صفحات

تلاش کریں

ناولٹ:سنتری کی جنتری (ڈاکٹر غلام شبیر رانا)

نصف صدی پہلے کی بات ہے میں نے شیخ ظہیر الدین، عبد الحلیم، فیض محمد خان، سید مظفر علی ظفر، دیوان احمد الیاس نصیب، امیر اختر بھٹی اور غلام علی خان چین کے پاس ایک پر اسرار شخص کو محو تکلم دیکھا جس کی کرگسی نگاہوں کے سامنے چغد و شپر کی چشم پوشی بھی ہیچ تھی۔ یہ شخص جھنگ کی نواحی بستی ’کُلی فقیر ‘ کا مکین اور قدیم روایات کا رہین تھا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ وہ قلی قطب شاہ (1565-1612) کے نواسے کا پڑپوتا ہے۔ اس کی پرد ادی بھاگ متی کے بھائی سنت مرلی منوہر برہمچاری نے اُنیسویں صدی کے آغاز میں اس ویران اور بے آب و گیاہ ریگستان میں قدم رکھا اور جھنگ کی نواحی بستی کُلی فقیر میں زندگی بھر قیام کیا۔ جس وقت ساری دنیا محواستراحت ہوتی یہ تارک الدنیا سادھو ساری رات جاگ کر گزارتا اور کھیتوں کھلیانوں کے چکر لگاتا۔ رات کی تاریکی میں اس شخص کی بلا معاوضہ گلہ بانی، نگہبانی اور پہرے داری سے غریب دہقانوں کے مویشیوں کے ریوڑ جنگلی درندوں کی غارت گری اور رسہ گیروں کی دہشت گردی سے محفوظ رہتے۔ لوگ اس لٹھ بردار تنو مند شخص کو سنتری کہہ کر پکارتے تھے۔ یہ ضعیف سنتری دکنی زبان پڑھنا لکھنا جانتا تھا اس نے سب سے پہلے روزانہ خبریں لکھ کر گھر گھر پہچانے کا سلسلہ شروع کیا۔ اس اخبار کا نام اس نے ’سنتری کی جنتری‘ رکھا جسے جھنگ کے راجے، مہاراجے، منتری اور مہا منتری بھی شوق سے پڑھتے تھے۔ یہ شخص چراغ کی کالک اور کیکر کی گوند کو ملا کر خشک کر کے روشنائی تیار کرتا پھر مٹی کی دوات میں اس کا محلول تیار کر کے دوات اپنے قلم دان میں رکھتا۔ زاغ و زغن کے پر اکٹھے کرتا اور اس خود ساختہ روشنائی کی دوات میں کسی طائر کا موزوں پر ڈبو کر کاغذ کے ٹکڑوں یا کیلے کے خشک پتوں پر سوانح لیل و نہار اور شہر نا پرساں کے اخبار لکھتا۔ اس کا خیال تھا کہ ایام گزشتہ کی کتاب انسان کو ہمیشہ کے لیے کبھی الوداع نہیں کہتی بل کہ اس کے اہم ترین مندرجات میں یہ جملہ بہت معنی خیز ہے کہ اچھا دوست اگر زندگی نے وفا کی تو کسی موڑ پر پھر ملیں گے۔ تاریخ اور اُس کے مسلسل عمل پر گہری نظر رکھنے والے اُس سیلانی مزاج فقیر کا اصرار تھا کہ تاریخ کا یہی تو واحد اور ناقابلِ تردید سبق ہے کہ آج تک کسی دور میں کسی شخص نے بھی تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔

سنتری تک خبریں پہچانے میں کئی طوائفیں، ڈومنیاں اور کٹنیاں بھی شامل تھیں جن کی چال اور ڈھال دیکھ کر سب دنگ رہ جاتے تھے۔ خرچی کی کمائی سے تجوری بھرتے ہی اُلٹا توا بھڑوا’رمنو ‘جو آبنوس کا کُندا تھا اپنے تئیں زعفران کی شاخ سمجھنے لگا۔ اسے دیکھ کر سب لوگ سوچنے لگتے کہ یہ خسیس کسی اُجاڑ صحرا کا آدم خور ہے یا کسی ویران دشت کا درندہ۔ حیرت کی بات تو یہ تھی کہ قفسو جیسی ارنڈ کی جڑ بھی ہر نخل تناور کو آنکھیں دکھاتی اور قلزم خیال پر چڑھائی کرنے میں تامل نہ کرتی۔ قفسو نے سنت مرلی منوہر برہمچاری کو اپنے دامِ الفت کا اسیر بنا رکھا تھا۔

اپنے قحبہ خانے کے بھڑوے مردوں کو حقارت سے دیکھتے ہوئے اپنے آشنا سنت مرلی منوہر برہمچاری سے مخاطب ہو کر اپنے بارے میں رعونت سے قفسو کہتی تھی: ’’میں لوگوں کی جیبیں خالی کرنے کا فن جانتی ہوں۔ تم جیسے مردوئے ایسی بات کہاں سے لا سکتے ہیں؟ ‘‘

اپنے خاندانی پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے سنت مرلی منوہر برہمچاری بتاتا کہ ہر عہد کے موقع پرست سقہ سے ان کا رشتہ پکا ہے۔ چھبیس جون 1539ء کو مغل بادشاہ ہمایوں کو بکسر سے دس میل جنوب مغرب میں دریائے گنگا کے کنارے پر واقع مقام چوسہ کی لڑائی میں جب شیر شاہ سوری کے مقابلے میں شکست ہوئی تو ہمایوں اپنی جان بچانے کے لیے بھاگ نکلا۔ شیر شاہ سوری کی فوج نے اس کا تعاقب کیا تو ہمایوں نے دریائے گنگا میں چھلانگ لگا دی اور تیر کر دوسرے کنارے پہنچنے کے بعد آگرہ پہنچنے کا ارادہ کیا۔ ہمایوں کی فوج کے بزدل سپاہیوں نے بھی دریا میں چھلانگ لگا دی۔ دیکھتے ہی دیکھتے دریائے گنگا کی طوفانی لہریں ہمایوں کی فوج کے سب سپاہیوں کو بہا لے گئیں۔ ایک ماشکی جس کا نام نظام سقہ تھا اس نے اپنی زندگی خطرے میں ڈال کر ہمایوں کی جان بچائی اور شکست خوردہ اور مضمحل بادشاہ کو مشک کے سہارے دریا کے دوسرے کنارے تک پہنچایا۔ موسمی تبدیلیوں اور برادران یوسف کی محسن کشی کے بعد اس ماشکی کی سرفروشی نے ہمایوں کو سوچنے پر مجبور کر دیا کہ درباری لوگ کس قدر جلد بدل جاتے ہیں مگر یہ سقہ اب تک قدیم روایات پر پکا یقین رکھتا ہے۔ ہمایوں نے اس ماشکی سے کہا کہ غم نہ کر ابھی زندگی پڑی ہے جب بھی اچھا وقت آئے گا وہ اس کے بہت بڑے احسان کا بدلہ ضرور اتارے گا اور ماشکی کو منھ مانگا انعام ملے گا۔ حالات سے دل برداشتہ ہو کر ہمایوں جیسلمیر کے راجہ کی دعوت پر سندھ پہنچا مگر اسے کسی مخبر نے بتایا کہ راجہ کی نیت میں فتور ہے اور وہ اُسے گرفتار کر کے شیر شاہ سوری کے حوالے کرنا چاہتا ہے۔ اسی اثنا میں سندھ میں عالم تنہائی اور عذاب در بہ دری کے دوران میں ہمایوں اپنے بھائی ہندال کے گھر ٹھہرا وہاں اس کی نگاہ ایک گھریلو ملازمہ حمیدہ بانو پر پڑی۔ حمیدہ بانو کی نگاہ ہمایوں کے دل سے ہوتی ہوئی شکست خوردہ بادشاہ کے جگر تک اُتر گئی۔ اس پہلی اتفاقی ملاقات کے بعد ہمایوں اور حمیدہ بانو دونوں شادی پر رضا مند ہو گئے۔ کچھ عرصہ بعد جب حمیدہ بانو کا پاؤں بھاری تھا تو ہمایوں کو اپنی زندگی بھاری لگتی تھی وہ حمیدہ بانو کو ساتھ لے کر امر کوٹ پہنچا۔ امر کوٹ کے راجہ نے ہمایوں کے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا اور اسے اور اس کے اہل خانہ کو بہت سے تحائف دئیے۔ حمیدہ بانو کو امر کوٹ چھوڑ کر ہمایوں ایک اور مہم پر روانہ ہوا۔ امر کوٹ میں تئیس نومبر 1543ء کو اس اس کا بیٹا جلال الدین اکبر پیدا ہوا۔ ہمایوں سال 1543ء کے اواخر میں قندھار پہنچا تاکہ شیر شاہ کی بغاوت پر قابو پایا جا سکے مگر کوئی امید بر نہ آئی اور نہ ہی کسی طرف سے امداد ملنے کی کوئی صورت نظر آئی۔ اس زمانے میں ایران شاہ طہماسپ (B: 1514,D: 1576) کے زیر نگیں تھا اِ یران کے شاہ طہماسپ (Tahmasp I: 1524-1576) نے اس پریشاں حالی و درماندگی میں ہمایوں کی فوجی اور مالی مدد کی۔ اس تعاون سے ہمایوں نے قندھار (1545)، کابل (1547) اور دہلی (1555) میں فتح کر لیا۔

سنت مرلی منوہر برہمچاری نے اپنی خود نوشت ’سنتری کی جنتری‘ میں اس بارے میں لکھا ہے:

’’میرا پردادا نظام سقہ کوڑی کوڑی کا محتاج تھا مگر اس نے مغل شہنشاہ ہمایوں کی فتح پر گھر گھر گڑ کی بنی ہوئی ٹانگری، ٹکڑے، پنجیری، پتاشے، الائچی دانہ اور گلگلے تقسیم کیے۔ نظام سقہ نے ایک گدھے پر سوار ہو کر بستی کا چکر لگایا اور پھر ایک کھنڈر کے سامنے کھڑے ہو کر یہ اعلان کیا:

’’مغل بادشاہ ہمایوں جب چوسہ کی لڑائی میں شیر شاہ سوری سے شکست کھا کر بھاگا تو اس نے اپنی جان بچانے کے لیے دریائے گنگا میں چھلا نگ لگا دی تھی۔ ہمایوں دریائے گنگا کے گرادب میں پھنس گیا اس وقت اس اجل گرفتہ بادشاہ کو دریائے گنگا میں ڈوبنے سے میں نے بچایا تھا۔ میرے ساتھ ہمایوں نے وعدہ کیا تھا کہ جب وہ دوبارہ حکومت سنبھالے گا تو وہ میری ہر خواہش پوری کرے گا۔ میں اسی دن کا منتظر تھاجو کہ اب آ چکا ہے۔ میں دہلی جا رہا ہوں اور اب میں دیکھتا ہوں کہ ہمایوں اپنا وعدہ کیسے نبھاتا ہے؟‘‘

یہ کہہ کر نظام سقے نے گدھے کو ایڑ لگائی اور دہلی کی طرف روانہ ہو گیا۔ دہلی میں قصر شاہی کے سامنے پہنچ کر اس نے ہمایوں کے پاس اپنا پیغام بھجوایا تو دربان نے نظام سقہ کو اندر بلا لیا۔

نظام کو دیکھتے ہی ہمایوں خوشی سے پھولا نہ سمایا اور بولا:

’’یہ تو بہت اچھا ہوا کہ تم خود ہی یہاں چلے آئے ورنہ شاہی سراغ رسانوں کو تم جیسے گم نشان خاک نشین کی تلاش میں ٹھوکریں کھانی پڑتیں اور در در کی خاک چھاننی پڑتی۔ تمھیں کسی دیوار کے سائے تلے پڑا دیکھ کر وہ حیرت زدہ رہ جاتے کہ یہ ماشکی کس قدر آرام طلب ہے۔ یاد رکھو آنکھوں میں تیز دھوپ کے نیزے بھی گڑے ہوں تو بھی انتظار کرنے والے کھڑے رہتے ہیں۔ پاؤں اگرتھک بھی جائیں تو سر کے بل چلنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ مگر تم ہو کہ لمبی تان کر سو گئے اور نہ جانے کس جہاں میں کھو گئے۔‘‘

’’اے بادشاہ! مجھے پہچانا؟ کیا تمھیں اپنا وعدہ یاد ہے؟‘‘ نظام سقہ نے ہمایوں سے مخاطب ہو کرکہا ’’اگر اجازت ہو تو میں اپنی خواہش کا اظہار کر دوں؟‘‘

’’کینہ پرور، حاسد، محسن کش اور احسان فراموش شیر شاہ سوری سے ہزیمت اُٹھانے کے بعد جب میں نے دریائے گنگا میں چھلانگ لگائی تو تم نے مجھے پر بہت بڑا احسان کیا۔ تم اپنے زمانے کے خطرناک جواری ہو۔ اگرچہ تم میرے محسن ہو مگر تم نے اپنی زندگی کو داؤ پر لگا کر اپنی زندگی کی خطرناک ترین بازی کھیلی اور مجھے دریائے گنگا کی طوفانی لہروں میں ڈوبنے سے بچایا۔‘‘ ہمایوں نے ممنونیت کے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’’آج تمھاری ہر خواہش پوری کی جائے گی اور تمھیں مالا مال کر دیا جائے گا۔ ہند و سندھ کے سارے خزانوں کے دروازے تم پر کھول دئیے جائیں گے۔‘‘

’’کافی عرصے سے میرے دِل میں ایک ہی تمنا ہے۔ اگر جان کی امان پاؤں تو عرض کروں۔‘‘ نظام سقہ نے گڑگڑاتے ہوئے اور گُڑ کھاتے ہوئے کہا ’’ڈرتا ہوں کہیں مجھے جلال شاہی کا نشانہ نہ بنا دیا جائے۔ اپنی خواہش بتادوں؟ ‘‘

’’ہاں ہاں بلا خوف و خطر اپنی خواہش بتا دو، مردوں کے عہد و پیمان میں جان ہوتی ہے۔‘‘ ہمایوں نے مسکراتے ہوئے کہا

نظام سقہ نے اپنی خالی کھوپڑی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ’’سچ سچ کہو میری خواہش سن کر تم برا تو نہ مانو گے۔ بتا دوں اپنی خواہش؟‘‘

ہمایوں نے دل پر ہاتھ رکھ کر کہا ’’اب جلدی سے اپنی خواہش بتا بھی دو۔ اس طرح آزمانا، تر سانا اور ستانا تم نے کہاں سے سیکھا ہے؟ اتنی دیر میں تو مردہ بھی کفن پھاڑ کر پکار اُٹھتا ہے۔‘‘

نظام سقہ ڈرتے ڈرتے کہنے لگا ’’مجھے ایک دن کے لیے پورے ہندوستان کا بادشاہ بنا دیا جائے۔‘‘

’’تمھاری ہر خواہش مجھے مقدم ہے۔‘‘ ہمایوں نے نظام سقہ کی انوکھی فرمائش سن کر کہا ’’کل صبح سے تمھاری بادشاہت کا آغاز ہو گا اور سورج غروب ہونے کے ساتھ ہی تمھارا یہ ایک روزہ عارضی اقتدار بھی رخصت ہو جائے گا۔ کل صبح ہند، سندھ، برما، کابل اور قندھار میں تمھارا ہی حکم چلے گا، ہر طرف تمھارا ڈنکا بجے گا اور تم صرف ایک دن کے لیے ہندوستان کے مطلق العنان بادشاہ بن جاؤ گے۔‘‘

جب باتیں ختم ہوئیں اس وقت دونوں وقت مِل رہے تھے۔ نظام سقہ نے تخت شاہی پر بیٹھنے کی تمنا میں ساری رات آنکھوں میں کاٹی۔ وہ سوچتا رہا کہ صبح ہوتے ہی تخت یا تختہ ہو کر رہے گا اگر ہمایوں نے وعدہ خلافی کی تو وہ مشق ستم سہنے والے سب ساقی اور ماشکی ساتھ لے کر نکلے گا وہ اپنی اپنی مشک پانی سے بھر لیں گے اور پیمان شکن حاکم کا دھڑن تختہ کر دیا جائے گا۔ قصر شاہی میں ہر طرف پانی ہی پانی دیکھ کر ہمایوں پانی پانی ہو جائے گا اور شاہی جلاد کا پتا بھی پانی ہو جائے گا۔ صبح ہوئی تو نظام سقہ نے ہنہناتے ہوئے تخت شاہی پر سبز قدم رکھے اور چام کے دام چلانے کا یوں اعلان کیا:

’’تاریخ کا نیا موڑ سامنے ہے آج چغتائی دور نہیں رہا بل کہ سقہ شاہی کا دور آ گیا ہے۔ جبر اور حبس کا دور ختم ہو چکا ہے اب یہاں ہر کسی کو آزادی ہو گی اور اپنی اپنی ڈفلی اور اپنا اپنا راگ سب کا بھاگ بن جائے گا۔ اب سارے ملک کے سقے اور ماشکی اپنی مشکیں کاٹ کر چام کے دام چلائیں گے۔ جنگل میں مور ناچیں گے اور ان موروں کا رقص ساری دنیا دیکھے گی۔ اونٹوں کی ہر کل سیدھی کر دی جائے گی اور ہاتھیوں کو یہ حکم دیا جائے گا کہ وہ اپنے چبانے کے دانت اور دکھانے کے دانت اکٹھے سامنے لائیں۔ گندی مچھلیاں، کالی بھیڑیں، سفید کوے، نو سو چوہے ڈکارنے والی بھیگی بلیاں اور بگلا بھگت اپنی اوقات میں رہیں۔ جو حکم عدولی کرے گا اس کی مُشکیں کس کر پا بہ جولاں عقوبت خانوں میں پھینکوا دیا جائے گا۔ جس شخص کے دماغ کے پیچ کچھ ڈھیلے ہوں گے وہ بھی خوب کس دئیے جائیں گے۔‘‘

نظام سقہ کی بیوی تفسو بھی خوب بن سنور کر آئی، اس نے ملکہ کا لباس پہنا اور اپنے شوہر کے کندھے سے کندھا ملا کر دربار میں تخت شاہی کے قریب براجمان تھی۔ نظام سقہ کی بیوی تفسو نے کہا:

’’اب تک ہم ماشکیوں کو چھلنی میں ڈال کر چھاج میں اُڑا دیا جاتا تھا۔ اتنی زندگی بیت گئی اور اب تک ہم صرف داغ دیکھتے رہے اور داغ ہی کھاتے رہے کبھی فراغ کی شکل نہ دیکھی۔ اب ہمارے دِن بدل گئے ہیں آج سے مجھے ملکۂ عالم اور حسینۂ عالم کہا جائے اور میرے شوہر کو ظل تباہی کہا جائے۔‘‘

لٹھ بردار چوب دار نے سر جھکا کر دل ہی دل میں کہا اب تو عجب حال ہے کہ چیونٹی کے بھی پر نکل آئے ہیں۔ اس کے بعد وہ عاجزی و انکسار سے بولا:

’’آج کے دِن تو شہنشاہ ہند اور ملکہ عالیہ کے ہر حکم کی تعمیل ہو گی۔‘‘

نظام سقہ نے اپنی خالی اور گنجی کھوپڑی پر تاج سجایا اور گرج کر کہا:

’’اب ہم دریائے گنگا کے کنارے ایک دیہی علاقے کی بوسیدہ جھونپڑی اور ٹوٹی ہوئی چارپائی پر جا کر نہیں لیٹیں گے۔ اب ہم پتھر کے زمانے کے ماحول میں زندگی بسر نہیں کر سکتے۔ دہلی کے قصر شاہی کے ایک پر سکون گوشے میں ہمارے مستقل قیام کے فوری انتظامات کیے جائیں۔‘‘

نظام سقہ کی بیوی نے کہا:

’’میں شاہی خاندان کی عورتوں سے کم نہیں مجھے بھی ان جیسا لباس درکار ہے۔‘‘

نظام سقہ کے فاتر العقل اور مخبوط الحواس بیٹا شمسو بھی چھیلا بنا ہوا تھا اس نے للچائی ہوئی نگاہ سے تخت شاہی کی طرف دیکھا اور اپنے باپ سے مخاطب ہو کر کہا:

’’مجھے بھی کوئی ہزاری منصب دیا جائے اور کسی صوبے کی حکومت مجھے دی جائے۔‘‘

’’بے ادب، بے ملاحظہ، بے اعتبار ظل تباہی نظام سقہ ابھی کچھ ہیجانی فرمان جاری کرنے والے ہیں۔‘‘ جلاد نے اعلان کیا۔

اپنے پاؤں میں کھڑاؤں پہنے نظام سقہ اپنی ناک میں انگلی اور کان میں تنکا ڈال کر کھجاتے ہوئے زمین کا بوجھ بنا کھڑا تھا۔ سامنے کھڑے روتے اور بسورتے ہوئے حاضرین سے اس نے کھانستے ہوئے مخاطب ہو کر کہا:

’’میں نظام سقہ ہوں مجھے قصر شاہی میں دیکھ کر ہر شخص ہکا بکا رہ گیا ہے۔ اے مگر مچھ کے آنسو بہانے والو اور بندِ قبا سے بے نیاز ہو کر رقص مے اور ساز کی لے میں مست رہنے والو اب ہوش کے ناخن لو۔ دشمنوں سے تو میں جو جو کا حساب لوں گا مگر ملک بھر کے ماشکی اب سو سو کی عنایات کے حق دار ٹھہریں گے۔ سقہ شاہی میں کوئی بھی سقہ با روزگار نہیں ہو سکتا وہ بے روزگار رہ کر بھی مفت کی روٹیاں توڑے گا۔ اب ملک بھر میں جوتیوں میں دال بٹے گی اور سب سقے بے پر کی اُڑائیں گے، ہوا میں گرہ لگائیں گے، گل چھرے اُڑائیں گے اور خیالی پلاؤ پکائیں گے۔ میرے ہم پیشہ و ہم مشرب و ہم راز ماشکی یہ بات پلے باندھ لیں کہ اب سقہ شاہی ہے۔ سب سقے خچر بیچ کر اور مُردوں کے ساتھ شرط باندھ کر لمبی تان کر سو جائیں۔ ابھی اپنی اپنی مشکیں کاٹو اور اپنی زندگی کے دِن آرام سے کاٹو۔ جب مشکیں ختم ہو جائیں تو نو دولیتیوں کی جیبیں کاٹو جب لوگوں کی جیبوں میں پھوٹی کوڑی بھی باقی نہ رہے تو فراعنہ کی گردنیں کاٹو۔‘‘

بے لگام نظام سقہ کا یہ مجنونانہ اعلان سنتے ہی اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے بچوں کی پرورش کرنے والے سب فاقہ کش ماشکی اپنی مشکیں کاٹنے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے چام کے دام چل گئے اور دنیا دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی۔ دام بنائے کام کے بجائے اب تو چام بنائے کام ہی سکۂ رائج الوقت تھا۔ شہر کا جو ماشکی نظام سقہ کا ہیجانی فرمان سننے کے باوجود اپنی مشک کاٹنے میں تامل کرتا لٹھ بردار چوب دار اُسے کاٹنے کو دوڑتے۔ پل بھر میں عجب ماجرا ہو گیا لوگ کہتے سنے گئے کہ دمڑی جاتی ہے تو جائے مگر چمڑی نہ جائے۔ معاشرے کی منافقت کا یہ حال تھا کہ سہ پہر تک جو لوگ ہمایوں کی اطاعت کر رہے تھے سورج غروب ہوتے ہی نظام سقہ اُس کی حریص بیوی تف سو کٹنی اور اس کے جاہل بیٹے شمسو سقہ کے گن گانے لگے۔

نظام سقہ نے اپنے ایک روزہ اقتدار کے لیے جس مجلس مشاورت کا انتخاب کیا ان کے نام اور کام مندرجہ ذیل ہیں:

ہیہات دھونسوی: شعبہ انسداد عدل، شُوم صحرائی: شعبہ خزانہ، بُوم بیابانی: شعبہ آبادکاری، ڈُوم ریگستانی: شعبہ فنون و رقص، تلچھٹ ویرانی: حسن و جمال کی ارزانی، تلپٹ خفقانی: شعبہ نظم و نسق، جھنجھٹ جھنجھانوی: شعبہ زراعت اور مس بی جمالو کو قحبہ خانوں کا نگران بنایا گیا۔

دو فریادی لڑتے اور جھگڑتے ہوئے دربار سقہ میں پہنچے۔ ایک لاغر و ناتواں فریادی نے بھینس کی رسی اپنے ہاتھوں میں پکڑ رکھی تھی جب کہ دوسرے فربہ شخص نے ایک مضبوط لاٹھی اپنے ہاتھوں میں تھام رکھی تھی۔ باہم دست و گریباں یہ دونوں اشخاص ایک ہی بھینس کا مالک ہونے کا دعویٰ کر رہے تھے۔

اچانک چوب دار نے چِلّا کر کہا: ’’ردِ ادب! بے ادب، بے ملاحظہ، بے وقار۔‘‘

نظام سقہ نے فریادیوں کی حالت دیکھ کر شعبۂ انسداد عدل کے نگران ہیہات دھونسوی کو للکارتے ہوئے کہا:

’’اب بے وقت کی راگنی بند کی جائے اس سے پہلے کہ یہ فریادی کاغذی پیرہن پہن لیں ان کی التجا پر توجہ دی جائے۔ اس عہد نا پرساں میں چور کی مونچھوں میں تنکا ہونا ضروری ہے، چور جب چاہے چوری کرے گا اور ساتھ ہی اسے ہیرا پھیری کی بھی کھلی چھٹی ہو گی۔ بھاگتے چور کی لنگوٹی پر نظر رکھنے والوں کو میں خبر دار کرتا ہوں کہ میرے دور میں بھاگتے چور کو لنگوٹی سے ہر گز محروم نہیں کیا جائے گا بل کہ اُسے لُنڈے بازار سے خریدا گیا ایسا لباس فراہم کیا جائے گا جوکسی مرے ہوئے گورے کی یادگار ہو گا۔ چوروں کو بھی آداب معاشرت کو ملحوظ رکھنا چاہیے اور متمول طبقے کے گھر کی دیوار میں نقب لگاتے وقت لنگوٹی پہن کر نہ جائیں بل کہ موزوں ترین جامہ کا انتخاب کریں خواہ وہ واسکو ڈے گاما ہی کا ہو۔ اے فریاد کرنے والو! اپنے شکوے ہماری میزان جبر میں نہ تولو بل کہ اپنے بند منھ کو کھولو اور کچھ بولو۔ ہیہات دھونسوی تم نہ جانے کس جہاں میں کھو چکے ہو؟ ساری دنیا ہی ہکا بکا ہے یہی تو دور سقہ ہے۔‘‘

ہیہات دھونسوی نے سر جھکا کر روتے ہوئے کہا: ’’عجیب معاملہ ہے کہ آج فریاد کرنے والے دو ہیں جب کہ بھینس صرف ایک ہے۔ ایک بھینس کے دو مالک بن گئے ہیں اور ہر شخص کا یہی دعویٰ ہے کہ یہ بھینس اُسی کی ملکیت ہے۔‘‘

’’اونہہ! چھوٹا منھ اور بڑی بات تمھیں فہم و فراست کی باتیں سمجھانا تو بھینس کے سامنے بین بجانے والی بات ہے۔ اس میں تعجب کی کون سی بات ہے جس معاشرے میں صرف ایک انار کے سو بیمار بن کر اسی ایک عدد انار کے طلب گار بن جائیں وہاں ایک فربہ بھینس کے دو طلب گار کیوں نہیں ہو سکتے؟ نظام سقہ کے دور میں کسی چور کو شور مچانے کی بالکل ضرورت نہیں پڑے گی۔ چور، اُچکے، رہزن، قزاق اور جیب تراش سب کے سب ہمارے قبیلے کے ہنرمند افراد ہیں۔ میں چور کی محنت کسی صورت میں رائیگاں نہیں جانے دوں گا۔ چور معاشرے کی نظروں سے اوجھل نہیں رہ سکتا اس لیے اب وہ نہایت اعتماد اور راز داری سے گلی محلے والوں کو اپنی ہر رات کی جانے والی واردات سے بر وقت آگاہ کر دے گا اور کہے گا:

آج کی رات نہ رونا لوگو

آج ہم ساتواں گھر لُوٹیں گے

اس کا ٹھوس کے بجائے مائع اور گیس نتیجہ یہ نکلے گا کہ ڈکیتی سے متعلق سب معاملات احسن طریقے سے پایۂ تکمیل کو پہنچ جائیں گی اور چوری کی لذیذ اشیا کی فراوانی ہو جائے گی۔ جب چور اور مالک راضی تو پھر کیسی شطرنج کی بازی۔ یاد رکھو میرے دور میں چوری کا مال موری میں ہر گز نہیں جائے گا بل کہ ہم سقوں کی تجوری میں جمع ہو گا۔ سمجھ گئے میری بات اب فریادی حاضر ہوں۔‘‘

ایک فریادی جس نے بھینس کی رسی تھام رکھی تھی وہ بھینس کو لے کر آگے بڑھا تو بھینس کے گوبر کے ڈھیر ہر طرف بکھر گئے۔ اسی اثنا میں جب بھینس نے دم ہلائی تو ہر طرف بھینس کے پیشاب اور گوبر مِلے چھینٹے اُڑنے لگے۔ دو اشخاص کے اس تنازع کی بگڑی ہوئی حالت دیکھ کر بھرے دربار میں ہلچل پیدا ہو گئی۔ رُلدو جاروب کش اور رمی تسمہ کش جھاڑو لیے صفائی کے لیے آگے بڑھے تو نظام سقہ کی بیوی تف سو آگ بگولا ہو گئی اور آگے بڑھ کر اپنے دونوں ہاتھوں سے بھینس کا گوبر سنبھالتے ہوئے بولی:

’’ٹھہرو! اس و قت یہ صفائی ہر گز نہیں ہو سکتی۔ میں بھینس کے اس گوبر سے اُپلے خود بناؤں گی اور ان کی تھاپیاں قصر شاہی کی دیواروں پر لگاؤں گی۔ خشک ہو جانے پر ان اُپلوں کو سجانے کے لیے شاہی محل کے سامنے کچی مٹی اور بھینس کا پیشاب ملا کر سروڑ بناؤں گی۔ اس کے بعد اس کی لپائی کروں گی تا کہ اُپلے بارش میں بھیگنے سے محفوظ رہیں۔ اپنے شاہی محل میں مٹی کے چو لھے میں اُپلوں کی دھیمی آگ پر مٹی کی روغنی ٹھیکری رکھ کر مولی کے پراٹھے پکا کر میں نظام سقہ کو کھلاؤں گی اور شیشوں والی پنکھی سے اپنے شوہر کو ہوا دوں گی۔ شدید سردی کے موسم میں برساتوں میں ان اُپلوں کی آگ سے اپنے کمرے کو گرم رکھوں گی اور شوہر کی سرد مہری کا مداوا کروں گی۔‘‘

دربار میں موجود کچھ نازک مزاج لوگ ناک بھوں چڑھانے لگے تو نظام سقہ نے سخت ناگواری کا اظہار کیا۔ اس موقع پر نظام سقہ نے ناک لپیٹنے اور پالتو جانوروں سے نفرت کا اظہار کرنے والوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا:

’’بھینسوں کے باڑے میں ہم پل کر جواں ہوئے ہیں

کوڑے کے ڈھیر و گوبر ہے سقہ نشاں ہمارا

اے بھینسوں کی خاطر مرنے مارنے پر تُل جانے والو! اب اس آفت نا گہانی کا احوال بتاؤ جس نے تمھیں اس حال اور جنجال تک پہنچایا۔‘‘

جس شخص نے بھینس کی رسی تھام رکھی تھی وہ بولا:

’’جہاں فنا! میرا نام تلا خطائی ہے یہ بھینس میری ملکیت ہے جب کہ اپنے علاقے کا یہ رسہ گیر ٹُلا بٹ مار طاقت کے بل بوتے پر مجھ سے یہ بھینس چھین کر مجھے اور میرے بچوں کے لیے دودھ دینے والی اس واحد بھینس سے محروم کر کے اپنے باڑے میں اپنی سو بھینسیں پوری کرنا چاہتا ہے۔ یہ رسہ گیر اس قدر ظالم و سفاک اور موذی و مکار ہے کہ یہ میرے کم سِن بچوں کے منھ سے نوالہ بھی چھین لینا چاہتا ہے۔‘‘

اس کے بعد وہ شخص اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتا ہوا آگے بڑھا جس نے اپنے ہاتھ میں ایک مضبوط لاٹھی تھام رکھی تھی۔ اکڑ کر سینہ تان کر وہ یوں ہرزہ سرا ہوا:

’’ظل تباہی! میرا نام ٹُلا بٹ مار ہے میرے سامنے کوہ و دمن اور دشت و صحرا کا ہر شخص زبون و خوار ہے۔ میری لاٹھی ہی میری پہچان ہے یہ شخص اس حقیقت سے ان جان ہے کہ میرے بازوؤں میں کس قدر جان ہے۔ یہ سچ ہے کہ میں اپنے باڑے میں سو بھینسیں پوری کرنا چاہتا ہوں جب کہ اس مفلس و قلاش شخص کے پاس محض یہی ایک بھینس ہے۔ میں نے اسے بہت سمجھایا کہ وہ چپکے سے اپنی یہ بھینس تحفے کے طور پر میرے حوالے کر دے اور ہر قسم کے فکر سے آزاد ہو کر یک سوئی سے اپنے اہلِ خانہ کی دیکھ بھال کرے۔‘‘

فریادی جب اپنی روداد سنا چکے تو نظام سقہ اپنی گنجی کھوپڑی پر صرف ایک روز کے لیے دیا گیا تاج رکھے اور کندھے پر مشکیزہ لٹکائے آگے بڑھا اور ہنہناتا ہوا بولا:

’’ٹُلا بٹ مار! تم غلط کہہ رہے ہو، اپنے بچوں کی دیکھ بھال کرنے کے لیے تلا خطائی وہ ایک سوئی کہاں سے لائے گا؟ فریادیوں کی روداد اور درباریوں کی بیداد سننے کے بعد ما بہ ذلت اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس بھینس کا مالک ٹُلا بٹ مار ہی ہے۔ آج اتوار ہے اور نظام سقہ کے دور میں جنگل کے قانون کے تحت اس گھنے جنگل میں منگل کے بجائے اتوار کو ہر فریادی خوار ہو گا۔ اس جھگڑے کو حل کرنے کے لیے جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کا ضابطہ لاگو ہو گا اور ٹُلا بٹ مار اپنی مضبوط لاٹھی سے اس بھینس کو ہانک کر اپنے باڑے میں لے جائے گا۔ ما بہ دہشت نے میزان عدل کو ٹُلا بٹ مار کی جانب اس لیے جھکایا کہ وہ اپنی ضرورت کے مطابق فوراً اپنے باڑے میں اپنی بھینسوں کا میزان سو تک اونچا کر سکے۔ جہاں تک نِیچ اور ہیچ تُلّا خطائی کا تعلق ہے یہ مصلحت نا آشنا سا بندہ ہے اور اِس کی ہر بات جھوٹ کا پلندہ ہے۔ یہ شخص نہیں سمجھتا کہ یہاں کیا گورکھ دھندا ہے اسی لیے ڈیری فارم کے کام میں بہت مندا ہے۔‘‘

تلا خطائی بڑبڑاتا ہوا وہاں سے نکلا اور دل ہی دل میں کہنے لگا اس فیصلے سے میرا تو پلیتھن اور جیوڑا ہی نکل گیا ہے اور ٹُلّا بٹ مار مکے لہراتا ہوا چلا جا رہا ہے۔ یہ فیصلہ سن کر تُلا خطائی سمجھ گیا کہ جرم ضعیفی کی سزا ہمیشہ مرگِ مفاجات کی صورت میں ملتی ہے۔ نظام سقہ کے دربار سے تلا خطائی کمر پر ہاتھ رکھ کر یوں اُٹھا جیسے کوئی جہاں سے اُٹھتا ہے۔

ہیہات دھونسوی نے نظام سقہ کو بتایا کہ نخاس بازار لکھنو کی پرندہ مارکیٹ میں مہنگے داموں پرندے بیچنے کی شکایت موصول ہوئی ہے۔ ایک چغد شناس تاجر نے شکایت کی کہ وہاں تشفی نامی ایک سفاک بُوم صیاد گھنے جنگلوں، کھنڈرات اور ویران مقامات پر جال لگا کر بڑی تعداد میں اُلّو پکڑ کر اپنی دکان میں لاتا ہے۔ تشفی صیاد اس قدر شوم ہے کہ سلطنت میں ہر طرف اس کی نحوست، منافقت، حسد، کینہ پروری، ذلت اور تخریب کی دھُوم ہے۔ سفہا اور اجلاف و ارذال کا پروردہ مشکوک نسب کا یہ متفنی ٹھگ منھ مانگے داموں اُلُّو فروخت کر کے سادہ لوح لوگوں کو اُلّو بناتا ہے اور اپنا اُلّو سیدھا کر کے اپنی راہ لیتا ہے۔ ہیہات دھونسوی نے نظام سقہ سے التجا کی کہ فریادی اور صیاد کو طلب کیا جائے۔

نظام سقہ کی اجازت ملتے ہی ایک بوڑھا صیاد تشفی دو پنجرے لیے دربار میں پہنچا۔ بڑے پنجرے میں تو گدھ کی جسامت کا چغد تھا جب کے دوسرے پنجرے میں چڑیا جتنا ایک چھوٹا سا اُلّو سہما بیٹھا تھا۔ کالا باغ سے تعلق رکھنے والا چغد شناس تاجر جھابو جھنکار دس دس آنسو رونے لگا اور بولا:

’’ظل ناگہانی! میری کہانی طولانی ہے جس میں بہت روانی اور ہمہ دانی ہے۔ اگرچہ ہوائے جور و ستم نے میری زندگی کو ورق ورق کر دیا ہے مگر میری زندگی کا ایک ہی اصول رہا ہے کہ لاکھ جائے مگر صیاد کی ساکھ نہ جائے۔ میں کالا باغ کے لوگوں کو سبز باغ دکھا کر انھیں اُلّو کے کرشموں سے آگاہ کر کے زرو مال بٹورتا ہوں۔ اُلّو کے چھوٹے بچوں کو دیکھ کر ان کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے اور وہ بڑے شوق سے اُلّو پالتے ہیں۔ میرے گاؤں میں رہنے والے اُلّو شناس لوگ چھوٹے اُلّو کو بہت پسند کرتے ہیں۔ تشفی صیاد بڑے اُلّو تو سستے بیچتا ہے مگر چھوٹے اُلّو بہت مہنگے فروخت کرتا ہے۔‘‘

نظام سقہ نے یہ بات سنی تو اس نے تشفی صیاد سے پوچھا:

’’ارے او چڑی مار تشفی! تو نے لکھنو کے نخاس بازار میں من مانی کیوں شروع کر رکھی ہے؟ اب سوچ سمجھ کر مجھے ان اسیر قفس طیور آوارہ و ناکارہ کے نرخ بتانا۔‘‘

پرندوں کے ظالم صیاد تشفی نے کہا: ’’جہاں تباہ! اس جہاں گرد نے دنیا دیکھی ہے اور پرندوں کی دنیا کا سب احوال میرے سامنے ہے۔ میں نے کھنڈرات کے خرابات میں اُڑتی خاک چھانی ہے تب بُوم و شپر اور زاغ و زغن سے سنگت کی ٹھانی ہے۔ عبرت سرائے دہر کا حال بھی عجیب ہے جہاں سرابوں کے عذابوں نے جینا دشوار کر رکھا ہے۔

دھُول ہے کھنڈرات میں یا گدھ قطار اندر قطار

منتشر بُوم و شِپر، زاغ و زغن کے پیرہن

ہمارے خاندان کی مہمان نوازی مشہور ہے کہ ہم نسل در نسل اس علاقے کے لوگوں کو خشک دھَنیا کے ایک کھوپے میں پانی پلاتے چلے آ رہے ہیں۔ اگرچہ اس ایک روزہ عہد حکومت میں میری جان کو بہ ظاہر کوئی خطرہ نہیں اس کے باوجود اگر مکر کی کسی تدبیر سے مجھے زنجیر کرنا ہے تو بے شک کر لو۔ یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لو کہ ان طائران بد نوا کی قدر و قیمت پر میں سودے بازی نہیں کر سکتا۔ بڑے اُلّو کی قیمت صرف پانچ روپے جب کہ چھوٹے اُلّو کی قیمت پچاس روپے ہے۔‘‘

’’اے جلاد منش صیاد! آدمیت پکڑو، تم کسی اُجڑے ہوئے صحرا کے آدم خور ہو یا کسی گھنے جنگل کے خونخوار درندے؟ اُلّو تو ہر حال میں اُلّو ہی ہوتا ہے اس میں چھوٹے اور بڑے کا امتیاز کیا معنی رکھتا ہے؟ چھوٹے اُلّو اور بڑے اُلّو کی قیمت میں اس قدر فرق کی وجہ بیان کی جائے۔‘‘ ہیہات دھونسوی نے غیظ و غضب کی اداکاری کرتے ہوئے کہا ’’عجیب صیاد ہو کہ تین کلو وزن کا مہا اُلّو تو صرف پانچ روپے میں بیچ رہے ہو جب کہ وہ لاغر اُلّو جو صرف پاؤبھر کا ہے اس کی قیمت پچاس روپے بتا رہے ہو۔ اگر تم شہنشاہ ہند نظام سقہ کو مطمئن نہ کر سکے تو تمھارے سارے خاندان کو عبرت کی مثال بنا دیا جائے گا اور تمھیں کولھو میں پلوا کر تمھارا بھرکس نکال دیا جائے گا۔‘‘

’’آہ! آج میرا دل حزیں صحرا صحرا بھٹکتا ہے کاش پُر خار دشت خوار میں قدم رکھنے سے پہلے کسی نے مجھے سمجھایا ہوتا۔ میرا نام بھی تشفی صیاد ہے مکروال کے سب اہل دِل جانتے ہیں کہ اُلّو کو زیر دام لانے، اُلّو بنانے اور اُلّو بیچنے میں مجھے کس قدر مہارت حاصل ہے۔ اُلّو شناسی، اُلّو فروشی اور ضمیر فروشی ہمارا سو پشت سے پیشہ ہے۔ یہ وزنی اُلّو جس کی قیمت صرف پانچ روپے ہے وہ چراغ سحری ہے۔ یہ بوڑھا اُلّو اگر آج مرا تو اگلے روز یہ اجنبی اور بے نشاں بن کر رزق خاک ہو جائے گا۔ یہ پانچ روپے بھی اپنی باری بھر کر مرتے ہوئے بوڑھے اُلّو کے پر ہی سہی، اب رہ گیا چھوٹے اُلّو کی قیمت کا معاملہ تو یہ بات سب کو جان لینی چاہیے کہ چھوٹے پنجرے میں منقار زیر پر بیٹھا چھوٹا سا سہما ہوا طائر اُلّو کا پٹھا ہے۔ اس اُلّو کے پٹھے کے سامنے سیکڑوں آشیاں اور بھی ہیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بہت بڑا چغد اور مہا اُلّو بنے گا اور اہلِ عالم کی حماقتوں پر سر دھُنے گا۔ باطن ایام پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ جو سیکڑوں دور فلک آنے والے ہیں اُن میں سادیت پسندی کے مریض اس قماش کے اُلّو کے پٹھے ہی رواقیت کے داعی بن کر سالہاسال تک زندگی کی رُتوں کو بے ثمر کرتے رہیں گے۔ اُلّو کے پٹھوں کی خست و خجالت کے عرصہ کی طوالت کی کہانی ہی باعث گرانی ہے۔‘‘

’’بہت خوب! تشفی صیاد تم پر جو اُفتاد پڑی ہے ما بہ ذلت اس کی داد دیتے ہیں۔ یہ جان کر خوشی ہوئی کہ تمھارے آباء و اجداد بھی اسی پیشے سے وابستہ تھے۔ قفس میں مجھ سے رودادِ چمن کہہ کر تم نے اپنی ژولیدہ بیانی کی دھاک بٹھا دی ہے۔ تمھاری ہر بات پتھر کی لکیر ہے جب تک اس معاشرے میں اُلّو کے پٹھے من مانی کرتے رہیں گے مہا اُلّو سانس گن گن کر زندگی کے دن پورے کرنے پر مجبور رہیں گے۔ اے جہاں دیدہ شقی القلب صیاد! تم نے ضمیر فروشی اور طیور فروشی کے کاروبار میں جو طرز فغاں اپنائی ہے وہی مستقبل میں طرز ادا ٹھہرے گی۔ مجھے خبر ہے کہ میں چراغ آخر شب ہوں اور میرے بعد میرا بیٹا شمسو ہی اُلّو کا پٹھا بنے گا۔ زاغ و زغن، شپر اور بُوم و چغد کی نحوست کی وجہ سے دنیا دائم برباد رہے گی۔ یہ نہ رہیں گے تو بوسیدہ کھنڈرات سے کوئی ان جیسا اور سادیت پسند چغد نکلے گا جو در کسریٰ کے زینوں پر چونچ رگڑ کر ان کا آموختہ دہرانے لگے گا۔‘‘

چیتھڑوں میں ملبوس ایک خستہ حال مداری ڈگڈگی بجاتا ہوا، سر کھجاتا اپنے بندروں کو نچاتا ہوا قصر شاہی کے دروازے پر پہنچا اور شرف باریابی کی التجا کی۔ بندر اور بندریا نے لُنڈے بازار سے خریدی گئی کسی امیر گھرانے کی لڑکی اور لڑکے کی دیدہ زیب ریشمی اُترن پہن رکھی تھی۔ دربان نے نظام سقہ کو اس فاقہ کش مداری کی آمد سے مطلع کیا تو نظام سقہ نے کہا:

’’یہ دربار ہے یا سرکس کا کھیل یہاں ڈُوم ڈھاری اور مداری کہاں سے آ گئے؟ کٹھ پتلیوں کایہ تماشا کب تک چلے گا؟ بندروں کا رقص دیکھ کر خوش ہونے والے کسی غلط فہمی کا شکار ہو کر بندروں کے فن کی داد نہ دیں بل کہ یہ تو مداری ہے جو مُورکھ بندروں کو رقص کے طریقے بتاتا ہے۔ معمولی مفاد کی خاطر بندروں کو خوشامد، چاپلوسی اور اہلِ ثروت کے قدموں میں سر رکھنے کے ڈھنگ سکھاتا ہے۔ ایسے مداری واقعی مبارک باد کے مستحق ہیں جو شریر، شوخ اور شاطر بندر کو چقندر کھلا کر اپنا تابع بناتے ہیں۔ چلو اس مداری کو بھی بلالو وہ بھی تماشا دکھا لے اور درباریوں کو تماشا بنا کر چلتا بنے۔‘‘

مداری کے ساتھ شاہی طویلے کا سائیس بھی کئی گھڑ سواروں اور ترکی و تازی گھوڑوں سمیت وہاں آ پہنچا۔ مداری، گھڑ سوار اور سائیس سب ایک دوسرے کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ نظام سقہ نے فریادیوں سے کہا:

’’ایک دوسرے کے خلاف الزامات کا طومار باندھنے کے بجائے سچ بولو اور اپنے سب مسائل سے مجھے آگاہ کرو۔ میں نے گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہے اگر تم یہاں جھوٹ بولو گے تو میں تم سب کو کالے پانی بھجوا دوں گا اور فریب کاری کرنے والوں کو موت کے گھاٹ اُتار دوں گا۔ یہ مداری تو مجھے کسی مفلس و قلاش دھوبی کا ایسا پالتو سگ لگتا ہے جو نہ تو گھر کا ہے اور نہ ہی گھاٹ کا۔‘‘

مداری بنسی لال نے بندر اور بندریا کو لاٹھی کا اشارہ کیا تو دونوں رقص کے لیے تیار ہو گئے۔ مداری نے بندر کو بانسری تھما دی بندر نے بانسری بجائی نے تو بندریا جھومنے لگی اور یہ گیت گایا:

سن ونجھلی دی مٹھڑی تان میں تے ہو ہو گئی قربان

بندریا کے اس گیت کو سُن کر نظام سقہ نے بھی ناچنا شروع کر دیا اس کے ساتھ ہی، اس کی بیوی تف سو، بیٹا شمسو اور مس بیہی بنو کے ساتھ درباری بھی دھمال میں اپنے کمال کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ سب لنگوروں اور بندروں کا رقص تھم گیا تو نظام سقہ پھر سے اپنے تخت پر جم گیا اور اس نے مداری سے مخاطب ہو کر کہا:

’’اے مداری تم تو گلی کوچوں اور بازاروں میں کرتب دکھاتے ہو آج تم کس لیے یہاں پہنچے ہو؟ تمھارے بندروں کو کیا معلوم کہ اَدرک کا مزا کیا ہوتا ہے؟ اور تمھیں بھی یہ اِدراک نہیں کہ نظام سقہ کا ذوق کیسا ہے؟ تم گلشنِ ہستی میں شبنم کے قطروں سے اپنی تشنگی کی تسکین چاہتے ہو یہی تمھاری حماقت کی دلیل ہے۔‘‘

مداری اپنے بندر اور بندریا کی رسی تھام کر آگے بڑھا اور سر پر پیٹتے ہوئے بولا:

’’ظلِ تباہی! شاہی فیل خانے اور طویلے میں موجود جانوروں کو ایک خطرناک جلدی بیماری لگ گئی ہے۔ فیل بان، گھڑ سوار اور سائیس میرے بندر اور بندریا کو اس جِلدی بیماری کے پھیلانے کا الزام دیتے

ہیں۔ سب لوگ میرے بندر اور بندریا کے خون کے پیاسے ہو گئے ہیں۔ مجھے اور میرے بندروں کی جان کو جو خطرہ لاحق ہے ہمیں اس سے نجات دلائی جائے۔‘‘

شاہی فیل خانے، باڑے اور طویلے کا نگران ناہنجار خراباتی غصے سے آگ بگولا تھا۔ اس نے نظام سقہ کو شاہی طویلے کے مسائل سے آگاہ کیا:

’’سلطنت کے ماہر سلوتریوں نے بتایا ہے کہ بنسی لال کے بندر ایک خطر ناک متعدی جلدی مرض میں مبتلا ہیں۔ اِن بندروں کی کھال اُدھڑ رہی ہے اور وائرس ہوا میں بکھر رہا ہے۔ شاہی فیل خانے، طویلے، باڑے اور طیور کے قفس میں بھی اس وائرس کے اثرات پہنچنے کا خطرہ ہے۔ کئی خچر، ٹٹو، گدھے اور استر ایسے ہیں جن کی جلد بھی مداری بنسی لال کے بندروں کی جلد کے مانند خشک ہو کر اُدھڑ رہی ہے۔ بندروں کے اس جلدی وائرس کی وجہ سے طویلے پر جو بلا آئی ہے وہ صرف اُسی صورت میں ٹل سکتی ہے کہ بنسی لال کو دیس نکالا دیا جائے اور اسے کالا پانی بھیج دیا جائے۔ بنسی لال کے بیمار بندروں کو کسی دُور دراز صحرا میں ہلاک کر کے اُن کے ڈھانچوں کو دہکتی آگ کے شعلوں میں پھینک دیا جائے۔‘‘

’’ظل تباہی! یہ میرے بے گناہ اور کم زور بندروں پر جھوٹا اور من گھڑت الزام ہے۔‘‘ مداری بنسی لال نے روتے ہوئے کہا ’’اصل معاملہ یہ ہے کہ طویلے کے جانوروں کو جلدی بیماری تو نا ہنجار خراباتی کی وجہ سے لگی ہے۔ سلوتریوں سے مشورہ کر لیا جائے نا ہنجار خراباتی کی جلد بھی اسی طرح خشک ہو کر اُدھڑ رہی ہے۔ میں ایک عاجز بھکاری ہوں، میں نے اور میرے کم زور بندروں نے تو آج تک شاہی طویلے میں کبھی قدم تک نہیں رکھا۔ ایک ماہ قبلنا ہنجار خراباتی نے میرے بندر اور بندریا کو اُٹھایا تھا اور پاس بٹھا کر پیار بھی کیا تھا۔ اس روز سے میرا بندر اور بندریا دونوں کو یہ جلدی مرض لاحق ہو گیا ہے۔ طویلے کی بلانا ہنجار خراباتی کے سر ہے۔‘‘

’’بنسی لال تمھاری عقل چرنے گئی ہوئی ہے جب تم حنظل کاشت کرو گے توحنظل کی بیلوں سے خربوزے کیسے توڑو گے؟ ، تم اپنی اوقات بھول گئے ہو اور ناحق شاہی طویلے کے سائیس پر الزام لگا رہے ہو۔ تمھاری سب باتیں مجذوب کی بڑ ہیں جن پر کوئی توجہ نہیں دے گا۔‘‘ نظام سقہ کے منھ سے جھاگ بہہ رہا تھا اُس نے غراتے ہوئے کہا ’’یہ تو ایک طے شدہ ضابطہ ہے کہ طویلے کی ہر بلا بندر ہی کے سر ہوتی ہے۔ بندروں اور ان کے مالک مداری کو کیفر کردار تک پہچانا ضروری ہے۔ ہمارا حکم ہے کہ بندروں کو دُور ویرانے میں ہلاک کر کے ان کے ڈھانچوں کو سپردِ آتش کیا جائے۔ بنسی لال کو فی الفور کالے پانی بھیج دیا جائے تاکہ وہاں کوئلوں کی دلالی کر کے اپنی روسیاہی کو یقینی بنائے۔‘‘

داروغہ نے آگے بڑھ کر بنسی لال کو گرفتار کر لیا اور اُسے زندان میں بند کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی بندروں کو جلاد کے حوالے کر دیا گیا تاکہ نظام سقہ کے احکامات پر عمل کیا جا سکے۔

جلاد نے نظام سقہ کو بتایا کہ مالوہ سے راجہ بھوج، گنگو تیلی اور رادھا باہر موجود ہیں اور دربار میں حاضر ہو کر اپنے اپنے غم کا فسانہ سنانے کی التجا کرتے ہیں۔

نظام سقہ نے ملاقات کے لیے آنے والوں کو طلب کیا تو ایک شخص وارد ہوا جو اپنے آپ کو راجا بھوج کہتا تھا۔ اس نے کہا:

’’میرا نام راجہ بھوج ہے اور ریاست پارمارا کے حاکم راجا وکرما دتیا کے شہر میں سال 980ء میں گھر پیدا ہوا۔ میں پندرہ سال کی عمر میں مالوہ کا حاکم بنا۔ اس زمانے میں جو علاقے میرے زیر نگیں تھے ان میں مالوا، کوکان، بھلسہ، ڈنگار پور، بنسوار، چیتوڑ اور گوادری وادی کے کچھ حصے شامل ہیں۔ میں نے تینتالیس سال (1010-1053) حکومت کی۔ میں نے کئی شہر بسائے اور بہت سے نئے مندر بھی بنوائے۔ مدھیہ پردیش میں واقع جھیلوں کا شہر بھوج پال میری یادگار ہے یہ شہر اب بھوپال کہلاتا ہے۔‘‘

’’اپنی کہانی جلد سناؤ اور یہ بھی بتاؤ کہ سیلِ زماں کے تھپیڑے انسان کی زندگی کو کس قسم کے بکھیڑے میں ڈال دیتے ہیں۔ بھوپال سے یاد آیا کہ اس شہر سے تعلق رکھنے والی ایک رقاصہ کے نام پر ایک فلم ’’ثریا بھوپالی‘‘ بھی بنی تھی۔ میں دھکم پیل کرتے ہوئے اپنے ساتھیوں سمیت سنیما ہال میں گھس گیا اور یہ فلم مفت دیکھی۔ اس فلم کے رقص، گیت، مکالمے اور حسن و رومان کے جلوے آج بھی یادآ تے ہیں۔ کیا تم نے اس قسم کی فلموں کے بارے میں کبھی سنا ہے؟ اب مس بیہی بنو سے فلم ثریا بھوپالی کا ایک گیت سنو اور سر دھُنو:

نیم عریاں لباس پہنے رذیل طوائف اور درباری رقاصہ مس بیہی بنو نے دھمال ڈالی اور نغمہ سرا ہوئی:

تھا یقیں کہ آئیں گی یہ راتاں کبھی

تم سے ہوویں گی ملاقاتاں کبھی

’’آج کی رات کی یہ ملاقات مجھے ہمیشہ یاد رہے گی خاص طور پر اس درباری رقاصہ مس بیہی بنو کی دھمال نے تو گوالیار کی طوائفوں، کٹنیوں اور ڈُومنیوں کی یاد تازہ کر دی۔ میرا گمان ہے کہ یہ رقاصہ لال کنور اور نعمت خان کلانونت کی چہیتی ہے۔ گردشِ ایام اور سیل زماں کے مہیب تھپیڑے تخت و کلاہ و تاج کے سب سلسلے خس و خاشاک کے مانند بہا لے جاتے ہیں۔ میرے عہدِ حکومت میں میرے خلاف جنوبی ہند کے دو حاکموں راجہ گنگا کلا چری نریش (Ganga Kalachuri' Naresh) اور راجہ شلوکا نریش تلیا (Chaluka Naresh Telayya) نے بغاوت کر دی اور مغربی مدھیہ پردیش کے شہر دھر پر جہاں میں نے بھوج شالا تعمیر کرایا تھا دھاوا بول دیا۔ میرے مسلح دستوں نے دونوں باغی راجاؤں کی بزدل سپاہ کو شکست فاش دی اور اُن کا غرور خاک میں ملا دیا۔ میری فتوحات کے بعد لوگوں نے پہلے باغی راجا کے نام سے لفظ ’گنگا‘ لے لیا اور دوسرے مہم جو اور طالع آزما راجا کے نام سے لفظ ’تیلایا‘ منتخب کیا۔ اس طرح یہ بات زبان زد عام تھی کہ کہاں راجہ بھوج اور کہاں گنگا تیلایا۔ سارے حقائق ابلق ایام کے سموں کی گرد میں اوجھل ہوتے چلے گئے اور آج لوگ یہ کہتے ہیں ’’کہاں راجہ بھوج اور کہاں گنگو تیلی‘‘۔ میرے ساتھ انصاف کیا جائے اورمیری کردار کشی کا سلسلہ بند کیا جائے۔‘‘

’’تمھاری چرب زبانی سے ما بہ ذلت بالکل متاثر نہیں ہوئے۔ یہاں دال میں کچھ کالا ضرور ہے بل کہ ساری کی ساری دال ہی کالی ہے۔ اب اگلا فریادی گنگو تیلی اپنی داستان غم سنائے اور جو کچھ راجہ بھوج نے کہا ہے اس کے متعلق اپنے ذاتی تجربات بیان کرے۔‘‘

’’ظل تباہی! یہاں کے حالات دیکھ کر اور راجہ بھوج کی بے سر و پا باتیں سن کر میں دنگ رہ گیا ہوں یہاں تو عجیب تماشا ہے کہ ہر شخص راست گوئی کا داعی اور گامن سچیار بنابیٹھا ہے اور کوئی بھی جھوٹا نہیں ہے۔ میرا نام گنگو ہے اور میں ایک غریب تیلی ہوں۔ سو پشت سے میرا آبائی پیشہ کولھو میں سرسوں پیل کر تیل نکالنا ہے۔ میرے ساتھ کولھو کا بیل بھی دِن بھر کولھو میں جُتا گھومتا رہتا ہے اور یہ چکر یوں ہی جاوداں چلتا رہتا ہے۔ اس انتہائی مغرور اور طاقت ور مہا راجہ نے مہاراشٹر میں کولھا پور سے بیس کلو میٹر شمال مغرب میں پنہالہ کے مقام پر ایک بلند پہاڑی پر ایک مضبوط اور ناقابلِ تسخیر قلعہ تعمیر کرانے کا قصد کیا۔ جیسے ہی قلعہ

کی دیواریں زمین سے اُٹھتیں سب کچھ بیٹھ جاتا اور دیواریں ٹوٹ ٹوٹ جاتیں۔ جب اس مہاراجہ کی امیدوں کی فصل غارت جانے لگی اور معماروں کی سب محنت اکارت چلی گئی تو در و دیوار پر حسرت و یاس کے بادل امڈ آئے۔ قلعہ کی تعمیر کے سلسلے میں جب اس راجہ کی کوئی امید بر نہ آئی اور اسے تعمیراتی کام کی تکمیل کی کوئی صورت نظر نہ آئی تو اس نے ریاست کے سب جوتشی، قیافہ شناس، رمال، نجومی اور جادوگر طلب کیے۔ دونوں وقت مِل رہے تھے اُس وقت سب نے یہی کہا کہ جب تک اس قلعے کی بنیاد میں کسی زچہ اور اس کے نومولود بچہ کو زندہ پھینک کر قربانی نہیں دی جاتی اس وقت تک قلعہ کی تعمیر ممکن ہی نہیں۔ اُسی شام میری نوجوان اور حسین و جمیل بیوی نے میرے پہلوٹھی کے اکلوتے بیٹے کو جنم دیا۔ جلاد منش درندوں نے راجہ بھوج کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے میری بیوی اور نومولود بچے کو قلعہ کی دیواروں میں زندہ دفن کر دیا۔ راجہ بھوج کا فلک بوس قلعہ تو تعمیر ہو گیا مگر اس کے بعد میں مکمل طور پر زمیں بوس ہو گیا اور بے بسی کی تصویر بنا بہاروں کے سوگ میں ہوائی قلعے بنانے لگا۔ جب میرا سینہ و دِل حسرتوں سے چھا جاتا اور میں یاس و ہراس کے باعث زندگی سے بیزار ہو جاتا تو بے اختیار پکار اُٹھتا کہ راجہ بھوج فطرت کی سخت تعزیروں سے غافل نہ رہے۔ وہ اپنی فرد عمل سنبھالے یہ ظالم راجا بھوج جلد حالات کی زد میں آئے گا اور اس جو رو ستم کا خمیازہ اُٹھائے گا۔ جب یہ اونٹ پہاڑ کے نیچے آئے گا اور تلملائے گا تو میرے دل کو سکون آئے گا۔ میری مظلومیت اس پر عرصۂ حیات تنگ کر دے گی میرا کم سِن بچہ اور بے گناہ اہلیہ کی آہیں اسے جینے نہ دیں گی۔ میری آہ و فغاں ہر وقت اس موذی و مکار راجہ کا تعاقب کرے گی اور شقی القلب درندے کو کیفر کردار تک پہنچائے گی۔ بے حس لوگ میرا تمسخر اُڑاتے اور کہتے ’’کہاں راجہ بھوج اور کہاں گنگو تیلی؟ وہ دِن اور آج کا دِن میری توہین، تذلیل اور تضحیک کا سلسلہ جاری ہے۔‘‘

اسی اثنا میں کڑی کمان کے تیر جیسی چال چلتی ہوئی رادھا نامی ایک نوجوان رقاصہ نمودار ہوئی جس نے نیم عریاں لباس پہنا ہوا تھا۔ وہ ایک واجبی شکل کے نوجوان لڑکے کی ہم رقص تھی۔ اپنے دِل میں کئی ارمان چھپائے وہ لڑکا ترنگ میں آ کر جس گیت کے بول الاپ رہا تھا وہ کچھ یوں تھا:

میرے من کی گنگا اور تیرے من کی جمنا کا بول رادھا بول سنگم ہو گا کہ نہیں

اس کے جواب میں رقص کرنے والی لڑکی صاف کہہ دیتی نہیں۔۔ نہیں۔۔ نہیں

یہ بول سنتے ہی نظام سقہ آگ بگولا ہو گیا اور غرایا:

’’یہ من موجی کہاں سے آ گئے؟ انھیں اپنے من کی غواصی کرنے سے پہلے یہ سوچ لینا چاہیے کہ نوجوان لڑکے کی روح اور من کی گنگا اور لڑکی کے جگر اور من کی جمنا میں دو سو نواسی کلو میٹر کا فاصلہ ہے۔ تیز رفتار کار بھی دو دریاؤں کے درمیان یہ فاصلہ پونے چھے گھنٹے میں طے کرتی ہے۔ لڑکی سچ کہہ رہی ہے یہ سنگم نہیں ہو سکتا۔ تم جغرافیہ سے نا بلد ہوتمھیں چاہیے کہ طویل سفر کی تکلیف گوارا کرو جھنگ کے نواح میں واقع تریموں ہیڈ ورکس کا نظارہ کرو جہاں خوشاب سے آنے والا دریائے جہلم اور چنیوٹ سے آنے والے دریائے چناب کا سنگم ہو جاتا ہے۔ تریموں سے جنوب کی جانب جو دریا ملتان کی جانب بہتا ہوا جاتا ہے وہ دریائے چناب ہے دریائے جہلم تو اس سنگم میں اپنی ہستی اور پہچان بھی مٹا دیتا ہے۔ یہ لڑکا تو بالکل بُدھو ہے اس کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے:

ہو گئے لوگ کیا سے کیا بُدھو

تُو وہیں کا وہیں رہا بُدھو

یہ رومان پرور لڑکا اگر کسی عاشقانہ موسم میں تریموں کے مقام پر پہنچے اور وہاں دریائے جہلم اور دریائے چناب کے سنگم کے مقام پر کُنڈی سے پکڑی گئی تازہ مچھلی کے کباب لڑکی کو کھِلا کر یہ گیت گائے:

میرے من کے جہلم اور تیرے من کی چناب کا بول رادھا بول سنگم ہو گا کہ نہیں

تریموں کے مقام پر یہ سریلے بول سنتے ہیں ہر لڑکی بلا تامل یہی کہے گی سنگم ہو گا۔۔ ۔ ہو گا۔۔ ۔ ہو گا اور سنگم ضرور ہو گا۔

رقص کرنے والی لڑکی آگے بڑھی اور نظام سقہ سے کہنے لگی:

’’حیف صد حیف! گنگو تیلی کی خست و خجالت کی وجہ سے ہمارا سنگم نہ ہو سکا۔ ناجائز منافع خوری کے عادی اور سادیت پسندی کے روگ میں مبتلا اس تیلی نے اپنے کولھو میں تیار کیا ہوا سرسوں کا تیل کئی بڑے بڑے مٹکوں میں ذخیرہ کر رکھا ہے اور کالی کٹ، کالا شاہ کاکو، کالا باغ، کالا خطائی اور کالام کے تیل کے سوداگروں کو سرسوں کا تیل مہنگے داموں فروخت کر کے کالا دھن کماتا ہے۔‘‘

’’یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی کہ تیل اور تیل کی دھار دیکھنے والا گنگو تیلی حسن و رومان کی وادی میں قدم رکھنے والوں کا رقیب یا بیلی کیسے بن سکتا ہے؟ ‘‘

غم عشق سے نڈھال نو جوان لڑکا رونے لگا اور اس نے آہ بھر کر کہا:

’’میں نے شہر کی طوائفوں سے سنا ہے کہ رادھا کا رقص بے مثال ہے۔ یہ سنتے ہی میں رادھا کا رقص دیکھنے کا شیدائی ہو گیا اور اسے اپنی تمنا سے آگاہ کیا تو بھاری معاوضہ لینے کے بعد رادھا میرے وسیع گھر کے آنگن میں رقص کرنے پر رضا مند ہو گئی۔ اس کی فرمائش پر میں پشاور سے انتہائی مہنگا سنگ مر مر خرید کر لایا اور اسے گھر کے سارے آنگن میں لگوا دیا۔ اس نے میرے گھر کے آنگن میں جب سبز قدم رکھا تو بولی کہ میں یہاں کیسے ناچ سکتی ہوں یہ تو آنگن ہی ٹیڑھا ہے۔ اپنے گھر کے آنگن میں لگی یہ سنگلاخ چٹانیں فوراً اُکھاڑ کر کُوڑے کے ڈھیر پر پھینک دو اور آنگن کو سوہنی کے شہر گجرات سے لائی گئی کچی مٹی سے ہموار کر دو تب میں یہاں ناچنے پر تیار ہوں۔ مرتا کیا نہ کرتا میں نے رادھا کی یہ خواہش بھی پوری کر دی۔ اب رادھا کا باپ جو تیل کا بہت بڑا سوداگر ہے وہ رکاوٹ بن گیا۔ اس نے مجھے کہا کہ اگر میں نو من تیل اُسے تحفے کے طور پر مہیا کر دوں تو رادھا اس کی شریک حیات اور ہم رقص بن کر اس کا بازو تھام لے گی۔ یہ ایک کڑی آزمائش تھی میں گنگو تیلی سے نو من تیل حاصل نہ کر سکا۔ اسی لیے شہر بھر میں میری رسوائی کی نوبت آ گئی اور ہر شخص یہی کہتا کہ نہ نو من تیل ہو گا اور نہ ہی رادھا ناچے گی۔‘‘

’’ردِ ادب! اب ظلِ تباہی نظام سقہ اس سارے جھگڑے پر اپنا جغرافیائی فیصلہ صادر کرنے والے ہیں۔‘‘جلاد نے نعرۂ مجنونانہ بلند کیا۔

’’آج کی برخواست میں جو درخواست میرے پیش گوش رہی اس نے مجھے خواب خرگوش میں مست کر دیا۔ یہاں کئی مست آئے جو ہوش و خرد سے بیگانہ ہو کر اور شرم و حیا کو بارہ پتھر کر کے یہاں مجنونانہ انداز میں محو رقص تھے۔ اگر فیصل آباد پہنچو تو جس بازار میں دیکھو سامنے گھنٹہ گھر ایستادہ ہے۔ اسی طرح ہمارے معاشرے میں گنگو تیلی ہی ہر جگہ خرابی کا سبب ہے۔ ہر عہد میں کسی نہ کسی ایسے کم زور گنگو تیلی کا وجود ملتا ہے

جسے جرم ضعیفی کی سزا ملتی رہی ہے۔ راجہ بھوج نے تمھیں قلعے کی دیواروں میں نہ پھینک کر تمھاری جان بخشی کی کیا یہ کم احسان ہے؟ اپنے محسن کے خلاف زہر اُگلتے ہو یہ تمھارا بہت بڑا جرم ہے۔ میں حکم دیتا ہوں کہ گنگو تیلی کو کالا پانی بھیج دیا جائے۔ جہاں کالی دیوی اس کی منتظر ہے وہ اپنی کالی زبان کھولے گی اور گنگو تیلی کے سب افعال کو میزان قہر و غضب میں تولے گی۔ گنگو تیلی وہاں صرف تیل اور تیل کی دھار ہی نہیں بل کہ تیل کے وار چلنے اور تیل کی مار پڑنے کے مناظر بھی دیکھے گا۔ گنگو تیلی اس قدر سادہ ہے کہ یہ ذہن و ضمیر کی نیلامی کے عذاب سے ناواقف ہے۔ گنگو تیلی اور مداری کے بندر افسوس ناک حد تک تن آسان اور ذہنی قلاش ہیں۔ اے مداری تم اپنے فربہ بندروں کو سکھا دو کہ رقص کف گیر پکڑ کر بھی کیا جاتا ہے۔ گنگو تیلی کی وجہ سے رادھا اور اس کے عاشق نامراد نے جو سزا جھیلی ہے اس کا مداوا کرنے کے لیے ما بہ خست رادھا کو اپنی منظور نظر کنیز مقرر کرتے ہیں۔ سولہ سالہ رادھا اب بتیس سالہ مس بیہی بنو کے ساتھ مِل کر شاہی محل میں مرکز مساج چلائے گی اور اپنے رقص و سرود سے اس ضعیفی میں میرا دِل بہلائے گی اور من کی مراد پائے گی۔ رادھا کا نامراد عاشق فرہاد حسب معمول اب بھی پہاڑ کھودے گا جہاں سے اُسے خشک گھاس کے تنکوں میں لپٹا مردہ چوہا ہی ملے گا۔‘‘

’’جہاں فنا! میں مظلوم ہوں مجھ پر رحم کیا جائے۔‘‘ گنگو تیلی نے چیخ مار کر کہا ’’ہم آبلہ پا مظلوموں کو ہر دور میں صعوبتوں کے دشت خار میں پا برہنہ سفر کرنے پر مجبور کر دیا گیا۔ ہم الم نصیب مظلوموں کے قبیلے میں انار کلی، عباسہ، دُلا بھٹی، پورن بھگت، زیب النسا مخفی اور مہر النسا شامل ہیں۔‘‘

’’خاموش رہو گنگو تیلی تم اپنی حد سے آگے بڑھ رہے ہو اور کسی ماہر گورکن، کفن دُزد اور استخواں فروش کی طرح گڑے مردے اُکھاڑ رہے ہو۔‘‘ نظام سقہ نے گنگو تیلی کو للکارتے ہوئے کہا ’’دنیا کے ہر علاقے میں راجے اور مہاراجے ہی مظلوموں کی قسمت کے مالک ہیں۔ میں بھی سرسری اقتدار کے ایوان سے گزرا ہوں یہاں تو ہر جگہ اک نیا جہاں جلوہ گر ہے مگر میں نے تو خوب حلوہ کھایا ہے اور چام کے دام چلا دئیے ہیں۔ اب تمھارا کالا پانی جانے کا ارادہ ہے یا دنیا سے جانے کی تمنا ہے۔ مجھے جلد اپنے فیصلے سے آگاہ کرو۔‘‘

نظام سقہ کا یہ حکم سنتے ہی رادھا تو ہنسی مسکراتی ہوئی مس بیہی بنو کے ساتھ مِل کر قصر شاہی کی جانب چلی گئی مگر فرہاد نے تیشہ اپنے سر پر دے مارا۔ نظام سقہ نے فرہاد کی روداد سنی اس کی فریاد پر بھی توجہ دی مگر اس کا انجام دیکھ کر کہنے گا کہ یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ مرنے کے لیے اب اسے تیشے کی کیا ضرورت تھی۔ اس قدر رسوائی، جگ ہنسائی، توہین، تذلیل، بے توقیری، تضحیک اور عقوبت سہنے کے بعد تو انسان گردشِ مدام ہی سے دم توڑ دیتا ہے۔

اچانک دربار میں کہرام مچ گیا اور لوگوں کا ازدحام دیکھ کر نظام سقہ غرانے لگا۔

’’یہ کیا معاملہ ہے ایک روزہ اقتدار میں اتنے بڑے بڑے فیصلے کرنے کے بعد اب بھی فریادیوں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔ مجھ سے پہلے یہاں کیا ہوتا رہا ہے؟ شاہوں کو رعایا کی کچھ خبر ہی نہیں سب اپنی اپنی تجوری بھرنے کی فکر میں رہتے ہیں۔ میں نے آج جو اذیت و عقوبت برداشت کی ہے میں اس کی فریاد کس سے کروں؟ ‘‘

سب مشیر بے تدبیر ہاتھ باندھ کر کھڑے تھے ہیہات دھونسوی نے کہا:

’’اے آفت نا گہانی! ایک پیشہ ور چور اور ڈاکو ’’جھُلا سو پیازہ‘‘ رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہے اگر اجازت ہو تو اُسے دربار میں پیش کیا جائے۔‘‘

نظام سقہ نے یہ سن کر بے چینی اور تعجب سے کہا:

’ اونہہ! پیشہ ور چور اور ڈاکو ’جھُلا سو پیازہ‘ اگرچہ ملک بھر کے چور، اُچکے، تلنگے اور لُچے میرے ہی قبیلے کے فرد ہیں مگر اس نام کے چور اور ڈاکو سے میں بھی آج تک واقف نہ ہو سکا۔ یہ چھپا رابن ہڈ کہاں سے نکل آیا۔ جھُلا سو پیازہ کو فوراً دربار میں پیش کیا جائے میں یہ دیکھوں گا کہ اُسے کیا مسئلہ درپیش ہے؟ ‘‘

ایک فربہ شخص جس کے ہاتھ مونج کی رسی سے بندھے ہوئے تھے، پیٹھ پر ایک غلیظ سے جھُلے میں بندھی گٹھڑی تھی اور پاؤں میں بیڑیاں تھیں۔ پیہم رونے اور چیخ پکار کی وجہ سے اس چور کی گھگھی بندھ گئی تھی۔ اُسے داروغۂ زنداں گھسیٹتا ہوا لایا اور ہاتھ جوڑ کر نظام سقہ سے کہا:

’’یہ شخص عادی دروغ گو، پیشہ ور چور اور خطرناک ٹھگ ہے۔ اس کا نام تشفی ہے اور پیشے کے اعتبار سے یہ کنجڑا ہے روزانہ آدھی رات کے بعد یہ خطرناک ڈاکو اور سفاک لٹیرا کھیتوں سے سو پیاز روزانہ چوری کر کے اپنے عفونت زدہ جھُلے میں بھر لاتا ہے اور گلی محلے کے گھروں میں ایک آنہ فی پیاز بیچتا پھرتا ہے۔ اسی حوالے سے اس دہشت گرد کا نام جھُلا سو پیازہ پڑ گیا ہے۔ آج رات کی تاریکی میں جب میں حسب معمول اپنے گھر کی ضروریات کے لیے سبزی کے کھیت سے چوری چھپے کچھ بینگن توڑنے گیا تو اِس جھَلے کو اُس جھُلے سمیت جس میں چوری کے سو پیاز موجود ہیں جائے واردات سے رنگے ہاتھوں دھر لیا۔ سبزیاں اُگانے والے دہقان ہاتھ پرہاتھ دھرے انصاف کے منتظر بیٹھے ہیں۔ اِس خطرناک چور کو عبرت ناک سزا دی جائے۔‘‘

’’میرے بارے میں جو بات ہیہات دھونسوی نے کہی ہے وہ سچ ہے۔ میرے جھُلے میں اس وقت سو پیاز موجود ہیں۔ سب سے پہلے تو ہیہات دھونسوی کی جھُلی منگوائی جائے جس میں وہ خود چوری کے بینگن توڑ کر لایا ہے۔‘‘

’’ردِ ادب! شاہی دربار کو ڈکٹیشن دے کر نظام سقہ کے انتقام کو دعوت نہ دو۔‘‘ نظام سقہ نے غیظ و غضب کے عالم میں کہا ’’میں وہی فیصلہ کروں گاجو جنگل کے قانون کے مطابق ہو گا۔ ہیہات دھونسوی نے خود ہی کھیتوں سے چوری بینگن توڑ کر اپنے گھر لانے کا اعتراف کر لیا ہے۔ حالانکہ اُس کا فرض تھا کہ کچھ بینگن قصر سقہ میں بھُرتے کے لیے پیش کرتا۔ ہیہات دھونسوی کو آج سے تھالی کا بینگن بنا دیا گیا ہے۔ اب رہا جھُلا سو پیازہ کی پیاز چوری کا جرم تو اپنے لیے سزا یہ کنجڑا خود منتخب کرے گا۔ اِس بد بخت کنجڑے کو یا تو اپنی پیٹھ پر ایک ایک کر کے سو جوتوں کی مار سہنی پڑے گی یا پھر ایک ایک کر کے سو پیاز کھانا ہوں گے۔‘‘

نظام سقہ کے حکم پر تشفی کنجڑے کا جھُلا کھولا گیا تو اُس میں سے پُورے ایک سو پیاز بر آمد ہوئے۔ شاہی مطبخ کے خانساماں نے پاؤ بھر کے ہر پیاز کو صاف کر کے ایک بڑے تھال میں سجا دیا۔ ساتھ ہی تنورا تسمہ کش ہاتھ میں ایک بھاری جوتا لے کر کھڑا ہو گیا۔

تشفی کنجڑے نے ایک نظر پیاز کے تھال پر ڈالی اور ساتھ ہی کنکھیوں سے مسٹندے جلاد تنورا تسمہ کش کو بھاری جوتا تھامے دیکھا ’’میں تو ایک سو پیاز ہی کھاؤں گا۔‘‘ تشفی کنجڑا ہنہناتے ہوئے بولا

یہ کہہ کر پیٹو تشفی کنجڑے نے جلدی سے پیاز خوری کا آغاز کر دیا۔ اُس نے ابھی دس پیاز ہی کھائے تھے کہ وہ اُبکائیاں لیتے ہوئے چیخا ’’میں ایک سو جوتوں کی مار تو برداشت کر سکتا ہوں مگر باقی نوے پیاز کھانا میرے بس سے باہر ہے۔‘‘

نظام سقہ کے اشارے پر تنورا تسمہ کش آگے بڑھا اور اس نے تشفی کنجڑے کی پیٹھ پر جوتے برسانے شروع کر دئیے۔ تڑ تڑ پیزاریں پڑنے لگیں ابھی دس جوتے ہی پڑے تھے کہ تشفی کنجڑا چیخ اُٹھا ’’بس کرو! میں باقی بچے پڑے نوے پیاز تو کھا لوں گا مگر اب مزید جوتوں کی مارسہنا میری برداشت سے باہر ہے۔‘‘

اپنی پیٹھ سہلاتے ہوئے تشفی اُٹھا اور کچھ دُور تھال میں پڑے باقی پیاز کھانے میں جُت گیا۔ ابھی اُس نے مزید دس پیاز ہی کھائے تھے کہ اُس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ وہ خود ہی تنورا تسمہ کش کے پاس پہنچا اور اُسے اپنی پیٹھ پر باقی نوے جوتے لگانے کا اشارہ کیا۔ اپنی ننگی پیٹھ پر مزید دس جوتے سہنے کے بعد تشفی کنجڑا پھر پیاز کھانے کے لیے تھال کی جانب لپکا۔ یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ تشفی کنجڑا سو پیاز بھی کھا گیا اور سو جوتے بھی اس نے اپنی خوشی اور رضا مندی سے اپنی پیٹھ پر برداشت کیے۔ تنورا تسمہ کش اپنی مونچھوں کو بَل دے رہا تھا یہ دیکھ کر تشفی کنجڑا بولا:

اِک کفش اور میری جاں ابھی جاں باقی ہے

سزا یافتہ فریادیوں کو کیفر کردار تک پہچانے کے بعد نظام سقہ نے کہا:

’’سب جانتے ہیں کہ میرے فیصلوں کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے اور کس کے ایما پر فریاد کی بے داد کی گئی۔ اپنے بارے میں یہی کہوں گا:

ناحق ہم سقوں پر یہ تہمت ہے مختاری کی

چاہتے ہیں سو آپ کرے ہیں ہم کو عبث بدنام کیا

ہوا کا رخ دیکھ کر اپنی سمت بدلنا، بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا اور چڑھتے سورج کی پرستش کرنا سنت مرلی منوہر برہمچاری کے خاندان کا سو پشت سے پیشہ تھا۔ اس ابن الوقت خسیس، طالع آزما حریص اور سفاک مہم جو کی یادداشت بہت مضبوط تھی۔ وہ رسوائے زمانہ ڈاکو حبیب اللہ کلکانی (B: 1891.D: 1929) جسے دنیا بچہ سقہ کے نام سے جانتی ہے کا بہت بڑا مداح اور پیروکار تھا۔ وقت کے سانحہ کے نتیجے میں جس عرصے میں (17-01-1929-17-10-1929) بچہ سقہ افغانستان کا حاکم بنا سنت مرلی منوہر برہمچاری کا ایک محسن تشفی کنجڑا جو زہرہ کنجڑن کا نواسہ تھا اپنی بدقسمتی کے داغ دھونے کے لیے بے تاب ہو گیا۔ تشفی کنجڑا نے شہر کی کچھ رذیل طوائفوں، رقاصاؤں اور خواجہ سراؤں کو ساتھ لیا اور کابل کا رخ کیا اور بچہ سقہ کو چُلّو میں اُلّو بنا کر خون رنگ رلیاں منائیں۔ تشفی کنجڑا کی طوائف بیٹی قفسہ اپنی لے پالک بیٹیوں کو لے کر کابل میں کیا وارد ہوئی ہر طرف کرگس، زاغ و زغن اور چغد کی اُڑانیں عام ہو گئیں۔ مکر وال کی رذیل طوائف مس بیہی بنو نے اپنے خاندان کے مورث ادنیٰ نظام سقہ کے بارے میں کہا:

’’ہم سب بیداد کرنے والے نظام سقہ کی اولاد ہیں۔ نظام سقہ اور بچہ سقہ میں پیشے اور حرص وہوس کاجو رشتہ ہے وہ کسی سے بھی دہن دریدہ سے پوشیدہ نہیں۔ قحبہ خانوں میں ہمارے پیشے سے وابستہ عورتوں نے اپنے جسم و جاں کو داؤ پر لگا کر افلاس کے بیشے کاٹنے کی کوشش کی ہے۔ ہماری عشرتوں کی راہ میں جو دیوار بنے گا وہ نہیں رہے گا۔ الاماں بینگن دھُول پوری نے اپنی تاریخ غرائب و عجائب میں ہمارے خاندان کے کارہائے پنہاں سیاہ حروف میں لکھے ہیں۔ الاماں بینگن دھُول پوری کاخاندان کئی نسلوں سے سقہ شاہی کا نمک کھاتا رہا ہے اور ان کے گیت گاتا رہا ہے۔‘‘

یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ الاماں بینگن دھُول پوری اپنے عہد کا تھالی کا بینگن ہی تھا۔ اس موم کی ناک نے شرم ناک اور من گھڑت انداز میں حقائق کی تمسیخ اور صداقتوں کی تکذیب کو وتیرہ بنا لیا اور اپنی تاریخ نویسی کو پشتارۂ اغلاط بنا دیا۔ الاماں بینگن دھُول پوری کی مبالغہ آمیز تحریروں نے تاریخ نویسی کو داستان فقیر ہمزہ کا مضحکہ خیز رُوپ دے دیا۔ تاریخ ہر دور میں ایسے مفسدین کے کام پر تین حرف بھیجتی رہے گی جنھوں نے زندگی کے مسلمہ حقائق کسے چشم پوشی کی اور ارفع ترین صداقتوں سے انحراف کر کے اپنے ذہنی افلاس کا ثبوت دیا۔

دِن ڈھل چکا تھا مگر نظام سقہ کا طائر خیال ابھی تک تاریخ کے ایک روزہ مختصر ترین اقتدار کے سفر میں تھا۔ اس حریص، خود غرض، موقع پرست، ابن الوقت اور طالع آزما کرگس کے بال و پر میں اس کے بدن کا سارا عفونت زدہ خون جمع ہو چکا تھا۔ شام ڈھلتے ہی ہمایوں نے قصر شاہی میں قدم رکھا اور نظام سقہ کو چلتا کیا۔ ایک روزہ اقتدار کے خاتمے کے بعد جب نظام سقہ اپنی اوقات یاد کرتا تو دل تھام لیتا۔ لوگوں کے سوالات کا جواب دینا اس کے بس سے باہر تھا۔ پورا ایک دِن وسعت افلاک میں محو پرواز رہنے کے بعد تپتی ہوئی زمین پر اُترا تو سب موسم بدل چکے تھے۔ لٹھ بردار چوب دار نگاہیں بدل گئے تھے اور داروغۂ زندان نے نظام سقہ اور اس کے ساتھ موجود موقع پرستوں کے سادیت پسند ٹولے کو قصر شاہی سے جلد نکل جانے کا حکم دے دیا تھا۔ وہ سوچنے لگا مشکیں تو کٹ گئیں اب زندگی کے باقی دن کیسے کٹیں گے؟ کئی یگانے اور بیگانے جب اس سے ایک دن کی شاہی کے بارے میں پوچھتے تووہ اپنی حسرتوں پر آنسو بہا کر انگاروں پر لوٹنے لگتا۔ مفلس و قلاش نظام سقہ ایک روزہ اقتدار کے مزے چکھنے کے بعد جب ان اجڑے ہوئے لوگوں سے سب لوگ گریزاں رہنے لگے تو پریشانی کے عالم میں وہ ہر وقت اوندھے منھ زمین پر لیٹا رہتا۔ نظام سقہ کا دل بہلانے کی خاطر مکر وال کی رذیل طوائف مس بیہی بنو ساحر لدھیانوی کی یہ غزل جو بھارتی فلم بہو بیگم (1967) میں شامل ہے، ترنم سے گاتی تو وہاں موجود سب ماشکی زار و قطار رونے لگتے:

دنیا کرے سوال تو ہم کیا جواب دیں

تم کو نہ ہو خیال تو ہم کیا جواب دیں

پوچھے کوئی کہ دل کو کہاں چھوڑ آئے ہیں

کس کس سے اپنا رشتۂ جاں توڑ آئے ہیں

مشکل ہو عرض حال تو ہم کیا جواب دیں

پوچھے کوئی کہ دردِ وفا کون دے گیا

راتوں کو جاگنے کی سزا کون دے گیا

کہنے سے ہو ملال تو ہم کیا جواب دیں

نظام سقہ جب ایک روزہ اقتدار سے فارغ ہوا تو عہدِ گُل ہوا ہو چکا تھا اور اس کے شہر آرزو میں نیا گُل کھِلا ہوا تھا۔ وہ مٹی کا مادھو سوچتا کہ بے ضمیر جب بھی کسی سے جعلی پیمانِ وفا باندھتے ہیں تو قحبہ خانے کے دروازے پر پہنچ کر اپنے گھر کو پھونک کر تماشا دیکھنے کی تمنا میں نائکہ قفسو اور رذیل طوائف مس بیہی بنو کو سلام کرتے ہیں۔ یہ خانہ جنگ طوائفیں روز گھر کی چھت پر چڑھ کر ہر راہ گیر سے مصروف جنگ رہتیں۔ مکڑوال کے نواحی علاقے میں واقع قحبہ خانے سے کچھ فاصلے پر ندی کے کنارے کھڑے ہو کر سیلانی مزاج فقیر اور لوک گلوکار یارا سازندہ نے اپنے عہد کی ممتاز مغنیہ بیگم اختر (1914-1974) کی گائی ہوئی مشرقی پنجاب سے تعلق رکھنے والے شاعر سُدرشن کرما فاکرؔ (1934-2008) کی لکھی ہوئی یہ غزل ترنم سے پڑھی اور رونے والوں سے مخاطب ہو کر گلو گیر لہجے میں یہ شعر پڑھے تو نظام سقہ کے پڑ پوتے اور طباقی سگ تنورا، رذیل طوائف لال کنور کی نواسی مس بیہی بنو اور نائکہ قفسو سمیت سب حاضرین دھاڑیں مار مار کر رونے لگے:

عشق میں غیرتِ جذبات نے رونے نہ دیا

ورنہ کیا بات تھی کس بات نے رونے نہ دیا

آپ کہتے تھے کہ رونے سے نہ بدلیں گے نصیب

عمر بھر آپ کی اس بات نے رونے نہ دیا

رونے والوں سے کہو اُن کا بھی رونا رولیں

جن کو مجبوریِ حالات نے رونے نہ دیا

تجھ سے مل کر ہمیں رونا تھا بہت رونا تھا

تنگیِ وقت ملاقات نے رونے نہ دیا

ایک دو روز کا صدمہ ہو تو رو لیں فاکرؔ

ہم کو ہر روز کے صدمات نے رونے نہ دیا

افغانستان میں رسوائے زمانہ ڈاکو حبیب اللہ بچہ سقہ نے جب اقتدار پر قبضہ کیا تو اس کے دور میں بھی مس بیہی بنو اور نائکہ تفوسی کی پانچوں گھی میں تھیں۔ مس بیہی بنو کو اس بات کا بہت گھمنڈ تھا کہ ماشکی کے اس ڈاکو بیٹے نے اُس کے اسلاف نظام سقہ اور بہرام ٹھگ کی یاد تازہ کر دی۔ ایک ماشکی کے ڈاکو بیٹے نے اپنی طاقت کے بل بوتے پر اقتدار پر قبضہ کر کے ثابت کر دیا کہ نمود و نمائش کی جرأت ہو تو اس کے بے شمار مواقع موجود ہیں۔ جب نادر خان نے بچہ سقہ کی سرکوبی کا فیصلہ کیا تو بزدل لٹیرا بچہ سقہ بھاگ نکلا مگر نادر خان کے بہادرسپاہیوں نے اس ڈاکو کا تعاقب کیا اور گرفتار کر کے اُس درندے کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ بچہ سقہ کی ہلاکت کے بعد مس بیہی بنو نے اپنی ماں تفوسی کے ساتھ کابل سے فرار ہونے کا منصوبہ بنایا اور مکڑوال آ پہنچی۔

سنتری کی جنتری کے مشمولات اور مندرجات کا مشاہدہ کرنے والے محقق مایہ ناز ماہر نفسیات حاجی حافظ محمد حیات اور حاجی محمد ریاض نے بتایا کہ اس خود نوشت میں کئی ایسے حقائق تھے جو تاریخ کے طوماروں میں دب گئے ہیں۔ قلی فقیر کے بارے میں لکھا ہے کہ جھنگ سے پانچ کلو میٹر مشرق میں فیصل آباد روڈ پر آسودۂ خاک اس پر اسرار شخص کا نام قلی فقیر ہی تھا۔ اپنے باپ قلی قطب شاہ (1555-1612) کی وفات کے بعد اس فقیر نے اپنی ماں بھاگ متی کی اجازت سے قصر شاہی کو چھوڑا اور ترک دنیا کی راہ منتخب کی۔ کچھ عرصہ یہ سیال کوٹ کے نواح میں واقع پورن بھگت کے کنویں کے پاس بیٹھ کر تپسیا کرتا رہا۔ اس پُر اسرار فقیر کے کشف و کرامات کا ایک عالم معترف تھا ملک بھر سے لوگ اس سے اکتساب فیض کرتے۔ سیلِ زماں کے تھپیڑے اس سیلانی مزاج فقیر کو یہاں لائے اور اس کی خاک وہیں پہنچی جہاں کا خمیر تھا۔ یہ کہنا کہ یہ شخص محکمہ ریلوے میں قلی تھا قطعی غلط ہے۔ ریلوے تو سال 1857ء کے بعد یہاں پہنچی مگر یہ قلی فقیر تو 1612ء کے بعد یہاں پہنچ چکا تھا۔ علم بشریات، نفسیات اور تاریخ کے پیہم رواں عمل پر گہری نظر رکنے والے دانش ور پروفیسر حاجی حافظ محمد حیات نے اِس پُر اسرار فقیر کی درویشی اور شان استغنا کے بارے میں بابا فرید الدین مسعود گنج شکر (1173-1266) کا یہ شعر مع اردو ترجمہ سنایا تو امیر اختر بھٹی نے اِسے ’کُلی فقیر‘ میں آسودۂ خاک فقیر کے حسب حال قرار دیا:

مت ہوندی ہوئے ایانا، تان ہوندے ہوئے نتانا

اَن ہوندے آپ ونڈائے، کوئی ایسا بھگت سدائے

ترجمہ: ہمہ دانی کے ہوتے ہوئے جو اپنی نادانی جتلائے

قوت رکھنے کا باوجود بھی جو اپنی بے بسی دکھلائے

اپنی مفلسی میں بھی جو حاجت مندوں کے کام آئے

کوئی ایسا بھگت بلائے

ممتاز محقق اور ماہر آثار قدیمہ پروفیسر احمد بخش ناصر نے کُلی فقیر کے بارے میں مقامی لوگوں کے خیالات اور تخمین و ظن سے اختلاف کرتے ہوئے بتایا کہ لفظ ’ کُلی‘ کا قلی قطب شاہ یا محکمہ ریلوے کے ’قلی‘ سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ دریائے جہلم اور دریائے چناب کے دوآبے کے وسیع علاقے میں پنجابی زبان بولنے والے والے لوگ آج بھی جھونپڑی کو ’کُلی‘ کہتے ہیں۔ کئی لوک گیتوں میں لفظ ’کُلی‘ جھونپڑی کے معنوں میں مروّج ہے:

اللہ ہُو دا آوازہ آوے کُلی نی فقیر دی وچوں

نہ کر بندیا میری میری دم دا وساہ کوئی نہ

ترجمہ: اللہ ہوُ کی آوا زفقیر کی جھونپڑی میں سے آ رہی ہے

اے انسان دنیاوی حرص و ہوس سے بچ زندگی کا کوئی اعتبار نہیں

آج بھی جھنگ میں مقیم مقامی زبان کے اکثر شاعر اپنے کلام میں لفظ ’کُلی‘ کو جھونپڑی کے معنوں میں استعمال کرتے ہیں۔ جھنگ میں مقیم پنجابی زبان کے ممتاز شاعر مہر ریاض سیال نے بھی اپنے ایک پنجابی دوہڑے میں لفظ ’کُلی‘ کو جھونپڑی کے معنوں میں استعمال کیا ہے:

نِت اپنی بال کے سیکی کر، توں آس کسے دی رکھ نئیں

جَداں سَیتنوں آ اُگھلا ویندائے، کوئی پرت کے ویدھا اَکھ نئیں

جِتھے عزت دا یار سوال ہووے، کائی چیز بچا کے رکھ نئیں

ککھ ریاض ؔ شریکاں اِچ رہ جاوِن، بھاویں رہے کُلی دا ککھ نئیں

ترجمہ:

روزانہ اپنی محنت شاقہ سے رزق حلال کماؤ کسی غیر پر انحصار نہ کرو

مشکل وقت میں سبھی طوطا چشمی کرتے ہیں کسی کا اعتبار نہ کرو

حریت ضمیر کا مسئلہ ہو جہاں کوئی چیز بچانے پر دِل کو تیار نہ کرو

گھر لُٹ گیا مگر رقیبوں میں عزت رہی اس پر دُکھ کا اظہار نہ کرو

اس طرح یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہاں صدیوں پہلے کسی فقیر کی ’کُلی‘ (جھونپڑی) تھی۔ اقلیم معرفت کے اس درویش منش فقیر کے ہزاروں مرید اور عقیدت مند اس مقام کو کُلی فقیر کے نام سے آج بھی یاد کرتے ہیں۔ اِسے کَلی یا قلی نہیں بل کہ کُلی ہی کہنا چاہیے۔

غلام علی خان چینؔ نے پروفیسر احمد بخش ناصر ؔ کی آثار قدیمہ میں دلچسپی کو سراہتے ہوئے کہا:

’’اس پر اسرار درویش کی آخری آرام گاہ کے بارے آپ کی تحقیق سے ہم سب کُلی طور پر متفق ہیں۔ یہ شہر بھی عجیب ہو رہا ہے جو قحط الرجال کے مسموم ماحول میں آہستہ آ ہستہ کوفے کے قریب ہو رہا ہے۔ کاش کوئی محکمہ شاہرات کے مہتمم کو بھی اس دُور کی کوڑی سے مطلع کرے جو اِس شہر نا پرساں کا یہ عبقری ماہر آثار قدیمہ یہاں لایا ہے۔ محکمہ شاہرات کی طرف سے اس مقام کی نشان دہی کے لیے جھنگ سے فیصل آباد جانے والی سڑک پر جو بورڈ نصب کیا گیا ہے اُس پر جلی حروف میں ’’قلی فقیر‘‘ ہی درج ہے۔ اب آنے والا وقت ہی فیصلہ کرے گا کہ کُلی اور قلی کہاں سے آئے ہیں بادل اور باد کا کیا تعلق ہے اور کذب و افترا کی سزا کیا ہے۔‘‘

سجاد حسین نے اردو زبان کے الفاظ اور ان کے اعراب کے حوالے سے اس عالمانہ گفتگو کو بہت پسند کیا اورکہا کہ یہ بات تو اب طے ہو گئی کہ کرم والا کاف اور اُس پر پیش ہی اس بستی کے نام سے وابستہ ہے۔ اس موقع پر اِس پُر عزم اور وسیع المطالعہ نوجوان نے مرزا اسد اللہ خان غالبؔ کا یہ شعر پڑھا تو سب حاضرین نے اسے بر محل قرار دیا:

لیے جاتی ہے کہیں ایک توقع غالبؔ

جادۂ رہ کششِ کاف کرم ہے ہم کو

سنتری نے بتایا کہ مس بیہی بنو بھی اکثر اس دربار پر نذر و نیاز کے چاول اُڑانے، حرص و ہوس کی چاہت کی پینگیں ڈالنے، اپنے حسن و جمال کے جال بچھا کر عشاق کو پھانسنے، دل بہلانے اور صدقہ اُتارنے پہنچ جاتی۔ درباروں، مندروں اور گردواروں پر حاضری دینے والے عقیدت مند طیور آوارہ کے لیے اکثر اجناس خوردنی کے دانے بھی زمین پر بکھیر دیتے تھے، اس کٹنی کے بزرگوں کے بارے میں مشہور تھا کہ اس کے اسلاف مزاروں سے اجناس خوردنی کے وہ سب دانے اکٹھے کر کے چڑی ماروں کو فروخت کر دیتے۔ اس طرح ان خسیس ٹھگوں کی تجوری تو بھر جاتی مگر پرندے بھوکے رہ جاتے اور مایوس پرندے کھیتوں اور کھلیانوں کی طرف پرواز کر جاتے۔ اسی لیے عادی دروغ اور پیشہ ور ٹھگوں کے اس ٹولے کے بارے میں یہ بات اکثر کہی جاتی تھی۔

بچ کے رہو اُن عیاروں سے

جو دانے چُرا لیں مزاروں سے

قحبہ خانے کی رذیل طوائف بھیں گی آنکھوں والی مس بیہی بنو جو خاموشی سے سب باتیں سن رہی تھی، اُس نے پہلو بدلا اور وہاں موجود سنجیدہ محققین کو گھُور گھُور کر دیکھنے لگی۔ کالی دیوی کی اِس بد طینت اور کریہہ شکل والی پجارن نے اپنا بھاڑ جیسا منھ کھولا اور قینچی کی طرح اپنی کالی زبان چلاتے ہوئے غرائی:

’’یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ تارک الدنیا اور گوشہ نشین درویش لنگر سے کھانا کھانے کے بعد اِس مقام پر کُلی کرتا ہو۔‘‘

امیر اختر بھٹی نے مس بیہی بنو کی یہ بات سُنی تو دِل تھام لیا اور کہا ’’اونہہ! مان نہ مان میں تیرا مہمان میں تو یہی کہوں گا کہ بصارت سے محروم افراد کو بسنت کی بہار کے رنگ کیسے معلوم ہو سکتے ہیں؟ قطرے میں دجلہ اور جزو میں کُل کا منظر دیکھنے کے لیے بصیرت کی احتیاج ہے اور وہی مِس بیہی بنو کے ہاں عنقا ہے۔ اِس مقام پر کوئی کُلی کرے یا مِسی لگائے ہماری بلا جانے۔ مس بیہی بنو! تُو اپنی آپ نبیڑ اور یہاں پرائی بات ہر گز نہ چھیڑ۔‘‘

محفل کے شرکا کے تیور دیکھ کر مس بیہی بنو وہاں سے نو دو گیارہ ہو گئی۔

امیر اختر بھٹی نے اپنے نعتیہ کلام ’’توشۂ آخرت‘‘ کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے ایک ملاقات میں بتایا:

’’میرے درویش ساتھی حاجی حافظ محمد حیات، رام ریاض، سجاد حسین، گدا حسین افضل، احمد بخش ناصر، شفیع ہمدم، شفیع بلوچ، حاجی محمد ریاض اور معین تابش مجھے ساتھ لے کر اکثر اس پر اسرار فقیر کی آخری آرام گاہ پر کُلی فقیر پہنچتے اور دیر تک سوچتے کہ تخت و کلاہ و تاج کے سب سلسلے سیل زماں کے ایک تھپیڑے میں خس و خاشاک کے مانند بہہ جاتے ہیں۔ اس مقام پر موسیقی کی محفلیں اکثر جاری رہتی تھیں اور شائقین دور دراز سے یہاں پہنچتے اور کلاسیکی موسیقی، رقص اور ڈھول بجانے والے شوقیہ فن کاروں کے فن سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ دسمبر کی اکتیس تاریخ تھی اور سال 1995ء اپنے اختتام کو پہنچ رہا تھا۔ اس بار چہک چھلک نام کی ایک مغنیہ نے اپنی ساتھی مس بہک ڈھلک کے ساتھ مِل کر ہارمونیم بجا کر نہایت پُر سوز آواز میں واصف علی واصف (1929-1993) کا کلام سنا یا۔ چہک چھلک جب جوش میں آتی تو اپنی ہم رقص سہیلی مس بہک ڈھلک کے گلے لگ جاتی اور رقص بھی کرنے لگتی۔ جنسی جنون کر بڑھانے والے ایسے مناظر کو دیکھ کر سب حاضرین اِن طوائفوں پر کرنسی نوٹوں کی بارش کر دیتے۔ مسحور کن موسیقی اور سریلے بولوں کے آ ہنگ سے محفل جب رنگ پر آئی تو سب مست بندِ قبا سے بے نیاز ہو کر ایک گونہ بے خودی اور سر مستی کے عالم میں دھمال ڈالر ہے تھے۔ چہک چھلک اور مس بہک ڈھلک کے ساتھ یارا سازندہ اور اس کے ساتھی مہندر اور بلوندر ڈھولک، الغوزہ اور بین بجاتے تو سماں بندھ جاتا۔ اس روز ساز کی لے اور رقص کے اثر سے وہاں موجود سب حاضرین پر وجدانی کیفیت طاری ہو گئی:

میں نعرۂ مستانہ، میں شوخیِ رِندانہ

میں تشنہ کہاں جاؤں؟ پی کر بھی کہاں جانا

میں سوزِ مَحبت ہوں، میں ایک قیامت ہوں

میں اَشکِ ندامت ہوں، میں گوہر یک دانہ

میں طائر لاہوتی، میں جوہرِ ملکوتی

ناسوتی نے کب مجھ کو اِس حال میں پہچانا

میں شمع فروزاں ہوں، میں آتشِ لرزاں ہوں

میں سوزشِ ہجراں ہوں، میں منزلِ پروانہ

کس یاد کا صحراہوں؟ کس چشم کا دریا ہوں؟

خود طُور کا جلوہ ہوں، ہے شکل قلبہانہ

میں حسنِ مجسم ہوں، میں گیسوئے برہم ہوں

میں پھول ہوں، شبنم ہوں، میں جلوۂ جانانہ

میں واصفِؔ بسمل ہوں، میں رونقِ محفل ہوں

اِک ٹُوٹا ہوا دِل ہوں، میں شہر میں وِیرانہ

معرفت و تصوف کے موضوع پر اہم کتاب ’’نور حیات‘‘ کے مصنف حاجی حافظ محمد حیات کے واصف علی واصف کے ساتھ قریبی تعلقات رہے۔ ایک محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے واصف علی واصف نے حاٖ فظ حاجی محمد حیات کے جذبۂ انسانیت نوازی کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ حاجی حافظ محمد حیات نے بتایا کہ اپنی زندگی میں واصف علی واصفؔ کئی بار جھنگ آئے اور انھوں نے جھنگ میں مدفون اقلیم معرفت کی جن نہایت با وقار اور پر اسرار ہستیوں کے مر قد پر حاضری دی ان میں زندہ پیر، حافظ برخوردار، شاہ جیونہ، سلطان باہو، لوہلے شاہ، دُڑکی شاہ، میاں موچڑا، لال مرید اور پیر عبدالرحمٰن شامل ہیں۔ قصبے مکڑوال سے کچھ دُور ٹلاں والا دربار کے نواح میں ایک کچی آبادی کا مکین جھارا اکثر ایک حسینہ کو لے کر سیر گاہوں میں گھومتا نظر آتا تھا۔ خادم ظروف ساز نے بتایا کہ اس لڑکی کا نام مس بہک ڈھلک ہے اور جھارا رشتے میں اس لڑکی کا بہنوئی ہے۔ اس چربہ ساز، سارق اور کفن دُزدحسینہ کی جسارت سارقانہ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس بے فیضی کٹنی نے مبشر نامی ایک ضعیف معلم کی بہو بننے کا ڈرامہ کر کے اس سے ضلع فیض آباد کی جامعہ ایودھیا کی سندی تحقیق کے لیے اردو اور دکنی زبان کے افعال کے موضوع پر اپنا ایم۔ فل اردو کا چار سو صفحات پر مشتمل پورا مقالہ لکھوا لیا ساتھ ہی اس سے زندگی بھر کی کمائی بھی اینٹھ لی۔ ضعیف معلم مبشر کے گھر کا صفایا کرنے کے بعد اس بروٹس قماش محسن کش چڑیل نے اپنے کیے گئے عہد و پیمان سے صاف انکار کر دیا اور نئے پنچھی پھانسنے کے لیے نیا جال لگا دیا۔ ڈگری ملنے کے بعد اس عیار جعل ساز ڈائن کو کر ناٹک کی ایک جامعہ نے اس کی جہالت کا انعام شعبۂ تدریس میں ملازمت کی صورت میں دے دیا۔ یہاں بھی وہ ایک بہت بڑے صنعت کار کی بہو بننے کا ناٹک رچا کر اسے لُوٹ رہی ہے۔ اب تک یہ چڑیل کئی کارخانے، محلات، جاگیریں اور باغات ہڑپ کر چکی ہے۔ محل کی منڈیر پر بیٹھ کر اس کر گس نے اپنی آنکھوں پر ٹھیکری رکھ لی اور بلند ہوا میں لمبی اڑانیں بھرنے لگی اور بے بس و لاچار زندہ انسانوں کو نوچنے اور بھنبھوڑنے میں منہمک ہو گئی۔ اپنی زندگی کی بتیس بہاریں دیکھنے کے بعد یہ زہریلی ناگن اپنے افعی بہنوئی کے ساتھ رنگ رلیاں مناتی پھرتی تھی۔ اس کی ڈھٹائی اور بے شرمی کا یہ حال تھا کہ وہ یہ بات بر ملا کہتی کہ اس کی چھوٹی بہن تو جھارا کی بیوی اور جھارا کے چار بچوں کی ماں ہے مگر وہ صرف جھارا کی محبوبہ ہے اور جب تک وہ زندہ ہے اس پیمان وفا کو اپنی زندگی کے لیل و نہار کی تنہائیوں کا واحد آسرا سمجھ کر اسے ہر حال میں استوارر کھے گی۔

حیران کن بات یہ تھی کی قحبہ خانے کی نائکہ قفسو نے اپنے قحبہ خانے میں رقص و سرود میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والی طوائفوں کی ڈھلتی عمر کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے مناسب دام ملنے پر ان کی شادی کر دی اور خرچی کی آمدنی سے اپنی تجوری بھر لی۔ اسی طرح مس بہک ڈھلک اور چہک چھلک کی بڑی بہنوں اور چھوٹی بہنوں کی شادی بھی ہو گئی مگر یہ دونوں ابھی تک شادی کے بندھن میں نہ بندھ سکیں۔ مس بہک ڈھلک اور چہک چھلک کی کئی بار منگنی ہوئی مگر جوں ہی شادی کی تاریخ قریب آتی قفسو سب عہد و پیمان توڑ دیتی اور اس کے بعد کسی نئے شکار کی تلاش شروع ہو جاتی۔ شادی بیاہ کی تقریبات میں چہک چھلک اور مس بہک ڈھلک کی جوڑی بہت مقبول ہوئی اور انھیں ہر محفل موسیقی میں دعوت ملتی تھی۔

بے غیرتی، بے شرمی، بے حیائی اور بے ضمیری سے لتھڑی ہوئی عفونت زدہ کریہہ چادر اوڑھے جب مس بہک ڈھلک اور چہک چھلک جنسی بھوک مٹانے کے طلب گار عقل کے اندھے مگر گانٹھ کے پورے گاہکوں کی تلاش میں اپنے آبائی قحبہ خانے سے باہر نکلتیں تو دو طرفہ ندامت اورسب پڑوسیوں کی ملامت ان کی ہم رکاب ہوتی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان رذیل طوائفوں کا حسن و جمال اور صحت تیزی سے گھٹ رہی تھی مگر اثاثے حیران کن انداز میں بڑھ رہے تھے۔ ہر مرحلۂ زیست پر مکر کی ظالمانہ چال چلتے ہوئے کامیابی حاصل کرنا ان رذیل طوائفوں کا وتیرہ بن گیا تھا۔ وہ اس حقیقت سے بے خبر تھیں کہ اپنے جسم و جاں کو گروی رکھ کر اپنی توہین، تضحیک، تذلیل اور بے توقیری کو گوارا کر کے حاصل کی جانے والی مسرت و کامیابی سے بہتر ہے کہ انسان اُس ناکامی کو بہ صد شوق گوار کر لے جس میں عزت نفس اور انا پر کوئی حرف نہ آئے۔ جعلی خلوص و مروّت، وفا و ایثار اور عجز و انکسار کا لبادہ اوڑھ کر یہ عیار طوائفیں اس صفائی سے اپنے عشاق کی آنکھوں میں دھُول جھونکتیں کہ کئی فریب خوردہ نوجوان اپنا گھر پھونک کر تماشا دیکھنے پر تیار ہو جاتے۔ جھانسی کے انتہائی متمول گھرانے سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان کرشن کو مس بہک ڈھلک نے شادی کاجھانسہ دیا اور اُس سے سب زر و مال ہتھیا لیا۔ ان رذیل طوائفوں کے دام الفت میں پھنس کر نو جوان کرشن سب کچھ لٹو ابیٹھا اورغربت و افلاس کی دلدل میں دھنس گیا۔ آغازِ سفر ہی سے ان عیار طوائفوں نے کرشن کے اعصاب پر عشوہ و غمزہ وادا کے پہرے بٹھا دئیے تھے۔ اپنی متاع دیدہ و دِل اور بیش بہا آبائی میراث گنوانے کے بعد جب کرشن سہانے خوابوں کے پر ہول جزیرے سے نکلا اور کچھ سنبھلا تو اُس نے دیکھا کہ پُر حبس اور بھیانک تاریک راتوں میں متاعِ دیدہ و دِل لُٹ چکی تھی۔ ہجر کے سُونے صحرا میں سرابوں کے عذابوں سے جان بچا کر نکلا تو ہوس پرستوں کی مصنوعی چاہت کے دریا خشک ہو چکے تھے۔ اس نے اپنی داستان غم سے اپنے دوست موہن کو آگاہ کیا۔ موہن نے اسے دلاسا دیتے ہوئے سمجھایا:

’’کرشن! یہ آزمائش کی گھڑی ہے تم حوصلے اور اعتماد سے کام لو اور دِل بُرانہ کرو۔ اس دنیا میں مکر و فریب اور دغا و دُزدی کی راہ پر چلنے والے عادی دروغ اور پیشہ ور ٹھگ بڑے بڑے سگھڑ سیانے لوگوں کو جُل دے کر زرو مال بٹورنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ان رہزنوں کے ہاتھوں لُٹنے کے بعد تم نے ایک عرصے سے لب اظہار پر تالے لگا رکھے ہیں اور اپنے ساتھ ہونے والے مظالم کو قسمت کا لکھا سمجھ کر گوشہ نشینی اختیار کر لی ہے۔ یہ بھی ایک فریب ہے جو تم اپنی ذات کے ساتھ مسلسل کرر ہے ہو۔ اجلاف و ارذال کے پروردہ ٹھگوں کے جورو ستم برداشت کرنا اور مزاحمت نہ کرنا منافقت کی دلیل ہے۔‘‘

کرشن کو مکمل انہدام کے قریب پہچانے کے بعد مس بہک ڈھلک اور چہک چھلک کے کبر و نخوت میں بہت اضافہ ہو گیا۔ وہ اکثر یہ بات کہتی تھیں کہ اس شہر میں کرشن جیسے ہزاروں جنسی جنون میں مبتلا نوجوان ان کی نگاہوں کے تیر کھا کر گردش حالات کی زد میں ہیں۔ اپنے خاندانی پس منظر کے بارے میں وہ ڈھٹائی سے جھوٹ بولتی تھیں۔ ان طوائفوں کا کہنا تھا:

’’قلی قطب شاہ اور قلی فقیر کے ساتھ ہمارے اب بھی گہرے خاندانی مراسم ہیں۔ یہ دونوں کئی بار ہماری دعوت پر ہمارے گھر مکڑوال آئے اور ہمارے ہاں قیام کیا۔ دکن کے بارے میں ہمیں سب کچھ معلوم ہے اور مس بہک ڈھلک کے تحقیقی مقالے کی سب معلومات ہمیں قلی قطب شاہ اور قلی فقیر نے خود سال 2018 ء میں فراہم کی تھیں۔‘‘

قفسو کے قحبہ خانے کی سب رونقیں چہک چھلک اور مس بہک ڈھلک کے دم سے تھیں۔ دِن کی روشنی میں تو یہ دونوں طوائفیں مختلف نجی اداروں میں ملازمت کرتی تھیں مگر رات کی تاریکی میں یہ قحبہ خانوں اور چنڈو خانوں میں رقص و سرود کی محفلوں میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتی تھیں۔ اِن دونوں طوائفوں کی خرچی کی کمائی سے بڑے شہروں میں اِن کے وسیع عشرت کدے تعمیر ہو رہے تھے اور ہر طرف رنگ و روشنی کا سیلاب اُمڈ آیا تھا۔ اڑتیس سالہ چہک چھلک اور بتیس سالہ مس بہک ڈھلک کی جوانی ڈھل رہی تھی مگر شادی کا نام سنتے ہی اس کی بھویں تن جاتیں اور چہرے کا رنگ بدل جاتا۔ رقص و موسیقی کے سارے انداز مس بہک ڈھلک نے اپنی ہم پیشہ و ہم مشرب و ہم راز طوائف سہیلی چہک چھلک ہی سے سیکھے تھے۔ اپنی عمر کی اس حد تک پہنچتے پہنچتے مس بہک ڈھلک اور چہک چھلک کی دو سو کے قریب پسند کی منگنیاں ہوئیں مگرہر بار یہ منگنیاں پر اسرار انداز میں ٹوٹ جاتیں۔ ان منگنیوں کے ٹوٹنے کے پس پردہ کیا مسائل تھے کوئی بھی ان کی تہہ تک نہ پہنچ سکا۔ واقفِ حال لوگ حیران تھے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ان دو رقاصاؤں اور سریلے بول الاپنے والی حسیناؤں کے لیے ہم پلہ مناسب رشتے کیوں نہیں آ رہے۔ انجمن اصلاح معاشرہ کے سر گرم کارکن بھی ان طوائفوں کو شہرسے نکالنے کے لیے بے چین تھے مگر ان کی کوششیں ثمر بار نہ ہو سکیں۔ حسن و رومان کے خلجان میں مبتلا سنتری نے بھی نہایت رازداری سے مس بہک ڈھلک کے ساتھ پیمان وفا باندھ رکھا تھا۔ اپنی خود نوشت ’سنتری کی جنتری‘ میں اس نے لکھا ہے:

’’مس بہک ڈھلک نے جب ہوش سنبھالا تو گوجرانولہ سے تعلق رکھنے والی امرتا پریتم(1919-2005) کی زندگی کو اپنے لیے مثالی قرار دیا۔ ساحر لدھیانوی (عبدالحئی: 1921-1980) کو امرتا پریتم ٹوٹ کر چاہتی تھی مگر حالات نے ایسا رخ اختیار کیا کہ سال 1935ء میں امرتا پریتم کی شادی لاہور میں مقیم انار کلی بازار کے ایک ہوزری مالک کے بیٹے پریتم سنگھ سے ہو گئی۔ ان کے دو بچے (ایک بیٹا اور ایک بیٹی) پیدا ہوئے۔ مقدر نے امرتا پریتم کے ساتھ عجب کھیل کھیلا کہ اس کا شوہر پریتم سنگھ بھی ساحر لدھیانوی کا مداح نکلا اسی بنا پر سال 1960ء میں یہ شادی علاحدگی پر منتج ہوئی۔ ساحر لدھیانوی کے ساتھ غیر متعلق سی محبت امرتا پریتم کے رگ و پے میں سرایت کر چکی تھی۔ اسی اثنا میں جب ساحر لدھیانوی کی زندگی میں گلوکارہ سدھا ملھوترا کی آمد کی اڑتی سی ایک غلط خبر پھیلی تو امرتا پریتم نے بھی ادیب اور مصور امروز کو مرکز نگاہ بنا لیا اور اس کی معتبر رفاقت میں چالیس سال تک پناہ لیے رکھی مگر اپنے غم کا بھید کبھی نہ کھولا۔ ساحر لدھیانوی کی یاد میں وہ صبر و ضبط کا دامن تھام کر بغیر آنسوؤں کے روتی رہتی۔ اس کی زندگی کا سفر تو افتاں و خیزاں کٹ گیا مگر اس جان لیوا مسافت کے بعد اس کا پورا وجود کرچیوں میں بٹ گیا۔ پھر وہ وقت آ پہنچا جب امروز کی موجودگی میں اُس کی آنکھیں مُند گئیں اور وہ ردائے خاک اوڑھ کر سو گئی۔ سدھا ملھوترا نے گریدھار موٹوانی سے شادی کر لی مگر ساحر لدھیانوی نے اپنی تنہائیوں سے سمجھوتہ کر لیا اور کبھی شادی کا نام بھی نہ لیا۔

مس بہک ڈھلک نے سنتری کو بتایا کہ وہ جھارا کے بغیر نہیں رہ سکتی۔ سنتری تو اپنے دِل پر جبر کر کے امروز بننے پر بھی تیار تھا مگر شادی کا نام سنتے ہی مس بہک ڈھلک کے جسم و جاں میں آگ لگ جاتی اور وہ ماہیِ بے آب کے مانند تڑپنے لگتی۔ اس کی شادی شدہ چھوٹی بہن اچھی طرح جانتی تھی کہ نوجوان اور امیر جھارا بے شک اس کا شوہر ہے مگر وہ صرف اور صرف مس بہک ڈھلک کا عاشق ہے۔ مس بہک ڈھلک بر ملا یہ بات کہتی کہ ساحر لدھیانوی کی طرح وہ بھی تنہا زندگی گزار لے گی مگر جھارا کے علاوہ کسی سے پیار نہیں کر سکتی۔ سال 2010ء میں بے حس اور بے درد لوگوں نے ممبئی کے نواح میں ’جوہو‘ کے شہر خموشاں کی توسیع کرتے وقت ساحر لدھیانوی کی قبر کا نشاں تک مٹا دیا تو مس بہک ڈھلک نے کہا کہ وہ تو زندہ رہے گی جھارا کے بچے اس کا نام زندہ رکھیں گے۔ سب لوگ محو حیرت تھے کہ شادی سے گریز ایک ایسا معمہ ہے جو نہ تو سمجھنے کا ہے اور نہ ہی سمجھانے کا۔ مس بہک ڈھلک کی چاہت میں اُس کے سیکڑوں عشاق کی زندگی دیوانے کا خواب بن کر رہ گئی۔

سنتری کی جنتری میں ایک جگہ یہ بھی لکھا ہے کہ مس بہک ڈھلک کے قحبہ خانے، چنڈو خانے اور عشرت کدے میں ہر شب رقص و موسیقی کی محافل کا انعقاد ہوتا۔ سال 2019 ء کے آغا زمیں خانے وال کی ایک محفل موسیقی میں نیم عریاں لباس پہنے مس بہک ڈھلک اور چہک چھلک نے جنسی جنون سے مغلوب ہو کر شرم و حیا، صبر و ضبط، حوصلے اور بصارت کو روندتے ہوئے دھمال کا آغاز کیا۔ ایک طویل عرصے کے بعد خود دار کرشن بھی اس محفل میں شامل ہوا اور اپنے مستقبل کے بارے میں گہری سوچوں میں گم ایام گزشتہ کی کتاب کے منتشر اوراق پلٹ رہا تھا۔ کرشن مایوسی کے عالم میں خود سر مس بہک ڈھلک کے رستے میں سر جھکائے بیٹھا تھا۔ مس بہک ڈھلک کا یہ الم نصیب جگر فگار عاشق سب کچھ دیکھ رہا تھامگر خاموش تھا۔ مس بہک ڈھلک وہاں سے گزری جب اس نے اُچٹتی سی نگاہ خستہ حال کرشن پر ڈالی جو ملتجیانہ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ کرشن کی درماندگی، شکستگی اور خستگی کو دیکھ کر مس بہک ڈھلک اور چہک چھلک دونوں ٹھٹھک سی گئیں مگر دوسرے ہی لمحے چہک چھلک کے اشارے پر مس بہک ڈھلک نے کرشن کو زور سے اپنے پاؤں کی ٹھوکر ماری۔ اس کے ساتھ ہی دونوں طوائفیں قہقہے لگاتی اور تھوکتی ہوئی آگے بڑھ کر سٹیج کی جانب چلی گئیں۔ مس بہک ڈھلک کی ٹھوکر کھا کر تباہ حال کرشن ایسے تڑپا جیسے اُسے برقی جھٹکا لگا ہو۔ مس بہک ڈھلک کی سفاکی دیکھ کر کرشن نے ماضی کی یادوں کی مشعل گُل کر دی اور اس کی آنکھوں میں خون اُتر آیا۔ تھوڑی دیر کے بعد اُس نے ایک ہاتھ اپنے دِل پر رکھا اور دوسرا ہاتھ اپنی قمیص کی جیب میں ڈال کر کچھ ٹٹولنے لگا۔ چند لمحوں کے بعد وہاں موجود عیاش سرمایہ داروں، جواریوں، مے خواروں اور جنسی جنونیوں کی پُر زور فرمائش پر اِس فلمی گیت سے رقص کا آغاز ہوا۔ مس بہک ڈھلک اور چہک چھلک نے اپنی زلفوں کے جال میں پھنسنے والے ایک نوگرفتار ہم رقص نوجوان لڑکے کو اپنے ساتھ مِلا کر گیت کا پہلا مصرع پڑھا:

اَج نچ لے، نچ لے میرے یار اَب تو سجا ہے بازار

مُجھ کو نچا کے نچ لے جھنک جھنک جھنکار

رقاصاؤں کی پائل کی جھنکار اور گیت کی لے سے پوری محفل جھوم اُٹھی۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ مس بہک ڈھلک اور چہک چھلک نے شرم و حیا کو غرقاب کر دیا ہے۔ ان طوائفوں کا نیم عریاں رقص دیکھ کر محفل موسیقی میں شامل گھٹیا عیاش نو دولتیوں کے قلب، روح اور جسم کے تار متحرک ہو گئے۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ زندگی کے نشیب و فراز پر نظر رکھنے والے اس وقت پائل کی جھنکار میں اس طرح کھو گئے ہیں کہ انھیں کچھ سُجھائی نہیں دے رہا۔ رقاصاؤں پر بے دریغ کرنسی نوٹ نچھاور کیے جا رہے تھے، فرش زمین پرہر طرف کرنسی نوٹ بکھر گئے۔ اسی اثنا میں نشے میں دھت تماشائیوں سے الگ اور خاموش رہنے والا وہی خستہ حال نوجوان اُٹھا جو غبار راہ کے مانند رستے میں بیٹھا تھا۔ اُس نے مس بہک ڈھلک اور چہک چھلک پر اپنے پستول کی گولیوں کی بوچھاڑ کر دی اور ساتھ ہی اپنی کنپٹی پر گولی چلا کر اپنی زندگی کی شمع بھی بجھا دی۔ خود کشی کرنے والے نو جوان کی جیب سے ایک کاغذ نکلا جس پر مرزا اسداللہ خان غالب ؔ کا یہ شعر لکھا تھا:

گلیوں میں میری نعش کو کھینچے پھرو، کہ میں

جاں دادۂ ہوائے سرِ رہ گزار تھا

محفل موسیقی میں فائرنگ اور ہلاکتوں کی خبر سنتے ہی پولیس فوراً جائے وقوعہ پر پہنچ گئی۔ پولیس نے خود کشی کرنے والے نوجوان اور مس بہک ڈھلک اور چہک چھلک کی لاشوں کو اپنی تحویل میں لے لیا۔ شہر کے بڑے ہسپتال میں پوسٹ مارٹم کے بعد تینوں لاشیں ورثا کے حوالے کر دی گئیں۔ دوسرے دن مقامی اخبارات میں ایک چھوٹی سی خبر چھپی:

’’محفل موسیقی میں ایک نو جوان کی فائرنگ سے دو خواجہ سرا ہلاک ہو گئے بعد میں نوجوان نے خود کشی کر لی۔‘‘

سنتری کی جنتری کا آخری صفحہ فطرت کی سخت تعزیروں کے احوال کو سامنے لاتا ہے۔ اپنی خود نوشت کے اس آخری صفحہ پر اُس نے لکھا ہے:

’’جنوری کا مہینا تھامیں نے چاندنی چوک پر دیکھا کہ چیتھڑوں میں ملبوس ایک ضعیف اور اندھی بھکارن ہاتھ میں کشکول تھامے بھیک مانگ رہی تھی۔ اُس بڑھیا کی کمر جھکی ہوئی تھی اور وہ لاٹھی ٹیک کر اُس کے سہارے کھڑی تھی۔ ضعفِ پیری اور رعشہ کی وجہ سے وہ ضعیفہ تھر تھر کانپ رہی تھی۔ چوک پر لوگوں کی بھیڑ تھی اورہر کوئی اپنی فضا میں مست گھومتا پھرتا تھا۔ اس شہر ناپرساں میں کوئی بھی راہ گیر اِس اندھی اور لاغر بھکارن کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتا تھا۔‘‘ اسی اثنا میں اندھی بھکارن نے روتے ہوئے کہا:

’’میں دو دِن کی بھُوکی اور پیاسی ہوں۔ اس دنیا میں اب میرا نہ تو کوئی نام لیوا ہے اور نہ ہی پانی پلانے والا۔ مجھ غریب، محتاج اور اندھی بھکارن پر ترس کھاؤ اور مجھے کھانا کھلا دو۔ جو بھی مجھ دُکھیا کو ایک وقت کا کھانا کھلائے گا میں اس کے لیے دعا کروں گی۔‘‘

میں اس فاقہ کش اندھی بھکارن کو کھانا کھلانے کے سلسلے میں ابھی شش و پنج میں مبتلا تھا کہ ایک بوڑھے شخص نے مجھے رازدارانہ لہجے میں کہا:

’’یہ بڑھیا تو آفت کی پُڑیا ہے اس کے مکر کی چالوں سے فریب نہ کھانا اپنی جان عزیز ہے تو اِس اندھی بھکارن سے چار گز کے فاصلے پر کھڑے ہونا۔ یہ اس شہر کے قحبہ خانوں کی بے رحم نائکہ قفسو ہے جس نے اس شہر کے سیکڑوں نوجوانوں کی زندگی کی سہانی رُتوں کو بے ثمر کر دیا۔ ایڈز کے بعد اس رذیل نائکہ کو اب کورونا وائرس نے دبوچ رکھا ہے۔ اسے نوجوان طوائفوں نے اکتیس مارچ 2020ء کی شام کو اپنے قحبہ خانے سے دھکے دے کر نکال باہر کیا ہے۔ سادیت پسندی کی عادی یہ احمق بڑھیا کل شام قرنطینہ کے معالجین کو جُل دے کر وہاں سے چوروں کی طرح نکل آئی۔ کل تک تخت و تاج کا دماغ رکھنے والی یہ رذیل طوائف اب زمین کا بوجھ بن چکی ہے۔ کورونا وائرس کے ماہر معالج کہتے ہیں کہ اس اندھی بھکارن کا جانا ٹھہر گیا ہے اب یہ صبح گئی کہ شام گئی۔ فطرت کی تعزیروں اور حالات کی زد میں آنے کے بعد یہ نائکہ بہت جلد اپنے انجام کو پہنچنے والی ہے۔‘‘

اپنی خود نوشت کے آخری صفحہ کی اختتامی سطور میں سنتری نے لکھا ہے:

’’یہ سنتے ہی میں لرز اُٹھا اور وہاں سے بہت دُور نکل آیا۔ میں اپنے دِل پر ہاتھ رکھ کر یہ سوچنے لگا کہ یقیناً انسان خسارے میں ہے۔‘‘

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید