صفحات

تلاش کریں

محمود و ایاز

 


 

 


 

 

(افسانے)

 

 

ڈاکٹر سلیم خان


 

 

 

 

 

لَقَدْ کَانَ فِی قَصَصِہِمْ عِبْرَةٌ لِّأُولِی الْأَلْبَابِ  ۰۰۰۰۰

(یوسف ۱۱۱)

یقیناً ان لوگوں کے قصہ میں صاحبانِ عقل کے لئے بڑی عبرت و نصیحت ہے۔


 

 

 

فہرست

 

 

انتساب... 6

اپنی بات... 8

مولانا محمود عالم کا حصار پر تبصرہ (اقتباس). 9

پرنام جی! 17

بدلے ہوئے پیمانے... 25

جیل دنیا. 39

باتوں باتوں میں …. 73

محمود و ایاز. 107

لوک پرلوک... 125

انتریامی.. 139

بندیا. 166

چمیلی سوژالی. 188

کبوتر خانہ. 208

نشیب و فراز. 219

جیون ساتھی... 249

بولتی ناگن... 268

انتخاب و آزادی. 283

موکش (نجات). 317

          

 

 


 

 

انتساب

 

 میرے ادبی سفر کے منفرد ساتھی

             ہر فن مولا ابو نبیل خواجہ مسیح الدین صاحب

                         کے نام

 جن کی زندہ دلی اور خوش مزاجی نے

             میرے قلم کی بھرپور آبیاری کی


 

 

 

 

 

 

زندگی کا ماحصل ہیں الٹے سیدھے کچھ نقوش

کس قدر خاکے بنائے اور بنا کچھ بھی نہیں

زندگی کی داستاں ہے ایک دیوانے کا خواب

مدتوں سے کہہ رہا ہوں اور کہا کچھ بھی نہیں

 (ذکی کیفی)


 

 

اپنی بات

 

            کہانی نہ نئی ہوتی ہے اور نہ پرانی۔ کہانی سدا بہار ہوتی ہے۔ وہ کبھی اپنا آہنگ و انداز بدلتی ہے تو کبھی لب و لہجہ۔ ماحول و کردار اور اسلوبِ بیان میں تبدیلی بھی اس کے کسی کام نہیں آتی اس لئے کہ اپنے ہر بہروپ میں جب وہ قاری کے روبرو ہوتی ہے تو وہ بے ساختہ کہہ دیتا ہے کیا کہانی ہے صاحب مزہ آ گیا۔

             قاری اور افسانے کے درمیان آقا اور غلام کا سارشتہ ہوتا ہے۔ ایسے آقا اور غلام جو ایک صف میں کھڑے ہوتے ہیں۔ ان میں نہ کوئی اعلیٰ ہوتا اور نہ کوئی ادنیٰ۔ وہ ایک دوسرے سے بے حد محبت اور باہم اعتمادو احترام کرتے ہیں۔ اگر یقین نہ آتا ہواس کتاب کی کہانی محمود و ایاز دیکھ لیں۔

            بفضلِ تعالیٰ میرا پہلا افسانوی مجموعہ حصار ۲۰۰۶ء میں شائع ہوا۔ اس کے بعد میں کہانیوں کے حصار سے نکل کر ناول کی جانب نکل گیا۔ اس بیچ حصار کے سارے نسخے ختم ہو گئے لیکن تقاضہ باقی رہا۔ دوسری طباعت کے بجائے کچھ نئے افسانوں کے ساتھ چند پرانی کہانیاں یکجا کر کے پیش کر رہا ہوں۔ آٹھ نئی اور سات پرانی کہانیوں کے درمیان محمود و ایازکاسا تعلق ہے۔ اس میں ہر محمود کے ساتھ ایک ایاز یعنی ہر نئی کہانی کے ساتھ ایک پرانی اور پھر اس کے بعد نئی کہانی ہے۔ اس وضاحت کے بعد میں محمود و ایاز کے درمیان سے نکل کر کتاب کا رخ کرتا ہوں تاکہ کسی کردار کی حیثیت سے ملاقات کی سعادت حاصل کر سکوں۔ فی امان اللہ۔

٭٭٭

 

 

مولانا محمود عالم کا حصار پر تبصرہ (اقتباس)

 

            ڈاکٹر سلیم خان بحیثیت افسانہ نگار بہت زیادہ مشہور و معروف نہیں ہیں۔ بحیثیت سماجی کارکن اور صحافی وہ زیادہ جانے پہچانے جاتے ہیں۔ ان کے افسانوی مجموعہ حصار کی اشاعت سے ان کا یہ جوہر ان کے جاننے والوں پر کھلا ہے۔ اردو کے نقادوں، فن کے پارکھوں اور ادب کے اجارہ داروں تک ابھی ان کا یہ مجموعہ نہیں پہنچا ہے۔ ان نقادوں کی اپنی الگ دنیا ہے۔ امراؤ جان اداؔ کی طرح کوئی روزہ کھلوائے تو یہ روزہ رکھتے اور کوئی کتاب پڑھوائے تو یہ پڑھتے ہیں۔ لکھنے کا مرحلہ تو بہت بعد میں آتا ہے۔ بیچارے فن کار کو تو یہ کہتے ہوئے صبر کر لینا پڑتا ہے:

                        دام ہر موج میں ہے حلقۂ صد کام نہنگ

                        دیکھیں کیا گذرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک

            انسان کی شہرت اس کی عظمت کی دلیل ہرگز نہیں ہے اور اسی طرح کسی فن کار کا گوشۂ گمنامی میں پڑا رہنا اس کی عظمت کے منافی نہیں۔ بہت سارے فن کار ایسے ہیں جن کو ان کے مرنے کے بعد شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی۔ حفیظ میرٹھی نے کہا تھا:

تو جوہری ہے تو زیبا نہیں تجھے یہ گریز

مجھے پرکھ میری شہرت کا انتظار نہ کر

یہ مضمون ادب کے طلبہ کی طرف سے فرض کفایہ ادا کرنے کیلئے لکھا جا رہا ہے۔ ادب سماج کا آئینہ ہے مگر ڈاکٹر سلیم خان کے افسانے محض سماجی مسائل کی گتھیوں کو سمجھنے اور سلجھانے تک محدود نہیں ہیں۔ ان کے افسانوں کا سر رشتہ انسانی علوم کے سب شعبوں سے ملتا ہے۔

فلسفہ، نفسیات، اسلامیات، سیاسیات، سماجیات، معاشیات، ادبیات، تجارت، سائنس، ٹکنالوجی اور تاریخ سارے علوم کی ضوفشانیاں ان کے افسانوں میں موجود ہیں۔ ایک ماہر آرٹسٹ کی طرح انہوں نے قوس و قزح کے ہر رنگ سے کام لیا ہے۔ وہ وسیع مطالعہ، عمیق تجربہ اور مشاہدے کے حامل فنکار ہیں۔ سماجی، سیاسی، ملکی اور بین الاقوامی سلگتے مسائل پران کی گرفت مضبوط ہے۔ ان کی سب سے بڑی خوبی بے لاگ جرأت مندانہ اور فنکارانہ اظہار خیال ہے۔ وہ کہیں کسی سطح پر کسی سے مرعوب نظر نہیں آتے اور نہ کسی کی رعایت کرتے ہیں۔ کسی سے کوئی کمٹمنٹ نہیں۔ حق گوئی اور سچائی ہی ان کا مسلک و مذہب ہے۔ تعمیر و ترقی ان کا مطمح نظر ضرور ہے لیکن یہاں بھی کسی مخصوص گروہ یا جماعت یا نظریے کی تبلیغ نہیں۔ اسلامی اقدار سے محبت اور سربلندی کی تمنا ضرور ہے لیکن وہ بھی اس لئے کہ وہ اسلام کو انسانیت کی فلاح اور نجات کا ذریعہ سمجھتے اور اس پر یقین رکھتے ہیں اور اس کے اصولوں کو پیش کرنے اور اس کی تائید کرنے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہیں کرتے۔

            قصہ گوئی کے فن پر ان کو کامل عبور ہے۔ نہ صرف ماجرا نگاری بلکہ علامتوں اور تمثیلات کے ذریعے خوبصورت پیرایہ میں اپنی بات کو پیش کرنے کا فن ان کو خوب آتا ہے۔ اگرچہ ان کے یہاں سیاسی مسائل، قومی اور بین الاقوامی احوال و واقعات کے تجزیے بکثرت ہیں لیکن یہاں بھی نظریات کی پیش کش میں فن کے تقاضوں کو متاثر ہونے نہیں دیا گیا۔ کردار نگاری میں وہ منفرد مقام رکھتے ہیں۔ ان کے افسانے کے کردار ایسے جاندار ہیں کہ قاری ان کو اپنی نگاہوں کے سامنے چلتے پھرتے اور حرکت و عمل کرتے ہوئے محسوس کرتا ہے۔ ان کی افسانہ نگاری کی سب سے بڑی خوبی، ان کی مکالمہ نگاری ہے۔ طویل اور مختصر افسانوں میں ان کے مکالمے اتنے برجستہ اور جاندار ہوتے ہیں کہ افسانے کی طوالت قاری کے ذہن پر گراں بار نہیں ہوتی۔ ان کے افسانوں میں ڈرامائیت کا عنصر کم ہوتے ہوئے بھی نقطۂ عروج بہت جاندار اور اختتامیہ بہت خوبصورت ہوتا ہے اور قاری ان کے مطالعہ سے ایک خاص قسم کی مسرت محسوس کرتا ہے۔ عبرت و نصیحت قصہ گوئی کا بنیادی عنصر ہے۔ آسمانی کتب میں انبیاء، سابقین اور ان کی امتوں کے جو احوال و واقعات بیان ہوئے ہیں وہ بھی عبرت و نصیحت حاصل کرنے کے لئے ہیں۔ ڈاکٹر سلیم خان نے اپنی افسانہ نگاری میں اس عنصر کو غالب رکھا ہے۔ ان کی ہر کہانی سبق آموز ہے۔

            اردو کے معروف افسانہ نگار سلام بن رزاق، ڈاکٹر سلیم خان کے مجموعہ پر اپنی رائے دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

             ’’حصار کے بیشتر افسانے اظہاریاتی اور تاثراتی اسلوب میں لکھے گئے ہیں۔ افسانہ نگار کا بیانیہ تجریدیت کی ژولیدگی اور ابہام کی پیچیدگی سے پاک ہے۔ بعض کہانیوں میں تمثیل نگاری سے کام لیا گیا ہے جو کہانی کو تہہ دار بنا دیتی ہے۔

            ان کہانیوں میں پلاٹ، کردار اور مکالمہ یعنی روایتی کہانی کے سارے عناصر بدرجۂ اتم موجود ہیں۔ اگرچہ بعض کہانیاں وسیع تر آفاقی صداقتوں کے برعکس ایک خاص آئیڈیالوجی کے حصار میں محصور نظر آتی ہیں تاہم ہر کہانی میں ماجرائی ارتقاء کہانی کی دلچسپی کو شروع سے آخر تک برقرار رکھتا ہے۔ اسی لیے نظریاتی اختلاف یا اتفاق سے قطع نظر قاری پوری کہانی پڑھنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔‘‘

            مشہور افسانہ نگار انور قمر نے ڈاکٹر سلیم خان کی افسانہ نگاری پر اپنی رائے دیتے ہوئے لکھا ہے:

             ’’ڈاکٹر سلیم خان کے افسانوں کا بنیادی وصف اُن کے دل چسپی کے ساتھ قابلِ مطالعہ ہونے میں ہے۔ ہر افسانے میں کسی نہ کسی حد تک قصے کا سا چٹخارہ ہم آمیز کر دیا گیا ہے۔ افسانہ شروع ہی کسی واقعے کا تصویری پس منظر بیان کرنے سے ہوا ہے۔ واقعے کی باطنی کیفیت کے مطابق فضا سازی کی گئی ہے اور جو ماحول تخلیق کیا گیا ہے‘  اُس میں سکوت نہیں بلکہ حرکت اور عمل کی کارفرمائی ہے۔

            ڈاکٹر صاحب ایک سائنس داں ہونے کے باوجود ایک دین دار شخص ہیں۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ ملّتِ اسلامیہ کے ملکی اور غیر ملکی مسائل کے سلسلے میں وہ ذہنی اور روحانی طور پر متردّد رہتے ہیں۔ اُن کی بین الاقوامی سیاست پر گہری نظر ہے۔ چناں چہ انھوں نے اپنے بعض افسانوں میں مسلمانوں کے نہایت پیچیدہ قضایا اور اُلجھے ہوئے مسائل کے حل تجویز کیے ہیں۔ معاملہ افغانستان کا ہو‘ پاکستان کا یا عراق کا یا فلسطین کا ہو‘ شام کا یا ایران کا‘ بھارتی سرزمین سے متعلق ہو یا امریکی علاقے سے‘  انھوں نے توسیع پسندی کی پالیسی پر قائم ممالک کی نشان دہی کرنے میں کسی لاگ لپٹ سے کام نہیں لیا ہے بلکہ نہایت دو ٹوک انداز میں اُن سے لوہا لینے کے گُر بھی بتا دیئے ہیں۔

            آج کل جس ڈھب کے افسانے لکھے جا رہے ہیں اُن میں ڈاکٹر سلیم خان کے بعض افسانے اپنے موضوع اور ہیئت کے اعتبار سے نہ صرف مختلف ہیں بلکہ قارئین کی دلچسپی اور استفادے کے پیشِ نظر بھرپور روشنی میں لائے جانے کے قابل بھی ہیں‘‘۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

            اس مجموعہ میں زیادہ تر طویل افسانے ہیں۔ لیکن افسانوں کی خوبی یہی ہے کہ قاری ایک بار شروع کر دے تو اسے ختم کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ افسانہ ’بدلے ہوئے پیمانے‘ میں افسانہ نگار نے جمہوریت کی حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہوئے عوام کی سادہ لوحی بیان کر کے انتخابی نظام پر بڑی خوبصورت تنقید کی ہے: ’’کسی اور کو کامیاب کرنے یا شکست دینے کی خاطر عام لوگ ایک دوسرے سے دست و گریباں تھے۔ لڑنا کسی اور کو تھا اور جیتنا کسی اور کو۔ مرنا کسی اور کو تھا اور ہارنا کسی اور کو۔ وہی پرانا کھیل ایک نئے انداز میں پھر سے کھیلا جا رہا تھا‘‘۔

             ’’باتوں باتوں میں‘‘افسانہ نگار نے فلسطین کے بے کس و بے بس عوام کے موقف کو خود کو سوپرپاور سمجھنے والے امریکہ کے سامنے واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایک فلسطینی اور ایک کناڈین میں یہ مکالمہ ملاحظہ کیجئے جو برطانیہ جانے والی فلائیٹ میں ہم نشیں ہیں:

             ’’میرا تعلق فلسطین سے ہے۔ میرے والد اسرائیلی حملے میں شہید کر دیئے گئے میری بے سہارا ماں اپنے بھائی کے پاس سعودی عرب آ گئی۔ میں نے ہوش سنبھالنے کے بعد اپنے باپ کے مشن کو آگے بڑھانے کے لیے دوبارہ فلسطین جانے کا فیصلہ کیا تو میری ماں نے مجھے منع کر دیا۔ میں نے سمجھا کہ میری ماں ڈر گئی ہے میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی تو اس نے مجھے بتایا بیٹے اسرائیل تو ایک شاخ ہے فتنہ کی جڑ تو امریکہ ہے جس نے نہ صرف فلسطین بلکہ عراق اور افغانستان کو جہنم زار بنا رکھا ہے۔

            جس کے ارادے نہ ایران کی بابت ٹھیک ہیں نہ شام کے بارے میں اچھے ہیں۔ جو سوڈان کو بھی نشانہ بنا سکتا ہے اور لبنان کو بھی۔ اس کی بدولت ہم ہر جگہ غیر محفوظ ہیں۔ اسی لئے میں نے سوال کیا تھا کہ آپ تو اپنے محفوظ مقامات پر چلے جاؤ گے لیکن ہم کہاں جائیں گے؟

            اس سوال کا انٹن کے پاس جواب نہ تھا۔ اس نے کہا۔ یہ تو ٹھیک ہے لیکن تم بھی تو امن کی تلاش میں برطانیہ ہی جا رہے ہو۔

            نہیں میں جانتا ہوں کہ امریکہ اور برطانیہ بھی ہمارے لیے محفوظ نہیں ہے۔ وہاں معصوم لوگوں کو دہشت گرد قرار دے کر بھون دیا جاتا ہے لیکن پھر بھی میں وہاں جا رہا ہوں تاکہ لوگوں کو اپنے قلم اور اپنے عمل سے امن و امان کا مطلب سمجھاؤں۔ میں وہاں جا کر لوگوں کو بتاؤں گا کہ اگر اپنی خیرو سلامتی چاہتے ہو تو دوسرے کا سکون غارت نہ کرو۔ اگر یہ بات الفاظ سے ان کی سمجھ میں آ جائے تو ٹھیک ورنہ پھر مجھے اپنے عمل سے یہ بات سمجھانی ہو گی۔

عمل کیسا عمل؟ انٹن نے سوال کیا

            ایسا عمل جو دلوں کو دہلا دے جو لوگوں کے اندر عدم تحفظ کا احساس پیدا کر دے تاکہ وہ اپنی حفاظت کا انتظام کریں اور دوسروں کے تحفظ کا احترام کریں‘‘۔

            کہانی ’’لوک پرلوک‘‘ میں انسان کی بے شمار نفسیاتی الجھنوں کو رفع کرنے کی کوشش کی گئی ہے:

             ’’یہ دنیا محض دوکانداری نہیں ہے جہاں صرف فائدے اور نقصان کی بنیاد پر کاروبار چلتا ہو۔ یہاں تو بغیر کسی فائدے کے نقصان اٹھا کر بھی بہت کچھ کیا جاتا ہے‘‘۔

             ’’موت اور اس کا وقت طے ہے نہ وہ اپنے وقت سے پہلے آئے گی اور نہ اس کی گھڑی ٹلے گی۔ اس لیے موت کا خوف اپنے دل سے نکال دو۔ زندگی اور موت لازم و ملزوم ہیں۔ موت سے ڈر کر جینے والا زندہ لاش ہوتا ہے‘‘۔

             ’’کبوتر خانہ‘‘ ایک نہایت خوبصورت تمثیلی کہانی ہے۔ اس میں مسابقت اور رشک و حسد کے جذبات کا تجزیہ بڑی خوبصورتی سے کیا گیا ہے۔

             ’’اوپر جانے کے لئے خود اوپر جانا ضروری نہیں ہے۔ اگر دوسرے کی ٹانگ کھینچ کراسے نیچے لے آیا جائے تب بھی کام ہو جاتا ہے‘‘۔

             ’’انتخاب و آزادی‘‘ ایک متاثر کرنے والی معاشرتی کہانی ہے۔ اس کہانی میں سعودی عرب کی فضا اور یہاں کی معاشرتی زندگی اور مسائل پیش کئے گئے ہیں۔ لیکن افسانہ نگار نے اس میں چند آفاقی اصول و نظریات اور معاشرتی اور نفسیاتی الجھنوں کا علاج نہایت خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ اولاد کی تربیت میں والدین کی محبت کو کیا دخل ہے اس افسانے میں اسے نہایت پر اثر انداز میں پیش کیا گیا ہے:

             ’’خیر خواہی کا تقاضہ مخاطب کے نقطۂ نظر کو سمجھنا بھی ہے۔ اس پر اپنا حکم تھوپنے کے بجائے اس کو سمجھانے کی کوشش کرنا ہے اور اس میں ناکامی ہو جائے تو ان کی بات کو تسلیم کر لینا بھی دانشمندی ہے۔ اگر تم سب باہم محبت کے ساتھ رہنا چاہتے ہو تو دوسروں کے جذبات کا احترام کرنا سیکھو۔ بغاوت اپنے آپ ختم ہو جائے گی‘‘۔

             اس مجموعے میں شامل دوافسانے ’’بندیا‘‘ اور ’’جیون ساتھی‘‘شاہکار کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان کہانیوں میں عورت اور مرد کے جذبات و احساسات، محبت اور بے زاری کی نفسیات کو اس خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے کہ یہ افسانے آفاقی نوعیت کے اعلیٰ درجہ کے فن پارے بن گئے ہیں۔ ان دونوں افسانوں میں ڈاکٹر سلیم خان کا فن انتہائی بلندی پر نظر آتا ہے۔ ان افسانوں کو اردو کے عظیم افسانوں کی صف میں رکھا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر سلیم خان کے اکثر افسانے اس قابل ہیں کہ ان کو ہندوستان کی دوسری زبانوں میں پیش کیا جانا چاہئے۔ ہندوستانی سماج جو مختلف مسائل سے نبرد آزما ہے اس میں یہ افسانے بڑے کارآمد ثابت ہوں گے۔ اور ان مسائل کے حل میں اہم کردار ادا کریں گے۔

              ڈاکٹر سلیم خان کے اس مجموعے کو پڑھنے کے بعد یہ احساس ہوتا ہے کہ ان کے اندر زبردست تخلیقی صلاحیت موجود ہے۔ اگر وہ سنجیدگی کے ساتھ افسانہ نگاری اور ناول نگاری کی طرف توجہ دیں تو علم و ادب پر بڑا احسان کریں گے۔ مقصدیت سے بھرپور ان کہانیوں میں یقینی طور پر عقلمندوں کے لئے عبرت و نصیحت ہے۔ لیکن محض اتنی ہی بات نہیں ہے۔ ڈاکٹر سلیم خان جب یہ افسانے پیش کرتے ہیں تو ان کا حسن بیان اپنے عروج پر ہوتا ہے اور قاری ہر ہرسطرسے مسرت و بصیرت حاصل کرتا ہے۔ اچھے کردار سے ہمدردی اور محبت کا جذبہ دل میں ابھرتا ہے اور برے کردار کے لئے نفرت و غصہ۔ تھوڑی دیر کے لئے وہ بھول جاتا ہے کہ یہ کوئی حقیقی واقعہ نہیں بلکہ محض خیالی چیز ہے۔ کردار نگاری کے ساتھ منظر نگاری بھی ان افسانوں کو خوبصورت اور جاندار بناتی ہے۔ قاری کو ایسا محسوس ہوتا ہے وہ ان سنہری وادیوں کی خود سیر کر رہا ہے۔ ان کا یہ مجموعہ اہل ادب کیلئے قابلِ فخر سرمایہ ہے۔ (اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔ آمین)

(اردو بک ریویو ۲۰۰۶ء)

 ٭٭٭


 

 

 

 

پرنام جی!

 

سرجیت کور کے کانوں میں ’’پرنام جی‘‘ کے الفاظ گونج رہے تھے۔ نظریں اس اجنبی کو تلاش کر رہی تھیں جو ہر صبح اس کو سلام کرتا تھا۔ ۵۰ سالہ سرجیت کور لندن کے سب سے بڑے سپر مارکیٹ ’’ٹسکو‘‘ میں کاؤنٹر کلرک تھی۔ اس کی ڈیوٹی صبح ۸ بجے شروع ہوتی اور ۵ بجے ختم ہو جاتی۔ دن کا اختتام کیسے ہو گا اس کا اندازہ تو سرجیت نہیں کر سکتی تھی لیکن شروعات کی بابت یقین ہوتا تھا کہ اجنبی سردار کے پرنام سے ہی ابتداء ہو گی۔

گزشتہ کئی سالوں سے یہ معمول تھا کہ سرجیت کی آمد سے قبل وہ سن رسیدہ سکھ اس کا منتظر ہوتا۔ سرجیت کا استقبال وہ روزانہ پرنام جی کہہ کے کرتا۔ کبھی کبھار اس کے ہاتھوں میں ضرورت کا کوئی سامان بھی ہوتا جس کی قیمت ادا کر کے وہ چل دیتا اور کبھی تو بس سلام کر کے رخصت ہو جاتا۔ سرجیت نے کبھی جواب دینے کی زحمت نہیں کی تھی۔ وہ اس کی ان دیکھی کر کے اگلے گاہک کی خدمت میں لگ جاتی۔ ٹسکو کے کاونٹر پر دس بجے تک دم لینے کی فرصت نہ ہوتی تھی۔

 اتوار کے دن وہ بوڑھا ہفتہ بھر کا راشن اور دیگر سودا سلف خریدتا تھا۔ یہ سامان چونکہ بہت زیادہ ہوتا اس لئے اسٹورمیں کام کرنے والے حمال کے ذریعہ گھر تک پہنچا دیا جاتا تھا۔ وہ چونکہ برسوں پرانا گاہک تھا اس لئے دوکان کے سارے ہوم ڈلیوری والے نوجوان اس کا پتہ جانتے تھے لیکن وہ ان میں سے کسی کونہ وہ پرنام کرتا تھا اور نہ کوئی اس کو سلام کرتا تھا۔ جہاں تک سرجیت کا سوال تھا وہ سلام کرنا تو کجا پرنام کا جواب تک نہ دیتی تھی۔

 سرجیت کو اس بلا ناغہ کے سلام دعا سے الجھن ہوتی تھی لیکن چونکہ وہ بزرگ عمر میں اس کے والد کے برابر تھا اور نہایت پر وقار انداز میں پرنام کرنے کے بعد جواب سے بے نیاز لوٹ جاتا تھا اس لئے از راہِ مروت اس نے کبھی ناگواری کا اظہار نہیں کیا تھا۔

وہ اتوار کا دن کا تھا۔ سرجیت کی آنکھیں اس ٹرالی کو تلاش کر رہی تھی جو کبھی ناغہ نہیں ہوئی تھی۔ مگر نہ وہ اجنبی تھا، نہ اس کی اشیائے خور دونوں سے بھری ہوئی ٹرالی تھی اور نہ پرنام۔ اس کیفیت نے سرجیت کو بے چین کر دیا۔ اس کی زندگی میں ایک خلاء رونما ہو گیا تھا۔ وہ سمجھ گئی تھی کہ آج ضرور کوئی بڑا ناگہانی حادثہ وقوع پذیر ہو گیا ہے۔ اس نے سوچا کہیں کل کا پرنام آخری تو نہیں تھا۔ وہ اجنبی اس دارِ فانی سے کوچ تو نہیں کر گیا؟

کر گیا تو کر گیا ہر روز نہ جانے ٹسکو کے کتنے گاہک داعیِ اجل کو لبیک کہتے تھے۔ سرجیت اس پراگندہ خیالی سے نکلنے کی سعی کر رہی تھی۔ لیکن بار بار پرنام جی کی صدا اس کے کانوں سے ٹکراتی اور وہ بے ساختہ اِدھر اُدھر دیکھنے لگتی۔ آواز تو موجود تھی لیکن اس کو لگانے والا غائب ہو گیا تھا۔ سرجیت کی بے کلی جب اپنے حدود سے تجاوز کر گئی تو وہ اپنے کاؤنٹر سے اٹھی اور منیجر سے طبیعت کی ناسازی کا بہانہ بنا کر ایک دن کی رخصت لے لی۔

منیجر کے کمرے سے نکل کر ٹسکو کے دروازے پر اس نے ہوم ڈلیوری والے نوجوان سے بوڑھے سردار کے گھر کا پتہ پوچھا اور اس کی تلاش میں نکل کھڑی ہوئی۔ یہ عجیب صورت حال تھی کہ کل تک سرجیت جس کے سلام کا جواب دینے کی روا دار نہیں تھی آج اس کے گھر جا رہی تھی۔ سرجیت نے یہ بھی نہیں سوچا کہ اگر اس نے پوچھ لیا میرے گھر کیوں آئی ہو؟ تو کیا جواب دے گی۔

گھر پر قفل پڑا ہوا تھا۔ پڑوس سے معلومات کی تو ایک بچہ نے بتایا اس کے والدین سمیت سب لوگ شمسان بھومی گئے ہوئے ہیں۔ سرجیت کا شک یقین میں بدل گیا۔ وہ اپنے آپ کو کوس رہی تھی۔ اس نے اس قدر بے رخی کا مظاہرہ کیوں کیا؟ اگر کبھی مسکرا کر پرنام کا جواب دے دیتی تو اس کا کیا بگڑ جاتا؟ پرنام جی کی متلاشی سرجیت کور کے قدم اب شمسان گھاٹ کی جانب رواں دواں تھے حالانکہ وہ جانتی تھی کہ اس کو پرنام کرنے والا جہانِ فانی سے کوچ کر چکا ہے۔

سرجیت کور جب لندن شہر کے برقی شمسان بھومی کے صدر دروازے پر پہنچی تو دیکھا سوگوار چہرے لوٹ رہے ہیں۔ وہ سمجھ گئی کہ یہ لوگ کس کا انتم سنسکار کر کے واپس ہو رہے ہیں۔ سرجیت نہ مرنے والے کا نام نہیں جانتی تھی اور نہ اس کی دیگر تفصیلات سے واقف تھی۔ وہ ٹسکو کے ہزاروں گاہکوں میں سے ایک ضرور تھا لیکن سب سے منفرد اور مختلف بھی تھا۔ اس لئے کہ اس کی مانند مستعدی سے کوئی اور سرجیت کو پرنام جی نہیں کہتا تھا۔

 یہ آواز کچھ اس طرح اس کی زندگی کا حصہ بن گئی تھی کہ اس کے بغیر اپنے دن کی شروعات کرنا اور اسے آگے بڑھانا سرجیت کیلئے مشکل ہو رہا تھا۔ جب سرجیت شمسان بھٹی والے اندرونی حصے میں  پہنچی تو وہاں ویرانی چھائی ہوئی تھی۔ سارے لوگ  جا چکے تھے ایسے میں پھر ایک بار وہی سریلی پرنام جی کی آواز سرجیت کی سماعت سے ٹکرائی۔

سرجیت نے مڑ کر دیکھا تو وہی اجنبی ہاتھ جوڑ کر کھڑا تھا لیکن خلاف معمول اس کے چہرے پر مسکراہٹ نہیں تھی۔

سرجیت نے پہلی مرتبہ جواب دیا پرنام جی۔

ست سری اکال

وا ہے گرو کی جئے

دعا سلام کے الفاظ ختم ہو گئے۔ سرجیت کا جی چاہا کہ کہے تاخیر کیلئے جرمانہ ادا کرنا پڑے گا لیکن پھر رک گئی۔ کون جانے مرنے والا اس کا کون ہو؟

اجنبی نے سوال کیا تم امرجیت کو کیسے جانتی ہو؟

میں ۰۰۰۰۰میں کسی امرجیت کو نہیں جانتی۔

پھر یہاں کیوں آئیں؟

بس یونہی؟

یونہی بلاوجہ اتنی دور شمسان میں چلی آئیں؟ کوئی بلا وجہ ایسی زحمت نہیں کرتا؟

لیکن آپ بھی تو۰۰۰۰۰۰۰؟ الفاظ نے سرجیت کا ساتھ چھوڑ دیا۔ وہ نہیں کہہ سکی کہ آپ بھی تو نہ صرف بلاوجہ بلکہ بلا ناغہ پرنام کرتے ہیں۔

میں! میں بلا وجہ کوئی کام نہیں کرتا؟

وہ سوچ رہی تو کیا یہ جھوٹ بول رہا ہے اور نہیں اگر سچ کہہ رہا ہے تو برسوں پر محیط اس پرنام جی کے سلسلے کی وجہ کیا ہے؟

 اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی شمسان گاہ کا انگریز منیجر وہاں آیا اور بولا مسٹر رنجیت مجھے افسوس ہے کہ اب مجھے جانا پڑے گا اس لئے کہ دو گھنٹے بعد ایک اور میت کو سپردِ آتش کرنے کیلئے لوٹ کر آنا ہے۔

رنجیت سمجھ گیا منیجر اس کو جانے کیلئے کہہ رہا ہے۔ رنجیت دروازے کی جانب بڑھا سرجیت اس کے پیچھے تھی۔ شمسان کی آگ سرد ہو چکی تھی۔ شعلے تو کب کے بجھ چکے تھے اب دھواں بھی غائب ہو گیا تھا۔ رنجیت کے سینے میں جلنے والی چتا کا بھی یہی حال تھا۔

عمارت کے باہر ایک ننھا سا باغ تھا وہ دونوں اس کے اندر آ گئے سرجیت استفہامیہ انداز میں بولی آپ کہہ رہے تھے کہ کوئی کام ۰۰۰۰۰۰۰۰۰؟ اس کا جی چاہا کہ پوچھے کیا آپ ہر صبح میرا انتظار جو کرتے ہیں؟ لیکن اس نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔

جی ہاں رنجیت نے جواب دیا۔ ہماری فوجی تربیت کا پہلا سبق یہی تھا کہ کوئی کام بلاوجہ نہیں کیا جائے۔ اس لئے کہ بلاوجہ کیا جانے والا فعل کسی اہم کام کے راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ اس سے بڑا خسار ہو سکتا ہے۔ وہ اچھی خاصی فتح کو شکست میں بدل سکتا ہے۔

سرجیت نے پوچھا اچھا تو آپ یہاں کیوں آئے؟

میں نہ آتا تو کون آتا؟ امر جیت کا میرے سوا اس دنیا میں کون ہے؟ بلکہ میرا بھی امر جیت کے سوا کون تھا؟

یہ امر جیت کون ہے؟ سرجیت نے پوچھا۔

امر جیت ہے نہیں تھا۔ میرا اکلوتا بیٹا امرجیت اب اس دنیا میں نہیں رہا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ میری ار تھی اٹھاتا میری چتا جلاتا لیکن ہائے افسوس کہ مجھے یہ دکھ بھی سہنا پڑا۔

لیکن میں نے اس کو آپ کے ساتھ کبھی نہیں دیکھا؟

جی ہاں اس سے میں نے کئی بار کہا کہ میرے ساتھ چل میں تجھے سرجیت سے ملاؤں لیکن وہ نہیں مانا۔

مجھ سے آپ اس کو کیوں ملانا چاہتے تھے؟

تاکہ تم دونوں کا بیاہ ہو جائے اور تم میری بہو بن کر اس کا گھر آباد کرو لیکن وہ ۰۰۰۰۰۰وہ نہیں مانا۔ میں نے کئی بار چاہا کہ تم سے یہ بات کروں لیکن تم نے ہمیشہ بے رخی اختیار کی۔ اس کے باوجود نہ جانے کیوں مجھے یقین تھا کہ ایک نہ ایک دن تم میری بہو ضرور بنو گی لیکن افسوس کہ اب یہ کبھی نہیں ہو گا۔

سرجیت نے یہ سنا تو سر پکڑ کر پاس پڑی بنچ پر بیٹھ گئی۔ وہ دور خلاؤں میں اس امرجیت کو دیکھ رہی تھی جس سے کبھی نہیں ملی تھی۔

رنجیت دیر تک یونہی کھڑا نہ جانے کیا سوچتا رہا۔ جب اس کی بوڑھی ٹانگیں جواب دینے لگیں تو بولا بیٹی اب میں چلتا ہوں مجھے اجازت دو۔ یہ ہماری آخری ملاقات ہے اس لئے کہ جس کی خاطر میں ہر صبح تمہارے پاس آتا وہ تو ہم سے دور کہیں دور چلا گیا۔

رنجیت اپنے خیالات کے جنگل سے لوٹ آئی اور بولی بابا اب آپ کہاں جائیں گے؟

میں ۰۰۰۰۰میں اپنے گھر جاؤں گا؟

وہاں کون ہے؟

وہاں کوئی نہیں ہے؟ میرے گھر میں امرجیت تھا جو اب نہیں ہے۔ لیکن مجھے اپنے ویران گھر میں جانا ہی ہو گا۔

آپ وہاں اکیلے کیا کریں گے؟

میں ۰۰۰۰۰۰میں اپنی موت کا انتظار کروں گا۔

موت کا انتظار سرجیت نے چونک کر پوچھا۔

جی ہاں موت کا انتظار مجھے یقین ہے کہ اب تو اوپر والے کو مجھ پر رحم آ جائے گا اور بہت جلد وہ مجھے اپنے پاس بلا لے گا۔

سرجیت بولی آپ اپنے گھر نہیں جائیں گے۔

رنجیت اس حکم سے چونک پڑا وہ بولا تو کیا میں بھی اپنے بیٹے امرجیت کی چتا میں کود کر اپنے پران گنوا دوں؟

سرجیت نرمی سے بولی نہیں آپ میرے ساتھ میرے گھر چلیں گے۔

 تُ۰۰۰تُ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰تمہارے گھر کیوں؟

میں آپ کے گھر بہو بن کر نہ آ سکی تو کیا ہوا۔ اب آپ میرے ساتھ چلئے میرے گھر میں میرے بابا بن کر رہئے۔ اب آپ کو مجھ سے ملنے کی خاطر آنے کی ضرورت نہیں میں ہر روز آپ کے چرن چھو کر ٹسکو جایا کروں گی۔

ہوش سنبھالنے سے قبل یتیم ہو جانے والی سرجیت کو برسوں بعد اس کا کھویا ہوا باپ مل گیا اور رنجیت کو اپنا بیٹا گنوانے کے فوراً بعد بیٹی مل گئی تھی۔

رنجیت لڑکھڑا کرسرجیت کے پیچھے چل پڑا۔

 اس کی بیساکھی بدل چکی تھی مگر نہ چال بدلی تھی اور نہ راستہ بدلا تھا۔

 ٭٭٭


 

 

 

بدلے ہوئے پیمانے

 

شہباز خان روتا ہوا اپنی ماں مہر جان کے پاس آیا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو اور سر سے خون بہہ رہا تھا۔ یہ دیکھ کر مہرجان کو بہت غصہ آیا۔ وہ سمجھ گئی یہ پڑوس کے شہزاد خان کی کارستانی ہے۔ اس کے جی میں آیا کہ شہزاد کی کھال ادھیڑ دے لیکن یہ ممکن نہیں تھا۔ مہرجان نے شہباز کو پچکارنے کے بجائے ڈانٹا۔ سر سہلانے کے بجائے اس کا ہاتھ پکڑا اور گھسیٹتے ہوئے پڑوس میں شہزاد کی امی افسری بیگم کی جانب اس خیال سے چل پڑی کہ رستا ہوا خون دکھلا کر شہزاد کی خوب پٹائی کروائے گی لیکن وہاں پہنچنے کے بعد اس کے قدم زمین میں دھنس گئے۔

شہزاد ہاتھ میں دانت لیے اپنی امی سے شکایت کر رہا تھا۔ اس کے منہ سے خون بہہ رہا تھا۔ مہرجان کو تفصیل جاننے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ اس کا دل پسیج گیا آگے بڑھ کر اس نے شہزاد کو گلے سے لگا لیا اور آنسو پونچھنے لگی۔ افسری بیگم شہباز کا سر سہلانے لگیں۔ انہوں نے فوراً شہباز کا سر دھویا اور ہلدی کے سفوف سے مرہم پٹی کر دی۔ ا س دوران مہرجان نے شہزاد کو کلی کرا کے بہلا پھسلا دیا تھا۔ منہ سے بہنے والا خون بند ہو گیا تھا۔ دونوں بچے ایک دوسرے کی امیوں کی گود میں بیٹھے ایک دوجے کو گھور رہے تھے۔ دونوں سہیلیاں باتوں میں مشغول ہو گئیں تھیں اور بچے مل جل کے کھیلنے لگے تھے۔

آبادیوں سے دور پہاڑوں کے درمیان وادیِ خیبر نام کی ایک گمنام سی بستی تھی جس میں صرف دو کشادہ مکان تھے ایک میں بختیار خان اور دوسرے میں شہریار خان رہتا تھا۔ دونوں بچپن کے دوست اور ہمسایہ تھے۔ خیبر پور سرسبز کھیت اور باغات پر مشتمل زرخیر علاقہ تھا۔ اس خطہ ارض کے نصف کا مالک شہریار تھا اور بقیہ بختیار کی ملکیت تھا۔ گاؤں کے تمام مویشی ان دونوں کے درمیان تقسیم تھے اور تمام آبادی ان دونوں کی محکوم تھی۔ یہ آبادی جھگیوں میں رہتی۔ ان کے کھیتوں میں کام کرتی۔ ان کے مویشیوں کی دیکھ بھال کرتی اور ان کے اہل خانہ کی خدمت کرتی تھی۔ جو کچھ تھا ان دونوں کا تھا باقی کسی کا کچھ بھی نہیں تھا۔ اس لیے ان کی مرضی کے بغیر یہاں پر پتہ بھی نہیں ہلتا تھا۔

شہریار اور بختیار کے مزاج میں اس قدر ہم آہنگی تھی کہ فیصلہ ایک ساتھ کریں یا علیٰحدہ علیٰحدہ یکساں طور پر دونوں کو قابل قبول ہوتے تھے۔ چونکہ یہ اشرافِ بستی عام لوگوں سے فاصلہ رکھتے تھے اسلئے ان کے اہل خانہ کا میل جول بھی ایک دوسرے تک محدود تھا۔ بختیار کاپسر شہباز اور شہریار کا بیٹا شہزاد ہمسائے گی کے باعث دوست ضرور تھے لیکن ان میں بالکل نہیں بنتی تھی۔ مختلف المزاجی کے باوجود ایک ساتھ کھیلنا ان کی مجبوری تھی۔ دوسرے بچوں کے ساتھ میل ملاپ کو نہ صرف ناپسند کیا جاتا تھا بلکہ ایسا کرنے پر سرزنش بھی ہوتی تھی۔

 وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ کھیلتے بھی تھے اور لڑتے بھی تھے۔ اس رفاقت میں ہم منصبی کے علاوہ کوئی مشترک قدر نہیں تھی۔ بختیار اور شہریار اپنے بیٹوں کی لڑائی سے پریشان تھے۔ وہ دونوں تنگ آ کر باہم کھیلنے سے منع تو کر دیتے لیکن اصرار نہ کرتے اس لیے کہ جانتے تھے ایسا کرنا گویا کھیل کود بند کر دینے کے مترادف ہے اور بچوں کو کھیلنے سے روک دینا ان سے بچپن چھین لینے کے مترادف ہے۔

شہریار اور بختیار جانتے تھے کہ کسی بچے سے اس کا بچپن چھین لینا ایسا ہی ہے جیسے کسی جوان کو اس کی جوانی سے محروم کر دیا جائے۔ ان دونوں کو اپنے بچوں کے بچپن اور اپنی جوانی بے حد عزیز تھی لیکن ان بے شمار افراد کا ذرہ برابر خیال نہیں تھا جن کی زندگیاں ان لوگوں نے چھین لی تھی۔ ان کے نزدیک عوام کالانعام احساسات و جذبات سے عاری مخلوق تھے۔ وہ ان میں اور اپنی ضرورت کے مویشیوں اور بے جان سازوسامان میں کوئی فرق کرنے کے روادار نہیں تھے۔ ان کے خیال میں ان ساری اشیاء کا مقصد وجود خدمت تھا۔

ایک مرتبہ شہریار اپنے کسی کام سے شہر گیا وہاں ایک کھلونے کی دوکان میں اسے بڑی سی گیند نظر آئی اس نے دوکاندار سے پوچھا۔

 ’’یہ کیا ہے؟‘‘

 دوکاندار نے بتلایا۔ ’’یہ گیند ہے جس سے بچے اور بڑے سب کھیلتے ہیں۔‘‘

اس نے پوچھا۔ ’’اس سے فٹ بال کھیلتے ہیں؟ یہ تو گول نہیں لمبوترا سا ہے۔‘‘

 دوکاندار نے بتلایا۔ ’’اس سے فٹ بال نہیں رگبی کھیلا جاتا ہے۔‘‘

 شہریار نے پوچھا۔ ’’یہ رگبی کیا ہوتا ہے؟‘‘

 دوکاندار نے بتلایا۔ ’’یہ بھی فٹ بال کی طرح کا کھیل ہے لیکن اس میں پیروں سے مارنے کی قید نہیں اس میں گیند کو ہاتھوں سے چھینا جاتا ہے اور لاتوں سے مارا جاتا ہے۔ ہار جیت فٹ بال کی طرح سے ہوتی ہے۔ جب گیند کو اچھال کر مخالف ٹیم کے پالے میں پہنچا دیا جائے تو گول ہو جاتا ہے اور مقر رہ دورانیہ میں جو ٹیم زیادہ گول کرتی ہے اسے کامیاب قرار دے دیا جاتا ہے۔‘‘

 شہریار نے سوچا یہ اچھا ہے۔ وہ اسے شہزاد اور شہباز کے حوالے کر دے گا۔ وہ ایک دوسرے کے بجائے گیند سے ہا تھا پائی کریں گے۔ ایک دوسرے کے بال نوچنے کے بجائے گیند چھینیں گے۔ ایک دوسرے پر لاتوں اور گھونسوں کی برسات کرنے کے بجائے گیند پر اپنا غصہ اتاریں گے۔

 بختیار کو بھی شہریار کی تجویز پسند آئی۔ اب گھر کے آنگن میں یہ دونوں بچے رگبی کھیلنے لگے۔ ایک دوسرے سے گیند چھینتے اور اپنی ٹھوکروں سے گیند کو اپنے مخالف کے پالے میں پہنچا کر اپنے مخالف کو شکست فاش دینے میں لگے رہتے۔ ا س نئے کھیل نے جذبۂ مسابقت میں خاصہ اضافہ کر دیا تھا۔ شہریار اور بختیار بھی کبھی کبھار فرصت کے لمحات میں بچوں کی مقابلہ آرائی سے لطف اندوز ہوتے تھے۔

جب وہ دونوں کچھ بڑے ہو گئے تو کھیل آنگن سے نکل کر میدان میں آ گیا۔ گاؤں کے بچے اس کھیل کے تماش بین بن گئے۔ پہلے تو وہ دور سے گیند کو اٹھا کر لاتے تھے لیکن پھر یوں ہوا کہ وہیں سے لات مار کر اچھالنے لگے۔ وقت کے ساتھ دھیرے دھیرے گاؤں کے بچے بھی نہ جانے کب اس کھیل کا حصہ بن گئے۔ کچھ شہباز کی ٹیم میں تو کچھ شہزاد کی ٹیم میں شامل ہو گئے۔ اب کھیل کا دائرہ وسیع ہو چکا تھا۔ شہزاد اور شہباز اپنی اپنی ٹیموں کی مدد سے ایک دوسرے کو ہرانے کے درپے رہنے لگے تھے۔

گاؤں کے بچوں نے جہاں شہزاد اور شہباز کے ساتھ رگبی کا کھیل سیکھا وہیں ان دونوں نے بھی گاؤں والوں سے ان کے کھیل سیکھے۔ گاؤں کے لوگ مرغوں اور مینڈھوں کی لڑائی سے دل بہلایا کرتے تھے۔ ایک کا مرغا دوسرے کے مرغے سے لڑتا اور اسے زخمی کر کے بھگا دیتا۔ اس طرح پہلا خوشی سے باولا ہو جاتا۔ ایک کا مینڈھا دوسرے کے مینڈھے کو ٹکّر مار کے بے ہوش کر دیتا تو پہلا خوشی سے جھوم اُٹھتا۔ یہ عجیب کھیل تھا جس میں لڑتا کوئی اور تھا مگر جیت کسی اور کی ہوتی تھی۔ زخمی کرنے والا کوئی اور ہوتا تھا اور جشن کوئی اور مناتا تھا۔

شہزاد اور شہباز کی جب ان کھیلوں میں دلچسپی بڑھی تو وہ رگبی بھول گئے۔ انہوں نے مرغے اور مینڈھے پالنے شروع کر دیئے۔ وہ انہیں ایک دوسرے سے لڑاتے اور فتح کا جشن مناتے۔ جب کوئی مرغا زخمی ہو کر لڑنے کے قابل نہیں رہتا اسے طشتری کی زینت بنا دیا جاتا۔ جب بھی کوئی مینڈھا شکست فاش سے دوچار ہوتا اسے ذبح کر کے نیا مینڈھا میدان میں لایا جاتا۔ مینڈھوں اور مرغوں کی دعوتیں اُڑاتے ہوئے یہ دونوں دوست جوان اور ان کے والدین بوڑھے ہو گئے۔

حسب معمول ایک دن مینڈھوں کی لڑائی ہونی تھی۔ دونوں مینڈھے خوب فربہ اور طاقتور تھے۔ دونوں کو اپنی اپنی فتح کا کامل یقین تھا۔ اس روز لڑائی کافی دیر چلی۔ جب شہزاد کا مینڈھا شہباز کے مینڈھے کو کھدیڑتا ہوا پیچھے دھکیلتا جاتاتواس کے ساتھی خوشی سے چلّانے لگتے اور سیٹیاں بجاتے لیکن چند لمحات میں پھر منظر بدل جاتا تھا۔ اس بار شہباز کا مینڈھا بازی اُلٹ دیتا اور اس کے خیمہ میں خوشی کے نقارے بجنے لگتے تھے۔ لڑائی چلتی رہی یہاں تک کہ دونوں مینڈھے لہولہان ہو گئے لیکن کوئی بھی میدان چھوڑنے کا نام نہ لیتا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ دونوں جانوروں کے اندر انسانوں کی روحیں سما گئی ہیں جو کسی قیمت پر ایک دوسرے سے زیر ہونے کے لیے تیار نہیں۔ بالآخر دونوں جانوروں نے آر پار کی ٹکر کا فیصلہ کر لیا۔

اس بار دونوں مینڈھے ایک دوسرے کی جانب نہیں بلکہ ایک دوسرے سے مخالف سمت میں الٹے پیروں بڑھنے لگے۔ وہ دونوں ایک دوسرے کو پیٹھ دکھانا نہیں چاہتے تھے اس لیے کہ میدان میں پیٹھ دکھانا شکست کی علامت ہوتا ہے اور ایسا کرنے سے ہلاکت کے خطرات میں اضافہ بھی ہو جاتا ہے اس لیے وہ الٹے قدم پیچھے ہٹتے رہے۔ دونوں کی نظریں ایک دوسرے پر لگی ہوئی تھیں۔ ایک خاص فاصلہ کے بعد وہ دونوں چند لمحات کے لیے ٹھہر گئے۔

 ناظرین کی سانسیں رک گئیں اور پھر دونوں نہایت تیز رفتاری کے ساتھ ایک دوسرے کی جانب دوڑے ایک زوردار دھماکہ ہوا دونوں ڈھیر ہو گئے۔ اٹھنے کی بہتیری کوششوں کے باوجود ایک بھی اٹھ نہ سکا۔ وہ دونوں جانور زمین پر پڑے زخم سے کراہ رہے تھے اور ایڑیاں رگڑ رہے تھے۔ اس کے برعکس ان کے مالکین اپنے مویشیوں کی حالتِ زار سے بے نیاز اپنی فتح کا دعویٰ کرتے ہوئے مخالف کی شکست کا اعلان کر رہے تھے۔

اس روز مینڈھوں کی لڑائی میں نہ تو کسی کی جیت ہوئی اور نہ کوئی ہارا لیکن اس دن سے ہمسایوں کے درمیان ایک جنگ کا آغاز ہو گیا۔ سخت کلامی ہا تھا پائی میں تبدیل ہو گئی۔ دونوں کے حامی ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہو گئے۔ شہزاد اور شہباز برسوں بعد ایک دوسرے سے دست گریباں تھے۔ ان کی لڑائی بھی کسی نتیجہ پر نہیں پہنچی نہ کوئی جیتا اور نہ کوئی ہارا لیکن مینڈھوں کے ساتھ بچپن کی دوستی نے دم توڑ دیا۔ محبت کی جگہ نفرت نے لے لی۔ مسابقت مخاصمت میں بدل گئی۔ اس شام کوئی جانور ذبح نہ ہوا کوئی دعوت نہیں ہوئی بلکہ عداوت ہو گئی۔

شہباز اور شہزاد کی ہم سائے گی اب ایک مجبوری سے زیادہ کچھ نہیں تھی۔ اس لڑائی کے بعد کھیتوں کے درمیان باڑ نمایاں ہو گئی۔ گھروں کی دیوار اونچی ہو گئی۔ محکوموں کا بٹوارہ مکمل ہو گیا۔ ایک کے حامی کا دوسرے کے ساتھ جانا غداری میں شمار ہونے لگا۔ رفتہ رفتہ یہ دشمنی حملوں میں بدل گئی۔ ان میں سے ہر ایک اپنے گروہ کی مدد سے دوسرے کے مویشی ہانک لے جاتا۔ کھیتوں کو جلا دیتا اور طرح طرح سے نقصان پہنچاتا۔ اس لوٹ مار میں کبھی ایک کے آدمی مارے جاتے تو کبھی دوسرے کے حامی زخمی ہوتے۔ ہر کوئی اپنے بندے کی موت کا بدلہ دوسرے کے آدمی سے لیتا اس طرح دونوں ایک دوسرے کے حامیوں کو ہلاک کر کے اپنی سرخروئی کا پرچم لہراتے تھے۔

شہ اور مات کا یہ سلسلہ جاری تھا کہ ایک دن اچانک ان کے علاقے میں بہت ساری گاڑیاں نمودار ہو گئیں۔ اس وادی میں ان کی مرضی اور اجازت کے بغیر کسی چڑیا نے پر بھی نہیں مارا تھا۔ نو واردوں کی آمد نے شہباز اور شہزاد دونوں کو چوکنا کر دیا۔ انہوں نے اپنے آدمیوں سے آنے والوں کے مقاصد کا پتہ لگایا تو معلوم ہوا کہ یہ سرکاری افسران ہیں۔ ان کا اندازہ ہے کہ اس علاقے میں معدنیات کی کانیں ہیں اور اب وہ اس تحقیق کی تصدیق کرنا چاہتے ہیں۔

 شہباز اور شہزاد کو یہ بھی علم ہو گیا کہ آنے والوں کے پاس اچھا خاصہ حفاظتی انتظام ہے۔ دستہ اور اسلحہ دونوں سے لیس ہو کر یہ لوگ اس علاقے میں داخل ہوئے ہیں اور ان کو ڈرا دھمکا کر بھگا دینا آسان نہیں ہے۔ اس نئی صورت حال نے دونوں کو یکساں طور پر فکر مند کر دیا۔ بیرونی خطرہ اندرونی دشمنی پر غالب آ گیا۔ کئی سال بعد ان کی ملاقات ہوئی۔ انہوں نے آنے والے وفد کے سربراہ سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ تحقیقاتی ٹیم کے افسران بھی اس کے منتظر تھے۔ ملاقات کا وقت طے ہو گیا۔ باہمی تعارف کے بعد گفتگو کا آغاز ہوا۔

نو واردوں نے انہیں مبارکباد دی کہ ان کے علاقے کی زمین معدنیات کے خزانوں سے بھری پڑی ہے اس لئے حکومت یہاں کارخانے تعمیر کروائے گی۔ کارخانہ اس خطے کے لیے نئی چیز تھی۔

شہباز نے سوال کیا۔ چونکہ یہ خزانے ہمارے کھیتوں کے تلے دبے ہوئے ہیں اس لیے لازماً اس کے مالک ہم ہی ہوئے۔

جواب ملا نہیں جو کچھ زمین کے نیچے ہے وہ حکومت کی ملکیت ہے۔

شہزاد کو اس پر تعجب ہوا۔ اس نے پوچھا کیوں؟ اگر کھیتوں کے اوپر کی فصل ہماری ہے تو نیچے کے معدنیات بھی ہمارے ہونی چاہئیں؟

سرکاری عہدہ داروں نے بتایا۔ نہیں اوپر کی فصل تم نے اُگائی ہے اس لیے تمہاری ہے اندر کے خزانے تم نے نہیں رکھے اس لیے تمہارے نہیں ہیں۔

شہباز کی سمجھ میں یہ دلیل نہیں آئی اس نے کہا۔ اگر ہم نے نہیں رکھے تو سرکار نے بھی تو نہیں رکھے۔ اس لیے اگر ہماری نہیں ہے تو حکومت کی کیسے ہو گئی؟

 سرکاری نمائندوں نے بتلایا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ زمین بھی حکومت کی ہے۔

دونوں دوستوں کے لیے یہ نیا انکشاف تھا ان لوگوں نے کہا۔ یہ کیا بات کر رہے ہیں آپ؟ صدیوں سے یہ زمین ہمارے آبا و اجداد کی ملکیت ہے اور ہمیں وراثت میں ملی ہے۔

 یہ بات ذرا کرخت انداز میں کہی گئی اس لیے اس کا جواب بھی سخت انداز میں ملا۔ تمہارے باپ دادا نے یہ زمین خریدی تھی کیا؟ اور خریدی بھی تھی تو جس نے بیچا اس نے نہیں خریدی تھی۔ اس لیے یہ زمین نہ تمہارے پُرکھوں کی تھی اور نہ تمہاری ہے۔

 شہزاد یہ جواب سن کر ٹھنڈا ہو گیا۔ اس نے لجاجت سے کہا۔ لیکن ہمیں اب تک یہ بات بتلائی کیوں نہیں گئی؟

اس لیے کہ ضرورت نہیں پیش آئی۔ اب ضرورت ہوئی تو گوش گذار کر دیا گیا۔

 شہزاد اور شہبازسے جیسے ان کے برسوں پرانے لوٹ کے مال کو کسی نے دن دہاڑے لوٹ لیا تھا اور وہ کچھ بھی نہ کر سکے تھے۔

شہباز بولا۔ لیکن جناب ہمارا اور ہمارے بے شمار ملازمین کا گذر بسر ان زمینوں پر کاشتکاری سے ہوتا ہے۔ ہمارے مویشی ان چراگاہوں میں پلتے ہیں۔ اگر یہ سب ہم سے چھن جائے گا تو ہم بے یارو مددگار ہو جائیں گے۔

نہیں ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ حکومت کے نمائندے نے کہا ہم اس زمین کے بدلے تم لوگوں کے نقصان کی بھرپائی کریں گے۔ جس سے تم نئے کھیت اور چراگاہیں خرید سکو گے۔

شہباز بولا۔ لیکن قیمت کون طے کرے گا؟

سرکاری افسرنے کہا۔ ہم طے کریں گے۔

شہزاد بولا۔ لیکن اگر اس نئی زمین کے نیچے بھی معدنیات نکل آئیں تو؟

 تمہاری تقدیر ہی اگر خراب ہو تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟

ابھی تو آپ کہہ رہے تھے ہم لوگ خوش قسمت ہیں اور ابھی آپ کہہ رہے ہیں کہ ہمارا مقدر بگڑا ہوا ہے آخر یہ کیا قصہ ہے؟

بھئی آپ لوگ بہت بھولے ہو باتیں کہنے کی کچھ ہوتی ہیں اور حقائق اس سے مختلف ہوتے ہیں۔ اگر ہم دونوں میں سے ایک بدقسمت ہے تو دوسرا خوش قسمت بھی تو ہے۔ حکومت اگر خوش نصیب ہے تو عوام کی حکومت ہے۔ اگر عوام کی حکومت خوش نصیب ہوئی تو عوام بھی اپنے آپ خوش قسمت ہو گئے یا نہیں؟

شہزاد اور شہباز کی سمجھ میں یہ لچھے دار منطق نہیں آئی ویسے بھی زمینوں کی محرومی سے ان کے دماغ کو ماؤف ہو گئے تھے۔ شہباز نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔ ان کارخانوں کا مالک کون ہو گا؟

جواب ملا۔ وہ سرمایہ دار جو اس میں سرمایہ کاری کریں گے۔

 اور ان کانوں کا مالک کون ہو گا؟ شہزاد نے پوچھا۔

 ویسے تو سرکار ہو گی لیکن وہ انہیں کرایہ پراٹھا دے گی۔

 کیا مطلب؟ ہماری زمین ہم سے چھین کر کسی اور کو دے دی جائے گی۔

جی ہاں کیوں کہ وہ اس کا کرایہ ادا کریں گے۔

لیکن ہماری زمین کا کرایہ کوئی اور وصول کرے گا؟

سرکاری افسر کو غصہ آ گیا۔ وہ بولا جناب شہزاد صاحب یہ بات آپ کو پہلے سمجھائی  جا چکی ہے کہ یہ زمین آپ لوگوں کی نہیں سرکار کی تھی اور ہے اس کے باوجود آپ کو معاوضہ دیا جا رہا ہے یہ حکومت کا احسان ہے۔ ویسے آپ لوگ یہ نہ بھولیں کہ یہاں پر کارخانوں کے لگنے سے جو خوشحالی آئے گی اس کا فائدہ آپ کو بھی تو ہو گا۔

ہمیں ہو گا وہ کیسے؟ ہماری فصلیں ہم سے چھن جائیں گی اور ہمارے آدمی بے روزگار ہو جائیں گے؟ ہمارا تو خسارہ ہی خسارہ ہے۔

 نہیں نہیں ایسا نہیں ہو گا۔ تمہارے آدمیوں کو کارخانے میں کام ملے گا۔

اور ہمیں؟ دونوں نے ایک زبان ہو کر پوچھا۔

اور تمہیں ٹھیکہ مل جائے گا۔

کیا مطلب؟ شہزاد نے پوچھا۔

تم لوگ زمیندار سے ٹھیکیدار ہو جاؤ گے۔ عام لوگ تمہاری زمین جوتنے کے بجائے صنعت کی تعمیرات کا کام کریں گے۔ پہلے وہ فصلیں اُگاتے تھے جنھیں بیچ کر تم انہیں مزدوری دیا کرتے تھے اسی طرح ٹھیکے کی رقم حاصل کر کے تم ان کا محنتانہ ادا کرو گے۔ نہ تمہاری حیثیت بدلے گی اور نہ ان کا کام بدلے گا۔

تب تو ٹھیک ہے۔ شہزاد بولا۔ لیکن کارخانہ بن جانے کے بعد ہم کیا کریں گے؟

اس کے بعد بھی بہت سارے ٹھیکے ہوں گے جیسے آدمی فراہم کرنے کے ٹھیکہ۔ مال برداری اور حمل و نقل وغیرہ وغیرہ۔ وہ سب کام بھی ہم تمہیں کو دیں گے۔ اس طرح تمہارا اور ہمارا دونوں کا کام چلتا رہے گا۔

دونوں دوستوں کے چہرے کھل گئے۔ انہوں نے کہا صاحب آپ نے تو شروع میں ڈرا ہی دیا تھا۔ پہلے کیوں نہیں بتایا؟

سرکاری افسر مسکرائے۔ انہوں نے کہا۔ اگر آپ لوگوں کو پہلے ہی یہ بات بتلا دی جاتی تو آپ لوگ خوش نہیں ہوتے۔ اسی لیے پہلے ڈرانا پڑتا ہے۔ دباؤ بنانا پڑتا ہے اور پھر دھیرے دھیرے اسے ہٹایا جاتا ہے۔ اس طرح مخاطب بے وجہ خوش ہو جاتا ہے۔

جیسا کہ ہم دونوں خوش ہوئے ہیں۔ سب ہنسنے لگے۔

وادیِ خیبر میں بظاہر صنعتی انقلاب آ گیا لیکن فرق صرف یہ تھا کہ کل کا زمیندار آج کا ٹھیکیدار تھا اور کل تک ہل چلا کر اناج اُگانے والا مزدور آج مشین چلا کر مصنوعات بنانے لگا تھا۔ بظاہر بہت کچھ بدل گیا تھا لیکن بباطن کچھ بھی نہیں بدلا تھا۔ چند دنوں کے اندر پھر ان دوستوں کے اندر ٹھیکوں کے حصول کے خاطر مسابقت شروع ہو گئی۔ عارضی طور سے قائم ہونے والی دوستی میں دراڑ پڑ گئی۔

کارخانے کی تعمیر میں پانچ سال کا طویل عرصہ لگا اس بیچ سڑک بن گئی، پل بن گئے، بجلی آ گئی، بازار بن گئے اور نہ جانے کیا کیا ہو گیا۔ دور دراز کے علاقوں سے سیکڑوں لوگ یہاں آ کر بس گئے گویا ایک نامعلوم گاؤں اچھا خاصہ شہر بن گیا۔ کارخانے کا افتتاح کرنے کی غرض سے وزیر مملکت تشریف لائے اور انہوں نے اعلان کیا وادیِ خیبر میں جس صنعتی ترقی کا آغاز ہوا ہے اس کے ثمرات سے عوام کو ہمکنار کرنے کی خاطر یہاں جمہوری ادارے قائم کئے جائیں گے جس میں عوام کے رائے مشورے ان کی فلاح و بہبود کے کام ہوں گے۔

وزیر موصوف کے ان الفاظ نے شہزاد اور شہباز کے کان کھڑے کر دیئے انہیں محسوس ہوا کہ ان کی پشتینی آقائیت کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ صدیوں سے محکومی کی زنجیر میں جکڑے ہوئے غلاموں کو کوئی آزاد کرا رہا ہے۔ یہ بات تو زمینوں کے چھن جانے سے زیادہ خطرناک تھی۔ شہباز نے اس کا نوٹس لیا اور تقریب کے خاتمہ پر وزیر موصوف کو اپنے گھر کھانے پر بلایا۔ تھوڑی بہت آنا کانی کے بعد وزیر نے دعوت قبول کر لی۔

کھانے کے بعد گفت و شنید کا سلسلہ دراز ہوا تو شہباز نے پوچھا۔ جناب والا اس علاقے کو ہمارے بزرگوں نے بسایا وہ یہاں کے بے تاج بادشاہ تھے۔ یہاں کی عوام نے کبھی ان کے آگے زبان نہیں کھولی لیکن آپ تو پورے نظام کو درہم برہم کر رہے ہیں۔

وزیر نے پوچھا۔ یہ آپ سے کس نے کہا۔

آپ ہی تو کہہ رہے تھے۔ شہزاد بولا عوام کی مرضی سے۔

وزیر نے ہنس کر کہا شہباز صاحب آپ بہت بھولے ہیں۔ ارے بھائی ہم عوام سے ان کی مرضی پوچھیں گے اور وہ آپ ہی کے حق میں رائے دیں گے۔

وہ کیسے؟ شہباز نے پوچھا۔

در اصل ملک میں فی الحال ہماری جماعت برسرِ اقتدار ہے ہم آپ کو اپنا امیدوار بنائیں گے اور انتخاب جیتنے کے تمام گُر سکھلائیں گے۔ فرق صرف یہ ہو گا کہ فی الحال تو تم بزورِ قوت سردار بنے ہوئے ہو مگر الیکشن کے بعد تم عوام کی مرضی سے اس علاقے کی یعنی یہاں رہنے بسنے والوں کی نمائندگی کرو گے اور کیا چاہئے؟

وہ تو ٹھیک ہے۔ شہباز نے پوچھا۔ لیکن اگر عام لوگوں میں سے کوئی کھڑا ہو گیا تو؟

وزیر نے بڑے آرام سے کہا وہ ہار جائے گا۔ ہم ان میں انتشار پیدا کر یں گے۔ ان کو للچائیں گے۔ خریدیں گے۔ آپس میں لڑا دیں گے۔ ان کے خلاف پروپیگنڈا کریں گے۔ یہ سب کرنے کے لیے سرمایہ چاہئے جو ان کے پاس نہیں، تمہارے پاس ہے۔ اس لیے انتخاب میں کامیابی تمہاری ہی ہو گی۔

لیکن وہ جو آپ کہہ رہے تھے عوام کے مشورے سے ان کی فلاح و بہبود۔

ارے بھئی شہباز یہ سب کہنے کی باتیں ہیں انہیں بہت زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا کرتے۔ عوام کو بہلانے کے لیے یہ سب کہنا پڑتا ہے۔ عوام تواسی سے پھولے نہیں سماتے کہ ان کا حاکم ان کی مرضی سے منتخب ہوتا ہے۔ ان کو اس سے کیا غرض کہ حکومت ان کی مرضی سے کرتا ہے یا نہیں؟ ویسے یہ ممکن بھی نہیں ہے اس لئے حکمراں کس کس کی مانے لیکن اس نظام کی ایک خوبی یہ ہے اس میں حکمرانوں کی کوتاہیوں کے لیے عوام ذمہ دار ٹھہرائے جاتے ہیں۔

شہباز نے چونک کر پوچھا وہ کیسے؟

وزیر بولے اس لیے کہ وہی تو نا اہل نمائندوں کو منتخب کرنے کی غلطی کرتے ہیں اس لئے ذمہ دار کون ہوا؟ وزیر محترم کی باتیں سن کر شہباز کو اطمینان ہو گیا۔

ایک سال بعد وادیِ خیبر میں انتخابات کا اعلان ہو گیا وزیر موصوف نے اپنا وعدہ پورا کیا اور شہباز کو اپنی پارٹی کا ٹکٹ دے دیا لیکن حزب اختلاف کب پیچھے رہنے والا تھا اس کے آدمیوں نے پتہ لگایا شہبازسے کون ٹکر لے سکتا ہے؟ فطری طور پر ان کی نظر انتخاب شہزاد پر پڑی۔ یہ انتخابات چونکہ مقامی اداروں کیلئے تھے اس لیے مختلف قومی جماعتوں کے زیر سرپرستی شہباز اور شہزاد آزاد امیدوار کی حیثیت سے میدان میں اتار دئیے گئے۔ ایک کا نشان رگبی کا بال تھا اور دوسرے کا نشان مینڈھا تھا۔

 بچپن کا کھیل اور جوانی کی لڑائی پھر سے شروع ہو گئی تھی۔

 عوام زندہ باد مردہ باد کے نعرے لگا نے لگے۔

 کسی اور کو کامیاب کرنے یا شکست دینے کی خاطر عام لوگ ایک دوسرے سے دست و گریباں تھے۔

لڑنا کسی اور کو تھا اور جیتنا کسی اور کو۔

مرنا کسی اور کو تھا اور ہارنا کسی اور کو۔

 وہی پرانا کھیل ایک نئے انداز میں پھر سے کھیلا جا رہا تھا۔

٭٭٭


 

 

 

جیل دنیا

 

            غضنفر پارہ چنار کے لا ابالی نوجوانوں کا سردار تھا ہٹا کٹا صحتمند خوبرو نوجوان اس کی زبان اور ہاتھ ایک جیسے چلتے تھے اس لئے مدرسہ کے طلباء تو درکنار اساتذہ بھی اس سے فاصلہ رکھ کر باتیں کرتے حالانکہ اس نے ابھی تک کسی استاد کے ساتھ بدتمیزی نہیں کی تھی لیکن پھر بھی کیا اعتبار کب سنک سوار ہو اور کیا کر جائے؟

حسب معمول ایک روز غضنفر اپنے دوستوں کے ساتھ خوش گپیوں میں مگن تھا کہ بازار کی طرف سے ایک نوجوان آیا اور غضنفر سے بولا اوئے مٹی کے شیر تیری ماں تجھ پر روئے یہاں بیٹھا کیا کر رہا ہے، جا دیکھ ہلاکو خان سر بازار تیری بہن کو رسوا کر رہا ہے ابھی جملہ پورا نہ ہوا تھا کہ غضنفر بجلی کی سرعت سے بازار کی جانب دوڑ پڑا۔

وہاں بھیڑ لگی ہوئی تھی۔ لوگ ہلاکو خان کو سمجھا رہے تھے کہ ایسا ظلم نہ کر یہ ہمارے گاؤں کی روایت کے خلاف ہے۔ گاؤں کی بیٹی سب کی بیٹی ہے۔ غضنفر کی بہن رضیہ منتیں کر رہی تھی کہ ہلاکو میرا دوپٹہ مجھے واپس کر دے میں اس کے بغیر کیسے جا سکتی ہوں؟ ہلاکو کا سفاکانہ قہقہہ فضا میں بلند ہو رہا تھا۔ چلو ہٹو ہمارے درمیان سے یہ ہمارا آپس کا معاملہ ہے۔ اری سن چھوکری جا۔ اسی طرح اپنے گھر جا اور اپنے باپ سے کہہ کہ کب تک تجھے یونہی بن بیاہی بٹھائے رکھے گا، جا اس سے کہہ کہ میرا بیاہ ہلاکو خان سے کر دے اور پھر ایک بار اس کا زور دار قہقہہ فضا میں بلند ہوا۔

 اس سے پہلے کہ وہ تھمتا غضنفر نے پیچھے سے اس کا گریبان پکڑ لیا۔ ہلاکو نے بدک کر پیچھے دیکھا اور گرج کر پوچھا کون ہے جو اپنے بچوں کو یتیم کرنا چاہتا ہے؟

تیرا باپ! غضنفر بولا اور ایک گھونسا ہلاکو کو جڑ دیا۔ ہلاکو کو نہ جانے کتنے سال بعد یہ گھونسا پڑا تھا۔ وہ اس کی تاب نہ لا سکا اور فوراً زمین پر ڈھیر ہو گیا۔ لوگوں نے دیکھا کہ ہلاکو ناک سے خون اور منہ جھاگ اگل رہا ہے۔ کسی نے کہا ارے اس کی تو آنکھیں پتھرا گئی ہیں۔ سانس بند ہو گئی ہے اور نبض بھی رک گئی ہے، او ہو یہ تو مر گیا ہے۔

رضیہ نے کچھ بھی نہیں سنا بس ہلاکو کی لاش سے اپنا دوپٹہ کھینچا اور اسے اوڑھ کر آنسو پوچھتی ہوئی گھر کی جانب روانہ ہو گئی۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

جیل میں غضنفر کی ملاقات زور آور خان سے ہوئی وہ بھی غضنفر کی طرح نوجوان تھا اور سردار دلاور خان کے گروہ میں کام کرتا تھا۔ اتفاق سے دلاور خان اسوقت جیل میں شاہانہ زندگی بسر کر رہا تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جیل کے اندر ہونے کے باوجود اس کی ٹھاٹ باٹ جیلر سے زیادہ تھی، زور آور پر کوئی الزام نہیں تھا وہ اور اس جیسے کئی گرگے محض سردار کی سیوا کیلئے جیل میں بند تھے اور اس کے اشارے پر دوڑتے پھرتے تھے۔ پولیس کی طرح یہ لوگ دلاور کی خدمت پر مامور تھے۔

ایک شام زور آور نے غضنفر سے پوچھا کہ آخر اسے جیل کی ہوا کیوں کھانی پڑی؟ تو غضنفر نے اپنی ساری کہانی سنا ڈالی اور پوچھا بھائی تمہیں بتاؤ میری کوئی غلطی ہے؟

زور آور نے کہا تمہاری اور میری غلطی یہی ہے کہ ہم غریب ہیں ورنہ ہلاکو نہ ایسی جرأت کرتا اور نہ ہلاک ہوتا۔

اگر ایسا ہے تو موت کے سایہ میرے سر پر کیوں منڈلا رہے ہیں؟

اس لئے کہ تم اپنا مقدمہ نہیں لڑسکتے۔

تو کیا اس کے باعث مجھے زندگی سے ہاتھ دھونا پڑے گا؟

نہیں! ہو سکتا ہے کہ تمہیں عمر قید ہو جائے اس لئے کہ اس طرح کے مقدمے میں اکثر عمر قید ہو جاتی ہے۔

کیا فرق ہے عمر قید اور سزائے موت میں؟

بڑا فرق ہے، زور آور بولا۔

اگر عمر قید بھی ہو جائے تو ساری عمر جیل کی چکی؟

ساری عمر نہیں صرف چودہ سال،

چودہ سال؟ غضنفر نے جملہ دوہرایا میرے لئے تو چودہ دن گذارنے مشکل ہیں تم چودہ سال کی بات کرتے ہو۔

ہاں یہ تو کم از کم ہے ویسے یہاں بھی دن گذر ہی جاتے ہیں جیل کی زندگی بھی کوئی ایسی بری نہیں ہے اب ہمیں دیکھو ہم تو بغیر کسی جرم کے یہاں دن کاٹ رہے ہیں ہمارا کام سردار کی خدمت کرنا ہے اگر وہ جیل کے اندر تو ہم بھی جیل کے اندر اس سے کیا فرق پڑتا؟

غضنفر نے حیرت سے پوچھا یار یہ بتا ؤ کہ تم نے یہ پیشہ کیوں پسند کیا کوئی اور کام کیوں نہیں کر لیتے؟

کیوں کیا خرابی ہے اس کام میں؟

جیل میں جو رہنا پڑتا ہے۔

جیل میں رہنا کوئی بہت بری بات ہے کیا؟ جیلر اور جیل کا عملہ بھی تو جیل کی چہار دیواری میں رہتا ہے۔

لیکن ان میں اور ہم ایک بہت بڑا فرق ہے وہ اپنی مرضی سے رہتے ہیں ہم ان کی مرضی سے رہتے ہیں

ہاں سو تو ہے لیکن پھر بھی دونوں رہتے تو ساتھ ہی ہیں مرضی ورضی کیا ہوتی ہے؟

کیوں نہیں ہوتی وہ اپنی مرضی سے چھوڑ کر جا بھی سکتے ہیں ہم نہیں جا سکتے۔

یہ تم نے صحیح کہا لیکن دوست جا تا کون ہے؟ سبھی جیلر ریٹائر ہوتے ہیں جب تک حکومت دھکے دے کر نہیں نکالتی کوئی نہیں جاتا، بلکہ ہر ایک چاہتا ہے کہ بڑی سے بڑی جیل میں اس کا تبادلہ ہو اور ملازمت میں زیادہ سے زیادہ ترقی ملے۔

غضنفر کو مزید تعجب ہوا۔ جو پابند ہے وہ جلد از جلد نکل جانا چاہتا ہے اور جو آزاد ہے وہ زیادہ سے زیادہ لگا رہنا چاہتا ہے یہ کیسی دنیا ہے جیل دنیا؟

زور آور بولا یار غضنفر تم سوچتے بہت ہو، جیسی جیل کی دنیا ہے ویسی ہی ہے دنیا کی جیل! کیا تم نے جیل کی دیوار پر لکھا وہ شعر نہیں پڑھا

کون سا شعر؟ غضنفر نے سوال کیا

زور آور بولا وہی ؎

فقط احساس آزادی سے آزادی عبارت ہے

وہی دیوار گھر کی ہے وہی دیوار زنداں کی

دونوں دوستوں کی بات چیت چل رہی تھی کہ سپاہی نے آ کر اطلاع دی غضنفر تمہارے گھر والے ملنے آئے ہیں۔ غضنفر ملاقات کے کمرے میں دوڑا ہوا آیا۔ اس روز رضیہ کھانا لے کر آئی تھی۔ شوخ چنچل رضیہ سنجیدگی کا پہاڑ بنی ہوئی تھی۔

 غضنفر نے پوچھا رضیہ یہ تجھے کیا ہو گیا۔ ایسا لگتا ہے کہ تم جیل میں قید ہو اور میں تم سے ملنے کے لئے آیا ہوں؟

رضیہ نے جواب دیا بھا ئی بات تو ایک ہی ہے تم جیل میں ہو یا ہم جیل میں ہوں، مجھے تو لگتا ہے ہم سب جیل میں ہیں۔

کیوں تمہیں کیا پریشانی ہے؟

ہمیں بہت پریشانی ہے، سارا گاؤں تمہاری تعریف کرتا ہے تم نے گاؤں والوں کو ہلاکو کے مظالم سے نجات دلا دی، لیکن مجھے ایسا لگتا ہے کہ میری وجہ سے تمہیں سزا ہو گئی یہی احساس جرم میری پریشانی ہے۔

غضنفر ہنسا اور بولا اری بے وقوف میری سزا کی بالواسطہ وجہ وہ مکا ہے جو میں نے اسے مارا اور بلا واسطہ وجہ ہلاکو کی وہ حرکت ہے جس کے باعث اسے گھونسا کھانا پڑا۔ اس میں تم کہاں سے آئیں تم تو نہ مکا مارنے والی ہو اور نہ کھانے والی؟

نہیں بھائی لیکن دوپٹہ تو میرا تھا!

تو کیا دوپٹہ اوڑھنا جرم ہے؟ در اصل ہماری عادت اپنے آپ کو کوسنے کی بن گئی ہے جرم دوپٹہ اوڑھنا نہیں چھیننا ہے، جس نے دوپٹہ چھینا اس کو اپنے کئے کی سزا ملی۔

بھائی وہ تو ٹھیک ہے لیکن کل سے تمہارا مقدمہ شروع ہونے والا ہے مجھے ہلاکو کی نہیں تمہاری سزا کی فکر ہے۔

 میری سزا ۰۰۰۰۰ابھی تو تم کہہ رہی تھی کہ سارا گاؤں میری تعریف کر رہا ہے۔

وہ تو ہے لیکن مقدمہ کا فیصلہ گاؤں والے نہیں، جج صاحب کریں گے۔

 تو کیا جج صاحب ہمارے گاؤں والے نہیں ہیں؟ اور پھر کیا وہ گاؤں والوں سے حقیقت حال نہیں معلوم کریں گے؟

جی ہاں۔ گاؤں والوں سے وہ ضرور پوچھیں گے اس کے بغیر فیصلہ نہیں کر سکتے لیکن ان کا سوال یہ نہیں ہو گا کہ گاؤں والے تم سے خوش ہیں یا ناراض ہیں؟ تم نے اچھا کام کیا یا برا کام کیا؟ اور کیا تو کیوں کیا؟

            یہ کیوں نہیں پوچھیں گے؟

            اس لئے کہ قضیہ کا فیصلہ کرنا ان کا فرض منصبی ہے۔ اس کام کے لئے تو انہیں جج کی کرسی پر فائز کیا گیا ہے اگر یہ سب وہ دوسروں سے پوچھنے لگیں تو ان کی ضرورت ہی کیا ہے؟

             ہاں یہ بھی صحیح ہے تو پھر وہ کیا پوچھیں گے؟

            رضیہ سوچنے لگی اسے ایک کے بعد ایک کئی فلمی مقدمے یاد آ گئے۔ اس نے کہا وہ پوچھیں گے کہ لوگوں نے کیا دیکھا؟ تم نے مکا مارا یا نہیں مارا۔ اس سوال کے جواب میں گاؤں والے کہیں گے تم نے مارا، بدمعاش مرگیا اور پھر اس کے بعد فیصلہ ہو جائے گا۔ یہ کہہ کر رضیہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

            غضنفر نے سمجھایا اری رضیہ تجھ کو تو فیصلے کا ایسا یقین ہے کہ جج صاحب کو بھی نہ ہو گا،

            یہ تمہیں کیسے پتہ؟

            سیدھی بات اگر انہیں یقین ہوتا تو براہِ راست فیصلہ سنا دیتے مقدمہ کیوں چلاتے۔ یہ مقدمہ ہے اور اس میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ایک کھیل ہے۔ فتح و شکست کا کھیل ہے، جس میں جیت بھی ہو سکتی ہے اور ہار بھی، اسی لئے تم نے سنا ہو گا کہ فلاں آدمی مقدمہ جیت گیا اور فلاں ہار گیا۔ تم نے تو بازی کے شروع ہونے سے قبل ہی ہار مان لی ہے۔

             رضیہ کچھ نہ بولی حوالدار نے کہا ملاقات کا وقت ختم ہو گیا۔ رضیہ نے اپنے ایک شانے پر احساسِ جرم کو رکھا اور دوسرے پر شکست کے احساس کو، بھائی سے اجازت لی اور گھر کی جانب چل پڑی۔

            غضنفر واپس آیا تو زور آور کو اپنے انتظار میں پایا۔ زور آور نے پوچھا کون تھا؟

            میری بہن رضیہ۔

            وہی رضیہ؟

            ہاں، وہی رضیہ۔

             یار غضنفر اس درمیان میں تمہارے بارے میں سوچ رہا تھا۔

             اچھا تو کیا سوچا تم نے؟

            یہی کہ ایک اچھا وکیل تمہیں رہا کروا سکتا ہے،

            جی ہاں لیکن وہ اچھا وکیل آئے گا کہاں سے؟

            اس بارے میں بھی میں نے سوچا ہے۔ جو وکیل دلاور کا مقدمہ لڑ رہ ہے مظفر فیصل اگر وہ تمہارا مقدمہ لڑے تو تمہیں آسانی سے بری کروا سکتا ہے۔

            چھوڑو یار جو وکیل دلاور کو نہیں چھڑا سکتا وہ مجھے کیا چھڑائے گا؟

             نہیں غضنفر ایسی بات نہیں، دلاور کا تنازعہ شہر کے ایک بارسوخ سیاستداں سے ہے جس کے پاس مظفر سے زیادہ تگڑا وکیل ہے لیکن تمہارے خلاف ہلاکو کے ورثا ء کہاں سے کوئی وکیل لائیں گے۔ اس مقدمہ میں مظفر کے سامنے سرکاری وکیل ہو گا جسے وہ بہ آسانی پچھاڑ دے گا؟

            کیا مطلب! سرکاری وکیل کیا وکیل نہیں ہوتے؟

            یہ کس نے کہا، وہ وکیل ضرور ہوتے ہیں لیکن سرکاری میرا مطلب سرکار کی طرح تھکے ماندے اور بدعنوان۔

             کیا مطلب؟

            میرا مطلب ہے نا اہل اور شکست خوردہ لوگ سرکاری وکیل بن جاتے ہیں تیز طرار آدمی خود کفیل ہوتا ہے، جو سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ کرتا ہے اور خوب روپئے کماتا ہے، سرکاری وکیل تو بس رسم کی ادائیگی کے لئے ہوتے ہیں۔

            غضنفر کی سمجھ میں بات آ گئی اس نے پوچھا لیکن میں مظفر کی فیس کہاں سے ادا کروں گا اور بغیر فیس کے وہ میرا مقدمہ کیوں لڑے گا؟

            اس بارے میں بھی میں نے غور کیا ہے۔

             وہ کیا؟

            یہ کہ اگر تم چاہو تو تمہاری ملاقات دلاور سے کرا دی جائے اگر وہ فیس ادا کرنے پر راضی ہو جائے تو مسئلہ حل۔

            بات معقول ہے لیکن وہ کیوں راضی ہو گا؟

             میرا خیال ہے زور آور بولا اس بارے میں دلاور سے بات کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اگر وہ تیار نہ بھی ہوا تو کوئی نقصان نہیں ہے لیکن یہ بھی تو ہو سکتا ہے وہ تمہاری فیس ادا کرنے پر راضی ہو جائے۔

            پھر یہ سوال کہ آخر وہ کیوں مجھ پر اپنے پیسے ضائع کرے؟

             چھوڑو کیوں کا چکر اگر تم کہو تو میں اس سے بات کروں؟

            ہاں ہاں ضرور بات کرواس میں پوچھنے کی کیا بات ہے۔

             ٹھیک ہے میں دلاور سے تمہارے بارے میں بات کروں گا۔

            ٹھیک ہے دونوں دوست اپنے اپنے بیرک کی جانب چل پڑے۔ زور آور نے غضنفر کے دل میں امید کی ایک مدھم سی شمع روشن کر دی تھی۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

            زور آور نے غضنفر کو بتلایا کہ کل شام دلاور بذات خود تم سے بات کرنا چاہتا ہے۔

            لیکن مقدمہ تو آج ہے؟

             آج ہے نہیں آج سے شروع ہے۔ کیا تم سمجھتے ہو آج ہی فیصلہ ہو جائے گا؟ اگر ایسا ہونے لگے تو وکیل حضرات بھوکے مر جائیں اور عدالتوں میں لاکھوں مقدمے فیصلے کے انتظار میں معلق نہ رہیں۔

             ٹھیک ہے تو پھر آج کیا ہو گا؟

            آج مظفر وکالت کے کاغذات داخل کر کے گا نئی تاریخ کی درخواستد ے گا۔

            کیا مجھے عدالت میں نہیں لے جایا جائے گا؟

            یقیناً لے جایا جائے گا اور یہ سب تمہارے سامنے ہو گا۔

             کچھ دیر بعد حوالدار نے غضنفر سے آ کر کہا آدھے گھنٹے بعد وہ صدر دروازے کے قریب عدالت جانے والوں کی قطار میں آ کر کھڑا ہو جائے۔ غضنفر نے سر ہلا دیا۔

            یہ پہلا موقع تھا جب غضنفر نے عدالت دیکھی تھی جیل اور پولیس تھانہ کا بھی اس کو کوئی تجربہ نہ تھا۔ در اصل اس نے اپنی زندگی میں دیکھا ہی کیا تھا مدرسہ گھر اور چوپال۔ اس کے علاوہ سب کچھ پہلی بار دیکھ رہا تھا۔ عدالت میں اس کے دوست و احباب اور اہل خانہ سب کے سب مایوس کھڑے تھے لیکن اچانک وہ سب خوشی سے اچھل پڑے جب مظفر فیصل نے اس کے کاغذاتِ وکالت داخل کئے۔ یہ خوشگوار جھٹکا تھا، زندگی کی طرح کھٹا میٹھا جس میں ایک طرف ملزم کے کٹہرے میں غضنفر کے موجود ہونے کا غم اور دوسری جانب اس کے دفاع میں مظفر کے کھڑے ہونے کی خوشی شامل تھی چونکہ یہ سب بالکل غیر متوقع طور پر ہوا تھا اس لئے امید نے اندیشہ پر فتح حاصل کر لی تھی۔

             غضنفر کے والد کو یقین ہو گیا کہ وہ رہا ہو جائے گا اگر ایسا نہ ہونا ہوتا تو مظفر فیصل کیوں اس کی وکالت کرتا؟ اس احساس کی کوئی توجیہ نہیں تھی، یہ در اصل وہ تنکا تھا جس کے سہارے وہ ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر میں اس وقت تک تیرنا چاہتے تھے جب تک کہ غضنفر بھنور میں غرقاب نہ ہو جائے۔ مظفر نے اپنے موکل سے تنہائی میں بات کرنے کی اجازت طلب کی اور اس سے صرف یہ کہا کہ وہ گناہ قبول کرنے سے انکار کر دے؟

            غضنفر نے پوچھا یہ کیسے ممکن ہے اگر جج صاحب ناراض ہو جائیں تو؟

            ارے بے وقوف تو لوگوں کی رضا مندی یا ناراضگی کا بکھیڑا کیوں کھول کر بیٹھ گیا۔ وہ جب تجھ سے پوچھیں گے گناہ قبول ہے۔ تو جواب دینا نہیں۔

             غضنفر نے کہا ٹھیک ہے۔

            ایسا ہی ہوا اس نے دل کڑا کر کے کہا جی نہیں اسے امید تھی کہ جج صاحب مدرسہ کے استاذ کی طرح اس پر برس پڑیں گے لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا انہوں نے نہایت متانت کے ساتھ ایک تاریخ لکھوا دی اورسماعت برخواست ہو گئی۔ پولیس اسے پکڑ کر اپنی گاڑی میں لے گئی۔ اس کے گھر والوں نے مظفر فیصل کا بہت شکریہ ادا کیا۔ ڈھیر ساری دعائیں دیں اور زندگی کی اک ننھی سی کرن کو سینے میں بسائے گھر لوٹ گئے۔ منظر بدل چکا تھا یاس کے بادل چھٹنے لگے تھے اور امید کا سورج طلوع ہو رہا تھا۔

            زورآور جب غضنفر کو لے کر دلاور کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس کی مالش چل رہی تھی وہ زمین پر چت لیٹا ہوا تھا اور دو آدمی اس کے بدن کو مسل رہے تھے۔ دونوں نے سلام کیا اور ایک طرف بیٹھ گئے کچھ دیر بعد جب مالش ختم ہوئی تو وہ بھینسے کی طرح کھڑا ہو گیا اور حمام کی جانب چل پڑا۔ حمام میں اس کے دھلے ہوئے کپڑے۔ تولیہ، صابن، شیمپو سب کچھ تیار تھا۔ غسل کر کے اس نے تازہ کپڑے پہنے اور بال سنوارتا ہوا واپس آ کر بیٹھ گیا۔ جیل کا یہ شاندار کمرہ دلاور کے لئے مختص تھا۔ اس کے بیٹھتے ہی چائے کے تین پیالے حاضر کر دیئے گئے۔ پھر اس نے دیگر لوگوں کو جانے کا حکم دیا اور تخلیہ ہو گیا۔

            دلاور نے پوچھا تم عدالت گئے تھے؟            

            جی ہاں۔

            کیسا رہا؟

            اچھا رہا۔ آپ کے احسانات سے سب کچھ ٹھیک ہو گیا۔

            ابھی ہوا ہی کیا ہے؟ بس ابتدا ہے آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ میں تمہیں اس مقدمہ سے چھڑوا سکتا ہوں بشرط یہ کہ؟! ! دلاور رک گیا

             غضنفر نے پوچھا کیا شرط ہے سردار؟

            شرط یہ ہے کہ رہا ہونے کے بعد تم اپنی بہن رضیہ کی شادی مجھ سے کر دو گے

             اس سوال پر غضنفر چکرا گیا۔ سردار بات یہ ہے۔

            دلاور نے ٹوکا دیکھو ایسی کوئی جلدی نہیں ہے اگلی تاریخ دو ہفتہ بعد ہے میری جانب سے کوئی زور زبردستی نہیں ہے تم اپنا فیصلہ اگلی سماعت سے پہلے مجھے بتلا دینا۔ میں ظفر فیصل کو بتلا دوں گا۔

            دلاور کی تجویز سے غضنفر کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا یہ کیا مصیبت ہے آسمان سے گرا تو کھجور میں اٹکا۔ اب وہ کیا کرے ایک بار تو اس کا جی چاہا کہہ دے کہ نہیں میں ایسا خود غرض نہیں ہوں کہ اپنی رہائی کے لئے اپنی بہن کو سولی چڑھا دوں۔ میں رضیہ کو عمر قید کی سزا نہیں دے سکتا مجھے یہ تجویز منظور نہیں ہے۔

             اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا زورآور بولا دیکھو اپنے والد صاحب سے بات کر لو وہ بہتر راہ سجھائیں گے۔

            غضنفر نے حامی بھری اور اجازت طلب کی۔ شکریہ ادا کرنا چاہتا تھا لیکن نہیں کر سکا۔ اس تجویز نے دلاور کے احسانات پر خود غرضی کی دبیز چادر ڈال دی تھی مگر پھر بھی حرص وہوس کے کالے ناگ صاف دکھائی دیتے تھے۔

            غضنفر کی غیرت گوارہ نہیں کر رہی تھی کہ یہ بات کرنے کے لئے والد صاحب کو خاص طور پر بلوائے زورآور کا اصرار بڑھتا جاتا تھا ا سی ادھیڑ بن میں تین دن گذر گئے۔ چوتھے روز از خود اس کے والد اس سے ملنے آئے تولد کڑا کر کے اس نے ان کے سامنے دلاور کی تجویز بیان کر دی وہ اس بات کی لئے تیار تھا کہ والد اس پر برس پڑیں لیکن اس کی توقعات کے برعکس وا لدنے کسی ناراضگی کا اظہار نہیں کیا بلکہ اس نامعقول تجویز پر فوراً راضی ہو گئے۔                    انہوں نے کہا بیٹے فی الحال ہمارے سامنے سب سے اہم مسئلہ تمہیں موت کے چنگل سے چھڑانا ہے اور ویسے بھی رضیہ کی عمر کافی ہو گئی ہے۔ ایسے میں کسی مناسب رشتہ کی امید کم ہے۔ دلاور کا پس منظر تھوڑا سا مجرمانہ ضرور ہے لیکن اپنے علاقہ میں اس کا کافی دبدبہ ہے اس کے گھر میں ہماری بیٹی نہ صرف خوشحال بلکہ محفوظ و مامون بھی رہے گی۔ کسی کی مجال نہ ہو گی کہ اس کی جانب نظر اٹھا کر دیکھے۔

            یہ دلائل غضنفر کی عقل سے بالا تر تھے۔ اس نے والد صاحب سے کہا شاید آپ جلد بازی میں یہ فیصلہ کر رہے ہیں، میرے موت کے خوف نے آپ کے اعصاب کو شل کر دیا ہے۔ آپ ٹھنڈے دل سے غور کریں اور مناسب ہو تو امی اور رضیہ سے بھی مشورہ کر لیں۔

            بیٹے تمہارا خیال غلط ہے ہمارے یہاں اس طرح کے فیصلے خواتین کے مشورے سے نہیں ہوتے بلکہ یہ مردوں کے کرنے کا کام ہے۔ اگر تمہیں دلاور سے بات کرنے میں تکلف ہو تو میں بات کروں۔

            غضنفر زچ ہو گیا اس نے کہا آپ زحمت نہ کریں میں زورآور کے توسط سے ہماری رضامندی اس تک پہنچا دوں گا۔

             دلاور اس پیغام کو سن کر باغ باغ ہو گیا۔ اس نے مظفر فیصل کو خبر بھجوا دی کہ ہر قیمت پر غضنفر چھڑا لیا جائے۔ اس معاملے میں اخراجات کی چنداں فکر نہ کی جائے۔

            غضنفر کا مقدمہ مختلف مراحل سے گذرتا ہو بالآخر فیصلہ کن مرحلہ میں پہنچا اور گواہوں کی پیشی کا وقت آ گیا اس بیچ مظفر نے خوب جم کر تیاری کر لی تھی اس نے نہ صرف ہلاکو خان کا کچا چٹھا جمع کر لیا تھا بلکہ ایک ایک گواہ کے متعلق ساری معلومات اس کے پاس تھی نیز اپنے دلائل کو خوب اچھی طرح سے منظم کر چکا تھا۔

            پہلا گواہ جب کٹہرے میں کھڑا ہوا تو کافی گھبرا یا ہوا تھا وہ اپنے گاؤں سے باہر پہلی بار نکلا تھا۔ ایسی بھیڑ بھاڑ اور چہل پہل اس نے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ مظفر نے اس سے بڑے رعب دار انداز میں پوچھا اس روز موقع واردات پر تم موجود تھے؟

            اس نے لجاجت سے کہا جی ہاں سرکار۔

            دیکھو سوچ لو؟

            وہ گھبرا گیا اسے لگا کہیں عدالت اسی کو سزا نہ دے دے اس نے کہا جی ہاں سرکار میں وہاں تھا۔

             اچھا تو تم نے کیا دیکھا؟ غضنفر نے دھکا دیا یاگھونسہ مارا۔ بولو بولو جلدی بولو تم نے کیا دیکھا۔

             سرکار مجھے یاد نہیں در اصل میں نے ٹھیک سے نہیں دیکھا

            اچھا تو پھر یہاں گواہی دینے کیوں چلے آئے؟

             سرکار پولیس لے کر آئی ہے اس لئے ہم آ گئے۔

            مظفر نے جج صاحب کو مخاطب کر کے کہا دیکھا آپ نے پولیس ایسے لوگوں کو پکڑ کر لے آئی ہے جنہوں نے ٹھیک سے دیکھا بھی نہیں کہ وہاں کیا ہوا تھا۔ اس لئے میں عدالت سے درخواست کرتا ہوں کہ اس کی گواہی کو رد کر دیا جائے۔

            جج صاحب نے دوسرے گواہ کو بلانے کا حکم دیا دوسرا ذرا سنبھل کر آیا مظفر نے اس کے سامنے بھی وہی سوال دوہرایا

            گواہ بولا صاحب غضنفر نے دھکا بھی دیا اور مکا ّبھی مارا۔

             اچھا بہت خوب تو اس نے پہلے دھکا دیا یا پہلے گھونسا مارا؟

            وہ ایک لمحہ کی لئے رکا اور پھر کہا صاحب پہلے مکا مارا اور پھر دھکا دیا

            بہت خوب پولیس کی رپورٹ کے مطابق مکا مارنے سے اس کی موت واقع ہوئی ہے اگر ایسا ہے تو جو مکا کھا کر مر جائے وہ اپنے آپ گر جائے گا اسے دھکا دینے کی کیا ضرورت؟ یہ گواہ یا تو جانتا نہیں ہے یا جھوٹ بول رہا ہے، اس لئے اس کی گواہی کو بھی قبول نہ کیا جائے۔

            جج صاحب نے تیسرے گواہ کو بلانے کا حکم دے دیا یہ تیسرا آدمی ہلاکو کا خاص بندہ تھا وہ بڑے رعب کے ساتھ آیا اس لئے کہ پہلے دو کا انجام دیکھ چکا تھا۔ مظفر نے وہی سوال کئے اس نے جواب دیا صاحب غضنفر نے پہلے دھکا مارا اور پھر اوپر سے مکا بھی مارا۔

            بہت خوب مظفر بولا پولس کی رپورٹ یہ بھی کہتی ہے کہ ہلاکو گرتے ہی مر گیا۔ اگر یہ رپورٹ صحیح ہے تو کسی مرے ہوئے آدمی کوگھونسامارنا چہ معنی دارد۔ اب یا تو پولس کی رپورٹ صحیح ہے یا اس گواہ کا بیان یہ دونوں متضاد ہونے کے باعث صحیح نہیں ہو سکتے ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ دونوں غلط ہوں اس لئے کہ دو غلط چیزیں متضاد بھی ہو سکتی ہیں۔

            دلیل بجا تھی پولس کے پاس چوتھا گواہ موجود نہیں تھا۔ انہوں نے اس کی ضرورت ہی نہیں محسوس کی تھی۔

            سرکاری وکیل نے سوال کیا۔ معزز جج صاحب یہ عجیب معمہ ہے فاضل وکیل کے مطابق ہلا کو نہ تو غضنفر کے دھکے سے مرا اور نہ مکے سے تو آخر مرا کیسے؟

            مظفر نے فوراً اس سوال کو لپک لیا اور بولا محترم وکیل صاحب نے صحیح سوال اٹھا یا ہے کہ آخر ہلاکو کی موت کیسے واقع ہوئی؟ ان کے مطابق دنیا کا ہر شخص مرنے کیلئے دھکے یا مکے کا محتاج ہے اور اگر ایسا ہے تو میں عدالت کے توسط سے جاننا چاہتا ہوں کہ وہ خود ان میں سے کس کو اپنے لئے پسند کریں گے؟

            ظفر کے اس سوال سے ساری عدالت شگوفہ زار ہو گئی۔ سرکاری وکیل نے اعتراض کیا اور کہا وکیل استغاثہ ایک سیدھے صاف قتل کے مقدمے کو بلا وجہ الجھا رہا ہے۔

            ظفر نے سرکاری وکیل سے معذرت طلب کی عدالت سے ہلاکو کی وہ طبی رپورٹ کو ثبوت کے طور پر پیش کرنے کی اجازت چاہی، جس کے مطابق ٹی بی کے مرض نے ہلا کو کو بالکل کھوکھلا کر دیا تھا اور سرکاری معالج کو پیش کر دیا جس کے مطابق وہ محض چند دنوں کا مہمان تھا۔

            سرکاری طبیب نے تصدیق کر دی کہ ہلاکو لمبے عرصہ سے زیر علاج تھا اورسگریٹ نوشی نیز دیگر منشیات کے معاملہ میں احتیاط نہ کرنے کے باعث اس کی بیماری خطرناک مرحلہ میں داخل ہو چکی تھی اور موت سے ایک ہفتہ قبل ہسپتال کے کئی ڈاکٹروں کی متفقہ رائے تھی کہ وہ زیادہ دن جی نہ سکے گا۔

            مظفر نے کہا سنا آپ نے در اصل اتفاق کی بات یہ ہے کہ اس نے اپنے آخری وقت میں غضنفر کی بہن رضیہ کا دوپٹہ چھینا اگر غضنفر کو پتہ ہوتا کہ وہ چند لمحوں میں مرنے والا ہے تو وہ اپنے آپ کو روک لیتا اور اس کی لاش کے ہاتھ کے سے اپنی بہن کا آنچل لے کر اسے اوڑھا دیتا لیکن صاحب موت کا وقت کوئی اور تو کیا انسان خود بھی نہیں جانتا اگر ہلاکو کو یہ پتہ ہوتا تو شاید وہ بھی اس مذ موم حرکت سے اپنے آپ کو باز رکھتا۔ خیر جو ہوا سو ہوا میرے مؤکل نے اس سے اپنی بہن کی اوڑھنی چھینی اور اسی دوران یہ حادثہ ہو گیا۔

             سرکاری وکیل نے کہا لیکن غضنفر کو قانون ہاتھ میں لینے کی کیا ضرورت تھی اسے چاہئے تھا کہ اس کام کے لئے وہ پولس کی مدد لیتا۔

            جی ہاں یہ بھی صحیح ہے۔ ہلاکو کو اپنے کئے کی سزا دلانے کے لئے میرا مؤکل اپنی بہن کے ساتھ پولس تھانے جانا چاہتا تھا لیکن وہ بغیر دوپٹہ کے اپنی بہن کو بے پردہ پولس تھانے نہیں لے جا سکتا تھا اس لئے اس نے دوپٹہ چھینا اور چھینا جھپٹی کے دوران ہلاکو کی موت کا وقت آ گیا۔ میں عدالت سے سوال کرتا ہوں کہ کیا اپنی بہن کی عزت و عفت کی خاطر اس کا چھینا ہوا دوپٹہ واپس لینے کی کوشش کرنا قانون کو ہاتھ میں لینے کے مترادف ہے؟

            جج صاحب بولے آپ اپنی جرح جاری رکھیں۔

            مظفر نے بات آگے بڑھائی میں سمجھتا ہوں دوپٹہ واپس لینا قانون کو ہاتھ میں لینا نہیں ہے۔ کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ حالات اس طرح کا پلٹا کھائیں گے اسی لئے پولس کا محکمہ بھی دھوکہ کھا گیا اور میرے مؤکل پر قتل کا الزام لگا دیا لیکن اپنے دعویٰ کی دلیل کے طور پر کوئی ٹھوس ثبوت نہ فراہم کر سکا۔ جبکہ اس الزام کے خلاف عدالت میں ثبوت پیش کر دیا گیا ہے اس لئے میں عدالت سے گذارش کرتا ہوں کہ غضنفر کو با عزت بری کر دیا جائے۔

            مقدمہ کچھ اس انداز میں لڑا گیا کہ جج صاحب کے لئے کوئی چارۂ کار نہیں تھا، غضنفر کو لگا کہ اس کی رہائی کا وقت آ گیا اس نے دیکھا جج صاحب کے ہونٹوں میں جنبش ہوا چاہتی ہے۔ وہ اپنی رہائی کا تازیانہ سننے کی خاطر ہمہ تن گوش ہو گیا، لیکن جج صاحب نے صرف یہ کہا ’’ہم اپنا فیصلہ محفوظ رکھتے ہیں اگلے دن انشاء اللہ یہ فیصلہ سنا دیا جائے گا‘‘۔

            اسی کے ساتھ عدالت برخواست ہو گئی۔ چاروں طرف سناٹا چھا گیا لیکن امید کی شعاعیں عدالت کو منور کر رہی تھیں، سارے لوگوں کو یقین ہو چکا تھا کہ قید و بند کی یہ آخری رات ہے کل کا سورج رہائی کا پیغام لائے گا۔

            غضنفر جیل کے ساتھیوں سے اس طرح مل رہا تھا جیسے وداع ہو رہا ہو، ہر کوئی اسے حسرت بھری مبارکباد دے رہا تھا اس بیچ زور آور آ پہنچا اور بولا دلاور اس سے ملاقات کرنا چاہتا ہے۔ غضنفر سیدھے دلاور کے حکم کی بجا آوری میں پہنچ گیا جو اس کا انتظار کر رہا تھا۔ خیریت و عافیت کے بعد دلاور بولا دیکھو غضنفر ممکن ہے کل تم رہا ہو جاؤ۔

            غضنفر کو امکانی جملہ پسند نہیں آیا وہ تو اب یقین کی منزل میں داخل ہو چکا تھا، خیر دلاور نے بات آگے بڑھا ئی اس نے کہا عدالت کا فیصلہ جب تک ہمارے حق میں نہ ہو جائے تب تک امکانی ہی ہوتا ہے۔ اور ہمارے ساتھ تو یہ بھی ہوتا ہے کہ ہم لوگ کبھی کبھار ایک مقدمے سے رہا ہوتے ہیں اور دوسرے میں گرفتار کر لئے جاتے ہیں۔ عدالت سے گھر تک جانا نصیب نہیں ہوتا۔

            یہ سن کر غضنفر کو بے ساختہ اپنی بہن رضیہ کا خیال آیا اس بیچاری قسمت کی ماری کو کیسے شخص سے بیاہا جانا تھاجس کی زندگی حوالات کے ارد گرد محو گردش رہتی تھی۔ دلاور بول رہا تھا لیکن تمہارے ساتھ شاید ایسا نہ ہو ہمارے تو کئی معاملات ہوتے ہیں تم تو بس ایک معاملے میں پھنس گئے تھے۔ وہ ختم تو سب ختم۔

            جی ہاں زور آور بولا۔

            لیکن غضنفر یہاں سے نکل جانے کے بعد تم اپنا وعدہ بھول تو نہیں جاؤ گے۔

            کیا مطلب؟

            کہیں تم رضیہ کے بیاہ کی بات ابھی سے تو نہیں بھول گئے؟ دلاور بولا۔

            نہیں۔ جی نہیں۔ غضنفر نے جواب دیا۔

             بہت خوب دیکھو اگر تم بھول بھی گئے تو ہم نہیں بھو لتے۔ ہماری دنیا میں گو کہ عدالت نہیں ہوتی آنکھوں کا اندھا قاضی شہر نہیں ہوتا، کالے کوٹ والے وکیل نہیں ہوتے جو ہر سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ میں بدل دیتے ہیں، مگر انصاف ضرور ہوتا ہے۔ وہاں براہ راست فیصلہ اور اس پر عمل درآمد کرنے والے جلاد ہوتے ہیں۔ اس لئے ہوشیار رہنا ہماری زیر زمیں دنیا اس باہر کی دنیا سے یکسر مختلف ہے جو زمین کے اوپر رینگتی پھرتی ہے۔ بس یہی بتانے کے لئے میں نے تمہیں بلایا تھا اب تم جا سکتے ہو۔

            غضنفر اپنی جگہ سے اٹھا اور سر ہلاتا ہوا دروازے کی جانب بڑھا اس پوری گفتگو کے دوران اس کے کان لفظ مبارکباد کو تر ستے رہے۔ شاید زیر زمیں دنیا میں اس طرح کے الفاظ کا استعمال متروک ہو یا اس جیسے کمینے انسان کے لئے جس نے اپنی جان بچانے کے لئے اپنی بہن کی زندگی کا سودا کر دیا تھا۔ اس طرح کے الفاظ زیب نہ دیتے ہوں۔

            غضنفر نے سوچا وہ تو خیر سے زمین پر رہنے بسنے والے لوگ اس سودے بازی سے واقف نہیں ہیں ورنہ کوئی بھی اسے مبارکباد نہ دیتا۔ انہیں خیالات میں الجھا ہوا وہ اپنے بیرک میں آیا ا س کی خوشیاں اچانک اس سے چھن چکی تھیں۔ وہ احساس جرم کے ایک دلدل میں دھنسا جا رہا تھا۔ اس کی رہائی ایک عذاب جان بن گئی تھی۔ وہ اپنے آپ کو کوس رہا تھا کاش کہ وہ دلاور کی بات نہ مانتا۔ کاش کہ وہ سولی پر چڑھ جاتا یہ سوچتا ہوا وہ سو گیا۔

            اس رات غضنفر نے ایک بھیانک خواب دیکھا وہ عجیب و غریب مناظر دیکھ رہا تھا۔ وہ دیکھ رہا تھا کہ اندھیری رات کا آخری پہر ہے، وہ سفید لباس میں ملبوس ہے۔ لباس بھی ایسا کہ جسے سلا نہ گیا تھا گویا وہ اس میں لپٹا ہوا ہے۔ اس کے دونوں کاندھوں کو دو لوگوں نے پکڑ رکھا ہے جو کالا لباس زیب تن کئے ہوئے ہیں۔ سیاہ رات کے یہ کالے ہم سفر اسے اپنے ساتھ لئے جا رہے ہیں اور وہ با دلِ ناخواستہ ان کے ہمراہ گھسٹ رہا ہے۔

             راستہ اور رات دونوں طویل ہوتے جا رہے ہیں، نہ صبح نمودار ہوتی ہے اور نہ منزل سامنے آتی ہے لیکن اس کا حال یہ ہے کہ وہ خود بھی نہیں چاہتا کہ راستہ ختم ہو اور منزل اس کے قدم چومے۔ یہ کیسا سفر ہے کہ مسافر منزل کے بجائے راستہ پر فریفتہ ہے؟ بالکل دنیا کی طرح جہاں انسان زندگی بھر تاریک گلیوں میں اپنا سفر سیاہ رات کے باوجود جاری رکھتا ہے مگر پھر بھی صبح کے نور سے آنکھیں چراتا رہتا ہے۔

             جب افق کا اندھیرا سرخی میں بدلنے لگا تواسے محسوس ہوا گویا کسی نے اس کا خون نچوڑ کر آسمان پر اچھال دیا ہے۔ آسمان پر لہو کی سرخی ہے اور زمین پر لکڑی کا تخت درمیان میں وہ کھڑا ہے۔ اس کے قدم زمین پر ہیں اور اس کے آگے آسمان سے ایک رسی لٹکی ہوئی ہے۔ اس کے اور رسی کے درمیان فاصلہ بتدریج کم ہوتا جاتا ہے جیسے جیسے آسمان کی سرخی بڑھتی جاتی ہے پھندے اور اس کے درمیان کی دوریاں سمٹتی جاتی ہیں اور جب یہ فاصلہ ختم ہو جاتا ہے تو اس کے ہم سفر ایک سیاہ ٹوپی اس کے چہرے پر ڈال دیتے ہیں یہ کس قدر خوفناک منظر ہے جس میں شاہد و مشہود دونوں ایک ہیں دیکھنے اور دیکھے جانے والے کا فرق مٹ چکا ہے لیکن اب شاہد کی نظروں سے مشہود کا چہرہ اوجھل ہو گیا ہے۔

            در اصل اس لباس میں چہرہ ہی تو اس کی شناخت تھا۔ اس کے بغیر تو وہ صرف سفید کپڑوں میں لپٹا جسد خاکی تھا اگر چہرہ نہ ہوتا تو اسے احساس ہی نہ ہوتا کہ وہ خود اپنے آپ کو دیکھ رہا ہے۔ لیکن اب وہ جانا پہچانا چہرہ چھپ چکا تھا۔ صبح کی پہلی کرن نمودار ہوئی کھٹ کی آواز کے سا تھ زمین کھسک گئی۔ اس کے اور زمین کے درمیان خلاء پیدا ہو گیا۔ اس وقت تک آسمان سے لٹکی ہوئی رسی کا پھندا اس کی گردن سے لپٹ چکا تھا وہ زمین میں دھنسنے کے بجائے آسمان سے لٹک گیا تھا اس طرح نہ جانے کتنی صدیاں بیت گئیں۔

             چند لمحوں کیلئے سورج ٹھہر گیا تھا لیکن زیادہ دیرسورج اپنے آپ کو نہ روک سکا۔ اس میں دوبارہ جنبش ہوئی اس کے ساتھی چہرے کی ٹوپی ہٹا رہے تھے اور اس نے دیکھا کہ رضیہ کی لاش پھانسی پر لٹک رہی ہے۔ یہ لاش نہ جانے کب تک یونہی جھولتی رہی یہاں تک کہ وہ جیل سے رہا ہو کر گھر پہنچ گیا۔

            غضنفر کے گھر میں تو کیاسارے گاؤں میں عید کا سماں تھا۔ لوگوں کے لئے دو خوشیاں تھیں۔ ہلاکو سے نجات کی مسرت اور اس سے بڑھ کر غضنفر کے رہا ہونے کی خوشی لیکن غضنفر کی آنکھوں میں وہ خواب منڈلا رہا تھا جو گزشتہ رات اس نے دیکھا تھا۔ وہ بار بار چاہتا تھا کہ اسے اپنے پلکوں سے جھٹک دے لیکن وہ تو کانٹے کی مانند اس کی آنکھوں میں پیوست تھا۔

            غضنفر کو محسوس ہوا کہ اگر وہ زیادہ کوشش کرے گا تو اپنی بینائی گنوا دے گا۔ بلکہ اگر اس کے دیدے نکال پھینک دئیے جائیں تب بھی وہ کانٹا اس میں چبھا رہے گا۔ اس دائمی کرب سے اب شاید کسی صورت نجات نہیں ملے گی۔ یہ ایک عجیب و غریب ماحول تھا کہ جس کے باعث سارے لوگ خوشی وانبساط سے سر شار تھے وہ خود غمگین تھا۔ اس لئے کہ دوسرے ان پوشیدہ اسرارسے ناواقف تھے جن کو وہ جانتا تھا۔ ایک کرب آگہی نے غضنفر کو رنجیدہ کر رکھا تھا دیگر لوگ چونکہ اس سے نا آشنا تھے اسلئے خوش و خرم تھے۔

            رہائی سے قبل غضنفر اور اس کے خاندان کے سامنے قید و بند کی مصیبت ہمالیہ پربت کی طرح تھی لیکن جیسے جیسے دن گذرتے گئے برف پگھلتی گئی اور جب وہ پہاڑ چٹیل میدان بن گیا تو کے آس پاس پائے جانے والے ننھے منے ٹیلے اور پہاڑ جو ہمالیہ کی اونچائی میں چھپ گئے تھے اپنا سر ابھارنے لگے۔ انسانی مصائب بھی ایک دوسرے کی مناسبت سے ناپے جاتے ہیں۔ جب بڑی مشکل غائب ہو جاتی ہے تو چھوٹی مشکلات بڑی لگنے لگتی ہیں۔ ابن آدم کی زنبیل کبھی بھی چھوٹی بڑی مشکلات سے خالی نہیں ہوتی۔

             رضیہ کا نکاح خاندان کے اندرونی حلقہ میں ماں باپ اور بیٹے کے درمیان بحث کا موضوع بن گیا وہ لوگ بار بار اس مصیبت سے نجات پر گفتگو کرنے لگے آخر ایک حل نکالا گیا۔ غضنفر دلاور کی رہائی سے قبل خلیج کے کسی ملک میں ملازمت کی خاطر نکل جائے اور اس سے پہلے رضیہ کا نکاح کسی مناسب نوجوان سے کر دیا جائے۔ ان لوگوں کا قیاس تھا کہ دلاور کو جب پتہ چلے گا رضیہ کسی اور کے نکاح میں ہے تو وہ رضیہ کو بھول کر غضنفر کو تلاش کرے گا جو سات سمندر پار  جا چکا ہو گا۔ اس طرح سبھی مسائل حل ہو جائیں گے۔

            اس حل میں مشکل یہ تھی کہ غضنفر خلیج میں جا کر کرے گا کیا؟ اس سوال کا بھی جواب ڈھونڈ لیا گیا وہ اپنے چچا کی طرح گاڑی چلائے گا۔ اب غضنفر کے سامنے ہدف یہ تھا کہ جلد از جلد گاڑی چلانا سیکھ لے اور اپنا ہاتھ صاف کر کے نکل جائے۔

             اس کے والد نے غضنفر کا ویزا حاصل کرنے کے لئے اپنے گھر کو رہن رکھ کر روپئے جٹائے۔ ماں نے دور کے رشتہ میں ایک نوجوان یوسف سے رضیہ کا نکاح طے کر دیا اور سب کچھ منصوبے کے مطابق ہو گیا۔ رضیہ کی شادی ہو گئی اور غضنفر ابو ظبی پہنچ گیا۔                         دلاور جب رہا ہوا تو اسے غضنفر کی دغا بازی کا علم ہوا اس نے زور آور سے کہا دیکھو غضنفر جب بھی واپس آئے گا اپنے گھر نہیں جائے گا۔ اس نامراد کو ہمارے پاس پہنچا دیا جائے گا کیا سمجھے؟

            زور آور نے زبان اور سردونوں کو ہلا کر زوردار تائید کی اور دلاور کے چلے جانے کے بعد تک سر ہلاتا رہا اسے ڈر تھا کہ کہیں غضنفر کی غداری کی سزا دلاور اس کو نہ دے ڈالے۔ خیر وہ پہلی سزا سے تو بچ گیا تھا لیکن اس نئے حکم کی تعمیل میں  کمی بیشی یقیناً اس کے سر کو تن سے جدا کر سکتی تھی اس لئے اس نے ایسے انتظامات کر دیئے کہ غضنفر کی آمد کی اطلاع اسے حاصل ہو جائے اور وہ اپنے آقا کے حکم کی بجا آوری کر سکے۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

            دن ہفتوں اور مہینے سالوں میں بدل رہے تھے وقت کے ساتھ دلاور خان کا خوف غضنفر کے گھر والوں کے دل سے محو ہو چکا تھا۔ غضنفر بھی محسوس کر رہا تھا کہ اسے ابو ظبی آئے ہوئے پانچ سال کا طویل عرصہ گذر چکا ہے۔ اس درمیان اس کا چھوٹا بھائی اسکول کی تعلیم مکمل کر کے کالج جانے لگا ہے۔ منجھلی بہن کی شادی ہو چکی ہے اور سب سے چھوٹی دلشاد کی شادی تیاری کے مراحل میں داخل ہو گئی۔

             ماں خود غضنفر کے ہاتھ بھی اس موقع سے پیلے کر دینا چاہتی تھی۔ اگر شادی نہ سہی تو کم از کم سگائی کرنا ضروری ہو گیا تھا۔ ماں نے اپنی بہو کے طور پر شہر بانو کا انتخاب کر لیا تھا اور خاندانی روایت کے مطابق غضنفر سے پوچھے بغیرسب کچھ طے کر دیا تھا غضنفر کوتو واپس آ کر صرف رسماً حامی بھرنی تھی گھر والوں کے اصرار اور دباؤ میں دن بدن اضافہ ہو رہا تھا۔

            غضنفر نے جب سے وطن و اپسی کا ارادہ کیا تھا اس کی کیفیت یکسر بدل گئی تھی وہ ساری کائنات کو اپنی مٹھی میں بند کر کے اپنے ساتھ لے جانا چاہتا تھا۔ کسی دوکان پر تسبیح کو لٹکا ہوا دیکھتا تو اسے اپنے والد صاحب کا خیال آ جاتا۔ خواتین کے کپڑوں کی دوکان کے پاس سے گذرتا تو ماں یاد آ جاتی۔ چوڑیوں کی دوکان کے سامنے پہنچتا تو رضیہ اور زیورات کے شوروم کے پاس چھوٹی بہن دلشاد مسکراتی ہوئی دکھائی دیتی۔

             عینک اور جو توں کی دوکان سے اس نے اپنے بھائی کے لئے ریبان کی دھوپ کی عینک اور’ ادی داس‘ کے جوتے خرید لئے ان اشیاء کو اس نے خود اپنے لئے کبھی نہیں خریدا تھا لیکن اس کا بھائی اسے اپنی ذات سے زیادہ عزیز تھا۔ ایک دن مہندی کی دوکان کے شیشے پر لگے ہاتھ اس نے دیکھے تو اسے لگا یہ شہر بانو کے ہاتھ ہیں وہ ہاتھ جنہیں اس نے کبھی دیکھا نہ تھا لیکن وہ ہاتھ جنہیں وہ مہندی سے سجا دیکھنا چاہتا تھا اس لئے اس کے دل میں خواہش ہوئی مہندی کی ساری دوکان خرید ڈالے لیکن پھر سوچا کہ گھر والے کیا سوچیں گے؟

             بہر حال اسی طرح دیکھتے دکھاتے۔ خرید و فروخت کرتے کراتے اس کی واپسی کی تاریخ آ گئی اور دوسری مرتبہ وہ ہوائی جہاز میں سوار ہو گیا لیکن اس بار واقعی وہ ہواؤں اور فضاؤں میں تھا۔ تین گھنٹہ کا وقفہ نہ جانے کب بیت گیا اور اب وہ پاورش ہوائی اڈے سے باہر آ رہا تھا۔ اس روز ہوائی اڈے کے دروازے پر صرف ایک ٹیکسی کھڑی تھی۔ کسی ٹیکسی کو وہاں کھڑے رہنے کی اجازت نہیں تھی اور وہاں موجودہ ٹیکسی ڈرائیور کسی مسافر کو اپنی گاڑی میں بیٹھنے نہ دیتا تھا سب کو دور کھڑی ٹیکسیوں کی جانب اشارے سے بڑھا دیتا تھا۔

             اس بیچ غضنفر ٹرالی پر سامان سے لدا پھندا نمودار ہوا۔ ٹیکسی ڈرائیور نے لپک کر ٹرالی اپنے ہاتھ میں لے لی اور گاڑی کا دروازہ کھول دیا۔ نیز اپنے ہاتھوں سے سارا سامان گاڑی میں رکھنے لگا غضنفر آخری سامان کے رکھے جانے تک گاڑی سے باہر کھڑا رہا اور پھر عقبی نشست پر بیٹھ گیا اس لئے کہ آگے ایک اور شخص بیٹھا ہوا تھا۔ غضنفر نے سلام کیا۔

            گاڑی چل پڑی تو آگے سے جواب ملا ’وعلیکم السلام‘

            یہ آواز جانی پہچانی تھی وہ دماغ پر زور ڈالنے لگا اور اندرسے جواب آیا زور آور۔

            اس نے حیرت سے کہا زور آور؟؟؟

            پھر سے جواب ملا ہاں غضنفر تم نے صحیح پہچانا میں زور آور ہی ہوں

            اوہو یہ کیا حسن اتفاق ہے یار کہ میں پانچ سال بعد لوٹ رہا ہوں اور میری سب سے پہلی ملاقات اپنے اس عظیم ترین محسن سے ہو رہی ہے جس نے میری جان بچائی تھی۔ زور آور تو نہ پوچھ کہ آج میں کتنا خوش ہوں اور تو نے اچھا کیا جو ٹیکسی کا کاروبار شروع کر دیا میرا مطلب ہے دلاور کا ساتھ چھوڑ دیا۔

            زور آور نے بھرائی آواز میں کہا غضنفر میں دلاور ہی کی ٹیکسی چلاتا ہوں اور یہ دلاور کی ٹیکسی ہے۔

            اچھا غضنفر کے ہوش اڑ گئے اس نے دیکھا ٹیکسی بس اڈے کے بجائے جہاں سے اسے اپنے گاؤں جانا تھا کسی اور طرف جا رہی ہے۔ اس نے کہا یار زور آور وہ تو ٹھیک ہے لیکن یہ ٹیکسی آخر جا کہاں رہی ہے؟ مجھے تو بس اڈے جانا ہے تا کہ وہاں سے اپنے گاؤں اپنے گھر جا سکوں۔

            زور آور نے کہا تجھے کہاں جانا ہے یہ میں نہیں جانتا اور جاننا بھی نہیں چاہتا۔ میں تو یہ جانتا ہوں کہ مجھے تجھ کو کہاں لے جانا ہے۔

            کیا مطلب؟

             یہ گاڑی بس اڈے نہیں دلاور کے ڈیرے پر جائے گی تو اپنے گھر سے پہلے اس کے گھر جائے گا

            اور اس کے بعد؟ غضنفر نے پوچھا

            اس کے بعد کیا ہو گا میں نہیں جانتا۔ اور جاننا بھی نہیں چاہتا۔

             ارے چھوڑ یار میں پانچ سال بعد آ رہا ہوں پہلے مجھے اپنے گھر جانے دے۔ اپنے اہل خانہ سے ملنے کے بعد میں وعدہ کرتا ہوں کہ کل بذات خود دلاور کے گھر حاضر ہو جاؤں گا۔

            زور آور بولا ہمارے پیشہ میں اعتبار بار بار نہیں صرف ایک بار کیا جاتا ہے اور جو غداری کرے اس کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جاتا ہے لیکن تو اس معاملے میں استثنائی ہے۔ تجھے دلاور نے مارنے کے بجائے زندہ حاضر کرنے کا حکم دیا۔ اس نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر تو گڑبڑ کرے گا تو وہیں ڈھیر کر دیا جائے۔

            غضنفر کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا اس کے سارے خواب چکنا چور ہو گئے اور پھر وہی خواب نمودار ہو گیا وہ دو سیاہ لباس میں ملبوس پہرے دارا ور سفید لباس میں لپٹا ہوا گھسٹتا ہوا جسم، وہ تختہ، وہ رسی، وہ پھندا، وہ ادلتا بدلتا چہرہ، کبھی رضیہ کبھی غضنفر ، لیکن آہستہ آہستہ چہروں کا بدلنا بند ہو گیا اب صرف ایک چہرہ تھا۔۔۔ غ۔۔۔۔ ض۔۔۔۔ ن۔۔۔ ف۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ر

            گاڑی رکی توسامنے دلاور خان کی کوٹھی تھی وہ بوجھل قدموں سے صدر دروازے کی جانب بڑھا سامنے صوفے پر دلاور خان براجمان تھا۔ پچھلے پانچ سالوں نے دلاور کی عمر میں پچاس سال کا اضافہ کر دیا تھا وہ نہایت ہی نحیف اور کمزور نظر آ رہا تھا۔ اسے دیکھتے ہی غضنفر کو ہلاکو کا خیال آ گیا اس نے سوچا کیوں نہ ایک گھونسے میں اس کا بھی کام تمام کر دیا جائے لیکن اگر ایسا ہوا تو اب کی بار اس کو پھانسی کے پھندے سے کون بچائے گا؟

             پانچ سالوں کی عیش کوشی نے غضنفر کو خاصہ بزدل بنا دیا تھا غضنفر کے اعصاب شل ہو رہے تھے اس نے جھک کر سلام کیا تو دلاور نے بے اعتنائی کے ساتھ جواب دیا اور اس کے بعد زور آور سے کہا جاؤ دروازے پر نظر رکھو زور آور واپس چلا گیا۔ کمرے میں صرف دو لوگ تھے۔ دلاور نے پوچھا تمہیں یاد ہے میں نے جیل کی آخری شب کو تم سے کیا کہا تھا؟

            جی ہاں سردار بالکل یاد ہے

             تو کیا اب تم مرنے کے لئے تیار ہو کر آئے ہو؟

            جی نہیں۔

             کیا؟

            جی جی ہاں سردار اب آپ جو چاہیں کریں میں نے غلطی کی ہے۔ میں اپنا جرم قبول کرتا ہوں لیکن آپ سے رحم کی درخواست بھی کرتا ہوں۔ میں زندہ رہنا چاہتا ہوں میں پہلے سے زیادہ چاہتا ہوں کہ زندہ رہوں۔

            اچھا دنیا کی محبت بہت بڑھ گئی ہے ہاں؟ دلاور کا قہقہہ بلند ہوا اچھا یہ بتا کہ زندہ رہنے کی کیا قیمت ادا کر سکتا ہے؟

            قیمت آپ میرا سب کچھ لے لیں۔ میرا سارا سازو سامان، میرا گھر، میرے کھیت، سب کچھ، جو کچھ میرے پاس ہے آپ کا ہے آپ جو چاہیں لے لیں لیکن میری جان بخش دیں۔ غضنفر گڑ گ ڑا رہا تھا۔

             دلاور بولا تو کیا سمجھتا ہے میرے پاس یہ سازو سامان، گھر، کھیت وغیرہ نہیں ہیں؟

            نہیں سرکار ایسی بات نہیں آپ کے پاس تو اللہ کا دیا بہت کچھ ہے۔

            ہاں تو ٹھیک کہتا ہے لیکن ایک چیز جس کا تو نے مجھ سے وعدہ کیا تھا اور مکر گیا؟

            سرکار لیکن رضیہ اس کی تو شادی ہو چکی وہ اپنے شوہر کے ساتھ ہے۔ اب وہ کسی اور کی زوج ہے ہمارا اس پر کوئی اختیار باقی نہیں ہے

             تو ٹھیک کہتا ہے۔ لیکن دلشاد اس کی شادی تو ابھی نہیں ہوئی؟

            دلاور کے منہ سے اپنی سب سے چھوٹی بہن کا نام سن کر غضنفر کا خون کھول گیا اس نے دلشاد کے بیاہ کے لئے کیا کیا سامان اکٹھا کیا تھا اب جب اسے پتہ چلے گا اس بوڑھے کھوسٹ، کمزور اور لاغر شخص کی اسے بیوی بننا ہے تو وہ جیتے جی مر جائے گی۔ وہ خود کشی کر لے گی۔ بجا سردار! لیکن میں والد صاحب سے اس بارے میں پوچھنا چاہتا ہوں

            ٹھیک ہے تو اپنے باپ سے پوچھ لے کہ وہ تجھے زندہ دیکھنا چاہتا ہے یا تیرے جنازے کو کندھا دینا چاہتا ہے اس کی مرضی۔ میری طرف سے کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔ میں تجھے ایک ہفتہ کا وقت دیتا ہوں آئندہ اتوار کو یا تو دلشاد کی ڈولی میرے گھر آئے گی یا تیرا جنازہ قبرستان جائے گا۔ انتخاب تیرے باپ کا ہے۔ جا اب تو جا سکتا ہے۔

            غضنفر اپنی جگہ سے اٹھا دلاور سے مصافحہ کیا اور دروازے کی طرف بڑھا جہاں زور آور اس کا انتظار کر رہا تھا۔ وہ پھر سے گاڑی میں بیٹھ گیا۔ گاڑی اس کے گھر کے سامنے پہنچ گئی۔ زور آور نے کہا غضنفر تو بہت خوش قسمت ہے جو زندہ لوٹ آیا، ہم لوگوں نے خفیہ قبرستان میں جسے دلاور کا خاندانی قبرستان کہا جاتا ہے تیری قبر تک تیار کر رکھی تھی۔ سردار نے اسے ایک ہفتہ تک یونہی رکھنے کا حکم دیا ہے۔ شب بخیر خدا حافظ۔

 

            غضنفر جیسے ہی گھر میں داخل ہوا خوشی کی لہر دوڑ گئی ہر کوئی خوشی سے پھولا نہ سما رہا تھا لیکن غضنفر غمگین و اداس تھا دور دور تک خوشی و مسرت کا کہیں اتہ پتہ نہ تھا گھر کے تمام لوگ غضنفر کے ذریعہ لائے ہوئے تحفوں میں کچھ ایسے کھو گئے تھے کہ وہ غضنفر کے کرب کو محسوس نہیں کر پا رہے تھے لیکن صرف ماں اس کی ماں اپنے بیٹے کی کیفیت جان گئی وہ سمجھ کئی سب ٹھیک ٹھاک نہیں ہے کچھ نہ کچھ گڑبڑ ضرور ہے یہ اس کی چھٹی حس کہہ رہی تھی۔

            ماں نے اپنے آپ کو کچھ دیر قابو میں رکھا جب لوگ ادھر ادھر ہو گئے تو غضنفر سے بولی بیٹا میں جانتی ہوں سب ٹھیک نہیں ہے مجھے بتا کیا مسئلہ ہے؟ میں تیری ماں ہوں ماں۔

            یہ سنتے ہی غضنفر کے صبر کا باندھ ٹوٹ گیا وہ پھوٹ پھوٹ کر بچوں کی طرح رونے لگا دیر تک روتا رہا اس کی ماں بالوں کو سہلاتی رہی کچھ نہ بولی یہاں تک کہ اس کے آنسو خشک ہو گئے اب ماں نے پھر کہا بول بیٹے کیا بات ہے؟

            غضنفر نے کہا ماں وقت کا کانٹا پھر پانچ سال پیچھے گھوم چکا ہے میں جہاں سے چلا تھا وہیں پہنچ چکا ہوں بلکہ اور بھی نیچے زمین میں دھنس چکا ہوں

            ماں نے پوچھا بیٹے صاف بتا بات کیا ہے؟

             جواب میں غضنفر نے دلاور سے اس کی بات چیت ماں کے سامنے بیان کر دی۔ ماں اسے غور سے سنتی رہی اور پھر نہایت اطمینان سے کہا بیٹے گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ ہے سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا میں تیرے والد سے بات کرتی ہوں جا تو آرام کر سفر نے تجھے تھکا دیا ہے۔ ماں صحیح کہہ رہی تھی یہ پانچ سال اور پانچ گھنٹوں کا سفر غضنفر کی لئے پانچ ہزارسال طویل ہو گیا تھا۔

            غضنفر اس معاملے کو لے کر بے حد پریشان تھا جبکہ اس کے ماں باپ کے لئے یہ کوئی مسئلہ ہی نہ تھا انہوں نے پلک جھپکتے فیصلہ کر دیا اور دلاور کے گھر پیغام بھجوا دیا کہ آئندہ ہفتہ کے دن وہ بارات لے کر آئے اور دلشاد کو بیاہ کر لے جائے۔ حالانکہ یہ دلشاد کے بیاہ کا فیصلہ تھا لیکن اس فیصلے سے کوئی دل شاد نہیں تھا۔ ہر کوئی اس سے غمزدہ تھا اس لئے کہ فیصلہ ان کی اپنی مرضی سے نہیں ہوا تھا بلکہ ان پر تھوپا گیا تھا۔

             انسان فطرتاً آزاد پیدا کیا گیا ہے۔ اس کو یہ بات پسند نہیں ہے کہ اس کے اپنے بارے میں کوئی اور فیصلہ کرے وہ اپنے اچھے اور برے کا فیصلہ خود کرنا چاہتا ہے۔ لیکن غضنفر کے خاندان میں دوسری مرتبہ یہ ہوا تھا۔ اس فیصلہ کو کڑوی دوائی کے طور پر سبھی نے نگل لیا تھا لیکن دلشاد ایسی ناشاد ہوئی کہ پھر اسے کسی نے شاد باد نہیں دیکھا ایسا لگتا تھا جیسے وہ سہاگن نہیں بلکہ بیوہ ہونے جا رہی ہے اس نے ابھی سے بیوگی کو اپنے اوپر طاری کر لیا تھا۔ وہ بس خلاؤں میں دیکھتی رہتی تھی اور اپنے آپ سے باتیں کرتی رہتی تھی۔

            غضنفر اپنی بہن سے منہ چھپاتا پھرتا تھا وہ جانتا تھا کہ اپنی بہن کی اس حالت کے لئے صرف اور صرف وہ ذمہ دار ہے۔ غضنفر کی گھر واپسی ایسی ہو گی یہ کسی نے سوچا بھی نہیں تھا۔ وقت کی رفتار دھیمی ہو چکی تھی ایک ایک دن سالوں کے برابر لگ رہے تھے اور ہر کوئی چاہتا تھا کہ یہ وقفہ طویل تر ہو جائے اور سنیچر کا منحوس دن کبھی نہ آئے۔

             نماز جمعہ سے فارغ ہو کر غضنفر گھر آیا تو دفعتاً اس کے فون کی گھنٹی بجی۔ اس نے لپک کر فون اٹھایا تو سامنے زور آور تھا۔ سلام کے جواب میں غضنفر بغیر پوچھے بول پڑا۔ جی ہاں ہمیں سب یاد ہے ہم لوگ تیار ہیں آپ لوگ آ جائیے۔

            زور آور بھڑک گیا اس نے کہا ارے بے وقوف سن میں کیا کہہ رہا ہوں۔

            جی بولو بولو۔

            دلاور خان کا انتقال ہو گیا ہے۔ آج بعد مغرب اس کی تدفین ہے اور تو جانتا ہے کس قبر میں ہو گی اس کی تدفین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

            کیا؟

            ہاں دلاور مر چکا ہے۔ اور فون بند ہو گیا

             چند لمحوں تک غضنفر کو یقین ہی نہیں ہو رہا تھا کہ وہ کیا سن رہا ہے اس نے سوچا اگر وہ اعلان کر دے اور یہ خبر غلط نکل جائے تو کیا ہو گا؟ زورآور کہیں اس کے ساتھ مذاق تو نہیں کر رہا ہے؟ اس نے سوچا جلد بازی مناسب نہیں ہے پہلے تصدیق ہو جانی چاہئے لیکن غضنفر کی لئے اپنے اوپر قابو رکھنا مشکل ہو رہا تھا وہ کمرہ سے باہر نکلا تو سامنے دلشاد کو کھڑا پایا اس نے کہا اوے دلشاد سن تیرے لئے خوشخبری ہے کل تیرا نکاح نہ ہو گا دلاور خان مر چکا ہے۔ اب وہ اس دنیا میں نہیں ہے۔

             دلشاد پر یہ خبر بجلی بن کر گری اس نے خوشی سے اپنی چوڑیاں توڑ لیں اس کے ہاتھ لہو لہان ہو گئے وہ رونے لگی یہ خوشی کے آنسو تھے۔ شادی کے منسوخ ہو جانے پر کوئی خوش ہو سکتا ہے؟ کسی کی موت بھی کسی کے لئے خوشیوں کا پیغام لا سکتی ہے؟ یہ سوالات تھے جو فضا میں معلق تھے۔ غضنفر کا سارا خاندان فرحت و انبساط سے سرشار تھا۔ اگلے دن کی ساری تیاریاں منسوخ کی جا رہی تھیں اور شام کو تدفین میں شرکت کی تیا ری ہو رہی تھی۔

            دلاور کو غضنفر کے والد کاندھا دے رہے تھے غضنفر کے دماغ میں دلاور کی دھمکی گونج رہی تھی ’جا اپنے باپ سے کہہ دے آئندہ اتوار کو یا تو ڈولی اٹھے گی یا جنازہ‘  غضنفر کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ دلاور کس کے جنازے کی بات کر رہا تھا اور کس کے لئے قبر کھدوا رہا تھا؟ انسان کس قدر بے بس ہے کہ وہ نہیں جانتا کیا کر رہا ہے؟ اس لئے کہ وہ نہیں جانتا کیا ہونے والا ہے؟

            تدفین کے دوران غضنفر قریب کی ایک جھاڑی کے پاس جا کر بیٹھ گیا جہاں دو لوگ آپس میں بات کر رہے تھے۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ دو اور کان ہیں جو ان کی بات سن رہے ہیں ایک پوچھ رہا تھا کیا سردار اپنی طبعی موت مرا ہے؟

            دوسرے نے جواب دیا مجھے نہیں لگتا۔

            مجھے بھی نہیں لگتا۔ کون ہو سکتا ہے اس کے پیچھے۔

            زور آور؟

            ہاں مجھے بھی یہی لگتا ہے۔ لیکن اب وہ نیا سردار ہے اس کے بارے میں ہم کچھ کہہ بھی نہیں سکتے۔

             وہ تو ٹھیک ہے ویسے ہمیں کہنے کی ضرورت بھی کیا ہے ہمارا کام تو صرف سننا اور احکامات کی بے چوں چراں تعمیل کرنا ہے

            یہی ٹھیک ہے جو سردار کہے وہی حق ہے جو وہ کرے وہی انصاف ہے

            ٹھیک وہ دونوں سائے پھر دفنانے والوں کی بھیڑ میں گم ہو گئے لیکن غضنفر دیر تک وہیں بیٹھا رہا۔ اس کی نظروں میں زور آور کا قد اور بھی اونچا ہو گیا تھا۔ کس قدر احسانات کئے تھے اس شخص نے؟ دو سرے دن اس نے زور آور کو فون کیا سرداری کے لئے مبارکباد دی اور کہا جب چاہے آ کر دلشاد کو بیاہ کر لے جائے۔

            زور آور ہنسا اس نے کہا ایسی بھی کیا جلدی ہے چالیسواں تو ہو جائے تاکہ کسی کو شک شبہ نہ ہو۔ ڈیڑھ ماہ بعد زور آور سے دلشاد کا نکاح خوب دھوم دھام سے ہوا سبھی لوگ بہت خوش تھے غضنفر واپس جانے کی تیاری میں لگ گیا تھا کہ ماں نے اس کی سگائی کر دی تھی۔ غضنفر کی شادی شہر بانو سے طے ہو گئی اس رشتہ کو رضیہ نے استوار کیا تھا اور پیغام دلشاد لے کر گئی اس چھوٹے سے سفرمیں غضنفر نے اپنی موت کو دیکھا اپنی قبر کی زیارت کی اپنی بہن کو پہلے بیوہ ہوتے ہوئے اور پھر سہاگن بنتے ہوئے دیکھا اور بالآخر اپنی ازدواجی زندگی کا سہانا خواب سجا کر خلیج کی جانب چل پڑا۔

            ہوائی اڈے پر غضنفر کو خیرباد کہنے کے لئے اس کا پورا خاندان آیا تھا۔ رضیہ تھی، یوسف تھا، دلشاد تھی، زور آور تھا اس کا بھائی قیصر والد اور والدہ سبھی لوگ تھے جو خوشیوں بھرے آنسووں کے ساتھ اسے الوداع کہہ رہے تھے۔

٭٭٭


 

 

 

باتوں باتوں میں …

 

            فون کی گھنٹی بول رہی تھی کہ یہ انٹن کا فون ہے۔ شمیم نے ہاتھ بڑھا کر اسے اٹھایا۔

            دوسری جانب حسب معمول ہشاش بشاش پُر جوش انٹن تھا۔ کیا حال ہے؟

             سب ٹھیک ٹھاک۔ آنے کی تیاریاں مکمل ہو گئیں؟ شمیم نے پوچھا۔

            میں نے تو تیاریاں پوری کر لیں لیکن یہ انشورنس والے

            کیوں ان کو کیا پریشانی ہے؟

            ان کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے حالات موافق نہیں ہیں۔

            بھئی ایک بات بتاؤ کینڈا کے بارے میں آپ بہتر جانتے ہو یا سعودی عرب میں بیٹھے ہوئے انشورنس ایجنٹ۔

            مذاق کرتے ہو شمیم کینڈا کے بارے میں مجھ سے بہتر کون واقف ہو گا۔

            اب اگر میرا ایجنٹ مجھے منع کرے تو تم کیا کہو گے یہی نا کہ پاگل ہے۔ تو بس میں بھی وہی کہوں گا جو تم کہو گے۔

            شمیم یہ بتاؤ تمہارے اور انشورنس والوں کے خیالات ہمیشہ مختلف کیوں ہوتے ہیں؟

            بات در اصل یہ ہے کہ ہم دونوں کاروباری لوگ ہیں انہیں اپنے کاروبار کی فکر ستاتی ہے اور مجھے اپنے کاروبار کی۔ چونکہ ہمارا پیشہ مختلف ہے اس لیے ہماری رائے بھی مختلف ہو جاتی ہے۔ لیکن دوست اتنا یاد رکھو کہ تم بھی میری طرح ایک پیشہ ور تاجر ہو۔ تمہارا اور ہمارا کاروبار یکساں ہے اس لیے تمہیں انشورنس کمپنی کے بجائے مجھ سے اتفاق کرنا چاہئے۔

            انٹن بولا شاید تم ٹھیک کہتے ہو لیکن پھر بھی میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ آخر یہ انشورنس والے ہمیشہ ڈراتے کیوں ہیں؟

            شمیم نے خوش ہو کر کہا ارے بھائی انشورنس کا پورا کاروبار ڈر اور اندیشہ پر منحصر ہے۔ اگر آپ کو نقصان کا ڈر ہے تو انشورنس کی ڈھال ہے۔ مرنے کا خوف ہے تو بیمہ کا خیال ہے۔ جب ڈر ختم ہو جائے گا تو انشورنس کا دھندہ اپنی موت آپ مر جائے گا لیکن جہاں واقعی خوف و دہشت شدید ہوتی ہے وہاں تو یہ لوگ پر ہی نہیں مارتے۔

            انٹن نے تائید کی تمہاری بات درست معلوم ہوتی ہے۔

            یہ در اصل لوگوں کونہ تو خوف و اندیشہ سے نکالنے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور نہ آڑے وقت میں ان کا تعاون کرنے کے خواہشمند ہوتے ہیں بلکہ یہ تو امن و امان کے ماحول میں لوگوں کو مصنوعی اندیشوں کے اندر گرفتار کر کے ان سے روپیہ اینٹھنے کا کاروبار کرتے ہیں۔ یہ تم سے کمانا تو چاہتے ہیں مگر تم پر خرچ کرنا نہیں چاہتے۔ اس لیے جہاں خطرات کا امکان ہوتا ہے وہاں جانے سے اپنے گاہکوں کو روک دیتے ہیں۔

            انٹن نے تھوڑے سے توقف کے بعد کہا پھر تو انہیں کی بات صحیح ہو گئی کہ سعودی عرب کے حالات ٹھیک ٹھاک نہیں ہیں وہاں حقیقی معنیٰ میں خطرہ پایا جاتا ہے۔

            شمیم نے نفی کی۔ ایک تو یہ ان کا اندازہ ہے اور اندیشے اکثر باطل ہوتے ہیں۔ دوسرے ان کا مشورہ ان کے اپنے فائدے اور نقصان کے پیش نظر ہے اور تمہیں ان کا نہیں اپنا کاروبار بڑھانا ہے۔

            انٹن نے پوچھا کیا صرف میرا بزنس ہے یا تمہارا بھی؟

            جی ہاں دونوں کا مشترکہ کاروبار ہے۔ ہم دونوں باہم چولی اور دامن جیسے ہیں۔

            ٹھیک ہے تو میں حسب پروگرام آ رہا ہوں ہم لوگ ملیں گے ریاض ایئر پورٹ پر ہفتہ کے دن رات ۹؍ بجے۔ او کے، سی یو۔ گڈ بائے۔ ٹیک کیئر۔

            اس روز خلاف معمول انٹن کی بیوی ماریا نہ صرف دروازے تک بلکہ کار تک آ گئی۔ انٹن نے تعجب سے اس کی جانب دیکھا لیکن اس بیچ وہ کار میں بیٹھ چکی تھی۔

             انٹن نے سوال کیا۔ بھئی ماریا! آج سورج …

            ماریا نے غصہ سے بات کاٹ دی۔ تمہیں مذاق سوجھ رہا ہے میں سنجیدہ ہوں۔

            سنجیدہ ہو یا رنجیدہ۔

            انٹن آخر تم کب باز آؤ گے اپنی ان عادتوں سے؟

            کن عادتوں سے؟

            ایک تو تم خود کبھی سنجیدہ ہوتے نہیں اور پھر دوسروں کی بھی …

            انٹن نے بات کاٹ دی بھئی میں دوسروں کے لیے بھی وہی پسند کرتا ہوں جو اپنے لیے۔ لیکن اگر دوسروں کو یہ پسند نہ ہو تو نہ سہی۔ کیا فرق پڑتا ہے۔

            فرق پڑتا ہے انٹن۔ بہت فرق پڑتا ہے۔ دیکھو میری جان بات غور سے سنو۔ ’جان ہے تو جہان ہے۔

            یعنی جہان میں ہوں انٹن نے پھر مذاق کیا۔ اور میں نہ ہوں گا تو جہاں نہ ہو گا کیا مذاق کرتی ہو ماریا۔

            ماریا نے اس کی بات پر توجہ نہ دیتے ہوئے کہا جہان تو ہو گا لیکن میرا جہان نہ ہو گا اس لیے کہ میرا جہان صرف تم ہو۔

            اچھا تو بتاؤ میری جان کہ میں اب کیا کروں؟ وہ سامنے ایئر پورٹ ہے اپنا ٹکٹ منسوخ کر کے واپس آ جاؤں اپنی جانِ جہاں کے پاس۔

            نہیں یہ میں نے کب کہا۔ میں تمہارے راستے کا روڑا بننا نہیں چاہتی لیکن بس اپنا خیال کرنا اور…

            اور کیا؟

            اور مجھے فون کرتے رہنا۔ ہر روز صبح شام میں تمہارے فون کا انتظار کروں گی ورنہ…

            ورنہ کیا؟

            ورنہ یہی کہ - میں فون کرتی رہوں گی۔

            ایک ہی بات ہے۔

            ایک ہی بات نہیں ہے۔ جب تم فون کرو گے تو اپنی فرصت سے کرو گے اور میں کروں گی تو ممکن ہے نادانستہ تمہارے کام میں خلل انداز ہو جاؤں۔ میں یہ نہیں چاہتی۔

            ٹھیک ہے۔ میں فون کروں گا۔

            کروں گا نہیں کرتا رہوں گا۔

            اچھا بابا کرتا رہوں گا۔

            دیکھو یہ وعدہ ہے مجھے بہت ڈر لگتا ہے۔ یہ کہتے ہوئے ماریا کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ اس کے باوجود اس نے اپنے ہونٹوں پر تبسم سجا کر گڈ بائے کہا اور ہاتھ ہوا میں لہرانے لگی۔

            ماریا کے الفاظ سے بوجھل انٹن نے اپنا سامان چیک ان کیا۔ بورڈنگ کارڈ لے کر لابی میں پہنچا اور ہینڈ بیگ سے ’’ہیری پورٹر‘‘ کی کتاب نکال کر اس میں غرق ہو گیا۔ ایک گھنٹہ بعد جب فلائٹ میں چڑھنے کا اعلان ہوا تو وہ ماریا کو بھول چکا تھا۔ ہوائی جہاز میں اس کا پڑوسی ایک امریکی سفارت کار تھا۔ دعا سلام کے بعد انٹن نے اسے بھی اپنی گفتگو میں الجھا لیا۔ اخبار میں صفحہ اول پر بش مشرف ملاقات کی تصویر تھی۔

             انٹن نے سوال کیا یہ مشرف واشنگٹن میں کیا کر رہا ہے؟

            سفیر بولا وہ اپنے آقا کی قدم بوسی کے لیے حاضر ہوا ہے‘۔

            انٹن نے پھر سوال کر دیا لیکن ٹکنالوجی کے اس دور میں قدم بوسی کے لیے بنفس نفیس حاضر ہونے کی کیا ضرورت؟ وہ پاکستان میں بیٹھے بیٹھے بھی تو سجدۂ تعظیم ادا کر سکتا تھا۔

            یہ بات تو صحیح ہے اور صبح و شام وہ ایسا کرتا بھی ہے مگر یہ تصویر کیسے چھپتی؟

            انٹن مان کر نہیں دے رہا تھا لیکن تصویر سے اس کا کیا فائدہ ہے؟

            سفیر بولا فائدہ کیوں نہیں؟ بش ساری دنیا کو یہ بتلا رہا ہے کہ مشرف کی حکمرانی امریکہ کے لیے قابل قبول ہے اس لیے ساری دنیا کے لیے قابل تسلیم ہونی چاہئے۔

            انٹن سوال پر سوال کئے جا رہا تھا لیکن وہ حکمراں تو پاکستان کا ہے اور پاکستانی عوام اس کی وردی کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں۔

            یہی تو بات ہے۔ مشرف یہی تو کہنا چاہتا ہے کہ جب ساری دنیا اس کی حکمرانی کو تسلیم کرتی ہے تو پاکستان کے عوام کو بھی چاہئے کہ اسے اپنا حکمراں مان لیں۔

            لیکن کیاکسی غلام کو حکمراں تسلیم کرنا کچھ عجیب نہیں لگتا؟

            سفیر فخریہ لہجے میں بولا ارے بھئی وہ کسی ایرے غیرے کا غلام تھوڑے ہی ہے۔ شہنشاہِ اعظم امریکہ بہادر کی غلامی کا شرف کوئی معمولی بات ہے؟ مشرف تو اسے اپنی سعادت سمجھتا ہے پاکستانی عوام کو بھی ایساہی کرنا چاہئے۔

            لیکن پاکستانی عوام تو اسے حقارت سے ’’بشرف‘‘ پکارتے ہیں۔

            سفیر نے کہا ارے پاکستان کے جاہل عوام کی بات کیوں کر تے ہو۔ وہ تو ملّاؤں کی چکر میں پڑے رہتے ہیں۔ جمہوریت اور آزادی کی اہمیت ہی نہیں جانتے بے چارے۔

            انٹن کو اس ڈپلومیٹ کی بات پر ہنسی آ گئی۔ اس نے کہا۔ کیا مذاق کرتے ہو ابھی تو تم مشرف کو غلام کہہ رہے تھے اور ابھی اسے آزادی کا علمبردار کہہ رہے ہو۔ کیا یہ باتیں متضاد نہیں ہیں؟

            جی نہیں اس میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ جمہوریت کے بغیر آزادی بے معنی ہے اور مشرف نے پاکستان میں جمہوریت بحال کی ہے۔ انتخابات کا انعقاد کروایا اور کیا چاہئے۔

            انٹن نے اثبات میں سرہلایا۔ یہ تو صحیح ہے کہ مشرف نے پاکستان میں انتخابات منعقد کروا کے جمہوریت کو بحال کیا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مشرف سے پہلے بھی تو پاکستان میں جمہوریت تھی آخر پاکستان میں جمہوریت کو پامال کس نے کیا؟ اب اگر مشرف نے اس چیز کو بحال کر دیا جسے پامال کیا تھا تو اس میں کون سی بڑی بات ہے؟

            بڑی بات کیوں نہیں ہے؟ جس جمہوریت کو مشرف نے ختم کیا اس کے ہاتھوں میں فوج کی باگ ڈور نہیں تھی۔ فوجی سربراہ اس جمہوری نظام میں بے دست و پا تھے اس لئے امریکہ کے فوجی عزائم کو بروئے کار لانے کی اہلیت اس طرز حکومت میں نہیں تھی۔

            انٹن نے بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا لیکن امریکہ تو فوجی حکمرانوں پر عوامی نمائندوں کو ترجیح دینے کا قائل ہے۔ کیا یہ بات اس دعویٰ کے خلاف نہیں ہے؟

            نہیں۔ ہرگز خلاف نہیں ہے۔ اگر فوجی حکمران ہمارے مفادات کے خلاف ہوں تو ہم اس پر عوامی نمائندوں کو ترجیح دیتے ہیں لیکن اگر جمہوری حکمراں ہمارے مفادات کا تحفظ کرنے سے قاصر ہوں تو ہم ان کی جگہ فوجی جرنیلوں کولے آتے ہیں۔

            لیکن وہ جس ملک کے سربراہ ہوتے ہیں اس ملک کی عوام کے مفادات کی حفاظت کون کرتا ہے؟

            سفیر نے بڑے اعتماد سے کہا ہم کرتے ہیں۔ ہم ساری دنیا کے ٹھیکیدار ہیں۔ ساری دنیا کے حکمراں ہماری خدمت کرتے ہیں اور ہم ساری دنیا کی عوام کا خیال کرتے ہیں۔

            انٹن چکرا گیا۔ پھر بھی وقت گزاری کے لیے اس نے بات آگے بڑھائی۔ لیکن یار ایک بات بتاؤ مشرف نے جمہوریت بحال تو کر دی لیکن اس کے ہاتھوں میں اختیارات نہیں دیئے بلکہ ایک وزیر اعظم کو بلاوجہ دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال بھی دیا۔

            ڈپلومیٹ ہنسا۔ اس نے کہا۔ تم سائنسداں بڑے بھولے ہوتے ہو۔ ارے بھئی اگر مشرف کے ہاتھوں میں اختیارات ہوتے تو وہ اسے منتخب شدہ نمائندوں کے حوالے کرتا۔ سارے اختیارات تو بش کے ہاتھوں میں تھے۔ اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے آپریشن وزیرستان سے قبل میر نصر اللہ جمالی کو بش نے اپنے کٹھ پتلی کے ذریعہ ہٹوا دیا۔

            کیوں! جمالی سے کوئی خطرہ تھا کیا؟

            تھا نہیں ہو سکتا تھا۔ ویسے ہم لوگ افغانستان جیسے نازک معاملے میں معمولی خطرہ بھی مول نہیں لے سکتے۔ ابھی تک ایک بڑے حصہ پر طالبان کا قبضہ باقی ہے۔ کئی قبائلی سردار حامد کرزائی کو تسلیم نہیں کرتے ایسے حالات میں سنبھل کر قدم بڑھانا پڑتا ہے۔

            اب انٹن کو نیا موضوع مل گیا۔ لیکن حامد کرزائی بھی تو انتخابات میں کامیاب ہو گیا۔

            ہاں وہ ڈرامہ تو ہم لوگوں نے بحسن و خوبی کھیلا لیکن ہمیں پتہ ہے کہ پولنگ کس قدر کم ہوئی۔ خیر ہم نے افغانستان میں جمہوریت تو بحال کر دی۔ ہمارے تعاون سے افغانستان کی تاریخ میں پہلے عوامی نمائندے نے حکومت کی باگ ڈور سنبھال لی۔

            کیا؟ انٹن نے سوال کیا۔ جو کرزائی ابھی ابھی امریکہ کا نمائندہ تھا وہ اچانک عوام کا نمائندہ کیسے ہو گیا؟

            ارے بھئی یہی تو ہے انتخابی تماشہ کہ جس کے ذریعے ہمارا نمائندہ عوام کا نمائندہ ہو جاتا ہے اور عوام کا نمائندہ جمہوریت کا دشمن قرار پاتا ہے۔

            اچھا ایسا بھی ہوتا ہے۔

            سفیر بولا کیوں تم نے یوکرین کے انتخابات نہیں دیکھے۔ وہاں ہمارا نمائندہ کامیاب نہ ہو سکا تو ہم نے بڑے پیمانے پر دھاندلی کے نام پر انتخابات ہی کو کالعدم قرار دے کر منتخب شدہ سربراہ کو جمہوریت کا دشمن قرار دے دیا۔

            یہ تو آپ کا بڑا کمال ہے۔

            سفیر مسکرا کر بولا کمال ہمارا نہیں جمہوریت کی نیلم پری کا ہے۔ جس نے ساری دنیا کومسحور کر رکھا ہے۔

            اس بیچ کھانا آ گیا۔ دونوں کھانے میں مصروف ہو گئے۔ اس سے فارغ ہوتے ہی سفیر نیند کی آغوش میں چلا گیا۔ انٹن کو پتہ چل گیا کہ وہ کھانے کے انتظار میں اس کے ساتھ وقت گزاری کر رہا تھا۔ اس نے ہیری پورٹر کی کتاب نکالی اور خود بھی مصروف ہو گیا۔

            لندن ایئر پورٹ پر انٹن کو اپنی فلائٹ بدلنی تھی۔ درمیان میں چار گھنٹہ کا وقفہ تھا۔ تھکن کے باعث ذہن کسی سنجیدہ کام کے لیے تیار نہ تھا۔ ہیری پورٹر سے بھی طبیعت اوب گئی تھی۔ وہ سوچ ہی رہا تھا کہ کیا کرے اتنے میں اسے سامنے ٹیلی ویژن کا اسکرین نظر آ گیا اور اس کے قدم اپنے آپ اس جانب بڑھنے لگے لیکن وہاں پہنچنے کے بعد بھی مایوسی ہی ہاتھ لگی۔

             ٹی وی پر ایک سسپنس فلم دکھلائی جا رہی تھی جسے انٹن کئی بار دیکھ چکا تھا۔ وہ نہ صرف اس کے سسپنس بلکہ ہر منظرسے واقف تھا۔ لیکن پھر بھی وقت گزاری کے لیے وہیں بیٹھ گیا اور سوچنے لگا متبادل کی غیر موجودگی انسان سے کیسی کیسی حماقت سرزد کروا تی ہیں۔ فلم کے دوران اس کی آنکھ لگ گئی اور ریاض فلائٹ کے اعلان تک وہ سویا رہا۔ فلائٹ میں جاتے ہوئے ایک مسافر نے اسے بیدار کیا اور وہ شکریہ ادا کر کے جہاز کی جانب چل پڑا۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

             اس فلائٹ میں انٹن کا ہم سایہ ایک عربی نژاد نوجوان تھا۔ دعا سلام کے بعد انٹن نے پوچھا۔ آپ کہاں جا رہے ہو؟

            ہم سفر عدنان مسکرا کر بولا۔ جہاں جہاز جا رہا ہے سبھی وہیں جا رہے ہیں۔

            انٹن جھینپ گیا۔ وہ تو ٹھیک ہے لیکن آپ کہاں سے آ رہے ہو؟

            جی میں نیویارک سے آ رہا ہوں۔

            نیو یارک سے؟ تو کیا آپ نیویارک میں کام کرتے ہیں؟

            جی نہیں! پہلے تو میں وہاں کام کرتا تھا لیکن اب نہیں۔

            کیا مطلب؟

            عدنان نے جواب دیا میں نے نیویارک کی ملازمت چھوڑ دی۔

            کیوں؟ کوئی بہتر ملازمت مل گئی؟

            نہیں۔

            انٹن نے پوچھا پھر کیوں چھوڑ دی؟

            در اصل میں نے امریکہ کو خیرباد کہہ دیا۔ اگر امریکہ میں رہنا ہی نہ ہو تو پھر نیویارک میں نوکری کیسے کی جائے؟

            لیکن امریکہ کو چھوڑنے کی وجہ؟

            دہشت گردی۔

            انٹن نے حیرت سے پوچھا امریکہ میں دہشت گردی؟

            جی ہاں 9/11 کے بعد جس خوف و دہشت اور ذلت و رسوائی سے ہمیں گزرنا پڑ رہا ہے اس کے بعد ہم نے اس ملک سے نکل جانے کا فیصلہ کیا ہے۔

            لیکن اس کی وجہ؟

            ہمارا مسلمان ہونا اور اوپر سے عربی نژاد ہونا۔

            انٹن بولا لیکن یہ تو کوئی بات نہیں ہوئی۔

            آپ کے لیے نہیں ہے لیکن امریکی انتظامیہ کے لیے ہے۔ آئے دن چھاپے۔ آئے دن تفتیش۔ ہر کوئی شکوک و شبہات کی نظروں سے دیکھتا ہے ہر کسی کی آنکھوں سے نفرت کے شعلے برستے ہیں۔ آخر انسان اس کو کب تک برداشت کرے گا؟ جب ہمیں یقین ہو گیا کہ یہ نہیں چاہتے کہ ہم وہاں رہیں تو ہم نے بھی نکلنے کا ارادہ کر لیا۔

            انٹن سوچنے لگا یہ تو اُلٹا ہو گیا۔ وہ تو سوچتا تھا کہ سعودی عرب سے غیر ملکی دہشت کا شکار ہو کر نکل رہے ہیں لیکن یہاں تو ایک عرب باشندہ امریکہ سے دہشت زدہ ہو کر واپس جا رہا ہے۔ انٹن نے کہا لیکن اس طرح کی دہشت گردی سعودی عرب میں بھی تو ہے۔‘‘

            عدنان بولا جی ہاں ہے لیکن وہ تو محض ایک رد عمل ہے اور دونوں میں ایک بنیادی فرق ہے۔ امریکی دہشت گردی انتظامیہ کی زیر سرپرستی ہے جب کہ سعودی عرب میں حکومت اس کے خلاف ہے۔

            اس فرق نے انٹن کو چونکا دیا۔ اس نے موضوع بدلتے ہوئے کہا۔ خیر شاید اس دور میں یہ سب ہماری زندگی کا حصہ ہے۔ اچھا تو یہ بتاؤ کہ امریکہ آپ کب اور کیسے گئے تھے؟                      عدنان ایک ٹھنڈی آہ بھر کے گویا ہوا یہ ایک پرانی داستان ہے۔ میں بنیادی طور سے عراق کا رہنے والا ہوں اور یہ اس وقت کی بات ہے جب ایران کے خلاف جنگ میں صدام حسین امریکہ کے منظورِ نظر ہوا کرتے تھے اس وقت میں نے کالج کی تعلیم ختم کی اور اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ چلا گیا۔ امریکہ میں تعلیم مکمل کرتے ہی مجھے ملازمت مل گئی اور پھر میں وہیں کا ہو گیا۔ جب گاؤں والوں کو پتہ چلا کہ میں امریکہ میں رہنے والا ہوں فوراً ایک نہایت خوشحال خاندان کی خوبصورت سی لڑکی سے میرا نکاح کر دیا گیا اور پھر ہم لوگ امریکہ کے باشندے بن گئے۔

             اس کے بعد حالات بدلے۔ عراق نے کویت پر قبضہ کیا اسے خالی کرایا گیا لیکن اس سے ہم پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ بیس سال امریکہ میں رہتے رہتے میں نے اسے اپنا وطن بنا لیا تھا۔ میرے اندر اپنے غیر ملکی ہونے کا احساس بھی ختم ہو گیا تھا لیکن 9/11 کے بعد سب کچھ بدل گیا میں پھر ایک بار اجنبی ہو گیا۔ آئے دن کے خوف وہراس سے تنگ آ کر میں نے پہلے اپنے اہل خانہ کو سعودی عرب روانہ کیا۔ اب حساب کتاب چکتا کر کے واپس جا رہا ہوں۔

            بہت خوب لیکن سعودی عرب کے انتخاب کی کوئی خاص وجہ؟

            عدنان بولا ہاں وجہ در اصل یہ ہے کہ میں اپنے مرکز سے بہت دور نکل گیا تھا۔ آزمائش کی اس گھڑی میں مجھے خیال آیا کہ میں نے ساری دنیا کی سیرو تفریح تو کی لیکن کبھی مکہ یا مدینہ جانے کی توفیق نہیں ہوئی۔ در اصل دنیا نے مجھے اپنے دین سے غافل کر دیا تھا لیکن اسی دنیا نے مجھے خوابِ غفلت سے بیدار بھی کر دیا۔ میں گذشتہ سال حج کے لیے مع اہل و عیال یہاں آیا اور محسوس کیا کہ آج بھی دنیا میں سب سے زیادہ امن و سکون کی جگہ یہی ہے۔

            یہاں پر انسان کو نہ صرف سماجی امن بلکہ روحانی سکون بھی حاصل ہو جاتا ہے۔ میں نے ارادہ کر لیا کہ اب یہیں آ کر بس جاؤں گا۔ واپس جانے کے بعد میں نے اپنے بیٹے سے کہا کہ وہ سعودی عرب میں ملازمت تلاش کرے۔ دو ماہ کے اندر اسے یہاں نوکری مل گئی۔ میں نے اپنے پورے خاندان کو اس کے ساتھ روانہ کر دیا اور اب خود بھی واپس جا رہا ہوں۔

            انٹن نے سوال کیا اچھا تو اب ارادہ سعودی عرب میں ملازمت کرنے کا ہے؟

            نہیں۔ بہت کر لی ملازمت۔

            تو پھر اب کیا ریٹائرڈ زندگی گزارنے کا خیال ہے؟

            عدنان بولا نہیں ایسا بھی نہیں ہے۔

            پھر تو کاروبار کرنے کی سوچ رہے ہو گے۔

            نہیں وہ بھی نہیں کرنا۔

            اچھا تو آخر کرنا کیا ہے؟

            میں عراق جانا چاہتا ہوں۔

            عدنان کے اس جواب نے انٹن کو چونکا دیا عراق؟ اس وقت؟

            ہاں اسی وقت وہاں میری ضرورت ہے۔

            وہاں جا کر کیا کرو گے؟

            وہاں جا کر میں امریکی تسلط کے خلاف مزاحمت کروں گا۔

            اچھا تو تم بھی دہشت گردوں میں شامل ہونے جا رہے ہو۔

            عدنان بولا دہشت گردوں میں؟ کیا بات کرتے ہیں آپ۔ میں تو وہاں دہشت گردی کے خلاف لڑنے جاؤں گا۔

            امریکہ کے ساتھ؟

            نہیں امریکہ کے خلاف۔

            امریکہ کے خلاف دہشت گردی کی جنگ! یہ تو پہلی بار سنا ہے۔

            ہو سکتا ہے۔ اس لیے کہ آپ لوگ وہی کچھ سنتے ہیں جو امریکہ یا اس کے حواری کہتے ہیں اب امریکہ خود اپنے آپ کو دہشت گرد تو کہہ نہیں سکتا اس لیے اپنے مخالفین کو دہشت گرد کہتا ہے۔

            لیکن میں تو امریکی نہیں ہوں۔ انٹن بولا

            آپ امریکی تو نہیں ہیں لیکن امریکہ کے ہر سچ اور جھوٹ پر ایمان لانے والے ضرور ہیں اور اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔ میں بھی انہیں میں سے ایک تھا۔ لیکن عراق میں امریکی فوج کشی کے بعد میری آنکھیں کھل گئیں۔

            انٹن نے کہا۔ میری تو سمجھ میں کچھ بھی نہیں آتا۔

            آ جائے گا۔ جب امریکہ اپنی فوجیں کینڈا میں داخل کر دے گا۔ تم لوگوں کو آزادی کے نام پر اپنا غلام بنا لے گا اور جب تم اس جارحیت کے خلاف مزاحمت کرو گے تو وہ تمہیں دہشت گرد قرار دے گا۔ تب تمہاری سمجھ میں سب کچھ آ جائے گا۔

            پہلی مرتبہ عدنان نے انٹن سے سوال کیا۔ ایک بات بتاؤ امریکہ نے عمومی تباہی کے ہتھیاروں کا جھوٹ گھڑ کے عراق پر غاصبانہ قبضہ کر لیا پھر بھی وہ آزادی کا علمبردار ہے اور ہم اس کو اپنے ملک سے نکال کر خود مختاری حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہم دہشت گرد ہیں؟ کیا یہ منطق تمہیں معقول لگتی ہے؟

            انٹن پھنس چکا تھا۔ اس آسان سے سوال کا کوئی جواب اس کے پاس نہ تھا۔ شاید جواب تو تھا لیکن وہ اس سے نظریں چرا رہا تھا۔ بات گھمانے کیلئے وہ بولا تمہارے عزائم تو بلند ہیں لیکن یہ جان جوکھم کا کام ہے۔ کیا تمہارا خاندان تمہیں اس بات کی اجازت دے گا؟

            عدنان نے جواب دیا جہاں تک میرے اہل خانہ کا سوال ہے وہ بھی اس آگ میں تپ رہے ہیں جو میرے سینے میں لگی ہوئی ہے۔ وہ در اصل میرے لیے رکاوٹ نہیں بلکہ میرے معاون و مددگار ہیں۔ ہم نے آپس کے مشورے سے یہ طے کیا ہے کہ میں اپنے چھوٹے بیٹے کے ساتھ برّی راستہ سے عراق روانہ ہو جاؤں گا۔

            لیکن وہاں جا کر کیا کرو گے؟

            وہاں پر فی الحال پولس میں بھرتی کا کام زور و شور سے چل رہا ہے۔ ہم دونوں اس میں داخل ہو جائیں گے۔ ہتھیار چلانے کی تربیت حاصل کریں گے۔ ان کے ناپاک منصوبوں سے واقفیت حاصل کریں گے۔ انہیں کے ذریعے ہمیں مزاحمت کرنے والے گروہوں کی تفصیلات کا بھی پتہ چل جائے گا جن کا وہ قلع قمع کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سب جان لینے کے بعد مناسب موقع پر ہم مجاہدین آزادی سے جا ملیں گے۔

            امریکی ہتھیاروں اور تربیت کا استعمال امریکہ کے خلاف کرنا تو غداری ہے۔

            یہ غداری نہیں اپنے دین اور ملک کے تئیں وفاداری ہے۔ یہ جنگ ہے اور تم تو جانتے ہی ہو کہ جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہے۔

            اچھا تو اس میں محبت بھی ہے؟

            کیوں نہیں؟ اپنے دین اور اپنی آزادی سے محبت ہی اس کا محرک ہے۔

            لیکن تمہیں پتہ ہے وہاں آئے دن ہونے والے حملوں میں پولس اہلکاروں کو ہلاک کر دیا جاتا ہے۔

            ہاں ہمیں پتہ ہے اور یہ خطرہ ہم جان بوجھ کر مول لے رہے ہیں۔ ہمیں موت کا خوف نہیں ہم آزادی کی موت کو غلامی کی زندگی پر ترجیح دیتے ہیں۔ ہمارا دل صاف ہے اور نیت ٹھیک ہے ہم کس مرحلہ میں کام آتے ہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن ہمیں یقین ہے کہ یہ خون رائے گاں نہیں جائے گا اور آزادی کا سورج اسی خون سے رنگین ہو کر طلوع ہو گا۔ ہم اپنی شہادت سے یہ ثابت کر دیں گے کہ ہم ظلم و جبر کے سامنے جھکنے والوں میں سے نہیں ہیں بلکہ ظالموں سے پنجہ آزمائی کرنے والے لوگ ہیں۔ ہم نے افغانستان میں ایک سپر پاور کو نیست و نابود کیا ہے اور عراق میں دوسرے کی قبر کھود رہے ہیں۔ ہم نمرود اور اس کی آگ کا انجام دیکھ چکے ہیں۔ ہم اس سے خوف نہیں کھاتے بلکہ امریکی استعمار کو نمرود کے بغل میں دفن کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

            انٹن خون، موت، قبر، دفن اس طرح کے الفاظ سے گھبرا گیا اور اس نے آنکھیں بند کر لیں۔ ریاض ایئر پورٹ پر اترنے تک انٹن کے دل میں ایک احساس جرم پیدا ہو گیا تھا وہ اپنے ہم سفر عدنان سے کترا رہا تھا۔ بے دلی کے ساتھ دونوں نے ایک دوسرے سے مصافحہ کیا اور جدا ہو گئے۔

            ایئر پورٹ پر حسب وعدہ شمیم نے انٹن کا استقبال کیا اور اسے ہالی ڈے اِن ہوٹل میں چھوڑ دیا۔ راستہ میں رسمی دعا سلام کے علاوہ اور کچھ نہ ہو سکا۔ انٹن نے نہایت سنجیدگی سے بس ایک سوال کیا تھا حالات تو بالکل ٹھیک ٹھاک ہیں کسی قسم کا کوئی خطرہ تو نہیں ہے؟

            اس سے پہلے کہ شمیم اس کا حوصلہ بڑھاتا فون کی گھنٹی بج گئی۔ انٹن کے لیے ماریا کا فون تھا اور وہ اس سے وہی سوال کر رہی تھی جو ابھی ابھی انٹن نے شمیم سے کیا تھا۔ انٹن نے ماریا کو سمجھا بجھا کر فون بند کیا اور شمیم آئندہ صبح ملنے کا وعدہ کر کے رخصت ہو گیا۔

            دوسرے دن وقت سے پہلے انٹن تیار ہو کر لابی میں آیا اور شمیم کو فون لگا دیا۔ شمیم نے اسے بتایا کہ وقت مقر رہ میں ابھی ایک گھنٹہ باقی ہے اور وہ آدھے گھنٹہ بعد ناشتہ کر کے گھر سے نکلے گا۔ شمیم نے انٹن کو اطمینان سے ناشتہ کرنے کا مشورہ دیا۔ فون بند کرنے کے بعد جب انٹن نے اخبار اٹھایا تو شاہ سرخی اس کی دلچسپی کی نکل آئی۔ سیاست کے بجائے ماحولیات کی خبر دیکھ کر اسے خوشی ہوئی وہ اخبار پڑھتے ہوئے ناشتہ کرنے لگا۔ ماحولیات پر تبصرے کے بعد دیگر سیاسی خبروں میں وہ دلچسپی نہ لے سکا۔ اخبار کو لپیٹ کر ایک جانب رکھا اور کافی پیتے ہوئے اس نے دیکھا سامنے کی میز پر ایک اور انگریز بیٹھا ہوا ہے۔

             ان دونوں نے آنکھوں آنکھوں میں آداب و تسلیم کا تبادلہ کیا اور ایک دوسرے سے قریب آ گئے۔ نووارد نے انٹن سے اس کا پروگرام پوچھا اور جیسے ہی انٹن نے بتلایا کہ وہ دوسرے دن جدّہ جا رہا ہے تو وہ چونک پڑا۔

            انٹن نے حیرت کی وجہ دریافت کرتے ہوئے سوال کیا کیوں؟ کوئی مسئلہ ہے کیا؟

            نووارد نے کہا۔ ویسے تو کوئی خاص بات نہیں ہے لیکن پچھلے دنوں ایک فرانسیسی کو جدّہ میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔

            انٹن کے کان کھڑے ہو گئے۔ پچھلے دنوں یعنی ایک آدھ ہفتہ پہلے؟

            نہیں۔ تقریباً چھ سات ہفتہ پہلے کی بات ہے۔

            چھ سات ہفتہ پہلے۔ آپ لمبے عرصہ سے یہاں قیام پذیر ہو کیا؟

            نہیں میں تو ابھی تین دن پہلے یہاں آیا تھا لیکن چونکہ یہاں آنا تھا اس لیے یہاں کے حالات سے واقفیت تو ضروری تھی نا؟

            انٹن نے سوال کیا لیکن فرانسیسی کو کیوں؟

            ہو سکتا ہے اسکارف والے معاملہ کو لے کر یہ قتل ہوا ہو۔ فرانس نے طالبات کے اسکارف پر پابندی کا قانون بنا کر ساری دنیا کے مسلمانوں کو بد ظن کر دیا ہے۔

            کیا قتل کرنے والوں نے اس کی یہی وجہ بتلائی ہے۔

            نہیں اس وقت تو یہ خبر آئی کہ اسے امریکی باشندہ سمجھ کر غلطی سے مار دیا گیا۔

            کیا بات کرتے ہو؟ کیا دہشت گرد بھی اس طرح کی تفریق کرتے ہیں؟

            ہاں سنا ہے یہ صرف امریکیوں اور برطانوی باشندوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ وہ تو ہمارے حکمران ہیں جو بلا تفریق کبھی افغانستان کوتو کبھی ایران کو، کبھی عراق تو کبھی فلسطین کو اپنا نشانہ بناتے رہتے ہیں۔

            اگر ایسا ہے تو ان لوگوں نے پھر فرانسیسی باشندہ کا قتل کیسے کر دیا۔

            ارے بھائی غلطی تو سبھی سے ہوتی ہے۔ اب کوئی قتل کرنے سے پہلے پاسپورٹ تو چیک نہیں کر سکتا اندازہ لگاتا ہے کبھی کبھار اندازے بھی غلط ثابت ہوتے ہیں۔

            اچھا یہ بتلاؤ کہ میرے بارے میں دہشت گرد کیا اندازہ لگائیں گے۔ انٹن نے فکر مندی سے پوچھا۔

            تم چہرے سے نہ صرف امریکی بلکہ یہودی بھی لگتے ہو اور پھر کینڈا کو بہت سے لوگ امریکہ کا حصہ سمجھتے ہیں۔

            تم کہنا کیا چاہتے ہو۔ مجھے ڈرا رہے ہو کیا؟

            نہیں بھائی ایسی بات نہیں ہے۔ یہاں آنے کے بعد مجھ پر فرانسیسی کے قتل کی بابت کئی نئے انکشافات ہوئے۔

            وہ کیا؟ انٹن نے سوال کیا

            پہلے تو پتہ چلا کہ اس نے کسی خاتون کو چھیڑا تھا۔ جس کا بدلہ لینے کے لیے اس خاتون کے رشتہ دار نے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا۔

            لیکن قانون کی بالا سدستی بھی تو کوئی چیز ہے؟

            شاید تم نہیں جانتے اس ملک میں جہاں مقامی باشندوں کے لیے سخت ترین قوانین ہیں وہیں یورپی ممالک اپنے باشندوں کو سیاسی دباؤ ڈال کر چھڑا لیتے ہیں اس لیے لوگوں نے ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے کے بجائے از خود انہیں کیفر کردار تک پہنچانا شروع کر دیا ہے۔

            کیا واقعی ایسا ہی ہے؟

            پتہ نہیں۔ سنتے تو یہی سب ہیں۔ ویسے میں نے تو یہ بھی سنا ہے کہ وہ فرانسیسی منشیات کا اسمگلر تھا اور دو گروہوں کی آپسی رنجش کا شکار ہو کر اپنی جان گنوا بیٹھا۔

            انٹن نے جب یہ تیسری کہانی سنی تو اسے ہنسی آ گئی۔ ا س نے پوچھا۔ یار ایک بات بتاؤ تمہارا تعلق بھی فرانس سے تو نہیں ہے؟

            نہیں میں تو جرمنی کا رہنے والا ہوں۔

            تو پھر کیا تم اس فرانسیسی کے قتل کی تحقیقات کرنے کے لیے یہاں وارد ہوئے ہو۔

            اس نے کہا۔ نہیں ایسی بات نہیں میں تو اپنے کاروباری سلسلہ میں یہاں آیا ہوں۔ آج کل یہ لوگ امریکہ اور برطانیہ کے مقابلہ جرمنی اور جاپان کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ ہمارے لیے کاروبار کے نئے مواقع پیدا ہو گئے ہیں اسی کا فائدہ اٹھانے کے لیے میں یہاں آیا ہوں۔ اب ہر روز شام میں وقت گزاری کے لیے فرانسیسی کا ذکر چھڑ جاتا ہے اور ایک نئی کہانی سامنے آ جاتی ہے۔ آج چوتھا دن ہے ہو سکتا ہے شام تک کوئی نیا انکشاف ہو جائے۔ یہ کہہ کر وہ قہقہہ لگانے لگا۔ انٹن بھی مسکرایا۔ اس کے سامنے شمیم کھڑا تھا۔

             دعا سلام کے بعد دونوں کار میں بیٹھ گئے۔ انٹن نے فرانسیسی کے قتل کا قصہ چھیڑ دیا اور شکایت کرتے ہوئے پوچھا تم نے تو کہا تھاسب ٹھیک ہے جب کہ حال میں ایک فرانسیسی کو جدہ میں قتل کر دیا گیا۔

            شمیم کو تعجب ہوا۔ کب کل ہوا؟ میں تو ابھی خبریں دیکھ کر آ رہا ہوں ایسی کوئی خبر میری نظروں سے نہیں گذری۔

            یہ کل کی بات نہیں چھ ہفتہ پہلے کی بات ہے۔ انٹن نے وضاحت کی۔

            چھ ہفتہ! ! ! شمیم کا قہقہہ بلند ہوا۔ اگر میں تمہیں یہ بتلا دیتا کہ گذشتہ چھ ہفتوں میں کینیڈا کے اندر کتنے لوگ قتل کیے  جا چکے ہیں تو شاید تم ٹورنٹو کے بجائے انٹارٹیکا سے ریاض آتے۔

            یار شمیم یہ نہایت سنجیدہ معاملہ ہے اور تم اسے ہنسی میں اُڑا رہے ہو۔

            میں اسے ہنسی میں نہیں اُڑا رہا بلکہ میں تم سے یہ کہہ رہا ہوں کہ جس طرح ایک فرانسیسی کا یہاں قتل ہوا اسی طرح نہ جانے کتنے غیر ملکیوں کا مختلف ممالک میں قتل ہوا ہو گا۔ اس میں بہت زیادہ فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔

            خیر اب یہ بتلاؤ کہ ہم لوگ کہاں جا رہے ہیں؟

            شمیم نے جواب دیا۔ فی الحال ہم لوگ اپنے ایک گاہک سے ملنے جا رہے ہیں۔ یہ وہی شخص ہے جس سے گذشتہ مرتبہ تم نے فون پر بات کی تھی اور آئندہ ملنے کا وعدہ کیا تھا۔ آج تم اپنا وہ وعدہ وفا کرنے جا رہے ہو۔

            انٹن نے شمیم کی جانب تشکر آمیز انداز میں دیکھا اور کہا۔ زہے نصیب۔

            یہ دونوں دس منٹ تاخیر سے مائیکل کے پاس پہنچے اور اسے استقبالیہ میں منتظر پایا۔ تینوں بڑی گرمجوشی سے ملے۔ مائیکل نہایت باغ و بہار شخصیت کا حامل تھا۔ انٹن نے شاندار دفتر کی تعریف کی۔ مائیکل اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے انہیں اس پینٹنگ کے قریب لے گیا جو ابھی حال ہی میں استقبالیہ کے اندر نصب کی گئی تھی۔

وہ تصویر در اصل آرٹ کا بے مثال نمونہ تھی۔ کالے پتھر پر مصور نے بھورے رنگ کا استعمال کرتے ہوئے عربی قافلہ بنا دیا تھا۔ پینٹنگ تقریباً دو میٹر اونچی اور دس میٹر چوڑی دیوار پر محیط تھی ایسا لگتا تھا گویا کالے پتھر پر فطری نقوش نے قافلہ کو ابھار دیا ہے پتھر پر ہاتھ پھیرنے پر بھی رنگ محسوس نہ ہوتا تھا۔ ایک فوجی کارواں اونٹوں اور گھوڑوں پر رواں دواں تھا۔ قافلہ سالار اپنے ہاتھ میں علم بلند کیے ہوئے تھاسبھی نے عربی لباس زیب تن کر رکھا تھا۔ چاروں طرف صحرا اور درمیان میں ایک خیمہ نظر آتا تھا۔ انٹن نے پوچھا۔

            یہ کس کا قافلہ ہے اور کہاں جا رہا ہے؟

            مائیکل بولا یقین کے ساتھ تو میں نہیں کہہ سکتا لیکن سنا ہے یہ طارق بن زیاد کا قافلہ ہے جس نے پہلی بار اسپین کو فتح کیا تھا۔

            اوہ تو انہیں اپنی وہ فتح یاد ہے۔

            بالکل یاد ہے یہ اس فتح کو دوہرانا چاہتے ہیں اسی لیے پینٹنگ سجاتے ہیں۔‘‘

            بات چیت کرتے کرتے وہ لوگ گیارہویں منزل پر مائیکل کے کمرے میں پہنچ گئے۔ اس سے پہلے کہ انٹن اپنی کمپنی کا تعارف کراتا مائیکل اپنے کارنامے بیان کرنے لگا۔ اس نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ امریکہ میں گزارا تھا اس کے بہت سارے تلخ تجربات تھے جو وہ انٹن کے گوش گذار کرنے لگا۔

            اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں اسے کئی مرتبہ امریکی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا تھا اور اکثر مایوسی ہوئی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ امریکہ میں قانون کی عدالتیں ہیں انصاف کی نہیں۔ وہاں قانونی مباحث تو ہوتے ہیں لیکن انصاف نہیں ملتا۔ اس بیچ انٹن نے کئی مرتبہ اپنی کاروباری گفتگو کو چھیڑا لیکن ہر بار مائیکل اسے کہیں اور لے گیا۔ بالآخر انٹن نے ہتھیار ڈال دیئے اور پوچھا۔ حالات کیسے ہیں؟

            مائیکل کا جواب تھا اچھے نہیں ہیں۔ اس دفتر میں پہلے تیس امریکی کام کرتے تھے اب صرف چھ رہ گئے ہیں۔ اس کا خیال ہے امریکی انتظامیہ کا دعویٰ جھوٹا ہے کہ تیس ہزار امریکی ہنوز یہاں برسر روزگار ہیں۔ ۸۰ فی صد لوگ یہاں سے  جا چکے ہیں۔

             انٹن نے حیرت سے پوچھا۔ ایک بات بتاؤ آپ یہاں کب سے ہو؟

            مجھے چار پانچ سال ہو گئے۔ درمیان میں لوٹ گیا تھا لیکن دو سال پہلے واپس آ گیا۔ مائیکل نے سکون سے جواب دیا۔

            انٹن نے سوال کیا تعجب ہے جب لوگ جانے لگے تو تم لوٹ آئے۔

            ہاں یہی سمجھ لو۔

            انٹن نے پوچھا تمہیں ڈر نہیں لگتا؟

            لگتا ہے۔ لیکن یہ ڈر تو وہاں بھی موجود ہے۔ موت کا ڈر۔ اس لیے میں سوچتا ہوں وہ تو اپنے وقت مقررہ سے پہلے آ نہیں سکتی اور پھر جب وقت آ جائے گا تو وہ آ کر ہی رہے گی۔ ملک الموت کو امریکہ یا سعودی عرب سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

            انٹن بولا یار میں تو تمہیں سائنسداں سمجھتا تھا تم تو فلسفی نکلے۔

            کیوں؟ نہیں ویسے یہ فلسفہ نہیں حقیقت ہے۔ مائیکل بولا

            اچھا تو یہ بتاؤ کہ آخر یہاں کا مسئلہ کیا ہے؟

            مسئلہ در اصل یہ ہے کہ یہاں کی عوام کو اپنی دینی اقدار سے بے شمار عقیدت و محبت ہے وہ امریکہ کو اپنے دین کا دشمن سمجھتے ہیں۔ بدقسمتی سے امریکی انتظامیہ اپنے قول و عمل سے ان کے یقین میں اضافہ کرتا رہتا ہے۔ اب یہ لوگ امریکہ نواز حکمرانوں کو بھی اپنا دشمن سمجھنے لگے ہیں نیز ان کے خیال میں حکمراں خاندان دین سے خاصہ دور ہو چکا ہے۔ یہ ان کے اپنے مسائل ہیں جن میں وہ الجھے ہوئے ہیں۔ ہم اپنے مفاد کی خاطر اس طبقہ کی حفاظت پر مامور ہیں جن سے عوام بیزار ہیں۔ اس لیے وہ ہم سے بھی ناراض ہیں۔ اس طرح ایک خطرناک دائرہ بن گیا ہے جس میں ہم سب ایک دوسرے کا تعاقب کر رہے ہیں۔

            مائیکل کی بات انٹن کے سر پر سے گزر گئی اس نے موضوع بدلتے ہوئے پوچھا۔ لیکن وہ فرانسیسی جسے جدّہ میں قتل کر دیا گیا؟ اس کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟

            مائیکل نے جواب دیا۔ میں اپنا خیال کیا بتلاؤں ہمارے فلپائنی سکریٹری کا خیال بتلاتا ہوں جو مجھے خاصہ معقول معلوم ہوتا ہے۔

            وہ کیا ہے؟

            جس روز اس فرانسیسی کا قتل ہوا میں نے اپنے فلپائنی سکریٹری سے اس بارے میں استفسار کیا تو وہ بولا۔ ہر روز دنیا میں سیکڑوں لوگوں کو یوروپین اور امریکی موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں لیکن ان کی فکر کسی کو نہیں ہوتی بس ایک آدھ انگریز کہیں مارا جائے تو قیامت آ جاتی ہے۔ سکریٹری کے اس جواب نے میرا نقطۂ نظر بدل دیا۔

             گفتگو کا فی طویل ہو چکی تھی مائیکل نے انٹن اور شمیم کو کھانے کی دعوت دی اور کھانا کھلا کر روانہ کیا۔ انٹن اس ملاقات سے مطمئن نہیں تھا اس لیے کہ کاروبار کے سلسلے میں بہت کم گفتگو ہو سکی تھی۔ اس ملاقات کے دوران انٹن بولا کم تھا اور زیادہ تر وقت مائیکل کی گفتگو سننے میں صرف ہوا تھا ورنہ اکثر تو یہ ہوتا کہ وہ بولتا لوگ سنتے اورسوال کرتے نیز وہ جواب دیتا۔ اس بار ترتیب الٹ گئی تھی وہ پوچھتا رہا اور مائیکل کا بول بالا رہا۔

            شام میں انٹن اور شمیم کو جدّہ جانا تھا جس وقت یہ لوگ اپنا سامان چیک اِن کرا رہے تھے اچانک کسی نے زوردار انداز میں شمیم کی پیٹھ تھپتھپائی۔ پیچھے مڑ کر دیکھنے پر پتہ چلا یہ منورنجن بھارتی تھا۔ عربی ثوب سر پر شماغ اور گترا، آنکھوں پر کالا چشمہ اور فرنچ کٹ داڑھی ہر چیز عربوں جیسی تھی۔ شمیم نے منورنجن بھارتی کو اس کی منفرد مسکراہٹ سے پہچانا تھا۔

            اوہ منو یہ کیا تم تو بالکل لارنس آف عربیہ بنے ہوئے ہو۔ خیریت تو ہے۔

            منورنجن نے جواب دیا۔ کل ّ کوئیز۔ اور پوچھا۔ کیف انت زین۔

            شمیم شرمندہ ہو گیا۔ اس لیے کہ ایسی عربی تو وہ خود بھی نہیں سیکھ پایا تھا اور نہ ہی اس لباس کو اختیار کر سکا تھا۔ شمیم نے پوچھا۔

            یار تم تو دور درشن پر دور سے درشن دیتے تھے اب یہاں کہاں پہنچ گئے؟

             میں فی الحال سی این این کے لیے کام کر رہا ہوں۔ 9/11 کے بعد ایک ایک کر کے جب ان کے انگریز نمائندے مشرق وسطیٰ سے رفو چکر ہونے لگے تو پھر ان لوگوں نے کچھ نئے رنگروٹ بھرتی کیے۔ گذشتہ ایک سال کے دھماکوں نے انہیں بھی راہ فرار پر مجبور کر دیا۔ ویسے تو انسان اپنا تشخص چھپا لیتا ہے لیکن ٹی وی کا صحافی جسے لوگ ہر روز دیکھتے ہوں یہ ممکن نہیں تھا؟ اس لیے وہ بے چارے یہاں رک نہ سکے۔ اس کے بعد سی این این نے ہند و پاک کا رخ کر کے نئی بھرتی شروع کی تو میری بھی تقدیر کھل گئی۔ دوردرشن میں تنخواہ روپیوں میں ملتی تھی یہاں ڈالر میں ملتی ہے نیز اس پر ٹیکس بھی نہیں لگتا۔

            اوہو تب تو ان خراب حالات نے تمہارا بھلا کر دیا کیوں؟

            منورنجن بولا یار خراب حالات سب کے لیے تھوڑے ہی ہیں جس کے لیے ہیں اس کے لیے ہیں ہمارے تمہارے لیے تو جیسا بھارت ویسے سعودی عرب بلکہ یہاں ٹھیک ہی لگتا ہے آرام ہی آرام اور مال ہی مال۔ کیوں ٹھیک ہے نا۔

            منورنجن کی باتوں نے انٹن کا خوب منورنجن کیا۔ اس نے کہا۔ تم غلط پیشے میں آ گئے تم تفریح کی دنیا میں ہوتے تو تمہارے سیرئیل کبھی نہیں اترتے۔

            نہیں دوست نہیں۔ شائقین یکسانیت کے دشمن ہوتے ہیں۔ وہ ہر کسی سے بور ہو جاتے ہیں کسی سے جلد، کسی سے بدیر۔ ندرت و تنوع کے بغیر تفریح ممکن نہیں۔

            فلائٹ کا اعلان ہو گیا مسافر جہاز کی جانب چل پڑے۔ منورنجن چند منٹوں میں کچھ ایسا گھل مل گیا کہ انٹن اور شمیم نے اسے اپنے درمیان بٹھا لیا۔ جہاز میں انٹن نے کہا۔ ایک زمانہ تھا جب صحافی خبر رسانی کا کام کرتے تھے آج کل تو خبر بنانے لگے ہیں۔ نیوز ریڈر سے نیوز میکر بن گئے ہیں۔ کیوں کیا خیال ہے؟

            اس سوال پر منورنجن سنجیدہ ہو گیا اس نے کہا۔ یہ در اصل مسابقت کی دیوانہ وار دوڑ کا کمال ہے پہلے خبریں دینا صرف حکومت کی ذمہ داری تھی۔ کسی اور کو اس کی اجازت نہیں تھی۔ ان سرکاری خبر رسانوں کے پاس نہ وسائل کی کمی تھی اور نہ ان کا کسی سے مقابلہ تھا۔ اس صورتحال نے ٹی وی پر کام کرنے والے صحافیوں کی تخلیقی صلاحیت کو بانجھ کر دیا تھا لیکن جب پرائیوٹ چینل آ گئے تو ان کو وسائل کے لیے اشتہارات اور اشتہارات کے لیے ناظرین کی تعداد پر منحصر ہونا پڑا۔ مختلف چینلس کے درمیان مسابقت اور مقابلہ آرائی شروع ہو گئی اس نے صحافیوں کو بیدار مغز اور ندرت پسند بنا دیا اور نیوز ریڈر کو نیوز میکر میں تبدیل کر دیا۔‘‘

            بھئی بات معقول معلوم ہوتی ہے۔‘‘ شمیم نے تائید کی اور پوچھا۔ قدیم صحافت اور جدید خبر رسانی میں بنیادی فرق کیا ہے؟

            منورنجن نے کہا۔ اگر ایک جملہ میں بیان کرنا ہو تو پہلے ہم خبروں کے پیچھے بھاگتے تھے اب خبروں کے آگے یا کم از کم ساتھ ساتھ ہوتے ہیں۔

            آگے کیا مطلب؟ کیا تم لوگوں کو الہام ہو جاتا ہے؟ شمیم نے پوچھا۔

            نہیں الہام تو نہیں ہوتا لیکن اندازہ ضرور ہوتا ہے۔ کل کون سی خبر شاہ سرخی بن سکتی ہے اس کا اندازہ جو صحافی آج لگا لیتا ہے اور اس کی تیاری کرتا ہے وہ کامیاب ہو جاتا ہے اور جو ایسا نہیں کر پاتا ناکامی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔

            درست، خیر یہ بتاؤ کہ کل کی اہم ترین خبر کیا ہو گی؟‘‘ انٹن نے سوال کیا۔

            منورنجن نے کچھ دیر سوچ کر کہا۔ میں انتر یامی تو نہیں ہوں لیکن ہمارا خیال اور ہماری خواہش ہے کہ کل کی اہم ترین خبر حامد کرزائی کی حلف برداری ہو۔

            خیال تو ٹھیک ہے لیکن خواہش کیوں ہے؟

            خواہش اس لیے ہے کہ ہم ایسی خبریں دینا چاہتے ہیں جو ہمارے ناظرین کو خوش کرے ویسے یہ بات ہمیشہ ممکن نہیں ہوتی ہمیں ایسی خبریں بھی نشر کرنی پڑتی ہیں جو ان کو ناگوار ہوں۔ اس لئے کہ کئی بار ان کی دلچسپی ایسی خبروں میں بڑھ جاتی ہے لیکن جیسا کہ آپ لوگ جانتے ہیں تفریح میں ٹریجڈی کے بجائے کامیڈی زیادہ چلتی ہے اسی طرح خبروں میں ناگوار کے مقابلے خوشگوار خبروں کو زیادہ سراہا جاتا ہے۔ ہماری کوشش بھی یہ ہوتی ہے غمناک خبر زیادہ طویل نہ ہو بلکہ جتنی جلد ممکن ہو اسے ہٹا دیا جائے۔ اِلّا یہ کہ… منورنجن اچانک رُک گیا۔

            اِلّا کیا؟ شمیم نے سوال کیا

            یہ راز کی بات ہے لیکن تم سے کیا چھپانا۔ اِلّا یہ کہ اس سے حکومت کو کو ئی سیاسی فائدہ حاصل کرنا ہو۔

            لیکن تم پرائیوٹ چینل والے لوگ تو اپنے آپ کو آزاد صحافت کا علمبردار کہتے ہو۔ پھر یہ سب؟

            ہاں بھئی یہ سب کہنے کی باتیں ہیں۔ امریکی انتظامیہ کا ڈنڈا جب سر پر پڑتا ہے اچھے اچھوں کے ہوش ٹھکانے آ جاتے ہیں۔ جیسے ہمارے ملک میں کسی بھی آدمی کو داؤد یا چھوٹا راجن کا آدمی بنا کر انکاؤنٹر کر دیا جاتا ہے اسی طرح امریکہ کسی کو بھی دہشت گرد قرار دے کر گونٹے ناموبے بھیج دیتا ہے یہی وجہ ہے کہ سب اس کا خیال رکھتے ہیں۔

            لیکن یہ تو پریس کی آزادی کے خلاف ہے۔

            ہاں ہم جانتے ہیں لیکن پھر بھی جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ عراق میں جب آمریت تھی الجزیرہ کو آزادی تھی اب آزادی آئی تو الجزیرہ کا دفتر بند اخبارات پر پابندی۔ یہ سب دیکھ کر بھی جو عبرت نہ پکڑے تو وہ سراسر احمق ہے۔‘‘

            انٹن نے پوچھا اچھا یہ بتاؤ کہ حامد کرزائی کی حلف برداری کے سلسلے میں تم یہاں بیٹھ کر کیا کرو گے؟

            ہم ملاقاتیں کریں گے۔ عوام و خواص سے ان کے تاثرات معلوم کریں گے اور جو ہمارے حق میں ہوں گے انہیں نشر کر دیں گے۔

            یہ کام تو افغانستان میں ہونا چاہئے۔

            نہیں وہاں یہ سب نہیں ہو سکتا۔ کل چونکہ امریکی خارجہ اور دفاع کے سکریٹری وہاں موجود ہوں گے اس لئے کرفیو کی سی صورت ہو گی۔ عوام کو گھروں سے نکلنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ ویسے بھی وہاں کے لوگوں کی اکثریت خلاف ہے اس لیے ان پر اپنی توانائی صرف کرنے سے کیا حاصل؟ کابل سے صرف تقریب کو نشر کیا جائے گا۔ یہاں سعودی عرب میں اکثر دانشور اور صحافی جدّہ میں رہتے ہیں۔ میں ان سے ملوں گا اور حامد کرزائی کی حکومت کے قیام اوراس میں امریکہ کے احسانات کے بارے میں پوچھوں گا تاکہ لوگ افغانستان پر کی گئی بمباری اور مظالم کو فراموش کر کے امریکہ کے تئیں اچھے جذبات سے اپنے دلوں کو معمور کریں۔

            شمیم نے پوچھا۔ کیا ایسا ہو گا؟

            منورنجن خاموش ہو گیا اور پھر اس نے گیتا کا مشہور اشلوک سنا دیا۔ کرم کیے جا پھل کی اِچھاّ مت کر اے انسان۔ ہمارا کام کوشش کرنا ہے بس ہمیں اسی کی تنخواہ ملتی ہے۔

            ہوائی جہاز کا انجن بند ہوا اور ان تینوں کی گفتگو کا سلسلہ بھی رک گیا۔ اپنا اپنا سامان اٹھائے سب لوگ نیچے بس میں آ گئے اور پھر ایک دوسرے سے مصافحہ کر کے جدا ہو گئے۔ انٹن نے کہا۔ تمہارا دوست دلچسپ آدمی ہے۔

            شمیم نے جواب دیا۔ وہ اسم بامسمیٰ ہے ہندی میں منورنجن کا مطلب تفریح ہوتا ہے۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

            جدّہ میں انٹن اور شمیم کی مشغولیات مختلف تھیں لیکن دو دن بعد ان کو ساتھ میں ینبع جانا تھا۔ شمیم جدہ سے باہر ڈیڑھ سو کلو میٹر دور رابغ روانہ ہو گیا اور انٹن اپنے ایک گاہک سے ملنے جدہ شہر میں چلا گیا۔ دوپہر سے قبل ہوٹل آنے کے بعد انٹن کو اپنے ایک دیرینہ دوست ڈاکٹر طلحہ کا فون موصول ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ امریکی قونصل خانہ پر حملہ ہو گیا ہے جو ان کے دفتر کے بالکل سامنے ہے۔ قونصل خانے کی عمارت سے شعلے اٹھ رہے ہیں۔ گولیوں کے چلنے کی آوازیں آ رہی ہیں۔ کچھ لوگ یرغمال بھی بنا لئے گئے ہیں۔

            اس خبر کے سنتے ہی انٹن کے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی۔ اس نے اپنے کمرہ میں آ کر ٹی وی چلا دیا۔ سی این این پر وہی منورنجن بھارتی قونصل خانہ کے باہر سے ڈاکٹر طلحہ کی تصدیق کر رہا تھا۔

             انٹن بری طرح بوکھلا گیا۔ اس نے آناً فاناً اپنا منصوبہ تبدیل کر دیا اور اسی رات جدہ سے واپس لندن جانے کا پروگرام بنا لیا۔ شمیم کو ان تمام چیزوں کی اطلاع ہی نہیں تھی۔ جب انٹن نے اسے بتایا تو وہ بھی حیرت میں پڑ گیا لیکن اب کون کیا کر سکتا تھا۔ اس نے انٹن کی ڈھارس بندھائی اور جلد ہی وہ اپنے پہنچنے کی یقین دہانی کرائی لیکن جب ہوٹل پہنچا تو انٹن کی بے قراری دیکھ کر پریشان ہو گیا۔

            ہذیانی کیفیت میں مبتلاء انٹن کہہ رہا تھا۔ یہ کیا پاگل پن ہے مجھے پہلے ہی پتہ تھا دنیا کے اس حصہ میں یہی سب ہوتا ہے۔ خیر مجھ سے غلطی ہو گئی جو میں نے یہاں کا رخ کیا۔ اس کے لیے میں خود ذمہ دار ہوں اور میں اپنی اصلاح خود کروں گا واپس جاؤں گا اور پھر کبھی نہ آؤں گا۔

            شمیم سمجھ گیا موت کے خوف نے اسے حواس باختہ کر دیا ہے اس لیے کچھ کہنا سننا فضول ہے۔ تھوڑے سے وقفہ کے بعد وہ دونوں ایئر پورٹ پر آ گئے وہاں ان کی ملاقات پھر منورنجن سے ہو گئی جو ریاض واپس جا رہا تھا۔ شمیم نے پوچھا۔

            بھئی تمہارے دوست حامد کرزائی کا کیا بنا تم تو اسے بھول ہی گئے اور دن بھر کچھ اور ہی راگ الاپتے رہے۔

            منورنجن نے کہا۔ تم صحیح کہتے ہو امریکی قونصل خانہ پر حملہ کی خبر نے ساری دنیا کو اپنی جانب متوجہ کر لیا۔ اب ایسے میں اگر ہم بھی اس جانب متوجہ نہ ہوتے تو لوگ ہماری طرف سے توجہ ہٹا دیتے۔

            شمیم بولا یار میں بھی دن بھر تمہاری خوشگوار اور ناگوار والی بات پر غور کرتا رہا لیکن حالات کس طرح اختیار سے باہر ہو جاتے ہیں؟

            منورنجن نے کہا۔ لیکن یہ سب اتفاقی بات نہیں ہے۔ در اصل جن طاقتوں کے درمیان کشمکش برپا ہے وہ دونوں ایک دوسرے کے منصوبوں سے واقف ہوتے ہیں۔ وہ دونوں اس بات کو جانتے ہیں کہ کس موقع کا کون کتنا فائدہ اٹھائے گا اور پھر وہ دونوں ایک دوسرے کو زک پہنچانے کا کوئی موقع نہیں گنواتے۔ یہی تماشہ ہم آئے دن دیکھتے اور لوگوں کو دکھلاتے ہیں۔

            منورنجن کی بات ٹھیک تھی یہ حملہ ایک دن قبل یا بعد بھی ہو سکتا تھا لیکن اگر ایسا ہوتا تو حامد کرزائی کی حلف برداری کا جشن متاثر نہ ہوتا۔ امریکہ جس چیز کو اپنی زبردست کامیابی کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہتا تھا اس پر جدّہ میں قونصل خانہ پر حملہ کی خبر گرہن بن کر چھا گئی تھی۔ بش نے حامد کرزائی کی حلف برداری کے دن عراق کے کارگزار صدر کو وائٹ ہاؤس آنے کی دعوت دی تھی تاکہ اس جشن کو دوبالا کیا جائے لیکن جدہ کے حملہ نے سب تہ و بالا کر دیا

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

            لندن کی فلائٹ جب ہوا میں پرواز کر گئی تو انٹن کی جان میں جان آئی۔ اب اس نے آس پاس دیکھا تو اپنے بغل میں اسے ایک نوجوان نظر آیا۔ اس نوجوان نے انٹن کو سلام کیا۔ خیریت دریافت کی اور پوچھا۔

            آپ کہاں جا رہے ہیں؟

            انٹن جو کافی دیر سے خاموش تھا ایک دم سے پھٹ پڑا۔ اس نے نوجوان کو بتایا کہ اسے مزید دو دن سعودی عرب میں گزارنے تھے لیکن اس حملے کے باعث اپنا منصوبہ منسوخ کر کے وہ لندن جا رہا ہے وہاں دو روز قیام کر کے اپنے ملک کینیڈا روانہ ہو جائے گا۔ اس غیر محفوظ علاقہ سے نکل کر محفوظ و مامون دنیا پر چلا جائے گا۔

            انٹن کے بغل میں بیٹھا ہوا نوجوان مسکرایا اور سوال کیا۔ آپ تو محفوظ مقام پر پہنچ جاؤ گے لیکن ہم کہاں جائیں؟

            کیا مطلب؟ انٹن نے سوال کیا۔

            وہ بولا۔ میرا تعلق فلسطین سے ہے۔ میرے والد اسرائیلی حملے میں شہید کر دیئے گئے میری بے سہارا ماں اپنے بھائی کے پاس سعودی عرب آ گئی۔ میں نے ہوش سنبھالنے کے بعد اپنے باپ کے مشن کو آگے بڑھانے کے لیے دوبارہ فلسطین جانے کا فیصلہ کیا تو میری ماں نے مجھے منع کر دیا۔ میں نے سمجھا کہ میری ماں ڈر گئی ہے میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی تو اس نے مجھے بتایا بیٹے اسرائیل تو ایک شاخ ہے فتنہ کی جڑ تو امریکہ ہے جس نے نہ صرف فلسطین بلکہ عراق اور افغانستان کو جہنم زار بنا رکھا ہے۔

            جس کے ارادے نہ ایران کی بابت ٹھیک ہیں نہ شام کے بارے میں اچھے ہیں۔ جو سوڈان کو بھی نشانہ بنا سکتا ہے اور لبنان کو بھی۔ اس کی بدولت ہم ہر جگہ غیر محفوظ ہیں۔ اسی لئے میں نے سوال کیا تھا کہ آپ تو اپنے محفوظ مقامات پر چلے جاؤ گے لیکن ہم کہاں جائیں گے؟

            اس سوال کا انٹن کے پاس جواب نہ تھا۔ اس نے کہا۔ یہ تو ٹھیک ہے لیکن تم بھی تو امن کی تلاش میں برطانیہ ہی جا رہے ہو۔

            نہیں میں جانتا ہوں کہ امریکہ اور برطانیہ بھی ہمارے لیے محفوظ نہیں ہے۔ وہاں معصوم لوگوں کو دہشت گرد قرار دے کر بھون دیا جاتا ہے لیکن پھر بھی میں وہاں جا رہا ہوں تاکہ لوگوں کو اپنے قلم اور اپنے عمل سے امن و امان کا مطلب سمجھاؤں۔ میں وہاں جا کر لوگوں کو بتاؤں گا کہ اگر اپنی خیرو سلامتی چاہتے ہو تو دوسرے کا سکون غارت نہ کرو۔ اگر یہ بات الفاظ سے ان کی سمجھ میں آ جائے تو ٹھیک ورنہ پھر مجھے اپنے عمل سے یہ بات سمجھانی ہو گی۔

            عمل کیسا عمل؟ انٹن نے سوال کیا

            ایسا عمل جو دلوں کو دہلا دے جو لوگوں کے اندر عدم تحفظ کا احساس پیدا کر دے تاکہ وہ اپنی حفاظت کا انتظام کریں اور دوسروں کے تحفظ کا احترام کریں۔

            لیکن یہ کیسے ممکن ہے؟

            ممکن ہے۔ جیسا کہ ۱۱؍ستمبر کے دن ممکن ہوا۔

            انٹن کے لیے یہ ایک یادگار سفر تھا۔ حالانکہ وہ اپنے کاروباری مقاصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہا تھا۔ لیکن بہت سارے غلط افکارو نظریات سے اس نے نجات حاصل کر لی تھی۔ اس نے آگے بڑھ کر نوجوان فلسطینی ہمراہی سے ہاتھ ملایا اور دعا دی … ’’گاڈ بلیس یو ینگ مین! ‘‘

٭٭٭


 

 

محمود و ایاز

 

            منحنی سا پر پیچ پہاڑی راستہ جب میدان کے وسیع و عریض چٹیل شاہراہ سے بغلگیر ہوا تو ایاز نے محمود سے پوچھاسرکار! کیا میں آج یہ گھوڑا گھر لے جا سکتا ہوں؟

            شام کے سائے طویل ہو چلے تھے، تاریکی انہیں نگلنے لگی تھی ایسے میں محمود کو یہ سوال کچھ اٹپٹا سالگا وہ بولا اتنی رات گئے تو گھوڑے پر سوار ہو کر کہاں جائے گا؟

            میں! کہیں نہیں۔ میں تو اب اپنے گھر جاؤں گا بس

            گھر؟ تیرا گھر تو شاہی محل سے چند فرلانگ پر ہے؟

             جی ہاں سرکار آپ نے درست فرمایا

            تو پھر تجھے گھوڑے کی کیا ضرورت؟

            وہ ایسا ہے کہ ایک دن میں گھوڑے پر بیٹھ کر گھر تک جانا چاہتا ہوں

            ایاز کے اصرار نے محمود کو مزید حیرت زدہ کر دیا۔ ایاز اس کا پشتینی غلام تھا اس کے آبا و اجداد میں سے کسی نے اس طرح کی بے تکی خواہش کا اظہار نہیں کیا تھا۔ وہ بولا اس سے کیا فرق پڑتا ہے ایاز؟

            فرق؟ بہت پڑتا ہے۔ آپ کیا سمجھتے ہیں میرے گھر والوں کو اس پر حیرت نہیں ہو گی؟

            ہو گی ۰۰۰۰۰۰ضرور ہو گی لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟

            وہی تو فرق ہے سرکار کہ سب لوگ حیرت زدہ رہ جائیں گے ورنہ میں روز ہی پیدل گھر جاتا ہوں کسی کو تعجب نہیں ہوتا

            محمود کو ایاز کی باتیں کچھ عجیب سی لگ رہی تھیں کوئی اور غلام ہوتا تو محمود اسے ڈانٹ کر منع کر دیتا لیکن ایاز کی بات اور تھی۔ وہ اس کا چہیتا غلام تھا اور غلام سے زیادہ ان کے درمیان دوستی کا رشتہ تھا۔ بچپن میں وہ دونوں ایک ساتھ کھیلتے تھے۔ اس وقت وہ ناسمجھ بچے تھے۔ ان کو شعور نہیں تھا کہ آقا کیا ہوتا ہے اور غلام کس کو کہتے ہیں؟

            محمود بولا ٹھیک ہے ایسی بات ہے تو تم گھوڑا اپنے گھر لے جاؤ اور کھانے پینے سے فارغ ہونے کے بعد اسے واپس لا کر اصطبل میں باندھ دینا۔ ویسے میرا خیال ہے کہ تم بلاوجہ اپنے آپ کو زحمت میں ڈال رہے ہو۔

            جی نہیں جناب اس میں زحمت کیسی؟ میں کل صبح اس گھوڑے کو اپنے ساتھ لے کر محل آ جاؤں گا۔

            کل صبح؟ کیسی باتیں کرتے ہو ایاز کیا تمہارے پاس اصطبل ہے؟

            جی نہیں لیکن اس کی کیا ضرورت؟ گرمیوں کی رات میں ویسے بھی ہم لوگ باہر آنگن میں چار پائی بچھا کر سو تے ہیں آپ کا یہ گھوڑا بھی وہیں بندھا رہے گا

            ایاز تم تو جانتے ہو یہ شاہی گھوڑا؟

            جی ہاں سرکار میں جانتا ہوں۔ ایاز ادب احترام کے ساتھ گویا ہوا۔ لیکن جہاں شاہی غلام رہ سکتا ہے وہاں شاہی فرسان کیوں نہیں رہ سکتا؟

            دیکھو ایاز ضد نہ کرو انسان کا کیا؟ وہ مصالحت کرنا جانتا ہے۔ اپنی طبیعت کو حالات کے ساتھ سازگار بنا لیتا ہے لیکن یہ بیچارہ گھوڑا اس فن سے واقف نہیں ہے۔

            کوئی بات نہیں جناب میں کئی سالوں سے اس کے ساتھ ہوں اور میں نے اسے کئی ہنر سکھلادئیے ہیں آج رات یہ میرے ساتھ جینے کا ایک اور گر سیکھ جائے گا

            ایاز کا اصرار اب محمود کو ناگوار گذر نے لگا تھا لیکن پھر بھی وہ بولا دیکھو ایاز تم بچپن ہی سے اس گھر میں رہائش پذیر ہونے کے سبب عادی ہو گئے ہو اس لئے تمہیں کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن اس گھوڑے نے شاہی اصطبل میں آنکھ کھولی وہیں پلا بڑھا ہے۔ اس لئے ممکن ہے اسے مشکل ہو گی۔

            اس گھوڑے کی مشکلات کا اندازہ تو میں نہیں کر سکتا لیکن اتنا جانتا ہوں کہ آپ کو اس سے بہت دقت ہو گی۔ سچ میں آپ نہایت درد مندانسان ہیں اپنے جانوروں کا بھی بہت خیال رکھتے ہیں۔

            محمود نے بات کے بدلنے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کہا ایک بات بتاؤں ایاز تم بہت بھولے ہو اس لئے تمہاری باتیں مجھ جیسے بے وقوف کی سمجھ میں بھی بڑی آسانی سے آ جاتی تھیں لیکن آج نہ جانے کیوں میں تمہیں سمجھ نہیں پا رہا ہوں؟

            ایاز بولا اے میرے پیارے آقا جو آپ کو نا سمجھ سمجھے وہ دنیا کا سب سے بڑا بے وقوف انسان ہے۔

            اچھا تو تم نے بلا واسطہ مجھ ہی کو بے وقوف کہہ دیا محمود مسکرا کر بولا۔

            آپ کیسی بات کہہ رہے ہیں سرکار! میں ایسی گستاخی کی جرأت کیونکر کر سکتا ہوں؟

            کیوں تم نے یہ نہیں کہا کہ جو مجھے۔۔۔۔۔

            جی ہاں سرکار یہ تو میں نے کہا مگر۔۔۔۔۔

            وہی تو! تمہاری باتیں سن کر میں خود اپنے آپ کو بے وقوف محسوس کر رہا ہوں تو گویا تمہاری منطق کے مطابق میں دنیا کا سب سے بڑا۔۔۔۔

            جی نہیں جناب یہ آپ کی بندہ پروری ہے جو آپ مجھ جیسے احمق غلام سے دل لگی کر رہے ہیں

            اچھا! اس بندے سے بھلا مذاق کون کر سکتا ہے جو گھوڑے پر سوار ہو کر گھر جانا چاہتا ہو ویسے میں تم سے کہہ چکا ہوں کہ اگر تم رات میں واپس اصطبل میں باندھ جانے کیلئے تیار ہو تو اسے اپنے ساتھ لے کر جا سکتے ہو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے

            جی نہیں جناب اگر ایسی بات ہے تو جانے دیجئے میں اسے یہیں چھوڑ جاتا ہوں۔ وہ دونوں شاہی محل کے سامنے پہنچ چکے تھے

            محمود نے مسکرا کرا للہ حافظ کہا اور دیوان خاص کی جانب مڑ گیا

            دیوان میں موجود سارے لوگ محمود کو دیکھ کر احترام سے کھڑے ہو گئے۔ سوائے ایک فقیر کے جو عالم وجد میں جھوم جھوم کر گا رہا تھا

خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر

پھر سلادیتی ہے اس کو حکمراں کی ساحری

            ایاز گھوڑے کو اصطبل میں باندھتے ہوئے سوچ رہا تھا کاش وہ انسان نہیں فرسان ہوتا۔ شاہی فرسان اور اور شاہی غلام کے درمیان کا فرق آج اس کے سمجھ میں آ گیا تھا۔ گھر جاتے ہوئے ایاز کو اپنے بچپن کا ایک واقعہ یاد آ گیا۔ جب اس نے باپ اعجازسے پوچھا تھا کہ آپ گھوڑا چلانا جانتے ہیں؟

            اس کے باپ نے جواب دیا کیسی باتیں کرتے ہو بیٹا تمہارے باپ کا شمار شہر کے سب سے اچھے شہ سواروں میں ہوتا ہے

            اچھا تو آپ گھوڑے پر بیٹھ کر گھرکیوں نہیں آتے؟

            اپنے معصوم سے بیٹے کے منھ سے اس قدر تیکھا سوال سن کر اعجاز ششدر رہ گیا۔ وہ بولا بیٹے بات در اصل یہ ہے کہ میں اپنے مالک کے گھوڑے پر سواری کرتا ہوں۔ اس لئے گھوڑے پر اس کی مرضی چلتی ہے اور اس کا حکم یہ ہے کہ گھوڑے کو شاہی اصطبل میں باندھ کر پیدل گھر جایا جائے

            اپنے باپ اعجاز کا یہ جواب سن کر اس نے پھر پوچھا۔ گھوڑے کی حد تو ٹھیک ہے لیکن آپ پر کس کی مرضی چلتی ہے؟

            مجھ پر؟ مجھ پر بھی اپنے مالک کی مرضی چلتی ہے میں ان کا فرماں بردار اور تابعدار جو ہوں

            تو بابا آپ میں اور اس گھوڑے میں کوئی فرق بھی ہے یا نہیں؟ نہ جانے ایاز کو کہاں سے یہ سارے سوالات سوجھ رہے تھے۔

             بیٹے! فرق تو ضرور ہے۔ ہم دونوں کے اندر بہت بڑا فرق ہے۔ در اصل وہ تو صرف مالک کی مرضی پر چلتا ہے لیکن میں نہ صرف خود چلتا ہوں بلکہ اس کی مرضی چلاتا بھی ہوں۔

            اچھا تو گویا آقا کی غلامی میں آپ گھوڑے کی بہ نست بلند تر درجہ پر فائز ہیں

            اس میں شک شبہ کی کون سی گنجائش ہے؟ یہی تو ہماری عظیم ترین سعادت ہے۔ یہ کہتے ہوئے اعجاز کا سینہ پھول گیا لیکن آج ایاز کواحساس ہوا کہ اس کے والد شدید خوش فہمی کا شکار تھے۔ انہیں پتہ نہیں تھا کہ آقا کی نظر میں گھوڑے اور غلام کی حیثیت میں فرق تو ہے لیکن وہ نہیں جو وہ سمجھتے ہیں۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

فصلوں کی کٹائی کا کام مکمل ہو چکا تھا۔ ہر طرف جشن کا ماحول تھا کسانوں کے پاس فرصت بھی تھی اور خوشحالی بھی اس لئے وہ تفریح میں مشغول ہو گئے تھے۔ ہرسال موسم بہار میں پورنیما کی رات کو شہر کے اندر ایک بہت بڑے میلے کا اہتمام ہوتا تھا۔ دوکانیں سجتیں، کھیل تماشے ہوتے، ناچ رنگ کی محفلیں آباد کی جاتیں اور دور دراز سے دوست و احباب ملاقات کی غرض سے تشریف لاتے۔ اس ہنگامے میں سب اہم تقریب گھڑ سواری کا مسابقہ ہوتا۔ بادشاہ کے مختلف غلام گھوڑے دوڑاتے اور ان میں سے جو فتح حاصل کرتا وہ انعام و اکرام سے نوازہ جاتا۔

            ایاز اور اس کے والد اعجاز نے کئی مرتبہ یہ اعزاز حاصل کیا تھا۔ اس مقابلے میں کامیابی کیلئے جہاں شہ سوار کی اہمیت تھی وہیں گھوڑا بھی غیر اہم نہیں تھا اس لئے کہ کمزور گھوڑے پر ماہر شہ سوار اور تگڑے گھوڑے پر بزدل سوار یکساں ناکامی کے حامل ہوتے تھے اسی باعث محمود نے سب سے پہلے ایاز کو اپنی پسند کا گھوڑا منتخب کرنے کا موقع دیا اور اصطبل کی جانب اشارہ کر کے پوچھا۔

             تم اب کی بار ان میں سے کون سا گھوڑا دوڑاؤ گے ایاز؟

            ایاز بولا میں اس بار ان میں سے کوئی گھوڑا نہیں دوڑاؤں گا

            محمود کو تعجب ہوا وہ بولا کیوں خیریت تو ہے؟

            جی ہاں جناب بالکل خیریت ہے۔ ایاز بولا اور محمود نے چپیّ سادھ لی

            مقابلے کے پہلے دن ایاز کا قریبی دوست معاذ اس سے ملنے آیا اور پوچھا کیوں بھائی خیریت تو ہے سنا ہے تم نے اس نے بار شہ سواری سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے؟

            یہ تم سے کس نے کہا؟ ایاز نے سوال کیا

            معاذ بولاکس نے؟ مجھ سے بات یہ خود محمود نے بتائی

            اچھا تو انہیں شاید کوئی غلط فہمی ہو گئی ہے

            غلط فہمی اور آقا کو؟ کیسی باتیں کرتے ہو۔ یہ توہم غلاموں کا عیب ہے۔

            انسانی عیوب کے جراثیم بھی بیماری کی طرح ہوتے ہیں اور وہ آقا و غلام کے درمیان فرق نہیں کر پاتے

            تم کہیں اور نکل گئے ایاز میں تو تم سے دوڑ کے بارے میں پوچھ رہا تھا۔ کیا تمہاری محمود سے اس بابت کوئی بات نہیں ہوئی؟

            ہوئی تھی انہوں نے اپنے اصطبل کی جان اشارہ کر کے پوچھا تھا کہ ان میں سے کون سا گھوڑا دوڑاؤ گے؟ میں نے جواب دیا کوئی نہیں

            تب تو انہوں نے صحیح سمجھا اگر تمہارے پاس گھوڑا ہی نہیں ہو گا تو کیا خود دوڑو گے؟

            ایاز ہنس کر بولا جیسا مالک ویسا گھوڑا کچھ نہیں تو تھوڑا تھوڑا

            پہیلیاں نہ بجھواوسیدھے سیدھے جواب دو

            بھئی میں نے تو صرف ان کے اصطبل کے گھوڑوں کے بارے میں یہ بات کہی تھی کیا اس سے باہر دنیا میں گھوڑے نہیں پائے جاتے؟

            کیوں نہیں ضرور پائے جاتے ہیں لیکن ان تک ہماری رسائی کیسے ہو سکتی ہے؟ میرا مطلب ہے ہم غلاموں کی! ہمارے پاس تو آقا کے گھوڑے ہوتے ہیں۔ گھوڑا در اصل سرداروں کی سواری ہے غلاموں کی نہیں۔

            لیکن گھوڑا تو نہیں جانتا کہ اس کا مالک غلام ہے یاسلطان اسی لئے وہ ہمارے آقا کی مانند ہمیں بھی اپنے اوپر سوار کر لیتا ہے۔

            تمہاری بات درست ہے وہ بے وقوف جانور آقا اور غلام کا فرق نہیں جانتا

            اچھا تو ہم عقلمند ہیں جو اس تفریق و امتیاز کو جانتے ہیں؟ ایاز نے ترکی بہ ترکی سوال کیا اور معاذ لاجواب ہو گیا

             عقلمند اور بے وقوف کا فیصلہ کل دوڑ کے میدان میں ہو گا۔

            کیا مطلب؟ ایاز نے پوچھا

            یہی کہ کل جو جیتے گا وہی گھوڑا بھی عقلمند ہو گا اور اس کا سوار بھی۔ وہ کون ہو گا یہ تو میں نہیں جانتا لیکن کون نہیں ہو گا یہ ضرور جانتا ہوں؟

            اچھا وہ کیسے؟

            بھئی جو مقابلے میں حصہ ہی نہیں لے گا اس کی کامیابی کا کیا سوال؟

            تمہاری یہ بات بھی درست ہے تماشائیوں کے مقدر میں کامیابی نہیں آتی

            افسوس کہ اس بار تم نے خود اپنے آپ کو اپاہج تماشائی بنا لیا ہے

            تم نے دوبارہ وہی بات کہہ دی جس کی میں تردید کر چکا ہوں

            اچھا تو تم بغیر گھوڑے کے دوڑ میں حصہ لو گے؟

            جی نہیں میں گھوڑے سمیت مقابلہ کروں گا

             گھوڑا کہاں سے لاؤ گے؟

            گھوڑا مجھے لانے کی کیا ضرورت وہ میرے گھر کے پاس بندھا ہوا ہے

             تمہارے گھر کے پاس گھوڑا؟ میں کچھ سمجھا نہیں

            اب کیا ترکی زبان میں یہ بتانا پڑے گا کہ میرے گھر کے پاس گھوڑا بندھا ہے

            دوست تمہاری بات تو میں سن رہا ہوں لیکن سمجھ نہیں پا رہا ہوں اور یہ بات مجھے اس وقت تک سمجھ میں نہیں آئے گی جب میں اس خیالی گھوڑے کو اپنی آنکھوں سے دیکھ نہ لوں

            اگر یہی بات ہے تو ہاتھ کنگن کو آرسی کیا؟ میرا گھر کون سا دور ہے چلو قہوہ پیتے ہیں

            ایاز نے اپنی اہلیہ سے قہوہ بنانے کیلئے کہا اور گھوڑے کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا تو وہ اپنے انوکھے انداز میں ہنہنا یہ۔ معاذ کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں ہو رہا تھا وہ بولا یار کہاں سے اٹھا لائے اس حیوان کو؟

            حیوان کہاں پائے جاتے ہیں؟ کیا تم یہ نہیں جانتے؟

            تو کیا تم اسے جنگل سے پکڑ لائے ہو؟

            جی ہاں ایک روز میں نے اسے جنگل میں ٹہلتے ہوئے دیکھا اور اس کے پیچھے لگ گیا یقین کرو بڑی مشکل سے قابو میں آیا ہے یہ وحشی۔ ایاز نے بڑے پیار سے اپنے گھوڑے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا

            تو کیا تم اس وحشی گھوڑے کے ساتھ میدان میں اترو گے؟

            کیوں نہیں گھوڑا تو گھوڑا ہوتا ہے، کیا وحشی اور کیا شہری؟ ویسے تمام ہی شاہی گھوڑوں کے آبا و اجداد کسی نہ کسی نسل میں جنگلی رہے ہوں گے

            تمہاری منطق تودرست ہے لیکن دنیا اس پر عمل نہیں کرتی۔ اگر کوئی شخص کسی ملک کی شہریت حاصل کر لے تو اس کے حقوق کی بابت یہ نہیں دیکھا جاتا کہ اس کے باپ دادا کون تھے اور کہاں سے آئے تھے؟

            مجھے تمہاری یہ دلیل معقول لگتی ہے معاذ۔ اس لئے کہ ہمارے آباء و اجداد بھی تو کسی زمانے میں آزاد شہری رہے ہوں گے لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے ہم غلام ہیں اور غلام رہیں گے

            جی ہاں ایاز اسی لئے میں پوچھتا ہوں کیا تم نے اس کیلئے اجازت لی ہے؟

            اجازت! کیسی اجازت؟ اگر میں کسی اور کا گھوڑا دوڑاؤں تو مجھے اس کے مالک سے اجازت لینی ہو گی لیکن اس کا مالک تو میں خود ہوں۔ اس لئے مجھے اجازت کی کیا حاجت؟

            وہ تو ٹھیک ہے لیکن کیا ہم لوگوں کو گھوڑا رکھنے کی اجازت ہے؟ معاذ نے اندیشے کا اظہار کیا

            ایاز ہنس کر بولا بھئی جن چیزوں کی اجازت ہے اس کی فہرست تو اس قدر طویل ہے کہ اس کا مرتب کرنا اور اس کی معلومات حاصل کرنا ایک کارِ دارد ہے اسی لئے جن پر پابندی ہوتی ہے ان کے بارے میں بتلا دیا جاتا ہے گھوڑا پالنا ممنوع ہے یہ نہیں سنا۔

            تمہاری بات درست ہے ایاز لیکن اس مقابلے کے بھی تو اصول و ضوابط ہوں گے اس لئے اس بارے میں تصدیق کر لینا بہتر ہے ورنہ بلا وجہ۰۰۰۰۰۰۰۰

            ورنہ کیا؟ ایاز نے ہنس کر پوچھا مجھے مقابلے سے روک دیا جائے گا یہی نا؟

            نہیں میرا مطلب ہے کہ احتیاط علاج سے بہتر ہے ویسے میں جانتا ہوں کہ تم محمود کے چہیتے ہو اس لئے تمہارے بارے میں کوئی فیصلہ آسانی سے نہیں کیا جا سکے گا

            اگر یہی بات ہے تو میں اس اجازت کے بکھیڑے میں کیوں پڑوں؟ جو ہو گا دیکھا جائے گا اگر روک دیا گیا تو رک جائیں گے۔ کھیل تو آخر کھیل ہے ویسے بھی کون جانتا ہے کہ مقابلے میں کامیابی ہی ہو؟

            جی ہاں ایاز کسی بھی مقابلے میں کامیابی اہم ہوتی ہے ورنہ ناکام رہنے والے اور حصہ نہ لینے والوں کا انجام یکساں ہی ہوتا ہے

            ایاز بولا مجھے نہیں لگتا کشمکش کے بعد ناکامی اور بغیر کسی کوشش کے شکست تسلیم کر لینا یکساں نہیں ہو سکتا

            خیر تمہارے اور تمہاری اس نئی سواری کیلئے میری جانب سے نیک خواہشات۔ معاذ نے اٹھتے ہوئے کہا

            تمہارے لئے بھی!

             اللہ حافظ

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

            پورنیما کی رات میں ساری کائنات مقابلے کے میدان میں امڈ پڑی تھی ایسا لگتا تھا گویا حق و باطل کا یہ سب سے بڑا معرکہ ہے اور اس میں کامیاب ہو جانے والا فاتح عالم ہو گا۔ ایک طرف شائقین کا جوش و خروش تھا اور دوسری جانب شہ سوار اپنے سجے سجائے گھوڑوں کے ساتھ صف بندی کر رہے تھے کہ ان کے درمیان ایاز اپنے جنگلی گھوڑے کے ساتھ نمودار ہوا اور سارے لوگوں کی نگاہوں کا مرکز بن گیا۔ ایاز کے گھوڑے پر زین نہیں تھی ایک پھٹی پرانی شطرنجی سے اس نے گھوڑے کی پیٹھ کو ڈھانپ رکھا تھا اور وہ خود شاہی وردی کے بجائے عمومی لباس زیب تن کئے ہوئے تھا اس لئے سب سے منفرد و مختلف لگتا تھا۔

            روایت کے مطابق مقابلے سے قبل تمام ہی شرکاء سے محمود ملاقات کرتا تھا تاکہ ان کی حوصلہ افزائی ہو یہ سلسلہ جاری تھا اور لوگوں میں طرح طرح کی چہ مے گوئیاں ہو رہی تھیں

            کسی نے کہا اس ایاز کو دیکھو ایسا لگتا ہے غلام گھوڑے پر غلام سوارہے

             دوسرا بولا نہیں ایسا نہیں لگتا بلکہ یوں لگتا ہے کہ غلام گھوڑے پر کوئی بادشاہ سوار ہے اس لئے کہ بادشاہ وردی کا پابند نہیں ہوتا۔

             اگر ایسی بات ہے تو تیسرا بولا ایاز کے گھوڑے پر بھی شاہی وردی نہیں ہے اور نہ وہ شاہی اصطبل سے آیا ہے اس لئے اسے کیونکر غلام کہا جا سکتا ہے؟

            لیکن اس کا لباس تو دیکھو اس کے پاس زین تک نہیں ہے۔ ایک پھٹی پرانی دری؟ کیا یہ شاہانہ ٹھاٹ ہے؟

            وہ پھٹی پرانی تو ہے لیکن اس کی اپنی ہے! وہ کسی سلطان کا طوق نہیں ہے۔

            کیا آقاؤں کی عطا طوق ہوتی ہے؟

            کیا غلامی اور آزادی کی پہچان لباس سے ہوتی ہے؟

            گویا جتنے منھ اتنی باتیں۔

            اس بیچ محمود سبھی شرکائے مقابلہ سے ملتا ملاتا ایاز کے قریب پہنچ گیا۔ ساری زبانیں بند ہو گئیں ہر کوئی محمود کا رد عمل دیکھنا چاہتا تھا۔ محمود نے مسکرا کر ایاز کی جانب دیکھا تو ایاز نے حسبِ عادت سرکو جھکا دیا۔ محمود نے ہاتھ آگے بڑھا کر حسب دستور مصافحہ کیا اور اضافی یہ کیا کہ ایاز کی پیشانی کا بوسہ لیا۔ اس مخصوص اعزاز کا مستحق صرف اور صرف ایاز تھا۔ ایاز کے لئے یہ نوازش مقابلے میں کامیابی سے زیادہ قیمتی تھی۔

            مقابلے کا بگل بجا تو سارے گھوڑے دوڑ پڑے اس مقابلے میں گھڑ سوار گاؤں کے سات چکر لگاتے تھے اور جو سب سے پہلے اسے مکمل کرتا وہ کامیاب ہوتا پہلے دو چکر میں تو ایاز پیچھے رہ جانے والوں میں تھا لیکن تیسرے میں آگے والوں کی صف میں شامل ہو گیا۔ اس منظر نے سارے لو گوں کو چونکا دیا۔ اس کے بعد محمود اور قاضی شہر کے درمیان گفت و شنید کا سلسلہ چھڑ گیا۔

            وہ دونوں اس بات کو بھول گئے کہ مقابلے میں کیا ہو رہا ہے ان کے درمیان بحث و مباحثہ مقابلے سے زیادہ گرما گرم تھا۔ اس بیچ زبردست شور بلند ہوا گویا شائقین نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ لوگ خوشی کے مارے پھولے نہیں سمارہے تھے ان کے گلے سے چیخ اور آنکھوں سے آنسو رواں تھے یہ عجیب و غریب منظر تھا جو اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔ محمود نے سر اٹھا کر پوچھا یہ کیا ہو رہا ہے؟

            سردار ایاز جیت گیا۔ آپ کا چہیتا غلام ایاز پھر ایک بار کامیاب ہو گیا ہے سرکا ر۔ مبارک ہو! آپ کو بہت بہت مبارک ہو۔

            محمود کا مصاحبِ خاص اسے مبارکباد دے رہا تھا کہ قاضی شہر نے کہا لیکن ایاز! آج وہ ان کا غلام کب تھا؟ نہ شاہی وردی اور نہ شاہی گھوڑا؟ غلامی کی ساری علامتوں کو اس نے از خود نوچ کر پھینک دیا تھا۔

            غضبناک محمود نے قاضی کو دیکھا تو وہ بولے گستاخی معاف جناب میں جذبات میں آ گیا تھا۔ مجھے یہ سرِ عام نہ کہنا چاہئے تھا۔ میں معافی کا خواستگار ہوں۔

            محمود مسکرایا اور بولا الفاظ کے استعمال سے حقیقتِ حال نہیں بدلتی آپ تقسیم اسناد کا خطبہ ارشاد فرمائیں

            شور تھما تو اعلان ہوا اب ہماری روایات کے مطابق قاضی شہر فیصلے کا اعلان فرمائیں گے اور اپنا خطبہ پیش کریں گے ہم مودبانہ گزارش کرتے ہیں کہ عزت مآب قاضی صاحب تشریف لائیں

            شہر کا قاضی اس بستی کی سب سے بزرگ اور قابلِ احترام شخصیت تھی تمام تنازعات انہیں سے رجوع کئے جاتے تھے۔ ان کے جاری کردہ فیصلوں کو سلطان و غلام بسرو چشم تسلیم کرتے تھے۔ اپنے وسیع و عریض تجربہ کے باعث وہ بہت جلد معاملات کی تہہ تک پہنچ جاتے اور بڑے اعتماد سے فیصلے فرماتے لیکن آج ان کے قدموں میں لغزش تھی اور زبان لڑکھڑا رہی تھی۔ یہ اس بات کا ثبوت تھا دل دماغ سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ زبان کا رابطہ ذہن سے ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے۔

             رسمی کلمات کے بعد قاضی شہر نے کہا خواتین و حضرات آپ سب لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ ہمارے ملک کا نظام صدیوں پرانے قبائلی دستور کے مطابق چلتا ہے اور اسی کے باعث یہاں امن و امان قائم ہے، قانون کی حکمرانی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ آپ سب نے کبھی بھی ان قبائلی روایات سے انحراف تو کجا ان پر اعتراض تک نہیں کیا اور اس کی مکمل پاسداری کی۔ مجھے امید ہے کہ آئندہ بھی یہی سلسلہ جاری رہیگا ورنہ اندیشہ ہے کہ یہ امن و امان کی فضا غارت ہو جائے گی۔ ایاز کو ان کے اس جملے سے دھمکی کی بو آ رہی تھی۔

            خواتین و حضرات ہم اپنی روایات کے مقدس صحیفوں سے صرف دو حالتوں میں رجوع کرتے ہیں ایک تو جب کوئی تنازع کھڑا ہو جائے یا کوئی نئی صورتحال پیدا ہو جائے۔ جب سب کچھ حسبِ معمول چل رہا ہوتا ہے تو ہمیں اس کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی اس لئے ہم اس کی تفصیلات کو فراموش بھی کر دیتے ہیں۔

            آج غالباً ہمارے شہر کی تاریخ میں پہلی بار یہ ہوا کہ اس مقابلے میں کسی غیر شاہی گھوڑے نے حصہ لیا ہے۔ قربان جائیے ہمارے بزرگوں کی دور اندیشی پر کہ انہوں نے اس امکان کا ادراک بھی صدیوں قبل کر لیا تھا اورقیاس کی بنیاد پر اس بارے میں بھی ہماری رہنمائی فرما دی تھی۔ اب آئیے میں آپ لوگوں کو ان ہدایات سے روشناس کراؤں:

            دستور کی شق۱۱: گھوڑا ایک شاہی جانور ہے اس لئے کسی آزاد شہری کو گھوڑا رکھنے کی اجازت نہیں ہے الا ّیہ کہ حکومت اسے خصوصی مراعات سے نوازے لیکن اس صورت میں بھی اس کے پاس حکومت کا عطا کردہ گھوڑا ہی ہو گا جسے کسی بھی وقت ضبط کرنے کا مکمل اختیار حکومتِ وقت کو حاصل ہو گا۔ اس بارے میں کسی وضاحت کی مطلق ضرورت نہیں ہو گی۔

            دستور کی شق۱۲: اگر کوئی آزاد شہری اس قانون کی خلاف ورزی کرے تو اسے شہر بدر کر دیا جائے گا۔

            دستور کی شق۱۳: بصورتِ دیگر اسے اپنے گھوڑے کو شاہی اصطبل میں جمع کرانا ہو گا۔ اس صورت میں وہ شہر میں رہ سکے گا۔

            دستور کی شق۱۴: اگر کوئی اپنے ذاتی گھوڑے کے ساتھ مقابلے میں حصہ لے تو اسے انعام کا مستحق قرار نہیں دیا جائے گا الا یہ کہ وہ اس گھوڑے سے دستبردار ہو کر اسے شاہی اصطبل میں جمع نہ کرا دے۔

             دستور کی شق۱۵: اگر گھوڑا رکھنے کا جرم کسی غلام سے سرزد ہو جائے تو اس کا معاملہ مختلف ہے۔ غلام چونکہ بذاتِ خود آقا کا بندہ ہوتا ہے وہ کسی شئے کا مالک نہیں ہو سکتا ہے گویا اس کی ملکیت میں جو بھی چیز ہو گی اس کا حقیقی مالک اس کا آقا ہی قرار پائے گا اور اگر وہ دستور کی خلاف ورزی پر اصرار کرتا ہے تو قابل گردن زدنی جرم کا مرتکب قرار دیا جائے گا۔

            دستور کی ہدایات نہایت واضح ہیں اس کی روشنی میں اگر ایاز اپنا گھوڑا حکومت کے حوالے کر دے تو وہ انعام و اکرام کا مستحق ہو گا ورنہ ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

            قاضی شہر کے ساتھ سارے مجمع کو سانپ سونگھ گیا۔ اعلان ہوا۔ آج کے مقابلے میں سب سے آگے رہنے والے ایاز آگے آئیں اور اپنی مرضی بتلائیں

            محمود سمیت سارے لوگوں کو یقین تھا کہ ایاز گھوڑے سے دستبردار ہو جائے گا اور انعام و اکرام سے مالا مال ہو کر گھر لوٹے گا لیکن ایاز کے ارادے مختلف تھے اس نے آگے آ کر اعلان کیا۔ میں ہماری روایات کی قدر کرتا ہوں اور قاضی شہر کا احترام کرتا ہوں میری مؤدبانہ گذارش یہ کہ آپ بصد شوق مجھ پر حد نافذ فرما دیں میں بسروچشم اسے قبول کر لوں گا مگر اپنے گھوڑے سے میں دستبردار نہیں ہووں گا۔

            ایاز کے لب و لہجہ میں بلا کا اعتماد تھا وہ مسکرا رہا تھا لیکن ساری کائنات بشمول قاضی ٔ شہر سوگوار تھی۔

            اس شہر میں برسوں سے کسی نے دستور کی خلاف ورزی نہیں کی تھی موت کی سزا تو دور معمولی قسم کی سزا بھی کسی کو نہیں ہوئی تھی۔ یہ شہر مشہور ہی اس بات کیلئے تھا کہ یہاں جیل نہیں پائی جاتی اور ایسے شہر میں ایاز جیسے فرمانبردار اور وفا شعار کو موت کی سزا؟ نا قابل فہم صورتحال تھی۔ کوئی نہیں چاہتا تھا کہ ایسا ہو لیکن سب کے سب بے بس تھے۔

            محمود نے آگے بڑ ھ کر قاضیِ شہر سے سوال کیا۔ دستور میں کیا اس بات کی گنجائش ہے کہ اس طرح کے معاملہ میں سلطان کوئی دخل اندازی کر سکے؟

            محمود نے مجمع میں خوشی کی لہر دوڑ ادی اور ایاز کا سر فخر سے اونچا ہو گیا۔

            قاضی صاحب بولے ہمارا دستور دیگر سزاؤں کے معاملے میں سلطان کو نہ صرف تخفیف بلکہ معافی کی بھی اجازت دیتا ہے لیکن موت کی سزا ایک استثنائی صورتحال ہے جس میں کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔

            موت کی خاموشی نے سارے عالم کو اپنے اندر نگل لیا۔

            محمود نے پھر سوال کیا۔ کیا مجھے اپنے غلام کو آزاد کرنے کا اختیار ہے؟

            کیوں نہیں یہ اختیار تو ہر کس و ناکس کو حاصل ہے۔ آپ تو سلطان ہیں

            اگر میں ایاز کو آزاد کر دوں تو؟

            اس صورت میں بھی اسے گھوڑا لوٹانا پڑے گا ورنہ شہر بدر کر دیا جائے گا

            محمود نے ایاز کی جانب دیکھا۔ ایاز کی آنکھوں میں عقیدت و محبت کے آنسو تھے وہ بولا میں جان بخشی کیلئے اپنے آقا کا شکریہ ادا نہیں کر سکتا کہ اس کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ میں قاضی شہر سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ شہر بدری کے نفاذ میں کم از کم مدت کی رہنمائی فرمائیں

            زیادہ سے زیادہ تین دن تم اس شہر میں قیام کر سکتے ہو ایاز۔ قاضی صاحب اپنی سواری کی جانب چل دیئے۔ تاریخ میں پہلی بار اس دن انعام تقسیم نہیں ہوا۔

            کوئی کہہ رہا تھا آج مقابلے میں سبھی ہار گئے۔ کوئی بھی کامیاب نہیں ہوا۔

            کوئی بولا نہیں ایسی بات نہیں آج کے مقابلے میں ایاز نے ایک ایسی کامیابی درج کرائی جو اس سے پہلے کسی کو نصیب نہیں ہوئی۔

            کسی نے کہا نہیں آج کے مقابلے میں محمود کے سواسب ہار گئے۔ وہ ایاز کی جان بچانے میں جو کامیاب ہو گیا اور یہی بڑی کامیابی ہے

            خیر جتنے منھ اتنی باتیں

٭٭٭


 

 

 

لوک پرلوک

 

            ملنگ بابا کے آستانے پر ہمیشہ کی طرح میلہ لگا ہوا تھا۔ بڑے بزرگوں کی مزار پر سالانہ عرس ہوتا۔ سال میں ایک مرتبہ ہفتہ دس دن کے لیے جھولے لگتے ہوٹلیں سجتیں، سیرو تفریح کا سامان ہوتا اور لوگ موج مستی کے لیے جمع ہو جاتے۔ لیکن ملنگ بابا کا معاملہ ان سے مختلف تھا یہاں لوگ اپنے دکھ درد لے کر آتے تھے۔ اس لئے کہ ان کے زخموں پر مرہم رکھا جاتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ملنگ بابا کے آستانے پر ہر شام اژدہام لگ جاتا اور رات گئے تک یہ محفل آباد رہتی۔

            دنیا کے سارے دکھیارے ایک قوم ہوتے ہیں۔ اس لیے ملنگ بابا کے دربار میں آنے والوں کے درمیان کوئی تفریق و امتیاز نہیں تھا۔ کوئی ہندو ہوتا تو کوئی مسلم۔ غم کے مارے سکھ اور عیسائی بھی جب ستائے جاتے تو یہاں حاضر ہو جاتے۔ بچہ، بوڑھا، جوان، مرد، عورت، امیر غریب ہر طرح کے لوگ یہاں دکھائی پڑتے تھے۔ اس لیے کہ گردش ایام کا شکار سبھی تھے۔

            اس بھیڑ میں اشوک چندر، بیوی شکنتلا اور بیٹے آکاش چندر کے ساتھ بیٹھا اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا۔ آکاش کی پیدائش کے بعد وہ دونوں پہلی بار یہاں آئے تھے۔ اس لیے کہ اس بیچ انہیں ضرورت ہی محسوس نہ ہوئی۔ کئی مرتبہ اشوک نے شکنتلا سے کہا کہ بابا کے چرنوں میں ایک بار آکاش کو ڈال کر ان کا آشیرواد لے لیا جائے۔

             شکنتلا نے ہر بار اس رائے سے اتفاق کیا تھا اور اگلے دن جانے کا فیصلہ بھی کیا مگر وہ کل نہ آیا۔ یہاں تک کہ آکاش پانچ برس کا ہو گیا لیکن اب وہ ایک ایسے سنکٹ میں پھنسے کہ چار و ناچار ملنگ بابا کی سیوا میں حاضر ہونا ہی پڑا۔

            وہ لوگ اپنی باری کا انتظار کر ہی رہے تھے کہ اچانک ہٹو بچو کا شور اٹھا اور زائرین نو واردوں کو راستہ دینے لگے۔ یہ چار پانچ لوگ تھے جنھوں نے ایک نوجوان کو گود میں اٹھا رکھا تھا۔ نوجوان بالکل ہڈی کا پنجر تھا۔ گالوں کے پچکنے سے چہرے کی ہڈیاں ابھر آئی تھیں۔ آنکھیں ایسی نکلی ہوئی تھیں کہ گویا ابل پڑیں گی۔ داڑھی بڑھی ہوئی بال بکھرے ہوئے۔ اس خستہ حال انسان کی حالت زندہ بدست مردہ کی سی تھی۔ وہ چند لوگ جن میں عورت اور مرد دونوں شامل تھے بھیڑ کو چیرتے ہوئے اندر داخل ہو گئے۔ کسی نے ان سے یہ نہیں کہا کہ ان کی باری نہیں ہے۔ سب دکھیارے تھے اس لیے دوسروں کا دکھ درد محسوس کرتے تھے۔

            شکنتلا نے پوچھا۔ یہ کیسے دیوانے ہیں انہیں تو چاہئے تھا کہ اُسے کسی اسپتال میں لے جاتے۔ وہ یہاں لے آئے۔

            اشوک نے کہا۔ اری پگلی یہ لوگ اسے کسی اسپتال ہی سے لا رہے ہیں اور تم چاہتی ہو کہ وہ اسے دوبارہ وہیں لے جائیں۔ در اصل ڈاکٹر نے جواب دے دیا ہو گا لیکن دل کہاں مانتا ہے۔ ملنگ بابا کا دربار امید کا ایسا دیا ہے جو کبھی نہیں بجھتا۔ مصیبت کے مارے جب اندھیروں سے گھبراتے ہیں تو یہاں کا رُخ کرتے ہیں۔

            لیکن اب یہاں آنے سے کیا فائدہ؟ شکنتلا بولی۔

            اشوک نے جواب دیا۔ یہ دنیا محض دوکانداری نہیں ہے جہاں صرف فائدے اور نقصان کی بنیاد پر کاروبار چلتا ہو۔ یہاں تو بغیر کسی فائدے کے نقصان اٹھا کر بھی بہت کچھ کیا جاتا ہے۔

            اشوک اور شکنتلا کی بات چل رہی تھی کہ وہ لوگ واپس ہونے لگے۔ نوجوان کی جسمانی حالت میں کوئی فرق واقع نہیں ہوا تھا لیکن اس کی آنکھوں میں ایک چمک ضرور پیدا ہو گئی تھی۔ زندگی کی رمق۔ ساتھ والوں میں سے بیشتر کی آنکھیں ہنوز پرنم تھیں لیکن کچھ ایک کے چہرے پر تبسم بھی تھا۔

            ارے یہ کیا؟ شکنتلا نے حیرت سے پوچھا؟

            اشوک بولا۔ یہ چمتکار ہے۔ اسی کے لیے لوگ یہاں آتے ہیں۔ میں بھی ایک مرتبہ اسی طرح یہاں لایا گیا تھا اور تم جانتی ہو ملنگ بابا نے مجھ سے کیا کہا تھا؟

            شکنتلا نے کہا۔ میں کیسے جان سکتی ہوں۔ نہ میں تمہارے ساتھ تھی اور نہ تم نے مجھے بتانے کی زحمت کی۔

            ہاں میں نے تمہیں نہیں بتایا لیکن مجھے آج بھی ان کے الفاظ حرف بہ حرف یاد ہیں۔ انہوں نے کہا تھا بیٹے اشوک موت اور اس کا وقت طے ہے نہ وہ اپنے وقت سے پہلے آئے گی اور نہ اس کی گھڑی ٹلے گی۔ اس لیے موت کا خوف اپنے دل سے نکال دو۔ زندگی اور موت لازم و ملزوم ہیں۔ موت سے ڈر کر جینے والا زندہ لاش ہوتا ہے۔ ان کے الفاظ نے میرا علاج کر دیا اور میں صحت یاب ہو گیا۔

            لیکن تمہیں ہوا کیا تھا؟ شکنتلا نے حیرت و استعجاب سے پوچھا۔

            بہت پرانی بات ہے۔ اشوک بولا۔ اس وقت میں دسویں جماعت کا طالب علم تھا۔ میں اچانک بیمار ہوا۔ بخار ایسا کہ آلۂ تپش ٹوٹ جائے ہر طرح کے علاج کے بعد بھی بخار میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ اچانک میں بے ہوش ہو گیا اور میں نے ایک نہایت بھیانک خواب دیکھا۔

            میں نے دیکھا کہ میرے بدن سے میری آتما باہر آ گئی ہے اور وہ میرے سامنے کھڑی مسکرا رہی ہے۔ اسے دیکھ کر میری آنکھیں پتھرا گئی ہیں۔ میرے عزیز و اقارب میرے آس پاس دہاڑیں مار مار کر رو رہے ہیں۔ وہ میری آنکھیں بند کرتے ہیں اور میں انہیں پھر کھول دیتا ہوں۔ وہ پھر انہیں بند کرتے ہیں لیکن میں اپنی آتما کو دیکھنا چاہتا ہوں اور پھر اسے کھول دیتا ہوں۔ وہ گھبرا جاتے ہیں اور ہمت کر کے پھر پلکوں کو گرا دیتے ہیں۔

            اب میں چیخنے لگتا ہوں۔ تم لوگ میری آنکھیں کیوں بند کر رہے ہو؟ یہ دیکھو میری آتما میرے سامنے کھڑی ہے۔ میں مرا نہیں ہوں۔

            تمام اعزہ و اقارب خوف سے تھر تھر کانپنے لگتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے۔

             اس کا کریا کرم ترنت کرو اس کے بھیتر کوئی پریت آتما سما گئی ہے۔

            یہ سن کر میرا پارہ چڑھ جاتا ہے اور میں زور زور سے چیخنے لگتا ہوں۔ کیا بکتے ہو؟ کیسی پریت آتما؟ کسی اور کی نہیں یہ تو میری اپنی آتما ہے۔ دیکھو یہ مجھے دیکھ کر مسکرا رہی ہے۔

            یہ سن کر وہ ایک کرم کانڈ کے ماہر کو بلا لاتے ہیں۔ وہ پجاری اس آتما کو بھگانے کے لیے الٹے سیدھے منتر پڑھنے لگتا ہے۔ قریب میں ایک بڑا سا ہون روشن کر دیا جاتا ہے۔

            میں اپنے رشتے داروں سے کہتا ہوں اس پاگل کو یہاں سے لے جاؤ۔ یہ میری آتما کو مجھ سے دور کرنا چاہتا ہے۔ یہ میرا دشمن ہے لیکن میری بات کوئی نہیں سنتا۔ وہ لوگ میری ار تھی لے آتے ہیں۔ مجھے اس سے باندھ دیا جاتا ہے اور میری انت یاترا شمسان گھاٹ کی جانب چل پڑتی ہے۔

            میں زور زور سے چلّانے لگتا ہوں۔ آپ لوگ مجھے کہاں لیے جا رہے ہیں۔ میں مرا نہیں ہوں میں زندہ ہوں۔

            وہ لوگ مجھے لکڑیوں کے ڈھیر پر لٹا دیتے ہیں اور پھر لکڑیوں سے مجھے ڈھانپ دیا جاتا ہے۔ میرا باپ جیسے ہی اس ڈھیر کو آگ لگانے کی خاطر آگے بڑھتا ہے میں زور زور سے چلّانے لگتا ہوں۔ میں مرا نہیں ہوں۔ آپ لوگ مجھے کیوں جلا رہے ہیں؟ آپ لوگ مجھے کیوں مارنا چاہتے ہیں۔ میں مرنا نہیں چاہتا میں مرنا نہیں چاہتا۔ اسی چیخ و پکار میں میری آنکھ کھل جاتی ہے اور میں اپنے آپ کو ملنگ بابا کے آستانے پر پاتا ہوں۔

            میں دیکھتا ہوں کہ میرے وہ عزیز و اقارب جنہیں میں خواب میں اپنی ار تھی کے پاس کھڑا دیکھ رہا تھا میرے آس پاس کھڑے ہیں لیکن نہیں جانتے کہ میں نے کیا سپنا دیکھا تھا۔ وہ تو بس یہ سمجھ رہے تھے کہ میں بخار کی شدت سے ہذیاں بک رہا ہوں اور میرا آخری وقت قریب آ گیا ہے۔ اس لئے کہ میرے بخار پر ساری دوائیں بے اثر ہو گئیں تھیں اور تمام ڈاکٹر بے بس ہو گئے تھے۔ اسی لئے وہ مجھے ملنگ بابا کے پاس لے آئے تھے۔

            جیسے ہی میں نے آنکھ کھولی ملنگ بابا نے میری پیشانی پر ہاتھ رکھا اور کہا تم مرتیو نہیں چاہتے اور ہم بھی نہیں چاہتے کہ تم مرو بلکہ ہم میں سے کوئی بھی مرنا نہیں چاہتا۔ لیکن بیٹے ہمارے چاہنے اور نہ چاہنے سے کیا ہوتا ہے؟ ہم سب کی موت کا وقت طے ہے اوراس وقت ہمیں اپنے پرماتما کے شرن میں جانا ہی ہو گا۔ اس تیتھی کو کوئی بھی ٹال نہیں سکتا۔ موت کو زندگی اسی نے دی ہے جو زندگی کو موت دیتا ہے۔ ایک دن ایسا آئے گا جب وہ موت کو موت دے گا۔ پرنتو اس دن سے پہلے ہر ہر جیون کو مرتیو کا سواد چکھنا ہی ہو گا۔

             ملنگ بابا کا ہر شبد بخار پراکسیر ثابت ہو رہا تھا۔ جب میں لوٹا تو بخار کی کمزوری ضرور باقی تھی لیکن حدت ندارد تھی۔ اشوک کا فسانہ شکنتلا کے لیے ناقابل یقین تھا اس نے بات بدلنے کے لیے کہا۔ وہ دیکھو کرنل گوسوامی بھی اپنی بیوی اور بچہ کے ساتھ آئے ہیں۔ میں ان سے خیریت پوچھ کر آتی ہوں۔

            نمسکار بھائی صاحب۔ شکنتلا نے پرنام کیا اور پوچھا۔ آپ لوگ یہاں کیسے؟ سب ٹھیک تو ہے؟

            کرنل صاحب بولے۔ ویسے تو سب ٹھیک ہے۔ آج منگیش نے انجینئرنگ کا انٹرنس ٹسٹ دیا ہے ہم نے سوچا چلو بابا کے درشن کر لیں اور ان سے پرارتھنا کرنے کی پرارتھنا کریں۔

            کیوں پیپر اچھے نہیں گئے کیا؟ شکنتلا نے جھٹ پوچھا۔

            نہیں ایسی بات نہیں۔ مسز گوسوامی بولیں۔ یہ تو کہتا ہے اچھے گئے ہیں لیکن پھر بھی سب کچھ ہمارے ہاتھوں میں نہیں ہے۔ اس کا انجینئرنگ میں داخلہ بہت ضروری ہے ورنہ انرتھ ہو جائے گا۔

            کیسا انرتھ؟ شکنتلا نے سوال کیا۔ اگر انجینئر نہ بھی بن سکا تو فوجی بن ہی جائے گا سمسیا کیا ہے؟

            مسز گوسوامی بولیں فوجی تو اسے بننا ہی ہے لیکن ہم چاہتے ہیں کہ انجینئرنگ کے بعد فوج میں جائے تاکہ خطرہ بھی کم ہو اور تنخواہ بھی زیادہ ملے۔

            کیا مطلب؟ شکنتلا نے پوچھا۔ وہ کیسے؟

            شکنتلا اور کرنل کی باتیں سنتے ہوئے اشوک ایک مرتبہ پھر ماضی کے دھندلکے میں کھو گیا۔ جب وہ انجینئرنگ میں زبردست کامیابی کے بعد ملازمت کے لیے در در کی خاک چھان رہا تھا۔ بڑے دنوں میں نوکری کی ایک آدھ کال آتی اور اس میں بھی ناکامی و نامرادی ہاتھ لگتی۔ یہ سلسلہ اس قدر دراز ہوتا چلا گیا کہ اسے لگنے لگا اب وہ زندگی بھر بے روزگار ہی رہے گا۔ ایسے میں اسے ملنگ بابا کی یاد آئی۔ ان کی خدمت میں حاضر ہو کراس نے اپنی مایوسی کی جھولی پھیلا دی۔

 ملنگ بابا نے اس کی کتھا سن کر کہا بیٹا اشوک اس دنیا میں کوئی ہمیشہ بے روزگار نہیں رہتا اِلّا یہ کہ وہ خود ایسا چاہے۔ لیکن یاد رکھو سمے سے پہلے اور بھاگیہ سے زیادہ کسی کو نہیں ملتا ہے اور جب سمے آ جاتا ہے تو کوئی کسی کو اس کے بھاگیہ سے ونچت نہیں کر سکتا۔ بابا نے اسے آشیرواد دیا اور ایک نئے حوصلہ اور امنگ کے ساتھ وہ دوبارہ ملازمت کی تلاش میں سرگرداں ہو گیا۔ جلد ہی اسے سرکاری نوکری مل گئی اور اس کی ماں نے اس کے بیاہ کی تیاری شروع کر دی۔

            اشوک کلکٹر کے دفتر میں ملازم کیا ہوا کہ اس کی ماں نے اپنے آپ کو کلکٹر کی ماں سمجھنا شروع کر دیا۔ وہ اس کے لیے لڑکی کی تلاش میں اس طرح لگ گئی گویا کلکٹر کے لیے راج کنیا کا سوئمبر ہو رہا ہے۔ کوئی لڑکی اسے جچتی ہی نہ تھی۔ اسی بیچ اس نے شکنتلا کے گھر رشتہ بھیجا مگر اس سے پہلے کہ وہ شکنتلا کو مسترد کرتی شکنتلا کے گھر والوں نے رشتہ کرنے سے انکار کر دیا۔

             اشوک کی ماں کے لیے یہ عظیم صدمہ تھا اس کی انا کو ٹھیس پہنچی اور اب اس نے ٹھان لی کہ ہر قیمت پر شکنتلا ہی کو اپنی بہو بنائے گی۔ لیکن مسئلہ ناک کا تھا۔ وہ لڑکے کی ماں تھی۔ وہ اپنے مقام سے گرنا بھی نہیں چاہتی تھی۔ اس لیے پریشان ہو کر ملنگ بابا کی خدمت میں حاضر ہو گئی۔ ملنگ بابا آئے دن اس طرح کے مسائل سنتے تھے۔ انہوں نے مشورہ دیا۔

             تمہاری سمسّیا کا ایک ماتر سمادھان یہ ہے کہ تم اس معاملے کو اشوک کے حوالے کر دو وہ شکنتلا کو راضی کر لے گا اور شکنتلا اپنے ماں باپ کو تیار کر لے گی۔ اگر وہ پھر بھی نہ مانے تو کیا فرق پڑتا ہے؟ میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی؟

             ماں بولی۔ وہ تو ٹھیک ہے لیکن میں یہ اپنے بیٹے سے کیسے کہہ سکتی ہوں؟

            اس مسئلہ کا بھی حل ہے۔ اشوک کو میرے پاس بھیج دو میں سمجھا دوں گا۔

            اشوک کی ماں خوشی خو شی واپس ہو گئی۔ باباکا اُپائے کارگر ثابت ہوا۔ اشوک بڑی آسانی سے شکنتلا کو شادی کے لیے راضی کرنے میں کامیاب ہو گیا اور اس کے ماں باپ اپنی بیٹی کی مرضی کے آگے مجبور ہو گئے۔

            شادی کے بعد اشوک، شکنتلا اور اس کی ماں سب ملنگ بابا کو بھول گئے لیکن جب تین سال کے بعد بھی اولاد سے محرومی شکنتلا اوراشوک کویہاں لے آئی۔ بابا نے اشوک کو دیکھا تو مسکرائے۔ اشوک تم موت اور زندگی دونوں کو اپنے بس میں کرنا چاہتے ہو۔ تم اپنی اِچھاّ سے مرنا چاہتے ہو اور آکانشہ انوسار اپنے اترآادھیکاری کو جنم دینا چاہتے ہو۔ پرنتو یہ اسمبھو ہے پتر۔ جنم کی تیتھی بھی مرن کے سمے کی بھانتی نردھارت ہے۔ دھیرج رکھو۔ اگر تمہارے کل کو باقی رہنا ہے تو تمہاری سنتان ضرور ہو گی۔

            شکنتلا نے کہا۔ لیکن سوامی جی ایسا کب ہو گا؟

            بابا نے کہا۔ بیٹی یہ تو میں بھی تمہاری ہی طرح نہیں جانتا۔

            شکنتلا بولی۔ لیکن سوامی آپ ہمارے لیے پرارتھنا تو کر سکتے ہیں۔

            کیوں نہیں۔ بابا بولے۔ میں ضرور تمہارے لیے پرارتھنا کروں گا۔ ملنگ بابا کی یقین دہانی ایسی پراعتماد تھی کہ شکنتلا کو محسوس ہوا وہ گربھ وتی ہو گئی ہے۔ تین ماہ بعد وہ واقعی حاملہ ہو گئی تھی اور ایک سال کے بعد اس نے آکاش کو جنم دیا۔

            اس بات کو پانچ سال کا طویل عرصہ گذر گیا۔ اس بیچ ان لوگوں نے کئی مرتبہ ملنگ بابا سے ملنے کا ارادہ کیا لیکن کبھی اسے عملی جامہ نہیں پہنایا۔ کسی نہ کسی بہانے ٹالتے رہے لیکن اب جب کہ انہیں ایسا لگا گویا آکاش باؤلا ہو گیا ہے وہ بے اختیار ملنگ بابا کے دربار میں حاضر ہو گئے۔

            آکاش کا مسئلہ بڑا گمبھیر تھا۔ اس نے ایک مرتبہ آسمان میں ایک ہوائی جہاز دیکھا اور اپنی بچپن کی جگیا سا(تجسسّ) میں پوچھا۔ پاپا وہ کیا ہے؟

            اشوک نے کہا بیٹے وہ ہوائی جہاز ہے۔

            اچھا۔ ہوائی جہاز کیا ہوتا ہے؟

            اشوک نے جھنجھلا کر کہا۔ اپنی ممی سے پوچھو۔

            آکاش نے جھٹ شکنتلا سے پوچھا۔ ممی یہ ہوائی جہاز کیا ہوتا ہے؟

            شکنتلا بولی۔ بیٹے یہ سواری ہوتی ہے جو ہوا میں اُڑتی ہے۔ لوگ اس میں بیٹھ کر آسمان کی سیر کرتے ہیں۔

            آکاش نے یہ سنا تو اس کی آنکھوں میں نئی چمک آئی۔ اس نے کہا۔ اچھا ایسا ہے تو مجھے بھی ہوائی جہاز چاہئے۔ میں بھی ہوا میں تیروں گا۔

            شکنتلا پریشان ہو گئی۔ اس لیے کہ آکاش نے ضد پکڑ لی تھی۔ اس نے اشوک سے پوچھا۔ کیا کیا جائے؟

            اشوک نے کہا۔ اس میں کیا مشکل ہے شام میں اسے بازار لے جائیں گے اور ہوائی جہاز نما غبارہ دلا دیں گے۔ بچہ ہے بہل جائے گا۔

            شکنتلا خوش ہو گئی اور بولی۔ بھئی انجینئر صاحب کا دماغ! ماننا پڑے گا۔

            اشوک بولا۔ زہے نصیب۔

             شام میں وہ لوگ بازار گئے اور ہوائی جہاز نما غبارہ آکاش کو دلا دیا۔ آکاش اسے لے کر بہت خوش ہوا۔ لیکن اس کی خوشی دیرپا ثابت نہیں ہوئی۔ اس کھلونے کو تھوڑی دیر الٹنے پلٹنے کے بعد اس نے کہا ممی اب میں اس میں بیٹھوں گا اور آکاش کی سیر کروں گا۔

            شکنتلا ہنسی اور کہا۔ ٹھیک ہے بیٹے اب یہ تمہارا وِمان ہے تم جو چاہو کرو۔

            شکنتلا نے تو مذاق کیا لیکن آکاش سنجیدہ تھا اس نے کہا۔ ممی مجھے اس میں بٹھاؤ میں نے آسمان کی سیر کرنا ہے۔

            شکنتلا آکاش کے اصرار سے گھبرا گئی۔ اب تک وہ لوگ گھر آ چکے تھے۔ شکنتلا نے آکاش کو بہلایا پھسلایا۔ مٹھائی کھلائی، کہانی سنائی، لاکھ جتن کئے لیکن آکاش مان کر نہیں دیتا تھا۔ وہ ہر تھوڑی دیر بعد بضد ہو جاتا۔ مجھے اس میں بٹھاؤ میں آکاش کی سیر کروں گا۔ شکنتلا اور اشوک دونوں پریشان ہو گئے۔

             آکاش نے کھیل کود بند کر دیا۔ کھانا پینا چھوڑ دیا۔ وہ بس اپنے ہوائی جہاز کو سینے سے لگائے رہتا اور یہی بات دوہرائے جاتا۔ مجھے اپنے جہاز میں بٹھاؤ میں نے آسمان کی سیر کرنی ہے۔ یہ سنتے سنتے اشوک کے کان پک گئے۔ اس نے غصہ سے اس غبارہ نما کھلونے کی ہوا نکال دی۔ اب وہ پچک گیا۔

            یہ دیکھتے ہی آکاش دہاڑیں مار مار کر رونے لگا۔ میرا جہاز میرا ہوائی جہاز۔ پاپا آپ نے اسے کیا کیا؟ مجھے اپنا جہاز چاہئے۔ مجھے میرا جہاز دے دو۔ اب ایک نیا ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ اشوک نے غصہ میں آ کر آکاش کے ایک تھپڑ جڑ دیا۔

            اپنے بیٹے کی یہ حالت دیکھ کر شکنتلا مچل گئی۔ وہ اشوک سے لڑ پڑی۔ آپ نے بچہ کو کیوں مارا؟ آخر بچہ ہے۔ وہ ضد نہ کرے گا تو کیا آپ کریں گے؟ اگر آپ اسے بہلا نہیں سکتے تو چھوڑ دیجئے لیکن اپنا ہاتھ نہ چھوڑئیے۔ آکاش کے آنسو پوچھتے ہوئے اسے سینے سے لگا لیا۔ آکاش رو رو کر یہی کہتا جاتا تھا۔ میرا ہوائی جہاز مجھے چاہئے میرا ہوئی جہاز۔

            شکنتلا نے کہا۔ بیٹے رو مت میرے بیٹے میں تجھے تیرا ہوائی جہاز دیتی ہوں۔ یہ کہہ کر اس نے غبارے میں ہوا بھرنی شروع کی جیسے جیسے وہ پھولتا جاتا تھا آکاش کے چہرے پر مسکان پھیلتی جاتی تھی۔ وہ خوشی سے تالی بجانے لگا اور اپنی ماں کے ہاتھ سے کھلونا لے کر اپنے سینے سے لگا لیا۔ دیر تک وہ اسے اپنے سے چمٹائے رہا۔ خوش ہوتا رہا اور کھیلتا رہا۔ اشوک اور شکنتلا بھی خوش تھے کہ آکاش بہل گیا لیکن ان کی خوشی کا غبارہ جلد ہی پچک گیا۔ تھوڑی دیر بعد پھر آکاش کو آسمان میں اُڑنے کا خیال آیا اور اس نے پھر ضد شروع کر دی۔

            وہی پرانی کہانی پھر دوہرائی گئی۔ کھلونے کا پھولنا پچکنا اب معمول بن گیا تھا۔ جب آکاش کی ضد آکاش کو چھونے لگتی تو اس کے ماں باپ کھلونے کی ہوا نکال دیتے جب وہ زار و قطار رونے لگتا تو وہ اس میں ہوا بھر دیتے۔ اس سے وہ کچھ دیر کے لیے بہل جاتا لیکن پھر وہی ضد اور پھر وہی سب کچھ۔ آکاش کا چہرہ مرجھا گیا تھا۔ اس کی صحت متاثر ہو رہی تھی۔ اشوک اور شکنتلا اپنے اکلوتے بیٹے کی اس کیفیت سے فکر مند تھے کہ اچانک شکنتلا کو ملنگ بابا کا خیال آیا اور اشوک کو تاخیر کے لیے اپنے آپ پر غصہ آیا۔

            ملنگ بابا کو اپنے بیٹے کے حالات بتانے کے بعد اشوک بولا۔ بابا میں تو اسے سمجھا نہ سکا۔ اب آپ ہی اسے سمجھائیں۔

            آکاش کے بارے میں سن کر بابا نے اشوک سے کہا۔ تم اسے کس طرح سمجھا سکتے تھے جب کہ تم خود ابھی تک اس بات کو سمجھے نہیں ہو۔

             بابا کے اس رد عمل سے اشوک چونک پڑا اس نے کہا۔ آپ کیسی بات کرتے ہیں گرو دیو۔ کیا آکاش میں اور مجھ میں کوئی فرق نہیں ہے؟

            بابا بولے۔ جی ہاں میں تو یہی سمجھتا ہوں اس لئے کہ بچپن سے تمھیں جانتا ہوں۔ یہ سنسار اس کھلونے کی طرح کھیلنے کی چیز ہے۔ مایا ہے بس مایا اس کی واستوکتا(حقیقت) یہی ہے۔ تم نے بھی اسے سب کچھ سمجھ رکھا ہے اور اس میں بیٹھ کر پرلوک کی سیر کرنا چاہتے ہو پرنتو یہ اسمبھو ہے۔

            جب تمہاری ضد بہت بڑھ جاتی ہے تو اس کی ہوا نکال دی جاتی اور تم مایوس ہو کر بیٹھ جاتے ہو لیکن پھر اس میں ہوا بھرنے لگتی ہے تو تم بھی پھولے نہیں سماتے۔ عارضی طور پر ہوا کا بھرنا تمہیں مسرور کر دیتا ہے لیکن پھر جب تم اس کے ذریعہ سے سورگ کا آنند پراپت کرنے کی ضد پکڑتے ہو تو اداس ہو جاتے ہو کیونکہ تمہاری ہٹ دھرمی کے باعث اس کی ہوا پھر سے نکال دی جاتی ہے۔

            اشوک نے پو چھا لیکن میرے ساتھ یہ کھیل کیوں کھیلا جاتا ہے؟

             بابا بولے تمہاری اداسی کو دور کرنے کی خاطر اس میں ہوا بھری جاتی ہے۔ اسی کارن تمہارے لئے جیون سکھد(خوش کن) ہو جاتا ہے۔ کچھ شنوں (لمحوں) کے لیے تم آنند مے ہو جاتے ہو اور اکثر اداس رہتے ہو۔ تم نے مایا روپی اس لوک کو حقیقت سمجھ لیا ہے اور اس کے ذریعہ پرلوک کا سنتوش پراپت کرنا چاہتے ہو جو ایسا ہی ہے جیسے کھلونے سے بچہ کا آسمان کی سیر کرنے کی خواہش کرنا۔

            اشوک نے کہا۔ آپ نے درست فرمایا۔ لیکن پھر مجھے کیا کرنا چاہئے؟

            تم اس لوک اور پرلوک میں فرق کرو۔ اس لوک سے کھیلو لیکن اسے اپنے جیون کا ادیشہ نہ بناؤ۔ اگر تم نے ایسانہ کیا تو آکاش کی طرح روتے رہو گے۔ جیون کا ادیشہ تو پرلوک کی موکش ہے وہی اصلی واہن ہے جس میں بیٹھ کر منوشیہ اپنے جیون کو سپھل بنا سکتا ہے۔

            میں سمجھ گیا سوامی جی لیکن اب آکاش کا کیا کیا جائے؟

            آکاش کے لیے غبارے میں بہت زیادہ ہوا بھر کے اسے پھوڑ دو۔

            اس سے کیا ہو گا؟ وہ اور روئے گا۔ اشوک بولا

            ہاں روئے گا تو ضرور لیکن اسی کے ساتھ غبارہ کی اصلیت بھی یہ جان جائے گا؟ اسے پتہ چل جائے گا کہ یہ پھٹ تو سکتا ہے لیکن اڑ نہیں سکتا۔

            شکنتلا جو بڑی دیر سے خاموش تھی اچانک بول پڑی اور اس کے بعد؟

            بابا مسکرا کر بولے پہلا غبارہ جب پھوٹ جائے تو اس کے بعد آکاش کو دوسرا غبارے والا ہوائی جہاز دلا دینا۔ اب وہ اس سے اُڑنے کی ضد نہیں کرے گا۔ اس لیے کہ وہ جان چکا ہو گا اس طرح کی ضد کے نتیجہ میں غبارہ پھٹ جاتا ہے۔ اب وہ اس سے کھیلے گا اور خوش رہے گا۔

            آکاش نے شکنتلا کی جانب اشارہ کر کے کہا یہ دھیان گیان کی باتیں اس کی سمجھ میں نہیں آئیں گی لیکن میں سمجھ گیا۔ اب میں یہی کروں گا۔

            شکنتلا بگڑ کر بولی تم چپ رہو جی۔

            بابا پھر مسکرائے اور بولے تم دونوں کان کھول کر سن لو۔ اس سنسار میں انسان کی خوشی یا ناراضگی اس کی اپنی توقعات پر منحصر ہوتی ہیں۔ جب کوئی کسی چیز سے بے جا توقع وابستہ کر لیتا ہے تو وہ شئے نہیں بلکہ اس سے وابستہ توقع اسے غم زدہ کر دیتی ہے۔ اس لیے اگر تم دونوں اپنے آکاش کے ساتھ خوش رہنا چاہتے ہو تو سنسار اور غبارے سے ان کے حسبِ استطاعت اپیکشا (توقع)کرو ورنہ سدا غمگین رہو گے۔

٭٭٭


 

 

 

انتریامی

 

            ایک دن صبح سویرے جب لوگ انتریامی کے کمرے میں داخل ہوئے تو دیکھا وہ موت کی آغوش میں پرسکون لیٹا ہوا ہے۔ اس کے دائیں جانب سوکھے پیپل کے پتوں کا ایک ڈھیر ہے جن کے بیچ ایک کاغذ پر مختصر سی وصیت لکھی پڑی ہے۔ ’’ان پتوں کو بھی میری قبر میں دفنا دیا جائے‘‘ اور بائیں جانب زہر کی شیشی سر کے بل کھڑی ہوئی ہے۔ درمیان میں ہنستا مسکراتا انتریامی چین کی نیند سو رہا ہے۔ موت بھی انتریامی سے اس کی ہنسی نہیں چھین پائی تھی۔

            مرنے والے نے تو خیراسے ہنسی خوشی گلے لگا لیا تھا لیکن موت بہرحال موت تھی۔ انتریامی کے پسماندگان اور مریدوں کواس نے غمگین و سوگوار کر دیا تھا۔ انتریامی نے چونکہ از خود برضا اور رغبت ملک الموت کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا تھا اس لئے فرشتۂ اجل کو اس کے ساتھ کسی زور زبردستی کی ضرورت پیش نہیں آئی تھی وہ بھی اپنے والد چنا سوامی کی مانند شاداں و فرحاں آخری سفر پر چل پڑا تھا۔

             لوگ انتریامی کے فوت ہو جانے کے بارے میں طرح طرح کی قیاس آرائیاں کرنے لگے تھے لیکن خود اس نے کبھی موت کا کوئی قیاس یا گمان نہیں کیا تھا۔ وہ تو زندگی کا پیغامبر تھا۔ وہ زندگی کے حوالے سے سوچتا تھا اور بہت سوچتا تھا۔ اپنے فکر و تدبر کے انوکھے سفر میں اس نے کیف و نشاط کے مختلف مدارج طے کئے تھے اور ان سے خوب لطف اندوز ہوا تھا۔

             ابتدا میں وہ ہر کس و ناکس کے بارے میں سوچا کرتا تھا۔          

            فلاں شخص کیا کر رہا ہے؟

            اسے وہ کام کرنا چاہئے یا نہیں؟

             اگر ہاں تو کیوں؟ اور نہیں تو کیوں نہیں کرنا چاہئے؟

            وہ کر گذرے گا تو کیا ہو گا؟ اور اگر نہیں تواس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

            اس نے وہ کام اس طرح کیوں کیا؟

            ایسے کرنے کے بجائے کسی اور طریقے سے کیوں نہیں کیا؟

            ایسا کرنے کے بجائے ویسا کرنے سے کیا فرق پڑتا؟ وغیرہ وغیرہ

             اس طرح کے لایعنی سوالات میں ایک طویل عرصے تک انتریامی نے اپنے آپ کو الجھائے رکھا۔ ایک دن جب وہ عالم مشاہدات سے باہر آیا تو اچانک اس مرحلہ نے دم توڑ دیا۔ ماضی کی لاش کے سرہانے بیٹھا انتریامی اپنے آپ سے سوال کر رہا تھا۔ اے احمق انسان! یہ تو کس بکھیڑے میں پڑا ہوا ہے۔ آخراس سوچ بچار کا حاصل کیا ہے؟ تو ان لوگوں کے بارے میں اس قدر کیوں سوچتا ہے کہ جن سے تیرا نہ کوئی تعلق ہے اور نہ لین دین ہے۔

             انتریامی نے اپنی فکر مندی کے دائرے کو قدرے محدود کرنے کا فیصلہ کیا۔ غیروں کو اپنی فہرست میں سے خارج کرنے کے بعد صرف ان لواحقین پر اپنی توجہ مرکوز کر دی جو کسی نہ کسی درجہ میں اس پر انحصار کرتے ہیں یا جن کا وہ سہارا لیتا ہے۔ ایسے لوگوں کی تعداد بھی کم نہیں تھی اور پھر ان لوگوں میں سے ہر ایک کے بارے میں سوچنے کیلئے بہت کچھ تھا۔

             انتریامی نے آگے چل کر محسوس کیا کہ یک گونہ اپنائیت کے باوجود ان پر اس کا اختیار بالکل نہیں ہے۔ وہ عقیدتاً یا احتراماً انتریامی سے مشورہ تو کرتے ہیں لیکن اس کی ہر رائے سے اتفاق نہیں کرتے۔ جب عمل درآمد کا موقع آتا ہے تو ان احکامات کو بجا لاتے ہیں جو اپنی مرضی کے مطابق ہوتے ہیں مگر جو مشورہ ان کی پسند کے خلاف ہوتا ہے اس سے انحراف کرجاتے ہیں۔ گویا عملاً وہ اس کی نہیں بلکہ اپنے نفس کی پیروی کرتے ہیں۔

            اس طرح انتریامی کی یہ خوش فہمی بھی دور ہو گئی کہ لوگ اس کو بہت مانتے ہیں۔ اسی کے ساتھ وہ اس کڑھن سے بھی نجات پا گیا کہ لوگ اس کی ہر بات کیوں نہیں مانتے۔ وہ اس آفاقی حقیقت کا قائل ہو چکا تھا کہ اس کار گہ ہستی میں کوئی کسی کی نہیں مانتا۔ سب کے سب اپنی من مانی کرتے ہیں۔

            اس چونکا دینے والے انکشاف نے انتریامی کو ان تمام لوگوں سے بھی بے نیاز کر دیا جن کو وہ اپنا شمار کرتا تھا۔ رشتے ناطوں کی معرفت سے وہ ہمکنار ہو چکا تھا۔ اسے پتہ چل گیا کہ دنیا کے اس مایا جال میں کوئی کسی کا نہیں ہے۔ ہر کوئی صرف اور صرف اپنے نفس کا بندہ ہے۔ رشتہ و پیوند محض وہم و گمان کا گورکھ دھندہ ہے۔ اس نے دوسروں کے بارے سوچ سوچ کر اپنی جان ہلکان کرنے کے کرب سے دائمی نجات کی خاطر ایک ضربِ کاری سے اس بت کو بھی مسمار کر دیا۔

             انتریامی کی تمام تر توجہات کا مرکز اب اس کی اپنی ذات تھی جو اس سے قبل پر ہجوم دنیا میں نہ جانے کہاں کھو گئی تھی۔ وہ اوروں کی جستجو میں اپنے آپ سے بیگانہ ہو گیا تھا۔ اپنے نفس کی باز یافت سے انتریامی پھولا نہیں سمارہا تھا۔ اپنے آپ میں مست، مسرت و شادمانی کے جذبات سے سرشار انتریامی ایک نئے جہان کے سفر پر نکل پڑا تھا۔ اب اس کی زندگی کا واحد مقصد معرفت ذات کی عظیم بلندیوں کو سر کرنا تھا۔ وہ اپنے اندر گہرائی تک اتر جانا چاہتا تھا۔

             اس کی اپنی ذات و صفات کے بھی بے شمار گوشے تھے۔ وقت کے ساتھ اس نئے مشغلے سے وہ لطف اندوز ہونے لگا۔ اب وہ اپنے آپ کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلنے لگا تھا۔ خود میں کھو کر دوبارہ اپنے آپ کو پا لینے کی جستجواس کا مقصدِ حیات بن گئی تھی۔ خود اپنی تلاش میں سر گرداں انتریامی ایک نئی دنیا کی سیر کر رہا تھا۔

            آغازِ سفر اس سوال سے ہوا کہ اے انتریامی آخر توہے کون؟

            بظاہراس آسان سے سوال کا بھی کوئی معقول جواب اسے سجھائی نہیں دیا۔ جو جوابات اس کے ذہن میں آئے وہ اسے مطمئن نہیں کر سکے۔

            انتریامی نے سوچا چلو آگے بڑھتے ہیں اس سوال پر پھر لوٹ کر آئیں گے۔ اب دوسرا سوال یہ تھا کہ تیرے پاس تیرا اپنا کیا ہے؟ وہ کون سے وسائل و ذرائع تیرے پاس ہیں جن کی مدد سے تو پہلے سوال کا جواب حاصل کر سکتا ہے؟

            انتریامی کے دل سے آواز آئی تیرا ماضی تیرا اپنا ہے انتر یامی۔ تیرا اپنا ماضی۔ یہی وہ سرمایۂ حیات ہے جسے تو اپنی کمائی کہہ سکتا ہے۔ اس جواب میں امید کی ایک کرن تھی۔ وہ کسی قدر مطمئن ہو گیا۔ اسے یقین ہو گیا کہ اپنے ماضی کی مدد سے وہ عرفانِ ذات حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔

            ماضی کے صحرا میں جب انتریامی نے قدم رکھا تو کیا دیکھتا ہے کہ یہاں پر بہت سارے نشانات پہلے ہی مٹ چکے ہیں اور جو موجود ہیں وہ بھی روبہ زوال ہیں۔ اگر ان سے استفادہ کرنے میں اس نے تاخیر کر دی تو مبادہ تختی صاف ہو جائے گی اور یہ خزانہ خالی ہو جائے گا۔ پھر اس کے پاس گنوانے کیلئے بھی کچھ نہ ہو گا۔

            چشمِ تصور میں ماضی کے نقوش پر وہ قدم بہ قدم آگے بڑھ رہا تھا۔ ان پر پیچ پگڈنڈیوں پر اس کو کبھی اپنے اعزہ و اقارب نظر آتے تو کبھی دوست و احباب سے ملاقات ہو جاتی۔ وقتاً فوقتاً اساتذہ کرام بھی دکھائی دے جاتے تھے۔ وہ ان سب سے اپنے بارے میں مختلف سوالات کرتا۔ ہر ممکن معلومات کو دامن میں سمیٹتا اور ان کا تجزیہ کر کے تصدیق کے مختلف درجات میں انہیں محفوظ کر دیتا۔

            خود آگہی کے جنون میں عرصۂ حیات کا طویل دورانیہ مختلف لوگوں کے ذریعہ حاصل کردہ بے مصرف معلومات کے حصول میں صرف ہو گیا۔ رفتہ رفتہ ابتدائی مسرت کا جھرنا برف کی سِل میں تبدیل گیا۔ ا س مرحلے میں انتریامی خود کلامی میں مبتلا ہو گیا اس نے اپنے آپ سے سوال کیا کہ آخر اس ماضی کی زنبیل میں رکھا ہی کیا ہے؟ یہ تو محض خالی خولی احساسات و جذبات کا کباڑ خانہ ہے۔ اس کے سوا یادِ رفتگان میں کچھ بھی تو نہیں ہے۔

             دور سے خوشنما نظر آنے والے یادوں کے حسین آبگینوں کو جب چھونے کی لغزش کی جاتی تو وہ چھوئی موئی کی مانند مرجھا جاتے تھے۔ وہ سوچنے لگا کہ آخر وہ کون سی ہستی ہے جس نے اس کے ماضی کا وجود چھین کر اسے خیالِ محض میں بدل دیا ہے۔ بے وزن وہم و گمان کا ایک خیالی جہان جس کی کوئی وقعت و حیثیت نہیں ہے۔ ماضی کی یادوں میں غیر مرئی کیفیت تو تھی مگر حقیقی کمیت ندارد تھی۔

            گردش زمانہ گھڑی کے کانٹوں کو بڑی تیزی سے گھما رہا تھا اور انتریامی ان کانٹوں کی صلیب پر لٹکا اپنے زمانۂ حال کو ماضی میں تبدیل ہوتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ اب اس کو اپنا ماضی ایک بے روح جسم کی مانند لگنے لگا تھا۔ وقت کا دھارا دریا کی مانند پلٹ کر بہنا نہیں جانتا تھا۔ یہ عجب تیر تھا کہ خطا بھی ہو جائے تب بھی ترکش میں دوبارہ لوٹ کر نہیں آتا تھا۔ ایک ایسی آتما کہ جب آسمان کی جانب محوِ پرواز ہو جاتی تو زمین کی جانب مڑ کر دیکھنا پسند نہ کرتی تھی۔

            اپنے ماضی کی بے ثباتی سے انتریامی گھبرا گیا اس نے اپنے آپ سے ایک اور سوال کیا کہ تو آخر اس ماضی کا گرویدہ کیوں ہے جو محض ایک خواب ہے؟ اور خواب تو پھر خواب ہی ہوتا ہے۔ خوشگوار ہو یا بھیانک، وہ حقیقت نہیں ہوتا۔ اسے اپنی ایک اور غلطی کا ادراک ہو گیا۔ اس نے فیصلہ کر لیا کہ اب ماضی کے الاؤ میں اپنے حال کو نہیں جھونکے گا اس لئے کہ حقیقتِ حال کے سوا سب کچھ مجازی ہے۔

            انتریامی نے جب اپنے حال پر غور کیا تو عجیب و غریب انکشافات سے دوچار ہوا۔ در اصل اس باب میں پہلے ہی سوال نے اسے چونکا دیا۔ حال اگر ایک مدتِ کار ہے تو اس کی ابتدا اور انتہا کیا ہے؟ اس سوال کے جواب میں انتریامی پر کائناتِ ہستی کا یہ راز کھلا کہ مبتدا اور منتہا ایک دوسرے سے بغلگیر ہیں۔ آپس میں اس طرح مدغم کہ ان کے درمیان بال برابر کا فاصلہ بھی نہیں ہے۔

             مستقبل کی آنکھ سے ایک لمحہ گرتا ہے اور یکلخت ماضی میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ سکون و اطمینان سے خالی اس سیماب صفت جوہر کے مرکز میں اضطراب و بے چینی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ ماضی اور حال کے درمیان اسے بس اس قدر فرق نظر آیا کہ ماضی کا تالاب بے حس و حرکت ہے جبکہ حال کی گھڑی کے کانٹے اپنی منزل سے بیگانہ اپنے ہی محور کے ارد گرد بے تکان دوڑتے رہتے ہیں۔ انتریامی اب اپنے حال کی بے یقینی و بے ثباتی پر خندہ زن تھا۔

            وہ جب حال کے جنجال سے نکلا تواس کی نظر مستقبل پر جا کر ٹک گئی۔ اب وہ پیچھے مڑ کر دیکھنے کے بجائے آگے دیکھ رہا تھا بلکہ دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس سعی و جہد میں انتریامی کو تمام تر کوشش کے باوجود آگے کچھ بھی نظر نہیں آیا۔ سب کچھ عالمِ غیب میں پوشیدہ تھا۔ انتریامی کو اپنے ہی مستقبل کے تاریک سمندر سے خوف محسوس ہونے لگا تھا۔ اپنی بے علمی کے سبب وہ اس بحر زخار میں اِدھر اُدھر ہاتھ پیر مار رہا تھا۔

            علامۂ دہر کہلانے والے انتریامی پر جب یہ عقدہ کھلا کہ وہ اپنے مستقبل سے پوری طرح لاعلم ہے تو وہ اپنی کوتاہ بینی پر شرمسار ہو گیا۔ جو شخص خود اپنے مستقبل کے بارے میں کوئی بات یقین کے ساتھ نہ کہہ سکتا ہو اسے دوسروں کے بارے میں بلند بانگ دعووں کا اور پیش گوئی کا کیا حق ہے؟ اس سوال کا کوئی جواب انتریامی کے پاس نہیں تھا۔ انسان اس جہان رنگ و بو میں اس قدر بے یار و مدد گار بھی ہو سکتا یہ انتریامی نے سوچا تک نہیں تھا۔

            انتریامی کو یوں محسوس ہوا کہ گویا وہ کسی تاریک غار میں بگ ٹٹ دوڑا چلا جا رہا ہے۔ اس گھٹا ٹوپ اندھیرے کو دور کرنے کیلئے اسے روشنی درکار تھی۰۰۰۰۰ علم کی روشنی۰۰۰۰۰ اپنے مستقبل کا علم ۰۰۰۰۰ جو عالمِ غیب میں پوشیدہ تھا۔ اپنے مستقبل کی تاریکی کو دور کر کے اسے پر نور کرنے کی خاطر غیب کے علم کا حصول انتریامی کا تازہ ترین ہدفِ حیات بن گیا۔

            مستقبل بینی کی غرض سے انتریامی نے پہلے تو روایتی ذرائع کو ٹٹولا۔ کبھی کسی جنم کنڈلی بتانے والے پنڈت تو کبھی طوطے کی مدد سے مستقبل کا راز کھولنے والے بازیگر سے رجوع کیا۔ ان پاکھنڈیوں سے مایوس ہو کر اس نے ایسے ماہر دست شناس نجومیوں سے رابطہ کیا جن کے اخبارات میں چرچے تھے۔ جو آئے دن سیاسی و سماجی پیشگوئیاں کیا کرتے تھے۔ ویب سائٹس اور ٹیلی ویژن پر لوگ ان سے رجوع کر کے پلک جھپکتے مستقبل میں پیش آنے والے مسائل کا نہ صرف عرفان حاصل کرتے بلکہ حل سے بھی مستفید ہوتے تھے۔

            دست شناسوں کی ہاتھ کی صفائی بہت جلد انتریامی پر عیاں ہو گئی۔ نجومیوں کی ڈرامہ بازی نے اسے ان کے چنگل سے تو آزاد کر دیا لیکن علمِ نجوم کے دام میں گرفتار ہونے سے وہ اپنے آپ کو نہیں بچا سکا۔ انتریامی نے اب دوسروں پر انحصار کرنے کے بجائے بذاتِ خود ستاروں کی گردش کا مطالعہ شروع کر دیا تھا۔ یہ نیا مشغلہ خاصہ دلچسپ تھا۔ رات بھر ستاروں کی گردش پر نظر رکھنا اور دن بھر اس کا حساب کتاب کرنا۔ اس مشق کے بعد اپنے مستقبل کے بارے میں اندازے قائم کرنے کے بعد وہ تصدیق یا تردید کیلئے انتظار کے کرب میں مبتلا ہو جایا کرتا تھا۔

            مشاہدات و تجربات کی بھٹی میں عرصۂ دراز تک تپنے کے بعد انتریامی نہایت دلچسپ نتیجہ پر پہنچا۔ اس کو پتہ چلا کہ سارے حساب و کتاب کے بعد بھی بیشتر پیشن گوئیاں غلط ثابت ہوتی ہیں۔ اس نے سوچا اگر وہ حالات و کوائف سامنے رکھ کر یونہی اندازے قائم کر لیتا تو ان کے درست نکلنے کے امکانات نسبتاً زیادہ قوی ہوتے۔ انتریامی کو اپنی اس جہد مسلسل میں یکے بعد دیگر ناکامیوں سے سابقہ پیش آ رہا تھا۔

             وہ ایک ایسی پل صراط پر چل رہا تھا جس کے آخری سرے پر امید کا ایک ننھا سا دیا ضرور تھا لیکن دونوں جانب مایوسی کی گہری کھائی تھی۔ بار بار اس کا توازن بگڑتا اور بڑی مشکل سے وہ اپنے آپ کو سنبھال پاتا۔ پے درپے ناکامیوں سے دل برداشتہ انتریامی حزن و یاس کی کھائی میں تو ابھی نہیں گرا تھا لیکن خود اپنی نظروں سے گر چکا تھا۔ وہ اپنے آپ میں کھویا، کھویا، گم سم، گم سم رہنے لگا تھا۔

             لوگوں سے اس کا ملنا جلنا بے حد کم ہو گیا تھا۔ لوگ بھی اس کی بے رخی کے باعث کنارہ کش ہونے لگے تھے۔ انتریامی کو تلاشِ ذات کی جستجو نے سارے عالم سے بیگانہ کر دیا تھا۔ عوام کی بے رخی سے بے نیاز وہ اپنے آپ میں مست تھا۔ ویسے وہ بالکل تنہا بھی نہیں تھا۔ اس کا شاگردِ رشید اویناش سائے کی طرح اس کے پیچھے لگا ہوا تھا۔ وہ ہمیشہ انتریامی کی خدمت میں حاضر رہتا بڑی تندہی کے ساتھ اپنے گرو کی سیوا کرتا اور ان کی تمام ضروریات کا خیال رکھتا۔ اس دوران انتریامی کے لب سے گرنے والے علم و حکمت کے لعل و گہر چن چن کر دامن میں سمیٹتا رہتا۔

             انتریامی کی خاموشی سے اویناش غمگین ضرور تھا مگر اپنے غم کا مداوا کرنے کی خاطر وہ بھی اپنے استاد کا ہم مزاج بن گیا تھا۔ وہ خود بھی خاموشی سے مطالعہ میں غرق رہنے لگا تھا۔ رفتہ رفتہ انتریامی کا گھر ایک قبرستان بن گیا جس میں دو لاشیں سانس لیتی تھیں۔ دو دل دھڑکتے تھے۔ چار آنکھیں دیکھتی تھیں۔ لیکن زبانوں پر گویا تالے پڑے ہوئے تھے۔ اس عالمِ تنہائی میں ایک دن انتریامی نے اپنا قدم صدر دروازے کی جانب بڑھایا۔

             اویناش اس تبدیلی کو نیک شگون سمجھ کر انتریامی کے پیچھے چل پڑا۔ گرو اور چیلا کسی نا معلوم منزل کی جانب نکل کھڑے ہوئے۔ اویناش کیلئے کو ئی مسئلہ نہیں تھا اسے تو بس اپنے استاد کے نقشِ قدم پر چلنا تھا۔ وہ اس طرح اپنے گرو کی اتباع کر رہا تھا گویا اس کی منزل اس کے آگے آگے چل رہی ہے۔ اس نے یہ جاننے اور پوچھنے کی زحمت بھی گوارہ نہیں کی تھی کہ رختِ سفر کس سمت ہے۔

            یقین و اعتماد کی کیفیت نے اویناش کو خدشات اور سوالات سے بے نیاز کر دیا تھا لیکن انتریامی کیلئے یقیناً مسئلہ تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ مستقبل کی تلاش اسے کہاں لئے جا رہی ہے۔ وہ تو بس بے تکان چلتا ہی چلا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ فاصلوں کی مسافت نے بستیوں کو نگل لیا اور وہ وسیع و عریض جنگل کے گھنے درختوں کے درمیان پہنچ گئے۔

            اس طویل سفر میں پہلی بار انتریامی نے پیچھے کی جانب مڑ کر دیکھا تو اویناش کو موجود پایا۔ پلکیں جھپکیں۔ ہونٹ ہلے۔ جیتے رہو۔ پھولو پھلو۔ دیکھو بیٹا تم نے ساتھ نبھانے کا حق ادا کر دیا اور کیا خوب ادا کیا لیکن اب ہمارا ساتھ ختم ہوتا ہے۔ اب آبادی سے دور جنگل میں یہ انتریامی تنہا رہنا چاہتا ہے صرف اپنے آپ کے ساتھ۔ اب میں اور میری تنہائی یہاں رہیں گے اور ان کے درمیان خلل اندازی کرنے والا کوئی تیسرا نہ ہو گا۔ شاید مستقبل کا سفر انسان کو اسی طرح طے کرنا ہوتا ہے۔ تم لوٹ جاؤ۔ اس گراں بار تلقین کیلئے معذرت چاہتا ہوں۔ شب بخیر ہمارا تمہارا ساتھ ختم! ! !

            اویناش کوایسامحسوس ہوا گویا کوئی نامعلوم ہاتھ اس کے جسم سے روح کو جدا کر رہا ہے۔ اس کی نمناک پلکوں نے کہا گرو دیو! آپ کا حکم سر آنکھوں پر۔ میں صرف آپ کا ٹھکانہ دیکھنا چاہتا ہوں۔ آپ کا تکیہ دیکھ کر لوٹ جاؤں گا۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ آپکی عبادت و ریاضت میں کبھی بھی دخل اندازی کی گستاخی نہیں کروں گا۔ انتریامی نے آنکھوں سے اجازت دی اور پلٹ کر چل پڑا۔

             جنگل بیابان کا سفر طویل سے طویل تر ہوتا چلا گیا یہاں تک کہ ایک جھرنے کے کنارے انتریامی نے آسن سنبھال لیا اور پھر کنکھیوں کے اشارے سے کہا یہی ہے میرا مسکن۔ اویناش نے بھی زبان کو جنبش دیئے بغیر شکریہ ادا کیا اور بے آواز پلٹ کر واپس ہولیا۔     واپسی میں اویناش راستے کے نشیب و فراز کو بڑے غور سے دیکھ رہا تھا۔ ایک ایک نشانی کو ذہن نشین کرتا جا رہا تھا تاکہ دوبارہ اپنے استاد تک رسائی میں مشکل نہ ہو۔

            اویناش نہیں جانتا تھا کہ اسے خود اپنے مستقبل کا سفر استاد کی رہنمائی کے بغیر تنہا کرنا ہے۔ بوجھل قدموں کے ساتھ جب اویناش گھر آیا تو سارے لوگ بے حد خوش ہوئے لیکن اویناش کو اپنے استاد کی فرقت کا غم کھائے جا رہا تھا وہ اپنے آپ کو اپنے ماں باپ کی خوشی میں شریک نہیں کر پا رہا تھا۔ ویسے اویناش کے دل میں کسی گوشے سے یہ صدا برابر آ رہی تھی کہ جس دن اس کا گرو انتریامی لوٹ آئے گا وہ دن اس کیلئے یوم عید ہو گا۔

            اویناش نے اپنے تئیں یہ فیصلہ کیا کہ وہ ہر روز ایک مرتبہ گرو درشن کی غرض سے جنگل میں جائے گا اور ان کے ضرورت کا سامان رکھ کر چپ چاپ لوٹ آئے گا۔ اسے امید تھی کہ بہت جلد اس کے استاد اپنا ارادہ بدل دیں گے۔ اپنی خاموشی توڑ کر گھر لوٹ آئیں گے۔ اویناش نے اس دن کا بڑا انتظار کیا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ساری امیدوں پر اوس پڑ گ          ئی۔ وہ جب بھی جاتا انتریامی کو دھیان گیان میں مگن پاتا۔ انہیں پتہ بھی نہیں چلتا کہ کب کون آیا اور واپس چلا گیا۔

            انتریامی کے کٹھور رویہ کا اثر اویناش پر بھی پڑنے لگا تھا۔ اب وہ روزانہ کے بجائے ہفتے میں ایک بار آنے جانے لگا تھا۔ جب آنا جانا محض بار برداری کی غرض سے ہو تو روز روز کی مشقت سے کیا فائدہ۔ وہ ہفتے بھر کا سامان ڈھو کر ایک ساتھ لے جاتا۔ لیکن جب وہ دیکھتا کہ پچھلے ہفتے کا سامان جوں کاتوں پڑا ہے تو اسے بہت کوفت ہوتی۔ خاموش رہنا اس کا دھرم تھا اویناش کے ہونٹوں پر اس کے وچن نے مہر لگا دی تھی۔

             اب وہ مہینے میں ایک آدھ بار اپنے گرو کے درشن کی خاطر حاضر ہونے لگا تھا۔ اویناش کے رویہ کی تبدیلی انتریامی پر مطلق اثرانداز نہیں ہوئی تھی۔ وہ لوگوں سے توقعات کے سارے سلسلے منقطع کرنے میں کامیاب ہو چکا تھا۔ وہ خود بھی چاہتا تھا کہ اویناش بلاوجہ اس قدر دور آنے جانے کی زحمت گوارہ نہ کرے۔

            انتریامی کا معمول تھا کہ وہ دن میں دو مرتبہ جھرنے پر جا کرپانی پیتا۔ ضروریات سے فارغ ہونے کے بعد کچھ جنگلی پھل چن لیتا۔ اس کے علاوہ انتریامی کے پاس صرف ایک کام تھا۔ اپنے مالکِ حقیقی کی یاد میں گم رہنا۔ اس کی زبان پر صرف ایک دعا ہوتی۔ ایک ہی مناجات و فریاد۔ اے میرے خالق و مالک تو نے مجھے زندگی عطا کی اب اس کی معرفت عطا کیوں نہیں کرتا؟ اے پاک پروردگار مجھے ماضی کے ظلمات سے نکال کر مستقبل کی نورانی منزل میں داخل فرما۔ وہ گویا اپنے مالک کے دروازے پر دھرنا دے کر بیٹھ گیا تھا اور انداز تو کچھ ایسا تھا کہ جب تک اپنی مراد نہ پا جاؤں میں لوٹ کر جانے والا نہیں ہوں۔

             انتر یامی کواس عزمِ محکم کے باوجود سفر کی طوالت کا اندازہ تھا۔ چونکہ دنوں اور سالوں کا حساب کتاب بے معنیٰ ہو چکا تھا۔ اس کو اختتام کی نہ پراہ تھی اور نہ عجلت۔ سود و زیاں سے بے نیاز انتریامی تصور خیال میں شب و روز مختلف حیرت انگیز روحانی تجربات سے فیضیاب ہو رہا تھا۔

             اس نے دیکھا کہ جنگل میں ایک پگڈنڈی اچانک نمودار ہو گئی ہے۔ اس راستے پر نہ کوئی چراغ ہے نہ قمقمہ اس کے باوجود تاریکی کا نام و نشان نہیں تھا۔ گھٹا ٹوپ تاریکی میں ایک روشن راستہ پہاڑ کی بلندیوں کی جانب نکلا چلا جاتا ہے۔ نور کی لکیر پر جیسے ہی انتریامی نے قدم رکھا راستہ آپ سے آپ چلنے لگا۔ انتریامی پھر ایک بار کسی نا معلوم منزل کی جانب رواں دواں ہو گیا تھا۔ وہ حیرت سے اپنے آس پاس کے مناظر کو تیزی کیساتھ پیچھے کی جانب دوڑتا ہوا دیکھ رہا تھا۔ جیسے جیسے پہاڑی راستہ مشکل سے مشکل تر ہوتا جاتا اس کی رفتار میں بتدریج اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔

            چوٹی پر پہنچ کر انتریامی نے ایک عجیب و غریب منظر دیکھا۔ اس کے سامنے ایک وسیع و عریض میدان بچھا ہوا ہے جس میں کوئی اونچ نیچ نہیں ہے۔ ایسا لگتا تھا گویا اسے کسی آسمان محل کی تعمیر کیلئے ہموار کیا گیا ہے۔ دائرہ نما میدان کے درمیان میں ایک بہت بڑی جھیل اس طرح پھیلی ہوئی ہے گویا سمندر، تا حدِ نظر پانی ہی پانی لیکن نہ موجیں اور نہ اضطراب مکمل سکون اور خاموشی۔ روشنی میں نہائے ہوئے تالاب کو دیکھ کر انتر یامی کی نظر یں نور کے منبع کو تلاش کرنے لگیں اور داہنی جانب وہ بھی نظر آ گیا۔

            وہ ایک ہرا بھرا روشنی کا شجر کہ جس کی ٹہنیاں آسمان سے باتیں کرتی تھیں اور داڑھی زمین کا بوسہ لیتی تھی۔ اس پیڑ کے ہر پتہ سے روشنی کی کرنیں پھوٹ رہی تھیں۔ انتریامی اس دلفریب منظر میں کھویا ہوا تھا کہ کیا دیکھتا ہے اچانک تیزی کے ساتھ ہوا کے جھکڑ چلنے لگے ہیں اور زبردست و طاقتور درخت کو ہوا نے جھولے کی مانند ہلانا شروع کر دیا ہے۔ انتر یامی نے سوچا یہ آج ہوا کو کیا ہو گیا؟ اس قدر تند و تیز؟ اور پھر اس کو نور کے شجر سے کیسا بیر ہے کہ جو اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے پر تلی ہوئی ہے؟ اس پیڑ نے اس کا کیا بگاڑا ہے؟

            شجرِ نور کسی نہ کسی طرح ہوا کا مقابلہ کر رہا تھا۔ اس نے اپنی جڑوں کو زمین میں مضبوطی سے گاڑ دیا تھا۔ وہ اپنی شاخوں کو اِدھر ادھر ہٹا کر ہوا کو راستہ دیتا تھا کہ کسی درجہ اس کا زور کم ہو لیکن ہوا کے ارادے ٹھیک نہیں تھے اس کے رفتار کی شدت بڑھتی ہی چلی جاتی تھی۔ اس بیچ انتریامی نے دیکھا ہوا پیڑ کے ایک پتے کو شاخ سے الگ کرنے میں کامیاب ہو گئی اور اسے اڑا کر دور تک لے گئی۔ پتہ کی کوشش یہ تھی کہ زمین سے نہ چھوئے اور ہوا اسے نیچے لانے پر تلی ہوئی تھی، پھر ایک بار ہوا کو کامیابی ہوئی۔ روشنی کا پتہ جیسے ہی زمین بوس ہوا ایکدم سے بجھ گیا گویا زمین نے اس کا نور نگل لیا ہو۔ اس میں سے پھوٹنے والی روشنی غائب ہو گئی اور وہ خاک نشین ہو گیا۔

            ہوا کے حوصلے بلند ہو چکے تھے۔ پت جھڑ کا آغاز ہو چکا تھا۔ وقتاً فوقتاً پیڑ کی شاخ سے پتے ٹوٹتے کچھ دور ہوا میں لہرانے کے بعد زمین کو چھوتے ہی بے نور ہو جاتے۔ دھیرے دھیرے پیڑ تھا کہ برہنہ ہوتا جاتا تھا اور اندھیرا تھا کہ پھیلتا جاتا تھا۔ انتریامی دعا کر رہا تھا کہ ہوا کا زور ٹوٹے پت جھڑ کا سلسلہ بند ہو۔ بہار کا موسم لوٹ آئے۔ پیڑ پھر سے لہلہائے اور اپنی روشنی پھیلائے لیکن اس کی دعا مستجاب نہیں ہو رہی تھی۔ روشنی مدھم سے مدھم تر ہوتی جا رہی تھی اور اندھیرا پر پھیلائے چلا جا رہا تھا کہ اچانک انتریامی کی آنکھ کھل گئی اس کے سامنے پگڈنڈی مسکرا رہی تھی۔

            انتریامی اپنی جگہ سے اٹھا اور اپنے نروان کے درخت کی جانب چل پڑا۔ راستے کی ایک ایک نشانی ظاہر ہو رہی تھی۔ گو کہ وہ پہاڑ کی بلندیوں کی جانب گامزن تھا اس کے باوجود تھکن کا اتہ پتہ نہیں تھا۔ حوصلہ اور امید کا یہ عالم تھا کہ ہر پل جوش و خروش میں اضافہ ہوتا چلا جاتا تھا بالآخر جیسے ہی اس نے پہاڑ کی چوٹی پر قدم رکھا ہو بہو خواب کا منظراس کا منتظر تھا۔ وہ ایک بڑے سے دائرہ نما چٹیل میدان پر قدم رنجا فرما رہا تھا۔

            انتریامی کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو گیا۔ اس نے دور نگاہ دوڑائی تو کیا دیکھتا ہے درمیان میں وہی جھیل ہے بالکل وہی جو اس نے اپنے خواب میں دیکھی تھی۔ اب اس کی نگاہوں کو پیڑ کی تلاش تھی جس کی خاطر وہ سالہا سال سے محوسفر تھا اور وہ کیا اس نے قدیم برگد کے درخت کو بھی دیکھ لیا جو صدیوں کے راز سینے میں چھپائے نہ جانے کب سے اپنے انتریامی کا انتظار کر رہا تھا لیکن اس برگد کے درخت سے اس طرح نور نہیں برس رہا تھا جیسا کہ اس نے اپنے خواب میں دیکھا تھا۔

            انتریامی جب پیڑ کے قریب پہنچا تو پھر ایک بار پھر خواب کی آندھی نے اپنا سر نکالا اور تیزی سے چلنے لگی۔ ہوا کا رخ سامنے کی جانب سے تھا انتریامی کی نظر پیڑ پر مرکوز تھی اس نے دیکھا کہ اچانک درخت سے ایک پتہ ٹوٹ کر اس کی جانب چلا آ رہا ہے۔ انتریامی نے زمین پر گرنے سے قبل اسے اچک لیا۔ وہ پتہ کو اپنے ہاتھوں میں لے کر بہت خوش تھا وہ محسوس کر رہا تھا گویا اس نے پتہ کو بے نور ہونے سے بچا لیا جبکہ وہ پہلے ہی سے بے نور تھا۔

            انتریامی نے جب غور سے پتے کو دیکھا تو اس کے حیرت کی انتہا نہ رہی۔ اس پر ایک خوش خط تحریر درج تھی۔ انتریامی نے جب اس کو پڑھنا شروع کیا تو مزید تعجب ہوا۔ یہ تو اس کی اپنی زندگی ایک واقعہ تھا جسے اس پتے نے اپنی ہتھیلی پر مہندی کی مانند سجا رکھا تھا۔ انتریامی جب آگے بڑھا تو اسے ہوا کے دوش پر ایک اور پتہ اپنی جانب آتا ہوا دکھلائی دیا انتریامی نے لپک کر اسے پکڑ لیا اور بڑے شوق سے الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا لیکن اسے مایوسی ہوئی وہ بالکل کورا تھا۔

             ہوا کے تیز جھونکوں سے پیڑ کے پتے ٹوٹ ٹوٹ کر ادھر ادھر بکھر رہے تھے انتریامی ان میں سے ہر ایک کو چن لیتا تھا۔ ان میں سے اکثر خالی ہوتے لیکن کسی کسی پر کچھ تحریر بھی ہوتا تھا۔ ہر پتے پر لکھی تحریر اس کی زندگی کا کوئی نہ کوئی واقعہ ہوتی تھی۔ اس آنکھ مچولی نے انتریامی کو بالکل پیڑ کے نیچے پہنچا دیا تھا۔ اسے یقین ہو گیا تھا کہ اس پیڑ کے پتوں پر اس کی سوانح حیات کندہ ہے۔

            وہ سوچ رہا تھا اس درخت کے پتوں پر اگر اس کا ماضی لکھا ہوا ہے تو یقیناً مستقبل بھی تحریر ہو گا۔ اس کا اپنا روشن مستقبل جس کی تلاش میں اس نے اپنے ماضی کو تاریک کر دیا تھا۔ انتریامی نے اپنے کندھے پر پڑے اویناش کے چرمی جھولے سے سارا سامان نکال کر پھینک دیا اور خالی تھیلے کو دوبارہ کندھے پر رکھ کر پیڑ پر چڑھ گیا تھا۔ آندھی تھم چکی تھی موسم نہایت خوشگوار ہو گیا تھا۔

            اوپر پہنچ کر انتریامی پیڑ کے ہر پتے کو جانچتا۔ جس پر کچھ لکھا ہوتا اسے توڑ کر اپنے جھولے میں رکھ لیتا اور جو خالی ہوتا اسے یونہی چھوڑ دیتا تھا۔ انتریامی اس کام کو جلدی جلدی کر رہا تھا اسے ڈر تھا کہ نہ جانے کب ہوا کا دماغ خراب ہو جائے، وہ آندھی کا روپ دھار کر اس پیڑ اکھاڑ کر جھیل میں الٹ دے۔ اگر ایسا ہو گیا تو اس کے مستقبل کی معرفت بھی جھیل میں غرق ہو جائے گی۔ وہ کسی صورت نہیں چاہتا تھا کہ یہ بھیانک حادثہ رونما ہو جائے اس لئے جلد از جلد فارغ ہو جانا چاہتا تھا۔ اسے فی الحال پتوں کو پڑھنے کی نہ فرصت تھی اور نہ ضرورت۔ وہ اطمینان سے انہیں گھر لے جا کر پڑھنا چاہتا تھا۔

             انتریامی بہت خوش تھا کہ اس کی من مراد پوری ہو گئی اس کی برسوں کی تپسیا سپھل ہو گئی۔ انتریامی نے ایک ایک پتے کو کھنگال ڈالا تھا۔ اپنے متعلق لکھی ہر تحریر کو اپنے جھولے میں قید کرنے کے بعد اب وہ نیچے اتر رہا تھا کہ پھر ہو اکے جھکڑ چلنے لگے۔ وہی خواب کی آندھی کا دہانہ پھر سے کھل گیا تھا۔

            انتریامی کا رخ اب اپنے گھر کی جانب تھا وہ پیچھے گھوم کر دیکھنے کیلئے بھی تیار نہیں تھا کہ اچانک ایک زوردار آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی جس نے اسے مڑ کر دیکھنے پر مجبور کر دیا۔ اس نے پلٹ کر دیکھا تو گھبرا گیا۔ ہوا اس زبردست پیڑ کو جڑ سے اکھاڑنے میں کامیاب ہو چکی تھی۔ اس نے پیڑ کو ایک گیند کی مانند جھیل کی جانب اچھال دیا ہے۔ چھپاک کی آواز کے ساتھ جھیل اسے نگل گئی۔ ایک معمولی سے ارتعاش اور سب کچھ پہلے جیسا ہو گیا۔

             انتریامی کے پیروں تلے اب بھی پہاڑ کی چوٹی تھی۔ سامنے میدان اور تالاب تھا لیکن نروان کا وہ درخت اپنی جگہ موجود نہیں تھا۔ قضا اس پیڑ کو نگل چکی تھی۔ انتریامی کو اس کا ذرہ برابر افسوس نہیں ہوا۔ اپنے منزلِ مقصود نروان کے درخت کی غرقابی پر انتریامی نے ایک آنسو بھی نہیں بہایا تھا۔

            وہ پیڑ جس پر انتریامی کے داستانِ زندگی حرف بحرف لکھی ہوئی تھی۔ وہ درخت جس کے اوپر سے ابھی ابھی اپنے مستقبل کے لمحات چرا کر انتریامی نیچے اترا تھا وہ شجر تباہ و تاراج ہو چکا تھا۔ لیکن انتریامی شاداں و فرحاں اپنے ڈیرے کی جانب رواں دواں تھا۔ وہ دنیا کا واحد انسان تھا جس کا مستقبل صیغۂ راز میں نہیں تھا وہ اسے اپنے کندھوں پر اٹھائے چل رہا تھا۔ وہ اسے دیکھ سکتا تھا، پڑھ سکتا تھا، اسے جان سکتا تھا، اب وہ کم از کم اپنی حد تک صحیح معنیٰ  میں انتریامی ہو گیا تھا۔

             انتریامی کو اس کی کامیابی نے اسے کس قدر سخت گیر، سنگدل، خودغرض اور احسان فراموش بنا دیا کہ اس کے دل میں بوڑھے برگد کی موت پر ایک خلش تک نہ ہوئی۔ اپنے منفرد ہونے کا احساس۔ دنیا میں یکہ و تنہا، بلند ترین مرتبے پر فائز ہونے کی رعونت نے انتریامی کو اپنے خونی پنجے میں جکڑ لیا تھا۔ وہ بلند اقدار و اخلاق جو انتریامی کی ذات و صفات کا تشخص تھے لقمۂ اجل بن جانے والے برگد کی مانند بے نام و نشان ہو چکے تھے۔

            نوشتہ تقدیر کے ساتھ برسوں بعد انتریامی اپنے گھر کے اندر داخل ہوا تو دیکھا یہاں پر توسب کچھ ویسا کا ویسا ہی ہے۔ سوائے دھول کی ایک دبیز سی چادر کے جسے ہر شئے نے اپنے اوپر اوڑھ رکھا تھا۔ انتریامی کو اچانک احساس ہوا کہ اس کا اپنا وجود بھی منوں مٹی تلے دبا ہوا ہے۔ اس نے حمام کا رخ کیا اور نلکے کے نیچے بیٹھ گیا۔ نہ جانے کب تک پانی کی پھوار اس کے سر سے پیر تک بہتی رہی۔

            پانی کا ہر قطرہ زندگی سے لبریز تھا۔ حیات کی سرسراہٹ اس کے رگ و پئے میں اترتی جا رہی تھی۔ پانی کے قطرات اس کے نس نس کو تازگی سے شرابور کر رہے تھے۔ باہر آنے کے بعد انتریامی نے الماری سے ان کپڑوں کو نکالا جسے برسوں قبل اویناش نے نہ جانے کس امید پر حفاظت سے رکھ چھوڑا تھا۔

            تازہ لباس کا لمس انتریامی کو بھلا معلوم ہوا۔ وہ اپنے بستر کے قریب آیا۔ چادر کو جھٹکا۔ تکیہ کو پلٹا اورسرہانے پڑی اپنی قدیم قندیل کو روشن کر دیا۔ کمرے میں روشنی پھیل گئی، انتریامی نے پتوں سے بھرے تھیلے کو اپنی بائیں جانب خالی کر دیا اور انہیں ترتیب دینے میں لگ گیا۔ اسے تعجب تھا کہ ہر پتہ ماضی کا ایک دریچہ کھولتا تھا۔ اس کی حیرت اس وقت بامِ عروج پر پہنچ گئی جب اس نے ایک پتے پر اپنی واپسی کے واقعات ہو بہو لکھے ہوئے دیکھے۔ اسے یقین تھا ان پتوں کے ڈھیر میں اس کا مستقبل کہیں نہ کہیں چھپا ہوا ہے۔ وہ دیر تک پتوں کو ترتیب دیتا رہا اور جب تھک گیا تو بستر پر پیٹھ لگا کر لیٹ گیا۔

            انتریامی نے جیسے ہی اپنے پرانے تکیہ پر سر رکھا غور و فکر کا ایک جدید دلکش چراغ روشن ہو گیا۔ انتریامی سوچ رہا تھا کہ جلد ہی وہ اپنے مستقبل کے بارے میں سب کچھ جان جائے گا۔ اس لئے کہ ایک سچا صحیفہ اس کے ہاتھ لگ گیا ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ اس کے ذہن میں ایک نیاسوال بجلی کی مانند کوند گیا کہ اگر وہ اپنے مستقبل کے بارے میں سب کچھ جان بھی جائے تو کیا ہو گا؟ کیا وہ اسے بدل سکے گا؟ اس کا دل کہہ رہا تھا نہیں ہر گز نہیں۔

            اس لئے کہ اگر وہ کوئی ایسا اقدام کر گزرے جو اس کتاب میں لکھا نہیں ہے تو کتاب کی تکذیب ہو جائے گی۔ اور یہ کتاب جھوٹی ہو جائے ایسا تو ہر گز ممکن نہیں ہے گویا اگر وہ اپنے مستقبل کے بارے میں سب کچھ جان بھی جائے تب بھی اسے بدل نہیں سکے گا اور اگر ایسا ہے تو جاننے سے کیا حاصل؟ ایک نیا سوال اپنا سر ابھار رہا تھا۔ یہ نہایت خطرناک سوال تھا جس نے اس کی عمر بھر کی جستجو پر بہت بڑا سا سوالیہ نشان لگا دیا۔

            انتریامی کے ذہن میں مزید دریچے کھلنے لگے تھے وہ سوچنے لگا تھا انسان کس قدر بے اختیار مخلوق ہے؟ اس کے اندر اور اس کے آس پاس پائی جانے والی بے جان خس و خاشاک میں آخر فرق ہی کیا ہے؟ جس طرح وہ بے اختیار اسی طرح یہ بھی مجبورِ محض! دونوں اپنی مرضی سے کچھ بھی تو نہیں کر سکتے۔ وہ بھی مجبور یہ بھی مقہور دونوں جبر و قدر کے تانے بانے میں یکساں طور پر محصور۔

            کسی زمانے میں انتریامی خیال کیا کرتا تھا چونکہ اس نے یوں کیا اس لئے ایسا ہو گیا۔ وہ اگر فلاں کام نہیں کرتا تو نتیجہ کچھ اور ہوتا۔ وہ اس کائنات میں اپنے آپ کو بہت کچھ کرنے کرانے والی مخلوق سمجھا کرتا تھا لیکن اب اسے لگ رہا تھا کہ وہ سب محض خام خیالی تھی۔ اس نے جو کچھ کیا تھا اور جیسا کچھ کیا تھا اس کے علاوہ کچھ اور کرنا اس کے اختیار میں کب تھا؟ اپنے آپ کو عظیم ترین سمجھنے والا انتریامی اچانک برگد کے درخت کی مانند آسمان دنیاسے اکھڑ کر بیچارگی اور بے بسی کے وسیع و بسیط تالاب میں غرق ہو گیا تھا۔

             انتریامی مجبور نگاہوں سے اپنے سرہانے پڑے مستقبل کے پتوں کو دیکھ رہا تھا۔ اور اپنے آپ سے سوال کر رہا تھا۔ ایسے مستقبل کا عرفان حاصل کرنے سے آخر کیا حاصل جس پر اثر انداز ہونے کی قدرت اس کے اندر نہیں ہے؟ جو متعین ہے اوراس کے تعین میں اس کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ چونکہ وہ مستقبل کی ناکامی کو کامیابی میں بدل نہیں سکتا اس لئے پیشگی جاننے سے تو بہتر ہے کہ انہیں جانا ہی نہ جائے۔ ایسا کرنے سے کم از کم یاس کی گھڑیاں کم ہو جائیں گی۔ پہلے ہی مرحلے میں مایوسی کو گلے لگا لینے کے بجائے آخری لمحے میں ناکامی سے نظر ملانا بہتر ہے۔

             انتریامی نے سوچا لیکن زندگی میں صرف ناکامی ہی تو نہیں ہوتی انسان اپنے مستقبل کی کامیابیوں کا بھی تو پتہ لگا سکتا ہے لیکن اگر کامیابی کا پتہ پہلے ہی چل جائے تو یک گونہ بے یقینی کے بعد حاصل ہونے والی بے پایاں مسرت بے موت مر جائے گی۔ وہ اپنی کسی کامیابی کا جشن نہیں منا سکے گا۔ انتریامی اپنے آپ سے بولا یہ تو سراسر نقصان کا سودا ہے۔ کامیابی اور ناکامی دونوں صورتوں میں خسران ہی خسران۔

            انتریامی کو پہلی بار اپنے آپ پر غصہ آ رہا تھا۔ اس نے کس مہمل شئے کی جستجو میں اپنی زندگی کے بہترین ایام کو جھونک دیا تھا؟ اسے چاہئے تھا کہ اس کارِ بے مصرف کے بجائے کسی مفید کام میں اپنا سر کھپاتا۔ اسے کچھ اور کرنا چاہئے تھا، لیکن وہ کیونکر ممکن تھا اس لئے کہ ان پتوں پر تو یہی سب لکھا تھا۔ وہ بھلا اس سے سرِ مو انحراف کیسے کر سکتا تھا؟

            زندگی پھر ایک بار اس کے سامنے ایک بے معنیٰ سوال بن کر آن کھڑی ہوئی۔ نروان کا حصول بھی اس کا کلیان کرنے میں ناکام رہا تھا۔ نجات کی خودساختہ منزل بھی اس کیلئے نجات دہندہ ثابت نہیں ہو سکی۔ وہ کامیابی کی بلند ترین چوٹی پر بیٹھا اپنی ناکامی پر آنسو بہا رہا تھا۔ متضاد احساسات یوں ایک ساتھ جمع ہو گئے تھے گویا زندگی موت سے گلے مل رہی ہو۔

             اس عالم میں انتریامی نے بے معنیٰ زندگی کا لباس اپنے تن سے اتار پھینکنے کا انتہائی فیصلہ کر لیا۔ میز کی دراز سے زہر کی شیشی کو لے کر وہ اپنے بستر پر آ کر لیٹ گیا۔ ایک جملے میں اس نے اپنی وصیت لکھی اور ایک گھونٹ میں سارا زہر نگل کر چپ چاپ ابدی نیند سو گیا۔ انتریامی کا مستقبل ماضی کی ایک کربناک داستان بن گیا۔

            اویناش کو اپنی بستی سے کوسوں دور اپنے گرو کے گھر میں لوٹ آنے کی اور دنیا کو خیرباد کہہ کر پرلوک سدھار جانے کی خبریں ایک ساتھ موصول ہوئیں۔ وہ جس وقت واپس اپنے شہر پہنچا تو تجہیز و تکفین کی تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں۔ اپنے پیرو مرشد کی لاش کے سرہانے کھڑا ہو کر اویناش دیر تک آنسو بہاتا رہا۔ لوگوں کے سمجھانے بجھانے پر طبیعت سنبھلی تو اس نے آس پاس نظر دوڑائی۔ اسے اپنے چرمی جھولے میں بھرا ہوا پتوں کا ڈھیر دکھائی دیا۔ وہ ان پتوں کو الٹنے پلٹنے لگا تو کیا دیکھتا ہے ان پر انتریامی کی زندگی کے احوال درج ہیں۔ جو پتہ اس کے ہاتھ میں تھا اس پر انتریامی کی خودکشی کا واقعہ اور اس کے بعد کی عوامی چہ مے گوئیاں درج تھیں۔

            اویناش اپنے گرو کی پتوں پر لکھی سوانح حیات کو آنکھوں سے لگا کر سوچنے لگا انتریامی اپنے موت سے قبل پیش آنے والے واقعات کو لکھنے پر تو قدرت رکھتا تھا لیکن موت کے بعد کیا کچھ ہو گا وہ کیسے جان گیا؟ پتوں پر لکھی اس قدر خوشخط تحریر اویناش سے کہہ رہی تھی کہ یہ انسانی نہیں بلکہ الہامی قلم کی کرشمہ سازی ہے۔ اویناش کی توجہ اب اپنے گرو سے ہٹ کر پتوں کی جانب مرکوز ہو چکی تھی اور وہ انہیں دیوانہ وار الٹ پلٹ رہا تھا۔ اویناش نے سوچا کہ کاش انتریامی نے یہ سب پڑھ لیا ہوتا اور وہ اپنے آپ کو خودکشی کرنے سے باز رکھ پاتا؟ لیکن اویناش کی غور و فکر کے تانے بانے عقب سے آنے والی آوازوں سے بکھرنے لگے۔

             کو ئی کہہ رہا تھا اویناش جنازہ تیار ہے لاؤ یہ جھولا ہمیں دو۔

            اویناش بولا جنازہ اٹھاؤ تمہیں کون روک رہا ہے لیکن اس جھولے کو میرے پاس چھوڑ دو۔

            یہ نہیں ہو سکتا۔ کئی آوازیں ایک ساتھ ابھریں

            کیوں نہیں ہو سکتا؟ اویناش نے بھی چیخ کر کہا

            یہ دیکھو انتریامی نے اپنی وصیت میں کیا لکھا ہے۔ اویناش کے سامنے ایک تحریر تھی جس پر لکھا تھا میری قبر میں ان پتوں کو بھی دفن کر دیا جائے۔

            اویناش اس تحریر سے اچھی طرح واقف تھا اسے یقین تھا کہ اس کا حرف حرف انتریامی نے لکھا ہے پھر بھی وہ بولا ان پتوں پر انتریامی کی داستانِ حیات درج ہے۔ ان تحریروں کے باعث انتریامی مرنے کے بعد بھی ہمارے درمیان زندہ رہیں گے ان کی یادیں ان کی باتیں زندہ و تابندہ رہیں گی۔ میں انہیں ترتیب دوں گا اور شائع کرواؤں گا۔ دنیا کی مختلف زبانوں میں اس کے تراجم کی اشاعت ہو گی اور اس کی مدد سے سارے عالم کو پتہ چلے گا کہ اپنے مستقبل کو دریافت کرنے والا واحد شخص کیسا تھا؟ کیا کہتا اور کیا سوچتا تھا؟

            یہ میری سب سے بڑی سعادت ہو گی کہ میں اپنے گرو دیو کو اس طرح خراجِ عقیدت پیش کروں۔ اس لئے اس جھولے کو آپ لوگ میرے پاس رہنے دیں۔ انتریامی کے افکار و اقوال اور شخصیت و کردار کا احاطہ کرنے والی اس نادر دستاویز کو دفنانے کی اجازت میں کسی کو نہیں دے سکتا۔

            اجازت نہیں دے سکتے؟ تم سے اجازت کون طلب کر رہا ہے؟

            تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہے؟

            تم انتریامی کی آخری وصیت پر عمل درآمد سے منع کرنے والے کون ہوتے ہو؟

            ہم انتریامی کے ورثاء ہیں ہم ضرور ان کی وصیت پر عمل کریں گے۔

            ایک ساتھ کئی آوازیں بلند ہوئیں

            تم وارث ہو؟ تم کیسے وارث ہو جو اپنے بزرگ کی سوانح حیات کو قبر کے اندر دفن کر دینا چاہتے ہو؟ اور یہ نہیں چاہتے کہ دنیا ان کو جانے؟

            اور تم! تم کیسے شاگرد ہو جو یہ نہیں چاہتے گرو دیو کی آخری وصیت کو عملی جامہ پہنایا جائے تاکہ ان کی آتما کو کم از کم موت کے بعد شانتی مل جائے۔ کیا تم چاہتے ہو کہ جس طرح زندگی بھر وہ صحرا نوردی کرتے رہے اسی طرح ان کی آتما بھی دنیا میں بھٹکتی رہے۔

            اویناش نے سوچا ان جاہلوں سے بحث کرنا فضول ہے یہ جانتے ہی نہیں کہ آتما کو مکتی کیسے ملتی ہے؟ اس لئے مان کر نہیں دیں گے۔ اس نے کہا اچھا تو ٹھیک ہے اس جھولے کو بھی انتریامی کی قبر میں دفنا دو۔

            اویناش کی زبان تو یہ کہہ رہی تھی لیکن دل گواہی دے رہا تھا کہ رات ہو جانے دو پھر میں دیکھتا ہوں۔ انتریامی کی قبر کو میں دوبارہ کھو دوں گا اس میں سے پتوں کے اس جھولے کو چپ چاپ نکال لوں گا۔ پہلے میں خود اپنے گرو دیو کی سوانح حیات کو پڑھوں گا اور پھر ساری دنیا کو اس سے روشناس کراؤں گا۔

            رات کے آخری پہر اویناش پھر ایک بار قبرستان میں پہنچ گیا۔ اس نے انتریامی کی قبر سے پتوں کا جھولا نکال کر اسے بند کر دیا۔ انتریامی کی لاش بے حس و حرکت مسکراتے ہوئے یہ تماشہ دیکھتی رہی۔ جھولا کندھے پر رکھ کر اویناش اپنے گھر کی جانب چل پڑا مگراس سے صبر نہیں ہو پا رہا تھا۔ دشت تنہائی میں بے چینی و اشتیاق نے اویناش کو مجبور کیا کہ وہ وہیں ٹھہر کر چند صفحات پڑھے۔

            جھولے کو زمین پر رکھ کراس نے ایک پتہ باہر نکالا اور اپنی لالٹین کی روشنی میں اسے پڑھنے کی کوشش کرنے لگا لیکن یہ کیا؟ پتہ بالکل صاف و شفاف تھا اس پر لکھی تحریریکسرغائب تھی۔ اویناش نے آنکھیں مل کر پھر ایک بار دیکھا لیکن منظر نہیں بدلا تھا۔ اس کو غصہ آیا۔ اس پتے کو واپس جھولے میں ٹھونسا اور دوسرا نکالادوسرا پتہ بھی صاف تھا اب تیسرا اور چوتھا اس طرح نہ جانے کتنے پتے دیکھ ڈالے سب کا یہی حال تھا۔ حیرت زدہ اویناش نے سوچا گھر چل کر ایک ایک کو اطمینان سے دیکھتے ہیں۔

            جھولے کو کندھے پر رکھ کروہ پھر چل پڑا لیکن اس کے ذہن میں ایک سوال نے سر ابھارا کہ اگر یہ پتے کورے ہیں اور ان پر کچھ بھی نہیں لکھا تو انہیں ڈھو کر گھر تک لے جانے سے کیا حاصل؟ اس سے پہلے کہ اویناش اپنے آپ کو مطمئن کر پاتا ایک اور اندیشہ پیدا ہو گیا۔ اگر لوگوں کو پتہ چل جائے کہ اس نے انتریامی کی قبر میں اتر کر چوری کی ہے تو کیا ہو گا؟ یہ تو بہت بڑی بد نامی کی بات ہو گی، لوگ نہ صرف جھولا چھین لیں گے بلکہ اس کا حقہ پانی بند کر دیں گے اور اس صورت میں اس کیلئے اپنے مشن کو پورا کرنا نا ممکن ہو جائے گا۔

            اویناش کا ذہن اس طرح کے اندیشوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔ ان سب سے نجات پانے کی خاطر اس نے گھر کے بجائے جنگل کی طرف نکل جانے کا فیصلہ کیا سوچا بستی سے دور ویرانے میں چلو جہاں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہ ہو۔ اویناش کے قدم اسی راستے پر چل پڑے تھے جن پر سے کبھی انتریامی گزرا تھا۔ وہ اپنے گرو دیو کے نقشِ قدم پر رہبانیت کی راہوں پر رواں دواں ہو گیا تھا اور دنیا سے کٹنے لگا تھا۔

            گھنے جنگل میں پہنچنے کے بعد بے خوف و خطر اویناش نے ایک درخت کے نیچے اپنا جھولا رکھا اور پھر ایک بار پتوں کو ٹٹولنے لگا۔ اب اس کا گمان یقین میں بدل چکا تھا۔ کسی بھی پتے پر کچھ بھی نہیں لکھا تھا۔ حروف کے خزانے کو نہ جانے کون سی آندھی اپنے ساتھ اڑا کر لے گئی تھی اور کس جھیل میں غرق کر دیا تھا۔

            تنہائی کے اس عالم میں اویناش کے کانوں سے ہلکے ہلکے قہقہوں کی آواز ٹکرائی۔ اس نے اِدھر اُدھر مڑ کر دیکھا کوئی آدم نہ آدم زاد وہاں کسی فرد بشر کا نشان موجود نہیں تھا مگر آواز موجود تھی۔ اور پھر اسے اپنے کندھوں پر اک جانا پہچانالمس محسوس ہوا۔ اس نے مڑ کر نہیں دیکھا۔ وہ جانتا تھا کہ یہ انتریامی ہے جو وہاں موجود نہیں ہے۔ یہ اس انتریامی کی آواز ہے جو اس دنیا سے کوچ کر چکے ہیں۔ قہقہے تھم گئے اور جملے بن گئے۔

            کیا سوچ رہے ہو اویناش؟ بولو! بولو کس سوچ بچار میں ڈوبے ہوئے ہو تم؟ یہ انتریامی کی الفاظ فضا میں گونج رہے تھے۔ اویناش کی زبان گنگ ہو چکی تھی۔

            آواز پھر آئی یہی نا کہ پتوں پر لکھی تحریر کہاں چلی گئیں؟ اس کا جواب تو نہایت آسان ہے۔ وہ حروف وہیں چلے گئے جہاں میری آتما کوچ کر گئی۔ اب تمہارے پاس صرف پتے ہیں بلکہ پتوں کا بے جان جسد۔ ویسی ہی لاش جیسی کہ تم قبر میں کچھ دیر قبل چھوڑ کر آئے ہو۔ بغیر آتما کے بے جان جسم اور بنا تحریر کے پتے یکساں ہیں۔

            ایک لمحے کے توقف کے بعد وہی مانوس آواز پھر سے ابھری اویناش تم میری بات سمجھے یا نہیں حروف غائب! کہانی ختم! ختم! ! ختم! ! ! آہا ہا ہا

            دیکھو اویناش ہم تقدیر سے لڑ تو سکتے ہیں جیت نہیں سکتے

            ہم وہ سب جاننا چاہتے ہیں جسے جان نہیں سکتے اور وہ جاننا نہیں چاہتے جو جان سکتے ہیں۔ ہم ہر اس شئے کو حاصل کرنا چاہتے ہیں جسے پا نہیں سکتے اور جو حاصل ہو سکتی ہے اسے پانا نہیں چاہتے۔

            ایسا کیوں ہے گرو دیو؟ کیوں ہے ایسا؟ اویناش نے دریافت کیا

            میں اس گتھی کو سلجھانے میں ناکام رہا لیکن تم! تم اسے سلجھا سکتے ہو

            میں؟؟؟ گرو دیو میں تو آپ کا ادنیٰ شاگرد ہوں۔ اویناش بولا

            میں جانتا ہوں پھر بھی کوشش کر کے دیکھنے میں کیا حرج ہے؟ جی ہاں کوشش یہی تو وہ چیز ہے جو ہمارے قبضۂ قدرت میں ہے۔ جسے ہم کر سکتے ہیں۔ ہم یعنی تم۔ میں اس میں شامل نہیں ہوں۔ اس لئے کہ میں موجود نہیں ہوں۔، میرا وجود فنا ہو چکا ہے۔ میرے لئے مہلتِ عمل کا خاتمہ ہو چکا ہے۔

            اویناش تمہارے پاس زندگی کی نعمت ہنوز باقی ہے۔

            اور زندگی؟ یہ زندگی کیا ہے؟ اس کا خلاصہ تو یہ پتے بیان کر رہے ہیں

            زندگی پانی پر لکھی ہوئی تحریر ہے۔ انمٹ تحریر۰۰۰۰ پتھر کی لکیر ۰۰۰۰جسے ایک دن مٹ جانا ہے موت کی جھیل میں غرق ہو جانا ہے۔

            اس سے پہلے کہ یہ تحریر مٹ جائے۔ الفاظ فنا کی گھاٹ اتر جائیں اور بے جان پتے اپنے پیچھے چھوڑ جائیں تم انہیں پڑھ لو۔

            میں نے اپنی زندگی کی کتاب از خود پڑھنے کی کوشش کی تھی لیکن نہیں پڑھ سکا تھا یہاں تک کے قبر کی آغوش میں اسے میرے ساتھ دفنا دیا گیا۔

            تم اس کتاب کو میری قبر سے نکال لائے اور میری زندگی کی کتاب کو پڑھنے کی کوشش کر رہے ہو لیکن نہیں پڑھ سکتے۔

            انسان کیا کر سکتا ہے اور کیا نہیں کر سکتا اس بارے میں وہ جس قدر جانتا ہے۔ اسی قدر نہیں بھی جانتا۔ اسی خود آگہی اور عدم آگہی کا دوسرا نام زندگی ہے۔ انہیں سیاہ و سپید دھاگوں سے زندگی کا جال کو بُنا گیا ہے۔ اس جال میں پھنسا ہوا انسان ان تاروں سے نت نئے نغمہ ہائے حیات چھیڑتا ہے۔

            جب تک انسان ان تاروں سے کھیلتا رہتا ہے خوش رہتا ہے لیکن جب وہ انہیں کسنے یا ڈھیلا کرنے کی کوشش کرتا ہے پریشان ہو جاتا ہے۔ ان کی ہیئت و ماہیت میں تبدیلی کی جسارت اس کا اپنا حلیہ بدل کر رکھ دیتی ہے۔

            تم یہ جاننا چاہتے تھے کہ میں نے خودکشی کیوں کی؟ یہ سوال تمہیں میری قبر کے اندر لے گیا لیکن جواب تک رسائی نہیں ہوئی۔ اس ناکامی و نامرادی کے بعد سنو اویناش اپنے سوال کا جواب سن لو۔ اویناش! میں زندگی کے انہیں تاروں میں الجھ گیا تھا اور دیر تک ان کے درمیان ہاتھ پیر مارتا رہا یہاں تک کہ اس چھٹپٹاہٹ نے میرا گلا گھونٹ دیا اور میں خودکشی پر مجبور ہو گیا۔

            اویناش کے کانوں میں گرو دیو کی آواز دیر تک گونجتی رہی۔ بالآخر خود کلامی کا اختتام ایک نئے سفر کا آغاز بن گیا۔ اویناش کے قدم چل پڑے تھے وہ پھر ایک بار اپنے استاد کے نقشِ قدم پر بیابان کی خاک چھان رہا تھا۔ اویناش کو اس پیڑ کی تلاش تھی جس پر خود اس کا ماضی، حال اور مستقبل لکھا ہوا تھا۔ اویناش محسوس کر رہا تھا گویا اس کے قدم زمین پر نہیں خلاؤں میں پڑ رہے ہیں وہ ہوا کے دوش پر محوِ پرواز ہے۔ وہ بھی اپنے گرو کی طرح مرض خود کلامی کا شکار ہو گیا ہے؟ وہ خود اپنے آپ سے سوال کر رہا ہے اور خود ہی ان کا جواب دے رہا ہے۔ وہ غور و فکر کے میدان میں اپنے استاد انتر یامی سے آگے نکل گیا ہے۔ اس انتریامی سے آگے جو اپنے مستقبل کو مسخر کرنے کی کوشش میں ماضی کا حصہ بن چکا تھا!

٭٭٭


 

 

بندیا

 

                 گجرات اور مدھیہ پردیش کا سرحدی علاقہ قبائلی آبادی پر مشتمل ہے۔ یہ لوگ آج بھی شہری زندگی سے الگ تھلگ اپنے طریقے سے زندگی گذار رہے ہیں۔ یہ نہ ہندو ہیں نہ مسلم نہ سکھ نہ عیسائی۔ ان کے اپنے رسوم رواج ہیں جن کی بنیاد پر ان کا معاشرتی نظام قائم ہے۔ یہاں شادی بیاہ کا طریقہ بھی دوسرے طور طریقوں کی طرح بالکل اچھوتا ہے۔ ہر سال ساون کے مہینہ میں ایک میلہ لگتا ہے جسے شادی کا میلہ کہا جاتا ہے۔ دور دراز سے شادی کے خواہش مند لڑکے لڑکیاں اس میلے میں آتے ہیں اور اپنے جوڑے کے ساتھ بڑے انوکھے انداز میں اپنی ازدواجی زندگی کا آغاز کرتے ہیں۔

             شادی شدہ عورتیں اس میلے میں بندیا لگا کر آتی ہیں۔ ان کی جانب کوئی نظر اٹھا کر نہیں دیکھتا۔ جس کنواری لڑکی کو شادی نہیں کرنی ہوتی وہ اس میلے میں نہیں آتی۔ اس لیے جو لڑکیاں میلے میں بغیر بندیا کے ہوتی ہیں ان کے بارے میں یہ بات مان لی جاتی ہے کہ یہ نکاح کی آرزو مند ہیں۔ اب جس کسی لڑکے کو ان میں سے کوئی پسند آ جائے وہ اسے بھرے مجمع سے اٹھا کر لے جاتا ہے۔ یہ گویا اس بات کا اعلان ہو گیا کہ ان کی شادی ہو گئی۔ قبیلہ والے انہیں میاں بیوی کے طور پر تسلیم کر لیتے ہیں۔

            اس طرح ہر سال سیکڑوں شادیاں نہایت سادگی کے ساتھ ہو جاتی ہیں۔ اس سال جمنا بائی بھی میلے میں آئی تھی چونکہ وہ کنواری تھی اس لیے اس کے ماتھے پر بندیا نہیں تھی لیکن اس کے باوجود جمنا کا چہرہ چاند سا جگمگا رہا تھا۔ کئی نوجوانوں نے اس کے قریب آنے کی کوشش کی لیکن اس نے منہ پھیر لیا جو اس بات کا اظہار تھا اسے رشتہ منظور نہیں ہے۔ دُرجن کو جب اس نے دیکھا تو دیکھتی ہی رہ گئی۔ درجن کو بھی گویا اپنی منزل مل گئی اور وہ جمنا کو اٹھا کر میلے سے لے گیا۔ درجن سنگھ جب جمنا بائی کے ساتھ اپنے خاندان میں پہنچا تو لوگ بہت خوش ہوئے۔ میلے سے چاند کا ٹکڑا جو اٹھا لایا تھا۔ درجن اور جمنا کی پسند ناپسند ایک دوسرے سے موافق تھی۔ دونوں ہم مزاج تھے اور آپس میں بہت محبت کرتے تھے۔ گاؤں والے اس نوبیاہتا جوڑے کو رشک کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔

            اگلے سال جمنا بائی پھر شادی کے میلے میں گئی لیکن اس بار اس کے ماتھے پر بندیا سجی ہوئی تھی۔ وہ اپنی ضرورت اور اپنے شوہر کی پسند کا سامان خرید رہی تھی لیکن گنگا سنگھ کی نگاہیں مسلسل اس کا پیچھا کر رہی تھیں۔ میلے میں بہت ساری خوبصورت کنواری لڑکیاں تھیں لیکن گنگا سنگھ نے کسی کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا۔ وہ دیکھ اسے رہا تھا جسے دیکھنا ممنوع تھا۔ وہ جہاں بھی جاتی گنگا اس کے آس پاس ہوتا۔ در اصل وہ جمنا بائی کو اٹھا کر لے جانے کی تاک میں تھا مگر جمنا اس کے ارادوں سے بے خبر تھی۔

            میلے کا تیسرا اور آخری دن تھا بھیڑ بھاڑ چھٹ چکی تھی۔ اکثر شادیاں ہو چکی تھیں۔ دُکانوں کا زیادہ تر مال بک چکا تھا بلکہ دوپہر کے بعد چل چلاؤ کا سماں تھا۔ جمنا اور درجن بھی واپسی کی تیاری کر رہے تھے کہ اچانک گھوڑوں کی ٹاپوں سے میدان گونج اٹھا۔ دُکان والے ڈر گئے۔ اس بار ڈاکو ایسے موقع پر آئے کہ ان کے پاس پچھلے دو دنوں کی خوب جمع پونجی تھی۔ وہ تو نہ صرف مال اور منافع بلکہ اپنی محنت کے بھی لٹ جانے کا انتظار کر رہے تھے لیکن حیرت کی انتہا نہ رہی جب کوئی ڈاکو ان کی دوکان کے قریب نہ آیا۔ بس ایک نقاب پوش جمنا بائی کے پاس آیا اسے اٹھا کر اپنے گھوڑے پر بٹھا لیا۔ ہوا میں ایک ساتھ کئی فائر ہوئے۔ فضا میں ایک نعرہ بلند ہوا۔ سردار گنگا سنگھ کی جئے اور یہ جا وہ جا۔ دیکھتے دیکھتے ڈاکو ہوا ہو گئے۔ پولس کی آمد تک گرد بیٹھ چکی تھی۔

            دُکان والے خوشی منا رہے تھے اور درجن سنگھ اپنی قسمت کو رو رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد ایک قبائلی بزرگ آگے بڑھا اس نے درجن کو پانی پلایا اور کہا۔

            درجن جو کچھ تیرے ساتھ ہوا اس کا ہمیں دکھ ہے اگر کوئی اور ایسا کرتا تو ہم اپنی پنچایت میں اسے سزا دیتے لیکن ڈاکو گنگا سنگھ پر کس کا زور چلے ہے۔ اس سے تو پولس اور حکومت بھی کانپے ہے۔ خیر تو جمنا کو بھول جا۔ اب بھی میلے میں کچھ لڑکیاں باقی ہیں ان میں سے کسی کے ساتھ بیاہ رچا لے اور نیا جیون سروع کر۔

            درجن بولا۔ یہ مجھ سے نہیں ہو گا میں جمنا کے بغیر جی نہیں سکتا۔ میں اس کے سوا کسی کے ساتھ زندگی نہیں گذار سکتا۔

            بیٹے تیری بات ٹھیک ہے۔ وہ تیری دھرم پتنی تھی لیکن اب نا ہے۔ سمجھ لے کہ وہ پرلوک سدھار گئی اب اسے بھولنے کے سوا تیرے پاس کوئی چارۂ کار نہیں ہے۔ مان لے کہ وہ دنیا میں نہیں رہی۔ مر گئی تیری جمنا۔

            بابا اگر ایسا ہے تو مان لو کے میں بھی مر گیا۔ کر دو میرا انتم سنسکار۔ میں جمنا کے بغیر جی نہیں سکتا۔ ماتم زدہ درجن جمنا کا غم ساتھ لیے واپس آ گیا۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

            گنگا سنگھ کی گرفت سے جمنا لاکھ جھپٹنے اور الجھنے کے باوجود آزاد نہ ہو سکی۔ طویل گھاٹیوں سے گذر کر جب گنگا سنگھ اور اس کا ٹولہ اپنے اڈے پر پہنچا تو جمنا کو آزادی نصیب ہوئی۔ گنگا سنگھ نے جیسے ہی اسے نیچے اتارا وہ برس پڑی۔ وہ گنگا سنگھ کو کوسنے اور برا بھلا کہنے لگی۔ گنگا کے نائب گوگا سنگھ نے جمنا کو ڈانٹا۔

            بد تمیز لڑکی سردار کو گالیاں دیتی ہے۔ چپ نہیں تو تیری زبان کھینچ لوں گا۔

            وہ تڑک کر بولی۔ زبان کیوں پران (جان) کھینچ لو مجھے مار ڈالو۔ اس ذلت کی زندگی سے تو مرنا بہتر ہے۔

            گوگا غصہ سے جمنا کی طرف بڑھا لیکن گنگا نے منع کر دیا۔ وہ بولا۔ سنو میرے ساتھیو۔ جمنا ہماری معزز مہمان ہے یہ جو چاہے کرے ہم اس کا جواب نہیں دیں گے۔ ہم اس کا بھرپور خیال رکھیں گے یہ میرا حکم ہے۔

            جمنا بولی۔ اتنا ہی خیال ہے تو مجھے لایا کیوں؟ مجھے اپنے درجن کے پاس چھوڑ آ۔

            نہیں جمنا یہ نہ ہو گا۔ اس کے سوا جو مانگے گی تیرے سامنے حاضر کر دیا جائے گا۔

            مجھے کچھ نہیں چاہئے۔ جمنا نے چلّا کر کہا۔ مجھے تو صرف اور صرف میرا درجن چاہئے۔

            ساتھیو اسے چھوڑ دو۔ یہ غصے میں ہے اس کی نگرانی کرو اور اس کی خدمت بجا لاؤ۔ جاؤ تم سب آرام کر سکتے ہو۔ گنگا سنگھ کا گروہ اپنی اپنی آرام گاہ میں چلا گیا۔

            دوسرے دن گنگا اور جمنا تنہا ساتھ تھے۔ گنگا نے جمنا سے کہا۔ دیکھو جمنا جس طرح پچھلے سال شادی کے میلے سے درجن تمہیں اٹھا کر لے گیا تھا۔ اسی طرح اس سال میں تمہیں اٹھا کر لے آیا ہوں۔ اس لیے جیسے تم اس کی پتنی بن گئی تھیں اب میری بیوی ہو گئی ہو۔

            جمنا نے کہا۔ نہیں گنگا ایسا نہیں ہے۔ گذشتہ سال میں کسی کی بیوی نہیں تھی۔ اس لیے میں درجن کی دھرم پتنی بنی۔ لیکن اس سال میں درجن کی زوجہ تھی اور اس کے بندھن میں ہوتے ہوئے میں کسی اور سے ناطہ کیسے جوڑ سکتی ہوں۔

            کیوں نہیں جوڑ سکتیں۔ سمجھ لو کہ اس سے تمہارا بیاہ ٹوٹ گیا۔

            نہیں گنگا نہیں۔ بیاہ اس نے میرے ساتھ کیا تھا اس لیے وہی توڑ بھی سکتا ہے۔ میں نہیں توڑ سکتی۔

            گنگا نے پوچھا کیوں نہیں توڑ سکتیں تم؟          

            جمنا نے جواب دیا اس لئے کہ جب تک وہ مجھے اپنے بندھن سے آزاد نہ کر دے میں آزاد نہیں ہو سکتی۔

            میں توڑ دوں گا اس بندھن کو۔ گنگا سنگھ نے زور دے کر کہا۔

            گنگا جس بندھن کو تم نے باندھا نہیں اس بندھن کو تم کیسے توڑ سکتے ہو؟ یہ تو اسی کا حق ہے کہ اگر چاہے تو اسے توڑ دے اور تم جانتے ہو وہ کبھی بھی ایسا نہیں کرے گا۔

            کیوں؟ گنگا نے پوچھا۔

            اس لیے کہ وہ مجھ سے محبت کرتا ہے۔

            یہ تمہیں کیسے معلوم ہوا؟ گنگا نے پوچھا۔

            جمنا بولی۔ مجھے معلوم ہے کیوں کہ میں بھی اس سے بہت محبت کرتی ہوں۔

            لیکن جمنا میں بھی تو تم سے محبت کرتا ہوں۔ تم میرے بارے میں کیا سوچتی ہو؟

            نہیں تم مجھ سے محبت نہیں کرتے تم مجھے زبردستی اٹھا لائے ہو۔ میں تم سے محبت نہیں نفرت کرتی ہوں۔ یہ کہہ کر جمنا اٹھ کر چلی گئی۔

            ایک ہفتہ بعد ایک مرتبہ پھر گنگا اور جمنا ایک ساتھ بیٹھے تو گنگا نے پوچھا۔ جمنا کیا اب بھی تم درجن سے محبت کرتی ہو۔

            جمنا بولی۔ ہاں کیوں نہیں بلکہ جب سے تم نے ہمیں جدا کیا ہے میں پہلے سے زیادہ محبت کرنے لگی ہوں۔

            اور کیا تم اب بھی مجھ سے نفرت کرتی ہو؟

            میں اب تم سے نفرت… یہاں آ کر جمنا رک گئی پھر اس نے کہا۔ نہیں کرتی۔

            جمنا تم رک کیوں گئی تھیں۔

            در اصل میں سوچ رہی تھی۔

            مطلب یہ تمہارا سوچا سمجھا فیصلہ ہے۔

            یہی سمجھ لو۔

            ٹھیک ہے تمہیں یہاں کوئی تکلیف تو نہیں ہے۔

            نہیں۔

            کسی چیز کی کمی تو نہیں محسوس ہوتی؟

            ہوتی ہے۔

            میں سمجھ گیا لیکن میں نہیں پوچھوں گا اس لیے کہ وہ چیز میں لا کر دے نہیں سکتا۔

            جمنا نے ہنس کر کہا۔ سمجھدار آدمی ہو۔

            گنگا بولا۔ شکریہ!

            ایک مہینہ کے بعد گنگا اور جمنا پھر ایک بار ساتھ ہوئے۔ گوگا سنگھ یہ دیکھ کر خوش ہوا اور فوراً شراب کی نئی بوتل کھول کر وہاں لے آیا۔

            گنگا نے اسے دیکھا اور کہا۔ یہ کیا! لے جاؤ۔ دیکھ نہیں رہے ہو کون بیٹھا ہے؟

            معاف کرنا سرکار۔ گوگا بولا۔ میں چائے لے کر آتا ہوں۔

            جمنا نے پوچھا۔ گنگا تم میرا اتنا خیال کیوں رکھتے ہو؟

            کیونکہ… کیونکہ تم جانتی ہو جمنا پھر بھی پوچھ رہی ہو۔

            جمنا بولی۔ خیر تم سے ایک بات پوچھنا چاہتی ہوں۔

            گنگا نے کہا۔ پوچھو۔

            تمہیں پتہ ہے اس سال شادی کے میلے میں بہت ساری خوبصورت کنواری لڑکیاں آئی تھیں۔

            نہیں میں نہیں جانتا۔ گنگا نے جواب دیا۔

             در اصل تم سے تاخیر ہو گئی۔ تم تیسرے دن آئے جب وہ سب بیاہی  جا چکی تھیں۔

            نہیں جمنا میں تیسرے دن نہیں آیا۔ میں تو پہلے دن سے وہاں تھا۔

            اچھا تم پہلے دن سے وہاں تھے اور تم نے کسی کو نہیں دیکھا۔

            نہیں جمنا میں نے کسی کو نہیں دیکھا۔ میں تو بس تمہیں دیکھتا رہا۔ میلے میں پہلے دن سے تم کب کب کہاں کہاں گئیں یہ مجھ سے پوچھ لو میں ہر جگہ تمہارے آس پاس تھا۔

            اچھا مجھے تو پتہ ہی نہ چلا۔

            تمہیں کیسے پتہ چلتا تم تو اپنے آپ میں اور درجن میں کھوئی ہوئی تھیں۔

            لیکن تم میرے آس پاس کیا کرتے رہے؟

            میں در اصل موقع کی تلاش میں تھا۔

            موقع کی تلاش میں؟ کیسا موقع؟

            میں تمہیں اپنے ساتھ یہاں لے کر آنے کا موقع ڈھونڈ رہا تھا۔

            لیکن تم نے میرے ماتھے پر بندیا نہیں دیکھی۔

            دیکھی تھی۔

            پھر بھی؟

            ہاں پھر بھی۔

            کیوں؟

            کیوں کا جواب تم جانتی ہو؟

            لیکن یہ سب ہوا کیسے؟

            جمنا میں تمہیں بتلانا چاہتا تھا لیکن پھر اس لیے نہیں بتایا کہ شاید تم یقین نہ کرو یا کان ہی نہ دھرو۔ اب جب کہ تم نے خود ہی پوچھا ہے تب بھی ممکن ہے وشواس نہ کرو لیکن کم از کم سن تو لو۔

            جی ہاں سناؤ اور ہو سکتا ہے وشواس بھی کر لوں۔

            خیر اس سے فرق نہیں پڑتا۔ اس کہانی کی شروعات گذشتہ سال ہوئی۔ ہم لوگ میلے میں لوٹ پاٹ کرنے کے لیے گئے ہوئے تھے وہاں میری نظر تم پر پڑ گئی۔ تمہارے ماتھے پر اس وقت بندیا نہیں تھی۔ تمہیں دیکھنے کے بعد میں نے ارادہ کر لیا کہ تمہارے ماتھے پر میں بندیا سجاؤں گا۔ میں وہاں سے گہنوں کی دوکان پر گیا اور بندیا خریدی جب میں بندیا لے کر واپس آیا اس وقت تک درجن تمہیں اپنے ساتھ لے  جا چکا تھا۔ میں تمہارے بغیر تمہاری بندیا کو اپنے ساتھ لیے واپس آ گیا اور اگلے میلہ کا انتظار کرنے لگا۔ یہ ایک سال ایک صدی سے زیادہ طویل تھا لیکن گذر گیا۔ ساون کی چندرماسی کو میں نے بندیا اپنی جیب میں رکھی اور میلے میں چلا گیا وہاں میرا مقصد صرف تمہیں تلاش کرنا تھا۔

             مجھے علم نہیں تھا کہ تم میلے میں آؤ گی یا نہیں لیکن خوش قسمتی سے پہلے ہی دن شام کے وقت میں نے تمہیں دیکھ لیا اور اس کے بعد میں اس تاک میں رہا کہ موقع پاتے ہی تمہیں اغوا کر لوں۔ آخری دن تک جب چپکے سے تمہیں اٹھا کر لانے میں کامیابی نہیں ہوئی تو بالآخر کھلے عام لے کر آنا پڑا۔ پہلے تو میں نے سوچا زبردستی تمہارے ماتھے سے درجن کی بندیا نکال کر پھینک دوں اور اپنی بندیا سجادوں لیکن مجھے لگا کہ ایسا کرنے پر تم ناراض ہو جاؤ گی۔ میں تمہیں ناراض نہیں کر سکتا تھا۔ اس لیے میں نے اپنا ارادہ ترک کر دیا۔

            اب کیا ارادہ ہے؟ جمنا نے پوچھا۔

            اب آرزو یہی ہے کہ تم خود درجن کی بندیا اپنے ماتھے سے نکال کر پھینک دو تب میں اپنی بندیا تمہارے ماتھے پر سجادوں گا۔

            جمنا نے پوچھا۔ ورنہ؟

            ورنہ اپنی بندیا کو چمبل ندی میں پھینک دوں گا اور خود بھی اس میں کود جاؤں گا۔

            گنگا کے اس جملے سے جمنا کانپ اٹھی۔ اسے نہیں پتہ تھا کہ جس ڈاکو گنگا سنگھ کے نام سے سارا علاقہ کانپتا ہے وہ اس قدر لطیف و شدید جذبات کا حامل ہے۔ جمنا اس ایک ماہ میں اس کے اخلاق سے کافی متاثر ہوئی تھی۔ گنگا ہمیشہ ہی جمنا سے دور رہا۔ اس نے کبھی بھی اس پر دست درازی نہیں کی۔

            تین ماہ بعد گنگا اور جمنا ایک ساتھ بیٹھے تھے کہ جمنا نے پوچھا۔ گنگا تم ایک روز بندیا کا ذکر کر رہے تھے جو تم نے میرے لیے خریدی تھی۔

            ہاں جمنا ہم ڈاکو لوگ چیزیں خریدتے نہیں چھین لیتے ہیں لیکن وہ بندیا میں نے اپنی عادت کے خلاف خریدی تھی۔

            میں جانتی ہوں مجھے بھی تو تم نے درجن سے چھین لیا ہے۔ خیر کیا تم مجھے وہ بندیا نہیں دکھاؤ گے؟

            ضرور دکھاؤں گا۔ جب خریدی تمہارے لیے ہے تو کیوں نہیں دکھاؤں گا۔ گنگا نے اپنے بٹوے میں ہاتھ ڈالا تو وہ کارتوس سے بھرا ہوا تھا۔

            جمنا نے کہا۔ یہ کارتوس بھی تو میرے لیے نہیں خریدے؟ اگر اس کو میرے ماتھے پر سجا دیا تو ہو گیا کام تمام۔

            نہیں جمنا بات در اصل یہ ہے کارتوس کئی ہیں اور بندیا صرف ایک ہے۔ اس لیے ملنے میں مشکل ہو رہی ہے۔ یہ کہتے ہوئے گنگا نے بندیا نکال لی۔

             بندیا دیکھ کر جمنا دنگ رہ گئی اور بولی۔ یہ تو بہت قیمتی ہیروں سے جڑی بندیا ہے۔

            ہاں ہاں جس کے لیے خریدی تھی وہ بھی تو معمولی نہیں نہ ہے۔

            لیکن اس کی کیا قیمت ادا کی تم نے؟

            گنگا بولا۔ میں نے یہ بندیا دو سو روپیہ میں خریدی ہے۔

            کیا؟ درجن نے معمولی سی بندیا پانچ سو میں خریدی اور تمہیں یہ بندیا دوسو میں مل گئی۔

            گنگا بولا۔ یہی تو فرق ہے درجن میں اور ہم میں۔ در اصل بات یہ ہے کہ ہم تو گہنے اونے پونے دام میں بیچتے ہیں اسی لیے ہمیں اس کی وہی قیمت معلوم ہوتی ہے۔ میں نے جب اس بندیا کی و ہی قیمت لگائی جس میں مہاجن ہم سے خریدتا ہے تو اس نے ڈانٹ کر کہا دماغ خراب ہے کیا؟ یہ سن کر گوگا آہستہ سے بولا۔ گنگا سنگھ کی جئے ہو۔ مہاجن ہم دونوں کو پہچان گیا۔ اس کے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی۔

             اس نے کہا۔ یونہی لے جائیے سرکار۔

             میں نے کہا۔ نہیں صحیح قیمت بتاؤ۔

             اس نے کہا دوسو روپئے۔ میں نے ادا کئے اور بندیا میری ہو گئی۔

            تو یہ کہو کہ ڈرا دھمکا کر لے لی تم نے یہ بندیا۔

            نہیں جمنا در اصل ہمارا اور مہاجن کا خاص رشتہ ہے۔ وہ بھی ہم سے کم دام میں مال لیتا ہے اور ہم بھی…

            جمنا نے بات کاٹتے ہوئے کہا۔ اسی دام میں۔

            نہیں۔ گنگا بولا۔ اسی دام میں نہیں مفت میں۔ لیکن مفت میں بھی نہیں اپنی جان جوکھم میں ڈال کر لاتے ہیں۔

            جمنا بولی۔ لیکن یہ غلط کام ہے۔

            گنگا نے جواب دیا۔ ہاں جمنا تمہیں تو ہماری ہر چیز غلط لگتی ہے۔ در اصل مجھ سے بنیادی غلطی یہ ہوئی کہ میں بندیا کے چکر میں پڑ گیا۔ نہ میں یہ خریدنے جاتا اور نہ درجن تمہیں اپنے ساتھ لے جاتا۔

            لیکن قسمت کے لکھے کو کون بدل سکتا ہے۔

            گنگا نے کہا۔ تم بدل سکتی ہو۔ تم ہماری قسمت بدل سکتی ہو جمنا۔

             نہیں گنگا، میں تمہاری قسمت کیسے بدل سکتی ہوں جب کہ میرے ماتھے پر درجن کی بندیا ہے۔ اب وہ میرا مقدر ہے۔ وہ بدل سکتا ہے میں نہیں بدل سکتی۔

             کون بدلے گا یہ تو وقت ہی بتلائے گا۔ میں انتظار کروں گا۔ وقت کے بدلنے کا؟

            کب تک انتظار کرو گے گنگا؟

            میں اس سال شادی کے میلے تک انتظار کروں گا۔ اگر اس وقت تک تم نے اپنے ماتھے سے درجن کی بندیا نکال پھینکی تو ٹھیک ہے۔

            اور اگر نہیں تو؟ جمنا نے پوچھا۔

            اگر نہیں تو میں اپنی شکست تسلیم کر لوں گا۔ تمہیں میلے میں درجن کے پاس چھوڑ آؤں گا۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ وقت نہیں آئے گا۔

            جمنا نے سوچا ٹھیک ہے جس طرح ایک سال گنگا نے انتظار کیا وہ بھی انتظار کرے گی اور درجن بھی انتظار کرے گا۔ اس کے بعد وہ دوبارہ اپنی گھر گرہستی چلائیں گے۔

            چھ ماہ کے بعد ایک دن گنگا اور جمنا ایک ساتھ بیٹھے تھے۔ جمنا نے پوچھا۔

            گنگا ایک بات بتاؤ تم مزاجاً ڈاکو نہیں لگتے۔ پھر تم نے ڈکیتی کا پیشہ کیسے اپنا لیا؟

            گنگا نے کہا۔ تم نے بہت پرانی کہانی چھیڑ دی۔ تم تو جانتی ہی ہو ہمارے علاقے میں لوٹ مار کا عام رواج ہے۔ اسی لیے رات کے وقت اس علاقے سے سواریاں اکیلے نہیں بلکہ کارواں کی شکل میں جاتی ہیں اور اس کے باوجود انہیں لوٹ لیا جاتا ہے۔

            ہاں ہاں وہ تو ٹھیک ہے لیکن سب لوٹ مار کرنے والے ڈاکو تو نہیں بن جاتے؟

            تم نے صحیح کہا جمنا۔ میں بھی ڈاکو نہیں تھا لیکن لوٹ مار کیا کرتا تھا اور تم یہ بھی جانتی ہو کہ ہم لوگ لوٹنے کے بعد لٹنے والوں کی پٹائی بھی کرتے ہیں۔

            ہاں ہاں جانتی ہوں۔ جمنا بولی۔ تاکہ ایسا لگے گویا بڑی محنت سے کمائی کی ہے۔

            گنگا بولا۔ بالکل درست۔ میں بھی اسی طرح ایک بار ایک لٹنے والے کو پیٹ رہا تھا کہ اچانک وہ ٹھنڈا ہو گیا۔ اس کا دیہانت ہو گیا۔

            کیا؟ جمنا سے تعجب سے پوچھا۔ تم نے اسے مار ڈالا؟

            نہیں جمنا میرا ارادہ اسے جان سے مارنے کا نہیں تھا۔ ویسے بھی ہر کسی کی موت کا وقت مقر رہے۔ اتفاق اس آدمی کی موت کا وقت آیا تو وہ مجھ سے مار کھا رہا تھا۔

            پھر؟ جمنا نے پوچھا۔

            پھر کیا تھا جیسے ہی ہم لوگوں کو پتہ چلا وہ مر چکا ہے ہم لوگ گھبرا گئے اور لوٹ کا مال چھوڑ کر وہاں سے فرار ہو گئے۔ میں اپنے دور کے رشتہ دار کے یہاں جا کر چھپ گیا لیکن وہ شاید کوئی بارسوخ آدمی تھا چنانچہ پولس نے سارے علاقہ کی زبردست چھان بین شروع کر دی اور مجھے یقین ہو گیا کہ جلد ہی مجھے پھانسی ہو جائے گی۔ ہماری طرف سے کوئی وکیل بھی تو نہیں کھڑا ہوتا جو سیاہ کو سفید بنا کر ہمیں چھڑا لے۔

            پھر؟ جمنا کی دلچسپی بڑھتی جا رہی تھی۔

            پھر کیا۔ میں بھاگ کر چنبل کی گھاٹی میں آ گیا جہاں میری ملاقات گوگا سنگھ کے باپ جگا ڈاکو سے ہو گئی۔ اس نے مجھے اپنے یہاں پناہ دی۔ میں اس کی ٹولی میں شامل ہو گیا اور ڈکیتیوں میں حصہ لینے لگا۔ اپنی دلیری اور نشانے بازی کے باعث میں بہت جلد اپنے گروہ میں معروف ہو گیا۔

             ایک مرتبہ پولس مڈبھیڑ میں جگا کو گولی لگی اور وہ مارا گیا۔ اس کے بعد گروہ کا سردار کون بنے اس پر اختلاف ہو گیا۔ کچھ لوگ گوگا سنگھ کو سردار بنانا چاہتے تھے تاکہ اس کی آڑ میں اپنی سرداری چلا سکیں۔ گوگا سنگھ اس وقت بہت چھوٹا تھا اس کی عمر تقریباً گیارہ سال تھی۔ اس کی ماں نے اعلان کر دیا گوگا سنگھ ابھی سرداری کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا اور اپنی رائے میرے حق میں دے دی۔ اس اعلان کے ساتھ ہی میرے حامیوں نے فضا میں گولیاں چلانی شروع کر دیں۔ گنگا سنگھ زندہ باد کے نعرے لگنے لگے اور میں سردار بن گیا۔

            لیکن اب تو گوگا سنگھ جوان ہو گیا ہے۔ اب تو وہ سردار بن سکتا ہے۔ جمنا نے پوچھا۔

            ہاں جمنا تم صحیح کہتی ہو۔ لیکن ڈاکوؤں کے بھی اپنے اصول و ضوابط ہوتے ہیں۔ یہاں غداری نہیں ہوتی۔ سردار معز ول نہیں کئے جاتے یا تو وہ مارے جاتے ہیں یا خود اپنی مرضی سے کسی کے حق میں دستبردار ہو جاتے ہیں اور جس کے حق میں دستبردار ہوتے ہیں وہ سردار ہو جاتا ہے۔ گوگا مجھے باپ کی طرح مانتا ہے میرا بے حد احترام کرتا ہے۔

            اچھا! جمنا نے پوچھا۔ تو کیوں نہیں تم اس کے حق میں دستبردار ہو جاتے اور اسے سردار بنا دیتے۔ جمنا نے مشورہ دیا۔

            جمنا کے منہ سے یہ بات سن کر گنگا کو تعجب ہوا تھا۔ اس لیے کہ اس سے پہلے کسی نے ایسا نہیں کہا تھا۔

            گنگا بولا۔ مشورہ تو اچھا ہے لیکن اس کے حق میں دستبردار ہو کر میں کیا کروں گا؟ چنبل کی گھاٹی سے باہر موت کا پھندا میرا انتظار کر رہا ہے۔ اب مجھے یہیں جینا ہے اور یہیں مرنا ہے۔

            لیکن میں … میں۔ جمنا نے کہا۔

            گنگا نے پوچھا۔ کیا؟

            جمنا نے کہا۔ کچھ نہیں۔ در اصل اس کی زبان سے یہ جملہ ادا ہوا چاہتا تھا کہ میں یہاں نہیں رہ سکتی لیکن پھر خیال آیا کہ اسے وہاں کب رہنا تھا؟ وہ تو ساون کی پورنیما کا انتظار کر رہی تھی۔ جب اپنے وعدہ کے مطابق گنگا اسے شادی کے میلے میں لے جا کر چھوڑ دے گا اور وہ درجن کے ساتھ واپس اپنے گھر چلی جائے گی۔ جمنا کو یقین تھا کہ گنگا اپنا وچن نبھائے گا اور اسے اعتماد تھا کہ درجن اسے اپنا لے گا۔ اس کے بعد وہ چوروں کی طرح گھاٹیوں میں نہیں بلکہ ساہوکاروں کی طرح کھیتوں اور کھلیانوں میں اپنی زندگی گذارے گی۔

            گھڑی کی سوئیاں اپنے محور میں ہفتوں اور مہینوں کا سفر طے کرتی رہیں۔ لیکن گھڑی جہاں کی تہاں تھمی رہی۔ ساون کا مہینہ اور پورنیما کی رات آ گئی۔ اس دن جمنا نے بڑے اہتمام سے اپنی بندیا کو دھو دھا کر اپنے ماتھے پر سجایا۔ آج اسے اپنے درجن سے ملنا تھا۔ ایک سال کا عرصہ گنگا سنگھ کے ساتھ گذارنے کے بعد جمنا کو یقین ہو گیا تھا کہ یہ آدمی اپنی زبان کا پکا ہے۔ یہ اپنے عہد کی پابندی ضرور کرے گا۔

             گنگا کو توقع تھی کہ آج جب وہ جمنا کے پاس آئے گا تو اس کی پیشانی پر درجن کی بندیا نہ ہو گی اور وہ اپنی بندیا جمنا کے ماتھے پر سجادے گا۔ لیکن ایسا نہ ہوا اس کی دو سال کی تپسّیا اکارت گئی۔ اس نے جمنا کو بڑے احترام سے گھوڑے پر بٹھایا اور میلے کی جانب چل دیا۔ راستہ بھر دونوں نے کوئی بات نہ کی۔ سوچتے رہے کہ آخر یہ راستہ اتنا طویل کیوں ہے؟

            میلہ میں پہنچنے کے بعد گنگا نے کہا۔ جمنا اب تم آزاد ہو۔

            جمنا شکریہ ادا کرنا چاہتی تھی لیکن اس کی زبان گنگ ہو گئی۔ وہ انسان نہیں فرشتہ تھا۔ تھوڑی دیر میلے میں گھومنے کے بعد جمنا نے درجن کو دیکھا وہ گہنوں کی دوکان سے بندیا خرید کر باہر آ رہا تھا۔ سامنے جمنا کو دیکھ کر وہ چونک پڑا۔ جمنا درجن سے لپٹ گئی اور دیر تک روتی رہی۔ یہ خوشی کے آنسو تھے۔ درجن کو ایسا لگا جیسے چوری کرتا ہوا پکڑا گیا ہے۔

            درجن اور جمنا میلے سے دور تنہائی میں جا بیٹھے۔ جمنا نے پوچھا۔ درجن کیسے ہو؟

            درجن بولا۔ اچھا ہوں، تم کیسی ہو؟

            میں! میں بھی ٹھیک ہی ہوں۔ میں بہت خوش ہوں آج ایک سال بعد دوبارہ ہماری ملاقات ہو گئی۔

            ہاں ہاں میں بھی خوش ہوں بہت خوش مگر…

            مگر کیا؟ جمنا نے پوچھا۔

            مگر یہ کہ مجھے ڈر لگتا ہے۔

            ڈر؟ کیسا ڈر؟ تمہیں کس سے ڈر لگتا ہے؟

            مجھے گنگا سنگھ سے ڈر لگتا ہے۔

            گنگا سنگھ سے؟ گنگا سنگھ سے کیوں؟

            کیا بات کرتی ہو جمنا؟ کیا تمہیں گنگا سنگھ سے ڈر نہیں لگتا؟

            نہیں مجھے نہیں لگتا اس سے ڈر۔ جمنا بولی۔

            ہاں ہاں تمہیں کیوں اس سے ڈر لگے گا؟ تم تو ایک سال اس کے ساتھ رہ کر آئی ہو۔

            نہیں درجن ایسی بات نہیں۔ گنگا اگر برا آدمی ہوتا تو مجھے یہاں چھوڑ کر کیوں جاتا؟

            دیکھو جمنا اس کی وکالت نہ کرو۔ اگر وہ اچھا آدمی ہوتا تو اٹھا کر کیوں لے جاتا؟

            جمنا نے کہا۔ تمہاری بات صحیح ہے اس نے مجھے لے جا کر غلطی کی تھی لیکن اب اس نے اپنی غلطی کا کفارہ ادا کر دیا۔ اس نے مجھے واپس لا کر چھوڑ دیا ہے۔

            آج چھوڑ دیا ہے کل پھر اٹھا کر لے جائے گا۔ اس کا کیا اعتبار؟

            اس کا اعتبار ہے۔ جمنا بولی۔ اس نے اپنا وچن پورا کیا ہے۔

            چھوڑو جمنا وچن نہیں پورا کیا۔ ایک سال ساتھ رکھنے کے بعد اس کا دل بھر گیا تو لا کر چھوڑ دیا۔ درجن بولا۔ کل پھر دل آئے گا تو لے جائے گا۔ مجھے تو ڈر لگتا ہے۔

            دیکھو درجن تم بلاوجہ ڈر رہے ہو۔ اگر اسے مجھے نقصان پہچانا ہوتا تو سال بھر میں وہ ایسا کر سکتا تھا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ اس نے مجھے چھوا تک نہیں اور اب لا کر تمہارے پاس چھوڑ گیا۔

            ٹھیک ہے تمہیں نقصان نہیں پہنچائے گا لیکن مجھے تو پہنچائے گا۔ میرا کانٹا نکالنے کے لیے اس کی ایک گولی کافی ہے۔

            نہیں درجن۔ وہ ایسا نہیں کرے گا۔ اس لیے کہ وہ جانتا ہے ایسا کرنے سے میں ناراض ہو جاؤں گی اور وہ مجھے کبھی بھی ناراض نہیں کر سکتا۔

            تمہیں تو اس پر بڑا اعتماد ہے؟

            ہاں ہے۔

            مجھ سے بھی زیادہ؟

            کیسی باتیں کرتے ہو درجن۔

            دوسرے دن شام پھر درجن اور جمنا کے درمیان وہی گفتگو چھڑ گئی۔ درجن نے کہا۔

            جمنا اگر میں تمہیں ساتھ لے کر گاؤں میں جاؤں گا تو قبیلہ والے کیا کہیں گے؟

            جمنا نے پوچھا۔ وہ کیا کہیں گے؟

            وہ کہہ رہے تھے اب تم جمنا کو بھول جاؤ۔ اب وہ کبھی واپس نہیں آ سکتی۔

            ان کی بات غلط نکلی۔ میں واپس آ گئی۔

            ہاں تم واپس آ گئیں لیکن وہ کہیں گے کہ تم پرائے مرد کے پاس رہ کر واپس آئی ہو۔ تم پوتر نہیں ہو۔

            لیکن میں کہتی ہوں کہ میں پوتر ہوں۔ اس نے مجھے ہاتھ نہیں لگایا۔

            تم تو یہ کہتی ہو لیکن تمہارے کہنے سے وہ کیسے مان جائیں گے؟

            تو پھر کس کے کہنے سے مانیں گے گنگا سنگھ کے؟ جمنا نے پوچھا۔

            نہیں ڈاکو کی بات کون مانتا ہے؟

            لیکن تمہاری تو مانیں گے تم تو اس بات کی شہادت دے سکتے ہو کہ میں پوتر ہوں۔

            میں کیسے شہادت دے سکتا ہوں؟ درجن بولا۔

             کیا تمہیں بھی وشواس نہیں۔ تم بھی گواہی نہیں دے سکتے کہ میں پوتر ہوں اور ہاں یہ بات صحیح ہے کہ تم نہیں جانتے۔ اس امر کا شاہد میرے اور گنگا کے سوا کوئی اور نہیں ہے لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟

            کیوں نہیں پڑتا؟ بہت فرق پڑتا ہے۔

            لیکن گنگا سنگھ تو مجھے اٹھا کر لے گیا یہ جاننے کے باوجود کہ میں تمہارے پاس ایک سال تھی اور پھر بھی مجھ سے بیاہ کرنا چاہتا تھا۔ اور تم یہ جانتے ہوئے بھی کہ میں ایک سال تم سے دور تو رہی لیکن کسی نے مجھے چھوا تک نہیں دنیا سے ڈر رہے ہو؟

            دیکھو جمنا تم میری بیوی تھیں اور میرے پاس رہیں اس میں کوئی عجیب بات نہیں ہے لیکن تم میری بیوی ہوتے ہوئے اس کے یہاں رہیں یہ خطرناک بات ہے۔

            لیکن میں اپنی مرضی سے تو اس کے پاس نہیں گئی۔ ا س نے مجھے اسی طرح آرام و احترام سے رکھا جیسا کہ میں اپنے میکے میں رہتی اور واپس لا کر تمہارے پاس چھوڑ بھی دیا۔

            یہ بات صحیح ہو سکتی ہے لیکن اسے لوگ کیسے مان لیں گے؟

            مجھے لوگوں سے غرض نہیں ہے۔ یہ بتاؤ کہ تم اسے درست مانتے ہو یا نہیں؟

            درجن کی زبان گنگ ہو گئی۔ جمنا نے چیخ کر پوچھا۔ درجن مجھے بتاؤ تم کو میری بات پر وشواس ہے یا نہیں۔ درجن خاموش رہا۔ جمنا بولی۔ ویسے تو خاموشی کا مطلب ہاں ہوتا ہے لیکن شاید تمہاری یہ خاموشی نہ کی خاموشی ہے۔ تمہارے اندر نہ کہنے کی بھی جرأت نہیں ہے۔ تم مرد نہیں نامرد ہو۔ یہ کہہ کر اس نے درجن کی بندیا اپنے ماتھے سے نکال کر پھینک دی۔ درجن گھبرا گیا۔ اس نے اپنے آپ کو سنبھالا اور زمین پڑی ہوئی بندیا اٹھا لی۔

            درجن بولا۔ جمنا جب تم نے میری بندیا پھینک دی تو اب مجھے تمہارے ساتھ رہنے کا ادھیکار (حق) نہیں ہے۔ میں جاتا ہوں۔

            جمنا نے کہا۔ درجن کم از کم جاتے جاتے تو سچ بولو۔ یہ نہ بولو کہ تمہیں میرے ساتھ رہنے کا ادھیکار نہیں ہے بلکہ بولو اب مجھے تمہارے ساتھ رہنے کا حق نہیں ہے۔ کاش کہ اس بات کا پتہ مجھے دو دن پہلے چل جاتا۔

            میلے کے تیسرے دن درجن کے پاس دو بندیا تھی اور اسے ایک دلہن کی تلاش تھی جو جلد ہی ختم ہو گئی۔ درجن اپنی نئی نویلی دلہن کو اٹھا کر لے گیا لیکن جمنا کے تمام راستے بند ہو چکے تھے۔ گنگا کا دروازہ از خود بند کر کے وہ درجن کے در پر آئی تو درجن نے دروازہ کھولنے سے انکار کر دیا۔ جمنا دو بند دروازوں کے درمیان بے یار و مددگار کھڑی تھی۔

             میلہ اٹھنے لگا تھا۔ لوگ اپنا سامان باندھ رہے تھے۔ شام کے سائے لمبے ہوتے جا رہے تھے۔ قافلے اپنی اپنی منزلوں کی جانب رواں دواں ہو گئے تھے لیکن جمنا کی کوئی منزل نہیں تھی۔ وہ اکیلی بیٹھی نہ جانے کس کا انتظار کر رہی تھی کہ اچانک دور سے گھوڑے کی ٹاپ سنائی دینے لگی۔ وہ اس چال سے واقف تھی۔ اس کے کانوں میں نقرئی گھنٹیاں بجنے لگیں۔

            گنگا نے جمنا کی شفاف پیشانی کو دیکھا تو باغ باغ ہو گیا۔ وہ فوراً اپنے بٹوے میں بندیا تلاش کرنے لگا۔ جلدی میں اس نے سارے کارتوس زمین پر پھینک دیئے۔ اس کے ساتھ ہی بندیا بھی ریت میں جا گری لپک کر اس نے بندیا کو اٹھایا اور جمنا کے قریب آیا۔ دو سال کے انتظار کے بعد شب وصال ایسے دبے پاؤں آئی کہ یقین نہ ہوتا تھا۔ گنگا سنگھ کی شکست فتح میں بدل چکی تھی۔

            گنگا نے جمنا کے ماتھے پر بندیا سجائی۔ اسے گھوڑے پر بٹھایا اور ایڑ لگا دی لیکن اس بار لگام جمنا کے ہاتھ میں تھی۔ آگے بہت آگے وہ ایک دورا ہے پر پہنچ گئے جہاں سے ایک راستہ پہاڑوں اور گھاٹیوں کو تو دوسرا میدانوں اور کھلیانوں کی جانب جاتا تھا۔ جمنا نے گھوڑا میدانوں کی جانب موڑ دیا۔ گنگا سنگھ مد ہوش تھا اسے کچھ پتہ نہیں تھا کہ وہ کہاں جا رہا ہے؟ جمنا کے ساتھ نے اس کو ہوش و حواس سے بیگانہ کر دیا تھا۔ بہت دور جانے کے بعد ایک دھرم شالا دکھائی پڑی۔ جمنا نے گھوڑے کی لگام کھینچ لی۔

            دھرم شالا کے نگراں نے پوچھا۔ نام کیا ہے؟

            جمنا بولی۔ گنگا پرشاد اور جمنا دیوی۔

            بوڑھا چوکیدار ہنس کر بولا۔ خوب ہے گنگا اور جمنا کی جوڑی لیکن سرسوتی کہاں ہے؟

            گنگا بولا۔ بابا ابھی آئی نہیں ہے جب آ جائے گی تو آشیر واد لینے کے لیے تمہارے پاس ضرور لائیں گے۔

٭٭٭


 

 

چمیلی سوژالی

 

            ہمالیہ کی ترائی میں واقع کالنگ پونگ کے ویران سرکاری دوا خانے میں صرف تین نفر آباد تھے۔ ایک نو  وارد ڈاکٹر انتخاب عالم، دوسرا ان کا بوڑھا کمپاؤنڈر بہارالاسلام اور تیسری اس کی جوان بیٹی چمیلی۔ چمیلی کا دماغی توازن بگڑا ہوا تھا۔ ڈاکٹر انتخاب چونکہ ماہر نفسیات بھی تھے اس لئے علاج کر سکتے تھے مگر چمیلی کے ماضی سے متعلق معلومات کے بغیر یہ نا ممکن تھا۔ جب انہیں پتہ چلا کہ جھمرو چاچا چمیلی کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں تو انہوں نے جھمرو کو بلا کر سوال کیا آپ مجھے چمیلی کے متعلق وہ سب بتائیں جو آپ جانتے ہیں تاکہ میں اس کا علاج کر سکوں۔ اس سوال کے جواب میں جھمرو کچھ دیر ہوا میں دیکھتا رہا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اپنی بات کہاں سے شروع کرے۔ اس کے بعد وہ یوں گویا ہوا۔

            ڈاکٹر صاحب! دس سال قبل پہلی مرتبہ میں نے بہارالاسلام کے ساتھ ننھی منی معصوم سی کلی کو دیکھا تو پوچھا بیٹی جھمرو چاچا کو اپنا نام بتاؤ .

            وہ بولی چمپا چمیلی۔

            میں نے پوچھا چمپا یا چمیلی؟

            دونوں

            دونوں وہ کیسے؟

            اس نے معصومیت بھرے انداز میں جواب دیا چمپا کا رنگ چمیلی کی خوشبو۔

            اچھا۔ تجھے کیسے پتہ چلا؟ میں نے حیرت سے سوال کیا۔

            وہ بولی۔ خود ہی۔ مجھے خود ہی پتہ ہے۔ مجھے سب پتہ ہوتا ہے۔

            یہ ننھی سی جان چمیلی تھی۔ بہارالاسلام اسے انگلی پکڑا کر بازار لاتے اور میرے پاس چھوڑ جاتے۔ وہ مجھ سے باتیں کرتی رہتی یہاں تک کہ بہارالاسلام اپنا کام ختم کر کے لوٹتے اور اسے اپنے ساتھ واپس لے جاتے یہ ہم تینوں کا معمول تھا۔ ہر ہفتہ بازار کے دن ہماری ملاقات ہوتی چمیلی ہفتہ بھر کی باتیں مجھے سناتی۔ اس کے گھر میں کوئی نہیں تھا جس سے وہ دل کھول کر باتیں کر سکتی تھی اور جو اس کے من کی بات بچہ بن کر سن سکتا تھا۔ کوئی پاس پڑوس نہیں تھا۔ بہارالاسلام تھے تو اس کے پاس لیکن والد سے ایک فاصلہ ہوتا ہے۔

             چمیلی میرے ساتھ کھل کر باتیں کرتی اور اپنے دل کی ساری باتیں کہہ دیتی تھی۔ وہ مجھے اپنا چچا، اپنا دوست، اپنا ہمدرد اور غم خوار سب سمجھتی تھی اس لئے اپنی خوشیاں اور غم میرے ساتھ بانٹا کرتی۔ ہم لوگ اس قدر گھل مل گئے تھے کہ بغیر بتائے بھی میں اس کا ذہن پڑھ لیتا تھا۔ وقت گذرتا گیا چمیلی نے بچپن سے جوانی کی دہلیز میں قدم رکھ دیا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب ملیشیا سے اقوام متحدہ کے زیر نگرانی عالمی صحت عامہ کے ایک پروجکٹ کے سلسلے میں ڈاکٹر سوژالی کا تقرر اس گاؤں کے دوا خانے میں ہوا تھا۔

             سوژالی؟ انتخاب نے سوال کیا۔

            جھمرو بولا جی ہاں شاید اس کے والدین نے اس کا نام سوزعلی رکھا ہو گا لیکن مقامی لب و لہجے نے اسے سوژالی بنا دیا تھا۔

            ڈاکٹر انتخاب عالم کے لئے سوژالی کا تقرر حیرت انگیز تھا۔ اس نے پوچھا لیکن جھمرو زبان کا کیا؟ تم لوگوں کی زبان تو بنگلہ سے بھی مختلف ہے اور وہ ملایا بولنے والا شخص۔ مریض اور معالج کے درمیان ترسیل کا مسئلہ کیسے حل ہوتا تھا؟

             جناب آپ نے خود ہی اپنے سوال کا جواب دے دیا۔ ہمارے یہاں آنے والے بنگالی اہلکار بھی ہماری زبان ٹھیک سے سمجھ نہیں پاتے ہمارا پہاڑی لہجہ اسے اور زیادہ مشکل بنا دیتا ہے سوژالی کے اندر پائی جانے والی خدمت خلق کی شدید تڑپ، کوشش اور جذبہ عمل اس مشکل کا حل بن گیا۔

            لیکن پھر بھی؟ انتخاب کے خدشات ہنوز تشنہ تھے۔

             ڈاکٹر صاحب در اصل کام کرنے والے کو بات کی ضرورت کم ہی پڑتی ہے۔ باتوں پر تو مجھ جیسوں کا گذارا ہوتا ہے جو کوئی کام نہیں کرتے۔ بہارالاسلام چائے کی طشتری اپنے ہاتھوں میں لئے کھڑا تھا۔ جھمرو نے آگر بڑھ کر اس کے بوجھ کو ہلکا کیا۔ اور کیتلی سے چائے انڈیلنے لگا۔ بہارالاسلام دروازے کی طرف بڑھا تو انتخاب نے کہا ’بابا‘۔

            جھمرو بولا بھئی یہ میری طرح نہیں ہیں ان کو بہت سارے کام کرنے ہیں۔

            بہار بولے یہ ٹھیک کہتا ہے۔

            انتخاب نے کہا اچھا شکریہ۔

            بہارالاسلام زہے نصیب کہہ کر نکل گئے۔ انہیں تعجب ہو رہا تھا کہ انتخاب عالم نے ابھی تک جھمرو کو اپنے پاس سے بھگایا کیوں نہیں؟

            چائے کی چسکی لیتے ہوئے انتخاب عالم نے پوچھا وہ تو ٹھیک ہے لیکن وہ بیماری کی تشخیص کیسے کرتا تھا؟

             جیسے آپ کسی بچہ کی بیماری جان لیتے ہیں جو ابھی بولنا نہیں جانتا۔ درد کی اپنی بین الاقوامی زبان ہوتی ہے جسے ہر کوئی سمجھ سکتا ہے بشرطیکہ وہ اس پر کان دھرے۔

             انتخاب عالم نے کہا جھمرو! تمہاری ہر بات معقول اوردرست معلوم ہوتی ہے۔

            شکریہ جناب میں آپ کی قدر شناسی کی داد دیتا ہوں خیر۔ دیکھتے دیکھتے یہ دوا خانہ آباد ہو گیا دور دراز سے مریض یہاں آنے لگے اور شفا یاب ہو کر جانے لگے۔ دواؤں کی بھی کوئی کمی نہیں تھی اقوام متحدہ کی جانب سے لاری میں بھر کر دوائیں آتی تھیں اور کھپ جاتی تھیں۔ بہارالاسلام کی مصروفیت کافی بڑھ گئی تھی گاؤں کے کچھ نوجوانوں نے بھی رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کر دی تھیں۔ ڈاکٹر سوژالی کے اخلاق و کردار نے لوگوں کے اندر خدمت کا داعیہ پیدا کر دیا تھا۔

            اس دوران بہارالاسلام کے اس باغ کی دیکھ ریکھ چمیلی کرنے لگی تھی۔ ویسے تو وہ اپنے گھر کی تمام ذمہ داریاں ادا کرتی لیکن اس کا سب سے پہلا کام ہوتا تھا کہ صبح صبح باغ سے کچھ تازہ پھولوں کو چنے اور انہیں لے جا کر سوژالی کی میز پر سجادے۔ سوژالی کا تقرر چونکہ محدود مدت کیلئے ہوا تھا اس لئے جب اس کے قیام کا دورانیہ خاتمہ کے قریب پہنچا تو بہارالاسلام نے سوچا اس کے جانے سے قبل چمیلی کے ہاتھ پیلے کر دیئے جائیں۔ بہارالاسلام کی خواہش تھی کہ اس مبارک تقریب میں سوژالی بھی موجود ہو۔ اس درمیان مصروفیت کے باعث چمیلی کا اپنے جھمرو چاچا سے رابطہ منقطع سا ہو گیا تھا۔

            ایک دن اچانک خلافِ توقع بہارالاسلام میرے کے پاس آئے میں معمول کے مطابق کچھ لوگوں کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھا۔ بہارالاسلام خاموش بیٹھے رہے یہاں تک کہ سب لوگ اٹھ کر چلے گئے۔ بہارالاسلام نے کبھی ایسا انتظار نہیں کیا تھا۔ میں سمجھ گیا کوئی خاص بات ہے۔ میں نے پوچھا کہیے محترم آپ پچھلے دو گھنٹہ سے خاموش اس حقیر کی محفل میں بیٹھے ہوئے ہیں آج سورج مشرق کے بجائے ۰۰۰۰۰۰۰۰

             بہارالاسلام نے درمیان میں ٹوک دیا اور کہا جھمرو آج میں تم سے ایک نہایت سنجیدہ مسئلہ پر مشورہ کرنے کے لئے آیا ہوں۔

            جھمرو نے مسکرا کر اپنا تکیہ کلام دہرا دیا زہے نصیب۔

             ایک ماہ بعد سوژالی واپس جانے والا ہے میں چاہتا ہوں کہ اس کے جانے سے قبل چمیلی کی شادی ہو جائے۔ اس لئے کہ اس کے بغیر تقریب میں مزا نہیں آئے گا۔

            جھمرو نے جواب دیا ارے تقریب میں وہ کیسے نہ ہو گا؟ میں تو کہتا ہوں کہ اس کے بغیر یہ تقریب ہی کیوں کر منعقد ہو گی۔

            بہارالاسلام کی سمجھ میں کچھ بھی نہ آیا۔ وہ بولے کیا بکتے ہو۔

            کچھ نہیں جھمرو بولا تم اپنی بات کرو۔

             میرے پاس چمیلی کیلئے دو پیغامات ہیں۔ ایک مشہور عالم دین کا بیٹا منظور عالم جو حلوائی کی دوکان چلاتا ہے اور دوسرا شیخ نصیب کا بیٹا شیخ حبیب جو شہر میں ملازمت کرتا ہے تمہارا کیا خیال ہے؟

             جھمرو نے بیزاری سے پوچھا میری چھوڑو اپنی بتاؤ؟

             در اصل اس دنیا میں میرا چمیلی کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے اس لئے میں سوچتا ہوں کہ بظاہر شیخ حبیب بہتر ہے لیکن وہ اسے اپنے ساتھ شہر لے جائے گا اور ہم باپ بیٹی ایک دوسرے سے دور ہو جائیں گے۔ منظور عالم رہتا تو یہیں ہے لیکن چمیلی کی طبیعت میں نفاست بہت ہے اور دن بھر منظور عالم کے آس پاس مکھیاں بھنبھناتی رہتی ہیں۔ کون جانے ان متضاد شخصیات کا نباہ ہو سکے گایا نہیں؟

             جھمرو نے بہار کی باتوں کو غور سے سننے کے بعد کہا بھائی بہار اگر آپ برا نہ مانیں تو میں آپ کو ایک تیسرا مشورہ دینا چاہتا ہوں۔

            وہ کیا؟ بہارالاسلام نے از راہِ تجسس پوچھا      

            آپ چمیلی کا بیاہ سوژالی سے کر دیں۔

            سوژالی سے؟ تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہے۔

            کیوں اس میں کیا خرابی ہے؟

            میرا مطلب تھا کہاں راجہ بھوج اور کہاں گنگو تیلی۔

            جھمرو بولا تم نے صحیح کہا تم سوژالی کے سامنے گنگو تیلی ضرور ہو لیکن چمیلی۔ چمیلی نہیں۔ میں چمیلی کو بچپن سے جانتا ہوں۔ اور سوژالی کو اس عرصہ میں کافی کچھ جان گیا ہوں مجھ کو پتہ نہیں کیوں ایسا لگتا ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے لئے بنے ہیں۔ میرا دل یہ کہتا ہے کہ قدرت نے سوژالی کو چمیلی کے لئے اس دور دراز مقام پر بھیجا ہے ان کا نکاح قدرت کا فیصلہ ہے جو ٹل نہیں سکتا۔

             بہارالاسلام سکتہ میں آ گئے انہوں نے کہا جھمرو تم یہ اپنے دل سے کہہ رہے ہو یا ان دونوں میں سے کسی نے تمہیں یہ بات بتائی ہے۔

             جھمرو بولا ان میں سے کسی کے ساتھ میری اس مسئلہ پر بات نہیں ہوئی لیکن یہ میرے دل کی آواز ہے بہار بھائی۔ اور میں زبان کا جھوٹا ضرور ہوں لیکن دل کا سچا ہوں۔

            بہار الاسلام نے کہا جھمرو تمہارے پاس دل نہیں ایک پتھر ہے کالا پتھر۔ ورنہ یہ بات تمہارے دل میں کبھی نہیں آتی میں اپنی بیٹی کو شہر بھیجنے سے ہچکچا رہا ہوں اور تم چاہتے ہو کہ وہ پردیس چلی جائے۔ ایک ایسے دیس جس کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ وہاں کے لوگوں کے بارے میں نہیں جانتا۔ جھمرو کاش کہ تمہارے پاس باپ کا دل ہوتا!

            جھمرو بولا بہار بھائی میں آپ کے جذبات سمجھتا ہوں اور دل آزاری کیلئے معافی چاہتا ہوں لیکن پھر بھی ایک گذارش ہے۔ یقیناً آپ اس ملک کے بارے میں نہیں جانتے ہیں اور وہاں کے لوگوں کے بابت آپکی معلومات بہت کم ہے لیکن میں آپ سے یہ کب کہہ رہا ہوں کہ آپ چمیلی کو وہاں تنہا روانہ کر دیں۔

            جھمرو نے اپنی بات جاری رکھی آپ سوژالی کو جانتے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ آپ سوژالی کو شیخ حبیب اور منظور عالم سے زیادہ جانتے ہیں۔ جو شخص ہم جیسے غیروں کے ساتھ اس قدر اچھا برتاؤ کرتا ہے تو کیا وہ اپنے ملک میں اپنوں کے ساتھ خراب رویہ اختیار کرتا ہو گا؟ اور کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس کی مقبولیت اس کے اپنے شہر میں یہاں سے کم ہو گی؟ کیا وہ اپنے لوگوں میں یہاں سے زیادہ ہردلعزیز نہیں ہو گا؟ یقیناً ہو گا بہار بھائی یقیناً ہو گا۔ یقین جانئے وہ دن دور نہیں  جب اس کو حاصل تمام توقیر و احترام اپنے آپ چمیلی کے قدموں میں آ جائے گا۔ جھمرو کا انداز ایسا تھا گویا چمیلی اور سوژالی کا نکاح ہو چکا ہے۔

            لیکن کیا وہ دونوں اس پر راضی ہو جائیں گے؟ نادانستہ طور پر بہار کی زبان سے یہ جملہ نکل گیا خودبہارالاسلام اپنے ہی سوال پر چونک پڑا۔

             جھمرو نے جواب دیا اگر تم منا سب سمجھو اور مجھے اجازت دو تو میں ان دونوں کی رائے معلوم کر کے تمہیں بتلا دوں۔

            بہار الاسلام خاموش ہو گئے دیر تک خاموش رہے اور پھر بولے جھمرو تمہاری تجویز کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے کی جرأت میں فی الحال اپنے اندر نہیں پاتا۔ اس لئے تمہیں اس وقت اجازت نہیں دے سکتا۔ اگر یہ بات میری سمجھ میں آ گئی تو میں تمہارا تعاون لوں گا ورنہ تم یہ سمجھ لینا کہ تمہیں اجازت نہیں ہے۔

            جھمرو کیلئے بہارالاسلام کے تذبذب کو سمجھنا مشکل نہیں تھا وہ آخر ایک باپ تھا جس نے ماں کی طرح اپنی بیٹی کو پال پوس کر بڑا کیا تھا۔ لیکن پھر بھی اسے یقین تھا کہ وہ چند دنوں کے بعد آ کر رجوع کرے گا اور بصد شوق اجازت بھی دے گا۔ جھمرو کو نہ جانے کیوں اطمینان تھا کہ سوژالی اور چمیلی دونوں اس تجویز کو قبول کر لیں گے اور چمیلی کو اپنی دلہن بنا کرسوژالی دور گگن کی چھاؤں میں لے جائے گا۔

            انتخاب عالم نے چونک کر پوچھا کیا مطلب؟

            جھمرو بولا میرا مطلب یہ ہے کہ سوژالی، چمیلی کو اپنے ساتھ کوالالمپور لے جائے گا۔

            جھمرو کے بیان نے انتخاب عالم کا تجسس بام عروج پر پہنچا دیا تھا۔ چمیلی کے بارے میں اس کے حتمی سوال کا جواب دہلیز پر کھڑا دستک دے رہا تھا۔ وہ بولا پھر؟ پھر کیا ہوا؟؟؟

            جھمرو نے تاسف بھرے انداز میں جواب دیا پھر وہی ہوا ڈاکٹر صاحب جو نہیں ہونا چاہئے تھا۔ میرے تمام اندازے ایک ایک کر کے غلط ثابت ہو گئے۔

            انتخاب نے حیرت کے ساتھ پوچھا۔ ک۰۰۰ک۰۰۰کیا؟

            جی ہاں ڈاکٹر صاحب اپنی ذات سے متعلق میری تمام خوش فہمیاں ملیامیٹ ہو گئیں۔ مجھے اچانک محسوس ہوا کہ میں جو اپنے آپ کو نہایت عقلمند آدمی سمجھتا ہوں دنیا کا سب سے بڑا بے وقوف انسان ہوں۔

             ایسا کیوں ہوا؟ کیسے ہو گیا یہ سب؟؟؟ انتخاب نے سوال کیا۔

            چند دنوں کے بعد مجھے کسی اور کے ذریعہ اطلاع ملی کہ اگلے ہفتہ بازار کے دن چمیلی کا نکاح منظور عالم سے طے ہو گیا ہے۔ مجھے اس پر کوئی خوشی نہیں ہوئی۔ میں غمگین ہو گیا حالانکہ بظاہر اس کی کوئی وجہ نہیں تھی ہر کوئی مسرور تھا۔ مشہور عالم کا پورا خاندان بشمول منظور عالم اس قدر خوش تھا کہ مٹھائی میں نمک اور نمکین میں شکر ڈال دیتا تھا۔ بہارالاسلام، چمیلی اور سوژالی گویا اس کائنات میں جھمرو کے علاوہ ہر کوئی شادمان تھا۔

            نکاح کے دن دو گواہوں کے ساتھ بہار الاسلام نے مجھے وکیل بنایا اور ہم تینوں چمیلی سے اجازت لینے کی خاطر اس کمرے میں پہنچے یہ حسنِ اتفاق ہے ڈاکٹر صاحب کہ آج جبکہ میں پہلی مرتبہ چمیلی کی کہانی دوہرا رہا ہوں یہ وہی کمرہ ہے جس میں چمیلی کو اپنی چنندہ سہیلیوں کے ساتھ اس منحوس دن بٹھایا گیا تھا؟

            ڈاکٹر انتخاب عالم نے حیرت سے پوچھا منحوس دن! !

            جی ہاں ڈاکٹر صاحب میری زندگی کا سب سے منحوس دن۔ ہم لوگ آ کر بیٹھے۔ میں قاضی کے رجسٹر میں وہ صفحہ تلاش کرنے لگاجس میں چمیلی کی حامی کے بعد اس کے دستخط لینے تھے۔ اس روز نہ جانے کیوں میری قینچی کی طرح چلنے والی زبان گنگ ہو گئی تھی میں چمیلی سے اجازت کے لئے الفاظ تلاش کر رہا تھا کہ چمیلی کی وہ سہیلی جو کھڑکی میں کھڑی تھی اچانک جھکی اور چمیلی کے کان میں کچھ کہا۔ چمیلی نے جیسے ہی وہ بات سنی وہ اپنی جگہ پر کھڑی ہو گئی اور چیخنے چلانے لگی۔ ن۰۰۰ہ۰۰۰۰ی۰۰۰۰۰۰۰۰ں ۰۰۰۰ نہیں۔ نہیں وہ مر نہیں سکتا۔ سوژالی مر نہیں سکتا۔ سوژالی مر نہیں سکتا۔ وہ کسی صورت نہیں مر سکتا! !

             دونوں گواہ اور دیگر سہیلیاں چونک گئیں۔ ہر کوئی حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھ رہا تھا لیکن مجھے کوئی تعجب نہیں تھا۔ میں نے کھڑکی سے جھانکنے والی لڑکی سے پوچھا۔ کیا واقعی سوژالی نے چھلانگ لگا دی۔

            وہ بولی۔ جی ہاں میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ وہ بغل والے کمرے کی کھڑکی میں آیا۔ کچھ دیر خلاء میں دیکھتا رہا اور پھر کھڑکی سے سیدھا کھائی میں کود گیا۔

            میں کہا انا للہ وانا الیہ راجعون۔ محفل میں ہنگامہ برپا ہو گیا لوگ طرح طرح کی باتیں بناتے ہوئے لوٹ گئے۔ سوژالی خودکشی کر چکا تھا اور چمیلی پاگل ہو گئی تھی۔ لوگ جو باتیں بنا رہے تھے ان کا حقیقت سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں تھا۔

            انتخاب عالم نے پوچھا۔ پھر؟ پھر اس کے بعد کیا ہوا؟

            جھمرو بول اپھر کیا گھڑی کی نبض رک گئی۔ وقت کی رفتار ٹھہر گئی دوا خانہ بند ہو گیا۔ مگر ایک معجزہ رونما ہو گیا۔

             وہ کیا؟ یہ انتخاب عالم کا آخری سوال تھا

            پاگل چمیلی نے دوسری صبح حسب معمول سوژالی کے لئے پھول چنے اور انہیں سجانے کے لئے بغل والے کمرے میں لے آئی جو سوژالی کا دوا خانہ تھا۔ اس نے انہیں حسبِ سابق سجا دیا پھر اگلے دن وہ نئے پھول لے آئی انہیں بھی سجادیا۔ یہ سلسلہ جاری رہا ہر روز وہ پھول لاتی اور سجا جاتی لیکن وہ پھول تھے کہ مرجھاتے نہ تھے اور نہ ان کی خوشبو میں کوئی کمی واقع ہوتی تھی رفتہ رفتہ یہ بات مشہور ہو گئی۔

            پہلے گاؤں والے لوگ اور پھر دور دراز سے لوگ ان پھولوں کو دیکھنے کے لئے آنے لگے۔ حیران اور پریشان لوگ قدرت کا یہ عجیب و غریب کرشمہ دیکھ کر لوٹ جاتے تھے لیکن چمیلی وہ تو دیوانی ہو چکی اسے پتہ ہی نہ تھا کہ لوگ کیوں آتے ہیں اور کس بات پر حیرت زدہ رہ جاتے ہیں۔ لوگوں کی آمدو رفت سے بے نیاز وہ ہر روز اپنا کام کرتی یعنی تازہ پھول چنتی اور انہیں لا کر اس کمرے میں سجادیتی۔

            کمرہ جب پھولوں سے بھر گیا تو بہارالاسلام نے جگہ بنانے کی غرض سے کچھ پھول وہاں سے نکال دئیے۔ پھول جیسے ہی کمرے سے باہر آئے سوکھ گئے۔ اس نے انہیں پھینک دیا۔ اب بہار کا معمول یہ تھا کہ ہفتہ میں ایک دن تھوڑے سے پھول نکال کر نئے پھولوں کے لئے جگہ بنا دیتا باقی گلشن کو یونہی مہکتا چھوڑ دیتا۔ بہارالاسلام کے اندر میری بات کے نہ ماننے کا زبردست احساس جرم تھا۔ اس واقعہ کے بعد وہ ہمیشہ مجھ سے نظریں چراتا رہا وہ کبھی بھی میرے پاس نہ آیا۔ آج صبح پہلی بار اس نے مجھ سے ملاقات کی اور بتایا کہ آپ مجھ سے ملنا چاہتے ہیں۔

            یہ چمتکار انتخاب عالم کے عقل و فہم سے بالاتر تھا۔ وہ بولا کیا میں پھولوں والا کمرہ دیکھ سکتا ہوں۔

            کیوں نہیں؟ دونوں بغل والے کمرے کے دروازے پر آ گئے جو بھڑا ہوا تھا۔ جھمرو نے اسے ڈھکیل کر کھول دیا۔ اس کمرے کو دیکھ کر کوئی بھی نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ غیر آباد کمرہ ہے۔ سب کچھ بالکل صاف ستھرا اور تر و تازہ تھا۔ چمیلی ہر زور اس کمرے کو تیار کرتی تھی لیکن معجزہ داہنی دیوار سے لگی لمبی سی میز پر پھولوں کا ڈھیر تھا۔ ترو تازہ پھول ایسے لگتے تھے گویا شاخوں پر کھلے ہوئے ہیں۔ انہیں توڑا بھی نہیں گیا ہے۔ چمیلی کے پاکیزہ پھول جنھیں نہ کسی نے چھوا ہے اور نہ سونگھا ہے۔

             انتخاب عالم یہ منظر اگر اپنی آنکھوں سے نہ دیکھتا تو اسے کبھی بھی اس پر یقین نہ آتا۔ اس کے قدم اپنی جگہ جم گئے تھے اس نے مڑ کر جھمرو کو دیکھا تو کیا دیکھتا ہے جھمرو پھولوں کو نہیں کھڑکی کو دیکھ رہا ہے۔ کھڑکی سے نیچے گہری کھائی کو دیکھ رہا ہے۔ کھائی میں بیٹھے سوژالی کو دیکھ رہا ہے۔ سوژالی جس کی محبت سے سراپا وادی مہک رہی تھی۔ بھینی بھینی تازہ خوشبو بالکل ان پھولوں کی طرح جو داہنی جانب میز پر سجے ہوئے تھے۔

            کس قدر یکسانیت تھی ان پھولوں کی اور چمیلی کی دیوانگی میں؟ دیوانگی کی اس خوشبو نے موت اور پاگل پن کو مات دے دی تھی۔ جھمرو کی آنکھوں میں دوستارے چمکے ایک کھائی میں گرا اوردوسرا آسمان میں ستارہ بن کر چمکنے لگا۔ وہ پیچھے مڑا اور چپ چاپ بغیر کچھ بولے لوٹ گیا آج پھر جھمرو کی زبان گنگ ہو گئی تھی۔

            ڈاکٹر انتخاب عالم اپنے کمرے میں واپس آئے اور بستر پر لیٹ کر چمیلی کا نفسیاتی تجزیہ کرنے لگے اس بیچ بہار الاسلام کھانا لے کر آیا انتخاب عالم نے صرف لسی کا گلاس لیا اور کہا بابا معاف کیجئے میں آج کھانا نہیں کھاؤں گا۔

            کیوں؟

            بس یونہی۔

            میں نہیں سمجھا

            یہ جو محنت آپ نے کی ہے رائے گاں نہیں جائے گی۔ میں اسے ناشتہ میں کھالوں گا۔

            بہارالاسلام کی سمجھ میں اب بھی کچھ بھی نہیں آیا۔ وہ سمجھ رہا تھا کہ جھمرو بھی موجود ہے۔ انہیں توقع تھی کہ جھمرو جاتے ہوئے ان سے ضرور ملاقات کرے گا اور کان کھائے گا۔ بہار الاسلام نے کہا ٹھیک ہے جناب اور سیدھا بازار کی جانب چل دیا۔ وہ اسی مقام پر پہنچ گیا جہاں صبح جھمرو سے ملاقات ہوئی تھی۔ جھمرو اپنے گدھوں کے آگے چارہ ڈال رہا تھا۔ بہارالاسلام نے سلام کیا۔ کھانا رکھا اور کہا جھمرو یہ تمہاری روٹی ہے۔

             جھمرو نے رُکھائی سے جواب دیا شکریہ۔

            بہارالاسلام کی سمجھ میں یہ رویہ نہ آیا وہ واپس ہولیا۔ جھمرو نے ساراکھانا گدھوں کے آگے ڈال دیا اور خود چار پائی پر لیٹ گیا۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

            چمیلی کا نفسیاتی تجزیہ کرنے کے بعد ڈاکٹر انتخاب عالم اس نتیجے پر پہنچے کہ چمیلی کا علاج اس کے اعترافِ حقیقت میں پوشیدہ ہے۔ جس دن اسے یقین ہو جائے گا سوژالی مر چکا ہے اس کا پاگل پن ختم ہو جائے گا۔ کسی ذی عقل انسان کو موت کا یقین دلانا نہایت آسان کام ہے لیکن جس شخص کا دماغی توازن بگڑ چکا ہو اس کو موت کی حقیقت سے واقف کرانا مشکل ترین ہدف ہے۔

            انتخاب عالم کے سامنے ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔ اس لئے بڑے غور و خوض کے بعد انہوں نے ایک منصوبہ بنایا جس کے تحت کھڑکی سے نیچے کھائی کے سامنے مسطح زمین پر ایک بینچ رکھوائی گئی۔ بہارالاسلام کو ہدایت کی گئی کہ وہ ہر روز شام کے وقت چمیلی کے ساتھ وہاں بیٹھ کر اس سے باتیں کرے اور ایک آدھ گھنٹے بعد لوٹ آئے۔ اس بینچ میں گاڑی کی سیٹ کی طرح کے پٹے لگے ہوئے تھے۔

            بہارالاسلام اس بینچ پر بیٹھنے کے بعد پہلے چمیلی کا پٹہ لگاتے پھر اپنا پٹہ باندھتے۔ چمیلی پوچھتی بابا یہ آپ کیوں کرتے ہیں؟ تو جواب ہوتا بیٹی سامنے گہری کھائی ہے اس لئے حفاظت کے پیش نظر اچھا ہے۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا لیکن پھر بھی بابا کی خاطر پٹہ لگائے بیٹھی رہتی۔ چمیلی کیساتھ وہاں بیٹھ کر بہارالاسلام کو دیر تک باتیں کرتے رہنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ واپسی سے قبل بہار پہلے اپنا پٹہ کھولتے پھر چمیلی کا پٹہ اور دونوں باپ بیٹی لوٹ آتے۔

             اس بیچ انتخاب عالم نے سوژالی کا ایک قد آدم گڈا بنوایا جس میں جدید و حساس مائک اور اسپیکر نصب تھے۔ صبح کے وقت چمیلی کی غیر موجودگی میں اس پتلے کو بنچ پر رکھ کر کئی بار آزمایا گیا۔ بہارالاسلام اس کے بغل میں بیٹھ کر جو کچھ کہتے اسے انتخاب عالم اپنے کمرہ میں بیٹھ کر سن لیتا اور وہ اپنے کمرے کے مائک سے وہ جو کچھ بھی کہتا نیچے گڈے میں لگے اسپیکر کی مدد سے بہارالاسلام اسے سن سکتے تھے۔

            ہفتوں کی محنت و مشقت کے بعد جب یہ تجربہ مکمل ہوا تو ایک دن چمیلی سے بات چیت کرتے کرتے بہارالاسلام نے کہا بیٹی مجھے ایک کام یاد آ گیا میں تھوڑی دیر بعد آتا ہوں یہ کہہ کر وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر چلے گئے۔ چمیلی وہاں بیٹھی رہی اپنے آپ سے باتیں کرتی رہی۔ انتخاب عالم اس کی زبان سے نکلنے والے ایک ایک لفظ کو اپنے کمرے میں بیٹھ کر سنتا رہا یہ باتیں وہ ریکارڈ بھی کر رہا تھا تاکہ حسبِ ضرورت دوبارہ سنا جا سکے اور چمیلی کا ذہن پڑھنے میں مدد ملے۔ انتخاب عالم کا خیال تھا کہ الفاظ ہی وہ کھڑکیاں اور روشندان ہیں جن کے ذریعہ کسی دماغ کے اندر جھانک کر دیکھا جا سکتا ہے۔ چمیلی کی باتیں بظاہر بے ربط ہوتی تھیں لیکن غور کرنے پر اس میں سے کچھ نہ کچھ مطلب نکل آتا تھا ایک دن وہ اپنے آپ سے پوچھ رہی تھی سوژالی اچانک بغیر بتائے کیوں چلا گیا؟

            وہ کب آئے گا؟ ۰۰۰۰۰۰آئے گا بھی نہیں؟ ۰۰۰۰۰ کیا کبھی نہیں؟ ۰۰۰۰۰۰

اور اگر نہیں تو ان پھولوں کا کیا ہو گا؟ ۰۰۰۰۰۰۰جو اس کے انتظار میں مسلسل مہکتے رہتے ہیں؟ ۰۰۰۰۰کیا وہ یونہی مہکتے رہ جائیں گے؟ ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰یہ کیسی بہار ہے جو خزاں کی منتظر ہے؟ ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰بہار کی طوالت سے بھی طبیعت اوب جاتی ہے۔ ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰وہ تو خزاں ہے جو بہار کی اہمیت کا احساس دلاتی ہے ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ اگر خزاں نہ ہو تو بہار کی ضرورت اور اہمیت سب ختم ہو جائے۔

            بہار اور خزاں چمیلی کیساتھ آنکھ مچولی کا کھیل کر رہی تھیں۔ جب سوژالی اس کے چشم تصور میں آتا تو بہار آ جاتی اور جب وہ چلا جاتا تو پھر خزاں کا دور دورہ ہو جاتا لیکن سوژالی کا آنا جانا لگا رہتا تھا اور یہی چمیلی کی دیوانگی کا بنیادی سبب تھا کسی نہ آنے والے کا انتظار انسان کو دیوانہ بنا دیتا ہے۔ اب چمیلی کو تنہا کچھ دیر کے لئے چھوڑ کر آنا اور پھر واپس جا کر اپنے ساتھ لے آنا بہار الاسلام کا معمول بن گیا تھا۔ انتخاب عالم کے سامنے ہر دن چمیلی کے دل کی کتاب ایک نیا صفحہ کھلتا تھا اور وہ اپنے ساتھ پوشیدہ جذبات واحساسات کو بکھیر کر بند جاتا تھا۔

             انتخاب عالم اپنے اس مشکل اور پیچیدہ تجربہ سے لطف اندوز ہونے لگا تھا جس میں طبعی عناصر کی کیمیائی تفتیش نہیں بلکہ انسانی ذہن کو جانچا اور پرکھا جا رہا تھا۔ طبی تعلیم کے دوران طلبا کو پہلے لاشوں پر تجربہ کروایا جاتا ہے اور اس کی مدد سے زندہ انسانوں کی جراحت سکھائی جاتی ہے۔ لیکن جو آپریشن انتخاب عالم کر رہا تھا وہ کسی درسی نصاب میں درج نہیں تھا اوراسے کسی نے کسی کو ابھی تک پڑھایا نہیں تھا۔ یہاں پر جو طالب علم تھا وہی خود استادبھی تھا۔ جو سکھاتا بھی تھا اور سیکھتا بھی تھا۔ منصوبے کے مطابق ایک دن بہارالاسلام کے ہٹ جانے کے بعد ان کی جگہ سوژالی کا گڈا رکھ دیا گیا اور اس میں سے دھیمے دھیمے آواز آئی

             چمیلی اوے چمیلی۔

             چمیلی چونک پڑی۔ وہ بولی کون! کون ہے؟

            پھر آواز آئی چمیلی تم نے مجھے نہیں پہچانا میں سوژالی ہوں سوژالی۔

             چمیلی سمٹ کر گڈے سے دور ہو کر بیٹھ گئی اور بولی ہاں ہاں کیوں نہیں سوژالی مجھے پتہ ہے تم سوژالی ہو سوژالی۔

            اچھا اگر پتہ ہے تو کیوں پوچھ رہی ہو کہ میں کون ہوں؟

            چمیلی چہک کر بولی، یونہی بس یونہی۔

            چلو کوئی بات نہیں۔ اچھا بتاؤ کہ تم کیسی ہو؟

            میں تم سے نہیں بولتی۰۰۰۰ میں سے بات نہیں کروں گی۔

             ٹھیک ہے کوئی بات نہیں چمیلی۔

            چمیلی منہ پھلا کر بیٹھ گئی گڈا بڑی صفائی سے اٹھا لیا گیا خاموشی چھا گئی۔

             چمیلی اس انتظار میں تھی کہ سوژالی اسے منائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ کافی دیر کے بعد چمیلی نے کنکھیوں سے اپنے دائیں جانب دیکھا تو وہاں کچھ بھی نہ تھا۔ ارے سوژالی پھر چلا گیا۔ سوژالی۔ وہ اپنے آپ سے بولی۔ شاید مجھ سے ناراض ہو گیا۔ کیوں کہ میں ناراض ہو گئی مجھے ناراض نہیں ہونا چاہئے تھا۔ چمیلی کی خود کلامی انتخاب عالم سن رہا تھا۔ دیوانگی نے فرزانگی کی جانب پہلا کامیاب قدم بڑھا دیا تھا۔

             تھوڑی دیر بعد بہارالاسلام وہاں آئے۔ اس کے پاس میں بیٹھ کر چمیلی سے کہا بیٹی کیسی ہو؟

            وہ بولی ویسی ہی ۰۰۰۰۰۰پہلے جیسی۔

            کیا مطلب؟ بہارلاسلام نے پوچھا

            مطلب پہلے جیسی تنہا۔ تنہا کی تنہا۔

            بہارالاسلام چپ ہو گئے کچھ دیر بعد کہا چلو بیٹی اندھیرا ہو چلا ہے۔ چلو چلتے ہیں۔

            چمیلی بولی ٹھیک ہے بابا۔

            بہارالاسلام نے پہلے اپنا پٹہ کھولا پھر چمیلی کا اور دونوں باپ بیٹی واپس آ گئے اب معمول میں ایک تبدیلی آ گئی تھی بہارالاسلام ہر روز چمیلی کو چھوڑ کر آ جاتے سوژالی کا پتلا رکھ دیا جاتا اور اس پتلے کے توسط سے انتخاب عالم سوژالی بن کر چمیلی سے بات چیت کرتا۔ چمیلی شام ڈھلے اندھیرا ہونے تک سوژالی سے باتیں کرتی رہتی دیوانی جو تھی نہیں جانتی تھی کہ وہ جس سے بات کر رہی ہے وہ سوژالی نہیں بلکہ انتخاب عالم۔

             ایک دن جب شام کے سائے لمبے ہو چکے تھے اور اچھا خاصہ اندھیرا چھا گیا تھا انتخاب عالم نے فائر ورکس میں استعمال کی جانے والی بڑی سی پھلجھڑی چھت کے اوپر سے چھوڑی۔ اس سے نکلنے والا بارود آسمان میں جا کر پھٹ پڑا اور ستاروں کی طرح برسنے لگا۔ پھلجھڑی کا رخ اس طرح تھا کہ روشنی کے ستارے آسمان سے کھائی میں گر رہے تھے۔ چمیلی نے انہیں دیکھا تو بچوں کی طرح خوشی سے تالی بجانے لگی۔

            انتخاب عالم نے فوراًدوسری پھلجھڑی چھوڑ دی اور پہلی کا سلسلہ بند ہونے سے قبل دوسری سے روشنی کے شرارے برسنے لگے چمیلی نے پوچھا سوژالی یہ کیا ہو رہا ہے؟ یہ آسمان سے کیا گر رہا ہے یہ روشنی یہ چمک یہ سب کیا ہے؟ کیا یہ ستارے ہیں جو آسمان سے ٹوٹ ٹوٹ کر گر رہے ہیں؟

             جی ہاں چمیلی تم تو انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہو۔

            اگر ایسا ہے تو کیا آسمان ان کے گرنے سے تاریک ہو جائے گا؟

             نہیں چمیلی ایساکبھی نہیں ہو گا آسمان میں بے شمار ستارے ہیں ان میں سے چند کے ٹوٹنے اور گرنے سے آسمان تاریک نہیں ہو جاتا۔

            اچھا لیکن آخر یہ گرتے کیوں ہیں؟

            یہ! یہ اس لئے گرتے ہیں کہ ان کو چن کر مانگ میں سجایا جا سکے۔

            مانگ میں؟

             جی ہاں کیا میں ان کو چن کر لاؤں؟

             کیوں؟

            تاکہ میں انہیں تمہاری مانگ میں سجا سکوں؟

            میری مانگ میں؟

            جی ہاں چمیلی تمہاری مانگ میں ۰۰۰۰۰۰۰میں تمہاری مانگ ان ستاروں سے بھر دینا چاہتا ہوں۔

             آسمان سے روشنی کے شرارے برس رہے تھے انتخاب عالم نے اشارہ کیا اور گڈے کے پیچھے لگے اسپرنگ کا بٹن دبا دیا گیا۔ گڈا بینچ سے اچھل کر کھائی میں جاگر ا۔ آسمان سے ستاروں کا گرنا بند ہو گیا۔ چاروں طرف اندھیرا چھا گیا۔ چمیلی کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا تھا۔ وہ کھائی کو دیکھ رہی تھی گہری کھائی کو جس نے ستاروں کو نگل لیا تھا۔ وہ بھیانک کھائی جو ایک سورج کو بھی نگل چکی تھی۔ اس سورج کو جو اس کی مانگ روشن کرنا چاہتا تھا۔ کھائی کی گہرائی میں اس کی آنکھیں سوژالی کو تلاش کر رہی تھیں۔ موت کے اندھیرے نے سوژالی کو نگل لیا تھا۔ چمیلی نے آگے جھکنے کی کوشش کی بینچ میں لگے کمربند نے اسے جکڑ لیا اس نے پیچھے سر رکھ دیا۔

            چمیلی اب آسمان کو دیکھ رہی تھی جس میں بے شمار ستارے چمک رہے تھے لیکن ایک ستارہ جو ٹوٹ کر کھائی میں گر چکا تھا۔ اس کا اپنا سورج سوژالی ان میں نہیں تھا۔ چمیلی کو پہلی مرتبہ احساس ہوا کہ سوژالی اب کبھی نہ آنے کے لئے  جا چکا ہے۔ چمیلی کی آنکھوں سے آنسورواں ہو گئے وہ ٹپک ٹپک کر ستاروں کی مانند وادی میں گرتے اور غائب ہو جاتے بڑی دیر تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ یہاں تک کہ چپ چاپ بہارالاسلام اس کے بغل آ کر بیٹھ گئے۔

             طویل خاموشی کے بعد چمیلی بولی وہ نہیں آئے گا۔ وہ اب کبھی بھی نہیں آئے گا۔ دیوانگی کی جگہ ہوشمندی نے لے لی تھی۔ سوژالی کے کمرے کے پھول مرجھا چکے تھے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے۔ ڈاکٹر انتخاب کا تجربہ کامیاب ہو چکا تھا۔

            بہار الاسلام نے بینچ کا کمر بند کھولا چمیلی کا ہاتھ پکڑا اور گھر کی جانب چل دیئے وہ بھی لڑکھڑاتی ہوئی ان کے ساتھ چل پڑی اپنے بستر پر لیٹ کر رات بھر روتی رہی صبح تک اس کی آنکھوں کا پانی خشک ہو چکا تھا۔ چمیلی مرجھا چکی تھی یہ خبر جب گاؤں میں پھیلی تو وہ بازار کا دن تھا جھمرو کو پتہ چلا تو وہ چمیلی سے ملنے کی خاطر آیا۔

             چمیلی نے اسے دیکھ کر کہا جھمرو چاچا۰۰۰۰۰۰۰ وہ نہیں آئے گا۔ وہ کبھی نہیں  آئے گا۔ آنسوؤں کا نیا سیلاب امڈ پڑا۔

             جھمرو نے چمیلی کے سرپر ہاتھ پھیرا اور کہا بیٹی۔ آسمان میں بے شمار تارے ہوتے ہیں۔ اگر ایک آدھ ٹوٹ بھی جائے تو اندھیرا نہیں ہوتا۔

             چمیلی نے کہا لیکن چاچا میرا تو سورج ٹوٹ کر گر چکا ہے۔ اب میری زندگی میں صرف رات ہی رات رہے گی کبھی صبح نہیں ہو گی۔

            جھمرو کو پہلی مرتبہ اگرکسی نے لاجواب کر دیا تھا تو وہ چمیلی تھی!!!

٭٭٭


 

 

کبوتر خانہ

 

            کبوتر خانہ نامی گاؤں اس کے باشندوں کے بجائے کبوتروں کے لئے مشہور تھا۔ باوجود اس کے کہ یہ ایک مضحکہ خیز نام تھا لیکن اس گاؤں کے لوگوں کو اپنے کبوتروں پر اس قدر فخر و ناز تھا کہ وہ اسے اپنے لیے باعث صد افتخار سمجھتے تھے۔ یہ کاشتکاروں کی بستی تھی۔ یہاں کے عوام کا پیشہ زراعت اور مشغلہ کبوتر بازی تھا۔ صبح سویرے یہ لوگ اپنے کھیتوں کی جانب نکل جاتے اور شام میں واپس آ کر کبوتر بازی میں غرق ہو جاتے۔

             گاؤں میں ایک چھوٹی سی ویران و پشیمان مسجد بھی تھی۔ اس لیے کہ نماز فجر کے وقت گاؤں کے لوگ نیند کی آغوش میں ہوتے۔ نمازِ ظہر کی اذان ان کے دور دراز کھتیوں تک نہ پہنچ پاتی۔ نماز عصر کا وقت راستے میں گذرتا۔ مغرب اور عشاء کبوتروں کے غٹر غوں کی نذر ہو جاتی۔ برسوں سے یہی معمول تھا۔ کبوتر خانے والے اس نظام الاوقات پر اس قدر راضی برضا تھے کہ انہیں اس میں کچھ بھی عجیب نہ لگتا تھا۔

            نہایت وضعدار شخصیت کے حامل چودھری عنایت حسین گاؤں کے سرپنچ تھے۔ وسیع و عریض کھیتوں کے مالک چودھری صاحب کے باڑے میں کبوتروں کی سب سے زیادہ تعداد تھی۔ ان کے بغل میں اسلم کا گھر تھا۔ اسلم بھی کبوتروں کا بڑا شوقین تھا۔ کھیتی کے کام سے جیسے ہی فرصت پاتا جنگلوں کی جانب نکل جاتا اور وہاں نئے کبوتر پکڑنے میں جٹ جاتا۔ جنگلی کبوتروں کو پھانسنے اور انہیں سدھانے کے فن میں وہ بڑی مہارت رکھتا تھا۔

            ایک دن اسلم نے دیکھا جنگل میں ایک سرخ کبوتروں کا جوڑا دانا چگ رہا ہے۔ گاؤں میں لوگوں کے پاس بھانت بھانت کے کبوتر تھے لیکن سرخ کبوتر کسی کے پاس نہیں تھے۔ جب اسلم نے ان کبوتروں کو پکڑنے کی کوشش کی تو وہ اُڑ گئے لیکن دور افق پر اُڑتے ہوئے یہ کبوتر اسلم کے اعصاب پر سوار ہو گئے۔ اس نے ارادہ کر لیا کہ وہ ہر صورت انہیں حاصل کر کے رہے گا۔ اب دیگر کبوتروں سے اسلم کی دلچسپی کم ہو گئی تھی۔ اس کی نظریں صرف اس سرخ کبوتر کے جوڑے کو تلاش کرتی رہتیں جو کبھی نظر ہی نہ آتے تھے۔

            ایک عرصہ گذر جانے کے بعد پھر ایک بار پہلے والے مقام پر اسلم نے انہیں دیکھ لیا اس کی مایوسی امید میں بدل گئی۔ بڑی چالاکی سے اس بار وہ انہیں اپنے دام میں گرفتار کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اپنی اس کامیابی پر اسلم کا دل بلّیوں اچھل رہا تھا۔ اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے قارون کا خزانہ اس کے ہاتھ لگ گیا ہے۔ دنیا کی ہر نعمت کی کمیت تقابل سے طے ہوتی ہے۔ جو شئے جس قدر کمیاب ہو اس کی قدر و قیمت اتنی ہی زیادہ ہوتی ہے۔

            کبوتر خانہ گاؤں میں (جہاں انسانوں کا تشخص کبوتروں سے وابستہ تھا )سرخ کبوتر چونکہ صرف اور صرف اسلم کے پاس تھے اس لیے وہ اپنے آپ کو اپنی بستی کا بے تاج بادشاہ سمجھنے لگا تھا۔ چند گھنٹوں کے اندر سرخ کبوتروں کے چرچے زبان زد عام ہو گئے۔ لوگ آآ کر ان کبوتروں کو دیکھتے اور رشک و حسد کے جذبات سینے میں دبائے واپس ہوتے۔ اسلم بہت جلد انہیں کو سدھانے میں کامیاب ہو گیا۔ اب وہ انہیں فضاؤں میں کھلا چھوڑ دیتا اور یہ سرخ کبوتر آسمان میں اسلم کی عظمت و شہرت کا جھنڈا بلند کرتے پھرتے تھے۔

             ان سرخ کبوتروں کے سبب بوڑھے دادا عمرو کے علاوہ اسلم کے سارے گھر والے بہت خوش تھے۔ عمرو نے اسلم سے کہہ رکھا تھا۔ دیکھ اسلم یہ سرخ کبوتر وفا شعار نہیں ہوتے۔ ان کو نہ سدھا۔ ان سے اپنا دل نہ لگا یہ کسی بھی وقت اُڑ جائیں گے۔

            اسلم نے کہا۔ کوئی بات نہیں جب اُڑ جائیں گے تب اُڑ جائیں گے لیکن اس وقت تک تو ہماری شان بڑھائیں گے۔

            دادا عمرو نے سمجھایا۔ نہیں بیٹے یہ اس قدر آسان نہیں ہے۔ اگر یہ کل کسی اور کے باڑے میں چلے جائیں تو؟

            اسلم نے کہا۔ کوئی بات نہیں ان کی مرضی اور اس کا مقدر۔

            دادا عمرو نے پھر کہا۔ بیٹے اسلم یہ اتنا آسان نہیں ہے۔

            اسلم نے کندھے اچکائے اور دادا عمر و کودلاسہ دینے لگا۔ آپ بلاوجہ کے اندیشوں میں گرفتار ہو رہے ہیں۔ ایک تو یہ جائیں گے نہیں۔ ہمارے باڑے سے آج تک کوئی کبوتر کہیں نہیں گیا۔ ہماری شفقت اور محبت کا بندھن انہیں کبھی بے وفائی کی اجازت نہیں دیتا اور پھر اگر چلے بھی گئے تو … یہ کہہ کر اسلم رک گیا۔

            عمرو دادا بولے۔ اسلم آگے بول رک کیوں گیا؟

            اسلم نے بات آگے بڑھائی۔ جی ہاں اگر چلے بھی گئے تو ان کی مرضی۔

            اسلم دوسرے کبوتروں کی بات اور ہے میں تو ان سرخ کبوتروں کی بات کر رہا ہوں جو صرف تمہارے پاس ہیں۔

            اسلم سوال کی اس وضاحت سے کچھ پریشان سا ہو گیا۔ لیکن پھر کندھے اچکاتے ہوئے بولا۔ ان کی مرضی اور اس کا مقدر۔

            عمرو دادا نے پھر کہا۔ یہ اتنا آسان نہیں ہے۔

            وقت کا پنچھی گردش لیل و نہار سے بے پرواہ مسلسل اُڑا جا رہا تھا۔ وہ نہ تھکتا تھا اور نہ رکتا تھا۔ ایک روز اسلم حسب معمول شام میں اپنے کبوتروں کو دانہ ڈال رہا تھا۔ ایک ایک کر کے کبوتر واپس آتے وہ ان میں سے ہر ایک کو پیار سے ہاتھوں میں اٹھا لیتا، پچکارتا اور پھر ڈربے میں بند کر دیتا۔ رات کے سائے لمبے ہو گئے۔ کبوتروں کی آمد کا سلسلہ بند ہو گیا لیکن اسلم ہنوز انتظار میں تھا۔ سرخ کبوتروں کا جوڑا واپس نہ لوٹا تھا۔

            اسلم جانتا تھا کہ اتنی رات گئے کبوتر نہیں لوٹتے لیکن اس کا دل مانتا نہ تھا۔ ذہن و دل کی اس کشمکش میں بار بار عمرو دادا کے الفاظ ’یہ اتنا آسان نہیں ہے‘  اس کے کانوں میں گونجتے رہے۔ وہ یوں ہی بیٹھا رہا۔ ان سرخ کبوتروں کے بارے میں سوچتا رہا۔ رات آنکھوں میں کٹ گئی۔ نیند کا ایک لمحہ بھی نصیب نہ ہوا۔ صبح سویرے اپنا غم غلط کرنے کیلئے وہ بغیر ناشتہ کیے کھیتوں کی جانب نکل گیا۔ کھیت میں بھی اس کا دل نہ لگا تو وہ جنگل چلا گیا۔

            اسلم کے قدم اپنے آپ اسی مقام پر پہنچ گئے جہاں اس نے پہلی بار ان سرخ کبوتروں کو دیکھا تھا اور دوسری بار ان کو پکڑا تھا۔ وہ اس امید میں وہاں پہنچا کہ آج پھر وہ انہیں دیکھے گا۔ آج انہیں پکڑنے کے لیے اسے جال ڈالنے کی ضرورت نہ پڑے گی۔ وہ بس پچکارے گا اور دونوں کبوتر آہستہ آہستہ اس کی جانب آ جائیں گے بلکہ چونکہ اس نے کل سے انہیں نہیں دیکھا ہے اس لئے فرط مسرت میں اُڑ کر اس تک پہنچ جائیں گے اور اس کی آغوش میں سما جائیں گے لیکن یہ سب اسلم کی خام خیالی تھی۔ فی الحال اس کے پاس سرخ کبوتروں کی آرزو تھی اور ان کے کھو جانے کا ملال تھا۔ کبوتر نہ تھے۔

            اسلم دیر تک وہاں بیٹھا رہا، سوچتا رہا کہاں چلے گئے اس کے کبوتر؟ اسے ایسا لگ رہا تھا اس کا جہان لٹ گیا ہے۔ اسلم نے اپنے آپ کو بہلایا کہ شاید راستہ بھول گئے ہوں گے۔ آج شام لوٹ آئیں گے یا ہو سکتا ہے دن میں لوٹ آئے ہوں۔ وہ کسی بھی طرح اپنے آپ کو یہ بات سمجھا نہیں پا رہا تھا کہ اس نے کبوتر گنوا دیئے ہیں اور وہ اب اس کے پاس کبھی لوٹ کے نہیں آئیں گے۔ کبوتروں کے لوٹ آنے کا خیال اسے شام سے پہلے گھر لے آیا۔ ابھی دوسرے کبوتر اُڑنے کی تیاری میں تھے لیکن اس کی نظریں سرخ کبوتروں کو ڈھونڈ رہی تھیں جو کل سے لوٹے نہ تھے۔ اس نے سوچا شاید شام ڈھلے دوسرے کبوتروں کے ساتھ وہ لوٹ آئیں گے لیکن وہ شام میں بھی نہیں لوٹے۔

            اسلم کو جب اس کے دوست اکرم نے بتایا کہ سرخ کبوتر چودھری عنایت حسین کے کبوتروں میں شامل ہو گئے ہیں تو پہلے اسے یقین نہیں آیا لیکن جب اکرم نے کہا کہ اس نے خود اپنی آنکھوں سے سرخ کبوتروں کو چودھری عنایت حسین کے یہاں دیکھا ہے تو اسلم کے پاس مان لینے کے سوا کوئی اور چارہ کار نہ رہا۔

            دوسرے دن اسلم بذاتِ خود چودھری صاحب کی حویلی میں جا پہنچا۔ سلام دعا کے بعد اس نے چودھری صاحب سے کہا۔ میں اپنے سرخ کبوتر لینے آیا ہوں۔

            اسلم کی بات سن کر چودھری صاحب مسکرائے انہوں نے کہا۔ اسلم یہ کبوتر اپنی مرضی سے آئے ہیں ہمارے گاؤں کی یہ روایت ہے کہ ہم کبوتروں پر اپنی مرضی نہیں تھوپتے۔

            اسلم نے کہا۔ جی ہاں چودھری صاحب آپ بجا فرماتے ہیں لیکن یہ ضابطہ عام کبوتروں کے لئے ہے۔ میں ان سرخ کبوتروں کی بات کر رہا ہوں جو صرف میرے پاس ہیں۔

            چودھری صاحب نے کہا۔ دیکھو بیٹے کبوتر تو کبوتر ہے اس میں عام و خاص کی تفریق کیسی؟ ویسے یہ کبوتر اب تمہارے پاس ہیں نہیں! تھے۔ اب یہ تمہارے بجائے میرے پاس ہیں کیا سمجھے؟

            چودھری صاحب یہ میرے کبوتر ہیں اور انہیں میں اپنے ساتھ لے کر جاؤں گا۔

            دیکھو اسلم بچے نہ بنو۔ یہ کبوتر نہ میرے ہیں اور نہ تمہارے۔ یہ تو بس اپنی مرضی سے ہمارے پاس آ کر رہتے ہیں۔ اب کسی کے پاس رہنے بسنے سے کوئی کسی کا تھوڑے ہی ہو جاتا ہے۔ چودھری صاحب نے ٹھہر کر فلسفیانہ انداز میں کہا ہاں دل میں بسنے سے ہو جاتا ہے لیکن بسنے والا نہیں بلکہ بسانے والا۔

            یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں چودھری صاحب اسلم نے سوال کیا

            وہی جو تم سن رہے ہو برخورداراسلم، جب تک ان کی مرضی تھی یہ تمہارے ساتھ تھے اور جب تک ان کی مرضی ہو گی یہ ہمارے ساتھ رہیں گے یہ اپنی مرضی کے مختار ہیں۔

            لیکن چودھری صاحب آپ میری بات سمجھنے کی کوشش کریں میں ان کے بغیر نہیں رہ سکتا اس لیے انہیں ہر قیمت پر اپنے ساتھ لے جاؤں گا۔

            کیا زور زبردستی کر کے لے جاؤ گے؟ چودھری نے پوچھا۔

            ہاں زور زبردستی کر کے لے جاؤں گا۔ اسلم نے زور دے کر کہا۔

            چودھری صاحب بولے۔ تم بلاوجہ جذباتی ہو رہے ہو۔ میں نہ تو خود زور زبردستی کرنے کا قائل ہوں اور نہ زور زبردستی برداشت کرتا ہوں یا اس کی اجازت دیتا ہوں۔ یہ روایت چونکہ ہمارے گاؤں میں تسلیم شدہ ہے اس لیے کوئی بھی تمہارا ساتھ نہ دے گا۔ تم چاہو تو پنچایت بلو الو۔ میں اس مقدمہ میں سرپنچ کے عہدہ سے دستبردار ہو کر صرف مدعا الیہ بن جاؤں گا۔ مجھے یقین ہے کہ فیصلہ اتفاق رائے سے میرے ہی حق میں ہو گا بلکہ میرے کیا ان سرخ کبوتروں کے حق میں ہو گا جنہوں نے میرے باڑے میں آ کر رہنا پسند کر لیا ہے۔

            اسلم غصہ سے اٹھ کھڑا ہوا اور یہ کہہ کر نکل گیا کہ اب فیصلہ پنچایت میں ہو گا۔ لیکن بعد میں اسے لوگوں نے سمجھایا کہ ایسا مقدمہ دائر کرنے سے کیا حاصل جس کا فیصلہ یقیناً اس کے خلاف ہو گا۔ بالآخر پنچایت سے ایک روز قبل اسلم نے مقدمہ واپس لے لیا۔ دادا عمرو کی بات سچ ثابت ہو گئی۔ وفا شعاری اعتماد و محبت بڑھاتی ہے اور بے وفائی بدامنی اور انتشار کو جنم دیتی ہے۔ سرخ کبوتروں نے یہی کیا تھا۔ چودھری عنایت اور اسلم کی برسوں پرانی ہم سائے گی و دوستی میں بال ڈال دیا تھا۔

            وقت کا مرہم ہر زخم کو بھر دیتا ہے۔ آہستہ آہستہ اسلم کے زخم بھی بھر گئے وہ بھول گیا کہ اس نے کبھی سرخ کبوتروں کا شکار کیا تھا وہ کبھی اس کے صحن میں رہتے بستے تھے۔ ان کے باعث سارا گاؤں اس کو رشک کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ ان باتوں کو فراموش کر کے وہ اپنے معمول کے کاموں میں لگ گیا تھا کہ ایک دن اچانک کیا دیکھتا ہے شام میں اس کے کبوتروں سے قبل وہی سرخ کبوتر اس کے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں۔ تھوڑی دیر تک اسلم کو اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ اسے اس بات پر غصہ بھی آ یا کہ وہ اسے چھوڑ کر کیوں چلے گئے تھے لیکن کبوتروں کی آنکھوں میں ندامت اور احساس جرم کو دیکھ کر اس کا دل پسیج گیا۔

            اسلم نے دوڑ کر دونوں کبوتروں کو ہاتھوں میں لے لیا اور انہیں چومنے لگا ایک لمحہ میں سارے گلے شکوے دور ہو چکے تھے۔ وہ پھر ایک بار کبوتر خانہ گاؤں کا بادشاہ بن گیا تھا۔ ان کبوتروں نے پھر اس کا سر فخر و ناز سے بلند کر دیا تھا۔ آج اس کی خوشی کا عالم اس دن سے بھی زیادہ تھا جب پہلی بار وہ اس کبوتر کے جوڑے کو اپنے گھر لایا تھا۔ کسی چیز کی قدر و قیمت کا احساس اسے گنوانے کے بعد ہی ہوتا ہے۔ لیکن ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ انسان کسی شئے کو گنوائے اور پھر پالے۔ اسلم اپنی خوش نصیبی پر پھولا نہیں سمارہا تھا۔

            چودھری عنایت حسین کو پتہ چل گیا۔ سرخ کبوتر دوبارہ اسلم کے پاس لوٹ چکے ہیں۔ اس بات کا انہیں اس قدر صدمہ ہوا کہ وہ اپنی اس تقریر کو بھول گئے جو انہوں نے کبھی اسلم کو سمجھانے کے لیے کی تھی۔ دوسرے دن انہوں نے اسلم کو اپنی حویلی بلا بھیجا۔ اسلم سمجھ گیا اسے کیوں بلایا جا رہا ہے۔ وہ نہایت اعتماد کے ساتھ حویلی پہنچا۔ دیر تک دونوں خاموشی سے چائے پیتے رہے۔ اس کے بعد چودھری عنایت حسین نے اپنے پر وقار انداز میں کہا۔

            اسلم تم تو جانتے ہی ہو کہ میں نے تمہیں کیوں بلایا ہے؟

            اسلم نے کہا۔ جی ہاں چودھری صاحب۔ میں اچھی طرح جانتا ہوں لیکن اس سلسلے میں آپ کو اپنی ہی ایک بات یاد دلانا چاہتا ہوں اور ایک بات عرض کرنا چاہتا ہوں۔

            چودھری صاحب نے کہا۔ بولو۔

            اسلم نے کہا۔ پہلے آپ کی بات کہ آپ نہ زور زبردستی کرتے ہیں نہ برداشت کرتے ہیں اور نہ اس کی اجازت دیتے ہیں اور میری گذارش کہ آپ پنچایت بلوا لیں۔ سرپنچ کے عہدے پر قائم رہیں مجھے یقین ہے کہ ایک رائے کے علم الرغم اکثریت کی رائے سے فیصلہ میرے حق میں ہو جائے گا۔ اس لیے کہ یہ ہمارے گاؤں کی تسلیم شدہ روایت ہے اور کوئی بھی آپ کا ساتھ نہیں دے گا۔

            چودھری عنایت حسین عرصہ دراز سے سرپنچ کے عہدے پر فائز تھے انہوں نے بے شمار تنازعات سلجھائے تھے لیکن ان کا اپنا مقدمہ آج تک پنچوں کے سامنے پیش نہ ہوا تھا اور اب اگر ہوتا بھی تو ان کی شکست یقینی تھی۔ اس احساس سے ان کا دل ڈوبنے لگا۔ حالانکہ اس مسئلہ کا آسان سا حل یہ تھا کہ وہ ان کبوتروں کی محبت اپنے قلب سے نکال دیتے مگر وہ ایسا نہ کر سکے یہاں تک کہ ان کے دل کی دھڑکن بند ہو گئی۔ یکبارگی اسلم کو ایسا لگا کہ اس نے کبوتروں کی خاطر اپنے دیرینہ دوست کو موت کے گھاٹ اُتار دیا ہے لیکن سرخ کبوتر کو پا لینے کی خوشی اس احساس جرم پر غالب آ گئی۔

            چودھری عنایت حسین کی موت کے بعد ایک نیا تنازعہ پیدا ہو گیا کہ آخر سر پنچ کسے بنایا جائے؟ باقی ماندہ پنچوں میں سے ہر ایک اس عہدہ کا دعویدار تھا۔ وہ پنچایت جو لوگوں کے جھگڑے چکاتی تھی خود اپنے جھگڑے میں اُلجھ گئی تھی۔ کافی دنوں تک اس معاملہ میں تعطل رہا بالآخر یہ طے ہوا کہ کبوتر خانہ گاؤں کے سرپنچ کا تعین کبوتروں کی تعداد پر ہو۔ گویا معیار حق کبوتروں کی حمایت ٹھہری۔ جس کے پاس سب سے زیادہ کبوتر ہوں گے وہی سرپنچ ہو گا۔ چاہے وہ سابقہ پنچایت کا رکن ہو یا نہ ہو۔ دو ہفتہ بعد کی ایک تاریخ طے کی گئی جس دن سب لوگوں کو پنچایت میں اپنے کبوتروں کی گنتی کرانے کیلئے حاضر ہونا تھا۔

            اسلم نے پوچھا۔ کیا میرے سرخ کبوتروں کا شمار بھی عام کبوتروں جیسا ہو گا؟ اس سوال سے سب سناٹے میں آ گئے لیکن چونکہ اسلم کے علاوہ تمام فیصلہ کرنے والے سرخ کبوتروں سے محروم تھے اس لیے فیصلہ ہوا کہ کبوتر، کبوتر ہے سرخ ہو یا سفید ہر کبوتر ایک کبوتر شمار کیا جائے گا۔

            اس فیصلہ کے بعد گاؤں میں ایک کہرام مچ گیا۔ ہر کوئی اپنے کبوتروں کی تعداد بڑھانے میں لگ گیا۔ ہر ایک دوسرے کے کبوتروں کو رجھانے میں مصروف تھا۔ کھیتی باڑی کا کام تقریباً ٹھپ ہو گیا تھا۔ دوسروں کے کبوتر اپنے باڑے میں شامل کرنے کی سعی جب نقطۂ عروج پر پہنچ کے بے اثر ہو گئی تو دوسرے کے کبوتروں کو بھگانے کی کوششیں ہونے لگیں۔ اس لیے کہ اوپر جانے کے لیے خود اوپر جانا ضروری نہیں ہے۔ اگر دوسرے کی ٹانگ کھینچ کر اسے نیچے لے آیا جائے تب بھی کام ہو جاتا ہے۔ دوسروں کے کبوتروں میں غلطاں لوگ خود اپنے کبوتروں سے غافل ہو گئے جس سے غیروں کو ان پر ہاتھ صاف کرنے کا موقع مل گیا۔ بہرحال جنون کا نصف ماہ بھی گذر گیا۔ ان پندرہ دنوں میں کبوتر خانہ گاؤں میں وہ سب ہو گیا جو پچھلے پندرہ سالوں میں نہ ہوا تھا لیکن ابھی اصل کھیل باقی تھا۔

            پنچایت کی رات ہوا کے جھونکے ایک خاص آواز کے ساتھ تیز تیز چلنے لگے۔ صبح جیسے ہی گاؤں والوں نے اپنے کبوتروں کے ڈربے انہیں پنچایت لے جانے کے لیے کھولے وہ اُڑ اُڑ کر ہوا ہونے لگے۔ گویا وہ اسی کے انتظار میں تھے۔ کبوتروں کا یہ رویہ ان کے معمول کے خلاف تھا اس لیے کہ وہ عام طور سے ڈربہ سے باہر نکلنے کے بعد کچھ سستاتے پر جھاڑتے پھر دانہ چگتے اور اس کے بعد پرواز بھرتے لیکن آج وہ نہ سستائے اور نہ انہوں نے دانے کی جانب دیکھا۔ دیکھتے دیکھتے کبوتر خانہ گاؤں کے سارے کبوتر رفو چکر ہو چکے تھے۔

             گاؤں والے پریشان تھے کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ ان لوگوں کو کبوتروں کی اس قدر فکر تھی کہ وہ تیز سے تیز تر چلنے والے ہوا کے تھپیڑوں سے یکسر غافل ہو گئے لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ گھروں کی چھت بھی آندھی اُڑائے لیے جا رہی ہے۔ پیڑ اُکھڑنے لگے ہیں، دیواریں گرنے لگی ہیں تو انہیں ہوش آیا۔ ہوا کے جھکڑ اس قدر تیز تھے کہ گاؤں والے بھی تنکوں کی طرح ہواؤں کے دوش پر اُڑے جا رہے تھے۔ کبوتروں کی مانند، پروں سے محروم، ہوا میں تیرنے یا اپنا توازن قائم رکھنے سے قاصر۔

            خالق کائنات نے انہیں دور دراز کی مٹی سے بنایا تھا۔ ہوا انہیں ان دور دراز کے مقام تک اُڑا کر لے جاتی اور ان کی اپنی مٹی کے پاس پٹخ دیتی۔ وہ اس پر گرتے اوراس میں رل مل جاتے۔

جب آندھی رکی تو کبوتر خانہ گاؤں میں نہ کبوتر تھے اور نہ کبوتر باز تھے!

٭٭٭


 

 

نشیب و فراز

 

             میرے والد گاؤں میں امامت کے فرائض انجام دیتے تھے ہم لوگ مسجد سے متصل حجرے میں رہتے تھے۔ سارا گاؤں میرے والد کا معتقد تھا لوگ اپنے گوناگوں مسائل کے لئے ان سے رجوع کرتے تھے۔ کوئی عبادات کے بارے میں ان سے پوچھتا کوئی معاملات کے سلسلے میں ان سے رہنمائی طلب کرتا، کوئی اپنے خاندانی مسائل کا تصفیہ کرنے کے لئے ان کے پاس آتا تو کوئی اپنے معاشی مسائل کو حل کرنے کے لئے ان کی خدمت میں حاضر ہوتا۔ وہ ان میں دلچسپی لیتے اور انہیں حل کرنے کی حتی المقدورسعی کرتے۔ کسی کے گھر میں خوشی یا غم کا کوئی موقع ہوتا تو سب سے پہلے امام صاحب کو اطلاع دی جاتی اور سب سے پہلے وہ حاضر بھی ہو جاتے۔ ہمارا چھوٹا ساگاؤں ایک بڑے سے خاندان کی طرح تھا جس کے سربراہ میرے والد صاحب تھے۔

             والد صاحب کے طفیل ہم بھائی بہنوں کی گاؤں میں بڑی عزت تھی وقت اچھا گزر رہا تھا مگر گردشِ ایام کے الٹ پھیر سے گھر کے بچے جوانی کی دہلیز میں داخل ہو گئے اور والد صاحب ضعیف ہو گئے۔ ایک دن انہوں نے جمعہ کی نماز کے بعد گاؤں والوں کو رکنے کے لئے کہا۔ سب لوگ بیٹھے رہے۔ اس کے بعد انہوں گاؤں سے اپنی قریبی تعلق کا اظہار کیا انہیں یاد دلایا کہ کس طرح وہ نوعمری میں مدرسہ سے فارغ ہو کر یہاں آئے تھے اس وقت مسجد کا کیا حال تھا۔ مدرسہ کس حالت میں تھا اور وہ خود کیسے تھے؟ پھر دھیرے دھیرے کیسی تبدیلیاں رونما ہوئیں اور وہ وقت بھی آ گیا کہ جب وہ بوڑھے ہو چکے ہیں۔

             والد صاحب اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے بولے انہیں لگتا ہے کہ اب وہ امامت کے فرائض بحسن و خوبی ادا نہیں کر سکتے۔ نائب امام کافی عرصہ سے اپنی ذمہ داری ادا کر رہے ہیں۔ انہیں ترقی دے کر امامت کی ذمہ داری پر فائز کر دیا جانا چاہئے۔ انہوں نے اپنی سبکدوشی کی خواہش کا اظہار بڑے آرام سے کر دیا مگر گاؤں والوں پر یہ خبر بم کی طرح گری ان لوگوں نے کبھی اس زاویہ سے سوچا ہی نہیں تھا۔ ان کے ذہن میں مختلف خدشات کلبلانے لگے تھے کوئی سوچ رہا تھا

             اس عمر میں امام صاحب کہاں جائیں گے؟

             ان بچوں کا کیا ہو گا؟

             دو بیٹے ہیں وہ بھی بے روزگار؟

             تین بیٹیاں ہیں جو شادی کے لائق ہونے والی ہیں؟

            اور پھر امامت سے سبکدوش ہونے کے بعد ان کا گزر بسر کیسے ہو گا؟

             ان کے نہ کھیت ہیں اور نہ کاروبار؟ گاؤں والے پنشن نام کے کسی چیز سے واقف نہیں تھے جس میں لوگوں کو بغیر کام کے تنخواہ ملتی ہے۔

             مسجد میں قبرستان کی سی خاموشی چھا گئی سب لوگ سوگوار تھے کچھ لوگوں کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ گاؤں کے سرپنچ شرف یاب خان کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا میں امام صاحب کی اپنے باپ سے زیادہ عزت کرتا ہوں انہوں نے میرے کان میں اذان دی انہوں نے مجھے الف ب سکھایا اور اس قابل بنایا کہ میں ان کے اور آپ سامنے کھڑا ہوا ہوں۔ آج تک میں تو کیا گاؤں والوں میں سے شاید ہی کسی نے امام صاحب سے کبھی اختلاف کیا ہو؟ ہم سب نے ہمیشہ ہی ان کے ہر فیصلہ کو سر آنکھوں پر رکھا لیکن آج میں ذاتی طور اس حکم کی تعمیل میں تامل محسوس کر رہا ہوں۔

             امام صاحب بولے شرف یاب بیٹے میں ان جذبات کی قدر کرتا ہوں لیکن دنیا جذبات سے نہیں چلتی ہر ایک کو اپنے وقت پر یہاں آنا ہوتا ہے یہاں سے جانا ہوتا ہے۔ ہر کوئی صحیح وقت پر اپنا کام شروع کرتا ہے اورمناسب موقع پر سبکدوش ہو جاتا ہے۔

             مجمع میں سے ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے پوچھا میرا سوال یہ ہے کہ صحیح اور مناسب وقت کا تعین کیسے کیا جانا چاہئے؟

            امام صاحب مسکرائے اور انہوں نے کہا شاباش اسی طرح کے معقول سوالات انسان کو حقیقت کی معرفت کرواتے ہیں صحیح وقت وہ ہوتا ہے جب انسان ذمہ داری کو سنبھالنے کے قابل ہو جائے اور مناسب وقت وہ ہوتا ہے جب وہ انہیں ادا کرنے سے معذور ہو جائے۔

            دوسرا بولا کون کہتا ہے کہ آپ معذور ہیں؟

             کسی کو یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے آپ لوگ نہیں کہتے اس لئے کہ آپ کی آنکھوں پر عقیدت کی عینک چڑھی ہوئی ہے۔ لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میں چاہتا ہوں کہ یہ کہنے کی نوبت آنے سے قبل میں از خود سبکدوش ہو جاؤں۔

             لیکن آپ سبکدوش ہو کر کہاں جائیں گے؟

            میں وہیں جاؤں گا جہاں سے آیا تھا۔ میں اپنے گاؤں چلا جاؤں گا۔

             آپ کا گاؤں؟

            آپ کا؟ ۔۔۔۔۔ اس گاؤں کے سوا کوئی اور گاؤں بھی ہے؟ ۔۔۔۔۔ یہ ہم نہیں جانتے؟

            ۔۔۔۔۔۔ ہم نے کبھی آپ کو وہاں جاتے آتے نہیں دیکھا! ۔۔۔۔

            ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح یہ ہمارا گاؤں ہے اسی طرح آپ کا بھی یہی گاؤں ہے؟ ۔۔۔۔۔

            کس گاؤں میں جانے کی بات آپ کر رہے ہیں؟ سوالات کا سیلاب امڈ پڑا تھا۔

            ہاں تمہاری بات درست ہے۔ میں نے بھی اس گاؤں کو کبھی پرایا نہیں اپنا ہی سمجھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ میں یہاں ایک کام کرنے کے لئے آیا تھا جو اب ختم ہو چکا ہے اس لئے مجھے واپس جانا چاہئے۔

             لیکن آبائی گاؤں میں آپ کا کون ہے؟

            میں نہیں جانتا کہ کون ہے اور کون نہیں ہے۔ کچھ لوگ کبھی کبھار یہاں سے گزرتے ہوئے ملنے آ جاتے تھے تو ان سے خیر خبر مل جاتی تھی لیکن وہ سب لوگ میری طرح بوڑھے ہو چکے ہیں۔ انہوں نے آنا جانا چھوڑ دیا ہے نئی نسل کو میں نہیں جانتا اس لئے وہ بھی مجھے نہ جانتی ہے اور نہ ملنے آتی ہے۔ اس لئے میں اپنے گاؤں والوں کے بارے میں فی الحال بہت کم جانتا ہوں۔

ٍ         کیا آپ کی وہاں کھیتی باڑی ہے؟

            کھیتی باڑی جو وراثت میں ملی تھی وہ تو میں نے کاشت کاری کرنے والوں کو حبہ کر دی اس لئے کہ امامت کی ذمہ داری قبول کرنے کے بعد زراعت کا خیال میں نے اپنے دل سے نکال دیا تھا۔

             سوالات کا لامتناہی سلسلہ لحظہ بہ لحظہ امام صاحب کو گاؤں کے سرحدوں کے قریب ڈھکیلتا جاتا تھا۔ شرف یاب نے اس بات کو محسوس کر لیا اور وہ کھڑا ہو گیا سب لوگ خاموش ہو گئے۔ شرف یاب نے کہا باتیں بہت ہو چکی ہیں آپ لوگوں کو گھر جانا ہے کھانا کھانا ہے۔ آپ جائیں نماز عصر کے بعد گاؤں کی پنچایت میں امام صاحب کی تجویز پر فیصلہ ہو گا اور بعد نماز مغرب آپ سب کو بتلا دیا جائے گا۔ لوگ بوجھل قدموں سے اٹھے اور بغیر کچھ کہے سنے اپنے اپنے گھروں کی جانب چل پڑے۔ امام صاحب کو ایسامحسوس ہوا گویا یہ لوگ ان کی تدفین سے لوٹ رہے ہیں۔ اس روز گاؤں میں سوائے امام صاحب اور ان کے اہل خانہ کے کسی نے کھانا نہیں کھایا۔ جب مردوں نے خواتین کو امام صاحب کا فیصلہ بتلایا تو وہ بھی غم زدہ ہو گئیں اور بغیر کھائے لیٹ گئیں۔ ہر کسی کو مغرب کی نماز کا انتظار تھا۔

            نماز جمعہ کو مسجد میں جس قدر بھیڑ ہوتی تھی نماز مغرب میں عام طور پر اس کے مقابلے بہت کم نمازی ہوتے تھے لیکن اس روز تعداد بڑھ گئی تھی۔ ایسے لوگ جنھوں نے جمعہ کی نماز کسی وجہ سے دوسرے علاقہ میں پڑھی تھی اور شام میں گھر لوٹے تھے وہ بھی نماز مغرب میں حاضر ہو گئے۔ ایسا عجیب و غریب ماحول پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔ بعد نماز مغرب شرف یاب خان اٹھ کر مائک پر آئے انہوں نے کہا گاؤں والو میرے ہوش سنبھالنے کے بعد آج پہلی مرتبہ گاؤں کی پنچایت اس طرح سے ہوئی کہ اس میں امام صاحب شریک نہیں تھے۔ ہم سب نے امام صاحب کے فیصلے پر غور کیا چونکہ ہم نے آج تک امام صاحب کے کسی فیصلہ سے روگردانی نہیں کی اسی روایت کو قائم رکھتے ہوئے ہم نے ان کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کر دیا۔ یہ فیصلہ مجمع پر بجلی بن کر گرا۔

             شرف یاب نے بات جاری رکھی۔ امام صاحب کی حیثیت ہمارے اس خاندان کی سربراہ کی سی ہے اس لئے ہم ان سے کچھ گذارشات کرنے کا حق رکھتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ وہ غور فرمائیں گے نیز جن کو مناسب سمجھیں گے شرف قبولیت عطا فرمائیں گے۔ ہماری پہلی گذارش تو یہ ہے کہ امام صاحب اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونے کے باوجود اسی گاؤں میں قیام فرمائیں۔ آپ کی موجودگی ہم گاؤں والوں کے لئے سایۂ رحمت ہے۔ نئے امام مکرم خان صاحب مکان تبدیل کرنے کے بجائے اپنے اسی گھر میں رہیں گے جہاں پہلے سے رہائش پذیر ہیں اس صورت میں امام صاحب کی رہائش اسی مکان میں ہو گی جس میں وہ رہتے ہیں۔ پنچایت کی یہ تجویز بھی ہے کہ امام صاحب کے دونوں عالم دین بیٹے گاؤں کے مدرسے میں مدرسین کے فرائض انجام دیں تاکہ ان کے علم و فضل سے گاؤں والے استفادہ کر سکیں۔ ہماری امام صاحب سے گذارش ہے کہ ہماری ان تجاویز کو قبول فرمائیں۔

             امام صاحب کھڑے ہوئے اور پر وقار انداز میں بولے گاؤں والو! جس عقیدت و محبت کا مظاہرہ آپ لوگوں نے کیا ہے اس کی توقع میں نے کبھی نہیں کی تھی۔ پنچایت کے تمام فیصلے میں قبول کرتا ہوں سوائے ایک کے۔ حاضرین محفل کی سانس اس ایک پر جا کر اٹک گئی۔ امام صاحب بولے میری سبکدوشی سے مدرسہ میں ایک مدرس کی جگہ خالی ہوئی ہے اس پر اگر پنچایت اور نئے صدر مدرس مولانا مکرم خان صاحب مناسب سمجھیں تو میرے بیٹے اعظم کو رکھ لیں۔ غلام اعظم اسے قبول کر لے تو مجھے خوشی ہو گی لیکن جہاں تک غلام رسول کا سوال ہے نہ تو اس کے لئے جگہ ہے اور نہ ہی وہ اس قابل ہوا ہے۔ وہ تو ابھی بچہ ہے بچوں کو کیا پڑھائے گا اس لئے فی الحال میں  اسے مدرس بننے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ امام صاحب کی یہ شرط گاؤں والوں کے لئے کسی خاص اہمیت کی حامل نہیں تھی ان کے لئے توبس یہی کافی تھا کہ امام صاحب گاؤں میں رکنے کیلئے راضی ہو گئے تھے۔

             شرف یاب پھر مائک پر آئے اور انہوں نے نے کہا امام صاحب کا ہر حکم سر آنکھوں پر ہمیں خوشی ہے کہ انہوں نے ہماری استدعاکو قبول فرمایا اور اس گاؤں میں رہنا پسند کیا۔ اب ایک ذاتی گذارش میں امام صاحب سے کرنا چاہتا ہوں اگر وہ مناسب سمجھیں تو اپنی بڑی بیٹی نیک زاد بانو کا نکاح میرے بیٹے ظفر یاب سے کرنے پر اپنی رضامندی بتلائیں تاکہ امام صاحب کے ساتھ اس گاؤں کا مزید ایک رشتہ قائم ہو جائے۔

             امام صاحب مسکرائے مائک پر آئے انہوں نے کہا مجھے یہ رشتہ منظور ہے لیکن میں اپنی بیٹی کی رضامندی معلوم کر کے شرف یاب کو بتلا دوں گا اس کے بعد وہ مولانا مکرم خان کی جانب بڑھے جو سرجھکائے بیٹھے تھے امام صاحب کو اپنے سے قریب آتا محسوس کر کے وہ کھڑے ہو گئے امام صاحب نے ان کے سر کی دستار کو اتار کر قریب منبر پر رکھا اور پھر اپنے سر کی دستار ان کے سرپر رکھ دی مجمع پکار اٹھا نعرہ تکبیر اللہ اکبر، نعرہ تکبیر اللہ اکبر۔ لوگ امام صاحب سے اس طرح گلے مل رہے تھے جیسے دلہن کو میکے سے سسرال روانہ کرتے وقت ملا جاتا ہے۔

             اس تقریب کے بعد غلام رسول کا ایک بھائی برسر روزگار ہو گیا ایک بہن کا نکاح طے ہو گیا لیکن دو بہنیں ابھی باقی تھیں اور خود اسے روزگار تلاش کرنا تھا۔ یہ کام آسان نہیں تھا گاؤں میں کوئی کام اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا۔ کاشتکاری کے لئے زمین درکار تھی۔ امام صاحب کے لڑ کے کو اپنے کھیت پر مزدور کے طور پر رکھنا گاؤں والوں کو گراں گزرتا تھا۔ دوکانیں اس قدر چھوٹی تھیں کہ ان پر نوکر چا کر کی ضرورت ہی نہیں پڑتی تھی۔ مالک اور اہل خانہ ہی اسے چلانے کے لئے کافی ہو جاتے تھے بلکہ ان میں سے بھی کچھ مزدوری کرتے تو کچھ ملازمت کے لئے دوسرے شہروں کی جانب نکل جاتے تھے۔ ان مہاجرین میں ایک غلام رسول کا دوست محمود خان تھا جو شارجہ میں ٹیکسی چلاتا تھا اور اس وقت گاؤں میں چھٹی گذار رہا تھا۔ محمود خان کے پاس کوئی کام نہ تھا دن بھر خالی خولی وقت گذارتا، کھاتا پیتا اور سوجاتا تھا۔ لیکن کھانے سونے کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ گاؤں کے بے روزگار دوستوں کے ساتھ گپ شپ کرنا اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا جن میں سے ایک امام صاحب کا چھوٹا بیٹا غلام رسول خان بھی تھا۔ ایک دن غلام رسول نے محمود سے پوچھا یار تمہارے منہ سے متحدہ عرب امارات کی اس قدر تعریف سننے کے بعد ایک بار وہاں جانے کو دل کرتا ہے۔

             محمود خان نے زوردار قہقہہ لگایا اور بولا وہاں جانے کے لئے صرف دل کافی نہیں بل کی ضرورت ہوتی ہے۔

            یہ بل کیا سانپ کا بل ہے؟

            ا رے سانپ کے بل سے بھی خطرناک ہے یہ بل۔ انگریزی میں روپئے اور رسید دونوں کو بل کہتے ہیں۔

            انگریزی میں روپئے کو بل کہتے ہیں تو یہ سانپ سے خطرناک کیسے ہو گیا؟

             اوہو اتنے بڑے عالم دین کے بیٹے ہو کر اتنی معمولی بات نہیں جانتے سانپ کے زہر کا تریاق موجود ہے اور اگر بروقت علاج ہو جائے تو زہر کا اثر زائل بھی ہو جاتا ہے۔ اگر علاج نہ ہو پائے تب بھی آدمی مر جاتا ہے اور کھیل ختم۔ ایک بار کی موت اور ہمیشہ کی چھٹی لیکن روپیوں کے زہر سے آدمی نہ مرتا ہے نہ زندہ رہتا ہے وہ بدستور کرب میں گرفتار رہتا ہے اور سب سے خاص بات، یہ زہر بے تریاق اگر ایک بار چڑھ جائے تو بس موت کے ساتھ ہی اترتا ہے۔

            غلام رسول بولا یار محمود امارات میں جا کر تو تم فلسفی ہو گئے ہو۔

             یہی سمجھ لو وہاں کے انسان چلتی پھرتی کتابیں ہیں ہم ٹیکسی ڈرائیور دن بھر نت نئی کتابوں کو پڑھتے رہتے ہیں اسی لئے ہمارے علم کی وسعت لائبریری کے اندر محصور رہنے والے بڑے بڑے دانشوروں سے زیادہ ہوتی ہے۔

             لیکن اس علم کا کیا فائدہ جو ایک قریبی دوست کی وہاں تک نہ پہنچا سکے غلام رسول نے لوہا گرم دیکھ کر ضرب لگائی۔

             میں نے کب کہا کہ تم وہاں نہیں آ سکتے؟ اور میں اس کے لئے کوشش نہیں کروں گا؟ میں تو صرف یہ کہہ رہا تھا کہ تیاری کرو مگر جلد بازی نہ کرنا۔

             دوسری بات تو سمجھ میں آتی ہے پہلی بات سمجھ میں نہیں آئی۔

             لگتا ہے تم امارات آنے کے لئے سنجیدہ ہو؟

             غلام رسول نے جواب دیا تو اور کیا تم مذاق سمجھ رہے تھے؟

 اچھا تو دیکھو ابھی پندرہ دن بعد میری چھٹیاں ختم ہو جائیں گی میں یہاں سے پاورش جاؤں گا تو تم ایسا کرنا کہ میرے ساتھ چلنا وہاں میرا ایک رشتہ دار ٹرانسپورٹ کا کاروبار کرتا ہے اس میں تم کام شروع کر دینا اور ساتھ میں گاڑی چلانا بھی سیکھ لینا۔ لائسنس بنانا اس سے تمہارا شہر میں گزارہ بھی ہو جائے گا، رہائش بھی مل جائے گی اور گاڑی پر ہاتھ بھی صاف ہو جائے گا۔ تب تک میں تمہارے لئے ویزا کا بندوبست کرتا ہوں اور پھر ٹکٹ اور ویزا بھیج کر تمہیں بلا لوں گا یہ ہے تیاری۔

            بہت خوب لیکن پاورش جانے سے پہلے تم ان پندرہ دنوں میں مجھے گاؤں کے اندر بھی تو گاڑی چلانا سکھا سکتے ہو۔

            ہاں یہ بھی ہو سکتا ہے سرپنچ شرف یاب کی گاڑی اکثر کھڑی رہتی ہے تم اپنے والد صاحب سے کہہ کر اسے چلانے کی اجازت حاصل کر لو میں تمہیں گاڑی چلانا سکھادوں گا۔

             اس میں والد صاحب کی کیا ضرورت کیا شرف یاب مجھے نہیں پہچانتے جو سفارش کی ضرورت لاحق ہو۔

             محمود خان کو غلام رسول کی خود اعتمادی پسند آئی وہ بولا یہ ہوئی نا مردوں والی بات۔ شام میں ہم دونوں شرف یاب کی حویلی پر چلیں گے اور میں اس سے تمہارے بارے میں بات کروں گا مجھے یقین ہے یہ کام ہو جائے گا۔۔۔۔۔ ان شاء اللہ

             دو ہفتے کے اندر غلام رسول گاڑی چلانا سیکھ گیا اور محمود خان کے ساتھ پاورش جانے کے لئے تیار ہو گیا۔ والد صاحب نے اسے بڑی محبت اور شفقت سے روانہ کیا ماں اور بہنوں کے آنکھوں میں آنسو تھے لیکن بھائی غلام اعظم اس کے ساتھ تھا وہ بس اڈے تک چھوڑنے کے لئے آیا اور راستہ میں بڑے بھائی کی حیثیت سے نصیحت کی غلام رسول تم شہر جا رہے ہو۔ شہروں کو مایا نگری کہا جاتا ہے وہاں جا کر لوگ کھو جاتے ہیں تم اپنا خیال رکھنا۔

            مایا نگری میں اپنا خیال کیسے رکھا جاتا ہے؟ غلام رسول نے معصومیت سے پوچھا

             غلام اعظم نے جواب دیا ’’زہد‘‘ مومن کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ مادہ پرستی کے زہر پر تریاق ہے ’’زہر اور تریاق‘‘ ان الفاظ نے غلام رسول کے دل میں محمود کی گفتگو تازہ کر دی۔ اس نے سوچا محمود نہیں جانتا کہ تریاق موجود ہے۔ نا فہم ہے بے چارہ۔

            پاورش میں اسے پتہ چلا کہ اس شہر کا اصلی نام ’پیشہ ور‘ ہے۔ وہاں بڑی سخت زندگی تھی وہاں کے لوگ اس کے والد صاحب کو نہیں جانتے تھے۔ وہ ان کے لئے امام صاحب کا بیٹا اور ایک معزز عالم دین نہیں بلکہ ٹرک پر کام کرنے والا ایک مزدور تھا۔ انہوں اس سے خوب دبا کر کام لیا۔ اور وہی زمانہ تھا جب اس نے جفا کشی کی تعلیم حاصل کی۔ یہ ایک ایسی عملی تربیت تھی جو اس کے والد صاحب اور ان کا مدرسہ اسے نہ دے سکا تھا۔ لیکن اس دوران وہ ساری باتیں جو اس نے برسوں کی محنت سے سیکھی تھیں ایک ایک کر کے بھولتا گیا۔ قرآن مجید کی تلاوت کا شغف سب سے پہلے ختم ہوا اور بالآخر نمازوں کا سلسلہ بھی ٹوٹ گیا۔

             جمعہ کے جمعہ نماز پڑھنا وہ اپنے لئے کافی سمجھنے لگا اس لئے کہ اس کے ساتھ رہنے اور کام کرنے والے کچھ لوگ صرف عیدین کی نمازوں پر اکتفاء کئے ہوئے تھے۔ ان کے پاس گپ شپ کے لئے، سیر و تفریح کے لئے، ٹی وی کے لئے، فلموں کے لئے، غرض کہ ہر شئے کے لئے وقت تھا لیکن نماز کے لئے نہیں تھا۔ جس وقت محمود خان اسے پاورش میں چھوڑ کر گیا تھا تو گویا وہ لمبے تختہ والے (سی سا) جھولے پر اوپر بیٹھا ہوا تھا۔ نیکیوں کی بلندی پر تھا اور دوسری جانب بدی زمین کو چھو رہی تھی لیکن آہستہ آہستہ توازن بدلنے لگا۔ یہاں تک کہ چھ ماہ بعد جب محمود یار خان نے ویزا اور ٹکٹ روانہ کیا تو غلام رسول خان جھولے کی دوسرے سرے پر تھا۔ بدی کا پلہ آسمان کو چھو رہا تھا اور نیکی زمین بوس تھی۔

            غلام رسول کو اس کی مطلق پرواہ نہیں تھی وہ خوش تھا کہ گاڑی پر ہاتھ صاف ہو گیا ہے، لائسنس بن گیا ہے، پاسپورٹ تیار ہے، مالک اس پردوسرے ملازمین کی بہ نسبت زیادہ اعتماد کرتا ہے۔ اس نے تنخواہ میں بھی معمولی سا اضافہ کر دیا ہے۔ ان کامیابیوں پر نازاں و فرحاں غلام رسول خان شارجہ پہنچ گیا۔ محمود یار خان نے ائیر پورٹ پر اس سے ملاقات کی اور اپنے ڈیرے پر لے آیا۔ اس کے ڈیرے میں چار آدمی رہتے تھے ایک ٹیلی ویژن تھا جس میں ہندی فلم چل رہی تھی چاروں لوگ مزہ لے رہے تھے کہ اچانک عشاء کی اذان ہوئی۔ محمود یار خان اٹھا اور اس نے ٹیلی ویژن بند کر دیا۔ غلام رسول نے پوچھا یہ کیا کیا تم نے؟

             محمود بولا تم نے سنا نہیں اذان ہوئی۔ کمرے میں موجود ایک آدمی حمام کی جانب چل پڑا اور وضو بنا نے لگا۔ غلام رسول کی طبیعت پر فلم کا منقطع ہونا گراں گزر رہا تھا۔ لیکن آگے بڑھ کر دوبارہ ٹیلی ویژن چلانے کی جرأت اس کے اندر نہیں تھی ایک ایک کر سب لوگ مسجد کی جانب روانہ ہو گئے۔ غلام رسول نے آگے بڑھ کر ٹیلی ویژن چلا دیا اور پھر فلم دیکھنے لگا پانچ منٹ بعد مسجد سے اقامت کی آواز آئی اور ایک دھماکے کے ساتھ روشنی چلی گئی۔ ٹیلی ویژن بند ہو گیا اس نے سوچا ارے یہ تو پاکستان والی بات ہے یہاں بھی بجلی جاتی ہے۔ اب کیا کرے فلم بند ہو چکی تھی کمرے میں اندھیرا تھا کوئی اور موجود نہیں تھا وہ سوچتا رہا اس اندھیرے میں کیا کرے اسے خیال آیا چلو نماز ہی پڑھ لیں وہ وضو کے لئے حمام میں داخل ہوا تو ہاتھ کو ہاتھ نہ سوجھتا تھا، کرے تو کیا کرے؟ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا اس نے سوچا چلو مسجد میں وضو کرتے ہیں وہاں جا کر وضو سے فارغ ہوا ور باہر نکلا تو لوگ مسجد سے واپس آ رہے تھے محمود یار خان نے اسے دیکھا تو سمجھا کہ وہ بھی نماز سے واپس آ رہا ہے۔ غلام رسول بولا یہ تو پاکستان والی بات ہو گئی۔

             محمود یار خان نے کہا نہیں وہاں بجلی وقتاً فوقتاً جاتی رہتی ہے یہاں منصوبہ بند طریقہ پر بجلی بند کی جاتی ہے تاکہ مرمت وغیرہ کا کام کیا جا سکے۔ یہاں یہ حادثاتی معاملہ لگتا ہے کوئی ٹرانسفارمر وغیرہ جل گیا ہو گا، لیکن چند منٹوں میں بجلی بحال کر دی جائے گی۔ محمود کی بات حرف بحرف سچ ثابت ہوئی کمرے پر آنے تک بجلی آ چکی تھی محمود نے آگے بڑھ کر ٹیلی ویژن شروع کیا تو وہ بند ہی رہا۔

             ارے اسے کیا ہو گیا؟ اس کمرے میں موجود بجلی کا کام کرنے والے خیر دین نے پوچھا۔

            غلام رسول بولا شاید بجلی چلے جانے سے خراب ہو گیا ہو۔

             خیر دین ہنسا اور بولا یار محمود تمہارا دوست تو بجلی کی ابجد بھی نہیں جانتا۔ بجلی کا آنا جانا تو انہیں آلات کو خراب کر سکتا ہے جو چل رہی ہوں کسی بند مشین پر بھلا وہ کیسے اثر انداز ہو سکتا ہے؟ بات معقول تھی لیکن ٹی وی بند کب تھا؟

             محمود بولا ٹھیک ہے الکٹرکل انجنیئر صاحب لیکن پھر یہ ٹی وی کیوں بند ہو گیا؟ اذان کے وقت تک تو اچھا بھلا چل رہا تھا، میں نے خود اسے بند کیا تھا۔

            ہاں تمہاری بات صحیح ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ یہ ٹی وی بجلی کے آنے جانے سے خراب نہیں ہوا ہے اس کی وجہ کچھ اور ہے۔ خیر دین بولا

             غلام رسول جانتا تھا کہ ٹی وی بجلی کے آنے جانے ہی سے خراب ہوا ہے۔ لیکن وہ اس بات کا اعتراف کرنا نہیں چاہتا تھا کہ ان کے جانے کے بعد اس نے ٹی وی چلا دیا تھا وہ اپنی حرکت پر نادم و شرمندہ تھا۔ اسے احساس ہو رہا تھا کہ وہ کہاں سے کہاں پہنچ گیا اس کے ایمان کا ٹرانسفارمر نہ جانے کب کا بند ہو چکا ہے اوراس کا تقویٰ جل کر خاک ہو چکا ہے۔ خیر دین نے ٹی وی کو کھولا۔ اس کے اندر سے فیوز کو نکالا جو جل چکا تھا اور اس میں آدھے درہم کا نیا فیوز لگایا۔ ٹیلی ویژن پھر سے چل پڑا فلم جاری ہو گئی سب کچھ پہلے جیسا ہو گیا۔ غلام رسول کے اندرون کا فیوز کسی کے پاس نہیں تھا اسے تو صرف وہی بدل سکتا ہے بشرطیکہ دلچسپی ہوتی لیکن اس کے آثار نہیں تھے۔ اس نے پردے پر چلنے والی فلم کے اندر اپنی زندگی کی حقیقت کو بھلا دیا تھا۔

             دو دن بعد محمود اسے ٹرافک کے محکمے میں لے گیا اور بہت جلد وہ لائسنس حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اب سوال گاڑی کا تھا۔ ایک پٹھان چھٹی پر جا رہا تھا غلام رسول کو اس کی ٹیکسی دو مہینے کے لئے مل گئی۔ یہ اس کے لئے یہ نعمتِ غیر مترقبہ تھی اس کے واپس آنے تک دو مہینہ کے عرصہ میں دوسری ٹیکسی تلاش کرنا کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ اس دوران اسے ایک گاؤں والے نے بتایا کی شارجہ کی چھوٹی ٹیکسی کے بجائے ابو ظنی دبئی کے بیچ بڑی دس سیٹوں والی ٹیکسی چلائے اس میں مشکل بھی کم ہے اور آمدنی بھی زیادہ۔ اس نے اس موقع کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور شارجہ سے ابو ظبی آ گیا۔

              کاروبار چل پڑا اور دن دونی رات چوگنی ترقی کرنے لگا۔ وہ پابندی سے رقم گاؤں بھیجنے لگا دوسری بہن کی شادی بھی طے ہو گئی۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا، وہ بہت خوش تھا کہ اس کی محنت سے گھر کی معاشی حالت سدھر گئی تھی، گھر والے اس کے لئے بھی لڑکی تلاش کرنے لگے تھے کہ اس نے اپنے والدین کے لئے حج کا ٹکٹ بھیج دیا اور خود ابو ظبی سے مکہ جانے کی تیاری کرنے لگا لیکن اس کی محرومیت کہ یہ سعادت نصیب نہیں ہوئی فلائٹ سے ایک ہفتہ قبل والد صاحب کا انتقال ہو گیا والدہ عدت میں بیٹھ گئیں سارا منصوبہ دھر اکا دھرا رہ گیا وہ مکہ جانے کے بجائے گاؤں چلا گیا اور تینوں میں سے کسی نے حج نہیں کیا۔ خیر گھر پر دو ہفتوں کی چھٹی گذار کر وہ واپس آ گیا اور سب بھول بھال کر اپنے کام میں لگ گیا بالکل کولہو کے بیل کی طرح صبح صبح ٹیکسی لے کر بس اڈے پہنچ جاتا اور واپسی میں حکومت کی جانب سے لگائی گئی پابندی کے باوجود سواریاں بھر کر لے آتا۔ دن میں کئی چکر ہوتے اچھی خاصی آمدنی ہو جاتی۔ ایک دن کمرے میں اس کے ساتھ والے ایک ڈرائیور نے اسے آگاہ کیا دیکھ غلام رسول تو احتیاط کیا کر آج کل تین ہزار درہم جرمانہ ہے۔

            وہ بولا میں نہیں ڈرتا۔

             دوست نے متنبہ کیا ایک مرتبہ جیل جائے گا تو تیری عقل درست ہو جائے گی۔

            بات بڑھ گئی اور دونوں میں لڑائی ہو گئی۔ کمرے کے سارے لوگ غلام رسول کے مخالف ہو گئے اوراسے نکال باہر کیا گیا۔ وہ غصہ میں اپنا سامان لے کر نکل آیا لیکن اب جائے تو کہاں جائے؟ دو گھنٹہ بلاوجہ ابو ظبی کی سڑک ناپنے کے بعد بالآخر نیند سے بوجھل ہو کر گاڑی ہی میں سو گیا۔ صبح کی نماز کے ساتھ آنکھ کھلی اب نئی مصیبت تھی کہ ضروریات سے فارغ ہونے کے لئے کہاں جایا جائے؟ گھر تو تھا نہیں پھر اذان کا خیال مسجد لے گیا وہاں استنجاء وغیرہ سے فارغ ہونے کے بعد اس نے وضو کیا۔

             نماز کے لئے خاصہ وقت تھا سوچا کیوں نہ اس بیچ گاڑی کو بھی غسل دے دیا جائے بعد میں وضو خانہ بند ہو جائے گا اور دن کے وقت یہ ممکن نہ ہو گا اس لئے گاڑی دھونے لگا یہ کام ادھورا ہی تھا کہ اقامت کی آواز آئی اس نے سوچا کہ اسے پورا کر لوں پھر نماز میں شامل ہو جاؤں گا لیکن کام ختم ہونے سے قبل نماز ختم ہو گئی لوگ واپس آنے لگے اسے ڈر لگا کوئی ڈانٹ نہ دے اپنا کام ادھورا چھوڑ کر وہ ناشتہ کر کے بس اڈے پہنچ گیا۔

             اس روز گاڑی بہت جلد سواریوں سے بھر گئی اور پھر دو گھنٹہ بعد وہ دبئی سے مسافر اٹھا رہا تھا۔ یہ اس کے لئے نیا تجربہ تھا۔ وہ سوچ رہا تھا اگر اپنے پاس گاڑی ہو تو انسان کسی اور کے گھر میں کیوں رہے؟ اپنی گاڑی اپنا گھر دیگر ضروریات کے لئے مسجد کا حمام۔ کسی دن نہانے کا جی چاہتا تو اذان کے فوراً بعد نہا لیتا اس وقت وضو گاہ بالکل خالی ہوتی تھی۔ جمعہ کے دن ویسے ہی آسانی ہوتی لوگ ویک اینڈ کے باعث فجر کی نماز میں کم آتے اور آتے بھی تو آخر میں۔ اس کا فائدہ اٹھا کر وہ خوب اچھی طرح نہا لیتا۔ زندگی ایک نئے انداز میں چل پڑی تھی مسجد کی سہولیات کو استعمال کرنے کا ابتدائی احساس جرم وقت کے ساتھ کافور ہو گیا تھا۔ کچھ نمازیوں کو وہ کھٹکنے لگا تھا مگر کسی نے اعتراض نہیں کیا۔

             ایک روزاس کا ستارہ اچانک گردش میں آ گیا وہ دبئی بس اڈے سے سواریاں اٹھا رہا تھا کہ پولس کا چھاپا پڑا، اور اس سے پہلے کہ فرار ہوتا دھر لیا گیا۔ پولس نے تین ہزار درہم کے جرمانے کی رسید بنا کر اس کے ہاتھ میں تھما دی۔ تین ہزار درہم پورے مہینے کی کمائی ایک جھٹکے میں نکل گئی۔ ان تین ہزار کے لئے اس نے کیا کیا جتن کئے تھے گاڑی میں سونا، دن بھر شدید گرمی میں سڑکوں کی دھول چاٹنا۔ نہ آرام نہ چین اور سب کچھ ایک منٹ میں نکل گیا۔ اسے بہت غصہ آیا لیکن مجبور تھا۔ اپنے کمرے کے ساتھی کی طرح پولس حوالدار سے نہیں لڑ سکتا تھا اس لئے کہ ایسا کرنے کی صورت میں گھر جانے کی بجائے ملک بدر ہونے کی نوبت آ سکتی تھی۔ وہ غصہ کا گھونٹ پی کر خاموش ہو گیا۔

            دوسرے دن خدا کا کرنا ایسا کہ وہ مسجد کے وضو خانے سے گاڑی دھو رہا تھا کہ ایک آدمی اس پر برس پڑا وہ بولا یہ کیا مذاق ہے میں تمہیں گزشتہ کئی دنوں سے دیکھتا ہوں تم مسجد کے حمام میں منہ ہاتھ دھوتے ہو گاڑی بھی دھوتے ہو اور نماز تک کو نہیں آتے تمہیں شرم آنی چاہئے۔

             اس پر بھی اسے صبر کرنا پڑا اس لئے کہ الجھنے کے نتیجہ میں بات آگے بڑھ سکتی تھی دیگر لوگوں کو بھی پتہ چل سکتا تھا۔ وہ دل مسوس کر رہ گیا اور اس کو دل ہی دل میں برا بھلا کہنے لگا۔ وہ اپنے آپ سے کہہ رہا تھا۰۰۰ان کو ہم ہی ملتے ہیں، غریب لوگ، ان پولیس والوں کو کوئی نہیں بولتا جو دن دہاڑے ہماری جیب کاٹ لیتے ہیں۔ ۰۰۰۰۰۰          ہماری محنت کی کمائی لوٹ لیتے ہیں۔ ۰۰۰۰۰۰ مسجد کی سہولت استعمال کی ہے تو کیا؟ مسجد ان کے باپ کی ہے؟ ۰۰۰۰یہ تو اللہ کا گھر ہے؟ کیا خدا میرا نہیں ہے؟ صرف انہیں کا ہے؟ ۰۰۰۰۰۰۰میں نے اس کی جو بھی چیز استعمال کی ہے اس کا حساب میں دوں گا، یہ کون ہوتے ہیں مجھ سے پوچھنے والے؟ ۰۰۰۰۰۰۰یہ کیا جانیں میری مجبوریاں کیا ہیں؟ ۰۰۰۰۰۰۰۰میرا باپ مر گیا، مجھے گھر سے بے گھر کر دیا گیا، میری محنت کی کمائی مجھ سے چھن گئی۔ ۰۰۰۰۰۰۰ اس وقت یہ سارے ناصح کہاں مر گئے تھے؟ ۰۰۰۰۰۰۰کسی نے جھوٹے منہ بھی نہیں پوچھا کہ کیا تم نے کھانا کھایا؟ چائے پی؟ اور کیسے گذارا کرو گے؟ گھر کیا بھیجو گے؟

            وہ علیٰ طول ان منفی خطوط پر سوچتا رہا اور اس شخص کو کوستا رہا جس نے اسے سارے لوگوں کے سامنے رسوا کیا تھا۔ اس کے اندر نفرت کے شعلے اٹھ رہے تھے۔ وہ سیدھے گاڑی لے کر بس اڈہ پہنچ گیا۔ اس روز عجیب صورتحال تھی۔ اس کے بعد والی گاڑیاں سواریوں کے ساتھ روانہ ہو چکی تھیں لیکن اس کی گاڑی تھی کہ بھرنے کا نام نہ لیتی تھی۔ دیکھتے دیکھتے بیٹھی ہوئی اکّا دکّا سواریاں اس کی گاڑی سے اترتیں اور دوسروں کی ٹیکسی میں سوار ہو جاتیں اور وہ دیکھتا رہ جاتا۔ اب وہ اس شخص کے بجائے اپنی قسمت کو کوسنے لگا کہ ایک سواری آ کر اس کی گاڑی میں بیٹھ گئی۔ اس مسافر نے نماز فجر کے بعد اسے مسجد کے باہر دیکھ رکھا تھا۔ اس نے بڑی حلاوت سے پوچھا تمہارا نام کیا ہے؟

             غلام رسول!

            بڑا اچھا نام ہے۔ بھلا رسول سے اچھی غلامی اور کس کی ہو سکتی ہے؟

            اس نے تائید میں صرف اپنے سر کو جنبش دینے پر اکتفا کیا۔

            مسافر نے کہا بھئی واہ تم فجر کے بعد دبئی جا کر بڑی جلدی واپس آ گئے۔

            غلام رسول نے جواب دیا جی نہیں ایسی بات نہیں میں صبح سے یہیں کھڑا ہوا ہوں آج نہ جانے کیا بات ہے؟

            مسافر بولا دیکھو غلام رسول نماز کیلئے صرف پانچ منٹ لگتے ہیں۔ تم نے پانچ منٹ بچائے اور گزشتہ ایک گھنٹہ پچاس منٹ سے یہاں کھڑے ہوئے ہو۔ اس شخص کے لب و لہجہ میں بلا کا درد تھا وہ کہہ رہا تھا اچھا ہوتا جوتم نماز پڑھ لیتے۔ تم نے مسجد کے حمام سے نہایت معمولی فائدہ حاصل کیا اپنے جسم اور اپنی روزی کو پاک کرنے کا فائدہ! لیکن تمہاری روح کی پاکی کا انتظام بھی مسجد میں موجود تھا تم نے اپنے آپ کو اس سے محروم رکھا۔ اس آدمی کا ایک ایک لفظ دل میں اتر رہا تھا۔ اس نے بے حد دلسوزی کے ساتھ غلام رسول کواس کی محرومیت کا احساس دلا دیا۔

            غلام رسول اس کا شکریہ ادا کر کے بولا وہ سامنے والی ٹیکسی تقریباً بھر چکی ہے۔ آپ اس میں جا کر بیٹھ جائیں۔ اب وہ اپنی ٹیکسی کے ساتھ مسجد کی جانب لوٹ رہا تھا۔ اس مسجد کی طرف جس کے پاس تو وہ ہر روز جاتا تھا لیکن اندر قدم رکھنے سے رک جاتا تھا۔ لیکن آج مسجد اس کے اندر اتر گئی تھی اس کے قلب کا دروازہ اللہ کے گھر کیلئے کھل گیا تھا۔ غلام رسول کی نظر سامنے سڑک پر تھی۔ سگنل کا رنگ سبزسے نارنگی ہو چکا تھا چونکہ غلام رسول بالکل قریب تھا اس نے سوچا کیوں نہ رفتار بڑھا کر اس کے سرخ ہونے سے قبل نکل جائے۔ اس پر نہ جانے کون سی جلدی سوار ہو گئی جو اس نے گاڑی کی رفتار بڑھائی اور پھر ایک زوردار دھماکے کے ساتھ سب کچھ تھم گیا۔ زمین، آسمان، چاند، تارے سارے کے سارے منجمد ہو گئے۔

            غلام رسول کی سمجھ میں پہلے تو کچھ بھی نہیں آیا لیکن جب اس نے اپنے حواس مجتمع کئے تو اس کے اس کے آس پاس ایک ہجوم جمع تھا۔ اس کی اپنی گاڑی بری طرح ٹوٹ چکی تھی مگر اس کے کندھے اور ہاتھوں پر معمولی خراشوں کے علاوہ کوئی اور زخم نہیں تھا۔ اس کے سامنے ایک اور گاڑی تھی جس کو درمیان میں غلام رسول نے ٹکر ماری تھی۔ اس کے اندر ایک نوجوان موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا تھا۔ اس کا خون گاڑی سے نیچے سڑک پر پھیل رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ غلام رسول اپنے آپ کو سنبھالتا پولس آ گئی اور اسے حراست میں لے لیا گیا۔ اب زخمی نوجوان ایمبولنس کے اندر ہسپتال اور غلام رسول پولس تھانے کی جانب رواں دواں تھا۔

             غلام رسول کی آنکھوں کے سامنے سے خون کے دھبے ہٹے تو اندھیر چھا گیا۔ اسے تو بس یہ یاد تھا کہ ابھی اشارہ لال نہیں ہوا تھا پھر یہ خون کی سرخی کہاں سے آ گئی؟ وہ نوجوان کس سمت سے اور کیسے آیا اور پھر کیا ہو گیا؟ ان سوالات کا کوئی جواب غلام رسول کے پاس نہیں تھا لیکن یہ سولات اہم نہیں تھے بلکہ اب کیا ہو گا؟ یہ سب سے اہم سوال تھا جس نے غلام رسول کو اپنے خونی پنجے میں جکڑ لیا؟ وہ نوجوان جو بھی تھا؟ جہاں سے بھی آیا تھا؟ لیکن اب اس زخمی کا کیا ہو گا؟

             اس کے کانوں میں لوگوں کی سرگوشیاں زندہ ہو گئیں!

            یہ تو مرگیا! یہ نہیں بچ سکتا!

            اس پٹھان نے اس نوجوان کو مار ڈالا!

             بلا وجہ ایک نوجوان موت کی آغوش میں چلا گیا!

             لیکن یہ پٹھان بھی نہیں بچے گا!

            اس نے ایک وطنی کو مارا ہے! اسے تو مرنا ہی پڑے گا!

            اسے تو مرنا ہی پڑے گا! یہ پھانسی چڑھے گا!

            پھانسی! پھانسی! ! پھانسی! ! ! پھانسی! ! ! !

             پولس تھانے سے متصل کوٹھری میں بیٹھا غلام رسول سوچ رہا تھا۔ اگر یہ حادثہ مسجد سے واپسی میں بھی رونما ہوا ہوتا تب بھی ٹھیک تھا۔ وہ اپنا بے داغ دامن لے کر رب کائنات سے کہتا کہ اس میں میرا کوئی قصور نہیں ہے۔ میں نے قانون کی پاسداری کی ہے۔ سگنل ابھی سرخ نہیں ہوا تھا۔ وہ نوجوان خود اپنی ہلاکت کیلئے ذمہ دار ہے۔ میں اس کا قاتل نہیں ہوں۔ قصوروار میں نہیں بلکہ وہ نوجوان ہے اور وہ لوگ ہیں کہ جنہوں نے نادانستہ مجھے پھانسی چڑھا دیا۔ اس لئے کہ میرے پاس کوئی گواہ نہیں تھا لیکن تو گواہ ہے کہ میری کوئی غلطی نہیں ہے۔ میں بے قصور ہوں۔ لیکن اپنے گناہوں کے بوجھ سے لدا پھندا غلام رسول کس منھ سے اپنی فریاد رکھے گا اور وہ اس کے کس کام آئے گی۔ اب تو موت اس کے سامنے ہے اور توبہ و استغفار کا دروازہ بھی بند ہو چکا ہے۔

            کوٹھری کا دروازہ کھلا اسی کے ساتھ غلام رسول کی سوچ کا تار ٹوٹ گیا اور ایک آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔ چلو تمھارا بیان لکھنا ہے۔

            غلام رسول نے اپنے سامنے کھڑے پولس افسر سے سوال کیا۔ اس نوجوان کا کیا حال ہے؟

            افسر بولاکسی بھی وقت اس کے موت کی خبر آ سکتی ہے؟

            کیا وہ اپنا بیان لکھوا چکا ہے؟

            جی نہیں۔ وہ تو ہوش میں آیا ہی نہیں تو بیان کیسے درج کراتا۔

            غلام رسول بولا تب پھر میرے بیان کا کیا فائدہ؟

            میں سمجھا نہیں۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے۔

            غلام رسول نے پوچھا لیکن اس کے بعد پھر کیا ہو گا؟

            ہم تمھیں عدالت میں پیش کر دیں گے۔

            غلام رسول نے ایک اور سوال کیا اور پھر اس کے بعد؟

            پولس افسر چڑ کر بولا اس کے بعد مجھے کیا معلوم۔ قاضی جو چاہے گا فیصلہ کرے گا۔ ہمارا کام تو بس احکامات کی تعمیل ہے۔

            غلام رسول بولا لیکن مجھے معلوم ہے۔ قاضی سزائے موت سنا دے گا اور تم اس پر عمل در آمد کرو گے۔

            پولس بولا یہ سب میں نہیں جانتا تم جلدی جلدی بتاؤ کہ کیا ہوا؟

            غلام رسول بولا صاحب آپ کیوں اپنا اور عدالت کا وقت ضائع کرتے ہیں۔ مجھے پھانسی دے دیجئے اور قصہ تمام کیجئے۔

            پولس افسر کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔ ایک عجیب و غریب ملزم سے اس کا پالا پڑا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اس آدمی کا دماغی توازن بگڑا ہوا ہے۔ اسی لئے وہ نوجوان اسے نظر نہیں آیا اور بے موت مارا گیا لیکن اگر یہ پا گل ہے تو اسے سزا کیسے ہو سکتی ہے؟ اور اگر اسے نہیں تو سزاکسے ہو گی؟ کیونکہ ایک نوجوان کو ہلاک کرنے کی سزا کسی نہ کسی کو تو ہونی ہی تھی؟

             پولس افسر کے خیالات کا تانتا ایک بلند آواز سلام نے توڑ دیا۔ اس نے سر اٹھا کر دیکھا تو ایک بزرگ شیخ اپنے بیٹے کے ساتھ اس کے سامنے کھڑے تھے۔ پولس افسر فوراً اپنی کرسی سے کھڑا ہو گیا۔ اس نے خاص اماراتی انداز میں ناک سے ناک ملا کر شیخ کا استقبال کیا اور مصافحہ کرنے کے بعد بیٹھنے کی گزارش کی۔ ایک کونے میں بیٹھا غلام رسول یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ اس نے سوچا ہو نہ ہو یہ اس نوجوان کا باپ اور بھائی ہے۔ اگر انہیں پتہ چل جائے کہ وہی ان کے بیٹے کا قاتل ہے تو مبادا ابھی اسی وقت اس کا قتل ہو جائے لیکن پھر اسے خیال آیا یہ برصغیر نہیں امارات ہے۔ یہاں قانون کی حکمرانی ہے۔ اس لئے کوئی شہری اس کو اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتا۔

            پولس افسر نے بزرگ شیخ سے پوچھا کہیے میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟

            شیخ نے غلام رسول کی جانب اشارہ کر کے کہا ہم لوگ اس کی گواہی دینے کیلئے حاضر ہوئے ہیں۔

            غلام رسول نے سوچا یہ لو عدالت کا کام یہیں تمام ہو گیا۔ اب تو بن بلائے گواہ خود چل کر پولس تھانے پہنچ گئے۔

            پولس افسر نے پوچھا کیا آپ اسے جانتے ہیں؟

            شیخ بولے جی نہیں۔ نہ اس کو اور نہ زخمی ہونے والے نوجوان کو، ہم ان میں سے کسی کو نہیں جانتے لیکن جس وقت یہ حادثہ وقوع پذیر ہوا ہم لوگ وہاں موجود تھے اس لئے اب یہ ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ جو کچھ دیکھا ہے اسے بے کم و کاست آپ سے بیان کر دیں۔

            پولس افسر بولا ویسے تو ہم نے ابھی تک اس کا بیان بھی درج نہیں کیا لیکن خیر آپ بتائیے کہ آپ نے کیا دیکھا؟

             بزرگ نے نوجوان کی جانب استفہامیہ انداز میں دیکھا۔ نوجوان بولا میرا نام فیصل تمیمی ہے۔ جس وقت یہ مدینہ زائد کے اشارے پر پہنچا میری گاڑی اس کے برابر میں تھی۔ سگنل کا رنگ سبز سے نارنگی ہو گیا تھا میں نے سوچا کہ سرخ ہونے سے قبل نکل جاؤں لیکن اس سے پہلے کہ میں رفتار بڑھاتا میرے والد نے مجھے منع کر دیا اور میں نے اپنا پیر بریک پر رکھ دیا مگر یہ اپنی گاڑی بڑھاتا چلا گیا اور پھر ہم نے دیکھا کہ وہ نوجوان اچانک دوسری جانب سے اشارہ توڑتا ہوا نمودار ہو گیا۔ اگر میں نے اپنی گاڑی نہیں روکی ہوتی تو وہ اس کے بجائے میری گاڑی سے ٹکرا جاتا اور اس کا نتیجہ کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ ہو سکتا وہ خود زخمی ہو جاتا یا ہم میں سے ایک یا دونوں اس دنیا سے سدھار جاتے اس لئے کہ اس کی رفتار بہت زیادہ تھی۔

            پولس افسر نے پوچھا کیاجس وقت یہ حادثہ ہوا اشارے کا رنگ سرخ نہیں ہوا تھا؟

            بزرگ نے کہا جی نہیں۔ اگر وہ گاڑی اچانک نہیں آتی تو یہ بڑے آرام سے نکل سکتا تھا لیکن میں نے احتیاط کے طور پر اپنے بیٹے کو منع کیا۔

            پولس افسر نے پوچھا کیا آپ اور کوئی بات کہنا چاہتے ہیں؟

            بزرگ بولے جی نہیں۔

            افسر نے ٹیپ ریکارڈر بند کر کے محرر کے حوالے کیا۔ جب تک کہ وہ اسے ٹائپ کر کے لاتا وہ لوگ قہوہ اور کھجور سے شغل کرتے رہے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے بیان پر دستخط ثبت کئے۔ اپنا پتہ اور شناختی کارڈ کا نمبر لکھ کر روانہ ہو گئے۔ غلام رسول کا جی چاہا کہ ان کا منھ چوم لے مگر اس کو ایسا محسوس ہوا گویا اس کے پیروں میں زنجیر پڑی ہوئی ہے۔ ان لوگوں کے نکل جانے کے بعد غلام رسول نے بھی اسی بیان کو دوہرا دیا اور جیل میں فیصلے کا انتظار کرنے لگا۔ اس کے اندر زندگی کی رمق پیدا ہو چکی تھی۔ غلام رسول اس نوجوان کیلئے دعا کر رہا تھا۔ غلام رسول کو ایک سرکاری وکیل فراہم کر دیا گیا تھا جس نے اس سے ساری معلومات حاصل کر لی تھیں۔ ایک ہفتہ کے اندر عدالت سے غلام رسول کی رہائی ہو گئی اس لئے کہ عدالت میں مدعی کی جانب سے کوئی پیش ہی نہیں ہوا۔ رہائی کے بعد غلام رسول نے وکیل کا شکریہ ادا کیا اور پوچھا اس نوجوان کا کیا حال ہے؟

            وکیل بولا اس کا تو دو روز قبل انتقال ہو گیا۔

            اس خبر نے غلام رسول کو سوگوار کر دیا۔ اس نے وکیل سے پوچھا کیا وہ اس نوجوان کے اہل خانہ سے ملاقات کر سکتا ہے؟

            وکیل نے پوچھا تم اس جھنجھٹ میں کیوں پڑنا چاہتے ہو جاؤ اپنی خیر مناؤ۔

            غلام رسول بولا میں ان سے مل کر تعزیت کرنا چاہتا ہوں۔ اس لئے کہ آخر وہ میرے ہاتھوں حادثہ کا شکار ہوا تھا۔

            وکیل بولا اگر تمھارا اصرار ہے تو میں ان سے معلوم کرتا ہوں۔ اگر وہ لوگ تیار ہوں گے تو تم ان سے مل سکتے ہو۔

            غلام رسول بولا آپ وقت اور پتہ بھی پوچھ لیں تو مہربانی۔

            وکیل نے بتایا کہ ابھی ان کے گھر پر زیارت کی نشست ہے مہمان آ جا رہے ہیں۔ تم بھی چاہو تو جا کر ملاقات کر سکتے ہو۔

            غلام رسول نے پوچھا لیکن ان کا گھر کہاں ہے؟

            وکیل نے کہا قریب ہے میں ان کے گھر پر تمھیں چھوڑ سکتا ہوں۔

            غلام رسول نے کہا مہربانی۔

             اب وکیل کو بھی دلچسپی پیدا ہو گئی تھی۔ اسے حیرت تھی کہ ان لوگوں نے عدالت میں پیروی کیوں نہیں کی۔ ایک مضبوط وکیل کھڑا کر کے غلام رسول کیلئے مشکلات پیدا کر سکتے تھے۔ وکیل مہلوک کے لواحقین سے مل کر اس کی وجہ معلوم کرنا چاہتا تھا۔ اس نے غلام رسول سے کہا اگر تم ان کو یہ نہ بتانے کا وعدہ کرو کہ میں تمھارا وکیل تھا تو میں  بھی تمھارے ساتھ اندر چل سکتا ہوں۔ ان کی گاڑی ایک محل نما کوٹھی ’’قصر القبیسی‘‘کے سامنے کھڑی تھی۔ غلام رسول نے سر ہلا کر تائید کی اور وکیل نے اندر گاڑی لگا دی۔ وکیل کے ساتھ غلام رسول بھی دیوان خانے میں پہنچ گیا جہاں شیخ القبیسی چند مہمانوں کے ساتھ بیٹھے تھے۔ وکیل نے بڑی مکاری سے اپنے بجائے غلام رسول کا تعارف کروایا۔ شیخ نے غلام رسول کو دیکھا تو ان کی آنکھوں میں اپنے بیٹے سیف کی لاش کا منظر آ گیا۔

            غلام رسول بولا میں آپ کے غم میں شریک ہوں۔ اس کی آنکھیں پر نم تھیں۔ وہ بولا میں نے واقعی ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

            شیخ درمیان میں بول پڑے۔ مجھے سب پتہ ہے۔ شیخ تمیمی سے میں بات کر چکا ہوں۔ مجھے خوشی ہے کہ تمھیں چوٹ نہیں آئی۔

            غلام رسول بولا مجھے افسوس ہے کہ ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

            شیخ القبیسی بولے مشیت کے فیصلوں کو کون ٹال سکتا ہے؟ میں سیف کو سمجھاتا تھا کہ گاڑی اس طرح نہ چلایا کرو۔ کاش کہ میں اس روز اس کے ساتھ ہوتا۔

            غلام رسول یہ جواب سن کر چونک پڑا اور اپنے آپ کو سنبھال کر بولا جی ہاں اور سیف اس بے وقت کی موت سے بچ جاتا۔

            شیخ القبیسی نے کہا جی نہیں اس کی موت کا وقت کوئی بھی بدل نہیں سکتا تھا۔ نہ تم اور نہ میں لیکن ممکن ہے وہ حادثہ ٹل جاتا لیکن شاید وہ حادثہ بھی اٹل تھا۔ تمھاری ٹیکسی کا کیا حال ہے؟ سنا ہے وہ بھی تباہ ہو چکی ہے؟

            غلام رسول بولا جی ہاں میں نے بھی یہی سنا ہے۔ جب اس نے اجازت لی تو شیخ القبیسی نے اپنے بیٹے سالم سے کہا کہ وہ غلام رسول کا فون نمبر نوٹ کر لے۔

            محل سے باہر نکلنے کے بعد وکیل نے پوچھا اب کہاں جاؤ گے۔ غلام رسول نے کچھ سوچ کر اسی مسجد کا پتہ بتا دیا جس کی جانب جاتے ہوئے وہ حادثہ کا شکار ہو گیا تھا۔

             ظہر کی نماز میں ابھی دو گھنٹے باقی تھے مسجد کا وضو خانہ مقفل تھا۔ وہ قریب کے ہوٹل میں واش بیسن کے پاس گیا مگر وہاں لکھا تھا پیر دھونا منع ہے۔ غلام رسول نے سوچا اگر وہ وضو کرے گا تو کہیں بیرا نہ ڈانٹ دے اس لئے گلے پر بیٹھے شخص سے پوچھا کیا میں وضو کر سکتا ہوں!

             اس شخص نے منہ بگاڑ کر کہا وضو! یہ کون سی نماز کا وقت ہے!

            غلام رسول کو غصہ آ گیا، وہ بگڑ کر بولا میں جنازے کی نماز پڑھنا چاہتا ہوں۔ جس کا کوئی وقت نہیں ہوتا۔

            جنازہ کس کا جنازہ!

             میرا اپنا جنازہ میں کئی سال پہلے پاورش میں مرگیا تھا اور پھر اپنی لاش کندھوں پر لئے شارجہ اور پھر ابو ظنی آ گیا۔ میں تھک گیا ہوں اسے ڈھوتے ڈھوتے اب میں اسے دفن کر دینا چاہتا ہوں ہمیشہ ہمیش کے لئے۔

            ہوٹل والے کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ اس نے کہا کر لو لیکن پانی ادھر ادھر نہ گرانا۔

            غلام رسول شکریہ ادا کر کے وضو کرنے لگا لیکن مسجد میں آیا تو وہاں بھی قفل پڑا ہوا تھا۔ وہ صحن میں نماز کے لئے کھڑا ہو گیا اور نیت باندھ لی۔ وہ خود نہیں جانتا تھا کہ کون سی نماز پڑھ رہا ہے۔ سلام پھیرنے کے بعد وہ توبہ و استغفار میں مشغول ہو گیا۔ دنیا ما فیہا سے بے خبر ہو کر دیر تک تسبیح تحلیل میں لگا رہا یہاں تک کہ اس کی آنکھ لگ گئی اور وہ سو گیا تو خواب میں اپنے والد صاحب کے سامنے کھڑا پایا۔ سفید لباس وہی پر نور چہرہ جسے دوسال پہلے وہ اپنے گاؤں میں چھوڑ آیا تھا اور پھر مٹی بھی اسے نصیب نہیں ہو سکی تھی۔ اس کے گھر پہنچنے تک ان کی تدفین ہو چکی تھی

            وہی ہنستا مسکراتا چہرہ اس کے سامنے کھڑا تھا وہ کہہ رہے تھے بیٹے کیسے ہو! ۰۰۰۰۰۰۰۰مست ہو اپنی دنیا میں! اسی کو سب کچھ سمجھ لیا ہے تم نے! ۰۰۰۰۰۰۰۰اور ایسا کرنے کے باوجود تم نے کیا حاصل کر لیا! کیا حاصل کر لیا تم نے دنیا میں! ۰۰۰۰۰۰۰۰وہ شرمندہ سرجھکائے کھڑا تھا والد صاحب بولے دیکھو بیٹے اس دنیا سے بہت بڑے بڑے فائدے حاصل کئے جا سکتے تھے لیکن تم تو بہت کم پر راضی ہو گئے تم تو اس کے ذریعہ ابدی جنت اور وہاں کی بیش بہا نعمتیں حاصل کر سکتے تھے لیکن تم نے اسی دنیا کو جنت بنانے کے چکر میں پڑ گئے اور نتیجہ یہ ہوا کہ دنیا تمہارے لئے جہنم زار بن گئی۰۰۰۰۰سوچو کیا تم اسی لئے ابو ظبی آئے تھے! ۰۰۰۰۰۰۰کیا اس دنیا میں تمہارے آنے کا یہی مقصد تھا! جس کے پیچھے تم بگ ٹٹ دوڑے چلے جا رہے ہو۔

             یہ کہہ کر والد صاحب اس کی آنکھوں سے اوجھل ہو گئے، لیکن اس کی آنکھیں کھل چکی تھیں۔ اس نے پھر ایک بار استغفارکیا، سچی توبہ اور پکا ارادہ کیا کہ اب کسی حال میں نہ خدا سے غافل ہو گا اور نہ اپنے آپ سے غفلت برتے گا، اپنی نمازوں کی محافظت کرے گا۔ غلام رسول پلٹ کر اپنی پرانی زندگی کی جانب نہیں جانا چاہتا تھا لیکن اس کی سمجھ میں آ رہا تھا کہ کیا کرے۔ اس بیچ اس کے فون کی گھنٹی بجی یہ کسی اجنبی کا نمبر تھا۔ غلام رسول نے سلام کر کے پوچھا کون صاحب؟

            سامنے سے عربی میں جواب ملا میں سالم القبیسی بول رہا ہوں۔ میرے والد نے پوچھا ہے کہ اب تم کیا کرو گے؟

            غلام رسول بولا میں اب وہ دبئی اور ابو ظبی کے درمیان ٹیکسی نہیں چلانا چاہتا۔

            سالم نے کہا تو کیا تم واپس جانا چاہتے ہو؟

            غلام رسول بولا جی نہیں ایسا نہیں ہے۔

            سالم نے کہا میں نے یہ نہیں پوچھا کہ تم کیا کرنا نہیں چاہتے ہو۔ کیا تم شہر کے اندر ٹیکسی چلانا چاہتے ہو؟

            غلام رسول نے کہا جی ہاں۔ وہی بہتر ہے میں پہلے شارجہ میں یہ کام کر چکا ہوں اب ابو ظبی میں کروں گا۔

            سالم بولا ٹھیک ہے میں تم کو سلمان خطیب کا نمبر بھیجوں گا تم اس سے مل لینا۔

            سلمان خطیب کی کئی ٹیکسیاں تھیں جنھیں پٹھان ڈرائیور شہر میں چلایا کرتے تھے۔ سالم القبیسی کی ضمانت پر اس نے ایک ٹیکسی غلام رسول کو بھی دے دی۔ اور اس طرح وہ ابو ظنی شہر کے اندر ٹیکسی چلانے لگا اب اس کا معمول یہ تھا کہ اذان کے بعد وہ کوئی سواری نہیں لیتا۔ فجر کے بعد گاڑی لے کر نکلتا دوپہر میں کھانا کھانے کیلئے اپنے گھر میں پہنچ جاتا پہلے نماز پھر کھانا، شام کو عصر کی نماز کے بعد دوسرے شریک کار کو ٹیکسی دے دیتا اور پھر مغرب تک کھانا بناتا، مغرب کے بعد کھانا کھاتا اور چہل قدمی کر کے عشاء کے بعد سوجاتا اور صبح تہجد کیلئے اٹھ کر فجر تک تلاوت اور فجر کے بعد گاڑی لے کر چل پڑتا اس کے کاروبار میں برکت تھی اور وہ نہایت پرسکون زندگی گزار نے لگا تھا۔

            غلام رسول ظہر، مغرب اور عشاء کی سنتیں امام کی جگہ کھڑے ہو کر پڑھتا تھا! وہ اکثر مسجد میں سب سے پہلے آنے والوں میں ہوتا۔ امام کے پیچھے نماز پڑھتا اسے مسجد سے واپس جانے کی کوئی جلدی نہیں ہوتی اس لئے وہ اطمینان سے تسبیح و تحلیل میں مصروف رہتا اور امام صاحب کے نکل جانے کا انتظار کرتا۔ ان کے جانے کے بعد میں انہیں کے مصلیٰ پر اپنی باقی نمازیں پوری کرتا تو اسے اچھا لگتا تھا۔

             ایک روز ایسا ہوا کہ نماز مغرب میں امام صاحب کسی وجہ سے نہیں آئے۔ نماز کے لئے چند لمحے انتظار کیا گیا پھر ایک آدمی نے اٹھ کر اقامت کہنا شروع کر دی۔ اقامت کے ختم ہو جانے کے بعد وہ پیچھے آ گیا اور سب لوگ ایک دوسرے کو آگے بڑھنے کے لئے کہتے رہے یہاں تک کہ لوگوں نے اسے آگے بڑھا دیا وہ ہر روز سنتیں اس محراب میں پڑھتا تھا جس میں ابھی فرض ادا کرنے کے لئے کھڑا تھا لیکن دیگر ایام میں اور اس دن میں ایک خاص فرق تھا۔ ہر روز انفرادی نماز ادا ہوتی تھی آج وہ نمازِ جماعت کے لئے کھڑا تھا ہر روز وہ صرف اپنی نماز پڑھتا تھا اس روز وہ نماز پڑھا رہا تھا۔

             اس کی نگاہ سامنے لگے شیشے پر پڑی تو اس میں اسے اپنا عکس نظر آیا۔ اس نے دائیں جانب دیکھا یہاں بھی وہی عکس تھا اس نے نظروں کو گھما کر بائیں طرف نگاہ ڈالی تو وہاں بھی وہی کچھ نظر آیا وہ گھبرا گیا وہ چاروں طرف سے اپنے آپ کو دیکھ رہا تھا وہ اپنے آپ سے ڈر رہا تھا۔ اس نے تکبیر تحریمہ کے بعد ہاتھ باندھ لئے اور پھر اس کے بعد سامنے دیکھا اسے لگا یہ وہ نہیں ہے۔ یہ اس کے والد صاحب ہیں امام صاحب، وہ اپنے بجائے امام صاحب کا عکس دیکھ رہا تھا وہ گویا اس کے سامنے کھڑے تھے وہ ان کا خیال ذہن سے جھٹکنے لگا لیکن بار بار وہ اس کے تخیل پر چھا جاتے۔ ایک رکعت پوری ہو گئی دوسری رکعت میں سوچا والد صاحب اسے کیسے دیکھ سکتے ہیں؟ ہاں اللہ میاں ضرور دیکھ سکتے ہیں اس خیال کے آتے ہی اسے ایسا لگا کہ وہ اللہ میاں کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا ہوں وہ اسے دیکھ رہے ہیں۔

            وہ اپنے گناہوں اور کوتاہیوں پر شرمسار زمین پر نظر گاڑ کر نماز پڑھ رہا ہے اس نے بہت لمبی تلاوت کی اور پھر رکوع میں چلا گیا قاعدے کے بعد تیسری رکعت کیلئے کھڑا ہوا تو اس کے دل کی دنیا بدل چکی تھی اسے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ اللہ میاں کے سامنے کھڑا ہے وہ اسے دیکھ رہا ہے وہ اس کے آگے جھکا ہوا ہوں وہ اللہ میاں کے قدموں میں سربسجود ہے اس کی پیشانی اللہ رب العزت کے قدموں میں ہے اور پھر وہ کیا محسوس کرتا ہے کہ وہ اللہ میاں سے سرگوشی کر رہا ہے سر جوڑ کر کچھ کہہ رہا ہے اللہ میاں سے۔ جی ہاں اللہ میاں سے، یہ ایک عجیب احساس تھا عجیب و غریب احساس وہ کبھی بھی اللہ تعالیٰ کے اس قدر قریب نہیں ہوا تھاجس قدر اس دن تھا بالکل اتنا قریب کہ بس ہاتھ بڑھا کر چھولے۔

            اس دن نماز ختم کرنے کے بعد وہ اپنی جگہ بیٹھا رہا دیر تک سکتہ کے عالم میں روتا رہا بس روتا رہا یہاں تک کہ سارے نمازی مسجد سے چلے گئے طویل انتظار کے بعد مسجد کے خادم نے بتیاں بجھا دیں اے سی بند کر دیا۔ اسے پتہ تک نہیں چلا یہاں تک کہ اس نے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر پوچھا کیا میں چلا جاؤں اس نے سر ہلا کر حامی بھری موذن چلا گیا غلام رسول بیٹھا رہا یہاں تک کہ عشاء کی اذان ہو گئی۔ اب وہ اپنی جگہ سے اٹھا اب وہ جگہ کسی اور کی تھی اس کی نہیں تھی اس نے وضو خانہ کا رخ کیا روتے روتے اس کی آنکھیں سرخ ہو چکی تھیں اس کی داڑھی گیلی ہو چکی تھی، وہ وضو کر کے دو بارہ مسجد میں آیا اور صف کے ایک کونے میں بیٹھ گیا۔

اس روز اس نے بڑے خشوع اور خضوع کے ساتھ کونے میں نماز پڑھی۔ فرض کے بعد سنتیں اور نوافل بھی وہیں ادا کئے۔ اب وہ جگہ اسے اچھی لگنے لگی تھی اس نے اسی کو اپنے لئے خاص کر لیا تھا۔

٭٭٭


 

 

 

جیون ساتھی

 

            ڈاکٹر اویناش اور ایڈوکیٹ سنتوش وہار لیک کے کنارے ایک اعلیٰ درجے کے ریسٹورنٹ میں بیئر کی چسکیاں لے رہے تھے۔ ان کی بیویاں شانتی اور آکانشا تھوڑی دور پر بیٹھ کرتا زہ پھلوں کے رس سے لطف اندوز ہو رہی تھیں اور ان کے بیٹے وکاس اور سبھاش پانی میں کھیل رہے تھے۔ باتیں کرتے ہوئے سنتوش کی نگاہ جب بچوں پر پڑی تو اس نے کہا۔

            اویناش تمہیں یاد ہے کسی زمانے میں ہم دونوں بھی وکاس اور سبھاش کی طرح جوہو کے ساحل پر کھیلا کرتے تھے اور ہمارے والد صاحبان ایک طرف ہماری طرح بیٹھے سگریٹ پھونکا کرتے تھے۔

            اویناش نے حامی بھری اور کہا۔ ہاں مجھے یہ بھی یاد ہے کہ ہماری مائیں ہم چاروں سے الگ تھلگ ایک دوسرے کے ساتھ اسی طرح محو گفتگو ہوتی تھیں جس طرح شانتی اور آکانشا فی الحال لگی ہوئی ہیں۔ بالکل دنیا و ما فیہا سے بے خبر۔

            ہاں ہاں مجھے یاد ہے۔ سنتوش بولا۔ اور ان کی باتیں کبھی ختم نہ ہوتی تھیں جس طرح ان دونوں کی باتیں ختم نہیں ہوں گی اور پھر ہمارے والد صاحبان زبردستی ان دونوں کو الگ کر دیا کرتے تھے جس طرح تھوڑی دیر بعد ہم کریں گے اور پھر ہماری مائیں ہم کو بلاتیں جس طرح شانتی اور آکانشا، وکاس اور سبھاش کو بلائیں گی اور پھر ہم سے ناراض ہو جاتیں جیسے کہ وہ ان سے ہو جائیں گی اور پھر ہم با دلِ ناخواستہ اپنے اپنے والدین کی جانب چل پڑتے جس طرح یہ چل پڑیں گے۔ اور پھر ہم اپنے والد کی اسکوٹر پر بیٹھ کر اپنے گھروں کی جانب روانہ ہو جاتے جس طرح ابھی کچھ دیر بعد ہم اپنی اپنی گاڑیوں میں روانہ ہو جائیں گے۔

            لیکن اس سے پہلے پانی پوری کے لیے ضد کرنا تمہیں یاد ہے؟ اور ہاں منع کرنے کے باوجود اصرار کرنا اور والدین کو مجبور کرنا بھی یاد ہی ہو گا۔ وکاس اور سبھاش بھی یہی کرنے والے ہیں۔

            یار میں سوچتا ہوں زمانہ کتنا بدل گیا۔ تیس سالوں میں کہاں سے کہاں پہنچ گیا لیکن انسان نہیں بدلا۔

            ہاں سنتوش تو صحیح کہتا ہے نہ نسلوں کے فاصلے کم ہوئے نہ جنس کی بنیاد پر موضوعات کے اختلاف میں کوئی تبدیلی آئی۔ پہلے بھی ہمارے ماتا پتا کی دلچسپی کے موضوعات علیٰحدہ ہوتے تھے ہم لوگ ان سے دور دور رہا کرتے تھے آج کل بھی وہی کچھ ہے۔ ایسا لگتا ہے کچھ نہیں بدلا۔

            ڈاکٹر اویناش اور ایڈوکیٹ سنتوش بچپن کے یار تھے۔ ایک محلے میں رہتے، ایک اسکول میں پڑھتے، ایک ساتھ آتے جاتے، ایک ساتھ کھیلتے۔ حالانکہ دونوں کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ اویناش نہایت شوخ اور چنچل تھا جب کہ سنتوش نہایت سادہ اور خاموش طبع۔ اس کے باوجود ان کے اندر اٹوٹ دوستی تھی۔ بھائیوں سے زیادہ ایک دوسرے کو چاہتے تھے۔ اسکول کی تعلیم کے بعد دونوں کے راستے بدل گئے۔ ایک نے سائنس تو دوسرے نے آرٹس کا راستہ اختیار کیا۔ ایک ساتھ گریجویشن کی ڈگری کے بعد ایک نے ڈاکٹریٹ کا راستہ اختیار کیا اور دوسرا قانون کی کتابیں پڑھنے لگا۔

             دونوں نے تقریباً ایک ساتھ تعلیم مکمل کی۔ اویناش کو ملک کی نامور تحقیقاتی تجربہ گاہ میں ملازمت مل گئی اور سنتوش کو ملک کے بہت بڑے تجارتی ادارے نے اپنا قانونی مشیر بنا لیا۔ اس کے بعد شادی کا وقت آیا تو وہ بھی تقریباً ایک ساتھ ہوئی۔ اویناش کی شادی کالج کے پرنسپل کی لڑکی شانتی سے ہو گئی اور سنتوش نے ایک بہت بڑے تاجر کی بیٹی آکا نشا سے بیاہ رچا لیا۔ دو سال بعد ان دونوں نے لڑکوں کو جنم دیا۔ وکاس اور سبھاش کی عمروں میں صرف تین ماہ کا فرق تھا۔ ان دونوں دوستوں کی زندگی بے شمار اتّفاقات اور اختلافات سے بھری پڑی تھی۔

            ڈاکٹر اویناش کا شمار بہت جلد ملک کے بڑے سائنسدانوں میں ہونے لگا تھا۔ رات دیر گئے وہ اپنی لیباریٹری میں کام کرتے رہتے تھے۔ جس کانفرنس میں جاتے چھا جاتے شرکاء کا دل موہ لیتے تھے آئے دن اخبارات میں ان کے انٹرویو چھپتے انہیں کئی قومی اور بین الاقوامی اعزازات سے بھی نوازا گیا تھا۔ لیکن ان سب کے باوجود ان کی بیوی شانتی ان سے ناراض تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر اویناش گھر سے باہر جس قدر وقت صرف کرتے ہیں اس کا عشر عشیر بھی گھر میں نہیں دیتے، ساری دنیا کے لئے ان کے پاس فرصت ہے لیکن گھر والوں کے لئے نہیں، وہ کبھی بھی سورج ڈھلنے سے پہلے گھر نہیں آتے، وکاس کو اکثر سویا ہوا پاتے اور صبح سویا ہوا ہی چھوڑ جاتے۔

            شانتی اکثر ان سے کہتی کہ دیکھو تم سرکاری لیباریٹری میں کام کرتے ہو، ہماری کالونی کے سبھی لوگ اس میں کام کرتے ہیں۔ وہ کیسے آرام سے دفتر جاتے ہیں دوپہر کو کھانے کے لیے واپس گھر آ جاتے ہیں قیلولہ کر کے واپس جاتے ہیں۔ شام پانچ بجے اپنے گھر پر دوبارہ حاضر ہو کر بچوں کے ساتھ چائے ناشتہ کر کے چہل قدمی کے لیے نکل جاتے ہیں۔ شام میں تھوڑا بہت وقت بچے کی تعلیم پر بھی صرف کرتے ہیں۔ بیوی کے ساتھ ٹی وی کے سیرئیل دیکھتے ہیں۔ دوسروں کو اپنے گھر بلاتے ہیں اور خود دوسروں کے گھر جاتے ہیں۔

            ڈاکٹر اویناش کی زندگی ان تمام چیزوں سے خالی تھی۔ ان کا کسی اور سے تو کیا خود اپنے گھر والوں سے بھی ملنا جلنا نہ ہو پاتا تھا۔ بس کام، کام اور کام۔ اس کے سوا کوئی کام نہ تھا۔ اویناش کے اس رویہ کے باعث شانتی اپنی زندگی میں ایک بہت بڑا خلاء محسوس کرتی تھی۔ جب بہت لمبا وقفہ اس طرح گذر جاتا تو آکانشا کو اپنے گھر بلا لیتی یا ان کے گھر جانے کا پروگرام بناتی۔ ڈاکٹر اویناش کے لیے یہی ایک ایسی دعوت تھی جس کا ٹالنا ممکن نہیں تھا لیکن یہ موقع بھی سال میں ایک دو بار ہی آتا۔

            ڈاکٹر اویناش کئی مرتبہ دیوالی اور ہولی کے موقع پر بھی اپنے اہل خانہ سے دور رہتے۔ یورپ اور امریکہ میں ہونے والی سائنسی کانفرنسوں کا ان تہواروں سے کیا سروکار اور ڈاکٹر اویناش کے لیے ان میں شرکت اپنے اہل خانہ کے ساتھ تہوار منانے سے زیادہ اہمیت کی حامل تھی۔ اس لیے وہ بلا تکلف نکل جایا کرتے تھے۔ وہاں یاد آ گئی تو فون کر دیا ورنہ وہ بھی بھول گئے۔ ڈاکٹر کے اس رویہ نے شانتی کی زندگی میں اشانتی بھر دی تھی۔ لیکن یہ ایک ایسا کرب تھا جس کا اظہار کرنا بھارتیہ ناری کیلئے مہا پاپ سے کم نہیں تھا۔

            ادھر سنتوش کے گھر کا معاملہ اس کے بالکل برعکس تھا۔ سنتوش کی زندگی دفتر اور گھر کے درمیان طواف سے منسوب تھی۔ شام پانچ بجتے ہی دفتر سے نکلنے والی سب سے پہلی گاڑیوں میں سے ایک سنتوش کی ہوتی تھی وہ سیدھا اپنے گھر آتا، بیوی بچّے کی خبر لیتا، پہلے تو صبح کا اخبار دیکھتا اور پھر ٹی وی لگا کر شام کا اخبار پڑھنے لگتا۔ ٹی وی کا ریموٹ ہمیشہ اس کے ہاتھوں میں ہوتا۔ خبروں کے چینلس کا تو وہ دیوانہ تھا۔ اس بیچ بچّوں سے خوش گپّیاں کرتا، بیوی کھانا لگا دیتی تو کھانا کھا تا اور چہل قدمی کے لئے چل پڑتا۔ وہ آکانشا کو بھی ساتھ آنے کی دعوت دیتا لیکن آکانشا کو چہل قدمی کے بجائے ٹی وی پر خواتین کے ڈراموں میں زیادہ دلچسپی تھی۔ وہ امیر خاندانوں کی خواتین کی سیاست پر مشتمل ڈراموں میں کھو جاتی تھی۔

            آکانشا کا تعلق چونکہ ایک امیر تجارتی گھرانے سے تھا اس لئے ان ڈراموں کے کرداروں میں آکانشا کو کہیں اپنی ماں نظر آتی تو کہیں باپ، بھائی یا بھابی۔ سب کے سب دولت کے نشہ میں چور ایک دوسرے کو جائداد سے بے دخل کرنے کی کوششوں میں مصروف عمل، سازشوں اور رنجشوں کے تانے بانے میں الجھی ہوئی کہانیاں آکانشا کو بہت اچھی لگتی تھیں۔ اس بیچ ایک نیا سیرئیل بیرسٹر ونود شروع ہوا جس کا ہیرو شہر کا نامور وکیل تھا۔ سارے ملک میں اس کے چرچے تھے۔ وہ بڑے سے بڑے مجرم کو چھڑا لیا کرتا تھا۔ معروف سیاستدان اس کے دوست تھے۔ آئے دن اس کی خبریں اخبارات میں شائع ہوتیں۔ عدالت کی ہر پیشی کے وہ ہزاروں روپئے لیتا اور ایک محل نما کوٹھی میں رہتا تھا۔

             آکانشا جب بھی اس سیرئیل کو دیکھتی اسے سنتوش پر غصہ آنے لگتا اس لیے کہ وہ بھی ایک وکیل تھا لیکن اسے کبھی عدالت جانے کی توفیق نہیں ہوئی۔ ملک تو کیا پڑوس کے لوگ بھی نہیں جانتے تھے کہ ایڈوکیٹ سنتوش کون ہے؟ آج تک اس نے کسی مجرم تو کیا بے قصور ملزم کا بھی مقدمہ نہیں لڑا تھا۔ عجیب بے رنگ زندگی گذار رہا تھا یہ شخص۔ دنیا وی عیش و طرب سے اس کا کوئی لین دین ہی نہ تھا۔ اپنا دفتر، اپنا گھر، اپنا باس اور اپنی بیوی یہی اس شخص کی کل کائنات تھی اور وہ اسی میں مست تھا۔ آکانشا نے اسے کئی مرتبہ سمجھایا، جھنجھوڑا، ڈانٹا ڈپٹا سب کچھ کر کے دیکھ لیا لیکن سنتوش کے کان پر جوں نہ رینگتی تھی۔

            ایک مرتبہ آکانشا نے زبردستی سنتوش کوبیرسٹر ونود دکھانے کے لیے روک لیا اور خاتمہ کے بعد پوچھا۔ تم ایسے کیوں نہیں بنتے؟

            سنتوش نے جواب دیا۔ تم نے نہیں دیکھا یہ شخص کس قدر پریشان ہے۔ کس قدر دباؤ میں زندگی گذارتا ہے۔ رات گئے تک قانون کی کتابوں میں غرق رہتا ہے جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنانے سے اسے فرصت نہیں ملتی۔ کیسے کیسے الٹے سیدھے لوگوں سے اس کے تعلقات ہیں۔ یہ سب میرے بس کی بات نہیں۔ میں یہ فریب دہی نہیں کر سکتا۔

            سنتوش کا تبصرہ سن کر آکانشا آگ بگولہ ہو گئی۔ اپنے چہیتے کردار ونود کے بارے میں اتنی ساری منفی باتیں وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ آکانشا نے کہا۔ تمہیں اس میں صرف برائیاں ہی برائیاں نظر آتی ہیں کھوٹ ہی کھوٹ دکھائی دیتا ہے۔ تم نے اس کی شاندار حویلی نہیں دیکھی۔ اس کی شہرت تمہیں نظر نہیں آئی۔ اس کا ٹھاٹ باٹ، اس کی گاڑی، اس کی شان و شوکت یہ سب کچھ تمہاری آنکھوں سے اوجھل ہے۔ زندگی بھر کمپنی کے کوارٹر میں رہنے والے اس سے زیادہ سوچ بھی کیا سکتے ہیں اسی کو کہتے ہیں کھسیانی بلّی کھمبا نوچے۔

            اپنی بیوی آکانشا کی تقریر سن کر سنتوش نے قہقہہ لگا کر کہا۔ آکانشا اگر تمہیں وہ فلمی کردار اتنا ہی پسند ہے تو کر لو اسی سے شادی۔ میں کل ہی تمہارے طلاق کے کاغذات تیار کر کے لے آتا ہوں لیکن یاد رکھو میں جیسا بھی ہوں اصلی وکیل ہوں۔ ایڈوکیٹ سنتوش رانا ایل ایل ایم اور بیرسٹر ونود نرا بہروپیا ہے بہروپیا۔

            آکانشا غصہ سے بپھر گئی۔ اپنی بیوی کو طلاق کی دھمکی دینے کے علاوہ اور ایڈوکیٹ سنتوش کر بھی کیا سکتے ہیں۔ اس لیے یہ بھی کر کے دیکھ لو۔ مجھے اپنے میکے بھیج کر ہو جاؤ آزاد۔

            سنتوش پھر مسکرا دیا۔ میری جان طلاق کی بات تو میں نے صرف تمہیں چھیڑنے کے لیے کہی تھی ورنہ کون ظالم اتنی اچھی بیوی کو طلاق دیتا ہے۔ لیکن محترمہ آپ کو یہ تو ماننا ہی پڑے گا میں حقیقت میں جتنا آپ کا خیال رکھتا ہوں، آپ کی خدمت کرتا ہوں وہ تمہارا بیرسٹر ونود ٹی وی کے اسکرین پر بھی اپنی بیوی کی جانب ایسی توجہ نہیں کرتا۔

            یہ سن کر آکانشا کچھ نرم پڑی۔ اس نے کہا۔ میں نے کب کہا آپ میرا خیال نہیں رکھتے یا میری خدمت نہیں کرتے۔ وہ سب تو بے شک تم بحسن و خوبی کرتے ہو لیکن سنتوش! زندگی یہی سب تو نہیں ہے مجھے اس کے ساتھ کوٹھی، گاڑی، شان و شوکت، دولت شہرت اور بہت کچھ چاہئے۔ ان کے بغیر زندگی بے معنی لگتی ہے۔

            لیکن یہ سب ایک ساتھ نہیں آتا۔ سنتوش نے کہا۔ ایک کو دوسرے کی قیمت پر حاصل کرنا پڑتا ہے اور میں اپنے ازدواجی راحت و سکون کو داؤں پر لگا کر کچھ بھی حاصل کرنا نہیں چاہتا۔ سنتوش نے جواب دیا۔ آکانشا اُداس ہو کر اپنی خوابگاہ میں چلی گئی۔ اس مسئلہ پر سنتوش اور آکانشا کی نوک جھونک کوئی نئی بات نہیں تھی لیکن آج یہ توتو میں میں اپنے حدود کو پار کر گئی تھی۔ سنتوش دیر تک بیٹھا سوچتا رہا آخر کیا کرے اسے کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ ایسے میں بے ساختہ اسے اپنے دوست اویناش کا خیال آیا اور اس کی انگلی فون پر چلنے لگی۔ اویناش کے گھر پر فون اس کی بیوی شانتی نے اٹھایا۔ ہیلو کی آواز سنتے ہی سنتوش نے فون رکھ دیا۔ اس لئے کہ شانتی سے بات کرنے کا مطلب تھا آکانشا سے بات کروانا اور آج وہ نہیں چاہتا تھا کہ ان میں بات ہو۔ اس نے پھر موبائیل پر فون ملایا تو اویناش نے فوراً جواب دیا۔

            بول سنتوش کیا حال ہے؟

            سنتوش نے جواب دیا۔ یار حال اچھا نہیں ہے۔

            یہ سن کر اویناش چونک پڑا۔ تیس سال کی دوستی میں پہلی بار سنتوش کے منہ سے یہ الفاظ اویناش نے سنے تھے اسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ اس نے پھر پوچھا۔ کیوں بھائی خیریت تو ہے مذاق تو نہیں کر رہے ہو؟

            اویناش میں یہ کہہ چکا ہوں کہ خیریت نہیں ہے اور میں مذاق نہیں کر رہا ہوں فی الحال یہ بتلاؤ کہ تم کہاں ہو؟ شہر میں یا کہیں باہر۔

            سنتوش نے جھنجھلا کر کہا۔ میں تو گھر ہی پر ہوں بتاؤ کیا خدمت کی جائے۔

            اویناش بات در اصل یہ ہے کہ میں تم سے ملنا چاہتا ہوں۔

            اتنی رات گئے۔ خیریت تو ہے۔

            اویناش میں تم سے دو بار کہہ چکا ہوں کہ خیریت نہیں ہے۔ مجھے ابھی اسی وقت تم سے ملاقات کرنی ہے۔

            اویناش نے کہا۔ ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔ اب بتا کہاں ملنا ہے؟ تو میرے گھر آتا ہے یا میں آؤں؟

            نہیں ہم لوگ گھر پر نہیں ملیں گے ہم کسی پارک یا ریسٹورنٹ میں ملتے ہیں۔

            یہ سب باتیں اویناش کے لیے نئی تھیں۔ سنتوش رات گئے جاگنے کا عادی نہیں تھا۔ وہ اتنی جلد بازی میں کوئی کام نہ کرتا تھا۔ کسی بھی کام کو بڑے آرام سے کل پر ٹال دیتا تھا اور پھر گھر پر ہی ملنا پسند کرتا تھا۔ کسی اور مقام پر بلانے کے لیے اسے کافی منانا پڑتا تھا لیکن آج سب کچھ اُلٹا ہو رہا تھا۔ اویناش اور سنتوش نے ملنے کے لیے جوہو کا ساحل طے کیا اور اویناش تیار ہونے لگا۔ شانتی نے پوچھا۔

            ارے اتنی رات گئے کہاں کی سواری ہے۔

            مجھے سنتوش نے بلایا ہے۔

            سنتوش بھیا نے اس وقت؟ خیریت تو ہے۔ شانتی نے پوچھا۔

            نہیں نہیں خیریت نہیں ہے۔ نہیں میرا مطلب خیریت ہے کوئی بات نہیں۔

            شانتی ہنسنے لگی ارے آپ اس قدر بوکھلائے ہوئے کیوں ہیں۔ سنتوش ہی کے پاس جا رہے ہیں نا یا؟

            ہاں بابا سنتوش کے پاس ہی جا رہا ہوں۔

            میں بھی چلوں۔ شانتی نے پوچھا۔

            اویناش جھلّا گیا۔ شک کی دوا تو حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں اور تم عورتوں کا شک تو بھگوان ہی بچائے۔ چلو اگر چلنا ہے لیکن پہلے بتائے دیتا ہوں کہ سنتوش بھابی کے ساتھ نہیں اکیلے آ رہا ہے۔

            شانتی نے ہنستے ہوئے کہا۔ آپ سنجیدہ ہو گئے میں یوں ہی مذاق کر رہی تھی۔ یہ جاننا چاہتی تھی کہ کہیں کوئی تجربہ تو یاد نہیں آ گیا اور ڈاکٹر صاحب تجربہ گاہ کی جانب تو نہیں چل دیئے۔ خیر گڈ بائی۔ گڈ بائی .

            سنتوش اور اویناش دس منٹ کے اندر متعینہ مقام پر پہنچ گئے۔ وہاں پہنچنے کے بعد سنتوش نے سارا واقعہ تفصیل سے سنا دیا اور کہا کہ اویناش اب پانی سر سے اونچا ہو چکا ہے۔ اب یہ سب قابل برداشت نہیں رہا۔ پہلے نوک جھونک کبھی کبھار ہوا کرتی تھی اب کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ بحث نہ ہو۔ تم تو میرا مزاج جانتے ہی ہو یہ سب میرے بس کی بات نہیں۔

            اویناش نے سنتوش کی بات سن کر کہا۔ یار یہ مسئلہ صرف تمہارا نہیں میرا بھی ہے۔ شانتی میری تمام تر کامیابیوں کے باوجود مجھ سے ناراض رہتی ہے۔ اس کے لیے میری شہرت میرے تمغے میرا نام نمود سب بے معنی ہے۔ وہ چاہتی ہے میں بھی دوسروں کی طرح شام پانچ بجے دفتر سے چھوٹ کر اس کی خدمت میں آ جایا کروں نہ دیر تک کام کروں نہ نئی نئی ایجادات کروں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا میں کیا کروں؟ اس کی بار بار روک ٹوک نے مجھے احساس جرم میں مبتلا کر دیا ہے۔ جو کچھ تمہارے ساتھ ہوا وہی کچھ میرے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ شانتی نرم آنچ ہے اور آکانشا شعلۂ جوالہ ہے۔ لیکن دوست آگ تو آگ ہے دونوں کے گھاؤ یکساں ہی ہوتے ہیں۔

            ہم دونوں کو اس کا علاج تلاش کرنا ہی ہو گا ورنہ ہماری زندگی جہنم بن جائے گی۔

            دونوں ساحل سے چل کر چائے خانے میں آ گئے۔ چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے دیر تک سوچتے رہے کیا کیا جائے؟ چائے ختم کرتے کرتے اویناش نے کہا۔

            آئیڈیا۔ ہم ایسا کرتے ہیں ڈاکٹر نائک سے ملتے ہیں۔

            یہ ڈاکٹر نائک کون ہے؟ تمہارے ساتھ کام کرتا ہے کیا؟ سنتوش نے پوچھا۔

            نہیں۔ اویناش بولا۔ یہ ہماری لائن کا ڈاکٹر نہیں ہے بلکہ مشہور ماہر نفسیات ہے۔ ہمیں اس سے رجوع کرنا چاہئے۔

            اویناش نے فون پر ڈاکٹر نائک کے دوا خانے سے اگلے دن کا وقت لیا اور سنتوش کو اس کے مطب کا پتہ بتلا کر اپنے گھر روانہ ہو گیا۔ سنتوش بھی واپس آ کر سو گیا۔

            دوسرے دن دونوں دوستوں نے اپنی اپنی کہانی ڈاکٹر نائک کو سنائی۔ ڈاکٹر صاحب نے ان سے کئی سوالات کئے اور اپنی تشخیص ان کے سامنے رکھ دی۔ انہوں نے بتلایا چونکہ تم دونوں کے مزاج اپنی اپنی بیویوں کی ضد ہیں۔ اس لیے تمہاری ازدواجی زندگی کبھی بھی اطمینان بخش نہیں ہو سکتی۔

            لیکن ڈاکٹر صاحب سنتوش بولا۔ ہم دونوں کے مزاج بھی تو ایک دوسرے سے مختلف ہیں اس کے باوجود پچھلے تیس سالوں سے ہم دونوں ہم پیالہ اور ہم نوالہ ہیں۔ اگر متضاد مزاج کے باوجود دوستی قائم رہ سکتی ہے تو رشتۂ ازدواج کیوں نہیں؟

            ڈاکٹر نائک نے کہا۔ سوال دلچسپ ہے۔ دوستی اور شادی میں یہ بنیادی فرق ہے۔ دوستی میں محبت تو بہت ہوتی ہے لیکن باہم انحصار بہت کم ہوتا ہے لیکن شادی میں محبت ہو نہ ہو باہم انحصار بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اس لیے دوستوں کی شخصیت ایک دوسرے سے منفرد اور مختلف ہو سکتی ہے لیکن تعلقاتِ زن و شو میں اس سے مسائل کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ایک اور بات ہے۔ ڈاکٹر نائک بولے۔ رشتۂ ازدواج میں ایک دوسرے سے توقعات بہت زیادہ وابستہ ہوتے ہیں اور اسی کے باعث مایوسی کی مقدار بھی زیادہ ہوتی ہے۔ دوستی میں توقعات کی کمی کے باعث ایسا نہیں ہوتا۔

            اویناش نے کہا۔ ڈاکٹر صاحب یہ سب تو ٹھیک ہے لیکن اب ہم کیا کریں؟ ہم خوش رہنا چاہتے ہیں۔

            ڈاکٹر نائک نے کہا۔ اس حالت میں تو آپ لوگ خوش نہیں رہ سکتے۔

            سنتوش نے پوچھا۔ لیکن صاحب اس حالت کے لیے کون ذمہ دار ہے؟ کون قصور وار ہے؟

            ڈاکٹر نائک مسکرائے اور انہوں نے کہا۔ انفرادی طور سے تم چاروں کی کوئی غلطی نہیں ہے تم سب ٹھیک ٹھاک ہو نہ تم میں کوئی کمی ہے نہ خامی مگر تمہارا جوڑ درست نہیں ہے۔

            دونوں نے ایک ساتھ پوچھا۔ کیا مطلب؟

            نائک بولے۔ تم لوگ گاڑی چلاتے ہی ہو گے۔ اس لیے ایک مثال کے ذریعہ میں یہ بات تمہیں سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔ ایک شخص اپنی گاڑی کی رفتار طے کرنے کا حق اپنے پاس ضرور رکھتا ہے لیکن اسے اپنی رفتار کے لحاظ سے ٹریک کا انتخاب کرنا چاہئے۔ اگر دھیمی رفتار سے چلنے والا فاسٹ ٹریک پر گاڑی چلائے تو اسے پیچھے والے کے دباؤ کا شکار ہونا پڑتا ہے اور اسی طرح اگر تیز چلانے والا دھیمی ٹریک پر گاڑی چلائے تو اگلے کی رفتار پر جھنجھلاہٹ کا شکار ہوتا ہے۔ یہ دونوں حضرات دوسروں کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں حالانکہ قصور ان کا اپنا ہوتا ہے۔

            لیکن ڈاکٹر صاحب آپ نے کہا تھا ہر شخص کو اپنی رفتار کے تعین کا اختیار ہے۔

            جی ہاں میں نے کہا تھا۔ ڈاکٹر نائک بولے۔ لیکن یہ بھی کہا تھا کہ ہر شخص کو اپنی رفتار کے مطابق ٹریک کا انتخاب بھی کرنا چاہئے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو مسائل پیدا ہوتے ہیں۔

            اویناش پھر بولا۔ ڈاکٹر صاحب۔ وہ تو ٹھیک ہے لیکن ہم کیا کریں اب تو ہم اس ٹریک پر آ ہی چکے ہیں۔

            ٹھیک ہے ڈاکٹر نائک نے کہا۔ آپ لوگ اپنی رفتار بدل دیجئے۔

            ہم اپنی رفتار بدل دیں۔ سنتوش نے تعجب سے پوچھا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ تو بہت مشکل ہے۔

            ڈاکٹر نائک بولے۔ بہت خوب تمہیں اپنی مشکل کا احساس ہے لیکن دوسروں کی نہیں جو چیز تمہارے لیے مشکل ہے وہ کسی اور کے لیے کیسے آسان ہو سکتی ہے؟

            اویناش نے کہا۔ لیکن میں نے کہیں پڑھا تھا محبت ہر مشکل کو آسان کر دیتی ہے۔ اگر ہماری بیویوں کے دلوں میں ہمارے لیے محبت ہے تو ان کے لیے کوئی دقت نہیں ہونی چاہئے۔

            ڈاکٹر نائک بولے۔ اویناش تمہاری یہ دلیل تو بڑی جاندار ہے۔ تمہیں سائنسداں کے بجائے سیاستداں ہونا چاہئے تھا۔ میں پوچھتا ہوں اگراسی منطق کے مطابق تمہارے دل میں ان کے لیے محبت ہے تو تمہیں بھی کوئی مشکل نہیں ہونی چاہئے۔ اب چونکہ تمہارے لیے مشکل ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ محبت نہیں ہے اور جب تمہارے دلوں میں ان کے لیے محبت نہیں ہے تو ان کے دلوں میں تمہارے لیے محبت کیسے ہو سکتی ہے؟ اس لیے کہ محبت ہی تو ایک ایسا جذبہ ہے جس کا رد عمل بالکل یکساں اور برابر ہوتا ہے۔

            سنتوش بگڑ گیا۔ ڈاکٹر صاحب آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ آپ کا مطلب ہے ہم لوگوں کے اندر ایک دوسرے کے لیے جذبہ الفت نہیں ہے اور اگر ایسا ہے تو کیا ہے؟

            ڈاکٹر نائک بولے۔ سنتوش اطمینان رکھو حقائق کبھی کبھار تلخ ہوتے ہیں لیکن ان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ محبت اور حکومت میں بہت معمولی سا فرق ہے۔

            اویناش اور سنتوش نے ایک ساتھ سوال کیا۔ وہ کیا؟؟

            ڈاکٹر نائک بولے محبت میں حبیب اپنے محبوب کی مرضی میں ڈھل جانا چاہتا ہے اور حکومت میں حاکم اپنے محکوم پر مرضی چلانا چاہتا ہے۔ اب تم لوگ خود ہی فیصلہ کر سکتے ہو کہ تمہارے درمیان الفت ہے یا سیاست۔

            لیکن ایک درمیانی شکل بھی تو ہوتی ہے مصالحت کی جس میں دونوں فریق اپنے اندر جزوی تبدیلی لائیں۔ کیا اسے آپ محبت نہیں کہیں گے۔ سنتوش نے پوچھا۔

            نہیں۔ ڈاکٹر نائک بولے۔ وہ تو تجارت ہے اس لیے کہ ایسا کرنے کے بعد پھر حساب کتاب ہوتا ہے جس نے اپنے اندر کم تبدیلی برپا کی وہ اپنے آپ کو فائدے میں سمجھتا ہے اور جس کو زیادہ تبدیلی لانی پڑی وہ سمجھتا ہے کہ اس کا خسارہ ہو گیا۔

            لیکن انسان ہر ایک کی مرضی کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال تو نہیں سکتا تو سب سے محبت کیسے کر سکتا ہے۔؟

            ڈاکٹر نائک بولے۔ تمہاری بات درست ہے انسان کو اختیار ہے کہ کس سے محبت کرے کس سے نہ کرے لیکن وہ جس کسی سے محبت کرے گا اس کے تئیں یہی رویہ اختیار کرنا ہو گا جس کا میں نے ابھی ذکر کیا۔ انسان کو اس کی بھی آزادی ہے کس پر حکومت کرے لیکن وہ جس کسی پر حکومت کرے گا اس کے ساتھ اسی طرح کا سلوک کرے گا جیسا کہ میں  بت اچکا ہوں۔

            دونوں خاموش ہو گئے پھر اویناش نے پوچھا۔ ڈاکٹر صاحب ایک بات بتائیے۔ حکومت میں محکوم حاکم پر اپنی مرضی چلانا نہیں چاہتا لیکن یہاں دونوں ایک دوسرے پر اپنی مرضی چلانا چاہتے ہیں؟

            اس کی وجہ یہ ہے۔ ڈاکٹر نائک نے کہا۔ شوہر تو اس لیے چلانا چاہتا ہے کہ وہ شوہر کی حیثیت سے اپنے آپ کو بیوی کا آقا سمجھتا ہے اور بیوی اس خوف سے اس پر اپنی مرضی چلاتی ہے کہ کہیں یہ کسی اور کا محکوم نہ ہو جائے۔ اس لیے اسے اپنا تابع اور فرمانبردار بنا کر رکھنا چاہتی ہے۔ ویسے دونوں کے اندر رشتہ چونکہ محبت کے بجائے ضرورت کا ہوتا ہے اس لیے اگر ضرورت پوری ہوتی ہے تو رشتہ خوشگوار رہتا ہے اور جب وہ پوری نہیں ہوتی تو رشتوں میں تلخی آ جاتی ہے۔

            لیکن ہم تو اپنی بیویوں کی ساری ضرورتیں پوری کرتے ہیں۔ سنتوش نے کہا۔

            ڈاکٹر نائک بولے۔ عام طور پر مادی ضرورتوں کو ہی سب کچھ سمجھ لیا جاتا ہے حالانکہ احساسات و جذبات کو مادی ضروریات پر فوقیت حاصل ہے۔

            ٹھیک ہے ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہماری نفسیات ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور ہم اسے بدل نہیں سکتے۔ سنتوش نے کہا۔ اس لیے آپ کوئی متبادل بتلائیں۔

            ڈاکٹر صاحب بولے۔ متبادل تو یہ ہے کہ اگر تم اپنی رفتار نہیں بدل سکتے ہو تو ٹریک بدل دو یہ سہل تر ہے۔

            ڈاکٹر نائک کا جملہ دونوں پر ایٹم بم کی طرح گرا۔ ان دونوں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ دونوں سکتے میں آ گئے۔ کافی دیر خاموش رہے۔ اویناش نے خاموشی کو توڑتے ہوئے کہا۔ بات تو شاید معقول ہے لیکن …اور رک گیا۔

            ڈاکٹر صاحب نے پوچھا۔ لیکن کیا؟

            لیکن میں پہل کرنے کی جرأت اپنے اندر نہیں پاتا۔

            سنتوش نے بھی فوراً تائید کی۔

            ڈاکٹر نائک بولے۔ آپ لوگ فکر نہ کریں میں ان کو سمجھانے کی کوشش کروں گا۔

            دونوں نے بیک وقت کہا۔ یہ ٹھیک ہے۔ اس کے بعد دہ عجیب بیم و رجا کی کیفیت میں مبتلا ہو گئے۔ انہیں اپنی منزل سامنے دکھلائی دیتی تھی لیکن درمیان میں بہت بڑی کھائی تھی انہیں یقین تھا آکانشا اور شانتی اس تجویز کو سن کر بپھر جائیں گی اور ایسا کبھی بھی نہ ہو سکے گا۔ ڈاکٹر نائک سے آئندہ ملاقات کا وقت لے کروہ واپس ہوئے۔ دیر تک ساتھ ساتھ چلتے رہے لیکن ایک لفظ نہ کہا۔ عجیب و غریب حالت تھی۔ ان کی زبانیں گنگ ہو گئی تھیں۔ ذہن سن ہو گئے تھے وہ لوگ رو بوٹ کی طرح چل رہے تھے۔ گاڑیوں کے قریب آ کر دو بے جان ہاتھ ایک دوسرے سے ملے اور جدا ہو گئے۔

            دو روز بعد ڈاکٹر نائک سے ملنے وہ دونوں دوست اپنی اپنی اہلیہ کے ساتھ پہنچ گئے۔ ڈاکٹر نائک نے پہلے ہر ایک سے علیحدہ علیحدہ گفتگو کی اور پھر شانتی اور آکانشا کو ساتھ بلا کر گفت و شنید کی۔ خلاف توقع ان دونوں خواتین کی جانب سے اس طرح کے سوالات کی بوچھار نہیں ہوئی جیسے اویناش اور سنتوش کرتے رہے تھے۔ تجویز کو سننے کے بعد تھوڑے سے شش و پنج کے بعد آکانشا نے پوچھا۔

            بات تو معقول ہے لیکن … اور وہ رک گئی۔

            ڈاکٹر نائک نے کہا۔ میں نے ان دونوں کو سمجھا دیا ہے۔

            شانتی بولی۔ لیکن بچے؟

            ڈاکٹر صاحب نے کہا۔ ویسے تو بچہ اپنے باپ کا ہے اور اس کی جائداد کا وارث ہے لیکن فی الحال آپ لوگ اس مسئلہ کو اس طرح حل کر سکتے ہیں کہ انہیں سے پوچھ لیں کہ وہ ماں کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا باپ کے ساتھ۔ بچہ جس کے ساتھ رہنا چاہتا ہو عارضی طور پر اس کے ساتھ رہنے دیا جائے۔

            آکانشا اور شانتی جب ڈاکٹر نائک کے کمرے سے انتظار گاہ میں آئیں تو دیکھا دونوں دوست گم سم احساس شکست کے گہرے سمندر میں غوطہ زن ہیں۔ کنکھیوں سے شانتی کو دیکھ کر مسکرانے کے بعد آکانشا بولی۔

            ہیلو ایوری باڈی۔ یہ کیا تم لوگ تو ایسے بیٹھے ہو جیسے آپریشن تھیٹر سے ہماری لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔ کیوں کیا بات ہے؟

            اویناش بولا۔ نہیں نہیں کچھ نہیں۔ وہ تو بس یونہی ہم لوگ، کچھ نہیں کچھ بھی نہیں۔

            شانتی نے اویناش کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا چلو اویناش وکاس اسکول کے باہر ہمارا انتظار کر رہا ہو گا۔ میں نے اسے میک ڈونالڈ لے جانے کا وعدہ کیا تھا۔

            ہاں ہاں۔ اویناش بولا۔ میں تو بھول ہی گیا تھا۔

            شانتی بولی۔ اس میں کوئی نئی بات نہیں۔ تمہیں یہ سب کب یاد رہتا ہے۔ اچھا آکانشا چلتے ہیں۔ ہمیں دیر ہو رہی ہے۔

            ان دونوں کے چلے جانے کے بعد سنتوش بوجھل قدموں سے اٹھا اور آہستہ سے گاڑی کی جانب بڑھا۔ وہ خاموش تھا اور کافی دیر خاموش رہا۔ جب گھر قریب آ گیا تو اس نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔ ڈاکٹر نائک نے کچھ کہا تو نہیں؟

            آکانشا نے کہا۔ کیسی بات کرتے ہو سنتوش ڈاکٹر نائک سے ہم ملنے جائیں اور وہ کچھ نہ کہیں۔ اگر ایسا ہونے لگے تو انہیں فیس کون دے گا؟

            سنتوش نے کہا۔ ہاں وہ تو ٹھیک ہے لیکن انہوں نے کچھ ایسا ویسا تو نہیں کہہ دیا۔

            نہیں سنتوش۔ وہ اتنے بڑے ماہر نفسیات ہیں وہ ایسی ویسی بات کیسے کہہ سکتے ہیں۔ وہ ٹھیک ہی کہتے ہیں ہمیں حقیقت پسند ہونا چاہئے۔ آکانشا کے اس جملے نے سنتوش کے ہوش اُڑا دیئے۔

            ایک ہفتہ کے اندر بچوں سے رائے معلوم کر لی گئی۔ اویناش کے وکاس نے ماں کے ساتھ رہنا پسند کیا اور سنتوش کے سبھاش نے باپ کے ساتھ۔ اس طرح دونوں بچے ایک ساتھ ہو گئے۔ سنتوش نے پہلی مرتبہ طلاق کے کاغذات تیار کیے اور وہ بھی اپنے اور اپنے جگری دوست اویناش کے۔ اسی کے ساتھ شادی کے کاغذات بھی تیار کر لیے۔ جس دن ان کی طلاق کے کاغذ جمع ہوئے اسی دن طلاق نافذ ہو گئی اور شادی بھی رجسٹر ہو گئی۔

            دوسرے دن اخبار میں خبر چھپی ڈاکٹر اویناش کھانولکر نے آکانشا بھاٹیا کے ساتھ شادی کر لی۔ کئی لوگوں نے اس کی سابقہ بیوی شانتی کے بارے میں لکھا اور اس پر ہونے والی نا انصافی پر غم و غصہ کا اظہار بھی کیا۔ لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ شانتی نے بھی شانتی پورک زندگی کا نیا سفرسنتوش، وکاس اور سبھاش کے ساتھ شروع کر دیا ہے۔

٭٭٭


 

 

 

                  بولتی ناگن

 

            جھمرو کا خیمہ شاد باد تھا۔

            لوگ اس سے بے سر پیر کے سوالات کر رہے تھے اور وہ ان کے اوٹ پٹانگ جوابات دے رہا تھا پھر بھی ہر کوئی خوش تھا۔ وقفے وقفے سے ہنسی کے فوارے چھوٹتے اور قہقہے بلند ہوتے۔ بازار کی گہما گہمی سے تھک کرسستانے کیلئے لوگ جھمرو کے پاس وقت گزاری کیلئے آ جاتے تھے اور ان کے آنے سے جھمرو کا بھی ٹائم پاس ہو جاتا تھا۔ لوگ اپنی مرضی سے وہاں آتے اور اپنی سہولت سے نکل جاتے نہ کوئی انہیں آنے کیلئے کہتا اور نہ جانے سے منع کرتا لیکن برکت کا یہ عالم تھا کہ جتنے لوگ اٹھ کر جاتے تقریباً اتنے ہی نئے آ جاتے۔ محفل کی رونق رات گئے تک بدستورقائم و دائم رہتی۔ یہاں تک کے بازار اٹھ جاتا اور جھمرو اپنے کام میں جٹ جاتا۔

            اس دوران کسی نے پوچھا جھمرو چاچا وہ ناگن کا کیا قصہ ہے؟ سنا ہے اس کے سپیرے نے ہی اسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

            جی ہاں تم نے صحیح سنا ہے۔ سپیرے نے نہیں بلکہ اس کے اناڑی لڑکے نے۔ ویسے سپیرے کا لڑکا بھی سپیرہ ہی ہوتا ہے اس لئے تمہاری بات بھی درست ہے۔

            دوسرے شخص نے سوال کیا۔ بھئی ہم نے کچھ بھی نہیں سنا۔ ہمیں بھی تو پتہ چلے کہ ماجرہ کیا ہے؟

             اگر نہیں پتہ تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اس لئے کہ کچھ معاملات میں آگہی کا کرب لاعلمی کی محرومیت سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔

            تیسرے نے ہنستے ہوئے کہا آج تو جھمرو چاچا کے اندر کسی فلسفی کی روح سرائیت کر گئی ہے۔ نہ جانے کیسی بہکی باتیں کرنے لگے ہیں۔

            ایک ہلکا سا قہقہہ بلند ہوا لیکن اس میں جھمرو شامل نہیں تھا۔ یہ دوسری حیرت انگیز بات تھی ورنہ سب سے پہلے ہنسنے والوں میں سے ایک جھمرو ہوتا تھا۔

            ایک اور شخص بولا کہیں جھمرو بابا آج اس ناگن کا سوگ تو نہیں منا رہے ہیں؟

            کسی اور نے کہا اس ناگن سے آپ کو کوئی خاص۔۔۔۔۔۔۔۔۔

            جھمرو نے ڈانٹتے ہوئے کہا کیا بکتے ہو چپ کرو اور پھر فوراً اپنے آپ کو سنبھال کر بولا آپ لوگ اس بیچاری ناگن کے پیچھے کیوں پڑ گئے۔ کوئی اور بات کیوں نہیں کرتے؟

            جھمرو کو اس قدر غمگین لوگوں نے کبھی نہیں دیکھا تھا وہ بولے معاف کرنا جھمرو چاچا غلطی ہو گئی لیکن اب ہم ناگن کے بارے میں جانے بغیر یہاں سے نہیں ٹلیں گے۔

            جھمرو بولا چھوڑو، وہ لمبی کہانی ہے۔ بازار بند ہو جائے گا تم لو گوں کا سودا سلف چھوٹ جائے گا۔ چلو پھر کبھی۔۔۔۔۔

            جی نہیں آج اور ابھی۔ اس بار بہت ساری آوازیں ایک ساتھ اٹھیں

            اچھا اگر ایسا ہے تو میری بھی ایک شرط ہے؟

            وہ کیا؟

            یہی کہ بیچ میں سے کوئی اٹھ کر نہیں جا سکتا۔ اگر کسی نے ایسا کیا تو۔۔۔۔۔۔

            تو کیا؟

            تو اژدھا اسے نگل جائے گا اس لئے کہ وہ ابھی زندہ ہے۔

            لوگوں کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ وہ سوچنے لگے اژدھا نگل جائے گا کیا مطلب؟

            جھمرو نے زوردار قہقہہ لگا یا اور بولا کیوں ڈر گئے نا سب لوگ؟ جاؤ جا کر اپنا کام کرو۔ چھوڑو ناگن کو اور اس کی کہانی کو۔۔۔۔۔۔

            ہم نہیں ڈرے اور ہم نہیں جائیں گے آج آپ کو اس کی کہانی سنانی ہی ہو گی۔

            اچھا تو تم سب کو میری شرط یاد ہے؟

            سب نے ایک آواز ہو کر کہا جی ہاں۔

            اور منظور بھی ہے۔

            جی ہاں ہمیں منظور ہے۔

            جھمرو نے قصے کا آغاز کر دیا۔ ڈمرو مداری دور کے رشتے میں میرا بھائی ہے۔ نہ جانے کیا سوچ کر میرے چچا نے اس کا نام ڈمرو رکھ دیا تھا اس لئے کے ہم محنت مزدوری کرنے والے لوگ ہیں۔ کھیل تماشہ ہم نہیں کرتے۔ اس کام کو ہم نے سیاستدانوں کیلئے چھوڑ رکھا ہے۔ لوگوں کے چہرے پر ہنسی مسکرانے لگی محفل پھر سے اپنے رنگ پر آنے لگی۔

            ہوا یوں کہ ایک روز ڈمرو جنگل میں شکار کے لئے گیا ہوا تھا تاکہ گھر میں گوشت پک سکے۔ شام تک وہ مارا مارا پھرتا رہا لیکن کوئی مناسب جانور اس کے ہاتھ نہیں آیا آخر تھک ہار کر وہ ایک پیڑ کے نیچے سو گیا۔ کچھ دیر بعد شور بلند ہوا۔ بولتی ناگن مردہ باد، بولتی ناگن مردہ باد اور چیونٹیوں کی آبادی میں ہلچل مچ گئی۔ بولتی ناگن کی پسندیدہ غذا یہ لال بھڑک چیونٹیاں ہی تھیں۔ چیونٹیاں اپنی جان بچا کر بھاگ رہی تھیں اور ناگن جلدی جلدی سپاسپ انہیں چٹ کر رہی تھی۔ اس سے پہلے کہ چیونٹیاں کسی محفوظ ٹھکانے پر پہنچتیں ناگن کئی چیونٹیوں کو اپنا تر نوالہ بن اچکی تھی۔

            ناگن نے ان کا پیچھا نہیں کیا اس لئے کہ اس کا اژدھا وہیں ڈمرو کے بغل میں محو خواب تھا وہ اسے سوتا چھوڑ کر نہیں جا سکتی اس لئے بہت ساری چیونٹیوں کی جان بچ گئی لیکن اس بھاگو بھاگو اور مردہ باد کے شور شرابے سے ڈمرو کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے دیکھا ایک موٹا تازہ اژدھا اس کے بغل میں آرام فرما رہا ہے۔ ڈمرو گھبرا گیا اور اس نے جھٹ اپنا رام پوری چاقو نکالا تاکہ اژدھے کے سر میں گھونپ دے۔ اس سے پہلے کہ وہ اپنے ارادے کو عملی جامہ پہناتا اس کے کان میں آواز آئی ایسا نہ کرو۔ اس بیچارے نے تمہارا کیا بگاڑا ہے؟

            ڈمرو کا ہاتھ کانپنے لگا اس نے خوف سے ادھر ادھر دیکھا نہ آدم نہ آدم زاد یہ آواز کہاں سے آ رہی تھی۔ پتوں کے درمیان اسے ایک ننھی سی ناگن نظر آئی۔ اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ ناگن بول رہی لیکن اس کے پاس تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں تھا وہ بولا کچھ کیا نہیں ہے تو کیا؟ کر تو سکتا ہے۔ اگر وہ جاگ کر مجھے کاٹ لے تو میرا کام تمام؟

            ناگن بولی اسے اگر کچھ کرنا ہی ہوتا تو وہ آ کر سونے قبل تمہارا کام تمام کر دیتا اور تمہیں پتہ بھی نہیں چلتا کیونکہ اس وقت تم اسی طرح سو رہے تھے جس طرح اب وہ سورہا ہے۔

            ڈمرو نے سوچا بات تو صحیح ہے لیکن پھر وہ شوخی سے بولا اچھا ناگن یہ بتاؤ کہ اگر میں تمہاری بات نہ مانوں تو تم کیا کر لو گی؟

            میں۔۔۔ میں تمہیں ڈس لوں گی۔ ناگن مسکرا کر بولی

            ڈمرو پھر ڈر گیا لیکن اپنے آپ کو سنبھال کر بولا اچھا وہ تو تم پہلے بھی کر سکتی تھیں۔

            جی ہاں لیکن جس کام کو میرے اجگر نے نہیں کیا اور جس کام سے میں تمہیں منع کر رہی ہو اس کو خود کیسے کر سکتی ہوں بھلا؟

            اچھا تم تو بڑی اصول پسند ناگن معلوم ہوتی ہو؟

            جی ہاں جنگل میں رہنے والے سارے جاندار ایسے ہی ہوتے ہیں وہ اصولوں کی بات نہیں کرتے ان کا پاس و لحاظ کرتے ہیں۔ ہاں شہروں میں رہنے والوں کا حال مختلف ہے وہ اصولوں کی بات تو بہت کرتے ہیں لیکن پاسداری کم ہی ہوتی ہے۔ لوگ سمجھ گئے یہ بات ناگن نے ہر گز نہیں کہی ہو گی جھمرو اپنی بات اس کے نام سے کہہ رہا ہے لیکن کسی نے ٹوکا نہیں۔ کہانی میں سب کو مزہ آ رہا تھا۔

            ڈمرو بولا ناگن تمہاری منطق مجھے پسند آئی اور تمہاری باتیں ان کا کیا کہنا، میں نے تو کبھی انسانوں کے منہ سے بھی اس قدر حکمت کی بات نہیں سنی۔

            ناگن بولی ذرہ نوازی کا شکریہ ویسے ابھی تم نے سنا ہی کیا ہے؟ اور کیا تم نے کبھی ناگن کا رقص دیکھا ہے؟

            ناگن کا رقص! نہیں تو۔ کیا تم نے رقص کرنا بھی سیکھ لیا ہے؟

            ناگن زور سے ہنسی اور بولی تم بھی بہت بھولے ہو ڈمرو ناگن کو ناچ سیکھنا نہیں پڑتا ہے ہر ناگن پیدائشی طور پر ماہر رقاصہ ہوتی ہے۔

            اچھا تو پھر ناچ کے دکھلاؤ۔

            لیکن اس کیلئے تمہیں بین بجانا پڑے گا؟ کیا تمہارے پاس بین ہے؟

            جی نہیں نہ تو میرے پاس بین ہے اور نہ مجھے بین بجانا آتا ہے۔

            اچھا مجھے تمہاری صدق گوئی پسند آئی مگر تمہیں میرا رقص دیکھنے کیلئے پہلے تو بین کا بندو بست کرنا ہو گا اس کے بعد اس کو بجانا سیکھنا ہو گا ڈمرو!

            ناگن کے منہ سے دوسری بار اپنا نام سن کر ڈمرو حیران رہ گیا وہ بولا اچھا تو تمہیں میرا نام بھی پتہ چل گیا۔ تم ناگن ہو یا جادو گر۔

            میں ساحر ہوں نہ جادوگر۔ سفلی علم تو انسانوں ہی کا خاصہ ہے۔

            اچھا تو کیا تمہارے قبضے میں کو ئی جن ہے جس نے تمہیں میرا نام بتلا دیا۔ ڈمرو کو ناگن سے باتوں میں لطف آ رہا تھا جس طرح تم لوگوں کو میری باتوں میں آ رہا ہے۔

            مجمع نے ایک آواز میں تائید کی جی ہاں جھمرو بہت مزہ آ رہا ہے۔

            ناگن نے جواب دیا نہیں جن ون کچھ بھی نہیں در اصل تم خواب میں بار بار اپنے آپ کو ڈمرو‘‘ کہہ کر کوس رہے تھے، میں سمجھ گئی کہ ہو نہ ہو تمہارا نام ڈمرو ہو گا۔ جب پہلی مرتبہ تم نے توجہ نہیں دی تو میں نے سوچا کہ میرا اندازہ غلط ہے لیکن اب تم نے تصدیق کر ہی دی۔

            اچھا تو تم میری بات چیت سن رہی تھیں؟

            در اصل میں تو اس احمق اجگر کی پہرے داری کر رہی تھی۔ ایسے میں تم اپنے آپ سے باتیں کرنے لگے تو مجھے مجبوراً سننا پڑا۔

            بہت خوب۔ اچھا تو اب اپنا نام بھی بتا دو۔

            میرا کوئی نام نہیں ہے تم جس نام سے چاہو مجھے بلا سکتے ہو۔

            اچھا تو میں تمہیں رانی کہہ کر بلاؤں گا بشرطیکہ تمہارے اجگر کو اعتراض نہ ہو۔

            اجگر بیچارہ نہ سن سکتا ہے اور نہ بول سکتا ہے اس لئے اسے کیا اعتراض ہو سکتا ہے

            اور سنو ناگن رانی اب تمہیں میں اپنے ساتھ لئے بغیر گھر نہیں جاؤں گا، کیا سمجھیں زندگی میں تم پہلی۔۔۔۔۔۔۔

            ناگن ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ناگن نے بات آگے بڑھائی۔

            جی ہاں وہی ناگن ہو جو مجھے اچھی لگی ہو۔ اس لئے تمہیں میرے ساتھ چلنا ہو گا۔

            وہ تو ٹھیک ہے لیکن میری ایک شرط ہے۔ میں اپنے اس اجگر کے بغیر نہیں رہ سکتی اس لئے میرے ساتھ اسے بھی لے کر چلنا ہو گا۔

            میں اسے برداشت کر لوں گا اب تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

            لیکن کیا تمہاری بیوی کسی اجنبی کو اپنے گھر میں برداشت کر لے گی۔ ہمارے جنگل کا ایک قانون یہ بھی ہے کہ ایک بار جو جنگل سے گیا اسے باغی قرار دے دیا جاتا ہے اور پھر اسے جنگل میں رہنے کی اجازت نہیں ہوتی کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم نہ گھر کے رہیں نہ گھاٹ کے۔

            جی نہیں۔ ایسا ہر گز نہیں ہو گا میری بیوی ٹم ٹم تمہاری طرح عقل مند نہیں ہے میں اسے سمجھا لوں گا۔

            تمہارے خیال میں عقلمند کو سمجھانا مشکل کام ہے یا بے وقوف کو؟ ناگن نے سوال کیا

            ڈمرو بولا عقلمند کے لئے خود کسی بات کو سمجھنا آسان ہے لیکن کسی اور کا اسے کوئی بات سمجھانا کٹھن ہے اس کے برعکس بیوقوف کا اپنے آپ کسی بات کا سمجھ لینا بہت مشکل ہے لیکن کوئی اور عقلمند اسے کو ئی بات سمجھائے تو وہ آسانی سے سمجھ جاتا ہے۔

            ناگن بولی میں سمجھ گئی۔

            کیا سمجھیں تم؟

            یہی کہ تم جو ہو نہ، اپنی بیوی اور میرے اجگر کی طرح بیوقوف نہیں ہو۔

            دونوں نے ایسا زوردار قہقہہ لگایا کہ بہرہ اجگر بھی جاگ گیا اور اپنی ناگن کے اطاعت میں ڈمرو کے گھر چلنے کیلئے راضی ہو گیا۔ ڈمرو حیرت سے یہ سب دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا انسان تو انسان جانور بھی۔۔۔۔۔۔ ناگن نے کہا کیا سوچ رہے ہو ڈمرو؟

            کچھ نہیں۔ چلو گھر چلتے ہیں ڈمرو بولا اور اسی کے ساتھ یہ تین نفری قافلہ ڈمرو کے گھر کی جانب روانہ ہو گیا۔

            گھر پہنچنے کے بعد ڈمرو کیلئے ٹم ٹم کو سمجھانے منانے کی نوبت ہی نہیں آئی وہ خود ہی ناگن پر فریفتہ ہو گئی اور بولی میری ایک بہن تھی کم کم بالکل رانی کی طرح پٹر پٹر بولتی تھی لیکن اسے کسی سانپ نے ڈس لیا اور وہ بچپن ہی میں فوت ہو گئی چلو بھگوان نے مجھے اس کا نعم البدل عطا کر دیا اس طرح پانچ لوگوں کا یہ ایک نیا سنسار وجود میں آ گیا جس میں پانچواں جھمرو کا بیٹا ننھاسامرو تھا۔

             دن گزرتے رہے نہ جانے کب ٹم ٹم بازار سے بین اور ڈگڈگی لے آئی اور ڈمرو کو مداری بنا دیا۔ ڈمرو کی بین پر ناگن ناچتی تھی اور ٹم ٹم کی ڈگڈگی پر ڈمرو اچھل کود کیا کرتا۔ ایک اجگر تھا جو اس تماشے کو خاموشی کے ساتھ دیکھا کرتا نہ کچھ سنتا اور نہ بولتا اس لئے کہ گونگا بہرہ تھا۔ ڈمرو اسے رشک سے دیکھتا اور سوچتا خاوند کیلئے گونگا اور بہرہ ہونا کس قدر مفید ہے۔

            وقت کے ساتھ ڈمرو ایک ماہر مداری بن گیا تھا۔ وہ اپنے ساتھ جھمورا بھی رکھنے لگا تھا۔ رانی ہرسال ایک انڈا دیتی اجگر اس کو سینکا کرتا اور اس طرح ہر سال ایک نیا سانپ ان کے گھر میں جنم لیتا تھا۔ جس دن سانپ کا بچہ انڈے سے باہر آتا وہ لوگ ناگ پنچمی کا تہوار مناتے۔ جب وہ سانپ کھیل تماشے کے قابل ہو جاتا تو اسے جھمورا کو انعام کے طور پر دے دیا جاتا اس طرح جھمورے کی ترقی ہو جاتی اور وہ مداری بن جاتا اس موقع پر ٹم ٹم کی جانب سے اسے بین کا تحفہ دیا جاتا۔ ڈمرو بلا ارادہ اپنے آپ میں ایک ادارہ بن گیا تھا اس کے شاگرد اس کا بڑا احترام کرتے اور اسے اپنا گرو مانتے تھے۔

            ڈمرو دن میں ناگن کے ساتھ مداری کا کھیل دکھلاتا شام میں لوٹ کر آتا تو ٹم ٹم اور اجگر کو انتظار میں پاتا۔ اجگر ناگن کی آہٹ پاتے ہی خوشی سے جھوم اٹھتا تھا اور اپنا دودھ کا پیالہ سرکا کر آگے لے آتا۔ ناگن ڈمرو کو بھول کر اپنے اجگر کے پاس چلی جاتی اور ڈمرو ٹم ٹم کی خدمت میں لگ جاتا۔ ایک روز ٹم ٹم نے ڈمرو سے کہا ایسا کب تک چلے گا؟

            کیسا کب تک چلے گا؟ میں کچھ سمجھا نہیں؟ سوال در سوال کو سن کر رانی کے کان کھڑے ہو گئے تھے۔ وہ بھانپ گئی تھی کہ ٹم ٹم کیا کہنے والی ہے۔ آخر وہ بھی تو صنفِ نازک تھی اگر ٹم ٹم کی بات کو وہ نہیں سمجھتی تو کیا اجگر سمجھتا۔ بے چارہ گونگا اور بہرہ اجگر! لیکن حیرت کی بات تو یہ تھی کی ڈمرو تو اجگر کی مانند گونگا اور بہرہ نہیں تھا۔ لیکن پھر بھی شوہر تو تھا۔ اجگر کی ہی طرح خادم، مطیع و فرمانبردار۔

            ٹم ٹم بولی آپ کب تک اس طرح ڈگڈگی بجاتے رہیں گے؟ اور اپنا سامرو کب تک اس طرح آوارہ گردی کرتا رہے گا؟ ٹم ٹم کا اشارہ اپنے جوان بیٹے سامرو کی طرف تھا۔

            بیگم ان دونوں سوالوں کا جواب میرے پاس نہیں ہے، پہلے سوال کا جواب خود آپ کو دینا ہو گا اور دوسرے کا فیصلہ خود آپ کا فرزندِ ارجمند کرے گا۔

            اگر ایسا ہے تو سنومیرا جواب اور فیصلہ۔۔۔۔۔۔۔

            حکم! ڈمرو سر جھکا کر بولا۔

            کل سے آپ آرام کریں گے اور سامرو کھیل دکھلائے گا۔

            اچھا لیکن میرا جھمورا اگر اس کا نائب بننے سے انکار کر دے تو؟

            اپنی بلا سے۔ اور مجھے پتہ ہے ایسا ہی ہو گا۔

            تو پھر کیا میں تمہارے سامرو کا جھمورا بن جاؤں۔

            جی نہیں جھمورا بنیں تمہارے دشمن۔ میں نے ساری منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔ میں یہ سنپولاتمہارے موجودہ جھمورے کو دے کر اسے آزاد کر دوں گی، سامرو کے ساتھ جھمورا بنانے کیلئے میں نے تمہارے پرانے شاگرد کھڑک سنگھ کو تیار کر لیا ہے۔

            کیا۔۔۔۔۔۔؟ کھڑک سنگھ تو سامرو کے باپ کی طرح ہے وہ اس کا جھمورا کیونکر بن سکتا ہے؟

            جانتی ہوں؟ خود کھڑک سنگھ نہیں بلکہ اس کا لڑکا بھڑک سنگھ جھمورا بنے گا۔ اس کو راضی کرنے پر کھڑک سنگھ راضی ہو گیا ہے۔

             بھڑک سنگھ تو بڑا بد معاش لونڈا ہے کہیں وہ اپنے سامرو کیلئے مصیبت نہ بن جائے۔

            تم اپنے سامرو کو نہیں جانتے وہ اکیلا کئی بھڑکو پر بھاری ہے۔

            لیکن کیا اپنے سامری کو بین بجانا آتا ہے؟

            جی نہیں۔ میں نے اسے سیکھنے کیلئے کہا تو بولا اس کی ضرورت نہیں۔ بھڑکو چپ چاپ ٹیپ ریکارڈر پر ناگن فلم کی دھن بجا دے گا اور میں منہ پر بین رکھ کر ہلاتا رہوں گا۔

            لیکن اگر رانی کو پتہ چل گیا تو؟

            میں اسے سمجھا دوں گی بہن بین کی آواز سن کر تم اپنا رقص شروع کر دینا اب کیا فرق پڑتا ہے کہ وہ آواز کہاں سے آ رہی ہے۔ رانی سب کچھ سمجھائے بغیر ہی سمجھ گئی تھی۔

            ڈمرو بولا ٹم ٹم تمہاری منصوبہ بندی بڑی زبردست ہے اس میں کسی قسم کا کوئی جھول دکھلائی نہیں دیتا۔ میں تو تمہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔

            بے وقوف سمجھتا تھا؟ یہی کہنے والے تھے نا، ٹم ٹم بولی یہی سمجھتے رہو اس خوش فہمی میں ہم دونوں کی بھلائی ہے۔

             ٹم ٹم اور ڈمرو کے بارے میں رانی کی رائے کب کی بدل چکی تھی اس لئے اسے کوئی حیرت نہیں ہوئی اور اجگر تو بیچارہ گونگا اور بہرہ تھا۔

            پہلے ہی دن سامرو اور بھڑکو نے شہر کے سب سے بڑے چورا ہے پر مجمع لگایا۔ ناگن کی دھن کیا گونجی کہ لوگ جوق در جوق امڈ پڑے۔ رانی ڈمرو کے فراق میں ایسے جھوم کر ناچی کہ گھنگھرو ٹوٹ گئے۔ اب وقت تھا پیسے جمع کرنے کا۔ بھڑکو نے ناگن کی ٹوکری اٹھا کرسامرو کے دائیں سے چکر لگانا شروع کیا۔ ٹوکری میں روپیوں کی برسات ہو رہی تھی اور بھڑکو کی نیت خراب ہو رہی تھی اس نے اس قدر نوٹ پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ سامرو کامیابی کے نشے میں مست جھوم رہا تھا۔ اسے اپنے اولین شو میں ایسی بڑی کامیابی کی توقع نہیں تھی۔ بھڑکو نے درمیان میں ایک منصوبہ بنا لیا اور جب بائیں جانب سے سامرو کے پیچھے پہنچا تو یہ جا وہ جا۔ مجمع کے ساتھ بھڑکو بھی چھٹ چکا تھا۔

             سامرو اپنے خیالوں میں کھویا ہوا تھا کہ رانی بولی۔ بیٹے سا مرو، ہوش میں آؤ بھڑکو چمپت ہو چکا ہے۔

            کیا۔۔۔۔۔۔۔؟

            جی ہاں بھڑکو موجود نہیں ہے۔

            یہ سنتے ہی سامرو غصہ سے بھڑک اٹھا اور بولا کہاں بھاگ گیا وہ بد معاش؟

            یہ تو میں نہیں بتا سکتی۔ وہ تو تمہارا بچپن کا لنگوٹیا یار ہے، میرا نہیں۔

            سامرو کو اپنے دوست کی دھوکہ دہی پر بے حد غصہ آ رہا تھا۔ بھڑکو نہ صرف ساری کمائی بلکہ رانی کی ٹوکری بھی لے بھاگا تھا۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ رانی کو لے کر کیسے جائے؟ آتے وقت تو سارا سامان بھڑکو ڈھو کر لایا تھا لیکن اب وہ غائب تھا۔ سامرو نے سامان سمیٹا اور رانی کو دیکھنے لگا۔

            وہ بولی کیا دیکھ رہے ہو بیٹا۔

            وہ۔۔۔۔ بات در اصل یہ ہے کہ بھڑکو آپ کی ٹوکری بھی لے بھاگا کمبخت۔ میں سوچ رہا تھا کہ اب آپ کو کیسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

            رانی مسکرا کر بولی سامرو تم بالکل اپنے باپ پر گئے ہو ماں کا سایہ تم پر نہیں پڑا۔

            میں سمجھا نہیں؟ آپ کیا کہہ رہی ہیں۔

            خیر چھوڑو ہر بات کا سمجھنا ضروری بھی تو نہیں اور کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جن کا نہ سمجھنا مفید تر ہوتا ہے۔

            میں پھر نہیں سمجھا۔

            خیر کوئی بات نہیں تم مجھے لے جانے کے بارے میں سوچ رہے تھے نا؟

            جی ہاں۔

            تم مجھے اسی طرح لے چلو جیسے تمہارا باپ کئی سال قبل مجھے جنگل سے لایا تھا۔

            اچھا وہ کیسے؟

            اپنی آستین میں رکھ کر۔

            اچھا۔

            جی ہاں، میں گھر تک تمہاری آستین سے لپٹ جاتی ہوں۔

            اوہو یہ تو بہت آسان ہے۔

            سامرواپنے سر پر مداری کا سامان اٹھائے اور آستین میں رانی کو لپیٹے گھر کی جانب رواں دواں تھا لیکن اس کا دماغ بھڑکو کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ اس کو سوائے بھڑکو کی بے وفائی کے کچھ اور نظر نہیں آ رہا تھا وہ انتقام کی آگ میں جل رہا تھا کہ اچانک رانی نے دیکھا اسی ویران سڑک پر آگے آگے بھڑکو چلا جا رہا ہے۔ رانی نے سوچا بیچارہ نہیں جانتا کہ اس کی موت اس کے پیچھے کس قدر قریب ہو گئی ہے۔

             انسانوں کے ساتھ اس قدر طویل عرصہ رہتے رہتے رانی اپنے آپ کو بھی انسان سمجھنے لگی تھی اور بھڑکو جیسے موذی لو گوں کو سانپ بچھو گرداننے لگی تھی۔          رانی نے جب دیکھا کہ سامرو سامنے سے جاتا ہوا اپنا شکار نہیں دیکھ رہا ہے تو وہ بولی۔ وہ دیکھو آستین کا سانپ۔ اس کا سر کچل دو۔

            سامرو نے بے خیالی میں یہ جملہ سنا ہاتھ کو جھٹکا۔ رانی جیسے ہی زمین پر گری اس کا سر کچل دیا۔ سارے خیمے کو سانپ سونگھ گیا تھا۔

            اسی کے ساتھ بولتی ناگن زندہ باد کا شور اچانک کسی کونے سے بلند ہوا اور دھیرے دھیرے وہ آسمان کو چھونے لگا۔ یہ چیونٹیوں کا شور تھا جو چہار جانب سے بولتی ناگن کے آس پاس جمع ہو رہی تھیں۔ ناگن مر چکی تھی اب اس سے کسی کو کوئی خطرہ نہیں تھا۔ اس روز چیونٹیوں کی خاطر گویا دعوتِ شیراز کا اہتمام تھا۔ جشن بپا تھا چہار جانب سے چیونٹیوں کا ٹڈی دل ناچتا گاتا، شور مچاتا ناگن کی لاش پر ٹوٹ پڑا تھا۔ چیونٹیاں ضیافت سے لطف اندوز ہوتے ہوئے درمیان میں بولتی ناگن زندہ باد کا نعرہ بھی بلند کر دیتی تھیں لیکن اسے سننے والا ڈمرو وہاں موجود نہیں تھا۔ سامرو تو تھا مگر اژدہے کی مانند گونگا اور بہرہ۔

            بظاہر چاروں طرف سناٹا چھایا ہوا تھا۔ دیکھتے دیکھتے اس سناٹے نے جھمرو کے خیمے کو بھی نگل لیا کچھ دیر خاموشی چھائی رہی اور پھر آہستہ آہستہ بھیڑ چھٹنے لگی۔ اب نہ وہاں ڈمرو تھا نہ سامرو، نہ کھڑک سنگھ تھا اور نہ بھڑک سنگھ، نہ ٹم ٹم تھی نہ رانی بس اجگر اور اس کی مانند جھمرو رہ گیا تھا جو نہ سن سکتا تھا اور نہ بول سکتا تھا۔ اجگر اور جھمرو دونوں سوئے پڑے تھے۔ اس لئے کہ نہ تو کسی کے پاس رامپوری چاقو تھا اور نہ ہی کسی کو اپنے نگل لئے جانے کا خوف تھا۔

٭٭٭


 

 

انتخاب و آزادی

 

            شیخ جواد المسعودی اپنی نئی نویلی دلہن مرجانہ کے ساتھ دیوان خانے میں بیٹھے قہوہ نوش فرما رہے تھے وہ بڑی محبت سے ننھے ننھے فنجان بھر کے انہیں پیش کرتی اور شیخ صاحب خود اپنے باغ کی تازہ رس بھری کھجوروں کے ساتھ قہوہ کی ہلکی ہلکی چسکیاں لیتے۔ ٹھنڈے کھجوروں کی مٹھاس اور گرم قہوہ کی تلخی نے ماحول کو نہایت خوشگوار بنا دیا تھا کہ ننھا ریحان روتا ہوا وہاں آ پہنچا۔ اس کی نئی ماں مرجانہ نے لپک کر اسے گود میں بٹھا لیا۔ اس کے بعد وہ اور زور زور سے رونے لگا۔ مرجانہ نے بڑے پیار سے پوچھا۔

            کیا ہوا کیوں رو رہے ہو؟

            آج پھر صفوان نے مارا۔ ریحان بولا۔

            اچھا۔ مرجانہ نے کہا۔ کیسے مارا اس نے آپ کو؟ ‘

            لاٹھی سے۔

            اسی لاٹھی سے جس سے وہ بکریاں ہانکتا ہے۔

            مرجانہ نے ریحان کو پیار سے ڈانٹا بیٹے کتنی بار سمجھایا ہے کہ اس کے پاس نہ جایا کرو پھر آپ اس کے پاس کیوں گئے؟

            میں اس کے پاس کب گیا؟ ریحان نے جواب دیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ میں اپنی بکریوں کے پاس گیا تھا وہی وہاں آ دھمکا۔

            شیخ صاحب بولے۔ بیٹے وہ تو وہاں آئے گا ہی۔ اس کا تو کام ہی بکریوں کی دیکھ بھال کرنا ہے۔

            مرجانہ نے اب شیخ صاحب کا رُخ کیا اور بولی۔ آپ چپ کریں آپ کے لاڈ پیار نے ہی صفوان کو بگاڑ دیا ہے۔ اس کا کام بھیڑ بکریوں کی دیکھ ریکھ کرنا ہے یا بچوں کو مار پیٹ کرنا۔ کل اس نے اپنی بہن صفیہ کا سر پھوڑ دیا تھا آج اس نے ریحان کی پٹائی کر دی۔ اگر یہی سلسلہ دراز رہا تو ایک دن اس کی لاٹھی کی زد میں ہم لوگ بھی آ جائیں گے۔

            شیخ صاحب کو مرجانہ کی بچکانہ بات پر ہنسی آ گئی۔ انہوں نے کہا۔ کیا اناپ شناپ بک رہی ہو تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے۔

            مرجانہ نے جھٹ کہا۔ میرا دماغ تو ٹھیک ہے لیکن صفوان کا دماغ درست کرنا ہی ہو گا۔ ایسا کرو اس کی لاٹھی اس سے چھین لو۔

            شیخ جواد بولے۔ لاٹھی سے اسے کیونکر محروم کیا جا سکتا ہے اس لیے کہ بکریاں چرانے کے لیے لاٹھی کا استعمال لازمی ہے۔ اگر ایسا کیا گیا تو صفوان کو بکریاں چرانے کی ذمہ داری سے بھی سبکدوش کرنا ہو گا۔

            مرجانہ چونک کر بولی۔ نانا بابا نا۔ اگر ایسا ہو گیا تو ہماری ان بکریوں کا کیا ہو گا؟

            ریحان بیچ میں بول پڑا۔ میں چراؤں گا۔ مجھے یہ کام بہت اچھا لگتا ہے۔

            نہیں بیٹے نہیں۔ مرجانہ بولی۔ یہ تمہارا کام نہیں ہے۔ تم کہاں دشت و صحرا میں بکریاں چراتے پھرو گے۔

            تو کیا میں صفوان کی لاٹھی سے مار کھاتا رہوں گا۔ ریحان نے معصومیت سے پوچھا۔

            نہیں۔ جاؤ صفوان کو یہاں بلاؤ میں اسی کی لاٹھی سے اس کی کھال ادھیڑتی ہوں۔

            یہ سن کر ریحان کی باچھیں کھل گئیں۔ وہ دوڑتا ہوا صفوان کے پاس جا پہنچا اور کہا۔ چلو جلدی چلو۔ تمہیں نئی امّی بلا رہی ہیں۔

            کیوں؟ صفوان کا سوال تھا۔

            ریحان سکتہ میں آ گیا حقیقت بتانے کی ہمت اس کے اندر نہیں تھی۔ صفوان نے غرا کر پھر پوچھا۔ بول کیوں بلا رہی ہیں؟ بولتا کیوں نہیں؟ چپ کیوں ہے؟

            اب ریحان کانپ رہا تھا۔ صفوان نے کہا۔ میں سمجھ گیا تم نے جا کر میری چغلی کی ہے۔ جاؤ ان سے کہو میں نہیں آتا۔

            ریحان زور دے کر بولا۔ کیسے نہیں چلو گے تمہیں چلنا ہی ہو گا۔

            اچھا۔ صفوان آگ بگولہ ہو گیا اور اس نے ایک لاٹھی ریحان کی پیٹھ پر جمادی۔                  ریحان روتا بلبلاتا پھر مرجانہ کے پاس آ گیا۔ امّی اس نے مجھے پھر مارا وہ کہتا ہے کہ وہ نہیں آئے گا۔

            اچھا اب تو پانی سر سے اوپر ہو گیا۔ مرجانہ بولی۔ اب کچھ نہ کچھ کرنا ہی پڑے گا۔ یہ کہتے ہوئے کھڑی ہو گئی اور صفوان کی جانب جیسے ہی قدم بڑھایا سامنے اس کی سوتن اور ریحان کی سگی ماں سلطانہ کھڑی تھی۔ اس نے پوچھا۔

            اتنے غصہ سے کہاں جا رہی ہو دلہن؟

            مرجانہ بولی۔ آپ بیٹھیں میں ابھی آئی۔

            سلطانہ نے کہا تم بھی بیٹھو۔ غصہ نہ کرو۔ بچوں کے جھگڑے میں بڑوں کو نہ پڑنا چاہئے۔ مار پیٹ سے بچے سدھرتے نہیں بگڑ جاتے ہیں۔ صفوان کو میں سمجھاؤں گی۔ ریحان بیٹے جاؤ صفوان کو بلا لاؤ اس سے کہو میں اسے بلا رہی ہوں اور میرے پاس اس کے لیے مٹھائی ہے۔

            ریحان دوبارہ دروازے کی جانب دوڑ پڑا۔ مرجانہ نے کہا۔ باجی یہ جھوٹ ہے۔

            نہیں دلہن یہ جھوٹ نہیں ہے۔ سلطانہ بولی۔ اچھی نصیحت کی مٹھاس تمام مٹھائیوں سے زیادہ ہوتی ہے۔

            مرجانہ زچ ہو گئی۔ اس نے کہا باجی آپ کی باتیں ویسے تو کھجور سے زیادہ میٹھی ہیں پھر بھی لیجئے انہیں نوش فرمائیے۔ میں آپ کے لیے قہوہ نکالتی ہوں۔

            سلطانہ نے شکریہ ادا کیا ہی تھا کہ ریحان واپس آ پہنچا۔ سلطانہ نے پوچھا۔ صفوان کہاں ہے؟

            ریحان بولا۔ وہ کہتا ہے میں نہیں آتا۔ بڑی امی جھوٹ بولتی ہیں ان کے پاس مٹھائی نہیں ہے اور میں ان کی نصیحتوں سے اوب چکا ہوں۔

            مرجانہ نے کہا۔ دیکھا باجی سنا آپ نے صفوان کا جواب۔

             کوئی بات نہیں ذہین بچہ ہے ہماری چال سمجھ گیا میں اسے بعد میں سمجھا دوں گی۔

            لیکن اس نے ریحان کے ساتھ جو پے در پے زیادتیاں کی ہیں اس کا کیا؟

            دیر سے خاموش تماشائی بنے ہوئے شیخ جواد بیچ میں بول پڑے۔ میں اس کی سزا صفوان کو دوں گا۔ انہوں نے ریحان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا بیٹے ریحان جاؤ۔ صفوان کو بلاؤ اس سے کہنا ہم بلا رہے ہیں۔‘

            ریحان پھر دوڑتا ہوا صفوان کے پاس پہنچا اور کہا۔ بابا بلا رہے ہیں فوراً چلو ورنہ۰۰

            صفوان نے بیچ ہی میں لپک لیا۔ ورنہ کیا میری کھال کھینچ لیں گے جا اور ان سے کہہ میں نہیں ڈرتا جو مرضی آئے کر لیں میں نہیں آتا۔

            ریحان جب یہ بات اپنے بابا کو بتلا رہا تھا اذان شروع ہو گئی۔ شیخ جواد شکست خوردگی کا احساس لیے اپنا غصہ ٹھنڈا کرنے وضو خانے کی جانب بوجھل قدموں کے ساتھ ہو لیے۔ جب وہ وضو سے فارغ ہو کر نکلے تو دیکھا مرجانہ اور سلطانہ خوش گپیوں میں مصروف ہیں اور فلپائنی دایا ہیلری کی گود میں ریحان آنکھیں موندے لیٹا ہے اور وہ بڑے پیار سے اس کی پیٹھ سہلا رہی ہے۔ جواد سوچنے لگے مرجانہ صفوان کو سزا دینے کی فکر میں ریحان کی پیٹھ سہلانا بھول گئی اور بالآخر یہ سعادت ہیلری کے حصہ میں آئی۔

             نماز سے فارغ ہو کر جب شیخ جواد لوٹے تو کیا دیکھتے ہیں لان میں ہیلری بیٹھی ہے۔ صفوان اور ریحان دونوں اس کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ اس منظر کو دیکھ کر ان کا دل باغ باغ ہو گیا۔ وہ دیوان خانے میں داخل ہوئے تو دیکھا سلطانہ ان کے لیے کھانا پروس رہی ہے۔

            شیخ جواد مرنجان مرنج شخصیت کے حامل تھے ایک نہایت متمول اور دیندار گھرانے میں انہوں نے آنکھیں کھولیں۔ والدین نے حصول تعلیم کے لیے انہیں یوروپ بھیجا وہاں سے فلسفہ کی تعلیم حاصل کر کے واپس لوٹے تو ان کا اپنی روایات سے رشتہ مزید گہرا ہو چکا تھا۔ مغرب کے نمائشی کھوکھلے پن نے انہیں اپنی اقدار کا گرویدہ بنا دیا تھا۔ کچھ عرصہ تعلیم تدریس کے بعد خاندانی تجارت کی جانب متوجہ ہوئے اور پھر انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ان کا کاروبار دن دونی رات چوگنی ترقی کرتا چلا گیا۔

             ان کے آبائی گاؤں آبھا میں ان کی شاندار کوٹھی تھی جس میں وہ اپنی دو بیویوں سلطانہ اور مرجانہ کے ساتھ رہتے تھے۔ یہاں ان کے پاس بھیڑ بکریاں اونٹ اور مرغیاں کھیت کھلیان سب کچھ تھا۔ شرافت اور صاف گوئی کے باعث گاؤں والے ان کا بڑا احترام کرتے تھے۔ شیخ صاحب کی سخاوت کے چرچے دور تک پھیلے ہوئے تھے۔ آبھا سے قریب ہی خمیس مشیط نامی پہاڑی پر سال بھر موسم خوشگوار رہتا تھا۔ سردیوں میں تو برف باری تک ہو جاتی تھی۔ خمیس مشیط کی وادی میں شیخ صاحب کا ایک مزرع (فارم ہاؤس) تھا۔ جس میں کھجوروں کا بہترین باغ تھا اور اعلیٰ نسل کے عربی گھوڑوں کا اصطبل بھی تھا۔

             اس مزرع میں ان کی بیوی نذرانہ اپنے سوتیلے بیٹے عرفان کے ساتھ رہتی تھی۔ نذرانہ کی دونوں بیٹیاں دردانہ اور افسانہ بیاہی  جا چکی تھیں۔ شیخ صاحب کا کاروبار قریب کے شہر جیزان میں جما ہوا تھا وہاں ان کی آڑھت تھی۔ پٹرول پمپ تھا۔ ہوٹل اور نہ جانے کیا کیا۔ جیزان میں شیخ صاحب کی سب سے تیز طرار بیوی رخسانہ اپنے بیٹے رضوان کے ساتھ رہتی تھی صفوان در اصل رضوان کا سگا بھائی تھا لیکن وہ جیزان کے بجائے خمیس میں رہتا تھا۔

             شیخ صاحب کا معمول یہ تھا کہ وہ ہر مہینہ کے دو ہفتہ اپنے آبائی گاؤں آبھا میں گذارتے نیز ایک ہفتہ خمیس اور ایک ہفتہ جیزان میں حالانکہ مصروفیات کا تقاضا تو یہ تھا زیادہ وقت جیزان میں گذارا جاتا لیکن اپنی بیویوں کے درمیان عدل و انصاف کو وہ کاروباری ضرورتوں پر ترجیح دیتے تھے۔ بازار میں شیخ صاحب ایک اچھے تاجر کی حیثیت سے جانے جاتے تھے اس لیے کہ اس طویل عرصہ میں ایک بھی بد عہدی یا بددیانتی کا کلنک ان کے معاملات پر نہ لگا تھا۔

            ریحان سلطانہ سے تھا۔ صفوان کی ماں شبانہ کو انہوں نے چند ماہ قبل طلاق دے دی تھی اور بڑے مال و اسباب کے ساتھ روانہ کیا تھا تاکہ مرجانہ سے نکاح کیا جا سکے۔ اس واقعہ نے صفوان کے ذہن پر منفی اثرات مرتب کیے تھے اسے ایسا لگتا تھا جیسے مرجانہ نے اسے اپنی حقیقی ماں سے محروم کر دیا ہے۔ سلطانہ کو اس حقیقت کا احساس تھا اس لیے وہ صفوان کا خاص خیال رکھتی تھی۔ لیکن اس کا گھاؤ بھرنے کا نام نہ لیتا تھا۔

            ہیلری کی کوششوں سے وہ وقتی طور پر بہل جاتا لیکن تنہائی میں وہ پھر غصہ سے بھر جاتا۔ ایسے میں اس کے پاس بکریاں ہوتیں یا ریحان۔ بکریوں کو وہ اپنی طرح مظلوم سمجھتا تھا اس لیے ان کے تئیں انسیت محسوس کرتا تھا لیکن ریحان کے ساتھ ایسی کوئی بات نہ تھی اس لیے وہ گاہے بگاہے صفوان کے غم و غصہ کا شکار ہوتا رہتا تھا۔

            حسب معمول مہینہ کے دوسرے ہفتہ جمعہ کے دن جب شیخ جواد جیزان اپنی حویلی میں پہنچے تو دیکھا ان کا بیٹا رضوان گھر پر موجود ہے۔ والد کی آہٹ سن کر وہ دوڑا دوڑا دروازے تک آیا۔ شیخ جواد نے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا تو اس نے بڑے احترام سے ہاتھ پر بوسہ دیا۔ شیخ صاحب نے بیٹے کی پیشانی کا بوسہ لے کر پوچھا کب آئے؟

            اس سے پہلے کہ رضوان کچھ بولتا اس کی ماں رخسانہ بول پڑی۔ کل رات آیا ہے اور صبح تک بیسیوں مرتبہ آپ کے بارے میں پوچھ چکا ہے۔ بابا آئیں گے نا؟ بابا کب آئیں گے؟ بابا ابھی تک کیوں نہیں آئے؟ میں انہیں کے ساتھ ناشتہ کروں گا۔ یہی رٹ لگائے ہوئے ہے۔ آپ ایسا کریں جلدی سے ہاتھ منہ دھولیں میں ناشتہ لگاتی ہوں۔

            شیخ جواد نے جھلّاتے ہوئے کہا۔ ٹھیک ہے ذرا دم تو لے لینے دو ابھی تو ہم نے ایک دوسرے کی خیریت بھی دریافت نہیں کی اور تم کھانے کھلانے میں لگ گئیں۔ تم عورتوں کو تو بس۔

            بس! رخسانہ نے درمیان میں جملہ اُچک لیا۔ خیریت ناشتہ کے دوران بھی پوچھی جا سکتی ہے۔ چلو جلدی سے دسترخوان پر آؤ۔ شیخ جواد نے ناشتہ کے دوران عطا کردہ آزادی پر شکریہ ادا کیا اور نہایت سعادت مندی سے حمام کی جانب چل دیئے۔

            رضوان نے کہا۔ امی آپ تو…

            رخسانہ نے اس کی بات بھی کاٹ دی۔ ہاں میں جانتی ہوں تم دونوں باپ بیٹے ایک دوسرے کے بڑے ہمدرد و غم خوار ہو۔ لیکن میں بھی تمہاری دشمن نہیں ہوں۔ چلو تم بھی جلدی سے دسترخوان پر چلو۔ اب وہ تینوں ناشتہ کر رہے تھے کہ شیخ جواد نے پوچھا۔ بیٹے امتحانات کب سے ہیں؟

            رخسانہ رضوان سے پہلے بول پڑی۔ یہ لو۔ ان شفیق باپ کو دیکھو جنھیں یہ بھی نہیں معلوم کہ امتحانات ختم ہو چکے ہیں اور شاید آپ کو یہ بھی یاد نہ ہو گا کہ یہ اس کے آخری سال کے امتحانات تھے۔ ان میں کامیابی کے بعد ان شاء اللہ میرا بیٹا انجینئر بن جائے گا۔ المسعودی خاندان کا پہلا مہندس (انجینئر)۔

            ہاں ہاں میں جانتا ہوں۔ اچھا تو بیٹے آپ کے نتائج کب تک ظاہر ہو جائیں گے؟

            رخسانہ نے پھرٹوکا۔ تعجب ہے آپ اتنا بھی نہیں جانتے کہ ایک مہینہ کے اندر نتائج ظاہر کر دیئے جاتے ہیں آئندہ ماہ جب آپ تشریف لائیں تو مٹھائی کا ٹوکرا اپنے ساتھ ضرور لانا۔ میں اپنے بیٹے کے انجینئر بن جانے کی خوشی میں سارے محلے کو مٹھائی کھلاؤں گی.

            ہاں ہاں ضرور کھلانا۔ شیخ صاحب بولے۔ سارے محلے کو کیوں سارے شہر کو مٹھائی کھلانا، ننگارے بجوانا کہ تمہارا بیٹا انجینئر ہو گیا۔ گویا انجینئر ہونے والا یہ دنیا میں پہلا فرد ہے۔

            رخسانہ جل بھن کر بولی۔ آپ کیوں جلی کٹی سنانے لگے ساری دنیا میں نہ سہی تو کیا…

            شیخ جواد نے جملے کاٹ دیا۔ المسعودی خاندان میں …

            فوراً رخسانہ نے پھر جملہ لپک لیا۔ نہ صرف المسعودی خاندان بلکہ میرے جنیدی خاندان میں بھی یہ پہلا مہندس ہے۔

            بس کرو اپنے بیٹے کی تعریف میں خوب جانتا ہوں المسعودی اور جنیدی خاندان کو۔

            کیوں بس کروں۔ میرا بیٹا لاکھوں میں ایک ہے۔ میں اس کی تعریف نہ کروں گی تو کون کرے گا؟

            رضوان بڑی دلچسپی سے اپنے ماں باپ کی نوک جھونک دیکھ رہا تھا۔ ہاسٹل کی زندگی میں وہ ان لمحات کو ترس جاتا تھا وہ خوش تھا کہ اسے اقامت گاہ کی بے لطف زندگی سے نجات حاصل ہو گئی تھی۔ ناشتہ کے بعد شیخ جواد بازار کی طرف نکل گئے اپنے کاروباری معاملات میں وہ نہایت سنجیدہ طبیعت کے حامل تھے۔ ہر کام میں خود دلچسپی لیتے اور خوش اسلوبی سے اس کا حق ادا کرتے۔ ان کی شدید خواہش تھی کہ تعلیم ختم کرنے کے بعد ان کا بڑا بیٹا رضوان کاروبار کی ذمہ داریاں سنبھال لے لیکن رضوان کو اس خرید و فروخت کے کام میں دلچسپی نہ تھی وہ صنعت کار بننا چاہتا تھا۔ صنعت قائم کرنے کے لیے شیخ جواد کے پاس ذرائع و وسائل کی کمی نہیں تھی لیکن جس طرح کی صنعت رضوان قائم کرنا چاہتا تھا اس کے لیے جیزان شہر موزوں نہیں تھا۔ اپنی پسند کی صنعت کے لیے اس کا جبیل، ینبع، جدہ یا ریاض منتقل ہونا ضروری تھا۔

            ہفتہ کے خاتمہ پر جب شیخ جواد نے خمیس مشیط میں واقع مزرع کی جانب رخت سفر باندھا تو رضوان کو بھی اپنے ساتھ چلنے کے لیے تیار کر لیا۔ ان کی خواہش تھی کہ رضوان چند روز مزرع میں گذارے۔ آب و ہوا بھی تبدیل ہو جائے اور بھائی عرفان سے ملاقات بھی ہو جائے۔ رخسانہ کو جیسے ہی اس منصوبے کا پتہ چلا وہ خود بھی تیار ہو گئی۔ رضوان کو اگر اپنے بھائی سے ملنا تھا تو اسے بھی اپنے بیٹے سے ملنے کی خواہش ستا رہی تھی۔ شیخ جواد نے رخسانہ کی فرمائش قبول تو کر لی لیکن اسے سمجھایا کہ دیکھو ذرا اپنی زبان پر لگام رکھنا اور لڑائی جھگڑے سے گریز کرنا ورنہ اس بے چارے کی چھٹیاں خراب ہو جائیں گی۔

            دیکھو جی۔ رخسانہ بولی۔ ویسے یہ اب چھٹی پر نہیں آیا ہے بلکہ کالج کی چھٹی کر کے آیا ہے اور پھر میں غلط بات برداشت نہیں کر سکتی۔ چاہے وہ غلط بات آپ کہیں یا آپ کی چہیتی نذرانہ کہے۔ مجھ سے نہیں سہا جائے گا کیا سمجھے؟

            شیخ جواد بولے۔ میں کب کہتا ہوں کہ تم غلط بات کو برداشت کرو لیکن تمہارا مسئلہ یہ کہ تم صحیح اور غلط کا فیصلہ اپنی پسند اور ناپسند سے کرتی ہو اور اس کسوٹی کے مطابق جو بات تمہیں غلط معلوم ہوتی ہے اس پر غلط انداز میں گرفت کرتی ہو اسی سے بات بگڑ جاتی ہے۔

            رخسانہ نے ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے کہا۔ ہاں میں جانتی ہوں کہ میری پسند بھی غلط ہے اور گرفت بھی۔ اسی لیے میں نے آپ کو پسند کر لیا اور آپ کی گرفت میں آ گئی۔

            شیخ جواد مسکرائے انہوں نے کہا۔ تم میری گرفت میں ہو یا… وہ رک گئے۔

            رخسانہ نے کہا۔ یا کیا؟ آپ میری گرفت میں ہیں یہی نا؟ دونوں میں کوئی خاص فرق نہیں ہے ایک ہی بات ہے۔ رخسانہ کی اس بات پر تینوں ہنسنے لگے۔

            جمعہ کی نماز سے قبل جب یہ قافلہ مزرع میں پہنچا سبھی لوگ شاد ماں ہو گئے۔ رضوان اور عرفان ایک دوسرے سے مل کر بے حد خوش ہوئے اور بات چیت میں مصروف ہو گئے۔ نذرانہ اور رخسانہ کا بھی یہی حال تھا وہ دونوں بھی گفت و شنید میں محو ہو گئیں۔ شیخ جواد اپنی دو بیویوں اور دو بیٹوں کی موجودگی میں بالکل تنہا ہو گئے۔ کچھ دیر دالان میں خاموش بیٹھنے کے بعد وہ باہر باغ میں آ گئے۔

             کھجور کے دراز قد پیڑوں نے ان کی تنہائی دور کر دی۔ ان درختوں سے شیخ صاحب کو بے حد انسیت تھی۔ ان میں سے کچھ ایسے تھے جن کے درمیان انہوں نے اپنا لڑکپن گذارا تھا اور کچھ ایسے تھے جنہیں خود شیخ جواد نے اپنے ہاتھوں سے لگایا تھا اور نہایت محنت سے سینچ کر بڑا کیا تھا۔ شیخ جواد جب ان درختوں میں آتے تو انہیں ایسا لگتا گویا وہ ان کے اپنوں میں آ گئے ہیں۔ وہ اس بے زبان مخلوق سے گھنٹوں باتیں کرتے ان کو اپنی سناتے اور ان کی سنتے۔ ان کی یہ بات چیت کوئی اور نہ سنتا۔

            دیر تک پیڑوں سے محو گفتگو رہنے کے بعد جب وہ کسی آواز کی جانب متوجہ ہوئے تو وہ اذان کی آواز تھی۔ مؤذن نماز جمعہ کے لیے مصلیان کو مسجد میں آنے کی دعوت دے رہا تھا۔ نماز جمعہ کے بعد پانچوں ایک ساتھ دسترخوان پر بیٹھے تھے۔

            پہلا نوالہ منہ میں رکھتے ہی رضوان نے نذرانہ سے کہا۔ امّی میں تو دعا کرتا ہوں کہ جنت میں بھی مجھے آپ کے ہاتھ کا کھانا نصیب ہو۔

            عرفان نے کہا۔ لیکن بھائی کیا بہشت میں بھی بڑی امی کو کھانا بنانے کی مشقت سے نجات نہیں ملے گی؟

            شیخ جواد بولے۔ جنت میں انہیں زحمت اٹھانے کی کیا ضرورت وہاں تو فرشتے جیسا چاہیں گے کھانا بنا کر تیار کر دیں گے۔

            رخسانہ نے کہا۔ فرشتے یا حوریں؟

            شیخ جواد نے کہا۔ فرشتے یا حوریں ایک ہی بات ہے۔ تم بال کی کھال نہ نکالو۔

            رضوان بولا۔ لیکن بابا کیا فرشتے بڑی امی جیسا ذائقہ دار کھانا بنا سکیں گے؟

            یہ سن کر سب چپ ہو گئے تو نذرانہ نے کہا۔ آپ لوگ بلا وجہ فرشتوں اور حوروں تک پہنچ گئے ان دونوں کے لیے دو اچھی اچھی بیویاں لے آؤ میں ان کو ایسا کھانا بنانا سکھلا دوں گی کہ یہ میرے ہاتھ کا ذائقہ بھول جائیں گے۔

            شیخ جواد نے تائید کی۔ ہاں جیسے میں بھول گیا۔

            کھانے کے بعد نذرانہ اور رخسانہ باورچی خانے میں مصروف ہو گئے۔ جواد آرام کے لیے چلے گئے اور رضوان اپنے بھائی عرفان کے ساتھ باغ میں آ کر بیٹھ گیا۔ وہ ابھی ایک دوسرے کی خیریت ہی معلوم کر رہے تھے کہ نذرانہ ایک خوبصورت سی طشتری میں تازہ کھجوریں اور قہوہ کا تھرماس لے آئی اور ان کے درمیان رکھ کر خود رخسانہ کے پاس آرام کرنے چلی گئی۔ رضوان نے کھجور کھاتے ہوئے پوچھا۔

            بھیا کیا آپ جانتے ہیں کہ ہمارے باغ کی کھجوریں اتنی میٹھی کیوں ہیں؟

            عرفان بولا۔ کھجوریں تو سبھی باغات کی میٹھی ہوتی ہیں لیکن ہمیں اپنے باغ کی کھجوریں اچھی لگتی ہیں اس لیے کہ وہ ہماری اپنی ہیں۔

             ایک بات بتاؤں آپ تو واقعی فلسفی ہیں آپ کی اکثر باتیں میری سمجھ میں نہیں آتیں۔

            کیا مذاق کرتے ہو۔ عرفان بولا۔ تم نے ملک کے سب سے نامور تعلیم گاہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے پھر یہ کیسے ہو سکتا ہو کہ مجھ جیسے گنوار کی بات تمہاری سمجھ میں نہ آتی ہو۔

            رضوان نے نفی میں سرہلایا اور کہا۔ نہیں ایسی بات نہیں۔ ہم نے انجینئرنگ کی تعلیم ضرور حاصل کی لیکن وہاں ہمیں فلسفہ کی تعلیم نہیں دی گئی اور علم کلام کی جن کتابوں کا آپ مطالعہ کرتے ہیں انہیں سمجھنا تو درکنار ان کا مطالعہ بھی میرے لیے محال ہے۔

            سچ؟ عرفان نے حیرت سے پوچھا

             رضوان نے تائید کی بے شک۔ یہ ذوق سلیم بھی بہت بڑی نعمت ہے۔

            لیکن والد محترم کواس نعمت کا ادراک نہیں وہ چاہتے ہیں کہ میں شہر میں جا کر کاروبار کروں۔ میں نے انہیں بہتیرا سمجھایا کہ میں شہر نہیں جانا چاہتا میں یہیں رہ کر باغات کی دیکھ ریکھ کرنا چاہتا ہوں اور اپنا مطالعہ جاری رکھنا چاہتا ہوں لیکن وہ چاہتے ہیں کہ میں جیزان جا کر پٹرول پمپ کی نگرانی کروں بلکہ انہوں نے مجھے حکم دیا ہے کہ آئندہ ماہ سے پٹرول پمپ کا کام کاج کو سنبھال لوں اس لئے کہ اسے چلانے کے لیے جسے دیا گیا تھا اس کرایہ دار کی میعاد کار ختم ہونے والی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ابتدائی مرحلہ میں آپ کا تعاون حاصل کروں لیکن میں یہ نہیں چاہتا۔ اب تمہیں بتاؤ میں کیا کروں؟

            رضوان نے جواب دیا۔ میرے بھائی اس معاملے میں میری حالت تم سے مختلف نہیں۔ انجینئرنگ کی تعلیم کے دوران میں نے ایک خواب دیکھا تھا کہ میں آگے چل کر ایک بڑا صنعت کار بنوں گا لیکن والد صاحب چاہتے ہیں میں جیزان میں ہوٹل چلاؤں۔ یہ تو اَن پڑھ لوگوں کا کاروبار ہے اس میں میری پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا کوئی استعمال نہیں ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اگر مجھ سے یہی کرانا تھا تو مجھے اتنی دور تعلیم حاصل کرنے کے لیے کیوں بھیجا گیا۔ یہ کام تو میں بغیر انجینئرنگ کی مشقت طلب تعلیم کے بھی کر سکتا تھا۔

             لیکن آپ جیزان کے ہوٹل کے بجائے صنعت کیوں قائم نہیں کرتے؟

            رضوان بولا۔ میں جس طرح کی صنعت قائم کرنا چاہتا ہوں اس کے لیے جیزان موزوں نہیں ہے جو شہر اس کاروبار کے لیے مناسب ہیں وہاں امی بابا مجھے بھیجنا نہیں چاہتے۔ ان کا کہنا ہے بہت ہو چکی گھر سے دوری اب یہیں جیزان میں رہ کر کاروبار دیکھو۔

             دونوں بھائی فکر مند ہو گئے۔ دیر تک خاموش رہے پھر رضوان بولا۔ بھائی میں نے سوچ لیا کہ میں اپنی زندگی اپنے طریقے سے گذاروں گا۔

             لیکن امی بابا؟ ‘عرفان نے پوچھا۔

            میں انہیں سمجھاؤں گا‘ رضوان بولا۔ کہ وہ ہمیں اپنی زندگی جینے دیں اپنی مرضی ہم پر تھوپ کر ہماری خوشیاں نہ چھینیں۔

            عرفان نے اثبات میں سر ہلایا۔ اس گفتگو کے بعد دونوں بھائی والدین کے مقابلے اپنے آپ کو زیادہ طاقتور محسوس کر رہے تھے۔ ایک ہفتہ دیکھتے دیکھتے گذر گیا۔ شیخ جواد کو اب اپنے آبائی وطن آبھا روانہ ہونا تھا نیز رضوان اور رخسانہ کو جیزان۔ نکلنے سے پہلے شیخ جواد نے عرفان کو پاس بلایا اور جلد از جلد پٹرول پمپ کا کاروبار سنبھال لینے کی تلقین کی۔ رضوان کو ہوٹل کی تیاری کا مشورہ دیا اور دونوں کو ایک دوسرے کا تعاون کرنے کی نصیحت کر کے اپنی راہ لی۔ دونوں بھائیوں میں سے کسی نے بھی ایک لفظ تک نہ کہا۔ سبھی خاموش رہے اور ان کی خاموشی کو ہاں سمجھ لیا گیا۔

            دونوں بھائی اپنی امی رخسانہ کے ساتھ جیزان تو آ گئے لیکن کاروبار کی طرف جھانک کر بھی نہیں دیکھا۔ درمیان میں ایک دن جواد نے عرفان کو فون پر سخت سست کہا اور اسے کاہلی چھوڑ کر جلد از جلد پٹرول پمپ چلانے والے سے ملنے کا حکم دیا۔ دوسرے دن دونوں بھائی با دلِ ناخواستہ حکم کی تعمیل میں پٹرول پمپ جا پہنچے۔ کرایہ دار نہایت خلیق انسان تھا۔ اس نے بڑی گرم جوشی سے دونوں بھائیوں کا خیر مقدم کیا اور انہیں اپنا دکھڑا کہہ سنایا۔

             اس نے کہا آج سے دو سال قبل یہ پٹرول پمپ قائم کیا گیا اور اسی وقت اس نے کرایہ پر لے لیا تقریباً ڈیڑھ سال تو یہ کاروبار گھاٹے میں چلتا رہا اس لئے کہ لوگوں کو پتہ چلنے میں اور گاہکوں کے آنے میں تھوڑا بہت وقت لگتا ہی ہے ابھی گذشتہ چھ ماہ سے کچھ آمدنی شروع ہوئی ہے لیکن پرانے نقصان کی پوری طرح بھرپائی بھی نہ ہو سکی کہ معاہدہ کی میعاد ختم ہو گئی۔ اس نے شیخ جواد کو لاکھ سمجھایا کہ معاہدے کی توسیع کر دی جائے لیکن انہوں نے ایک نہ سنی۔ اس کرایہ دار نے اب اپنی درخواست عرفان اور رضوان کے سامنے رکھ دی۔

            عرفان کا دل پسیج گیا اس نے کرایہ میں معمولی اضافہ کے ساتھ معاہدہ کی مدت مزید دوسال کے لیے بڑھا دی۔ کرایہ دار خوشی سے جھوم اٹھا۔ عرفان بھی خوش تھا وہ واپس خمیس مشیط اپنے مزرع پر آ گیا۔ شیخ جواد کو جب عرفان کی اس حرکت کا پتہ چلا تو وہ بہت ناراض ہوئے چونکہ وہ پٹرول پمپ چلانے کے اختیارات عرفان کو دے چکے تھے اس لیے انہوں نے اس میں مداخلت سے کسی طرح اپنے آپ کو روک لیا لیکن اپنی ناراضگی نہ چھپا سکے ان کے خاندان میں یہ پہلی بار ہوا تھا کہ اولاد نے والدین کی نافرمانی کی ہو اور پھر عرفان جیسی متقی و پرہیز گار اولاد جس پر شیخ جواد ناز کرتے اور جان چھڑکتے تھے۔ اس کی نافرمانی نے شیخ جواد کو غم گین کر دیا تھا۔

            شیخ جواد اپنے آبائی مکان میں بیٹھے سلطانہ کے ساتھ قہوہ پی رہے تھے کہ اچانک سلطانہ کو کوئی بات یاد آئی وہ اٹھی اور دوسرے کمرے کی جانب چلی گئی۔ جب واپس آئی تو اس کے ہاتھ میں ریحان کے ششماہی نتائج تھے۔ سلطانہ نے بتلایا کہ ریحان ایک مرتبہ پھر ناکام ہو گیا ہے نیز استانی کا کہنا ہے کہ اگر یہی صورت حال رہی تو اسے تیسرا سال بھی اسی درجہ میں گذارنا ہو گا۔

            آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ کیا تم اس کی تعلیم کی جانب توجہ نہیں دیتیں؟

            نہیں ایسی بات نہیں میں تو میں مرجانہ بھی اس کی تعلیم کی جانب پوری طرح متوجہ ہیں۔ لیکن کیا کریں اس کا دل ہی نہیں لگتا۔

            اچھا۔ جواد نے کہا۔ تو آخر کس کام میں اس کا دل لگتا ہے؟

            سلطانہ چند لمحہ خاموش رہی اور پھر اس نے کہا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مویشیوں میں اس کا دل خوب لگتا ہے ان کو چرانا ان کی دیکھ بھال کرنا اسی میں وہ لگا رہتا ہے۔ جب ہم زبردستی اسے کتاب پکڑاتے ہیں تو وہ رونے لگتا ہے یا سو جاتا ہے۔

            اگر ایسا ہے تو کیوں نہ ہم اسے اسی کام میں لگا دیں۔

             سلطانہ کا پارہ چڑھ گیا وہ بولی۔ کیا بات کرتے ہیں آپ؟ اگر میں ہاں کہہ دوں تو آپ کل سے ریحان کو مویشیوں کے حوالے کر کے صفوان کو اسکول روانہ کر دیں گے۔

            شیخ جواد مسکرائے اور کہا۔ ریحان کو مویشیوں کے حوالے کرنے والا بھلا میں کون ہوتا ہوں وہ تو خود ہی ان میں مست رہتا ہے اور جو دوسری بات تم نے کہی وہ بھی ٹھیک ہی ہے صفوان جب اسکول جاتا تھا اس وقت تک کبھی بھی فیل نہیں ہوا۔ کچھ مضامین میں تو وہ امتیازی نمبر حاصل کرتا تھا اور اس تبدیلی کا ایک فائدہ یہ بھی ہو گا کہ صفوان اور ریحان کے درمیان ہونے والے لڑائی جھگڑے کا سلسلہ بند ہو جائے گا۔

            شیخ جواد کی تجاویز سے سلطانہ چراغ پا ہو گئی اور بولی۔ آپ ان کی لڑائی ختم کرا کے مجھ سے لڑنا چاہتے ہیں۔ میں سب جانتی ہوں آج بھی آپ شبانہ اور اس کے بیٹے صفوان کو مجھ سے اور ریحان سے زیادہ چاہتے ہیں۔ اسے گھر سے نکالنے کے لیے میں نے کیا کیا پاپڑ بیلے۔ مرجانہ کو اس کی جگہ اپنے گھر لائی لیکن افسوس کہ اس کے باوجود اس منہ جلی کو آپ کے دل سے نہ نکال سکی۔ اب تو آپ اس کے بیٹے کو اسکول میں تعلیم دلوانا چاہتے ہیں۔ نیز میرے بیٹے ریحان سے بکریاں چروانا چاہتے ہیں یہ تو حد ہو گئی۔

            بات بگڑتی دیکھ شیخ جواد نے اسے سنبھالنے کی کوشش کی اور بولے۔ دیکھو سلطانہ بات کا بتنگڑ نہ بناؤ۔ ریحان کی ناکامی پر فکر مندی کا اظہار تم نے کیا۔ اسے مویشیوں سے انسیت ہے یہ بات تم نے بتلائی۔ صفوان پڑھنے لکھنے میں اچھا ہے اس حقیقت سے تم خوب واقف ہو۔ ان دونوں کو ساتھ ساتھ مویشیوں کی دیکھ ریکھ پر نہیں لگایا جا سکتا اس لیے کہ ان میں آپس میں بنتی نہیں ہے اب ان تمام مسائل کا کیا حل ہے؟ تمہیں بتاؤ میں مان لوں گا۔

            وہ دونوں نہیں لڑتے صفوان لڑتا ہے۔ جس طرح آپ مجھ سے لڑ رہے ہیں میں تو صفوان اور اس کے باپ دونوں سے پریشان ہوں۔

            نہیں سلطانہ نہیں۔ تمہاری پریشانی کی وجہ نہ تو صفوان ہے اور نہ میں ہوں بلکہ ریحان اور اس کی ناکامی ہے لیکن تم اصل مسئلہ سے نظریں ہٹا کر دوسروں کو موردِ الزام ٹھہرا رہی ہو۔ اگر ریحان بار بار ناکام نہ ہوتا تو یہ بکھیڑا ہی کھڑا نہ ہوتا۔ لیکن تم ان حقائق سے آنکھیں چرانا چاہتی ہو اس لیے کہ ریحان تمہاری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔

            سلطانہ نے لپک کر کہا۔ ہاں ضرور ہے کیوں نہ ہو؟ آپ کو بچوں سے کوئی سروکار ہے ہی نہیں۔ اور میرے ریحان سے تو خدا واسطے کا بیر ہے۔ بس صفوان کو اسکول بھیجنے کی فکر ستاتی رہتی ہے تو ٹھیک ہے کل سے یہی ہو گا صفوان کو اسکول روانہ کیا جائے گا اور ریحان کو جانوروں کے ساتھ ان کے باڑے میں جھونک دیا جائے گا۔ اگر آپ اسی سے خوش ہیں تو ایسا ہی ہو گا۔

            شیخ جواد نے بالآخر سپر ڈال دی اور کہنے لگے دیکھو سلطانہ بلاوجہ غصہ نہ کرو ریحان کو مویشیوں میں رکھنا یہ میری نہیں اس کی اپنی خواہش ہے۔ لیکن پھر بھی تم ایک اور کوشش کرو کہ اس کا دل پڑھائی میں لگ جائے۔ میں نے کب منع کیا ہے بلکہ میں تو ہر طرح سے اپنا تعاون پیش کرتا ہوں۔ مجھے بتاؤ میں کیا کر سکتا ہوں؟

            سلطانہ بھی نرم پڑی اور بولی۔ ریحان بچہ ہے وہ اپنے مستقبل کا فائدہ نقصان نہیں جانتا لیکن ہم تو جانتے ہیں وہ سوچ نہیں سکتا تو کیا ہوا ہم تو سوچ سکتے ہیں۔ ایسے میں ہم اسے مویشیوں کے حوالے کیسے کر سکتے ہیں؟

            جی ہاں سلطانہ تم سچ کہتی ہو۔ شیخ جواد نے تائید کی اور بولے۔ لیکن یاد رکھو ریحان ہی کی طرح صفوان بھی بچہ ہے وہ بھی ہماری اولاد ہے اور اس کا بھی مستقبل ہے۔ سلطانہ کے پاس شیخ جواد کی اس بے بسی کا کوئی جواب نہ تھا۔

            اگلی مرتبہ جب شیخ جواد نے جیزان کی جانب رختِ سفر باندھا تو مرجانہ بھی تیار ہو گئی۔ کئی دنوں سے رخسانہ سے ملاقات نہیں ہوئی تھی رضوان گھر آیا ہے اس سے بھی ملنا تھا۔ شیخ جواد نے مرجانہ کو ساتھ لے لیا۔ مرجانہ اور رخسانہ ایک دوسرے سے مل کر بہت خوش ہوئیں۔ رضوان کے ساتھ مرجانہ کی یہ پہلی ملاقات تھی۔ مرجانہ نے تعلیم کے بارے میں پوچھا اور یہ پتہ چلنے پر کہ آخری سال کا امتحان ہو چکا مستقبل کا منصوبہ دریافت کیا۔

             اس سوال نے رضوان کو افسردہ کر دیا وہ بولا۔ چھوٹی امّی تعلیم ختم کرنے کے بعد میں صنعت کار بننا چاہتا ہوں جیزان شہر میں اس کے امکانات ناپید ہیں۔ میں اس کے لیے ینبع جانا چاہتا ہوں لیکن امی منع کرتی ہیں وہ کہتی ہیں گھر سے دوری بہت ہو چکی اب یہیں رہو کاروبار کرو اور گھر بساؤ۔ لیکن میں یہ نہیں چاہتا۔

            مرجانہ نے پوچھا۔ وہ تو ٹھیک ہے لیکن اس بارے میں آپ کے بابا کیا کہتے ہیں؟

            بابا کیا کہیں گے آپ تو میری امی سے واقف ہیں ان کے آگے کسی کی نہیں چلتی۔ بابا کی بھی نہیں۔ انہوں نے امی کی تائید کرتے ہوئے مجھے ہوٹل کا کاروبار کرنے کا حکم دیا ہے۔

            مطعم؟ مرجانہ نے تعجب کا اظہار کیا۔

            جی نہیں رہائشی ہوٹل بشمول مطعم۔ رضوان نے کہا۔ جیزان میں سیر و تفریح کے لیے دنیا بھر سے سیلانی آتے ہیں بابا کا خیال ہے کہ یہاں ہوٹل کا کاروبار خوب چل سکتا ہے۔

            لیکن تمہاری انجینئرنگ؟ مرجانہ نے پوچھا۔

            وہی تو میں کہتا ہوں اگر یہی جاہلوں والا کام کرنا تھا تو مجھے پڑھایا لکھایا کیوں گیا۔ کیوں انجینئر بنایا گیا۔ امی آپ نہیں جانتیں میں نے ہر سال امتحانات میں امتیازی نمبروں سے کامیابی حاصل کی ہے میں کالج میں ایک ہونہار طالب علم کی حیثیت سے جانا جاتا ہوں۔ اگر میرے اساتذہ یا دوستوں کو پتہ چلے گا تو کوئی غمگین ہو گا کوئی ہنسے گا۔

            کیا تمہاری امی اس بات سے واقف نہیں؟ مرجانہ نے پوچھا۔

            وہ خوب جانتی ہیں لیکن ان کے لیے میری تعلیمی لیاقت محض خاندان والوں اور محلے والوں پر فخر جتانے کی شئے ہے اور وہ اس کا بھرپور استعمال کرتی ہیں۔ لیکن میرے مستقبل میری پسند اور ناپسند کے بارے میں نہیں سوچتیں۔

            مرجانہ خود جدید تعلیم سے آراستہ تھی۔ اس کا تعلق بھی رضوان کی نسل سے تھا۔ اس لیے وہ رضوان کے کرب کو محسوس کرتی تھی۔ مرجانہ نے رضوان کو یقین دلایا کہ وہ اس بارے میں شیخ جواد سے بات چیت کرے گی اور انہیں رضوان کا موقف سمجھانے کی کوشش کرے گی۔

            مرجانہ کی یقین دہانی سے رضوان عارضی طور پر خوش ہو گیا۔ لیکن اس کا دل کہتا تھا کہ جہاں رخسانہ جیسی دبنگ شخصیت موجود ہو اور بڑوں کی بات نہ ماننا گناہِ کبیرہ سمجھا جاتا ہو مرجانہ بے چاری کر بھی کیا سکتی ہے؟ پھر بھی اُمید کا ایک ٹمٹماتا چراغ ضرور روشن ہوا تھا۔

            دیکھتے دیکھتے ہفتہ گذر گیا۔ مرجانہ کو رضوان کے بارے میں گفتگو کرنے کا موقع ہی نہ مل سکا۔ جیزان سے خمیس مشیط کے راستے ہی میں مرجانہ کا میکہ تھا۔ اس نے درخواست کی کہ اگر مناسب سمجھیں تو مجھے ایک ہفتے کے لیے اپنے ماں باپ کے پاس چھوڑ دیں اور واپسی میں اپنے ساتھ لیتے جائیں۔

            شیخ جواد نے مرجانہ کی تائید کی اور دوپہر تک اس کے میکے جا پہنچے۔ کھانے کے بعد مرجانہ کو رضوان کے بارے میں بات کرنے کا موقع مل گیا۔ مرجانہ بولی۔ رضوان کو ہوٹل کے کاروبار میں ڈالنا سراسر زیادتی ہے۔ اس نے جو تعلیم حاصل کی ہے اس کے ساتھ مذاق ہے۔ وہ اس کاروبار میں کبھی بھی خوش نہ رہ سکے گا۔

            جواد متفکر انداز میں بولے۔ شاید تم سچ کہتی ہو لیکن تم نہیں جانتیں رضوان جس طرح کی صنعت قائم کرنا چاہتا ہے وہ جیزان میں ممکن نہیں اور اس کی ماں رخسانہ اُسے کسی صنعتی شہر بھیجنے کے حق میں نہیں ہے۔ ایسے میں کیا کیا جا سکتا ہے؟

            مرجانہ نے پوچھا۔ وہ اُسے اب کیوں نہیں بھیجنا چاہتیں۔ اگر ایسا ہی تھا تو پہلے کیوں بھیجا؟ یہیں رہتا کنویں کے مینڈک کی طرح۔ اُسے پتہ ہی نہ چلتا کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے؟ اور وہ کیا کچھ کر سکتا ہے؟

            دیکھو مرجانہ شیخ جواد بولے۔ جو کچھ ہو چکا سو ہو چکا اب گڑے مردے اکھاڑنے سے کیا فائدہ؟ رخسانہ نے سارے خاندان کو قائل کر دیا ہے کہ اس کا بیٹا سب سے زیادہ ہونہار ہے۔ اب وہ اس کا گھر بسانا چاہتی ہے اپنے پاس رکھنا چاہتی ہے۔ اسی لیے میں درمیان کا راستہ نکالتے ہوئے اُسے ہوٹل کے کاروبار کی جانب راغب کرنے کی کوشش کر رہا ہوں تاکہ وہ اپنی امی کے پاس شاد و باد رہے۔

            لیکن یہ آپ کی غلط فہمی ہے کہ وہ خوش رہے گا۔ مرجانہ بولی۔ وہ تو برباد ہو جائے گا۔ احساس زیاں اس کے لیے ناسور بن جائے گا۔ اور اس کا ردِ عمل بھی ہو سکتا ہے۔

            لفظ رد عمل پر شیخ جواد چونک پڑے۔ کیسا رد عمل؟ کیا بات کرتی ہو مرجانہ۔

            مرجانہ نے سنبھل کر کہا۔ میں آپ کی دل آزاری کرنا نہیں چاہتی لیکن آپ کو حقائق سے آگاہ کر دینا ضروری سمجھتی ہوں ہمارے اس طرح کے رویہ سے نوجوان نسل میں بغاوت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور بغاوت کو کچلنے والی ہماری کوششیں ان کے رد عمل میں اضافے کا سبب بنتی ہیں۔ ایسے میں کبھی کبھار حالات قابو سے باہر بھی ہو جاتے ہیں۔

            شیخ جواد نے تائید کی اور کہا۔ مرجانہ تم سچ کہتی ہو۔ حالات بتدریج قابو سے باہر ہوتے جا رہے ہیں۔ عرفان نے میری مرضی کے خلاف کرایہ دار کی مدت میں توسیع کر دی اور مزرع میں روانہ ہو گیا۔ رضوان بھی اسی کے نقش قدم پر رواں دواں ہے۔ صفوان پہلے ہی ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ وہ جانوروں کے ساتھ رہتے رہتے انسانوں سے بھی جانوروں کی طرح پیش آنے لگا ہے۔ میری تو سمجھ میں نہیں آتا میں کیا کروں؟ افسوس کی بات ہے میری کوئی بھی شریک حیات ان معاملات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتی۔ وہ معاملات کو سلجھانے کے بجائے مزید اُلجھا دیتی ہیں۔

            نہیں ایسی بات نہیں۔ مرجانہ بولی۔

            شیخ جواد نے کہا۔ تم ٹھیک کہتی ہو حالانکہ تم ان سب سے کم سن اور نا تجربہ کار ہو لیکن مجھے خوشی ہے کہ تمہیں ان خاندانی اُلجھنوں کا ادراک ہے اور تم اس معاملے میں فکر مند ہو۔

            مرجانہ بولی۔ زہے نصیب۔ یہ میرا فرض ہے۔ اس بارے میں میری رائے یہ ہے کہ ہمارے محلے میں ایک بزرگ حکیم عبداللہ الشمری رہتے ہیں وہ نفسیاتی اُلجھنوں کے ماہر سمجھے جاتے ہیں اگر آپ مناسب سمجھیں تو ان سے رجوع فرمائیں۔ شیخ جواد راضی ہو گئے۔

            بعد نماز جمعہ جب شیخ جواد حکیم عبداللہ الشمری کی خدمت میں پہنچے تو وہ تسبیح و تحلیل میں مصروف تھے۔ جیسے ہی انہوں نے قدموں کی آہٹ سنی اس جانب متوجہ ہو گئے۔ جب تعارف ہوا اور مرجانہ سے رشتے کا پتہ چلا تو بہت خوش ہوئے اور آنے کا سبب دریافت کیا۔

            شیخ جواد نے حکیم صاحب کے سامنے اپنی زندگی کی کتاب کھول کر رکھ دی۔ وہ بڑی توجہ سے سب کچھ سنتے رہے۔ جب شیخ جواد خاموش ہو گئے تو نہایت شفقت کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا ان کی ڈھارس بندھائی۔ دعا کی اور یوں گویا ہوئے۔ تمہارے مسائل کی بنیادی وجہ خود پسندی اور زور زبردستی ہے۔ آپ لوگ مخاطب کے جذبات و احساسات کا خیال کیے بغیر ان کی پسند یا ناپسند معلوم کیے بغیر اپنی مرضی مسلط کر دینا چاہتے ہیں۔

            جو بچہ مویشی چرانا چاہتا ہے آپ اسے اسکول بھیجتے ہیں جو پڑھنا چاہتا ہے اسے مویشیوں کے حوالے کر دیتے ہیں نتیجتاً ایک ناکام اور دوسرا منہ زور ہو جاتا ہے۔ اس صورتحال میں آپ لوگ پریشان ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ یہ آپ کی اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے۔ اسی طرح جو صنعت کار بننا چاہتا ہے اس سے آپ ہوٹل چلوانا چاہتے ہیں جو باغات کی دیکھ بھال کرنے اور پڑھنے لکھنے کا خواہش مند ہے اسے آپ مزرع سے نکال کر پٹرول پمپ میں جھونک دینا چاہتے ہیں۔ ہر کسی کو اس کی مرضی کے خلاف لے جانے کی کوشش ہی بغاوت کا بنیادی سبب ہے۔

            لیکن حکیم صاحب ہم ان کے والدین ہیں۔ شیخ جو اد بولے۔ کیا ہمیں ان کی خیر خواہی کا حق حاصل نہیں ہے؟ کیا ہم ان کا بھلا نہیں چاہ سکتے؟

            حکیم صاحب بولے۔ یقیناً تمہیں اس کا حق ہے۔ لیکن خیرخواہی کا تقاضا مخاطب کے نقطۂ نظر کو سمجھنا بھی توہے۔ اس پر اپنا حکم تھوپنے کے بجائے اس کو سمجھانے کی کوشش کرنا ہے اور اگر اس میں ناکامی ہو جائے تو اس کی بات کو تسلیم کر لینا ہی دانش مندی ہے۔ اگر تم سب باہم محبت کے ساتھ رہنا چاہتے ہو تو دوسروں کے جذبات کا احترام سیکھو۔ بغاوت و انتشار کی کیفیت اپنے آپ ختم ہو جائے گی۔

            لیکن ہمارے لیے ان کی باتوں کو مان لینا بہت مشکل ہے۔ شیخ جواد بولے۔

            حکیم صاحب نے کہا۔ اور ان کے لیے بھی آپ لوگوں کی بات کو تسلیم کرنا ویسا ہی مشکل کام ہے۔ دیکھو جواد اس مشکل کا حل اعتماد باہم میں پوشیدہ ہے۔

            لیکن وہ کیسے پیدا ہو گا؟ شیخ جواد کا سوال تھا۔ اور جواب میں حکیم صاحب بولے۔

            باہم محبت سے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان بچوں کے اور تمہارے درمیان والدین اور اولاد کا رشتہ ضرور قائم ہے لیکن محبت و شفقت کا فقدان ہے۔

            یہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں؟ شیخ جواد نے پوچھا۔

            یہ نہایت آسان کلیہ ہے کہ انسان جس سے محبت کرتا ہے اس کی خوشی اور ناراضگی کا خیال کرتا ہے۔ لیکن آپ لوگ والدین کی حیثیت سے ایسا نہیں کرتے۔

             جواد نے اثبات میں سرہلایا۔ حکیم الشمری نے اپنی بات آگے بڑھائی۔ شاید تم خود اپنی بیویوں سے دلی محبت نہیں کرتے۔ اس کے باعث وہ بھی تم سے قلبی لگاؤ نہیں رکھتیں اور تمہارے بچوں سے بھی ویسی محبت نہیں کرتیں جیسی کہ ہونی چاہئے۔

            آپ کی ہر بات بجا ہے لیکن خدارا یہ بتلائیں کہ اب مجھے کرنا کیا پڑے گا؟

            حکیم صاحب بولے۔ میری تشخیص میں ہی علاج پوشیدہ ہے پھر بھی میں اسے واضح کیے دیتا ہوں۔ ابتداء تم سے ہو گی جب تم اپنی بیویوں سے محبت کرو گے تو جواباً وہ بھی تم سے اور تمہارے بچوں سے محبت کرنے لگیں گی۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ بچوں کے دلوں میں والدین کی محبت اور احترام جنم لے گا۔ جب ایسا ہو گا توسب ایک دوسرے کی پسند و ناپسند کا خیال کریں گے۔ خوشنودی اور ناراضگی کا لحاظ کریں گے۔ دوسروں کی خوشی کو اپنی مرضی پر ترجیح دیں گے۔ اپنی خواہشات کو دوسروں کی مسرت کیلئے قربان کر کے خوش ہوں گے۔ اس طرح تمام مسائل ایک ایک کر کے حل ہوتے چلے جائیں گے۔

            حکیم عبداللہ الشمری سے اختلاف کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ شیخ جواد نے بڑی عقیدت کے ساتھ ان سے اجازت طلب کی اور معانقہ کر کے واپس آ گئے۔

            راستہ بھر حکیم صاحب کے الفاظ ان کے ذہن میں گونجتے رہے۔ ان کے ہر ہر لفظ سے سچائی کی بھینی بھینی خوشبو آ رہی تھی۔ وہ سوچنے لگے اگر رضوان کو ینبع جانے کی اجازت دے دی جائے تو ہو سکتا ہے رخسانہ بھی اپنے بیٹے کے ساتھ ہجرت کر جائے لیکن اس کے باوجود خود انہیں تو جیزان آتے جاتے رہنا ہی ہو گا۔ لمبا چوڑا کاروبار جو ہے۔ عرفان تو خمیس مشیط سے وہاں آ کر اسے سنبھالنے سے رہا۔

             اس صورت حال کا حل یہی ہے کہ رخسانہ کو طلاق دے کر جیزان میں نیا نکاح کر لیا جائے لیکن ایسا کرنے میں رخسانہ کی محبت آڑے آتی تھی اس لیے بھلائی اسی میں ہے کہ اس سے دلی محبت نہ کی جائے اور تمام بیویوں سے انصاف کا تقاضا ہے کہ رخسانہ کی طرح کسی بیوی سے بھی قلبی تعلق نہ رکھا جائے۔ مزرع پر پہنچنے تک انہوں نے حکیم صاحب کے حل کو اپنے طور سے رد تو کر دیا تھا لیکن ہنوز بغاوت کا مسئلہ اپنی جگہ باقی تھا۔

            مزرع پہنچنے پر نذرانہ نے ان کا خیر مقدم کیا۔ کافی وقت گذر جانے کے بعد بھی جب عرفان ملنے نہ آیا تو انہوں نے استفسار کیا۔ برخوردار کہاں ہیں؟ خیریت تو ہے؟

            نذرانہ نے بتلایا۔ عرفان گھر ہی میں ہے لیکن نہایت غمزدہ ہے۔ جب سے وہ جیزان سے واپس آیا ہے کھویا کھویا سا رہتا ہے۔ پہلے کتابوں کا مطالعہ کیا کرتا تھا وہ سلسلہ بھی بند ہے۔ بلکہ اب تو کھانا پینا بھی کم ہو گیا ہے۔ اسے آپ کی نافرمانی کا بے حد قلق ہے۔ میں تو کہتی ہوں آپ ہی اسے سمجھائیں۔

            ٹھیک ہے۔ جواد بولے۔

            نذرانہ عرفان کو بلانے چل پڑی۔ پیچھے پیچھے جواد بھی ہو لیے۔ پہلے کمرے میں دیکھا وہاں ندارد پا کر باغ میں آ گئے۔ یہاں ایک پیڑ کے نیچے پتھر پر بیٹھا عرفان کچھ سوچ رہا تھا۔ جواد نے پیچھے سے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔ عرفان چونک پڑا۔ باپ کو کھڑا دیکھ کر وہ فوراً ان سے لپٹ گیا اور زار و قطار رونے لگا۔ نذرانہ کو محسوس ہوا ایک لمحے میں وقت کا پہیہ بیس سال پیچھے گھوم گیا۔ وہ ننھا سا عرفان جو کسی زمانے میں شیخ جواد کی انگلی پکڑ کر جیزان سے مزرع آیا کرتا تھا ذرا ذرا سی بات پر رو دیتا تھا اور ذرا سا بہلانے پر ہنس دیتا تھا اس کی نظروں میں گھوم گیا۔ نہایت حساس شخصیت کا حامل یہ بچہ نذرانہ کو خوب بھاتا تھا۔

            نذرانہ کی چونکہ دو لڑکیاں تھیں جنہیں ایک دن بیاہ کے بعد پرائے گھر جانا تھا اس لیے رخسانہ سے درخواست کر کے اس نے عرفان کو اپنے پاس رکھ لیا تھا۔ عرفان کو جیزان سے زیادہ خمیس اور اپنی ماں رخسانہ سے زیادہ نذرانہ اچھی لگتی تھی۔ رضوان کے تعلیم کی غرض سے شہر جانے کے بعد وہ گھر میں تنہائی محسوس کرنے لگا تھا۔ یہاں آنے کے بعد اسے دو اچھی اچھی بہنیں مل گئیں۔ باغ جھرنا چرند پرند ہوائیں فضائیں سب کچھ اس کی طبیعت کے مطابق تھا۔ وہ یہاں کیا آیا کہ اس ماحول میں رچ بس گیا۔ اور ان سب کے بغیر اپنے آپ کو نامکمل محسوس کرنے لگا۔

             ایک ماہ قبل جب والد صاحب نے جیزان جا کر پٹرول پمپ چلانے کا حکم سنایا تو اس کی ذات سے وابستہ یہ تمام تانے بانے بکھرنے لگے۔ کرایہ دار کی مدت بڑھا کر واپس آتے ہوئے وہ بہت خوش تھا لیکن جب نذرانہ نے اسے والد صاحب کی نافرمانی اور ناراضگی کا احساس دلایا تو وہ پھر اداس ہو گیا اور حزن و ملال بھی ایسا جیسے اس کے تمام دوست اس کے دشمن ہو گئے ہوں۔ اس کا احساس جرم کہتا تھا کہ انہیں اشیاء کی انسیت نے اسے اپنے والد کا نافرمان بنایا ہے۔ والد صاحب کے سینے سے لگ کر اس نے اپنا کھویا ہوا جہان پا لیا تھا۔

             جب آنسووں کا سیلاب تھم گیا تو شیخ جواد نے اس کے سر پر شفقت کا ہاتھ پھیرا۔ اس کی پیشانی کو چوما اور ہاتھ پکڑ کر اسے دیوان خانے میں لاتے ہوئے صرف یہ کہا۔ بیٹے تمہاری خوشی میں ہماری خوشی ہے۔

            شیخ جواد کا یہ جملہ سن کر نذرانہ جھوم اٹھی۔ وہ دن اس کے لیے یومِ عید تھا۔

            ناشتے سے فراغت کے بعد نذرانہ قہوہ لانے باورچی خانے میں گئی تو شیخ جواد اپنے مسائل میں اُلجھ گئے۔ وہ اپنے بچوں کے بارے میں سوچنے لگے۔ حکیم الشمری کا نسخہ ان کے پاس تھا۔ اس پر اطمینان بھی تھا۔ پھر بھی طبیعت کی آمادگی نہیں ہو رہی تھی۔ اس ادھیڑ بن میں خود کلامی کا شکار ہو گئے۔ خود ہی سوال کرتے اور خود ان کا جواب بھی دیتے۔ نذرانہ دیر تک حیرت سے اس منظر کو دیکھتی رہی یہ سب اس کے لیے نہ صرف نیا بلکہ انوکھا بھی تھا۔

             نذرانہ نے شیخ جواد کی اس کیفیت میں خلل اندازی مناسب نہ سمجھی۔ دم سادھے کھڑی رہی۔ یہاں تک کہ شیخ جواد خود ہی واپس لوٹ آئے۔ نذرانہ مسکرائی اور کہا۔ میرے سرتاج اس بیس سالہ طویل ازدواجی زندگی میں ایسا منظر میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ ایسا لگتا ہے آپ کسی پریشانی میں گھرے ہوئے ہیں۔ اگر مناسب سمجھیں تو مجھے بھی اس میں شریک فرمائیں۔

            شیخ جواد نے اپنے آپ کو سنبھالا اور بولے۔ کوئی خاص بات نہیں۔ پھر بھی تم سے کیا چھپانا۔ بچے وہ نہیں چاہتے جو ہم چاہتے ہیں اور ہم وہ نہیں چاہتے جو وہ چاہتے ہیں۔

             اس تمہید کے بعد شیخ جواد نے حکیم الشمری کی تمام گفتگو نذرانہ کے گوش گذار کر دی اور بولے۔ ان کی تجویز معقول ہے مگر مشکل ہے اس لیے میں اس کا متبادل چاہتا ہوں لیکن سجھائی نہیں دیتا۔

            نذرانہ نے کہا۔ اچھا آپ کسی زمانے میں ڈاکٹر سائمن کا ذکر کیا کرتے تھے جو تعلیم کے دوران برلن میں آپ کے ساتھ تھے۔ کبھی کبھار اپنے ذاتی مسائل میں بھی ان سے صلاح و مشورہ کیا کرتے تھے۔ کیوں نہ پھر ان سے رجوع کیا جائے۔ ہو سکتا ہے وہ کوئی ایسا حل تجویز فرمائیں جس پر عمل درآمد آپ کے لیے آسان تر ہو اور یہ معاملہ سلجھ جائے۔

            شیخ جواد خوش ہو گئے۔ انہوں نے کہا بھئی تم نے نہایت معقول مشورہ دیا ہے۔ میں ڈاکٹر سائمن سے رابطہ کروں گا وہ بہت بڑا ماہر نفسیات ہے اس لیے ضرور میرا مسائل حل کر دے گا۔

            شیخ جواد نے اپنے دیرینہ دوست ڈاکٹر سائمن کو اپنا پرانا وعدہ یاد دلایا جس کے مطابق اسے چھٹیاں گذارنے کیلئے کم از کم ایک باران کے پاس آنا تھا۔ شیخ جواد نے سائمن کو یہ بھی بتلا دیا کہ وہ اس دوران کچھ خانگی مسائل پر بھی اس سے گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔

            تین چار ماہ بعد ڈاکٹر سائمن اپنی اہلیہ کے ساتھ تشریف لے آئے اور ایک مہینے کا وقت شیخ جواد کے تینوں گھروں میں گذارا۔ چاروں بچوں سے فرداً فرداً بات چیت کی۔ بیوی کے ذریعے شیخ جواد کی بیویوں کے انداز فکر کا بھی اندازہ لگا یا اور اپنا نفسیاتی تجزیہ شیخ جواد کے سامنے پیش کر دیا۔ ڈاکٹر سائمن نے بتایا کہ ان تمام مسائل کا حل انتخابی آزادی میں ہے۔

            آزادی؟ کیسی آزادی؟ شیخ جواد چونک پڑے۔ یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟ اگر یہ لوگ آزاد ہو جائیں گے تو مسائل میں بے پناہ اضافہ ہو جائے گا۔

            سائمن ہنسا اور اس نے کہا۔ تم تو کچھ زیادہ ہی بے چین ہو رہے ہو۔ میں نے مجرد آزادی نہیں بلکہ انتخابی آزادی کہا۔ یہ مغرب کا آزمودہ نسخہ ہے جس میں لوگ اپنی مرضی سے غلامی کا انتخاب کرتے ہیں۔ ہم نے اس کا خوبصورت نام جمہوریت رکھا ہے۔ اس نسخہ کے استعمال سے تم اپنے چاروں بیٹوں کو خود ان کی اپنی مرضی سے اپنا بندۂ بے دام بنا سکتے ہو۔

            اچھا۔ وہ کیسے؟ میری تو سمجھ میں نہیں آتا کبھی تم آزادی کہتے ہو اور کبھی غلامی کی بات کرتے ہو۔ یہ دونوں تو متضاد چیزیں ہیں۔

            ڈاکٹر سائمن نے تائید کی۔ یقیناً یہ متضاد چیزیں ہیں۔ لیکن جس پر اس کو آزمایا جاتا ہے وہ اس کے تضاد سے واقف نہیں ہو پاتا وہ آزادی کے نشے میں اس قدر چور کر دیا جاتا ہے کہ اسے اپنے گلے میں پڑا ہوا طوق غلامی خوبصورت ہار دکھائی دینے لگتا ہے۔

            وہ کیسے؟ شیخ جواد نے پوچھا۔

            میں ابھی بتاتا ہوں۔ ڈاکٹر سائمن نے کہا۔ اطمینان رکھو۔ میں ایک ایک کر کے تمام مسائل کا حل تجویز کروں گا۔ آگے تمہاری مرضی۔

            تمہارا بیٹا ریحان پڑھنا لکھنا نہیں چاہتا اس لیے کہ مویشی چرانا چاہتا ہے اس کے برخلاف تم چاہتے ہو کہ وہ تعلیم حاصل کرے۔ ٹھیک ہے؟

            شیخ جواد نے کہا۔ بالکل ٹھیک ہے۔

            اس کا مطلب ہے جب تک اس کی دلچسپی مویشیوں سے ختم نہیں ہو جاتی وہ تعلیم حاصل نہیں کر سکتا۔

            یہ بھی ٹھیک ہے۔ لیکن اس کی دلچسپی کیسے ختم کی جائے؟ شیخ جواد نے پوچھا۔

            سائمن بولے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ اس کے سامنے ایک تیسرا متبادل رکھ دیا جائے۔

            اچھا وہ تیسرا متبادل کیا ہے؟

            کھیل کود۔

            لیکن اگر اس نے کھیل کود میں بھی دلچسپی نہ لی تو کیا ہو گا؟

            نہیں ایسا نہ ہو گا۔ تم اس کے سامنے کئی کھیلوں کے متبادل رکھ دو اس سے کہو کہ وہ فٹ بال کھیلے یا والی بال میدان میں اتر کر کھیلے اگر اسے وہ ناپسند ہو تو کمپیوٹر پر کھیلے یا ٹی وی کے پردے پر وہ کھیل تماشے دیکھے۔ اسے آزادی دو کہ وہ جس کا چاہے انتخاب کرے۔ لیکن کھیلنا تو پڑے گا ہی۔ اگر اس نے مؤخر الذکر دو میں سے کسی ایک کا انتخاب کیا تو تمہارا کام اور بھی آسان ہو جائے گا۔

            وہ کیسے؟

            در اصل اس کے باعث اس کی طبیعت میں سہل پسندی اس قدر گھر کر لے گی کہ وہ مویشی چرانے کی سخت کوشی سے خود ہی دور بھاگے گا لیکن اگر وہ فٹ بال یا والی بال بھی کھیلنے لگے تب بھی اس قدر تھک کر لوٹے گا کہ مویشیوں سے اس کی دلچسپی ختم ہو ہی جائے گی۔ لیکن تمہیں اس کے انتخاب کا احترام کرتے ہوئے اس کی پسند کے کھیل کی تمام سہولیات مہیا کرنی ہو گی تاکہ وہ خوش ہو کر اس میں مگن ہو جائے گا۔ بعد میں ممکن ہے پڑھنے لکھنے بھی لگے۔

            شیخ جواد نے پوچھا۔ لیکن اگر ایسا نہ ہوا تو؟

            سائمن بولا۔ کیا فرق پڑتا ہے۔ اگر تعلیم نہ بھی حاصل کرے تو مویشی تو نہیں چرائے گا۔ تمہارا آدھا کام تو ہو ہی گیا۔

            جی ہاں ریحان کا مویشیوں سے رکنا تعلیم کے حصول سے زیادہ ضروری ہے۔

            تب تو تمہارا اہم کام ہو گیا۔ سائمن نے خوش ہو کر کہا۔

            اچھا اب یہ بتلاؤ کہ عرفان کا کیا کیا جائے؟

            اس کے لیے میرا مشورہ ریحان جیسا ہی ہے۔

            کیا مطلب؟

            اس کی شادی کر دو۔

            شیخ جواد کو ہنسی آ گئی وہ بولے۔ کہاں شادی اور کہاں کھیل کود۔ کیا دونوں یکساں ہیں؟

            سائمن بولا۔ بظاہر تو نہیں لیکن حقیقت یہی ہے۔ بچے بے جان کھلونوں سے کھیلتے ہیں اور بڑے جاندار کھلونوں سے۔ ہاں ایک فرق ضرور ہے۔

            وہ کیا؟

            بڑے جن کھلونوں سے کھیلتے ہیں وہ کھلونے بھی ان سے کھیلتے ہیں۔ اسے شادی کا کھیل کہتے ہیں اس کی اہلیہ اس سے وہ تمام کام بآسانی کرا لے گی جو آپ لاکھ کوششوں کے باوجود نہیں کرا سکتے۔

            لیکن اگر وہ شادی کے لیے راضی نہ ہوا تو کیا کریں گے؟

            نہیں اس کی آزادی اسے نہیں ہے۔ شادی تو کرنی ہی پڑے گی۔ ہاں شادی کے لیے لڑکی کے انتخاب کی آزادی اسے ضرور حاصل ہو گی۔ اس کے سامنے کئی لڑکیوں کا متبادل رکھا جائے ان میں سے جس سے چاہے اپنی مرضی سے شادی کرے۔ ایک مرتبہ نکاح ہو گیا تو اسے اپنی اہلیہ کے ناز نخرے اٹھانے ہی پڑیں گے۔ اگر وہ اس میں کوتاہی کرے گا تو تمہیں اس کو موردِ الزام ٹھہرانے کا پورا پورا حق حاصل ہو گا۔ بس اس کے بعد سمجھو کہ تمہارا کام ہو گیا وہ نہ صرف مزرع چھوڑ کر جیزان آ جائے گا بلکہ پٹرول پمپ کے ساتھ دوسرے کاروبار بھی چلانے لگے گا۔ پڑھنے لکھنے کا شوق ہوا ہو جائے گا۔

            اس بیچ چائے آ گئی۔ چائے کے بعد رضوان کا مسئلہ زیر بحث آیا تو سائمن نے کہا۔

            دیکھو تم سب سے پہلے رضوان کو یہ سمجھاؤ کہ ہوٹل بھی اپنے آپ میں ایک جدید صنعت ہے اور اس کا انتظام و انصرام کرنے والا بھی صنعت کار ہی ہوتا ہے۔

             لیکن یہ تو غلط بات ہے۔ شیخ جواد بولے۔

            اگر غلط ہے تو ہوا کرے اس سے کیا فرق پڑتا ہے تمہارا کام نکل جائے یہ کافی ہے۔ سائمن نے بات آگے بڑھائی۔ تم اس کے سامنے کئی متبادل رکھو مثلاً پانچ ستارہ ہو یا چار ستارہ اس کا انتخاب وہ خود کر سکتا ہے۔ اس کے مطعم میں انگریزی کھانے کھلائے جائیں یا چینی اس کا فیصلہ بھی اسی پر چھوڑ دو بلکہ اس سے کہو کہ وہ گاہکوں کا خیال کر کے عربی یا ہندوستانی طرز کے کھانے بھی بنوا سکتا ہے۔ اس کی اسے مکمل آزادی ہے لیکن بہرحال کاروبار تو ہوٹل ہی کا کرنا پڑے گا۔ اسی کے ساتھ اسے اس بات کی بھی آزادی دو کہ ہوٹل کا جو چاہے نام رکھے جیسا چاہے فرنیچر منتخب کرے۔ رنگ و روغن وغیرہ ہر چیز وہ اپنی مرضی سے طے کرے۔

            لیکن اس سے ہو گا کیا؟ شیخ جواد نے سوال کیا۔

            اس سے یہ ہو گا کہ ان تمام مصنوعی آزادیوں میں حقیقی پابندی چھپ جائے گی اور وہ اس ادھیڑ بن میں گرفتار ہو جائے گا کہ کس قسم کا ہوٹل زیادہ چلے گا، کس میں منافع زیادہ ملے گا وغیرہ وغیرہ اور جیسے جیسے وہ ان سوالات میں الجھتا جائے گا تمہارا مسئلہ سلجھتا جائے گا۔

            بہت خوب۔ شیخ جواد نے کہا۔ اب صفوان کے بارے میں کچھ بتاؤ میں اس کے بارے میں بہت ہی زیادہ فکر مند ہوں۔ وہ تیزی کے ساتھ باغی ہوتا جا رہا ہے۔

            سائمن نے تائید کی۔ یہ تو حسب توقع ہے تم نے اسے جن جائز حقوق سے محروم کر رکھا ہے انہیں بحال کرنا نہیں چاہتے۔ ایسے میں رد عمل تو لازمی ہے اس لئے قوت کا استعمال ناگزیر ہے مگر خطرہ یہ ہے ایسا کرنے سے دوسروں کے دل میں اس کے تئیں ہمدردی پیدا ہو جائے جو تمہاری بدنامی کا سبب بنے۔

            شیخ جواد بولے۔ وہ تو ہو رہی ہے۔

            سائمن نے کہا۔ اس بدنامی کا ازالہ یوں ممکن ہے کہ تم سب سے پہلے لوگوں کے دلوں میں اس کے خلاف نفرت کے جذبات بھڑکا ؤ اپنے ظلم پر پردہ ڈالنے کی خاطر اسے ظالم قرار دو ساتھ اس کے سامنے تعذیب کے مختلف متبادل رکھو مثلاً اسے مارنے کی خاطر چھڑی، ڈنڈا، چابک اور ہنٹر جیسی چیزوں کا اہتمام کرو اور جب بھی وہ سرتابی کرے اس کو اس بات کی آزادی دو کہ وہ ان میں سے خود اپنے خلاف استعمال ہونے والے اسلحہ کا انتخاب کرے وہ خود بتلائے کہ اسے چھڑی سے مارا جائے یا ڈنڈے سے۔ اس پر ہنٹر برسایا جائے یا چابک سے اس کی کھال ادھیڑی جائے۔ اس طرح تم اسے سزا اس کی مرضی کے مطابق دو گے یہی انتخابی آزادی ہے۔

            شیخ جواد یہ سن کر اچنبھے میں پڑ گئے اور کہا۔ یہ تو عجیب آزادی ہے۔

            سائمن بولا۔ آزادی کی اس نیلم پری کا آج کل ساری دنیا میں بول بالا ہے۔ دنیا بھرکو اسی جمہوریت کی مدد سے غلام بنایا جا رہا ہے۔

            جواد نے کہا۔ وہ تو ٹھیک ہے لیکن میرے دوست سائمن اس دن کیا ہو گا جب صفوان اس ہنٹر کو میرے ہاتھوں سے چھین لے گا؟

            سائمن مسکرا کر بولا اچھا سوال ہے۔ اس دن کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ ہنٹر چھین لینے کے بعد وہ بھی انتخاب کی آزادی دیتے ہوئے پوچھے گا’ ہنٹر، چابک، چھڑی یا ڈنڈا۔ شیخ جواد چکرا گئے۔ انہیں ایسا محسوس ہوا گویا چہار جانب سے بیک وقت ان پر ہنٹر، لاٹھی، ڈنڈا اور چابک سے ہلّا بول دیا گیا ہے اور دور کھڑا سائمن ان کی حالت زار پر مسکرا رہا ہے۔

٭٭٭


 

 

موکش (نجات)

 

             بنکم چٹرجی فٹ پاتھ پر ادھر ادھر دیکھتا ہوا چلا جا رہا ہے کہ اچانک اس کے سامنے سے بندوق کی ایک گولی سنسناتی ہوئی گزر جاتی ہے۔ وہ پیچھے ہٹتا ہے تو ایک اور گولی پیچھے سے گزرتی ہے۔ اب بنکم زمین پر بیٹھ جاتا ہے۔ گولیوں کا اس کے آس پاس سے گزرنا جاری ہے۔ یہاں تک کہ وہ زمین پر اوندھے منہ لیٹ جاتا ہے۔ چند منٹ بعد جب گولیوں کی بوچھار بند ہو جاتی ہے تو وہ اپنی جگہ کھڑا ہو کرآس پاس نظر دوڑاتا ہے اور نہایت اطمینان کے ساتھ سامنے والی پان کی دوکان کے پاس آ کر پوچھتا ہے کالیداس کا گھر کہاں ہے؟

            اس کے گرو سوامی پرم آنند نے اسے یہی نشانی بتائی تھی کہ دیکھو بنکم جب تم کالیداس کے گھر کے قریب پہنچو گے تو وہاں گولی باری ہو رہی ہو گی۔ تمہیں اس سے گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں وہ تمہارا کوئی نقصان نہیں کر سکتی اس لئے کہ آگے تمہارے بھاگیہ میں بہت کچھ لکھا ہے۔ اس پر  بنکم نے چہک کر پوچھا تھا گرو جی اور کیا کیا لکھا ہے یہ بھی بتلا نے کی کرپا کریں گرو دیو۔         پرم آنند نے مسکرا کر جواب دیا تھا نہیں ششیہ میں فی الحال تمہیں اس سے زیادہ کچھ اور نہیں بتا سکتا۔

             میرا ہی بھاگیہ مجھ ہی سے گپت رکھنے کا کیا کارن ہے گرو دیو؟ ویسے بھی آپ تو سب کچھ جانتے ہی ہیں۔ اس سوال کے جواب میں پرم آنند نے صرف اتنا کہا تھا کہ دوسروں کے بارے میں جاننا منشیہ کیلئے اتنا ہانی کارک(نقصان دہ) نہیں ہوتا جتنا سویم اپنے وشیہ میں جاننا ہوتا ہے۔ اس لئے دھیرج رکھو اور آگے بڑھو۔ میں تمہارے لئے پرارتھنا کروں گا کہ ایشور تمہیں یش پردان (کامیاب و کامران)کرے۔

             گرو دیو کے آشیرواد نے بنکم کو خوش کر دیا تھا وہ بولا گرو دیو آپ کی اِچھّا (مرضی) میرے لئے آدیش ہے۔ آپکی پرارتھنا میرا سب سے بڑا وردان ہے۔ سوامی جی نے بنکم کے سر پر ہاتھ رکھا اور بنکم ان کے چرنوں کو چھو کر نکل پڑا۔ سوامی جی پر بنکم کو اس درجہ وشواس تھا کہ گولیوں کے سنسناہٹ میں وہ ایک لمحہ کیلئے بھی نہیں گھبرایا بلکہ اسے یقین ہو گیا کہ وہ اپنے لکش(ہدف) کے سمکش (سامنے) ہے۔

            پان والے نے اس کا سوال سن کر اسے غور سے دیکھا اور بولا کون؟ کالیداس؟

            بنکم کا جی چاہا کہ کہے وہی کالیداس جو میری بیوی پروفیسر شکنتلا کے ساتھ کلکتہ سے فرار ہو کر ڈھاکہ آ گیا ہے۔ لیکن اس نے اپنے آپ کو سنبھال کر کہا وہی کالیداس جو تمہارا یار غار ہے۔ کیا اب وہ یہاں نہیں رہتا؟

            کیسی بات کرتے ہیں صاحب وہ لال دروازے والا مکان کالیداس کا ہی تو ہے

            لیکن اس پر تو تالہ پڑا ہوا ہے؟

            جی ہاں لیکن اس کی چابی میرے پاس نہیں ہے۔ وہ تو اسی کے پاس ہے۔ آپ چاہیں تو میرے کٹیا میں وشرام کر سکتے ہیں۔

            مجھے وشرام نہیں ہے کالیداس چاہئے۔

            پان والے نے دانت نکال دئیے اور بولا کاش میرے پاس علاؤ الدین کا چراغ ہوتا اور میں اسے گھس کر جن کو آدیش دیتا کہ وہ کالیداس کو اسی شن آپ کے سمیپ اپستھت کر دے لیکن میں شما چاہتا ہوں کہ ایسا نہیں کر سکتا۔

            بنکم بولا اچھا تو کیا تم مجھے یہ بتا سکتے ہو کہ وہ کہاں گیا ہوا ہے اور کب آئے گا؟

            آپ کے دو پرشنوں میں سے ایک کا اتّرتو میرے پاس ہے لیکن دوسرے کا تو شاید خود کالیداس کے پاس بھی نہیں ہے۔

            اچھا تو جو جانتے ہو وہی بتا دو۔

            اس بیچ دوکان پر ایک گاہک آ گیا۔ پان والا بولا شما کیجئے شریمان لکشمی کی اپستھتی میں دوسرے سارے کاریہ استھگت کرنا انواریہ ہے۔

            جب گاہک چلا گیا تو پان والا پھر بولا۔ جی ہاں شریمان آپ پوچھ رہے تھے کہ کالیداس کہاں گیا ہے اور کب آئے گا؟ بنکم نے سر ہلا کر تائید کی تو وہ بولا وہ کب آئے گا یہ کوئی نہیں جانتا بلکہ آئے گا بھی یا نہیں؟ یہ بھی کسی کو نہیں پتہ ہاں وہ گیا تو ہسپتال تھا۔ اب وہاں پہنچا یا نہیں؟ اس کا مجھے گیان نہیں ہے۔

            کون سے ہسپتال گیا ہے کالیداس؟

            اپولو ہسپتال اور کہاں؟ اسی میں تو وہ کام کرتا ہے۔

            اچھا تو وہ ڈیوٹی پر ہے؟

            جی نہیں پچھلے ایک ہفتے سے وہ اپنے کسی سگے سمبندھی کی سیوا میں لگا ہوا ہے۔ اس نے کاریالیہ سے چھٹی لے رکھی ہے۔

            خیر ٹھیک ہے اب ایسا کرو کہ مجھے اپولو ہسپتال کا پتہ بتلا دو۔

            کیوں کیا آپ پیدل جانے کا ارادہ رکھتے ہیں؟ وہ تو یہاں سے بہت دور ہے۔

            دور ہے تو رکشا سے چلے جائیں گے لیکن پھر بھی پتہ تو چاہئے؟

            جی نہیں سرکار اگر آپ رکشا سے جا رہے ہیں تو چنتا کی کوئی جرورت نا ہے سہر کا ہر رکسا والا اپولو ہسپتال کا پتہ جانتا ہے۔

            بنکم دھنیہ باد کہہ کر رکشا کی طرف چل پڑا۔

            اپولو روگنالیہ کے ککش نمبر تیراسوتین میں جب بنکم پہنچا تو کیا دیکھتا ہے کہ شکنتلا کے مرتیو دیہہ کے پاس بیٹھا کالیداس آنسو بہا رہا ہے۔ بنکم نے جب یہ درشیہ دیکھا تو اس کا ہردیہ پسیج گیا۔ اس کے نینوں سے بھی اشرو دھارا بہہ نکلی۔ بنکم نے آگے بڑھ کر کالیداس کے کندھوں پر ہاتھ رکھا تو کالیداس اس کے چرنوں میں گر گیا اور بولا۔ بنکم دا مجھے شما کریں؟ میں بہت پاپی انسان ہوں مجھ سے مہا پاپ سمپنّ ہوا ہے۔ آپ مجھے شما کر دیں۔ آپ آ گئے۔ بڑا اچھا ہوا جو آپ اس سمے یہاں پہنچ گئے۔ یہ ایشور کی کرپا ہے جو اس نے آپ کو یہاں پہنچا دیا ورنہ میں اپنے اس پاپ کے پرایشچت سے ہمیشہ کیلئے ونچت ہو جاتا۔

            بنکم نے اسے اٹھا کر سینے سے لگا یا اور بولا کالیداس اپنے اتیت سے باہر نکلو اور بھویشیہ کی اور دیکھو۔ اب جبکہ شکنتلا ہی نہیں رہی تو ہمارے بیچ شتروتا کا کوئی کارن شیش نہیں ہے۔ کب تک یونہی آنسو بہاتے رہو گے، بھوت کال کو بھول جاؤ جو ہوا سو ہوا۔ اٹھو اور شکنتلا کے انتم سنسکار کی تیاری کرو۔ ورنہ اس کی آتما کو موکش پراپت نہیں ہو گا وہ دھرتی اور آکاش کے بیچ بھٹکتی رہے گی۔

            کالیداس تو خیر شکنتلا کی آخری رسومات کی تیاری میں مصروف ہو گیا لیکن بنکم خود اپنے ماضی میں کھو گیا۔ اس نے سوچا قدرت کی یہ کیا ستم ظریفی ہے کہ وہ جس وقت شکنتلا کے ساتھ جینا چاہتا تھا کالیداس اسے لے اڑا اور جب اس نے شکنتلا کو موت کے گھاٹ اتارنے کا فیصلہ کر لیا تو موت کے فرشتے نے اس پر بازی مار لی اور اسے اپنے مقصدِ حیات سے محروم کر دیا۔ بنکم اپنی دوسری ناکامی پر خوش تھا اس لئے کہ شکنتلا کو تو اس وقت مرنا ہی تھا اگر یہ فرشتہ کچھ تاخیر سے آتا تو زندگی بھر کیلئے اس کی پیشانی پر اپنی زوجہ کے قتل کا کلنک لگ جاتا۔

            انتم سنسکار کے پشچات پنڈت جی نے شکنتلا کی راکھ کواستھی کلش میں ڈالکرکالیداس کی اور دیکھا پوچھا ججمان اب آگے کی کیا یوجنا ہے؟

            کالیداس نے بنکم کی جانب دیکھا تو وہ بولا ہم اسے گنگا میں بہائیں گے۔

            پدما تو یہاں سے بہت دور ہے۔

            پدما نہیں گنگا۔

            کالیداس بولا بنکم دا گنگا کو یہاں لوگ پدما کہتے ہیں یہ وہی پوتر ندی ہے جو سورگ لوک سے آئی ہے۔

            لیکن ججمان کیا تم پدما کے بارے میں گمبھیر ہو؟

             پنڈت جی اس میں سنکوچ کیا پرشن؟ یہ استھی کلش اسی ندی میں بہایا جائے گا۔

            اچھا تو ٹھیک ہے؟ پنڈت جی بولے لیکن ابھی سندھیا کا سمے ہے ایسا کرتے ہیں کل پراتہ کال نکلتے ہیں تاکہ دوپہر تک اس شبھ کاریہ کو نمٹا کر واپس آ جائیں۔

            کالی داس بولا یہ اُچت ہے۔ کیا کل صبح سات بجے کا مہورت ٹھیک رہے گا؟

            پنڈت جی نے کہا ہاں ججمان اور گھوشنا کی کہ جو لوگ اس یاترا پر چلنا چاہتے ہیں وہ صبح سات بجے سے پورو کالیداس کے ڈیرے پر پہنچ جائیں۔

            لوگ واپس لوٹنے لگے بنکم نے پنڈت جی کو ان کی دکشنا دی تو وہ بولے کل کا اڈوانس بھی دے دیں تو اچت ہو گا۔ بنکم نے روپیوں کی ایک اور گڈی ان کے ہاتھ پر رکھی۔ پنڈت جی دھنیہ واد کہہ کر چلے گئے۔ کالیداس کے ساتھ بنکم اس کے گھر آ گیا۔

            دوسری صبح کالیداس کے پانچ دوست اور پنڈت جی کے ساتھ جملہ آٹھ یاتری پدما ندی کی اور چل پڑے۔ گو کہ راستہ گھنے جنگل سے ہو کر گزرتا تھا لیکن پھر بھی پنڈت جی کا اندازہ تھا کہ نو بجے تک وہ لوگ ندی کے کنارے پہنچ جائیں گے۔ جب دس بج چکے اور سورج سر پر آ گیا تو کالیداس کے دوستوں میں سے پان والے نے پنڈت جی سے پوچھا اب اور کتنا راستہ شیش ہے؟ سوریہ دیوتا کا پرکوپ بڑھتا جا رہا ہے۔

            پنڈت جی نے کہا یہ ولمب کچھ سمجھ میں نہیں آتا ایسا تو اس سے پورو کبھی نہیں ہوا۔

            ان میں سے ایک بولا کہیں ہم لوگ راستہ تو نہیں بھٹک گئے پنڈت جی؟

            کیسی بات کرتے ہو ججمان ان راستوں پر تو میں آنکھ موند کر چل سکتا ہوں۔

            وہ بولے لیکن ہم کب تک یونہی چلتے رہیں گے۔ ہمیں لگتا ہے کہ واپس جانا چاہئے۔ کالیداس اگر تمہاری آگیہ ہو تو ہم واپس چلے جائیں۔

            بنکم نے کہا آپ لوگوں نے جو کشٹ کیا ہم اس کا ابھینندن کرتے ہیں آپ لوگ نسنکوچ واپس جا سکتے ہیں دھنیہ باد۔

            چار لوگ لوٹ گئے اور اب بچ گئے صرف چار۔ دو بھاگوں میں بنٹنے سے پورو سب نے مل کر ساتھ لایا ہوا ناشتہ کیا اور وپریت دشا میں پرستھان کیا۔ چار جنگل کی اور جا رہے تھے اور چار شہر کی دِشا میں۔ پنڈت جی بڑی گمبھیر مدرا میں سوچ رہے تھے کہ آخر آج یہ کیا ہو گیا؟ دیکھتے دیکھتے سورج نصف النہار پر پہنچ گیا اب پان والے کا حوصلہ بھی ٹوٹنے لگا تھا اور پنڈت جی تو انتظار ہی میں تھے کب کوئی بولے۔ جیسے ہی پان والے پوچھا پنڈت جی اس طرح تو چلتے چلتے ہم لوگ بھی پرلوک میں پہنچ جائیں گے لیکن پدما ندی کا تٹ ہمیں پراپت نہیں ہو گا۔

            پنڈت جی بولے ججمان اتنے سمے میں تو ہم لوگ واپس اپنے شہر میں پہنچ جاتے تھے لگتا ہے کوئی گڑبڑ ہو رہی ہے اس لئے اب میرا بھی من واپس جانے کیلئے کہہ رہا۔ اگر آپ چاہیں تو میں دکشنا لوٹا سکتا ہوں لیکن آگے نہیں جا سکتا۔

            بنکم بولاکیسا انرتھ کر رہے ہیں پنڈت جی۔ دکشنا بھی کوئی واپس لیتا ہے۔ میں آپکی سمسیا کو سمجھتا ہوں۔ آپ دونوں اگر چاہیں تو اوشیہ واپس جائیں پرنتو بھوجن کے پشچات۔

            پنڈت جی بولے یہ اچت سجھاؤ ہے۔ کھانے کے بعد چاروں نے کچھ دیر وشرام کیا اور پھر دو بھاگوں میں وبھاجت ہو گئے۔ پان والا پنڈت جی کے ساتھ واپس آ رہا تھا اور کالیداس بنکم کے ساتھ آگے کی اور چل پڑا تھا۔

             ان دونوں کی یاترا نہ جانے کب تک جاری رہی یہاں تک پیروں سے خون بہنے لگا اور راستے پر نشان بننے لگا اب تو سورج بھی تھک گیا تھا اور رات کے دامن میں چھپ کر سونے کی تیاری کرنے لگا تھا۔ کالیداس نے ایک پیڑ کی جانب دیکھ کر کہا بنکم دا کیوں نہ اس وشال ورکش کے تلے تنک وشرام کر لیا جائے؟ آپ کا اس سبمندھ میں کیا وچار ہے؟

            بنکم نے سرہلا کر تائید کی دونوں بیٹھ گئے۔ بنکم نے پوچھا کیا تم اس سے پہلے یہاں آئے ہو؟

            ایک نہیں کئی بار آیا ہوں سوامی لیکن دوپہر تک ہم لوگ لوٹ جاتے تھے۔

            تو کیا اس بار ہم سے دشا بھول ہو گئی ہے؟

            جی نہیں! میں راستہ بھٹک سکتا ہوں لیکن پنڈت جی وہ تو اسمبھو ہے۔

            تو پھر کیا کارن ہے۔ ندی کہاں غائب ہو گئی؟

            سمبھوتہ صبح سے ہمارے آگے بھاگتے بھاگتے وہ بھی سوکھ گئی ہے۔

            سوکھ گئی ہے یہ تم کیا کہہ رہے ہو کالیداس؟ پنڈت جی کہہ رہے تھے پدما ندی گنگا، جمنا، سرسوتی اور برہمپترا کے سنگم سے بنی ہے۔ اگر ان چاروں کا پانی سوکھ جائے تودھرتی پر پرلیہ آ جائے گا۔

            مجھے بھی یہی لگتا ہے شیگھر(جلد) ہی پرلیہ آنے والا ہے۔

            کیوں تمہیں ایسا کیوں لگتا ہے؟ وہ دیکھو سامنے جو کٹیا دکھائی دے رہی ہے وہ رشی کانو کا آشرم تھا۔

            رشی کانو! جس نے مینکا کے سورگ لوٹ جانے کے بعد شکنتلا کی پرورش کی تھی؟

            جی ہاں اسی رشی کانو کا آشرم جس میں شکنتلا کی ملاقات راجہ دشینتا سے ہوئی تھی۔

            اچھا یہ تمہیں کیسے پتہ؟

            میں کالیداس ہوں سوامی میں سب کچھ جانتا ہوں۔

            اور دور وہ پہاڑی کا ٹیلہ آپ دیکھ رہے ہیں؟

            ہاں ہاں بہت دور مجھے دکھائی دے رہا ہے۔ ابھی میرے نین اتنے شکتی شالی ہیں کہ میں اسے دیکھ سکوں۔

            یہ وہی پہاڑی ہے جس پر بیٹھ کر بھرت شیر کے دانت گن رہا تھا اور راجہ دشینتا نے اس سے پریچے پراپت کر کے اسے پہچان لیا تھا۔

            اچھا اور وہ جو گڑھا سا نظر آتا ہے سو کیا ہے؟

            کالیداس بولا شکنتلا کی سارے دکھ درد کا اپج استھان وہی ہے سوامی۔ اسی مقام پر شکنتلا کی انگلی سے وہ انگوٹھی گر گئی جو اسے دشینتا نے اپنی نشانی کے طور پر دی تھی۔ اگر وہ انگوٹھی نہیں گرتی تو دشینتا اسے پہچاننے سے انکار نہیں کرتا اور کالیداس کی لیکھنی (قلم) پیاسی رہ جاتی۔ اسے وہ مہان اپنیاس لکھنے کی کاسورن اوسر پراپت نہ ہوتا۔

            بنکم نے دیکھا اس سوراخ سے آگ کے شعلے اب بھی لپک رہے ہیں۔

            کالیداس بولا ایک بات کہوں سوامی۔ آپ برا تو نہیں مانیں گے۔

            برا ماننے کا کیا پرشن ہے کالیداس اپنے من کی بات نسنکوچ کہو .

            سوامی مجھے ڈر لگ رہا ہے .

            کیسا ڈر؟ یہاں جنگل میں کون ہمیں شتی(نقصان) پہنچا سکتا ہے۔

            وہ تو ٹھیک ہے لیکن اگر کوئی سنکٹ آ جائے تو اس ایکانت ویوستھا میں کوئی ہماری سہایتا بھی تو نہیں کر سکتا۔

            لیکن ہمیں کسی سہایتا کی اوشیکتا ہو تب نا؟

            مجھے لگتا ہے کہ کوئی بہت بڑی درگھٹنا ہونے والی ہے بڑا انرتھ ہماری پرتکشا کر رہا ہے ورنہ پدما ندی کا اتنی دور چلا جانا اور پھر سوکھ کر کانٹا بن جانا کیا یہ سب یونہی ہو رہا ہے۔ کداپی نہیں۔ اگر آپ مجھے آگیہ دیں تو میں واپس جانا چاہتا ہوں سوامی۔

            میں تمہیں روکنے والاکون ہوتا ہوں، مجھے اس کا ادھیکار نہیں ہے کہ کسی کو بل پوروک اپنے سنگ رکھوں۔

            وہ تو ٹھیک ہے لیکن آپ کب تک یونہی چلتے جائیں گے۔ آپ وشواس کریں یہی ندی کا تٹ ہے اور پدما کاجل یا تو دھرتی ماتا نے نگل لیا ہے یا سوریہ دیوتا نے چوس لیا ہے

            کالیداس اس سوراخ میں مجھے شکنتلا کی آتما دکھائی دیتی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ست یگ کے اندر شکنتلا کا مرتیو سے پورو دشینتا سے مدھر ملن تو ہو گیا اور وہیں پر تم نے اپنے اپنیاس کو سماپت کر دیا پرنتو مرتیو کے پشچات شکنتلا کی آتما کو موکش نہیں ملا  وہ اس یگ سے کل یگ تک بھٹکتی رہی ہے۔ اگر میں نے اس کے استھی کلش کو پدما میں نہیں بہایا تو نہ جانے کب تک وہ موکش کی پرتکشا کرتی رہے گی۔ میں اسے اپنی ماتا مینکا کے پاس پہنچائے بغیر واپس نہیں جاؤں گا چاہے اس کاریہ میں میرا سارا جیون ہی کیوں نہ ویتیت ہو جائے۔

            کالیداس بولا سوامی میں آپ کی اِچھآ شکتی کو پرنام کرتا ہوں اور پرارتھنا کرتا ہوں کہ وہ آپکی منو کامنا پورن ہو۔ اندھیرا پھیلنے ہی والا ہے، کیا میں پرستھان کروں؟

            جی ہاں کالیداس اب تم جا سکتے ہو۔ اس اندھیارے میں آگے جانے کی میرا بھی سا ہس نہیں ہے۔ میں کل صبح سوریہ اودئے تک یہاں وشرام کروں گا اور پھر اس کے پرکاش میں آگے کی یاترا آرمبھ کروں گا۔

            کالیداس نے پرنام کر کے بنکم کے چرن چھوئے اور واپس لوٹ گیا۔

            کالیداس کے چلے جانے کے بعد شتج پر پھیلی لکشمی کی لالی کو شکتی کی کالی نے نگل لیا۔ بنکم نے اپنے دائیں ہاتھ کو تکیہ بنایا اور کروٹ بدل کر سو گیا۔ ابھی ایک گھنٹہ بھی نہیں گزرا تھا کہ دکشن سے چندرما نے اپنا آنچل سرکا یا دیکھتے دیکھتے سارا آکاش اور دھرتی اس کی دودھیا چاندنی میں نہانے لگے۔ بنکم بے خبر سورہا تھا کہ اسے انوبھو ہوا کوئی اس کے پیروں کے گھاؤ دھو رہا ہے۔ اس کومل اسپرش نے بنکم کے نیتروں سے ندرا کو بھگا دیا پرنتو تھکن کے کارن اس نے اپنی آنکھوں کو بند ہی رکھا اور بولا۔ تم کون ہو؟ یہاں کیا کر رہی ہو؟ اس ون میں تمہیں یہ امرت سمان جل کہاں سے پراپت ہو گیا؟ بنکم کو لگ رہا تھا مانو اس کے چرنوں کے اور آتما کے گھاؤ دونوں ایک ساتھ دھل رہے ہیں۔

            کوئی جواب نہ پا کر بنکم نے پھر پوچھا، ہے سورگ اپسرا کیا تم میرے پرشنوں کا اتر دینے کا کشٹ نہیں کرو گی؟

            جواب ملا ہے سوامی آپ اپنی آنکھوں کو کھول کر دیکھیں۔ آپ کے سارے پرشنوں کا آترپراپت ہو جائے گا۔

            بنکم چونک پڑا، یہ کیا؟ یہ تو شکنتلا کا سوور(آواز) ہے۔ بنکم نے آنکھیں کھولیں تو اس کے چرنوں میں شاکسات شکنتلا بیٹھی ہوئی تھی۔ شکنتلا نے وہی وستر دھارن کر رکھا تھا جس میں وواہ کے پشچات بنکم سے اس کی پرتھم بھینٹ ہوئی تھی۔

            بنکم اپنے استھان پر اٹھ بیٹھا۔ اسے اپنے نینوں پروشواس نہیں ہو رہا تھا۔ چندرما کے پرکاش نے پھر ایک بار شکنتلا کو نوودھو بنا دیا تھا۔ بنکم دیکھ رہا تھا کہ شکنتلا استھی کلش سے پانی انڈیل کر اس کے پیر دھو رہی ہے۔ یہ دوسرا آشچریہ تھا۔ استھی کلش میں تو وہ راکھ لے کر چلا تھا۔ یہ جل دھارا اس کلش کے بھیتر؟ بنکم کی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آ رہا تھا۔ وہ بولا شکنتلا اس کلش میں تو استھی تھی؟

            کس کی استھی؟

            تمہاری اور کس کی؟

            میری استھی اس کلش میں کیسے ہو سکتی ہے؟ میں تو تمہارے سمکش بیٹھی ہوں۔

            وہی تو میں سوچ رہا تھا کہ تم یہاں اس بن میں اچانک کیسے پہنچ گئیں؟

            اچھا! آپ تو بہت اچھا وینگ کر لیتے ہیں۔ آپ ہی نے تو کچھ سمے پورو کالیداس کو وہ سوراخ بتلایا تھا جس میں میری آتما نرتیہ کر رہی تھی۔ اسے وشواس نہیں ہوا وہ لوٹ کر چلا گیا لیکن آپ کو تو پورن وشواس تھا؟

            وشواس تو اب بھی ہے۔

            پھر یہ پرشن کیوں کر رہے ہیں آپ؟

            بس یونہی! یونہی انایاس یہ پرشن مستکش میں آ گیا۔ کوئی وشیش کارن نہیں ہے

            شکنتلا مسکرائی تو سارا برہمانڈ ہنس پڑا۔ شکنتلا بولی ہے سوامی کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ کون سا ورکش ہے؟

            جی ہاں یہ بڑ کا پیڑ ہے۔ اس کی لمبی لمبی جٹائیں آسمان سے زمین تک لٹکی ہوئی ہیں

            وہ تو ٹھیک ہے لیکن آپ اس کا اتہاس نہیں جانتے۔

            اتہاس؟ میں کیسے جان سکتا ہوں؟

            میں بتاتی ہوں سوامی۔ یہ وہی وشال ورکش ہے جس کی چھایا میں بیٹھ کر میرے پتا شری رشی وشومترا نے ایسی تپسیا کی کہ دیو لوک میں اس سے ہلچل مچ گئی

            اچھا؟

            اور وہاں وہ سامنے چبوترہ آپ کو دکھلائی دے رہا ہے؟

            ہاں ہاں کیوں نہیں؟

            اسی چبوترے پر اندر دیو نے سورگ سے میری ماتا اپسرا مینکا کو دھرتی پر اتارا تھا

            بنکم اپنی کلپنا شکتی سے مینکا کو نرتیہ کرتا ہوا دیکھ رہا تھا اور پھر اس نے دیکھا کہ جٹا دھاری وشوا متر بھی اپنی تپسیا تیاگ کر اس کے سنگ نرتیہ کرنے لگے ہیں اور پھر دیو اور دانو سب مل کر ان کے وواہ سماروہ کا آنند لے رہے ہیں۔ اس کے بعد اسی وشال ورکش نے نیچے مینکا اپنی چاند سی بیٹی کو جنم دیتی ہیں اور وشوامتر اسے اپنی ماں کے سنگ چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ شیگھر کال کے پشچات اس بچی کی ماتا شری بھی اس ننھی سی جان کو پکشیوں کے حوالے کر کے سورگ میں لوٹ جاتی ہے اور سامنے سے رشی کانو جب اس پوتر آتما کو شکنتا پکشیوں کے بیچ دیکھتے ہیں تو اس کا ناما کرن ہو جاتا ہے ’’شکنتلا‘‘۔

            بنکم کو وشواس نہیں ہوا کہ اس کا بھاگیہ اسے کہاں سے کہاں لے آیا ہے۔ وہ کیسے کل یگ سے پلک جھپکتے ست یگ میں پہنچ گیا۔ پر کرتی کے مہانتم چمتکار کا درشن بنکم اس سمے کر رہا تھا اور شکنتلا چپ چاپ اس کے چرنوں کو امرت کلش سے دھو رہی تھی۔

            بنکم نے پوچھا وہ سب تو ٹھیک ہے لیکن یہ جل وہار اب بھی میرے لئے آشچریہ کا کارن ہے۔ تم نہ جانے کب سے اسے بہا رہی ہو اور یہ مٹکی ہے کہ اس کا پانی سماپت ہونے کا نام ہی نہیں لیتا؟

            شکنتلا بولی۔ سوامی یہ پانی کیسے سماپت ہو سکتا ہے؟ اس گاگر میں پدما ندی سمائی ہوئی ہے۔ کیا یہ سمبھو ہے کہ گنگا، جمنا، سرسوتی اور برہمپترا کا جل سماپت ہو جائے۔

            اچھا لیکن وہ اس میں کیوں آ گیا؟

             شکنتلا بولی اس لئے تاکہ تم اس میں میری استھی کو وسرجت نہ کر سکو۔ میرے بھاگیہ میں موکش نہیں ہے اور تم میرے پتا شری کے سمان پر کرتی سے یدھ کر رہے ہو۔ وشوکرما کو وچلت کرنے کیلئے مینکا کو بھیجا گیا تھا اور آپ کو۔۔۔۔۔۔۔ شکنتلا رک گئی۔

             شکنتلا کو بھیجا گیا ہے۔ بنکم نے واکیہ کو پورن کیا۔

            اچھا تو اب میں کیا کروں؟

            آپ! آپ میرے موکش کی کلپنا اپنے ہردیہ سے نکال دیں اور میری آتما کو اسی طرح بھٹکتا چھوڑ دیں۔ اس لئے کہ میرے بھاگیہ میں موکش پراپتی نہیں ہے میرے سوامی بنکم۔ میں پرلیہ تک اسی طرح ماری ماری پھرتی رہوں گی۔ میرا پیچھا نہ کریں بنکم۔ مجھے یونہی ایکانت کے حوالے کر کے آپ بھی لوٹ جائیں تاکہ پدما ندی کا پانی لوٹ آئے اور وہ پھر سے بہنے لگے۔ مانو جاتی کا کلیان اسی میں ہے۔

            بنکم نے دیکھا اس کے چرنوں کے گھاؤ بھر چکے ہیں سمبھوتہ یہ واپس جانے کا سنکیت ہے۔ شکنتلا سے اس کی جدائی کی گھڑی آن کھڑی ہے۔

             دونوں ایک دوسرے کے سمکش کھڑے ہو گئے ایک دوجے کو پریم سے انتم بار دیکھا اور مڑ کر ویپریت دشا میں چل دئیے۔

٭٭٭


 

 


 

 

حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے

کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:

 "اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو تمام زمین سے جمع کی گئی مٹھی بھر خاک سے پیدا فرمایا۔

 آدم علیہ السلام کی اولاد بھی (طرح طرح کی) مٹی سے پیدا ہوئی۔

 ان میں سفید فام بھی ہیں، سرخ بھی اور سیاہ بھی

اور ان کے درمیانی رنگوں کے بھی

 (اسی طرح) نیک اور بد، نرم خو اور سخت طبیعت اور درمیانی طبیعت والے۔ "

 

(الحدیث)

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید