صفحات

تلاش کریں

نئی مسافت کا عہد نامہ (احمد فراز کے مجموعہ "نابینا شہر میں آئینہ" کی نظموں کا انتخاب)

فہرست



اے دیس سے آنے والے بتا. 6

 ابیات... 10

سفید چھڑیاں.. 13

طاہرہ کے لئے ایک نظم... 15

نا سپاس... 17

جاؤ! 18

آئی بینک..... 19

سرحدیں.. 21

جب کی بات... 24

نئی مسافت کا عہد نامہ.. 25

ہم جیسے.... 31

واپسی... 33

کاریز 1؎ 35

نا تمام مسافتیں..... 40

اتنے چپ کیوں ہو! 42

اے مرے یار کی قاتل... 43

کہاں سے لائیں... 45

دیوارِ گریہ.. 47

میں زندہ ہوں.. 49

ہم اپنے خواب کیوں بیچیں..... 54

لوگو.. 55

لَبِ گویا. 58

بیروت۔1.. 63

بیروت۔2.. 66

آدھی رات میں اذان.. 68

خون فروش.. 69

ہُوا سو ہُوا 71

جلا وطنی... 73


یہی کہا تھا مری آنکھ دیکھ سکتی ہے
تو مجھ پہ ٹوٹ پڑا سارا شہر نابینا

اے دیس سے آنے والے بتا

وہ شہر جو ہم سے چھوٹا ہے، وہ شہر ہمارا کیسا ہے
سب دوست ہمیں پیارے ہیں مگر وہ جان سے پیارا کیسا ہے
شب بزمِ حریفاں سجتی ہے یا شام ڈھلے سو جاتے ہیں
یاروں کی بسر اوقات ہے کیا، ہر انجمن آرا کیسا ہے
جب بھی میخانے بند ہی تھے اور وا درِ زنداں رہتا تھا
اب مفتیِ دیں کیا کہتا ہے، موسم کا اشارہ کیسا ہے
میخانے کا پندار گیا، پیمانے کا معیار کہاں
کل تلخیَ مے بھی کھلتی تھی، اب زہر گوارا کیسا ہے
وہ پاس نہیں، احساس تو ہے، اک یاد تو ہے، اک آس توہے
دریائے جدائی میں دیکھو، تنک کا سہارا کیسا ہے
ملکوں ملکوں گھومے ہیں بہت، جاگے ہیں بہت، روئے ہیں بہت
اب تم کو بتائیں کیا یارو، دنیا کا نظارا کیسا ہے
یہ شامِ ستم کٹتی ہی نہیں، یہ ظلمتِ شب گھٹتی ہی نہیں
میرے بد قسمت لوگوں کی قسمت کا ستارہ کیسا ہے
کیا کوئے نگاراں میں اب بھی عشاق کا میلہ لگتا ہے
اہلِ دل نے قاتل کے لئے مقتل کو سنوارا کیسا ہے
کیا اَب بھی ہمارے گاؤں میں گھنگھرو ہیں ہَوا کے پاؤں میں
یا آگ لگی ہے چھاؤں میں، اَب وقت کا دھارا کیسا ہے
قاصد کے لبوں پر کیا اب بھی آتا ہے ہمارا نام کبھی
وہ بھی تو خبر رکھتا ہو گا، یہ جھگڑا سارا کیسا ہے
ہر ایک کشیدہ قامت پر کیا اب بھی کمندیں پڑتی ہیں
جب سے وہ مسیحا دار ہُوا، ہر درد کا مارا کیسا ہے
کہتے ہیں کہ گھر اَب زنداں ہیں، سنتے ہیں کہ زنداں مقتل ہیں
یہ جبر خدا کے نام پہ ہے، یہ ظلم خدارا کیسا ہے
پندار سلامت ہے کہ نہیں، بس یہ دیکھو، یہ مت دیکھو
جاں کتنی ریزہ ریزہ ہے، دل پارا پارا کیسا ہے
اے دیس سے آنے والے مگر تم نے تو نہ اتنا بھی پوچھا
وہ کوئی جسے بن باس ملا، وہ درد کا مارا کیسا ہے
٭٭٭
 ابیات
بحضور سرورِ کائنات ﷺ
مرے رسولﷺ کہ نسبت تجھے اجالوں سے
میں تیرا ذکر کروں صبح کے حوالوں سے
نہ میری نعت کی محتاج ذات ہے تیری
نہ تیری مَدح ہے ممکن مرے خیالوں سے
تو روشنی کا پیمبر ہے اور مری تاریخ
بھری پڑی ہے شبِ ظلم کی مثالوں سے
ترا پیام محبت تھا اور مرے یہاں
دل و دماغ ہیں پُر نفرتوں کے جالوں سے
یہ افتخار ہے تیرا کہ میرے عرش مقام
تُو ہمکلام رہا ہے زمین والوں سے
مگر یہ مفتی و واعظ، یہ محتسب، یہ فقیہہ
جو معتبر ہیں فقط مصلحت کی چالوں سے
خدا کے نام کو بیچیں مگر خدا نہ کرے
اثر پذیر ہوں خلقِ خدا کے نالوں سے
نہ میری آنکھ میں کاجل نہ مشکبو ہے لباس
کہ میرے دل کا ہے رشتہ خراب حالوں سے
ہے تُرش رو مری باتوں سے صاحبِ منبر
خطیبِ شہر ہے برہم مرے سوالوں سے
مرے ضمیر نے قابیل کو نہیں بخشا
میں کیسے صلح کروں قتل کرنے والوں سے
میں بے بساط سا شاعر ہوں پر کرم تیرا
کہ با شرف ہوں قبا ہ کلاہ والوں سے
٭٭٭
سفید چھڑیاں
جنم کا اندھا
جو سوچ اور سچ کے راستوں پر
کبھی کبھی کوئی خواب دیکھے

تو خواب میں بھی

عذاب دیکھے

یہ شاہراہِ حیات جس پر

ہزار ہا قافلے رواں ہیں

سبھی کی آنکھیں

ہر ایک کا دل

سبھی کے رستے

سبھی کی منزل

اس ہجومِ کشاں کشاں میں

تمام چہروں کی داستاں میں

نہ نام میرا

نہ ذات میری

مرا قبیلہ

سفید چھڑیاں

٭٭٭








طاہرہ کے لئے ایک نظم





سوچ کے پھیلے صحراؤں میں

آگ سے دن اور برف سی راتیں

کاٹ کے جب ہاتھ نہ آئیں

لفظ بھی آہو لگتے ہیں،



جب دل درد کے ویرانوں میں

ریزہ ریزہ چن کر لائے

اُن سے کوئی یاد جگائے

لفظ بھی آنسو لگتے ہیں،



جب میرے خوابوں کو

میری کویتا ڈھونڈ کے لائے

گیت بنائے اور تُو گائے

لفظ بھی جادو لگتے ہیں

٭٭٭






نا سپاس



روبرو ہیں مرے سب میرے تراشے ہوئے بت

میرے شہکار، مرے نقش پرانے سارے

کون جانے کہ یہ کن خوابوں کی تعبیریں ہیں

یوں تو اظہارِ غمِ جاں کے بہانے سارے



کوئی گوتم، کوئی عیسیٰ، کوئی مریم، کوئی جون

درد کی آگ لئے، حسن کی تقدیس لئے

خود نمائی پہ ہیں مغرور سبھی کے پیکر

کاوشِ تیشۂ آذر کو فراموش کئے

٭٭٭








جاؤ!



جاؤ کہ مجھے یقیں نہیں ہے

تم اب کے گئے تو آ سکو گے

دہلیز سے اک قدم اتر کر

وہ راہ گزار منتظر ہے

جس پر جو کوئی چلا گیا ہے

قدموں کے نشاں بچھا گیا ہے

فرقت کے دیے جلا گیا ہے

٭٭٭








آئی بینک



میں تو اس کربِ نظارا سے تڑپ اٹھا ہوں

کتنے ایسے ہیں جنہیں حسرتِ بینائی ہے

جن کی قسمت میں کبھی دولتِ بیدار نہیں

جن کی قسمت میں تماشا نہ تماشائی ہے

جو ترستے ہیں کہ کرنوں کو برستا دیکھیں

جو یہ کہتے ہیں کہ منزل نہیں رستا دیکھیں

اُن سے کہہ دو کہ وہ آئیں، مری آنکھیں لے لیں



اس سے پہلے کہ مرا جسم فنا ہو جائے

اس سے پہلے کہ یہ خاکسترِ جاں بھی نہ رہے

اس سے پہلے کہ کوئی حشر بپا ہو جائے

خواب ہونے سے بچا لے کوئی میری آنکھیں

اپنے چہرے پہ لگا لے کوئی میری آنکھیں



کون سہہ پائے گا لیکن مری آنکھوں کے عذاب

کس کو یہ حوصلہ ہو گا کہ ہمیشہ دیکھے،

اپنی پلکوں کی صلیبوں سے اترتے ہوئے خواب

جن کی کرچوں کی چبھن روح میں بس جاتی ہے

زندگی، زندگی بھرکے لئے کُرلاتی ہے

٭٭٭








سرحدیں





کس سے ڈرتے ہو کہ سب لوگ تمہاری ہی طرح

ایک سے ہیں، وہی آنکھیں وہی چہرے وہی دل

کس پہ شک کرتے ہو، جتنے بھی مسافر ہیں یہاں

ایک ہی سب کا قبیلہ، وہی پیکر وہی گِل



ہم تو وہ تھے کہ محبت تھا وطیرہ جن کا

پیار سے ملتا تو دشمن کے بھی ہو جاتے تھے

اس توقع پہ کہ شاید کوئی مہماں آ جائے

گھر کے دروازے کھُلے چھوڑ کے سو جاتے تھے



ہم تو آئے تھے کہ دیکھیں گے تمہارے قریے

وہ در و بام کہ تاریخ کے صورت گر ہیں

وہ ارینے، وہ مساجد، وہ کلیسا، وہ محل

اور وہ لوگ جو ہر نقش سے افضل تر ہیں



رُوم کے بُت ہوں کہ ہو پیرس کی مونا لیزا

کیٹس کی قبر ہو یا تربتِ فردوسیؔ ہے

قرطبہ ہو کہ اجنتا کہ موہنجو داڑو

دیدۂ شوق نہ محرومِ نظر بوسی ہو



کس نے دنیا کو بھی دولت کی طرح بانٹا ہے

کس نے تقسیم کئے ہیں یہ اثاثے سارے

کس نے دیوار تفاوت کی اٹھائی لوگو

کیوں سمندر کے کنارے پہ ہیں پیاسے سارے



خیر تم شوق سے دیکھو مرا سب رختِ سفر

میں تو پاگل ہوں، مری بات پہ مت کان دھرو

یہ کتابیں ہیں، یہ تحفے ہیں، یہ کپڑے میرے

مہر کو ثبت کرو اور مجھے راہداری دو

٭٭٭








جب کی بات



میں نے کہا تھا

دل کے سفر میں

یوں تو بہت سی منزلیں ہیں

لیکن

جاناں

تم سے آگے کوئی نہیں

آج مگر مجبورِ سفر ہوں

٭٭٭








نئی مسافت کا عہد نامہ



مرا لہو رائیگاں نہیں تھا

جو میرے دیوار و در سے ٹپکا

تو شاہراہوں تک آ گیا تھا

جہاں کسی کو گماں نہیں تھا

مرا لہو رائیگاں نہیں تھا

مرے مقدر میں آبرو

کی تمام لمبی مسافتیں تھیں

مرے سفر میں

حسینؑ کے سر، مسیح کے جسم

کی سبھی درد ناکیاں تھیں، اذیتیں تھیں

مگر مرا درد بے وقر تھا

مگر مرا دشت بے شجر تھا

یہ بات برسوں کی ہے۔۔۔ تو ہو

پر وہ ساعتیں اب بھی نوحہ گر ہیں

جہاں کہیں بھی ہجوم ہوتا

تو سب مری سمت دیکھتے

اور طنز کرتے

کہ اس کو دیکھو

یہ کون پیکر ہے

جس کا چہرہ نہیں

میں اُن سے کہتا

کہ مَیں تمہی میں سے ہوں

یہ دیکھو

یہ میری مٹی، یہ میری دنیا، یہ خواب میرے

وہ مجھ سے کہتے

کہ تیری مٹی کو، تیری دنیا کو، تیرے خوابوں کو کون دیکھے

کہ تیری آنکھیں نہیں

میں اُن سے کہتا کہ

میرے ہاتھوں میں مشعلیں ہیں صداقتوں کی، رفاقتوں کی

وہ مجھ سے کہتے

بدن تو دیوار کا بھی ہوتا ہے

ہاتھ اشجار کے بھی ہوتے ہیں

جن کی شاخوں کی نوک پر

صرف ایک پتا لرزتا رہتا ہے

پر وہ دیوار اور وہ اشجار ہم نہیں ہیں

میں ان سے کہتا

کہ مجھ کو دیکھو

نہ میری گردن میں طوق ہے

اور نہ میرے پاؤں میں بیڑیاں ہیں

مگر وہ کہتے

بہت سے محکوم بے رسن ہیں

کہ دست و پا کی کشادگی کا عذاب

حیواں بھی جھیلتے ہیں

پر اُن کے ماتھوں کی لوح پر

کوئی نام کندہ

نہ اُن کے چہروں پہ

عہد نامہ کوئی رقم ہے

یہ عہد نامہ

جو ذات بھی، کائنات بھی ہے

جو زندگی کا ثبوت بھی ہے، ثبات بھی ہے

میں نسلِ آدم کے اس قبیلے کا فرد تھا

پر کوئی مجھے جانتا نہیں تھا

میں اپنے ایثار کے فسانے انہیں سناتا

مگر کوئی مانتا نہیں تھا

ہم ایک جیسے تھے

پر گروہِ الم کشاں میں

کوئی بھی اک دوسرے کو پہچانتا نہیں تھا

کہ سب کے چہرے تھے، سب کے ماتھے تھے

اور ماتھوں پہ

عہد نامے لکھے ہوئے تھے

محبتوں کے، صداقتوں کے

سفر کی ساری رفاقتوں کے

بیافرا کی پہاڑیوں

ویت نام کے جنگلوں

بلا کی قیامتوں کے

تمام پیکر تمام چہرے تھے

آئینے ان علامتوں کے

جو زندگی کا ثبوت بھی ہیں، ثبات بھی ہیں

جو ذات بھی، کائنات بھی ہیں

میں سر بریدہ پَلٹ کے آیا

تو ساتھ سارے نشان لایا

اَنا کے

پندار کے

وفا کے

مرا لہو ندیوں کی صورت بہا تو قلزم بنا گیا

مرا لہو پھیل کر

مری خوش نہاد مٹی کی سرحدوں کو بچا گیا ہے

وہ میرے چہرے پہ ایسی آنکھیں لگا گیا ہے

جو دوسروں سے عظیم تر ہیں

جو سب کی نظروں میں معتبر ہیں

جو زندگی کا ثبوت بھی ہیں، ثبات بھی ہیں

جو ذات بھی، کائنات بھی ہیں

٭٭٭






ہم جیسے



حسینؑ تجھ پہ کہیں کیا سلام ہم جیسے

کہ تو عظیم ہے، بے ننگ و نام ہم جیسے



برنگِ ماہ ہے بالائے بام تجھ جیسا!

تو فرشِ راہ، کئی زیرِ بام ہم جیسے



وہ اپنی ذات کی پہچان کو ترستے ہیں

جو خاص تیری طرح ہیں نہ عام ہم جیسے



یہ بے گلیم جو ہر کربلا کی زینت ہیں

یہ سب ندیم یہ سب تشنہ کام ہم جیسے



بہت سے دوست سَرِ دار تھے جو ہم پہنچے

سبھی رفیق نہ تھے سُست گام ہم جیسے



خطیبِ شہر کا مذہب ہے بیعتِ سلطاں

ترے لہو کو کریں گے سلام ہم جیسے



تُو سر بریدہ ہوا شہرِ نا سپاساں میں

زباں بریدہ ہوئے تمام ہم جیسے



پہن کے خرقۂ خوں بھی کشیدہ سر ہیں فرازؔ

بغاوتوں کے عَلم تھے مدام ہم جیسے

٭٭٭








واپسی



اُس نے کہا

سُن

عہد نبھانے کی خاطر مت آنا

عہد نبھانے والے اکثر

مجبوری اور مہجوری کی تھکن سے لوٹا کرتے ہیں

تم جاؤ

اور دریا دریا پیاس بجھاؤ

جن آنکھوں میں ڈوبو

جس دل میں بھی اترو

میری طلب آواز نہ دے گی

لیکن جب میری چاہت

اور میری خواہش کی لَو

اتنی تیز اور اِتنی

اونچی ہو جائے

جب دل رو دے

تب لَوٹ آنا

٭٭٭






کاریز 1؎



فضیلہ!

مجھے یاد کب تھیں

وہ باتیں جو میں نے کہی تھیں

مگر آج جب ٹیپ کے ایک فیتے سے

تیری اداس اور مہجور آواز کی آنچ آئی

(جو تیری پشیمانیوں اور حرماں نصیبی کی غمّاز ہے)

تو مجھ کو وہ شب

اور اس شب کی سب گفتگو یاد آئی

مجھے اپنے لہجے کی تلخی کا دکھ ہے

مگر میری مشکل کہ موضوع ایسا تھا

"کرب اپنے مجبور لوگوں کا"

"اندوہ اپنی زمیں کا"

تجھے کیا خبر

آنے والے دنوں کے تصور سے

میں کانپ اٹھتا ہوں

سوچیں جو تلوار کی کاٹ رکھتی ہیں

اب یہ ہمارا مقدر رہیں گی

میں شیشے کی دیوار سے

سامنے کے پہاڑوں کو جب دیکھتا ہوں

تو لگتا ہے جیسے

ترے قریۂ بے اماں کے

کبیدہ جبیں کوہساروں کے چہرے

جو بارود کے بادلوں سے اَٹے

خونِ خلقت سے تر

تجھ سے مایوس ہو کر

نئی سرحدوں کی طرف دیکھتے ہیں

فضیلہ!

اگر میری آنکھوں پہ شک ہے

تو پھر اِن ہواؤں کے لہجے کو پہچان

اور سُن

کہ ان کا کہا معتبر ہے

ہواؤں نے تم سے کہا تھا

کہ اِن بے نوا کوہساروں کی بے آسرا چوٹیوں پر

سدا برف تھی

اور ہمیشہ رہے گی

مگر جب بھی ندّی کوئی

کلۂ کوہ سے دامنِ کوہ کی

آرزو میں روانہ ہوئی تو

اسے خشک کھیتوں نے

بنجر زمینوں نے

محروم سینوں نے

کِن حسرتوں سے پکارا

فضیلہ!

تجھے کیا خبر

تو کہ گھائل ہواؤں کے

غمناک لہجوں کی پروردہ

مہجور ندی تھی

جو اک مقدس سفر پر چلی تھی

مگر جس نے منزل بدل دی

نہانے کے تالاب

اگرچہ بہت خوشنما ہیں

مگر تیرے مسکن نہیں تھے

وہ تُو جس کو کاریز بننا تھا

کاریز بنتی

تو بہتر نہیں تھا؟

1؎ بلوچستان کے زمین دوش چشمے

٭٭٭




نا تمام مسافتیں



دیکھو ذرا ادھر کہ چلے تھے جہاں سے ہم

کچھ پھول، کچھ چراغ ابھی واہموں میں ہیں

بے اعتمادیوں کا دھواں بھی سہی مگر

کچھ گیت بھی تو شہر کی خاموشیوں میں ہیں

اک سوگوار شامِ خزاں بھی سہی مگر

بکھرے ہوئے گلاب ابھی راستوں میں ہیں



جب ہم ہوئے تھے شوق کی راہوں پہ گامزن

رہزن نہیں ملے تھے کہ مقتل نہ آئے تھے

صحرائے غم سے تا بہ ہوائے گُلِ مراد

کن کن قیامتوں نے نہ فتنے اٹھائے تھے

قول و قرار و وعدہ و پیماں سے بے خبر

یہ خواب، یہ گلاب ہمیں نے سجائے تھے



اک پل رکو، یہیں سے بدلتے ہیں راستے

ٹھہرو ذرا کہ موڑ جدائی کا آ گیا

اب سامنے کی اور ہواؤں کا شہر ہے

اب تک تو اس طرف جو گیا، سو چلا گیا

شمعیں تو کیا، یہاں دل و دیدہ بھی بجھ گئے

یہ دشت کتنے راہ نوردوں کو کھا گیا



ٹھہرو ذرا کہ مرگِ تمنا سے پیشتر

اپنی رفاقتوں کو پلٹ کر بھی دیکھ لیں

گزری مسافتوں پہ بھی ڈالیں ذرا نظر

قربت کی ساعتوں کا مقدر بھی دیکھ لیں

شاید کہ مِل سکیں نہ نئے موسموں میں ہم

جاتی رُتوں کے آخری منظر بھی دیکھ لیں

٭٭٭


اتنے چپ کیوں ہو!



اتنے چپ کیوں ہو، رفیقانِ سفر کچھ تو کہو

درد سے چُور ہوئے ہو کہ قرار آیا ہے

بھر گیا ہجر کا ہر زخم کہ جی ہار چلے

بجھ گیا شوق کہ پیغامِ نگار آیا ہے

نا مرادی کی تھکن ہے کہ خمارِ شبِ وصل

جاں سلگتی ہے کہ چہروں پہ نکھار آیا ہے



کتنی اجڑی ہوئی رت ہے کہ سکوں ہے نہ جنوں

اتنی بے فیض ہوئی بادِ بہاری کیسے

نہ کہیں نوحۂ جاں ہے، نہ کہیں نغمۂ دل

کچھ تو بولو کہ شبِ درد گزاری کیسے

سَر بہ زانو ہو تو کیوں چاک گریباں والو

بازیِ راہِ طلب جیت کے ہاری کیسے

٭٭٭


اے مرے یار کی قاتل


(مصطفےٰ زیدی کی موت پر)



اے مرے یار کی قاتل تجھے دیکھوں تو کہوں

کس طرح دستِ حنائی سے جھلکتا ہے لہو

کس طرح زہر عطا کرتے ہیں بلّور سے ہاتھ

کس طرح روح کو ڈستی ہے بدن کی خوشبو



مونا لیزاؤں سے معصوم و دل آرا چہرے

قلو پطراؤں سے جسموں پہ سجا رکھے ہیں

جاں گسل زہر نگینوں میں چھپا رکھے ہیں

جس کو چاہا اسے مرنے کا جنوں بخش دیا

بوسۂ مرگ عطا کر کے سکوں بخش دیا



یوں تو عشّاق کی منزل ہے یہی دشتِ فنا

"قتلِ عاشق کسی معشوق سے کچھ دور نہ تھا

پر ترے عہد سے آگے تو یہ دستور نہ تھا"

٭٭٭








کہاں سے لائیں



نہ یوں کہ آغازِ فصلِ گل میں

خموشیاں کوئی گیت گائیں



نہ یوں کہ مہجور جنگلوں میں

اداس جگنو دیے جلائیں



نہ یوں کہ خندہ دلی سے رو دیں

نہ یوں کہ رو رو کے مسکرائیں



نہ کوئی منظر کہ آشنا ہو

تو ہمدمی کا فریب کھائیں



نہ کوئی اپنا جو غیر سا ہو

کہ جس کو تیرے سخن سنائیں



یہ زندگی کس طرح کٹے گی

وہ یادِ جاناں کہاں سے لائیں



یہ شامِ دل کس طرح کٹے گی

کوئی خلش اب کہاں سے لائیں

٭٭٭








دیوارِ گریہ





وہ کیسا شعبدہ گر تھا

جو مصنوعی ستاروں

اور نقلی سورجوں کی

اک جھلک دکھلا کے

میرے سادہ دل لوگوں

کی آنکھوں کے دیے

ہونٹوں کے جگنو

لے گیا

اور اب یہ عالم ہے

کہ میرے شہر کا

ہر اک مکاں

اک غار کی مانند

محرومِ نوا ہے

اور ہنستا بولتا ہر شخص

اک دیوارِ گریہ ہے

٭٭٭










میں زندہ ہوں





میں ابھی زندہ ہوں

تم نے سنگباری کی

مرے پیکر کو دیواروں کے قالب میں چنا

ناگوں سے ڈسوایا

صلیبوں پر چڑھایا

زہر پلوایا

جلایا

پھر بھی میں سچ کی طرح پائندہ ہوں

میں زندہ ہوں

میرا چہرہ، میری آنکھیں، میرے بازو

میرے لب

زندہ ہیں سب

میں شہابِ شب

ہزاروں بار ٹوٹا

اور بکھرا

پھر بھی میں رخشندہ ہوں

میری طاقت میرے بالوں میں

نہ میرے ناخنوں میں تھی نہاں

میں حصاروں میں چھپا تھا

اور نہ تیغوں کی پناہوں میں چلا

میری طاقت میری قوت

حرف تھا

سلسبیلِ حرف سے میں نے پیا

آبِ بقا

حرف جو سچائیوں کی ابتدا اور انتہا

وجدان کی شمعِ نوا

سب کا خدا

تم نے کالے سورجوں کو

اپنے ہاتھوں پر دھرا

مصنوعی مہتابوں کو

ماتھوں پر چُنا

کافور کی شمعوں سے طاقِ ذات کو

روشن کیا

تم نے چاہا تھا

کہ خال و خد تمہارے بھی

کہیں چمکیں

تمہیں بھی لوگ پہچانیں

تمہیں بھی دیوتا مانیں

مگر تم شکل سے عاری تھے

صورت گر بھی کیا کرتے

تمہارے جسم بے توقیر و بے جاں

اور تمہارے تاج طاقوں پر دھرے ہیں

اور تمہارے پیرہن

تابوت کا استر بنے

خاکستری ڈھانچوں کو ڈھانپے

اب عجائب گھر کے تہ خانوں میں سڑتے ہیں

تمہارے استخواں نو واردوں کی چاپ سے

یوں کانپ اٹھتے ہیں

کہ جیسے صبحِ محشر کا بلاوا ہو

سنو اے کجکلاہو

اے خداوندو سنو

اب تم فقط ماضی ہو

میں آئندہ ہوں

میں نہ اپنے دوش سے نادم نہ اپنے حال سے شرمندہ ہوں

میں زندہ ہوں

تابندہ ہوں

رقصندہ ہوں

پائندہ ہوں

٭٭٭








ہم اپنے خواب کیوں بیچیں



فقیرانہ روش رکھتے تھے

لیکن اس قدر نادار بھی کب تھے

کہ اپنے خواب بیچیں

ہم اپنے زخم آنکھوں میں لئے پھرتے تھے

لیکن روکشِ بازار ہم کب تھے

ہمارے ہاتھ خالی تھے

مگر ایسا نہیں پھر بھی

کہ ہم اپنی دریدہ دامنی

الفاظ کے جگنو

لئے گلیوں میں آوازہ لگاتے

"خواب لے لو خواب" ٭٭٭


لوگو



اتنے کم پندار ہم کب تھے

ہم اپنے خواب کیوں بیچیں

کہ جن کو دیکھنے کی آرزو میں

ہم نے آنکھیں تک گنوا دی تھیں

کہ جن کی عاشقی میں

اور ہَوا خواہی میں

ہر ترغیب کی شمعیں بجھا دی تھیں

چلو ہم بے نوا

محرومِ سقف و بام و در ٹھہرے

چلو ہم بد مقدّر بے ہنر ٹھہرے

پر اپنے آسماں کی داستانیں

اور زمیں کے انجم و مہتاب کیوں بیچیں

خریدارو!

تم اپنے کاغذی انبار لائے ہو

ہوس کی منڈیوں سے درہم و دینار لائے ہو

تم ایسے دام تو ہر بار لائے ہو

مگر تم پر ہم اپنے حرف کے طاؤس

اپنے خون کے سرخاب کیوں بیچیں

ہمارے خواب بے وقعت سہی

تعبیر سے عاری سہی

پر دل زدوں کے خواب ہی تو ہیں

نہ یہ خوابِ زلیخا ہیں

کہ اپنی خواہشوں کے یوسفوں پر تہمتیں دھرتے

نہ یہ خوابِ عزیزِ مصر ہیں

تعبیر جن کی اس کے زندانی بیاں کرتے

نہ یہ اُن آمروں کے خواب ہیں

جو بے آسرا خلقِ خدا کو دار پر لائیں

نہ یہ غارت گروں کے خواب

جو اوروں کے خوابوں کو تہہِ شمشیر کر جائیں

ہمارے خواب تو اہلِ صفا کے خواب ہیں

حرف و نوا کے خواب ہیں

مہجور دروازوں کے خواب

محصور آوازوں کے خواب

اور ہم یہ دولتِ نایاب کیوں بیچیں

ہم اپنے خواب کیوں بیچیں؟

٭٭٭








لَبِ گویا



اک شاعرِ درویش و قدح خوار خدا مَست

میں کون، جو لکھوں ، تری عظمت کے قصیدے

جبریل کے پر ہوں تو وہاں تک نہ پہنچ پاؤں

آواز جہاں سے ترا سازِ ابدی دے

تو وہ ہے کہ الہام ترے حرف کو ترسے

میں وہ کہ مجھے طعن مری بے ہُنری دے

تو جبرِ شہی میں بھی علمدارِ جنوں تھا

میں نالہ بہ دل ہوں کہ کوئی ہونٹ نہ سی دے

دہلیز نشیں ہوں میں ترے کاخِ سخن کا

میں کون، مگر تو شرفِ ہم سخنی دے



دے اِذن کہ میں تجھ کو بتاؤں کہ ترے بعد

جو حال ہوا ہے ترے خوابوں کے چمن کا

اغیار کے ہر وار کو ہم جھیل گئے تھے

ہر چند کہ چرچا تھا بہت دار و رسن کا

تو برشِ شمشیرِ حریفاں سے تھا بسمل

ہم کو ہے گلہ دشنۂ اربابِ وطن کا

"ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات"

شیوہ ہے وہی گردشِ افلاکِ کہن کا

ناوک ہی رہا قسمتِ ہر دیدۂ بینا

نیزہ ہی مقدر رہا بے باک دہن کا



اے ہاتفِ اسرارِ بشر سُن کے ترے بعد

کس طرح ترے درس کی توہین ہوئی ہے

معنوں سے تہی کر کے ترے حرفِ خودی کو

شعروں سے فقط وعظ کی تزئین ہوئی ہے

تھی فقر و توکل کی مغنّی تری ہستی

یاں کِذب و تصوّف ہی کی تلقین ہوئی ہے

جو مشقِ ستم مشغلۂ اہلِ جفا تھا

وہ رسمِ ستم شہر کا آئین ہوئی ہے

دربار سے وہ رشتہ رہا مفتیِ دیں کا

منبر سے ہر ارشاد پہ آمین ہوئی ہے



ہیں اب بھی وہی بند مزدور کے اوقات

گو دولتِ اربابِ امارت ہوئی دہ چند

ہے اوج پہ سرمایہ پرستی کا نصیبہ

دریوزہ گرِ نانِ شبینہ ہے ہنر مند

پیغامِ مساوات کہ دنیا کے لئے تھا

واعظ نے کیا کوزہ و تسبیح کا پابند

مسجد میں تو محتاج و غنی ایک ہیں لیکن

منعم کی قبا میں ہے مرے جسم کا پیوند

شاہد ہیں منگورہ کی چٹانیں کہ ہے بڑھ کر

خونِ رگِ انساں سے زمرد کا گلو بند



یہ مہتر و نواب و خوانین و موالی

ہر جا پہ قدامت کے صنم اب بھی وہی ہیں

ہے رزقِ زمیں آج بھی دہقاں کا پسینہ

اندازِ قدح خواریِ جم اب بھی وہی ہیں

اک تو ہی نہ تھا جس پہ لگی کفر کی تہمت

ہم جیسے شہیدانِ ستم اب بھی وہی ہیں

اب بھی ہیں وہی اہلِ ہوس صاحبِ محفل

ہم دل زدگانِ شبِ غم اب بھی وہی ہیں

یہ فتویٰ فروش و تہی آغوش و عبا پوش

پیران و فقیہانِ حرم اب بھی وہی ہیں



جو حرفِ جنوں تو نے سکھایا وہ کہوں گا

اے حق کی علامت، مجھے توفیقِ نوا دے

دے بازوئے فرہاد کو وہ تابِ جسارت

جو طرۂ دستارِ رقیباں کو جھکا دے

اب قافلۂ شوق نئی دھن سے رواں ہے

اب پیشِ نظر ہے، نئی منزل نئے جادے

اب کجکلہی سَر بگریباں نظر آئے

اب چاک ہوں ذرّوں سے ستاروں کے لبادے

ہر عہد کا نخچیر رہا ہے لبِ گویا

یہ عہد بھی منصور کو سولی پہ چڑھا دے

٭٭٭








بیروت۔1



یہ سر بریدہ بدن ہے کس کا

یہ جامۂ خوں کفن ہے کس کا

یہ زخم خوردہ ردا ہے کس کی

یہ پارہ پارہ صدا ہے کس کی

یہ کس لہو سے زمین یاقوت بن گئی ہے

یہ کس کی آغوش، کس کا تابوت بن گئی ہے

یہ کس نگر کے سپوت ہیں

جو دیارِ انگار میں کھڑے ہیں

یہ کون بے آسرا ہیں

جو تیغِ قاتلاں سے

کٹی ہوئی فصل کی طرح

جا بجا پڑے ہیں

یہ کون ماں ہے

جو اپنے لختِ جگر کو ملبے میں ڈھونڈتی ہے

یہ کون بابا ہے

جس کی آواز شورِ محشر میں دَب گئی ہے

یہ کون معصوم ہے

کہ جن کو

سیاہ آندھی دیے سمجھ کر بجھا رہی ہے

انہیں کوئی جانتا نہیں

انہیں کوئی جاننا نہ چاہے

یہ کس قبیلے کے سر بکف جانثار ہیں

جن کو کوئی پہچانتا نہیں

کوئی بھی پہچاننا نہ چاہے

کہ ان کی پہچان امتحاں ہے

کہ ان کی پہچان میں زیاں ہے

نہ کوئی بچہ، نہ کوئی بابا، نہ کوئی ماں ہے

محل سراؤں میں خوش مقدر شیوخ چُپ

بادشاہ چُپ ہیں

حرم کے سب پاسبان

عالم پناہ چُپ ہیں

منافقوں کے گروہ کے سربراہ چُپ ہیں

تمام اہلِ ریا کہ جن کے لبوں پہ ہے

لا الہٰ چُپ ہیں

٭٭٭








بیروت۔2





میرے بچوں کے جسموں پر

زخموں کے پیراہن ہیں

ممتاؤں کی خالی گودیاں

بِن کتبوں کے مدفن ہیں



جتنے بھی ساونت جواں تھے

پیہم کٹتے جاتے ہیں

میرے باغ کے جتنے پھول تھے

پل پل گھٹتے جاتے ہیں



لہو لہان ہیں گلیاں کوچے

آنگن خون سے جل تھل ہیں

سب دہلیزوں پر لاشیں ہیں

سب چوراہے مقتل ہیں



کچھ خیمے، کچھ زندہ سائے

اب میدان میں باقی ہیں

چند عَلم کچھ گیت ابھی تک

اس طوفان میں باقی ہیں



تیل کے چشموں کے سوداگر

اَن داتا خوش بیٹھے ہیں

محل سرا کی حَرم سرا میں

خواجہ سَرا خوش بیٹھے ہیں

٭٭٭



آدھی رات میں اذان



یہ کس کے لہو کی جھالریں ہیں

پھر کس نے یہ کربلا سنوارا



یہ کون ہیں جن کے آسماں پر

سورج ہے نہ چاند ہے نہ تارا



جنگل میں لگی ہو آگ جیسے

یوں شہر بھڑک رہا ہے سارا

٭٭٭






خون فروش



اے خدا ہسپتالوں میں بھی

اب مرے خون کی کوئی قیمت نہیں ہے

کسی کو بھی میرے لہو کی ضرورت نہیں ہے



میں اپنے بدن میں

(کئی خون کی بوتلیں بیچ کر بھی)

ابھی تک لہو کے کٹورے لئے

صبح دم

اس توقع پہ گھر سے نکلتا ہوں

شاید۔۔۔

مگر شام کو بے ثمر لوٹتا ہوں

اُسی گھر میں

جس میں مرے خون کے لوتھڑے

جرعۂ شیر اور پارۂ نان کی آرزو میں

مرا راستہ دیکھتے ہیں



میں ہر روز

ہر وارڈ کو

ملتجی جسم سے دیکھتا ہوں

مگر ڈاکٹر مجھ سے کہتے ہیں

مردود

اب تیرے خونناب میں

زندگی کی حرارت نہیں ہے

خدایا

میں کیسے بتاؤں انہیں

خوں فروشی ضرورت ہے میری، تجارت نہیں ہے

٭٭٭


ہُوا سو ہُوا



بھول جائیں تو آج بہتر ہے

سلسلے قرب کے، جدائی کے

بجھ چکی خواہشوں کی قندیلیں

لٹ چکے شہر آشنائی کے



رائیگاں ساعتوں سے کیا لینا

زخم ہوں، پھول ہوں، ستارے ہوں

موسموں کا حساب کیا رکھنا

جس نے جیسے بھی دن گزارے ہوں



زندگی سے شکایتیں کیسی

اب نہیں ہیں اگر گلے تھے کبھی

بھول جائیں کہ جو ہُوا سو ہُوا

بھول جائیں کہ ہم ملے تھے کبھی



اکثر اوقات چاہنے پر بھی

فاصلوں میں کمی نہیں ہوتی

بعض اوقات جانے والوں کی

واپسی سے خوشی نہیں ہوتی

٭٭٭










جلا وطنی





جاتے سال کی آخری شب ہے

چہل چراغ کی روشنیوں سے

بادۂ گلگوں کی رنگت سے

جگر جگر کرتے پیمانے

جیسے جاتے سال کی گھڑیاں

جیسے دیے سے ہوا کی چاہت

جیسے دید کی آخری ساعت

جیسے بھولتی یاد کی کڑیاں



خواب اگر جھوٹے ہوتے ہیں

کب سچی تعبیریں ہوں گی

ہاتھوں میں گلدستے لیکن

پاؤں میں زنجیریں ہوں گی



آؤ آخری رات ہے سال کی

دل کہتا ہے بزمِ وصال کی

سب شمعیں، ساری خوشبوئیں

تن من میں رس بس جانے دو

یہ جو لہو سے اَبر اٹھا ہے

آج کی رات برس جانے دو

لیکن باہر جھانک کے دیکھو



جیسے آج کی رات ستارے

چُپ بیٹھے آکاش کنارے

جاگ رہے ہیں، سوچ رہے ہیں

جاتے سال کی آخری شب ہے

کل کا سورج کیسے ہو گا

٭٭٭



ٹائپنگ: محمد بلال اعظم

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید