کے بعد میں کئی رنگوں کے گلاب یک جا کرنے میں کام یاب ہو سکا تھا۔ گلابوں کے سامنے میں نے ست رنگ موسمی پھول بھی اُگا رکھے تھے، چمپئی، بنفشی، زمردیں، نیلگوں، یاقوتی، پکھراجی پھول ___ انھی پھولوں کے بیچ اِکا دُکا گلِ لالہ بھی اپنے درشن دیتا رہتا تھا۔ گلاب سے کچھ فاصلے پر گیندے کی بہاریں تھیں اور پھر صد برگ کی نئی وضع کی قطاریں تو جیسے دل میں اُترتی تھیں۔ میری نگاہ اچانک ایک پرندے نے روک لی۔ گہرے نیلے اور انتہائی چمک دار رنگ کے اس اُنگلی بھر پرندے کو میں دیکھتا تو پہلے بھی رہا ہوں، آج اُسے پھولوں کا رس چوستے دیکھ کر مسرت آمیز حیرت میں کھو گیا ___ یہ چھوٹی سی چڑیا نما مخلوق اپنی پوری چونچ پھول کے اندر تک لے جاتی اور بغیر کسی ٹہنی کا سہارا لیے پھڑپھڑاتی رہتی۔ ایک پھول سے دوسرے پھول تک اس کا یہی سفر رہا ___ میں پہلی نظر میں تو قدرت کی صناعی پر حیران ہوا تھا، اب مگر اُس کی خوراک پر سوچ رہا تھا۔ میں اُسے نظر انداز کر کے آگے بڑھ گیا، آج نیلگوں پھولوں کی مسلسل روش نے بھی مجھے اپنے پاس بیٹھنے نہ دیا، طبیعت کا اضطراب ایسا تھا کہ میں بغیر رُکے بڑھتا گیا اور پھر یاد ہی نہیں رہاکہ میں سرسوں کے کھیتوں میں رُکنا چاہتا تھا ___ اب میرے سامنے بہتی نہر تھی، جس میں ایک بھوری بھینس آزادانہ اشنان کر رہی تھی، اس کے ساتھ میرے کھیتوں میں کام کرنے والے کسانوں کی ایک ٹولی بھی تھی۔

صبح کی چہل قدمی پچھلے چالیس سال سے میرے معمول کا حصہ ہے، میں اگر سفر پر نہیں ہوتا تو ضرور اپنے کھیتوں کی سیر کے لیے نکل جاتا ہوں، فطرت سے ہم کلام ہوتا ہوں تو گویا اس کائنات کی ساری رنگینیوں کو اپنے دامن میں اُتار لیتا ہوں ___ آج بھی یہی ارادہ تھا لیکن کسلمندی جان کو آ رہی تھی۔ یوں معلوم ہوتا تھاجیسے صدیوں کی مسافت طے کر آیا ہوں، با دل نہ خواستہ پلٹنے لگا۔

گاؤں سے کچھ فاصلے پر تمباکو کا ایک کارخانہ ہے، میرے پرکھوں نے انگریز کے دور میں اسی مقام پر یہ کام شروع کیا تھا۔ ایک صدی پہلے بنے اس کارخانے کا رقبہ دو ایکڑ کے قریب ہے۔ درمیان کا وسیع رقبہ خالی چھوڑا گیا ہے، جب کہ چاروں طرف سُرخ پختہ اینٹوں اور دیودار کی لکڑی سے بنے ہوئے کمرے ہیں۔ یہ حویلی نما کارخانہ اپنی کہنگی کے باوجود آج کل کی عمارتوں سے بہت مضبوط ہے۔ کمروں اور صحن میں سُرخ اینٹوں کا فرش ہے۔ اَب توخیر تمباکو کی فصل کم کاشت کی جاتی ہے، پہلے دن بھر یہاں مردوزَن کام کیا کرتے تھے۔ پتیاں الگ کر کے اُنھیں رسی کی صورت میں بٹوایا جاتا اور ڈنڈوں اور رَگوں کا چورا بنا دیا جاتا تھا۔ یہ ایک تھکا دینے والا کام تھا۔ اگر کوئی تمباکو کی بُو کا عادی نہیں ہوتا تھا، تو چند ہی لمحوں میں اُس کا جی متلانے لگتا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اُلٹیاں کر کے بد حال ہو جاتا۔ خود میرے ساتھ بھی شروع شروع میں ایسا ہی ہوتا تھا۔ کام کرنے والے عموماً عادی تھے لیکن پھر بھی کوئی نہ کوئی ترش چیز وہ اپنے پاس رکھتے تھے، مبادا مزاج بگڑ جائے۔ کچھ لوگ سونف کا قہوہ بھی استعمال کرتے تھے۔

اُس روز جب میں نہر سے واپس آیا تو مجھے کارخانے کی چھت پر گلابی پیرہن دکھائی دے کر اچانک غائب ہو گیا ___ میرے دماغ میں فوراً ہل چل شروع ہوئی، کارخانہ تو پچھلے آٹھ دس سال سے بند تھا، پھر یہاں کسی کو رہنے کی اجازت بھی نہیں دی تھی، اس سے بھی زیادہ تعجب کی بات یہ تھی کہ اتنی صبح یہاں ایک لڑکی موجود تھی۔ گویا کارخانے کا منفی استعمال ہو رہا تھا ___ ایک تو میری طبیعت میں اضطراب، اس پر یہ خیال ایسا تھا جو میری غیرت کو للکار رہا تھا۔ میں تیزی کے ساتھ آگے بڑھا، دروازہ غیر مقفل تھا۔ لوہے کی پلیٹوں سے بنا ہوا یہ دروازہ اُس زمانے میں پانچ سو روپے میں بنا تھا۔ آدھ انچ موٹی پلیٹوں کو جوڑ کر دروازہ بنایا گیا تھا، جس کی دوسری جانب سوئی کا گزر ممکن نہیں تھا۔ البتہ ایک میخ نکل جانے کے باعث اُس میں دو سوتر موٹا سوراخ ہو گیا تھا، جس سے کوشش کر کے دوسری جانب دیکھا جا سکتا تھا۔ میں نے ایک آنکھ اُس سوراخ پر جما کر جو دیکھا تو اندر پورا خاندان بیٹھا تھا، گلابی شال میں لپٹا ہوا جسم سیڑھیوں سے اُتر کر آ چکا تھا، اُس کی پشت میرے جانب تھی۔ کچھ بچے اور بوڑھے زمین پر بیٹھے ناشتا کر رہے تھے۔ میرے لیے یہ سب کچھ حیران کر دینے والا تھا۔ میں نے اپنے کامدار حسین حبدار کو فون کر کے پوچھا تو اُس نے بتایا:

’’فوجی آپریشن کے باعث کچھ خاندان ہماری طرف ہجرت کر آئے ہیں۔ دو ہفتے قبل اسسٹنٹ کمشنر صاحب نے آپ کی طرف کچھ خاندان بھیجے تھے۔ آپ موجود نہیں تھے، اس لیے میں نے انھیں کارخانے میں ٹھہرا دیا ___ اَب جیسے آپ حکم کریں۔‘‘

’’اوہ ___! بہت اچھا کیا تم ___‘‘

کچھ روز بعد میرے پاس کامدار آیا ___ اس کے ساتھ ایک سفید ریش بزرگ اور دو خوب صورت گھٹے جسم کے نوجوان لڑکے تھے، جن کی مسیں بھیگ رہی تھیں۔ کامدار نے بتایا کہ خائستہ خان اور اُس کے بیٹے کام کی طلب میں ہیں، چاہتے ہیں روزگار کا وسیلہ ہو تو زندگی آسان ہو جائے گی۔ میں نے پوچھا اگر کوئی ہنر جانتے ہوں تو بتا دیں تاکہ اُس کے مطابق کوشش کی جائے لیکن وہ کاشت کاری کے سوا کچھ نہ جانتے تھے ___ میں نے کامدار سے کہا:

’’کھیتوں میں اپنے ساتھ لگا لو، جس طرح باقی لوگوں کے ساتھ معاملہ کرتے ہو، انھیں بھی اُس کھاتے میں شمار کر لو، فی الوقت ان کے گھر غلّہ اور ضرورت کی دوسری چیزیں بھیج دو۔‘‘

وہ تینوں اپنی ٹوٹی پھوٹی اُردو میں ’’شکریہ صیب، شکریہ صیب‘‘ کی گردان کرتے ہوئے ممنونیت سے گردن جھکا کر چلے گئے۔ مجھے اندازہ نہیں تھا وہ اتنی جلد ہمارے ساتھ گھل مل جائیں گے ___ اب تو اُس خاندان کی عورتیں بھی ہمارے گھر بے دھڑک آنے لگیں ___ میری بیوی اور بیٹی کے ساتھ پہروں بیٹھی رہتیں، اِکا دُکا بارمیرا سامنا ہوا تو مجھے بھی سلام کیا:

’’ملک کاکا سلام ___‘‘

پُر لطف بات یہ ہوئی کہ بڑے چھوٹے سبھوں نے مجھے ’’ملک کاکا‘‘ کہنا شروع کر دیا تھا، میں اپنے اس نئے نام پر خفا بھی نہیں تھا، کہ اس میں محبت کے سوا دوسرا کوئی مرکب نہیں تھا۔ انھی میں گل اندام تھی ___ گل اندام واقعی گل اندام تھی، انتہائی گورا رنگ، گہری نیلی آنکھوں پر سنہری تنی ہوئی بھنویں، ستواں ناک، کشادہ پیشانی پر سنہری بالوں کی لٹکتی ہوئی جھالریں، نکلتا ہوا قد اور متناسب جسم، جسے وہ ہمیشہ گلابی اوڑھنی میں ڈھانپ کر رکھتی تھی۔ گل اندام جس قدر خوب صورت تھی، اُس سے کہیں بڑھ کر اُس کے چہرے پر ملال اور سنجیدگی کے عناصر کی یک جائی تھی۔ مجھے اس کی خاموشی کھٹکتی تھی اور دل پسندبھی تھی، میرا خیال ہے لڑکیوں کو اسی طرح رہنا چاہیے ___ غیروں سے فاصلے پر ___ متانت اور وقار کے ساتھ ___ تاکہ کوئی پیش قدمی کر ہی نہ سکے۔

میرے تین بیٹوں میں سے دو برطانیہ میں ہیں، وہیں مستقل رہتے ہیں۔ صبح و شام واٹس ایپ اور آئی ایم او کے وسیلے سے اُن سے گفتگو ہو جاتی ہے ___ __ دو بیٹیوں میں سے بڑی امریکا میں ہوتی ہے، وہاں ڈاکٹر ہے اور اُس کا شوہر یعنی میرا بھانجا بھی ڈاکٹر ہے۔ خوشی کے ساتھ زندگی گزر رہی ہے۔ چھوٹا بیٹا ا بھی پڑھ رہا ہے، شہر میں ہوتا ہے اور دو چار ماہ کے وقفے سے گاؤں آتا ہے ___ چھوٹی بیٹی بیوہ ہے ___ شادی کے تین ماہ بعد بیوہ ہو گئی تھی، تب سے روگ لگائے بیٹھی ہے، کوشش کر بیٹھا ہوں، اونچ نیچ اور زندگی کی مشکلیں سمجھا بیٹھا ہوں لیکن وہ ہے کہ کسی بات پر آتی ہی نہیں۔ ہر وقت اُداس رہتی ہے، خلاؤں میں گھورنا یا پھر ساراسارا دن موٹی موٹی کتابیں پڑھنا ___ یہی اس کے مشاغل ہیں۔ اَب البتہ گل اندام کی رفاقت میں مجھے کبھی کبھی وہ چہکتی ہوئی نظر آ جاتی ہے۔ میں خوش ہوں، بہت خوش کہ اس مہاجر لڑکی نے میری بیٹی کے چہرے کی مسکراہٹ لوٹا دی ہے۔

ایک روز دونوں پائیں باغ میں بیٹھی تھیں، میرے کمرے کی کھڑکی اُسی جانب کھلتی ہے۔ کھڑکی پر دبیز پردہ تھا اور میں خاموشی اوڑھے کوئی کتاب پڑھ رہا تھا۔ انھیں اندازہ نہیں ہو گا اسی لیے بے دھڑک بول رہی تھیں۔ میری بیٹی اُسے کرید رہی تھی اور وہ بتانے اور چھپانے کی کیفیت میں تھی ___ بس ہجرت کی دردناک صعوبتوں اور اذیت ناک مرحلوں کو روانی سے بیان کر رہی تھی، کہنے لگی:

’’کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کیا ہوتا ہے، مرد کہتے تھے یہاں طالبان ہیں اور فاکھستان کا پھوج اُنھیں ڈھونڈتا ہے۔ امریکی پھوج بھی اُس کا پیچھے ہے ___ بس گاؤں میں روز دھماکے ہوتے تھے، کبھی ایک گھر بم سے اُڑا دیا، کبھی ایک ___ اماری زندگی تو ختم ہوا۔‘‘

میری بیٹی پوچھتی پھر کیا ہوا ___؟ تو وہ مزید تفصیل بتانے لگتی۔ اُس کی گفتگو کا لب لباب یہ تھا:

فورسز جگہ جگہ مورچے لگائی بیٹھی ہیں ___ سیکڑوں کی تعداد میں فوجی گاڑیاں، ٹینک اور ہیلی کاپٹر ہر وقت اِدھر سے اُدھر آتے جاتے ہیں۔ مقامی لوگوں کا خیال ہے امریکی فورسز بھی موجود ہیں، عسکریت پسندوں کے خلاف چھاپے مارے جا رہے ہیں، فورسز کا شک ہے کہ مقامی نوجوان بھی تخریبی کار روائیوں میں ملوث ہیں یا کم از کم اُن کا ساتھ دیتے ہیں۔ اس لیے گھر گھر تلاشی ہو رہی ہے۔ فریقین میں شدید لڑائیاں جاری ہیں، روزانہ ان گنت لاشیں گرتی ہیں، نہیں معلوم اُن لاشوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔ حکومت نے ان سنگین حالات میں پُر امن شہریوں کو نکل جانے کا حکم دیا ___ ہم اپنے گھروں سے بے سر و سامانی کے عالم میں نکل آئے ___ ہمارے بھی کھیت تھے، پھلوں کے پیڑ تھے، ٹھنڈے اور میٹھے پانی تھے، اپنے تھے ___ اور بہت ہی اپنے ___ جو اَب ہمارے ساتھ نہیں ہیں ___ کون جانے اُن کے ساتھ کیا ہوا ___ ہو سکتا ہے کسی اور علاقے میں آ کر ہماری طرح آباد ہو گئے ہوں یا پھر امریکی ڈرون طیاروں کی زد میں آ کر جل بھن گئے ہوں، کون کہ سکتا ہے کہ فورسز کے قید میں نہیں ہو سکتے اور میرے منھ میں خاک، کہیں چیلوں اور گدھوں کی خوراک نہ ہو گئے ہوں ___ میں سارا دن اپنے کھیتوں، موسموں، گاؤں اور گاؤں کے لوگوں کو سوچتی رہتی ہوں۔ جب بھی کھانے کے لیے بیٹھتی ہوں، خیال آتا ہے کہ ہمارے اپنوں نے کچھ کھایا ہو گا کہ نہیں ___ چین کی نیند سوتے ہوں گے یا نہیں، ہمیں یاد کرتے ہوں گے یا پھر بھول گئے ہوں گے ___ ہم جب گاؤں سے نکل رہے تھے ہمارے قافلے کی آگے والی گاڑیاں بارودی سرنگ کی زد میں آ گئی تھیں، میں تمھیں کیا بتاؤں انسانی جسم کس طرح چیتھڑوں کی مانند فضا میں بکھر گئے تھے۔ خوف کے مارے ہم سب کی چیخیں نکل گئیں، کچھ ہی آگے بڑھے تھے کہ تخریب کاروں نے راکٹ لانچروں سے حملہ کر دیا ___ پوری فضا خوفناک گولہ باری سے گونج اُٹھی تھی، یہی لگتا تھا کہ کوئی گولہ اچانک آ کر ہماری گاڑی پر لگے گا اور ہمارے پرخچے اُسی طرح اُڑ جائیں گے، جیسے پہلی گاڑیوں کے ___ بس زندگی باقی تھی، آپ لوگوں کی محبت نصیب میں تھی، اس لیے یہاں پہنچ گئے اور جو رہ گئے ___!! اس کے بعد اس کی ہچکی بندھ گئی ___ اتنی دیر روئی کہ اُس کا گلا رندھ گیا___

اب میں نے جانا گل اندام کس کرب سے گزر رہی تھی، کچی عمر میں ہو جانے والے اپنوں کو تو مرتے دَم تک نہیں بھلایا جا سکتا۔ پھر جنگوں کی نفسیات اور حالات سے مجھے بڑی حد تک شناسائی ہے، ایسے میں متاثرہ علاقوں میں انسانی زندگی ہی کیا حیوانی اور نباتاتی زندگیاں بھی داؤ پر لگ جاتی ہیں۔ فصلیں اُجڑ جاتی ہیں، جانور مر جاتے ہیں، معیشت تباہ ہو کر رہ جاتی ہے۔ میرے ذہن میں کچھ بوسنیائی گھرانوں کی صورتیں جگ مگا اُٹھیں جو سربیائی مظالم کے بعد ہمارے شہروں میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے تھے، اُن خاندانوں پر جو کچھ گزری وہ بھی کم ستم آمیز نہیں تھا ___ افغانوں کے بعد ہمارے اپنے ہم وطنوں کو ہجرت کی درد انگیزیوں کا سامنا تھا ___ اخبارات ان کی قیامت خیز داستانوں سے بھرے پڑے تھے، ایسے میں گل اندام کا قصہ دوسروں سے کچھ زیادہ مختلف نہیں معلوم ہو رہا تھا۔

’’کچھ بھی ہو جائے میں اسے بنیادی اخلاقیات کے خلاف سمجھتا ہوں، کوئی شخص تمھاری پناہ میں ہو اور تم اُسی کی جان کے در پئے ہو جاؤ ___ نہیں بیگم نہیں ___‘‘ میں نے اپنی بیوی کو سمجھاتے ہوئے کہا، اُس کی دلیل تھی کہ حالات وہ نہیں جو آپ بیان کرتے ہیں:

’’میرا خیال ہے ہم گل اندام اور اُس کے خاندان پر احسان کر رہے ہیں، یقیناً اُن کا وہاں بہت کچھ رہا ہو گا، لیکن یہاں وہ انتہائی کس مپرسی کے دن کاٹ رہے تھے، اگر ہم انھیں ٹھکانا نہ دیتے تو ممکن تھا وہ بہت اذیت ناک عالم میں جی رہے ہوتے۔ بس وہ عامر کو پسند آ گئی ہے پھر بانو بھی اُس کی مزاج آشنا ہو چکی ہے، اس لیے اُس کا رشتہ مانگ لینے میں کوئی حرج نہیں۔ ہم کون سا اُن پر زبردستی کریں گے، مان لیا تو ٹھیک ورنہ عامر کے لیے رشتوں کی کیا کمی ہے ___؟‘‘

’’یقیناً کمی نہیں ہے ___ خاندان میں ایک سے بڑھ کر ایک ہے ___ اس کے باوجود ایک مجبور خاندان کی جانب کیوں بڑھیں ___ ایک اور بات معاشرت کی بھی ہے، ہمارا اور اُن کا طرزِ زندگی یکسر مختلف ہے، جلد بازی کا فیصلہ جہاں عامر کو پچھتاوے میں دھکیل سکتا ہے، وہاں ہم سب بھی اذیت کا شکار ہوں گے، یہ رشتہ ہمارے لیے بھی ٹھیک نہیں، تم اس خیال کو دل سے نکال دو۔‘‘

اس واقعے کے بعد میں اپنے طور پر دونوں کی نگرانی کرنے لگا، مائی پھا تو کو بھی خفیہ ذمہ داری سونپ دی لیکن ایک ماہ سے زیادہ عرصے کی نگرانی کے بعد مجھے گل اندام کی جانب سے کبھی کچھ نظر نہ آیا، البتہ عامراُس کی موجودگی میں بہانے سے اپنی بہن کے پاس پہنچ جاتا اور پھر کن انکھیوں سے گل اندام کو دیکھنے کے بعد بغیر کچھ کہے باہر چلا جاتا۔ ادھر بیوی کا اصرار بڑھتا ہی جا رہا تھا، آخر مجھے اپنی ساری اخلاقیات اور احتیاط ایک طرف رکھ کر خائستہ خان سے بات کرنا ہی پڑی، جوں ہی میں نے موضوع چھیڑا اُس کا اُوپر کا سانس اُوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا ___ بہت دیر تک خاموش بیٹھا رہا، جیسے اُس کی کوئی قیمتی متاع کھو گئی ہو۔ اُس کی آنکھوں کے کنارے نم آلود تھے، بس اتنا کہ سکا:

’’ملک کاکا ___! گل اندام ہمارا بہو ہے، بیٹی نہیں ___‘‘

اب میں کہوں زمین پھٹے اور میں اس میں دھنس جاؤں ___ مجھے اپنے احمق ہونے کا پورا یقین ہو گیا تھا، بغیر تفتیش اور چھان بین کے عورتوں کی باتوں میں آ گیا اور پھر عورتیں بھی کتنی پھوہڑ نکلیں کہ اتنے عرصے میں یہ سراغ بھی نہ لگا سکیں کہ وہ کنواری ہے یا شادی شدہ۔ اپنی بیٹی بانو پر غصہ آ رہا تھا کہ وہ گل اندام کو ہر وقت ساتھ چپکائے رکھنے کے باوجود اُس کی اصلیت نہ جان سکی۔ خائستہ خان میری کیفیت بھانپ گیا تھا، خود ہی بتانے لگا:

’’ملک کاکا! آپ کا کیا قصور ___ آپ کو تو پتا ہی نئیں تھا، اَم نے خود چھپایا ___ اَم نے بہت شوق سے گل اندام کا شادی اپنے بیٹے سے کیا، ضمیر گل طالبان کا ڈرائیور تھا، وہ اِس کے ساتھ شادی سے بہت خوش تھا لیکن جب اَم گل اندام کو لے آیا تو وہ گھر نہیں آ سکا۔ گل اندام کا اُس سے ملاقات بھی نئیں ہوا تھا کہ پھوج نے اَم کو وہاں سے نکل جانے کا اُکم دے دیا۔ پتا نئیں ضمیر گل زندہ ہے، مرگیا ہے، چہ خبر ___‘‘

اُدھر خائستہ خان حزن آشنا تھا اور اِدھر میرے دماغ پر ہتھوڑے برس رہے تھے ___ رہ رہ کر اپنی حماقت پر افسوس ہو رہا تھا، بغیر کچھ کہے میں وہاں سے چلا آیا۔

گھر میں سب خوف سے دبک گئے تھے، کسی میں حوصلہ نہیں تھا کہ مزید کچھ بات کرتا ___ عامر بھی مایوس ہو کر شہر جا چکا تھا، گل اندام نے پہلے آنا کم کیا پھر بالکل ختم کر دیا ___ بانو کی ویران آنکھوں میں اُداسیاں لوٹ آئی تھیں، پھر ایک روز خائستہ خان نے بتایا کہ وہ واپس جانے لگے ہیں، گاؤں میں امن ہو گیا ہے۔ پھر وہ خاندان سچ مچ بھیڑ بکریوں کی طرح ٹرک میں لد کر چلا گیا ___ سب لوگ اپنی اپنی زندگی میں محو ہو گئے، میرے خاندان کے شب و روز بھی معمول پر آ گئے۔ بانو شادی پر آمادہ ہو چکی تھی، عامر نے خالہ زاد کے ساتھ شادی کر لی ___ ایک روز میرے فون پر غیر مانوس نمبر سے فون آیا، سُنا تو دوسری جانب خائستہ خان تھا، اپنے خاندان پر گزرنے والی قیامت کے بارے میں بتایا ___ وہ رو رو کر کہہ رہا تھا کہ ضمیر گل بارود میں اُڑ گیا ہے، اُس کے ساتھیوں میں سے کسی نے بتایا کہ وہ ہمارے گاؤں چھوڑنے کے دو روز بعد آیا تھا لیکن ہمارے گھر پر ڈرون حملے میں وہ گھر سمیت خس و خاشاک کی مانند دھوئیں میں اُڑ گیا۔ میں نے افسوس کا اظہار کیا ___ دُکھ اُٹھایا ___ خائستہ خان نے کچھ یاد کرتے ہوئے مجھے بتایا کہ اُس کے دونوں بیٹوں کی شادی ہے، اُس کی خواہش ہے کہ ہم بھی شریک ہوں ___ میں نے مشروط ہامی بھر لی۔

شادی میں کچھ خاص گہما گہمی نہیں تھی، ہم جس وقت پہنچے زیادہ تر مہمان جا چکے تھے۔ ہمارے قافلے میں بانو، عامر اور اُس کی بیوی شامل تھے، میں تو دن بھر باہر رہا، شام میں اچانک گل اندام کا خیال آیا ___ یہ سوچ کر کہ پھر خائستہ خان کے زخم تازہ ہو جائیں گے، خاموش رہا۔ رات بھر اُس خوب صورت اور نازک گڑیا کی بد قسمتی کے بارے میں سوچتا رہا ___ میرے برابر چارپائی پر خائستہ خان بھی شاید اُسی کے بارے میں سوچ رہا تھا ___ یا پھر ___ یہ میرا وہم تھا، ہو سکتا ہے وہ نئی بہوؤں کے مستقبل کی منصوبہ بندی کر رہا ہو ___ کچھ بھی تھا، وہ مستقل خاموش رہا۔ سفر کی تھکاوٹ کے باعث مجھ پر نیند غالب ہو گئی اور آنکھ تب کھلی جب مؤذن پکارا:

’’نماز نیند سے بہتر ہے۔‘‘

پو پھٹنے پرخائستہ خان ملبے کے ڈھیر پر بیٹھا مجھے بتا رہا تھا:

’’یہ امارا گھر تھا، یہاں اسی مقام پر اَم نے دو نئے کمرے بنائے تھے اور انھی کمروں میں گل اندام کو دلھن بنا کر اُتارا گیا تھا لیکن اُس کی شادی اَماری بربادی کا پیش خیمہ بن کر آئی ___ میرا بیٹا اسی راکھ کے ڈھیر میں کہیں سو رہا ہے ___ گل اندام پر یہاں پہنچ کر ہی غشی طاری ہو گئی تھی، بڑی مشکل سے اُسے سنبھالا، وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد گھر سے نکل آتی اور پھر اس ملبے سے مٹھیاں بھر بھر کر اپنی آنکھوں میں انڈیلتی رہتی ___ شروع میں تو اَم سمجھ نہیں سکے لیکن جب علم ہوا تو اُس کی بینائی متاثر ہو چکی تھی ___ اور اَب وہ اندھی ہے، چٹ اندھی ___‘‘

میرے دھیان میں گہری نیلی آنکھیں گھوم گئیں جن میں متانت کے ساتھ ایک یقین بھی تھا۔ میرے لیے مزید وہاں ٹھہرنا مشکل ہو گیا تھا، خود خائستہ خان کی حالت بھی ناقابلِ بیاں ہو چکی تھی۔ میں نے پیغام بھجوایا کہ ہم ابھی واپس جائیں گے۔ کچھ ہی دیر میں سبھی باہر آ گئے، جو خوشی شادی والے گھر آ کر چہروں سے چھلکتی ہے، وہ کسی بھی چہرے سے عیاں نہیں تھی۔ اُس کی بجائے ایک تکلیف دہ تأثر تھا جو مجھے مزید پریشان کر گیا ____ نکلتے وقت میرے دل میں خیال آیا ایک نظر گل اندام کو دیکھ لوں، اندر گیا توجیسے مجھ پر قیامت طاری ہو گئی، زنجیروں میں جکڑا ہوا ایک ڈھانچہ میرے سامنے تھا، جس کی نیلگوں آنکھیں بینائی سے محروم تھیں، جس کے چہرے کی سرخی و سپیدی کالک میں بدل چکی تھی اور جس کی سنجیدہ و متین گفتگو سکوت کے پہاڑ تلے آ چکی تھی، وہ گل اندام کہیں بھی نہیں تھی، جسے بہو بنانے کا میں نے فیصلہ کیا تھا۔ میں نے ایک موہوم تمنا کو سہارا کر کے اُس کا نام پکارا:

’’گل اندام ___ او گل اندام! میں ہوں تمھارا ملک کاکا ___‘‘

لیکن وہاں پتھر کی ایک مورت موت کا انتظار کر رہی تھی ___!

٭

[ماہنامہ ’’بیاض‘‘ لاہور، اکتوبر ۲۰۱۸ء]

٭٭٭









چینجک



آسمان پر چودھویں کا چاند چمکتے ہوئے تھال کی طرح دھَرا تھا، اُس کے اطراف میں چمکیلے ستارے گویا چھوٹے چھوٹے پیالے تھے۔ اُس نے سوچا پورا آسمان دسترخوان ہے، جس پر طرح طرح کے کھانے سجے ہیں۔ چٹ پٹے، مرغن، شیریں اور رسیلے۔ پھر اُس نے شکر اور آٹے سے بنا ہوا گھریلو پکوان نکالا اور خوشی خوشی کھانے لگا۔ اُس کی بوڑھی دادی شکر اور دیسی گھی سے نت نئی چیزیں بناتی رہتی تھی ___ لیکن اُس کی مرغوب غذا چُوری اور شکر کا دلیہ تھی۔ بچے کھلے کھیتوں میں چورسپاہی کھیل رہے تھے، وہ بھی مختلف کھیلوں میں شامل رہا کرتا تھا ___ کبھی پٹھو گرم ___ کبھی چھپن چھپائی ___ کبھی گروڑا چھپاکی _ _ _ _ کبھی رسی تَرَپ ___ کبھی کوکلے ___ کبھی گُلی ڈنڈا ___ کبھی گیٹی چھُپان _ _ ___ _ _ کبھی چینجک ___ کبھی پَریاں ___ لیکن اب اُس کی طبیعت میں عجب سا اضمحلال تھا۔ بچے کھیل میں مصروف تھے اور وہ کواکب کی انجمن میں انتہائی چمکتے ماہتاب کو دیکھتا جاتا اور بے دھیانی میں پکوان کھاتا جاتا۔

جن دنوں وہ پیدا ہوا تھا، گھر بھر میں خوشی کی کئی موجیں ایک ساتھ اُٹھی تھیں ___ ددھیال اور ننھیال میں یکساں خوشی منائی گئی، یہ اہتمام اس لیے بھی تھا کہ وہ چھے بہنوں کے بعد پیدا ہوا تھا۔ قسمت کی کرنی یہ ہوئی کہ اُسے کسی اَن دیکھی بیماری نے آ لیا۔ جس رفتار سے بچے بڑھتے ہیں، وہ نہیں بڑھ رہا تھا ___ والدین کو فکر ہوئی ___ آس پاس کی بڑی بوڑھیوں کو دکھایا ___ حکیم صاحب کے پاس لے گئے اور پھر قصبے کے واحد کمپوڈر نے بھی معائنہ کر لیا، جسے لوگ ڈاکٹر کہتے تھے ___ جب بات کہیں نہ بنی تو مزاروں اور پیروں کے پاس لے گئے ___ کسی نے کہاسایہ ہے ___ کوئی کہتا بد روح چمٹ گئی ہے ___ غرض جتنے منھ اُتنی باتیں، پھر کالے بکروں کا صدقہ بھی ہو گیا اور سات جمعرات تک پیر بابا کو دیسی مرغ بھی پہنچائے گئے لیکن اُس کی طبیعت میں فرق نہ آیا۔ اُس کی رنگت جیسے پیلا خربوزہ ___ چہرے کی ہڈیاں بُری طرح نمایاں اور گالوں پر برائے نام گوشت ___ پشت کی جانب ریڑھ کی ہڈی اس قدر اُبھری ہوئی کہ باقاعدہ کبڑا دکھائی دیتا تھا ___ شروع شروع میں تو بچے اُسے چھیڑتے رہتے، کچھ ایسے بھی تھے جو اُسے ستا کر لطف اُٹھاتے لیکن رفتہ رفتہ اُس کے مزاج کی مٹھاس اور نرم خوئی کے باعث اُس سے ہمدردی کرنے لگے ___

وہ منھ اندھیرے کھانستا ہوا اپنے گھر سے باہر آتا اور نہایت آہستہ قدموں کے ساتھ کیچڑ والی گلی سے نکل کر قبرستان سے ہوتا ہوا واپس گھر آ جاتا۔ دادی کے ہاتھ کا بنا ہوا ناشتا کرتا، پھر ہاتھ میں میٹھی روٹی دبائے اپنے گھر کے باہر گلی میں آ کر بیٹھ جاتا ___ جب تک اُس کا جی نہیں اُکتا جاتا تھا، وہیں بیٹھا رہتا ___ مکھیاں اُسے ہر وقت گھیرے رکھتیں ___ اُس کے پیلے جسم اور سیاہ ہونٹوں کو مکھیوں سے کوئی اُلجھن نہ ہوتی ___ یوں محسوس ہوتا تھا، جیسے اُسے اس مخلوق سے کسی قسم کی کراہت ہی نہیں ___ یا پھر ایک خاموش معاہدے کے تحت اُس نے مکھیوں کا حق تسلیم کر لیا تھا، جو اُس کے پکوان اور چہرے کو برابر چاٹتی رہتیں۔ جب تک دوسرے بچے نہیں آ جاتے تھے، وہ اسی طرح مکھیوں کی بھنبھناہٹ میں بیٹھا رہتا ___ بچوں کے آنے پر کھیل میں شریک ہو جاتا۔

ایک اور بات اُس کی طبیعت میں سرایت کر چکی تھی، اُسے لڑکیوں کے ساتھ کھیلنا بہت اچھا لگتا تھا ___ وہ اُن کے ساتھ گیٹی چھُپان کھیلتا ___ رَسی تَرَپ میں حصہ لیتا ___ چینجک تو اس شوق سے کھیلتا کہ عموماً اپنا سانس تڑوا بیٹھتا، نڈھال ہوتا پھر بھی اس کھیل سے اُس کا جی سیر نہ ہوتا، اُس سے دو سال بڑی بہن چاندی بھی اس کھیل میں طاق تھی ___ اگر کوئی اور نہیں بھی ہوتا تو یہ دونوں بہن بھائی سارا سارا دن ایک پاؤں اُٹھا کر دوسرے کی ٹھوکر سے ٹھیکری کو ایک چوکور خانے سے دوسرے، تیسرے اور چوتھے میں دھکیلتے رہتے ___ ہانپتے، کانپتے، ہنستے ہنساتے ___ اور کبھی کبھار لڑتے بھڑتے۔

امام زادوں کے دنوں میں جب ہر طرف اُداسی چھائی رہتی اور محرم کے پہلے دس دن بستی کے ہر گھر میں کھیر پکتی تو مٹی کی ڈولیوں اور ٹھوٹھیوں میں کھیر بھر کر بچوں کو پکارا جاتا ___ بچے دیوانہ وار بھاگتے اور اپنے حصے میں آنے والی ڈولی یا ٹھوٹھی لے لیتے ___ خود بچے بھی اُن دنوں مسلسل یہ نعرہ لگاتے:

’’اَن بھی دو ___ من بھی دو ___ ڈولیاں ٹھوٹیاں بھَن بھی دو ___‘‘

اُس کا تو جیسے حصہ مقرر تھا ___ اس لیے وہ بھاگنے کی بجائے آرام سے جایا کرتا ___ سب جانتے تھے کہ وہ بیمار ہے، اگر اُسے کھیر نہ ملی تو ناراض ہو جائے گا ___ کھیر کے ساتھ ساتھ اُس کی ایک فرمائش ٹھوٹھی بھی تھی ___ اگر کہیں اُس کے حصے میں ڈولی رہ جاتی تو وہ اُداس ہونے لگتا، اس لیے کہ ڈولی سے اچھی چینجک نہیں بنتی تھی، اس کے برعکس ٹھوٹھی کے کنارے بھور کر آسانی سے چینجک بنائی جا سکتی تھی ___ ایسے میں وہ دو ڈولیوں کے بدلے میں ایک ٹھوٹھی بھی لینے پر آمادہ رہتا ___ ٹھوٹھی کو اپنی دیوار کے ساتھ رگڑ رگڑ کر گول بناتا اور پھر تھوڑی تھوڑی دیر بعد زبان سے چاٹ کر اپنی قمیص کے دامن سے صاف کرتا، جب تک اُسے تسلی نہ ہو جاتی یہ عمل جاری رکھتا۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ ٹھیکریاں چاٹنے کی عادت کی وجہ سے اس کا معدہ مستقل خراب ہو گیا ہے، اِس لیے بیماری اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ گھر والے منع کرتے، بہن بھی سمجھاتی رہتی لیکن وہ ایک ہی بات کہتا:

’’کھردری ٹھیکری سے پاؤں زخمی ہو جاتے ہیں، اسے گھڑ گھڑ کے اتنا صاف کر دینا چاہیے کہ ایک ٹھڈا پڑنے سے چوتھے خانے تک پہنچ جائے، کھردری ٹھیکری پردُرست ٹھوکر نہیں پڑتی۔‘‘

بیماری کے باعث اُس کا قد بھی ایک ہی جگہ رُک گیا تھا ___ اُس کی عمر کے لڑکے چار فٹ تک پہنچ چکے تھے اور وہ اڑھائی فٹ سے کسی بھی طرح اُونچا ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ ماں تو اُس کے بعد پیدا ہونے والی بہن کے ساتھ ہی مر گئی تھی، باپ عراق میں میسن کا کام کرتا تھا، دادا اُس کی پیدائش سے پہلے مر چکا تھا ___ گھر میں ایک بوڑھی دادی اور چھے بہنیں تھیں، جن میں سے کوئی بھی ایسا نہیں تھا، جو اُسے بڑے شہر لے جاتا ___ باپ جب پلٹا تو یہ چودہ سال کی عمر کو پہنچ چکا تھا ___ اُسے فکر تو تھی لیکن پردیس میں بے بس تھا۔ اب وہ چاہتا تھا بیٹے کا ہر صورت میں علاج کروائے ___ پھر وہ اُسے ایک سے دوسرے ہسپتال لے کر بھی گیا ___ ہزاروں روپے بھی گُل کیے مگر بے سود۔ آخر ایک بڑے ڈاکٹر نے انکشاف کیا:

’’اس کے دل میں پانچ روپے کے سکے جتنا سوراخ ہے ___ جس کا بھرنا ممکن نہیں ___ بس جب تک اس کی زندگی ہے، اسے خوش رکھنے کی کوشش کی جائے ___ اچھے اچھے کھانے کھلائے جائیں اور جس قدر ممکن ہو گرد سے بچایا جائے۔‘‘

ڈاکٹروں کی اپنی منطق ہوا کرتی ہے، بھلا ہر وقت گرد اُٹھتے دیہات میں دھول سے کیسے بچا جائے ___؟ جہاں گھروں میں ہر طرف گوبر کے ڈھیر ہوں، جہاں گلیوں میں ہر وقت گندہ پانی پھیلا رہے، جہاں بچوں کے محبوب کھیل ہی گرد آلود مٹی سے جڑے ہوں، وہاں صاف رہنا کس طور ممکن ہوتا ہے ___؟ پھر اُس کی توکُل کائنات ہی چینجک تھی، گرد میں کھیلی جانے والی چینجک۔

بہت سال بعد جب اُس کی عمر کے نوجوان شادیاں کر چکے تھے، خود اُس کی اپنی ساری بہنیں رشتوں میں بندھ کر اپنے اپنے گھروں کی ہو گئی تھیں، تب بھی اُس کے ہاتھ میں ایک گھڑی ہوئی نہایت چمکیلی چینجک ہوا کرتی تھی، جسے وہ ریشمی کپڑے میں لپیٹے رکھتا۔ اَب اُس کے ساتھ کوئی بھی چنیجک کھیلنے والا نہیں تھا ___ کبھی کبھاراُس کے بچپن کا دوست کاشی، جو اَب دو بچوں کا باپ تھا، اُس کے پاس آ کر ٹھہر جاتا اور خوش دلی سے کہتا:

’’میرے بیٹے بڑے ہو جائیں تو ضرور تمھارے ساتھ چینجک کھیلیں گے ___ ___تم انتظار کرنا ___ ہاں ___!‘‘

وہ اُس کی جانب مسکرا کر دیکھتا اور ٹھیکری کو زیادہ مضبوطی کے ساتھ اپنے سینے سے لگا لیتا ___ گویا دل کا سوراخ اسی سے بند ہو سکتا ہو۔ تب وہ اُسے چھیڑتے ہوئے کہتا:

’’تعظیم کی ہے ناں ___! میں جانتا ہوں تم اُس کے ساتھ اندھیری راتوں میں شوق سے گیٹی چھپان کھیلا کرتے تھے اور ہمارے آنے پر دونوں غائب غلہ ہو جاتے۔‘‘

اس جملے پر بھی اُس کا عمل نہ بدلتا ___ تعظیم اُسی کی گلی میں رہنے والی شمسو آپا کی بیٹی تھی ___ جب دونوں بچپن میں تھے، تو شوق سے ایک ساتھ کھیلا کرتے تھے، اُس کی بہن اگر کسی دن نہیں ہوتی تھی تو پھر تعظیم اُس کی جگہ لے لیتی ___ وہ اُن لڑکیوں میں سے ایک تھی، جو امام زادوں میں ملنے والی ٹھوٹھیاں اُسے مفت دے دیا کرتیں، جنھیں رگڑ رگڑ کو وہ چینجک بنایا کرتا تھا۔ اُس کے پاس ٹھیکریوں کا نہ ختم ہونے والا ڈھیر جمع تھا۔ عموماً لڑکے لڑکیاں اُس سے چینجک مانگتے ہی رہتے اور وہ بھی غیر مشروط طور پر ہر ایک کو کھیلنے کے لیے دے دیتا تھا، کھیل کے خاتمے پر ٹھیکری واپس لے کر اُسے زبان سے چاٹ چاٹ کے صاف کرتا اور پھر جیب میں ڈال کر گھر لے جاتا ___

اُس رات وہ بہت بے چین تھا ___ کچھ دیر پہلے پورا چاند جو اُسے ایک تھال معلوم ہوتا تھا، اَب اچانک چینجک کی شکل میں ڈھلتا ہوا دکھائی دیا۔ اُسے لگا جیسے چاند اُس کی چینجک ہے اور بچوں نے کھیلنے کے لیے مانگ رکھا ہے ___ وہ بے دردی کے ساتھ اُس سے کھیل رہے ہیں، تب اچانک کسی نے غلط ٹھوکر لگائی اور چاند دو ٹکڑے ہو گیا ___ چاند کے ٹوٹنے سے ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا چھا گیا۔ اس احساس نے اُسے تڑپا کے رکھ دیا ___ اُس نے جلدی سے اپنی جیب ٹٹولی تو اُس کی چینجک اُس کی جیب میں سلامت تھی۔ نہیں معلوم وہ کتنی دیر وہاں موجود رہا، کھیلتے بچے کب وہاں سے گئے ___؟ اُسے تو تب احساس ہوا، جب اُس کی بوڑھی دادی ڈھونڈتے ہوئے وہاں تک چلی آئی ___

’’اوئے کملے! ___ اوئے! کیوں مجھے تڑپاتا رہتا ہے ___؟ آ جایا کرخود ___ میری بوڑھی ہڈیاں تمھیں کہاں تک ڈھونڈیں؟ ___ اوئے کملے ___!‘‘

وہ رات اُس پر بہت بھاری تھی ___ صحن میں بان کی کھری چارپائی پرکھ در کی ہلکی سی چادر ڈالے وہ سیدھے منھ یوں پڑا تھا، جیسے اُس میں روح باقی نہ رہی ہو ___ اُس کے دھیان میں بچپن رقص کناں تھا ___ جہاں وہ اپنی عمر کے لڑکے لڑکیوں کے ساتھ کھیلا کرتا تھا ___ اُسے ایک ایک لمس یاد آیا ___ اُس کی آنکھیں آسمان پر جمی ہوئی تھیں ___ تب اُسے لگا جیسے بکھرے ہوئے ستارے پٹھو گرم کی ٹھیکریاں ہیں، جنھیں گیند مار کر گرا دیا گیا ہے اور وہ اُنھیں اکٹھا کرنے میں مگن ہے ___ کبھی اُسے لگتا کہ اُس کے ہمجولی چاند کی ٹھیکری سے کھیل رہے ہیں ___ اُس کی آنکھوں میں کئی صورتیں گھوم گئیں ___ کون کون تھی، جو اُس سے چینجک بنوایا کرتی تھی ___ اور کون کون تھا، جو اُسے دو ڈولیوں کے بدلے میں ایک ٹھوٹھی دیا کرتا ___ بہت سے لوگ اُسے یاد آئے ___ آنسوؤں کی لڑیاں اُس کی آنکھوں سے نکل کر کانوں کو بھگوتے ہوئے گردن پر پھیل چکی تھیں ___ پھر رفتہ رفتہ اُس کے تکیے میں جذب ہونے لگیں ___ اُسے یوں محسوس ہوتا تھا، جیسے اُس کا بچپن اُسے بلا رہا ہو مگر وہ کسی کالی پری کی قید میں تھا، جس کی کانٹے دار بانہیں اُس کی گردن سے لپٹی ہوئی تھیں ___ وہ اسی احساس میں تڑپتا رہا ___ نہیں معلوم کب اُس کی آنکھ لگی، البتہ جب صبح اُٹھا تو اُس کی چینجک پوری تازگی کے ساتھ اُس کے سینے پر پڑی تھی، جیسے دل کا سوراخ بھر دیا ہو۔

آج بھی دادی نے اُس کے لیے دیسی گھی کی چُوری بنائی تھی ___ ابھی اُس نے ایک ہی لقمہ لیا تھا کہ چھوٹی بہن کے سسرالیوں میں سے کسی نے آ کر اطلاع دی کہ اُس کے بچہ ہونے والا ہے ___ دادی پوتا ناشتا وہیں چھوڑ کر تیز قدموں سے بہن کے گھر پہنچ گئے ___ چینجک اُس کے ہاتھ میں تھی اور وہ خوشی سے چہکتا جا رہا تھا۔ اُس کے دھیان میں بالکل اپنی بہن کی ہم صورت ایک گڑیا آئی، جس کے ساتھ وہ چینجک کھیل رہا تھا ___ تب اچانک گھر میں رونے چیخنے کا شور بلند ہوا ___ وہ اپنے خیالوں سے نکل آیا، اُس کی بہن مریل سا بچہ جننے کے بعد خود بھی مر چکی تھی ___ وہ بہن سے لپٹ لپٹ کر رونے لگا ___ پھر کئی دردناک چیخیں بلند ہو کر اُس کے ہونٹوں سے جدا ہوئیں ___ وہ بار بار یہی کہتا جا رہا تھا:

’’چاندی ___! دیکھو، تمھاری چینجک ___ ہم دونوں اس سے کھیلا کرتے تھے ___ یاد ہے تمھیں ___؟ بولو ناں‘‘

جب مولوی صاحب جنازہ پڑھا رہے تھے تو اُن کے سامنے تین لاشے پڑے تھے۔

٭٭٭







روشنی



کوٹھی کے دالان میں زمردیں گھاس پر شبنمی قطرے ہلکی ہلکی ہوا میں رقص کناں تھے۔ وجہی حسبِ معمول ننگے پاؤں ٹھنڈی گھاس کا لمس اپنے وجود میں اُتار رہا تھا۔ ابھی سورج پوری طرح بلند نہیں ہوا تھا۔ مشرق کی طرف سے اُٹھنے والی لالی کوٹھی کے چھت پر پھیلے ہوئے سفید جنگلے کو اپنے رنگ میں رنگ رہی تھی۔ آم کے بے ثمر پیڑ پر سے کوؤں اور چڑیوں کی آوازیں اُٹھ رہی تھیں۔ چیکو کے درخت کی جھکی ہوئی ٹہنیوں کے کناروں سے اوس قطرہ قطرہ ہو کر سبز گھاس پر ٹپک رہی تھی۔ ہوا سے گر جانے والے پیلے پتے بھی اپنی موجودگی کا احساس دلا رہے تھے ___ نومبر کی اس صبح کو خنکی نے پوری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا مگر موسم گئے برس کی طرح سرد نہیں ہوا تھا۔ پچھلے سال تو ان دنوں میں غضب کی سردی پڑی تھی۔ وجہی بانسی ساختہ دائروی کرسی کو گھسیٹتے ہوئے باہر لے آیا تھا۔ اُس کے ایک ہاتھ میں باجرے کی تھیلی تھی اور دوسرے میں پیتل کی تھالی ___ دایاں ہاتھ تھیلی میں ڈال کر اُس نے ایک خاص ادا سے باجرا نکال کر تھالی میں ڈالا، دوسری اور تیسری بار بھی یہی عمل دُہرا چکا تو تھیلی کو وہیں گھاس پر ایک طرف رکھ کر اُٹھ کھڑا ہوا۔ تھالی ہاتھ میں لیے وہ چیکو کے درخت کی جانب بڑھا۔ چیکو کی ٹہنی سے بندھی ہوئی طشتری میں اُس نے باجرہ ڈالا اور واپس آ کر اپنی جگہ پر بیٹھ گیا ___ بیرونی دروازے کے اُوپر سے ہا کر اخبار پھینک کر اگلی منزل کی جانب بڑھ چکا تھا۔ وجہی کے وجود میں ایک بار پھر حرکت پیدا ہوئی۔ اخبار اُٹھا لانے کے بعد اُس نے تیزی کے ساتھ اخبار دونوں ہاتھوں میں پھیلا کر نظریں دوڑانا شروع کیں ___ اچانک اُسے اپنی تصویر نظر آ گئی۔ گزشتہ روز اُس نے این جی او کے تعاون سے چلنے والے ایک اسکول کو بلیک بورڈ زاور ڈیسک عطیہ کیے تھے اور دو بہترین طالب علموں کے ایک سال کے اخراجات اور وظیفے کا ذمہ لیا تھا۔ دوسرے صفحے پر ایک رپورٹ کی سُرخی میں اس کا نام موجود تھا۔ اخبار نے چوکھٹے میں اس کا بیان چھاپا تھا ___ یہ گزشتہ سہ پہر کو ٹیکنیکل کالج میں ہونے والی تقریب میں اس کے خطاب کی رپورٹ تھی۔

وجہی نے اخبار ایک طرف زمین پر ڈالتے ہوئے اپنے دونوں بازوؤں کو ایسے پھیلایا جیسے آسمانوں کی وسعت کو سمیٹ رہا ہو۔ پھر انتہائی پھر تی سے اپنی نشست سے اُٹھ کر ورزش کے انداز میں اپنے بازوؤں کو زور زورسے گھمانے لگا۔ چند منٹ کی اس مشق کے بعد وہ کوٹھی کے اندر چلا گیا ___ غیر ملکی برتنوں سے آراستہ باورچی خانے میں داخل ہوا، گیس کے چولھے کو دیا سلائی دکھائی اور نل سے کیتلی میں پانی بھرنے کے بعد اُسے چولھے پر چڑھا دیا۔ اعلیٰ قسم کی کافی تیاری کرنے کے بعد بڑے پیندے کے پیالے میں ڈالی اور پھر باہر دالان میں چلا آیا ___

یہ ہو وجہی کے روز کا معمول تھا، ٹھیک نو بجے تیار ہو کر وہ دفتر چلا جاتا۔ اُس نے یہ کوٹھی شہر کے ایک کونے میں بڑی چاہ سے بنائی تھی مگر اسے گھر بننا کبھی نصیب نہ ہوا۔ پندرہ سال پہلے اُس کی شادی اُس کی چچا زاد کے ساتھ دھوم دھام سے ہوئی تھی۔ والدین کی اکلوتی اولاد ہونے کے ناطے سے ہر رسم نبھائی گئی۔ دُور نزدیک کے سبھی رشتے دار اور کاروباری دوست شادی میں شریک ہوئے تھے۔ شادی کو ایک برس بیتا، دو، چار اور پھر دس ___ پندرہ برس بیت گئے مگر وجہی کا آنگن بنجر ہی رہا۔ صحراؤں میں برسنے والی بارشیں اپنا ثبوت مٹاتی رہیں۔ اسی عرصہ میں والد دُنیا سے اُٹھ گیا اور ماں کی تمام امیدیں بھی توڑ چکی تھیں۔ ڈھکے چھپے لفظوں میں کئی بار ماں نے دوسری شادی کا کہا بھی تو وجہی نے ہنس کے ٹال دیا ___ باپ کے مرنے کے بعد ساری ذمہ داریاں وجہی کے سر پر آ پڑی تھیں۔ وہ کاروبار میں یوں اُلجھا کہ بیوی کو پڑھی ہوئی کتاب کی طرح شیلف میں رکھ کر بھول گیا، البتہ کتاب سے گرد جھاڑنے کے لیے کبھی کبھار گھر سے ہو ہی آتا۔ وہ شہر کی کوٹھی میں تنہا رہتا تھا ___ بالکل تنہا۔ خانساماں کھانا تیار کر کے برف خانے میں رکھ جاتا اور پھر صبح اُس کے دفتر جانے سے پہلے آ جاتا۔ ایک بے زبان چوکیدار تھا۔ مالی اور خاکروب اُس کے چلے جانے کے بعد آتے اور اُس کے آنے سے پہلے پلٹ جاتے۔ البتہ ہفتے میں دو ایک مرتبہ کوٹھی میں کوئی تقریب ضرور برپا ہوتی، جس میں اُس کے قریب ترین معتمد اور ساتھی شریک ہوتے اور کبھی کبھار کوئی نیا بھی آ جاتا۔

لوگوں کا کہنا تھا کہ بے اولادی نے اُس کے دل پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ وہ شہر کے اسکولوں اور کالجوں میں خود جاتا اور وہاں سے طالب علموں کا انتخاب کر کے اُن کے اخراجات اپنے ذمے لیتا۔ اُن اداروں کی ضروریات کا خیال رکھتا۔ کبھی ٹھنڈے پانی کی مشین نصب کروا دیتا، کبھی ڈیسک، کبھی کھیلوں کا سامان، کبھی غریب طالب علموں کا یونی فارم ___ یہ سلسلہ کم و بیش ہر دوسرے ادارے کو اپنے اندر لیے ہوئے تھا۔ بیش تر ملکی اور غیر ملکی این جی اوز کے سر کردہ افراد اُس سے رابطے میں رہتے۔ اُس کے مشوروں کو اہمیت دیتے۔ جن منصوبوں کو وہ اولیت دیتا، بلا جھجک وہ لوگ اُس کی ہاں میں ہاں ملا دیتے۔ شہر کے نام وَر صحافی، سیاست دان، افسران، تاجر اور اساتذہ بھی اس کے دفتر آتے اور تبادلۂ خیالات کر کے فیض یاب ہوتے۔

سلسلۂ روز و شب اسی انداز سے آگے بڑھتا جا رہا تھا ___ کبھی کبھی اُسے مشورہ دیا جاتا کہ وہ اپنے فلاحی کاموں کو لڑکیوں کے تعلیمی اداروں اور ووکیشنل سنٹروں تک بڑھائے۔ وہ ایسے مشوروں کو توجہ سے سنتا اور پھر کہتا:

’’اچھے وقت کا انتظار کیجیے، میں کچھ سوچتا ہوں۔‘‘

اس کے وظیفہ خوار نوجوانوں کو اُس کے دفتر میں بلاک روک ٹوک آنے کی اجازت تھی۔ وہ کسی بھی وقت اپنی ضرورت کے لیے یہاں آ سکتے تھے، کسی بھی وقت فون کر سکتے تھے، کسی بھی دوسرے نوجوان کو لا سکتے تھے۔ دفتر کے ملازمین کو سختی سے ہدایت تھی کہ وہ روشنی بانٹنے کے اس عمل میں سستی کا مظاہرہ نہ کریں۔ جس طالب علم کے لیے جو وظیفہ مقرر ہے، وہ بروقت دیا جائے۔ اس اچھے کام میں دیر اُس کے لیے ناقابلِ برداشت تھی۔

اُس روز کالج کی سالانہ تقریبات کے سلسلے کی آخری کڑی تھی۔ وہ بہ طور مہمانِ خصوصی مدعو تھا۔ اُس نے نئے طلبہ کے لیے وظیفوں کا اعلان کر کے پرانے طالب علموں کو انعامات سے نوازنا تھا۔ وجہی نے اپنے معمولات میں ذرا ردّ و بدل کر کے اُس تاریخ کے لیے خود کو فارغ کر لیا تھا ___ جوں ہی اُس کی گاڑی کالج کے گیٹ سے داخل ہوئی طلبہ نے اُس کے حق میں فلک شگاف نعرے لگائے۔ دو کم سن طالب علموں نے آگے بڑھ کر اُسے استقبالی پھولوں کا گلدستہ پیش کیا۔ وجہی کے ہاتھ شفقت سے اُن کے سروں تک پہنچ گئے تھے۔ اساتذہ نے اُس سے مصافحہ اور معانقہ کیا۔ وہ سفید لٹھے کے لباس میں یوں دِکھ رہا تھا جیسے کوئی فرشتہ آسمان سے اُترا ہو۔ اساتذہ اُسے اپنے بازوؤں کے حلقے میں گھیر کر اسٹیج تک لے گئے ___ اسٹیج پر موجود محکمہ تعلیم کے افسران نے اُٹھ کر اُسے گلے لگایا اور درمیانی نشست پر بیٹھنے کی درخواست کی۔ تقاریر کا سلسلہ شروع ہوا، اسٹیج سیکرٹری نے وجیہ اختر کی علم دوستی اور طلبہ پروری کے جذبے پر روشنی ڈالی اور کالج پر کیے گئے احسانات کا تذکرہ کیا۔ دیگر مقررنین نے بھی اُس کے جذبے کو سراہا۔ وہ سامنے بیٹھے ہوئے طلبہ کے مسرور چہروں کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا رہا۔ اسٹیج سیکرٹری نے انتہائی ادب سے خطاب کے لیے اُسے دعوت دی۔ وہ انتہائی وقار کے ساتھ اپنی نشست سے اُٹھا اور دھیمے انداز میں خطاب شروع کیا۔

ابھی وہ یہی کہہ پایا تھا: ’’میرے قابلِ فخر بچو!‘‘ اساتذہ اسٹیج کی طرف لپکے۔ وجہی پر پنڈال میں سے کسی نے کانچ کی ٹوٹی ہوئی بوتل پھینکی تھی۔ اُس کے داہنے رُخسار سے لہو کا چشمہ پھوٹ بہا تھا۔ لٹھے کی سفید قمیص پر خون نے پھول کھلا دیے تھے۔ چند ہی لمحوں میں اُسے ہسپتال پہنچا دیا گیا۔ تقریب درہم برہم ہو گئی۔ حملہ آور کا علم نہ ہو سکا۔ پرنسپل صاحب خود اُس کے ساتھ ہسپتال گئے اور مرہم پٹی تک وہیں رہے۔ پرنسپل نے شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا:

’’جناب! میں نہیں جانتا یہ گھٹیا حرکت کس کی ہے مگر احتجاجاً دو روز تک اپنا ادارہ بند رکھوں گا اور والدین کو کالج بلاؤں گا۔‘‘

وجہی نے نرم لہجے میں کہا:

’’نہیں پروفیسر صاحب! ___ آپ ایسا کچھ نہیں کریں گے۔ میں ٹھیک تو ہوں۔‘‘

’’دیکھیے ناں! بوتل آنکھ سے ٹکرا جاتی تو بینائی ضائع ہو جا سکتی تھی۔‘‘

’’ہاں! مگر ہوئی تو نہیں ___ بس یوں کیجیے کہ یہ بات اخبارات میں نہیں چھپنی چاہیے۔‘‘

’’آپ بے فکر رہیے میں نمائندوں سے کہہ دوں گا۔‘‘

اس واقعے نے وجہی کو محتاط کر دیا تھا۔ اب اُس سے ملنے والوں کو مکمل آزادی نہیں تھی۔ دفتر میں آنے والے طلبہ سے کہہ دیا گیا تھا جو بھی بات ہو فون پر کر لیا کریں اور وظیفے کے حصول کے لیے شعبہ حسابات کے سربراہ سے رابطہ کیا جائے۔ اس برس اُس نے کسی دوسرے ادارے کی تقریب میں شرکت نہ کی۔

اگلے برس کا اپریل اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا تھا۔ کوٹھی کے وسیع صحن کے وسط میں فرشی نشست پر گاؤ تکیے اہتمام سے رکھے گئے تھے اور اُن سے پشت ٹکائے ہوئے چند افراد پورے انہماک سے مقامی گلوکار کی آواز میں مشہور غزل خواں کی گائی ہوئی غزل:

غم سے ہوں بے نیاز پیتا ہوں

ہے کچھ ایسا ہی راز پیتا ہوں

لوگ پانی مِلا کے پیتے ہیں

میں تو نظریں مِلا کے پیتا ہوں

سن رہے تھے۔ سامعین میں وجہی بھی شامل تھا۔ تمام لوگوں کے ہاتھوں میں بغیر سوڈا مِلی شراب کے گلاس موجود تھے، البتہ برف کی چھوٹی چھوٹی قاشیں گلاسوں میں ضرور موجود تھیں۔ گانے کی محفل ختم ہو چکی تھی مگر دور جام چل رہا تھا ___ کم ظرف لڑکھڑا کر گر چکے تھے۔ اسی اثنا میں کوٹھی میں ایک گاڑی داخل ہوئی۔ وجہی کے خاص آدمی کے ساتھ ایک اور شخص گاڑی سے اُترا۔ وجہی نے دونوں کو گھورا، پھر ہاتھ کے اشارے سے اندر جانے کو کہا ___ وہ دونوں اندر چلے گئے۔ وجہی بھی نشے میں دھُت لوگوں کو وہیں چھوڑ کر اندر چلا آیا۔ خاص آدمی نے کہا:

’’یہ صہیب ہے، اس کے تعلیمی اخراجات اپنے ذمہ لینے کا آپ نے اعلان کیا تھا۔‘‘

’’او ___ ہاں ___ تم جاؤ۔‘‘

خاص آدمی باہر نکل جاتا ہے۔ وجہی نوجوان کو ہاتھ سے پکڑ کر ایک کمرے میں لے جاتا ہے، پھر کوٹھی کو روشن کرنے والے تمام قمقمے گُل ہو جاتے ہیں۔

٭

[حدیثِ دیگراں، مرتب سید نصرت بخاری، ۲۰۰۸ء]

٭٭٭









تابوت



ولوہنا* اصل میں شیطان کی شادی کا اظہار ہوتا ہے۔ ہواؤں کے اس چکر میں شیطان کے چیلے اور گماشتے رقص کرتے ہیں، انسانی بستیوں کی جانب اُن کا رُخ در اصل یہ ثابت کرنے کے لیے ہوتا ہے، کہ اُن کی سطوت اور شاہی قائم ہے۔ اس لیے ضروری ہے، جب بھی ولوہنا آئے اس میں کھڑے ہو کر پیشاب کیا جائے، شیطان کے منھ پر خود بہ خود پیشاب پڑنے سے اُس کی رذیل خواہش دَم توڑ جاتی ہے۔ چاچا تنویر نے اپنے گرد پھیلے ہوئے بچوں کے ایک گروہ کو اپنی علمیت کے گنج ہائے گراں مایہ میں سے ایک تحفہ دیا۔ دیہات میں اس طرح کی باتوں کا ہونا، کیا جانا، مان لینا اور برتنا کوئی انہونی نہیں۔ یہ تو معمولی بات تھی، چاچا تنویر اس سے کہیں زیادہ علمی شوشے چھوڑا کرتا تھا۔ لڑکے بالے اُس کی باتوں کو بعض اوقات بے چون وچرا تسلیم کر لیتے اور کبھی سوال بھی داغ دیتے۔ تبھی ایک بچے نے سوال کیا:

’’چاچا! کعبے کے اندر شیطان کیوں ہوتا ہے؟ حالاں کہ مولوی صاحب کہتے ہیں شیطان مسجد سے بھاگ جاتا ہے، کعبہ بھی تو بڑی مسجد ہے، وہاں شیطان کیسے آ گیا ___؟‘‘

’’جیرے! بات یہ ہے، وہاں شیطان کو مارا جاتا ہے، اللہ نے اُسے عبرت کا نشان بنانے کے لیے کعبے کے اندر باندھ دیا ہے، تاکہ جو بھی حج یا عمرہ کرنے کے لیے جائے، وہ شیطان سے انتقام لے سکے۔ شیطان ہمارا کھلا دشمن جو ہوا۔‘‘

’’چاچا! لیکن ولوہنے میں تو شیطان نظر نہیں آتا ___ نہ شطنگڑے ___ نہ ڈھول، نہ ونجلی ___ نہ بتاشے ___ تو یہ کیسی شادی ہوئی ___؟‘‘

’’بازی پُتر! خدا بھی تو ہمیں دکھائی نہیں دیتا لیکن وہ موجود ہے اور ہم اُس پر ایمان رکھتے ہیں، اسی طرح شیطان بھی ہر وقت ہمارے ساتھ ہوتا ہے، میں اگر یوں کہوں کہ وہ بھی ہمارے خون میں تیرتا ہے تو کچھ غلط بات نہ ہو گی۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ہمیں وہ ہر بات میں کیوں بہکاتا؟ کیوں ہم غلط کام کرتے ___؟ کیوں تم لوگ میرے کھیتوں سے چھلیاں توڑتے ___؟ کیوں میرے پیڑوں کو پتھر مار مار کر زخمی کرتے؟ یہ سارے شیطانی کام ہیں، جو وہ تم سے کرواتا ہے۔‘‘

’’لیکن چاچا! یہ سب تو ہم اپنی خواہش اور خوشی سے کرتے ہیں ___ ہم خود کھاتے ہیں ___ شیطان کو تو نہیں دیتے، اُسے کیا فائدہ ہوتا ہے ___؟‘‘

’’اچھا ___ جاؤ ___ فوراً جاؤ ___ ولوہنا قریب آیا ہے۔‘‘

بچے بھاگم بھاگ ہوا کے چکر میں پہنچ، شلوار نیچے کر، پیشاب کرنے لگتے۔ گھومتی ہواؤں میں جونہی پیشاب شامل ہوتا، وہ پلٹ کے اُن کے کپڑوں اور منھ پر پڑ جاتا۔ بچے سمجھتے نا سمجھتے ___ خوش اور خفا ہوتے، واپس آ کر چاچا تنویر کو احوال سناتے۔ وہ جواباً مسکراتا جاتا۔

’’اوئے جیرے! ___ اوئے بازی! سچ بتانا ___ _ پیشاب تمھارے منھ پر پڑا تھا کہ نہیں؟‘‘

’’پڑا تھا چاچا ___‘‘

’’ہاہاہا ___ جو شیطان کا ساتھی ہو گا، اُس کے چہرے پر غلاظت اسی طرح آئے گی۔ اگر تم کسی کا نقصان نہیں کرو گے تو ولوہنے میں سے پیشاب تمھارے چہروں پر نہیں آئے گا۔ آزما لو ___ شرط ہے۔‘‘

چاچا تنویر گھٹے ہوئے جسم کا ایک آسودہ حال شخص تھا ___ خاندانی اعتبار سے بھی علاقے میں اُس کی اچھی خاصی شناخت تھی، پھر زمین جائیداد کا ہونا بھی ایک ایسا مضبوط حوالہ ہے، جواَز خود قبولیت کے راستے بنا دیتا ہے۔ اس کے خاندان کے کچھ لوگ یورپ میں آباد تھے ___ جب سارا گاؤں لیروں اور چیتھڑوں میں زندگی گزارنے پر مجبور تھا، تب یہ گھرانہ ولایتی چیزیں استعمال کرتا تھا۔ ان کے بچوں کے پاس اعلیٰ قسم کے کھلونے دیکھ کر دوسرے بچوں کے منھ میں پانی بھر آتا، کچھ توحسد کے مارے اُن سے دشمنی بھی رکھتے تھے، دل ہی دل میں انھیں برا خیال کرتے اور کبھی کبھی تو کھیلتے وقت جان بوجھ کر اُن کے کھلونے توڑ بھی دیا کرتے۔ ایسے موقعوں پر چاچا تنویر اسی انداز سے بدلہ لیا کرتا ___ کبھی کسی ولوہنے میں پیشاب کرنے کو کہتا ___ کبھی کیکر کے کھردرے اور کانٹے دار درختوں پر چڑھنے کی ترغیب دیتا، کبھی گندے تالاب میں سے مچھلیاں پکڑنے کے لیے اُتار دیتا، کبھی آپس میں کشتی لڑا دیتا۔ ایسے میں وہ ’’اورنج ٹافی‘‘ بھی بانٹتا، تاکہ بچے اُس کی چال سمجھ نہ سکیں۔ البتہ اُس کی بوڑھی ماں اپنے نقصان پر خاموش نہ رہتی۔ جوں ہی پوتے پوتیوں میں سے کسی نے شکایت کی، وہ لکڑی ہاتھ میں پکڑے ہوئے گھر سے باہر آ جاتی، سارا محلہ اُس کی گالیوں، طعنوں اور بد دعاؤں کا نشانہ بنتا۔

اُس دن کاشی کے ساتھ کھیلتے بچوں میں سے کسی نے بیٹری سیل سے چلنے والی ریل کار کی دو بو گیاں توڑ دی تھیں، پھر کیا تھا، اُس کی دادی نکل آئی اور ایک عفریت اُس کے منھ سے بہنے لگا:

’’جسم میں کیڑے پڑیں ___ قولنج ہو ___ بوند بوند کوترسیں ____سور کے جنے ___

سڑکوں پر پیدا ہونے والے ___ کنجر ___ اللہ کرے باہر سے پیٹی آئے۔‘‘

بڑھیا کی گالیوں کو تو کوئی خاطر میں نہ لاتا تھا، البتہ بد دعاؤں سے سبھی ڈرتے۔ آخری بددعا سے تو بچے کیا بڑے بھی لرزنے لگتے تھے۔ مشہور تھا کہ گاؤں کے ایک لڑکے نے بچپن میں اس خاتون کے ساتھ بد تمیزی کی تھی، یہی بد دُعا اس کے منھ سے نکلی۔ لڑکا جوان ہو کر ولایت چلا گیا۔ سب لوگ بھول چکے تھے، اپنی اپنی زندگی میں مست تھے، تب ایک روز گاؤں والوں نے دیکھا کہ اُس لڑکے کی پیٹی ولایت سے آ گئی ___ ایک خوب صورت تابوت جس میں وہ کڑیل جوان بے بس پڑا تھا۔ اگر چہ اُس کی موت ایک کالے انگریز کے ہاتھوں خنجر گھونپنے سے ہوئی تھی، لیکن گاؤں میں یہی مشہور تھا کہ بڑھیا کی بد دعا اُسے چاٹ گئی۔ اس لیے جب بڑھیا غصے میں ہوتی، اُس کا سامنا کوئی نہ کرتا، وہ کچھ دیر اپنے دل کا غبار نکالتی پھر بڑبڑاتے ہوئے اندر چلی جاتی ___ اُس روز بھی ایسا ہی ہوا۔

٭

چاچا تنویر کا سارا خاندان برطانیہ منتقل ہو گیا تھا۔ بڑھیا اپنے پوتے پوتیوں سمیت گوروں کے دیس میں ایسی اُلجھی کہ پلٹ کر خبر نہ لی۔ وہ جو گاؤں کی زندگی کو جنت سے تشبیہ دیا کرتی تھی اور جس کی سب سے بُری اور سخت بددعا باہر سے پیٹی آنا تھی، خود تابوت جیسے کمروں میں رہنے پر مجبور ہو گئی۔ چھوٹے چھوٹے تنگ اور تاریک کمرے، جن کی شکایت وہ گاؤں میں موجود اپنے رشتے داروں سے کیا کرتی تھی، کبھی فون جو کرتی تو رو رو کر نڈھال ہو جاتی۔ گاؤں کا سب کچھ اس کے اپنوں کے ہاتھ آیا تو عدم توجہی کے باعث پہلے باغات اُجڑے، مرغی خانہ آہستہ آہستہ ختم ہو گیا، فش فارم کا بھی صرف تالاب باقی بچا، آٹے کی چکی کے آثار ہی رہے، رہٹ کی چولیں کھسکیں تو ماہل اور چولی بھی زنگ آلود ہو گئیں، رشتے داروں نے زمینوں میں سے ایک ہی فصل پر اکتفا کیا۔ سال کے سال ٹریکٹر کے ذریعے سے گندم کاشت کی جاتی، دانے بک جاتے اور بھوسا وہیں پڑے پڑے گلتاسڑتا رہتا ___ _یا پھر افغان پا وندوں اور کوچیوں کے ہاتھ لگ جاتا۔ گاؤں کے لوگ بھی حصہ بہ قدر جثہ ہاتھ دکھاتے رہتے، اَب مگر نہ کوئی ولوہنے میں پیشاب کر کے شیطان سے بدلہ چکاتا اور نہ ہی گندے تالاب سے مچھلیاں پکڑنے کی روش رہی، کسی کے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ کیکروں کی کھردری چھالوں سے اپنا جسم رگڑتا پھر ے ___ _ پھر چیزوں کی ایسی نایابی بھی نہیں تھی۔ پہلے پہل لوگوں کی دسترس میں جاپان اور اٹلی کی ساختہ اشیا آئیں، بعد میں وسیع پیمانے پر چائنی ساختہ چیزوں نے لوگوں کے ذوقِ جمال کو راحت پہنچائی۔ پھل وافر تھے، سبزیوں سے بازار اَٹے پڑے تھے، ایسے میں کون ایسا ہو گا جو خواہ مخواہ چاچا تنویر کے کھیتوں کی طرف للچاتا ___؟ پھر تیز ترین زندگی میں کون کسی کو یاد رکھتا ہے ___ _؟ سبھی، سب کچھ بھول گئے۔

یہ دسمبر کی بارہ تاریخ تھی، جب گاؤں کے مؤذن نے اعلان کیا: ’’چاچا تنویر کا بیٹا کاشی اور دو بیٹیاں ایک حادثے میں انتقال کر گئے ہیں، کل اُن کی نماز جنازہ ادا کی جائے گی ___ _اس ناگہانی حادثے نے ساری فضا سوگوار کر دی تھی، انگریزی لباس میں یہ خاندان کتنا بھلا معلوم ہوتا تھا لیکن موت کسی لباس، زبان اور مذہب کا لحاظ کب رکھتی ہے ____؟ دوسرے دن تین تابوت قطار میں پڑے

تھے، گاؤں والے دُکھی دل کے ساتھ جنازے میں شریک تھے، میرے ذہن میں بڑھیا کی بددعا کے الفاظ گونج اُٹھے۔

٭

*(whirlwind)

[ ماہنامہ بیاض، لاہور، دسمبر۲۰۱۸ء]

٭٭٭









دشتِ خواب



میں لفظوں کا رَسیا اور خوابوں کا اسیر سنہرے، اودے، سُرخ اور سفید مرمریں خوابوں کو چاندی، روبی اور سونے کے صندوقچوں میں چھپائے صدیوں سے منزل کی جانب گامزن ہوں۔ یہ فاصلہ اربوں کوس کو محیط ہے اور میرے خوابوں کی گٹھریوں میں ہر نئے آنے والے لمحے ایک اور خواب کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ یوں میں اپنے خوابوں کے بوجھ تلے دبتا چلا جاتا ہوں۔ نہ منزل کا سراغ ملتا ہے اور نہ ہی خواب تعبیر آشنا ہوتے ہیں۔

کل میں نے ایک صدی کی جانب پلٹ کر دیکھا تو میری گٹھری میں بہت تھوڑے سے خواب بچے تھے۔ ان سرمئی اور دودھیائی خوابوں میں ایک ایسا خواب بھی تھا، جو میرا اصل ہے۔ لیکن بہت سے دوسرے خواب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کُملا گئے تھے یا پھر وقت کی دبیز تہوں تلے آ گئے۔ شاید ان خوابوں کی جون بدل گئی ہویا پھر یہ اپنی قدر و منزلت کھو چکے ہوں۔ بہ ہر حال ایک فطری رچاؤ اور بہاؤ کی موجودگی میں پرانی چیزوں کی جگہ نئی چیزیں لیتی رہتی ہیں۔ اس کے باوجود میری کُرلاہٹ اور تلملاہٹ کا عالم یہ ہے، کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہتھے سے اُکھڑ جاتا ہوں اور پھر دیر تک اپنی اس آوارہ مزاجی کے باعث حزن آشنا رہتا ہوں۔ غالباً یہ بھی فطری امر ہے، کہ میری جبلت میں سیماب پائی ہے۔ کسی ایک منطقے میں ٹھہر جانا شاید انسان کے شایانِ شان نہیں۔

جی ہاں! میں انسان ہوں ___ اسی لیے مجھے بادل کی گرج، بجلی کی کڑک، روپیوں کی کھنک، ہیرے کی ڈلک، کندن کی دمک، چاندنی کی چمک، بو کی بھبک، پھولوں کی مہک، گھڑی کی ٹک ٹک، عطر کی لپٹ، صراحی کی گٹ گٹ، تاروں کا جھرمٹ، ہوا کی سنسناہٹ، پرندوں کی چہچہاہٹ، گلہری کی چٹ چٹاہٹ، توتے کی رٹ، توپ کی دنادن، ریل کی گھڑ گھڑ، چکی کی گھمر، گھوڑے کی ٹاپ، طبلے کی تھاپ، طنبورے کی آس اور درشن کی پیاس متاثر کرتی ہے۔

میری ذات کے گنبد میں ہمہ دَم شیر کا دھاڑنا، ہاتھی کا چنگھاڑنا، گھوڑے کا ہنہنانا، مکھی کا بھنبھنانا، سانڈ کا ڈکارنا، گائے کا رانبھنا، اونٹ کا بغبغانا، سانپ کا پھونکارنا، جھینگر کا جھنگارنا، مینڈک کا ٹرانا، بندر کا کھگھیانا، کوئل کا کوکنا، اُلو کا ہوکنا اور حسرتوں کا ٹوٹنا یوں گونجتا ہے، جیسے صدیوں سے انھیں شانت نہیں کیا گیا ___ یا پھر میرے خوابوں کی بدلی ہوئی تجسیم نے ان درندوں، پرندوں، چرندوں، کیڑے مکوڑوں، موسموں، رنگوں، شربتوں، آوازوں، صفتوں اور تاثیروں کا ہنر پا لیا ہے۔ آہ! یہ بھی رو میں نے کہا تھا:

سوکھی گھاس پہ بیٹھ کے اک دن … ایک برس کو میں رویا تھا

اور وہ ایک برس کئی صدیوں کو محیط ہے۔

اب چاہتا ہوں میرے لا تعبیر، پُر تقصیر اور پا بہ زنجیر ان خوابوں کو اذنِ رہائی ملے یا پھر کوئی بادشاہِ حجاز، امیرِ قطر، رئیسِ سندھ، نوابِ ہند، شہنشاہِ برطانیہ، صدرِ امریکا یا سورمائے چین انھیں خرید لے۔ ہاں! خرید لے۔ یہ عنبریں، صندلیں، خشمگیں خواب، جو میں نے تتلیوں، پرندوں، پتوں، ہواؤں، خلاؤں، ستاروں اور مہِ تاباں کے رُخِ شرر فشاں پر دیکھے اور سجائے تھے۔ اب میری ذات کے گنبد میں کلبلاتے ہیں، تلملاتے ہیں، سرسراتے ہیں۔ میں ہارا نہیں، میں جھکا نہیں، میں رُکا نہیں مگر اَب تھک گیا ہوں۔ ہاں! تھک گیا ہوں ___!

’’دام کیا لو گے؟‘‘

’’خوب! تم کیا دو گے؟‘‘

’’خود بتاؤ ___‘‘

’’شاہ عبدالعزیز ابن سعود نے ونسٹن چرچل کو جواہرات سے لیس تلوار، چغہ اور خنجر سمیت ہیرے کی جو انگوٹھیاں تحفتاً دیں، وہ لوٹا سکتے ہو؟‘‘

’’نہیں ___‘‘

’’ڈونلڈ ٹرمپ کو اسی شاہ کے خوشہ چینوں نے جو تلواریں، خنجر، چمڑے سے بنی اشیا، کئی پستول خانے، سونے کے تاروں کے کام والے ملبوسات، سکارف، پرفیوم، ریشم، اور فن پارے دیے تھے، وہ پلٹا سکتے ہو؟

’’نہیں ___‘‘

’’صدر اوباما کو دیا گیا گھوڑے کا وہ مجسمہ لوٹادو، جوسعودی بادشاہ نے پیش کیا تھا۔ چاندی سے بنے اس مجسمے پر سونے کا پانی چڑھا ہوا تھا، ہیرے، یاقوت، نیلم اور روبی کے پتھروں سے ڈھکا ہوا یہ گھوڑا تمھیں یاد ہے کیا؟‘‘

’’ہاں ___! لیکن میں لوٹاؤں گا نہیں۔‘‘

’’امیرِ قطر کی جانب سے اوباما کو دی گئی گھڑی دے سکتے ہو؟ جس پر پرندہ بنا ہوا تھا، جو سونے کے لباس سے چمکتی تھی۔‘‘

’’نہیں ___‘‘

’’سعودی شاہ کی جانب سے امریکی صدر کو پیش کی گئی وہ تلوار ہی دے دو، جس کا دستہ سونے اور روبی سے بنا ہوا ہے۔‘‘

’’ہر گز نہیں ___ تحفے لوٹائے جانے کے لیے نہیں ہوتے۔ میں اس کے بدلے میں تمھیں بہت کچھ دے چکا ہوں اور ویسے بھی قیمتی تحائف آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے ہوتے ہیں ___ کیا تمھیں ہماری خوشی عزیز نہیں ___؟‘‘

’’عزیز ہے ___ ہاں بہت عزیز ہے ___ اسی لیے تو تمھاری قربان گاہ سجائے رکھتا ہوں۔‘‘

’’بکواس ___ بکواس ___ تم اپنی ہوس کے قیدی ہو ___ اپنے خوابوں کے غلام ہو____اپنی خواہش کے بندے _ تمھارے بودے نظریات بجائے خود تمھیں قید رکھتے ہیں۔‘‘

’’جھوٹ ___ سراسر جھوٹ ___ بہتان ___‘‘

’’خود فریبی ___ خودکشی ___‘‘

’’اچھا چھوڑو ___ خوابوں کی قیمت لگاؤ۔‘‘

’’وعدہ ___ ہاں ___ ایک اور وعدہ۔‘‘

’’کیسا وعدہ ___؟‘‘

’’تابناک مستقبل دینے کا ___ جہاں ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں ہوں گی۔‘‘

’’فریب ___ دھوکا ___ جھوٹ ___‘‘

’’بکواس بند کرو ___ ورنہ پتھر کے زمانے میں دھکیل دیے جاؤ گے۔‘‘

’’تم میرے خوابوں کے عوض محض دھونس، دھمکی، دھاندلی اور دہشت گردی دے سکتے ہو۔ زہریلی سبزیاں، سیماب اُگلتی چمنیاں، کیمیکل ملا دودھ، بِس سے اَٹا پانی، پانی سے بھرا گوشت یا پھر مجبوری اور مقہوری میں لپٹی ہوئی جمہوریت دے سکتے ہو۔ خوف میں دبکی ہوئی عدلیہ، گرداب میں گھرا ہوا میڈیا، سسکیوں میں سلگتا ہوا شہر یا پھر راہوں میں بھٹکتا ہوا انصاف دے سکتے ہو؟ ہاں! تم یہ دے سکتے ہو۔‘‘

’’خاموش! ___ گستاخ ___ لعین ___ _ میں نے تمھاری پشت مضبوط کی، تمھیں دشمن سے بچایا، احسان فراموش، پاجی، کمینے ___!‘‘

’’ہر گز نہیں ___ تم نے میری لاش پر اپنا قد بلند کیا، اَب میں تیرے لوبھ میں نہیں آؤں گا۔ میں اپنے خواب تمھارے اسلحے اور جہازوں کے عوض نہیں فروخت کروں گا، اَب میں تمھارے دھوکے میں نہیں آؤں گا۔‘‘

’’تم نفس کے چیلے ہو ___ تمھارا مٹنا ضروری ہے ___ تمھاری بنیاد تخریب پر ہے ___ تم شیطان کے گماشتے ہو۔‘‘

’’تم ___ تم ___ تم ___ مولا تمھیں برباد کرے گا۔‘‘

’’برباد بد عمل ہوا کرتے ہیں، وہ تم ہو ہم نہیں ___‘‘

’’میں ہانپتا کانپتا سہی، روتا کُرلاتا سہی، تھکا ماندہ سہی، پس ماندہ سہی۔ ایک شاندار تاریخ کا مالک بھی تو ہوں۔ میرے ناخنوں میں ہزاروں ہنر رقصاں تھے۔ میری انگلیوں کی پوریں کئی منظر بُنا کرتی تھیں۔ میری ہتھیلیوں پر مہتاب اُگا کرتے تھے۔ میری آنکھوں میں تاروں کا چلن ہوتا تھا۔ میرے قدموں میں کوہ و دمن کانپتے تھے۔ میرے جذبوں پہ گگن روتا تھا۔ بس یہ ہے، کہ ذرا تاریخ سے اُکھڑ بیٹھا ہوں۔ اپنے آبا کے ارادوں میں سکڑبیٹھا ہوں۔‘‘

’’خود ستائی ___ خود نمائی ___ اسی نے تمھیں برباد کیا ___‘‘

’’جھوٹ ___ تم ہماری تاریخ پر جلتے ہو ___‘‘

’’حال کی بات کرو ___ خواب کیوں بیچنا چاہتے ہو؟‘‘

’’نئی دُنیا بسانے کے لیے ___‘‘

’’کہولت آشنا ___ جاہل____خودغرض____طفیلی ___ قدامت پرست ___‘‘

’’خاموش ___! خاموش ___ بھیڑیے! کون ہے، جو میرے خوابوں کی قیمت بھردے؟ میں خواب بیچ کر نئی دنیا بساؤں گا:

ابھی ٹھہرو! اُسی تازہ ہوا کا رقص دیکھیں گے

مَگس کا زمزمہ مضرابِ دل سے ہم قدم کر کے

گلابی تتلیوں کا خوش نما منظر اُتاریں گے

وہ دردِ جام پچھلے موسموں کا آزمائیں گے

مری آنکھیں ابھی تاریک راہوں میں بھٹکتی ہیں

مرے منظر اُداسی کی صدائیں پھانکتے ہیں اور

تری آواز کا جادو پسِ منظر میں پھیلا ہے

ذرا منظر پسِ منظر سے ہم آہنگ ہونے دو

مَگس کی نغمگی کو تتلیوں کا رنگ بھرنے دو

ابھی آموں کے پیڑوں پر پپیہا گنگناتا ہے

ابھی بھیڑوں کی پشتوں پر وہی مقراض پھیلے گی

ہمارے سرد خوں کو گرم اونوں کی ضرورت ہے

سنو خاور! ابھی ممتاز ہونا ہے قبیلے میں

انھی برفاب جذبوں کو اُمنگوں کی ہوا دیں گے

ذرا ٹھہرو! جبینِ وقت پر اک حرف باقی ہے

مری چشمِ تمنّا میں ذرا سی برف باقی ہے۔‘‘

٭٭٭





چاند کی قاشیں



آرٹس کونسل کے پچھواڑے سے نکلتی ہوئی گلی کے دوسرے موڑ پر تنویری کا اسٹوڈیو ہے۔ ایسا اسٹوڈیو، جو عام لوگوں کے لیے کباڑ خانے جیسی کوئی چیز ہے۔ لوہے، پلاسٹک، ہڈی اور لکڑی سمیت مختلف دھاتوں کے چھوٹے بڑے بد ہیئت ٹکڑے ہر طرف بکھرے رہتے ہیں۔ انھی میں کہیں مختلف رنگوں کے ڈبے بھی اوندھے اور سیدھے منھ دکھائی دیتے ہیں۔ مختلف اوزار بھی، جس طرح عموماً موٹر ورکشاپوں اور ویلڈنگ کی دکانوں پر دکھائی دیتے ہیں۔ اس زاویے سے دیکھا جائے تو یہ آرٹ اسٹوڈیو ایک طرح سے مشین گھر ہے۔ کمپریسر مشین، ویلڈنگ مشین، ڈرل مشین، گرینڈر مشین، کٹر مشین، مختلف قسم کی ڈائیاں، ہتھوڑے، چھنیاں، کسنے اور کھولنے کے اوزار، کیلوں کے تھیلے، نٹ بولٹ کے ڈبے، زنجیروں کے گچھے، کپڑوں کی چھوٹی بڑی کترنوں کی گانٹھوں کے ڈھیر اور کیمیکلز کے ڈبے بھی اس سامان کا حصہ ہیں۔ وہ دن بھر اسی ماحول میں رہ کر مجسمے تخلیق کرتا ہے۔ اس کے آس پاس سے ہزاروں گاڑیاں دھواں چھوڑتی، چنگھاڑتی اور آلودگی پھیلاتی گزرتی رہتی ہیں لیکن اس کے معمولات میں فرق نہیں آتا۔ وہ بلا ناغہ صبح نوبجے اسٹوڈیو پہنچتا ہے اور مغرب کی اذان کانوں میں پڑتے ہی گھر روانہ ہو جاتا ہے۔

بہ ظاہر کباڑ دکھائی دینے والی ان دھاتوں سے ہی تنویری خوب صورت مجسمے تخلیق کرتا ہے۔ اس اسٹوڈیو کا خوب صورت ترین حصہ وہ ہے، جہاں تیار مجسمے رکھے جاتے ہیں۔ اُس نے کچھ اس سلیقے سے یہ ہال سجا رکھا ہے، جہاں ایک بار جانے والا اُٹھنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتا۔ تین اطراف میں دیواروں پر اُس کے دستِ ہنر سے نکلے ہوئے فن پارے آویزاں ہیں۔ وہ کینوس کے علاوہ لوہے اور لکڑی کی پلیٹوں پر بھی مختلف دھاتوں اور رنگوں سے فن پارے تخلیق کرتا ہے۔ فرش پر گہرے سبز رنگ کا دھاری دار قالین بچھا ہوا ہے اور دروازے کی طرف دیوار کے ساتھ تین صوفوں جتنی جگہ چھوڑ کر ہر کہیں مجسمے سلیقے سے سجے ہوئے ہیں۔

تنویری نام ور مجسمہ ساز، مصور اور خطاط ہے۔ اُس کے فن پاروں کی شہرت ملک میں ہی نہیں بیرونِ ملک تک پھیلی ہوئی ہے۔ مختلف سرکاری عمارتوں، بڑے شہروں کے چوراہوں اور کھیل کے میدانوں سمیت کئی تعلیمی اداروں میں بھی اُس کا فن اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔ بڑے بڑے رئیس، وزیر اور مشیر اُس کی پینٹنگز اور مجسموں کے خریدار ہیں اور منھ مانگے دام دیتے ہیں۔ اس کے فن کی چمک ہی ہے کہ نہ صرف حکومتی سطح پر اُسے سراہا گیا بل کہ اعلیٰ سول اعزاز بھی دیا گیا۔ تنویری کے شب و روز بہ ہرحال اسی ڈھب پر گزرتے ہیں۔ اُس کے قدردانوں میں اگر چہ بڑے بڑے لوگ شامل ہیں لیکن کسی کو خیال نہیں آیا کہ اسے ڈھنگ کا اسٹوڈیو ہی بنوا دیا جائے یا کم از کم آرٹس کونسل کے کسی کونے کھدرے میں ہی جگہ دے دی جائے۔ ہو سکتا ہے کسی نے پیش کش کی بھی ہو لیکن اُسے بہ ہر حال یہی کباڑ خانہ عزیز ہے، جہاں پھیلا ہوا گرد و غبار اُس کے نتھنوں کو چیرتا ہوا، اُس کے نظامِ تنفس میں داخل ہوتا رہتا ہے۔ اس پر مستزاد اس کی چین سموکنگ کی عادت ہے۔ سگرٹ کے بجھنے سے قبل دوسری ٹوچین ہو جاتی ہے۔

ہماری دوستی دو دہائیوں کو محیط ہے۔ ہفتے عشرے میں اُس کی طرف جانکلتا ہوں اور پھر دن بھر اُس کے ساتھ موجود رہتا ہوں۔ وہ اپنے کام میں مگن رہتا ہے، میں اُسے دیکھتا رہتا ہوں۔ وقفے وقفے سے کچھ جملوں کا تبادلہ بھی ہوتا رہتا ہے۔ میں اُس کا مزاج آشنا ہوں۔ وہ فن کار ہے اور فن کی توقیر کے لیے ہی پیدا ہوا ہے۔ اُس نے فن کے لیے اپنی زندگی کے قیمتی مہ وسال قربان کیے تو یہ کوئی تعجب کی بات بھی نہیں۔ یونی ورسٹی سے فراغت کے بعد شاندار مستقبل اُس کی راہ دیکھ رہا تھا۔ ماسٹرز میں گولڈ میڈل لینے والا کون ایسا ہو گا، جسے ملازمت نہ ملے؟ اُس نے ملازمت کی بجائے شوق کی تکمیل کی ٹھانی اور اسی میں زندگی جھونک دی۔ پینتیس سال کی ریاضت مگر رائے گاں نہیں گئی۔ کیوں کہ اُسے مالی اور اخلاقی اعتبار سے مضبوط متبادل میسر آتا رہا ہے۔ اُس کے فن کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا گیا اور پھر اُس کی مالی حالت بہترین نہ سہی لیکن بہتر ہے۔ کیوں کہ اپنے حالات پر خوش رہنا ہی اصل دولت ہے۔

کچھ دنوں سے تنویری عجیب سرشاری اور تمکنت کی کیفیت میں تھا۔ میں اس عرصے میں جب بھی اُس کے پاس گیا، وہ گنگناتا ہوا، مچلتا ہوا، شوخیاں کرتا ہوا دکھائی دیا۔ یہ اُس کے عمومی مزاج کے خلاف ہے۔ ایک ایسا شخص، جو میرے طویل مکالموں کا جواب ’’ہوں ہاں، ہاہاہا‘‘ میں دیا کرتا ہے، اب شوخ اور ذو معنی اشعار سناتا ہے۔ میں نے کریدنے کی کوشش کی تو بتایا:

’’عشق ہو گیا ہے۔‘‘

’’عشق اور اس عمر میں؟ خیریت؟‘‘

’’ابے! عشق کا عمر سے کیا تعلق ہے؟ یہ تخم تو من میں جب چاہے، پھوٹتا ہے اور کھلتا چلا جاتا ہے؟‘‘

’’لیکن کس سے؟‘‘

’’ہے ایک پری زاد۔‘‘

’’بتاؤ تو۔‘‘

’’چل سالے۔ خرانٹ ہو تم، تمھیں بتا کہ اپنی راہ کڑوی کروں۔‘‘

’’اب ایسی بھی بات نہیں، بتا دے۔‘‘

’’بتا دوں گا۔‘‘

مہینا بھر بعد گیا تو اسٹوڈیو کو باہر سے موٹا سا تالا لگا ہوا تھا۔ فون کیا تو اٹینڈ نہ ہو سکا۔ پریشانی نے گھیرا تو اُس کے گھر چل دیا۔ بھابھی نے بتایا: ’’اسٹوڈیو گئے ہیں۔‘‘ سوچا انھیں بتا دوں کہ اسٹوڈیو پر تالا پڑا ہے، پھر خیال آیا پریشان کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ پھر کسی روز مل لوں گا۔ دس بارہ دن چھوڑ کر دوبارہ گیا تو پھر وہی عالم۔ گھر گیا تو بھابھی کا وہی جواب۔ فون ملاتا ہوں تو سُنتا نہیں۔ گھنٹی مسلسل جاتی ہے۔ تنگ آ کر میسج کیا:

’’بڈھے! کیوں اپنی عاقبت خراب کرتے ہو؟ اپنے سفید بالوں کا لحاظ کرو۔ یہ نہیں کر سکتے تو بوڑھی بیوی اور جوان بیٹیوں کو دیکھ لو۔‘‘

میسج کار گر ثابت ہوا۔ ایک لمحے میں اُس کا فون آ گیا۔ میں نے بے تابی سے سُنا۔

’’ابے چھنال! جل گیا ناں؟ تمھیں تو کوئی گھاس نہیں ڈالتا۔ کوئلہ ہو جاؤ، کوئلہ۔‘‘

’’ہو کہاں؟ اور اسٹوڈیو کے بہانے گھر سے نکل کر کہاں چلے جاتے ہو؟‘‘

’’جہاں بھی ہوں، خوش رہتا ہوں۔‘‘

اس جملے نے تو جیسے میرے جسم میں انگارے بھر دیے۔ مجھے کوئلہ ہونے کا طعنہ دینے والا خود اس عمر میں منھ کالا کر رہا ہے۔ میں نے سوچا لیکن اُسے کچھ کہنے کی بجائے فون بند کر دیا۔ اس کے بعد بھی ذہن میں کچھ ایسے ہی خیالات امڈتے رہتے۔ ’’کم بخت اس عمر میں کس منحوس مشغلے میں پڑ گیا ہے۔ اللہ نے عزت دی ہے، نام دیا ہے، شہرت دی ہے۔ اپنی آخرت غارت کر کے چھوڑے گا۔ ہو نہ ہو کسی شاگرد کو پھانس رکھا ہے۔ ہوتے ہیں ایسے، جنھیں اس رشتے کے تقدس کا خیال نہیں۔ تنویری نے بھی اصلیت دکھا دی ہو گی۔‘‘ مہینا بھر غصے کے باعث اُس سے رابطہ نہیں کیا۔ اچانک ایک شام میں وہ بھابھی کو لے کر ہماری طرف آ گیا۔ بیس سال میں پہلی بار مجھے اس کا آنا ناگوار گزرا۔ بھابھی کی وجہ سے میں خاموش رہا اور برداشت بھی کیا۔

’’ابے! کھانا ہم یہیں کھائیں گے۔‘‘

’’ضرور!‘‘ میں نے بے دلی سے کہا۔

میری ناراضی وہ بھانپ گیا تھا۔ کہنے لگا:

’’کھانے کے بعد تمھیں اپنی محبوبہ سے ملواؤں گا، اَب خوش؟‘‘

میں نے نظر اُٹھا کر بھابھی کی طرف دیکھا، وہ پوری طرح مطمئن اور شانت دکھائی دیں۔ مجھے حیرت مارے جا رہی تھی لیکن کیا کر سکتا تھا۔ گویا بھابھی اس کی منحوس باتوں میں آ چکی تھیں اور خاموشی کو اپنے لیے غنیمت سمجھ لیا تھا۔ جب انھیں اعتراض نہیں یا وہ برداشت کر چکی ہیں تو میں کیوں کر کچھ کر سکتا ہوں؟ میں نے دل ہی دل میں سوچا۔

’’چلو رافعہ! جب یہ نہیں دیکھنا چاہتا تو پڑا رہے یہاں۔‘‘

تنویری جملہ اُچھال کر اُٹھ کھڑا ہو۔ پہلے تو پارہ سوا نیزے پر پہنچا پھر خیال آیا اگر دکھا ہی رہا ہے تو کیا بُرا ہے۔ دیکھ تو لوں کس حور کے لیے اپنا گھر تباہ کر رہا ہے؟ اور گھر تباہ کہاں ہو رہا ہے، بھابھی تو خوش دکھائی دیتی ہیں۔ یہ سوچ کر میں بھی ساتھ چل دیا۔

گاڑی اسٹوڈیو کے باہر رُکی تو میرے لیے مزید حیرتیں تھیں۔ کیا وہ یہیں رہتی ہے، کہیں تنویری نے اُس سے شادی تو نہیں کر لی؟ میں نے سوچا۔

تنویری بکھرے ہوئے سامان میں سے گزر کر آگے بڑھ رہا تھا، پیچھے بھابھی اور آخری مسافر میں تھا۔ ایک ہی تو ڈھنگ کی جگہ ہے یہاں، جس میں اس کے فن پارے پڑے ہیں۔ ’’تو گویا یہیں اُس بدبخت کی رہائش بھی ہے۔‘‘ میں نے سوچا۔ ہال کا دروازہ کھلا تو اندر مجسموں کی قطاریں تو موجود تھیں، ذی روح البتہ کوئی نہ تھا۔

’’یہ رہی میری محبوبہ‘‘

ایک مسطور مجسمے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تنویری نے کہا تو مجھے اپنا قد بونا محسوس ہوا۔ اپنے آپ پر لعنت بھیجی، بلاوجہ بدگمان ہوا۔ جب نقاب اُٹھایا تو ایک لمحے کے لیے میرے ہاتھ کے توتے اُڑ گئے۔ اس قدر خوب صورت اور تراشیدہ جسم، ایک ایک انگ میں ہزار کشش بندھی ہوئی۔ ایک ایک زاویہ اور ایک ایک قوس اس سلیقے سے بنائی گئی تھی، کہ تنویری کی صناعی پراس کی دست بوسی کو جی چاہتا تھا۔ اگر چہ اُس کی فن کاری کا میں شروع سے گرویدہ ہوں لیکن اس مجسمے نے تو مجھے اس کا غلام ہی بنا دیا۔

’’ابے پانچ ماہ صرف یہی کام کیا ہے، صبح سے شام تک۔ تم جیسوں سے بچنے کے لیے اسٹوڈیو کو باہر سے تالا لگوا دیا کرتا۔ اس کے علاوہ کوئی فن پارہ بنایا نہ فروخت کیا۔‘‘

’’تنویری! واقعی کمال ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے، جیسے تمھارا سارا فن سمٹ کر اس مجسمے میں آ گیا ہے۔‘‘

’’سچ کہتے ہو____لیکن تقدیس حقیقت میں اس سے کہیں زیادہ سُندر اور پُر کشش ہے۔ اُسے ایک نظر دیکھ لینے والا مر جاتا ہے۔‘‘

’’تو کیا____؟‘‘

’’ہاں! تقدیس کیلاش لڑکی ہے، ان گرمیوں میں ہم اُن کے مہمان رہے۔ رافعہ بتاؤ کتنی معطر، پاکیزہ اور سلیقہ مند ہے وہ۔‘‘

’’ٹھیک کہتے ہیں آپ۔ اگر جوانی میں ہم اُس سے ملے ہوتے تو میں ضرور تقدیس کے لیے اپنی محبت کی قربانی دے دیتی۔‘‘ بھابھی نے جواب دیا۔

’’ارے نہیں رافعہ! میں تو فن کار ہوں اور فن کار کے زاویے سے ہی اُسے دیکھا ہے۔ محبت تو مجھے تم سے تھی اور مرتے دم تک رہے گی۔‘‘

مجھے تنویری اور رافعہ بھابھی کی محبت پر رشک آ رہا تھا۔ کس قدر مطمئن، ایک دوسرے سے خوش اور ایک دوسرے پر جان نچھاور کرنے والے ہیں، ورنہ اس عمر تک پہنچتے پہنچتے تو انسان اُکتا جاتا ہے، بچپنے کی محبت کہیں راکھ کا ڈھیر ہو جاتی ہے اور جوانی کا جوش ماند پڑتے ہی سارے ولولے اور وعدے پستی کے اندھیروں میں کھو جاتے ہیں۔

میں اپنی مصروفیات میں کھو گیا اور دوچار ماہ تک اسٹوڈیو نہ جا سکا۔ ایک دن فائق نے فون پر بتایا:

’’تنویری اسٹوڈیو میں پاگلوں جیسی حرکتیں کر رہا ہے۔ کئی مجسمے توڑ بیٹھا ہے۔ اپنے چہرے پر سیاہ رنگ اُنڈیل دیا ہے، کپڑے پھاڑ ڈالے ہیں۔ تم فوراً یہاں چلے آؤ۔‘‘

میں سارے کام چھوڑ کر وہاں گیا تو تنویری، فائق کے بتائے ہوئے عالم سے کہیں زیادہ بُری حالت میں تھا۔ اُس نے تمام پینٹنگز جلا ڈالی تھیں۔ مجسمے ہتھوڑوں سے توڑ دیے تھے۔ حتیٰ کہ چاند جیسے چہرے والی تقدیس کا مجسمہ بھی اُس نے توڑ ڈالا تھا، جسے بنانے کے لیے اُس نے دُنیا سے رابطہ منقطع کر لیا تھا۔ کینوس، لکڑی اور پلاسٹک شیٹوں سمیت کئی کیمیکلز کی راکھ سے تعفن پھیل رہا تھا۔ رنگوں کے جلنے کی سڑانڈ نتھنوں کے اندر گھس کر جلن پیدا کر رہی تھی۔ تنویری خاموش تھا مگر اُس کے ہاتھ مسلسل خود اذیتی پر مائل تھے۔ بڑی مشکل سے ہم نے اُسے قابوکر کے ہسپتال پہنچایا۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ اُسے کس صدمے نے اس حالت تک پہنچایا ہے۔ ڈاکٹر کھوج لگانے میں کوشاں تھے۔ علاج جاری رہا اور بڑی تگ و دو اور مشقت کے نتیجے میں دو ماہ بعد ڈاکٹر اس کیفیت سے اسے نکالنے میں کام یاب ہو گئے اور پھر گھر بھی بھیج دیا۔

ایک ہشاش بشاش، مطمئن اور گھر بار والا شخص، جس کے مداحوں کی تعداد ہزاروں میں ہو اور جسے حکومتی سطح پر سراہا بھی گیا ہو، کس طرح یہ انتہائی قدم اُٹھا سکتا ہے؟ میں اس بات پر جتنا سوچتا کوئی سرا ہاتھ نہ آتا۔ مجھے رہ رہ کر یہ خیال آتا لیکن تنویری کی حالت کے پیشِ نظر اُس سے پوچھنے کی ہمت نہ ہوتی۔ آخر ایک دن حوصلہ کر کے پوچھ ہی لیا۔ ’’کیا ہوا تھا؟‘‘

’’تم نہیں جانتے ہو؟‘‘

’’تمھاری قسم نہیں۔‘‘

’’ابے! اُنھوں نے تقدیس کے خاندان کو مذہب تبدیل کرنے کی دھمکی دی تھی۔ یہ مصر تھے، نہیں کرتے۔‘‘

’’اوہ خدا! وہ جو اخبارات میں خبریں آئی تھیں۔‘‘ آنسوؤں کا ذخیرہ آنکھوں سے پہاڑی چشموں کی طرح راہ بناتا ہوا گھاس پھوس کی طرح بڑھی ہوئی اُس کی ملگجی ڈاڑھی کو سیراب کرنے لگا۔ میں احساس کی کرچیاں سمیٹنے کی کوشش میں اپنی انگلیاں بھی زخمی کر بیٹھا تھا۔

٭٭٭









نواب زادی نور محل



سوسائٹی کا ہر بنگلا محل نما تھا، قطار میں ایستادہ ان بنگلوں کا احاطہ کسی بھی طرح چار کنال سے کم نہیں تھا، فرلانگ بھر جگہ چھوڑ کر دو کنال کے بنگلوں کی قطاریں، پھر اتنے ہی فاصلے پر ایک ایک کنال کے کاٹج تھے۔ جدید طرز کے ان بنگلوں میں ہر طرح کی سہولیات موجود تھیں۔ بعض بنگلوں میں تو ایک حصہ سوئمنگ پول کے لیے بھی مختص تھا۔ ایک طرف ملک بھر میں جہاں توانائی کا شدید بحران اور بد امنی کا دور دورہ تھا، یہ سوسائٹی ان بحرانوں سے دُور اور تخریب کاری سے محفوظ تھی۔

مسٹر ظفر صمدانی کا محل نما بنگلا بھی اسی سوسائٹی میں تھا، وہ وفاقی حکومت میں اکیسویں گریڈ کے آفیسر تھے، فارن سروس کا حصہ بھی رہ چکے تھے، کئی اضلاع میں ڈپٹی کمشنر کے فرائض بھی نبھا چکے تھے۔ وہ دُنیاداری کی تمام مہارتوں میں طاق تھے، اس لیے ہر حکومت کے پسندیدہ افسروں میں شمار ہوتے۔ فارن سروس کے دوران اُنھیں دوسرے ملکوں کی معاشرت، ثقافت اور اندازِ فکر کے مطالعے کا خوب موقع ملا تھا، اس لیے اُنھوں نے پوری کوشش کر کے اپنے گھرانے کی تربیت انھی سطور پر کی تھی۔ مسزصمدانی بہت متحرک خاتون تھیں، ایک طرف وہ اپنی تنظیم کے تحت شہر میں چار اسکول اور کالج چلا رہی تھیں، دوسری جانب ایک انٹرنیشنل میگزین بھی نکالتی تھیں۔ اس میگزین میں قومی اور بین الاقوامی سیاست سے لے کر علم و ہنر اور اَدب اور ثقافت کو جگہ دی جاتی تھی، گویا یہ میگزین ایک طرح سے جدید رنگ کا انسائیکلو پیڈیا تھا۔ دونوں میاں بیوی اپنے مشاہدوں تجربوں اور تمناؤں کی بھٹیوں میں سُلگ کر کندن ہو چکے تھے، اس لیے اُنھوں نے اس جدیدسوسائٹی میں جب بنگلے کی تعمیر کا کام شروع کیا تو ایک ایک چیز پر خصوصی توجہ دی۔

بنگلے میں سولہ کمرے تھے، ہر ایک کمرہ دوسرے سے مناسب فاصلے پر تھا، کھڑکیاں، دروازے، راہداریاں اور ہال اس تناسب سے رکھے گئے تھے کہ ہرچیز اپنی جگہ جہاں پُر کشش تھی، وہاں باعثِ تسکین بھی۔ بنگلے کی ہر دیوار اڑھائی فٹ چوڑی تھی اور چھتیں پندرہ فٹ کے قریب۔ باہر کی طرف کھلتی ہوئی کھڑکیاں پوری دیوار میں بنائی گئی تھیں۔ تمام کھڑکیاں اور دروازے اخروٹ کی لکڑی سے بنوائے گئے تھے۔ دروازوں میں مختلف جانوروں اور پرندوں کی شبیہیں کندہ تھیں۔ کھڑکیوں کے تختوں میں نام وَر تاریخی شخصیات کے پورٹریٹ تراشے گئے تھے۔ دروازوں کی کنڈیاں اور دستیاں روبی اور چاندی کی ساختہ تھیں۔ تختے اور چوکھٹے یاقوتی رنگ میں دھلے ہوئے تھے، یوں محسوس ہوتا تھا جیسے یاقوتی آبشاریں بہ رہی ہوں۔ دیواروں پر سنہری رنگ بہتا ہوا، جس میں نیلم اور زمردیں رنگ کی آمیزش نے ایک خاص قسم کا سحر قائم کر رکھا تھا۔ باہر کی طرف کھلتی ہوئی بڑی کھڑکیوں پرتہ در تہ پردے تھے۔ ہر ایک پر دبیز گلابی پردہ جس میں سے باہر جھانکنا انتہائی مشکل تھا، اس کی دبازت اتنی زیادہ تھی کہ دوسری سمت نہیں دکھائی دیتی تھی۔ ان گہرے پردوں کے سامنے سنہری اور سُرمئی جالی دار باریک پردے تھے، جن کے کناروں پر پکھراجی جھالریں لٹکتی تھیں۔ ان کے وسط میں یاقوتی پھولوں کی دستے کچھ کچھ فاصلے پر یوں بکھرے ہوئے تھے، جیسے کسی حسینہ نے ادائے خاص کے ساتھ پھینک دیے ہوں۔

باورچی خانہ جدید سہولیات سے آراستہ تھا، سنٹرل ائیر کنڈیشنر کے ذریعے سے اسے معتدل رکھنے کا پورا انتظام کیا گیا تھا۔ فرانس سے منگوائے گئے آرائشی سامان کی آنکھوں کو خیرہ کر دینے والی چمک ہر وقت منعکس ہوتی تھی۔ طہارت خانوں کی دیواروں پر بلجیم سے منگوائے گئے آئینے ایستادہ تھے، یہاں تک کہ دروازے کی اندرونی سطح بھی آئینے سے روشن تھی، ان کی کنڈیاں اور دستیاں یاقوت کے رنگ میں ڈھلی ہوئیں یوں دکھائی دیتیں، جیسے سورج میں نہلا کر جوڑی گئی ہوں۔ کموڈ اتنے آرام دہ کہ اٹھنے کا جی نہ چاہے۔

پائیں باغ کی جانب سوئمنگ پول تھا، جس کے نیلگوں پانی پر شمالی علاقوں کی جھیلوں کا گمان ہوتا تھا۔ اس میں اُترتی ہوئی سیڑھیاں بھی بلجیم سے منگوائے گئے انچ بھر موٹے شیشے سے بنی ہوئی تھیں، جن پر پانیوں کا گمان ہوتا تھا۔ اس کہ تہ اور دیواریں موٹے آئینے سے بنی ہوئی تھیں، تیرنے والوں کویوں احساس ہوتاجیسے وہ کسی گہرے اور نیلے چشموں کے پانی میں تیرتے ہوں۔ اس کے کناروں پر زمردیں، پکھراجی اور نیلمی پتھروں کی رنگت مستعار لیے ہوئے خوب صورت ٹائلیں لگی ہوئی تھیں، جن کی چمک سے آنکھیں چندھیا جاتیں۔ ترشے ہوئے پھولوں کی باڑیں جہاں سوئمنگ پول کو طلسم آشنا کر رہی تھیں، وہاں بنگلے کی عمومی وضع کا حسن بھی بڑھا رہی تھیں۔ مسزصمدانی چار سال پہلے جب سکاٹ لینڈ گئی تھیں، تب وہاں سے تین طرح کے نئے پھولوں کے پودے گملوں سمیت اُٹھا لائی تھیں۔ ناروے کے سفر سے پلٹنے پر بھی اُن کی شاپنگ کا ایک حصہ خوب رنگ و نہال صورت پودوں کا تھا۔

اکیس سالہ جنید ظفراسی ماحول کا حصہ تھا، اُس کی تعلیم کا بڑا حصہ انھی اداروں میں مکمل ہوا تھا، جنھیں ایلیٹ کلاس کے لیے مخصوص کہا جاتا ہے، آخری دو سال وہ کیمبرج میں گزار کرآیا تھا ___ میگی سے اُس کی وہیں ملاقات ہوئی تھی، سانسوں میں رَس گھولتی میگی کے ساتھ اُس کا بہت وقت گزرا اور ایسا یادگار کہ لوٹ آنے پر بھی جنیداُسے بھول نہیں پایا تھا۔ اُٹھتے بیٹھتے حتیٰ کہ اپنی ڈبل کیبن گاڑی میں جب وہ اسلام آباد کی سڑکوں پر گھوم رہا ہوتا، اچانک کسی غیر ملکی خاتون کے نظر آ جانے پر اضطراب آشنا ہو جاتا، بہت دیر تک میگی کے بارے میں سوچتا، تڑپتا، بھول جاتا ___ پچھلے جنوری میں ایک انہونی ہو گئی۔ وہ اپنے کمرے میں لیٹا انگلش گانا ’’ون سمر نائٹ‘‘ سُن رہا تھا، اچانک اُس کے سنہری ایپل فون کی سکرین اجنبی نمبر سے روشن ہوئی، بے پروائی سے اُس نے سکرین پر اُنگلی گھمائی اور فون کان سے لگا لیا، دوسری جانب میگی سے کہیں زیادہ کھنکتی اور کانوں میں رَس گھولتی آواز میں کسی نے بلا تکلف پوچھا:

’’تم کاشف ہو ___؟‘‘

جنید کو سمجھ نہیں آیا کیا کہے اور کیا نہ کہے ___ آواز کی جلترنگ میں جادوئی تاثیر اس قدر زیادہ تھی کہ سیلولر خود بہ خود مہکتا چلا جا رہا تھا۔ پھر اُس کے لبوں سے پھسل گیا:

’’نہیں ___ ہاں ہاں ___!‘‘

بلوری شیشوں کے کھنکتے سروں میں سے ایک قہقہہ پھوٹا اور جنید کو نامانوس احساس سے سرشار کر گیا۔

’’دیکھو ___! فون بند نہیں کرنا، میں کاشف نہیں ہوں، جنید ہوں لیکن چاہتا ہوں کہ تم بات کرتی رہو مجھ سے۔‘‘

دوسری جانب سے مثبت آمیز نفی میں انکار ہوا ___ پھر کچھ بے معنی جملے ادا ہوئے اور فون بند کر دیا گیا۔ جنید نے فون ملایا تو بند۔ بہت دن اسی کشمکش اور کوشش میں گزر گئے، لیکن کامیابی نہ ہوئی۔ کوئی گھنٹا ایسا نہیں گزرتا تھا جب جنید بجتے جلترنگ کے خاموش سروں کے پیچھے نہ لپکتا ہو ___ ایک ماہ یوں ہی گزر گیا، آخر وہ بھی چپ ہو کر پڑ گیا۔ یہ اٹھائیس فروری کی شب تھی، اچانک فون کی گھنٹی بجی، دوسری جانب وہی آبشاروں سے پھوٹنے والے نغموں جیسی گنگناتی آواز۔

’’کہاں تھیں تم ___؟ کتنا تڑپا ہوں میں ___ کچھ احساس ___!‘‘

جنید یہ سب اتنی روانی میں کہہ گیا جیسے اُس کے ساتھ صدیوں کا تعلق ہو۔ جیسے وہ اکائی ہوں اور دوئی کا احساس درمیان میں کبھی آیا ہی نہ ہو۔

’’میں کہاں تھی ___؟ جہاں بھی تھی، آپ کیوں تڑپتے اور پریشان ہوتے رہے ___؟‘‘

’’معافی ___ معافی ___ میں بھول گیا ___‘‘

جنید اُس کا تمنائی تھا، ناراض کیسے کر دیتا ___؟ پھر بات اتنی آگے بڑھی کہ قسمیں اور وعدے بھی ہو گئے۔ ایک دوسرے کو دیکھے اور جانے بغیر ___ جنید نے با رہا کہا کہ اپنی تصویر بھیجو، لیکن وہ حسن کو مسطور رکھنے پر بہ ضد رہی۔ جنید اُسے اپنے متعلق سب کچھ بتا چکا تھا اور چاہتا تھا کہ دنوں کی بجائے گھنٹوں میں اُسے اپنے گھر لے آئے ___ صندل نے بھی پورے اشتیاق سے اُس سے مکالمے کیے تھے، ایک ایک بات پوچھ لی تھی، خاندان، گھر، تعلیم، معاشرت، شوق، پسند اور بہن بھائیوں کی دلچسپیاں ___ جوڑ کا رشتہ تھا، کئی بار جنید نے سوچا، کسی بھی طرح ماما پاپا انکار نہیں کریں گے، بھلا نواب زادی پر کسی اور کو ترجیح کیسے دی جا سکتی ہے ___؟

نواب زادی صندل نے اُسے بتایا تھا کہ وہ والدین کی اکلوتی ہے، اس لیے ہر خواہش اور ضرورت یوں پوری ہو جاتی ہے جیسے شہزادیوں کی ہوا کرتی ہے۔ نوکروں کی ریل پیل، سکھیوں سہیلوں کی ناز برداری، ماں باپ کا لاڈ ایسا تھا کہ اُس نے باہر کی دُنیا سے متعلق سوچنے کا موقع ہی نہیں دیا۔ مشاطائیں گھر میں، پانچ پانچ مغلانیاں ہر وقت نئی سے نئی کتر بیونت اور سلائی کڑھائی کے لیے حاضر ___

خادمائیں عرق گلاب سے پاؤں دھونے کے لیے بے تاب ___ روغنِ بادام اور آملا سے بالوں کو سنوارا اور مہکایا جاتا ___ چیڑ کے برادے میں اُبٹن، بالائی اور شہد ملا کر فالتو بالوں سے خلاصی لی جاتی۔ ایک بار اُس نے جنید کو بتایا:

’’آج تک میں نے صابن اور شیمپو استعمال نہیں کیا ___ مجھے بازاری اور مصنوعی چیزوں سے کراہت ہوتی ہے ___ اباجی نے پرفیوم، صابن، کریم، فیس پاؤڈر، آئی لائنر، لپ لائنر، لپ لوز، لپ اسٹک، نیل پالش اور مسکارے کی بیسیوں ورائٹی لا کر ڈھیر کیں لیکن مجھے ان میں قطعاً دلچسپی نہیں ہے۔ اماں بھی ان چیزوں کا استعمال اچھا نہیں سمجھتیں، اُن کا خیال ہے کہ ان میں مضر کیمیکل ہوتے ہیں جو جلد کو نقصان پہنچاتے ہیں ___ پھر یہ سب چیزیں خاندانی آداب کے بھی خلاف ہیں۔ میرے لیے اپنے چمن کے گلابوں کا عرق نکالا جاتا ہے، اُبٹن اپنا تیار ہوتا ہے، بادام، اخروٹ اور زیتون کی گریاں منگوا کر اپنے عرق گیر کے ذریعے ان کا روغن نکالا جاتا ہے۔ اناج اور سبزیاں اپنے گھر کی ہوتی ہیں، دودھ، مکھن اور خالص گھی اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ اہلِ محلہ کو بانٹنے پربھی ختم نہیں ہوتا۔ ابا اماں کسی بھی طرح بازاری چیزیں گھر میں استعمال نہیں کرنے دیتے۔ زیتون کے تیل کے ساتھ دیسی گھی میں کھانے بنتے ہیں، ہر پکوان میں گھر کی خالص چیزیں استعمال ہوتی ہیں، اپنے کھیتوں کے چاول، سرسوں، گنا، مکئی، گندم، باجرہ، جوار، سبزیاں ___ یہاں تک کہ اپنی کپاس اور ریشم سے حویلی میں کھڈیوں پر کپڑا تیار ہوتا ہے، وہی پہنا جاتا ہے۔ ہماری حویلی پچاس ایکڑ رقبے پر ہے، اس میں باغات، پانی کی نہریں، آٹے کی چکی، عرق گیر، کھڈیاں اور تمام ضروریات زندگی موجود ہیں۔ یوں سمجھ لو میں مغلیہ عہد کی ایک شہزادی ہوں، جس کی ساری دُنیا اُس کے قدموں میں ہے، اُس کی مکمل رسائی میں ہے۔ نور محل کا چپہ چپہ میرا ہے۔ ہر موسم، ہر رنگ اور ہر دن کی مالک میں ہوں۔‘‘

جنید یہ سب کچھ حیرت سے سُنتا اور پھر اپنے گریبان میں جھانکتا، پریشان ہو جاتا ___ اپنے خوابوں کی شہزادی کو بھلا اس قدر راحت اور خوشیاں کیسے دے پائے گا؟ اگر چہ کسی چیز کی کمی نہیں تھی ___ مسٹر صمدانی نے اتنا کچھ اکٹھا کر رکھا تھا، جتنا وزیروں کے یہاں بھی نہیں ہوتا۔ جس سلیقے سے اُنھوں نے اپنے خاندان کی زندگی اُستوار کی تھی، آج کل نوابوں اور شاہوں کو بھی میسر نہیں تھی، اس کے باوجود جنید کو احساسِ کمتری نے مار ڈالا تھا ___ وہ رہ رہ کر یہی سوچتا اور پھر شکست آشنا ہو کر ہمیشہ کے لیے نواب زادی صندل کی زندگی سے نکل جانے کا فیصلہ کرتا ___ وہ مگر اُس کے اعصاب پر طاری تھی، اُس کی سانسوں میں بہتی تھی، دل میں دھڑکتی تھی، خون میں پھر تی تھی، کس طرح اُسے بھول جاتا ___؟ موبائل فون پر گھنٹوں ہونے والی رومانوی باتوں نے تو جیسے اُس کی زندگی کا قرینہ بدل دیا تھا۔ میگی، جسے وہ بہت قریب سے جانتا تھا، برت چکا تھا، اُس کی محبت میں مرتا تھا، وہ بھی اس قدر رسیلی اور شاداب کر دینے والی نہیں تھی۔ نواب زادی صندل نے تو گویا اُس کی زندگی ہی بدل کر رکھ دی تھی۔ وہ ہر صورت میں اُسے حاصل کرنا چاہتا تھا، کسی بھی قیمت پر ___! پھر ایک روز نواب زادی صندل نے فیصلہ سُنا دیا:

’’میری شادی ہو رہی ہے ___ خالہ زاد ہے ___ رشتہ بچپن میں طے ہو گیا تھا ___ میں خاندانی روایات سے بغاوت نہیں کر سکتی، ممکن نہیں ہے کہ میں والدین کے سامنے سر اُٹھاؤں ___ ہمیشہ کے لیے بھول جاؤ ___ فی امان اللہ۔‘‘

’’صندل! ___ صندل! تم ایسے مجھ سے منھ نہیں موڑ سکتیں، میں تو جیتے جی مر جاؤں گا۔‘‘

لیکن صندل نے تو فون ہی بند کر دیا تھا ___ کئی دن وہ دیواروں سے سر پھوڑتا رہا، دیوانگی کے عالم میں اُونچی آواز میں گانے سنتا رہا، سیگریٹوں کے دھویں اُڑاتا رہا، منٹ میں دس بار صندل کو فون ملاتا، دوسری جانب ایک طویل سکوت تھا، نہ ختم ہونے والی اذیت رسائی۔ اُس نے کئی بارسوچا کہ ابھی اپنی ڈبل کیبن نکالے اور گھنٹوں میں نور محل پہنچ کر اپنی صندل کو اُٹھا کر لے آئے۔ اس کام کے لیے ایک حوصلہ درکار ہوتا ہے، جو کم از کم اُس کے پاس نہیں تھا۔ وہ سوچتا تھا: نہیں معلوم کس قسم کے لوگ ہوں گے؟ کتنے بدمعاش پال رکھے ہوں گے؟ وہ دیکھتے ہی گولی مار دیں گے۔ اُس کے ذہن میں وہ فلمی کہانیاں اور داستانیں چلنے لگیں جو نوابوں اور جاگیرداروں سے منسوب تھیں۔ اُسے اپنا انجام بھی فرہاد جیسا دکھائی دیتا تھا ___ یا پھر وہ صاحبہ کے جتن میں مرزا کی طرح اپنی جان سے جاتے ہوئے تڑپ رہا ہوتا۔ دُکھ کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ اور اعصاب کو چھلنی کر دینے والی کسک تھی، جس نے ہر طرف سے اُسے گھیر رکھا تھا، تب پھر صندل کا فون آ گیا:

’’میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے، ہمت ہے تو مجھے بھگا کر لے جاؤ ___ بتاؤ کیا کرو گے ___؟‘‘

’’صندل ___ تو کیا یوں تمھارے والدین اور خاندان کی عزت پر حرف نہیں آئے گا ___؟ تمھارے اس قدم کے بعد کیا وہ زندہ رہیں گے ___؟ اگر رہے بھی تو کیا کسی کے سامنے گردن اُٹھا سکیں گے؟ بھاگ جانے والی لڑکیوں کے والدین تو کسی کو منھ بھی نہیں دکھا سکتے۔‘‘

’’ٹھیک ہے ___ تمھارے پاس ایک گھنٹا ہے، اچھی طرح سوچ لو ___ انکار کی صورت میں یہ ہماری آخری گفتگو ہو گی۔‘‘

احساسِ ندامت کا کوہِ گراں اُس کے شانوں پرسرک آیا تھا، اُس نے بے چینی کے عالم میں اپنی ڈبل کیبن گاڑی گھر سے نکالی، اسلام آباد کی گنجان سڑکوں کو چھوڑتا ہوا دامنِ کوہ کی جانب چل نکلا، اُوپر بادلوں کی اوٹ میں لہلہاتے درختوں کو دیکھا اور پھر غیر ارادی طور پر مونال ہوٹل تک چلا آیا، یخ بستہ موسم میں گرم گرم کافی کے دو کپ اپنے حلق میں اُتارے، پھر اپنے والد کو فون کر کے بتا دیا:

’’پاپا! میں دوستوں کے ساتھ جیپ ریلی میں جا رہا ہوں، دو تین دن میں پلٹوں گا ___ اوکے بائے۔‘‘

’’جنید! سنو تو ___ بھائی کو بھی ساتھ لے جاتے۔‘‘

’’پاپا! سمجھا کریں نا ___ دوستوں کے ساتھ جا رہا ہوں۔‘‘

’’اچھا میں کمشنر صاحب کو فون کر دیتا ہوں، تمھارا خیال رکھیں گے ___‘‘

’’اس کی ضرورت نہیں ہے ___ لو یو پاپا۔‘‘

’’لو یو ٹو مائی ہارٹ ___‘‘

نواب زادی صندل نے سمجھا دیا تھا کہ وہ حویلی سے دُور اُسے ملے گی، طے یہ ہوا تھا کہ وہ اپنی ایک خادمہ کے گھر آ جائے گی، وہیں سے وہ اُس کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ آئے گی ___ جنید نے گاڑی موٹر وے پر ڈال دی، پھر موٹر وے بھی اپنی حدیں تمام کر چکا، آگے چھے گھنٹے کی مسافت تھی، وہ تو جیسے ہواؤں میں تھا، اُس کے دماغ میں بہ یک وقت کئی منظر جگ مگا جاتے تھے۔ ایک تو اُسے اپنی جان کا خطرہ تھا، دوسرا صندل کے والدین کی بے عزتی کا ملال اور پھر یہ بھی خیال سینہ چیرتا تھا کہ ایک بھاگی ہوئی لڑکی کو اُس کے اپنے والدین کس طرح قبول کریں گے؟ کیا وہ اپنے خاندان میں صندل کی جگہ بنا سکے گا ___؟ اور اگر ماما پاپا نہ مانے تو اُن کی زندگی کس طرح کٹے گی ___؟ ابھی تک تو وہ جاب لیس تھا اور شہزادوں کی طرح باپ کی کمائی پر عیاشیاں کر رہا تھا ___ چو مکھی لڑائی تھی جو اُسے خود سے لڑنا پڑ رہی تھی۔ خیالوں کا تانا بانا اُلجھتاسنورتا تھا، تفکرات اُس کا پنڈ توڑتے تھے، اُسے اندازہ ہی نہیں تھا کہ وہ کس رفتار میں گاڑی چلا رہا ہے۔ پھر صندل بھی اُس کے ساتھ مسلسل فون پر رابطے میں تھی، بس اَب پانچ منٹ کی مسافت باقی تھی۔ وہ نواب زادی صندل کو ہمیشہ کے لیے لے جائے گا، وہ شہزادی جس کے خواب وہ کئی ماہ سے دیکھ رہا تھا۔

شام چھٹ رہی تھی، گاؤں سے باہر بستی نما آبادی سے جڑی ہوئی ایک ریلوے لائن تھی، غالباً دس بیس سال سے اس پر کوئی ریل نہیں گزری تھی، ایک ویران ریلوے اسٹیشن تھا، جس کے ماتھے پر درج تھا: ’’نور محل ریلوے اسٹیشن۔‘‘ گندے تالاب میں کچھ بچے پاؤں دھو رہے تھے، اُن سے کچھ ہی فاصلے پر بیسیوں بھینسیں اور گائیں پانی پی رہی تھیں، ایک گائے رانبھ رہی تھی۔ جوہڑ سے کچھ فاصلے پر ایک بوڑھی بھٹیارن دانے بھون رہی تھی۔ ریلوے اسٹیشن کی پیلی عمارت جگہ جگہ سے اُکھڑی ہوئی یوں معلوم ہوتی تھی، جیسے زمانوں سے استعمال میں نہ ہو۔ اسٹیشن سے چند گز کے فاصلے پر کچی اینٹوں سے بنا دس بارہ مربع فٹ کا کمرہ تھا اور یہی وہ مقام تھا، جہاں نواب زادی صندل اپنے رانجھے کے لیے منتظر تھی۔ جنید نے فون پر اُسے ایس ایم ایس کر دیا تھا۔

میلی سی چادر میں لپٹی ہوئی دراز قد پختہ رنگت ایک لڑکی اُس کی جانب بڑھ رہی تھی، جس نے اپنا چہرہ چھپانے کے انداز میں ڈھانپ رکھا تھا۔ ایسے لگتا تھا جیسے کئی دنوں سے نہ نہائی ہو۔ قریب آتے ہی اُس کے جسم سے جوہڑ میں لپٹی ہوئی بھبک محسوس ہوتی تھی۔ ابھی جنید اُس کو آتے دیکھ اور سوچ رہا تھا کہ شاید یہ نواب زادی صندل کی خادمہ ہو، بوڑھی بھٹیارن تیزی کے ساتھ اپنی جگہ سے اُٹھی اور دوڑتے ہوئی اُس لڑکی کو آ لیا، مسلسل دو ہتڑ اُس کے کندھوں پر مارتے ہوئے کہنے لگی:

’’بینو! کم بخت ماری ___ اَب اس کے ساتھ بھاگ جاؤ گی کیا ___ _؟‘‘

کانوں میں رَس گھولتی اور جلترنگ بجاتی آوازیں چیخوں میں ڈھل چکی تھیں۔ ڈبل کیبن گاڑی ایک سو تیس میل گھنٹے کی رفتار سے سڑک پر بھاگ نکلی، جنید کا سراپا پسینے، خوف اور احساسِ ندامت سے یوں شرابور ہو گیا تھا، گویا ساونوں کی بارشوں میں بھیگ آیا ہو۔

٭

[ادب دوست، لاہور، اکتوبر۲۰۱۸ء]

٭٭٭









شکستہ معبد



دو سوفٹ دو رَویہ سڑک کی دونوں جانب بلند و بالا عمارتیں تھیں، جن میں سے کچھ جدید طرز اور خوب صورت وضع کی ایسی دلکش کہ انھیں دیکھ کر آنکھیں چندھیا جاتی تھیں، ان کے چمکتے شیشوں پر سورج کی کرنیں جب پڑتیں تو دیکھنے والوں کو دعوتِ نظارگی کا ایسا قرینہ پیش کر جاتیں، کہ اُٹھتے قدم ایک لمحے کے لیے ضرور رُک جاتے۔ جدید طرز کی ان فلک بوس عمارتوں میں عہدِ نو کی ہر چیز بغرضِ تسکین موجود تھی۔ ان کے تہ خانوں سے لے کر ساتویں منزل تک ہر جگہ اشیائے صرف کے کارخانوں اور منڈیوں کا مال بھرا پڑا تھا ___ _ _ کون سی ایسی چیز تھی، جو اِن شاپنگ پلازوں میں نہیں تھی؟ کمپیوٹر، گھڑیاں، ٹیلی ویژن، کاریں، موٹر سائیکلیں، فرنیچر، کپڑا، فریج، ایئر کنڈیشنر، گیزر، سامانِ آرائش، فیشن کی مصنوعات، تازہ پھل، سبزیاں، غلّہ، ملکی اور غیر ملکی کھانوں کے ریستوران اور اسی طرح کم وب یش ہر ملک کی جدید اور قدیم چیزیں ان پلازوں میں وافر مقدار میں موجود تھیں، دن رات ہزاروں لوگ شہر اور بیرونِ شہر سے آ کر یہاں خریداری کرتے۔ مرد و زَن پر مشتمل سیلاب ان سڑکوں اور پلازوں کو گھیرے رکھتا ___ __ ہزاروں گاڑیاں آتیں جاتیں ___ __ انھی عمارتوں کے بیچ میں کہیں کہیں ایسی عمارتیں بھی تھیں، جو شان و شوکت کے ساتھ عہدِ رفتہ کی عظمتوں کی امانت دار تھیں۔ قدیم طرز کی ان عمارتوں میں سے کچھ شکستہ و بوسیدہ ہو چکی تھیں، ان میں سے بعض کے سامنے خوانچہ فروشوں نے قبضہ کر رکھا تھا، کہیں کہیں تھڑا ہوٹل والے قابض تھے، کچھ عمارتوں کے سامنے رکشا اسٹینڈ بن چکا تھا۔ وہ عمارتیں جن میں خاندان آباد تھے، اُن کی حالت نسبتاً بہتر تھی، سال بہ سال روغن اور سفیدی ہو جانے کے باعث اپنے تئیں یہ عمارتیں جدید طرز کی عالی شان عمارتوں کا مقابلہ کر رہی تھیں ___ __ پھر ان عمارتوں کے مکینوں میں سے بعض نے یہ راہ نکال لی کہ نیچے کی منزل کرائے پر اُٹھا دی۔ بالعموم ایسی جگہوں پر دہی بھلے، آئس کریم، پھل سبزیاں یا پھر آرائشی سامان بیچنے والوں کی کثرت ہوتی، البتہ بعض مقامات گودام کے طور پر بھی استعمال ہوتے تھے۔ اصل میں یہ انتخاب سے زیادہ قسمت سے جڑی بات ہے۔ کسی مکین کو اچھا کرایہ دار مل گیا تو اُس کی بن آئی اور اُس کی بد قسمتی آڑے آئی تو کسی لنڈے فروش سے اُس کا پالا پڑ گیا_ _ _ _ _ _ _ _ جو ایک طرف عمارت کا حسن گہنانے کا سبب بنا تو دوسری جانب مالک کی آمدن میں گھاٹے کا باعث بھی۔ یہی اس شہر کا چلن تھا، اس لیے کوئی کچھ نہیں کر سکتا تھا ___ __ سڑک کی دائیں جانب ساڑھے تین مرلے کی ایک تکونی عمارت تھی، سامنے سے دیکھنے پر یوں معلوم ہوتا تھا، جیسے ایک کنال کا عالی شان بنگلا ہو ___ __ عمارت کا نچلا حصہ سیاہی مائل سبز پتھریلی دیواروں پر مشتمل تھا، ماہر ہنر مندوں نے پتھر تراش کرتہ در تہ اس سلیقے سے لگائے تھے کہ زمانے گزر جانے کے باوجود ان کا حسن سلامت تھا ___ __ لگ بھگ پانچ فٹ اونچی ان پتھریلی دیواروں کے اُوپرکارنس کے انداز میں سُرخ پتھر لگایا گیا تھا، پھر اُوپر مسلسل دو منزلہ عمارت تھی، جس کی بیرونی ساخت گہرے سیاہ اور سفیدمرمر سے ڈھکی ہوئی تھی۔ پہلی نظر میں یہ دیواریں شطرنج کی بساط معلوم ہوتی تھیں۔ سامنے آٹھ مربع فٹ کا چوبی دروازہ تھا، جس میں سے اڑھائی فٹ چوڑا اور ساڑھے تین فٹ اونچا ایک دَر نکالا گیا تھا۔ بڑے کواڑ عموماً بند رہا کرتے تھے اور آمد و رفت کے لیے یہ کھڑکی نما دَر ہی استعمال ہوتا، جس میں سے گزرنے کے لیے گردن کے ساتھ کمر کو بھی بڑی حد تک جھکانا پڑتا، جیسے رکوع کی حالت ہوتی ہے۔ دروازے سے چند فٹ چھوڑ کر دونوں جانب چھے فٹ چوڑی اور چار فٹ اونچی چوبی کھڑکیاں تھیں، جن کے سامنے ایک انچ موٹے سریے کی سلاخیں تھیں۔ ان سلاخوں کے پیچھے جالی نصب تھی اور کھڑکیوں کے اُوپر ٹین کے چھجے تھے، چھجوں کے کناروں پر ٹین کی جھالریں لٹکتی تھیں ___ __ بڑے دروازے سے اندر جائیں تو ڈیوڑھی سے جڑے دونوں جانب ایک ایک کمرا تھا، سامنے گز بھر صحن اور پھر تکونی حصے میں طہارت خانہ اور باورچی خانہ معمولی فاصلے سے ایک ساتھ تھے۔ صحن میں سے آ ہنی تختوں سے بنی ہوئی دائروی سیڑھی تھی جو دوسری منزل تک پہنچ کر ختم ہو جاتی ___ __اُوپر والی منزل بھی عین میں اسی وضع میں بنی ہوئی تھی۔ باہر کا منظر تو دل لبھانے کے لیے بہت تھا البتہ مکان کے اندر اگر کوئی پہلی بار داخل ہو جاتا تو اُس کا دم گھٹنے لگتا، تھوڑی سی تکونی جگہ میں زیادہ دیر تک رہنا دل گردے کا کام تھا ___ __!

کچھ عرصہ پہلے تک یہاں ایک خوب صورت نین نقشے کی سیاہ فام بڑھیا رہا کرتی تھی، اپنی وضع قطع سے وہ انگریز معلوم ہوتی تھی۔ جن دنوں وہ کسی حد تک صحت مند تھی، ضروریاتِ زندگی لینے کے لیے خود باہر آیا کرتی تھی، اُس کے سر پر وکٹورین طرز کی ہیٹ، ٹانگوں میں ڈھیلی نِکر اور کمر میں کم لمبائی کی قمیص، ایک کندھے پر کشکول نما بیگ اور دوسرے ہاتھ میں پلاسٹک کی ٹوکری ہوا کرتی تھی، جو گھر سے نکلتے وقت عموماً خالی ہوتی اور واپسی پر اُس میں موسمی سبزیاں اور پھل اپنی خوشبو مہکا رہے ہوتے ___ __ بڑھیا ٹھیک نو بجے اپنے گھر سے نکلتی اور فٹ پاتھ پر آہستہ رَو چلتے چلتے بازار تک نکل جاتی ___ __موسم جب گرم ہونے لگتا تو اُس کے ایک ہاتھ میں چھاتا بھی آ جاتا، پھر وہ بیمار ہو گئی تو ایک ادھیڑ عمر خاتون اُس کے گھر آنے جانے لگی، اَب وہ پلاسٹک کی ٹوکری نئی خاتون کے ہاتھ میں دکھائی دیتی تھی۔ نئی خاتون اُسی معمول کے مطابق ضرورت کی چیزیں لایا کرتی، پورا دن بڑھیا کے ساتھ گزارتی اور سرشام اپنے گھر لوٹ جاتی ___ __ نہیں معلوم بڑھیا رات کا پہاڑ تنہا کیسے کاٹ لیا کرتی تھی؟ چوں کہ زیادہ تر عمارتیں کمرشل ہو چکی تھیں، اس لیے اکلوتے گھر پر کسی کا دھیان اتنی ہی دیر تک رہتا جتنی دیر وہ ادھیڑ عمر کی خاتون دروازے سے نکلنے اور داخل ہونے میں لگاتی، ورنہ لوگ عموماً پرانی وضع کی اس عمارت پر سرسری نگاہ ڈال کر گزر جاتے ___ اس کی نچلی منزل میں اگر لنڈے کی دُکان کھل گئی ہوتی تو شاید ایک طرح کی رونق کا انتظام ہو جاتا، لیکن مکینوں کو اس کی ضرورت نہیں تھی۔

لگ بھگ باون سال کی عمر کا ایک شخص ہر اپریل کی دس تاریخ کو اس عمارت میں داخل ہوتا اور بیس تاریخ کو پلٹ جاتا۔ یہ بڑھیا کا اکلوتا بیٹا رمیز الدین تھا، جو گزشتہ پچیس سال سے امریکا میں مقیم تھا، وہیں اُس نے ایک گوری سے شادی کر رکھی تھی، اُس کے بچے امریکا ہی میں تھے ___ _ اُس کی بیوی بچوں کو اُس کی بوڑھی ماں اور پاکستان سے کوئی سروکار نہیں تھا، لہٰذا وہ اس طرف کبھی نہ آئے۔ رمیز الدین اس عمارت میں جب موجود ہوتا تو گویا ہر روز روزِ عید اور ہر رات شب برات ہوتی تھی۔ بڑھیا اُس کے من پسند کھانے اپنے ہاتھوں سے تیار کرتی اور پھر اُس کے منھ میں چھوٹے چھوٹے لقمے بنا کر یوں ڈالتی جیسے پانچ سال کے بچوں کو کھلایا جاتا ہے۔ وہ بھی ان لمحوں سے پوری طرح سرشار ہونے کی کوشش کیا کرتا تھا ___ __ اپریل کی پندرہ تاریخ بڑھیا کے شوہر کی سال گرہ کا دن تھا، وہ شوہر جو سرکاری ڈاکٹر تھا ___ تقسیم پاکستان سے قبل وہ ڈھاکا میں متعین تھا، حالات خراب ہوئے تو اُس نے بیوی کو پانچ سالہ بیٹے سمیت مغربی پاکستان بھیج دیا، بیوی بھی اُسی ہسپتال میں نرس تھی، کسی صورت آنا نہیں چاہتی تھی لیکن شوہر، جس سے وہ بے پناہ محبت کرتی تھی، کے سامنے خاموش ہو گئی۔ ملک ٹوٹا تو تمیز الدین کا کچھ سراغ نہ مل سکا ___ __ وہ کئی برس تک اُس کی راہ دیکھتی رہی، بیٹا جوان ہو گیا لیکن اُس کا انتظار ختم نہ ہو سکا۔ دونوں ماں بیٹا ہر سال تمیز الدین کی سالگرہ پر اکھٹے ہوتے اور جی بھر کے اُسے یاد کرتے، بڑھیا تو خیر روزانہ تمیز الدین کی اُس تصویر کے سامنے، جو ہمیشہ سرخ پھولوں کے ہار کے پیچھے مسکراتی رہتی، سے باتیں کیا کرتی تھی۔ رَمیز الدین سال میں ایک بار اس غرض سے آیا کرتا تھا، اور جب بھی یہاں آتا آس پاس کے پلازوں والے اُس کے سر ہو جاتے۔ آخری بار جب وہ یہاں موجود تھا تو اُس کے گھر کی قیمت بیس کروڑ روپے لگائی گئی تھی، اُس نے بڑھیا کو مخاطب کر کے کہا:

’’مم! یہ بہت رقم ہے۔ ہم اس سے نئی سوسائٹی میں عالی شان گھر خرید سکتے ہیں ___ __ تم چاہو تو میرے ساتھ امریکا جا سکتی ہو، میرا خیال ہے، تمھیں گھر فروخت کر دینا چاہیے۔‘‘

بڑھیا کی ڈبڈباتی آنکھوں میں ستارے اُتر آئے اور پھر ایک خاموش سی چیخ اُس کے لبوں سے سرک گئی ___ __ بیٹا اب مسلسل ماں سے معافی مانگے جا رہا تھا:

’’سوری مم! ___ __ ریئلی ویری سوری مم! ___ __سوری۔‘‘

’’رمیز! یہ گھر میری جنت ہے، تمیز الدین نے میری خواہش پر اسے تعمیر کروایا تھا، اس کے ایک ایک چپے میں اُس کی یادیں بسی ہیں، میں نے آج تک اُن چادروں کو نہیں بدلا جو وہ لے کرآیا تھا اور ہم نے مل کر بچھائی تھیں ___ __ تم کہو بھلا کوئی اپنی جنت فروخت کر سکتا ہے؟ مئی سن ___ __! تمیز الدین کی یادیں میری سانسوں میں دھڑکتی ہیں اور یہ گھر اُس کی یادوں کا مسکن ہے ___ __ اسے چھوڑوں گی تو مر جاؤں گی ___ __‘‘

پھر اس موضوع پر کبھی بات نہ ہو سکی ___ __اَب جو بڑھیا بیمار رہنے لگی تھی تو رمیز الدین کو فکر کھائے جا رہی تھی، مم کسی بھی صورت امریکا آنے کے لیے تیار نہیں تھیں اور اُس کے لیے ممکن نہیں تھا کہ بیوی بچوں کو چھوڑ کرپاکستان جابسے ___ __ اُس کی تینوں بیٹیاں کالج جا رہی تھیں، بیٹا ابھی اسکول کے آخری سال میں تھا ___ __ پھر ایزابیلا بھی کچھ کمزور ہو گئی تھی، ڈاکٹروں نے اُس کے لیے مسلسل آرام تجویز کیا تھا، ایسے میں اُسے تنہا چھوڑ کر پاکستان جانا بھی مشکل تھا۔

٭

اُن دنوں میٹرو بس منصوبے پر کام ہو رہا تھا، جہاں بڑے بڑے پلازوں کے مالک پریشان تھے، وہاں بڑھیا بھی اپنے ساڑھے تین مرلہ کے مکان کے لیے رنجیدہ تھی۔ منصوبے کے مطابق اُس کا گھر ڈھایا جانا ضروری تھی ___ __ پہلے زبانی کلامی اور پھر درخواستوں کے ذریعے اُس نے کوشش کی کہ کسی طرح اُس کا گھراس آسیب سے بچ جائے ___ مگر بے سود، تب اُس نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا، اُس کی خاتون وکیل نے ہر طرح سے جج کو سمجھانے کی کوشش کی، لیکن دوسری طرف سے ایک ہی بات کہی جا رہی تھی، کہ:

’’جب ریاست کو کسی چیز کی ضرورت ہو گی تو وہ اُسے اپنی ملکیت میں لے لی گی۔ اس لیے خاتون کو سرکاری ویلیو کے مطابق گھر کی قیمت دے دی جائے گی۔‘‘

بڑھیا متانت کے ساتھ عدالتی کار روائی میں شریک ہوتی رہی ___ __وہیل چیئر پر بیٹھ کروہ وکیلوں کی جرح اور جج کے ریمارکس سنتی، آخر جب اُس کے خلاف فیصلہ سُنادیا گیا ___ __ عین اُسی وقت اُس نے چیختے ہوئے جج کو مخاطب کیا:

’’آپ کسی عبادت گاہ کو گرانے کا حکم کیسے دے سکتے ہیں؟ آپ ایسا نہیں کر سکتے ___ _ میں پچاس سال سے وہاں اپنے شوہر کی عبادت کر رہی ہوں ___ __ بتائیں کیا شوہر مجازی خدا نہیں ہوتا ___ __؟ کیا اُس کی عبادت ناجائز ہے ___ _؟ کیا داسی کو مندر میں رہنے کا کوئی حق نہیں ___ __؟‘‘

جذبات کا قانون کے ساتھ کیا تعلق ___ __؟ کچھ ہی روز بعد عدالتی ہرکاروں اور پولیس اہل کاروں کی معیت میں منصوبے پر کام کرنے والے لوگوں کا جتھا وہاں موجود تھا، اُنھوں نے زبردستی بڑھیا کا سامان باہر نکالا اور اُسے وہیل چیئر پر بٹھا کر باہر لے آئے۔ جہازی سائز کی اونچی کرین نما مشین نے اپنا پنجہ مکان کی چھت میں گاڑا ___ __ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے سارا گھر ملبے کے ڈھیر میں بدل گیا، بڑھیا اپنی آنکھوں کے سامنے معبد کو ملبے میں بدلتے دیکھ رہی تھی ___ __ تب کسی نے داسی کی طرف پلٹ کر دیکھا تو اُس کی گردن ایک طرف لڑھک چکی تھی۔

٭

[تسطیر، راولپنڈی/ جہلم۔ اگست ۲۰۱۸ء]

٭٭٭











سیلاب



میلوں پھیلے صحرا میں ہر وقت گرد آلود ہوائیں اُڑتی رہتیں، دُور دُور تک چمکیلی ریت کے اُڑان بھرتے ذرّے راہ گزاروں کی منور آنکھوں کو دھُندلاتے رہتے تھے، اور یہ صحرائی مسافر ماحول کی سنگینی سے بے نیاز اپنے کاموں میں یوں محو رہتے جیسے کوئی انہونی ہو ہی نہیں سکتی ___ مشہور تھا کہ کوٹ ناگ گڑھ کسی زمانے میں خطرناک سانپوں اور اژدہوں کا مسکن تھا، اسی لیے اس کا یہ نام پڑا۔ اُن دنوں کوٹ ناگ گڑھ میں بلا کی گرمی پڑرہی تھی، انسان تو انسان چرند، پرند اور درند بھی اپنے مسکنوں سے نکل کر بیزاری کے عالم میں سر پٹخاتے پھرتے تھے۔ پانی کی قلت کے باعث سیاہ بھجنگ ناریاں اور بوڑھی عورتیں کہنیوں تک روایتی چوڑیاں چڑھائے، مٹی کی گاگریں اُٹھائے ٹبوں اور بنیوں میں پانی تلاش کرتی پھر تی تھیں ___ ان کے چہروں پر کبھی لالی رہی ہو گی؟ لیکن اَب اُن کے چہروں پر تھکا دینے والی زندگی کے کرخت آثار تھے، البتہ کچھ نوخیز لڑکیاں دیسی پاؤڈر اور تیز رنگت کی سرخی سے اپنے چہروں کو لال کرنے کی ناکام کوشش ضرور کرتی تھیں۔ بستی میں مہینوں بعد ایک بنجارا آیا کرتا تھا، جو خواتین کے استعمال کی چھوٹی چھوٹی چیزیں لاتا۔ اُس روز بھی وہ بنجارا اپنی پشت پر صدیوں پرانا سیاہ صندوقچہ لادے، ہاتھ میں لاٹھی پکڑے کوٹ ناگ گڑھ میں داخل ہوا۔ خواتین جو پانی کی تلاش میں تھیں، سارے کام چھوڑ کراُس کے گرد دائرہ بنا کر کھڑی ہو گئیں۔ بعضوں نے اپنی چُنری کے کناروں میں کچھ سکے باندھ رکھے تھے، تیزی سے کھولنے لگیں اور اپنی ضرورت کی چیزیں خرید لیں۔ کچھ جو سکوں کے بوجھ سے آزاد تھیں، وہ چیزوں کی خواہش ہی کر سکتی تھیں، لیکن بنجارا کسی کو مایوس نہیں کرتا تھا۔ اُس کے پاس قرض کی سہولت موجود تھی، یوں وہ لڑکیاں بھی اپنا شوق پورا کرنے لگیں، جو تہی دست تھیں۔ ابھی لڑکیوں کا گھیرا قائم تھا، اچانک ساقا بڑبڑاتا ہوا اور خواتین کا حلقہ چیرتا ہوا بنجارے کے سر ہو گیا____وہ مسلسل ایک ہی جملہ دوہرا رہا تھا:

’’تاجاں ___ آ ___ تاجاں ___ آ ___ تاجاں ___ آ‘‘

بنجارا جو سال ہاسال سے یہاں آ رہا تھا، اس گفتگو سے اچھی طرح شناسا تھا ___ وہاں موجود عورتیں بھی ساقا اور تاجاں کے تعلق سے کچھ کچھ واقف تھیں۔ عورتوں نے اپنی گاگر یں اُٹھائیں اور کچھ ہی لمحوں میں دائرہ توڑ، آگے پیچھے قطار بنا کر ٹبوں کی طرف بڑھ گئیں _ _ _ _ بنجارے نے اپنا صندوقچہ سمیٹا اور ساقا کو آگے بڑھنے کا اشارہ کیا ___!

ساقا پچاس پچپن سال کا لمبا تڑنگا، مریل اور سڑیل قسم کا ایک لنگڑا شخص تھا ___ اُس کے سامنے والے دو دانت انتہائی لمبے تھے، باقی دانت کسی زمانے میں موجود رہے ہوں گے، اَب اُن میں سے ایک بھی باقی نہیں تھا۔ اُس کی آنکھیں گھومی ہوئی تھیں، جب وہ سامنے دیکھ رہا ہوتا تو اُس کے چہرے کا رُخ ہمیشہ بائیں جانب ہو جاتا ___ زُبان میں اس قدر لکنت تھی کہ صرف اُسے قریب سے جاننے والے ہی اُس کی زبان سمجھ سکتے تھے اور کوٹ ناگ گڑھ کا ہر شخص اُس کا قریبی تھا۔ نہیں معلوم وہ کہاں سے آیا تھا لیکن سرکنڈوں کی اس بستی کا وہ ایسا مکین تھا، جس کے لیے ہر گھر کا دروازہ ہر وقت کھلا رہتا ___ وہ بے دھڑک کسی بھی وقت ان بے دَر گھروں میں گھس جاتا اور اپنی ضرورت کی چیز کی طرف اشارہ کر کے حاصل کر لیتا۔ لڑکے بالے اور کبھی کبھی نوخیز لڑکیاں بھی اُسے چھیڑتیں، جواباً وہ رونے لگتا ___ پھر بچوں کی طرح ریت پر لوٹتا رہتا، اس عرصے میں اُس کی لنگڑی ٹانگ زمین پر ایسے نقش اُبھارتی جیسے کوئی خارش زدہ جانور زمین پر لوٹنے کے بعد نشان چھوڑ جاتا ہے۔ اُس کے منھ سے مسلسل رال ٹپکتی رہتی، ناک بہ بہ کراُس کی کھچڑی نما بد وضع ڈاڑھی میں جذب ہوتی، پھر وہ ریت کی مٹھیاں بھر بھر کر اپنے سر میں ڈالتا جاتا ___ چھیڑنے والے یہ تماشا دیکھ کر محظوظ ہوتے۔ پھر کسی بڑے بوڑھے کے آنے پر نوجوان کھسک جاتے اور ساقا رو رو کر اپنی کتھا سنانے لگتا۔ بزرگ دلاسا دیتے اور پھر چند ہی لمحوں میں ساقا اپنے کپڑے جھاڑ کر کسی گھر میں گھُس جاتا۔

وہ سب کا سانجھا مزدور تھا، اس لیے ہر کوئی اُس سے کام لینا اپنا حق سمجھا تھا، جس کے ہاتھ لگ جاتا، وہ اُسے دھَر لیتا۔ خصوصاً عورتیں اُس سے گھر کے کام کاج میں مدد لے لیا کرتی تھیں اور وہ بھی اپنی لنگڑی ٹانگ گھسیٹتے ہوئے ہر کام نبٹانے کی کوشش میں رہتا۔ توشی چرواہا تو اُسے کسی بھی طور آرام نہیں لینے دیتا تھا، مٹھی بھر بھنے ہوئے دانوں کا لالچ اُسے ہر وقت توشی کے ساتھ رکھتا۔ توشی تھا بھی نرم دل اور میٹھا ___ وہ ساقا کی عزتِ نفس کبھی مجروح نہ ہونے دیتا، بلکہ اُس کی باتوں کو توجہ سے سُنتا ___ پھر مصنوعی حیرتوں کا مظاہرہ یوں کرتا جیسے تمام معلومات صرف ساقا کے پاس ہیں اور توشی تو کچھ جانتا ہی نہیں۔ وہ اور زیادہ جرأت کے ساتھ اپنی توتلی زبان میں گھروں کے اندر کی کہانیاں توشی کو سنانے لگتا ___ توشی ایسا اَیالی تھا، جس کے پاس کم و بیش ہر گھرانے کی بکریاں تھیں۔ یُوں وہ بھی براہِ راست لوگوں کی نفسیات، مزاج اور حالات سے اچھی طرح واقف تھا ___ لیکن ساقا سے سُن کر وہ زیادہ لطف کیش ہوا کرتا ___ دونوں ریت کے چھوٹے چھوٹے ٹیلوں پر گھومتے، سبزہ تلاش کرتے اور بکریاں چراتے رہتے۔ جب بھی ٹبوں پر جانوروں کو پانی پلانے لے جاتے، وہاں موجود ناریوں پر حریصانہ نگاہ ڈالتے اور بعد کا سارا وقت اُن کا یہی موضوع رہتا ___

تاجاں، خان سائیں کی پہلی بیوی تھی، جو درجن بھر بچے جننے کے بعد بھی اُسی طرح جواں اور طاقت وَر تھی ___ خان سائیں اس بستی کے سیاہ وسپید کے مالک تھے، اِس لیے اُنھوں نے اپنا حقِ ملکیت کبھی نہیں چھوڑا ___ پچھلی سردیوں میں اُنھیں بھولے رام کی بارہ سالہ بیٹی انیتا دیوی پسند آ گئی تھی، لڑکی والوں کی تو جیسے قسمت سنور گئی ___ ہنسی خوشی کے ساتھ سات دنوں کے اندر اندر لڑکی خان سائیں کے پاس آ گئی۔ انیتا دیوی سے پہلے صاحبو اور چنگی بھی اسی طرح خان سائیں کے حرم میں شامل ہوئی تھیں اور اُن میں سے ہر ایک کئی کئی بچے جن چکی تھی ___ خان سائیں کی تنی ہوئی مونچھوں کے سامنے کوٹ ناگ گڑھ کے اُن رہائشیوں کی گردنیں ہمیشہ جھکی رہتیں ___ جب وہ اپنے سیاہ مشکی گھوڑے کو تازیانہ لگاتے تو اُس کے سموں سے اُڑتی ریت ہر ایک کے نتھنوں کا حصہ بنتی، لوگ دُور تک اُڑتی گرد کو دیکھتے رہ جاتے ___ اور خان سائیں یہ جا ___ وہ جا ___!

بستی دریا سے پندرہ بیس میل کے فاصلے پر تھی، اِس طرف کوئی سہولت نہیں تھی، مجبوراً لوگوں کو کشتی کے ذریعے دوسری جانب جانا پڑتا ___ ایک شکستہ کشتی دن میں دوبار لوگوں کو لاتی لے جاتی_ _ _ _ _ خان سائیں نے جب دریا پار جانا ہوتا تو اپنے مشکی گھوڑے کی باگیں کھلی چھوڑ دیتے۔ ملاح، خان سائیں کو گھوڑے سمیت سوار کرتا اور پھر پار اُتار آتا۔ ایسے موقعوں پرساقا بستی کے تمام کاموں اور لوگوں پر لعنت بھیج کرتا جاں کے پاس پہنچ جاتا۔ اُس کے تمام ادھورے پڑے کام نبٹاتا۔ اُس کے جانوروں کو نہلاتا، اُن کے سامنے چارہ ڈالتا، گوبر اُٹھا کر باہر پھینکتا، پورے صحن میں جھاڑو لگاتا، کپڑے دھونے کے لیے گاگر یں بھر بھر لاتا، سرکنڈوں سے بنے گھر کی چھت اور صحن میں مٹی سے لپائی کرتا، غرض ہروہ کام جو اُسے سونپا جاتا ___ خوشی سے کرتا اور سرشاری کے عالم میں اپنی توتلی زبان سے اپنے تئیں علاقائی لوک گیت گنگناتا رہتا۔ خان سائیں جب تک گاؤں سے باہر ہوتے، ساقا ان خدمات میں جُٹا رہتا۔

٭

اُن دنوں دریا میں طغیانی تھی، چرواہا توشی بار بار گاؤں والوں کو باخبر کرتا تھا ___ اُدھر ملاح اور بنجارے نے بھی اطلاع دی تھی کہ اِس بار دریا کے تیور معمول سے کہیں زیادہ خطرناک ہیں۔ اس سے پہلے کوٹ ناگ گڑھ تک تو پانی کبھی نہیں پہنچا تھا، البتہ آس پاس کے دیہات اکثر زیرِ آب آتے اور ڈیروں کو ویران کر جاتے ___ کھڑی فصلیں، جانور، انسان اور پالتو پرندے سال ہاسال سے دریا کی ستم گری کا شکار ہوتے آئے تھے۔

اس بار پانی کوٹ ناگ گڑھ کی حدوں میں داخل ہو گیا، لوگ جان بچانے کے وسیلے ڈھونڈنے لگے ___ جس کے لیے جیسے ممکن تھا، وہاں سے نکلنے کے جتن کرنے لگا ___ بس ضروری چیزیں پشتوں پر لادیں اور نکل گئے۔ ویسے بھی بستی والے کون سا اتنے امیر تھے کہ چھکڑے بھر بھر سامان لے کر جاتے؟ خان سائیں بھی اپنی خاندانی فوج کے ساتھ وہاں سے نکل گئے تھے ___ پوری بستی میں ایک اکیلا اُن کا گھرانہ تھا، جسے چھکڑے کی ضرورت تھی ___ مگر جب ہر طرف پانی کی حکمرانی ہو تو چھکڑے کہاں سے آئیں؟ جیسے تیسے کر کے وہ اپنے اونٹوں اور کشتیوں کے ذریعے وہاں سے نکلنے میں کام یاب ہو سکے تھے۔ جو نہ نکل سکے، وہ پانی میں بہ گئے ___ گزوں بلند پانی پورے کوٹ ناگ گڑھ کی کچی بستی کو اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا، ہر طرف پانی ہی پانی ___ اور اِس پانی کی تہ میں اور زَد پر جو کچھ آیا، تباہی کے منھ میں چلا گیا ___ کچھ بھی تو باقی نہیں بچا تھا ___ پانی نے سب کچھ نگل لیا____ پوری بستی کھا گیا۔

دنوں بعد اُجڑی بستی بسانے کے لیے جب کوٹ ناگ گڑھ کے باقی ماندہ لوگ پلٹے تو اُن کے گاؤں کے صرف آثار باقی تھے۔ پھلاہی، کیکر اور بیری کے کچھ درخت جو مشکل سے اپنے تنے بچا لینے میں کام یاب ہو گئے تھے، ٹنڈ منڈ حالت میں استقبالی مینار کی صورت ایستادہ تھے ___ ایک مایوس کن فضا تھی، ہر کوئی نیا ٹھکانے بنانے کے لیے پریشان تھا۔ خان سائیں کا گھر اگرچہ کچی اینٹوں اور سرکنڈوں سے بنا تھا _ _ پھر بھی اُس کی دیواروں کے آثار موجود تھے۔ اُن کا قافلہ حسرت ویاس اور اُمید کی ملی جلی فضا میں اپنے گھر کے باہر پہنچ کر ٹھہر چکا تھا ___ اُن کے درجنوں بچے حزن و ملال میں ڈوبی ہوئی حیرت کے ساتھ آگے بڑھ رہے تھے۔ اچانک سیاہ بھجنگ مردہ سانڈ پر اُن کی نظر پڑی ___ خوف سے اُن کی چیخ نکل گئی _ _ _ _ _ خان سائیں تجسس سے آگے بڑھے، تاجاں کے صحن کے سامنے بیری کے درخت کے ٹنڈی شاخوں کے نیچے ساقا کی پھولی ہوئی لاش پڑی تھی، جس کی لنگڑی ٹانگ ایک چُنری سے بندھی ہوئی تھی ___ خان سائیں یہ معما حل نہ کر سکے لیکن تاجاں کے رُخساروں پرگرم آنسوؤں کی قطار روانہ ہو چکی تھی، سبززمین پر پیلے پھولوں والی چُنری اُسی کی تھی۔

٭

[ماہنامہ ’’صبحِ بہاراں‘‘ راول پنڈی، اگست ۲۰۱۸ء]

٭٭٭







’’چیخوں میں دبی آواز‘‘ پر مشاہیر کے تاثرات



ڈاکٹر فرمان فتح پوری:

مصنف کا اندازِ تحریر رواں دواں، شستہ و شگفتہ ہے۔ کسی قسم کا ابہام یا پیچیدگی نہیں۔ بڑی سے بڑی بات اور ہر قسم کا مضمون اپنے مخصوص انداز میں پوری فن کارانہ مہارت سے بیان کر دیے ہیں۔ کردار نگاری عمدہ اور معیاری ہے۔ وہ جامد اور بے جان کرداروں کے بجائے زندہ اور متحرک کرداروں کے ذریعے اپنی کہانی کے واقعات کو آگے بڑھاتے ہیں اور ان کرداروں کے ذریعے نہ صرف زندگی، ماحول اور معاشرے کے خارجی مناظر و مظاہر بیان کرتے ہیں، بل کہ ان کے ذریعے معاشرے میں بسنے والے لوگوں کی داخلی و باطنی زندگی کے بہت سے گوشوں کو بے نقاب کرتے ہیں۔ خاور چودھری اس اعتبار سے ایک بہت کامیاب افسانہ نگار قرار دیے جا سکتے ہیں۔ یقین ہے کہ اُردو افسانے کی تاریخ میں ان کا نام تا دیر زندہ رہے گا۔

وقار بن الٰہی:

اظہار کے لیے جو پیرایہ آپ منتخب کرتے ہیں، وہ مفہوم کو نہ صرف واضح کرتا ہے بل کہ قاری کے دل میں اُترتا ہوا محسوس ہوتا ہے اور قاری اپنی کہنے سے پہلے آپ کے کہے ہوئے پر ایمان لے ہی آتا ہے۔

محمد حامد سراج:

یہ افسانوی مجموعہ افسانوں کے انبار میں محض ایک اضافہ نہیں بل کہ ’’چیخوں میں دبی آواز‘‘ اُردو افسانے کی گم ہوتی قدروں کی بازیافت ہے۔

سلطان سکون:

آپ کی افسانہ نگاری پر فنی گرفت سے بے حد متاثر ہوا۔ آپ کے سارے افسانوں نے مجھے بے حد متاثر کیا۔

پروفیسر ڈاکٹر سید قاسم جلال:

معاشرے کے سنگین اور تلخ حقائق کو نوکِ قلم پر لا کر آپ نے جس جرأت مندی سے اظہار کا رُوپ دیا ہے، وہ یقیناً اُردو کے افسانوی ادب میں ایک نیا موڑ ثابت ہو گا۔ ان افسانوں میں صرف زبان و بیان کی دلکشی ہی نہیں، فکرانگیزی کے عناصر بھی بتمام و کمال موجود ہیں۔

ملک مشتاق عاجزؔ:

خاورؔ کہانی کار نہیں کہانی شناس ہے۔ وہ کہانی تراشتا نہیں بل کہ تلاشتا بھی نہیں۔ وہ کہانی کے پیچھے نہیں بھاگتا، کہانی خود اُس کا تعاقب کرتی ہے۔ وہ تو بس اُسے سنوارتا اور دوسروں کو سناتا ہے۔

پروفیسر ملک محمد اعظم خالد:

خاورؔ نے اپنی تمام کہانیوں کا تمام مواد ہمارے ارد گرد سانس لینے والے انسانوں کے دکھوں اور انسانی المیوں سے کشید کیا ہے، گویا یہ سب کہانیاں آج کی ہیں۔

احسان بن مجید:

مجموعہ میں شامل تمام کہانیاں ہمارے معاشرے، تہذیب اور اقدار سے مربوط ہیں اور خاور چودھری نے انھیں فنی چابک دستی سے لکھا ہے۔

ناصر شمسی:

خاورؔ کے یہاں افسانے کے ابتدائی دور، تقسیم سے پہلے اور پچاس کی دہائی کے دور کے اُردو افسانوں جیسی رومانویت نہیں۔ وہ نظاروں اور چاند ستاروں کی نہیں بل کہ کھیتوں کھلیانوں، گلی محلوں اور اپنی زمین پر بسنے والے انسانوں سے گفتگو کرتے ہیں۔

پروفیسرسید نصرت بخاری:

’’چیخوں میں دبی آواز‘‘ ہماری معاشرتی شکست و ریخت کی سچی شہادت ہے۔

دردانہ نوشین خان:

بلاشبہ ’’چیخوں میں دبی آواز‘‘ اکیسویں صدی کے شروعات کے پاکستان کی سچی اور بدصورت (یہی سچ ہے) تصویر ہے۔

شاہدشیدائی:

آپ اچھا افسانہ لکھتے ہیں۔ زبان پر آپ کو عبور حاصل ہے اور آپ افسانے کی تکنیک سے بھی واقف ہیں۔

پروفیسر ہارون الرشید:

آپ کے افسانے ایک تازہ ذائقہ رکھتے ہیں، آپ کا Vision وسیع اور عمیق ہے، جو آپ کے افسانوں میں چار سو نظر آتا ہے۔ آپ کے افسانے زندگی اور روایت کے مابین گھومتے ہیں۔

سجادمراز:

آپ کا اندازِ تحریر دل لبھانے، سوچ اور فکر کو مہمیز دینے والا ہے۔ آپ کے افسانوں میں تاریخ کو آمیخت کرنے کا عمل بڑی ہنر مندی سے دَر آیا ہے۔ آپ نے متذکرہ حقیقتوں کی گہرائی میں ڈوب کر یہ افسانے لکھے۔

شاعر علی شاعر:

’’چیخوں میں دبی آواز‘‘ میں شامل افسانوں کو پڑھ کر اس بات کا بہ خوبی اندازہ ہوتا ہے کہ ان[خاور] کا وژن عام افسانہ نگاروں سے ہٹ کر ہے۔ وہ اپنے سر کی آنکھوں کے ساتھ ساتھ دل کی آنکھ سے بھی منظر یا مشاہدات کا بہ غور نظارہ کرتے ہیں اور اپنے داخلی محسوسات کو خارجیت پر غالب کر کے کہانی بُننے کے عمل سے گزرتے ہیں۔

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید