صفحات

تلاش کریں

ناولٹ: نارسائی ازعلی محسن

مَیں اُس کا نام نہیں لوں گا کیونکہ اِس شہر میں واجبی سی شکل و صورت کی بیسیوں لڑکیاں ہیں ، چاکلیٹ کھانے کی شوقین جنہوں نے رخصتی کے دِن نیلی ساڑھی پہن رکھی تھی۔

ہماری پہلی ملاقات بہت عجیب تھی ، بالکل فلمی انداز میں۔

مَیں جُوں کی طرح جاگنگ ٹریک پر رینگ رہا تھا ، وہ برق رفتار میرے پاس سے گزری۔پارک میں اُس وقت چار چھ لوگ ہی ہوں گے۔لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے بلب آف ، نیم تاریکی تھی۔میں خوشبو کے اُس جھونکے کو ابھی محسوس کر رہا تھا جو اُس کے گزرنے سے فضا کو معطر کر گیا تھا ،وہ رُکی ، مُڑی ، کھڑے کھڑے میرے پیروں کو دیکھا۔ مجھے یوں لگا میں چڑیل ہوں جس کے مُڑے ہوئے پیروں کو وہ بغور دیکھ رہی ہے۔

’’ بیمار ہیں ؟‘‘ میرے قریب آ کر اُس نے بڑی ہمدردی سے پوچھا۔کالے ٹریک سوٹ میں ملبوس وہ واجبی سی شکل و صورت کی لڑکی تھی۔

بے اختیار میرے حلق سے قہقہہ اُبل پڑا۔میری سُست رفتاری کو وہ میری بیماری سمجھ بیٹھی تھی۔وہ ذرا سا جھینپی ، یکدم کھلکھلا کر ہنسی اور جاگنگ ٹریک پر دوڑتی چلی گئی۔اُس کے خوبصورت بال اُس کی پشت پر پھیل گئے۔

یہ ہماری پہلی ملاقات تھی۔

اُس سے اگلی شام میں پسینے میں شرابور جاگنگ ٹریک پر دوڑ رہا تھا جب وہ پیچھے سے بھاگتی ہوئی آئی اور میرے کندھے کو تقریباً چھوتے ہوئے گزری۔اُس کی رفتار بہت تیز تھی ، میں آخری چکر میں سخت تھکا ہوا تھا۔ ہمارے درمیان فاصلہ بڑھ گیا۔ ٹریک خالی تھا ، زیادہ تر لوگ جا چکے تھے۔دو تین بنچوں پر بیٹھے لمبے لمبے سانس لے رہے تھے۔وہ کالے ٹریک سوٹ والی دوسری بار برق رفتار میرے پاس سے گزری ، مجھے لگا اُس کا انداز چیلنج کرنے والا تھا۔ میں رُکتے رُکتے پھر بھاگنے لگا۔ میں نے بھانپ لیا اُس کا اسٹیمنا بہت زیادہ تھا مگر ضد مجھے بھی دوڑا رہی تھی۔میں اُس کے تھک کر رُک جانے تک بھاگنا چاہتا تھا۔آٹھویں چکر میں اُس کے قدم رُکے تو میرا بھی سانس اُکھڑ چکا تھا۔ میں مزید ایک قدم بھاگتا تو یقیناً بے جان ہو کر گر جاتا۔مجھے گیٹ کے پاس کھڑے لمبے لمبے سانس لیتے دیکھ کر اُس کے ہونٹوں پر شرارتی مسکراہٹ پھیل گئی اور وہ ٹریک پر سرپٹ بھاگتی چلی گئی۔میری ہمت جواب دے چکی تھی ، میں اُس کی ضد میں مزید بھاگ نہیں سکتا تھا۔میں بنچ پر لیٹ گیا۔ وہ بھاگتی ہوئی میرے پاس رُکی اور چاکلیٹ کا پیکٹ میری چھاتی پر آ گرا۔ وہ زیادہ خوبصورت نہیں تھی مگر بلا کی پُر اعتماد۔

اُس شام ہماری شناسائی ہوئی۔

مجھے نہیں معلوم ہم اتنی جلدی کیسے اتنا قریب آ گئے۔ اس سے پہلے ہماری ملاقات ، کوئی جان پہچان نہیں تھی۔ پارک میں سیر کے لئے بیسیوں لوگ آتے ، اُن میں سے ایک مَیں بھی تھا۔۔ واجبی سی شکل و صورت والا۔ٹریک پر روزانہ کئی لڑکیاں جاگنگ کرتیں ،اکثر کو مَیں دو سال سے دیکھ رہا تھا۔کبھی کسی نے رُک کر پوچھا نہیں تھا ’’ بیمار ہیں ؟ ‘‘

کبھی مَیں نے کسی کی پشت پر پھیلے ہوئے بالوں کو اتنے غور سے دیکھا نہیں تھا۔

وہ لڑکی جس نے پہلے روز سے تکلف کی دیوار گرا دی ، برسوں کی شناسا بن گئی ،بہت عجیب تھی وہ۔

تیسری شام نجانے کیسے ہم دونوں ایک ہی وقت پر پارک کے گیٹ پر پہنچ گئے۔ میں موٹر سائیکل کو لاک کر رہا تھا جب اُس کی کار میری ٹانگوں سے ایک انچ کے فاصلے پر آ رُکی۔اُس نے مسکرا کر مجھے ہیلو کہا ، منرل واٹر کی بوتل ہاتھ میں لئے بالوں کو جھلاتی ہوئی وہ میرے ساتھ جاگنگ ٹریک پر آ گئی۔

’’ دوڑ لگانی ہے ؟ ‘‘اُس نے چیلنج کیا۔آج وہ سکن کلر کے ٹراؤزر شرٹ میں تھی۔

’’ نہیں ! تھکا ہوا ہوں! ‘‘ میں نے نفی میں سر ہلایا۔

’’ کل تو خوب بھاگے ! ‘‘اُس کی شرارتی آنکھیں چمک رہی تھیں۔

’’ اسی لئے تو آج چلا نہیں جا رہا ‘‘ میں واقعی بمشکل چل پا رہا تھا ، ساری رات بخار میں پھنکتا رہا، جسم پھوڑے کی طرح دُکھ رہا تھا۔

’’ تو پارک کیوں آئے ؟ریسٹ کرتے ‘‘ اُس کے لہجے میں تشویش تھی۔

’’ پتا نہیں کیوں آ گیا ‘‘ مجھے واقعی معلوم نہیں تھا ، اس حالت میں میں کیوں چلا آیا۔

’’ اچھا چلو بیٹھ جاؤ وہاں ‘‘ اُس نے بنچ کی طرف اشارہ کیا۔ میں چُپ چاپ بنچ پر جا بیٹھا ، انکار کی ہمت تھی نہ چلنے کی سکت۔ وہ پانی کی بوتل مجھے پکڑا کر ٹریک پر دوڑنے لگی۔چار چکر لگا کر وہ لوٹ آئی۔میں بنچ پر لیٹا ہوا تھا ،وہ میرے سامنے کھڑی ہو گئی۔

’’ اتنی جلدی ؟ ‘‘ میں نے نقاہت سے آنکھیں کھولیں ، جسم بے جان ہو رہا تھا۔

’’ طبیعت ؟ ‘‘ اُس نے میری بات کا جواب نہیں دیا ، تھکن بھرے چہرے کو بغور دیکھا۔

’’ ٹھیک نہیں ہے، شدید سر درد ‘‘ درد کی ٹیس نے مجھے سر کو دونوں ہاتھوں میں دبانے پر مجبور کر دیا۔ وہ جھکی اور میری پیشانی کو چھوا۔

’’ اوہ مائی گاڈ ! اُٹھو ! ‘‘ تحکمانہ انداز ، اُس کا لہجہ تشویشناک تھا۔

’’ نہیں ! ہمت نہیں ہے ، مجھے کچھ دیر لیٹنے دو ‘‘ میں نے بازو چہرے پر رکھ لیا۔

’’ تیز بخار ہے تمہیں ! چلو ڈاکٹر کے پاس ! ‘‘ اُس نے میرا بازو پکڑ کر مجھے بنچ سے اُٹھا لیا۔

تب ہم ایک دوسرے کا نام نہیں جانتے تھے۔وہ سانولے رنگ کی عام سی لڑکی تھی جس کی شخصیت کا سارا حُسن اُس کی آواز میں تھا۔سحر انگیز لہجہ۔

بڑی مشکل سے چلتا ہوا میں گیٹ تک پہنچا ، اُس نے گاڑی کا دروازہ کھولا اور میں فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گیا۔کار کے ٹائر چیخ اُٹھے ، وہ تیز رفتاری سے ڈرائیونگ کرتی ہوئی کلینک کے سامنے جا رُکی۔ اُس کے ہاتھ کا سہارا لے کر میں کلینک کی سیڑھیاں چڑھا۔

’’ نام کیا لکھوانا ہے ؟ ‘‘ استقبالیہ پر کھڑے کھڑے اُس نے پوچھا ، میں انتظار گاہ کے بنچ پر بیٹھ چکا تھا۔

’’ سرمد ! سرمد منیر ! ‘‘

’’ سرمد منیر ! ‘‘ اُس نے نرس کو نام لکھوایا۔

’’ عمر ؟ ‘‘ وہ ایک بار پھر پلٹی ، مجھے لگا اس بار اُس کے سوال میں ہلکی سی شرارت بھی شامل تھی ،حالانکہ عمر کے بارے میں نرس نے پوچھا تھا۔

’’ چھبیس۔۔۔! نہیں !۔۔ ستائیس !۔۔۔ شاید اٹھائیس۔۔۔!‘‘ جسمانی تکلیف کے باوجود میرے لہجے میں شرارت عود آئی تھی۔

’’ تیس لکھ لیں ! ‘‘ اُس نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ نرس کو لکھوایا جو حیرت سے ہم دونوں کو دیکھ رہی تھی۔ میں بمشکل اپنا قہقہہ روک سکا۔

اُس شام ہماری آشنائی ہوئی۔

پھر روزانہ یونہی ہونے لگا۔ موبائل پر اُس کا پیغام موصول ہوتا ’’لمبے ! اکیڈمی سے نکل رہی ہوں ، دس منٹ میں پہنچ جاؤں گی ‘‘

میں جواب میں لکھتا ’’ ٹھِگنی ! بائیک پر ہوں ، رستے میں۔ ملتے ہیں ‘‘

وہ چاکلیٹ کی شوقین تھی ، میں فریش جوس کا دیوانہ۔ گھنٹہ بھر واک کے دوران وہ چاکلیٹ کے کئی پیکٹ میری مٹھی میں پکڑاتی ، کئی خود کھا جاتی۔پارک کے سامنے کینٹین میں لکڑی کے کھردرے بنچ پر بیٹھ کر فریش جوس منگوا لیتے۔بے تُکی باتیں ،جن کا کوئی سر پَیر نہیں تھا۔مَیں تو وقت گزاری کے لئے بہانہ ڈھونڈتا تھا ، وہ کیوں اِن فضول باتوں کو طُول دیتی تھی ؟

’’ لمبے ! تمہارا کمرہ تو صاف ستھرا ہو گا ؟‘‘ جوس کا گھونٹ لیتے ہوئے اُس نے کہا۔

’’ نہیں ! بہت گندا ‘‘ میں نے گلاس منھ سے لگا کر گھونٹ بھرا۔

’’ ہائیں؟ کمال ہے ‘‘ اُس نے بالوں کو جھٹکا دیا۔

’’ اس میں کمال کی کیا بات ؟ ہاسٹل کبھی دیکھا نہیں تم نے، بہت گندے کمرے ہیں ‘‘

’’ جالے تو نہیں ہوں گے تمہارے کمرے کی چھت ، دیواروں پر۔۔۔ ‘‘ اُس نے سنجیدگی سے کہا۔

’’ جالے ؟ ‘‘ میں اُس کی بات واقعی نہیں سمجھ پا رہا تھا ، وہ کیا کہنا چاہتی تھی۔

’’ لمبے ! تمہارے کمرے میں جالے کیسے ہو سکتے ہیں ؟ ‘‘ اُس کی آنکھیں شرارت سے چمک اُٹھیں۔میرے لبوں پر ہنسی کھیل گئی۔

’’ ٹھِگنی ! دھیان سے چلا کرو ، کوئی جیب میں ڈال کر لے جائے گا ‘‘ میں نے بھی جوابی وار کیا۔

’’ ایویں ہی ! اتنی چھوٹی تو نہیں ، بس تمہارے سامنے ٹھِگنی لگتی ہوں لمبے ! ‘‘ اُس نے اپنا گلاس بنچ پر رکھ کر میرا گلاس اُٹھا لیا ، ایک ہی گھونٹ میں جوس کا آدھا گلاس خالی ہو گیا۔ میں نے کبھی کسی کا جھوٹا کھایا ، پیا نہیں تھا مگر اُس شام اُس کا چھوڑا ہوا جوس میں نے پی لیا۔

وہ ٹھِگنی نہیں تھی ، میں اتنا لمبا نہیں ہوں مگر ایک ساتھ کھڑے ہوتے تو وہ بہت چھوٹی لگتی ، میرا قد سرو برابر ہو جاتا۔بلی اُونٹ کی مثال بھی اُسی نے دی تھی ایک بار۔بلی جو ایک اُونٹ کے گلے پڑ گئی تھی اور اُونٹ اُسے لے کر صحرا میں بھاگ کھڑا ہوا۔اُونٹ کا مالک اُونٹ کو ڈھونڈھ ڈھونڈھ ہارا اور بلی کی مالکن بلی کی تلاش میں پھرتی رہی۔ اُونٹ اور بلی تو نہ ملے مگر مالک اور مالکن اِسی تلاش میں ایک دُوسرے کو مِل گئے ، ہمیشہ کے لئے۔صحرا میں جانے والے اُونٹ ، بلی کا کھوج آج تک نہیں ملا۔

مجھے نہیں معلوم تھا بظاہر فولاد کی طرح مضبوط اور پُر اعتماد نظر آنے والی لڑکی اندر سے اتنی سہمی ہوئی ، بالکل چند سال کی بچّی جیسی ہے۔

’’ لمبے ! جاگ رہے ہو ؟ ‘‘ یہ ایک بھیگی ہوئی رات تھی۔ موسلا دھار بارش ، ہوا کے تھپیڑوں سے کمرے کے کھڑکی دروازے بار بار بج اُٹھتے۔

’’ ہاں ! ‘‘ مَیں نے سگریٹ کا ایک طویل کش لیا ، وال کلاک نے رات دو بجے کی گھنٹی بجائی۔

’’ کیوں ؟ ‘‘اُس نے پوچھا۔

’’ تم کیوں جاگ رہی ہو ٹھِگنی ؟ ‘‘ مَیں نے سوال کا جواب دینے کی بجائے اُس سے سوال کیا۔

’’ مَیں ؟ سچ کہوں ؟ ‘‘ اُس کی آواز میں لرزش نمایاں تھی۔

’’ کہو ! ‘‘

’’ ڈر لگ رہا ہے ‘‘ لرزتی ہوئی سہمی آواز ، مَیں چونکا۔

’’ ڈر ؟ ‘‘

’’ مجھے بارش سے بہت ڈر لگتا ہے ، لائٹ بھی نہیں ہے۔ گھُپ اندھیرا ہے کمرے میں ‘‘ وہ چھ سال کی بچّی لگ رہی تھی جس کے والدین اُسے گھر میں اکیلا چھوڑ گئے ہوں اور وہ تنہائی کا شکار ، اندھیرے سے خوفزدہ ہو۔

’’ اِس میں ڈرنے کی کیا بات ہے ؟ مجھے تو بارش میں بھیگنا بہت پسند ہے ، سنو ٹھِگنی ! پارک جا رہا ہوں واک کرنے ‘‘ مَیں نے کہا۔

’’ پارک ؟ اِس وقت ؟ اِس تیز بارش میں ؟ ‘‘وہ حیران رہ گئی۔

’’ ہاں ! ‘‘ میں نے بُوٹ پہنتے ہوئے کہا۔

’’ رات کے دو بجے کوئی نہیں ہو گا وہاں۔ اکیلے تم۔۔۔ پاگل ہو ؟ ‘‘

’’ تم پاگل ہو ٹھِگنی ! ایسے زبردست موسم میں بند کمرے میں گھُسی بیٹھی ہو۔ اچھا بائے ، مَیں نکل رہا ہوں ‘‘ مَیں بُوٹ کے تسمے باندھ کر اُٹھ کھڑا ہُوا۔

’’ لمبے ! ‘‘ یکدم اُس کا لہجہ منّت آمیز ہو گیا۔

’’ کیا ہے ؟ ‘‘

’’ بات مانو گے ؟ ‘‘

’’ بولو ! ‘‘

’’ مت جاؤ ! اِس وقت مت جاؤ ! ‘‘ مَیں ششدر رہ گیا ، اُس کا مُلتجی لہجہ مجھے روک رہا تھا۔

’’ مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے ، پلیز ! ‘‘ مَیں اُس کی بات سُن کر کھڑا رہ گیا ، قدم نہیں اُٹھے۔

’’ بہت ڈر لگ رہا ہے مجھے ، خوف آ رہا ہے ‘‘ وہ واقعی خوفزدہ تھی۔

’’ تو ؟ ‘‘

’’ میرے ساتھ باتیں کرو ، جب تک لائٹ آ نہیں جاتی۔۔۔ جب تک بارش تھم نہیں جاتی۔۔۔! ‘‘ اُس کے لہجے میں عجیب بیچارگی تھی۔

مَیں رُک گیا ، بُوٹوں سمیت بستر پر لیٹا مَیں اُس سے باتیں کرتا رہا ، یاد نہیں کیا کہا ، اُس نے کیا کُچھ کہا یہ بھی یاد نہیں مگر جب فون بند ہُوا تو صبح کی سپیدی روشندان اور کھڑکی کے راستے میرے کمرے میں داخل ہو چکی تھی۔

اُس کے ہاتھ میں مہنگا موبائل فون ہوتا ، لباس قیمتی ، کار کی چابی اُنگلی میں گھماتی ، چاکلیٹ چباتی وہ کسی کو بھی مرعوب کر سکتی تھی۔مَیں مرعوب سے زیادہ حیران تھا۔ وہ اکیڈمی میں چند ہزار کے عوض بچّوں کو پڑھا رہی تھی۔مجھے یقین ہے تنخواہ سے زیادہ رقم وہ گاڑی کے پٹرول اور چاکلیٹ کے شوق میں اُجاڑ دیتی تھی۔مَیں اُس سے کبھی نہ پوچھ سکا ، یہ معمہ فضیلہ نے بھی حل نہ کیا جو پہلی ملاقات میں بے تکلف ہو گئی تھی۔وہ اکیڈمی میں اُس کی کولیگ تھی۔

’’ لمبے ! یہ فضیلہ ہے ، میری بہت اچھی دوست ! ‘‘ اُس نے تعارف کرایا۔لمبے کو اِس تعارف سے زیادہ خوشی نہیں ہوئی ، فضیلہ کا منھ بھی کھُلا رہ گیا تھا۔اُس نے ہم دونوں کی بوکھلاہٹ کا مزا لیا۔

’’ سرمد منیر نام ہے مگر مجھے یہ نام پسند نہیں ، اتنے لمبے بندے کا نام اتنا چھوٹا ، عجیب سا لگتا ہے نا ؟ ‘‘اُس نے فضیلہ سے پوچھا جس نے ہولے سے اثبات میں سر ہلا دیا ، مَیں جھینپ رہا تھا۔ فضیلہ اچھی لڑکی تھی مگر یوں پہلی ملاقات میں۔۔۔ عجیب لگتا ہے نا ؟

یادیں ہیں جو ہمیشہ اذّیت دیتی ہیں۔ یہ گٹھڑ کیوں ہم سنبھال کر رکھ لیتے ہیں اور تنہائی کی اکثر راتوں میں کھول کر پُرانی ، میلی یادوں کا ڈھیر اپنے ارد گرد پھیلا دیتے ہیں۔بیتے ہوئے لمحوں کی خوشبو کمرے میں رقص کرتی ہے ، جی جلاتی ہے۔

’’ فوراً اکیڈمی پہنچو ، دس منٹ میں! ‘‘

مجھے بہت اچھی طرح یاد ہے وہ دسمبر کی آخری شب تھی ، میں ہاسٹل کولیگز کے نرغے میں تھا۔ وہ سب میوزک شو دیکھنے کا پروگرام بنا چکے تھے اور میں راہ فرار ڈھونڈھ رہا تھا۔ اُس کے موبائل پیغام نے میرا لہجہ یکدم سرکش کر دیا۔

’’ مجھے نہیں جانا میوزک شو میں ‘‘ اتنے تلخ لہجے میں اُن سے کبھی بات نہیں کی تھی ، وہ سب حیران رہ گئے۔میں بائیک پر سوار اکیڈمی گیٹ پر پہنچا تو وہ منتظر تھی۔

’’ لمبے ! سات منٹ لیٹ ہو ! ‘‘

’’ ٹھِگنی ! کیا پرابلم ہے ؟ ‘‘

’’ گاڑی خراب ، ورکشاپ میں کھڑی ہے ‘‘وہ چاکلیٹ چباتی اطمینان سے بولی۔

’’ تو ؟ ‘‘

’’تو! تھوڑی سی شاپنگ ،اُس کے بعد مجھے ورکشاپ ڈراپ کر دینا ! ‘‘ میرا جواب سنے بغیر وہ بائیک پر پیچھے بیٹھ گئی۔اُس کے سانسوں کی مہک مَیں محسوس کر سکتا تھا۔ میرے کندھے پر ہاتھ رکھے وہ اطمینان سے بیٹھی تھی ،مجھے کچھ زیادہ عجیب نہیں لگا۔اُس شام ہم پارک نہیں گئے ،واک نہیں کی۔ کتابوں کے سٹال دیکھے ، آئس کریم کھائی ، چاکلیٹ خریدے ، نئے سال کے کارڈ۔۔۔ ایک اُس نے پسند کیا ، ایک مجھے اچھا لگا۔ ایک خوبصورت گلدستہ اُس نے خریدا ، مجھے نہیں معلوم کس کے لئے۔ ورکشاپ میں اُس کی گاڑی تیار کھڑی تھی ، میں اُسے ڈراپ کر کے ہاسٹل پہنچا تو سناٹے کا راج تھا ، سب میوزک شو دیکھنے گئے ہوئے تھے۔ کمرے کا لاک کھولتے ہوئے میں نے پہلی بار سنجیدگی سے سوچنے کی کوشش کی نئے سال کا وہ شوخ رنگوں والا کارڈ میں کس کے لئے خرید لایا تھا ؟ میرے پاس اپنے ہی سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔

وال کلاک کی سوئی بارہ کے ہندسے کو چھو رہی تھی جب میرے موبائل کی گھنٹی بج اُٹھی۔

’’ لمبے ! ہیپی نیو ائیر !‘‘ اُس کی آواز میں بیحد اپنائیت تھی۔مجھے بہت اچھا لگا۔

’’ ہیپی نیو ائیر ٹھِگنی ! ‘‘

’’ نئے سال کی پہلی کال تمہیں کی ہے ‘‘ مجھے نہیں معلوم اُس نے نئے سال کا وہ کارڈ اور گلدستہ کس کے لئے خریدے تھے مگر دل نے گواہی دی وہ سچ کہہ رہی تھی۔

وہ تو ہمیشہ سچ ہی بولتی تھی۔’’ میں رُوٹھی تو پھر کبھی نہیں مانوں گی لمبے ! ‘‘

مَیں اُسے بہت ستانے لگا تھا مگر مجھے یقین تھا وہ کبھی مجھ سے خفا نہیں ہو گی ، وہ مجھ سے کبھی رُوٹھ نہیں سکتی۔یہ یقین اُس کے بچھڑ جانے تک میرے دِل میں رہا۔مَیں کسی سے خفا کب ہوتا تھا ، کب کسی سے روٹھتا تھا ، یہ عادت بھی اُسی نے ڈال دی تھی بات بے بات رُوٹھ جانے والی۔

’’ آج بلیک مت پہننا ! ‘‘ میں موبائل پر اُسے کہتا۔

’’ کیوں ؟ میں نے تو بلیک پہن لیا ، بس نکل رہی ہوں ‘‘ وہ کہتی۔

’’ تو اکیلے ہی واک کرنا ، میں نہیں آ رہا ‘‘ پتا نہیں کہاں سے خفگی خود بخود میرے لہجے میں آ جاتی ، میں کال منقطع کر دیتا۔

’’ سکن ؟ ‘‘ وہ فوراً کال کرتی ، ملتجی انداز میں پوچھتی۔

’’ نہیں !‘‘

’’ تو ؟ ‘‘

’’ بلیو ! ‘‘میں یوں حکم چلاتا جیسے وہ میری رعایا ہو۔

’’ بلیو نہیں ہے میرے پاس ! بلیک ہے یا سکن ٹریک سوٹ ‘‘ وہ بیچارگی سے کہتی۔

مجھے نہیں معلوم میں کیوں ان بے مقصد باتوں میں اُلجھتا جا رہا تھا ، چھوٹی چھوٹی باتوں پر خفگی ، وہ بار بار مناتی ، میں بار بار رُوٹھتا۔یہ عجیب کھیل کچھ دنوں سے چل نکلا تھا۔ مَیں اُس سے ناراض ہوتا اور میرے مُنھ کو قُفل لگ جاتا ، چُپ سادھ لیتا۔اُس کی کسی بات کا جواب دیتا نہ کوئی بات اُس سے کرتا۔ میری خاموشی اُس کے لئے ناقابل برداشت تھی۔وہ سو حیلے کرتی ، کئی جتن مگر مَیں جیسے گُونگا ہو جاتا۔وہ بھی تھکتی جا رہی تھی۔

’’ رات کو فون کیوں نہیں کیا ؟ ‘‘ہم دونوں اکیڈمی گیٹ پر کھڑے تھے ، میرا لہجہ برہم تھا۔

’’ سو گئی تھی ‘‘ بیگ کو کندھے پر ٹھیک طرح سے جماتے ہوئے اُس کے لہجے میں معذرت تھی۔

’’ کیوں سو گئی ؟ ‘‘ میری آواز میں غصہ نمایاں تھا۔

’’تھک گئی تھی ، کل بہت تھک گئی تھی ‘‘اُسے کلاس میں جانے کی عجلت تھی۔میں خوامخواہ بات بڑھا رہا تھا۔

’’ میں تو جاگتا رہا نا۔۔۔ ‘‘ پیر پٹختا ،تیز قدموں سے میں لان کی طرف چل دیا۔وہ گومگو کی حالت میں کھڑی رہ گئی ، بچے کلاس میں اُس کے منتظر تھے اور میں منھ پھلائے جا رہا تھا۔

’’ اچھا سوری۔۔! ‘‘ وہ میرے پیچھے بھاگی چلی آئی جیسے بچہ بھیڑ میں ماں کے پیچھے۔ اس خوف میں مبتلا کہ بچھڑ جائے گا ، ہجوم میں کھو جائے گا۔

میں رکا نہیں ، اُس کے لئے کبھی نہیں رُکا۔

’’ کہا نا سور ی۔۔‘‘ اُس کی آواز میں منت تھی مگر میں ہونٹ بھینچے چپ چاپ لان میں بنچ پر بیٹھ گیا۔وہ دو کشتیوں کی سوار تذبذب میں کھڑی رہی پیریڈ لے یا مجھے منائے؟ پھر ہمیشہ کی طرح وہ ہار گئی ، ہلکان ! میرے پاس آ بیٹھی۔

’’ چپ کی اذیت تم نہیں سمجھ سکتے ، تمہیں اندازہ نہیں یہ کتنی بڑی سزا ہے ‘‘وہ بولی، میں خاموش ،کاغذ کے ٹکڑے کر تا رہتا۔

’’ کبھی سوچا تم نے میں کس عذاب سے گزرتی ہوں ؟ ‘‘

میں نے جواب نہیں دیا۔

’’کبھی کبھی اپنا آپ بوجھ لگتا ہے ، خود سے نفرت ہونے لگتی ہے ، اتنا اگنور کرتے ہو جی چاہتا ہے خود کشی کر لوں ‘‘ اُس کی آواز بھیگ گئی۔میں کچھ نہیں بولا ،مسلسل چپ۔

’’ خدا کے لئے کچھ بولو ! میرا دماغ پھٹ جائے گا ‘‘اُس کا چہرہ دُکھ کی شدت سے دہک اٹھا۔

’’ میں جاگتا رہا۔۔ ‘‘ میرے لہجے کی چبھن نشتر سی تھی۔

’’کہا نا سو گئی تھی ، آنکھ کھلی تو موبائل پر تمہاری مسڈ کال تھی پھر میں دو گھنٹے ڈائل کرتی رہی تم نے اٹینڈ کیوں نہیں کیا؟‘‘

’’ کیوں کرتا ؟ جان بوجھ کر نہیں کیا ، اتنا غصہ تھا مجھے۔۔۔ ‘‘ غصہ ہمیشہ مجھے ہی کیوں آتا تھا ؟

’’پاگلوں کی طرح میں بار بار ڈائل کرتی رہی ، تھک جاتی پھر سوچتی تم اٹینڈ کر لو گے مگر نہیں ہر بار تم نے مایوس کیا ‘‘

وہ کس سولی پر لٹکی رہی ہو گی ، مجھے کبھی اندازہ نہ ہوا۔

اُس رات بھی نہیں جب موبائل پر مجھ سے بات کرتے کرتے وہ گھر میں داخل ہوئی تھی ، اُسے خیال نہیں رہا کہ موبائل آن ہے اور میں اُس کی گفتگو سُن رہا ہوں۔

’’ صفدر نے کل بھی تمہیں منع کیا تھا ، روکا تھا اکیڈمی جانے سے۔ بات سمجھ میں نہیں آئی ؟ ‘‘ اجنبی عورت کی آواز میں خفگی تھی۔

’’ وہ کون ہوتا ہے مجھے روکنے والا؟‘‘ وہ یکدم پھٹ پڑی۔میں ششدر رہ گیا۔یہ لہجہ تو میں نے کبھی نہیں سُنا تھا۔

’’ باپ ہے تمہارا۔۔۔!‘‘ عورت کی کرخت آواز سنائی دی جس کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی کاٹ دی اُس نے۔

’’ میرا باپ مر چُکا۔۔۔ میں پہلے بھی کئی بار کہہ چکی ہوں وہ صرف آپ کا شوہر ہے ،میرا باپ نہیں۔‘‘ اُس کی بات مجھے ساری کہانی سمجھا گئی۔یہ بھید آج پہلی بار مجھ پر کھُلا تھا۔

’’ بہرحال صفدر کو تمہارا اکیڈمی جانا اور اُس فضول لڑکے سے ملنا بالکل پسند نہیں۔‘‘

’’ آئی ہیٹ ہم ! اُسے کیا پسند ہے اور کیا نہیں مجھے اِس کی پروا نہیں ، میں اکیڈمی چھوڑوں گی نا کسی سے ملنا۔۔۔ دیٹس آل ‘‘ وہ پارک والی ہنس مکھ لڑکی نہیں تھی جس کا لہجہ ہمیشہ چاکلیٹ جیسا میٹھا ہوتا اور جو بات بے بات ہنستی رہتی تھی۔

’’ شٹ اپ ! مجھے زبردستی کرنے پر مجبور مت کرو۔ میں تمہارا گھر سے نکلنا بند کر دوں گی ‘‘ عورت جو اُس کی ماں تھی شدید غصے میں چلاّ اُٹھی۔

’’ مجھے روکنے کی بجائے بہتر ہو گا آپ اُسے روکیں جو گندی عورتوں کے ساتھ سونے کا شوقین مرد اور آپ کا شوہر ہے۔‘‘ طنزیہ لہجے کے ساتھ آگ اُگلتی شائد وہ اپنے کمرے میں چلی گئی۔ سیڑھیاں چڑھتے قدموں کی آواز مجھے سنائی دی تھی ، عورت پر شاید سکتہ طاری ہو گیا وہ کچھ نہیں بولی۔

مَیں دیر تک گم صم بیٹھا رہا ، اُس کا ہنستا مسکراتا چہرہ میری آنکھوں کے سامنے آ گیا ’’ لمبے ! کبھی کسی سے محبت کی ہے ؟ ‘‘چاکلیٹ چباتے ہوئے اُس نے بظاہر بڑی لاپرواہی سے کہا تھا۔ یہ اُسی شام کی بات تھی۔

’’ نہیں !‘‘ مجھے کافی دیر سوچ کر جواب دینا پڑا۔ وہ میرے چہرے پر نظریں جمائے رہی۔

’’ جھوٹ! ‘‘ اُس نے یُوں کہا جیسے میرا جھوٹ پکڑ لیا ہو ، وہ جانتی ہو میں سچ نہیں بول رہا۔

’’ جھوٹ کیوں ،سچ کہہ رہا ہوں ‘‘

’’ میرا خیال تھا تم مجھ سے جھوٹ نہیں بولو گے۔‘‘وہ پتا نہیں کیا سوچ رہی تھی۔

’’ اگر تمہارا خیال ہے کہ مجھے تم سے محبت ہو گئی ہے تو تم غلطی پر ہو ٹھِگنی ! ‘‘ مَیں نے اُس کے ہاتھ سے چاکلیٹ چھین لیا۔

’’ مجھ سے ؟تمہیں مجھ سے محبت نہیں ہو سکتی لمبے ؟ ‘‘ وہ بھی خوشدلی سے بولی۔

’’ محبت اور تم سے ؟ ‘‘ مَیں طنزیہ ہنسی ہنسا ، میرا مقصد اُس کا مذاق اُڑانا نہیں تھا مگر نجانے کیسے میری ہنسی میں طنز شامل ہو گیا تھا۔اُس کے چہرے کا رنگ ایک پَل کے لئے بدلا۔

’’واجبی سی شکل و صورت والی لڑکی ہو ٹھِگنی ! مَیں تم سے محبت کیوں کرنے لگا ؟ ‘‘مَیں نے دانستہ اُس کی دِل شکنی نہیں کی تھی ، مَیں تو مذاق کر رہا تھا۔

’’ واجبی شکل و صورت والے انسان نہیں ہوتے ؟ ‘‘ اُس نے یکدم کہا ، مَیں ششدر رہ گیا۔ مَیں بہت بڑی غلطی کر بیٹھا تھا ، مجھے احساس ہوا۔

’’ یہ مت سمجھنا مَیں تمہیں دِل دے بیٹھی ہوں لمبے ! ‘‘وہ یکدم شوخ ہوئی مگر مَیں اُس کے لہجے کا اُتار چڑھاؤ بھانپ چکا تھا۔

’’ مجھے تو ایسا ہی لگتا ہے ، واقعی مجھ سے محبت نہیں ہے تمہیں ؟ ‘‘ مَیں نے اُس کی آنکھوں میں جھانکا۔

’’ محبت اور تم سے ؟ ‘‘وہ گلا پھاڑ کر ہنسی ، اُس کی ہنسی پارک میں دُور تک چلی۔’’ اتنے لمبے ہو مگر عقل۔۔۔ ! ‘‘ اُس نے اپنی کنپٹی پر اُنگلی رکھ کر گھمائی جیسے مجھے پاگل کہہ رہی ہو۔

’’ مجھے یقین تھا تم مجھ سے جھوٹ نہیں بولو گی ‘‘ مَیں نے اُسی کا فقرہ دہرایا۔

’’ مَیں تمہارے سامنے کبھی جھوٹ نہیں بولتی ، محبت تو نہیں مگر مجھے۔۔۔تمہاری عادت سی ہو گئی ہے لمبے ! ‘‘اُس نے سنجیدگی سے کہا۔

’’ عادت ؟ ‘‘

’’ ہاں ! محبت سے زیادہ عذاب ہے اِس عادت کا۔تم نہیں سمجھو گے ! چلو جُوس پلاؤ ! ‘‘ وہ بنچ سے اُٹھ کھڑی ہوئی۔مَیں اُس کے ساتھ چل پڑا مگر سوچتا رہا ہمیں ایک دُوسرے سے محبت نہیں صرف عادت ہو گئی ہے ایک دُوسرے کی۔عادت تو کسی بھی وقت بدلی جا سکتی ہے ،اِس پر اتنا سوچنے اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔

اگلی شام وہ پارک نہیں آئی ، مَیں اُس کا انتظار کرتا رہا۔موبائل پر اُس کا پیغام موصول ہُوا نہ اُس نے کال کی۔گندی عورتوں کے ساتھ سونے والے سوتیلے باپ کے روکنے پر رُکنے والی وہ لڑکی نہیں تھی۔ مَیں بہت دیر تک اکیلا ٹریک پر چلتا رہا۔کیا وہ کل شام میری کسی بات پر خفا ہو گئی تھی ؟ میرا ’’واجبی سی شکل و صورت کی لڑکی ‘‘ کہنا اُسے بُرا لگا ؟ وہ ناراض تھی ؟ جی چاہا فون کر کے پوچھ لوں وہ کہاں تھی ؟ پارک کیوں نہیں آئی ؟مگر جھوٹی انا نے اِس خیال کا گلا گھونٹ دیا۔’’ وہ خفا ہے تو ہوتی رہے ‘‘ مَیں نے تلخی سے سوچا ’’ اُس نے فون نہیں کِیا تو مَیں کیوں کروں ؟‘‘مَیں نے اپنے آپ سے کہا مگر نظریں بار بار پارک کے گیٹ کی طرف اُٹھ جاتیں ، شاید وہ آ جائے۔۔!

موبائل کی گھنٹی بجی ، دِل بھی سینے میں دھک دھک بجنے لگا۔ یوں کیوں ہوتا ہے ؟ وہ غیر اہم تھی تو اُس کا اتنا انتظار کیوں تھا ؟ انتظار تھا تو اظہار میں کیا قباحت تھی ؟ اظہار میں کوئی سوچ مانع تھی تو انکار ہی۔۔۔! یہ انکار اور اقرار۔۔۔نجانے کیا بھید ہے ، مَیں تو کبھی سمجھ نہیں پایا۔

فضیلہ بول رہی تھی ’’ سرمد ! آج وہ اکیڈمی نہیں آئی ، موبائل بھی آف ہے۔ ‘‘

’’ کیا ؟ ‘‘مَیں چونکا۔ غصّہ جھاگ کی طرح بہہ گیا۔’’ واک کے لئے بھی نہیں آئی ، مَیں پارک میں اُس کا انتظار کر رہا ہوں ‘‘

’’ شام سے موبائل آف ہے ، بار بار کوشش کر رہی ہوں رابطے کی مگر۔۔۔‘‘ وہ پریشان تھی۔

’’ اوہ ! گھر کا نمبر ہے تمہارے پاس ؟ ‘‘ پریشانی مجھے بھی گھیر چکی تھی۔

’’ ہے تو سہی مگر۔۔۔ ‘‘وہ ہچکچائی۔

’’ مگر ؟ ‘‘

’’ مگر تم مت کرنا ! ‘‘ اُس کے لہجے میں تشویش اور ہچکچاہٹ یکجا ہو گئیں۔اُسے نہیں معلوم تھا ، مَیں سب جانتا ہوں ، وہ سب کچھ جو فضیلہ مجھ سے چھپانا چاہ رہی تھی اور وہ سب کچھ بھی جو ٹھگنی نے مجھے کبھی نہ بتایا۔

’’ نمبر بولو ! ‘‘ میرے کرخت لہجے نے اُسے مجبور کر دیا ، مَیں اُس کی کیفیت سمجھ رہا تھا۔

اُس شام وہ ہُوا جو مَیں نے کبھی سوچا نہیں تھا۔فون کا ریسیور اُس کی ماں نے اُٹھایا تھا، مجھے اپنا مکمل تعارف کرانے کی نوبت نہیں آئی۔وہ خوب گرجی ’’ مَیں پہلی اور آخری بار تمہیں کہہ رہی ہوں آئندہ کبھی اُس سے ملنے کی کوشش مت کرنا! آج اُس نے منگنی کی انگوٹھی پہن لی ہے اور۔۔۔‘‘

پتا نہیں اُس عورت نے کیا کچھ کہا ہو گا ، مَیں نے کال منقطع کر دی تھی۔منگنی کی خبر سُن کر مجھے خوش ہونا چاہئے تھا یا۔۔۔؟وہ منگنی کی انگوٹھی پہن کر خوش ہوئی ہوگی یا۔۔۔؟مَیں اُس رات اکیلا پارک میں بنچ پر بیٹھا سگریٹ پھونکتا رہا۔سگریٹ کے دھوئیں نے میرا چہرہ دھُندلا دیا تھا اور آنکھوں میں نمی حلق میں کڑواہٹ بھر جانے ،بار بار کھانسنے سے آ گئی تھی،کوئی اور وجہ ہر گز نہیں تھی۔

ہماری آخری ملاقات بھی بہت عجیب تھی۔

’’ کس کو ڈھونڈھ رہے ہو ؟ کس کی تلاش ہے لمبے ؟‘‘اُس کے سوال نے مجھے چونکا دیا۔رات کے دس بجے شدید سردی ، سنسان پارک میں ہم دونوں بنچ پر بیٹھے تھے ،اُسی جگہ جہاں ہم پہلی بار ملے تھے اور شاید آخری بار مِل رہے تھے۔

’’ میں ؟ تلاش ؟ ‘‘

’’ ہاں ! تمہاری آنکھیں میرے چہرے میں کسی اور کی مشابہت ڈھونڈتی ہیں ، میں ٹھیک کہہ رہی ہوں ؟‘‘ اُس نے چاکلیٹ کا آخری پیکٹ میری ہتھیلی پر رکھ دیا۔

میں چُپ رہا۔اُس کی اُنگلی میں کوئی انگوٹھی نہیں تھی۔

’’ میری قُربت میں تم کسی بچھڑے ہوئے کی رفاقت پا لیتے ہو ، میرے رُوپ میں تم دو بار ہ اُس کھوئے ہوئے چہرے کو دیکھ لیتے ہو۔میں سچ کہتی ہوں ، معلوم ہے مجھے ‘‘اُس نے پورے اعتماد سے کہا۔ میں کچھ دیر کے لئے چُپ رہ گیا۔

’’ آج جھوٹ مت بولنا ! ‘‘اُس نے دونوں ہاتھوں کی اُنگلیاں بنچ پر رکھ کر دباؤ ڈالا۔وہ انگوٹھی کے بغیر خالی اُنگلیاں مجھے دکھانا چاہتی تھی؟

’’ میں اُسے بھلا نہیں پایا ، باوجود کوشش کے بھلا نہیں پایا ‘‘ مَیں نے اعتراف کیا۔میری بار سُن کر اُسے حیرت نہیں ہوئی جیسے وہ سب کچھ جانتی ہو۔

’’ پہلی بار ہم یہیں ملے تھے ، اسی پارک میں۔اسی موسم ، انہی دنوں میں۔ اسی بنچ پر بیٹھا کرتے تھے جہاں اب ہم دونوں بیٹھے ہیں۔بہت اچھے دن گزارے ، اُس نے میرے ساتھ بہت سے وعدے کئے‘‘

’’ پورے کئے ؟ ‘‘

’’ نہیں ! اُس نے وعدہ کیا تھا میرا ساتھ نہیں چھوڑے گی ، وہ اپنے وعدے پر قائم نہ رہی ‘‘

’’ شاید مجبور ہو گئی ہو ، شاید وہ بھی اسی طرح یاد کرتی ہو‘‘

’’ ہونہہ ! مجبور ! ‘‘ میں طنزیہ ہنسی ہنسا۔’’ وہ اب تک بھول چکی ہوگی کہ کسی نے ایک بار اُس سے نیلی ساڑھی کی فرمائش کی تھی اور اُس نے وعدہ کیا تھا۔۔رخصتی پر پہنوں گی۔‘‘

’’ شاید اُسے یاد ہو ، شاید وہ تمہاری یاد میں ہر روز نیلی ساڑھی پہنتی ہو ‘‘

’’ نہیں ! اُسے کچھ یاد نہیں ہو گا ! پارک میں اکیلا پھرنے والا ایک شخص نہ اُس سے کئے ہوئے جھوٹے وعدے ‘‘

’’ شاید وہ بھی اب اکیلی پارک میں پھرتی ہو ، اتنے بدگماں کیوں ہو تم ؟

’’ نہیں ! وہ جھوٹ بولتی تھی ! مَیں جانتا ہوں وہ مجھے یاد نہیں کرتی ہوگی ‘‘ مَیں نجانے کیوں تلخ ہو گیا۔

’’ جھوٹ ؟ تو پھر اُسے بھول کیوں نہیں جاتے ؟ اُس کی یاد کیوں ستاتی ہے تمہیں ؟‘‘

میرے پاس اِس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔

’’ تم نے کیسے جانا میں کسی کی یاد میں۔۔۔ کسی کی تلاش میں۔۔۔؟‘‘

وہ بے ساختہ ہنسی ، جیسے میں نے کوئی بچگانہ سوال پوچھ لیا ہو ’’ میں جانتی ہوں ، تمہارا دُکھ جانتی ہوں لمبے !‘‘

’’ پہلے روز سے جانتی ہوں ، جب تم سے پہلی بار ملی تھی اُسی دن سے ‘‘ میں نے چاکلیٹ کا پیکٹ نہیں کھولا ، جیب سے سگریٹ کا پیکٹ نکال لیا۔

’’ مجھے اچھا لگا کسی کو کھو کر بھی تم نے اُسے کھویا نہیں۔اُس کی یاد سے اُنگلی نہیں چھڑائی۔ شاید اسی کو محبت کہتے ہیں ‘‘ میں نے پہلی بار اُس کے سامنے سگریٹ سلگا کر لبوں سے لگایا ، اُس نے مجھے روکا نہیں۔

’’ایک بات کہوں لمبے ؟ ‘‘اُس نے عجیب لہجے میں کہا ، میں چونک پڑا۔

’’ کہو ٹھِگنی ! ‘‘

’’ میں نے بہت کوشش کی اُس روپ میں ڈھل جاؤں جو تمہیں پسند ہے ، وہی صورت بن جاؤں جسے تم ڈھونڈتے پھرتے ہو۔اپنا رُوپ بھی گنوا دیا اسی کوشش میں مگر۔۔۔نہیں ! لمبے ! میں ویسی نہیں بن سکی ‘‘ وہ مایوس تھی مگر میں نے غور سے دیکھا وہ بالکل اُسی رُوپ میں ڈھل چکی تھی جس کی مجھے تلاش تھی ، ہُو بہو ویسی۔میں نے اُس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔

’’ پتا نہیں کیوں مجھے تمہارا اُترا ہوا چہرہ اچھا نہیں لگتا۔میں تمہیں خوش دیکھنا چاہتی ہوں ،بہت خوش!‘‘

میں نے اُس کا ہاتھ تھپتھپایا۔

’’ کاش ! میں تمہیں خوش رکھ سکتی ! کاش ! یہ میرے بس میں ہوتا ! ‘‘اُس نے حسر ت سے کہا۔’’ محبت کا یہ روگ عجیب نہیں لمبے ؟ تم اُسے ڈھونڈھ رہے ہو جو تمہیں کبھی نہیں ملے گا ‘‘

میں نے اُس کی بات کا جواب نہیں دیا۔میں کیوں اُسے بتاتا کہ میں بھی پہلے روز جان گیا تھا کہ کسی بچھڑ جانے والے کا روگ تمہیں بھی چین لینے نہیں دیتا۔کسی جھوٹے وعدے کرنے والے کی یاد ٹھِگنی لڑکی کو بھی رات دن ستاتی ہے۔ تمہاری ہنسی کے پیچھے جو کرب ہے ،مجھ سے چھُپ نہیں سکا۔تمہارا دُکھ میں بھی پہلی ملاقات میں جان گیا تھا۔ ہم دونوں تو اپنی اپنی ٹرین چھوٹ جانے والے دو مسافروں کی طرح تھے جو مسافر خانے میں ملے ، دونوں کا دُکھ مشترک تھا۔

’’ لمبے ! کل سے میں اکیڈمی نہیں آؤں گی، لاؤ آدھا چاکلیٹ ! ‘‘اُس نے اتنی تلخ بات کو ہنسی خوشی میں اُڑانا چاہا مگر سگریٹ کا کش میرا حلق کڑوا کر چکا تھا۔

’’ واک بھی نہیں ! تمہیں چاکلیٹ کھلا کھلا کر کباڑا ہو گیا میرا ، یہ خرچہ تو بچے گا‘‘ وہ پھر ہنسی جیسے میں بھی اُس کے ساتھ ہنس دُوں گا۔

’’ فون بھی نہیں کروں گی ! پتا ہے کتنے ہزار اُجاڑ چکی ہوں لمبے !‘‘ وہ خوشدلی کا مظاہرہ کرنا چاہ رہی تھی۔سگریٹ کے طویل کش لیتے ہوئے میں نے اُس پر ظاہر نہیں ہونے دیا کہ میں فون پر اُس کی ماں سے گفتگو کر چکا ہوں۔

پارک کے دروازے پر کھڑے ہو کر اُس نے کہا ’’میں تھک گئی ہوں! بہت تھک گئی ہوں ! ‘‘

میں کہہ نہیں سکا’’ میں بھی ! اتنا زیادہ کہ اب ایک قدم بھی چل نہیں سکتا ‘‘

’’ بہروپ بھرتے بھرتے تھک گئی ہوں ،دن رات کی اداکاری نے نڈھال کر دیا ہے مجھے۔ آئی ایم ساری لمبے ! تم بہت اچھے ہو!‘‘وہ کار کی طرف بڑھی تو میں نے زیر لب کہا ’’ تم بہت اچھی ہو ٹھِگنی ! ‘‘

اور جب اُس نے گاڑی سٹارٹ کر کے کھڑکی میں سے الوداعی ہاتھ ہلا کر کہا ’’ میں ہر روز دُعا کروں گی وہ تمہیں مل جائے ، مایوس نہیں ہونا لمبے !‘‘

تو میں نے آہستہ سے کہا ’’ مَیں بھی تمہارے لئے دُعا کروں گا مگر اب یہ شہر چھوڑ دوں گا ٹھِگنی ! ‘‘

مجھے یقین ہے میری بات اُس نے نہیں سنی ہو گی۔

مجھے یہ بھی یقین ہے وہ ہر روز میرے لئے دُعا کرتی رہی ہوگی مگر میں یہ شہر نہیں چھوڑ سکا جس نے مجھے ہجر و وصال کی لذت سے آشنا کیا۔

وہ دوبارہ کبھی اکیڈمی کے گیٹ سے داخل نہیں ہوئی ، پارک نہیں آئی۔میں رات رات بھر جاگنگ ٹریک پر سگریٹ پھونکتا اور جُوں کی طرح رینگتا رہا۔موبائل کی گھنٹی کبھی اُس سرشاری سے دوبارہ نہیں بجی ، اُس کا پیغام کبھی موصول نہیں ہوا ’’ لمبے ! بارش !بہت ڈر لگ رہا ہے ‘‘

میری بائیک کا رُخ دوبارہ کبھی اکیڈمی کی طرف نہیں ہُوا۔مَیں نے وہ رستہ ہی چھوڑ دیا جہاں گیٹ پر کھڑی وہ میری منتظر ہوتی تھی۔موبائل نمبر تبدیل کر لیا جس پر دن رات اُس کے پیغام موصول ہوتے ، اُس سے لمبی لمبی گفتگو ہوتی تھی۔مجھے اُس سے محبت نہیں تھی مگر یہ حقیقت ہے مَیں اُس کا عادی ہو گیا تھا۔اُسے دِل و دماغ سے نکالنے کے لئے ایک مدت درکار تھی اور مَیں یہ شعوری کوشش کر رہا تھا۔

بہت دنوں بعد فضیلہ ایک شام پارک کے بنچ پر میرے پاس آ بیٹھی۔میں اُسے سامنے دیکھ کر حیران رہ گیا۔

’’اُسے چُپ لگ گئی ہے سرمد! ‘‘اُس نے کہا۔مجھے لگا فضیلہ کہے گی کہ وہ مجھ سے رابطے توڑ کر بہت اُداس ہے مگر ایسا کچھ نہیں تھا۔

’’تم سمجھتے ہو اُس سے دُور رہ کر اُسے بھلا دو گے، وہ بیوقوف بھی یہی سمجھتی ہے ‘‘ مجھے فضیلہ کی بات سے اُلجھن ہو رہی تھی ، وہ کیا کہنا چاہتی تھی؟ اُس لڑکی سے میرا تعلق اتنا گہرا نہیں تھا کہ مَیں اُس کی جدائی برداشت نہ کر سکتا۔ہم اتفاقاً ملے تھے ، چند دن اکٹھے گزرے، چند شامیں ایک ساتھ ! اِس سے زیادہ تو کچھ نہیں تھا۔

’’وہ ویسی نہیں ہے جیسی نظر آتی ہے ، اپنا دُکھ تو کبھی کسی کو بتایا ہی نہیں،شاید تمہیں بھی نہیں۔ میرا خیال تھا تم اُسے سمجھ گئے ہو مگر نہیں ! تم بھی اُسے سمجھ نہیں پائے۔‘‘ فضیلہ پتا نہیں کیا کہہ رہی تھی۔وہ کیوں تمہید باندھ رہی تھی ؟

’’ عجیب چُپ لگ گئی ہے ، آخری بار ملے تو کیا کہا تھا اُسے ؟ ‘‘ اُس نے پوچھا۔

مَیں سوچتا رہا کیا کہا تھا مَیں نے ؟ آخری ملاقات مَیں ایسا کیا کہہ دیا جو اُسے عجیب سی چُپ لگ گئی تھی۔

فضیلہ کچھ دیر میرے جواب کی منتظر رہی پھراُس نے چاکلیٹی رنگ کا ایک شادی کارڈ میری گود میں رکھ دیا اور چُپ چاپ لوٹ گئی۔وہ درد جسے سلانے کے لئے میں رات رات بھر جاگا میرے سینے میں شدت سے جاگ اُٹھا۔میں تو اُسے بھُلا دینے کی کوشش میں تھا یہ کیا ہُوا ؟چنگاری پھر سے کیوں سُلگ اُٹھی؟ سینہ کیوں بجنے لگا ؟

پھر مہندی کی رات فضیلہ کا فون آیا ’’ اُس کی الماری میں نئے سال کا ایک کارڈ رکھا ہے سرمد! ‘‘

ڈھولک کی آواز سنائی دے رہی تھی ، لڑکیاں گیت گا رہی تھیں۔میرا دل دھک دھک کرنے لگا، میں بھی تو دراز کھولے بیٹھا تھا۔

’’لمبے ! نیا سال مبارک۔ اس دُعا کے ساتھ کہ تمہاری ساری دُعائیں ہمیشہ قبول ہوں۔ٹھِگنی ! ‘‘فضیلہ نے کارڈ پر لکھی عبارت پڑھی۔

’’ یہ لمبا کون ہوسکتا ہے سرمد ؟ ‘‘ اُس نے پوچھا مگر میں کیا بتاتا میں تو اُس وقت دراز میں رکھا نئے سال کا ایک پرانا کارڈ نکال کر پھاڑ رہا تھا۔یہ کسی لمبے کی طرف سے ایک ٹھِگنی کے لئے تھا جس کو ہمیشہ خوش رہنے کی دُعا دی گئی تھی۔

’’میرا خیال ہے آج اس کارڈ کو جلا دینا چاہئے ، کل اس کمرے کا سارا سامان دُلہن کے ساتھ رُخصت ہو جائے گا۔‘‘ فضیلہ ٹھیک کہہ رہی تھی۔

’’ بہت رنگ آیا ہے ہتھیلی پر ، خوب سجی ہے مہندی۔ دیکھو گے نہیں ؟‘‘

مجھے نہیں معلوم مہندی سجی ہتھیلی والی اُس وقت فضیلہ کے پاس موجود تھی یا نہیں۔

’’ آؤ گے اُس سے ملنے ؟آخری بار ؟ ‘‘ فضیلہ نے پوچھا۔ میرا دل اُچھل کر حلق میں آگیا۔

’’ نہیں ! ‘‘بڑی مشکل سے میں نے اپنے آپ کو سنبھالا۔

ایک سسکی سنائی دی ، جیسے ضبط کا بند ٹوٹ گیا ہو ، وہ فضیلہ کی سسکی نہیں تھی۔ فون بند ہو گیا۔ڈھولک کی آواز بھی بند ہو گئی ، مجھے لگا میرا سانس بھی بند ہو جائے گا۔

مجھے یاد آ رہا ہے آخری ملاقات میں مَیں نے کہا تھا ’’ ٹھگنی !نئے گھر میں جالے ہوئے تو؟ ‘‘ وہ میری بات سُن کر دیر تک چُپ رہی تھی۔

فضیلہ نے بتایا رخصتی کے وقت وہ روئی نہیں ، ہنستی ہوئی کار میں بیٹھ گئی اور صرف اتنا کہا ’’ لمبے !اب میں یہ شہر چھوڑ جاؤں گی ! ‘‘

اُس نے نیلی ساڑھی پہن رکھی تھی۔




***

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید