جمع و ترتیب: ارشد خالد، اعجاز عبید
ماخذ: عکاس انٹر نیشنل، شمارہ ۲۵، عباس خان نمبر،مدیر: ارشد خالد
فہرست
لا دوا
غلام فرید نمبر دار نے تحصیلدار صاحب کے استقبال و رہائش کے لئے خاطر خواہ تیاری کی تھی۔ ڈیرے کا کونہ کونہ صاف کرایا گیا۔ ڈیرے کی جنوبی دیوار کے ساتھ باہر کی طرف خشک گوبر کا ڈھیر پڑا تھا، جسے اٹھوایا گیا۔ قریب ہی چھوٹا سا گڑھا تھا جو مٹی سے پر ہوا، بھینسوں کے باندھنے کی جگہ وقتی طور پر تبدیل کر دی گئی اور ہر دو بیٹھکوں کی لپائی عمل میں لائی گئی۔ سردیوں کا موسم تھا لہٰذا دن کو دھوپ میں بیٹھنے کا اور رات کو بیٹھکوں میں سونے کا عمدہ انتظام کیا گیا۔ زیادہ سردی سے بچنے کے واسطے آگ کی ضرورت پڑ سکتی تھی۔ چنانچہ اس مقصد کے واسطے خشک لکڑیوں کا ڈھیر لگا دیا گیا تھا۔ چادریں، تکیے، بستروں کے دوسرے لوازمات، کھانے پینے کے برتن، کرسیاں، میزیں، پلنگ و چار پائیاں، غلام فرید کے گھر میں اتنی تعداد میں موجود تھیں کہ سب کے واسطے کافی تھیں۔ عزیز احمد حجام نے کچھ ایسی چیزیں باہر سے منگوانے کی رائے دی جو اس نے رد کر دی۔
تحصیلدار نے تقریباً دن کے گیارہ بجے پہنچنا تھا۔ صحن میں دھوپ کے رخ، ان کے واسطے خاص پلنگ بچھایا گیا۔ ان کے قریب ہی گرد اوروں کے واسطے تین رنگدار چارپائیاں رکھی گئیں۔ ان کے بالمقابل ایسی ہی پانچ چھ چار پائیاں پٹواریوں کے واسطے تھیں۔ نزدیک ہی ایک طرف کر کے کرسیوں کی ایک لمبی قطار لگا دی گئی۔ چھوٹی بڑی میزوں کو وسط میں جگہ ملی۔ ڈیرے کے ایک غیر اہم حصے میں بہت سی چارپائیاں ڈال دی گئیں۔ تاکہ گاؤں کے باسی اور دوسرے طلبیدہ اشخاص بیٹھ سکیں۔ کھانے پینے کا جو انتظام تھا وہ ہوٹل انٹر کانٹی نینٹل کے مینو کے مشابہ تھا۔ یہ سب کچھ کمشنر صاحب کی سخت ہدایات کے باوجود تھا۔
کمشنر صاحب نے ڈویژن کا نیا نیا چارج لیا تھا۔ ان کے متعلق مشہور تھا کہ معمولی سی معمولی غلطی پر وہ بڑے سے بڑے ماتحت کو اس طرح جھاڑ دیتے تھے جیسے کوئی تند مزاج موٹر مکینک اپنے نو آموز شاگرد کو۔ انہوں نے آتے ہی سخت ہدایات جاری کیں۔ کوئی اہلکار اور افسرخاص کر جو محکمہ مال کے متعلق ہے کسی علاقے کے زمیندار یا دوسرے آدمی کے پاس نہیں ٹھہر سکتا۔ اسی طرح کوئی ملازم جو محکمہ مال میں ہے کسی زمیندار سے چائے تک نہیں پی سکتا۔ زمینداروں کی کاریں اور گھوڑے مانگنے پر پابندی ہے۔ کسی نے اگر ان احکامات کی خلاف ورزی کی تو فوری معطلی اور پھر حسب ضابطہ انکوائری ہو گی۔ ا لزام درست ثابت ہونے پر ملازمت سے بر طرفی یقینی ہے۔ یہ دیکھنے کے لئے کہ احکامات کی پابندی ہوتی ہے کہ نہیں، کمشنر صاحب نے ایسے کئی آدمی مقرر کر دئیے تھے جو خفیہ رپورٹنگ کرتے تھے۔ نائب تحصیلدار محمد اشرف ایک زمیندار کی کار میں معہ بیوی بچوں کے سفر کرتے ہوئے پکڑا گیا لہٰذا سزایاب ہوا۔ پٹواری شیر محمد ایک زمیندار کے مکان میں بغیر کرائے کے رہنے کی وجہ سے بر طرف ہو چکا تھا اور پٹواری علی احمد کو رشوت لینے کے الزام میں نہ صرف برطرف کیا گیا بلکہ عدالت انٹی کرپشن کی طرف سے قید کی سزا بھی ہوئی۔ غلام فرید کو ان احکامات کا پتہ تھا لیکن سزاؤں کا پتہ نہ تھا۔ وہ ان احکامات کو پہلے آنے والوں کے احکامات کی طرح بچوں کی طرف سے جوہڑوں میں تیرائی جانے والی کاغذی کشتیاں ہی سمجھتا رہا۔ کون زمیندار ہے جو پٹواری۔ گرد اور اور تحصیل دار کی رنجش مول لے سکتا ہے۔ زمیندار کی جان زمین میں ہوتی ہے اور زمیں کی جان ان ملازمین میں۔ چنانچہ اس نے بغیر پرواہ کے اپنی پسند کا انتظام کیا۔
تحصیلدار صاحب صبح نو بجے شہر سے سرکاری جیپ پر روانہ ہوئے۔ شہر سے گاؤں کو دو میلوں تک پکی سڑک جاتی تھی۔ اس سے آگے کچا راستہ شروع ہوتا تھا وہاں پر گھوڑے تیار کھڑے تھے جو صاحب اور اس کے عملے کو لے کر روانہ ہوئے۔
منزلِ مقصود پر پہنچ کر تحصیلدار صاحب نے جب انتظام و انصرام کا یہ مظاہرہ دیکھا تو ذرا گھبرا گئے۔ کمشنر صاحب کی ہدایات و احکامات فوراً ان کے ذہن میں گھوم گئے۔ اس کے ساتھ ہی انہیں اپنی اہمیت کا احساس ہوا۔ سوچا کہ پریشانی ظاہر کرنا اب بزدلی کے مترادف ہو گا لہٰذا وہ ایک افسرانہ شان سے گھوڑے پر سے اترے۔ سلام کرنے کے بعد نمبردار روایتی بادشاہوں کے چوبداروں کے انداز میں آگے آگے روانہ ہوا اور جھک جھک کر ہاتھوں کے اشاروں سے ان کو ان کے پلنگ کی طرف لے گیا۔ دوسرے اہلکار خود بخود پیچھے آ گئے۔ ان کی رہنمائی نمبردار کے نوکروں اور عزیزوں نے کی۔ ہر ایک کو درجہ بدرجہ اس کے مقام تک پہنچا دیا گیا۔ تحصیلدار کو دل ہی دل میں ابھی تک پریشانی تھی۔ کوئی آج کے تکلف کی مخبری کر سکتا ہے جس سے نہ صرف ملازمت جائے گی بلکہ بے عزتی بھی ہو گی۔ انہوں نے نمبردار کو قریب بلا کر راز داری کے عالم میں کہا۔ ’’ کمشنر صاحب بہت دیانتدار آدمی ہے۔ وہ ہم سے بھی سخت دیانتداری کی توقع رکھتا ہے۔ کسی لغزش کی صورت میں اس کی طرف سے دی جانے والی سزا بہت کڑی ہو تی ہے۔ آپ کے یہ اخراجات کہیں پریشانی کا باعث نہ بن جائیں۔ ‘‘
’’ صاحب آپ بھی کمال کرتے ہیں۔ کمشنر اپنا خوبصورت دفتر چھوڑ کر بغیر کار کے کب ادھر چھاپہ مارنے والا ہے۔ اس کھردرے علاقے میں کبھی کوئی افسر نہیں آتا۔ یہ تو آپ کی فرض شناسی ہے کہ آپ نے اتنی زحمت کی، فکر نہ کریں۔ یہاں سب اپنے آدمی ہیں۔ کوئی کسی کی رپورٹ یا شکایت نہ کرے گا۔ ‘‘ نمبردار نے ایک عقیدت مند کی طرح جواب دیا۔
’’ غلام فرید تم ٹھیک کہتے ہو لیکن کسی کا بھروسہ نہیں۔ کمشنر کی ہدایات ہیں کہ ہم ہر کام قانون اور حقائق کے مطابق کریں۔ اس بناء پر موقع پر یہاں آنا میرے واسطے ضروری تھا پر آپ نے یہ سب کچھ مجھ سے پوچھ کر کرنا تھا۔ یہ مرغ اور بٹیرے وغیرہ جو ادھر ذبح ہو رہے ہیں خدا کے واسطے انہیں کہیں جلد از جلد چھپاؤ۔ میں کھانا گھر جا کر کھاؤں گا‘‘ تحصیلدار صاحب نے بدستور گھبراہٹ کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ نمبردار یہ سن کر مسکرا دیا۔ کچھ دیر وہ تحصیل دار کو تسلی دینے کے بعد وہ اندرون خانہ چلا گیا۔
در اصل تحصیلدار صاحب کو خود نمبردار پر ہی اعتماد نہ تھا۔ نمبردار غلط کام کروانے کا عادی تھا۔ ممکن ہے وہی اسے اس بات پر بلیک میل کرے۔ کسی وقت غلط کام نہ ہونے کی صورت میں وہ خود کمشنر کو شکایت کرد ے گا۔ اتنے میں دوسرے گاؤں سے ایک وفد ملاقات کے واسطے آ گیا جس کی وجہ سے اس کا دھیان ادھر سے ہٹ گیا۔ انہوں نے وفد کو دیکھ کر چہرے پر مصنوعی جلال طاری کر لیا اور چائے کی طرف کمال مہربانی سے متوجہ ہوئے جو اسی دوران میں پہنچ چکی تھی۔
سرکاری کام اتنا زیادہ نہ تھا۔ گیارہ انتقا لات اراضی تصدیق ہونے تھے، ایک حد برداری کرنی تھی اور دو باقی داروں سے مالیہ وصولی کا معاملہ تھا۔ چائے پینے کے بعد تصدیق انتقالات کا سلسلہ شروع ہوا۔ دو گھنٹوں میں سارے کے سارے انتقا لات تصدیق ہو گئے۔ اس کے بعد موقع پر جا کر حد برداری کی گئی۔ دوپہر کے دو بجے کھانا کھایا گیا۔ کھانے کے بعد مالیہ وصولی کا کام شروع ہوا۔ یہ کام تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔ کیونکہ تحصیل کے چپڑاسیوں کی طرف سے خفیہ اطلاع پا کر باقی داران چھپ گئے تھے۔ کچھ وقت لوگوں کی تکالیف سننے میں صرف ہوا۔ بعد ازاں زمینداروں سے ملاقات کا سلسلہ اتنا دراز ہوا کہ شام ہو گئی۔ زیادہ دیر ہو جانے کی وجہ سے رات وہیں بسر کرنے کا پروگرام طے پایا۔
دوسرے دن صبح سویرے جب نمبردار نوکر سے بیڈ ٹی کی ٹرے اٹھوائے کمرے میں داخل ہوا تو دیکھا کہ تحصیلدار صاحب پلنگ پر تین تہہ ہو کر پڑے تلملا رہے ہیں اور عملے کے آدمی ارد گرد جمع ہیں۔ وہ چائے کی ٹرے کو چھوڑ کر فوراً ادھر متوجہ ہوا صورتِ حال سنگین تھی مہمان کو گردے کا درد شروع ہو گیا تھا۔ بالغرض علاج نمبردار حکیم گل قند کے گھر کی طرف دوڑ پڑا۔
حکیم گل قند اپنے عجیب و غریب نسخوں کی وجہ سے علاقے میں کافی مشہور تھا۔ وہ ہر دوائی گل قند کے ساتھ کھلاتا تھا اس واسطے گل قند کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ نمبردار کو حکیم پر مکمل اعتماد تھا اس لیے اس نے کسی دوسری طرف توجہ نہ دی اگرچہ قرب و جوار میں کچھ اور بھی معالج رہتے تھے۔ اسے لانے میں کوئی اتنی دیر نہ لگی۔ چند لمحوں میں اس نے حکیم کو پکڑ کر مہمان کے سرہانے لا کھڑا کیا۔
حکیم نے نبض دیکھی، زبان کا مشاہدہ کیا اور پھر پیٹ ٹٹول کر دوائیوں کا تھیلا کھولا۔ ایک خاص شیشی میں سے ایک سفوف نکالا اور گل قند میں حسب معمول ملا کر صاحب کو کھلا دیا۔ اسے اپنے نسخے پر اتنا مان تھا کہ سب کا تسلی دے کر مہمانوں کے واسطے ناشتے لانے کو کہا اور خود حقے کی طرف متوجہ ہوا۔
نسخہ کارگر ثابت نہ ہوا دوائی سے بیماری بجائے کم ہونے کے اور شدید ہو گئی۔ حکیم حیران تھا۔ اس نے کچھ دیر انتظار کیا پھر چائے میں ٹھنڈا پانی ملا کر صاحب کو اس مرکب کے دو تین گلاس پلا دئیے۔ یہ مرکب جلد اثر انداز ہوا۔ تحصیلدار صاحب کو چھوٹا پیشاب آتا محسوس ہوا۔ احسان احمد پٹواری نے تحصیل دار صاحب کو کندھے کا سہارا دے کر باہر لے جانا چاہا تا کہ پیشاب کرا لائے۔ بستر پر سے سر اٹھاتے ہی مریض کی کڑواہٹیں نکل گئیں۔ آہستہ سے آواز آئی۔ ’’ مجھ سے اٹھا نہیں جاتا لہٰذا میں باہر پیشاب کرنے نہیں جا سکتا۔ ‘‘ اس پر سب نے کمرہ خالی کر دیا اور انہوں نے ایک لوٹے پر بیٹھے بیٹھے پیشاب کیا۔ خیال تھا کہ پیشاب آنے پر تکلیف میں کچھ کمی واقع ہو جائے گی لیکن متوقع کمی واقع نہیں ہوئی۔ حکیم گل قند نے ایک تیسرا نسخہ آزمایا۔ جب دیکھا کی تکلیف کم نہیں ہوئی تو مزید علاج سے اپنی معذوری ظاہر کر دی۔
گاؤں سے کچھ فاصلے پر ایک اور حکیم مطب کرتا تھا، وہ حکیم گل قند کا جزوی طور پر استاد بھی تھا۔ کچھ لوگوں کا خیال میں وہ گل قند سے زیادہ سمجھدار تھا۔ گرد اور فقیر محمد ایک گھنٹے میں اسے گھوڑے پر بٹھا لایا۔
دوسرے حکیم نے اپنی عادت کے مطابق مریض کو پرکھا، حکیم گل قند سے چند باتیں کیں جن میں علاج کا تذکرہ تھا اور بعد ازاں اپنے جھو لے سے دو تین ٹافی نما ٹکیاں نکال کر مریض کو کھلا دیں۔ اس دوائی کا اثر بتدریج ظاہر ہونا شروع ہوا۔ اس سے نہ صرف قے شروع ہو گئی بلکہ دست بھی آنے لگ گئے۔ چھوٹے پیشاب کا تو حساب ہی نہ تھا۔ قے و پیشاب ہائے نے صورت حال زیادہ پریشان کن بنا دی۔ طبیعت ذرہ بھر ٹھیک نہ ہوئی۔ الٹا دل کی دھڑکن میں اضافہ ہو گیا۔ اس پر دو حکیموں کے بورڈ نے آپس میں کچھ مشورہ کیا اور کچھ دیر بعد بلند آواز سے اعلان کیا کہ صاحب کو ایسی پتھری کی شکایت ہے جو بغیر آپریشن کے نہیں نکل سکتی لہٰذا اسے فوری کسی اچھے ہسپتال میں پہنچایا جائے۔
سب بہت پریشان تھے۔ پٹواری اور گرد اور جو چھپ کو دوسرے کمرے میں پیٹ پوجا کر آئے تھے تازہ دم ہونے کی صورت میں کچھ زیادہ ہی پریشانی کا اظہار کرنے لگے۔ ان میں سب سے زیادہ فکر نمبردار کو تھی۔ وہ میزبان تھا مہمان کو تکلیف اس کے ڈیرے پر لاحق ہوئی۔ اگرچہ اس تکلیف میں اس کا رتی بھر قصور نہ تھا اور سب کچھ قدرتی طور پر ہوا لیکن اس کے باوجود وہ ایک خفت سی محسوس کر رہا تھا۔ وہ بے حد فدویانہ انداز میں مریض کے پاس پہنچا اور غمگین انداز میں بولا۔
’’ صاحب جی آپ کی تکلیف دیکھی نہیں جاتی۔ اللہ آپ کو شفا کاملہ عطا کرے، حکیم کہتے ہیں کہ آپ کو پتھری کی تکلیف ہے آپ کو کسی اچھے ہسپتال میں پہنچایا جائے۔ آپ کا کیا خیال ہے ؟ کیا آپ گھوڑے پر بیٹھ سکیں گے ؟ ‘‘
’’ شہر لے چلو میں بے حد تکلیف میں ہوں۔ واضح رہے کہ میں گھوڑے پر نہیں بیٹھ سکتا۔ ‘‘ تحصیلدار نے ادھر ادھر سر ہلاتے ہوئے بڑی بے چینی سے جواب دیا۔
اتنے میں محمد حسین مستری آگے بڑھا۔ اس نے تحصیلدار صاحب اور نمبر دار دونوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ ’’ حکیم نبی احمد کو دیکھ لیں۔ اس کے پاس پتھری کو حل کرنے کا ایک نادر نسخہ موجود ہے۔ صاحب کو بیماری کی حالت میں یہاں سے واپس لے جانا ہم سب کے واسطے باعث شرمندگی اوور ندامت ہو گا۔ ‘‘
فقیر محمد دوکاندار نے مستری کی تائید کی۔ ممتاز احمد انڈے فروش کو دونوں سے اختلاف تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ مریض کا علاج کسی مستند ڈاکٹر سے کروایا جائے۔ مستند ڈاکٹر اس کی نظروں میں خورشید احمد تھا جو عمر بھر سی۔ ایم۔ ایچ، راولپنڈی میں نرسنگ کے فرائض سر انجام دے دے کر ریٹائر ہوا تھا اور اب بستی موچیانوالی میں پریکٹس کرتا تھا۔ موقع پر موجود اکثر آدمیوں کو ممتاز احمد سے اتفاق تھا۔
مولوی عنایت اللہ بھی وہاں موجود تھا وہ سب کو خاموش کراتے ہوئے کہنے لگا ’’ اس سال رمضان شریف میں میں نے مسجد ماڑی والی میں امامت کے فرائض سر انجام دئیے ہیں۔ وہاں پر میری شناسائی ڈاکٹر نعمان سے ہوئی۔ بہت تجربہ کار آدمی ہے۔ حکم ہو تو میں اس کو لے آؤں۔ ‘‘
منشی تقدیر علی نے مولوی کی فوراً ہی تردید کر دی۔ ’’ وہ ڈاکٹر نہیں اس کی تو محض انگریزی دوائیوں کی دکان ہے۔ اس سے علاج کروانا قطعاً مناسب نہیں ‘‘ مولوی بھلا کہاں دبنے والا تھا، اس نے منہ توڑ طریقے سے جواب دیا۔
’’ تم نے کبھی وہاں جا کر دیکھا ہے۔ چوبیس گھنٹے وہاں مریضوں کی قطار لگی ہوتی ہے۔ جتنا دوائی کے استعمال سے ڈاکٹر واقف ہے۔ اور کوئی نہیں۔ بیماری میں دوائی کی ہی تو ساری اہمیت ہے۔ دوسرے ڈاکٹروں کو دیکھو، بیٹھے مکھیاں مار رہے ہیں۔ تپ محرقہ میں خود مجھے ڈاکٹر نعمان کی دوائیوں سے افاقہ ہوا۔ ‘‘ مولوی کو مناظرانہ صورت میں گفتگو کرتے دیکھ کر چند آدمیوں نے اسے خاموش کروا دیا۔ وہ ناراض ہو کر باہر نکل گیا۔
کثرتِ رائے کا احترام کرتے ہوئے خورشید احمد کو پیغام بھیجا گیا خورشید احمد کو آنے میں تامل تھا۔ وہ جانتا تھا کہ وہ کچھ نہیں جانتا مگر سقراطانہ قسم کی اس حقیقت کو واضح کر کے وہ اپنی ’’ پریکٹس‘‘ کا علاقے میں بیڑا غرق کرنا نہیں تھا۔ اس نے بڑے تحمل سے کہلا بھیجا۔ ’’ مجھے ریٹائرڈ میجر جنرل پی۔ بی۔ ملک نے اپنے بیٹے کے علاج کے واسطے بلایا ہے لہٰذا آنے سے معذور ہوں۔ ‘‘
ممتاز احمد خود کو روک نہ سکا۔ وہ بھاگ کر خورشید احمد کے پاؤں پر گر گیا اور انکساری سے کہا۔ ’’ جناب ہم نے صاحب کے سامنے آپ کو با کمال ہونے کا دعویٰ کیا۔ آپ ہی اسے تکلیف سے بچا سکتے ہیں۔ ہمیں توقع ہے کہ آپ ہمارے ساتھ چل پڑیں گے۔ خدارا تھوڑی دیر کی تکلیف گوارا کر لیں ہم آپ کو فوراً واپس پہنچا جائیں گے۔ ‘‘ جب دوسرے آدمیوں نے جو ممتاز کے ساتھ آئے تھے ممتاز احمد کی تائید کی اور منت سماجت کی تو خورشید احمد کا دل پسیج گیا۔ اس نے چند منٹوں میں تیاری کی، دوائیوں کا تھیلا ممتاز احمد کو پکڑایا اور روانہ ہو گیا۔ اس عرصہ میں محمد حسین نبی احمد کو لے آیا۔ لوگوں کا ہجوم اور بھاگ دوڑ دیکھ کر کچھ فقیر اور سنیاسی معہ اپنے اپنے بے مثال نسخہ جات کے از خود وہاں پہنچ گئے۔ گئی رات تک علاج ہوتا رہا لیکن تکلیف وہیں کی وہیں رہی۔ آخر کار یہ طے پایا کہ مریض کو شہر لے جایا جائے۔
رانا نسیم احمد سے ٹریکٹر اور ٹرالی اس مقصد مانگی گئی۔ مریض نے ٹرالی کے ذریعے جانے سے انکار کر دیا۔ راستہ زیادہ تر کچا تھا چنانچہ ٹرالی میں انہیں تکلیف ہو گی۔ محمد عثمان ساربان بولا کہ وہ اپنا اونٹ لے آتا ہے۔ محمل کی سواری اس کے مقابلے میں زیادہ آرام دہ ہے۔ مریض نے محمل میں جانے سے بھی انکار کر دیا۔ اس کی وجوہات یہ بتائی گئیں کہ اونٹ دیر سے پہنچے گا۔ نیز اس میں بھی ہچکولے آئیں گے۔ تیسرے راستے میں اگر پیشاب آ یا تو اس میں سے نکلنے میں دیر لگے گی۔ جس کثرت سے پیشاب آ رہا ہے اس کے پیشِ نظر یہ پریشانی مول لینی مناسب نہیں۔
ایک دکاندار نے ٹرک منگوانے کا مشورہ دیا پر یہ بھی تکلیف سے خالی نہ تھا اور نا منظور کر دیا گیا۔
جب اور کوئی صورت باقی نہ رہی تو مجمع نے مریض کا پلنگ کندھوں پر رکھا اور شہر روانہ ہو گیا۔ صبح کی اذان ہو رہی تھی جب مجمع شہر میں داخل ہوا۔ سب کی رائے تھی کہ سیدھا ہسپتال جایا جائے۔ مریض نے سب کی رائے ٹھکراتے ہوئے کہا کہ اسے گھر پہنچایا جائے۔ گھر میں وہ پہلے بیوی بچوں سے ملنا چاہتے ہیں۔ انہیں گھر چھوڑ کر سب واپس چلے جائیں کیونکہ اتنا بڑا مجمع، ان کا تماشہ بن گیا ہے۔ گھر سے ان کے نوکر اور گھر والے انہیں یا تو ہسپتال لے جائیں گے یا ڈاکٹر کو وہیں بلا لیں گے۔
تحصیلدار صاحب کے حکم کو ٹالنے کی کس کو مجال تھی۔ سب بنگلے کی طرف روانہ ہوئے۔ اتنے میں پٹواری کریم بخش نے گھر جا کر اطلاع دے دی۔ جب سب تحصیلدار صاحب کے گھر کے دروازے پر پہنچے تو نوکر اور بچے باہر پریشان کھڑے تھے اور اندر سے بیگم صاحبہ کے رونے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ جونہی پلنگ اندر پہنچا تو بیگم صاحبہ کو بڑے بیٹے نے بہت کہا کہ وہ پردہ کرے لیکن وہ غم سے نڈھال چادر لپیٹے پلنگ کے ساتھ چمٹ گئی۔ پلنگ اندر رکھ کر وہ سب باہر چلے گئے۔ بیوی بچوں کی آہ و بکا سن کر مریض نے چپکے سے اپنے منہ سے رضائی سرکائی اور ادھر ادھر دیکھا۔ جب تسلی ہوئی کہ قریب کوئی نہیں تو آہستہ سے کہا، ’’ بیگم! کمشنر بہت سخت آدمی ہے۔ اس کے ہوتے ہوئے تم جانتی ہو کہ ہم تحفے نہیں لے سکتے۔ دوسرے نمبردار بھی نا قابل اعتبار آدمی ہے۔ جس پلنگ پر مجھے لائے ہیں مجھے بے حد پسند ہے۔ اس کو گھر لانے کا یہی ایک طریقہ مجھے محفوظ لگا۔ تم لوگ رونا بند کرو۔ میں بالکل ٹھیک ہوں۔ ‘‘
یہ سنتے ہی بیگم صاحبہ کے آنسو تھم گئے لیکن آہ و بکا کی آواز زیادہ بلند ہو گئی۔ بچے مسکرانے لگے۔ نوکر دور کھڑے اس منظر کو دیکھ کر حیران ہوئے جا رہے تھے۔
٭٭٭
وہ کون ہے ؟
میں نے کئی لوگوں سے سنا کہ امپریل ہوٹل کی مالکہ صوفیہ کلدانی بہت خوبصورت ہے۔ چنانچہ اپنے ہوٹل کے منیجر کی وفات پر جب اس نے نئے منیجر کی بھرتی کے لیے اخبار میں اشتہار کے ذریعے درخواستیں مانگیں تو صرف اس کو دیکھنے کے لیے میں نے بھی درخواست دے دی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ میں اس وقت روزگار کی تلاش میں تھا لیکن میرا ہوٹل کی ملازمت کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ میں کسی بنک، کسی ہوائی کمپنی یا کسی بڑے اخبار کے ادارے میں جانے کا خواہش مند تھا۔ یہ بات مسلمہ تھی کہ انٹرویو وہ خود لے گی۔ انٹر ویو کے دوران نہ صرف اس کو دیکھنے کا موقع مل جائے گا بلکہ بات چیت کا بھی۔
چونکہ میرا ارادہ ہوٹل کی ملازمت کرنے کا نہیں تھا لہٰذا انٹرویو کے لیے میں کوئی تیاری کر کے نہ گیا۔ میں نے اپنا روز مرہ والا لباس شلوار قمیض پہنا۔ ایک ہوٹل کی کار کردگی اور اس کے انتظام و انصرام کی ضروریات کے بارے میں میں نے کوئی معلومات نہ لیں۔ اس طرح انٹرویو کرنے والی کی نفسیات کے متعلق بالکل پوچھ گچھ نہ کی۔ یہاں تک کہ باوجود سخت ہدایت کے میں نے اپنے ساتھ نہ تو اصلی سندات لیں اور نہ کاغذ و قلم۔ دیگر امیدواران خوب تیار ہو کر آئے تھے۔
امیدواران کی لسٹ میں میرا نام پندرہویں نمبر تھا۔ جس انداز سے انٹرویو ہو رہا تھا امکان تھا کہ میری باری اگلے روز آئے گی۔ اس امکان کے پیشِ نظر میں نے وہیں بیٹھے بیٹھے فیصلہ کر لیا کہ اگر اس روز میرا انٹرویو نہ ہوا تو میں دوبارہ انٹرویو کے لیے نہیں آؤں گا۔ صوفیہ کو صرف دیکھنا ہی ہے نا، جب وہ گھر جانے کے لیے گاڑی میں بیٹھنے لگے گی تو میں ہجوم میں قریب جا کر دیکھ لوں گا۔ حسن اتفاق کہ میری باری اسی روز آ گئی اور میں بھرتی کر لیا گیا۔
امپیریل ہوٹل ایک فائیو سٹار ہوٹل تھا۔ میری رائے میں یہ شہر کا سب سے اچھا ہوٹل تھا۔ اس میں وہ سب خصوصیات تھیں جو ایک اچھے ہوٹل میں ہونی ضروری ہیں۔ مزید براں کھانا، کمرے، ٹیلی فون۔ دھوبی حجام جوتے پالش کرنے والا۔ اخبارات رسائل، روزمرہ استعمال کی اکثر دوسری اشیاء، ٹیکسیاں اور شادیوں اور دوسرے پروگرام کے لیے ہال یہاں سب سے سستے تھے۔ اس ہوٹل کی نمایاں خصوصیات یہ تھی کہ ہر شب اس کے ڈائننگ ہال میں ایک مصری لڑکی کاڈانس ہوتا تھا۔ اس ڈانس کو اور ڈانس میں استعمال ہونے والے لباس کو مشرق و مغرب کا ایک دلربا امتزاج بنایا جاتا تھا۔ مصری لڑکی وہاں مجھ سے ایک سال قبل آئے تھی۔ اس سے پہلے ایک انگریز لڑکی تھی۔ جب ہوٹل کا افتتاح ہوا تو وہ انگریز لڑکی وہاں رکھی گئی۔ ایک مقامی فلم ایکٹر کے ساتھ اس کا معاشقہ چلا۔ معاشقے کے نتیجے میں وہ ہوٹل کی ملازمت چھوڑ کر اس فلم ایکٹر کے ساتھ چلی گئی۔ درمیان میں وقفے وقفے کے بعد دوسری ڈانسرز بھی بلائی جاتی تھیں۔
صوفیہ کلدانی سیٹھ اکبر کی بہو تھی سیٹھ اکبر کے چار بیٹے تھے وہ ان کے سب سے چھوٹے بیٹے نشاط احمد کی بیوی تھی۔ سیٹھ اکبر کی وفات پر ان کی جائیداد بمطابق قانون تقسیم ہوئی۔ نشاط احمد کے حصے میں ہوٹل امپیریل اور ایک کوٹھی آئی۔
نشاط احمد ایک خوبرو نوجوان تھا۔ اس کا زندگی میں ایک ہی مشغلہ تھا اور یہ مشغلہ گھوڑوں کی دوڑ تھی۔ وہ اپنا گھوڑا ریس کورس میں خود دوڑاتا تھا۔ صوفیہ نے اس کو وہاں گھوڑے دوڑاتے دیکھا۔ وہ اس کو پسند آ گیا۔ یہ پسند شادی کا باعث بنا۔ اس شادی سے اس کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہوئی۔ ایک دن گھوڑا دوڑاتے ہوئے نشاط احمد گھوڑے سے گر کر مر گیا۔ صوفیہ نے فیصلہ کیا کہ وہ دوسری شادی اپنے خاوند سے محبت۔ اپنے مزاج اور بچوں کی خاطر نہیں کرے گی۔ وہ خود کو گھر، ہوٹل کی دیکھ بھال اور بچوں سے صرف وابستہ رکھے گی۔
ہوٹل میں اس کے بیٹھنے کے لئے دو فٹ اونچا لکڑی کا ایک چبوترا بنایا گیا تھا۔ چبوترے کے اوپر لکڑی کا ایک سائبان تھا۔ چبوترے کا رخ ڈائننگ ہال اور استقبالیہ کی طرف تھا۔ اسی رخ پر اس کی کرسی اور میز رکھی گئی۔ پشت کی طرف چبوترے کے فرش سے لے کر سائبان تک لکڑی کی دیوار بنا دی گئی تھی۔ صوفیہ ٹھیک پانچ بجے شام گھر سے آ کر اپنی نشست پر بیٹھ جاتی اور ٹھیک نو بجے واپس چلی جاتی۔
جیسا کہ میں نے پایا وہ جتنی خوبصورت تھی، اتنی ہی خوب سیرت تھی۔ اس کا عالم شباب۔ اس کا اکیلا پن اور اس کے لا تعداد چاہنے والوں کی طرف سے ترغیبات اس کو کبھی لغزش پر مجبور نہ کر سکیں۔ سوائے رشتہ داروں اور ہوٹل کے ملازمین کے اس کو کوئی نہیں مل سکتا تھا۔ اور نہ ہی وہ خود کہیں جاتی تھی سوائے رشتہ داروں کے گھروں میں اور وہ بھی کبھی شادی یا فوتیدگی کے موقع پر۔ ہوٹل میں اس کے ساتھ فلرٹ کرنا تو درکنار کسی کی کیا مجال کہ اس کے ساتھ کوئی بات کرنے کے لیے پہنچ جائے، چاہے یہ بات کتنی ہی اہم کیوں نہ ہو۔ یہ منیجر کے فرائض میں شامل تھا کہ اس کی طرف بڑھنے والے کو نہایت شائستگی سے روکے۔ کوئی ایسی بات ہے جس پر اس کی توجہ ضروری ہے تو یہ اس تک منیجر کے ذریعے پہنچائی جائے۔ اس کو ڈرانا دھمکانا نا ممکنات میں سے تھا۔ کیونکہ اس کے دو دیور فوج اور سول سروس میں بہت بڑے عہدوں پر تعینات تھے۔ وہ اس کی حفاظت کی ذمے داری مسلسل لیے ہوئے تھے۔ جہاں تک میری تحقیق کا تعلق ہے۔ صوفیہ نے اپنے جذبات کو ورزش، یوگا، بچوں کی طرف زیادہ دھیان اور خوراک کے استعمال سے کنٹرول کر لیا تھا۔ ہوٹل کے ملازمین کے سا تھ وہ ہمیشہ مہربانی سے پیش آتی اور مقدور بھر ان کی پریشانی دور کرنے کی کوشش کرتی۔ وہ بہت فیاض تھی، بہت بلند حوصلے والی تھی اور بہت زیادہ فلاحی کاموں میں مدد دینے والی تھی۔ وہ طبعاً کم گو تھی۔ سادہ لباس پہنتی تھی جو اکثر سفید رنگ کا ہوتا اور پیشتر وقت سوچوں میں غلطاں رہتی۔ موقع ملنے پر وہ مطالعے میں ڈوب جاتی۔ مطالعے میں اولیت فلسفے کو حاصل تھی۔
میں دن بدن ہوٹل کے ماحول اور صوفیہ کی شخصیت میں ڈوبتا چلا گیا۔ مجھے لگا کہ اس سے بڑھ کر عمدہ مقام مجھے کہیں نہیں مل سکتا۔ شام ہے۔ ہوٹل کی صاف ستھری عمارت بقعہ نور بنی ہوئی ہے، ہر طرف چہل پہل، ہوٹل کے اندر گملوں کے ذریعے اور ہوٹل کے باہر لان میں سبزہ ہے اور پھول ہیں، ہوٹل کے اندر من پسند درجہ حرارت ہے، میری پسند کی موسیقی مدھم لے میں بج رہی ہے اور ہر طرف ہر طبقے کے لوگ ہیں۔ ہوٹل کا دلکش انداز اس وقت نقطہ عروج پر پہنچ جاتا ہے، جب ڈائیننگ ہال میں ڈانس ہو رہا ہوتا ہے اور صوفیہ اپنی نشست پر موجود ہوتی ہے۔
صوفیہ کو چپ چاپ، سفید کپڑوں میں ملبوس، کرسی کی پشت کے ساتھ ٹیک لگائے اور سامنے نظریں جمائے دیکھ کر مجھے لگتا ہے یہ کوئی طلسم ہے۔ ایک دیوی آسمان سے زمیں پر اتر آئی ہے۔ اس نے اس زمیں پر محبت کی نظر دوڑائی ہے۔ جس کے اثر سے یہ یک لخت جنت میں بدل گئی ہے۔ وہ اس کے ایک سرے پر اونچی جگہ پر بیٹھی اس کو جنت میں بدلا دیکھ کر مسکرا رہی ہے۔ یا وہ جگہ کسی اور سیارے کی ہے جہاں کی ملکہ صوفیہ ہے۔ اس نے اپنی نیکیوں اور اپنے حسن و جمال سے اس کو اپنی تکمیل کی انتہا پر پہنچا دیا ہے۔
میرا اور صوفیہ کا تعلق محض مالک اور ملازم کا تھا۔ میں نے کبھی بھی اپنی حد سے تجاوز نہ کیا۔ اسی طرح اس نے کبھی یہ تاثر نہ دیا۔ کہ اس کے دل میں میرے لیے کوئی نرم گوشہ ہے۔ ان باتوں کے باوجود مجھے لگتا تھا کہ مجھے کوئی متاع بے بہا مل گئی ہے۔ اس متاع کو پا کر میں بہت خوش ہوں۔ میری زندگی میں جب کوئی پریشانی آئی، جب میں معاملاتِ دہر سے گھبرا گیا۔ اور جب میں ذلتوں سے دوچار ہوا تو میں نے صوفیہ کا تصور کر لیا۔ اس نے مجھے ہرپریشانی، ہر گھبراہٹ اور ہر ذلت پر فتح پانے کا حوصلہ دیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میں اس کے اتنا زیر اثر آ گیا کہ جب تک وہ وہاں رہتی میری نظریں اس کے چہرے سے نہ ہٹتی تھیں اور جب وہ چلی جاتی اور میں وہاں ہوتا میری نظریں اس کے سامنے موجود قدِ آدم تصویر پر رہتیں۔ جو میں نے اصرار کر کے وہاں آویزاں کرائی تھی۔ میں نے اس کو محسوس نہیں ہونے دیا تھا کہ میں اس کی تصویر وہاں چاہتا ہوں۔ میں نے یہ کہہ کر اس کی تصویر وہاں آویزاں کرائی تھی کہ ہوٹل کی ما لکن کی تصویر وہاں ہونا ضروری ہے۔ تصویر سے لوگوں کو اس ادارے کی تکمیل کا احساس ہو گا۔ علاوہ ازیں یہ ایک یادگار کی ضرورت کو پورا کرے گی۔
میں اچھی طرح جانتا تھا کہ یہ دنیا حقیقی نہیں ہے۔ ہم سفر کی صورت میں اس سے گزر رہے ہیں۔ یہ سفر نہایت ہی کٹھن ہے۔ اور ان کٹھن مقامات میں سے ایک عورت ہے۔ آدمی کو اس سے ہوشیار رہنا چاہئے ورنہ وہ منزلِ مقصود تک نہیں پہنچ پائے گا۔ میں اس سچائی کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں تھا۔ غموں اور پریشانیوں سے گھبرا کر الٹا میں نے اس کے دامن حسن کے نیچے پناہ لی۔
میں نے بہت جلد معلوم کر لیا کہ میری طرح ایک اور انسان صوفیہ کی شخصیت میں غرق ہے۔ یہ انسان جمال احمد ہے جو اس شہر کے واحد تھیٹر ہاؤس کا مالک ہے۔ وہ صوفیہ کے ہوٹل پہنچنے سے تقریباً پانچ منٹ پہلے پہنچ جاتا اور ڈائننگ ہال میں صوفیہ کے دائیں جانب ذرا نزدیک پڑی میز کے سامنے بیٹھ جاتا اور چائے پیتا رہتا۔ جب صوفیہ جانے لگتی تو وہ اٹھ کر چلا جاتا۔ وہ سیاہ چشمہ لگائے رکھتا تھا، چشمے کے پیچھے سے وہ صوفیہ کو مسلسل دیکھتا رہتا تھا۔ اس نے کبھی صوفیہ کے قریب جانے یا اس کے بات کرنے کی خواہش نہیں کی۔ صوفیہ کو معلوم نہیں، معلوم تھا کہ نہیں کہ کوئی اس کو اس طرح دیکھتا ہے۔
تقریباً دو سال بعد موسم بہار کی ایک خوشگوار شام کو میں نے صوفیہ کو بہت زیادہ خوش پایا۔ اس کی خوشی کی وجہ معلوم ہوئی کہ اس دن ایک اخباری اطلاع کے مطابق اس کے بڑے بیٹے نے وظیفے کا امتحان میں سارے بورڈ میں پہلی پوزیشن حاصل کی ہے۔ وہ جب ہوٹل میں داخل ہوئی بے ساختہ مسکرا رہی تھی۔ اس کی خوشی میں موسم بہار، بہار میں کھلے پھولوں کی خوشبوئیں اور ہال میں بجنے والی موسیقی کی لے شامل ہو گئی تھی۔ اس شام ہوٹل کی ڈانسر اچانک بیمار پڑ گئی۔ اس سمے میں اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکتے ہوئے وہ خود ہال میں ڈانس کرنے لگ گئی۔ دورانِ ڈانس اس نے ہر میز کا پھیرا لگایا اور میزوں کے ارد گرد بیٹھے لوگوں کو نظروں سے جسم کے جھٹکوں سے یا چھو کر چھیڑا۔ اس کے ساتھ سارا ہال وجد میں آ گیا۔ وجد میں نہ آیا تو جمال احمد نہ آیا جب کہ میرا خیال تھا کہ صوفیہ کو ڈانس کرتے دیکھ کر وہ بے قابو ہو چکا ہو گا اور جب وہ اس کی میز پر پہنچ کر اس کو اپنی طرف مخاطب کرے گی وہ اس سے چمٹ جائے گا۔ وہ الٹا ہال سے باہر نکل گیا۔
جمال احمد اس شام کے بعد کبھی وہاں نہ آیا۔ میں نے کئی روز اس کا انتظار کیا۔ وہ رکنے والا نہیں تھا۔ وہ کیوں رک گیا؟ میرا ما تھا ٹھنکا۔ ضرور دال میں کچھ کالا ہے۔ صوفیہ جس کو میں جو کچھ سمجھ رہا ہوں اس سے کیا مختلف ہے ؟ اس کا تعلق احمد جمال سے ضرور ہے۔ اس شام دونوں میں ان بن ہو گئی ہے۔ میرا تجسس روز بروز بڑھتا گیا۔ مجھے جب باوجود کوشش کے ادھر ادھر سے سراغ نہ ملا تو میں نے فریقین سے بلا واسطہ معلومات حاصل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
کئی بار ارادہ کیا لیکن میں صوفیہ سے پوچھ نہ سکا۔ میں اگلے قدم کے طور پر جمال احمد کے گھر جا پہنچا اور صاف صاف لفظوں میں ان سے پوچھا۔ ’’آپ ہمارے ہوٹل میں کیوں نہیں آ رہے۔‘‘
جیسے میں نے صاف صاف لفظوں میں سوال کیا تھا، اس نے ویسے صاف صاف لفظوں میں جواب دیا۔ ’’ آپ کے ہوٹل کی مالکن سے میرا قطعاً کوئی تعلق نہ تھا اور نہ ہے۔ میں نے کبھی اس سے گفتگو تک نہیں کی۔ میں اس کو بس فطرت کا ایک ایسا شہکار سمجھتا تھا جس کی تابِ جبیں انسانی قافلے کی رہبر ہے۔ اور جس کے حسن و جمال کے روبرو پہنچ کر انسان ہر غم کو بھول جاتا ہے۔ جبکہ وہ ایک عورت نکلی۔ میں اس کے حضور پہنچ کر غموں، بے چینیوں، اداسیوں اور اندیشوں سے فرار حاصل کر لیا کرتا تھا۔ جب سے انکشاف ہوا کہ وہ ایک عورت ہے میں اس سے دل برداشتہ ہو گیا۔ لہٰذا میں وہاں جانا پسند نہیں کرتا۔ زندگی میں سود و زیان سے بالا تر ہونے کی یہ میری طرف سے یہ آخری کوشش تھی۔ میں اس کوشش کی ناکامی پر بہت بڑے روحانی صدمے سے دوچار ہوں۔ ‘‘
’’عورت تو وہ ہے۔ کیا اس عورت کے علاوہ کوئی اور عورت ہے ؟ اگر ایسا ہے تو اس دوسری قسم کی عورت سے آپ کی کیا مراد ہے ؟‘‘ میں نے وضاحت چاہی۔
’’ عورت تو وہ تھی، میں لیکن سمجھتا تھا کہ اپنی معراج پر پہنچ کر وہ ایک دیوی میں بدل گئی ہے۔ افسوس کہ اندر سے وہ بھی وہی عورت نکلی ہے۔ وہی عورت سے مراد، وہ جو ہماری روز مرہ زندگی میں موجود ہے۔ ‘‘ اس نے وضاحت کی۔
’’ آپ نے کیسے پایا کہ وہ صرف عورت ہی ہے۔ ‘‘ میں نے صورت حال سے مکمل آگاہی حاصل کرنے کے لئے پوچھا۔
’’ اس کے ناچنے سے، ناچنے کے دوران اس کے کولہے مٹکانے سے اور لوگوں کو چھیڑنے سے۔ ‘‘ وہ مغموم لہجے میں بولا۔
یہ اطلاع پا کر مجھ سے مزید کوئی سوال نہ بن پڑا۔ میں اس سے اجازت لے کر باہر نکل آیا۔ وہ ٹھیک کہتا ہے۔ وہ جو سوچتا ہے وہی میری سوچ ہے۔ وہ تو محض ایک عورت ہے جب کہ میں بھی اپنے خیالوں میں اس کو کچھ سے کچھ سمجھتا ہوں۔ میں بھی جمال احمد کی طرح بے چین ہو گیا۔ اداس ہو کر میں نے ایک ہفتے کی چھٹی لی اور تقریباً سارا ہفتہ گھر پڑا رہا۔
چھٹی ختم ہونے کے بعد جب میں ہوٹل میں ڈیوٹی پر گیا تو ہوٹل کے دروازے پر میری صوفیہ سے مڈ بھیڑ ہو گئی۔ میں نے اس کو عورت سمجھتے ہوئے رسماً مسکرا کر اس کو مخاطب کیا، ’’ یہ بات بہت عمدہ ہے کہ بیٹے کی کامیابی کے بعد آپ خوش خوش لگتی ہیں۔ ‘‘
اس نے میری بات کا کوئی جواب نہ دیا۔ اس نے بھی مسکرا کر ترچھی نگاہوں سے بس مجھے دیکھا۔ میں مزید کچھ کہے بغیر آگے نکل گیا۔ اس کی ترچھی نگاہوں اور مسکراہٹ سے میرا بوجھ ہلکا ہو چکا تھا۔ اگر وہ عورت ہے تو میں بھی ایک مرد ہوں۔
٭٭٭
عباس خان کے افسانوں کا فن ٹھوس اور زبان واسلوب دلکش اور دلنشین ہے۔
پروفیسر حمید سہر وردی۔ گلبرگہ
٭٭٭
نظر
میں ڈاکٹر الماس کے سحر سے ہر کوشش کے باوجود اپنے آپ کو آزاد نہ کر سکا۔ رفتہ رفتہ زندگی میں وہ مقام آ گیا جو حیرت کہلاتا ہے۔ مجھے افسوس ہونے لگا کہ وہ ایک خواب ہے اور مجھے دیکھ کر لو گوں کومحسوس ہونے لگا میں پاگل ہوتا جا رہا ہوں۔
اس کا اور میرا آمنا سامنا پہلی بار سرعبداللہ ٹرسٹ ہسپتال میں ہوا۔ سخت سردی میں نیشنل پارک کے تالاب میں ایک ڈوبتے ہوئے بچے کو بچانے کے لیے میں نے تالاب میں کپڑوں سمیت چھلانگ لگا دی تھی۔ اس سے مجھے نمونیہ بخار ہو گیا۔ علاج کے لیے مجھے سر عبد اللہ ٹرسٹ ہسپتال میں داخل کرایا گیا۔ بیماری کا حملہ بہت شدید تھا۔ ڈاکٹروں کی ایک ٹیم میرے علاج پر مامور تھی۔ ڈاکٹر الماس اس ٹیم کی ممبر تھی ڈاکٹر الماس کو دیکھ کر میں اُٹھ بیٹھا تھا۔ بے شک مجھ پر دوائیوں کا استعمال ہوا لیکن یہ ایک ثانوی عمل تھا۔ میری صحت یابی صرف اس کی خوبصورتی کے اثر کا نتیجہ تھی۔
میں وہاں سے صحت یاب ہو کر آ گیا۔ باہر آ کر مجھے لگا کہ باہر کی تمام دنیا ایک ہسپتال ہے اور سر عبد اللہ ٹرسٹ صرف جہان زیست ہے۔ ہسپتال والے صحت یابی کے سرٹیفکیٹ دے کر مجھے ہسپتال سے باہر دھکیلتے تھے اور میں باہر کی تمام بے چینیوں کو سینے کے درد میں ڈھلا پا کر اندرگھس آتا تھا۔ یہ عمل کوئی ایک سال تک چلا۔ اس دوران ڈاکٹر الماس اوراس کے ساتھ کام کرنے والوں کو پتہ چل گیا کہ میں اس مرض میں مبتلا ہوں جو وہاں علاج سے بڑھے گا چنانچہ وہاں میرا داخلہ ممنوع قرار دے دیا گیا۔
میں عقل سے مکمل طور پر محروم نہیں ہوتا۔ میں سمجھتا تھا کہ میں جس جذبے کے زیر اثر ہوں وہ زندگی میں اس قدر اہم نہیں۔ کوئی بھی عورت اس دنیا کوتو کیا کسی ایک مرد کے گھر کو جنت میں تبدیل نہیں کر سکی۔ ڈاکٹر الماس ویسی ہی ایک عورت ہے۔ جیسی دوسری تمام عورتیں ہیں، پیٹ ہے، سر ہے، منہ ہے، دو آنکھیں ہیں اور دوکان ہیں، وہ ان تمام عورتوں کی طرح سوچتی ہے۔ نیز ان سب کی طرح اس نے زوال پذیر ہونا ہے۔ اس کے لیے چنانچہ اس قدر جنون کیوں۔ میں لہذا اس سے دوسو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دوربھاگ کھڑا ہوتا۔ بھاگتابھاگتا جب میں وہاں پہنچ جاتا جہاں میرے خیال میں مجھے ہونا چاہیے تھا تو میں وہاں رک جاتا تاکہ ویسی زندگی کا دو بارہ آغاز کروں جواس کو دیکھنے سے قبل تھی میں رک کر کیا دیکھتا کہ وہ تو وہاں پہلے سے موجود ہے۔
مجھے وہ لفظ کبھی نہیں مل سکے جو میرے محسوسات کے مطابق اس کی خوبصورتی کی ترجمانی کر سکیں۔ میری کیفیات اس ترجمانی میں معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔ مجھے لگتا کہ وہ ہی وہ ہے، میں نہیں ہوں۔ میں وہ بن جانے کے بعد اس سے کیسے بھاگ سکتا ہوں۔ اس دریافت کے ساتھ ہی یہ حقیقت پیچھے چلی جاتی کہ وہ دوسری عورتوں کی طرح ایک عورت ہے اور وہ خواب چھا جاتے، جنہوں نے مجھ جیسوں شاعروں، گلو کاروں، مصوروں، اور مجسمہ سازوں کو ہمیشہ بے چین رکھا ہے۔
خواب اور حقیقت کی آپس میں اس کش مکش نے مجھے اس جگہ پر پہنچا دیا جہاں سے پر لی طرف پاگل پن کی سرحد شروع ہوتی ہے۔ یہاں پر سنگین نتائج کا مجھے کچھ اندازہ ہوا۔ ان سے بچنے کے لیے میں نے اپنی بچی کھچی طاقتوں کو جمع کر کے اپنے لیے کوئی فیصلہ کرنا ضروری سمجھا۔ مجھے اس میں فنا رہنا چاہیے۔ یا اپنے آپ کو دوبارہ پا لینا چاہیے۔ یہ فیصلہ تبھی ممکن تھا جب یہ فیصلہ ہو سکے کہ وہ ایک حقیقت ہے یا خواب اگر وہ حقیقت ہے اور تلخ ثابت نہیں ہو گی تو مجھے اس کا قرب چاہیے، اگر وہ محض ایک خواب ہے اور یہ نا ممکن ہے کہ اس کو مادی وجود کا درجہ دیا جا سکے تواس کے قرب کی سب کوششیں لا حاصل ہوں گی۔ اس سے لہٰذا سچ نکلنا چاہیے۔
ایک دن میں نے سنا کہ وہ ہمیشہ کے لیے کینڈا جا رہی ہے۔ کینڈا میں اس کا بھائی رہتا ہے۔ وہ ایک بہت بڑا ڈاکٹر ہے اس نے وہاں اپنا ہسپتال بنایا ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ وہ وہاں اس کے ساتھ آ کر کام کرے۔ اس خبر نے مجھے بہت پریشان کر دیا۔ جس دن مجھے یہ خبر ملی کہ اس نے دوسرے دن کینڈا روانہ ہونا تھا۔ اپنی شناخت چھپانے کے لیے میں نے ایک فقیر کا روپ دھارا اور اسے میں نے ایک طویل عرصہ سے سوچا لیکن کوئی فیصلہ نہ کر پایا۔ خود کو ناکام پا کر میں گیا کہ اس سے پوچھوں کہ وہ ایک حقیقت ہے یا ایک خواب۔
میں نے سوال پوچھنے کے لئے تنہائی میں اس کے قریب پہنچنے کی بہت کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکا۔ کوئی موقع ایسا نہ مل سکا کہ وہ تنہا ملے اور میں اس سے بات کر لوں۔ ہر بار کوئی نہ کوئی اس کے پاس موجود ملا۔
میں نے اس کے گھر کے سامنے ڈیرہ جما دیا۔ اب اس سے اپنے سوال کا جواب پوچھ کر رہوں گا۔ اس کے جواب کے مطابق وہیں اپنے مستقبل کا فیصلہ کروں گا۔
وہ گھر سے ہوائی اڈے کی طرف جانے کے وقت صرف باہر نکلی، گھر سے باہر نکل کر وہ کار میں بیٹھ گئی۔ کار میں اس کے ساتھ اس کے والدین تھے۔ میں نے ایک ٹیکسی میں ان کا پیچھا کیا۔ ہوائی اڈے پر پہنچ کر اس کے والدین نے اس کو لاؤنج کی طرف روانہ کیا۔ جب اعلان ہوا کہ ہوائی جہاز روانہ ہونے والا ہے تووہ اپنے گھر کو لوٹ گئے۔ ہوائی جہاز کی روانگی کے اعلان نے میرے بلڈپ ریشر کو یکدم گرا دیا۔ میں لاؤ نج کے جنگلے کو پکڑ کر باہر کی طرف فرش پر بیٹھ گیا۔
مجھے وہاں بیٹھے بمشکل دس منٹ گزرے ہوں گے کہ اس ہوائی جہاز کے مسافر واپس لاؤنج میں آنے شروع ہو گئے۔ ان میں ڈاکٹر الماس شامل تھی۔ میں نے وہاں صفائی کرنے والے ایک آدمی سے مسافروں کی لاؤنج میں واپسی کاسبب پوچھا تواس نے بتایا کہ ایک وزیر نے اسی ہوائی جہاز سے کینڈا جانے کا پروگرام بنایا ہے۔ اس کی خاطر اڑان ایک گھنٹے کے لیے ملتوی کر دی گئی ہے۔ میں نے اِدھر اُدھر دیکھا مجھے قریب مشروبات اور ٹافیوں وغیرہ کا ایک سٹال نظر آیا ہے۔ میں نے سٹال پر پہنچ کر کوئی دو درجن ٹافیاں لیں اور انہیں تیزی سے کھانا شروع کر دیا۔ ان کے اندر پہنچتے ہی میرا بلڈ پریشر کچھ ٹھیک ہونا شروع ہو گیا۔ میں ہمت کر کے لاؤنج کے گیٹ پر پہنچا گیٹ پر متعین سیکورٹی والے کو میں نے کہا کہ میں نے ایک مسافر سے ضروری بات کرنی ہے لہذا مجھے اندر جانے دے۔ وہ نہ مانا میں نے اس کو پانچ سو روپئے دیئے تو وہ مان گیا۔
وہ اکیلی ہونے کی وجہ سے مسافروں سے الگ تھلگ بیٹھی تھی۔ اس کے قریب پہنچ کر میں نے اپنے سر پر سے فقیروں والی ٹوپی اور آنکھوں پر سے ٹوٹا ہوا سیاہ چشمہ اتاردیا۔ اس نے مجھے پہچان لیا۔ مجھے پہچانتے ہی وہ پریشان ہو گئی۔
’’آپ حلیہ بدل کر یہاں ؟‘‘ پریشانی میں اس کے منہ سے بے ساختہ یہ الفاظ نکلے۔
’’ جنتا آپ نے مجھے پریشان کیا ہے اس کے مقابلے میں آپ کی یہ پریشانی کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ آپ مجھ سے مت ڈریں۔ یہاں بہت سارے لوگ موجود ہیں۔ سیکورٹی کے بھی پورے انتظامات ہیں۔ میں تلاشی دے کر اندر آیا ہوں۔ میں اس صورت حال میں آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ بہت مشکل سے یہ لمحے ملے ہیں۔ ان سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے آپ سے صرف ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں ‘‘ میں نے مسکراکر کہا۔
میری بات سن کر اس کی پریشانی ذرا کم ہوئی۔ اس نے مجھے صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’پوچھئے ‘‘ ۔
’’ایسے نہیں۔ جہاز کی روانگی میں چالیں منٹ باقی ہیں۔ سامنے والے سٹال سے میں خود جا کر چائے اور بسکٹ لانا چاہتا ہوں۔ بسکٹ کھا کر اور چائے پی کر جب ہم دونوں نارمل ہو جائیں گے تو تب میں سوال پوچھوں گا۔ کیا اجازت ہے کہ چائے اور بسکٹ لے آؤں ؟‘‘ میں نے پروگرام پیش کیا۔ میری طرف سے لفظ اجازت پر وہ ہنس دی۔ وہ کچھ کہنے والی تھی کہ اس دوران اس کی ہنسی کو اجازت نامہ سمجھ کر میں دوڑ کر چائے سٹال پر پہنچ چکا تھا۔
میں جب چائے اور بسکٹ لے کر آیا تووہ دوبارہ ہنس دی، میری والہانہ حرکات نے اس کو بہت محظوظ کیا تھا۔ چائے پینے کے دوران ہی اس نے سوال پوچھنے کو کہا۔ اس کی شگفتگی طبع لوٹ آئی تھی میں نے اس سے منسلک ساری تلخیوں سے نیچے اتارتے ہوئے اس کو مخاطب کیا۔ ’’الماس !تم حقیقت ہویا خواب؟‘‘
’’میرا سوال سن کر وہ سنجیدہ ہو گئی۔ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بولی‘‘ میں ایک بہن ہوں، ایک بیٹی ہوں اور ایک بیوی بنوں گی، اور پھر ماں۔ میں اس طرح ایک حقیقت ہوں۔ میں شفق، دھنک، بجلیوں، مہتاب، گھٹاؤں، نغموں، ستاروں اور پھولوں کا ایک مجموعہ ہوں۔ اس طرح میں ایک خواب ہوں۔ ساری نظر کی بات ہے۔ ‘‘
’’ یہ نظر کیا ہوتی ہے ‘ ‘‘ اس کے جواب کی میں نے وضاحت چاہی۔
’’یہ تو دیکھنے والے پر منحصر ہے کہ بتائے کہ اس کی نظر کیا ہے ‘‘ اس نے مسکراکروضاحت کی۔
اس کی اس وضاحت نے مجھے گہری سوچ میں مبتلا کر دیا۔ میں اس وقت چونکا جب اعلان ہوا کہ جہاز جانے کے لیے تیار ہے لہٰذا اس کے مسافر اس میں سوار ہو جائیں۔ وہ مجھے سلام کر کے چل دی۔ چند قدم چل کر وہ رک گئی۔ اس نے مجھے مخاطب کیا، میں شروع سے آپ کے جذبات کی قدر کرتی ہوں۔ جب کسی نتیجے پر پہنچ جائیں تو میرے پاس آ جانا‘‘
میں اور کچھ نہ کہہ سکا اور اس کو جاتے ہوئے دیکھتا رہ گیا۔ جب لاؤنج خالی ہو گیا تو گیٹ پر تعینات سیکورٹی والا میرے پاس آیا۔ اب باہر آ جائیے کہتے ہوئے وہ مجھے وہاں سے نکال لایا۔
ڈاکٹر الماس نے مجھے نہ ختم ہونے والی الجھن میں گرفتار کر دیا۔ میں نے ہی کیا یہ فیصلہ کرنا ہے ؟ اگرایسے ہی ہے تو یہ فیصلہ میرے اپنے متعلق ہو گا۔ اپنے متعلق کیا میں فیصلہ کر سکتا ہوں ؟ اس فیصلے میں نظر آنے والی شئے کا کیا کوئی عمل دخل نہیں ؟
میری یہ الجھن اس قدر وسعت اختیار کر گئی ہے کہ یہ اس دنیا کے تمام انسانوں اس دنیا کی تمام اشیاء اور اس دنیا کی تمام قدروں کی الجھن لگتی ہے۔
٭٭٭
مٹی کے بُت
مدثر کو اس کے والدین نے ہر طرح سے سمجھایا، دوستوں نے منت سماجت کی اور پڑوسیوں نے کوشش کی لیکن اُس کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی، اُس نے سب کو دو ٹوک الفاظ میں جواب دیا کہ وہ اللہ وسائی سے شادی نہیں کرے گا۔ جب وجہ پوچھی جاتی تو وہ بتاتا کہ وہ اُس کوپسند نہیں۔ اُس کی پسند کا معیار معلوم کیا جاتا تو وہ کہتا کہ وہ خوبصورت نہیں
اطہر کواس کا عزیز ترین دوست ہونے کا دعویٰ تھا۔ ایک دن تنگ آ کر اس نے اُس کو اپنے ہاں بلایا۔ اُس کو اپنے بیڈروم میں بٹھا کر دروازے کو اندر سے تالہ لگا دیا اور کہا کہ اُس کی شادی کے متعلق فیصلہ ہو جانے کے بعد اس کو وہاں سے نکلنے دے گا۔ گفتگو شروع ہوئی۔ بات حسب سابق خوبصورتی پر پہنچی۔ مدثر نے کہا کہ وہ خوبصورت نہیں ہے لہٰذا وہ اس سے شادی نہیں کرے گا۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ اُس کے نزدیک خوبصورتی کا معیار کیا ہے تو اُس نے بتایا کہ وہ خوبصورتی کی تعریف کرنے سے قاصر ہے۔ اُس کا خوبصورتی کا معیار یہ ہے کہ دل و دماغ پر خود بخود چھا جائے اوراس کے سحر سے آزادی حاصل نہ کی جا سکے۔ اطہر نے کمرے میں رسالوں کا انبار لگا رکھا تھا۔ اُن رسالوں کے سرورقوں پر چھپی ہوئی تصویریں اس نے اس کو دکھانی شروع کر دیں۔ شاید کسی تصویر میں اس کا معیار مل جائے۔ اُس کی ناک ہر وقت بہتی رہتی ہو گی۔ یہ ہر وقت لپڑ لپڑ کھاتی رہتی ہو گی۔ یہ ہر مرد سے داد حاصل کرنا چاہے گی۔ یہ بہت مغرور ہو گی۔ یہ بہت لڑاکا ہو گی۔ جب رسالے ختم ہو گئے تو اطہر دنیا کی چند خوبصورت ترین ایکٹرسوں کی تصویریں اس کے سامنے لایا اُن سب کو اس نے یہ کہہ کر رد کر دیا کہ لفظ ایکٹریس اور لفظ خوبصورتی آپس میں متضاد ہیں۔ جو عورت خود نمائی کی اتنی شوقین ہو اور ہر ایک کے ساتھ فٹ ہو جاتی ہو وہ کبھی خوبصورت نہیں کہی جا سکتی۔ تھک ہار کر آخر اس نے کہا اللہ وسائی اس کی منگیتر ہے اور ظاہر اً اُس میں کوئی خامی نہیں مگر وہ اس کی پسند نہیں۔ کسی اور لڑکی کی طرف اشارہ کرنے سے بھی وہ قاصر ہے تاکہ اللہ وسائی کی جگہ اس کی بیوی بنانے کا سوچا جا سکے، اس کا خوبصورتی کا معیار بھی قابل فہم نہیں۔ معیار معلوم ہو تو کم از کم لاہور کالج آف آرٹس والوں کو کہہ کر اس کے اس معیار کے مطابق ایک بت بنوا کر اس کو دے دیا جائے جسے وہ بیوی کی جگہ گھر میں رکھ کر روحانی تسکین حاصل کرتا رہے۔ وہ اب جا سکتا ہے۔ وہ اس موضوع پر آئندہ اس سے بات نہیں کرے گا۔ یہ کہہ کر اُس نے کمرے کا دروازہ کھول دیا۔ مدثر نے اس کی کوششوں کا شکریہ ادا کیا اور اپنی مجبوری کے حوالے سے اس سے معذرت کرتے ہوئے باہر نکل گیا۔
اس کے ایک اور عزیز ترین دوست ریاض نے اپنے طور پر کوشش کی۔ ریاض کا خیال تھا کہ تمام عورتیں یکساں طور پر بے وقوف ہوتیں ہیں لہٰذا انتخاب کیسا، جو بھی ملے اس سے شادی کر لینی چاہیے۔ مرد کا مقدر اس زمین پر موجود عورت ہی بنائی گئی ہے کسی دیگر خطے سے کوئی مخلوق آنے سے رہی۔ ریاض نے دنیاوی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کیا اللہ وسائی اس کے لیے سب سے زیادہ موزوں ہے۔ وہ اس کی بچپن سے منگیتر ہے۔ وہ اس کے چچا کی بیٹی ہے۔ وہ گھریلو کام کاج میں سگھڑہے۔ وہ پڑھی لکھی اور صحت مند ہے۔ وہ با کردار اورنماز روزے کی پابند ہے۔ اس کی سادگی کو جدت میں بدل دیا جائے تو وہ مدثر کا دل موہ لے گی۔ سادگی سے مراد اس کی وضع قطع کی سادگی تھی۔ وہ طبیعت کی اتنی سادہ نہیں تھی۔ وہ زمانے کے نشیب فراز کو بخوبی سمجھتی تھی۔ وہ چنانچہ اللہ وسائی کی ماں کے پاس پہنچا اس کی ماں کو اس نے سمجھایا۔ ’’ خالہ جی ! اس دنیا میں خوبصورتی کا کوئی عالمی معیار نہیں ہر علاقے کا اپنا اپنا معیار ہے ہر خطے میں موجود انسانوں کی شکلیں تقریباً جدا جدا ہیں۔ ایک کے نزدیک جو خوبصورت ہے وہ دوسرے کے نزدیک نہیں ہے۔ معیار کیا ہے ذاتی پسند وناپسند ہے۔ مدثر ٹھیک کہتا ہے وہ خوبصورتی کی تعریف کرنے سے قاصر ہے۔ خوبصورت وہ ہے جو چپکے سے خود بخود دل پر اثر انداز ہو جائے۔ دیکھا جائے تو ہر لڑکی اپنی خوبصورتی کا معیار آپ ہے۔ اس معیار کو معلوم کرنا ضروری ہے۔ آجکل کے ہیرڈریسرز، درزی، سلمنگ، ہاؤسز والے اور بوتیکوں والے خوبصورتی کے معیار معلوم کرانے کا کام کرتے ہیں۔ وہ چنانچہ ان کی مدد سے اللہ وسائی کو تلاش کرے۔ وہ جب اس کی حالت کو بدلیں گے تو پتہ چلے گا کہ اللہ وسائی کس حد تک خوبصورت ہے۔ جب اس کی سادگی بدل جائے تووہ ترغیبات کاسہارا لے، وہ کس طرح مدثر کو اپنی طرف راغب کرے۔ یہ فن اس کو آج کل ایڈوٹائرنگ کمپنیاں سکھائیں گی۔
اللہ وسائی کی والدہ نے اس کے مشورے پر عمل کیا۔ اس نے سب سے پہلے اللہ وسائی کا نام بدلا۔ اس کا نام روشنی معبد رکھا۔ اس نام میں جدت، رومانیت، پاکیزگی، اور شعریت بدرجہ اتم سمجھے گئے۔ اس کے بعد اللہ وسائی کو شخصیت سنوارنے والوں کے حوالے کر دیا گیا۔ یہ شخصیت سنوارنے والے درزی، حجام اور ماہرین تیاری دلہن تھے ان کے ہاتھوں اللہ وسائی کی خوب لش پش ہو گئی۔ ان سے وقتی طور پر فارغ ہو جانے کے بعد ہمہ قسم کی ایڈ ورٹائزنگ کرنے والی کمپنیوں کے عملی پروگرام اللہ وسائی کو دکھائے گئے۔ آخر اللہ وسائی کو ہر زبان کی تقریباً کچھ وہ فلمیں دکھائی گئیں جن سے عورت مرد کا دل موہ لینے کی کوشش کرتی ہے۔ جب یہ سب کچھ ہو چکا تو اس کو مدثر پر چھوڑ دیا گیا۔
اللہ وسائی طبعاً جدید تراش خراش کی دلدادہ نہیں تھی، نیز اس بات کو بھی پسند نہیں کرتی تھی کہ ہونے والے خاوند کو اپنی طرف مائل کرنے کا ذمہ خود لے۔ اس کی زیادہ تر پرورش دیہاتی ماحول میں ہوئی اور اسی ماحول کے آداب میں وہ اطمینان محسوس کرتی تھی۔ اس نے یہ سب کچھ محض مدثر کی خاطر برداشت کیا۔ اس بے چاری نے چنانچہ جب مدثر پر ڈورے ڈالے تو مطلوبہ معیار پیدا نہ ہو سکا۔ بالکل ہماری فلموں والے محبت کے مناظر جیسی صورت حال پیدا ہو گئی۔ اس بات نے مدثر کو اور دل برداشتہ کیا۔
کسی لڑکے کو شادی کی طرف مائل کرنے کے اور بھی حربے ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر بہت بڑا جہیز، لڑکی کے نام جائداد، پیسہ یا لڑکی کے والدین کی سماجی وسیاسی پوزیشن۔ ان امور کی مدثر کے نزدیک کوئی اہمیت ہی نہیں تھی ورنہ کچھ لوگ اللہ وسائی کے والدین کو ان کی طرف توجہ دینے کا کہتے۔
ایک آخری دلیل رہ گئی تھی جو مدثر کے ماموں نے اس کے سامنے پیش کی۔ ’’ بیٹے ! اس دنیا میں رشتوں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ اتنے ہی اہم ہیں جتنے کہ مذہب آب و ہوا اور گھر وغیرہ، گھرانہ تو بلکہ ہمارے معاشرے کی بنیاد ہے۔ جب رشتوں کی اہمیت مسلم ہے تو پھر یہ کسی طرح مناسب نہیں کہ تم عمر بھر شادی نہ کرو۔ جب شادی کرنی ہے تو بروقت کرو۔ عمر گزری جا رہی ہے۔ اللہ وسائی نہ سہی کوئی اور تمہاری پسند کی لڑکی سہی کوئی فیصلہ ضرور کرو۔ ‘‘
اس دلیل نے اس کو متاثر کیا۔ اس کو خود بھی اس بات کا احساس تھا کہ اس نے اگر شادی کرنی ہے تو جلد از جلد کرے کیونکہ عمر گزری جا رہی ہے۔ بڑھاپے کی شادی تماشہ ہوتی ہے تعلق نہیں۔
مدثر ایک متمول گھرانے کا فرد تھا۔ اس کا والد ایک ٹرانسپوٹر تھا، اس کا ایک چچا علاقے کاسیاسی سربراہ تھا جب کہ دوسرا چچا آنکھوں کی بیماریوں کا بہت بڑا ڈاکٹر، اس نے ایم۔ اے تک تعلیم حاصل کی۔ تعلیم مکمل کر لینے کے بعد اس نے تجارت کے پیشے کو اپنایا۔ اس نے قالینوں کے کاروبار کو شروع کیا۔ اس کا کام خوب چمکا۔ وہ والدین سے ہٹ کر بذات خود بہت خوش حال تھا۔ اللہ وسائی اس کے چچا کی بیٹی تھی جو کہ علاقے کا سیاسی سربراہ تھا۔ مدثر میں کوئی قابل ذکر خامی نہیں تھی۔ وہ با شعور تھا۔ وہ ہر ایک کے ساتھ اخلاق اور ہمدردی سے پیش آتا تھا۔ دنیاوی معاملات میں پوری سوجھ بوجھ رکھتا تھا۔ چال چلن کے لحاظ سے وہ بالکل ٹھیک تھا۔ وہ والدین کا فرمانبردار تھا۔ اس نے کبھی کوئی مسئلہ نہیں پیدا کیا تھا۔ بس شادی کے معاملے میں وہ اٹک گیا تھا۔
ایک دن اپنی سوچوں اوردوسروں کے تقاضوں سے تنگ آ کر اس نے مسئلے کو فوراً ’’نپٹانے ‘‘ کا پروگرام بنایا۔ کس اور ملک کی لڑکی سے شادی کرنے کا پروگرام اس کو خارج از امکان نظر آیا ہے۔ وہ کافی عمر رسیدہ ہو گیا ہے دنیا گھومنے میں اتنا وقت لگ سکتا ہے کہ وہ بالکل بوڑھا ہو جائے۔ گا اس صورت حال میں شادی صرف اپنے ملک کی لڑکی سے ہونی چاہیے۔ لڑکی کو تلاش کرنے چنانچہ وہ ملک کے مختلف شہروں کے سفر پر روانہ ہو گیا۔ سب سے پہلے اس نے اس اسکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جانا تھا جہاں لڑکیاں پڑھتی ہیں۔
ابتداء کراچی سے ہوئی۔ جس دن وہ کراچی پہنچا اس دن کراچی میں انگلینڈ اورپاکستان کی ٹیموں کے درمیان کرکٹ میچ کھیلا جا رہا تھا۔ تماشائیوں کے رش کی وجہ سے کسی ہوٹل میں اس کو ٹھہرنے کی جگہ نہ ملی۔ تنگ آ کر ریلوے کے ایک ویٹنگ روم میں اس نے پناہ لی، وہاں سے بھی اس کو ہٹا دیا گیا۔ ریلوے کا وہاں کا ڈویژ نل سپرنٹنڈنٹ ایک اچھا انسان تھا۔ اس کو جب پتہ چلا کہ وہ کس مشکل میں ہے تو اس نے اسے اپنے بنگلے میں ٹھہرنے کی پیش کش کر دی۔ اس نے وہ پیش کش قبول کر لی۔
ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ کے ساتھ ایک دن کی رفاقت کے بعد جب اس کی کچھ بے تکلفی ہوئی اور باتوں کاسلسلہ چل نکلا تو اسے پتہ چلا کہ کہ وہ خاندانی طور پر بہت ہی امیر انسان ہے۔ اس کی شادی نہیں ہوئی۔ اکیلے پن کو دور کرنے کے لئے وہ ملازمت کرتا ہے۔ شادی کے نکتے میں مدثر نے دلچسپی لی۔ عام طور پر تین قسم کے انسان شادی نہیں کرتے۔ وہ لوگ جو اپنے نصب العین کے پیچھے اس شدت سے پڑے ہوئے ہوں کہ انہیں شادی کا خیال ہی نہ آئے، دوسرے آوارہ ترین یا وہ جنہیں کوئی لڑکی ملتی نہیں۔ اس کے ذہن میں شادی نہ کرنے والوں کی ایک چوتھی قسم بھی تھی اور وہ تھی بیمار لوگوں کی۔ اس نے دانستہ اس قسم کا ذکر نہ کیا کہ وہ اس بات کا برا نہ منائے۔
’’ آپ نے شادی کیوں نہیں کی‘‘ اس نے بے ساختہ پوچھا۔
پسند کی لڑکی کی تلاش کی وجہ سے … سپرنٹنڈنٹ نے جواب دیا۔
’’آپ کو کیا لڑکی نہ ملی؟‘‘ اس نے زور سے کہا۔
’’ ملی تھی‘‘ اس نے آہ بھر کر کہا۔
’’ کیا وہ لڑکی آپ سے شادی کرنا چاہتی تھی؟ مدثر نے پھر اضطراب کے عالم میں بلا توقف پوچھا،
’’آپ کہتے ہیں کیا وہ لڑکی مجھ سے شادی نہیں کرنا چاہتی تھی، میں کہتا ہوں کہ اس کو تو مجھ سے عشق تھا وہ دنیا کی ایک کامل ترین لڑکی تھی، میں زندگی میں کئی لڑکیوں سے ملا ہوں۔ لیکن وہ سب کو تاہ اندیش، کم حوصلہ، جذباتی اور خطاؤں کی پتلیاں تھیں۔
میں نے ان کو دیویاں بنا کر دل کے طاقچوں میں سجائے رکھا وہ مگر اوندھے منہ ان طاقچوں سے نیچے آ گریں۔ ان میں در اصل دیوی بننے کی اہلیت ہی نہیں تھی۔ جس لڑکی کی میں بات کرتا ہوں وہ تو اس تمام دھرتی کے لیے راحت کی پیغام بر تھی، اس میں حسد، بغض، کینہ اور غرور نام کو نہیں تھے۔ میری ہر خطا کو معاف کر دینے والی، میرے والدین، بہنوں، بھائیوں، دیگر رشتہ داروں اور دوستوں کو اتنا چاہنے والی جتنا میں خود چاہتا ہوں، ہر رنج و الم میں میرے ساتھ قدم ملا کر چلنے والی، لباس، رہن سہن اور خوراک کے معاملے میں میری ہم نوا ذہنی سطح پرایسے جیسے کوئی وسیع المشرب عالم…‘‘
اس کی بات جاری تھی کہ مدثر خاموش نہ رہ سکا۔ اس نے اس کی بات کو کاٹتے ہوئے اس سے بے ساختہ پوچھا ’’ آپ نے اس لڑکی سے شادی کیوں نہیں کی؟‘‘
’’وہ مجھے خواب میں ملی۔ ‘‘ جواب آیا۔
کچھ وقت کے لیے دونوں چپ چاپ بیٹھے رہے۔ مدثر یہ جواب سن کر سکتے میں آ گیا جب کہ ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ اس خواب میں کھو گیا۔ اس کے بعد مدثر کا دل کسی شئے میں نہ لگا۔ اپنے میزبان کو الوداع کہہ کروہ سیدھا واپس اپنے گھر آیا اور اللہ وسائی سے شادی کے لیے ہاں کر دی۔
٭٭
عباس خان جن کا تعلق عدلیہ سے ہے ایک معروف افسانہ نگار ہیں۔ اُس کے ذاتی مشاہدات و تجربات اس کی تخلیقات کو وہ قوت عطا کرتے ہیں جو انسانی مصائب کے خلاف اٹھنے کی شدت سے آرزو مند ہیں۔ ان کے افسانوں کا مجموعہ ’’ ریزہ ریزہ کائنات‘‘ اس کے مخزن علمی میں ایک نیا اضافہ ہے۔ یہ امر لیکن قابل توجہ ہے کہ حقیقتاً یہ افسانے نہیں بلکہ افسانے کا وہ مختصر ترین روپ ہے جنہیں افسانچے کہا جا رہا ہے۔ جیسا کہ جوگندر پال، ظفر خان نیازی اور افتخار ایلی نے انہیں اپنے طور پر برتا ہے۔ کتاب میں چونسٹھ کے قریب افسانچے ہیں۔
وہ جو عباس خان کو جانتے ہیں اس حقیقت کی گواہی دیں گے کہ اس نرم دل، سادہ مزاج اور راست رو انسان کے اندر ایک عمیق سمندر واقع ہے جہاں شدید طوفان برپا ہے۔ اس کے یہ افسانچے اس حقیقت کا اعتراف ہیں۔ فقرے جامع اور حسبِ حال ہیں۔ اس کے طنز کی بنیاد تضادات پر قائم ہے۔ بناوٹ کے لحاظ سے یہ کہانیاں روایتی انداز سے ہٹ کر ہیں۔ ان کہانیوں میں نقطۂ عروج موجود ہے جو اختتام کے ساتھ مل کر کہانی میں تجسس کو قائم رکھتا ہے اور ان کے اخلاقی تاثر کو بھر پور مدد دیتا ہے۔ وہ خوشامد، منافقت، احسان فراموشی، اخلاقی اور مالی بد دیانتی، دھوکے، غضب، اقربا پروری، اسمگلنگ اور ایسی دوسری خرابیوں پر مجاز کے پردے میں فقرے کستا ہے۔ بلاشبہ ان کی کہانیوں کا اختصار اس کی دانش کی جان ہے۔ ( محمد افسر ساجد)
٭٭٭
ولی
مجیب اللہ اولیاء اللہ اور ان کی کرامات کے متعلق باتیں سن کر کسی ولی اللہ کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔
اس تلاش کی مقصد اس کی کسی آرزو کی تکمیل نہیں تھا۔ اس کی کوئی بھی ایسی آرزو نہیں تھی جو پوری ہونے والی ہو۔ مالی طور پر وہ مضبوط تھا۔ اس کی شادی اس کی پسندیدہ لڑکی سے ہوئی۔ اس شادی سے اللہ تعالیٰ نے ان کو بیٹیاں عطا کی اور بیٹے بھی اور یہ سب تعلیم میں نمایاں اور ماں باپ کا کہا ماننے والے تھے۔ اس کے لیے ایک عالیشان بنگلہ شہر کے جدید ترین علاقے میں اس کے والد نے اس کی تعلیم کے اختتام پر ہی بنوا لیا تھا۔ سواری کے لئے دو کاریں تھیں۔ ان میں سے ایک اس کی اپنی تھی۔ اور ایک اس کی بیگم جہیز میں لائی تھی۔ کسی مقدمہ بازی کا سامنا نہیں تھا، کسی بیماری سے صحت یاب ہونے کی فکر نہیں تھی اور نہ کوئی اعلیٰ مرتبہ حاصل کرنے کا جنون، وہ صرف روحانی تسکین کی خاطر جو ایک برگزیدہ ہستی کی صحبت سے حاصل ہو سکتی ہے ادھر متوجہ ہوا۔ نیز وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ صاحبان کرامات کیسے ہوتے ہیں۔
وہ پورے دس سال سرگرداں رہا۔ مزاروں پر جا بیٹھا۔ قبرستانوں کی خاک چھانی، بھیک مانگنے والوں کا تعاقب کیا اور کئی دیوانوں پر نظر رکھی۔ مسجدوں میں عابد لوگوں کے قریب تو وہ پہلے ہی رہتا تھا۔ مزید براں جہاں کہیں کسی ایسی ہستی کا پتہ چلا وہ وہاں پہنچا۔ اس کو مگر کچھ حاصل نہ ہوا۔ یہ بات نہیں کہ ان جگہوں پر نیک شخصیتوں کی کمی تھی۔ ہر جگہ اس کا نیک آدمیوں سے آمنا سامنا ہوا۔ ان میں سے چونکہ کوئی اس کی کوئی کرامت نہ دکھا سکا لہٰذا یہ ان کو ولی ماننے پر تیار نہیں تھا۔ اس کے نزدیک ولی ہونے کی شرط ہی کوئی کرامت تھی۔ جیسا کہ اس کو بتایا گیا کہ اولیاء اللہ دیواروں کو چلا دیتے تھے، دریاؤں کو روک دیتے تھے، شیروں پر سواری کرتے تھے، ویرانوں میں پانی کے چشمے نکال دیتے تھے، پرندوں کی حالت اڑان میں مار دیتے تھے اور اندھیروں میں اچانک چراغ جلا دیتے تھے۔ جو اس کو ملے تجربے کی طور پر اس کو سر کے درد سے نجات تک نہ دلا سکے۔
اس مہم کے بعد جو کوئی اس کے سامنے کسی جگہ پر موجود کسی ولی اور اس کی کسی کرامت کا تذکرہ اس کے سامنے کرتا تو وہ اس کی بات پر یقین کرنے سے انکار کر دیا۔
بالآخر ایک دن یہ سوچ کر اس نے ان کی جستجو ہمیشہ کے لیے ترک کر دی کہ اولیاء اللہ صرف اگلے زمانوں میں تھے۔ گناہ عروج پر ہیں۔ گنہگار لوگوں میں سے کسی ولی کا پیدا ہونا مشکل ہے۔
قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے الیکشنوں کی تیاریاں زوروں پر تھیں۔ وہ بچوں کو ان کے سکولوں اور کالجوں میں چھوڑ کر آ رہا تھا۔ راستے میں اس کو ٹریفک پولیس نے روک کر کہا کہ وہ اپنی کار اس کے حوالے کر دے۔ پوچھنے پر ٹریفک پولیس نے بتایا کہ الیکشنوں کے انتظام و انصرام کے لیے ڈپٹی کمشنر صاحب کو بہت سی گاڑیوں کی ضرورت ہے۔ سرکاری گاڑیاں اتنی نہیں کہ اس ضرورت کو پورا کر سکیں۔ چنانچہ انہوں نے حکم دیا ہے کہ جو بھی گاڑی نظر آئے اس کو قابو کر کے اس کے پاس پہنچا دی جائے۔ وہ ڈپٹی کمشنر کے حکم کے تحت اس گاڑی کو قابو میں لینے پر مجبور ہیں۔ اس نے ان کی بہت منت سماجت کی لیکن وہ نہ مانے اور اس کی کار لے لی۔ عالم بے بسی میں اس نے ٹیکسی لی اور گھر آیا۔
سوچ سوچ کر کار کی واپسی کے لئے اس نے خود ڈپٹی کمشنر سے ملنے کی ٹھانی۔ چونکہ شام ہو چلی تھی لہٰذا اس نے اس کے بنگلے کا رخ کیا۔ بنگلے پر پہنچ کر اس نے ملاقات کے لیے اس کے پاس اپنے نام کی چٹ بھجوائی۔ اندر سے جواب آیا کہ مہمان آئے ہوئے ہیں۔ مہمانوں سے فارغ ہونے کے بعد وہ ان سے مل سکیں گے۔ امکان ہے ایک گھنٹے کے بعد وہ ان مہمانوں سے فارغ ہو جائیں گے۔ مجیب اللہ بجائے واپس ہونے کے وہیں انتظار گاہ میں بیٹھ گیا۔ انتظار گاہ میں اس نے محسوس کیا کہ اندر گرمی زیادہ ہے جب کہ باہر موسم قدرے خوشگوار تھا۔ وہ باہر نکل آیا۔
وہ پہلی بار ادھر آیا تھا۔ اس نے ایک درخت کے نیچے کھڑے ہو کر اردگرد کا جائزہ لینا شروع کر دیا۔ اس جائزے سے اس کو معلوم ہوا کہ ڈپٹی کمشنر کا بنگلہ شہر کے خوبصورت ترین مقام پر واقع ہے۔ بنگلے کے ارد گرد بہت بڑے ہرے بھرے لان ہیں ان لائنوں میں بڑی ترتیب سے پھولوں کی کیاریاں بنائی گئی ہیں۔ ان کے آگے شرقاً غرباً دور تک لہلہاتی فصلوں کے کھیت ہیں۔ جنوب میں سول کلب، اس کے ساتھ سپورٹس کمپلیکس اور ہر قسم کے پودوں کی محکمہ جنگلات والوں کی نرسری ہیں جب کہ شمال میں ایس پی ہاؤس، پولیس لائن اور دوسرے افسروں کے بنگلے ہیں۔
ڈپٹی کمشنر کے بنگلے کے میں گیٹ پر پولیس مستعدی سے موجود ہے۔ ان سے آگے استقبالیہ دفتر ہے۔ وہاں ہمہ قسم کے ٹیلیفون اور وائرلیس سیٹ پڑے ہیں۔ با وردی ملازمین کے ساتھ ساتھ دوسرے کام کرنے والوں کی بہتات ہے۔ ڈپٹی کمشنر کے استعمال میں آنے والی دو کاریں اور دو جیپیں بنگلے کے سامنے کھڑی چمک رہی ہیں۔ ان سے کچھ فاصلے پر پولیس والوں اور ملاقاتیوں کی گاڑیاں ہیں۔ سامان خورد و نوش اور تحائف اندر جا رہے ہیں اور اندر سے آنے والوں کے لئے ان کے مرتبے کے مطابق تواضع کی اشیاء آ رہی ہیں۔ اس کا دل کیا کہ اس ماحول سے تسلی کے ساتھ لطف اندوز ہونے کے لئے وہ کہیں بیٹھ جائے۔
بیٹھنے کے لیے اس نے ادھر ادھر نظر دوڑائی۔ بنگلے کے جانب مشرق ایک چھوٹی سی مسجد نظر آئی۔ وہ اس مسجد کی طرف چل پڑا۔ مسجد کے پاس پہنچ کر اس کی نظر مسجد کے دروازے کے بالکل سامنے پیپل کے درخت کے نیچے مطالعے میں محو ایک آدمی پر پڑی۔ وہ اس کے پاس آ گیا۔ اس کی اجازت سے وہ اس کے پاس گھاس پر بیٹھ گیا۔ دونوں کے درمیان باتوں کا سلسلہ چل نکلا۔ ان باتوں کے دوران اس کو پتہ چلا کہ وہ آدمی مسجد میں اذان دینے، نماز اور بچوں کو قرآن پاک پڑھانے اور مسجد کی دیکھ بھال پر معمور ہے۔ رہائش کے لیے مسجد سے ملحق اس کو ایک کمرہ ملا ہوا ہے۔ اپنے فرائض سے فارغ ہو کر وہ کبھی اس کمرے میں لیٹ جاتا ہے اور کبھی لان میں پیپل کے درخت کے نیچے مطالعے میں محو ہو جاتا ہے۔ جن بچوں کو قرآن پاک پڑھاتا ہے ان کے والدین اس کو کچھ پیسے دے دیتے ہیں، جن سے اس کی گزر اوقات بخوبی ہو جاتی ہے۔ اس کا کنبہ کوئی اتنا بڑا نہیں۔ یہ صرف اس کی بیوی اور ایک بیٹے پر مشتمل ہے۔ اس آدمی کا انداز زندگی، اس کو میسر دلآویز اور پر سکون ماحول اور اس کے چہرے پر نیکی اور قناعت سے پیدا ہونے والا نور دیکھ کر اس کو لگا کہ وہ دنیا کا خوش قسمت ترین فرد ہے۔ وہ وقت کی رفتار کو بالکل بھول گیا۔ ڈپٹی کمشنر کے بنگلے سے نکلنے والی ایک گاڑی کے ہوٹر کی آواز نے اس دھیان ادھر کیا۔ اس نے گھڑی پر نظر ڈالی۔ گھڑی مقر رہ وقت سے پندرہ منٹ اوپر دکھا رہی تھی۔ وہ تاخیر کے نتائج سے گھبرا گیا۔ وقت مقر رہ گزر جانے کی وجہ سے کہیں اس کو ملاقات سے محروم نہ کر دیا جائے۔ نتیجے کے طور پر وہ وہاں سے اجازت لے کر بنگلے کے گیٹ پر بہت تیزی سے پہنچا۔ اس کی خوش قسمتی کہ گیٹ پر موجود لوگوں نے ملاقات کے لیے اس کو ڈپٹی کمشنر کے ملاقات کے کمرے میں پہنچا دیا۔
ملاقات کا کمرہ خالی پڑا تھا۔ وہ چپ چاپ آہستہ سے ایک صوفے پر سمٹ کر بیٹھ گیا۔ اس کے بیٹھنے کے کوئی ایک منٹ بعد عمدہ وردی میں ملبوس صاحب کے ایک نوکر نے اطلاع دی کہ چند لمحوں بعد صاحب وہاں پہنچ جائیں گے۔ اس اطلاع پر اس کے اعصاب کچھ ڈھیلے ہوئے۔ اس نے اب ادھر ادھر نظر دورائی۔ جس شدت سے اس کو بنگلے کے باہر کے ماحول نے متوجہ کیا اسی شدت سے اس کو اندر کے ماحول نے متوجہ کیا۔ کمرہ کیا ہے کسی بادشاہ کے محل کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔ بیش بہا قالین، اعلی ترین فرنیچر، دیواروں کے ساتھ آویزاں فریم شدہ خوبصورت مناظر کی تصاویر، بریف کیس، جاذبِ نظر سٹیشنری اور رائٹنگ پیڈ، کئی ٹیلیفون اور وائرلیس سیٹ۔
اسی دوران ڈپٹی کمشنر اندر داخل ہوئے۔ ڈپٹی کمشنر کو دیکھ کر وہ حیران رہ گیا اور ڈپٹی کمشنر اس کو دیکھ کر حیرت میں ڈوب گئے۔ اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا، ’’ وقار حسن تم؟‘‘ اور ڈپٹی کمشنر زور سے بولے، ’’ ارے مجیب اللہ، ‘‘ پھر دونون بے تکلفی سے ایک دوسرے کے بغلگیر ہوئے۔ وقار حسن اس کا یونیورسٹی کا کلاس فیلو تھا۔ اور یونیورسٹی ہوسٹل میں روم میٹ نکلا۔ بغل گیر ہونے کے بعد ڈپٹی کمشنر نے اس کو وہاں بیٹھنے نہ دیا، وہ اس کو اپنے ڈرائنگ روم میں لے گیا۔ جو ملاقات والے کمرے سے سج دھج میں کئی گنا بڑھ کر تھا۔
دونوں کی ملاقات پندرہ سال بعد ہوئی تھی۔ خوب باتیں ہوئیں، ماضی کے دوستوں کو یاد کیا گیا، زندگی کے ان مقامات پر پہنچنے کے لئے دونوں پر جو مرحلے گزرے ایک دوسرے کو بتائے گئے اور اس خوشی کا بار بار ذکر ہوا جو ان کو ایک دوسرے سے، اس ملاقات پر ہوئی۔ باتوں کے دوران مشروبات، مٹھائی، بسکٹوں، پیسٹریوں، پکوڑوں، سموسوں کبابوں، پھلوں اور چائے سے مسلسل اس کی تواضع ہوتی رہی۔ آخر میں اس نے اپنی آمد کا مقصد بتایا۔ ڈپٹی کمشنر نے فوراً کسی کو فون کیا۔ فون کرنے کے پانچ منٹ بعد اس کی کار اس کے بنگلے کے دروازے پر موجود تھی۔
ڈپٹی کمشنر کی شان کی یہ جھلک وہ کئی دنوں تک اپنے ذہن پر سے نہ ہٹا سکا۔ اندر فسانہ عجائب اور باہر طلسم ہوش ربا۔ ان سب سے بڑھ کر ان کے اختیارات کا خزانہ۔
اس ملاقات کے تقریباً ایک ماہ بعد ڈپٹی کمشنر کا وہاں سے ایک اور جگہ تبادلہ ہو گیا جب کہ ایک سال بعد وہ خود اسلام آباد منتقل ہو گیا۔
کوئی پانچ سال بعد اپنی زرعی اراضی سے متعلقہ ریونیو ریکارڈ کی درستی کے لیے اس کو اپنے سابقہ شہر کے ڈپٹی کمشنر سے ملاقات کی ضرورت آن پڑی۔ وہ چنانچہ اس بنگلے میں اب دنوں رہنے والے ڈپٹی کمشنر سے ملنے کے لیے روانہ ہو گیا۔ بنگلے پر پہنچ کر اس نے سب سے پہلے وہاں کی مسجد میں اذان دینے، مسجد میں نماز و قرآن پڑھانے اور مسجد کی دیکھ بھال پر مامور شخص سے ملنے کا تہیہ کیا۔ سڑک کے ایک طرف اپنی کار کھڑی کر کے اور لان کو بیچ میں سے پار کر کے وہ مسجد کے دروازے تک آ گیا۔ اس ماحول میں پیپل کے درخت کے نیچے بیٹھا شخص اس کو ایک بار اور حیرت کے سمندر میں لے گیا۔ کمترین قسم کے سفید رنگ کپڑے کا لباس پہنے اور ڈارھی رکھے ہوئے یہ شخص وقار احمد تھا۔ اس کو دیکھتے ہی بولا۔
’’ وقار حسن تم؟‘‘
’’ ہاں میں، ‘‘ وقار حسن نے جواب دیا۔
’’ تم اس حالت میں کیسے پہنچے ؟‘‘ اس نے جلدی سے دوسرا سوال کیا۔
’’وہ مولوی صاحب جو یہاں ہوتے تھے ان سے میں نے اپنی جگہ تبدیل کر لی ہے۔ ‘‘ وقار حسن مسکرایا۔
’’ کیسے ؟ ‘‘ اس نے پہلے سے زیادہ تعجب میں اس سے استفسار کیا۔
’’ آپ بیٹھیں تو سہی میں اندر سے آپ کے لیے چائے بنوا کر لاتا ہوں۔ چائے پینے کے دوران میں آپ کو سب کچھ بتا دوں گا۔ ‘‘ یہ کہہ کر وہ اندر چلا گیا۔ کچھ دیر بعد وہ اندر سے چائے کے دو پیالے لے آیا۔ وہیں گھاس پر ایک پیالہ اس کے سامنے اور ایک پیالہ اپنے سامنے رکھ کر آلتی پالتی مارے گویا ہوا۔ ’’ مجیب اللہ اس بنگلے میں رہنے کے لیے اور اس بنگلے میں رہنے والے کو ملنے والے اختیارات سے لطف اندوز ہونے کے لیے بڑی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ میں نے اس کو سراسر گھاٹے کا سودا پایا۔ تمہیں پتہ نہیں کہ سربراہان قوم اس بنگلے کے مکین کو شان و شوکت اور اختیارات دے کر اس سے کیا کراتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ بے قصور ان کے اس مخالف کو قید کرا دو، اس مخالف کو قتل کرا دو، اس مخالف کو اس کا جائز حق نہ ملنے پائے اور اس مخالف کی عزت و آبرو خاک میں ملا دی جائے۔ اس کے بر عکس ان کے دوستوں کو بلا جواز سب مراعات دیتے چلے جاؤ۔ پھر دن کا چین اور رات کی نیند حرام ہے۔ ٹیلی فون آ رہے ہیں، وائر لیس سیٹ الگ توجہ چاہتے ہیں، پیغام بر دوڑے دوڑے آ رہے ہیں۔ ملاقاتیوں نے ناک میں دم کر رکھا ہے۔ اپنے سے بڑوں کے دورے بھگتانے ہیں، فسادات سے نمٹنا ہے، جرائم کو فرضی طور پر گھٹانا ہے، ماتحتوں کی بد اعمالیوں کے غرقابے میں پڑنا ہے اور لوگوں کو لوٹنا ہے تاکہ ان سے لاٹا ہوا پیسہ بوقتِ ضرورت کام آئے۔ یہ ضرورت متواتر رہتی ہے۔ کتنا پر مسرت کتنا پر سکون اور کتنا برگزیدہ تھا وہ شخص جو اس بنگلے میں رہنے والے کے سامنے اس جگہ بیٹھا کرتا تھا جہاں ہم اب بیٹھے ہیں۔ یہ جگہ کسی خوش قسمت کو ملتی ہے۔ میں بس استعفیٰ دے کر یہاں آ بیٹھا ہوں۔ ‘‘
’’ بہت خوب ! ‘‘ مجیب اللہ نے نعرہ مارا۔
’’ وہ شخص کہاں گیا؟‘‘ اس نے قدرے توقف کے بعد اس کو مخاطب کیا۔
’’ وہ اب اس بنگلے میں رہتا ہے۔ ‘‘ وقار حسن نے اس کا تجسس دور کیا۔
’’ نہیں ؟‘‘ حیرانی کے عالم میں مجیب اللہ کے حلق سے آواز آئی۔
’’ ہاں ‘‘ وقار حسن نے مسکرا کر اپنی بات کی تصدیق کی۔
’’ وہ کس طرح؟ ‘‘ مجیب اللہ۔
’’ اس کا بیٹا مقابلے کے امتحان کے ذریعے ڈپٹی کمشنر بن کر اس کا مکین ہے۔ اس نے اپنے بیٹے کے ساتھ رہائش رکھی ہوئی ہے، ‘‘ وقار حسن
مجیب اللہ بے قابو ہو کر وقار حسن کے پیروں پر گر گیا کیونکہ اس نے کرامت دیکھنے کے بعد اس کے وجود میں ولی کو پا لیا تھا۔
٭٭٭
رشتے
محمد متین جتنا امیر تھا اتنا ہی نیک دل تھا، اُس نے دو شادیاں کیں لیکن اولاد نہ ہوئی۔ اُس نے جذبۂ پدری کی تسکین اور اپنی دولت کے مصرف کا یہ طریقہ نکالا کہ اپنے گھر سے ملحق باغ میں پنگھوڑا لگا دیا اور اعلان کیا کہ جو کوئی اپنی ناجائز اولاد سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے اُس کو مارنا چاہتا ہے اُس سے التماس ہے کہ ایسا قدم مت اُٹھائے۔ وہ اپنی اُس ناجائز اولاد کو خفیہ طریقے سے کسی بھی وقت اُس پنگھوڑے میں ڈال جائے۔ وہ اُس کی پرورش کرے گا۔ اُس کی طرف سے یہ معلوم کرنے کی قطعاً کوشش نہیں کی جائے گی کہ وہ اولاد کس کے گناہ کا نتیجہ ہے۔
شروع شروع میں لوگوں نے اُس کے اس عمل کو شک سے دیکھا، لوگوں کا خیال تھا کہ علاقے میں متذکرہ گناہ کو ختم کرنے کے لئے اُس نے یہ قدم اُٹھایا ہے۔ جونہی کوئی ناجائز بچہ اُس پنگھوڑے میں ڈال جائے گا وہ اُس کے ماخذ کو خفیہ طور پر تلاش کر کے پولس کو رپورٹ کر دے گا۔ یہ خدشہ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ختم ہو گیا۔ اُس نے دور اک شہر میں بورڈنگ ہاؤس نما ایک بہت بڑی عمارت تعمیر کرائی۔ اُس عمارت کا نام گود رکھا ہے۔ اُس عمارت میں آنے والے بچوں کی پرورش کا عمدہ انتظام کیا گیا۔ لوگوں کو جب معلوم ہوا کہ بچوں کی پرورش کے لیے اتنا کچھ کیا گیا ہے تووہ یقین کرنے لگ گئے کہ محمد متین اپنے مقصد میں سنجیدہ ہے اور اس کا مطمح نظر محض نیکی ہے ناکہ گناہگاروں کو پولیس کے حوالے کرنا۔ بچے چنانچہ آنا شروع ہو گئے۔
کئی سال گزر جانے کے بعد ایک دن حسب معمول اپنے گھر کی خفیہ کھڑکی سے جب اُس نے پنگھوڑے پر نظر ڈالی تو اُس نے دیکھا کہ بیس بائیس سالہ ایک نو جوان اس پنگھوڑے میں لیٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔ وہ عالم حیرانی میں اس کی طرف چل پڑا۔ اس کے قریب پہنچ کراُس نے اُس کو مخاطب کیا، ’’ تم کون ہو اور کیا تم جانتے ہو کہ یہ پنگھوڑا کس لئے ہے ؟‘‘
’’ جانتا ہوں ‘‘ لڑکے نے جواب دیا۔
’’باوجود جاننے کے تم اس پنگھوڑے میں لیٹنے والوں میں شامل ہونا چاہتے ہو؟‘‘ محمد متین نے اگلا سوال کیا۔
’’ جی ہاں ‘‘ لڑکے نے آہستہ سے کہا،
’’کیوں ؟ کیا تم اپنے والدین کی جائز اولاد نہیں ہو؟ اگر ایسا ہے تو زندگی کے اس مقام پر حقیقت کو بجائے چھپانے کے تم ظاہر کرنا چاہتے ہو؟‘‘ محمد متین نے بے چینی سے اپنے ذہن میں پیدا ہونے والے اضطراب کا اظہار کیا۔
’’بالکل‘‘ لڑکے نے اطمینان سے اپنے رد عمل کو واضح کیا۔
’’میں تفصیل سے جاننا چاہتا ہوں ‘‘ محمد متین اس کو بازو سے پکڑ کر اپنے گھر کی طرف لاتے ہوئے بولا۔
لڑکے نے بتانا شروع کیا۔ ’’ میرا نام اکبر ہے، میں اپنے والدین کی بالکل جائز اولاد ہوں۔ میرے والدین زندہ ہیں۔ میرے بھائی بھی ہیں اور بہنیں بھی، چچے بھی ہیں اور خالائیں بھی، میرے نانا ابو اور دادی اماں بھی زندہ ہیں۔ میں زندگی میں کچھ نہیں بن سکالہٰذا سارے مجھے ہر وقت طعنے دیتے رہتے ہیں جبکہ میں ان سب سے بے حد محبت کرتا ہوں۔ مجھے محسوس ہوتا ہے جیسے اُن میں سے کوئی بھی میرا نہیں۔ میں چنانچہ خود کو بالکل تنہا پا کر آپ کے پنگھوڑے تک آیا ہوں۔ مایوسیوں نے مجھے یقین دلایا ہے کہ میں اس دنیا میں بے مصرف، بے بنیاد اور بے سرمایہ ہوں۔ ‘‘
’’اچھا یہ بات ہے فکر نہ کرو۔ میں بفضل خدا تعالیٰ آپ کو اپنے پاؤں پر کھڑا کروں گا۔ ‘‘
محمد متین نے مسکرا کر اس کوتسلی دی۔
’’ محمد متین نے اکبر کو بجائے گود میں بھیجنے کے اپنے گھر میں جگہ دی اور اس کو ایک معقول رقم دے کر اپنی نگرانی میں کپڑے کے کاروبار پر لگا دیا۔ اکبر نے کاروبار میں دل لگایا۔ وہ کاروبار میں اتنا مستحکم و مضبوط ہو گیا کہ شہر کے روساء میں اس کا شمار ہونے لگ گیا۔ وہ اس مقام پر پہنچا تو محمد متین نے اس کو خود سے یہ کہہ کر علیحدہ کر دیا کہ وہ اب اپنے پاؤں پر کھڑا ہو گیا ہے لہذا جس طرح کی زندگی احکام خداوندی کے اندر رہ کر گزارنا چاہے گزارے۔
اکبر نے لاہور جا کر ایک جدید ترین کالونی میں گھر بنوایا اور پسند کی شادی کی۔ والدین رہنے کے لیے پاس آ گئے۔ بھائیوں، بہنوں اور دوسرے رشتوں داروں نے آنا شروع کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اولاد بھی عطا کر دی۔ وہ اب بہت خوش تھا۔ اس نے ثابت کر دیا کہ وہ بے کار آوارہ، جاہل نہیں ہے، وہ اپنے والدین کا نام روشن کرنے والا باقی بھائیوں کی طرح لائق ہے۔
محمد متین نے اس کے گھر جا کر اُس کوہنسی خوشی زندگی بسر کرتے دیکھا تو اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لایا کہ اس نے اس کو اس قابل بنایا ہے۔ کہ اس کی مخلوق کو زندہ رہنے میں مدد دیتا ہے۔
ایک عرصہ بعد محمد متین پھر حیرانی سے دوچار تھا۔ اُس نے دیکھا کہ ایک ادھیڑ عمر کا آدمی، پنگھوڑے میں پھنساپڑا ہے۔ وہ اسی حرکت کے ساتھ جو اس کو اکبر کو پنگھوڑے میں دیکھ کر ہوئی تھی پنگھوڑے کے پاس پہنچا۔ اس نے جب غور سے دیکھا تو پایا کہ وہ اکبر ہے۔ وہ ہکا بکا رہ گیا۔ اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا ’’ اکبر تم؟‘‘
’’پھر کیوں ؟‘‘ محمد متین نے استفسارکیا۔
‘‘ پہلے جب آیا تھا نہ جاننے کا غم تھا اور اب آیا ہوں تو جاننے کا غم ہے ‘‘ اکبر نے بے حد مغموم آواز میں کہا
’’ میں سمجھا نہیں ‘‘ محمد متین نے زیادہ حیرانی ظاہر کی۔
’’میں جب پہلی بار آیا تھا والدین، بھائیوں، بہنوں اور دیگر رشتہ داروں کی طرف سے دھتکارا ہوا تھا۔ میں ان سے محبت کرتا تھا اور ان کی محبت چاہتا تھا۔ میں زندگی میں کچھ نہیں تھا۔ آپ کی مہربانی سے میں بہت کچھ بن گیا۔ معاشرے میں نہ صرف میرا مقام بنا بلکہ میرے رشتے دار میرے قریب آ گئے، میرا کاروبار اب نہیں رہا۔ میں مقروض ہوں۔ میرے والدین، بہنیں، بھائی، بیوی، اولاد اور دیگر رشتہ دار سب مجھے نا عاقبت اندیش اور بے وقوف سمجھنے لگ گئے ہیں۔ اور میرے قریب نہیں آتے۔ میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اس دنیا میں سب رشتے جھوٹے ہیں اس دنیا میں صرف ایک رشتہ ہے اور وہ رشتہ غرض کا ہے۔ مجھے مفلس ہونے کا قطعاً غم نہیں اور نہ میں اس مقصد سے آیا ہوں کہ آپ سے مالی امداد مانگوں۔ دولت نے بلکہ میرے لیے بے چینی پیدا کر دی تھی۔ پہلے میں رشتے مستحکم کرنا چاہتا تھا۔ مجھے معلوم نہیں تھا، کہ وہ مستحکم نہیں ہیں۔ میں ان کو مستحکم کرنے کے غم میں تھا۔ اب مجھے پتا چلا ہے کہ باوجود اتنی قربتوں کے سوائے غرض کے وہ مستحکم ہو ہی نہیں سکتے۔ یہ غم اپنی نوعیت کا ہے۔ مجھے اس غم سے چھٹکارا چاہیے ‘‘ اکبر نے روکر سمجھایا۔
محمد متین اس کو دوبارہ اپنے گھر لے آیا۔ اُس کا غم ختم کرنے کے لیے وہ اکثر وقت اس کے قریب رہ کر گذارتا ہے۔ اس واقعہ نے لیکن اس کی سوچوں میں تلاطم بپا کر دیا ہے۔ اُس نے اولاد کی صورت میں رشتوں کی خواہش کی۔ وہ خواہش درست ہے یا غلط۔ اکثر راتوں کو وہ خود اپنے پنگھوڑے میں جا کر لیٹ جاتا ہے۔
٭٭٭
آٹھ آنے کی مٹھاس
ماسٹر نذر حسین ایک گھنٹے سے بس کی انتظار میں بیٹھا تھا۔ بس تو موجود تھی اور اس مقام پر موجود تھی جس کو اس علاقے کے لحاظ سے جنرل بس سٹینڈ کہا جا سکتا ہے لیکن چلنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ ابھی سواریوں کی کمی تھی، سیٹیں سب بھر چکی تھیں۔ بس کے اندر جو فرش سیٹوں سے بچا ہوا تھا۔ وہاں بھی لوگوں نے اپنی ریزرویشن کروا رکھی تھی، اتنی ہی سواریوں نے چھت پر قبضہ کر رکھا تھا۔ بس اب ارد گرد لٹکنے والی سواریوں کا انتظار تھا، وہ آئیں تو بس چلے۔ ماسٹر نذر حسین باوجود اتنا وقت گزر جانے کے پریشان نہیں تھا۔ کیونکہ وہ ان حالات میں اِس بس سے آنے جانے کا عادی تھا۔ اُس نے وہاں سے بیس میل دور تحصیل ہیڈ کواٹر پر ایک جلسے میں شرکت کرنا تھی جو کہ ملکی سر برا ہوں میں سے ایک کی آمد پر منعقد ہو رہا تھا۔ اُس نے چونکہ وہاں ضرور جانا تھا، اس لیے کہ اُس کو اور اُس جیسے کئی دوسروں کو اُس کی یونین کونسل کے چیر میں نے مجبور کیا تھا۔ لہٰذا واپس پلٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ بس کی روانگی کی تکلیف تو کجا، بس کے اندر اس کے سر پر کوئی سواری بھی بس والے بٹھا کر لے جائیں تو اُس نے جانا ہے۔
اُس روز سردی اپنی انتہا پر تھی۔ ایک روز پہلے بارش ہوئی تھی، اُس وقت بدستور بادل چھائے ہوئے تھے۔ اس پر جسم کو چیر کر نکل جانے والی خشک ہوا کا اضافہ، بس سے باہر کھڑے اکثر لوگ آہستہ آہستہ اس چھوٹے سے ہوٹل کے ارد گرد سمٹ آئے جو قریب ہی واقع تھا۔ سوائے ہوٹل والے کے جو چولھے کے پاس بیٹھا چائے بنا رہا تھا۔ تقریباً سبھی سردی سے کانپ رہے تھے۔ ماسٹر نذر حسین نے اپنے جسم پر ایک بار مزید کھیس کو اچھی طرح لپیٹتے ہوئے، اپنی جیب کو ٹٹولا کہ کہیں اُس میں رکھے ہوئے پیسے گر تو نہیں گئے۔ جب پیسوں کی موجود گی کا یقین ہو گیا تو اُس نے دل ہی دل میں حساب کرنا شروع کر دیا۔ اتنے پیسے آنے جانے کے کرایہ کے لیے، اتنے آگے چل کر ٹانگہ کے لئے اور اتنے چھوٹی بچی کے جوتوں کے واسطے جو چلتے وقت بچی کی ماں نے خرید لانے کو کہے تھے۔ باقی تین روپے بچتے تھے۔ کسی اتفاقیہ خرچے کی خاطر۔۔ ۔ دیکھا جائے گا۔ اِن میں سے ایک روپے کی چائے کی پیالی تو پی جا سکتی ہے۔ ماسٹر نذر حسین نے لہٰذا ہوٹل والے کو جھجکتے ہوئے چائے بنانے کا کہہ دیا۔
چائے بنانے کا کہنے پر ماسٹر نذر حسین کے دل میں فتح مندی اور امارت کا احساس ابھر آیا۔ وہاں پر چائے پینا صاحبِ حیثیت لوگوں کی علامت ہے۔ وہ صاحبِ حیثیت ہے اِس بارے میں اب کون شک کر سکتا ہے۔ وہ اس تاثر کے تحت سڑک پر بنے سنگِ میل پر سے اُٹھ کر ہوٹل کے چھپر میں پڑی چارپائی پر آ کر بیٹھ گیا۔
تھوڑی دیر میں چائے بن کر آ گئی۔ ایک چھٹانک چائے کی پیالی کے اندر کیونکہ پیالی کی استطاعت ہی اس حد تک تھی اور دو تولے چائے پرچ میں، اس نے جلدی سے پہلے پرچ والی چائے کو پیا تا کہ ٹھنڈی نہ ہو جائے۔ پرچ جب فارغ ہو گئی اُس نے اس کو پرے رکھ دیا۔ اُس کی جگہ دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو لے آیا جو کپکپا رہی تھی۔ ٹھنڈی ہتھیلی پر چائے کی پیالی کو رکھ کر اس نے ہتھیلی اور بازو میں قدرے حرارت پہنچتی محسوس کی۔ کپکپاہٹ کچھ ختم ہو گئی۔ پیالی میں سے دو گھونٹ چائے پی لینے کے بعد اس نے اُس کو اسی انداز میں بائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر منتقل کر دیا کہ وہ بھی گرم ہو جائے۔ اس کے اندر اور باہر کی سردی جیسے صرف اسی طرح دور ہو سکتی تھی۔ چائے نے اپنا اثر دکھایا، گھٹنے جو سینے سے لگے ہوئے تھے نیچے آ گئے، سینہ جو سکڑ کر رہ گیا تھا کشادہ ہو گیا اور چہرے پر پیدا ہونے والی کرب کی شکنیں کچھ مدھم پڑ گئیں۔ اطمینان کی اس کیفیت میں اس نے غور سے ارد گرد نگاہ ڈالی۔
اُس نے دیکھا کہ آسمان بادلوں کی وجہ سے زمین کا رنگ اختیار کئے ہوئے ہے۔ ہوا سے درختوں کے پتے گر رہے ہیں اور ہوا میں تیزی آ جانے کی وجہ سے زمین پر پڑی ریت خشک ہو کر ہوا میں شامل ہو نی شروع ہو گئی ہے۔ اُس نے یہ بھی دیکھا کہ ساتھ والے گھر میں بندھے مویشی سردی سے دوہرے ہوئے کھڑے ہیں۔ تھوڑے سے فاصلے پر ایک درخت کے تنے کی اوٹ میں ایک بوڑھا گھی کا ڈبہ تھامے دوسری سمت کو جانے والی بس کے انتظار میں ہے۔ ایک اور چارپائی پر بیٹھے تین آدمی کسی پڑوسن کو طلاق مل جانے کے متعلق محوِ گفتگو ہیں۔ بس کے اندر حشر کا سماں ہے۔ ہوٹل سے ملحقہ کمرے کا دروازہ کھل گیا ہے۔ اور اس میں ایک آدمی جلیبیاں بنا رہا ہے۔ بس کی پرلی طرف کچھ سواریاں کھڑی بس کے ڈرائیور کو صیغہ واحد غائب میں گالیاں دے رہی ہیں۔ بس کا ڈرائیور جو ہوٹل میں کمبل تانے سویا ہوا تھا، اُٹھ بیٹھا ہے، ہوٹل کا مالک ڈرائیور کی خوشامد کر رہا ہے اور ان سب سے علیحدہ ایک تین سال کا بچہ جو ہوٹل کے پچھواڑے والے گھر سے نکل کر جلیبیاں بنانے والے کی دوکان کے سامنے آ کر جم گیا ہے۔
بچے کو دیکھ کر ماسٹر نذر حسین کے خون میں جو تھوڑی بہت چائے کی پیالی نے حرارت پہنچائی تھی یکدم ختم ہو گئی، اُس نے جب غور سے اس کو دیکھا تو اس کو لگا کہ اس کا خون جسم میں آ ہستہ آہستہ رک رہا ہے۔ بچے کے جسم پر صرف ایک میلی کچیلی قمیض ہے جس کے بٹن ٹوٹ چکے ہیں، قمیض ادھر کہنیوں تک آئی ہے اور اُدھر گھٹنوں تک، بازوؤں، پنڈلیوں اور پاؤں کو سوائے میل کے جو ان پر ہے اس سردی سے بچانے کے لیے کچھ نہیں۔ بچے کا رنگ سردی سے متغیر ہو گیا ہے اور وہ کانپ رہا ہے۔ جونہی کڑاہی سے جلیبی کا کوئی ٹکڑا جلیبیاں بنانے والی کی تمام احتیاط کے با وجود زمین پر گرتا ہے تو بچہ اس کی طرف لپکتا ہے۔ بس اسی لمحہ اس کی کپکپاہٹ رکتی ہے۔ جلیبیاں بنانے والا جب اُس کو زمین پر سے گرا ہوا جلیبی کا وہ ٹکڑا اُٹھانے سے سختی سے منع کرتا ہے تو بچہ ڈرتا ہوا اس کے منہ کی طرف اے ثانیے کے لئے دیکھتا ہے اور پھر پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ اُس پر دوبارہ کپکپاہٹ عود کر آتی ہے۔
’’ اوئے اگر جلیبی کھانی ہے جا ماں سے پیسے لے آ۔ ‘‘ کچھ دیر خاموش رہ کر جلیبیاں بنانے والے بچے کو کہتا ہے۔
بچہ پیسوں کے مفہوم سے تھوڑا سا واقف ہے لیکن اِس بات کے مفہوم سے مکمل آگاہ ہے کہ اُس کو پیسے کبھی نہیں ملیں گے۔ ماں کے پاس اگر تھوڑے بہت پیسے ہوں بھی تو وہ اس کی آرزو کو اہمیت دینے کے لیے تیار نہ ہو گی۔ وہ حسب معمول کہے کی۔ ’’ میٹھا کھانا اچھا نہیں ہوتا۔ آدمی بیمار پڑھ جاتا ہے۔ ‘‘ اسی اثناء میں گھر سے بچے کی ماں کی آواز آئی، ’’ نازے تو کدھر چلا گیا۔ واپس آؤ لکڑیاں اکٹھی کرنی ہیں۔ ‘‘
نازے نے ماں کی آواز کی طرف توجہ نہ دی۔ جلیبیوں میں دلکشی ہی اتنی تھی کہ کسی اور کی طرف توجہ نہ دینے دیتی تھیں۔ کچھ توقف کے بعد ماں نے وہی الفاظ دہرائے، اِس بار بھی جب نازے نے ماں کا کہا نہ مانا تو وہ آئی اور اُس کو غصے کے عالم میں گھسیٹ کر گھر لے گئی۔ بچے نے اس سلوک پر کوئی احتجاج نہ کیا۔ کیونکہ وہ عادی ہو چکا تھا۔
ماسٹر نذر حسین کی آنکھوں کے سامنے تصور میں اپنا بیٹا اقبال آ کر کھڑا ہو گیا۔ اس حوالے سے وہ اور غمگین ہو گیا۔ اقبال کی ماں اچھی خوراک جو گھر میں میسر ہو اقبال کو کھلاتی ہے۔ بات میسر ہونے کی ہے، کچھ میسر نہ ہو تو اقبال کے ساتھ یہی کچھ ہو گا۔
نازا کتنا نا تواں ہے۔ نازے کو کیا کچھ نہیں چاہیے۔ معاشرے کے حوالے سے، معاشرہ میں ہر بچے کو اچھی خوراک، اچھا لباس، اچھا گھر، بہت سارا پیار اور معقول تعلیم و تربیت چاہئے۔ نازا محروم ہے کیوں ؟
ماسٹر نذر حسین کے ذہن میں تھل میں اٹھنے والی آندھیوں کی طرح مختلف خیالات آنے شروع ہو گئے۔ انسان کیا فطرتاً نیک ہے۔ اگر ایسا ہے تو نازا ا س حال میں کیوں ہے۔ انسان کو دی گئی چیزوں میں سے اُس کو حصہ کیوں نہیں ملا۔ نازے کو کیوں پیدا کیا گیا۔ کیا اس کو تاریخ کا ایندھن بنانا مقصود ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسا کیوں کرتا ہے۔ معاً اس کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ وہ اللہ تعالیٰ کے کاموں کو سمجھنے سے قاصر ہے۔
اُس نے وہیں توبہ کی۔ لعنت بھیجو معاشرے کے حوالوں پر۔ کیا اچھی خوراک زندگی کا مقصد ہے ؟ قطعاً نہیں، اچھا کھا کھا کر انسان اپنے اندر مرنا شروع ہو گیا ہے۔ کیا اچھا گھر زندگی کی علامت ہے ؟ نہیں، بجائے انسان کی دیکھ بھال کرنے کے وہ انسان سے اپنی دیکھ بھال کرواتا ہے۔ اچھا لباس کیا ہے ؟ انسان کے احساسِ جمال کی ایک صورت۔ احساسِ جمال جذبہ جنس کی ضرورت ہے ورنہ اس کی اپنی کوئی اہم حیثیت نہیں۔ یہ اچھی تعلیم و تربیت جو معاشرے میں رائج ہے صرف ملازمین پیدا کر رہی ہے جو عمر بھی اپنی ذات کی خاطر و مدارت میں لگے رہتے ہیں۔ نازا تو خوش قسمت ہے کیونکہ میں معاشرے کے ان امتحانات سے تجھے نکال لایا ہوں۔
پر نازے کی اس خیالی کامیابی نے ماسٹر نذر حسین کے دل کو مکمل سکون نہ پہنچایا۔ نازے کے اپنے حوالے بھی تو ہیں۔ جلیبیاں ذائقے میں کیسی ہوتی ہیں ؟ سیب کیسی لذت پہنچاتا ہے ؟۔ دودھ اور مکھن کیسی لطافت رکھتے ہیں ؟۔ ان کے فوائد اپنی جگہ پر ان کی کشش کی نوعیت سے نازے کو آگاہ ہونا چاہئے۔ جلیبیوں کو دیکھ کر اس کے منہ سے جو رال ٹپک پڑی تھی اُس کا تو کچھ مداوا ہو۔
اتنے میں بس نے ہارن دیا ماسٹر نذر حسین چونک پڑا۔ بس کی طرف دیکھا بس تیار تھی۔ صرف اسی کا انتظار تھا، وہ بھاگا بھاگا بس کی طرف گیا۔ کنڈیکٹر اور ڈرائیور اس پر ناراض ہوئے جا رہے تھے کہ بس لیٹ ہو گئی۔ وہ جلدی میں ڈرائیور والے دروازے سے اندر داخل ہونے لگا۔ ڈرائیور نے اسے پیچھے دھکا دیا، ’’ یہ گیٹ صرف پائلٹ کے لئے ہے۔ ‘‘ وہ عام دروازے پر پہنچا، کنڈیکٹر نے اسے اندر دھکیل کر ’’ ڈبل استاد جی ‘‘ کی آواز لگائی اور بس رینگنا شروع ہو گئی۔
بس میں بیٹھے بیٹھے ماسٹر نذر حسین کو نازے کی محرومی کا حل مل گیا۔ وہ ان صاحب سے جن کے اعزاز میں جلسہ ہو رہا ہے کھڑے ہو کر عرض کرے گا کہ جمہوریت کا اثر کچھ تو نازے تک بھی پہنچنا چاہئے۔ اَس حل کے الہام پر اُس کے چہرے پر اطمینان کی کیفیت واضح طور پر دیکھی جا سکتی تھی۔
جلسہ گاہ میں پہنچ کر وہ حیران و ششدر رہ گیا۔ جلسے کا اتنا عمدہ انتظام و انصرام اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ شامیانوں، قناتوں و قالینوں کا ایک وسیع و عریض سلسلہ، صوفے و کرسیاں، جھنڈیاں، پھولوں سے بنے ہوئے دروازے، گاڑیوں کی لمبی قطار، حفاظتی پولیس کی چہل پہل اور مہمانِ خصوصی اور مہمانِ خصوصی کے ساتھ آئے ہوئے افسروں کے کھانے پینے کا بندوبست، وہ اپنی لا علمی چھپا نہ سکا۔ اس نے ارد گرد بیٹھے ہوئے لوگوں سے پوچھنا شروع کیا۔ ’’ اس اہتمام پر کتنا خرچہ ہوا ہو گا؟ کیا یہ سب کچھ سرکار کی طرف سے ہے ؟ اگر سرکار کی طرف سے نہیں ہے تو کیا یہ سردار محمد اکرم نے کیا ہے جو اس علاقے کا سردار ہے۔
’’ کیا اس اہتمام میں عوامی چندوں کا بھی کچھ حصہ ہے ؟‘‘ ساری باز پرس کا جو جواب اُس کو ملا اُس کا لُب لُباب یہ تھا کہ اس بندوبست کا زیادہ خرچہ مقامی نمائندوں نے زکواۃ فنڈ سے نکالا ہے۔ اِس کے ساتھ ساتھ لوکل کونسلوں کے فنڈ سے کچھ رقم آئی ہے یہ سب فرضی کاروائی کے ذریعے ہوا۔ خرچ کا کچھ حصہ مختلف سرکاری مدوں میں ہیر پھیر کر کے پیدا کیا گیا ہے۔ کچھ لوگوں سے مختلف مراعات جیسے کہ اسلحہ لائسنس وغیرہ ہیں، کے بدلے میں بٹورا گیا ہے اور کچھ رقم مقامی بڑے لوگوں بشمول سردار محمد اکرم نے اپنے نام کی لاج رکھنے کی خاطر دی ہے۔ یہ سب کچھ ملا کر ڈیڑھ لاکھ روپیہ بنتا ہے۔
ٹھیک ہے، ماسٹر نذر حسین نے سوچا۔ مہمانِ خصوصی کے سامنے عرضداشت پیش کرنے کے لئے اُس کو واضح دلیل مل گئی ہے، وہ کہے گا، ’’ حضور ! آپ کے دورے پر آنے والے خرچ سے مجھے انداز ہو گیا ہے کہ ملک غریب نہیں۔ ہمارے پاس اتنے ذرائع ہیں کہ ہم نازے کے لئے کبھی کبھی آٹھ آنے کی مٹھاس کا بندوبست کر سکیں۔ ہم جمہوریت کے دور میں رہ رہے ہیں، لہٰذا ہر فرد اپنی ایک اہمیت رکھتا ہے۔ نازے کے متعلق آپ کو پہلے سے معلوم ہوتا تو وہ اتنا نا تواں، نحیف اور مجبور نہ ہوتا۔ میں آپ کے نوٹس میں لا رہا ہوں۔ اُس کے جسم کو اِس عمر میں مٹھاس کی واضح ضرورت ہے۔ اُس کے لئے کچھ کر دیجئے۔ آپ اس عرضداشت کا بُرا نہ منائیں۔ آپ کی حیثیت قوم کے باپ کی سی ہے۔ آپ سے نہ کہیں تو کس سے کہیں ‘‘
جلسہ شروع ہوا۔ تلاوت کلامِ پاک کے بعد مقامی نمائندوں کی طرف سے بڑی بڑی تقریریں ہوئیں۔ زیرِ کار اور آئندہ کے منصوبوں پر دل کھول کر اظہارِ خیال ہوا۔ عوامی فلاح و بہبود کے بے شمار منظر دکھائے گئے اور خدمتِ خلق کے ان گنت وعدے ہوئے۔ آخر میں مہمان خصوصی کی طرف سے خطاب شروع ہوا۔ اپنی تقریر کے دوران جب وہ مقامی نمائندوں کو یہ نصیحت کرنے پر پہنچے کہ لوگوں کی اس سے بڑھ کر خدمت کریں، تو ماسٹر نذر حسین نے محسوس کیا کہ بات کا یہ موزوں موقع ہے، وہ کھڑے ہو کر بات کر ڈالے۔ باوجود کوشش کے وہ کھڑا نہ ہو سکا۔ نہ جانے کہاں سے تصویر کا دوسرا رخ اس کے دماغ میں آ گیا۔ اچھائی کی خاطر ابتدائے آفرینش سے آج تک کئی لوگوں نے آواز اٹھائی۔ کونسا یہ جہان سدھر گیا۔ اچھائی کی خاطر بولنے والوں کو زندہ دفن کر دیا گیا، جلا دیا گیا یا قتل کر دیا گیا۔ یہی حشر اُس کا ہو گا۔ اُس کی نہ صرف ملازمت جائے گی بلکہ جلسے کے منتظمین اُس کی پٹائی بھی کر دیں گے جو جان لیوا ہو سکتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ مقامی اسٹنٹ کمشنر اُس کی اِس حرکت کو اپنی کار کردگی میں مداخلت سمجھ کر قید کر دے۔ اُس کے اپنے بچے نازے بن جائیں گے۔ لہٰذا وہ اچھائی کی خاطر کیوں ذلیل ہو۔ مسئلہ صرف نازے کا ہے۔ وہ خود کچھ کرے گا۔
جلسہ ختم ہونے کے بعد وہ وہاں سے اٹھ کر بازار میں آ گیا۔ ایک بلیڈ خریدا، علیحدگی میں جا کر بلیڈ سے اپنی جیب کاٹی۔ بچی کی جوتی کے واسطے جو رقم لایا تھا اُس کا گڑ خرید کر نازے کے گھر پہنچا آیا۔ بیوی کو کہا کہ شہر میں جیب کٹ گئی لہذا جوتی نہیں لا سکا۔
ہر ماہ ایک دھڑی گُڑ وہ نازے کے گھر پہنچا آتا تھا۔ وہاں چونکہ اچھائی کی کوئی ایسی روایت نہیں، لہٰذا اُس کے اِس فعل سے جو لوگ واقف ہیں اُن میں سے آدھے یہ سمجھتے ہیں کہ ماسٹر نذر حسین بے وقوف ہے، جو اس طرح لوگوں میں چیزیں بانٹتا پھرتا ہے، اور باقی آدھے یہ سوچتے ہیں کہ ماسٹر نذر حسین کے نازے کی ماں سے ناجائز تعلقات ہیں، ورنہ کون کسی کے لیے کچھ کرتا ہے۔
٭٭٭
راستہ
چالیس سال کی ہی عمر میں احمد عظیم کو یقین ہو گیا کہ زندگی ایک عذاب ہے جوبتدریج شدت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آغاز میں یہ ایسی نہیں لگتی تھی۔ اس وقت یہ ایک اڑن طشتری کے روپ میں تھی، جس پر بیٹھ کر وہ لذتوں اورمسرتوں کے خوابوں میں سے گزرا کرتا تھا۔ عمدہ گھر، خوبصورت لباس، مست کر دینے والی خوشبوئیں، کھانے پینے کی اعلیٰ اعلیٰ اشیاء، کیمرے، کیسٹ پلیئر، ٹیلی وژن، وی سی آر، ہوٹل، پارک، بازار اور صحت افزا مقامات مقصد حیات لگتے تھے۔ ان کو پا کر دل شادمانی سے جھوم اُٹھتا تھا۔ ان سب سے بڑھ کر شادی جو خلد بریں کا ویزا لگی۔ اب غور کیا تو پتہ چلا کہ یہ سب تو محض رنگ دار کاغذ تھے جن میں جینے کی تلخیاں لپیٹ کراس کو پیش کر دی گئیں۔ جو بہت جلد پھٹ گئے۔ وہ یہ جانتا تھا کہ زندگی بذاتِ خود برائی یا عذاب نہیں ہے۔ اس کوایسا اس جہان کے تقاضوں اور اس جہان کے واقعات نے بنا دیا ہے۔ ہر آدمی اپنے فائدے کی جنگ لڑ رہا ہے۔ ان میں سے اکثر فائدے کے حصول پر نظر رکھتے ہیں۔ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ فائدے کے حصول کے لیے جو ذریعہ اختیار کیا گیا ہے وہ جائز ہے کہ نہیں۔ ان کے نزدیک جھوٹ، فریب، عاجزی، ظلم، سفارش، رشوت، اور عزت و آبرو کی قربانی سب بجا ہیں بشرطیکہ مقصد حاصل ہو جائے۔ انداز ہائے معاشرت نے ہر آسائش اور ہر نعمت کو اذیت اور زہر میں بدل دیا ہے۔ ڈاک کے لفافے سے لے کر عدالت سے انصاف تک کے لئے کسی نہ کسی کے منہ کی طرف دیکھنا پڑتا ہے، کسی کی منت کرنی پڑتی ہے، کسی کی سفارش کرانا پڑتی ہے اور کسی کو رشوت دینی پڑتی ہے۔ کسی شعبے میں کسی کام کرنے والے کو ذرا یہ کہہ کر تو دیکھ لیا جائیکہ وہ دوزخ میں جانے سے بچے۔ وہ اپنے حق میں کم از کم ایک درجن دلیلیں دے گا۔ اس کی کسی ایک دلیل کا جواب نہیں بن پڑے گا کہ اس کو اپنے کام کے لیے جب ان مراحل سے گزرنا پڑتا ہے تووہ کیوں ایسا نہ کرے۔ اس نے رشوت دے کر گھر میں بجلی لگوائی ہے تو فائیل پر نوٹ لکھنے کے لیے وہ کیوں نہ کسی سے پیسے لے۔ تاجر طبقہ چھوٹے سے لے کر بڑے تک اپنی کمی اپنے انداز میں پوری کر رہا ہے۔ وہ کم تولتا ہے، ملاوٹ کرتا ہے اور نمبر دو مال نمبر اول کے طور پر بیچتا ہے۔ کسان اور مزدور اپنی اہمیت علیحدہ جتا تے ہیں۔ جہاں جہاں ان کی یونینیں ہیں ان کے ذریعے یہ من مانی کرتے ہیں۔ جہاں ان کی یونینیں نہیں یہ جرائم کاسہارا لینے سے بھی نہیں چوکتے ہنر مند اور کاریگر بڑے کھلے دل سے تاجر طبقے کی پیروی کرتے ہیں۔
کمائی کی خاطر اشیاء کی تیاری یا مرمت میں وہ ہر قسم کا ہیر پھیر کرتے ہیں۔ مذہبی لیڈر اپنی بقا فرقہ واریت کی نشو و نما میں سمجھتے ہیں۔ آئے دن ان کی وجہ سے کوئی نہ کوئی ہنگامہ ہوتا رہتا ہے۔ ان کے اپنے مفادات ہیں طلباء کووسیع پیمانے پر سیاست کی لت پڑ گئی ہے۔ یہ لت اسی طرح اقتصادی ضرورتوں کی پیدا کردہ ہے۔ جرائم پیشہ لوگوں کی فراوانی نے خود زندگی پربھروسہ ختم کر دیا ہے۔ ان سب سے بڑھ کر امور جہاں بانی جو سب سے زیادہ نفع بخش کاروبار کی شکل اختیار کر گئے ہیں۔ دوستیاں لینے اور دینے کے عمل پر موقوف ہیں اور رسم و رواج جان لیوا ہیں۔ پیسہ زندگی کی سب سے بڑی قدر ہے۔ جس کے پاس پیسہ نہ ہو اور وہ درست طور پر زندگی گزارنا چاہتا ہو اس کی یہاں کوئی جگہ نہیں وہ ہر قدم پر سولی کاسامنا کرے۔
انسان کی فطری خصوصیات بھی تو قابل ستائش نہیں۔ حسد، نفرت، بغض، غصہ، رقابت، و جاہ طلبی وہ اپنی سرشت میں بدرجہ اتم رکھتا ہے۔ اپنے ان پہلوؤں کے تحت اس نے اس زمین کو جو کچھ بنا رکھا ہے وہ سب سامنے ہے۔
اس کی اپنی چھوٹی سی دنیا میں ایک قیامت قائم ہے۔ والدین اور والدین کی سمت والے رشتے داراس کو اپنی طرف کھینچتے ہیں جب کہ بیوی اورسسرالی رشتے دار اپنی طرف، ان کی اجتماعی اغراض بھی ہیں اور انفرادی بھی ہیں ان سب رشتوں کی تہہ میں الوسیدھا کرنے کی روح کار فرما ہے۔ سب محبت کرتے ہیں مگر صرف اس وقت جب ان کی پسند، ناپسند اور ان کی ضروریات کا خیال رکھا جاتا ہے۔
وہ جب بھی ہمارے پاس بیٹھتا مسلسل اس عذاب کا ذکر کرتا۔ ایک دن تنگ آ کر ہم نے اس کی مشکل کا حل اپنی اپنی سوچ کے مطابق اس کے سامنے فیصلہ کن انداز میں پیش کیا۔ عابد علی نے کہا کہ زندگی نام ہی مرمر کے جئے جانے کا ہے۔ وہ ڈٹ کر مشکلات کاسامنا کرے۔ عبد اللہ نے کہا کہ وہ ہوا کا رخ دیکھ کر چلے۔ جو دوسرے کر رہے ہیں وہی کچھ وہ کرے۔ ناصر احمد نے ترکِ دنیا کا مشورہ دیا۔ میں نے کہا کہ وہ جس انداز میں رہ رہا ہے۔ وہ درست ہے۔ ان میں سے کوئی حل اس کو قابل قبول نہ لگا۔ یہ دیکھ کر ہم سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ ان میں سے کوئی حل اس کو قابل قبول نہیں تو ایک آخری حل رہ جاتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ خود کشی کرے۔ یہ حل یقینی ہے۔ اس گفتگو کے ایک عرصے بعد مجھے خیال آیا کہ ہم نے احمد عظیم کو تنہا چھوڑ کر اچھا نہیں کیا۔ وہ ہمارا دوست تھا۔ پریشانی میں ہمیں اس کاساتھ دینا چاہیے تھا۔ ہم نے الٹا اس کی پریشانی میں اضافہ کر دیا ہے۔ وہ ہم سے کچھ مانگتا تو نہیں تھا۔ ہمارے سامنے مصرف اپنی پریشانی کا ذکر کرتا تھا۔ ہمارے سامنے اپنی پریشانی کا اظہار کر کے وہ کچھ ہلکا ہو جاتا تھا۔ میں چنانچہ احساس شرمندگی کے ساتھ اس کے پاس چلا گیا۔ اس کو مل کر مجھے معلوم ہوا کہ وہ نہایت اطمینان اور خوشی سے زندگی گذار رہا ہے۔ میرے سامنے اس نے نہایت سکون کے ساتھ معمولات زندگی کے متعلق باتیں کیں اور اپنی پریشانی کے متعلق ایک لفظ تک نہ کہا۔ میں چونک اٹھا اور اس سے پوچھے بغیر نہ رہ سکا ’’احمد عظیم آپ کی زندگی میں یہ انقلاب کیسے آیا۔ ؟‘‘
’’ میں نے خود کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے جہاں میرے نزدیک کسی کی اہمیت نہیں۔ نیز میں کسی کے سامنے دست سوال دراز نہیں کرتا۔ ‘‘ اس نے مسکراکر میرے سوال کا جواب دیا۔
’’اچھا یہ بات ہے، چلو کسی سوچ نے تو آپ کوسہارادیا۔۔ مجھے آپ کو خوش اور مطمئن پا کر راحت ملی ہے۔ ‘‘ میں نے اپنے جذبات کا اظہار کیا اور واپس آ گیا۔ میں نے آ کر اس میں خوشگوار تبدیلی کادوستوں کو بتایا۔ یہ اطلاع پا کر میری طرح وہ بھی چونکے ہم سب نے حسب سابق دوبارہ اس کو ملنا شروع کر دیا۔ اس نے البتہ ہمیں ملنے کی کبھی ضرورت محسوس نہ کی۔ اس کی اس سوچ کے نتیجے میں یقیناً ہماری اس کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رہی تھی
افسوس کہ اس کی یہ کیفیت زیادہ عرصہ برقرار نہ رہ سکی۔ آہستہ آہستہ پھر سے ہم نے اس کو پریشانی میں مبتلا پانا شروع کر دیا۔ اس بار لیکن وہ شدت نہیں تھی۔
تھوڑے دنوں بعد ہم دوستوں کا حلقہ ٹوٹ گیا۔ میں ملازمت سے ریٹائر ہو گیا۔ میرا بیٹا فوج میں نو شہرہ تعینات تھا۔ میں اس کے پاس منتقل ہو گیا۔ عابد علی کو صوبہ سرحد میں واقع ایک شوگر مل میں بہت اچھی ملازمت کی پیش کش ہوئی۔ وہ یہاں سے وکالت چھوڑ کر شوگر مل میں ملازمت کے لیے چلا گیا۔ عبد اللہ کو زمین دار بننے کا شوق تھا۔ ضلع میں کم قیمت پر اس کو دو مربعے اراضی مل گئی وہ اس اراضی پر جا بیٹھا، پیچھے صرف ناصر احمد رہ گیا۔ وہ اکیلا رہ جانے کی وجہ سے زیادہ تر اپنا فارغ وقت اپنے گھر میں رہ کر مطالعے میں گزارنے لگا۔
ناصر احمد سے میری خط و کتابت رہتی تھی۔ ایک دن اس کے ایک خط کے ذریعہ مجھے علم ہوا کہ احمد عظیم میں اچانک ایک بار پھر تبدیلی آئی ہے۔ وہ مکمل سکون کے ساتھ رہ رہا ہے۔ مجھے یقین نہ آیا۔ وہ کسی واقعہ سے متاثر ہو کر بحال ہو گیا ہو گا۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد وہیں آ جائے گا۔ باوجود اس سوچ کے اس کے متعلق مجھ میں ایک تجسس پیدا ہو گیا۔ وہ کب تک پرسکون رہتا ہے۔ میں نے اپنے ہر خط میں ناصر احمد سے پوچھا کہ کیا وہ ٹھیک جا رہا ہے۔ ہر بار اس نے جواب دیا۔ کہ وہ مکمل پرسکون جا رہا ہے۔ میں نے وجہ معلوم کرنے کو کہا تو ناصر احمد نے لکھا کہ وہ ملتا نہیں ہے۔ نہ مل سکنے کی وجہ سے وہ اس سے اس کے سکون کا سبب پوچھنے سے قاصر ہے۔ اس نے اپنے طور پر تحقیق کی ہے لیکن کچھ معلوم نہیں ہو سکا۔
چھ سالوں تک جب مسلسل مجھے یہ اطلاع ملی کہ احمد عظیم خوش رہتا ہے تو مجھے یقین ہوچلا کہ اس نے مکمل نروان حاصل کر لیا ہے۔ اب وہ شاید کبھی اس پریشانی میں مبتلا نہیں ہو گا۔ میرا تجسس زیادہ شدید ہو گیا۔
مجھے اپنے سابقہ دفتر سے ایک سرٹی فیکٹ کی ضرورت پڑی۔ میں جب یہ سرٹی فکٹ لینے گیا تو اپنا تجسس دور کرنے کے لئے احمد عظیم کے ہاں جا دھمکا۔ اس سے بغل گیر ہونے کے بعد میں نے اس کو مخاطب کیا۔ ’’ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ آپ اب مکمل طور پر سکون سے رہ رہے ہیں۔ یہ سکون آپ کوکیسے حاصل ہوا؟‘‘
اس نے مجھے صوفے پر بیٹھایا اور خود ساتھ بڑی کرسی پر بیٹھ گیا۔ کرسی کی پشت کاسہارا لیتے ہوئے اس نے نہایت محبت سے بولنا شروع کیا۔ ’’میں نے خوشی اور اطمینان حاصل کرنے کا ایک راستہ تلاش کیا اور وہ راستہ تھا کہ کسی کی میرے نزدیک اہمیت نہ رہے۔ نیز مجھے کسی کے سامنے دست سوال دراز نہ کرنا پڑے۔ اس دریافت نے مجھے کافی کچھ سکون دیا۔ افسوس کہ مکمل سکون نہ مل سکا۔ ایک تھکا دینے والی تلاش کے بعد میں نے پایا کہ اس مقام سے آگے ایک اور مقام ہے۔ وہ مقام یہ ہے کہ میری بھی کسی کے نزدیک کوئی اہمیت نہ ہو۔ نیز میرے سامنے اسی طرح کوئی دستِ سوال دراز نہ کرے۔ اس مقام تک آدمی پہنچ جائے تو دنیا کا کوئی غم اس کو چھو تک نہیں سکتا۔
اس کی بات سن کر میں چپ رہ گیا۔ مجھ سے کوئی دوسرا سوال نہ بن پڑا اور نہ آج تک بن پڑا ہے۔
٭٭
عباس خان کا کمال یہ ہے اس نے اپنی کہانی کو تجربات کی بھینٹ نہیں چڑھایا۔ عباس خان روشن دماغ ہے۔ اپنی بات روایتی انداز سے بغیر کسی ابہام کے کہتا ہے اور تجریدیت کی دوڑ میں شامل نہیں ہوتا۔ اسے یہ اعزاز حاصل رہے گا کہ اس نے کہانی کو زندہ رکھا ہے۔ بے مقصد تفصیل نگاری نہیں کی۔ زیب داستان کے لیے وہ کسی نسوانی کردار کا سہارا نہیں لیتے، کہانی کی دلکشی بڑھانے کے لیے اضافی منظر نگاری نہیں کرتے اور سنجیدہ مفکر کی طرح زندگی کی تلخ سچائیوں کو ننگا کرتے چلے جاتے ہیں۔ ان کا اسلوب مثالی ہے وہ فکری اور عملی دونوں اعتبار سے اقبال کے الفاظ میں درویش خدامست ہیں۔ ( طارق اسمٰعیل ساگر)
٭٭٭
افسانچے
ادراک
’’ کاش‘‘
’’ کیا کوئی حسرت باقی ہے ‘‘
’’ ہاں ‘‘
’’ کون سی ‘‘
’’ کاش میں ساٹھ سال کی عمر میں پیدا ہوا ہوتا‘‘
٭٭٭
گفتگو
’’ وہ گفتگو کے بلند ترین مقام پر پہنچ چکا ہے۔ ‘‘
’’ وہ تو کسی سے نہیں ملتا۔ یوں گفتگو کی نوبت ہی نہیں آتی۔ آپ کہتے ہیں کہ وہ گفتگو کے بلند ترین مقام پر ہے ‘‘
’’ خاموشی‘‘
٭٭٭
آسانی
’’ کوئی آسان کام بتاؤ ‘‘
’’ لوگوں کو نصیحتیں کیا کرو‘‘
٭٭٭
دستک
’’ سوچ سوچ کے تھک گیا ہوں۔ ‘‘
’’کیا؟‘‘
’’ باہر کی دنیا میرے اندر کے تابع ہے یا میرا اندر باہر کی دنیا کا‘‘
٭٭٭
لباس
’’ یہ لوگ مڑ مڑ کر کیا دیکھ رہے ہیں ؟‘‘
’’ ایک لڑکی کو‘‘
’’ کیا وہ بہت خوبصورت ہے ؟‘‘
’’ نہیں۔ اُس نے لباس تو پہن رکھا ہے لیکن بے لباس ہے۔ ‘‘
٭٭٭
حقیقت
’’ کیا لکھ رہے ہو ‘‘
’’ حضرت دیال سنگھ پر مضمون لکھ رہا ہوں ‘‘
’’ ہر وقت اُلٹی باتیں سوچتے رہتے ہو۔ یہ دیال سنگھ کب سے حضرت بنا ہے ؟‘‘
’’ اُس دن سے جس دن اُس نے لاہور میں لڑکوں کے کالج کا سنگِ بنیاد رکھا۔ ‘‘
٭٭٭
تین ت
’’ وہ کنویں کا مینڈک ہے۔ ‘‘
’’ وہ کیسے ؟ ‘‘
’’کیونکہ وہ ایک ملازم ہے ‘‘
’’ کیا ملازم آدمی کنویں کا مینڈک ہوتا ہے ‘‘
’’ جی ہاں ‘‘
’’ وہ کس کنویں کا مینڈک ہوتا ہے ‘‘
’’ اس کا کنویں تین ت۔۔ ۔۔ ترقی، تبدلہ، تنخواہ۔۔ ۔ ہیں ‘‘
٭٭٭
عشق
’’شبانہ کو امجد نے طلاق دے دی ہے ‘‘
’’ واقعی ‘‘
’’ بالکل درست ہے۔ وہ طلاق دینا چاہتا تھا اور وہ طلاق لینا چاہتی تھی۔ ‘‘
’’ وہ کیوں ‘‘
’’ کیونکہ دونوں کو ایک دوسرے سے عشق تھا ‘‘
٭٭٭
بلند نصب العین
’’ ماشاء اللہ، میری اولاد کا نصب العین بہت بلند ہے۔ ‘‘
’’ وہ کیسے ‘‘
’’ میری اولاد کہتی ہے کہ وہ بلند شاپنگ پلازہ بنائے گی۔ ‘‘
٭٭٭
خود کی جستجو
’’ وہ آج کل نظر نہیں آتا، کہاں گیا ہوا ہے ؟ ‘‘
’’ سفر پر نکل گیا ہے ‘‘
’’ یہ سفر کہاں کا ہے ؟‘‘
’’ اپنے اندر کی دنیا کا‘‘
٭٭٭
لیڈر
’’ آپ کے ملک کا لیڈر کون ہے ؟‘‘
’’ عوام ‘‘
’’ یہ جو جمیل احمد ہے ؟‘‘
’’ یہ تو ہمارا وزیر اعظم ہے۔ ‘‘
٭٭٭
ترقی کا راز
’’ جاپان کی اقتصادی ترقی قابلِ رشک ہے ‘‘
’’ آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں ‘‘
’’ پتہ نہیں اس ترقی کا کیا راز ہے۔ ‘‘
’’ جاپانی کر کٹ نہیں کھیلتے۔ ‘‘
٭٭٭
اندر سے
’’ کیا دیکھ رہے ہو۔ ‘‘
’’ وہ سامنے والا پھول دیکھ رہا ہوں۔ کتنا خوبصورت ہے۔ میں اس کے سحر میں گرفتار ہو کر رہ گیا ہوں۔ ‘‘
’’ اس میں اور دوسروں میں کوئی فرق نہیں۔ اس کے اندر بھی وہی زمینی کثافتیں دوڑ رہی ہیں جو دوسروں میں۔ فرق ہے تو صرف یہ کہ اس کو کچھ زیادہ کھاد دی گئی ہے لہذا اس میں زیادہ تراوٹ آ گئی ہے۔ ‘‘
’’ کچھ بھی ہو مجھے یہ بہت پسند ہے۔ پتہ نہیں اس کا کیا نام ہے ؟ ‘‘
’’ اس کا نام خوبصورت عورت ہے۔ ‘‘
٭٭٭
فرق
’’ دن اور رات میں کوئی فرق نہیں تھا‘‘
’’ کہاں ‘‘
’’ بڑے شہروں میں ‘‘
’’ وہاں تو اب بھی کوئی فرق نہیں ‘‘
’’ مجھے اب محسوس ہوتا ہے ‘‘
’’ وہ کیسے ؟ ‘‘
’’ میں بوڑھا جو ہو گیا ہوں۔ ‘‘
٭٭٭
زندگی کا پیمانہ
’’ آپ نے آج تک اس کو نہیں دیکھا، آپ کو پھر یہ کیسے معلوم ہو گیا کہ وہ قبل از وقت بوڑھی ہو گئی ہے ؟‘‘
’’ اس کی ڈریسنگ ٹیبل کو دیکھ کر، ڈریسنگ ٹیبل پر پہلے آرائش و زیبائش کی اشیاء پڑی ہوتی تھیں جب کہ اب ادویات۔ ‘‘
٭٭٭
خدا کے نزدیک
’’ طاہر کہاں چلا گیا ہے ؟ ‘‘
’’ اُس کو اللہ تعالیٰ نے بلوا لیا ہے ‘‘
’’ اوہ! وہ ایک اچھا انسان تھا، یہ خبر سن کر بہت دکھ ہوا۔ اُس کی مغفرت کی دعا کرتا ہوں ‘‘
’’ وہ مرا تو نہیں۔ ‘‘
’’ آپ ہی نے تو کہا ہے کہ اُسے اللہ تعالیٰ نے بلوا لیا ہیْ‘‘
’’ جناب وہ دیہات میں رہنے چلا گیا ہے۔ ‘‘
٭٭٭
زوال کا عروج
’’ مجھے بے حد افسوس ہے کہ ’آفتاب کی شادی شائستہ سے نہ ہو سکی حالانکہ وہ ایک دوسرے کو چاہتے تھے۔ آفتاب بلکہ اس کی محبت میں دیوانہ ہو گیا تھا۔ وہ اپنی ساری جائیداد اس کے نام کروانے کو تیار تھا۔ نیز اس نے اپنی شخصیت کو اہم بنانے کے لیے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ جب ان امور نے شائستہ کے والدین اور اس کے رشتے داروں کو متاثر نہ کیا تو اُس نے مقابلے کا امتحان پاس کیا اور ایک افسر بن گیا۔ اُدھر سے جواب پھر بھی نفی میں تھا۔ شائستہ کے والدین اور اُس کے رشتے داروں کا کہنا تھا کہ لڑکا کم تریں ذات سے ہے۔ دوسرے ہر جگہ شائستہ کا ذکر کر کے اُس نے انہیں بدنام کیا ہے۔ ‘‘
’’ آپ کو پتہ نہیں کہ آفتاب کی شادی شائستہ سے اب ہو گئی ہے۔ ‘‘
’’ کیا کہا ؟ یہ شادی کیسے ہوئی؟‘‘
’’ آفتاب نے رہائش جو امریکہ میں اختیار کر لی ہے۔ ‘‘
٭٭٭
عظمت کا حصول
’’ وہ مشہور ادیب ہے۔ ‘‘
’’ آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ ‘‘
’’ کیسے ؟ ‘‘
’’ وہ ادیب مشہور ہے ‘‘
٭٭٭
رہائش گاہ
’’یہ جہان ایک جہنم ہے لہٰذا میں اس میں نہیں رہتا‘‘
’’ تو پھر آپ کہاں رہتے ہیں ‘‘
’’ اپنے خیالوں میں ‘‘
٭٭٭
ڈوبنے والے
’’ کچھ ڈوبنے والے پار لگتا دیکھ رہا ہوں ‘‘
’’ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں، ڈوبنے والے بھی کبھی پار لگے ہیں ‘‘
’’ بالکل‘‘
’’ وہ کیسے ‘‘
’’ اللہ پاک کی محبت میں ڈوبنے والے ‘‘
٭٭٭
سمندر کوزے میں بند کرنا
’’ دریا کوزے میں بند کرنا۔ یہ محاورہ میں نے سنا ہے۔ اس کا مطلب مجھے ماسٹر عالمگیر نے بتایا تھا۔ سمندر کوزے میں بند کرنا ْ یہ محاورہ آج کل سنا ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے۔ ‘‘
’’ سامنے دیکھئے اور سمجھ جائیں ‘‘
’’ میرے سامنے تو یونیورسٹی ہے۔ میں اس سے کیا سمجھوں ‘‘
’’ دو کمروں پر مشتمل ایک مکان میں یہ پرائیویٹ یونیورسٹی ہے۔ اس کو کہتے ہیں سمندر کوزے میں بند کرنا۔ ‘‘
٭٭٭
عادل
’’ آپ ہر وقت اسلامی عدالت کی اہمیت جتاتے رہتے ہیں، کیا یہ انگریزی طرز کی عدالتوں سے جو اس وقت کام کر رہی ہیں مختلف ہوتی ہیں ‘‘
’’ بالکل، اس سے انصاف اور اُس کی فوری فراہمی یقینی ہوتی ہے ‘‘
’’ کیا مطلب ‘‘
’’ انگریزی طرز کی عدالتوں میں کام کرنے کا طریقہ اہم ہوتا ہے جب کہ اسلامی عدالت میں جج۔ ‘‘
٭٭٭
یافت
’’ ریٹائر ہونے پر کیا محسوس کرتے ہو؟‘‘
’’ بہت خوش ہوں کیونکہ میں نے کسی کو پھر سے پا لیا ہے۔ ‘‘
’’ وہ کون ہے ‘‘
’’ خود میں۔ ‘‘
٭٭٭
اعتراف
’’ وہ سامنے شامیانے کے نیچے بہت سارے لوگ کھانے میں مصروف ہیں کیا یہ کسی کی دعوتِ ولیمہ ہے۔ ؟‘‘
’’ نہیں ‘‘
’’ کسی کی منگنی کی دعوت ہے ‘‘
’’ یہ بھی درست نہیں ‘‘
’’بیٹا پیدا ہوا ہو گا‘‘
’’ غلط‘‘
’’ تو پھر خیرات ہو گی‘‘
’’ آپ کا یہ خیال بھی صحیح نہیں ‘‘
’’آخر یہ دعوت کس سلسلے میں ہے ‘‘
’’ ایک نقاد نے ایک شاعر کا ذکر اپنی کتاب میں کر دیا ہے۔ اس خوشی میں اُس نے دعوت کا انتظام کیا ہے ‘‘
٭٭٭
ادراک
’’ وہ کچھ بدل گیا ہے ‘‘
’’ جی ہاں ! مشاہدے کی غرض سے، ایک رات، بیابان میں جب کہ ہو کا عالم تھا اور چہار سو چاندنی پھیلی ہوئی تھی اُس نے تنہا گزاری ہے۔ ‘‘
٭٭٭
الم ناک تضاد
’’ دنیا کا سب طاقت ور جذبہ کون سا ہے ؟ ‘‘
’’ محبت ’’
’’ دنیا کا سب سے کمزور تریں جذبہ کون سا ہے ؟‘‘
’’ یہ بھی محبت ہی ہے۔ ‘‘
٭٭٭
محبت۔۔ ۔ شاعر سے
’’ وہ اس قدر خوبصورت لڑکی ہے لیکن ایک بد شکل اور بے ڈھنگے مرد کے لئے ہلکان ہو رہی ہے، کہیں وہ پاگل تو نہیں ہو گئی‘‘
’’ وہ بہت سمجھدار ہے۔ جس مرد کے پیچھے وہ بھاگ رہی ہے وہ بہت مقبول شاعر ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ لوگ اس کی شاعری کا محرک اس کو سمجھیں۔ ‘‘
٭٭٭
دوسرا کنارہ
’’ یہ کون ہے ‘‘
’’ یہ اسلم کے باپ کی نقل ہے ‘‘
’’ کیا مطلب‘‘
’’ یہ اسلم کا سوتیلا باپ ہے ‘‘
٭٭٭
گھر
’’ ہمارے دوست ناظم علی نے ہماری محفل میں آنا چھوڑ دیا ہے، اس کی وجہ توذرا معلوم کریں۔ ‘‘
’’ مجھے معلوم ہے ‘‘
’’ کون سی وجہ ہے ‘‘
’’ اس کے گھر والوں سے تعلقات اچھے ہو گئے ہیں۔ ‘‘
٭٭٭
ارتقا
’’ وہ چوری کرتا پکڑا گیا ‘‘
’’ وہ بے وقوف ہے اُسے پتہ ہونا چاہئے تھا کہ ملک میں چوری کی جگہ اب ڈاکوں نے لے لی ہے۔ ‘‘
٭٭٭
ایک محاورہ
’’ ایک مقامی محاورہ کا مطلب تو بتائیں ‘‘
’’ وہ محاورہ سنائیے ‘‘
’’ ایک سانپ اور پھر اُڑنے والا۔ ‘‘
’’ اس کا مطلب بالکل واضح اور آسان ہے۔ بہت بڑا افسر ہونا اور وہ بہت بڑا افسر عورت ہو۔ ‘‘
٭٭٭
انسان
’’ وہ آدمی نہیں رہا۔ ‘‘
’’ کیا وہ کچھ اور بن گیا ہے ‘‘
’’ جی ہاں وہ اپنی حدود سے اوپر نکل گیا ہے۔ ‘‘
٭٭٭
چور
’’ گیٹ پر گھنٹی کون بجا رہا ہے۔ ‘‘
’’ ابا جی آپ سے میران ملنے آیا ہے۔ ‘‘
’’الماری چھت پر سے قرآن پاک اُٹھا کر الماری کے اندر رکھ دو، الماری کو تالہ لگا دو اور پھر میران کو اندر بلا لو۔ ‘‘
’’ ابا جی آپ ان سے قرآن پاک کیوں چھپا رہے ہیں ‘‘
’’ ہو سکتا ہے وہ نظر بچا کر وہ اس پر بطور مصنف اپنا نام لکھ ڈالے ‘‘
٭٭٭
مصنف
’’ اس سال محب لاہوری کا مجموعہ۔ اپنا حیدر آبادی کا مجموعہ، محسن گجراتی کا مجموعہ اور قدر دان فیصل آبادی کا مجموعہ شائع۔۔ ۔۔ ‘‘
’’ یہ آپ نے کیا پڑھنا شروع کر دیا؟۔ ‘‘
’’ اس سال کا ادبی جائزہ‘‘
٭٭٭
زندگی
’’ زندگی جرم کیوں بنا دی گئی
’’آپ غلط سمجھے زندگی جرم تو نہیں ‘‘
’’ اگر یہ جرم نہیں تو اس کی سزا موت کیوں رکھی گئی۔ ‘‘
معیار
’’ شاہدہ ایک بہت اچھی شاعرہ ہے۔ نا معلوم ہمارے نقادوں، گانے والوں، تذکرہ نگاروں نے اس کو کیوں نظر انداز کر رکھا ہے۔ ‘‘
’’ اس لئے کہ وہ بے چاری خوبصورت نہیں۔ ‘‘
٭٭٭
مصروفیت
’’ آپ سب سے زیادہ مصروف کب ہوتے ہیں ‘‘
’’ جب میں فارغ ہوتا ہوں۔ ‘‘
٭٭٭
طاقتور
’’پولیس ہمارے ملک کا سب سے طاقتور محکمہ ہے۔ آپ خوش قسمت ہیں کہ اس محکمہ میں ملازم ہیں ‘‘
’’ آپ نے کیسے اندازہ لگایا کہ پولیس کا محکمہ سب سے طاقتور ہے۔ ‘‘
’’ اس لیے کہ اکثر لوگ آپ کو منتھلی دیتے ہیں۔ ‘‘
’’ اگر یہ بات ہے تو طاقتور ہم نہیں بلکہ لوگوں کا ایک اور گروہ ہے ‘‘
’’ وہ کون سے لوگوں کا گروہ‘‘
’’ صحافیوں کا۔ ہم انہیں منتھلی دیتے ہیں۔ ‘‘
٭٭٭
پاکیزگی
’’ آپ اس بات پر کیوں خوش ہیں کہ لوگ دھڑا دھڑ دیہاتوں سے شہروں کا رخ کر رہے ہیں ؟‘‘
’’ اس لئے کہ دیہاتوں کی پاکیزگی یوں برقرار رہے گی۔ ‘‘
٭٭٭
تشکر: ارشد خالد جنہوں نے اس کی فائلیں فراہم کیں
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید