پہلا باب: مبتلا کی ولادت اور طفولیت
تمول کے اعتبار سے مبتلا ایک خوش حال باپ کا بیٹا تھا اور چونکہ اکٹھی نو بیٹیوں پر جن میں سے پانچ زندہ تھیں، باپ کے بڑھاپے میں بڑی آرزوؤں اور تمناؤں کے بعد پیدا ہوا، اس سے بڑھ کر اللہ آمین کس کی ہو گی۔ بیٹے کا ارمان تو شروع ہی سے تھا۔
ہر مرتبہ ملنے جلنے دیکھنے بھالنے والے مولوی، ملّا، نجومی، رماّل۔ حتی کہ دائی جی کے خوش کرنے کو کہہ دیا کرتے تھے کہ اب کے ضرور بیٹا ہو گا۔ مگر ایک عمر اسی میں گزر گئی۔ توقع کی ناامیدی کے واسطے، امید لگائی، ناکامیابی کے لیے، مبتلا کی نوبت میں تو یاس اس درجے کو پہنچ چکی تھی کہ سارے گھر میں کسی کو بیٹے کا سان گمان تک بھی نہ تھا۔
دم کے پانی تعویذ گنڈے ٹونے ٹوٹکے اور دوا درمن برسوں سے موقوف تھے۔
مبتلا پیدا ہوا تو سب سے پہلے دائی کو معلوم ہوا کہ بیٹا ہے۔ اس نے اتنی عقل مندی کی کہ لوگوں پر بیٹے کا ہونا فوراً ظاہر نہیں ہونے دیا۔ ورنہ زچہ جس کو سکون اور قرار درکار تھا۔ مارے خوشی کے پھولی نہ سماتی اور الٹے لینے کے دینے پڑ جاتے۔ بارے بتدریج سب کو خیر ہوئی، سننے کے ساتھ جو کھڑا تھا تو کھڑا اور بیٹھا تھا تو بیٹھا۔ سجدے میں گر پڑا۔
کسی کے منہ سے دعا نکلی۔ کوئی لگا بے ساختہ زچہ گیریاں گانے، کسی نے دوڑ کر چٹا چٹ زچہ اور بچہ کی بلائیں لے لیں۔ غرض گھر کیا اسی وقت سارے محلے میں شور و غل مچ گیا اور صبح ہوتے ہوتے تو گلی میں ڈولیوں سے اور گھر میں بیبیوں سے تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ ہر چند بیٹے کا ارمان اس بلا کا تھا کہ کیسا ہی بدصورت بیٹا ہوتا چوم چاٹ کر ماتھے چڑھاتے۔ مگر اس خاندان میں ہمیشہ سے صورتوں سے پرچول رہا کرتی تھی۔
گھر میں جو آتا بچے کو دیکھنا چاہتا۔ یہ لوگ پرچھاویں اور نظر کے ڈر سے اس کے دکھانے میں مضائقہ کرتے تھے۔ جب بیبیوں کا بہت تقاضا ہوا اور گرمی پڑنے لگیں تو زچہ کے پاس گھر کی کوئی عورت بیٹھی تھی۔ اس نے کہا خدا کے لیے بیبیو ذرا ہوا کا رخ چھوڑو کہ دم گھٹا جاتا ہے۔ مرد بچے کی صورت کیا دیکھنا ہے۔ خدا عمر دے، پروان چڑھائے الٰہی ماں باپ کا کلیجہ ٹھنڈا رہے۔
ایک بی بی باوجود یکہ خود بھی ہجوم کرنے والیوں میں تھیں بول اٹھیں، لوگو بھیڑ کیا لگائی ہے۔ اللہ رکھے پانچ بہنوں کا بھائی ہے۔ انیس بیس کے فرق سے اپنی بہنوں میں ملتا ہو گا۔ اتنے میں دائی اندر سے نکلی تو ساری بیبیوں نے اس کو گھیر لیا۔ کیوں بوا بچہ پورے دنوں کا صحیح سلامت تو ہوا۔ دائی بولی: ہاں پورے دن بھی کئے خوب بھرپور ہاتھ پاؤں، بال، ناخن، سب خاصے توانا ماشاء اللہ پڑے کا پڑا اور ان کے جتنے بچے ہوئے سب اسی طرح کے۔
خدا کے فضل سے کوکھ تو بہت صاف ہے۔ بیبیاں: کیوں بوا بہنوں میں ملتا ہوا تو ہے۔ دائی: بہنوں کی اس سے کیا نسبت لڑکیاں بھی اچھی صورت کی ہیں۔
مگر اس سے پہلے کی دو لڑکیاں کہ ایک دو مہینے کی ہو کر اترگئیں اور دوسری دو سوا دو برس کی بس دونوں آفتاب و ماہتاب تھیں اور یہ تو خدا جیتا رکھے نور کا پتلا ہے۔ بڑی بڑی غلافی آنکھیں، اونچی اور ستی ہوئی ناک پتلے ہونٹ چھوٹا دہانہ، چمکتے ہوئے سیاہ گھونگر والے بال کتابی چہرہ، صراحی دار لمبی گردن، سانچے میں ڈھلا ہوا بدن۔
میری اتنی عمر ہونے آئی۔ تیرہ برس کی بیاہی آئی تھی۔ تب سے اپنی ساس کے ساتھ یہ کام کرنے لگی، خدا جھوٹ نہ بلوائے اتنے بچے میرے ہاتھ سے ہوئے کہ جن کا شمار نہیں، مگر ایسا قبول صورت بچہ میں نے تو بڑے بڑے نامی گرامی امیروں کے ہاں بھی جن کے حسن کی آج بڑی دھاک ہے نہیں دیکھا۔ بات یہ ہے کہ اللہ عمر دے اور بھاگوان ہو، سب نے کہا: آمین۔ مبتلا کے پیدا ہونے کی روداد جو ہم نے اوپر بیان کی اس سے ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ مبتلا کے ساتھ ماں باپ اور عزیز و اقارب نے کیا کچھ چو چلے نہ کئے ہوں گے۔
غرض وہ تمام خاندان اور سارے کنبے میں ایک انوکھی چیز سمجھا جاتا تھا اور حقیقت میں جس جس پہلو سے دیکھئے وہ انوکھی چیز تھا بھی، جب سے پیدا ہوا سارے سارے دن ساری ساری رات گودوں ہی میں رہتا۔ نہالچے پر لٹانے کی نوبت نہ آئی تھی۔
اپنے ہی گھر میں ماں، نانی، خالہ، ممانی ایک کم آدھی درجن سگی بہنیں۔ اتنے آدمی لینے والے تھے کہ ایک سے ایک چھینے لیتا تھا۔
باپ کا یہ حال کہ جتنی دیر ممکن تھا، گھر میں رہتے اور جتنی دیر گھر میں رہتے خود لئے رہتے یا پیش نظر رکھتے۔ مبتلا کے پہلے پانچ بلکہ سات آٹھ برس کی زندگی یعنی جب تک وہ محتاج پرورش رہا، اس قابل ہے کہ مستقلاً ان حالات کی ایک کتاب لکھی جائے مگر ہم کو تو اس کے دوسرے ہی معاملات سے بحث کرنی ہے۔ اس کی پرورش کے متعلق ہم اتنا ہی لکھنا کافی سمجھتے ہیں۔
کہ اگرچہ خاندان کے لوگ سب کے سب دین کے پابند نہ تھے، مگر مبتلا کا باپ بڑا نمازی اور پرہیز گار آدمی تھا۔ مولوی شاہ حجت اللہ صاحب کے وعظ سے اس کو ایسا عشق تھا کہ آندھی جائے، مینہ جائے، طبیعت درست ہو نہ ہو جہاں سنا کہ مولوی صاحب کا وعظ ہے سب سے پہلے موجود۔ گھر کی بڑی بوڑھیاں بھی نماز پڑھتی تھیں باہمی جو احتیاطیں مبتلا کی پرورش میں بڑھتی جاتی تھیں۔
ان سے ایسا مستنبط ہوتا تھا کہ ان لوگوں کے پندار میں مبتلا کی تندرستی نہ صرف غذا سے آب و ہوا سے بلکہ مکان سے برسوں سے، مہینوں سے، دنوں سے لیل و نہار کے خاص خاص اوقات سے اپنے بیگانے کی نگاہ سے آئے گئے کی پرچھائیں سے، لوگوں کی باتوں سے، دلی خیالات سے تنہائی سے، تاریکی سے، چاندنی سے، کسوف خسوف سے، کتے سے، بلی سے، چھپکلی سے، دیو سے، بھوت سے، جن سے، پری سے، غرض ہر چیز سے جو واقعی ہے اور ہر چیز سے جو ادعائی ہے، معرض خطر میں ہے ہم تو معاذ اللہ کسی کلمہ گو مسلمان پر کفر اور شرک کا الزام کیوں لگانے لگے۔
مگر بہ مجبوری اتنی بات کہنی پڑتی ہے کہ مبتلا کے ساتھ جو برتاؤ کئے جاتے تھے واہمہ شرک اور مطنئہ کفر سے خالی نہ تھے۔ یہ بات کہ جس خدا نے ہم کو پیدا کیا ہے وہی ایک وقت مقررہ تک جس کا حال اسی کو معلوم ہے، ہماری زندگی اور تندرستی کی حفاظت کرتا ہے اور جس طرح بغیر اس کے فضل و کرم کے ہم دنیا میں رہ بھی نہیں سکتے تھے۔ سوتے جاگتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے کہیں اور کسی حالت میں ہوں۔
ہم اس کی پناہ میں ہیں اور اس کا سایہ رحمت ہمارے سر پر ہے۔ وہ ہر مرض میں ہمارا طبیب ہے اور ہر مصیبت میں ہمارا معین و مددگار۔ ہر تکلیف میں ہمارا غمگسار۔ بغیر اس کی مرضی کے نہ غذا میں تقویت ہے نہ دوا میں تاثیر۔ بغیر اس کے حکم کے نہ زہر زہر ہے نہ اکسیر اکسیر۔ غرض یہ بات ان لوگوں کے معتقدات میں تو ضرور ہو گی جو مبتلا کو پال رہے تھے مگر ان کے برتاؤ میں تو کل و انابت کی کوئی بات ہمارے دیکھنے میں نہ آئی بلکہ ان کی تدبیریں سن کر حیرت ہوئی تھی کہ مبتلا کا پلنا اور پرورش پانا کیسا تھا۔
یہ گراں جان ان نادان دوستوں کے ہاتھ سے بچ کیوں کر گیا۔ کوئی دکھ کوئی روگ نہ تھا کہ جس کو یہ لوگ اسباب غلط اور ادعائی نظر آسیب وغیرہ کی طرف منسوب نہ کرتے ہوں اور چونکہ تشخیص میں غلطی ہوتی اسی وجہ سے جو تدبیریں کی جاتی تھیں غلط در غلط مگر مبتلا خلقتاً توانا پیدا ہوا تھا۔ ہمیشہ اس کی طبیعت امراض پر غالب آتی رہی۔
بہرکیف مبتلا کسی نہ کسی طرح خدا کے فضل سے پل پلا کر بڑا ہوا۔ یہاں تک کہ ان گنا یعنی آٹھواں برس بھی خیریت کے ساتھ گزرا، جسے میٹھا برس بھی کہتے ہیں۔ مبتلا کی تعلیم و تربیت سے مستورات کو ظاہر میں تو کچھ سروکار نہ تھا۔ ہر چند وہ مکتب میں نہیں بیٹھا، کسی استاد سے اس نے سبق نہیں لیا تاہم ہمارے نزدیک (اور ہمارے نزدیک کیا بلکہ واقع میں) ایک اعتبار سے اس کی تعلیم و تربیت بہت ہو چکی تھی۔
دنیا میں سارے لوگ پڑھے لکھے نہیں ہوتے اور نہ پڑھنے لکھنے پر زندگی یا معاش کا انحصار ہے۔ اصل چیز ہے عادت کی درستی، مزاج کی شائستگی طبیعت کی اصلاح سو جس وقت سے بچہ پیدا ہوتا ہے۔ اسی وقت سے وہ ماحول سے سیکھ کر چلتا ہے ان لوگوں کی خوبو جو اس کو پالتے، اس کو اٹھاتے بٹھاتے، اس کو سلاتے اور اس کو کھلاتے پلاتے ہیں۔
ظاہر میں معلوم ہوتا ہے کہ ایک مضغئہ گوشت کی طرح پڑے ہیں، نادان اور لایعقل نہیں ہیں۔
وہ اپنے سارے حواس سے ظاہری ہوں یا باطنی بڑی کوشش کے ساتھ کام لے رہے ہیں۔ چیزوں کو دیکھتے ٹٹولتے آوازوں کو سنتے اور جو دیکھتے سنتے اس کو حافظے میں رکھتے جاتے ہیں۔ اس کی ایک آسان شناخت ہے کہ اگر بڑی عمر میں ہم کوئی دوسری زبان سیکھنی چاہئیں تو کس قدر کوشش کرنی ہوتی ہے۔ بعض بعض اوقات سارے سارے دن رٹنا پڑتا ہے اور ہم کو اپنی مادری زبان سے لکھنا آتا ہے تو لکھنے سے اس زبان کو صرف ونحو سے لغت سے بھی بڑی مدد ملتی رہتی ہے۔
تب ہم کو کہیں برسوں میں جا کر وہ زبان آتی ہے۔
تاہم ناقص و نا تمام بچے جن کو ہماری سہولتوں میں کوئی سہولت بھی حاصل نہیں، کیا کچھ زحمت اٹھاتے ہوں گے کہ ذہین ہوئے تو برس کے اندر ہی اندر ورنہ ڈھائی تین برس کی عمر میں تو مٹھے لدھڑ کند ذہن تک طوطے کی طرح چرغنے لگتے ہیں۔ کیا اتنی بات سے کہ کسی نے پپا مما اور اما، دس بیس بار سکھانے کے طور پر ان کے سامنے کہہ دیا۔
کوئی دعویٰ کر سکتا ہے کہ ہم نے ان کو بولنا سکھایا، زبان کی تعلیم کی۔ نہیں یہ سب بچوں کی ذاتی کوشش ہے۔ پھر یہ خیال کرنا بھی غلط ہے کہ بچوں کی ساری ہمت صرف زبان کے سیکھنے میں مصروف رہتی ہے۔ ایک زبان ہی نہیں بھلا بُرا، ادب قاعدہ، نشست برخاست، رغبت اور نفرت، سود و زیاں، دوست دشمن، خویش و بیگانہ، محبت اور عداوت، حیا اور غیرت، غصہ اور لالچ، حسد اور رشک وغیرہ وغیرہ سارے سبق ان کو ایک ساتھ شروع کرا دیئے جاتے ہیں۔
پس مبتلا جس کی عمر آٹھ برس ہو چکی تھی۔ پڑھ چکا تھا۔ جو کچھ اس کو پڑھنا تھا۔ وہ پڑھ چکا تھا۔ جو کچھ اس کو سیکھنا تھا۔ ماں سے، باپ سے، نانی سے، خالہ سے، بہنوں سے، گھر کے نوکروں سے، آئے گئے سے، عمر کے اعتبار سے اس کی تعلیم و تربیت کی ایسی مثال تھی کہ جیسے کپڑا مول لیا گیا، درزی نے قطع کیا، سیا اور کھڑا کرنے کے بعد اس نے پہنا کر بھی دیکھ لیا۔
صرف بخیہ کر دینا باقی ہے۔ اب اگر کپڑا بد رنگ یا گلا ہوا نکلے یا کہیں سے تنگ ہو جائے تو درزی اس میں کیا کمال کرے گا۔ کپڑا لیتے وقت یا قطع کراتے وقت یہ باتیں دیکھنے کی تھیں اور نہیں دیکھیں تو جھک مارو اور وہی پہنو گلا ہوا، کہ پہنا اور کھسکا، کچے رنگ کا جس میں پہلے ہی دن دھبے نمودار ہوں۔ یہاں تک کہ پہلے سے بدن میں بدھیاں پڑیں اور سانس اندر کا اندر اور باہر کا باہر رہ جائے اب دیکھنا چاہیے کہ مبتلا پر زنان خانے کی تعلیم کا کیا اثر مترتب ہوا تھا۔
جوں جوں وہ بڑا ہوتا گیا، ضدی، چڑچڑا، غصیلا، مچلا، ٹنیلا زودرنج، مغرور، خود پسند، طماع، حریص، تنگ چشم، بودا، ڈرپوک، شوخ شریر، بے ادب، گستاخ، کاہل، آرام طلب، جابر، سخت گیر، گھر گھسنا، زنانہ مزاج بنتا گیا۔ اس کو دنیا و مافیہا کی کچھ خبر تو تھی نہیں، کبھی وہ بے رت کے پھلوں اور بے موسم کے میووں کے لیے گھنٹوں لوٹتا اور پٹخنیاں کھاتا، پہروں ایڑیاں رگڑتا اور آخر کو ایڑیوں کے بدلے اپنے چاہنے والوں اور ناز برداروں سے ناک رگڑوا لیتا تب بہ مشکل چپ کرتا، وہ جب جی چاہتا جو چیز چاہتا جتنی چاہتا کھاتا اور اپنی بے اعتدالیوں اور بے احتیاطیوں سے بیمار پڑتا اور الٹا ماں سے لڑتا۔
ایک مرتبہ وہ اس بات پر خوب رویا اور بہت بکھرا کہ ہائے بادل کیوں گرج رہا ہے۔ ہر چند سارا گھر اس بات کے اہتمام میں لگا رہتا تھا کہ کوئی امر اس کے خلاف مزاج نہ ہو۔ مگر اس کے رونے اور بگڑنے کے لیے ہر وقت کوئی نہ کوئی بہانہ ایک نہ ایک حیلہ مل ہی جاتا تھا۔ اس کی ناخوشی کا روکنا حقیقت میں انسان کے اختیار سے خارج اور آدمی کی قدرت سے باہر تھا۔
کوئی جان نہیں سکتا تھا کہ وہ کس بات پر روٹھ جائے گا اور روٹھے پیچھے کسی کو خبر نہ تھی کہ وہ کیونکر منے گا۔ لاکھ اللہ آمین کیوں نہ ہو، کہاں تک برداشت، کتنا تحمل، آخر رفتہ رفتہ لوگ اس کے لاڈ پیار میں کمی کرنے لگے۔ سب سے پہلے بڑی اور بیاہی ہوئی صاحب اولاد بہنوں نے بے رخی ظاہر کی۔ آخر تھیں تو اس کی بہنیں، جب اس کی شوخی و شرارت سے عاجز آتیں جھڑک دیتیں اور گھرک بیٹھتیں بلکہ ایک تو ایسی جلے تن تھی کہ یہ اس کے پاس بھانجے کو دق کرنے اور بوٹیاں توڑنے گیا اور اس نے دور ہی سے ڈانٹا کہ خبردار جو میرے بچے کو چھیڑا۔
میں ایسے چوچلے ایک نہیں سمجھتی۔ دیکھو خدا کی قسم میں مار بیٹھوں گی۔ ماں کا بھی مبتلا کے ہاتھوں دم ناک میں تھا۔ مگر جیسا کہ کہتے ہیں کہ انسان کو ایک چیز کی محبت اندھا کر دیتی ہے لہٰذا وہ کھسانی تو ہوتی تھی مگر ادھر جوش آیا اور فوراً ٹھنڈی پڑ گئی۔ تیوری پر بل پڑ چلا تھا کہ کھلکھلا کر ہنس دی۔ مبتلا کی برائیوں کو برائی سمجھنا تو درکنار وہ اس کی طرف سے ساری دنیا کے ساتھ ہر وقت لڑنے کو تیار تھی ایک مرتبہ مبتلا خدا جانے کس بات پر پیچھے سے ماں کی چوٹی گھسیٹتے جاتا تھا۔
سب سے بڑی بہن نے (جس کی پہلو نٹی بیٹی مبتلا سے بھی دو برس بڑی تھیں) دیکھ کر کہا: سبحان اللہ کیا ماں کا وقار ہے۔ لاڈ پیار بہت دیکھے مگر اتنا ناہموار، اس درجے بے تمیز جب ماں کا یہ بدڑا کر رکھا ہے تو ہمارا تو سر مونڈ کر بھی بس نہیں کرے گا۔ ہائے تو میرا بیٹا نہ ہوا تجھ کو ایسا ٹھیک بناتی کہ یاد ہی تو کرتا۔ باوجود یکہ بیٹی نے نصیحت کی بات کہی تھی مگر ماں پنجے جھاڑ کر اس کے پیچھے لپٹی اور سر ہو گئی۔
ماں کی پردہ داری کی وجہ سے باپ کو مبتلا کی شوخیوں کی پوری پوری خبر نہیں ہونے پاتی تھی پھر بھی جس قدر حال چار و ناچار معلوم تھا اس سے انہوں نے اتنا تو سمجھ لیا تھا کہ اس کا اٹھان اچھا نہیں۔ مبتلا کو چھٹا سال لگا تھا۔ باپ نے اس کو مکتب میں بٹھانا چاہا۔ عورتوں نے عذر کیا کہ آئے دن تو یہ بیمار رہتا ہے۔ مکتب کی قید، استاد کی تنبیہہ سے اس کا نگوڑا اتنا سا جی رہا سہا اور بھی اداس ہو جائے گا۔
ابھی جینے تو دو اور مبتلا کی ماں نے تو کھلا کھلا کہہ دیا کہ جب تک اصلی خیر سے اَن گنا نہ گزر جائے میں تو اس کو نہ لکھاؤں نہ پڑھاؤں غرض عورتوں کی ہٹ اور ہیکڑی نے مبتلا کے پورے تین برس کھوئے مگر سچی بات یہ ہے کہ مبتلا کا باپ اپنی طرف سے برابر اس کی کوششوں میں لگا رہا۔ اس پر بھی جو مبتلا تین برس تک آوارہ ہوتا رہا تو یہ اس کے باپ کا تساہل اور کمزوری، ماں کی نادانی اور حماقت اور خود مبتلا کی بدقسمتی اور کم بختی تھی۔
اتنا تھا کہ جب باپ کو مبتلا کی کوئی بے جا بات معلوم ہوتی تو اسے ڈراتے دھمکاتے تو نہیں مگر نرمی اور دل جوئی کے ساتھ اس کو سمجھا ضرور دیتے کہ بیٹا یہ حرکت بہت نامناسب ہے اور خود اس کے ساتھ ظاہری پیار اخلاص اتنا نہ رکھتے کہ ماں کی چوٹی کے ساتھ ان کی داڑھی بھی کھسوٹنے لگتا۔
مبتلا کو باپ کا کسی طرح کا خوف تو نہ تھا۔ مگر یوں کہو کہ زیادہ میل جول نہ ہونے کی وجہ سے ایک طور کی جھجک اور رکاوٹ تھی۔
چاہو اس کو لحاظ سے تعبیر کر لو۔ مگر کیا اتنا کرنے سے مبتلا کے باپ نے باپ ہونے کا فرض ادا کیا۔ ہرگز نہیں۔ اس نے عورتوں کو مبتلا کی شرارتوں کی پردہ داری کرنے دی۔ اس نے بیٹے کے حالات سے پوری پوری خبر نہ رکھی۔ اس نے جتنی خبر رکھی اس کا بھی تدارک جیسا چاہیے تھا نہ کیا۔ اس نے مستورات ناقصات العقل کی رائے میں آکر جلد سے جلد بیٹے کو پڑھنے کے لئے نہ بٹھایا اور اس کے اکٹھے تین برس ضائع ہونے دیئے اتنا غنیمت ہوا کہ مبتلا کو اس کی ماں نے اپنے وہم کے پیچھے اکیلا دو کیلا گھر سے باہر نہیں نکلنے دیا ورنہ محلے میں دھوبی کنجڑے، بھٹیارے، قصائی، تیلی اس قسم کے لوگ بھی رہتے تھے۔
اگر کہیں مبتلا ان لوگوں کے لڑکوں میں کھیلنے کودنے پاتا تو ساری خوبیاں جا کر ایک ذاتی شرافت باقی تھی وہ بھی گئی گزری ہوتی۔ جب تک میٹھا برس ختم ہو، مبتلا کے مزاج کی تلخی بڑھ گئی تھی۔ ادھر ابھی سالگرہ کو دو تین مہینے باقی تھے کہ باپ نے بسم اللہ اور مکتب کی چھیڑ چھاڑ شروع کی۔ بارے اس مرتبہ عورتوں نے بھی چنداں مزاحمت نہیں کی اور سالگرہ اور بسم اللہ دونوں تقریبیں ایک ساتھ ہو گئیں۔
دوسرا باب: مبتلا کی تعلیم مکتبی اور اس کا اثر
اتنا تو ہوا کہ مبتلا کے لیے دروازے پر مکتب بٹھانا پڑا۔ شروع شروع میں تو میاں جی کے پاس تک جانے اور مکتب میں بیٹھنے کے لیے مبتلا نے خوب خوب فیل مچائے اور غضب بکھرا مگر آخر سودے کی چاٹ اور پیسوں کے لالچ اور ماں کے چمکارنے پچکارنے سے جانے اور بیٹھنے تو لگا۔
بیٹھے پیچھے پڑھنا چنداں مشکل نہ تھا۔ ذہن اور حافظہ دونوں خدا داد اس بلا کے تھے کہ جو دوسرے لڑکے ہفتوں میں کرتے تھے۔ وہ بھی بڑی ریں ریں کے ساتھ مبتلا گھنٹوں میں کھیلتے کودتے، چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے کر لیتا۔ کہتے ہیں کہ دو دن میں تو اس نے الف بے کے حروف مفرد ایسی اچھی طرح پہچان لیے تھے کہ کتابوں میں سے آپ ڈھونڈ ڈھونڈ کر بتاتا۔
پڑھنا تھا کہ اس کے ساتھ واہ واہ شاباش شروع ہوئی۔
اس کے دل کی امنگ بڑھتی چلی اور ہر دا کھلتا گیا۔ مبتلا نہ مطالعہ دیکھتا نہ سبق یاد کرتا، نہ آموختہ پڑھتا۔ مگر ایک ہی دفعہ کے دیکھ لینے سے وہ سب ہم سبقوں میں میر ہی رہتا تھا۔ بدشوخی اور شوخی اور شرارت کی نسبت جو چاہو سو کہو۔ پڑھنے لکھنے کے متعلق تو میاں جی کو اس کی شکایت کرنے کا موقع نہ ملا۔ پرلے سرے کی بے توجہی اور حد درجے کی بدشوخی پر چھ برس میں اس کی فارسی کی استعداد ایسی ہو گئی تھی کہ مکتب کے لڑکے تو کیا خود میاں جی باوجود یہ کہ اچھے جید فارسی دان تھے اور درسی کتابیں بھی ان کو خوب مستحضر تھیں۔
اس کو سبق دیتے ہوئے بھناتے تھے۔
مبتلا کو مکتب کی تعلیم نے اتنا فائدہ تو پہنچایا کہ اس کو ایک دوسرے ملک کی زبان جس کے بغیر اُردو کی تکمیل نہیں ہو سکتی اچھی خاصی آگئی مگر اس کی تعلیم سے اس کو ایک بہت بڑا نقصان بھی پہنچا جس کو اندر باہر کسی نے جانا پہچانا نہیں۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ مبتلا کو اپنا حسین ہونا کب سے معلوم ہوا۔ ہم اوپر لکھ چکے ہیں کہ اس خاندان میں شکل صورت کی بڑی پرچول رہتی تھی۔
اس خاندان کی عورتوں کے نزدیک تو دنیا بھر کے ہنر، سلیقے، حسب نسب، دولت، تندرستی، نیک مزاجی، صاحب اولاد ہونا، دینداری ساری نعمتیں اور برکتیں ایک طرف اور گورا رنگ اور نقشہ ایک طرف۔ صورت شکل تو انسان کے اختیار کی بات نہیں۔ خدا جس کو جیسا چاہتا ہے بناتا ہے۔ ایک ہی ماں کے پیٹ سے دس بچے ہوتے ہیں اور کیا خدا کی قدرت ہے کہ دس کی دس شکلیں الگ۔
ورنہ ایک دوسرے سے ملتبس ہو کر کوئی پہچان نہ پڑے، انسان کے چہرے کی بساط کیا، اتنی ہی سی، جگہ میں ہزاروں لاکھوں کروڑوں مختلف نقشے یہ سب اس کی قدرت کی دلیلیں ہیں۔ آدمی اتنا سمجھے تو اپنے چہرے مہرے پر نہ ناز کرے نہ دوسرے پر ہنسے، مگر مبتلا کے خاندان کو ایسے خیالات سے کیا واسطہ، یہاں تو چھوٹے بڑے، بڈھے جوان، بیاہے کنوارے سب کو صورت شکل کو پٹنا تھا۔
آپس ہی میں اس صورت شکل کے پیچھے ایک کی ایک سے نہیں بنتی تھی۔ ایک ایک کو چڑاتی۔ ایک ایک کی نقلیں کرتی اور اتفاق سے کنبے میں کوئی تقریب ہوتی اور یہ لوگ مہمان جاتے یا کہیں شامت کی ماری کسی نئی دلہن کو دیکھ آتے تو بس مہینوں ان کی صورتوں کا جھگڑا لگا رہتا۔ یہاں تک کہ ان عورتوں کی ایسی عادتیں دیکھ کر لوگ ان سے ملنے میں مضائقہ کرنے لگے تھے۔
مبتلا کا ایسے خاندان میں پیدا ہونا اورپرورش پانا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ جب اس کو بات کے سمجھنے کا شعور ہوا تو شاید سب سے پہلی بات جو اس نے سمجھی، یہی ہو گی کہ حسن صورت اس کو کہتے ہیں اور میں اس کا مصداق ہوں مگر جب تک مبتلا زنان خانے کی نگرانی میں رہا اس کی عمر ہی کیا تھی۔ سات آٹھ برس اس وقت تک وہ اتنا ہی سمجھ سکتا تھا کہ میٹھی چیز سب کو بھاتی ہے اور چونکہ وہ اپنے ذائقے میں بھی اس کی لذت پاتا تھا۔
اس نے سمجھا تھا کہ حقیقت میں بھانے کی چیز ہے۔ آگ کو چھوتے ہوئے لوگ ڈرتے ہیں اور اس نے بھی شاید دوچار بار اس سے چہکا کھایا ہو۔ اس کو معلوم تھا کہ آگ سے جل جاتے ہیں۔ غرض جس چیز کی نسبت لوگوں کو کہتے سنا کہ اچھی یا بُری ہے۔ آپ بھی تجربہ کیا تو ثابت ہوا کہ جس چیز سے آرام پہنچے دل کو خوشی ہو، اچھی ہے اور جس سے ایذا پہنچے تکلیف ہو بُری۔ حسن کی خوبی کی نسبت اس کو ایسا یقین کرنے کا کوئی ذریعہ نہ تھا۔
کیونکہ اس کو حسن سے متلذذ ہونے کی اس وقت تک اہلیت ہی نہ تھی۔ مکتب میں بیٹھنے کے بھی ایک مدت بعد اس میں جوانی کے ولولوں کی تحریک شروع ہوئی اور جوں جوں یہ تحریک قوت اور اشتداد پکڑتی گئی۔ اس پر پسندیدگی حسن کی وجہ منکشف ہوتی گئی۔ اسی کا تذکرہ گھر میں تھا اور اسی کا سبق مکتب میں اور اب لگا اندر سے دل بھی اس کی گواہی دینے۔ مبتلا نے جو زبان فارسی کے سیکھنے میں غیرمعمولی ترقی کی۔
اس کا بھی سبب یہی تھا کہ اکثر کتابیں نظم کی جن کو مبتلا کی شکل صورت کا آدمی بے مزا میر ذرالے پڑھے تو اچھے خاصے ثقہ مجرے کا مزا ملے۔ مضمون دیکھو تو چھڑا عاشقی جس کے نام سے نوعمر آدمی کے منہ میں رال بھر آئے۔ مادہ قابل، طبیعت مناسب، مبتلا کا تو حال یہ تھا کہ جو شعر عاشقانہ ایک بار بھی اس کی نظر سے گزرا۔ دیکھنے کے ساتھ ہی پتھر پر لکیر ہو گیا۔ غرض فیضانِ مکتب سے حضرت میں ایک صفت اور پیدا ہوئی یعنی عاشق مزاجی۔
تیسرا باب:مدرسے کی تعلیم اور بُری صحبت
مبتلا کے باپ کی تو پہلے ہی سے یہ رائے تھی کہ اس کو شروع سے مدرسے میں بٹھایا جائے مگر عورتوں کو مبتلا کی اتنی مفارقت بھی گوارا نہ ہوئی۔ ناچار پورے چھ برس میاں جی کو نوکر رکھ کر اس کو گھر ہی پر تعلیم کرایا۔ اب میاں جی کا بھی سرمایہ معلومات ہو چکنے پر آیا اور فارسی کی درسی متداول کتابیں سب مبتلا کی نظر سے نکل گئیں۔
اور بات صاف تو یہ ہے کہ مبتلا کے سر میں اب اور ہوا بھری ہوئی تھی۔ اس کی آنکھیں ڈھونڈتی تھیں یاروں کے جلسے، دوستوں کی صحبتیں اور وہ گھر پر میسر نہ تھیں۔ باپ نے کچھ اور سوچا مبتلا نے کچھ اور۔ غرض سب کی صلاح سے مبتلا مدرسے میں داخل ہوا۔ مبتلا نے چھ برس مکتب میں تعلیم پائی مگر مکتب کیا تھا برائے نام اس کا جی بہلنے کے لیے چار پانچ ریزگی لڑکے اور بٹھا لیے گئے تھے، یعنی ایک حساب سے چودہ برس کی عمر تک مبتلا بھونرے میں پلا اور دنیا کی کسی قسم کی ہوا اس کو نہ لگنے پائی۔
اب جو مدرسے کی عربی جماعت میں داخل ہوا تو اس نے دیکھا لڑکوں کا جنگل کہ سات سات آٹھ آٹھ برس کی عمر سے لے کر بیس پچیس برس تک کے اچھے خاصے جوان ہر ذات کے ہر پیشے کے چار ساڑھے چار سو لڑکے ایک جگہ جمع ہوتے ہیں۔ اگرچہ انگریزی، عربی، فارسی، سنسکرت، ریاضی کی جماعتیں علیحدہ علیحدہ ہیں اور ہر جماعت کا کمرہ الگ مگر اوقات درس کے علاوہ سب ایک دوسرے سے بلاامتیاز آزادانہ ملتے بات چیت کرتے اور کھیلتے ہیں۔
مبتلا کو یہ حال دیکھ کر بلامبالغہ ایسی خوشی ہوئی جیسے کسی جانور کو قفس سے آزاد کر کے باغ میں چھوڑ دیا جائے۔ اب تک وہ یہی جانتا تھا کہ میاں جی ہوئے، مولوی ہوئے، بڈھے ہی ہوتے ہوں گے۔ کیونکہ اس نے اپنے میاں جی کو دیکھا تھا پلکیں تک سفید یہاں مدرسے میں آکر دیکھا مدرس اکثر جوان کہ اب سے چار چار پانچ پانچ برس پہلے خود طالب علم تھے۔
امتحان دیا، پاس ہوئے، زمرئہ مدرسین میں داخل کر لیے گئے۔ اس کو یہ دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی کہ بعض مدرس اپنی جماعت کے بعض بعض طالب علموں سے بھی کم سن ہیں۔ جس جماعت میں مبتلا داخل ہوا چونکہ عربی کی سب سے چھوٹی جماعت تھی۔ اس میں طالب علموں کی بڑی کثرت تھی۔ رجسٹر میں سو ستر لڑکوں کا نام تھا مگر پچاس پچپن ہمیشہ حاضر رہتے تھے۔ ان میں سے ایک تہائی کے قریب مبتلا سے بھی بہت بڑی عمر کے تھے۔
اس جماعت کو جو مولوی صاحب پڑھاتے تھے جیسے ان کی جماعت سب جماعتوں میں چھوٹی تھی ویسے ہی تمام مدرسوں میں خود بھی سب سے چھوٹے تھے۔ عمر میں، قدوقامت میں، وقعت وجاہت میں، یعنی قسمت سے مدرس بھی ملے تو یار۔ استاد لونڈا تھا، نکیلا اور طرح دار مدرسے کے احاطے میں پاؤں کا دھرنا تھا کہ یاروں نے مبتلا کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ بعضے تو ٹکٹی باندھ باندھ کر ایسی بُری طرح گھورتے تھے کہ گویا آنکھوں کے رستے کھائے جاتے ہیں۔
پہلے ہی سے لڑکوں میں بہت سی ٹولیاں تھیں۔ اب ایک بڑی بھاری اور نئی ٹولی مبتلا کی قائم ہوئی ایک جماعت بندی تو سرکاری تھی کہ جس قدر لڑکے ہم سبق ہوتے سب کے سب وقت واحد میں ایک استاد سے پڑھتے۔ مگر ایک جماعت بندی لڑکوں نے آپس میں ٹھہرا رکھی تھی جس کو ہم نے ٹولی سے تعبیر کیا۔ جس طرح سرکاری جماعت بندی کے اوقات مقرر تھے کہ مثلاً جب ریاضی کا گھنٹہ آیا، عربی اور فارسی اور سنسکرت کی جماعتوں سے جو جو ریاضی کا پڑھنے والا تھا، ماسٹر صاحب کی خدمت میں آحاضر ہوا۔
اسی طرح ٹولیوں کے اجتماع کے بھی خاص خاص اوقات تھے۔ مدرسے کے وقت سے ذرا پہلے لڑکے سویرے مدرسے میں آپہنچتے یا جب ایک بجے نماز کے لیے ایک گھنٹہ کی چھٹی ہوتی یا مدرسہ برخاست ہونے کے بعد ان تین وقتوں میں جو لڑکا جس ٹولی کا تھا اس میں آملتا اور بعض پھٹیل بھی پڑے پھرتے تھے، جو کسی ٹولی میں نہ تھے۔ یہ ٹولیاں ایک مجمع ناجائز تھیں اور ان کی اغراضِ مشترکہ تمام تر بے ہودہ۔
مدرسے کے سارے انتظام اچھے تھے۔ چیزیں وہ پڑھاتے تھے جو دنیا میں بکار آمد ہوں شوق کے مشتعل کرنے کو امتحان کا قاعدہ نہایت عمدہ تھا۔ فرداً فرداً ایک ایک لڑکے کو الگ الگ سبق پڑھانے سے جماعت جماعت کو پڑھانے کا نہایت مفید طریقہ تھا اس سے لڑکوں میں ایک طرح کی مناقشت پیدا ہوتی تھی کہ ایک پر ایک سبقت لے جانی چاہتا تھا۔ دوسرے ہم سبق ہونے سے ایک ایک کی مدد کر سکتا تھا، تیسرے لڑکوں کی لیاقت کا موازنہ اور مقابلہ بخوبی ہو سکتا تھا۔
لڑکوں کو حاضر باشی کا پابند کرنے کے لیے ترتیب، نشست کا ردوبدل بھی بہت موثر تھا۔ پڑھائی اس قدر تھی کہ لڑکوں کو تمام وقت مشغول رکھنے کے لیے بخوبی کافی تھی۔ نوبت بہ نوبت مختلف مضامین کے پڑھانے سے طبیعت ملول اور کند نہیں ہونے پاتی تھی۔ غرض سبھی انتظام بھلے تھے، مگر افسوس لڑکوں کے چال چلن اور اخلاق کی طرف کسی کو مطلق توجہ نہ تھی۔ ہر مدرس اس فکر میں رہتا کہ جس چیز کا پڑھانا اس سے متعلق ہے۔
اس چیز کے امتحان میں لڑکے بُرے نہ رہیں جب تک کوئی لڑکا اس شرط کو پورا کیے جاتا ہے۔ اگرچہ چوری چھپے ناجائز طور پر دوسرے سے مدد لے کر ہی کیوں نہ ہو کسی کو اس کے کردار سے بحث نہیں، چوری کرو، جھوٹ بولو، سربازار جوتی پیزار لڑلو، گالیاں دو اور گالیاں کھاؤ، شرافت کو بٹالگاؤ، بدمعاشوں میں رہو اور بدمعاش بنو، پتنگ لڑاؤ، اکھاڑے میں جا کر ڈنٹر پیلو، مگدرہلاؤ، گاؤبجاؤ غرض جو تمہارا جی چاہے سو کرو مگر جو چیزیں پڑھائی جاتی ہیں ان میں امتحان اچھا دو تو سکالر شپ بھی ہے، انعام بھی، سرخ روئی بھی ہے، آفرین اور تحسین بھی ہے، واہ واہ بھی ہے۔
اور آخر کار نوکری بھی ہے۔ مدرس خوش، پرنسل صاحب راضی، مبتلا کی افتاد تو روزِ پیدائش سے بگڑی ہوئی تھی۔
زنان خانے میں پرورش پاتا تھا کہ اس کے دل میں بدی کا بیج بویا گیا۔ مکتب میں تھا کہ بیج کا درخت ہوا۔ اب مدرسے میں آکر وہ درخت پھلا پھولا۔ گھر میں بچھڑا تھا۔ مکتب میں بچھڑے کا بیل ہوا اور مدرسے میں بیل کا سانڈ۔ کسی قسم کی آوارگی نہ تھی جو اس سے بچی ہو اور کسی طرح کی بے ھودگی نہ تھی جو اس نے نہ کی ہو۔
جس طرح مبتلا مدرسے کے بُرے لڑکوں کی صحبت میں بانکا بنا، چھیلا بنا، طرح دار بنا، مسخرہ بنا، کوچہ دار بنا، ننگ خاندان بنا اور کیا کیا بنا۔ اسی طرح مبتلا تخلص رکھ کر شاعر بنا، نصیحتیں تو رفتہ رفتہ بھولی بسری ہو گئیں۔ شاعری کی یادگار اس کا منحوس تخلص رہ گیا۔ ہم کو تو اس کے نام سے اس قدر نفرت ہو گئی ہے کہ اس کے حالات کا دریافت کرنا کیسا سننے کو بھی جی نہیں چاہتا مگر خیر منہ پر بات آئی رک نہیں سکتی۔
آٹھ برس یہ کم بخت مدرسے میں رہا۔ آخر کچھ نہ کچھ پڑھتا ہی ہو گا کہ عربی کی دوسری جماعت تک اس نے ترقی کی۔ دس روپے مہینہ وظیفہ پاتا تھا۔ برس کے برس انعام بھی ملتے رہتے تھے ایک سال سنا کہ ایسا اچھا امتحان دیا تمغہ ملا۔ یہ کچھ تعجب کی بات نہیں اور نہ اس سے آوارگی کا الزام رفع ہو سکتا ہے۔ ہم کو اس کی ذکاوت کا حال معلوم ہے وہ اس بلا کا ذہین تھا کہ مدرسے کی پڑھائی اس کے آگے کچھ حقیقت ہی نہ تھی۔
برس میں ایک بار تو امتحان ہوتا تھا۔ اکثر انگریزوں کے بڑے دن سے پہلے پس امتحان کے مہینے ڈیڑھ مہینے آگے سے وہ تیاری کر لیتا ہو گا لیکن فرض کیا کہ وہ اچھی طرح پڑھتا ہے گر بدوضع کو پڑھنے سے فائدہ علم سے حاصل۔ اس سے جاہل بمدراج بہتر ان پڑھ کہیں بھلا۔ مدرسے سے سوا پہر رات گئے بلکہ کبھی آدھی کبھی پچھلی رات کو تو اس کا گھر میں آنے کا معمول شروع سے تھا اور پھر اچھی طرح سورج نکلا کہ اس کے شریر لڑکے لگے گھر پر آکر کنڈی کھٹکھٹانے، دستک دینے اور پکارنے سیٹی بجانے۔
اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ تین تین چار چار دن تک برابر غائب ماں کو یہ تمام تفصیلی حالات معلوم تھے۔ مگر اب اس کی محبت کا دوسرا رنگ تھا۔ بیٹے سے اس قدر ڈرتی تھی جیسے قصائی سے گائے۔ اس کے اندر آپ سے آپ یہ خوف سما گیا تھا کہ بیٹا ہے۔ ماشاء اللہ جوان۔ ایسا نہ ہو میری بات کا بُرا مان کر کہیں کو نکل جائے۔ یا اپنے تئیں ہلاک کرے تو پھر میں کدھر کی ہوئی۔
اس ڈر کے مارے بے چاری کبھی چوں نہیں کرتی تھی اور مبتلا نے اپنے تئیں اس کے نزدیک ایسا ہوا بنا رکھا تھا کہ جب اس کی صورت دیکھتی ہکا بکا ہو کر رہ جاتی۔ پہلے سے بھی مبتلا کی شرارتوں کی باپ سے پردہ داری کی جاتی تھی۔ اب انہیں شرارتوں کی بدکرداریاں ہو گئی تھیں۔ ادھر شرارتوں میں ترقی ہوئی ادھر پردہ داری میں زیادہ اہتمام ہونے لگا۔ مگر باپ نے دھوپ میں داڑھی سفید نہیں کی تھی۔
بڈھا اس کی چال ڈھال سے اس کی گفتگو سے اس کی کن انکھیوں سے تاڑ لیتا تھا۔ مگر بی بی کا مغلوب تھا اور خوب جانتا تھا کہ اس کو بیٹے کے ساتھ بلاکا شغف ہے اور یوں بھی ہر کام میں مساہلت کرنا اس کی ہمیشہ کی عادت تھی اور انہیں وجوہ سے اس نے مبتلا کی اصلاح کی طرف کبھی پوری توجہ نہ کی۔ اب جوان بیٹے کے کیا منہ لگتا۔ ایک کہتا تو دس سنتا آخر اس کے سوائے اور کچھ نہ سوجھ پڑی کہ جس قدر جلد ممکن ہو اس کو پابند کر دیا جائے۔
#…#…#
چوتھا باب: مبتلا کا بیاہ
یہ تب کی بات ہے کہ مبتلا کو مدرسے میں داخل ہوئے چوتھا برس شروع تھا۔ خوشحال باپ کا بیٹا صورت شکل کا اچھا بلکہ حد سے زیادہ اچھا، پڑھا لکھا کماؤ۔ دس روپے کا مدرسے میں وظیفہ دار اس روداد کے لڑکے کو بیٹیوں کی کیا کمی تھی۔ قاعدے کے مطابق مبتلا کی طرف سے بیٹی والوں کے یہاں ابتداءً رقعہ جانا چاہیے تھا۔
مگر مبتلا کی ظاہری حالات دیکھ کر سن کر لوگ اس قدر ریجے ہوئے تھے کہ کئی جگہ سے بیٹی والوں نے منہ پھوڑ کر رقعہ منگوا بھیجا۔ دستور کی بات ہے کہ خریداروں کی کثرت ہوتی ہے تو بیچنے والوں کے مغز چل جاتے ہیں۔ مبتلا کی ماں بہنوں کا یہ حال تھا کہ کہیں کی بات ان کے خاطر تلے آتی ہی نہ تھی ورنہ کیا مبتلا جیسا اللہ آمین کا بیٹا سترہ اٹھارہ برس کی عمر تک کنوارا بیٹھتا۔
اب تک تو اس کے ایک چھوڑ کبھی کے چار چار بیاہ ہو گئے ہوتے۔ اس گھر کی خوشحالی اتنی ہی تھی کہ قلعے کی تنخواہیں، اسامیاں مکانات کا کرایہ ملا کر کل سو سوا سو روپے کی آمدنی تھی اور اس میں اتنا بڑا کنبہ مگر وہ تو مبتلا کا باپ ایسا منظم اور کفایت شعار آدمی تھا کہ اس نے اپنے سلیقے سے گھر کا بھرم بنا رکھا تھا۔ اس حالات پر جہاں کہیں سے پیام آیا چھوٹتے کے ساتھ ایک دم سے چاندی کا بھی نہیں سونے کے پلنگ کی فرمائش ایسے اصرار کے ساتھ ہوتی تھی گویا کہ نکاح کی شرط اعظم ہے اور پھر معاملے کی بات ہے جیسا لینا ویسا دینا، ہیکڑی تو یہ تھی کہ لیں تو سنہرا پلنگ اور دینے کے نام پٹاری کے خرچ کے لیے آدھی نہیں کیونکہ ہمارے خاندان کا دستور نہیں، مہر شرع محمدی، سو روپے کا چڑھاوا، سو روپے کا جھومر، صورت شکل اپنی اپنی جگہ سبھی تلاش کرتے ہیں اور سمجھنے اور غور کرنے والے کو تو یہ بات ہے کہ باوجود یہ کہ ہر شخص خوبصورتی کا خواہاں ہے مگر بُری بھلی کالی گوری یہاں تک کہ کانٹری، کھدری اللہ کی بندیاں سبھی کھپی چلی جاتی ہیں۔
ہم نے تو اتنی عمر ہونے آئی کسی کو صورت کی وجہ سے کنواری بیٹھے نہ دیکھا۔ تاہم چونکہ مبتلا ایک خوبصورت خاندان کا آدمی اور خود بھی بڑا خوبصورت تھا۔ اگر اس کے لیے خوبصورت بی بی تلاش کی جاتی تھی تو کچھ بے جا بات نہ تھی۔ مگر تلاش کرنے کے بھی طریقے ہوتے ہیں کہ عورتیں چوری چھپے حیلے بہانے کسی نہ کسی طرح لڑکی کو یا تو خود کسی وقت دیکھ آتی ہیں یا اپنے دیکھنے کا موقع نہیں بنتا تو کسی کو بھیج کر دکھلوا لیا کرتی ہیں۔
یہاں تو یہ ضد کہ ہم تو اپنی آنکھ سے دیکھ بھال کریں گے اور اپنے ہاتھوں سے لڑکی کے منہ میں مصری کی ڈلی دیں گے۔ کیسی کیسی جگہ سے پیام آئے۔ کہاں کہاں رقعہ گیا مگر کہیں لین دین پر تکرار ہوئی۔ کہیں صورت پسند نہ آئی کہیں دیکھنے بھالنے کی شرط نامنظور ہوئی۔ غرض کوئی بات ٹھہری نہیں پچاسوں پیام مسترد اور بیسویں جگہ سے رقعہ واپس۔ رشتہ ناطے کی بات چیت ہو کر چھٹم چھٹا ہو جاتا یا رقعہ واپس آنا کچھ آسان نہیں ہے۔
بیٹی والے اس میں اپنی ہتک سمجھتے ہیں اور ان کو یہ خیال ہوتا ہے کہ ایک جگہ کا رقعہ واپس جائے گا تو دوسروں کو خدا جانے کیا کیا خیالات پیدا ہوں گے اکثر ایسے موقعوں پر دلوں میں رنجش آجاتی ہے۔ خیر ایک دو جگہ بہ مجبوری ایسا اتفاق ہو تو مضائقہ نہیں نہ کہ مبتلا کا رقعہ آج بھیجا اور بلا کر دس دن بعد الٹا منگوا لیا جب متواتر واپسی رقعے کی نوبت پہنچی تو سارے شہر میں ایک غل سا پڑ گیا اور جہاں جہاں سے رقعہ واپس منگوایا گیا۔
ان کے ساتھ بیٹھے بٹھائے ایک طرح کی عداوت قائم ہوئی۔
یہاں تک نوبت پہنچی کہ جس مشاطہ سے کہتے کانوں پر ہاتھ دھرتی جہاں رقعہ بھیجتے وہ لوگ لانے والے کے اندر آنے تک کے روادار نہ ہوتے۔ پس اس خاندان کے ناز بے جانے مبتلا کو ایسا نکو بنا دیا کہ اب کوئی اس کی بات کی ہامی نہیں بھرتا تھا۔ رقعے کا بے رد و کد واپس آنا تو ممکن نہیں۔ ایک گھر کا تو ہم کو حال معلوم ہے کہ وہاں پہلے مشاطہ کی معرفت زبانی بات چیت ہوئی وہ لوگ ان کے کنبے دار بلکہ کچھ دور کے رشتے دار بھی تھے۔
مہینوں سوال جواب ہوتے رہے۔ اکثر باتیں طے ہو کر بعض کی نسبت کچھ تکرار درپیش تھی کہ یکا یک ان کی طرف سے رقعہ جا موجود ہو، بیٹی والے خوش ہوئے کہ گفت و شنید کے بعد جو رقعہ آیا تو بس اس کے یہی معنی ہیں کہ منظور کر لیا۔ چنانچہ یہی سمجھ کر رقعہ تو رکھ لیا اور جواب میں زبانی اتنا ہی کہلا بھیجا کہ ہم کو بسروچشم منظور ہے۔ خدا انجام اچھا کرے۔
انشاء اللہ دو چار دن میں صلاح کر کے کوئی اچھی سی تاریخ ٹھہرا کر کہلا بھیجیں گے۔ سمدھنیں آکر لڑکی کا منہ میٹھا کر جائیں۔ پھر اللہ خیر کرے۔ جب ان کی مرضی ہو گی بیاہ برات ہو رہے گا۔ ہم تو اس وقت چاہیں تو اس وقت تیار ہیں۔ ہمارے یہاں ذرا دیر نہیں جو عورت یہ پیام لے کر گئی تھی مبتلا والوں نے اسی ہاتھ کہلا بھیجا کہ پہلے ہماری شرطوں کے مطابق تحریری اقرار نامہ بھیج دیں۔
تب تاریخ ٹھہرائی جائے۔ تاریخ کا ٹھہرانا ایسا کیا آسان ہے۔ یہ سن کر سب کو سخت تعجب ہوا اور اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔ آخر مبتلا والوں کی طرف سے واپسی رقعے کا تقاضا ہوا۔ دن میں دوبار رقعے کے لیے آدمی جاتا اور ایسی سخت سخت باتیں کہتا کہ گویا رقعہ کیا ہے، مہاجن کا قرضہ ہے۔ خیر ہار کر رقعہ واپس تو کیا مگر اس طرح کہ مارے غصے کے نکال کر موہری پر پھینک دیا کہ کم خواب کی تھیلی جس میں رقعہ دستور کے مطابق لپیٹ کر آیا تھا۔
تمام کیچڑ میں لت پت ہو گئی اور کہا کہ جاؤ اس کو شہد لگا کر چاٹو اور دیکھو خبردار لڑکے کی ماں سے ضرور ضرور کہہ دینا کہ تم نے کنبے داری میں دو مہینے بات لگی رکھ کر آپ ہی رقعہ بھیجا اور پھر آپ ہی اَن ہونی باتوں پر اصرار کر کے واپس منگوایا۔ یہ کچھ بھلمنساہت کی بات نہیں ہے۔ ہم نے مانا کہ ان کا بیٹا ان کے لیے چوہے کو ہلدی کی گرہ اللہ آمین کا ہے۔
مگر دوسروں نے بیٹیاں کوڑے پر پڑی نہیں پائیں ایسی شرطوں سے جو نہ سنیں نہ دیکھیں، ان کو شہر میں تو انشاء اللہ بیٹی ملنے کی نہیں۔ سونے کا پلنگ ان کو مانگتے ہوئے شرم نہیں آتی اس سے پہلے تین بیٹیاں بیاہ چکے ہیں اور ابھی اللہ رکھے آگے دو اور موجود ہیں۔ بیٹیوں کو تو ڈھنگ کے نواری پلنگ بھی نہ جڑے۔ بیٹے میں ایسا کیا سرخاب کا پر لگا ہے کہ بغیر سونے کے پلنگ کے اس کو نیند نہیں آتی۔ سارا شہر تھڑی تھڑی کر رہا ہے۔ خدا نہ کرے جو بھلا مانس اس کو بیٹی دے۔ منہ پر ہاتھ پھیر کر دیکھیں ناک رہی یا کٹ گئی۔
ہمارے نزدیک دنیا جہان کے نزدیک تو جڑ بنیاد سے کٹ گئی۔ جس گھر سے رقعے کی واپسی کا مذکور ہے اس گھر کی عورتیں ایسی ملنسار تھیں کہ سارے شہر میں ان کا رسوخ چلتا تھا۔ کہیں شادی بیاہ ہو۔ کوئی دوسری تقریب ہو، ان کے یہاں ضرور بلاوا آتا اور یہ بھی اپنے یہاں کی چھوٹی بڑی تقریب میں سبھی کو بلاتے۔ سبھی کو یکساں پوچھتے تھے۔ ان عورتوں نے ضد میں آکر مبتلا کا اچھی طرح خاکہ اڑایا اور سارے شہر میں بھی خوب ڈھنڈورا پیٹا اور رسوا کیا۔
غرض اس گھر کے بگاڑنے رہی سہی اور بھی آس توڑ دی۔ اب شہر میں مبتلا کی نسبت ناتے کا ہونا محال تھا۔ بہت قریب کے رشتہ داروں میں جس قدر بیٹیاں تھیں۔ مبتلا تھے تو بڑے لاڈلے دودھ پی پی کر ان سب کو رضاعی بہنیں بنا چکے تھے۔ مبتلا کے نزدیک و دور کے رشتہ داروں میں وہی مثل تھی۔
ازیں سوراندہ وزاں سودر ماندہ۔ اب صرف ایک گھر رہ گیا کہ ہو تو وہیں ہو ورنہ مبتلا ساری عمر کنوارہ پھرے۔
مبتلا کی پھوپھی دلی سے دس بارہ کوس سید نگر میں بیاہی ہوئی تھیں۔ وہ لوگ زمیندار تھے مگر زمینداروں میں سربر آوردہ بڑے بڑے سالم چھ گاؤں کے مالک۔ ان کے بزرگ تو مہمان داری اور مسافر نوازی اور داد و دہش میں دور دور مشہور تھے۔ مگر اب کثرت پٹی داری کے سبب نہ ویسی آمدنی تھی نہ وہ دل، قریب شہر کی وجہ سے رعایا شوخ، حصہ داروں میں طرح طرح کی تکراریں، غرض ہمیشہ ان میں دو چار آدمی مقدموں کی پے روی کے لیے شہر میں موجود رہتے تھے۔
جس طرح دائم المرض اپنی دوا کرتے کرتے حکیم ہو جاتا ہے اسی طرح یہ لوگ مقدمے لڑتے لڑتے ایسے قانون دان ہو گئے تھے کہ بیرسٹروں کو مات کرتے، وکیلوں کی کچھ حقیقت نہ سمجھتے، ڈھونڈ ڈھونڈ کر لڑائیاں مول لیتے اور تلاش کر کے جھگڑے خریدتے، قرب و جوار میں یہ لوگ ایسے لڑاکو اور جھگڑا لو مشہور تھے کہ لوگ ان سے رشتہ ناطے کرتے ڈرتے تھے۔ رقعہ کا پہنچنا تو بہت بڑی بات تھی۔
اگر ان کے یہاں جھوٹوں بھی تذکرہ ہوتا اور چاہتے تو سچوں سر ہو جاتے اور کچھ ایسے قانونی اڑنگے لگاتے کہ کسی کی ایک نہ چلتی مگر مبتلا کو کوئی دوسرا گھر نہ تھا۔
خدا نے ایسا ان کے غرور کو ڈھایا کہ کس کا پلنگ اور کہاں کا دیکھنا بھالنا۔ مبتلا کی ماں گئیں اور منگنی ٹھہرا کر کان دبا کر چپکی چلی آئیں اور اگر ذرا بھی چیں چپڑ کرتیں تو فوجداری کے استغاثوں اور دیوانی نالشوں کے مارے ہوش بگڑے جاتے۔
اب مبتلا کی منگنی کو منگنی نہ سمجھو بلکہ بیچ ڈالنا یا غلام بنا دینا یا عمر قید۔ سمدھیانے تو برابر ہی کے اچھے ہوتے ہیں۔ خیر اٹھارہ بیس تک کے فرق کا بھی مضائقہ نہیں مگر یہاں تو سید نگر والوں کی اس قدر ہیبت چھا رہی تھی کہ جیسے کسی بڑے جابر کوتوال کی۔ ادھر سے حکم ہوتے تھے، ادھر سے تعمیل۔ اُدھر سے فرمائش ادھر سے بجا آوری۔ ادھر سے ناز ادھر سے نیاز۔
بعد چندی انہوں نے کہلا بھیجا کہ اگلا مہینے کی دسویں کو اس طرح سازو سامان کے ساتھ بارات یہاں پہنچے سو ویسا ہی ہوا۔ بیس ہزار روپیہ کا مہر ماننا ہو گا اور مان لیا ہزار روپیہ جوڑے چڑھاوے کا نقد دینا ہو گا اور دیا۔ پچیس روپے مہینہ پٹاری کا خرچ لکھوانا چاہا اور لکھوا لیا۔ مگر بات یہ ہے کہ سید نگر والوں نے بیٹی کو دیا بھی تو اتنا کہ سونے کا پلنگ تو نہ تھا۔
شاید ان کے ہاں کا دستور نہ ہو گا۔ مگر گلے اور کانوں او رسر کا سارے کا سارا زیور دوہرا ملا جڑاؤ الگ، شادی بیاہ اپنے نام کے مطابق کیا۔ دلّی میں اتنا جہیز ملنا مشکل تھا لوگ باہر کی سوبھا اور مال و اسباب کی فہرست دیکھ کر پانچ ساڑھے پانچ ہزار کا جہیز آنکتے تھے، اوپر کا خرچ الگ۔ سو گھر کا دھڑیوں گھی اور منوں غلہ زمینداروں کے یہاں اس کا حساب کیا۔
انیسویں برس مبتلا کا بیاہ ہوا جہیز کے اعتبار سے تو دلہن بہت اچھی پائی۔ ذات جماعت کچھ پوچھنی نہ تھی سگی پھوپھی کی بیٹی۔ رہی صورت کوئی خاص چیز تو چنداں بری نہ تھی بلکہ الگ الگ دیکھو تو رنگ بھی گوارا نہیں تو کھلتا ہوا۔ آنکھ، ناک، دہانہ، ماتھا، مانگ کسی میں کوئی خاص عیب نہ تھا۔ ہاں چہرے کی مجموعی بناوٹ میں خدا جانے کیا بات تھی۔ نزاکت اور جسم میں جامہ زیبی نہ تھی۔
ہزار بیبیوں میں بیٹھی ہو تو صاف پہچان پڑتی کہ باہر کی ہے اور سچ تو یہ ہے کہ مبتلا کے پہلو میں رہی سہی اور بھی بے رونق معلوم ہوتی تھی جن دنوں مبتلا کا بیاہ ہوا وہ اپنے آپے نہ تھا۔ نشہ شباب میں سرشار اور بدمست سیر تماشوں میں منہمک۔
وہ اپنے بیاہ برات کی خبر سن کر خوش ہوتا تھا۔ مگر صرف اس لیے کہ ناچ دیکھنے میں آئیں گے۔ شادی کی تیاری دیکھ کر مسرت ظاہر کرتا تھا۔
مگر اس غرض سے کہ گانا سنیں گے، وہ اگر سمجھ کو کام میں لاتا تو اس کی سمجھ زیبا تھی اور جان سکتا تھا کہ بیاہ کیا چیز ہے اور بیاہ سے کس طرح کی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں مگر وہ دنیا کے کام میں مطلق غور کرتا ہی نہ تھا۔ اس نے ایک لمحے کے لیے بھی بیاہ کے انجام کو نہ سوچا۔ اس نے نکاح کے وقت ”قبول“ کچھ ایسے کہا گویا کہ کھیل ہے۔ اقرار نامہ پر دستخط کیے کہ جیسے یہ ہنسی ہے۔
اس کو بی بی کی طرف ملتفت ہونا چاہیے تھا اور ملتفت ہونے کی اس کی عمر بھی تھی مگر اس کی آنکھیں ڈھونڈتی تھیں نازو کرشمہ غمزہ و ادا مٹک چٹک وہ شریف زادیوں میں کہاں اور خصوصاً دیہات کی شریف زادیوں میں۔ پس اس نے بی بی کو دیکھا، ناپسندیدگی سے استکراہ سے اور ناخوشی سے اور بی بی کے ساتھ اس کی لشٹم پشٹم گزرتی گئی اور آپس میں ویسی محبت و موانست پیدا نہ ہوئی جیسے نئے بیاہے ہوئے دولہا دلہن میں ہونی چاہیے اور عموماً نہیں تو اکثر ہوا بھی کرتی ہے۔
علاوہ اس کے مبتلا کو ابھی اپنی ہی پرداخت سے فرصت نہ تھی۔ سو دلہنوں کی ایک دلہن تو وہ آپ بنا تھا۔ بناؤ سنگھار میں ہر دم مصروف، زیب و زینت میں ہر لمحہ مشغول وہ خود اپنی حسین صورت پر اس قدر فریفتہ تھا کہ آئینہ دیکھنے سے کبھی اس کو سیری ہی نہیں ہوتی تھی۔ اس کو یہاں تک خبط نے گھیر رکھا تھا کہ راستہ چلتا تو مڑ مڑ کر اپنے سائے کو دیکھتا جاتا۔
پانچواں باب: مبتلا کی بدکرداریاں اور مصیبتوں کا آغاز
بیاہ تک مبتلا کی زندگی نہایت ہی بے فکری سے گزاری۔ اس نے چودہ برس کی عمر تک گھر میں ایسے عیش و آرام کے ساتھ پرورش پائی کہ کم تر کسی کو نصیب ہوتی ہے۔ مدرسے میں اس کے یار دوستوں نے ماں باپ سے بڑھ کر اس کی ناز برادریاں کیں۔ مگر اب اس کے عیش کی مدت، آرام کی مہلت پوری ہو چکی تھی اور یہی حال ہے دنیا کی تمام حالتوں کا کہ راحت ہے تو ایک وقت خاص تک اور مصیبت ہے تو وہ بھی ایک میعادِ مقررہ تک، نہ اس کو ثبات اور نہ اس کو قیام، وہ عارضی اور یہ چند روزہ جن کو خدا نے عقلِ سلیم دی ہے وہ ہر حالت کو اسی طور پر انگیز کرتے ہیں کہ اس کے زائل ہونے پر ان کو ملال نہ ہو، تاسف نہ کرنا پڑے، اتنا نہیں کھاتے کہ نخمہ ہو۔
ایسے دوڑ کر نہیں چلتے کہ ٹھوکر لگے، عادتوں کو طبیعت نہیں ہونے دیتے اور امور اتفاقی کو ضروری نہیں سمجھ لیتے۔ لیاقت یا ہنر یا صفت یا جوہر یا خوبی یا مابہ الامتیاز یا سرمایہ فخر و ناز یا ذریعہ تعریف یا وسیلہ تقریب جو کچھ سمجھو۔ مبتلا کے پاس ایک حسن صورت تھا اور پس یہی ایک چیز تھی جس کی وجہ سے وہ ہر دلعزیز تھا۔ یہی عمل تھا، یہی تسخیر تھی، یہی کیمیا اور یہی اکسیر تھی۔
مسیں تو اس کی سترہویں برس بھیگنے لگیں تھیں۔ اٹھارہویں میں تو اس کی اچھی خاصی داڑھی نکل آئی۔
گیا حسن خوبانِ دل خواہ کا
ہمیشہ رہے نام اللہ کا
اور داڑھی بھی نکلی تو اس کثرت سے کہ ماتھا اور ناک اور آنکھوں کی جگہ چھوڑ کر کہیں تل دھرنے کو جگہ باقی نہ رہی۔ جب داڑھی نکلنے کو ہوئی اگر مبتلا اس کو اس کے طور پر نکلنے دیتا تو برس سوا برس وہ اور بھی حسینوں کے زمرے میں گنا جاتا اور سبزئہ خط اس کی گوری رنگت پر خوب کھلتا مگر اس نے غلطی یہ کی کہ روئیں نمودار ہوتے ہی استرا پھروا دیا۔
استرے کا پھروانا تھا کہ پھدپھدا کر ایک کی جگہ دس روئیں اور روؤں کی جگہ کالے کرخت بال بھی پڑے اور چہرے کی جلد پر جو جوانی کی چمک یا شباب کا ایک قدرتی روغن تھا وہ بھی گیا گزرا ہوا، اب روکھی کھال رہ گئی اور اس پر ہزار ہا بال۔ یہ پہلی مصیبت تھی جو مبتلا پر نازل ہوئی اور اس نے اس پہلی کیفیت کے اس قدر جلد زائل ہو جانے کا سخت رنج کیا اور جب اس کے ان دنوں کے خیالات پر نظر کی جاتی ہے تو اس کا رنج حق بجانب بھی تھا۔
رفتہ رفتہ زوال حسن کا اثر اس کی حالت پر مترتب ہونے لگا جو لوگ اس کی ملاقات کے مشتاق رہتے تھے، نفرت اور جو درپے تھے گریز کرنے لگے۔
یار اغیار ہو گئے اللہ
کیا زمانے کا انقلاب
گرم صحبتوں کی جگہ صاحب سلامت رہ گئی وہ بھی دور کی۔ اختلاط کے عوض راہ گزر کی مڈ بھیڑ وہ بھی اتفاقی۔ اس کی طرز زیست نے ادعائی ضرورتوں کو اور ادعائی ضرورتوں نے خرچ کو اتنا بڑھا دیا تھا کہ مدرسے کا وظیفہ اور اس کا چہار چند بمشکل وفا کرتا۔
اب ادھر تو اس کے اعوان و انصار دست کش ہوئے ادھر جو گھر سے مدد ملتی تھی۔ اس میں بی بی نے حصہ بٹوانا شروع کیا۔ ضرورتیں اگر جائز اور واجبی ہوتیں گھر سے مدد ملتی۔ مگر حاجتیں ناجائز اغراض بے ہودہ، گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل جی للچاتا اور ناچار ضبط کرتا، طبیعت بھربھراتی مجبوری پتے کو مارتا۔ انگریزی کی کہاوت ہے کہ مصیبتیں ایک ایک ایک کرکے نہیں آتیں یعنی جب آنے کو ہوتی ہیں تو بس ایک تار بندھ جاتا ہے۔
مبتلا کے بیاہ کے بعد سے تو گویا اس کہاوت کے سچے کرنے کو موتیں کچھ ایسی تابڑ توڑ ہوئیں کہ پانچ برس کے اندر ہی اندر جتنے بزرگ تھے۔ مرد کیا عورت ایک کے بعد ایک سبھی رخصت ہوئے۔ بہنیں بیاہی جا کر اپنے اپنے گھروں میں آباد تھیں۔ بس اب تنہا مبتلا رہ گیا اور ایک بی بی۔ وہ بھی اس کی بے التفاتی کی وجہ سے پہلے تو اکثر میکے میں رہتی تھی۔ چوتھے پانچویں مہینے سسرال آگئی تو آگئی۔
اب کوئی برس دن ہوا تھا کہ ماں اور باپ دونوں کے مر جانے سے بھائیوں نے ترکے سے محروم کرنے کے لیے بلانا چاہا۔ مبتلا پر مصیبتوں کا ایسا پہاڑ ٹوٹا تھا کہ اگر وہ بھی ذرا عقل سلیم رکھتا ہوتا تو ساری عمر اس تازیانے کو نہ بھولتا، مگر اس کے دل پر تو مہر لگی ہوئی تھی اور آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا تھا۔ کیسی عبرت اور کس کا ڈرنا مطلق العنان ہوتے ہی لگا دلکی دوڑنے پویہ بھاگنے۔
یہاں تک کہ جن حرکتوں کو پہلے چراتا چھپاتا۔ اب کھلے خزانے ان کے کرنے میں ذرا بھی نہ شرماتا۔باپ کے مرتے ہی میدان خالی پا کر تعزیت کے حیلے اور غم گساری کے بہانے سے دوست آشناؤں نے پھر اس کو آگھیرا۔ اور پھر وہی اپنی قدیم پٹی اس کو پڑھا چلے، چہلم بھی نہیں ہونے پایا تھا کہ جلسے شروع ہو گئے۔
#…#…#
چھٹا باب: مبتلا کے چچا کی حج سے واپسی
مبتلا کے حقیقی چچا میر متقی ایک مدت سے نواب رام پور کی سرکار میں نوکر تھے اور وہیں ایک شریف خاندان میں انہوں نے اپنا نکاح بھی کر لیا تھا۔ مبتلا ان دنوں مکتب میں پڑھتا تھا کہ میرمتقی دلی ہو کر بھائی سے ملتے ہوئے حج کو گئے۔ ارادہ تو صرف حرمین شریفین کی زیارت کا کر گئے تھے مگر وہاں پہنچ کر یہ خیال ہوا کہ سالہاسال کے ارادے میں تو اب بمشکل گھر سے نکلنا ہوا کیا معلوم اب زندگی میں پھر یہاں آنا نصیب ہو یا نہ ہو۔
لگتے ہاتھوں جہاں تک ہو سکے زیارتیں تو کر لو۔ پورے تین برس تو زیارتوں میں لگے۔ پھر تین برس تک متواتر ایسا اتفاق پیش آگیا کہ جب واپسی کا ارادہ کرتے تھے۔ بیمار ہو جاتے تھے۔
غرض ساتویں برس لوٹے تو بمبئی میں پہنچ کر انہوں نے ارادہ کر لیا تھا کہ بھوپال میں استاد سے احمد آباد میں پیر سے اور دہلی میں بھائی سے ملتا ہوا رام پور جاؤں گا۔ دہلی میں داخل ہوئے تو تھوڑی رات ہوگئی تھی سیدھے بھائی کے دروازے پر آکھڑے ہوئے۔
کیا دیکھتے ہیں کہ پھاٹک بند اور طبلے کی تھاپ کی آواز چلی آرہی ہے۔ سمجھے کہ ناچ ہو رہا ہے۔ تھوڑی دیر میں بڑے زور کے قہقہے سنائی دیئے معلوم ہوا کہ بھانڈ نقلیں کر رہے ہیں۔ میرمتقی کو پہلے ذرا سا دھوکا ہوا کہ میں نے گھر کی شناخت میں تو غلطی نہیں کی، گلی کے نکڑ تک لوٹ کر گئے۔ ادھر دیکھا ادھر نگاہ کی۔
بے شک سات برس کے عرصے میں تھوڑے بہت تغیرات بھی ہوئے مگر نہ اس قدر کہ جہاں آدمی پیدا ہوا، پرورش پائی بڑا ہوا رہا سہا اس گھر کو نہ پہچانے۔
پھر خیال ہوا کہ شاید بھائی نے اس گھر کو چھوڑ دیا ہو۔ اسی سوچ میں کھڑے تھے کہ ایک شخص گلی کی طرف لپکا ہوا چلا آرہا تھا۔ جب ان کے برابر آیا انہوں نے اس سے پوچھا کیوں صاحب یہ کونسی گلی ہے۔ وہ یہ کہتا ہوا اپنی دھن میں چلا گیا کہ اس کو سادات کا کوچہ کہتے ہیں۔ اب ان کو اس کا تو یقین کامل ہو گیا کہ گھر کے پہچاننے میں مجھ سے غلطی نہیں ہوئی۔ اب اتنی بات اور رہ گئی کہ بھائی اس گھر میں ہیں یا نہیں۔
اس شخص کی جلدی نے ان کو اس کے پوچھنے کی مہلت نہ دی، اتنے میں دیکھا کہ ایک بوڑھے سے آدمی بغل میں بچھونا دبائے لکڑی ٹیکتے ہوئے اندر گلی سے آہستہ آہستہ چلے آرہے ہیں۔ ان سے تھوڑی دور پیچھے ایک جوان سا آدمی ہے اور وہ ذرا تیز چل رہا ہے۔ یہاں تک کہ جب بڑے میاں کے برابر آیا تو کہنے لگا کہ اے حضرت خیر ہے۔ یہ اس وقت آپ بچھونا لئے ہوئے کہاں جا رہے ہو۔
لائیو بچھونا مجھ کو دیجیے میں پہنچا دوں۔ بڑے میاں نے کہا۔ نہیں بھائی تم کیوں تکلیف اٹھاؤ بچھونے میں ایسا کیا بوجھ ہے۔ کیا کریں جب سے بے چارے میر مہذب مرے ان کا لڑکا خدا اس کو نیک ہدایت دے۔ بُری صحبت میں پڑ کر ایسا آوارہ ہو رہا ہے کہ سارے سارے دن اور ساری ساری رات گھر میں دھما چوکڑی مچی رہتی ہے۔ ہم ٹھہرے دیوار بیچ ان کے پڑوسی اتنا نہیں بن پڑتا کہ گھر میں دورکعت نماز اطمینان سے پڑھی جائے۔
ناچار میں تو اس مسجد میں چلا جاتا ہوں۔
متقی بھائی کے مرنے کی خبر سن کر قریب تھا کہ چکر کھا کر وہیں زمین پر گر پڑے مگر آدمی تھا دین دار، اس نے ضبط کیا اور اپنے تئیں سنبھالا اور سوچا کہ اگر گھر چل کر دستک دوں پکاروں تو نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنے گا اور فرض کیا چیخنے چلانے سے دروازہ کھلا بھی تو رات گئی ہے زیادہ سب کو تکلیف ہو گی۔
رونا پیٹنا مچے گا۔ ماتم برپا ہو گا۔ بہتر ہے کہ رات کو کہیں پڑا رہوں۔ پھر خیال کیا کہ پاس کے پاس اسی مسجد میں ٹھہر جانا مناسب ہے کہ بڑے میاں سے اور حالات بھی دریافت ہوں گے۔ مسجد میں گیا اور وضو کر کے نماز پڑھی، دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے۔ بھائی سے اس کو محبت تھی بہت، یوں بھی ہمیشہ غائبانہ اس کے حق میں دعائے خیر کیا کرتا تھا۔ اب جی بھر آیا اور بے اختیار اتنا رویا کہ ہچکی بندھ گئی۔
جس کے دل کو یکایک اتنا بڑا صدمہ پہنچا ہو اس کو بھوک کیا لگے اور نیند کیونکر آئے۔ ساری رات گزر گئی کہ صحن مسجد میں ننگے سر بیٹھا ہوا۔ کبھی کچھ پڑھ کر بھائی کے روح کو بخشتا ہے اور کبھی اس کی مغفرت کے لیے خدا کی درگاہ میں زار نالی کرتا تھا۔ سفیدئہ صبح نمودار ہوتے ہی اول وقت فجر کی نماز پڑھی اور پھر اشراق تک معمولی اوراد میں مشغول رہا۔
جب نمازِ اشراق سے فارغ ہوا تو دیکھا کہ بڑے میاں بھی اپنا بچھونا لپیٹ لپاٹ کر گھر جانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ ان کو ضعیفی کے سبب ذرا دھندلا بھی نظر آتا تھا۔ متقی نے ان کو پہچان کر السلام علیک اور قریب جا کر اپنے تئیں پہچانوایا اور رات کا ماجرا کہہ سنایا۔ ملے تو میر مہذب کی صحبتوں کو یاد کر کے بڑے میاں بھی آب دیدہ ہوئے اور متقی تورات سے رو رہا تھا۔
سفر کی تکان، ساری رات کا فاقہ، جاگنا اور رونا آنکھیں سوج گئی تھیں، منہ سے آواز نہیں نکلتی تھی۔ بارے بڑے میاں نے بہت کچھ سمجھایا دنیا کے دستور کے مطابق صبر کی تعلیم کی اور کہا کہ میاں مرحوم تو اللہ کے نیک بندے تھے۔ یہاں بھی اپنی اچھی گزار گئے اور انشاء اللہ وہاں بھی ان کے لیے اچھا ہی اچھا ہے۔
وہ اگر مرے تو اپنی عمر سے مرے اور ایک نہ ایک دن سبھی کو مرنا ہے۔
بڑا رونا ان کے فرزند ناخلف کا ہے کہ اپنے کردار ناسز اسے مرحوم کی روح کو ایذا دے رہا ہے۔ اب تم باپ کی جگہ ہو۔ اس کو سنبھالو اگر ہو سکے، اس کو روکو اگر بن پڑے۔ گھر کے نصیب اچھے ہیں کہ تم آپہنچے۔ خدا کو کچھ بھلا کرنا منظور ہے کہ تم کو بھیجا۔ ابھی وقت ہے۔ اگرچہ تنگ ہے۔ موقع ہے گو اخیر ہے اور تم یہاں مسجد میں اکیلے بیٹھ کر کیا کرو گے۔ میرے ساتھ چلو تمہارے بھتیجے صاحب تو کہیں دوپہر تک اُٹھیں گے وہ بھی اٹھائے سے تب تک میرے گھر کچھ ناشتہ کرو ہم بھی کچھ غیر نہیں ہیں۔
تمہارے بھائی صاحب خدا ان کو جنت نصیب کرے ہم کو عزیزوں سے بڑھ کر سمجھتے تھے، کیا تم کو یاد نہ ہو گا۔ غرض میر متقی بڑے میاں کے ساتھ ساتھ چلے تو سارے رستے بھائی کا تصور پیش نظر تھا اور قدم قدم پر ایسا خیال ہوتا کہ بھائی سامنے سے چلے آرہے ہیں پیچھے سے پکار رہے ہیں۔ اس دروازے پر کھڑے باتیں کر رہے ہیں اس دوکان والے سے کچھ کہہ رہے ہیں۔ کیونکہ یہ اتفاقات متقی کو بھائی کی زندگی میں صد ہا بار پیش آچکے تھے ان ہی باتوں کی یادداشت اب تازہ ہو گئی متقی رات سے بہتیرا رو بھی چکا تھا اور اس نے ارادہ کر لیا تھا کہ اب رونا آئے گا بھی تو روکوں گا۔
ضبط کروں گا مگر جوں جوں گھر کی طرف پاؤں اٹھتا تھا۔ دل کی کیفیت متغیر ہوتی چلی جاتی تھی۔
یہاں تک دروازے پر پہنچ کر تو نہ تھم سکا اور بے اختیار پکار کر رویا۔ رونے کی آواز سن کر پاس پڑوس کے لوگ جمع ہو گئے۔ پھاٹک تو باہر کی طرف سے نہ کھلوا سکے، اندر ہی اندر کھڑکی کی راہ پہلے زنان خانے میں اور پھر مردانے میں خبر پہنچی۔ مبتلا اور اس کے جلسے کے شرکاء ابھی تھوڑی دیر ہوئی تھی کہ کہاروں کی طرح ناچ جو کہروا کہلاتا ہے، دیکھ کر اور صبح کا راگ بھیرویں سن کر سوئے تھے۔
میرمتقی کا آنا سن کر سب کی نیندیں اچاٹ ہو گئیں اور سب کے ہوش اڑ گئے۔ جو لوگ اب سے ڈیڑھ دو گھنٹے پہلے بھانڈوں اور رنڈیوں کو نچوا رہے تھے۔ اب لگے آپ، ناچے ناچے پڑے پھرنے چاہتے تھے کہ نکل بھاگیں مگر راستہ کہاں تھا۔ پھاٹک پر تو خود میرمتقی صاحب اور ان کے ساتھ محلے کے چالیس پچاس آدمی کھڑے ہوئے تھے۔ زنان خانے میں ہو کر جانا چاہتے تھے تو پہلے مہرے پر گھر والی تھی کہ وہ میاں کے سامنے تو لومڑی یا بھیگی بلی جو کچھ تھی سو تھی مگر ان بدذاتوں کے حق میں خاص کر اس وقت شیرنی سے کم نہ تھی۔ اس کے علاوہ زنان خانے سے اگر باہر جانے کا راستہ تھا تو دوسرے لوگوں کے گھروں میں سے ہو کر تھا۔ وہ بھلے مانس ان بلاؤں کا اپنے یہاں سے ہو کر گزرنا کیوں جائز رکھتے۔
غرض وہ سب کاسٹ پٹانا اور ایک کا ایک سے پوچھنا اور ایک ایک سامنے ہاتھ جوڑنا۔ ایک ایک کے پاؤں پڑنا ایک تماشا تھا۔ قابل سیر، ایک کیفیت تھی لائق دید کہ رنڈیاں جو اپنے حسن کے غرور میں کسی کے ساتھ سیدھی بات نہ کرتی تھیں۔ اب ایک ایک کے آگے بچھی جاتی تھیں کہ خدا کے لیے کہیں ہم کو پناہ دو۔ ایک ایک کے پیچھے لپٹی تھیں کہ اللہ ہمیں نکال کر کہیں لے چلو ایک پکارتی تھی میں انعام اکرام سے باز آئی مجھے راستہ بتاؤ۔
دوسری چلاتی تھی۔ مجھے مجرے کی کوڑی مت دو مگر کسی ڈھب سے گھر پہنچاؤ۔ رات کے جلسے میں ایک طائفہ چلبلا بھانڈ کا بھی تھا۔ ان کم بختوں کو فی الوقت خوب سوجھتی ہے۔ ادھر تو یہ تمام ہل چل مچی ہوئی تھی اور ادھر چلبلا بے طلب بے فرمائش تیار ہو،اپنے ساتھیوں کو جمع کر کے لگا نقل کرنے۔
ادھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر دوڑا دوڑا، لوگوں کو ہٹاتا ہوا دباتا ہوا پھرنے لگا کہ کیا ہے ابے کیا ہے۔
کاہے کا غُل ہے، کیوں شور مچا رکھا ہے۔ دوسرا بولا،بے احمق تو نے نہیں سنا کہ حضرت کے چچا مکہ معظمہ سے تشریف لائے ہیں۔ پہلا کہنے لگا: کون چچا، ابوجہل یا ابولہب دوسرا پہلے کے منہ پر زور سے ایک طمانچہ مار کر کہتا ہے: چپ مردود کیا کفر بکتا ہے۔
ابے حضرت پیغمبر صاحب کے چچا نہیں۔ ہمارے (مبتلا کی طرف اشارہ کر کے) حضرت پیرومرشد کے چچا۔
پہلا: ہاں الحمدللہ پھر ڈرنا کیا ہے۔ آؤ ہم سب مل کر بھی ان کو چچا بنائیں۔ حج نصیب ہونے اور سلامتی سے واپس آنے کی مبارکباد دیں۔ ناچ دکھائیں گانا سنائیں۔ دوسرا: (پہلے کے منہ پر طمانچہ مار کر) ابے توبہ کر توبہ کہیں اوپر سے چھت نہ گر پڑے، سید آلِ رسول مولوی حاجی جو ابھی خدا کے گھر سے پھرے ہوئے چلے آرہے ہیں۔ کہیں ناچ دیکھتے ہیں اور بھانڈ دوزخ کے کنڈے۔
پہلا ہائے میرے اللہ رنڈیوں نے وہاں بھی بھانڈوں کو نہ چھوڑا۔ نرے کنڈے ہوتے تو ذرا دیر میں تو جلتے اور کیوں صاحب یہ سب لوگ (مبتلا اور اس کے ساتھیوں کی طرف اشارہ کر کے) کیا ہوں گے؟ دوسرا: ان کو کہتے ہیں کہ بھاڑ میں بھونے اور کڑھائی میں تلے اور بھٹی میں جلائے جائیں گے۔ پہلا: دونوں ہاتھوں کو گالوں پر ہولے ہولے تھپڑ مار کر اور خوف زدہ آنکھیں بنا کر، الٰہی توبہ الٰہی توبہ۔
دوزخ کی آنچ سے بچائے اور بھانڈؤں کو بھوت بنائے آسیب بنائے جو چاہے۔ سو کرے؟ مگر دوزخ کے کنڈے نہ بنائے۔
پہلا: پھر یہ حاجی صاحب چاہتے کیا ہیں؟ دوسرا: ”چاہتے یہ ہیں کہ نمازیں پڑھو، روزے رکھو، خدا کی بندگی کرو، روپیہ رنڈیوں کو دینا تو محض فضول ہے۔ رہے بھانڈ، ان سے بڑھ کر غریب محتاج اور کون ہو گا۔“ یہ کہہ عمامہ باندھ، پائنچے ٹخنوں سے اونچے کر جہاں کھڑا تھا اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ باندھ اور منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑانے لگا۔
گویا امام بنا اور نماز شروع ہوئی۔ مسخرہ پن تو یہ تھا کہ نیت باندھ چکا ہے اور پھر ایک طرف یہ کہہ رہا ہے کہ بس بے تامل پھاٹک کھول دو اور مولوی یا حافظ یا حاجی یا وعظ جو ہوں ان کو آنے دو، دوسری طرف سب کو اشارہ کر رہا ہے کہ میرے پیچھے مقتدی بن کر کھڑے ہو جاؤ اور بڑبڑانے لگا۔ طائفے کے جتنے بھانڈ تھے سب صف بستہ ہو کر مقتدی بنے اور اس کے پیچھے کھڑے ہوئے۔
ذرا دیر گزری تھی کہ ایک نے صف میں سے نکل کر امام کے پیٹھ پر ایک دو ہتڑ مارا ایسے زور سے کہ تھوڑی دور آگے جا کر اوندھے منہ گر پڑا اور کہا: ”ابے بدعتی یہ کیسی بے وقت اور بے زخمی جماعت کی نماز پڑھ رہا ہے۔ اگر مولوی اسمعیل کے مقلدسن پائیں تو مارے کفر کے فتووں کے اُتو کر دیں۔“ امام: ابے تو کیا جانے یہ صلوٰة الخوف ہے، جیسی کہ لڑائی کے میدان میں ادا کی جاتی ہے اور پھر اسی طرح اپنی جگہ جا کھڑا ہوا۔
گویا اتنی حرکت پر بھی نماز باطل نہیں ہوئی تھوڑی سی دیر کے بعد پیچھے کی صف سے پھر ایک شخص آگے بڑھا اور اس نے امام کا عمامہ اتار تڑاتڑ آٹھ دس بیس لتیڑے رسید کیے۔ امام سہلاتا ہوا یہ کہتا ہوا بھاگا کہ کفر کا فتویٰ آیا، تو یہ لتیڑے مارنے والا کیا کہتا ہے: ابے ڈرو مت فتویٰ نہیں تیری عبادت کا صلہ ہے۔
امام بولا عبادت کا صلہ ہے تو اس میں مقتدیوں کا بھی حق ہے۔
پھر تو اس سرے سے اس سرے تک بلاامتیاز جوتی کاری ہونے لگی اور رنڈیوں اور بھڑوے اور میر محفل اور تماشائی سبھی پر آفت آئی۔ کہتے ہیں کہ چلبلا بھانڈ کے طائفے کا بیس روپے روز معمول تھا اور مبتلا اس طائفے کا ایسا گرویدہ تھا کہ اگر خرچ مساعدت کرتا تو ہر رات ان کا ناچ دیکھتا مگر اس پر بھی کئی سو روپے ان لوگوں کے چڑھ گئے تھے۔ اب مبتلا کے چچا کا آنا سن کر بھانڈوں کو بالکل ناامیدی ہو گئی اور ایسی نقل تو نہایت برجستہ تھی، مگر طبیعت کس کی حاضر تھی۔
اور دل کس کا ٹھکانے تھا کہ مزہ لیتا اور داد دیتا۔ مبتلا کی تو ایسی سٹی بھولی کہ ننگے پاؤں کبھی اندر جاتا اور کبھی باہر آتا۔ مگر کوئی تدبیر بن نہ پڑتی تھی۔ آخر اس نے اپنے باپ کے پرانے نوکر وفادار کو آواز دی۔ یہ بوڑھا آدمی اسم بامسمی مبتلا کو بہت سمجھاتا رہتا تھا مگر نوکر کی بساط کیا۔ جب وفادار نے بار بار کہنا شروع کیا مبتلا نے اس کو جھڑک دیا۔
وفادار نے دل شکستہ ہو کر مبتلا سے کنارہ کشی اختیار کی۔ مردانے میں اس کے رہنے کی ایک کوٹھڑی تھی۔ رات دن اسی کوٹھڑی میں پڑا رہتا۔ اندر سے کچھ فرمائش آئی تو اس کی تعمیل کر دیتا۔ مبتلا کے کسی کام کاج کو ہرگز ہاتھ نہ لگاتا۔ آدمی تھا زمانہ دید سمجھ چکا تھا کہ یہ لیل و نہار اس طرح پر تو سدا چلنے والا نہیں یا تو یہ رسم و راہ نہیں اور رسم و راہ یہ ہے تو بندئہ درگاہ نہیں۔
وفادار اکیلا کوٹھڑی میں بیٹھا ہوا دیکھتا نہیں تھا تو سنتا سب کی تھا۔
اس کو میرمتقی کا آنا اور ارباب جلسہ کا گھبرانا معلوم ہو چکا تھا، خلاف عادت مبتلا کے بلانے کی آواز سن کر مطلب تو سمجھا مگر جان بوجھ کر چادر تان کر لیٹ گیا۔ مبتلا نے ایک بار پکارا دو بار پکارا تین بار پکارا۔ جواب ندارد۔ اگر کبھی پہلے ایسا اتفاق ہوا ہوتا تو وفادار کی مجال تھی کہ مبتلا پکارے اور پہلی آواز پر جواب نہ دے مگر میرمتقی کا آنا تھا کہ باہر سے اندر تک سب کا رنگ بدل گیا، جو ناچیز تھے وہ اب عزیز تھے جو بااقتدار تھے، وہ اب ذلیل و خوار تھے۔
یہاں تک کہ مبتلا نے خود کوٹھڑی کے دروازے پر آکر پکارا۔ میاں وفادار، میاں وفادار جلدی اٹھو چچا آئے۔ وفادار نے گھبرا کر پوچھا کیا چھوٹے میاں حج سے تشریف لائے۔ مبتلا ”ہاں“ وفادار نے میر صاحب مرحوم کو یاد کر کے ایک آہ کی اور آنکھوں میں آنسو بھر لایا اور میرمتقی کے صحیح و سلامت واپس آنے پر خدا کا شکر کیا اور دروازے کھولنے کے ارادے سے دوڑا۔
مبتلا نے لپک کر روکا کہ ذرا ٹھہرو۔ ذرا ٹھہرو۔ مبتلا نے چچا کو دیکھا تو تھا مگر سات برس میں صورت بھول گیا تھا۔ وفادار سے کہا کہ ذرا کواڑوں کی دوڑ میں جھانک کر تو دیکھو وہی ہیں۔ وفادار نے پہلی ہی نظر میں پہچان لیا اور کہا کہ بے شک وہی ہیں اور اب تو عین بین سرکار معلوم ہوتے ہیں۔ مگر داڑھی میں تو ویسی سفیدی نہیں۔ مبتلا یہ سن کر وفادار کے گلے سے لپٹ گیا اور کہا کہ خدا کے لیے کسی طرح مجھ کو اس فضیحت سے بچاؤ۔
میں ان کم بختوں کو کہاں لے جاؤں اور کس طرح چھپاؤں۔
وفادار کو مبتلا کا اضطرار دیکھ کر بہت ترس آیا اور اس نے کہا تھوڑی دیر کے لیے ان لوگوں کو پاخانے کھڑا کر دیجئے۔ چھوٹے میاں آخر اندر جائیں گے۔ اس وقت ان کو نکال باہر کرنا۔ واقع میں اس کے سوا کوئی تدبیر ہی نہ تھی۔ آخر یہی کیا کہ جھپا جھپ ان سب کو پاخانے میں اوپر تلے ٹھونس آگے پیچھے دھکیل کنڈی لگا باہر کا پھاٹک کھول دیا۔
میرمتقی نے دوڑ کر بھتیجے کو چھاتی سے لگایا، اس وقت کی کیفیت بھی جس جس نے دیکھی ساری عمر اس کو نہیں بھول سکتا، بوڑھا پھونس نہیں مگر ادھیڑا اور جوان فرشتہ اور شیطان، یارحمت اور قہر یا نیکی اور بدی یا ثقہ اور رند یا حاجی اور پاجی یا چچا اور بھتیجا دونوں ایک دوسرے کے گلے لگے ہوئے کھڑے رو رہے تھے۔ مبتلا تو دھاڑیں مار رہا تھا اور میرمتقی کی آنکھوں سے برابر آنسو جاری تھے اور چونکہ رنج کو بہ تکلیف ضبط کرتے تھے، بوٹی بوٹی کانپ رہی تھی۔
پچاس ساٹھ آدمی حلقہ باندھے ہوئے گردوپیش تھے اور سب پر رقت طاری تھی۔ کامل پاؤ گھنٹے کے بعد متقی نے مبتلا کو سینے سے جدا کیا۔ سب کے ساتھ اس کو لے جا کر دالان میں بیٹھے۔ تھوڑی دیر سبھی سکوت میں تھے۔ آخر کسی نے میر صاحب مرحوم کا ذکر خیر نکالا۔ پہلے ان کی بھلی عادتوں کا مذکور رہا پھر علالت اور وفات کا آخر فاتحہ پڑھ کر لوگ رخصت ہوئے اور میرمتقی زنان خانے میں گئے۔
#…#…#
ساتواں باب: میر متقی کی مبتلا کی بیوی سے ملاقات
ماموں کا آنا سن کر بھانجی کو ماں باپ اور ساس سسر کا مرنا۔ بھائیوں کا ظلم اور سب سے بڑھ کر مبتلا کا اس سے بے تعلق رہنا۔ اپنی بے کسی گھر کی تباہی آئندہ کی ناامیدی غرض ساری داستان مصیبت اول سے آخر تک یاد آگئی۔ وہ دل ہی دل میں رونے کی تیاریاں کر چکی تھی۔
جوں ماموں نے اندر قدم رکھا اور بھانجی کے ساتھ نظر دوچار ہوئی۔ اس نے کسی طرح لڑکھڑاتے ہوئے کھڑے ہو کر سلام تو کر لیا اور پھر تو ایسی بلکی کہ غش کھا کر گر پڑی۔ ہاتھ پاؤں ٹھنڈے پڑ گئے۔ دانت پچی ہو گئے۔ لخلخے سنگھائے منہ پر گلاب کے چھینٹے دیئے۔ بارے ہوش آیا تو اس نے ایسے بین شروع کیے کہ سننے والوں کے کلیجے منہ کو آنے لگے۔
دل دہل گئے۔ آخر متقی نے سر پر ہاتھ پھیرا اور سمجھایا کہ مصیبت میں اس قدر رنج کرنا عبودیت کی شان نہیں ہے۔
رنج مصیبت کو نہ ٹال سکتا ہے اور نہ اس کو ہلکا کر سکتا بلکہ الٹا مصیبت کو بڑھاتا ہے۔ جیسے محبت ماں کو اکلوتے بیٹے کے ساتھ ہوتی ہے۔ اس سے لاکھوں کروڑوں درجے بڑھی ہوئی محبت خدا کو اپنے تمام بندوں کے ساتھ ہے۔ اگر خدا نہ چاہے تو کیا بندے آپ سے آپ پیدا ہو جائیں اور اپنے اختیار سے زندگی کریں۔ ایسا خیال کرنا تو کفر کے علاوہ غلط صریح بھی ہے۔
بندے بھلے اور بُرے امیر اور غریب اور ضعیف، حاکم اور محکوم، بادشاہ اور رعیت یہاں تک کہ ولی اور پیغمبر سب کے سب اس قدر عاجز اور بے اختیار ہیں کہ بغیر خدا کی مرضی کے ایک پتہ ہلانا چاہیں تو نہیں ہلا سکتے۔ ایک ذرے کو جگہ سے سرکانا چاہیں تو نہیں سرکا سکتے۔
کسی انسان کا نفع و ضرر نہ خود اس کے اختیار میں ہے نہ کسی دوسرے انسان کے۔ دنیا میں جس کسی کو جس کسی کے ساتھ کسی طرح محبت ہے۔
اس کے یہی معنے ہو سکتے ہیں کہ جس کے ساتھ محبت رکھتا ہے۔ اس کا فائدہ چاہتا ہے۔ نہ یہ کہ اس کو فائدہ پہنچتا ہے۔ یا پہنچا سکتا ہے۔ اس واسطے دنیا کی ساری محبتیں جو ہم کو حاصل ہیں۔ یہاں تک کہ زندگی اس کی دی ہوئی ہے۔ بایں ہمہ انسان کو اس زندگی میں ایذائیں بھی پہنچتی ہیں۔ مگر ان میں ضرور انسان کا کوئی نہ کوئی فائدہ مضمر ہوتا ہے۔ مثلاً طبیب کہ وہ کسی مریض کا علاج کرتا ہے۔
کبھی اس کو کڑوی دوا پلاتا ہے اور کبھی اس کی فصد لیتا اور کبھی بیمار کے زخم کو شگاف دیتا اور کبھی شاید اس کے عضو کو کاٹ بھی ڈالتا ہے مگر ایسا کرنے سے کیا کوئی شبہ کر سکتا ہے کہ طبیب اپنے بیمار کے ساتھ عداوت رکھتا ہے۔ اسی طرح جو تکلیفیں ہم کو دنیا میں پہنچتی ہیں اور بلاشبہ خدا کی مقدس مرضی سے پہنچتی ہیں۔ ظاہر میں تکلیف ہیں اور باطن میں آرام، ابتدا میں ایذا ہیں اور انجام میں راحت۔
اول تو اس کا فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ وہ تکلیف حقیقت میں بھی تکلیف ہے یا نہیں۔ فرض کرو کہ کسی عورت کا شوہر مر جائے۔ ظاہر میں بیوگی ایک بڑی مصیبت ہے۔ مگر کیا یہ ممکن نہیں کہ مرد زندہ رہتا اور بیوی پر سوکن لا کر اس کو زندہ درگور کرتا یا بیوی سے اس کا دل ایسا پھرتا کہ جب تک جیتا اس کو سخت ایذا دیتا یا ایسے امراض میں مبتلا ہوتا کہ سارے گھر کی زندگی دشوار کر دیتا اور اسی طرح کے اور بہت سے احتمالات ہیں جن کی وجہ سے ایک عورت اپنی بیوگی کو ترجیح دے سکتی ہے سہاگ پر۔
بس جب تک انسان کو علم مستقبلات یعنی علم غیب نہ ہو اور وہ اس کو نہ ہوا ہے اور نہ ہو گا۔ وہ کسی حالت کو جو اس پر یا کسی پر طاری ہو بُرا کہہ نہیں سکتا۔
دنیا کے بہت سے واقعات کو ہم پسند کرتے ہیں۔ مگر جس طرح ہماری معلومات نا تمام ہیں۔ اسی طرح جو نتیجے ہم اپنی معلومات سے نکالتے ہیں۔ ناقص، ادھوری روداد اس پر فیصلہ ناکافی تحقیقات اور اس پر تجویز اور مانا کہ جو تکلیف ہم کو پہنچی حقیقت میں تکلیف ہے تو کیا۔
شفیق باپ اپنے پیارے بیٹے کو منصف اور رحم دل بادشاہ اپنی عزیز رعیت کو تادیب یا تنبیہہ یا اصلاح یا کسی دوسری مصلحت سے ایذا نہیں پہنچاتا۔ ہمیشہ ایسی ایذائیں پہنچتی رہتی ہیں، نہ فریاد نہ شکایت، پس اگر خدا کی طرف سے ایک ایذا پہنچ جائے (جانے دو کی اس بے شمار احسانوں کو اور بھول جاؤ اس کی نا محصور نعمتوں کو) تو بندہ کیوں منہ پھلائے، کس لیے بڑبڑائے۔
سب سے بڑا فائدہ جو مصیبت سے انسان کو پہنچتا ہے۔ یہ ہے کہ مصیبت دل میں بالتخصیص عجز و انکسار کی صفت پیدا کرتی اور خدا کو یاد دلاتی ہے اور حقیقت میں مصیبت کے وقت بندہ خدا کی طرف رجوع کرتا ہے تو وہ مصیبت نہیں رحمت ہے۔ لیکن خدا کو یاد کرنے اور اس کی طرف رجوع کرنے کے یہ معنے نہیں ہیں کہ شکایت کرو اور اس سے ناراض رہو۔ بلکہ اس کے یہ معنے ہیں کہ اس کی رحمت پر پورا بھروسہ اور اعتماد کر کے صمیم قلب سے یقین کر لو کہ جو کچھ ہوا خوب ہوا۔
مناسب ہوا اور یوں ہی ہونا چاہیے تھا۔ یہ تو درجہ رضا اور تسلیم کا ہے اور اسی کا نام صبر جمیل ہے اور آدمی کو جس کا عقیدہ ضعیف اور دل کمزور اور جس کی ہمت کوتاہ اور جس کا ارادہ متزلزل ہے۔ اس درجے پر پہنچنا دشوار ہے۔ مگر اعلیٰ علیین پر نہیں پہنچ سکتے تو ایک سیڑھی دو سیڑھی جتنا ہو سکے کچھ تو اُچکو کسی قدر تو ابھرو کہ اسفل السافلین کفران سے نکلو۔ یوں کہنے کو تو زبان سے سبھی کہتے ہیں کہ دنیا فانی ہے، چند روزہ ہے، خواب ہے، سراب ہے، سایہ ہے، سحاب ہے، برق بے تاب ہے مگر مصیبت کے وقت بخوبی ظاہر ہو جاتا ہے کہ زبان ہمارے دل کی سچی ترجمان نہیں۔
کیا کوئی فانی ایک فانی حالت کے لیے اتنا غل مچاتا اور اس قدر روتا پیٹتا، مصیبت پر جو منفعت ہم نے ہمیشہ مترتب ہوتے دیکھی، حد تو یہ ہے کہ مصیبت آدمی کے مستقبل کو اس کی ماضی سے ضرور بہتر کر دیتی ہے یعنی اگر انسان کاہل تھا تو مصیبت کے بعد ضرور چست و چالاک ہو جاتا ہے۔ آرام طلب تھا تو جفاکش، بھولا تھا تو سیانا، مسرف تھا تو کفایت شعار، بدپرہیز تھا تو محتاط، جلد باز تھا تو دھیما۔
آوارہ تھا تو نیک کردار جس آدمی پر کبھی مصیبت نہیں پڑی نہ اس کی عقل کا ٹھکانہ، نہ اس کی رائے کا بھروسہ، نہ اس کا دین درست، نہ اس کے اخلاق شائستہ۔ اس کے علاوہ اس کا دستور ہے کہ ایک حالت کیسی ہی عمدہ کیوں نہ ہو، اگر ساری عمر یکسانی کے ساتھ چلی جائے تو اس حالت کی عمدگی کا احساس نہیں رہتا بلکہ اکتا کر خود اس حالت سے نفرت کرنے لگتا ہے۔
ایک باورچی کو میں جانتا ہوں جو نمکین اور میٹھے چاول یعنی بریانی متنجن وغیرہ پکانے میں کامل استاد تھا۔
شہر میں کہیں نہ کہیں شادی یا غمی کی کوئی نہ کوئی تقریب لگی ہی رہتی تھی جس کے یہاں چاولوں کی پخت ہوتی اسی باورچی سے پکواتا اور اس کو مزدوری کے علاوہ دستور کے مطابق تہ دیگی کی چوٹی دار رکابی بھی ملتی وہ ایک رکابی ایسی ہوتی تھی کہ اس کا سارا گھر اس کو کھا کر اٹل ہو جاتا۔ پس ان لوگوں کو دونوں وقت عمدہ سے عمدہ بریانی اور بہتر سے بہتر متنجن کھانے کو ملتا تھا۔
پس یہ حالت تھی کہ کسی غریب آدمی کے سامنے جو بریانی متنجن کو ترستا ہو۔ بیان کیجیے تو سننے کے ساتھ ہی رال ٹپک پڑے مگر اس باورچی اور اس کے اہل و عیال کا کیا حال تھا کہ منتیں کر کے بریانی متنجن کی رکابیاں ہمسائے کے لوگوں کو دیتے اور ان سے روٹی چٹنی مانگ کر کھاتے۔ پس ہم نے تندرستی کی قدر بیماری سے جانی، وطن کی پردیس سے، تونگری کی مفلسی سے، آرام کی دُکھ سے، راحت کی مصیبت سے، تو جو شخص حقیقی راحت کا خواہاں ہے ضرور ہے کہ مصیبت کا بھی مزہ چکھے۔
مصیبت زدہ کے لیے سب سے بہتر تدبیر یہ ہے کہ وہ دوسرے مصیبت مندوں پر نظر کرے۔ مثلاً اگر اس کو صرف بیوگی کی شکایت ہے تو پائے گی کہ اس جیسی اور اس سے بدتر لاکھوں بیوہ عورتیں اور بھی ہیں۔ شاید یہ ایک مدت خانہ داری کرنے کے بعد بیوہ ہوئی ہے اور ہزار ہا اللہ کی بندیاں ایسی بھی ہیں جنہوں نے شوہر کی صورت تک نہیں دیکھی۔ پس وہ بیوگی کے علاوہ لاولد بھی ہیں اور شاید ان کو روٹی کا بھی کہیں سے آسرا نہ ہو۔
نگھری ندری بھی اور شاید دکھیا، بیمار اور شاید اندھی اور لولی اور اپاہج بھی، کسی کو اگر کھجلی کی ایذا ہے تو وہ دیکھے گا اپنے ہی جیسے آدمی کوڑھی اور کوڑھ میں کیڑے اور کیڑوں کے ساتھ زخم اور زخموں میں سوزش العیاذ باللہ جس کی آنکھ میں ناخنہ ہے۔ کیا اس کو اس سے تسلی نہیں ہو گی کہ دوسروں کی آنکھ میں ٹینٹ یا دوسرے کانے بلکہ اندھے بھی ہیں۔
غرض دنیا کا حال یہی ہے کہ ایک سے ایک بہتر ہے۔ پس کیوں کوئی مغرور ہو اور ایک سے ایک بدتر ہے تو کس لیے کوئی ناصبور ہو۔ بیٹی میں یہ نہیں کہتا کہ تم پر مصیبت نہیں پڑی۔ مگر اس مصیبت پر جو تمہاری حالت ہے شکر کے قابل ہے کہ خدا کے فضل و کرم سے تندرست ہو۔ عزت و آبرو کے ساتھ گھر میں بیٹھی ہو۔ تم نے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا۔ تم نے دروازے دروازے بھیک نہیں مانگی تم نے پیٹ کے واسطے کسی کی خدمت نہیں کی ٹہل نہیں کی۔
گو ماں باپ کو خدا نے اٹھا لیا۔ مگر ابھی تمہارے غمگسار، تمہارے خبر گیر تمہارے سرپرست موجود ہیں اور ان میں سے ایک میں بھی ہوں کہ باپ جتنی نہیں کروں گا لیکن اس سے پورا اطمینان رکھو کہ انشاء اللہ اپنے مقدور بھر تمہارے حال کی اصلاح تمہارے معاملات کی درستی میں کس طرح کی کوتاہی بھی مجھ سے نہ ہو گی۔ لاؤ اسی شہر سے بلکہ اسی محلے سے بلکہ اسی کوچے سے بلکہ تمہارے پڑوسی جتنی عورتیں کہو بلا لاتا ہوں جن کو دیکھ کر تم ضرور رحم کرو گی اور سمجھو گی کہ یہ مجھ سے زیادہ دکھیا ہیں۔
ایک حکیم کا قول ہے کہ دنیا میں ہر شخص خوش ہے اس واسطے کہ وہ اپنی حالت کو کسی دوسرے کی حالت کے ساتھ بدلنا نہیں چاہتا۔ جس دن پہلے پہل میں نے یہ بات کتاب میں لکھی دیکھی تو میں ذرا اس پر ٹھٹکا۔ پھر میں نے سوچا کہ اس کو میں اپنے ہی اوپر کیوں نہ آزماؤں تو میں نے اپنی جان پہچان کے پانچ چھ آدمی تجویز کیے۔ جن کی حالت تو بنظر ظاہر میں اپنی حالت سے بہتر سمجھتا تھا۔
لیکن اچھی طور پر غور کیا تو ایک لاولد تھے۔ دوسرے بیٹے تو رکھتے تھے۔ مگر ناہموار۔ تیسرے دائم المرض۔ چوتھے شدت سے کنجوس۔ پانچویں بیوی کی بدمزاجی اور بدسلیقگی اور بدزبانی سے عاجز چھٹے لامذہب۔ غرض کسی کو بے داغ نہ پایا۔
تب اس حکیم کے مقولہ کی تصدیق اور میرے دل کی تشفی ہوئی اور پھر ایک بات اور بھی سوچنے کے قابل ہے کہ غم کیسا ہی سخت اور صدمہ کتنا ہی بھاری کیوں نہ ہو۔
رفتہ رفتہ خود بخود اس کا اثر مضمحل ہوتے ہوتے آخر کار محو ہو جاتا ہے۔ کبھی ہمارے باپ بھی مرے تھے ہم بھی ان کے فراق میں تمہاری طرح بہتیرا روئے دھوئے۔ غمگین اور اداس رہے۔ آخر بھول بسر گئے۔ غرض انسان کو چارو ناچار صبر تو کرنا پڑتا ہے کیا کرے دیوار سے سر ٹکرا کر کنوئیں میں گر کر، افیون کھا کر حرام موت مر رہے۔ مگر اس کو صبر محمود نہیں کہتے۔
صبر محمود وہی ہے کہ نزول مصیبت کے وقت ہو۔ جب کہ رنج دل کو نچوڑتا اور کلیجے کو کھرچتا ہے۔ آنسو ہیں کہ نکلے چلے آتے ہیں اور سانس ہے کہ پیٹ میں نہیں سماتا۔ وہ بندے کے لیے سخت آزمائش کا وقت ہے۔ معاذ اللہ اگر خدا کی شان میں شکایت کا کوئی کلمہ اس کے منہ سے نکل گیا یا اس کے دل میں خدا کی نسبت بے حمی یا بے انصافی کا خیال وسوسے کے طور پر بھی آگیا۔ تو بس دنیا خراب عاقبت برباد۔ متقی نے جو یہ باتیں عقل کی دین کی نصیحت کی بیان کیں تو بھانجی پر ایسا اثر ہوا کہ گویا گرتی ہوئی دیوار کو تھونی لگا دی۔ ڈوبتے ہوئے کو اُٹھا کر کنارے پہنچایا۔ مرجھائے درخت کو پانی دیا۔
#…#…#
آٹھواں باب: میرمتقی کی مبتلا کے اُمور خانہ داری کی اصلاح میں کوشش
متقی کا ارادہ تو یہ تھا کہ بھائی سے مل کر ہفتہ عشرہ رہ کر رام پور روانہ ہوں گا مگر سوچا کچھ اور ہوا کچھ۔ یہاں آکر دیکھا تو بھائی کو مرے ہوئے چھ مہینے ہو چکے تھے اور بھتیجے صاحب نے وہ اودھم مچا رکھی تھی کہ خدا کی پناہ۔ دو تین مہینے بھی متقی کے پہنچنے میں دیر ہوتی تو تنخواہوں کا، کرائے کا، رہنے کے موروثی مکان کا، خاندان کی عزت و آبرو کا بزرگوں کے نام و نمود کا سب کا فیصلہ ہو چکا تھا۔
باپ کا بیمار پڑنا اور مبتلا کا مدرسے سے اٹھنا۔ وہ دن اور آج کا دن اس بندئہ خدا نے بھول کر بھی تو مدرسے کو یاد نہ کیا۔ شروع شروع میں دوچار ہم جماعت بلانے کو آئے۔
بعض مدرسوں نے بھی کہلا بھیجا۔ مبتلا کس کی سنتا تھا۔ رخصت کی غیر حاضری ہوئی اور غیر حاضر ہونا تھا کہ نام کٹ گیا۔ بیٹھے بٹھائے اچھا معقول وظیفہ کھویا اور بات کی بات میں آئندہ کی ساری امیدیں ایک دم سے منقطع ہو گئیں۔
جن جن سرکاروں سے تنخواہیں مقرر تھیں ضرور تھا کہ پیروی کر کے وارثوں کے نام ان کا اجرا کرایا جائے مگر یہاں پیروی کرے تو مبتلا اور نہ کرے تو مبتلا اگر باپ کے مرنے پر مبتلا ان سرکاروں میں جاتا تو جن سرکاروں کا جیسا دستور تھا کہیں سے ماتمی خلعت، کہیں سے نقد کچھ نہ کچھ ملتا اور تنخواہ بھی کہیں سے پوری کہیں سے ادھوری جاری ہوتی۔
مگر مبتلا کو اپنے مشاغل لا یعنی سے اتنی فرصت کہاں تھی کہ وہ ان باتوں کو سوچے اور خلعت یا نقد یا تنخواہ کے لیے سرکاروں میں دوڑ دھوپ کرے۔
غرض جتنے معمولات تھے سب بند ہو گئے اب آمدنی کے نام سے تو رہ گیا صرف کرایہ۔ اول تو وہ تھا ہی کتنا مگر خیر جس قدر تھا۔ اس کا بھی یہ حال ہوا کہ کسی کے دو روپے دینے ہیں اس نے مانگنے نہ مہینہ دیکھا نہ حساب نہ کتاب نہ قلم اٹھا کسی کرایہ دار کے نام چٹھی لکھ دی کہ اس کو دو روپے دے کر کرایہ میں مجرا کر لو۔ اب وہ چٹھی والا کرایہ دار کے سر ہوا۔ ہر چند وہ کہتا جاتا کہ بھائی ابھی مہینہ پورا نہیں ہوا۔
میں نے اپنی گرہ سے مرمت کرائی ہے۔ چٹھی والا ہے کہ ایک نہیں سنتا۔ کرایہ داروں نے دیکھا کہ الٰہی شہر میں ہزار ہا مکان اور لاکھوں دکانیں ہیں۔ یہ چٹھی کا انوکھا اور نرالا دستور نہ دیکھا نہ سنا۔ ایک میر صاحب تھے۔ اللہ بخشے کہ ایک مہینے کا کرایہ دوسرے مہینے میں اور دوسرے کا تیسرے میں وصول ہوتا رہتا تھا۔ بے چارے کبھی ایک سخن بھی تو زبان پر نہیں لائے۔
انہیں کے صاحبزادے ہیں کہ بے حساب بیٹھے بیٹھے چٹھیاں اڑاتے ہیں۔ گویا کہ کوتوالی کے پروانے ہیں یا تھانے کے حکم نامے غرض اکثروں نے بیدل ہو کر مکان خالی کر دیئے اور اٹھ کر کہیں اور جا رہے ہیں اور جائیداد اس قدر بدنام ہو گئی کہ کوئی دوسرا کرایہ دار رُخ نہیں کرتا۔ مبتلا کے ہاتھ لگ گیا تھا ماں کا زیور اسی میں یہ تمام گل چھرے اڑا رہے تھے۔
پونے دو ہزار کا زیور اس مرحومہ کا تھا، چھ مہینے میں سب خالصے لگ چکا۔ اب مہینے سوا مہینے سے ادھار پر گزران تھی، متقی نے جو یہ حالت بھائی کے گھر کا دیکھا تو کیونکر ممکن تھا کہ ان لوگوں کو ایسی حالت میں چھوڑ کر چلا جائے۔
ناچار رام پور کا ارادہ سردست فسخ کیا اور مبتلا کو ساتھ ساتھ سرکاروں میں لیے لیے پڑا پھرا۔ کسی کے کار پرداز سے سازباز کی۔
کسی کے داروغہ کو جاگا نٹھا۔ سفارش پہنچائی اور سعی کے مقام پر سعی کرائی، بعض جگہ اپنی وجاہت سے کام نکالا اور جہاں موقع بن پڑا بھائی کے حسن خدمات پر زور ڈالا۔ غرض کئی مہینے کی دما دوش سے اتنا ہوا کہ مبتلا کے والد میر مذہب کی زندگی میں جتنی تنخواہیں تھیں بلا کم و کاست پوری پوری کھل گئیں بلکہ بعض سیرچشم سرکاروں نے پچھلے چھ مہینے کی چڑھی ہوئی تنخواہیں بھی بلاوضعات دیں، میرمتقی نے ایک پیش بینی یہ کی کہ جس قدر ذاتی تنخواہ تھی یعنی بلا خدمت بطور معاش ملی تھی۔
اپنی بھانجی غیرت بیگم یعنی مبتلا کی بی بی کے نام جاری کرائی اور تنخواہ مشروط الخدمت مبتلا کے نام۔ اس میں مصلحت یہ تھی کہ بی بی کے آگے مبتلا کی ذرا کنی دبی رہے۔ تنخواہوں کا پچھلا چڑھا ہوا روپیہ جس قدر ملا اس سے مکانات اور دکانات کی شکست و ریخت کی درستی کرا کے کرایہ داروں کو بسا کر ان کے سر خط بھی آدھے کرائے کہ مبتلا کے نام اور آدھے غیرت بیگم کے نام لکھوا دیئے۔ میرمہذب کے روز وفات سے آج تک بیوتات کا حساب بننے کے لیے یہاں سے ادھار چلا آتا تھا۔ حساب کر کے اس کا قرضہ چکایا اور آئندہ کے لیے ادھار کو مطلقاً بند کر کے یہ قائدہ باندھ دیا کہ جو چیز درکار ہو وہ نقد بازار سے آ جایا کرے۔
#…#…#
نواں باب: سید حاضر کے روبرو میرمتقی کا وعظ
غیرت بیگم کو بھائیوں نے ترکہ پدری سے محروم کر رکھا تھا۔ کسی کی مجال تھی کہ ان بھڑوں کے چھتوں کو چھیڑے وہ اس بلا کے لوگ تھے کہ اگر نالش کی بھنک بھی ان کے کان میں جا پڑتی۔ تو کہاں کے ماموں اور کس کی بہن اور کیسا بہنوئی سب کی عزت کے لاگو ہو جاتے۔
یہ ایک شعر جو مشہور ہے:
ہر جا جمع نے آیند سادات
فسادات، فسادات، فسادات
کہتے ہیں کسی نے سید نگر والوں ہی کی شان میں کہا تھا اور متقی کو وہاں کے لوگوں کے ہتھکنڈے بخوبی معلوم تھے اور مخاصمانہ طور پر بھانجوں کے ساتھ پیش آنا اور ان کے مقابلے میں مدعی یا مدعاعلیہ ہونا گو بھانجی ہی کا حق طلب کرنے کے لیے کیوں نہ ہو نہ ان کو شایان تھا اور نہ غیرت بیگم کے حق میں مفید۔
سید نگر کے سب لوگ زمیندار اور رعایا یہاں تک کہ خوش باش اور اس قدر مفسد تھے کہ جھوٹ بولنا جھوٹا حلف اٹھا لینا جھوٹے گواہ جھوٹی روداد اور جھوٹی دستاویزیں بنانا حاکم کو دھوکا، پرایا حق مار بیٹھنا لوگوں کو ناحق ستانا ان باتوں کو بڑا ہنر اور داخل ہوشیاری سمجھتے تھے اور جس طرح کوئی بڑا نامی جنرل اپنے دوستوں میں فخراً اپنی فتوحات کے واقعات کا بیان کرتا ہے۔
یہ لوگ ہمیشہ دیوانی فوجداری کے مقدمات کے تذکرے کرتے رہتے تھے۔ کوئی امیر اپنی مدح پر اتنا ناز نہ کرتا ہو گا جتنا ان کو ڈگریوں اور فیصلوں پر تھا، ان لوگوں کی نظروں میں میرمتقی صوفی وفقیہ تھے مگر سادہ لوح اور عالم و فاضل تھے مگر احمق و لایعقل۔ میر متقی کا چھوٹا بھانجہ سید نگر ناظر جو غیرت بیگم سے بھی عمر میں چھوٹا تھا۔ کچہری دربار کا کام دیکھتا تھا اور تمام معاملات مقدمات اسی سے متعلق تھے۔
پس یہ گھر کا کل تھا، سید حاضر جو غیرت سے بڑا اور اکبر اولاد تھا۔ سید نگر میں مکان کی خبرگیری کرتا تھا اور رعایا سے وصول تحصیل کرنا اور کھیتی کا جتوانا بوانا غرض گاؤں کا سب کام کاج اس کے سپرد تھا، ماموں کا آنا سن کر سید نگر سے سید حاضر تو فوراً اگلے ہی دن آ حاضر ہوا اور اس نے اس کا بھی انتظار نہ کیا۔ کہ تعزیت کے لیے ماموں کی طرف سے تقدیم ہونی چاہیے۔
لیکن جب وہ واپس جانے لگا تو میرمتقی اس کے ساتھ ادائے رسم تعزیت کے لیے سیدنگر گئے۔ ناظر وہاں نہ تھا۔ معلوم نہیں کسی ضرورت سے غیر حاضر تھا۔ یا قصداً ماموں کی آمد سن کر ٹل گیا تھا۔ میرمتقی نے بتقریب تعزیت جہاں اور بہت سی باتیں سید حاضر سے کیں۔ ان میں سے یہ بھی تھی کہ تم کو شروع سے خدا نے بڑا کیا کیونکہ تم بھائی صاحب مرحوم کی اولاد میں سب سے بڑا ہو کیونکہ تم کو لوگ مرحوم کا جانشین سمجھتے ہیں اور تم ان کے جانشین ہو بھی۔
انسان کو خدا نے ایسے طور کا مخلوق بنایا ہے کہ تمدن اس کو لازم ہے جس طرح تمدن اس کے وجود کی شرط ہے کہ اگر انسان مدنی الطبع نہ ہوتے اور آدمی آدمی کے ساتھ مل کر نہ رہتا تو آگے کو ان کی نسل نہ چلتی۔ اسی طرح تمدن انسان کی حیات بلکہ اس کی ممات کی بھی شرط ہے تمدن نہ ہو تو انسان کی زندگی عذاب اور مرے پیچھے اس کی مٹی خراب۔ تمدن کی ضرورت سے آدمی دو دو، چار چار، دس دس، پچاس پچاس، ہزار ہزار، لاکھ لاکھ اور اس سے بھی زیادہ زیادہ اکٹھے ہو کر رہتے ہیں اور خاندان اور قبیلے اور کنبے اور برادری اور گاؤں اور قصبے اور شہر اسی تمدن کے مظاہر ہیں۔
تمدن سے لوگوں میں انواع و اقسام کے باہمی تعلقات قائم ہوتے ہیں۔ ماں، باپ، بیٹا، بیٹی، میاں بی بی بھائی بہن اور جتنے طور کے دور و نزدیک کے رشتہ دار ہیں اور ہمسایہ اور ہم وطن اور حاکم و محکوم اور بادشاہ اور رعایا اور شاگرد اور آقا اور نوکر اور افسر اور ماتحت اور زمیندار اور کاشت کار اور دکاندار اور خریدار وغیرہ یہ سب نام ہیں لوگوں کے باہمی تعلقات کے۔
ہر تعلق کے ساتھ کچھ حقوق ہوتے ہیں اور کچھ ذمہ داریاں مثلاً باپ اور بیٹے میں ایک طرح کا تعلق ہے باپ کا حق ہے کہ بیٹا اس کا ادب کرے اس کا حکم مانے اور اس کی ذمہ داری یا بعبارت دیگر اس کا فرض یہ ہے کہ بیٹے کو شفقت کے ساتھ پالے، تربیت کرے، پڑھائے لکھائے ہنر سکھائے جو اس کے کام آئے، لوگوں کا یہ حال ہے کہ تمدن کے حقوق اور فرائض میں اکثر بلکہ سب کے سب مُطَفّفِ ہیں۔
مُطَفّفِ عرب میں کہتے ہیں اس شخص کو کہ اپنا لینا ہو تو جھکی ہوئی تول لے اور دوسرے دینا ہو تو اڑتی ہوئی دے۔ ایسے ہی لوگوں کی شان میں اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:
افسوس ہے ڈنڈی ماروں پر کہ جب لوگوں سے ناپ کر لینا ہو تو پورا پورا لیں اور جب لوگوں کو ناپ کر یا تول کر دینا پڑے تو ان کو گھاٹا پہنچائیں، کیا لوگ اس بات کا خیال نہیں کرتے کہ ایک بڑا دن آنے والا ہے اور اس دن ان کو مرکر اٹھنا ہو گا۔
اس دن لوگ پروردگار عالم کے روبرو کھڑے ہوں گے۔ اسی طرح دنیا میں کوئی شخص ایسا نہیں الا ماشاء اللہ جو اپنے حق میں سے کسی بھائی کو رتی بھر چھوڑ دے لینے میں تو ایسا سیانا اور سخت گیر کہ دوسرے کے حقوق ضائع ہوں، تلف ہوں کچھ پرواہ نہیں ذرا دل پر میل نہیں، دینے میں ایسا گرہ کا بھولا اور شریر اور کشمکش اور مفسدے کے روکنے کے لیے اللہ صاحب جل شانہ نے دوہرے دوہرے انتظام کیے ہیں کہ ایک سلطنت ظاہر بادشاہ ہے اور اس کے پاس فوج ہے اور توپ ہے اور تلوار ہے اور قوت ہے اور پولیس ہے اور حاکموں کا ایک گروہ ہے اور جلاد ہے اور جیل خانہ ہے اور بند ہے اور تازیانہ ہے۔
اس انتظام کے تفصیلی حالات تم کو مجھ سے بہتر معلوم ہیں۔ دوسری ایک سلطنت الٰہی ہے جس کو دین یا مذہب یا شرع کہتے ہیں۔ اس میں توپ کا نام نہیں۔ تلوار کا کام نہیں۔ اعوان و انصار نہیں فوج اور سپاہ درکار نہیں، مگر دنیا میں جس قدر امن اور جتنی عافیت ہے۔ اسی الٰہی سلطنت کی بدولت ہے۔ ظاہر بین اور کوتاہ بین ایسا سمجھتے ہیں کہ دنیا کا سارا انتظام کام ظاہر کرتے ہیں۔
استغفر اللہ نہ کرتے ہیں اور نہ کر سکتے ہیں۔ ملک کی ساری پلٹنیں کالوں کی اور گوروں کی اور سارے رسالے اور سارے توپ خانے اور سارے پولیس کے ملازم اور سارے حاکم سب کے مجموعے کو ملک کی مردم شماری پر پھیلا کر دیکھو تو کیا پڑتا ہے۔
اگرچہ دس ہزار باشندوں پر ایک بھی نہیں بیٹھے گا۔ مگر فرض کرو کہ دس ہزار پیچھے ایک تو کیا یہ بات سمجھ میں آنے کی ہے کہ ایک متنفس دس ہزار آدمی کے ضبط پر قادر ہو۔
آدمی تو آدمی اگر دس ہزار گدھے یا دس ہزار بھیڑ بکری بھی ہوں تو ایک چرواہا ان کو ایک جگہ کھڑا نہیں رکھ سکتا۔ نہ یہ کہ ان کو جس کروٹ اٹھائے اٹھیں اور جس کروٹ بٹھائے بیٹھیں، ہاں شاید تمہارے دل میں یہ بات ہو گی کہ حاکم ایک کو سزا دیتا ہے تو دس ہزار کو عبرت ہوتی ہے۔ لیکن خیال کرنے کی بات ہے کہ جن کو سزا ہوئی انہیں کو کیا عبرت ہوئی کہ دوسروں کو ہوتی۔
ہم نے تو یوں سنا ہے خدا جانے جھوٹ یا سچ کہ بدمعاش لوگ اول تو گرفت ہی میں نہیں آتے اور اگر کوئی شامت کا مارا قضارا ماخوذ بھی ہوا تو سید نگر والے (وکیل مختار) اس کو سزا نہیں ہونے دیتے اور سزا بھی ہوئی تو ان کو عبرت اس سے ظاہر ہے کہ چھوٹتے ہیں تو دوسرے قیدیوں کو وصیت کر آتے ہیں کہ دیکھنا بھائی میرے چولہے کو ہاتھ نہ لگانا مہینہ پورا نہیں ہونے پائے گا کہ میں پھر آتا ہوں۔
ہم کو تو کبھی اتفاق نہیں ہوا اور خدا نہ کرے کہ ہو۔ مگر اخباروں میں اکثر دیکھا کہ فلاں مقام پر فلاں خونی کو فلاں تاریخ فلاں وقت پھانسی دی گئی۔ دو ہزار آدمیوں کی بھیڑ تھی۔ عبرت ہو تو ایسی ہو۔ یہ سب نالائق تماشائی تھے اور سنگ دل قصائی اس کے علاوہ ایک بدیہی دلیل ایسی ہے کہ اس سے تو تم کو میری بات کا پورا یقین ہو جائے گا۔ یہ ہلواہا جو بیلوں کو تھان سے کھول کر لیے جا رہا تھا۔ اس کا کیا نام ہے؟
حاضر: اس کا نام غریبا۔
متقی: ذر ااس کو بلا۔ حاضر نے بلایا تو اس نے ہل تو کندھے پر سے اتار کر وہیں رکھ دیا اور اسی ہل سے بیلوں کو اٹکا سامنے آکھڑا ہوا۔
متقی: کیوں میاں تمہارا کیا نام ہے۔
غریبا: میاں مجھ کو گریبا کہتے ہیں۔
متقی: کون ذات ہو۔
غریبا: ”گوجرنا“ متقی تم کتنی کھیتی کرتے ہو؟
غریبا: میری کھیتی الگ نہیں (سید حاضر کی طرف اشارہ کر کے) ہاجر (حاضرہ) میاں کاہلواہا ہوں اور کھار میں ایک دو بیگھے کا کھیت بھوما لوینے کا ہے۔
اس میں ادھواڑ کا بانٹیہ دار ہوں۔
متقی: بال بچے کتنے ہیں؟
غریبا: (مسکرا کر) بھگوان کی بڑی کرپا ہے۔ آٹھ۔
متقی: کسی کا بیاہ برات بھی کیا ہے۔
غریبا: ابھی سب نادان ہیں۔
متقی: اتنے کنبے میں کیوں کر گزرتی ہو گی۔
غریبا: ہاجر (حاضر) میاں کی یاد سے رکھی سوکھی۔ لسی کسی دو وخت نہیں تو ایک وخت مل ہی جاتی ہے۔ چھوٹے بڑے انہی کی بٹل میں لگے رہتے ہیں۔
یہی سب کو پالتے ہیں۔ بھتیر سے بڑی سہاتیا رہتی ہے۔
متقی: اشارے سے غریبا کو پاس بلا کر (آہستہ سے) کیوں بے آج کل تو کھلیان تیار ہیں۔ رات بے رات موقع پا کر کھلیان پیچھے دو دو پولی بھی اٹھا لائے تو کسی کو کیا معلوم اور مزے میں تیرا کام ہو جائے۔
غریبا: (دور ہٹ کر) نا میاں بھگوان بُرا کام نہ کرائے۔
متقی: کیوں کیا جاگا چوکیدار سے ڈرتا یہ۔
اس کو ہم سمجھا دیں گے۔
غریبا: جاگا (گالی) کہاں کا سورما ہے۔ ایک ڈپٹ بتاؤں تو (گالی) دھوتی میں… پر نہیں بُرا کام برا ہی ہے۔
متقی: ابے مسخرے کسی کو کانوں کان تو خبر ہونے کی نہیں، یہ اچھا ہے کہ تن پر چیتھڑا نہیں، پیٹ کو کو ٹکڑا نہیں۔
غریبا: انسان نہ دیکھے مگر بھگوان سے تو کچھ چھپا نہیں۔ اس کے بعد متقی نے استمالت کی دو چار باتیں کر کے غریبا کو تو رخصت کیا اور سید حاضر سے کہا۔
کیوں صاحب آپ نے دیکھا یہی انتظام الٰہی ہے کہ یہ بے چارہ نہ تو پڑھا اور نہ لکھا اور نہ شاید ساری عمر کسی پنڈت برہمن کی صحبت میں بیٹھا۔ ضرورت اس درجے کی کہ اگر سچ سچ پوچھئے تو ”بھوک سے بے قرار کو مردار بھی حلال ہے“ کا مصداق ہے اندیشہ پاسباں سے مطمئن اور اس پر چوری کو سمجھتا ہے کہ بُرا کام ہے۔ اصل میں بُرا سمجھنا اس کو چوری کے ارتکاب کا مانع ہے۔
اور یہ سمجھ یعنی بُرے بھلے کا امتیاز جو خدا نے مرد عورت لڑکے جوان، بوڑھے خواندہ ناخواندہ ذہین غبی شہری دیہاتی سب بنی آدم کو اعلیٰ قدر مراتب دیا ہے۔ ایک پاسبان الٰہی ہے جو ہر ایک پر مسلط ہے اس کو کراماً کاتبین کہو یا انسان کا دل سمجھو جو برائی پر مائل کرتا ہے یا جن الفاظ سے چاہو تعبیر کرو۔ میرا عقیدہ تو یہ ہے کہ جرموں کا انسداد لاکھ حصے سلطنت الٰہی کی تاثیر سے ہے تو شاید ایک حصے حکومت ظاہر کی تدابیر سے۔
حکومت ظاہری میں ایک بڑا نقص یہ ہے کہ حاکم کیسا ہی منصف کیوں نہ ہو چونکہ اس کو معاملے کی اصل حقیقت سے تو آگہی ہوتی نہیں۔ ناچار اسے روداد کی پابندی کرنی پڑتی ہے اور روداد کی کیفیت تو کوئی ہمارے سید نگری بھائیوں سے پوچھے کہ کہو تو مکھی کو بھینسا بنا دیں اور فرماؤ تو بھینسے کو مچھر بنا کر اڑا دیں۔ پس حاکم ظاہری کبھی پورا پورا انصاف کر ہی نہیں سکتا۔
اس کا فیصلہ اندھے کی لاٹھی ہے۔ لگی لگی نہ لگی نہ لگی برخلاف سلطنت الٰہی کہ اس کا نشانہ ممکن نہیں کہ خطا کرے۔ اس کا مجرم ہو نہیں سکتا کہ سزا سے بچ جائے کسی کی مجال ہے کہ اس کی ڈگری کو روکے کس کی طاقت ہے کہ اس کے حکم کو ٹالے اگرچہ خدائی فیصلوں کے لیے ایک دن مقرر ہے۔ یعنی روزِ قیامت کہ اس دن اللہ جل و علاشانہ، عدل و انصاف کے تخت پر اجلاس فرمائے گا۔
اور نیک اور بد اور سخی اور شوم اور ظالم اور مظلوم سب کا حساب کر دے گا۔ مگر کبھی مصلحت الٰہی اس کی بھی مقتفی ہوتی ہے کہ اس دنیا میں بدلہ مل جاتا ہے۔ یہی سید نگر ہے کہ اب سے بہت زیادہ دُور بھی نہیں۔
شاید بیس برس پہلے دس بارہ ہاتھی سادات کے دروازوں پر کھڑے جھومتے تھے۔ اور اس کی سخاوت اور دادو دہش اور مہمان نوازی اور مسافر پروری کی کیا شہرت تھی کہ کربلا اور بغداد اور حرمین اور نجف اور کاظمین تک سے لوگ ہر سال نام سن کر آتے تھے۔
میں ان دنوں اچھا خاصا ہوشیار تھا مجھ کو اب تک یاد ہے کہ اس بڑی مسجد میں دو ڈھائی سو طالب علم رہتے تھے اور یہیں کے سادات ان کے کھانے کپڑے کتاب سب چیزوں کی خبر گیری کرتے تھے طالب علموں کو پڑھانے کے لیے بیش قرار تنخواہوں کے پانچ یا چھ جید حافظ اور مولوی نوکر تھے۔ سارے مہینے رمضان کے اور دس دن محرم کے غربا اور مساکین کے لیے اس قدر کھانے پکتے تھے کہ اس کا ٹھیک اندازہ کرنا مشکل ہے۔
بارہ کوس کے گردے کی تمام خلقت ٹوٹتی تھی اور کیا نیتوں کی برکت تھی کہ ہزار دو ہزار پانچ ہزار جتنے آدمی ہوتے ہر شخص کو دو خمیری روٹیاں ایک پیالہ قلپے کا اور ایک خوانچہ کھیر کا وقت پر پہنچ جاتا میر بابا صاحب کا گھر ان دنوں سب میں بڑھا چڑھا تھا۔ ان کا حال سنا ہے کہ دونوں وقت گئے ہوئے پورے سو آدمی دستر خوان پر میر صاحب کے ساتھ کھانا کھاتے تھے۔
اور کیسی خدا کی مہربانی تھی کہ گلی میں دیکھو تو کوڑیوں لڑکے۔ سید نگر میں کبھی کسی سیدانی کو بانجھ اور چھے سے کم کسی کے بچے سننے میں نہیں آئے۔ غلہ ہمیشہ ارزاں، عام بیماری یا وباء کبھی سید نگر کے سوانے میں داخل نہیں ہوئی۔ پھر یکا یک گوجروں سے سوانے کی تکرار ہوئی لٹھ چلا طرفین سے آدمی مارے گئے۔
بس اس دن سے سید نگر پر تباہی آئی۔
یوں تو سادات اور گوجروں میں سدا سے ہی چھیڑ چھاڑ ہوتی ہی چلی آتی تھی۔ مگر اس مقدمے میں سادات سراسر برسر ناحق تھے۔ ہمیشہ سے سید نگر کا سوانا اس تیس ہزار باغ کی مشرقی کھائی تھی۔ یہ باغ عین سوانے پر اسی غرض سے لگایا گیا تھا کہ گوجر حد سے متجاوز نہ ہوں۔ تکرار اتنی ذرا سی بات پر ہوئی کہ میر بابا کے بڑے بیٹے میر مقتدر کے سائیسوں نے گوجروں کی رکھانت گھانس باغ کے پورب کاٹنی شروع کی۔
گوجروں نے مزاحمت کی۔ یہاں تک کہ داتا سنگ نے جو گوجروں کا سر گروہ اور میر بابا کا مد مقابل تھا۔ اپنا خاص کارندہ میر بابا کے پاس بھیجا۔ وہ کارندہ میر صاحب تک پہنچنے نہیں پایا کہ بیچ میں میر مقتدر نے اس کو بہت کچھ سخت و سست کہا اور حق و ناحق ہزار ہا گالیاں داتا سنگ کو دیں۔ میر مقتدر بڑے غصیلے اور بڑے ظالم اور بڑے سخت گیر اور بڑے جابر مشہور تھے۔
کہتے ہیں کہ دو تین خون ان کے ہاتھ سے ہوئے، مگر دب دبا گئے انہوں نے ظلماً کئی بھلے آدمیوں کی ناموس بگاڑی اور عزت ریزی کی۔ میر بابا کے خاندان میں جو سید لوگ ناتا نہیں کرتے اصل میں اس کا سبب یہی ہے کہ میر مقتدر نے بلا امتیاز بہت سی عورتوں کو جبراً گھر میں ڈال لیا تھا۔ کوئی ہندنی تھی، کوئی چماری، کوئی گوجرنی غرض میر مقتدر کے بعد سے ان کے خاندان کے نسبت کا اعتبار اٹھ گیا۔
بیٹے کے زور و ظلم نے میر بابا کی تمام نیکیوں کو بے قدر کر رکھا تھا، نہیں معلوم دیدہ و دانستہ بیٹے کی حرکات ناشائستہ سے چشم پوشی کرتے تھے یا واقع مقتدر پر ان کا کچھ اقتدار نہ تھا۔ میر مقتدر کا تمام علاقے میں ایسا زلزلہ تھا کہ کوئی بھلا آدمی سید نگر کی تھانہ داری پر آنے کے لیے رضا مند نہیں ہوتا تھا۔ مجبور کیا جاتا تو نوکری سے استعفیٰ دیتا مگر ادھر کا رخ نہ کرتا۔
میں ایسا خیال کرتا ہوں کہ سید نگر کو مقدر کے ظلموں نے تباہ کیا اور نزاع سوانے کا ایک بہانہ تھا۔ جب مقتدر نے داتا سنگ کے کارندے کو بُرا بھلا کہا اور اس کے مالک کو مغلظات سنائیں وہ بیچارہ اپنا سا منہ لے کر لوٹ گیا اور داتا سنگ کے آگے جا کر اپنی پگڑی زمین پر دے ماری اور کہا کہ تم نے مجھ کو بے عزت کرایا اور خود بھی بے عزت ہوئے۔
آج میر بابا کے بیٹے نے بھری کچہری میں مجھ کو اور تم کو دونوں کو فضیحت کیا اور ایسی ایسی گالیاں دیں کہ کوئی چمار کو بھی نہیں دیتا۔
داتا سنگ بڑی غیرت اور طنطنے کا آدمی تھا اور کسی بات سے میر بابا سے کم نہ تھا۔ سن کر لال ہو گیا اور کہا کہ اس مسلمان کے چھوکرے کا اتنا مقدور، خیر اب لڑائی ہے تو لڑائی ہی سہی۔ داتا سنگ کے منہ سے اتنی بات کا نکلنا تھا کہ ڈیڑھ دو ہزار گوجر بھاری بھاری لٹھ کنڈھوں پر دھر رکھانت پر جا موجود ہوئے۔ میر صاحب کے گھسیارے ان کو دُور سے دیکھ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔
سید نگر میں خبر ہوئی۔ ادھر سے لشکر سادات نکلا، دوپہر کامل لٹھ چلا دو پونے دو سو آدمی زخمی ہوئے، چار گھڑی رات جاتے جاتے سرکاری فوج توپ لے کر آ پہنچی اور پکڑ دھکڑ شروع ہوئی۔ تحقیقات ہونے لگی اور نتیجہ یہ ہوا۔
قید۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قصاص
دائم البحس۔۔۔۔۔۔۔۔۔میعادی
5۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔51۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔7
22۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔101۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔18
ہنگاموں اور خانہ جنگیوں میں اکثر سزا کا پلہ دونوں طرف برابر رہتا ہے۔ مگر سیدوں نے بڑا غضب یہ کیا کہ ادھر تو سوانے پر لڑائی ہو رہی تھی اور ڈھائی تین سو آدمی سید نگر سے نکل کنی کاٹ گوجر پور میں جا گھسے اور وہاں گوجروں کے مندروں کو توڑا پھوڑا عورتوں کو بے عزت کیا۔ یوں سیدوں کی طرف سے زیادتی بہت ہوئی اور سزا بھی بہتوں نے پائی۔ میر بابا نے تو جس وقت سرکاری فوج کا آنا سنا اسی وقت زہر کھا کر مر رہے۔
میر مقتدر کسی تدبیر سے بھاگ نکلے۔ گھر بار ضبط ہو اسباب نیلام ہوا۔ بیٹوں میں تین یا چار نابالغ تھے وہ تو بچے دونے پھانسی پائی اور دو کالے پانی بھیجے گئے۔ میر مقتدر کے لیے پانچ سو روپے کا اشتہار ہوا مگر پکڑے نہ گئے۔ رفیق ان کا ایک خانہ پروردہ ان کے ساتھ بھاگا۔ دس بارہ برس بعد اکیلا واپس آیا بڑا نمازی بڑا پرہیزگار وہ بیان کرتا تھا۔
ان کی مصیبتیں کہ سن کر رونگٹے کھڑے ہوئے تھے کہتا تھا کہ آخر کار کسی مقام پر بغداد کے علاقے میں میر مقتدر مرض موت میں مبتلا ہوئے۔ مگر ایسی سختی کی موت ہم نے تو دیکھی کیا سنی بھی نہیں پورے پندرہ دن بول و براز بند تھا نہ مسہل اثر کرتا تھا نہ حقنا نہ پچکاری۔ دن اور رات مچھلی کی طرح تڑپتے تھے اور کسی وقت تالو سے زبان نہیں لگتی تھی۔ بول و براز کے بند ہونے سے مادے میں زہرناکی پیدا ہوئی اور سمیت ظاہر جلد تک پھوٹ پڑی۔
باوجود یہ کہ نہایت گورے چٹے آدمی تھے اور ان مصیبتوں میں بھی ایرانی معلوم ہوتے تھے۔ زہرناکی کی وجہ سے سارا جسم ایسا ہو گیا تھا جیسے سیہ تاب اور سوزش اس بلا کی کیچڑ میں لوٹے لوٹے پھرتے تھے، مگر ایک لمحہ قرار نہ تھا۔ مرنے سے سات دن پہلے نہیں معلوم کیا بات تھی۔ بے ہوشی میں وطن کے لوگوں کے نام لے لے کر کہتے تھے فلانا مجھ کو مارے ڈالتا ہے۔
فلانا گرم سیخیں میرے پیٹ میں بھونکتا ہے۔ فلانا مجھ کو تنور میں دھکا دیتا ہے۔ فلانا میری کھال کھینچتا ہے۔ رفیق کا مقولہ یہ تھا کہ جن لوگوں کے وہ نام لیتے تھے وہ تھے جن پر انہوں نے ظلم کیے تھے۔ رفیق یہ دیکھ کر اس قدر مرعوب ہوا کہ گویا اسی دن سے اس نے ترک دنیا کیا۔ غرض وہ کمبخت سوانے کا مقدمہ کیا ہوا تھا کہ سید نگر کے حصے کی قیامت آگئی۔
آبرو اور جان اور مال کا جو نقصان ہوا تھا سو ہوا تھا۔ ایک بڑا نقصان یہ ہوا تھا کہ سادات سے خیر بالکل اٹھ گئی۔ اب اس نواح میں سید کے معنے ہیں مفسد۔ لڑاکا جھگڑا لو، مردم آزار، جھوٹا جعلساز، مفتری، فتنہ پرداز اور واقع میں لوگوں کے افعال اور معاملات پر نظر کرتے ہیں تو جس قدر بدنامی ہو رہی ہے۔ اس سے زیادہ کے مستحق ہیں۔ گوجروں کے ساتھ لڑنے کا مزہ چکھ چکے تھے۔
چاہیے تھا کہ لڑائی کے پاس نہ پھٹکتے مگر الٹا اثر یہ دیکھنے میں آیا کہ بھائی سے بھائی لڑنے لگا۔ باپ بیٹے سے بیٹا ماں سے، میاں بیوی سے، پڑوسی پڑوسی سے حصہ دار حصہ دار سے زمیندار کاشتکار سے گویا لڑائی ان کے خمیر میں داخل ہے۔ یا بے لڑے ان کو نیند نہیں آتی یا کھانا ہضم نہیں ہوتا۔ شرافت و نجابت کے دعوے اتنے لمبے چوڑے کہ کسی کو اپنا کفو نہیں سمجھتے مگر معاملات ایسے کہ پاجی سے پاجی کو شرم آئے اور کمینے سے کمینے کو عار۔
سید نگر کی کھیوٹ نکال کر دیکھو کتنی عورتوں کے نام ہیں کسی کی جورو کسی کی بیٹی، کسی کی بہن، دیوانی و فوجداری میں مہر اور نان و نفقہ اور طلاق کے جتنے مقدمے ایک سید نگر کے ہوں گے شاید لفٹنٹی کے نہ ہوں۔ مگر ان تمام فسادات کے نتیجے کیا ہیں۔ تم لوگوں کے گھروں میں اسٹامپ کے بڑے بڑے پشتارے بہت نکلیں گے۔ بیبیوں کے جسم پر چاندی کا تار نہیں، باوجود یہ کہ دیہاتی پہناوا ہے۔
گٹھڑی میں سلیقے کا کوئی کپڑا نہیں جوار باجرا سانواں کودوں جو کچھ سیر میں پیدا ہوا اسی پر تمہاری گزران ہے۔ تمہارا علاقہ شہد کی مکھیوں کا چھتا ہے۔ جتنے پیدا ہوتے گئے۔ اسی میں بھرتے گئے۔ میں اگر تمہارے علاقہ کا مہتمم بندوبست ہوتا بیگھ بسوانسی کچوانسی سب موقوف کر کے کسورِ اعشاریہ میں تمہارا کھیوٹ بناتا۔ یہ حال تمہاری حصہ داریوں کا ہو گیا ہے۔
اس پر طرہ یہ ہے کہ جس حصے کو دیکھیے کثرت انتقالات سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک کباب ہے اور اس میں ہزار ہا چیونٹیاں۔ سید زادوں کو دیکھا تو اس سرے تک ایک ہوشیار نہیں کسی میں آئندہ کی فلاح کے آثار نہیں۔ یہ وبال یہ نکبت یہ ذلت یہ افلاس سب تمہارے ہی اعمال کی سزا ہے اور اگر یہ پوری سزا ہوتی تو تم سستے چھوٹے گئے تھے۔ یقین جانو سزا نہیں ہے بلکہ تمہید سزا جب سزا کا وقت آئے گا۔
تو یہ تمہارا قانون اور قاعدہ کچھ نہیں پوچھا جائے گا۔
حقوق کے متعلق ایک بات اور ہے، جس کو میں چاہتا ہوں کہ تم اس کی طرف زیادہ توجہ کرو وہ یہ ہے کہ انسان کے ذمے دو طرح کے حقوق ہیں۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد۔ لوگ حقوق العباد کی نسبت بڑی غلطی میں پڑے ہیں اور ان کو آسان سمجھ لیا ہے۔ حالانکہ بڑی ٹیڑھی کھیر ہے۔ اگر کسی آدمی سے اللہ کے حقوق ضائع ہوں اور سبھی سے ہوتے ہیں۔
تو بندے کا خدا سے کیا مقابلہ، حقوق الٰہی کا ضیاع اکثر سہو اور غفلت اور نادانی اور کوتاہ اندیشی کی وجہ سے ہوتا ہے اور امید ہے کہ خداوند غفور و رحیم بندوں کی ضعفت پر نظر فرما کر ان کے قصور معاف کرے اور کرے گا، مگر حقوق العباد کا یہ حال نہیں ہے۔ اس میں ایک بندہ زور سے ظلم سے ہیکڑی سے زبردستی سے دوسرے بندے کو ستاتا، اس کا دل دکھاتا، اس کو ایذا پہنچاتا ہے اور اس قصور کا معاف کرنا نہ کرنا، اسی بندئہ مظلوم کے اختیار میں ہے۔
مگر انصاف کرو۔ دنیا میں کتنے لوگ اس کی پروا کرتے ہیں۔ لاکھوں مظلمے ہیں جن کو بندگان خدا مرتے وقت اپنے سروں پر لاد کر لے جاتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ دین کو کھیل اور مذہب کو ہنسی سمجھ رکھا ہے۔ منہ سے کہتے ہیں کہ مرنا برحق، نکیرین کے ساتھ سوال و جواب کا ہونا برحق، عذاب قبر برحق، قیامت برحق، مرے بعد پھر زندہ ہونا برحق، رتی رتی کا حساب دینا برحق، جنت برحق، دوزخ برحق اور کردار تھوکنے کے قابل۔
سید حاضر مجھ میں تم میں قرابت کا ایک تعلق ہے اور جیسا میں نے تم سے کہا کہ حقوق و فرائض تعلق سے پیدا ہوتے ہیں۔
حقوق اور فرائض میں اس کو اپنا فرض تعلق سمجھتا تھا کہ تمہارے فرائض کو تم پر بالا جمال ظاہر کر دوں سو میں نے اپنا فرض ادا کیا یہ کہہ کر متقی بھانجے سے رخصت ہوا اور چلتے چلتے کہہ گیا کہ افسوس ہے سید ناظر سے ملاقات نہ ہوئی انشاء اللہ پھر کسی دن آؤں گا میر متقی نے اچھے خاصے پہر سوا پہر سید حاضر کے ساتھ باتیں کیں، اس تمام وقت میں سید حاضر کا یہ حال تھا کہ ماموں کے منہ پر اس کی ٹکٹکی بندھی ہوئی تھی اور ہمہ تن گوش ہو کر ان کی باتوں میں مستغرق تھا جو لفظ ماموں کے منہ سے نکلتا اس کے دل میں بیٹھتا چلا جاتا۔
حاضر کے کان مطلقاً ایسی باتوں سے آشنا نہ تھے اس پر میرمتقی کا بیان کہ گویا ایک دریا ہے کہ موجیں مار رہے یا ریل ہے کہ فی گھنٹہ سو میل کی رفتار سے دوڑ رہی ہے۔ یا بھری برسات میں ساون بھادوں کا بادل ہے کہ امڈا چلا آ رہا ہے اور پھر باتیں کھری سچی ستھری جن میں ذرا اونچ نیچ نہیں دنیا کے فائدوں کی ضامن دین کی درستی کی کفیل بھلائی کی اصلاح بہتری کا مشورہ سید حاضر بت کی طرح چپ بیٹھا سنتا رہا اگرچہ گاؤں کا کام کاج کرتا تھا مگر کونسا گاؤں سید نگر، جہاں کے پرچونٹے ساہوکاروں کے شکمی کاشتکار تعلقہ داروں کے، جاہل محض لیاقت شعاروں کے اہل مقدمہ وکیل مختاروں کے کان کترتے تھے مگر متقی نے اتنا کچھ کہا اور سید حاضر سے چوں کرتے نہ بن پڑی۔
#…#…#
دسواں باب: حاضر بہن کو حق دینے پر آمادہ اور ناظر کی رنجش
میر متقی کے چلے جانے کے بعد بھی سید حاضر دیر تک سکتے کے عالم میں تھا، اپنے یہاں کے معاملات میں سے جس معاملے پر نظر کرتا تھا کسی کو دخل فساد سے اور اتلاف حقوق العباد سے خالی نہیں پاتا تھا۔ جن باتوں پر اس کو بڑا ناز تھا۔ اب اس کی نظر میں نہایت ذلیل اور پاجی پن کی دلیل معلوم ہوتی تھیں۔
وہ گھبرایا ہوا دالان میں ٹہل رہا تھا اور اس قدر بیقرار تھا کہ جاڑے کے دن اور شام کا وقت اس کو پسینے پر پسینے چلے آتے تھے اور دیکھتا تھا کہ کھانا اور پینا اور اوڑھنا اور بچھونا اور سازوسامان اور مال و متاع اور نقد و جنس غرض کہ اپنا گوشت پوست کوئی چیز بھی لوث حرمت سے پاک نہیں پاتا تھا کہ بدکرداری اور بد معاملکی ہماری برادری اور ہمارے خاندان میں نسلوں سے چلی آتی ہے۔
اگرچہ حاضر و ناضر دونوں باپ کے مرنے سے معاملات کرنے لگے تھے مگر حاضر نے احتساب کیا تو اتنے ہی دنوں میں کئی صد مظلمے ان کے نامئہ اعمال پر چڑھ چکے تھے اور ان میں اکثر ایسے تھے جن کا تدارک محال تھا اور تلافی ناممکن۔ ہم کو حاضر کی اتنی بات سے تعلق ہے کہ جہاں اس کو اپنے وقت کے اور بہت سے معاملے یاد آئے ان میں سے ایک معاملہ غیرت بیگم کا تھا۔
اگرچہ غیرت بیگم کے معاملے میں ابتداءً تحریک ناظر کی طرف سے ہوئی اور کسی کو اس میں زیادہ اصرار بھی نہیں تھا۔ مگر پھر بھی حاضر کا اتنا قصور تو تھا ہی کہ بڑا بھائی ہو کر اس نے ناظر کو سمجھایا نہیں۔ غیرت بیگم کا خیال آنا تھا کہ فوراً گھوڑا کسا اور سوار ہو کر راتوں رات شہر میں ناظر کے مکان پر جا دستک دی۔
اگلے دن کسی مقدمے کی پیشی تھی اور ناظر آدھی رات تک گواہوں کی تعلیم اور کاغذات کی درستی میں مصروف تھا۔
ابھی اچھی طرح نیند بھری ہی نہ تھی کہ بھائی کی آواز سن کر چونک پڑا اور لگا پوچھنے خیر تو ہے آپ ایسے سویرے کیونکر آئے۔
حاضر: خیر ہے تم باطمینان وقتی ضرورتوں سے فارغ ہو تو میں اپنے آنے کی وجہ بیان کروں۔ گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ تھوڑی دیر بعد جب دونوں بھائی ایک جا ہوئے تو حاضر نے پوچھا: چھوٹے ماموں آئے ہیں تم ان سے ملے۔
ناظر: ماموں کا آنا تو مجھے معلوم ہوا مگر میں ملا نہیں اور ملنے کا ارادہ بھی نہیں۔
حاضر: کیوں؟
ناظر: میں جانتا ہوں کہ وہ آپا کا جھگڑا ضرور نکالیں گے اور مجھ کو کسی طرح آپا کا حصہ دینا منظور نہیں بے فائدہ باتوں ہی باتوں میں تکرار ہو پڑے گا۔
حاضر: کیوں بے چاری غیرت نے ایسا قصور کیا کیا ہے، کیا وہ ہماری حقیقی بہن اور متروکہ پدری میں عند اللہ اور عند الرسول حقدار نہیں ہے۔ حاضر کے منہ سے یہ سوال سن کر ناظر کے کان کھڑے ہو گئے۔
آدمی تھا معاملہ فہم معاملہ شناس فوراً تاڑ گیا کہ بھائی ماموں سے ملے اور ماموں نے پٹی پڑھائی تو کہتا کیا ہے کہ اگر ماموں کوئی فتویٰ مکے سے لکھوا کر لائے ہوں تو اس کو اپنی قدوری میں چپکا رکھیں ان کو شاید یہ معلوم نہ ہو گا کہ یہاں شریف مکہ کا حکم نہیں چلتا انگریز بہادر کی عمل داری ہے۔ میں نے برسوں کی جستجو میں پریوی کونسل اور عدالت ہائے عالیہ ہائی کورٹ اور چیف کورٹ اور جوڈیشنل کمشنر کے فیصلوں اور میکناٹن سرہنری لاکی شرع محمدی سے وہ وہ نظائر اور احکام چھانٹ رکھے ہیں کہ اگر آپا سے جہیز واپس نہ کرا لوں تو سید نہیں چمار۔
حاضر کو بھی بھائی کی اس قدر خشونت دیکھ کر نہایت استعجاب ہوا کیونکہ اس نے آج تک حاضر کے رو در رو ایسی شوخ چشمی کے ساتھ کبھی بات نہیں کی تھی اور بولا کہ تم ماموں سے ناحق بدگمان ہوتے ہو میں ان سے ملا بے شک وہ اور تعزیت کے لیے سید نگر تشریف لے گئے۔
مگر غیرت بیگم کا نام تک ان بے چارے نے نہیں لیا اور افسوس ہے کہ تم نے ان کی شان میں خورد ہو کر اس قدر گستاخی کی اور وہ بھی غائبانہ پس تم نے ایک بزرگ کا حق تلف کیا۔
ناظر: انہوں نے آپا کا نام نہ لیا ہو گا۔ فرض کیا میں نے گستاخی کی تو قانون نے صرف ایک ہی گستاخی کو جرم قرار دیا ہے۔ یعنی حکم عدالت کے ساتھ گستاخی کرنا جبکہ وہ عدالت کا اجلاس کر رہا ہو اور ظاہر ہے کہ ماموں اس کے مصداق نہیں ہو سکتے۔ ناظر کے اس جواب سے حاضر کو سید متقی کی اس بات کی تصدیق ہوئی کہ حکام ظاہر کے انتظام سے پورے طور پر حقوق العباد کی حفاظت نہیں ہو سکتی۔
سید متقی کے وعظ سے سید حاضر کے خیالات دفعتہً اس قدر متاثر ہو گئے تھے کہ دونوں بھائیوں میں التیام کا ہونا محال تھا۔ ناظر اپنے اسی پرانے موروثی ڈھرے چلتا تھا کہ قانونی گرفت بچا کر جہاں تک اور جس طرح ممکن ہو اپنا فائدہ کرنا چاہیے، کسی کا حق تلف ہو تو مضائقہ نہیں، کسی کا دل دُکھے تو پرواہ نہیں، عاقبت تباہ ہو تو کچھ حرج نہیں اور سید حاضر کو اب اس بلا کا اہتمام تھا کہ ایک غیبت کو بھی وہ اتلافِ حق سمجھا، عرض یہ جو سنا کرتے تھے:
یاہم خدا خواہی ہم دنیائے دوں
ایں خیال ست و محال ست و جنوں
اب وہ معمہ حل ہوا کہ حقیقت میں وہ یہ دنیا ہے کہ جیسی ناظر کی تھی جس میں حلال و حرام کا امتیاز نہیں جائز و ناجائز کا فرق نہیں خدا اور رسول کا خوف نہیں، روز قیامت کا اندیشہ نہیں، ناظر کی اتنی ہی باتوں سے حاضر کو پورا یقین ہو گیا کہ اس کو سمجھانا اس کے ساتھ بحث کرنا محض بے سود اور لاحاصل ہے۔
اس پر قانون کی پھٹکار ہے اور اس کے سر پر چڑھا ہوا جن سوار ہے۔ اس لیے زیادہ رد و کد مناسب نہ سمجھ کر اس نے دو ٹوک بات ناظر کو سنا دی کہ تم اس کو ماموں کا اغوا سمجھو یا میری حماقت میں تو غیرت بیگم کا حق اب ایک لمحے کے لیے بھی نہیں رکھ سکتا۔
ناظر: دیکھیے ایسا کیجئے گا تو مجھ سے آپ سے بگاڑ ہو جائے گا۔
حاضر: اگر اتنی ہی بات پر کہ میں ایک حقدار کا حق مارنا نہیں چاہتا تم مجھ سے بگڑو تو تمہاری خوشی اگرچہ تمہارے بگڑنے کا مجھ کو سخت افسوس ہو گا مگر اس سے ہزار درجے زیادہ افسوس ہو گا اگر غیرت بیگم کا حق غصباً میرے پاس رہے۔
ناظر: یہ آپا کی خصوصیت کیا ہے۔
حاضر: خصوصیت پوچھو تو ہماری حقیقی بہن ہے۔ مگر ایصال حق کے لیے اس کی مطلق خصوصیت نہیں ہے انشاء اللہ تعالیٰ سب حق داروں کے ساتھ میں ایسا ہی معاملہ کروں گا۔
ناظر: تو آپ سیدھی بات یہی کیوں نہیں کہتے کہ آپ ترک دنیا پر آمادہ ہیں۔
حاضر: اگر مغصوبات کا واپس کر دینا تمہارے نزدیک ترک دینا ہے تو مجھے اس سے انکار نہیں۔
ناظر: بیٹھے بٹھائے یہ آپ کو ہوا کیا ہے پہلے تو میں ماموں کومولوی حاجی اور جیسا ان کا نام ہے متقی سمجھتا تھا۔ اب معلوم ہوا کہ تسخیر یا سحر کے بھی عامل ہیں۔
حاضر: ماموں کی شان میں تمہاری طرف سے یہ دوسری گستاخی اور دوسری غیبت اور دوسرا اتلافِ حق ہے۔
ناظر: میں آپ کو آگاہ کیے دیتا ہوں کہ یہ گھر کی تباہی کے سامان ہیں۔
حاضر: جس گھر کی آبادی دوسروں کے حقوق کے غصب کرنے پر موقوف ہو اس کا تباہ ہونا بہتر ہے۔
ناظر: تم نے انجام کار پر بھی نظر کر لی ہے۔
حاضر: انجام کار پر نظر کرنا ہی مجھ کو تو اس ارادے کا باعث ہوا ہے۔
ناظر: تو آپ مجھ کو بھی اپنے ساتھ برباد کرتے ہیں۔ کیسی کیسی تدبیروں سے میں نے ملکیت کو درست کیا۔ اب ایک ڈھنگ پر آچلی تھی تو آپ ساری عمارت کو جڑ بنیاد سے ڈھائے دیتے ہیں۔
حاضر: کیا تم نے مجھ کو مجنوں قرار دیا ہے یا مخبوط الحواس سمجھا ہے۔ دنیا میں کوئی شخص بھی ایسا ہے جو دیدہ دانستہ اپنے پاؤں میں آپ کلہاڑی مارے یا سمجھ بوجھ کر اپنے رہنے کے مکان میں آپ آگ لگائے فرق صرف اتنا ہی ہے کہ اس بات کا میں نے قطعی فیصلہ کر لیا ہے کہ دنیا کو دین پر ترجیح نہ دوں اور جس دنیاوی فائدے میں دین کا ضرر ہے اس کا طمع نہ کروں۔ اگر ایسا کرنے سے میری دنیا برباد ہوتی ہو اور اگر مجھ پر دنیاوی تباہی آتی ہو تو آئے۔
جب میں نے دین کے خلاف دنیاوی فائدے کا لالچ نہ کیا تو دنیاوی نقصان کی میں کیا پرواہ کر سکتا ہوں۔ ناظر میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میں تمہارے فائدے بہت ہی عزیز رکھتا ہوں مگر وہیں تک کہ وہ فائدے جائز طور پر حاصل کیے جائیں غضب اور ظلم اور دغا اور فساد اور اتلاف حقوق العباد کو نہ میں اپنے لیے جائز رکھتا ہوں اور نہ تمہارے لئے۔
ناظر: یہی تو میں کہتا ہوں کہ آپ پر ماموں نے جادو کیا۔
حاضر: اگر تمہارے نزدیک یہ جادو ہے تو یہی جادو تمام پیغمبر صلوٰة اللہ وسلامہ علیہم اجمعین تمام اولیاء تمام انبیاء تمام اتقیا کرتے آئے ہیں مگر جادو ایک مکروہ لفظ ہے۔ اس کا استعمال بزرگان دین کے حق میں میرے نزدیک تو درست نہیں۔
ناظر: اچھا تو ایک کام کیجئے آپ اپنے حصے کا بٹوارہ کرا لیجئے اور علیحدہ ہو جائیے۔
حاضر: میرا ذہن اس طرف منتقل ہوا تھا مگر اس صورت میں مشکل یہ ہے کہ جب تک ملکیت تمام مظالم سے پاک نہ ہو میں اس میں سے حصہ لے نہیں سکتا۔
ناظر: آپ نے ساری ملکیت کا ٹھیکہ نہیں لیا۔ اپنے مذہب کی رو سے حصہ پدری میں سے جتنا حصہ آپ اپنا سمجھتے ہوں الگ کر لیجئے۔
حاضر: والد مرحوم کی جگہ میرا اور تمہارا اور غیرت بیگم تینوں کا نام لکھا جانا چاہیے۔ ہم دونوں نے ناحق اور ناروا بہن کو محروم کر کے اپنے ہی نام حصے پڑھوائے تو نصف نصف ہم دونوں کا ہوا پس سرکاری کاغذات میں میرا نصف حصہ لکھا ہے۔
اس میں بھی تو غیرت بیگم کا ایک عشر شامل ہے جس کو میں اپنے پاس رکھنا نہیں چاہتا۔
ناظر: آپ بٹوارے کی درخواست میں لکھ دیجیے کہ اگرچہ میرے نام نصف حصہ لکھا ہے مگر حقیقت میں میرا دو خمس ہوتا ہے۔ اسی قدر کا میں بٹوارہ چاہتا ہوں۔ حاکم آپ کی درخواست تصدیق کر کے آپ کے دو خمس کا بٹوارہ کر دے گا۔
حاضر: تو غیرت بیگم کا یہ ایک عشر بھی تمہاری طرف منتقل ہو جائے گا۔
حاضر: تو اس کے یہ معنی ہیں کہ میں غیرت بیگم کا ایک عشر جو میرے نام ہے تمہارے نام منتقل کر دوں۔
ناظر: خیر معنے مطلب تو میں سمجھتا نہیں۔ ایک راہ کی بات تھی جو میں نے آپ کو بتائی اگر آپ کو مجھ سے سے پرخاش نہیں ہے تو جس طرح میں نے بیان کیا درخواست لکھیے اور پیش حاکم اس کو چل کر تصدیق کرائیے باقی مراتب میں دیکھ بھال لوں گا آپ کو وہی دوخمس ملے گا جو آپ چاہتے ہیں۔
حاضر: غیرت بیگم کا ایک عشر میں تمہارے نام تو منتقل نہیں کرا سکتا وہ بھی تو ناجائز ہے حقدار کو تو اس کا حق نہ ملا ہاں اگر کہو تو درخواست میں یہ بات بیشک لکھ دوں کہ میرے نام جو نصف حصہ لکھا ہے اس میں دو خمس میرا ہے اور ایک عشر غیرت بیگم کا۔
ناظر: اس سے تو میری تصفی میں فتور پڑے گا۔
حاضر: پڑے گا تو تم جانو میرے اختیار کی بات نہیں۔
ناظر: آپ کے اس اصرار سے ثابت ہوتا ہے کہ صرف تقاضائے دین داری نہیں ہے بلکہ ماموں کے سب فساد ہیں۔
حاضر: تم بار بار ہر پھرکر ماموں کو ان کی پیٹھ پیچھے بُرا کہتے جاتے ہو مجھ کو اس بات سے سخت تکلیف ہوتی ہے۔ میں نے تم سے کہا کہ ماموں نے غیرت بیگم کا نام تک نہیں لیا اور تم نے میرے کہنے کو سچ نہ جانا، فرض کرو ماموں ہی نے مجھ کو غیرت بیگم کا حق مغضوب واپس کر دینے پر آمادہ کیا تو احقاق حق میں کوشش کرنا فساد ہے۔
ناظر یہ کہہ کر اٹھ کھڑا ہوا اور بولا کہ بہت خوب معلوم ہوا، آپ آپا کو ان کا حصہ دیجئے اگر آپ سے دیا جائے اور وہ لیں اگر ان سے لیا جائے اور ماموں جس غرض سے بھانجی کی خوشامد میں لگے ہیں مجھ کو معلوم ہے۔ مبتلا بھائی کو انہوں نے دیکھ پایا بھولا۔ بیوقوف چاہتے ہیں کہ بھانجی کے نام سے بڑے ماموں کی تمام املاک پر خود قابض ہو جائیں لیکن (مونچھوں پر تاؤ دے کر) اگر ناظر کے دم میں دم ہے تو ماموں کو ایسا مزا چکھاؤں کہ سات برس بعد تو حج سے پھر کر آنا نصیب ہوا اب ان کو ہجرت ہی کرنی پڑے تو سہی۔
آپ کا حصہ لینا ایسا کیا ہنسی کھیل ہے۔
حاضر: بے چارہ اپنا سا منہ لے کر سید نگر واپس آگیا غمگین اداس۔ خدا کی شان ہے کہ کل شاموں شام سید متقی کے وعظ سے حاضر متنبہ ہوا توبہ کی تلافی مافات پر آمادہ ہوا راتوں رات بھاگا ہوا بھائی کے پاس آیا۔ ابھی جی کھول کر بھائی سے باتیں نہیں کرنے پایا تھا کہ سخت امتحان میں پکڑا گیا وہ خوب واقف تھا کہ ناظر ایک سانپ ہے۔
اس بلا کا زہریلا کہ اس کا کاٹا پانی نہ مانگے۔ اس کا ڈسا ہوا پھٹکار نہ کھائے، وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ ناظر اگر بگڑا اور اب اس کے بگڑنے میں کسر ہی کیا باقی تھی تو کیسی زمینداری اور کس کی حصہ داری گاؤں کا رہنا دشوار کر دے گا اور اس کے ہاتھوں سے زندگی وبال دوش ہو جائے گی۔
یہ خیال کر کے وہ جی ہی جی میں اپنے آپ کو سمجھاتا تھا کہ تجھ کو بھائی کے ساتھ بگاڑنا کیا ضروری ہے۔
اگر وہ غیرت بیگم کا حصہ نہیں دیتا نہ دے، وہ جانے اور اس کا کام جانے اپنا اپنا کرنا اپنا اپنا بھرنا۔ غیرت بیگم کا حصہ لینا ہو گا تو آپ سے آپ نالش کریں گے۔ میری طرف سے اتنا ہی کافی ہے کہ ابھی سے غیرت بیگم کے حصے سے دست بردار ہو جاؤں اور اگر نالش ہو تو دعوے کی تردید نہ کروں۔ پھر سوچتا تھا کہ اب تک جو غیرت بیگم حصے سے بے دخل رہیں۔ اس کا وبال جیسا ناظر پر ویسا مجھ پر، مجھ پر زیادہ اور ناظر پر کم کیونکہ میں پٹی کا نمبردار ہوں اور پٹی کی تحصیل کی وصولی میرے ہاتھوں سے ہوتی ہے۔
علاوہ اس کے کہ کیا یہ انصاف کی بات ہے کہ ہم دونوں بھائی تو بے زحمت اپنے حقوق پر قابض ہوں اور غیرت بیگم کو نالش کرنے پر مجبور کریں صرف اس وجہ سے کہ وہ عورت ہے پردہ نشین اور کوئی اس کے حق کی حفاظت کرنے والا نہیں، دنیا میں آنکھوں پر ٹھیکری رکھ لی تو خدا کو کیا جواب دیں گے اور مانا کہ میں غیرت بیگم کے حصے سے دستبردار ہو بیٹھا تو وہی بات پھر آئی کہ میں نے نہ لیا ناظر کو لینے دیا۔
غیرت بیگم کو تو اس کا حق نہ پہنچا۔ علاوہ ازیں آج تک تو ایک غیرت بیگم کا معاملہ ہے اس میں یہ حجت ہے ابھی تو ایسے ایسے صد ہا معاملے نکلیں گے، غرباء کے ضعفاء کے اور ایسے لوگوں کے جن کو سوا خدا کہیں پناہ نہیں اور ناظر کا منشاء تو معلوم ہو چکا کہ وہ تو سوائے قانون کے خدا اور رسول کسی سے ڈرنے دبنے والا نہیں تو بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔ بھائی سے تو ایک نہ ایک دن جھگڑے ہوں گے ہی اور آج اگر غیرت بیگم کے معاملے میں میں نے ذرا بھی اپنا ضعف ظاہر کیا پھر تو ناظر کی جیت ہے۔ غرض یہ تزلزل تو ٹھیک نہیں بلکہ وسوسہ شیطانی ہے۔
#…#…#
گیارہواں باب:غیرت بیگم سے انصاف
ایسے ابتلا کے وقت میں خدا نے حاضر کی مدد کی۔ اس کو معلوم تھا کہ ناظر کے پاس سادہ سٹامپ کا ایک بستہ ہے۔ آخر ڈھونڈ سے ملا۔ کھول کر دیکھتا ہے۔ تو اس میں پرانے پچھلے سنوں کے متعدد قطعات ہیں، سمجھا کہ ناظر نے کسی ارادئہ فاسد سے ان کو بہم پہنچایا ہے۔
اس نے اٹھنی کا ایک قطعہ نیا سا دیکھ کر تو لے لیا اور باقی اس فساد کو پوٹ کر چولھے میں جھونک دیا جو قطعہ اس نے نکال لیا تھا۔ اس پر ایک درخواست لکھی جس کی عبارت یہ تھی کہ میں اور سید ناظر اور غیرت بیگم تینوں حقیقی بھائی بہن ہیں، غیرت بیگم کا نام پٹی داری میں داخل ہونے سے رہ گیا میں پٹی کا نمبر دار ہوں اور میرے ہاتھوں پٹی کی تحصیل وصول ہوتی ہے۔
غیرت بیگم کے حق اور قبضہ کومیں تصدیق کرتا ہوں۔ اسی لیے غیرت بیگم کا نام ایک خمس حصے پر چڑھا دیا جائے اور اسی وقت درخواست کو رجسٹری کرا کر حاکم پر گنہ کے نام روانہ کر دیا وہاں سے معمول کے مطابق اشتہار جاری ہوا۔ اشتہار کا آنا تھا کہ سید ناضر نے عذر داری کا مقدمہ لڑنا شروع کیا۔ کلکٹری میں تو سرسری کارروائی ہوتی ہے اور صرف قبضہ دیکھا جاتا ہے۔
چونکہ نمبر دار پٹی نے جس کے ہاتھ سے پٹی کی تحصیل وصول کی تھی غیرت بیگم کے قبضے کی تصدیق کی۔
اس سبب سے ناضر کی عذر داری نا منظور اور غیرت بیگم کا نام ایک خمس پر داخل ہونے کا حکم ہو گیا مگر سید ناظر محکمہ کلکٹری کو یا مال کو کچھ سمجھتا تھا۔ جس وقت داخل خارج کا حکم پہنچا تو اس کے مختار نے تسلی کے طور پر اس سے کہا کہ نمبردار کے بیان مجرد پر حکم ہو گیا ہے۔
یہ حاکم کی رائے ہے، اپیل کی بڑی گنجائش ہے۔ ناظر نے کہا: ارے میاں کہاں اپیل اور کس کا مراقعہ کل تو نہیں پرسوں تم کو والدہ کا تحریری وصیت نامہ لا کر دیتا ہوں۔ اس کی بنیاد پر اثبات حقیقت کا دعویٰ دیوانی میں دائر کرو تو نمبردار کی ساری شیخی کرکری ہو جائے گی۔ ناظر وصیت نامہ لینے گھر دوڑا ہوا آیا اور اسٹامپ کے بستے کی تلاش میں سیدھا کوٹھڑی میں گھسا بستہ ندارد اس کا ماتھا ٹھنکا معلوم ہوا کہ ایک بستہ تو بڑے میاں کوئی ڈیڑھ مہینہ ہوا جلا چکے ہیں۔
یہ سنتے ہی پیٹ پکڑ کر بیٹھ گیا۔ حاضر ناظرکا جھگڑا ہمارے قصے سے متعلق نہیں ہے۔ خلاصہ یہ کہ دونوں بھائیوں میں ایسی چلی ایسی چلی کہ سید نگر والوں میں بھی جو سنتا دانتوں میں انگلی رکھ لیتا تھا۔ قاعدہ ہے کہ آٹے کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے۔ سید حاضر کے ساتھ غیرت بیگم اور غیرت بیگم کی لپیٹ میں سید متقی کی بھی شامت آئی۔
#…#…#
بارہواں باب: سید ناظر کے فسادات
ناظر کو شروع میں صرف اسی پر اصرار تھا کہ غیرت بیگم کا حصہ نہ دوں، سٹامپ کے بستہ کا جلانا سن کر وہ بھائی پر نہایت برافروختہ ہوا اور اس نے دیوانی میں سالم حقیقت پدری کا دعویٰ دائر کیا۔ اس بیان سے کہ نہ حاضر میر باقر کا بیٹا ہے اور نہ غیرت بیگم میر باقر کی بیٹی۔
اس نے بات یہ بنائی کہ میرباقر کا اکلوتا بیٹا میں ہوں میرے پیدا ہونے میں دیر ہوئی تو میر باقر لے پالک کے طور پر حاضر کی پرورش اور پرداخت کرنے لگے اور اس بیان کی تائید میں سٹامپ کے کاغذ پر ایک وصیت نامہ پیش کیا جس پر میرباقر کی مہر تھی اور اس کا سوادِ خط بھی میر صاحب کے خط سے تھا۔ میرمتقی کی نسبت ایک گم نام عرضی لفٹینٹی میں پہنچی کہ سلطان روم کی طرف سے جاسوس بن کر آئے ہیں اور لوگوں کو چپکے چپکے جہاد کی ترغیب دیتے ہیں اور عنقریب ہندو مسلمانوں میں ان کے اغواء سے فساد عظیم ہونے والا ہے۔
سید حاضر کو جب دیوانی کے دعوے کا حال معلوم ہوا تو عرضی دعوے کی نقل لے کر سید متقی کے پاس دوڑا ہوا آیا۔ سید متقی کو اس وقت تک داخل خارج کے سوا کچھ حال معلوم نہ تھا دور سے حاضر کو دیکھتے ہی خوش ہو کر لگے تحسین و رضا کی باتیں کرنے۔حاضر نے پاس آکر ناظر کی عرضی دعوے کی نقل دکھائی تو وہ ایسے سناٹے میں گئے کہ بہت دیر ہو گئی اور برا یا بھلا کوئی ہی لفظ منہ سے نہ نکالا تو حاضر نے خود ابتدا کی اور کہا کہ میں اس غرض سے حاضر ہوا تھا کہ میں تو اپنے میں ناظر کے مقابلہ کی طاقت نہیں پاتا۔
عزت کو، آبرو کو، سچائی کو، دین کو، ایمان کو، خوف کو، خدا کو، سب کو، ایک دم سے بالائے طاق رکھ دوں تو ناظر کے ساتھ لڑنے کا نام لوں اور یہ مجھ سے اب نہیں ہو سکتا، ہر چند رہ رہ کر غصہ آتا ہے اور بے اختیار جی چاہتا ہے کہ اس مرد کو اسی قانون سے جس پر اس کو بڑا گھمنڈ ہے اس کے کیے کی ایسی سزا دلواؤں کہ ساری عمر اس کو قید سے نجات نہ ہو اور اس کی تدبیریں سمجھ میں آتی ہیں اور میرے اختیار کی بھی ہیں۔
ناظر کتنا ہی قاعدہ داں اور ضابطہ شناس کیوں نہ ہو۔ آخر ہے تو مجھ سے چھوٹا لیکن آپ کے ارشاد کے مطابق میں خدا سے عہد کر چکا ہوں کہ دنیا کے لیے دین کو نہیں بگاڑوں گا اب دنیا میں ایک فضیلت نہیں ہزار فضیلت اور ایک نقصان نہیں ہزار نقصان کیوں نہ ہو جائیں اس عہد کو تو میں توڑ نہیں سکتا مگر ناظر کے حملے سے بچنے کے لیے میں نے ایک تدبیر سوچی ہے۔
میرغالب کو تو آپ جانتے ہوں گے وہ بھی ان دنوں سید نگر کے بڑے چلتے ہوئے پرزوں میں ہیں۔ سیدنگر خاص میں ان کا بھی تھوڑا سا حصہ ہے۔ ان کی وکالت آج کل بڑے زوروں پر ہے۔ چند روز ہوئے مجھ سے کہتے تھے کہ اگر کوئی حصہ بکتا ہو تو مجھ کو خبر کرنا تو میں نے یہ تجویز سوچی ہے کہ اپنا حصہ ان کے ہاتھ فروخت کر دوں جو اب ترکی بترکی۔ وہ ناظر سے سمجھ بوجھ لیں گے۔
اتنا ہی خیال ہے کہ گاؤں میں حصہ ہے تو رعایا پر سو طرح کی حکومت ہے مگر جس طرز پر مجھ کو آئندہ زندگی گزارنی منظور ہے اس کے لیے مجھے حکومت درکار نہیں۔ آپ سے اتنی بات پوچھنی تھی کہ اگر آپ کی صلاح ہو تو غیرت بیگم کے حصے کی بھی بات چیت میرغالب سے کی جائے، میں نہیں سمجھتا کہ غیرت بیگم کو ناظر چین لینے دے گا۔ یہ سن کر میرمتقی نے کہا کہ ان معاملات کو تم مجھ سے بہتر سمجھتے ہو۔
قرابت کے اعتبار سے بھی تم نزدیک تر ہو اور تمہارے معاملے کی سچائی کا یہی بڑا ثبوت ہے کہ تم نے بے نالش غیرت بیگم کو اس کا حق دیا اور دلوایا اور بلکہ حق کے واسطے تم نے بھائی سے بگاڑی اور اس بگاڑ کے نتائج کی پہلی قسط یہ عرضی ہے جو تم نے مجھ کو دکھائی۔ خدا حق ہے اور وہ حق سے راضی ہوتا ہے اور وہی حقداروں کی حمایت کرنے والا ہے اور انشاء اللہ آخر حق کو غلبہ ہے۔
اس بات میں تم اپنی بہن سے مشورہ کرو لیکن اگر میری رائے پوچھتے ہو تو شروع سے تم نے غلطی کی۔ تم نے وہ کیا اور آئندہ بھی وہی کرنا چاہتے ہو جو دنیا میں سبھی راست معاملہ کیا کرتے ہیں۔ بلاشبہ شرع کی رو سے تم پر کوئی الزام نہیں مگر الزام کے عائد نہ ہونے سے تم کسی تحسین کے بھی تو حقدار نہیں۔ تم کو اور غیرت بیگم دونوں کو صلاح دیتا ہوں کہ اگر کر سکو تو اپنے اپنے حق سے دستبردار ہو جاؤ ایسی کونسی بڑی مالیت ہے۔
خدا نے تم کو بہت کچھ دے رکھا ہے، ناظر کو موروسی کچوانسیاں مبارک، لے کر وہی بڑے آدمی نہیں آخر وہ بھی تو کوئی غیر نہیں گھی کہاں گیا کھچڑی میں۔ تین بہن بھائیوں کے پاس نہ رہا، ایک کے پاس رہا بلاشبہ حصہ گو کتنا ہی جزوی کیوں نہ ہو چھوڑنا مشکل ہے۔ خصوصاً جب کہ موروثی ہو اور اسی گاؤں کا ہو، جس میں رہنا سہنا ہے اور چھوڑنابھی اس حالت میں کہ گالی گلوچ تک کی نوبت پہنچ چکی ہولیکن تم خود کہتے ہو کہ اب بدوں فضیلت کے اس کا سنبھالنا ممکن نہیں۔
حصہ منتقل کر دینے کی تجویز جو تم نے سوچی ہے۔ صرف من سمجھوتی ہے، آخر اس کی تحقیقات ہو ہی گئی۔
تمہارے مقابلے میں ہو یا خریدار کے تم دونوں میر باقر کی اولاد ہو جیسا کہ واقعی ہے یا نہیں ہو جیسا کہ ناظر نے دعویٰ عرضی میں لکھا ہے۔ اگرچہ کامل یقین ہے کہ آخر کار تم کو ناظر کے مقابلہ میں ظفر ہو گی لیکن پھر بھی ہمیشہ کے لیے تم سے چھوٹ جائے گا اور تم اس سے مدت العمر تم کو باہمی خرشوں سے نجات ملنے کی امید نہیں مگر جو تدبیر میں بتاتا ہوں اس کا انجام جہاں تک میری سمجھ میں آتا ہے انشاء اللہ یہی ہونا ہے کہ حصے کا حصہ تمہارے پاس رہے گا اور تم بھائی بہن پھر ایک کے ایک ہو جاؤ گے تھوڑی دیر کے لیے فرض کرو کہ ناظر نے کل حصہ لیا مگر اس طرح کہ وہ لینا چاہتا ہے یعنی جھوٹ بول کر جعلی بنا کر بھائی کو بہن کو ماں باپ کو یعنی اپنے آپ کو رسوا اور فضیحت کرنا کیسا صاف صاف گالیاں دے کر تو ناظر یہ حصہ لے کر تم دونوں کو تو خیر چھوڑ ہی دے گا مگر کیا بیوی بچے رشتہ دار کنبہ دار قبیلہ برادری خاندان دوست آشنا جان پہچان ایک دم ساری دنیا کو چھوڑ دے گا۔
ایسا تو نہیں ہو سکتا مگر سمجھتے ہو کہ دنیا اس کو کیا کہے گی۔ لعنت کرے گی۔ یگانے اور بے گانے سب اس کے منہ پر تھوکیں گے۔ لڑکے اس کے پیچھے تالیاں پیٹیں گے سب کی نظروں میں وہ خوار اور بے اعتبار اور انگشت نما ہو گا۔ درودیوار اور کوچہ و بازار سے اس پر پھٹکار برسے گی۔
یہ حصہ ڈھاک کے کوئلے کا ایک دہکتا ہوا انگارہ ہو گا کہ وہ ہرگز اس کو مٹھی میں سنبھال نہ سکے گا۔
مشکل سے مشکل مقدمات اور پیچیدہ سے پیچیدہ معاملات میں تم ایک مختار وکیل کے کہنے پر عمل کرتے ہو۔ اس ایک بات میں خدا کی صلاح پر بھی چل کر دیکھو کہ کیا نتیجہ ہوتا۔ خدا کی صلاح کیا ہے کہ اگر تجھ سے کوئی لڑائی کرے تو بھلائی کے ساتھ اس کا توڑ کر اور پھر دیکھ کہ یا تو تجھ میں اور اس میں دشمنی تھی یا بات کی بات میں وہ تیرے ساتھ گرم جوشی کرنے لگا۔
حقیقت میں جیسی میرمتقی نے پیشین گوئی کی تھی ویسا ہی ہوا۔ حاضر اور غیرت کی طرف سے ناظر کے دعویٰ کی کچھ تردید نہ ہوئی، قاعدے کے مطابق دعوے یک طرفہ ڈگری ہو گیا۔ مگر کیسی ڈگری کہ حاکم اور عملے اور اہل معاملہ اور چپڑاسی اور مدکوری سبھی نے تو ناظر کو ملامت کی جہاں گیا اس نے لتاڑا اور جس سے ملا اس نے پھٹکارا اور آخر کار ہار کر جھک مار کر کلنک کا ٹیکہ ماتھے پر لگا کہ جس قدر گالیاں تقدیر میں تھیں سن کر جتنی بدنامی مقدمہ میں تھی بھگت کر بضد منت و بہزار خوشامد ہاتھ جوڑ کر پاؤں پڑ کر وہی دو خمس حصہ حاضر کو اور وہی ایک خمس غیرت بیگم کو دیا اور ساری عمر کے لیے ناحق بیٹھے بٹھائے بھائی بہن سے شرمندہ ہونا پڑا سو الگ۔
#…#…#
تیرہواں باب: میر متقی کا مبتلا کو سمجھانا
پچھلے بیانات سے بخوبی ظاہر ہو گیا ہو گا کہ غیرت بیگم کے جتنے معاملات تھے، سبھی تو خدا نے میرمتقی کے ہاتھ سے درست کرائے اور کیسی عمدگی اور خوش اسلوبی کے ساتھ کہ نہ لڑائی نہ جھگڑا نہ غصہ نہ فساد نہ غل نہ شور۔ تنخواہیں بھی جاری ہو گئیں مکانات اور دکانات کا بھی انتظام ہو گیا ناظر جیسے موذی کے پنجے سے حصہ زمینداری بھی چھٹا جس کے چھوٹنے کا کسی کو سان گمان بھی نہ تھا مگر ابھی غیرت بیگم کا سب سے بڑا معاملہ باقی تھا یعنی اس کے شوہر مبتلا کی اصلاح اس کی آوارگی کا علاج اس کی بدوضعی کی روک تھام۔
عورت جب بیاہی گئی تو میاں ہی سے اس کا آرام میاں ہی سے اس کا عیش اور میاں ہی سے توقیر ہے اور میاں ہی سے اس کا اعزاز و احترام، آپس میں پیار اخلاص ہو تو دنیا کی ساری مصیبتیں جھیلی جا سکتی ہیں اور جہاں دلوں میں محبت نہیں پہننے میں مزہ اور کھانے میں لذت نہیں دل میں امنگ نہیں سنگھار میں بہار نہیں پھولوں میں باس نہیں، مہندی میں رنگ نہیں۔
میرمتقی کچھ اس سے غافل نہ تھے مگر مبتلا کے بارے میں ان کو بڑی مشکل یہ پیش آرہی تھی کہ ان میں اور مبتلا میں کئی سبب سے اختلاط اور واشدگی کا ہونا ممکن نہ تھا۔ اول تو رشتہ کو میرمتقی مبتلا کے چچا باپ کی جگہ۔ دوسرے عمروں کی بڑائی چھٹائی کہاں میرمتقی پچاس پچپن برس کے بوڑھے اور کہاں مبتلا بیس برس کا پٹھا۔
تیسرے مبتلا کے ہوش میں میرمتقی کو دہلی آتے ہوئے یہ تیسرا پھیرا تھا ایسی صورت میں اجنبیت تو ہونی ہی چاہیے۔
چوتھے وضع میں عادات میں خیالات میں ایک کو دوسرے سے مطلق مناسبت نہیں، پس حال یہ تھا کہ میری متقی مردانے میں ہیں تو مبتلا زنان خانے میں۔ انہوں نے زنان خانے میں قدم رکھا ادھر مبتلا آہٹ پاتے جھٹ باہر نکل آیا۔ رات دن میں صرف دو بار چچا بھتیجے بضرورت کھانے کے لیے دستر خوان پر جمع ہوتے تھے۔ وہ بھی اسی طرح کہ مبتلا نے چچا کے سامنے جانے کے لیے ٹوپی اور کپڑے اور جوتی سب چیزیں سادہ اور بھلے مانسوں کے استعمال کی الگ کر رکھی تھیں۔
کھانے کے لیے طلبی آئی اور اس نے جلدی جلدی رگڑ رگڑ کر منہ دھویا، مونچھوں کو جن پر سارا سارا دن مالش رہتی تھی بل نکال کر سیدھا کیا پٹیوں کو ابھارا بالوں کی سج دھج کو بگاڑا کھانے کے نہیں چچا کے سامنے جانے کے کپڑے پہنے اور گریہ مسکین بن کر جھکے ہوئے نیچی نظر موٴدب دستر خوان پر جا بیٹھے پھر میرمتقی کا کھانا کوئی انگریزی ڈنر تو ہوتا ہی نہ تھا کہ کھانا میز پر آیا اور جتنے کھانے والے تھے۔
اپنی اپنی کرسیوں پر چرغنے لگے۔ دنیا بھر کی بکواس شروع ہوئی اور یہ بھی نہیں کہ کھانے کے ضمن میں باتیں کرتے جاتے ہوں بلکہ یہ کہو کہ باتوں کے ضمن میں کھانا بھی کھاتے جاتے ہیں۔ میرمتقی مولوی آدمی دور سے کھانا آتا ہوا دیکھ کر کسی شغل میں ہوں چھوڑ چھاڑ پہنچوں تک ہاتھ دھو بسم اللہ الرحمن الرحیم کہہ کر اکڑوں ہو بیٹھے کھانا کھایا مگر اس کو بھی عبادت سمجھ کر خیال یہ کہ آداب الطعام میں سے کوئی ادب ترک نہ ہو۔
پس ان کے دستر خوان پر بات چیت کا کیا موقع میرمتقی مستعجل کہ کم کھاؤں، مبتلا منتظر کہ اٹھ جاؤں، الغرض ایسا کوئی موقع ہی نہیں بن پڑتا تھا کہ چچا بھتیجے میں جی کھول کر باتیں ہوں مگر میرمتقی بلا کے تاڑنے والے تھے۔ انہوں نے اتنی دیر کی صحبت میں مبتلا کی حرکات و سکنات سے اس کی نشست و برخاست سے اس کی طرز عادت سے اتنا جان لیا اور ایسا پہچان لیا کہ مبتلا کے لنگوٹیے یار اور اس کے بھیدی اور راز دار بھی اتنا ہی جانتے ہوں گے۔
مبتلا اگرچہ ان کے سامنے اپنے آپ کو بہت ضبط کیے رہتا تھا مگر اسی دن کے لیے کہتے ہیں کہ آدمی بُری لت نہ ڈالے اور عادت کو بگڑنے نہ دے، مبتلا کو خبر تک نہ ہوتی تھی اور بے خیالی میں چچا کے سامنے اس سے کوئی حرکت ایسی سرزد ہو جاتی تھی کہ ہر روز ان کی نظروں میں اس کی قلعی کھلتی رہتی تھی مثلاً بیٹھے بٹھائے خود بالوں پر ہاتھ جا پڑا اور عادات کے مطابق لگا ؤہیں پٹیاں جمانے پھر جو ہوش آیا چچا کو کن انکھیوں سے دیکھ کھجانے کے حیلے سے بالوں کو بگاڑ سیدھا ہو بیٹھا یا کھاتے کھاتے ایک مرتبہ انگرکھے کی چولی کے شکن نکالے، لگاتن کر سینے کو دیکھنے اتنے میں چچا پر نظر جا پڑی اور جلدی سے پھر جھک کر ہو بیٹھا ایک مرتبہ تو اس نے کیا غضب کیا کہ خدا جانے کس خیال میں مستغرق تھا کہ آپ ہی آپ لگا گنگنانے مگر میرمتقی نے اس کو ایسے طور پر ٹال دیا کہ گویا سنا ہی نہیں۔
مبتلا اپنے دل کو یوں سمجھا لیا کرتا تھا کہ چچا نے دھیان نہیں کیا اگر کیا توآدمی سے ایسی لغو حرکتیں ہوا ہی کرتی ہیں۔اتنی ہی بات سے ان کا ذہن اس طرف کیوں منتقل ہونے لگا کہ پٹیاں جمانا یا اکڑنا یا گانا میری عادت ہے۔
لیکن یہ اس کی غلطی تھی میرمتقی کی آنکھ کبھی کسی چیز پر اچیٹی ہوئی پڑی ہی نہ تھی وہ جس چیز کو ایک نظر دیکھ لیتے اس کی تہہ تک پہنچ جاتے اور اس کے سبب کو دریافت کرتے، میرمتقی نے مبتلا کی حرکات سے آخر یہ استنباط کیا کہ اس میں دو عیب بہت بڑے ہیں۔
اول یہ مذہب سے اس کو مطلق سروکار نہیں، یہ جانتا ہی نہیں کہ خدا بھی کوئی چیز ہے اور آدمی اس کے بندے ہیں اس کو خبر ہی نہیں کہ آدمی کو کھانے اور سو رہنے کے سوا دنیا میں کچھ اور بھی کرنا ہے۔ دوسرے حسن پرستی اس کے نزدیک واحد قابل قدر چیز ہے۔ دولت، شرافت، حسب، نسب، علم، ہنر، سلیقہ، اخلاق، دین داری غرض دنیا کے سارے کمالات ہیچ ہیں صرف ایک حسن صورت قابل قدر ہے۔
اور بس میرمتقی کا ایک قاعدہ اور بھی تھا کہ بڑے دھیمے آدمی تھے۔ جب کسی خاص شخص کو نصیحت کرنا منظور ہوتا تو مدتوں اس کے حالات کی تفتیش میں لگے رہتے اور جب معلوم کر چکتے جس قدر معلوم کرنے کی ضرورت تھی تو ہفتوں غور کرتے کہ کس پیرائے سے اور کیسے وقت اس کو نصیحت کروں کہ موٴثر ہو اور یہی سبب تھا کہ ان کی نصیحت کبھی خالی گئی ہی نہیں۔ اگر ایک شخص تارک الصلوٰة ہے اور انہوں نے اس کو نماز کے لیے نصیحت کی تو پھر سفر یا مرض دنیا کی کوئی کیسی ہی ضرورت کیوں نہ ہو اس نے مدت العمر نماز کو قضا نہیں ہونے دیا یا اگر کوئی شخص منہیات شرعی میں کسی کا مرتکب ہے اور انہوں نے واعظ کہا تو پھر توبہ ہی کرا کے چھوڑی۔
غرض میرمتقی نے ایک دن موقع پا کر جوں ہی مبتلا کھانا کھا کر جانا چاہتا تھا اس کو روکا اور کہا کہ ذرا ٹھہرو مجھ کو تم سے کچھ کہنا ہے۔ مبتلا سمجھا کہ آج نماز گلے پڑی بیٹھ گیا تو میرمتقی نے فرمایا: اگرچہ مجھ کو تمہارے حالات بالتفصیل معلوم نہیں مگر جس قدر معلوم ہیں ان سے میرا خیال یہ ہے کہ تمہاری تعلیم جیسی درستی کے ساتھ ہونی چاہیے تھی نہیں ہوئی، تمہاری تعلیم کا عمدہ حصہ وہ ہے جو مدرسہ میں ہوا مدرسے کی تعلیم اس اعتبار سے کہ جو چیزیں پڑھائی جاتی ہیں دنیا میں بکارآمد ہیں بلاشبہ مفید ہے مگر افسوس بڑے سخت افسوس کی بات ہے کہ مذہب کی طرف بھول کر بھی کوئی توجہ نہیں کرتا، مذہب کو سلسلہ درس سے اس طرح نکال کر پھینک دیا ہے جیسے دودھ سے مکھی، جس سے لوگوں پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ مذہب ایک فضول اور لایعنی چیز ہے اور دنیا میں اس کی مطلق ضرورت نہیں۔
پس مدرسوں کی تعلیم کا نتیجہ کیا ہے کہ نوجوان لڑکے فارغ التحصیل فضیلت کے خطاب اور لیاقت کی سندیں لے کر مدرسوں سے نکلتے ہیں۔ ان کو تمام ملکوں کی نئی و پرانی تاریخیں خوب یاد ہوتی ہیں، جغرافیے میں شاید ان کی معلومات اس درجہ کی ہوں کہ سمندر کی مچھلی ہیں یا پہاڑی کوّے یا افریقہ کے ریچھ یا آسٹریلیا کے لنگور یا امریکہ کے بن مانس یا تبت کے دنبے یا تاتار کے مینڈھے یا عرب کے بدو یا یورپ کے فرنگی یا ہندوستان کے بھیل سب سے آشنا ہوں۔
وہ انگریزی شاید ایسی عمدہ لکھ سکتے ہوں گے کہ گویا ان کی مادری زبان ہے۔ ریاضی میں وہ شاید وقت کے بطلیموس ہوں، علم ہیئت میں وہ اپنے زمانہ کے فیثا غورث، فلسفے میں افلاطون۔ غرض ان میں علوم دنیا کی ایسی جامعیت ہو گی کہ شاید ان کی نظیر نہ ہو مگر وہ نہ مذہب کے معتقد، نہ خدا کے بندے، نہ رسول کی امت، نہ بادشاہ کی رعیت، نہ باپ کے بیٹے، نہ بھائی کے بھائی، نہ دوست کے دوست، نہ قوم کے ساتھی، نہ برادری کے شریک، نہ وضع کے پابند، نہ رسم کے مقلد۔
ذرا نظر انصاف سے اس بات کو دیکھوں کہ فی الحقیقت مدرسے کی تعلیم میں ایسے خیالات پیدا کرنے رجحان ہے یا نہیں ہے اور ضرورت ہے اور اس کا سبب ظاہر ہے کہ مختلف مذاہب کے نوجوان لڑکے ایک جگہ جمع رہتے ہیں۔ اپنے اپنے عقائد سے سب کے سب بے خبر عمروں کے تقاضے یہ کہ جہاں اور ہنسی کی باتیں کرتے ہیں ان میں ایک مذہب کا استخفاف بھی سہی اگرچہ اپنا ہی مذہب کیوں نہ ہو۔
مدرسے کے حاکم یا مدرس کچھ مذہب کی پروا کرتے ہی نہیں اپنے لیے بھی بعض یا اکثر اس لیے کہ خود کسی مذہب کے قائل نہیں۔ وظیفہ یا انعام یا دوسرے موحیات ترغیب مذہب پر کسی کا انحصار نہیں۔ علوم جو پڑھائے جاتے ہیں اکثر جدید زمانہ حال کے۔ ایسا کوئی مسئلہ نہیں جس میں متقدمین کی غلطی جس میں سابقین کی خطا ظاہر نہ کی جائے اور ایک بڑی خرابی آکر یہ پڑی ہے کہ بہت سی باتیں ہیں تو علوم دنیا سے متعلق مگر لوگوں کی غفلت یا بے مبالاتی سے داخل مذہب ہیں۔
گورے، معلوم ہوتا ہے کہ ان کے باپ دادا جو مذہباً ایسی لغو اور بیہودہ باتوں کو تسلیم کرتے چلے آئے نرے احمق تھے اور ان کا مذہب ہی سراسر ہیچ اور پوچ ہے ایک خرابی اور ہے اور وہ ہے علوم جدیدہ جن کا مدارس میں بڑا زوروشور ہے، سب ہیں از قسم بدیہات مشاہدات پر مبنی اور تجربات پر مشتمل۔
ایسے علوم پڑھتے پڑھتے طالب علموں کو اس بات کی عادت پڑ جاتی ہے کہ وہ ہر چیز کا ثبوت ایسا ہی ڈھونڈنے لگتے ہیں جیسے اقلیدس کے دعوؤں کا۔
ایک مذہب یا مذہبی باتوں کے لیے ایسا ثبوت نہ ہوا ہے اور نہ ہونا ممکن ہے۔ حضرت موسیٰ سے بھی یہود ایسی ہی بے جا فرمائشیں کرتے تھے کہ ہم تو جب تک خدا کے کھلے خزانے نہ دیکھ لیں تجھ پر ایمان لانے والے ہیں نہیں لیکن یہ مذہب کی وجہ سے نہیں ہے، بلکہ انسان کی ضعف خلقت کے سبب۔ کیا اگر موسےٰ خدا کا دیدار یہود کو نہ دکھا سکے تو اس سے لازم آگیا کہ خدا نہیں ہے۔
نہیں خدا تو ہے مگر وہ آدمی کی آنکھوں میں آنے کی چیز نہیں۔ مدارس کی تعلیم بلکہ سچ پوچھو تو عمل داری کا خلاصہ ہے۔ آزادی۔ بلاشبہ آزادی ہر ایک فرد بشر کا ایک ضروری حق ہے۔ مگر آزادی کی بھی کوئی حد ہونی ضرور ہے۔ آدمی کی بناوٹ اس طرح کی واقعی ہوئی ہے اور آدمی فی حد ذاتہ اس طرح کا مخلوق ہے کہ آزادی مطلق تو اس کو حاصل ہونی ممکن نہیں اور مناسب بھی نہیں۔
کیا آزاد ہو سکتا ہے وہ بندئہ ناچیز جس کا ہونا اور نہ ہونا اس کے اختیار میں نہیں۔ غیروں کا محتاج دوسروں کا دستِ نگر پہننے میں، کھانے میں، پینے میں، مرنے میں، جینے میں، چند منٹ کے لیے ہوا نہ ملے تو ہلاک۔ ایک وقتِ خاص تک غذا نہ پہنچے تو فنا، تڑاقے کی دھوپ کا تحمل نہیں۔ کڑاکے کی سردی کی برداشت نہیں۔ حالت تو اس قدر خستہ و خراب اور اس پر آزادی کا پرسُر خاب وہی مثل ہے۔
جھونپڑے کا رہنا اور محلوں کے خواب:
باندھتے ہیں سرو کو آزاد اور وہ پابہ گل
کیسی آزادی کہ یاں یہ حال ہے آزاد کا
میں اس میں لڑکوں کا زیادہ قصور نہیں پاتا سارا قصور ان کی تعلیم و تربیت کا ہے گھڑی جو تمہاری جیب میں ہے اس میں فولاد کی ایک کمانی کنڈلی کے طور پر تہ کی ہوئی موجود ہے۔ کنجی کے زور سے کمانی کی تہوں کو خوب کس دیتے ہیں، اسی کو کوکنا کہتے ہیں۔
کوکنے سے کمانی میں ایک قوت پیدا ہوتی ہے۔ کمانی چاہتی ہے کہ کھلے اور اپنی اصلی حالت پر عود کر آئے۔ اگر کوئی چیز مانع نہ ہو تو کمانی سڑسے دم کے دم میں ڈھیلی پڑ جائے اور وہ قوت جو اس میں پیدا کی گئی تھی اکارت ہو اس کے روکنے کے لیے گھڑی میں ایک پرزہ لگایا جاتا ہے جس کا نام ہے ریگولیٹر اور اس قوت سے وقت کی شناخت کا علیحدہ کام لیا جاتا ہے، یہی حالت ہے انسان کا کہ اس میں بھی ایک حالت کے مناسب خدا کی دی ہوئی چند قوتیں ہیں اگر ان قوتوں کا کوئی روکنے والا ریگولیٹر نہ ہو تو یہ تمام قوتیں بے کار ہیں بلکہ بجائے مفید ہونے کے الٹی مضر۔
انسان کا ریگولیٹر ہے۔ مذہب جو اس کو اندازئہ مناسب اور اعتدال سے گھٹنے بڑھنے گرنے ابھرنے نہیں دیتا۔ مدرسوں کی تعلیم کوک ہے اور ریگولیٹر نہ دارد، پس اس کا ضروری نتیجہ ہے کہ آزادی کا خیال دل میں سماتے ہی لوگ ہر طرح کے قیود سے نکلنے کی خواہش کرنے لگتے ہیں۔ یہاں تک کہ قید عبودیت سے بھی۔ سرے سے مدرسے کی تعلیم کے اصول ہی غلط ہیں کہ صرف دنیاوی علوم کے پڑھا دینے سے آدمی دنیا کے کام کا ہو جاتا ہے۔
اس سے تو یہ بات نکلتی ہے کہ دنیا اور دین دو چیزیں ہیں، جداگانہ ایک کو دوسرے سے کچھ تعلق نہیں، ہم نہیں جانتے کہ جو لوگ ایسا خیال کرتے ہیں دین سے کیا مراد رکھتے ہیں۔
مگر ہمارے نزدیک بلکہ تمام اہل ادیان کے نزدیک دین کے معنے ہیں، انسان کی اصلاح اور اس کے دو حصے ہیں، اصلاح معاش اور اصلاح معاد۔ پس دین اور دنیا میں اگر ایک طرح کی منطقی مغائرت ہے جیسے عموماً کل و جز میں ہوا کرتی ہے تو اس کو تبائن یا تناقض یا تنا فریابے تعلقی سے تعبیر کرنا مغالطہ ہی ہے۔
کتنا ہی پڑھاؤ جب انسان میں دین نہیں دیانت نہیں اس پر بھی اگر وہ آدمی دنیا کے کام کا ہے تو اس دنیا کو خیرباد ہے اور اس دنیا کو سلام۔ ایک بات تعلیم کے متعلق اور بھی سوچنے کی ہے کہ انسان کو دوسرے حیوانات سے ایک وجہ امتیاز یہ بھی ہے کہ حیوانات کو جتنی عقل دی گئی ہے فطری ہے۔ تجربے یا امتداد عمر سے اس میں ترقی نہیں ہوئی مثلاً بیا گھونسلا بناتا ہے، کیسا عمدہ کہ انسان اس کی اگر پوری پوری نقل کرنا چاہے تو نہیں بن پڑتی مگر جیسا گھونسلا ایک بڈھا بیا بناتا ہے جو اپنی عمر میں شاید بیس پچیس گھونسلے بنا چکا ہو گا۔
بجنسہ ویسا ہی گھونسلا پہلی بار ایک نوجوان بیا بنائے گا جو برخلاف انسان کے ہے کہ اس کی عقل تجربے اور عمر کے ساتھ کمال حاصل کرتی جاتی ہے۔ اس مضمون کو سعدی نے کیا زبردست طور پر ادا کیا ہے:
مرغ ازبیضہ بروں آیدور ذری طلبد
آدمی زادہ نہ دار و خرد و عقل و تمیز
آں نباگاہ کسے گشت و بچیزے نہ رسید
ویں بہ تمکین و فضیلت بگزشت از ہمہ چیز
اس لیے انسان کی تعلیم و تربیت کا قاعدہ یہ ہے کہ ہر چیز اس کی عمر کا ایک مناسب وقت دیکھ کر سکھاتے ہیں۔ مثلاً غیر ملک کی بولی ضرور ہے کہ بچپن میں سکھائی جائے ورنہ بڑے ہو کر زبان مشکل سے ٹوٹتی ہے۔ چھوٹے بچے کو اگر منطق کے پیچیدہ مباحث سمجھانا چاہو تو سعی لاحاصل ہے۔ اسی طرح دین کی تعلیم کے لیے بھی ایک وقت مناسب ہونا چاہیے اور وہ نہیں ہو مگر سن طفولیت۔
کیونکہ آدمی کی عمر جس قدر بڑی ہوتی جاتی ہے۔ اسی قدر فطرت سے دور اور اسی قدر اس کا دل لوث دنیا سے آلودہ اور زنگ اغراض سے تیرہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ پھر شاید ایک وقت ایسا آئے کہ اس کے دل میں صبغت اللہ یعنی دین کا رنگ اٹھانے کی قابلیت باقی نہ رہے۔ اسی حالت کی نسبت قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ اور کچھ بات نہیں ان کے دلوں پر ان کی بد کرداریاں جم گئی ہیں۔
دنیا میں اور بھی ہزاروں لاکھوں اللہ کے بندے ایسے ہیں کہ جن کو دین کی طرف مطلق توجہ نہیں۔ مگر بے توجہی دوطور کی ہے۔ ایک وہ جس کا سبب کاہلی اور غفلت اور مساہلت ہو دوسری وہ جو دین کے استخفاف سے پیدا ہو یہی بے توجہی ہے جو نہایت خطرناک اور نہایت مذموم ہے اور یہی بے توجہی ہے جس کو مدارس کی تعلیم پھیلائی چلی جا رہی ہے لیکن دین و مذہب لوگوں کی قدر دانی اور تسلیم کا محتاج نہیں ہے۔
ہمالیہ پہاڑ اپنی جگہ سے سرک جائے۔ گنگاپورپ کو بہتے بہتے پچھم کو بہنے لگے مگر خدا کی باتیں نہ کبھی ٹلتی ہیں اور نہ کبھی کسی کے ٹالے ٹلیں گی۔ دین تم سے چاہتا کیا ہے۔ صرف اتنی بات کہ خدا نے تم کو آدمی بنایا ہے۔ آدمی بن کر رہو تم کو آنکھیں دی ہیں اور دیکھتے ہو کان دیئے ہیں اور سنتے ہو زبان دی ہے اور بولتے ہو غرض ہر قوت سے وہ کام لیتے ہو جو اس کے کرنے کا ہے۔
قوتوں میں سب سے قوی اور سب سے عمدہ عقل ہے۔
اس نے تمہارا ایسا کیا قصور کیا ہے کہ اس کے کرنے کا کام اس سے نہیں لیتے۔ روئے زمین پر خدا کی جتنی مخلوق ہے سب میں اعلیٰ اور افضل اور اشرف انسان ہے اور اس کی برتری اس سے ظاہر ہے کہ دوسری مخلوقات پر حکمرانی اور مالکانہ تصرف کرتا ہے، دیکھو انسان کی بنائی ہوئی عمارتیں اس کے بسائے ہوئے شہر اس کے لگائے ہوئے باغ، نہریں، سڑکیں، پل، ریل، تار، دخانی، بادبانی، جہاز، انواع و اقسام کی کلیں اور زندگی کے سازوسامان مگر یہ برتری جو انسان کو استحقاقاً حاصل ہے، کیوں ہے، اس کی جسمانی قوتیں تو حیوانات کی قوتوں سے بہت ضعیف ہیں۔
مثلاً اس کی نظر سے گدھ کی نظر بہت تیز ہے۔ اس کے شامے سے شکاری کتوں کا شامہ کہیں زیادہ قوتی ہے۔ وہ اگر ذائقے سے چیزوں کا صرف مزا پہچانتا ہے تو بعض جانور مزے کے سوا خاصیت طبی کی شناخت بھی کر لیتے ہیں۔ توانائی کے لحاظ سے تو ہاتھی اور شیر وغیرہ کے سامنے وہ ایک مور ضعیف سے بھی زیادہ کمزور ہے۔ پھر انسان کی بڑائی کس چیز میں ہے، عقل میں۔ اب دیکھنا چاہیے کہ عقل کا کام کیا ہے۔
یہ سمجھنا کہ عقل ہم کو صرف اسی واسطے دی گئی ہے کہ کھانا پینا کپڑا مکان سازو سامان بہم پہنچانے میں مدد کرے عقل کو ذلیل اور بے قدر کرنا ہے۔ یہ تو عقل کے نہایت متبذل کام ہیں جانور جن کے جثّے ہمارے جثوں سے بہت بہت بڑے ان کی بھوک پیاس ہماری بھوک پیاس سے کہیں زیادہ ہے۔ وہ ہماری جتنی عقل نہیں رکھتے اور ہم سے زیادہ آسودگی کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں۔
ساڑھ ستر برس کی زندگی اور معدودے چند ضرورتوں کے لیے ایسی عقل جو ماضی اور مستقبل کے قلابے ملائے اور زمین سے آسمان تک یوں پھیلائے کسی بڑے اور عمدہ کام کے لیے دی گئی ہے اور وہ یہ نہیں ہے۔ مگر یہ کہ مخلوق سے خالق اور فانی سے باقی اور دنیا سے آخرت کو پہچان کر اس گھر کے لیے تیاری کریں، جہاں روح کو ہمیشہ ہمیشہ رہنا ہے، لیکن فرض کرو کہ ہم ان خیالات کو اپنے ذہن میں نہ آنے دیں اور آنکھیں بند کر لیں۔
دنیا و مافیہا سے جس کا ایک ایک ذرہ ہستی صانع اور ایک ایک واقعہ وجودِ سبب پر دلالت کر رہا ہے۔ تو اس سے واقعات کا بطلان تو نہیں ہو سکتا۔ خدا ہے اور ہمیشہ کو رہے گا۔ ہم اس کے بندے ہیں اور کسی طرح اس کے فرمان سے باہر نہیں ہو سکتے۔ ہم کو مرنا ہے اور جو کچھ دنیا میں کیا ہے اس کی جواب دہی کرنی ہے عمل اچھے ہیں تو تسلی ہے اور امن ہے عافیت ہے اور سکون ہے اور قرار ہے یعنی یہ کہ بیڑا پار ہے۔
بُرے ہیں تو حسرت ہے اور افسوس ہے اور ندامت ہے اور پھٹکار ہے اور دھتکار ہے، یعنی یہ کہ دُکھ کی مار ہے۔ کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ اصل میں تو ہوتی ہے غفلت اور اونگھتے کو ٹھیلتے کا بہانہ اختلاف مذہب ہے، جو بے توجہی کا باعث ہو جاتا ہے۔ آدمی دیکھتا ہے کہ دنیا میں سینکڑوں ہزاروں مذہب ہیں ہر ایک صرف اپنے آپ کو برسرحق سمجھتا ہے۔ باقی سب کو گمراہ و کافر اور مردود اور ملعون اور جہنمی تو یہ دیکھ کر خواہ مخواہ اس کے دل میں خیال آتا ہے کہ پہلے ان ہزاروں مذاہب کے معتقدات سے واقفیت حاصل کروں پھر ان کے سوال و جواب سنوں پھر ان میں محاکمہ کروں۔
اس کے لیے میں کیا میری تو دس نسلوں کی عمریں بھی کفایت نہیں کر سکتیں۔ اس سے بہتر ہے کہ مذہب کی پہیلی کو جس کا اَتا پَتا کچھ نہیں سوچو ہی مت لیکن یہ بھی ایک وسوسہ شیطانی ہے اور انسان کے لامذہب ہونے کے لیے حجت نہیں ہو سکتا۔ دنیا میں جتنے مذہب ہیں، جہاں تک مذہب کو دنیا سے تعلق ہے۔ سب کا مقصود اصلی ہے آدمی کی اصلاح اور اختلاف اگر ہے تو ملکوں کی آب و ہوا لوگوں کی طبائع اور عادات اور ضرورتوں کے اختلاف کی وجہ سے اورفروغ میں ہے۔
نہ اصول میں جزئیات میں ہے۔ نہ کلیات میں۔ پس تم جیسے نوجوان آدمیوں کے لیے اس سے بہتر اصلاح کی بات نہیں کی جس شان میں ہے اسی شان میں رہ کر پابندی مذہب کو نہ چھوڑے۔ اس شے سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ نیکی کا خیال دل میں راسخ ہو جائے گا۔ خدا سے لگاؤ پیدا ہو گا اور حق کی تلاش میں اس کو سزا ملے گی۔ آدمی اگر اتنا کرے اور اس سے زیادہ کر ہی کیا سکتا ہے تو ضرور خدا کی رحمت اس کی دست گیری کرے گی۔
لوگ مذہب کی طرف سے جو اس قدر غافل اور گرے بن رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ خدا نے اپنے بندوں کی آزمائش کیلئے دنیا کا انتظام ایسے طور پر رکھا ہے کہ دنیاوی حالات کے اعتبار سے نیک و بد اور پابند مذہب اور لامذہبی اور مومن و کافر اور ملحد و مشرک کسی کا کچھ امتیاز نہیں خداوند تعالیٰ کی عام رحمتوں سے سب کے سب بلا تخصیص یکساں طور پر متمتع ہوتے ہیں۔
وقت پر پانی سب کے واسطے برستا ہے۔ ہوا کا ذخیرہ سب کے لیے موجود ہے۔ رزق ہر ایک کی خاطر مہیا ہے۔ صحت و مرض تمول و افلاس تو الدو تناسل حیات و ممات غرض زندگانی کی بھلی بری تمام کیفیتیں جیسی مسلمانوں میں، ویسی عیسائیوں میں، ویسی یہود میں، کوئی قوم بلکہ کوئی گروہ بلکہ کوئی فرقہ بلکہ کوئی متنفس اس بات کا دعویٰ نہیں کر سکتا کہ مذہب کی وجہ سے مجھ کو دنیا میں یہ خصوصیت حاصل ہے اور کہیں ایسی ایک ادنیٰ سی خصوصیت بھی پائی جائے تو آپ جانیے تو تمام روئے زمین سے اختلاف مذاہب کے معدوم کر دینے کو کافی ہے۔
یہی خصوصیت ان لوگوں کے حق میں سم قاتل ہے جن کی طبیعتیں لامذہبی کی طرف مائل ہیں۔ غور کرنے کی تو ان لوگوں میں عادت ہوتی ہی نہیں۔ دنیا میں ہیں اور دنیا ہی کو دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں بس جو کچھ ہے یہی دنیا ہے۔ لیکن ذرا عقل کو کام میں لائیں تو معلوم ہو اور اندر سے دل آپ ہی آپ گواہی دینے لگے کہ نہیں ایک جہاں اور بھی ہے۔ یہ دنیا خواب ہے اور وہ جہاں اس کی تعبیر یہ مجاز ہے اور وہ حقیقت یہ نمونہ ہے اور وہ اصل جس طرح عقل دنیا میں سب کی یکساں نہیں۔
اسی طرح عقل دین کے مدارج بھی متفاوت ہیں۔ بعض لوگ وہ ہیں جو صرف موجوداتِ دنیا سے خدا کو اور خدا سے اس کی عظمت کو اور اس کی عظمت سے اس کی معبودیت کو مانتے پہچانتے ہیں اور بعض موجودات سے نہیں بلکہ خیرات سے اور تغیرات سے بھی نہیں بلکہ حادثات عامہ سے بھی متنبہ نہیں ہوتے تاوقتیکہ ان پر کوئی آفت نازل نہ ہو اور بعض حادثات عامہ سے حلول مصیبت پر بھی کہنے کے محتاج گویا بیل ہیں کہ آر بھی چبھوو دو اور ساتھ منہ سے بھی ٹٹکاری دو تب ان کو خبر ہو کہ چلنا چاہیے۔
اے میرے پیارے بھتیجے اے مرحوم کی یادگار اے مغفور کی نشانی مجھ کو بھائی کے مرنے کا اتنا رنج نہیں ہوا جتنا تمہارے دین کی تباہی کا۔ بھائی اگر مرے تو عمر طبعی کو پہنچ کر مرے اور ایک دن مرنا ضرور تھا۔ میں نے اپنی موت کے لیے دعا تو نہیں مانگی۔ اس واسطے کے موت کے لیے دعا مانگنا منع ہے۔ مگر سات برس عرب میں رہا کوئی دن ایسا نہیں گزرا کہ میں نے اس سرزمین میں اپنے دفن ہونے کی تمنا نہ کی ہو۔
مگر خدا کی مبارک مرضی یوں تھی کہ میں یہاں پھر آؤں اور بھائی کا مرنا سنوں جب سے میں نے بھائی کا مرنا سنا ہر روز بلکہ دن میں کئی کئی بار (دعا نہیں) دل میں تمنا کرتا ہوں کہ الٰہی اگر عرب کی مٹی سے میرا خمیر نہیں ہے تو مجھ کو باایمان دنیا سے اٹھا کر اس شخص کے پہلو میں مجھ کو جگہ دے جو مجھ کو دنیا میں سب سے زیادہ عزیز تھا میرے بڑے بھائی اور تمہارے والد مرحوم۔
میں نہیں جانتا کہ یہ تمنا بھی پوری ہو یا نہ ہو مگر بھائی کے مرنے کے بعد اب زندگی بے مزہ ہے اور اس ملک میں رہنا اس سے زیادہ بے مزہ۔ یہ مت سمجھو کہ آدمیوں کے باہمی تعلقات اس زندگی تک کے تعلقات ہیں۔ نہیں نہیں یہ تعلقات روحی تعلقات ہیں اور چونکہ روحوں کو فنا نہیں۔ ان کے تعلقات کو بھی انقطاع نہیں۔ یقین جانوں کہ تمہاری اس طرز زندگی سے بھائی کی روح کو ایذا ہوتی ہے۔
کیونکہ ان کو اس زندگی میں بھی تمہاری تکلیف کی برداشت نہ تھی اور اس طرز زندگی کے ہاتھوں تم پر جو سخت بلا نازل ہونے والی ہے میں اس کو عقل سے جانتا ہوں اور تمہارے باپ اس کو آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ باپ سے ہو سکتا ہے کہ بیٹے کو کنویں میں گرتا ہوا دیکھے اور پروا نہ کرے۔
باپ سے ممکن ہے کہ بیٹا جلتی ہوئی آگ میں کودے اور وہ کھڑا ہوا تماشا دیکھے مرحوم نے لوگوں کی نظروں میں سلامت روی اور نیک وضعی اور بھلمنساہٹ سے جو ایک وقار پیدا کیا تھا تم ہی اپنے دل میں انصاف کرو کہ تم نے اس کو بڑھایا یا گھٹایا۔
روشن کیا یا مٹایا۔ ایسے چاہنے والے ایسے شفیق ایسے مہربان ایسے دل سوز باپ کے احسانات کا یہی معاوضہ تھا۔ ان کے سلوک اسی پاداش کے قابل تھے۔ جو باتیں میں تم سے کہہ رہا ہوں، تم کو شاید پہلی بار ان کے سننے کا اتفاق ہوا ہو گا۔ مگر میری ساری عمر ان ہی غوروں اور فکروں میں گزری ہے اس میں اپنی خوش نصیبی سمجھتا ہوں کہ شروع سے مجھ کو اچھے لوگوں کی صحبت رہی ہے ہندوستان سے لے کر عرب تک ہزار ہا علماء اور شیوخ سے ڈھونڈھ کر ملا اور جس سے جتنا فیضانِ قسمت کا تھا حاصل ہوا۔
الحمدللہ تم دیکھتے ہو کہ میں دین کے کاموں میں بھی جہاں تک مجھ سے ہو سکتا ہے اور افسوس ہے کہ قدر واجب کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہو سکتا، لگالپٹا رہتا ہوں، اس پر بھی خدا کی عظمت اور اس کے جلال پر نظر کرتا ہوں تو مجھ کو اپنی نجات کی طرف سے بالکل مایوسی ہوتی ہے اور تنہائی میں خصوصاً رات کے وقت دنیا کی بے ثباتی قیامت کے حساب اور اپنی بے بضاعتی کے افکار ہجوم کرتے ہیں تو مجھ کو اس قدر وحشت ہوتی ہے کہ تم کو اس کا اندازہ سمجھنا مشکل ہے۔
صرف اس کی رحمت کی بے انتہائی توقع اس وقت دست گیری کرتی ہے جس سے دل کو تسلی ہوتی ہے۔ یہ زحمت جو مجھ کو دین کے کاموں میں اٹھاتے ہوئے دیکھتے ہو۔ اگر اس کو زحمت سے تعبیر کرنا درست ہو تو اتنی مدد کرتی ہے کہ امیدواری رحمت کی ڈھارس بندھاتی ہے، اگر خدا عقل میں راستی دے تو دنیا کی سب باتوں سے دین کی تعلیم نکلتی ہے۔
دنیا میں جس کو جس پر کسی طرح کی حکومت ہے جیسے شوہر کو بی بی پر یا باپ کو اولاد پر یا بادشاہ کو رعایا پر اگرچہ دنیا کی ساری حکومتیں عارضی اور ضعیف ہیں۔
اس پر بھی کوئی حاکم کسی محکوم کی کسی نافرمانی سے درگزر نہیں کرتا۔ کیا غفلتیں ہیں کیا بے فکریاں ہیں کیا مغالطے ہیں کیا بے مناسبتی ہے کہ بندئہ بے حقیقت و ناچیز نافرمانی کیسی، اس قادر ذوالجلال کے اوامر کا استخفاف کرے گویا اس کا مدمقابل ہے اور پھر درگزر کی توقع۔ کیا ہیکڑی ہے۔ مغفرت کی امید کیا بے حیائی ہے۔ تم کو اکثر باتوں میں مغالطہ واقع ہوا ہے، دوستوں کے بارے میں بھی تمہاری رائے غلطی سے محفوظ نہیں رہی۔
یہ لوگ جو تمہارے آگے پیچھے پڑے پھرتے ہیں اور ہر وقت تم کو گھیرے رہتے ہیں۔ جہاں تک میں نے خیال کیا ہے ایک کو بھی تمہارا خیرخواہ نہیں پاتا، ان کے کچھ مطلب ہیں، بے ہودہ اغراض ہیں۔ فاسد تم کو دیکھ پایا، عقل کے کوتاہ گانٹھ کے پورے۔ آپ بنے شکاری اور تم کو گروا یاٹٹی اور لگے تمہاری آڑ میں تکے چلانے۔ غرض مندانہ رابطے عموماً اور خاص کر جبکہ اغراض خسیس ہوں، نہایت بے ثبات ہوتے ہیں اور جلد ٹوٹنے والے۔
مجھ کو تو توقع یہ ہے کہ تم نے خود اس کا تجربہ کر لیا ہو گا ورنہ میرا اس وقت کا کہنا چاہو لکھ رکھو کہ تمہارے اتنے دوست ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کے ساتھ دو برس تک بھی صحبت یوں ہی چلی جائے تو جاننا کہ بہت چلی۔
دنیا کے تمام جسمانی تعلقات کا یہی حال ہے۔ غیروں کی کیا شکایت دوسروں کا کیا گلا، اپنے ہی اعضا و جوارح اپنی ہی قوتیں کب تک کی ساتھی ہیں۔
دیکھو مجھ جیسے بوڑھوں کو کہ ایک بصارت سے معذور ہے تو دوسرا ثقل سمع سے مجبور کسی کی بھوک تھکی ہوئی ہے اور کسی کے ہاضمہ میں فتور۔ پیری و صد عیب زندہ درگور۔ دنیا کی یہی بے ثباتی دیکھ کر جن کی عقلیں سلیم ہیں، فانی لذتوں کے گرویدہ اور عارضی منفعتوں کے فریفتہ نہیں ہوتے، جس قدر میں نے تم سے کہا۔ اگرچہ ضرورت سے بہت کم کہا مگر مجھ کو تمہاری طینت کی پاکیزگی سے امید ہے کہ انشاء اللہ رائیگاں نہ جائے گا اور خدا نے چاہا تو میں دعا بھی کروں گا کہ تمہارے دل میں سوچنے اور غور کرنے کا شوق پیدا ہو مگر قاعدہ ہے کہ دنیا میں کوئی متبذل سے متبذل فائدہ بھی بے خطاب نہیں ملتا۔
سچ ہے کہ جب تک بچہ روتا نہیں ماں بھی دودھ نہیں دیتی پس دین کے عمدہ اور دائمی فائدے بدرجہٴ اولیٰ طلب پر موقوف اور پیروی پر منحصر ہونے چاہئیں اور وہ تمہارے کرنے کا کام ہے۔ دین کے کام ہیں تو دل سے متعلق اور کوئی شخص دوسرے کے خیالات یعنی دلی حالت پر مطلع نہیں ہو سکتا مگر خیالات کی اصلاح سے ارادے کی اور ارادے سے افعال کی طرز تمدن کی اور وضع کی گفتگو کی نشست برخاست کی حرکات و سکنات کی سبھی چیزوں کی اصلاح ہوتی ہے۔ یعنی انسان کا ظاہر حال اس کے دل کا ترجمان ہوتا ہے۔ پس تم کہو یا نہ کہو خود بخود منکشف ہوتا رہے گا کہ جس راستے پر میں نے تم کو لگا دیا ہے، تم نے اس میں چلنا شروع کیا یا نہیں۔
#…#…#
چودہواں باب: مبتلا پر میرمتقی کے وعظ کے اثرات
مبتلا کو جب چچا نے پکڑ کر نصیحت سننے کے لیے بٹھایا تھا تو خواہ مخواہ اس کی طبیعت میں از خود ایک ضد سی آگئی تھی تاہم تھوڑی دیر ادب کی وجہ سے دم نہ مار سکا اور پھر تو میرمتقی کی باتوں پر ایسا ریجھا کہ آنکھیں اور منہ دونوں کے دونوں کھلے رہ گئے اور جب تک میرمتقی نے بات کو ختم نہیں کیا۔
مبتلا کو کوئی دیکھتا تو کیا معلوم ہوتا کہ بس حیرت کا ایک پتلا ہے، چچا کے پاس سے چلے جانے کے بعد بھی کئی دن تک وہ مبہوت سا رہا۔ اس کا دل تو مان گیا تھا کہ چچا نے جو کچھ کہا ٹھیک کہا مگر جس بات کی آن پڑ گئی تھی، اس کے بدلتے ہوئے اس کا جی ہچکچاتا تھا۔ آوارگی اس کی طبیعت میں یہاں تک سما رہی تھی کہ ترک وضع کرتے ہوئے اس کو عار آتی تھی وہ سوچتا تھا کہ چچا کے کہنے پر چلوں تو دوست آشنا کھانا پینا سیرتماشا تفریح تمام مشاغل سب تمامی مشاغل سب کو ایک دم سے چھوڑوں یعنی ترک دنیا کروں تو پھر جیوں کیونکر اور فرض کیا کہ جبراً قہراً میں نے ترک دنیا کیا بھی تو لوگ مجھ کو کیا کہیں گے۔
آخر پرہیزگار بنوں تو پورا پورا بنوں جیسے چچا زربفت کی ٹوپی تو اب میں پہننے سے رہا نا چار شملہ، دوپٹہ، عامہ باندھنا پڑے گا اور اس کی زاد میں بالوں کی جیسی گت بنے گی ظاہر ہے تو ضرور ہوا کہ سب سے پہلے سر منڈاؤں منڈے سر پر یہ خشخاشی داڑھی اور چڑھی ہوئی مونچھیں کیا بھلی لگیں گی تو لازم آیا کہ داڑھی چھوڑوں اور مونچھوں کو سیدھا کروں پھر ایسی مقطع صورت پر گلے میں کرتا نہ ہو تو خیر نیچی چولی کا انگرکھا اور ٹانگوں میں ایک برکا گھٹنا اس وجہ سے کیا منہ لے کر بازار میں نکلوں گا۔
ساری عمر کبھی مسجد میں جانے کا اتفاق نہیں ہوا۔ اب جو ایک دم سے جا کھڑا ہوں تو جتنے نمازی ہیں سب آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر مجھے گھور دیں گے غرض جن کو چھوڑتا ہوں اور جن میں جا کر ملتا ہوں سبھی کا انگشت نما ہونا پڑے گا۔
مبتلا اسی پس و پیش میں تھا کہ میرمتقی ایک دن اس کو وضو کرا کپڑے بدلوا اپنے ساتھ جمعہ کی نماز میں لے گئے اور اس کے بعد سے جب تک رہے نماز کو جاتے مبتلا کو گھر سے ساتھ لے کر نکلتے ہیں۔
غرض مبتلا کی وہ جھجک تو جاتی رہی اور اس کی وضع میں بھی رفتہ رفتہ اصلاح آتی چلی۔ اگر میرمتقی کا دو تین مہینے بھی اور رہنا ہوتا تو مبتلا کے درست ہو جانے میں کوئی کسر نہ تھی۔ اگرچہ میرمتقی نے کیا ہی کیا تھا، مبتلا کو صرف ایک وعظ سنایا۔ صرف اتنی سی کہ اس کی غفلت کو تازیانہ ہو۔ دیندار بھلامانس بنتے ہوئے جھینپتا تھا۔ اس کی شرمندگی مٹا دی۔
اگر زیادہ رہنے کا اتفاق ہوتا تو خدا جانے کتنے وعظ اور کہتے اور کیا کیا اس کو سکھاتے سمجھاتے۔ وہ تو اچھی طرح جانتے تھے کہ برسوں کے جمے ہوئے زنگ ہیں۔ یہ کیا ایک رگڑے سے چھوٹنے والے ہیں۔ حسن پرستی کا بڑا سخت عیب بھی گویا مبتلا کی گھٹی میں داخل تھا۔ میرمتقی موقع پاکر اس کا علاج کرتے پر کرتے مگر مبتلا کو تو اپنے اعمال کی شامت بھگتنی تھی۔
#…#…#
پندرہواں باب: میرمتقی کی اچانک رام پور روانگی
میرمتقی نے مبتلا کی اصلاح پر توجہ شروع کی تھی کہ اتنے میں چپکے چپے اس گمنام عرضی کی تحقیقات ہونے لگی جو ناظر کی شرارت سے میرمتقی کی شکایت میں گورنر کے پاس پہنچی تھی اور تو کچھ حال نہ کھلا مگر خلافِ عادت پولیس کے لوگ وقت بے وقت کوئی وعظ سننے کے بہانے سے کوئی نماز کے حیلے سے آمدورفت کرنے لگے ان میں جو زیادہ ہوشیار تھے پتے دے دے کر ٹیڑھے ٹیڑھے مسئلے پوچھتے تھے۔
مثلاً یہ کہ کیوں حضرت ہندوستان آپ کے نزدیک دارالحرب ہے یا نہیں۔ انگریزوں سے اور ہنود سے سود لینا روا ہے یا نہیں۔ انگریز اگر کابل پر چڑھائی کریں اور ایک پلٹن کو امیر کے مقابلے میں لڑنے کا حکم دیں اور ایک مسلمان اس پلٹن میں پہلے سے نوکر ہو تو اس کو کیا کرنا چاہیے۔
مہدی جنہوں نے مصر میں خروج کیا ہے، مہدی موعود ہیں یا نہیں اور ان کو مدد دینا ازروئے شرع شریف کیا حکم رکھتا ہے۔
انگریزی دواؤں کا استعمال درست ہے یا نہیں، کچہری سے برابر سود کی ڈگریاں ہوتی ہیں، اس سود کا دینا گناہ ہے یا نہیں۔ انگریزوں کے ساتھ کھانا اور لباس اور طرز تمدن میں ان کے ساتھ تشبیہہ کیا حکم رکھتا ہے۔ میرمتقی جہاندیدہ آدمی تھے۔ ان باتوں کو دیکھ کر ان کے کان کھڑے ہوئے اور سمجھے کہ ضرور دال میں کچھ کالا ہے۔ کوتوال شہر سے معرفت اور دور کی صاحبِ سلامت تو تھی ہی۔
ایک جمعہ کی نماز کو جاتے ہوئے راہ میں کوتوال سے آمنا سامنا ہو گیا۔
میرصاحب نے کہا مجھ کو آپ سے کچھ کہنا ہے۔ وقت فرصت معلوم ہو تو میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔ کوتوال نے کہا آج بعد نماز مغرب میں خود آپ کی خدمت میں حاضر ہوں گا۔ غرض کوتوال کے ساتھ تخلیہ ہوا تو میر صاحب نے فرمایا کیوں کوتوال صاحب یہ ماجرا کیا ہے کہ چند روز سے پولیس کے لوگ میری نگرانی کرنے لگے ہیں۔
میں دیکھتا ہوں کہ جتنی دیر میں باہر رہتا ہوں پولیس کا ایک نہ ایک آدمی ضرور موجود ہوتا ہے۔ مسئلے پوچھتے ہیں تو پیچدار، باتیں کرتے ہیں تو اکھڑی ہوئی۔ میں نے دھوپ میں داڑھی سفید نہیں کی۔ یہ لوگ مجھ سے چھپاتے ہیں اور میں سب سمجھتا ہوں، مجھ سے پردہ کرتے ہیں اور میں ان کے تیور پہچانتا ہوں۔ آپ کو معلوم ہے میں یہاں کا رہنے والا نہیں۔ سات برس بعد سفر حجاز سے واپس آیا۔
رام پور جانا چاہتا تھا میں نے کہا کہ لاؤ لگے ہاتھ بھائی سے ملتا جاؤں۔ یہاں پہنچ کر معلوم ہوا ہے کہ بھائی کا انتقال ہو چکا ہے۔ ان کے معاملات خانہ داری کو دیکھا، سب کے سب ابتر، ناچار ٹھہرنا پڑا۔ اکثر معاملات خدا کے فضل سے درست ہو گئے ہیں۔ بعض باتیں باقی ہیں۔ اگر میرے حال سے تعرض نہ بھی کیا جائے، تب بھی تین چار مہینے سے زیادہ ٹھہرنا منظور نہیں اور ٹھہر سکتا بھی نہیں۔
لیکن اس نظربندی کی حالت میں تو میں ایک دن بھی نہیں رہ سکتا۔ بے اطمینانی کی وجہ سے وہ مطلب بھی فوت ہوتا ہے جس کی وجہ سے میں ٹھہرا ہوں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں نے سرکار کا ایسا کون سا قصور کیا ہے۔ درس میں نہیں دیتاکہ میرے پاس مجمع رہے خطا یا قصور اگر ہے تو یہی کہ جو اللہ کا بندہ پاس آ بیٹھتا ہے تو نصیحت کی دوچار باتیں اس سے کہہ دیتا ہوں اور یہ کام ایسا ہے کہ دنیا کی حکومت کیسی ہی قاہرہ کیوں نہ ہو مجھ کو اس سے باز نہیں رکھ سکتی۔
نصیحت تو لوگوں کو میں نے کی ہے اور کرتا ہوں اور آئندہ بھی جہاں رہوں گا، ضرور کروں گا۔ اگر یہ بغاوت ہے تو میں پکارے کہتا ہوں کہ میں باغی۔ سرکاو کو اختیار ہے مجھے قید کرے مگر انشاء اللہ وہاں بھی قیدیوں کو نصیحت کرتا رہوں گا۔ سرکار شہنشاہ زبردست اور میں اس کی ایک ادنیٰ رعیت، میرے واسطے ایسی کارروائی کی کیا ضرورت ہے۔
اگر کچھ اشتباہ پیدا ہوا ہے تو مجھ کو طلب کرے میں جوابدہی کو اور اگر قصور ثابت ہو تو سزا کو حاضر ہوں۔
مگر ابنائے جنس کی نظر میں ناحق نکو بنانا مشتبہ ٹھہرنا شیوئہ انصاف سے بہت بعید ہے۔ کوتوال یہ سب باتیں چپ بیٹھا ہوا سنتا رہا اور آخر بولا تو یہ بولا کہ میں ارادت مندانہ اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ جب حضرت کا ارادہ تین چار مہینے بعد خود رام پور روانہ ہونے کا ہے۔ اگر ابھی قصد فرمائیے تو مناسب۔ یہاں کا اگر کوئی کام ہو تو مجھ کو سپرد کر جائیے۔
انشاء اللہ اس کا سرانجام خاطر خواہ میرے ذمے۔ میرمتقی نے سمجھا کہ اب ٹھہرنا مصلحت نہیں اور زیادہ کاوش کرنے سے بھی حاصل نہیں فوراً سفر رام پور کا ارادہ کر دیا۔ غیرت بیگم باپ کے مرنے پر تو کیا روئی تھی جیسا کہ چچا کے جانے کا اس نے ماتم کیا۔ مبتلا کے خیالات میں بھی تھوڑے ہی دنوں میں اتنا فرق پڑ گیا تھا کہ اس کو بھی چچا کے چلے جانے کا رنج ہوا۔
میرمتقی نے ہر ایک کو اس کی جگہ تسلی دی۔ چلتے چلتے مبتلا سے اتنا کہہ گئے کہ سید حاضر کے خیالات بہت راستے پر آگئے ہیں۔ اگر تم ان سے مشورہ لو گے تو امید ہے کہ نیک صلاح کے دینے میں دریغ نہ کریں گے یا میاں عارف جن کو تم میرے پاس اکثر دیکھتے تھے، تمہارے ہی مدرسے کے طالب علم ہیں۔ بڑے اچھے دل کا لڑکا ہے۔ ہے تو تمہارا ہم عمر مگر استعداد اور معلومات کے اعتبار سے پورا مولوی ہے، بڑی خوبی اس میں یہ کہ اس کے خیالات حکیمانہ اور شگفتہ ہیں۔ میں نے اس سے بھی بتاکید کہہ دیا ہے اور وہ ہفتے میں ایک دو بار تمہارے پاس آیا کریں گے۔ تم بھی رابطہ بڑھا لینا ان سے تم کو سب طرح مدد ملے گی۔
#…#…#
سولہواں باب: میرمتقی کے بعد مبتلا کی حالت
مبتلا کی تو اس وقت بعینہ ایسی مثال ہو گئی کہ ایک مریض مرض مہلک میں گرفتار ایک طبیب حاذق نے اس کا علاج شروع کیا ارادہ تھا کہ منبضح ہوں۔منبضحوں کے بعد مسہل۔ مسہلوں کے بعد تبرید پھر معجونات کا استعمال کرایا جائے۔ ابھی ابتدائی مرحلے بھی پورے نہ ہونے پائے تھے کہ طبیب صاحب تشریف لے گئے۔
سید اگرچہ اس کا پھوپھی زاد بھائی تھا مگر رشتہ داری کے جھگڑوں کے سبب ایک دوسرے کے ساتھ اُنس نہ تھا۔ رہ گئے میاں عارف مولوی تھے حکیم تھے، شگفتہ خیال تھے سب کچھ تھے مگر مبتلا کے چچا نہ تھے۔ مبتلا کو ان کا کیا لحاظ اور ان کو مبتلا کا کیا درد، پھر بھی بے چارے نے خدا ان کو جزائے خیر دے۔
میرمتقی کے کہنے پر اتنا تو کیا کہ پیر کے پیر جمعے کے جمعے مبتلا کے پاس آتے اور گھنٹے دو گھنٹے بیٹھ کر چلے جاتے، اسی طرح مبتلا بدھ کے بدھ اور اتوار کے اتوار عارف کے گھر جاتا اور یوں ایک دن بیچ دونوں کی ملاقات کا سلسلہ بندھ گیا اس سے اتنا تو ہوا کہ مبتلا کے پرانے یار دوستوں کو اس پر احاطہ کرنے کا موقع نہ ملا اور جس دُھرّے پر چچا نے اس کو لگا دیا تھا، اس پر تھوڑا چلا، سست چلا، بدیرچلا، دین داری میں اگر سچ پوچھو تو مبتلا نے ترقی نہیں کی مگر اس کا سنبھلا رہنا بھی غنیمت ہوا کہ پھر اس نے آوارگی نہیں کی، وہ نماز بھی پڑھ لیتا تھا مگر گنڈھے دار۔
اب دین کی باتوں کا اگر اہتمام نہیں کرتا تھا تو پہلے کی طرح ان پر ہنستا بھی نہ تھا، اس کی ظاہری وضع میں بھی اگلی سی سخاوت باقی نہ تھی۔
جب سے باپ مرے اس نے گھر میں سونا بالکل چھوڑ دیا۔ چچا کے آنے سے وہ پھر گھر میں سونے لگا تو ان کے چلے جانے کے بعد وہی معمول رکھا۔ غرض مبتلا دین دار نہیں تو ایک خانہ دار بھلا آدمی بن گیا تھا جیسے اکثر لوگ ہوتے ہیں مگر حسن پرستی کی ہڑک ہر روز دو ایک بار اس کو ابھرتی رہتی تھی۔
#…#…#
سترہواں باب:حسنِ صورت پر مبتلا اور عارف کا مباحثہ
ایک دن ایسا اتفاق ہوا کہ عارف کے آنے کا وقت تھا اور مبتلا بیٹھا ہوا، ان ہی کی راہ دیکھ رہا تھا۔ بیٹھے بیٹھے اسی حسن پرستی کے خیال میں ایسا محو ہوا کہ عارف سر پر آ کھڑے ہوئے اور اس نے عادت کے مطابق نہ تو ان کا استقبال کیا اور نہ کھڑے ہو کر ان کو تعظیم دی۔
جب عارف نے جھک کر السلام علیکم کہا تب سٹ پٹا کر کھڑا ہونے لگا۔ مگر عارف بیٹھ چکے تھے۔ انہوں نے ہاتھ پکڑ کر اپنے برابر بٹھا لیا اور پوچھا کہ خیر ہے آج کس خیال میں مستغرق تھے۔ مبتلا نے ٹالنا چاہا، عارف نے اصرار کیا نہیں کوئی بات تو ضرور ہے جس کو تم اس قدر غور کے ساتھ سوچ رہے تھے۔
مبتلا: غور کے بارے میں تو چچا نے مجھ پر بڑی سخت تاکید کی ہے۔
عارف: بلاشبہ ان کا فرمان درست ہے۔ غور کے معنے کیا ہیں۔ عقل سے کام لینا اور انسان نے اگر عقل ہی سے کام نہ لیا تو اس میں اور دوسرے حیوانات میں کوئی مابہ الامتیاز نہیں، مگر پوچھنے سے میری غرض یہ تھی کہ اگر وہ بات مجھ پر ظاہر ہو تو جہاں تک مجھ سے ممکن ہو تمہاری مدد کروں۔ تمہارے چچا نے جن کو میں اپنے والد کی جگہ سمجھتا ہوں تم سے غور کرنے کو کہا اور مجھ سے تمہاری مدد کرنے کو۔
پس تم اگر ان کے کہنے کے پرغور کرتے ہو تو ان ہی کے ارشاد کے موافق مجھ سے مدد بھی لو۔
مبتلا: جس بات کو میں سوچ رہا تھا اکثر سوچا کرتا ہوں مگر ابھی تک کچھ سمجھ میں نہیں آیا تاہم اتنا تو جانتا ہوں کہ آپ سے اس میں کچھ مدد ملنے کی توقع نہیں۔
عارف: جب تک تم اس بات کو مجھ سے بیان نہ کرو اور میں جواب نہ دے دوں کہ میں کچھ نہیں کر سکتا۔
اس وقت تک تم کو میری مدد سے ناامید ہونے کا کوئی محل نہیں۔
مبتلا: اچھا تو آپ مدد کرنے کا وعدہ کرتے ہیں۔
عارف: اجی تم سے کیا وعدہ کروں گا میں تو وعدہ کر چکا ہوں۔ جناب میرمتقی صاحب سے۔
مبتلا: اس خاص بات کا اس وقت تک کچھ مذکور نہ تھا۔
عارف: جناب میر صاحب نے کسی بات کا مذکور نہیں کیا، عام طور پر تمہاری مدد کرنے فرمایا اور میں نے اس کو تسلیم کیا۔
اس سے بڑھ کر اور وعدہ کیا ہو گا۔
مبتلا: آپ کو میرے خانہ داری کے حالات معلوم ہیں۔
عارف: جس قدر حالات جناب میر صاحب کو معلو م تھے۔ مجھ کو معلوم ہیں۔
مبتلا: چچا باوا نے آپ سے میری خانہ داری کے بارے میں کبھی کچھ کہا تھا۔
عارف: اکثر اس بات کا سخت افسوس کیا کرتے تھے کہ بی بی کے ساتھ تمہارا معاملہ درست نہیں۔
مبتلا: نادرستی معاملہ سے ان کی کیا مراد تھی۔
عارف: مراد یہ تھی کہ تم کو بی بی کے ساتھ انس نہیں محبت نہیں۔
مبتلا: بھلا اس کا کچھ سبب بھی انہوں نے بیان کیا تھا۔
عارف: ہاں یہ فرماتے تھے کہ تمہارے مزاج میں آوارگی ہے۔ حسن پرستی کے مزے پڑے ہوئے ہیں، دل میں یہ خبط سما رہا ہے کہ میں حسین ہوں، بی بی نظروں میں بھرتی نہیں۔
مبتلا: کیا چچا باوا اس بارے میں کچھ بھی کرنے کو تھے۔
عارف: بیشک فرماتے تھے کہ مطالب کو تو میں نے اپنے ذہن میں ترتیب دے لیا ہے۔ اب موقع کی تاک میں ہوں۔
مبتلا: شاید ان کا ارادہ تھا کہ اس پر بھی کوئی وعظ کہیں مگر بھلا ہو اس کی نوبت نہ آئی ورنہ چارو ناچار مجھ کو مخالفت کرنی پڑتی۔
عارف: کچھ تم نے پہلے وعظ کی مخالفت کی ہو گی کہ اس کی کرتے۔
مبتلا: پہلے وعظ میں چچا باوا نے کسی بات میں واقعات کی مخالفت نہیں کی۔ اس سے میں نے ان کی مخالفت نہیں کی مگر میری سمجھ میں نہیں آتا کہ خوبصورت کے بارے میں وہ کہتے تو کیا کہتے۔
عارف: میں نہیں کہہ سکتا کہ کیا کہتے مگر اتنا انہوں نے ضرور کہا تھا کہ جس قدر اس کی حسن کے ساتھ فریفتگی ہے انشاء اللہ اسی وقت نفرت کرنے لگے تو سہی۔
مبتلا: (چونک کر) میں اور حسن سے نفرت تو یوں کہیے کہ میرے سر سے دماغ کو اور دماغ سے عقل کو اور عقل سے سلامت کو سب کو سلب کر لینے کی فکر میں تھے۔ بھلا آپ چچا باوا کے اس ارادے کی نسبت کیا خیال کرتے ہیں؟
عارف: میں تو جناب میر صاحب کی شان کو اس سے بہت ارفع سمجھتا ہوں کہ غلط بات ان کے منہ سے نکلے یا ان کے کلام میں مبالغہ ہو۔ ان کو خدا نے علم کی، دینداری کی، خلوص کی، خیرخواہی خالق کی، گویائی کی بہت سی قوتیں دی ہیں۔
میرا عقیدہ تو یہ ہے کہ انہوں نے چھٹانک بھر کو کہا تو من بھر کر دکھاتے۔ مگر افسوس ہے کہ یکایک ان کا چلنا ٹھہر گیا۔
مبتلا: آپ بھی تو ان کے شاگرد رشید ہیں۔ حسن سے نفرت نہیں تو خیر اتنا کیجیے کہ کسی طرح میری یہ شورش تو فرو ہو کہ مجھے اس تصور میں نہ رات کو نیند ہے نہ دن کو قرار ہے۔
یہ کیا بلا میرے سر پر سوار ہے۔
عارف: کبھی تم نے اس بات پر غور کیا ہے کہ حسن کیا چیز ہے۔
اور لوگوں کو اس قدر فریفتگی حسن کے ساتھ کیوں ہے۔
مبتلا: یہ تو کوئی غور کرنے کی بات نہیں ہے۔ مرد، عورت، بوڑھا، جوان، شہری خواندہ ناخواندہ ہر شخص جانتا اور سمجھتا ہے کہ خوبصورتی اس کو کہتے ہیں۔ تفصیل پوچھئے تو تمام شاعروں نے معشوقوں کے سراپا لکھے ہیں۔ آپ کی نظر سے بھی تو ضرور گزرے ہوں گے۔ رضا لکھنوی کا سراپا مرقع خوبی میرے نزدیک سب سے بہتر ہے۔
اس سراپا میں کئی باتیں خاص ہیں۔
اول تو سر سے لے کر ناخن پا تک کسی عضو کو نہیں چھوڑا۔ دوسرے مردوں کا سراپا الگ ہے اور عورتوں کا الگ، تیسرے اعضاء کی ساخت کے علاوہ ان کی حرکات کی خوبیاں بھی بیان کی ہیں۔ چوتھے حسن خلقی اور حسن مصنوعی کا تفرقہ بڑے عمدہ طور پر دکھایا ہے۔ غرض جو کچھ شعراء کے سراپاؤں میں ہے وہی حسن ہے اور یہ جو آپ نے پوچھا کہ لوگوں کو اس قدر فریفتگی حسن کے ساتھ کیوں ہے تو یہ میرے نزدیک انسان کی طبیعت کا خاصا ہے اور اس کے واسطے سوائے اس کے کہ آدمی کی طبیعت ہی خلقتاً حسن کی طرف راغب واقع ہوئی ہے اور کوئی وجہ درکار نہیں۔
آپ کا یہ سوال بجنسہ اسی طور کا ہے جیسے کوئی پوچھے کہ کہربا گھاس کو اور مقناطیس لوہے کو کیوں کھینچتا ہے یا آگ کیوں جلاتی ہے۔
عارف: شعراء نے جو خیالات سراپاؤں میں ظاہر کیے ہیں، آپ کو سمجھ میں آتا ہے کہ ان کا ماخذ کیا ہے۔
مبتلا: میرے نزدیک ان تمام خیالات کا ماخذ وہی طبیعت انسانی ہے جو حکم کرتی ہے کہ اس عضو کو اس وضع اور اس ساخت اور اس انداز کا ہونا چاہیے۔
عارف : ہاں۔ لیکن اگر یہ خیالات طبعی ہوتے تو ضرور تھا کہ سب آدمیوں کے ایک ہی طرح کے ہوں۔ کیوں کہ آدمی آدمی انسانیت میں سب یکساں ہیں تو اس کے یہی معنی ہیں کہ طبیعت انسانی یکساں ہے اور طبیعت یکساں ہوتی تو چاہیے تھا کہ سب کے تقاضے یکساں ہوں۔ مگر ہم دیکھتے ہیں جو ایک کے نزدیک مطبوع ہے۔ دوسرے کے نزدیک مکروہ۔ مثلاً بڑی خوبصورتی رنگ کی ہے۔
کہتے بھی ہیں ایک رنگ ہزار ڈھنگ، لیکن رنگ کے بارے میں مذاق اس قدر مختلف ہیں کہ گورا، سرخ و سفید، گندم گوں۔ متلح، چمپئی وغیرہ کتنی قسم کے رنگ ہیں۔ جن کے پیچھے ہمارے ملک کے لوگ سر دھنتے ہیں۔
لیکن فرض کرو کہ ان رنگوں میں سے کسی رنگ کا آدمی افریقہ میں جا نکلے تو وہاں اس کی کیسی قدر ہو گی جیسی کہ ہمارے یہاں جذامی کی یامبروص کی۔ افریقہ کے باشندے بھی آدمی ہیں ان کی طبیعتوں میں بھی ایسے ہی جوش اور ایسے ہی ولولے پائے جاتے ہیں۔
عشق و محبت ان میں بھی ہے۔ ان میں بھی حسین ہیں مگر ان کے سراپا تمہارے سراپا سے بالکل مختلف۔ خاص خاص اعضاء کی نسبت بھی مذاقوں کے اختلاف کا یہی حال ہے۔ ہم پسند کرتے ہیں بالوں کی سیاہی جس کو ہمارے شعراء تشبیہہ دیتے ہیں، شب دیجور سے، کالی گھٹا سے، مارسیاہ سے، عاشق کی تیرہ بختی سے، ظلمات سے، اور اہل یورپ چاہتے ہیں بھورے سے بال، سونے سے ہم رنگ۔
ہم ڈھونڈتے ہیں آنکھ ہوتی چور جس کی پتلی سیاہ ہو صاحب لوگ نیلی کرمجی چینیوں کی نسبت مشہور ہے کہ کمانیاں چڑھا چڑھا کر ناک کو بیٹھا چھوڑا کیونکہ ان کے نزدیک ناک کی اٹھان سے چہرہ ناہموار ہوتا تھا۔ عورتوں کے پاؤں کو کیسا شکنجے میں کسا کہ کھڑے ہونے سے ان کا مرکز ثقل ہی ٹھکانے پر نہیں رہتا۔ ناچار گر گر پڑتی ہیں۔ ہمارے یہاں دانتوں کا وصف ہے صفائی اور چمک۔
چینیوں میں تیرگی اور سیاہی افریقہ میں عورتیں دانتوں کو سوہن کرا کے آرے کا ہم شکل بناتی ہیں۔ انگریزنیاں ساری دنیا کی عورتوں پر ہنستی ہیں کسی کے گہنے پر کسی کے لباس پر کسی کے پاؤں کی بندش پر کسی کے بناؤ سنگھار پر اور خاص کر چینیوں پر اور ان کا کہنا یہ ہے کہ انسان کی اصلی خوبصورتی اس کی قدرتی بناوٹ میں ہے۔ مگر جس وقت اپنی بہنوں پر جو دوسرے ملکوں کی رہنے والیاں ہیں ہنستی ہیں۔
ان کو اپنی کمر یاد نہیں رہتی۔ مختلف ملکوں کی تاریخیں اور جغرافیے پڑھو تو معلوم ہو کہ حسن کی نسبت لوگوں کے خیالات کس قدر مختلف ہیں۔ قومی اختلاف سے اتر کر شخصی اختلاف پر آؤ تو ہر جگہ وہی معاملہ ہے کہ لیلیٰ را بچشم مجنوں بایددید۔
غرض جہاں تک غور کیا جاتا ہے حسن کا کوئی مفہوم معین نہیں ٹھہرتا۔ پس مفہوم حسن کو انسان کا طبعی خیال سمجھنا غلط ہے بلکہ وہ ایک شخصی خیال ہے۔
مبتلا: یہ تو ایک لفظی بحث ہے۔ حسن کی نسبت میرا خیال طبعی یا شخصی ہو تو نتیجہ واحد ہے کہ مجھ سے بدون حسن کے صبر نہیں ہو سکتا۔
عارف: واہ واہ لفظی بحث کی بھی خوب کہی۔ اجی حضرت یہ تو علم الاخلاق کا ایک بڑا ضروری مسئلہ ہے۔ جتنی باتیں طبعی ہیں یعنی تقاضائے طبیعت انسانی سے سرزد ہوتی ہیں۔ کسی کے روکے رک نہیں سکتیں۔ ان کی تبدیلی میں کوشش کرنا محض لاحاصل ہے اور مطلق بے سود، مگر نہیں بلکہ افراد خاص اپنے اوپر لازم کر لیتے ہیں۔
اگرچہ ان ادعائی ضرورتوں کا تقاضا کبھی ضرورتوں سے بھی زیادہ سخت ہوتا ہے۔ مگر پھر بھی چونکہ تقاضائے طبیعت نہیں ہے اس کی شورش کو فرو اس کی تیزی کو مدھم کرنا ممکن ہے۔ مثلاً مطلق کھانا پینا تقاضائے طبیعت انسانی ہے اور کسی تدبیر سے یہ خواہش دفع نہیں ہو سکتی۔ مگر خاص قسم یا خاص ذائقے یا خاص کیفیت کے کھانے کا التزام تقاضائے طبیعت انسانی سے خارج ہے۔
جو لوگ شراب یا افیوں یا مدک یا چنڈو یا گانجے یا چرس یا تاڑی یا حقے یا کسی قسم کے نشے کی عادت ڈال لیتے ہیں۔ اس کی طلب میں ایسے بے قرار ہو جاتے ہیں جیسے بھوبھل میں مچھلی تاہم یہ ایک ضرورت ہے جس کو ان کی طبیعت شخصی تقاضا کرتی ہے نہ طبیعت انسانی۔ اسی طرح خداوند تعالیٰ کی حکمت کاملہ نے نوع انسان کے باقی رہنے کے لیے ایک قاعدہ ٹھہرا دیا ہے کہ دو طرح کے آدمی بنائے۔
مرد اور عورت اور دونوں کے لیے عمر کا ایک وقت مقرر کر دیا کہ جب اس حد پر پہنچیں تو دونوں میں از خود ایک دوسرے کی طرف رغبت پیدا ہو۔ بس یہاں تک اور صرف یہیں تک تقاضائے طبیعت انسانی ہے۔ جیسے مطلق غذا اور اس سے بڑھ کر جس طرف رغبت کرتا ہے، پورا یا ادھورا رند کے سراپا کا مصداق ہو کر از قبیل نشہ ہے۔ جہاں انسان کے اور ہزار ہا لغویات ہیں کہ شاید دس ہزار آدمیوں میں ایک بھی ان سے محفوظ نہیں۔ ایک طرح کی لغویات حسن پرستی بھی ہے۔ بھلا کوئی مجھ کو اتنا تو سمجھا دے کہ طبیعت انسانی جس رغبت کا تقاضا کرتی ہے۔ اس سے اور رند کے یا کسی دوسرے شاعر کے سراپا سے کیا مناسبت۔
مبتلا: میں ایسا سمجھتا ہوں کہ اسی رغبت میں جس کا طبیعی ہونا آپ تسلیم کرتے ہیں۔ سراپا کو ایسا مدخل ہے جیسا غذا میں مسالے کو۔
عارف: بالکل غلط۔ مسالہ جزو غذا ہوتا ہے داخل غذا اور خود غذا۔
مبتلا: حسن کی نسبت آپ کی رائے تمام دنیا کی رائے کے خلاف ہے اور اگرچہ بادی النظر میں آپ کی دلیل لا جواب معلوم ہوتی ہے۔ مگر چونکہ فی الواقع ایک عالم فریفتہ حسن ہے اور ازاں جملہ میں بھی ہوں گو آپ کو قائل نہ کر سکوں۔
تاہم دل ہے کہ حسن کے تصور سے پگھلا جاتا ہے۔
عارف: اگر دنیا عبارت ہے ان لوگوں سے جن کو تمہاری طرح حسن پرستی کا خبط ہے تو بلاشبہ تمہارا کہنا درست ہے مگر زیادہ نہیں تو اپنی ہی معرفت کے مثلاً دس گھر معین کرو اور دیکھو کہ ان میں کتنے آدمی ہیں پھر ان میں اپنے جیسے عاشق مزاج منتخب کرو تب تم کو معلوم ہو کہ جنون عشق عالمگیر ہے یا نہیں اور ایک بات میں تم سے اور بھی کہتا ہوں کہ یہ تمام خرمستیاں پیٹ بھرے کی ہیں۔
دوسرے یہ روگ اکثر شہریوں ہی کو ہوتے دیکھا اور تم نے اپنے دل کا جو حال بیان کیا اس کو میں مانتا ہوں لیکن بُرا مت ماننا۔ مدرسے کے تمام طالب علموں میں تم سب سے زیادہ معروف و مشہور تھے مگر کس بات میں مدرسے کے چند آوارہ اور بد وضع نوجوان لڑکے تمہاری محبت کا دم بھرتے تھے اور انہوں نے گفتار سے کردار سے یہ بات تم پر ثابت کر دی تھی کہ تم بھی حسین ہو۔
آدمی قربہ شود ازراہ گوش سنتے سنتے وہ خیال تمہارے ذہن میں راسخ ہو گیا۔ جب خود جوان ہوئے اس خیال کا پیرایہ بدل گیا:
عاشق ہوئے ہیں آپ بھی ایک اور شخص پر
بارے ستم کی کچھ تو مکافات چاہیے
مبتلا: آپ مولوی ہو کر آداب مناظر کا لحاظ نہیں رکھتے۔ آپ کا دعویٰ یہ ہے کہ حسن کی نسبت لوگوں کے خیالات طبعی نہیں بلکہ شخصی ہیں اور اس دعویٰ کے اثبات میں آپ میری خاص حالت سے استدلال کرتے ہیں۔
دعویٰ عام ہے اور دلیل خاص۔ دنیا میں ہزار ہا آدمی حسن پرست ہیں تو کیا سب کی حسن پرستی کا یہی سبب ہو سکتا ہے کہ میری طرح وہ بھی حسین ہیں۔
عارف: تم نے اچھی طرح خیال نہیں کیا۔ جیسا میرا دعویٰ عام ہے۔ ویسی ہی میری دلیل بھی عام ہے اور تمہارا تذکرہ تمثیلاً تھانہ استدلالاً میری دلیل یہ ہے کہ حسن کی نسبت مختلف ملک کے باشندوں اور مختلف قوموں اور مختلف شخصوں کے مذاق مختلف ہیں اور اگر طبعی ہوتے تو مختلف نہ ہوتے۔
مبتلا: آپ کی دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ اتمتضاتِ طبیعت انسانی تمام دنیا میں یکساں ہیں۔ مگر میرے سمجھنے میں تو یہ بات درست نہیں معلوم ہوتی۔ میں دیکھتا ہوں کہ روئے زمین کے مختلف قطعات میں مختلف طور پر کی آب و ہوا اور مختلف طور کی پیداوار ہے اور آب و ہوا اور پیداوار کے اختلاف سے باشندوں کے طبائع کا مختلف ہونا ضروری ہے۔ چنانچہ بعض ملکوں کے لوگ آرام طلب ہوتے ہیں او ربعض کے جفاکش۔
بعض کے غصیلے زودرنج بعض کے متحمل اور بردبار، بعض کے بہادر دلیر بعض کے بزدل ڈرپوک بعض کے سیدھے سادھے بعض کے مفسد چالاک اور بایں ہمہ یہ سب خصائص طبعی سمجھے جاتے ہیں۔ اسی طرح حسن کی نسبت لوگوں کے مذاق چاہے مختلف ہوں مذاقِ حسن پھر بھی طبعی ہی کہا جائے گا۔
عارف: جن خصائص کے اختلاف پر تم مذاقِ حسن کے اختلاف کو قیاس مع الفازق کرتے ہو وہ خصائص طبعی اور کیمیائی ہیں۔
آب و ہوا اور غذا کی حرارت اور برودت اور رطوبت اور پیوست خون پر اثر کرتی ہے۔ گرم ملکوں کے لوگوں کے مسامات کشادہ، خون گرم اور رقیق اور اس کی گردش تیز اور سرد ملکوں میں اس کے بالکل خلاف اور یہی وجہ ہے کہ گرم ملکوں کے لوگ آرام طلب، غصیلے اور بزدل اور ذہین ہوتے ہیں۔ لیکن آب و ہوا کو اس طرح کا دخل مذاق حسن میں ہو نہیں سکتا اور اگر ہے تو اس کا ثابت کرنا تمہارا کام ہے۔
ہاں اگر یہ کہو کہ بعض گرم ملکوں کے لوگوں میں تو الدوتناسل کی رغبت جلد پیدا ہوتی ہے یا وہ لوگ اس رغبت پر زیادہ حریص ہوتے ہیں تو میں اس کو مانتا ہوں۔ کیونکہ مطلقاً اس رغبت کا طبعی ہونا مجھ کو تسلیم ہے، رہی عجلت اور حرص دونوں حرارت کے آثار کیمیائی ہیں۔ مگر ہر پھر کر وہی بات آئی کہ اس رغبت طبعی کو شاعروں کے سراپا سے کہ وہی حسن ہے کیا تعلق؟ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کوئی شخص دوسرے شخص کے کسی عضو کو بسبب بے غرض بے مطلب کیوں اچھا یا برا کہہ سکتا ہے۔
مثلاً تمہاری ناک سے اگر کسی کی کوئی غرض متعلق ہو سکتی ہے تو وہ تم ہی ہو کہ تم اس سے سونگھتے یا سانس لیتے ہو۔ اگر تمہاری ناک تمہارے کام اچھی طرح دیتی ہے تو وہ اچھی ہے مگر تمہارے لیے۔ میرا کون سا مطلب تمہاری ناک سے اٹکا ہے کہ میں اس کو اچھا یا برا سمجھوں اور یہی حال ہے تمام سراپا کا جس کے پیچھے رند نے جز کے جز سیاہ کیے ہیں۔ غرض تم کو دو باتیں ثابت کرنی چاہئیں۔
اول یہ کہ مذاق حسن تقاضائے طبیعت انسانی ہے۔ دوسرے یہ کہ توالدوتناسل کی رغبت طبعی میں اس کو دخل ہے۔
مبتلا: کبھی تو میں اس بات کو سوچ رہا ہوں کہ لوگوں میں مذاقِ حسن مختلف کیوں ہیں؟
عارف: میں نے ان باتوں کو برسوں سوچا ہے۔ آخر اس بات سے دل کو تسلی ہو گئی کہ حسن صورت فی نفسہ کوئی چیز نہیں پھر یہ خیال پیدا ہوا تو کہاں سے پیدا ہوا۔
پہلے ذہن اس طرف منتقل ہوا تھا کہ شاید حسن کا ماخذ علم قیافہ ہو یعنی انسان کی روح اور جسم میں ایک تعلق ہے، ایسا کہ اعضاء کی ساخت اور وضع سے اس کے دلی خیالات اور اخلاق پر استدلال کیا جاتا ہے۔
لوگوں نے تجربے سے اس تعلق کو دریافت کر کے جمع کیا۔ علم قیافہ کے بڑے ماہر ہوتے ہیں۔ آدمی کے اعضاء کی بناوٹ سے اس کے خصائص طبیعت کو پہچان جاتے ہیں۔ عجب نہیں کہ اعضاء کی جو وضع محاسن اخلاق پر دلالت کرتی ہو۔ اس کو اچھا سمجھنے لگے ہوں۔ لیکن جن لوگوں کے حسن کا بڑا چرچا ہے۔ ان کو دیکھا تو من حیث الاخلاق سب سے بدتر پایا۔ معلوم ہوا کہ علم قیافہ تو حسن کا ماخذ نہیں ہو سکتا۔
آخر غور کرتے کرتے یہ بات سمجھ میں آئی کہ جس طرح اب لوگوں میں اعلیٰ اور ادنیٰ اور شریف اور وضیع اور خواص اور عوام کا تفرقہ ہے۔ ایسا ہی ابتدائے دنیا میں سب لوگ تو یکساں حالت میں نہیں رہے ہوں گے۔ جسمانی قوت یا اعوان و انصار کی کثرت یا کسی دوسری وجہ سے بعض لوگ ضرور اکابر قوم سمجھے جاتے ہوں گے اور قاعدہ یہ ہے کہ جس کو انسان اپنے سے بہتر اور برتر سمجھتا ہے۔
اس کی سبھی باتیں اس کو بھلی معلوم ہوتی ہیں۔ یوں سب سے پہلے حسن کا خیال پیدا ہوا تو عجب نہیں اور پھر تو مثل دوسرے خیالات کے یہ خیال بھی متوارث ہوتا چلا آیا اور یہی سبب ہے ملکوں میں مذاق حسن کے مختلف ہونے کا کہ ہر ملک میں جو شخص سب سے بہتر اور برتر تھا لوگوں نے اس ہی کو نمونہ حسن قرار دے لیا۔ تم نے نپولین شاہ فرانس کی تصویر تو دیکھی ہو گی۔
اس کی داڑھی تھی چگی اور داڑھی کی خوبصورتی ہے بھری ہوئی گول مگر نپولین کے دیکھا دیکھی سارے فرانس نے اپنی داڑھیاں چگی کر لیں اور اسی کو شعار خوبصورتی ٹھہرا لیا اور چگی داڑھی کا نام رکھا امپیریل بیرڈ یعنی شاہانہ داڑھی۔ ہم لوگوں میں جو انگریزی وضع کھانے میں پینے میں لباس میں نشست و برخاست میں طرزِ تمدن میں ہر چیز میں وبا کی طرح پھیلتی جا رہی ہے۔
اس کی بھی یہی وجہ ہے کہ انگریز ہیں وقت کے حاکم اور ان کی تمام ادائیں خوشنما لگتی ہیں اور ہم لوگوں کے مذاق ہیں کہ دن بدن انگریزی طور کے ہوتے چلے جاتے ہیں بغیر خلقت تو اختیاری بات نہیں مگر رفتہ رفتہ مہندی اور وسمے کے عوض ہمارے یہاں کے بڈھے انڈے کی زردی کا خضاب تو ضرور کرنے لگیں گے۔ حسن کی نسبت شخصی مذاقوں کی تاویل چنداں مشکل نہیں۔ ایک شخص میں تمام محاسن صورت کا جمع ہونا تو کمیاب ہے۔
اکثر یوں ہی ہوتا ہے کہ بڑے سے بڑے حسینوں میں بھی دوچار نقص ضرور ہوتے ہیں۔ اب یہ پسند کرنے والے کی تجویز پر منحصر رہا کہ چاہے جس پہلو کو ترجیح دے۔ بعضے رنگ پر مرتے ہیں اور بعضے نقشے کی نزاکت پر نظر کرتے ہیں۔ بعض حسن داد کے خریدار ہیں اور بعض دام زلف کے گرفتار۔
مبتلا: حسن اگر خصائص انسانی سے ہوتا تو جو ماخذ آپ نے بیان کیا بلاشبہ قابلِ تسلیم تھا۔
جمادات نباتات حیوانات غرض تمام موجودات میں کوئی چیز حسن سے خالی نہیں۔ والد مرحوم زندہ تھے کہ ایک مقدمے کی پیروی کے لیے انہوں نے ناظر بھائی کو گرمیوں کے دنوں میں نینی تال بھیجا اور مجھ کو ان کے ساتھ کیا تو پہاڑ دھندلا دھندلا کئی منزل سے نظر آتا تھا مگر تین چار کوس کے فاصلے سے تو ہم اس کو اچھی خاصی سموچا دیکھنے لگے۔ وہ صبح کا وقت اور پہاڑ کی چوٹیوں پر سفید براق برف گویا سنگھار میز پر بڑا قد آدم آئینہ لگا ہے کہ آفتاب سوتا اٹھ کے پہلے شبنم سے منہ دھوئے اور پھر اپنا چہرہ اس آئینے میں دیکھے اور چوٹیوں کے گردا گرد جب شفق کی سرخی اور دامانِ کوہ کی سبزی پر آنکھ پڑتی تھی تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ایک نازنین گلابی دوپٹہ اوڑھے اور ہری پشواز پہنے غور سے کھڑی ہوئی آس پاس کی چیزوں کی سیر دیکھ رہی ہے۔
شروع میں تھوڑی دیر تک تو اس کا شعور تھا کہ واقع میں پہاڑ ہے اور ہماری قوت متخیلہ نے اس کو نازنین اور شفق و سبزے کو اس کا لباس بنا لیا ہے۔ مگر آفتاب کی کرن نکلتے ہی اوپر برف کے کنارے اور نیچے ندی نالے سارے جگمگا اٹھے جیسے عباس سچا گوٹا۔ اب تو جو خیال تھا وہ حقیقت الحال ہو گیا، قوتِ نامیہ کا ہر طرف یہ زور و شور کہ ایک چپہ بھر جگہ سبزئہ خودرو سے خالی نہیں۔
شاعر تو سبزے کو خوابیدہ باندھتے ہیں مگر وہاں کا سبزہ بیدار۔ ہوا کے جھونکوں سے ہر وقت متموج۔ بلاتصنع اس وقت تو یہی خیال میں آتا تھا کہ ہوا کے گدگدانے سے پہاڑ کے پیٹ میں ہنسی کے مارے بل پڑ پڑ جاتے ہیں۔ دونوں ہاتھوں سے پگڑی سنبھال کر درختوں کو دیکھو تو ایسا شبہ ہو کہ آسمان کی چھت بہت پرانی ہو چکی تھی۔ شاید اس کی دراڑیں ہیں۔ رنگ رنگ کے جانور پھدک پھدک کر اِدھر سے اُدھر اس طرح اڑتے پھرتے تھے کہ گویا جگہ جگہ چوتھیاں کھیلی جا رہی ہیں غرض ہر چیز پر ایک قدرتی جوبن تھا کہ جی بے اختیار لوٹا چلا جاتا تھا۔
ایسے کسی موقع پر آپ کے جانے کا اتفاق ہو تو آپ کو معلوم ہو کہ حسن ایک کیفیت خداداد ہے۔ ہر جگہ ہے اور ہر چیز میں ہے۔ اسی نینی تال کے راستے میں ایک ندی ملی تھی۔ دنیا کی تمام صنعتیں تمام دست کاریاں جس غرض سے ہیں، صرف اتنی ہی بات کے لیے کہ چیزوں میں حسن پیدا ہو۔ کسی انگریزی شاپ (دکان) میں میرے ساتھ چلیے۔ تو میں آپ کو دکھا دوں کہ صرف مکان کی آرائستگی کے لیے کیسا کیسا، اسباب انگریزوں کی ولایت سے بن کر چلا آرہا ہے۔
زندگی کے تمام سازوسامان میں کون سی چیز ہے جس میں خوبی نہیں اور یوں آدمی آنکھوں پر ٹھیکری دھر لے اور ہدایت کا انکار کرے تو اس کا علاج نہیں۔ حسن کو تقاضائے طبیعت ماننا آسان ہے یا ایک عالم کو مجنوں اور مبتلائے خبط۔
عارف: بات کو بہت طول ہوتا جاتا ہے اور حجت اور تقریر سے لکھی کسی بات کا تصفیہ ہوا نہیں اور مدت العمر کے جمے ہوئے خیال کا دفعتاً دل سے نکالنا بھی مشکل۔
میں تم کو اتنی نصیحت کرتا ہوں کہ جو کچھ میں نے کہا ہے۔ اس کو مختلف اوقات میں تم خود سوچو اور میں نے بھی یہی کیا تھا کہ مدتوں خود غور کرتا رہا۔ یہ تو میں نہیں کہہ سکتا کہ آخر کار تم میری رائے کے ساتھ اتفاق کرو گے یا نہ کرو گے مگر اس کا تو مجھ کو پورا یقین ہے کہ انشاء اللہ تمہاری یہ شورش تو ضرور فرو ہو جائے گی جس طرح تم دوسری چیزوں کا استحسان کرتے ہو۔
یعنی مثلاً نینی تال کی سیر سے تمہاری طبیعت کی ایک طرح کی تفریح ہوئی اگر اسی طرح کی تفریح تم کو خوبصورت آدمی کے دیکھنے سے ہو تو اس میں میرے نزدیک کوئی اعتراض کی بات نہیں بلکہ اس استحسان کو تم تقاضائے طبیعت بھی سمجھو تو چنداں مضائقہ نہیں مگر دل میں انصاف کرو کہ اس استحسان کو اس استحسان کے ساتھ کیا مناسبت اور فرض کرو کہ استحسان مردم یعنی حسن پرستی جیسا تم کہتے ہو تقاضائے طبیعت انسانی ہی سہی تو طبیعت انسانی کے اور بہت سے تقاضے ہیں مگر چاروناچار ان کو روکنا اور ضبط کرنا پڑتا ہے۔
سب میں زیادہ شدید تقاضا غذا کا ہے۔ تاہم بعض اوقات طبیب حکم دیتا ہے کہ فاقہ کرو اور فاقہ کرتے ہیں۔ یا غریب آدمی کو ایک وقت کھانا میسر نہیں آتا اور وہ انتڑیوں کو مسوس کر رہ جاتا ہے۔ اسی طرح تقاضائے حسن پرستی مطلق العنان تو رہ نہیں سکتا۔ حسن کمیاب اور اس کے خواہاں بہت۔ معشوقوں کے غمزہ و ادا سے شہید ہونے کا انتظار بھی کریں یا آپس ہی میں رقابت کی وجہ سے لڑ مریں اور مشکل یہ ہے کہ کمیابی ٹھہری شرط حسن۔
کیونکہ اگر حسین کثرت سے ہوں تو بے قدر ہو جائیں۔ کوئی اس کی طرف رغبت بھی نہ کرے، پس حسن پرستی فی نفسہ ایسی خواہش ہے کہ ہزار خواہشوں میں ایک کی کامیابی کی بھی توقع نہیں۔ تو کیوں آدمی ایسی حالت اپنے پیچھے لگائے کہ اس سے سوائے رنج کے اور کچھ ہاتھ نہ آئے۔ موقع پر آئی ہوئی بات کہنی پڑتی ہے تم کو معلوم ہے کہ واقعی اور ادعائی ضرورتوں کی شناخت کیا ہے۔
قاعدہ یہ ہے کہ جو چیز جس قدر زیادہ سہولت سے میسر آسکتی ہے۔ بس جان لو کہ ہم کو اسی قدر زیادہ اس کی حاجت ہے۔ مثلاً ہوا اور پانی اور غلہ سب ضرورت ہی کی چیزیں ہیں۔ غلے سے زیادہ پانی اور پانی سے زیادہ ہوا مگر ہوا سب سے زیادہ سہل الحصول ہے۔ پانی اس سے کم اور غلہ اس سے بھی کم۔ اسی طرح لوہا اور چاندی اور سونا اور موتی اور جواہرات۔ سب سے زیادہ بکار آمد لوہا ہے اور اسی کی زیادہ افراط ہے۔
پس حسن اگر حقیقت میں ہم کو درکار ہوتا تو ضرور تھا کہ اس کی افراط بھی ہوتی اور افراط ہوئی تو پھر حسن کہاں۔ حسن تو اسی وقت تک حسن ہے کہ اس کے دیکھنے کو آنکھیں ترستی ہوں۔
مبتلا: آپ کا یہ فرمانا بالکل ٹھیک ہے کہ حسن کمیاب ہے اور جو ہے اس پر دسترس کا ہونا مشکل۔ میں اسی سوچ میں بیٹھا تھا کہ آپ تشریف لائے مگر دنیا کے چھوٹے چھوٹے کاموں میں بھی مشکلیں پیش آتی ہیں اور یہ تو وہ لذتیں ہیں کہ دنیا کے سارے مزے اس کے آگے ہیچ ہیں۔
بلکہ میں تو ایسا سمجھتا ہوں کہ جب تک لذتِ حسن کا شمول نہ ہو دنیا کی کسی چیز میں کوئی مزہ ہی نہیں تو ایسے عمدہ مطلب کے حصول میں اگر جان تک بھی جوکھوں میں ہو تو کیا مضائقہ۔ اتنا خدا کا شکر ہے کہ دوسروں کو محال ہے اور مجھ کو آسان۔
عارف: کیوں تم میں خصوصیت کیا ہے، کیا تم کہیں کے حاکم ہو یا تمہارے یہاں کچھ دولت پھٹ رہی ہے۔
مبتلا: بس آپ کے نزدیک تو دنیا میں حکومت اور دولت دو ہی چیزیں ہیں۔ اجی حضرت میں حسن کی دولت رکھتا ہوں۔ اب چند روز ہوئے چچا باوا کے لحاظ سے میں نے آنا جانا چھوڑ دیا۔ ورنہ شہر میں ایسا کون نازنین ہے جو مجھ کو پیار نہیں کرتا۔ ذرا میرا رخ دیکھیں تو گلے کی ہار ہو جائیں۔ مجھ کو حسن کی کیا کمی ہے۔ آج چاہوں تو ایک ریوڑ پال لوں۔
عارف: میں تو سمجھتا تھا کہ تم کچھ عقل رکھتے ہو اب معلوم ہوا کہ عقل اور حیا اور غیرت اور عزت اور آبرو اور مذہب کسی چیز سے تم کو بہرہ نہیں اور تمہاری حالت بڑی خطرناک حالت ہے۔
تم تو جناب میرمتقی صاحب کے پاس برسوں رہو تب کہیں جا کرآدمی بنو تو بنو۔ تمہاری عقل کا تو یہ حال ہے کہ ابھی تک خوبصورتی کا خبط تمہارے سر سے نہیں نکلا۔ تم بات بات میں اس طرح منہ بھربھرا کر اپنے تئیں حسین اور خوبصورت کہتے ہو کہ گویا حسن صورت بڑا جوہر ہے۔
مرد ہو کر تم کو عورتوں کے ہنر پر ناز کرتے ہوئے شرم نہیں آتی۔ خوبصورتی کے خیال سے کچھ تم ہی اپنے دل میں خوش ہوتے ہو گے۔
مگر غیرت مندوں کی نظر میں تو اس گورے چمڑے نے سارے خاندان کی عزت ڈبو دی اور تم کو دنیا اور دین دونوں کے کام سے کھو دیا اور خیر جوان ہوئے پیچھے وہ کم بخت خوبصورتی گئی گزری ہوئی تھی تو بچپن کے اس خیال کو جانے دیا ہوتا۔ نہیں وہ خبط ہے کہ بدستور تازہ ہے۔ منہ پر داڑھی نکل آئی۔چہرہ پکا ہو گیا۔ وہ رنگ و روغن وہ نرمی و نزاکت کوئی چیز باقی نہیں رہی۔
مگر خدا جانے وہ تمہاری خوبصورتی کس چیز سے عبارت ہے کہ اس میں فرق نہ آیا۔ شہر کے نازنینوں کا حال تو معلوم نہیں مگر مدرسے میں جو تمہارے چاہنے والے تھے۔ وہ تمہارے رہتے ہی ایک ایک کر کے تم سے بے رخی کرنے لگے تھے اور کیا تم اس کا امتیاز نہ ہوا ہو گا اور جب تمہاری وہ لڑکپن کی کیفیت بدل گئی کہ خیر وہ ایک طرح خوبصورتی تھی بھی، تب بھی مرد خدا تم کو تنبیہہ نہ ہوئی کہ کیا ایسی بے ثبات اور ناپائیدار چیز کے درپے ہونا جو آج ہے اور کل نہیں۔
یہ کیفیت جو تم میں اب ہے اگرچہ اس کو خوبصورتی سمجھنا تمہارا ہی ادعا ہے مگر بُری یا بھلی جیسی ہے اسے تو قیام ہو جس نے تم کو بچپن میں دیکھا ہے اب سے چار برس بعد پہچاننے کا بھی تو نہیں کہ یہ وہی مبتلا ہے یا دوسرا شخص ہے۔ میرے نزدیک تو خوبصورتی کا دعویٰ اب بھی تم کو زیب نہیں دیتا مگر ایک وقت آنے والا ہے تو اس کو آیا ہوا سمجھو جب کہ تم خود پکار اٹھو گے:
دریغا کہ عہد جوانی برفت
جوانی مگو زندگانی برفت
ذرا خیالات کو اونچا کرو۔
نظر کو تھوڑا آگے بڑھاؤ۔ یہ خواہشیں جن کا تم اس قدر اہتمام کر رہے ہو، خدا نے گدھے، کتے، بندر، سوٴر، ذلیل سے ذلیل جانوروں کو بھی دی ہیں۔ بلکہ جانوروں میں یہ قوتیں آدمی سے بہت زیادہ ہیں۔ کیا آدمی کے لیے شرم کی بات نہیں کہ جانوروں کی ریس کرنے پر حریص ہو تم کو اس بات پر بڑا گھمنڈ ہے کہ نازنینان شہر یعنی بازاری عورتیں تم کو پیار کرتی ہیں۔
یہ جھوٹی رکابیاں، یہ چچوڑی ہوئی ہڈیاں یہ کھائی ہوئی قلفیاں کسی بھلے مانس کی غیرت تقاضا کر سکتی ہے کہ ان کو منہ لگائے یا پاس بٹھائے۔ نرمی خوبصورتی کو اگر ہو بھی لے کر کیا آگ لگانی ہے۔ جب کہ ان میں شرم و حیا نہیں، مہر و وفا نہیں۔ عفت و عصمت نہیں۔ غیرت و حمیت نہیں۔
مبتلا: میں نے تو ان لوگوں کا تذکرہ آپ سے صرف اس غرض سے کیا تھا کہ میں حسن کی خواہش کروں۔
تو غالباً میرے لیے اس کا بہم پہنچنا کچھ دشوار نہ ہو گا۔ کیونکہ میں ان لوگوں کو اپنی طرف بھی مائل پاتا ہوں۔ مجھے دوسرا ذریعہ تقریب درکار نہیں۔ جس دن چچا باوا تشریف لائے میں نے ان لوگوں سے ملنا جلنا قطعاً موقوف کر دیا اور آئندہ بھی میرا ارادہ ان لوگوں سے ملنے جلنے کا ہرگز نہیں۔ چچا باوا کے آنے کا تو مجھ کو ایک حیلہ ہاتھ لگ گیا ورنہ میں نے تھوڑے ہی دنوں کے اختلاط میں ان لوگوں کو خوب آزما لیا۔
بِک گیا، برباد ہو گیا چچا باوا نہ ہوتے تو فاقوں پر نوبت پہنچ چکی تھی۔ مگر حقیقت میں عجب بے مروت قوم ہے، چندے کے بندے اور دام کے غلام۔ اس میں شک نہیں کہ مجھ کو پیار بھی کرتے ہیں مگر اس کے ساتھ کچھ نہ کچھ لے بھی مرتے ہیں۔
عارف: الحمدللہ۔ میرا جی یہ سن کر بہت خوش ہوا کہ تم کو اس نالائق گروہ سے تو نفرت ہوئی اور میں تو بھائی اس کو جناب میر صاحب کا تصرف سمجھتا ہوں۔
مبتلا: خیر جو کچھ ہو مگر حسن پرستی کی کسک میرے دل میں باقی ہے وہ نہیں نکلتی۔
عارف: اب بہت دیر باتیں ہوئیں۔ آدمی کے دل کا حال ہر وقت یکساں نہیں رہتا۔ انشاء اللہ پھر کسی دن موقع دیکھ کر گفتگو کریں گے۔ اس اثناء میں تم بھی وقتاً فوقتاً سوچنا اور غور کرنا اگرخدا کو منظور ہے تو خود تمہارے ہی دل سے کوئی نہ کوئی بات ایسی پیدا ہو گی کہ اس سے تمہاری تسکین ہو جائے گی۔
اتنی بات تمہارے کان میں اور ڈالے دیتا ہوں کہ دنیا کے تمام معاملات کا مدار خیالات پر ہے۔
برخیالے صلح شان و جنگ شان
برخیالے نام شان و ننگِ شان
ایک شخص کو دیکھتے ہیں کہ ایک غرض کے پیچھے دیوانہ بن رہا ہے اور اسی جیسے ہزاروں لاکھوں آدمی ہیں کہ اس غرض سے مطلق سروکار نہیں رکھتے۔ زندگی کے دن پورے کرنے کو گنتی کی چند چیزیں درکار ہیں اور ان کے بہم پہنچانے کے لیے کچھ زیادہ زحمت اٹھانے کی ضرورت نہیں۔
صائب نے کیا خوب کہا ہے:
حرص قانع نیست صائب ورنہ اسباب جہاں
آنچہ منہ درکار دارم بیشتر درکار نیست
اور جب دوسرے لوگ ہمارے ہی ابنائے جنس ایک چیز کے بغیر خوش و خرم رہ سکتے ہیں۔ تو اس سے بخوبی ثابت ہے کہ حقیقت میں وہ چیز داخل ضروریاتِ زندگی بلکہ داخل تفریحات بھی نہیں ہے۔ ان لوگوں نے ایک طرح پر خیال کیا اور اس چیز پر غالب آئے اور ہم نے دوسری طرح پر سوچا اور مغلوب ہو گئے۔
یوں تو سوچنے اور غور کرنے کو ہزار باتیں ہیں مگر تمہاری حالت کے واسطے موت کا تصور کرنا بالخاصہ مفید ہے۔ اگر دن رات میں تھوڑی دیر کے لیے بھی آدمی اپنے تئیں مرتا ہوا فرض کر لیا کرے اور یہ تو یقینی ہے کہ ایک نہ ایک دن سچ مچ اس کو مرنا ہو گا۔ تو دنیا کی بہت سے ترغیبات سے محفوظ رہ سکتا ہے اور چونکہ دینداری کے خیالات ابھی تمہاری طبیعت میں راسخ نہیں ہوئے۔ موجبات ترغیب کے پاس نہ پھٹکنا ورنہ سارا کیا کرایا دم کے دم میں اکارت ہو جائے گا۔
#…#…#
اٹھارہواں باب:مبتلا کا دامِ محبت میں مبتلا ہونا
عارف تو یہ کہہ کر اس وقت رخصت ہو گیا۔ مبتلا کے شیاطین برابر اس کی گھات میں لگے ہوئے تھے۔ میرمتقی کا جانا سنتے ہی سب نے چاروں طرف سے یورش شروع کی۔ مبتلا تو ایک مدت سے ادھار پر عیاشی کر ہی رہا تھا۔ سینکڑوں روپے ان لوگوں کے اس پر چڑھے ہوئے تھے۔
پہلے کوہلے ہوئے، خدا جانے میرمتقی کے رہتے ہوئے بھی انہوں نے کیوں کر صبر کیا ہو گا۔ میرمتقی کا اگر جانا نہ ہوتا تو آخر ایک نہ ایک دن اس قرض کا جھگڑا ان کے روبرو پیش ہوتا تو وہ عمدہ طور پر فیصلہ بھی کر دیتے اب اونے پونے کیسے سوائے ڈیوڑھے کی قسط بندی تو قرضے کا چکوتا ہوا۔ ان لوگوں کے پاس آکر بیٹھنے بات کرنے سے مبتلا کی طبیعت جو میرمتقی اور عارف کے سمجھانے سے کسی قدر سنبھل چلی تھی پھر بگڑی۔
سامان تو ایسا بندھا تھا کہ مبتلا پھر بدستور سابق آوارہ مزاج ہو جائے۔ مگر ادھر تو نصیحت کے خیالات تھے تازہ اور ادھر ادائے قرض کی وجہ سے مبتلا کو ان لوگوں سے ایک طرح ناخوشی تھی لہٰذا اور تو کسی کے پاؤں نہ جمے مگر اب سے کوئی تین چار برس پہلے کا مذکور ہے۔ مبتلا کے والدین ان دنوں زندہ تھے۔ اسی محلے میں مبتلا کے گھر سے ذرا فاصلے پر ایک عورت کرایہ کے مکان میں آکر رہی۔
وہ تھی تو لکھنئو کی کوئی خانگی پر اس نے اپنے تئیں بیگم مشہور کیا۔ باوجود یہ کہ تھوڑے ہی دنوں کی آئی ہوئی تھی مگر سارے محلے میں اس کی خوبصورتی اور لیاقت کا غل مچ گیا۔ عیاش مزاجوں میں جو جس ڈھب کا تھا۔ اپنے شوق کی چیز میں بیگم کا مداح تھا کہ شاعر کہتے تھے فی البدیہہ شعر کہتی ہے۔ ستار بجانے والوں میں چرچا تھا کہ بول خوب بجاتی ہے۔ تاش گنجفہ چوسر شطرنج کھیلنے والے ان تمام کھیلوں میں اس کے کمال کے قائل تھے۔
صلح جگت پھیلتی حاضر جوابی پہیلی مکرنی کی نسبت میں سب مانتے تھے کہ اپنا جواب نہیں رکھتی۔ اس کی خوبصورتی میں لوگ کچھ کلام کرتے تھے مگر اس کے جامہ زیب ہونے پر سب کو اتفاق تھا۔
مبتلا تو خود ایسی خبروں کی ٹوہ میں لگا رہتا تھا۔ اس کو بیگم کا حال سب سے پہلے معلوم ہوا ہو گا۔ لیکن باپ کے رہتے محلے کے محلے میں بدلحاظی نہیں کر سکتا تھا نہ جا سکا۔
باپ کے پیچھے جب مبتلا کھل کھیلا تو جہاں اس نے اور نالائقیاں کیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ بیگم سے ملا۔ شاعری اور ستار اور شطرنج تو سب بہانے تھے۔ مگر اس میں شک نہیں کہ عورت تھی بڑی گویا۔ اس کی زبان کہے دیتی تھی کہ خواصی یا مصاجت یا کسی دوسرے طور پر اس نے بادشاہی محلات میں ضرور تربیت پائی ہے۔ یا کیا عجب ہے کہ جیسا وہ کہتی تھی خود بیگم ہی ہو۔
لسانی کے علاوہ اس کا سلیقہ مجلس بھی بہت دلکش تھا۔ وہ نہایت جلد آدمی کے دل کو ٹٹولتی اور ہر ایک کے ساتھ اس ہی کے مذاق کی باتیں کرتی۔ یہ عمل تھا جس کے ذریعے سے وہ لوگوں کے دلوں کو مسخر کرتی تھی۔ ورنہ صورت شکل کے اعتبار سے وہ کچھ چنداں قدر کی چیز نہ تھی۔ مبتلا کے ساتھ آنکھیں چار ہوتے ہی وہ پہچان گئی کہ یہ کوئی نیا مردوا بنا ہے۔ اس نے مبتلا کو دور سے کھڑے ہو کر ایسے انداز کے ساتھ سلام کیا جیسے کوئی ہندو آفتاب کو ڈنڈوت کرتا ہے اور گاؤتکیہ جس سے وہ لگی ہوئی بیٹھی تھی۔
چھوڑا اپنی جگہ مبتلا کو بٹھایا اور آپ موٴودب سامنے ہو بیٹھی۔ مبتلا نے چاہا کہ اس کو اپنے برابر بٹھائے مگر وہ ایاز قدر خود بشناس کہہ کر پہلو پر نہ آئی۔
مبتلا تو تمہید کلام ہی سوچتا رہا کہ اتنے میں وہ آپ ہی بولی ایک مدت سے دلی کی تعریفیں سن سن کر جی پھڑکتا تھا اور دل میں ارمان تھا کہ اگر پَر ہوتے تو اڑ کر جاتی اور ایک نظر دلی کو دیکھ آتی۔
بارے سان نہ گمان خود بخود ایسا اتفاق پیش آیا کہ خدا نے دلی میں لا بٹھایا۔ جیسا سنا تھا اس سے ہزار حصے بڑھ کر پایا۔ چشم بددور لکھنئو میں دولت کی افراط ہے اور لوگ بھی وہاں کے بڑے زندہ دل ہیں۔ حسن کی جو قدرومنزلت ہمارے لکھنئو میں ہے۔ کسی دوسرے شہر میں کم ہو گی اور یہی سبب ہے کہ ملکوں ملکوں سے حسن کھنچ کر سب لکھنئو میں سمٹ آیا ہے اور میرا رہنا بھی ایسی ہی جگہ ہوا ہے کہ اس کو حسن کا اکھاڑا کہنا چاہیے۔
مگر اپنا شہر ہے تو ہونے دو، بات تو سچی ہی کہی جائے گی۔ ماشاء اللہ آپ کی صورت کا آدمی بھی میری نظر سے نہیں گزرا۔
مبتلا: یہ تو سب تمہاری مہربانی ہے۔ چونکہ تم نظر محبت سے دیکھتی ہو تم کو تو میری صورت بھی بھلی معلوم ہوتی ہے۔ہم مردوں کی صورت اگر اچھی ہوئی بھی تو کیا، بے مصرف۔ صورتیں تو تم لوگوں کی ہیں کہ ایک عالم تمہاری ان صورتوں ہی کے پیچھے دیوانہ ہو رہا ہے۔
میں نے بھی تمہاری صفت و ثنا بہت کچھ سنی تھی اور تمہارے دیکھنے کے لیے دل بے قرار تھا۔ مگر موقع نہیں بن پڑتا تھا اب جو تم کو دیکھا تو معلوم ہوا کہ حقیقت میں لکھنئو کی خراش تراش اور وضع داری کو دلی والے نہیں پاسکتے۔ مگر یہ تو کہو کہ گھر تمہارا ٹھہرا لکھنئو یہاں دلی میں تمہارے قیام کا کیا بھروسہ۔
بیگم: ہم لوگوں کا کم بخت اس طرح کا بُرا پیشہ ہے کہ کیسا ہی جامہ پہن لیں تب بھی تو کوئی اعتبار نہیں کرتا۔
آپ کو یقین آئے نہ آئے میں ایک عزت دار خاندان کی بیٹی ہوں خدا جانے یہ بھی کرم میں لکھا تھا کہ ایسے بُرے احوال سے پردیس میں پڑی ہوں۔ میرا حال اس قطعے کے مصداق ہے:
قطعہ
رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو
پڑیئے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیماردار
اور اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو
میں جس وقت لکھنو سے نکلی دل میں یہ ٹھان کر نکلی کہ اب شہر کو پیٹھ دکھائی ہے۔
جیتے جی منہ نہیں دکھاؤں گی جس حالت میں آپ مجھ کو دیکھتے ہیں جس قدر مجھے اس سے نفرت ہے۔ پس خدا ہی کو خوب معلوم ہے مگر موت اپنے بس کی نہیں۔ شاد باید زیستن۔ ناشاد بایدزیستن۔ آج اگر کوئی بھلا آدمی، خدا اس کے دل میں رحم ڈالے اور میری دست گیری کرے تو مجھ کو چرغہ کا تنا منظور چکی پیسنی قبول، میں اس کی کفش برداری کو حاضر ہوں مگر مان نہ مان میں تیرا مہمان، زبردستی کسی کے سر جو ہو جاؤں آپ سے۔
آپ کس کے ساتھ لگ چلوں۔ ہر چند مبتلا کی آوارگی ان دنوں بڑے زوروں پر تھی۔ مگر اس کے دل میں کسی عورت کے ساتھ تعلق لازمی پیدا کرنے کا خیال کبھی نہیں آیا تھا۔ یہ بیگم کی سحربیانی تھی کہ ابھی اس کی تقریر پوری نہیں ہونے پائی کہ مبتلا نے اس کو گھر میں ڈال لینے کا پہلے پہل کچھ یوں سا ارادہ کر لیا۔ بیگم میں دو باتوں کی کمی تھی کہ ایک تو اس کی صورت کچھ بہت عمدہ نہ تھی بنانے سنوارنے سے ہی وہ اتنی نظروں میں جچتی تھی۔
دوسرے گانا ناچنا جس کی ان دنوں مبتلا کو چاٹ لگی ہوئی تھی اس کو مطلق نہیں آتا تھا۔
تاہم اس نے اپنی لسانی سے مبتلا کو پہلی ہی ملاقات میں اتنا تو گرویدہ کر لیا کہ شام کا گیا ڈیڑھ پہر رات کو توپ اس کے وہیں بیٹھے بیٹھے چل گئی۔ اس اثناء میں بیگم نے خوب مزے مزے کی گلوریاں اپنے ہاتھ سے بنا بنا کر مبتلا کو کھلائیں۔ دو دور چائے اور کافی کے چلے۔
مبتلا اگر ایک جلسے میں مدعو نہ ہوتا تو اس سے رات کا رہ پڑنا بھی کچھ تعجب نہ تھا۔ بارے مکان پر سے آدمی آیا کہ صاحب جلسہ خود آپ کو لینے آتے تھے۔ ناچار اٹھنا پڑا اور جلسے کی سن کر بیگم کو بھی اصرار کرنے کا موقع نہ تھا۔ مگر چلتے چلتے بیگم نے اتنا عہد تو لے لیا کہ جلسے کے سوائے اپنے یہاں ہو یا کسی دوست کے یہاں بلا ناغہ ہر روز ملاقات ہوا کرے گی اور میرمتقی کے آنے تک ایسا ہی ہوتا رہا اور اتنے دن میں بیگم نے مبتلا کے دل میں بخوبی اپنی جگہ کر لی۔
میرمتقی کی لاحول سے جہاں اور شیطان بھاگ کھڑے ہوئے تھے ان میں ایک بیگم صاحبہ بھی تھیں۔ میرمتقی کے رہتے بھی بیگم نے بہتیرے ڈھب لگائے کہ مبتلا زیادہ نہیں تو کبھی کبھار کھڑے کھڑے صورت دکھا جایا کرے۔ مگر مبتلا خود ان دنوں ہتھے سے اُکھڑا ہوا تھا آنا جانا تو درکنار زبانی سلام و پیام تک کا بھی روادار نہ ہوا۔ مبتلا بے چارے کے حال پر خیال کر کے کس قدر افسوس آتا ہے:
قسمت تو دیکھیے کہ کہاں ٹوٹی ہے کمند
دو چار ہاتھ جب کہ لب بام رہ گیا
قریب تھا کہ بیگم تو اس کو صبر کر کے بیٹھ رہے۔ اتنے میں تو میرمتقی کو سنا کہ تشریف لے گئے۔ بیگم تو اس خبر کو سنتے ہی مارے خوشی کے اچھل پڑی اور اسی وقت سے لگی مبتلا کے انتظار میں بار بار مڑ مڑ کر دروازے کی طرف دیکھنے۔ ایک دن گزرا دو دن گزرے تین دن گزرے مبتلا کا پتہ نہیں۔ سمجھی کہ چچا نے ضرور بھتیجے کو کچھ پٹی پڑھائی۔ آخر جب اپنے اہل برادری کو سنا کہ حساب کتاب کو آنے لگے تو اس نے بھی کسی کے ہاتھ ایک رقعہ بھیجا کہ جامن یا بآں شورا شوری ویا بایں بے نمکی۔
اس قدر بے مروتی ایسی بے وفائی۔ کچھ قصور کوئی خطا۔ دل کے ایسے بودے اور ارادے کے اتنے کچے تھے تو اتنا ربط بڑھانا ایسا گہرا اختلاط کرنا کیا ضروری تھا از برائے خدا چند لمحے کے لیے تشریف لاؤ اور اپنی حقیقت مجھ کو سناؤ۔
میں خدانخواستہ کوئی بلا نہیں کہ چمٹ جاؤں گی۔ آپ کوئی بچے نہیں کہ پھسلا لوں اور اگر آپ کو آنا منظور نہیں تو مجھ سے وہاں پہنچنا کچھ دور نہیں:
تم جانو غیر سے جو تمہیں رسم و راہ ہو
ہم کو بھی پوچھتے رہو تو کیا گناہ ہو
مبتلا یہ رقعہ پڑھ کر غوطہ میں تھا کہ عارف اس کے سر پر آکھڑے ہوئے تھے۔
عارف کے چلے جانے کے بعد مبتلا نے رقعے کو پھر کئی بار پڑھا۔ وہ اس وقت جانے میں ہچکچاتا تھا مگر پھر اس نے سوچا کہ اگر میں نہ گیا تو بیگم خود چلی آئے گی۔ اس سے تو میرا جانا بہتر ہے۔ غرض دل خوب مضبوط کر کے بیگم کے گھر گیا مگر افسوس ہے کہ کچھ گھڑی کو گیا کہ بس اسی کے گھر کا ہو رہا۔ بیگم نے جو کئی مہینے کے بعد مبتلا کو دیکھا تو نہایت تپاک سے ملی۔
بس اس کا وہ تپاک ایک جادو تھا کہ مبتلا کی تو کیا حقیقت تھی۔ اس کے چچا باوا میرمتقی صاحب بھی ہوتے تو پھسلتے نہیں تو لڑکھڑا تو ضرور جاتے۔ دیر تک آپس میں گلے شکوے ہوتے رہے۔ آخر مبتلا نے شروع سے آخر تک میرمتقی کا آنا اور امور خانہ داری کی اصلاح اور ان کی نصیحت اور ناظر کی فضیلت اور میر صاحب کا تشریف لے جانا اور عارف سے معرفت کرانا اور عارف کا سمجھانا اور ارباب نشاط کا حساب کتاب ذرا ذرا بیان کیا۔
بیگم نے بہت ہی توجہ سے مبتلا کے قصے کو سنا اور کہا کہ اتنے دن برابر جو آپ کا آنا نہ ہوا۔ اس سے مجھے بڑی آزردگی ہوئی تھی اور میں نے مصمم ارادہ کر لیا تھا کہ آپ سے اخیر دو دو باتیں کر کے ضرور اس محلے سے اٹھ جاؤں گی۔ مگر اب جو آپ سے ساری حقیقت معلوم ہوئی۔ میرا جی بہت خوش ہوا اور اگر میں جانتی ہوتی تو ضرور میر صاحب کے ہاتھ پر بیعت کرتی۔ سبحان اللہ اچھوں کی اچھی ہی باتیں ہوتی ہیں۔
انہوں نے باپ سے بڑھ کر آپ کے ساتھ سلوک کیا۔ ان کے فرمانے پر چلو تو دنیا اور دین دونوں میں سرخ رو۔ میں تو خود آپ سے کہنے والی تھی کہ ان بیسواؤں سے ملنا اور یوں پیسے کو برباد کرنا اور یہ ہرجائی پن اچھا نہیں۔
مبتلا: مشکل یہ آپڑی ہے کہ بی بی کی طرف تو مجھ کو رغبت نہیں تو پھر آپ کسی طرح زندگی بسر بھی کروں یا نہ کروں۔
بیگم: بیاہتا بی بی سے اگر مرضی نہیں ملتی تو ایک اپنی مرضی کی بی بی کر لو۔
خدانخواستہ تم کچھ غریب نہیں ہو کہ دو بیبیوں کا خرچ نہ چلا سکو گے۔ مردوں پر تو خدا نے پابندی نہیں کی، ایک ایک کو چار چار کا حکم ہے۔
مبتلا: تم مجھ سے نکاح پڑھنے پر راضی ہو۔
بیگم: میں تو خود تم سے کہہ چکی ہوں کہ میں اس حالت میں رہنا پسند نہیں کرتی میں تو کوئی دن جاتا ہے کہ کسی نہ کسی کا دامن پکڑ کر بیٹھ رہوں گی اور اگر تم میری دست گیری کرو تو زہے قسمت مگر تم کو بہتیری مجھ سے بہتر ملیں گی۔
نکاح کرو تو ایسی کے ساتھ کہ پھر بی بی کی تمنا باقی نہ رہے بلکہ مناسب تو یہ ہے کہ نکاح مت پڑھاؤ چندے کسی کو آزماؤ۔
مبتلا: میں تو فکر کرتے کرتے تھک گیا اور سوچتے سوچتے میرا سر دُکھنے لگا۔ چچا باوا اور میاں عارف کی تو مرضی یہ ہے کہ میں ساری عمر رنج و غم میں گھل گھل کر مر جاؤں۔
بیگم: نوجِ دور پار نصیب دشمناں رنج کرے تمہاری بلا اور غم اٹھائے تمہاری پاپوش، دنیا میں بار بار جنم لینا نہیں اور جوانی کی عمر بھر چلتی چھاؤں ہے۔
جب اپنا ہی جی خوش نہ رہا تو دنیا کو لے کر کیا چولہے میں ڈالنا ہے۔
مبتلا: دل پر قابو نہیں چلتا۔ اس بی بی سے ممکن نہیں کہ مجھ کو انس ہو، چاروناچار دوسری بی بی تو کرنی ہی پڑے گی۔ اچھا تو آج کے آٹھویں دن۔
بیگم: بلکہ پندرہویں دن مگر ایک شرط ہے کہ ہست و نیست جو کچھ کہنا ہو تم خود آ کر مجھ سے کہنا ایسا نہ ہو کہ پہلے کی طرح بیٹھ رہو۔
مبتلا: نہیں کچھ ہی کیوں نہ ہو میں خود ضرور آؤں گا۔ بلکہ ہو سکا تو بیچ میں ایک دو پھیرے کروں گا۔
بیگم: قسم کھاؤ۔
مبتلا: تمہاری جان کی قسم۔
بیگم: میری جان تو تم ہو۔
مبتلا: اپنے سر کی قسم۔ یہ عہد و پیمان ہو کر بیگم سے رخصت ہوا مگر سچ پوچھو تو آج ہی کا جلسہ جلسئہ نکاح تھا۔ بیگم ایک بلا کی عورت اور اس کو بشرے سے دلی حالات کے معلوم کر لینے کا بڑا ملکہ تھا۔
آج کی ملاقات میں اس کو پورا یقین ہو گیا کہ مبتلا پر اس کا جادو چل چکا ہے اور اسی بھروسے پر اس نے آپ مہلت دی ورنہ وہ ایسا ڈھونگ ڈالتی کہ بے نکاح پڑھائے مبتلا جانے کا نام نہ لیتا۔ بیگم کے پاس یہ آج کا جانا مبتلا کے حق میں غضب ہو گیا۔ اس کو میرمتقی نے ایک حالت پر پایا اور انہوں نے اور عارف نے اس کو ٹھیل ٹھیل کر کچھ دور سر کا یا، آج وہ پھر اپنی جگہ پر عود کر آیا۔
#…#…#
انیسواں باب:مبتلا اور عارف کا مباحثہ
عارف نے اس خیال سے کہ اس کو اچھی طرح بطور خود غور کر لینے دو۔ ایک ہفتے تک اس کی خبر نہ لی۔ پھر جو ملاقات ہوئی تو مبتلا کا تیور ہی بدلا ہوا تھا۔ پوچھا کیوں صاحب تم نے کچھ سوچا غور کیا۔
مبتلا: جی ہاں دوسرے نکاح کی ٹھہرائی ہے۔
عارف: (چونک کر) ایں دوسرا نکاح سچ کہو۔
مبتلا: کیا کروں میں بھی آدمی ہوں۔ میرے سینے میں بھی دل اور دل میں خواہش ہے۔ مجھ کو بھی موافق سے ر احت اور ناموافق سے ایذا پہنچتی ہے۔ میری زندگی کا زمانہ بھی محدود ہے اور جوانی کا تو محدود نہیں بلکہ مختصر۔ میں بھی اتنی بات سوچتا ہوں کہ دنیا سے ایک بار جا کر پھر آنا نہیں ان تمام باتوں پر نظر کر کے میں نے یہی فیصلہ کیا ہے کہ آخر مجھ کو تو آسائش ملے۔
عارف: بے شک آسائش جائز کو کون منع کر سکتا ہے اور تم پر کیا موقوف ہے۔ تمام آدمی کوشش کرتے ہیں اور سب کی کوششوں کا دینی ہو یا دنیاوی ماحصل ہے آسائش مگر غور طلب بات یہ ہے کہ جس کو تم نے آسائش سمجھا ہے وہ حقیقت میں بھی آسائش ہے یا نہیں۔
مبتلا: یہ تجویز کرنا میرا کام ہے۔
عارف: بس یہ غلط ہے ہم سب ہیں بیمار اور شارع ہے ہمارا طبیب۔
اگر بیمار کو اختیار دیا جائے کہ اپنی آسائش کے لیے آپ تجویز کرے تو بیمار یقینا اپنے تئیں ہلاک کریگا۔ مبتلا: آپ اطمینان رکھیے میں نے شرع ہی کے مطابق اپنی آسائش کی تجویز کی ہے کیا میں نے تمہیں کہا نہیں کہ دوسرے نکاح کی ٹھہرائی ہے۔ اگر بے نکاح کسی عورت کو گھر میں ڈال لینے یا پانچویں نکاح پڑھانے کا نام لیتا تب ہی آپ نے کان کھڑے کیے ہوتے۔
عارف: جو از تعداد نکاح کی نسبت تم نے جس طرح پر اپنا اطمینان کر لیا ہو، ذرا مجھ کو بھی تو سنا۔
مبتلا: میں تو آپ کے ادنیٰ شاگردوں کی برابری بھی نہیں کر سکتا۔ میرا کیا مقدور ہے کہ آپ کو سمجھاؤں مگر تعدد نکاح کی سند تو قرآن ہے۔
عارف: لیکن اسی کے آگے اللہ فرماتے ہیں کہ اگر تم کو یہ خوف ہو کہ متعدد بیبیوں میں برابری نہ کر سکو گے تو ایک ہی بی بی کرو اور سورة اور اسی پارے میں اور آگے چل کر فرمایا کہ تم بہتیرا چاہو مگر تم سے یہ ہو ہی نہ سکے گا کہ عورتوں میں برابری کر سکو۔
پس سارے کے سارے بھی ایک طرف کو مت جھک جاؤ کہ اس بے چاری کو ادھر میں لٹکتا ہوا چھوڑ دو۔ اب ان دونوں باتوں کو ملاؤ کہ برابر نہ کر سکو تو ایک کرو۔ اور تمہارے لیے برابری ہو ہی نہ سکے گی۔ ایک شخص نے حال ہی میں حرمتِ تعدد نکاح پر ایک کتاب لکھی ہے۔ اس کے نزدیک ان دونوں آیتوں کو ملانے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ بس ایک بی بی کرو۔
مبتلا: ایسی ہی تفسیریں کر کے تو لوگوں نے دین میں رخنے ڈالے ہیں۔
پیغمبرﷺ اور ان کے صحابہ اور تابعین اور تمام بزرگان دین سب متعدد بیبیاں کرتے چلے آئے ہیں۔ ان کو بھی یہ دونوں آیتیں معلوم تھیں اور قرآن کو سب سے بہتر سمجھتے تھے اور ان کاتدین بھی بہت زیادہ تھا۔ مگر کسی نے تعدد نکاح کی ممانعت کا نتیجہ نہ نکالا اور ”تم سے برابری ہو ہی نہ سکے گی“ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جس برابری کی نسبت ارشاد ہے کہ تم سے ہو ہی نہیں سکے گی وہ پوری پوری برابری ہے۔
یعنی عدلِ حقیقی۔
کیونکہ مطلقِ عدل سے قاعدے کے مطابق فرد کامل مراد ہو گی اور وہ نہیں ہے۔ اس لیے فرمایا ہے کہ تم سے عدل حقیقی تو ہو نہیں سکے گا تو ایسا بھی تو غضب مت کرو کہ ایک ہی طرف کے ہو رہو اور دوسری کو لٹکا رکھو۔ کہ وہ بے چاری بیچ میں پڑی جھولا کرے۔ اس سے معلوم ہوا کہ عدل حقیقی کے علاوہ کہ وہ اعلیٰ درجے کا عدل ہے اور انسان سے اس کا ہونا ممکن نہیں۔
ایک ادنیٰ درجے کا عدل مجازی بھی ہے کہ انسان صرف ایک ہی کا نہ ہو رہے بلکہ دوسری کی بھی خبرگری کرتا رہے۔ چچا باوا کے رہتے میرے دل میں اس بات کا کھٹکا تھا کہ ایک نہ ایک دن وہ ضرور مجھ کو ٹوکیں گے تو میں نے مولوی محمد فقیر سے اس مسئلے کی خوب تحقیق کی تھیں۔ میری سمجھ میں تو یوں آتا ہے کہ اس سے عدل مجازی مراد ہے کہ اگر تم کو اس بات کا ڈر ہے کہ تم ادنیٰ درجے کا عدل بھی نہ کر سکو گے اور بالکل ایک ہی کے ہو رہو گے تو ایسی صورت میں تم کو ایک ہی بی بی کرنی چاہیے اور اگر تعدد نکاح میں عدل حقیقی مشروط ہو تو فی الواقع جیسا آپ کہتے ہیں ممانعت ہوئی۔
تعلیق بالحال اور اگرچہ اس آیتہ میں بھی مطلق عدل ہے اور چاہیے کہ یہاں بھی عدل حقیقی مراد ہو۔ مگر دوسری آیت میں قرینہ صارف موجود ہے اور اگر خدا کو تعدد نکاح کی ممانعت منظور ہوتی تو تعلیق بالمحال کا پیرایہ اختیار کرنا کیا ضروری تھا۔ صاف صاف کہہ دینا تھا کہ بس ایک بی بی کرو نہ یہ کہ اگر عدل حقیقی نہ کر سکو تو ایک کرو کیونکہ یہ تو طے ہی تھا کہ عدل حقیقی مقدور بشر نہیں اگر اس سے ممانعت تعدد نکاح مراد ہو تو معاذ اللہ اس آیت کی ایسی مثال ہو گی کہ پوچھیں ناک کہاں ہے اور جواب میں بائیں کان سے شروع کر کے گدی کی طرف سے داہنی جانب ہاتھ لا کر بتایا جائے کہ یہ ہے۔
عارف: اس میں شک نہیں کہ مولوی محمد فقیر نے اس مسئلے کی اچھی تحقیقات کی اور تم نے جو کچھ سمجھا میرے نزدیک نہایت درست سمجھا۔ مگر پیغمبرﷺ صاحب سے جو تم نے استشہاد کیا اس کو میں نہیں مانتا۔ یہ دونوں آئتیں عام مسلمانوں کے واسطے ہیں۔ پیغمبرﷺ صاحب کے نکاح ان میں داخل نہیں۔ پیغمبرﷺ صاحب کے لیے سورئہ احزاب میں ایک پورا رکوع موجود ہے۔
پیغمبرﷺ صاحب کے لیے چار بیبیوں کی قید نہ تھی اور اگرچہ آنحضرت ازواج مطہرات میں اپنی طرف سے عدل فرماتے تھے۔ مگر خدا نے ان پر اس کو بھی لازم نہیں کیا تھا چنانچہ اسی رکوع میں ارشاد ہے کہ اپنی بیبیوں میں جس کو چاہو اپنے سے جدا رکھو اور جس کو چاہو بٹھا کر پھر بلا تو تم کو کچھ گناہ نہیں۔ اسی طرح پیغمبرﷺ صاحب کو بلا مہر بھی نکاح کر لینا جائز تھا اور یہ باتیں خصائص نبویﷺ میں سے ہیں اور کیا مصلحتیں پیغمبرﷺ صاحب کے ان ذاتی معاملات میں مضمر تھیں اس کے لیے تفصیل درکار ہے جس کے بیان کرنے کو بڑی فراست چاہیے۔
اسی طرح صحابہ وغیرہ سے استشہاد کرنے میں بھی تم کو درست نہیں سمجھتا۔
مبتلا: مذہباً یا عقلاً۔
عارف: یہ تو تم نے عجیب لغو بات پوچھی۔ اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ مذہب اور عقل دو چیزیں ہیں اور ممکن ہے کہ دونوں کی دوراہیں ہوں حالانکہ میرا عقیدہ تو یہ ہے کہ مذہب مخالف عقل باطل، عقل مخالف مذہب گمراہ۔
مبتلا: جس چیز کے جواز کے لیے نص قرآنی موجود ہے۔ اس سے آپ کی مخالفت کا سبب؟
عارف: بات یہ ہے کہ شارع نے مردوں اور عورتوں کی معاشرت کے قاعدے ٹھہرا دیئے ہیں۔ نکاح اور مہر اور نفقہ اور طلاق اور خلع اور لعان اور اظہار اور رجعت اور رضاع وغیرہ جتنے معاملات ہیں سب کے واسطے احکام ہیں۔ اگر ان احکام کی پوری پوری تعمیل ہو تو کسی قوم اور کسی مذہب کے زن و شوہر میں اس سے بہتر معاشرت ہو نہیں سکتی مگر خرابی کیا آکر پڑی ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں نے رسم اور مذہب دو چیزوں کو ملا کر اپنے طرز معاشرت کو آدھا تیتر اور آدھا بٹیر بنا لیا ہے۔
مثلاً پردے سے چلو بلاشبہ اسلام کا حکم ہے کہ بیبیاں پردہ کریں اور اس میں شک نہیں کہ ایک پردے سے ہزار ہا مفسدوں کا انسداد ہوتا ہے۔
مگر جس سختی کے ساتھ ہم لوگوں نے پردے کو لازم کر لیا ہے افراط ہے، حد شرع سے متجاوز پردہ نہیں ہے مگر قید ہے اور قید جس قدر سخت اسی قدر ایذا دہ۔ نکاح ایک ایسا معاہدہ ہے کہ مرد اور عورت دونوں کی زندگی کی کامیابی اور ناکامیابی راحت اور تکلیف خوشی اور ناخوشی اسی پر موقوف ہے۔
معاہدہ تو ایسا مہتمم بالشان اور معاہدہ کرنے والے جن کو اس کا نباہ کرنا ہے اور جن پر اس معاہدے کا اثر مترتب ہو گا اس سے بے تعلق کیونکہ اکثر تو معاہدہ نکاح ایسی چھوٹی عمروں میں ہو جاتا ہے کہ فریقین میں سے کسی کو بھی اس کے نتائج کے سمجھنے کی اہلیت نہیں ہوتی اور اگر شاذو نادر ہوتی بھی ہے تو اظہار رائے کر کے بے شرم اور بے حیا اور بے غیرت اور منہ بولا کون کہلائے۔
پس معاہدہ نکاح تو کرتے ہیں مثلاً زید اور ہندہ اور ایجاب اور قبول کرتے ہیں ان کے ولی۔ کھلم کھلا پوری آزادی تو نکاح کے معاملہ میں مرد عورت کسی کو بھی نہیں۔ رہ گئے دبے دبائے اشارے کنائے وہ بھی مردوں کے لیے بدنمائی ہے اور عورتوں کے لیے فضیحت اور رسوائی۔ سب سے بڑا ظلم جو ہم نے اپنی عورتوں پر کر رکھا ہے یہ ہے کہ بیوہ کو دوسرا نکاح نہیں کرنے دیتے۔
ہزار ہا اللہ کی بندیاں ہیں کہ انہوں نے شوہر کا منہ تک نہیں دیکھا اور نصیبوں پر ایسے پتھر پڑے کہ رانڈ ہو گئیں۔ ہندوؤں کی طرح ستی ہو کر ایک بار کا جل مرنا ساری عمر کے جلاپے سے ہزار درجے بہتر تھا مگر حرام موت ستی کیوں کر ہوں۔ دنیا میں ناک کٹتی ہے۔ لہٰذا دوسرا نکاح کس طرح کریں۔ غرض جیتی ہیں تو لطفِ حیات نہیں اور مرتی ہیں تو اپنے اختیار کی بات نہیں تو اس کا مطلب نکلا کہ شارع تو حقوق میں سے رتی بھر چھوڑنا نہیں چاہتے۔
اب جو نسبت مرد اور عورت میں شارع کو رکھنی منظور تھی کیونکہ باقی رہ سکتی ہے اور وہ نسبت کیا تھی۔ اسی کے لیے میں تمہارے آگے قرآن کی دو آیتیں پڑھتا ہوں سورئہ بقر میں ہے۔ جیسے عورتوں کی ذمہ داریاں ہیں ویسی ہی راست معاملگی کے ساتھ برتاؤ کرو۔ پس اگر وہ تم کو بھلی نہ لگیں تو عجب نہیں تم کو ایک چیز بھلی نہ لگے اور خدا اس میں بہت سی بہتری کر دے۔
اب فرمائیے کہ تعدد نکاح جائز ہے یا ناجائز؟
مبتلا: میں تو مذہب کا کوئی بڑا محقق نہیں مگر اسی طرح جو رویں اگر زبردستی ہمارے گلے مڑھی جائیں گی تو جو حالت آپ نے بیوہ عورتوں کی بیان کی، اس سے بدتر ہماری ہو گی۔ بیوہ عورت کو تو خیر صبر کرنے کے لیے ایک بات بھی ہے کہ شوہر نہیں ہے نہ سہی لیکن یہ کیا مصیبت ہے کہ ایک عورت کو آنکھ بھر کر دیکھنے کو جی نہیں چاہتا، بات کرنے کی طرف طبیعت رغبت نہیں کرتی اور آپ کہتے ہیں کہ زبردستی اس کے ساتھ عاشقی کرو۔
اگر خدا کے یہاں ایسی ہی ہیکڑی ہے تو اس کو اختیار ہے دوزخ میں ڈالے یا جہنم میں جھونکے۔ بندگی و بے چارگی۔ مگر میں تو آپ سے صاف صاف کہتا ہوں کہ ایسی مجبورانہ عاشقی مجھ سے نہ ہوئی ہے نہ ہو گی۔
عارف: بلاشبہ تم مغلوب طبیعت ہو رہے ہو اور جب تک تمہاری یہ حالت رہے گی۔ حقیقت میں تم سے خلاف طبیعت کوئی بات ہو ہی نہیں سکتی۔
مبتلا: اسی میں تو آپ سے مدد چاہتا تھا کہ طبیعت پر غالب آنے کی کوئی تدبیر بتائیے۔
عارف: جو تدبیر مجھ کو معلوم تھی وہی ایک تدبیر ہے میں نے تو اس کے بتانے میں دریغ نہیں کیا۔ پہر بھر تک تمہارے ساتھ اپنا مغز خالی کیا تو لاجواب ہو گئے اور چلتے چلتے تم سے کہتا گیا کہ تم ان باتوں کو فرصت سے سوچنا اور موجبات ترغیب کے پاس نہ جانا۔ تم یوں سمجھو کہ حسن پرستی مرض ہے۔ سوچنا دوا ہے اور موجبات ترغیب سے دور رہنا پرہیز، بھائی! مرض جسمانی بھی اگر مزمن ہوتا ہے تو اس کو جلد صحت نہیں ہوتی اور بعض صورتوں میں برسوں علاج اور ساری عمر کے لیے پرہیز کرنا پڑتا ہے۔
یہی حال ہے امراض روحانی کا جن کا دوسرا نام ہے بُری لت یا بد عادت۔ تمہارا علاج تمہارے ہی ہاتھ میں ہے کرو تو تم اور نہ کرو تو تم۔
مبتلا: آپ تو تعدد نکاح میں چند در چند طرح کے خدشات پیدا کرتے ہیں اور بزرگانِ دین میں کوئی بھی اس سے خالی نہیں۔
عارف: جب ایک بات کی صراحت ہم کتاب اللہ میں پاتے ہیں تو ہم کو کسی بزرگ کے قول و فعل پر نظر کرنے کی ضرورت نہیں، ایک اور دوسرے یہ معاملات ہیں شخصی۔
جب تک کسی کی طبیعت، کیفیت، حالت اور ضرورت کا کچھ حال معلوم نہ ہو ہم بُری یا بھلی کوئی رائے ظاہر نہیں کر سکتے اور سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ جو لوگ اپنے لیے اس کی آزادی کو عمل میں لاتے تھے وہ عورتوں کی آزادی میں بھی مضائقہ نہیں کرتے تھے۔ ہماری طرح ان کا معاہدئہ نکاح مرنے بھرنے کا معاہدہ نہ تھا۔ ذرا سی عدم موافقت ہوئی۔ مرد نے طلاق دے دی یا عورت نے خلع کر لیا۔
تھوڑے تھوڑے مہر ہوتے ہیں ان کو معاہدہ نکاح کا فسخ کر دینا ایک بات تھی۔ نہ طلاق کا عیب نہ دوسرے نکاح کی عار۔ تو ان کی آزادی حق بجانب لیکن ہم کیا ان کی ریس کر سکتے ہیں کہ ہماری بیبیاں لونڈیوں سے بڑھ کر بے اختیار۔ دائم الحسبس ناک تا چوٹی گرفتار اور پھر تعداد نکاح سے جو بے لطفیاں اور بدمزگیاں خانہ داری میں پیدا ہوتی ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں تو بزرگانِ دین کو بھی اس سے نجات نہ تھی۔
کوئی دوسرا کس گنتی میں ہے۔
مبتلا: اب بھی مجھ کو کون سا لطف حاصل ہے۔
عارف: تم آگ کے جلے ہوئے کو سینکتے ہو۔ یعنی ایک بے لطفی کو دوسری بے لطفی سے دبانا چاہتے ہو۔ مگر ممکن ہے کہ یہ دوسری بے لطفی آخر میں اس پہلی بے لطفی سے زیادہ شاق ہو۔
مبتلا: اس وقت جیسا موقع ہو گا دیکھا جائے گا۔ میں ابھی سے فکر مستقبل کر کے اپنی زندگی کو کیوں تلخ کر لوں۔
عارف: تو اب حقیقت میں میری تمہاری ملاقات لاحاصل ہے۔ مگر میں اتنا کہے دیتا ہوں کہ تم اپنے حق میں اچھا نہیں کرتے۔ افسوس ہے کہ تم نے مجھ کو جناب میرمتقی صاحب سے شرمندہ کیا۔ یہ کہہ کر عارف بہ کمال نا رضا مندی اٹھ کر چلا گیا۔
#…#…#
بیسواں باب:مبتلا کا دوسرا نکاح
مبتلا کے سر پر ان دنوں ایسا جن سوار تھا کہ اس کی عقل ہی ٹھکانے نہ تھی عارف سے پیچھا چھڑا وہ پھر بیگم کے گھٹنے سے جا لگا۔ وہ تو پہلے ہی سے اس کے لیے جال پھیلائے بیٹھی تھی۔ جانا تھا کہ اس پر چھا گئی۔ بیگم بالطبع زیادہ تر اس بات کی طرف راغب تھی کہ مبتلا آشنائی کے طور پر اس کو گھر میں ڈال لے۔
مگر میرمتقی اور عارف کی تعلیم کا مبتلا پر اتنا تو اثر ہوا کہ اس نے بے نکاح بیگم کے ساتھ تعلق رکھنے کو پسند نہ کیا۔ پاس تھی مسجد دو طالب علموں کو بلا بھیجا۔ نکاح پڑھا جانے لگا۔ مہر میں ہوا اختلاف۔ مبتلا نے چاہا مہر شرع محمد، بیگم نے کہا جو غیرت بیگم کا مہر وہ میرا مہر۔ جیسی نکاحی بی بی وہ ویسی نکاحی بی بی میں۔
دیر تک اس میں تکرار ہوتی رہی۔
آخر مولوی صاحب جو نکاح پڑھاتے تھے بولے کہ جانے دو مہر مثل رکھو۔ مبتلا تو نیم راضی ہو چلا تھا۔ مگر بیگم مہر مثل کے نام سے شرماتی تھی کیونکہ سارے خاندان میں کبھی کسی کا نکاح ہوا ہوتو مہر مثل ہو۔ دادی اور پھوپھیاں ساری عمر خرچیاں کماتی رہیں۔ مہر مثل آئے تو کہاں سے آئے۔ ناچار مہر شرع محمدی ماننا پڑا اور بات یہ بنائی کہ وہ بھی کیا بی بی ہے جو میاں پر مہر کا دباؤ ڈال کر گھر کرے۔
ہم تو بڑا مہر مرد کے دل کو سمجھتے ہیں۔ دل مٹھی میں آیا تو جانو سب کچھ پایا۔ وہ کیا غضب کے دوانچھر تھے کہ ادھر پڑھے گئے اور ادھر فکروں نے آگھیرا۔ بیگم نے نکاح کے بعد پہلی جو بات کی وہ یہ تھی کہ یہ مکان جس میں رہتی ہوں تم کو معلوم ہے کرائے کا ہے اور جتنا سازوسامان جو تم یہاں دیکھتے ہو۔ یہاں تک کہ میرے ہاتھ کا گہنا اور گلے کے کپڑے کوئی چیز میری نہیں۔
میری سگی خالہ میرے ساتھ ہیں۔ یہ سب ان کا مال ہے۔ ان کی ہرگز مرضی نہ تھی کہ میں نکاح کروں۔ اب جو میں نے ان کو ناراض کر کے کیا ہے تو اِدھر کی دنیا اُدھر ہو جائے۔ خالہ بندی میرے پاس ٹھہرنے والی نہیں اور مجھ کو اس وقت کہیں لے چلتے ہو تو میں تیار ہوں۔ اپنی آبرو کا پاس کر کے گہنا کپڑا تو بہتیرا پہناؤ گے اور میں پہنوں گی مگر لے چلنا ہے تو مجھ کو اپنے یہاں کے کپڑے پہنا کر لے چلو اور دو چار دن کے لیے یہاں ٹھہرانے کی صلاح ہے تو جا کر خالہ سے اجازت لے لو۔
میں ان کے سامنے نہیں جا سکتی۔
مبتلا نکاح کے لیے تو بڑا مستعجل تھا مگر احمق نے پہلے سے اتنا بھی نہ سوچا کہ کہاں دوسری بی بی کو لے جا کر رکھوں گا اور کیونکر اس نئے گھر کا انتظام ہو گا۔ اب جو دفعتاً اس کو معلوم ہوا کہ بیگم بے سروسامان محض بیک بینی و دو گوش اس کے سر پڑی تو بہت سٹ پٹایا اور جتنا اختلاط وہ معمولی ملاقاتوں میں کر لیا کرتا تھا، طبیعت کو اس کے لیے بھی حاضر نہ پایا۔
یہ حقیقت تھی اس خواہش کی جس کے پیچھے مبتلا اس قدر دیوانہ بن رہا تھا کہ دنیا اور دین اس کو کچھ نہیں سوجھتا تھا، اب ایک ذرا سا تردد پیش آگیا تو کہیں اس خواہش کا پتہ نہ تھا۔ میرمتقی اور عارف اس کو یہی سمجھاتے تھے کہ کس فکر خسیس میں پڑے ہو، فکر کرنے کی باتیں دوسری ہیں، عمدہ اونچی اور ضروری۔ اگر ان میں دل لگاؤ تو اس فکر بے ہودہ سے نجات پاؤ۔
بیگم پر اپنی درماندگی ظاہر کرتے ہوئے تو اس کو شرم آئی۔ آخر وہ یہ کہہ کر اٹھ آیا کہ ابھی تھوڑی دیر میں بندوبست کر کے تم کو لے چلتا ہوں تیار ہو۔ ایک بات یہ بھی اکثر دیکھنے میں آئی کہ آوارہ اور عیاش مزاج لوگ دھوکا دینے میں بڑے چالاک ہوتے ہیں اور اس کا سبب یہ سمجھ میں آتا ہے کہ خود ہمیشہ تختہ مشق مغالطات رہتے ہیں۔ مبتلا کو بھی عین وقت پر غضب کی سوجھتی تھی جس وقت تک وہ بیگم کے پاس بیٹھا رہا۔
کوئی بات اس کے ذہن میں نہ تھی۔ اٹھ کر باہر آنا تھا کہ اس نے اپنے دل میں کہا کہ بیگم کو اپنے ہی مکان میں بلکہ زنان خانے میں بلکہ غیرت بیگم کے ساتھ رکھنا ٹھیک معلوم ہوتا ہے کیونکہ یہ بات چھپنے والی تو ہے نہیں۔ آخر کبھی نہ کبھی کھلے گی ضرور۔ پس جو کچھ ہونا ہے وہ پرسوں کا ہوتا کل اور کل کا آج ہو چکے۔ یہ دل میں ٹھان وہ گھر کی طرف چلا آرہا تھا کہ راہ میں اس کو اپنے گھر کی دو عورتیں ملیں۔
مامَا کے ساتھ انّا اور انّا کی گود میں مبتلا کی دودھ پیتی ہوئی دس گیارہ مہینے کی تھی بچی۔ چور کی داڑھی میں تنکا، مبتلا تو سمجھا کہ غیرت بیگم کو نکاح کی خبر ہو گئی اور سننے کے ساتھ ہی شاید ناظر کے گھر چلی گئیں اور یہ عورتیں پیچھے سے جا رہی ہیں۔ گھبرا کر پوچھا۔ ماما بولی ننھی بچی کا جی دس بارہ دن سے ایسا ماندھا ہو رہا ہے کہ بخار کسی وقت نہیں اترتا۔
کل شام سے مطلق آنکھ نہیں کھولی۔ اب کے ایسی بھاری نظر ہوئی ہے کہ دوپہر سے دودھ بھی منہ میں نہیں لیتیں۔
متوکل شاہ صاحب کے پاس دم کرانے کے لیے جاتے ہیں۔ مبتلا سے اور ایک ڈاکٹر سے بہت ملاقات تھی۔ مبتلا لڑکی کو ڈاکٹر کے پاس لے گیا۔ اس نے دیکھ کر کہا کہ بخار بڑے زور کا ہے مگر کچھ گھبرانے کی جگہ نہیں۔ کچلیاں پھول رہی ہیں۔ میں مسوڑھا کھولے دیتا ہوں اور شیشی ایک بھیج دینا، عرق دوں گا۔
گھنٹے گھنٹے بعد ایک ایک چمچہ پلانا پسینا آکر تپ اتر جائے گا اور دودھ تو خدا نے چاہا لڑکی ابھی پینے لگے گی۔ مسوڑھے کی تکلیف کے مارے منہ نہیں چلا سکتی۔ یہ کہہ کر نشتر نکال مسوڑھا کھول دیا۔ اَنّا نے پیٹھ موڑ کر دودھ لگایا تو غٹ غٹ پینے کی آواز آنے لگی۔ سب لوگ خوشی خوشی گھر واپس آئے۔ جب مردانے میں پہنچا تو مبتلا نے لڑکی کو آپ لے لیا۔ یہ تو خیر لڑکی تھی۔
اس سے بڑا لڑکا معصوم ساڑھے تین برس کا ہوا، اس بلا کی باتیں جیسے بنگالے کی مینا اور ایسی پیاری صورت کہ کوئی راہ چلتا اس کو دیکھتا تو گود میں اٹھا لیتا۔ مبتلا نے کبھی بھول کر بھی آنکھ اٹھا کر اس کی طرف کو نہ دیکھا بلکہ وہ بچہ جب اس کو دیکھتا ابا ابا کہہ کر دوڑتا اور یہ ظالم دور سے اس کو جھڑک دیتا۔ خلافِ عادت بیٹی گود میں لیے ہوئے جو گھر میں گھسا غیرت بیگم تو دیکھتے ہی ریجھ گئی اور بیٹی کو لینے کے لیے دوڑی اور لگی پوچھنے کہ میں نے تو اس کو دم کروانے کے لیے بھیجا تھا۔
کیا تم اس کو الٹا پھروا لائے؟
مبتلا: تم کو خبر بھی ہے اس کی کچلیاں نکل رہی ہیں اور کچلیوں کا تو معمول ہے کہ بچے کو کچلا کر کے بڑی مشکل سے نکلتی ہیں۔ میں اس کو ڈاکٹر کے پاس لے گیا تھا۔ اس نے نشتر سے اس کا مسوڑھا کھول دیا ہے اور بخار کے لیے عرق دینے کو کہا ہے۔ شیشی بھیج دو۔ ماما جا کر عرق لے آئے۔ خدا نے چاہا آج ہی رات کو بخار بھی اتر جائے گا اور کچلی کو تو سمجھو نکل آئی۔
غیرت بیگم: اے ہے کیا مسوڑھے کو چیرا لگایا ہے۔
مبتلا: کچھ خوف کی بات نہیں۔ انا سے پوچھو کہ لڑکی کو خبر تک نہیں ہوئی۔ اسی وقت تو اس نے خاصی طرح دودھ پیا۔ ڈاکٹر کہتا تھا کہ جب دانت نکلنے کو ہوتا ہے تو مسوڑھا پہلے سے مردار پڑ جاتا ہے۔ اس وجہ سے تکلیف نہیں ہوتی۔ کچھ خدا کو بہتری کرنی تھی کہ عین وقت پر تدبیر ہو گئی۔ ورنہ آج رات بھر میں معلوم نہیں کیا ہو جاتا۔
غیرت بیگم نے لڑکی کا منہ کھول کر دیکھا تو اتنی ہی دیر میں بخار بھی کسی قدر ہلکا ہو گیا تھا اور صورت بھی ہوشیار تھی۔ پکارا کہ بتول بتول! تو ماں کی آواز پہچان کر آنکھیں کھول دیں اور دیکھ کر مسکرائی بھی۔ ماں نے پیار کر کے انّا کی گود میں دیا تو پھر دودھ پیا۔ یہ دیکھ کر غیرت بیگم بولی کہ ننھے بچوں کی یہی تو بڑی مصیبت ہے کہ آپ تو منہ سے کچھ نہیں کہہ سکتے اوپر والوں کو کیونکر معلوم ہو کہ ان کو کس بات کی ایذا ہے۔
آنکھوں کا نہ کھولنا اور ڈر ڈر کر اچھل پڑنا اور ہتھیلیوں میں بساندی بساندی بو کا آنا ان باتوں کو دیکھ یہاں تو سب یہی کہتے تھے کہ نظر ہو گئی ہے۔
مبتلا: ڈاکٹر نے دیکھنے سے پہلے زبانی حال سن کر کہہ دیا تھا کہ کوئی دانت نکل رہا ہو گا۔ پھر جو منہ کھول کر دیکھا تو حقیقت میں دور سے کچلی صاف جھلک رہی تھی۔
غیرت بیگم: گھر میں کوئی بڑا بوڑھا ہو تو ان باتوں کا دھیان رکھے۔ بچے ذرا ماندے پڑتے ہیں تو میرے ہوش و ہواس ٹھکانے نہیں رہتے۔ لو اب مغرب کی اذان تو ہو چکی ہو گی۔ یا ہو رہی ہو گی۔ لڑکی کے جھگڑے میں کھانے کا بھی تو کچھ بندوبست نہیں ہوا۔ گوشت کا تو اب وقت نہیں رہا۔ کہو تو خاگینہ پکوا لوں۔
مبتلا: جو تمہارے جی میں آئے پکواؤ۔ مگر خدا کے لیے کوئی سلیقہ مند عورت ضرور رکھو۔
غیرت بیگم: ماماؤں کا تو ہمارے شہر میں ایسا توڑا ہے کہ دوا کے لیے بھی میسر نہیں۔ جو عورتیں اس کام کی ہیں مزے میں گھر بیٹھے ہی گوٹے کناریاں بنتی ہیں یا سلائی کا سیتی ہیں۔ نوکری پرائی تابعداری کرے ان کی بلا، اور جن سے یہ کام ہو نہیں سکتا انہوں نے سر پر ڈالا برقع اور جدھر کو منہ اٹھا چل کھڑی ہوئیں۔
پہر چھے گھڑی بھیک مانگی لدی پھندی گھر لوٹ آئیں!
مبتلا: لیکن میرے نزدیک تمہیں ماما کی نہیں بلکہ ایسی عورت کی ضرورت ہے جو بال بچوں کی خبرگیری کرے۔
وقت پر ان کا ہاتھ منہ دھلائے۔ کھانا کھلائے۔ کپڑے پہنائے۔ گھر کی چیز بست دھرے اٹھائے۔ غرض داروغہ کی طرح گھر کے سارے انتظام کی نگرانی کر کے تم کو آسائش پہنچائے۔
غیرت بیگم: تم ہی کوئی اس طرح کی عورت ڈھونڈھ کر نہیں لا دیتے۔
مبتلا: لا دوں تو رکھو گی اور کیا تنخواہ دو گی!
غیرت بیگم: ضرور رکھوں گی اور تنخواہ پانچ روپے اور کھانا کپڑا۔
مبتلا: خیراتنی ہی تنخواہ دینا مگر خاطر داری رکھنا۔ لکھنئو کی ایک عورت ہے خدا جانے کس تباہی میں آکر یہاں چلی آئی ہے۔ اگر پھٹا پرانا ایک جوڑا کپڑا دو تو میں پہنا کر ابھی اس کو لے آؤں۔ غیرت بیگم نے جلدی سے گٹھڑی کھول کر ایک جوڑا کپڑا نکال میاں کے حوالے کیا۔
مبتلا کپڑے لئے بیگم کے پاس پہنچا اور اس کو سمجھا دیا کہ اس طور پر میں نے تمہارے گھر لے چلنے کی راہ نکالی ہے۔
مجھے اپنی بی بی کا حال معلوم ہے۔ وہ یہی نہیں کہ صورت کی اچھی نہیں بلکہ اس میں عقل کی بھی کوتاہی ہے صورت تو خیر تم چل کر دیکھ لو گی۔ مگر عقل کی کوتاہی اس سے ظاہر ہے کہ اس نے عورت کے لانے کی فرمائش کی بھی تو مجھ سے۔ پس تم کو چند روز البتہ بے عزتی کا تحمل کرنا پڑے گا۔ اس کا مجھے کامل یقین ہے کہ تم گھر والی ہو گی اور وہ رہے گی تو تمہاری خدمت کرے گی یا اپنے میکے چلی جائے گی۔
غرض غیرت بیگم کا اتارن پہن کر بیگم مبتلا کے گھر جا داخل ہوئی۔ بھلے مانسوں کی بہو بیٹیوں کی طرح دبی جھکی، سکڑی، سمٹی، مبتلا کو تو اتنی جرأت نہ ہو سکی کہ خود لے جا کر غیرت بیگم سے ملا دیتا۔ دروازے کے اندر کر کے اتنا پکار دیا کہ لو صاحب! یہ داروغہ آتی ہے۔ اور آپ مردانے میں جا بیٹھا۔ بیگم نے اپنے تئیں سنبھالا بہت مگر وہ جس قدر اپنے چھپاتی تھی، اسی قدر اس کا پردہ فاش ہوتا جاتا تھا۔
آئی تو نوکر کے نام سے اور عورتوں میں بیٹھی دلہنوں کی طرح۔ گھونگھٹ نکال کر۔ رات کا تھا وقت: غیرت بیگم نے کہا:
ذرا روشنی قریب لاؤ تو ان کی صورت اچھی طرح نظرآئے۔ جوں غیرت بیگم نے زبردستی اس کا منہ کھولا۔ دیکھتی کیا ہے کہ ایک عورت ہے جو ان، ماتھے پر افشاں چنی ہوئی۔ پٹیاں جمی ہوئی۔ الٹے بل کی چوٹی اور اس میں چنپا کا موباف۔ کانوں میں چنبیلی کی کلیاں۔
آنکھوں میں دھواں دھار سرمہ۔ مسی کی دھڑی اور دھڑی پر لاکھا۔ ہاتھ پاؤں میں مہندی دور سے خوشبو بڑی مہک رہی ہے۔ غیرت بیگم دیکھنے کے ساتھ اس طرح ڈر کر پیچھے کو ہٹی کہ جیسے کوئی بچہ بیچا سے بھاگتا ہے اور لگی کہنے: اوئی بیوی۔ یہ ماما کس قسم کی۔ یہ تو کوئی نامراد کنچنی ہے۔ پھر تو ہمسائے تک کی عورتیں گھر میں آبھریں اور سب نے مل کر بیگم کا ایسا بُرا حال کیا کہ کوئی دوپٹہ اتارے لیے جاتا ہے کوئی پیچھے سے چوٹی گھسیٹ رہا ہے۔
مگر کسی رحم دل بی بی نے اس کا ہاتھ پکڑ کر باہر ڈیوڑھی میں لے جا کر چھوڑا دیا اور کہا کہ بیوی نبوجدھر سے آئی ہے ادھر ہی کو چلی جا۔ وہ تو گھر والی دل کی بڑی نیک ہے۔ کوئی اور دوسری ہوتی تو بے ناک چوٹی کاٹے نہ رہتی۔ مبتلا ڈیورھی کے بازو سے لگا یہ سب تماشا دیکھ رہا تھا۔ کچھ ہنسی کچھ غصہ۔ بیگم کو دیکھتے ہی بولا:
واہ اچھی اپنی گت کرائی۔
باوجود یکہ میں نے تم سے کہہ دیا تھا کہ میں تم کو نوکری کے حیلے سے لیے چلتا ہوں۔ پھر تم کو ایسا بن سنور کر آنا اور اتنا لمبا چوڑا سنگار کرنا کیا ضرور تھا۔ سیدھے سبھا چلی آئی ہوتیں، نہ کسی کو شبہ ہوتا اور نہ چراغ لے لے کر کوئی تمہارا منہ دیکھتا۔ خیر اب ذرا کی ذرا، یہاں ٹھہرو پھر میں تمہاری بات جماتا ہوں، مگر دیکھو خبردار کوئی ایسی بات نہ کرنا جس سے لوگوں کو میرے تمہارے لگاؤ کا شبہ ہو۔
مبتلا نے گھر کے اندر پاؤں رکھتے ہی پوچھا کہ لڑکی کا کیا حال ہے۔
انا بولی: اب تو اللہ کا فضل ہے۔ دوبار عرق پلایا اس قدر پسینہ آیا کہ شام سے تین کرتے بدل چکی ہوں۔
مبتلا: بس انشاء للہ اب بخار گیا۔ بارے اب الحمدللہ بچ گئیں (پھر بیوی کی طرف مخاطب ہو کر) لاؤ صاحب کھانا تیار ہو تو منگواؤ۔ دستر خوان بچھا عادت کے مطابق میاں بی بی کھانا کھانے بیٹھے تو مبتلا نے پوچھا: کیوں صاحب وہ عورت آئی تھی۔
غیرت بیگم: واہ چوری اور سرزوری۔ آج کو بڑے ماموں جان زندہ ہوتے تو الٹے استرے سے مردار کا سر منڈوا کر بھی بس نہ کرتے اور تم کو تو اپنی لاج کا لحاظ پاس آج کیا برسوں سے نہیں۔ بڑے ماموں جان کی زندگی تک چوری چھپے کرتے تھے۔ وہ مرے تو تم کھل کھیلے۔ مردانہ مکان تو مدتوں سے کنچنیوں کا چکلہ ہو رہا ہے۔ ایک زنانہ مکان بچا تھا۔ سو میں خوب جانتی ہوں کہ تم اس کی تاک میں لگے ہو۔
مگر جب تک میں جیتی بیٹھی ہوں دیکھوں تو کون رستم کی جنی میری ڈیوڑھی کے اندر پاؤں رکھتی ہے۔ اپنا اس کا خون ایک کر دوں تو سہی۔
مبتلا: بے وجہ بے سبب تم اس قدر گرم کیوں ہوتی ہو۔ بھلا اتنا سمجھو اگر وہ کنچنی ہوتی اور فرض کرو کہ اس کو بلانا منظور ہوتا تو مردانہ ہوتے ساتے مجھ کو اسے گھر میں لانے کی کیا ضرورت تھی۔ خدا عقل دے تو سمجھنے کے لیے ایک موٹی بات یہ ہے کہ کنچنی ہوتی تو تمہارے مانگے کے کپڑے پہن کر کیوں آتی۔
غیرت بیگم: کپڑا اور گہنا تو بے شک اس کے پاس نہ تھا مگر سر سے پاؤں تک چوتھی کی دلہن معلوم ہوتی تھی۔
مبتلا: تم کو چاہیے تھا کہ مجھ کو بلا کر پوچھتیں۔ اگر میں تمہاری تشفی نہ کر سکتا۔ تب بھی اس بے چاری کا کیا قصور تھا۔ مجھ پر جتنا چاہتیں خفا ہو لیتیں۔
بات یہ ہے کہ حقیقت میں وہ آج شاموں شام تک کنچنی تھی۔ مگر میں اس کو ایک مدت سے جانتا ہوں۔ ہمیشہ یہ مجھ سے کہا کرتی کہ مجھ کو اس پیشہ سے سخت نفرت ہے۔ اگر کہیں میری روٹی کا ٹھکانہ لگ جائے تو میں تائب ہو جاؤں۔ جب تم نے نوکر رکھنے کا وعدہ کیا تو میں نے اس کو زبان دی اور وہ ارادے کی ایسی پکی اور سچی تھی کہ فوراً میرے ساتھ ہو لی اور پھر کس طرح یہ کہ گہنا اور پاتا اور کپڑا اور لتا اور سازوسامان یعنی بھرا بھرا یا گھر سب کو لات مار کر جس طرح بیٹھی تھی اٹھ کھڑی ہوئی۔
میں نے بے شک جھک مارا اور میرا بال بال خدا کا اور تمہارا گناہگار ہے۔ مگر جس دن سے چچا باوا تشریف لائے، تم میری کوئی ایک بات بتاؤ اور یوں اگر تمہارے مذہب میں توبہ کوئی چیز نہیں اور ناحق بدگمان رہو تو تمہاری خوشی۔
بھلا تم نے چند روز تو اس بے چاری غریب کو رکھ کر دیکھا ہوتا۔ جو شخص آٹھوں پہر آنکھوں کے سامنے رہے۔ اس کا حال آج نہیں تو کل اور کل نہیں تو پرسوں ضرور کھلے گا۔
نوکر سریش نہیں ہے کہ چمٹ جائے مرضی ہوئی رکھا۔ مرضی نہ ہوئی نہ رکھا۔ مگر چونکہ میرا قدم درمیان ہے۔ میں تم سے بات کہوں صاف۔ یوں بے خطا بے قصور تو میں اس کو نہیں چھوڑ سکتا۔ تم ہی بتاؤ کہ اب وہ جائے تو کہاں جائے۔ غیرت بیگم ابھی کچھ ہاں نا کرتے نہیں پائی تھی کہ مبتلا نے کہا کہ ماما جا باہر ہریالی ایک عورت کھڑی ہے اس کو بلا لا اور کام کاج میں اس سے مدد لیا کر۔
غرض وہ نکالی جا کر پھر آموجود ہوئی۔ رات گئی تھی زیادہ لوگ کھا پی کر اپنی اپنی جگہ سوسلا رہے۔ ہریالی یعنی بیگم بھی تخت پر بے تکیے بے بچھو نے ماماؤں میں سوئی، صبح کو جو اٹھے تو پھر لوگوں نے ہریالی کو گھورنا شروع کیا۔ مگر اب اس کا سنگار ہو گیا تھا باسی اور تمام شب کی بد خوابی اور زحمت کی تکان سے اس کا جوبن بھی نڈھال ہو رہا تھا۔ لوگوں نے کچھ بہت اس کا پیچھا نہیں کیا۔
اس میں شک نہیں کہ گھر میں ایک منتظم عورت کی سخت ضرورت تھی اور یہی ضرورت ہریالی کے پاؤں جم جانے کا سبب ہوئی۔ ہریالی نے جو صبح سویرے اٹھ کر دیکھا تو تمام اسباب مولی گاجر کی طرح سارے گھر میں پھیلا پڑا ہے۔ اس نے خود کھڑے ہو کر جہاں جہاں فرش تھا اٹھوا کر دالانوں میں صحنوں میں، دروں میں، باورچی خانے میں۔ یہاں تک کہ ڈیوڑھی میں جھاڑو دلوائی۔
ٹوکروں نہیں چھکڑوں کوڑا نکالا اور بہت سی گری پڑی چیزیں ملیں، جن کو ڈھونڈ ڈھونڈ صبر کر کے بیٹھ رہے تھے اور سمجھ لیا تھا کہ کھوئی گئیں۔ مٹی کی تہیں جمتے جمتے دریوں کا یہ حال ہو گیا تھا کہ اصل رنگت پہچان نہ پڑتی تھی۔ جھڑوایا تو منوں گرد دروازوں میں جو چلمنیں اور پردے بندھے تھے، الٹے سیدھے کا تو کس کو امتیاز تھا، کوئی دھر تک بندھا ہے تو کوئی آدھے در میں پڑا لٹک رہا ہے اور کسی کا لپیٹ ایک طرف کو جھک کر نکل پڑا ہے تو اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ اس کو برابر کر دیں۔
بلکہ کئی پردوں میں سے تو فاختاؤں اور جنگلی کبوتروں اور گلہریوں کے گھونسلے نکلے۔ گھر میں تخت تو بہتیرے ہیں مگر بیٹھنے کے دالانوں میں زمین پر بوریے بچھے ہیں۔ بوریوں پر دریاں، دریوں پر چاندیوں پر لیے پھرتی ہیں اور چاندنیوں کا مارے دھبوں اور چکتوں کے یہ حال ہو رہا ہے کہ آنکھ اٹھا کر دیکھنے کو جی نہیں چاہتا۔ صبح سے کھڑے کھڑے ہریالی کو دوپہر ہو گئی۔
تب کہیں جا کر اتنا کام ہوا کہ گھر میں جھاڑو دی گئی۔ دالانوں میں اس حساب سے تخت بچھوائے کہ بیچ میں فرش اور اِدھر اُدھر ماماؤں اور لونڈیوں کے چلنے پھرنے کی جگہ اب چاندنیوں اور تکیوں کے غلاف اور پلنگوں کی بھی چادروں کی ڈھنڈیا پڑی۔ قاعدہ ہے کہ جب چیزوں کا انتظام نہیں ہوتا تو یہی شناخت ہے کہ چیزوں کی حفاظت بھی نہیں۔ اتنا بڑا گھر اور اس وقت دھوئی ہوئی تین چاندنیاں درکار تھیں۔
وہ بھی نہیں ملتی تھیں۔ غیرت بیگم نے بہتیرے پتے بتائے، ارے کم بختو ابھی عشرے ہفتے کا ذکر ہے۔ دھوبن چاندھنیوں کا گٹھڑ لائی۔ وہ سب ڈھیر کا ڈھیر کیا ہو گیا۔ لٹھے کی وہ کوری چاندنی جو بیچ کے دالان میں بچھی تھی اور پرسوں ترسوں اس پر سالن کی دیگچی مبارک قدم کے ہاتھ سے الٹ پڑی تھی اور میں نے صاف کرنے کے لیے اٹھوا دی تھی، کہاں ہے۔ جتنی کھڑی تھیں۔
ایک ایک کا منہ دیکھتی تھیں اور ایک ایک پر ٹالتی تھیں۔
آخر بڑی مشکل سے دو چاندنیاں اناج کی کوٹھڑی کی مچان پر پڑی ملیں، جن میں چوہوں نے کاٹ کاٹ کر بغار ڈال دیئے تھے اور ایک میں کسی ماما نے سوکھے ٹکڑے باندھ کر کھونٹی پر لٹکا رکھے تھے۔ اس جستجو میں معلوم ہوا کہ کئی چاندنیاں باہر سائیس کے پاس ہیں وہ اوڑھ کر سوتا ہے۔ دو یا تین چاندنیاں کسی کو مانگے دی تھیں وہ واپس نہیں آئیں۔
میلی چاندنیوں کا ایک ڈھیر غسل خانے میں پڑا ملا۔ غرض اس وقت تو ہریالی نے کسی طرح گونتھ گونتھ کر فرش کو پورا کیا۔ پلنگ سب کے سب جھولا ہو رہے تھے۔ ان کو کسوا کر اجلی چادریں بچھوا دیں۔ تکیوں کے غلاف بدلے۔ اجلا دستر خوان نکلوا دیا۔ اتنے میں معلوم ہوا کہ میاں مبتلا کھانے کے لیے آرہے ہیں۔ ہریالی یہ سن کر سامنے سے ٹل گئی۔ باورچی خانے کے آڑ میں ہو گئی۔
مبتلا نے آکر دیکھا تو اتنی ہی دیر میں گھر کی صورت بدلی ہوئی تھی، سمجھا کہ یہ سب ہریالی کے تصرفات ہیں۔ دالان میں بیٹھ کر کھانا مانگا تو باورچی خانے سے دو لونڈیاں سالن کی دو دو رکابیاں لے کر چلیں۔ پیچھے سے ایک ماما ہاتھ میں روٹیوں کی تھئی اٹھا کر دوڑی۔ ہریالی سے نہ رہا گیا۔ عین وقت پر کیا ہو سکتا تھا مگر خیر ان کو روک کر جلدی جلدی تھالی جوڑ پانی پینے کی صراحی، سینی، سلفچی، خاصدان، اگالدان سب چیزیں منجوائیں۔
سینی کے بیچ میں روٹی گردا گرد سالن کی رکابیاں جما اوپر سے خوان پوش ڈھک ایک لونڈی کے سر پر رکھوا سمجھا دیا کہ دیکھو خبردار آگے دیکھ کر آہستہ آہستہ چلو کہیں ٹھوکر نہ لگے اور دوسری لونڈی کو سلفچی، آفتابہ، اُجلا دستر خوان دے کر اس کے ساتھ کیا کہ پہلے تخت کے نیچے کھڑی رہ کر میاں بی بی دونوں کے ہاتھ دھلائیو۔ جب ہاتھ دھو چکیں سلفچی آفتابہ الگ رکھ کر دونوں کے بیچ میں اجلا دسترخوان بچھائیو اور سینی احتیاط کے ساتھ اتروا کر روٹیاں بیچ میں رکھیو دو قسم کا سالن ہے، دونوں کے سامنے دونوں قسم کا رکھ دیجیوں۔
تھالی جوڑ اور پانی پینے کی صراحی پیچھے سے بھجواتی ہوں۔ جب مانگیں تو خبردار آدھے کٹورے سے زیادہ بھر کر نہ دینا اور پانی جو پلانا تو جھک کر کٹورا آگے کر دینا کہ خود اپنی آنکھ سے دیکھ لیں اور تھالی منہ کے نیچے رکھنا کہ پانی کپڑوں پر گرنے نہ پائے۔ گھر میں چٹنی، اچار، مربہ بھی کچھ تھا مگر دستر خوان پر رکھنے کا دستور نہ تھا۔ جس کسی کو بھی کسی چیز کا خیال آگیا اور منہ پھوڑ کر مانگی تو مرتبان یا اچار اس کے پاس لے جا کر روٹی پر ایک پھانک رکھ دی۔
ہریالی نے چار قسم کی چار پیالیاں ایک رکابی میں لگا ابھی کھانا شروع نہیں کرنے پائے تھے کہ پہنچا دیں۔ کھانے کے بعد ہاتھ دھونے کا گرم پانی کا آفتابہ اور ایک طشتری میں بلیس، کھانے کو خاصدان میں بھیگی ہوئی صافی سے لپٹی ہوئی گلوریاں پہلے سے تخت پر رکھوا دیں۔ یہ تو ہریالی کے پہلے دن کے بلکہ پورا دن بھی نہیں دوپہر کے اور جلدی کے کام تھے۔
مہینے بھر کی محنت میں اس نے کپڑے کا، کھانے کا سامان، خانہ داری کا اندر باہر دونوں جگہ کے نوکروں کا بازار کے سودا سلف کا سب انتظام کر دیا۔ سلیقہ بھی عجیب چیز ہے۔ اندر باہر عورت مرد جتنے نوکر تھے۔ آپ سے آپ سب ہریالی کا ادب کرنے لگے۔ معصوم ایسا ہلا کہ دن رات میں ایک دم کے لیے گود سے نہیں اترتا تھا۔ بتول کی کیا بساط تھی، کیسی ہی بھڑکتی ہوئی آواز سنی اور چپکی ہوئی۔
غیرت بیگم کے دل میں اس کی طرف سے شک تو تھا مگر ہر چندہ ٹوہ لگائی کہ کوئی بات نہ پکڑ پائی۔ مبتلا کے گھر میں آنے کے وقت مقرر تھے، ہریالی ان وقتوں میں کسی نہ کسی بہانے سے ٹل جاتی تھی اور اگر احیاناً بضرورت سامنے چلی پھری بھی تو ایک دوسرے سے ایسے بے رخ بن جاتے تھے کہ تعلق کیسا۔ گویا جان پہچان تک بھی نہیں۔ مگر خدا جانے دونوں کو کیا ڈھب یاد تھا کہ اتفاقی اچٹتی ہوئی ایک نگاہ ان کے حق میں خلوت کا حکم رکھتی تھی۔
نہیں معلوم مبتلا آنکھوں ہی آنکھوں میں کیا کہہ دیا کرتا تھا کہ ہریالی برابر سرگرمی اور دل سوزی کے ساتھ گھر کے انتظام میں مصروف رہتی تھی۔ سچ ہے غیرت بیگم کے ساتھ مبتلا کے دل کے نہ ملنے کا بڑا سبب تھا۔ مبتلا کی حسن پرستی اور آوارگی۔ مگر اتنا قصور تو غیرت بیگم کا بھی تھا کہ اس نے مبتلا کو اپنی طرف مائل کرنے کے لیے ذرا بھی کوشش نہیں کی۔
وہ سمجھی جیسا کہ گھر کی بیبیاں اکثر سمجھا کرتی ہیں کہ جب ماں باپ نے میاں کے ہاتھ میں ہاتھ پکڑا دیا تو بس مجھے اپنی طرف سے کچھ کرنا نہیں۔ اب میاں کا کام ہے کہ کما کر لائے اور مجھے کھلائے پہنائے۔ میری خاطر داری و مدارت کرے۔
لیکن اس کو اتنی بات اور سمجھنی چاہیے تھی کہ کھلانا پہنانا خاطر داری و مدارت کرنا، سب چیزیں منحصر ہیں رغبت پر۔
رغبت کرنا میاں کا کام اور دلانا بی بی کا۔ رہی یہ بات کہ بی بی کیوں کر میاں کو رغبت دلائے، اس کے لیے کوئی ایسا قاعدہ نہیں کہ ہر جگہ چل سکے، کیونکہ ہر ایک کا مزاج مختلف اور ہر شخص کی رغبت جدا، لیکن بی بی اگر چاہے تو اس کو اپنے میاں کی رغبت کا معلوم کر لینا کیا مشکل ہے مثلاً غیرت بیگم اتنا تو دیکھتی تھی کہ مبتلا کیسی صفائی اور کس شان کے ساتھ رہتا ہے۔
وہ ہر چیز میں حسن چاہتا تھا۔ خیر حسن صورت مبتلا کی پسند کے لائق ہو یہ تو اختیاری بات نہ تھی۔ مگر جس قدر اختیاری تھی غیرت بیگم نے اتنی ہی کر کے دکھائی ہوتی، گھر کی صفائی ستھرائی، سازوسامان کی درستی، انتظام کی خوبی یہ چیزیں بھی داخل حسن ہیں اور طبیعت میں سلیقہ ہو تو ہاتھ پاؤں کے اور غیرت بیگم تو زبان کے بلانے سے سب کچھ ہو سکتا تھا۔
مگر اس نے ان چیزوں کی طرف کبھی بھول کر بھی توجہ نہ کی۔ مردانے مکان میں میاں کی بیٹھک تھی اسی کو دیکھ کر متنبہ ہوئی ہوتی۔ اس کا اپنا کیا حال تھا کہ میاں کو جو شروع شروع میں اپنی طرف سے بے رخ پایا تو تین تین چار دن سر میں کنگھی ندارد، لونڈیوں کے تقاضے سے دسویں پندرہویں سر دھویا ہے تو بالوں میں تیل کی خبر نہیں۔ پھولے پھولے، روکھے بال دور سے ایسا معلوم ہوتا کہ کڑک ناتھ کڑک مرغی بیٹھی ہے۔
آنکھوں میں سرمہ نہیں ہاتھ پاؤں میں مہندی نہیں۔ پھول نہیں، عطر نہیں گوٹا نہیں کناری نہیں، غرض عورتوں کے سنگھار کی کوئی چیز نہیں، مبتلا پہلے استکراہ تھا، غیرت بیگم کی بے تدبیریوں نے استکراہ کو نفرت اور نفرت کو ضد اور ضد کو چڑ بنا دیا۔ صورت شکل میں ہریالی کچھ غیرت بیگم سے زیادہ اچھی نہ تھی مگر چھٹانک بھر حسن ہوتا ہے تو غور و پرداخت سے دیکھنے والوں کی نظر میں سیر بھر جچنے لگتا ہے۔
سو غورو پرداخت کے عوض غیرت بیگم تو یہ چاہتی تھی کہ ابٹنے کی جگہ تھوڑی سی کیچڑ ملے تو اٹھا کر منہ کو مل لوں۔ میاں بی بی میں جب اختلاف مزاج اس درجے کا ہو تو ان میں صحبت بر آر ہونے کی کیا امید۔ نتیجہ یہ ہوا کہ چھاتی پر مونگ دلنے کے لیے آخر ایک سوکن تو آ موجود ہوئی، ہریالی کا انتظام دیکھ دیکھ کر غیرت بیگم کا پھوہڑ پن مبتلا کے دل میں اور بھی بیٹھتا چلا جاتا تھا۔
#…#…#
اکیسواں باب:سوکن کا راز فاش
معلوم نہیں مبتلا کو کب تک ہریالی کا اس نمط پر رکھنا منظور تھا کہ ایک دن گھر میں باہر سے اطلاع پہنچی کہ ایک بوڑھی عورت نوکری کی تلاش میں آئی ہے۔ اگر حکم ہوا اندر بھیج دیں۔ انتظام خانہ داری تو سب ہریالی کے ہاتھ میں تھا غیرت بیگم نے ہریالی سے پچھوایا۔
ہریالی کسی کوٹھڑی میں خدا جانے کس کام میں مصروف تھی۔ اس نے وہیں سے کہا کہ کیا مضائقہ۔ غرض وہ عورت اندر آکر سیدھی غیرت بیگم کے پاس جا بیٹھی اور لگی کہنے کہ میں تو ہریالی بیگم کے پاس آئی ہوں جن کو تمہارے میاں نکاح پڑھوا کر نکال لائے ہیں۔ مدت سے میں ان کے یہاں اوپر کے کام پر نوکر تھی۔ بیگم کو تو نکلے ہوئے تین مہینے ہونے کو آئے ہیں۔
میں ان کی خالہ کے پاس رہی۔
آج آٹھواں دن ہے کہ وہ بھی لکھنو سدھاریں۔ میں نے کہا چلو اگر بیگم پھر رکھ لیں تو میں ان کے مزاج سے واقف ہوں وہ مجھ کو جانتی پہچانتی ہیں۔ انجان جگہ تابعداری کرنی کیا ضرورت، کیا وہ اس گھر نہیں رہتیں۔ غیرت بیگم نے ہاتھ سے اشارہ کر کے بتایا کہ تم جن کے پاس آئی ہو وہ سامنے والی کوٹھڑی میں ہیں۔ وہ عورت اٹھ کر کوٹھڑی کی طرف چلی۔ دروازے تک پہنچی تھی کہ اتنے میں غیرت بیگم بے خود ہو کر بگولے کی طرح اٹھی اور وہ عورت ابھی ہریالی سے بات بھی نہیں کرنے پائی تھی کہ اس نے پہنچ کر بے چاری بڑھیا کو اوندھے منہ ہریالی پر دھکیل دیا اور کہا کہ تم نے دیکھا یہ ہریالی نہیں گھر والی ہے۔
یہ بی بی ہے۔ یہ میری سوکن ہے۔ میں رانڈ ہوں یا سوہاگن ہے۔ میں لونڈی ہوں یہ بیگم ہے۔ میں چڑیل ہوں یہ حور ہے۔ یہ میاں کی لاڈو ہے یہ میاں کی چہیتی ہے۔ یہ میاں کے کلیجے کی ٹھنڈک ہے۔ یہ کہتی جاتی تھی اور اس کے ساتھ ہزار ہا گالیاں اور سینکڑوں کوسنے اور دو ہتڑ تھا کہ باری باری سے اس شامت کی ماری بڑھیا اور ہریالی پر اور اپنے آپ پر بھی اس زور سے پڑ رہا تھا کہ گویا مزدور سڑک کوٹ رہے ہیں۔
گھر میں بہتیری لونڈیاں اور مامائیں تھیں، مگر سیدانی کا جلال دیکھ کر کسی کی ہمت نہ پڑ سکی کہ کوٹھڑی کی طرف رخ کرے۔ سب کی سب بدحواس ہو کر بھاگ کھڑی ہوئیں۔ ہمسائے کی عورتیں کوئی کھڑکیوں میں سے کوئی دیوار پر سے کھڑی جھانکتی تھیں۔ پر کسی سے اتنا نہیں ہو سکتا تھا کہ گھر کے اندر قدم رکھے۔ مبتلا کو ڈھنڈوایا تو وہ بھی اس وقت کہیں باہر گئے ہوئے تھے، مردانے میں اکیلا وفا دار اس کو اور تو کچھ نہ سوجھی، گھوڑا تو دروازے پر بندھا ہوا تھا ہی۔
منہ میں لگام دے ننگی پیٹھ سوار ہو بگ ٹٹ سیدھا پہنچا کچہری میں سید ناظر کے پاس۔ ناظر اسی گھوڑے پر چڑھ دھم سے آموجود ہوئے اور اتفاق سے سید حاضر بھی کسی ضرورت سے دو تین دن کے آئے تھے۔ کچہری سے ان کے پاس بھی آدمی دوڑا دیا کہ آپ بھی جلد آئیے۔ غرض سید حاضر اور مبتلا بھی آگے پیچھے پہنچ گئے غیرت بیگم سید حاضر کے آنے سے پہلے کھڑی اور پڑی اتنا پیٹی اتنا پیٹی کہ آخر اس کو غش آگیا، ناظر جس وقت پہنچا ہے تو وہ بالکل بے ہوش پڑی تھی۔
ناظر کے آنے کے ساتھ اس کو ہوش میں لانے کی تدبیریں شروع کیں سید حاضر اور مبتلا دونوں آئے تو اس کے بعد دیر بعد غیرت بیگم کو ہوش آیا۔ سب سے زیادہ چوٹ غیرت بیگم ہی کو لگی کہ اس نے پیٹ پیٹ کر اپنا سارا بدن چوڑی کی طرح نیلا کر لیا تھا۔ ہریالی کی بھی کندی خوب ہوئی۔ مگر اس کو گجی مار لگتی تھی۔ بڑھیا ہریالی اور کوٹھڑی کی دیوار کے بیچ میں آکر بچ گئی مگر وہی مثل ہے کہ مرغی کو تکلے ہی کا گھاؤ بہت ہوتا ہے۔
دو تین دو ہتڑ جو اس پر جمتے ہوئے بیٹھ گئے۔ وہ اتنے ہی میں سبکیاں لینے لگی۔ اگر ناظر نہ ہو تو کوتوالی والے کیا اس مقدمے کو بے چالان کیے رہیں۔ توبہ اور اگر حاضر نہ ہوتا تو ناظر اور مبتلا آپس میں کٹ مریں۔ پانچ چھ دن کو بیماروں کی دوا دارو ہوتی رہی۔ چوٹ کے موقع پر ہلدی کا حلوا پکا پکا کر باندھا۔ سیکنے کی جگہ پرانے روڑ سے سیکا پھٹکری کو دودھ میں جوش کر کے پلایا۔
اب کیا باقی رہ گیا تھا۔ جس کے لیے مبتلا کو ہریالی سے ملنے میں تامل ہوتا۔ حاضرناظر بہن کی خدمت گزاری میں لگے تھے اور مبتلا کھلم کھلا ہریالی اور اس کی بڑھیا بارے۔ جب سب کے ہوش و حواس درست ہوئے تو لگے اپنی اپنی جگہ صلاحیں کرنے۔ مبتلا اور ہریالی نے یہ مصلحت گٹھی کہ اب اسی گھر میں برابری کے داعیے سے رہنا اور جلتوں کو خوب جلانا۔ ادھر حاضر ناظر اور غیرت بیگم کی آپس ہی میں پھوٹ تھی۔
ناظر کہتا تھا کہ ابھی لگے ہاتھ پہلے تھانے میں اطلاع لکھوا کر ایک دم سے تین نالشیں تو فوجداری میں داغو۔ مداخلت بے جا کی ہریالی پر اور ضرر رسانی اور اپنے اور دونوں بچوں کے نفقے کی مبتلا پر اور ایک دعویٰ مہر کا کاغذ کامل القیمت پر دیوانی میں دائر کرو۔ غیرت بیگم معاملے مقدمے کو تو کچھ سمجھتی بوجھتی نہ تھی وہ اپنی اسی ایک بات پر اڑی ہوئی تھی کہ مجھ کو سید نگر پہنچاؤ، نہیں تو افیون کھاتی ہوں۔
سید حاضر تھا میرمتقی صاحب کے خوشہ چینوں میں اور بات کے انجام کو سوچتا تھا۔ اس کی رائے یہ تھی کہ نہ تھانے میں اطلاع لکھواؤ نہ سرکار دربار میں کسی طرح کی نالش فریاد کرو نہ سید نگر جاؤ نہ افیون کھاؤ، صبر کر کے چپ چاپ گھر میں بیٹھی رہو۔ سوکن کا آنا تمہاری تقدیر میں تھا سو ہوا۔
اب تمہارے شور و فساد سے بہت ہو گا تو شاید اس گھر سے نکل جائے، مگر تم اپنے میاں کو اس کے چھوڑ دینے پر مجبور نہیں کر سکتیں۔
تم جو سید نگر جانے یا افیون کھانے کو کہتی ہو، یہ تمہاری نامراد سوکن کی عین مراد ہے۔ ناظر بھائی نے جو تدبیر بتائی اس کا خلاصہ یہ ہے۔ لڑائی اور لڑائی کا ضروری نتیجہ نقصان اور تردد اور فضیحت اور رسوائی، اب تو سوکن کے آنے سے تم کو صرف ایک فوری تکلیف پہنچی ہے اور تم افیون کھانے کو موجود ہو۔ لڑائی کی صورت میں بہت سی واقعی تکلیفیں ایسی پیش آئیں گی کہ شاید تمہارے ساتھ مجھ کو اور ناظر بھائی کو بھی افیون کھانی پڑے، میری سمجھ میں نہیں آتا کہ سوکن کے آنے پر تم اس قدر آپے سے باہر کیوں ہو۔
کیا سوکن تم پر آج آئی ہے۔ تمہارا تو بیاہ ہوا ہے پیچھے اور سوکنیں تمہارے بیاہ سے بہت پہلے کی آئی ہوئی موجود تھیں، کیا تم کو معلوم نہیں، تم ہی بتاؤ کہ مبتلا بھائی کس دن بے سوکن کے رہے۔ سارا سید نگر جانتا ہے کہ میں نے تمہاری منگنی کے وقت بہتیرا غل مچایا مگر میری سنتا کون تھا۔ میں تو تمہارے نصیبوں کو اسی دن رو چکا۔ تمہاری سمجھ کا پھیر ہے، ورنہ میں تو حقیقت میں اس بات کو سن کر بہت خوش ہوا تھا کہ مبتلا بھائی نے نکاح پڑھا لیا۔
اس سے تو یہ پایا جاتا تھا کہ انہوں نے آوارگی سے توبہ کی، کوٹھوں کوٹھوں سرِ بازار خدائی خوار پڑا پھرنا بہتر یا ایک کا ہو رہنا اور اس کو اپنا کر لینا بہتر، تم کیسی مسلمان ہو کہ ایک شخص جب تک خلاف شرع چلتا رہا تم نے ہوں تک نہ کی، اس کا طریقہ شریعت پر آنا تھا کہ تمہارے تن بدن میں آگ ہی تو لگ گئی۔ ہم تو بھائی ایسے دین و ایمان کے قائل نہیں۔
بلکہ انصاف کی بات تو یہ ہے کہ مبتلا بھائی نے تمہارا بڑا لحاظ کیا کہ نکاح کو تم سے چھپایا اور تمہاری خاطر سے بی بی کو ماما بنایا اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر تم پردہ فاش نہ کرتیں تو مبتلا بھائی اس عورت کے ساتھ اپنے معاملات کو اسی طرح دبا دبایا رہنے دیتے مگر تم نے بیٹھے بٹھائے سوئی ہوئی بھڑوں کو جگایا۔ ان کو حیلہ ہاتھ آیا۔
اب اگر وہ اس عورت کی اور بڑھیا کی دلجوئی اور خبرگیری نہ کرتے تو سارا گھر کھچا کھچ پھرتا۔
میں نے تو جس وقت آکر بڑھیا کو دیکھا۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میرے تو ہوش اڑ گئے تھے۔ ہاتھ پاؤں ٹھنڈے برف، چہرے کی رنگت متغیر، میں تو سمجھا خدا جانے کہاں بے موقع صدمہ پہنچا کہ اس کا سانس پیٹ میں نہیں سماتا، پوچھو میاں ناظر سے اخباروں میں کئی بار دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی گورے نے ایک قلی کو تھپڑ کھینچ مارا یا ٹھکرا دیا اور قلی فوراً مر گیا۔
غیرت بیگم تم نے یہ بڑی سخت بے جا حرکت کی اور اگر تم اس طرح دست درازی کرو گی تو یقین جانو تم اپنی تو اپنی ایک نہ ایک دن سارے خاندان کی ناک کٹوا دو گی، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خدا کے چند بدنصیب بندے یعنی لونڈیاں جو تمہارے اختیار میں ہیں تم حق ناحق اپنا غصہ ان پر نکالتی رہتی ہو۔ یہ بے چاریاں تمہارا کچھ کر نہیں سکتیں۔ ہاتھ چھوٹا ہوا، طبیعت بڑھی ہوئی تم سمجھیں کہ سب جانور ایک ہی لاٹھی سے ہانکے جاتے ہیں۔
سوکن اور بڑھیا دونوں کو اٹھا کر پیٹ ڈالا۔ گویا وہ تمہاری لونڈی ہے اور یہ تمہاری باندی۔ وہ تو خدا نے اتنی خیر کی کہ بڑھیا مری نہیں اور ادھر عین وقت پر آ پہنچے میاں ناظر، کہ ان کے ملاحظے سے کوتوالی والوں نے تھوپ تھاپ کر دی۔ ورنہ ساری شیخی کرکری ہو جاتی کہ سادات سید نگر کی بیٹی میر مہذب کی بہو کی ڈولی کوتوالی کے چبوترے پر دھری ہوتی۔
صدآفرین ہے تمہاری سوکن پر، ہے تو ذات کی کنچنی مگر بڑی ضبط کی آدمی ہے، کہ تم سے کہیں زبردست معلوم ہوتی ہے۔ مگر چپکی مار کھایا کی اور الٹ کراف تک نہ کی، کیوں غیرت! جیسا تم نے اس کو مارا تھا، اگر وہ بھی برابر سے مارتی، تو تمہاری عزت تو دو کوڑی کی ہو جاتی۔ مگر اتنا فائدہ تو ضرور تھا کہ پھر تمہارا ہاتھ کسی پر نہ اٹھتا، سید حاضر نے ناظر اور غیرت بیگم کو ایسا آڑے ہاتھوں لیا کہ دونوں کو کچھ جواب نہ بن پڑا اور دونوں اپنا اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔
آخر ناظر بولا کہ آپ ہم دونوں سے بڑے ہیں، جو کچھ آپ کے نزدیک مناسب ہو۔ اس کی تعمیل میں نہ مجھ کو عذر ے اور نہ آپا کو، یہ معاملہ ناموس کا ہے اور بھائی بہنوں کی ناموس کچھ جدا جدا نہیں ہوتی۔ اس میں رتی برابر فرق نہیں کہ آپ جو کچھ کریں گے آپا کے حق میں بہتری کریں گے۔ سید حاضر نے کہا:
بس تو مجھ کو مبتلا بھائی سے دو باتیں کر لینے دو۔ انشاء اللہ میں کوئی ایسی راہ نکالوں گا کہ دونوں میاں بیوی میں صفائی ہو جائے۔ ایسا موقع تاک کر کہ مبتلا مردانے میں اکیلا تھا، سید حاضر خود اس کے پاس گئے جس وقت سے گھر میں یہ واردات ہوئی تھی۔ حاضر اور ناظر دونوں کی طرف سے بُرے ہی بُرے خیالات مبتلا کے دل میں گزرتے تھے۔ اس کو ساری عمر کبھی کچہری جانے کا اتفاق نہیں ہوا بس کچہری کے نام سے اس کا دم فنا ہوتا تھا اور حاضر ناظر دونوں کو خصوصاً ناظر کو کچہری
ایسی تھی جیسے مچھلی کو تالاب، مویشی کو تھان، پرند کو گھونسلا، عورت کو میکا۔
باوجود یکہ سر تا سر قصور غیرت بیگم کا تھا، مگر مبتلا الٹا چور کی طرح سہا جاتا تھا کہ دیکھئے یہ بھائی بہن کئی کئی دن سے کمیٹیاں کر رہے ہیں۔
کیا فساد کھڑا کرتے ہیں۔ اس کے دوست آشناؤں میں بھی کسی نے اس کو کوتوالی اور فوجداری میں استغاثہ کرنے کی صلاح دی تھی، مگر یہ اس کو مرددا بناتے تھے، کچہری کا نام آیا اور اس کا رنگ فق ہوا۔ وہ بگڑ بگڑ کر ایک ایک کی منت کرتا تھا کہ یارو مجھ سے مدعی بننے کی توقع مت کرو۔
کوئی ایسی تدبیر بتاؤ کہ اگر یہ لوگ مجھ پر نالش کریں اور کریں ہی گے تو مجھ کو حاکم کے روبرو نہ جانا پڑے۔ بہتیرا لوگ سمجھاتے تھے کہ ان کی طرف سے نالش کے ہونے کی کوئی روداد نہیں اور فرض کیا نالش ہو بھی تو تم اپنی طرف سے جواب دہی کے لیے مختار یا وکیل کھڑا کر دینا، بلکہ بعضے تو شرط بندھتے تھے کہ اگر نالش ہو اور خدانخواستہ تم پر کسی طرح کی آنچ آجائے تو حاکم جو سزا تمہاری تجویز کرے اس کی چوگنی ہم بھگتنے کو موجود ہیں چاہو ہم سے لکھوا لو۔
مبتلا کہتا تھا تم ناظر بھائی کے ہتھکنڈوں سے واقف نہیں ہو، ارے میاں، وہ اس بلا کا آدمی ہے کہ چچا باوا بے چارے کسی لینے میں نہیں دینے میں نہیں۔ اس نے دل پر رکھا تو شہر سے نکلوا کر چھوڑا۔ مبتلا کا حال یہ ہو گیا تھا کہ ہریالی اور اس کی بڑھیاکی مرہم پٹی کی ضرورت سے کھڑے کھڑے گھر میں جاتا تو الٹے پاؤں باہر بھاگا ہوا آتا کہ دیکھوں، کہیں سرکار سے طلبی تو نہیں آئی، اتنے دن نہ تو اس نے پیٹ بھر کے کھانا کھایا اور نہ پوری نیند سویا۔
اگر تھوڑے دن اور سید حاضر کی طرف سے سبقت نہ ہوتی تو مبتلا اس قدر پریشان تھا کہ وہ ابتدا کرتا اور اتنے دن بھی وہ اپنے آپ کو لیے رہا۔ تو ان لوگوں کی نارضامندی کے خیال سے اس کو جرأت نہیں ہوئی۔
سید حاضر کو دور آتا ہوا دیکھ کھڑا تو ہو گیا۔ مگر اس وقت تک اس کے دل میں کھٹکا تھا کہ ان کا آنا خالی ازعلت نہیں۔ جب سید حاضر نے قریب پہنچ کر معانقے کے لیے ہاتھ پھیلائے تو اس کو اطمینان ہوا اور بھائی کے گلے لگ کر غیرت بیگم کی زیادتی اور اپنی مجبوری اور اتنے دن کی پریشانی کو یاد کر کے خوب رویا۔
سید حاضر کا بھی جی بھر آیا۔ دیکھو گھر میں خدا کے فضل سے سب طرح کی فراغت ہے ایک چھوڑ دو دو بیبیاں ہیں۔ بچے ہیں کسی بات کی کمی نہیں، مگر ایک بری لت جو اپنے پیچھے لگا لی ہے تو زندگی کیا تلخی سے گزرتی ہے، معانقے کے بعد دونوں بھائی ایک جگہ بیٹھے تو سید حاضر نے کہا:
مبتلا بھائی یہ نیا رشتہ تمہارے ساتھ کیا ہوا کہ وہ پرانا رشتہ بھی اس کے پیچھے گیا گزرا ہوا۔
دیہات کا کم بخت کیا برا دستور ہے کہ ہم تو بہن کے گھر پر بلا ضرورت آنہیں سکتے۔ اب تمہاری ہی طرف سے ملاقات ہو تو ہو۔ سید نگر تو بھلا تم کیوں آنے لگے۔ شہر میں بھی تم کہیں نظر نہیں، آج آٹھواں دن ہے کہ میں بلاناغہ دونوں وقت یہاں آتا ہوں۔ تم کو دو چار بار دیکھا بھی۔ مگر تمہارا رخ نہ پایا۔ آخر آج مجھ سے نہ رہا گیا۔ تو میں نے کہا لاؤ میں ہی پیش قدمی کر کے تم سے ملوں۔
مبتلا: کیا کہوں میں ندامت کی وجہ سے نہیں مل سکا۔
حاضر: ندامت کی کیا بات ہے! عورتیں ناقصات العقل آپس میں لڑا جھگڑا ہی کرتی ہیں۔ اگر مرد ایسی ایسی باتوں کا خیال کیا کریں تو دنیا میں کیسے گزر ہو۔
مبتلا: آپ پر ثابت تو ہو گیا ہو گا کہ زیادتی کس کی تھی۔
حاضر: اس معاملے میں میرا منہ نہ کھلواؤ۔ میں تم سے کیسی ہی سچی بات کیوں نہ کہوں پر تم یہی سمجھو گے کہ بہن کی طرف داری کرتا ہے۔
حاضر: دوسرا نکاح تو تم کر ہی چکے۔ اب اس کی نسبت یہ کہنا کہ تم نے جلدی کی یا بے جا کیا فضول ہے۔ مناسب کیا، خوب کیا اور ضرور کرنا چاہیے تھا، تمہارا طرز زندگی دین کے، شرافت کے بھلمنساہٹ کے عقل کے سب کے خلاف تھا۔ بڑی خوشی کی بات ہے کہ تم نے اس سے توبہ کی، خدا کرے کہ تمہاری یہ توبہ پہاڑ کی طرح مستحکم ہو۔ بھاری بھرکم ہو، مضبوط ہو، اٹل ہو مگر مجھ کو اس بات کا اندیشہ ہے کہ ایک مکدر کو تم اٹھا نہ سکے جوڑی تم سے کیسے ملائی جائے گی۔
تمہاری وہی مثل ہے کہ تنور سے بچنے کے لیے بھاڑی میں گرے۔ دو بیبیوں کا رکھنا، کچھ آسان کام نہیں، تم نے ایسی ہنڈیا پکائی ہے کہ یہ واقعہ جو پیش آیا، اس کا پہلا ابال ہے۔ جب کھرچن کی نوبت آئے گی تو اصل مزہ معلوم ہو گا۔ یقین جانو کہ میں کچھ بہن کی پاسداری سے نہیں کہتا۔ بلکہ حقیقت نفس الامری بیان کرتا ہوں کہ تم نے غیرت کی قدر وقعت کو مطلق نہیں پہچانا۔
غیرت بیگم خدانخواستہ (برامت ماننا) تمہاری اس بی بی کی طرح گری پڑی، بازاری عورت نہیں۔ وہ ایسے جتھے اور ایسے گروہ اور ایسی برادری اور ایسے خاندان کی بیٹی ہے کہ جہاں اس کا پسینہ گرے۔ آج سیدنگر میں کم سے کم دوسو آدمی نکلیں گے۔ جو اپنا خون بہانے کو موجود ہو جائیں گے۔ عورتوں کے معاملے عزت اور آبرو اور ناموس کے معاملے میں مال کی تو کیا حقیقت ہے۔
عزت کے آگے شرف خاص کر دیہات کے، خاص کر سادات، خاص کر سادات سید نگر جان کی ذرا بھی پرواہ نہیں کرتے۔ یاد کرو تو کتنی منت کس قدر خوشامد کیسی آرزو سے ماموں اور ممانی (خدا ان دونوں کو جنت نصیب کرے)۔ غیرت بیگم کو بیاہ کر لائے۔ آج کو وہ دونوں یا ان میں سے ایک بھی زندہ ہوتے تو کیا تمہاری مجال تھی کہ تم غیرت بیگم پر سوکن لاؤ اور اسی کی گود میں بٹھاؤ، پھر بندئہ خدا تم کو اتنا بھی خیال نہ آیا کہ ماں باپ اس کے نہیں۔
ساس سسرے اس کے نہیں۔ دنیا میں وارث کہو، سرپرست کہو، ایک تم۔ سو تم نے جلا جلا کر اس کا یہ حال تو کر دیا کہ سید نگر کی نسبت ایک تہائی بھی باقی نہیں رہی اور اس پر بھی تم کو صبر نہ آیا۔ سوکن کو لابٹھایا۔ عورت ہو تو جانو، عقل ہو تو پہچانو کہ سوکن کا کیسا داغ ہوتا ہے۔ بیوگی سے بڑھ کر۔ میاں نکٹھو اپاہج ہو یا بدمزاج ہو۔ روٹی کھانے کو، اولاد جی بہلانے کو نہ ہو، سب مصیبتیں جھیلی جا سکتی ہیں اور نہیں جھیلی جا سکتی تو سوکن کی۔
دنیا کے اور جلاپے جلاپے ہیں اور سوکن کا جلاپا سلگایا۔ جس شخص پر مصیبت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہو۔ وہ اگر افیون کھا لیتی یا کنویں میں گر پڑتی یا پیٹ میں چھری بھونک لیتی، اس سے کسی بات کا تعجب نہ تھا بلکہ تعجب یہ ہے کہ رونے پیٹنے پر قناعت کی۔ اگر خدانخواستہ اس نے اپنے آپ کو ہلاک کر لیا ہوتا تو تمہارا کیا جاتا، تم تو نئی بی بی کے ساتھ چین کرتے۔ گل چھرے اڑاتے ہم کو بہن کہاں پیدا تھی۔
مبتلا: اگر آپ کہیں تو میں اس عورت کو چھوڑ دوں۔
حاضر: میں تو چھوڑنے کو نہیں کہہ سکتا اور تم ایسے چھوڑنے والے ہوتے تو کرتے ہی کیوں۔ فرض کیا کہ تم نے میرے کہنے پر اس کو چھوڑ دیا اور پھر وہی سابق کا وطیرہ اختیار کیا تو اپنے ساتھ دنیا اور دین دنوں جگہ میرا منہ بھی کالا کراؤ گے۔
مبتلا: پھر آپ ہی کوئی راہ نکالیے۔ مجھ سے ایک نادانی تو ہوئی اور اپنی طبیعت کو بار ہا آزما چکا ہوں میرے قابو کی نہیں آج آپ سے ایک وعدہ کروں اور کل کو جھوٹا ٹھہروں۔
تو پھر آپ کے نزدیک میرا کیا اعتبار رہا۔ اس سے بات کا صاف صاف کہہ دینا اچھا اور اگرچہ آپ سے اس معاملے میں صلاح پوچھنا داخل بے حیائی ہے مگر چچا باوا چلتے چلتے کہہ گئے تھے کہ اگر کوئی مشکل آ پڑے تو آپ کی رائے پر عمل کرنا اور یوں بھی آپ بڑے بھائی ہیں۔
باپ کی جگہ آپ ہی اگر اڑی پر آڑے نہ آئیں گے، تو میں کس کے پاس التجا لے جاؤں۔ بندے کے سو قصور خدا معاف کرتا ہے، آپ ازبرائے خدا میرا ایک قصور معاف کیجیے۔
حاضر: بات یہ ہے کہ میں تمہاری اس نئی بی بی کے حالات سے بخوبی واقف نہیں، میں کچھ نہیں کہہ سکتا کہ کس طرح اس کے ساتھ مدارت کرنی مناسب ہے۔
مبتلا: اس کم بخت کے اور حالات ہی کیا ہیں۔ بازاری عورت ہے تن تنہا مدت سے توبہ توبہ پکار رہی تھی، میری جو شامت آئی۔ اس کے ساتھ عقد شرعی کر لیا کیونکہ چچا باوا کے سامنے آوارگی سے میں توبہ کر چکا تھا۔
حماقت پر حماقت یہ ہوئی کہ اب میں اس گھڑی کو بہت پچھتاتا ہوں کہ گھر میں لا کر اوپر کا کام کاج سپرد کیا۔ دوسری ماماؤں کی طرح رہنے سہنے لگی، اگر میں نے اس کے ساتھ کسی طرح کا سروکار رکھا ہو تو مجھ پر خدا کی مار پڑے، یہ تو اس کی پچھلی کیفیت ہے۔ آئندہ کے لیے بھی اگر آپ کی مرضی ہو تو وہی ماماؤں کی طرح رہے گا اور بدستور گھر کی خدمت کرے گی۔
حاضر: اس کا غیرت بیگم کے پیش نظر رہنا تو میں پسند نہیں کرتا۔
کیونکہ اس صورت میں فساد عاجل کا بڑا اندیشہ ہے۔ دو سو کنوں کی مثال میں تمہیں کس طرح بتاؤں یوں سمجھو کہ دوگلاس ہیں ایک میں سوڈا ہے پانی میں حل کیا ہوا اور دوسرے میں ایسڈ، ممکن نہیں ہے کہ سوڈا اور ایسڈ ملیں اور ان میں جوش و خروش پیدا نہ ہو پس دونوں کو ایک جگہ رکھنے کا تو تم کبھی بھول کر ارادہ نہ کرنا۔ ورنہ آج دو ہتڑ تھے تو کل جوتیاں ہوں گی او رپرسوں چھریاں۔
اس کو تو کسی دوسرے شہر میں یا خیر دوسرے محلے میں یا خیر دوسرے گھر میں تو رکھنا ضرور ہے۔ مگر مشکل یہ ہے کہ تم کہتے ہو کہ وہ اکیلی ہے۔ تن تنہا، آدمی زیادہ رکھے جائیں تو تمہاری چادر میں اپنے پاؤں پھیلانے کی گنجائش نہیں۔ پس صرف یہی ایک تدبیر ہے کہ زنانے مکان میں پورب کی طرف جو ایک کھانچا سا نکل گیا ہے پردے کی طرف دیوار کھچوا لو اور ڈیوڑھی میں سے دروازہ پھوڑ کر اتنا گھر الگ کراؤ اور حقیقت میں یہ تھا بھی دوسرا گھر، ماموں باوا نے مول لے کر باہر گلی کا دروازہ تیغہ کرا کے زنانے مکان میں ملا لیا تھا۔
تیغے کا نشان اب تک موجود ہے اتنا مکان ایک مختصر خانہ داری کے لیے بخوبی کافی ہے۔ ضرورت کی سب چیزیں موجود ہیں۔ دالان در دالان آگے سائبان۔ دونوں طرف بڑی بڑی دو کوٹھڑیاں۔ باورچی خانہ اس کے بغل میں چیز بست رکھنے کو لمبی کولکی۔ سامنے کے ضلع میں سہ درہ بس اور چاہیے کیا۔ بڑے گھر کی طرف خدا کے فضل سے آدمی زیادہ ہیں اور خرچ بھی بہت ہے۔ برابری اگر چاہو تو دونوں گھروں میں ممکن نہیں۔
اور ضروری بھی نہیں اور مناسب بھی نہیں۔ چھوٹے ماموں باوا پینسٹھ روپے کی تنخواہیں اور کرایہ تمہارے نام کرا گئے ہیں اور ساٹھ کی غیرت بیگم کے نام سو اپنے پینسٹھ میں تیس روپے چھوٹی بی بی کو دیا کرو۔ اکیلا دم ہے۔ فراغت سے بسر کر سکتی ہیں۔ پینتیس تم کو بچیں گے۔ اس میں تمہارا کپڑا ہے اور باہر مردانے کا خرچ، غیرت بیگم کے ساٹھ کو ہاتھ مت لگاؤ۔
ایک دن بڑے گھر میں رہو ایک دن چھوٹے گھر میں نہ ہڑ ہڑ نہ کھڑ کھڑ۔ اللہ اللہ خیر صلا، مبتلا تو اپنی جگہ پر ڈر رہا تھا کہ نہیں معلوم شہر سے نکلوائیں گے یا قید ڈلوائیں گے یا گھر بار ضبط کرائیں گے۔ سید حاضر کا فیصلہ سننے کے ساتھ اس کے پیروں پر گر پڑا کہ بس اس میں اگر میری طرف سے کبھی سرموفرق ہو تو جانیے گا کہ میری اصالت میں فرق ہے۔ ہریالی بھی اپنی جگہ بہت خوش ہوئی اور سمجھی کہ اب میرا بی بی ہونا سب پنچوں نے مانا اور گھر الگ پایا، میاں کے پینتیس بھی میرے اپنے ہی ہیں۔
وہ ملا کر تنخواہوں میں کرائے میں بڑا آدھا میری طرف رہا۔ کہاں غیرت بیگم سیدانی اشراف میاں کی پھوپھی زاد بہن صاحب اولاد آٹھ نو برس کی بیاہی ہوئی اور کہاں میں، انصاف کی رو سے تو میں ان کی جوتی کی برابری نہیں کر سکتی۔ قربان جاؤں خدا کے کہ اس نے مجھ گنہگار ناچیز کی توبہ کو ایسا نوازا کہ ان ہی کے سگے بھائی کے ہاتھ سے مجھ کو جتوایا۔ غیرت بیگم کو تو سوکن کے نام کی جلن تھی اس کو مکان سے تنخواہ سے کچھ بحث نہ ہی تھی۔
ہریالی کو کیسے ہی برے احوال سے رکھتے مگر جب تک غیرت بیگم یہ جانتی تھی کہ یہ میری سوکن ہے۔ کسی طرح وہ راضی ہو ہی نہیں سکتی تھی۔ لیکن بڑے بھائی نے جب ایک فیصلہ کر دیا۔ تو کیا کرتی دل میں پیچ و تاب کھا کر چپکی ہو رہی۔ مبتلا کے ساتھ بولنا۔ بات کرنا پہلے ہی سے کم تھا۔ اب بالکل چھوڑ دیا۔ غرض صحن میں پردے کی دیوار اٹھائی گئی ڈیوڑھی میں دروازہ لگا۔ ہریالی نے الگ گھر کر کے رہنا شروع کیا۔
#…#…#
بائیسواں باب: دو سوکنوں کی لڑائی کے گھر اور اہلخانہ پہ اثرات
آدمی الگ گھر کرتا ہے تو پلنگ پیڑھی، تخت چوکی، چولہا چکی، برتن بھانڈا، سبھی چیزیں اس کو درکار ہوتی ہیں۔ غیرت بیگم کے یہاں اسباب کے اٹم لگے ہوتے تھے مگر کسی کی مجال تھی کہ تنکا تو اٹھا کر ادھر سے اُدھر لے جائے۔ ہریالی کو ابتدا میں تو سخت تکلیف ہوئی۔
مگر سلیقہ بھی عجیب چیز ہے۔ دو ہی برس میں ہریالی نے رفتہ رفتہ اپنا گھر ایسا درست کر لیا کہ غیرت بیگم کے کئی پشتوں کے جمے ہوئے گھر میں ایک چیز وقت پر نہیں بھی ملتی تھی، مگر ہریالی کے یہاں آتا تو کون تھا لیکن اگر دس مہمان بھی آجاتے تو آسائش کا تمام سامان موجود پاتے۔ ایک مرتبہ پرانا سرکہ درکار تھا۔
تعجب کی بات ہے کہ سارے محلے میں کسی کے یہاں سے نہ ملا۔
ہریالی نے، جس کی طرف کسی کا ذہن بھی منتقل نہیں ہوتا تھا، سنتے کے ساتھ ہی پیالہ بھر کر بھجوا دیا۔ جس طرح سید حاضر نے ٹھہرا دیا تھا۔ مبتلا ایک ایک دن باری باری سے دونوں گھروں میں رہتا تھا۔ بڑے میں تو کوئی اس سے بولتا چالتا نہیں تھا۔ کسی دن اگر معصوم کو پکڑ پایا تو گھڑی دو گھڑی اس کے ساتھ جی بہلایا ورنہ منہ لپیٹا سو رہا۔ خاطرداری سمجھو مدارات سمجھو آؤ بھگت سمجھو۔
جو کچھ تھی سو چھوٹے گھر میں تھی۔ مگر غیرت بیگم اس کو وہاں بھی چین سے نہیں رہنے دیتی تھی وہ اپنے گھر میں تو مبتلا سے ایسی بے رخی کرتی کہ گویا اس کو میاں کی ذرا بھی پرواہ نہیں اور چھوٹے گھر کی باری آئی اور صبح سے اس نے مبتلا کی نگرانی شروع کی۔ مردانے میں کئی دیر بیٹھے گھر میں کس وقت آئے کہاں سوئے۔ کیا کھایا اور کتنا کھایا۔ ہریالی کے ساتھ کیا باتیں کیں۔
گھر کے نوکروں پر ایک نیا کام یہ اور پڑا کہ سارے سارے دن اور پہر پہر رات گئے تک ایک ڈیوڑھی میں کھڑی جھانک رہی ہے تو ایک دروازے میں کان لگائے سن رہی ہے اور ایک ہے کہ جس طرح جولاہا تانا بانا تنتا پھرتا ہے۔ اوپر تلے بیسیوں پھیرے زنانے سے مردانے میں اور مردانے سے زنانے میں۔ باوجودیکہ غیرت بیگم نے ایک مبتلا کے پیچھے اتنے جاسوس لگا رکھے تھے اس پر بھی اس کا جی نہیں مانتا تھا۔
ایک موکھا تو اس نے پاخانے کی دیوار میں کیا کہ چھوٹے گھر کے سہ درے کی ذرا ذرا بات وہاں سے سنائی دیتی تھی۔ رہ گیا ایک ضلع صحن سایہ بان اور سایہ بان کے اندر کا دالان سوغیرت بیگم کی طرف ایک بالاخانہ تھا اور اس میں تھی ایک کھڑکی کھول دو تو صحن سے لے کر اندر والے دالان تک سب کچھ دکھائی دیتا تھا۔
یا تو غیرت بیگم نے جس دن کی بیاہی آئی کبھی بالاخانے پر پاؤں نہیں رکھا تھا یا اب سوکن کی ضد پر جس دن چھوٹے گھر کی باری ہوتی صبح سویرے سے کوٹھے پر چڑھی اگلی صبح کو اترتی۔
غرض ساری گرمی غیرت بیگم نے میاں کو ہریالی سے بات نہیں کرنے دی جاڑا آیا اور پردے چھوڑ کر دالان میں سونے لگے تب تھک کر بیٹھی شروع میں تو نوکروں کو آنے جانے کو ایسی سخت ممانعت تھی کہ ایک مرتبہ ایک لونڈی نے باہر ڈیوڑھی میں سے آگ پکڑا دی تھی۔ غیرت بیگم کو خبر ہو گئی تو اس کے ہاتھ پر جلتا ہوا انگارا رکھ دیا لیکن پھر سوچی کہ نوکروں سے خبریں خوب ملتی ہیں۔
ان کا روکنا ٹھیک نہیں۔ بندی کھول دی مگر اس سے خرابی کیا پیدا ہوئی کہ ماما لونڈی جو کوئی چھوٹے گھر سے ہو کر آتی۔ غیرت بیگم اس سے حال پوچھتی، اگر وہ اس کی خواہش کے مطابق کچھ بیان نہ کرتی تو اس پر خفا ہوتی کہ تو جھوٹی ہے یا چھپاتی ہے یا تو ادھر ملی ہوئی ہے۔ ناچار اس کی بدگمانیوں سے بچنے کے لیے نوکروں نے اپنے جی سے باتیں بنانا شروع کیں۔
حقیقت میں تو وہ باتیں ہوتی تھیں بے اصل مگر ایسی ہر ایک بات کا ہفتوں جھگڑا لگا رہتا تھا، آپ رنجیدہ اور مبتلا پر اپنی بدنفسی اور حماقت ثابت کرتی۔ ایک آتی اور دل سے جوڑ کر کہتی بیوی آج تو تمہاری سوکن کے عجب ٹھاٹھ ہیں۔ ایسی بن سنور کر بیٹھی ہے جیسے کوئی نئی دلہن۔ سر میں چنبیلی کا تیل پڑا ہو۔ مگر کوئی چار روپے سیر کا۔ سارا گھر پڑا مہک رہا ہے۔
چوٹی گندھی ہے۔ یہ بڑے بڑے موتیا کے پھولوں کا سارا گہنا البتہ ڈیڑھ دو روپے سے کیا کم کا ہو گا۔ ملاگیری چنا ہوا مہین رینگ کا دوپٹہ۔ اچھا خاصہ چارا نگل کا چوڑا سنہری ٹھیکا ٹنکا ہوا سفید ترین تیل بیل کا پاجامہ پائنچوں میں بیل دار کنارہ کنارے پر کیکڑی کیکڑی پر بانکڑی پھر بانکڑی کی چیک، غیرت بیگم یہ سن کر ایک ٹھنڈی سانس بھر کر کہتی، ہاں صاحب جن کے بھاگ ان کے سہاگ دوسری یہ بات بنائی کہ وہ آپ تو صحن میں کرسی بچھائے بیٹھی ہیں، میاں سامنے کھڑے گنا چھیل رہے ہیں۔
گنڈیریاں بنا بنا کر آپ بھی کھاتے جاتے اور اپنے ہاتھ سے ان کے منہ میں بھی دیتے جاتے ہیں، میں تو یہ دیکھ کر الٹے پاؤں پلٹ آئی، ماما باہر بیٹھی کھانا پکا رہی ہے۔ غیرت بیگم لعنت خدا کی پھٹے منہ حیا اور شرم تو مطلق چھو نہیں گئی۔ اشارے سے بیوی کو بلاتی کہ ذرا آپ بھی تو موکھے میں دیکھئے آج میاں کا جی کیسا ہے۔ دولائی اوڑھے پڑے ہیں اور کنچنی پاس بیٹھی پاؤں دبا رہی ہے۔
غیرت بیگم اری کم بخت تجھ کو دھوکہ ہوا ہو گا۔ کنچنی لیٹی ہو گی اور میاں پاؤں دبا رہے ہوں گے۔
اس طرح کی سینکڑوں باتیں صبح سے شام تک اپنے ہی گھر کے نوکر غیرت بیگم سے آکر کہتے اور سب میں زیادہ منہ لگی وہ تھی جو اس طرح کی باتیں خوب تصنیف کرسکتی تھی۔ اتنی تو کسی کی مجال نہ تھی کہ غیرت بیگم کے منہ پر ہریالی کو ہریالی کہہ دے اور اگر کسی کی زبان سے بھولے سے بھی چھوٹی بی بی نکل جاتا تو بیشک غیرت بیگم تڑ سے اس کے منہ پر جوتی کھینچ مارتی۔
نام سے تو اتنی نفرت اور پھر رات دن اس کی تسبیح۔ آخر سوچ کر غیرت بیگم نے سوکن کو بے غیرت کا خطاب دیا اور جتنے لوگ غیرت بیگم کے طرف دار تھے یہاں تک کہ ادنیٰ ادنیٰ نوکر اس کی حمایت پا کر سب بے تامل ہریالی کو پکار پکار کر بے غیرت کہتے تھے اور دیوار کے پیچھے ہریالی اپنے کانوں سے سنتی تھی بلکہ اس نے سینکڑوں بار مبتلا کو سنوا دیا تھا۔ مبتلا کو نوکروں کے منہ سے یہ لفظ سن کر سخت رنج ہوتا تھا۔
کیونکہ ہریالی جو کچھ تھی سو تھی۔ مگر راجہ کے گھر آتی اور رانی کہلاتی، اب تو اس کی منکوحہ تھی نوکروں کو اور گھر کی لونڈیوں کو کیا زیبا تھا کہ اس کی منکوحہ کو یوں منہ بھر بھر گالیاں دیں۔ مگر وہ کیا کر سکتا تھا۔ ہریالی کو سمجھا دیتا کہ کچھ تم سے پُرخاش نہیں، مجھ کو نوکروں کے ہاتھ سے ذلیل کرانا مقصود ہے، خدا کی شان میرے نوکر میرے لونڈی غلام اور ایسے گستاخ ایسے بے ادب، کیا کروں کچھ کرتے بن نہیں پڑتا۔
میں صبر کرتا ہوں تم بھی صبر کرو۔ غیرت بیگم کو سوکن کی طرف سے ہر طرح کی بدگمانی تو تھی۔ بتول کو تو اس طرف کوئی لے جانے نہیں پاتا تھا۔ مگر معصوم اپنے پاؤں دوڑا دوڑا پھرتا تھا۔ اس کو کون روکے، غیرت بیگم بہتیرا ڈراتی دھمکاتی گھر کتی مگر یہ کس کی سنتا تھا۔ آنکھ بچی اور گھر میں۔ غیرت بیگم سے اور مبتلا سے تو روز بروز کی عداوت بڑھتی چلی جاتی تھی، مبتلا کے جلانے اور چھیڑنے اور ایذا دینے کو جہاں غیرت بیگم اور بہتیری باتیں کرتی تھی ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ بچوں کے ساتھ اس کی اگلی سی مدارات باقی نہیں رہی تھی۔
اب تو وہ بات بات پر معصوم کو مار بیٹھتی اور کوسنا تو تکیہ کلام ہو گیا تھا۔ بچوں کا تو قاعدہ ہے کہ وحشی جانوروں کی طرح ہلانے اور پرچانے سے رام ہوتا ہے معصوم کا یہ حال ہو گیا تھا کہ غیرت بیگم کی شکل سے دور بھاگتا اور اس کی پرچھائیں سے ڈرتا چھوٹے گھر میں اس کی ایسی خاطرداری ہوتی تھی کہ اس نے اندر پاؤں رکھا اور ہریالی نے دوڑ کر اس کو گود میں لیا۔
ہاتھ منہ دھلایا۔ بالوں میں تیل ڈالا۔ کنگھی کی آنکھوں میں سرمہ لگایا۔ میوہ مٹھائی اس کے لیے لگا رکھتی تھی جو کچھ موجود ہوا کھلایا۔ کھنڈی تکمہ اگر ٹوٹ گیا ہے۔ ٹانک دیا۔ کبھی کبھار کوئی کھلونا منگوا دیا۔ آپ پان کھاتی ہوتی تو اس کو بھی ٹکڑا بنا دیا۔ یا آئینہ ہاتھ میں دے دیا کہ دیکھوں تو کیا منہ لال لال ہوا ہے۔ پس معصوم سارے سارے دن چھوٹے گھر کھیلتا اور اگر بڑے گھر میں بلالے تو روتا اور مچلتا۔
ایک دن غیرت بیگم معصوم کا انگرکھا قطع کر رہی تھی کہ لونڈی سے کہا کہ جا ذرا معصوم کو جلدی بلالائیں انگرکھا اس کے قد سے ناپ لوں ایسا نہ ہو اونچا ہو جائے۔ لونڈی نے چھوٹے گھر میں جاکر کہا چلو میاں بی بی بلاتی ہیں۔ لونڈی کی صورت دیکھ کر اور طلبی سن کر معصوم زمین میں لیٹ گیا۔ بہتیرا لونڈی اٹھاتی ہے مگر نکل نکل پڑتا ہے۔ اس کشم کشتا میں تھوڑی دیر لگ گئی اور وہاں غیرت بیگم ہاتھ میں کپڑا لیے انتظار کر رہی ہیں۔
آخر دوسری کو دوڑایا کہ نسبتی معصوم کو بلانے گئی تھی وہیں مر کر رہ گئی۔ پس آپ بھی اس کے ساتھ کھیل میں لگ گئی۔ جا دونوں کو پکڑ کے تو لا۔ غیرت بیگم جو بگڑ اور خفا ہو کر زور سے بولی تو اپنے گھر میں ہریالی نے بھی سنا اور اس نے جلدی سے اٹھ کر معصوم سے کہا۔ آہا بڑی اماں کے یہاں کیسے کیسے بہار کے کپڑے ہیں، جلدی بھاگ کر جاؤ تمہاری بھی اچکن بیونتی جائے۔ وہ بڑی اماں بیٹھی کہہ رہی ہیں آنکھیں میچے کہ آج ذرا آتو لے، لیتی ہوں خبر۔ معصوم سامنے گیا تو غیرت بیگم بولی کہ موئے جان ہار یوں ہی سارے دن خدائی خوار خاک چھانتا ہے۔ پھر دیکھ اب تجھ کو کیسے ظالم استاد کے پاس پڑھنے بٹھاتی ہوں کہ تو بھی یاد کرے۔
معصوم: میں اپنی چھوٹی اماں کے پاس بھاگ جاؤں گا۔
بیگم: لانا، ایک انگار کہ اس کم بخت ناشدنی کا منہ جلاؤں۔ نگوڑا، بدوں کا بد، گندی بوٹی کا بساندا شوربا۔ آخر اپنی اصالت پر آگیا۔ کنچنی کو اماں بنایا میرے سامنے۔ اگر پھر اس مردار کو اماں کہا ہو گا تو پکڑ کر زبان کاٹ ڈالوں گی۔ معصوم یہ سن کر آدھی دور سے پھر الٹا بھاگ گیا۔ نسبتی پیچھے دوڑی بھی مگر اب وہ کس کے ہاتھ آتا تھا ڈیوڑھی میں کھڑا ہوا، غیرت بیگم کے چڑانے کو پکار پکار کر چھوٹی اماں کہتا تھا اور جہاں غیرت بیگم نے دیکھا تو آڑ میں ہو گیا اور پھر ذرا سی دیر میں سامنے آکر چھوٹی اماں کہنے لگا۔
غیرت بیگم نے دالان میں سے بیٹھے بیٹھے جوتی کھینچ کر ماری مگر وہ ڈیوڑھی تک کیا پہنچتی۔ غرض معصوم کو جو دھن لگی تو غیرت بیگم کو اسی طرح گھڑی بھر تک دِق کرتا رہا اور پھر چھوٹے گھر میں جا گھسا۔
غیرت بیگم ہریالی کی ساری باتوں کو برائی پر ڈھال لے جاتی تھی۔ معصوم کے ساتھ جو ہریالی عام ماؤں سے اور خصوصاً غیرت بیگم سے بڑھ کر محبت کرتی تھی تو میاں کی خوشامد پر محمول کرنا شاید چنداں بے جا نہ تھا مگر ہریالی کی مخالفت میں غیرت بیگم کے خیالات ایسے بڑھے ہوئے تھے کہ اس کا بھی وہ دوسرا ہی مطلب لگاتی تھی اس کا مقولہ یہ تھا دیکھا نامراد کٹنی کو۔
کیسے معصوم کی للونپو میں لگی رہتی ہے اور مجھ کو یقین ہے کہ وہ ضرور اس کو مجھ سے تڑا کر رہے گی ابھی سے اس کو میری صورت سے بیزار کر دیا ہے۔ نہیں تو اتنے بچے ماؤں سے ایک لمحے کے لیے پرے نہیں ہٹتے اور معصوم کو تو اگر میں نہ بلاؤں کبھی بھول کر بھی ادھر کا رخ نہ کرے۔ بیگم کو تو الٹے سیدھے ہر طرح ہریالی کو الاہنا دینا منظور تھا۔ معصوم اگر کبھی بیمار ہوتا اور چھوٹے بچے اکثر بیمار ہوتے ہی رہتے ہیں۔
تو مصیبت یہ تھی کہ میاں کی ضد کے مارے دوا علاج کچھ نہ کرتی اور کہتی کہ جو کوئی دکھ ہو تو علاج کروں اس کو تو دشمنوں نے کچھ کر دیا ہے۔
اور دشمن کون یہی بغلی گھونسا۔ یہ کیا ہم میں سے کسی کو جیتا چھوڑے گی لیکن اگر میرے بچے کا بال بیکا ہوا تو کوٹھڑی میں کیا مار ماری تھی اگر جان سے نہ مار ڈالوں تو سید کی جنی نہیں۔ اور پھر اس کے حمایتیوں کو دیکھ لوں گی۔
ہریالی عجیب پس و پیش میں تھی۔ اگر معصوم کو نہیں آنے دیتی تو کہیں خود جو بے اولادی ہے جلتی ہے دیکھ نہیں سکتی اور آنے دیتی ہوں تو اس کی ذمہ داری کون کرے کہ بچہ بیمار نہ پڑے تو ضرور اچھا ہی ہو جایا کرے۔ پس ذرا بھی معصوم کا جی ماندہ ہوتا تو ہریالی کا کئی چلو لہو خشک ہو جاتا۔ انتظام خانہ داری کی یہ صورت ہوتی کہ آخر اس کو بھی تو صاحب خانہ کی توجہ درکار ہے۔
یہاں آپس کی کہا سنی تاک جھانک۔ لڑائی جھگڑ ے سے اتنی فرصت ہی کس کو تھی کہ انتظام کی طرف متوجہ ہوتا اور فرصت تھی بھی تو دلوں میں شوق نہیں۔ رغبت نہیں اطمینان نہیں امنگ نہیں۔ کسی کی بلا سے۔ کیا غرض پڑی تھی کہ یہ درد سرمول لے۔ خانہ داری میں سب سے بڑا انتظام کھانے کا کہ صبح بھی ہو اور شام بھی ہو سو کھانے کا یہ حال کہ بڑے گھر میں تو مبتلا نے کبھی پیٹ بھر کر کھانا کھایا ہی نہیں۔
میاں بی بی میں ناخوشی تو سدا کی تھی، تاہم کھانا دونوں ایک ہی دستر خوان پر کھایا کرتے تھے جس دن سے ہریالی نے الگ گھر کیا، غیرت بیگم نے میاں کے ساتھ بات چیت کرنی کیا چھوڑی بات چیت کے ساتھ کھانا اور کھانے کے ساتھ دیکھنا بھالنا نکالنا سب کچھ چھوڑ دیا۔ دوچار بار مبتلا نے منہ پھوڑ کر ہا بھی جواب ندارد۔ پس کھانا تیار ہوتا تو گھر کے نوکروں میں سے کسی نے میاں کا حصہ نکال کر لا آگے رکھ دیا۔
اس بے قراری کے ساتھ جو کھانا دیا جاتا تھا تو مبتلا کو اس قدر طیش آتا تھا کہ اگر کا بس چلے تو غیرت بیگم کو کچی اٹھا کر کھا جائے مگر وہ اپنا خون جگر پی کر چپ ہو رہتا تھا۔ ڈر کے مارے ذرا کی ذرا منہ جھٹلایا اور کھڑا ہو گیا۔ غیرت بیگم خود تو کبھی خبر نہیں لیتی تھی۔ اگر کبھی کوئی نوکر خدا کے واسطے کو کہہ بیٹھا کہ میاں تو پوری چپاتی بھی نہیں کھاتے تو بولتی اس مال زادی کے بغیر میاں کے حلق سے نوالہ کیوں اترنے لگا اور ان کو گھر کا کھانا کیوں بھانے لگا۔
غیرت بیگم جلتی تن کا مبتلا سے بدتر حال تھا وہ آپ ہی اپنے دل سے باتیں پیدا کرتی اور آپ ہی ان کی ادھیڑ بن میں دو دو وقت کھانا نہ کھاتی۔ نوکروں نے جو دیکھا گھر والے دو، میاں اور بیوی اور دونوں کو کھانے کی طرف مطلق رغبت نہیں۔ یہ لوگ بھی سستی اور بے پرواہی اور چوری اور طرح طرح کی خرابیاں کرنے لگے۔
نتیجہ یہ ہوا کہ خرچ تو ڈیوڑھا اور دونا بڑھ گیا اور برکت آدھی اور پاؤ بھی باقی نہ رہی غیرت بیگم کی طرف تو سویرے خاک اڑنے لگی چھوٹا گھر خیر یوں ہی لشٹم پشٹم چلا جاتا تھا۔
گھر کی عزت ہوتی ہے مردانے سے۔ اور مردانے کی رونق مردوں سے اور مردوں کے شوق کے اہتمام سے۔ مبتلا کبھی جس کا یہ حال تھا کہ بالوں میں تیل نہ پڑتا تو سر درد کرنے لگا۔ دن میں اگر چار مرتبہ گھر سے باہر نکلتا تو چار طرح کی پوشاک پہن کر۔ ایک چیز ایک جگہ سے بے جگہ رکھی ہوئی تو بے چین ہو جاتا فرش پر سلوٹ پڑی دیکھی اور تیوری پر بل پڑا۔ آندھی ہو مینہہو سردی ہو گرمی ہو چار گھڑی دن رہے گھوڑے کی سواری کبھی ناغہ ہونے نہیں دی۔
ہر چیز صاف ستھری قیمت انوکھی یا اب خانہ داری کے جھگڑوں نے اس کو اس قدر عاجز اور ناچار کر دیا تھا کہ اس کو اپنے تن بدن کا بھی ہوش نہ تھا۔ بال الجھ کر نمدہ ہو گئے ہیں۔ کسی کو دماغ ہے کہ کنگھی کرے۔ معلوم ہے کہ کپڑے میلے چکٹ ہو رہے ہیں۔ مگر بدلتے ہوئے آلکسی آتی ہے۔ چیز بے ٹھکانے پڑی ہے مگر کون زبان کو ہلائے کہ اس کو موقع سے رکھو۔ سفید چاندنی دھبے پڑ پڑ جا جم بن گئی ہے نوکروں کو توفیق نہیں کہ بدلیں، میاں کو خیال نہیں کہ بدلوائیں گھوڑا نسل ولائتی جس پر مکھی پھسلتی تھی۔
پٹھوں پر نالی پڑی ہوتی۔ سواری موقوف تھی لہٰذا تھان پر بندھے بندھے پانچواں عیب نکال لایا۔ بادی آدبایا۔ مالش میں ہوئی کمی اور دانے میں ہوئی چوری۔ تھوڑے دن میں پر تل کا ٹٹو معلوم ہونے لگا۔ سینکڑوں روپے کا اسباب صرف غور اور پرداخت کے نہ ہونے سے کوڑے کی طرح بے قیمت ہو گیا۔
غرض وہ لوگ کہاوت کہتے ہیں کہ دو ملا میں مرغی حرام دو بیبیوں کی کشمکش میں گھر کی مٹی ایسی پلید ہوئی کہ باہر سے لے کر اندر تک نکبت اور مفلسی اور بے رونقی چھا گئی ایک مدت تک غیرت بیگم کی طرف سے انواع و اقسام کے ظلم ہریالی پر ہوتے رہے اور بدلہ لینا کیسا اس کی اتنی بھی مجال نہ تھی کہ اف کرے۔
نام لے لے کر پکار پکار کر سنا سنا کر گالیوں کی بوچھاڑ برسا رکھی ہے اور کوسنوں کا تار باندھ دیا ہے۔ ہریالی دم بخود مگر کتنا صبر، کہاں تک برداشت، آخر اس کا منہ کھلا کہ لوگوں نے اپنے اپنے کان بند کر لیے۔ برکت، رونق، فراغت، عافیت، محبت، مروت سب کچھ غارت ہو کر ایک آبرو تھی لیکن اب وہ بھی محلے والوں کی نظر میں نہ رہی تھی۔ ہر وقت کی تھکا فضیحت میں وہ بھی گئی گزری ہوئی۔
کم بختیں اس بے ہودگی کے ساتھ آپس میں لڑتی تھیں کہ کنجڑنوں قصائنوں کو مات کر دیا تھا اور دھوبنوں بھٹیاریوں کو شرمندہ۔ غیرت بیگم تو کسی کے قابو کی تھی نہیں مگر ہاں ہریالی کو اگر مبتلا منع کر دیتا تو وہ بے شک باز آجاتی۔ پر غیرت بیگم کی طرف سے مبتلا کو ایسے ایسے رنج پہنچے تھے کہ روکنا کیسا وہ تو کبھی کبھی ہریالی کو اور اشتعالک دے دے کر اس کی آڑ میں اپنے دل کے جلے پھپھوے پھاڑ لیتا تھا۔ ان لوگوں میں جو باہمی رنجش اور عداوتیں تھیں، پہلے چند روز تک دل میں رہیں۔ بڑھتے بڑھتے دلوں سے منہ تک آئیں، اب وہ زیادہ ہوئیں تو پھوٹ کر ایسی بہیں جیسے کوہ آتش فشاں کا ملغوبہ۔ آگے آگے آپ اور پیچھے پیچھے تباہی اور بربادی۔
#…#…#
تئیسواں باب: حاملہ ہریالی سے غیرت بیگم کا انتقام
اتفاق سے ہریالی پڑی بیمار شاموں شام سر دھویا، سردی کھائی، زکام ہوا، بخار آنے لگا۔ چند روز کچھ دھیان نہ کیا۔ بخار تھا کہ لمبا ہو گیا۔ بلکہ ذرا ذرا کھانسی کی بھی دھسک شروع ہو گئی۔ معمولی طو رپر حکیموں کے علاج کیے، لیکن بخار ہے کہ جنبش نہیں کھاتا، کھانسی کو اتنا آرام ہوا سمجھو سوکھی سے تر ہو گئی ایک دن بلغم میں کچھ سرخی کی جھلک دکھائی دی تو تردد ہوا اور تردد کی بات ہی تھی خیال کیا کہ پان کی سرخی ہو گی مگر پھر ثابت ہوا کہ نہیں خون کی ہے۔
تب تو مبتلا گھبرایا، غیرت بیگم کے ہاتھوں سے تو ایسی ایسی ایذائیں پہنچی تھیں کہ اس کے نام سے اس کا دل بے زار تھا۔
اس کو تھوڑی یا بہت جو کچھ دل بستگی تھی ہریالی کے ساتھ تھی۔ اب جو اس کو خون تھوکتے دیکھا۔ قریب تھا کہ سودائی ہو جائے شبہ تو تھی کئی دنوں سے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہیں غیرت بیگم نے کچھ کر کرا دیا ہو۔ کھانسی کے ساتھ خون کا آنا تھا کہ یقین کیسا حق الیقین ہو گیا کہ غیرت بیگم نے پون بٹھائی۔
خدانخواستہ ایسا تو پرانا بخار بھی نہیں کہ سل ہونے کا اندیشہ ہو، ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر سیانے اور بھگت بلائے! آئے سب نے اپنے اپنے جادو چلائے مگر کم بخت پون کی کچھ اصل جادو کی کچھ حقیقت ہو تو روگ میں کمی، مرض میں خفت ہو۔ خبط کے جادو، وہم کی پون اس کو اتارے کون، ہریالی کا حال بہت پتلا چلا، آخر کسی نے صلاح دی کہ سب کچھ تو کر چکے۔ ذرا ڈاکٹر چنبیلی کو بھی تو ایک نظر دکھاؤ۔
چنبیلی کا نام اصل میں مس بیلی تھا۔ ولایت سے نئی آئی تھی کہ اس نے نواب اقتدار الدولہ بہادر کے محل میں ایک بڑے معرکے کا علاج کیا۔ تب ہی سے شہر میں بڑی شہرت ہوئی ۔ نواب صاحب کی محل سرا میں اس کو چنبیلی پکارتے تھے۔ وہاں کی سنی سنائی اور لوگ بھی چنبیلی کہنے لگے۔ دایہ گری کے فن میں نہایت تجربہ کار اور مشتاق تھی اور خود مبتلا کے گھر میں معصوم اور بتول دونوں کے ہونے میں بلائی گئی تھی۔
ہریالی اور ہریالی کے تیمار دار کسی کے ذہن میں بھی نہیں بات آئی تھی کہ ہریالی کی حالت ڈاکٹر چنبیلی کے علاج کی متقاضی ہے۔
ڈاکٹر چنبیلی کو جب بلایا گیا، تو غیرت بیگم سمجھ کر معرفت سابقہ کے لحاظ سے بلاعذر بڑی خوشی کے ساتھ فوراً چلی آئی۔ اس کو یہاں آکر معلوم ہوا کہ مبتلا نے دوسری بی بی کی ہے۔ اس نے بیمار کو دیکھا تو سہی مگر مبتلا سے کہا کہ مجھ سے اور غیرت بیگم سے دوستی یا بہنا پاتو نہیں ہے۔
پرتم کو پتہ ہے کہ ان کے دو بچے ہونے میں، میں نے ان کی خبرگیری کی ہے تو تمہاری اس بی بی کا علاج کرنے کو میرا جی نہیں چاہتا۔ اس کو میں خلافِ مروت سمجھتی ہوں اور میرے علاج کی چنداں ضرورت بھی نہیں۔ جس حکیم کا علاج کرتے ہو ان کو صرف اتنا اشارہ کر دینا کہ دو جانوں کی رعایت سے علاج کریں اتنا کہہ کر ڈاکٹر غیرت بیگم کی طرف گئی۔ معصوم اور بتول دونوں کو گود میں لے کر پیار کیا۔
پھر غیرت بیگم سے بولی کہ اگر میں دوسرے گھر میں نہ بلائی گئی ہوتی تو میں تم سے پوچھتی کہ اس قدر دبلی کیوں ہو۔ ہم لوگوں میں مرد دوسری بی بی نہیں کر سکتے اور مرد اور عورت دونوں کے حقوق کو تولا جائے تو شاید عورت ہی کا پلہ جھکتا ہوا رہے گا۔ پھر بھی مرد اور عورت کا تعلق اس قسم کا ہے کہ بیاہ ہو جانے سے عورت مرد کے بس میں آجاتی ہے۔ یہی سمجھ کر میں نے اپنا بیاہ نہیں کیا اور کرنے کا ارادہ بھی نہیں میں تمہاری حالت پر افسوس کرتی ہوں اور اس سے زیادہ افسوس اس مجبوری کا ہے کہ مدد کرنے کی جگہ نہیں۔
لیکن کبھی اگر میرا کام آ پڑے تو ضرور مجھ کو یاد کرنا۔ غیرت بیگم نے اگرچہ دیہات میں پرورش پائی تھی۔ پر وہ اتنی بھی تو بے تمیز نہیں تھی کہ چنبیلی کے آنے کا اس کی محبت کا، مروت کا، ہمدردی کا شکریہ ادا نہ کرتی، مگر سوکن کے جھگڑے میں اس کو کسی چیز کی سدھ نہ تھی۔ چنبیلی اس سے بات کر رہی تھی اور یہ اس فکر میں تھی کہ کب چپ کرے اور میں سوکن کا حال پوچھوں، غرض غیرت بیگم نے چھوٹتے ہی پوچھا کہ کہو کیا دیکھا۔
چنبیلی بولی حکیم کو دھوکا ہوا۔ اس نے پہچانا نہیں کہ یہ عورت چار مہینے ہوئے دوجی سے بیٹھی ہے، میں نے تمہارے میاں کو جتا تو دیا ہے۔ اب بھی اگر سمجھ بوجھ کر علاج ہو گا۔ تو بچے کو تو میں نہیں کہہ سکتی کیونکہ ادھر تو ہوئے جلاب اور ادھر بخار کی وجہ سے ملیں اوپر تلے ٹھنڈی ٹھنڈی دوائیں۔ بچے کو سردی نے پکڑ لیا۔ مگر احتیاط کی وجہ تو میرے نزدیک یہ ہے کہ بچے والی کو ابھی تک کچھ بڑی الجھن نہیں ہے۔
اس لیے کہتے ہیں کہ آدمی فربہ شود ازراہ گوش۔ یہ بات دوسری طرف ہریالی نے جو سنی تو اس کے دل کو اس قدر تقویت پہنچی کہ کیسی دوا اور کس کا علاج گھڑیوں اس کا مزاج خود بخود ٹھیک ہوتا گیا۔
یہاں تک یا تو آپ سے کروٹ نہیں بدل سکتی تھی یا ایک ہی ہفتے میں چلنے پھرنے لگی۔ یہ تو اٹھ کھڑی ہوئی لیکن اس کی جگہ غیرت بیگم پڑی، غیرت بیگم کا سارا غرور، سارا گھمنڈ، سارا ناز اولاد کے برتے پر تھا۔
اب جو اس نے دیکھا کہ سوکن نے اس میں ساجھا لڑایا تو حقیقت میں اس کی کمر ٹوٹ گئی اور سمجھی کہ بس اب ہریالی کے مقابلہ میں نہیں پنپتی۔ اس کو اس بات کی بڑی تسلی تھی کہ ہریالی لاکھ میاں کی پیاری کیوں نہ ہو۔ آخر ہے تو بے اولاد نہ کوئی نام کا لینے والا نہ پانی کا دینے والا۔ جتنا اس کی تقدیر میں ہے اور پہن لے، جس قدر اس کے نصیب کا ہے اور کھا ہے۔
پھر میں ہوں تو میں اور نہیں تو اللہ رکھے اور پروان چڑھائے میری اولاد۔ اس خیال سے کبھی اس نے سوکن کو سوکن مانا ہی نہیں اب البتہ اس کو سوکن کی حقیقت کھلی اور آدھی اور ساری کا سوچ پیدا ہوا۔ چنبیلی کوئی دو تین گھڑی دن چڑھتے چڑھتے آئی تھی۔ اس کے گئے پیچھے سے جو غیرت بیگم گھنٹوں میں سر دے کر بیٹھی تو دوپہر ڈھلتے ڈھل گئی۔ مگر اللہ کی بندی نے گردن اونچی نہ کی۔
دو تین بار کھانے کی اطلاع ہوئی مگر اس نے یہی کہہ دیا کہ مجھے بھوک نہیں۔ اس کے گھر میں ایک بہت پرانی نوکر تھی، خاتون وہ گھر کی داروغہ تو نہ تھی مگر کبرسنی اور قدیم الخدمتی اور ہوشیاری اور سلیقے کی وجہ سے گھر کے نوکروں میں سب سے سربر آوردہ تھی۔ غیرت بیگم کو اس سے مانوس ہونے کا ایک سبب خاص یہ بھی تھا کہ جس طرح مبتلا نے غیرت بیگم پر سوکن کی۔
اسی طرح خاتون پر بھی اس کے میاں نے سوکن کی تھی۔ غیرت بیگم کا تو ایسی باتوں میں بہت جی لگتا تھا۔ خاتون گھڑیوں اپنی سوکن کی باتیں کرتی اور غیرت بیگم کرید کرید کر پوچھتی اور ایک ایک بات کو بار بار کہلواتی۔ پس خاتون نوکر کی نوکر تھی۔ قصہ خواں کی قصہ خواں اور بیوی کی ہمدرد۔ جب خاتون نے دیکھا کہ جس گھڑی سے چنبیلی آئی بیوی کچھ ایسی سوچ میں گئی ہیں کہ پان تک نہیں کھایا۔
کھانے کا وقت بھی ٹل گیا۔ تو اس نے قریب جا کر پوچھا کہ بیوی جو تم اس قدر اداس بیٹھی ہو اس کا کیا سبب ہے، غیرت بیگم۔ تم نے نہیں سنا کہ بے غیرت کے یہاں بال بچہ ہونے والا ہے۔
خاتون: ابھی اس نے کیا اٹھا رکھا ہے۔ بال بچہ ہونے والا ہوتا تو حکیم کیا ایسے اندھے ہیں۔ جلابوں پر جلاب کیوں دیتے۔
غیرت بیگم: حکیموں کو دھوکا ہوا۔ انہوں نے جانا ٹھنڈی ٹھنڈی دوائیاں دی جا رہی ہیں تو بھلی ہو جائے گی کہ پیٹ میں بادی بھر گئی ہے۔
اب چنبیلی نے دیکھا تو بتایا۔ کیوں خاتون بی میں تو سنتی رہی تھی، کنچنیوں کے اولاد نہیں ہوتی؟ کیا میری ہی تقدیر پر ایسے پتھر پڑے تھے کہ مجھ پر کنچنی بھی آتی تو آتے دیر نہ ہو اور ماں بن جائے۔
خاتون: نہیں بی بی کون کہتا ہے کہ کنچنیوں کے اولاد نہیں ہوتی؟ ہوتی ہے اور نہیں بھی ہوتی۔ کیا تم بھول گئیں میری سوکن کون تھی اصل نسل کی کنچنی جب میرا میاں اس کو لایا تو خدا جانے نامرادیں مردوں کی آنکھوں میں کیا ٹپکی ڈال دیتی ہیں۔
وہ جانتا تھا کہ سترہ اٹھارہ برس کی لڑکی ہے۔ پیچھے معلوم ہوا کہ چار کی ماں تو وہ اس وقت تھی اور ہمارے یہاں تو بیوی پانچ برس وہ زندہ رہی۔ میری اتنی روک ٹوک پر بھی سات یا آٹھ دفعہ اس نے تیاری کی مگر واہ ری چنیا۔ دائی ہو تو ایسی ہو کبھی چوتھا نہ لگنے دیا۔
غیرت بیگم: وہ چنیا اب ہے۔
خاتون: مدتیں ہوئیں مرکھپ گئی۔ ستر پچھتر برس کی تو وہ میری سوکن کے وقت میں تھی۔
غیرت بیگم: پھر خاتون کوئی ویسی ہی تدبیر یہاں نہیں کرتیں۔
خاتون: بیوی تمہاری یہاں افتاد دوسرے طور کی ہے ہم تو غریب آدمی ہیں۔ اب بھی ہیں اور تب بھی تھے۔ میاں سات روپے مہینے پر ایک عطار کی دکان پر بیٹھتا تھا سامنے تھا اس بیسوا کا کوٹھا۔ آدمی تھا وہ بھی طرح دار، یہ نامراد اس کے سر ہوئی میں تو بارہ آنے مہینے کرائے پر دینا بیگ خاں کے کٹڑے میں رہتی تھی۔
ذرا سا مکان میرے اکیلے دم کا اس میں گزر ہوتا تھا۔ سوکن صاحب جو آئیں بس میری گود میں بیٹھیں، مرد واکم بخت اس طرح کا ظالم کہ گالی دے بیٹھا۔ اس کے آگے ایک ایک بات اور بات بات میں مکا اور لات اگر وہ کبھی مجھ کو اور سوکن کو آپس میں لڑتے دیکھ پائے تو دونوں کے ڈنڈے لگائے سو بیوی اپنی عزت اپنے ہاتھ۔
میں نے تو چوں نہیں کی اور ظاہر میں سوکن سے ایسی گھلی ملی رہی جیسے سگی بہن پر دل سے تو میری جان کی دشمن تھی اور میں اس کی۔
ایک جگہ کے رہنے سہنے اور ظاہر کے میل ملاپ سے ایک یہ فائدہ تو تھا کہ میں جو چاہتی سو کر گزرتی تھی اس کو یا مردوے کو شبہ نہیں ہونے پاتا تھا۔ تمہارے یہاں بیوی اول دن سے کھلم کھلا بگاڑ پڑے ہوئے ہیں۔ ایسی جگہ کوئی تدبیر چلنی ذرا مشکل ہے۔ نہیں تو کیا بڑی بات ہے چنیا نہیں، چنیا کی بہنیں اور بہتیری اور دائی کا بھی اس میں کیا کام۔ ایک سے ایک دوا مجھ کو ایسی معلوم ہے کہ چٹکی بچاتے میں کھڑا کھٹکا نہ کھائے۔
غیرت بیگم: اے ہے اچھی میری خاتون ایسی کوئی دوا ہے تو ضرور مجھ کو بتاؤ۔
خاتون: دوائیں تو بہت پرکاڑھے ہیں پینے کے، کچھ لیپ ہیں لگانے کے۔ آج کو یہاں دوا بنتی چھنتی ہوئی تو کچھ بھی مشکل نہ تھا۔ دوا تو بناتے ہیں اپنے ہاتھوں سے۔ میاں کوئی کرے تو کیا کرے۔
غیرت بیگم: پھر تم ہی کچھ تدبیر نکالو گی تو نکلے گی ورنہ میں تو اپنی جان پر کھیلے بیٹھی ہوں اور یہی بات اس وقت میں سوچ بھی رہی تھی خدا مجھے تو اس دن کے واسطے نہ رکھے ہائے کن آنکھوں سے دیکھوں گی کہ اس کے بچے کھیلتے پھریں اور کن کانوں سے سنوں گی کہ اماں پکاری جائے۔
تم سے کچھ ہو سکتا ہے تو کرو نہیں تو تم اکیلی کیا، دنیا دیکھ لے گی کہ جلا ہوا دل بہت برا ہوتا ہے اور کسی پر زور نہیں چلتا مگر اپنی جان تو بس کی ہے، جان جائے بھی تو مجھ جیسی کی بلا سے، غیرت میرا نام ہے، نام کے پیچھے جان دوں تو سہی۔
خاتون: بیوی خدا کے واسطے تم ایسی ایسی باتیں میرے سامنے تو کرو مت سن سن کر میرے تو ہوش اڑے جاتے ہیں۔ جان سی چیز کہاں پائیے تم اپنے ننھے منے بچوں کا منہ کرو، خدا تمہاری سلامتی میں ان کو پروان چڑھائے۔
الٰہی تم کو ان کی بہاریں دیکھنی نصیب اور قربان کی وہ نامراد سوکن۔ خدا چاہے گا تو وہی نہ رہے گی۔ ہراساں ہو تمہاری بلا اور غم کرے تمہاری پاپوش۔ جب خدا نہ کرے کہ تمہاری ہی جان پر آبنے گی تو ہم پندرہ بیس بندے جو تمہاری جوتیوں سے لگے ہیں تو کیا منہ دیکھنے کے واسطے ہیں۔ پہلے ہم سب تم پر سے تصدیق ہو لیں گے تب جو بات سو بات۔ پر بیوی جو بات تم چاہتی ہو جان جوکھوں کا کام ہے۔
پہلے اپنی جان سے ہاتھ دھو لو تو اس کا بیڑا اٹھائے۔ پھر اس کو چاہیے دل کا پکا پیٹ کا گہرا بھروسہ کا پورا کہ خدانخواستہ کل کلاں کو کچھ ایسی ویسی ہو تو اپنے اوپر جھیل لی جائے اور مالک کو بال بال بچائے۔ سو تمہارے گھر میں تو میں اس ڈھب کا کسی کو نہیں پاتی۔ چھوکریاں ہیں چھچھوری کہ آدھی بات سن پائیں تو ایک ایک کی چار چار دل سے بنائیں اور سارے محلے میں دھوم مچائیں۔
رہ گئیں مامائیں، نوکریں تو ہر کسی سے کہتے جی لرزتا ہے اور مجھ اکیلی سے سارا سرانجام ہو نہیں سکتا۔ ایک میرا بھانجا ہے جو میرے میاں کی جگہ عطار کی دکان پر نوکر ہے۔ اگر وہ گنٹھ جائے تو سارے کام آسان ہیں۔ میں اس سے ذکر کروں گی پر بیوی تم اپنی جگہ پر سمجھ لو۔ میری تو اگر جان بھی تمہارے کام آجائے تو دریغ نہیں۔ میں نے تمہارا نمک کھایا ہے اور میں اب دنیا میں جی کر بھی کیا کروں گی بہتیرا جی چکی پر میرا بھانجا بال بچے دار آدمی ہے۔
عمر بھی اس کی کچھ ایسی بہت نہیں۔ اس کو تو کچھ ایسا ہی بھاری لالچ دیا جائے گا تو شاید وہ اس کام میں ہاتھ ڈالے۔
غیرت بیگم: مجھ کو تو اگر کوئی کھڑا کر کے بیچ لے تو بھی عذر نہیں کسی طرح اس عذاب سے چھٹکارا ہو۔ خاتون بیوی دیکھو خبردار میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو نہیں تو سارے گھر پر آفت آجائے گی۔
غیرت بیگم: خیرخیر مناؤ تم نے کیا مجھ کو ایسا نادان سمجھ رکھا ہے۔
میں خوب سمجھتی ہوں کہ بڑے اندیشے کی بات ہے مجھ کو اپنے دونوں بچوں کی جان کی قسم کیا مجال کہ منہ تک بات آجائے۔
خاتون تو بس بات کو اپنے ہی تک رہنے دو۔ جب سب ٹھیک ٹھاک ہو جائے گا تو میں تم کو خبر کر دوں گی اور میں تم کو یہی صلاح دیتی ہوں کہ مل جاؤ کیونکہ ملاپ میں خوب کام نکلتا ہے۔ مگر ملو نہیں تو یہ ہر وقت کا جھگڑا بکھیڑا تو موقوف کر دو۔
ورنہ کرے گا کالا چور اور پکڑے جائیں گے تمہارے دشمن برا چاہنے والے۔ خاتون کے سمجھانے بجھانے سے غیرت بیگم نے باوجود یہ کہ ناوقت ہو گیا تھا منگوا کر کھانا کھایا اور جو سارے سارے دن ہریالی کا جھگڑا لگا رہتا تھا۔ وہ بھی بند ہوا۔ آدمی لاکھ چھپائے پر دل کی کپٹ بے ظاہر ہوئے بغیر نہیں رہتی لوگ جو چوری یا دوسرے جرموں کے مرتکب ہوتے ہیں اپنے پندار میں بڑی بڑی پیش بندیاں کرتے ہیں اور آخری کو وہی پیش بندیاں ان کو رسوا اور فضیحت کراتی ہیں یا تو تمام دن دونوں سوکنوں کی لڑائی کا ایک غل پڑا رہتا تھا۔
ایک دم سے ہوا سناٹا تو غیرت بیگم اور خاتون کے سوائے سبھی کو حیرت تھی کہ دلوں میں ایسی کیا نیکی خدا نے ڈالی کہ آپ سے آپ لڑتے لڑتے رک گئیں، باوجود یکہ خاتون نے سمجھا دیا تھا کہ جب سب ٹھیک ٹھاک ہو جائے گا تو میں تم کو خبر کر دوں گی مگر غیرت بیگم کو اتنا صبر کہاں تھا اس نے تو اگلے ہی دن سے خاتون کی جان کھانی شروع کر دی۔ کیوں بی اب ہو گیا۔
کیا دیر ہے۔ کاہے کا انتظار ہے۔ اے ہے کبھی ہو بھی چکے گا یا نہیں۔ بس اب خاک ہو گا۔ تم کو نہیں کرنا منظور تھا تو مجھ کو آس کیوں دی تھی۔ سخی سے سوم بھلا جو ترت دے جواب۔ آخر جب تقاضا حد سے گزر گیا تو ایک دن خاتون نے کہا کہ لو بی بی خدا نے مجھ کو تم سے سرخرو کیا۔ اب کہیں اتنے دنوں میں جاکر بڑی مشکل سے معاملہ طے ہوا میں تو سمجھتی تھی خدا جانے سرے سے حامی بھی بھرے یا نہ بھرے۔
مانگے تو دس ہزار مانگے پندرہ ہزار مانگے پر ماشاء اللہ قسمت تمہاری بڑی زبردست ہے۔ سستا چک گیا ایک ہزار فی الفور اور جو خدا نہ کرے کہیں وہ لڑکا زیادہ کھل کھلا پڑے تو دو ہزار۔ غیرت بیگم تو کہہ ہی چکی تھی کہ اگر مجھ کو کوئی کھڑا کر کے بیچ ڈالے تو بھی عذر نہیں۔ سننے کے ساتھ لگی ہاتھوں سے سونے کے ٹھوس کڑوں کی جوڑی اتارنے کہ اتنے میں خاتون بولی کہ بیوی کڑے مت دو۔
میرا جی بھی کڑھتا ہے ننگے ہاتھ بُرے لگیں گے اور لوگوں میں بھی پرچول پڑے گی بلکہ جتنا گہنا تم پہنے رہتی ہو اس میں سے کچھ بھی مت دو۔ غرض جس طرح خاتون کہتی گئی کچھ نقد وجنس ملا کر ہزار پورے کر اس کے لیے باندھے۔ ہزار نقد اور ہزار ادھار کے لے کر خاتون نے یہ کار نمایاں کیا کہ چوہوں کے بہانے سے تھوڑی سی سنکھیا بھانجے سے مانگ لائی۔ دونوں گھروں میں دودھ کا راتب بندھا ہوا تھا۔
گھوسن بڑے سویرے آتی اور سب سے پہلے یہیں کا راتب لاتی۔ خاتون اندھیرے منہ اٹھ مردانے میں جا بیٹھی، جوں ہی گھوسن نے پاؤں اندر رکھا کہ خاتون نے اس سے لڑنا شروع کیا کہ ساری دنیا میں حلوائی ہوئے گھوسی ہوئے دودھ میں پانی ملاتے ہیں۔ یہ کہیں سے بے چاری انوکھی گھوسن نکلی کہ پانی میں دودھ ملا کر لاتی ہے۔ پرسوں کھیر پکی کسی نے منہ پر نہیں رکھی کل جوں چاہا کہ سویوں میں ڈالیں نیلا نیلا سوت پانی۔ ہر روز بیوی کو ہم لوگوں پر خفا کرواتی ہے لاتیری ہنڈیا بیوی کو لے جا کر دکھاؤں تب تو انہیں یقین آئے گا۔
غرض زبردستی گھوسن کے ہاتھ سے ہنڈیا چھین ڈیوڑھی میں لے گھسی اور سنکھیا کی پڑھیا دودھ میں گھول ہنڈیا گھوسن کو پھیر دی کہ بیوی کہتی ہیں میرے پاس حرام کا پیسہ نہیں ہے جا دور ہو اب میرے گھر دودھ نہ لانا۔ برسوں کی لگی ہوئی گھوسن اور روزگار کا راتب اس طرح ملاوٹ کرتی تو اتنی مدت کیوں کر نبھتی۔ بے چاری کھسیانی ہو کر خاتون کا منہ دیکھنے لگی اور چھوٹے گھر کی ماما کو آواز دے بھری ہنڈیا اس کے حوالے کی کہ بڑی بی نے تو آج کئی برس کے بعد جواب دیا چھوٹی بی بی بھی اگر دوسری گھوسن لگالیں تو میری ہر روز صبح سویرے کی اتنی دور کی مشقت بچے۔
ہریالی نے دیکھا تو دودھ ہر روز جیسا گاڑھا اور چکنا اس کے جی میں آگیا کہ میاں کئی بار فرینی کی فرمائش بھی کر چکے ہیں۔ لاؤ آج قلفیاں جما دیں لہٰذا سارے کا سارا دودھ لے لیا۔
جب دودھ لے چکی۔ تب اس کو خیال آیا کہ آج تو بڑے گھر کی باری ہے۔ ماما سے کہا: دیکھنا تو کیا مجھ سے بھول ہوئی بڑے گھر کی باری کا خیال نہ رہا اور فرینی کے لیے اتنا سارا دودھ لے بیٹھی۔
اب کیا کروں۔ ماما نے کہا: مضائقہ کیا ہے۔ جاڑے کے دن ہیں اس وقت کی جمی ہوئی باسی قلفیاں تو کل تک ٹھنڈی اور بھی مزے کی ہوں گی۔ غرض فرینی پکا قلفیاں بھر الماری میں رکھ اوپر سے قفل لگا دیا۔ جن لوگوں کے بال بچے نہیں ہوتے جی بہلانے کو اکثر جانور پال لیا کرتے ہیں۔ ہریالی نے بھی طوطا اور مینا اور بلی اور کبوتر اور مرغیاں بہت سے جانور پال لیا کرتے ہیں۔
اچھا ایک پیالہ بھر کر فرینی ان جانوروں کے لیے الگ نکال کر تھوڑی ماما کے لیے دیگچی میں لگی چھوڑ دی تھی۔ دو سیر دودھ اور بمشکل پاؤ بھر چاول جبکہ برابر کی کھانڈ۔ فرینی کا ہے کوتھی اچھا خاصا کھویا کہنا چاہیے۔ جس نے پائی خوب مزے سے کھائی۔ دو گھنٹے نہیں گزرنے پائے تھے کہ سب سے پہلے میاں مٹھو شکار ہوئے، پھر تو باری باری سے اوپر سویر کوئی جلدی کوئی دیر، مینا سکڑی، بلی بانولی ہوئی، کبوتر چکرائے۔
مرغیاں اونگھنے لگیں۔ ماما مارے قے اور دوستوں کے بدحواس ہو گئی۔ ڈولی میں لاد اس کے گھر پہنچوایا اس کا بیٹا تھانے میں نوکر تھا۔ سننے کے ساتھ بھاگا ہوا آیا۔ ماں کو دیکھا تو آدمی کو نہیں پہچانتی تھی۔ نیم جان کو اٹھا کر ہسپتال لے گیا۔ ڈاکٹر نے پچکاری سے پیٹ صاف کیا۔ پانی جو پیٹ میں سے نکلا تھوڑے سے میں کوئی دوا ڈال کر دیکھا تو سنکھیا تھی۔
آخر ڈاکٹر نے سوچ سوچ کر یہ کہا کہ ہم یہ نہیں بتا سکتے کہ اس نے کتنی سنکھیا کھائی اور ٹھیک کس وقت کھائی لیکن جس قدر اس کے پیٹ میں سے نکلی ہے۔ اگر اتنی بھی ہضم ہو کر خون میں مل گئی ہو گی تو قاعدے کی رو سے اس کو مرنا نہیں چاہیے غرض سنکھیا کا جو تریاق انگریزوں کے یہاں ہوتا ہو گا اوپر تلے دینا شروع کیا۔ اگلے دن صبح ہوتے ہوتے بیمار کی طبیعت کچھ سنبھلی۔
آخر لوٹ پیٹ کر کچھ اچھی تو ہوئی مگر کچھ ایسا روگ لگ گیا کہ جب تک زندہ رہی مارے دھڑکن کے بے چارہ کو ساری ساری رات بیٹھے گزر جاتی تھی۔ ادھر ہریالی کے یہاں جس جس جانور نے ذرا سی فیرنی کھائی سبھی کو تو موت آئی۔ ہریالی اپنے اس کنبے کے سوگ میں تھی کہ کوئی چار گھڑی دن رہتے رہتے تو کوتوالی کے لوگ مردانے میں آبھرے پکڑ دھکڑ ہونے لگی فیرینی کی قلفیاں اور مرے ہوئے جانوروں کی لاشیں تو کوتوالی والوں نے فوراً ہسپتال کو ڈاکٹر کے پاس چلتی کیں اور لگے اپنے دستور کے مطابق ایک ایک کو الگ الگ لے جا کر پوچھ گچھ کرنے، غرض چھ گھڑی رات کو توپ نہیں چلی تھی کہ کوتوالی والوں نے سارا مقدمہ مرتب کر لیا۔
محلے والوں نے اظہار دیئے کہ دونوں گھروں میں ہر وقت کو سم کاٹا رہا کرتی تھی۔ اب ہفتے عشرے سے امن ہے۔ گھوسن نے بیان دیا کہ میں مدت سے دونوں گھروں میں دودھ کا راتب لاتی ہوں کبھی کسی نے دودھ کو برا نہیں بتایا۔ کل خاتون نے پہلے پہل مجھ سے کہا کہ تیرے دودھ میں ملاوٹ ہوتی ہے اور ہنڈیا میرے ہاتھ سے لے ڈیوڑھی میں گھس گئی اور پھر الٹے پاؤں ہنڈیا لے کر باہر آئی کہ بیوی نہیں ہیں۔
میں نے وہی ہنڈیا جوں کی توں چھوٹے گھر میں بھیج دی۔ دونوں گھروں کی ماماؤں نے ایک زبان گواہی دی کہ گھوسن نے دودھ کبھی برا نہیں دیا۔ حکیم عطار نے تصدیق کی کہ میری دکان پر خاتون کا بھانجا بیٹھتا ہے اور جب میں دکان پر نہیں ہوتا وہی بیچتا کھوچتا ہے۔ اور میری دکان میں سنکھیا بھی رہتی ہے مگر میری سخت تاکید ہے کہ دیکھو سنکھیا، کچلا، جمال گوٹا، شخرف، ہڑتال، بچناگ، دھتورہ اس قسم کی چیزیں انجان آدمی کے ہاتھ مت بیچنا۔
ان چیزوں کی فروخت کا حساب کتاب میں کیا شہر میں کوئی عطار بھی نہیں رکھتا۔ خاتون کے بھانجے کو بلوایا۔ بہتیرا ڈھونڈا اتفاق سے اس وقت نہیں ملا بلکہ کوتوالی والوں کو شبہ ہوا کہ کہیں خبرپا کر روپوش تو نہیں ہو گیا۔
بس اس کے آنے کی کسر رہ گئی ورنہ مقدمہ اسی وقت لکھا پڑھی ہو کر چالان ہو جاتا۔ گھر کے نوکروں میں خاتون ذرا سب سے زیادہ معزز تھی اور ڈیوڑھی تک بھی بہت ہی کم آتی جاتی تھی۔
کوتوالی والوں کو ہوا تامل کہ اس کو دوسرے نوکروں کی طرح باہر بلوائیں یا آپ ڈیوڑھی کے پاس جا کر اس سے پوچھ پاچھ کر لیں کہ اتنے میں تو سید ناظر خبر پاکر آموجود ہوئے۔ اگر ناظر ذرا سی دیر اور نہ آتے تو خاتون کی کیا اصل تھی۔ کوتوالی والے تو اس کے اچھے سے قبول کروا لیتے بلکہ وہ اس فکر میں تھے کہ اپنی طرف سے کسی عورت کو اندر بھیج کر خود بیگم صاحبہ کی مزاج پرسی کریں۔
ناظر کا آنا تھا کہ مقدمے کا رنگ بدل گیا۔ کوتوالی نے مناسب سمجھا کہ رات گئی ہے زیادہ، اس وقت تحقیقات کو ملتوی کیا جائے۔ فیرینی کی قلفیاں اور مرے ہوئے جانوروں کی لاشیں یہی دو بڑے ثبوت تھے سو دونوں ہمارے ہاتھ میں ہیں۔ اب ناظر نہیں ناظر کے باپ بھی قبر سے اٹھ کر آئیں تو کیا کر لیں گے۔ ماما کے پیٹ میں سے سنکھیا نکل چکی ہے اور اس میں شک نہیں کہ یہ اتنے سارے جانور سب سنکھیا سے مرے اور فیرینی میں سنکھیا موجود۔
اب رہ گئی یہ بات کہ سنکھیا دی تو کس نے دی تو دونوں سوکنوں سے انکار ہو سکتا ہے اور نہ دونوں کی عداوت سے۔ زہرخوردنی کا مقدمہ اس سے زیادہ اور کیا ہو گا۔ صاحب مجسٹریٹ کوتوالی کے چالان کیے ہوئے مجرم اکثر چھوڑ دیا کرتے ہیں اور ان کو کوتوالی کے ساتھ خدا واسطے ایک ضد سی آپڑی ہے۔ لیکن اگر اس مقدمے کو بگاڑا تو علم کی قسم صاحب سپرنٹنڈنٹ کو سمجھا کر صدر کو ایسی رپورٹ کراؤں کہ جواب دیتے بن نہ پڑے اور میاں ناظر کو بھی وکالت کا بڑا گھمنڈ ہے۔
بڑی مدت میں اونٹ پہاڑ کے تلے آیا ہے دیکھیں تو اب ہائی کورٹ کی کون سی نظیر پیش کر کے بہن کو بچاتے ہیں۔ غرض کوتوال خاتون کو ناظر کے سپرد کر حوالہ نامہ لکھوا گھوسن کے ساتھ چلتا ہوا اور سیدھا پہنچا صاحب سپرنٹنڈنٹ کے پاس اور ان کو مقدمے کی روداد سمجھا کر کہا کہ مقدمہ ہے سنگین اور مجرم عورتیں پردہ نشین۔ سید ناظر وکیل کا نام حضور نے سنا ہو گا۔
ناظر کی بہن نے سوکن کو زہر دلوایا مگر وہ اتفاق سے بچ گئی کل حضور بھی واقع واردات تک چلیں ورنہ وکیل صاحب بڑے شورہ پشت اور ثقہ بدمعاش ہیں۔ ہم لوگوں کے قابو آنے والی آسامی نہیں۔ ادھر ناظر بہن کے پاس گیا تو دیکھا کہ مارے ہول کے دست پردست چلے آرہے ہیں۔ دیکھنے کے ساتھ ہوش ہی تو خطا ہو گئے اور سمجھا سب سے بڑا ثبوت تو خود ان کی حالت ہے۔ آخر بہن سے اتنا کہا کہ بڑے بھائی نے تم کو اس قدر ڈرا دھمکا دیا تھا۔
مگر تم نے نہ مانا اور جب عقل کی بودی طبیعت کی کچی ہمت کی ہیٹی تھیں تو ایسے کام پر تم کو جرأت کیونکر ہوئی بس اب تین پہر رات اور ہے صبح ہوئی اور تمہاری ڈولی کوتوالی چلی۔ بھائی کے منہ سے اتنی بات سن غیرت بیگم کو اور تو کچھ نہ سوجھا۔ بہت دن ہوئے تولہ بھر افیون منگوا کر صندوقچے میں رکھ چھوڑی تھی۔
دوڑی کوٹھڑی میں جا صندوقچہ کھول افیون کا گولا نگل، اوپر سے بھرا کٹورا پانی کا پی لیا۔
بتول کی انّا کو یہ حال معلوم تھا کہ انہوں نے صندوقچے میں افیون رکھ چھوڑی ہے۔ دالان کے ایک کونے میں بیٹھی ہوئی بھائی بہن کی باتیں سن رہی تھی۔ بیوی کو جو اس طرح گھبرا کر اندھیری کوٹھڑی میں جاتے ہوئے دیکھا جلدی سے بتول کو چارپائی پر لٹا پٹتی ہوئی بھاگی کہ اے ہے۔ خاک پڑے ایسے جھگڑے پر۔ لو اب تو دشمنوں کو ٹھنڈک پڑی۔ وہ بیوی نے افیون کھالی۔
اتنے میں تو غیرت بیگم بھی کوٹھڑی سے کہتی ہوئی نکلی کہ بھائی تم کچھ تردد مت کرو۔ مجھ بُری سے خدا نے تم سب کا پیچھا چھڑایا۔ صبح تک میں ہی نہیں رہوں گی۔ کوتوال کو اختیار ہے میرا مردہ لے جا کر کوتوالی میں دفن کرے۔ زہرخورانی کا ایک مقدمہ تو قائم تھا ہی اقدام خودکشی کا دوسرا اور ہوا۔ معصوم اور بتول دونوں کو گلے لگا کر ایسی بلک بلک کر روئی کہ گھر میں قیامت برپا ہو گئی۔
ناظر نے جو بہن کا بلبلانا دیکھا اور ساتھ ہی خیال آیا کہ بس یہ بھی دنیا میں تھوڑی دیر کی مہمان اور ہے پھر کہاں ہم اور کہاں بہن۔ اس کے سر پر ایسا جنون سوار ہوا کہ نہ پکارا نہ کنڈی کھڑکھڑائی نہ دستک دی نہ اجازت لی۔ منہ اٹھا سیدھا چھوٹے گھر میں جا گھسا۔ دونوں میاں بیوی سرجوڑ بیٹھے ہوئے خدا جانے کیا صلاحیں کر رہے تھے۔ مبتلا نے آہٹ پاکر دور سے ڈانٹا ایں ایں کیا بدتمیزی ہے۔
اندھے ہو تم کو معلوم نہیں کہ پردہ ہے۔ تب کی مرتبہ بہن کو مداخلت بے جا کی نالش پر آمادہ کرتے تھے۔ اب یہ مداخلت بے جا نہیں ہے۔ ناظر بولا کہ اللہ دے تیرا پردہ، نوسوچوہے کھا کے بلی حج کو چلی۔ یہی نالائق پردے والی بنی۔ پردے والی نے افیون کھائی اور دنیا جہان سے روپوش ہونے کی تیاری کی۔
مبتلا: الحمدللہ خس کم جہاں پاک مگر تم خیریت سے چلتے پھرتے تو نظر آؤ سامنے سے۔
پرے ہٹتے ہو یا میں اٹھ کر تم کو رستہ دکھاؤں۔ مبتلا کا اتنا کہناتھا کہ ناظر یا تو صحن میں تھا یا مبتلا کی چھاتی پر، پھر تو دونوں میں خوب کشتی ہوئی۔ ناظر دیہات میں پیدا ہوا۔ دیہات میں پلا ہاتھ پاؤں کا ڈھلا، گٹھیلا برسوں اکھاڑے کا لڑا ہوا بیسیوں داؤ یاد، پچاسوں گھاتیں معلوم، سینکڑوں پیچ رواں اور اب تک بھی دو وقت ڈنڈمگدر کبھی اس نے ناغہ ہونے نہیں دیئے۔
مبتلا بے چارے نازنین، میرپھوپھا مرزا مہین۔ ناظر نے وہ پٹخنیاں دیں اور ایسا ایسا رگڑا کہ آنکھیں نکل نکل پڑیں اور سانس اوپر کا اوپر اور نیچے کا نیچے۔ مبتلا کے پاس کل جمع تین حربے تھے، چٹکیاں لینا نوچنا کاٹنا سو ناظر کی پھرتی کے مقابلہ میں ایک بھی کارگر نہ ہوا۔ مبتلا کو اگر معلوم ہوتا کہ یہ کم بخت چھوٹا کھوٹا چھپا رستم ایسے غضب کا بچھا ہوا ہے تو کبھی بھول کر بھی اس سے دو بدو نہ ہوتا مگر اس کی تقدیر میں تو دو بیبیاں کر کے ہرطرح کی مصیبت اٹھانی لکھی تھی۔
چھوٹا سمجھ کر اس کو ایک ڈانٹ بتائی بیٹھے بٹھائے۔ ہریالی نے دیکھا کہ میاں کو ناظر گیند کی طرح اچھالے اچھالے پڑا پھرتا ہے یہاں سے اٹھایا اور وہاں دے مارا۔ ادھر سے اچھالا ادھر لاپٹکا، ایسی دہشت دل میں سمائی کہ اس کا حمل جس کے سبب سے اتنا سارا فساد پڑا ساقط ہو گیا۔ ناظر کیا مبتلا کو جیتا چھوڑتا وہ تو خدا کا کرنا عین وقت پر سید حاضر آپہنچے تو گھر میں مجموعہ تعزیرات ہند پھیلا پڑا ہے مگر کیا قائم مزاج آدمی تھا آتے کے ساتھ سب سے پہلے تو ناظر اور مبتلا کو چھڑایا پھر نمک ڈال بھر بھر لوٹے گرم پانی غیرت بیگم کو پلانا شروع کیا۔
غیرت بیگم اس طرح کی ضدی عورت تھی کہ اگر ساری دنیا ایک طرف ہوتی تو گرم پانی کا کٹورا منہ کو نہ لگانے دیتی مگر کچھ تو بڑے بھائی کا لحاظ اور ادھر چپکے سے کسی نے کان میں جھک کر کہہ دیا کہ مبارک ہو ہریالی کا حمل تو گرگیا بے عذر خوب ڈگڈگا کر پانی پی لیا۔ پانی کا حلق سے اترنا تھا کہ استفراغ ہوا اور استفراغ کے ساتھ کھٹ سے افیون کا گولا سموچے کا سموچا نکل کر الگ جا پڑا۔
ادھر ہریالی کی خدمت کے لیے دوہری دوہری دائیاں بلوائیں اور پھر مبتلا اور ناظر دونوں کو ساتھ لے جا کر بیٹھا کر ہر چند تم دونوں کی طبیعتیں اس وقت حاضر نہیں اور سچ تو یہ ہے کہ مزاج میرا بھی ٹھکانے نہیں مگر میں دیکھتا ہوں تو آدھی رات ڈھل چکی ہے۔
صرف سوا پہر کی مہلت ہے سامان تو بدقسمتی سے ایسا جمع ہوا ہے کہ اب آبروبچتی ہوئی نظر نہیں آتی اور جب آبرو پر بنی تو سب سے پہلے شخص جو جان دینے میں دریغ نہ کرے میں ہوں۔
دیکھو تو کتنے آدمی ہم لوگوں کے ملاقاتی ہیں مگر ہمدردی اور مدد تو درکنار۔ مرد عورت کوئی آکر بھی جھانکا، سچ کہا ہے گاڑی بھرآشنائی کام کی نہیں اور رتی بھرنا تاکام آتا ہے۔ بڑے سخت افسوس کی بات ہے کہ جب ناتے سے کام لینے کا وقت آیا تو تم لوگ آپس ہی میں لڑنے لگے۔ جس طرح پر تم دونوں میں لڑائی شروع ہوئی۔ میں سب سن چکا ہوں تم میں سے کسی کو مجھ سے توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ میں ایک کو ملزم ٹھہراؤں اور دوسرے کو بری۔
جس طرح تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔ اسی طرح لڑائی کبھی ایک کے لڑنے سے نہیں لڑی جاتی۔ میں تم دونوں کو برابر الزام دیتا ہوں لیکن رشتہ داروں میں اگر کسی بات پر چخ بھی ہو جاتی ہے تاہم ان کے خون ملے ہوئے ہیں وہ ظاہر میں جدا ہیں اور باطن میں ایک۔ غیرت بیگم کا افیون کھا لینا سن کر مبتلا بھائی کو منہ سے الحمدللہ کہہ دینا بہت آسان تھا لیکن جب غیرت بیگم کی مدت حیات پوری ہو اور خدا کرے کہ مبتلا بھائی اس کو اپنے ہاتھوں سے مٹی دیں تو دنیا میں سب سے بڑھ کر رنج کرنے والے بھی یہی ہوں گے۔
گھر کس کا برباد ہو گا ان کا۔ اولاد کس کی بے ماں کی ماری ماری پھرے گی، ان کی۔ کنبے والوں کا میل ملاپ کس سے چھوٹ جائے گا، ان سے بھلے مانسوں میں جو خانہ داری کے ساتھ ہوتی ہے یعنی تمدنی عزت وہ کن کی جاتی رہے گی ان کی۔
اس میں شک نہیں چھوٹی بھاوج کی وجہ سے دلوں میں بڑے فرق پڑ گئے ہیں اور پڑنے ضرور تھے مگر پھر بھی غیرت بیگم کی ناموس کا پاس ہمیں چھٹانک بھر تو مبتلا بھائی کو سیر بھی ہو گا۔
میں جانتا ہوں کہ مبتلا بڑے ضبط کے آدمی ہیں منہ سے نہیں کہتے مگر ان کے تلوؤں سے لگی ہے۔ ناظر کیا تم سے کوئی خیر کی توقع کرے گا جب تم ایسی مصیبت میں مبتلا بھائی کی مدد نہ کروں۔ ہزاروں مقدموں میں تم بہ طمع صلہ پیروی کرتے ہو اس ایک مقدمے میں صلہ رحم کو صلہ سمجھو اور میری خاطر سے اپنی بہن کی خاطر سے بھانجی کی خاطر سے غصے کو تھوک کر بچاؤ کی کوئی صورت نکالو اور تم، مبتلا بھائی! ازبرائے خدا رحم کرو۔
اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں پر، بزرگوں کے نام پر، خاندان کی عزت پر، تم کو معاملات مقدمات کا کبھی اتفاق نہیں پڑا۔ کوتوالی والے مدت سے تم پر دانت لگائے ہیں۔ خدا جانے کس بلا میں تم کو پھنسا دیں گے۔ ناظر تمہارا خورد ہے۔ اگر اس نے بے تمیزی کی تو بہت بُرا کیا۔ جھک مارا۔ میں اس کی طرف سے معذرت کرتا اور تمہاری تھوڑی میں ہاتھ ڈالتا ہوں۔ جانے دو۔ معاف کرو۔ اس کے بعد ناظر کو پکڑ کر مبتلا کے پیروں میں گرایا اور ناظر اور مبتلا دونوں کو گلے لگوایا وہ دونوں بھی ایک دوسرے سے مل کر روئے۔ حاضر بہن کی تباہی کا تصور کر کے مغموم تو پہلے سے تھا۔ اب ان کو روتا ہوا دیکھ کر آپ بھی رونے لگا۔ جب سب کے دلوں کی بھڑاس نکل چکی تو حاضر نے ناظر سے پوچھا کہ کیوں بھائی اب کرنا کیا چاہیے؟
ناظر: خیر اب آپ فرماتے ہیں اور آپ کا قدم درمیان میں ہے تو میں اس مقدمہ میں ہاتھ ڈالتا ہوں مگر مبتلا بھائی نے آج اس رنڈی کے سامنے (آپ برا مانیں یا بھلا مانیں میں تو اس کو ساری عمر بھاوج کہنے والا نہیں) جیسا ذلیل کیا ہے، میں اس رنج کو کبھی بھول نہیں سکتا۔ جب آپا نے میرے بیٹھے پر افیون کھائی تو میں گھبراکر اس غرض سے ان کے پاس دوڑا ہوا گیا تھا کہ ہم دونوں ہم صلاح ہو کر تدبیر کریں۔
انہوں نے مجھ کو دروازے میں سے دیکھ کر اس طرح دھتکارا کہ کوئی کتے کو بھی نہیں دھتکارتا، مجھ کو رہ رہ کر غصہ آتا ہے کہ انہوں نے تو شرم اور حیا سب کو بالائے طاق رکھ دیا یا آپ کے سامنے میرا منہ کھلواتے ہیں۔ کل کی بات ہے کہ یہی نالائق جو آج لمبا چوڑا پردہ لگا کر بیٹھی ہے۔ بے اختیار جی چاہتا ہے کہ مارے جوتیوں کے بدذات کے سر پر ایک بال باقی نہ رکھوں، ٹکے ٹکے پر ماری ماری پڑی پھرتی تھی اور کوئی اس پر تھوکتا بھی نہ تھا۔
ان ہی سے پوچھئے کہ کئی بار میرے یہاں اس کا مجرا ہوا۔ جب آتی تھی ڈیوڑھی میں فراشی سلام۔ یا اب اس کے یہ بھاگ لگے ہیں کہ ہمارے سامنے ہونے سے اس کی بے پردگی ہوتی ہے۔
عزت بنانے سے نہیں بنتی بلکہ خدا داد چیز ہے۔ آج یہ پردہ نشین بنی۔ کل کو سیدانی بن کر چاہے گی کہ ہماری ماؤں بہنوں کے ساتھ بیوی کی صحنک کھائے۔ پرسوں اس کے بال بچے ہوں گے اور کہے گی کہ سیدوں میں رشتہ ناتہ کرتی ہوں تو کوئی بھلا مانس اس کو جائز رکھے گا۔
یہ جو کچھ آپ دیکھ رہے ہیں سب ہماری آپا کا صبر پڑ رہا ہے۔ اور بھی کیا ہے۔ یہ مظلمہ تو مبتلا بھائی کو ایسے ناچ نچائے گا کہ ہریالی کو ساری عمر ایسا ناچ ناچنے کا اتفاق نہ ہوا ہو گا۔ ناظر تو باتوں باتوں میں گرم ہوتا جاتا تھا اور مبتلا کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں کہ اگر اب کے پھر کہیں یہ جن لپٹ پڑا تو ہڈی پسلی ایک کر کے رکھ دے گا۔ حاضر کے بیٹھنے کی اگر ڈھارس نہ ہو تو قریب تھا کہ مبتلا کی گھگھی بندھ جائے۔
بارے حاضر نے کہا بھائی ناظر! یہ تو تم پھر بگاڑ کی سی باتیں کرتے ہو۔ یہ سوچ ہے کہ مبتلا بھائی کی نادانی نے سارے گھر کو تہ و بالا کر دیا مگر یہ بھی تو نہیں ہو سکتا کہ ہم غیروں کی طرح دور کھڑے ہوئے تماشا دیکھیں۔
ناظر: یہ تو میں نے وہ حقیقت بیان کی جو میرے دل میں تھی، رہ گیا مقدمہ اس سے آپ اطمینان رکھیے، مبتلا بھائی کو روپیہ تو بہت خرچ کرنا پڑے گا۔
کوئی پانچ چھ ہزار۔ مگر خدا نے چاہا تو ان پر اور ان کے طفیل میں ہریالی پر کوئی گزند نہیں آنے پائے گا۔ اس وقت تک مبتلا کو مقدمہ کی واقعی روداد اور کوتوالی کی تحقیقات سے اپنی اور ہریالی دونوں کی طرف سے پورا اطمینان تھا اور دونوں اپنی جگہ خوش تھی چاہ کن راچاہ درپیش۔ سنکھیا دی اسی غرض سے کہ ہم دونوں کھائیں اور مر کر رہ جائیں۔ خدا کی قدرت ہم دونوں کے منہ پر رکھنے کی نوبت بھی نہیں آئی اور اوپر ہی اوپر ماما کے بیٹے نے جا کر سرکار میں خبر پہنچائی۔
اب لینے کے دینے پڑے۔ غیرت بیگم کو پھانسی ہو تو پھانسی، عمر قید میں تو شک ہی نہیں چلو سستے چھوٹے اور روز کاٹنٹا مٹا۔ ناظر کے منہ سے یہ کلام سن کر کہ پانچ چھ ہزار روپیہ خرچ کرو تو تم پر گزند نہیں آنے پائے گا۔ مبتلا توحیران ہو کر اس کا منہ دیکھنے لگا اور بے اختیار بول اٹھا: کیوں صاحب۔ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے مجھی کو زہر دیا جائے اور میں ہی گزند سے بچنے کے لیے پانچ چھ ہزار روپیہ بھی خرچ کروں۔
انگریزی کی عمل داری میں یہی انصاف ہے۔
ناظر: ہوش کی بنواؤ۔ تماش بینی اور شے ہے اور مقدمہ کی باریکی کو پہنچنا کچھ اور چیز ہے۔ تم کو اتنا تو معلوم ہی نہیں کہ معاملہ کس کو کہتے اور مقدمہ کس جانور کا نام ہے۔ میں تو زبان دے چکا ہوں اور بدعہدی کسی شریف آدمی کام نہیں۔ اس لیے چند تہہ کی باتیں تم کو سمجھاتا ہوں کوتوالی کی تحقیقات کو تو عدالت میں کوئی پوچھتا تک نہیں روداد وہی معتبر ہے جو عدالت کی مثل میں ہو کیا تم نے نہیں دیکھا کہ کوتوالی کے لوگ زبانی پوچھ گچھ کے سوا کسی کا اظہار تک قلم بند کر نہیں سکتے۔
اصل بات یہ ہے کہ پہلے کوتوالی اور فوجداری ایک تھی جب یہ لوگ لگے اظہار کارگزاری کے لیے ہر وارادت بے سراغ کے مجرم بنانے اور اصل مجرموں سے سازش کر کے بیگناہوں کو ناحق پھنسانے تو سرکار نے کوتوالی اور فوجداری کو الگ کر دیا۔ اب تو کوتوالی والوں کا اتنا ہی اختیار ہے کہ جس کو اپنے نزدیک مجرم سمجھیں حاکم عدالت کے پاس چالان کر دیں۔ حاکم عدالت مدعی اور مدعاعلیہ گواہوں کے اظہار قلم بند کرتا ہے اور اپنے یہاں کی روداد پر سزا یا رہا کرتا ہے۔
کوتوالی والے اناپ شناپ جس کو پکڑ کر پاتے ہیں چالان کر دیتے ہیں۔ عدالت میں گئے اور رہا ہوئے اور ہمارے صاحب مجسٹریٹ کوتوالی سے اس قدر بدظن ہیں کہ مجسٹریٹی کا اجلاس کرتے ہوئے پورا برس نہیں گزرا کہ اتنے ہی دنوں میں کوتوالی والوں سے جیل خانہ بھر دیا۔ غرض کوتوال اور ان کی تحقیقات کی تو کچھ بھی حقیقت نہیں۔ اب رہ گئی مقدمے کی روداد سو اس کا یہ حال ہے کہ سنکھیا حقیقت میں پکڑی گئی۔
ہریالی کے یہاں پس مدعاعلیہ اول ہوئی ہریالی اور پہلے اسی پر اشتباہ کیا جائے گا کہ اسی نے فیرینی میں ڈالی یا ڈلوائی۔
مبتلا: بھلا وہ کم بخت بدنصیب کس کو سنکھیا دینے اٹھی تھی اپنے تئیں یا مجھ کو یا اپنی ماما کو جو سال ہا سال سے نوکر ہے اور کبھی اس کو پھٹے منہ تک نہیں کہا یا اپنے پالے ہوئے جانوروں کو۔ ناظر یہ سن کر بولا کہ تمہاری ناپختہ رائے تو بات الگ ہے لیکن دوسرے احتمالات میں تو کوئی ناممکن بات نہیں ہے۔
ہو سکتا ہے کہ اس نے زہر دینا چاہا ہو۔ یہ عجب نہیں بازاری خلقت کا بھروسہ کیا۔ خدا جانے اس نے کیا سمجھ کر تم سے نکاح پڑھایا اور اب جو اس کی مراد بر نہ آئی تو اس نے اپنا پنڈ چھڑانے کے لیے یہ تدبیر کی۔ اگر وہ اپنی حالت سابقہ پر عود کرنے کی آرزو مند ہو تو اس سے کچھ دور نہیں۔
ماما جو ہے وہ تم خود کہتے ہو کہ اس کے پاس مدت سے ہے تو ضرور اس کے پچھلے حالات سے بخوبی واقف ہو گی اور عداوت کے لیے اتنی بات کافی ہے اور سنکھیا کے لیے تمہاری اور ہریالی ماما کی کیا تخصیص ہے۔
معصوم سارے سارے دن ہریالی کے یہاں رہتا ہے وہ یقینا اس کی جان کی دشمن ہے۔ ان کے علاوہ احتمال اور ہے اور وہ سب میں زیادہ قرین قیاس ہے کہ آپا کے پھنسانے کے لیے یہ سارا منصوبہ سوچا گیا ہے۔ ورنہ سبب کیا کہ جانوروں تک فیرینی کھلائے اور آپ منہ تک نہ لے جائے اور بدذات نے کیا چالاکی اور بے رحمی کی ہے کہ بے زبان جانوروں کو تو اتنی فیرینی ٹھسائی کہ ایک نہ بچا۔ لہو لگا شہیدوں میں داخل کیا۔
مبتلا: گھوسن کی گواہی پر کچھ لحاظ نہ ہوگا؟
ناظر: کیا معلوم کہ عدالت تک پہنچتے پہنچتے گھوسن اپنے بیان پر قائم بھی رہتی ہے یا نہیں اور فرض کرو قائم رہے تو اس نے سنکھیا کا نام تک بھی نہیں لیا بلکہ میری نظر سے دیکھو تو گھوسن کا بیان ہریالی کے حق میں سم قاتل ہے۔ وہ کہتی ہے کہ خاتون نے مجھ کو دودھ کی ہنڈیا واپس کر دی۔ بہت خوب، ہریالی نے جب یہ سن لیا تھا کہ بڑے گھر سے دودھ برا سمجھ کر واپس کیا گیا تو اس نے چپ چپاتے ضرورت سے زیادہ بھری ہنڈیا رکھ کیوں لی۔
پس یہیں تو پانی مرتا ہے۔ اس سے صاف شبہ ہوتا ہے کہ ہریالی نے گھوسن سے مل کر اسی کے گھر دودھ میں سنکھیا گھلوائی اور جب خاتون دھوکے میں آئی تو دوسری چال چلی اور پھر یہ بھی سمجھ لو کہ ہریالی اور تم دو نہیں ہو، ہریالی کا کرنا عین تمہارا کرنا ہے اور ابھی خاتون کے بیان کو تو نوبت آنے دو۔
دیکھو تو وہ کیا زہراگلتی ہے۔ کوتوالی والوں کی کارروائی میں فی الواقع ہمیشہ ایک بڑا نقص یہ ہوتا ہے کہ تحقیقات سے پہلے مقدمہ کو کسی ایک پہلو پر ڈھال لے جاتے ہیں اور پھر بااصرار کے ساتھ اخیر تک اسی پہلو کی تائید میں لگے رہتے ہیں جو باتیں میں نے تم سے سرسری طور پر بیان کی ہیں۔
ان میں سے ایک کی طرف بھی کوتوال صاحب کا ذہن منتقل نہ ہوا ہو گا اور ہم لوگوں کو تو باتیں حاکم کی میز پر سوجھتی ہیں، عین وقت پر کچھ اس طرح کا بہرہ کھل جاتا ہے کہ خودبخود بات میں سے بات نکلی چلی آتی ہے۔
مبتلا کی ساری ہمت تمام ہو گئی عمر بھر مصروف رہا حسن و عشق میں۔ مدعی اور مدعا علیہ بننا درکنار اس کو کبھی گواہی دینے کا بھی اتفاق نہیں پڑا۔
بچپن کا لاڈلا، جوانی کا چھیلا وہ وکیلوں کے چھل فریب کیا سمجھے۔ ناظر نے جو الٹی سیدھی باتیں سمجھائیں چھکے ہی تو چھوٹ گئے اور سمجھا کہ بس اب نہیں بچتا۔ سنکھیا کا غصہ ہریالی کا رنج اپنی چوٹ اگلے پچھلے گلے شکوے سب کچھ بھلا بسرا ناظر کے گلے سے لپٹ گیا کہ بس اب اوپر خدا ہے اور نیچے تم۔ چاہو مارو چاہو جلاؤ چاہو اجاڑو چاہو بساؤ۔
ناظر: مقدمہ تو میری طرف آگیا اور سمجھو کہ مقدمہ کا میں بیمہ لے چکا۔
خرچ کا بندوبست تم کرو۔
مبتلا: خرچ کا بندوبست بھی تم ہی کو کرنا پڑے گا تم کو تو ہر گھر کا ذرا ذرا حال معلوم ہے۔
ناظر: کیا مضائقہ خرچ کا بھی انتظام ہو جائے گا۔ خیر آپ دو رقعے میرے نام لکھیے ایک تو کل کی تاریخ میں کہ چوہوں کی جیسی کثرت ہے تم کو معلوم ہے اب تو یہ نوبت پہنچتی ہے کہ کھونٹیوں پر لٹکے ہوئے کپڑے کاٹ کاٹ کر ٹکڑے کیے ڈالتے ہیں، ناچار تھوڑی سنکھیا منگوائی، پڑیا چھوٹے گھر کے بیچ والے دالان میں اس خیال سے کہ کسی کا ہاتھ نہ پڑے۔
اونچے پر رکھوائی تھی، یہ ذکر کوئی سات یا آٹھ دن پہلے کا ہے کل کیا اتفاق ہوا کہ شام کے وقت ایک روپے کی کھانڈ کا پڑا آیا اور جیسا دستور ہے پڑے کے ساتھ نمونے کی پڑیا۔ سنکھیا کی پڑیا تھی۔آج خود گھر والی نے اپنے ہاتھ سے فیرینی میں کھانڈ ڈالی تو انہوں نے کہا کہ پڑیا کی کھانڈ بھی کیوں ضائع ہو، پڑا اور پڑیا دونوں اتارتی لائیں مگر پڑیا سنکھیا کی باورچی خانے میں بھی دھوئیں کی وجہ سے کچھ دکھائی نہ دی اور چونکہ دل میں کسی طرح کا کھٹکا نہ تھا۔
انہوں نے دیکھا بھی نہیں۔ فیرینی پک کر تیار ہو گئی تو تھوڑی جانوروں کو دی جو گھر والی نے اپنے شوق کے لیے پال رکھے تھے اور جو دیگچی میں رہ گئی تھی ماما نے پونچھ کھائی جانور تو مر گئے ماما کو کچھ دست آئے مگر بچ گئی۔ کوتوالی کے لوگ مقدمہ کو طول دینا چاہتے ہیں تم مختار کارانہ اس کی خبرگیری کرو اور دوسرا رقعہ اب سے مہینے سوا مہینے جتنے دن پہلے کا چاہو لکھ دو کہ مجھ کو اتنے روپے کی ضرورت ہے جہاں سے بن پڑے بندوبست کر دو۔
بس اللہ اللہ خیر صلا اور چین سے پیر پھیلا کر سو رہو۔ سنکھیا کے رقعے کا مضمون سن کر تو مبتلا کی عقل دنگ رہ گئی اور سمجھا کہ ناظر بھی بڑا زہر کا بجھا ہوا ہے۔ دیکھو تو مغز سے کیا بات اتاری ہے۔ ایسے شخص سے مقابلہ کو عدالت کیسے جا سکتا ہوں۔ میرا بچاؤ تو اسی میں ہے کہ جو یہ کہے اس میں ذرا کان نہ ہلاؤں غرض اسی وقت دونوں رقعے لکھ ناظر کے ہاتھ دیئے اور پوچھا کہ بھلا صاحب اب صبح کوتوال صاحب آئیں تو کیا کرنا ہو گا؟ناظر نے کہا کہ اب بندہ درگاہ کے رہتے کوتوال صاحب کیا آتے ہیں، اب آمد ان کی برخاست اور اگر آئے بھی تو کوتوال بن کر نہیں نڈھال بدحال سراپا اضمحلال بن کر۔
مبتلا:کیوں صاحب جیسا اس کی باتوں سے معلوم ہوتا تھا اگر اس نے انگریز کو جو کوتوالی کا افسر ہے لاکھڑا کیا؟
ناظر: وہ سب بھی دیکھ لیں گے۔ باوجود یکہ ابھی جھٹ پٹا تھا ناظر فوراً سوار ہو سیدھا کوتوال کے پاس پہنچا۔ کوتوال سمجھا کہ ایسے وقت آئے ہیں تو معلوم ہوتا ہے ضرور کچھ نہ کچھ بوہنی کرائیں گے۔ دور سے ہنس کر بولا آئیے آج تو سویرے ہی سویرے اچھے سخی کے درشن ہوئے ہیں میں تو آپ کے یہاں آنے کو وردی پہن کر تیار لیس بیٹھا ہوں۔
صاحب سپرنٹنڈنٹ سے سات بجے کا وعدہ ہے۔
ناظر: کیا تیار بیٹھے ہو وہاں تو رات بڑا غضب ہو گیا۔
کوتوال: کیا کوئی اور صاحب سنکھیا کھا کر شہید ہوئے۔
ناظر: نہیں سنکھیا نہیں مگر آپ تو جانتے ہیں مبتلا بھائی کے گھر میں جو وہ دوسری عورت ہے پورے دنوں سے تھی کل نہیں معلوم آپ کے سپاہیوں نے اس کو کیا کیا ڈرایا دھمکایا طبیعت تو اس کی آپ کے رہتے ہی بگڑ چلی تھی، آپ ادھر آئے شاید کوتوالی بھی نہ پہنچ سکے ہوں گے کہ اس کا حمل ساقط ہو گیا۔
ساری رات اسی کے تردد میں پلک نہ جھپکی خیرحمل تو حمل اب اسی کی جان کے لالے پڑے ہیں۔ دیکھئے وہ بھی بچتی ہے یا نہیں۔ مبتلا بھائی کو اس عورت کے ساتھ اس درجہ کا تعشق ہے کہ جس وقت سے یہ واردات ہوئی ہے۔ سارے گھر میں بولائے بولائے پڑے پھر رہے ہیں۔ وہ تو ڈاکٹر چنبیلی کو بلاتے تھے۔ میں نے بہ ہزار مشکل روکا کہ دوسرے کے کان پڑی ہوئی بات پھر اپنے قابو کی نہیں رہتی۔
ایک چھوڑ دو دو دائیاں بلوا دی ہیں بارے اب کہیں جا کر کسی قدر طبیعت سنبھلی تو میں آپ کے پاس بھاگا ہوا آیا میں تو رقعہ لکھنے کو تھا پھر خیال آیا کہ خدا جانے کس کے ہاتھ پڑے۔ آپ چل کر کہنا چاہیے یہ سننا تھا کہ کوتوال کو کاٹو تو بدن میں لہو کی بوند نہیں۔ گڑگڑا کر بولا: آپ کے یہاں ہم تابعداروں کی مجال ہے کہ ڈرائیں دھمکائیں یا کوئی خلاف قاعدہ کارروائی کریں۔ آپ جس وقت تشریف لائے ہیں۔ آپ نے بھی دیکھا ہو گا کہ مردانے میں صرف دو ہی کانسٹیبل میرے ساتھ تھے اور وہ دونوں بے چارے الگ اصطبل کے پاس کھڑے تھے۔ میں نے آپ کے آدمی وفادار کے ہاتھ ماماؤں اور لونڈیوں کو بلا بلا کر ہولے سے دو دو باتیں پوچھ لیں۔
اصل حقیقت تو یہ ہے کہ اور ہم نے تو جس دن پولیس میں نام لکھوایا۔ اسی دن سمجھ لیا تھا کہ ایک نہ ایک دن ضرور قید ہوں گے۔ یہ ایسی تیسی نوکری ہی اس قسم کی ہے کہ کوئلوں کی دکانداری کی بے کالا منہ ہوئے نہیں رہتا۔ بڑوں کا کہا اور آنولے کا کھایا پیچھے مزہ دیتا ہے۔ لالہ جی بہتیرا سر پٹکتے رہے کہ ہم کو سپاہیوں کا بھیس سزا وار نہیں۔ اس وقت ان کی بات کچھ دھیان میں نہ آئی سو اپنے کیے کی سزا پائی۔
ناظر: یہ میں خوب جانتا ہوں کہ آپ نے بے جا کارروائی نہیں کی ہو گی۔ آدمی کا حال پوچھا نہیں رہتا۔ سارا شہر آپ کا مداح ہے اور اگر آپ احتیاط نہ کرتے تو کوتوالی کا چلنا بھی محال تھا خصوصاً صاحب مجسٹریٹ حال کے وقت میں مگر عورتیں تو جیسی ڈرپوک اور کچے دل کی ہوتی ہیں آپ خوب جانتے ہیں آپ کا ہی آنا سن کر ان کے تو ہاتھ پاؤں پھول گئے ہوں گے اور پھر کسی سپاہی نے کوئی ایک آدھ بات بھی کہہ دی ہو گی۔
حالت تو نازک تھی ہی اونگھتے کو ٹھیلتے کا بہانہ ہو گیا۔ چھوٹے گھر میں تو خیر ایک واردات بھی ہوئی تھی کہ جانور مرے، ماما کو دست آئے۔ فرینی میں سنکھیا نکلی۔ بڑا گھر جس کو واردات سے کچھ بھی تعلق نہیں، وہاں کیا حال تھا۔ جاکر دیکھتا ہوں تو چولہا تک نہیں سلگا۔ وہ تو جب میں نے سمجھایا کہ یہ کیا اس سے بڑی بڑی اتفاقی اور ناگہانی وارداتیں ہو جاتی ہیں اور آخر کار مقدمہ داخل دفتر، تب سب کو تسلی ہوئی:
کوتوال: اتفاقی کیسی؟ تب ناظر نے مبتلا کا رقعہ دیا کہ وہ خونی دروازے میں جو ایک شخص نے اپنی آشنا کو دھتورا کھلا کر مار ڈالا تھا اور شاید آپ ہی نے اس مقدمہ کی بھی تحقیقات کی تھی کل اس کی پیشی تھی اور میں مدعاعلیہ کا وکیل تھا۔
آپ کے اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ بھی سرکار کی طرف سے پیروی کے لیے موجو د تھے۔ بڑے بڑے مباحثے رہے۔ آخر ساڑھے چار بجتے بجتے مدعاعلیہ کی رہائی ہوئی تو یہ رقعہ مجھ کو عین اجلاس پر ملا تھا اور اسی کو دیکھ کر میں کچہری سے سیدھا وہیں چلا گیا۔ کوتوال نے رقعہ پڑھا تو مقدمہ کی طرف سے بھی اس کی آس ٹوٹ گئی۔ کمر سے کرچ کھول ناظر کے پیروں میں رکھ دی کہ نوکری تو یہ حاضر ہے۔
خدا واسطے کو ایک اتنا سلوک کیجیے کہ عزت پر ہاتھ نہ ڈالیے۔ ناظر نے بہت تسلی کی کہ بھلا اتنا تو سمجھے کہ اگر میرے دل میں کچھ فساد ہوتا تو میں اس سویرے اندھیرے منہ آپ کے پاس دوڑا ہوا کیوں آتا۔ خیر جو کچھ ہونا تھا سو ہوا۔ میں جس طرح بن پڑے گا۔ مبتلا بھائی کو سمجھا لوں گا۔ جب سے انہوں نے دوسری عورت کر لی ہے ذرا تنگ دست رہتے ہیں۔ یہیں کہ دوا درمن کا خرچ اور اوپر سے سو دو سو روپیہ اور ان کو دے دیا جائے گا اور ہاں سنکھیا کے مقدمے میں آپ کو کچھ زیادہ چھیڑ چھاڑ نہ کیجیے گا اس میں کچھ ہونا ہوا نا بھی نہیں۔
ناظر چلنے لگا تو کوتوال نے کہا پھر اس کرچ کو تو آپ اپنے ہاتھ سے باندھ دیں گے تو میں کمر سے لگا لوں گا ورنہ جہاں پڑی ہے پڑی رہے گی۔
ناظر نے جلدی سے کرچ اٹھا بسم اللہ کر کے کوتوال کی کمر سے باندھی گویا اپنی طرف سے کوتوالی دی۔ کوتوال نے کہا: بس اب ہاتھ پکڑنے کی لاج آپ کو کرنی ہو گی۔ صاحب سپرنٹنڈنٹ کو وہاں ایک اور ضرورت پیش آگئی کہ کسی انگریز کے یہاں سوڈا واٹر کی ایک دو بھی نہیں، اکٹھی آدھی درجن بوتلیں چوری ہو گئیں۔
صاحب نے چٹھی لکھی اور سپرنٹنڈنٹ صاحب اس کی تحقیقات کو بھاگ گئے۔ کوتوال سے کہلا بھیجا کہ ہمارا آنا نہیں ہو سکتا پھر کوئی پندرہ بیس دن بعد خود سپرنٹنڈنٹ صاحب ہی کو خیال آیا تو پوچھا کیوں کوتوال صاحب وہ کسی وکیل صاحب کے یہاں کی زہرخورانی کا آپ نے تذکرہ کیا تھا اس کا کیا ہوا۔ کوتوال نے کہا حضور فدوی نے تو اگلے ہی دن 3022 نمبر کا روزنامچہ خاص بھیج دیا تھا کہ واردات اتفاقی ہے۔
بات رفت و گزشت ہوئی۔ دوچار دن تو مبتلا کو کھٹکا رہا پھر اس نے دیکھا کہ کوتوالی والوں میں سے کسی نے آکر بھی نہ جھانکا تو اس کو یقین ہوا کہ ناظر کو حکام کے مزاج میں کچھ اس طرح کا دخل ہے کہ آج جو چاہے سو کر گزرے، ناظر نے اس مقدمے میں اچھا ہاتھ مارا۔ ہزار روپے تو چپکے سے اس نے وہ اگلوائے جو خاتون کٹنی غیرت بیگم بہکا پھسلا کر لے اڑی تھی اور رقعے کے بدلے مبتلا سے اس کے حصے کی دکانوں کا قطعی بیع نامہ اپنے نام لکھوا لیا اور پھر سب میں سرخرو۔
اب بے چارے مبتلا کے پاس پینسٹھ روپے ماہوار کی جگہ صرف ستائیس روپے مہینے کی نری تنخواہیں رہ گئیں۔ وہ کس طرح کی کہ کوئی چھٹے مہینے آدھی پاؤ وصول ہوئی تو کوئی برس بعد اور کوئی مار میں بھی آگئی اور غیرت بیگم کی یہ تاکید کہ بھلا کوئی ایک لوٹا پانی تو اس کے گھر میں سے مبتلا کو دے کر دیکھے۔ غیرت بیگم کے یہاں پہلے ہی مبتلا کی کون سی قدر کی جاتی تھی، اب جس دن سے یہ معاملے مقدمے کھڑے ہوئے۔
رہا سہا اور بھی نظروں سے گر گیا۔ پہلے بے رخی تھی، رفتہ رفتہ بدمزاجی ہوئی۔ بدمزاجی سے بددماغی کی نوبت پہنچ گئی بلکہ طرز مدارات سے ایسا معلوم ہونے لگا کہ سید حاضر نے جو ایک دن بیچ کے آنے کا معمول باندھ دیا تھا۔ اب مبتلا کا اتنا آنا بھی گوارا نہیں، غیرت بیگم کو مبتلا سے بات چیت کیے ہوئے برسوں گزر گئے تھے لونڈیاں مامائیں میاں کا اتنا لحاظ کرتی تھیں کہ باری کے دن بچھونا صاف کر دیا۔
جب تک گھر میں بیٹھے حقے کی خبر رکھی۔ کھانے کو پوچھ لیا اور اب مقدموں کے بعد سے تو ان باتوں میں بھی مضائقہ ہونے لگا۔ مبتلا لاکھ گیا گزرا تھا مگر آخر تھا تو صاحب خانہ، یہ بے توقیری دیکھ کر وہ بڑے گھر کی باری کو تپ ولرزہ کی باری سے کم نہیں سمجھتا تھا مگر حاضر ناظر سے اس قدر ڈرتا تھا جیسا مردہ نکیرین سے۔ ناخواستہ دل آتا اور برخاستہ خاطر رہتا۔
ایسی ایسی سنگین وارداتیں گھر میں ہو جائیں اور کسی کی نکسیر تک نہ پھوٹے، غیرت بیگم اور بھی بے محابا ہو کر لگی بادل کی طرح گرجنے اور بجلی کی طرح کڑکنے۔ سقہ اور دھوبی اور حلال خور وغیرہ جتنے اہل خدمت تھے۔ ان تک کی بندی ہو گئی کہ چھوٹے گھر کا کام نہ کرنے پائیں۔ ناچار گلی کی طرف کا قدیم دروازہ جو مدتوں سے بند تھا تیغا توڑ کر کھولا تب کام چلا۔
#…#…#
چوبیسواں باب: مبتلا اور ہریالی کا بگاڑ
جب تک باتوں کا زبانی جمع و خرچ رہا کہ غیرت بیگم نے اپنے گھر میں کوس کاٹ لیا اور ہریالی نے اپنی جگہ پکار پکار کر نہیں تو چپکے سے جو کچھ منہ میں آیا کہہ دیا، تب تک اگر سچ پوچھو تو ہریالی کی جیت تھی کیونکہ مبتلا اس کے پلے پر تھا اور آمدنی کے حساب سے دونوں گھر برابربرابر ،اب جو پینسٹھ کے رہ گئے ستائیس تو اس کا ایمان ڈگمگا چلا اور مبتلا سے کہا۔
ادھر اکیلے گھر میں ساٹھ دوا ادھر مردانہ زنانہ دو گھروں میں پینسٹھ نگوڑا پانچ روپے کا بل خدا جانے میں کیا کتربیونت کرتی تھی کہ خیرگزر ہوتی چلی۔ تم اپنے ہاتھ میں خرچ رکھتے ہوتے تو حقیقت کھلتی اور میں تمہارے بڑے گھر میں جاتی نہیں تو آخر سنتی تو ہوں کہ آدمیوں کو ابالی دال ملتی ہے اور وہ بھی ایک وقت بچوں کا سودا سلف تو درکنار، کبھی آدھی کے چنے لے کر دینے نصیب نہیں ہوئے۔
اب تم نے پینسٹھ کے ستائیس کرائے ہیں تو تم ہی خرچ کا انتظام بھی کرو میں کوئی اپنی بوٹیاں کاٹ کاٹ تو کھلانے سے رہی۔
مبتلا: پینسٹھ کے ستائیس میں نے کرائے ہیں۔
ہریالی: جانے بلا تم نے کرائے ہیں یا انہوں نے جو تمہارے کچھ لگتے ہیں۔
مبتلا: تم ہی نے فیرینی پکا کر بیٹھے بٹھائے سارا فساد برپا کیا اور الٹا مجھ کو الزام دیتی۔
ہریالی: مجھے کیا خبر تھی کہ دشمنوں نے دودھ میں سنکھیا گھول کر میری جان کے لینے کا سامان کیا ہے۔
مبتلا: اسی کا تو پتہ نہ چل سکا کہ کس نے دودھ میں سنکھیا گھولی۔
ہریالی: تم نے یہ کالک تھپوائی تو تھپی۔
مبتلا: ایک نہ شود دو شود۔ مہینہ میں نے کم کرایا۔ سنکھیا کا الزام میں نے تم پر لگایا۔ میں ہی براہوں تو خدا برے کو موت دے۔
ہریالی: خدا نہ کرے تم کیوں بُرے ہونے لگے۔ بُری میں کہ تمہارے کارن گھر چھوڑا آرام چھوڑا اس کا یہ انعام ملا کہ تمہارے یہاں آکر کوسنے سنے گالیاں کھائیں اور بے عزتی کا کوئی درجہ باقی نہ رہا۔
دو دفعہ جان کا زیاں اٹھایا۔
مبتلا: تم کو معلوم تھا کہ میرے بیوی بچے ہیں تو پھر نہ آئی ہوتیں۔ کیا کسی نے زبردستی کی۔ اب تمہارا جی چاہے تو اب چلی جاؤ۔ تم سے کسی نے کچھ چھین تو نہیں لیا۔
ہریالی: ہاں ہاں میں کیا کرتی ہوں میں تمہاری بی بی کو جانتی تھی اور بچوں کا ہونا بھی معلوم تھا مگر مجھے خبر نہیں تھی کہ تم اس طرح کے حیز ہو کہ ناظر کی صورت دیکھنے سے تمہارے ہوش باختہ ہوتے ہیں اور میں اگر جاؤں گی اور جاؤں گی نہیں تو کیا مفت میں اپنی جان گنواؤں گی تو ناظر کو جو وکالت کے گھمنڈ میں بہت اکڑا ہوا پڑا پھرتا ہے اور اس مکار حاضر کو جو ہر مرتبہ بڑا مولوی بن کر وعظ کہنے کو آبیٹھتا ہے اور تیری بھینا کوتوال کی جو روکو اور اس موئے کوتوال کو جس نے رشوتیں لے لے کر خون کے مقدموں کو ملیامیٹ کیا اور سب کے ساتھ تجھ کو دنیا جہان میں بے نقاب کر کے جاؤں گی۔
میرا جانا کیا ایسا ہنسی ٹھٹھا ہے۔ میں نے تیرے پیچھے اپنے تئیں خاک میں ملا دیا اور آج تو نے اس کا یہ پھل دیا۔ لے اب دیکھ میرا تماشا۔ تیرا تو کیا منہ ہے مگر بلا اپنے حمایتیوں کو کہ مجھے جاتی کو روکیں یہ کہہ کر ہریالی کھڑی ہو سیدھی دروازے کی طرف چلی۔ بارے مبتلا نے ساری عمر میں ایک یہ بہادری تو کی کہ اس کو کوٹھڑی میں دھکیل جھٹ اوپر سے کنڈی لگا دی۔
مبتلا تو ہریالی کو کوٹھڑی میں بند کر کے باہر چلا گیا۔ ہریالی کے پاس جو پرانی ماما تھی۔ ایک طرح کی اس کی کٹنی۔ اس نے ہریالی کو سمجھایا کہ بی بی مرد کا مزاج دیکھ کر بات کی جاتی ہے۔ اس کم بخت پر تو آپ ہی مصیبتیں پڑی ٹوٹ رہی ہیں تم اور چلیں گھاؤ میں اوپر سے مرچیں لگانے۔ تھوڑے دن صبر کیا ہوتا وہ اپنے تئیں بیچتا، چوری کرتا کہیں نہ کہیں سے تمہارا بھرنا بھرتا اور اگر تمہاری مرضی جانے کو ہو گی تو اس کی سو راہیں ہیں۔
ڈھنڈورا پیٹنا اور ڈھول بجانا کیا ضرور ہے۔ ادھر پان کے بہانے مبتلا کے پاس گئی اور اس سے کہا: میاں بُرا کہو فضیحتی کرو سب تم کو پہنچتا ہے۔ پر منہ بھر کر یہ کہہ بیٹھنا کہ چلی جا۔ تم ہی انصاف کرو، بڑی سخت بات ہے، خیر غصہ حرام ہوتا ہے۔ میاں بی بی کی لڑائی کیا اور میاں بی بی بھی تم جیسے کہ وہ تمہاری عاشق زار اور تم اس پر دل و جان سے نثار۔ اٹھو گھر میں چلو۔ بیوی کی بھی روتے روتے ہچکی بندھ گئی تھی اب میں نے اٹھا کر زبردستی پانی پلایا ہے۔
#…#…#
پچیسواں باب: دو بیویوں کے ساتھ خانہ داری اور مبتلا
مبتلا اور ہریالی کی یہ لڑائی تو خیر ایک اتفاقی بات تھی مگر دیکھنا چاہیے ان میں باہمی ارتباط کس درجے کا تھا۔ دونوں نے ایک دوسرے کے سمجھنے میں غلطی کی۔ ہریالی نے سمجھا تھا کہ یہ آدمی ہے حسن پرست بیوی اس کو بھاتی نہیں اور مجھ پر ہو رہا ہے لٹو۔ میں گئی نہیں اور اس کی بیوی سے تڑا چھڑا اپنے کھونٹے سے باندھا نہیں۔
یہاں آکر دیکھا تو بیوی کو میاں کا خصم پایا کہ وہ اس کو اس طرح لپٹی ہے جیسے مکھی کو شہد۔ یہ بہتیری کوشش کرتا ہے کہ اس سے چھوٹ جاؤں مگر اور لتھڑتا چلا جاتا ہے۔ چاہیے تھا کہ مجبور سمجھ کر معذور رکھے۔ خودغرضی جبر و اختیار میں فرق کرنے نہیں دیتی تھی وہ کچھ کر نہیں سکتا تھا اور یہ جانتی تھی کہ اپنے ہیٹے پن سے خود نہیں کرتا۔
وہ واری اور قربان تھی جب تک توقع میں جان تھی۔
ناامید ی کا پیدا ہونا تھا کہ صاف ہتھے سے اکھڑ گئی۔ مبتلا تو اول دن سے حسن صورت کے پیچھے ایسا فریفتہ تھا کہ خوبصورتی کے آگے حسب نسب سلیقہ ہنر عقل نیکی دینداری کسی چیز کو دیکھتا ہی نہ تھا۔ بیوی سے تھی اس کو نفرت چوٹوں کی طرح۔ دوچار بار رات کو ہریالی کے یہاں گیا آنکھوں میں سما گئی۔ نہ انجام سوچا نہ عاقبت کار پر نظر کی، گھر میں لابٹھایا، مبتلا کے دل کو جو اچھی طرح سے ٹٹول کر دیکھا تو گھر میں آگے پیچھے ہریالی کی طرف اس کا اگلا سا رخ نہ تھا۔
اول تو اس نے ہریالی کے جانچنے اور آنکنے ہی میں غلطی کی تھی۔
اس میں شک نہیں کہ ہریالی خوبصورت تھی مگر نہ اس درجہ کی کہ مبتلا جیسا حسین آدمی اس پر مفتون ہو۔ یونیورسٹی کی ڈگریاں اگر خوبصورتوں کو ملتی ہوتیں تو ہریالی ہماری نظر میں اس معیار سے بس ایف اے کے قابل تھی مگر مبتلا تو اس کو نکاح سے پہلے ایم۔ اے کے درجے میں سمجھتا تھا۔ دوسری ایک وجہ یہ ہوئی کہ ہریالی کو ویسا بناؤ سنگار نہ تو اب میسر تھا اور نہ اس کا موقع تھا اور سب سے بڑا سبب تو ہمارے سمجھنے میں یہ تھا کہ کیسی ہی کوئی نعمت کیوں نہ ہو۔
اس کی قدر طلب تک رہتی ہے۔ حاصل ہوئی اور اس کی منزلت گھٹی۔ یہاں تک کہ رفتہ رفتہ انسان کو اس کا احساس بھی باقی نہیں رہتا کہ یہ نعمت کچھ نعمت بھی ہے یا نہیں۔ اگر غیرت بیگم کو ذرا بھی عقل ہو کہ خدمت اور اطاعت سے میاں کو اپنا کرنا چاہیے تو ہریالی کی اتنی بھی قدر نہ ہو۔ یہ اپنی صورت کو آئینہ لیے بیٹھی چاٹا ہی کرے اور اندر باہر غیرت بیگم ہی غیرت بیگم رہے، مگر وہ چال بری چلی۔
اس نے چاہا نکتوڑوں سے دباؤ سے بھائیوں کی حمایت سے مبتلا کے دل میں جگہ کر لے، نہ خوبصورتی کے برتے پر بلکہ سلیقے اور رضاجوئی کے بل پر۔ غیرت بیگم کے جھگڑے مبتلا کو چین تو لینے دیتے ہی نہ تھے، وہ ہریالی کی خوشی کیا مناتا۔ دونوں میں میل جول رہا مگر عاشقی معشوقی کا سا نہیں بلکہ جیسا کہ عام طور پر میاں بیویوں میں ہوا کرتا ہے۔
#…#…#
چھبیسواں باب: مبتلا کی حالت زار اور موت
جس شخص کی پینسٹھ کی آمدنی جا کر ستائیس کی رہ جائے اور وہ بھی غیرمقرر۔ اسی کے دل سے پوچھنا چاہیے کہ اس پر کیا گزرتی ہو گی۔ مسلسل مصائب اور ہجوم افکار نے مبتلا کو اس قدر تنگ مزاج کر دیا تھا کہ دنیا کی کوئی چیز اس کو بھلی نہیں لگتی تھی۔
اس کو ہریالی کی لڑائی کا ایک بہانہ مل گیا اور اس نے دونوں گھروں کا جانا موقوف کر دیا سارے دن رات اٹوانٹی کھٹو انٹی لیے اکیال مردانے میں پڑا رہتا تھا نہ خود کسی کے پاس جاتا اور اپنے پاس کسی کے آنے کا روادار ہوتا۔ اگر اتفاق سے کوئی آنکلتا تو اس کی طرف مطلق ملطفت نہ ہوتا۔ اس رنج نے اس کو رہا سہا اور بھی رنجور کر دیا کہ دو دشمن اس کے اور تیار ہوئے۔
ناظر سے بڑھ کر معصوم اور غیرت بیگم سے زیادہ بتول۔ مبتلا اپنی طرف سے بہتیرا دونوں کو لپٹتا تھا مگر یہ دونوں اتنا بھی نہیں جانتے تھے کہ ہمارا باپ ہے جب سے ہوش سنبھالا کو سنا ہی سنا تھا، پس دونوں کے ذہن میں اس کی برائی ایسی راسخ ہو گئی تھی کہ ابا یا باپ کہنا کیسا۔ دونوں خاص طرح نام لیتے تھے۔ معصوم گالی کے اور بتول کوسنے کے ساتھ۔ مبتلا نے جب دونوں گھروں سے ملول ہو کر مردانے میں رہنا اختیار کیا تو اس نے یہ خاصی تدبیر سوچی تھی کہ اگر ہو سکے تو معصوم اور بتول دونوں کو ورنہ اکیلے معصوم کو خالی بیٹھا ہوا پڑھاؤ اور اسی طرح اپنا جی بہلاؤں مگر معصوم پٹھے پر ہاتھ تو دھرنے ہی نہیں دیتا تھا۔
مردانے مکان میں بے رونقی تو ہریالی کے ساتھ آچکی تھی۔ اب تھوڑے ہی دن میں خاک اڑنے لگی جس مکان میں عمدہ اسباب کے اٹم کے اٹم لگے پڑے تھے اب اس میں کیا رہ گیا ۔ چند جھلنگے، ایک کی چول ٹوٹی ہوئی ہے تو دوسرے میں ادوان نہیں، کسی کی پٹی لچکی ہوئی ہے تو کسی کے سیروے میں جان نہیں، شاید چھوٹی بڑی ملا کر چار یا پانچ چوکیاں وہ بھی بے جوڑا بوسیدہ بے مصرف۔
نوکروں میں صرف ایک وفادار سو وہ بھی کس طرح کہ یہاں سے تو اس کو کھانا تک نہیں ملتا تھا اور ملے کہاں سے۔
سو یہاں بے چارے کے پلے ٹکا نہیں، دن کو مزدوری کرتا اور رات کو یہاں کی پانیتی آکر پڑا رہتا۔ دنیا کا کوئی کام یا دین کا روزہ نماز ہو تو صبح و شام کا تفرقہ اور دن رات کا امتیاز ہو۔ مبتلا کو سب وقت یکساں تھے۔ اس کے سونے جاگنے کھانے پینے کسی بات کا کوئی وقت ہی مقرر نہ تھا۔
جب دیکھو منہ اوندھا کیے چارپائی پر پڑا ہے۔ معلوم نہیں سوتا ہے یا جاگتا ہے۔ اپنی تباہی کا خیال ہے کہ کسی وقت دل سے نہیں جاتا۔ جاگتا ہے تو اس کی سوچ ہے اور سوتا ہے تو اس کا خواب دیکھ رہا ہے۔ وہ کبھی اپنے پچھلے وقتوں کو یاد کرتا اور اس کے چہرے پر ایک طرح کی بشاشت آجاتی تھوڑی دیر بعد خودبخود یکایک چونک کر ادھر اُدھر دیکھنے لگتا اور پھر اس کے منہ پر مردنی سی چھا جاتی۔
غیرت بیگم اور اس کے علاقہ داروں سے یہاں تک کہ اپنے بچوں سے تو اس کو مطلق ناامیدی تھی۔ وہ خوب سمجھ چکا تھا کہ اب کسی حالت میں جیتے جی ان لوگوں سے صفائی کا ہونا ممکن نہیں۔ رہ گیا قطع تعلق اس کے لیے چاہیے ہمت جرأت اور یہی باتیں اگر مبتلا میں ہوتیں تو یہاں تک نوبت ہی کیوں پہنچتی۔ قاعدہ ہے کہ جس پر پڑتی ہے۔ اسی کی طبیعت خوب لڑتی ہے۔ رنجوں سے بچنے کا کون سا پہلو تھا جو مبتلا نے نہیں سوچا مگر جدھر جاتا تھا راہ نجات کو مسدود پاتا تھا۔
مارے غم کے وہ اس قدر نحیف و ناتواں ہو گیا تھا جیسے کوئی برسوں کا بیمار۔ شاید چھینکنے سے اس کو غش آتا اور کھانسی کے ساتھ اس کا سانس اکھڑ جاتا۔ اللہ رے غیرت بیگم عورت ذات ہو کر اس قدر سخت دلی اور اس بلا کا غصہ کہ مبتلا گھلتے گھلتے چارپائی سے لگ گیا اور اس نے بھول کر بھی خبر نہیں کی۔ ہریالی تھی تو رزالی پر خیر دکھاوا ظاہر داری جو چاہو سمجھو، بیسیوں بار تو اپنی ماما کو بھیجا اور آخر خود گئی ہر چند منت خوشامد کی مگر مبتلا تو اپنی زندگی سے ہاتھ دھوئے بیٹھا تھا ذرا نہ تپتایا۔
مبتلا خوب سمجھتا تھا کہ میں اس رنج سے جان بر نہیں ہو سکتا۔ اختلاج قلب تو اس کو مہینوں سے تھا۔ اب کسی وقت میں ایک طرح کا ہلکا ہلکا درد بھی اٹھنے لگا۔ تدبیر کچھ ہوئی نہیں لہٰذا دورے متواتر اور شدید ہونے لگے۔ آخر ایک دن ادھر آفتاب ڈوبتا تھا ادھر یہ بے کس و بے نصیب دل کے درد سے کھردری چارپائی پر نہ تکیہ نہ بچھونا، تڑپ کر سرد ہو گیا۔
#…#…#
ستائیسواں باب: خاتمہ
ایک حسن پرستی کے پیچھے دنیا میں کیا کیا سختیاں اٹھائیں کہ خدا دشمن کو بھی نصیب نہ کرے۔ اپنا یا بیگانہ مرنا تو سبھی کا قابل افسوس ہے مگر نہیں تو مبتلا کا کیونکہ اس کا جینا قابلِ افسوس تھا اور مرنا قابلِ خوشی۔ کیونکہ مر کر وہ دنیا کی مصیبتوں سے تو چھوٹ گیا مصیبتیں تو اس کے دم کے ساتھ تھیں۔
نہ مرتا تو اور مصیبت بھرتا۔ پھر بھی ہم اس کے حق میں دعا کرتے ہیں کہ دنیاوی ایذائیں اس کے گناہوں کا کفارہ ہوں اور بیچارہ مصیبت کا مارا حسن صورت کا بہت فریفتہ تھا لہٰذا خدا اس کو جنت میں بہت سی حوریں دے بشرطیکہ غیرت بیگم اور ہریالی کی طرح آپس میں نہ لڑیں۔ عبرت کا مقام ہے۔
ایک چھوڑ دو دوبیبیاں موجود، بیٹا موجود بیٹی موجود۔ بیبیوں کے نوکر چاکر موجود اور مرتے وقت منہ میں پانی ٹپکانے کو مبتلا کے پاس کوئی نہیں۔
کہیں پہر رات گئے وفادار محنت مزدوری سے فارغ ہو کر آیا اور اس نے پکارا تو میاں کو مرا ہوا پایا۔ چیخ اٹھا، سارے محلے کو خبر ہوئی اور محلے والوں کے ساتھ محل کے لوگوں نے ہریالی کو دیکھا تو وہ اور اس کی ماما اور اسباب سب ندارد۔ گھر میں جھاڑو دی ہوئی پڑی ہے۔
نہیں معلوم ایسا کون کالا چور اس کو بھگا کر لے گیا کہ پھر اس کا پتہ نہ لگا۔ غیرت بیگم یا تو اس قدر میاں سے اکڑی رہتی تھی یا میاں کا مرنا سنتے ہی ایسا روئی، اتنا پیٹی کہ بس خود میاں کی عاشق زار ہو گی وہ بھی اس سے زیادہ کیا روئے پیٹے گی۔
اب اس کو معلوم ہوا کہ میاں اس کا ظلم سہنے کے لیے سدا کو بیٹھے رہنے والا نہ تھا۔ وہ میاں کے مرنے پر اتنا نہیں روتی تھی جتنا اپنے ظلموں پر جن کی تلافی اب کچھ اس کے اختیار میں نہ تھی۔ روتے روتے دونوں آنکھوں میں ناسور پڑ گئے تھے۔ اور ہتھنی جیسا ڈیل ایسا سوکھا تھا کہ جیسے کانٹا۔ مبتلا کی چھ ماہی بھی نہیں ہونے پائی تھی کہ غیرت بیگم اسی رنج میں تمام ہوئی۔ مرتے مرتے وصیت کی کہ مجھ کو بتول کے باپ کی پائینتی دفن کرنا تاکہ اگر جیتے جی میں ان کے پاؤں نہ پڑ سکی تو خیر قبر میں ان کے پاؤں ہوں اور میرا سر۔
#…#…#