الطاف حسین حالیؔ کی پیدائش۱۸۳۷ء میں پانی پت میں ہوئی جو کہ دلّی سے ۵۵ میل کی دوری پر واقع ہے۔ ان کے والد کا نام خواجہ ایزد بخش تھا۔ وہ پانی پت میں محلہ انصار میں رہتے تھے۔ ان کے دو لڑکے اور دو لڑکیاں تھیں۔ جس میں سب سے چھوٹے الطاف حسین حالی تھے ۔ یہی الطاف حسین تھے جنہوں نے حالیؔ کے نام سے سارے ہندوستان میں شہرت پائی اور علم و ادب کے میدان میں بڑے بڑے کارنامے انجام دیئے اور پانی پت کا نام سارے ملک میں روشن کیا۔
الطاف حسین نو برس کے بھی نہ ہوئے تھے ان کے والد خواجہ ایزد بخش کا انتقال ہوگیا اور ماں پہلے سے ہی بیمار تھیں۔ اب ان کی تربیت اور دیکھ بھال کا فرض ان کے بھائی نے اٹھایا جو عمر میں ان سے کافی بڑے تھے۔ ان کا نام خواجہ امداد حسین تھا۔ ان کی کوئی اولاد نہیں تھی ۔ ان کو بھائی بھاوج نے بیٹے کی طرح رکھا۔ پانی پت میں یہ رواج تھا کہ چھوٹی عمر سے بچوں کو قرآن مجید زبانی یاد کرایا جاتا تھا۔ جس سے حفظ کہتے ہیں اور ساتھ ی قرأت سکھائی جاتی تھی (قرأت کا مطلب ہے خاص لہجے میں بڑی صحت اور خوش آوازی کے ساتھ قرآن کو پڑھنا)۔ الطاف حسین جب چار برس چارمہینے اور چاردن کے ہوئے تو ان کو مکتب میں داخل کردیا گیا۔ قاری حافظ ممتاز حسین عالم بڑے اچھے قاری تھے۔ وہی الطاف حسین کے پہلے استاد تھے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ بچہ بہت ذہین اور بہت شوقین ہے۔ حالی نے چند سال کے اندر پورا قرآن شریف پڑھ لیا اور زبانی بھی یاد کرلیا۔ کہتے ہیں کہ وہ اس قدر اچھی آواز اور صحیح طریقے سے قرآن شریف پڑھتے تھے کہ لوگ جھوم اٹھتے تھے۔
پانی پت کے ایک اور عالم سید جعفر علی سے الطاف حسین نے فارسی پڑھی اور بچپن سے ان کو فارسی زبان اور ادب سے دلچسپی پیدا ہوگئی۔ فارسی کے ساتھ انہوں نے عربی بھی پڑھنی شروع کردی۔ پانی پت کے ایک بڑے مذہبی عالم حاجی ابراہیم حسین سے الطاف حسین نے عربی پڑھنی شروع کی۔ یہ سب وہ اپنے شوق سے کرتے رہے۔ باقاعدہ تعلیم کا موقع انہیں کبھی نہیں ملا مگر علم کا شوق اور ذہانت اتنی تھی کہ اس کی کسر پوری ہو جاتی تھی۔ اسی زمانے میں پہلے حالی کے والد کا انتقال ہوا اور کچھ عرصے کے بعد ماں بھی اﷲ کو پیاری ہوگئیں۔ اور اب ان کی ساری دیکھ بھال اور ذمہ داری بہن بھائی کے سر آگئی جو انہیں بہت چاہتے تھے اور ہر طرح سے خیال رکھتے تھے اور کیوں نہ چاہتے وہ تھے بھی تو خوش مزاج، کہنا ماننے والے، بزرگوں کا ادب اور خدمت کرنے والے۔ ساتھ ہی بہت ذہین اور پڑھنے میں بہت شوقین بھی۔ بھلا ایسے بچے سے کون پیار نہیں کرے گا۔
الطاف حسین ابھی سترہ برس کے ہی تھے کہ ان کے بھائی بہنوں کو شوق ہوا کہ ان کی شادی کردے۔ بڑے بھائی کو کوئی اولاد نہ تھی سوچاکہ چھوٹے بھائی کی شادی ہو جائے، بچے ہونگے تو گھر میں رونق ہو جائے گی۔ حالی ابھی شادی کرنا نہیں چاہتے تھے۔ ابھی تو وہ بہت کچھ پڑھنا اور علم حاصل کرنا چاہتے تھے۔ لیکن حالی کیسے ان کی بات نہ مانتے بزرگوں کے حکم پرسر جھکانا پڑا اور بڑے چائو سے بھائی، بھاوج، بہنوں وغیرہ نے ان کی شادی ان کے مامو کی بیٹی اسلام النساء سے کردی۔ شادی تو ہوئی مگر علم کی پیاس اور بڑھ گئی ۔ اس زمانے میں یہ دستور بھی تھا کہ شروع میں لڑکی اپنے میکے میں زیادہ رہتی تھی ۔ اسلام النساء کا میکہ اچھا کھاتا پیتا تھا۔ ابھی حالیؔ پر کوئی ذمہ داری نہ تھی ۔
حالی پانی پت میں جو پڑھ سکتے تھے وہ پڑھ چکے۔ دلی کا انہوں نے بہت ذکر سنا تھا کہ وہاں بڑے بڑے عالم، ادبی، شاعر وغیرہ ہیں۔ ان کو اب یہ لگن لگی کہ دلی جاکر علم حاصل کریں۔مگر کیسے جائیں؟بھائی بہن ، بیوی، سسرال والے کوئی بھی تو اس پر راضی نہ ہوتا۔ دلّی تھا بھی بہت دور ۔ وہ یہ زمانہ نہ تھا ۔ نہ ٹرین تھی، نہ بسیں، نہ موٹر، نہ سائیکل اونٹ گاڑی میں (جسے شکرم کہتے تھے) یا بیل گاڑی میں سفر کیا جاتا تھا۔جن کے پیسہ نہ ہوتا وہ پیدل چل کر جاتے تھے۔ حالی کے پاس پیسہ بھی نہ تھا کسی سے کہہ بھی نہ سکتے تھے مگر دل میں ٹھان لیا تھا کہ دلّی جاکر پڑھنا ہے۔
ایک دن چپکے سے رات کے وقت گھر سے نکلے اور دلّی کی طرف چل پڑے۔ ایک لگن تھی ایک شوق تھا جو راستہ دکھا رہا تھا اور ہر مصیبت جھیلنے پر اکسا رہا تھا۔ پانی پت سے دلّی چلے اور چلتے رہے۔ چلتے رہے۔ جوتے پھٹ گئے، پیروں میں چھالے پڑ گئے، کانٹوں نے پیر زخمی کردئیے۔ راستہ میں دو چار بار کسی بیل گاڑی وغیرہ میں بھی تھوڑا راستہ طے کیا مگر زیادہ تر پیدل ہی چلے۔ اس طرح دکھ اٹھاتے مصیبتیں جھیلتے آخر منزل پر پہنچ گئے۔
دلّی پہنچے تو اتنے بڑے شہر میں نہ کسی سے جان نہ پہچان اور نہ پاس میں پیسہ۔ انہوں نے اس زمانے کے حالات بہت کم کسی کو بتائے ہیں مگر ان کے بیٹے خواجہ سجاد حسین نے اپنی ڈائری میں کچھ حال لکھا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ دلّی پہنچ کر انہیں معلوم ہوا کہ جامع مسجد کے قریب ایک مسجد میں ایک مدرسہ بھی ہے ’’حسین بخش کا مدرسہ‘‘ کہلاتا ہے اور ایک بڑے عالم نوازش علی اس میں لڑکوں کو تعلیم دیتے ہیں۔ اس زمانے میں دستور تھا کہ اکثر مسجدوں میں مدرسے بھی ہوا کرتے تھے اور غریب لڑکوں کو عالم لوگ مفت پڑھاتے تھے۔ جن لڑکوں کے اپنوں کا ٹھکانا نہ ہوتا وہ وہیں مسجد میں سو رہتے تھے۔ الطاف حسین پوچھتے پاچھتے کسی طرح اس مسجد میں پہنچ گئے اور مولوی نوازش علی سے پڑھنا شروع کردیا۔ مولوی صاحب نے دیکھا کہ یہ لڑکا تو بہت ذہین بہت شوقین ہے۔ تو شوق سے انہیں تعلیم دینے لگے۔ حالی کے رہنے کا کہیں ٹھکانا نہ تھا وہیں مسجد کے فرش پر سو رہتے۔ نہ تکیہ تھا نہ بستر تھا۔ سر کے نیچے دو اینٹیں رکھ لیا کرتے تھے۔ جو ملتا وہ کھالیتے۔ غالباً مولوی صاحب کے کھانے میں شریک ہوتے ہوں گے۔
دلّی میں اس وقت بڑے بڑے شاعر، ادیب اور عالم موجود تھے۔ مشاعرے ہوا کرتے تھے۔ مولومی نوازش علی کے ساتھ ان کی بڑے بڑے عالم فاضل لوگوں سے ملاقات ہوئی۔ مشاعروں میں بھی جانے لگے اور خود بھی شعر کہنے کا شوق پیدا ہوا۔ مولوی نوازش علی کے علاوہ دلّی میں انہوں نے ایک اور عالم مولوی فیض حسن اور دوسرے مولوی امیر احمد اور میاں سید نذیر حسین سے بھی علم حاصل کیا۔ اس زمانے میں ہندوستان میں انگریزی تعلیم کا چرچا ہونے لگا تھا اور دلی میں ایک اسکول اینگلو عربک اسکول کے نام سے چل رہا تھا۔ مگر پرانے طرز کے عالم لوگ انگریزی پڑھنا برا سمجھتے تھے اور حالی کے استاد تو بہت ہی خلاف تھے۔ اس لیے حالی نے اس اسکول میں جانا تو بڑی بات شاید نام بھی نہ سنا ہو۔ دلّی میں حالی کی ملاقات بڑے شاعروں سے ہوئی۔ ان میں مرزا غالب بھی تھے جن کا دلی میں بہت شہرت تھی۔ حالی کو غالب اور ان کا کلام بہت پسند آیا اور ان کے دل پر غالب کی شخصیت کا اتنا گہرا اثر ہوا جو زندگی بھر رہا۔ انہوں نے آگے چل کر غالب کی سوانح عمری بھی لکھی اور مرثیہ بھی لکھا۔ یہ دونوں چیزیں لاجواب ہیں۔
دلّی کے قیام کے زمانے میں حالی نے شعر کہنے شروع کیے تو اپنا تخلص ’’خستہ‘‘ رکھا۔ (شاعر ایک نام رکھ لیتا ہے اور اس کو ہی شعر میں استعمال کرتا ہے اسی کو تخلص کہتے ہیں) لیکن پھر شاید مرزا غالب کے کہنے سے انہوں نے اپنا تخلص بدل کر حالیؔ کردیا۔ یہی نام ہے جس سے وہ دنیا میں مشہور ہوئے۔ اسی زمانے میں حالیؔ نے مرزا غالبؔ کو اپنی کچھ غزلیں دکھائیں۔ غالب بہت کم کسی کو شعر کہنے کا مشورہ دیتے تھے مگر حالیؔ کی غزلیں انہیں پسند آئیں اور انہوں نے کہا ’’جس کسی کو فکر شعر کی صلاح نہیں دیا کرتا۔ مگر تمہاری نسبت میرا خیا ل ہے کہ اگر تم شعر نہ کہو گے تو اپنی طبیعت پر ظلم کروگے‘‘ بہت بری بات کہہ دی غالب نے۔ اور اس سترہ اٹھارہ سال کے لڑکے میں جو شاعری کا جوہر چھپا ہوا تھا اسے پہچان لیا۔ اس سے حالی کی ہمت بڑھ گئی اور وہ جی سے شعر کہنے لگے۔ مگر وہ صرف شعر تھوڑے ہی کہتے تھے نثر بھی لکھتے تھے۔ اسی زمانے میں انہوں نے عربی میں ایک چھوٹی سی کتاب لکھی اور اپنے استاد نوازش علی کو دکھائی۔ مگر یہ کتاب ان کے خیالات سے مختلف تھی۔ مولوی صاحب کو غصہ آیا اور کتاب جھر جھر کر کے پھاڑ ڈالی۔ لکھنے والے کو اپنی کتاب سے، وہ بھی پہلی کتاب، بہت محبت ہوتی ہے۔ وہ اسے اپنا بڑا کارنامہ سمجھتا ہے۔ مگر حالی استاد کی اتنی عزت کرتے تھے کہ کچھ نہ کہا اور سارا صدمہ دل پر جھیل لیا پھر لکھنے پڑھنے میں لگ گئے۔ حالی پڑھ رہے تھے، علم و شعر کے محفلوں میں شرکت کرتے تھے۔ شعر کہتے تھے۔ عربی فارسی اور دوسرے خاص خاص علم سیکھتے تھے اور جی لگا کر علم کے دریا سے سیراب ہورہے تھے۔ مگر یہ زیادہ دن نہ ہوسکا۔ ڈیڑھ برس سے کچھ ہی زیادہ ہوا ہوگا کہ ان کے خواجہ امداد حسین کو خبر مل گئی کہ الطاف حسین دلی میں ہے اور پڑھ رہا ہے۔ ۱۸۵۵ء میں وہ دلّی چھوڑ کر پھر واپس پانی پت آگئے۔ مگر یہاں آکر بھی پڑھنے لکھنے کا شغل نہ چھوٹا اور اس میں لگ گئے۔ مگر بال بچوں والے کے لئے سکون سے پڑھنا کہاں ممکن تھا۔ اب بیوی بھی ساتھ رہتی تھی ۔ ایک بچہ بھی ہو چکا تھا جس کا نام اخلاق حسین رکھا گیا۔ اس بچے کو بڑے بھائی نے گو دلے لیا تھا اور وہ انہیں کا بیٹا کہلاتا تھا۔ حالی نے بھی جہاں ان کا ذکر لکھا ہے ’’برادرزادہ‘‘ کہہ کر لکھا ہے۔ جائیداد تو تھی مگر اتنی نہ تھی کہ سارے خاندان کا خرچ چل سکتا۔ آخر نوکری کی تلاش ہوئی اور بہت کوشش کے بعد ان کو ۱۸۵۶ء میں حصار شہر میں ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں تھوڑی سے تنخواہ پر ایک جگہ مل گئی اور وہ پانی پت سے حصار چلے گئے۔
اس زمانے میں ملک بھر میں گڑ بڑ اور پریشانی، لوٹ مار، اور ہنگامہ برپا تھا۔ انگریز ہندوستان پر رفتہ رفتہ قبضہ جماتے جا رہے تھے اور دلّی کی مغل حکومت بہت کمزور ہوگئی تھی۔ ہندوستانیوں میں یہ احساس بڑھ رہا تھا کہ انگریز ہم پر حاکم بن جائے گا تو ہمیں تباہ کردے گا۔ بڑا ہی پریشان کن زمانہ تھا۔ ۱۸۵۷ء میں وہ پہلی جنگ آزادی چھڑ گئی جسے انگریزوں نے ’’غدر‘‘ کا نام دیا۔ اس وقت حالی حصار میں نوکر تھے۔ اورہر جگہ کی طرح یہاں بھی گڑ بڑ مچی اور حالی کو وہاں رہنا مشکل معلوم ہوا۔ یوں بھی ایسے زمانے میں ہر کسی کوتمنا ہوتی ہے کہ اپنے وطن اور عزیزوں میں رہے۔ انہوں نے اﷲ کا نام لیا اور جان ہتھیلی پر رکھ کر حصار سے پانی پت کی طرف روانہ ہوگئے ۔ راستہ میں جو سامان اور روپیہ تھا وہ اور گھوڑی لٹیروں چھین لیا۔ راستے میں بہت تکلیفیں اٹھائی، بھوک اور پیاس جھیلی اور کئی دن کی مشکلوں اور پریشانیوں کے بعد پانی پت پہنچے۔ حالی پانی پت آئے تو وہاں پورے چار سال تک رہے۔ اس وقت نہ کوئی ملازمت تھی نہ ملنے کی امید۔ مگر انہوں نے اس فرصت سے یہ فائدہ اٹھایا کہ دل و جان سے علم حصل کرنے میں لگ گئے۔ اردو، عربی، فارسی اور کئی دوسرے علم سیکھتے رہے۔ پڑھتے رہے اور اپنی قابلیت بڑھاتے رہہے۔ انہوں نے خود لکھا ہے ’’اس زمانے میں پانی پت کے مشہور فضلا، مولوی عبدالرحمن، مولوی محب اﷲ اور مولوی قلندر علی سے بغیر کسی ترتیب اور نظام کے کبھی منطق اور کبھی حدیث کی تفسیر پڑھتا رہا اور جب ان صاحبوں میں سے کوئی پانی پت نہ ہوتا تو خود بغیر پڑھے کتابوں کا مطالعہ کرتا اور خاص کر علم وادب کی کتابیں اکثر دیکھتا تھا۔‘‘
اس چار سال میں حالی کے کئی بچے ہوئے۔ اخلاق حسین بڑے بیٹے جو بڑے بھائی کے بیٹے بن گئے تھے۔ دو ایک بچے مر بھی گئے تھے ۔ ایک بیٹی عنایت فاطمہ اور سب سے چھوٹے بیٹے خواجہ سجاد حسین زندہ رہے۔ خواجہ سجاد حسین علی گڑھ کا لج کے سب سے پہلے بی۔اے۔ تھے۔ کریکٹ کے پہلے کپتان اور یونین کے صدر بھی رہے۔ تعلیم کے میداں میں نوکری کی اور بہت نام کمایا۔
جب ملک میں ملکہ وکٹوریہ نے انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا اور ہندوستان میں جو افراتفری پھیلی ہوئی تھی وہ بھی کم ہوئی۔ دلّی میں بھی امن و امان ہوگیا۔ حالی کی ذمہ داریاں بڑھ گئی تھیں۔ کام کرنا ضرور ی تھا۔ آخر وہ پھر روزی کی فکر میں پانی پت سے دلی روانہ ہوئے۔ اگرچہ ’’غدر‘‘ نے دلی کو تباہ و برباد کردیا تھا۔ پھر بھی علم اور ادب کا کچھ چرچا باقی تھا۔ شاعر اور عالم لوگ اب بھی پائے جاتے تھے۔ حالی یہاں آئے تو پھر شعرو ادب کی محفلوں میں شرکت کرنے لگے۔
یہاں ان کی ملاقات غالب سے تو رہتی ہی تھی۔ وہ نواب مصطفی علی خاں شیفتہ سے ملے۔ جو دلی کے قریب ایک ریاست جہان گیرآباد کے رئیس تھے شیفتہ نواب تو تھے ہی شاعر بھی تھے۔ اوربہت اچھے ذوق کے انسان تھے۔ حالی سے ملے تو ان کی شخصیت اور علم و ادب اور انسانیت سے بہت متاثر ہوئے۔ اور انہوں نے حالی سے کہا کہ وہ ان کے ساتھ جہانگیرآباد چل کر رہیں اور ان کے لڑکوں کے انالیق بن جائیں۔ حالی نے منظور کرلیا۔ دلی قریب تھا۔ دونوں اکثر دلی آتے جاتے رہتے اور غالب سے جن سے دونوں کو بڑی محبت اور عقیدت تھی ، ملتے رہتے تھے۔ وہاں بھی انہوں نے اپنا مطالعہ جاری رکھا۔ غالب سے اب دوستی بھی تھی اور استاد اور شاگرد کا رشتہ بھی تھا۔ مگر حالی لکھتے ہیں کہ غالب سے زیادہ انہیں شیفتہ کے ساتھ سے فائدہ ہوا اس لئے کہ شیفتہ کا ذوقِ ادب اور شاعری بہت اونچے درجے کا تھا۔ مگر غالب سے حالی کی محبت بڑھتی گئی۔ ۱۸۶۹ء میں مرزا غالب کا انتقال ہوگیا۔ حالی کو بہت صدمہ ہوا۔ انہوں نے غالب کا ایک مرثیہ لکھا۔ جو اتنا عمدہ اور پر اثر ہے جس کا جواب اردو شاعری میں مشکل سے مل سکتا ہے۔ یہاں ہم چند شعر دے رہے ہیں۔
بلبل ہند مرگیا ہیہات
جس کی تھی بات میں اک بات
یاں اگر نرم تھی تو اس کی نرم
یاں اگر ذات تھی تو اس کی ذات
شہر میں جو ہے سوگوار ہے آج
اپنا بیگانہ اشک بار ہے آج
غم سے بھرتا نہیں دل ناشاد
کس سے حالی ہوا جہاں آباد
ہند میں نام پائے گا اب کون
سکہ اپنا جمائے گا اب کون
اس نے سب کو بھلا دیا دل سے
اس کو دل سے بھلائے گا اب کون
اس کو ملنے یاں ہم آئے تھے
جا کے دلّی سے آئے گا اب کون
ایک روشن دماغ تھا نہ رہا
شہر میں اک چراغ تھا نہ رہا
سارا مرثیہ ایسے ہی بلکہ اس سے بڑھ کر شعروں کا مجموعہ ہے۔ ابھی حالیؔ اس غم سے سنبھلے نہ تھے کہ ۱۸۶۹ ہی میں ان کے دوست اور سرپرست شیفتہ کا بھی انتقال ہوگیا۔بڑا صدمہ ہوا۔ ساتھ ہی کام بھی اب وہاں کرنے کو نہ رہا انہیں نوکری کی فکر لگ گئی۔
مگر اﷲ کا ر ساز ہے۔ حالی کے علم و فضل اور شاعری کی شہرت پھیل رہی تھی اور لوگ ان کی قدر کرنے لگے تھے۔ پنجاب گورنمنٹ بک ڈپو نے اپنے ہاں ان کو ملازمت پیش کی اور حالی دلی سے لاہور چلے گئے۔ یہاں ان کے ذمہ یہ کام لیا گیا کہ جو کتابیں بک ڈپو سے انگریزی سے اردو میں ترجمہ ہو ا کریں حالی ان پر نظر ثانی کریں اور ان کی زبان درست کیا کریں۔ یہ کام حالی نے بہت محنت اور لگن سے کیا اس سے ان کو ایک بڑا فائدہ بھی ہوا وہ انگریزی بہت کم جانتے تھے مگر اب انگریزی کتابوں کا ترجمہ پڑھنے کو ملنے لگا اور انہو ں نے انگریزی ادب، شاعری اور تنقید کی کتابوں کے ترجمے سے اتنا کچھ سیکھ لیا کہ اچھے اچھے انگریزی جاننے والے بھی نہ سیکھ پاتے تھے۔ لاہور کے قیام میں ان کی زندگی میں ایک انقلاب آیا۔ اب تک وہ رواجی شاعری کرتے تھے۔ یعنی غزل، قصیدہ، مرثیہ، وغیرہ کہتے تھے مگر ان کے دل میں یہ لگن تھی کہ وہ شاعری سے کوئی ایسا کام لیں جو ملک و قوم کے لئے فائدہ مند ہو۔ اور بھی کچھ لوگ اس کوشش میں تھے کہ شاعری کا رنگ بدل دیں۔ اردو کے ایک بڑے ادیب مولانا محمد حسین آزاد بھی اس زمانے میں لاہور میں تھے۔ انہوں نے لاہور میں نئے طرز کے مشاعرے شروع کئے جس میں غزلیں نہیں پڑھی جاتی تھیں بلکہ لمبی لمبی نظمیں کسی ایک موضوع پر لکھی جاتیں اور شاعر وہ نظمیں ان میں پڑھتے۔ ان شاعروں کا نام انہوں نے مناظے رکھا تھا۔ بس جہاں نظم پڑھی جائے۔؎ حالیؔ کو یہ نئی چیز بہت پسند آئی۔ان مناظموں کی چار نشستیں ہوئیں۔ حالی نے ان میں چار مسلسل نظمیں جن کو مثنوی بھی کہہ سکتے ہیں لکھ کر پڑھیں۔ ان کے نام برکھارت، امید، تعصب اور انصاف اور حب وطن ہیں۔ یہ نظمیں بہت پسند کی گئیں۔ خاص طور پر برکھارت اور حب وطن کا تو جواب نہیں۔ اردو میں اتنی خوبصورت نظمیں آج تک نہ لکھی گئی تھیں۔ سیدھی سادی دل کش زبان میں دل سے نکلی باتیں دل میں جاکر اتر جاتی تھیں۔ برکھا رت کے کچھ شعر پڑھئے۔
برسات کا بج رہا ہے ڈنکا اک شور ہے آسماں پہ برپا
ہے ابر کی فوج آگے آگے اور پیچھے ہیں دل کے دل ہوا کے
کھنگھور گھٹائی چھا رہی ہے جنت کی ہوائیں آرہی ہے
کرتے ہیں پپیہے پی ہو پی ہو اور مور جھنکارتے ہیں ہر سو
کچھ عرصے بعد یہ مناظے بند ہوگئے مگر حالیؔ کو نئے انداز کی شاعری کی جو لگن لگ چکی تھی وہ باقی رہی۔ انہوں نے اس کے بعد کئی نظمیں اور لکھیں جن میں چُپ کی داد، اور بیوہ کی مناجات بہت پسند کی گئیں اور بہت مشہور ہوئیں۔
لاہور میں حالیؔ نے نثر کی بھی کئی کتابیں لکھیں۔ لکھنا پڑھنا تو ان کی زندگی تھا۔ وہ کبھی خالی رہ نہیں سکتے تھے۔ وہ لاہور چار سال کے لگ بھگ رہے۔ بہت کام کیا۔ بہت سی نئی نئی باتیں سیکھیں اور سکھائیں ۔ بہت سے لوگوں سے میل جول ہوا۔ ان کی شہرت بھی اب دور دور تک پھیل گئی تھی۔ ان کی قابلیت اور شاعری کا چرچا ہر جگہ ہونے لگا تھا۔ مگر لاہور میں ان کی صحت اچھی نہیں رہی۔ اول تو وہ تھے ہی کمزور اور یہاں کا پانی اور ہوا بھی ان کے مزاج کو راس نہیں آیا۔ دل بھی نہیں لگتا تھا۔ پانی پت اور اس سے زیادہ دلی یاد آتی تھی۔ آخر دلی کی محبت اور کشش انہیں پھر دلّی لے آئی۔ دلّی کے ’’اینگلو عربک کالج‘‘ میں عربی کے استاد کی جگہ حالی کو پیش کی گئی اور انہوں نے اسے قبول کرلیا۔ یہ وہی مدرسہ تھا جس میں پہلی بار دلّی آکر حالی نے جھانکاتک نہ تھا۔ مگر ان کی قابلیت اور علمیت کا شہرہ سن کر خود کالج والوں نے ان کو بلایا وہ بڑی محنت اور توجہ سے طالب علموں کو پڑھانے لگے۔ جن لوگوں نے یہاں ان سے پڑھا وہ ان سے بہت محبت کرتے اور ان کا بڑا احترام کرتے تھے۔ دلّی آکر ذرا روزی کی طرف سے بے فکری ہوئی تو انہوں نے لکھنے پڑھنے کا کام اور بڑھا دیا۔ اب ان کو یہ فکر تھی کہ اپنی شاعری سے کوئی ایسا بڑا کام کریں جس سے قوم اور ملک کو فائدہ پہنچے۔