صفحات

تلاش کریں

دور گگن پر(گیت) از ساحر لدھیانوی





(گیت)

ساحر لدھیانوی

جمع و ترتیب: محمد بلال اعظم

اپنے نغموں کی جھولی پسارے

دربدر پھر رہا ہوں

مجھ کو امن اور تہذیب کی بھیک دو!
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے

کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے
کہ جیسے تجھ کو بنایا گیا ہے میرے لئے
تو اب سے پہلے ستاروں میں بس رہی تھی کہیں
تجھے زمیں پہ بلایا گیا ہے میرے لئے
کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے
کہ یہ بدلتی نگاہیں مری امانت ہیں
یہ گیسوؤں کی گھنی چھاؤں ہے مری خاطر
یہ ہونٹ اور یہ بانہیں مری امانت ہیں
کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے!
کہ جیسے بجتی ہیں شہنائیاں سی راہوں میں
سہاگ رات ہے، گھونگھٹ اٹھا رہا ہوں میں
سمٹ رہی ہے تو شرما کے اپنی بانہوں میں
کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے!
کہ جیسے تو مجھے چاہے گی عمر بھر یوں ہی
لٹے گی میری طرف پیار کی نظر یوں ہی
میں جانتا ہوں کہ تو غیر ہے مگر یوں ہی
کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے!
٭٭٭

سب میں شامل ہو مگر سب سے جدا لگتی ہو

سب میں شامل ہو مگر سب سے جدا لگتی ہو
صرف ہم سے نہیں خود سے بھی جدا لگتی ہو
آنکھ اٹھتی ہے نہ جھکتی ہے کسی کی خاطر
سانس چڑھتی ہے نہ رکتی ہے کسی کی خاطر
جو کسی در پہ نہ ٹھہرے وہ ہوا لگتی ہو
زلف لہرائے تو آنچل میں چھپا لیتی ہو
ہونٹ تھرائے تو دانتوں میں دبا لیتی ہو
جو کبھی کھل کے نہ برسے وہ گھٹا لگتی ہو
جاگی جاگی نظر آئی ہو نہ سوئی سوئی!
تم جو ہو اپنے خیالات میں کھوئی کھوئی
کسی مایوس مصور کی دعا لگتی ہو!
٭٭٭

شرما کے یوں نہ دیکھ ادا کے مقام سے

شرما کے یوں نہ دیکھ ادا کے مقام سے
اب بات بڑھ چکی ہے حیا کے مقام سے
تصویر کھینچ لی ہے ترے شوخ حسن کی
میری نظر نے آج خطا کے مقام سے
دنیا کو بھول کر مری بانہوں میں جھول جا
آواز دے رہا ہوں وفا کے مقام سے
دل کے معاملے میں نتیجے کی فکر کیا
آگے ہے عشق، جرم و سزا کے مقام سے
٭٭٭

میں نے دیکھا ہے کہ ۔۔۔(دو گانا)

(ا)

میں نے دیکھا ہے کہ پھولوں سے لدی شاخوں میں

تم لچکتی ہوئی یوں میرے قریب آئی ہو

جیسے مدت سے یونہی ساتھ رہا ہو اپنا

جیسے اب کی نہیں، برسوں کی شناسائی ہو

(ب)

میں نے دیکھا ہے کہ گاتے ہوئے جھرنوں کے قریب

اپنی بے تابیِ جذبات کہی ہے تم نے

کانپتے ہونٹوں سے، رکتی ہوئی آواز کے ساتھ

جو مرے دل میں تھی، وہ بات کہی ہے تم نے

(ا)

آنچ دینے لگا قدموں کے تلے برف کا عرش

آج جانا کہ محبت میں ہے گرمی کتنی

سنگِ مرمر کی طرح سخت بدن میں تیرے

آ گئی ہے مرے چھو لینے سے نرمی کتنی

(ب)

ہم چلے جاتے ہیں، اور دور تلک کوئی نہیں

صرف پتوں کے چٹخنے کی صدا آتی ہے

دل میں کچھ ایسے خیالات نے کروٹ لی ہے

مجھ کو تم سے نہیں اپنے سے حیا آتی ہے

٭٭٭

جانے کیا تو نے کہی

جانے کیا تو نے کہی

جانے کیا میں نے سنی

بات کچھ بن ہی گئی

سنسناہٹ سی ہوئی

تھرتھراہٹ سی ہوئی

جاگ اٹھے خواب کئی

بات کچھ بن ہی گئی

نین جھک جھک کے اٹھے

پاؤں رک رک کے اٹھے

ہو گئی چال نئی

بات کچھ بن ہی گئی

زلف شانے پہ مڑی

ایک خوشبو سی اڑی

کھل گئے راز کئی

بات کچھ بن ہی گئی

جانے کیا تو نے کہی

٭٭٭

پاؤں چھو لینے دو(دو گانا)

(ا)

پاؤں چھو لینے دو، پھولوں کو عنایت ہو گی

ورنہ ہم کو نہیں، ان کو بھی شکایت ہو گی

(ب)

آپ جو پھول بچھائیں، انہیں ہم ٹھکرائیں

ہم کو ڈر ہے کہ یہ توہینِ محبت ہو گی

(ا)

دل کی بے چین امنگوں پہ کرم فرماؤ

اتنا رک رک کے چلو گی تو قیامت ہو گی


(ب)

شرم روکے ہے ادھر، شوق ادھر کھینچے ہے

کیا خبر تھی کبھی اس دل کی یہ حالت ہو گی

(ا)

شرم غیروں سے ہوا کرتی ہے، اپنوں سے نہیں

شرم ہم سے بھی کرو گی تو مصیبت ہو گی

٭٭٭
مرے دل میں آج کیا ہے

مرے دل میں آج کیا ہے، تو کہے تو میں بتا دوں

تری زلف پھر سنواروں، تری مانگ پھر سجا دوں

مجھے دیوتا بنا کر تری چاہتوں نے پوجا

مرا پیار کہہ رہا ہے میں تجھے خدا دوں

کوئی ڈھونڈنے بھی آئے تو ہمیں نہ ڈھونڈ پائے

تو مجھے کہیں چھپا دے، میں تجھے کہیں چھپا دوں

مرے بازوؤں میں آ کر ترا درد چین پائے

ترے گیسوؤں میں چھپ کر میں جہاں کے غم بھلا دوں

تری زلف پھر سنواروں، تری مانگ پھر سجا دوں

مرے دل میں آج کیا ہے، تو کہے تو میں بتا دوں
 ٭٭٭

ہم آپ کی آنکھوں میں (دو گانا)


(ا)

ہم آپ کی آنکھوں میں اس دل کو بسا دیں تو؟

(ب)

ہم موند کے پلکوں کو اس دل کو سزا دیں تو؟

(ا)

ان زلفوں میں گوندھیں گے ہم پھول محبت کے

(ب)

زلفوں کو جھٹک کر ہم یہ پھول گرا دیں تو؟

(ا)

ہم آپ کو خوابوں میں لا لا کے ستائیں گے

(ب)

ہم آپ کی آنکھوں سے نیندیں ہی اڑا دیں تو؟

(ا)

ہم آپ کے قدموں پر گر جائیں گے غش کھا کے

(ب)

اس پر بھی نہ ہم اپنے آنچل کی ہوا دیں تو؟

٭٭٭

نظر سے دل میں سمانے والے


نظر سے دل میں سمانے والے، مری محبت ترے لئے ہے

وفا کی دنیا میں آنے والے، وفا کی دولت ترے لئے ہے

کھڑی ہوں میں تیرے راستے میں، جواں امیدوں کے پھول لے کر

مہکتی زلفوں، بہکتی نظروں کی گرم جنت ترے لئے ہے

سوا تری آرزو کے اس دل میں کوئی بھی آرزو بھی نہیں ہے

ہر ایک جذبہ، ہر ایک دھڑکن، ہر ایک حسرت ترے لئے ہے

مرے خیالوں کے نرم پودوں سے جھانک کر مسکرانے والے

ہزار خوابوں سے جو سجی ہے، وہ اک حقیقت ترے لئے ہے

٭٭٭

یہ زلف اگر کھل کے بکھر جائے تو اچھا

یہ زلف اگر کھل کے بکھر جائے تو اچھا

اس رات کی تقدیر سنور جائے تو اچھا

جس طرح سے تھوڑی سی ترے ساتھ کٹی ہے

باقی بھی اسی طرح گزر جائے تو اچھا

دنیا کی نگاہوں میں بھلا کیا ہے، برا کیا

یہ بوجھ اگر دل سے اتر جائے تو اچھا

ویسے تو تمہیں نے مجھے برباد کیا ہے

الزام کسی اور کے سر آ جائے تو اچھا

یہ زلف اگر کھل کے بکھر جائے تو اچھا

٭٭٭

پگھلا ہے سونا دور گگن پر

پگھلا ہے سونا دور گگن پر،پھیل رہے ہیں شام کے سائے

خاموشی کچھ بول رہی ہے

بھید انوکھے کھول رہی ہے

پنکھ پکھیرو سوچ میں گم ہیں، پیڑ کھڑ ہیں سیس جھکائے

پگھلا ہے سونا دور گگن پر،پھیل رہے ہیں شام کے سائے

دھندلے دھندلے مست نظارے

اڑتے بادل، مڑتے دھارے

چھپ کے نظر سے جانے یہ کس نے رنگ رنگیلے کھیل رچائے

پگھلا ہے سونا دور گگن پر،پھیل رہے ہیں شام کے سائے

کوئی بھی اس کا راز نہ جانے

ایک حقیقت لاکھ فسانے

ایک ہی جلوہ شام سویرے، بھیس بدل کر سامنے آئے

پگھلا ہے سونا دور گگن پر،پھیل رہے ہیں شام کے سائے
 ٭٭٭

پربتوں کے پیڑوں پر شام کا بسیرا ہے

پربتوں کے پیڑوں پر شام کا بسیرا ہے

سرمئی اجالا ہے، چمپئی اندھیرا ہے

دونوں وقت ملتے ہیں دو دلوں کی صورت سے

آسماں نے خوش ہو کر رنگ سا بکھیرا ہے

ٹھہرے ٹھہرے پانی میں گیت سرسراتے ہیں

بھیگے بھیگے جھونکوں میں خوشبوؤں کا ڈیرا ہے

کیوں نہ جذب ہو جائیں، اس حسیں نظارے میں

روشنی کا جھرمٹ ہے، مستیوں کا گھیرا ہے

٭٭٭

میں نے شاید تمہیں پہلے بھی کہیں دیکھا ہے


میں نے شاید تمہیں پہلے بھی کہیں دیکھا ہے

اجنبی سی ہو مگر غیر نہیں لگتی ہو

وہم سے بھی جو ہو نازک وہ یقیں لگتی ہو

ہائے یہ پھول سا چہرہ، یہ گھنیری زلفیں

میرے شعروں سے بھی تم مجھ کو حسیں لگتی ہو

میں نے شاید تمہیں پہلے بھی کہیں دیکھا ہے

دیکھ کر تم کو کسی رات کی یاد آتی ہے

ایک خاموش ملاقات کی یاد آتی ہے

ذہن میں حسن کی ٹھنڈک کا اثر جاگتا ہے

آنچ دیتی ہوئی برسات کی یاد آتی ہے

میں نے شاید تمہیں پہلے بھی کہیں دیکھا ہے

میری آنکھیں پہ جھکی رہتی ہیں پلکیں جس کی

تم وہی میرے خیالوں کی پری ہو کہ نہیں

کہیں پہلے کی طرح پھر تو نہ کھو جاؤ گی

جو ہمیشہ کے لئے ہو وہ خوشی ہو کہ نہیں

میں نے شاید تمہیں پہلے بھی کہیں دیکھا ہے

٭٭٭

دور رہ کر نہ کرو بات۔۔۔۔

دور رہ کر نہ کرو بات، قریب آ جاؤ

یاد رہ جائے گی یہ رات، قریب آ جاؤ

ایک مدت سے تمنا تھی تمہیں چھونے کی

آج بس میں نہیں جذبات، قریب آ جاؤ

سرد شعلے سے بھڑکتے ہیں بدن میں شعلے

جان لے لے گی یہ برسات، قریب آ جاؤ

اس قدر ہم سے جھجکنے کی ضرورت کیا ہے

زندگی بھر کا ہے اب ساتھ، قریب آ جاؤ

٭٭٭

کشتی کا خاموش سفر ہے (دو گانا)

(ا)

کشتی کا خاموش سفر ہے، شام بھی ہے تنہائی بھی

دور کنارے پہ بجتی ہے، لہروں کی شہنائی بھی

آج مجھے کچھ کہنا ہے

(ب)

لیکن یہ شرمیلی نگاہیں، مجھ کو اجازت دیں تو کہوں

خود میری بے تاب امنگیں تھوڑی فرصت دیں تو کہوں

آج مجھے کچھ کہنا ہے

(ا)

جو کچھ تم کو کہنا ہے، وہ میرے ہی دل کی بات نہ ہو

جو ہے مرے خوابوں کی منزل، اس منزل کی بات نہ ہو

آج مجھے کچھ کہنا ہے

(ا)

کہتے ہوئے یہ ڈر لگتا ہے، کہہ کر بات نہ کھو بیٹھوں

یہ جو ذرا سا ساتھ ملا ہے، یہ بھی ساتھ نہ کھو بیٹھوں

آج مجھے کچھ کہنا ہے

(ب)

کب سے تمہارے رستے میں، میں پھول بچھائے بیٹھی ہوں

کہہ بھی چکو جو کہنا ہے، میں آس لگائے بیٹھی ہوں

آج مجھے کچھ کہنا ہے

دل نے دل کی بات سمجھ لی، اب منہ سے کیا کہنا ہے

آج نہیں تو کل کہہ لیں گے، اب تو ساتھ ہی رہنا ہے

کہہ بھی دو، جو کہنا ہے،

چھوڑو، اب کیا کہنا ہے!!

٭٭٭

کون آیا کہ نگاہوں میں چمک جاگ اٹھی


کون آیا کہ نگاہوں میں چمک جاگ اٹھی

دل کے سوئے ہوئے تاروں میں کھنک جاگ اٹھی

کس کے آنے کی خبر لے کے ہوائیں آئیں

جسم سے پھول چٹکنے کی صدائیں آئیں

روح کھلنے لگی، سانسوں میں مہک جاگ اٹھی

دل کے سوئے ہوئے تاروں میں کھنک جاگ اٹھی

کس نے یوں میری طرف دیکھ کے باہیں کھولیں

شوخ جذبات نے سینے میں نگاہیں کھولیں

ہونٹ تپنے لگے، زلفوں میں لچک جاگ اٹھی

دل کے سوئے ہوئے تاروں میں کھنک جاگ اٹھی

کس کے ہاتھوں نے مرے ہاتھوں سے کچھ مانگا ہے

کس کے خوابوں نے مرے خوابوں سے کچھ مانگا ہے

دل مچلنے لگا، آنچل میں دھنک جاگ اٹھی

دل کے سوئے ہوئے تاروں میں کھنک جاگ اٹھی

٭٭٭

چہرے پہ خوشی چھا جاتی ہے


چہرے پہ خوشی چھا جاتی ہے، آنکھوں میں سرور آ جاتا ہے

جب تم مجھے اپنا کہنے ہو، اپنے پہ غرور آ جاتا ہے

تم حسن کی خود اک دنیا ہو، شاید یہ تمہیں معلوم نہیں

محفل میں تمہارے آنے سے ہر چیز پہ نور آ جاتا ہے

ہم پاس سے تم کو کیا دیکھیں، تم جب بھی مقابل ہوتے ہو

بیتاب نگاہوں کے آگے پردہ سا ضرور آ جاتا ہے

جب تم سے محبت کی ہم نے، تب جا کے کہیں یہ راز کھلا

مرنے کا سلیقہ آتے ہی جینے کا شعور آ جاتا ہے

٭٭٭

یہ پربتوں کے دائرے

یہ پربتوں کے دائرے، یہ شام کا دھواں

ایسے میں کیوں نہ چھیڑ دیں دلوں کی داستاں

ذرا سی زلف کھول دو

خزاں میں عطر گھول دو

نظر جو کہہ چکی ہے وہ

بات منہ سے بول دو

کہ جھول اٹھے نگاہ میں بہاروں کا سماں

یہ چپ بھی اک سوال ہے

عجیب دل کا حال ہے

یہ اک خیال کھو گیا

بس اب یہی خیال ہے

یہ رنگ روپ، یہ پون!

چمکتے چاند کا بدن

برا نہ مانو تم اگر!

تو چوم لوں کرن کرن

کہ آج حوصلوں میں ہیں بلا کی گرمیاں!

٭٭٭
ہر وقت ترے حسن کا ہوتا ہے سماں اور

ہر وقت ترے حسن کا ہوتا ہے سماں اور

ہر وقت مجھے چاہیے اندازِ بیاں اور

پھولوں سا کبھی نرم ہے، شعلوں سا کبھی گرم

مستانی ادائیں کبھی شوخی ہے کبھی شرم

ہر صبح گماں اور ہے، ہر رات گماں اور

ملنے نہیں پاتیں ترے جلووں سے نگاہیں!

تھکنے نہیں پاتیں گلے لپٹا کے یہ بانہیں!

چھو لینے سے ہوتا ہے ترا جسم جواں اور!

پلتا ہے ترے حسن کا طوفانِ بہاراں

تو اپنی مثال آپ ہے اے جانِ بہاراں

دنیا کے حسینوں میں نہیں تجھ سا جواں اور

٭٭٭

غصے میں جو نکھرا ہے، اس حسن کا کیا کہنا

غصے میں جو نکھرا ہے، اس حسن کا کیا کہنا

کچھ دیر ابھی ہم سے تم یوں ہی خفا رہنا

اس حسن کے شعلے کی تصویر بنا لیں ہم

ان گرم نگاہوں کو سینے سے لگا لیں ہم

پل بھر اسی عالم میں اے جانِ ادا رہنا

کچھ دیر ابھی ہم سے، تم یوں ہی خفا رہنا

یہ دہکا ہوا چہرہ، یہ بکھری ہوئی زلفیں

یہ بڑھتی ہوئی دھڑکن، یہ چڑھتی ہوئی سانسیں

سامانِ قضا ہو تم، سامانِ قضا رہنا

کچھ دیر ابھی ہم سے تم یوں ہی خفا رہنا

پہلے بھی حسیں تھیں تم، لیکن یہ حقیقت ہے

وہ حسن مصیبت تھا، یہ حسن قیامت ہے

اوروں سے تو بڑھ کر ہو، خود سے بھی سوا رہنا

کچھ دیر ابھی ہم سے تم یوں ہی خفا رہنا

٭٭٭

ملے جتنی شراب، میں تو پیتا ہوں

ملے جتنی شراب، میں تو پیتا ہوں

رکھے کون یہ حساب، میں تو پیتا ہوں

ایک انسان ہوں میں، فرشتہ نہیں

جو فرشتے بنیں، ان سے رشتہ نہیں

کہو اچھا یا خراب، میں تو پیتا ہوں

ملے جتنی شراب، میں تو پیتا ہوں

ہوش مجھ کو رہے تو ستم گھیر لیں

کئی دکھ گھیر لیں، کئی غم گھیر لیں

سہے کون یہ عذاب، میں تو پیتا ہوں

ملے جتنی شراب، میں تو پیتا ہوں

کوئی اپنا اگر ہو تو ٹوکے مجھے

میں غلط کر رہا ہوں تو روکے مجھے

کسے دینا ہے حساب، میں تو پیتا ہوں

ملے جتنی شراب، میں تو پیتا ہوں

٭٭٭

مقدر کا لکھا مٹتا نہیں آنسو بہانے سے (دو گانا)

عمر خیام:

مقدر کا لکھا مٹتا نہیں آنسو بہانے سے

یہ وہ ہونی ہے، جو ہو کر رہے گی ہر بہانے سے

اگر جینے کی خواہش ہے تو مستوں کی طرح جی لے

کہ محفل ہوش کی سونی پڑی ہے اک زمانے سے

رقاصہ:

یہ مچلتی امنگیں کہیں سو نہ جائیں

یہ صبحیں، یہ شامیں یونہی کھو نہ جائیں

کوئی صبح لے لے، کوئی شام لے لے

جوانی کے سر کوئی الزام لے لے

عمر خیام:

یہ موسم، یہ ہوا، یہ رت سہانی پھر نہ آئے گی

ارے او جینے والے، زندگانی پھر نہ آئے گی

کوئی حسرت نہ رکھ دل میں، یہ دنیا چار دن کی ہے

جوانی موجِ دریا ہے، جوانی پھر نہ آئے گی

رقاصہ:

نگاہیں ملا، اور اک جام لے لے

جوانی کے سر کوئی الزام لے لے

گناہوں کے سائے میں پلتی ہے جنت

حسینوں کے ہمراہ چلتی ہے جنت

حسینوں کے پہلو میں آرام لے لے

جوانی کے سر کوئی الزام لے لے

٭٭٭

یہ حسن مرا یہ عشق ترا

یہ حسن مرا یہ عشق ترا رنگین تو ہے بدنام سہی

مجھ پر تو کئی الزام لگے، تجھ پر بھی کوئی الزام سہی

اس رات کی نکھری رنگت کو کچھ اور نکھر جانے دے ذرا

نظروں کو بہک جانے دے ذرا، زلفوں کو بکھر جانے دے ذرا

کچھ دیر کی تسکیں ہی سہی، کچھ دیر کا ہی آرام سہی

جذبات کی کلیاں چننی ہیں اور پیار کا تحفہ دینا ہے

لوگوں کی نگاہیں کچھ بھی کہیں، لوگوں سے ہمیں کیا لینا ہے

یہ خاص تعلق آپس کا دنیا کی نظر میں عام سہی

رسوائی کے ڈر سے گھبرا کر ہم ترکِ وفا کب کرتے ہیں

جس دل کو بسا لیں پہلو میں، اس دل کو جدا کب کرتے ہیں

جو حشر ہوا لاکھوں کا، اپنا بھی وہی انجام سہی

کب غم کی گھٹائیں چھا جائیں، معصوم خوش کو علم نہیں

ہم آج تو جی لیں جی بھر کے، کل کیا ہو کسی کو علم نہیں

اک اور رسیلی صبح سہی، اک اور نشیلی شام سہی

٭٭٭

مجھے مل گیا بہانہ

مجھے مل گیا بہانہ تیری دید کا

کیسی خوشی لے کے آیا چاند عید کا

زلف مچل کے کھل کھل جائے

چاند میں مستی گھل گھل جائے

ایسی خوشی آج ملی، آنکھوں میں نام نہیں نیند کا

جاگتی آنکھیں بنتی ہیں سپنے

تجھ کو بٹھا کے پہلو میں اپنے

دل کی لگی ایسی بڑھی، آنکھوں میں نام نہیں نیند کا

آتے ہی تیرے چٹکی ہیں کلیاں

دل بن بن کے دھڑکی ہیں کلیاں

ایسی سجی رات میری، آنکھوں میں نام نہیں نیند کا

کیسی خوشی لے کے آیا چاند عید کا

٭٭٭










آج کی رات مرادوں کی برات آئی ہے







آج کی رات مرادوں کی برات آئی ہے




آج کی رات نہیں شکوے شکایت کے لئے

آج ہر لمحہ، ہر اک پل ہے محبت کے لئے

ریشمی سیج ہے، مہکی ہوئی تنہائی ہے

آج کی رات مرادوں کی برات آئی ہے




ہر گنہ آج مقدس ہے فرشتوں کی طرح

کانپتے ہاتھوں کو مل جانے دو رشتوں کی طرح

آج ملنے میں نہ الجھن ہے نہ رسوائی ہے

آج کی رات مرادوں کی برات آئی ہے




اپنی زلفیں مرے شانے پہ بکھر جانے دو

اس حسیں رات کو کچھ اور نکھر جانے دو

صبح نے آج نہ آنے کی قسم کھائی ہے

آج کی رات مرادوں کی برات آئی ہے

٭٭٭










شعر کا حسن ہو، نغموں کی جوانی تم ہو




شعر کا حسن ہو، نغموں کی جوانی تم ہو

اک دھڑکتی ہوئی شاداب کہانی ہو تم




آنکھ ایسی کہ کنول تم سے نشانی مانگے

زلف ایسی کہ گھٹا شرم سے پانی مانگے

جس طرف سے بھی نظر ڈالو، سہانی ہو تم




جسم ایسا کہ اجنتا کا عمل یاد آئے

سنگ مرمر میں ڈھلا تاج محل یاد آئے

پگھلے پگھلے ہوئے رنگوں کی جوانی ہو تم

شعر کا حسن ہو، نغموں کی جوانی تم ہو

٭٭٭










ہم جب چلیں




ہم جب چلیں تو یہ جہاں جھومے

آرزو ہماری آسماں چومے




ہم نئے جہاں کے پاسباں

ہم نئی بہار کے راز داں

ہم ہنسیں تو ہنس پڑے ہر کلی

ہم چلیں تو چل پڑے زندگی




سارے نظاروں میں، پھولوں میں، تاروں میں، ہم نے ہی جادو بھرا




ہم سے فضاؤں میں رنگ و بو

ہم ہیں اس زمیں کی آبرو

ندیوں کی راگنی ہم سے ہے

ہر طرف یہ تازگی ہم سے ہے




سارے نظاروں میں، پھولوں میں، تاروں میں، ہم نے ہی جادو بھرا




دور ہو گئیں سبھی مشکلیں!

کھنچ کے پاس آ گئیں منزلیں

دیکھ کر شباب کے حوصلے

خودبخود سمٹ گئے فاصلے




سارے نظاروں میں، پھولوں میں، تاروں میں، ہم نے ہی جادو بھرا

٭٭٭










تم بھی چلو، ہم بھی چلیں




تم بھی چلو، ہم بھی چلیں، چلتی رہے زندگی

نہ زمیں منزل نہ آسماں، زندگی ہے زندگی




پیچھے دیکھے نہ کب مڑ کے راہوں میں!

مجھے میرا دل تمہیں لے کے بانہوں میں

دھڑکنوں کی زباں نت کہے داستاں

پیار کی جھلمل چھاؤں میں پلتی رہے زندگی




بہتے چلیں ہم مستی کے دھاروں میں

گونجتے ہی رہیں سدا دل کے تاروں میں

اب رکے نہ کہیں پیار کا کارواں

نت نئی رت کے ڈھنگ ڈھلتی رہے زندگی

٭٭٭







نہ تو کارواں کی تلاش ہے

(کورس)




(ا)

نہ تو کارواں کی تلاش ہے، نہ تو ہم سفر کی تلاش ہے

مرے شوقِ خانہ خراب کو تری رہ گزر کی تلاش ہے




(ب)

مرے نا مراد جنوں کا ہے جو علاج کوئی تو موت ہے

جو دوا کے نام پہ زہر دے، اسی چارہ گر کی تلاش ہے




(ا)

ترا عشق ہے مری آرزو، ترا عشق ہے مری آبرو

ترا عشق کیسے میں چھوڑ دوں، مری عمر بھر کی تلاش ہے

دل عشق، جسم عشق اور جان عشق ہے

ایمان کی جو پوچھو تو ایمان عشق ہے

ترا عشق کیسے میں چھوڑ دوں، مری عمر بھر کی تلاش ہے




(پ)

وحشت دل رسن و دار سے روکی نہ گئی

کسی خنجر، کسی تلوار سے روکی نہ گئی

عشق، مجنوں کی وہ آواز ہے جس کے آگے

کوئی لیلیٰ کسی دیوار سے روکی نہ گئی

یہ عشق عشق ہے

وہ ہنس کے اگر مانگیں تو ہم جان بھی دے دیں

یہ جان تو کیا چیز ہے، ایمان بھی دے دیں

عشق آزاد ہے، ہندو نہ مسلمان سے عشق

جس سے آگاہ نہیں شیخ و برہمن دونوں

اس حقیقت کا گرجتا ہوا اعلان ہے عشق

عشق نہ پچھے دین دھرم نوں، عشق نہ پچھے ذاتاں

عشق دے ہتھوں گرم لہو وچ دبیاں لکھ براتاں

یہ عشق عشق ہے

جب جب کرشن کی بنسی باجی، نکلی رادھا سج کے

جان اجان کا دھیان بھلا کے، لوک لاج کو تج کے

بن بن ڈولی جنک دلاری، پہن کے پریم کی مالا

روشن جل کی پیاسی میرا، پی گئی بس کا پیالا

یہ عشق عشق ہے

اللہ اور رسول کا فرمان عشق ہے

یعنی حدیث عشق ہے، قرآن عشق ہے

گوتم کا اور مسیح کا ارمان عشق ہے

یہ کائنات عشق ہے اور جان عشق ہے

عشق سرمد، عشق ہی منصور ہے

عشق موسیٰ، عشق کوہِ طور ہے

خاک کو بت اور بت کو دیوتا کرتا ہے عشق

انتہا یہ ہے کہ بندے کو خدا کرتا ہے عشق

انتہا یہ ہے کہ بندے کو خدا کرتا ہے عشق

یہ عشق عشق ہے

٭٭٭










یار ہی میرا کپڑا لتا




یار ہی میرا کپڑا لتا، یار ہی میرا گہنا

یار ملے تو عزت سمجھوں کنجری بن کر رہنا




نی میں یار منانا نی چاہے لوگ بولیاں بولیں

میں تو باز نہ آنا نی چاہے زہر سوتنیں گھولیں




مکھڑا اس کا چاند کا ٹکڑا، قد سرو کا بوٹا

اس کی بانہہ کا ہر ہر پورا لگتا ہے کانچ کا ٹوٹا

یار ملے تو جگ کیا کرنا، یار بنا جگ سونا

جگ کے بدلے یار ملے تو یار کا مول دوں دونا




میں تو نئیں شرمانا چاہے لوگ بولیاں بولیں

میں تو سچ سجانا نی چاہے زہر سوتنیں گھولیں




تھرک رہی مرے پیر کی جھانجھر، جھنک رہا مرا چوڑا

ار اڑ جائے آنچل میرا، کھل کھل جائے جوڑا




بیٹھ اکیلی کرتی تھی میں دیواروں سے باتیں

آج ملا وہ یار تو بس گئیں پھر سے سونی راتیں




میں تو جھومر پانا نی چاہے لوگ بولیاں بولیں

نچ کے یار منانا نی چاہے زہر سوتنیں گھولیں




بچھڑے یار نے پھیرا ڈالا، پریت سہاگن ہوئی

آج ملی جو دولت اس کا مول نہ جانے کوئی

٭٭٭







ملتی ہے زندگی میں محبت کبھی کبھی




ملتی ہے زندگی میں محبت کبھی کبھی

ہوتی ہے دلبروں کی عنایت کبھی کبھی




شرما کے منہ نہ پھیر نظر کے سوال پر

لاتی ہے ایسے موڑ پہ قسمت کبھی کبھی




کھلتے نہیں ہیں روز دریچے بہار کے

آتی ہے جانِ من یہ قیامت کبھی کبھی




تنہا نہ کٹ سکیں گے جوانی کے راستے

پیش آئے گی کسی کی ضرورت کبھی کبھی




پھر کھو نہ جائیں ہم کہیں دنیا کی بھیڑ میں

ملتی ہے پاس آنے کی مہلت کبھی کبھی

٭٭٭










سرمئی رات ہے، ستارے ہیں




سرمئی رات ہے، ستارے ہیں

آج دونوں جہاں ہمارے ہیں

صبح کا انتظار کون کرے

پھر یہ رت، یہ سماں ملے نہ ملے

آرزو کا چمن کھلے نہ کھلے

وقت کا اعتبار کون کرے

لے بھی لو ہم کو بانہوں میں

روح بے چین ہے نگاہوں میں

التجا بار بار کون کرے؟

٭٭٭










نغمہ و شعر کی سوغات کسے پیش کروں




نغمہ و شعر کی سوغات کسے پیش کروں

یہ چھلکتے ہوئے جذبات کسے پیش کروں؟




شوخ آنکھوں کے اجالوں کو لٹاؤں کس پر

مست زلفوں کی سیہ رات کسے پیش کروں؟




گرم سانسوں میں چھپے راز بتاؤں کس کو

نرم ہونٹوں میں دبی بات کسے پیش کروں؟




کوئی ہمراز تو پاؤں، کوئی ہمدم تو ملے

دل کی دھڑکن کے اشارات کسے پیش کروں؟

٭٭٭










اپنا دل پیش کروں، اپنی وفا پیش کروں




اپنا دل پیش کروں، اپنی وفا پیش کروں

کچھ سمجھ میں نہیں آتا، تجھے کیا پیش کروں




تیرے ملنے کی خوشی میں کوئی نغمہ چھیڑوں

یا ترے دردِ جدائی کا گلہ پیش کروں




میرے خوابوں میں بھی تو، میرے خیالوں میں بھی تو

کون سی چیز تجھے تجھ سے جدا پیش کروں




جو ترے دل کو لبھائے وہ ادا مجھ میں نہیں

کیوں نہ تجھ کو کوئی تیری ہی ادا پیش کروں

٭٭٭













سلامِ حسرت قبول کر لو







سلامِ حسرت قبول کر لو

مری محبت قبول کر لو

اداس نظریں تڑپ تڑپ کر تمہارے جلووں کو ڈھونڈتی ہیں

جو خواب کی طرح کھو گئے، ان حسین لمحوں کو ڈھونڈتی ہیں

اگر نہ ہو ناگوار تم کو، تو یہ شکایت قبول کر لو!

مری محبت قبول کر لو




تمہی نگاہوں کی آرزو ہو، تمہی خیالوں کا مدعا ہو

تمہی مرے واسطے صنم ہو، تمہی مرے واسطے خدا ہو

مری پرستش کی لاج رکھ لو، مری عبادت قبول کر لو

مری محبت قبول کر لو




تمہاری جھکتی نظر سے جب تک نہ کوئی پیغام مل سکے گا

نہ روح تسکیں پاسکے گی، نہ دل کو آرام مل سکے گا

غمِ جدائی ہے جان لیوا، یہ اک حقیقت قبول کر لو

مری محبت قبول کر لو

٭٭٭










بھولے سے محبت کر بیٹھا







بھولے سے محبت کر بیٹھا، ناداں تھا بچارا، دل ہی تو ہے

ہر دل سے خطا ہو جاتی ہے، بگڑو نہ خدارا، دل ہی تو ہے




اس طرح نگاہیں مت پھیرو، ایسا نہ ہو دھڑکن رک جائے

سینے میں کوئی پتھر تو نہیں، احساس کا مارا، دل ہی تو ہے




جذبات بھی ہندو ہوتے ہیں، چاہت بھی مسلماں ہوتی ہے

دنیا کا اشارہ تھا لیکن سمجھا نہ اشارہ، دل ہی تو ہے




بیداد گروں کی ٹھوکر سے، سب خواب سہانے چور ہوئے

اب دل کا سہارا غم ہی تو ہے، اب غم کا سہارا دل ہی تو ہے

٭٭٭










بھول سکتا ہے بھلا کون یہ پیاری آنکھیں




بھول سکتا ہے بھلا کون یہ پیاری آنکھیں

رنگ میں ڈوبی ہوئی، نیند سے بھاری آنکھیں




میری ہر سوچ نے، ہر سانس نے چاہا ہے تمہیں

جب سے دیکھا ہے تمہیں، تب سے سراہا ہے تمہیں

بس گئی ہیں مری آنکھوں میں تمہاری آنکھیں

تم جو نظروں کو اٹھاؤ تو ستارے جھک جائیں

تم جو پلکوں کو جھکاؤ تو زمانے رک جائیں

کیوں نہ بن جائیں ان آنکھوں کی پجاری آنکھیں

جاگتی راتوں کو سپنوں کا خزانہ مل جائے

تم جو مل جاؤ تو جینے کا بہانہ مل جائے

اپنی قسمت پہ کریں ناز ہماری آنکھیں

٭٭٭










یہ بہاروں کا سماں




یہ بہاروں کا سماں، چاند تاروں کا سا ں

کھو نہ جائے، آ بھی جا

آسماں سے رنگ بن کر بہہ رہی ہے چاندنی

بے زبانی کی زباں سے کہہ رہی ہے چاندنی

جاگتی رت ناگہاں، سو نہ جائے، آ بھی جا

رات کے ہمراہ ڈھلتی جا رہی ہے زندگی

شمع کی صورت پگھلتی جا رہی ہے زندگی

روشنی بجھ کر دھواں ہو نہ جائے، آ بھی جا

آ ذرا ہنس کر نگاہوں میں نگاہیں ڈال دے

دیر کی ترسی ہوئی بانہوں میں بانہیں ڈال دے

حسرتوں کا کارواں کھو نہ جائے، آ بھی جا

٭٭٭










آج سجن موہے انگ لگا لو




آج سجن موہے انگ لگا لو، جنم سپھل ہو جائے

ہردے کی پیڑ، دیہہ کی اگنی، سب شیتل ہو جائے




کیے لاکھ جتن، مورے من کی تپن، مورے تن کی جلن، نہیں جائے

کیسی لاگی یہ لگن، کیسی جاگی یہ اگن، جیا دھیر دھرن نہیں پائے




پریم سدھا اتنی برسا دو، جگ جل تھل ہو جائے

آج سجن موہے انگ لگا لو، جنم سپھل ہو جائے



کئی جگوں سے ہیں جاگے، مورے نین ابھاگے، کہیں جیا نہیں لاگے بن تورے

سکھ دیکھے نا ہیں آگے، دکھ پیچھے پیچھے بھاگے، جگ سونا سونا لاگے بن تورے




پریم سدھا اتنی برسا دو، جگ جل تھل ہو جائے

آج سجن موہے انگ لگا لو، جنم سپھل ہو جائے




موہے اپنا بنا لو، موری بانہہ پکڑ، میں ہوں جنم جنم کی داسی

موری پیاس بجھا دو، من ہر گردھر، میں ہوں انتر گھٹ تک پیاسی




پریم سدھا اتنی برسا دو، جگ جل تھل ہو جائے

آج سجن موہے انگ لگا لو، جنم سپھل ہو جائے

٭٭٭










ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر

(دو گانا)




(ا)

ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر کہ دل ابھی بھرا نہیں

ابھی ابھی تو آئی ہو، بہار بن کے چھائی ہو

ہوا ذرا مہک تو لے، نظر ذرا بہک تو لے

یہ شام ڈھل تو لے ذرا، یہ دل سنبھل تو لے ذرا

میں تھوڑی دیر جی تو لوں، نشے کے گھونٹ پی تو لوں

ابھی تو کچھ کہا نہیں، ابھی تو کچھ سنا نہیں




(ب)

ستارے جھلملا اٹھے، چراغ جگمگا اٹھے

بس اب نہ مجھ کو ٹوکنا، نہ بڑھ کے روکنا

اگر میں رک گئی ابھی تو جا نہ پاؤں گی کبھی

یہی کہو گے تم سدا کہ دل ابھی بھرا نہیں

جو ختم ہو کسی گہ، یہ ایسا سلسلہ نہیں




(ا)

ادھوری آس چھوڑ کے، ادھوری پیاس چھوڑ کے

جو روز یونہی جاؤ گی تو کس طرح نبھاؤ گی؟

کہ زندگی کی راہ میں، جواں دلوں کی چاہ میں

کئی مقام آئیں گے، جو ہم کو آزمائیں گے

برا نہ مانو بات کا، یہ پیار ہے گلہ نہیں




(ب)

جہاں میں ایسا کون ہے کہ جس کو غم ملا نہیں

دکھ اور سکھ کے راستے بنے ہیں سب کے واسطے

جو غم سے ہار جاؤ گے تو کس طرح نبھاؤ گے

خوشی ملے ہمیں کہ غم جو ہو گا بانٹ لیں گے ہم

مجھے تم آزماؤ تو، ذرا نظر ملاؤ تو

یہ جسم دو سہی مگر، دلوں میں فاصلہ نہیں

تمہارے پیار کی قسم، تمہارا غم ہے میرا غم

نہ یوں بجھے بجھے رہو، جو دل کی بات ہے کہو

جو مجھ سے بھی چھپاؤ گے تو پھر کسے بتاؤ گے

میں کوئی غیر تو نہیں، دلاؤں کس طرح یقیں

کہ تم سے میں جدا نہیں، مجھ سے تم جدا نہیں

٭٭٭










آج کیوں ہم سے پردہ ہے




آج کیوں ہم سے پردہ ہے؟




تیرا ہر رنگ ہم نے دیکھا ہے

تیرا ہر ڈھنگ ہم نے دیکھا ہے

ہاتھ کھیلے ہیں تیری زلفوں سے

آنکھ واقف ہے تیرے جلووں سے

تجھ کو ہر طرح آزمایا ہے

پا کے کھویا ہے، کھو کے پایا ہے

انکھڑیوں کا بیاں سمجھتے ہیں

دھڑکنوں کی زباں سمجھتے ہیں

چوڑیوں کی کھنک سے واقف ہیں

چھاگلوں کی چھنک سے واقف ہیں

ناز و انداز جانتے ہیں ہم

تیرا ہر راز جانتے ہیں ہم




آج کیوں ہم سے پردہ ہے؟




منہ چھپانے سے فائدہ کیا ہے

دل دکھانے سے فائدہ کیا ہے

الجھی الجھی لٹیں سنوار کے آ

حسن کو اور بھی نکھار کے آ

نرم گالوں میں بجلیاں لے کر

شوخ آنکھوں میں تتلیاں لے کر

آ بھی جا اب ادا سے لہراتی

ایک دلہن کی طرح شرماتی

تو نہیں ہے تو رات سونی ہے

عشق کی کائنات سونی ہے

مرنے والوں کی زندگی تو ہے

اس اندھیرے کی روشنی تو ہے




آج کیوں ہم سے پردہ ہے؟




آ ترا انتظار کب سے ہے

ہر نظر بے قرار کب سے ہے

شمع رہ رہ کے جھلملاتی ہے

سانس تاروں کی ڈوبی جاتی ہے

تو اگر مہربان ہو جائے

ہر تمنا جوان ہو جائے

آ بھی جا اب کہ رات باقی ہے

ایک عاشق کی بات باقی ہے

خیر ہو تیری زندگانی کی

بھیک دے دے ہمیں جوانی کی

تجھ پہ سو جان سے فدا ہیں ہم

ایک مدت کے آشنا ہیں ہم




آج کیوں ہم سے پردہ ہے؟

٭٭٭










مطلب نکل گیا تو پہچانتے نہیں




مطلب نکل گیا تو پہچانتے نہیں

یوں جا رہے ہو جیسے ہمیں جانتے ہیں




اپنی غرض تھی جب تو لپٹنا قبول تھا

بانہوں کے دائرے میں سمٹنا قبول تھا

اب ہم منا رہے ہیں مگر مانتے نہیں




ہم نے تمہیں پسند کیا، کیا برا کیا

رتبہ ہی کچھ بلند کیا، کیا برا کیا

ہر اک گلی کی خاک تو ہم چھانتے نہیں




منہ پھیر کر نہ جاؤ ہمارے قریب سے

ملتا ہے کوئی چاہنے والا نصیب سے

اس طرح عاشقوں پہ کماں تانتے نہیں

٭٭٭










مجھے گلے سے لگا لو، بہت اداس ہوں میں




مجھے گلے سے لگا لو، بہت اداس ہوں میں

غمِ جہاں سے چھڑا لو، بہت اداس ہوں میں




یہ انتظار کا دکھ اب سہا نہیں جاتا

تڑپ رہی ہے محبت، رہا نہیں جاتا

تم اپنے پاس بلا لو، بہت اداس ہوں میں




بھٹک چکی ہوں بہت زندگی کی راہوں میں

مجھے اب آ کے چھپا لو تم اپنی بانہوں میں

مرا سوال نہ ٹالو، بہت اداس ہوں میں




ہر ایک سانس میں ملنے کی پیاس پلتی ہے

سلگ رہا ہے بدن اور روح جلتی ہے

بچا سکو تو بچا لو، بہت اداس ہوں میں

٭٭٭










نیلے گگن کے تلے




نیلے گگن کے تلے، دھرتی کا پیار پلے

ایسے ہی جگ میں، آتی ہیں صبحیں، ایسے ہی شام ڈھلے

نیلے گگن کے تلے




شبنم کے موتی، پھولوں پہ بکھریں، دونوں کی آس پھلے

بل کھاتی بیلیں، مستی میں کھیلیں، پیڑوں سے مل کے گلے

ندیا کا پانی، دریا سے مل کے، ساگر کی اور چلے

نیلے گگن کے تلے

دھرتی کا پیار پلے

٭٭٭










کسی پتھر کی مورت سے محبت کا ارادہ ہے







کسی پتھر کی مورت سے محبت کا ارادہ ہے

پرستش کی تمنا ہے، عبادت کا ارادہ ہے




جو دل کی دھڑکنیں سمجھے، نہ آنکھوں کی زباں سمجھے

نظر کی گفتگو سمجھے، نہ جذبوں کا بیاں سمجھے

اسی کے سامنے اس کی شکایت کا ارادہ ہے




سنا ہے ہر جواں پتھر کے دل میں آگ ہوتی ہے

مگر جب تک نہ چھیڑو شرم کے پردے میں سوتی ہے

یہ سوچا ہے کہ دل کی بات اس کے روبرو کر دیں

ہر اک بے جا تکلف سے بغاوت کا ارادہ ہے




محبت بے رخی سے اور بھڑکے گی، وہ کیا جانے

طبیعت اس ادا پر اور پھڑکے گی، وہ کیا جانے

وہ کیا جانے کہ اپنی کس قیامت کا ارادہ ہے

٭٭٭










جو وعدہ کیا وہ نبھانا پڑے گا

(دو گانا)




(ا)

جو وعدہ کیا وہ نبھانا پڑے گا

روکے زمانہ چاہے، روکے خدائی، تم کو آنا پرے گا

ترستی نگاہوں نے آواز دی ہے

محبت کی راہوں نے آواز دی ہے

جانِ حیا، جانِ ادا، چھوڑو ترسانا، تم کو آنا پڑے گا




(ب)

یہ مانا ہمیں جاں سے جانا پڑے گا

پر یہ سمجھ لو، تم نے جب بھی پکارا، ہم کو آنا پڑے گا

ہم اپنی وفا پر نہ الزام لیں گے

تمہیں دل دیا ہے، تمہیں جاں بھی دیں گے

جب عشق کا سودا کیا ہے، پھر کیا گھبرانا ہم کو آنا پڑے گا




(ا)

سبھی اہلِ دنیا یہ کہتے ہیں ہم سے

کہ آتا نہیں کوئی ملکِ عدم سے

آج ذرا، شانِ وفا، دیکھے زمانہ، تم کو آنا پڑے گا




(ب)

ہم آتے رہے ہیں، ہم آتے رہیں گے

محبت کی رسمیں نبھاتے رہیں گے

جانِ وفا، تم دو صدا، پھر کیا ٹھکانہ، ہم کو آنا پڑے گا

٭٭٭










تیرے در پہ آیا ہوں۔۔۔۔







تیرے در پہ آیا ہوں، کچھ کر کے جاؤں گا

جھولی بھر کے جاؤں گا یا مر کے جاؤں گا




تو سب کچھ جانے ہے، ہر غم پہچانے ہے

جو دل کی الجھن ہے، سب تجھ پہ روشن ہے

گھایل پروانہ ہوں، وحشی دیوانہ ہوں




دل غم سے حیراں ہے، میری دنیا ویراں ہے

نظروں کی پیاس بجھا، میرا بچھڑا یار ملا!

اب یہ غم چھوٹے گا، ورنہ دم ٹوٹے گا

اب جینا مشکل ہے، فریادیں لایا ہوں

٭٭٭










تم اگر ساتھ دینے کا وعدہ کرو







تم اگر ساتھ دینے کا وعدہ کرو

میں یونہی مست نغمے لٹاتا رہوں

تم مجھے دیکھ کر مسکراتی رہو

میں تمہیں دیکھ کر گیت گاتا رہوں




کتنے جلوے فضاؤں میں بکھرے مگر

میں نے اب تک کسی کو پکارا نہیں

تم کو دیکھا تو نظریں یہ کہنے لگیں

ہم کو چہرے سے ہٹنا گوارا نہیں

تم اگر میری نظروں کے آگے رہو

میں ہر اک شے سے نظریں چراتا رہوں




میں نے خوابوں میں برسوں تراشا جسے

تم وہی سنگِ مر مر کی تصویر ہو

تم نہ سمجھو تمہارا مقدر ہوں میں

میں سمجھتا ہوں تم میری تقدیر ہو

تم اگر مجھ کو اپنا سمجھنے لگو

میں بہاروں کی محفل سجاتا رہوں!

٭٭٭










جرمِ الفت پہ ہمیں لوگ سزا دیتے ہیں




جرمِ الفت پہ ہمیں لوگ سزا دیتے ہیں

کیسے نادان ہیں، شعلوں کو ہوا دیتے ہیں




ہم سے دیوانے کہیں ترکِ وفا کرتے ہیں

جان جائے کہ رہے بات نبھا دیتے ہیں




آپ دولت کے ترازو میں دلوں کو تولیں

ہم محبت سے محبت کا صلہ دیتے ہیں




تخت کیا چیز ہے اور لعل و جواہر کیا ہیں

عشق والے تو خدائی بھی لٹا دیتے ہیں




ہم نے دل دے بھی دیا، عہدِ وفا لے بھی لیا

آپ اب شوق سے دے لیں جو سزا دیتے ہیں

٭٭٭










غم کیوں ہو




غم کیوں ہو؟

جینے والوں کو جیتے جی مرنے کا غم کیوں ہو؟

شوخ لبوں پر آہیں کیوں ہوں، آنکھوں میں نم کیوں ہو؟

آج اگر گلشن میں کلی کھلتی ہے تو کل مرجھاتی ہے

پھر بھی کھل کر ہنستی ہے اور ہنس کے چمن کے مہکاتی ہے

غم کیوں ہو؟

کل کا دن کس نے دیکھا ہے، آج کا دن ہم کھوئیں کیوں

جن گھڑیوں میں ہنس سکتے ہیں، ان گھڑیوں میں روئیں کیوں

غم کیوں ہو؟

گائے جا مستی کے ترانے، ٹھنڈی آہیں بھرنا کیا؟

موت آئی تو مر بھی لیں گے، موت سے پہلے مرنا کیا؟

٭٭٭










میں ہر اک پل کا شاعر ہوں




میں ہر اک پل کا شاعر ہوں

ہر اک پل میری کہانی ہے

ہر اک پل میری ہستی ہے

ہر اک پل میری جوانی ہے




رشتوں کا روپ بدلتا ہے

بنیادیں ختم نہیں ہوتیں

خوابوں کی اور امنگوں کی

میعادیں ختم نہیں ہوتیں




ہر پھول میں تیرا روپ بسا

ہر پھول میں تیری جوانی ہے

اک چہرہ تیری نشانی ہے

اک چہرہ میری نشانی ہے




تم کو مجھ کو جیون امرت

ان ہاتھوں سے ہی پینا ہے

ان کی دھڑکن میں بسنا ہے

ان کی سانسوں میں جینا ہے

تو اپنی ادائیں بخش انہیں

میں اپنی وفائیں دیتا ہوں

جو اپنے لئے سوچی تھی کبھی

وہ ساری دعائیں دیتا ہوں

٭٭٭







یوں تو حسن ہر جگہ ہے




یوں تو حسن ہر جگہ ہے، لیکن اس قدر نہیں

اے وطن کی سر زمیں!

یہ کھلی کھلی فضا، یہ دھلا دھلا گگن

ندیوں کے پیچ و خم، پربتوں کا بانکپن

تیری وادیاں جواں، تیرے راستے حسیں

اے وطن کی سر زمیں!

تیری خاک میں بسی ماں کے دودھ کی مہک

تیرے روپ میں رچی سورگ لوک کی جھلک

ہم میں ہی کمی رہی، تجھ میں کچھ کمی نہیں

اے وطن کی سر زمیں!

نعمتوں کے درمیاں بھوک پیاس کیوں رہے

تیرے پاس کیا نہیں ہے، تو اداس کیوں رہے

عام ہو گی وہ خوشی، جو ہے اب کہیں کہیں

اے وطن کی سر زمیں!

تیری خاک کی قسم ہم تجھے سجائیں گے

ہر چھپا ہوا ہنر روشنی میں لائیں گے

آنے والے دور کی برکتوں پہ رکھ یقیں

اے وطن کی سر زمیں!

٭٭٭










ساتھی ہاتھ بڑھانا




ساتھی ہاتھ بڑھانا

ایک اکیلا تھک جائے گا مل کر بوجھ اٹھانا

ساتھی ہاتھ بڑھانا




ہم محنت والوں نے جب بھی مل کر قدم بڑھایا

ساگر نے رستہ چھوڑا، پربت نے سیس جھکایا

فولادی ہیں سینے اپنے، فولادی ہیں بانہیں

ہم چاہیں تو پیدا کر دیں چٹانوں میں راہیں

ساتھی ہاتھ بڑھانا




محنت اپنے لیکھ کی ریکھا، محنت سے کیا ڈرنا

کل غیروں کی خاطر کی، آج اپنی خاطر کرنا

اپنا دکھ بھی ایک ہے ساتھی، اپنا سکھ بھی ایک

اپنی منزل، سچ کی منزل، اپنا رستہ نیک

ایک سے ایک ملے تو قطرہ بن جاتا ہے دریا

ایک سے ایک ملے تو ذرہ بن جاتا ہے صحرا

ایک سے ایک ملے تو رائی بن سکتی ہے پربت

ایک سے ایک ملے تو انساں بس میں کرے قسمت

ساتھی ہاتھ بڑھانا




ماٹی سے ہم لال نکالیں، موتی لائیں جل سے

جو کچھ اس دنیا میں بنا ہے، بنا ہمارے بل سے

کب تک محنت کے پیروں میں دولت کی زنجیریں

ہاتھ بڑھا کر چھین لو اپنے خوابوں کی تعبیریں

ساتھی ہاتھ بڑھانا

٭٭٭










یہ دیش ہے ویر جوانوں کا







یہ دیش ہے ویر جوانوں کا

البیلوں کا، مستانوں کا

اس دیش کا یارو کیا کہنا

یہ دیش ہے دنیا کا گہنا




یہاں چوڑی چھاتی ویروں کی

یہاں گوری شکلیں ہیروں کی

یہاں گاتے ہیں رانجھے مستی میں

مچتی ہیں دھومیں بستی میں




پیڑوں پہ بہاریں جھولوں کی

راہوں میں قطاریں پھولوں کی

یہاں ہنستا ہے ساون بالوں میں

کھلتی ہیں کلیاں گالوں میں




کہیں دنگل شوخ جوانوں کے

کہیں کرتب تیر کمانوں کے

یہاں نت نت میلے سجتے ہیں

نت ڈھول اور تاشے بجتے ہیں




دلبر کے لئے دلدار ہیں ہم

دشمن کے لئے تلوار ہیں ہم

میداں میں اگر ہم ڈٹ جائیں

مشکل ہے کہ پیچھے ہٹ جائیں

٭٭٭










دھرتی ماں کا مان




دھرتی ماں کا مان، ہمارا پیارا لال نشان

تو یگ کی مسکان، ہمارا پیارا لال نشان




پونجی داد سے دب نہ سکے گی، یہ مزدور کسان کا جھنڈا

محنت کا حق لے کے رہے گا، محنت کش انسان کا جھنڈا

یودھا اور بلوان ہمارا، پیارا لال نشان




اس جھنڈے سے سانس اکھڑتی چور منافع خوروں کی

جنہوں نے انسانوں کی حالت کر دی ڈنگر ڈھوروں کی

ان کے خلاف اعلان ہمارا، پیارا لال نشان




فیکٹریوں کے دھول دھوئیں میں ہم نے خود کو پالا

خون پلا کر لوہے کو اس دیش کا بھار سنبھالا

محنت کے اس، پوجا گھر پر پڑ نہ کسے گا تالا

دیش کے سادھن، دیش کا دھن ہیں جان لے پونجی والا

جیتے گا میدان، ہمارا پیارا لال نشان

دھرتی ماں کا مان، ہمارا پیارا لال نشان

٭٭٭










وہ صبح کبھی تو آئے گی (1)




وہ صبح کبھی تو آئے گی

ان کالی صدیوں کے سر سے، جب رات کا آنچل ڈھلکے گا

جب دکھ کے بادل پگھلیں گے، جب سکھ کا ساگر چھلکے گا

جب امبر جھوم کے ناچے گا، جب دھرتی نغمے گائے گی

وہ صبح کبھی تو آئے گی




جس صبح کی خاطر جگ جگ سے ہم سب مر مر کے جیتے ہیں

جس صبح کے امرت کی دھن میں ہم زہر کے پیالے پیتے ہیں

ان بھوکی پیاسی روحوں پر اک دن تو کرم فرمائے گی

وہ صبح کبھی تو آئے گی




مانا کہ ابھی تیرے میرے ارمانوں کی قیمت کچھ بھی نہیں

مٹی کا بھی ہے کچھ مول مگر انسانوں کی قیمت کچھ بھی نہیں

انسانوں کی عزت جب جھوٹے سکوں میں نہ تولی جائے گی

وہ صبح کبھی تو آئے گی




دولت کے لئے جب عورت کی عصمت کو نہ بیچا جائے گا

چاہت کو نہ کچلا جائے گا، غیرت کو نہ بیچا جائے گا

اپنے کالے کرتوتوں پر جب یہ دنیا شرمائے گی

وہ صبح کبھی تو آئے گی




بیتیں کے کبھی تو دن آخر بھوک کے اور بیکاری کے

ٹوٹیں گے کبھی تو بت آخر دولت کی اجارہ داری کے

جب ایک انوکھی دنیا کی بنیاد اٹھائی جائے گی

وہ صبح کبھی تو آئے گی




مجبور بڑھاپا جب سونی راہوں کی دھول نہ پھانکے گا

معصوم لڑکپن جب گندی گلیوں میں بھیک نہ مانگے گا

حق مانگنے والوں کو جس دن سولی نہ دکھائی جائے گی

وہ صبح کبھی تو آئے گی




فاقوں کی چتاؤں پہ جس دن انسان نہ جلائے جائیں گے

سینوں کے دہکتے دوزخ میں ارماں نہ جلائے جائیں گے

یہ نرک سے بھی گندی دنیا، جب سورگ بنائی جائے گی

وہ صبح کبھی تو آئے گی

٭٭٭













وہ صبح ہمیں سے آئے گی (2)







وہ صبح ہمیں سے آئے گی

جب دھرتی کروٹ بدلے گی، جب قید سے قیدی چھوٹیں گے

جب پاپ گھروندے پھوٹیں گے، جب ظلم کے بندھن ٹوٹیں گے

اس صبح کو ہم ہی لائیں گے، وہ صبح ہمیں سے آئی گی

وہ صبح ہمیں سے آئے گی




منحوس سماجی ڈھانچوں میں جب ظلم نہ پالے جائیں گے

جب ہاتھ نہ کاٹے جائیں گے، جب سر نہ اچھالے جائیں گے

جیلوں کے بنا جب دنیا کی سرکار رچائی جائے گی

وہ صبح ہمیں سے آئے گی




سنسار کے سارے محنت کش کھیتوں سے ملوں سے نکلیں گے

بے گھر، بے در، بے بس انساں تاریک بلوں سے نکلیں گے

دنیا امن اور خوشحالی کے پھولوں سے سجائی جائے گی

وہ صبح ہمیں سے آئے گی

٭٭٭










رات کے راہی تھک مت جانا




رات کے راہی تھک مت جانا، صبح کی منزل دور نہیں

دھرتی کے پھیلے آنگن میں پل دو پل ہے رات کا ڈیرا

ظلم کا سینہ چیر کے دیکھو، جھانک رہا ہے نیا سویرا

ڈھلتا دن مجبور سہی، چڑھتا سورج مجبور نہیں

صدیوں تک چپ رہنے والے اب اپنا حق لے کے رہیں گے

جو کرنا ہے کھل کے کریں گے، جو کہنا ہے صاف کہیں گے

جیتے جی گھٹ گھٹ مرنا اس یگ کا دستور نہیں

ٹوٹیں گی بوجھل زنجیریں، جاگیں گی سوتی تقدیریں

لوٹ پہ کب تک پہرا دیں گی زنگ می خونیں زنجیریں

رہ نہیں سکتا اس دنیا میں جو سب کو منظور نہیں

٭٭٭










رات بھر کا ہے مہماں اندھیرا




رات بھر کا ہے مہماں اندھیرا

کس کے روکے رکا ہے سویرا




رات جتنی بھی سنگین ہو گی

صبح اتنی ہی رنگین ہو گی

غم نہ کر، گر ہے بادل گھنیرا

کس کے روکے رکا ہے سویرا




لب پہ شکوہ نہ لا، اشک پی لے

جس طرح بھی ہو کچھ دیر جی لے

اب اکھڑنے کو ہے غم کا ڈیرا

کس کے روکے رکا ہے سویرا







یوں ہی دنیا میں آ کر نہ جانا

صرف آنسو بہا کر نہ جانا

مسکراہٹ پہ بھی حق ہے تیرا

کس کے روکے رکا ہے سویرا

٭٭٭










اب کوئی گلشن نہ اجڑے







اب کوئی گلشن نہ اجڑے، اب وطن آزاد ہے

روح گنگا کی، ہمالہ کا بدن آزاد ہے




کھیتیاں سونا اگائیں، وادیاں موتی لٹائیں

آج گوتم کی زمیں، تلسی کا بن آزاد ہے




مندروں میں سنکھ باجے، مسجدوں میں ہو اذاں

شیخ کا دھرم اور دینِ برہمن آزاد ہے




لوٹ کیسی بھی ہو، اب اس دیش میں رہنے نہ پائے

آج سب کے واسطے دھرتی کا دھن آزاد ہے

٭٭٭










زور لگا کے۔۔۔۔۔ہیا




زور لگا کے۔۔۔۔۔ہیا

پیر جما کے۔۔۔۔۔ہیا

جان لڑا کے۔۔۔۔۔ہیا




آنگن میں بیٹھی ہے مچھیرن تیری آس لگائے

ارمانوں اور آشاؤں کے لاکھوں دیپ جلائے

بھولا پن رستہ دیکھے، ممتا خیر منائے

زور لگا کر کھینچ مچھیرے، ڈھیل نہ آنے پائے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہیا ہیا

زور لگا کے۔۔۔۔۔ہیا

پیر جما کے۔۔۔۔۔ہیا

جان لڑا کے۔۔۔۔۔ہیا




جنم جنم سے اپنے سر پر طوفانوں کے سائے

لہریں اپنی ہمجولی ہیں اور بادل ہمسائے

جل اور جال ہیں جیون اپنا، کیا سردی کیا گرمی

اپنی ہمت کبھی نہ ٹوٹے، رت آئے رت جائے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہیا ہیا

زور لگا کے۔۔۔۔۔ہیا

پیر جما کے۔۔۔۔۔ہیا

جان لڑا کے۔۔۔۔۔ہیا




کیا جانے کب ساگر امڈے، کب برکھا آ جائے

بھوک سروں پر منڈلائے، منہ کھولے، پر پھیلائے

آج ملا سو اپنی پونجی، کل کی ہاتھ پرائے

تنی ہوئی بانہوں سے کہہ دو، لوچ نہ آنے پائے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہیا ہیا

زور لگا کے۔۔۔۔۔ہیا

پیر جما کے۔۔۔۔۔ہیا

جان لڑا کے۔۔۔۔۔ہیا

٭٭٭










آپ نہ جانے مجھ کو سمجھتے ہیں کیا؟




آپ نہ جانے مجھ کو سمجھتے ہیں کیا؟

میں تو کچھ بھی نہیں

اس قدر پیار، اتنی بڑی بھیڑ کا

میں رکھوں گا کہاں؟

اس قدر پیار رکھنے کے قابل نہیں

میرا دل، میری جاں

مجھ کو اتنی محبت نہ دو دوستو

سوچ لو دوستو!

اس قدر پیار کیسے نبھاؤں گا میں

میں تو کچھ بھی نہیں




عزتیں، شہرتیں، چاہتیں، الفتیں

کوئی بھی چیز دنیا میں رہتی نہیں

آج میں ہوں جہاں، کل کوئی اور تھا

یہ بھی اک دور ہے، وہ بھی اک دور تھا

آج اتنی محبت نہ دو دوستو

کہ میرے کل کی خاطر نہ کچھ بھی بچے

آج کا پیار تھوڑ ا بچا کر رکھو

میرے کل کے لئے




کل جو گمنام ہے، کل جو سنسان ہے

کو جل انجان ہے، کل جو ویران ہے

میں تو کچھ بھی نہیں

میں تو کچھ بھی نہیں

٭٭٭










رنگ اور نور کی بارات کسے پیش کروں




رنگ اور نور کی بارات کسے پیش کروں

یہ مرادوں کی حسیں رات کسے پیش کروں

میں جذبات نبھائے ہیں اصولوں کی جگہ

اپنے ارمان پرو لایا ہوں پھولوں کی جگہ

تیرے سہرے کی یہ سوغات کسے پیش کروں




یہ میرے شعر، مرے آخری نذرانے ہیں

میں ان اپنوں میں ہوں جو آج سے بیگانے ہیں

بے تعلق سی ملاقات کسے پیش کروں




سرخ جوڑے کی تب و تاب مبارک ہو تجھے

تیری آنکھوں کا نیا خواب مبارک ہو تجھے

میں یہ خواہش، یہ خیالات کسے پیش کروں




کون کہتا ہے کہ چاہت پہ سبھی کا حق ہے

تو جسے چاہے، ترا پیار اسی کا حق ہے

مجھ سے کہہ دے میں ترا ہات کسے پیش کروں

٭٭٭










چھو لینے دو نازک ہونٹوں کو




چھو لینے دو نازک ہونٹوں کو، کچھ اور نہیں ہے جام ہے یہ

قدرت نے جو ہم کو بخشا ہے، وہ سب سے حسیں انعام ہے یہ




شرما کے نہ یونہی کھو دینا رنگین جوانی کی گھڑیاں

بے تاب دھڑکتے سینوں کا ارمان بھرا پیغام ہے یہ




اچھوں کو برا ثابت کرنا دنیا کی پرانی عادت ہے

اس مے کو مبارک چیز سمجھ مانا کہ بہت بدنام ہے یہ

٭٭٭










یہ رات یہ چاندنی پھر کہاں




یہ رات یہ چاندنی پھر کہاں

سن جا دل کی داستاں

پیڑوں کی شاخوں پہ سوئی سوئی چاندنی

تیرے خیالوں میں کھوئی کھوئی چاندنی

اور تھوڑی دیر میں تھک کے لوٹ جائے گی

رات یہ بہار کی پھر کبھی نہ آئے گی

دو ایک پل اور ہے یہ سماں

سن جا دل کی داستاں




لہروں کے ہونٹوں پہ دھیما دھیما راگ ہے

بھیگی ہواؤں میں ٹھنڈی ٹھنڈی آگ ہے

اس حسیں آگ میں تو بھی جل کے دیکھ لے

زندگی کے گیت کی دھن بدل کے دیکھ لے

کھلنے نہ دے اب دھڑکنوں کی زباں

سن جا دل کی داستاں




جاتی بہاریں ہیں اٹھتی جوانیاں

تاروں کی چھاؤں میں کہہ لے کہانیاں

ایک بار چل دیے گر تجھے پکار کر

لوٹ کے نہ آئیں گے قافلے بہار کے

آ جا ابھی جواں ہے زندگی

سن جا دل کی داستاں

٭٭٭










تم اپنا رنج و غم، اپنی پریشانی مجھے دے دو




تم اپنا رنج و غم، اپنی پریشانی مجھے دے دو

تمہیں غم کی قسم، اس دل کی ویرانی مجھے دے دو




یہ مانا میں کسی قابل نہیں ہوں ان نگاہوں میں

برا کیا ہے اگر یہ دکھ، یہ حیرانی مجھے دے دو




میں دیکھوں تو سہی، دنیا تمہیں کیسے ستاتی ہے

کوئی دن کے لئے اپنی نگہبانی مجھے دے دو




وہ دل جو میں نے مانگا تھا مگر غیروں نے پایا ہے

بڑی شے ہے اگر اس کی پشیمانی مجھے دے دو

٭٭٭










پونچھ کر اشک اپنی آنکھوں سے







پونچھ کر اشک اپنی آنکھوں سے مسکراؤ تو کوئی بات بنے

سر جھکانے سے کچھ نہیں ہوتا، سر اٹھاؤ تو کوئی بات بنے




زندگی بھیک میں نہیں ملتی، زندگی بڑھ کے چھینی جاتی ہے

اپنا حق سنگ دل زمانے سے چھین پاؤ تو کوئی بات بنے




رنگ اور نسل ذات اور مذہب جو بھی ہے آدمی سے کمتر ہے

اس حقیقت کو تم بھی میری طرح مان جاؤ تو کوئی بات بنے




نفرتوں کے جہان میں ہم کو پیار کی بستیاں بسانی ہیں

دور رہنا کوئی کمال نہیں، پاس آؤ تو کوئی بات بنے

٭٭٭













میں جاگوں ساری رین۔۔۔







میں جاگوں ساری رین سجن تم سو جاؤ

گیتوں میں چھپا لوں بین، سجن تم سو جاؤ




شام ڈھلے سے بھور بھئے تک، جاگ کے جب کٹتی ہیں گھڑیاں

مدھر ملن کی اوس میں بس کر، کھلتی ہیں جب جیون کی کلیاں

آج نہیں وہ رین سجن تم سو جاؤ




پھیکی پڑ گئی چاند کی جیوتی، دھندلے پڑ گئے دیپ گگن کے

سو گئیں سندر سیج کی کلیاں، سو گئے کھلتے بھاگ دلہن

کھل کر رو لیں نین سجن تم سو جاؤ




جاگ کے تن کی اگنی سو گئی، بڑھ کے تھم گئی من کی ہلچل

اپنا گھونگھٹ آپ الٹ کر، کھول دی میں نے پاؤں کی پایل

اب ہے چین ہی چین، سجن تم سو جاؤ

٭٭٭







ہر طرف حسن ہے، جوانی ہے




ہر طرف حسن ہے جوانی ہے

آج کی رات کیا سہانی ہے

ریشمی جسم سرسراتے ہیں

مرمریں خواب گنگناتے ہیں




دھڑکنوں میں سرور پھیلا ہے

رنگ نزدیک و دور پھیلا ہے




دعوتِ عشق دے رہی ہے فضا

آج ہو جا کسی حسیں پہ فدا




محبت بڑے کام کی چیز ہے

محبت کے دم سے ہے دنیا کی رونق

محبت نہ ہوتی تو کچھ بھی نہ ہوتا

نظر اور دل کی پناہوں کی چھوٹی

یہ جنت نہ ہوتی تو کچھ بھی نہ ہوتا




کتابوں میں چھپتے ہیں چاہت کے قصے

حقیقت کی دنیا میں چاہت نہیں ہے




زمانے کے بازار میں یہ وہ شے ہے

کہ جس کی کسی کو ضرورت نہیں ہے

یہ بے کار بے دام کی چیز ہے

محبت بڑے کام کی چیز ہے




محبت سے اتنا خفا ہونے والے

چل آ آج تجھ کو محبت سکھا دیں

تیرا دل جو برسوں سے ویراں پڑا ہے

کسی نازنیناں کو اس میں بسا دیں

میرا مشورہ کام کی چیز ہے

٭٭٭










نہیں کیا تو کر کے دیکھ




نہیں کیا تو کر کے دیکھ

تو بھی کسی پر مر کے دیکھ

حسن کے بکھرے پھولوں سے

دل کی جھولی بھر کے دیکھ




کون تجھ کیا کہتا ہے

کیوں اس کا غم سہتا ہے

کتے بھونکتے رہتے ہیں

قافلہ چلتا رہتا ہے

کبھی اپنے من کی کر کے دیکھ




رہتیں ریتیں توڑ بھی دے

دل کو اکیلا چھوڑ بھی دے

دنیا دل کی دشمن ہے

دنیا کا منہ موڑ بھی دے

کچھ تو انوکھا کر کے دیکھ!




اک رستہ ہے دولت کا

دوسرا عیش و عشرت کا

تیسرا جھوٹی عزت کا

چوتھا سچی الفت کا

اس رستے سے گزر کے دیکھ!

٭٭٭










غیروں پہ کرم اپنوں پہ ستم







غیروں پہ کرم اپنوں پہ ستم

اے جانِ وفا یہ ظلم نہ کر

رہنے دے ابھی تھوڑا سا بھرم

اے جانِ وفا یہ ظلم نہ کر




ہم چاہنے والے ہیں تیرے

یوں ہم کو جلانا ٹھیک نہیں

محفل میں تماشا بن جائیں

اس طرح جلانا ٹھیک نہیں

مر جائیں گے ہم، مٹ جائیں گے ہم

اے جانِ وفا یہ ظلم نہ کر




ہم بھی ہیں ترے منظورِ نظر

دل چاہے تو اب انکار نہ کر

سو تیر چلا سینے پہ مگر!

بیگانوں سے مل کے وار نہ کر

تجھ کو ترے بے دردی کی قسم

اے جانِ وفا یہ ظلم نہ کر!

٭٭٭










تم اگر مجھ کو نہ چاہو گی تو کوئی بات نہیں







تم اگر مجھ کو نہ چاہو گی تو کوئی بات نہیں

تم کسی اور کو چاہو گی تو مشکل ہو گی!




اب اگر میل نہیں ہے تو جدائی بھی نہیں

بات توڑی بھی نہیں تم نے، نبھائی بھی نہیں

یہ سہارا ہی بہت ہے مرے جینے کے لئے

تم اگر میری نہیں ہو تو پرائی بھی نہیں

میرے دل کو نہ سراہو تو کوئی بات نہیں

غیر کے دل کو سراہو گی تو مشکل ہو گی!




تم حسیں ہو، تمہیں سب پیار ہی کرتے ہوں گے

میں جو مرتا ہوں تو کیا اور بھی مرتے ہوں گے

سب کی آنکھوں میں اسی شوق کا طوفاں ہو گا

سب کے سینے میں یہی درد ابھرتے ہوں گے

میرے غم میں نہ کراہو تو کوئی بات نہیں

اور کے غم میں کراہو گی تو مشکل ہو گی!




پھول کی طرح ہنسو، سب کی نگاہوں میں رہو

اپنی معصوم جوانی کی پناہوں میں رہو

مجھ کو وہ دن نہ دکھانا تمہیں اپنی ہی قسم

میں ترستا رہوں، تم غیر کی بانہوں میں رہو

تم جو مجھ سے نہ نباہو تو کوئی بات نہیں

کسی دشمن سے نباہو گی تو مشکل ہو گی!

٭٭٭










اس جانِ دو عالم کا جلوہ




اس جانِ دو عالم کا جلوہ

پردے میں بھی ہے، بے پردہ بھی ہے

مشتاق نگاہوں کا کعبہ

پردے میں بھی ہے، بے پردہ بھی ہے




بے چین رہے عاشق کی نظر

تھوڑی سی مگر تسکین بھی ہو

اس پردہ نشین کا یہ منشا!

پردے میں بھی ہے، بے پردہ بھی ہے




کیا حسنِ زمیں، کیا رنگِ فلک

سب اس کے کرشمے کی ہے جھلک

تاروں میں بسا ہے نور اس کا

پھولوں میں بسا ہے رنگ اس کا

یہ روپ میں شامل روپ اس کا

یہ ڈھنگ میں شامل ڈھنگ اس کا

اول بھی وہی، آخر بھی وہی

اوجھل بھی وہی، ظاہر بھی وہی

منصور وہی، سرمد بھی وہی

لا حد بھی وہی اور حد بھی وہی

شعلہ بھی وہی، شبنم بھی وہی

سچ یہ ہے کہ ہیں خود ہم بھی وہی

مخلوق سے خالق کا رشتہ

پردے میں بھی ہے، بے پردہ بھی ہے




وہ مالکِ کل، محبوب مرا

سنتا ہے ہر اک دھڑکن کی صدا

جب اس کا اشارہ ہوتا ہے

تقدیر سنورنے لگتی ہے

مدت سے ترستے خوابوں کی

تعبیر ابھرنے لگتی ہے

سجدے میں جھکا کر سر اپنا

مانگے جو کبھی انسان دعا

ہو جاتی ہے ہر مشکل آساں

مل جاتی ہے درد دل کی دعا

ہے اس کی یہ خاص الخاص دعا

پردے میں بھی ہے، بے پردہ بھی ہے

٭٭٭







جو ہم میں ہے وہ متوالی ادا۔۔۔




جو ہم میں ہے وہ متوالی ادا سب میں نہیں ہوتی

محبت سب میں ہوتی ہے، وفا سب میں نہیں ہوتی




ایسے ویسے ٹھکانوں پہ جانا برا ہے

بچ کے رہنا مری جاں یہ زمانہ برا ہے




زلف لہرائے تو زنجیر بھی بن جاتی ہے

آنکھ شرمائے تو ایک تیر بھی بن جاتی ہے

دل لبھانے کو جو دلدار بنا کرتے ہیں

دل چرا کر وہی تلوار بنا کرتے ہیں

یہ وہ محفل ہے جہاں پیار بھی لٹ جاتا ہے

دل تو کیا چیز ہے گھر بار بھی لٹ جاتا ہے

اسی لئے تو کہتی ہوں۔۔۔۔۔۔

ایسے ویسے ٹھکانوں پہ جانا برا ہے!

تک کے ہنستے ہیں تو مستانہ بنا دیتے ہیں

ہنس کے تکتے ہیں تو دیوانہ بنا دیتے ہیں

کوئی نغموں میں کوئی ساز میں کھو جاتا ہے

اس سے جو بچتا ہے وہ ناز میں کھو جاتا ہے

یوں اگر ان سے لپٹ جاتی ہیں بانہیں ان کی

اسی لئے تو کہتی ہوں۔۔۔۔۔۔

ایسے ویسے ٹھکانوں پہ جانا برا ہے!




ہم ستم ڈھاتے ہیں، بیداد کیا کرتے ہیں

دل لیا کرتے ہیں اور درد دیا کرتے ہیں

دور رہنا ہو تو محفل مری آباد کرو

ورنہ جاؤ جی کسی اور کو برباد کرو

آج جاؤ گے تو کل لوٹ کے پھر آؤ گے

ہم سا معشوق نہ دنیا میں کہیں پاؤ گے

اسی لئے تو کہتی ہوں۔۔۔۔۔۔

ایسے ویسے ٹھکانوں پہ جانا برا ہے!

٭٭٭










ہر طرح کے جذبات کا اعلان ہیں آنکھیں




ہر طرح کے جذبات کا اعلان ہیں آنکھیں

شبنم کبھی شعلہ کبھی طوفان ہیں آنکھیں




آنکھوں سے بڑی کوئی ترازو نہیں ہوتی

تلتا ہے بشر جس میں وہ میزان ہیں آنکھیں




آنکھیں ہی ملاتی ہیں زمانے میں دلوں کو

انجان ہیں ہم تم، اگر انجان ہیں آنکھیں




لب کچھ بھی کہیں اس سے حقیقت نہیں کھلتی

انسان کے سچ جھوٹ کی پہچان ہیں آنکھیں




آنکھیں نہ جھکیں تیری کسی غیر کے آگے

دنیا میں بڑی چیز مری جان! ہیں آنکھیں

٭٭٭










جیو تو ایسے جیو جیسے سب تمہارا ہے




جیو تو ایسے جیو جیسے سب تمہارا ہے

مرو تو ایسے کہ جیسے تمہارا کچھ بھی نہیں !




یہ ایک راز کہ دنیا نہ جس کو جان سکی

یہی وہ راز ہے جو زندگی کا حاصل ہے

تمہی کہو! تمہیں یہ بات کیسے سمجھاؤں

کہ زندگی کی گھٹن زندگی کی قاتل ہے

ہر اک نگاہ کو قدرت کا یہ اشارہ ہے




جہاں میں آ کے جہاں سے کھنچے کھنچے نہ رہو

وہ زندگی ہی نہیں جس میں آس بجھ جائے

کوئی بھی پیاس دبائے سے دب نہیں سکتی

اسی سے چین ملے گا کہ پیاس بجھ جائے

یہ کہہ کے مڑتا ہوا زندگی کا دھارا ہے!




یہ آسماں پہ زمیں، یہ فضا یہ نظارے

ترس رہے ہیں تمہاری مری نظر کے لئے

نظر چرا کے ہر اک شے کو یوں نہ ٹھکراؤ

کوئی شریکِ سفر ڈھونڈ لو سفر کے لئے

بہت قریب سے میں نے تمہیں پکارا ہے!

٭٭٭










پگھلی آگ سے ساغر بھر لے




پگھلی آگ سے ساغر بھر لے

کل مرنا ہے، آج ہی مر لے

اب نہ کبھی یہ رات ڈھلے گی، اب نہ کبھی جاگے گا سویرا

سوچ ہے کس کی، فکر ہے کس کی، اس دنیا میں کون ہے تیرا

کوئی نہیں جو تیری خبر لے

پگھلی آگ سے ساغر بھر لے




قدرت اندھی، دنیا بہری

کالے پڑ گئے، خواب سنہری

توڑ بھی دے اب خواب کا رشتہ، چھوڑ بھی دے جذبات سے لڑنا

آج نہیں تو کل سمجھے گا، مشکل ہے حالات سے لڑنا

جو حالات کرائیں، کر لے

پگھلی آگ سے ساغر بھر لے




بند ہے نیکی کا دروازہ

آپ اٹھا لے اپنا جنازہ

کوئی نہیں جو بوجھ اٹھائے اپنی زندہ لاشوں کا

ختم ہی کر دے آج فسانہ، ان بے درد تماشوں کا

جانِ تمنا، جاں سے گزر لے

پگھلی آگ سے ساغر بھر لے

٭٭٭







موت کبھی بھی مل سکتی ہے




موت کبھی بھی مل سکتی ہے، لیکن جیون کل نہ ملے گا

مرنے والے سوچ سمجھ لے، پھر تجھ کو یہ پل نہ ملے گا




کون سا ایسا دل ہے جہاں میں، جس کو غم کا روگ نہیں

کون سا ایسا گھر ہے جس میں، سکھ ہی سکھ ہے سوگ نہیں




جو حل دنیا بھر کو ملا ہے، کیوں تجھ کو وہ حل نہ ملے گا

مرنے والے سوچ سمجھ لے، پھر تجھ کو یہ پل نہ ملے گا




اس جیون میں کتنے ہی دکھ ہوں لیکن سکھ کی آس تو ہے

دل میں کوئی ارمان بسا ہے، آنکھ میں کوئی پیاس تو ہے




جیون نے یہ پھل تو دیا ہے، موت سے یہ بھی پھل نہ ملے گا

مرنے والے سوچ سمجھ لے، پھر تجھ کو یہ پل نہ ملے گا

٭٭٭













بانٹ کے کھاؤ







بانٹ کے کھاؤ، اس میں، بانٹ کے بوجھ اٹھاؤ

جس رستے میں سب کا سکھ ہو، وہ رستہ اپناؤ

اس تعلیم سے بڑھ کر جگ میں کوئی تعلیم نہیں

کہہ گئے فادر ابراہیم!




کتے سے کیا بدلہ لینا گر کتے نے کاٹا

تم نے گر کتے کو کاٹا، کیا تھوکا کیا چاٹا

تم انسان ہو یارو، اپنی کچھ تو کرو تعظیم

کہہ گئے فادر ابراہیم!




جھوٹ کے سر پر تاج بھی ہو تو جھوٹ کا بھانڈا پھوڑو

سچ چاہے سولی چڑھوا دے، سچ کا ساتھ نہ چھوڑو

کل وہ سچ امرت ہو گا، جو آج ہے کڑوا نیم!

کہہ گئے فادر ابراہیم!

٭٭٭










تورا من درپن کہلائے




تورا من درپن کہلائے۔۔۔۔

بھلے برے سارے کرموں کو دیکھے اور دکھائے

من اجیارا جب جب پھیلے، جگ اجیارا ہوئے

جگ سے چاہے بھاگ لے کوئی، من سے بھاگ نہ پائے




سکھ کی کلیاں، دکھ کے کانٹے، من سب کا آدھار

من سے کوئی بات چھپے نا، من کے نین ہزار

جگ سے چاہے بھاگ لے کوئی، من سے بھاگ نہ پائے




تن کی دولت ڈھلتی چھایا، من کا دھن انمول

تن کے کارن من کے دھن کو مت ماٹی مین رول

من کی قدر بھلانے والا، میر جنم گنوائے

٭٭٭










اے دل زباں نہ کھول







اے دل زباں نہ کھول، صرف دیکھ لے

کسی سے کچھ نہ بول، صرف دیکھ لے




یہ حسین جگمگاہٹیں، آنچلوں کی سرسراہٹیں

یہ نشے میں جھومتی زمیں، سب کے پاؤں چومتی زمیں




کل قدر ہے گول، صرف دیکھ لے

اے دل زباں نہ کھول، صرف دیکھ لے




کتنا سچ ہے، کتنا جھوٹ ہے، کتنا حق ہے، کتنی لوٹ ہے

رکھ سبھی کی لاج، کچھ نہ کہہ کیا ہے یہ سماج، کچھ نہ کہہ




ڈھول کا یہ پول صرف دیکھ لے

اے دل زباں نہ کھول، صرف دیکھ لے




مان لے جہاں کی بات کو، دل سمجھ لے کالی رات کو

چلنے دے یونہی یہ سلسلہ، یہ نہ بول کس کو کیا ملا




ترازوؤں کا جھول، صرف دیکھ لے

اے دل زباں نہ کھول، صرف دیکھ لے

٭٭٭







من رے۔۔۔




من رے، تو کاہے نہ دھیر دھیرے

وہ نرموہی موہ نہ جانیں، جن کا موہ کرے

من رے، تو کاہے نہ دھیر دھرے




اس جیون کی چڑھتی ڈھلتی دھوپ کو کس نے باندھا

رنگ پہ کس نے پہرے ڈالے، روپ کو کس نے باندھا

کاہے یہ جتن کرے

من رے، تو کاہے نہ دھیر دھیرے




اتنا ہی اپکار سمجھ، کوئی جتنا ساتھ نبھا دے

جنم مرن کا میل ہے سپنا، یہ سپنا بسرا دے

کوئی نہ سنگ مرے

من رے، تو کاہے نہ دھیر دھیرے

٭٭٭










تدبیر سے بگڑی ہوئی تقدیر بنا لے







تدبیر سے بگڑی ہوئی تقدیر بنا لے

اپنے پہ بھروسا ہے تو یہ داؤ لگا لے




ڈرا ہے زمانے کی نگاہوں سے بھلا کیوں

انصاف ترے ساتھ ہے، الزام اٹھا لے




کیا خاک وہ جینا ہے جو اپنے ہی لئے ہو

خود مٹ کے کسی اور کو مٹنے سے بچا لے




ٹوٹے ہوئے پتوار ہیں کشتی کے تو غم کیا؟

ہاری ہوئی بانہوں کو ہی پتوار بنا لے

٭٭٭










کل جہاں بستی تھیں خوشیاں







کل جہاں بستی تھیں خوشیاں، آج ہے ماتم وہاں

وقت لایا تھا بہاریں، وقت لایا ہے خزاں




وقت سے دن اور رات، وقت سے کل اور آج

وقت کی ہر شے غلام، وقت کا ہر شے پہ راج




وقت کے آگے اڑی کتنی تہذیبوں کی دھول

وقت کے آگے مٹے کتنے مذہب اور رواج




وقت کی گردش سے ہے چاند تاروں کا نطام

وقت کی ٹھوکر میں ہیں کیا حکومت کیا سماج




وقت کی پابند ہیں آتی جاتی رونقیں!

وقت ہے پھولوں کی سیج، وقت ہے کانٹوں کا تاج




آدمی کو چاہیے، وقت سے ڈر کر رہے!

کون جانے کس گھڑی وقت کا بدلے مزاج

٭٭٭










اپنے اندر ذرا جھانک میرے وطن




اپنے اندر ذرا جھانک میرے وطن

اپنے عیبوں کو مت ڈھانک میرے وطن




تیرا اتہاس ہے خوں میں لتھڑا ہوا

تو ابھی تک ہے دنیا میں بچھڑا ہوا

تو نے اپنوں کو اپنا نہ مانا کبھی

تو نے انساں کو انساں نہ جانا کبھی

تیرے دھرموں نے ذاتوں کی تقسیم کی

تیری رسموں نے نفرت کی تعلیم دی

وحشتوں کا چلن تجھ میں جاری رہا

قتل و خوں کا جنوں تجھ پہ طاری رہا




اپنے اندر ذرا جھانک میرے وطن




تو دراوڑ ہے یا آریہ نسل ہے

جو بھی ہے، اسی خاک کی فصل ہے

رنگ اور نسل کے دائرے سے نکل

کر چکا ہے بہت دیر اب تو سنبھل

تیرے دل سے جو نفرت نہ مٹ پائے گی

تیرے گھر میں غلامی پلٹ آئے گی

تیری بربادیوں کا تجھے واسطہ

ڈھونڈ اپنے لئے اب نیا راستہ




اپنے اندر ذرا جھانک میرے وطن

اپنے عیبوں کو مت ڈھانک میرے وطن

٭٭٭










تم چلی جاؤ گی




تم چلی جاؤ گی، پرچھائیاں رہ جائیں گی

کچھ نہ کچھ حسن کی رعنائیاں رہ جائیں گی




تم کہ اس جھیل کے ساحل پہ ملی ہو مجھ سے

جب بھی دیکھوں گا یہیں مجھ کو نظر آؤ گی

یاد مٹتی ہے نہ منظر کوئی مٹ سکتا ہے

دور جا کر بھی تم اپنے کو یہیں پاؤ گی




گھس کے رہ جائے گی جھونکوں میں بدن کی خوشبو

زلف کا عکس گھٹاؤں میں رہے گا صدیوں

پھول چپکے سے چرا لیں گے لبوں کی سرخی

یہ جواں حسن فضاؤں میں رہے گا صدیوں




اس دھڑکتی ہوئی شاداب و حسیں وادی میں

یہ نہ سمجھو کہ ذرا دیر کا قصہ ہو تم!

اب ہمیشہ کے لئے میرے مقدر کی طرح

ان نظاروں کے مقدر کا بھی حصہ ہو تم!




تم چلی جاؤ گی، پرچھائیاں رہ جائیں گی

کچھ نہ کچھ حسن کی رعنائیاں رہ جائیں گی

٭٭٭










سانجھ کی لالی سلگ سلگ کر۔۔۔




سانجھ کی لالی سلگ سلگ کر بن گئی کالی دھول

آئے نہ بالم بیدردی، میں چنتی رہ گئی پھول




رین بھئی، بوجھل انکھین میں چبھنے لاگے تارے

دیس میں میں پردیسن ہو گئی، جب سے پیا سدھارے




پچھلے پہر جب اوس پڑی اور ٹھنڈی پون چلی

ہر کروٹ انگارے بچھ گئے، سونی سیج جلی




دیپ بجھے، سناٹا ٹوٹا، باجا بھور کا سنکھ

بیرن پون اڑا کر لے گئی، پروانوں کے پنکھ

٭٭٭













میں جب بھی اکیلی ہوتی ہوں







میں جب بھی اکیلی ہوتی ہوں، تم چپکے سے آ جاتے ہو

اور جھانک کے میری آنکھوں میں بیتے دن یاد دلاتے ہو




مستانہ ہوا کے جھونکوں سے ہر بار وہ پردے کا ہلنا

پردے کو پکڑنے کی دھن میں دو اجنبی ہاتھوں کا ملنا

آنکھوں میں دھواں سا چھا جانا، سانسوں میں ستارے سے کھلنا




رستے میں تمہارا مڑ مڑ کر تکنا وہ مجھے جاتے جاتے

اور میرا ٹھٹھک کر رک جانا، چلمن کے قریب آتے آتے

نظروں کا ترس کر رہ جانا، اک اور جھلک پاتے پاتے




بالوں کو سکھانے کی خاطر، کوٹھے پہ وہ میرا آ جانا

اور تم کو مقابل پاتے ہی کچھ شرمانا، کچھ بل کھانا

ہمسایوں کے ڈر سے کترانا، گھر والوں کے در سے گھبرانا




رو رو کے تمہیں خط لکھتی ہوں، اور خود پڑھ کر رو لیتی ہوں

حالات کے تپتے طوفاں میں جذبات کی کشتی کھیتی ہوں

کیسے ہو، کہاں ہو کچھ تو کہو، میں تم کو صدائیں دیتی ہوں




میں جب بھی اکیلی ہوتی ہوں، تم چپکے سے آ جاتے ہو

اور جھانک کے میری آنکھوں میں بیتے دن یاد دلاتے ہو

٭٭٭










آنکھ کھلتے ہی تم چھپ گئے ہو کہاں




آنکھ کھلتے ہی تم چھپ گئے ہو کہاں

تم ابھی تھے یہاں




میرے پہلو میں تاروں نے دیکھا تمہیں

بھیگے بھیگے نظاروں نے دیکھا تمہیں

تم کو دیکھا کئے یہ زمیں آسماں

تم ابھی تھے یہاں




ابھی سانسوں کی خوشبو ہواؤں میں ہے

ابھی قدموں کی آہٹ فضاؤں میں ہے

ابھی شاخوں میں ہیں انگلیوں کے نشاں

تم ابھی تھے یہاں




تم جدا ہو کے بھی میری راہوں میں ہو

گرم اشکوں میں ہو، سرد آہوں میں ہو

چاندنی میں جھلکتی ہیں پرچھائیاں

تم ابھی تھے یہاں

٭٭٭










بربادِ محبت کی دعا ساتھ لئے جا




بربادِ محبت کی دعا ساتھ لئے جا

ٹوٹا ہوا قرارِ وفا ساتھ لئے جا




اک دل تھا جو پہلے ہی تجھے سونپ دیا تھا

یہ جان بھی اے جانِ ادا ساتھ لئے جا




تپی ہوئی راہوں سے تجھے آنچ نہ پہنچے

دیوانوں کے اشکوں کی گھٹا ساتھ لئے جا




شامل ہے مرا خونِ جگر تیری حنا میں

یہ کم ہو تو اب خونِ وفا ساتھ لئے جا




ہم جرمِ محبت کی سزا پائیں گے تنہا

جو تجھ سے ہوئی ہو، وہ خطا ساتھ لئے جا

٭٭٭













ہم انتظار کریں گے ترا قیامت تک







ہم انتظار کریں گے ترا قیامت تک

خدا کرے کہ قیامت ہو اور تو آئے




یہ انتظار بھی اک امتحان ہوتا ہے

اسی سے عشق کا شعلہ جوان ہوتا ہے




بچھائے شوق کے سجدے وفا کی راہوں میں

کھڑے ہیں دید کی حسرت لئے نگاہوں میں

قبول دل کی عبادت ہو اور تو آئے







وہ خوش نصیب جس کو تو انتخاب کرے

خدا ہماری محبت کو کامیاب کرے

جواں ستارۂ قسمت ہو اور تو آئے

خدا کرے کہ قیامت ہو اور تو آئے

٭٭٭










اتنی حسیں، اتنی جواں رات کیا کریں







اتنی حسیں، اتنی جواں رات کیا کریں

جاگے ہیں کچھ عجیب سے جذبات کیا کریں




پیڑوں کے بازوؤں میں مہکتی ہے چاندنی

بے چین ہو رہے ہیں خیالات کیا کریں




سانسوں میں گھل رہی ہے کسی سانس کی مہک

دامن کو چھو رہا ہے کوئی ہات کیا کریں




شاید تمہارے آنے سے یہ بھید کھل سکے

حیران ہیں کہ آج نئی بات کیا کریں

٭٭٭










جو بات تجھ میں ہے، تری تصویر میں نہیں




جو بات تجھ میں ہے، تری تصویر میں نہیں




رنگوں میں تیرا عکس ڈھلا، تو نہ ڈھل سکی

سانسوں کی آگ جسم کی خوشبو نہ ڈھل سکی

تجھ میں جو لوچ ہے میری تحریر میں نہیں




بے جان حسن میں کہاں گفتار کی ادا

انکار کی ادا ہے نہ اقرار کی ادا

کوئی لچک بھی زلفِ گرہ گیر میں نہیں




دنیا میں کوئی چیز نہیں ہے تری طرح

پھر ایک بار سامنے آ جا کسی طرح

کیا اور اک جھلک مری تقدیر میں نہیں؟

٭٭٭










ہر چیز زمانے کی جہاں پر تھی، وہیں ہے




ہر چیز زمانے کی جہاں پر تھی، وہیں ہے

اک تو ہی نہیں ہے

نظریں بھی وہی اور نظارے بھی وہی ہیں

خاموش فضاؤں کے اشارے بھی وہی ہیں

کہنے کو تو سب کچھ ہے مگر کچھ بھی نہیں ہے

ہر اشک میں کھوئی ہوئی خوشیوں کی جھلک ہے

ہر سانس میں بیتی ہوئی گھڑیوں کی کسک ہے

تو چاہے کہیں بھی ہو، ترا درد یہیں ہے

حسرت نہیں، ارمان نہیں، آس نہیں ہے

یادوں کے سوا کچھ بھی مرے پاس نہیں ہے

یادیں بھی رہیں یا نہ رہیں کس کو یقیں ہے

٭٭٭










زندگی بھر نہیں بھولے گی وہ برسات کی رات




زندگی بھر نہیں بھولے گی وہ برسات کی رات

ایک انجان حسینہ سے ملاقات کی رات




ہائے وہ ریشمیں زلفوں سے برستا پانی

پھول سے گالوں پہ رکنے کو ترستا پانی

دل میں طوفان اٹھائے ہوئے جذبات کی رات

زندگی بھر نہیں بھولے گی وہ برسات کی رات




ڈر کے بجلی سے اچانک وہ لپٹنا اس کا

اور پھر شرم سے بل کھا کے سمٹنا اس کا

کبھی دیکھی نہ سنی ایسی طلسمات کی رات

زندگی بھر نہیں بھولے گی وہ برسات کی رات




سرخ آنچل کو دبا کر جو نچوڑا اس نے

دل پہ جلتا ہوا اک تیر سا چھوڑا اس نے

آگ پانی میں لگاتے ہوئے حالات کی رات

زندگی بھر نہیں بھولے گی وہ برسات کی رات




میرے نغموں میں جو بستی ہے، وہ تصویر تھی وہ

نوجوانی کے حسیں خواب کی تعبیر تھی وہ

آسمانوں سے اتر آئی تھی جو رات کی رات

زندگی بھر نہیں بھولے گی وہ برسات کی رات

٭٭٭










سب میں اس کا نور سمایا







سب میں اس کا نور سمایا

کون ہے اپنا، کون پرایا

سب کو پرنام، تجھ کو اللہ رکھے

دے داتا کے نام، تجھ کو اللہ رکھے

میں پردیسن راہ نہ جانوں

بڑھتے غم کی تھاہ نہ جانوں

لوگ پرائے، دیس بیگانہ

کہیں ملا نہ تیرا ٹھکانہ

صبح سے ہو گئی شام، تجھ کو اللہ رکھے

دے داتا کے نام، تجھ کو اللہ رکھے

تجھ کو رکھے رام، تجھ کو اللہ رکھے

٭٭٭










چاہے اب ماں روٹھے یا پاپا




ع۔ چاہے اب ماں روٹھے یا پاپا، یارا میں نے تو ہاں کر لی

م۔ اب چاہے سر پھوٹے یا ماتھا، میں نے تری بانہہ پکڑ لی

ع۔ اب چاہے سر پھوٹے یا ماتھا، میں نے تری بانہہ پکڑ لی

م۔ میں نے تجھ پر نیت دھر لی

ع۔ میں نے ہنس کر ہامی بھر لی

ع۔ م۔ یاری چھوٹے نا، ٹوٹے نا، ہاں کر لی سو کر لی

م۔ تو ہے مدت سے دل میں سمائی

ع۔ کب کہا میں نے، میں ہوں پرائی

م۔ جب تجھے میں نے دیکھا دہائی

ع۔ میں اسی وقت قدموں میں آئی

م۔ برف کے فرش پر

ع۔ پیار کے عرش پر

م۔ ہو چاندنی کے تلے

ع۔ جب ملے تھے گلے

م۔ جسم لہرائے تھے، ہونٹ تھرائے تھے

تب لی تھی قسم، اب نہ بچھڑیں گے ہم

ع۔ اب چاہے کانٹے ملیں یا کلیاں، یارا میں نے تو ہاں کر لی

م۔ اب چاہے لگ جائیں ہتھکڑیاں، میں نے تیری بانہہ پکڑی لی

میں نے تجھ پر نیت دھر لی

ع۔ میں نے ہنس کر حامی بھر لی

م۔ ہا یاری چھوٹے نا، ٹوٹے نا، ہاں کر لی سو کر لی

ع۔ لاکھ پہرے زمانہ بٹھائے

م۔ لاکھ دیواریں دنیا اٹھائے

ع۔ اب قدم ایک ہٹنے نہ پائے

م۔ پیار پر کوئی تہمت نہ آئے

ع۔ چاہے دھرتی پھٹے

م۔ چاہے امبر پھٹے

ع۔ ڈور ٹوٹے نہ اب

م۔ ہو ساتھ چھوٹے نہ اب

ع۔ جان جائے تو کیا، موت آئے تو کیا

پیار زندہ رہے، یار زندہ رہے

اب چاہے گھر چھوٹے یا سکھیاں، یارا میں نے تو ہاں کر لی

م۔ ارے بھئی

اب چاہے رب روٹھے یا دنیا، میں نے تیری بانہہ پکڑ لی

م۔ میں نے تجھ پر نیت دھر لی

ع۔ میں نے ہنس کے حامی بھر لی

اب چاہے ماں روٹھے یا پاپا، میں نے تو ہاں کر لی

٭٭٭










ہم سے بھی کر لو کبھی کبھی







ہم سے بھی کر لو کبھی کبھی تو میٹھی میٹھی دو باتیں

میں پیار کا شوخ پھول ہوں

عقل مر مٹے ایسی بھول ہوں

گھلی گھلی، گھلی ہیں راتیں

ہم سے بھی کر لو کبھی کبھی تو میٹھی میٹھی دو باتیں

چپ ہو کس لئے بات تو کرو

ہنس نہ پاؤ تو آہیں بھرو

ہم سے بھی کر لو کبھی کبھی تو میٹھی میٹھی دو باتیں

دل کو پیار سے بھر کے دیکھ لو

یہ حسیں بھول کر کے دیکھ لو

گھلی گھلی، گھلی راتیں

٭٭٭










بلے بلے بھئی ریشمی دوپٹے والیئے




بلے بلے بھئی ریشمی دوپٹے والیئے

تیرا روپ لشکارے مارے

ریشمی دوپٹے والیئے




توبہ توبہ یہ گورا رنگ آفت ہے

بلے بلے ہم ہی میں عیب کیا ہے

تجھے کسی کا تو ہے گھر بسانا، ہم ہی میں عیب کیا ہے

توبہ توبہ کہ میں نہ تیرے گھر جاؤں

چاہے پڑ جائے تھانے جانا بلیئے گورئیے سوہنیئے بلیئے

بلے بلے بوڑھی ہو کر ترسے گی

کوئی آئے گا نہ ہاتھ پکڑنے

بوڑھی ہو کر ترسے گی کہ جا جا، جا کہ ترے جسے لاکھوں ہیں

کئی آئیں گے ناک رگڑنے

تیرے جیسے لاکھوں ہیں

بلے بلے بھئی ریشمی دوپٹے والیئے

تیرا روپ لشکارے مارے




جوانی پھر نہ آئے، کرے گی ہائے ہائے

میرا غم تو کیوں کھائے، تجھے کیوں نیند نہ آئے

جو تجھ پہ آنکھ ٹکائے، وہ تیرا مان بڑھائے

تو چاہے مر بھی جائے، یہ جٹی ہاتھ نہ آئے

نہ جب تک ہاں کہلائے، یہ جٹ واپس نہ جائے

جو مجھ کو ہاتھ لگائے وہ اپنا سر تڑوائے

بلے بلے بھئی ریشمی دوپٹے والیئے

تیرا روپ لشکارے مارے

ریشمی دوپٹے والیئے

٭٭٭













ادھر آ، آ، آ بھی جا




ادھر آ، آ، آ بھی جا




چلی کہاں آج جانے نہیں دوں گا ہو مہ پارہ

ہاتھ چھوڑنے نہیں دوں گا

دلبر دل آرا فیصلہ ہے یہ میرا

ادھر آ، آ، آ بھی جا




ہر رات اک تازہ حسیں اپنے ساتھ ہیں

لیکن یہ رات تیرے مقدر کی رات ہے

آ جا او حسینہ ناز نیناں پاس آ

ڈر نہ یہ ہے تیری خوش نصیبی مان جا

کھڑی کھڑی سوچے کیا

آ یہاں چھو کے تجھ کو دیکھ لوں

ادھر آ، آ، آ بھی جا




فرصت نہیں جو حسن کی تکرار سن سکیں

عادت نہیں ہے ہم کو کہ انکار سن سکیں

جانم بول تیرا مول کیا ہے، دوں گا میں

سن لے آج تجھ کو پا کے ہی دم لوں گا

کھڑی کھڑی سوچے کیا

آ یہاں چھو کے تجھ کو دیکھ لوں

ادھر آ، آ، آ بھی جا

٭٭٭










راز کی بات ہے، محفل میں کہیں یا نہ کہیں







راز کی بات ہے، محفل میں کہیں یا نہ کہیں

بس گیا ہے کوئی اس دل میں کہیں یا نہ کہیں




نگاہیں ملانے کو جی چاہتا ہے

دل و جاں لٹانے کو جی چاہتا ہے

وہ تہمت جسے عشق کہتی ہے دنیا

وہ تہمت اٹھنے کو جی چاہتا ہے

کسی کے منانے میں لذت وہ پائی

کہ پھر روٹھ جانے کو جی چاہتا ہے

دل و جاں لٹانے کو جی چاہتا ہے

وہ جلوہ جو اوجھل بھی ہے سامنے بھی

وہ جلوہ چرانے کو جی چاہتا ہے




جس گھڑی میری نگاہوں کو تری دید ہوئی

وہ گھڑی تیرے مرے عشق کی تمہید ہوئی

کبھی میں نے ترا چاند سا چہرہ دیکھا

عید ہو یا کہ نہ ہو میرے لئے عید ہوئی




وہ جلوہ جو اوجھل بھی ہے سامنے بھی

وہ جلوہ چرانے کو جی چاہتا ہے

ملاقات کا کوئی پیغام دیجیے

کہ چھپ چھپ کے آنے کو جی چاہتا ہے

پھر آ کر نہ جانے کو جی چاہتا ہے

نگاہیں ملانے کو جی چاہتا ہے

٭٭٭










زندگی بھر نہیں بھولی گی وہ برسات کی رات







زندگی بھر نہیں بھولے گی وہ برسات کی رات

ایک انجان مسافر سے ملاقات کی رات




ہائے جس رات مرے دل نے دھڑکنا سیکھا

میری تقدیر سے نکلی وہی صدمات کی رات

زندگی بھر نہیں بھولے گی وہ برسات کی رات




دل نے جب پیار کے رنگین فسانے چھیڑے

آنکھوں آنکھوں میں وفاؤ کے ترانے چھیڑے

سوگ میں ڈوب گئی، آج وہ نغمات کی رات

زندگی بھر نہیں بھولے گی وہ برسات کی رات




روٹھے والی مرے بات سے مایوس نہ ہو

بہکے بہکے سے خیالات سے مایوس نہ ہو

ختم ہو گی نہ کبھی تیرے مرے سات کی رات

زندگی بھر نہیں بھولے گی وہ برسات کی رات

٭٭٭










مرے نغموں میں ان مستانہ آنکھوں کی کہانی ہے







مرے نغموں میں ان مستانہ آنکھوں کی کہانی ہے

محبت ہی محبت ہے، جوانی ہی جوانی ہے




کسی کے نازنین جلوے مری دنیا پہ چھائے ہیں

وہ میری آرزو بن کر مرے دل میں سمائے ہیں

مجھے اب ان کے دل میں آرزو اپنی جگانی ہے

محبت ہی محبت ہے، جوانی ہی جوانی ہے




محبت میری دنیا ہے، محبت شاعری میری

محبت میرا نغمہ ہے، محبت زندگی میری

محبت کے سہارے اک نئی دنیا بسانی ہے

محبت ہی محبت ہے، جوانی ہی جوانی ہے




چلا ہوں لے کے اس محفل میں اپنے دل کا نذرانہ

مری ہستی ہے ان کے پیار کا رنگین افسانہ

نگاہیں چار کر کے آج قسمت آزمانی ہے

محبت ہی محبت ہے، جوانی ہی جوانی ہے

مرے نغموں میں ان مستانہ آنکھوں کی کہانی ہے

٭٭٭










ٹھنڈی ہوائیں لہرا کے آئیں




ٹھنڈی ہوائیں لہرا کے آئیں

رت ہے جواں، تم کو یہاں کیسے بلائیں

چاند اور تارے ہنستے نظارے

مل کے سبھی دل میں سکھی جادو جگائیں




ٹھنڈی ہوائیں لہرا کے آئیں




کہا بھی نہ جائے، رہا بھی نہ جائے

تم سےاگر ملے بھی نظر ہم چھپ جائیں

ٹھنڈی ہوائیں لہرا کے آئیں

رت ہے جواں، تم کو یہاں کیسے بلائیں

٭٭٭










اگر مجھے نہ ملیں تم تو میں یہ سمجھوں گا




اگر مجھے نہ ملیں تم تو میں یہ سمجھوں گا

کہ دل کی راہ سے ہو کر خوشی نہیں گزری

اگر مجھے نہ ملیں تم تو میں یہ سمجھوں گا




کہ صرف عمر کٹی، زندگی نہیں گزری

غزل کا حسن ہو تم، نظم کا شباب ہو تم

صدائے ساز ہو تم، نغمۂ رباب ہو تم

جو دل میں صبح جگائے وہ آفتاب ہو تم

اگر مجھے نہ ملیں تم تو میں یہ سمجھوں گا




مرے جہاں سے کوئی روشنی نہیں گزری

فضا میں رنگ، نظاروں میں جان ہے تم سے

میرے لئے یہ زمیں آسمان ہے تم سے

خیال و خواب کی دنیا جوان ہے تم سے

اگر مجھے نہ ملیں تم تو میں یہ سمجھوں گا




کہ دل کی راہ سے ہو کر خوشی نہیں گزری

بڑے یقین سے میں نے یہ ہاتھ مانگا ہے

دلوں کی پیاس نے آبِ حیات مانگا ہے

اگر مجھے نہ ملیں تم تو میں یہ سمجھوں گا

کہ انتظار کی مدت ابھی نہیں گزری

٭٭٭










کبھی خود پر کبھی حالات پہ رونا آیا







کبھی خود پر کبھی حالات پہ رونا آیا

بات نکلی تو ہر اک بات پہ رونا آیا




ہم تو سمجھے تھے کہ ہم بھول گئے ہیں ان کو

کیا ہوا، آج یہ کس بات پہ رونا آیا




کس لئے جیتے ہیں ہم، کس کے لئے جیتے ہیں

بارہا ایسے سوالات پہ رونا آیا




کون روتا ہے کسی اور کی خاطر اے دوست؟

سب کو اپنی ہی کسی بات پہ رونا آیا

٭٭٭










اشکوں میں جو پایا ہے







اشکوں میں جو پایا ہے، وہ گیتوں میں دیا ہے

اس پر بھی سنا ہے کہ زمانے کو گلہ ہے




جو تار سے نکلی ہے وہ دھن سب نے سنی ہے

جو ساز پہ گزری ہے وہ کس دل کو پتا ہے




ہم پھول ہیں، اوروں کے لئے لائے ہیں خوشبو

اپنے لئے لے دے کہ بس اک داغ ملا ہے

٭٭٭










میں نے چاند اور ستاروں کی تمنا کی تھی







میں نے چاند اور ستاروں کی تمنا کی تھی

مجھ کو راتوں کی سیاہی کے سوا کچھ بھی نہ ملا




میں وہ نغمہ ہوں جسے پیار کی محفل نہ ملی

وہ مسافر ہوں جسے کوئی بھی منزل نہ ملی

زخم پائے ہیں، بہاروں کی تمنا کی تھی

میں نے چاند اور ستاروں کی تمنا کی تھی




کسی گیسو، کسی آنچل کا سہارا بھی نہیں

راستے میں کوئی دھندلا سا ستارہ بھی نہیں

میری نظروں نے نظاروں کی تمنا کی تھی

میں نے چاند اور ستاروں کی تمنا کی تھی




دل میں ناکام امیدوں کے بسیرے پائے

روشنی لینے کو نکلا تو اندھیرے پائے

رنگ اور نور کے دھاروں کی تمنا کی تھی

میں نے چاند اور ستاروں کی تمنا کی تھی




میری راہوں سے جدا ہو گئیں راہیں ان کی

آج بدلی نظر آتی ہیں نگاہیں ان کی

جن سے اس دل نے سہاروں کی تمنا کی تھی

میں نے چاند اور ستاروں کی تمنا کی تھی




پیار مانگا تو سسکتے ہوئے ارمان ملے

چین چاہا تو امڈتے ہوئے طوفان ملے

ڈوبتے دل نے کناروں کی تمنا کی تھی

میں نے چاند اور ستاروں کی تمنا کی تھی

٭٭٭










بجھا دیے ہیں خود اپنے ہاتھوں




بجھا دیے ہیں خود اپنے ہاتھوں محبتو کے دیے جلا کے

مری وفا نے اجاڑ دی ہیں امید کی بستیاں بسا کے




تجھے بھلا دیں گی اپنے دل سے، یہ فیصلہ تو کیا ہے لیکن

نہ دل کو معلوم ہے نہ ہم کو، جئیں گے کیسے تجھے بھلا کے




کبھی ملیں جو راستے میں تو منہ پھرا کر پلٹ پڑیں گے

کہیں سنیں گے جو نام تیرا تو چپ رہیں گے نظر جھکا کے




نہ سوچنے پر بھی سوچتی ہوں کہ زندگانی میں کیا رہے گا؟

تری تمنا کو دفن کر کے، ترے خیالوں سے دور جا کے

٭٭٭










تری دنیا میں جینے سے تو بہتر ہے کہ مر جائیں







تری دنیا میں جینے سے تو بہتر ہے کہ مر جائیں

وہی آنسو، وہی آہیں، وہی غم ہے جدھر جائیں




کوئی تو ایسا گھر ہوتا جہاں سے پیار مل جاتا

وہی بیگانے چہرے ہیں، جہاں جائیں جدھر جائیں




ارے او آسماں والے بتا اس میں برا کیا ہے

خوشی کے چار جھونکے گر ادھر سے بھی گزر جائیں!

٭٭٭










تنگ آ چکے ہیں کشمکشِ زندگی سے ہم







تنگ آ چکے ہیں کشمکشِ زندگی سے ہم

ٹھکرا نہ دیں جہاں کو کہیں بے دلی سے ہم




لو! آج ہم نے توڑ دیا رشتۂ امید

لو! اب کبھی گلہ نہ کریں گے کسی سے ہم




گر زندگی میں مل گئے پھر اتفاق سے

پوچھیں گے اپنا حال تری بے بسی سے ہم




او آسمان والے! کبھی تو نگاہ کر

کب تک یہ ظلم سہتے رہیں خامشی سے ہم

٭٭٭










لو اپنا جہاں دنیا والو







لو اپنا جہاں دنیا والو

ہم اس دنیا کو چھوڑ چلے

جو رشتے ناتے جوڑے تھے

وہ رشتے ناتے چھوڑ چلے




کچھ سکھ کے سپنے دیکھ چلے

کچھ دکھ کے صدمے جھیل چلے

تقدیر کی اندھی گردش نے

جو کھیل کھلائے کھیل چلے

ہر چیز تمہیں لوٹا دی ہے

ہم لے کے نہیں کچھ ساتھ چلے

پھر دوش نہ دینا اے لوگو

ہمیں دیکھ لو خالی ہاتھ چلے




یہ راہ اکیلی کٹتی چلے

یہاں ساتھ نہ کوئی یار چلے

اس پار نہ جانے کیا پائیں

اس پار تو سب کچھ ہار چلے

٭٭٭













دو بوندیں ساون کی







دو بوندیں ساون کی۔۔۔۔

اک ساگر کی سیپ میں ٹپکے اور موتی بن جائے

دوجی گندے جل میں گر کر اپنا آپ گنوائے

کس کو مجرم سمجھے کوئی، کس کو دوش لگائے




دو کلیاں گلشن کی۔۔۔۔

اک سہرے کے بیچ گندھے اور من ہی من اترائے

اک ارتھی کی بھینٹ چڑھے اور دھولی میں مل جائے

کس کو مجرم سمجھے کوئی، کس کو دوش لگائے

دو کلیاں گلشن کی




دو سکھیاں بچپن کی۔۔۔۔

اک سنگھاسن پر بیٹھے، اور روپ متی کہلائے

دوجی اپنے روپ کے کارن، گلیوں میں بک جائے

کس کو مجرم سمجھے کوئی، کس کو دوش لگائے

دو سکھیاں بچپن کی۔۔۔۔

٭٭٭













ہر کوئی دل کی چاہت سے مجبور ہے







ہر کوئی دل کی چاہت سے مجبور ہے

جو بھی ہے وہ ضرورت سے مجبور ہے

کوئی مانے نہ مانے مگر جانِ من

کچھ تمہیں چاہیے، کچھ ہمیں چاہیے




چھپ کے تکتے ہو کیوں، سامنے آؤ جی

ہم تمہارے ہیں، ہم سے نہ شرماؤ جی

یہ نہ سمجھو کہ ہم کو خبر کچھ نہیں

سب اِدھر ہی اِدھر ہے، اُدھر کچھ نہیں

تم بھی بے چین ہو، ہم بھی بے تاب ہیں

جب سے آنکھیں ملیں، دونوں بے خواب ہیں

عشق اور مشک چھپتے نہیں ہیں کبھی

اس حقیقت سے واقف ہیں ہم تم سبھی

اپنے دل کی لگی کو چھپاتے ہو کیوں

یہ محبت کی گھڑیاں گنواتے ہو کیوں

پیاس بجھتی نہیں ہے نظارے بنا

عمر کٹتی نہیں ہے سہارے بنا




کوئی مانے نہ مانے مگر جانِ من

کچھ تمہیں چاہیے، کچھ ہمیں چاہیے

٭٭٭







جانے وہ کیسے لوگ تھے




جانے وہ کیسے لوگ تھے جن کے پیار کو پیار ملا

ہم نے تو جب کلیاں مانگیں، کانٹوں کا ہار ملا




خوشیوں کی منزل ڈھونڈی تو غم کی گرد ملی

چاہت کے نغمے چاہے تو آہِ سرد ملی

دل کے بوجھ کو دونا کر گیا جو غم خوار ملا




بچھڑ گیا ہر ساتھی دے کر پل دو پل کا ساتھ

کس کو فرصت ہے جو تھامے دیوانوں کا ہاتھ

ہم کو اپنا سایہ تک اکثر بیزار ملا




اس کو ہی جینا کہتے ہیں تو یوں ہی جی لیں گے

اف نہ کریں گے، لب سی لیں گے، آنسو پی لیں گے

٭٭٭










آسماں پہ ہے خدا







آسماں پہ ہے خدا اور زمیں پہ ہم

آج کل وہ اس طرف دیکھتا ہے کم




آج کل کسی کو وہ ٹوکتا نہیں

چاہے کچھ بھی کیجیے روکتا نہیں

ہو رہی ہے لوٹ مار، پھٹ رہے ہیں بم

آسماں پہ ہے خدا اور زمیں پہ ہم




کس کو بھیجے وہ یہاں خاک چھاننے

اس تمام بھیڑ کا حال جاننے

آدمی ہیں بے شمار، دیوتا ہیں کم

آسماں پہ ہے خدا اور زمیں پہ ہم




اتنی دور سے اگر دیکھتا بھی ہو

تیرے میرے واسطے کیا کرے گا وہ

زندگی ہے اپنے اپنے بازوؤں کا دم

آسماں پہ ہے خدا اور زمیں پہ ہم

٭٭٭










ان اجلے محلوں کے تلے




ان اجلے محلوں کے تلے

ہم گندی گلیوں میں پلے




سو سو بوجھے من پہ لئے

میل اور ماٹی تن پہ لئے

دکھ سہتے، غم کھاتے رہے

پھر بھی ہنستے گاتے رہے




ہم دیپک طوفاں میں پلے

ہم گندی گلیوں میں پلے




دنیا نے ٹھکرایا ہمیں

رستوں نے اپنایا ہمیں

سڑکیں ماں، سڑکیں ہی پتا

سڑکیں گھر، سڑکیں ہی چتا




کیوں آئے کیا کر کے چلے

ہم گندی گلیوں میں پلے




دل میں کھٹکا کچھ بھی نہیں

ہم کو پروا کچھ بھی نہیں

چاہو تو ناکارہ کہو

چاہو تو آوارہ کہو




ہم ہی برے، تم سب ہو بھلے

ہم گندی گلیوں میں پلے

٭٭٭










محفل سے اٹھ جانے والو







محفل سے اٹھ جانے والو! تم لوگوں پر کیا الزام

تم آباد گھروں کے باسی، میں آوارہ اور بدنام

میرے ساتھی خالی جام




دو دن تم نے پیار جتایا، دو دن تم سے میل رہا

اچھا خاصا وقت کٹا اور اچھا خاصا کھیل رہا

اب اس کھیل کا ذکر ہی کیا کہ وقت کٹا اور کھیل تمام

میرے ساتھی خالی جام




تم نے ڈھونڈی سکھ کی دولت، میں نے پالا غم کا روگ

کیسے بنتا، کیسے نبھتا، یہ رشتہ اور سنجوگ

میں نے دل کو دل سے تولا، تم نے مانگے پیار کے دام

میرے ساتھی خالی جام




تم دنیا کو بہتر سمجھے، میں پاگل تھا خوار ہوا

تم کو اپنانے نکلا، خود سے بھی بیزار ہوا

دیکھ لیا گھر پھونک تماشا، جان لیا میں نے انجام

میرے ساتھی خالی جام

٭٭٭










تم نے کتنے سپنے دیکھے، میں نے کتنے گیت بُنے




تم نے کتنے سپنے دیکھے، میں نے کتنے گیت بُنے

اس دنیا کے شور میں لیکن دل کی دھڑکن کون سُنے




سرگم کی آواز پہ سر کو دھننے والے لاکھوں پائے

نغموں کی کھلتی کلیوں کو چننے والے لاکھوں پائے

راکھ ہوا دل جن میں جل کر، وہ انگارے کون چنے

تم نے کتنے سپنے دیکھے، میں نے کتنے گیت بنے




ارمانوں کے سونے گھر میں ہر آہٹ بیگانی نکلی

دل نے جب نزدیک سے دیکھا، ہر صورت انجانی نکلی

بوجھل گھڑیاں گنتے گنتے صدمے ہو گئے لاکھ گنے

تم نے کتنے سپنے دیکھے، میں نے کتنے گیت بنے

٭٭٭










دیکھا ہے زندگی کو۔۔۔




دیکھا ہے زندگی کو کچھ اتنا قریب سے

چہرے تمام لگنے لگے ہیں عجیب سے




کہنے کو دل کی بات جنہیں ڈھونڈتے تھے ہم

محفل میں آ گئے ہیں وہ اپنے نصیب سے




نیلام ہو رہا تھا کسی نازنیں کا پیار

قیمت نہیں چکائی گئی اک غریب سے




تیری وفا کی لاش پہ لا میں ہی ڈال دوں

ریشم کا یہ کفن جو ملا ہے رقیب سے

٭٭٭










سنبھل اے دل




سنبھل اے دل، تڑپنے اور تڑپانے سے کیا ہو گا

جہاں بسنا نہیں ممکن، وہاں جانے سے کیا ہو گا




چلے آؤ کہ اب منہ پھیر کر جانے سے کیا ہو گا

جو تم پر مر مٹا، اس دل کو تڑپانے سے کیا ہو گا




ہمیں سنسار میں اپنا بنانا کون چاہے گا؟

یہ مسلے پھول سیجوں پر سجانا کون چاہے گا؟

تمناؤں کو جھوٹے خواب دکھلانے سے کیا ہو گا




تمہیں دیکھا، تمہیں چاہا، تمہیں پوجا ہے اس دل نے

جو سچ پوچھو تو پہلی بار کچھ مانگا ہے اس دل نے




جنہیں ملتی ہیں خوشیاں، وہ مقدر اور ہوتے ہیں

جو دل میں گھر بناتے ہیں، وہ دلبر اور ہوتے ہیں

امیدوں کو کھلونے دے کے بہلانے سے کیا ہو گا




بہت دن سے تھی دل میں، اب زباں تک بات پہنچی ہے

وہیں تک اس کو رہنے دو، جہاں تک بات پہنچی ہے

جو دل کی آخری حد ہے، وہاں تک بات پہنچی ہے

جسے کھونا یقینی ہو، اسے پانے سے کیا ہو گا

٭٭٭










نہ تو زمیں کے لئے ہے نہ آسماں کے لئے







نہ تو زمیں کے لئے ہے نہ آسماں کے لئے

ترا وجود ہے اب صرف داستاں کے لئے




پلٹ کے سوئے چمن دیکھنے سے کیا ہو گا

وہ شاخ ہی نہ رہی، جو تھی آشیاں کے لئے




غرض پرست جہاں میں وفا تلاش نہ کر

یہ شے بنی تھی کسی دوسرے جہاں کے لئے

٭٭٭










وفا کے نام پہ کتنے گناہ ہوتے ہیں







وفا کے نام پہ کتنے گناہ ہوتے ہیں

اب ان سے پوچھے کوئی، جو تباہ ہوتے ہیں




دامن میں داغ لگا بیٹھے

ہم پیار میں دھوکا کھا بیٹھے




چھوٹی سی بھول جوانی کی

جو تم کو یاد نہ آئے گی

اس بھول کے طعنے دے دے کر

دنیا ہم کو تڑپائے گی

اٹھتے ہی نظر جھک جائے گی

آج ایسی ٹھوکر کھا بیٹھے




چاہت کے لئے جو رسموں کو

خود ساتھ ہی جینے والے تھے

جو ساتھ ہی مرنے والے تھے

طوفاں کے حوالے کر کے ہمیں

خود دور کنارے جا بیٹھے




لو آج مری مجبور وفا

بدنام کہانی بننے لگی

جو پریم نشانی پائی تھی

وہ پاپ نشانی بننے لگی

دکھ دے کے مجھے جیون بھر کا

وہ سکھ کی سیج سجا بیٹھے

٭٭٭










جیون کے سفر میں راہی







جیون کے سفر میں راہی

ملتے ہیں بچھڑ جانے کو

اور دے جاتے ہیں یادیں

تنہائی میں تڑپانے کو




یہ روپ کی دولت والے

کب سنتے ہیں دل کے نالے

تقدیر نے بے چین کر ڈالا

ان کے کسی دیوانے کو




جو ان کی نظر سے کھیلے

دکھ پائے، مصیبت جھیلے

پھرتے ہیں یہ سب البیلے

دل لے کے مکر جانے کو




دل لے کے دغا دیتے ہیں

اک روگ لگا دیتے ہیں

ہنس ہنس کے جاں دیتے ہیں

یہ حسن کے پروانے کو

٭٭٭













مایوس تو ہوں وعدے سے ترے







مایوس تو ہوں وعدے سے ترے

کچھ آس نہیں، کچھ آس بھی ہے

میں اپنے خیالوں کے صدقے

تو پاس نہیں اور پاس بھی ہے




ہم نے تو خوشی مانگی تھی مگر!

جو تو نے دیا، اچھا ہی دیا!

جس غم کا تعلق ہو تجھ سے

وہ راس نہیں اور راس بھی ہے







پلکوں پہ لرزتے اشکوں میں

تصویر جھلکتی ہے تیری!

دیدار کی پیاسی آنکھوں میں

اب پیاس نہیں اور پیاس بھی ہے

٭٭٭













اب وہ کرم کریں کہ ستم







اب وہ کرم کریں کہ ستم، میں نشے میں ہوں

مجھ کو نہ کوئی ہوش نہ غم، میں نشے میں ہوں




سینے سے بوجھ ان کے غموں کا اتار کے

آیا ہوں آج اپنی جوانی کو ہار کے

کہتے ہیں ڈگمگاتے قدم، میں نشے میں ہوں




وہ بے وفا ہے، اب بھی یہ دل مانتا نہیں

کم بخت نا سمجھ ہے، انہیں جانتا نہیں

میں آج توڑ دوں گا بھرم، میں نشے میں ہوں




فرصت نہیں ہے رونے رلانے کے واسطے

آئے نہ ان کی یاد ستانے کے واسطے

اس وقت دل میں درد ہے کم، میں نشے میں ہوں

٭٭٭










میری مانگ کے رنگ میں تو نے







میری مانگ کے رنگ میں تو نے راکھ چتا کی بھر دی

یہ کیسا انصاف ہے تیرا او بھگوان بیدردی؟




گھونگھٹ اٹھنے سے پہلے ودھوا کر دی پریت سہاگن

چھین لیا ماتھے کا ٹیکا، کھول لئے ہاتھوں کے کنگن

پلک جھپکتے ہنستی بستی، دنیا سونی کر دی!




روپ سجا پر جوت نہ جاگی، سیج بچھی پر پھول نہ مہکے

بن گیا میرے منہ کا کالک دو نینوں کا کاجل بہہ کے

بھاگ بنانے والے تو نے بھاگ پہ تہمت دھر دی!

٭٭٭










لوگ عورت کو فقط جسم سمجھ لیتے ہیں




لوگ عورت کو فقط جسم سمجھ لیتے ہیں

روح بھی ہوتی ہے اس میں، یہ کہاں سوچتے ہیں




روح کیا ہوتی ہے، اس سے انہیں مطلب ہی نہیں

وہ تو بس تن کے تقاضوں کا کہا مانتے ہیں

روح مر جائے تو یہ جسم ہے چلتی ہوئی لاش!

اس حقیقت کو سمجھتے ہیں نہ پہچانتے ہیں




کتنی صدیوں سے یہ وحشت کا چلن جاری ہے

کتنی صدیوں سے ہے قائم یہ گناہوں کا رواج

لوگ عورت کی ہر اک چیخ کو نغمہ سمجھے

وہ قبیلوں کا زمانہ ہو کہ شہروں کا رواج




جبر سے نسل بڑھے، ظلم سے تن میل کریں

یہ عمل ہم میں ہے، بے علم پرندوں میں نہیں

ہم جو انسانوں کی تہذیب لئے پھرتے ہیں

ہم سا وحشی کوئی جنگل کے درندوں میں نہیں




اک بجھی روح لٹے جسم کے ڈھانچے میں لئے

سوچتی ہوں میں کہاں جا کے مقدر پھوڑوں

میں نہ زندہ ہوں کہ مرنے کا سہارا ڈھونڈوں




کون بتلائے گا مجھ کو، کسے جا کر پوچھوں!

زندگی قہر کے سانچوں میں ڈھلے گی کب تک

کب تلک آنکھ نہ کھولے گا زمانے کا ضمیر!

ظلم اور جبر کی یہ ریت چلے گی کب تک

٭٭٭










بول نہ بول اے جانے والے







بول نہ بول اے جانے والے، سن تو لے دیوانوں کی

اب نہیں دیکھی جاتی ہم سے یہ حالت ارمانوں کی




حسن کے کھلتے پھول ہمیشہ بیدردوں کے ہاتھ بکے

اور چاہت کے متوالوں کو دھول ملی ویرانوں کی




دل کے نازک جذبوں پر بھی راج ہے سونے چاندی کا

یہ دنیا کیا قیمت دے گی سادہ دل انسانوں کی

٭٭٭










یہ محلوں، یہ تختوں، یہ تاجوں کی دنیا




یہ محلوں، یہ تختوں، یہ تاجوں کی دنیا

یہ انساں کے دشمن سماجوں کی دنیا

یہ دولت کے بھوکے رواجوں کی دنیا

یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے؟




ہر اک جسم گھایل، ہر اک روح پیاسی

نگاہوں میں الجھن، دلوں میں اداسی

یہ دنیا ہے یا عالم بدحواسی

یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے؟




یہاں اک کھلونا ہے انساں کی ہستی

یہ بستی ہے مردہ پرستوں کی بستی

یہاں پر تو جیون سے ہے موت سستی

یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے؟




جوانی بھٹکتی ہے بدکار بن کر

جواں جسم سجتے ہیں بازار بن کر

یہاں پیار ہوتا ہے بیوپار بن کر

یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے؟




یہ دنیا، جہاں آدمی کچھ نہیں ہے

وفا کچھ نہیں، دوستی کچھ نہیں ہے

جہاں پیار کی قدر ہی کچھ نہیں ہے

یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے؟




جلا دو اسے، پھونک ڈالو یہ دنیا

مرے سامنے سے ہٹا لو یہ دنیا

تمہاری ہے تم ہی سنبھالو یہ دنیا

یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے؟

٭٭٭










دیواروں کا جنگل جس کا آبادی ہے نام




دیواروں کا جنگل جس کا آبادی ہے نام

باہر سے چپ چپ لگتا ہے، اندر ہے کہرام

دیواروں کے اس جنگل میں بھٹک رہے انسان

اپنے اپنے الجھے دامن جھٹک رہے انسان




اپنی بیتی چھوڑ کے آئے کون کسی کے کام

باہر سے چپ چپ لگتا ہے، اندر ہے کہرام

سینے خالی، آنکھیں سونی، چہرے پر حیرانی

جتنے گنےی ہنگامے اس میں، اتنی گھنی ویرانی




راتیں قاتل، صبحیں مجرم، ملزم ہے ہر شام

باہر سے چپ چپ لگتا ہے، اندر ہے کہرام

حال نہ پوچھیں، درد نہ بانٹیں اس جنگل کے لوگ

اپنا اپنا سکھ ہے سب کا، اپنا اپنا سوگ




کوئی نہیں جو ہاتھ بڑھا کر گرتوں کو لے تھام

باہر سے چپ چپ لگتا ہے، اندر ہے کہرام

بے بسی کو دوشی ٹھہرائے اس جنگل کا نیائے

سچ کی لاش پہ کوئی نہ روئے، جھوٹ کو سیس نوائے




پتھر کی ان دیواروں میں پتھر ہو گئے رام

باہر سے چپ چپ لگتا ہے، اندر ہے کہرام

٭٭٭










موت کتنی بھی سنگدل ہو مگر۔۔۔




موت کتنی بھی سنگدل ہو مگر زندگی سے تو مہرباں ہو گی




نت نئے رنج دل کو دیتی ہے، زندگی یہ خوشی کی دشمن ہے

موت سب سے نباہ کرتی ہے، زندگی زندگی کی دشمن ہے

کچھ نہ کچھ تو سکون پائے گا، موت کے بس میں جس کی جاں ہو گی




رنگ اور نسل، نام اور دولت، زندگی کتنے فرق مانتی ہے

موت حد بندیوں سے اونچی ہے، ساری دنیا کو ایک جانتی ہے

جن اصولوں پہ مر رہے ہیں ہم، ان اصولوں کی قدر داں ہو گی




موت سے اور کچھ ملے نہ ملے، زندگی سے تو جان چھوٹے گی

مسکراہٹ نصیب ہو کہ نہ ہو، آنسوؤں کی لڑی تو ٹوٹے گی

ہم نہ ہوں گے تو غم کسے ہو گا، ختم ہر غم کی داستاں ہو گی

٭٭٭










سنسار کی ہر شے کا اتنا ہی فسانہ ہے




سنسار کی ہر شے کا اتنا ہی فسانہ ہے

اک دھند سے آنا ہے، اک دھند میں جانا ہے




یہ راہ کہاں سے ہے، یہ راہ کہاں تک ہے

یہ راز کوئی راہی سمجھا ہے نہ جانا ہے




اک پل کی پلک پر ہے ٹھہری ہوئی یہ دنیا

اک پلک جھپکنے تک ہر کھیل سہانا ہے




کیا جانے کوئی کس پر کس موڑ پہ کیا بیتے

اس راہ میں اے راہی ہر موڑ بہانا ہے




ہم لوگ کھلونا ہیں اک ایسے کھلاڑی کا

جس کو ابھی صدیوں تک یہ کھیل رچانا ہے

٭٭٭










میں زندگی کا ساتھ نبھاتا چلا گیا







میں زندگی کا ساتھ نبھاتا چلا گیا

ہر فکر کو دھوئیں میں اڑاتا چلا گیا




بربادیوں کا سوگ منانا فضول تھا

بربادیوں کا جشن مناتا چلا گیا




جو مل گیا اسی کو مقدر سمجھ لیا

جو کھو گیا میں اس کو بھلاتا چلا گیا




غم اور خوشی میں فرق نہ محسوس ہو جہاں

میں دل کو اس مقام پہ لاتا چلا گیا

٭٭٭










زندگی ظلم سہی، جبر سہی







زندگی ظلم سہی، جبر سہی، غم ہی سہی

دل کی فریاد سہی، روح کا ماتم ہی سہی




ہم نے ہر حال میں جینے کی قسم کھائی ہوئی ہے

اب یہی مقدر ہو تو شکوہ کیوں ہو

ہم سلیقے سے نبھا دیں گے، جو دن باقی ہیں

چاہ رسوا نہ ہوئی، آہ بھی رسوا کیوں ہو




ہم کو تقدیر سے بے وجہ شکایت کیوں ہو

اسی تقدیر نے چاہت کی خوشی بھی دی تھی

آج اگر کانپتی پلکوں کو دیے ہیں آنسو

کل تھرکتے ہوئے ہونٹوں کو ہنسی بھی دی تھی




ہم ہیں مایوس مگر اتنے بھی مایوس نہیں

اک نہ اک دن تو یہ اشکوں کی لڑی ٹوٹے گی

اک نہ اک دن تو چھٹیں گے یہ غموں کے بادل

اک نہ اک دن تو اجالے کی کرن پھوٹے گی

٭٭٭










بستی بستی، پربت پربت







بستی بستی، پربت پربت گاتا جائے بنجارا

لے کر دل کا اک تارا




پل دو پل کا ساتھ ہمارا، پل دو پل کی یاری

آج رکے تو کل کرنی ہے چلنے کی تیاری




قدم قد پر ہونی بیٹھی اپنا جال بچھائے

اس جیون کی راہ میں جانے کون کہاں رہ جائے




دھن دولت کے پیچھے کیوں ہے یہ دنیا دیوانی

یہاں کی دولت یہیں رہے گی، ساتھ نہیں یہ جانی




سونے چاندی میں تلتا ہو جہاں دلوں کا پیار

آنسو بھی بیکار وہاں پر، آہیں بھی بیکار




دنیا کے بازار میں آخر چاہت بھی بیوپار بنی

میرے دل سے ان کے دل تک چاندی کی دیوار بنی




ہم جیسوں کے بھاگ میں لکھا چاہت کا وردان نہیں

جس نے ہم کو جنم دیا، وہ پتھر ہے بھگوان نہیں

بستی بستی، پربت پربت گاتا جائے بنجارا

٭٭٭










اپنی دنیا پہ صدیوں سے چھائی ہوئی







اپنی دنیا پہ صدیوں سے چھائی ہوئی ظلم اور لوٹ کی سنگدل رات ہے

یہ نہ سمجھو کہ یہ آج کی بات ہے




جب سے دھرتی بنی، جب سے دنیا بسی، ہم یوں ہی زندگی کو ترستے رہے

موت کی آندھیاں گھر کے چھاتی رہیں، آگ اور خوں کے بادل برستے رہے

تم بھی مجبور ہو، ہم بھی مجبور ہیں

کیا کریں یہ بزرگوں کی سوغات ہے




ہم اندھیری گپھاؤں سے نکلے مگر، روشنی اپنے سینوں سے پھوٹی نہیں

ہم نے جنگل تو شہروں میں بدلے مگر ہم سے جنگل کی تہذیب چھوٹی نہیں

اپنی بدنام انسانیت کی قسم

اپنی حیوانیت آج تک ساتھ ہے




ہم نے سقراط کو زہر کی بھینٹ دی، اور عیسیٰ کو سولی کا تحفہ دیا

ہم نے گاندھی کے سینے کو چھلنی کیا، کینیڈی سا جواں خوں میں نہلا دیا

ہر مصیبت جو انسان پر آئی ہے

ہیرو شیما کی جھلسی زمیں کی قسم، ناگاساکی کی سلگی فضا کی قسم

جن پہ جنگل کا قانون بھی تھوک دے، ایٹمی دور کے وہ درندے ہیں ہم

اپنی بڑھتی ہوئی نسل خود پھونک دے

ہم تباہی کے رستے پہ اتنا بڑھے، اب تباہی کا رستہ ہی باقی نہیں

خونِ انساں جہاں ساغروں میں بٹے، اس سے آگے وہ محفل وہ ساقی نہیں

اس اندھیرے کی اتنی ہی اوقات تھی

اس سے آگے اجالوں کی بارات ہے

٭٭٭










یہ دنیا دو رنگی ہے







یہ دنیا دو رنگی ہے

ایک طرف سے ریشم اوڑھے، ایک طرف سے ننگی ہے

ایک طرف اندھی دولت کی پاگل عیش پرستی

ایک طرف جسموں کی قیمت روٹی سے بھی سستی

ایک طرف ہے سونا گاچی، ایک طرف چورنگی ہے

یہ دنیا دو رنگی ہے




آدھے منہ پر نور برستا، آدھے منہ پہ چیرے

آدھے تن پر کوڑھ کے دھبے، آدھے تن پر ہیرے

آدھے گھر میں خوشحالی ہے، آدھے گھر میں تنگی ہے

یہ دنیا دو رنگی ہے




ماتھے اوپر مکٹ سجائے، سر پر ڈھوئے گندا

دائیں ہاتھ سے بھکشا مانگے، بائیں ہاتھ سے دے چندا

ایک طرف بھنڈار چلائے، ایک طرف بھک منگی ہے

یہ دنیا دو رنگی ہے




اک سنگم پر لانی ہو گی، دکھ اور سکھ کی دھارا

نئے سرے سے کرنا ہو گا دولت کا بٹوارا

جب تک اونچ اور نیچ ہے باقی، ہر صورت بے ڈھنگی ہے

یہ دنیا دو رنگی ہے

٭٭٭










کیا ملیے ایسے لوگوں سے







کیا ملیے ایسے لوگوں سے، جن کی فطرت چھپی رہے

نقلی چہرہ سامنے آئے، اصلی صورت چھپی رہے




خود سے بھی جو خود کو چھپائیں، کیا ان سے پہچان کریں

کیا ان کے دامن سے لپٹیں، کیا ان کا ارمان کریں

جن کی آدھی نیت ابھرے، آدھی نیت چھپی رہے

نقلی چہرہ سامنے آئے، اصلی صورت چھپی رہے




جن کے ظلم سے دکھی ہے جنتا، ہر بستی ہر گاؤں میں

دیا دھرم کی بات کریں وہ بیٹھ کے سجی سبھاؤں میں

دان کا چرچا گھر گھر پہنچے، لوٹ کی دولت چھپی رہے

نقلی چہرہ سامنے آئے، اصلی صورت چھپی رہے




دیکھیں نقلی چہروں کی کب تک جے جے کار چلے

اجلے کپڑوں کی تہہ میں کب تک کالا سنسار چلے

کب تک لوگوں کی نظروں سے چھپی حقیقت چھپی رہے

نقلی چہرہ سامنے آئے، اصلی صورت چھپی رہے

٭٭٭










مہرباں کیسے کیسے




مہرباں کیسے کیسے، قدر داں کیسے کیسے

آج محفل میں آئے ہوئے ہیں




رند بھی ان میں ہیں، پارسا بھی

کشتی قوم کے نا خدا بھی

معتبر کیسے کیسے، راہ بر کیسے کیسے

آج مسند سجائے ہوئے ہیں




قوم کی خدمت کام ہے ان کا

اس خدمت سے نام ہے ان کا

بھوکوں کے غم میں گھلتے ہیں

سونے چاندی میں تلتے ہیں

دور ان کی بلائیں، ان پہ قربان جائیں

یہ جو نظریں جھکائے ہوئے ہیں




ساز اور ساز کے نغمے کیا ہیں

حسن اور حسن کے جلوے کیا ہیں

شرم ہے کیا اور غیرت کیا ہے؟

عزت کیا ہے، عصمت کیا ہے؟

یہ ہوس کے پرندے، نیک صورت درندے

دام سب پر لگائے ہوئے ہیں




یہ یتیموں کا حق کھانے والے

بے بسوں پہ ستم ڈھانے والے

بس چلے تو وطن بیچ ڈالیں

یہ مندروں کے صنم تک نہ چھوڑیں

یہ جو بدکاریوں سے، چور بازاریوں سے

شان و شوکت بڑھائے ہوئے ہیں

٭٭٭










دھرتی کی سلگتی چھاتی سے







دھرتی کی سلگتی چھاتی سے بے چین شرارے پوچھتے ہیں

تم لوگ جنہیں اپنا نہ سکے، وہ خون کے دھارے پوچھتے ہیں

سڑکوں کی زبان چلاتی ہے، ساگر کے کنارے پوچھتے ہیں

یہ کس کا لہو ہے، کون مرا؟ اے رہبر ملک و قوم بتا!




یہ جلتے ہوئے گھر کس کے ہیں، یہ کٹتے ہوئے تن کس کے ہیں؟

تقسیم کے اندھے طوفاں میں لٹتے ہوئے گلشن کس کے ہیں؟

بد بخت فضائیں کس کی ہیں، برباد نشیمن کس کے ہیں؟

کچھ ہم بھی سنیں، ہم کو بھی سنا!




کس کام کے ہیں یہ دین دھرم جو شرم کا دامن چاک کریں؟

کس طرح کے ہیں یہ دیش بھگت جو بستے گھروں کو خاک کریں؟

یہ روحیں کیسی روحیں ہیں جو دھرتی کو ناپاک کریں؟

آنکھیں تو اٹھا، نظریں تو ملا!




جس رام کے نام پہ خون بہے، اس رام کی عزت کیا ہو گی؟

جس دین کے ہاتھوں لاج لٹے، اس دین کی قیمت کیا ہو گی؟

انسان کی اس ذلت سے پرے، شیطان کی ذلت کیا ہو گی؟

یہ وید ہٹا، قرآن اٹھا!




یہ کس کا لہو ہے، کون مرا؟

اے رہبر ملک و قوم بتا!

٭٭٭










میں نے پی شراب







میں نے پی شراب، تم نے کیا پیا؟ آدمی کا خوں

میں ذلیل ہوں

تم کو کیا کہوں




تم پیو تو ٹھیک، ہم پئیں تو پاپ

تو جیو تو پن، ہم جئیں تو پاپ

تم شریف لوگ، تم امیر لوگ

ہم تباہ حال، ہم فقیر لوگ

زندگی بھی روگ، موت بھی عذاب

میں نے پی شراب




تم کہو تو سچ، ہم کہیں تو جھوٹ

تم کو سب معاف، ظلم ہو کہ لوٹ

تم نے کتنے دل چاک کر دیے

کتنے بستے گھر خاک کر دیے

میں نے تو کیا خود کو ہی خراب کیا

میں نے پی شراب




ریت اور رواج سب تمہارے ساتھ

دھرم اور سماج سب تمہارے ساتھ

اپنے ساتھ کیا؟ دھول اور دھواں

آج چاہے تم نوچ لو زباں

آنے والا دور لے گا سب حساب

میں نے پی شراب

تم نے کیا پیا آدمی کا خوں

میں ذلیل ہوں، تم کو کیا کہوں؟

٭٭٭










انصاف کا ترازو۔۔۔




انصاف کا ترازو جو ہاتھ میں اٹھائے

جرموں کو ٹھیک تولے!

ایسا نہ ہو کہ کل کا اتہاس کار بولے

مجرم سے بھی زیادہ

منصف نے ظلم ڈھایا

کیں پیش اس کے آگے غم کی گواہیاں بھی

رکھیں نظر کے آگے دل کی تباہیاں بھی

اس کو یقیں نہ آیا

انصاف کر نہ پایا

اور اپنے اس عمل سے

بدکار مجرموں کے ناپاک حوصلوں کو

کچھ اور بھی بڑھایا

انصاف کا ترازو جو ہاتھ میں اٹھائے

یہ بات یاد رکھے

سب منصفوں سے اوپر

اک اور بھی ہے منصف

وہ دو جہاں کا مالک

سب حال جانتا ہے

نیکی اور بدی کے

احوال جانتا ہے

دنیا کے فیصلوں سے

مایوس جانے والا

ایسا نہ ہو کہ اس کے دربار میں پکارے

ایسا نہ ہو کہ اس کے انصاف کا ترازو

ایک بار پھر سے تولے

مجرم کے ظلم کو بھی

منصف کی بھول کو بھی

اور اپنا فیصلہ دے

وہ فیصلہ کہ جس سے

یہ روح کانپ اٹھے! ٭٭٭










خدائے برتر تری زمیں پر




خدائے برتر! تری زمیں پر، زمیں کی خاطر یہ جنگ کیوں ہے؟

ہر ایک فتح و ظفر کے دامن پہ خونِ انسان کا رنگ کیوں ہے؟




زمیں بھی تیری ہے ہم بھی تیرے، یہ ملکیت کا سوال کیا ہے؟

یہ قتل و خواں کا رواج کیوں ہے، یہ رسمِ جنگ و جدا ل کیا ہے؟

جنہیں طلب ہے جہان بھر کی، انہیں کا دل اتنا تنگ کیوں ہے؟

خدائے برتر! تری زمیں پر، زمیں کی خاطر یہ جنگ کیوں ہے؟




غریب ماؤں، شریف بہنوں کو امن و عزت کی زندگی دے

جنہیں عطا کی ہے تو نے طاقت، انہیں ہدایت کی روشنی دے

سروں میں کبر و غرور کیوں ہے، دلوں کے شیشے پہ زنگ کیوں ہے؟

خدائے برتر! تری زمیں پر، زمیں کی خاطر یہ جنگ کیوں ہے؟

٭٭٭










برسو رام دھڑاکے سے







برسو رام دھڑاکے سے

بڑھیا مر گئی فاقے سے

کل جگ میں بھی مرتی ہے، سِت جگ میں بھی مرتی تھی

یہ بڑھیا اس دنیا میں سدا ہی فاقے کرتی تھی

جینا اس کو راس نہ تھا

پیسا اس کے پاس نہ تھا

اس کے گھر کو دیکھ کے حچھمی مڑ جاتی تھی ناکے سے

برسو رام دھڑاکے سے




جھوٹے ٹکڑے کھا کے بڑھیا، تپتا پانی پیتی تھی!

مرتی ہے تو مر جانے دو، پہلے بھی کب جیتی تھی؟

جے ہو پیسے والوں کی

گیہوں کے دلالوں کی

ان کا حد سے بڑھا منافع کچھ ہی کم ہے ڈاکے سے

برسو رام دھڑاکے سے

٭٭٭










عورت نے جنم دیا مردوں کو







عورت نے جنم د یا مردوں کو، مردوں سے اسے بازار دیا

جب جی چاہا مسلا کچلا، جب جی چاہا دھتکار دیا




تلتی ہے کہیں دیناروں میں، بکتی ہے کہیں بازاروں میں

ننگی نچوائی جاتی ہے عیاشوں کے درباروں میں

یہ وہ بے عزت چیز ہے جو بٹ جاتی ہے عزت داروں میں

عورت نے جنم د یا مردوں کو، مردوں سے اسے بازار دیا




مردوں کے لئے ہر ظلم روا، عورت کے لئے رونا بھی خطا

مردوں کے لئے ہر عیش کا حق، عورت کے لئے جینا بھی سزا

مردوں کے لئے لاکھوں سیجیں، عورت کے لئے بس ایک چتا

عورت نے جنم د یا مردوں کو، مردوں سے اسے بازار دیا




جن سینوں نے ان کو دودھ دیا، ان سینوں کا بیوپار کیا

جس کوکھ میں ان کا جسم ڈھلا، اس کوکھ کا کاروبار کیا

جس تن سے اگے کونپل بن کر، اس تن کو ذلیل و خوار کیا




سنسار کی ہر اک بے شرمی غربت کی گود میں پلتی ہے

چکلوں ہی میں آ کر رکتی ہے، فاقوں سے جو راہ نکلتی ہے

مردوں کی ہوس ہے جو اکثر عورت کے پاپ میں ڈھلتی ہے

عورت نے جنم د یا مردوں کو، مردوں سے اسے بازار دیا




عورت سنسار کی قسمت ہے، پھر بھی تقدیر کی ہیٹی ہے

اوتار پیمبر جنتی ہے پھر بھی شیطان کی بیٹی ہے

یہ وہ بد قسمت ماں ہے جو بیٹوں کی سیج پہ لیٹی ہے

عورت نے جنم د یا مردوں کو، مردوں سے اسے بازار دیا

٭٭٭







یہ کوچے، یہ نیلام گھر




یہ کوچے، یہ نیلام گھر دل کشی کے

یہ لٹتے ہوئے کارواں زندگی کے

کہاں ہیں، کہاں ہیں محافظ خودی کے

جنہیں ناز ہے ہند پر وہ کہاں ہیں

کہاں ہیں، کہاں ہیں، کہاں ہیں؟




یہ پر پیچ گلیاں، یہ بدنام بازار

یہ گمنام راہی، یہ سکوں کی جھنکار

یہ عصمت کے سودے، یہ سودوں پہ تکرار

جنہیں ناز ہے ہند پر وہ کہاں ہیں

کہاں ہیں، کہاں ہیں، کہاں ہیں؟




یہ صدیوں سے بے خواب سہمی سی گلیاں

یہ مسلی ہوئی ادھ کھلی زرد کلیاں

یہ بکتی ہوئی کھوکھلی رنگ رلیاں

جنہیں ناز ہے ہند پر وہ کہاں ہیں

کہاں ہیں، کہاں ہیں، کہاں ہیں؟




یہ اجلے دریچوں میں پایل کی چھن چھن

تھکی ہاری سانسوں پہ طبلے کی دھن دھن

یہ بے روح کمروں میں کھانی کی ٹھن ٹھن

جنہیں ناز ہے ہند پر وہ کہاں ہیں

کہاں ہیں، کہاں ہیں، کہاں ہیں؟




یہ پھولوں کے گجرے، یہ پیکوں کے چھینٹے

یہ بیباک نظریں، یہ گستاخ فقرے

یہ ڈھلکے بدن اور بیمار چہرے

جنہیں ناز ہے ہند پر وہ کہاں ہیں

کہاں ہیں، کہاں ہیں، کہاں ہیں؟




یہاں پیر بھی آ چکے ہیں، جواں بھی

تنو مند بیٹے بھی، ابا میاں بھی

یہ بیوی بھی ہے اور بہن بھی ہے، ماں بھی

جنہیں ناز ہے ہند پر وہ کہاں ہیں

کہاں ہیں، کہاں ہیں، کہاں ہیں؟




مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی

یشودھا کی ہم جنس، رادھا کی بیٹی

پیمبر کی امت، زلیخا کی بیٹی

جنہیں ناز ہے ہند پر وہ کہاں ہیں

کہاں ہیں، کہاں ہیں، کہاں ہیں؟




ذرا ملک کے رہبروں کو بلاؤ

یہ کوچے،یہ گلیاں، یہ منظر دکھاؤ

جنہیں ناز ہے ہند پر، ان کو لاؤ

جنہیں ناز ہے ہند پر وہ کہاں ہیں

کہاں ہیں، کہاں ہیں، کہاں ہیں؟

٭٭٭










لاگا چنری میں داگ۔۔۔







لاگا چنری میں داگ چھپاؤں کیسے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گھر جاؤں کیسے

ہو گئی میلی موری چنریا

کورے بدن سی کوری چنریا

جا کے بابل سے نجریں ملاؤں کیسے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گھر جاؤں کیسے




بھول گئی سب بچن بدا کے

کھو گئی میں سسرال میں آ کے

جا کے بابل سے نجریں ملاؤں کیسے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گھر جاؤں کیسے




کوری چنریا آتما موری میل ہے مایا جال

وہ دنیا مورے بال کا گھر، یہ دنیا سسرال

جا کے بابل سے نجریں ملاؤں کیسے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گھر جاؤں کیسے

لاگا چنری میں داگ چھپاؤں کیسے

٭٭٭













کام، کرودھ اور لوبھ کا مارا







کام، کرودھ اور لوبھ کا مارا، جگت نہ آیا راس

جب جب رام نے جنم لیا، تب تب پایا بن باس




کلجگ کی چلتی آئی ہے، ست جگ کی یہ ریت

سب کچھ ہار چکے جب اپنا، تب ہے رام کی جیت

جگ بدلے پر بدل نہ پایا اب تک یہ اتہاس




چھوڑ کے اپنے محل دو محلے جنگل جنگل پھرنا

اوروں کے سکھ چین کی خاطر دکھ سنکٹ میں گھرنا

ہے یہی رام کے لیکھ کی ریکھا، آ گیا اب وشواس




رام ہر اک جگ میں آئے پر کون نہیں پہچانے

رام کی پوجا کی جگ نے پر رام کا ارتھ نہ جانا

تکتے تکتے بوڑھے ہو گئے دھرتی اور آکاس

٭٭٭










کعبے میں رہو یا کاشی میں







کعبے میں رہو یا کاشی میں، نسبت تو اسی کی ذات سے ہے

تم رام کہو کہ رحیم کہو، مطلب تو اسی کی بات سے ہے




یہ مسجد ہے، وہ بت خانہ، چاہے یہ مانو، چاہے وہ مانو

مقصد تو ہے دل کو سمجھانا، چاہے یہ مانو، چاہے وہ مانو




یہ شیخ و برہمن کے جھگڑے، سب نا سمجھی کی باتیں ہیں

ہم نے تو ہے بس اتنا جانا، چاہے یہ مانو، چاہے وہ مانو




گر جذبِ محبت صادق ہو، ہر در سے مرادیں ملتی ہیں

ہر گھر ہے اسی کا کاشانہ، چاہے یہ مانو، چاہے وہ مانو

٭٭٭










ایشور، اللہ تیرے نام




ایشور، اللہ تیرے نام

سب کو سّمتی دے بھگوان!




اس دھرتی پر بسنے والے

سب ہیں تیری گود کے پالے

کوئی نیچ نہ کوئی مہان

سب کو سمّتی دے بھگوان




جنم کا کوئی مول نہیں ہے

جنم منش کا تول نہیں ہے

کرم سے ہے سب کی پہچان

سب کو سمّتی دے بھگوان

٭٭٭










سنسار سے بھاگے پھرتے ہو







سنسار سے بھاگے پھرتے ہو، بھگوان کو تم کیا پاؤ گے

اس لوک کو بھی اپنا نہ سےن، اس لوک میں بھی پچھتاؤ گے




یہ پاپ ہے کیا، یہ پن ہے کیا، ریتوں پر دھرم کی ٹہریں ہیں

ہر یگ میں بدلتے دھرموں کو کیسے آدرش بناؤ گے




یہ بھوک بھی ایک تپسیا ہے، تم تیاگ کے مرے کیا جانو

اپمان رچیتا کا ہو گا، رچنا کو اگر ٹھکراؤ گے




ہم کہتے ہیں یہ جگ اپنا ہے، تم کہتے ہو جھوٹا سپنا ہے

ہم جنم بتا کر جائیں گے، تم جنم گنوا کر جاؤ گے

٭٭٭










آنا ہے تو آ




آنا ہے تو آ، راہ میں کچھ پھر نہیں ہے

بھگوان کے گھر دیر ہے، اندھیر نہیں ہے




جب تجھ سے نہ سلجھیں ترے الجھے ہوئے دھندے

بھگوان کے انصاف پہ سب چھوڑ دے بندے

خود ہی تری مشکل کو وہ آسان کرے گا

جو تو نہیں کر پایا، وہ بھگوان کرے گا




کہنے کی ضرورت نہیں، آنا ہی بہت ہے

اس در پہ ترا سیس جھکانا ہی بہت ہے

جو کچھ ہے ترے دل میں سبھی اس کو خبر ہے

بندے ترے ہر حال پہ مالک کی نظر ہے




بن مانگے ہی ملتی ہیں یہاں من کی مرادیں

دل صاف ہو جن کا وہ یہاں آ کے صدا دیں

ملتا ہے جہاں نیائے، وہ دربار یہی ہے

سنسار کی سب سے بڑی سرکار یہی ہے

٭٭٭










تری ہے زمیں، ترا آسماں







تری ہے زمیں، ترا آسماں!

تو بڑا مہرباں، تو بخشش کر

سبھی کا ہے تو، سبھی تیرے

خدا میرے، تو بخشش کر




تیری مرضی سے اے مالک

ہم اس دنیا میں آئے ہیں

تری رحمت سے ہم سب نے

یہ جسم اور جان پائے ہیں

تو اپنی نظر ہم پر رکھنا

کس حال میں ہیں، یہ خبر رکھنا




تو چاہے تو ہمیں رکھے!

تو چاہے تو ہمیں مارے

ترے آگے جھکا کے سر

کھڑے ہیں آج ہم سارے

سب سے بڑی طاقت والے

تو چاہے تو ہر آفت ٹالے




تو بخشش کر!

٭٭٭










بچے من کے سچے







بچے من کے سچے، سارے جگ کی آنکھ کے تارے

یہ وہ ننھے پھول ہیں جو، بھگوان کو لگتے ہیں پیارے

خود روٹھیں، خود من جائیں، پھر ہم جولی بن جائیں

جھگڑا جس کے ساتھ کریں، اگلے ہی پل پھر بات کریں

ان کو کسی سے بیر نہیں، ان کے لئے کوئی غیر نہیں




ان کا بھولا پن ملتا ہے سب کو بانہہ پسارے

انساں جب تک بچہ ہے، تب تک سمجھو سچا ہے

جوں جوں اس کی عمر بڑھے، من پر جھوٹ کا میل چڑھے

کرودھ بڑھے، نفرت گھیرے، لالچ کی عادت گھیرے

بچپن ان پاپوں سے ہٹ کر اپنی عمر گزارے




تن کومل، من سندر ہیں، بچے بڑوں سے بہتر ہیں

ان میں چھوت اور چھات نہیں، جھوٹی ذات اور بات نہیں

بھاشا کی تکرار نہیں، مذہب کی دیوار نہیں

ان کی نظروں میں اک ہیں، مندر، مسجد، گردوارے

٭٭٭










تو مرے پیار کا پھول ہے




تو مرے پیار کا پھول ہے کہ مری بھول ہے

کچھ کہہ نہیں سکتی

کسی کا کیا تو بھرے

یہ سہ نہیں سکتی!




میری بدنامی تیرے ساتھ چلے گی

سن سن طعنے میری کوکھ جلے گی

کانٹوں بھرے ہیں سب راستے تیرے واسطے

جیون کی ڈگر میں

کون بنے گا تیرا آسرا

بے درد نگر میں؟

پوچھے گا کوئی تو کسے باپ کہے گا

جگ تجھے پھینکا ہوا پاپ کہے گا

بن کے رہے گی شرمندگی، تیری زندگی

جب تک تو جیے گا

آج پلاؤں گی تجھے دودھ میں

کل زہر پیے گا!

٭٭٭







تو مرے ساتھ رہے گا منے!







تو مرے ساتھ رہے گا منے!

تاکہ تو جان سکے

تجھ کو پروان چڑھانے کے لئے

کتنے سنگین مراحل سے تری ماں گزری

تو مرے ساتھ رہے گا منے!

تاکہ تو دیکھ سکے

کتنے پاؤں مری ممتا کے کلیجے پہ پڑے

کتنے خنجر مری آنکھوں مرے کانوں میں گڑے

تو مرے ساتھ رہے گا منے!

میں تجھے رحم کے سائے میں نہ پلنے دوں گی

زندگانی کی کڑی دھوپ میں نہ جلنے دوں گی

تاکہ تپ تپ کے تو فولاد بنے

ماں کی اولاد بنے

ماں کی اولاد بنے

تو مرے ساتھ رہے گا منے!

جب تلک ہو گا، ترا ساتھ نبھاؤں گی میں

پھر چلی جاؤں گی اس پار کے سناٹے میں

اور تاروں سے تجھے جھانکوں گی

زخم سینے میں لئے، پھول نگاہوں میں لئے

تیرا کوئی بھی نہیں میرے سوا

میرا کوئی بھی نہیں تیرے سوا

تو مرے ساتھ رہے گا منے!




میرا ہے درد تجھے دل میں بسانا ہو گا

میں تری ماں ہو، مرا قرض چکانا ہو گا

میری بربادی کے ضامن اگر آباد رہے

میں تجھے دودھ نہ بخشوں گی، تجھے یاد رہے

تجھے یاد رہے، تجھے یاد رہے

تو مرے ساتھ رہے گا منے۔۔۔!

٭٭٭










اے میرے ننھے گلفام







اے میرے ننھے گلفام

میری نیندیں تیرے نام

تیرا بچپن پاک رہے

مجھ پر تو ہیں سو الزام




کس کا پڑا تجھ پر سایہ؟

کس نے یہ رستہ دکھلایا؟

کون تجھے اس گھر میں لایا؟

یہ گھر ہے رسوا بدنام

ان گلیوں کی قسمت ہے

ٹوٹے گجرے، جھوٹے جام

زخمی سازوں کی جھنکار

گھایل گیتوں کی گنجار

دکھتے من کی چیخ پکار

عیاشوں کے کھیل کا نام

ان کوچوں میں ہوتا ہے

ارمانوں کا قتل عام




اس بستی میں زہر گھلے

ہر بوٹی روٹی میں تلے

ان گلیوں کو آنکھ کھلے

جب دھرتی پر چھائے شام

سو نہ گیا تو دیکھے گا

ماں بہنوں کے لگتے دام

٭٭٭










تیرے بچپن کو جوانی کی دعا دیتی ہوں







تیرے بچپن کو جوانی کی دعا دیتی ہوں

اور دعا دے کے پریشان سی ہو جاتی ہوں




میرے بچے! مرے گلزار کے ننھے پودے

تجھ کو حالات کی آندھی سے بچانے کے لئے

آج میں پیار کے آنچل میں چھپا لیتی ہوں

کل یہ کمزور سہارا بھی نہ حاصل ہو گا

کل تجھے کانٹوں بھری راہ پہ چلنا ہو گا

زندگانی کی کڑی دھوپ میں جلنا ہو گا




تیرے بچپن کو جوانی کی دعا دیتی ہوں

اور دعا دے کے پریشان سی ہو جاتی ہوں




تیرے ماتھے پہ شرافت کی کوئی مہر نہیں

چند بوسے ہیں محبت کے سو وہ بھی کیا ہیں

مجھ سے ماؤں کی محبت کا کوئی مول نہیں




میرے معصوم فرشتے تو ابھی کیا جانے

تجھ کو کس کس کے گناہوں کی سزا ملنی ہے

دین اور دھرم کے مارے ہوئے انسانوں کی

جو نظر ملنی ہے، وہ تجھ کو خفا ملنی ہے




تیرے بچپن کو جوانی کی دعا دیتی ہوں

اور دعا دے کے پریشان سی ہو جاتی ہوں




بیڑیاں لے کے لپکتا ہوا قانون کا ہات

تیرے ماں باپ سے جب تجھ کو ملی یہ سوغات

کون لائے گا ترے واسطے خوشیوں کی برات

میرے بچے ترے انجام سے جی ڈرتا ہے

تیری دشمن ہی نہ ثابت ہو جوانی تیری

کانپ جاتی ہے جسے سوچ کے ممتا میری

اسی انجام کو پہنچے نہ کہانی تیری




تیرے بچپن کو جوانی کی دعا دیتی ہوں

اور دعا دے کے پریشان سی ہو جاتی ہوں

٭٭٭










تیرا مجھ سے ہے پہلے کا ناتا کوئی




تیرا مجھ سے ہے پہلے کا ناتا کوئی

یوں ہی نہیں دل لبھاتا کوئی

جانے تو یا جانے نہ

مانے تو یا مانے نہ

دھواں دھواں سا تھا وہ سماں

یہاں وہاں، جانے کہاں

تو اور میں وہیں سے تھے پہلے

دیکھا تجھے تو دل نے کہا

جانے تو یا جانے نہ

مانے تو یا مانے نہ

دیکھو کبھی کھونا نہیں

کبھی جدا ہونا نہیں

آگے کیا ہے پایا میں تو بھول ہی گیا

وعدے گئے، باتیں گئیں

جاگی جاگی راتیں گئیں

چاہے جسے ملا نہیں

تو ہمیں بھی گلہ نہیں

اپنا ہے کیا؟

جئیں مریں، چاہے کچھ کہو

تم کو تو جینا راس آ گیا

جانے تو یا جانے نہ

مانے تو یا مانے نہ

٭٭٭

میرے بھیا، میرے چندا

میرے بھیا، میرے چندا، مرے انمول رتن

تیرے بدلے میں زمانے کی کوئی چیز نہ لوں!

تیری سانسوں کی قسم کھا کے ہوا چلتی ہے

تیرے چہرے کی جھلک پا کے بہار آتی ہے

ایک پل بھی مری نظروں سے جو تو اوجھل ہو

ہر طرف میری نظر تجھ کو پکار آتی ہے!

تیرے سہرے کی مہکتی ہوئی لڑیوں کے لئے

ان گنت پھول امیدوں کے چنے ہیں میں نے

وہ بھی دن آئے کہ ان خوابوں کی تعبیر بنے

تیری خاطر جو حسیں خواب چنے میں نے

٭٭٭
بابل کی دعائیں لیتی جا

بابل کی دعائیں لیتی جا، جا تجھ کو سکھی سنسار ملے

میکے کی کبھی یاد نہ آئے، سسرال میں اتنا پیار ملے

نازوں سے تجھے پالا میں نے، کلیوں کی طرح، پھولوں کی طرح

بچپن میں جھلایا تجھ کو بانہوں نے مری جھولوں کی طرح

مرے باغ کی اے نازک ڈالی، تجھے ہر پل نئی بہار ملے

جس گھر میں بندھے ہیں بھاگ ترے، اس گھر میں سدا ترا راج رہے

ہونٹوں پہ ہنسی کی دھوپ کھلے، ماتھے پہ خوشی کا تاج رہے

کبھی جس کی جوت نہ ہو پھیکی، تجھے ایسا روپ سنگھار ملے

بیتیں ترے جیون کی گھڑیاں، آرام کی ٹھنڈی چھاؤں میں

کانٹا بھی نہ چبھنے پائے کبھی، میری لاڈلی تیرے پاؤں میں

اس دوار سے بھی دکھ دور رہے، جس دوار سے تیرا دوار ملے

٭٭٭

متفرق اشعار


اپنی تباہیوں کا مجھے کوئی غم نہیں

تم نے کسی کے ساتھ محبت نبھا تو دی

وجہِ بے رنگیِ گلزار، کہوں یا نہ کہوں

کون ہے کتنا گنہگار، کہوں یا نہ کہوں

آہ! اس کشمکشِ صبح و مسا کا انجام

میں بھی ناکام، مری سعیِ عمل بھی ناکام

کون جانے یہ ترا شاعرِ آشفتہ مزاج

کتنے مغرور خداؤں کا رقیب آج بھی ہے!

یہ جشن جشنِ مسرت نہیں تماشا ہے

نئے لباس میں نکلا ہے رہزنی کا جلوس

یہ غم بہت ہے مری زندگی مٹانے کو

اداس رہ کے مرے دل کو اور رنج نہ دو!

حیات اک مستقل غم کے سوا کچھ بھی نہیں شاید

خوشی بھی یاد آتی ہے تو آنسو بن کے آتی ہے

تم میرے لئے اب کوئی الزام نہ ڈھونڈو

چاہا تھا تمہیں، اک یہی الزام بہت ہے

٭٭٭

ٹائپنگ: محمد بلال اعظم

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید