فہرست
پیش لفظ
ہمارے بچپن میں رواج تھا کہ رات سونے سے پہلے بزرگ بچوں کو کہانیاں سنایا کرتے تھے۔ یہ کہانیاں عموماً بادشاہوں، جنوں پریوں، پچھل پائیوں، جنگلی جانوروں، پرندوں، اللہ کے نیک اور سخی بندوں کی ہوا کرتی تھیں۔ زیادہ تر کہانیاں دلچسپ ہونے کے علاوہ سبق آموز بھی ہوتی تھیں۔ وہ زمانہ ٹیلی ویژن، انٹرنیٹ اور سمارٹ فون سے قبل کا تھا۔ کہانی سنتے ہوئے بچے اپنے بزرگوں کے بہت قریب ہو جاتے اور بہت کچھ سیکھ لیتے۔ کہانیوں سے اپنی دلچسپی کو میں اسی دور سے منسوب کر سکتا ہوں۔
نصاب کے علاوہ پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ سکول کی لائبریری کی شاید ہی کوئی دلچسپ کتاب پڑھنے سے بچ گئی ہو۔ بڑے ہوئے تو خصوصی قربت اپنے سب سے چھوٹے ماموں سے تھی جو اُردو ادب سے خصوصی لگاؤ رکھتے تھے۔ انہوں نے خود بھی منظور احمد ممتاز اور پھر احمد منظور کے نام سے لکھے جو اُس وقت کے معروف ادبی رسائل میں چھپے۔ اُن کے ہاں کتابوں کی الماریاں کلاسیکی اُردو ادب، انگریزی، فرانسیسی اور روسی نثر پاروں کے اُردو تراجم سے بھری رہتی تھیں اور یہ خزانہ میری دسترس میں تھا جس سے میں نے خوب فائدہ اٹھایا۔ انہی ماموں کے ساتھ میں نے اوائل عمری ہی میں متعدد بار پاک ٹی ہاؤس جا کر حلقہ ارباب ذوق کے اجلاس دیکھے اور بڑے بڑے نامور ادبا اور شعراء کے درشن کئے۔ شومیِ قسمت کہ میرے عزیز ماموں جوانی ہی میں فوت ہو گئے اور اُردو ادب اُن کی مزید تخلیقات سے محروم رہ گیا۔
مجھے سائنس کے مضامین سے کم رغبت اور اُردو، انگریزی اور فارسی سے خصوصی لگاؤ نے انگریزی ادب کے میدان میں پہنچا دیا۔ گریجوایشن تک جناب امان اللہ خان آسی ضیائی رامپوری اور جناب شہرت بخاری صاحب جیسی نابغۂ روزگار شخصیات سے اکتساب کا شرف حاصل ہوا۔
لکھنا اوائل عمری ہی میں شروع کر چکا تھا جو اس وقت کے اخبارات کی زینت بنا اور کالج میگزین وغیرہ میں بھی چھپتا رہا۔ پنجاب یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ماسٹرز کیا پھر مقابلہ کا امتحان پاس کر کے نوکری جو شروع کی تو خاصی دیر لکھنا بالکل موقوف رہا۔ کچھ سال پہلے بیوروکریسی کی آخری سیڑھی بھی چڑھ گئے تو دوبارہ لکھنے کی طرف توجہ دینا شروع کی۔
میں کسی مجبوری میں نہیں لکھتا۔ دل سے لکھتا ہوں اور دل کے کہنے پر لکھتا ہوں۔ اپنے ملک کے ہر صوبہ میں کافی لمبے عرصہ تک رہنا نصیب ہوا، درجنوں ملک دیکھے۔ سو وہ لکھتا ہوں جس کا مجھے پتہ ہو۔ کہانی میں جی کر لکھتا ہوں۔ مزہ لے کر لکھتا ہوں۔
میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے اپنی تحاریر جناب اسد محمد خان اور شکیل عادل زادہ جیسی نابغۂ روزگار شخصیات کے سامنے پیش کرنے کا موقع نصیب ہوا۔ انہوں نے کمزوریِ صحت کے عذر کے باوجود کمال مہربانی اور شفقت سے میرے پڑھے اور رائے سے نوازا۔ مستند و معروف نقاد جناب حمید شاہد صاحب نے فلیپ تحریر فرمایا۔ معروف شاعر، افسانہ نگار محقق، نقاد، ایف۔ سی کالج یونیورسٹی کے شعبۂ اُردو کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر اختر شمار صاحب نے سبپڑھے اور تعارف تحریر فرمایا۔ معروف و مستند افسانہ نگار، ڈرامہ نویس، محقق اور نقاد جناب اصغر ندیم سید، معروف و معتبر ناول نگار جناب محمود ظفر اقبال ہاشمی اور میرے پسندیدہ نثرنگار جناب عرفان جاوید نے کمال محبت اور مہربانی سے مفصل تنقیدی تحاریر سے نوازا۔ اِن اکابرین کا لکھا میری کتاب کے ماتھے کا جھومر اور میرے لئے باعثِ فخر و مباہات ہے۔
معروف شاعر اور ناشر جناب خالد شریف نے کتاب کی نوک پلک درست کی اور ان کے مؤقر ادارہ ’’ماورا‘‘ سے یہ میری دوسری کتاب چھپ رہی ہے۔
کتاب کی ترتیب و تزئین میں میرے ساتھی صغیر حسین کی دلچسپی اور محنت کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہو گی۔ میں سب احباب و اکابرین کی محبت کا دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔
جاوید انور
(لاہور)
۸ اپریل ۲۰۱۷ء
پیش لفظ بار دوئم
الحمد للہ۔ "برگد" کی پذیرائی خوب ہوئی۔ پہلا ایڈیشن ایک ہی ماہ میں ختم ہو گیا۔ پبلشر ادارہ ماورا پبلیکیشنز سے تقاضہ ہوا کہ دوسرا ایڈیشن شائع کرنے کی اجازت دی جائے۔ میں منتظر تھا کہ کتاب جید ناقدین اور سینئرادبا تک پہنچ جائے، کچھ تبصرے آ جائیں تو دوسرا ایڈیشن چھاپیں۔ تقاضے نے شدت اختیار کی تو دوسرا ایڈیشن جلد نکالنا پڑا۔ عام طور پر اپنی تحریر میں اغلاط کی نشاندہی مشکل ہوتی ہے۔ اس سلسلہ میں تعاون کی درخواست کے ساتھ معروف نقاد و افسانہ نگار جناب محمد ہاشم خان (ممبئی۔ ہندوستان) کو نسخہ بذریعہ کوریئر سروس بھجوا دیا۔ اُنہوں نے کمال مہربانی سے پڑھ کر کتابت کی کچھ اغلاط نشان زد کیں جو درست کر لی گئی ہیں۔ ہاشم خان صاحب ہی کے مشورہ سے نیا ایڈیشن خط نوری نستعلیق کی بجائے فیض نستعلیق میں پیش کیا جا رہا ہے۔ اُن کا تبصرہ بھی اس ایڈیشن میں شامل ہے۔
اشاعت اول کے لئے معروف نقاد جناب محمد حمید شاہد صاحب کا تبصرہ موصول ہونے تک کتاب چھپ چکی تھی۔ فلیپ کور پر جگہ محدود ہونے کی وجہ سے مکمل تحریر نہ چھپ سکی۔ اس کا مجھے قلق تھا۔ اشاعت دوئم میں یہ گراں قدر تبصرہ مکمل شائع ہو رہا ہے۔ افسانہ "شارقہ" کو ذرا مختصر کر دیا ہے۔ کچھ بہت عمدہ اور معتبر تبصرے موصول ہو چکے ہیں۔ بہت سے زعماء نے بڑی حوصلہ افزائی فرمائی اور تفصیلی تبصرے بھیجنے کا وعدہ فرمایا ہے۔ اگر اس ایڈیشن میں شامل کروں تو کتاب کی ضخامت بڑھ جائے گی۔ انشاء اللہ علیٰحدہ چھپوانے کی کوشش کروں گا۔ سید صغیر حسین صاحب اور جناب خالد شریف صاحب نے حسب سابق موجودہ ایڈیشن کی اشاعت میں بہت مدد کی ہے۔ اُن کا شکر گزار ہوں۔
جاوید انور
۲۵ جون ۲۰۱۷ء
تعارف
برگد پہ محو خواب ہیں سو رنگ کے طیور
جاوید انورسے بالمشافہ ملاقات نہیں ہے مگر پچھلے چند روز سے میں ان کے افسانوی کرداروں کی صحبت میں ہوں۔ اِس طرح میری ان سے بھی شناسائی ہونے لگی ہے۔ اِن کی کہانیوں سے متعارف ہوتے ہوئے، جاوید انور سے باقاعدہ ملاقات کا تجسس اور اشتیاق بڑھ گیا ہے۔ تخلیق سے خالق تک رسائی کا سبب میری حیرت ہے۔ جاوید صاحب کے بارے میں یہی علم ہوا ہے کہ اِن کی یہ کہانیاں پہلی بار شائع ہو رہی ہیں گویا وہ نئے لکھنے والے ہیں۔ میری حیرت یہی ہے کہ کیا کوئی نیا لکھنے والا، اِس قدر گہرا مشاہدہ، تجسّس اور برجستگی کا حامل ہو سکتا ہے؟ کہا جاتا ہے کہ کہانی بھی ایک جوہری مادے کی طرح ہوتی ہے، بظاہر اَن دیکھا مگر انتہائی قوت آمیز۔ اِس کا معمولی لَمس بھی ذہن پر گہرے نقوش چھوڑ جاتا ہے۔ کہانی لکھنے والے کے ذہن پر خیال کی صورت نازل ہوتی ہے، کبھی یہ خیال بالکل معدوم ہوتا دکھائی دیتا ہے تو کبھی قطعی واضح اور نمایاں، بعض اوقات تو یہی خیال کئی دیگر واقعات و تصورات سے مَس ہو کر ’اَنہونے‘ موضوع کی صورت دمکنے لگتا ہے۔
بلاشبہ خیال عطا ہے۔ ہمارے اردگرد، معاشرہ کتنے ہی متنوع رنگوں میں دِکھائی دیتا ہے۔ آس پاس کے لوگ، ان کے روّیے، احساسات و جذبات، محبت، نفرت، تعصب، حسد بغض اور اخلاقی اوصاف سے مزین کردار ہمیں متاثر کرتے ہیں۔ انہی میں سے بعض کردار’ان مٹ‘ نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔
جاوید انورکو اللہ ربّ العزت نے وہ نظر عطا کی ہے جو گہرائی میں اُتر کر نتائج اخذ کرتی ہے۔ ان کا مشاہدہ گہرا اور دل شدتِ احساس سے معمور ہے۔ وہ معمولی سے واقعے کو بھی فن پارہ بنانے کے ہنر سے آشنا ہیں۔ تبھی تو یقین نہیں آتا کہ یہ کہانیاں کسی نئے لکھاری کی تخلیق کردہ ہیں۔ میرا ذاتی قیاس یہ ہے کہ وہ لکھنے میں نو آموزہر گز نہیں بلکہ اُن کی ’تخلیقات‘ تاخیر سے منظر عام پر آ رہی ہیں۔ ممکن ہے وہ مدت سے لکھ رہے ہوں مگر انہیں شائع کرانے کا خیال ہی نہ آیا ہو یا پھر روزمرّہ مصروفیات کے سبب ادھر توجہ ہی نہ دے سکے ہوں۔
جاوید انور کی کہانیاں پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ ان کی بنیادی محبت، زمین ہے۔ وہ زماں سے زیادہ زمین سے لگاؤ رکھتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ان کے ہاں انسانی زندگی کے چھوٹے بڑے ہنگامہ خیز واقعات، کہانی کا روپ دھار لیتے ہیں۔ اُن کی کہانیوں کے کرداروں میں ایک رنگارنگی اور بوقلمونی، ان کی کہانیوں کو قوس قزح بنائے ہوئے ہے۔
موضوعاتی اور اسلوبیاتی، دونوں سطحوں پر ان کے افسانوں میں وسعت اور کشادگی محسوس کی جا سکتی ہے۔ اُن کا فن بظاہر معمولی دکھائی دینے والے واقعات کی گہرائی میں اتر کر، غیر معمولی پہلوؤں کو اجاگر کرتا ہے لیکن یہ غیر معمولی پہلو، بعید از قیاس ہرگز نہیں ہوتے۔ ان کے ہاں دیہی معاشرت کے وہ گہرے نقوش نمایاں نظر آتے ہیں جو ہماری تہذیبی و ثقافتی خلفشار کا نمونہ دکھائی دیتے ہیں۔ ’’برگد‘‘ کے تقریباً سبھیان کی فنی چابکدستی اور مہارت کا بہترین نمونہ ہیں۔ قاری کہانی کے ساتھ ساتھ اس کے کرداروں کی زبان اور جملوں سے بھی لطف اندوز ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ’’برگد‘‘ کے ایک کردار ’گاماں میراثن‘ کا حلیہ ملاحظہ کیجئے :
’’گاماں میراثن کا نام جس نے بھی غلام بی بی رکھا ہو گا اس نے زیادہ غور و فکر نہیں کیا ہو گا۔ اس کی ملاحت، گھڑی گھڑائی شکل، سیاہی مائل پتلے ہونٹ، تُرشی ہوئی سُتواں ناک اور شبِ دیجور کا جمالیاتی اسرار لیے بڑی بڑی شرارتی آنکھیں غلاموں کی سی نہیں تھیں۔ اس کی تیکھی سلونی ناک پر دمکتا چاندی کا کوکا کسی مہکتی سُرمئی شام میں اظہار کے طالب اوّلین ستارے جیسا ہی تھا۔ وہ جب جوانی کی دہلیز پر پہنچی تو کسَی ہوئی کمان نکلی۔‘‘
آگے چل کر وہ لکھتے ہیں:
’’جب بھی وہ اٹھکیلیاں کرتی، آدھی چلتی آدھی اڑتی، رنگیلی بڑی بیٹھک کے سامنے سے گزرتی تو جان بوجھ کر چوری سے اُدھر دیکھتی۔ اچھو سے ٹاکرا ہوتا تو انجانی خوشیاں برقی رو بن کر اس کے جُثے میں کوند جاتیں۔ اس کا رُواں رُواں بج اُٹھتا اور وہ خود کو لال سائیں کے اکتارے کی کسی ہوئی تار محسوس کرتی جو انگلی کے ایک اِشارے کی منتظر کہ مَس ہو اور سُر بکھیرنے لگے ۔‘‘
عزیز قارئین! آپ جاوید انور کی یہ کہانیاں پڑھ کر دیکھیں تو آپ کو محسوس ہو گا کہ اِن کہانیوں کے مختلف کرداروں کے نین نقش، ایک خاص اسلوب میں دل پر نقش ہونے لگتے ہیں۔ ان کے ہاں احساس کی دھیمی آنچ میں پکی ہوئی، سلاست و سادگی سے مرقّع کہانیاں ماحول اور کردار کی مطابقت میں رچی بسی نظر آتی ہیں۔
’’یہ کوئی بڑی ملاقات نہیں تھی کوئی خاص تعارف نہیں تھا لیکن جانے کیوں فرخ کو ایسا لگا کہ جب اس کی سیاہ کرولا ٹاور سے نکل کر دائیں مڑی تو اس کے جسم اور روح کا کوئی حصہ بائیں مڑ گیا۔‘‘
بعض کہانیوں میں پنجاب کے دیہی ماحول کی جھلکیاں بھی متاثر کرتی ہیں۔
’’وہ چاچے کی بیلوں کو مارنے والی چھڑی کی ہر ضرب پر پنجابی میں دُہائی دے رہی تھی
’’وے اوتریا نکھتریا! کھسماںنوں کھانیاں میرے تے ظلم نہ کر، مینوں نہ مار۔ اے تیری وی جمی ہوئی اے‘‘ ۔ (غرض)
’’چھیداں کی بھٹی کی رونق گاؤں کی مٹیاروں اور چھوٹے بچوں کے لیے شام کے معمولات میں اہم حیثیت رکھتی تھی۔ مکی، چنے، گندم، جَو، چاول، مسور غرضیکہ جو بھی غلہ لایا جاتا، چھیداں کی بھٹی کو قبول ہوتا۔ کڑاہی کی گرم ریت میں بھن کر جو سوندھی خوشبو پھیلتی تو گاؤں کا ایک چوتھائی مشرقی حصہ مہک جاتا‘‘ ۔ (بھٹی)
میں جان بوجھ کر کہانیوں کے مرکزی خیال کی بجائے ان کے منظر نامے کے مختصر اقتباس پیش کر رہا ہوں تاکہ قاری خود کہانی تک پہنچ کر حظ اُٹھا سکے۔
جاوید انور کے منظر نامے، کرداروں کی زبان اور اسلوب قاری کو اپنے حصار میں لے لیتا ہے اور وہ دیر تک مصنف کے مشاہدے اور گہری نظر پر حیران رہ جاتا ہے۔ ان کی ایک کہانی ڈیبیٹ کا ایک جملہ ملاحظہ ہو:
’’لڑکیوں کے دھو کر، بالکونیوں میں سکھانے کے لیے لٹکائے کپڑوں میں کئی مردانہ دل ٹنگے رہتے۔ تفریحی دورے اور گانوں کے کورس کبھی الوداع نہ کہنا۔‘‘
آپ نے جاوید انور کو شاید زیادہ ادبی رسائل و جرائد میں نہ پڑھا ہو مگر ان کے شعری مجموعے کے بعد ان کی کہانیوں کا یہ پہلا مجموعہ ’’برگد‘‘ قارئین کی توجہ حاصل کرنے میں ضرور کامیاب ہو گا۔
آئیے اور برگد کے نیچے بکھری کہانیوں میں کھو جائیے بقول بیدل حیدری:
؎ برگد پہ محو خواب ہیں سو رنگ کے طیور
آہستہ بول پنکھ نہ لگ جائیں رات کو
ڈاکٹر اختر شمارؔ
۳مارچ ۲۰۱۷
تنقیدی مضامین
برگد
جاوید انور کے افسانوں میں زندگی مختلف سطحوں پر کروٹیں لیتی محسوس ہوتی ہے۔ یہ چھتنار برگد جیسی اونچی اور گھنی زندگی بھی ہے، جس کے گہرے سائے سے خوف اُمنڈتا ہے اور جسے کٹ کٹ کر آخر کار معدوم ہونا ہوتا ہے اور لاچاری کی جھونپڑیوں میں سسکتی کر لاتی زندگی بھی کہ جو کھوٹے پیسے کی طرح اپنی قدر کھو چکی ہے۔ یہ وہ گری پڑی زندگی بھی ہے کہ جس کی ضمانت کلائی پر بندھی گھڑی نہیں ہوا کرتی اور بچی ہوئی سوکھی روٹی، باس مارتے سالن اور پھٹی ہوئی شلوار جیسی بوسیدہ ہو جانے والی زندگی بھی، جس کے کلاوے سے کوئی نکلنا چاہے تو بھی نہیں نکل پاتا۔ زندگی کا ہر روپ ہر ہر سطح پر جاوید انور کا موضوع ہوا ہے۔ لطف یہ ہے کہ اس کتاب کے پہلے ’’برگد‘‘ سے لے کر آخری ’’آخری رات‘‘ تک ہم نارسائی کی مختلف جہتیں دیکھ رہے ہوں یا رائیگانی کی مختلف صورتیں، متن سے دور نہیں جاتے۔ دور جا ہی نہیں سکتے کہ جاوید انور کے قلم کا جادو کہیں تو لفظ لفظ کو بہشتی کی مشک سے بہتے پانی کے اچھلتے قطروں کی طرح تھرک تھرک کر چمکتے موتیوں جیسا بنا رہا ہوتا ہے اور کہیں متن کو اس غیر مرئی ہاتھ کا سا، جو پڑھنے والے کے دھیان کو ویران اُجڑی ہوئی حویلی جیسی زندگی سے نکال کر اپنے نرم نرم لمس کے طفیل بامعنی ارتفاع عطا کر دیتا ہے۔
جاوید انور کو اپنی بات کہانی میں ڈھال لینے اور اس کہانی کو سادہ واقعات کی کھتونی بنانے کی بجائے، لشٹم پشٹم گزرتی زندگی کی گہری علامت بنانے اور پھر اس علامت کو اپنے جادوئی بیانیے سے بھیدوں بھرا اَفسانہ بنا لینے کا ہنر آتا ہے۔ اگرچہ یہ جاوید انور کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ہے، مگر اِن کے افسانوں میں زبان و بیان کا جس خوبی سے استعمال ہوا ہے، جس چابکدستی سے سطروں کو قدرے سادہ مگر عمومی سطح سے بلند رکھ کر متن میں بُن لیا گیا ہے اور اپنی بات ہر حال میں کہہ ڈالنے کی بجائے اسے واقعات میں گوندھ کر جس طرح قاری کی حسوں پر پھوار کی صورت برسایا گیا ہے، یہ سب افسانہ نگار کے وسیع مطالعے اور زندگی کے گہرے مشاہدے کی خبر دیتا ہے اور پھر یہ ایسا قرینہ ہے کہ ایک عمر کی ریاضت کے بعد عطا ہوا کرتا ہے۔ ان افسانوں کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ قرینہ جاوید انور کو عطا ہوا ہے۔
محمد حمید شاہد
۲۸مارچ ۲۰۱۷
برگد … نئے افسانوی مزاج کی دنیا
اردو افسانہ اپنے موضوعاتی تنوع کے ساتھ تکنیک اور ہئیت کے نئے زاویے دریافت کرتا رہا ہے، بیانیہ بدلتا رہا ہے، مزاج میں تجربات ہوتے رہے ہیں لیکن حقیقت پسندانہ اور زندگی آمیز تجربوں کا بیانیہ ہر بدلتے مزاج میں موجود رہا ہے۔ اب تو اردو کی تاریخ ایک سو سولہ سال تک جا پہنچی ہے، پھر بھی کہانی وہی مزہ دیتی ہے جو ہمارے مشاہدے اور تجربے کے قریب ہو۔ روزمرہ زندگی میں ایسی کشش ہوتی ہے کہ قاری ان میں آسودگی محسوس کرتا ہے۔ البتہ عالمی فکشن میں مختلف زبانوں میں جو تجربے ہو رہے ہیں ان کے اثرات بھی ہمارے آج کے پر بے حد واضح ہیں۔
جاوید انور کے نئے افسانوی مجموعے ’برگد‘ کے افسانوں کا مزاج موضوعاتی اور حسیّاتی سطح پر اپنے معاشرتی فیبرک سے جڑا ہوا ہے۔ اس لئے ان افسانوں میں تکنیک کے نئے تجربے جو عالمی فکشن میں ہو رہے ہیں وہ موجود نہیں ہیں، لیکن آج کی زندگی سے یہ لبریز ہیں۔ جاوید انور نے اس مجموعے کا نام ’برگد‘ سوچ سمجھ کے رکھا ہے کہ تاریخی اعتبار سے برگد لوک دانش اور صوفیاء کے مسکن کی حیثیت میں اپنی علامتی پہچان رکھتا ہے۔ پاکستانی معاشرے کی زندگی بہت سی جہتیں اور بہت سی فکری لہریں اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ جاوید انور نے اپنی زندگی کے تجربوں کو ذاتی مشاہدے کی بنیاد بناتے ہوئے معاشرے کے تضادات، منافقتوں اور خود فریبیوں کو کئی پہلوؤں سے دیکھا ہے۔ یوں تو ہمارا طبقاتی معاشرہ کئی سطحوں پر بٹا ہوا ہے اس لئے ہر طرف ایسے کردار موجود ہیں جو دو رُخی زندگی گزار رہے ہیں اور ایسے بھی موجود ہیں جو خود فریبی میں پناہ لے کر خود کو محفوظ سمجھتے ہیں۔ اس طرح طبقاتی سطح پر استحصال کی کئی شکلیں جاوید انور کے ان افسانوں میں بخوبی دیکھی جا سکتی ہیں۔ اب اگر ہم ان کا تجزیہ کریں تو پاکستان کا معاشرتی سفر اِن افسانوں میں سمٹ آیا ہے۔ اگر ہم اپنی ابتدائی زندگی میں دیہات اور قصباتی سطح پر کرداروں کو دیکھیں تو وہ زندگی اور اس کی بو باس بھی ذہنی مزاج کے ساتھ موجود ہے۔ نچلے طبقے کے کرداروں میں معاشی، اخلاقی اور معاشرتی سطح پر محرومی کی مختلف شکلیں دکھائی دیں گی اور پھر Urbanization کے نتیجے میں جو اضطراب اور شکست و ریخت پیدا ہوئی ہے اس کا تجربہ بھی ان افسانوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اخلاقی اور روحانی گراوٹ کے کئی پہلو اپنے رُتبے، منصب اور اقتدار کی بنیاد پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ ہر سطح پر انسانی استحصال کے نئے سے نئے طریقے ہماری سوسائٹی میں موجود ہیں۔
ایک خاص بات جو اِن افسانوں میں موجود ہے وہ بدلتی ہوئی زندگی میں ٹیکنالوجی اور آئی ٹی کا انقلاب ہے۔ جاوید انور نے آج ان کے استعمال کو زندگی میں بدلتی ہوئی اقدار کے حوالے سے دیکھا ہے۔ انٹرنیٹ، سوشل میڈیا اور موبائل فون کے انقلاب نے ہماری زندگیوں میں جگہ بنا لی ہے اور اس کے اخلاقی اور معاشرتی پہلوؤں نے ہمیں جتنا متاثر کیا ہے اسے ان افسانوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اگرچہ یہسادہ بیانیے میں لکھے گئے ہیں لیکن ان میں ایمائیت، ایجاز اور اشاریت سے کام لیا گیا ہے جو کسی بھی افسانہ نگار کی خوبی ہوتی ہے۔ اپنے قاری پر اعتماد کرتے ہوئے بہت کچھ اَن کہا رہنے دیا ہے جسے قاری آسانی سے سمجھ بھی لیتا ہے اور اس سے رمزیت کی فضا بھی قائم ہو جاتی ہے۔
ان افسانوں میں ایک نئی افسانوی دنیا کو ہم پا سکتے ہیں۔
اصغر ندیم سید
برگد- ایک تعارف
اجی صاحب برگد کا کیسا تعارف۔۔ ۔ کہ حرفِ عام میں اس چھتنار کا تعارف تو اس کا گھنا سایہ، پھیلاؤ، پراسراریت اور اس کی بزرگی ہے۔ حرفِ خاص میں برگد کا تعارف مقصود ہو تو جاوید انور صاحب کے افسانوں کے مجموعے ’’برگد‘‘ کا مطالعہ کیجیے۔ آپ کو یوں محسوس ہو گا گویا برگد کے نیچے نشست لگائے کسی microcosm نما حیرت کدے میں مقیّد ہیں اور اس قید سے آزاد بھی نہیں ہونا چاہتے۔ میری طرح شاید ہی کوئی ہو گا جس کے حلق سے یہ حقیقت با آسانی اتر سکے گی کہ یہ جاوید انور صاحب کی اوّلین ادبی کاوش ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ اس کے حرف حرف اور سطر سطر میں برسوں کی ریاضت اور گلے میں پکّے ہوئے سُر بولتے ہیں!
افسانہ ’’برگد‘‘ کسی طلسم کدے سے کم نہیں۔ مسحورکن بیانیہ، تشبیہات و استعارات کا ایک رنگین میلہ ہے بلکہ بحیثیت مصور برملا کہوں گا کہ یہ دیہی اور قدرتی منظر کشی کی حامل ایک کلاسیک پینٹنگ ہے جس میں عظیم برطانوی مصور ٹرنر اور جان کانسٹیبل، فرانسیسی مصور کلاڈ مونیٹ، امریکی مصور تھامس کول اور ہمارے استاد اللہ بخش کے برش سٹروکس کی مہارت اور لطافت ہے۔ ’’برگد‘‘ میں نظمیہ رفعت بھی بدرجۂ اتم موجود ہے اور اس میں ورڈزورتھ، جان کلیئر، ولیم بلیک جبکہ نثر میں ہارڈی، ایلیٹ اور سب سے بڑھ کر احمد ندیم قاسمی کا سا ذائقہ موجود ہے۔ ’’برگد‘‘ میں جاوید انور صاحب نے جس کمال مہارت سے گاماں میراثن اور اچھو کا نقشہ کھینچا ہے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے دونوں زندہ جاوید مجسّم بن کر گویا عین سامنے آن کھڑے ہوں۔ اسلوب اس قدر جاندار ہے کہ گاماں کی تیکھی سلونی ناک پر دمکتے چاندی کے کوکے کی چمک واقعی آنکھوں میں پڑتی محسوس ہوتی ہے، اس کے ناگن جیسے بل کھاتے لمبے بال، بِنا دیکھ ریکھ کبھی چوٹی میں گندھے، کبھی کھلے جہاں جھولتے‘ پر نظر واقعی نہیں ٹکتی، لال سائیں کے اِک تارے کی کَسی ہوئی تار پر انگلی رکھتے ہی واقعی سر بکھر جاتے ہیں، اس کے سفید دانتوں کی نورانی لکیر کی چمک واقعی آنکھوں کو خیرہ کرتی ہے، وقت کا بدمست، بے پرواہ اور منہ زور دریا واقعی قاری کے عین سامنے دائیں بائیں کاندھے مارتا گزرتا صاف دکھائی دیتا ہے!
جاوید انور صاحب پنجاب کے گاؤں کی زرخیز مٹی سے اُگے ہیں سو اِن کی تحریر اور منظر کشی میں پنجابی زبان کی تاثیرو ذائقہ جتنا کوٹ کوٹ کر بھرا ہے، اتنا ہی سواد بھی بھرا ہے :
’’اس دن پتہ نہیں کیا غضب ہوا کہ مٹی اڑاتی لال آندھی چاروں طرف سے چڑھ دوڑی۔ وا ورولے (گرد باد) سلگتی گرم دوپہر کی ساری گرمی چوس کر زمین سے اٹھتے تو گھمن گھیریاں کھاتے آسمان تک پہنچتے۔ گندم کی کٹی فصل کی ناڑیاں، پرانے اخبار، پوھلی کے کٹے زرد خاردار جھاڑ، خشک پتے اور ٹہنیاں، کپڑوں کی غلیظ بوسیدہ دھجیاں اور چیل کوؤں کے مُردار پَر، جو بھی راستے میں آیا واورولوں نے پکڑا اور چکریاں دے کر آسمان پر چڑھا دیا۔ ہوا کا غصہ کم ہوا تو کثیف، مٹ میلے وسیاہی مائل بادل چاروں اور سے پہنچے اور گاؤں بھاگل پور پر چھا گئے ۔‘‘
اور پھر زمانہ بدلنے کے بعد ’’برگد‘‘ کے بکنے کا سفر اس قدر تکلیف دہ ہے کہ قاری کو اپنی آنکھوں سے خون رِستا صاف محسوس ہوتا ہے!
’’آخری گجرا‘‘ کے حرف حرف اور سطر سطر میں بظاہر پونے گنے کی ٹھنڈی میٹھی گنڈیریوں کی سی مٹھاس ہے۔ لیکن بین السطور ہمارے محنت کش طبقے کی روز مرہ زندگی سے جڑی درماندگیوں کی شدید کڑواہٹ ہے۔ محترم جاوید انور صاحب نے اس زندگی اور اس سے جڑے کرداروں کا نقشہ کچھ اس مہارت سے کھینچا ہے کہ یہ افسانہ کسی hyper realizm کے پیروکار، ایک مشّاق مصور کا شاہکار فن پارہ محسوس ہوتا ہے اور یہ تقریباً نا ممکن ہے کہ اس کو پڑھتے ہوئے قاری آنسوؤں کی ملاحت کا شکار نہ ہو۔ ’’آخری گجرا‘‘ میں لال گلاب اور سفید چمبیلی کی تازہ پتیوں کی ایسی بھینی بھینی مسحور کن خوشبو ہے جو مجھے یقین ہے کہ اسکو ایک بار پڑھنے کے بعد قاری کے ذہن سے کبھی محو یا معدوم نہیں ہو گی۔ یہ افسانہ نہیں، محترم جاوید انور کے مشاہداتی فن معراج اور پر کیف بیانیہ کی مدد سے تراشا ہوا ایک تاج محل ہے جس کا ذکر اردو کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ و جاوید رہے گا۔
افسانہ ’’نارسائی‘‘ پرانے ساز پر ایک بالکل نئی دھُن ہے جسے صرف جاوید انور صاحب جیسا موسیقار ہی ترتیب دے سکتا تھا۔ یہ افسانہ نہیں پرانی بیاض کے بوسیدہ صفحوں پر دھڑکتی ہوئی طویل نثری نظم ہے جسے کسی لازوال گیت کی طرح جتنی بار سنیں پہلی سماعت کا لطف انگڑائی لے کر نئے سرے سے بیدار ہو جاتا ہے اور نامعلوم وجوہات کی بِنا پر بے اختیار منیر نیازی کے شعری مجموعے کا عنوان ’’پہلی بات ہی آخری تھی‘‘ کا دھیان آتا ہے!
’’برگد‘‘ کی طرح ’’شیر‘‘ میں جاوید انور صاحب کے اندر کا ماہر Hyper realism portrait painter ایک بار پھر ایک ہی کینوس پر حسّو کے نقوش، اس کے گرد و پیش پر تعفن زندگی کے کچھار میں پڑے رہنے والے ’’شیروں‘‘ کی حقیقت پسندانہ تصویر کشی کرتے نظر آتا ہے!
’’بھٹی‘‘ کو بلا تامل احمد ندیم قاسمی کے سچے وارث کی کھری تحریر کہا جا سکتا ہے۔ اس کے اکثر جملے محمد علی ماشکی کے مشکیزہ کی طرح قاری کی پانچوں حِسّوں میں اتر کر ایسا مہمیز چھڑکاؤ کرتے ہیں کہ پڑھنے والے کی تسکین کا گویا ایک ایک مسام کھل جاتا ہے اور قرات کی زمین کا ایک ایک خشک حصہ سیراب ہو جاتا ہے :
’’محمد علی جب اپنے مشکیزے کا منہ گھڑوں کے منہ پر کھول کر پانی انڈیلتا تو دھارے سے مفرور پانی کے آوارہ قطرے یوں اچھل اچھل کر گھڑے میں داخل ہوتے جیسے موتی چمک کر، تھرک کر کسی غار میں گھستے چلے جا رہے ہوں!‘‘
مگر سچ تو یہ ہے کہ ’’بھٹی‘‘ لکھتے ہوئے جاوید انور صاحب نے آگ اور پانی، دو متضاد سماجی طبقات، سکھ اور دکھ کے درمیان ایک ایسی پر اثر اور پرسوز لکیر کھینچی ہے کہ آنے والے کئی برسوں تک لوگ انہیں ’’بھٹی‘‘ کا خالق کہہ کر یاد کریں گے!
’’کُشتی‘‘ پڑھ کر منٹو اور کرشن چندر کا بے ساختہ خیال آتا ہے، ’’بھِڑ‘‘ نوجوان نسل کی تساہل پسندی پر ایک روایت پسند کا سخت مگر بے ساختہ سٹیٹمنٹ ہے، ’’ڈیبیٹ‘‘ خزاں میں کسی سنبل کے پرانے درخت کی سوکھی ٹہنیوں سے لپٹا رومانس ہے جو اپنے بچھڑے ہوئے سرخ پھولوں کو یاد کرتا ہے، ’’غرض‘‘ ایک پرانی پہیلی پھر سے بوجھنے کی غرض سے لکھا گیا جس کے مطابق محبت پا لینے سے پہلے کبھی نہاں کبھی فغاں ہے، پا لینے کے بعد مسلسل امتحان ہے، ’’شارقہ‘‘ حقیقت کی کڑی دھُوپ میں جلی ہوئی دھنک ہے، ’’رائگانی‘‘ کھڑے پانی کی خوش فہمی ہے جو خود کو میٹھے پانی کی سرسراتی ندی سمجھتا ہے، ’’نہ خدا ہی ملا۔۔ ۔‘‘ بلند درخت کی سب سے اُونچی نازک ٹہنی پر اُلجھی کٹی پتنگ کی بِپتا ہے، ’’پِیر شناس‘‘ ایک بامعنی طویل قہقہہ ہے جس کی اساس در اصل ایک کرخت چیخ ہے، ’’دلہن‘‘ غربت کے چہرے پر معصومیت اور حسرت کا خوبصورت ترین میک اپ ہے، ’’راجہ‘‘ کم ظرف معاشرے کے اصل بادشاہوں کی سِمفونی ہے، ’’جست‘‘ فلسفۂ حیات کے اسرار اور پورے علم کی ادھوری حکایت ہے، ’’جشن‘‘ علامتی شب دیگ ہے، ’’رُوئے سخن‘‘ علامتی soliloquy کے بھیس میں ہر خود ساختہ دانشور کے گال پر ایک زناٹے دار تھپڑ ہے، ’’راطوطا صاحب‘‘ خوش گمانوں کو دی گئی ایک بامعنی اور مؤثر صدا ہے، ’’آخری بار‘‘ زندگی کو بار بار دیا گیا آخری موقعہ یا پھر غلط دھوکہ ہے، ’’آسانیاں‘‘ وہ مشکلیں ہیں جو ہم انسانوں نے بہت محنت سے پال رکھی ہیں، ’’گھر‘‘ خوف کے زرد ریپر(wrapper) میں میاں بیوی کے خوبصورت رشتے و تعلق کی مسلمہ خوش ذائقہ کینڈی ہے اور ’’آخری رات‘‘ میں وہ پہلی بات پھر سے دہرائی گئی ہے جسے ہم بار بار بھول جاتے ہیں!
’’برگد‘‘ جاوید انور صاحب کی شاعرانہ آگہی، عمیق فلسفے، گھاگ مشاہدے، عارفانہ دانش، قلمی گرفت، pastoral اور rustic عشق کا شاخسانہ ہے، یہ سحر انگیز کھلے دیہی منظروں کا آستانہ ہے اور سب سے بڑھ کر یہ گہرے تفکّر اور ارتکاز کا دولت خانہ ہے۔ جاوید انور صاحب نے اردو کی کلاسیکی روایتوں کے ارتقاء کو جس قدر خوبی سے نبھایا ہے بالکل اسی طرح اپنے قلم سے اختراع کو بھی اتنا ہی لبھایا ہے۔ میں ہمیشہ سچ کہتا ہوں، سچ کے سوا کبھی کچھ نہیں کہتا۔۔ ۔ میں تو سحر انگیز ’’برگد‘‘ کی گھنی چھاؤں تلے بیٹھ کر جاوید انور صاحب کے جادوئی قلم پر دل سے ایمان لے آیا ہوں!!!
محمود ظفر اقبال ہاشمی
۱۵ مارچ ۲۰۱۷ء
جنگل
نقش گرو فسوں ساز و فسوں گو جاوید انور صاحب کے ہاں پُرکار و خیال آفریں حکایت اپنی تمام تر ہمہ گیری اور خوبی کے ساتھ طلائی کی صورت جلوہ گر ہو جاتی ہے۔ ان کے میں تجربہ، مشاہدہ اور تخیل بیک وقت پوری طرح کارفرما نظر آتے ہیں۔ جاوید انور صاحب کے ہاں دو خوبیاں دیگر خوبیوں سے ممتاز ہیں۔ اولاً موضوعاتی تنوع، ثانیاً حقیقی زندگی کا مشاہدہ، اِدراک اور پُر پیچ و پُر تاثیر اظہار۔ جب کبھی پنڈال ادب میں سکوتِ مرگ طاری ہونے لگتا ہے تو کسی ایک جانب سے غلغلہ بلند ہوتا ہے اور کوئی فن کار اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ آ موجود ہوتا ہے۔ جاوید انور متاثر کن خوبی کے ساتھ سامنے آئے ہیں اور حیران کر گئے ہیں۔ ان کے ہاں کہانی پوری توانائی کے ساتھ موجود ہے۔ پہلے وہ کہاں تھے اور کس گوشے میں خاموشی سے کوزہ گری میں مصروف تھے، وہی جانیں۔
گھنے برگد کے درخت کا حقیقی و علامتی اظہار ہو، بند مٹھی کے کھلنے کی طرح کھلتی کہانی ہو، دیہات و قصبات کی دھول اڑاتی گلیوں میں دوڑتی بھاگتی حکایت ہو یا شہر کے متوسط طبقے کی خواب گاہوں کی مسہریوں پر دیر تلک نیند کرتا فسانہ ہو، آخری جملے تک اپنا جوبن چھپاتی نارسائی کی کہانی ہو، اپنے آپ کو پیرِ دانا سمجھتا پیرِ فرتوت ہو یا جدید روایت کے مطابق مختصر مختصر دو مونہی قصے ہوں، تمام تر عجیب و رنگین مخلوقات اس سرسبز و شاداب گھنیرے جنگل میں بسرام کرتی ہیں۔
بہ قول کسے ’’الہامی زبان فقط آسمانی صحیفوں میں نہیں بلکہ درختوں، پھولوں، بادلوں اور ستاروں پر بھی نقش ہے ۔‘‘ مصنف کی قدرت کے عناصر سے محبت اسی حقیقت کی غماز ہے۔ اُن کے ہاں حیرت زندہ ہے اور وہ یہ حیرت اپنے افسانوں کے ذریعے قاری تک منتقل کر کے اُسے صرف لطف سے ہم کنار نہیں کرتے بلکہ فکر کا سامان بھی مہیا کرتے ہیں۔ اُن کے نسبتاً طویل افسانے، مختصر افسانوں سے بڑھ کر ہیں۔ گویا وہ اپنی خوبیِ بیاں کو فصاحت اور طوالت میں بہتر بروئے کار لاتے ہیں۔
اُن کے ہاں کئی جملے حوالہ جات (کوٹیشن) کی حیثیت حاصل کر لیتے ہیں۔
’’وقت ایک بدمست لہریں مارتا دریا ہے۔ بے پروا اور منہ زور۔ دائیں بائیں کاندھے مارتا گزرتا ہی چلا جاتا ہے ۔‘‘
’’انسان کبھی ایذا جھیل کر مزہ لیتا ہے اور کبھی ایذا رسانی سے ۔‘‘
’’میں نے اطمینان سے منطقی سگریٹ سُلگا کر نفسیاتی کش لگایا اور علامتی دھواں تجریدی مرغولوں میں بدل دیا۔‘‘
ایسے بے شمار جملے کرسمس ٹری پر ٹنکے ہیں۔
زندگی کی بوالعجبیوں، انسانی فطرت کی نیرنگیوں، ماحول کے تنّوع اور فسوں گری کے عوامل پر گہری نظر رکھنے والے جاوید انور صاحب سے اُمید اور درخواست کی جاتی ہے کہ وہ اپنی جولانیِ قلم کو قائم رکھیں۔
عرفان جاوید
۱۲ مارچ ۲۰۱۷ء
میرے اجمال سے کرتی ہے تراوش تفصیل
مولانا عرفیؔ نے ایک جگہ اپنی شعر گوئی کی کیفیت بیان کرتے ہوئے کہا ہے۔
از برون لب نہ دانم چوں شود لیک آگہم
کز تہہ دل تا لبم افسانہ در خوں مے رود
بسکہ خون آلودہ خیزد دود از شمع دلم
در ہوائے محفلم پروانہ در خوں مے رود
یعنی جو حرف مطلب میرے دل کی عمیق گہرائیوں سے اٹھ کر لبوں سے باہر نکلتا ہے، میں کچھ نہیں کہہ سکتا کہ اس کے اثرو فعالیت کی کیفیت کیا ہوتی ہے، کیونکہ اس کا معیار سننے والوں کے دل و دماغ ہیں، وہی بتا سکتے ہیں کہ ان پر کیا گزری۔ البتہ یہ جانتا ہوں وہ حرف مطلب دل سے اٹھتا ہے تو لب تک آتے آتے خون میں لت پت آتا ہے۔ میرے دل کی شمع سے جو دھواں اٹھتا ہے سراسرخون آلودہ ہوتا ہے نتیجہ یہ ہے کہ میری مجلس کی فضا میں پروانہ رقص کرتا ہوا آتا ہے تو خون میں تیرتا آتا ہے۔ (غالب کی شاعری از مولانا غلام رسول مہر، نقوش، غالب نمبر ص ۶۲)
جاوید انور نے احساس کے ’کونوں کھدروں‘ کو منور کرنے والی روشنی کا جو دیپ قرطاسِ خیال کے طاق پر فروزاں کیا ہے اس کے اثر و فعالیت کی کیفیت سے شاید وہ اتنا آگاہ نہ ہوں کیوں کہ اس کا معیار پڑھنے والوں کے دل و دماغ ہیں اور وہی بتا سکتے ہیں کہ ان پر کیا گذری ہے لیکن ان کے خامۂ خونچکاں کے دشت وحشت کا سفر کرنے والے ان چھوٹے موٹے ’سوکھے برگدوں‘ میں سے ایک میں بھی ہوں جس کے ذوق قرأت کی سوکھی ڈار شجرسایہ دار کے لمس سے کچھ ’ہریائی‘ ہے۔ میرے دل و دماغ کا معیار کیا ہے میں اس سے آگاہ نہیں ہوں البتہ یہ ضرور ہے کہ برگد کے کئی افسانوں نے ’ہُم ہُم‘ کی یہی کیفیت پیدا کی ہے۔ حروف اگر فسانہ گرکے لب اظہار تک آتے آتے خون میں لت پت آئے ہیں تو حرف شناس بھی خون آلودہ حرفوں کے حلقۂ تموجِ معانی میں لہولہان داخل ہوا ہے۔ برگد، آخری گجرا، بھٹی، دشت وحشت، شیر اور نارسائی اسی قبیل کے ہیں جہاں حروف سیاہ کی زیر آب لہریں آپ کو جکڑ لیتی ہیں اور اس وقت تک حلقہ دام خیال میں رکھتی ہیں جب تک کہ کوئی خارجی طاقت دل و دماغ کے ریشوں میں موجزن فکری شرائین کے فشار کو توڑ کر متنی و معنوی حصار کی کشش سے ہم کنار و بے کنار نہیں کر دیتی ہے۔ برگد کے نرم دبیزسائے میں دہشت کے نمرودی رقص، دشت وحشت میں ماہ وش کی سامری آنکھوں میں جہاں گزیدگی کے توحش، آخری گجرا میں غربت زدہ ’شہزادے‘ کی ماضی و حال کو لمحہ جاودانی میں تحلیل کرنے کی تلافی مافات، بھٹی میں جبر و استبداد کی آگ کے خوف و خدشات، شیر میں شیروں کی روباہی اور نارسائی میں روح وصل کے نارسا ہونے کی ازلی خلش کو داستان گو نے یوں ہمارے سامنے پیش کر دیا ہے کہ انفرادی و اجتماعی دونوں طور پر ہم ہی کردار اور ہم ہی کہانی نظر آتے ہیں۔
ہندوستانی فلم ساز سنجے لیلا بھنسالی نے ’دیوداس‘ کے تعلق سے ایک سوال کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ دنیا میں ہر شخص کے اندر ایک دیوداس بیٹھا ہوا ہے۔ جاوید انور کا افسانہ ’نارسائی‘ کچھ اور نہیں بلکہ ہم تمام لوگوں کے اندر موجود اداس و ملول دیوداس اور داسی کو خراج پیش کرنا اور تہہ خاک نفس کو محبت کی شرر خیز اذیت کی حرارت پہچانا ہے اور اس کے لئے انہوں نے جو تکنیک، پلاٹ اور زبان استعمال کی ہے وہ شعری موسیقیت، کیفیت اور انجذاب و تحلیل کی امکانی قوت سے لبریز ہے۔ اسکی قرأت نے غالبؔ کے ایک خط اور غزل کی یاد تازہ کروا دی ہے۔ غالبؔ نے ۱۸۵۲ میں یہ غزل ’سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں‘ منشی نبی بخش کو بھیجی اور خط میں لکھا ’بھائی! خدا کے واسطے اس غزل کی داد دینا، اگر ریختہ یہ ہے تو میرؔ و میرزاؔ کیا کہتے تھے اور وہ ریختہ تھا تو پھر یہ کیا ہے؟ ‘ غالبؔ کو اپنی اس غزل پر بہت ناز تھا اور در اصل یہ ایک قسم کا چیلنج بھی کہ اگر یہ غزل نہیں ہے تو پھر غزل کیا ہے۔ "نارسائی" کی قرأت ختم ہوتے ہی فوری طور پر غالب کا یہی خط ذہن میں گونج پڑا کہ اگر یہ افسانہ نہیں ہے تو پھر کیا ہے؟ یہ نظم نہیں، یہ نثر نہیں، یہ کیفیت کا وہ بادۂ ناب ہے جسے ’کچھ شعریت کی حد تک صوتی و لفظی آہنگ‘ کے کوزے میں کوزہ گر نے یوں پیش کر دیا ہے کہ اُسے دیکھنے والی ہر آنکھ سرِمژگاں وفات زدہ خوابوں کے پر افشاں قطرے محسوس کرتی ہے، انہیں قطروں میں حاصلی اور لا حاصلی کا جمال، جلال اور ملال زیست کرتی ہے اور جب وہی قطرے ٹپکتے، ڈھلتے اور لڑھکتے ہوئے لب و رخسار تک پہنچتے ہیں تو زندگی نئے عذاب، خواب اور ساخت کے ساتھ زیست کے بھنور میں واپس لا پٹختی ہے اور وہ کوزہ اچانک بیک وقت جام در دست اور جنازہ بردوش نظر آنے لگتا ہے۔ دل آزار، زیست بے زار، جہنم زار۔ یہاں کوزہ گری کمال کی اس سطح کو چھو لیتی ہے جہاں کوزہ گر اپنی صناعی پر خود فسوں زدہ ہوتا ہے، اور غالبؔ جیسے بے نیاز لوگ بھی کہہ بیٹھتے ہیں اگر یہ غزل نہیں ہے تو کیا ہے۔ سو یہ کوزہ گری، یہ شعریت، یہ فسوں اور آشفتہ بیانی ہی اصل وہ فسانہ ہے جو ’ما بعد جدید عہد‘ کا قاری پڑھنا اور جینا چاہتا ہے۔
’نارسائی‘ ابتدا سے انتہا تک سحرخیز، ملال انگیز، جمال آمیز ہے۔ یادوں کے محیطِ بے کراں میں کیفیت سے لبریز محاکات کی کشتیاں تیر رہی ہیں، دشت ملال ہے، تنہائی ہے، تیر نیم کش کی خلش ہے، ہر سو سراب ہے، تشنہ کاموں کو پانی نظر آ رہا ہے، سوختہ جانوں کو راکھ میں بجھی ہوئی چنگاری، لیکن سچ یہ ہے کہ کوئی سراب پانی نہیں، کوئی راکھ شرر نہیں، اصل کے زندان میں کوئی روزن نہیں، لا حاصلی کی کرچیاں ہیں، شجر افسوس کی ٹہنیاں ہیں اور ٹہنیاں بہت خاردار ہیں۔ ایک پر تمکنت خامشی ہے، ایک پر شکوہ زندگی تہہ خاک ہے اور صدیوں کا سفر طے کر کے اس کا معشوق اس سے ملنے آیا ہے۔ آپ تصور کیجئے کہ اس نے قبر کو دیکھا ہو گا، سلام کیا ہو گا اور اسے چھوا ہو گا اور جب چھوا ہو گا تو سلام کا جواب اپنے ریشوں اور خلیوں میں اترتا ہوا محسوس کیا ہو گا، اور یہ بھی سوچئے کہ اس نے جب سلام سنا ہو گا تواس کے دل پر کیا گذری ہو گی، جواب کیسے دیا ہو گا، مکالمے کی راہ کیسے ہموار ہوئی ہو گی۔ جب آپ تخلیق کار کی طرح دوران قرأت تخلیق کے عمل سے گزریں گے تو آپ کو محسوس ہو گا کہ افسانہ اندر ہے، افسانہ باہر ہے، افسانہ قبر میں ہے اور افسانہ ٹیکسی میں منتظر باجی میں ہے۔ ’نارسائی کا ایہ اقتباس ملاحظہ کریں ’’کوئی ذی روح نہیں تھا اس وسیع و عریض مقام وحشت پر، بس ہم دو تھے اور لامتناہی پھیلاؤ کا مظہر گہرا سکوت۔۔ ۔۔
۔۔ وہ دیکھو کون آیا ہے تمہیں لینے ۔۔ ۔ جھاڑ جھنکار ہٹاتے، بچتے بچاتے لمبی خود روگھاس کو روندتے وہ مجھ تک آ پہنچا۔۔ ۔
بابوجی! باجی کہہ رہی ہیں میں تھک گئی ہوں ٹیکسی میں بیٹھے بیٹھے۔ جہاز کا وقت نکلا جا رہا ہے۔ فاتحہ پڑھ لی ہے تو اب آ جائیں۔۔ ص ۶۴‘‘ ۔
اس ابتدا اور انتہا کے درمیان جو کچھ ہے وہ ہماری اور آپ کی ناگفتنی کی جاں سوز کیفیت ہے، ہماری اور آپ کی نارسائیوں کی اذیت ہے۔ تخلیق کار کے تخلیقی عمل میں قاری جب تک شریک نہیں ہو گا وہسے لذت کشید نہیں کر سکتا، افسانہ نگار نے ایک منظر کھینچ دیا ہے، ایک مکالمہ قائم کر دیا ہے، اس منظر کی گہرائی میں قدم بہ قدم اترنا قاری کا اپنا کام ہے جو جتنا اترسکے، جو جتنا اکسپلور کر سکے، قبر، اس میں دفن زندگی، دعا اور یادوں کے آباد خرابے کا سفر قاری کو بھی طے کرنا ہے، قاری کو سوچنا ہے کہ دعا کیا مانگی ہو گی۔ وہ آباد خرابہ کیسا رہا ہو گا جس کی یہ شہزادی کبھی مکین تھی اور پھر وہ دنیا کیسی رہی ہو گی جو سلام کا جواب دیتے وقت ایک لمحے کے لئے وجود میں آئی تھی۔ اب کس کی کتنی غلطی تھی یہ بھی آپ کو سوچنا ہے اور پھر یہ بھی سوچنا ہے کہ ’باجی تھک گئی ہیں ٹیکسی میں بیٹھے بیٹھے‘ ۔
جاوید انور کی نثر میں ایک الگ ہی ردھم، آہنگ اور لے ہے، کچھ ایسی مقناطیسی ردھم جو گاؤں اور شہر کی امتزاجی فضا میں جوان ہونے والی دھانی لڑکی کی شکر فشانی میں ہوتی ہے اور یہی ردھم ان کے تمام افسانوں میں موضوعاتی تنوع اور تقاضوں کے مطابق موجود ہے۔ نہ ایک خشت آگے اور نہ ہی ایک بالشت پیچھے۔ نثر میں شعریت، بیانیہ میں رمزیت، تخیل میں رفعت اور پیشکش میں تحیر و ندرت ان کے اندر ایک معیاری شعبدہ گر کی پوشیدگی کی اطلاع دیتی ہیں۔ کوئی بھی تخلیق مکمل نہیں ہوتی، وہ اپنے اندر ایک ایسا جوف رکھتی ہے جس میں ضعف، جھول اور سقم لاشعور کے راستے در آتا ہے اور چونکہ ناقد تخلیق کار کی طرح کسی ’لا شعور کے مرزغان و آتشدان میں قلم کی روشنائی کو آنچ نہیں دکھاتا ہے اس لئے وہ آسانی سے اس ضعف کو ڈھونڈ نکالتا ہے۔ جاوید انور کے میں بھی رطب ویابس اور حشو و زوائد موجود ہیں لیکن اس انگریزی مقولے کے مصداق Devil must be paid his due انہیں خوبصورت نثری سلاست کی کریڈٹ بہرصورت ملنی چاہئے کہ زمانۂ حال کے افسانہ نویسوں میں وہ نثری پختگی نظر نہیں آتی جو انہیں بڑے، معیاری یا نمائندہ افسانہ نگار بننے کی راہ پر گامزن کر سکے۔ جاوید انور نے اگر چہ حرفوں کی شکن کو دیر سے سنوارنا شروع کیا ہے لیکن کسی بھی زاویئے سے ایسا بالکل محسوس نہیں ہوتا کہ ’برگد‘ ایک سال کی محنت شاقہ کا ثمر ہے۔ ان کے افسانوں کے مغتنمات میں نثری پختگی کے علاوہ جو وصف بہت نمایاں نظر آئے گی وہ ان کا منفرد مشاہداتی تعمق اور بات کہنے کا ڈھنگ ہے۔ ’لاخیرے شیروں‘ کی بے غیرتی پر مبنی افسانہ ’شیر‘ کا ایک اقتباس بطور حوالہ پیش ہے ’’اپنا باپ اس بوڑھے مردار بیل جیسا لگتاجس کی کھال اتار کرسیاہی مائل گلابی بدبو دار جسم جھگیوں سے پرے پھینک دیا گیا تھا۔۔ ۔۔ یک بارگی اسے ایسا لگا کہ مردار جسم اس کی ماں ہے جسے کتے اور مردار خور گدھ نوچ نوچ کر کھاتے ہیں۔ جس کی ہڈیاں بھی بیچ کھائی جائیں گی۔ اسے شدت سے محسوس ہوا کہ اس کا باپ مردار کا وہ باقی ماندہ، غیر ہضم شدہ فضلہ ہے جو بستی کے بنجر کھیت میں پڑا رہ جاتا ہے اور اُبکائیاں لاتا ہے، تا آنکہ وہ مٹی میں مل کر ناپید ہو جائے۔ شیر ص ۶۵۔ ۶۶‘‘ ’سیاہی مائل گلابی بدبو دار جسم‘ توجہ کا حامل مشاہدہ نہیں ہے؟ یقیناً ہے۔ اسمیں مشاہدے کے علاوہ طنز کا نشتر بھی خوب ہے اور یہ خواتین کے ’فیمنزم‘ سے مرعوب و مستعارنہیں ہے بلکہ عورتوں کو امپاورڈ (خود مختار) کرنے اور کرانے کے لئے ان کے قلم کی طرف سے ادنیٰ کاوش و خراج ہے۔ اور جہاں تک بات کہنے کے ڈھنگ کا معاملہ ہے تو اس کی ایک مثال اوپر نارسائی میں پیش کر چکا ہوں کہ بات تین جملوں میں مکمل ہو جا رہی ہے لیکن پھر افسانہ ہے کیا؟ لفظوں کا فسوں، کلک کا جنوں، ابہام کی وحشت، متن کی چھت کہاں ہے؟ میں نے نئے آہنگ و فرہنگ پیش کرنے والی معاصرافسانہ نگار محترمہ فارحہ ارشد کے ایک خالصتاً پوسٹ ماڈرن ’ننگے ہاتھ‘ کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا تھا ’’کل کہانی یہی ہے کہ ایک لڑکی ہے جو تقدیسی مکدرات کی بھینٹ چڑھا دی گئی ہے، وہ اپنے اس تعفن زدہ عائلی جبر سے آزاد ہونا چاہتی ہے اور آزاد ہو جاتی ہے۔ یہی بات اگر تین جملوں میں ادا کی جائے تو ’متن‘ ہے، تین سطروں میں بیان کی جائے تو ’کہانی‘ ہے اور تین ہزار الفاظ میں پیش کی جائے تو افسانہ ہے ۔۔ ۔ فسوں خیز، کیف آگیں، سحر انگیز۔‘‘ جاوید انور افسانوی فنی لوازمات کے ساتھ تین جملوں کو تین ہزار الفاظ میں تبدیل کرنے کے ہنر پر قدرت رکھتے ہیں۔ ایک اور مثال ’دشت وحشت‘ سے ملاحظہ کریں۔
’’میں اس گھسٹتی گاڑی میں کسی نوخیز، سانولی سلونی نمکین لیکن قبل از وقت مرجھائی مسلی سواری کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ میں نے تصور کیا کہ وہ کھڑکی سے لگی چھوٹی سی انفرادی سیٹ پر سمٹی سرد شیشے سے ناک لگائے متجسس اداس نظروں سے شہر سے رینگ کر نکلتی مضافات سے گزرتی ریل گاڑی کی حرکت کی لاتعلق قیدی ہو گی۔۔ ۔۔ ۔
اس نے اپنے گہرے گندمی کمزور بازو کی کہنی کھڑکی سے اندر کر لی ہو گی اور بے وقت مرجھایا چہرہ بھی پیچھے ہٹا لیا ہو گا۔‘‘
ان محولہ بالا دو جملوں کے درمیان چار صفحات کا بعد ہے اور اس میں مصنف چھوٹی موٹی کئی اور کہانیاں بیان کر گئے ہیں جسے میٹافکشن کی شاندار مثال قرار دیا جا سکتا ہے۔ اوپر جن افسانوں کا میں نے ذکر کیا ہے ان تمام افسانوں کے اندر فن کی لوازمات حسب تناسب و توازن موجود ہیں جن کی وجہ سے وہ دیگر افسانوں کے مقابلے میں زیادہ نمایاں ہو کر منصہ تسوید پر آئے ہیں اور ان میں بھی ’برگد‘ کو جاوید انور کا ’جف القلم‘ افسانہ قرار دیا جا سکتا ہے کہ وہ افسانہ اجتماعی کرافٹ پر ان کی مضبوط گرفت کی بھرپور نمائندگی کرتا ہے۔ یہ کئی ناحیوں سے ایک مکمل اور بڑے کینوس کا افسانہ ہے جس میں زبان و بیان پر قدرت کے علاوہ، مشاہدات کی پہنائی اور میٹافکشن بھی ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ برگد کا ایک اقتباس ملاحظہ کریں ’’وقت کا دریا بہتا رہا، مدتیں گزر گئیں، بوڑھے آسیب زدہ برگد نے بھی کئی موسم دیکھے اور کئی سردوگرم جھیلے، اُلُّوؤں، چِیلوں، گِدھوں اور چمگادڑوں کی نئی نسلیں آباد ہوئیں۔ گاؤں میں کئی بار سن کے پیلے، السی کے نیلے اور سرسوں کے زرد پھول کھلے اور پھر سوکھ گئے‘‘ ۔
اب اگر یہ مشاہدہ منشی پریم چند اور احمد ندیم قاسمی کی یاد نہیں دلا رہا ہے تو پھر کیا ہے؟ اس کی اصل روح انتشار کی مرکزیت میں پنہاں ہے۔ ہر کردار اپنے آپ میں ایک افسانہ ہے اور پھر سارے کردار اپنی آزاد حیثیت برقرار رکھتے ہوئے آخر میں ایک بڑے میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔کی زبان، ڈکشن، جگہ بہ جگہ مقامی بولیوں اور محاوروں سے مزین جملے اجتماعی طور پر کھردرا پن کی کیفیت پیدا کرتے ہیں۔۔ ۔۔ غیر مسطح، ناہموار، اوبڑ کھابڑ مگر لہر دار اور بل کھاتی ہوئی، روانی اور بہاؤ کو روکتی ہوئی جو کہ ایک حسن بھی ہے اور ایک قبح بھی۔ اس ضمن میں آپ اسد محمد خان کی کہانیوں کو ملاحظہ کر سکتے ہیں جہاں roughness حسن بیان میں مخصوص اضافہ کر رہا ہے، وہ اپنے میں ان رفلڈ (Un-ruffled) جیسے کئی نامانوس الفاظ استعمال کرتے ہیں اور کوئی گراں بھی نہیں گذرتا، بیانیہ میں ایک وقتی رخنہ پڑتا ہے، قاری حیرت سے رکتا ہے، سوچتا ہے اور پھر مزید ارتکاز کے ساتھ آگے بڑھتا ہے۔ ’برگد‘ میں بھی یہ ڈکشن ان لوگوں کو لئے ایک حسن ہے جو بیانیہ کی روایتی ساخت سے کچھ ہٹ کر زبان و بیان میں قدیم و جدید کا امتزاج چاہتے ہیں۔ سلمان رشدی نے ایک بار اپنی Chutnified English کے بارے میں کہا تھا کہ جن کو سمجھ میں نہیں آتی ہم ان کو سمجھانے نہیں جائیں گے، فرانسیسی اپنے غیر مروجہ الفاظ یا عام مقامی تعبیرات کو سمجھانے نہیں آتے اس لئے آپ کو بھی اگر ہماری مقامی تعبیرات کو سمجھنا ہے تو ہماری زبان سیکھیں۔ لہٰذا ’برگد‘ اپنی بُنت اور بیانیہ میں ہرچند کہ کچھ بوجھل ہے لیکن تہہ دار، قابل قرأت، سماع اور تحیر خیز ہے۔ برگد کی تفہیم آسان ہے لیکن اس کے گرد معنوی تعیین کا حصار قائم کرنا نہ صرف یہ کہ کچھ مشکل ہے بلکہ اس کی امکانی وسعت کو محدود کرنا ہے ۔میں برگد دو علامتی مفاہیم ادا کر رہا ہے۔ ایک تو یہ کہ یہ ثمر دار ہے اور دوسرا یہ کہ ثمر دار نہیں ہے اور یہی تضاد و مغائرت برگد کو اس کے روایتی افہام و استعارے سے اوپر لے کر جاتی ہے اور یہ یکا معراج بھی ہے۔ کسی میں مثبت و منفی دو متوازی مفہوم پیدا کرنا آسان کام نہیں اور یہ کام مصنف نے برگد میں بہت آسانی سے کر دکھایا ہے۔
جیسا کہ اوپر میں لکھ چکا ہوں کہ جاوید انور کا قلمی سفر کوئی ایک ڈیڑھ سال پرانا ہے اور اس قلیل مدت میں موضوعات میں ندرت اور تنوع کو برقرار رکھتے ہوئے چودہ افسانوں اور تیرہ افسانچوں پر مبنی کتاب لانا کوئی آسان کام نہیں۔ بلاشبہ یہ کاوش زبردست تخلیقی وفور اور ارتکاز کا تقاضا کرتی ہے اور انہوں نے قارئین کو مایوس بھی نہیں کیا ہے لیکن ایک چیز کی کمی بڑی شدت سے محسوس ہوئی ہے اور وہ ہے مزاحمتی رنگ کا فقدان۔ اس ’برگدی‘ قوسِ قزح میں اگر کوئی ایک رنگ مفقود ہے تو وہ مزاحمت کا رنگ ہے۔ شورش و اختلال سے پر معاشرے میں مزاحمتی رنگ کا نہ ہونا حیرت انگیز ہے خاص طور سے اس صورت میں کہ افسانہ نگار ایک سینئر بیوروکریٹ بھی ہیں اور اقتدار کے گلیاروں میں غربت و طاقت اور طبقاتی کشمکش کے جتنے رنگ انہوں نے دیکھے ہوں گے وہ صرف وہی جانتے ہوں گے۔ ’بھٹی‘ اس ضمن میں ایک عمدہ افسانہ ضرور ہے لیکن اس میں بھی مزاحمت کی اس آنچ کی کمی ہے جوکو ترفع عطا کرنے کے لئے لازمی ہے۔ یہ افسانہ طاقت و جبر کی ساخت پر مبنی ہے اور اس انسانی المیے کی رزمیہ داستان ہے جو ابتدائے آفرینش سے مقتدر اور غیر مقتدر کے درمیان کشاکش سے جاری ہے۔ مصنف نے ’بھٹی‘ میں موج کے دھارے کو یوں بل دیا ہے کہ زیر آب طغیانی نے مد و جزر کی صورت سب کچھ اتھل پتھل کر کے رکھ دیا ہے۔ سب کچھ اپنی جگہ پر ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے پرسکون سمندر کے مانند، بظاہر کوئی طغیانی نہیں ہے پھر اچانک ایک قتل ہوتا ہے اور زندگی کی بھٹی ہمیشہ کے لئے بجھ جاتی ہے۔ گاؤں کی دیہی پرسکون فضا میں پاور اسٹرکچر کو منعکس کرتا قدرے بہتر افسانہ ہے مگر جزئیات بالتفصیل اور جگہ جگہ غیر ضروری منظر نگاری نے اس کے حسن کو ماند کر دیا ہے۔ متن عمیق مشاہدے اور قلم پر افسانہ نگار کی گرفت کی غمازی ضرور کرتا ہے لیکن کرداروں کی کوئی خارجی و باطنی کشمکش نہیں، سماجی جدلیات کی کوئی کشاکش نہیں۔ رواں دواں، اکہرا، سپاٹ، مسطح اور ہموار۔۔ تہہ داری نہیں۔۔ افسانہ ’لہر دار‘ نہیں بن سکا اور نہ ہی فسوں خیز۔ جو چیز آخر میں یاد رہ جاتی ہے وہ سلامت کا قتل ہے اور یہ power tussle یا اسٹرگل کا اظہاریہ نہیں کیوں کہ قتل اس لڑکی کی وجہ سے ہوتا ہے جو گلی کے پار دور سرخ اینٹوں سے بنے مکان میں رہتی تھی اور لڑکی کی وجہ سے ہونے والا قتل پاور اسٹرگل کو ظاہر نہیں کر رہا ہے کیونکہ لڑکا اور اس کے والدین پسماندہ لوگ ہیں اور حصول طاقت و دولت کی خواہش کا کبھی کوئی اظہار نہیں ہوا ہے۔ متن ملاحظہ کریں ’’گرمیوں کی سہہ پر محمد علی گھڑے بھرنے کے بعد ہمیشہ تھوڑا سا پانی گھڑونچی کے نیچے اور اردگرد کی سلگتی زمین پر، جان بوجھ کر چھڑکتا، جس سے نمی کو ترسے کچے صحن سے مٹی کی مسحور کن خوشبو خارج ہو جاتی۔۔ ۔۔ محمد علی اور چھیداں کا آگ پانی کا یہ کھیل گاؤں کی رہتل میں یوں رچ بس گیا تھا کہ اس کے بغیر گاؤں کا تصور محال تھا۔ گویا آگ پانی کا یہ کھیل گاؤں کی زندگی کی علامت تھا۔‘‘ ص ۴۷‘‘ ۔ محمد علی سوکھی ماٹی کو زندہ کرنے والا کردار ہے اور اپنی چھوٹی سی کٹیا میں بہت مطمئن ہے لہٰذا سلامت کے قتل کو محبت کا مکافات کہہ سکتے ہیں سو یہاں بھی پاور اسٹرکچر یا پاور اسٹرگل ایک فیکٹر کے طور پر ابھر کر نہیں آ رہا ہے۔ غربت زدہ زندگی کو ختم کرنا چوہدریوں کے لئے کوئی مشکل فعل نہیں کیونکہ وہ ایسا کرتے آئے ہیں اور بات اگر چوہدری کی غیرت پر آ جائے تو پھر کسی کمی یا بہشتی کا زندہ رہنا نا ممکنات میں سے ہے۔ سلامت کا قتل اس بات پر نہیں ہوتا کہ اس کی سائیکل نئی ہے بلکہ اس بات پر ہوتا ہے کہ ’’سرخ اینٹوں سے بنے ڈیزائن والے چھدرے پردے کے پیچھے کوئی ہیولیٰ تیزی سے غائب ہو جاتا ہے‘‘ اب یہ گھر کس کا ہے؟ چوہدری کا نہیں ہے؟ وہ لڑکی چوہدری کی بیٹی نہیں ہے؟ ٹریکٹر اور ٹرالی چوہدری کی ہے جس پر لاش لائی گئی ہے اس لئے متن ہمیں چوہدری کی غیرت نفس کی طرف لے جاتا ہے اور غیرت نفس کی بنیاد پر قتل ایک عام بات ہے۔ یہاں جبر جبر نظر نہیں آ رہا ہے بلکہ یہ ایک فیشن ہے، ہاں اگر اس کا قتل چھوٹے موٹے کسانوں کے بیٹوں نے حسد اور نفرت میں کیا ہوتا توافسانہ اپنے کینوس میں مزید وسیع ہو جاتا کہ چوہدریوں کے اندر چوہدری پیدا ہو چکے ہیں یعنی کہ فورس ودھن فورس (Force within force) طاقت کے اندر طاقت کا اظہاریہ۔ یہ کی مجموعی ادبی فضا ہے جو متن کے روزن سے چھن چھن کر نمودار ہو رہی ہے۔ مذکورہ بالا اعتراضات و اشکالات کے باوجود (جو کہ غلط بھی ہو سکتے ہیں)افسانہ اچھا ہے۔ گاؤں کے خاموش اور پر سکون تالاب میں اچانک کوئی پتھر پھینک دے تو۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ جاوید انور صاحب اس نکتے کو بیان کرنے میں کامیاب رہے ہیں اور یہی کل افسانہ ہے ۔۔ ۔۔ ۔ پر سکون تالاب میں ایک پتھر سے پیدا ہونے والا ’’مد و جزر‘‘ ۔
جاوید انور نے افسانوں کے علاوہ ۱۳ علامتی اور نیم علامتی افسانچے بھی لکھے ہیں جن میں گنجینہ معنی کا طلسم بھی موجود ہے اور ابہام کا حسن بھی۔ دلھن، روئے سخن، آخری بار، راجہ اور راطوطا صاحب یوں تو کہنے کو افسانچے ہیں لیکن معنوی حجم کے اعتبار سے مکمل کا لطف دیتے ہیں۔ کہانی کے پیرہن کے دھاگوں کو ادھیڑ کرکی زنجیر بننے کی قدرت تامہ انہیں ’یار جلا ہوں‘ کی فہرست میں داخل کر سکتی ہے۔ مجموعی طور سے جاوید انور افسانوی دنیا میں ایک بہترین اضافہ ہیں اور امید کرتے ہیں کہ اگر حرفوں کے شکن کو سنوارنے کا سلسلہ مزاولت کے ساتھ جاری رہا تو اب کچھ وہ بھی پڑھنے کو ملیں گے جنہیں ہم روایتوں سے تحیر کن انحراف کے طور پر تعبیر کرتے ہیں۔ میں غالبؔ کے ایک قصیدے کے ان اشعار کے ساتھ اپنی بات ختم کرنا چاہوں گا
فکر میری گہر اندوز اشارات کثیر
کلک میری رقم آموز عبارات قلیل
میرے ابہام پہ ہوتی ہے تصدق توضیح
میرے اجمال سے کرتی ہے تراوش تفصیل
(غالب)
محمد ہاشم خان (ممبئی)
آخری گجرا
اور پھر ہماری شادی ہو گئی۔
رضیہ میرے خوابوں کی شہزادی تھی۔
میں کیا اور میرے خواب کیا۔
لیکن خواب تو سبھی کے ہوتے ہیں اور خوابوں کی شہزادیاں بھی۔
میرے پاس تھا کیا اسے دینے کو؟ پھر بھی وہ خوش تھی کہ جو کچھ چھوڑ کر آ رہی تھی وہ بھی کسی کو شہزادی نہیں بنا سکتا، بس خوابوں کی شہزادی ہی بنا سکتا تھا۔
چاچے فضل دین کی رجو میرے ہی نہیں، میرے جیسے بہت سے گئے گزرے شہزادوں کے خوابوں کی شہزادی تھی اور ہم بھی بس شہزادے ہی تھے۔
اپنی ماؤں کے شہزادے۔ تنگ، کیچڑ بھری گلیوں، بدبو دار کھلی نالیوں اور ان کے کنارے آوارہ پاخانے پر بھنبھناتی مکھیوں کے ساتھ مانوس، بغیر منہ دھوئے سارا سارا دن آوارہ گردی کرنے والے شہزادے۔
ایک دن سکول اور دو دن بابا شاہ ملنگ کے دربار پر آوارہ گھوم کر گھر لوٹ آنے والے شہزادے۔
ایک ایک جماعت میں کئی کئی سال گزار کر اساتذہ سے مضحکہ خیز القابات حاصل کرنے والے شہزادے۔
ہمیں جیسوں کو لوگ کہتے ہیں،
’’او جا تو بھی شہزادہ ہی ہے ۔‘‘
خیر!
ان حالات میں اگر رجو میرے خوابوں کی شہزادی تھی تو کسی کو اس پر کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ کوئی مجھے اور رجو کو کیوں جاننے لگا کہ اعتراض کی نوبت آئے۔
اور جو ہمیں جانتے تھے وہ میرے ہی جیسے شہزادے تھے، جن کے خوابوں کی شہزادیاں بھی بس رجو جیسی ہی تھیں۔
’’او جا! تو بھی شہزادی ہی ہے ۔‘‘
ابا کی کھیل مرونڈے کی چھابڑی سے گھر جیسا تیسا چل رہا تھا اور سچ تو یہ ہے کہ بڑی مشکل سے چل رہا تھا۔
کسی نے کہا گنے کی گنڈیریوں کے کام میں پیسے زیادہ بچتے ہیں۔ بس ابے نے شام کو چاچے کرم داد سے گنڈیریاں چھیلنا سیکھنا شروع کر دیا۔ ایک ہفتے کی ٹریننگ کافی رہی۔ مضافات سے پونے گنے سے لدی ٹرالیاں ٹریکٹروں کے پیچھے بھاگتی ہرے ہرے، لمبے اور موٹے، گداز گنے لاتیں تو ابا منڈی سے دو گٹھے صبح ہی صبح خرید کر سائیکل پر لاد لاتا۔ چھیل چھال کر گنڈیریاں بنائی جاتیں۔
ابے نے ماسٹر غلام نبی سے لکڑی کی ریڑھی مناسب کرائے پر لے لی۔ میٹھی گنڈیریوں کو ٹوکے سے کٹاک، کٹاک، کاٹ کر ڈھیر لگا لیا جاتا۔ ابا ریڑھی پر لال رنگ کا پلاسٹک بچھاتا، برف کا بڑا سا ٹکڑا جما کر اس کے اوپر میٹھی گنڈیریاں قطار اندر قطار سجاتا۔ اس اہتمام کے بعد شہباز کی دکان سے خریدی، دیسی گلاب کی خوشبو دار، تازہ پتیوں کا چھڑکاؤ سا کر دیا جاتا۔ ترازو باٹ ریڑھی کے نیچے رکھے جاتے۔ پھر چھیلے ہوئے گنوں کے لامبے ٹوٹے ریڑھی کے نچلے خانے میں ٹکائے جاتے۔ گنڈیریوں کی مٹھاس پر مدھ مکھیاں اور بھڑ اُمڈ اُمڈ کر آتے اور مٹھاس چاٹتے، کاٹے بغیر لوٹ جاتے۔
زندگی کے پل، پہر، دن اور ماہ و سال گزرتے چلے گئے۔ عمر ایسے کٹتی گئی جیسے ابے کی گنڈیریاں۔
کٹ کٹا کٹ، کٹ۔ کٹ کٹا کٹ ……
اور ابے کے ٹوکے کی کٹ کٹا کٹ کے سر پر ہمارا سارا گھر دھمال ڈالتا رہا۔
کٹ کٹا کٹ، کٹ کٹا کٹ۔
دھم دھما دھم۔ دھم دھما دھم۔
ابا جو کماتا لا کر اماں کے ہاتھ پر رکھتا۔
میں نے کبھی ابے کو اماں سے ناراض ہوتے، چیختے چلاتے نہیں دیکھا۔
ابا رات کو ریڑھی دھکیلتا تھکا تھکایا آتا۔ ابے کی ریڑھی کے ساتھ ہی ساتھ، اس سے آگے ہی آگے چھیلے گنوں کی بوجھل میٹھی خوشبو ہماری کوٹھڑی میں آگھستی۔
اماں اگر لیٹی ہوتی تو بھی فوراً اٹھ جاتی۔ آگے بڑھ کر ابے کی ریڑھی کا اگلا کنارا پکڑ کر ریڑھی گھر کی دہلیز پار کرانے میں ابے کی مدد کرتی۔ مہکتے کچے آنگن میں ہلکی لکیریں بناتی ریڑھی صحن کے آخری کونے میں اپنی جگہ ٹک جاتی۔ ابا بچی ہوئی برف اور گنڈیریاں سب سے پہلے اماں کے حوالے کرتا۔ اماں اوک بھر گنڈیریاں مجھے اور اوک بھر میری چھوٹی بہن کو دیتی۔ اگر پھر بھی کچھ بچ رہتیں تو گیلی بوری میں لپیٹ کر کوٹھڑی کے کونے میں بچھے پلاسٹک پر سینت کر رکھتی۔ مجھے یاد نہیں کہ کوئی ایک دن بھی ایسا گزرا ہو جو اَبا ہمارے لئے، ہمارے حصے کی گنڈیریاں بچا کر نہ لایا ہو۔
ابا اپنے سر کا پٹکا کھول کر جھاڑتا اور سر پر ہاتھ پھیر کر اپنے چھدرے بالوں کو چھانٹتا۔
جوتا اتار کر اسے زور زور سے ٹھونک کر اس میں سے دن بھر کی تھکن اور گرد نکالتا، پھر چارپائی کے نیچے رکھ دیتا۔
ابا کچھ دیر ننگے پیر پھر کر اپنے پاؤں کو سہلاتا اور پھر جیب میں ہاتھ ڈال کر دن بھر کی کمائی رقم اماں کی ہتھیلی پر رکھ دیتا۔
’’لے بھئی بھلی لوک! آج کی ’’وٹک‘‘ ۔
کل کے گنے کے پیسے مجھے نکال دینا۔‘‘
اماں بسم اللہ پڑھ کر گن کر روپے علیحدہ کرتی اور ابے کو دے کر تھوڑے سے بچے ہوئے پیسے پلو میں باندھ لیتی۔ ان میں سے بجلی، گیس، پانی، دودھ، راشن، دوا دارو، ہماری فیس، کتاب کاپی، کپڑا لتا، لینا دینا جانے کیا کیا بھگتنا باقی ہوتا۔
ہم دو ہی بہن بھائی تھے، جو باقاعدہ منصوبہ بندی کا شاخسانہ نہیں تھا بلکہ کسی جسمانی عارضہ کی کارستانی تھی۔ اس بات پر ابا نہ خوش تھا، نہ ناراض۔ اماں البتہ کبھی کبھی بہت افسوس کرتی کہ میرا کوئی بھائی نہ تھا جو بازو بنتا اور گڈو کی کوئی بہن نہ تھی جو سہیلی بنتی۔ ذاتی طور پر مجھے نہ کبھی بھائی کی کمی کھلی، کہ محلہ میرے یاروں سے بھرا پڑا تھا اور نہ دوسری بہن کی ضرورت محسوس ہوئی۔
گڈو مجھے اتنی پیاری تھی کہ میری ساری توجہ اور سارا پیار بھی اس کے لئے کم تھا۔
اگر میری اب تک کی کتھا کہانی سے کوئی یہ تاثر لے کہ ہم بہت مزے میں تھے اور کوئی خاص مسئلہ نہیں تھا تو یہ سخت غلط فہمی ہو گی۔
امی کی کڑھائی سے اکٹھی کی گئی رقم بھی ختم ہو جاتی تو ہمیں پتہ چل جاتا کہ کل ناشتے میں دہی نہیں ملے گا اور پراٹھے کی جگہ خشک روٹی ہو گی۔ وہ بھی شاید رات کی بچی ہوئی، باسی۔
ہمیں اس صورت حال سے سمجھوتہ کرنے کی عادت ہو گئی تھی۔ ہم جانتے تھے کہ بس یہی کچھ ممکن تھا جو ابا اور اماں جان مار کر ہمیں مہیا کر سکتے تھے۔ وہ نہ ہم سے کچھ چھپاتے اور نہ بچاتے تھے۔ سب دکھ سکھ سانجھا تھا تو گِلہ کیا اور شکایت کیا۔
مگر بات تو میری اور رجو کی ہو رہی تھی۔ ہم کدھر اماں اور ابے کی کہانی لے بیٹھے۔ وہ تو پتہ نہیں کس مٹی کے بنے تھے۔ لیکن تھے کسی ایک ہی مٹی کے، یہ تو ہم بھی جان گئے تھے۔
میں نے ابے اور امی کو خوب خوب تنگ کیا۔ ابے کی محنت کی کمائی کی فیسیں ضائع کرتے کچھ شرم نہ آتی۔ بس مست تھا۔ اپنے ہمجولیوں میں یوں بھاگا پھرتا جیسے زندگی مذاق ہی ہو۔ ہر اُفق پر کہکشاں نظر آتی تھی۔ ہر سراب ٹھاٹھیں مارتا دریا، بلکہ سمندر دکھتا تھا۔
گڈو مجھ سے چھوٹی تھی۔ پانچویں پاس کر کے گھر بیٹھ گئی اور ماں کی مددگار بن گئی۔
کہتے ہیں لڑکیاں جلدی بڑی ہو جاتی ہیں۔ گڈو ابھی کچھ زیادہ بھی بڑی نہیں ہوئی تھی کہ نذیر کی ڈولی میں بٹھا دی گئی۔ نذیر کا قصبہ ہمارے شہر سے بہت دور نہیں تھا، پھر بھی اتنی دور ضرور تھا کہ گڈو چاہتے ہوئے بھی ہمیں چار چھ مہینے سے قبل ملنے نہ آ پاتی۔ اپنے والد کے فوت ہونے کے بعد، اپنی شادی سے پہلے ہی نذیر اپنے والد کا چھوٹا سا سائیکل پنکچر کا اڈہ اکیلا چلا رہا تھا۔ بمشکل گھر کے اخراجات پورے کرتا۔ گڈو کے آ جانے سے اسے گھر کی فکر کم ہو گئی کیونکہ گڈو کم عمر ہونے کے باوجود بڑی سگھڑ گرہستن نکلی۔ اس کے ذمہ دارانہ کردار نے اسے اپنی سسرال میں اتنا اہم بنا دیا کہ نذیر اور اس کی ماں کو لگتا گڈو دائیں سے بائیں ہوئی تو ان کا گھر گر پڑے گا۔
مجھے گڈو میں اماں کی جھلک نظر آتی۔
ابے اور امی کو اس بات کی خوشی اور سکون تھا کہ گڈو اپنے گھر میں اتنی اہم بن گئی تھی۔ شادی کے شروع میں ان کی اداسی دیکھی نہ جاتی تھی۔ آہستہ آہستہ وہ یہ بہت بڑی کمی برداشت کر گئے۔
میری آوارہ گردی اور ابا کی کٹ، کٹا، کٹ … میں میری زندگی بہت مزے سے گزر رہی تھی۔
چاچے فضل دین کی ابے سے یاری نہ ہوتی اور میری امی کو وہ چھوٹی بہن نہ سمجھتا تو مجھ جیسے لاپروا لڑکے کو رجو کا ایک بال بھی اکھاڑ کر نہ دیتا۔
رجو اماں کی لاڈلی بن گئی۔
گڈو کے حصہ کی اوک بھر گنڈیریاں اب ہر رات رجو کا حصہ بنتیں۔
نہ بنا تو میں، کچھ نہ بنا۔
بس ’’شہزادے کا شہزادہ‘‘ ہی رہا۔
لاپروا اور کھلنڈرا۔
کسی کے ابا کو مرنا نہیں چاہئے۔
اور پھر میرے ابا جیسے ابے کو تو کبھی بھی نہیں مرنا چاہئے۔
اس لئے کہ جب ایسے ابے مرتے ہیں تو پھر امیاں بھی زیادہ دیر زندہ نہیں رہتیں۔
میرے ابے نے میرے ساتھ یہی کچھ کیا۔
ایک شام کو چنگا بھلا کام سے واپس آیا۔ ہماری اوک بھر گنڈیریاں ہم تک پہنچیں۔ اماں کی معمول کی رسومات ادا ہوئیں۔ رات کا کھانا کھا کر، صبح کی تیاری کر کے ابا چھت پر جا سویا۔
صبح دھوپ چڑھ آئی، پر ابا نہیں اٹھا۔ امی نے مجھے کہا کہ ابے کو جگا۔ اٹھے گا تو وقت پر گنڈیریاں کاٹ کر تیاری کرے گا۔ نہ جگایا تو ڈانٹے گا کہ سارا دن خراب کر دیا۔ شاید زیادہ تھک کر سویا ہے جو سویا ہی پڑا ہے۔ اماں پراٹھے بنانے کی تیاری میں لگ گئی۔ میں سیڑھیاں پھلانگتا چھت پر ابے کو جگانے گیا۔ دیکھا کہ وہ چارپائی پر چت لیٹا تھا۔ ڈبیوں والا کھیس چارپائی سے نیچے کچی چھت پر گرا پڑا تھا۔
میں نے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر آواز دی تو ابا اٹھا ہی نہیں۔
پھر میرا اَبا کبھی نہیں اٹھا۔
کبھی بھی نہیں۔
دیسی گلاب کی پتیوں سے ڈھکا مہکتا جنازہ اٹھا تو اماں، گڈو اور رجو بے اختیار ساتھ ہو لیں۔
محلے کی عورتیں بمشکل انہیں گلی کے نکڑ سے واپس لائیں۔
ان کا بس چلتا تو ابے کے ساتھ ہی قبرستان جا بستیں۔
پھر میں بھی کا ہے کو گھر رہتا۔
ابے کو دفنانے کے لئے بھاگ دوڑ کرنا پڑی۔
محلے کا قریبی قبرستان، ارد گرد بڑی پرانی آبادی ہونے کی وجہ سے، قبروں سے مکمل بھر چکا تھا۔ میں جب کھیلتا کودتا کبھی قبرستان میں جا نکلتا تو سوچا کرتا کہ مُردے اتنی قربت میں کیسے رہتے ہوں گے۔ کروٹ تک لینا محال ہو گا۔ آج ابے کے لئے جگہ کی ضرورت پڑی تو مسئلہ کھل کر سامنے آیا۔
نئی قبر کی جگہ باقی ہی نہیں بچی تھی۔ ابے کے یاروں نے گورکن سے سازباز کر کے ایک جگہ حاصل کر لی۔ جب ابے کو دفن کرنے کا وقت آیا تو مجھے لگا کہ قبر شاید پرانی ہے اور چھیل چھال کر نئی بنائی گئی ہے۔ میں شور مچانے ہی والا تھا کہ مجھے خیال آیا ابا کون سا سبھی چیزیں نئی استعمال کرتا تھا۔ کتنی ہی بار اس نے لاتعداد استعمال شدہ چیزوں کے ساتھ بڑی خوشی سے گزارا کیا تھا۔ مجھے لگا ابے کو اتنی مشکل سے حاصل کی گئی استعمال شدہ قبر پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ پھر قریب ترین قبرستان ہونے کی وجہ سے اماں کو بھی زیارت میں آسانی ہو گی۔
نہ میں نے اعتراض کیا، نہ ابا کی میت نے اور ہم دونوں بخوشی اس جیسی تیسی قبر پر مطمئن ہو گئے۔
ایک فضول سا خیال میرے ذہن میں، اتنے صدمہ کے باوجود بھی، جانے کدھر سے آ گیا۔ میری اماں کی بھی تو میرے ابا سے دوسری شادی ہی تھی۔ بالکل نوعمری میں بیوہ ہونے کے بعد ابا سے جو شادی ہوئی تو کسی کنواری دلہن کو بھی کیا راس آئی ہو گی، جو اس بیوہ کو راس آئی۔ ہم یہ فیصلہ نہ کر پائے کہ ابا اماں کے ساتھ زیادہ خوش اور مطمئن تھا یا اماں ابا کے ساتھ۔ ہم نے تو مشکل سے مشکل اور اچھے سے اچھے وقت میں دونوں کو کاندھے سے کاندھا ملائے یک جان و دو قالب، مطمئن اور شاکر، جیون نیا کھیتے دیکھا۔ دونوں یوں لازم و ملزوم کہ کسی ایک کے بغیر گھر کا تصور، محال نہیں نا ممکن۔
اماں شادی کے بعد شاید ہی کبھی میکے گئی ہو۔ ایک بار نانی کے بہت اصرار پر سات دن کے لئے گئی تو ابا تیسرے دن ہی جا کر واپس لے آیا کہ، ’’ہمارا گھر نہیں چلتا۔‘‘
اگرچہ گڈو اماں کی موجودگی میں بھی کھانا بنا لیتی تھی، جو ابا کو پتہ بھی نہیں چلتا تھا کہ اماں نے بنایا ہے یا اس کی شاگردی میں گڈو نے، لیکن جب اماں کی غیر حاضری میں گڈو نے ابا کو کھانا دیا تو ایسے لگا جیسے نوالے اس کے حلق سے اتر ہی نہیں رہے۔
بولا، ’’گڈو برتن لے لو۔ تیری اماں نے تجھے اپنے جیسا کھانا بنانا سکھایا ہی نہیں۔‘‘
میں اور گڈوا یک دوسرے کی طرف کنکھیوں سے دیکھ، مسکرا کر رہ گئے۔
ارے بات، پھر اماں اور ابا کی شروع ہو گئی۔
مجھے شاید اور کوئی بات ہی نہیں آتی۔
ابا فوت ہوا تو اماں روئی نہیں۔
بس اماں اماں نہ رہی۔
لگتا کوئی اجنبی روح جانے پہچانے بُت کو گھسیٹتی پھرتی ہے۔
بے جان سی گڑیا کی طرح ڈولتی، ٹھوکریں کھاتی، بے دھیان چلتی پھرتی۔
صبح اٹھتی، نماز پڑھتی اور قبرستان روانہ ہو جاتی۔ ابے کی قبر پر کھڑی ہو کر فاتحہ پڑھتی، پڑھتی ہی چلی جاتی۔ کھڑی کھڑی تھک جاتی تو بیٹھ کر پڑھنا جاری رکھتی۔ بہت دھوپ چڑھنے پر واپسی کی راہ پکڑتی۔ کھانا بس نہ کھانے جیسا کھاتی۔ کبھی دو لقمے لے لئے اور کبھی وہ بھی نہ لئے۔ دسویں تک اماں آدھی رہ گئی اور چالیسویں تک اماں سے چارپائی چھوڑی نہ جاتی تھی۔
ابے کے جانے کے ٹھیک دو مہینے اور چار دن بعد اماں بھی رخصت ہو گئی۔
اماں کے لئے قبر کا بندوبست ابا کے دوستوں ہی نے کیا۔ ابا کی قبر سے آٹھ دس قبروں کے فاصلے پر ایک قبر کی جگہ بنا لی گئی۔
ابا اور پھر اماں کے مرنے پر میں اور رجو بالکل لا وارث ہو گئے۔ ابا تھا تو میں تقریباً بے کار ہی تھا۔ زیادہ سے زیادہ گنے چھیلنے اور گنڈیریاں کاٹنے میں کبھی کبھار ابے کی کچھ مدد کر دیتا۔ ابا ریڑھی لے کر بازار نکل جاتا اور میں آوارہ گردی کو۔ ابے کی عادت زیادہ سختی والی نہیں تھی۔ بس مجھے آرام سے اور بار بار سمجھاتا کہ میری شادی ہو چکی تھی اور مجھے ذمہ دار ہو جانا چاہئے۔ میں سر نیچے کر کے سن لیتا اور کوئی اثر نہ لیتا۔
اماں البتہ زیادہ زور دیتی اور شرم دلاتی کہ شادی شدہ ہو کر بھی میں غیر ذمہ دار تھا۔ کل کو بچے پیدا ہو جائیں گے تو ضروریات بڑھ جائیں گی۔ اماں یہ بھی کہتی کہ ابا کی بوڑھی ہڈیاں کب تک میرا اور میری بیوی سمیت گھر ہستی کا بوجھ اٹھائیں گی۔ میں جوان تھا، ہٹا کٹا تھا۔ ساتویں سے آگے پڑھ کر نہیں دیکھا تھا، نہ کوئی ہنر سیکھا تو میرا بنے گا کیا۔ مجھے ابے کی بات کا کچھ اثر ہوتا، نہ اماں کا۔
میں تو تھا ہی ازلی، مستند ڈھیٹ۔
اماں کا چالیسواں بھی گزر گیا۔
ہمارے ہاں مرگ گھر والوں کے لئے مالی بوجھ ہی بنتی ہے۔ رشتے دار ہاتھ بٹانے کی بجائے اخراجات کا باعث بنتے ہیں۔ کفن، قبر، مولوی صاحب، قُل، دسواں اور چالیسواں۔
پھر جس گھر میں اوپر تلے دو اَموات ہو جائیں اور رخصت بھی وہ ہوں جو بنیادی ستون ہوں، جن پر مکمل گھر ٹکا ہو تو آپ اندازہ لگائیں کہ باقی کیا بچے گا۔
ہمارا پس انداز کچھ زیادہ نہیں ہوتا تھا۔ جب ہوش آیا تو تقریباً قلاش تھے۔
ماسٹر غلام نبی والی ریڑھی ابے کے مرنے والے دن سے اسی کونے میں کھڑی تھی، جہاں ابا اسے کھڑا کر گیا تھا۔ میں جب بھی اسے دیکھتا تو سو منظر میری آنکھوں کے سامنے گھوم جاتے۔ کیسے ابا امی کی مدد سے، آخری بار ریڑھی گھر کے اندر لایا تھا۔ مجھے بھول ہی نہیں پاتا تھا کہ اس شام کیسے روز ہی کی طرح کھلی کھلی اماں، بے مقصد ابے کے پیچھے چلتے، صحن سے پار دیوار تک گئی تھی جہاں ابے نے روزانہ کے معمول والی جگہ ریڑھی کھڑی کر کے کرتے کی جیب میں مسکراتے ہوئے ہاتھ ڈالا تھا۔ اس دن ایسے محسوس ہوا تھا جیسے ابا دن بھر کے جمع شدہ پیسے ایک منٹ بھی اپنے پاس نہیں رکھنا چاہتا تھا۔ جو خوشی اسے پیسے اماں کے ہاتھ پر رکھ کر ملتی تھی وہ جلد سے جلد حاصل کرنا چاہتا تھا۔
بات پھر اماں ابا کی شروع ہو گئی۔ لگتا ہے میری زندگی میں اور کچھ ہے ہی نہیں جیسے مجھے اور کوئی بات آتی ہی نہیں۔ جیسے میری زندگی اماں ابا پر رک گئی ہو۔
لیکن زندگی بھی رکی ہے کبھی۔
جب روٹی کے لالے پڑے تو میں نے سوچا کہ خود تو مانگ تانگ کر کھا بھی لوں، لیکن بیوی کا کیا کروں گا۔ پھر ایک جان اور آنے والی تھی۔
زندگی یہ نہیں دیکھتی کہ کون کتنا لاڈلا یا کتنا لاپروا تھا۔ زندگی بے رحمی سے اپنا خراج مانگتی ہے۔
اب جب سر پر کوئی نہیں تھا، جب اور کوئی چارہ ہی نہیں تھا تو مجھے بہرحال بدلنا تھا۔ اب نہ ابا تھا کہ سارا آسماں ہمارے سر پر تھامے رکھے، نہ اماں تھی کہ دیکھوں تو کلیجہ ٹھنڈا ہو جائے۔
اب میں تھا، رجو تھی اور اک آنے والی روح تھی، بس۔
جب سب بدل گیا تھا تو میں بھی خود ہی بدل گیا۔
اب کون تھا جو میرے لاڈ دیکھتا۔
میں نے اک عزم کے ساتھ ریڑھی صحن کے کونے میں لگے پانی کے نل کے پاس کھڑی کی اور مہینوں کی جمی دھول مٹی کو دھو ڈالا۔ لال پلاسٹک کو کپڑے دھونے والے صابن سے دھویا اور ریڑھی کو صحن میں مارچ کی دھوپ میں خشک ہونے کے لئے کھڑا کر دیا۔
اماں کی صندوقچی سے بچے کھچے پیسے لے کر صبح ہی صبح سبزی منڈی پہنچ گیا۔ دو کی بجائے ایک گٹھا گنے خریدے اور سائیکل پر لاد بمشکل گھر لایا۔ میں نے اور رجو نے مل کر گنے چھیلے اور بڑی دقت سے ٹیڑھی میڑھی گنڈیریاں کاٹیں۔
صبح ہی صبح میں ترازو باٹ جما، ریڑھی لے کر نکلا تو رضیہ میرے ساتھ باہر گلی تک آئی۔
مجھے رخصت کرنے لگی تو اس کی آنکھیں بھر آئیں۔ یقیناً سوچ رہی ہو گی کہ ابا ہوتا تو میں کبھی بھی اس کام میں نہ پڑتا۔ بس آوارہ گرد شہزادہ ہی بنا رہتا۔
وقت بھی انسان کو کیا سے کیا بنا دیتا ہے اور کیا کیا کروا دیتا ہے۔
ریڑھی دھکیلتے دھکیلتے میں کتابوں کی ان دکانوں کے سامنے جا پہنچا جہاں ابا ریڑھی لگایا کرتا تھا۔
میں یہ دیکھ کر پریشان ہو گیا کہ ایک بڑی مونچھوں اور پھولے ہوئے پیٹ والا فروٹ چاٹ فروش عین اس جگہ ریڑھی لگائے دھندہ کر رہا تھا جہاں ابا کا ڈیرہ ہوا کرتا تھا۔ میری ریڑھی پر نظر پڑی تو اس نے مجھے گھور کر دیکھا اور مونچھوں پر تاؤ دے کر لال آنکھیں گھمائیں، جیسے کچا چبا جائے گا۔ میں خوف زدہ ہو کر جھینپتے ہوئے ریڑھی دھکیلتا، کنی کترا کر، آگے نکل گیا۔ بڑی سڑک سے پہلے گلی کے نکڑ پر بجلی کے کھمبے کے ساتھ مجھے ریڑھی کھڑی کرنے کی جگہ مل گئی۔ میں نے ریڑھی وہیں ٹکا لی۔
جوں جوں وقت گزرا، بازار کی رونق بڑھتی گئی۔ میرا پہلا گاہک آدھ کلو گنڈیری خرید کر لے گیا تو مجھے لگا میں دنیا میں آنے کا مقصد پا گیا ہوں۔
میں نے خیالوں ہی خیالوں میں دن بھر کی ’’وٹک‘‘ رجو کی ہتھیلی پر رکھی اور مسکرا دیا۔
اگلے دو گھنٹے میں دو کلو گنڈیریاں مزید بک گئیں۔ بِکری کی رفتارتسلی بخش نہیں تھی۔ خود کو دلاسا دیا کہ پہلا دن ہے، نیا اڈہ ہے، رفتہ رفتہ گاہک بڑھ جائیں گے۔
شام تک پانچ کلو گنڈیریاں بک گئیں۔
کٹی ہوئی گنڈیریوں میں سے ابھی بھی کافی بچ رہی تھیں۔
میں نے حساب لگایا کہ دھندہ سمیٹوں تو اسی وقت تک گھر پہنچ جاؤں گا جس وقت رات کو ابا گھر پہنچ جاتا تھا۔
ترازو باٹ سنبھالے، بچی ہوئی گنڈیریوں کو ململ کے کپڑے سے ڈھانپا اور گھر روانہ ہوا۔
گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا تو رجو بھاگتی آئی، دروازہ کھولا اور ریڑھی کو میرے ساتھ دھکیلتی گھر کے اندر لے گئی۔ میں نے ریڑھی عین وہیں کھڑی کی جہاں ابا کھڑی کیا کرتا تھا اور اوک بھر گنڈیریاں پکڑ کر رضیہ کی طرف دیکھا۔
میرا دل بھر آیا۔
ذرا سنبھل کر میں نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور دِن بھر کی کمائی نکال کر رجو کے ہاتھ پر رکھی۔
’’یہ لو بھلی لوک آج کی ’’وٹک‘‘ ۔
مجھے گنوں کے لئے رقم نہیں چاہئے تھی کیونکہ میرے کل کے بچے آدھے گنے ابھی باقی تھے۔
اگلے دن پھر معمول کے مطابق میں ریڑھی لے کر کل والی جگہ پر جا ٹِکا۔
ابھی ریڑھی کھڑی ہی کی تھی کہ خاکروب جھاڑو پکڑے آ پہنچا اور پانچ روپے کا تقاضہ کرنے لگا۔ پتہ چلا کہ یہ روزانہ کا بھتہ اسے سب ریڑھی والے دیتے ہیں۔ شکر ہے جیب میں دس روپے تھے، سو اُس سے جان چھڑائی۔
آج گاہکی کل کی نسبت بہتر تھی۔ دوپہر تک تین چار کلو گنڈیریاں نکل گئیں۔ میں خوش تھا کہ کام چل نکلا ہے اور جلد ہی ابے جتنی کمائی کرنے لگوں گا۔
سہ پہر تین بجے کے قریب بازار میں ایک غلغلہ اٹھا۔
آناً فاناً دو ٹرک اور درجنوں کارندے غارت گری کرتے آ وارد ہوئے۔
فروٹ چاٹ والا مچھندر ریڑھی بھگا کر قریبی گلی میں گھس گیا۔ میں ابھی حیرت زدہ، حواس باختہ صورت حال سمجھنے کی کوشش ہی کر رہا تھا کہ میری ریڑھی قابو کر کے بڑی سرعت سے گنڈیریوں اور باقی ساز و سامان سمیت ٹرک پر لاد دی گئی۔ میں نے بھاگ کر ٹرک پر چڑھنے کی کوشش کی تو ایک ڈنڈا میرے سر پر پڑا اور ایک تھپڑ میرے منہ پر۔ میں درد اور توہین کے باعث ساکت ہو کر رہ گیا۔
میرے دیکھتے ہی دیکھتے میونسپلٹی کا تہہ بازاری کا عملہ اور ٹرک میری ساری کائنات سمیٹ کر غائب ہو گئے۔
شام گئے میں لٹا پٹا گھر پہنچا۔
رجو مجھے یوں بدحال دیکھ کر سخت پریشان ہوئی۔
اگلی صبح اور بُری ثابت ہوئی۔
ماسٹر غلام نبی صبح ہی صبح آ دھمکا۔ بولا ابا کی شرافت کی وجہ سے اس نے کئی مہینے سے ریڑھی کا کرایہ نہیں لیا تھا اور اب ریڑھی ہی چلی گئی تھی۔ اس نے ہاتھ جوڑ کر کہا کہ وہ جرمانہ بھر کر میونسپلٹی سے اپنی ریڑھی واپس لے آئے گا اور باقی کرایہ بھی نہیں مانگے گا۔ لیکن آئندہ کے لئے مجھ نکمے کو ریڑھی نہیں دے گا۔
میں اور رجو اتنے پریشان ہوئے کہ ہمارے منہ سے کوئی دلیل بھی نہ نکلی۔ بس ٹک ٹک اسے غصے سے بھنا کر جاتا دیکھتے رہے۔
اس کے جانے کے کافی دیر بعد تک ہم میں سے کوئی کچھ نہ بولا۔
ہم بس بے حس و حرکت سے ہو گئے۔
ایسے لگا جیسے ابا اور اماں کی محبت کی نشانی کوئی ہم سے چھین لے گیا ہو۔
جیسے ہمارے گھر کی رونق چھن گئی ہو۔
جیسے جینے کی امید مدھم پڑ گئی ہو۔
دو دن تک ہم اس صدمے سے بے حال رہے۔ رجو گھر کے کام کاج میں دل لگانے کی کوشش کرتی لیکن پھر پھرا کے خالی خالی سی میرے پاس آ بیٹھتی۔
میں نے کوشش کی کہ گھر سے باہر کوئی مصروفیت ڈھونڈھوں، کام کی کوئی سبیل سوچوں، لیکن کچھ بھی نہ سوجھا۔
اسی خالی کھوکھلے پن کو لئے میں ایک دن سڑکوں پر نکل گیا۔ شام تک آوارہ گھوما کیا۔ تھک گیا تو کٹی پتنگ کی طرح ڈولتا اک چوک میں بنے فوارے کے گرد بنی فٹ ڈیڑھ فٹ اونچی دیوار پر ٹک گیا۔
چوراہا زیادہ مصروف نہیں تھا۔ جب لال بتی ایک طرف کی گاڑیوں کو روکتی تو اشارہ کھلتے کھلتے پانچ سات گاڑیاں اکٹھی ہو جاتیں۔ دو بھکاری لڑکے اور ایک بوڑھی عورت گاڑیوں کے بند شیشوں پر دستک دے کر بھیک مانگتے۔ ایک ادھیڑ عمر آدمی جس کا ایک بازو کٹا ہوا تھا گاڑیاں صاف کرنے والے کپڑے کے ٹکڑے بیچ رہا تھا۔ اچانک میری نظر پندرہ سولہ سال کے ایک لڑکے پر پڑی جو سرکنڈے پر لال گلاب اور سفید چمبیلی کے پھولوں والے گجرے بیچ رہا تھا۔ اس لڑکے کے کپڑے صاف اور بال تیل لگا کر کنگھی کئے ہوئے تھے۔ اس نے ایک کان میں چنبیلی کا پھول اڑس رکھا تھا اور چہرے پر معصومیت تیرتی پھرتی تھی۔
میں نے غور کیا تو مجھے یہ لڑکا چوک میں موجود سب کاروباری لوگوں سے بہتر اور دلچسپ لگا۔
اچانک میرے ذہن میں ایک خیال آیا اور جانے کتنے دن کے بعد میرے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
میں فوارے کی دیوار سے اٹھا اور تیز تیز قدموں سے اپنے محلے کی طرف روانہ ہوا۔
ہماری گلی کے نکڑ پر شہباز پھولوں والا، حسب معمول، اپنی دکان مہکائے بیٹھا تھا۔
’’یار شہباز مجھے گلاب کے پھول اور چنبیلی کی کلیاں چاہئیں۔‘‘
میری بات سن کر وہ چونکا۔
بہرحال میں نے بڑے عمدہ ترو تازہ پھول اور کلیاں خریدیں اور گھر روانہ ہوا۔
رجو نے مجھے آتے دیکھا تو اس کے چہرے پر اطمینان اور آنکھوں میں چمک آ گئی۔
’’رضیہ رانی مجھے گجرے بنا دو۔ میں گجرے بیچوں گا۔‘‘
میں نے پھولوں کا پیکٹ رجو کے حوالے کیا۔
رضیہ نے حیرت سے میری طرف دیکھا۔ کچھ کہنے کو منہ کھولا، لیکن بات کئے بغیر ہی پیکٹ لے کر کمرے میں گھس گئی۔
رات بیٹھ کر بڑی دلجمعی سے رجو نے پچیس گجرے بنائے۔ اتنی نفاست سے کہ دل خوش ہو گیا۔ ہمیں پتہ تھا کہ گجرے زیادہ تر شام کو بکتے ہیں اس لئے ہم نے گجروں کو پانی چھڑک کر دن بھر تازہ رکھا۔ شام سے پہلے میں گجرے سرکنڈے پر سجائے گھر سے کوس بھر دور اس چوک پر جا کھڑا ہوا جس کی ایک سمت میں ایک بڑی مارکیٹ کار استہ تھا اور دوسری طرف بڑے بڑے فلیٹس والی بلند و بالا عمارات تھیں۔
شام تک میرے دو تین گجرے ہی بکے۔
مجھے گھر کی فکر تھی، رجو سے پیار تھا اور آنے والی روح کے لئے میرا دل محبت سے بھرا ہوا تھا۔ مجھے کم از کم اتنی رقم کمانی تھی کہ میں گھر چلا سکوں۔
مجھے سب گجرے بیچنے تھے۔
ایک ایک گجرے کا معاوضہ میرے آنے والے کل کی عافیت کی ضمانت تھا۔
ہر بکتے گجرے کے ساتھ میرے اعتماد میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔
رات ہونے پر لوگ جوڑوں کی شکل میں تقریبات کے لئے نکلے تو گجروں کی بِکری میں تیزی آئی۔
پھر کافی دیر بیکار انتظار کرنا پڑا۔
اسی دوران سب سے زیادہ مزہ ایک ستر پچھتر سالہ جوڑے کو گجرا بیچ کر آیا۔ بوڑھے مرد نے بڑے رچاؤ سے خرید کر اپنے کانپتے ہاتھوں سے گجرا اپنی ہم عمر خاتون کو پہنایا۔ مجھے ابا اور اماں یاد آ گئے اور میں اداس ہو گیا۔
’’یقیناً آج اس عمر رسیدہ جوڑے کی شادی کی سالگرہ ہو گی۔‘‘
میرے ذہن میں خیال آیا۔
’’پچاسویں شاید؟ ‘‘
میرا ذہن آوارہ ہوا۔
’’لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ وہ تو پہلی سالگرہ والوں سے زیادہ خوش اور مطمئن لگ رہے تھے۔
اس عمر میں بھی ایک دوسرے میں منہمک۔‘‘
رات بھیگی تو ایک اور طرح کے گاہک آنا شروع ہو گئے۔ وہ جنہیں دیکھنے ہی سے پتہ چل رہا تھا کہ شب بھر کا اہتمام کئے پھرتے ہیں۔
گجرے بیچتے بیچتے تقریباً آدھی رات بیت گئی۔ میں نے رجو کے انتظار کا سوچا، لیکن پھر فیصلہ کیا کہ میرے کامیاب کاروبار کا پہلا دن ہے، میں رجو کو سمجھا دوں گا کہ اتنی رات گئے کیوں واپس آیا ہوں، لیکن سب گجرے بیچ کر ہی جاؤں گا۔
رات ڈیڑھ بجے کے قریب میرے پاس صرف ایک گجرا رہ گیا۔
جیب میں رکھے کرنسی نوٹوں کی حرارت میں اپنے سینے میں محسوس کر رہا تھا۔
اب سڑک پر اِکا دُکا گاڑی بہت دیر بعد آتی۔
سڑکیں سنسان ہونے لگیں۔ چوک کے اشارے سرخ اور سبز روشنی دکھانے کی بجائے بار بار اور جلدی جلدی مسلسل پیلی روشنی دکھانے لگے۔ اس کا مطلب تھا کہ اب اس چوک میں اشارے کے سبز ہونے کے انتظار میں گاڑی کھڑی کرنا ضروری نہیں۔
میں نے اپنے آخری گجرے پر نظر ڈالی۔
اسی اثنا میں ایک بڑی سی شاندار سیاہ رنگ کی کار آ کر میرے پاس رک گئی۔ پچھلی نشست کا شیشہ کھلا۔ ایک ادھیڑ عمر خوش پوش شخص نظر آیا جس کا سرخ و سفید چہرہ دمک رہا تھا۔ آنکھیں چڑھی ہوئی تھیں۔ ساتھ کی سیٹ پر کوئی بائیس تئیس سال کی نوخیز لڑکی، کہ جس کا حسن نظر ڈالنے کی ہمت بھی چھین رہا تھا، تقریباً نیم دراز مرد کے اوپر گری پڑی تھی۔
’’مجھے گجرا دے دو۔‘‘
مجھے مرد کی لکنت بھری لہراتی آواز سنائی دی۔
میں بے حس و حرکت کھڑا رہا۔
لڑکی نے مد ہوشی میں اپنا بازو اوپر اٹھایا اور گورے بازو کی خوب صورت کلائی پر اپنے دوسرے ہاتھ سے دائرہ بنایا کہ گجرا کہاں چاہئے۔
مرد نے دوبارہ ہاتھ باہر نکال کر مجھے اشارہ کیا،
’’گجرا دے دو۔‘‘
میں پھر ویسے ہی کھڑا رہا۔
مرد کا ہاتھ اس کے لباس میں غائب ہوا۔ واپس نکلا تو اس کے ہاتھ میں پانچ سو کا نیا نوٹ تھا جو اس نے میری طرف بڑھایا۔
’’لڑکے یہ سارے پیسے لے لو اور مجھے گجرا دے دو۔‘‘
میں نے ایک لحظہ کے لئے سوچا۔ پانچ سو کا نیا نوٹ سامنے لہرا رہا تھا۔
مجھے فیصلہ کرنے میں زیادہ دیر نہ لگی۔
میں فیصلہ کن انداز میں ایک قدم پیچھے ہٹ گیا۔
کھڑکی کی طرف نظر کی تو حسینہ ابھی بھی اپنی گوری گلابی کلائی پر دوسرے ہاتھ کا ہالہ بناتی خیالی گجرا پہن رہی تھی۔
یہ اشارہ مد ہوش مرد کی بے تابی کو دو چند کرتا تھا۔
اچانک مجھے اس گوری کلائی کی جگہ رجو کی کھردری سی سانولی کلائی، ایک لحظہ کے لئے، نظر آئی اور غائب ہو گئی۔
میرا فیصلہ اٹل ہو گیا۔
’’گجرے ختم ہو گئے ہیں بابو جی!‘‘
میں دو قدم مزید پیچھے ہٹا اور اپنے گھر کی طرف منہ کر کے تیز تیز چلنے لگا۔
چند قدم چل کر میں نے مڑ کر دیکھا تو گورا، تنومند بازو پانچ سو کا نیا نوٹ ابھی تک میری طرف لہرا رہا تھا۔
میری رفتار میرے گھر کی سمت اور تیز ہو گئی۔
رجو میری منتظر ہو گی اور اماں کی اوک بھر گنڈیریاں میں کسی قیمت پر نہیں بیچ سکتا تھا۔
پانچ سو روپے میں بھی نہیں۔
یہ میری ’’شہزادی‘‘ کا گجرا تھا۔
آخری بچا ہوا گجرا۔
٭٭٭
بھٹی
محمد علی ماشکی نے رس نکلے گنے کے خشک پھوگ کو لمبی چھڑی کی مدد سے چھیداں کی بھٹی کی دہکتی آگ میں دھکیلا تو چنگاریوں کی شوخ قطار چڑ چڑ کر کے بھٹی کے دہانے سے نکل بھاگی۔
بھٹی نے ایندھن کا استقبال کر کے بھڑکتے شعلوں کو تیز تر کرتے ہوئے گاڑھے کثیف دھوئیں کو بھٹی کی چمنی نما دم کے رستے باہر دھکیل دیا۔ کڑاہی کی گرم ریت نے مکی کے زرد دانوں کو ایک لحظے میں پھاڑ کر چمبیلی کے سفید کنوارے پھولوں میں تبدیل کر دیا۔ اشتہا انگیز گرم، سوندھی خوشبو چاروں اور نکل بھاگی۔
چھیداں (رشیدہ) ماچھن محمد علی کی وہ ادھیڑ عمر بیوی تھی جس کے بغیر دونوں میں سے کسی ایک کا بھی تصور محال تھا۔ سچ کہتے ہیں کہ دن رات ساتھ رہتے رہتے تیس پینتیس سالہ رفاقت کے بعد میاں بیوی کی شکلیں تک ایک سی ہو جاتی ہیں۔
محمد علی بکرے کی سالم کھال کے بنے مشکیزہ میں صبح سویرے کنویں سے ربر کے تھیلا نما ڈول کھینچ کر پانی بھرتا اور گاؤں بھر کے مٹی کے گھڑے لبریز کرتا۔ گاؤں میں ابھی ذیل داروں کے گھر ہی میں ہینڈ پمپ لگا تھا جہاں سے صرف مغربی محلہ کی عورتوں کو پانی نکال کر بھرنے کی اجازت تھی۔ باقی سارے گاؤں کا دارومدار محمد علی کے مشکیزہ سے تقسیم ہوئے پانی ہی پر تھا۔ محمد علی جب اپنے مشکیزہ کا منہ گھڑوں کے منہ پر کھول کر پانی انڈیلتا تو دھارے سے مفرور پانی کے آوارہ قطرے یوں اُچھل اُچھل کر گھڑے میں داخل ہوتے جیسے موتی چمک کر، تھرک کر کسی غار میں گھستے چلے جا رہے ہوں۔ مٹی کے خالی گھڑے لبریز ہونے سے گھڑوں کے تشنہ مسام تک تر اور سیراب ہو جاتے۔ گرمیوں کی سہ پہر محمد علی گھڑے بھرنے کے بعد ہمیشہ تھوڑا سا پانی گھڑونچی کے نیچے اور ارد گرد کی سلگتی زمیں پر، جان بوجھ کر چھڑکتا، جس سے نمی کو ترسے کچے صحن سے مٹی کی مسحور کن خوشبو خارج ہوتی۔
محمد علی کے کام کی افادیت کے پیش نظر اسے بہشتی کا نام بھی دیا جاتا۔ فی الحقیقت محمد علی کا مشکیزہ پانی نہیں زندگی بانٹتا پھرتا۔ زندگی بانٹنے والے کو بہشتی ہی ہونا چاہئے۔
محمد علی صبح اور سہ پہر دو وقت پانی بھرتا۔ باقی وقت وہ چھیداں کی بھٹی کے لیے خشک ایندھن اکٹھا کرتا اور شام کو چھیداں کی بھٹی کی آگ بھڑکانے میں مدد کرتا۔
گاؤں کے شمالی محلہ کی مشرقی سمت لمبی گلی کے دہانے پر ایک کچا چبوترہ قائم کر کے اس میں چھیداں کی بھٹی بنی تھی۔ چھپر سے سایہ مہیا کر دیا گیا تھا۔ عصر کے قریب چھیداں بھٹی پر آ براجمان ہوتی۔ بھٹی کے دھانے کی طرف محمد علی کا اکٹھا کیا گیا ایندھن، جو خشک جھاڑیوں، گنے کے کٹی فصل کے ہل چلائے گئے کھیت میں سے اکٹھے کئے مڈھ، کماد (گنے کی فصل) کے خشک چھلکوں، گنا بیلنے کے بعد بچی پھوگ، گھاس پھونس اور درختوں کے خشک پتوں ٹہنیوں پر مشتمل ہوتا ڈھیر کیا رہتا۔
چھیداں کی بھٹی کی رونق گاؤں کی مٹیاروں اور چھوٹے بچوں کے لئے شام کے معمولات میں اہم حیثیت رکھتی تھی۔ مکی، چنے، گندم، جو، چاول، مسور، غرضیکہ جو بھی غلّہ لایا جاتا چھیداں کی بھٹی کو قبول ہوتا۔ کڑاہی کی گرم ریت میں بھن کر جو سوندھی خوشبو پھیلتی تو گاؤں کا ایک چوتھائی مشرقی حصہ مہک جاتا۔ جب کوئی اپنے مکی، چنے یا چاول کے بھنتے دانوں میں گُڑ کی آمیزش کرواتا تو خوشبو کی نوعیت ہی بدل جاتی۔
محمد علی اور چھیداں کا آگ پانی کا کھیل گاؤں کی رہتل میں یوں رچ بس گیا تھا کہ اس کے بغیر گاؤں کا تصور محال تھا۔ گویا آگ پانی کا یہ کھیل گاؤں کی زندگی کی علامت تھا۔
محمد علی ہی کی شکل کا سلامت اُن کا اکلوتا بیٹا تھا۔ سلامت کو وہ بڑے شوق سے سکول بھجواتے۔ اب وہ خیر سے دسویں جماعت میں پہنچ گیا تھا۔ محمد علی اور چھیداں کی زندگی کا محور سلامت ہی تھا۔ سلامت صبح گھر سے نکلتا تو سکول کی صاف وردی اور گہرا گندمی چہرہ سرسوں کے تیل سے چپڑے بالوں کی جمائی پٹیوں سمیت چمک رہا ہو تا۔ قدرت نے سلامت کے لڑکپن میں عجب ملاحت دی تھی۔ ماں باپ کا سانولا رنگ، محمد علی کا اکہرا لامبا قد، چھیداں کی تیکھی ناک، بڑی بڑی سیاہ نشیلی آنکھیں اور شب دیجور کی روایتی سیاہی لیے کالے بال سب سلامت میں اکٹھے ہو گئے تھے۔
سلامت اکلوتا ہونے کے باعث بہت لاڈلا تھا لیکن لاڈ پیار نے اُسے بگاڑا نہیں تھا۔ محمد علی کی شرافت اور چھیداں کی وفا کے علاوہ باپ کی گاؤں میں حیثیت کے باعث سلامت نے کبھی اپنی اوقات سے بڑھ کر نہ تو کوئی حرکت کی نہ کسی قضیئے میں آیا۔ اپنی چھوٹی موٹی خواہشات منوانا اسے اچھا لگتا تھا تو محمد علی اور چھیداں کو بھی برا نہیں لگتا تھا۔
گاؤں سے چھ سات کلو میٹر دُور قصبے کے گورنمنٹ ہائی سکول میں جانے کے لئے دو کلومیٹر دیہاتی کچی سڑک، جس کے دونوں اطراف سرکنڈوں کی باڑ تھی، ہرے بھرے کھیتوں کے بیچوں بیچ گزرتی کالی سانپ سی لہراتی تار کول لپی پکی سڑک پر جا چڑھتی۔ اس ترا ہے سے چار پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر قصبے کے مضافات میں گورنمنٹ ہائی سکول تھا۔ قریبی دیہات کے لڑکے پیدل بس یا بائیسکل پر سوار ہو کر سکول پہنچتے۔
سلامت نے نئی بائیسکل کی فرمائش کی تو محمد علی اور چھیداں کی جان پر بن آئی۔ بھٹی سے اجرت کے طور پر اکٹھا کیا گیا قسم قسم کا اناج چھوٹی چھوٹی بوریوں میں پڑا تھا جو اَجّو کمہار کو تول کر بیچا تو کچھ رقم ہاتھ آئی۔ محمد علی کو ہر شادی پر گاموں نائی کی دیگیں پکانے میں مدد کرنے اور دلہن کی پالکی اٹھانے پر معقول رقم ملتی جو ’’لاگ‘‘ کہلاتی تھی۔ گھر کے خرچے محدود ہونے کی وجہ سے اس رقم میں سے بھی بچت ہو رہتی کہ گھر میں کون سا ہجوم تھا۔ لے دے کہ تین جانیں تھیں جو کیا کھا پہن لیتیں۔ سب جمع پونجی اکٹھی کی گئی تو نئی بائیسکل کے پیسے بآسانی نکل آئے۔ نمبر داروں کا بڑا لڑکا چوہدری جھورا اپنے ٹریکٹر کی مرمت کروانے شہر جا رہا تھا۔ محمد علی بھی ٹریکٹر کے مڈگارڈ پر ساتھ چڑھ بیٹھا اور شام کو بھورے موٹے کاغذ میں لپٹی نئی سائیکل ٹریکٹر پر سوار گاؤں آ پہنچی۔
سکول جانے والے سائیکل سوار ٹولے میں سب سے نئی اور شاندار سائیکل سلامت کے پاس آ گئی۔ سلامت، پہلے ہی صاف ستھرا لڑکا تھا، نئی سائیکل لے کر اور طَرح دار ہو گیا۔ چھوٹے چھوٹے کسانوں کے لڑکے اس سے رشک اور حسد تک محسوس کرنے لگے۔
ایک گھٹن زدہ سہ پہر جب چھیداں نے سلامت کو اپنی چھت پر بظاہر کتاب پڑھتے دیکھا تو اس کا ما تھا ٹھنکا۔ اس نے چند مکان دور، ایک گلی کے پار بلند ہوتے چوبارہ والی چھت کی طرف نظر ڈالی تو اسے لگا کہ سرخ اینٹوں سے بنے ڈیزائن والے چھدرے پردے کے پیچھے کوئی ہیولیٰ تیزی سے غائب ہو گیا۔
اس رات بہشتی کے گھر کی تاریکی، مٹی کے تیل سے جلتی جرمن شیشے والی لالٹین سے بھی کم نہیں ہو رہی تھی۔ عشاء کی اذان کے بعد گاؤں میں خاموشی کا راج تو نئی بات نہیں تھی لیکن آج کی خاموشی تاریکی کی آمیزش سے بہت ہولناک تاثر پیدا کر رہی تھی۔ گاؤں کے کتے سرشام کہیں دبک گئے تھے اور کافی دیر سے کوئی چھوٹی موٹی آواز تک سنائی نہیں دے رہی تھی۔ گنے کے کھیتوں سے گیدڑ اپنی آوازیں تسلسل سے نکال رہے تھے جو نحوست کا تاثر دے رہی تھیں۔ گاؤں کو گھیرتے درختوں کے ہیولے ہیبت ناک جنوں کی شبیہ بن گئے تھے۔ بھادوں کے وسط کے حبس نے جھینگروں کو مست کر دیا تھا۔ اُن کی ہزاروں آوازوں سے مل کر چیختا کورس رات کے سناٹے میں پر اسرار لمبی چیخ بن کر گونج رہا تھا۔
’’سلامت کے ابا! پتہ نہیں آج کیوں مجھے رونا آ رہا ہے ۔‘‘
چھیداں نے فرطِ غم سے غوطہ کھاتی آواز میں سسکاری بھری۔
’’میری چارپائی کی پائنتی سے اٹھ اور اوپر ہو بیٹھ۔ جھلی نہ ہو تو۔ رونے کی کیا بات ہے۔ ستّے (ساتوں) خیریں ہیں۔ رب سوہنے سے خیر ہی خیر مانگ۔
محمد علی نے ہمیشہ کی طرح چھیداں کا حوصلہ بڑھایا۔
’’کیا شے ہے جو اللہ نے ہمیں نہیں دی۔ ہر ضرورت پوری ہو رہی ہے۔ ذیل داروں کے گھرانے سے لے کر کمیوں کے محلے تک کون ہے جو ہمارے ساتھ ٹھیک نہیں۔ کون ہے جو ہمیں اچھا نہیں سمجھتا۔ اولاد ہمیں ملی ہے تو بس اللہ کے نام والی۔ تو کیوں فکر کرتی ہے۔ کیا دکھ ہے تجھے۔ میں اس عمر میں بھی بھری مشک پشت پر لاد کر چوکڑی بھرتا ہوں۔ تو اپنی ہم عمروں سے کہیں زیادہ مضبوط اور ہوشیار ہے۔ اور کیا چاہئے؟ بس اللہ کا نام لیا کر اور شکر گزارا کر۔‘‘
دل میں اسے تشویش ہوئی کہ چھیداں کی یہ بے وجہ اداسی کبھی اچھا شگون نہیں ہوتی تھی۔ کوئی وجہ تو ہوتی جو جلد یا بدیر کھلتی۔ سلامت حبس کے باوجود اپنی کوٹھڑی میں گھسا کچھ لکھ رہا تھا۔ اس کا لمبوتری چمنی والا لیمپ اپنے دھاتی شیڈ سے روک کر روشنی اس کی کھلی کتاب اور کاپی پر مرکوز کر رہا تھا۔ وہ کھڑکی کے رستے آئے پتنگوں کے گرم لیمپ سے مَس ہو کر مرنے اور ایک خاص خوشبو چھوڑنے کے معمول سے بے نیاز اپنے کام میں منہمک تھا۔
اس رات چھیداں بہت دیر تک محمد علی کی پائنتی بیٹھی رہی۔ خاموش اور ساکت۔ جیسے اسے اندھیرے میں کچھ نظر آ رہا ہو۔ کچھ ایسا جو صرف اسے نظر آ رہا ہو اور کسی دوسرے کو نظر نہ آئے۔ رات کے پچھلے پہر ہی کہیں وہ اپنی چارپائی پر گئی جب محمد علی کا گڑگڑاتا حقہ خاموش ہوئے بھی دیر گزر چکی تھی۔
برسات میں دیہاتی سڑکیں کیچڑ سے اَٹ جاتیں اور لوگ پانی کے چھوٹے چھوٹے تالابوں سے بچ کر گزرتے۔ چھاجوں برستے بادل بھی محمد علی کی مشقت میں فرق لاتے نہ ضرورت میں۔ چھیداں کی بھٹی کا ایندھن گیلا ہوتا تو چھپر تلے چھپی بھٹی دو ایک دن بند رہ کر پھر دہک جاتی۔ البتہ محمد علی کے کام میں ایندھن سکھانا یا خشک ایندھن ڈھونڈھنا بھی شامل ہو جاتا۔ بھٹی نہ دہکتی تو جیسے گاؤں کا نظام رُک جاتا۔ مٹیاروں کے دل اس بیٹھک کے لئے مچل مچل جاتے جو انہیں یا تو بھٹی پر جاتے اور اپنی باری کا انتظار کرتے مہیا ہوتی یا شادی کے گیتوں کی مجلس میں جو شادی سے دس دن پہلے مغرب کے بعد شروع ہو کر رات گئے تک جاری رہتی۔ پھیری، گدے اور ناک پر سرسوں کے تیل کا دیا جلا کر مٹکنے تک ہر شوخی کی جاتی۔ بولیوں اور ماہیوں میں وہ وہ کچھ کہہ دیا جاتا وہ وہ کرلاہٹیں نکلتیں جو گاؤں کے روایتی ماحول میں مردوں کے گمان میں بھی نہ ہوتا کہ ایسے طوفان گداز سینوں میں دفن ہیں۔ محبت، رقابت، جبر، ایثار اور ہجر و وصال کے وہ اَن چھوئے جذبات نکاس پاتے جو سان گمان میں بھی نہ ہوتے۔ شادی کے شبینے خالص زنانہ ہوتے جبکہ چھیداں کی بھٹی پر کم عمر لونڈوں کو دور کھڑے ہو کر دانے بھنوانے کی اجازت ہوتی جو ہر دو اصناف کو گوارا تھی۔
اس مہیب رات سے اگلے دن چھیداں نے بھٹی جلدی دہکا دی۔ محمد علی کا کام ختم نہیں ہوا تھا اور بھٹی کئی دن بند رہنے سے مٹیاروں کے دانے بھننے کو بے تاب تھے۔ یہاں تک کہ وہ چھیداں کو گھر سے لینے آ پہنچی تھیں۔
بھٹی بھڑ بھڑ دہک رہی تھی۔ محمد علی کے اکٹھے کئے خشک ایندھن نے سخت جہنم دہکایا تھا۔ مکئی، چاول، باجرہ، گندم، چنا بھن کر اپنی اپنی خوشبو سے ایک چوتھائی کی بجائے آدھا گاؤں مہکا رہے تھے۔ گاؤں کا وسیب رواں تھا اور بھٹی کی رونق عروج پر کہ ایک ڈھلان کی سمت سے محمد علی بھری مشک پشت پر لادے لال سرخ منہ اور دہکتی آنکھیں لئے نمودار ہوا۔ وہ غیر معمولی تیزی اور وحشت ناک چال سے بھٹی کی طرف لپکتا چڑھا آیا۔ اِس سے پہلے کہ چھیداں یا کوئی بھی موجود فرد اس کی کیفیت بھانپ سکتا اس نے طوفان کی طرح لپک کر بھٹی کے ایندھن والی سمت دھانے پر اپنی مشک پہنچائی اور ڈھیروں پانی بھٹی میں انڈیل دیا۔
بھٹی سے گھٹی گھٹی چیخیں اور دلدوز آہیں نکلیں۔ دھواں اور آگ ملے پانی کی ناخوشگوار مہک ہر خوشبو پر غالب آ گئی اور پورے گاؤں پر سوگ پھیل گیا۔
لوگوں نے چمکتی ہوئی سائیکل کے تڑے مڑے حصے اور کیچڑ سے لتھڑی کتابوں سے بھرا بستہ رشید کھوجی کی ٹریکٹر ٹرالی سے نیچے اتارا تو دھان کے اُکھڑے پودوں کے ڈھیر کو مس کرتا ہوا ایک سانولا بازو منج کی چارپائی سے لٹک آیا تھا۔
کلائی پر بندھی گھڑی ابھی زندہ تھی اور تازہ خون گھڑی کی چمکدار دھاتی چین کے نیچے سے بہہ کر ایک سیاہی مائل سرخ لکیر کی مانند جم گیا تھا۔
٭٭٭
نا رسائی
میرے بھاری جوتے خزاں گزیدہ سوکھے پتوں کی احتجاجی آوازوں سے بے نیاز، انہیں روندتے چلے جا رہے تھے۔ میری کیفیت سے بے پروا زوال پذیر سورج نارنجی اُفق میں غروب سے قبل کی آخری رنگ ریزی میں مگن تھا۔
میں زرد پڑتی گھاس کے بیچ لیٹی گرد پوش پگڈنڈی پر خود کو گھسیٹتا اس کے قریب ہوتا جا رہا تھا۔
سیاہ ریشمی زلفوں کی چھدری اوٹ سے ماہتاب چہرہ ضو فشاں ہوا۔
اُداسی نے چاروں اور ڈیرے ڈال رکھے تھے اور فضا سوگوار سی تھی۔
وہی چوبی بنچ ادھر بھی، جھکے ہوئے گھنے پیڑ کے نیچے۔
یا مظہر العجائب۔
وہ چونکی نہ میری طرف متوجہ ہوئی۔
یہ نا ممکن تھا کہ اس نے میرا وہاں آنا محسوس نہ کیا ہو۔ وہ ہمیشہ، دیکھے بنا مجھے پہچان لیا کرتی تھی۔ اسی کے بلاوے پر تو میں آیا تھا۔ اسی کی محبت کا اَسیر، سحر میں جکڑا، کشاں کشاں اس مقام حیرت پر آ وارد ہوا تھا۔ پھر یہ تمکنت، یہ بے نیازی اور بے اعتنائی؟
کوئی ذی روح نہیں تھا اس وسیع و عریض مقام وحشت پر۔ بس ہم دو تھے اور لامتناہی پھیلاؤ کا مظہر گہرا سکوت۔
ایسا سکوت جو ہمیں تحلیل کر کے خود میں جذب کر لینے پر قادر تھا۔
کائنات رکی ہوئی، وقت تھما ہوا، آسمان جھکا ہوا، متوجہ اور زمان و مکان ساکت و حیران۔
ہر گاہ گہری گمبھیر خاموشی۔
میرا ورود اس متعین وسیع کینوس میں بے اثر و بے معنی تھا یا شاید وہ لا علم تھی۔
اپنی ہی سوچوں کے گرداب میں غرق۔
اپنی ذات میں مشغول۔
پھر ایک زمانے کے بعد سکوت مرتعش ہوا۔ فضا گنگنا اٹھی۔
’’بالآخر پہنچ ہی گئے تم یہاں؟ ‘‘
اُس نے میری طرف دیکھے بغیر کہا۔
اسے پتہ چل چکا تھا کہ میں بھٹکتا بھٹکتا قرنوں کی گردشوں کا اسیر، اُس کے سیارے پر آ پہنچا تھا۔ اُس کے ساتھ آہستگی سے چوبی بنچ پر بیٹھ چکا تھا۔ بالکل ویسے جیسے کبھی ہم بیٹھا کرتے تھے۔
بہت دیر ہم دونوں چپ رہے۔
درختوں کے سائے لامبے ہو کر سہ پہر کو شام کرنے کے درپے تھے۔
’’یہ لارنس گارڈن تو نہیں ہے نا، جہاں ہم نے سفید چادر بچھا کر جنوری کی دھوپ کھائی تھی۔‘‘
ناگاہ اس کی سرسراتی، نامانوس آواز نے میری سماعتوں پر غیر متوقع دستک دی۔
’’یاد ہے تمہیں، ہمارے سر مَس ہو رہے تھے۔ تمہاری باتیں میرے کان میں گدگدی کرتی تھیں۔ تم بولتے ہی جا رہے تھے۔ کبھی نثر اور کبھی نظم۔
کیا غنائیت تھی تمہاری گفتگو میں۔
ٹھہر ٹھہر کر صاف اور واضح لفظ، کیا روانی سے پھسلتے جاتے تھے تمہارے تراشیدہ ہونٹوں سے۔
کیا گنگنا رہے تھے تم؟ ‘‘
اس نے یہ ساری باتیں ایک غیر جذباتی، سرد اور سپاٹ انداز میں کر دیں۔
جیسے کوئی رو بوٹ۔
اِس گفتگو کا متن، اسلوب اظہار سے لگا نہیں کھا رہا تھا۔
’’اور وہ رات بھی یاد ہو گی۔
کتنی شدید بارش ہو رہی تھی باہر۔
تیز ہوا بھی گاہے بگاہے دروازوں کھڑکیوں کو بجا کر اپنی موجودگی کی سند لے رہی تھی۔
رات کا پچھلا پہر۔
اور تم نے اپنی ساری نظمیں سارے گیت مجھے سنا ڈالے ۔‘‘
میرے دل کو ایک دھکا سا لگا۔
وہ پر فسوں بھیگی سرد رات میری یادداشت کی کھڑکی کے رستے سیدھی میری روح میں اتر گئی۔
میں بھلا کیا جواب دیتا؟
میں تصورِ وصل کے سحر کا اسیر۔
ہوش میں تھا یا نہیں کچھ ٹھیک سے یاد نہیں۔
مکمل طور پر اس کی دسترس، اس کی رسائی میں تھا۔ مجھے بے بسی کا احساس ہوا۔
میری آنکھیں نمناک ہو گئیں۔
شدید خواہش ہوئی کہ اسے ساتھ لگا کر بھینچ لوں۔ بہت زور سے۔
اتنا زور سے کہ وہ مجھ میں مدغم ہو جائے اور ہم ایک وجود بن جائیں۔
جو ایک وجود تشکیل پائے وہ اس کا ہو یا میرا، یہ میرے لئے قطعی اہم نہیں تھا۔
بس وہی ایک جسم ہم دونوں ہوں۔
خاموشی کا ایک وقفہ آیا۔
پھر میں نے اپنی آواز سنی،
’’جو تم کہا کرتی تھیں کہ محبت رونا ہی رونا ہے۔ مجھے بہت دیر بعد تمہاری اِس بات کی سمجھ آئی‘‘ ۔
یہ اعتراف تھا اور شاید بہت تاخیر سے کیا گیا اظہار بھی۔
میں کچھ اور بھی کہنا چاہتا تھا لیکن اُس کی پراسرار سنجیدگی نے میری ہمت چھین لی۔
’’کدھر آ نکلے ہو تم؟
اتنی صدیوں بعد؟ ‘‘
اُس کی مترنم آواز جیسے سرسرا گئی۔
وہ بولنے میں اپنے مخصوص نون غنہ کے صوتی آہنگ سے کچھ ہٹ کر تاثر دے رہی تھی۔
مجھے اُس کے لہجے میں پنہاں اداسی اور گلہ کھل گیا۔
میرا کلیجہ کٹ کر رہ گیا۔
’’میں اپنا سوال اور ہفت جہاں کا بوجھ اٹھائے تمہیں ڈھونڈھتا پھرا ہوں۔ ہزاروں سال۔ کروڑوں میل۔ بے حد و حساب۔
تمہیں نے تو کہا تھا نا کہ آنا میرے پاس۔
سو اَب آیا ہوں۔
تیرے حکم کا پابند۔
تیری چاہت کا قیدی۔‘‘
اس کی بے اعتنائی میں بظاہر کوئی فرق نہ آیا۔
وہ کہیں اور ہی کھوئی رہی اور ایک توقف کے بعد پھر سرسراتی آواز میں گویا ہوئی،
’’تو میں کہاں تھی؟
میں تو کہیں بھی نہیں گئی۔
میں نے کہا تو تھا کہ میں نے کہاں جانا ہے۔
ہمیشہ اور ہر لڑائی کے بعد۔
جب تم پچھتاتے تھے اور پھر اپنی چاہ سے مغلوب مجھے ڈھونڈنے، منانے نکلتے تھے۔
شرمندہ سے۔
تو کیا کہتی تھی میں؟
یہی نا کہ میں نے کہاں جانا ہے؟ تم سے تو کبھی جھوٹ بول ہی نہیں سکی۔
گئی نہیں کہیں۔ یہیں منڈلاتی رہی تمہارے اردگرد۔‘‘
مجھے لگا کہ میری آنکھیں پھر بھر آئی ہیں۔
مرد ہو کر اتنا رقیق القلب ہونا زیب نہیں دیتا لیکن سب کچھ اپنے بس میں تھوڑے ہی ہوتا ہے۔
اس کے الفاظ بہرحال امید کے کئی در بھی وا کر گئے۔
مجھے خود کو سنبھال کر بولنا پڑا۔
’’تو کہاں گئی تھیں پھر؟
کیوں گئی تھیں؟
یہ سوچے بنا کہ میرا کیا ہو گا۔
کیوں اتنا بے بس کیا۔
یہ جان کر بھی کہ جیوں گا تو بھی زندگی مرنے سے بدتر ہو گی۔
اگر میں بھٹکتا ہوا یہاں نہ آ نکلتا تو صدیوں بھٹکتا ہی رہ جاتا۔
آوارہ بے منزل۔‘‘
اس کی کسی حرکت کسی اِشارے سے نہ لگا کہ وہ کچھ پگھلی ہے۔ پسیجی ہے۔
ایک بے حس خودکار سے میکانکی انداز میں وہ سب مثبت باتیں کرتی چلی جا رہی تھی اور میرے نوحے بھی سن رہی تھی۔
میں حیران تھا کہ لفظ اور جملے جو مجھے موم کئے دیتے ہیں اس نازک طبع پر کیسے غیر موثر ہیں۔
ایک بوجھل وقفے کے بعد مجھے اس کی آواز پھر سنائی دی۔
’’ہماری آخری بات تو یاد ہو گی نا تمہیں؟ ‘‘
میں ذرا گھبرایا اور سوچ میں پڑ گیا۔
پھر اسی کی مدد چاہی۔
’’کون سی آخری بات؟
بھلا بات بھی آخری ہوتی ہے اگر دل کی بات ہو؟ ‘‘
اس نے پہلی بار میری طرف گردن گھمائی۔
اس کی آنکھوں میں عجب سکون ہلکورے لے رہا تھا۔ جسم اور اعضاء جیسے کیف آور کسلمندی سے مغلوب ہوں، سو آنکھیں بھی اِس کیفیت کے زیر اثر۔
اداس سی آشنائی کی رمق نظر نواز ہوئی لیکن مجموعی تاثر بے پروائی اور لا غرضی ہی کا ابھرا۔
الفاظ جیسے میرے حلق میں پھنس سے گئے۔
ذرا سا رک کر میں نے ہمت مجتمع کی اور پھر بول پڑا،
’’معاف کر دو مجھے۔ تمہارے فلسفے تب نہ سمجھ سکا کبھی تو اب بھلا کیا سمجھوں گا؟ ‘‘
اس نے نظریں پھر افق پر گاڑ لیں اور کھوئی ہوئی سی آہستگی سے بولی،
’’اگر واقعی سمجھنا چاہتے ہو تو میں مدد کروں؟
کیا کہنا ہے؟ کیا سمجھنا ہے؟
خون ہوتے ارمانوں کا نوحہ؟
ٹوٹے ہوئے خوابوں کی کرچیاں؟
بکھرے ہوئے سپنے؟
خدا کے لئے۔ پھر سستی رومانویت نہ شروع کر دینا۔‘‘
مجھے لگا کہ میری رومانوی یاسیت پسندی کے نقوش اس کے ذہن کے تاریک گوشوں میں ہنوز محفوظ پڑے تھے۔
شام کی آمد سے قبل واپسی کے متمنی پرندوں کے غول بلند قامت گھنے درختوں کی سمت محو پرواز نظر آئے۔
ان کی چہکار میں امید سے زیادہ فکر آگیں مایوسی محسوس ہوئی۔
پرندوں کی پرواز بھی سست رَو سی تھی۔
’’اچھا آج تو یہ بتا دو کہ وہ پیار تھا کہ ضرورت؟ ‘‘
میں موقع غنیمت جان کر پھر گویا ہوا۔
یہ کئی بار کا پوچھا سوال تھا۔
ہنوز جواب کی تشنگی سے معمور۔
’’اُف‘‘ ۔
وہ بس اتنا ہی بولی۔
میں پھر گویا ہوا،
’’اچھا۔ خیر سنو تو۔
وہ لائبریری میں کتابوں سے لبریز بڑی بڑی الماریوں کے بیچ تنگ، نیم تاریک کونے میں جب میں نے پہلی بار تمہارے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔ ایک کپکپی سی تمہارے اَن چھوئے، شفاف، معطر جسم سے نکل کر میری ہتھیلی سے گزر گئی تھی۔
ہر مشام جاں کو مہکا گئی تھی، لرزیدہ کر گئی تھی۔
اِس کنواری لرزش کے معنی کھول دو۔‘‘
اس نے گردن کو ہلکا سا خم دے کر دزدیدہ نظروں سے مجھے دیکھا،
’’تم ابھی بھی وہی رومانویت میں پھنسے احمق ہو؟ ‘‘
میں بھی موضوع بدلنے والا نہیں تھا۔
’’وہ لرزش، وہ معطر، مقدس کپکپی تمہارے جسم سے بہی تھی۔ میرے جسم نے تو محسوس کی تھی۔
بھیگا تھا اس کی لذت میں۔
شرابور ہوا تھا۔
اس کا ہدف تھا ماخذ نہیں۔‘‘
میں سراپا سوال بن گیا۔ گویا جواب پر میری مکتی منحصر تھی۔
مگر جواب تو اسی نے دینا تھا نا۔ اگر چاہتی،
آہستگی سے بولی
’’کوئی جواب نہیں۔
ایسے سوالوں کا جواب کبھی دیا ہے میں نے۔
کیا وہی ایک تحیر کا فسوں زدہ لمحہ تھا تمہاری زندگی میں جو بھولے نہیں بھولتا؟ ‘‘
مجھے جواب کی تلاش میں کوئی تامل نہ ہوا۔
جیسے سوچنے کی بھی ضرورت نہ ہو۔
جواب سامنے دھرا ہو۔
’’ارے نہیں۔ سب سے آسودہ، سب سے تسکین آور سحر انگیز لمحہ تو وہ تھا جب تم اس رات نڈھال ہو کر میرے سینے پر سر رکھ کر گہری نیند سو گئیں۔
اتنی مست کہ ہلکے ہلکے خراٹے لے رہی تھیں۔
حالانکہ تم خراٹے نہیں لیتیں۔
میں سویا تھوڑے ہی تھا۔
میں تو مد ہوش تھا۔
سر شار۔
نیم وا آنکھوں کے دیدبان سے چپکا، تیری دید کے نشے میں مست۔
تیری آسودگی میرے رگ و پے میں سرائت کر رہی تھی اور میں مد ہوش۔
میں تو بس تمہیں دیکھتا رہا تا آنکہ تم پھر جاگ گئیں۔‘‘
مجھے لگا کہ اس بات نے اس کو بھی جھنجھوڑ دیا ہے۔ جیسے وہ بھی اس مشترکہ پل کی تلاش میں نکل گئی ہے جو زندگی کا حاصل تھا۔
پھر سنبھلی اور بولی،
’’ارے بس کر دو۔
یادوں کو یادیں ہی رہنے دو۔
انہیں کچھ بے بس لمحوں نے تو زندگی کو معنی دئیے۔ ورنہ مجھے تو جانتے ہو۔
ٹھنڈی اور قانع۔
لا غرض۔
اپنی بولو۔
کیوں ڈھونڈھتے رہے؟
میری نا رسائی تمہارا مقدر تو نہیں تھی۔
پھر کیا گم کر بیٹھے؟ کیا کھو گیا؟
بھرے پڑے تھے۔
سب میسر۔
پھر کیوں فقیر بنے پھرتے تھے؟
کیوں بھکاری بنے پھرتے ہو، بھٹکتے، ابھی تک؟
کیا چاہئے تمہیں شہزادے؟
کیا کمی رہ گئی کہیں؟ مرضی کے مالک!‘‘
اُس کا محبوب موضوع چھڑ رہا تھا بالآخر۔
اِس موضوع پر بولتے اس کے لہجے میں ہمیشہ پیار کے ساتھ استہزاء شامل ہو جاتا تھا۔
جواب تو تھا میرے پاس۔
اتنا واضح ہو چکا تھا کہ شاید پہلے کبھی نہ ہوا ہو۔
’’کچھ تو کھو جاتا ہے جو بے کل رکھتا ہے۔ مرضی کا مالک کون ہے اور کتنا ہے۔ یہ نہ تب طے ہوا تھا نہ اب طے ہو سکے گا۔
ہر کسی کا اپنا مشاہدہ ہے اور اپنا گمان۔
ہر کسی کا اپنا جبر بھی ہے۔
حصہ تو بٹانا پڑتا ہے نا۔
آسمان کہکشاؤں سے سجا نظر آتا ہے۔
کوئی وہاں پہنچے تو دیکھے کہ آسماں تو خالی ہے۔ کہکشاں تو کوئی اور ہی روشنی بناتی ہے کسی اور ہی ذریعہ سے گزر کر۔
خوبصورتی ایک کم از کم بُعد کی محتاج ہوتی ہے۔ ذرا سی نا رسائی مانگتی ہے۔
کبھی کسی خوبصورت چہرے کو انتہائی قریب سے دیکھا ہے؟
نہیں نظر آتا نا۔
ہاں! جہاں نظر دم توڑتی ہے تو قربت لمس میں ڈھلتی ہے۔
بُو باس میں رچ کر بکھرتی ہے۔
قربت ادغام کی دعوت ہو سکتی ہے لیکن کشش اور خوبصورتی کی ترسیل و تقویم بہرحال فاصلے کی محتاج ہے۔
سو سمجھ لو کہ کہکشاں دور ہی سے دیکھنے کی چیز ہے۔ مسحور ہونے کے لئے ۔‘‘
میری باتوں نے شاید اس کو اور بھی دکھی کر دیا تھا۔
اب جو بولی تو اُس کی آواز میں پژمردگی واضح تھی۔
’’بس یہی باتیں کرنے آئے ہو اِتنی دِقت اُٹھا کر، اتنی دور؟ ‘‘
میری بات ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی۔
میں نے پھر بات شروع کی،
’’تم بزُعم خویش ایک دوسرے کو سانس لینے کی جگہ دینے کی بھی قائل تھیں اور میری ناک اور منہ بند کر کے تماشہ بھی دیکھتی تھیں۔
کبھی لگتا تم اس نظریہ کی پیروکار ہو کہ انسان بنیادی طور پر ایذا پسند ہے۔
کبھی ایذا جھیل کر مزہ لیتا ہے اور کبھی ایذا رسانی سے۔
مجھے دفاعی پوزیشن میں ڈال کر زچ کر کے کیا لذت کشید کرتی تھیں؟ ‘‘
لامبے، پھیلے قدیم درختوں پر پرندے اب سستارہے تھے۔ ان کی آوازوں میں چہکار نہیں تھی۔ ایک سرگوشیوں کی سی سسکاریاں تھیں۔
جانے کیوں پرندے بہت اداس اور سوگوار لگ رہے تھے۔ یہ سب کچھ قدرے غیر حقیقی سا تھا۔
فسوں زدہ سا۔
جیسے کوئی رومانوی فلم سست روی سے چل رہی ہو۔
میں نے ایک گہری ٹھنڈی سانس لی۔
فضا مغموم تر ہو گئی۔
یہ موقع تھا کہ میں موضوع بدل دوں۔
’’باتیں تو صدیوں میں ختم نہ ہوں۔
بقول تمہارے جب کوئی بات آخری بات ہوتی ہی نہیں تو باتیں ختم بھی کیونکر ہوں۔
چلو لگے ہاتھ، بالآخر، آج یہ فیصلہ بھی کر لیں کہ قصور کس کا تھا۔‘‘
وہ ذرا سا چونکی۔ اور بولی
’’واہ صاحب! ۔
اگر یہ فیصلہ آسان ہوتا تو ہو چکا ہوتا۔
عام بات یہ ہے کہ تمہارا۔
لیکن رد عمل میں تم فوراً کہو گے کہ نہیں تمہارا۔
ایک اور بحث۔ ایک اور لڑائی۔
تو جان چھڑانے کو یا خود کو ایثار پیشہ ثابت کرنے کو میں کہتی ہوں کہ میرا۔
تو بات نپٹ گئی کیا؟
ایک اور بھی حل ہے۔
ایک تیسرا اور آسان راستہ۔
تقدیر کا۔
تو کیا تم مطمئن ہو گئے؟
اب بولو کوئی چوتھا راستہ ہے؟
چلو مان لیتے ہیں۔ بھئی معاشرے کا۔ دنیا کا۔ سب کا۔
اب بولو تمہاری آخری بات ختم ہوئی؟
باتوں کے تم شوقین ہو سدا کے۔
صدیاں گزار دو گے باتوں میں۔
وہ دیکھو کون آیا ہے تمہیں لینے ۔‘‘
جھاڑ جھنکاڑ ہٹاتے، بچتے بچاتے، لمبی خودرَو گھاس کو روندتے وہ مجھ تک آ پہنچا۔
’’بابو جی!
باجی کہہ رہی ہیں میں تھک گئی ہوں ٹیکسی میں بیٹھے بیٹھے۔
جہاز کا وقت نکلا جا رہا ہے۔
فاتحہ پڑھ لی ہے تو اب آ جائیں۔‘‘
٭٭٭
شیر
گیلے بھاری آسمان تلے دسمبر کے آخری دنوں کا کہر جھونپڑی کو مکمل گھیرے تھا۔ برفیلی سیلن جھونپڑی کے اندر رستی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔ یاسیت میں غرق بستی کے بیکار کتے ساری رات بھونکنے کے بعد فطری کسلمندی کے سبب چپ سادھ چکے تھے۔ گو اُن کے کورس بند ہو چکے تھے پھر بھی کبھی کبھار کوئی اکیلی دوکیلی تان سنائی دے ہی جاتی۔ مضمحل جسم کی ناتوانی کو شکست دیتے ہوئے رابو جھلنگا چارپائی کے گڑھے سے نکلنے کے لئے ہر ممکن آہستگی سے کسمسائی تو حسو کی نیند کھل گئی۔ جب اس کی ماں اسے جھونپڑی میں چھوڑ کر سڑک بنانے والے مزدوروں کے ساتھ، منہ اندھیرے، کام کے لئے نکلتی تو وہ گاہے بالکل بے خبر سوئی رہ جاتی گاہے ادھ سوئی ادھ جاگی۔ اسے اس وقت جھونپڑی میں پڑا خراٹے لیتا اپنا باپ اس بوڑھے مردار بیل جیسا لگتا جس کی کھال اتار کر سیاہی مائل گلابی بدبو دار جسم جھگیوں سے پرے پھینک دیا گیا تھا۔ کتے اور مردار خور گدھ ایک دوسرے پر جھپٹ جھپٹ کر دو دن تک اسے بھنبھوڑ کر کھاتے رہے تھے تا آنکہ گدھوں نے ہڈیاں بالکل ننگی کر دیں، جو کئی دن تک دھُوپ میں سنکتی رہیں۔ بالآخر ایک بد شکل آدمی گدھے پر سوار آیا اور ہڈیوں کو کاٹ کر ایک بوری میں ڈال، گدھے پر لاد کر لے گیا۔ وہ ہفتہ بھر دوسرے بچوں کے ساتھ یہ نظارہ کرتی رہی اور بالآخر اس جگہ صرف بیل کے غیر ہضم شدہ فضلے کے نشان رہ گئے جو بستی کے فارغ بچے کئی دن تک جا کر خواہ مخواہ دیکھتے رہے۔ یکبارگی اسے ایسا لگا کہ مردار جسم اس کی ماں ہے، جسے کتے اور مردار خور گدھ نوچ نوچ کر کھاتے ہیں۔ جس کی ہڈیاں بھی بیچ کھائی جائیں گی۔ اسے شدت سے محسوس ہوا کہ اس کا باپ مردار کا وہ باقی ماندہ، غیر ہضم شدہ فضلہ ہے جو بستی کے بنجر کھیت میں پڑا رہ جاتا ہے اور ابکائیاں لاتا ہے، تا آنکہ وُہ مٹی میں مل کر ناپید ہو جائے۔
حسو کی ماں رابو چپکے سے اس کے پہلو سے جھونپڑی کی واحد جھلنگا چارپائی ہلائے بغیر، ایک طرف سے دھیرے سے اترتی اور ٹٹول کر اپنی پلاسٹک کی چپل میں پاؤں گھسیڑتی، کہ آہٹ نہ ہو۔ وہ اکثر رات کی بچی روٹی لتھڑی ہانڈی پونچھ کے کھاتی اور گھڑے کا ایک پیالہ پانی پیتی تو اس کا ناشتہ مکمل ہو جاتا۔ رات کی پکائی، شاپنگ بیگ میں لپیٹ کر رکھی، دو سوکھی روٹیاں اور بیچ میں لڑھکتے، اچار کے پرانے مرتبان سے نکلے چار لسوڑے، اس کا لنچ تھا جو وہ ساتھ رکھ لیتی۔
وہ اپنی بڑی سی پرانی اور جگہ جگہ سے سٹکی پھول دار چادر کو کس، لپیٹ کر، اوڑھتی۔ جیسے بوسیدہ سوت کے رنگے ہوئے یہ دھاگے اسے دنیا جہان کی گندی نظروں، غربت، کسمپرسی اور لاچارگی کی آندھیوں، تذلیل کے جھکڑوں سے زرّہ بکتر بن کر بچا لیں گے۔
وہ پیار اور رحم کی ایک نظر پپو پر ڈالنا نہ بھولتی کہ وہ اس کی واحد نرینہ اولاد تھا، چاہے ذہنی معذور ہی تھا۔
رابو جھگی سے باہر نکلنے سے پہلے پیار، رحم، نفرت، اور حقارت کی آمیزش سے ایک بھر پور نگاہ تخلیق کرتی جو اپنی اکلوتی محبت، رحمو پر جھونکتی، جو کبھی اس کا محبوب خاوند اور اب آزار بن چکا تھا۔ رابو سر نیچا کئے جھونپڑی سے نکلتی اور اس قافلۂ درد کا حصہ ہو جاتی جو زیادہ تر عورتوں، بچوں اور لا وارث بوڑھے مردوں پر مشتمل، کرم خوردہ لاٹھیوں اور کند برچھیوں سے لیس، زندگی کی ہاری ہوئی جنگ لڑنے، نکلتا اور خوابیدہ سوگوار جھگی بستی کو یاس کے کہرے میں غرق خیرباد کہتا۔ یہ شکست خوردہ لشکر، زبوں حال و دِل گرفتہ، شام کو پھر جھگی بستی کی نحوستوں اور نارسائیوں کا حصہ آ بنتا۔
اپنی ماں کے جانے کے بہت دیر بعد، خوب دن چڑھ آنے پر حسو اپنی گدڑی سے نکلتی اور معمولات زندگی کا آغاز گل عباسی کے آوارہ پودوں میں رفع حاجت سے کرتی۔ پھر بستی کے مشترکہ ہینڈ پمپ سے منہ پر چھینٹے مار، کلی کر، گیلے ہاتھوں سے بال سیدھے کر کے میک اپ مکمل کرتی اور دِن بھر کے لئے جھک مارنے کو تیار ہو جاتی۔ معذور بھائی کو ناشتہ کروانا، نکمے باپ کو گڑ والی چائے ابال کر دینا بس ایک میکانکی عمل تھا۔
ایک ڈیڑھ پہر دن چڑھے جب اس کا باپ بستی کے بیشتر مردوں کی طرح بھڑکیلے نیلے کپڑے اور گلابی جھالر سے ڈھکا، مینڈک کی شکل کا مرفی ریڈیو ٹرانسسٹر لے کر قبرستان اور ریلوے لائن کی بیچ والے دھریک کے جھنڈ میں ریڈیو پر گانے سننے اور تاش کھیلنے جاتا تو وہ بستی میں اپنے باقی ساتھی بچوں، بہت بوڑھے چمرخ بابوں، جھریوں بھرے مہربان چہروں اور کپکپاتی رعشہ زدہ خمیدہ کمر بوڑھیوں کے ساتھ رہ جاتی۔ اس کی عمر کے بستی والے لڑکے کاغذ چننے بھیک مانگنے، چوری چکاری اور اٹھائی گیری کرنے یا اور کچھ نہیں تو قریبی درختوں پر چڑھن چڑھائی، جسے وُہ ’’چوئی چڑانگڑ‘‘ کہتے کھیلنے نکل جاتے۔
اس کے ساتھ کی لڑکیاں گھر کے کام کاج کرتیں یا جھگیوں کی دھُول بھری گلیوں میں گرد اُڑاتی کھیلتی پھرتیں۔
یہ جھگی والوں کی ریت تھی کہ عورتیں کام کریں کمائیں بچے پیدا کریں اور پالیں۔ مرد سوتے رہتے، صبح دیر سے اُٹھ کر ناشتہ کرتے، نہا دھو کر تیل لگا کر مونچھوں کو تاؤ دیتے، ریڈیو پر گانے سنتے، مرغ لڑاتے، شرطیں بدتے، جوا کھیلتے، جس میں کبھی کبھار محنت کش مظلوم بے زبان بیویوں تک کو ہار جاتے۔ نشہ عام تھا اور سگریٹ نوشی تو نشہ میں شمار ہی نہیں تھی۔ جھُگی بستی کے بالکل سامنے ریلوے اسٹیشن تھا جہاں برانچ لائن ہونے کی وجہ سے دن میں تین چار ریل گاڑیاں گزرتی تھیں جو اپنی آمد سے کچھ دیر پہلے ہی اسٹیشن کی رونق میں اضافے اور اردگرد کے معمولات کے ذریعے اپنی آمد کا اعلان کر دیتی تھیں۔ سگنل کے ڈاؤن ہونے کے علاوہ بھی جھگیوں کے بچوں کو پتہ چل جاتا کہ ٹکٹ گھر والی کھڑکی کھلنے کی گھنٹی ٹن ٹنا ٹن ٹن کرتی ہوئی وقفہ دے کر اگر ایک بار ٹن کر کے ختم کرے تو گاڑی حاصل گڑھ کی طرف سے آئے گی اور اگر دو بار ٹن ٹن کر کے ختم ہو تو گاڑی رُستم پُور کی طرف سے آئے گی۔ بستی کے بچوں کا ایک بڑا مشغلہ گاڑیوں کو آتے جاتے سواریوں کو اُترتے چڑھتے اور اسٹیشن کے اِرد گرد تانگوں یکوں اور گدھا گاڑیوں کے آتے جاتے قافلے دیکھنا بھی تھا۔ بستی کے مرد انہی ریل گاڑیوں میں بیٹھ کر حاصل گڑھ کے قصبہ میں جا کر سینما بھی دیکھتے تھے، جس کے ٹکٹ اور ریل کے کرائے کے پیسوں کے لئے اپنی اپنی بیویوں کے علیحدہ پٹائی سیشن ہوتے۔
رحمو نے حسو کا نام، حسنہ، ایک فلم ڈانسر کے نام پر رکھا تھا جو اسے بہت پسند تھی۔
اسی زمانے میں سوشلزم کا غلغلہ اُٹھا جسے اسلام کا چغہ بھی پہنا دیا گیا۔ ’’اسلامی سوشلزم‘‘
بستی کے کاہل اور عیاش مرد اس بات پر بہت خوش تھے کہ زمینیں زمیندار لوگوں سے چھین کر سب ہما شما میں تقسیم کر دی جائیں گی لیکن یہ بات نہیں بھاتی تھی کہ صرف کسانوں میں بانٹی جائیں گی، جو ہل چلاتے ہیں۔ اسی طرح اس بات پر خوش تھے کہ جس زمیں پر جھگیاں ہیں وہ اُن کی ملکیت ہو جائے گی اور یہ کہ حکومت خود روٹی کپڑا اور مکان دے گی لیکن اس بات سے سخت خوفزدہ اور ناراض تھے کہ سرکار وردی نما کپڑے اور ہوٹل نما ڈپووں سے روٹی سالن صرف اس کو دے گی جس کو کام کرنے کے بعد روٹی ٹوکن ملے گا۔ انہیں لگتا کہ عورتیں تو کھا کھا کر موٹی ہو جائیں گی اور وہ بھوکے مر جائیں گے۔ حسو کی زندگی دھُول، کیچڑ مٹی، گندی بدبو دار نالیوں اور بوسیدہ جھونپڑی کے معمولات میں گزرتی جا رہی تھی کہ ایک بہت بڑا واقعہ رُو نما ہو گیا۔
ایک دن کالے سیاہ رنگ کی چمکتی ہوئی بڑی سی گاڑی آ کر جھگیوں کے پاس رک گئی۔ سب بچے تجسس کے مارے گاڑی کے پاس آ کھڑے ہوئے۔ گاڑی سے بڑے بڑے کالے چشمے پہنے گوری گوری دو لڑکیاں اور دو لڑکے نکلے جن کو ہدایات دیتا ایک ادھیڑ عمر مرد سب سے بعد میں گاڑی سے اترا۔ لڑکیوں نے بچوں سے معلومات حاصل کیں، کتنی جھگیاں ہیں، تقریباً کتنے بچے ہیں کس عمر کے بچے ہیں، بچے اور بچیاں کیا کام کرتے ہیں، کچھ کماتے ہیں یا آوارہ گردی ہی کرتے ہیں، سکول کیوں نہیں جاتے اور یہ کہ اگر انہیں پڑھانے کا بندوبست کر دیا جائے تو کیا وہ پڑھنا چاہیں گے وغیرہ وغیرہ۔ چھوٹی لڑکی یہ ساری تفصیلات بڑی احتیاط سے ایک کاپی میں لکھتی جا رہی تھی۔ حسو نے اپنی باری پر لکھوایا کہ وہ صرف گھر کے کام کرتی ہے اور جھونپڑ بستی کی گلیوں میں آوارہ پھرتی ہے۔ وہ زیادہ دیر جھونپڑی سے دور نہیں رہتی کیونکہ اس کا چھوٹا معذور بھائی جھونپڑی میں اکیلا پڑا رہتا ہے اور رابو کے مزدوری کے لیے جانے کے بعد حسو ہی اس کی نگران ہوتی ہے۔
جلد ہی فلاحی تنظیم نے جھونپڑیوں کے پاس خالی پڑی زمین مالک سے کرایہ پر حاصل کر کے ایک چھوٹا سا سکول قائم کر دیا۔ لڑکیوں کے لئے دو استانیاں جبکہ لڑکوں کے لئے دو استاد رکھ دیئے گئے۔ خاطر خواہ تعداد میں بچے نہ داخل ہوئے تو فلاحی تنظیم نے ایک چھوٹی سی رقم فی بچہ وظیفہ کے طور پر مقرر کر دی جس سے لالچی اور مجبور والدین نے کافی تعداد میں بچے سکول بھیجنا شروع کر دئیے۔ حسو کو بھی سکول بھیج دیا گیا۔ طے شدہ شرط کے مطابق استانیاں اسے اتنی اجازت دیتیں کہ وہ ایک آدھ بار گھر کا چکر لگا کر اپنے معذور بھائی کی ضروریات پوری کر سکے۔
امانت حسو کا تایا زاد تھا۔ مریل سا اور کالا کلوٹا مگر بلا کا اکڑو اور شیخی خورا۔ امانت کو سارے بستی والے مانا آکڑ خان بلاتے تھے۔ اس کی سمجھ میں یہ بھی نہ آتا کہ لوگوں نے اس کی اکڑ فوں اور احمقانہ مدافعت کو اس کی چھیڑ بنا لیا ہے۔ مانے کا باپ بھی اتنا ہی بڑا نکما اور نکھٹو تھا جتنا کہ بستی کے باقی مرد، سو یہ ورثہ مکمل طور پر نئی نسل کو منتقل ہو چکا تھا۔ مانا حسو سے کوئی سال چھ مہینے بڑا ہو گا۔ دونوں نے بچپن اکٹھے گزارا تھا۔ وہ بستی کے نواح میں بچھی قد آدم جھاڑیوں اور آوارہ جنگلی پودوں کی اوٹ میں ہوئی کئی پوشیدہ سرگرمیوں کے رازوں کے امین بھی تھے اور کئی آدھے ادھورے، چھوٹے موٹے تجربے خود بھی کر چکے تھے۔ امانت کی زندگی آوارہ گردی چوری چکاری اور دھول مٹی کی نذر ہو رہی تھی کہ سکول کھل گیا اور اس کے باپ نے چند سو روپے مہینہ وظیفہ کے لالچ میں اسے بھی سکول بٹھا دیا۔ انتظامیہ کی طرف سے کتابیں کاپیاں مفت ملتی تھیں اور دوپہر کو ہر بچے کو ایک گلاس دودھ اور چار بسکٹ بھی دئیے جاتے تھے۔ اس سکول سے کامیابی سے فارغ ہونے والے بچوں کو تنظیم نے معقول وظیفہ دے کر بڑے سکول بھی داخل کروا دیا۔ گرتے پڑتے حسو اور مانا دونوں میٹرک کر گئے۔ منگنی بچپن سے طے تھی۔ جھونپڑ بستی میں جلدی شادی کا رواج تھا سو شادی ہو گئی۔ مانا بڑے شوق سے دولہا بنا کیونکہ حسو ایک مناسب معاوضے پر فلاحی ادارے کے سکول میں ملازم رکھ لی گئی تھی اور جھونپڑ بستی کی معزز خواتین میں، جتنی معزز خواتین ہو سکتی تھیں، شمار ہونے لگی تھی۔ مانا دولہا بن کر آیا اور شادی والے ہنگامے، شور شرابے کے بعد حسو دُلھن بن کر سسرالی جھونپڑی میں پہنچ گئی۔
بستی میں شاید ہی کچھ بدلا تھا مگر رابو اب بوڑھی ہو چلی تھی اور اس کے زیادہ تر بال سفید ہو چکے تھے۔ رحمو کی وہی بے ڈھنگی چال تھی کہ تاش کھیلنا، ریڈیو پر گانے سننا اور فلم دیکھنا معمول تھا۔ شرطیں بد کر مرغے لڑانے کی نئی علت بستی میں در آئی تھی۔ کبھی کبھار ریچھ اور کتے کی لڑائی بھی ہو جاتی۔ درد کے قافلے ابھی بھی سورج کے ساتھ طلوع اور غروب ہوتے تھے۔ سارا دن مزدوری سے جسم اور روح تڑوا کر عورتیں اب بھی شام کو گھر کے کام کرتیں اور مردوں سے مار کھاتی تھیں۔ اب بھی سارا دن مزے سے گزار کر مرد رات کو سالن کی بھری پلیٹ اور گرم روٹی کے پہلے حقدار ٹھہرتے تھے جبکہ بچوں کے بعد عورتوں کے لئے کبھی کچھ بچتا تھا اور کبھی نہیں۔ اب بھی مرد ایک ہی جھونپڑی کے نیم تاریک کونوں میں بچوں کو سوتا سمجھ کر عورتوں کے مریل جسموں سے جنس کا خراج، یک طرفہ لذت کشید کر کے وصول کرتے تھے۔ عورتیں دم نہ مارتی تھیں کہ یہ کار بے لذت، بلکہ بے گار، سدا سے مردوں کا حق گردانی جاتی تھی۔ رابو کا معذور بیٹا اب بھی رابو کی ذمہ داری تھا یا حسو کی کہ وہ رحمو سے سخت ڈرا اور سہما رہتا تھا اور اس کے قریب جانے کا بھی روا دار نہیں تھا۔
شادی کے بعد بھی مانا ویسا ہی رہا جیسا کہ شادی سے قبل تھا۔ حسو گھر کا کام کرتی، سکول جاتی، پھر واپس آ کر گھر کے کام کرتی اور رات مانے کے کام آتی۔ حسو کو شدت سے محسوس ہوتا کہ وہ رابو ہی ہے۔ بس کام تھوڑا مختلف ہو گیا ہے۔ ایک فرق یہ بھی تھا کہ اس کے باقاعدہ پٹائی سیشن ابھی شروع نہیں ہوئے تھے، گو دھونس، دھمکی اور گالی کا استعمال معمول کی بات تھی۔ اس کی نوکری نے گھر میں خوشحالی پیدا کی تھی اور اُسی کے پیسوں سے شادی پر ایک چھوٹا سا ٹیلی وژن سیٹ بھی خرید لیا گیا تھا۔ مانا ریڈیو سننے، تاش کھیلنے، مرغوں کی لڑائی دیکھنے کے علاوہ ٹیلی وژن دیکھنے کا بھی بڑا شوقین نکلا۔ اُس پر طرہ یہ کہ مانا اپنے یاروں دوستوں کو بھی بلا لیتا اور وہ جھونپڑی میں گھسے ٹیلی ویژن پروگرام دیکھتے رہتے۔ جب میچ ہو رہے ہوتے تو جوئے کا بھی خاطر خواہ بندوبست ہو جاتا۔ لڑائیوں اور گالیوں کے طوفان اٹھتے اور کبھی کبھار تو حسو کو سب کے لیے چائے بھی بنانی پڑ جاتی۔ مانے کا واسطہ رابو سے نہیں حسو سے تھا جو دس جماعت پڑھ چکی تھی اور این۔ جی۔ او کی باجیوں کی باتیں بھی بہت سن چکی تھی، جو عورت کے حقوق کی عجیب و غریب باتیں کرتی تھیں۔ اب ٹیلی ویژن گھر میں تھا جو کبھی تو وہ بھی دیکھ ہی لیتی۔ جلد ہی اسے مانے سے اتنی نفرت اور کراہت محسوس ہونے لگی جتنی اپنے باپ رحمو سے بھی نہیں تھی۔ اسے لگتا کہ اس بستی کے مرد مردار خور گدھوں سے بھی گئے گزرے ہیں کہ گدھ تو مردہ جانوروں کا گوشت کھاتے ہیں جبکہ یہ زندہ عورتوں کے جسم و جاں پر پلتے ہیں۔
ایک دن اس نے مانے سے عین اس وقت بات چھیڑی جب وہ جبلت سے مغلوب اس کے زیر اثر تھا اور اس کی باتیں سننے پر آمادہ۔
’’مانے! تجھ سے میرا رشتہ بڑا ہی گہرا ہے۔ تم سے زیادہ کون میرے قریب ہے۔ ہم نے سارا جیون اکٹھے گزارا بھی ہے اور گزارنا بھی ہے۔ ہم نے ساری بستی کی ہر ہر رسم، ہر رواج اور ہر اچھائی برائی کو دیکھا ہے۔ یہاں کے ریتی رواج میں مردوں کی ہڈ حرامی اور عورتوں پر ہر طرح کا ظلم زیادتی سدا سے چلی آ رہی ہیں۔ مردوں نے کام نہ کرنے کی قسم اٹھا رکھی ہے۔ گھر کے کام، بچے پیدا کرنا اور پالنا، روٹی کمانا بھی اور پکانا بھی سب عورت کے ذمے۔ مرد صرف اپنے مرد ہونے کا فائدہ لیتے ہیں۔ مرد ہونا ہی سب کچھ ہے۔ عورت ہونا عظیم جرم ہے جس کی سزا عورت مرتے دم تک بھگتتی ہے۔ اب دنیا بدل گئی ہے مانے۔ ہماری جھگیوں میں پہلے بھی باہر والوں سے علیحدہ ہی رواج تھا کہ مرد سارا بوجھ عورتوں پر ڈال کر صرف عیاشی کرتے تھے۔ اب تو ہم کچھ پڑھ لکھ گئے ہیں۔ ہمیں سارا بوجھ مل کر اٹھانا چاہئے۔
تو میرا ساتھ دے۔ ہم مل کر نئی مثال قائم کریں گے۔ سامنے ریلوے اسٹیشن پر نوکریاں نکلی ہیں۔ پاس کا پاس ہے۔ رونق کی رونق ہے۔ دونوں کمائیں گے تو بات ہی اور ہو گی۔ سجن بیلیوں، سکھی سہیلیوں، اڑوس پڑوس میں ہم سب سے آگے نکل جائیں گے اور ہماری اولاد ہم سے بھی آگے۔
تو تو میرا شیر ہے۔ شیر جوان ہے۔ میرا ساتھ دے۔ شیر بن شیر۔۔ ۔
اتنی لمبی تقریر کر کے اور سارے جذبات اپنی آواز اور تاثرات میں سمو کر حسو نے ایک لمبی سانس میں صدیوں کی اداسی، مایوسی اور مظلومیت اگل دی۔ اُس نے دنیا جہان کی لجاجت، محبت اور امید اپنی نظروں میں سمو کر ایک ملتجیانہ، جگر پاش نگاہ اپنے شوہر پر ڈالی۔
مانے نے سرسوں کے تیل سے چپڑی اپنی نوخیز سیاہ مونچھوں کو دونوں ہاتھوں کے انگوٹھوں اور ساتھ کی انگلیوں میں لے کر بل دیئے اور نوکیں بنا کر انہیں اوپر کو اٹھا دیا۔
چہرے پر اعتماد اور سنجیدگی لاتے ہوئے بولا، ’’حسو تو بڑی سیانی ہو گئی ہے۔ ان دھُول اَٹی گلیوں میں پھرتے پھرتے تو کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے۔ تیری شیر والی بات مجھے بہت پسند آئی ہے۔ میں تیرا شیر ہوں اور تو میری سوہنی شیرنی ہے۔ کل میں نے تیرے سکول جانے کے بعد ماجھے اور دینے سے کہا کہ سلامتے کو لے کر میری جھگی ہی میں آ جائیں۔ میری جھگی اب زیادہ مزیدار ہو گئی ہے۔ کرکٹ میچ شروع ہونے میں دیر تھی۔ سلامتا ایک خاص الخاص انگریزی فلم شہر سے لایا تھا۔ وی۔ سی۔ آر ماجھے کے سالے کی دوکان سے مل گیا۔
ہم نے فلم دیکھی۔ اس کی باتیں میں تمہیں پھر بتاؤں گا اور سکھاؤں گا۔ ہم نے سوجی کا حلوہ کھایا جو دینے کی گھر والی نے اپنے مظفر گڑھ والے مہمان بھائی کے لئے بنایا تھا۔ پھر ایک جانوروں والی بڑی مزیدار فلم لگ گئی۔
اس میں فلم والی میم نے دکھایا کہ شیر جنگل کا بادشاہ اور اتنا طاقتور ہو کر بھی کچھ نہیں کرتا۔
نہ شکار نہ کوئی اور محنت۔
بس شیرنی کے ساتھ مزے کرتا ہے۔
شکار شیرنی کرتی ہے۔ بچے شیرنی پیدا کرتی اور پالتی ہے۔ شیر بس مزے کرتا ہے۔ ایمان سے حسو ہمیں یہ فلم بڑی پسند آئی۔ تو بڑی سیانی ہے حسو۔ بے بے نے کبھی ابے کو شیر نہیں کہا تھا۔ وہ تو بولتی ہی نہیں تھی۔
تو پڑھ لکھ گئی ہے۔ ہمت والی ہو گئی ہے۔
بول سکتی ہے۔ تو اصل بات سمجھ گئی ہے۔ میں تیرا شیر ہوں۔ تو میری سوہنی شیرنی ہے۔
تو شیرنی والے کام بھگتا، حسو! میں تیرا شیر بنوں گا۔‘‘
٭٭٭
برگد
وہ تین دیہات کے عین وسط میں زمانوں سے چھایا ایک انتہائی شاندار گھنا گھنیرا، چھتنار برگد تھا۔ اس کی موٹی، لمبی اور مضبوط شاخوں نے چاروں طرف ایسا دبیز، نرم اور خواب آور سایہ پھیلا دیا تھا کہ دن کو سورج کی قوی ترین کرن بھی اسے چیر کر زمین نہیں چھو پاتی تھی۔ مانو اُس کے نیچے دن بھی رات ہی تھا۔ چیلوں اور ابابیلوں کا پسندیدہ مسکن۔ کبھی کبھار اپنی لمبی گردن جھلاتے گدھ بھی آ نکلتے۔ ان کی بِیٹوں سے ماحول ہر وقت ہلکی گیلی بو میں بسا رہتا۔ بگولے تخلیق کرتی، جھلساتی گرم دوپہروں اور زرد چاندنی راتوں میں گِدھوں کی چیختی تیز آوازوں سے سناٹا گونج اٹھتا۔ چمگادڑیں چخ چخ کرتیں یا اُلو ہُوکتے۔ ہوائی جڑوں نے اسے جٹا دھاری یو گی سے مُشابہت دے رکھی تھی۔ اُس کے ارد گرد دور دور تک کوئی اور درخت نہیں تھا۔ یوں اس کی ویران تنہائی اُسے انتہائی پُر اسرارفسوں خیز اور وحشت انگیز بنائے ہوئے تھی۔ گاؤں کی کچی سڑک سے بہت دور ہونے کی وجہ سے شب کی تاریک سیاہی میں اس کی پُر اسراریت مزید خوف آگیں ہو جاتی۔
ہر کس و ناکس کو علم تھا کہ اس منفرد، مہیب نباتاتی شاہکار کے نیچے جنات بسیراکرتے ہیں، ان کی تقریبات منعقد ہوتی ہیں اور عجیب الخلقت، غیر مرئی بھوت بچے نادیدہ مدرسے میں حصول علم میں مشغول رہتے ہیں۔ اس روایت پر یقین ہی کی وجہ سے شاملات دیہہ ہونے کے باوجود یونین کونسل کے کسی لالچی اہلکار نے کبھی جرأت نہیں کی کہ اسے کاٹ کر بیچ کھائے۔ جنات سے ٹکر کوئی احمق ہی لے سکتا تھا۔ لوگ دن کو عموماً اس سے کترا کر گزر جاتے اور رات کو تو اس سمت کوئی بہت فاصلے سے بھی گزرنے کی جرأت نہ کرتا۔ گویا اس شہنشاہ کی ایک اَن دیکھی بادشاہت تھی جو اس علاقے میں قائم تھی۔ یہ تصرف مستند اور متفقہ، قطعی اور غیر متنازعہ تھا۔
گاماں میراثن کا نام جس نے بھی غلام بی بی رکھا ہو گا اُس نے زیادہ غور و فکر نہیں کیا ہو گا۔ اُس کی ملاحت، گھڑی گھڑائی شکل، سیاہی مائل پتلے ہونٹ ترشی ہوئی سُتواں ناک اور شب دیجور کا جمالیاتی اسرارلئے بڑی بڑی شرارتی آنکھیں غلاموں کی سی نہیں تھیں۔ اس کی تیکھی سلونی ناک پرد مکتا چاندی کا کوکا کسی مہکتی سرمئی شام میں اظہار کے طالب اوّلین ستارے جیسا ہی تھا۔ جب وہ جوانی کی دہلیز پر پہنچی تو کَسی ہُوئی کمان نکلی۔ اُس کے جنگلی، بے پروا اور بے عیب جسم میں کوئی کمی نکالی نہیں جا سکتی تھی سوائے گہرے گندمی رنگ کے، جو خامی کی بجائے خوبی بن گیا تھا۔ اس کے ناگن جیسے بل کھاتے لمبے بال، بنا دیکھ ریکھ کبھی چوٹی میں گُندھے، کبھی کھُلے، جہاں جھولتے، نظر وہاں ٹکتی نہ تھی۔ وہ جاٹوں کے محلے سے گزرتی تو گھبرو خواہ مخواہ ڈھولے ماہیے اور ٹپے الاپنے لگتے۔ گاماں جتنی مقناطیسی تھی اتنی ہی طرار اور طرح دار بھی تھی۔ نہ تو کوئی اشارہ سمجھتی نہ منت ترلے کا اثر لیتی۔ اگر ذرا بھی نرمی دکھاتی تو جاٹوں کے سانڈ جیسے کڑیل جوان چھوکرے اُسے ڈکار گئے ہوتے۔ لیکن ہاں ایک مقام تھا جہاں وہ رہ جاتی تھی اور وہ تھا نمبر داروں کا اچھو۔
اچھو بھی تو اپنی مثال آپ تھا۔
پیراندتے نمبردار کی اکلوتی اولاد۔
چھ فٹ سے نکلتا قد، چوڑی چھاتی، بھاری کالی سیاہ مونچھوں کے اوپر پتلی ناک اور سفیدی گھلا گلابی رنگ۔
دور نزدیک کے ہر گاؤں کے میلے کی کبڈی میں اچھو اچھو ہوتی۔
’’نی گاماں! اچھو فیر جِت گیا ای کل کوڈی نویں پنڈ دے میلے والی‘‘
گاماں کی سہیلیاں مزے لیتیں۔
’’تو میں کیا کروں؟
گاؤں کی شان بنی ہے تو میں بھی خوش ہوں اور گاؤں بھی خوش۔ مجھے کونسا اس نے اپنی سردائی میں سے آدھا گلاس دے دینا ہے۔
اور شامت آئے گی اَبّے کی۔ اور رگڑے گا بادام تے خشخاش۔ چہار مغز تے گوند کتیرا۔ نکی لاچی پا کے ۔۔ ۔ ہور کرے گا مالشاں۔‘‘
جب بھی وہ اٹھکیلیاں کرتی، آدھی چلتی آدھی اڑتی رنگیلی بڑی بیٹھک کے سامنے سے گزرتی تو جان بوجھ کر چوری سے اُدھر دیکھتی۔ اچھو سے ٹاکرا ہوتا تو انجانی خوشیاں برقی رو بن کر اُس کے جثے میں کوند جاتیں۔ اُس کا رُوّاں رُوّاں بج اُٹھتا اور وہ خود کو لال سائیں کے اک تارے کی کَسی ہوئی تار محسوس کرتی جو انگلی کے ایک اشارے کی منتظر کہ مس ہو اور سُر بکھیرنے لگے۔ اور اچھو بھی تھا تاروں میں چاند۔ نجیب الطرفین۔ سونا اگلتے مربعوں کا اکلوتا وارث، بانکا سجیلا، پنڈ کی شان، مردوں کا مان تو گوریوں کا گوپی۔ اپنی اس حیثیت کا پورا پورا ادراک رکھنے والا۔ گاماں کی مقناطیسی سوئی اس کے قُرب سے تھرتھراتی اور اسی کی اَور جا رکتی۔ کچھ تو تھا کہ اچھو کا سارا بانکپن گاماں کے آبنوسی، تراشیدہ بدن کی قربت سے سلگنے لگتا۔ اسے اپنی برنائی کی بے کراں طاقت سمٹ کر قلب میں مجتمع محسوس ہوتی جو گاماں کے شرر بار حسن میں تحلیل ہونے کے لئے تیار رہتی۔
’’تجھے کیا نکالنا ہے مجھ سے اچھو جی! میں ڈومنی، تُو نمبر دار کا پتر نمبر دار۔ اُچے شملے۔ کیا کمی ہے تیرے پاس کسی بھی چیز کی؟ لڑکیاں ایک جھلک دیکھنے کو سو سو بہانے کرتی ہیں۔ نہ اپنا پینڈا کھوٹا کر نہ مجھے امتحان میں ڈال۔ شاواشے۔ اپنی اپنی قسمت اپنا اپنا نصیب۔
پھُپھی آئی تھی نویں پنڈوں اسلم کے لئے رشتہ مانگنے۔ اَبّے نے نہ ہاں کی نہ ناں۔ تانگہ منگوایا، نیا سوٹ دیا اور تانگے میں بٹھا لاری اڈے چھوڑ آیا۔ میری طرف واپس آیا تو آنکھیں گیلی تھیں اُس کی۔ نہ روٹی کھائی نہ حویلی گیا۔ وڈّے نمبر دار نے شوکے کو بھیج کر بلایا تو نہ کر دی۔ بولا تاپ چڑھا ہوا ہے۔ صحن کے کونے میں ننگی چارپائی پر دیوار کی طرف منہ کئے پڑا رہا- میں کپڑے دھوتی رہی، اپنے منہ دھیان۔ کبھی کبھی چوری چوری پیچھے سے دیکھتی تو لگتا اُس کی پشت بھی رو رہی ہے۔ پر اچھو تیری سوہنی جوانی کی قسم، کبھی اِک لفظ نہیں بولا اَبّے سے کہ مجھے کیا چاہئے۔ اَبّے کی آگ تیرے میرے دیکھنے کہنے سے بہت گہری لگی ہے۔ کبھی کبھی مجھے پورا یقین ہو جاتا ہے کہ اَبا اللہ کا بندہ ہے۔ اُس کے آگے اندر بھی باہر ہے۔ اچھو! تجھے میری مجبوری کی قسم بچ جا۔ نہ تین جانیں مار۔ میرے اَبّے پہ ترس کھا۔ بھلے بندے، یہ ہزاروں بار کی دوہرائی بالی جٹی کے تھیٹر کی کہانی نہ دوہرا۔ نہ دوہرا۔‘‘
وقت بھی ایک بدمست لہریں مارتا دریا ہے۔ بے پروا اور منہ زور۔ دائیں بائیں کاندھے مارتا گُزرتا ہی چلا جاتا ہے۔ سو یہ ہوا۔
گاماں کے باپ بگّے میر عالم نے کبھی بات نہیں کی۔ گاماں کبھی اِک لفظ نہیں بولی۔ اچھو کی تو رہنے ہی دیں۔ اپنی شہہ زور جوانی میں بد مست، اس بڑھتے، ابلتے کینسر کو معمول جان کر یوں پالتا جیسے سانسوں کا حصہ ہو۔ آئے آئے تو آئے پر کبھی نہ جتائے، جو جائے تو سب جائے۔ عجب تکون بنی تھی۔ بڑی غیر فطری اور منفرد۔ جو سربسر مشغول تھے وہ جیتے تھے اور جو باہر تھا وہ اندر ہی اندر مر رہا تھا۔ کبھی آسمان کو تکتا تو کبھی زمین کریدتا۔ اس کے اندر کوئی کالی بلی مر رہی تھی۔ بلکہ مر چکی تھی اور اب آہستہ آہستہ گل سڑ کر بو دینے لگی تھی، جو دُوسروں کو بھی سانس سانس احساس دلا رہی تھی کہ کچھ ہے جو مر رہا ہے، گل رہا ہے۔ سڑ رہا ہے۔ ’’اچھو! تم نے دیکھا ہے سوکھا لگی ٹاہلی کی طرح مرجھاتے ہوئے اَبّے کو۔ یہ کیا ہو رہا ہے اُس کو؟ مانو بالکل خالی ہو رہا ہے اندر سے۔ کھوکھلا اور ہلکا۔ جیسے دیمک اندر ہی اندر سے چاٹ رہی ہو۔ کڑیل، شہتیر جیسا بندہ ڈولتا پھرتا ہے۔ اچھو مجھے ڈر لگتا ہے اَبّا کہیں آگے ہی نہ نکل جائے‘‘ ۔
اچھو اس کے سفید دانتوں کی نورانی لکیر کو روکتا، کیف میں ڈوبتی سسکاری بھرتا، ’’کچھ نہیں ہوتا چاچے بگے کو۔ نمبر دار کا ہتھ ہے اس کے اوپر۔ بڑا رسوخ ہے۔ میرا اَبا بھی بوڑھا برگد ہے۔ گامو! ۔ تیرا اَبا میرے اَبّے کی چھتر چھاؤں میں ہے۔ اسے ستّے ای خیراں ہیں۔‘‘
جلتا بھنتا اساڑھ آدھا گزر چکا تھا۔ گرمیاں جو بن پر تھیں۔ اس دن پتہ نہیں کیا غضب ہوا کہ مٹی اڑاتی لال آندھی چاروں طرف سے چڑھ دوڑی۔ وا ورولے (گرد باد) سلگتی گرم دوپہر کی ساری گرمی چوس کر زمین سے اٹھتے تو گھمن گھیریاں کھاتے آسمان تک پہنچتے۔ گندم کی کٹی فصل کی ناڑیاں، پرانے اخبار، پوھلی کے کٹے زرد خاردار جھاڑ، خشک پتے اور ٹہنیاں، کپڑوں کی غلیظ بوسیدہ دھجیاں اور چیل کوؤں کے مُردار پر، جو بھی راستے میں آیا واورولوں نے پکڑا اور چکریاں دے کر آسمان پر چڑھا دیا۔ ہوا کا غصہ کم ہوا تو کثیف، مٹ میلے و سیاہی مائل بادل چاروں اور سے پہنچے اور گاؤں بھاگل پور پر چھا گئے۔
بارش جو ٹوٹ کر برسی تو ہر طرف جل تھل ہو گیا۔ بارش نے اس وقت تک رکنے کا نام نہیں لیا جب تک ایک چوتھائی بھاگل پور کچی مٹی کا ڈھیر نہ بن گیا۔ غریبوں کے کچے پکے گھروں کی کچی دیواریں گارا بن کر درختوں کے نا تراشیدہ تنوں سے بنائے گئے شہتیروں کے نیچے بیٹھ گئیں۔ گیلے بھیگے، کانپتے سہمے، بڑے چھوٹے سب گاؤں کی واحد پختہ مسجد میں جمع ہونے لگے۔ جانوروں کو کھول دیا گیا۔ کوئی گائے، بھینس، بچھڑا، بکری، گدھا تک باہر کو نہ بھاگا۔ بچی کھچی کچی دیواروں کی اوٹ میں سب جانور اکٹھا ہونے لگے۔
اس رقص باد و باراں کے بعد بادلوں نے مشرق کی سمت، نیچے ہی نیچے، تقریباً زمین کو چومتے ہوئے یوں بھاگنا شروع کیا جیسے کوئی مہیب خلا انہیں پوری قوت سے اپنی سمت کھینچ رہا ہو۔ چند ساعتوں میں سارا آسمان بالکل صاف اور گہرا نیلا میدان ہو گیا۔ گاہے گاہے بادل کا کوئی چھوٹا آوارہ ٹکڑا آتا اور اپنے لشکر کے تاراج کردہ میدان کا جائزہ لیتا رہ جاتا۔ تیز چمکیلی نوکیلی دھوپ نکلی تو سلامت چوکیدار کچی گلیوں کے چکنے کیچڑ سے بچتا بچاتا لاٹھی ٹیکتا آ پہنچا۔ بگے کو آگے لگایا اور حویلی لے گیا۔ کافی دیر تک چھوٹی بیٹھک میں نمبردار اور بگے میر عالم کے سوا کوئی داخل نہیں ہو پایا۔ خیر دین اور سلامت اپنی لوہے کی شام والی لٹھیں پکڑے منج کے منجے پر چڑھے ٹانگیں جھُلاتے پہرہ دیتے رہے۔
بڑا تھانیدار چیمہ تشدد کے لئے ضلع بھر میں مشہور تھا۔ غلام رسول فقیر کو جب الٹا لٹا کر اسے اپنے ہاتھوں سے خود چھتر مارے تو اُس کی چیخیں آدھے گاؤں والوں نے سنیں۔ دینُوں اوڈھ کو سردارے والے بڑے شریں کے درخت سے الٹا لٹکایا اور بھول گیا۔ یہاں تک کہ اُس کی آنکھوں کے ڈھیلے باہر اُبل آئے۔ کوئی مان نہیں رہا تھا کہ اُس طوفانی دن کے بعد چھائی گہری، اندھیری، حبس زدہ رات میں کس نے گاماں کو گلا گھونٹ کے مارا اور کون بگّے کی لاش کو روہی والے پکے برگد پر لٹکا آیا۔ نمبردار نے اپنے سامنے تفتیش کروائی کیونکہ بگا میر عالم اُس کا خاص الخاص پشتینی میراثی تھا۔
کوئی کہتا، بگے نے خود گاماں کو مارا اور اپنی لمبی بھوری چادر برگد کی اونچی ٹہنی سے باندھ کر جھول گیا۔ مولوی صاحب سمیت بیشتر لوگوں کا خیال تھا کہ بگے نے برگد کے نیچے پیشاب کر کے جِنّوں کی دعوت خراب کر دی تھی۔ پھر یہ سب کچھ تو ہونا ہی تھا۔
بگے اور گاماں کی قبریں گاماں کی مرحومہ ماں کی قبر کے دونوں طرف بنائی گئیں۔ مولوی صاحب اور ان کے شاگرد چالیس دن تک پڑھائی کرتے رہے۔
اچھو نمبردار کی شادی پر چاندی کے روپوں کی وہ چھوٹ پڑی کہ کھیت سفید ہو گئے۔ آتش بازی سے سارا گاؤں گلنار ہو گیا۔ پندرہ بکرے اور دو بچھڑے کٹے تو ولیمہ ہوا۔ پورے گاؤں نے دو دِن چولہا جلایا نہ ضرورت محسوس ہوئی۔ رُوپ دھاریوں کی ٹولیاں ہنڈولے جلائے فجر کی اذان تک دھما چوکڑی مچاتیں۔ احمد دین نائی نے اپنے سارے رشتے دار بلوائے تو کہیں جا کر دیگیں پکیں۔ عنایت حلوائی اور اُس کا بیٹا سارا ہفتہ کڑھائی چڑھائے کھویا مار کر برفی اور نرم بالو شاہی بناتے رہے تو گاؤں بھرکا ناشتہ بھگتایا۔ سارے گاؤں نے پورا ہفتہ شادی کا جشن منا کر ریت نبھائی۔
وقت کا دریا بہتا رہا، مدتیں گزر گئیں۔ بوڑھے آسیب زدہ برگد نے بھی کئی موسم دیکھے اور کئی سرد و گرم جھیلے۔ الوؤں، چیلوں، گِدھوں اور چمگادڑوں کی نئی نسلیں آباد ہوئیں۔ گاؤں میں کئی بار سن کے پیلے، اَلسی کے نیلے اور سرسوں کے زرد پھول کھلے پھر سوکھ گئے۔ بیریوں پہ بور آیا، کچے لیس دار بیر پک کے کھجور بنے اور اتر گئے۔ کماد کے سوئے پھوٹ کر گزوں لمبے گنے بنے، کٹے، بیلن میں سے گزر کر روؤ اور کڑاہی میں کڑھ کر گڑ بنے۔ کتنی بار سرسوں کی گندلیں نکلیں اور مٹیاروں نے توڑ توڑ کر ساگ گٹھڑیاں بنائیں۔ کتنی ہی بار گاؤں کے کچے کوٹھوں کو تُوڑی ملی سوندھی مٹی سے لیپا گیا۔
مدتوں بعد مجھے گاؤں کی یاد ستائی تو واپس لوٹا۔ زمانہ بدل چکا تھا۔ اسٹیشن کے باہر گاؤں کے لئے تانگہ مل گیا۔ مریل گھوڑی انجر پنجر ہلے یکّے کو جھولتی جھلاتی شام ڈھلے گاؤں کے قریب آ پہنچی۔ گاؤں بہت پھیل چکا تھا۔ بہت سے کھیت کھلیان جنہیں میں پہچانتا تھا آبادی نے نگل لئے تھے۔ گاؤں سے کوس بھر دور وہ بوڑھا برگد جہاں بھوتوں کے بچے مدرسہ لگاتے اور جنوں کے قافلے پڑاؤ کرتے تھے مجھے نچا کھسا ادھورا نظر آیا۔ اس سے زیادہ حیرت یہ دیکھ کر ہوئی کہ جس پُر اسرار مہیب دیو کے آس پاس کوئی پھٹکتا نہیں تھا اُس کے گرد آریاں کلہاڑے لئے خلقت کا ایک اژدہام تھا کہ کلبلاتا پھر رہا تھا۔ بڑی بڑی ٹہنیاں کاٹی جا رہی تھیں اور ٹکڑے کر کے درجنوں بیل گاڑیوں میں لادے جا رہے تھے۔ پتوں کے انبار تھے جو بیگھہ بھر زمین کو سبز کئے ہوئے تھے۔ گاؤں میں کسی شادی پر عبدل موچی کا لاؤڈ سپیکر پوری قوت سے عالم لوہار کی ’جُگنی‘ کو چھت پر ٹنگے چاروں ہارنوں (بھونپُو) سے دور دور پہنچا رہا تھا۔ میں نے لالو تانگے والے کی طرف حیرت سے دیکھا۔ وہ مسکراتا ہوا بولا، ’’چوہدری صاحب! پورے پینتیس ہزار کا نیلام ہوا ہے بوڑھا برگد۔ دس گاؤں میں ڈھول بجا کر مُنادی کر کے بولی لگی۔ اس پیسے سے یونین کونسل کا نیا دفتر بنے گا‘‘ ۔
٭٭٭
دشت وحشت
وہ مجھے سرحد تک جانے والی ٹرین کی منتظر ریلوے کے مخصوص بنچ پر بیٹھی ملی۔
بڑے اسٹیشن پر بہت رونق تھی۔ ہفتے میں دو بار سرحد تک، جانے والی گاڑی نے علی الصبح نکلنا تھا۔ برادر ملک کے ساتھ مسافروں کی آمد و رفت کا بس ایک ہی رستہ کھلا تھا اور یہ ریل گاڑی اُسی سرحدی مقام تک جاتی تھی۔ مجھے اپنی سرکاری حیثیت میں، خاص تزک و احتشام سے، اسی گاڑی پر بارڈر کے اسٹیشن تک جانا تھا۔ ملک بھر سے مسافر کل سے اسٹیشن پر اکٹھے ہو رہے تھے۔ گاڑی کیا تھی بس ایک پوری دنیا تھی جو سفر کو تیار تھی۔ سات سو کلومیٹر دُور واقع سرحد تک کوئی اچھی سڑک نہیں جاتی تھی اس لئے ریل گاڑی ہی محفوظ اور قدرے آرام دہ سواری تھی۔ ملک میں سختی کا دور آ چکا تھا لیکن پھر بھی غیر ملکی سیاح مشرقی سرحد سے داخل ہو کر اس جنوب مغربی سرحد کو عبور کرتے ہوئے پڑوسی ملک میں داخل ہوتے تھے۔ وہاں سے آگے وہ زیادہ آزاد ملکوں کی طرف نکل جاتے۔ مذہبی زائرین کا بھی یہ پسندیدہ راستہ تھا۔
بارڈر تک جانے والی ریل گاڑی پچیس چھبیس گھنٹے کے سفر کے بعد مسافروں کو ملک کی سرحد کے قریب صحرا میں استادہ آخری ریلوے اسٹیشن پر شام کے وقت اُتار دیتی۔ مسافر رات بارڈر پر بنے اسٹیشن کے مسافر خانوں، کچے پکے چھوٹے چھوٹے ہوٹلوں، کچے احاطوں کی چھولداریوں میں گزارتے اور کسٹم امیگریشن وغیرہ کے کڑے نظام سے گزرتے اگلے دن سرحد عبور کر جاتے۔
سٹیشن پر مقامی اور غیرملکی سیاح ٹولیوں کی شکل میں ڈیرے جمائے بیٹھے تھے۔ اُن کا اِرادہ رات اسٹیشن پر بسر کر کے علی الصبح گاڑی سے نکلنے کا تھا۔ سفید فام نوجوانوں کے گروہ رُک سیک چڑھائے اسٹیشن کے ٹھیلوں سے مرچ مصالحہ والی سستی خوراک چکھتے پھر رہے تھے۔ چٹ پٹی دیسی چیزیں ان کی ناک کو لال کرتیں، ناک سے پانی نکالتیں لیکن وہ سوں سوں کرتے کھاتے جاتے۔
گوری لڑکیوں کی خوب تراشی ہوئی شکلیں اور سفیدی میں سے جھلکتی سرخی مائل رنگت والے رخسار ظاہر کرتے تھے کہ سگریٹ نوشی اور چرس تک نے اُن کی ابلتی جوانیوں کے صحت مند تازہ خون کو زیادہ تاریک نہیں کیا۔ بے ترتیب گھنی داڑھیوں اور کرخت چہروں والے آوارہ مقامی نوجوان حریص، نا آسودہ نظروں سے لباس سے بے پرواہ نوخیز گوری حسیناؤں کو بے باکی سے تاڑتے لیکن سیاح مرد و خواتین انہیں مکمل طور پر نظر انداز کرتے۔
وہ سانولی رنگت اور قدرے مرجھائی ہوئی شکل کی تھی۔ دھان پان۔ لگتا کم عمر ہے لیکن روندھی مسلی گئی ہے۔ جیسے وقت کے ظالم بھنورے نے نوخیز کلی کا رس پھول بننے سے قبل ہی چوس لیا ہو۔ وہ بنچ پر اکیلی بیٹھی تھی جبکہ قریب ہی میلی سی دری بچھائے پانچ چھ اُدھیڑ عمر اور درمیانی عمر کی عورتیں ڈیرہ جمائے بیٹھی تھیں۔ ظاہر ہے کہ وہ اسی گروپ کا حصہ تھی۔ مجھے وہ سب سے الگ نظر آئی۔ میں نے حیلے بہانے دو تین بار اُس پر نظر ڈالی۔ مجھے لگا وہ ضرور کچھ دنوں تک مجھے یاد رہے گی۔
میں نے سٹیشن پر اپنا کام ختم کیا اور گھر کو روانہ ہوا۔ صبح جلدی نکلنا تھا اور کئی کام نپٹانے تھے۔
یہ ایک سرد ٹھٹھرتی صبح تھی اور سورج کو ابھی کچھ دیر بعد نکلنا تھا۔ میرے سٹیشن آنے تک زیادہ تر لوگ گاڑی میں اپنی نشستیں سنبھال چکے تھے۔ میرے لئے گاڑی میں موجود بہترین درجہ کا ایک سونے کا کمرہ مخصوص تھا۔ گاڑی میں سوار ہونے سے قبل میں نے گاڑی کے ساتھ ساتھ چل کر پوری گاڑی کا معائنہ کیا۔ مرجھایا ہوا نوخیز خوابیدہ متجسس چہرہ ایک کھڑکی سے جھانک رہا تھا۔ میں نے بھرپور نظر ڈالی تو جوابی تاثر سے لگا وہ مجھے پہچاننے کی کوشش کر رہی ہے۔
’’شاید کل شام اس کی نظر مجھ پر پڑی ہو۔‘‘
میں نے سوچا۔
میں اپنے ڈبے میں سوار ہو گیا۔ انجن نے پہلے ایک چھوٹی اور ساتھ ہی ایک لمبی وسل لگائی تو پلیٹ فارم پر بھاگ دوڑ مچ گئی۔ لوگ جو ہمیشہ کچھ نہ کچھ آخر وقت پر کرتے ہیں سوارہونے کو لپکے۔ گارڈ کی تیز سیٹی نے بار بار خبردار کیا اور بالآخر اس نے سبز جھنڈی زور زور سے ہلانی شروع کر دی۔ فائیر میں نے پیچھے دیکھتے ہوئے بازو لہرایا تو ڈرائیور نے کوئی ایک منٹ کے وقفے سے ایک اور وسل دے کر گاڑی آہستگی سے چلا دی۔
گاڑی جب اسٹیشن چھوڑتی ہے تو ایک اُداسی پیچھے پلیٹ فارم پر رینگتی اور خالی پٹری سے چمٹی رہ جاتی ہے۔ گاڑی خود بھی اداس ہوتی ہے لیکن بہت سی رونق اپنے اندر سمیٹ کر چلتی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ یہ رونق، ہماہمی اور شادمانی ہر ڈبے، سیٹوں کے ہر خانے اور سونے کے ہر کمرے میں محدود ہو جاتی ہے۔ اس ولولے جوش امید اور ہما ہمی میں کوئی نہ کوئی سیٹ کوئی برتھ بہت اُداس بھی ہوتی ہے۔
میں اپنے پر تعیش سونے کے کمرے میں جسے میرے ماتحت عملہ نے سامانِ سفر سے لبریز کر دیا تھا بالکل شاداں و فرحاں نہیں تھا۔
میں اس گھسٹتی گاڑی میں کسی نوخیز، سانولی سلونی نمکین لیکن قبل از وقت مرجھائی مسلی سواری کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ میں نے تصور کیا کہ وہ کھڑکی سے لگی چھوٹی سی اِنفرادی سیٹ پر سمٹی سرد شیشے سے ناک لگائے متجسس اُداس نظروں سے شہر سے رینگ کر نکلتی مضافات سے گزرتی ریل گاڑی کی حرکت کی لا تعلق قیدی ہو گی۔
میری خیر و عافیت اور آرام و آسائش کئی ایک نے اپنے ذمے لے رکھی تھی۔ ان کئی ایک میں وہ بھی ایک تھا جس کا کام لوگوں کو ناقص رزق فراہم کر کے رقم بٹورنا تھا۔
’’ٹک ٹک ٹک۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘
’’سر جی اندر آ جاؤں؟ میں غلام قادر ہوں۔‘‘
’’آ جاؤ۔ خیر تو ہے قادر؟ کدھر آ ٹپکے؟ ‘‘
’’سر ہمارا فرض ہے آپ کی خدمت کریں۔ خیال رکھیں۔ آپ کون سا روز سفر کرتے ہیں۔ سر چائے لاؤں؟ اپنی بھینس کے اصلی دودھ کی؟ اپنے لئے اور خاص مہمانوں کے لئے ساتھ رکھتا ہوں۔‘‘
’’پی لیں گے قادر۔ ابھی تو چلے ہیں۔‘‘
’’صبح صبح ہے صاحب جی۔ ناشتے میں دیر ہے۔ آپ تو بیڈ ٹی لیتے ہوں گے۔ آج ادھر تشریف لے آئے۔ اجازت دیں سر جی۔ اپنی بھینس کے دودھ کی چائے لاتا ہوں۔‘‘
اور وہ چلا بھی گیا اور چائے لے کر آ بھی گیا۔
چائے گلابی سی تھی اور اوپر بالائی کی ہلکی تہہ بندھی تھی۔ دیکھ کر ہی پینے کو جی چاہنے لگا۔
’’سر جی! اس گاڑی میں بڑی رونق ہوتی ہے۔ بھانت بھانت کی خلق خدا ہے۔ کسٹم والے ہیں۔ پولیس والے ہیں۔ ایف آئی اے والے ہیں۔ امیگریشن والے۔ لیویز والے ہیں۔ ریلوے والے تو ہیں ہی۔ اور سر جی ایجنسیوں والے ہیں۔‘‘
’’اچھا‘‘
’’سر یہ گورے نوجوانوں کے گروہ۔ افغانستان اور پاکستان چرس کے پیچھے بھاگے آتے ہیں۔ خالص اور سستی چرس۔ اِن کا بس چلے تو ادھر ہی پاؤں پسار کر پڑے رہیں۔‘‘
’’ہُوںں ں۔۔ ۔ اچھا!‘‘
’’سر جی یہ بڑی رنگ رنگیلی ٹرین ہے ۔‘‘
اب بولنے کی باری میری تھی۔
’’ارے یار قادر وہی سبز اور مٹیالے زرد رنگ کی ٹرین ہے۔ یہ کدھر سے رنگ رنگیلی ہے؟ ‘‘
لیکن وہ بھی غلام قادر تھا۔
’’سر جی تسی وی بھولے ای او‘‘
وہ اپنی پنجابی پر اتر آیا۔ پھر سنبھل کر بولا،
’’سر جی یہ جو کسٹم والے ہیں ہر ہفتے واپسی پر اسی ٹرین سے نوٹوں کے سوٹ کیس بھر کر لاتے ہیں۔ پھر شہر میں آ کر تقسیم کرتے ہیں۔‘‘
’’اچھا؟ ‘‘
مجھے دو نوجوان جونیئر کسٹم آفیسر یاد آ گئے جنہوں نے پچھلے ہفتے میرے ذریعے ریل کے فرسٹ کلاس سلیپر کا ٹکٹ خریدا تھا کیونکہ ان کے پاس ہوائی جہاز میں سفر کرنے کے لئے کافی پیسے نہیں تھے اور انہیں اپنے آبائی علاقے چھٹیاں گذارنے جانا تھا۔
میں نے غلام قادر سے ذکر کیا۔ وہ بلا توقف بولا
’’اوہ بھولے بادشاہو! وہ تو ابھی دو ماہ پہلے نوکری پر آئے ہیں۔ ان کی تو ابھی آنکھیں ہی نہیں کھلی ہیں۔‘‘
میں سوچ میں پڑ گیا۔
’’سر جی! اس گاڑی کے ذریعے رج کے سمگلنگ ہوتی ہے۔ سب مل کر مزے کرتے ہیں۔ سب کی مدد کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا۔
سر جی آپ کیوں کچھ بھی نہیں کرتے؟ ‘‘
’’یار قادر میں نے تو یہ کام نہیں کرنا۔ ابھی تو یہی ارادہ ہے ۔‘‘
’’سر جی آپ جوان ہیں۔ کچھ کرنا ہے تو ابھی کریں۔ جو کھانا ہے کھا لیں جو پینا ہے پی لیں۔ جو دوسرے مزے کرنے ہیں کر لیں۔ یہی دن ہیں۔ جب آپ بوڑھے ہو جائیں گے تو پیسہ ہونے پر بھی کچھ کھا سکیں گے نہ 'ہنڈا' سکیں گے۔ آپ سمجھ گئے ہوں گے سر جی۔ وڈے افسروں کے دماغ تیز ہوتے ہیں۔ فوراً سمجھ جاتے ہیں۔‘‘
’’قادر ابھی تو میرا کوئی ذہن نہیں بنا۔ بہرحال تیرا شکریہ۔ تو نے تو میرا بھلا سوچا۔‘‘ میں مسکرایا
’’سر جی! اصلی رونق پر نظر پڑی آپ کی؟ اس گاڑی کی اصلی رونق؟ ‘‘
’’یہ گورے غلام قادر؟ ‘‘
’’اوہ نئیں بھولے بادشاہو۔ گورے تو اپنی مصیبتوں کے مارے پھرتے ہیں۔ خارش زدہ۔ اصلی مال سر جی۔ دیسی۔‘‘
’’کھل کے بولو غلام قادر۔‘‘
’’سر جی اس گاڑی کی اصلی رونق تو یہ سمگلنگ کرنے والی عورتیں ہیں۔ ویزہ لگوانے، سفر کرنے، ادھر جانے واپس آنے تک مزے ہی مزے۔ سب کے مزے ہیں سر جی۔‘‘
’’اچھا؟ ‘‘
’’جی سر جی۔ یہ اندرون ملک کے شہروں قصبوں سے نکلتی ہیں۔ گھر سے نکل کر دوسرے ملک میں داخل ہونے تک سب کی موجیں۔ دوسرے ملک میں بھی موجیں ہوتی ہوں گی۔ واپسی پر پھر اپنے ملک کی زمین پر پاؤں رکھنے سے اپنے گھر میں داخل ہونے تک موجیں ہی موجیں۔ اور سر جی کچھ کے تو گھروں میں بھی موجیں ہی موجیں۔‘‘
’’غلام قادر کیا داستان لے کر بیٹھ گیا ہے۔ ہمیں کیا بھائی۔ لوگوں کے کام جانیں اور وہ جانیں۔ ہمیں اپنا کام کرنا ہے اور ڈھنگ سے کرنا ہے ۔‘‘
اسے میری بات بالکل پسند نہ آئی۔
’’آپ تو بالکل بھولے بادشاہ ہو سر جی۔ پتہ نہیں کیسے اونچی گدی پر بیٹھ گئے ہو۔ بس ناک کی سیدھ میں دیکھتے ہو۔‘‘
’’غلام قادر میں ٹھیک ہوں بس۔ تو مجھے جو داستانیں سنا رہا ہے میرے لئے انوکھی ہیں۔‘‘
’’آپ اس لائن پر پہلی بار نکلے ہیں۔ اپنی آنکھوں سے سب دیکھیں گے تو یقین کریں گے۔ میرے لائق کوئی خدمت ہو تو خوشی ہو گی۔‘‘
میں نے کوئی خدمت نہ بتائی اور وہ وقتی طور پر میری جان چھوڑ گیا۔
گاڑی کچھ فاصلے تک رینگنے کے بعد ہوشیار ہو کر تیز چلنے اور پھر دوڑنے لگی تھی۔ شہر اور مضافات گزرے تو ایک خشک پہاڑی کی اوٹ میں چھپا ایک قصباتی اسٹیشن برآمد ہوا۔
گاڑی ریلوے اسٹیشن کو زندگی بخشتی ہے۔ جب مسافروں سے، اور پھر ایسے رنگ رنگیلے مسافروں سے لدی پھندی گاڑی ہفتہ بھر کے انتظار کے بعد اسٹیشن پر آئے تو کیا صورت حال ہو گی۔ بہت کم لوگ سوار ہوئے یا اترے۔ عملہ کے دمکتے چہرے، دھلا دھلایا پلیٹ فارم اور اکلوتے سٹال پر بھاپ اڑاتی چائے کی کیتلی، جس سے گاڑی میں بھاگ بھاگ کر چائے سپلائی کی جا رہی تھی چیخ چیخ کر تقاضہ کر رہے تھے کہ اس وصال کی ساعت کو لمبا کھینچا جائے۔ اس لئے کہ پھر ہجر بہت طویل ہونا ہے۔
گاڑی تو وقت کی پابند ہوتی ہے جو کتاب میں درج کر کے ڈرائیور، گارڈ اور اسٹیشن ماسٹر کو دے دیا جاتا ہے کہ ہجر و وصال کے لمحے شمار ہو جائیں۔
گاڑی اس اسٹیشن کو ویران کر کے نکلی تو خشک سوختہ پہاڑیوں کے نیچے دبی ایک سرنگ میں یوں جا گھسی جیسے سانپ بل میں گھسٹتا ہے۔ گاڑی میں تاریکی چھا گئی مگر چند ثانئے بعد گاڑی کی پیلی بتیاں ٹمٹما اُٹھیں۔ سرنگ کی دیوار گاڑی سے بہت دور نہیں تھی۔
’’س نے اپنے گہرے گندمی کمزور بازو کی کہنی کھڑکی سے اندر کر لی ہو گی اور بے وقت مرجھایا چہرہ بھی پیچھے ہٹا لیا ہو گا‘‘
پتہ نہیں کہاں سے خیال میرے دماغ میں گھس آیا۔
کوئی پندرہ بیس منٹ تک سرنگ میں گزار کر گاڑی برآمد ہوئی تو ایک وسیع و عریض، بے آب و گیاہ صحرا کی پیاسی لشکتی ریت تا حد نظر بچھی، صبح کے تازہ دم چونچال سورج کی تیز روشنی میں آنکھیں خیرہ کر رہی تھی۔
پھر گاڑی سینکڑوں میل اس صحرا کی وسعت میں درمیانہ مگر یکساں رفتار سے بھاگتی رہی۔ جب دوپہر ہو گئی تو دھوپ میں نہایا ایک قصبہ نمودار ہوا۔ جلد گاڑی اس صحرائی قصبہ کے ایک کھلے سے اسٹیشن پر جا ٹھہری۔
عجب سماں تھا۔ ریت بھرے صحرا میں درخت سبزے سے تقریباً محروم ایک بکھری بکھری سی آبادی اُبھر آئی تھی۔ ریلوے اسٹیشن بھی کھلی جگہ پر پھیلا پھیلا تھا اور بس دو تین پٹریوں پر مشتمل اسٹیشن یارڈ تھا۔ جس پٹری پر ہماری گاڑی ٹھہرائی گئی اس کے دائیں جانب ایک نیچا سا پلیٹ فارم تھا جس سے گاڑی پر سوار ہونے کے لئے ڈبے کے پائیدان استعمال کر کے چڑھنا پڑتا۔ بائیں جانب ریتلی اور پتھریلی خشک بنجر سی زمین تھی جس پر زیادہ تر سبز اور بھورے رنگ کے سنگ مرمر کے بڑے بڑے خام چٹانی ٹکڑے سینکڑوں کی تعداد میں ریت میں دھنسے پڑے تھے۔ اسٹیشن سے زاویہ بنا کر دور تک جاتی ایک پٹری پر ریلوے کے مٹیالے لال رنگ کے چھکڑے کھڑے تھے جن میں سے چند پر یہ مرمریں چٹانی ٹکڑے لادے جا چکے تھے۔ قریب ہی ایک قدیم طرز کی زنگ خوردہ تھکی ہوئی کرین کھڑی تھی جو اِن چٹانوں کو ریلوے چھکڑوں میں لادنے کے کام آتی تھی۔ ریلوے کے ذریعے یہی چٹانیں دور کسی بڑے شہر کے کارخانوں میں کاٹ پیٹ، پالش کر کے عالیشان گھروں کے خوبصورت فرش بنانے کے کام آنی تھیں۔ کئی ایک نے کسی حرماں نصیب کی قبر کے کتبے میں ڈھلنا تھا۔ گہری سبز چٹانوں سے برآمد پتھر سے جو مصنوعات تخلیق پاتیں، وہ بیش بہا سامانِ آرائش میں ڈھل کر بہت مہنگی فیشن ایبل ’گفٹ شاپس‘ میں اونچے بھاؤ بکنی تھیں۔
فی الحال یہ پتھر اپنے معدنی وطن سے جدا لیکن قربت ہی میں ریلوے کے بابوؤں کے رحم و کرم پر ریت میں نیم دفن اپنی سواریوں کے منتظر تھے۔ اُدھر بڑے تمدنی مراکز کے سنگین مذبح خانے ان خام بدنوں کی تکا بوٹی کی تیاری میں یوں لگے تھے جیسے عید قربان سے قبل قصائی خانے چھریاں بُگدے سان چڑھا کر قربانی کے جانوروں کے منتظر رہتے ہیں۔
اِک اور عجیب منظر تھا کہ ریل کی پٹری سے ذرا ہٹ کر ایک قطار میں مقامی لوگ طرح طرح کی چیزیں بیچنے کے لئے بیٹھے تھے۔ ان عارضی دکانوں میں جو زمین پر چادریں یا ٹاٹ وغیرہ بچھا کر بنائی گئی تھیں کھانے پینے کی چیزیں بشمول سبزی ترکاری اور زندہ سلامت خوش رنگ دیسی مرغیاں تک موجود تھیں۔
میں پلیٹ فارم پر اُتر کر گاڑی کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا مسافروں کی چہل پہل دیکھنے لگا۔
مجھے وہ پھر نظر آئی۔
ادھیڑ عمر خاتون اس کے ساتھ پھر رہی تھی اور وہ اسٹیشن ماسٹر کے کمرے سے ملحقہ برآمدہ سے باہر پختہ دکانوں کی طرف جا رہی تھیں۔ پشت سے اس کے لمبے بال اس کی چادر سے نکل کر کمر سے نیچے تک لٹک رہے تھے اور بالکل پتہ نہیں چلتا تھا کہ ان کی مالکن کا چہرہ قبل از وقت مرجھا چکا ہے۔
میرے ساتھ میرے ’’سرکاری مریدین‘‘ تھے سو میں مدبر ہی بنا رہا اور قلب و نظر کو زیادہ آوارگی کی اجازت نہ دی۔
گاڑی نے تو چلنا ہی ہوتا ہے چاہے اسٹیشن کتنا ہی دلنشیں اور پر رونق ہو۔
رکی رہے تو گاڑی کیا۔
آدھ گھنٹے سے کچھ زائد اس اسٹیشن پر رک کر گاڑی یہاں سے بھی چل پڑی۔ سپاٹ بے آب و گیاہ خشک چمکتے ریگزار میں اس اسٹیشن کے بعد کوئی قابل اعتنا اسٹیشن نہ آیا اور گاڑی دو چھوٹے چھوٹے بے رونق اسٹیشنوں کو بے رغبت بوسہ دے کر نکلتی چلی گئی۔
سورج دن بھر گاڑی کے آگے پیچھے پھرتا بالآخر ایک سمت ہو کر بیٹھ گیا اور صحرا بتدریج تاریکی میں ڈوب گیا۔
ایک پراسرار خاموش اندھیرا چاروں طرف محو خواب تھا اور تاروں بھرا آسمان گاڑی پر تنا ساتھ ساتھ بھاگا جاتا تھا۔
مجھے نیند نہیں آ رہی تھی۔
بیسیوں بار ایک نا وقت مرجھاتا گندمی تیکھا چہرہ میرے ذہن میں جھماکے سے دَر آتا اور پھر غائب ہو جاتا۔ کئی بار ایک مستور پشت سے ہو کر چادر سے نکل کر نیچے لٹکتے کالے بال میرے تصور میں آتے اور نکل جاتے۔
میں نے سفری بیگ سے ایک کتاب نکالی اور دھیمی پیلی روشنی میں پڑھنے کی کوشش کرنے لگا۔
اچانک میرے دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی۔ میں نے ناگواری سے اٹھ کر چٹخنی کھول کر دروازہ تھوڑا سا سرکا کر باہر جھانکا تو وہی تھا جس کی توقع ہو سکتی تھی۔
غلام قادر۔
’’سر جی نیند نہیں آ رہی نا؟ ‘‘
وہ مسکراتے ہوئے بولا۔
’’لتی گاڑی کا سحر ہوتا ہے سر جی۔ اکیلے جوان بندے کو چلتے ہوئے کمرے میں کیسے نیند آئے گی۔ سر جی چائے پئیں گے؟ ‘‘
’’پی لوں گا اگر آسانی سے مل جائے اس وقت۔‘‘
’’سر جی آپ بھی بہت سادہ ہیں۔ جو حکم کریں گے ملے گا۔ پر سر جی آپ تو بہت ہی سیدھے ہیں۔
وہ میرے ساتھ کھڑے انسپکٹر کو دیکھا تھا؟ وہ چاچا کبڑا؟ سر سمگلنگ کا کنگ کہتے ہیں اسے۔ درجنوں گینگ ہیں اس کے۔ چاچی کو ساتھ لے کر آتا ہے۔ شام سے پی رہا ہے دوسرے انسپکٹر کے ساتھ۔ وہ انسپکٹر نیا نیا آیا ہے لیکن سیکھا سکھایا۔ اس کی بھی چاچی ساتھ ہے ۔‘‘
’’یار غلام قادر یہ بیویوں کو ساتھ بٹھا کر شراب پیتے ہیں؟ کمال ہے؟۔‘‘
وہ قہقہہ لگا کر خوب ہنسا۔ پھر بولا
’’سر جی آپ تو زیادہ ہی سادہ ہیں۔ سر وہ خاص چاچیاں ہیں ان چاچوں کی۔ ہر بار نئی چاچیاں۔ بیویاں تو گھروں میں بیٹھی ہیں۔ دو دو کلو سونا پہن کر خوش خوش۔ چھوٹے بچوں کو پڑھا رہی ہیں جبکہ بڑے چرسیں پیتے باپوں کی حرام کی کمائی ٹھکانے لگاتے پھر رہے ہیں۔
لو جی سر جی میں آپ کی چائے کا بندوبست کروں۔‘‘
وہ چلا گیا تو میں کتاب بھول کر اس کی باتوں کے اڑن کھٹولے پر سوار کہیں کا کہیں نکل گیا۔
کوئی بیس منٹ بعد ہلکی دستک ہوئی۔ میں نے دروازے کی چٹخنی نہیں چڑھائی تھی۔
’’آ جاؤؤؤ!‘‘
میں نے لیٹے لیٹے آواز دی۔
لیکن مجھے فوراً اٹھ کر بیٹھنا پڑا۔ پلاسٹک کی ٹرے میں چائے کا تھرماس، کپ، مرغ کے گوشت کے تکے اور اُبلے ہوئے انڈے لے کر جو ہستی اندر داخل ہوئی وہ غلام قادر نہیں تھا۔ وہ پختہ عمر عورت کمرے میں داخل ہوئی جو اس کے ساتھ ساتھ پھرتی تھی جسے میں کئی بار یاد کر چکا تھا۔
’’نیند نہیں آ رہی صاحب جی!‘‘
مجھے بھی نیند نہیں آتی‘‘
وہ مسکراتی ہوئی سامنے والی خالی سیٹ پر بیٹھ گئی۔
یہ کمرہ چار لوگوں کے سونے کے لئے بنایا گیا تھا لیکن اس وقت مجھ اکیلے کے تصرف میں تھا۔
میں اپنی سیٹ پر سنبھل کر بیٹھ گیا۔ اس نے دو کپ چائے انڈیلی اور ایک کپ میری طرف بڑھایا۔
’’میں مکس چائے لائی ہوں۔ اصلی دودھ والی۔ ہلکی چینی ہے۔ مجھے شوگر ہے۔ صاحب لوگ تو ویسے بھی ہلکی چینی ہی پیتے ہیں۔ اگر اور چینی چاہئے تو ساتھ لائی ہوں۔‘‘
’’جی نہیں ٹھیک ہے‘‘
میں نے اپنے کپ پر نظریں مرکوز رکھیں۔
میرا عجب حال تھا۔ کانوں کی لویں سلگ رہی تھیں اور خون جیسے کن پٹیوں کو پھاڑ کر باہر نکلنے کو بے تاب تھا۔
’’صاحب آپ شہر میں اکیلے رہتے ہیں اتنے بڑے گھر میں؟
کل بڑی سڑک سے گزرے تو صادق نے آپ کا گھر دکھایا۔ دو بڑے بڑے گیٹ کھل رہے تھے بڑی سڑک پر۔ ایک آنے کا اور ایک جانے کا۔ صادق میرا میاں ہے۔ پہلے کسٹم میں سپاہی ہوتا تھا۔ نکال دیا انہوں نے۔ اب میرے ساتھ کھے کھاتا پھرتا ہے۔
ہم کل آ گئے تھے اور پھر رات اسٹیشن پر رہے۔ آپ کو دیکھا تھا وہاں۔ آپ صبح جو آئے تو بھی دیکھا آپ کو۔ راستے کے بڑے اسٹیشن پر بھی نظر آئے۔ آپ دیکھ رہے تھے ہماری طرف۔ صاحب ہم اچھے لگے آپ کو؟ ‘‘
میں ہکا بکا رہ گیا۔ اس عورت کی کتنی آنکھیں ہیں۔ کب اس نے مجھے اتنی غور سے دیکھا۔ کیسے میری ہر حرکت نوٹ کی۔
’’اس طرح کی عورتیں اتنی ہی ہوشیار ہوتی ہیں‘‘
میں نے خود کو سمجھایا۔
’’پہلے ہم کئی بار آپ کے بڑے صاحب کے سرونٹ کوارٹروں میں رات رہ لیتے تھے۔ پھر کسی نے شکایت لگا دی۔ صاحب نے شرفو کو بھی نکال دیا اور ہمارا ٹھکانہ بھی جاتا رہا۔ سو سجن اور سو دشمن۔‘‘
اس نے بڑی رغبت سے آوازیں نکال کر چائے سڑکنا اور تکے کھانا شروع کر دئیے۔ میں بھی چائے پینے لگا۔
وہ ایک تجربہ کار بھرپور عورت تھی۔ چالیس سے اوپر ہی ہو گی۔ شاید پینتالیس سے بھی اوپر ہی ہو۔
’’آپ لوگ کہاں سے آئے ہیں؟ ‘‘
مجھے اور کوئی بات نہ سوجھی تو یہی پوچھ لیا۔
’’لاہور سے۔ آپ کے شہر سے ۔‘‘
میں اور حیران ہوا۔
’’صاحب اس کام میں بڑی خواری ہے۔ گھر سے قدم نکالنے سے لے کر واپس گھر جانے تک جو ملے گا ہر ایک بس ایک ہی نظر سے دیکھے گا۔ ایک ہی تقاضہ کرے گا۔ ایک چھوڑے گا تو دوسرا پکڑ لے گا۔ آپ سیانے ہیں آپ کو تو سمجھ ہے نا۔ میں پرانی ہوں تو سب کی ذمہ داری مجھ پر ہے۔ آپ نے دیکھی تھی نا وہ بچی جو میرے ساتھ تھی۔ آپ کو اچھی لگ رہی تھی؟۔‘‘
میں تھرا کر رہ گیا۔ کیا چیز ہے یہ عورت۔
میں ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ کیا کہوں تو ذرا توقف کر کے خود ہی بولی،
’’ملنا ہے اس سے؟ آپ ہمارے بڑے صاحب ہیں۔ مجھے اچھے لگے ہیں۔ کروں اس سے بات؟ ‘‘
میں گھبرا گیا اور چائے میرے اوپر گرتے گرتے بچی۔
’’صاحب ہماری دوستی ہمارے شہر تک چلے گی۔ شہر داری میں سو بار منہ متھے لگیں گے۔ سو کام نکلیں گے۔ بڑی سہولت ہو گی۔ آپ مجھے کسی اچھے گھر کے لگتے ہیں۔ خاندانی لگتے ہیں۔ آپ کا ماتھا اور آنکھیں صاف بتا رہی ہیں۔ آپ کوئی شُہدے سفلے نہیں ہیں۔ رجے پجے ہیں۔‘‘
میں حیران و ششدر کہ یہ کیا چیز ہے۔ کہاں چڑھتی ہے اور کدھر جا اترتی ہے۔
’’نہیں نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔‘‘
میرے منہ سے بے تکا سا جملہ پھسل گیا۔ سمجھ میں نہ آیا کہ کیا کہوں۔ ایسے ہی ہانکی،
’’کتنے لوگ ہیں آپ کے ساتھ؟ ‘‘
’’ہم پانچ ہیں۔ ایک تو دیکھی تھی نا میری عمر کی۔ چٹی سی۔ جس نے سفید کٹاؤں والی چادر اوڑھی ہوئی تھی۔ بالکل شریف ہے۔ میں نے سب کو بتا دیا ہے۔ کسی نے اس کو انگلی بھی لگائی تو میں طوفان کھڑا کر دوں گی۔ وہ میرے وعدے اور بھروسے پر آئی ہے۔ میں نے کہہ دیا تھا کہ جیسی گھر سے نکلو گی ویسی واپس آؤ گی۔‘‘
’’صاحب جی کوئی خدمت بولیں۔ لڑکیوں کو چھوڑیں۔ لڑکیوں کو کچھ پتہ نہیں ہوتا۔ عورت عورت ہوتی ہے۔ میری بات کا اعتبار کریں۔‘‘
’’صادق بھی آپ لوگوں کے ساتھ آیا ہے؟ ‘‘
مجھے پھر اور کوئی بات نہ سوجھی۔
’’نئیں صاحب جی۔ پیچھے رہ مر گیا ہے۔ پنشن کا کوئی چکر تھا۔ کھسماںنوں کھائے۔ مجھے تو پنشن کا ایک روپیہ نہیں دیتا۔ پہلی کو دیتا ہو تو پتہ نہیں۔ اس میں سے دو لڑکے ہیں صادق کے۔ جوان۔ انہوں نے دو تین بار اس کو مارا بھی ہے لیکن یہ کتے کی دم ہے۔ نہ نشہ چھوڑتا ہے اور نہ جوا۔ اور جو عورت لڑکی میرے ساتھ آئے سب سے پہلے اس پر اپنا حق سمجھتا ہے۔ مجھے اس کا کیا فائدہ ہے۔ الٹی مصیبت ہے۔ مجھے شوگر ہو گئی ہے۔ ٹانگیں سو جاتی ہیں۔ بلڈ پریشر کبھی اوپر چلا جاتا ہے کبھی نیچے۔ میں اکیلی جان۔ نہ بال نہ بچہ۔ مجھے تو یہ بلا بن کے چمٹا ہوا ہے۔ مجھ سے بھی پیسے کھینچ کر پہلے گھر دے آتا ہے۔ پہلی پہلی ہی رہتی ہے صاحب جی۔ وہ اس کے لڑکوں کی ماں ہے۔ چاہے وہ لڑکے اس کو مار کُٹ کے نکال ہی دیں، پھر مُڑ مُڑ کے ان کے پیچھے جاتا ہے۔ چول بندہ ہے صاحب جی۔ مجھے تو بس بارڈر پر آتے جاتے مل گیا تھا۔ بس جان کو چمٹ گیا روگ بن کے۔ میرا خیال تھا مجھے اس سے محبت ہو گئی ہے۔ فٹے منہ میرا بھی۔ بس کھے کھاہدی ہے صاحب جی۔‘‘
چائے ختم ہوئے مدت ہو چکی تھی۔ اب مجھے سمجھ نہیں آتی تھی کہ یہ کہانی کس طرف لگے گی۔ گاڑی ایک ہی رفتار سے کھٹا کھٹ چلتی جا رہی تھی۔ کھڑکی سے باہر آسماں بھی نیند کے خمار میں لگ رہا تھا اور ستارے گاڑی کے ساتھ بھاگتے بھاگتے تھک چکے تھے۔
دن نکلا اور گاڑی سارا دن بھی اسی رفتار سے بھاگتی رہی۔ راستے میں تین چار اسٹیشن آئے جہاں صرف چند ریلوے ملازم اور لیویز کے سپاہی اترے اور چند سوار ہوئے۔
شاید ان کی ڈیوٹی اب بدلی تھی۔
صحرا ہی صحرا اور بیچ میں یکساں رفتار سے چلتی گاڑی۔ ہر سُو پھیلا بے آب و گیاہ دشتِ وحشت۔
سارا دن گزرا اور شام کے قریب آخری اسٹیشن آ گیا۔ سرحدی اسٹیشن۔
چھوٹا سا اسٹیشن تھا۔ بس ایک چھوٹا سا کمرہ اسٹیشن کے عملہ کا، ایک سٹور، لیمپ روم اور چھوٹا سا برآمدہ۔ پلیٹ فارم بھی بس اسٹیشن کی سمت اینٹوں کا زمین ہی کی سطح پر بنایا فرش تھا جسے ریلوے والے "گراؤنڈ لیول" پلیٹ فارم کہتے ہیں۔ دوسری طرف بس ریت ہی تھی۔ پٹری بھی بجری کی بجائے ریت پر بچھی تھی۔ چاروں طرف ریت ہی ریت۔
گاڑی رکی تو لوگ اپنا سامان نیچے اتارنے اور پھینکنے لگے۔ بدقت گاڑی سے نکلے کہ تقریباً چالیس گھنٹے کے سفر نے ان کے انجر پنجر ڈھیلے کر دئیے تھے۔ ٹویوٹا سوزوکی اور نسان چھکڑے بہت بڑی تعداد میں ریت کے سمندر پر لنگر انداز تھے جن پر تھکے ہارے مسافر اور ان کا سامان لادا جانے لگا۔ جب کوئی چھکڑا بھر جاتا تو بڑی تیزی سے ریت کے میدان میں جنوب کے سمت بھاگنا شروع کر دیتا جدھر کوئی ڈیڑھ دو کلو میٹر دور چند عمارات کے ہیولے نظر آ رہے تھے۔
کچھ سرکاری محکموں کے لوگوں کو لینے کے لئے سرکاری گاڑیاں آئی ہوئی تھیں اور کچھ پسندیدہ لوگوں کے استقبال کے لئے سرکاری لوگ آئے ہوئے تھے۔
مذکورہ پارٹی کا بھی بڑے رچاؤ سے استقبال ہوا اور دو بڑی سی طاقت ور گاڑیاں ان کا سامان اور انہیں اپنے پیٹ میں اتار کر ریت کے سمندر میں غوطہ زن ہو گئیں۔ دشت وحشت منتظر تھا۔
مجھے کئی بڑے سرکاری محکموں کی طرف سے رات کے کھانے کی دعوت ملی۔
اصرار پر میں نے ایک مؤثر محکمہ کے افسر کی دعوت قبول کر لی۔
ایک بڑی اور طاقت ور گاڑی کہ صحرا کی ریت میں جس کے چوڑے ٹائروں کو جکڑنے کی جرأت نہیں تھی رات کو مجھے لینے آ گئی۔
پختہ دیواروں سے گھرے وسیع احاطے کے اندر بھاری قیمتی گاڑیوں کی کافی بڑی تعداد نیم تاریکی میں خاموش کھڑی تھی۔ عمارت کے شاندار ہال میں داخل ہوئے تو اِک خیرہ کن جشن کا منظر طلوع ہوا۔
فرش پر دبیز قیمتی قالین اور ان کے اوپر نفیس پتلے گدے بچھا کر فرشی نشستوں کا شاہانہ اہتمام تھا۔ ہفت رنگ نرم و گداز ریشمی گاؤ تکیے لگے تھے۔ ماکولات سے لبالب بھری روپہلی کشتیاں سجی تھیں۔ خوبصورت کٹ گلاس کے جام خوش رنگ مشروب سے لبالب بھرے لہرائے، چھلکائے اور ٹکرائے جا رہے تھے۔ صحن میں کوئلوں پر بھونے جا رہے کبابوں اور دہکتے الاؤ پر بن رہی سجی کی اشتہا انگیز خوشبو روزن و دریچہ و در کی ہر درز سے ہال میں گھسی آتی تھی۔ دور پر دور چل رہے تھے۔ خم پہ خم لنڈھائے جا رہے تھے۔
موسیقی، پینے کی ہر نوع کی مشروبات، کھانے کے رنگا رنگ پکوان اور صنف نازک کے مخمور لہراتے قہقہوں نے راجہ اندر کے دربار کا سماں باندھ رکھا تھا۔ رنگ و نور، مستی و بد مستی۔ قہقہے اور چہچہے سبھی اس طوفان بد تمیزی کا حصہ تھے۔
پھر میں نے دیکھا کہ جو شوگر کی مریضہ تھی اس کے ساتھ، بر سر عام، ایک سفید ریش امیگریشن انسپکٹر لیٹا تھا، جس نے اپنے دونوں پاؤں کے بیچ اس کا ایک شوگر زدہ پاؤں جکڑا ہوا تھا۔ وہ اپنی چھوٹی چھوٹی سفید داڑھی سے مزین صحت مند گال اس کے شوگر والے پیلاہٹ ملے گہرے گندمی گال کے ساتھ رگڑ رہا تھا۔
اور پھر مجھے وہ بھی نظر آ گئی۔
وہ کہ جسے دو دن سے کئی بار دیکھا تھا۔ جو جانے کیوں یاد رہ جاتی تھی اور یاد آتی تھی۔
چہار سو برپا جشن سے علیحدہ آخری قالین کے ایک کونے میں سہمی سہمی سی پریشان بیٹھی تھی۔ گھٹنوں پہ سر رکھے۔
یہ حیران کن بات تھی کہ وہ کسی شغل کا حصہ نہیں بن رہی تھی۔ پتہ نہیں کیسے اس محفل سے علیحدگی کا اہتمام کئے بیٹھی تھی۔ کس معذوری، کس علت کے بہانے وقتی اجتناب کی اجازت لے کر ایک کنارے ہو سکی تھی۔
میری اور اس کی نظریں چار ہوئیں تو ایک شناسائی کی رمق اس کے چہرے پر لہرا گئی۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھی اور جانے کس تعلق سے میرے پاس چلی آئی۔
میں نے اسے اپنے پاس بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
وہ ایک جھجھک کے ساتھ میرے پاس بیٹھ گئی۔ کچھ دیر خاموشی رہی۔ پھر وہ منمنائی،
’’صاحب! پلیز انہیں سمجھائیں۔ میری تو ابھی شادی بھی نہیں ہوئی۔‘‘
مجھے اس کی بات پر فوری یقین آ گیا۔
جیسے کہ میں اسے بہت مدت سے جانتا تھا۔
جیسے وہ جھوٹ کہہ ہی نہیں سکتی اور جیسے کہ اس کا مجھ پر حق تھا۔
میرے سامنے بس ایک ہی رستہ کھلا تھا۔
اب مجھے کچھ نہ کچھ بند و بست بہر صورت کرنا تھا۔
پھر میں نے ان سے بات کی جو مجھے بہت مختلف سمجھتے تھے۔
اُن سے اپنا حصہ مانگا۔
وہ حیران ہوئے اور بخوشی راضی ہو گئے۔
سو میں نے اُسے ساتھ لیا اور باہمی رضا مندی سے بسہولت سرحد پار کروا دی۔
٭٭٭
کُشتی
’’پھر میں نے اُسے کہا کہ زیور اتار کر رکھ لو‘‘ ۔
’’وہ کیوں؟ کیا کوئی کشتی ہونے جا رہی تھی؟ ‘‘ ۔
ہم تینوں حمید کے ساتھ جڑے بیٹھے تھے۔ آٹھویں کے سالانہ امتحانات سر پر تھے لیکن پھر بھی حمید کو شادی کے لئے چھٹیاں مل ہی گئیں۔ لیکن ملیں صرف چار اور وہ بھی اس لئے کہ ماسٹر جمال الدین اپنی تمام تر سختیوں اور خشکیوں کے باوجود قائل ہو گئے کہ حمید کی شادی حمید کے بغیر ہونا مشکل ہے۔ سو چھٹی تو ملی لیکن حمید کے والد کو وہ القابات ملے کہ خود سنتا تو ہونے والی بہو کو شادی سے قبل ہی بیوہ کرنے پر غور کرتا۔ اب جبکہ وہ ساری مہمات کامیابی سے سر کر کے پہلے دن واپس سکول آیا توہم چاروں اس کے منتظر تھے۔ تین دن مشکل سے گزرے تھے۔ آتے ہی ہم اسے دبوچ کر بیٹھ گئے۔ ’’ہاں بولو پھر۔ زیور کیوں اتروائے؟ کیا کوئی کُشتی ہونے جا رہی تھی؟ ‘‘
میرے لہجے میں تجسس بھی تھا اور تشویش بھی۔
’’تم گدھوں کو کیا پتہ۔ کشتی ہی تھی‘‘
’’پھر‘‘
اسلم سے مزید صبر نہیں ہو رہا تھا۔
’’پھر کیا یار۔ پھر وہی جو تم کو بھی پتہ چل جائے گا‘‘ ۔
ہم اس کی جان چھوڑنے والے نہیں تھے لیکن ماسٹر بشیر صاحب اپنی مشہور بید کی لچکیلی چھڑی لہراتے ادھر ہی آ نکلے۔ ہم سعادت مند بن کے ان کے ساتھ ہو لئے۔ بہر حال فائنل امتحان، سر پر تھے اور بشیر صاحب کا الجبرا ’’کشتی‘‘ سمیت سب کھیلوں سے زیادہ اہم تھا۔
اگلے دن ہم پھر حمید کی تاڑ میں تھے لیکن جب بھی ہم نے اُسے گھیرا، وہ جُل دے گیا۔ بالآخر تیسرے دن ہم نے دو طرف سے پیش قدمی کی اور اُسے بابے کے کھوکھے پر چنے اور ٹھنڈے نان کھاتے جا گھیرا۔ ’’حمیدے! تو ساری یاریاں ہی بھول گیا۔ کوئی بات نہیں بچے۔ نیا نیا کام ہے۔ پھر تجھے ہمارے ہی پیچھے خجل ہونا ہے‘‘ ۔
لطیف ایک سانس میں بول گیا۔
’’میں نے آپ لوگوں سے کوئی بات نہیں کرنی۔ سلمانی صاحب نے مجھے دفتر بلا کر کہا ہے کہ اصولی طور پر لڑکوں کو دسویں پاس کر لینے سے پہلے شادی کی اجازت نہیں ہوتی۔ لیکن تیرے کھوتے پیو کو آخر آئی تھی کہ تو اس کا اکلوتا تھا۔ شادی تو ہو گئی اب اگر تو نے دوسرے لڑکوں کی کلاسیں لینا شروع کر دیں کہ آؤ بتاؤں شادی کیسے ہوتی ہے تو پتر کان سے پکڑوں گا اور سیدھا سکول سے باہرسڑک پر چھوڑ کر آؤں گا۔ اور یار آپ کو پتہ ہے کہ سلمانی صاحب کو سب باتوں کا پتہ چل جاتا ہے ۔‘‘
جو چند ہفتے باقی تھے ہمارا کوئی حربہ، کوئی دھمکی کام نہ آئی۔ میں نے ان زیورات کے بارے میں ہزار بار سوچا جو حمید نے اتر وائے تھے لیکن تصور کی گاڑی کچھ زیادہ آگے چل نہ پائی۔
تین برس گزر گئے۔ سکول ختم ہوا اور شہر کے کالج پہنچ گئے۔ ہاسٹل کی زندگی شروع ہوئی تو سو غیر نصابی سرگرمیاں ہاسٹل کے کاری ڈورز، کامن روم، ہاکی گراؤنڈ کی باؤنڈری پر نصب بینچوں، حتیٰ کہ غسل خانوں تک میں انجام پا گئیں۔ خود انحصاری کے فوائد اور مؤثر طریقوں پر تو گروہی مباحثے بہت ہی عام تھے۔ باہمی خیر سگالی کے دور بھی چلتے رہے۔ نہ ہو سکی توبس کشتی نہ ہو سکی۔
اس دن جب میں غالب کے اشعار کی تشریح، ایک ردی کاغذ پر چھپی مستند اور آزمودہ گیٹ تھرو گائیڈ سے پڑھ کر سخت حیران ہو رہا تھا کہ کیونکر ایک ہی شعر کے کئی کئی مطالب نکل آتے ہیں اور عشق مجازی کیسے بآسانی عشق حقیقی میں جا گرتا ہے تو بڑے گیٹ سے امجد آتا دکھائی دیا۔ امجد ہر معاملے میں ہمارے پورے گروپ میں سب سے زیادہ پر اعتماد اور با ہمت تھا، لیکن اس وقت خلاف معمول نظریں نیچے کئے جھینپا جھینپا، کمر خمیدہ سا، پاؤں گھسیٹتا چل رہا تھا۔
’’کیا ہوا! پھر لڑائی ہوئی ہے کیا؟ ڈوگر گروپ کے قابو میں تو نہیں آ گئے تھے؟ رگڑائی تو نہیں کروا آئے؟ کیوں پھرتے ہو اکیلے جب پتہ ہے کہ وہ ہمیشہ گروپ میں پھرتے ہیں‘‘ ۔
میں نے ایک ہی سانس میں سارے خدشات اور امکانات گنوا دئیے۔
’’اوہ نئیں یار۔
روز باتیں کرتے تھے۔ آج میں چلا گیا تھا ادھر… پیدل… سڑکو سڑک… اکیلا… پیسے تھے میرے پاس۔ کل منی آرڈر آ گیا تھا‘‘ ۔
’’بس یار میں مزار کے پاس سے ذرا آگے نکل کر دائیں ہوا تو بازار آ گیا۔ مفلروں والے ساتھ لگ گئے۔ کوئی دائیں کوئی بائیں۔ دُوسری طرف منہ کر کے ہولی ہولی بڑبڑاتے تھے۔ میں نے سنی اَن سنی کر دی۔ پھر وہ گلیاں شروع ہو گئیں۔ یار بالکل عام عورتوں کی طرح تھیں وہ۔ ہر طرح کی۔ تمہیں تو پتہ ہے پروین کیسی ہے؟ بس ویسی ہی تھی وہ۔ لیکن بڑی عمر کی۔ ہو گی کوئی پینتالیس کے پیٹے میں۔ بھری بھری۔ چٹی سفید۔ پر ڈھلکی ڈھلکی۔ ہنس کر زور سے بولی،
’’آ جا! اَگے گلی وچ تیرا ابا کھلتا ای‘‘ ۔
میں جلدی سے اس کی دہلیز پھلانگ گیا۔
یار تو مانے گا نہیں، وہ مجھ پر چھا گئی۔ مجھے باقاعدہ اس سے ڈر لگ رہا تھا۔ جیسے میں اُس کے رعب میں تھا۔ اُس نے پیسے رکھوائے، کنڈی لگائی اور منٹ میں تیار۔ ننگ پننگی۔ میری طرف گھور کر دیکھا اور لا تعلقی سے بولی،
’’چل ہُن آ وی‘‘ ۔ (چلو اب آ بھی جاؤ)
یار تم یقین نہیں کرو گے، اِک عجیب سی بے رغبتی نے مُجھے آ گھیرا، اور میرا جوش ختم۔ مُجھے اچانک حمیدے کی بات یاد آ گئی۔ وہی کُشتی والی۔ یار خالد! مجھے لگتا ہے میں چِت ہو گیا ہوں۔ میری کَنڈ لگ گئی ہے‘‘ ۔
بس یار! سوچتا ہوا آیا ہوں کہ میں وہاں لینے کیا گیا تھا‘‘
٭٭٭
بھِڑ
’’ہزار بار سمجھایا تھا کہ بچوں کو تساہل پسند نہ بناؤ، انہیں اپنی زندگی خود گزارنی ہے۔ زندگی آسان ہے نہ کھیل تماشہ۔ لاکھوں پیش بندیاں کر کے بس ایک حد تک ہی آسائش اور سکھ کی گارنٹی دی جا سکتی ہے۔ ہر کسی کو اپنی زندگی بالآخر خود ہی جینا پڑتی ہے۔ کئی بار مواقع آتے ہیں کہ انسان بالکل الف ننگا، بے یار و مدد گار، تن تنہا لق و دق صحرا میں زندگی کا سامنا کرتا ہے۔ دولت وسائل، یار دوست، رشتہ دار کچھ بھی مدد نہیں کر سکتے۔ مسئلہ اور بھی گھمبیر ہو جاتا ہے جب یہ صورت حال جسمانی کی بجائے ذہنی ہو‘‘ ۔
ارسلان کا اپنی بیوی کے ساتھ یہ مکالمہ روز کا تھا۔ اس نے اپنی زندگی کی ابتدا میں جو کٹھنائیاں جھیلیں اُس کا صلہ اسے آخر عمر میں خوب ملا۔۔ ۔ منّے کباڑی کے بیٹے نے زندگی رینگ رینگ کر شروع کی، کباڑ کی چھوٹی سی دوکان بھلا امانت علی کو کیا دے سکتی تھی؟ خود تو ساتویں جماعت سے آگے نہ پڑھ سکا، پر بیوی انٹر پاس مل گئی، یہ ماں ہی کے ڈائجسٹوں اور فلمی رسالوں کے مطالعہ کا فیض تھا جو اس کا نام ارسلان تھا۔ ورنہ باپ کی طرف سے وہ زیادہ سے زیادہ لال دین ہو سکتا تھا۔
ارسلان کو باپ نے پورا زور لگا کر پڑھایا۔ اکلوتا تھا۔ محلے میں نئے کھلے پرائیویٹ انگریزی سکول میں داخلہ دلوایا۔ صبح جب خاکی نیکر، نیلی شرٹ اور لال ٹائی پہن کر باپ کی سائیکل کے ڈنڈے پر بیٹھ کر سکول جاتا تو امانت اسی سکول میں گاڑیوں سے اتر کر اچھل اچھل سکول جاتے بچوں کے سنگ ارسلان کو دیکھ کر خوشی سے جھوم اٹھتا۔ اسے کلاس ٹیچر کی ارسلان کے بارے میں اچھی رائے یاد آتی تو وہ تیز تیز پیڈل مارتا، گنگنانے لگتا۔
زندگی کی گاڑی لشٹم پشٹم چلتی تو ہے ہی، وقت گزرتا ہے اور اپنے نقش بھی چھوڑتا ہے۔ اپنے اس فیصلہ میں وقت قدرت کا اسی طرح پابند ہوتا ہے، جیسا کہ امانت تھا۔ سائیکل کے پیڈلوں کو کُبڑا ہو ہو کر دھکیلتے امانت نے زندگی کی بھاری گاڑی کو اتنا تو چلا ہی دیا کہ ارسلان کالج تک جا پہنچا۔ کالج میں مکوڑے نے پر نکالے، تو وہ کالج کے بوسیدہ ہوتے کمروں اور ناہموار گراؤنڈز کی بجائے پُر رونق زنانہ اشیائے ضروریہ والے بازاروں، گرلز کالج کے باہر لگی ریڑھیوں اور معروف بس سٹینڈوں پر زیادہ پایا جانے لگا۔ اسی دشت نوردی نے اسے شائستہ سے ملوایا، جو بالآخر اس کی جیون ساتھی بنی۔
اس کی تعلیم بہرحال انٹر سے آگے نہ بڑھ سکی۔
ارسلان شادی کے بعد شائستہ کا ساتھ پا کر ایسا سدھرا جیسے اَتھری گھوڑی لگام سہار کر جو چند دن اچھل کود کرتی ہے، تو راس ہو کر لگام کو رہبر مان، اسی کے سہارے اڑے پھرتی ہے۔ اس نے زندگی کا جوا اٹھایا، تو نہ تھک کے بیٹھا نہ دم لیا۔ بس چل سو چل۔
باپ کی چھوڑی کباڑ کی چھوٹی سی دکان میں محنت کی برکت کا اثر تھا کہ ارسلان سکریپ ڈیلر بن گیا۔ قسمت کی دیوی مہربان ہوتی ہے تو الٹے ہاتھ بھی سیدھے پڑتے ہیں۔ مٹی میں بھی ہاتھ ڈالیں تو وہ سونا بن جاتی ہے۔ ایک بڑی لاٹ ارسلان کے گلے یوں پڑ گئی کہ پول کر کے بولی دلانے والی پارٹی ایک فراڈ میں پکڑی گئی اور ارسلان جو کسی کے بل بوتے پر بڑھا کر بولی دے بیٹھا تھا سودا اُٹھانے کا پابند ہو گیا۔ اتفاقاً انہی زمانوں میں ایک ناخوشگوار واقعہ پیش آنے پر سمندری راستے سے سکریپ کی درآمد میں رخنہ پڑا اور ملکی منڈی میں وہ عارضی تیزی آئی کہ اس کے وارے نیارے ہو گئے۔ ابا کی زنگ خوردہ بائیسکل پر سکول جانے والا ارسلان چمچماتی گاڑیوں اور شہر کی سب سے مہنگی ہاؤسنگ سوسائٹی میں بڑے بنگلے کا مالک بن گیا۔ باپ کی جمع پونجی کپڑے کی تھیلی میں چند نوٹوں کی شکل میں لکڑی کی کرم خوردہ الماری کی مقفل دراز سے کبھی آگے بڑھ نہ پائی تھی۔ اب بینک منیجر ڈیپازٹ لینے اور قرض کی حد کو تا حد نظر بڑھانے کو خود تیار اس کے دفتر سے اس سے ملنے کا ٹائم مانگتے پھرتے۔
اللہ نے تین بیٹوں اور ایک بیٹی سے نوازا جو شہر کے بہترین انگریزی سکولوں میں داخل کروائے گئے۔ لمبی چمکدار گاڑیوں میں براق وردی والا ڈرائیور گن میں کے ساتھ ہر بچے کو سکول چھوڑنے جاتا۔ دنیا کی ہر نعمت ایک فون کال یا وٹس ایپ میسج کی دوری پر رہ گئی۔ ارسلان نے پورا بچپن جس کشمکش، محنت، جد و جہد میں گزارا تھا اور جس طرح درمیانہ طبقہ بلکہ تقریباً غربت سے ترقی کرتے کرتے اسے حالات سے جنگ کر کے زندگی بسر کرنی پڑی اُس نے اُسے اعتماد اور طاقت عطا کی تھی۔ بچپن سے لے کر زندگی بھر اس کو بھانت بھانت کے لوگوں سے معاملات کرنا اور گھاٹ گھاٹ کا پانی پینا پڑا۔ اس نے مفلسی، نارسائی، مایوسی، بیماری، ذلت، کسمپرسی کو بارہا اپنی پائنتی بیٹھے دیکھا تھا۔ اسے یقین تھا کہ اتنی مشقت اور تجربے کے بعد وہ زندگی کی ہماہمی اور سترنگی کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ پر اسے ہمیشہ یہ فکر رہتی کہ اس کے بچے بڑی سہولت کے ساتھ حفاظتی دیواروں کے اندر پل رہے ہیں اور زمانے کا سرد و گرم انہوں نے چکھا ہی نہیں۔ اگر زندگی نے مشکل رخ دکھایا تو شاید یہ ان کٹھنائیوں کا مقابلہ ہی نہ کر سکیں جو کسی زی روح کو بے پرواہ فطرت دکھا سکتی ہے۔
یہ کشمکش میاں بیوی میں کئی بار اختلاف بلکہ ناچاقی کا سبب بن چکی تھی۔
’’اللہ نے انہیں سہولتیں دی ہیں تو یہ کیوں ان کا پورا فائدہ نہ اُٹھائیں۔
آپ کا بس چلے تو آپ تو انہیں ان کے دادا کی زنگ آلود سائیکل کے ڈنڈے پہ بٹھا دیں۔ آپ کا باپ گنج منڈی کا کباڑیہ تھا جبکہ ان کا باپ شہر کا بڑا سرمایہ دار، سٹیل فرنس اونر ہے۔ معززین شہر میں سے ہے۔ کیوں یہ ذرا ذرا سے کام کیلئے ہما شما کے متھے لگیں؟؟؟ کیوں معمولی کاموں کے لئے لائنوں میں دھکے کھائیں۔ یہ پڑھ لکھ کر بڑے لوگ بنیں گے، انہیں زندگی میں ایک بڑے معیار سے نیچے اترنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی‘‘ ۔
شائستہ کی دلیل ہوتی۔
’’لیکن میں بھی یہ نہیں کہتا کہ ہر کام انہیں خود کرنا چاہیے۔ میں تو کہتا ہوں کہ انہیں ہر کام کرنا آنا چاہئے۔ زندگی کو اندر گھس کے دیکھنا چاہیے۔ اچھے برے کی پرَکھ ہونی چاہیے۔ زندگی کا ہر رنگ، ڈھنگ ان کے تجربے مشاہدے اور برداشت میں اضافے کا باعث بنے گا‘‘ ۔
یہ دانتا کِل کِل جب جی چاہے شروع ہو جاتی اور تا دیر بحث مباحثے اور گرما گرمی کے بعد بے نتیجہ ختم ہو جاتی۔ کئی بار ارسلان سوچتا کہ شائستہ شاید صحیح کہہ رہی تھی۔ کہیں وہ اپنے ہی بچوں سے حسد تو نہیں کرنے لگا۔ اس کا باپ غریب کباڑیہ تھا۔ اس نے جو بھی کر سکتا تھا اس کے لئے کیا۔ کچھ بچا کے چھپا کے نہیں رکھا۔ اس کیلئے دن رات ایک کیا۔ خود بھوکا ننگا رہ کر بھی اسے مقدور بھر عیاشی کروائی۔ اب جو اُس کے پاس بچوں کے نصیب کا تھا وہ انہیں دے رہا تھا۔ اس نے اپنے حصے کی جو ٹھوکریں کھائیں اور پختہ ہوا تو وہ حالات اس کا مقدر تھے۔ اب جو اسے ملا وہ اس کی اولاد کا حصہ ان کا مقدر ہے۔ بیشک اس کی خواہش تو یہ تھی کہ تجربات اور حوادث کی بھَٹّی اس کے بچوں کو پختہ کر دے اور وہ زمانے کے سرد و گرم سہہ کر سخت جان ہو جائیں لیکن یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ رہیں تو موجودہ حالات میں اور تجربات و مشاہدات گزشتہ زمانہ اور حالات کے حاصل کریں۔ یہ ایک کشمکش اس کے ذہن میں چلتی رہتی اور کبھی کبھی تنہائی میں بھی وہ اسی ادھیڑ بُن میں جُت جاتا۔
آج جب ارسلان حسب معمول، صبح ہی صبح تیار ہو کر اپنے دفتر کے لئے نکلا تو بچے، جن کے سکول چھٹیوں کی وجہ سے بند تھے، سب سوئے ہوئے تھے۔ اسے یاد آیا کہ صبح تین بجے جب اس کی آنکھ اچانک کھل گئی تو بچوں کے چلنے پھرنے اور بولنے کی آوازیں ابھی آ رہی تھیں۔ مطلب یہ کہ حسب معمول چار بجے کے قریب سوئے ہوں گے، بارہ ایک بجے خیر سے اٹھیں گے اور باری باری ناشتہ آرڈر کریں گے۔ اس کے چہرے سے تشویش مترشح تھی۔ اس نے گھر سے باہر نکلنے کے لئے مشترکہ لابی کا دروازہ کھولا تو لان کی طرف سے آپس میں لڑتی لڑاتی بھوں بھوں کرتی دو کالی پیلی بھِڑیں اڑتی دروازے کی طرف لپکیں۔ اسے ایک لحظے کے لئے وہ وقت یاد آ گیا، جب اپنے باپ کے ساتھ سائیکل پر سکول جاتے ہوئے گلی کی نکڑ پر لال پیلے پکے بیروں کے بوجھ سے لدی، جھکی ہوئی بیری کے نیچے سے سائیکل گزارتے ہوئے ایک بھڑ نے اسے گال پر کاٹ کھایا تھا۔ دادی کے لوہا مَس کرنے والا ٹوٹکا آزمانے کے باوجود اس کا چہرہ ایک طرف سے پھول کر کُپّا ہو گیا تھا- سوزش آنکھ تک جا پہنچی۔ تین دن بعد جب سوزش اتری تھی تو اسے کیسی کیف آور کھجلی محسوس ہوتی تھی۔ اس کے چہرے کی تشویش ہلکی پر اسرار مسکراہٹ میں بدل گئی۔ اس نے اوپر دیکھا تو دروازے کے طاق میں بھِڑوں کا ایک بڑا چھتّا نظر آیا۔ اس نے جیب میں ہاتھ ڈال کر ایک سکہ نکالا اور زور سے چھتے کی طرف تاک کر اچھالا۔ سکے نے چھتّے کے عین وسط میں ٹکرا کر طوفان اٹھا دیا۔ بھڑوں کا سیلاب اٹھتا نظر آیا جو گھر کے چاروں طرف پھیلنے کو لپکا۔
اس نے جلدی سے اپنے پیچھے دروازہ بند کیا اور بیرونی دروازے کی طرف چل دیا۔
٭٭٭
ڈیبیٹ
آج پھر میں نے اسے ڈیبیٹ کا چیلنج دیا تو طرَح دے گئی۔
’’تم کبھی کسی ڈیبیٹ میں مجھ سے جیت نہ پاؤ گی‘‘ ۔
یونیورسٹی میں اپنے ڈیپارٹمنٹ کی سرخ اینٹوں سے بنی سیڑھیوں پر بیٹھے میں نے اسے کہہ تو دیا، لیکن یقین مجھے بھی نہیں تھا کہ میں سچ بول رہا ہوں۔
یہ سیڑھیاں ہماری ہی نہیں سب ڈیپارٹمنٹ والوں کی پسندیدہ جگہ تھی۔ یہیں بیٹھ کر ہم اپنے سامنے سے گزر کر جاتے کیمیکل ٹیکنالوجی اور فارمیسی کے لڑکوں کو حسد اور رشک کے تیروں سے گھائل ہوتے دیکھتے۔
ان لڑکوں کو ہمارے ڈیپارٹمنٹ کے سامنے سے گزر کر اپنے بے رنگ، مجرد ڈیپارٹمنٹس میں جانا پڑتا جہاں لڑکیوں کا مکمل فقدان نہیں تو سخت قحط ضرور تھا۔
ادھر ہمارے ہاں اللہ کا ایسا فضل کہ ہم میں سے ہر لڑکا اگر دو لڑکیوں کو لے کر سیڑھیوں پر بیٹھتا تو بھی کچھ بچ جاتیں۔ یہ الگ بات جو بہت سی ایسی تھیں کہ ادبیات کی طالبات ہونے کے باوجود مطلوب نہیں تھیں اور کچھ کو تو طلب ہی نہیں تھی۔
وہ عمر میں ہم میں سے اکثر سے بڑی تھی۔ اوپن میرٹ پر تو کبھی داخلہ ہی نہ لے پاتی۔ منافق یونین کے بل بوتے پر ’’سپیشلڈ بیٹنگ کوٹہ‘‘ سیٹ پر آئی تھی۔
کبھی اس کو کسی ڈیبیٹ میں حصہ لیتے سنا نہ دیکھا، بہر حال اس کے پاس سرٹیفکیٹ تو ہوں گے ہی۔ جبھی تو ہمارے الٹرا ماڈرن ڈیپارٹمنٹ کے نیکو کار گروپ سے متعلق چیئرمین اور دیگر معزز ممبران داخلہ کمیٹی نے اس پر اتنی نایاب سیٹ نچھاور کر دی تھی۔
دلیر اور منہ پھٹ بہت تھی اور خالص ’’شہری‘‘ ہونے کے باوجود وہ مجھ ’’پینڈُو‘‘ کے علاوہ کسی کی سنتی نہیں تھی۔
میری اور اس کی دوستی بھی پتہ نہیں کیسے شروع ہو گئی۔ کوئی ٹھیک سے یاد نہیں، لیکن کلاسز شروع ہونے کے دو مہینے کے اندر اندر، ہمارے سمیت، سب کو سمجھ آ چکی تھی کہ بس ہمارا ہی قارُورہ ملتا ہے۔ ہم دونوں کی حد تک ’’نو ویکنسی‘‘ کا بورڈ لگ چکا تھا۔
بڑے مزے کے دن تھے۔ کلاس روم، کامن روم، کینٹین، بزنس ایریا، کیفے ٹیریا، یونیورسٹی گراؤنڈز، لائبریری، ٹولنٹن مارکیٹ دِن کو اور نہر کنارا، کنارے سے بندھی نیلی روغن شدہ لمبوتری کشتیاں اور بوائیز اور گرلز ہاسٹلز کے بیچ کی خوشبودار پگڈنڈیاں شام کو۔
لڑکیوں کے دھو کر بالکونیوں میں سکھانے کے لئے لٹکائے کپڑوں میں بھی کئی مردانہ دل ٹنگے رہتے۔ تفریحی دورے اور گانوں کے کورس۔۔ ۔۔ ۔۔ کبھی الوداع نہ کہناااا۔۔ ۔
کیسے اڑا جا رہا تھا وقت۔
وقت تھا کہ گہرے نیلگوں آسماں کی وسعتوں میں بغیر پر ہلائے تیرتا پنچھی۔
سرور ہی سرور۔ مستی ہی مستی۔ قصے بھی مزے کے، جھگڑے بھی مزے کے اور صلح بھی مزے کی۔ یہاں تک کہ پڑھائی بھی مزے کی۔
ہر کوئی کھیلوں، پڑھائی، نیم پخت فلسفے، جعلی ذہانت، فرضی بہادری یہاں تک کہ رومانس میں بھی کسی سے پیچھے نہیں رہنا چاہتا تھا۔
’’یار میں کل اس کو الفلاح لے گیا سین کونری کی فلم دکھانے‘‘ ۔
’’پھر؟ ‘‘
’’پھر کیا۔ جب سب روشنیاں گل ہو گئیں تو میں نے آہستہ سے اس کے زانو پر ہاتھ رکھ دیا‘‘ ۔
’’اچھااا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ پھر؟ ‘‘
’’پھر میں ہاتھ آہستہ آہستہ اوپر لے گیا‘‘ ۔
’’تو‘‘
’’اس نے نیم تاریکی میں میری طرف گول گول دیدے گھمائے، اس کے سفید دانت مجھے اندھیرے میں بھی مسکراتے نظر آئے اور وہ نرمی سے بولی،‘‘
’’بچے میں یہ حرکتیں بہت پہلے کر چکی ہوں‘‘ ۔
’’تو‘‘
’’تو کیا یار۔ باقی فلم سنجیدگی سے دیکھی اور اسے گھر چھوڑ کر ہاسٹل آ گیا ہوں۔ فلم کے پیسے بھی گئے اور ٹیکسی کے بھی۔
ہاف ٹائم کی چائے پیسٹریاں علیحدہ۔
بس ایسی ہی کہانیاں تھیں ہماری اور ایسے ہی تھے وہ قصے۔ کیا خوشبو دار دن تھے۔ ہم بالکل نہیں جانتے تھے کہ ایسے حسین دن کبھی واپس نہیں آئیں گے۔ خواہ ہم کتنے بڑے بڑے پروفیسر، ادیب یا پھنے خان بیوروکریٹ ہی کیوں نہ بن جائیں۔
وقت تو گزرتا ہی ہے۔ وقت تو گزر ہی رہا تھا۔ اپنی روایتی تیزی کے ساتھ جو وہ اچھے دنوں کے ساتھ روا رکھتا ہے اور برے دنوں میں بھلا ڈالتا ہے۔ ہمارا وقت زیادہ ہی تیزی سے گزر رہا تھا۔ صبح کینٹین پر زمان سے آلو پراٹھے کا ناشتہ کرتے چائے سُڑک کر وہ مزہ آتا جو بعد میں سیون سٹار ہوٹلز کے پر تکلف نا شتوں میں بھی ناپید رہنا تھا۔ ہر چیز انمول تھی اور سب سے انمول تھے چڑھتی جوانیوں کے وہ آتش باز دن جو پھر لوٹ کر کبھی آنے والے نہیں تھے۔ جوان خون کی وہ حدتیں، جو بتدریج سرد ہونی تھیں اور رنگین خواب، جنہوں نے حقیقت میں ڈھل کر اپنے رنگ کھونے تھے۔
انہی ہواؤں میں اڑتے، ٹیبل ٹینس کھیل کر میں کونے میں لگے واش بیسن سے ہاتھ دھو رہا تھا کہ وہ پاس آ کھڑی ہوئی۔
’’تم نے شادی کب کرنی ہے عادل؟ ‘‘
’’کیوں بھئی؟ یہ کیا سوال ہوا؟ خیر تو ہے؟ ‘‘
’’اس میں چونکنے کی کیا بات ہے؟ کرنی نہیں ہے شادی تم نے کبھی؟ ‘‘
’’کرنی ہے بھئی کرنی ہے۔ کر لیں گے شادی بھی کبھی۔
ابھی تو بہت بہت کچھ کرنا ہے۔ پھر شادی بھی کرنی ہے۔ کرنی ہی ہے بالآخر‘‘ ۔
’’تقریباً کب کرنی ہے؟ ‘‘
’’یار کیا عجلت ہے نگہت! کر لوں گا آٹھ دس سال تک‘‘ ۔
’’آٹھ دس سال تک۔ اچھا۔۔ ۔ ٹھیک ہی ہے بھئی‘‘ ۔
میں اولڈ کیمپس سے نیو کیمپس جانے والی بس کے انتظار میں بنچ پر بیٹھا تھا کہ اسے ڈیپارٹمنٹ سے کیمپس کے بیرونی گیٹ کی طرف تیزی سے جاتے دیکھا۔ وہ اتنی منہمک تھی کہ دائیں بائیں کچھ دیکھ نہیں رہی تھی۔ بس سیدھی چلی جا رہی تھی لمبے لمبے غیر نسوانی قدم اٹھاتے ہوئے۔ باہر مال روڈ کے فٹ پاتھ کے ساتھ ایک سفید کار کھڑی تھی جس کی ڈرائیونگ سیٹ پر ایک مدبر سا ادھیڑ عمر آدمی بیٹھا تھا۔ نگہت نے کار کی دوسری طرف کا دروازہ کھولا اور ساتھ کی اگلی سیٹ پر بیٹھ گئی۔ کار نے حرکت کی اور با وقار آہستگی سے فٹ پاتھ سے دور ہوتے ہوئے رواں دواں ٹریفک کا حصہ بن گئی۔
اگلے دن پوچھنے پر نگہت نے بتایا کہ انکل لینے آئے تھے۔
ہم ملتے تو رہے لیکن باہمی گرم جوشی کچھ کم ہو گئی۔
پھر ایک دن پتہ چلا کہ نگہت دو ہفتے کی چھٹی پر چلی گئی ہے کیونکہ اس کی شادی ہو رہی ہے۔ مجھے ایک جھٹکا لگا۔ یوں لگا کہ میں دلائل دیے بغیر ہی ڈیبیٹ ہار گیا ہوں۔
دو ہفتے بعد وہ واپس ڈیپارٹمنٹ آئی تو ہم دونوں جھینپ رہے تھے۔ پھر ایک دن اس نے ہم ہوسٹل والے چھ دوستوں کو اپنے گھر لنچ پر بلایا۔ کلاسز کے بعد ہم یونیورسٹی بس سے وحدت کالونی کے اڈّے تک اور وہاں سے پیدل، اُس کے گھر کے دیئے گئے پتے کے مطابق، اس کے گھر پُہنچ گئے۔ بالائی اوسط طبقہ کا اچھا صاف ستھرا گھر تھا۔ وہ خود دروازے پر ہمیں لینے آئی۔ ڈرائنگ روم میں داخل ہوئے تو سب سے پہلے کارنس پر رکھی سنہرے فریم میں سجی بڑی سی تصویر پر نظر پڑی۔ نگہت دلہن کے لباس میں بہت خوبصورت لگ رہی تھی جبکہ ساتھ ڈارک بلو سوٹ اور میرون ٹائی میں، اپنی کنپٹیوں پر نمایاں سفید بالوں کے پر وقار نکھار کے ساتھ، دلہا کے روپ میں ’’انکل‘‘ کھڑے تھے۔
میں اپنی حیرت ضبط کر گیا۔
اس کے گھر کے پکے کھانوں کی سادہ دعوت ہم ہوسٹل میں رہنے والوں کے لئے بڑی پر تعیش تھی۔
یہ دعوت تقریباً ہمارے یونیورسٹی سیشن کے اختتام کا اعلان ہی تھا۔ آخری دنوں میں ہماری چند ملاقاتیں ہوئیں مگر ہم دونوں لئے دئے رہے۔ پھر سیشن ختم ہو گیا۔ الوداعی تقریب ہوئی اور ہم سب بکھر گئے، دور دور نکل گئے۔ کچھ آبائی علاقوں کو لوٹ گئے، کچھ ملازمتوں کے پیچھے۔
بہت وقت گزر گیا۔ دو صدیوں جیسی دو دہائیاں گزریں۔ ہمارا رابطہ بالکل ٹوٹ چکا تھا۔ پرسوں اچانک زندگی نے پھر ہمیں ایک دوسرے کے سامنے لا پٹخا۔ الحمرا میں لمبا سیشن ختم ہوا تو ہم دونوں اکٹھے باہر نکلے۔ وہ اپنی گاڑی کو پارکنگ لاٹ ہی میں چھوڑ کر یوں میرے ساتھ چلتی ہوئی کار میں آ بیٹھی جیسے ہم ابھی کلاس روم سے نکلے ہیں۔ مجھے لگا کہ اصل، طویل اور پر جوش، ڈیبیٹ، اب شروع ہونے جا رہی ہے جس میں دونوں طرف سے زور دار، وزنی اور معقول دلائل کے طویل سیشن چلیں گے۔
اب کے ہم دونوں میں سے کسی کا ہارنے کا ارادہ نہیں تھا کیونکہ ہم دونوں بڑے سیانے اور تجربہ کار ہو چکے تھے۔
گاڑی مال روڈ پر ڈال کر میں نے بیک ویو مرر کو ٹیڑھا کر کے اپنا چہرہ دیکھا تو کن پٹی کے سفید بال بڑے دیدہ زیب اور پر وقار لگے۔
٭٭٭
غرض
مجھے اس سے غرض نہیں کہ تمہارا اور کس سے کیا تعلق ہے۔ میں صرف اس سے غرض رکھتا ہوں اور اسی میں خوش ہوں کہ تم مجھ سے متعلق ہو۔
فرخ کی آواز میں تیقن نے فریدہ کی روح تک کو نہال کر دیا۔ اُسے فرخ کی حسین، بھوری آنکھوں میں دنیا بھر کا خلوص ٹھاٹھیں مارتا نظر آیا۔ فریدہ نے محسوس کیا کہ فرخ کی محبت شدت اور سچائی اس کی روح تک میں سرایت کر گئی ہے۔ اس کے لہو کے ذرے ذرے کے ساتھ اس کے دلکش جوان جسم میں سر تاپا شور مچاتی، کوکتی پھرتی ہے۔
شہر کے جدید ترین ٹاور میں واقعہ کمپیوٹر سافٹ وئیر انجینئر نگ کی جس کمپنی میں یہ دونوں پچھلے چار ماہ سے اکٹھے کام کر رہے تھے وہ اپنے شعبہ میں ملک کی معتبر اور مؤقر ترین کمپنی تھی۔ بین الاقوامی اخبارات و جرائد اور ویب سائیٹس پر اس کمپنی میں نئے سافٹ وئیر انجینئرز کی بھرتی کے لئے اشتہار نکلا تھا۔ انٹرویو کے لئے دئیے گئے وقت سے آدھ گھنٹہ پہلے ہی فرخ متعلقہ افسر تعلقات عامہ کے دفتر سے ملحقہ انتظار گاہ میں پہنچ گیا۔ فرخ کا بے شکن خاکستری لاؤنج سوٹ، بہترین استری شدہ سفید کالر والی قمیض اور جدید ترین فیشن کی ہلکی براؤن، بالکل بے عیب سیدھی اور مناسب ترین گرہ والی نیکٹائی کے علاوہ قدیم لیکن مستقل دفتری ڈیزائن کے چمکدار آکسفورڈ جوتے واضح اظہار کر رہے تھے کہ تیاری انتہائی محتاط ہے۔ اس کا تعلیمی پس منظر انٹرویو کے لیے آنے والے کسی بھی امیدوار سے بہتر ہی ہونا متوقع تھا۔ فرخ کا اعتماد آسمان کو چھو رہا تھا۔
ایک اِک کر کے امیدوار انتظار گاہ میں جمع ہوتے گئے۔
انٹرویو شروع ہو گئے اور پھر وہ آن پہنچی۔
ایسا لگا کہ کوئی خاص کیفیت، توانائی کا کوئی غیر مرئی ہیولیٰ اس کے ساتھ کمرے میں داخل ہو گیا۔ اِک عجیب بے پرواہ سی خود اعتمادی اور بے اعتنائی نے اس کے گرد جیسے مقناطیسی لہریں پھیلا رکھی ہوں۔ وہ کچھ تھی ہی ایسی۔ جو اُسے دیکھتا ایک ہی ساعت میں پھر دیکھتا اور جب تک وہ وہاں رہتی نظروں کا خراج اس کا حق ٹھہرتا۔
ایسا ہی فرخ کے ساتھ ہوا۔ وہ ایسا منہمک ہو گیا کہ جب انٹرویو کے لئے اس کی باری آئی تو اسے باقاعدہ چھو کر کہا گیا کہ اس کی باری آ چکی تھی۔
فرخ کا انٹرویو اچھا ہوا۔
انٹرویو کے بعد جب وہ پارکنگ لاٹ سے اپنی گاڑی نکال رہا تھا تو اس نے فریدہ کو تیزی سے آتے دیکھا۔ انٹرویو والے دن بھی جین اور جیکٹ میں ملبوس، بے پرواہ سی فریدہ۔
جیسے اسے فکر ہی نہ ہو کہ اس نے کیا پہن رکھا ہے اور کس کام سے آئی ہے جہاں کس لباس کی توقع کی جاتی ہے۔
’’ہائے‘‘
’’ہائے‘‘
’’کیسا رہا انٹرویو‘‘
’’اچھا‘‘
’’اور آپ کا‘‘
’’ٹھیک تھا بس۔
میں جاب کرتی چھوڑتی رہتی ہوں۔ ابھی بھی جاب پر ہوں۔ برا بھی نہیں۔ پر یار لگتا ہے طبیعت سیر ہو گئی ہے ادھر بھی۔‘‘
’’نوکری پر تو میں بھی ہوں لیکن یہ ذرا بہتر پیشکش ہے۔ یہ کمپنی بھی بہتر ہے اور تنخواہ اور دیگر مراعات بھی۔ امید وار تو اچھے تھے۔ دیکھیں کیا ہوتا ہے‘‘ ۔
’’ہاں ایسا ہی ہے۔ رزلٹ میں بھی دیر نہیں لگے گی۔ یہ کافی تیز لوگ ہیں۔
’’بائے! کے بعد دونوں اپنی اپنی گاڑیوں میں بیٹھے اور گاڑیاں آگے پیچھے میں شاہراہ پر لا کر مخالف سمتوں میں روانہ ہو گئے۔
یہ کوئی بڑی ملاقات نہیں تھی، کوئی خاص تعارف نہیں تھا لیکن جانے کیوں فرخ کو ایسا لگا کہ جب اس کی سیاہ کرولا ٹاور سے نکل کر دائیں مڑی تو اس کے جسم اور روح کا کوئی حصہ بائیں مڑ گیا۔ اک عجیب سا احساس تھا۔ اک اجنبی لا پرواہ سی شولڈرکٹ، بھورے بالوں والی لڑکی، زندگی جس کے ساتھ چلتی محسوس ہو تی تھی، خواہ مخواہ لپٹے جاتی تھی۔ جس کی شوخ اور بے باک آنکھیں کسی طرف نظر بھر کر دیکھنے سے ذرا بھی نہیں جھجھکتی تھیں۔ جانے یہ اجنبی لڑکی کیوں اِک آن میں اسے اپنے اتنے قریب محسوس ہونے لگی تھی۔
یہ بظاہر نا ممکن اور بے تکی بات تھی۔ وہ ایک سنجیدہ اور معقول آدمی تھا اور ’’پہلی نظر میں محبت‘‘ جیسی فضولیات کا مذاق اڑانے والوں میں سے تھا۔
لیکن آج کیا ہوا؟
تجھے تو شروع ہی سے درمیانہ طبقہ کی چادر دوپٹہ لینے والی، ذرا سی بات پر سرخ ہو جانے والی لڑکیاں پسند تھیں۔
تو پھر یہ کیا ہوا فرخ احمد خان؟
اس نے خود سے کہا۔ جواب کچھ ہوتا تو ملتا۔
کئی دن تک وہ اس مختصر ملاقات کے سحر میں رہا۔ یہ ملاقات اسے رہ رہ کر یاد آتی۔ ابھی یہ بات پوری طرح بھولی نہیں تھی کہ مذکورہ کمپنی کی طرف سے تقرری کا خط بذریعہ ای میل وصول ہو گیا۔ موجودہ نوکری چھوڑنے کا انتظامی عمل مکمل کر کے جب وہ نئی تقرری کے لیے رپورٹ کرنے پہنچا تو فریدہ پہلے ہی سے موجود تھی۔ وہ دھڑ لے سے اپنے کیبن میں یوں جمی بیٹھی تھی جیسے اس چھوٹی سی سلطنت کی ذی وقار رانی ہو۔
ہیلو ہائے ہوئی۔
فرخ پھر ہل کر رہ گیا۔ جانے اس لڑکی کو دیکھ کر کیوں اس کی جان نکلنے لگتی تھی - کیا تھا جو اس کے اندر سے لپک لپک کر اس بے پرواہ سے جسم پر واری صدقے ہونے کو بے تاب تھا۔
فرخ کو جو کیبن ملا وہ فریدہ کے کیبن سے ملحق تھا اور بیچ میں خلا تھا جو باہم نظر بازی اور گفتگو میں ممد تھا۔
فرخ اور فریدہ کی زندگیاں بہت ہی مختلف راستوں سے ہوتی ہوئی اس موڑ پر آملی تھیں۔ فرخ دیہاتی ماحول میں پل بڑھ کر یونیورسٹی کے راستے یہاں تک آیا تھا۔ وہ زمینداروں کے درمیانہ، بلکہ نچلے درمیانہ طبقہ سے ابھر کر یہاں تک پہنچا تھا۔ فریدہ کے حالات بالکل مختلف رہے تھے۔ اس نے ملک کے سب سے جدید اور ترقی یافتہ صوبائی دار الحکومت کی متمول ترین آبادی والی ہاؤسنگ سوسائٹی میں آنکھ کھولی تھی۔ اس نے مہنگے اور ماڈرن تعلیمی اداروں کے آزاد ماحول میں تعلیم حاصل کی تھی۔ اس پر مستزاد اس کی بیرون ملک سے حاصل کی گئی اعلیٰ تعلیمی ڈگری تھی جو اسے ممتاز ترین مقام پر لا کھڑا کرتی تھی۔ دونوں کی شخصیتوں کے بیچ بظاہر بہت فرق تھا۔ اگر ضدین کا لفظ استعمال کیا جائے تو شاید بے محل نہ ہو۔ فرخ دیہاتی، نیم مذہبی خاندان کا بڑے رکھ رکھاؤ والا، عمدہ اخلاقیات کا حامل شرمیلا لڑکا تھا۔ فریدہ الٹرا ماڈرن، جدید ذہنی رجحانات کی شیدا، زمانے کے رسوم و قیود کو نہ ماننے والی، ہر پابندی کو ٹھکرانے والی، لڑ بھڑ جانے والی، اپنے راستے خود بنانے والی، ہر طے شدہ اصول اور مسلمہ قاعدے کی دھجیاں اڑا کر استہزائیہ قہقہے لگانے والی۔
پھر کیا تھا جو فرخ کو اس سمت کھینچے لیے جا رہا تھا۔ بے بس کیے دے رہا تھا۔ کیا یہ وہی جذبہ تھا جو ازمنہ قدیم سے مرد اور عورت کے بیچ کار فرما رہا ہے؟ انہیں زچ اور بے بس کرتا رہا ہے؟ جو کبھی عشق کہلایا تو کبھی محبت۔ کیا اس کے لئے کوئی بنیادی قدر مماثل ہونا غیر ضروری ہے؟
فرخ نے ہر گفتگو کے بعد فریدہ کے سامنے خود کو شکست خوردہ پایا۔ ہر حملہ پر پسپا ہوا۔ ہر محاذ پر شکست کھائی، لیکن حیرت انگیز طور پر نہ تو مرعوب ہوا نہ خائف۔ الٹا اُس کا گرویدہ ہوتا چلا گیا۔ اپنی ضد کے قریب تر ہوتا چلا گیا۔
عجب پانی تھا کہ آگ کو بجھانے کی بجائے خود بھڑکتا دہکتا چلا جا رہا تھا۔
عجب برف تھی جو حدت کو منجمد کیے دیتی تھی۔
وہ جو برقعہ دوپٹہ اور چادر کے چکر میں تھا جین جیکٹ اور ’’سلیولیس‘‘ کا دیوانہ ہو رہا تھا۔ اپنے اصولوں روایات اور رسومات کو گلے لگا کر جوان ہونے والا کسی نئی ہی دنیا کی پروَردہ، کسی اور ہی دنیا کی باسی کا غیر مشروط ہم خیال ہوا جاتا تھا۔
جب سب کچھ تقریباً طے تھا تو مشکل ترین لمحہ سامنے آ کھڑا ہوا۔
’’میرا ایک ماضی ہے فرخ ڈیئر۔ شاید تم اسے ہضم نہ کر سکو۔ شاید تم اس سے مفاہمت نہ کر سکو۔ شاید تم میں آئی ساری تبدیلیاں میرے ماضی کو قبول کرنے اور اس سے نباہ کرنے میں متامل ہوں۔ ممکن ہے تمہارے پیار کا دمکتا سورج انا اور نام نہاد غیرت کے نارنجی افق میں بھری دوپہر جا ڈوبے اور تم بیچ منجدھار ناؤ ڈبو کر ہاتھ پاؤں مارتے ملاح کی مانند غوطے کھاتے رہ جاؤ۔ شاید تم اس فرسودہ جذبے کو جسے تمہاری قبیل کے لوگ غیرت کے نام سے پکارتے ہیں، جو درمیانہ طبقہ کے پاؤں کی سب سے مضبوط زنجیر ہے کبھی مسخر نہ کر پاؤ۔ شاید تمہارا سارا عشق میرے ان رجحانات اور ان عادات کے سامنے بھاپ بن کر اڑ جائے جو میرے نزدیک ہر اس انسان کا حق ہے جو اپنا آزاد وجود اور ذہن رکھتا ہے۔ جس کی اپنی روح ہے جو غلام نہیں۔ جس کی اپنی سوچ ہے جو آزاد رہنے پر مصر ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ میری محبت اور کشش کبھی بھی وہ سکت اور توانائی، وہ تحریک پیدا نہیں کر پائے گی جو اس کُہنہ مگر مضبوط، لایعنی اور غیر مدلل ذہنی جکڑ کو توڑنے پر قادر ہو سکے گی جو ایک درمیانی طبقہ کے عامیانہ ذہن کو مضبوطی سے گرفت کئے رہتی ہے۔ جو اپنی گہری اور زہریلی جڑیں انسان کی روح میں پیوست کر دیتی ہے۔
مجھے لگتا ہے تم اپنے وقتی جذبے اور جذباتی فیصلے بھول جاؤ گے اور محبت کی ابتدائی طغیانیوں کے بعد پھر اپنے اسی پایاب گدلے اور متعفن تالاب میں جا کھڑے ہو گے جس کے تم عادی ہو۔ میں کوئی کند ذہن یا جذباتی لڑکی نہیں کہ تمہارے قطعی وقتی اور سطحی جبلی تقاضوں کے زیر اثر پروان چڑھتے غیر معتدل جذبوں کے طوفان میں خود کو غرق کر دُوں‘‘ ۔
فرخ ایسی تقریریں سن کر بھونچکا رہ جاتا۔ اُس کے اندر کی محبت اور فریدہ کی کشش کسی طور کم نہ ہو پاتی۔ خواہش کے اسپ تازی کو اور مہمیز مل جاتی۔ آتش عشق کی منہ زور لپٹیں لپک لپک پڑتیں۔ بے مہار چڑھتا دریا اور ٹھاٹھیں مارتا، کسی چیز کو خاطر میں نہ لاتا۔ سب خاک، سب دریا بُرد سب نیست و نابود۔ تو ہی تو بس تو ہی تو۔ نس نس میں کُوکتا، سانس سانس میں مہکتا پور پور سے ٹپکتا اور ہر مسام سے رستا ایک ہی جنوں۔
تو ہی تو۔ تو ہی تو۔
فریدہ نے حقائق اور خدشات کے جتنے بھی بند باندھے فرخ کے دریائی جذبے کے آگے ریت کی دیوار ثابت ہوئے۔ محبت کی منہ زور لہروں میں خس و خاشاک کی مانند بہتے چلے گئے۔
عجیب بات یہ تھی کہ فریدہ کا رویہ بہت سنبھلا ہوا تھا۔ اس کا استدلال منطقی تھا۔ وہ بڑی پر اعتماد اور ٹھوس نظر آتی۔ مضبوط اور قائم۔ یہ مضبوطی اور پختگی فرخ کو اور پاگل کرتی۔ وہ ساری جذباتی اچھل کود کے بعد اپنے آپ کو فریدہ کی لا غرض، لا پروا سی شانت گمبھیرتا کے آگے بے بس پاتا اور بالآخر ایک عجب خود سپردگی میں مطمئن ہو جاتا۔
اسے لگتا فریدہ کی بے نیاز، پر اعتماد لا ابالی شخصیت اس کے وجود بلکہ روح تک کو اپنے اندر جذب کیے لیتی ہے۔ اس کی ہستی کو اپنی ہستی میں سموتی چلی جا رہی ہے۔ وہ محسوس کرتا کہ اس کی ادھوری ذات کی تکمیل یہ البیلی لڑکی ہی کر سکتی ہے۔ وہ محسوس کرتا کہ اس لڑکی کے ساتھ یکجائی ایک ایسی جوڑی بنائے گی جو دِکھنے میں دو مگر بالفعل ایک ہی وجود ہوں۔
بڑی بحثیں چلیں، ایک دوسرے کو قائل کرنے کے لئے سو داؤ پیچ آزمائے گئے۔ جدید علوم، ظاہری و باطنی کے دقیق حوالے دئیے گئے اور کیا کیا منطق آزمائی گئی۔ دونوں سیر کو سوا سیر تھے۔ گھنٹوں پر محیط دورانئے دفتر، پارک، کیفے اور گاڑی میں، سلو ڈرائیونگ میں یا رُک کر گزارے گئے۔ موبائل فون پر نیم شب آخر شب میں ڈھلی اور سحر میں اتری۔ کئی مباحث تکمیل کو پہنچے اور کئی نا مکمل رہ گئے۔ بالآخر دونوں اس غیر منطقی نتیجے پر پہنچے کہ وہ ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہ سکتے اور ایک دوسرے کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔ یہ بھی کہ کسی کا کسی کے ماضی سے کچھ لینا دینا نہیں ہو گا۔ شخصی آزادیاں بحال اور محترم رہیں گی۔ یہ بھی تفہیم ہوئی کہ دونوں کے بیچ کے سماجی تفرقات ماضی کا حصہ ہیں جبکہ حال میں یہ باعث کشش ہیں۔ موجودہ صورت حالات میں یہ ایک بہت ہی مضبوط، ناقابل شکست رشتہ قائم کرنے میں ممد ہوں گے۔
منگنی میں کوئی دقّت پیش نہ آئی۔ فریدہ کو یہ آزادی حاصل تھی کہ وہ اپنی مرضی کا جیون ساتھی چن لے۔ فرخ پڑھ لکھ کر اپنے خاندانی حلقہ سے تقریباً خارج ہی ہو چکا تھا۔ اس نچلے درمیانہ طبقہ میں صرف واجبی تعلیم اور بھاری بھرکم انا اور تکبر کا رواج تھا۔ فرخ اب تعلیمی، ذہنی، حتیٰ کہ مالی سطح پر بھی اس طبقہ سے علیحدہ تشخص بنا چکا تھا۔ اس کے اپنے اعزا و اقرباء جان چکے تھے کہ وہ اب ان میں سے نہیں رہا۔ وہ عرصہ پہلے مان چکے تھے کہ لونڈا گیا ہاتھ سے۔ پھوپھیوں، خالاؤں، چاچے ماموؤں کی دختران نیک اختر جن کے ساتھ فرخ کا کوئی رشتہ بندھ سکتا تھا ٹھکانے لگ چکی تھیں۔ کروشیہ کڑھائی کر کر کے، دوپٹے ٹانک کر، تکیوں پر مور مورنیاں کاڑھ کر اور بے وزن سطحی شعر لکھ کر جستی پیٹیاں بھر، ٹریکٹر ٹرالیوں میں لاد قریبی چکوک میں سسرال بنا کر آبادی میں خاطر خواہ اضافہ بھی کر چکی تھیں۔
خاندان کے بزرگ اعلان کر چکے تھے کہ، ’’فرخے نے اگر کہیں کھے کھانی ہے (دھول چاٹنی ہے ) تو اکیلے ہی کھانی ہے۔ اس کی طرف سے ہم فارغ ہیں اور وہ ہماری طرف سے فارغ ہے‘‘ ۔
سو فرخ کو ہاں کہنے کے لیے کسی کی اجازت یا صلاح بھی نہیں چاہیے تھی۔
شادی دھوم دھڑکے سے ہوئی۔ رخصتی اور ولیمہ کی مشترکہ تقریب شہر کے بہترین ہوٹل میں رکھی گئی۔ فرخ کی طرف سے بارات مختصر اور اس کے سابق ہم جماعتوں، پسندیدہ اساتذہ اور قریبی دوستوں پر مشتمل تھی۔ فریدہ کی طرف سے بہت سے لوگ مدعو تھے چونکہ اس کا خاندان شہر میں اچھا جانا پہچانا خاندان تھا۔
شہر کی بہترین کالونی میں ایک صاف ستھرا بنگلہ کرائے پر لیا گیا۔ پسندیدہ پہاڑی مقام پر ہنی مون کے خواب ناک دن گزار کر واپس آئے تو بالآخر دفتر اور گھر دونوں کے لوازمات اور ضروریات سامنے آ کھڑی ہوئیں۔ پیسے کے علاوہ بھی بڑی محنت اور قربانی سے گھر بنتے اور چلتے ہیں، چاہے کیسے ہی ماڈرن یا با سہولت کیوں نہ ہوں۔ گھر سیٹ کرنے میں دو ہفتے لگ گئے۔
انواع و اقسام کی رنگ برنگی قدرے فضول اشیاء کی ضرورت پڑی تو پتہ چلا کہ انٹلکچوئل مباحث، سگریٹ بدل بدل کر سوٹے لگانے، کافی ہاؤس میں کئی کئی دن کی بڑھی ہوئی شیو اور اَن دھُلے منہ کے ساتھ جدے دیت، ما بعد جدے دیت، آئی ٹی اور انٹلکچوئل رائٹس، ٹائم اینڈ سپیس، استعماریت بمقابلہ سامراجیت اور شعوری لا شعوری جنسی نفسیات پر تحت الشعور عوامل کی کارستانیوں پر باتیں کرنا اور دھنیا، پودینہ ہری مرچ چکن ونگز، بکرے کی چانپ اور بڑے کے قیمہ کی باتیں مختلف ہیں۔ فینائل، وائپر، ڈسٹر اور ایکسٹینشن وائیر، الیکٹرک سوئچ کی جانکاری کتنی کار آمد ہے۔
باہر سے چکن سینڈ وچ برگر اگر فریدہ زیادہ دن بھی کھا لیتی تو فرخ کو راس نہیں آ رہے تھے۔ دو بندوں کے لئے ڈھنگ کا باورچی اور ہاؤس کیپر رکھنا کسی بھی طرح مناسب لگ رہا تھا نہ ماہانہ خرچہ و آمدنی میں گنجائش پا رہا تھا۔ گھر کا اچھا خاصہ کرایہ اور نئی گاڑی کی ماہانہ قسط بھی ادا کرنی ہوتی تھی۔
معاملات جوں توں چل رہے تھے۔ ابتدائی رومانس کچھ کم ہو رہا تھا اور حقائق سر نکالنا شروع ہو رہے تھے۔ اب تک دونوں کوشش کر رہے تھے کہ شادی سے قبل کئے گئے قول و قرار پر قائم رہیں۔
اس رات بھی دونوں سونے سے پہلے کچھ دیر تو باتیں کرتے رہے، پھر آخر میں رسمی جملے بول کر بیڈ پر ایک دوسرے کی طرف پشت کر کے کافی دیر جاگتے رہے اور بالآخر سو گئے۔
رات کوئی اڑھائی پونے تین بجے کے قریب فرخ کی نیند کھل گئی۔ اُسے بیک وقت واش روم جانے اور پانی پینے کی حاجت محسوس ہوئی۔ اس نے دیکھا تو فریدہ بستر پر موجود نہیں تھی۔ اس نے باتھ روم کی طرف دیکھا تو دروازہ نیم وا تھا اور لائٹ بند تھی۔ اس سے یہ ظاہر تھا کہ فریدہ واش روم میں نہیں۔ فرخ نے لونگ روم میں دیکھا تو فریدہ وہاں بھی نظر نہ آئی۔ کوئی عجیب سا احساس فرخ کے دماغ میں سنسناہٹ لا گیا۔ رات کے پچھلے پہر اَدھ کھلی نیند میں فرخ کو کوئی سایہ سا اپنے اندر لہراتا محسوس ہوا۔ جیسے کچھ ناگوار سا کلبلا رہا ہو۔ اسی کیفیت میں وہ لونگ روم سے کاریڈور اور پھر بالکونی میں نکل آیا۔
آسمان پر پورا چاند ابھی بھی چمک رہا تھا گو رات کا آخری حصہ ہونے کی وجہ سے افق کی سمت کافی جھک آیا تھا۔ چاندنی میں نہائی بالکونی میں سفید آ ہنی آرام کرسی پر فریدہ نیم دراز تھی۔ اس نے اپنی ٹانگیں سامنے کی میز پر ٹکا رکھی تھیں اور آنکھیں بالکل بند تھیں۔ اس حالت میں وہ بیٹھی بیٹھی سی، لذت بھری سسکتی آواز میں فون پر بڑی عجیب باتیں کر رہی تھی۔ فرخ ایک وحشیانہ لپک کے ساتھ آگے بڑھا اور پھر اس تاروں بھری سفید براق رات نے اس ماڈرن بنگلے کی خوبصورت بالکونی میں جو کریہہ آوازیں سنیں وہ تفہیم میں ان آوازوں سے قطعی مختلف نہیں تھیں جو فرخ نے اپنے گاؤں میں بیس سال پہلے چاچے جھورے کے کچے ڈھارے سے اس وقت سنی تھیں جب چاچی برکتے اس کے لیے روٹی لے کر ہل والے کھیت میں نہ جا سکی اور دوپہر چڑھ آئی۔
چاچی برکتے تو رو رو کر دہائی دے رہی تھی کہ ننھی ثریا کے بھڑکتے تاپ نے اسے روکے رکھا اور وہ اسے بخار سے جلتا، سر درد سے تڑپتا چھوڑ کر وقت پر پراٹھے بنا سکی نہ لسی اور چاچے جھورے کا ’’شاہ ویلا‘‘ لے کر اُس کے ہل جوتے کھیت میں وقت پر نہ پہنچ پائی۔ چاچے کی بیلوں کو مارنے والی چھڑی کی ہر ضرب پر وہ پنجابی میں دہائی دے رہی تھی،
’’وے اوتریا نکھتریا، کھسماںنوں کھانیاں میرے تے ظلم نہ کر۔ مینوں نہ مار۔ اے تیری وی جمی ہوئی اے‘‘ ۔
(اے بے اولاد آدمی، ارے اپنے عزیزوں کو کھا جانے والے یہ ظلم نہ کرو۔ مجھے مت مارو۔ یہ ( ثریا) تمہاری بھی اولاد ہے )۔
جبکہ فریدہ ہر ضرب پر انگریزی میں گھگھیا رہی تھی
’’یو باسٹرڈ۔ سن آف آ بچ۔ یو ڈرٹی سوائن۔ یو بلڈی نیرو مائینڈڈ، مڈل کلاس مینٹیلیٹی فکڈ کامنر۔۔ ۔۔ ۔۔
٭٭٭
شارقہ
آج پھر سونے کے لئے لیٹا تو اس کی آنکھوں کے سامنے رنگین پھول، رنگ برنگے کم یاب پرندے، بھانت بھانت کے جنگلی جانور، دیہاتی لمبی کچی سڑک کو گھیرتے سفید پھولوں کے پھندنے نکالتے سرکنڈوں کی اُفق تک جاتی قطاریں، دھریک، نیم، شیشم کے جھنڈ، بَڑ کے گھیر دار درخت اور پیپل کے کھڑکھڑاتے پتے گھوم گئے۔ یہ منظر اسے سونے سے پہلے نیم غنودگی ہی میں نظر آنا شروع ہو جاتے اور گہری نیند کے غاروں میں ساتھ بھٹکا تے، جانے کب اس سے بچھڑتے اور خواب ہی میں پھر آ ملتے۔ یہاں تک کہ اس کی آنکھ کھل جاتی اور وہ رنگین اور کیف آور خواب کی مادی شکلیں تلاش کرنے نکل پڑتا۔
اچانک اس کی سوچ بھٹکی اور وہ رنگین سراپا اس کی بند آنکھوں کے سامنے لہرایا جو اِن سب مناظر کا ماخذ تھا۔
کیا ذہن ہو گا جو یہ انتخاب کرتا ہو گا؟ کس کے قلب پر یہ وارداتیں اترتی ہوں گی۔ کیسا حساس دماغ یہ داستانیں بنتا ہو گا۔ کیسی نگارشات ہوا کے دوش پر پارس بنی کس کس محبوب کی نظروں سے مس ہوتی سنہری روپہلی دھنک بنتی ہوں گی۔
کیا حس جمال ہو گی، کیا کسب کمال ہو گا؟
یہ سلسلہ کوئی چھ مہینے قبل شروع ہوا، جب ایک دن فرینڈز ریکویسٹ میں اسے ایک شکل نظر آئی اور ساتھ ہی ایک دلکش سا نام۔ شارقہ کمال۔
شارقہ نام اُسے یونیورسٹی ہی کے دنوں سے پسند تھا، جس کی کچھ وجوہات تھیں۔ نیم پوشیدہ، کالے سیاہ بالوں میں سے جھانکتے سفید گلابی چہرے کی چاند ٹکیا اور آگ لگاتا گہرا سرخ لباس۔ چُن چُن کے وہ ساری ترکیبیں جو کبھی اس نے چاہی تھیں کسی نے سمیٹ کر لا حاضر کیں۔ اس نے پیج کھولا تو بابا فرید کی شاعری کے سلیقے اور ذوق سے بنائے گئے نفیس کارڈ، میاں محمد کی آفاقی شاعری، غالب، فیض، فراز اور محسن نقوی کے علاوہ پروین شاکر، امرتا پریتم کی شاعری کے منتخب پارے اور کہیں کہیں انگریزی زبان کے چیدہ چنیدہ مفکرین کے اقوال کا تڑکا۔
اغلاط تھیں، لیکن ان کا تو فیس بک پہ رواج ہے اور کوئی خاص برا نہیں مناتا۔ اکثر نالائقی بھی ’ٹائپو‘ کے زمرے میں چھپ جاتی ہے۔ موسیقی کا انتخاب بھی ملا جلا تھا۔ تصوف، رومان، فلسفہ، ادب عالیہ، روایت، تہذیب و تمدن، رنگ و نور کا عجیب، دلچسپ، دل پذیر اور ہوش ربا مرقع تھا، جو دل کو کھینچ کھینچ لیتا۔
شکیل اپنے معاشرتی رُتبہ کے طفیل سو میں سے شاید ایک آدھ فرینڈز ریکویسٹ ہی قبول کر کے اپنی فہرست میں شامل کرتا۔ اس کی فرینڈز لسٹ ہمیشہ پانچ ہزار دوستوں کی آخری حد کو پہنچ چکی ہوتی۔ اشد ضرورت کی صورت میں نظر ثانی کر کے، زیادہ تر صنف قوی کے نسبتاًکم پسندیدہ لوگوں کو فارغ کر کے ہی کوئی جگہ پیدا کی جاتی۔ یہ ریکویسٹ اسے ایسی بھائی کہ جو بھی پہلی آئی۔ ڈی نظر آئی اسے فارغ کر کے گنجائش پیدا کی اور بڑی سرعت کے ساتھ کلک سے ریکویسٹ کو فرینڈ میں ڈھالا، مبادا دوسری طرف ارادہ بدلنے سے ریکویسٹ غائب ہی نہ ہو جائے، اور پھر سلسلہ چل نکلا۔ تعارف ہوا۔ اشتیاق کا اظہار ہوا۔ دبی دبی الفت در آئی جو جھجھک جھجھک کر گاڑھی محبت میں ڈھلنے لگی۔ تصویریں، گانے اشعار اور ’سمائلیز‘ کے دورے زیادہ تر براہ راست سیدھے دلوں تک ابلاغ پاتے۔
فوک تو سیدھا روح کی گہرائیوں میں اتر جاتا۔ بولنے کی ضرورت شاذ ہی پیش آتی کہ جب روح لبیک کہتی ہے تو واسطے ثانوی حیثیت پاتے ہیں۔ گلابوں کے تحفے صبح، سورج کے متنوع استعارے دوپہر اور ڈھلتی شام کے سرمئی اِشارئیے شام ڈھلے رومان کو بلندیوں کی انتہائی سطح تک لے جاتے۔ اس کی نئی سیاہ آٹومیٹک کر ولا جب ڈیفنس کی وسیع اور ہموار سڑکوں پر تیرتی تو بھی وہ شارقہ کی بھیجی گئی فوک دھنوں میں غرق ہوتا، حتیٰ کہ دفتر میں بھی جب فرصت ملتی، تحفہ میں بھیجا گیا کوئی انمول بھولا بسرا گیت ہی اس کو تازہ دم کر کے نئی آسائنمنٹ کے لئے مستعد کرتا۔
شارقہ شاذ ہی لکھتی اور جو لکھتی وہ بھی شکستہ رومن اردو میں۔ پیغامات انتہائی کم آتے جاتے۔ زیادہ تر شاعری، مصوری اور موسیقی ہی ذریعہ اظہار ہوتے۔ شارقہ کا لکھا مختصر ہوتا اور بیچ میں ہجے غائب، لیکن مفہوم ادا ہو ہی جاتا۔
لاکھ کوشش کے باوجود نہ تو وہ ٹیلی فون پر بات کرنے پر آمادہ ہوتی نہ ملاقات پر۔ یہ رویہ جہاں شکیل کے لئے جھُنجھلاہٹ کا باعث بنتا وہیں تجسس اور رومانویت کو مہمیز کرتا۔
ایک دن بڑے اصرار پر شارقہ نے بتایا کہ اس کا فون، جس پر وہ محبت نامے ٹائپ کرنے کی کوشش کرتی ہے، ہجے مس کرتا ہے۔ اس کی سالگرہ قریب تھی۔ بڑا اچھا موقع تھا۔ شکیل، جس کے پاس پیسے کی کمی نہیں تھی اور جس کے دل و دماغ ہی نہیں روح پربھی شارقہ قابض تھی اسے کسی طور حیران اور خوش کر دینا چاہتا تھا۔ اس نے با توں باتوں میں شارقہ کے چھوٹے چچا زاد بھائی، جس سے وہ مانوس تھی اور اس کے بقول جو اُس کا ہمراز تھا، کا پتہ لیا، جو اسی شہر کے ایک پرائیویٹ ’’چھڑا ہاسٹل‘‘ کا تھا اور جدید ترین ماڈل کا آئی فون خرید کر کورئیر سے بھجوا دیا۔
ڈبل کور کے اندر خوشخط لکھا تھا،
’’شارقہ کے لئے۔ محبت سے، سترھویں سالگرہ مبارک‘‘ ۔
اور باہر کے کور پر تھا، ’’پرائیویٹ۔ صرف مس شارقہ ہی کھولیں‘‘ ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کھچی والا کے چک بیالیس کے کچے ٹوبے میں پانی سڑ بس رہا تھا۔ گہری سبز کائی نے اک تہہ جما کر پورے ٹوبے کا رنگ سبز کیا ہوا تھا، ماسوائے ان جگہوں کے جہاں بھینسیں بیٹھی جگالی کر کے جھاگ بنا رہی تھیں۔ ششماہی نہر بندی کی وجہ سے چالیس دن سے پانی نہیں آیا تھا۔ جانوروں اور پیاسی ریت کے پی جانے سے باقی ماندہ پانی بس ٹوبے کے نصف تک ہی رہ گیا تھا۔ پانی کے سکڑنے سے اُس کی سطح پر تیرتی کائی اکٹھی ہو کر بڑی دبیز اور گہری سبز ہو گئی تھی۔ ہلکے سبز پتوں سے لدے شیشم کے اُونچے درخت ٹوبے کے اندر کی طرف جھکے جیسے پانی میں جھانک رہے تھے۔ گرے ہوئے پتوں اور کائی نے ریاست بہاولپور کی بھون دینے والی گرم دھوپ کی آگ سے کڑھ کے جیسے بچے کھچے پانی کو سبز رنگ کا بدبو دار گاڑھا جوشاندہ بنا دیا تھا۔ کالی اور بھوری بھینسیں جھکے ہوئے شیشم کے چھدرے سائے کے آسرے پر اس گرم جھلستی دوپہر میں سبز گاڑھے گرم پانی میں ابل رہی تھیں۔ تھوڑے فاصلے پر سرخ اینٹوں سے بنا ایک دوسرا ٹوبہ تھا جہاں سے چک بیالیس کے جٹ، آرائیں اور باقی برادریوں کے لوگ ریت ملا پانی لے جا کر، ابال کر، پھٹکری ڈال کر مٹی کے گھڑوں اور صراحیوں میں بھر کر ٹھنڈا کر کے پیتے تھے، معدودے چند آسودہ حال گھروں کے جہاں ریفریجریٹر آ چکے تھے۔ جانوروں والے ٹوبے میں ستر دین دیندار کا خارش زدہ بیمار بھورا کتا پرسوں ڈوب کر مر گیا تھا، جس کی لاش نکال کر قریبی کھیت کی مینڈھ کی اوٹ میں کپاس کے کٹے ہوئے سوکھے پودوں کے ڈھیر کے پاس پھینک دی گئی تھی۔ اس کی سڑتی لاش کی تیز بو ٹوبے تک آ رہی تھی۔ اچانک چند بھینسیں ہانپتے ہوئے، زور لگا کر، گرم پانی سے باہر نکلیں اور قریبی کھیت میں لوسن کے نرم سبز پتوں اور نیلے پھولوں کی اشتہا انگیز خوشبو کے پیچھے بھاگ پڑیں۔ جھکے ہوئے شیشم کے بڑے درخت کے دو ٹہنوں کے بیچ ایک کالا بھجنگ نوجوان مردانہ جسم، جس کے پسینے سے گیلے اور میل میں بسے غلیظ گرمی دانے کچھ دور سے دیکھنے ہی سے بد بو اور کراہت پیدا کر رہے تھے، صرف جانگیہ پہنے، ٹنگا تھا۔ ایک بالکل اسی ہیئت اور حلیے کا شاہکار کھجور کے خشک پتوں سے بنی چٹائی پر ایک دوسرے درخت کے نیچے الٹا لیٹ کر ٹانگیں آسمان کی طرف اٹھائے، ایک تال کے ساتھ مسلسل ہلا کر اپنے کولہوں تک لا کر پھر واپس لے جا رہا تھا۔
بھینسوں کو کھیتوں کی طرف دوڑ لگاتے دیکھ کر شیشم سوار بھوت نے اپنے زیریں ہمزاد کو ایک کریہہ آواز میں للکارا،
’’او سلامتے!
ذرا بھینسوں کو موڑا لگانا۔
میں آئی فون والے بابو کو ’’کٹ پیسٹ‘‘ کر لُوں‘‘ ۔
٭٭٭
رائیگانی
اسے بچپن ہی سے اِدھر اُدھر سے پڑھنے کا چسکا تھا۔ پھول اور کلیاں، تعلیم و تربیت، خزانے کی تلاش، ہزار داستان، چاند( پیر جنگلی علیہ ما علیہ)، نسیم حجازی، ابن صفی بی۔ اے، پریم چند، منٹو، راجندر سنگھ بیدی، ڈپٹی نذیر احمد، غرضیکہ جس کی تحریر ہتھے چڑھی اس نے پڑھ ڈالی۔ بس ایک چسکا لگ گیا تھا پڑھنے کا۔
کتاب جہاں نظر آتی چاٹ جاتا۔
اردو فارسی کے اساتذہ اچھے ملے۔ لکھنا لکھانا سیکھ گیا۔ بزم ادب کا رواج تھا۔ بولنے کی شدبد بھی آ گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ سکول میگزین، چھوٹے موٹے مقامی اخبار اور پھر گاہے گاہے تحصیل، ضلعی سطح کے مقامی ادبی جریدوں میں چھپنے لگا۔ یونین کونسل کے بی۔ ڈی ممبرز کے انتخابی جلسوں کے سٹیج سیکریٹری کا کام بھی اکثر اوقات اسی کو ملتا۔
ثقیل مضامین جیسے طبیعات، کیمیا، الجبرا سے وہ ایسے گھبراتا جیسے کوئی عفریت ہوں۔ سائنس لیبارٹری کے قریب تک نہ پھٹکتا۔ یہ دور وہ تھا کہ ٹی وی بلیک اینڈ وائٹ تھا اور خال خال۔ ایک گھر میں ٹی وی ہوتا تو شام کو سارا محلہ دیکھنے آتا۔ جس دن بادل چھا جاتے ٹی وی پروگرام زیادہ واضح دکھائی دیتا اور مزہ دو چند ہو جاتا۔ ریڈیو اور عرض، عروض ناموں والے سستے ڈائجسٹ گھر بیٹھی نیم خواندہ خواتین، درزیوں کی دوکانوں، فٹ پاتھوں پر بہت مقبول تھے۔ اس نے عامیانہ رومانوی داستانوں سے وہ شہرت پائی کہ رہے نام اللہ کا۔ ٹیلی فون تک رسائی ہر کسی کی تھی نہیں۔ غلط سلط سطحی جذباتی خطوط جن میں املا کی اغلاط اور بے وزن شعروں کی بہتات ہوتی، پلندوں کے پلندے موصول ہوتے۔ ہر دس میں سے نو خطوں میں کم و بیش ایک ہی پیرائے اور ایک ہی سے بے رنگ ڈھنگ اشعار سے مزین عشق نامہ تحریر ہوتا۔ یہ بھی بہت عام دعویٰ تھا کہ کاتب کا نام فرضی ہے، کیونکہ سخت روایتی گھرانہ میں فتنہ و فساد کا خطرہ ہے۔
اسی اثنا میں ہوتے ہواتے ہلکی سیکنڈ ڈویژن میں میٹرک ہوا اور ایک، کسی زمانہ میں اچھے مگر حال کے ماٹھے، کالج میں ایم اے میں داخلہ لے لیا، جو گرتے پڑتے مکمل بھی ہو گیا۔ اسی اثنا میں روزی روٹی کے لئے گئے گزروں کو ٹیوشن پڑھائی اور بالآخر نئے نئے قائم شدہ پرائیویٹ سکول میں مدرس ہو گیا۔ یہاں سے کہانی نے ایک نیا موڑ لیا۔ اسی چھوٹے شہر کے ایک اخبار نویس کی یاد اللہ لاہور کے ایک فلم ساز سے تھی، جو کہانی کار اور ہدایتکار بھی عموماً خود ہی ہوتا تھا۔ وہ ایک دن فاتحہ کے لئے اس شہر وا رد ہوا تو دوست اخبار نویس نے اس کا تعارف ہدایتکار سے بطور علاقہ کے معروف شاعر، ادیب اور ماہر تعلیم کے کروایا جو ناقدری کا شکار تھا اور سارا علم نافع ضائع جا رہا تھا۔ فلمساز و ہدایتکار کو ایسے ہی جوہر نایاب کی تلاش تھی جواُس کی گنڈاسہ مارکہ فلموں کے مکالمے ’’ٹھیک‘‘ کر سکے، سو وہ اسے لاہور لے آیا۔
یہ ہجرت میرے دوست کو بہت راس آئی اور سو دَر کھلنے کا سبب بنی۔ فلموں کو زوال آیا تو گھٹیا تھیٹر کا دور شروع ہوا، جو اسے خوب بھایا۔ نام بھی بڑا ہوا اور دام بھی کمائے۔ اس میدان میں باقی جملہ جو بھی فوائد متوقع ہو سکتے ہیں وُہ بھی بلا جھجک حاصل کئے۔
وقت بدلا۔ ایک سرکاری ٹی وی تھا تو معیار کا غلغلہ تھا۔ گنے چُنے، پڑھے لکھے، رکھ رکھاؤ والے لوگ ہی رسائی پاتے تھے۔ اللہ کا کرنا کیا ہوا کہ پرائیویٹ ٹی وی چینلز کا سیلاب آ گیا۔ رنگ برنگے کچے پکے ڈراموں کے لئے علیحدہ علیحدہ چینل کھل گئے۔ روزی روٹی کے سلسلے وافر ہوئے اور ہر آڑھا ترچھا، اچھا برا لکھنے بولنے والے پر الیکٹرانک میڈیا کا کوئی نہ کوئی چھوٹا بڑا در ضرور وا ہوا۔
اور پھر آیا سوشل میڈیا کا رنگ رنگیلا چم چم کرتا میلہ۔ ادب و فنون کا سیلاب فیس بک پر بھی امڈ آیا۔ رنگ برنگی دنیا موبائل فون کی چند انچ کی سکرین پر سمٹ آئی۔ ہمارے صاحب نے بھی خوب نام کمایا۔ قسمت نے اور یاوری کی تو ایک انتہائی کم دیکھے جانے والے ٹیلی ویژن نے ایک نیم مزاحیہ نیم ادبی پروگرام کا اینکر بنا دیا۔ آمدن میں اضافہ تو ہوا سو ہوا، دانشوری اور مستحکم ہو گئی۔
ہم ایک دوسرے کو لڑکپن سے جانتے ہیں۔ کل ملاقات ہوئی۔ بڑی باتیں ہوئیں۔ پوچھا، کہاں گھر بنایا ہے؟ بولا اللہ کے فضل سے صحافی کالونی والے پلاٹ پر اچھا گھر بنایا ہے۔ بچے اچھی تعلیم پا کر ٹھکانے لگ گئے۔ تمہاری بھابھی کے بعد زندگی کا مزہ نہیں ہے، اگرچہ دوسری نے میری کم خدمت نہیں کی۔
پھر ذرا چپ ہو گیا اور دکھ سے بولا، ’’یار ہم نے زندگی ایسے ہی نہیں گزار دی؟ ‘‘
میں نے کہا، ’’ایسے ہی کیا مطلب؟ ‘‘
بولا
’’فضول۔ بس یار رائیگانی ہے۔ رائیگانی‘‘
میں سوچ میں پڑ گیا اور کوئی جواب نہ سوجھا۔
یہ سوال مجھ سے چمٹ کر رہ گیا ہے۔ مجھے تشویش ہے کہ عام لوگوں کی عام زندگیاں کہیں، ’’ایسے ہی‘‘ تو نہیں گزر رہیں۔ فضول۔ رائیگانی ہی رائیگانی
کسی دن فارغ وقت میں اپنی داستان بھی سناؤں گا۔ پھر آپ سے رائے لوں گا۔ اس نکتۂ نظر سے دیکھوں تو میں نے بھی زندگی میں کوئی بڑے کارنامے انجام نہیں دئیے۔ میری زندگی میں بھی کوئی لمبے چوڑے راز نہیں ہیں۔ نہ گہرائی ہے نہ گیرائی۔ بس ’’ایسے ہی‘‘ گزار دی ہے۔ میری تشویش کم نہیں ہو رہی۔ بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ کیا رکھا ہے عام آدمی کی زندگی میں؟ نہ گہرائی نہ گیرائی، نہ رنگ نہ راز۔ نہ تشبیہہ نہ استعارہ۔۔ ۔
بس گزر جاتی ہے۔ ’’ایسے ہی‘‘ ۔
’’رائیگانی ہی رائیگانی‘‘
٭٭٭
نہ خدا ہی ملا۔۔۔
اُسے دنیا بھر کی فکر کھائے جا رہی تھی۔
کبھی کچھ برا لگتا تو کبھی کچھ۔
کبھی ایسے غلط ہو جاتا اور کبھی ویسے۔
یہ پکڑتا تو وہ ہاتھ سے نکلتا وہ پکڑتا تو اس کا سرا، سرکتا۔
دماغ تھا کہ روئی دھنکنے کی مشین۔
یادداشت تھی کہ کباڑ کوٹھڑی۔
’’یہ بھلا کہاں کی شرافت ہے۔ نوجوان بن بیاہی لڑکیاں یوں کھلے عام، عجیب و غریب کپڑے پہنے نوجوان لڑکوں کے ساتھ مٹکتی پھریں۔ ایک زمانہ تھا گھر کے مرد بھی کھنکارے بغیر زنانے میں قدم نہیں رکھ سکتے تھے کہ کسی بہو بیٹی کا پلّو سرکا ہو سکتا ہے۔ میاں تک شادی کے بعد مرے جاتے کہ یار دوست پنڈ چھوڑیں اور حجلۂ عروسی میں جائیں تو ماہِ تاباں بارِ اوّل نظر نواز ہو۔ چلو جی وقت بدل گیا ہے۔ زمانہ وہ نہیں رہا لیکن اس کا یہ تو مطلب نہیں کہ مادر پدر آزاد، شتر بے مہار دندناتے پھریں‘‘ ۔
زاہد کا جلنا کڑھنا بھی معمول ہی تھا۔ جب یہ کیفیت وارد ہوتی تو گرد و پیش جو بھی کچھ وقوع پذیر ہوتا دیکھتا، اس کا خون کھولا نے کو کافی ہوتا۔ لگتا زمانہ چالیں ہی ایسی چل رہا تھا کہ نت نئی کلا جگتی، بس اس کا خون جلانے کو۔ زاہد کھاتا پیتا بزنس میں تھا۔ درآمد برآمد کے دو دفاتر تھے۔ ایک کراچی کے مصروف ترین تجارتی علاقہ میں، بندر گاہ کے بالکل پاس اور دوسرا لاہور کے جدید ترین علاقہ ڈیفنس میں۔
اگرچہ اس نے سرگودھا کے ایک دور افتادہ گاؤں میں آنکھ کھولی لیکن والد خود بھی پرانے زمانے کے گریجویٹ تھے اور اسے بھی بہترین اداروں سے ماسٹرز ڈگری تک تعلیم دلوائی۔ گاؤں کا ماحول ویسا ہی تھا جیسے ہمارے دیہات ہوتے ہیں۔ خاندانی ذات برادری کا تعصّب۔ آباء و اجداد کے جھوٹے سچے کارناموں پر فخر و مباہات۔ فرضی شرافت و نجابت کے فلک شگاف ڈنکے۔ اسے بھی ان سب ادویات کی بھرپور خوراکیں پُڑے باندھ باندھ کر کھلائی گئیں۔
پھر مذہب کا اپنا رنگ خوب جما۔ گھر کے ساتھ بڑی مسجد تھی جو اُسی کے بزرگوں کا عطیہ تھی۔ قاری صاحب ویسے ہی تھے جیسے عموماً ہوتے ہیں۔ اسے جہنم سے بڑا ڈر لگتا۔ اتنا کہ دسمبر جنوری کی کہر آلود راتوں کو اٹھ کر تہجد سے پہلے ہینڈ پمپ چلا کر سارے نمازیوں کے لئے زیر زمین قدرتی نیم گرم پانی سے مسجد کی وضو والی ٹینکی بھر دیتا۔
اشکالات بہر حال تنگ کرتے۔ مثلاً اسے شعوری طور پر یہ سوچ آتی کہ، ’’کل تراویح کی صف میں کھڑے میرے دائیں ہاتھ والے باریش حضرت جو مفت کی افطاری زیادہ نگل کر گندی بدبو دار ڈکاریں، ہر رکعت میں تین چار کی اوسط سے لے رہے تھے اور میرا جی متلانے سے وضو ٹوٹنے لگا تھا تو مجھے تو اس کا ثواب ضرور ملے گا، بھلا حضرت کو اس کا گناہ ہو گا یا نہیں‘‘ ۔ اس طرح کی کئی سوچیں، گفتنی نا گفتنی، اس کے دماغ میں در آتیں اور وہ کم عمری کے باوجود رعشہ زدہ بزرگ کی طرح کپکپا جاتا۔ ایک دو بار قاری صاحب سے پوچھا تو انہوں نے لاحول پڑھنے اور سکوت اختیار کرنے کا مشورہ دیا، جس سے اُس نے واقعی افاقہ محسوس کیا۔
گاؤں میں گزارا بچپن اپنے سارے رنگوں، سارے جذبوں، ساری خوشبوؤں اور سارے نظاروں کے ساتھ اس کے لاشعور کا حصہ بن گیا۔ اوائل اپریل کی ٹھاٹھیں مارتی گہری سبز گندم کے سمندر کے بیچوں بیچ تنگ پگڈنڈیاں، پرانی بالٹی کے فالتو کُنڈے سے رشید لوہار کے بنائے گول کڑا نُما رہڑے اور لکڑی کے ڈنڈے میں پھنسائی سوالیہ نشان کی شکل کی کُنڈی کے پیچھے پگڈنڈیوں پر فضول لگائی میلوں لمبی دوڑیں۔
رہڑے کی گنگناتی، جھنجھناتی نشہ آور کھنکتی آواز اس کے عقبی ذہن کے تاریک تہہ خانے میں دبک تو گئی پر مکمل اور ابدی سکوت میں کبھی نہ سوئی۔ برسات میں بھرپور بارشوں کے بعد چوہوں کے بلوں میں پانی ڈال کر سانپ کے باہر نکلنے کا انتظار کرتے بچوں کے گروہ کا حصہ بننا اس کے ذہن کے کباڑ خانے میں دَب تو گیا ہو گا، لیکن اپنے اثرات سے دستبردار کبھی نہ ہوا۔ آ ہنی گول سریہ کے رہڑے کی آہنی کُنڈی کے ساتھ رگڑ کی سنسناتی جھنجھناہٹ لگتا کہ اس کے ساتھ قبر تک جائے گی۔ یہی سنسناہٹ ساتھ لئے وہ یونیورسٹی پہنچ گیا۔ سارے تضادات ساتھ لے کر۔ دوغلی روح بھی اُس کے جوانی سے جھلستے بدن کے پیچھے ہی پیچھے یونیورسٹی ہاسٹل کی سنگلاخ ڈارمیٹری میں آ گھسی۔ یونیورسٹی کے سب سے روشن خیال ڈیپارٹمنٹ میں اچھے طالب علم ہونے کی مصدقہ شناخت نے اس کا تعارف انٹلکچوئل طبقہ سے کروا دیا۔ مذہبی جماعت کی ذیلی تنظیم کے جبر تلے سسکتے یہ حساس نوجوان دھواں دیتے ذہن ساری رات کارل مارکس اور سگمنڈ فرائیڈ سے نکلے بغیر گھسی ہوئی جینز پہنے گندے فرش پر پھسکڑے مارے چرس کے دھوئیں کی بوجھل فضاؤں میں تیرتے کنفیوشش اور کامو سے ہوتے ہوئے صبح دم جارج ایلیٹ کے رومانس میں جا سوتے۔
کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔
ابدی سچ کی تلاش میں ٹامک ٹوئیاں مارتے یہ سیاہ پوش مد ہوش ذہن مزید الجھتے اور بھٹکتے چلے گئے۔ وہ جس سچ کو چمکتی ڈَلی کی شکل میں ڈھونڈھ رہے تھے وہ تو کہیں بکھرا تھا جیون کے ریگزاروں میں۔ الجھے خار زاروں میں۔ ذرّوں اور ٹکڑیوں کی شکل میں۔ نوکیلے پتھروں اور جلتی ریت کے بیچ۔
جہاں سے انہیں آبلہ پا ہو کر چننا تھا، لہو لہو پاؤں گھسیٹتے۔
وہ یونیورسٹی سے نکلا تو کٹی پتنگ ہو گیا۔ ڈولتا پھرتا۔ ساتھی بکھر گئے۔ کچھ مقابلے کا امتحان پاس کر کے چھوٹے چھوٹے افسر لگ گئے۔ ساری نفسیات اور فلسفہ بھول کر تیسرے درجے کی حکمرانی کے نشے میں غرق۔ جو فیل ہو گئے وہ مضافاتی کالجوں میں لیکچرر بن کر پروفیسر کہلوانے لگے۔ لڑکوں سے تو کبھی بات ہو جاتی، جس میں معقولیت اور ذہانت کا شائبہ تک نہ ہوتا، لیکن لڑکیاں واقعی چڑیاں بن کر پتہ نہیں کن گھونسلوں میں جا گھسیں کہ فون تک پر رابطہ ختم۔
چوہدری حکم داد نے کہا، ’’بیٹا سرگودھا آ جا اور زمیندارہ سنبھال‘‘ لیکن بیٹا اب خاندانی نجابت کی بڑوں اور مولویوں کی سریلی دھمکیوں سے بہت آگے نکل چکا تھا۔ باپ نے کینو کے باغات سے جمع رقم سے بھری تجوری کا ایک کونا خالی کیا تو بہترین کالونی میں ایک کنال کا گھر خرید دیا۔ بڑے بھائی کے ایم۔ این۔ اے ہونے کا یہ فائدہ ہوا کہ سب مدارج طے ہو کر چھ مہینے میں امپورٹ ایکسپورٹ کا بزنس سیٹ ہو گیا۔
تجربہ کار منیجر کے سپرد کرنے پر یہ مفید کاروبار آکاس بیل کی طرح چھوٹے کاروباروں کا رس چوس کر پھیلتا ہی چلا گیا۔ اب اس کے پاس کرنے کو کچھ نہ رہ گیا سوائے مزید بھٹکنے کے۔ زندگی کی گاڑی ایک ہی پہئے پر چلانے کے نقصانات تو ہوں گے ہی، پر فائدے بھی بہت ہیں۔
جب مزے ہوں تو بچپن کے لوہے کے کڑے والے رہڑے اور سوالیہ نشان والی کُنڈی سے رگڑ کی جھنجھناتی سنسناہٹ شاید ہی کبھی زندہ ہو کر ذہن کے تاریک گوشوں سے گونجے۔ ’’تمہیں خدا یاد آئے گا جب تم کمزور ہو گے‘‘ تسنیم، اس کی برقعہ پوش ہم جماعت جو مضافات سے یونیورسٹی آتی تھی اسے کہا کرتی۔
جب اس کی طبیعت بہت خراب ہوئی اور آنکھوں کے آگے دھنک اکثر ناچنے لگی تو تسنیم کی بات اسے بہت یاد آئی اور سچ لگنے لگی۔
پھر وہ دین کی طرف لوٹا۔ علاج معالجہ میں برین سکین اور دیگر ٹیسٹ تجویز ہوئے۔ دعاؤں کے لئے لاہور کے مضافات میں اللہ والوں کی بستی راس آئی۔ وہ دنیا کو بھول کر ہفتوں ادھر پڑا رہتا۔ ایک گروپ سے دوسرے میں لڑھکتا اور ایمان یقین کی باتیں سنتا۔ ضروریاتِ زندگی بہت محدود ہو گئیں۔ تقویٰ اور تلقین سے سکون ملتا۔ اپنا ذاتی سامان پشت پر لادے ریلوے اسٹیشنوں کے پلیٹ فارموں اور ویگنوں، بسوں کے اڈّوں پر دھکے کھانے سے راحت قلبی نصیب ہوتی۔ ایک عرصہ میں دعاؤں اور دواؤں سے طبیعت بحال ہوئی تو پھر زندگی کی رنگینیاں آہستہ آہستہ حقیقت بن کر صدائیں دینے لگیں۔ کچھ دِنوں سے وہ بہت حساس ہو گیا تھا۔ کبھی دینی فرائض یاد آ جاتے تو نہ گھر یاد آتا اور نہ دفتر اور پھر دوسری پھِر کی گھومتی تو قریہ قریہ کوچہ کوچہ وہ کچھ کر گزرتا کہ بعد ازاں یاد بھی کرنے سے کان لال ہو ہو جاتے۔
ابھی بھی اس پر اصلاحِ معاشرہ کا بھوت سوار تھا جو وہ شور مچاتا پھر رہا تھا۔ اچانک اسے یاد آیا کہ اسے دفتر جانا ہے جہاں نئی سیکریٹری منتظر ہے کہ کام لمبا ہے اور دیر تک بیٹھنا ہو گا۔ شام گہری ہوئی تو کام ختم ہوا۔ عشائیہ کے لئے دونوں جب پانچ ستارہ ہوٹل کی لابی میں داخل ہوئے تو منتظم اعلیٰ نے جھک کر سلام کیا اور ساتھ چلتا عشائیہ کی اس میز تک لایا جہاں سے نہانے کے تالاب کا خوبصورت منظر واضح ترین نظر آتا تھا۔
فلور منیجر کو ضروری تاکید کر کے منتظم اعلیٰ ایک معنی خیز مسکراہٹ سجائے اس سوئٹ کے لوازمات کی فکر میں لگا جو ہر ضروری دفتری کام کے بعد زاہد کی جائے پناہ تھا۔
٭٭٭
پیر شناس
جب میں نے متعدد بار اپنی سال خوردگی کو بطور عُذر رکھا تو وہ اپنی گنگناتی، مدھم آواز اور سرد پرسکون لہجے میں بولی،
’’بڈھے دو قسم کے ہوتے ہیں۔
ایک وہ جو یہ مانتے ہی نہیں کہ وہ بڈھے ہیں۔
جوں جوں مزید بڈھے ہوتے ہیں خبیث تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ معدوم ہوتی مردانگی انہیں اکساتی ہے کہ اوچھی اور گھٹیا حرکتیں کریں۔ عام زبان میں کہیں تو ’’چولیں‘‘ ماریں۔
چالاک، مگر مضحکہ خیز، اور قابل نفرین۔
حیرت ناک بات یہ ہے کہ یہ صنف کبھی کبھار قابل رحم بھی لگ سکتی ہے۔
ان کی بھونڈی اور عامیانہ حرکات لطیف فطرت کے لئے کراہت کا باعث بنتی ہیں۔
وہ زیادہ تر استرداد کو خاطر میں لاتے ہیں نہ گالیاں کھا کر بے مزہ ہوتے ہیں۔
کچھ عورتیں ان کے قریب تک نہیں پھٹکتیں اور کچھ کے قریب آنے کی وہ جرأت نہیں کرتے۔ جو بے چاری اپنی کسی کمزوری، مجبوری یا رواداری میں انہیں برداشت کرتی ہیں ان کی زندگی اجیرن ہوتی ہے۔ مسلسل عذاب اور مستقل کرب۔‘‘
اس کے عمیق مشاہدے اور پر مغز تجزیے سے میں متاثر ہو گیا۔ شازیہ سے میرا تعلق خالص پیشہ ورانہ تھا۔ ہمارے انچارج کو دفتر میں دیر تک بیٹھنے کی عادت تھی اور ہم دونوں اسی سبب دیر تک بیٹھنے پر مجبور تھے۔ وہ عمر میں مجھ سے پندرہ سال چھوٹی تھی لیکن میری خوشگوار عادات اور بذلہ سنج طبیعت نے ہمیں بہت قریب کر دیا تھا۔ اگرچہ دفتر میں شام تک موجود تو رہنا پڑتا لیکن کام بہت کم ہوتا۔ بس وقت گزارنا پڑتا۔ اشرف چوکیدار کے علاوہ، جو خود چائے پینے کے لالچ اور تھوڑی سی ٹِپ کے عوض ہمیں چائے بنا دیتا اور اوپر کے چھوٹے موٹے کام بھی کر دیتا ہمارے کمرے میں شاذ ہی کوئی جھانکتا۔
وہ کبھی تو کوئی رسالہ یا کتاب نکال کر پڑھنا شروع کر دیتی اور کبھی ہم گپیں ہانکنے لگتے۔ وہ پڑھی لکھی ذہین لڑکی تھی۔ دنیا بھر کے موضوعات پر بول سکتی تھی۔ دیکھنے میں خوش شکل اور شستہ اطوار کی مالک۔ گفتگو کا ڈھنگ جانتی تھی۔
بولتے ہوئے متانت اور شگفتگی کا عجب امتزاج اُس کے گرد ہیولیٰ بنائے رکھتا اور مخاطب اس سے باتیں کر کے کبھی نہ اکتاتا۔
موضوعات کا تنوع، لہجے کا اعتماد اور جاذب نقوش کے بدلتے دلکش زاویے سونے پر سہاگہ تھے۔ میں حیران ہوتا کہ اتنی شاندار شخصیت اور خوشگوار طور اطوار کی لڑکی بیالیس سال کی ہو چکی اور ابھی تک کنواری پھر رہی ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ اس غیر منصفانہ اغماض کی وجہ سے شہر بھر کے لونڈوں پر مجھے سخت غصہ آتا کہ کیسی کیسی از کار رفتہ خواتین کے پیچھے خوار ہوئے پھرتے ہیں اور یہ سیامی بلی جیسی گداز اور گلابوں جیسی مہکتی لڑکی اُنہیں نظر ہی نہیں آتی۔
لیکن میں کچھ بھی تو نہیں کر سکتا تھا، سوائے متوحش ہونے کے۔
اس سے جب ایک دو بار پوچھا تو مسکرا کر صرف اتنا بولی کہ اس بات کا وہ کیا جواب دے سکتی تھی، یہ تو شہر کے لڑکے ہی بتا سکتے تھے۔
نہ تو کبھی کوئی لڑکا کسی بہانے اُس سے ملنے آتا نہ لمبی لمبی کالیں آتیں۔ گھر سے فون آتا تو بھی اُمور خانہ داری سے ہٹ کر کوئی موضوع زیر گفتگو نہ آتا۔
حکماء کے مطابق تیس سے چالیس سال کے بیچ کا عرصہ عمر کا وہ حصہ ہوتا ہے جب جنسی جذبے اپنے عروج پر ہوتے ہیں۔ خواہش کی ہنڈیا اُبل اُبل پڑتی ہے اور برداشت کا جام چھلک چھلک جاتا ہے۔
میں نے محبت، شادی جنس غرضیکہ کسی بھی اشتعال انگیز موضوع پر بات کرتے ہوئے اسے کبھی غیر مستحکم، ہیجان زدہ، حتیٰ کہ غیر معمولی طور پر پر جوش بھی نہ پایا۔
وہ ایک پرسکون چہرہ، مطمئن جسم، آسودہ ذہن اور مدبرانہ خود اعتمادی کے ساتھ، برغبت، ان موضوعات پر دلیرانہ بولتی اور میں حیران رہ جاتا۔
ہمارا باس، جس کی وہ پسندیدہ سیکریٹری اور میں معتمد خاص تھا بنیادی طور پر ایک مردم بیزار شخص تھا۔
وہ اپنے کمرے میں محدود، کمپیوٹرز اور انٹر نیٹ کی مدد سے دنیا بھر میں صرف ضروری اور خالص کاروباری رابطے رکھتا اور جسمانی طور پر کبھی کبھار ہی کسی کو دفتر بلاتا۔
گھنٹی ایک بار اور لمبی بجتی تو شازیہ کی طلبی ہوتی اور چھوٹی چھوٹی دو گھنٹیاں بجتیں تو میرا بلاوا آتا۔ یوں ہم اپنی گھنٹیوں کا انتظار کرتے اور جو کام ملتا، کر کے پھر گھنٹیوں کا انتظار شروع کر دیتے۔
ہم پہروں باتیں کرتے۔
اگر ان سب پہروں کو جمع کر لیا جائے تو پتہ نہیں ہم نے کتنے مہینے اور کتنے سال باتیں کی ہوں گی۔
سچ بولوں تو ہم بہت پکے دوست یا شاید سہیلیاں بن چکے تھے۔ آپس میں کچھ پوشیدہ نہیں رہ گیا تھا۔
آپ خود اندازہ لگائیے کہ جب ہم نے سالوں باتیں کیں تو باقی پس پردہ رہا کیا ہو گا۔
جنس پر بھی بات کر رہے ہوتے تو کبھی یہ احساس نہ ہوتا کہ ہم مخالف اصناف کے دو صحت مند نمائندے ہیں۔
ہم ڈی۔ ایچ۔ لارنس، سعادت حسن منٹو، ژانگ، ایڈلر اور سگمنڈ فرائیڈ کو بھی ایسے ہی مکمل مدبرانہ، ناقدانہ اور عاقلانہ پیرائے میں زیر بحث لاتے جیسے بابا بلھے شاہ، مولانا روم یا کارل مارکس کو۔
اگرچہ اس کا نہ تو کوئی لمبا چوڑا خاندان تھا، سوائے ایک بوڑھی ماں کے، جو اس کے ساتھ ہی رہتی تھیں، نہ کوئی بچوں کا ساتھ، لیکن میں جب بھی اپنی بیگم اور بچوں کا ذکر کرتا وہ پوری توجہ سے سنتی۔ ہماری چھوٹی چھوٹی خوشیوں کا ذکر سن کر مسکراتی اور مسئلوں کے بیان پر ملول ہوتی۔
اتنا لمبا ساتھ ہونے کی وجہ سے وہ میرے خاندان کے ہر فرد، اس کے حالات، عادات اور خصائل تک کو جاننے لگی تھی۔
کبھی کبھار میں کسی گھریلو مسئلے کا ذکر لے بیٹھتا تو متفکر ہو کر اپنے تجربے اور مطالعے کی بنیاد پر حل بھی تجویز کرتی۔
میں سوچ میں پڑ جاتا کہ اس نے شادی نہیں کی، ازدواجی زندگی کی الجھنوں اور لذتوں سے محروم ہے، بچے نہیں ہیں تو میرے بیوی بچوں کا ذکر اس کے اندر کوئی محرومی کوئی دکھ نہ جگاتا ہو، لیکن اس نے کبھی کوئی ایسا شائبہ تک، اپنے روّیے یا چہرے کے تاثرات سے نہ ہونے دیا۔
’’اور دوسری قسم کے بڈھے؟ ‘‘
میری دلچسپی بر قرار تھی۔
اس نے ذرا سا کھنکار کر گلا صاف کیا اور گویا ہوئی۔
’’بڈھوں کی دوسری قسم ذلیل تر ہے۔ یہ وہ منحوس سن رسیدہ مگرمچھ ہیں جو دام ہم رنگ زمیں بچھائے، اپنے زیر تسلط پایاب دریا کی دلدل میں بجھتی آنکھیں نیم وا کئے منتظر رہتے ہیں کہ کوئی شکار آ پھنسے۔
اُن کے جال بڑے مضبوط اور جابر ہوتے ہیں۔
بظاہر بے ضرر مگر حقیقت میں ظالم اور ایذا پسند یہ گرگان باراں دیدہ و سرد و گرم چشیدہ رنگا رنگ کرداروں میں ملتے ہیں۔ کہیں دانشور تو کہیں نقاد، کہیں سینئر بیوروکریٹ تو کہیں سیٹھ، کہیں مدیر تو کہیں مشیر۔ کہیں پیر تو کہیں زمیندار۔
یہ اپنا جال پھیلائے، بگلا بھگت بنے بیٹھے رہتے ہیں اور کسی بھی علمی، انتظامی، نفسیاتی، مالی یا معاشرتی معاملے میں زیردست کو زیر اثر لا کر مطلب براری کرتے ہیں۔
اکثر اوقات تو شکار کا زیر دام رہنا ہی ان کے لئے ذہنی، نفسیاتی حتیٰ کہ جنسی تسکین کا کامل حصول ہوتا ہے ۔‘‘
میں حیرت زدہ رہ گیا۔
’’ان دونوں میں سے میں کس قسم کا بڈھا ہوں؟ ‘‘
میں نے خود کو کہتے سنا۔
ساتھ ہی ایک لمبی بیل بجی اور وہ ایک ساکت جھیل سا سپاٹ چہرہ لئے بڈھے باس کا دروازہ کھول کر اندر چلی گئی۔
٭٭٭
افسانچے
(مائیکروفکشن)
دُلھن
اس نے اپنی ساری زندگی چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کے پیچھے بھاگتے گزار دی تھی۔
کبھی گھر میں بچی روٹی مل جاتی اور رات کا بچا سالن۔ بھائی کی ٹوٹی چپل ماں کی پھٹی ہوئی شلوار کے کار آمد حصے سے بنائی گئی ٹخنوں تک آتی شلوار، اور بس ایسے ہی باقی سب کچھ۔
آج جب اس کی شادی تھی تو کالا بھجنگ رالیں ٹپکاتا، بڑے دانتوں والا دولھا، چنے پلاؤ کھانے کے بعد ایک ایک روپے کے نوٹوں کے ہار جھلاتا اپنے تیرہ باراتیوں کے ہمراہ اسے لے کر غریب آباد کے بس سٹاپ پر آ کھڑا ہوا۔
وہ بھی عجیب سے لال رنگ کا جھوٹے تلّے والا سوٹ پہن کر اڈّے پر موجود سائیکل پنکچر کی دُکان کے گندے بنچ پر بیٹھ گئی۔
دور سے پرانے انجن کے زور پر گھرر گھرر کرتی لدی پھندی بس نکلی تو سب ہوشیار ہو گئے۔ بس بالکل قریب آ کر رُکنے لگی تو سب نے سیٹوں کے لئے دوڑ لگائی۔ وہ بھی اضطراری طور پر ہڑبڑا کر اُٹھی اور بس کی طرف لپکی۔
پیچھے سے خالہ کی کربناک آواز گونجی،
’’اری تم دُلھن ہو!!‘‘
٭٭٭
راجہ
اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اس کی اصل حیثیت ہے کیا؟
اس نے سائیکل سے اتر کر ڈھیلی ہوتی گدی کو ہتھیلی کی ضرب سے سیدھا کیا۔
بائیں ہاتھ سے ہینڈل سنبھالے، دائیں ہاتھ سے کیرئر کو دھکیلتے ہوئے گھر کے شکستہ دروازے کی بوسیدہ دہلیز سے اگلا ٹائر اندر داخل کیا تو اس کا بڑا بیٹا اپنی کتابیں چھوڑ فوراً لپکا۔
سائیکل سنبھالی اور لے جا کر نیم پختہ دیوار کے ساتھ کھڑی کر دی۔ باپ کا ہاتھ پکڑ کر چارپائی پر بٹھایا۔
منجھلی بیٹی جلدی سے ربر کے چپل لائی اور پائنتی کے پاس رکھ کے دھول سے اَٹی گر گابی ہاتھوں سے صاف کرتی اندر لے گئی۔ ادھیڑ عمر بیوی پانی کا گلاس لے آئی۔
اسے یوں لگا کہ وہ ایک مقبول بادشاہ ہے جو کسی مہم سے فتح یاب واپس اپنی راجدھانی میں اترا ہے جہاں اطاعت گزار اور پیار کرنے والی رعایا اس کی خدمت میں جت گئی ہے۔
پھر اچانک اسے خیال آیا کہ آج ایک معمولی بات پر صاحب نے دفتر میں کس برے طریقے سے اسے بے عزت کیا تھا۔ بات ایسی نہ تھی جو آرام اور تحمل سے سمجھائی نہ جا سکتی۔ مغلظّات بکنے کی تو قطعاً ضرورت نہیں تھی۔ پھر اس معاملے میں وہ تھا بھی بے قصور۔ صرف صاحب کا موڈ آف تھا اور ایک چھوٹی سی غلط فہمی۔
اس کی انا کو سخت ٹھیس لگی۔ اس کا دل دکھ سا گیا۔
اور اب جو وہ راجہ اپنی راجدھانی میں اپنے تخت پر براجمان تھا تو اسے دوپہر کا واقعہ یاد آ گیا جس نے اسے پھر غمگین کر دیا۔
ساری زندگی محنت کی حلال کمائی گھر لانے والے دیوتا کی آنکھ سے ایک خاموش آنسو ٹپکا، جو نہ جانے کس کا مقدر تاریک کر گیا۔
٭٭٭
جست
اس نے کہا، ’’میرے مالک میں کہاں آ گیا ہوں؟
یہ کیا قوت ودیعت ہوئی کہ میں نے اپنا جیون خود ہی دو بھر کر لیا؟ ‘‘
خلجان بڑھا تو وہ آبادی سے بھاگ نکلا اور جنگل میں پناہ لے لی۔
’’اوہ میرے مالک یہاں بھی تو طاقتور نے کمزور کو پھاڑ ڈالا۔ نہ رحم نہ خوف۔
اُف اُف اُف!!!!!
کیا ایسے ہی زندہ رہنا ہے؟ یہی حیات ہے؟ یہی فطرت ہے؟ یہی منشاء ہے اور یہی مقدر؟
تو پھر سوچ کیوں ودیعت ہوئی؟ دکھ کیوں تشکیل پایا اور احساس کدھر سے آ ٹپکا؟
سکوت؟ کیا سکوت ہی میں عافیت ہے؟ ‘‘
’’میں پاگل ہو رہا ہوں شاید‘‘ ۔ اس نے سوچا۔ ’’حقیقت سے دور ہوں۔ تبھی تو راز نہیں جان پایا کہ ایک کے دکھ میں دوسرے کا سکھ کیسے سکونت گزیں ہے۔
ادھورے علم سے ابھرنے والی سوچ عافیت کی قاتل ہے۔ محدود ہے اور مسدود!
ہے تو سہی لیکن نہیں کے مترادف!!
ادھورا علم مضر ہے تو پھر پورا علم؟ ‘‘
اچانک اس کے ذہن میں بجلی سی کوندی:
’’ہاں مجھے نکلنا ہو گا ’پورے علم‘ کی تلاش میں!‘‘
اس نے آنکھیں موند لیں اور خود میں ’جست‘ لگا دی۔
٭٭٭
جشن
اس سرخ بڑی دیگ میں میرا چھوٹا جسم صدیوں کڑھا تو ہڈیاں گوشت سے الگ ہوئیں۔
ریشہ ریشہ گوشت کی گفتگو ختم ہونے میں نہ آتی تھی۔ ہڈیوں کا گودہ بھاپ دیتا تھا۔ چکنائی زرد پانی کی سطح پر تیرتی، قہقہے لگاتی پھرتی تھی۔
میری کھوپڑی کی، لجلجے دماغ کے ساتھ، حال ہی میں، بس چند صدیاں قبل، خون کی تال پر ناچتے سرخ انگارہ دل کی مداخلت سے صلح ہوئی تھی۔
آنکھوں کے ڈھیلے بے قصور قرار دئیے جا چکے تھے جبکہ پتلیاں زیر حراست ہی رہیں۔
میری بھول بھی ابل کر ٹھنڈی ہو گئی تو سب شہوانی قوتیں ٹھہراؤ میں آ کر جبلتوں کی مہمان ٹھہریں۔
دیگ کے نیچے دہکتے انگارے ناچ ناچ کر تھک گئے تو رومانیت پسند ہو گئے۔
کوؤں اور چیلوں کے حصے میں سینہ آیا جو داغدار نکلا۔
گلہری نے گوشت خوری سے انکار نہ کیا اور درخت سے اتر آئی۔
اس سارے منظر پر ہاتھی کی پشت پر سوار چمگادڑوں نے غلبہ پایا جو اپنی معاملہ فہمی کے لئے سند یافتہ تھیں۔ کافی دیر گزری تو میں نے فیصلہ کیا کہ دیگ ہی میں چھپا رہوں۔
بادشاہ کے پیادے بستی میں پھیل گئے اور خوب تلاشی لی۔ میرے گھر والوں نے شادی کے نفیرے بجا کر میرا استقبال کیا اور خالی دیگ بھیڑیوں کے حوالے کر دی۔
نوجوان سردار نے بڑے بوجھل دل کے ساتھ جشن کے ناکام رہنے کا اعتراف کیا اور تخت چھوڑنے کا فیصلہ سنایا۔
٭٭٭
روئے سخن
ایک بھرپور قہقہہ لگا کر میں نے کاغذ سمیٹا اور قلم دور پھینک دیا۔
تحریر مکمل ہوئی۔
’’کیا ہے یہ بھئی؟ ‘‘
ہمزاد بولا
’’تحریر ہے۔ بڑی زبردست۔ چمچماتی۔ بجلیاں گراتی۔ دیکھ نہیں رہے کتنی زبردست تحریر ہے‘‘ ۔
میں جوش سے بولا۔
’’حضرت تحریر تو ہے لیکن ہے کیا؟ کس صنف میں رکھیں گے اسے؟ کیا تخلیق کیا ہے؟ کیا لکھا ہے بھائی؟ افسانہ ہے؟ افسانچہ ہے؟ نثری نظم ہے؟
مائکروف ہے جو پہلے مائکرو فکشن تھا اور کچھ دیر مفکشن بھی رہا؟ علامچہ ہے؟ ملامتہ ہے؟
کیا لکھا ہے میرے دانشور؟
ہمزاد مصر رہا۔
’’اجی اچھا لکھا ہے۔ زور دار لکھا ہے۔ میں اتنی دیر سے لکھنے لکھانے ادب ادیب اور شعر و سخن ہی میں جھک مار رہا ہوں۔ ادب ہی کی خدمت میں زندگی گزر گئی ہے۔ ادب ہی اوڑھنا بچھونا ہے۔ کاغذ قلم کتاب سے نکلتا ہوں تو سیل فون یا لیپ ٹاپ، ڈسک ٹاپ پر جا بیٹھتا ہوں۔ نشستیں کرواتا ہوں۔ تنقید میں جھنڈے گاڑتا ہوں۔ لوگوں کو لکھنا سکھاتا ہوں۔ ہمت بندھاتا ہوں۔ ملتا ملاتا ہوں۔ اِن باکس ساری ساری رات درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھتا ہوں۔ سب فورمز پر حاضری بھرتا ہوں۔ دنیا بھر میں پھیلے اردو لکھنے والے میری انگلی کی پوروں پر ہیں۔ آپ شاید میری وقعت جانتے نہیں۔‘‘
میرا غصہ بڑھتا جا رہا تھا۔
’’حضرت آپ کا سکہ چلتا ہے۔ آپ آج کے ادبی درباروں میں سے متعدد کے شہنشاہ معظم ہیں۔ ادبی غلام اور باندیاں لونڈیاں بکثرت موجود ہیں۔ آپ کا فرمایا مستند مانا جاتا ہے اور جو مستند نہ مانے وہ آن واحد میں بلاک بلکہ ہلاک ہو جاتا ہے۔ سب پتہ ہے۔ سب معلوم ہے۔ لیکن صاحب میں نے تو صرف یہ پوچھنے کی جسارت کی ہے کہ یہ الم غلم اور اوٹ پٹانگ جو آپ نے لکھا ہے یہ کیا ہے ۔‘‘
’’عجب ڈھیٹ آدمی ہو۔ ایک طرف دعوی ہے کہ مجھے جانتے سمجھتے ہو اور دوسری طرف اپنی حماقت پر اڑے ہوئے ہو۔ میری تحریر پر سوال اٹھا رہے ہو۔
دیکھ نہیں رہے کیا دھواں دھار لکھا ہے۔ بس قلم توڑ دیا ہے۔
یہ سب کوڑھ مغزوں کے لئے نہیں۔ یہ خواص کے لئے لکھا ہے۔ اس کی جہتیں ہیں۔ اس میں پرتیں ہیں۔ علامتیں ہیں۔ نفسیات، فلسفہ اور حکمت ہے ۔‘‘
’’ہیں جی؟
اچھا جی؟ ‘‘
’’ہاں جی۔
سٹریم آف کانشیسنس کا نام سنا ہے کبھی؟ سریلزم، ڈاڈا ازم کی الف ب کا پتہ ہے؟
تجرید علامت کو سمجھتے ہو؟
عالمی ادب کی تحاریک کا اِدراک ہے؟ پتہ ہے دنیا کہاں سے چل کر، کہاں کہاں سے ہو کر کہاں پہنچ گئی ہے؟
اردو کی پسماندگی کا اندازہ ہے؟ کچھ ہے اردو کے پلّے جو اس کا اپنا ہو، معیاری ہو اور عالمی سطح پر پیش کیا جا سکے؟
اردو کی تہی دامنی پر تشویش ہے؟ ‘‘
’’مگر بھائی میں نے تو صرف یہ پوچھا تھا کہ کیا گھسیٹا، معاف کرنا لکھا ہے ۔‘‘
’’دیکھو پہلے کچھ پڑھو لکھو۔ کسی قابل ہو لو تو بات کرنا، بچہ جی۔
قدم قدم چلنے والے سو میٹر کی دوڑ کے کھلاڑی نہیں ہوتے۔ پالنے میں لیٹ کر پہلوانوں کے اکھاڑوں کے سر بستہ راز اور استادانہ داؤ پیچ تو سمجھ میں نہیں آتے نا۔
دماغ میں کچھ ہو تو رسائی ہو۔ مطالعہ اور مشاہدہ چاہئے بھئی۔
لونڈوں کے بس کی بات نہیں۔
مبتدیوں کا میدان ہے نہ بساط‘‘ ۔
’’لیکن صاحب میں نے تو بس۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘
’’اَبے گھامڑ، تیری تو۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔‘‘
جونہی میری لغویات اَپ لوڈ ہوئیں میری لے پالک مخلوق اس میں جہتیں پیدا کرنے اور نکالنے میں جُت گئی۔
میں نے اطمینان سے منطقی سگریٹ سلگا کر نفسیاتی کش لگایا اور علامتی دھواں تجریدی مرغولوں میں بدل دیا۔
٭٭٭
راطوطا صاحب
درختوں کے سائے درختوں سے بھی لمبے ہو گئے -
فخر اب غرور میں بدلنے لگا۔
پرندوں نے شام تک واپس آنے کا قصد تو کر رکھا تھا لیکن واپسی تک ٹھکانے ٹھکانہ نہ بدل چکے ہوں، اس کی یقین دہانی نہ ہو پائی۔
طوطا ہونا اس کے لئے کوئی انوکھی بات نہیں تھی کہ وہ ایک بڑے جھنڈ کا حصہ تھا۔
بہرحال اس کے پروں کی بنیاد سرخ تھی جو اسے عام طوطوں سے ممیز کرتی تھی۔
سبز ہونا تو بس عامیانہ پن تھا۔ سرخ نشان امتیاز تھا۔
بھورے رنگ کا انبوہ کثیر عمیق گہرائیوں سے ابل ابل کر، ہمک ہمک کر نکلنے کے درپے تھا۔ پستیوں کے کنارے چکنے تھے اور کائی سے اَٹے پڑے تھے۔ کائی کی بوسیدگی کھٹی سی بو دے رہی تھی جو طوطوں کی پہنچ سے دور تھی۔
ویسے بھی طوطے گہرائیوں پر کیوں نظر ڈالتے امرود تو درختوں پر پک کر گل سڑ رہے تھے۔
اسے طوطیوں کا شوق تھا اور طوطیاں اس کے سبز پروں پر ٹنگی سرخی سے مرعوب تھیں۔
اسے لگا کہ دنیا اس کے پنجوں میں ہے اور اس کی خمدار نوکیلی چونچ بس امرود کھانے اور آم ٹھونگنے کے لئے ہے۔
طوطوں کے سردار کو ’’را طوطا صاحب‘‘ بولتے تھے۔ وہ بڑا گپ باز اور شو باز تھا۔ اپنی چونچ کے نوکیلے پن پر بڑا مان تھا اسے۔ سبزی خور ہونے کے باوجود اس کے پنجے خون سے لتھڑے تھے۔ اس کی ٹیں ٹیں کی تعریفیں اسے اس خوش گمانی میں مبتلا رکھتیں کہ وہ خوش گلو ہے۔
طوطوں کے لئے یہ باغ، جو ان کا آبائی اور ابدی ٹھکانہ ہو چلا تھا، ایک جنت سے کم نہیں تھا۔ عمیق گہرائیاں‘ کہ بھوتوں کا بسیرا بنتی جا رہی تھیں‘ باغ کے ایک کونے میں دھکیل دی گئیں۔ اس سے ان کی وسعت کم ہو گئی اور گہرائی مزید بڑھ گئی۔
طوطوں کے شور اور غل غپاڑے نے ایک بلے کو متوجہ کیا جس نے لالچی چوہوں کے لالچ کے بل بوتے پر را طوطا صاحب کو ورغلانا اور ڈرانا شروع کر دیا۔ بالآخر ایک سمجھوتا طے پایا کہ گلے سڑے امرود بانٹ لیے جائیں۔
بدہضمی کے معالج نواحی جنگل سے بھاگے چلے آئے۔ بلے نے اپنے سبزی خور نہ ہونے کا عذر پیش کیا تو طوطوں نے اپنے خون آشام پنجے اسے چاٹنے کے لئے پیش کر دئیے۔
اسے یہ بھی باور کرایا گیا کہ نظام ہضم کی درستگی کے لئے گاہے گاہے بلے گھاس بھی کھاتے ہیں۔
گلشن کا کاروبار تو چلا کیا لیکن بھوری مخلوق کی گہرائیوں سے ابھرتی آوازوں میں نقاہت آتی گئی۔ طوطوں کی ٹیں ٹیں بڑھتی چلی گئی۔
کچھ وقت گزرا تو بلے نے طوطوں کے پنجے چاٹ چاٹ کر سیاہ کر دئیے۔ مزید چاٹنے پر طوطوں کے پنجوں سے ان کا اپنا خون رس رس کر نکلنا شروع ہو گیا جو بلے کو لذیذ تر لگا۔ بِلّے کو سرخیاں بھاتی بھی تھیں اور راس بھی آتی تھیں۔
پرندے جب لوٹے تو سائے بہت ہی لمبے ہو کرتا ریکی میں ضم ہو چکے تھے۔
اب منظر کچھ بدل رہا تھا۔
را طوطا صاحب بلے کی گرفت میں کسمسا کر پھڑپھڑا کر باغ کی بیرونی باڑھ سے باہر کھسکنے کی تدبیر کر رہے تھے۔
گہرائیوں سے ابلتی بھوری مخلوق کی پست آوازیں اب جان کنی کے عذاب میں مبتلا قریب المرگ کی آخری خرخراہٹ سے مشابہ تھیں۔
٭٭٭
آخری بار
لگ رہا تھا کہ وہ دنیا کے آخری کونہ پر ٹکا ہے اور سامنے تحت الثریٰ ہے۔
وسیع، ویران پہاڑی سلسلہ میں سب سے اونچے پہاڑ کی جس نوکیلی چٹان کے آخری کنارے پر وہ ٹکا تھا اس سے آگے ہزاروں فٹ گہرا، مہیب خلا تھا۔
کہاں سے شروع ہو کر کہاں ختم ہوتا تھا، حد نظر کے بس کی بات نہ تھی۔
معلق چٹان کا آخری انچ اس کے جوتوں کے نیچے تھا۔ ذرا سی تیز ہوا بھی اسے گراتی تو کہاں پہنچتا، اسے کچھ اندازہ نہ تھا۔ ہزاروں فٹ نیچے یقیناً کوئی سنگلاخ چٹان ہی اسے اپنے دامن میں سمیٹتی۔۔ ۔ سرخ گوشت کے بھاپ دیتے، پھڑکتے ٹکڑوں کی شکل میں۔
چٹان کے آخری معلق سرے پر اگر وہ ذرا سا توازن بھی کھوتا تو اگلے ہی لحظے تیزی سے خلا میں گرتا چلا جاتا۔
’’ٹھیک ہے۔ یہی زندگی کا آخری لمحہ ہے۔
بہت ہو چکا۔
زندگی نے بہت ذلیل کر لیا۔
بس خاتمہ ہی علاج ہے۔
ایک انچ آگے، چند منٹ کی پرواز، ایک دھماکہ اور بس۔۔ ۔۔ ۔ نجات‘‘ ۔
اس کے اندر سے آواز آئی۔
’’زندگی کو ایک موقع دے کر دیکھو۔ آخری موقع۔ بس آخری موقعہ‘‘ ۔
ایک اور سرگوشی اندر ہی کہیں سرسرائی۔
یہ آخری لمحہ تھا آخری فیصلہ کرنے کے لیے،،،،، اور اور اور…اس نے زندگی کو آخری موقعہ دینے کا فیصلہ کیا۔
وہ پلٹنے ہی کو تھا تو کسی نے اسے آہستگی سے دھکیلا۔
ایک مہیب لمبی چیخ اس کے حلق سے نکلی اور وسیع و عریض پہاڑی سلسلہ میں گونج گئی۔
اس نے آخری بار مڑ کر پیچھے دیکھا تو اس کے خوف میں حیرت بھی شامل ہو گئی۔
٭٭٭
آسانیاں
نیلی، ہلکی پیلی اور گاڑھی سبز گولیاں نگل کر اس نے ناشتہ مکمل کیا۔ بٹن دبا کر لباس بدلا اور کونے میں لگی بائیو ریڈیو کنورٹر میں گھُس کر دفتر کی فریکوینسی کا بٹن دبایا تو فوراً ٹرانسمٹ ہو کر دفتر میں وصول ہو گیا۔
وہی سیکریٹری جو روز اسے دنیا کی حسین ترین عورت لگتی تھی آج قطعی نہ بھائی۔
اُسے حیرت ہوئی۔
اس نے داہنی جیب سے لفافہ نکالا۔ ایک نارنجی اور آدھی نیلی گولی زبان کے نیچے رکھ لی۔ نارنجی گولی سے متعلقہ ہارمونز میں تحریک ہوئی تو اسے سیکریٹری حسین لگنے لگی۔ آدھی نیلی گولی کے اثر سے متعلقہ غدود پر عمل سے حیرت بھی ٹھکانے پر آ گئی۔
جب سے یہ حقیقت سائنسدانوں نے جان لی تھی کہ خوشی، غم، حسد، بغض، کینہ، بھوک، جنس، غصہ، پیار سب کیمیائی مادوں اور ان سے تحریک پاتے ہارمونز کی مقدار و معیار پر منحصر ہیں اور ان کے عامل مرکبات دریافت کر لئے تھے زندگی بہت بدل گئی تھی۔ مصروفیت اور وقت کی قیمت نے انسانوں کو اس نہج پہ لا کھڑا کیا تھا کہ سب چیزیں کیمیائی کیپسولز، گولیوں اور بڑی شدید صورت میں مِنی انجیکشنز سے فوری کنٹرول کی جاتی تھیں۔ روزمرہ کے جذبات و احساسات و حسیات کو اپنے حسب منشا کنٹرول رکھنے کے لئے مجرب نسخوں سے بنی چھوٹی چھوٹی گولیاں تو ہر کوئی اندرونی جیب میں لئے پھرتا تھا۔
کام شروع کرنے سے پہلے اس نے دراز سے مُنی سی دھاتی بوتل نکال کر داہنے نتھنے میں ہلکا پف مارا تو دماغی چُستی میں سینکڑوں گنا اضافہ ہو گیا۔
باس کی ریڈیائی لہر بلاوا لے کر پہنچی تو احساس ہوا کہ باس کے جذباتی ہارمونز غیر معتدل ہیں۔
اس نے بلا تردد داہنی جیب ٹٹولی۔۔ ۔
٭٭٭
آخری رات
وہ ہزار بار مجھے یقین دلا چکا تھا کہ بھوت پریت، چھلاوے، پچھل پائیاں، چڑیلیں بد روحیں ایک حقیقت ہیں۔ مجھے کبھی بھی یقین نہ آیا۔
جب بھی خوفزدہ کرنے کے لئے وہ کوئی کہانی سناتا میں ذرا سی تحقیق سے سارے اسرار کا پردہ چاک کر کے رکھ دیتا۔
سادہ حقیقت منہ چڑاتی سامنے آ کھڑی ہوتی۔
اس رات وہ شرط بد کر، رات کے پچھلے پہر ویران حویلی کے اس کھنڈر میں لے گیا جہاں اس کے خیال میں ایک مظلوم مقتولہ کی روح، انتقام کو ترستی، منڈلایا کرتی تھی۔
ہم دبے پاؤں کھنڈر میں داخل ہوئے اور اس کے تجویز کردہ نشیب میں دبک کر بیٹھ گئے۔
صدیاں گزر گئیں۔ نہ کوئی حرکت نہ آواز۔ خاموشی ایسی گہری کہ اپنے سانسوں کی آواز تک سُنائی دے۔
اور پھر برسوں بعد، اس پراسرار چاندنی میں ایک سایہ لہرایا۔ ایک غیر مرئی ہاتھ نے مجھے نرمی سے گرفت میں لیا اور اپنی طرف کھینچا۔ میں ہلکا ہو کراس کے ساتھ اٹھتا چلا گیا، اٹھتا چلا گیا۔۔ ۔
بہت دیر بعد۔۔ ۔۔ بہت بلندی پر پہنچ کر میں نے نیچے جھانکا۔
بہت دور نیچے چاندنی میں نہائے اس ویران کھنڈر میں زرد رو، لرزتا ہوا، سخت خوفزدہ اور مبہوت مَیں، منہ اٹھائے آسمان تک رہا تھا،
جہاں مَیں غائب ہوتا جا رہا تھا۔۔ ۔۔
اور پھر مَیں کبھی لوٹ کر نہ آیا۔
٭٭٭
طوفان
اس نے افسانہ لکھ کر مکمل کیا اور پھونک مار کر بکھیر دیا۔
محاورے منڈیر پر جا بیٹھے، تشبیہات صحن والے درخت پر چڑھ گئیں، استعاروں نے سیڑھیوں پر ڈیرہ جمایا اور علامتیں کپڑے سکھانے والی اُلنگھنی پر الٹی لٹک گئیں۔
سادہ لفظوں کو ڈھنگ کی جگہ نہ ملی تو فرش پر اوندھے لیٹ گئے۔ ایسے میں اضافتوں نے رونا شروع کر دیا کہ ہم کدھر جائیں۔
مبصر رونا نہ سن سکے اور اکٹھے ہونا شروع ہو گئے۔ کچھ نرم دل خواتین تبصرہ نگاروں نے اضافتوں کو چمکارا۔ سر پر ہاتھ پھیرا اور آنسو پونچھ کر فرش پر سادہ لفظوں کے سنگ لٹا دیا۔
مرد مبصرین نے چاروں طرف دیکھا۔ سونگھا اور اپنی اپنی پسندیدہ چیزیں چننے لگے۔ کسی کو جیب میں ڈالا، کسی کا منہ سرچوما، کسی کو دھول جمائی اور قہقہے لگانے لگے۔
یہ ہاہاکار اور دھما چوکڑی کوئی گھنٹہ بھر جما کی۔
رونے والے رو بسور کر چپ ہو گئے۔ ہنسنے والوں کی ہنسی رک گئی۔ دھول دھپا تمام ہوا۔ ماحول پر اک پژمردگی اور تھکی تھکی سی اداسی چھا گئی۔
افسانہ نگار، جو رات بھر جاگ کر لکھتا رہا تھا اونگھنے لگا۔
اتنے میں مہیب گڑگڑاہٹ، تیز آندھی کی چنگھاڑ یں، درختوں کے بڑے بڑے ٹہنے ٹوٹنے کی کڑکڑاہٹ، گدھوں کے رینکنے، گھوڑوں کے ہنہنانے، اُونٹوں کے بلبلانے، شیروں کے دہاڑنے اور انسانوں کے چیخنے چلانے کی آوازیں آنا شروع ہوئیں۔
کمرے کے کواڑ زور زور سے جھولنے، بند ہونے اور کھلنے لگے۔ ہر طرف ہیبت چھا گئی۔ بجلی کے کڑکنے سے ایک پل چکا چوند ہوتی تو دوسرے پل گھپ اندھیرا چھا جاتا۔
سب دبک کر بیٹھ گئے۔ افسانہ نگار نے آنکھیں حیرت اور خوف سے پوری طرح کھول دیں اور اندھیرے میں دیکھنے کی کوشش کرنے لگا۔ کچھ سجھائی دیا نہ دکھائی دیا۔
اس چیخم دھاڑ میں اچانک بوڑھی ضرب المثل ٹاٹ کی گیلی نچڑ تی بوری اوڑھے دھڑ سے کمرے میں داخل ہوئی اور چیخ کر کہا، ’’نقاد آئے ہیں‘‘ ۔
سب نے طوفان سے بے پرواہ ہو کر دوڑ لگائی اور باہر اندھیرے میں نکل بھاگے۔
افسانہ نگار نے بے چارگی سے دائیں بائیں دیکھا لیکن بھاگنے کا واحد راستہ، اکلوتا دروازہ بند ہو چکا تھا۔
میری معیت میں ایک ہجوم ڈنڈے سوٹے، کُند چھریوں اور زنگ آلود کلہاڑیوں سے لیس اس تک پہنچا ہی چاہتا تھا۔
افسانہ نگار نے دائیں بائیں بے چارگی اور بے بسی سے دیکھا، پھر ہمارے بے رحم، مغرور چہروں کی طرف رحم طلب نگاہ دوڑائی اور بے بسی سے گردن جھکا کر آنکھیں بند کر لیں۔
٭٭٭
رومان
چاندنی آج پھر چاند سے مفرور جیون آکاش پر بکھری اپنا سکون کشید کرنے کے درپے تھی۔
میں نے اندھیروں سے مہلت مانگ کر کہکشاؤں کی شاہراہ پر پھسلتے چاند نگر کی اس کٹیا میں پریم گھونسلا آباد کیا جو پریت گڑھ سے سانس بھر دوری پر تھا۔
چاندنی کی ٹھنڈک اور سحر میری رگ رگ میں اترتے جا رہے تھے۔ میری آنکھوں کے رستے، میری سانسوں کے ساتھ، میری جلد کے پور پور میں سرایت کرتے۔
یہ واردات میرے جسم تک محدود نہیں تھی۔ مسحور کن روشنی میری روح کے اندر تک گھستی جا رہی تھی۔
خوشبو دار روشنی سنی ہے کبھی؟
دیکھی ہے کبھی؟
محسوس کی ہے کبھی؟
ان شبنمی راتوں میں، میں نے چاندنی کی خوشبو سونگھی
اور
بادل کے آوارہ ٹکڑے چار سو …ناچا کئے۔
یہ رقص بسمل بے مقصد نہ تھا۔ چاند بادلوں میں ڈبکی لگاتا، چھپ کر نکلتا تو دھُلا دھلایا اور نکھرا نکھرا ہوتا۔
یہ ادا بادلوں کو بے قابو اور مست کر دیتی۔
وہ جھنجھلاتے، سر پٹکتے، گھمن گھیریاں کھاتے چاند کے گرد کبھی ہالہ بنتے اور کبھی چک پھیریاں کھا کر لوٹ پوٹ ہو جاتے۔
بادلوں کا چاند سے ربط حسد اور رشک کے بیچ کا تھا۔
چاندنی کبھی شرماتی لجاتی تو کبھی چمک چمک جاتی۔ آکاش کے وسیع نیلگوں کینوس کی نیلاہٹ سیاہ پوش تھی۔ چاند نگر آکاش کے ماتھے کا جھومر تھا۔ پریت گڑھ کے قرب نے فضا مشکبار کر رکھی تھی۔
ابابیلیں طواف کو نکلتیں تو چکور تکتا رہ جاتا۔ چاندنی کی سحر طرازی چہار سو مؤثر تھی۔
دور کہیں ایک روزن وا تھا جس سے لگی دو نظر باز آنکھیں عجب بے نیازی سے سارے منظر کا احاطہ کئے تھیں۔
تماشہ جاری تھا، وارفتگی چھائی تھی۔ بے خودی کا رقص کمال جوبن پر، خوشبو پھیلی ہوئی اور چاند مست تھا، ٹھنڈی چاندنی مسحور، بادلوں کی ولولہ خیز سرمستیاں عروج پر اور کسی کی نظر بازیاں مستقل۔
’’زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا۔‘‘
٭٭٭
گھر
اس گھُپ اندھیری رات میں ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا تھا اور خاموشی مکمل راج کرتی تھی۔ قبرستان میں احتیاط سے چلائی کدال بھی دبا دبا سا شور ہی تھی۔
وہ قبر کو مطلوبہ گہرائی تک کھودچکا تو اُس نے دکھتی کمر سیدھی کی۔
گیلی مٹی سے لتھڑی کدال سمیت قبر سے اچھل کر باہر نکلا تواس کی مقتول بیوی کی سرد اکڑی لاش میں حرکت ہُوئی۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔
گھر چلیں!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
ایک تیز سیٹی بجاتی آواز سناٹا چیر گئی۔
٭٭٭
تعلق
ہمارا آپس کا تعلق افسانہ سے زیادہ گہرا ہے۔ ہماری واقفیت چند ہی ماہ پہلے ایک ادبی فورم پر ہوئی تھی۔ ہر طرف بزعم خویش ادب کے سقراط بقراط ہڑبونگ مچائے کھڑے تھے۔ رنگا رنگ لفاظی سے نئے لکھنے والوں کو ڈرایا، دھمکایا، سہمایا جا رہا تھا۔ پُرانے اسلوب کو جہنم میں جھونک کر نئی اقسام دریافت کی جا رہی تھیں۔ چاروں طرف ادبی جنگیں چھڑی تھیں۔ بدتمیزی، بد تہذیبی اور کج بحثی سے کان پڑی آواز سُنائی نہیں دیتی تھی۔ عدالتوں اور نالشوں کی دھمکیوں سے فضا دھواں دھار تھی۔ نظمیں اور غزلیں منظر سے بالکل غائب تھیں اور تنقید کی ہاہا کار مچی تھی۔
منظر سے کئی ہفتے غائب رہنے کے بعد وُہ مجھے ایک اِن باکس میں سسکتی ملی تو میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
میں نے اُسے چمکارا، تسلی دی، سر پر ہاتھ پھیرا اور اس کے کان میں تشفی آمیز سرگوشی کی،
’’ہمارا آپس کا تعلق افسانہ سے زیادہ گہرا ہے‘‘
٭٭٭
تشکر: عامر صدیقی جنھوں نے فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید