فٹ پاتھ پہ بازار مصر کا گماں تھا۔ کپڑوں سے جھلکتے عریاں بدن ۔
سینے کو ہلاتی، کولہوں کو مٹکاتی وہ حوا کی بیٹیاں اپنی اداؤں سے گاہکوں کو ترغیب دے رہی تھیں۔
جنس کے بازار میں بولیاں لگ رہی تھیں۔ کیا حشر برپا تھا۔ یہاں رنگ و نسل کی تمیز نہیں تھی بس ہوس ہر شے پہ حاوی تھی۔
سڑک کے دونوں طرف ٹیکسیوں کی لمبی قطاریں تھیں۔ سروس لین میں گاڑیاں رینگ رہی تھیں۔ گاڑیوں کے شیشوں سے سر نکالے کچھ لوگ حریص نظروں سے ان عورتوں کو دیکھ رہے تھے۔ ریٹ طے ہو جاتا تو وہ اسے اپنے ساتھ بٹھا لیتے تھے۔ رات کے دس بجے شہر کی ان سڑکوں پہ رات جوان تھی۔
یہ اس شہر کا ریڈ لائٹ علاقہ نہیں بلکہ مشہور کاروباری مرکز ہے جہاں دن کی روشنی میں لاکھوں کڑوڑوں کا کاروبار ہوتا ہے۔ سڑک پہ ٹریفک جام اور سب وے اسٹیشن پہ لوگوں کا ہجوم ہوتا ہے۔ مگر رات کو اس سڑک پہ بنے چند مشہور کلبوں میں زندگی کی ایک اور جھلک دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس مصنوعی دنیا میں برہنہ جسموں کی نمائش ہوتی ہے۔ عورتوں کی عصمت کا سودا ہوتا ہے۔ کلب رات دو بجے بند ہو جاتے ہیں اور جو کلب میں کسی کے ساتھ ہک نہیں کر پاتی ہیں وہ سڑک پہ جمع ہو جاتی ہیں اور پھر کم قیمت پہ رات گزارنے کے لئے تیار ہو جاتی ہیں۔ خالد بن ولید روڈ پہ بنے ان کلبوں کے باہر اس وقت بھی روشنیاں جھلملا رہی تھیں۔ نشے میں ڈولتے، ہوس میں ڈوبے لوگوں کی بھیڑ جمع تھی۔ سروس لین بھی اسی رش سے پر تھی۔ بہت سی افریقی، ایشیائی اور عرب لڑکیاں اپنی قسمت آزمانے یہاں کھڑی تھیں۔
یہاں سب گاہک نہیں تھے چند مفت خور ایسے موقعوں کا مزا لینے بھی وہاں سے گزرتے ہوئے اپنی گاڑیوں کی رفتار آہستہ کر لیتے تھے۔ ویسے تو یہ سب خلاف قانون ہے مگر پولیس اس وقت یہاں کم ہی پائی جاتی ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں پروفیشنل ہو کرز کی تعداد بہت کم ہے۔ بلکہ یہ زیادہ تر وہ لڑکیاں ہیں جو دن میں چھوٹی موٹی نوکریاں کرتی ہیں اور رات میں یا ویک اینڈ پہ اچھے ٹائم پاس کی غرض سے اور کچھ اضافی پیسے کمانے کی لالچ میں یہاں موجود ہوتی ہیں۔ دبئی سنگل کمیونٹی کے لئے مشہور بھی ہے اور بدنام بھی۔ اپنی معمولی سی تنخواہ سے اپنے خواب پورے کرنا تو دور کی بات وہ اس ہائی لائف دبئی کو چھونے کا سوچ بھی نہیں سکتیں جو اس شہر کی سب سے بڑی کشش ہے۔ ایسے میں اگر کلب میں لڑکیوں کی فری اینٹری اور فری ڈرنک کی آفر سے فائدہ اٹھایا جائے تو کیا برا ہے۔
اسے اس شہر میں رہتے دو سال ہو چکے تھے اور اس ہوٹل کو وہ دن میں دو بار دیکھتی تھی۔ یہ پہلی بار تھا کہ وہ اس عالیشان عمارت کو اندر سے دیکھ رہی تھی۔ اس کی بلڈنگ باہر سے بھی قابل ستائش ہے لیکن اسے اندازہ نہیں تھا یہ اندر سے اتنا عالیشان ہو گا۔ بلاشبہ یہ آرکیٹچر کا نادر نمونہ تھا۔ وہ عمارت جتنی شاندار باہر سے نظر آتی تھی اس کا انٹیرئیر اس سے زیادہ مبہوت کر دینے والا تھا۔ لابی میں اس وقت کافی لوگ تھے جو اسے سرسری نگاہ سے دیکھ کر آگے چلے گئے۔ کلب میں داخل ہوتے وقت اس کا دل پتے کی طرح کانپ رہا تھا اگر اس وقت وہ مجبور نہ ہوتی تو کبھی اس جگہ قدم نہ دھرتی۔ قیمتی ٹائل فلور پہ دھیمے قدموں سے چلتی وہ اس ہوٹل سے ملحقہ کلب میں داخل ہو گئی تھی۔ اندر کا ماحول اس کی سوچ سے زیادہLoud تھا۔
اس کی نظریں لوگوں کے ہجوم میں سحرش کا تعاقب کر رہی تھیں اور پھر وہ اسے ڈانس فلور پہ نظر آ گئی تھی۔ اسے دیکھ کر وہ تیزی سے اس کی جانب بڑھی تھی۔ گھٹنے سے اونچا رائل بلیو سلیولیس لباس اور چہرے پہ انتہائی ڈارک میک اپ لگائے سحرش پھولے ہوئے سانس کے ساتھ اس کی طرف آئی تھی۔
یہ کیا حلیہ بنا رکھا ہے۔ اب اگر کلب آ ہی رہی تھی تو کچھ حالت بھی سنوار لیتی۔ اسے لے کر کلب سے باہر جاتے ہوئے سحرش نے تمسخر سے کہا۔
سیاہ ٹاپ اور بلیک جینز میں سر پر اسکارف اوڑھے وہ اس ماحول میں پوری طرح مس فٹ تھی۔
کیا خرابی ہے میرے حلیے میں سحرش؟ وہ اس کے مذاق اڑانے پہ کچھ شرمندہ ہو کر بولی تھی۔
سحرش اس کی کسی بھی بات کا جواب دئیے بغیر تیز قدم اٹھاتی چلتی جا رہی تھی۔
اس کا رخ ریسٹ رومز کی طرف تھا۔
اب چونکہ کچھ وقت تمھیں یہاں میرے ساتھ گزارنا ہے تو پلیز یہ اسکارف اتار دو۔ اس کے سر سے اسکارف کھینچ کر اتارتے ہوئے اس نے کلپ میں جکڑے اس کے لمبے سیاہ بالوں کو کھول دیا تھا۔ اپنے پرس سے ایک لپ اسٹک نکال کر اس نے زبردستی اس گہری سرخ لپ اسٹک سے اس کے ہونٹوں کو رنگ دیا تھا۔
میں نہیں کرتی میک اپ اور پلیز میرا اسکارف واپس کرو مجھے الجھن ہو رہی ہے۔ اس کی حرکتوں پہ اپ سیٹ ہوتی وہ اپنے بال باندھنے لگی تھی۔
دیکھو اگر تمھیں میرے ساتھ یہاں کچھ وقت رہنا ہے تو اپنا حلیہ میرے مطابق کرنا ہو گا، اب تمھاری بدولت میں اپنے فرینڈز کے سامنے شرمندہ نہیں ہو سکتی۔ اس کے دو ٹوک لہجے پہ لب کاٹتے اس نے بالوں کو کھلا چھوڑ دیا۔
جمی کب تک آئے گا؟ وہ واپس کلب کی طرف جاتے ہوئے اس سے پوچھ رہی تھی۔
بس آتا ہی ہو گا، ابھی اتنا وقت نہیں ہوا۔ سحرش نے لاپرواہی سے کہا
کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد وہ اسے ایک بار اسٹول پہ بیٹھنے کا کہہ کر دوبارہ ڈانس فلور پہ چلی گئی تھی۔
بے دلی سے وہ کلب میں بیٹھی ہوئی تھی جہاں رات کے اس پہر میلے کا سماں تھا۔ تیز آواز میں کانوں کو چیرتا میوزک اور لوگوں کا ہجوم۔ اسے وہاں بہت گھٹن ہو رہی تھی۔ یہاں لیڈیز کی نہ صرف انٹری فری تھی بلکہ اندر انہیں ڈرنک بھی مفت سرو کیا جاتا تھا اور مردوں کو کافی مہنگی ادائیگی کرنا پڑتی تھی اس کی وجہ خالصتاً کاروباری تھی۔ لڑکیوں کے چکر میں زیادہ سے زیادہ مرد وہاں آتے تھے۔ مچھلی پکڑنے کے لئے جیسےbait (چارہ) کا استعمال کیا جاتا ہے ایسے ہی ان کلبوں میں عورت کا استعمال کیا جاتا ہے۔ وہ سہمی ہوئی الگ تھلگ سی بیٹھی تھی جب ویٹر اس کے پاس ڈرنک لے کر آئی لیکن اس نے انکار کر دیا تھا وہ کندھے اچکا کر حیرت سے وہاں سے چلی گئی تھی۔ وہاں اکثر لڑکیاں اپنے بوائے فرینڈز کے ساتھ تھیں۔ جو سنگل تھیں وہ اپنا پارٹنر تلاش کرنے میں مصروف تھیں۔ اس نے بہت سے مردوں کو دوسری عورتوں کو ڈانس کی پیشکش کرتے دیکھا وہ خاموشی سے اس انجان ماحول میں بیٹھی تھی۔ اسے یہ سب دیکھ کر وحشت ہو رہی تھی وہ وہاں ان فٹ تھی۔ اس شور و غوغا سے اس کے اعصاب پہ دباؤ بڑھتا جا رہا تھا۔ بارہ بجے کے بعد میوزک کا موڈ Mode بدل جاتا ہے۔
اب نان اسٹاپ میوزک شروع ہو چکا تھا۔ میوزک کا ٹیمپو بدلا تو لوگوں کا جوش و خروش بھی عروج پہ تھا۔ ڈانس فلور پہ اس وقت طوفان بدتمیزی برپا تھا۔ نشے میں مد ہوش بے ہنگم ناچتے لوگوں سے اسے وحشت ہو رہی تھی۔ میوزک کے شور سے اس کا دماغ پھٹ رہا تھا۔ بہت دیر تک صبر سے وہ اس بے ہنگم اور بیہودہ شور کو برداشت کرتی رہی لیکن جب اس کا ضبط ختم ہو گیا تو وہ وہاں سے اٹھ کر ایک بار پھر سحرش کے پاس چلی گئی تھی۔
میں اگر مزید کچھ دیر یہاں بیٹھی تو پاگل ہو جاؤں گی۔ اس نے چلاتے ہوئے سحرش سے کہا۔
میں چیک کرتی ہوں جمی اب تک کیوں نہیں آیا تم ایسا کرو اوپر روم میں چل کر بیٹھو تب تک میں جمی کا پتا کرتی ہوں۔ کلب سے نکل کر سحرش اسے ہوٹل روم کی طرف لے آئی تھی۔ ایک کمرے کے سامنے رک کر اس نے کارڈ سے دروازہ کھولا اور اندر داخل ہو گئی۔ کمرے میں اندھیرا تھا۔ کارڈ کو اس نے دیوار پہ لگے سوئچ میں پھنسایا تو کمرہ روشن ہو گیا۔
تم یہاں آرام سے بیٹھو میں ابھی آتی ہوں۔ سحرش اسے اس کمرے میں بٹھا کر واپس جا رہی تھی۔
یہ کس کا کمرہ ہے سحرش؟ وہ پوچھے بغیر نہیں رہ پائی تھی۔
میری فرینڈ کا کمرہ ہے، آج ہی بنکاک سے آئی ہے چند دن گھومنے پھرنے، پچھلی بار آئی تھی تو ہماری اچھی دوستی ہو گئی تھی۔ وہ خود اس وقت نیچے کلب میں ہے تم بے فکر ہو کر یہاں بیٹھو میں جمی کا پتا کرتی ہوں۔ اسے مطمئن کرنے کے بعد سحرش اپنے فون پہ کوئی نمبر ملاتی کمرے سے نکل گئی تھی۔
وہ خاموشی سے صوفے پہ بیٹھ گئی۔ ڈرتے ڈرتے اس نے ایک اچٹتی نگاہ کمرے پر ڈالی۔ یہ کمرہ نہیں ایک سوئیٹ تھا۔ جہازی سائز بیش قیمت بیڈ اور میچنگ کاؤچ، قیمتی لیمپ سے چھلکتی دودھیا لائٹ، وہاں منی بار بھی تھا۔
اچانک لاک کھلنے کی آواز پہ اس نے گردن گھما کر دروازے کی طرف دیکھا۔ اسی لمحے کوئی دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تھا۔ وہ بہت ہنڈسم اور خوش شکل تھا۔
اس کی عمر تیس اکتیس سال کے قریب تھی۔ گندمی رنگت اور پرکشش ذہین آنکھیں اس کی شخصیت کو اور بھی متاثر کن بنا رہی تھیں۔ اس کی شخصیت اتنی پرکشش تھی کہ اسے دیکھ کر کوئی بھی عشق میں گرفتار ہو سکتا تھا لیکن وہ اسے دیکھ کر بری طرح ڈر گئی تھی۔
٭٭٭
ہوٹل لابی سے پارکنگ ہال تک آتے شاید صدیاں بیت گئی تھیں۔ قدم بوجھل تھے یا وقت تھم گیا تھا یہ راز وہ جان نہیں پایا تھا۔
آج کا پورا دن خوشگوار گزرا تھا اسلئے وہ بہترین موڈ میں تھا۔ صبح گیارہ بجے وہ لاہور آیا تھا اور پھر اس نے اپنی زندگی کی بیسٹ شاپنگ کی تھی اور آج ہی اس نے اپنے بزنس کی سب سے بڑی ڈیل سائن کی تھی۔
سردیوں کی پہلی بارش کے بعد اس کا موڈ اور بھی اچھا ہو گیا تھا۔ ویسے بھی کچھ عرصے سے موسموں کا تغیر اس کے دل پہ اثر انداز ہونے لگا تھا۔ اپنے امریکی دوست کو ساتھ لے کر وہ اس مقامی فائیو سٹار ہوٹل میں آیا تھا اور اب وہ دونوں ڈنر کے بعد بہت ہی اچھے موڈ میں ہوٹل سے باہر نکل رہے تھے کہ سامنے کے منظر نے اس کے تن بدن میں آگ لگا دی تھی۔
نہیں یہ نہیں ہو سکتا۔ اس نے خود کلامی کی۔
Pardon-جانسن اس کی بات نہیں سمجھا تھا۔
اس نے چونک کر اپنے ساتھ کھڑے سفید فام کو دیکھا۔
مجھے لگتا ہے تمھاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے وقار۔ اس کی اڑی ہوئی رنگت دیکھ کر کوئی بھی سمجھ سکتا تھا کہ وہ اس وقت اپ سیٹ ہے۔
I think so…
میں تم سے کل صبح ملوں گا۔ رچرڈ جانسن کا قیام اسی ہوٹل میں تھا اسلئے اسے لابی سے رخصت کر کے وہ اب اپنی پارکنگ کی طرف جا رہا تھا جہاں اس کا ڈرائیور انتظار کر رہا تھا۔
اس کی آنکھوں کے سامنے وہ منظر ایک بار پھر ابھر آیا تھا۔ ڈنر ٹائم کی وجہ سے ہوٹل میں معمول کا رش تھا۔ وہ اوپر والی منزل پہ بنے ریسٹورنٹ سے نکلا تھا اسلئے شاید وہ اسے پہلے نہیں دیکھ پایا تھا۔ یا پھر وہ ابھی کچھ دیر پہلے وہاں آئی تھی۔ اس کی تیاری ہمیشہ متاثر کن ہوتی تھی لیکن وہ آج غیر معمولی حسین لگ رہی تھی۔ یوں تو اس پہ ہر رنگ جچتا تھا لیکن اس سفید لباس میں وہ کسی دیومالائی داستان کا حصہ لگ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں دمکتے جگنو دیکھ کر اسے اپنا دل ہاتھوں سے پھسلتا معلوم ہوتا تھا۔ وہ جب بھی اس سے ملتا اس کے چہرے سے نظریں نہیں ہٹا پاتا تھا اور شاید آج بھی اس کے سامنے بیٹھا اعظم مسعود اس سے آنکھیں نہیں ہٹا پا رہا تھا۔ اس کا نازک ہاتھ تھامے وہ اسے ایک انگوٹھی پہنا رہا تھا اور وہ جانتا تھا اس میں جڑے پتھر ہیرے ہیں۔ ایسی ہی ایک ہیروں جڑی انگوٹھی وقار نے بھی اس کے لئے خریدی تھی۔ بے اختیار اس کا ہاتھ اپنے سیاہ ڈنر سوٹ کی دائیں جیب میں گیا تھا جس میں اس وقت بھی وہ مخمل کی ڈبیا رکھی تھی۔
تمھیں ایک خوشی کی خبر سنانی تھی بیٹا۔ صابرہ بہت خوش لگ رہی تھیں۔
جلدی بتائیں امی مجھ سے انتظار نہیں ہو رہا ہے۔
آئمہ کا نام ایم بی اے کی میرٹ لسٹ میں آ گیا ہے۔
سچ امی؟ وہ بے اختیار چیخی تو اس کی روم میٹ نے اسے غور سے دیکھا تھا۔ اسے معذرت خواہانہ نظروں سے دیکھتی وہ کمرے سے باہر نکل گئی تھی۔
اگلے ہفتے داخلہ فیس جمع کروانی ہے۔ تم تو جانتی ہو نہ روشنی تمھاری بہن کو اس یونیورسٹی میں داخلے کی کتنی خواہش تھی۔ اپنا نام میرٹ لسٹ میں دیکھ کر تو اس کے پاؤں زمین پہ نہیں ٹک رہے ہیں۔
ہاں امی اس نے محنت بھی تو بہت کی تھی اور پھر اسے پڑھائی کا شوق بھی ہے، آپ بس جلدی سے اس کا داخلہ یونیورسٹی میں کروا دیں۔ وہ آئمہ کی کامیابی پہ بہت خوش تھی۔
اس کے ابو کی کتنی بڑی خواہش تھی کہ ان کی دونوں بیٹیاں اعلیٰ تعلیم حاصل کریں لیکن ان کی طویل بیماری اور پھر وفات کے بعد گھر کا سارا بوجھ کم عمری میں ہی اس کے کندھوں پہ آ گیا تھا۔ صابرہ خود محض آٹھویں پاس تھیں اور زندگی میں برا وقت آنے پہ وہ اپنی بیٹیوں کے لئے کچھ نہیں کر پائی تھیں۔ وہ خود کو بہت بے بس محسوس کرتی تھیں۔ ان کے خاوند ایک معمولی تنخواہ دار ملازم تھے۔ ان کی وفات کے وقت روشنی ایف اے کر رہی تھی۔ وہ تعلیم میں بہت اچھی نہیں تھی لیکن آگے
پڑھنے کی خواہش رکھتی تھی۔ گھر کے حالات کی وجہ سے وہ بی اے میں داخلہ نہیں لے سکی تھی کیونکہ اسے اپنی چھوٹی بہن اور بیوہ ماں کی ذمہ داری سنبھالنی تھی۔ اس کے والد کے ایک پرانے دوست کی وجہ سے اسے ایک پرائیوٹ کمپنی میں ٹیلیفون آپریٹر کی ملازمت مل گئی تھی۔ اگر انوار انکل کا حوالہ نہ ہوتا تو اسے یہ نوکری کبھی نہ مل پاتی کیونکہ اس معمولی سی جاب کے لئے بھی اس سے زیادہ تعلیمی قابلیت رکھنے والے امیدواروں کی لمبی لائن تھی۔ دو سال بعد اس کی تنخواہ آٹھ سے دس ہزار ہو گئی تھی جو ان کی زندگی میں کوئی بڑا بدلاؤ نہیں لائی تھی مگر وہ مطمئن تھی کیونکہ اس کے گھر والے عزت کی زندگی گزار رہے تھے اور انہیں اپنے نام نہاد رشتے داروں کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلانا پڑتا تھا۔ روکھی سوکھی کھا کر اور موٹا جھوٹا پہن کر بھی وہ اپنے رب کا شکر ادا کرتی تھی۔ وہ جو کیڑے کو پتھر میں رزق دیتا تھا اس پروردگار نے اس دنیا میں ان کے لئے رزق حلال اتارا تھا وہ اپنے رب کا جتنا بھی شکر ادا کرتی کم تھا۔ آئمہ انٹر کر چکی تھی جب روشنی کو کسی نے دبئی میں کنٹریکٹ پہ ہونے والی بھرتیوں کا بتایا۔ اس کمپنی کو ایک بہت بڑے گروپ کے دبئی میں واقع سپر اسٹوروں کے لئے سیلز گرل اور سیلز بوائے چاہئیے تھے۔ اسی طرز کے اسٹور اس کمپنی نے پاکستان میں بھی بنائے تھے۔ روشنی کو اس ملازمت میں دلچسپی محسوس ہوئی تھی۔ پچھلے دو سال میں اس کی شخصیت میں بہت اعتماد آ چکا تھا۔ مہینے کے دس ہزار روپے کوئی اتنی بڑی رقم نہیں تھیجس پہ تین لوگ اپنی تمام عمر کی پلاننگ کر لیتے اور پھر وہ نہیں چاہتی تھی کہ آئمہ اس کی طرح اپنی پڑھائی مکمل نہ کر پائے۔ اس نے اس ملازمت سے متعلق تمام ضروری معلومات حاصل کر لیں تھیں۔ ماہانہ تنخواہ کے ساتھ رہائش اور ٹرانسپورٹ بھی شامل تھی اور یہ ایک پرکشش پیکج تھا۔ یہ اس کی خوش قسمتی تھی کہ اسے یہ ملازمت مل گئی تھی۔ دو سال کے کنٹریکٹ پہ دو ہزار درہم ماہانہ تنخواہ اس کی زندگی کے کتنے مسائل حل کر سکتی تھی۔ ویزہ، میڈیکل اور ٹریننگ کے ساتھ اگر وہ چاہتی تو یہ دو سال کا کنٹریکٹ renew ہو سکتا تھا۔
صابرہ نے اسے منع کیا تھا وہ اسے پردیس نہیں بھیجنا چاہتی تھیں لیکن اس نے انہیں سمجھایا کہ دبئی کچھ معاملات میں لاہور سے زیادہ محفوظ شہر ہے۔
تم وہاں اکیلی کیسے رہو گی؟
میں اکیلی تھوڑی ہوں گی امی، میرے ساتھ اور بھی بہت سی لڑکیاں ہوں گی۔
لیکن روشنی
آپ کو مجھ پر اعتبار کرنا ہو گا امی۔ اور بادل نخواستہ صابرہ نے اسے دبئی جانے کی اجازت دے دی تھی۔
وہ دبئی آ گئی تھی۔ دو سال سے وہ ان کے لئے مشقت کر رہی تھی۔ آئمہ کینیرڈ کالج سے بی اے کر چکی تھی اور اب ایم بی کرنے لگی تھی۔ بلاشبہ وہ ایک برائٹ اسٹوڈنٹ تھی۔ اس کے ہاتھ سے لگا ننھا سا پودا ایک مضبوط درخت بننے والا تھا۔ کچھ عرصے میں وہ پھل دینے لگے گا۔ بس دو سال اور پھر آئمہ کا ایم بی اے ہو جائے گا تو وہ پاکستان واپس چلی جائے گی۔ آئمہ کو تو پاکستان میں بھی بہت اچھی نوکری مل سکتی تھی اور ان دوسالوں میں اس کی امی نے بھی خوب بچت کر لی ہو گی۔ وہ تو دس ہزار میں بھی گھر بہت اچھے سے چلایا کرتی تھیں۔ اس وقت وہ تین لوگ تھے اور اب تو وہ ہر ماہ انہیں چالیس ہزار بھیجتی تھی۔ صابرہ سے باتیں کرتے وہ آنے والے اچھے وقت کے خواب دیکھنے لگی تھی۔
روشنی، آئمہ کے داخلہ کے لئے پچاس ہزار روپے بھیج دو بیٹا۔ صابرہ کی آواز سن کر وہ اپنے خواب سے باہر آئی تھی۔
یہ کیا کہہ رہی ہیں امی آپ؟ اسے لگا اس نے کچھ غلط سنا ہے۔
کیا ہو گیا ہے روشنی ابھی بتایا تو ہے تمھیں آئمہ کی داخلہ فیس اگلے ہفتے جمع کروانی ہیں، پھر اگلی فیس وہ کہہ رہی تھی چھ ماہ بعد جائے گی۔ صابرہ نے تفصیلاً بتایا۔
امی میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں۔ میں تو اپنی تنخواہ کا بڑا حصہ آپ کو بھیج دیتی ہوں۔ میرے پاس جتنے پیسے ہوتے ہیں ان میں پورا مہینہ کس مصیبت سے گزرتا ہے وہ میں جانتی ہوں۔
تمھارا وہاں خرچہ ہی کتنا ہوتا ہے روشنی؟ رہائش، ٹرانسپورٹ سب تو مفت میں ملتا ہے تمھیں۔ صابرہ نے منہ بنایا۔
دبئی بہت مہنگا شہر ہے امی، پانی بھی پیسوں سے خرید کے پینا پرتا ہے۔ وہ دھیمی آواز میں بولی لیکن اس نے انہیں اس رہائش کا نہیں بتایا جو آٹھ بائے دس فٹ کا ایک کمرہ تھی اور جسے وہ پانچ لڑکیوں کے ساتھ شئیر کرتی تھی۔
تمھیں کیا لگتا ہے روشنی ہم تمھارے بھیجے ہوئے پیسوں سے عیش کر رہے ہیں۔ اس مہنگائی کے دور میں چالیس ہزار کی اوقات ہی کیا ہے۔ گھر کا کرایہ، آئمہ کے اور میرے اخراجات کے بعد اگر کوئی مہمان آ جائے تو ہزار پانچ سو تو ایسے ہی نکل جاتا ہے۔
وہ دس ہزار ماہانہ ملنے پہ دن میں دس بار شکر ادا کرنے والی اپنی ماں کے منہ سے یہ الفاظ سن کر حیران رہ گئی تھی۔
کون مہمان امی؟ اسے مہمانوں کے نام پہ بھی شاک لگا تھا۔
کیا ہم لا وارث ہیں ؟ تمھارے ابا کے اور میرے کتنے رشتے دار ہیں۔ باہر جا کر اپنوں کو بھول گئی ہو۔
امی آپ ان رشتے داروں کی بات کر رہی ہیں جو ابا کی موت کے بعد اسلئے ہمارے گھر نہیں آتے تھے کہ کہیں ہم ان سے کوئی مدد نہ مانگ لیں۔
تم پیسے بھیج رہی ہو یا نہیں ؟ اس فون کا بھی بل آتا ہے جو تمھارے بھیجے چالیس ہزار میں سے ہی ادا کرنا ہوتا ہے۔ صابرہ نے طنز سے کہا۔
امی میرے پاس اس وقت فقط اتنے پیسے ہیں کہ میں مہینے کے باقی دس دن دو ٹائم کھانا کھا سکوں۔ میں نے آج تک اپنی ضرورت کے لئے کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا ہے اور یہاں سب میری طرح محنت مزدوری کر کے تھوڑی سی تنخواہ میں گزارہ کرتے ہیں۔ ایسے میں کسی سے ادھار مانگ کر میں نہ خود شرمندہ ہو سکتی ہوں اور نہ انہیں شرمندہ کر سکتی ہوں۔ پختہ اور دھیمے لہجے میں اس نے بات ختم کی اور کال ڈسکنیکٹ کر دی تھی۔ اپنے بائیں ہاتھ کی ہتھیلی سے اس نے اپنی آنکھوں میں آئے آنسو صاف کئے اور کمرے میں آ گئی۔ اندر اس وقت پانچ غیر ملکی لڑکیاں تھیں جن کے اپنے مسائل تھے۔ وہ ان کے سامنے کیا آنسو بہاتی۔
موبائل فون ہاتھوں میں تھامے وہ پچھلے دو گھنٹے سے گم صم بیٹھی تھی۔ ذہن دو سال پرانی گلیوں میں بھٹک رہا تھا جب وہ پہلی بار دبئی آئی تھی۔ بظاہر بہت خود اعتماد اور نڈر دکھائی دینے والی روشنی نے جب پردیس میں پہلا قدم رکھا تو اس کا دل پتے کی طرح کانپ رہا تھا۔ صابرہ کو دئیے جانے والے سارے دلاسے وہ اس وقت بھول گئی تھی۔ وسوسے اور خوف کا سانپ پھن اٹھائے اسے ڈرا رہا تھا لیکن اس کا اللہ پہ یقین اس سب پہ حاوی ہو گیا تھا۔ اس نے اتنا بڑا قدم اپنی ماں اور بہن کی بہتر زندگی کے لئے اٹھایا تھا۔ ائرپورٹ سے کمپنی کی بس اسے اور چند دوسرے ملازمین کو لے کر ایک گنجان علاقے میں داخل ہوئی تھی۔ اس کے ساتھ زیادہ تعداد مردوں کی تھی اور ان کے حلئے اور گفتگو کے انداز سے اس نے یہی اندازہ لگایا کہ وہ سب مزدور طبقہ تھا۔ سڑک کے دونوں طرف اونچی عالیشان سکائی اسکریپر عمارتیں سر اٹھائے کھڑی تھیں۔ یہ ڈیرہ کا علاقہ تھا۔ بس اب اندرونی سڑک سے ہوتی ہوئی ایک بلڈنگ کے سامنے رک گئی تھی۔ دوسریعمارات کے برعکس یہ ایک پرانی تین منزلہ عمارت تھی۔ اس بلڈنگ کی تیسری منزل پہ واقع ایک چھوٹے سے فلیٹ میں اس کا قیام تھا جس میں ایک بیڈروم اور ایک ہال تھا۔ کچن اور لانڈری کا انتظام بھی تھا۔ کمرے میں جا بجا کھونٹیوں پہ زنانہ کپڑے لٹکے تھے اور بنک بیڈ رکھنے کے بعد یہاں چلنے پھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ اس کے علاوہ اس ایک کمرے میں مزید پانچ لڑکیاں رہتی تھیں اور باہر ہال میں بھی چھ لڑکیوں کا قیام تھا۔ اسے بعد میں پتا چلا کہ اس قسم کی رہائش کو یہاں بیڈ اسپیس کہتے ہیں۔
اسکے کمرے میں ایک انڈین، دو فلپائنی اور دو چینی نژاد لڑکیاں رہتی تھیں۔ اس بلڈنگ اور اس سے ملحقہ بلڈنگوں میں ایسے بہت سے ور کر آباد تھے۔ دبئی بہت بڑی تعداد میں ملٹی کلچر لوگوں کی آماجگاہ ہے یہاں اسے ہر موڑ پہ مختلف قومیتوں اور رنگ و نسل کے لوگوں کا ہجوم نظر آتا تھا۔ اس کے برعکس وہ سب لڑکیاں بہت بولڈ اور پراعتماد تھیں، وہ سب یہاں اس سے پہلے سے رہ رہی تھیں اور ان کے پاس اپنے ملکوں سے زیادہ دبئی کی معلومات تھی۔ شروع شروع میں اسے ان کے ساتھ ایڈجسٹ کرنے میں کچھ پریشانی ہوئی اور ان کے رویوں سے وہ الجھن محسوس کرتی تھی لیکن آہستہ آہستہ اس نے خود کو وہاں کے ماحول میں ایڈجست کر لیا تھا۔ اس نے ان کے طور طریقوں اور بول چال پہ کبھی اختلاف اور ناپسندیدگی کا اظہار نہیں کیا تھا اور یہی ایک واحد طریقہ تھا جو کسی بھی ملٹی کلچر سوسائیٹی میں سیٹل ہونے کی پہلی اور آخری کنجی ہے۔ وہ کام میں بے تحاشہ مصروف ہو گئی تھی۔ ہفتہ میں ایک چھٹی ملتی اور وہ دن اس کا لانڈری اور اگلے ہفتے کی تیاری میں گزر جاتا۔ اسی دن وہ تھوڑا بہت کھانا بھی بنا لیتی تھی۔ اس کی روم میٹس زیادہ تر ٹن فوڈ پہ انحصار کرتی تھیں جو اکثر سی فوڈ ہوتا تھا اور اسے اس کھانے سے گھن آتی تھی۔ انڈین لڑکیاں کیرالا کی تھیں اور انہوں نے میس لگوایا ہوا تھا۔ یہاں آ کر اس نے سب سے پہلے اپنے لئے ایک موبائل فون خریدا تھا۔ پاکستان میں موبائل فون کا استعمال اسٹیٹس ہوتا تھا لیک دبئی میں اسے پتا چلا کہ یہ اس کی ضرورت ہے۔ یہاں معمولی سے معمولی مزدور کے پاس بھی اپنا موبائل فون تھا جو اسے اس کے وطن اور اپنوں سے جوڑے رکھنے کا واحد طریقہ تھا۔ یہ عیاشی نہیں ضرورت تھی اور اس کی یہ ضرورت صرف دو سو درہم میں پوری ہو گئی تھی۔ اگلے چند ماہ اس نے گھر آدھی تنخواہ بھجوائی تھی کیونکہ آدھے پیسوں سے اس کو وہ رقم واپس کرنی تھی جو کنٹریکٹ حاصل کرنے کے لئے اس نے اپنی سہیلی کے والد سے قرض لی تھی۔ یہاں اسے سپر مارکیٹ کے عملے کی طرح سیاہ پینٹ اور سفید شرٹ پہننی تھی، چند لڑکیاں اسکرٹ بھی پہنتی تھیں لیکن وہ تو خود کو پینٹ میں بھی بے آرام محسوس کرتی تھی۔
یہاں آ کر اس نے دنیا کا جو روپ دیکھا اور جن مسائل کا وہ شکار رہی ان سب کا ذکر اس نے صابرہ سے نہیں کیا تھا۔ وہ انہیں تکلیف دینا نہیں چاہتی تھی۔ اس نے تو انہیں یہ بھی نہیں بتایا تھا کہ اسے کھٹملوں کے کاٹنے سے ایک بار کتنی بری الرجی ہو گئی تھی اور بخار میں بھی وہ کبھی چھٹی نہیں کر سکی تھی۔ اس کے لئے یہ اتنے بڑے مسائل نہیں تھے۔ اس نے بہت کم عمری سے محنت کرنا شروع کی تھی اور جلد ہی اس ٹف روٹین کی عادی ہو گئی تھی۔
فون کی بیل بہت دیر سے بج رہی تھی۔ اس نے اسکرین پہ نظر دوڑائی تو پاکستان کا نمبر دیکھ کر جلدی سے فون ریسیو کیا۔ شاید امی کو اپنی زیادتی کا احساس ہو گیا تھا اسی لئے وہ اسے دوبارہ کال کر رہی تھیں۔ ہتھیلی سے آنکھوں کی نمی صاف کرتے اس نے سوچا اور کال ریسیو کی۔
ہیلو آپی۔ دوسری طرف آئمہ تھی۔
ہاں آئمہ کیسی ہو۔ اس نے اپنی چھوٹی بہن کی آواز سن کر محبت سے کہا۔
اگر تم نے اگلے ہفتے تک میرے ایڈمیشن کے پیسے نہیں بھجوائے تو میں قسم کھا کر کہتی ہوں میں خودکشی کر لوں گی۔ وہ چیختے ہوئے کہہ رہی تھی۔
تم ہوش میں تو ہو آئمہ ؟ وہ آئمہ کی بات سن کر بے تحاشہ پریشان ہو گئی تھی۔
میں اس وقت پورے ہوش و حواس میں ہوں۔ جانتی ہوں کتنے احسان کئے ہیں تم نے مجھ پر لیکن اس وقت تم میرے پاؤں کے نیچے سے زمین نہیں کھینچ سکتی آپی۔ تمھیں اندازہ نہیں ہے میں نے اس یونیورسٹی میں داخلہ لینے کے لئے دن رات ایک کیا ہے اور اب جب میرا خواب پورا ہونے کا وقت آیا ہے تو تم خود کو مکھن میں سے بال کی طرح نہیں نکال سکتی ہو۔ اگر تم نے یہی سب کرنا تھا تو پھر چند سال پہلے ہی کر لیتی۔ اس وقت لوگوں کو اپنا بڑا پن دکھا کر عظمت کا میڈل گلے میں سجا لیا اور آج جب میرے مستقبل کی سمت کا تعین ہونے لگا ہے تو تم نے ہاتھ اٹھا لئے ہیں۔ آئمہ کی باتیں اس کے دل میں نشتر کی طرح لگی تھیں۔
لیکن آئمہ میرے پاس اس وقت اتنے پیسے نہیں ہیں۔ میں تو۔۔ ۔۔ ۔ آئمہ نے اسے مزید کچھ کہنے کا موقع نہیں دیا تھا۔
میں یہ سب نہیں جانتی۔ مجھے اتنا پتا ہے اگر میری فیس ادا نہ ہوئی تو میرا سال ضائع ہو جائے گا اور میں یہ برداشت نہیں کر پاؤں گی۔ اس ذلت اور رسوائی سے اچھا ہے میں اپنی جان دے دوں۔ اس کے جواب کا انتظار کئے بغیر آئمہ نے کال ڈسکنیکٹ کر دی تھی۔
اس نے شکست خوردگی سے فون اپنے سائیڈ پہ رکھا۔ آنسوؤں سے اس کا چہرہ بھیگ چکا تھا۔ کمرے میں اب کوئی نہیں تھا اسلئے وہ دل بھر کر رو سکتی تھی لیکن اچانک باتھ روم کا دروازہ کھلا اور جینی باہر آئی۔ اس نے سرخ رنگ کا انتہائی مختصر سلیولیس لباس پہن رکھا تھا۔ اسے یاد آیا آج ویک اینڈ نائٹ ہے۔ شاید وہ کلب جانے کے لئے تیار ہو رہی تھی۔
٭٭٭
دیکھنا کیسے انتظام ہوتا ہے اب پیسوں کا۔ فون رکھ کر آئمہ نے فاتحانہ نظروں سے صابرہ کی طرف دیکھا۔
آپی کے پاس سب پیسے ہوتے ہیں امی آپ کو کیا لگتا ہے وہ اتنی اچھی ہیں کہ ساری تنخواہ ہمیں بھجوا کر اتنے سالوں سے خالی ہاتھ بیٹھی ہیں۔ آپ کو یاد نہیں جب ایک ماہ پہلے ان کی کوئی ملنے والی پاکستان چھٹیوں پہ آئی تھی تو کتنا سامان بھجوایا تھا انہوں نے۔ اس کے پیسےکہاں سے آئے تھے۔
میں بھی تو یہی حیران ہوں آخر دو سال میں اس نے کیا اتنی تھوڑی بچت بھی نہ کی ہو گی کہ بہن کے داخلے کے لئے چالیس پچاس ہزار ہی بھجوا دے۔ صابرہ نے منہ بنایا۔
آپ کو تو بات کرنا ہی نہیں آتی دیکھنا اب دباؤ ڈالا ہے تو کیسے پیسے بھجوائیں گی۔ آئمہ نے فریج سے ڈبہ نکال کر جوس گلاس میں انڈیلا اور اپنے کمرے میں چلی گئی۔ چند سال پہلے ان کے گھر کے حالات مختلف تھے، محدود آمدنی کی وجہ سے وہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے تھے لیکن اب حالات بدل چکے تھے اور ان کے مزاج بھی۔ دو سال سے زیادہ ہو گیا تھا روشنی کو دبئی گئے ہوئے وہ انہیں باقاعدگی سے پیسے بھیج رہی تھی جو ان دونوں کی ضرورت سے بہت زیادہ تھے اور اس دوران اس نے کبھی ان سے کوئی حساب نہیں مانگا تھا۔ تو کیا یہ ضروری تھا وہ اپنی ضرورتوں کو آج بھی اتنا ہی محدود رکھتے۔
٭٭٭
کل رات سے وہ اپنے کمرے میں بند تھا۔ پچھلے کئی گھنٹوں میں اس نے بے تحاشہ سگریٹ پھونک ڈالی تھی۔ سگریٹ کے ادھ جلے ٹکڑے جا بجا کارپٹ پہ بکھرے ہوئے تھے۔ نیند سے اس کے پپوٹے بھاری ہو رہے تھے۔ اس کا ذہن ماؤف ہو چکا تھا۔ وہ سونا چاہتا تھا لیکن اس وقت صرف خود کو اذیت دے رہا تھا۔ یادیں کسی فلم کی ریل کی طرح ذہن کے پردے پہ چلتی جا رہی تھیں۔ وہ شاید اس دن پی سی کی لابی سے نکل رہا تھا جب اس نے پہلی بار اس کو دیکھا تھا۔
ٹرسٹ می روبی میں نے اس سے پہلے اتنا شاندار لائیو کانسرٹ نہیں دیکھا۔ زندگی سے بھرپور شوخ اور چنچل آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔
میں تو خود عاطف کو فل فارم میں دیکھ کر حیران رہ گئی ہوں۔ دوسری لڑکی نے تبصرہ کیا۔
وہ دونوں شاید کوئی کانسرٹ دیکھ کر باہر نکلی تھیں۔ اس نے گھڑی کو دیکھا جہاں اس وقت بارہ بج رہے تھے۔
عاطف کو اتنے قریب سے دیکھنا میرا کتنا بڑا خواب تھا۔ مجھے تو اب تک یقین نہیں آ رہا ہے۔
He was just stunning. وہی شوخ آواز ایک بار پھر ابھری۔ اس بار اس نے ذرا غور سے ان دونوں کو دیکھا۔
سفید لباس میں وہ کسی راج ہنس کی طرح حسین لگ رہی تھی۔ اس کے خوبصورت کھلے بال اس کی شخصیت کو اور بھی دلکش بنا رہے تھے۔ اس کی مغرور ناک اور کاجل سے لبریز آنکھیں دیکھ کر وہ نظر ہٹانا بھول گیا تھا۔
ڈرائیور کہاں رہ گیا ہے ؟ اس کے انداز میں بیزاری تھی۔
میں کال کر کے پتا کرتی ہوں۔ دوسری لڑکی جس کا نام روبی تھا وہ اب اپنے موبائل سے کال ملا رہی تھی۔
ہیلو بشیر تم آئے نہیں اب تک ہم کب سے تمھارا انتظار کر رہے ہیں۔
اچھا۔۔ ۔ کتنا وقت لگے گا۔
او ہو اس وقت تو کوئی ٹیکسی بھی نہیں ملے گی۔
چلو ہم یہیں انتظار کرتے ہیں تم جلدی آؤ۔
کیا ہوا؟ اس نے تجسس سے پوچھا
وہ کہہ رہا ہے گاڑی کا ٹائر پنکچر ہو گیا ہے اور اس کے پاس جیک نہیں ہے۔ گھر جا رہا تھا کسی سے لفٹ لے کر آنے میں شاید گھنٹہ لگ جائے۔ اس کے چہرے پہ پریشانی تھی۔
کیا میں آپ کی کوئی مدد کر سکتا ہوں ؟ ان کی گفتگو سن کر وہ آگے بڑھا تھا۔
مغرور ناک والی نے ناک سکوڑ کر اسے دیکھا۔
معاف کیجئیے گا میں آپ کی گفتگو سن چکا ہوں اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو ڈراپ کر دیتا ہوں۔ اس نے خوش اخلاقی سے آفر کی۔
یقین جانئیے میں ایک شریف آدمی ہوں اور ابھی ایک بزنس ڈنر سے فارغ ہوا ہوں۔ یہ میرا کارڈ ہے۔ اس نے انہیں مطمئن کرنے کی کوشش کی۔
وقار حسن۔ روبی نے با آواز بلند پڑھا۔ وہ ظالم حسینہ ابھی تک خاموش تھی۔
اگر آپ کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہی ہیں تو میں چلتا ہوں۔ اس نے گھڑی دیکھتے ہوئے قدم آگے بڑھایا۔
ہمیں شادمان جانا ہے۔ روبی کی آواز پہ اس نے رک کر انہیں دیکھا۔ دوسری لڑکی اسے گھور رہی تھی۔
روبی نے جلدی سے اس کا ہاتھ پکڑا اور ساتھ ہو لی۔ اس نے مسکراتے ہوئے اس سنگ مرمر کے صنم کو دیکھا جو ناراض ناراض سی روبی کے ساتھ چل پڑی تھی۔ اپنی سیاہ مرسڈیز میں اس نے انہیں بحفاظت شادمان کی ایک کوٹھی کے باہر اتارا تھا۔ روبی نے اس کا شکریہ ادا کیا تھا اور پھر وہ دونوں اس گھر میں داخل ہو گئی تھیں۔
اگلی بار ان سے اس کی ملاقات جیل روڈ کے میکڈونلڈ میں ہوئی تھی جہاں وہ دونوں خوش گپیوں میں مصروف تھیں۔ اردگرد سے بے نیاز وہ اس وقت برگر انجوائے کر رہی تھیں۔
ہیلو گرلز۔ خوش اسلوبی سے کہتا وہ ان کی ٹیبل کے پاس کھڑا تھا۔ ان دونوں نے ہی اسے چونک کے دیکھا اور پھر روبی کے چہرے کی مسکراہٹ گہری ہو گئی تھی۔ البتہ اس کے چہرے پہ آج بھی نو لفٹ کا بورڈ لگا تھا۔
آپ ہمیشہ اتنے غصے میں ہوتی ہیں یا مجھے دیکھ کر ایسی کیفیت بیدار ہو جاتی ہے۔ روبی کی آفر پہ وہ اب ان کے ساتھ ہی ٹیبل پہ بیٹھ چکا تھا۔
میں اجنبیوں سے بے تکلف نہیں ہوتی۔ اس نے ٹکا سا جواب دیا تھا۔
اجنبی پہلی ملاقات میں ہوتے ہیں اور ہم پہلے بھی مل چکے ہیں، لگتا ہے آپ کی یادداشت بہت بری ہے مس۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
مسٹر وقار حسن، آپ کی مدد کے لئے روبی اس دن آپ کا شکریہ ادا کر چکی ہے۔ اس نے سنجیدگی سے کہا۔
لیکن مدد تو میں نے آپ کی بھی کی تھی۔ دوسری طرف ڈھٹائی کے تمام ریکارڈ ٹوٹ چکے تھے۔
تو آپ چاہتے ہیں اس احسان کے لئے میں تا عمر آپ کی مشکور رہوں اور جہاں بھی آپ کو دیکھوں کورنش بجا لاؤں۔ وہ بگڑے ہوئے تیوروں سے بولی۔
اتنی حسین آواز اور اتنا روڈ انداز۔ وہ بھی اپنی قسم کا ایک ہی تھا۔
اس بار سامنے شکست کے آثار نمایاں تھے۔ سب لڑکیوں کی طرح تعریف بہرحال اس کی بھی کمزوری تھی۔
دن گزر رہے تھے اور ان دونوں کے درمیان فاصلے کم ہو رہے تھے۔ آنے والے دنوں میں ان کی ملاقاتوں میں اضافہ ہو چکا تھا۔
وائیٹ کلر تم پہ بہت اچھا لگتا ہے۔ کاٹن نیٹ کے سفید لباس میں اسے دیکھ کر اس نے سراہا۔ جیسے چاندنی رات میں کوئی جھیل حسین لگتی ہے۔ تم سے ملنا میری زندگی کا سب سے حسین اتفاق ہے۔ ان چند ماہ میں تمھیں بہت چاہنے لگا ہوں۔ اردگرد سے بے نیاز وہ اسے اپنی محبت کا یقین دلا رہا تھا۔ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا میں زندگی میں کسی لڑکی سی سے ایسی جذباتی باتیں کروں گا لیکن میں خود پہ اپنا اختیار کھونے لگا ہوں۔ جب سے تمھیں دیکھا ہے تمھیں جانا ہے دل میرے بس میں نہیں رہا۔ وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کہہ رہا تھا۔
سوچا تو میں نے بھی نہیں تھا وقار کہ کوئی اتنی آسانی سے مجھے فتح کر لے گا۔ وہ ادا سے مسکرائی تھی۔
وہ بلا کی پراعتماد تھی۔ ذہین اور دلکش۔ بولتی تو لگتا پھول جھڑ رہے ہوں اور چلتی تو زمانہ رک جاتا تھا۔ یا شاید وقار کے لئے وقت ٹھہر چکا تھا۔ وہ اس کے عشق میں پاگل ہو چکا تھا۔ وہ تھی بھی اتنی حسین اور متاثر کر دینے والی کہ اگر وہ شاعر ہوتا تو اس پہ دیوان لکھتا، مصور ہوتا تو مونا لیزا تخلیق کرتا لیکن وہ تو آرکیٹیکٹ تھا اور اس جیتے جاگتے تاج محل کے لئے وہ پتھر کا شاہکار کیا بناتا۔ وہ دل و جان سے اس پر فدا تھا۔
اس دن لانگ ڈرائیو پہ اس کا چاندی رنگ کا ہاتھ تھامے وہ بہت خوش تھا۔ شادی کرو گی مجھ سے ؟
ہمیں ملے دن ہی کتنے ہوئے ہیں ابھی تو ٹھیک سے ایک دوسرے کو جانتے بھی نہیں ہیں اور تم شادی تک پہنچ گئے ہو۔ اس نے بے نیازی سے ناک سکیڑی۔ اس کی عادت پہ وہ اور بھی وارفتہ نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔
خیر اب اتنا تھوڑا وقت بھی نہیں ہوا ہمیں ملتے، مجھے تو لگتا ہے میں تمھیں برسوں سے جانتا ہوں۔ اب تو دل کرتا ہے جلدی سے تم میری زندگی میں آ جاؤ۔ مجھ سے اب اور صبر نہیں ہوتا ہے۔
لیکن اتنی بھی کیا جلدی ہے ؟ ابھی میری اسٹڈیز مکمل نہیں ہوئی ہیں۔ اور میں شادی کر کے اپنی تعلیم پہ کمپرومائز نہیں کروں گی۔
تمھیں ایسا کہہ بھی کون رہا ہے۔ تم شادی کے بعد بھی اپنی تعلیم مکمل کر سکتی ہو۔
لیکن میں ابھی شادی نہیں کرنا چاہتی، ممی میری تعلیم کو لے کر بہت پوزیسسو ہیں۔ شادی جیسی ذمہ داری اور پڑھائی میں اکھٹے مینج نہیں کر سکتی۔ ابھی تو میں لائف کو انجوائے کرنا چاہتی ہوں۔ دھیرے سے اپنا ہاتھ نکال کر وہ صاف گوئی سے بولی تھی۔
شادی نہ سہی منگنی تو کر سکتے ہیں۔ وقار نے تجویز دی۔
اس کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا تھا۔
اس کی سالگرہ پہ وقار نے اسے سیاہ شیفون کا قیمتی لباس تحفے میں دیا تھا۔ اس کی خواہش کے مطابق وہ ڈریس اس نے اس کے ساتھ ڈنر پہ آتے ہوئے پہنا تھا۔ سیاہ مخمل کی ڈبیہ میں بند ایک قیمتی بریسلٹ اس کو دیتے ہوئے اس نے محبت سے اپنے سامنے بیٹھے اس ساقی کو دیکھا جو بن پلائے مد ہوش کر دینے کی صلاحیت رکھتی تھی۔
ان کی ملاقاتوں کا سلسلہ بڑھتا جا رہا تھا وقار کے دل میں اس کی محبت اور بھی گہری ہوتی جا رہی تھی۔ محبت چیز ہی ایسی ہے یہ آکٹوپس کی طرح وجود کو جکڑ کر بے بس کر دیتی ہے پھر اس کے شکنجے سے نکلنا آسان نہیں ہوتا۔
تم نے اپنی والدہ کو میرے بارے میں بتایا؟ وہ فون پر اسے پوچھ رہا تھا۔
ممی ابھی لندن گئی ہوئی ہیں۔ ان کی کزن کی بیٹی کی شادی ہے ایک مہینہ تو لگ ہی جائے گا۔ آئیں گی تو انہیں تمھارے بارے میں بتاؤں گی۔
اور یہ ایک مہینہ ممی کی بیٹی کیا کرے گی؟
بیٹی کو پڑھنا ہے۔ ایگزامز سر پہ ہیں۔
تھوڑا وقت اس خاکسار کے لئے بھی نکال لو کتنے دن سے تمھیں دیکھا نہیں ہے ایسا کرتے ہیں آج لنچ پہ ملتے ہیں۔
بہت مصروف ہوں جناب آپ کو ملاقات کے لئے اپائنٹمنٹ لینا ہو گی۔
محبت کرنے والوں کے صبر کو ایسے نہیں آزماتے۔ وہ گہری سانس لے کر بولا تھا۔
اب تم ٹھنڈی آہیں بھرو گے تو ملنے آنا ہی پڑے گا۔ اور وہ اس سے ملنے چلی آئی تھی۔
وہ بہت زیادہ نہیں ملتے تھے لیکن ہمیشہ رابطے میں رہتے تھے۔ وہ آجکل بہت خوش رہنے لگا تھا اور اس کی خوشی اس وقت دوبالا ہو گئی تھی جب اس نے وقار کو یہ بتایا کہ وہ اپنی والدہ سے اس کے بارے میں بات کر چکی ہے اور جلد ہی وہ دونوں منگنی کر لیں گے۔ وہ ان کی اکلوتی بیٹی ہے اور انہیں اس کی خوشی ہر حال میں عزیز ہے۔
اگلے چند دن میں اس کی مصروفیت بہت بڑھ گئی تھی۔ اسے دبئی جانا تھا۔
٭٭٭
اس کا موبائل کافی دیر سے بج رہا تھا۔ عائشہ کی کال دیکھ کر اس نے مسکراتے ہوئے کال اٹینڈ کی۔
آپی کیسی ہیں آپ؟ وہ اس کی بڑی بہن تھی جو شادی کے بعد کنیڈا میں مقیم تھی۔ اس کی شادی ان کے ماموں کے بیٹے خرم سے ہوئی تھی، وقار اور عائشہ کے والدین کا چند سال پہلے ایک ٹریفک حادثے میں انتقال ہو چکا تھا۔ وہ وقار سے آٹھ سال بڑی تھی وہ ہمیشہ سے اس سے بہت اٹیچ تھا۔ ان کے والد حسن منیر کا تعلق سینٹرل پنجاب کے ایک جاگیردار گھرانے سے تھا۔ بہت تعلیمیافتہ ہونے کے باوجود ان کا خاندان بڑا قدامت پسند اور روایتی تھا۔ خاندانی اقدار اور حسب نسب کی آج بھی وہ مذہب کی طرح پیروی کرتے تھے۔ ان کی ذاتی کنسٹرکشن کمپنی تھی۔ وقار کی ابتدائی تعلیم کانوینٹ کی تھی وہ بیس سال کا تھا جب ان کے والدین کی وفات ہو گئی ان دنوں وقار امریکہ میں تھا۔ حسن منیر کی وفات کے بعد وقار عائشہ کے اور بھی قریب آ گیا تھا۔ اس نے اسٹینفورڈیونیورسٹی کیلی فورنیا سے اسٹرکچرل انجینئیرنگ میں پوسٹ گریجویشن کیا تھا۔ اپنی تعلیم ختم کر کے چند سال پہلے وقار پاکستان آ گیا تھا اور اب اپنے والد کی کنسٹرکشن کمپنی کو دوبارہ اسٹیبلش کر رہا تھا۔ دونوں بہن بھائی ایک دوسرے سے بہت محبت کرتے تھے اور عائشہ کی تو جیسے اس میں جان تھی۔ سال میں ایک بار وہ وقار سے ملنے ضرور آتی تھی اور وقار خود تو اس کے پاس کسی بھی بزنس ٹور میں کینیڈا کا اضافہ کر کے چکر لگا ہی آتا تھا۔
میں نے کنزیٰ سے تمھارا رشتہ طے کر دیا ہے۔ رسمی سلام دعا کے بعد وہ اسے زبیر ماموں کی بڑی بیٹی سے اس کا رشتہ طے ہونے کے متعلق بتا رہی تھیں۔
یہ کیا کہہ رہی ہیں آپی آپ نے مجھ سے پوچھا تک نہیں۔ وہ ان کی بات سن کے حیران رہ گیا تھا۔
لیکن تم نے خود ہی تو کہا تھا کہ تم میری پسند سے شادی کرنا چاہتے ہو اس نے اسے چند ماہ پہلے کی بات کا حوالہ دیا۔ ویسے بھی زبیر ماموں سے اس رشتے کی بات ممی ڈیڈی کی زندگی میں ہی ہو گئی تھی۔ اور یہ تو ایک رسمی سی کاروائی ہے۔
پھر بھی آپ کو ایک بار مجھ سے تو پوچھنا چاہئیے تھا یہ میری زندگی کا سوال ہے۔
ہم تو دو ماہ بعد تم دونوں کی شادی پلان کر رہے ہیں۔ وہ قدرے خائف تھی۔ وقار نے کبھی اس کی بات کو رد نہیں کیا تھا۔ زندگی میں پہلی بار وہ اس سے اس لہجے میں بات کر رہا تھا۔ وہ اس کے رویے سے نالاں تھیں۔
تو آپ ان کو منع کر دیں کیونکہ میں کنزیٰ سے شادی نہیں کر سکتا۔
لیکن کیوں ؟ آخر کیا برائی ہے کنزیٰ میں ؟
آپی کوئی برائی نہیں ہے بلکہ وہ تو بہت اچھی اور سمجھدار لڑکی ہے لیکن میں اس سے شادی نہیں کر سکتا۔
کیا تمھیں اس بات کی بھی پرواہ نہیں کہ تمھارے اس فیصلے سے میری ذاتی زندگی پہ کیا اثر پڑے گا میرے سسرال میں میری کتنی آکورڈ پوزیشن ہو جائے گی اور پھر یہ ہمارے بڑوں کا فیصلہ ہے۔
آپی وہ ہمارے ماموں کی فیملی ہے اور میری کنزیٰ کے ساتھ شادی سے آپ کی ذاتی زندگی کا کیا تعلق؟ وہ لوگ آپ کو اس طرح استعمال نہیں کر سکتے ہیں۔
ماموں کی فیملی تھی لیکن اب وہ میرے سسرال والے ہیں اور تم اگر بڑوں کا طے کیا ہوا یہ رشتہ ختم کرو گے تو اس کے نتائج مجھے بھی تو بھگتنے ہوں گے۔
میری اس سے کوئی انڈرسٹنڈگ نہیں ہے میں ایسی زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتا جہاں صرف بزرگوں کو خوش کرنے کے لئے اپنی ساری زندگی ایک ایسے انسان کے ساتھ گزار دوں جس کی میرے ساتھ ہم آہنگی ہی نہ ہو۔ یہ کوئی دسویں صدی نہیں ہے۔
تو میری شادی بھی تو ممی ڈیڈی اور ماموں نے ہی طے کی تھی، کیا میری خرم کے ساتھ انڈرسٹینڈنگ نہیں ہے۔ کیا ہم ایک اچھی زندگی نہیں گزار رہے ہیں ؟ تم نے سوچا ہے تمھارے اسطرح اس رشتے کو ختم کرنے سے خرم اور میرے درمیان کتنا سٹریس آ جائے گا۔
آپ ابھی خود ہی مجھے اپنی خرم بھائی کے ساتھ انڈرسٹینڈنگ کے متعلق بتا رہی تھیں اگر آپ دونوں کے درمیان انڈرسٹینڈنگ ہے تو پھر تو انہیں آپ کے ساتھ اس موضوع پہ بات کرنی ہی نہیں چاہئیے۔
تم اتنے خودغرض کب سے ہو گئے وقار؟
میں اپنی زندگی اگر اپنے طریقے سے گزارنا چاہوں تو کیا یہ خود غرضی ہے ؟ وہ جانتا تھا اس کا رویہ عائشہ کو دکھی کر رہا ہے۔ اس نے آج تک اس کی کسی بات سے انکار نہیں کیا تھا لیکن وہ کسی صورت اس کی بات نہیں مان سکتا تھا۔ اس کی پریشانی میں اضافہ ہو گیا تھا۔
اگر آج ممی ڈیڈی زندہ ہوتے تو تم کبھی مجھ سے اس لہجے میں بات نہ کرتے اپنے سسرال والوں کے سامنے کتنے فخر سے میں نے تمھاری اور کنزیٰ کی شادی کے حوالے سے بات کی ہے اور اب میں کتنا شرمندہ ہوں گی ان سب کے سامنے۔ وہ اسے اب ایموشنلی بلیک میل کر رہی تھی وقار جانتا تھا وہ کچھ معاملات میں بہت روایتی عورت ہے۔ وہ وقار کی زندگی میں بہت اہم تھی اور وہ جانتا تھا کسی نہ کسی طرح وہ وقار کو اس شادی کے لئے قائل کر لے گی۔
لیکن میں شادی کر چکا ہوں۔ وقار کے پاس جھوٹ بولنے کے سوا دوسری کوئی آپشن نہیں تھی۔ اس جھوٹ کی صورت میں کم سے کم وہ اس متوقع شادی سے بچ گیا تھا۔ حالانکہ اسے اندازہ تھا کہ اس بات کو سن کر عائشہ کو شدید دکھ پہنچا ہو گا لیکن یہ سب وقتی ہو گا اور جب وہ اپنی محبت سے اسے ملوائے گا تو وہ بھی اس کی پسند کی داد دے گی۔ وہ اس سے اتنی محبت کرتی ہے کہ اسے معاف کر دے گی۔ وہ دل کے ہاتھوں مجبور تھا اور دل کے فیصلے دماغ پہ حاوی ہوتے ہیں۔
یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟ تم نے شادی کر لی ہے اور مجھے بتایا تک نہیں۔
میں آپ کو بتانے والا تھا بس حالات ہی کچھ ایسے ہوئے کہ مجھے شادی کرنی پڑ گئی۔ وہ جھوٹ پہ جھوٹ بول رہا تھا۔ وہ جانتا تھا اس بات کے بعد کنزیٰ والا چیپٹڑ کلوز ہو جائے گا۔ وہ ٹھیک سوچ رہا تھا، عائشہ نے اس وقت غصے سے فون بند کر دیا تھا۔ لیکن اب وہ اپنی چند دن پہلے کہی بات پہ بری طرح پچھتا رہا تھا۔
ماضی سے نکل کر وہ حال میں لوٹ آیا تھا۔ اس کا فون بہت دیر سے بج رہا تھا۔ بے دلی سے اس نے ہاتھ بڑھا کر فون اٹینڈ کیا۔ آفس سے بار بار کال آ رہی تھی۔
سر آپ کی کل دوپہر کی سیٹ کنفرم کرا دی ہے۔ اس کی سیکریٹری اسے اطلاع دے رہی تھی۔
کہاں کی سیٹ۔ اس نے غائب دماغی سے کہا۔ اور پھر اسے یاد آیا کے اسے کل دبئی جانا تھا۔ اس کے سارے حسیات لوٹ آئے تھے۔
مجھے ساری ڈیٹیلز ای میل کر دو میں آج اور کل آفس نہیں آؤں گا۔ اس نے کال کاٹ دی تھی۔ وہ نہیں جانتا تھا وہ صحیح معنوں میں کس بات سے اپ سیٹ ہے۔ کل رات اسے مقامی ایم۔ این۔ اے کے اوباش بیٹے اعظم مسعود کے ساتھ دیکھ کر یا پھر اپنی بہن سے بولے اس جھوٹ کی وجہ سے۔
پچھلے ایک ماہ سے ان دونوں کی ملاقات نہیں ہوئی تھی کیونکہ وہ دبئی میں تھا اور اگر پاکستان آتا بھی تو اس کی مصروفیت عروج پہ ہوتی۔ لیکن فون پہ کئی بار بات ہو چکی تھی اور کل اس سے مل کر وہ اسے زندگی کا بہترین تحفہ دینا چاہتا تھا۔ عائشہ سے اس نے جو کچھ کہا وہ اسے پہلے ہی بتا چکا تھا اور اب بیش قیمت ہیرے کی انگوٹھی دے کر وہ اسے باقاعدہ پرپوز کرنے کا ارادہ رکھتا تھا جو اس نے کل ہی خریدی تھی۔ اگلے چند دن میں وہ دونوں شادی کر لیں گے اور پھر وہ عائشہ کو بھی منا لے گا۔ وہ آفس سے رچرڈ کے ساتھ نکلا تھا اور ڈنر کے لئے اسے اواری لے آیا تھا، یہیں رچرڈ کا قیام بھی تھا لیکن جو کچھ اس نے دیکھا اس نے صحیح معنوں میں اس کے پیروں کے نیچے سے زمین نکال دی تھی۔ وہ جو پچھلے ایک سال سے اس حسن کی دیوی کے عشق میں دیوانہ ہوا پھر رہا تھا۔ اپنی بہن سے اتنا بڑا جھوٹ بول کر اس نے اس کا دل دکھایا تھا اور اس وقت وہ جیب میں منگنی کی انگوٹھی ڈالے اس سے اگلے چند دن میں شادی کے پروگرام بنا رہا تھا وہ اس کی آنکھوں کے سامنے احسان مسعود کے بد دماغ اور کرپٹ بیٹے اعظم مسعود کے ساتھ بیٹھی تھی۔ اسسٹنٹ کمشنر اعظم مسعود کو وہ بہت اچھی طرح جانتا تھا اس کی پوسٹنگ آجکل وقار کے آبائی علاقے میں تھی اور چند بار اس سے ملاقات بھی ہو چکی تھی۔ صرف اتنا ہی نہیں وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اعظم کتنا بڑا فلرٹ ہے اور اس کے چند معاشقوں کی خبر تو وقار کو بھی تھی۔ اعظم کے ساتھ بیٹھے اس کی آنکھوں میں وہی چمک اور وارفتگی تھی جو کبھی وہ اپنے لئے دیکھتا تھا۔ اس کا نازک ہاتھ اس وقت اعظم کے ہاتھ میں تھا اور وہ اسے بہت محبت سے ایک بیش قیمت انگوٹھی پہنا رہا تھا۔ یہ لمس کبھی وقار کا نصیب تھا۔ اس سے پہلے کوئی رات وقار پہ اتنی بھاری نہیں گزری
اس نے کئی بار ثمینہ کے پرانے نمبر پہ رابطہ کرنے کی کوشش کی تھی اس امید کے ساتھ کہ شاید وہ اس بار بھی اس کی کچھ مالی مدد کر دے حالانکہ وہ جانتی تھی کہ اس کے لئے اس بار رقم کی ادائیگی آسان نہیں ہو گی لیکن پھر بھی وہ اوور ٹائم کر کے اس کو روپے واپس کر دیتی لیکن اس کی بات نہ ہو سکی تھی۔ اور پھر اچانک اسے سحرش کا خیال آیا۔ اس نے جلدی سے اپنا موبائل فون اٹھایا اور اس کے نمبر پہ کال ملانے گئی۔ تیسری بیل پہ اس کی کال اٹھا لی گئی تھی۔
٭٭٭
صبح کے دس بج چکے تھے، اس کا سفری بیگ تیار تھا اپنی گھڑی پہ ایک اچٹتی نگاہ ڈال کر اس نے ملازم کو بلایا تھا۔ بزنس لاؤنج میں وہ کافی بیزار بیٹھا تھا۔ اگر کل کی میٹنگ ضروری نہ ہوتی تو وہ اس سفر کو کینسل کر چکا ہوتا۔ کئی ماہ کی انتھک محنت کے بعد وہ لاسٹ منٹ پہ اس پروجیکٹ کو گنوا نہیں سکتا تھا۔ فلائٹ کی اناؤنسمنٹ ہو رہی تھی۔ اپنا بیگ اٹھائے اب وہ ایرو برج کی طرف جا رہا تھا۔ وہ ذہنی طور پہ کافی ڈسٹرب تھا۔ اپنی ذاتی زندگی کے کو وہ کسطرح کرے۔ کیا وہ عائشہ کو بتا دے کہ اس نے اس سے جھوٹ کہا تھا۔ کم سے کم سچ بول کر وہ اپنی بہن کی ناراضگی ختم کر سکتا تھا جس نے پچھلے پورے ایک ہفتے سے اس سے کوئی رابطہ نہیں کیا تھا۔ لیکن اگر عائشہ آپی نے یہ سب جان کر اسے کنزیٰ سے شادی کرنے کی بات دوبارہ شروع کر دی پھر وہ کیا کرے گا؟ ان حالات میں وہ شادی کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ شاید اسے کچھ وقت خاموشی سے گزارنا چاہئیے۔ دبئی سے واپسی پہ وہ خود جا کر عائشہ کو سب کچھ بتا دے گا اور اس سے ریکوئسٹ کرے گا کہ وہ اسے شادی کے لئے فی الحال فورس مت کرے۔ تمام راستہ وہ یہی سوچتا رہا تھا۔ ائرپورٹ سے اس نے ہمیشہ کی طرح گاڑی پک کی اور اب اس کا رخ ہوٹل حیات گیلیریا کی طرف تھا۔ دبئی اس کے لئے اجنبی شہر نہ تھا بلکہ شاید یہ اس کے لئے سیکنڈ ہوم کی حیثیت رکھتا تھا۔ ہوٹل تک پہنچتے اسے آدھا گھنٹہ لگا تھا جو ٹریفک جام کی بدولت تھا ورنہ وہ محض دس منٹ کا راستہ تھا۔ صبح اور شام کے اوقات میں دبئی کی سڑکوں پہ بدترین ٹریفک جام ہوتا ہے۔ کچھ دیر پہلے اس نے ہوٹل میں چیک ان کیا تھا اور اب وہ صرف سونا چاہتا تھا اپنی کرنٹ مینٹل کنڈیشن میں
وہ کل صبح کی میٹنگ اٹینڈ نہیں کر سکتا تھا، وہ میٹنگ اس کے لئے بہت اہم تھی اور کل اس کی زندگی کا سب سے اہم دن تھا۔ پچھلا پورا مہینہ اس کا شدید مصروفیت میں گزرا تھا۔
Haywood Construction کمپنی دبئی میں ایک مال کی تعمیر شروع کر رہی تھی۔ رچرڈ جانسن اس کمپنی کا جنرل مینیجر اور وقار کا یونیورسٹی فیلو تھا۔ دونوں کے درمیان کافی گہری دوستی تھی، وقار نے چند سال پہلے اپنے والد کا بزنس ری اسٹیبلش کیا تھا اور اس کے پاس اس وقت پاکستان میں بہت سارے اہم پروجیکٹس تھے۔ کنسٹرکشن مارکیٹ میں وقار کے پاؤں جم چکے تھے لیکن اسے اپنے کاروبار کو انٹرنیشنل لیول پہ لانے کے لئے ایک بڑے بریک کی ضرورت تھی انہی دنوں رچرڈ نے اسے دبئی میں بننے والے ایک نئے شاپنگ مال کے متعلق بتایا جس کے لئے اس کی کمپنی نے اپنا انٹرسٹ شو کیا تھا۔ دبئی میں تیزی سے بڑھتے ترقیاتی کاموں اور جدید نوعیت کی ہائی رائز بلڈنگوں نے پوری دنیا کو اپنی طرف متوجہ کیا تھا۔ رچرڈ کی بدولت وقار اس کمپنی کے ساتھ (مشترکہ کاروبار) کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ اس ایک مال کے بعد اگلے تمام پروجیکٹس میں ان دونوں کو مل کر کام کرنا تھا۔ لیگل معاملات طے پا چکے تھے اور وقار اپنی کمپنی دبئی میں شروع کر چکا تھا۔ مال کے نقشے اپروو ہو چکے تھے اور کل باقاعدہ دونوں کمپنیوں کے ہیڈ کو لوکلا تھارٹیز کے ساتھ فائینل ڈیڈ سائن کرنی تھی۔ دو دن پہلے اسی سلسے میں رچرڈ پاکستان آیا ہوا تھا کیونکہ وہ اس پروجیکٹ کا کنسٹرکشن ہیڈ تھا اور آج وقار دبئی پہنچ گیا تھا جہاں کل شیخ زائد روڈ پہ بنے ان کے دفتر میں وہ معاہدہ دستخط ہونا تھا۔ کپڑے بدل کر وہ سونے کے لئے لیٹ گیا تھا جب اس کے فون پہ عائشہ کی کال آئی۔
تم نے مجھے بہت ہرٹ کیا ہے وکی۔ رسمی سلام دعا کے بعد وہ اب اسے کہہ رہی تھی۔
آپی میں شرمندہ ہوں۔ وہ مزید کچھ نہیں ٰ کہہ پایا تھا۔
تم جانتے ہوں میں نے تمھیں بھائی نہیں بیٹا سمجھا ہے، ممی ڈیڈی کی وفات کے بعد میں یہ اپنا حق سمجھتی تھی کہ تمھاری شادی میں خود کرتی لیکن تم نے مجھ سے یہ حق چھین کر ثابت کر دیا ہے کہ تمھاری نظر میں میری کوئی اہمیت نہیں ہے۔ وہ بہت اپ سیٹ تھی۔
آپی پلیز ایسے مت کہیں۔ آپ میرے لئے کیا اہمیت رکھتی ہیں یہ آپ بھی جانتی ہیں میں آپ کو تکلیف پہچانے کا تو سوچ بھی نہیں سکتا۔ اور مجھے آپ کو کچھ بتانا تھا۔۔ ۔۔ ۔ وہ اس کی آواز سن کر مزید ڈسٹرب ہو گیا تھا اور اس سے کہنے ہی والا تھا کہ اس نے سب کچھ جھوٹ کہا ہے لیکن اس سے پہلے عائشہ نے اس کی بات کاٹ دی۔
چھوڑو یہ سب باتیں۔ میں نے تمھیں یہ بتانے کے لئے فون کیا ہے کہ مجھے تم سے کوئی گلہ شکوہ نہیں ہے۔ میری زبیر ماموں اور خرم سے بات ہو گئی ہے اور ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ ہمیں تمھاری خوشی میں خوش ہونا چاہئیے اور پھر شاید اسی میں اللہ کی بہتری ہو۔ زبردستی کے رشتے دیرپا نہیں ہوتے ہیں۔ حالانکہ کنزیٰ بہت اپ سیٹ ہے لیکن میں نے اس سے بھی معافی مانگ لی ہے۔ بس اب میں جلد سے جلد پاکستان آ کر تمھاری بیوی سے ملنا چاہتی ہوں۔ اس مہینے کے آخر میں میرا ارادہ ہے پاکستان آنے کا سحر اور اسامہ کا ونٹر بریک بھی شروع ہونے والا ہے اور پھر تمھارا ولیمہ بھی کر لیں گے۔ اس نے اپنے دونوں بچوں کے نام لئے۔ وہ اس کی بات سن کر سر پکڑ کر بیٹھ گیا تھا۔ چند دن پہلے یہ اس کی دلی خواہش تھی کہ عائشہ اس کو سمجھے اور اسے معاف کر دے وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ عائشہ اس سے ناراض رہ ہی نہیں سکتی اور وہ جلد اسے فون کرے گی اسی لئے اس نے فوری شادی کا فیصلہ کیا تھا۔ لیکن اب حالات بدل چکے تھے اس کا جھوٹ بری طرح اس کے گلے پڑ گیا تھا۔ اس کو اپنی شادی کی جھوٹی خبر سنا کر دو دن بعد اس نے اپنی بات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ایک قیمتی انگوٹھی بھی خریدی تھی۔ وہ اس کی والدہ سے مل کر انہیں اس رشتے کے لئے راضی کر لے گا اور پھر جلد ہی اس سے شادی کر لے گا۔ سب پلاننگ کر کے وہ خود کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا لیکن یہاں تو بازی ہی پلٹ گئی تھی۔ عائشہ اسے معاف کر کے اس کی وہ شادی قبول کر چکی تھی جو ابھی ہوئی نہیں تھی اور اب وہ اس کی اس بیوی سے ملنے آ رہی تھی جس کا وجود بھی نہیں تھا۔ وہ سر پکڑ کر نہ بیٹھتا تو اور کیا کرتا۔
٭٭٭
ہیلو سحرش میں روشنی بول رہی ہوں۔ فون پہ اس کی آواز سن کر وہ فوراً بولی تھی۔
روشنی ارے ہاں روشنی بولو سب ٹھیک تو ہے ؟ مجھے تو یقین نہیں آ رہا کہ تم نے مجھے کال کیا ہے۔ سحرش کی آواز میں حیرت اور بے یقینی کا ملا جلا تاثر تھا۔
سحرش روشنی کے ساتھ اسی سپر مارکیٹ میں کام کرتی تھی، اس کا تعلق بھی پاکستان سے تھا اور وہ روشنی سے سنئیر تھی۔ روشنی کی اس کے ساتھ معمول کی بات چیت تو تھی لیکن دوستی ہرگز نہیں تھی اور اس کی بنیادی وجہ اس کا وہی لائف اسٹائل تھا جو جینی اور لنڈا کا تھا۔ روشنی کو وہ ان دونوں سے زیادہ بری لگتی تھی اور اس کا برملا اظہار وہ کئی بار باتوں باتوں میں کر چکی تھی۔ جینی اور لنڈا کو نہ مذہب روکتا تھا نہ تہذیب لیکن سحرش اس حدود سے مستثنیٰ نہیں تھی۔ وہ چاہ کر بھی سحرش سے اپنی ناپسندیدگی چھپا نہیں پائی تھی اور اس دن کے بعد تو اس کی فیلنگز کھل کر اسے سامنے آ گئی تھیں جب روشنی نے سحرش کے ڈنر کی آفر کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیا تھا کہ وہ حرام مال سے خریدا ہوا کھانا نہیں کھا سکتی۔ سحرش سے اس کا سامنا لگ بھگ روز ہی ہوتا تھا اور ایک پیشہ ورانہ تعلق سے بڑھ کر ان دونوں کے درمیان کبھی بات چیت نہیں ہوئی تھی۔ وہ اس سے بھی اتنا ہی فارمل رہتی تھی جتنا اپنی غیر ملکی روم میٹس کے ساتھ ہوتی تھی۔
سحرش میں اس وقت بہت پریشانی میں ہوں اور مجھے تمھاری مدد کی ضرورت ہے۔ دھیمی آواز میں اس نے کہا۔
یہ تو میری خوش نصیبی ہے جو روشنی نے مجھے اس قابل سمجھا کہ میں اس کی کوئی مدد کر سکوں۔ اس کے لہجے کی کاٹ کو نظر انداز کرتے روشنی نے اپنا مدعا بیان کیا۔
سحرش مجھے پچاس ہزار روپے کی اشد ضرورت ہے اور صرف تم ہی ہو جو اس وقت میری مدد کر سکتی ہو۔ اس کی بے بسی پہ ایک قہقہہ لگاتے سحرش نے اس کی شرمندگی میں مزید اضافہ کر دیا تھا۔
ڈئیر روشنی، تم مجھے اپنا دوست سمجھو یا نہ سمجھو لیکن میں نے ہمیشہ تمھیں اپنا دوست ہی سمجھا ہے اور مجھے بہت خوشی ہو گی تمھاری مدد کر کے، کم سے کم تم نے میرے حرام کے پیسے کو نہ استعمال کرنے کی اپنی قسم کو تو توڑا۔ وہ جتاتے ہوئے بولی۔
سحرشیہ میری بہن کی زندگی کا سوال ہے۔ اس کے داخلے کے لئے مجھے اسے پچاس ہزار بھجوانے ہیں اگر میں نے جلد سے جلد اس رقم کا بندوبست نہیں کیا تو وہ خودکشی کر لے گی۔ میں وعدہ کرتی ہوں جلد سے جلد تمھارے پیسے واپس کر دوں گی۔ اس نے التجائیہ کہا۔
واپسی کی کون بات کر رہا ہے سوئیٹی، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت میرے پاس تمھیں دینے کے لئے اتنے پیسے نہیں ہیں تم ایسا کیوں نہیں کرتی آج رات کو کلب آ جاؤ، جمی کی طرف میرا کچھ حساب نکلتا ہے اس سے پیسے لے کر میں تمھیں دے دوں گی اور کل صبح تم اپنی بہن کو وہ پیسے ٹرانسفر کر دینا۔ اس نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
لیکن اس کے لئے مجھے کلب آنے کی کیا ضرورت ہے، میں تم سے کل پیسے لے لوں گی۔ روشنی نے قدرے تامل سے کہا۔
میں تو آج مڈ نائیٹ کے بعد فرینڈز کے ساتھ فجیرا چلی جاؤں گی میرا یہ پورا ویک آف ہے تو اسی لئے سوچا کچھ دن آرام کر آؤں۔ اگر تم کلب نہیں آنا چاہتی تو پھر پیسے اگلے ہفتے لے لینا۔ ہم لوگ تو کلب سے ہی آگے چلے جائیں گے۔ اس نے لاپرواہی سے کہا۔
نہیں، نہیں میں کلب آ جاؤں گی۔
وہ رات دس بجے کے قریب وہاں پہنچی تھی۔ اسے اس شہر میں رہتے دو سال ہو چکے تھے اور اس ہوٹل کو وہ دن میں دو بار دیکھتی تھی۔ یہ پہلی بار تھا کہ وہ اس عالیشان عمارت کو اندر سے دیکھ رہی تھی۔ اس کی بلڈنگ باہر سے بھی قابل ستائش ہے لیکن اسے اندازہ نہیں تھا یہ اندر سے اتنا عالیشان ہو گا۔ بلاشبہ یہ آرکیٹچر کا نادر نمونہ تھا۔ وہ عمارت جتنی شاندار باہر سے نظر آتی تھی اس کا انٹیرئیر اس سے زیادہ مبہوت کر دینے والا تھا۔ لابی میں اس وقت کافی لوگ تھے جو اسے سرسری نگاہ سے دیکھ کر آگے چلے گئے۔ کلب میں داخل ہوتے وقت اس کا دل پتے کی طرح کانپ رہا تھا اگر اس وقت وہ مجبور نہ ہوتی تو کبھی اس جگہ قدم نہ دھرتی۔ قیمتی ٹائل فلور پہ دھیمے قدموں سے چلتی وہ اس ہوٹل سے ملحقہ کلب میں داخل ہو گئی تھی۔ اندر کا ماحول اس کی سوچ سے زیادہ تھا۔
اس کی نظریں لوگوں کے ہجوم میں سحرش کا تعاقب کر رہی تھیں اور پھر وہ اسے ڈانس فلور پہ نظر آ گئی تھی۔ اسے دیکھ کر وہ تیزی سے اس کی طرف بڑھی تھی۔ گھٹنے سے اونچا رائل بلیو سلیولیس لباس اور چہرے پہ انتہائی ڈارک میک اپ لگائے وہ پھولے ہوئے سانس کے ساتھ اس کی طرف آئی تھی۔
یہ کیا حلیہ بنا رکھا ہے۔ اب اگر کلب آ ہی رہی تھی تو کچھ حالت بھی سنوار لیتی۔ اسے لے کر کلب سے باہر جاتے ہوئے سحرش نے تمسخر سے کہا۔
سیاہ ٹاپ اور بلیک جینز میں سر پر اسکارف اوڑھے وہ اس ماحول میں پوری طرح مس فٹ تھی۔
کیا خرابی ہے میرے حلیے میں سحرش؟ وہ اس کے مذاق اڑانے پہ کچھ شرمندہ ہو کر بولی تھی۔
سحرش اس کی کسی بھی بات کا جواب دئیے بغیر تیز قدم اٹھاتی چلتی جا رہی تھی۔ اس کا رخ ریسٹ رومز کی طرف تھا۔
اب چونکہ کچھ وقت تمھیں یہاں میرے ساتھ گزارنا ہے تو پلیز یہ اسکارف اتار دو۔ اس کے سر سے اسکارف کھینچ کر اتارتے ہوئے اس نے کلپ میں جکڑے اس کے لمبے سیاہ بالوں کو کھول دیا تھا۔ اپنے پرس سے ایک لپ اسٹک نکال کر اس نے زبردستی وہ گہری سرخ لپ اسٹک سے اس کے ہونٹوں کو رنگ دیا تھا۔
میں نہیں کرتی میک اپ اور پلیز میرا اسکارف واپس کرو مجھے الجھن ہو رہی ہے۔ اس کی حرکتوں پہ اپ سیٹ ہوتی وہ اپنے بال باندھنے لگی تھی۔
دیکھو اگر تمھیں میرے ساتھ یہاں کچھ وقت رہنا ہے تو اپنا حلیہ میرے مطابق کرنا ہو گا، اب تمھاری بدولت میں اپنے فرینڈز کے سامنے شرمندہ نہیں ہو سکتی۔ اس کے دو ٹوک لہجے پہ لب کاٹتے اس نے بالوں کو کھلا چھوڑ دیا۔
جمی کب تک آئے گا؟ وہ واپس کلب کی طرف جاتے ہوئے اس سے پوچھ رہی تھی۔
بس آتا ہی ہو گا، ابھی اتنا وقت نہیں ہوا۔ سحرش نے لاپرواہی سے کہا
کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد وہ اسے ایک بار اسٹول پہ بیٹھنے کا کہہ کر دوبارہ ڈانس فلور پہ چلی گئی تھی۔
بے دلی سے وہ کلب میں بیٹھی ہوئی تھی جہاں رات کے اس پہر میلے کا سماں تھا۔ تیز آواز میں کانوں کو چیرتا میوزک اور لوگوں کا ہجوم۔ اسے وہاں بہت گھٹن ہو رہی تھی۔ یہاں لیڈیز کی نہ صرف انٹری فری تھی بلکہ اندر انہیں ڈرنک بھی مفت سرو کیا جاتا تھا اور مردوں کو کافی مہنگی ادائیگی کرنا پڑتی تھی اس کی وجہ خالصتاً کاروباری تھی۔ لڑکیوں کے چکر میں زیادہ سے زیادہ مرد وہاں آتے تھے۔ مچھلی پکڑنے کے لئے جیسے بیٹ کا استعمال کیا جاتا ہے ایسے ہی ان کلبوں میں عورت کا استعمال کیا جاتا ہے۔ وہ سہمی ہوئی ایک الگ تھلگ سی بیٹھی تھی جب ویٹر اس کے پاس ڈرنک لے کر آئی لیکن اس نے انکار کر دیا تھا وہ کندھے اچکا کر حیرت سے وہاں سے چلی گئی تھی۔ وہاں اکثر لڑکیاں اپنے بوائے فرینڈز کے ساتھ تھیں۔ جو سنگل تھیں وہ اپنا پارٹنر تلاش کرنے میں مصروف تھیں۔ اس نے بہت سے مردوں کو دوسری عورتوں کو ڈانس کی پیشکش کرتے دیکھا وہ خاموشی سے اس انجان ماحول میں بیٹھی تھی۔ اسے یہ سب دیکھ کر وحشت ہو رہی تھی وہ وہاں ان فٹ تھی۔ اس شور و غوغا سے اس کے اعصاب پہ دباؤ بڑھتا جا رہا تھا۔ بارہ بجے کے بعد میوزک کا موڈ (Mode )بدل جاتا ہے۔
اب نان اسٹاپ میوزک شروع ہو چکا تھا۔ میوزک کا ٹیمپو بدلا تو لوگوں کا جوش و خروش بھی عروج پہ تھا۔ ڈانس فلور پہ اس وقت طوفان بدتمیزی برپا تھا۔ نشے میں مد ہوش بے ہنگم ناچتے لوگوں سے اسے وحشت ہو رہی تھی۔ میوزک کے شور سے اس کا دماغ پھٹ رہا تھا۔ بہت دیر تک صبر سے وہ اس بے ہنگم اور بیہودہ شور کو برداشت کرتی رہی لیکن جب اس کا ضبط ختم ہو گیا تو وہ وہاں سے اٹھ کر ایک بار پھر سحرش کے پاس چلی گئی تھی۔
میں اگر مزید کچھ دیر یہاں بیٹھی تو پاگل ہو جاؤں گی۔ اس نے چلاتے ہوئے سحرش سے کہا۔
میں چیک کرتی ہوں جمی اب تک کیوں نہیں آیا تم ایسا کرو اوپر روم میں چل کر بیٹھو تب تک میں جمی کا پتا کرتی ہوں۔ کلب سے نکل کر سحرش اسے ہوٹل روم کی طرف لے آئی تھی۔ ایک کمرے کے آگے رک کر اس نے کارڈ سے دروازہ کھولا اور اندر داخل ہو گئی۔ کمرے میں اندھیرا تھا۔ کارڈ کو اس نے دیوار پہ لگے سوئچ میں پھنسایا تو کمرہ روشن ہو گیا۔
تم یہاں آرام سے بیٹھو میں ابھی آتی ہوں۔ سحرش اسے اس کمرے میں بٹھا کر واپس چلی گئی تھی۔
یہ کس کا کمرہ ہے سحرش؟ وہ پوچھے بغیر نہیں رہ پائی تھی۔
میری فرینڈ کا کمرہ ہے، آج ہی بنکاک سے آئی ہے چند دن گھومنے پھرنے، پچھلی بار آئی تھی تو ہماری اچھی دوستی ہو گئی تھی۔ وہ خود اس وقت نیچے کلب میں ہے تم بے فکر ہو کر یہاں بیٹھو میں جمی کا پتا کرتی ہوں۔ اسے مطمئن کرنے کے بعد سحرش اپنے فون پہ کوئی نمبر ملاتی کمرے سے نکل گئی تھی۔
وہ خاموشی سے صوفے پہ بیٹھ گئی۔ ڈرتے ڈرتے اس نے ایک اچٹتی نگاہ کمرے پر ڈالی۔ یہ کمرہ نہیں ایک سوئیٹ تھا۔ جہازی سائز بیش قیمت بیڈ اور میچنگ کاؤچ، قیمتی لیمپ سے چھلکتی دودھیا لائٹ، وہاں منی بار بھی تھا۔
اچانک لاک کھلنے کی آواز پہ اس نے گردن گھما کر دروازے کی طرف دیکھا۔ اسی لمحے کوئی دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تھا۔ وہ بہت ہنڈسم اور خوش شکل تھا۔ اس کی عمر تیس اکتیس سال کے قریب تھی۔ گندمی رنگت اور پرکشش ذہین آنکھیں اس کی شخصیت کو اور بھی متاثر کن بنا رہی تھیں۔ اس کی شخصیت اتنی متاثر کن تھی کہ اس کو دیکھ کر کوئی بھی اس کے عشق میں گرفتار ہو سکتا تھا لیکن وہ اسے دیکھ کر بری طرح ڈر گئی تھی۔
کون ہیں آپ اور اس وقت یہاں کیا کر رہے ہیں ؟ اسے دیکھتے ساتھ وہ اپنی جگہ سے اٹھی تھی۔ روشنی کی بات پہ کسی قسم کا ری ایکٹ کئے بغیر وہ بہت اعتماد کے ساتھ کمرے کا دروازہ بند کرتا اس کے سامنے بیڈ پہ جا کر بیٹھ گیا تھا۔
بیٹھ جاؤ! شائستہ اور دھیمے لہجے میں کہتا وہ مسلسل اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ خوف سے کانپتے وہ واپس اسی صوفہ پہ بیٹھ گئی تھی۔ سینٹرل اے سی کمرے میں بھی اسے پسینہ آ رہا تھا۔
آپ کون ہیں اور یہاں کیا کر رہے ہیں۔ روشنی نے خود پہ قابو پاتے اس سے پوچھا۔
میرا نام وقار حسن ہے اور میں ایک آرکیٹیکٹ ہوں۔ کیا اتنا تعارف کافی ہے ؟ اس لہجے میں کچھ تھا جو روشنی سمجھ نہیں پائی۔
ویسےیہ کمرہ میں نے بک کیا تھا۔ وہ مزید بولا۔
لیکن سحرش تو کہہ رہی تھی یہ کمرہ اس کی دوست کا ہے۔ اپنے خشک ہونٹوں پہ زبان پھیرتے اس نے ہمت کر کے کہا۔
اس لڑکی نے مجھ سے ایک ہزار درہم کمیشن لیا ہے تمھیں یہاں پہچانے کے لئے کیا یہ بات تم نہیں جانتیں؟ اس کی بات پہ حیران ہو کر وہ اسے بتا رہا تھا۔
کون لڑکی؟ سحرش؟ وہ ایسا کیسے کر سکتی ہے میرے ساتھ۔ اسے شاک لگا تھا۔
اس نے مجھے کہا تھا کہ وہ رات گزارنے کے لئے مجھے ایک لڑکی فراہم کر سکتی ہے اور بدلے میں اسے کم سے کم ایک ہزار کمیشن چاہئیے۔ وہ اسے تفصیلاً بتا رہا تھا۔
میں جسم فروش نہیں ہوں۔ روشنی ہذیانی کیفیت میں چلائی تھی۔
دیکھو اگر تمھیں کچھ زیادہ رقم چاہئیے تو میں تمھیں زیادہ بھی دینے کو تیار ہوں۔ وہ شائستہ اور مہذب لہجے میں بولا تھا۔
I am not a prostitute, I don’t need your money, please let me go……
(میں جسم فروش نہیں ہوں اور مجھے آپ کے روپوں کی ضرورت نہیں ہے، پلیز مجھے جانے دیں۔۔ ۔ )
وہ لڑکی کہہ رہی تھی تمھیں پیسوں کی ضرورت ہے، کیا میں جان سکتا ہوں تمھیں ایسی کیا مجبوری ہے۔ اس کے نرم لہجے میں پوچھے گئے سوال پہ بہت دیر کے رکے آنسو بہہ نکلے تھے۔ وہ اس کے سامنے بیٹھی پھوٹ پھوٹ کے رو رہی تھی۔ وقار اسے کافی دیر تک اپنے سامنے روتے دیکھتا رہا۔ پھر بیڈ روم فریج سے پانی کی بوتل نکال کر اسے پانی دیا جو وہ ایک ہی گھونٹ میں پی گئی تھی۔ پیاس سے اس کے حلق میں کانٹے چبھ رہے تھے۔ بے دردی سے لبوں کو کاٹتے ہوئے اس نے کہنا شروع کیا، اس کے ہونٹوں پہ جمی سرخ لپ اسٹک کی تہہ میں دڑاڑیں پڑ چکی تھیں۔
مجھے اس وقت پچاس ہزار روپے کی اشد ضرورت ہے۔ اپنی بہن کے داخلے کے لئے مجھے پاکستان پیسے بھجوانے ہیں۔ اگر میں نے ایسا نہ کیا تو میری بہن اپنی جان دے دے گی۔ اور پھر مختصر لفظوں میں اس نے وقار کو اپنی کہانی سنا دی تھی۔
ساری بات سننے کے بعد اس نے ایک گہری سانس لی۔
تمھیں نہیں لگتا تمھارے گھر والے تمھارے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں۔ پچھلے کئی سالوں سے ایک لڑکی ہو کر تم انہیں سپورٹ کر رہی ہو ان کی ضرورتوں کے لئے دن رات خود کو ہلکان کر رہی ہو اور وہ تمھیں Exploit (استحصال) کر رہے ہیں۔ تمھاری والدہ کا فرض بنتا تھا کہ وہ تمھاری مجبوری کو سمجھتیں اور تمھاری بہن کو سمجھاتیں الٹا وہ اس کی بیوقوفی کا ساتھ دے رہی ہیں۔ وقار اس کی بات سن کر غیر جانبدار تبصرہ کر رہا تھا۔
میری بہن بہت ضدی ہے ہم سب اس سے بہت پیار کرتے ہیں اور اسے پڑھنے کا بھی بہت شوق ہے۔ میں تو انٹر کے بعد آگے پڑھ نہیں پائی لیکن اس نے دن رات محنت کی ہے۔ ایم بی اے کرنا اس کا خواب ہے بس اسی لئے وہ اس طرح ری ایکٹ کر رہی ہے۔
تم فضول ان کی سائیڈ لے رہی ہو حالانکہ مجھے تو وہ لوگ بہت Materialist (مادہ پرست) لگے ہیں۔ تم کہہ رہی ہو تم پہلے بھی اپنی تمام آمدنی انہیں بھجوا دیتی ہو، فیس تو ہر چھ ماہ بعد ادا کرنی ہو گی اگلے دو سال تم مزید پیسے کہاں سے لاؤ گی ؟
میں اوور ٹائم کروں گی۔ چھ ماہ میں میرے پاس اتنے پیسے با آسانی ہو جائیں گے کہ میں اپنی بہن کی فیس دے پاؤں۔
پھر تو وہ یہ سمیسٹر ڈراپ کر سکتی تھی۔
اس طرح اس کا سال ضائع ہو جاتا۔
یہ اتنا بڑا مسئلہ تو نہیں تھا خیر میں تمھیں پچاس ہزار روپے دینے کو تیار ہوں۔
آپ پچاس ہزار تو کیا پچاس لاکھ بھی دیں تو میں آپ کے ساتھ یہاں رات نہیں گزار سکتی۔
میرا تمھارے ساتھ رات گزارنے کا ارادہ بھی نہیں ہے۔ اس کی بات سن کر روشنی نے شرمندگی سے سر جھکا لیا تھا۔ اس نے اگلی بات نرمی سے کہی۔
میں تمھیں یہ پیسے ادھار دے رہا ہوں۔ جب ہوں مجھے واپس کر دینا۔
لیکن میں کیسے آپ سے ادھار لے لوں میں تو آپ کی جانتی بھی نہیں ہوں اور اگر واپس نہ لوٹا پائی۔
تو مت واپس کرنا۔ میں شکایت نہیں کروں گا۔
یہ بہت بڑی رقم ہے۔ آپ کی مہربانی ہے کہ آپ نے میری بات سنی اور مجھے گناہ میں ملوث نہیں کیا آپ کا مجھ پر احسان ہے لیکن میں آپ سے مالی معاونت نہیں چاہتی ہوں۔
میں نے تمھیں یہاں کسی گناہ کے ارادے سے بلایا بھی نہیں تھا روشنی، میرے اپنے چند مسائل ہیں جو میری زندگی کو بری طرح الجھا رہے ہیں۔ میں عورتوں کی عزت کا خریدار نہیں ہوں بلکہ ایک شریف انسان ہوں، اس کمرے میں کسی لڑکی کو بلانے کا مقصد عیاشی نہیں بلکہ مجبوری سے جڑا ہے۔ اگر تم چاہو تو میری مدد کر کے مجھے اس پریشانی سے نکال سکتی ہو۔ وہ بہت الجھا ہوا لگ رہا تھا۔
آپ کو ایسی کیا پریشانی ہے۔ روشنی کو اب اس شخص سے خوف نہیں آ رہا تھا۔ وہ اس لمحے اسے بہت مایوس اور بکھرا ہوا لگا تھا۔
میں نے اپنی بہن سے جھوٹ بولا تھا کہ میں شادی کر چکا ہوں اور اس ماہ کے آخر میں وہ اپنے بچوں کے ساتھ میری بیوی سے ملنے آ رہی ہے۔
آپ نے ان سے یہ جھوٹ کیوں بولا؟
بس سچویشن ہی کچھ ایسی ہو گئی تھی۔
تو اب آپ ان کو سچ بتا دیں۔
یہ سب اتنا آسان نہیں ہے۔
اگر تم چاہو تو میری ایک مدد کر سکتی ہو۔ تمھیں میرے ساتھ میرے گھر چند دن میری بیوی بن کے رہنا ہو گا۔
جی یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ؟
تمھیں پاکستان میں میری بہن کے سامنے میری بیوی بننے کا ڈرامہ کرنا ہو گا۔ میں ایک شریف آدمی ہوں اور تم وہاں اتنی ہی محفوظ رہو گی جتنی اس وقت میرے ساتھ ہو۔ میں اس وقت ایک مشکل میں پھنس گیا ہوں اور میری مدد کر کے تم مجھے اس مشکل سے نکال سکتی ہو۔ وہ کبھی پندرہ بیس دن سے زیادہ نہیں رکتی وہ جیسے ہی جائے تم واپس آ جانا۔ تمھیں آنے جانے کا ٹکٹ بھی میں ہی دوں گا۔
لیکن اس کے بعد آپ ان سے کیا کہیں گے وہ پوچھیں گی نہیں آپ کی بیوی کہاں گئی۔
کچھ عرصے بعد کہہ دوں گا رشتہ ختم ہو گیا۔ لیکن فی الوقت میں اسے کچھ نہیں بتا سکتا مجھے اپنے اس جھوٹ کو نبھانا ہی پڑے گا۔ کیا تم میری مدد کرو گی؟
وہ اس کی بات کسی صورت نہیں مان سکتی تھی۔ یہ بندہ جو ابھی کچھ دیر پہلے اس کا خریدار ہونے کا دعویٰ کر رہا تھا اچانک اسے اپنے گھر میں بیوی بنا کر رکھنے کی بات کر رہا ہے۔ اسے خاموش دیکھ کر وقار جیسے اس کی دلی کیفیت سمجھ چکا تھا۔
میں تمھیں مجبور نہیں کروں گا، اگر تمھارا دل نہیں مانتا تو اس بات کو جانے دو اور یہ پیسے رکھ لو۔ میں جانتا ہوں تمھیں پیسوں کی ضرورت ہے، جب ہوں واپس کر دینا۔ اس نے زبردستی اسے پیسے پکڑاتے ہوئے کہا۔
آپ مجھ پہ اتنی بڑی رقم کا اعتبار کر رہے ہیں۔ اگر میں بھاگ گئی تو۔ اس نے حیرت سے کہا۔
تھوڑے سے پیسے ضائع ہو جائیں گے کیا فرق پڑتا ہے یہ تو چند نوٹ ہیں یہاں تو لوگ جذبوں کا خون کر ڈالتے ہیں۔ اس نے سوچتے ہوئے کہا۔
تم اس بارے میں مت سوچوں میں بندہ بندہ دیکھ کے بات کرتا ہوں اور پھر یہاں میرے بہت سے لوگ ہیں تم بھاگ گئی تو میرے لئے تمھیں لوکیٹ کرنا اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ بہت پرسکون انداز میں وہ اب مسکراتے ہوئے اسے بتا رہا تھا۔
میری ایک ماہ کی چھٹی باقی ہے امی نے منع کر دیا تھا کہ خواہ مخواہ خرچہ ہو جائے گا اس لئے پاکستان نہیں جا سکی میں اگر اپلائے کروں تو ایک ہفتے تک مجھے چھٹی مل جائے گی۔ اس کی زبان سے بے اختیار نکلا تھا۔ یہ شخص اس کا محسن تھا، اسے نہ جانتے ہوئے بھی اس کی مدد کر رہا تھا اور پھر وہ کہہ رہا ہے وہ یہ سب اپنی بہن کی وجہ سے کر رہا ہے۔ اسے وقار کی مدد کرنی چاہئیے۔ اس نے ایک دم فیصلہ کیا تھا۔
ٹھیک ہے پھر میں تمھیں ٹریول کی ڈیٹ کچھ دن میں کنفرم کر دوں گا۔ میرا آدمی یہاں تمھارے سفر کا انتظام کر دے گا۔ روشنی کی بات سن کر اسے حیرت ہوئی تھی لیکن خود پہ قابو پاتے اس نے دھیمی آواز میں کہا۔
چلو میں تمھیں گھر چھوڑ آؤں۔ وہ بیڈ سے اٹھ کر دروازے کی طرف جا رہا تھا۔
نہیں میں خود چلی جاؤں گی۔ روشنی نے ہچکچاتے ہوئے کہا۔
رات کافی ہو چکی ہے۔ میں چھوڑ آتا ہوں۔ پختہ لہجے میں کہتا وہ بغور اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ وہ مزید کچھ نہیں کہہ پائی۔
سنو! وہاں سامنے واش روم ہے۔ منہ دھو آؤ۔ اشارے سے کہتا وہ خود کمرے سے باہر جا رہا تھا۔
وہ سر ہلاتی ہوئی واش روم میں چلی گئی۔ کئی گھنٹوں بعد اس نے اپنا چہرہ شیشے میں دیکھا تھا۔ خوبصورت تو وہ خیر کبھی نہیں تھی لیکن اس وقت جو لگ رہی تھی وہ خود ہی اپنا آپ دیکھ کر ڈر گئی تھی۔ میک اپ کے نام پہ وہ صرف کاجل لگاتی تھی جو رونے کے باعث بہہ کر چہرے پہ عجیب و غریب نقش و نگار بنا رہا تھا، رہی سہی کسر سحرش کی لگائی اس شوخ سرخ لپ اسٹک نے پوری کر دی تھی۔ خوب رگڑ رگڑ کے منہ دھونے کے بعد اس نے ایک بار پھر اپنے چہرے کو شیشے میں دیکھا۔ اس بار اسے تسلی ہوئی تھی۔ اپنے کھلے ہوئے لمبے بالوں کو سمیٹتی وہ کمرے سے باہر نکل آئی تھی۔
وقار نے روشنی کو اس کی بلڈنگ کے باہر ڈراپ کیا تھا۔ اس کا کانٹکیٹ نمبر اور پتہ وہ اپنے پاس محفوظ کر چکا تھا۔ اگلا لائحہ عمل وہ طے کر چکا تھا۔ اب اسے عائشہ سے اس کی ٹریول ڈیٹیلز معلوم کرنی تھیں تاکہ اسی حساب سے وہ روشنی کو پاکستان کا ٹکٹ بھیجے۔
اپنے کمرے میں جا کر روشنی نے سب سے پہلے وضو کیا اور دو نفل شکرانے کے ادا کئے۔ اللہ نے اسے کتنی بڑی پریشانی سے بچا لیا تھا اسے معجزوں پہ یقین آ گیا تھا۔ یہ معجزہ ہی تو تھا جو وقار کی صورت میں ایک فرشتہ بھیج کر اللہ نے اس کی عزت کی بھی حفاظت کی تھی، وہ کوئی شیطان بھی ہو سکتا تھا اور آج رات کے بعد وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہتی۔ بہت دیر تک سجدے میں گری وہ اللہ کا شکر ادا کرتی رہی تھی۔
آئمہ کو فیس کے پیسے وہ بھجو اچکی تھی۔ صابرہ اور آئمہ کے رویوں نے اسے ایک بڑا سبق دیا تھا۔ وہ لوگ اس کی محنت کی کمائی کو بہت آسانی سے خرچ کر رہے تھے۔ اس نے اس دوران ان سے کوئی رابطہ بھی نہ کیا تھا کیونکہ وہ دل ہی دل میں ان سے ناراض تھی۔ لیکن وہ جانتی تھی وہ ان سے بہت دن تک ناراض نہیں رہ پائے گی۔
سحرش سے اس کی ملاقات نہیں ہو پائی تھی، اس کو کال کرنے پہ ہر بار اسے اس کا نمبر بند ملتا تھا۔ وہ روشنی کے ساتھ اتنا گھٹیا کھیل سکتی تھی یہ وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔
سحرش اچھی طرح جانتی تھی کہ روشنی ایک مضبوط کردار کی لڑکی ہے اور روپوں کے عوض خود کو بازار میں کبھی نہیں لائے گی۔ اس نے پچھلے دو سال میں روشنی کو بہت قناعت اور استقامت کا مظاہرہ کرتے دیکھا تھا۔ اندر ہی اندر وہ روشنی کی اس صفت سے بری طرح خائف تھی اور یہ رقابت اس وقت اور بھی بڑھ گئی تھی جب روشنی نے اس کے پیسوں سے کھانا کھانے سے انکار کر دیا تھا۔ اب جو روشنی نے اس سے مالی مدد مانگی تو اسے قدرت کی طرف سے روشنی کو نیچا دکھانے کا ایک موقع مل گیا تھا۔ اس کو بازار میں لا کر وہ اسے ٹھیک اسی مقام پہ لے آئی تھی جہاں وہ خود کھڑی تھی۔
تم نے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا؟ تم جانتی ہو تمھاری اس حرکت کے لئے میں تم پہ کیس کر سکتی ہوں۔ روشنی سے ایک ہفتے بعد سحرش کی ملاقات ہوئی تو بہت غصے میں اس نے کہا تھا۔
ایک تو میں نے تمھاری مدد کی ہے اور تم الٹا مجھے پولیس کی دھمکی دے رہی ہو۔ یہ تم بھی جانتی ہو اور میں بھی کہ یہاں کی پولیس غیر ملکیوں کے تمام معاملات میں کتنی غیر جانبدار رہتی ہے۔ وہ اس کی بات سے محظوظ ہوتے ہوئے ڈھٹائی سے بولی تھی۔
سحرش میں نے تمھارا کیا بگاڑا تھا جو تم نے میرا اس شخص کے ساتھ سودا کر دیا۔ وہ دھیمی آواز میں بولی تھی۔
یہ تو تم اپنے آپ سے پوچھو کہ تم نے میرا کیا بگاڑا ہے۔ کتنی ذلت نظر آتی تھی مجھے تمھاری نگاہوں میں اپنے لئے، اس دن جب تم نے میری ڈنر کی آفر کو ٹھکرا کر حرام کی کمائی کا طعنہ مارا تھا اس دن سے میں نفرت کرنے لگی تھی تم سے۔ اپنی پارسائی اور مضبوط کردار پہ بڑا ناز تھا تمھیں، میں نے سوچا کیوں نہ تمھیں بھی اس ذلت کا مزا چکھاؤں۔ ویسے تمھارا کام تو ہو گیا ہو گا۔ کافی مالدار آدمی تھا، میں نے اسے بتا دیا تھا کہ تمھیں بڑی رقم چاہیئے پھر بھی اس نے کمیشن کے طور پہ مجھے پورا ایک ہزار درہم دے دیا۔ وہ بے شرمی سے کہہ رہی تھی۔
اس کی بات سن کر وہ شاک رہ گئی تھی۔
لعنت ہے تم پر سحرش، ایک عورت تو کیا تم تو انسان کہلانے کے بھی لائق نہیں ہو۔ تمھیں اگر یہ خوش فہمی ہے کہ اس دن میں نے اپنی عزت کا سودا کر کے اپنی بہن کے ایڈمیشن کی فیس کے پیسے حاصل کئے ہیں تو میں تمھاری یہ غلط فہمی دور کر دیتی ہوں۔ اللہ نے تمھارا ناپاک منصوبہ ناکام بنا کر نہ صرف میری عزت کو محفوظ رکھا ہے بلکہ مجھے اس حرام کمائی کے استعمال سے بھی بچا لیا ہے جو میں تم سے ادھار لینے والی تھی۔ اپنی بات ختم کر کے اس کے چہرے پہ تاسف کی نگاہ ڈالتے روشنی وہاں سے چلی گئی تھی۔ سحرش ناقابل یقین حیرت سے اسے اسٹور سے نکلتے دیکھتی رہی تھی۔
اگلے چند دنوں میں اس نے اپنی سالانہ چھٹی کے لئے اپلائی کر دیا تھا جو منظور بھی ہو چکی تھی۔ وقار کی طرف سے اسے ٹکٹ مل چکا تھا، اسے ایک ماہ پاکستان میں رہنا تھا اور یہ بات وہ صابرہ کو بتا نہیں سکتی تھی اسلئے اس نے اپنے فون کی رومنگ آن کرا لی تھی۔ اب وہ آسانی سے اپنے فون کے ذریعے ان سے رابطے میں رہ سکتی تھی اور اگر وہ لوگ اسے کال کرتے تو ان کی کال ریسیو بھی کر سکتی تھی۔
ڈیپارچر لاؤنج میں بیٹھی وہ اس وقت بورڈنگ کا انتظار کر رہی تھی۔ وہ دو سال بعد پاکستان جا رہی تھی لیکن اس دوران وہ اپنی ماں اور بہن سے مل نہیں سکتی تھی۔ دو ماہ پہلے جب اس نے صابرہ سے یہ کہا تھا کہ اس کے نئے کانٹریکٹ کے آغاز سے پہلے اسے ایک ماہ کی چھٹی ملے گی اور وہ پاکستان آئے گی تو صابرہ نے اسے منع کر دیا تھا۔ ان کے خیال میں یہ پیسوں کا ضیاع تھا، وہ انہیں بتانا چاہتی تھی کہ اس کی ٹکٹ کمپنی کے ذمے ہے لیکن ان کے رویے سے حیران ہو کر وہ خاموش ہو گئی تھی صابرہ نے ایک بار بھی یہ اظہار نہیں کیا تھا کہ وہ اسے ملنے کے لئے بے چین ہے اور پھر اس نے ایک ماہ سے اکھٹے کئے ہوئے اوور ٹائم کے پیسوں سے کچھ تحائف خرید کر ان دونوں کو بھجوا دئے تھے۔ فلائٹ کی اناؤنسمنٹ ہو رہی تھی۔ اداسی سے وہ اب ڈیپارچر گیٹ کے اندر جا رہی تھی۔
ارائیول لاؤنج میں وقار اسے کچھ فاصلے پہ کھڑا نظر آ گیا تھا۔ اس دن کی طرح بہترین لباس میں اور اتنا ہی جاذب نظر۔ اس دن کے برعکس روشنی نے آج مسٹرڈ شلوار قمیض پہ سیاہ بڑی سی چادر اوڑھی ہوئی تھی پتا نہیں اس نے اسے دیکھ کر پہچانا بھی تھا کہ نہیں۔ روشنی اپنا ٹرالی بیگ گھسیٹتی اس کے پاس چلی آئی تھی۔ وہ بہت غور سے اسے دیکھ رہا تھا۔ دھلے منہ کے ساتھ وہ بہت خوبصورت نہیں لیکن بہت معصوم لگ رہی تھی۔
اسلام علیکم۔ اس نے جھجکتے ہوئے کہا۔
وعلیکم السلام۔ سفر میں کوئی پریشانی تو نہیں ہوئی۔ لہجہ سنجیدہ تھا۔
نہیں۔ جواب مختصر آیا تھا۔
چلیں۔ یہ کہہ کر وہ اب پارکنگ کی طرف بڑھ رہا تھا۔ سورج ابھی کچھ دیر پہلے ہی طلوع ہوا تھا اور آسمان پہ سورج کی کرنیں ابھی پوری طرح نہیں پھیلی تھیں۔ دونوں کے درمیان اس رسمی علیک سلیک کے بعد مزید کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔ وہ اسے تھکا ہوا لگا تھا شاید اتنی صبح فلائیٹ کی وجہ سے وہ ٹھیک سے سو نہ پایا ہو۔ روشنی نے خود ہی وجہ سوچ لی تھی۔ وہ خود بھی تمام رات کی جاگی ہوئی تھی۔ وہ آج بھی بہت انہماک سے ڈرائیونگ کر رہا تھا۔ یہ شہر روشنی کے لئے اجنبی نہیں تھا وقار نہ بھی بتاتا پھر بھی وہ جانتی تھی کہ گاڑی اس وقت کس علاقے میں جا رہی ہے۔ لیکن اسے حیرت ہوئی جب وقار نے گاڑی کسی گھر کے بجائے ایک بلڈنگ کے سامنے روکی اور اسے ایک فلیٹ میں لے گیا۔ اپارٹمنٹ کا دروازہ کھول کر وہ خود اندر نہیں گیا تھا۔
تمھیں چند دن یہاں رہنا ہو گا۔ اندر ضرورت کی تمام چیزیں موجود ہیں اور اگر مجھ سے کوئی بات کرنی ہو تو اس موبائل میں میرا نمبر سیو ہے۔ ایک موبائل فون اس کی طرف بڑھاتے ہوئے اس نے اسے چند ضروری ہدایات دیں جو آج کے دن کے حوالے سے تھیں۔ اور پھر تیزی سے واپس چلا گیا۔ روشنی فلیٹ کا دروازہ لاک کرتی اندر آ گئی۔ یہ ایک لگژری اپارٹمنٹ تھا جو بہت خوبصورتی سے سجا ہوا تھا۔ اگلے چند منٹ اس نے اس جگہ کا جائزہ لیا، کچن اور فریج میں بہت سا کھانے پینے کا سامنا موجود تھا۔ وہ جہاز میں تھوڑا بہت کھا چکی تھی اسلئے اسے کسی چیز کی طلب نہیں تھی۔ پانی کا گلاس پی کر وہ بیڈ روم میں آ گئی تھی۔ وہ بے تحاشہ تھکی ہوئی تھی اور اسے نیند آ رہی تھی۔ وہ بہت گہری نیند سوئی تھی اور اس کی آنکھ موبائل کی بیل سے کھلی تھی۔ اسے چند لمحے لگے تھے یہ سمجھنے میں کہ وہ اس وقت کہاں ہے اور یہ آواز کہاں سے آ رہی ہے۔ یہ اس کے موبائل فون کی آواز نہیں تھی۔ اگلے سیکنڈ میں اس نے کال اٹینڈ کی تھی۔
ہیلو۔ اس نے بوجھل آواز سے کہا
تم سو رہی تھی؟ اس نے اس کی آواز سن کر اندازہ لگایا تھا۔
اب جاگ چکی ہوں۔
لنچ کے بعد تیار ہو جانا تمھیں آج نتاشہ سے ملنا ہے میں تمھیں ایک بجے کے بعد پک کر لوں گا۔ وقار جلدی جلدی اسے بتا رہا تھا۔ اسے لگا وہ اس وقت اس سے بات کرنے کے علاوہ کچھ اور بھی کر رہا ہے یا شاید کہیں جا رہا ہے۔ وہ اس سے پوچھنا چاہتی تھی یہ نتاشہ کون ہے اور اسے کہاں جانا ہے اور وہ یہ سب کہنے کے لئے لفظ سوچ رہی تھی لیکن وقار نے اپنی بات ختم کر کے دوسری طرف سے جواب سنے بغیر فون بند کر دیا۔
ڈیڑھ بجے کے قریب وہ اسے لینے آ گیا تھا۔ وہ اس سے بہت کچھ پوچھنا چاہتی تھی لیکن اس کی سنجیدگی کی وجہ سے کچھ بھی کہنے کی ہمت نہیں ہوئی تھی۔ یہ ایک بہت بڑا بیوٹی سیلون کم اسٹوڈیو تھا جہاں ایک ماڈرن اور خوش مزاج لڑکی نے اسے نتاشہ کے نام سے اپنا تعارف کرایا تھا۔ وقار کے ساتھ اس کی بات چیت سے روشنی کو اندازہ ہوا تھا کہ وہ دونوں کافی بے تکلف ہیں۔
فری ہو کر مجھے کال کر لینا میں تمھیں پک کر لوں گا۔ نتاشہ سے بات کرنے کے بعد وہ اب اس سے مخاطب تھا۔
اگلے کچھ گھنٹے وہاں کی بیوٹیشن اس کے چہرے اور بالوں کو مختلف ٹریٹمنٹ دیتی رہی تھیں اور وہ خاموشی اور بے دلی سے انہیں ان کا کام کرنے دے رہی تھی۔ ایک طرف بہت سے قیمتی کپڑوں اور جوتوں کا ڈھیر تھا ان میں ایک لباس کو نتاشہ نے اس کے لئے سیلیکٹ کیا تھا۔ بیوٹیشن اس کا میک اپ کر رہی تھی اور روشنی آنکھیں بند کئے بیٹھی تھی۔ اس نے آنکھیں کھولیں اور اپنے چہرے پہ ایک بھرپور نگاہ ڈالی، وہ اچھی لگ رہی تھی لیکن یہ بہت حیرانگی کی بات تھی کہ میک اپ سے اس کا چہرہ یکدم بدلا نہیں تھا بلکہ کافی نیچرل لک آ رہی تھی۔ اتنے عرصے سے وہ سینکڑوں عرب عورتوں کے میک اپ زدہ چہرے دیکھ چکی تھی۔ وہ بہت بولڈ میک اپ کرتی تھیں۔ بہت زیادہ گہرے شیڈز کی لپ اسٹک اور آئی شیڈز عرب خواتین میں بے حد مقبول ہیں۔
بہت اچھی لگ رہی ہو تم۔ ہئیر سٹائلسٹ اس کے بال بنا چکی تھی، اس کے لمبے بالوں کو بہت معمولی سی کٹنگ سے ایک خوبصورت سٹائل دیا گیا تھا۔
اینڈ ناؤ یو آر ریڈی۔ نتاشہ نے اسے دیکھ کر کہا تھا۔ وہ اب اس کا دوپٹہ ٹھیک کر رہی تھی۔
لپ کلر تھوڑا لائیٹ نہیں ؟ اس نے ڈرتے ہوئے کہا۔ میک اپ کے نام پہ ایک ڈارک لپ اسٹک تو ہونی چاہئیے تھی۔ اسے تھوڑی مایوسی ہوئی تھی۔
وقار کی اسپیشل ہدایت ہے کہ میک اپ لائیٹ رکھا جائے، اسی لئے ہم نے نیوڈ شیڈز استعمال کئے ہیں۔ وہ لاپرواہی سے کہہ رہی تھی۔ لیکن اس کی بات سن کر روشنی کافی شرمندہ ہوئی تھی۔
وقار نے سختی سے منع کیا تھا کہ تمھارے بالوں کو ہرگز کاٹا نہ جائے۔ وہ اب اس کے بالوں کو اپنی انگلیوں سے سیٹ کر رہی تھی۔ یہ سارے ڈریسز تمھارے ساتھ جائیں گے اور اگلے تین دن میری بیوٹیشن تمھیں میک اپ کا ٹیٹوریل دینے گھر آئے گی۔ پھر تم خود بھی ایسا ہی میک اپ کرنے لگو گی۔ روشنی جانتی تھی اتنا تردد کیوں ہو رہا ہے۔ وہ وقار حسن کی بیوی کی حیثیت سے اس کی بہن سے ملنے والی تھی، وہ کسی بھی راہ چلتی لڑکی کو اپنی بہن سے نہیں ملوا سکتا تھا۔ ایک عام سی لڑکی کو خاص بنا کر اپنی بہن کے سامنے بولے جھوٹ کا بھرم رکھنے کی خاطر وقار کو اتنا تو کرنا ہی تھا۔ اس نے ایک گہری سانس لی۔
اپنی شادی پہ بلانا مت بھولنا۔ وہ اب دوستانہ لہجے میں اسے کہہ رہی تھی۔
میری شادی۔ اسے حیرت ہوئی تھی۔
ہاں۔ تمھاری شادی ہے نہ اگلے مہینے، مجھے وقار نے بتایا تھا امریکہ جا کر ہمیں بھول مت جانا۔ وہ اسے ہنستے ہوئے کہہ رہی تھی۔ اس کی بات کا روشنی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا کیونکہ وہ نہیں جانتی تھی وقار نے اسے کیا بتایا تھا اور نتاشہ کی بات سے وہ کوئی سیاق و سباق نہیں نکال پائی تھی۔ وقار اسے لینے آیا تھا اور اس پہ ایک سرسری نگاہ ڈال کر وہ اب نتاشہ سے بات کر رہا تھا۔
اگلے تین دن میں نتاشہ کی طرف سے بھیجی گئی بیوٹیشن نے اسے کافی کچھ سکھا دیا تھا اور وہ جانتی تھی کہ وہ خود بھی اپنا مناسب سا میک اپ کر ہی سکتی ہے۔ ان تمام دنوں میں وقار سے اس کی ایک بار بھی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ وہ اسے دن میں ایک دو بار خیریت پوچھنے کے لئے کال کرتا تھا۔
تمھیں کچھ چاہئیے تو نہیں۔ کال بند کرنے سے پہلے وہ اس سے پوچھتا۔
اور اس کا جواب ہر بار نہ میں ہوتا۔ وقار سے اس کی ملاقات چار دن بعد ہوئی تھی۔ وہ اسے لینے آیا تھا۔ گاڑی ایک شاندار گھر کے سامنے رکی تھی اور چوکیدار اس کے ہارن دینے پہ اب سیاہ آہنی دروازہ کھول رہا تھا۔ اس کا سامان ڈگی سے نکال کر وہ خود گھر کے داخلی دروازے سے اندر چلا گیا تھا۔ اس کی تقلید میں روشنی اس عالیشان گھر میں داخل ہوئی۔ باہر کی طرح گھر کا اندرونی حصہ بھی قابل ستایش تھا۔ ہال کمرہ بہت خوبصورتی سے سجا ہوا تھا۔ فرش پہ بچھے بیش قیمت قالین اور دیواروں پہ لگیں قیمتی تصاویر مکین کی امارت سے زیادہ اس کے با ذوق ہونے کی ترجمانی کر رہی تھیں۔ حیران نظروں سے وہ اس جگہ کو دیکھ رہی تھی اور قدم آگے نہیں بڑھا سکی تھی۔ شاید وقار نے اس کا رکنا محسوس کر لیا تھا۔ وہ پیچھے مڑ کر اب اسی کو دیکھ رہا تھا۔ اسے اپنی طرف متوجہ پا کر وہ تیزی سے قدم بڑھاتی اس کے پاس چلی آئی تھی۔ کاریڈور سے بائیں طرف وہ ایک کمرے کے سامنے رک کر اس کا دروازہ کھول رہا تھا۔
یہ ہمارا کمرہ ہے۔ ملازم اس کا سامان اب کمرے میں رکھ رہا تھا۔ تمھیں اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو تم ملازم سے کہہ سکتی ہو۔ کمرے کا دروازہ بند کرتے ہوئے اس نے روشنی سے کہا تھا۔
کل رات کو عائشہ آپی پاکستان پہنچ رہی ہیں۔ اگلے پندرہ دن تمھیں یہاں اس کمرے میں ہی رہنا ہو گا۔ وہ بے بسی سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔
مجھے ایسی نظروں سے مت دیکھو روشنی، تم یہاں پوری طرح محفوظ ہو۔ تمھیں مجھ پہ ٹرسٹ کرنا ہو گا۔ وہ جیسے اس کے ان کہے لفظوں کو بھی سمجھ گیا تھا۔
مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے، اگر مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی اور آپ کی بہن کو سب کچھ پتا چل گیا تو۔۔ ۔۔ ۔
اگر انہوں نے مجھ سے پوچھا ہماری شادی کب اور کہاں ہوئی، میں کس فیملی سے ہوں اور میرے والدین کون ہیں تو میں انہیں کیا بتاؤں گی؟ وہ بہت سارے سوال جو کئی دن سے اس کے ذہن کو الجھا رہے تھے اس نے ایک ہی سانس میں پوچھ ڈالے تھے۔
اگر وہ تم سے پوچھے تو تم یہی کہنا کہ ہم دبئی میں ملے تھے اور تمھاری فیملی بھی دبئی بیس ہے۔ باقی سب تم مجھ پہ چھوڑ دو وہ یہاں میری بیوی سے ملنے آ رہی ہے کوئی انویسٹیگیشن کرنے نہیں۔ اسلئے تمھیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
آپ انہیں سب سچ بتا کیوں نہیں دیتے۔ اتنے سارے جھوٹ بولنے کی بجائے ایک سچ بول کر آپ اس ساری مشکل سے نکل سکتے تھے۔
یہ سب کہنا جتنا آسان ہے اس پہ عمل کرنا اتنا ہی دشوار، سچ بتانے کی صورت میں مجھے اس کی نند سے شادی کرنا پڑے گی جو میں کسی قیمت پر نہیں کر سکتا اور ویسے بھی میں ابھی شادی کرنا ہی نہیں چاہتا۔ اس نے نظریں چراتے ہوئے کہا۔ اس نے اسے یہ نہیں بتایا تھا کہ شادی نہ کرنے کا فیصلہ اس نے چند ہفتے پہلے کیا تھا وہ بھی اپنی زندگی کا سب سے بڑا دھوکا کھانے کے بعد۔
اپنی ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کرتا وہ اب ڈریسنگ روم میں گھس گیا تھا۔ اس کا کوٹ بیڈ پہ پڑا تھا۔ روشنی نے ایک نظر اس خوبصورتی سے سجے کمرے پہ ڈالی اور پھر اس کی نظر سامنے پڑے کاؤچ پہ جا ٹکی۔ اس کے رات کو سونے کا انتظام ہو چکا تھا۔ وہ رات اور اس سے اگلی تمام راتیں اس نے اسی صوفہ پہ سو کر گزارنی تھیں۔
اگلی صبح اس کی آنکھ دروازے پہ ہونے والی دستک سے کھلی تھی۔ وہ رات صوفہ پہ سوئی تھی اور وقار نے اس کے وہاں سونے پہ کوئی کمنٹ نہیں کیا تھا نہ ہی اس نے اس کی جگہ خود صوفے پہ سونے کی آفر کی تھی۔ دستک کی آواز پہ وہ دونوں ایک ساتھ جاگے تھے۔
ملازمہ کافی لائی ہے، تم یہاں آ جاؤ۔ وقار نے جلدی سے کہا۔
اپنا تکیہ بیڈ پہ رکھ کر وہ اب کمرے کا دروازہ کھول کر کھڑی تھی۔
السلام علیکم روشنی بیٹا۔ یہ عفت بی تھیں، کل رات ہی وقار نے ان سے اس کا تعارف کروایا تھا اور انہوں نے وقار کی دلہن کو ڈھیروں دعائیں دی تھیں۔ وقار نے کہا تھا یہ خاتون اس کے گھر میں کافی لمبے عرصے سے ہیں اور اسی کے آبائی گاؤں سے ہیں۔ ویسے تو گھر کے باقی ملازمین کو بھی یہی بتایا گیا تھا کہ وہ مسز وقار حسن ہے۔
وعلیکم السلام عفت بی۔ اس نے خوش اخلاقی سے کہا۔ ان سے کافی کی ٹرے لے کر وہ اب دوبارہ کمرے کا دروازہ بند کر چکی تھی۔ ناشتے کی میز پر وہ دونوں ایک دوسرے سے اتنے ہی لاتعلق تھے جتنا کل رات اس کمرے میں۔ ملازمہ اسے مختلف چیزیں سرو کر رہی تھی اور وہ مسکراتے ہوئے اس کی بنائی ڈشز چکھ رہی تھی۔ وقار کے آفس جانے کے بعد وہ اپنے کمرے میں آ گئی تھی۔ جہازی سائز کھڑکی پہ دبیز پردے ڈلے تھے۔ اس نے کھڑکی کے پردے کی ڈوری کھینچی۔ سامنے کا منظر دیکھ کر وہ فریز ہو گئی تھی۔ کمرے کے باہر ایک خوبصورت سوئمنگ پول تھا اس کے دونوں طرف سبزے کی کیاریاں تھیں۔ پول کے اطراف بہت قیمتی پتھر لگا تھا۔ یہ جگہ پیٹیو تھی۔ سامنے دیوار پہ قد آدم آئینہ لگا تھا اور چھت کی جگہ لکڑی کی قیمتی آرچز بنی ہوئی تھیں۔ گلاس ڈور کو کھول کر وہ پیٹیو میں آ گئی تھی۔ سوئمنگ پول کے پیالے میں بھرا پانی بہت اٹریکٹو لگ رہا تھا۔ اسے نہیں معلوم وہ کتنی دیر اس پول کے کنارے بیٹھی رہی تھی۔ اسے وہاں بہت سکون مل رہا تھا۔ دوپہر کا کھانا اس نے نہیں کھایا تھا۔ گھر میں آج رات کے کھانے پہ کافی اہتمام تھا یہ وہ کچن میں جائے بغیر بھی جانتی تھی۔ اسے اس گھر کے کسی بھی مسئلے سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اسے یہاں اگلے چند دن گزار کر واپس چلے جانا تھا۔
رات کے نو بجے عائشہ اور اس کے بچوں کو لے کر وقار گھر پہنچا۔ عائشہ سے ملتے ہوئے وہ جتنا جھجک رہی تھی اس کی خوش اخلاقی اور محبت دیکھ کر وہ اتنی ہی پرسکون ہو چکی تھی۔ وقار ٹھیک کہہ رہا تھا اس نے اس سے کچھ بھی نہیں پوچھا تھا۔ جو پوچھنا تھا وہ اپنے بھائی سے پوچھ چکی تھی۔ ایمرالڈ گرین کلر کے نفیس سٹون ورک والے سوٹ میں مناسب میک اپ کے ساتھ وہ کافی اچھی لگ رہی تھی۔ عائشہ کو اس کی کم گوئی اور معصومیت پسند آئی تھی۔ وقار سے اس کے شکوے گلے ختم ہو گئے تھے۔
تم سے مل کر تو مجھے تسلی ہو گئی ہے کہ اس نے کسی ٹھیک بندی کا انتخاب کیا ہے شادی کے لئے ورنہ تو آجکل کی لڑکیاں، اف نہ کوئی فیملی ویلیوز ہوتی ہیں اور نہ اپنائیت۔ اسی لئے تو میں اتنی بھاگم بھاگ پاکستان آ گئی ورنہ اسے اس طرح مجھے بتائے بغیر شادی کرنے پہ اتنی جلدی معاف کرنے والی نہیں تھی میں۔ وہ اسے ہنستے ہوئے بتا رہی تھی۔
آپ کی بہن بہت اچھی ہیں اور آپ سے پیار بھی بہت کرتی ہیں۔ مجھے بہت شرمندگی ہو رہی ہے ان سے سچ چھپاتے ہوئے۔ وہ اسے کہے بغیر نہیں رہ پائی تھی۔ اگر عائشہ کو وہ اچھی لگی تھی تو اسے بھی عائشہ بہت پسند آئی تھی۔ اتنے بڑے خاندان سے تعلق ہونے کے باوجود وہ اسے بہت شائستہ لگی تھی۔ اس کی باتوں میں اونچے خاندان اور ہونے کی جھلک نہیں تھی۔
یہ بات تو مجھے بھی ڈسٹرب کر رہی ہے لیکن میرے پاس اس کے سوا اور کوئی آپشن نہیں تھا۔ وہ لیپ ٹاپ کھولے بیڈ پہ بیٹھا تھا۔ پتا نہیں وہ سچ میں اتنا مصروف تھا یا روشنی کو نظر انداز کرنے کے لئے یہ سب کر رہا تھا۔ اگلی صبح گھر میں خوب گہما گہمی تھی۔ وقار تو صبح ہی آفس چلا گیا تھا، عائشہ کے بچے اس کے ساتھ بہت فرینڈلی ہو گئے تھے۔ وہ لوگ کہیں گھومنے جانا چاہتے تھے اور ان کے اصرار پہ وہ بھی ان کے ساتھ ہی گئی تھی۔ وقار کا ڈرائیور انہیں ان کی مطلوبہ جگہوں پہ گھماتا رہا تھا۔ سہ پہر میں وہ چاروں گھر واپس آئے تھے۔ عائشہ اسے لے کر کافی شاپنگ کرتی رہی تھی۔
یہ میں تمھارے لئے لے رہی ہوں۔ ایک گولڈ کے سیٹ کو خریدتے ہوئے اس نے روشنی سے کہا۔ وہ سیٹ بہت قیمتی تھا۔ گولڈ اور کندن سے بنا وہ نیکلس کسی کے بھی ہوش اڑا سکتا تھا۔
یہ تو بہت مہنگا ہے۔ روشنی نے حیرت سے کہا۔
تو کیا ہوا اب اپنی پیاری سی بھابی کو کوئی معمولی تحفہ تھوڑی دوں گی۔ وہ بہت محبت سے بولی تھی۔ اس کی شرمندگی اور بھی بڑھ گئی تھی۔ یہ لوگ مجھے کیا سمجھ رہے ہیں اور میں کیا ہوں، دو ہزار درہم کے عوض کسی کے ساتھ اس کی بیوی ہونے کا ڈرامہ کر رہی ہوں۔ اگر یہ لوگ سچ جان لیں تو یہ سب مجھ سے نفرت کریں گے اور میری شکل بھی دیکھنا نہیں چاہیں گے۔ ان کی واپسی سہ پہر میں ہوئی تھی اور روشنی اس کے بعد سے سوئمنگ پول کے کنارے بیٹھی یہی سوچ رہی تھی۔ اس کا ضمیر اسے بار بار ملامت کر رہا تھا اور یہ سب سوچتے ہوئے اس کی اپنی ماں اور بہن سے شکایتیں بڑھتی جا رہی تھیں جن کی بے حسی اسے اس مقام پر لے آئی تھی۔
تم یہاں بیٹھی کیا کر رہی ہو۔ وقار کی آواز سن کر وہ ٹھٹک گئی تھی۔ وہ کافی دیر پہلے آفس سے آیا تھا اور کمرے میں آ کر اس نے روشنی کو پول کے کنارے بیٹھا دیکھ لیا تھا کپڑے بدلنے کے بعد بھی وہ اسے اسی پوزیشن میں بیٹھی نظر آئی۔ اس کے لمبے خوبصورت بال کمر پہ پھیلے ہوئے تھے۔ بہت دیر تک جب وہ کمرے میں نہیں آئی تو وقار خود اس کے پاس چلا آیا تھا۔
تم یہاں کیوں بیٹھی ہو؟
میں میں ایسے ہی یہاں بیٹھی تھی۔ وہ دھیمی آواز میں بولی۔
عائشہ آپی تمھارا پوچھ رہی تھیں۔ وہ خود بھی کمرے سے باہر جا رہا تھا۔
مجھے آپ سے کچھ کہنا تھا۔
بولو۔ کمرے کا دروازہ کھولتے کھولتے وہ واپس مڑا۔
روشنی نے الماری میں سے ایک جیولری باکس نکالا اور اس کی طرف بڑھایا۔
یہ عائشہ آپی نے مجھے دیا ہے۔ شادی کا گفٹ۔ وہ اسے ڈبہ پکڑانا چاہ رہی تھی۔
اچھا ہے۔ اس نے سرسری سی نگاہ ڈال کر تبصرہ کیا۔ لیکن ڈبے کو ہاتھ نہیں لگایا
یہ آپ رکھ لیں۔ روشنی نے اگلی بات کہی۔
میں اس کا کیا کروں گا۔ آپی نے یہ تمھیں دیا ہے۔
انہوں نے یہ آپ کی بیوی کو دیا ہے۔ اس کی بات سن کر وقار خاموش ہو گیا تھا۔ آپی تمھیں بلا رہی ہیں۔ اسے کوئی بھی جواب دئیے بغیر وہ کمرے سے نکل گیا تھا۔
وہ کمرے میں اکیلی تھی۔ رات کو وقار ان سب کو ڈنر پہ باہر لے گیا تھا۔ اس کے بعد کپڑے بدل کر وہ باہر نکل گیا تھا۔ روشنی کو بھی نیند نہیں آ رہی تھی۔ وہ یہ بھی نہیں جانتی تھی وقار کب تک واپس آئے گا۔ کافی پینے کا دل کر رہا تھا لیکن اس وقت کسی ملازم کو کہنا اسے مناسب نہیں لگ رہا تھا۔ یہی سوچ کر وہ خود کچن میں آ گئی تھی۔ اپنے لئے کافی بناتے ہوئے اسے انٹرکام بجنے کی آواز آئی۔ اس وقت کچن میں اس کے علاوہ کوئی ملازم نہیں تھا۔ اس نے انٹرکام اٹھایا۔
ایک کپ کافی اسٹڈی میں لانا۔ یہ جانے بغیر کے دوسری طرف کون ہے وقار نے مختصرا کہا تھا۔ اسے اس کے اتنی دیر تک کمرے میں نہ آنے کی وجہ اب سمجھ آئی تھی۔ اپنی کافی کا کپ اٹھا کر وہ اسے اسٹڈی میں دینے چلی گئی تھی۔
بڑی جلدی بن گئی کافی۔ اپنی ٹیبل پہ رکھا کافی کا کپ اٹھاتے اس نے کافی لانے والے کی طرف دیکھا۔ وہ کمپیوٹر پہ مصروف تھا، مختلف فائلز اور نقشے ٹیبل پہ پھیلے ہوئے تھے۔ روشنی کو کافی لاتے اس نے نہیں دیکھا تھا۔
تم کیوں کافی لائیں، میں نے تو عشرت سے کہا تھا۔
کچن میں اس وقت کوئی نہیں تھا۔ میں اپنے لئے کافی بنا رہی تھی تو آپ کے لئے بھی بنا لی۔ اس نے اسے یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ اپنا کافی کا کپ اس کے لئے لے آئی ہے۔
تھینک یو۔ وہ تکلف سے بولا تھا۔
آنے والے دنوں میں روشنی اس گھر کا ایک اہم رکن بن چکی تھی۔ وہ نہ صرف عائشہ کی پسندیدگی حاصل کر چکی تھی بلکہ اس گھر کے ملازموں کے دل میں بھی اس کے لئے بہت عزت اور احترام تھا۔ آٹھ دس دن میں کبھی اس نے ان پہ حکم نہیں چلایا تھا۔ ان کے ساتھ بہت مہذب اور شائستہ لہجے میں بات کرنے والی اپنی بیگم صاحبہ کو وہ کیوں نہ پسند کرتے۔ اس رات کے بعد اگر وہ اسٹڈی میں ہوتا تو روشنی اس کے بغیر کہے اسے کافی کا کپ دے آتی تھی۔ وقار کے متعلق اس نے جب جب سوچا وہ اسے بہت کم گو اور بے ضرر سا انسان لگا۔ کبھی کبھی وہ اسے بہت اداس لگتا تھا۔ بہت بار اس نے اسے ڈسٹرب دیکھا، وہ سمجھ نہیں پائی تھی کہ ایسی کونسی تکلیف اور دکھ ہے جو اس کی آنکھوں میں نظر آتا ہے۔ روشنی کی زندگی کا سب سے بڑا المیہ غربت تھی۔ وہ آج بھی اپنے گھر والوں کی بے اعتنائی کا ذمہ دار اپنے معاشی حالات کو سمجھتی تھی۔ وہ دکھی تھی اور یہی دکھ اسے وقار کی آنکھوں میں بھی نظر آتا تھا لیکن وقار کے پاس تو سب کچھ تھا وہ دولت جو سب کچھ خرید سکتی تھی پھر اسے کیا پریشانی تھی۔ وہ غلط تھی، دولت سے وفاداری اور خلوص نہیں خریدا جا سکتا تھا۔ محبت نہیں خریدی جا سکتی تھی۔
عائشہ اس دوران حاصل پور کا چکر بھی لگا آئی تھی۔ اس کی خواہش تھی کہ روشنی بھی اس کے ساتھ چلے جہاں اس کے چند ددھیالی رشتے دار رہتے تھے لیکن وقار نے کہا تھا کہ وہ آجکل مصروف ہے اور وہ چاہتا ہے کہ روشنی اس کے ساتھ ہی جائے۔ عائشہ نے اس کی خواہش کا احترام کیا تھا اور دوبارہ اسے چلنے کے لئے نہیں کہا تھا۔ ولیمے کی بات کو بھی وقار نے اسی طرح ٹالا تھا، عائشہ خود بھی وقار کے نئے پروجیکٹ سے واقف تھی اور اس کی مصروفیت کے پیش نظر وہ اسے مجبور نہیں کر سکی تھی۔
ولیمہ ہم آپ کے اگلے وزٹ پہ رکھ لیں گے۔ ابھی تو مجھے اتنے کام ہیں کہ سوچ ہے آپ کی۔ یہ تو آپ کی وجہ سے میں آجکل پاکستان میں ہوں ورنہ دبئی میں ہوتا اور وہ اتنا غلط کہہ بھی نہیں رہا تھا۔ اس دوران نہ چاہتے ہوئے بھی اسے ایک دن کے لئے دبئی جانا پڑا تھا۔
ماموں کا ولیمہ سمر ہالیڈیز میں کر لیں گے مما۔ اس وقت پاپا بھی ہمارے ساتھ آئیں گے۔ سحر نے کہا تھا۔
وہ سب اس کی بات سن کر مسکرائے تھے سوائے روشنی کے۔ چند دن میں وہ اس ہنستے مسکراتے پکچر پرفیکٹ سین سے غائب ہو جائے گی اور دوبارہ کبھی ان سے مل نہیں پائے گی۔
اس گھر میں اس کی پسندیدہ ترین جگہ وہ سوئمنگ پول تھا۔ پانی کے پاس بیٹھے اسے وقت کے گزرنے کا احساس بھی نہیں ہوتا تھا۔ وقار نے اسے کئی بار اس ایک جگہ بیٹھے دیکھا تھا۔ وہ جانتا تھا وہ کیا سوچ رہی ہے۔ وہ اس کے حالات سے واقف تھا۔ اس کی زندگی کی ایک ڈارک سائیڈ کا چشم دید گواہ تھا۔ اسے اس معصوم لڑکی پہ ترس آتا تھا جو مطلبی رشتوں کی بھینٹ چڑھی ہوئی ہے۔
عائشہ کے جانے کے دو دن بعد روشنی کی دبئی کی فلائیٹ کنفرم تھی۔ جانے سے پہلے وہ وقار کو وہ سارے زیورات واپس کر رہی تھی جو وقار اور عائشہ نے اسے دئیے تھے۔
یہ بھی آپ کا ہے۔ اس کا موبائل فون واپس کرتے ہوئے اس نے دھیمے لہجے میں کہا۔
یہ کچھ پیسے رکھ لو روشنی۔ چند نوٹ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے وقار نے نظریں چرائیں۔
آپ اگر اس سب کا معاوضہ ادا کرنا چاہتے ہیں تو وہ آپ پہلے ہی مجھے دے چکے ہیں۔
یہ قیمت نہیں بلکہ اس احسان کے لئے ہے جو تم نے مجھ پہ کیا۔
احسان تو آپ نے کیا ہے مجھ پر میں نے تو صرف بدلہ چکایا ہے۔ میرا خیال ہے فلائیٹ کا ٹائم ہو رہا ہے ہمیں چلنا چاہئیے۔ مسکراتے ہوئے اس نے اپنا سامان اٹھایا اور کمرے سے نکل گئی۔ وہ آج واپس جا رہی تھی وہ جانے کے لئے ہی آئی تھی۔
صبح کے چار بجے رہے تھے۔ ایک چوکیدار کے سوا کسی نے اسے وہاں سے جاتے نہیں دیکھا تھا۔ باہر جانے سے پہلے اس نے ایک نظر اس گھر کو دیکھا جہاں اسے دوبارہ کبھی نہیں آنا تھا۔ اس گھر اور یہاں کے مکینوں نے اسے بہت عزت دی تھی۔ یہاں رک کر وہ زندگی کے اس خوبصورت رنگ سے آشنا ہوئی تھی جس سے پہلے وہ انجان تھی۔ اس کا تعارف محبت سے ہوا تھا۔ یہ جانتے ہوئے بھی اس محبت کا کوئی انجام نہیں ہے۔ یہ یک طرفہ جذبہ ہے وہ اپنے دل کو روک نہیں پائی تھی۔ وہ اپنے دل کے ہاتھوں مجبور تھی۔ جانے سے پہلے وہ اس سے آنکھیں نہیں ملا پائی تھی۔ اسے لگا تھا وہ اس کی طرف دیکھے گی تو وقار ضرور جان جائے گا کہ اس کے دل میں کیا ہے۔ وہ اس کی دی ہوئی ہر چیز وہاں چھوڑ آئی تھی۔ اس کے سارے کپڑے اسی واڈ روب میں لٹکے تھے۔ جاتے ہوئے وہ اپنے دو سال پرانے کاٹن کے سوٹ اور کالی چادر میں تھی لیکن وہ وہاں سے خالی ہاتھ نہیں آئی تھی۔
دبئی پہنچ کر وہ اپنی جاب میں مصروف ہو گئی تھی۔ وقار نہ دل سے نکلتا تھا نہ دماغ سے۔ اور جب یاد آتا تھا تو بہت یاد آتا تھا۔ آجکل وہ اوور ٹائم بھی کر رہی تھی اور بغیر کسی چھٹی کے لگاتار کام کرتے اسے تیسرا ہفتہ تھا۔ آئمہ کی فیس کے پیسے اکھٹے کرنے کے لئے اسے یہسب کرنا تھا۔ رات کو تھک کر بستر پہ لیٹتی تو سونے سے پہلے جو آخری شبیہ ذہن کے پردے پہ بنتی وہ وقار کی ہوتی۔ صبح اٹھ کر جو پہلا شخص یاد آتا وہ وقار ہوتا۔ اس شخص نے اس کے دل و دماغ کو کچھ ایسے اپنی گرفت میں لیا تھا کہ وہ اس شکنجے سے خود کو چھڑا ہی نہیں سکتی تھی، وہ چھڑانا چاہتی بھی نہیں تھی۔ وہ نہیں جانتی تھی اسے وقار سے محبت کیوں ہوئی۔ وہ پرکشش شخصیت رکھتا تھا، خوبصورت تھا، شائستہ تھا، دولتمند اور پڑھا لکھا تھا۔ اس میں بہت سی خوبیاں تھیں لیکن ایسی خوبیاں تو اس نے یہاں بہت سے مردوں میں دیکھی تھیں۔ اس کے سٹور پہ آنے والے بے شمار کسٹمرز جو نہ صرف اچھی شخصیت کے مالک تھے بلکہ شائستہ اور دوستانہ تھے۔ اسے ان سب سے مسکرا کر بات کرنا ہوتی تھی۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی اس کے ذہن پر اپنا نقش نہیں چھوڑ پایا تھا۔ وہ اگلے پل انہیں بھول جاتی تھی۔ شاید وہ وقار کے ساتھ کافی دن گزار کر آئی ہے اسلئے اسے اس کی عادت ہو گئی ہے اور آہستہ آہستہ وہ اسے بھول جائے گی۔ شروع شروع میں اس نے اپنے آپ کو یہی کہہ کر تسلی دی تھی لیکن دو ماہ بعد بھی وہ شخص اس کے حواسوں پہ اسی طرح سوار تھا۔ وہ آج بھی آنکھیں بند کرتی تو اسے اس کا چہرہ سوچنا نہیں پڑتا تھا بلکہ وہ خودبخود سامنے آ جاتا تھا۔
آج اسے اسٹور سے واپس آتے کافی دیر ہو گئی تھی۔ وہ جلدی گھر آ جاتی اگر راستے میں ایک حادثے کی وجہ سے ٹریفک جام نہ ہوتا۔ بس سے اتر کر وہ بلڈنگ کے اندر جا چکی ہوتی اگر اسے بلڈنگ کی بائیں طرف وہ نہ دکھائی دیتا۔ ایک بار پھر اس کے ساتھ وہی ہو رہا تھا جو پچھلے دو ماہ میں کئی بار ہو چکا تھا۔ یہ اسے دوبارہ دیکھنے کی امید تھی جو وہ بار بار اسے اپنے اردگرد پھرتے لوگوں میں ڈھونڈھنے کی کوشش کرتی تھی۔ اس دن وہ مال سے نکل رہی تھی جب اسے لگا وہ اس کے پاس سے تیزی سے گزرا ہے۔ وہ دراز قد تھا، اس نے وہی چیکرڈ شرٹ پہن رکھی تھی جیسی اس نے وقار کو پہنے دیکھی تھی، وہ بے تحاشہ اس کے پیچھے بھاگی تھی، اس کے ساتھ سٹور سے اپنی شفٹ ختم کر کے نکلنے والا عملہ اسے حیرانی سے دیکھ رہا تھا۔
وقار رکیں اس کے قریب پہنچ کر وہ چلائی تھی۔ اس شخص نے مڑ کر اسے دیکھا لیکن وہ کوئی اور تھا۔
معاف کیجیئے گا مجھے غلط فہمی ہوئی تھی۔ معذرت کرتی وہ واپس اپنے کولیگز کے پاس آ گئی تھی۔ اور یہ ایک بار نہیں بار بار ہوا تھا۔ وہ جانتی تھی اپنے کام کے سلسلے میں وہ آئے دن دبئی آتا رہتا ہے۔ اور یہ کوئی حیرانگی والی بات نہ ہوتی اگر وہ اسے اس چھوٹے سے شہر میں مل بھی جاتا لیکن وہ اسے کبھی نہیں ملا تھا۔ سر کو جھٹک کر اس نے بلڈنگ کے اسٹیپ پہ پاؤں رکھا۔
روشنی۔ وقار کی آواز پہ روشنی کے بڑھتے قدم رک گئے تھے۔ بے یقینی سے مڑ کر اس نے اندھیرے میں کھڑے شخص کو دیکھا۔
وہ بے اختیار اس کی طرف آئی تھی۔ آنکھوں میں ناقابل یقین حیرت لئے وہ اسے ایک ٹک دیکھ رہی تھی۔
آپ یہاں ؟ چند لمحے اسے دیکھتے رہنے کے بعد اس نے خود پہ قابو پاتے ہوئے کہا۔
وہ اس کی بات سن کر مسکرایا تھا۔ اپنی اسی چھا جانے والی شخصیت کے ساتھ وہ گرے شرٹ اور بلیک پینٹ میں پورے دو مہینے بعد اس کے سامنے کھڑا تھا۔
اگر تم فری ہو تو کچھ دیر کے لئے میرے ساتھ چل سکتی ہو؟ وہ اس سے پوچھ رہا تھا۔
بے اختیاری میں اس کا سر اثبات میں ہلا تھا۔ وہ اسے انکار کر ہی نہیں سکتی تھی۔
وہ آج بھی گاڑی اتنی ہی خاموشی اور انہماک سے ڈرائیو کر رہا تھا۔ وہ دونوں اب کارنش پہ آ گئے تھے۔ آسمان پہ چودھویں کا چاند پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔ سمندر کی تیز ہوا اور اس سے اٹھتی لہروں کا شور یہ سب کتنا بھلا لگ رہا تھا۔
وہ دونوں ایک بنچ پہ بیٹھے تھے۔ ایک دوسرے کے ساتھ، ایک دوسرے کے دل کے حال سے بے نیاز۔
مجھ سے شادی کرو گی روشنی؟ اس نے کرنٹ کھا کر اس کی طرف دیکھا۔ وہ اس سے ہر بات کی امید کر سکتی تھی سوائے اس بات کے۔
کیا کیا کہا آپ نے ؟
شادی کرو گی مجھ سے ؟ چند دنوں کے لئے نہیں بلکہ عمر بھر کے لئے تمھیں اپنے گھر لے کر جانا چاہتا ہوں۔ چلو گی میرے ساتھ؟
اچانک اس فیصلے کی وجہ۔ اس کے منہ سے نکلا تھا حالانکہ کہنا تو چاہتی تھی بہ سر و چشم۔ لیکن یہ انا بھی انسان کو کیسے امتحان میں ڈال دیتی ہے۔
اپنے اس فیصلے کی اصل وجہ تو میں بھی نہیں جانتا اور یہاں آنے سے پہلے تک میں یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ میں تمھیں شادی کا پرپوزل دوں گا، خود کو بہت تاویلیں دے چکا ہوں کہ مجھے تم میں کوئی دلچسپی نہیں ہے لیکن جتنا تمھیں بھولنے کی کوشش کرتا ہوں تم اتنا یاد آتی ہو، بری طرح میرے حواس پہ چھا گئی ہو۔ میں بس اتنا جانتا ہوں کہ میں تمھارے بغیر رہ نہیں سکتا۔ مجھے تمھاری ضرورت ہے روشنی۔
عائشہ آپی کی وجہ سے ؟
نہیں اپنے لئے۔ اس کی بات سن کر وہ مسکرا دی تھی۔
٭٭٭
امی میں شادی کر رہی ہوں۔ وہ مجھے یہاں دبئی میں ملا تھا اور اس نے مجھے پرپوز کیا ہے، میں اسے آپ سے ملوانا چاہتی ہوں۔
تم جانتی ہو تم کیا کہہ رہی ہو روشنی؟ اسی دن کا خوف تھا مجھے ہمیشہ سے، اسی لئے میں نہیں چاہتی تھی تم دبئی جاؤ۔ کیا کہوں گی میں لوگوں سے کہ میری بیٹی نے دبئی میں شادی کے لئے لڑکا پسند کر لیا ہے۔
لیکن امی میں آپ کی مرضی اور پسند سے اس سے شادی کی بات کر رہی ہوں اور یہ کوئی معیوب بات نہیں ہے۔
تمھارے لئے نہیں ہے لیکن میرے لئے ہے۔ ویسے تو تم بڑا کہتی تھی ساری زندگی ماں اور بہن کا خیال رکھنے کے دعوے کرتی تھی لیکن ایک لڑکا پسند آتے ہی تمھیں ماں اور بہن بھول گئی ہیں۔ سوچا ہے میرا اور آئمہ کا کیا ہو گا۔ کس طرح گزر بسر ہو گی ہماری۔ تم اتنی خود غرض کیسے ہو سکتی ہو روشنی۔
ان کی بات سن کر اس نے ایک گہری سانس لی اور پھر ایک آخری بات کہہ کر اس نے فون بند کر دیا۔
امی میں کل صبح نکاح کر رہی ہوں۔ چند ماہ پہلے صابرہ اور آئمہ کے رویے کی تکلیف کو وہ زہر کا گھونٹ سمجھ کر پی گئی تھی لیکن آج اسے احساس ہو گیا تھا کہ وہ دونوں اس کا استعمال کر رہے ہیں۔ اپنی ضروریات کی وجہ سے اس کی ماں اس کی شادی کے فیصلے سے ناخوش تھی۔ انہیں خوف تھا کہ روشنی شادی کے بعد انہیں سپورٹ نہیں کرے گی اور وہ انہیں یہ نہیں بتا پائی تھی کہ وقار نے اسے خود کہا تھا کہ وہ آئمہ کی تعلیم مکمل ہونے تک اس کے گھر والوں کی ذمہ داری اٹھائے گا۔ وہ ان کی بے حسی اور لالچ کو مزید برداشت نہیں کر سکتی تھی۔ وہ اپنی ماں کی مرضی اور شمولیت کے بغیر شادی کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھی لیکن کبھی کبھی جو ہم سوچ نہیں پاتے وہ قدرت کا طے کردہ ہوتا ہے۔
ان کا نکاح دبئی میں ہوا تھا اور اپنی جاب سے ریزائن کر کے وہ اس کے ساتھ ایک بار پھر اسی گھر میں واپس آ گئی تھی۔ کنٹریکٹ ختم کئے بغیر اور کسی پیشگی نوٹس کے بغیر نوکری سے اسطرح ریزائن کرنے کا مطلب بہت سے لیگل ایشوز کی صورت میں سامنے آتا جس میں سب سے بڑا مسئلہ دبئی کے ویزہ پہ تا عمر بین تھا۔ اور یہ سب ہو بھی جاتا اگر اس کا شوہر وقار حسن نہ ہوتا جو خود وہاں ایک بہت بڑی کسٹرکشن کمپنی کا مالک تھا اور ساری لیگل کمپلیکیشنز کا حل اس کے پاس تھا۔ اس گھر میں سب کچھ ویسا ہی تھا۔ عفت بی اسے دیکھ کر نہال ہو گئی تھیں۔ باقی کے ملازموں نے بھی اس کا پر جوش استقبال کیا تھا۔ وہ سب یہی جانتے تھے کہ روشنی اپنی ماں کی بیماری کی وجہ سے ایمرجنسی دبئی گئی ہے۔ عائشہ اور اس کے بچوں کی طرح گھر کے ملازم بھی اس سے مانوس ہو گئے تھے اور اس کی واپسی پہ بہت خوش تھے۔ اس کی ہر چیز کمرے میں اسی جگہ پڑی تھی جہاں وہ چھوڑ کے گئی تھی۔
جانتی ہو تمھیں میرے علاوہ اس گھر میں سب سے زیادہ کس نے مس کیا ہے۔ وقار نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کہا۔ سلور گرے ساڑھی میں وہ بہت اٹریکٹو لگ رہی تھی۔ وقار نے ایک قیمتی ہیروں جڑی انگوٹھی اس کی انگلی میں پہنائی۔
اچھی لگ رہی ہے۔ اس کے ہاتھ کی پشت کو چومتے ہوئے وہ بولا تھا۔
آپ نے بتایا نہیں مجھے گھر میں اور کس نے مس کیا۔ وہ تجسس سے پوچھ رہی تھی۔
سوئمنگ پول نے۔ جہاں تم گھنٹوں بیٹھی پتا نہیں کیا کیا سوچتی رہتی تھی۔ وہ مسکرا دی تھی۔
مجھے وہ جگہ بہت پسند ہے بڑا سکون ملتا تھا وہاں بیٹھ کر۔ زندگی میں اتنی الجھنیں تھیں جنھیں سوچتے ہوئے میں خود الجھ جاتی تھی۔ ایسے میں دنیا سے ڈسکنیکٹ ہو کر بڑا ریلیکس فیل کرتی تھی میں۔ وہ اداسی سے بولی۔
تم بہت سادہ اور معصوم ہو روشنی۔ تمھارا دل بہت شفاف ہے، میں جانتا ہوں تم اپنی امی اور بہن کی ناراضگی سے اپ سیٹ ہو لیکن ڈونٹ وری ہم کل جا کر انہیں منا لیں گے۔ اس نے اسے بہلاتے ہوئے کہا۔
کیا اب بھی کوئی الجھن باقی ہے ؟ اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
نہیں۔ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اس نے نفی میں سر ہلایا۔
لیکن مجھے ایک الجھن ہے۔ اس نے معنی خیز لہجے میں کہا۔
آپ کو کیا الجھن ہے ؟ وقار کی بات نے اسے حیران کر دیا تھا۔
کیا تم آج رات بھی اسی صوفے پہ سونے والی ہو؟ وہ شرارت سے بولا۔
نہیں اس نے مسکراتے ہوئے سر جھکا لیا۔
٭٭٭
امی پلیز مجھے معاف کر دیں۔ میں جانتی ہوں میں نے آپ کا دل دکھایا ہے یقین جانیں میں ایسا کرنا نہیں چاہتی تھی لیکن مجھے لگا آپ کی تشویش اور بدگمانی میرے ساتھ زیادتی ہے۔ میں کبھی آپ کو دکھ نہیں دینا چاہتی تھی۔ میں کیسے آپ سے اور اپنی بہن سے رشتہ ختم کر سکتی ہوں مجھے احساس ہے کہ آپ کو میری کتنی ضرورت ہے لیکن آپ کو بھی سوچنا چاہئیے تھا کہ میں اپنی زندگی جینے کے لئے آپ کو بے آسرا نہیں چھوڑوں گی۔ وہ وقار کے ساتھ آج صبح ہی اپنے گھر پہنچی تھی اور صابرہ سے معافی مانگ رہی تھی۔ شروع میں صابرہ اس کے ساتھ کافی تلخ رہی تھی لیکن آہستہ آہستہ اس کا دل موم پڑنا شروع ہوا۔ وقار اسے پہلی نظر میں ہی بہت اچھا لگا تھا۔ روشنی کو دیکھ کر تو وہ اسے پہچان ہی نہیں سکی تھی۔ وہ اس کے قیمتی لباس اور مہنگے زیورات دیکھ کر دنگ رہ گئی تھی۔ اور اس کے ساتھ ہی صابرہ کی یہ تشویش بھی ختم ہو گئی تھی کہ روشنی شادی کے بعد اسے خرچہ نہیں دے گی بلکہ اب تو اسے یقین تھا کہ روشنی اسے پہلے سے زیادہ سپورٹ کرے گی۔ اور یہ اس کی خام خیالی ہی تھی۔
آئمہ کہاں ہے ؟ وہ اپنی بہن کا پوچھ رہی تھی۔ وقار آفس چلا گیا تھا اسے چند ضروری کام تھے اور روشنی دو سال بعد اپنے گھر والوں سے مل کر اتنی خوش تھی کہ وہ اسے چاہ کر بھی اپنے ساتھ نہیں لایا تھا۔
آئمہ یونیورسٹی گئی ہوئی ہے۔ دو بجے تک آ جائے گی۔ صابرہ نے اسے بتایا۔ لیکن جب چار بجے تک بھی آئمہ کی واپسی نہیں ہوئی تو مجبوراً روشنی کو واپس جانا پڑا۔ وقار کا ڈرائیور کافی دیر سے اس کا انتظار کر رہا تھا۔
میں اس سے اگلی بار مل لوں گی امی۔ صابرہ کو تسلی دیتی وہ وہاں سے چلی آئی تھی۔ صابرہ نے اس کے سامنے ہی اسے دو بار کال کی تھی اور روشنی کی آمد کا بتایا تھا لیکن وہ کہہ رہی تھی کہ اسے یونیورسٹی میں کچھ کام ہے اور اسے دیر ہو جائے گی۔
کافی کا کپ سائیڈ ٹیبل پہ رکھنے کے لئے وہ جھکی، اس کے لمبے بال اس کی پشت پر پھیلے ہوئے تھے۔ ذرا آگے بڑھ کر اس نے روشنی کے بالوں کو چوم لیا۔ مجھے تمھارے بال بہت پسند ہیں۔
مجھے پتا ہے۔ اس کے سینے پہ تھوڑی ٹکائے وہ مسکراتی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
تمھیں کیسے پتا ؟ اس کے بالوں میں اگلیاں گھماتے اس نے پوچھا۔
نتاشہ نے بتایا تھا۔ اس نے شرارت سے کہا۔
کیا بتایا تھا نتاشہ نے ؟ اسے کچھ حیرت ہوئی۔
یہی کہ آپ نے اسے میرے بالوں سے متعلق ہدایت دی تھی کہ وہ انہیں کاٹنے یا خراب کرنے کی کوشش نہ کرے۔
یس۔ اس نے مطمئن انداز میں کہا۔
That was horrible.
اس نے یہ بھی بتایا تھا کہ مجھ پہ ڈارک میک اپ بالکل اچھا نہیں لگتا ہے۔ یہ اسے شرمندہ کرنے کی ایک کوشش تھی لیکن وہ اسے ہرگز متاثر نظر نہیں آیا۔
وہ کچھ سوچتے ہوئے بولا۔ اس کا انداز ایسا تھا کہ وہ ہنس پڑی۔
نتاشہ کو آپ نے میرے بارے میں کیا بتایا تھا؟ مجھے کہہ رہی تھی اپنی شادی پہ ضرور بلانا۔ اسے اچانک یاد آیا تھا۔
کچھ نہیں بس یہی کہ تم میری دور کی کزن ہو اور حاصل پور میں رہ کر تمھاری گرومنگ نہیں ہو سکی اب شادی کے بعد امریکہ جانا ہے اسلئے تمھارا میک اوور کروانا ہے۔ کافی کا سپ لیتے وہ اسے بتا رہا تھا۔
ایک اور جھوٹ۔ سٹوریاں بنانے میں کافی مہارت ہے آپ کو۔ وہ ہنس پڑا تھا۔
اچھا میری امی اور چھوٹی بہن آپ سے ملنے آنا چاہتی ہیں۔ اسے صابرہ کے فون کا خیال کا آیا جو انہوں نے کل کیا تھا اور آئمہ بھی اس کے گھر آنے کی خواہش رکھتی تھی۔
آج رات تو میں کراچی جا رہا ہوں اور پھر وہاں سے واپسی پہ کل ایک میٹنگ ہے اور پرسوں رچرڈ آ رہا ہے اس کے ساتھ مجھے اگلے دن دبئی جانا ہے۔ اگلے ویک بلا لو۔ اس نے سوچتے ہوئے کہا۔
پھر دبئی جا رہے ہیں۔ وہ حیرت سے بولی۔
ڈارلنگ وہاں میرا آفس ہے اور آدھا مہینہ میرا وہاں گزرتا ہے۔ ویسے بھی آجکل جو پراجیکٹ شروع کیا ہوا ہے اس کی وجہ سے پاکستان سے زیادہ وہاں میری ضرورت ہے۔ تمھیں لے کے جاؤں گا وہاں پھر دیکھنا کتنا بڑا پراجیکٹ ہے وہ اور میں مصروف ہونے کا ڈرامہ نہیں کر رہا۔ اس کی تھوڑی کو چومتے ہوئے وہ اب بستر سے اٹھ بیٹھا تھا۔
کراچی سے واپسی پہ وہ اسے ڈنر کے لئے باہر لے گیا تھا۔
عائشہ آپی کی کال آ رہی ہے۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
السلام علیکم آپی۔ کیسی ہیں آپ۔
وعلیکم السلام میں ٹھیک ہوں یہ بتاؤ روشنی کیسی ہے اس کی دبئی سے واپسی ہو گئی یا ابھی وہیں ہے ؟ تم نے تو اسے چھپا کر رکھا ہوا ہے۔ اس کی بات سن کر وہ ہنسا تھا۔
روشنی میرے ساتھ ہی ہے اور ٹھیک بھی ہے آپ خود بات کر لیں۔ فون اس کو تھما کر وہ خود کھانے کی طرف متوجہ ہو گیا تھا۔
عائشہ اس سے کافی دیر باتیں کرتی رہی۔ اتنے ماہ بعد اس کی عائشہ سے بات ہو رہی تھی۔ کئی بار عائشہ نے اس کا نمبر مانگا تھا اور وقار کسی نہ کسی طرح اس کی بات ٹال جاتا تھا۔ اس سے بات کرتے ہوئے روشنی مسلسل مسکرا رہی تھی۔ عائشہ کے علاوہ اس کے دونوں بچوں نے بھی اپنی سوئیٹ مامی سے بات کی تھی اور اسے بتایا تھا کہ وہ دونوں اسے کتنا مس کر رہے ہیں۔
اگلے ہفتے اس نے صابرہ اور آئمہ کو ڈنر پہ بلایا تھا۔ وہ دونوں اس وقت لاؤنج میں بیٹھی تھیں جب وقار گھر میں داخل ہوا۔ ان دونوں کو دیکھ کر انہیں سلام کرتے ہوئے وہ اپنے بیڈ روم میں چلا گیا تھا۔ روشنی کے لئے وقار کا ان دونوں کو اسطرح اگنور کرنا حیران کن تھا۔ وہ پچھلی بار صابرہ سے بہت خلوص اور اپنائیت سے ملا تھا۔
امی میں ابھی آتی ہوں۔ ان سے معذرت کرتی وہ اپنے کمرے میں آ گئی تھی۔
وہ فرینچ ونڈو سے سوئمنگ پول کو دیکھ رہا تھا۔ روشنی کی طرف اس کی پشت تھی۔ زندگی میں اگر وہ کسی چہرے کو دوبارہ نہ دیکھنے کی خواہش کرتا تھا تو وہ ایک چہرہ تھا، اگر وقار کا بس چلتا تو ایک لمحہ بھی اسے اپنے گھر میں برداشت نہ کرتا۔ غصے سے اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔ اپنے غصے پہ قابو پانے کی کوشش میں اس کی مٹھیاں بھینچی ہوئی تھیں۔ لیکن اچانک روشنی کے نرم بازوؤں کی محبت بھری گرفت نے اس کے تنے ہوئے وجود کو موم کی طرح پگھلا دیا تھا۔
لگتا ہے آپ کافی تھکے ہوئے ہیں۔ امی اور آئمہ آپ سے ملنے آئے ہیں۔ اس کی کمر میں اپنے بازوؤں کا گھیرا ڈالے وہ اسے بتا رہی تھی۔
اس نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ آئمہ آپ سے ملنے کے لئے بہت ایکسائیٹڈ تھی۔ امی نے بہت تعریف کی ہے اس سے آپ کی۔ وہ اس کی خاموشی سے کوئی نتیجہ اخذ کئے بغیر بولی۔ وہ اب بھی اس کا چہرہ نہیں دیکھ پائی تھی۔ ورنہ اس سے اگلا سوال کرنے کی ہمت نہ جٹا پاتی۔
تم چلو، میں بس آ رہا تھا۔ خود کو ریلیکس کرتے اس نے سنجیدگی سے کہا، روشنی اس کی بات سن کر اب کمرے سے باہر جا چکی تھی۔ کتنا فرق تھا ان دونوں بہنوں میں، ایک اتنی سادہ اور معصوم، دنیا کے ہر فریب سے پاک، جس کا خلوص اس کے لہجے سے جھلکتا تھا۔ جس کی بے ریا آنکھوں میں اسے صرف سچ نظر آتا تھا اور آئمہ دھوکے باز، لالچی، فلرٹ، جھوٹ کے سوا کچھ بھی تو نہیں تھا اس کا وجود اور آج اس نے اس لڑکی کو اس کے ایک اور جھوٹ کے ساتھ پکڑا تھا۔ اسے اتنے دنوں میں ایک بار بھی اندازہ نہیں ہوا تھا کہ آئمہ اور روشنی کا کوئی تعلق ہو سکتا ہے۔ وہ جس آئمہ کو ایک سال سے جانتا تھا اس نے تو اپنا تعارف ایک امیر خاندان کی اکلوتی بیٹی کی حیثیت سے کروایا تھا۔ اسے وہ دن آیا تھا جب اسے رات کو اعظم کے ساتھ دیکھنے کے بعد اگلے دن وہ اس سے ملنے گیا
تم میری کال کیوں نہیں ریسیو کر رہی تھی آئمہ؟ پچھلی رات سے کئی بار وہ اسے کال کر چکا تھا اور وہ بہت مشکل سے اس سے ملنے پہ آمادہ ہوئی تھی۔
میں مصروف تھی۔ اس نے لاپرواہی سے کہا تھا۔
اور غالباً اس مصروفیت کا نام اعظم مسعود ہے۔ اس نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
مجھے یہ جان کر حیرت نہیں ہوئی کہ تم یہ سب جانتے ہو۔ وہ اس کی ڈھٹائی پہ حیران ہوا تھا۔
تم میرے ساتھ ایسا کیسے کر سکتی ہو آئمہ، کسی سے چند دن پہلے ملنے کے بعد تم میرے ساتھ اپنی ایک سال پرانی کمٹمنٹ کیسے ختم کر سکتی ہو۔
میں اعظم مسعود کو پچھلے دو سال سے جانتی ہوں، میری فرینڈ کا کزن ہے وہ، کافی پرانی دوستی ہے اس کے ساتھ میری۔ تمھارا نمبر تو اس کے بعد آتا ہے۔ یاد ہے کیسے ہاتھ دھو کر میرے پیچھے پڑ گئے تھے۔ میں نے سوچا چلو تھوڑے دن انجوائے کرتے ہیں۔ ورنہ کہاں تم اور کہاں اعظم مسعود۔ وہ تنفر سے بولی تھی۔
یہ تم کہہ رہی ہو آئمہ حالانکہ تم جانتی ہو تمھاری وجہ سے میں نے آپی سے کتنا بڑا جھوٹ بولا ہے، تم راضی تھی مجھ سے شادی کرنے کے لئے، اپنی والدہ سے بات کر چکی تھی اور اب تم کہہ رہی ہو کہ تمھارے لئے وہ سب ٹائم پاس تھا۔ میں محبت کرتا ہوں تم سے اور یہ بات تم بھی جانتی ہو۔ وہ اس کی باتوں سے چکرا گیا تھا۔
تو میں کیا کروں یہ تمھارا مسئلہ ہے اور تمھیں ایسا جھوٹ بولنے کی ضرورت بھی کیا تھی۔ مجھ سے بہت سے لوگ شادی کے خواہشمند ہیں اب ہر کسی سے تو میں شادی نہیں کر سکتی ہوں۔ وہ طنزیہ ہنسی ہنستے ہوئے کہہ رہی تھی۔ اپنی یہ بے عزتی وہ مر کر بھی بھول نہیں سکتا تھا۔ اسے اپنے سامنے بیٹھی اس حسن کی دیوی سے اس لمحے شدید نفرت ہوئی تھی۔
دکھ محبت میں ٹھکرائے جانے کا نہیں تھا بلکہ شاک اس ذلت نے دیا تھا جو کسی کے ہاتھوں بیوقوف بننے سے ملتی ہے۔
وہ ہمیشہ سے ایسی ہی تھی -ضدی، اسے وہ سب چاہئیے ہوتا تھا جو وہ ایک بار منہ سے نکال دیتی تھی۔ وہ ذہین تھی اور اسی وجہ سے سب گھر والوں کے دلوں میں اس کا نمایاں مقام تھا۔ روشنی اس کے برعکس پڑھائی میں کبھی بھی اتنی اچھی نہیں تھی۔ میٹرک تک اس کے گھر کے حالات دگرگوں تھے اور اس کی دنیا محدود۔ ایک سرکاری سکول میں پڑھتے ہوئے اس کا باہر کی دنیا سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔ اس نے روشنی کو جان مارتے دیکھا تھا چند ہزار کی نوکری کے لئے جوتیاں چٹخاتے دیکھا تھا۔ اسے روشنی نہیں بننا تھا، وہ آئمہ تھی، اسے بہت کچھ حاصل کرنا تھا اور وہ بھی بغیر جد و جہد کے۔ روشنی کی قناعت پہ اسے غصہ آتا تھا۔ اس کی ماں بھی روشنی کی طرح تھوڑے سے پیسوں پہ صبر شکر کر تی اور وہ اندر ہی اندر ان کی اس حماقت پہ ہنستی تھی۔ روشنی دبئی چلی گئی تو گھر میں اچانک کھلا پیسہ آنے لگا۔ روشنی کے جانے کے بعد صابرہ مکمل طور پر اس کے ہاتھ میں تھیں۔ حالات بدلے تو صابرہ کی سوچ بھی بدل گئی تھی۔ کالج میں آ کر اس کا ملنا جلنا جس کلاس کی لڑکیوں سے ہوا اس نے اسے اپنے موجودہ حالات سے اور بھی شاکی کر دیا تھا۔ وہ ان جیسی بننا چاہتی تھی۔ لڑکوں سے اس کی پہلی دوستی ٹھرڈ ائیر میں شروع ہوئی، وہ اس کی کلاس فیلو کا بھائی تھا اور اس پہ بری طرح فریفتہ تھا۔ اس کے ساتھ باتیں کر کے، گھوم پھر کر اسے اچھا لگتا تھا لیکن وہ اس سے کوئی جذباتی وابستگی نہیں رکھتی تھی۔ وہ خود ابھی اسٹوڈنٹ تھا اور اس کی مالی حالت بھی مستحکم نہیں تھی پھر بھی وہ اس پہ کافی خرچہ کرتا تھا۔ وہ جلد ہی اس سے بور ہو گئی تھی کیونکہ وہ ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے پڑ گیا تھا۔ پھر یکے بعد دیگرے وہ چند اور لڑکوں سے دوستیاں کرتی رہی اور پہلے کی طرح ان کے ساتھ گھومتی پھرتی رہی لیکن یہ دوستیاں محض ہوٹلنگ اور سینیما کی حد تک تھیں۔ اس وقت وہ صابرہ سے سہیلی کے ساتھ جانے کا یا کالج میں ایکسٹرا کلاسوں کا بہانہ کر لیا کرتی تھی۔ اعظم مسعود وہ پہلا شخص تھا جس سے ملاقات کے بعد وہ خود اس سے رابطے کی کوششوں میں لگ گئی تھی۔ وہ ایک ایم این کا بیٹا تھا، اسسٹنٹ کمشنر تھا اور بے تحاشہ امیر اور مضبوط خاندانی بیک گراؤنڈ رکھتا تھا۔ اس سے روشنی کی ملاقات روبی کے گھر ایک پارٹی میں ہوئی تھی۔ وہ اس کا دور کا کزن تھا۔ اگلی بار وہ اسے ایک ہوٹل میں ملا تھا جہاں وہ اپنی چند دوستوں کے ساتھ ہائی ٹی کے لئے گئی ہوئی تھی۔ اس بار اعظم مسعود کو بھیا س میں دلچسپی پیدا ہوئی تھی۔ اور اس سے ملاقاتوں کا سلسلہ چل نکلا تھا۔ وہ اسے ایک اور دنیا سے متعارف کروا رہا تھا۔ آزادی اور بے تحاشہ دولت سے اس کا تعارف اعظم مسعود کی بدولت ہوا تھا۔ وہ اسے مہنگی مہنگی چیزیں خرید کے دیتا، پرفیوم، قیمتی سوٹ، فائیو سٹار ہوٹلوں میں کھانے اور نئے نئے موبائل فون اسے اعظم کی مہربانی سے ملے تھے۔ اس میں ایسا چارم تھا کے اعظم جیسا گھاگ اور فلرٹ فطرت شخص بھی پوری طرح اس کے قبضے میں تھا۔ اس میوزیکل کنسرٹ کے ٹکٹ بھی اسے اعظم مسعود نے ہی بھجوائے تھے کیونکہ اس نے وہاں جانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ وہ خود ایسی جگہوں پہ نہیں جاتا تھا۔ اور وہیں اسے وقار ملا تھا۔ اسے وقار سے دوستی میں انٹرسٹ نہیںتھا کیونکہ وہ اعظم مسعود جیسا حکم کا اکا گنوانا نہیں چاہتی تھی۔ لیکن وقار اس میں ضرورت سے زیادہ دلچسپی لے رہا تھا۔ اعظم کی پوسٹنگ حاصل پور تھی کونسا وہ اس کی نگرانی کرواتا تھا اسلئے وقار کے ساتھ وقت گزاری میں کیا حرج تھا۔ اور پھر وقار سے بھی اسے فائدہ ہیمل رہا تھا۔ وقار کو اس نے اپنی حقیقت نہیں بتائی تھی۔ اسے ضرورت بھی نہیں تھی۔ اعظم اس کے بیک گراؤنڈ کے بارے میں سب کچھ جانتا تھا، روبی کی وجہ سے اسے پتا چل جاتا اسلئے اس سے چھپانے کا فائدہ نہیں تھا۔ شروع میں صابرہ اس سے ان مہنگے تحائف کی وجہ سے سوال جواب کرتی تھی۔ آہستہ آہستہ اسے بھی یہ سب قابل قبول ہو گیا تھا۔ یہ ضروری تو نہیں تھا وہ لوگ تمام عمر ایک سے معاشی حالات کے ساتھ گزر بسر کرتے۔ وقار کو آئمہ نے ایک آپشن کے طور پہ رکھا ہوا تھا لیکن جس دن اعظم مسعود نے اسے شادی کے لئے پرپوز کیا اس نے وقار سے پیچھا چھڑوا لیا۔
ڈنر ٹیبل پہ بھی وہ خاموشی سے بیٹھا تھا۔ وہ باہر آنا تو نہیں چاہتا تھا لیکن وہ روشنی کو ہرٹ نہیں کر سکتا تھا۔ صابرہ کے ساتھ وہ معمول کے انداز میں بات چیت کرتا رہا تھا آئمہ کی معنی خیز مسکراہٹ دیکھ کر بھی وہ جان بوجھ کر اسے نظرانداز کر رہا تھا۔ روشنی یہی سمجھ رہی تھی کہ وقار کا اسے اگنور کرنا اسلئے ہے کیونکہ اس کی ضد اور دباؤ کی وجہ سے روشنی کو کلب جانا پڑا۔ وہ وقار کی ذہنی کیفیت سے انجان تھی جو اس وقت صرف یہ سوچ رہا تھا کہ اسے کن الفاظ میں روشنی کو اپنے اور آئمہ کے بارے میں بتانا ہے۔ وہ نہیں چاہتا تھا اس سے پہلے آئمہ روشنی کو کوئی بات بتائے۔ وہ آئمہ سے کچھ بھی امید کر سکتا تھا۔
روشنی کو لے کر آنا بیٹا۔ صابرہ جانے سے پہلے اسے انوائیٹ کر رہی تھی۔ روشنی جانتی تھی وہ بہت مصروف ہے اور پھر وقار کے اور ان کے اسٹیٹس میں زمین آسمان کا فرق تھا، وہ اسے وہاں لے کر جانے کے لئے اصرار نہیں کر سکتی تھی۔
امی، وقار بہت مصروف ہیں آجکل اپنے کام کے سلسلے میں، آپ فکر نہ کریں کچھ دن تک میں خود آ جاؤں گی آپ سے ملنے۔ وہ وقار کو مشکل میں نہیں ڈالنا جانتی تھی۔
میں جتنا بھی مصروف ہوں تمھارے لئے وقت نکال سکتا ہوں۔ اس کی طرف پیار سے دیکھتے وہ اسے کہہ رہا تھا۔ مسکراتے ہوئے بے اختیار روشنی نے اپنا ہاتھ اس کے بازو پہ رکھا تھا۔ یہ اظہار تشکر تھا جو وہ خود کو ملنے والے اس مان کے بدلے اس وقت کرنا چاہتی تھی۔
آپ فکر نہ کریں آنٹی ہم جلد ہی آپ کی طرف چکر لگائیں گے۔ وہ اب صابرہ سے کہہ رہا تھا۔ آئمہ چپ چاپ کھڑی ان دونوں کو دیکھ رہی تھی اس کی آنکھوں میں کچھ تھا جسے روشنی سمجھ نہیں پائی تھی۔
ان لوگوں کو ڈرائیور کے ذریعے گھر بھجوا کر وہ دونوں اپنے کمرے میں آ گئے تھے۔
روشنی مجھے تم سے کچھ بات کرنی تھی۔ وہ شیشے کے سامنے کھڑی اپنی جیولری اتار رہی تھی جب وقار نے کچھ سوچتے ہوئے اپنی بات شروع کی لیکن اسی پل اس کا موبائل بجنا شروع ہو گیا۔ رچرڈ کی کال آ رہی تھی۔ اس سے بات کرتے ہوئے وہ کمرے سے باہر نکل گیا۔ اسٹڈی میں آ کر اسے کچھ ڈاکومنٹس دیکھنے تھے جو رچرڈ اسے ای میل کر چکا تھا۔ ان فائلز کو چیک کرنے کے بعد وہ ایک بار پھر رچرڈ کو کال کرنے بیٹھ گیا تھا۔ اپنے کاموں سے فارغ ہو کر وہ جب تک کمرے میں آیا روشنی تقریباً سو چکی تھی۔ ویسے بھی کافی رات ہو چکی تھی اس نے سوچا وہ اسے پہلی فرصت میں کل سب کچھ بتا دے گا۔ وہ صبح جلدی آفس آ گیا تھا اور کافی مصروف تھا۔
آپ لنچ پہ گھر آ جائیں وقار۔ آپ کی فیورٹ ڈش بنا رہی ہوں میں۔ روشنی اسے فون پہ کہہ رہی تھی۔
اس کی بات سن کر وہ مسکرا دیا تھا۔ وہ آفس میں کافی بزی تھا۔ اپنے سامنے پڑی فائلوں سے سر اٹھا کر اس نے خود کو ریلیکس کرنے کے لئے سر کرسی کی پشت پہ ٹکا دیا۔
ابھی ایک میٹنگ شروع ہونے والی ہے اس کے بعد گھر آؤں گا پھر لنچ کے بعد دوبارہ آفس۔ کافی وقت ضائع ہو جائے گا۔ وہ سوچتے ہوئے بولا۔
اوہ مطلب آپ نہیں آ سکتے ہیں۔ اس نے مرجھائے ہوئے لہجے میں کہا۔
آپ ایسا کیوں نہیں کرتیں کہ آپ میرے آفس آ جائیں آج میں آپ کو اپنی فیورٹ جگہ پہ لنچ کرا دوں گا۔ وہ اسی کے لہجے میں اسے کہہ رہا تھا۔
اور میرے بنائے کھانے کا کیا ہو گا؟ وہ مصنوعی ناراضگی سے بولی تھی۔
وہ میں ڈنر میں کھا لوں گا۔ جواب فوراً آیا تھا۔
ٹھیک ہے پھر میں آپ کے آفس آ جاتی ہوں۔ وہ بخوشی راضی ہو گئی تھی۔
اس سے فون پہ بات کر کے وہ دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہو گیا تھا۔ اس لڑکی میں جادو تھا۔ کتنی بھی تھکن اور مصروفیت ہوتی وہ اسے منٹوں میں اپنی باتوں سے ریلیکس کر دیتی تھی۔ میٹنگ سے فارغ ہو کر وہ اپنے آفس میں داخل ہوا تھا جب اس کی سیکرٹری نے اسے ایک لڑکی کے بارے میں بتایا تھا جو اس سے ملنا چاہتی ہے۔
تم میرے آفس میں کیا کر رہی ہو؟ اپنے دفتر میں آئمہ کو دیکھ کر اس کا پارہ چڑھ گیا تھا۔ وہ اس کی ہٹ دھرمی پہ حیران رہ گیا تھا۔
میں تمھیں اتنا بیوقوف نہیں سمجھتی تھی وقار حسن، تم مجھ سے بدلہ لینے کے لئے میری اس کم عقل بہن سے شادی کر لو گے۔
Listen Aima this is my office and I don’t want to create any scene here, you just leave it immediately.
(سنو آئمہ یہ میرا دفتر ہے اور میں یہاں کوئی تماشہ کھڑا نہیں کرنا چاہتا، تم یہاں سے فوراً چلی جاؤ۔ )
٭٭٭
وقار اسے لنچ پہ بلا رہا تھا اسلئے وہ ایک بجے اس کے آفس پہنچی تھی۔ وہ یہاں پہلے بھی آ چکی تھی اسلئے کسی کی معاونت کے بغیر وہ وقار کے کمرے کی طرف بڑھ گئی تھی۔ شیشے کی کیبن میں بیٹھی وقار کی سیکرٹری کو دیکھ کر اس نے مسکراتے ہوئے ہاتھ ہلایا تھا جو اسے دیکھ کر اپنی کرسی سے کھڑی ہو گئی تھی۔ اسے بیٹھنے کا اشارہ کر کے وہ اب وقار کے کمرے کا دروازہ کھول رہی تھی جب اپنے کانوں میں پڑتی آئمہ کی آواز سن کر وہ ٹھٹھک گئی تھی۔
مجھے اسے دیکھ کر ترس آتا ہے کیسے بچوں کی طرح وہ اس لالی پاپ سے بہلی ہوئی ہے جسے تم نے محبت کا نام دیا ہے۔ بیچاری یہ بھی نہیں جانتی کہ چند ماہ پہلے تک اس کا محبت کرنے والا شوہر مجھ سے شادی کرنے کے لئے مرا جا رہا تھا۔ میرے لئے دیوانہ تھا میں دن کہتی تو وہ وہ دن دہراتا تھا اور میرے رات کہنے پہ اس کی رات ہوتی تھی۔ اب میں یہ کیسے مان لوں کہ اچانک تمھیں میری بہن سے محبت ہو گئی ہے جو نہ صورت میں مجھ سے بہتر ہے اور نہ اس کے پاس میرے جیسی تعلیم ہے۔ یقیناً یہ سب کچھ مجھے جیلس کرنے کے لئے ہی کیا گیا ہو گا۔ وہ طنزیہ لہجے میں بولی تھی۔
آئمہ تم اس سے آگے وہ کچھ کہہ نہیں پایا تھا۔ دروازے کے بند ہونے کی آواز پہ اس نے چونک کر دیکھا۔
میرے کمرے کے باہر کون تھا؟ انٹرکام پہ وہ اپنی سیکرٹری سے معلوم کر رہا تھا۔
سر آپ کی مسز تھیں۔ وقار کے پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی تھی۔ اس کا دماغ بھک سے اڑ گیا تھا۔ وہ اسے سچ بتانا چاہتا تھا لیکن یہ سب اس انداز میں اس تک پہنچے گا یہ وہ آخری بات تھی جو اس نے سوچی تھی۔
اپنے موبائل سے اس کا نمبر ڈائل کرتے وہ باہر کی طرف بھاگا تھا۔ آئمہ اس کے آفس میں ہے اسے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔ وہ گھر جا رہا تھا۔ اپنی شادی کے پہلے چند ہفتوں میں اپنے رشتے میں آئی اس غلط فہمی کو اسے فوراً دور کرنا تھا۔ اس کا موبائل بند تھا اس کا اسطرح وقار سے بغیر ملے چلے جانا اسے اپ سیٹ کر رہا تھا۔ پتا نہیں اس نے کتنی بات سنی تھی اور اس سے کیا نتیجہ اخذ کیا تھا۔ لیکن وہ حیران تھا چند منٹ میں وہ غائب کہاں ہو گئی تھی۔ اس نے ڈرائیور سے بھی پوچھا لیکن اس نے بھی اسے آفس ڈراپ کرنے کے بعد دوبارہ نہیں دیکھا تھا۔ وہ گھر پہنچ چکا تھا لیکن روشنی گھر پہ نہیں تھی۔ چند بار اس کے موبائل پہ کال کرنے کے بعد وہ صابرہ کی طرف چلا گیا۔ وہ اگر گھر نہیں آئی تو اپنی والدہ کے پاس گئی ہو گی۔ یہی سوچ کر وہ صابرہ کی طرف چلا گیا، روشنی وہاں بھی نہیں تھی۔ صابرہ اس کو دیکھ کر کافی پریشان ہو گئی تھی۔ وہ حیران تھی کہ آخر ان دونوں کے درمیان ایسا کیا ہوا ہے کہ روشنی اسے بغیر بتائے کہیں چلی گئی ہے۔ بوجھل دل سے وہ وہاں سے نکلا تھا۔ بے مقصد سڑکوں پہ گاڑی دوڑاتے اس نے کئی بار گھر کال کر کے ملازمہ سے روشنی کے بارے میں پوچھا۔
روشنی بی بی ابھی تک نہیں آئی ہیں۔ ہر بار کا دہرایا یہ جملہ اس کے کانوں سے ٹکرا رہا تھا۔ وہ ہر جگہ اسے تلاش کر چکا تھا سوائے اپنے دفتر کی بیک سائیڈ کے جہاں وہ بہت دیر اکیلی بیٹھی رہی تھی اور پھر وہاں سے نکل کر ایک نزدیکی پارک میں آ گئی تھی۔
٭٭٭
تم وقار کو کب سے جانتی ہو۔ چند جملے جو اس کے کانوں تک پہنچے تھے ان سے وہ اتنا تو سمجھ گئی تھی کہ آئمہ اور وقار ایک دوسرے کو پہلے سے جانتے ہیں۔ وہ شاک کی کیفیت میں تھی۔ اس کا دماغ کام نہیں کر رہا تھا۔ بہت دیر تک قریبی پارک میں بیٹھے رہنے کے بعد وہ آئمہ کے پاس گئی تھی۔
ایک سال سے زیادہ ہو چکا ہے۔
کیا رشتہ تھا تم دونوں کے درمیان؟
کیا یہ تمھیں وقار نے نہیں بتایا کہ اس کا اور میرا کیا رشتہ تھا۔ محبت کرتا تھا وہ مجھ سے، مرتا تھا دل و جان سے مجھ پر، شادی کرنا چاہتا تھا مجھ سے۔
تم جھوٹ بول رہی ہو۔
میں تم سے کیوں جھوٹ بولوں گی آپی؟
وقار بہت سی لڑکیوں سے ملتے ہیں، اپنے پروفیشن اور دوستانہ طبعیت کی وجہ سے ان کی کافی بے تکلفی ہے لڑکیوں کے ساتھ، ہو سکتا ہے تمھیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہو۔ اسے نتاشہ یاد آئی تھی۔
آپی تم اگر بیوقوفوں کی جنت میں رہنا چاہتی ہو تو مجھے کوئی اعتراض نہیں لیکن میں کم سے کم تم سے یہ جھوٹ نہیں بولوں گی کہ ہاں اس کے فرینڈلی رویے کی وجہ سے مجھے یہ غلط فہمی ہو گئی تھی۔ ایک سال میرے پیچھے پھرتا رہا ہے وہ، اپنی بہن سے یہاں تک کہہ چکا تھا کہ اس نے مجھ سے شادی کر لی ہے کیونکہ وہ اس کی شادی اپنی نند کے ساتھ کروانے میں انٹرسٹیڈ تھی۔ میرے اور اس کے درمیان تھوڑی سی مس انڈرسٹینڈنگ کیا ہو گئی اس نے تم سے شادی کر لی۔ وہ جانتا تھا میں اسے اپنی بہن کے ساتھ دیکھوں گی تو جیلس ہو جاؤں گی، اس سے پیچ اپ کرنے کی کوشش کروں گی۔
And he was right.
میں تو پہلے ہی اس کے ساتھ جھگڑے کے بعد کافی شرمندہ تھی۔ تمھیں اس کے ساتھ دیکھا تو مجھے اس پہ اور بھی ترس آیا، اب کہاں تم اور کہاں میں۔ یہ وقار کا اسٹینڈرڈ تو نہیں ہے۔ تم جیسی سیدھی سادھی اور معمولی شکل و صورت کی انٹر پاس بیوی اس کے اسٹیٹس سے کہاں میچ کرتی ہے۔ لیکن مجھے تمھارے لئے بھی بہت افسوس ہوتا ہے۔ اسے کم سے کم میری بہن کو ہتھیار نہیں بنانا چاہئیے تھا۔ اور اسی بات پہ اس سے جھگڑا کرنے میں آج اس کے آفس گئی تھی۔
آئمہ کے انکشاف پہ اس نے ایک گہری سانس لی تھی۔ تو یہ تھی وہ وجہ جو وقار کو بازار میں بکتی ایک لڑکی کو اپنی بیوی بنا کر اپنے گھر لانا تھا۔ کتنی تحقیر تھی آئمہ کی باتوں میں اس کے لئے، یہ وہی آئمہ تھی جس کے روشن مستقبل کے لئے اس نے اپنی زندگی مختص کر رہی تھی۔ جس کی خوشیوں پہ وہ اپنا آپ قربان کر سکتی تھی آج وہ اسے احساس دلا رہی تھی کہ اس کی بہن معمولی صورت اور کم تعلیمیافتہ ہے۔ لیکن اس نے کچھ غلط تو نہیں کہا تھا آئمہ ان تمام خصوصیات کی مالک تھی جو کسی بھی قابل اور کامیاب شخص کو اپنی طرف متوجہ کر سکتی تھی۔ وہ سچ میں بیوقوفوں کی جنت میں ہی تو رہتی تھی جو یہ نہیں جان پائی کہ اس کا اور وقار کا کیا مقابلہ۔ وہ زمین تھی اور وقار آسمان ان دونوں کا ملاپ کیسے ممکن تھا۔ زمین کتنی بھی خوبصورت ہو اس کا آسمان سے کیا مقابلہ۔ آئمہ کی باتوں سے وہ ڈھے گئی تھی۔ بوجھل قدموں سے چلتی وہ وہاں سے نکل گئی۔
٭٭٭
تم اس وقت کہاں ہو میں تم سے ابھی اور اسی وقت ملنا چاہتا ہوں۔ فون پہ اسے جگہ بتا کر وہ خود بھی آفس سے نکل گیا تھا۔ اس سے بھی پہلے وہ وہاں موجود تھی، ہمیشہ کی طرح اٹریکٹو، خوبصورت اور مغرور۔ اسے اپنی طرف آتا دیکھ کر وہ مسکرائی تھی۔ وہ جانتی تھی وقار اسے ضرور کال کرے گا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ حیرت سے مر جاتی۔ اب تک جتنے بھی لڑکوں سے اس نے دوستی کی تھی وہ سب اس کے لئے اتنے ہی بے چین تھے، اس کے ایک اشارے پہ کھنچے چلے آتے تھے۔ اور یہ شخص تو اس پہ دل و جان سے فریفتہ تھا۔ اس کے ساتھ گزرا ہوا وقت وہ کبھی نہیں بھول سکتی تھی۔ حالانکہ وہ بھی انہی بیوقوف مردوں کے قبیلے سے تھا جو لڑکیوں کی خوبصورتی اور ان کی اداؤں کے دیوانے ہوتے ہیں اور اسے مردوں کو بیوقوف بنانا آتا تھا۔ شروع میں وہ اسے ایک اچھا ٹائم پاس لگا تھا اور اسے اس سے شادی میں کوئی دلچسپی نہیں تھی، اعظم مسعود بھلے فلرٹ تھا لیکن اس جیسا اسٹیٹس اور مضبوط بیک گراؤنڈ وقار کے پاس ہرگز نہیں تھا۔ اور پھر اعظم مسعود نے اسے شادی کی پیشکش کی تو وہ وقار سے پیچھا چھڑانے کی ترکیبیں سوچنے لگی لیکن اس کا یہ کام اتنی آسانی سے ہو جائے گا اس نے سوچا بھی نہیں تھا۔ وقار نے اسے اعظم کے ساتھ دیکھ لیا تھا اور وہ خود ہی اس کی جان چھوڑ چکا تھا۔ اعظم کے ساتھ وہ بہت خوش تھی اور یہ خوشی قائم بھی رہتی اگر وہ وقار کے ساتھ روشنی کو نہ دیکھتی۔ ہتک سی ہتک محسوس کی تھی اس نے۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ وقار اسے چھوڑنے کے بعد اس کی معمولی شکل و صورت کی کم تعلیمیافتہ بہن سے شادی کر لے گا۔ تھا کیااس میں نہ لکس نہ تعلیم، ساری زندگی بسوں کے دھکے کھانے والی چند ہزار روپے کے لئے خود کو ہلکان کرنے والی اس بیوقوف سی روشنی کو وہ وقار کے ساتھ دیکھ کر حیران رہ گئی تھی۔ کتنے مان سے وہ اس کا ذکر کر رہی تھی، کس غرور سے وہ اس کے بازو پہ اپنا ہاتھ رکھے بیٹھی تھی وہ منظر دیکھ کر اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی تھی۔ اس کے مہنگے کپڑے، قیمتی ڈائمنڈ اور وہ گھر جہاں وہ کسی ملکہ کی طرح بیٹھی تھی۔ حسد اور غصے میں وہ اس گھر سے نکلی تھی۔ جس روشنی کو ساری زندگی اس نے ایثار اور قربانی کرتے دیکھا تھا، آئمہ کو خوش کرنے کے لئے وہ کسی بھی حد تک جا سکتی تھی۔ روشنی کو پریشان کر کے اسے مزا آتا تھا۔ ملتی تھی۔ پچاس ہزار کیا حیثیت رکھتے تھے اس کے لئے وہ کسی سے نہ بھی کہتی تب بھی اس کے پاس اتنے بے شمار قیمتی تحائف موجود تھے جنھیں بیچ کر وہ اپنی فیس ادا کر سکتی تھی لیکن وہ ایسا کیوں کرتی۔ اسے لوگوں کو آزمانے میں مزا آتا تھا اور اگر روشنی نے اس کی ذمہ داری اٹھائی تھی تو یہ اسی کو پوری کرنی تھی۔ وہ نہیں جانتی تھی روشنی نے وہ پیسے کہاں سے ارینج کئے تھے لیکن اس کی سوچ کے مطابق اس نے وہ پیسے بھجوا دئیے تھے۔ لیکن اب کچھ ایسا ہو گیا تھا جو وہ خواب میں بھی نہیں سوچ سکتی تھی۔ وہ کسی صورت روشنی کو وقار کے ساتھ دیکھ نہیں سکتی تھی۔ اچانک اسے وقار میں دلچسپی دوبارہ پیدا ہو گئی تھی اور اب اسے وقار چاہئیے تھا۔ وقار کی ناراضگی اس کی توقع کے عین مطابق تھی لیکن وہ جلد اسے منا لے گی، وہ اس سے اتنی محبت کرتا تھا کہ زیادہ دن ناراض نہیں رہ سکتا تھا اور روشنی کو تو جو کچھ وہ بتا چکی تھی اس کے بعد اگر وقار اسے نہ بھی چھوڑتا تو روشنی اسے خود چھوڑ دے گی۔ اس نے بہت سوچ سمجھ کے ساری پلاننگ کی تھی۔
وہ کرسی کھینچ کر اس کے بالکل سامنے بیٹھا بہت غور سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔
میں جانتی تھی تم مجھے ضرور کال کرو گے۔ اس نے ایک ادا سے کہا۔
تم نے ٹھیک سوچا تھا کال تو مجھے کرنی ہی تھی تم سے ایک ملاقات تو ضروری تھی۔ وہ بہت سنجیدگی سے کہہ رہا تھا۔
بس ایک ملاقات، میں تو سمجھی تھی تمھیں مجھ سے بار بار ملنے میں دلچسپی ہے۔ اس نے معنی خیز انداز میں کہا۔
تم نے غلط سوچا۔ آج کے بعد نہ مجھے تم سے ملاقات میں دلچسپی ہے اور نہ ہی تمھاری شکل دیکھنے میں کوئی انٹرسٹ ہے۔ میں نے تمھیں یہاں صرف یہ کہنے کے لئے بلایا ہے کہ اگر تم نے میرے یا روشنی کے درمیان آنے کی کوشش کی تو اپنے انجام کی ذمہ دار تم خود ہو گی۔ آج جو کچھ ہوا اس سے تم میرے اور روشنی کے درمیان دراڑ نہیں ڈال سکتی ہو۔ لیکن میری تمھیں وارننگ ہے روشنی کو مجھ سے بدگمان کرنے کی کوشش کرو گی تو میں تمھیں جان سے مار ڈالوں گا۔ وہ بہت سخت اور ہموار لہجے میں اسے کہہ رہا تھا۔
تم اس بیوقوف، جذباتی اور معمولی سی لڑکی کے لئے مجھے جان سے مارنے کی دھمکی دے رہے ہو؟ وہ شاک کے عالم میں تھی۔
معمولی وہ نہیں بلکہ معمولی تم ہو۔ جس صورت پہ اتنا غرور ہے تمھیں اس میں تمھارا پنا کوئی کمال نہیں ہے۔ اس صورت کے پیچھے چھپے اپنے گھناؤنے چہرے کو کبھی میری نظروں سے دیکھو، تمھیں خود سے نفرت ہو جائے گی۔ تم اسی دن میرے دل سے اتر گئی تھی آئمہ جس دن تم میری نظروں سے گری تھی۔ میں نے زندگی میں اگر کوئی دعا سچے دل سے کی ہے تو وہ یہی تھی کہ مجھے تمھاری شکل کبھی دیکھنی نہ پڑے۔ تم ہو کیا چیز، تم جیسی لڑکیاں کسی عزت دار آدمی کی بیوی تو کیا داشتہ بننے کے قابل بھی نہیں ہیں۔ وہ بہت تلخی سے کہہ رہا تھا اور آئمہ کا غصے سے برا حال ہو رہا تھا۔
کیا کہا تم نے ؟ میں تمھاری داشتہ بننے کے بھی قابل نہیں ؟ تمھاری ہمت کیسے ہوئی مجھ سے ایسی بات کرنے کی۔ تم کیا سمجھتے ہو جس روشنی کی وجہ سے تم مجھے دھتکار رہے ہو وہ اب تمھارے ساتھ رہے گی۔ سب بتا چکی ہوں میں اسے اپنے اور تمھارے بارے میں۔ میں جانتی ہوں اسے، وہ بہن ہے میری اور کتنی جذباتی اور بیوقوف ہے اس کا شاید تمھیں اندازہ بھی نہیں۔ آج جو اسے پتا چلا ہے اس کے بعد وہ خود تمھیں چھوڑ دے گی۔ اسے مجھ سے زیادہ تم پہ اعتبار نہیں ہے۔ وہ غصے سے پاگل ہو رہی تھی،یہ سوچے بغیر کہ اردگرد کتنے لوگ اسے دیکھ رہے ہیں وہ ہذیانی کیفیت میں بولے جا رہی تھی۔
روشنی میرے ساتھ رہے یا نہ رہے، لیکن تم یہ بھول جاؤ کہ میں دوبارہ کبھی تمھیں اپنی زندگی میں شامل کروں گا۔ اپنی بات ختم کر کے وہ کرسی پرے دھکیلتا وہاں سے چلا گیا تھا۔ غصے میں اپنی انگلیوں کو مڑوڑتی وہ اسے وہاں سے جاتے دیکھتی رہی تھی۔
وقار گھر میں داخل ہوا تو وہ بری طرح ڈسٹرب تھا۔ اپنے کمرے میں داخل ہو کر بے دلی سے ٹائی کی ناٹ کھولتے اس نے اپنا کوٹ بیڈ پہ پھینکا تھا۔ پیٹیو کا دروازہ کھلا تھا اور وہ سوئمنگ پول کے کنارے گم صم بیٹھی تھی۔ دھیمے قدموں سے چلتا وہ اس کے قریب آیا لیکن اس نے ایک بار بھی اس کی طرف نہیں دیکھا تھا۔ کچھ کہے بغیر وہ اب اس کے برابر بیٹھ گیا تھا۔
تم یہاں بیٹھی ہو اور میں تمھیں کب سے کال کر رہا تھا۔
زندگی ایک بار پھر بہت الجھ گئی ہے۔ جتنا سلجھانے کی کوشش کر رہی ہوں سرا ہاتھ ہی نہیں آ رہا۔ اس کا لہجہ بہت ٹوٹا ہوا تھا۔ وہ اس کے چہرے کی طرف دیکھے بغیر بھی جانتا تھا کہ اس کی آواز میں لرزش تھی۔
روشنی تم مجھ پہ اعتبار کرتی ہو؟ یہ سوال تھا یا شکایت وہ جان نہیں پائی تھی۔ اس نے منہ اٹھا کر پہلی بار وقار کی طرف دیکھا۔ وہ اسے بہت تھکا اور بکھرا ہوا لگا تھا۔ کیا یہ شخص ناقابل اعتبار ہو سکتا ہے ؟ کیا یہ شخص اس کی بہن سے بدلا لینے کے لئے اس کا استعمال کر سکتا ہے ؟ کیا یہ شخص اس کی بہن کے کہنے پہ اسے چھوڑ سکتا ہے ؟ بہت سارے سوال تھے جو اس وقت سانپ کی طرح پھن اٹھائے اس کے دل میں اٹھے تھے۔ اور ان سب کا صرف ایک جواب تھا۔
نہیں یہ دھوکے باز نہیں ہے۔ اس کے ہر لفظ پہ اسے آنکھیں بند کر کے یقین تھا۔
میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں روشنی۔ اس کی آنکھوں میں دیکھتے وہ بہت سنجیدگی سے کہہ رہا تھا۔
مجھے تم سے محبت کب اور کیسے ہوئی میں نہیں جانتا لیکن میں تمھارے بغیر نہیں رہ سکتا۔ تم ان لوگوں میں سے نہیں جو آپ کو پہلی نظر میں اپنا بنا لیتے ہیں بلکہ تم اوس کی طرح قطرہ قطرہ دل میں اترتی ہو۔ جب تم یہاں تھی میں ایک بار بھی اس احساس سے نہیں گزرا، میرے کمرے میں تمھاری موجودگی مجھے پریشان کرتی تھی، مجھے اپنی پرائیویسی میں خلل محسوس ہوتا لیکن جس دن تم یہاں سے گئی میں تمام رات سو نہیں پایا۔ بار بار میری نظر اس خالی صوفے پہ جاتی اور میں الجھ جاتا۔ اس سوئمنگ پول کے کنارے تمھیں بیٹھے دیکھنے کی جیسے عادت سی ہو گئی تھی۔ مجھے یہ خالی جگہ پریشان کرتی۔ چند بار تمھارے ہاتھوں کی بنی کافی کا ذائقہ میں عفت بی کی بنائی کافی میں کھوجتا اور ہر بار مایوسی ہوتی۔ عائشہ آپی کو چاہ کر بھی میں یہ نہیں کہہ پایا کہ تمھیں چھوڑ چکا ہوں جیسا کہ میں نے پلان کیا تھا، تمھاری ہر چیز اس کمرے میں تمھاری امانت کی طرح رکھی رہی۔ میری الماری میں رکھے تمھارے کپڑوں سے لے کر میری ڈریسنگ ٹیبل پہ پڑا تمھارا پرفیوم اور کاسمیٹکس بھی میں وہاں سے ہٹا نہیں پایا۔ تمھارے جانے کے بعد میں کئی بار دبئی آیا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ تم وہاں نہیں ہو گی میں دو بار اس کلب میں گیا۔ میں تمھارا پتہ جانتا تھا چاہتا تو تم سے مل سکتا تھا لیکن میں نہیں چاہتا تھا کہ تمھیں یہ لگے کہ میں تم سے اسپیشلی ملنے آیا ہوں بے مقصد مال میں گھومتے ہوئے کسی سڑک پہ چلتے تم کہیں اچانک میرے سامنے آ جاؤ اور میں تمھیں ایک نظر دیکھ سکوں۔ یہ بہت بچگانہ خواہش تھی لیکن میں اپنی اس خواہش کو پورا کرنا چاہتا تھا اور پھر مجھ پہ یہ انکشاف ہوا کہ میں تمھیں بے پناہ چاہنے لگا ہوں اور تمھارے بغیر نہیں رہ سکتا۔ میں تم سے پہلے کسی اور لڑکی کو پسند کرتا تھا اور اس سے شادی کرنا چاہتا تھا یہ بات میں نے تمھیں صرف اسلئے نہیں بتائی کیونکہ میں تمھیں اس بات سے تکلیف نہیں دینا چاہتا تھا۔ میں خود اس دھوکے اور انسلٹ کو بھولنا چاہتا تھا۔ میں نہیں جانتا تھا کہ آئمہ تمھاری بہن ہے لیکن جب مجھے یہ پتا چلا تو میں تمھیں سب کچھ بتا دینا چاہتا تھا۔ جہاں تک آئمہ سے میری وابستگی کا تعلق ہے میں اسے جھٹلا نہیں سکتا۔ میں نے اسے سچے دل سے محبت کی تھی۔ لیکن وہ اسی دن میرے دل میں اپنا مقام کھو چکی تھی جب میں نے اسے اعظم مسعود کے دیکھا تھا۔ تمھیں اپنی زندگی میں شامل کرتے وقت وہ نہ میری زندگی میں تھی اور نہ میرے دل میں۔
آئمہ کہتی ہے میں آپ کے قابل نہیں ہوں۔ میں خوبصورت نہیں ہوں اور نہ ہی آپ کی طرح اعلیٰ تعلیمیافتہ، میں کسی بھی طرح آپ کے معیار پہ پوری نہیں اترتی۔
وہ غلط کہتی ہے۔ تم اس دنیا کی سب سے خوبصورت لڑکی ہو کیونکہ تمھارا دل صاف ہے۔ اس میں دنیا کا سب سے حسین جذبہ، محبت بھرا ہوا ہے۔ تم ہر طرح سے وقار حسن کی بیوی بننے کے لائق ہو، تم میں وہ تمام خصوصیات ہیں جو کوئی بھی شخص اپنی بیوی میں دیکھنا چاہتا ہے اور یہ صرف میں نہیں کہتا یہ عائشہ آپی بھی کہتی ہیں۔ تم سے چند دن کی ملاقات میں وہ تمھیں مجھ سے زیادہ پیار کرنے لگیں، ان کے بچے تمھارے فین ہو گئے۔ خود کو آئمہ کی نہیں میری نظروں سے دیکھو روشنی پھر تمھیں پتا چلے گا تم کیا ہو۔ خود کو اس احساس کمتری سے نکالو کہ تم آئمہ سے کسی طور کم ہو بلکہ آئمہ کا تم سے کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے۔ وہ جھوٹ اور دھوکے کا پلندہ ہے۔ اس کا ہر لفظ جھوٹ ہے اس کی ہر ادا فریب۔ میں آئمہ سے نہیں تم سے محبت کرتا ہوں روشنی۔
میں بھی آپ سے بہت محبت کرتی ہوں وکی۔ اس کے کندھے پہ سر ٹکائے وہ کہہ رہی تھی۔ وقار نے نرمی سے اسے اپنے بازوؤں کے گھیرے میں لے لیا تھا۔
٭٭٭
آدھی رات کو اس کا موبائل مسلسل بج رہا تھا۔ بیڈ سائیڈ ٹیبل پہ پڑا اپنا فون اٹھا کر اس نے ادھ کھلی آنکھوں سے جلتی بجھتی سکرین کو دیکھا۔ صابرہ کی کال آ رہی تھی۔
امی اس وقت کیوں فون کر رہی ہیں۔ اس نے جلدی سے کال ریسیو کی۔
وقار نے پاس پڑا لیمپ آن کیا۔ اس بے وقت کی کال سے وہ بھی جاگ گیا تھا۔
ہیلو امی روشنی نے کہا۔ دوسری طرف صابرہ بے تحاشہ رو رہی تھی۔
امی آپ رو کیوں رہی ہیں ؟ سب خیریت تو ہے۔ وہ پریشانی اور خوف کی ملی جلی کیفیت میں اس سے پوچھ رہی تھی۔
کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے روشنی تم جلدی سے آ جاؤ۔ وہ روتے ہوئے اسے بتا رہی تھی۔
لیکن ہوا کیا ہے امی۔ آئمہ تو ٹھیک ہے نا؟
اعظم مسعود نے آئمہ پہ کے چہرے پر تیزاب پھینک دیا ہے۔ اسے لگا صابرہ اپنے حواس میں نہیں ہے۔
وہ دونوں اس کی کال آنے کے تھوڑی دیر بعد ہی اس کے پاس آ گئے تھے۔ وہ روتے ہوئے اسے بتا رہی تھی کہ وہ آئمہ کو کئی دن سے ملنے کے لئے بلا رہا تھا۔ آئمہ اس سے بات کرنے کو بھی تیار نہیں تھی۔ ایک ہی دھن سوار تھی اس کے سر پر کہ اسے صرف وقار سے شادی کرنی ہے۔ جس دن سے اس نے وقار کو تمھارے ساتھ دیکھا تھا وہ غصے سے پاگل ہو گئی تھی۔ میں نے اسے بہت سمجھانے کی کوشش کی کہ وقار تمھارا نہیں روشنی کا نصیب ہے۔ اپنی بہن کا گھر مت برباد کرو لیکن اس پہ تو جیسے جنون سوار تھا۔ حسد اور غرور اس پر حاوی ہو گیا تھا۔ وقار کو چھوڑنے کے بعد اب اسے اپنی غلطی کا احساس ہو رہا تھا۔ اعظم مسعود سے اس کا بہت جھگڑا ہوا تھا۔ شدید غصے کے عالم میں وہ یہاں آیا تھا اور پھر آئمہ کے یہ کہنے پر کہ وہ اس سے کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتی ہے وہ غصے اور جنون میں آ گیا تھا۔
اس واقعے کے بعد اعظم مسعود فرار ہو چکا تھا۔ آئمہ کی حالت تشویش ناک تھی، وہ ہسپتال میں تھی، بچ گئی تھی لیکن اس کا چہرہ بری طرح مسخ ہو چکا تھا۔ صابرہ کے گھر کہرام برپا تھا جیسے قیامت ٹوٹ پڑی ہو۔ روشنی صابرہ کو سنبھال رہی تھی لیکن وہ تو جیسے ڈھے گئی تھی۔ یہ سب میری وجہ سے ہوا ہے۔ میں اس کی اچھی تربیت نہیں کر پائی۔ اس کی ضد کے آگے ہار مان گئی اس کے دکھائے سبز باغ کی لالچ میں آ کر میں نے اسے کھلی چھوٹ دے دی۔ وہ کیا کر رہی ہے، کس کس سے ملتی ہے میں سب جانتی تھی لیکن خاموش رہی۔ وہ پہلی سیڑھی پہ پاؤں رکھے بغیر آخریسیڑھی پہ پہنچ جانا چاہتی تھی اور میں اسے یہ نہیں بتا پائی کہ آخری سیڑھی سے گرنے والوں کو چوٹ بھی زیادہ لگتی ہے۔ سب میرا قصور ہے، اپنی ایک بیٹی کو تو میں نے محنت کی بھٹی میں جھونک دیا اور دوسری کے لئے اپنا معیار بدل دیا۔ وہ اپنے بال نوچ رہی تھی۔ سب میری غلطی ہے۔ میں نے اسے امیر اور آزاد خیال لڑکیوں سے دوستی کرنے سے روکا نہیں۔ وہ یہ باتیں پچھلے تین دن میں دسیوں بار دہر اچکی تھی۔ روشنی تین دن سے ان کے پاس تھی۔ ان تین دنوں میں اس پر وہ سب انکشاف ہوئے تھے جن سے پچھلے ڈھائی سال سے وہ بے خبر تھی۔ اسے صابرہ سے شکایت تھی لیکن وہ اس کی ماں تھی اور غم سے نڈھال تھی۔ وہ اس سے بہت محبت کرتی تھی۔ وہ اس کے ساتھ اس کے دکھ میں شریک تھی۔
خود کو سنبھالیں امی، جو ہو گیا اس پہ افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ کچھ باتیں اپنے وقت پر نہ ہوں تو محض پچھتاوا رہ جاتا ہے۔ غلط رستوں پہ چلنے کا انجام صحیح کیسے ہو سکتا ہے۔ وہ صابرہ کو کہے بغیر نہیں رہ پائی تھی۔
آئمہ کو معاف کر دینا روشنی۔ صابرہ کے لفظ اس کے دل میں نشتر کی طرح چبھے تھے۔ وہ اب بھی اسی کی حمایت کر رہی تھیں۔ لیکن وہ آئمہ کو کیسے معاف کر دے جس نے اسے تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ وہ انجام بھگت چکی تھی لیکن اس کا دل شاید اتنا بڑا نہیں تھا کہ وہ اسے معاف کر پائے۔ کچھ وقت لگے گا اسے بھولنے میں کہ اس کی سگی بہن نے اس کے ساتھ کتنا برا کرنے کی کوشش کی۔
وقار آج اسے لینے آیا تھا۔ پچھلے دنوں وقار نے اس کا بہت ساتھ دیا تھا۔ ایف آئی آر درج ہونے کے بعد پولیس ابھی تک اعظم مسعود کو ڈھونڈ نہیں پائی تھی اور یہ وقار تھا جس کی بدولت وہ دونوں ماں بیٹی پولیس کے چبھتے ہوئے سوالات سے بچ پائی تھیں۔ ہسپتال میں آئمہ کا بہترین علاج بھی اسی کی بدولت ہو رہا تھا اور وہ یہ سب روشنی کی وجہ سے کر رہا تھا۔
چلیں روشنی۔ وقار دروازے پہ اس کا انتظار کر رہا تھا۔ اسے اپنے گھر واپس جانا تھا وہ گھر جس کی بنیاد اس نے خلوص اور محبت سے رکھی تھی۔
٭٭٭
ماخذ:
https: //www.facebook.com/NovelHiNovel/
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید