صفحات

تلاش کریں

افسانوی مجموعہ: طلسمِ کُہن (خاور چودھری)

(کورونا کے تناظر میں عالمی سطح پر اوّلین افسانوی مجموعہ)






سرِ ورق پینٹنگ: سمیعہ سعد





انتساب



زمین کے نام

جو

اِس وقت آسمان کی طرف دیکھ رہی ہے





فہرست

































طلسمِ کہن پر گفتگو
محمد حمید شاہد



ذرا تصور کیجیے، آپ کی جان پر بنی ہوئی ہے۔ آپ ڈرے سہمے اندر بیٹھے ہیں اور آپ کی جان کا دشمن دروازے پر دستک دے رہا ہے۔ آپ ہمت کر کے اُٹھتے ہیں، قلم تھامتے ہیں اور سارا سہم کاغذ کے حوالے کر کے ایک کہانی بنا دیتے ہیں۔

جی، خوف کو تخلیقی واردات کی بھٹی میں تپا اور پگھلا کر ڈھال بنا لینے والا یہ شخص، آپ یا کوئی اور نہیں میرے اٹک کا البیلا افسانہ نگار خاور چودھری ہے۔ کووڈ 19 کی پیش قدمی رُکی نہیں اور ابھی اس کے رُک جانے کے آثار بھی نظر نہیں آرہے۔ یہ وبا نہ جانے کتنوں کے کلیجے چبا کر ٹلے گی۔ اس جاری وبا میں مسلسل افسانے لکھ کر پہلا مجموعہ مرتب کر لینا میری نظر میں بہت اہم واقعہ ہے۔ یہ خاور چودھری کے افسانوں کا تیسرا مجموعہ ہے تاہم ’’طلسم کہن‘‘ کے افسانے ’’چیخوں میں دبی آواز‘‘ اور’’چاند کی قاشیں‘‘ سے یوں مختلف ہیں، کہ یہ وبا کے دِنوں میں لکھے گئے ہیں اور ہر افسانے کا متن اس وبا کے انسانی زندگی پر پڑنے والے گہرے اثرات سے مرتب ہوا ہے۔

مجھے خاور چودھری کی یہ ادا بہت اچھی لگی ہے، کہ جب زیادہ تر افسانہ نگار اس مخمصے میں پڑے ہوئے ہیں کہ اس نئی صورت حال کو اپنے تخلیقی تجربے کی گرفت میں کیسے لائیں، انھوں نے اس کا اپنے تئیں حل ڈھونڈ نکالا اور پوری کتاب کی کہانیاں لکھ ڈالیں۔

کینوس پر ادھوری رہ جانے والی تصویر ہو یا امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے والے راوی کا منجھلا لڑکا، جسے اس نے سڑک کنارے تڑپتے نوجوان کے وجود کے اندر دیکھا تھا، قرنطینہ میں پڑے لوگ ہوں یا تالا بندی میں گھروں میں کسالت کاٹنے والے، سپر اسٹورز پر ٹوٹ پڑنے والے بھوکوں کا گروہ ہو یا وہ کمزور اکیلا شخص، جو ماں کی دوا لینے نکلا اور پولیس والوں کے ہتھے چڑھ گیا تھا، خاور چودھری کے قلم کی نوک تک آتے آتے محض اخبار کی خبر یا واقعہ نہیں رہتے کہانی بن جاتے ہیں؛ وبا کے دنوں میں لکھی ہوئی ایسی کہانی جسے بہ قول خود اُس کے، کل محبت سے پڑھا جائے گا۔

)اسلام آباد،

25۔ اپریل 2020)

٭٭٭





نیا کرونائی معاشرہ اور آج کی کہانی
عامر سہیل



خاور چودھری نے مسلسل محنت اور ریاضت کی بدولت اُردو ادب کے سنجیدہ حلقوں میں اپنی ایک منفرد شناخت قائم کر لی ہے۔ شاعری، کالم نگاری اور افسانہ نگاری ان کی ادبی شناخت کے خاص میدان ہیں۔ ان کا تازہ مجموعہ’’ طلسمِ کُہن‘‘ اس اعتبار سے لائق توجہ ہے کہ اس میں شامل تمام افسانے کرونائی صورت حال سے پیدا ہونے والی نئی سماجی زندگی کا بھرپور عکس پیش کرتے ہیں۔ کتاب کا مسودہ پڑھ چکنے کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ یہ بلا شک و شبہ اُردو ادب کا پہلا ایسا منفرد افسانوی مجموعہ ہے جس میں شامل تمام کہانیوں کا تعلق کرونائی آفت کے ساتھ ہے۔ اس اعتبار سے اسے اوّلیت کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

کرونائی ادب جس تیزی اور سرعت کے ساتھ لکھا جا رہا ہے، یہ بذات خود ایک حیرت انگیز معاملہ ہے؛ اتنے کم عرصے میں شاعری کا اتنا ذخیرہ جمع ہو چکا ہے کہ اسے دیکھ کر یقین کرنا مشکل ہے۔ افسانہ نگاری میں اگرچہ یہ صورت حال دیکھنے میں نہیں آئی، خال خال افسانے اس موضوع پر سامنے آئے اور یہ بھی سنا گیا کہ کچھ احباب نے موجود وبائی تناظرات میں ناول پر بھی کام شروع کر دیا ہے۔ خاور چودھری نے کرونائی وبا کے ہنگام میں سے جس طرح اپنی کہانیوں کا مواد اخذ کیا، اس کی داد ہر افسانے کا پہلا حق ہے۔ موجودہ حالات میں جتنی تیزی سے سماجی تغیرات برپا ہو رہے ہیں، ان کا ادراک صرف وہی لکھاری کر سکتا ہے جو صاحبِ بصیرت بھی ہو اور صاحبِ کمال بھی۔ جیسا کہ ہر تخلیق کار کائناتی اور سماجی مظاہر کو اپنی مخصوص نظر سے دیکھتا، پرکھتا اور پیش کرتا ہے، خاور چودھری نے بھی اپنا یہ استحقاق بخوبی استعمال کیا ہے۔

خاور چودھری اصل میں ایک ایسے با ہمت اور ذمہ دار تخلیق کار ہیں، جن کا ہاتھ سماج کی نبض پر ہے اور وہ اس کی ہر کیفیت کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ ان کی مستقبل بینی بھی ہے کہ نئے افسانے کے مسائل اور میلانات کو اجتہادی سطح پر پرکھ سکتے ہیں۔ اس مجموعے میں حقیقت نگاری کا وہ تیکھا انداز شامل ہے، جس کی ایک جہت تو انسانی وجود کی پیچیدہ صورت کو منکشف کرتی ہے تو دوسری جہت ادب اور فن کے تقاضوں میں نئی روح بھی پھونکتی نظر آتی ہے۔ یہ کرونائی افسانے کسی ہنگامی تحریک یا رجحان کے زیر اثر تخلیق نہیں ہوئے بلکہ اس وژن کی بدولت معرضِ تحریر میں آئے، جس کا ٹھیک ٹھیک اندازہ ایک بڑا اور پختہ کار لکھاری ہی کر سکتا ہے۔

ان افسانوں کی زبان سادہ لیکن تہہ دار ہے اور اُسلوب میں وہ بے جا علامتی انداز بھی نہیں، جو اچھی بھلی کہانی کو چیستان بنا دیتا ہے۔ افسانوں کی تکنیک میں کامل ادبی رکھ رکھاؤ موجود ہے، جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ خاور چودھری فنِ افسانہ نگاری کی نئی قدروں کو اپنانے میں کوئی دقت محسوس نہیں کرتے۔

جس طرح یہ کہا جاتا ہے کہ ایک فن کار کو دُنیا کے تمام علوم و فنون کی ضرورت ہے لیکن اسے یہ تمام علوم و فنون اپنے ادبی فن سے باہر رکھنے چاہییں، بالکل اسی طرح خاور چودھری موجودہ کرونائی صورت حال کے تمام نظری اور عملی معاملات سے واقف ہیں لیکن کہیں بھی ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ انھوں نے محض کسی افسانے کو جان بوجھ کر متھ بنانے کی کوشش کی ہو۔ خاور چودھری کا یہ مجموعہ اس حوالے سے بھی بہت اہم ہے کہ انھوں نے نئے معاشرے کی نئی کہانی لکھی ہے۔ یہ کہانی روایتی مضامین کے بجائے نئی ارضی صورت حال کو سمجھنے کی ایک مخلصانہ کاوش ہے۔ جدید کہانی کی یہ ارضیت قاری کی بصیرت کو بڑھاتی ہے اور سماج کی خارجی اور داخلی دنیاؤں کے نئے دَر بھی وا کرتی ہے۔

افسانوں کا یہ تازہ مجموعہ اُردو ادب میں اہم اور خوشگوار اضافے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس میں کرونائی صورت حال سے وابستہ نئی اقدار، نئے رجحانات، نئے خدشات، نئے تجزیات اور نئے انسان کا المیہ نظر آئے گا۔ یہ مجموعہ قاری کی فکر کو بار بار جھنجھوڑنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے اور اس نئی سماجی دانش میں اپنے کردار پر نظر ثانی کی طرف مائل بھی کرتا ہے۔

) ایبٹ آباد۔

22۔ اپریل 2020)

٭٭٭







آخری بات
خاور چودھری



ادیب معاشرے سے کٹ کر نہیں جی سکتا، وہ اپنے ماحول اور تہذیب و تمدن کا شاہد ہوتا ہے۔ شہادت کا یہ عمل بہ ہر حال اُس کے لیے تحریک کاسبب بنتا ہے۔ جس کے نتیجے میں وہ اَدب کی مختلف جہات اختیار کرتے ہوئے بوقلموں ہیئات و اصناف میں اپنا مافی الضمیر پیش کر دیتا ہے۔

اس وقت پوری دُنیا سراسیمگی کے عالم میں ہے۔ ایک عجیب سا خوف اور اندوہناک مرحلہ ہے، جس سے ہر ایک ہراساں دکھائی دیتا ہے۔ زندگی اور اس کے متعلقات پر جمود سا طاری ہے۔ ایسے میں انسان کی داخلی زندگی میں اُٹھنے والا جوار بھاٹا شدید طوفانوں کا پیش خیمہ ثابت ہوا کرتا ہے۔ ایک ادیب کی حیثیت میں، مجھے بھی ان مرحلوں سے گزرنا پڑا ہے، جنھیں عرفِ عام میں تخلیقی عمل کا کرب سمجھا اور بیان کیا جاتا ہے۔ معاشرتی نفسیات کی بطون میں اُتر کر، سمجھ کر اور پھر اُس تفہیم کو طے شدہ پیرائے میں بیان کرنا یقیناً مشکل کام ہے۔ ایک طرف فن کی حد بندیاں ہوتی ہیں تو دوسری جانب وہ عوامل جو تحریک کا سبب بنتے ہیں۔ دونوں میں توازن رکھنا بجائے خود ایک کڑا امتحان ہے۔

افسانہ نظریہ حیات، پلاٹ، وحدتِ فکر، کردار اور مکالمہ سمیت منظر نگاری اور جزئیات کاری کے وسیع منطقوں تک رسائی حاصل کر سکے تو معیار پر پورا اُترتا ہے، ورنہ فن کی کسوٹی اُسے کھوٹا ظاہر کر کے رَد کر دیتی ہے۔ وبا کے دنوں میں لکھی گئی یہ بیس کہانیاں اسی انسانی دُنیا میں موجود ہیں۔ میں نے انھیں اپنے ماحول میں ڈھال کر لکھا ہے۔ ان کہانیوں میں انسانی نفسیات کے ظاہر و پوشیدہ گوشوں تک رسائی کی کوشش کی گئی ہے۔ انسانی جبلت میں پروان چڑھنے والے احساسات و جذبات کی عمل داری کے نتیجے میں ظاہر ہونے والے دُنیا سے لے کر باطنی زندگی تک کے اکثر مرحلوں کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔

ان افسانوں میں لمحۂ موجود کا خوف ناک کرب اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورت حال کی منظر کشی گئی ہے۔ بہ ظاہر یہ کہانیاں وبا کو مرکزیت بنائے ہوئے ہیں لیکن اِن میں سے ہر کہانی اپنا الگ مزاج، ماحول اور موضوع بھی رکھتی ہے۔ ان کہانیوں کا دُوسرا پہلو تاریخی ہے۔ کیوں کہ ان میں ہمارا آج سانس لے رہا ہے۔ آج کی زندگی اور اس کے متعلقات جس طرح ظاہر ہو رہے ہیں اور جس طرح چھپائے جا رہے ہیں، اُن کو قلم بند کرنا ضرور ہے، کیوں کہ ہمارا آج ہمارے کل کی امانت ہے۔

انسان کی روحانی اور سائنسی زندگی کا ارتقا اور تنزل ایک تجزیاتی عمل کے دوران ادیب کے ناخنوں میں آتا ہے تو اُس کا رنگ یک گونہ جدا ہو جاتا ہے، چناں چہ ان کہانیوں کے مطالعے سے یقینی طور پر ان مشاہدوں تک رسائی ممکن ہو گی اور پھر جاری مباحث میں غُلو اور اعتدال کو سمجھنے میں بھی مدد ملے گی۔ چوں کہ اِن مباحث کا خمیر ہماری مٹی سے اُٹھا ہے، جو ہماری دیکھی بھالی ہے، لہٰذا ان کی تشکیل و تجسیم کی مرکزیت و معروضیت بغیر ابہام کے تفہم کی منزل سر کر لے گی۔

اُمید و بیم کی اِن ساعتوں میں معاشرے کے ایک ذمہ دار فرد کی حیثیت میں خود پر یہ فرض سمجھتا ہوں، کہ اپنے حصے کا کردار ادا کروں۔ چناں چہ یہ کہانیاں میرے تخلیقی کرب کا نتیجہ ہوتے ہوئے بھی اجتماعیت کا رُخ رکھتی اور مجھے سرشاری کا موقع فراہم کرتی ہیں۔

ان کہانیوں میں بے لوث محبت بھی ہے اور خطر ناک نفرت بھی، اَن تھک خدمات کا سلسلہ بھی ہے اور فرائض سے غفلت کی تلچھٹ بھی، اخلاق اور اقدار کی اعلیٰ روایتیں بھی ان میں چمکتی ہیں اور انسانی لوبھ اور مایا موہ کی مضحکہ خیز حالتیں بھی نمایاں ہوتی ہیں۔ یہ کہانیاں انسان اور متعلقاتِ انسان کے اکثر گوشوں کو بے نقاب کرتی ہیں۔ اس لیے انھیں پیش کرنے میں مجھے یک گونہ اطمینان بھی ہے۔

’’طلسمِ کہن‘‘ میرا تیسرا افسانوی مجموعہ ہے۔ اس سے قبل ’’چیخوں میں دبی آواز‘‘ (2008) اور ’’چاند کی قاشیں‘‘ (2019) شائع ہو چکے ہیں۔ میرے افسانوں پر پاکستان کی ایک یونی ورسٹی میں ایم فل سطح کا مقالہ بھی لکھا جا رہا ہے، یقیناً یہ میرے لیے حوصلہ افزائی اور اعزاز کی بات ہے۔

اپنے قارئین کی رائے میرے لیے ہمیشہ اہم رہی ہے۔ کہانیاں پڑھیں اور اپنے معتبر رائے سے نوازیں۔

اس وبا سے نجات اور مستقبل کی نیک تمناؤں کے ساتھ

آپ کا افسانہ نگار۔

٭٭٭







ادھوری تصویر



اندرونِ شہر زندگی پوری طرح خاموش تھی۔ فصیل بند یہ شہر زمانوں سے آباد اور دو تہذیبوں کا نشان دار تھا۔ مندروں، دھرم شالوں اور دوسہرہ میدانوں کی تمکنت اُسی طرح قائم تھی اور پھر ہر دوسری گلی میں مسجدوں کے بلند میناروں سے پانچوں وقت ’’اللہ اکبر‘‘ کی صدائیں بھی گونجتی تھیں۔ شہر میں کوئی ایک مکان بھی ایک منزلہ نہ تھا۔ ہر گھر دو یا تین منزلہ، حتیٰ کہ دکانیں بھی دو منزلہ ہی بنائی گئی تھیں۔ اکثر دکانوں کی دوسری منزل گودام کے طور پر کام آتی تھی۔ شہر کے اندر ہی اندر بازار، رہائشی مکانات اور اسکول تھے۔ باہمی محبت برائے نام سہی لیکن آمناسامنا ہونے کی صورت میں ہر کوئی مسکراہٹ کا تبادلہ ضرور کر دیتا تھا۔ مشکلوں میں اگرچہ ایک دوسرے کے کام نہ بھی آتے ہوں، پھر بھی ایک دوسرے کی مشکلوں اور حالات سے سبھی واقف ہوتے تھے۔ عورتیں گھروں میں ہی اکثر رہتی تھیں لیکن کام والی ماسیاں اِدھر اُدھر کے حالات سے اِدھر اُدھر والوں کو باخبر رکھتی تھیں۔ اس گنجان آباد حصے کی سب سے خوب صورت بات یہ تھی، کہ ہر کوئی اپنی زندگی میں مگن تھا۔ پھر ایسی کوئی قابلِ گرفت بات بھی نہ تھی، جس پر کوئی اُنگلی اُٹھاتا۔ مساجد میں نمازی معقول تعداد میں ہوتے تھے۔ چائے فروشوں کے پاس بھی مخصوص طبقہ موجود رہتا اور پھر سب سے اہم بات یہ کہ مقامی روایات کا گہرا اثر بھی اندرونِ شہر کی زندگی میں ہی دکھائی دیتا تھا۔ ماضی اور مستقبل کے اتصال پر کھڑا یہ شہر اپنی وضع اور تہذیب کے حوالے سے خاص تھا۔

صفی اسی شہر کے ایک تین منزلہ مکان میں رہتا تھا۔ پختہ اینٹوں اور چونے سے بنا ہوا یہ شاندار بنگلہ نما مکان کاری گروں کے دستِ ہنر کا عمدہ نمونہ تھا۔ چوبی دروازے، جن میں مختلف پرندوں کے نقش کھدے ہوئے، چوبی کھڑکیاں جو گہرے سبز شیشوں کی وجہ سے ایک پُر کیف منظر تخلیق کیے رکھتیں، دائروی چوبی سیڑھیاں، جو اپنے راہی کو گاہے چکرا بھی دیا کرتی تھیں لیکن اس گھر کے مکین پوری لطف کیشی کے ساتھ ان پر چڑھتے اُترتے۔ مکان کے ہر حصے میں چار کمرے، ایک باورچی خانہ اور ایک بیت الخلا موجود تھا۔ تین اطراف سے خالی یہ گھر ہر طرح سے دلکش اور قابلِ توجہ تھا۔ دروازے کے سامنے والی گلی رہائشی مکانات سے منسلک تھی، داہنی طرف کی کھڑکیاں بازار میں کھلتی تھیں اور بائیں طرف ایک بڑے میدان میں صدیوں سے ایستادہ پیپل کا درخت تھا۔ ایک طرح سے یہ مکان شہر اور دیہات کے دُہرے الطافات میں گھرا ہوا تھا۔ اسی ماحول میں صفی کا بچپن، لڑکپن اور نوجوانی کا عرصہ گزرا۔

وسطی منزل کا ایک کمرہ، جس میں صفی کے کپڑے، جوتے، کتابیں، کرکٹ کے دستانے، چار بلے، ڈھیر وکٹیں اور لکڑی کی درجن بھر گیندیں ایک خاص ترتیب سے سجی پڑی تھیں۔ درمیان میں کینوس اسٹینڈ ایستادہ تھا۔ جس کے اطراف میں چھوٹی چھوٹی تپائیوں پر مختلف رنگوں کے بند ڈبے اور کئی بُرش بھی ایک دلکش بے ترتیبی سے بکھرے پڑے تھے۔ کینوس پر ایک ادھوری تصویر تھی جو سفید دوپٹے کے اندرسے جھانکتی معلوم ہوتی تھی۔ اگرچہ یہ منظر بیس سال پہلے قید کر لیا گیا تھا اور یہ ادھوری تصویر اُسی وقت سے ادھوری چلی آ رہی تھی، جب بنانے والے نے اسے اس حال میں چھوڑ دیا تھا لیکن نئے دیکھنے والوں کو یوں گمان ہوتا، جیسے ابھی ابھی کوئی کینوس پر کام کر کے گیا ہے اور واپس پلٹتے ہی اسے مکمل کر دے گا۔ اور جاتے ہوئے احتیاطاً اس پر سفید دوپٹا ڈال گیا ہے۔

سُرمئی بال، گہری بھنویں، خوب صورت آنکھیں اور ان کے درمیان تراشیدہ ناک۔ یہ نامکمل منظر پچھلے بیس سال سے اسی حالت میں تھا۔ مصور نے پلٹنا تھا، ہونٹ بنانے تھے، چہرے کو مکمل کرنا تھا، جسم تشکیل دینا تھا اور پھراس شہکار کو دیکھ کر لطف کیشی کا سامان ہونا تھا۔ اس کمرے میں وقت ٹھہرا ہوا، منتظر اور منقش مگر باہر کی دُنیا بہت آگے نکل چکی تھی۔ خود صفی کئی منزلیں سر کر چکا تھا۔

وہ انھی گلیوں میں سے گزر کر بیرونِ شہر کالج جایا کرتی تھی۔ پہلی بار صفی نے اسی کمرے کی کھڑکی میں سے جھانکتے ہوئے اُسے دیکھا تھا۔ بھورے رنگ کی چادر اوڑھے ہوئے پورے نقاب میں سے صرف اُس کی آنکھیں دکھائی دیتی تھیں، جن پر ہمیشہ گھنے اَبروؤں کا سایہ رہتا تھا۔ ناک نقشہ تو اُسے کبھی دکھائی ہی نہ دیا تھا اور شاید یہ تصویر بھی اسی وجہ سے ادھوری رہ گئی تھی، کہ وہی چہرہ اس میں جچتا بھی تھا۔ کامل دیدار کے انتظار میں تصویر کی مکمل تشکیل کا عمل باقی تھا۔

یورپ کی تیز ترین زندگی میں اُسے موقع ہی نہ ملا کہ مڑ کر دیکھتا اور اسے تو یہ خیال بھی کم ہی آیا کہ وہ اپنے کینوس پر ایک ادھوری تصویر چھوڑ آیا ہے، جسے مکمل کرنا ضروری ہے۔

اس کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں اور گئیں۔ بعض کے ساتھ تو اس کا جسمانی تعلق بھی قائم ہوا اور بچے بھی پیدا ہوئے، جو ولدیت کے خانے میں اُس کا نام لکھواتے اور فخر محسوس کرتے تھے، کیوں کہ وہ ایک کامیاب انسان کے ہاں پیدا ہوئے تھے۔

یہ بہت اذیت ناک دنوں کی بات ہے، جب اُسے اپنی تیسری بیوی سے بھی الگ ہونا پڑا تھا۔ دو بچوں کی ماں کسی طرح بھی یہ برداشت نہیں کر پاتی تھی، کہ اُس کا شوہر اپنے دفتر میں کئی کئی لڑکیاں رکھے۔ وہ اس بات کو بھول رہی تھی، کہ شادی سے پہلے وہ اسی دفتر کی ایک ادنیٰ کارکن تھی۔ اب مگر وہ عدالت کے ذریعے سے علاحدگی چاہتی تھی۔ بچوں کو لے گئی اور مقدمہ چل رہا تھا۔ انھی دنوں میں وبا پھوٹ پڑی۔ ہر طرف سے روح فرساخبریں سننے کو ملتی تھیں۔ کاروبارِ زندگی معطل ہونے جا رہا تھا۔ کئی ملکوں نے اپنی سرحدیں بند کر دی تھیں اور کئی ممالک فیصلہ کرنے والے تھے۔ ایسے ہی حالات میں صفی پلٹ آیا۔ گھر میں رہا کون تھا؟ بہنیں اپنی زندگیوں میں مگن، بھائی تھا نہیں۔ باپ بھی دس سال پہلے رخصت ہو گیا تھا۔ ایک بوڑھی ماں تھی، جو پورے بنگلے کو ایک نوکرانی کی مدد سے صاف رکھتی تھی۔ صفی کے کمرے کا خیال کرتی، اُس کی چیزوں کو چومتی اور کینوس پر ادھوری تصویر کی تکمیل کا خواب دیکھتی رہتی تھی۔

اندرونِ شہر کا وہی گھر اور اس گھر کا خاص کمرہ، جس میں ایک کینوس اسٹینڈ ایستادہ ہے۔ کینوس پر سفید دوپٹے میں سے جھانکتی ہوئی ایک ادھوری تصویر، جس کی تکمیل کا مرحلہ باقی ہے۔ کمرے کا مکین بیس سال بعد اُس حالت میں پلٹا ہے، جب ڈاکٹروں کی تشخیص کے مطابق وہ کورونا وائرس سے متاثر ہے۔ اُسے آئسولیشن میں رہنا ہے۔ مکمل تنہائی کی حالت میں۔ ایسی تنہائی جہاں اُس کے پاس کوئی انسان نہ ہو۔ کیوں کہ اُس کی وجہ سے دوسرے انسان متاثر ہو سکتے ہیں۔

تنہائی ____ ماضی کے دریچوں سے جھانکتی یادیں ____ نقاب میں چھپا ہوا چہرہ ____ کینوس پر ادھوری تصویر ____ اور بیماری سے لڑتا ہوا مریض۔ اُس نے کوشش کی کہ مرنے سے پہلے اس تصویر کو مکمل کر دے۔ کم از کم اُنھی میں سے کوئی چہرہ یہاں پینٹ کر دے، جن کے ساتھ وہ برسوں جیا تھا مگر وہاں بھی تو تمام چہروں پر نقاب چڑھا ہوا تھا۔

٭٭٭







بہار نو میں خزانِ رفتہ



یہ اُس صبح کی بات ہے، جب میں گاؤں سے شہر کے لیے نکلا تھا۔ درختوں پر نئی کونپلیں پھوٹ رہی تھیں۔ شیشم کے قدیمی درختوں کی قطاروں پر لالیاں، قمریاں اور کوئلیں اپنی مخصوص بولیوں میں ایک دوسرے کو پُکار رہی تھیں۔ جنگلی کبوتروں کے ڈار اناروں کے باغ میں کیڑے مکوڑے چُگنے کے لیے اُتر رہے تھے۔ ایسے میں کہیں کہیں نر، مادہ کی طرف پوری گرم جوشی کے ساتھ دیوانہ وار بڑھتے تو غٹرغوں سے قرب و جوار کے رقبے کو بھی منظر کیش بنا دیتے۔ تُوت کی شاخوں پر کچی کونپلیں نئی زندگی کی نوید سنا رہی تھیں اور کھیتوں میں پھیلا ہرا سبزہ آنکھوں میں تازگی بھر رہا تھا۔ البتہ پگڈنڈیوں پر اور درختوں تلے سوکھے پتے بھی ڈھیروں کی صورت میں پڑے تھے۔ یہ ایسا ہی منظر تھا، جب میں پچھلے سال انھی دنوں میں جامنوں کے درختوں کے سائے میں بان کی کھری چارپائی پر بیٹھا تھا اور میرے پہلو میں میرا منجھلا لڑکا کینو کا رَس نکال نکال کر ایک مرتبان میں جمع کر رہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ مجھ سے انٹر کے امتحانات کی بابت پوچھ بھی رہا تھا۔ مجھے یاد آ رہا ہے، میں نے اُسے مشورہ دیا تھا، کہ جب وہ یونی ورسٹی پڑھنے جائے تو ایسے لڑکوں کے ساتھ نشست برخاست رکھے، جو زندگی کے بارے میں واضح نظریہ رکھتے ہوں اور کچھ کرنے کے تمنائی ہوں۔ ایسے لڑکوں کے قریب بھی نہ پھٹکے جو یہ کہیں:

’’ابھی کچھ نہیں سوچا۔ پڑھائی ختم ہو تو کچھ فیصلہ کروں گا۔‘‘

میں نے اپنے بیٹے کو یہ بھی کہا تھا:

’’ہدف پہلے مقرر نہ ہو تو انسان کچھ بھی نہیں کر سکتا، اس لیے تم اپنا ہدف طے کر لو۔‘‘

تب اُس نے مجھ سے کہا تھا:

’’بابا! میں سول سروس میں جاؤں گا۔ بس آپ دعا کرتے رہا کریں۔‘‘

یہ دن ہیں، یوں ہی بدل بدل کر آتے ہیں۔ میرا بیٹا اِن دنوں امریکا میں ہے، وہاں اُس کے ننھیالی رشتے دار پہلے سے موجود ہیں۔ میں نہیں جانتا وہ پاکستان پلٹ کر سول سروس جوائن کر سکے گا یا وہیں کسی جاب کا حصہ بن جائے گا۔ ویسے ان دنوں دُنیا کی حالت بہت مخدوش ہے۔ خود امریکی صدر کے ایسے بیانات آ رہے ہیں، جن سے وہ ہراساں معلوم ہوتا ہے۔ ابھی جب میں گھر سے نکل رہا تھا تو ٹوئیٹر پر میں نے اُس کا ایک بیان دیکھا، جس میں وہ اپنے چینی ہم منصب سے ٹیلی فونک گفتگو کو خوش آئند قرار دے رہا تھا۔ اُدھر اٹلی نے بھی اعلان کر دیا ہے اگر آنے والے چند روز میں حالات قابو میں نہ آ سکے تو پورے ملک کو قرنطینہ سینٹر قرار دیا جائے گا۔ رات ہی تو میں نے اٹلی کے صدر کا بیان پڑھا تھا، جس میں اُس نے کہا ہے:

’’پہلے اطالوی قوم نے ملک کی خاطر جنگوں میں جانیں قربان کیں، اب ریاست قوم کی جانیں بچانے کے لیے اپنے تمام وسائل قربان کر دے گی۔ یوں زیادہ سے زیادہ ہماری معیشت کمزور ہو جائے گی، ہو جائے۔ قوم کی صحت مند زندگی کے بدلے میں یہ معمولی قیمت ہے۔‘‘

ایک سانحہ تو بہ ہر حال انسانیت کو درپیش ہے۔ جب تک موجود ہے، دُنیا پریشان تو رہے گی۔

میں بہارِ نو کی صبح کا تذکرہ کر رہا تھا۔ جب میں گاؤں سے شہر کی طرف آ رہا تھا تو راستے کے اطراف میں حدِ نگاہ تک پھیلے کھیتوں کی ہریالی خوش کن نظارہ تخلیق کر رہی تھی۔ ٹریفک بھی رواں دواں تھی۔ جیپ کے کھلے شیشوں میں سے آنے والے جھونکے کچھ سرد معلوم ہوتے تھے۔ میں نے پگڑی کو ذرا کس کے سر پر باندھ لیا تھا۔ ہوائیں براہِ راست چہرے سے ٹکرائیں تو مجھے چھینکیں لگ جاتی ہیں اور بہت دیر تک اچھو سے جان نہیں چھوٹتی۔ اس قصباتی شہر میں ضروریاتِ زندگی اگرچہ تمام میسر نہ ہوں، تو بھی ایک حد تک چیزیں یہیں سے مل جاتی ہیں اور ایک طرح سے اطمینان بھی رہتا ہے، کہ چیزیں خالص ہوتی ہیں۔ میرا خیال ہے، ابھی یہاں کے لوگوں میں ایمان کی رمق باقی ہے۔ بڑے شہروں میں تو ہر چیز میں ملاوٹ کا خطرہ رہتا ہے۔ میں اپنے بچپن سے یہی سنتا آیا ہوں کہ شہر کے ہوٹلوں میں بکنے والا گوشت قابلِ اعتبار نہیں ہوتا۔ گویا یہ شہروں کا ازلی اور دائمی المیہ ہے۔ گرد و غبار، گاڑیوں کا بے ہنگم ہجوم اور ناقابلِ برداشت شور ویسے بھی مجھے ناپسند ہے۔ پھر نفسا نفسی اور بے مروتی کی روش سے تو میری جان جاتی ہے۔ اس قصبے میں یوں نہ تھا۔

جب میں نے کھاد ڈپو کے سامنے گاڑی روکی تو دوسری جانب گلی میں کچھ لوگ جمع تھے، جن میں مرد و زن اور بچے سبھی شامل تھے۔ اس ہجوم کو دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی کہ وبا کے ان دنوں میں تو سختی سے روکا جا رہا تھا۔ بعض اطلاعات کے مطابق پولیس نے نوجوانوں کی ڈنڈوں سے درگت بھی بنا ڈالی تھی۔ اگر یہ کوئی مداری کھڑا ہے اور اس کے گرد تماش بین ہیں تو مجھ پر واجب ہے کہ میں پولیس کو فون کروں۔ میں یہ سوچ کر آگے بڑھا تو منظر تڑپا دینے والا تھا۔ جینز اور شرٹ پہنے ایک نوجوان نالی کے کنارے اوندھے منھ پڑا تڑپ رہا تھا۔ حلیے سے وہ کسی اچھے گھر کا فرد معلوم ہوتا تھا۔ جس جس کے پاس کیمرے والا موبائل فون تھا، وہ اُس کی ویڈیو بنانے یا تصویر اُتارنے میں مصروف تھا۔ ایک خاتون مسلسل بولے جا رہی تھی:

’’اس کے فوٹو ہی بناتے رہو گے یا کوئی اس کی مدد بھی کرے گا؟ کتنے بے حس ہو تم لوگ۔ کوئی تو اس کے منھ میں پانی کے دو قطرے ڈال دے۔‘‘

ایک لڑکا بولا:

’’خالہ! ون ون ٹوٹو والوں کو بلایا تھا، وہ اسے دیکھ کر چلے گئے ہیں۔ جب اُنھوں نے نہیں اٹھایا تو کوئی اور خطرہ کیسے مول لے؟‘‘

’’آئے ہائے ظالمو! کوئی تو اس پر ترس کھائے۔‘‘

’’کیا معلوم اسے کیا ہوا ہے؟ ہو سکتا ہے اسے وبائی مرض ہو۔ ہمیں لگ گیا تو کیا ہو گا؟ تمھیں اتنی ہمدردی ہے تو خود پلا دو نا اسے پانی۔ اٹھا کے گود میں رکھو نا اس کا سر۔‘‘

مسلسل بولنے والی خاتون بڑبڑاتے ہوئے حصار توڑ کر باہر نکل گئی۔ کم و بیش اَسی لوگ تو تھے۔ ان میں پڑھے لکھے بھی ہوں گے، دیہاتی بھی، مذہبی رجحان کے حامل بھی، خدا ترس اور اصول پسند بھی اور انسانیت کا درد رکھنے والے بھی لیکن میں نے دیکھا کوئی ایک شخص بڑھ کر اُس نوجوان کو اُٹھانا نہیں چاہتا تھا۔ اچانک میرے دماغ میں ایک خزاں رسیدہ خیال پھڑپھڑاتا ہوا چیخا:

’’تم لوگ ابھی غار کے زمانے سے نہیں نکلے۔ ڈرپوک، ہوس پرست، خواہشِ ذات کے اسیر، مرے ہوئے اُصولوں پر مر جانے والے، انسانیت سے دُور، خزانِ رفتہ کے شیدائی۔‘‘

میری آنکھوں کے سامنے منجھلے بیٹے کی تصویر لہرا گئی، جو ان دنوں امریکا میں ہے۔

٭٭٭









بھوک کا مبادلہ



’’جینے مرنے پر جہاں اختیار نہ ہو، وہاں انسانیت کا سوال ہی مر جاتا ہے۔‘‘

یہ بات وہ پچھلے کئی روز سے سوچ رہی تھی، اُسے سمجھ نہیں آ رہی تھی، کہ آخر ہو کیا رہا ہے اور آنے والے دنوں میں کیا کچھ ہو سکتا ہے۔ قرنطینہ میں موجود لوگ اسی طرح سسک سسک کر دم توڑ جائیں گے کیا؟ کیا حکومتی لوگ سچ مچ ان کی زندگیاں بچانے کی کوشش میں ہیں؟ کیا حکومت اتنی بے بس ہو چکی ہے، کہ اُس کے پاس کھانا فراہم کرنے کی سکت بھی نہیں رہی؟ آخر مناسب انتظام کے ساتھ قرنطینہ سینٹر میں موجود افراد کا علاج معالجہ کیوں نہیں ہو رہا؟ اُسے تو اس بات پر بھی حیرت تھی، کہ وہاں کوئی اعلیٰ افسر کیوں نہیں آیا تھا؟ اور یہ کہ ان کا رابطہ بیرونی دُنیا سے بھی کاٹ دیا گیا تھا۔ موبائل فون تک چھین لیے گئے۔ یہ اور ان جیسے سوالات وساوس کی طرح اُس کے دماغ کی دیواروں پر ہتھوڑے برساتے تھے، سوچ سوچ کر اُس کا دماغ ماؤف ہو جاتا تو وہ خالی دیواروں کو تکنے لگتی۔ اُسے یوں محسوس ہوتا، جیسے وہ اُس کی قبر کی دیواریں ہوں اور اگلے چند لمحوں میں اُس کے گرد گھیرا تنگ کر کے اُس کی زندگی کا خاتمہ کر دیں گی۔

یہ عجیب دن تھے۔ زندگی کی قدر، ضروریاتِ زندگی کی قدر، اپنوں کی قدر، اپنوں سے ملنے کی قدر، آج اُسے شدت سے محسوس ہو رہی تھی اور پھر اپنی بے بسی کو دیکھتے ہوئے ایک ہیجانی کیفیت کا شکار ہو جاتی اور یہ مرحلہ اتنا طویل ہوتا کہ انجانے میں اُس کی چیخیں آس پاس لوگوں کو متوجہ کرنے لگتیں۔ چند شناسا چہرے جو اُن دنوں میں دیکھے تھے، اُن پر کہیں بھی اُسے ہمدردی کی لکیر نظر نہ آتی تھی۔ وہ لوگ پیکٹوں میں کھانا بھی لا کر چھوڑ جاتے تھے، اگرچہ دن میں ایک بار ہی سہی لیکن زندگی کی ڈور تو اُس سے سلامت رہی تھی۔ اس کے باوجود اُن چہروں پر اسے وحشت اور مخصوص بیزاری نظر آتی تھی۔ اُسے یہ بھی محسوس ہوتا تھا، شاید یہ لوگ مجبوراً یہ خدمت انجام دے رہے ہیں، انھیں انسانوں سے ہمدردی قطعاً نہیں اور نہ سینٹر میں موجود لوگوں سے کوئی دلچسپی ہے۔

یہ سینٹر ایک مضافاتی علاقے کے اسکول میں بنایا گیا تھا۔ اس کی ویرانی اور خستہ حالی سے معلوم ہوتا تھا، جیسے زمانوں سے غیر آباد ہے۔ سینٹر میں سیکڑوں لوگوں کی موجودگی کی اطلاع تھی۔ ایک ایک کمرے میں کئی کئی لوگوں کو ٹھہرایا گیا تھا۔ پورے اسکول میں تین بیت الخلا تھے۔ اُن کی حالت بھی ناقابلِ بیان تھی۔ نشستوں پر پوری طرح پاؤں نہ جمتے تھے۔ دیواروں کے ساتھ ساتھ لوٹوں پر بھی کائی کی دبیز تہیں تھیں۔ پانی کی کمی اس پر مستزاد۔ ایک ہی صابن کی پتری سے کئی لوگوں کو ہاتھ دھونا پڑتے۔ ایک طرح سے یہ قرنطینہ سینٹر وبائی گھر تھا۔ نہیں معلوم یہاں کون کون وبا سے متاثر لایا گیا تھا اور کسے یہاں آ کر اُس بیماری نے اپنی لپیٹ میں لیا تھا، البتہ وہ یہاں لائی جانے سے پہلے پوری طرح صحت مند تھی۔ اُس کا قصور یہ تھا کہ وہ اُس قافلے میں شامل ہو گئی، جو دوسرے ملک سے پلٹ رہا تھا۔ شک کی بنیاد پر سبھی لوگوں کو جبراً لایا جاتا تھا اور بہ ظاہر اُن کے تحفظ کا کہا جاتا۔

اُس کی تعلیم کا آخری سال تھا۔ والدین نے بڑی مشکلوں سے اُس کے اخراجات کے لیے رقم اکٹھی کر کے اُسے باہر بھیجا تھا۔ پھر اچانک وائرس پھیل گیا اور یہ اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر ہزاروں دوسرے لوگوں کی طرح اپنے وطن پلٹ آئی۔ والدین کو وہ بتا تو چکی تھی، کہ لوٹ رہی ہے لیکن غیریقینی کی اس فضا میں حتمی دن کی وضاحت نہ کر پائی، اور جب اپنے ملک پہنچی تو حکومتی اہل کاروں کے ہاتھ لگ گئی، جنھوں نے سب سے پہلے اُس کا موبائل فون لیا اور پھر دوسرا سامان بھی حفاظتی تحویل میں رکھ لیا۔ اب یہ پورا قافلہ بیان کردہ حفاظتی تحویل میں تھا لیکن انتظامات ایسے تھے، جو کسی بھی طرح تحفظ کا نقطۂ نظر واضح نہیں کر رہے تھے۔ اُسے اپنی حماقت کا احساس ہو رہا تھا لیکن اب اچھے وقت کے انتظار کے علاوہ اُس کے پاس کوئی راستہ بچا نہ تھا مگر انتظار بھی کب تک کیا جاتا؟ کچھ بھی تو واضح نہ تھا۔ کوئی شخص یہ بتانے کو تیار نہ تھا، کہ کتنے دن بعد یہاں سے جانے کی اجازت ملے گی۔ ان گمبھیر حالات اور گھٹن زدہ ماحول سے اُس کے سوچنے کی قوت بُری طرح متاثر ہو چکی تھی۔ وہ جو بھی سوچتی نتیجتاً بے بسی کا آسیب اُس پر مزید طاری ہو جاتا اور وہ ہیجانی کیفیت میں چیخنا شروع کر دیتی۔ کمرے میں موجود باقی لوگ اُسے سمجھاتے، دلاسہ دیتے، یہاں تک کہ ایک مہربان ڈاکٹر بھی اُسے پیار سے سمجھاتا بجھاتا اور وقتاً فوقتاً پھل اور بسکٹوں کے پیکٹ بھی فراہم کر جاتا۔ ایک دو بار تو اُس نے صابن اور ڈیٹول بھی فراہم کیا لیکن اس کی چیخوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ مجبوراً کمرے کے دوسرے مکینوں نے بے آرامی کا آسرا لے کر انتظامیہ سے احتجاج کیا اور یوں اُسے اکیلے کمرے میں منتقل کر دیا گیا۔

پہلے تو کم از کم راتوں کی تنہائی ڈستی نہ تھی اور ڈھارس بندھانے والے بھی موجود تھے۔ اب راتوں کو گیدڑوں اور کتوں کی خوف ناک آوازیں اُس کی جان نکال دیتی تھیں۔ بے خوابی اور کم خوراکی نے اُس کا مزاج بُری طرح متاثر کر دیا تھا۔ اُس نے اس اذیت سے بھاگنے کی کوشش کی لیکن مسلح پہرے داروں نے بندوق تان کر اُسے واپسی پر مجبور کر دیا۔ ایک بار خود کشی کی بھی کوشش کی مگر اتفاقاً اہل کار گشت پر تھا اور یوں اسے بچا لیا گیا۔

’’پیارے بچے! زندگی اللہ کی امانت ہے، اسے یوں نہیں ضائع کرتے۔ ہم سب لوگ یہاں تمھاری زندگیوں کو بچانے کے لیے کوشاں ہیں اور تم عجیب و غریب بلکہ احمقانہ حرکتیں کر رہی ہو۔‘‘ ڈاکٹر نے پیار اور اپنائیت سے کہا تو اُس کی آنکھیں چھلک پڑیں، بے طرح رونے لگی۔ اُس کا جی چاہا کہ ڈاکٹر کے سینے سے لپٹ کر روئے لیکن وبا کی احتیاطی تدابیر میں سے اوّلین یہی تھی، کہ خود کو دوسروں سے دُور رکھنا ہے۔ صرف اتنا کہ پائی:

’’سر! علاج تو ایک طرف رہا، یہاں تو فاقوں مرنے کی نوبت آ چکی ہے۔ زندگی کیسے بچے گی؟‘‘

’’امتحان کا وقت ہے، جانتا ہوں وسائل کی کم یابی ہے، ڈیمانڈ نہیں پوری ہو رہی لیکن حکام کوشش کر رہے ہیں۔ ان شاء اللہ جلد مشکلیں ختم ہوں گی۔ بھروسا رکھو، بہتر ہو گا۔‘‘

وہ جانتی تھی، کہ ڈاکٹر محض دلاسہ دے رہا ہے۔ وہ خود بے اختیار ہے اور نہیں جانتا کہ یہ سب کیسے ہو گا۔ اُس کی خدمت اور خدا ترسی کی وہ قائل ہو رہی تھی لیکن ایسے حالات میں کوئی بھی تو معتبر نہیں ہو سکتا۔ اب تو سایہ بھی ساتھ چھوڑ رہا تھا۔ اُسے ڈاکٹر کی بے بسی کا اس لیے بھی یقین تھا، کہ وہ بارہا اُس کی منت کر چکی تھی، کہ کسی طرح اس کی گھر والوں سے بات کرا دے لیکن وہ جواباً خاموش رہتا۔

ڈاکٹر کی نرمی اور انتظامیہ کے صبر کے باوجود اس کی بد مزاجی بڑھ رہی تھی، اُسے یہی بتایا اور احساس دلایا جاتا تھا، کہ وہ بدمزاج ہے۔ حالاں کہ اُس نے کسی کو نقصان پہچانے یاکسی کی حق تلفی کرنے یا پھر چیزوں کو توڑنے کی کوشش نہ کی تھی۔ اپنی ضرورتوں کے لیے آواز اُٹھانا، جسمانی ضرورتوں کو پورا کرنے کی خواہش کرنا کوئی ایسی بات نہ تھی، جس پر اُسے بد مزاج یا ناشکرا کہا جا سکتا۔ وہ سوچتی:

’’اگر میں گھر پہنچ گئی ہوتی تو یقیناً خیریت سے ہوتی اور اپنوں میں خوش ہوتی۔ ان لوگوں نے حفاظتی تحویل میں لے کر میرا بنیادی حق چھینا اور اپنوں سے دُور کر کے مجھے مسلسل اذیت دے رہے ہیں۔ جب ان کے پاس مناسب انتظامات نہ تھے تو ایسا سینٹر بنانا ان کی حماقت ہے، میری بد مزاجی نہیں۔ اور پھر یہ کون ساطریقہ ہے کہ ہر بات جبراً منوا ئی جائے؟‘‘

ایک دن عجیب تماشا ہوا۔ کسی نے سینٹر میں چاول کی دیگ بھجوا دی۔ لوگ کئی دنوں سے جی بھر کر نہیں کھا سکے تھے۔ سب اپنے کمروں میں سے نکل آئے اور انتظامیہ کا ہاتھ دیکھے بغیر جھپٹ پڑے۔ جس کے ہاتھ میں جتنا آ رہا تھا، وہ لپیٹ لپاٹ کر اپنے برتن میں ڈالتا گیا۔ کچھ تو ایسے تھے، جو اپنے کپڑوں میں انڈیل رہے تھے۔ یہ منظر دیکھ کر وہ سٹپٹا گئی۔ بھلا یہ بھی کوئی طریقہ ہے؟ جب یہ دیگ آئی ہی سینٹر والوں کے لیے ہے توپھراس طرز کو اختیار کیوں کیا گیا؟ اُسے محسوس ہوا جیسے اُس کی داخلی تہذیب اور شخصی رکھ رکھاؤ نے اُسے بھوکا رکھا ہو، ورنہ دوسرے لوگ اسی طرح پیٹ بھرتے ہیں۔ بھوک کا فلسفہ اُسے کچھ کچھ تو سمجھ آ چکا تھا لیکن یوں چھینا جھپٹی بہ ہر حال اُسے ناگوار معلوم ہوتی تھی۔ پھر یہ تماشا اکثر ہونے لگا، معمول کا کھانا بھی اسی طرح رکھ دیا جاتا اور لوگ اپنے کمروں سے نکل کر جھپٹ پڑتے۔ وہ سوچ کر اور طے کر کے بھی بھوک کا یہ وحشیانہ طرز اختیار نہ کر سکی۔ نتیجتاً غنودگی اور نقاہت نے اُس کے جسم میں ڈیرے ڈال لیے۔ ڈاکٹر گاہے گاہے آتا اور اسے پیار سے سمجھانے کی کوشش کرتا:

’’دیکھو! جب سب لوگ اس طرح کھاتے ہیں تو تمھیں اعتراض نہیں ہونا چاہیے، بلکہ تمھیں اکثریت کا طرز ہی اختیار کرنا چاہیے۔‘‘

’’میں معترض کب ہوں؟ سب کھائیں لیکن مجھ سے یہ سب نہیں ہوتا۔‘‘

’’فاقوں مرو گی کیا؟‘‘

’’مر جاؤں‘‘

پھر ڈاکٹر نے ایک اہل کار سے سفارش کی، کہ اس بچی کو کھانا کمرے میں دیا جائے۔ کمزور ہے، حساس ہے، دعائیں دے گی۔

ڈیوٹی پر مامور شخص پہلی ہی شام کا کھانا لایا تو یہ کہولت اور نقاہت سے دُہری ہوئی پڑی تھی۔ گلاب کی گٹھری جو بتدریج خاشاک میں بدلتی جا رہی تھی۔ اس کرب ناک اور قابلِ رحم زندگی کا تو اُس نے تصور بھی نہ کیا تھا۔ وہ تو یہ سوچ کر باہر پڑھنے گئی تھی، کہ پلٹے گی تو اپنی قوم کی خدمت کرے گی۔ ماں باپ کا نام روشن کرے مگر اب تو زندگی داؤ پر لگی ہوئی تھی۔ نہیں معلوم اُس کی زندگی کی کتنی ساعتیں باقی تھیں، مزید کتنی اذیت بھوگنا اس کے کرموں میں لکھا تھا، تنفسی تبادلے کی اخیر کب ہونی تھی؟ وہ سوچ رہی تھی:

’’جینے مرنے پر جہاں اختیار نہ ہو، وہاں انسانیت کا سوال ہی مر جاتا ہے۔‘‘

آنے والے شخص نے کھنکھارتے ہوئے گلا صاف کیا اور پھر قدرے بیٹھی ہوئی آواز میں گلاب کی سمٹی ہوئی گٹھری پر حریصانہ نگاہ ڈالتے ہوئے مخاطب ہوا:

’’سُنو! میرے ساتھ بھوک کا تبادلہ کر لو، سُکھی رہو گی۔‘‘

٭٭٭









چراگاہ



پہرے میں سختی آتی جا رہی تھی۔ لوگ گھروں میں یوں دبکے بیٹھے تھے، جیسے باہر کی دُنیا سے آشنا ہی نہ ہوں۔ ہُو کا ایساعالم تھا، جس طرح قیامت خیز آندھیوں اور سیلابوں سے پھیل جانے والی تباہی کے بعد ہوتا ہے۔ گھریلو زندگی کچھ اس سے زیادہ مختلف نہ تھی۔ کوئی نہیں بتا سکتا تھا، کہ گھروں کے اندر کیا ہو رہا ہے۔ لوگ ٹیلی ویژن دیکھتے ہوں گے، کتابیں پڑھتے ہوں گے، سوشل میڈیا ایکٹویٹی میں مشغول ہوں گے، کھیلوں میں دلچسپی لیتے ہوں گے یا پھر من پسند کھانا بنانے اور کھانے میں وقت بِتاتے ہوں گے۔ یہ بھی نہیں کہا جا سکتا تھا، کہ یہ سب کچھ کرتے ہوں گے یا پھر خوف سے دُبکے خاموش، اپنے بستروں میں موت کے منتظر ہوں گے یا پھر بلا کے ٹلنے کے لیے دعائیں کر رہے ہوں گے۔ ظاہر یہی تھا، کہ لوگ باہر سے کنارہ کش تھے اور اس کنارہ کشی سے کئی وسوسے، واہمے اور تفکرات پیدا ہوتے تھے۔ کبھی کبھار کوئی گاڑی گزرتی تھی تو زندگی کا احساس ہو جاتا تھا، ورنہ ایک قابلِ رحم سکوت کی سلطنت قائم تھی۔ البتہ بازار کے اوقات میں چہل پہل رہتی، جو زندگی کا ایک رُخ ضرور ظاہر کر جاتی۔

یہ باتیں کسی حد تک قیاس ہیں اور ایک حد تک یقین بھی ان میں شامل ہے۔ کیوں کہ میں نے انھی دنوں میں کئی غیر ملکی ادیبوں کے ناول، شاعری، افسانے اور ڈرامے پڑھے تھے۔ میری بیوی کا بیشتر وقت یا تو کھانا بناتے گزرتا تھا یا پھر ڈائجسٹوں کے مقبول سلسلے پڑھنے میں۔ بچوں کے شوق مختلف تھے۔ بعض اوقات وہ لڈو کھیلتے یا پھر تاش میں سر کھپاتے۔ اچانک اُنھیں مرغوب کھانوں کا شوق چراتا تو ماں کو لے کر باورچی خانے میں گھس جاتے، پھر اگلے ہی لمحے کوئی موبائل فون پر کارٹون دیکھ رہا ہوتا، کوئی فیس بک کھولے اپنا اسٹیٹس اَپ ڈیٹ کرتا، کوئی ٹیلی ویژن پر ڈراما چلا بیٹھتا اور کوئی اپنے دوست سے لمبی کال ملا رکھتا۔ البتہ نمازوں کے اوقات میں میرے کہنے پر سبھی نماز بھی پڑھ لیتے تھے۔ خود میں بھی ان دنوں پہلے کی نسبت مذہب کا زیادہ پابند ہو گیا تھا۔ تلاوت میں باقاعدگی آ گئی تھی۔ بعض اوقات میرے بچے قرآن مجید کی تلاوت کے لیے اس پاکیزہ کتاب کا انتظار بھی کرتے تھے، کیوں کہ گھر میں صرف تین نسخے تھے اور سچ یہ ہے کہ اس سے پہلے تو اکٹھے کم ہی پڑھے جاتے تھے۔ اگر ہر گھر کی ایسی ہی کہانی ہو تو اندازہ کیا جا سکتا ہے، وبا کے ان دنوں میں گھروں میں کیا ہوتا تھا۔

میں ہفتے عشرے کے لیے کھانے پینے کی اشیا لے آیا کرتا تھا اور پھر ٹیلی ویژن پر دیکھی اور سنی گئی احتیاطی تدابیر اپنانے کے بعد گھر میں داخل ہوتا۔ میں نے محسوس کیا کہ میرے محتاط طرزِ عمل کے باوجود ایسے موقعوں پر میرے بچے، یہاں تک کہ میری بیوی بھی مجھ سے فاصلے پر رہتی۔ بعض اوقات یہ سب مجھے معیوب لگتا اور دُکھ بھی ہوتا تھا۔ میں سوچتا:

’’ان لوگوں کے لیے میں جان خطرے میں ڈال کر باہر جاتا ہوں اور انھی کو مجھ سے کراہت ہوتی ہے۔ احسان فراموشی کی اس سے زیادہ مثال کیا ہو سکتی ہے؟‘‘

اگلے ہی لمحے مجھے یاد آ جاتا کہ اس احتیاط کی ہدایت تو میں نے خود انھیں دے رکھی تھی۔ پھر یہ ضروری بھی تھا۔ اگر ہم باہمی طور پر محتاط طرز زندگی اختیار نہ کرتے تو معاملات بگڑنے کا بہ ہر حال اندیشہ رہتا۔ یقیناً کسی ایک کی بے احتیاطی سب کو مشکل میں ڈال سکتی تھی۔

مارکیٹ کے لیے اوقاتِ کار طے تھے، خلاف ورزی کرنے والوں کو بھاری جرمانہ کیا جاتا اور بعضوں کو جسمانی سزا بھی دی جاتی تھی، جس کی کئی مثالیں وائرل ہو جانے والی ویڈیوز کی صورت میں سامنے آ چکی تھیں۔ تاجروں نے عارضی طور پرہی سہی لیکن لوبھ کا چولا اُتار رکھا تھا۔

یہ اُس روز کی بات ہے، جب صبح سے ہی ہلکی بارش ہو رہی تھی۔ میرے بچے بار بار ماں سے میٹھا کھانے کا تقاضا کر رہے تھے اور اتفاق سے اس کے لیے ضروری چیزیں ختم ہو چکی تھیں۔ ابھی مارکیٹ کھلنے کا وقت نہ تھا۔ بچوں کی اپنی نفسیات ہوتی ہے، وہ یہ نہیں جانتے کہ مشکلوں میں اور عدمِ دستیابی کے وقت، زندگی کا ڈھنگ بدل جایا کرتا ہے۔ اُنھیں اس بات کا بھی احساس نہیں ہوتا کہ اُن کے والدین کس طرح اُن کی ضرورتیں پوری کرتے ہیں۔ ان کی ماں بار بار کہتی:

’’تمھارے بابا آج جا رہے ہیں، شام تک صبر کر لو۔‘‘

مگر صبر تو بچوں کی کتاب میں لکھا ہی نہ تھا۔ اُن کے بلاوجہ شور اور ہنگامے کے باعث میں مارکیٹ کے لیے وقت سے کچھ دیر پہلے ہی گھر سے نکل آیا۔

مارکیٹ ہمارے گھر سے پانچ منٹ کی ڈرائیو پر ہے۔ چوں کہ اکثر لوگوں نے مقر رہ وقت کے اندر ہی خریداری کرنی ہوتی تھی، اس لیے ہجوم بھی سوا ہوتا اور لوگ بھی عام حالت کی نسبت زیادہ پُر جوش دکھائی دیتے۔ ہر ایک کی خواہش ہوتی، کہ وہ جلد سے جلد اپنی مطلوبہ اشیا خریدے اور دوڑ جائے۔ بازار میں ہم مشربوں، ہم محفلوں، ہم مکتبوں اور ساتھ کام کرنے والوں کو، حتیٰ کہ اعزہ کو بھی جس قدر نظر انداز کیا جا سکتا تھا یا امکانی حد تک جانا آسان ہوتا، ایسا کر لیا جاتا۔ یہ عمومی روش تھی۔ ا گر میں یہ کہوں کہ میں ایسا نہیں کرتا تھا تو یہ قابلِ یقین نہیں ہو گا۔ میں تو ایک بار اُس سے بھی آنکھ بچا گیا تھا، جس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے میں نے اپنی نوعمری کے کئی سال خرچ دیے تھے۔ جس سے عہد و پیماں ہوئے تھے، ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھائی تھیں، ایک قالب میں ڈھلنے کا تہیہ کیا تھا۔ اُس کی ماں نہیں مانی تھی، ورنہ وہ میرے بچوں کی ماں ہوتی۔ شادی نہ ہونا الگ بات ہے لیکن ہم بعد میں بھی اگر ملتے تھے تو ملائمت اور گزشتہ زندگی کے خوش گوار احساس کے ساتھ۔ اور کبھی دل گرفتہ ہو کر بھی۔

اُس وقت وہ اکیلی تھی اور میرے پاس ماضی کو یاد کرنے اور اچھے دنوں کو محسوس کرنے کا بہت اچھا موقع بھی تھا۔ ایسے عالم میں لوگ زیادہ تر اپنی زندگیوں میں محو ہوتے ہیں لیکن میں نے ایسا نہیں کیا۔ اگرچہ بعد میں میرا دل مجھے ملامت کرتا رہا اور بہت دیر تک میں اس خود غرضی پر سوچتا بھی رہا لیکن وبا کے خوف نے مجھے احتیاط پر مجبور کیا تھا۔ ایسے مواقع کم کم ملا کرتے ہیں اور میرے دل کو اس نقصان کا صدمہ بھی بہت تھا۔ بچوں کی ضد کی طرح دل کی کتاب میں بھی صبر نہیں لکھا ہوتا۔ چناں چہ میری نظریں بار باراُس کی جانب اُٹھ رہی تھیں۔ امکان یہ ہے کہ اُس نے بھی مجھے پہچان لیا تھا اور غالباً وہ بھی وبا کے خوف سے خود کو باز رکھنے پر مجبور ہوئی ہو گی۔ جس احساسِ ندامت نے مجھے جھنجھوڑا تھا، اُسے بھی شاید اتنا ہی جھٹکا لگا ہو گا لیکن وقت کب پلٹتا ہے؟

اب میں سوچ سکتا ہوں، اکثر لوگ اپنوں سے، اپنی محبوباؤں سے اور اعزہ سے اسی طرح منھ پھیر کر یا نظریں چرا کر گزر جاتے ہوں گے۔ میں ہڈ بیتی پر یقین رکھتا ہوں اور یہ بات کہنے میں حق بجانب ہوں۔ اگر اُس وقت مارکیٹ میں افراتفری نہ پھیل گئی ہوتی تو میری نظریں اُس کے تعاقب میں ضرور ہوتیں۔

میں جس سپر اسٹور سے چیزیں خریدتا ہوں یہ ’’کیش اینڈ کیری‘‘ اور ’’میٹرو‘‘ طرز کا ایک بڑا اسٹور ہے۔ اس میں دالیں، چاول، سبزیاں، مسالے، گوشت، دودھ، صابن اور شیمپوجیسی روزمرہ کے استعمال کی ہزاروں چیزوں سمیت سائیکلیں، فریج، موبائل فون، گھڑیاں، پرفیوم، پوشاک و پیزار اور بچوں کے کھلونوں کے علاوہ متعدد اقسام کی پُر تعیش اور قابلِ ضرورت اشیا ہوتی ہیں۔ ایک طرح سے یہ اسٹور مکمل بازار ہے، جہاں سے انسان ضرورت کی ہر چیز خرید سکتا ہے۔

سپر اسٹور کا دروازہ کھلنے کی دیر تھی، کہ ایک بے قابو ہجوم اندر داخل ہو گیا۔ عورتوں، بچوں، جوانوں اور بوڑھوں پر مشتمل ایک خوف ناک ہجوم۔ یہ طے کرنا مشکل تھا، کہ یہ لوگ کس محلے یا گاؤں سے آئے۔ لوکسٹس (Locusts) کی طرح ہر چیز پرپل پڑے۔ چند ہی لمحوں میں امریکی سنڈی کی طرح سارے اسٹور کو اُجاڑ دیا۔ اسٹور کے مالکان پہلے تو روکنے کی کوشش کرتے رہے۔ اسٹور کے چوکیداروں نے بھی جتن کیے لیکن پھر سب ایک طرف ہٹ کر اور منھ دوسری طرف کر کے کھڑے ہو گئے۔

جس کے ہاتھ میں جو چیز سما رہی تھی، اُٹھا رہا تھا۔ اس چھینا جھپٹی میں وہ لوگ بھی شامل ہو چکے تھے، جو عموماً ایسا نہ کرتے ہوں گے۔ باہر سے بھی جو گزرتا تھا، وہ بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کی کوشش کر رہا تھا۔ یوں معلوم ہوتا تھا، جیسے یہ لوگ زمانوں سے بھوکے ہوں اور انھیں بہت مشکلوں کے بعد یہاں تک رسائی ملی ہو۔ مالِ غنیمت سمجھ کر ہر چیز اُٹھا لینا چاہتے تھے۔ اس اختصاص کی بھی ضرورت نہ رہی تھی، کہ کس کے پاس کس چیز کی کمی ہے یا کس کی حاجت کس چیز سے پوری ہوتی ہے۔ بس لوٹ کھسوٹ کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ تھا۔ فورسز کے لوگ موجود تھے لیکن وہ محض تماشائیوں کی طرح ہر منظر کو دیکھ رہے تھے۔ کچھ لوگ اپنے موبائل فونوں پراس وحشیانہ عمل کی ویڈیو بنانے میں مصروف تھے۔ یہ اندازہ ہو رہا تھا، کہ تھوڑی ہی دیر میں یہ بھوک اور افلاس کا مارا ہوا یاجوج ماجوج کا جتھا اسٹور کی اینٹیں بھی اکھاڑ کھائے گا مگر اس کی نوبت نہ آئی۔

جانوروں کا ریوڑ منتشر ہوا تو چراگاہ اپنی ویرانی پر ماتم کناں تھی۔

٭٭٭







کِرودھ



تمام راستوں پر پولیس کا پہرہ تھا، یوں معلوم ہوتا تھا، جیسے کرفیو لگا دیا گیا ہو۔ کاروبارِ زندگی بالعموم معطل تھا۔ گاؤں والے بتاتے تھے، کہ کھانے پینے کی اشیا فروخت کرنے والی دکانوں کے علاوہ صرف دوا فروشوں کی دکانیں کھلی ہیں۔ بعض اسپتال بھی کام کر رہے ہیں۔ باقی سارا شہر بند ہے۔ مسئلہ یہ تھا، کہ ایسے حالات میں، جب کہ سواری والی کوئی گاڑی شہر نہیں جا رہی تھی، مانا کس طرح فوراً شہر پہنچے؟ اُسے فوراً پہنچنا تھا اور گاؤں بھر میں کوئی ایسا نہ تھا، جو اس کی مشکل حل کر دیتا۔ صدرو رکشے والے نے اُسے بتایا تھا، کہ شہر میں گھسنے والوں کو مارا پیٹا جاتا ہے، اس لیے اُسے تو کوئی شوق نہیں کہ خواہ مخواہ ڈنڈے کھائے۔

عمران بچپن ہی میں یتیم ہو گیا تھا، اُسے اپنے باپ کی شکل تک یاد نہ تھی۔ ماں اُسے بتایا کرتی تھی کہ:

’’وہ منحنی سا اور دق کا مریض تھا۔ شادی سے پہلے اگر مجھے پتا بھی چلتا تو میں کون سا اُس سے شادی سے انکار کرنے کی جرأت رکھتی تھی۔ شادی کے اگلے سال تُم پیدا ہوئے اور اُسی سال وہ رخصت ہو گیا۔ فوٹو تھا ہی نہیں، جو تمھارے لیے محفوظ کر رکھتی۔‘‘

باپ کے متعلق اُس کی اتنی ہی معلومات تھیں۔ ماں آس پاس کے کھیتوں میں مشقت کے پہاڑ سر کرتی تھی۔ کپاس کے دنوں میں پھٹی چُننا اور پھر پلٹتے ہوئے خس و خاشاک کے حصول کے لیے سر توڑ کوشش کرنا۔ گندم کی کٹائی اور مکئی کے کھیتوں میں نلائی کرنا۔ کبھی تو گندم کی گہائی کے لیے تھریشر پر مردوں جتنا کام بھی کر لیا کرتی تھی۔ اُس کی زندگی کاملاً ایک کسان کی زندگی تھی، جو صبح سے شام تک کھیتوں میں اپنا رزق تلاش کرتا ہے، اپنے بچوں کو پالتا ہے، زندگی کا پہیہ دوڑاتا ہے۔ پہلے پہل عمران اس مشقت میں اس قدر شامل تھا، کہ وہ ماں کے ساتھ کھیتوں میں رہتا۔ گاؤں کے لوگوں نے زیادہ تردد سے بچنے کی خاطر اور کسی حد تک اپنے رسم و رواج کے مطابق عمران کو ’’مانا‘‘ بنا دیا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر کوئی عمران کہتا تو اُسے اجنبیت کا احساس ہوتا تھا۔ ایک آدھ بارمسجد کے مولوی صاحب نے اُس کا درست نام لیا، جس کے جواب میں اُس نے اپنی اٹکتی ہوئی زبان سے کہا تھا:

’’مَ ___ مَ ___ مجھے مانا کہا کریں۔‘‘

جب اُس نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا، تب اُس کی ماں مختلف عوارض کا شکار ہو چکی تھی۔ بنیادی مرکزِ صحت کا ڈاکٹر کہتا تھا:

’’مائی، اپنا سفر طے کر چکی ہے، بس اس کی خدمت کیا کرو، اسے آرام دو۔ گھر کے کام کاج بھی خود کیا کرو۔ اس کی دعائیں لو۔‘‘

یہ کام وہ ڈاکٹر کی ہدایت کے بغیر بھی کیا کرتا تھا، کہ اُس نے ماں کی جگہ پہلے ہی لے لی تھی۔ گھر کی صفائی ستھرائی، کھانا پکانا، کھیتوں میں کام کرنا اور پھر واپسی پر خس و خاشاک کی گٹھری لے کر آنا اُس کی زندگی کی بنیادی اکائیوں میں شامل ہو چکا تھا۔ اگرچہ وہ قدو قامت کے اعتبار سے بلند تھا لیکن طاقت و استعداد کے حوالے سے والد جیسا ہی تھا۔ اچھی خوراک تو مہینوں میں کبھی ایک بار بھی نصیب نہ ہوتی۔ زیادہ سے زیادہ گندم کی گہائی کے دنوں میں چودھری کے گھر سے آنے والا کھانا اسے میسرآ جاتا، جو صحیح معنوں میں اُس کے لیے من و سلویٰ کا مقام رکھتا۔ اس کے علاوہ ناقابلِ بیان کس مپرسی کا عالم تھا، جسے وہ چاہتا بھی تو نہ ختم کر سکتا۔

ڈاکٹروں نے اگرچہ بارہا اُسے بتایا تھا، کہ اس کی ماں اَب تندرست نہیں ہو سکتی لیکن وہ پھر بھی شہر کے ایک اچھے ڈاکٹر تک پہنچ ہی گیا تھا۔ اُس ڈاکٹر نے کئی طرح کے ٹیسٹ کیے، محبت سے پیش بھی آیا، اپنی فیس بھی نہ لی اور اچھی دوائیں بھی تجویز کیں لیکن اُس کی ماں کی صحت جوں کی توں رہی، البتہ بیٹا ہونے کی وجہ سے اُسے ایک اخلاقی اطمینان ضرور تھا، کہ وہ ماں کی خدمت گزاری میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔ یہ بھی تھا، کہ شہر کی دواؤں اور ڈاکٹر کے مشفقانہ رویے کے باعث مائی کے مزاج میں مثبت تبدیلی آئی تھی اور اسے جینے کی اُمید ہو گئی تھی۔ پہلے کی نسبت دوا بھی اہتمام کے ساتھ لینی شروع کر دی تھی۔ یہ بات ماں بیٹے کے لیے اطمینان بخش تھی۔

شہر جانے کے لیے وہ گاؤں سے دس بارہ میل کی پیدل مسافت طے کر کے سڑک تک پہنچا۔ اِکا دُکا گاڑی گزر رہی تھی، وہ ہر گاڑی کو ٹھہرنے کا اشارہ کرتا۔ گاڑیاں اُس کے پاس سے ہوا کی طرح گزرتی جاتی تھیں۔ اُسے رہ رہ کر اپنی بے چارگی اور غربت پر غصہ آ رہا تھا۔ وہ طے نہیں کر پا رہا تھا، کہ یہ الزام کس کے سر رکھے۔ اُسے اپنی یتیمی کا بھی شدت سے احساس ہو رہا تھا۔ وہ سوچتا:

’’باپ ہوتا تو یقیناً میں اکلوتا اس غم کو بھوگنے کے لیے نہ رہتا۔ باپ بوجھ بانٹتا اور بہن بھائی بھی ہوتے اور ممکن تھا، کہ دُکھ پہلے سے کم ہو جاتے۔‘‘

اس خیال کے آتے ہی اُسے کچھ تسکین ہوتی لیکن اگلے ہی لمحے اُسے اپنے پڑوسی طیفے کا خیال آتا، وہ پھر تڑپ اُٹھتا۔ طیفے کا باپ بھی زندہ تھا اور وہ پانچ بھائی تھے۔ سارا کنبہ مل کر کھیتوں میں کام کرتا تھا لیکن اُن کے گھرانے میں بھی غربت کا پنجہ اُسی طرح گڑھا تھا، جس میں مانا پھنسا ہوا تھا۔ پھر وہ سوچتا، غریب شاید دُکھ اُٹھانے کے لیے ہی پیدا ہوتا ہے۔

گاڑیاں گزرتی رہیں اور وہ سڑک کے کنارے ایک گھنٹے سے زیادہ وقت گزار چکنے کے بعد پریشان کھڑا تھا۔ اصل میں اُس کی ماں کی دوا پانچ دن پہلے ختم ہو چکی تھی۔ وہ پولیس کے پہرے کے خاتمے کا انتظار کر رہا تھا۔ اب تو اُس کی ماں کی حالت پہلے سے زیادہ خراب ہو رہی تھی۔ یہی وہ بات تھی جس کے لیے اُس نے سخت پہرے کے باوجود شہر جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ جب وہ سڑک پر بیزاری سے انگڑائیاں لے رہا تھا، اُسی لمحے ایک خوب صورت کار اُسے آتی دکھائی دی۔ بے چینی سے اُس نے آگے بڑھ کر روکنے کے لیے مسلسل اشارے کیے۔ گاڑی رُکی، جس میں تین نوجوان بیٹھے تھے، اُسے بھی بٹھا لیا گیا۔ وہ زندگی میں پہلی بار موٹر کار پر بیٹھا تھا۔ اُسے دُہری خوشی کا احساس ہو رہا تھا۔ اُس کے دماغ میں ایسی ہی ایک خوب صورت موٹر کا خواب بیٹھ گیا۔ منصوبوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ___ اور جب پولیس ناکے پر گاڑی روکی گئی تو اُس کے سارے خیالات منتشر ہو گئے۔ دو پولیس اہل کار گاڑی میں سوار ہو گئے اور پھر گاڑی تھانے پہنچا دی گئی۔

مانا، اس ناگہانی آفت کے لیے تیار نہ تھا۔ اُسے معلوم ہی نہ ہو سکا کہ ہوا کیا ہے۔ گاڑی سے جب انھیں اُتارا گیا تو وہ جانے لگا، اسی اثنا میں ایک زور دار مکا اُس کی پشت پر پڑا اور وہ لڑکھڑا کر رہ گیا۔ بہت مشکلوں سے سنبھلنے کے بعد اُس نے ہکلائی ہوئی زبان میں اپنا ماجرا سنایا، جسے رد کر دیا گیا اور باقی لڑکوں کے ساتھ اسے بھی حوالات میں بند کر دیا۔

پورے دو دن اور تین راتیں اُس نے حوالات میں گزاریں۔ پہلی رات توسب لوگ ایک ہی کمرے میں رہے، پھر باقی لڑکوں کو علاحدہ کمرے میں لے جایا گیا اور یہ وہیں پڑا رہا۔ اس دوران کون سا ایسا دُکھ تھا، جو اُس نے محسوس نہیں کیا اور کون سی ایسی دُعا تھی، جو اُس نے نہیں مانگی۔ پھر اُسے ایک افسر کے سامنے پیش کیا گیا۔ سوال جواب ہوئے۔ پولیس کو اس کی بے گناہی کا یقین ہو گیا تو اُسے چھوڑ دیا گیا۔ رہائی اُس کے لیے نئی زندگی کی نوید تھی، اس لیے وہ یہ سوال کر ہی نہیں سکتا تھا، کہ آخر اُس کا جرم کیا تھا اور اُس پر پہلے دن یقین کیوں نہ کر لیا گیا؟

تھانے سے نکلا تو وہ خود کو مجرم خیال کر رہا تھا۔ ہر ایک سے آنکھیں بچا کر کسی طرح وہ متعلقہ ڈاکٹر تک پہنچ گیا۔ ملنا مشکل تھا لیکن ماں کی دوا کی خاطر اُسے بہ بہرحال جتن کرنا تھا، سو اُس نے کیا۔ ڈاکٹر نے خوش دلی سے اُس سے تفصیلات سنیں اور پھر دوا لکھ دی۔ اس دوران ایک دو بار اُس کے ذہن میں خیال آیا کہ وہ خود پر ہونے والے ظلم سے متعلق ڈاکٹر کو آگاہ کرے، پھر سوچا:

’’پہلے ہی ڈاکٹر کے اتنے احسانات ہیں، اَب اپنی وجہ سے اور کیا پریشان کروں۔‘‘

خاموشی سے باہر آ گیا۔ نگاہیں زمین میں گاڑھے چلتا گیا۔ اب اس نے طے کر لیا تھا، کہ کچھ بھی ہو جائے کسی کی گاڑی میں نہیں بیٹھ کر جائے گا۔ پیدل چلا جائے گا لیکن یہ خطرہ مول نہیں لے گا۔ کار میں بیٹھنا غریب کے لیے سزا کے سوا کچھ نہیں۔ انھیں خیالات میں غلطاں وہ گلی کی نکڑ پر پہنچا تو پولیس والوں نے کئی نوجوانوں کو مرغا بنا رکھا تھا۔ یہ منظر دیکھ کر اُس نے پچھلے قدموں بھاگنے کی کوشش کی، عین اسی وقت ایک اہل کار کی اس پر نظر پڑ گئی۔ موٹی سی گالی دے کر اُس نے اپنے پاس آنے کا حکم دیا۔ یہ لرزتا کانپتا وہاں پہنچا تو اُسے بھی مرغا بنا دیا گیا۔ جس جانب وہ جھکا تھا، اُسی طرف چہرے کے سامنے اُس کی ماں کی دوا پڑی تھی۔ کچھ ہی دیر میں موٹے ڈنڈے سے سب کے پچھواڑوں کو مکئی کی طرح کوٹنے کی آواز آئی۔ آواز قریب آتی گئی، پھر یک لخت اُس کی بے نظیر سے بھی شعلے اُٹھنے لگے۔ اس عمل کے بعد سب کو بھاگ جانے کا حکم ملا تو وہ بھی گاؤں کی طرف دوڑ گیا۔

اپنی توہین اور عزت نفس کے مجروح ہونے کا اُسے ملال تو تھا لیکن ماں سے دُوری کا دُکھ اس سے کہیں بڑھ کر تھا۔ گھر پہنچا تو ویرانی اُس کا منھ نوچ رہی تھی۔ سوچا ماں طیفے کے گھر ہو گی لیکن وہاں ناقابلِ یقین نفرت اُس کی منتظر تھی۔ مٹی کا ڈھیر ڈھونڈنا بے معنی تھا لیکن اُس نے ڈھونڈ لیا۔

٭٭٭









کورونائی نظریات



دُور بیٹھا ہوا کوئی شخص یہ کیسے جان سکتا تھا، کہ چین میں کیا ہوا اور ہو سکتا ہے۔ شروع میں تو عام لوگوں کی طرح اُس کا بھی یہی خیال تھا، کہ نا معقولات کھانے والی اس قوم نے کچھ ایسا ضرور کھا لیا ہو گا جو چھچھوندر کی مانند ان کی زندگیوں کو محیط ہو گیا ہے۔ عام آدمی تو یہ بھی نہیں سوچ سکتا تھا، کہ کورونا وائرس ان کے گھروں تک بھی آ سکتا ہے۔ ہزاروں میل دُور دیہات میں، کوہستانوں میں، ریگستانوں میں اور سمندروں کے قریب ایسی بستیوں میں، جہاں بیرونی دُنیا کا کوئی انسان بھی نہیں جاتا۔ چین کے ساتھ امریکا کا نام لیا گیا اور اسی دورانیے میں ایران کا چرچا عام ہوا، پھر انگلینڈ میں اموات کی نشاندہی کے ساتھ ہی اٹلی میں عظیم تباہ کاری کی خبریں بھی آ گئیں۔

یہ ایسا وقت تھا، جب ہمارے ملک میں اتنی خطرناک صورتِ حال نہ تھی۔ لوگ اس وائرس سے متعلق قبل از وقت بہت کچھ جان تو گئے تھے لیکن ایسوں کی تعداد بہت کم تھی، جواس تناظر میں حساس ہوتے اور بعضوں کو تو مطلق احساس نہیں تھا، کہ وہ ایک سنگین بیماری کی لپیٹ میں آنے والے ہیں۔ ایسے لوگوں نے معمولاتِ زندگی کو معطل کرنا خلافِ شان خیال کیا اور ہر طرح سے خود کو مصروف رکھنے کی کوشش کی۔ بعضوں نے بے احتیاطی کو جرأت پربھی محمول کیا۔ وہ اپنے جان کاروں کے سامنے عجیب عجیب نظریات پیش کرتے اور من گھڑت بہادری کے قصے بھی سناتے۔ ہو سکتا ہے کہ ایسوں کی وجہ سے بہت سے لوگوں کا دماغی غسل بھی ہوا ہو اور وہ حساسیت کے لیے آمادہ ہوتے ہوتے ناقص نظریات کی بھینٹ بھی چڑھ گئے ہوں۔ بعد میں ان کا انجام کیا ہوا، کون جانتا ہے؟ خوف اور وحشت کا نہ ختم ہونے والاسلسلہ پھیل چکا تھا۔

سوشل میڈیا نے عامۃ الناس کو بہت زیادہ معلومات فراہم کر دی تھیں، یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ ضرورت سے زیادہ معلومات کا عفریت ایک ناقابلِ بیان سراسیمگی کا سبب بنا۔ سیکڑوں ویڈیوزایسی تھیں، جن میں انسان سسکتا، کُرلاتا اور تڑپتا ہوا دکھائی دیتا تھا۔ ہزاروں پوسٹیں مفت مشوروں سے متعلق تھیں۔ طرح طرح کے علاج اور احتیاطی تدابیر بتائی جا رہی تھیں۔ ان میں کچھ اطلاعات تو یقیناً درست تھیں لیکن بیشتر نا قابلِ تصدیق تھیں۔ بعضوں نے ایک دہائی پرانی ویڈیو نکال کر نئے منظر نامے سے منسلک کرنے کی کوشش کی۔ کچھ ایسے تھے، جنھوں نے اپنے نظریات کے پرچار کے لیے انتہائی سطحی اور غلیظ طریقہ بھی اختیار کیا۔ حالاں کہ وباؤں کا دورانیہ کسی بھی قسم کی اشتہار بازی اور گھٹیا پروپیگنڈے کا مقتضا نہیں ہوتا، اس کے برعکس ایسے موقعوں پر دیانت داری اور راست بازی کی ناگزیریت کا تصور موجود ہے۔ یہاں لیکن ایسا نہ ہوا۔

ایسے میں جب کہ حکومت کا چیف ایگزیکٹو اور دوسرے ذمہ داران اور افسران گو مگو کی کیفیت میں ہوں، عام شخص کے بھٹکنے کا امکان کہیں زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ عامۃ الناس کی مثال تو اُن پرندوں جیسی ہوتی ہے، جو بارشوں میں بھیگ کر ایک کونے میں دبک جاتے ہیں، اپنے بال و پر خشک ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔ ایسے میں انھیں کوئی بلی اُچک لے تو وہ کیا کر سکتے ہیں؟ یقیناً تحفظ کا ایک اندرونی نظام بھی ہوتا ہے، جو وقتاً فوقتاً احساس دلاتا ہے، جگاتا ہے اور ہوشیار کرتا ہے لیکن جب بینڈ ویگن کا نظریہ حاوی ہو جائے تو بہت سی باتیں جانتے بوجھتے بھی خاموشی سے برداشت کرنا پڑ جاتی ہیں۔ زیادہ تر واقعات میں ایسا ہی ہو رہا تھا۔ اُس نے کانفرنس میں شرکت کے بارے میں سوچنا شروع کیا جو دار الحکومت کے ایک پانچ ستارہ ہوٹل میں منعقد ہونی تھی۔

کانفرنس ہال میں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ معاملہ ہی ایسا تھا، ہر کوئی اس خطرناک وائرس سے متعلق بہت کچھ سمجھنا اور اس سے بچنا چاہتا تھا۔ اگرچہ یہ بات سب جانتے تھے، کہ کورونا وائرس میں بنیادی چیز احتیاط ہے۔ دوسروں سے ہاتھ ملانا، پُر ہجوم رہنا اور ایک دوسرے کی تھوتھنیوں سے قریب ہونا بجائے خود خطرناک تھا لیکن دانش وَروں نے مروج عادات کو تہذیب خیال کرتے ہوئے گرم جوشی کا مظاہرہ کیا۔ مصافحہ اور معانقہ ہی نہیں کیا، بعضوں نے تو منھ جوڑ کر چومنے کی بھونڈی رسم بھی ادا کی۔

کانفرنس کا چیئرمین نشست پر براجمان ہوا تو ساتھ ہی سیکرٹری نے گزشتہ اجلاس کے اہم نکات پڑھ کر سنائے، پھر رجسٹر چیئرمین کے دستخطوں کی خاطر پیش کیا گیا۔ چیئر مین ظاہری شباہت سے عجیب دکھائی دیتا تھا۔ درمیان سے سرمکمل طور پر گنجا اور سر کے اطراف میں سفید جھالریں جھول رہی تھیں۔ ٹیڑھی ناک پر عینک ایسے معلوم ہوتی تھی، جیسے گرنے کو ہو۔ سیکرٹری کا قدپست ہی نہیں کسی حد تک مضحکہ خیز بھی تھا۔ سامنے کے دو دانت ضرورت سے زیادہ نمایاں اور آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئیں۔ اجلاس کی کارروائی شروع ہوئی تو سیکرٹری نے ایجنڈا پیش کیا:

’’حاضرین! اس وقت سب سے اہم اور خطرناک معاملہ زیر بحث ہے، جسے کورونا وائرس کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یقیناً آپ سب لوگ بہتر طور پر آگاہ ہیں۔ آپ کی تجاویز قابلِ قدر ہوں گی اور انھیں حکامِ بالا تک پہنچایا جائے گا۔ امکان ہے، ہماری سفارشات قبول ہوں گی اور قوم اس اندوہ ناک حالت سے باہر نکل پائے گی۔‘‘

ناریل جیسے سر والے معزز دانش ور نے گفتگو کا آغاز کیا:

’’حکومت کا چیف ایگزیکٹو معاملے کی حساسیت سے ہی واقف نہیں، بلکہ نظامِ مملکت چلانے سے بھی نابلد ہے۔ دُنیا اذیت ناک صورتِ حال سے دوچار ہے مگر اس نے اپنے ملک میں وائرس کو پھیلنے دیا۔ کیا اسے یقین تھا، کہ یہ مرض محض اُنھی ممالک تک محدود رہے گا، جہاں بین الاقوامی میڈیا نشان دہی کر رہا تھا؟ یقیناً یہ مخبوط الحواسی ہے۔ ایسوں سے دانش مندی کی توقع عبث ہے۔‘‘

کبوتر کی آنکھوں والے نے اپنا نقطۂ نگاہ یوں پیش کیا:

’’در اصل چیف ایگزیکٹو کا ایک نوجوان دوست خاص مسلک سے تعلق رکھتا ہے، اُس نے زائرین کی واپسی کا انتظام کیا۔ دُنیا جانتی ہے، کہ ایران میں وائرس موجود تھا، خود غرضوں نے پوری قوم کو جہنم میں دھکیل دیا۔ اَب مسائل پر قابو پانا مشکل ہو گیا ہے اور یہ بھی امکان نہیں کہ ذمہ داروں کے خلاف کار روائی ہو گی۔ اگر ذہن میں یہ بات موجود ہو کہ عدالت عظمیٰ سے نا اہل قرار دیے جانے والے اب تک دسترخوان پر ایک ساتھ ہیں تو کسی اور کے خلاف تادیبی کار روائی کا کیا سوال؟‘‘

بلی کے پنجوں سے چھدے ہوئے چہرے والے نے اپنی معقولات پیش کیں:

’’آفات پر قابو پانا محض حکومت کا کام نہیں، پوری قوم جب تک ایک مٹھی ہو کر آگے نہیں بڑھے گی، یہ مصیبت نہیں جائے گی۔ مسلکی اور مذہبی منافرت کا موقع نہیں۔ وائرس محض زائرین کی وجہ سے نہیں پھیلا بلکہ تبلیغی جماعت کے اراکین بھی اس کا ایک بڑا سبب ہیں۔ یہ وائرس کی چلتی پھرتی فیکٹریاں ہیں۔ مسجدوں سے گھروں تک اور بازاروں سے دیہات تک۔ میرا خیال ہے، ہمیں باہمی الزامات سے بلند ہو کرسوچنا چاہیے۔‘‘

ریچھ جیسی تھوتھنی والے دانش ور نے وضاحت کی:

’’زائرین کے لیے صوبوں میں قرنطینہ سینٹرقائم ہیں۔ یہ خطرہ محدود کر دیا گیا ہے۔ اصل خطرہ اُن نو لاکھ لوگوں سے ہے، جو اٹلی، کینڈا، امریکا، انگلینڈ، جاپان، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین سے آئے ہیں۔ ان کا کھوج لگانا کارِ محال ہے اور لگا بھی لیا جائے تو انھوں نے مزید لاکھوں کو متاثر کر دیا ہے۔ یہ ایک سنگین صورتِ حال ہے۔ اس پر قابو پانا ممکن ہی نہیں۔‘‘

طوطے کی ناک والے ایک بوڑھے مندوب نے مداخلت کی:

’’جناب! بیرونِ ملک مقیم ہم وطن اربوں کا زرِ مبادلہ فراہم کرتے ہیں۔ گھر لوٹنا ان کا قانونی اور بنیادی حق ہے۔ اگر انھیں روک دیا جائے تو یقیناً انھیں روحانی صدمہ پہنچے گا اور پھر ہماری معیشت کا ایک اہم ستون تباہ ہو جائے گا۔ خیال کریں، ایسا ہوا تو ہماری حالت کیا ہو گی؟ جب کہ ہم پہلے ہی قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔‘‘

ایک اور منحنی دانش ور نے لقمہ دیا:

’’چیف ایگزیکٹو کا وہ مطالبہ خوش آئند ہے، جس میں اُنھوں نے کورونا وائرس کو بنیاد بنا کر عالمی بینکوں سے قرض معاف کرنے کی بات کی ہے۔‘‘

اُلو جیسی آنکھوں والے نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے واضح کیا:

’’عالمی بینکوں نے بلاسود قرض کا اعلان کر دیا ہے، اَب کورونا وائرس کی وبا پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ ویسے بھی قوم کے اندر جذبۂ ہمدردی موجود ہے۔ ہمارے سامنے ماضی کی مثالیں ہیں۔ سیلاب کے دنوں میں کس طرح قوم نے مدد کی، زلزلہ زدگان کی بحالی میں قوم کا کردار قابلِ رشک رہا ہے۔ اُمید ہے، حالات اچھے ہو جائیں گے۔‘‘

کانفرس کے سیکرٹری نے مداخلت کرتے ہوئے دانش وروں کو یاد دلایا کہ وہ ایک خاص موضوع پر گفتگو کے لیے موجود ہیں اور اصل معاملے سے ہٹ رہے ہیں۔

ایک دانش ور گویا ہوا:

’’جناب! عالمی سازش کو اس ضمن میں پیشِ نظر رکھیں۔ امریکا نہیں چاہتا، کہ چین سُپر پاور بن کر اُس کے مقابل کھڑا ہو جائے۔ یہ بات امکان سے خالی نہیں کہ کورونا وائرس امریکا کا تیار کردہ ہو اور اُسی نے چین میں پھیلایا ہو۔ چینی سائنس دان جوڑے کی حراست کا تذکرہ بھی تو ہو رہا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے، اُس جوڑے نے یہ وائرس چین کے دشمنوں کی ایما پر منتقل کیا۔‘‘

دوسرا دانش ور:

’’یہ خیال بھی تو ظاہر ہوا ہے، کہ وائرس اسرائیل نے بنایا ہے اور اس کی ویکسین بھی اس کے پاس موجود ہے۔ جب وائرس وبا کی صورت میں دنیا بھر میں پھیل جائے گا، تب یہ ویکسین مارکیٹ کی جائے گی۔ آپ لوگوں نے غور نہیں کیا، اسرائیل میں ایک مریض بھی نہیں اور ویکسین بھی وہی بنا رہا ہے۔ یہ تاجرانہ ذہنیت کی گہری سازش ہے۔‘‘

ایک اور دانش ور:

’’جناب! چمگادڑوں والی بات کیوں نظر انداز کر رہے ہیں؟ جب کہ ماضی میں اونٹوں، بلیوں اور چوہوں کے وسیلے سے بھی وائرس پھیلتے رہے ہیں، ممکن ہے یہ سچ ہو، کسی اور کی کوئی سازش نہ ہو۔‘‘

’’پھر تو آپ اُس انڈین جوتشی کی بات بھی تسلیم کر لیں گے، جس نے الزام لگایا ہے، کہ وائرس پاکستان سے پھیلا ہے۔ پاکستانی طویل عرصے تک گدھے کا گوشت کھاتے رہے ہیں۔ انھی کی وجہ سے چین میں وائرس پھیلا اور دُنیا متاثر ہوئی۔‘‘ ایک مندوب نے چیخ کر کہا۔

ایک اور دانش ور:

’’یہ تو انتہائی مضحکہ خیز اور بھونڈا مفروضہ ہے۔ اصل بات کچھ اور ہے۔‘‘

ناریل جیسے سر والا بولا:

’’جب بات خود پر آئے تو مضحکہ خیز ہو جاتی ہے۔ گدھے کھانے کی بات جھوٹ تو نہیں۔‘‘

قراقلی ٹوپی والے دانش ور نے کھنکھار کر گلا صاف کیا اور پھر کرخت لہجے میں بولا:

’’عالی مرتبت! ہم سبب اور مسبب کی بحث میں گھر کر اصل بات سے دُور ہو رہے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ قوم اس بات کو سمجھنے کے لیے تیار ہی نہیں کہ اسے ایک خطرناک صورت کا سامنا ہے۔ شہر میں آزادانہ آمد و رفت کا سلسلہ جاری ہے۔ لوگ گھروں میں بھی کوئی احتیاطی تدبیر اختیار کرنے کے لیے تیار دکھائی نہیں دیتے۔ بازاروں میں ہجوم اُسی طرح ہے۔ حکومت کوشش کر رہی ہے لیکن حالات مزید خراب ہو رہے ہیں۔ میرا خیال ہے حکومت کو سخت اقدامات کرنا ہوں گے۔‘‘

پینتالیس سالہ کلین شیو دانش ور گویا ہوا:

’’قوم کیا کرے؟ کچھ علما بتاتے ہیں، آفات کے دنوں میں اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ مساجدآباد کی جائیں۔ اجتماعی دعاؤں کے سلسلے قائم کیے جائیں۔ ایسے لوگ اپنے موقف کی تقویت کے لیے ایک حدیث کا مفہوم بیان کرتے ہیں، کہ: جس اللہ نے پہلے اونٹ کو خارش میں مبتلا کیا، وہی باقیوں کو کرتا ہے۔ وہ چاہے تو سب کو شفا دے۔ کچھ علما کہتے ہیں گھروں میں رہنا بہتر ہے۔ یہ لوگ اپنے موقف کی تقویت کے لیے وہ حدیث نقل کرتے ہیں، جس میں بتایا گیا ہے: کوڑھی شخص سے ایسے بھاگوجیسے شیرسے بھاگتے ہو۔ ایسے میں قوم کس کی بات کا یقین کرے؟‘‘

ایک اور دانش ور:

’’لاہور کا دلچسپ واقعہ مت بھولیے۔ ایک مولوی نے اپنے خطاب میں اعلان کیا کہ ’آج کی مجلس میں سے کوئی بھی معانقہ اور مصافحہ کیے بغیر نہیں جائے گا۔ اس وجہ سے اگر کسی کو وائرس چمٹ جائے تو مجھے شہر کے چوک میں کھڑا کر کے گولی مار دیں۔ ‘ ویڈیو وائرل ہو گئی اور دو دن بعد ایک اور ویڈیو میں اپنے جوشِ خطابت والے بیان سے رجوع کر رہا تھا۔ یقیناً کسی نے بٹن دبا دیا ہو گا۔ یہ لوگ خود ابہام کا شکار ہیں، انھیں سمجھ نہیں آ رہی کیا کریں اور کیا نہ کریں۔ بعضوں نے تو اپنے زیرِ اثر حلقوں میں یہ تک کہا کہ اُن کی مجالس روکنے کے لیے حکومت نے جان بوجھ کر کورونا وائرس کا پروپیگنڈہ پھیلایا۔ کسی کی موت واقع نہیں ہو گی۔ لوگ مجلسوں میں شریک ہوں۔‘‘

اُلو کی آنکھوں والے نے مداخلت کرتے ہوئے وضاحت کی:

’’ملک کے جید علما نے اس حوالے سے فتویٰ جاری کر دیا ہے۔ واضح طور پر بتا دیا گیا ہے کہ نمازیں گھروں میں ادا کی جائیں۔ البتہ کچھ لوگ مساجد کو بھی آباد رکھیں، اذان کہیں۔ جمعہ میں مختصر اجتماع بنائیں۔ وضو گھروں سے کر کے آئیں۔ کورونا وائرس سے مر جانے والوں کو نہلانا ضروری نہیں، تیمم کافی ہے۔ کفن کے لیے ایک کپڑا بھی بہت ہے۔ نماز جنازہ میں کم لوگ شریک ہوں۔ اگر میت کو سامنے رکھ کر جنازہ پڑھنا خطرناک ہو تو اُسے دفنانے کے بعد قبر کے سامنے نماز جنازہ پڑھ لی جائے۔ لوگ صفائی کا خیال رکھیں اور اللہ سے شرور کی پناہ مانگیں۔ میرا خیال ہے بڑی تعداد میں لوگ سمجھ رہے ہیں اور دوسروں کو سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘

ایک اور دانش ور:

’’آپ پمز کا واقعہ بھول رہے ہیں یا جان بوجھ کر نظر انداز کر رہے ہیں؟ کوروناوائرس سے متاثر زیرِ علاج دو مریض کس طرح غائب ہو گئے تھے۔ انتظامیہ کی دوڑیں لگ گئیں لیکن ڈیڑھ گھنٹا گزرنے کے بعد جب خود واپس آئے تو بتایا کہ وہ جمعہ کی ادائی کے لیے مسجد گئے تھے۔‘‘

اُلو کی آنکھ والا:

’’اکا دکا واقعات تو ہوں گے۔ ہمیں صرف کورونا وائرس کا سامنا نہیں، بلکہ جہالت بھی ایک مکروہ اور خطرناک حالت میں ہمارے سامنے ہے۔ اس کانفرنس کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ کس طرح ہم اس قوم کو اذیت ناک صورت حال سے نکال سکتے ہیں؟‘‘

بلی کے پنجوں سے چھدے ہوئے چہرے والا دانش ور:

’’ہمارے یہاں اس طبقے نے قوم کو خوب بے وقوف بنایا، جیسے کل ایک پیر کہہ رہا تھا: ’میں نے کورونا کا علاج دریافت کر لیا ہے۔ کبوتر کے پوٹے کی جھلی سے اس کا علاج ممکن ہے۔ میرا چیلنج ہے آزما کر دیکھ لیں۔‘‘

ایک اور دانش ور:

’’دلچسپ ہے۔ اس طرح کا علاج ہندو سادھوؤں نے بھی ایجاد کر لیا ہے۔ وہ علی الاعلان ’’گاؤ موتر‘‘ کو اس کا مجرب نسخہ بتاتے ہیں۔ وہاں تو ’’گاؤ موتر پارٹیاں‘‘ بھی ہو رہی ہیں۔ کچھ سادھوؤں نے اپنی حکومت کو مشورہ دیا ہے، کہ کورونا وائرس سے متاثر افراد کو دوا کی بجائے موتر پلایا جائے، فوراً افاقہ ہو گا۔ یہ عمل بلا تخصیص ہر مسافر کے ساتھ کیا جائے۔ سوچیے انڈین مسلمانوں کے ساتھ اگر ایسا ہوا تو ان کی حالت کیا ہو گی؟‘‘

کانفرنس کے چیئرمین نے بحث سمیٹتے ہوئے کہا:

’’عزیزانِ من! آپ کی قیمتی گفتگو کے منٹس بنا لیے گئے ہیں اور اب میری معروضات بھی پیش ہیں:

۱… اس وقت بنیادی مسئلہ آگاہی کا ہے۔ حکومت یہ کام بحسن و خوبی کر رہی ہے اور سوشل میڈیا پر بھی یہ کام اچھے طریقے سے ہو رہا ہے۔

۲… علاج اگرچہ دریافت نہیں ہوا لیکن احتیاطی تدابیر موجود ہیں اور ان پر عمل درآمد کے لیے حکومت کو اقدامات کرنے چاہییں۔

۳… تعلیمی اداروں کو اُس وقت تک بند رہنا چاہیے، جب تک حالات سازگار نہیں ہو جاتے۔ کیوں کہ جان ہے تو جہان ہے۔ زندہ رہنا جہالت اور ناخواندگی سے کہیں زیادہ اچھا ہے۔

۴…حکومت آبادیوں میں گشت بڑھائے اور لوگوں کو گھروں میں رہنے کا سختی سے پابند کرے۔

۵…غریبوں اور دہاڑی داروں کو اپنی بساط کے مطابق مدد فراہم کرے۔ ویسے یہ لوگ سخت جان ہوتے ہیں، اپنے مسائل خود حل کر لیتے ہیں۔

۶…کورونا وائرس کے لیے ایک فنڈ قائم کیا جائے۔ حکومت اپنی جماعت کے بنیادی اراکین کو با اختیار بنا کر ہدف دے کہ وہ پانچ سو روپیا فی گھر اکٹھا کریں۔

۷…چیف ایگزیکٹو ہر ممکن کوشش کر کے اپنا قرض معاف کرائیں اور ملنے والے قرض سے ملک بھر میں کوروناوائرس سے نبٹنے کے مراکز قائم کریں۔

۸… ہرسینٹر کی ذمہ داری ایک دانش ور کو دی جائے تاکہ انتظامات کو خوبی سے چلایا جا سکے۔

۹… متاثرہ ممالک کے تجربات سے بھی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے لیکن ہر ملک کے اپنے حالات ہوتے ہیں، اس لیے خود انحصاری بھی اچھا نسخہ ہے۔ جس طرح اٹلی کے لوگوں کو گھروں میں رہنے پر مجبور تو کیا گیا لیکن وہاں کی پولیس محلوں میں جا جا کر گٹار بجا کر اور گانے سنا کر اُن کا دل بہلاتی ہے، ہمارے یہاں مجبوراً ڈنڈا برسانا پڑتا ہے، کیوں کہ ہم مذہبی لوگ ہیں، گانا بجانا پسند نہیں کرتے۔ اس لیے اپنے ماحول کے مطابق حکمتِ عملی ناگزیر ہے۔

۱۰… ہم حکومت سے گزارش کریں گے، کہ ان سفارشات کو سرکاری خرچے پر شائع کرائے اور ہماری تنظیم کے لیے سیکرٹریٹ کی جگہ فراہم کرے، علاوہ ازیں ایک معقول فنڈ بھی مختص کرے، تاکہ ہم آسانی سے معاملات پر غور و خوض کر سکیں۔

اس کی ساتھ ہی میں تمام شرکا کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ خدا حافظ‘‘

کانفرنس کے سیکرٹری نے خطبہ صدارت مکمل ہونے کے بعد حاضرین کو کھانے کی دعوت دی، جس کا انتظام اُسی پانچ ستارہ ہوٹل میں کیا گیا تھا۔ سب لوگ کھانے پر ٹوٹ پڑے اور وہ اپنی نشست پر بیٹھا سوچتا رہا:

’’یہ وائرس اگر چمگادڑ سے پھیلا ہے تو اُس کا خاتمہ کیوں کر ممکن ہے؟ ہمارے یہاں اس پرندے کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ امید ہے دانش وراس مسئلے کے لیے بھی ایک کانفرنس بلائیں گے۔ اگر یہ وائرس از خود ختم ہو گیا تو پھر دانش ور کیا سوچیں گے؟ یہ نکتہ بہ ہر حال اسے ہراساں کر رہا تھا، کیوں کہ عظیم دانش وروں، اعلیٰ افسروں اور حکمرانوں کا کام سوچنا اور سمت نمائی کا فریضہ انجام دینا ہوتا ہے۔

عامۃ الناس بہ ہر حال ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔‘‘

٭٭٭









لیموں کا رَس



برفیلی رُت نے ہر شے کو ڈھانپ رکھا تھا۔ کوہستانوں پر ایستادہ برف کی چٹانیں اگرچہ معمول کے مطابق تھیں لیکن وادی اور شہری علاقوں میں سردی کی شدت پہلے کبھی اتنی نہ تھی۔ اب تو درختوں کی ٹہنیاں بلوریں معلوم ہوتی تھیں اور تو اور ہوا بھی برف کا لبادہ اوڑھ کر سفر کرتی نظر آتی تھی۔ ایسے میں جسموں کو چیرتا ہوا احساس روح تک کو چھلنی کر دیتا تھا۔

یہ ۲۷۔ دسمبر کی رات تھی۔ برفیلی ہوا دودھاری تلوار کی مانند ہر شے کو چیرتی چلی جا رہی تھی۔ حسین دوست کے چوبی مکان کی کمزور چھت پرکسی کے قدموں کی بھاری آہٹ سنائی دی تو وہ میاں بیوی اچانک جاگ گئے اور چلنے کی دھمک کا اندازہ کرنے لگے۔ عام دنوں میں ایسا نہیں ہوتا تھا، البتہ کبھی کبھار کوئی جانور جست بھر کر چھت پر آ جا تھا۔ کیوں کہ چھت سے متصل راستہ چھت کے قریباً برابر تھا۔ ایسے حالات میں گھر کے مکینوں میں سے کوئی اُس ٹل کو پیٹنا شروع کر دیتا تھا، جو اُنھوں نے باہر کھڑکی کے ساتھ لٹکا رکھا تھا۔ یوں جانورکسی دوسری طرف نکل جاتا۔ ایک تو سرد ترین رات اور اُس پر مسلسل آہٹ۔ پریشانی نے دونوں کے جسموں کو حرارت سے معمور کر دیا تھا۔ حسین دوست بہ ہر حال مرد تھا اور اُسے خطرات کے باوجود اپنی بیوی کے سامنے کمزوری دکھاتے ہوئے ہچکچاہٹ کا سامنا تھا۔ اگرچہ وہ خود بھی خوف میں مبتلا تھا لیکن بیوی کا وحشت زدہ چہرہ اُسے مزید متوحش کیے جا رہا تھا۔ اُس نے سرگوشی کرتے ہوئے مسرت سے کہا:

’’ٹل بجاؤں؟ ہو سکتا ہے کوئی جانور ہو۔‘‘

’’انسان ہوا تو کھلی کھڑکی دیکھ کر وار کر سکتا ہے۔‘‘

’’کچھ بھی ہو، اس اذیت میں تورات ویسے بھی نہیں گزاری جا سکتی۔‘‘

اُس نے پھٹا ہو الحاف ایک طرف سرکایا۔ بیوی کے ماتھے پربوسہ ثبت کیا۔ حسن دوست اور زینب کی جبینوں کو شفقتِ پدری سے چھُوا اور یک لخت زمین پر کُود گیا۔ کچی زمین کے فرش پر پیدا ہونے والی دھمک سے چھت پر قدموں کی آہٹ مزید تیز ہو گئی۔ اُس نے بیرونی بلب روشن کیا اور بیوی کے منع کرنے کے باوجود کمرے سے باہر آ گیا۔ چھت پر ایک بندوق بردار کھڑا تھا، جو سرسے پاؤں تک سیاہ بھجنگ کپڑوں میں لپٹا ہوا تھا۔ برفیلی ہواؤں نے اُس کے لباس اور جوتوں پر برف کی آڑھی ترچھی لکیریں کھینچ رکھی تھیں، جن سے وہ اور خوف ناک معلوم ہوتا تھا۔ حسین دوست نے ساری قوتیں مجتمع کر کے پوچھا:

’’کون ہیں آپ اور یہاں کیا کر رہے ہیں؟‘‘

’’میں محافظ ہوں، پڑوسی ملکوں میں کورونا وائرس سے وبا پھیل چکی ہے۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ ہمارے شہری اس وبا سے محفوظ رہیں۔ اس لیے باہرسے آنے والوں کو روکا جا رہا ہے۔‘‘

’’لیکن لوگ تو گاڑیوں اور جہازوں کے وسیلے سے آتے ہیں۔‘‘

’’بجا! مگر سرحدی علاقوں میں رہنے والے پیدل سفر کر سکتے ہیں۔‘‘

’’ہونہہہ ہہ ____ ہاں ہاں۔‘‘

’’آپ جا کر آرام سے سو جائیں۔‘‘

’’شکریہ ____ خدا حافظ۔‘‘

حسین دوست ایک نیم سرکاری ادارے میں چپراسی تھا۔ اُسے کورونا وائرس سے متعلق کچھ کچھ معلومات ضرور تھیں، وہ گاہے گاہے مسرت کو بتاتا رہا تھا، اس لیے وہ خوف زدہ اور متفکر ہونے کے باوجود کمرے میں چلا آیا مگر باہر کا بلب احتیاطاً روشن رہنے دیا، جسے بعد میں محافظ کے کہنے پر بند کرنا پڑا۔ نیند کہاں تھی، جو چلی آتی۔ دونوں میاں بیوی حیات و ممات کی کشمکش میں ایک دوسرے سے چپک گئے اور صبح کی اذان تک سانسوں اور سینوں کی حدت سے ایک دوسرے کا خوف کم کرنے کی کوشش میں مگن رہے۔ خوف نے اُنھیں ہر طرح کے احساس سے محروم کر رکھا تھا۔ کوئی معمولی سی چنگاری بھی تو نہ تھی، جو دھیان کو کسی اور طرف لے کر جاتی۔ اذان سنتے ہی دونوں نے بستر چھوڑا اور معمول کے مطابق صبح کی نماز ادا کی، تلاوت کی اور پھر مسرت نے ناشتا تیار کیا۔ حسین دوست باہر آیا، چھت پر کوئی موجود نہ تھا۔ وہ چوبی سیڑھی کے سہارے چھت پر آ گیا۔ برف کی ہلکی تہ میں جا بجا بوٹوں کے نشان واضح تھے۔ اُس نے آس پاس کی چھتوں پر نظر دوڑائی تو کچھ ایسا ہی منظر تھا۔ وادی میں اب بھی اکا دکا سیاہ پوش گشت کرتا دکھائی دے رہا تھا اور بعض مکانات کی چھتوں پر مکین بھی نظر آ رہے تھے۔ غالباً وہ بھی گزری رات کی وحشتوں کے نشانات دیکھ رہے تھے۔

ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر وقفے وقفے سے کورونا وائرس سے بچاؤ کی تدابیر نشر کی جانے لگیں۔ یہاں تک کہ موبائل فون کمپنیاں اور بعض حکومتی ادارے بھی موبائل فون پر حفاظتی پیغامات بھیجنے لگے۔ حکومت کی طرف سے ایک مشہور ڈاکٹر کا پیغام نشر کیا جاتا، جو ان الفاظ پر مشتمل تھا:

’’گھروں میں رہیں، کسی سے نہ ملیں، مصافحہ اور معانقہ سے باز رہیں۔ باہمی میل جول سے کورونا وائرس پھیلنے کا خطرہ ہے۔ یہ لاعلاج ہے۔ فاقوں میں کئی ہفتے زندہ رہا جا سکتا ہے مگر یہ وائرس فوراً موت کے منھ میں دھکیل دیتا ہے۔ بار بار ہاتھ منھ دھوئیں۔ وٹامن سی کی مقدار بڑھائیں۔‘‘

لوگوں کے لیے یہ نئی بات تھی، اس لیے شروع میں کسی نے زیادہ پروا نہ کی۔ حسین دوست بھی معمولاتِ زندگی میں مشغول رہا۔ وہ جانتا تھا، کہ بیوی بچوں کا پیٹ پالنا اُس کی ذمہ داری ہے۔ مجازی خدا محض ایک خطاب نہیں بلکہ مرد کو اپنی زندگی داؤ پر لگا کر زیرِ کفالت لوگوں کو پالنا پڑتا ہے۔ اُن کی ضرورتیں پوری کرنا اُس پر واجب ہوتا ہے۔ آفتیں ہوں، بلائیں ہوں، خطرات ہوں، آندھی طوفان ہوں یا سیلابی ریلوں کا عفریت، مرد ہر ایک کے سامنے سینہ سپر رہتا ہے۔ حسین دوست کیسے پشت دکھا سکتا تھا؟ وہ ضروریاتِ زندگی پوری کرتا رہا۔ دوسری جانب سرحدوں پر حفاظتی پہروں کے باوجود وائرس کی وبا ملک میں داخل ہو چکی تھی۔ پوری قوم میں خوف اور سراسیمگی انتہائی درجے کو پہنچی ہوئی تھی____ اس کے باوجود وہ اسی کوشش میں رہتا کہ مسرت، حسن دوست اور زینب پیٹ بھر کر کھائیں۔ پھر حکومتی اقدامات میں سختی آتی گئی۔

اگلے چند دنوں میں خوف بڑھا تو محافظوں کی تعداد بڑھی۔ اب اہل کار دن رات گشت اور لاؤڈ سپیکروں پر لوگوں کو گھروں میں رہنے کی ہدایت کرتے تھے۔ مسجدوں میں بھی منادی کرا دی گئی تھی۔ حکومت نے اعلان کر رکھا تھا، کہ کوئی شخص گھر سے باہر نہیں نکلے گا۔ بازار بند کرا دیے گئے، تعلیمی اداروں کو تالا لگا دیا گیا، حتیٰ کہ مسجدوں میں با جماعت نماز ادا کرنے سے بھی روک دیا گیا۔ پہلے پہل اشیائے ضروریہ خریدنے کے لیے کچھ رعایت مل جاتی تھی، پھر اتنی سختی کر دی گئی کہ کوئی گھر سے نکل نہیں پاتا تھا۔ ایک آدھ شخص نے اگر نکلنے کی کوشش کی بھی تو محافظوں نے ہوائی فائر کھول دیے، جو اس بات کا اعلان تھے، کہ دوبارہ سینے میں سے آر پار ہو جائیں گے۔ عجیب خوف ناک حالت تھی۔ لوگ اپنے ہی گھروں میں قیدی بن کر رہ گئے تھے۔

ایک چپراسی کی بساط ہی کیا ہوتی ہے، جو وہ اپنے گھر میں غلّہ کے ڈھیر لگا دیتا؟ پھر وادی میں ویسے ہی اشیا کی قلت رہتی تھی۔ گھر میں موجود ایندھن آہستہ آہستہ ختم ہوا جاتا تھا اور غذاؤں کی کمی بھی خطرے کی حد تک پہنچ رہی تھی۔ حسین دوست اپنی بیوی مسرت کے چہرے کی طرف دیکھتا، وہاں حزن اور تفکر کی اندوہ ناک بدلیاں منڈلاتی رہتی تھیں۔ اُس نے سوچا:

’’یہی چہرہ کبھی قندھاری سیب کی طرح دمکتا تھا۔ اُسے یاد آیا وہ پیار سے مسرت کو سُرخ انگارہ کہا کرتا تو اُس کا چہرہ مزید سرخ ہو جایا کرتا تھا۔‘‘

غربت اور زمانے کے حادثات نے اُس چہرے کی تمام رعنائی و تمکنت چھین لی تھی۔ برف پوش کوہستانوں میں زندگی بجائے خود ایک امتحان ہے اور پھر تنگ دستی کا عذاب تو جان لے کر چھوڑتا ہے۔ حسین دوست اور مسرت نے بہ ہر حال ایک ساتھ جینے کی قسم کھا رکھی تھی، اس عہد کا نتیجہ ہی تھا، کہ وہ ہر مشکل میں اُس کا ساتھ دیتے آئی تھی۔ وہ جانتی تھی، دُنیا میں اگر کوئی اُس کے لیے جان دے سکتا ہے تو وہ حسین دوست ہی ہے۔ اب تو منظر ہی اُلٹ چکا تھا۔ اس غیر یقینی کی صورت میں بھروسا اور یقین کتنی دیر سلامت رہ پاتے ہیں؟ کچھ بھی تو واضح نہ تھا۔ کرفیو جیسی صورت حال میں زندگی گزارنا بجائے خود اذیت ناک ہوتا ہے۔ ملنا ملانا تو ایک طرف، سانس کی ناؤ کھینے کا جتن بھی محض فضول دکھائی دیتا ہے۔ پھر قحط جیسے حالات کا تسلسل____!

پہلے پہل تو حکومت کی جانب سے غریب گھروں میں تھوڑا بہت غلّہ دیا گیا، جب وبا نے طول پکڑا تو حکومت نے لوگوں کو اُن کے حال پر چھوڑ دیا۔ اگرچہ حسین دوست کی تنخواہ روک دی گئی تھی لیکن اُسے باہر جانے کی اجازت مل جاتی تو وہ پہاڑوں کے سینوں سے رزق کھود نکالتا۔ گھر میں فاقوں کا بسیرا ہوا۔ حسن دوست اور زینب کا چہرہ مرجھائے ہوئے پھولوں کی مانند ہو گیا۔ سرخ قندھاری سیبوں کو شرماتا ہوا مکھڑا بھی سڑے ہوئے پھل جیسا تھا۔ خود حسین دوست کی حالت بھی ناقابلِ بیان تھی____ تب ایک رات اُس نے رزق کی تلاش میں نکلنے کا فیصلہ کیا۔ ایک پڑوسی نے اپنا پیٹ کاٹ کر اُس کی طرف بسکٹوں کا ایک پیکٹ اور لیموں کے رَس کی ایک بوتل اُچھال دی۔ تشکر کے جذبے سے مملو روتی آنکھوں نے پڑوسی کا شکریہ ادا کیا۔

’’لیموں وٹامن سی کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے۔ اُمید ہے، چند روز تک وبا کا زور ٹوٹ جائے اور پہروں میں بھی کمی ہو، تب تک لیموں کی یہ بوتل میرے کنبے کو کورونا وائرس کے خلاف تحفظ فراہم کرے گی۔‘‘ اُس نے سوچا اور گھرکی طرف پلٹ آیا۔

ٹیلی ویژن اور ریڈیو کی بار بار نشریات سے وہ یہ ضرور جان اور سمجھ چکا تھا، کہ اَب اُسے بہ ہر حال اپنوں سے دُور رہنا ہے۔ ہو سکتا ہے وائرس اُس کے جسم میں سرایت کر چکا ہو۔ چناں چہ اُس نے باہر کھڑکی سے ہی مسرت کو پکارا اور ہدایات دیں:

’’لیموں کی بوتل اور بسکٹوں کو صبح سے پہلے ہاتھ نہیں لگانا، تب تک بارہ گھنٹے گزر چکے ہوں گے اور وائرس اگر ہوا بھی تو ختم ہو چکا ہو گا۔ لیموں کے چند قطرے روزانہ استعمال کرنے سے تمھاری قوتِ مدافعت مضبوط ہو گی۔ تم، حسن اور زینب یہ لیموں کا رس با قاعدگی سے پانی میں ملا کر پیتے رہنا اور ٹیلی ویژن پر آنے والے ڈاکٹر کی ہدایت پر بھی عمل کرنا۔ یہ تمھاری زندگیوں کے لیے بہت ضروری ہے۔ لیموں کی ایک بوتل میرے پاس بھی ہے۔ میں مہمان خانے میں رہوں گا۔ کم از کم دو ہفتے مجھے اکیلے رہنا ضروری ہے۔ میری فکر نہ کرنا۔‘‘

مسرت کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگ گیا اور دونوں بچے خاموشی سے والدین کو تکتے رہے۔

ہفتہ بھر بعد کوئی ضرورت کا مارا حسین دوست کے گھر کی طرف آ نکلا۔ اُس نے دیکھا مہمان خانے میں حسین دوست مردہ پڑا ہے۔ وائرس کے اثرات ظاہر ہونے سے پہلے ہی بھوک کی شدت نے اُس کی جان لے لی تھی۔

لیموں کے رَس کی اکلوتی بوتل وہ زیرِ کفالت انسانوں کی بجائے اپنی زندگی پر کیسے خرچ سکتا تھا؟

٭٭٭







لوبھ



چوک میں دُور دُور تک کوئی دکھائی نہیں دیتا تھا۔ وہ اپنی ڈبل کیبن گاڑی میں بیٹھی اِدھر اُدھر یوں نظریں دوڑا رہی تھی، جیسے اُس کا کوئی بہت ہی عزیز کھو گیا ہو۔ اُس کے چہرے پر ایک انجانا احساس تھا۔ ایسا احساس، جس میں جستجو اور حزن یکجا ہو جایا کرتے ہیں۔ اُس نے ڈرائیور کو ملائم لہجے میں ہدایت دیتے ہوئے کہا:

’’آہستگی سے آگے بڑھتے رہو اور دونوں جانب دیکھتے جاؤ۔‘‘

دراز قد، سرخ و سپید رنگت، جسے دیکھنے سے کبھی یوں احساس ہوتا کہ اچانک لہو کی کچھ بوندیں جلد سے نکل کر چہرے پر پھیل جائیں گی۔ متناسب ڈیل ڈول اور پھر بے انتہا خوب صورتی کے ساتھ ایسا تہذیبی رکھ رکھاؤ کہ دیکھنے والے قدرت کی اس فیاضی پر رشک کرتے رہ جائیں۔ ایسی ملوک اور مہذب شخصیت خال خال نظر آتی ہے۔

ڈرائیور اپنی مالکن کے تاثرات جاننے کے لیے تھوڑی تھوڑی دیر بعد آئینے میں سے جھانک لیتا تھا۔ چیونٹی کی چال چلتے بہت دیر ہو چکی تھی اور انھیں مطلوبہ ہدف تک رسائی ممکن نہیں ہو رہی تھی۔ مطلوبہ چوک کب کا پیچھے رہ چکا تھا۔ وہ آگے نکلتے گئے، اچانک اُن کی نظریں ایک بند ہوٹل کے چھجے تلے بیٹھے دو بوڑھوں پر پڑیں۔ اُس نے بے تابی کے ساتھ ڈرائیور سے کہا:

’’روکو ___روکو، ان کے سامنے روک دو۔‘‘

’’جی میڈم‘‘ کہتے ہوئے ڈرائیور نے گاڑی ہوٹل کے سامنے روک دی۔

میڈم نے گاڑی کا شیشہ نیچے کر کے دونوں بزرگوں کو اپنی طرف اشارے سے بلایا۔ غربت اور افلاس اُن کے چہروں سے ٹپکتی تھی۔ ایک کے ہاتھ میں رنگ کرنے والا برش پکڑا ہوا تھا۔ وہ اپنے کپڑوں سے رنگساز معلوم ہوتا تھا۔ اس وضع کے لوگ عموماً شہر کے چوکوں پر دکھائی دیتے ہیں۔ یہ لوگ عمارتوں میں رنگ روغن کر کے دہاڑی لیتے اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں۔ دوسرے بزرگ کے ہاتھ میں تیشہ اور کرنڈی تھی۔ اگرچہ اُس نے نسبتاً صاف کپڑے پہن رکھے تھے لیکن اُس کے چہرے کے خط و خال سے مفلوک الحالی اور بے چارگی عیاں تھی۔ اچھا راج کہاں بے کار رہتا ہے؟ ٹھیکیدار اسے ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں لیکن جو اپنی توانائیاں کھو دے اور اونچی عمارتوں پر چڑھنا جس کے لیے مشکل ہو جائے، اُسے کوئی اپنے کام پر نہیں لے کر جاتا۔ چناں چہ اس کے لیے بہترین جگہ اس طرح کے چوک ہی ہوتے ہیں۔ ایسے راج چوکوں میں بیٹھ جاتے ہیں۔ جس نے تھوڑا بہت کام کرانا ہوتا ہے، جیسے گٹر کی مرمت، بالکونی کی کھسکی ہوئی اینٹوں کی بحالی یا پھر ٹوٹے ہوئے فرش کی مرمت وغیرہ۔ تو پھر ان راجوں کی دہاڑ بن جاتی ہے، ورنہ چوک میں بیٹھ بیٹھ کر ناکام گھروں کو پلٹ جاتے ہیں۔

میڈم نے دونوں کو مخاطب کر کے پوچھا:

’’کتنے دنوں سے کام پر نہیں گئے؟‘‘

’’بیس دن ہو گئے ہیں بی بی صاحبہ‘‘ دونوں نے بیک وقت جواب دیا۔

میڈم نے غور کیا تو دونوں کی آنکھوں میں عجیب سی بے بسی اور معصومیت کی بے تاب لہریں رقص کناں تھیں۔ وہ دیکھ کر تڑپ اُٹھی۔

ایسے گھرانے، جن کی گزر اوقات دہاڑی پر ہو، اگر وہ بیس بیس دن یوں بے کار رہیں گے تو اُن میں فاقوں کے دیو پنجے گاڑھ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ بھوک کی شدت اپنی جگہ، بیماروں اور بچوں کی ضروریات پوری کرنا بھی نا ممکن ہو جاتا ہے۔ مکان کا کرایہ، یوٹیلٹی بلوں کا بوجھ اور ناقابلِ یقین صورت حال انھیں مار ڈالتی ہے۔ یہی وہ احساسات تھے، جنھوں نے میڈم کو گھر سے نکلنے پر مجبور کیا تھا۔ در اصل کچھ دنوں سے سوشل میڈیا پر کئی ایسے ویڈیو کلپ پھیلے ہوئے تھے، جن میں مفلوک الحال لوگوں کی مدد کی تحریک دی جا رہی تھی۔ اُس نے ایک ویڈیو دیکھی تھی، جس میں راشن کے تھیلوں سے بھری ہوئی ایک جیپ، جس کا ڈرائیور ٹھیلے والوں، سائیکل والوں، مزدوروں، بھکاریوں یا پھر پیدل چلنے والے بزرگوں اور بچوں کو دیکھتا ہے تو جیپ کی رفتار آہستہ کر کے اُن میں راشن کے تھیلے بانٹتا جاتا ہے۔ نہ جیپ کی شناخت ہوتی ہے اور نہ لینے والوں کی۔ اُسے یہ انداز اچھا لگا تھا۔ تب اُس نے سوچا، وہ بھی ایسے ہی انداز سے لوگوں کی مدد کرے گی۔

اگرچہ کئی فلاحی اور سیاسی تنظیمیں کام کرتی ہیں۔ وہ اگر دو کلو چینی بھی کسی کو فراہم کرتی ہیں تو لینے والے کے ساتھ تصویر بنا کر اُسے عام کرنا ضروری خیال کرتی ہیں۔ ایسی تنظیمیں اور لوگ بھول جاتے ہیں، کہ اس طرح وہ مجبور خاندانوں کی عزتِ نفس پر حملہ آور ہوتے ہیں اور اُنھیں معاشرے میں منھ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑتے۔ اس طرح کے صدقات و خیرات محض دکھاوے کے زمرے میں آتے ہیں۔ خالق کی رضا تو اُس میں ہے، کہ دینے والے ہاتھ سے دوسرا ہاتھ بے خبر رہے۔ وہ بھی یہی چاہتی تھی، کہ دوسرا ہاتھ بے خبر رہے۔ اُس کے لیے وہ ویڈیو تکلیف کا سبب بنی تھی، جس میں ایک غریب شخص تین کلو آٹا، آدھا کلو چینی اور ایک پاؤ گھی کا پیکٹ اُٹھائے کہ رہا تھا:

’’حکومت نے میری یہ مدد کی ہے، دیکھو لو۔ میں صبح سے قطار میں کھڑا تھا۔ یہ راشن تو ایک دن میں ختم ہو جائے گا۔ کیا کل پھر مجھے بھکاریوں کی طرح یہاں آنا پڑے گا؟‘‘

میڈم نے اُن مزدوروں کی مدد کے لیے اپنا پرس کھولا، دو منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ اُس کی گاڑی چاروں طرف سے گھِر گئی۔ بیسیوں لوگ اچانک کہیں سے نکل آئے۔ یہ سب اسی قبیلے کے لوگ تھے۔ کسی کے ہاتھ میں تیشہ پکڑا ہوا تو کسی کے ہاتھ میں برش، کوئی کدال پکڑے کھڑا تھا تو کوئی بیلچہ لیے۔ اُس کے لیے یہ منظر انتہائی تکلیف دہ تھا۔ بے کسوں اور بے بسوں کا ہجوم دیکھ کر اُس کے اوسان خطا ہو گئے۔ اتنی غربت اور بے چارگی کا تصور بھی اُس کے لیے محال تھا۔ وہ یہ سوچنے پر مجبور تھی، کہ ریاست غریبوں کی مدد کرنے سے قاصر ہے۔ ریاستی ادارے پوری طرح نا اہل ثابت ہو چکے تھے۔ افسروں اور اہل کاروں کی ہڈ حرامیاں اس ایک واقعے سے عیاں تھیں۔

یہ غریب لوگ پولیس کے خوف کے باعث دُور دُور چھپ کر بیٹھے تھے، کہ مبادا ٹولیوں میں بیٹھنے کے جرم میں پکڑے جائیں اور پولیس والوں کے ڈنڈے کھائیں یا پھر حوالاتوں میں بھرے جائیں۔ اب البتہ اُمید کی ڈور انھیں کھینچ کر گاڑی تک لے آئی تھی۔

میڈم نے بٹوے سے رقم نکال کر بانٹنا شروع کی ہی تھی، کہ اُسے اپنے طرز کی ناکامی کا احساس ہوا۔ مزدوروں نے چھینا جھپٹی شروع کر دی۔ کئی باراُس کی نازک کلائیوں پر سخت اور کھردرے ہاتھوں کی تلخی اُتری۔ ایک موقع پر تو تین لوگوں نے یکبارگی اُس کے ہاتھ کو ہی پکڑ لیا، جسے چھڑانا بہت مشکل ہو رہا تھا۔ اُس نے فوراً گاڑی کے شیشے اُوپر کیے اور ڈرائیور کو نکل جانے کا حکم دیا۔ یہ لیکن آسان نہ تھا۔

مزدوروں نے گاڑی کو چاروں طرف سے گھیر رکھا تھا اور وہ کسی بھی طرح پیچھے ہٹنے کو تیار نہ تھے۔ ایک شخص نے ہتھوڑے والے شخص سے کہا:

’’شیشے پر ہتھوڑا مارو، جلدی توڑو۔‘‘

یہ سن لینے کے بعد جواز باقی نہ رہا تھا، کہ وہاں مزید ٹھہرا جاتا۔ اب مدد کی بجائے خوف کا احساس غالب ہونے لگا تھا۔ میڈم نے کئی بار یہ جملہ دُہرایا:

’’ڈرائیور! جلدی نکلو یہاں سے، نکلو جلدی۔‘‘

ڈرائیور نے وہاں سے مشکلوں کے ساتھ گاڑی نکالی۔

ملوک چہرہ دُکھوں سے اَٹ چکا تھا۔ آنکھوں میں نہ رُکنے والے آنسوؤں کا ذخیرہ اُتر آیا تھا۔ نہیں معلوم کتنے زمانوں سے وہ آنکھیں نہ روئی تھیں۔ آج شاید پہلی بار اُن میں سیلاب یوں بپھرا تھا، کہ جیسے کبھی قرار نہ پائے گا۔ اُس نے بھی بپھرنے دیا، بڑھنے دیا، بڑھنے دیا۔ پھر بے ساختہ اُس کی زبان پر رواں ہوا:

’’اُف میرے خدا! اتنی غربت؟ میں تصور بھی نہ کر سکتی تھی، کہ لوگ اتنے سنگین حالات میں جیتے ہیں۔ یہ تڑپتی، کُرلاتی اور بین کرتی زندگی مجھے کبھی چین سے سونے نہ دی گی۔‘‘

آج پہلی باراُسے اپنے شوہر کی پانچ گاڑیاں، چھے کمرشل پلاٹ، دو بنگلے اور کروڑوں روپے، راکھ کا ڈھیر معلوم ہوئے تھے اور وہ خود کو دُنیا کی غریب ترین مخلوق خیال کر رہی تھی۔

٭٭٭







مسیحا



اٹھارہ گھنٹے مسلسل ڈیوٹی کے بعد وہ کچھ دیر سستانا چاہتا تھا۔ جب وہ کام پر پہنچا تھا، اُس وقت صبح کے نو بجے چکے تھے اور اَب رات کے تین بج رہے تھے۔ ڈیوٹی پر آنے سے قبل اُس نے صبح کی نماز ادا کی تھی اور پھر تلاوت کرنے کے بعد کچھ دیر کے لیے گھر کے صحن میں چہل قدمی بھی کر آیا تھا۔ یوں اُسے جاگے ہوئے بائیس گھنٹے سے زیادہ کا وقت ہو چکا تھا۔ انسانی بدن بہ ہر حال تھک بھی جاتا ہے۔ وہ یہی چاہ رہا تھا، کہ کسی طرح نماز کے وقت تک آرام کر لے، اُس کے بعد گھر چلا جائے گا۔ ابھی اُس نے کمر سیدھی بھی نہ کی تھی، کہ اُسے باہر شور سنائی دیا۔ اُس نے سوناچاہا لیکن شور بڑھتا گیا۔ آوازیں اُس کے کمرے کے قریب آتی گئیں، یہاں تک کہ اُس کے دروازے کے سامنے ایک شخص نے چلانا شروع کر دیا۔ وہ اپنی جگہ سے اُٹھا اور باہر نکل آیا۔ ایک مناسب حلیے والا شخص میڈیکل اسٹاف سے اُلجھتے ہوئے مسلسل بول رہا تھا:

’’تم لوگ کوئی احسان نہیں کر رہے، اپنی مرضی سے پیشہ اختیار کیا ہے، اگر کام کرنے کی ہمت نہیں تھی تو اِس پیشے سے وابستہ کیوں ہوئے؟ کیوں اپنا حلف بھولتے جا رہے ہو؟ ایک انسان کی جان کا سوال ہے اور تم لوگ کہتے ہو، ڈاکٹر صاحب آرام کر رہے ہیں۔‘‘

’’اپنا مسئلہ بتائیں۔‘‘ اُس نے آہستگی سے چیخنے والے شخص کو مخاطب کیا۔

’’میرا بیٹا بخار سے تڑپ رہا ہے۔ آپ میرے ساتھ اُسے دیکھنے چلیں۔‘‘

’’آپ بچے کو یہاں لے کیوں نہیں آئے؟‘‘

’’ایک تو رات بہت گہری ہو چکی ہے اور دوسری بات یہ کہ وبا کے باعث اسپتال کے ماحول سے وحشت ہوتی ہے۔‘‘

’’رات کی حد تک تو بات ٹھیک ہے لیکن اسپتال سے وحشت ناقابلِ جواز ہے۔‘‘

’’رنگارنگ لوگ آتے ہیں یہاں، نہیں معلوم کن کن بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں۔ مفت میں میرا خاندان اُلجھ جائے ان بیماریوں سے؟ احتیاط ضروری ہے۔‘‘

’’اسپتال میں تو ہم بھی موجود ہیں، جنھیں آپ گھر لے جانا چاہتے ہیں۔‘‘

’’میں بحث نہیں چاہتا، بہ ہر حال آپ کو چلنا چاہیے۔ میرے بیٹے کی حالت اچھی نہیں۔‘‘

تھکن کے باعث ڈاکٹر سرگانہ کی حالت پہلے ہی کچھ اچھی نہ تھی، اس پر آنے والے شخص کی بد مزاجی نے مزید اُکتاہٹ پیدا کر دی۔ اُس نے پہلے توسوچا کہ شاخِ زعفران کا سارا نشہ جھٹک دے، پھر کچھ سوچ کرفرسٹ ایڈ باکس اور چند دوسری ضروری اشیا لیں اور چل پڑا۔

شہر کے پوش ایریا کے ایک عالی شان گھر کے سامنے گاڑی رُکی۔ ہارن بجا اور گارڈ نے گیٹ کھول دیا۔ کنالوں پر محیط اس گھرکے ہر حصے کو بیسیوں بلبوں سے روشن کیا گیا تھا۔ ہال میں ایک بڑا سا فانوس جھول رہا تھا۔ دیواروں پر کئی طرح کی پینٹنگز آویزاں تھی۔ وسط میں رکھے شیشے کی میز پر پڑے گلدان میں سجائے گئے پھول مرجھا کر جھک چکے تھے۔ میز کی تین اطراف میں بچھے صوفوں میں سے ایک پر ڈاکٹر بیٹھ گیا۔ تھکن اُس کے انگ انگ میں اُتری ہوئی تھی۔ اچانک اُس کی نظر سامنے دیوار پر ٹنگی ایک بہت بڑی پینٹنگ پر پڑی۔

شیر ایک ہرن پر جھپٹ رہا تھا اور ہرن جان بچانے کی ناکام کوشش میں مگن تھا، ہرن کی گردن سے لہو ٹپک کر شیر کی تھوتھنی کو سُرخ کر چکا تھا، آس پاس کھڑے ہرن متعجب یا کسی قدر ہراساں نگاہوں کے ساتھ اس منظر کو دیکھ رہے تھے لیکن ان میں سے کوئی بھی اپنے ساتھی کی مدد کے لیے تیار نہ تھا۔ ڈاکٹر نے اس منظر کو توجہ سے دیکھا اور پھر ملال سے سوچا:

’’وبا، اس شیر کی مانند ہے، جو ایک ہرن کو نشانہ بناتا ہے۔ باقی ہرن مدافعت یا مزاحمت کی بجائے خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتے ہیں، تا وقتے کہ خود شکار نہیں ہو جاتے۔‘‘

چوبِ اخروٹ سے بنے گاڑی نما چھوٹے سے پلنگ کو دھکیلتا ہوا وہ شخص ہال میں داخل ہوا۔ چھے سات سال کا ایک بچہ نہایت اُجلے سفید کپڑوں میں لپٹا ہوا۔ چہرہ انتہائی سُرخ اور بال عمر سے زیادہ بڑے سیاہ اور خوب صورت۔ اُس کی ہچکی بندھی ہوئی تھی۔ ڈاکٹر نے جانچ کی تو اندازہ ہوا کہ بچہ شدید بخار میں مبتلا ہے۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد خشک کھانسی کھانستا ہے۔ اُس کے ناک سے ہلکاسبز مادہ مسلسل بہ رہا تھا۔ ڈاکٹر نے دو قسم کی گولیاں کھانے کے لیے دیں اور کچھ دوسری ادویات لکھ کر اُس شخص کے حوالے کرتے ہوئے مشورہ دیا:

’’بچے کے مکمل ٹیسٹ کرا لیے جائیں تو زیادہ بہتر ہو گا۔ یہ دوا عارضی آرام کے لیے ہے۔‘‘

’’بہتر، چلیں میں آپ کو چھوڑ آؤں۔‘‘

مشکل سے ایک گھنٹا گزرا ہو گا مگر جب ڈاکٹر اسپتال پہنچا تو عملے نے کچھ مریضوں کی تشویش ناک حالت سے اُسے آگاہ کیا۔ اگرچہ عملے نے اپنے تئیں معاملہ سنبھالنے کی کوشش کی تھی لیکن مریض مطمئن نہیں ہو رہے تھے۔ مجبوراً اُن سب کو دیکھنا ضروری تھا۔ اس جانچ کے دوران ہی مؤذن کی آواز گونجی:

’’آؤ فلاح کی طرف، آؤ فلاح کی طرف۔‘‘

وہ اپنے کمرے میں آیا، وضو کیا، نماز ادا کی اور پھر سستانے کے لیے کرسی پر ہی دراز ہو گیا۔ نیند کا خمار پوری طرح اُس پر حاوی ہو چکا تھا۔ اس کے باوجود اُس کا دماغ جاگ رہا تھا۔ اُس کے دھیان میں کئی لوگ آئے، جنھوں نے انسانیت کی فلاح کے لیے اپنی جانوں کی پروا نہ کی تھی۔ اُس کی بند آنکھوں میں ایک ایک منظر روشن ہوتا گیا:

ایک بڑھیا اُن مریضوں کی دیکھ بھال کر رہی تھی، جنھیں جذام نے آ لیا تھا اور وہ اپنی زندگی کی سانسیں گن رہے تھے۔ بڑھیا ایک ایک کے پاس جا کر اُن کے ماتھے پربوسہ دیتی اور پھر اپنے ہاتھوں سے مختلف قسم کی ادویات اُن کے کوڑھی جسموں پر ملتی۔

دوسرے منظر میں ایک بوڑھا شخص اُن لاشوں کو نہلا رہا تھا، جنھیں کوئی کوڑے کے ڈھیروں پر پھینک جاتا تھا۔ وہ ایک ایک لاش کو نہلاتا جاتا اور پھرسفیدبراق جیسے شفاف کفن میں لپیٹ کر اپنے ساتھیوں کو دفنانے کا حکم دیتا۔

تیسرے منظر میں ایک نوجوان نرس ایک بوڑھے مریض کے زخموں پر پٹی باندھ رہی تھی۔ زخموں میں کیڑے پڑ چکے تھے اور اُن کی بدبو نتھنوں کو چیرتی تھی۔ نوجوان نرس بغیر کسی ہچکچاہٹ اور تردد کے اپنی ذمہ داری نبھا رہی تھی۔ یہ جاں گسل کام سرانجام دیتے ہوئے وہ بوڑھے کی دل جوئی کے لیے مسلسل مسکرا کر باتیں بھی کیے جا رہی تھی۔

کچھ اور منظر بھی تھے، جو اُس کی نگاہوں میں لہرائے، اسی دوران اُس کی آنکھ لگ گئی۔ کچھ ہی دیر بعد ایک نرس نے آ کر اُسے پھر جگاتے ہوئے کہا:

’’سر! مریض کے منھ اور کان سے خون بہ رہا ہے اور وہ کسی بھی طرح سنبھل نہیں رہا۔‘‘

’’اچھا! آؤ دیکھتے ہیں۔‘‘وہ کہ کرنرس کے ساتھ ہی وارڈ میں آ گیا۔

مریض کی اچھی طرح جانچ کی گئی۔ ڈاکٹر خود بار بار اُس کا چہرہ صاف کر رہا تھا۔ فوری طور پراُسے کچھ انجکشن لگائے گئے۔ پھر بھی اُس کی حالت غیر ہو رہی تھی۔ ڈاکٹر نیم غنودگی کے عالم میں اس کے ساتھ مصروف تھا۔ اسی اثنا میں مریض نے اپنے کپڑے بھی خراب کر لیے۔ بدبو اور تعفن سے پورا وارڈ گھٹن کا شکار ہو رہا تھا مگر ڈاکٹر اور نرس خوش دلی کے ساتھ اپنے مریض کی جان بچانے میں مشغول رہے۔ مسلسل کوششوں کے بعد کہیں جا کر خون رُکا۔ ڈاکٹر نے اپنی گھڑی پر نگاہ جمائی تو صبح کے ساڑھے آٹھ بج رہے تھے۔ وہ اپنے کمرے میں گیا۔ گھر جانے کے لیے تیاری کر رہا تھا، کہ اُس کے ساتھی ڈاکٹر کا فون آ گیا:

’’میری بیگم کو لیبر روم جانا پڑ گ یا ہے۔ میں اس وقت میٹرنٹی سینٹر میں ہوں۔ پلیز آج آپ ڈیوٹی کر لیں۔ بہت شکریہ۔ فی امان اللہ۔‘‘

دن بھر مریضوں کا تانتا بندھا رہا۔ وہ مریض بھی اُس نے دیکھے جو پہلے سے موجود تھے اور وہ بھی، جنھیں وبا کی وجہ سے اسپتال لایا جا رہا تھا۔ وہ جانتا تھا، کہ یہ خطرناک وبا جان لیوا ہے لیکن مناسب سہولیات نہ ہونے کے باوجود وہ ہر ایک کی اچھی طرح جانچ کر رہا تھا اور پوری لگن کے ساتھ اُن کے لیے ادویات بھی تجویز کرتا جاتا تھا۔ شام تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ اَب اُس کے جسم میں معمولی سکت بھی نہ رہی تھی۔ اُس نے ایک میل نرس سے کہا کہ اُسے گھر چھوڑ آئے۔

دو دن مسلسل غیر حاضر رہنے پرساتھی ڈاکٹر نے فون کیا مگر بند ملا، بیوی کا نمبر مل گیا:

’’میں ڈاکٹر رانجھا بات کر رہا ہوں، پلیز ڈاکٹرسرگانہ سے بات کرا دیں۔‘‘

’’ڈاکٹر صاحب! اِن کی حالت بہت خراب ہے۔ دو دن سے بخار میں تپ رہے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر سرگانہ کی بیگم نے جواب دیا۔ کچھ اور باتیں بھی ہوئیں اور پھر فون کٹ گیا۔

کورونا ٹیسٹ کی رپورٹس مثبت آنے کے بعد ڈاکٹر سرگانہ کو قرنطینہ سینٹر میں دوسرے مریضوں کے ساتھ منتقل کیا جا چکا تھا۔

٭٭٭









مصنوعی ٹانگ



’’ان گرمیوں میں ضرور مصنوعی ٹانگ لگا لوں گا۔‘‘

سفیر اختر نے فیصلہ کن انداز میں سوچا اور گنے ہوئے نوٹوں کو ایک طرف رکھ دیا۔ ڈاکٹر کی بتائی ہوئی رقم میں سے صرف پانچ ہزار روپے کم تھے۔ اُسے پورا یقین تھا، کہ دو ماہ کے اندر وہ اتنی رقم ضرور بچا لے گا، جس سے اُس کی معذوری کم ہو جائے گی اور دیرینہ خواہش بھی پوری ہو جائے گی۔

بیساکھیوں کے سہارے جینے سے وہ اُکتا چکا تھا۔ اُس کی بغلوں میں گٹے پڑ چکے تھے۔ اکلوتی ٹانگ کو وہ جب گھسیٹتا تو کولہوں سے اُوپری ہڈی اُس کی پسلیوں میں کھب سی جاتی اور یوں چلنے میں جہاں اُسے دشواری ہوتی، وہاں ایک تڑپا دینے والا درد بھی چھوڑ جاتی۔

ایک حادثے میں اُس کی ٹانگ ضائع کیا ہوئی، گویا اُس کی زندگی کا سفر ہی رُک گیا۔ اُن دنوں میں وہ تھرڈ ائیر کا طالب علم تھا، جب ایک تیز رفتار گاڑی نے اُسے کچل دیا تھا۔ ڈاکٹروں کا کہنا تھا: ’اگر ٹانگ نہ کاٹتے تو زندگی جا سکتی تھی۔ ‘ بہ ظاہر زندگی بچ گئی تھی لیکن سفیر اختر کے قریب زندگی عذاب بن چکی تھی۔ سب سے پہلاغم اُسے یہ ملا کہ وہ چلتا پھرتا بسترپر پڑ گیا۔ دوسرا غم تو جیسے اُس کی زندگی چھن جانے سے بھی زیادہ تکلیف دہ تھا اور وہ تھا شہلا کا اُسے چھوڑ جانا۔ جس لڑکی کو وہ جی جان سے چاہتا تھا اور جس کے لیے وہ بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لیے تیار تھا، اُس نے یہ کہ کر رشتہ ختم کر دیا تھا کہ:

’’معذور شخص کے ساتھ زندگی گزارنا جہنم میں جانے سے کم نہیں۔‘‘

شہلا اگر غیر ہوتی تو پھر بھی ایک جواز موجود تھا، وہ تو اُس کی خالہ زاد تھی اور پھر دونوں نے ایک دوسرے کو چاہا بھی تو تھا۔ بڑے جانتے تھے، اسی لیے تو ان کی منگنی بھی ہو چکی تھی لیکن حادثے نے اس رشتے کو توڑ ڈالا۔ رشتہ قائم رکھنے پر کسی کو مجبور بھی تو نہیں کیا جا سکتا۔ وہ سوچتا تھا:

’’ہر انسان اپنے لیے بہتر فیصلے کا حق رکھتا ہے۔ اگر میری بہن نسیمہ کی نسبت کسی معذور سے طے ہو جاتی تو یقیناً یہ میرے لیے بھی ناقابلِ برداشت اذیت کا سبب ہوتا۔‘‘

سفیر اختر کا والد درزی تھا، ایسا درزی، جس کا زمانہ لد چکا تھا۔ نہ تو وہ نئے زمانے کے ملبوسات بنا سکتا تھا اور نہ اسے نت نئی وضعوں میں کوئی دلچسپی تھی۔ وہ چاہتا تھا، وہی پرانا زمانہ پلٹ آئے، جس میں لٹھا اور کھدر پہننے والے سفید پوش لوگ ہوتے تھے۔ جن کی قمیصوں اور شلواروں کی پیمائش اگر ہر بار بدل بھی جاتی تو اُنھیں کچھ فرق نہ پڑتا تھا۔ وہ لوگ صرف جسموں کو ڈھانپنا اہم جانتے تھے۔ نیا زمانہ تو اپنے ساتھ کئی طرح کی مشکلیں لے کر آیا تھا، جو اس سادہ لوح درزی کے لیے وبالِ جان سے کم نہ تھیں۔ فیشن بدلا، لوگ بدلے، درزی کا طرز نہ بدل سکا، نتیجتاً کام ٹھپ ہو گیا۔ ایسے حالات میں اُس کے لیے ممکن نہ تھا، کہ وہ سفیر اختر کے تھکا دینے والے علاج کے بعد اُسے مزید تعلیم بھی دلوا سکتا، مجبوراً اُسے گھر بٹھا دیا گیا۔

کٹی ٹانگ کے زخم جب مندمل ہوئے تو اُس نے باپ کے ’’ماسٹر ٹیلرنگ ہاؤس‘‘ جانا شروع کر دیا، جہاں ہفتہ بھر میں ایک آدھ سوٹ سلنے کے لیے آتا تھا۔ دکان کا چلن نہ ہونے کے باعث جو کام تین ماہ میں سیکھا جا سکتا تھا، اُسے سیکھنے میں سفیر اختر کو دوسال لگ گئے اور پھر سیکھنابھی کیا تھا، وہی ایک خاص وضع، جس میں جدت نام کو نہ تھی۔ پھر بھی اُس کا والد اکثر یہ کہا کرتا تھا:

’’شکر ہے، تمھیں کسی قابل بنا دیا ہے۔ اَب بھوکے نہیں مرو گے۔ ہنر مند انسان قابلِ عزت ہوتا ہے۔ مجھے دیکھ لو، اگرچہ لوگ مجھ سے اب اُتنا کام نہیں کراتے لیکن ’’ماسٹرجی‘‘ کہ کر مخاطب کرتے ہیں اور جانتے ہو یہ لفظ میری عزتِ نفس ہمیشہ بلند رکھتا ہے۔ یاد رکھو! محنت تمھیں کسی کے سامنے جھکنے نہیں دی گی۔ تھوڑا یا زیادہ، رزقِ حلال کمانا اپنی ترجیح بنائے رکھنا۔‘‘

باپ کی اچانک موت کے باعث دکان کا سارا نظام اُس کے ہاتھ میں آ چکا تھا۔ اُس نے اپنی طبیعت اور تعلیم کی وجہ سے نئے فیشن سے ہم آہنگ ہونے کی پوری کوشش کی، جس میں اُسے خاطرخواہ کامیابی ملی اور اَب اڑوس پڑوس کے لوگ اعتماد کے ساتھ اُس سے لباس سلوانے لگے تھے۔ اُس کے باپ کا کہا ہوا سچ معلوم ہو رہا تھا۔ پانچ بہن بھائیوں کا اکلوتا کفیل روزانہ ایک جوڑا سینے لگا۔ عیدین کے موقع پر کام زیادہ ہو جاتا تو وہ دوسرے درزیوں اور بہن بھائیوں کی مدد سے زیادہ کپڑے بھی سی لیا کرتا تھا۔ گویا زندگی ایک مخصوص دھارے پر بہ نکلی۔

سفیر اختر خوب صورت شخص تھا۔ نہیں معلوم اُس کے سامنے والے دونوں دانت کیسے ٹوٹ گئے تھے، اَب وہاں سنہری خول والے خوب صورت دانت ہر وقت چمکتے رہتے تھے۔ وہ پرانی وضع کے مطابق اپنے سر کے بالوں کو ایک طرف اس سلیقے سے موڑے رکھتا تھا، کہ مانگ زیادہ نمایاں ہو کر نظر آنے لگتی تھی۔ اُوپر والا دھڑ نسبتاً اُونچا تھا اور پھر اپنی بلند کرسی پر کچھ اس شان سے بیٹھتا تھا، کہ انجان لوگ اُس کی شخصیت کے رعب میں آ جاتے۔ صاف ستھرا لباس پہنتا اور اُجلی گفتگو کرتا۔ اس کی یہی شخصیت دیکھ کر محلے میں نئی آنے والی ایک لڑکی اُس پر فریفتہ بھی ہو گئی تھی اور جب اسے چلتے ہوئے دیکھ لیا تو اپنا راستہ بدل گئی۔ وہ ایک دُکھ پہلے اُٹھا چکا تھا اور اب تو وہ کچھ زیادہ اس معاملے میں پڑا بھی نہ تھا۔ بس ایک معمولی سا احساس اُسے تب ہو جاتا تھا، جب وہ آتے جاتے اسے آنکھ بھر کر دیکھتی۔ جب اُس لڑکی نے آنا جانا چھوڑ دیا، تب یہ سمجھ گیا کہ وہ اُس کے دل سے اُتر گیا ہے۔ سفیر اختر کی طبیعت میں نہ ختم ہونے والی اداسی نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ گانے ایسے سنا کرتا تھا، کہ اچھا خاصا خوش طبع شخص بھی اُس کے پاس بیٹھ کر رونے پر آمادہ ہو جاتا اور ایک طرح کی عجیب مایوسی اور بیزاری کا احساس لے کر اُٹھتا۔

وہ تین بہنوں میں سے دو کی شادیاں کرا چکا تھا اور سب سے چھوٹی بہن ابھی پڑھ رہی تھی۔ دونوں بھائی بھی پڑھتے تھے۔ اُس کی خواہش اور کوشش تھی، جو کمی اُس کی ذات میں رہ گئی ہے، بہن بھائیوں کی زندگیوں پر اُس کا سایہ بھی نہ پڑے۔ چناں چہ وہ پوری لگن اور کوشش کے ساتھ اُن کی ضروریات پوری کرتا تھا۔ البتہ کبھی کبھار اُسے اپنی معذوری بہت ستانے لگتی تھی۔ خصوصاً صبح کے وقت، جب وہ بیساکھیوں کے سہارے ایک ٹانگ پر چل کر دکان کی طرف آ رہا ہوتا تو کئی بڑی چھوٹی عمر کے مرد و زن سیر کر رہے ہوتے۔ کچھ تیز قدموں سے چلتے، کچھ دوڑتے اور جب وہ انھیں دیکھتا تو اپنی کٹی ٹانگ سے اُسے نفرت سی ہونے لگتی۔ بسنت کے دنوں میں کٹی پتنگ کے پیچھے دیوانہ وار بھاگتے بچوں کو دیکھتا تو بے ساختہ اُس کا ایک ہاتھ اپنی کٹی ٹانگ کو چھونے لگتا اور دوسرا ہاتھ اور نگاہ ایک ساتھ آسمان کی طرف اُٹھ جاتے اور زبان پریہ جملہ ہوتا:

’’اللہ جی! بیساکھیوں سے نجات دے دے۔‘‘

اُس کے ہم جماعت جواد نے جب سے اُسے بتایا تھا، کہ اب پاکستان میں مصنوعی ٹانگ اتنی صفائی سے لگائی جا رہی ہے، کہ معمولی لنگڑاہٹ کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ تبھی سے وہ تیز قدموں کے ساتھ چلنے کے خواب دیکھ رہا تھا۔ اَب تو اُس کا خواب پورا ہونے میں کچھ ہی وقت باقی تھا۔ پیسے اتنے جمع ہو چکے تھے، کہ لنگڑاہٹ کے عیب سے خالی مصنوعی ٹانگ لگائی جا سکتی تھی۔ یقینی طور پر، جب وہ عام لوگوں کی طرح چلنے پھرنے کے قابل ہو جاتا تو اُس کا رشتہ بھی طے ہو جاتا۔ ہمارے یہاں ایسے لوگوں کی کمی نہیں، جو اپنی بہن بیٹیوں کا رشتہ صاحبِ روزگار لڑکوں کو دے دیا کرتے ہیں اور پھر وہ دیکھنے میں ایسا تھا، کہ اُس پر اعتبار ہو سکتا تھا۔

بہار میں وبا پھوٹ پڑی تو اُسے مصنوعی ٹانگ کا قصہ خواب ہوتا دکھائی دینے لگا۔ پھر گھر میں بند ہو جانا بھی اُس کے لیے ایک ناقابلِ برداشت تکلیف کا عمل تھا۔ وہ زمانوں سے صبح سے شام تک دکان میں رہنے کا عادی تھا۔ آتے جاتے لوگوں کو دیکھتا، ایک آدھ گاہک آ جاتا، اکا دکا دوست چلا آتا، پھر بازار کی گہمی بجائے خود ایک عظیم نعمت تھی۔ پہلے پہل تو بہن بھائی اُس کی موجودگی سے خوش تھے، پھراُس کی ڈانٹ ڈپٹ اور تھوڑی بہت خدمت سے بیزار ہونے لگے۔ خود وہ بھی سخت پریشان تھا۔ بیس دنوں میں ٹانگ کے لیے رکھے گئے پیسوں میں سے بھی دس ہزار روپے خرچ کر چکا تھا اور پھر یہ بھی اندازہ نہ تھا، کہ مزید کتنے دن اُسے یوں گھر میں پڑے رہنا تھا۔ اس غیریقینی کے عرصے میں اُس کی مایوسی مزید بڑھتی جا رہی تھی۔

عام دنوں میں چلنے سے اُس کے کولہے کی ہڈی سے پسلیاں ٹوٹتی تھیں، اب سارا دن بستر پر لیٹے رہنے سے اُس کی کمر میں درد رہنے لگا تھا۔ اس کیفیت میں اُس کے دماغ میں ایک عجیب سا احساسِ شکست بھی پیدا ہو چکا تھا، جس نے اُس کی زندگی کا رُخ ہی موڑ دیا تھا۔ بہن بھائیوں کی پڑھائی کا حرج بھی اُس کے لیے سوہانِ روح بنتا جا رہا تھا۔ وہ بھی اتنی فراغت اور بھائی کی قربت کے باعث کچھ بے پروا سے ہو گئے تھے۔ اُسے یہ دُکھ تڑپائے جاتا تھا مگر وہ ان کے سامنے مزید کچھ کہہ کر خود کو ہلکا بھی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ ایک دن اُس کے منجھلے بھائی نے اُسے بتایا:

’’بھئی! حکومت نے لاک ڈاؤن میں چودہ دن کا مزید اضافہ کر دیا ہے۔‘‘

بھائی کی بات سننے کے بعد اُس نے مزید ہزاروں روپے خرچ ہو جانے کا سوچا اور پھر اپنی کٹی ہوئی ٹانگ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے آسمان کی طرف دیکھنا شروع کر دیا۔

٭٭٭









مٹھی بھر چاول



خیالات لیچڑ مکھی کی طرح اُس کے دماغ پر بار بار بھنبھناتے اور وہ ہر بار اُنھیں جھٹک کر اپنے زخمی گھٹنے کو سہلانے کی کوشش کرتا۔ یہ زخم اُسے نہ لگتا لیکن اُس کی جلد بازی اور بیوقوفی کے باعث ایسا ہوا۔ دریا میں پانی ٹھہرا ہوا تھا اور اسمان پر گدھ منڈلا رہے تھے۔ کچھ بگلے اڑتے اُڑتے اچانک دریا کی اُوپری سطح پر کودتے اور کسی زندگی کو اُچک کر اپنے پیٹ میں اُتار لیتے۔ گاؤں قریب آ رہا تھا۔ دُور تک ریت بچھی دکھائی دے رہی تھی۔ کناروں پر جگہ جگہ سرکنڈوں سے ڈیرے بنے ہوئے تھے۔ اُس نے دیکھا کچھ عورتیں دریا کے کنارے پر بیٹھی کپڑے دھو رہی تھیں۔ اُسے شدت سے بھوک لگی ہوئی تھی اور اتفاق سے اُس کے پاس کھانے کو کچھ نہ تھا۔ ورنہ وہ سفر پر نکلتے وقت کچھ اُبلے ہوئے چاول اور اچار کی ایک ڈلی پاس رکھتا تھا۔ بھوک انسان کو بے بس کر دیتی ہے، ظاہر ہے، وہ یہی سوچ رہا تھا، کہ کسی طرح اُسے کچھ کھانے کو مل جائے۔ اسی خواہش میں تو اُس نے اپنی کشتی کا رُخ اُن عورتوں کی طرف موڑ دیا تھا۔ کنارے تک پہنچتے پہنچتے وہ بے تاب ہو چکا تھا اور جب کشتی کنارے لگی تو اُس نے بے صبری کا مظاہرہ کیا۔ اسی بے صبری کا نتیجہ تھا، کہ کشتی کی دائیں طرف بالکل وسط میں اُٹھی ہوئی میخ اُس کے گھٹنے میں دھنس گئی۔ اُس کی منھ سے ایک خوف ناک چیخ کے ساتھ کچھ گالیاں برآمد ہوئیں، جواُس نے خود کودی تھیں۔

میخ اُسی وقت اپنی جگہ سے کھسک کر اُوپر آ گئی تھی، جب اُس نے کشتی دریا میں ڈالی تھی۔ کشتی کھینے کے دوران میں ایک دوباراُسے خیال آیا بھی تھا، کہ پہلے اسے ٹھونک دے، پھر رہنے دیا۔ وہ یہ سوچ رہا تھا، کہ پلٹ کر ہتھوڑی کے ساتھ اُسے ٹھیک طرح سے ٹھونک دے گا لیکن اس سے پہلے ہی میخ اپنا کام کر چکی تھی۔ اَب وہ کنارے پر بیٹھا اپنا زخم سہلارہا تھا۔ عورتوں میں سے ایک اُس کے بہن کے گاؤں کی تھی۔ کنارے پر پہنچتے ہی اُس نے پہچان کر مخاطب کیا:

’’مائی شافاں! کیسی ہو اور میری بہن کی سناؤ ناں۔‘‘

’’ادا فرید! میں ٹھیک ہوں اور تیری بہن سہجو بھی اچھی ہے۔ کل آئی تھی یہاں۔‘‘

’’میرا سلام دینا اُسے اور ہاں یہ پیسے بھی دے دینا۔‘‘

اُس نے شلوار کی جیب میں ہاتھ ڈال کر اُس میں سے سو روپے کے دو نوٹ نکال کر شافاں کے ہاتھ میں تھما دیے۔ نوٹ بھیگنے کے باعث نرم ہو رہے تھے۔

’’دے دوں گی ادا فرید۔‘‘

بھوک سے اُس کا بُرا حال ہو رہا تھا۔ اُن عورتوں کے پاس ممکن تھا، کہ کچھ کھانے کے لیے موجود ہوتا لیکن اُسی لمحے دَر آنے والی ندامت اور ہچکچاہٹ نے اُسے مانگنے نہ دیا۔ حالاں کہ وہ انھیں دیکھ کر اسی خیال سے کنارے پر آیا تھا۔

اُس نے ایک کپڑا جلا کر راکھ کیا اور پھر وہ راکھ زخم پر ڈال کر ایک اور کپڑے سے باندھ دی۔ درد کی شدت کم ہو جاتی اگر اُسے کھانے کو کچھ مل جاتا۔ عورتیں کب کی لوٹ چکی تھیں اور وہ کنارے پر بیٹھاسوچوں کے اُلجھے تانے سُلجھانے میں مصروف تھا۔ بہت کوشش کے بعد اُسے یہ بات سمجھ آئی، کہ اپنوں کے بغیر زندگی ادھوری رہتی ہے۔ بے شک وہ لڑتے ہوں، مشکلوں میں ڈالتے ہوں، طعنے دیتے ہوں، نافرمانی کرتے ہوں، اذیت پہنچاتے ہوں، پھر بھی اپنے ہوتے ہیں۔ سوچ کو اس نہج تک پہچانے میں شاید اُس کی بھوک کا بھی ہاتھ تھا۔

اصل میں اُس کی بیوی رُوٹھ کر میکے چلی گئی تھی۔ شادی کو چھے ماہ بھی نہ ہوئے تھے، کہ دونوں میں معمولی باتوں پر تکرار ہونے لگتی اور بات جھگڑے تک پہنچ جاتی۔ ایک دو بار اس نے جوتے سے اُسے مارا بھی تھا۔ جواباً اُس نے ایسے طعنے دیے، وہ سرجھکائے خاموشی سے باہر نکل گیا۔ شام کو پلٹا تو اُس کی آنکھیں ندامت سے جھکی ہوئی تھیں۔ ویسے بھی مرد گھر چھوڑ کر چلا جائے اور پھر جھکی نظروں کے ساتھ گھر میں داخل ہو تو وہ اپنی شکست تسلیم کر چکا ہوتا ہے۔ وہ بھی ہتھیار ڈال دیتا تھا لیکن اُس کی بیوی پھر کچھ ایسا تیر پھینکتی جو اس کی رُوح میں اُتر جاتا اور وہ پھر زخمی شیر کی طرح بپھر جاتا۔ آخری بار بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ بے طرح بیوی کو مارنے کے بعد اُسے میکے چھوڑ آیا اور اَب سال سے زیادہ ہو چکا تھا۔ بیوی وہاں بیٹھی تھی اور وہ اپنے بوڑھے چارپائی سے لگے باپ کی دیکھ بھال کے ساتھ گھر کے کام کاج میں اُلجھ گیا۔ دو بڑی بہنیں تھیں، جن کی شادی اس نے خود کرا دی تھی۔ اب وہ اپنے گھروں میں مصروف تھیں۔ کبھی اُن میں سے کوئی آ جاتی تو گھر کے کاموں سے اُس کی جان چھوٹ جاتی۔ باپ اور بہنوں نے اُسے بہتیرا سمجھایا کہ بیوی کو لے آئے لیکن اُس کا ایک ہی جواب ہوتا:

’’لڑے گی کتیا، دماغ خراب کرے گی، اُدھر ہی رہے، دماغ ٹھیک ہو جائے گا اُس کا۔‘‘

اُس نے زخمی گھٹنے کو سہلاتے ہوئے کشتی دوبارہ دریا میں ڈالی اور سیدھا سسرال کا رُخ کیا۔ لنگڑاتا ہوا سسر کے دروازے پر پہنچا تو کھلے دروازے میں سے اُس کی پہلی نظر اپنی بیوی پر پڑی۔ وہ تنور پر جھکی روٹیاں لگا رہی تھی۔ ایسا دلکش نظارہ زندگی میں اُس نے نہ دیکھا تھا۔ اُس نے سوچا:

’’تاجی اتنی خوب صورت ہے، اتنی پُر کشش ہے، یہ تو آج انداز ہوا۔‘‘

بوڑھا سسر جو اُونٹ باندھ کر اُٹھا ہی تھا، کہ اسے دیکھ کر کہنے لگا:

’’اوئے فرید! کیوں آیا یہاں؟ جا لوٹ جا۔ جا۔ جا۔‘‘

’’چاچا! میں تاجی کو لینے آیا ہوں۔‘‘

تاجی نے سر اُٹھا کر دیکھا تو جیسے اُس کی زندگی کی کل متاع اُس کے سامنے کھڑی تھی۔ باپ نے بیٹی کے چہرے پر پھیلی تمکنت دیکھی تو خاموش ہو گیا، وہ کب روکنا چاہتا تھا؟ بیٹیاں میکے بیٹھ جائیں تو والدین کا خون سوکھتا ہے۔ پاس نہیں بھی رکھنا چاہتے لیکن زبان سے یہی کہتے رہتے ہیں:

’’ہم زندہ ہیں ابھی، کوئی ضرورت نہیں وہاں جانے کی۔ عزت سے رکھے تو ٹھیک ہے، ورنہ یہیں رہو۔ پہلے بھی تیری ضرورتیں پوری کرتے تھے، اب بھی کر لیں گے۔‘‘

’’چاچا! زال ہے میری، لے جانے دے۔‘‘

’’لے جا لیکن یاد رکھ یہ آخری بار ہے، اَب ہاتھ اُٹھائے گا تو کاٹ ڈالوں گا۔‘‘

’’ٹھیک ہے چاچا، ایسا ہی کرنا۔‘‘

اتنے عرصے بعد جو میاں بیوی ملے تو یوں محسوس کیا، جیسے آج ہی شادی ہوئی ہو۔ سب رنجشیں ختم ہو گئیں، محبت اور بے حساب محبت۔ اب جو گھر والی آ گئی تو اُس نے کام پر جانا شروع کر دیا۔ وہ دریا کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک سواریاں لاتا لے جاتا تھا۔ اب وہ چاہتا تھا، کہ اتنا روپیہ کما لے کہ تاجی کی تمام خواہشیں پوری کر سکے۔ پہلے وہ دن میں ایک دو پھیرے لگاتا تھا، اب تین تین چار چار چکر لگا لیتا۔ محنت سے کمائے ہوئے پیسے محبت سے نچھاور کر دیتا تھا۔ تاجی بھی رویے کی اس تبدیلی سے سرشار تھی۔ پریوں کی طرح اِدھر سے اُدھر اُڑتی پھرتی۔ وہ اب فرید کی آنکھ سمجھنے لگی تھی۔ فرید کو زبان سے کچھ نہ کہنا پڑتا تھا۔ بس ایک نگاہ اُٹھا کر تاجی کو دیکھتا اور وہ اُس کے سامنے بچھ جاتی تھی۔ اتنی مزاج شناس ہو گئی تھی، کہ خود فرید حیران رہ جاتا تھا۔

غریب کی خوشیاں طویل کہاں ہوتی ہیں؟ اُنھی دنوں وبا پھوٹ پڑی۔ لوگوں نے حکومتی حکم کے باعث سفر ترک کر دیا۔ یہ بھی دریا کے خالی کنارے پر بیٹھ بیٹھ کر اُکتا جاتا تو گھر پلٹ آتا۔ آخر مجبوراً گھر ہی بیٹھ گیا۔ کچھ ہی دن میں غربت لوٹ آئی۔ دونوں میاں بیوی پریشان رہنے لگے اور یہ پریشانی ایک بار پھر بیزاری کا سبب بننے لگی۔ گھر میں جو کچھ تھا، خرچ ہو چکا تھا اور جب تک لوگ گھروں میں بیٹھے تھے، کسی نئی چیز کے آنے کا سوال ہی نہ تھا۔ نوبت فاقوں تک آ گئی۔ تب ایک آدھ بار تاجی نے کہا: ’’بابا کے گھر چلے جاتے ہیں، وہاں بھوکوں تو نہیں مریں گے۔‘‘

’’نہیں! میری غیرت نہیں گوارا کرتی کہ میں تمھارے باپ کے گھر بیٹھ جاؤں۔‘‘

ایک دن اُن کا پڑوسی لاکھو، گلیوں میں دوڑتا ہوا بلند آواز میں کہتا جا رہا تھا:

’’پٹواری آیا ہے، پٹواری۔ راشن بانٹ رہا ہے۔ گھر کا بڑا اپنا شناختی کارڈ لے کر پہنچے۔‘‘

یہ آواز اُس نے بھی سُنی تھی مگر خاموشی سے چارپائی پر پڑا رہا۔ تاجی نے پکارا:

’’سُنا نہیں تم نے لاکھو کیا کہ رہا تھا۔ اب یہاں بھوکا پڑا رہے گا یا لائے گا راشن؟‘‘

اُس کے جسم میں کوئی حرکت نہ ہوئی تو تاجی نے اُسے جھنجوڑتے ہوئے پھروہی جملہ دُہرایا۔

کھلے میدان میں لوگ قطار بنائے کھڑے تھے۔ پٹواری ہر شخص کا شناختی کارڈ لے کر اُس کی معلومات رجسٹر پر درج کر رہا تھا۔ اُس کا نام بھی درج کر لیا گیا۔ جب یہ عمل مکمل ہو چکا تو پٹواری نے ترتیب کے ساتھ نام پکارنا شروع کیے۔ لمبی قطار تھی۔ وہ آنکھیں میچ کر ایک طرف لیٹ سا گیا تھا۔ جب اُس کا نام پکارا گیا تو وہ آنکھیں ملتا ہوا پہنچا۔

مٹھی بھر چاول کی تھیلی پٹواری نے اُس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا:

’’یہاں انگوٹھا لگا دو۔‘‘

فرید کے لیے راشن کے رجسٹر پر انگوٹھا لگانا، اپنی موت کے حکم نامہ کی توثیق سے کم نہ تھا۔

٭٭٭









کونپل کا قتل



مہذب اور با شعور لوگوں کا شیوہ جو ہوا کرتا ہے اور جس روش پر اُن کی زندگی کا انحصار ہوتا ہے، وہ اُس سے خوب شناساتھی۔ یُوں کہنا زیادہ مناسب ہو گا، کہ تہذیب و شائستگی اور ذہانت و فطانت کی مٹی میں گوندھ کر اُس کا وجود بنایا گیا تھا۔ جس ماحول میں وہ پروان چڑھی تھی، وہاں بلند آواز میں گفتگو معیوب سمجھی جاتی اور اختلافِ رائے کے اظہار پر برہمی، بد اخلاقی کے دائرے میں داخل شمار ہوتی۔ پسند اور نا پسند کا اختیار واضح، دو ٹوک اور بلا تامل ہوتا تھا اور یہ معمول کی زندگی کا حصہ تھا۔ والد جوائنٹ سیکرٹری، والدہ ڈاکٹر، بھائی سول سروس میں اہم عہدوں پر اور سب سے زیادہ قابلِ توجہ بات یہ کہ وہ خود کیمبرج کی تربیت یافتہ____ ساتھی بھی اللہ نے ایساعطا کیا تھا جس پر زمانہ رشک کرے۔ جس کے تحقیقی مضامین کی بنیاد پر جامعات میں نئی اختراعات اور ایجادات کا دَر وا ہوتا تھا، جس کی گفتگو کے بدلے میں ادارے لاکھوں روپے نچھاور کر دیتے تھے۔ ایسے ماحول میں رہنے والوں کی زندگیوں کا تصور وہی لوگ کر سکتے ہیں، جواس ماحول میں پروان چڑھے ہوں۔ عامیوں کو اس کا دماغ کہاں؟ ڈراموں اور فلموں میں محض خیالی دُنیائیں ہوتی ہیں اور حقیقی زندگی پر ان کا اطلاق ایک گمراہ کن عمل ہو گا۔ اس لیے عام شخص ایک قیاس سے بڑھ کر اس زندگی کا سراغ نہیں لگا سکتا۔

انگلینڈ میں جب کورونا وائرس کی وبا کا غوغا اُٹھا تو اُس نے وطن لوٹنے کا فیصلہ کیا۔ وہ چاہتی تھی، کہ اُس کے وجود میں موجود انکھوا پوری کونپل کی صورت بنے اور پھر مکمل نونہال ہو کر پنپنے اور نشو و نما کے عمل سے گزرے۔ تسبیح کی زندگی کی پہلی خوشی____ اور پھر اپنے وطن لوٹنے کی شادمانی الگ سے۔ اُس کے شوہر مشاہد علوی نے ائیر پورٹ پر اُسے رخصت کرتے ہوئے فضا میں ہوائی چُما اُچھالا اور پھر دیر تک اور دُور تک اُسے تکتا چلا گیا۔ مشرقیت سے ایک قدم آگے نکلتا ہوا محبت کا یہ انداز اُسے ہمیشہ سے عزیز تھا اور وہ اپنے شوہر کی اس ادا پر دل و جان سے فریفتہ تھی۔

نا مساعد حالات کے سبب اُسے اپنے شہر کی فلائٹ نہ ملی۔ مجبوراً اُس نے دوسرے صوبے میں اُترنا قبول کیا۔ اُس کا خیال تھا، کہ وہاں موجود بھائی اُسے ائیر پورٹ سے گھر لے جائے گا اور یہ بھی ممکن تھا، کہ وہ قومی فلائٹ سے اپنے شہر تک جانے کا انتظام اُسی روز کر دے۔ اُس نے بھائی کو اطلاع دی، جواباً بھائی نے خوشی کے اظہار کے ساتھ سارے انتظامات کرنے کی یقین دہانی بھی کرا دی۔

تسبیح، دورانِ سفر پوری احتیاط کر رہی تھی، وہ خوف زدہ ہر گز نہ تھی اور نہ آنے والے حالات کا بھیانک دیو اُسے ڈرا رہا تھا۔ وہ کتاب، جو آتے ہوئے گھر سے اُٹھا لائی تھی، خاموشی سے اُس کے مطالعے میں محو رہی۔ دُنیا کے عجائبات اور احساس کو ہلا دینے والے واقعات سے مزین یہ کتاب پچھلے ہی ہفتے مشاہد لایا تھا ____ جانتا تھا، تسبیح اس طرح کی کتابیں شوق سے پڑھتی ہے۔ جوں جوں ملک قریب آ رہا تھا، اُس کے جذبات میں اور دل میں ایک خاص قسم کی گرم جوشی ٹھاٹھیں مار رہی تھی۔ بھائی سے ملاقات برسوں بعد ہو رہی تھی، ماما اور بابا سے ملاقات بھی دو برس پہلے ہوئی تھی اور سب سے زیادہ اپنے بچپن کی سہیلیوں اور خالہ زاد بہنوں سے ملنے کا اشتیاق۔ سوچوں کا تانا بانا اُلجھتا جاتا تھا اور اس کے لیے طے کرنا مشکل ہو رہا تھا، کس کو زیادہ وقت دے اور کسے فوراً سرشار کرے۔ ہر ایک تو اُسے ٹوٹ کر چاہتا تھا۔

جہاز میں ویسے تو کوئی خاص بات ایسی ظاہر نہ ہوئی، جو اُسے پریشان کرتی، اب مگر ہلکا سا سر درد اُسے محسوس ہو رہا تھا۔ اُس نے سوچا ممکن ہے تھکاوٹ کے باعث ایسا ہو۔ سونے کی کوشش میں گھنٹا بھر وہ اپنی نشست پر پہلو بدلتی رہی لیکن پھر اچانک ناک بہنا شروع ہوئی۔ زکام کی کیفیت اور سر درد نے اُسے فکر مند کر دیا۔ اُس نے فضائی میزبان کو صورتِ حال بتائی، جس پر عملے کے ایک اعلیٰ رکن نے فوراً اُس کا بلڈ پریشر اور ٹمپریچر چیک کیا۔ سب کچھ نارمل تھا۔ معمولی سا ٹمپریچر تھا، جو ایک گولی کے استعمال سے کم ہو گیا۔ تھوڑی دیر بعد پھر کیفیت لوٹی تو اُسے تفکر نے آ گھیرا۔ اُس کے دماغ میں کورونا کے اثرات اور اُس سے ہونے والی خطرناک تباہی کا اژدھا منھ کھول کر بیٹھ گیا۔ رہ رہ کر اُسے اپنے ہونے والے بچے کا احساس ہو رہا تھا۔ اُس نے طے کیا کہ اُترتے ہی اس وائرس کا مکمل ٹیسٹ کروائے گی، اس کے بعد بھائی کے ساتھ جائے گی____ جہاز وقت سے آدھ گھنٹا تاخیر سے پہنچا، بھائی ائیر پورٹ پر لینے کے لیے خود موجود تھا۔ وہ گلے لگانے کے لیے بڑھا لیکن اس نے دُور سے ہی منع کر دیا اور ساتھ ہی بتا دیا کہ اُسے کسی اسپتال پہنچایا جائے۔ شبہ ہے کہ کورونا کا وائرس سرایت کر گیا ہے۔

اسپتال کے عملے نے ظاہری چیک اَپ کے بعد ہر طرح سے تسلی دی ____ وہ کسی طرح البتہ مطمئن نہ ہوئی۔ اور بھائی کو مخاطب کر کے کہا:

’’بھائی! مجھے فوراً گھر بھجوائیں۔‘‘

بھائی نے انتظام کر دیا۔ تسبیح نے اپنے شہر کی طرف سفرکے آغاز پر ہی والدہ کو بتا دیا تھا:

’’مجھے سب سے الگ تھلگ رہنا ہے۔ گھر کے بوڑھے ملازمین کو رُخصت کر دیں اور چھوٹے بھیا کے بچوں کو اُن کے ننھیال بھیج دیں۔ میرا کمرہ صاف کروا دیں۔ اگرچہ یہاں کے ڈاکٹروں نے اپنے تئیں وائرس کا خطرہ ظاہر نہیں کیا لیکن مجھے شبہ ہے۔ میں آ کر دوبارہ تسلی کرنا چاہتی ہوں۔‘‘

ڈاکٹر ماں، بیٹی کے احساسِ ذمہ داری پر خوش تھی اور اس کی بیماری پر فکر مند بھی۔ بہ ہر حال اُسے وہی کرنا تھا، جو اُس کی بیٹی چاہتی تھی۔

تسبیح نے گھر پہنچ کر کسی سے ملاقات کی نہ کسی کو اپنے قریب آنے دیا۔ خاموشی سے اپنے کمرے میں گھُس گئی۔ نیند آور گولیاں لے کر خوب سوئی۔ اگلے دن اگرچہ اُس کی طبیعت ہشاش تھی لیکن وہ مقامی لیبارٹری میں ٹیسٹ کی غرض سے پہنچ گئی۔ متعلقہ ٹیسٹ کروا لینے کے بعد بھی اُس نے خود کو تنہا رکھا اور اپنوں سے ہر طرح کا رابطہ منقطع کیا۔ وہ نہیں چاہتی تھی، کہ اُس کا وائرس کسی اور میں منتقل ہو۔ اگرچہ ابھی اس کا یقین بھی نہ تھا، کیوں کہ دوسرے شہر کے ڈاکٹروں نے اُسے صحت مند قرار دیا تھا۔ ایک ذمہ دار، مہذب اور با شعور شہری کی طرح اُس نے رپورٹ کا انتظار کیا۔ وہ جانتی تھی، کہ رپورٹ سے پہلے کوئی بھی بات محض قیاس ہو گا۔ گھر کے ماحول اور سکون کے باعث اب اُس کی طبیعت میں اضطراب بھی نہ تھا لیکن اُمید سے ہونے کے سبب مخصوص کرب تو بہ ہر حال اُس کے ساتھ ساتھ تھا۔ وہ نئی زندگی کو جنم دینے کے خیال میں خوش رہنے لگی تھی۔

ایک دن اچانک اُن کے بنگلے کے سامنے بے طرح کا ہجوم جم گیا۔ مختلف سرکاری گاڑیاں ہوٹر اور سائرن بجاتی ہوئی آ آ کر جمع ہو رہی تھیں۔ اُس نے کھڑکی میں سے باہر جھانکا تو اندازہ ہوا ون ون ٹوٹو کی گاڑیاں، اسپتال کی ایمبولینس، پولیس کی وینیں اور کچھ افسروں کی گاڑیاں ہیں۔ اس ہجوم کے باعث عمومی ٹریفک بھی رُک گئی۔ نجی گاڑی والے، ٹیکسی رکشے والے اور موٹر سائیکل سوار بے ہنگم ہجوم میں اضافہ کرتے چلے جا رہے تھے۔ اُس نے سوچاممکن ہے بابا کی وجہ سے کچھ لوگ اکٹھے ہو رہے ہوں لیکن ایسا پہلے تو کبھی نہ ہوا تھا۔ بابا کو فون کیا تو اُنھوں نے جواباً کہا:

’’میں تو آفس میں میٹنگ میں موجود ہوں، ہو سکتا ہے آس پاس کوئی حادثہ ہوا ہو۔ تم فکر نہ کرو۔‘‘

ابھی فون بند ہی ہوا تھا، کہ سرکاری گاڑیوں سے افسر اُتر کر اُس کے گھر کی طرف بڑھنے لگے۔ اُس نے ماما کا نمبر ڈائل کیا اور ساری صورت حال بتا دی۔ ماما کا پرائیویٹ کلینک ساتھ ہی تھا۔ وہ منٹوں میں سارے کام چھوڑ اور ہجوم کا سینہ چیر کر چلی آئیں۔ گیٹ پر موجود افسروں نے اُن سے کچھ گفتگو کی، اُس کے بعد افسر ماما کے ساتھ اندر آ گئے۔

ہجوم بدستور بڑھ رہا تھا۔ تماش بینوں کی تعداد میں اضافہ اُسے فکر مند کیے جا رہا تھا۔ وہ ماما کا فون نمبر بار بار ڈائل کرتی لیکن وہ مصروف کر دیتیں۔ وائرس کے خطرے کے پیشِ نظر وہ باہر بھی تو نہ نکل سکتی تھی۔ گھنٹا بھر انتظار کے بعد ماما خود اُس کے پاس چلی آئیں اور سارا ماجرا کہ سنایا:

’’تمھارا ٹیسٹ مثبت آیا ہے، جس لیبارٹری سے تم نے ٹیسٹ کروایا تھا، اُس نے محکمہ صحت کو اطلاع کر دی ہے۔ اب یہ لوگ تمھیں لینے آئے ہیں۔‘‘

’’ماما! پیشہ ورانہ بددیانتی کی یہ انتہا میں نے دیکھی نہ سنی۔ یہ میرا اور لیبارٹری کا معاملہ تھا۔ میں نے کسی کے دباؤ میں آ کر تو ٹیسٹ نہیں کروایا تھا؟ میں تو خود چاہتی تھی، کہ میری وجہ سے کوئی اور متاثر نہ ہو۔ آپ جانتی ہیں، میں کب سے احتیاط کر رہی ہوں۔ یہ نامناسب انداز ہے۔ بہ ہر حال اب ٹیسٹ مثبت آیا ہے تو انھیں بتا دیجیے کہ مجھے جس اسپتال میں کہیں گے، پہنچ جاؤں گی۔ انھیں کہیں یہاں سے چلے جائیں۔‘‘

’’تسبیح! اتنی دیر سے میں انھیں یہی سمجھاتی رہی ہوں۔ یہ لوگ کسی طرح بھی نہیں مانتے۔ تمھارے بابا نے سیکرٹری ہیلتھ کو فون بھی کیا۔ تمھیں جانا ہو گا میرے بچے! فوراً تیاری کرو اور باہر آ جاؤ۔‘‘

’’ماما! میری حالت آپ جانتی ہیں، انھیں سمجھائیں۔‘‘

ماں بیٹی کی گفتگو جاری تھی، کہ ایک افسر نے مداخلت کی:

’’بہتر یہی ہے، آپ ہمارے ساتھ چلیں۔ انتہائی اہم معاملہ ہے۔ نظر انداز نہیں ہو سکتا۔‘‘

وہ خاموشی سے اُٹھی اور اُن کے ساتھ چل دی۔

ایمبولینس کی حالت انتہائی تکلیف دہ تھی۔ اُسے رہ رہ کر اُبکائی آ رہی تھی۔ کئی بار تو اُسے یوں محسوس ہوا، جیسے اُس کا کلیجہ حلق میں آ جائے گا۔ جیسے تیسے سفر ختم ہوا تو اُسپتال میں ایک تھکا دینے والا منظراُس کے سامنے تھا۔ بابا بھی آ چکے تھے۔ عملہ بہ ظاہر بھاگ دوڑ رہا تھا لیکن کسی کو سمجھ نہیں آ رہی تھی، کہ کرے کیا____ اس لیے کہ کورونا وائرس کے حوالے سے تمام لوگوں کے پاس معلومات ناکافی تھیں۔ سرکاری اسپتال کے گندگی سے اَٹے ہوئے کمروں میں سے نسبتاً ایک صاف کمرے میں اُسے ٹھہرایا گیا۔ بدبو اور تعفن سے اُس کا جی اُلٹتا رہا، یہاں تک کہ سینہ چیر دینے والی کھانسی کا تسلسل قائم ہو گیا۔ کچھ طبیعت سنبھلی تو ڈاکٹروں سے اُس کی تفصیلی گفتگو ہوئی۔ جس پر اسپتال کے اعلیٰ انتظامی افسر ڈاکٹر نے کہا:

’’بیٹا! اس معاملے میں آپ ہم سے زیادہ شعور رکھتی ہیں، اس لیے، جہاں آپ کو سہولت ہو، وہاں قیام کریں۔ آپ کی ماں ڈاکٹر ہیں۔ والد قوم کے ذمہ دار فرد ہیں۔ پوری امید ہے، کہ آپ سے کسی کو نقصان نہیں پہنچے گا۔‘‘

وہ شکریہ ادا کر کے گھر چلی آئی۔

اگلے روز قومی میڈیا پر اُس کے بابا کو نشانہ بنایا جا رہا تھا:

’’جوائنٹ سیکرٹری نے اپنا اثر رسوخ استعمال کرتے ہوئے کورونا وائرس میں مبتلا اپنی بیٹی کو گھر منتقل کرا لیا۔ ایک اعلیٰ افسر کی یہ غیر ذمہ داری تشویش ناک ہے۔‘‘

تسبیح نے ایک اور پیشہ وارانہ غیر ذمہ داری اور بددیانتی کا منظر دیکھا تو قومی اداروں کی ذہنی ناپختگی اور جہالت پر آنسو بہانا شروع کر دیا۔ اُسے لگا کہ انگلینڈ سے پلٹ کر اُس نے غلطی کی ہے۔ اگر وہیں رہتی تو بہت ممکن تھا، اُسے یہ اذیت ناک دن دیکھنا نہ پڑتے۔ میڈیا پر بات آئی تو گویا سوشل میڈیا کے نا ہنجار صارفین کی لگام بھی کھل گئی۔ وہ دو تہذیبوں، دو معاشروں اور دو قوموں کا موازنہ کر کر کے خود کو ہلکان کر رہی تھی، کہ اچانک پھر سرکاری گاڑیوں کے ہوٹر اور ایمبولینس کا سائرن بجنا شروع ہو گیا۔ پھر بے ہنگم اور بے لگام ہجوم ان کے بنگلے کے سامنے جمع ہوا۔ ماں جو گھر پر موجود تھی، فوراً باہر گئی۔ وہی ماجرا، وہی بحث و تکرار اور افسروں کی وہی بے بسی یا ہٹ دھرمی۔ اب تسبیح کے لہجے میں کچھ تلخی بھی در آئی تھی:

’’جب تمھارے پاس معقول علاج اور سہولیات نہیں تو کیوں مجھے ہراساں کرتے ہو۔ تمھارے ڈاکٹروں نے خود تجویز کیا، کہ میں گھر پر رہوں۔ یہاں میں بھی محفوظ ہوں اور دوسرے بھی مجھ سے محفوظ ہیں۔‘‘

’’بجا فرماتی ہیں لیکن آپ کو جانا ہو گا۔‘‘

ٹریفک کا نا قابلِ فہم اور بد مزہ ہجوم اُس کی طبیعت میں کراہت کا سبب بن رہا تھا۔ لوگوں کے ہاتھ گویا تماشا آ گیا تھا۔ رُک رُک کر دیکھتے اور ایمبولینس کی طرف اشارے کر کر کے سیکرٹری کی بیٹی کو موضوع بناتے۔ موٹر سائیکل سوار تو باقاعدہ اہتمام کر کے ایمبولینس کے قریب آنے کی کوشش کرتے ____ ادھر تسبیح کی حالت بگڑتی چلی جا رہی تھی۔ اُسے محسوس ہوا، جیسے اُس کا نچلا دھڑ ٹوٹ کر جدا ہونے کو ہو۔ وہ درد کی شدت پر قابو پانے کے لیے پورے جتن کر رہی تھی، مبادا چیخ نکل جائے۔ اُسے اندازہ ہو گیا تھا، کہ یہ درد کچھ اور ہے ____ زچگی کی کرب ناک حالت اُس پر طاری ہو چکی تھی۔ ایمبولینس میں ایک ڈرائیور تھا اور اس کے پاس بھی فرسٹ ایڈ کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ بے ہنگم ہجوم نے راستہ روک رکھا تھا۔ ڈرائیور کورونا وائرس کی مریضہ سے جلد از جلد جان چھڑانا چاہتا تھا لیکن سفر جیسے صدیوں کو محیط ہو گیا ہو۔ تسبیح کے درد میں اضافہ ہوا تو وہ خود پر قابو نہ رکھ پائی____ مسلسل چیخوں سے تماش بینوں کے لیے جہاں نیا منظر تشکیل ہوا، وہاں ڈرائیور پر بھی ہیبت طاری ہو گئی۔ اُسے اندازہ ہی نہ ہو سکا، کہ وہ ڈرائیونگ سیٹ پر ہے۔ خوف زدہ ہو کر اُس نے گاڑی پولیس وین سے ٹکرا دی۔

ایک خوف ناک تصادم میں زور دار چیخ بلند ہوئی اور قبر میں اُتر گئی۔

ڈاکٹروں نے اُسے بتایا:

’’انکھوا قبل از وقت پھوٹا اور کونپل پھوٹتے ہی مرجھا گئی۔‘‘

٭٭٭









پہچان



درختوں پر بُور اور بار کا زمانہ تھا، پرندے بھی بار آوری کے عمل سے گزر رہے تھے اور بعض جانوروں میں بھی تخلیقی عمل جاری تھا۔ یہی وہ دن تھے، جب شجاع کے دوست نے اُسے بتایا:

’’بُور آ گیا ہے، دُعا کرو۔‘‘

اُس نے خوشی کے ساتھ بہت سی دعائیں دیں۔

شجاع کو بچے بہت اچھے لگتے ہیں، سچ تو یہ ہے، کہ تخلیقی عمل سے گزرتی ہوئی عورتیں اُسے دیوی سے کم نہیں لگتیں، اس کا دل از خود ایسی خواتین کے احترام میں جھکتا چلا جاتا ہے۔ ویسے اُس کے دوست کے یہاں پہلے بھی بچے موجود تھے، وہ بچے اُسی کے گھر کی نہیں بلکہ شجاع کے گھر کی بھی رونق تھے۔ وہ اپنے مطالعے کے کمرے میں، بالکونی میں، گھر کے کوریڈور میں، صحن میں، ٹیلی ویژن ہال میں یا پھر کچن میں چائے بنواتے ہوئے موجود ہوتا، تو یہ تیز و تند طوفانوں کی مانند دروازوں کے کواڑ توڑتے اندر چلے آتے تھے۔ اُسے ان کا یہ بے تابانہ پن بہت اچھا لگتا تھا۔ کبھی کبھی تو وہ اُس کی قیمتی کتابوں پر مختلف رنگوں کے قلم سے ایسی قلم کاری کرتے، کہ وہ کتابیں پڑھنے کے لائق بھی نہ رہتیں۔ اُسے یہ سب بھی اچھا لگتا تھا، کیوں کہ وہ اُس کے دوست کے بچے تھے۔ شجاع کا خاندان بھی انھیں اتنا ہی چاہتا تھا، جتنا کہ وہ خود۔

ان بچوں کی پیدائش بھی تو ان کے سامنے ہوئی تھی، یوں وہ اُن کی سالگرہ کو یاد رکھتے اور حسبِ توفیق تحائف بھی دیتے۔ اُس کا دوست بھی شجاع کی خوشیوں میں ایسے ہی شریک ہوتا تھا۔ باہمی زندگی کا یہ خوش گوار پہلو دونوں خاندانوں کو بہت قریب رکھتا تھا۔

ان کی دوستی آج سے دس سال قبل اُس وقت شروع ہوئی، جب وہ ایک ہی ادارے میں کام کرتے تھے اور پھر اتفاق سے اگلے دو سال بعد وہ اپنے شہر سے سیکڑوں میل دور ایک اور ادارے میں یکجا ہو گئے۔ تب اُس کے دوست کی شادی نہیں ہوئی تھی۔ شجاع کی شادی کو البتہ کچھ عرصہ گزر چکا تھا۔ نئی ملازمت کے بعد شجاع اپنے گھر والوں کو ساتھ لے آیا تھا۔

سیکڑوں میل کی مسافت میں اپنوں سے دُور رہنا کچھ دانش مندی نہیں۔ اگرچہ اس طرح آپ باقی خاندان سے کٹ جاتے ہیں لیکن بیوی بچوں کا ساتھ رہنا بھی ایک نعمت ہے اور ان سے دُوری ایک کڑے امتحان جیسی ہے۔ کچھ سال بعد جب اُس کا دوست بھی اپنے بیوی بچوں کو لے آیا تو شجاع کے خاندان نے پردیس میں اُن کا دل لگانے میں بہت کردار ادا کیا۔

دونوں گھرانے اتنے شیر و شکر تھے، کہ باقی لوگوں کو گمان گزرتا، جیسے وہ قریبی عزیز ہوں۔ اکثر لوگ یوں بھی اس بات کی تفریق نہیں کر پاتے تھے اور پھر اکثر فراغت کے وقت ان کا ایک ساتھ ہونا بھی اس بات کا شہادت گزار بن جاتا۔ دونوں میں سے اگر کوئی کہتا، کہ وہ مختلف علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں اور باہمی رفاقت کے سوا کوئی رشتہ نہیں، تو اِس بات پر بھی کم ہی یقین کیا جاتا۔ سچ تو یہ تھا، شجاع کے دوست کے بچے اُسے تایا اَبو کہتے تھے اور جب بچے اُسے یوں پیار سے پکارتے تو اُس کا جی بھی چاہتا تھا، کہ وہ اپنا سب کچھ اُن پر لٹا دے۔

وقت تو بدلتا ہے، اُن کے یہاں بھی بدل گیا۔ اُس کے دوست کا خاندان جڑ پکڑتا گیا اور دوسرے لوگوں سے تعلقات استوار ہوئے تو شجاع کے یہاں اُن کا آنا جانا کم ہوتا گیا۔ وہ اس بات کو معمول کے مطابق سمجھتا تھا۔ یہ انسان کی بنیادی عادات میں سے ایک ہے۔ وہ چاہتا ہے، کہ ہر پل نیا جہان سر کرے، نئے تعلقات بنائے، نئی دنیاؤں سے لطف کیش ہو۔ اس لیے اُسے کچھ عجیب نہ لگتا تھا۔ البتہ شجاع اس معاملے میں ذرا قدامت پرست تھا۔ وہ تعلق بنانے میں بہت دیر لیتا تھا۔ غالباً یہ اُس کی خاندانی تربیت کا نتیجہ تھا، کہ اُن کے یہاں تعلق بنانے اور تعلق توڑنے میں زمانے لگ جاتے تھے۔ جسے ایک بار دوست بنا لیا، وہی راستہ بدل لے تو بدل لے، ان کا دستور بہ ہر حال ساتھ نبھانے کا تھا۔ یہاں بھی یہی اُصول قائم تھا۔ بیچ میں کئی اُتار چڑھاؤ آئے، کئی بار اُس کے دوست نے سرِ محفل شجاع کی کسی کمزوری کوا چھالا بھی اور بعض مرتبہ تو اُسے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تعلیمات بھی یاد آئیں لیکن وہ دوست کی باتوں کو اپنا وہم سمجھ کر در گزر کرتا رہا۔

جس بات نے اُس کے دل میں پہلی گرہ لگائی، وہ بہت تعجب خیز ہے۔ وہی بچے جو اُسے تایا ابو کہتے تھے، اُنھوں نے انکل کہنا شروع کر دیا اور پھر بات انکل سے ہوتی ہوئی ’’سر‘‘ تک آ گئی۔ اب اس کے لیے سمجھ جانا بہتر تھا، سو اپنے تئیں وہ اچھائی کی ٹھان کے ایک قدم پیچھے ہو گیا۔ خواتین کے تعلق کے حوالے سے کوئی حتمی بات اس لیے نہیں کی جا سکتی کہ ان کے رویوں میں اُتار چڑھاؤ معمول کی بات ہے۔ صبح ناراض ہیں تو شام کو بریانی بھیج رہی ہیں۔ یہ اتوار نفرت آگیں ہے تو اگلے اتوار کو پورے خاندان کو گھر بلوایا ہوا ہے۔ ان کے یہاں بھی ایسا ہی ہوتا رہتا۔

وہ مسکرا کر ملتے تھے، کھانا اکٹھے کھا لیتے تھے۔ کام میں ایک دوسرے کا ہاتھ بھی بٹاتے تھے اور بعض اوقات سفر بھی اکٹھے کر لیتے تھے۔ ایک موقعے پر شجاع نے اُس کی اپنائیت بھری گفتگو پر محسوس کیا، شاید وہ اُسے سمجھنے میں غلط ہو۔ دوست ویسا نہیں شاید، جس طرح وہ سمجھ رہا تھا اور پھر یہ کون سی بڑی بات ہے، کہ بچے اُسے ’’سر‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔ ہو سکتا ہے، اُس کے دوست نے یہ سب بچوں کی بہتر تربیت کے لیے کیا ہو۔ ویسے بھی یہ القابات حقیقی رشتوں کے لیے ہی موزوں ہوتے ہیں۔ شجاع نے احساسِ مروت کے ساتھ سوچا:

’’کیا یہ دوستی اور محبت کی علامت نہیں کہ اُس نے انتہائی ذاتی بات میں مجھے حصے دار بنایا؟ ورنہ کون ہے، جو کسی کو ایسی اطلاع دے گا، کہ اُس نے بیج کاشت کیا تھا اور انکھوا پھوٹ چکا ہے۔‘‘

انھی دنوں میں ایک بار شجاع کے دوست نے اُسے کو بتایا:

’’تمھاری بھابھی بیمار ہے۔ ان دنوں مشکل زیادہ ہو جاتی ہے۔ بچے چھوٹے ہیں، ہر وقت کھانے پینے کی ضد کرتے ہیں اور کام والی بھی کچھ دنوں سے نہیں آتی۔‘‘

شجاع کو بہت دُکھ اور شرمندگی کا احساس ہوا۔ اس کے ہوتے ہوئے بھی دوست ایک مشکل مرحلے سے گزر رہا تھا اور وہ اتنا بے خبر رہا تھا۔ اسی احساس نے اُس سے کہلوایا:

’’یہ تو کوئی ایسی بات نہیں۔ آیندہ کھانا میری طرف سے ہی آئے گا۔ تمھیں تردد کرنے کی ضرورت نہیں اور نہ دھیان میں یہ لاؤ کہ اس سے ہمیں کوئی مشکل ہو گی۔ بچوں کو ہمارے یہاں بھیج دیا کرو۔ ہمارا دل بھی بہل جاتا ہے اُن کی معصومیت بھری شرارتوں سے۔‘‘

’’نہیں، میں خود کر لیتا ہوں سب کچھ، ویسے ایک بات کہہ دی۔‘‘

’’ٹھیک ہے مگر مجھ پر واجب ہے، کہ میں خیال رکھوں۔‘‘

پھر حسبِ توفیق شجاع اُس کی مشکلات دور کرنے میں جٹ گیا۔

اُن دنوں اچانک وبا پھوٹ پڑی۔ ہر طرف نفسا نفسی کا عالم تھا۔ لوگوں کو سمجھ نہیں آ رہی تھی، کیا کریں اور کیا نہ کریں۔ شجاع بھی سخت پریشان تھا۔ یہ عین فطری بات ہے، کہ مشکلوں میں انسان اپنوں کی طرف لپکتا ہے، چاہتا ہے، کہ اگر موت آنی ہے تو اپنوں میں آ جائے، پردیس میں مرنے کی رُسوائی بھی ایک عجیب احساس رکھتی ہے۔ وہ بھی فکر مند تھا اور چاہتا تھا اپنے شہر چلا جائے۔ ابھی آمد و رفت کے ذرائع معطل نہیں ہوئے تھے اور نہ وبا کے باعث شہروں کو یوں زیادہ مقفل کیا گیا تھا۔ ملک میں اکا دکا قرنطینہ سینٹر بنے تھے۔ اُس نے اپنے دوست سے کہا:

’’میرا خیال ہے، آنے والے دن خطرناک ثابت ہوں گے۔ حالات بگڑتے چلے جا رہے ہیں۔ جوں جوں بیرونِ ملک سے ہمارے لوگ پلٹ رہے ہیں، وبا میں اضافہ ہوتا جاتا رہا ہے اور حکومت بھی سخت اقدامات کی طرف بڑھ رہی ہے۔ بہتر یہ ہے، کہ ہم اپنے گھروں کو لوٹ جائیں اور اپنوں میں رہیں۔‘‘

’’میرا خیال ہے، خطرے والی کوئی بات نہیں۔ حالات جلد معمول پر آ جائیں گے۔‘‘

’’میں مشکلات دیکھ رہا ہوں، اس لیے جانا چاہوں گا۔‘‘

’’اگر حالات خراب ہوئے تو تب دیکھ لیں گے، ابھی نہیں جانا چاہیے۔‘‘

’’ہو سکتا ہے، تب پبلک ٹرانسپورٹ بند ہو جائے اور سیکڑوں میل کا سفر مشکل ہو جائے۔‘‘

’’آپ جانتے ہیں میری بیگم کی طبیعت خراب رہتی ہے۔ ایسے میں سفر ___!‘‘

یہ ایسا جملہ تھا، جو شجاع کے سینے میں اُتر گیا۔ وہ اس جملے میں پوشیدہ مفہوم سے آگاہ تھا۔ اب اگر وہ چلا جاتا تو ہمیشہ دوست کے دل میں یہ خیال باقی رہتا، کہ شجاع نے دوستی کا لحاظ نہیں رکھا۔ مشکلوں میں تو ساتھ دیا جاتا ہے، چھوڑا نہیں جاتا۔ اُس نے فیصلہ کیا، ایسا فیصلہ جو بعد میں اُس کے لیے کئی مشکلوں کا موجب بنا۔

’’ٹھیک ہے، ہم نہیں جاتے۔ اللہ مالک ہے۔‘‘ شجاع نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔

یہ وہی دن تھے، جب پورے ملک میں کرفیو جیسی فضا تھی۔ پبلک ٹرانسپورٹ پوری طرح منجمد تھی۔ آمد و رفت کا سلسلہ اپنی گاڑی پر ہی موقوف تھا۔ حکومت ہر تحصیل میں قرنطینہ سینٹر بنا رہی تھی۔ اتفاق سے اُن کے ادارے کو بھی سینٹر بنا دیا گیا۔ اگرچہ رہائشی کالونی فاصلے پر تھی لیکن ایک عجیب سا خوف پھیل چکا تھا۔ جس روز قرنطینہ میں مریضوں کو منتقل کیا جانا تھا، اُسی روز شجاع کے دوست نے اپنے گھر جانے کا فیصلہ کر لیا۔

یہ بات شجاع کو ایک تیسرے فرد نے بتائی تھی۔ وہ اگرچہ اس بات پر حیران بھی تھا، کہ کچھ دیر پہلے تو اُن کی ملاقات ہوئی تھی۔ دوست نے تو ذکر نہیں کیا تھا۔ پھر بھی اُس نے خوشی یا پھر مجبوری کے احساس کے ساتھ دوست سے رابطہ کیا۔

دوست کی گاڑی میں جگہ موجود تھی، اس لیے سب ایک ساتھ آسانی سے جا سکتے تھے۔ اُس نے دوستانہ تعلق کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اپنے دوست سے بات کی:

’’ہمیں بھی ساتھ لے چلو، اَب یہاں خطرات بڑھ گئے ہیں۔‘‘

’’میری بیگم کی بیماری کا تو آپ کو علم ہے۔ اکٹھے سفر میں پریشانی بڑھ جائے گی ___ ورنہ لے جانے میں تو ____‘‘

شجاع اس جواب کے لیے ذہنی طور پر بالکل تیار نہ تھا۔ وہ اپنے تعلق کو بہت اہم خیال کرتا تھا لیکن اس مشکل گھڑی نے اُسے بہت کچھ سکھا دیا تھا۔

٭٭٭





شاخِ آفتاب پر اُگا آنسو



نام تو اُس کا سعدیہ تھا لیکن اُس کی پوری زندگی میں کوئی ایک بھی سعد لمحہ قرار نہ پا سکا تھا۔ وہ اُن لوگوں میں سے ایک تھی، جنھیں زندگی کچل کر رکھ دیتی ہے اور وہ زندگی سے لڑنے کی ہمت بھی نہیں رکھتے۔ وقت کے تیز بہاؤ میں بہتے چلے جاتے ہیں۔ پیدا ہوئی تو ماں کو کھا گئی، شادی کی تو ایک ہی سال کے اندر شوہر کو چاٹ گئی اور بچہ پیدا کیا تو وہ بھی دیوانہ۔ شروع میں اُس کا خیال تھا، کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بچہ بولنے لگے گا لیکن یہ اُس کی خام خیالی ثابت ہوئی۔ بچہ نہ صرف گونگا بہرہ تھا، بلکہ حد سے زیادہ دُنیا بیزار اور ہیجان آشنا تھا۔ معمولی باتوں پر ہتھے سے اُکھڑ جاتا، پھر جو چیز اُس کے ہاتھ لگتی اُٹھا اُٹھا کر ماں کو مارتا اور فرش پر پھینکتا۔ دیوانگی کے یہ دورے اتنے طویل ہوتے کہ ماں سمجھاتے سمجھاتے خود دیوانی ہو جاتی اور پھر اپنے بال اور منھ نوچنے لگتی۔

وہ شکل و صورت کے اعتبار سے توجہ خیز اور جاذبِ نظر تھی۔ جب اُس نے جوانی میں قدم رکھا تھا، تو محلے کا ہر لڑکا اُس پر ڈورے ڈالنے کی کوشش کرتا۔ ایک تو بن ماں کی بچی جوانی کے جوبن میں آ چکی تھی، اس پر مستزاد اس کا اکلوتا ہونا۔ باپ کھاتا پیتا تاجر تھا۔ غلہ منڈی میں آڑھت میں حصہ داری کے علاوہ شہر کے مصروف بازار میں چند دکانوں کی ملکیت بھی تھی۔ سعدیہ کو دادی نے پال پوس کر جوان کیا اور پھر خود چپکے سے منوں مٹی کے نیچے جا بسیرا کر لیا۔

نہیں معلوم کس طرح اسے تمباکو کی لت پڑ گئی تھی۔ دن بھر گھر کی کھڑکی میں کھڑی لڑکوں کی طرح سیگرٹ کا دھواں اُڑاتی رہتی۔ وہیں سے چھوٹے لڑکوں کے ہاتھ سیگرٹ منگوا بھی لیا کرتی تھی۔ اس کی یہ عادت اتنی پختہ ہو چکی تھی، کہ وہ آس پاس سے بے نیاز تمباکو کے مرغولوں میں گُم رہتی۔ ایک بار والد نے گھر میں سیگرٹ کی ڈبیا دیکھی تو کچھ اور ہی سوچنا شروع کر دیا:

’’گویا سعدیہ ______؟‘‘

اس خیال نے والد کی نیند حرام کر دی۔ وہ رات رات بھر تڑپتا اور موقع کی تلاش میں رہتا۔ دن میں کئی بار گھر کے چکر کاٹنا بھی شروع کر دیے تھے۔ جب تک لیکن اُس کے ہاتھ کوئی سرا نہ آ جاتا، وہ کوئی بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔ باپ کے مسلسل کرب اور پریشانی کا نتیجہ یہ نکلا کہ اُس نے محض سولہ سالہ بیٹی کو اپنے ایک دوست کے بیٹے کے ساتھ فوراً بیاہ دیا۔

شوہر اُس سے عمر میں پندرہ سال بڑا تھا۔ دونوں کا اندازِ نظر بہت مختلف تھا۔ اس لیے شروع سے ہی نہ بن سکی۔ شوہر کی مصروفیات بھی کچھ عجیب سی تھیں، جنھیں چاہ کر بھی وہ نہ سمجھ سکی تھی۔ البتہ تمباکو کا نشہ اُس کے لیے آسان ہو گیا تھا۔ اُس کا شوہر سیگرٹوں کا پورا بنڈل لایا کرتا تھا اور ہر بار ختم ہو جانے پر بیوی سے متحیر انداز میں کہتا:

’’یہی ڈنڈا دو ماہ کے لیے مجھے کافی ہوتا تھا اور اَب ایک ماہ بھی مشکل سے نکلتا ہے۔‘‘

’’اچھا ___‘‘

’’کہیں ابا جی ___؟‘‘

’’میں کیا جانوں۔‘‘

اُن دنوں اُس کا آٹھواں ماہ چل رہا تھا، جب ایک حادثے نے اُس کے شوہر کی جان لی تھی۔ کچھ بھی تھا، بہ ہر حال وہ اُس کا شریکِ سفر تھا اور پھر روایتی بیویوں کے طرح وہ روئی بھی خوب تھی۔ ایک آسمان ٹوٹ کر نہیں گرا، ورنہ ہر کوئی یہی سمجھتا تھا، اس کی جان بھی نکل ہی جائے گی۔ نند اُسے سمجھاتی، جو عمر میں اُس سے بڑی تھی۔ ساس تھی نہیں اور سسر کی اپنی کاروباری زندگی کی مصروفیات تھیں۔ عدت کے دوران ہی اُس نے بیٹا جنا۔ کچھ دنوں کے لیے پورا گھرانہ جوان موت کا صدمہ بھول گیا اور ہر کوئی نو مولود پر واری قربان ہوتا رہا۔ اُسے بھی گویا کوئی کام ہاتھ آ گیا تھا۔ وہ ایسی اُلجھی، کہ اپنی طرف دھیان ہی نہ رہا اور اَب جب کہ بیٹا دسویں سال میں دیوانگی کی کامل تصویر بنا اُس کے سامنے رہتا تو ایک طرح سے وہ بھی درد انگیز حالات سے گزرتی رہتی۔ کبھی جو دُکھ حد سے گزر جاتا تو شکوہ کرتی:

’’ماں چھین لی، شوہر چھین لیا، بیٹے کو عذاب کی صورت جھولی میں ڈال دیا، موت کیوں نہیں دیتے؟‘‘

اَب وہ اُس عمر میں تھی، جہاں عورت مکمل طور پر جوان ہو جاتی ہے اور زندگی کے تجربوں کو اپنے ناخنوں میں رکھتی ہے۔ خوشیاں کشید کرتی ہے اور حکمرانی کا لطف اُٹھاتی ہے۔ اُس کا تابناک چہرہ تو کسی کے لیے توجہ خیز رہا بھی نہ تھا۔ بوڑھا سسر جو رات گئے پلٹتا تھا اور پاگل بیٹا جو ہر وقت ناک میں دم کیے رکھتا، یہی دونوں اُس کی زندگی کا محور تھے۔ اُس نے کئی سال سے خود پر دھیان ہی نہ دیا تھا۔ اُسے تو یہ بھی یاد نہ رہا تھا، کہ اُس کا خوب صورت سراپا کئی لڑکوں کو بے چین رکھتا تھا۔ گلی میں آتے جاتے کتنی ہی آنکھیں اُس کے قدموں میں بچھ جایا کرتی تھیں، کتنے ہی دلوں کی دھڑکن ٹھہر جاتی تھی اور کتنی ہی سانسیں تھم جایا کرتی تھیں۔ وہ تو یہ بھی بھول چکی تھی، کہ کبھی اُس نے دُلھنوں والا سُرخ جوڑا پہن کر شوہر کا انتظار بھی کیا تھا۔ نہیں معلوم کب منھ زور گھوڑے نے اُسے خود پر سواری کا موقع فراہم کیا اور کب یہ بے فکری سے پوری طاقت کے ساتھ اُس پر لگام ڈال کر بیٹھ گئی۔

وہ بہت تیزی کے ساتھ زندگی کی طرف پلٹ آئی تھی۔ اُسے اپنا دیوانہ بیٹا پہلے سے زیادہ پیارا ہو گیا تھا۔ وہ اُس کی ہر ضرورت کو فوراً پورا کر دیتی تھی۔ پہلے سسر کا کھانا رکھ کر سو جایا کرتی تھی مگر اَب جاگتی رہتی، جب تک وہ آ نہ جاتا۔ پھر دونوں مل کر کھانا کھاتے۔ کبھی وہ اُس سے دن کی مصروفیات کا احوال بھی پوچھ لیتی۔ نند آ جاتی تو اُس کے سامنے یوں بچھ جاتی، جیسے اُس کی زندگی کا اصل مقصد ہی یہی ہو۔ سب اس تبدیلی پر حیران تھے اور خوش بھی۔

یہ دوسری بار تھی، جب وہ دلھن بنی لیکن اُسے یوں لگا تھا، جیسے وہ پہلی بار سُرخ جوڑا پہننے جا رہی ہو۔ خوب اہتمام اور تیاریوں میں مصروف تھی۔ پہلی بار جب اُس کی شادی ہوئی تھی، تب وہ اپنے شوہر سے چھوٹی تھی، اس بار اُسے برابری اور جوڑ کا رشتہ ملا تھا۔ عمر کے ساتھ ساتھ ذہنی ہم آہنگی اور پھر درمیان میں محبت کا ایک توانا اور مضبوط ہاتھ بھی تھا۔ ان باتوں کے علاوہ ایک فرق یہ بھی تھا، کہ وہ اب باپ کے گھر کی بجائے سسر کے گھر سے بیاہی جا رہی تھی۔ وقت نے دیکھا ایک نند، بھابی کو اپنی دیو رانی بنا کر لے گئی۔

دلشاد ایک ملٹی نیشنل موبائل فون کمپنی میں اہم عہدے پر فائر تھا۔ اُن دنوں وہ ایک پڑوسی ملک میں خدمات انجام دے رہا تھا۔ شادی کے کچھ دن بعد ہی لوٹ گیا تھا۔ سعدیہ کے لیے قیامت کے دن رات لوٹ آئے تھے لیکن ان میں انتظار کی ایک لذت بہ ہر حال موجود تھی، جو اُسے مسرور رکھتی۔ پھر وجود میں ایک سرشاری، ایک لہر بھی تو پیدا ہو چکی تھی۔ راتوں کو وہ بہت دیر تک اپنے شوہر کے ساتھ فون پر باتیں کرتی لیکن باتیں تھیں، کہ ختم ہی نہ ہوں۔ نئی زندگی کی باتیں، نئی کلیوں کی باتیں، نئی تمناؤں کی باتیں اور پھر نہ ختم ہونے والی محبت کی باتیں۔ ان سب باتوں کے باوجود وہ شوہر کی کمی شدت سے محسوس کرتی تھی۔ اس کیفیت میں اکثر اپنے شوہر سے کہا کرتی تھی:

’’دلشاد! میں رات سے بہت ڈرتی ہوں، غمزدہ رہتی ہوں۔ تم چھوڑ آؤ ملازمت۔‘‘

وہ ہمیشہ اُسے یہی جواب دیتا:

’’شاخِ آفتاب کو رات سے کیا خوف؟ سورج تو تمھاری آنکھوں میں رہتا ہے۔ رات کو اپنی ضو فشاں آنکھوں سے روشن کر لیا کرو اور دلشاد ہو جایا کرو، دلشاد کر دیا کرو۔ تو ہو جائے پھر ایک قہقہہ۔‘‘

اُنھی دنوں ایک خوف ناک آندھی چلی، جس نے ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ زندگی جیسے کسی بھاری چٹان تلے آ گئی ہو۔ وقت جیسے تھم سا گیا ہو۔ ہر کوئی زندگی اور موت کا کھیل دیکھنے کا منتظر ہو جیسے۔ ایسے ہی ایک لمحے میں دلشاد پلٹ آیا لیکن سعدیہ کے لیے وہ اب دل شاد کرنے کا سبب نہ رہا تھا۔ اُس کی آنکھوں میں مستقبل کی موہوم سی جھلک بھی دکھائی نہ دیتی تھی۔ چہرے سے وہ ایسا غمزدہ اور مایوس دکھائی دیتا تھا، جیسے دوبارہ زندگی کی طرف کبھی نہیں آئے گا۔ ہر طرف گہرا سناٹا اور ناقابلِ یقین دھُندلاہٹ تھی۔ اگر کوئی چیز اُسے زندگی کی طرف لا سکتی تھی تو وہ سعدیہ کی لا مختتم محبت تھی اور سعدیہ پوری دیانت داری کے ساتھ اپنی محبت اُس پر لٹا رہی تھی۔

وہ رات بہت بھاری تھی۔ ڈاکٹر بار بار سعدیہ کو گھر جانے کا کہہ رہے تھے اور انتظامیہ کے لوگ بھی یہی کہتے تھے:

’’مریض خطرناک حالت میں ہے، وبا پھیل سکتی ہے، خود کو بچائیں اور ہمیں سختی پر مجبور نہ کریں۔‘‘

’’میں دلشاد کے ساتھ مر جانا چاہتی ہوں۔ آپ کریں سختی، مار ڈالیں مجھے۔‘‘

نہیں معلوم کیسے وہ اسپتال سے نکلی اور اپنی گاڑی میں آ کر بیٹھ گئی۔ اُس کی گاڑی بوڑھے برگد کے نیچے کھڑی تھی۔ گاڑی میں ہی اُس نے ساری رات آنکھوں میں گزار دی۔ ایک لمحے کو بھی اُس نے آنکھ نہ جھپکی تھی۔ وہ جانتی تھی، اہل کار اور ڈاکٹر اپنی ڈیوٹی کس وقت بدلتے ہیں۔ اس وقت آسانی سے اسپتال میں داخل ہوا جا سکتا تھا، تب وہ موقع پا کر اسپتال میں داخل ہو گئی۔

ایک اسٹریچر کو دو نقاب پوش دھکیل کر سرد خانے کی طرف لے جا رہے تھے، سفید پلاسٹک میں لپٹا ہوا انسانی ڈھانچا نم آلود نارنجی کرنوں کا استقبال کر رہا تھا۔

٭٭٭









فریبِ باہم



اُس نے اپنی ہتھیلیوں کی طرف دیکھا، جن پر مشقت اُسی طرح کھدی پڑی تھی، جیسے اُس کے بچپن میں نمایاں ہوتی تھی۔ اُسے یاد آیا: دھان کے کھیتوں میں رات بھر پانی لگانا اور پھر فصل کی تیاری پر کاٹنا، دونوں عمل اپنی جگہ تھکا دینے والے تھے۔ کٹائی سے اُس کی ہتھیلیاں چھل جاتی تھیں۔ کبھی تویوں معلوم ہوتا تھا، جیسے اُس کی ہتھیلیاں بکرے کی کھال کی طرح اُدھڑ رہی ہیں۔ کپاہ چُننا، مویشیوں کے لیے چارا کاٹنا، کیکر اور پھلاہی کے کھردرے تنوں کی چھال اُتار کر لانا، کھجور کے درختوں کی خشک شاخیں توڑنا، بکریاں چرانا اور پھر چند ساعتیں ہم جولیوں کے ساتھ ’’گیٹی چھپان‘‘، ’’لٹو گھمان‘‘ اور کبڈی کھیل لینا۔ زندگی میں اس سے زیادہ کھیل تماشے کی گنجائش بھی نہ تھی۔ دیہی زندگی کی مشقت اُس وقت اور سوا ہو جاتی ہے، جب کوئی مزارع کے گھر پیدا ہو۔

دُور دُور تک عجیب سناٹا تھا، ایک خوف ناک اور روح کو چیر دینے والا سناٹا۔ اُسے کم از کم یہی محسوس ہوتا تھا، حالاں کہ باہر دو پولیس والے مسلسل آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ اُن کے چہروں پر نقاب اور ہاتھوں پر دستانے چڑھے ہوئے تھے۔ اُن سے کچھ فاصلے پر ایک فوجی بندوق لیے کھڑا تھا، جس نے خود کو بھاری بوٹوں، موٹے دستانوں اور سیاہی مائل سبز دھاری دار وردی اور ہیلمٹ نما جنگی ٹوپی سے چھپا رکھی تھی۔ پتا نہیں اُس کے اندر یہ تنہائی کہاں سے اُتر آئی تھی۔ کچھ دنوں سے ویسے بھی اُس کے اعصاب تھکاوٹ سے چُور تھے۔ صبح سے رات گئے تک مسلسل کام بجائے خود بہت سے نقش دھُندلا دیتا ہے اور جب ایک سراسیمگی اور وحشت کی فضا بھی مسلسل طاری ہو تو دل و دماغ ثابت قدم کہاں رہ سکتے ہیں؟

باپ کے مر جانے کے بعد، جب اُس کی ماں نے دوسری شادی کر لی تو سوتیلے والد کو یہی آسان راستہ دکھائی دیا کہ اُسے کسی طرح درمیان سے نکال باہر کرے۔ باپ اکثر کہتا تھا: ’’پرایا خون کسی طرح اپنا نہیں ہوتا۔‘‘ ایک بہن تھی، جو مشکل سے بارہ سال کی ہو گی، جب نئے باپ نے اُسے اپنے کسی عزیز سے بیاہ دیا تھا۔ سوتیلے باپ نے اس کی ماں کو بیٹے کے بہتر مستقبل کا خواب دکھا کر شیشے میں اُتار لیا تھا۔ آخر گاؤں سے سیکڑوں میل دُور شہر کے ایک خیراتی ادارے میں اُسے داخل کرا دیا گیا۔ ادارے میں اس جیسے کئی اور بچے بھی تھے، جنھیں رہائش، خوراک، لباس اور دوسری ضروریات کے ساتھ تعلیم بھی مفت دی جاتی تھی۔ آٹھویں تک تعلیم کے بعد ان بچوں کو دوسرے مناسب اسکولوں میں داخل کرا دیا جاتا تھا۔ میٹرک پر جس بچے کے اچھے نمبر آ جاتے، اُسے وظائف مل جاتے اور یوں اُس کا تعلیمی سفر مزید آسان ہو جاتا تھا۔

شروع میں اُسے شدت کے ساتھ ماں اور بہن کی یاد آیا کرتی تھی، وہ چاہتا تھا، کہ جس طرح بھی ہو، اُسے اُن سے ملنا چاہیے لیکن ادارے کے سخت نگہداشتی قوانین اسے باہر جانے سے روکتے تھے، دوسری جانب گھر والوں نے بھی پلٹ کر خبر نہ لی۔ رفتہ رفتہ اُس نے خود کو تنہائی اور تکلیف کا عادی بنا لیا۔ اب اس کی زندگی کا سارا انحصار اسی ادارے پر موقوف تھا۔

گھر کے ماحول اور مستقبل کے انجانے خوف ناک تصور کی وجہ سے وہ وقت سے پہلے بالغ ہو چکا تھا۔ اس لیے وہ اچھی طرح جانتا تھا، کہ اُسے اپنی راہ سینے کے بل طے کرنی ہے، ورنہ وہ زندگی میں کبھی کھڑا نہیں ہو پائے گا۔ مسلسل مشقت اور خیراتی ادارے کی خبرگیری کے باعث آخر وہ ڈاکٹر بن کر ایک سرکاری ادارے میں تعینات ہو گیا۔ کبھی کبھار وہ پلٹ کر دیکھتا تھا لیکن ماضی کی بدنما یادیں اُس کا کلیجہ چیر کر رکھ دیتیں۔ ا پنوں کی پیہم بے اعتنائی اور کربِ لامتناہی اُسے پلٹنے نہ دیتا تھا۔ وہ سوچتا تھا، کہ کسی طرح ماں اور بہن کی خبرگیری ہی کر لیا کرے لیکن سوتیلے باپ کا چہرہ آنکھوں میں سماتے ہی اُس کے سارے خیالات اور ہمدردیاں بکھر کر رہ جاتیں۔ بہن کی کم عمری میں شادی کرا دینے اور اسے گھرسے نکال دینے پر بعض اوقات اسے اپنی ماں بھی مجرم معلوم ہوتی، ایسے میں یہ گھناؤنی اور مکروہ سوچ بھی اُس کے دماغ سے چپک جاتی:

’’محض اپنے بدن کی آسودگی کی خاطر ماں نے ہمیں راہ سے ہٹنے دیا، ورنہ مزاحمت کرتی۔‘‘

ایسے لمحوں میں اُسے خود سے بھی شدید نفرت ہونے لگتی اور وہ چاہتا، کہ آس پاس رکھی ہوئی ہر چیز کو راکھ کرنے کے بعد اپنی زندگی کا بھی خاتمہ کر لے۔ خود سے لڑنے کے بعد لیکن خود ہی معمول پر آ جاتا۔ اُس کی شادی نہ کرنے کی دیگر وجوہ میں سے ایک یہ وجہ بھی تھی۔ عورت سے اُس کا اعتبار اُٹھ چکا تھا۔ وہ اکثرسوچتا:

’’میں مرگیا تو میری بیوی بھی میری ماں کی طرح کسی دوسرے مرد کی تلاش میں نکل کھڑی ہو گی۔‘‘

یہ احساس اسے شکست سے دوچار رکھتا۔ اس کی زندگی کا سب سے پُرسکون دن وہی ہوتا، جب وہ اپنے ماضی کے خیراتی ادارے میں وقت گزارتا۔ اُس کی تنخواہ کا بڑا حصہ اُس ادارے کی ضروریات پوری کرتا تھا۔ وہ جب بھی وہاں جاتا، وہاں کے بچوں سے یہی کہتا:

’’یہ ادارہ جس طرح تمھارا مائی باپ ہے، اسی طرح میرا بھی ہے، لہٰذا تم میرے بھائی ہو۔ اپنی ضرورتوں کو مجھ سے نہ چھپایا کرو اور یہ بات ہمیشہ یاد رکھو، کہ احسان فراموش زندگی میں کوئی جہت نہیں پا سکتا۔ یہاں سے جب نکل جاؤ تو پلٹ کر ضرور آؤ۔‘‘

باہر پولیس والے اُسی طرح محوِ گفتگو تھے اور اس کے اندرسناٹا پاؤں پھیلائے بیٹھا ہوا تھا، اچانک ایک ساتھی نرس نے ایک جھٹکے کے ساتھ دروازہ کھولا اور وہیں سے بتایا:

’’بیڈ نمبر سترہ کا مریض بے حال ہے، وہ بار بار چیختا ہے اور بھاگنے کی کوشش کرتا ہے۔‘‘

’’اچھا! تم چلو میں آتا ہوں۔‘‘

شہر سے دُور بنائے گئے اس قرنطینہ سینٹر میں اُن لوگوں کو لایا جاتا تھا، جن میں وائرس کا شبہ ہوتا۔ خصوصاً اُن خاندانوں کے لوگ ہوتے، جن کا کوئی فرد باہر سے آیا ہوتا۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل تھے، جو ایران زیارات کے لیے گئے تھے اور وہ بھی جو یورپ، امریکا، چین، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب یا پھر کسی دوسرے ملک سے پلٹے تھے۔ حکومت پوری کوشش کر رہی تھی، کہ بلا تخصیص ہر ایک کی ایک بار جانچ ضرور ہو جائے۔ پلٹنے والوں نے خود کوہی دھوکا نہ دیا تھا، بلکہ اپنوں کی زندگیوں سے کھیل کر انھیں بھی فریب میں مبتلا کیا تھا۔ اب مجبوراً ان کے لیے یہ اہتمام ضروری ہو چکا تھا۔ سینٹر میں آنے والے طرح طرح کے مسائل پیدا کرتے تھے۔ دو روز پہلے زیرِ جانچ ایک شخص نے عجیب مطالبہ کیا، جس پر ڈاکٹروں سمیت دیگر عملہ ایک دوسرے کا منھ دیکھتے رہ گئے۔ اُس نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کہا تھا:

’’میں عادی شرابی ہوں، میرے لیے انتظام کریں، ورنہ میں باہر نکل جاؤں گا اور ہر ایک کے چہرے پر تھوکوں گا، سب کو مرض لگاؤں گا۔‘‘

ایک اور مریض نے مقامی کمشنر کے دورے کے موقع پر چیخ چیخ کر کہا تھا:

’’ہمیں چرس دلائیں، سیگرٹ دلائیں، ہمارا یہاں دَم گھٹتا ہے، یا پھر گھر جانے دیں۔‘‘

کمشنر دم بخود رہ گیا۔ اُس نے کہا: ’’سیگرٹ تو ہم دے دیں گے، چرس کا مطالبہ دُرست نہیں۔‘‘

کمشنر کے جانے کی بہت دیر بعد تک ہنگامہ جاری رہا۔

’’بابا جی! کیوں چیختے اور بھاگنا چاہتے ہیں؟‘‘ ڈاکٹر نے سترہ نمبر بیڈ کے مریض سے پوچھا۔

’’میں بالکل ٹھیک ہوں، مجھے جانے دو۔ میری بکریاں مر جائیں گی۔‘‘بوڑھے نے جواب دیا۔

’’آپ ٹھیک ہیں، ہم جانتے ہیں، بس کچھ دن انتظار کر لیں۔ ہم آپ کو صحت مند رکھنا چاہتے ہیں۔ بس کچھ دن اور انتظار۔‘‘

’’میری بکریاں مر گئیں تو کون ذمہ دار ہے؟ میں اُنھیں چارہ ڈالتا ہوں، اُنھیں پانی پلاتا ہوں، اُن کا خیال رکھتا ہوں۔ آپ لوگوں نے پورا خاندان حفاظت کے نام پر قید کر لیا ہے۔‘‘

’’بابا جی! ہم تو آپ سب کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔ آپ کا خیال رکھتے ہیں۔ مفت دوائیں، مفت کھانا، مفت خدمت اور اس پر بھی آپ ناراض ہوتے ہیں؟‘‘

یہ کہہ کر ڈاکٹر نے مریض کا ٹمپریچر چیک کیا، جو مسلسل بڑھ رہا تھا۔ اُس نے کچھ لکھ کر نرس کو انجکشن لگانے کی ہدایت کی اور بابا جی کی جھڑکیاں اور گالیاں سُنتا ہوا دوسرے مریضوں کی طرف نکل گیا۔

یہ مریض آج ہی لایا گیا تھا۔ اس کے خاندان کے سات لوگ بھی اس کے ساتھ تھے۔ ایک بڑھیا، تین لڑکیاں، دو نوجوان لڑکے اور ایک بیس دنوں کا بچہ۔ بابا جی کو دیکھنے کے بعد اُسے خیال آیا، کہ ان کی تفصیل جاننے کی کوشش کرے۔ لڑکوں اور لڑکیوں کا پوچھے کہ وہ بابا جی کے کیا لگتے ہیں، بیس دن کے بچے کے متعلق جان کاری حاصل کرے، اسی لمحے اُسے خیال آیا کہ ان کے ساتھ جو بڑھیا ہے، اُسے دیکھے، جسے ابھی تک وہ نہ دیکھ پایا تھا۔ نرس نے اُسے یہی بتایا تھا:

’’بابا جی ہیں، اُن کی بیوی ہیں، دو بیٹے ہیں، ایک بیٹی ہے اور دو بہوئیں ہیں۔‘‘

اُس نے سینٹر میں سے گزرتے ہوئے بوڑھی مریضہ کو دیکھا۔ ایک سرد آہ لی۔ پھر اُس کے دماغ میں بدن کی آسودگی کی خواہش پر اولاد کو قربان کر دینے والی ماں کا نقش لہرا گیا۔ اگلے روز وہ اپنے اسپتال میں فرائض انجام دے رہا تھا اور سینٹر میں اُس کی جگہ کوئی دوسرا ڈاکٹر ڈیوٹی پر چلا گیا۔

٭٭٭









تابوت میں زندگی



یہ سوچنا بے معنی تھا، کہ اتنی تعداد میں تابوت کہاں سے آتے ہیں، انھیں بنانے والے یا بنوانے والے کون ہیں؟ یہ بات زیادہ معنی خیز تھی، کہ مرنے والوں کو ان خوب صورت تابوتوں میں ڈال کر زمین میں گاڑھا جاتا تھا۔ کچھ تابوت تو اتنے بڑھیا اور پُر کشش تھے، کہ مجھ سمیت کئی ایک کو خواہش پیدا ہوئی ہو گی، کہ انھیں گھروں میں الماری کے طور پر استعمال کر لیا جائے۔ ہواؤں اور بیرونی اثرات سے محفوظ اور ایک خاص قسم کی خوشبو میں رَچے ہوئے تابوت۔ اُمید کی جا سکتی ہے، کہ اگر انھیں صندوق کے طور پر برتا جائے تو دیمک سمیت ہر طرح کے حشرات سے قیمتی کپڑے محفوظ رہیں گے۔ میں البتہ یہ سوچ رہا تھا، کہ اس میں مذہبی، اخلاقی، علمی اور ادبی کتابیں زیادہ محفوظ رکھی جا سکتی ہیں۔ ان کتابوں کو بادی النظر میں محفوظ ہی کر لینا زیادہ مناسب ہے۔ میری بیوی بھی اس معاملے میں میری ہم نوا تھی۔ خیر! یہ ایک الگ زاویہ ہے۔

خیموں کی اس بستی میں زندوں کا دَم گھٹتا تھا۔ کہنے کو تو یہ قرنطینہ سینٹر تھا اور اس کا واضح مقصد وبائی ایام میں متاثرہ افراد کو زندگی کی طرف لوٹا نا تھا لیکن حقیقت میں یہ ڈیزز سینٹر تھا۔ چھے مربع فٹ کے ان خیموں کی ایک طویل قطار تھی۔ اگر میرا اندازہ درست ہو اور میں یقین سے کہ سکتا ہوں توچوالیس چوالیس خیموں کی قطاریں تھیں اور ہر خیمے کے درمیان چار فٹ کا فاصلہ تھا۔ زمین کچی تھی، لہٰذا ڈیٹول یا پھر دوسری جراثیم کش ادویات چھڑکنے کا عمل محض بے معنی تھا۔ حکومت نے تارکولی ڈرموں کو پانی کی ٹینکیوں میں بدل دیا تھا۔ ڈرموں کے سرے ادھ کٹے ہوئے۔ جستی چادروں اور لوہے کے فریموں سے طہارت خانے بنائے گئے تھے۔ تین طہارت خانوں کے سامنے ایک ڈرم نصب کیا گیا تھا۔ متاثرین میں سے جب کسی کو حاجت ہوتی تھی، وہ بلا خوف لوٹا ڈرم کے اندر ڈال کر پانی نکال لیتا۔ رفع حاجت کے بعد اطمینان سے یہ عمل دُہرا کر منھ ہاتھ دھو لیتا۔ اگر کوئی مزید صفائی پسند ہوتا اور طہارت کی تمنا رکھتا، اسی طریقے سے نہا بھی لیتا تھا۔ میری بیوی کو اس عمل سے کراہت محسوس ہوتی تھی۔ میں عادی ہوں، کیوں کہ میں نے بعض دیہاتی تھانوں میں طہارت کا یہ بندوبست دیکھ رکھا ہے۔ ہماری شاہراہوں پر بنی ہوئی پولیس چوکیاں بھی کچھ ایسے ہی انتظام کی حامل ہوتی ہیں۔ فوجی بیرکوں اور بڑے پلازوں کے مزدوروں کو بھی اتنی ہی سہولت نصیب ہوتی ہے۔ اگر آپ نے دھیان دیا ہو تو ہمارے سارے ملک میں عوامی بیت الخلا اس سے بھی بدتر حالت میں ہوتے ہیں۔ میری بیوی کہتی:

’’جو لوٹا رفع حاجت کے لیے استعمال ہو، اُسی لوٹے سے کیوں کر منھ دھویا جائے؟ میں تو حیران ہوں بعض لوگ اُسی لوٹے سے منھ لگا کر پانی بھی پی لیتے ہیں۔‘‘

میں اُسے سمجھاتا:

’’مشکل دنوں میں اس طرح کے حالات کا سامنا مجبوری ہوتی ہے۔‘‘

وہ اس بات کے خلاف تھی، اُس کا خیال تھا، کہ قرنطینہ سینٹر پاکیزہ و معطر ہونا چاہیے۔ ہر طرح سے صاف ستھرا اور پُر سکون۔ یہاں تو چڑیوں کی چہچہاہٹ اور ہوا کی سرسراہٹ کا گزر بھی نہ ہو۔

در اصل یہ ایک مثالی بات ہے۔ ہمارے یہاں اتنے وسائل نہیں۔ حکومت نے ریگستان میں وہ سینٹر اس لیے قائم کیا تھا، کہ شہری آبادیوں کو اس خطرناک وائرس سے محفوظ رکھا جائے۔ وہ پناہ گاہ شروع میں خوب صورت تھی۔ بالکل نئے خیمے، نئی قناتیں اور تارکولی ڈرم بھی کچھ زیادہ بُرے نہ تھے۔ زمین اگرچہ ریتیلی اور کچی تھی لیکن اس پر چیونٹیاں رینگتی تھیں، نہ مکھیوں کی بھنبھناہٹ تھی۔ سینٹر کے مکینوں نے خیموں کے درمیانی فاصلے کو از خود گندہ کر دیا تھا۔ خالی بوتلیں اور جوس کے ڈبے، شاپر، بچوں کے پوتڑے، بچا ہوا سالن، روٹیاں، خراب بسکٹوں کے ڈبے اور سیگرٹوں کے جلے ہوئے ٹکڑے وہاں کی انتظامیہ نے تو نہیں پھیلائے تھے۔ اتنے بڑے رقبے کے کسی ایک کونے میں یہ سب چیزیں ڈالی جا سکتی تھیں۔ مکینوں کا خیال تھا، کہ انتظامیہ نا اہل ہے اور حکومت کو ان کی زندگیوں کی قطعی پروا نہیں۔ ورنہ وہ اس غلیظ ماحول میں رہنے پر مجبور نہ کرتی۔

یہ بات ایک حد تک دُرست ہو سکتی ہے لیکن جب بڑے پیمانے پر خرابی ہو تو اُس طرح کی چھوٹی باتوں کا صرفِ نظر ہو جانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ من حیث القوم ہم کہولت آشنا اور غیر ذمہ دار ہیں۔ آفات میں سب کچھ حکومت کے ذمہ ڈال دینا غیر ذمہ داری کے سوا کیا ہے؟ لیکن میری بیوی کا خیال تھا: ’’بیماروں اور مجبوروں سے اعلیٰ اخلاقیات کی توقع عبث ہے۔‘‘

میری تین بچیاں ہیں، تب بیوی اُمید سے تھی۔ میں نے بیٹے کے لیے منت مانی تھی۔ اگرچہ مجھے والدین نے منع بھی کیا تھا، کہ ایسی حالت میں اتنا طویل سفر نہ کروں لیکن میں منت کو توڑ نہیں سکتا تھا۔ ہم نے سفرکیا، اب یہ محض اتفاق ہی تھا، کہ اس عرصہ میں وبا پھیل گئی۔

اسے بے احتیاطی یا ہٹ دھرمی سے محمول کیا جانا اصل میں کج فہمی ہے۔ انسان ایک خاص دائرے کا قیدی ہے، جس میں سے نکلنا اس کے بس میں نہیں۔ تو میں کیوں مجرم ہوں؟ والدین اور میری بچیاں منتظر تھیں۔ اُمید تھی، بہت جلد ہم اُن کے پاس ہوتے۔ حکام بھی یہی کہتے تھے لیکن میری بیوی کی حالت کچھ زیادہ اچھی نہ تھی۔ اُمید سے ہونا ایک اذیت ناک عمل ہے۔ عورت تخلیق کے عمل میں کئی ماہ تنہا سلگتی ہے اور پھل کی صورت میں سارا کنبہ خوشیاں مناتا ہے۔ لڑکیاں بھی ٹھیک ہی ہیں لیکن لڑکا تو میٹھا میوہ ہے۔ میں اسی کا امید وار تھا۔

یہ جمعے کا دن تھا۔ خیموں پر سردی کا پہرا تھا۔ میں نے کچی زمین پر ایک کمبل بچھا کر اپنی بیوی کو اس پر لٹا دیا اور خود سرہانے کی طرف بھی بیٹھ گیا۔ دھوپ میں مجھے تو شدت محسوس ہو رہی تھی لیکن میری بیوی کے خیال میں بہت سردی تھی۔ وہ چاہتی تھی، آگ کا الاؤ روشن کر دیا جائے۔ میں نے اسے جھڑک دیا تھا۔ وہ خفا ہو گئی اور دوسری طرف منھ کر کے لیٹ گئی۔

وہ بہت اچھی تھی۔ پہلے بھی مان جایا کرتی تھی۔ بات محض الاؤ کی ہو تی تو میں انتظام بھی کر لیتا۔ اصل بات یہ ہے کہ وہ چاہتی تھی، اس سینٹر میں گائنا کالوجسٹ کا انتظام کیا جائے یا کم از کم مڈ وائف تو ہو۔ بھلا وہ کوئی نارمل حالات تھے؟ ہمارا جھگڑا اسی بات پر ہوا۔ کورونا وائرس کے مریضوں کے سینٹر میں گائناکالوجسٹ کا کیا کام؟ سینٹر میں اگر کوئی زچگی کے درد سے کراہتی یا تڑپتی ہو تو اُس میں سینٹر بنانے والوں کا کیا قصور؟

میں سوچ رہا تھا، کچھ ہی دیر میں وہ مان جائے گی اور پھر ہمیشہ کی طرح ہم خوش ہو جائیں گے۔ ایسا نہ ہوا، کیوں کہ تھوڑی دیر بعد وہ پھر تڑپ اٹھی۔ اُسے شدید سردی لگ رہی تھی۔ میں نے انتظامیہ کو اطلاع دی۔ ڈاکٹر کہیں اور مصروف تھا۔ ایک بڑھیا تڑپ کر وہاں پہنچی۔ وہ جان گئی کہ نوعیت کچھ اور ہے۔ قرب و جوار میں بھی کوئی دائی ہوتی تو کام ہو سکتا تھا۔ دیہات میں ویسے بھی سارا کام دائیاں سنبھالتی ہیں۔ سینٹر میں موجود تین بوڑھی خواتین نے اپنے تئیں معاملات سنبھالنے کی کوشش کی لیکن حالت مزید بگڑتی گئی۔

پہلے تو میری بیوی چیختی رہی، پھر ایک دم اُس کا جسم ٹھنڈا پڑ گیا۔ چھونے پر ایسا معلوم ہوتا تھا، جیسے برف کو ہاتھ لگا دیا ہو۔ اُس کی دھڑکن رُک گئی، سانس رُک گئی اور پھر نبض بھی۔ کم از کم مجھے یہی معلوم ہوتا تھا۔

ڈاکٹر دوڑتا ہوا آیا، اُس نے جانچ کے بعد اطلاع دی، ابھی جان باقی ہے۔ جلدی میں کچھ انجکشن لگائے، منھ میں قطرے ٹپکائے۔ ذرا طبیعت سنبھلی پھر درد شروع ہو گیا۔ اب کم از کم موت کا خطرہ ٹل گیا تھا، کیوں کہ وہ بار بار میرے چہرے پر محبت سے نظر ڈال رہی تھی۔ مجھ سے نئے سورج کے طلوع ہو جانے کی باتیں بھی کر رہی تھی۔

شام تک وہ ایک ننھی زندگی تخلیق کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ میٹھا پھل میری جھولی میں تھا لیکن وہ خوب صورت تابوت میں اُتر چکی تھی۔

٭٭٭









طلسمِ کہن



پروجیکٹر پر ویڈیو فلم چل رہی تھی، جس میں شہروں کی ویرانی کے مناظر، اسپتالوں میں مریضوں کا ازدحام، حکومتی ایوانوں میں افراتفری کا عالم، دانش وروں کے خطابات، ڈاکٹروں کے حفاظتی انتظامات اور طرزِ علاج، متاثرین کی فہرستیں اور دُنیا کی بے بسی اور خطرات کا حال فلمایا گیا تھا۔ یہ سب کچھ پچھلے تین گھنٹے سے اعلیٰ افسروں کو دکھایا جا رہا تھا۔ اکثر افسران توجہ سے وقت کی یہ حشر آرائی دیکھ رہے تھے، کچھ افسران وقتاً فوقتاً اپنی ڈائریوں پر کچھ نوٹ کر رہے تھے، کچھ اپنی پنسلوں سے اپنا سر کھجاتے ہوئے بھی دکھائی دیتے تھے۔ ایک افسر بے چینی کے عالم میں بار بار اپنا بال پوائنٹ بند کرتا اور کھولتا، جس سے دوسرے افسروں کی توجہ اُس کی طرف منتقل بھی ہوتی رہتی تھی۔ ایک خوف ناک اور قیامت خیز سلسلہ تھا، جو روح کو اُچک لینے کو آتا تھا۔ سسکتی انسانیت کے دل سوز اور متوحش مناظر دلوں کو چیرتے تھے۔ چیف سیکرٹری نے پروجیکٹر پر چلنے والی فلم بند کرنے کا اشارہ کیا اور پھر اپنی نشست کے سامنے لگا ہوا مائیک کھول دیا۔ ایک بھاری اور متبسم آواز اُبھری:

’’خواتین و حضرات! آپ نے سارا منظر نامہ دیکھ لیا ہے۔ دُنیا ایک نا قابلِ یقین عالم میں مبتلا ہو چکی ہے، اگرچہ ہم ابھی اس سنگین صورت میں نہیں لیکن یہ خدشہ موجود ہے، کہ ہم بھی اس حالت کا سامنا کریں۔ اس لیے حکومت پیشگی انتظامات کا سوچ رہی ہے۔‘‘

نہیں معلوم اُس کے بعد چیف سیکرٹری کی زبان سے کیا ادا ہوتا رہا اور باقی شرکا نے کیا گفتگو کی، وہ تو ایک انجانی تکلیف دہ اذیت کا شکار ہو چکا تھا۔ اُس کے بال پوائنٹ کا تحرک جاری تھا اور یہ گمان بھی اُسے نہ ہوتا تھا، کہ اس کا یہ عمل دوسروں کو متوجہ کر رہا ہے۔ اُس کے دھیان میں جو چل رہا تھا، دوسرے بے خبر تھے۔ اجلاس ختم ہوا اور پھر اعلیٰ افسران کے سامنے انواع و اقسام کے کھانے چُن دیے گئے۔ ساتھ والی نشست پر بیٹھے ایک دوسرے افسر نے کہنی کا ٹوکا دے کر اُسے محفل میں لوٹنے کا موقع فراہم کیا۔ ایک افسر کھانے کے دوران چیف سیکرٹری کو مخاطب کر کے کہہ رہا تھا:

’’جنابِ عالی! میں یہ بات کرتے ہوئے معافی چاہتا ہوں۔ اگرچہ خطرات میں ہم گھرے نہیں لیکن مجھے یوں گمان ہوتا ہے، جیسے ہم اُن کا انتظار کر رہے ہیں۔ ہمارا ڈیزاسٹر مینجمنٹ سینٹر کام چھوڑ چکا ہے۔ مفاجاتی لمحات پوچھ کر طاری نہیں ہوتے۔ ہم ہنگامی حالات میں کنواں کھودنا شروع کر دیتے ہیں اور پھر معاملات بگڑتے چلے جاتے ہیں۔ عملی اقدامات، پیشگی احتیاط اور ان مناظر سے فوری سیکھنے کی ضرورت ہے۔‘‘

’’یہ اجلاس اسی سلسلے میں تھا، ماضی میں جو ہوا، اُسے بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ آج جو درپیش ہے، اُسے سمجھنا، سدھارنا ہے اور آنے والی مشکلوں سے بچنا ہے۔‘‘

چیف سیکرٹری نے قدرے ترشی کے ساتھ جواب دیا۔

’’جی! میں یہی عرض کر رہا ہوں۔ میں دیکھ رہا ہوں، کہ ہم اُس رفتار سے پیش بندی نہیں کر رہے۔ پھر چیف ایگزیکٹو نے گزشتہ روز اپنی تقریر میں کہا ہے کہ ’ابھی ہمیں زیادہ ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ ‘ یہ ایک طرح سے ضرورت سے زیادہ بے نیازی کا اظہار ہے۔‘‘

افسر نے ذرا حوصلہ کر کے جواب دیا۔

’’دُرست، ہم اپنی سفارشات میں اس سنگین صورت کا تذکرہ کریں گے۔‘‘

چیف سیکرٹری کے اعلان کے بعد ایک طرح سے خاموشی چھا گئی، البتہ کھانے کے چمچوں کی آوازیں مسلسل آ رہی تھیں۔

اُسے لگا جیسے یہ سفارشات بھی عمومی روش کے مطابق فائلوں کے ڈھیر میں دَب کر رہ جائیں گی اور یہ اجلاس بھی محض کار روائی پوری کرنے کا ایک وسیلہ ثابت ہو گا۔ اسی ادھیڑ بن میں کھانا اُس کے سامنے پڑا تھا۔ ساتھی افسر نے دوسری بار اُسے ٹہوکا دیا تو پلیٹ کو اپنا طرف کرنے کے بعد اُس کی زبان سے میکانیکی انداز میں الفاظ برآمد ہوئے:

’’سر! دوا کے ساتھ ساتھ ہمیں کئی دنوں کی خوراک کا بھی انتظام ابھی سے کر لینا چاہیے۔ لاکھوں لوگ بے روزگار ہو سکتے ہیں۔ پہلے ہی ہماری سڑکوں پر ہزاروں بھکاریوں کا ہجوم رہتا ہے اور پھر مزدور طبقہ زیادہ دیر تک نظامِ زندگی چلانے کی سکت نہیں رکھتا۔ ہزاروں مریضوں کو ٹھہرانے کے لیے ہمارے پاس کوئی انتظام بھی نہیں۔ اسپتالوں میں بنیادی وسائل کا ہمیشہ سے بحران رہا ہے، ایسے میں مزید سنگینی پیدا ہو جائے گی۔‘‘

’’آپ کی گفتگو اہم ہے اور ہم اس کے بعض حصوں پر پہلے ہی بات کر چکے ہیں۔‘‘

چیف سیکرٹری نے جواب دیا۔

چند دن بعد ہی سارا منظر نامہ تبدیل ہو چکا تھا۔ مرگِ مفاجات کا عالم تھا۔ کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا، کہ اتنی تیزی سے وبا پھیل جائے گی اور پھر ساری قوم مخمصوں اور مصیبتوں کی لپیٹ میں آ جائی گی۔ ہنگامی طور پر جو کچھ کیا جا سکتا ہے، وہ ہو رہا تھا۔ حکومتی بیانات اور اقدامات کی سیریز تھی۔ سیاست دانوں اور سیاسی کارکنوں کا تحرک تھا، جو زیادہ تر سوشل میڈیا اور قومی ذرائع ابلاغ پر دکھائی دیتا تھا۔

تعلیمی ادارے بند، شہر سنسان، اسپتالوں میں ناقابلِ حل مسائل کا کوہستانی سلسلہ، بنیادی ادویہ اور حفاظتی سامان کی عدم دستیابی اور پھر گھروں میں مقید بے بسوں کا المناک منظر نامہ۔ نچلی سطح تک احکامات جاری ہو چکے تھے۔ تحصیلوں کی بعض سرکاری عمارتوں اور بند اسکولوں کو قرنطینہ سینٹر قرار دیا چکا تھا۔ اشتہاری مہم زوروں پر تھی۔ ضلعی اور تحصیل کے افسران یہ چاہتے تھے، کہ اُن کے پینا فلیکس نمایاں مقامات پر آویزاں ہوں، تاکہ آنے جانے والوں کی نظریں پڑتی رہیں۔ قائم سینٹروں کے دوروں کی تصاویر ایک لمحے کے اندر سوشل میڈیا پر پھیلا دی جاتی تھیں۔

وہ بھی اپنے ضلع میں کچھ ایسے ہی انتظامات کر رہا تھا لیکن ایک احتیاط، ایک دیانت اور ایک سچائی کے ساتھ۔ اُس کی پوری کوشش تھی، کہ یہ عمل محض دکھاوا نہ ہو۔ جس کی مدد کی جا سکتی ہو، ایمانداری سے کی جائے۔ اُس نے اپنے ماتحت عملہ کو دو ٹوک الفاظ میں کہ دیا تھا:

’’یہ معاملہ اللہ کے ساتھ ہے۔ میں ہوں نہ ہوں، یہ نہ سوچنا۔ بہ ہر حال انسانیت کے دکھوں کا مداوا کرنا، جو سہولیات میسر ہیں، اُنھیں درد مندوں تک پہچانا ہے۔‘‘

کئی سیاسی و سماجی جماعتوں کے مقامی لوگ بھی اُس کے پاس آ کر اپنا تعاون پیش کر رہے تھے، اُنھیں بھی وہ یہی کچھ کہتا تھا۔ لوگ اُسے اشیا دیتے ہوئے تصاویر اور ویڈیو بنواتے۔ اُسے دُکھ ہوتا لیکن ایک بڑے مقصد کی خاطر وہ خوش دلی کا مظاہرہ کرتا۔ وہ جانتا تھا، حکومتی سطح پر اتنا کچھ نہیں ہو سکے گا، جتنے کی ضرورت ہے۔ اُس کے ساتھ بنائی گئی تصاویر میڈیا پر بڑھا چڑھا کر وائرل بھی کی جاتیں لیکن اُسے بہ ہر حال یہ اطمینان رہتا تھا، کہ اُس کے ساتھ قدم ملانے والے موجود ہیں اور ان مشکل گھڑیوں میں ان کا دم بھی غنیمت ہے۔

ایک روز بعض سیاسی کارکنوں کے چہروں پر چائنہ سے آنے والا خصوصی ماسک دیکھ کر اُس کا جی چاہا تھا، کہ اُٹھ کر فوراً نوچ لے لیکن مصلحتاً خاموش رہا۔ سیاست دانوں کے آلہ کار بہت کچھ پس انداز کر لیا کرتے ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتا تھا، کہ زلزلہ زدگان کو ملنے والی غیر ملکی امداد اُن تک پہنچنے سے پہلے بازاروں میں منتقل ہو جاتی رہی تھی۔ پھر بھی جن لوگوں تک کچھ پہنچ جاتا تھا، وہ نہ ملنے سے تو بہتر تھا۔ ایک کارکن نے اُس کے دفتر میں آ کر اُسے بتایا تھا:

’’جناب! میں نے اپنی پوری تحصیل کا سروے کر لیا ہے۔ مزدوروں کی الگ فہرست بنائی ہے۔ بیواؤں اور یتیموں کو الگ شمار میں رکھا ہے۔ سفید پوشوں کی بھی ایک لڑی ہے۔ اَب جوں ہی حکومت کی طرف سے یا پھر فلاحی اداروں کی جانب سے امداد آئے گی، تمام لوگوں تک فوراً پہنچا دی جائے گی۔‘‘

’’یہ قابلِ قدر کام ہے۔ اللہ کی موجودگی کا احساس رکھتے ہوئے جاری رکھیں۔‘‘اُس کا جواب تھا۔

اپنے ضلع میں اُس نے جانفشانی سے کام کیا۔ لوگوں سے ملتا رہا۔ تنظیموں کو تحریک دیتا رہا۔ سیاسی کارکنوں، علما اور دوسرے رضا کاروں کا حوصلہ بڑھاتا رہا۔ کون سا ایسا علاقہ تھا، جہاں ان دنوں اُس کی رسائی نہ ہوئی تھی۔ جن علاقوں، دیہات اور گلیوں کا اُس نے نام تک نہ سنا تھا، وہاں تک بھی اپنی خدمات کا دائرہ پھیلا چکا تھا۔ اس کے باوجود وہ ناکافی انتظامات کی وجہ سے دکھی رہتا تھا۔ وہ اس بات پربھی پریشان تھا، کہ وسائل ناکافی ہیں۔ پھر کچھ لوگوں کا رویہ ناقابلِ برداشت ہوتا جا رہا تھا۔ بہت سی اطلاعات تھیں، جو اس کے اضطراب میں بڑھوتری کاسبب تھیں۔

دو روز قبل ایک بڑے اسٹور کے مالک کو اس نے گرفتار کرنے کا حکم دیا تھا، جس نے Sanitizers کا اسٹاک چھپا رکھا تھا اور مصنوعی قلت بنا کر دگنی قیمت پر بیچ رہا تھا۔ کئی سیاسی کارکنوں کے ذاتی استعمال میں امدادی اشیا دیکھ چکا تھا۔ دکھی دل کے ساتھ اُس نے ایک رپورٹ مرتب کی، جس کا سرنامہ تھا:

’’طلسمِ کہن‘‘ اور ذیلی سرخی میں درج تھا: ’’مندرجات ہماری روایات کا تسلسل ہیں۔‘‘

٭٭٭









وبا



وبا نے محض جسموں کو متاثر کیا ہوتا تو بات بھی تھی، جسموں کا علاج ہوہی جاتا ہے۔ اس نے روحانی طور پر انسان کو کئی طرح کا نقصان پہنچا دیا تھا۔ مذہبی، اخلاقی، تہذیبی، سماجی، معاشی اور علمی اعتبار سے ایک عجیب بانجھ پن طاری کر دیا تھا۔ دُنیا کے وسیع رقبوں کو اپنے محیط میں لے کر اُس نے ایک ہالہ کھینچا، جس میں ہر نظریے، ہر مذہب، ہر تہذیب کو یوں گھمایا، جس طرح جُوسر مشین مختلف پھلوں یا سبزیوں کو اپنے چکر میں پیس کر یک ہیئتی پر مجبور کر دیتی ہے۔ وبا کی نفسیات کا سب سے نمایاں پہلو یہ تھا:

’’اس نے انسان کو صفحۂ ہستی سے مٹا دینا ہے۔ اس لیے لازم ہے، کہ انسان باقی رہے۔ مذہب، آدرش، نظریات اور تہذیب و تمدن کا تعلق انسان کی بقا کے ساتھ جڑا ہے۔ انسان نہ رہا تو یہ تمام چیزیں محض اضافت ہیں۔ چناں چہ اکثریت اس خاموش انقلاب کا ساتھ دینے پر آمادہ ہو گئی۔‘‘

معبدوں سے دُوری کا عملی انتظام ہو چکا تھا۔ مسجدوں تک تخصیص باقی نہ رہی تھی۔ مندروں، کلیساؤں اور آتش کدوں سمیت تمام مذاہب کے پیروکاروں کو گھروں تک محدود کر دیا گیا تھا۔ حکومتیں اپنے اپنے یہاں سختی کا مظاہرہ کر رہی تھیں۔ علما کو ہتھکڑیاں لگیں، پنڈتوں اور سادھوؤں پر لاٹھیاں برسیں، پادریوں کے گریبانوں تک ہاتھ آئے۔ ایسے عالم میں ایک بیزار کُن اور شکوک و شبہات میں گھری ہوئی فضا پیدا ہوئی۔ جب انسانیت کی بنیادی قدر ہی مجروح ہو گئی ہو تو باقی معاملات کی سلامتی کا سوال ہی غلط تھا۔ معبدوں کی ویرانی کے ساتھ ہی عصری علوم کی درس گاہوں کی بندش ہو چکی تھی۔ ان خوف ناک اعمال کا نتیجہ یہ ہوا کہ علم سے دُوری پیدا ہو جانے کا خدشہ لاحق ہو گیا۔ نسلِ نو مختلف لایعنی کاموں میں پڑ گ ئی۔

سائبرٹیکنالوجی پہلے سے موجود تھی اور دُنیا اس کی عادی ہو چکی تھی، جیسے ناشتہ کے بغیر دن کا آغاز نہیں ہوتا، یوں اس کے استعمال کے بغیر ایک ادھوری زندگی کا احساس ہوتا تھا۔ اس ایجاد نے انسانی فطرت کوایسا کاری گھاؤ لگایا کہ وہ اپنے نفع نقصان سے ہی بے خبر ہو گیا تھا۔

اخلاقیات سے گرا ہوا طرزِ عمل، نا شائستہ زبان کا فروغ، جھوٹ اور مکرو فریب کا لامتناہی سلسلہ، بہتان اور الزام کا نہ تھمنے والا طوفان اور پھر نا ہنجاروں کی ایک طویل فوج جو ہر وقت اس سے منسلک رہتی تھی۔ ایسے خطرناک ہتھیار سے لیس ہونے والوں نے وبا کے دنوں میں جو طرز اختیار کیا، وہ وبا سے زیادہ کرب ناک اور تکلیف دہ ثابت ہوا تھا۔

یہ دھیان میں لانے کی بات ہے، جب انسانی معاشرے میں اپنائیت کے لیے قربت اور اجتماعیت کو بنیادی حیثیت حاصل تھی، وبا نے پہلا واراسی پر کیا۔ جب معانقہ اور مصافحہ محبت میں اضافے کا باعث تھا، وبا نے اس سے روک دیا۔

مذہبی طبقہ کی تاثیریت ماند پڑنے سے اعلیٰ انسانی قدروں کا بھی قتل عام ہوا۔ عبادتوں اور دعاؤں سے اعتبار اُٹھ گیا۔ ہر کوئی اُن ہدایات کو اہم خیال کرنے لگا، جو وبا سے متعلق عام ہوئی تھیں۔ یہاں بھی وبا کو مرکزیت حاصل رہی اور مذہب اور اس کی رُسوم پس منظر میں چلی گئیں۔

کاروبارِ زندگی کی معطلی سے غربت اور افلاس نے جنم لیا، جس نے اخلاقی طور پر انسان کو کمزور کیا اور وہ چوری اور ڈکیتی جیسے گھناؤنے افعال اختیار کرنے پر مجبور ہو گیا۔ دوسروں کی حق تلفی کے بہیمانہ اقدامات فروغ پا گئے۔ امداد میں ملنے والی چیزوں پر چند لوگوں کا اختیار قائم ہو گیا یا پھر وہ فیض یاب ہونے لگے، جو کسی طرح حلقۂ زنجیر کا حصہ بن سکتے تھے۔ ڈاکٹروں اور ادویہ ساز اداروں کی بَن آئی۔

ایسا مقام آ گیا کہ مر جانے والوں کی توہین بھی معمولی سی بات کے برابر آ گئی۔ وہ معاشرے جو کئی کئی دن تک مرنے والے کے غم میں بے چین رہتے تھے، اُنھوں نے ٹرکوں میں بھر بھر کر لاشوں کو دریاؤں میں بہایا۔ جن معاشروں میں قبور کا احترام بھی واجب تھا، اُنھوں نے اپنے مردوں کو مشینی انداز میں دفنانا شروع کیا۔ پھر یہ بھی ہوا کہ جنھیں دفنایا جاتا تھا، اُنھیں ہندوانہ رسموں کے مطابق جلایا جانے لگا۔ یہاں بھی وبا کی مرکزیت کے باعث لوگ خاموشی سے اس کھیل کا حصہ بنتے گئے۔ یہاں تک کہ گناہ و ثواب کی دیرینہ روش اور ان سے بچاؤ اور حصول کی فعالیت بھی کام چھوڑ گئی۔ علمی زوال نے اذہان کو سوال کی تاثیر سے تہی کیا تو نہ ختم ہونے والی بنجر فضا چاروں طرف محیط ہو گئی۔ دُنیا رہنے کی جگہ نہ رہی۔ وبا سرطان، ایڈز اور طاعون سے زیادہ خطرناک ثابت ہو چکی تھی۔ بات جسمانی فنا کی ہوتی تو اُسے نظرانداز بھی کیا جا سکتا تھا لیکن سوال روحانی اور علمی زوال کا تھا۔ میں نے سوچا:

’’ایسے عالم میں اگر میں زندہ رہوں بھی تو کیا زندگی کا حق ادا ہو جائے گا؟‘‘

یہ وبا کا ایک رُخ تھا، اس کادوسرا رُخ بھی اتنا ہی تعجب خیز ہے۔

انسان مذہب کی جکڑ بندیوں سے باہر آ کر انسانیت کے لیے کام کرنے لگا۔ تمام لوگ کسی بھی طرح وبا سے نبٹنا چاہتے تھے۔ اگرچہ معبدوں کو محدود کر دیا گیا تھا لیکن اس کا خوش کُن نتیجہ یہ ہوا کہ ہر گھر عبادت گاہ میں بدل گیا۔ لوگ اپنے مذاہب کے قریب ہو گئے۔ وہ جنھوں نے بھول کر بھی قرآن کو ہاتھ نہ لگایا تھا، تلاوت کرنے لگے۔ وہ جو ویدوں اور رامائن سے نالاں تھے، اُن کے قریب ہو گئے، وہ جنھوں نے انجیل اور توریت پڑھنی چھوڑ دی تھیں، اُن کی قرات خود پر لازم کر لی۔ وہ جو خدا کے وجود کو ہی تسلیم نہ کرتے تھے، اپنے آس پاس پھیلے ہوئے مذاہب کا طرز اختیار کرنے لگے۔ یوں معلوم ہوتا تھا، جیسے وبا نے تمام انسانیت کو پھر سے ایک لڑی میں پرو دیا ہو۔

مذہبی طبقات امن و آشتی کا درس دیتے تھے، برداشت اور تحمل کا ماحول بنانے میں مشغول ہوئے، اخلاقیات کی بلند پروازی کا عالم قائم ہو گیا۔ لوگوں میں ایثار و قربانی کا جذبہ نمایاں تر ہو گیا۔ ہندو، مسلمانوں کے گھروں میں راشن پہنچا رہے ہیں تو مسلمان ہندو اور غریب عیسائیوں کے گھروں میں۔ عبادتوں میں دل لگا تو دعاؤں پر یقین پختہ ہوتا چلا گیا۔ اللہ سے قربت کے احساس نے موت کا دُکھ بھلا دیا۔ شہادت کا خوش کن تصور اُبھرا تو عمومی امراض سے اکتاہٹ بھی جاتی رہی۔ دُنیا سے بے رغبتی نے مال جوڑنے کی بجائے بانٹنے کا طرز اختیار کرنے کی راہ پیدا کی۔ ہر کوئی اپنی بساط کے مطابق دوسرے انسانوں کے لیے ڈھال بنتا گیا۔

درس گاہیں بند ہوئیں تو گھروں میں موجود کتب کی دھول صاف ہونے لگی۔ سائبر ٹیکنالوجی کارآمد ہونے لگی۔ لوگوں نے وبا کے خطرات اور اس سے بچاؤ کے طریقوں کو اختیار کرنے کے لیے اسے خوبی کے ساتھ استعمال کیا۔ کم پڑھے لکھے اور ناخواندہ لوگوں نے بھی پوری ذمہ داری کا ثبوت دیا۔ جس تک وبا سے متعلق معلومات پہنچتیں، وہ فوراً دوسروں تک منتقل کرتا اور سب سے اہم بات یہ کہ اس وسیلے کو عصری علوم کا بہترین ذریعہ بنا دیا گیا۔ مختلف تعلیمی ایپلی کیشنز تیار کر لی گئیں۔ ای لرننگ کا خوب صورت سلسلہ شروع ہو گیا۔ ہر کوئی گھر میں بیٹھ کر دُنیا بھر کی کتب سے استفادہ کر سکتا تھا۔ نایاب کتب تک رسائی نے علوم کی قدر و قیمت میں اضافہ کیا اور عامۃ الناس میں علم کی رغبت بڑھی۔ اس سے پہلے، جو کتب خانے بخل سے کام لے رہے تھے، اُنھوں نے افادۂ عام کے لیے ڈیجیٹل لائبریریاں قائم کر لیں۔ جو دانش ور اپنے ایک ایک لیکچر کے بدلے میں لاکھوں روپے وصول کرتے تھے، وہ لیکچر ریکارڈ کر کے مختلف ویب سائٹوں پر مفت اَپ لوڈ کرتے تھے۔ علوم کی افزائش و فہمائش کا ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ عقل دنگ رہ جائے۔

ادویہ ساز اداروں اور ڈاکٹروں نے جان ہتھیلی پر رکھ کروبا کا مقابلہ کیا۔ ہراول دستے کے طور پر یہ لوگ ڈٹ گئے۔ اسپتالوں، قرنطینہ سینٹروں اور عمومی زندگی میں ان کا کردار حقیقی معنوں میں مسیحاؤں کا تھا۔ دُنیا نے ان کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ ان کے پورٹریٹ چوکوں اور بلند عمارتوں پر آویزاں کیے۔ ان کے لیے نغمات تخلیق ہوئے۔ آبِ زر سے لکھنے کی روایت باقی نہ تھی، ورنہ ان کی خدمات سنہرے حروف میں لکھی جاتیں۔

وبا نے انسانیت کو ایک کنبے کی صورت میں جوڑ دیا تھا۔ اگرچہ جسموں کو موت آ رہی تھی لیکن روحانی اعتبار سے طاقت و توانائی میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا۔ ممالک باہمی رنجشوں کو بھول کر وبا سے نبٹنے کے لیے کوشاں تھے۔ امیر ملکوں نے کمزوروں کے ساتھ بڑے بھائیوں جیسا سلوک شروع کر رکھا تھا۔ یوں معلوم ہوتا تھا، اولادِ آدم پھر سے اخوت، بھائی چارے اور محبتوں کے خوب صورت سلسلے میں خود کو جوڑ رہی ہے۔ میں نے سوچا:

’’دُنیا دلکش ہو گئی ہے، اب یہاں سے کوچ کرنے کو جی نہیں چاہتا۔‘‘

٭٭٭







شاخِ زرّیں



صبح خیزی میری عادتِ قدیم ہے۔ چھٹ پن میں، جب کہ میں ابھی چلنا سیکھ پایا تھا، صبح جگا دیا جاتا۔ اماں بی نے گھر کے سارے کام سنبھالنے ہوتے تھے، اس لیے ہمیں گھر سے باہر کھلے کھیتوں میں بھیج دیا کرتیں۔ یوں ناشتے سے بہت پہلے اچھی خاصی ورزش ہو جاتی تھی۔ اسکول کے زمانے میں تو نمازِ فجر سے ہی دن کا آغاز ہو جاتا تھا، پھر دیہی زندگی کے ضروری امور کی نبٹائی کے بعد اسکول جانے کا سلسلہ۔ لڑکپن سے نوجوانی اور پھراس عمر تک، یہ عادت میرے ساتھ ہے۔ میں صبح کی سیر کو ہر کام سے ضروری خیال کرتا ہوں۔ اُن دنوں میں، جب کہ سخت سردی میں بارشوں کا سلسلہ بھی قائم ہو۔ گھٹنوں سے نیچے نکلتے کوٹ اور سُرمئی چھاتے میں ویسے بھی انسان خود کو محفوظ خیال کرتا ہے۔ کم از کم مجھے یہی محسوس ہوتا ہے کہ اَب بارشیں اور ٹھنڈی ہوائیں لطف کیشی کا سبب ہی بنیں گی۔ ایسے مزاج کے با وصف یہ ممکن نہیں ہوتا کہ انسان معمولات فوراً بدل ڈالے۔

جس طرح نوجوانی میں انسان محبوب کا ساتھ ضروری خیال کرتا ہے، اسی طرح ڈھلتی عمر میں بیوی کی ہمرکابی لازمی جزو کی حیثیت اختیار کر لیتی ہے۔ چناں چہ میرے زیادہ تر معمولات میں میری شریکِ سفر موجود رہتی ہے۔ ہم دونوں ایک فرض کی طرح صبح کی سیر کے لیے جاتے ہیں۔ سیکڑوں ایکڑ پھیلے رقبوں پر باغات، فصلوں، پھولوں اور ہری ہری گھاس سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ لالیوں، قمریوں، فاختاؤں، چڑیوں اور کویلوں کی سُریلی آوازوں کو اپنی سماعتوں میں اُتارتے ہیں اور یوں فطرت سے خاموش ہم کلامی کے بعد باقی معاملات کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں۔

میرے گھر کے سامنے اناروں کا باغ ہے، ان دنوں اُن پر پھیلتی کلیاں بہت خوش نما معلوم ہوتی ہیں۔ اس باغ کے بیچوں بیچ تارا میرا کاشت کیا گیا تھا، جو کٹائی کے بعد اُسی طرح پڑا ہے۔ دائیں جانب بیریاں ہیں اور انھی بیریوں میں سیاہ تُوت کے چھے درخت ہیں۔ بیریاں خوب اچھی طرح پک چکی ہیں اور تُوت ابھی کھٹے میٹھے ہیں۔ سیاہی مائل سُرخ، کچھ ہرے اور کچھ سُرخ۔ پھل پوری طرح پک جائے تو سیاہ ہو جاتا ہے لیکن چھونے سے ہاتھ سُرخ ہوتے ہیں۔ گھر کے عقبی حصے میں جامن کا اور اس سے متصل لیموں کا باغ ہے۔

حسبِ معمول جب میں سیر سے واپس آیا تو گھر کی دوسری منزل کے ٹیرس پر آ گیا۔ یہاں کچھ گملوں میں گلاب، چنبیلی، کیکٹس اور گلِ داؤدی اپنی بہار دکھاتے ہیں۔ ٹیرس کی سامنے والی دیوار کے وسط میں ایک ٹوکری سال بھر پڑی رہتی ہے، جس میں پرندوں کے لیے دانہ ڈالا جاتا ہے اور اسی ٹوکری کے قریب پانی کے لیے ایک چھوٹا سا برتن پڑا ہوتا ہے۔ ٹیرس کے بالکل سامنے اناروں کے باغ کی نکڑ پر تُوت کا ایک ثمر بار درخت ہے۔ اس کی شاخیں گولائی میں چاروں طرف پھیل کر ایک چھتری کی شکل اختیار کر چکی ہیں۔ سخت دھوپ میں اگر میں وہاں کُرسی کے سامنے میز بچھا کر بیٹھ جاؤں تو مطالعے کے لیے پُر لطف سایہ دار جگہ ہے۔

میں نے غور کیا، تُوت کی ایک شاخ باہر کی طرف کچھ زیادہ نمایاں ہو گئی تھی، زیادہ غور کرنے پر اندازہ ہوا کہ اپنے مرکز سے ٹوٹ رہی تھی۔ ممکن ہے، کسی بچے نے تُوت اُتارنے کی غرض سے اُسے کھینچا ہو تو وہ تنے سے جدا ہونے لگی ہو۔ میں نے دیکھا بلبلیں، لالیاں، چڑیاں، کوے اور دوسرے پرندے قطاروں کی صورت میں اُس ڈالی پر لپکتے اور پلک جھپکنے کی ساعت میں آگے نکل جاتے۔ یہ عمل مسلسل جاری رہا۔ یہ منظر زندگی میں پہلی بار دیکھا تھا۔ ہر پرندہ آتا اور اُڑان کے دوران ہی پکا ہوا پھل نوچ کر نکل جاتا۔ ٹوٹی شاخ نے ہر ایک کے لیے اپنی بانہیں پھیلا رکھی تھیں، جو جتنا نوچ سکتا تھا، نوچ رہا تھا۔ میرے ذہن میں انتہائی فضول جملہ کودا:

’’پرندے انسان کی طرح میز پر بیٹھ کر نہیں کھاتے۔‘‘

اور پھرا گلے ہی لمحے انسان کے کھانے کے آداب وحشت میں بدلتے نظر آئے۔

قبیلوں اور ملکوں کی لڑائیاں، سُود اور فریب کی گرم بازاری، رشوت اور سفارش کا چلن، اقربا پروری، ذخیرہ اندوزی، مجبوروں اور لاچاروں کے لہو کا عملِ کشید، انسانی اعضا کا بیوپار اور ڈاکا۔

میں نے سوچا اگر انسان پرندوں کی مانند کھانا سیکھ لے اور مستقبل کے لیے جمع کرنے کی روش ترک کر دے تو بہت ممکن ہے اس دُنیا میں موجود وسائل ہر ایک کے لیے کافی شافی ہوں۔ پھر کوئی فوٹو گرافر اپنی تصویر: The Vulture and the Little Girl کے باعث خود کشی پر مجبور نہیں ہو گا۔ کوئی ماں اپنے بچوں سمیت نہر میں کود کر جان نہیں دے گی۔ سوال تو یہ ہے:

’’کیا وسائل پر پوری انسانیت کا حق تسلیم کرنے کے لیے کوئی تیار ہے؟‘‘

میں اپنے اُلجھے ہوئے ذہن کے ساتھ جب ناشتے کی میز پر بیٹھا تو ہر چیز مین سیاہ تُوت کا ذائقہ سرایت کر چکا تھا۔ اپنے خیالات کو جوں جوں جھٹکتا وہ اور زیادہ شدت کے ساتھ میرے اعصاب پر طاری ہونے لگتے۔ آخر اُکتا کر میں ناشتے سے بیزار ہو کر اُٹھا اور مطالعے کے کمرے میں چلا آیا۔ ایک کتاب اُٹھائی، دوسری اور پھر تیسری۔ عجیب طرح کی بے قراری میرے اندر خیمہ زن ہو رہی تھی۔ میں نے سوچا:

’’آج اگر مالی اس طرف آیا تو یقیناً اس شاخ کو کاٹ ڈالے گا۔ وہ ایسے ہی سوکھی ٹہنیوں اور ٹوٹی شاخوں کو درختوں اور پودوں سے الگ کرتا رہتا ہے۔ وہ تو ذرا مرجھائے ہوئے پھولوں کو بھی گملوں میں نہیں برداشت کرتا۔ پوری بے دردی کے ساتھ نوچتا اور پھینکتا جاتا ہے۔ اُسے یوں نہیں کرنا چاہیے۔ کم از کم تُوت کی شاخ اُس وقت تک تنے سے جدا نہیں کرنی چاہیے، جب تک اُس پر پھل موجود ہے اور وہ سوکھ نہیں جاتی۔ وہ اسے کاٹ ڈالے گا۔‘‘

دروازہ ایک خاص چرچراہٹ کے ساتھ کھُلا۔ میں جانتا ہوں، کہ میری ننھی پوتی اسی انداز سے دروازہ کھولتی ہے۔ وہ خاموشی سے آ کر میرے پہلو میں کھڑی ہو گئی۔ اُس کی طرف رُخ کر کے دیکھا تو وہ بہت مزے سے اسٹرابیری(Strawberry) ملا دودھ پی رہی تھی۔ اگرچہ پھل عام طور پر میسر ہوتے ہیں لیکن ان کی قدر و قیمت اُس وقت سوا ہو جاتی ہے، جب کوئی آپ سے یہ کہے: ’’آپ سے جس قدر ہو سکے وٹامن سی کا اہتمام کریں، یہ آپ کے نظامِ دفاع کے لیے ناگزیر ہے۔‘‘ تو آپ زیادہ اہتمام کرتے ہیں۔ میں نے جب اُسے دوسری بار دیکھا تو وہ کہنے لگی:

’’ڈاڈا بُو! آپ بھی ڈوڈ پیا کڑیں نا، ماما کہٹی ہیں اِش شے ہڈیاں مجبوت ہوٹی ہیں۔‘‘

’’میری مضبوطی تو تم ہو۔‘‘ یہ کہ کر میں نے اُس کی ہتھیلی پر بوسہ دیا تو اُس کی زخمی انگلی سے میرا ہونٹ کچھ زیادہ مس کر گیا، پھر مجھے تُوت کا ذائقہ محسوس ہوا اور وہی شاخِ زرّیں یاد آئی، خیال آیا:

ادویہ ساز کمپنیوں اور ڈاکٹروں کے لیے وبا ’’شاخِ زرّیں‘‘ ثابت ہوئی ہے۔

٭٭٭







زمین کا بدلاؤ



ہر طرف ایک عجیب سا احساسِ شکستگی پھیلا ہوا تھا۔ تھوڑی بہت عقل رکھنے والا بھی اس معاملے پر غور کر رہا تھا۔ گفتگو کا موضوع کوئی بھی ہوتا گھوم گھما کر تان اسی بات پر ٹوٹتی۔ معاملہ تھا ہی اتنا گمبھیر اور پیچیدہ کا عامۃ الناس کی سمجھ میں تو کیا آتا، اچھے بھلے پڑھے لکھے اور بولنے سوچنے والے بھی فکر مندی کے باعث کوئی واضح سمت اختیار کرنے سے قاصر دکھائی دیتے تھے۔ کوئی چاہ کر بھی سراغ نہیں لگا پایا تھا، کہ اصل بات کیا ہے۔ طے کرنا مشکل تھا کہ یہ دُنیا کے کسی تھنک ٹینک کے مخصوص ایجنڈے اور پروپیگنڈے کا نتیجہ ہے یا واقعتاً وبا پھیلی ہے۔ ملک کے سیکڑوں اخبارات، ایک سو کے قریب ٹیلی ویژن چینل، درجنوں ریڈیو چینل اور ہزاروں لاکھوں سوشل میڈیا کے لوگ طرح طرح کی قیاس آرائیوں پر مبنی تبصرے، تجزیے، تاریخی بیانیے اور کتب سے اقتباسات پیش کر رہے تھے۔ مذہبی طبقہ اپنی مسلکی سوجھ بوجھ کے مطابق اپنے تئیں راہِ ہدایت دکھانے کی کوشش میں مصروف تھا۔ متضاد، متعصب، متشدد رجحانات کا عفریت بھی اسی فضا کے ساتھ ہم آہنگ ہو چکا تھا۔ نتیجتاً ایک خطرناک بدگمانی اور غیر یقینی کی صورت حال نے ہر طرف ڈیرے ڈال رکھے تھے۔

عالمی دباؤ یا پھر وبائی خدشات کے تحت حکومت نے بھی سخت اقدامات کر رکھے تھے۔ اسی ماحول میں پروفیسر صاحب نے چاہا کہ وہ اپنے مقربین کی کچھ راہ نمائی کر دیں۔ اُنھوں نے اپنے واٹس ایپ گروپ کے ذریعے تمام متعلقین کو اطلاع دی اور ساتھ ہی ہدایت کی کہ اُن کی طرف آنے والے ایک ایک کر کے آئیں مبادا انتظامیہ کو کسی ہجوم کا احساس ہو۔

کوٹھی کا زمین دوز ہال طلبہ اور نوجوان اساتذہ سے بھرا ہوا تھا۔ فرشی نشست میں شرکا مناسب فاصلہ رکھ کر بیٹھے تھے۔ پروفیسر صاحب نے گفتگو کا آغاز کیا:

’’زمین بدل رہی ہے اور زمین پر رہنے والوں میں بھی ایک واضح تغیر برپا ہو رہا ہے۔ چیزیں اپنی حالت میں آنے کے لیے بے تاب ہیں۔ یُوں معلوم ہوتا ہے، جیسے یہ کائناتِ کہنہ نیا ظہور لینے کو ہے۔ گاڑیوں کا شور تھم چکا ہے۔ کارخانوں کی چمنیاں خاموش ہیں۔ سمندروں اور دریاؤں میں زہریلے مادے شامل نہیں ہو رہے۔ لوگ اپنے گھروں میں مقید ہیں۔ گردو غبار کے ذرائع محدود، آبی آلودگی کے ہتھیار دم توڑتے ہوئے، سمعی و بصری آلائشوں کا شکار کرنے والی مشینیں سکوت آشنا اور سب سے بڑھ کر انسان اس عظیم خطرے کے باعث اپنی صحت و صفائی کی جانب لوٹ آیا ہے، جو اُسے صدیوں بعد ملی تھی اور جسے اُس نے اپنی بے پروائی کے باعث چھوڑ دیا تھا۔ بار بار ہاتھ دھونے کا عمل، گھروں میں جراثیم کش ادویات کا چھڑکاؤ، سماجی میل جول میں احتیاط، رشتوں میں قربت اور پھر نئی زندگی کی تمنا، ورنہ تو اُس سے قبل ایک بڑی تعداد باہمی رویوں سے بیزار اور ایک دوسرے کو چیر پھاڑنے کے لیے بے تاب تھی۔ ایسوں کی بھی کمی نہ تھی، جو اپنی ہی زندگی سے انتقام لینے پر آمادہ تھے۔‘‘

بوڑھا پروفیسریہ کہ کر خاموش ہوا تو شرکا کے دماغ سوالات کے کثرت سے کسی گل فروش کی ٹوکری کی طرح بھرے ہوئے معلوم ہو رہے تھے۔ ہر کوئی چاہتا تھا، کہ پہلے وہ جواب حاصل کرے اور پوری سیرابی کے بعد دوسروں کو موقع دے۔ ایک طالب علم نے گفتگو کا آغاز کیا:

’’گویا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں، یہ وبا دُنیا کے لیے سودمند ثابت ہو گی؟‘‘

’’جس طرح عروج کے بعد زوال ہوتا ہے، اسی طرح زوال کے بعد عروج بھی ہے۔ مصری تہذیب، یونانی تہذیب، سندھ ہند کی تہذیب اور پھر اگر تم اپنے قریب دیکھنا چاہو تو گندھارا، ہڑپہ اور موہن جودڑو کے حالات تمھارے سامنے ہیں۔ زمین پر جب بوجھ بڑھ جاتا ہے تو وہ اپنا توازن برقرار کرتی ہے۔ اس اتھل پتھل میں کبھی مکانات اور عمارتیں سطحِ زمین سے مل جاتی ہیں، کبھی انسانوں اور جانداروں کی ایک کثیر تعداد زیرِ زمین چلی جاتی ہے۔‘‘

’’جنابِ عالی___!‘‘

’’ٹھہرو! میری بات ختم نہیں ہوئی۔ قصص الانبیا پڑھو، تمھیں بہت کچھ وضاحت کے ساتھ ملے گا۔ حضرتِ سلیمان علیہ السلام جیسے جلیل القدر پیغمبر کی عظیم الشان سلطنت اور بادشاہی کا تذکرہ تمھیں ملے گا، اُن کے والدِ مکرم حضرتِ داؤد علیہ السلام کے مزامیر کی کہانی سنائی دے گی، حضرتِ نوح علیہ السلام کی نافرمان قوم کا ذکر تمھارے سامنے آئے گا، حضرتِ لوط علیہ السلام، حضرتِ شعیب علیہ السلام اور حضرتِ موسیٰ علیہ السلام کی اقوام کی سرکشی اور ہٹ دھرمی کا منظر لہرائے گا اور یہیں کہیں تمھیں حضرتِ یوسف علیہ السلام کے ناقابلِ برداشت مصائب اور پھر قابلِ رشک کامیابیوں کا احوال بھی ملے گا۔ تُم چاہو تو غیر مسلموں کی تاریخ بھی دیکھ سکتے ہو۔ ہر ہر منظر اس بات کا شہادت گزار ہے، کہ انسان جب بھی اعتدال کے میزانیے اسے الگ ہوا یا عروج و زوال کی واضح منزلوں کا متمکن اور اسیر ہوا تو ایک نیا منظر تشکیل پا گیا۔ وہ بہت کچھ جو تاریخ میں تھا، آج نہیں اور آج جو بہت کچھ موجود ہے، کل تاریخ کی دبیز تہوں میں پڑا سسک رہا ہو گا۔‘‘

’’آپ یہ کہ رہے ہیں کہ کچھ نیا نہیں ہوا، یہ تمام ایک خاص سبب کا مسبب ہے؟‘‘

ایک نوجوان استاذ نے سوال اٹھایا۔

’’ایک وقتِ معین ہے، جس کے مدار سے کوئی باہر نہیں جا سکتا، بلکہ یوں کہنا چاہیے کسی کو جھانکنے کی توفیق بھی نہیں۔ قومِ عاد و ثمود کا انجام یاد رکھو، مالابار کے ساحلوں پر طاعون سے حزن آشنا لوگوں پر دھیان دو، سونامی کے عفریت میں روتے کُرلاتے انسانوں کو یاد کرو، زلزلوں میں رزقِ خاک ہو جانے والوں کو تصور میں لاؤ۔ یہ ایک زنجیر ہے، جس کا کوئی ایک حلقہ اور کبھی تمام زنجیر شکست کا شکار ہوتی ہے۔ نئی کڑیاں بنتی ہیں، نیا جہان آباد ہوتا ہے۔ زمین خود کو ہموار رکھتی ہے، اضافی بوجھ اور بے ہنگم حجم کو سمت عطا کرتی ہے۔‘‘

’’انسان آفات کا مقابلہ کرتا آیا ہے اور یہ وبا بھی عنقریب ختم ہو جائے گی۔ سائنس دانوں نے پہلے بھی خطرناک بیماریوں کا علاج دریافت کیا ہے۔‘‘ ایک طالب علم بولا۔

’’خناس، ہاں! خناس ہی کہنا چاہیے۔ مدار، مدیر سے ہے اور مدیر اپنے مدار پر قادر ہے۔ سائنس دانوں نے ماضی میں بھی موت کو شکست دینے کی کوشش کی۔ فولادی عمارتیں بنائیں۔ اُن کا خیال تھا، کہ تمام بیماریوں کو شکست دی جا چکی ہے، اب موت ان فولادی ٹھکانوں کا رُخ نہیں کرے گی۔ پھر ایک چنگھاڑ پیدا ہوئی، جو اُن کے کانوں کو چیرتی ہوئی ان کے بھیجوں میں اُتر گئی۔ آج بھی بعض سائنس دانوں اور وقت کے فرعونوں کے دماغوں میں یہ خناس بھر چکا ہے۔ اپنے آس پاس دیکھو، دُنیا کے چوٹی کے امیروں کا ایک گروہ یہ خیال رکھتا ہے، کہ بیماریاں اپنی اصل میں قابلِ علاج ہیں اور موت ایک کیفیت کا نام ہے، جسے ٹالا جا سکتا ہے۔ کینسر، بجائے خود کوئی چیز نہیں، اس کا توڑ موجود ہے۔ شوگر، ٹائی فائیڈ، نمونیا، برین ہیمبرج، ہیپاٹائٹس اور امراضِ قلب، جس طرح انسانوں کو درپیش رہے، سائنس دانوں نے انھیں قابلِ علاج بنایا اور پھر اعضا کی پیوند کاری سے کلوننگ تک اور مصنوعی خلیوں کی تشکیل سے لے کر ریشوں سے نئی زندگی کی تجسیم تک ہر کہیں انسان کی جستجو اور ناقابلِ تسخیر ہونے کے تمنا موجود ہے۔ اس کے باوجود دائرے کی تکمیل ہوتی ہے۔ یعنی پیدائش سے موت تک کا یہ دائروی سفر جاری ہے اور اسے جاری رہنا ہے۔‘‘

’’جی! آپ بل گیٹس کی تنظیم کی طرف اشارہ کر رہے ہیں شاید۔‘‘ایک نوجوان نے کہا

’’وہ اکیلا نہیں اور بھی ہیں، جن کا خیال ہے، موت ایک کیفیت ہے، جسے بدلا جا سکتا ہے۔ جس کا آپ نے نام لیا، وہ تو اُس خیال کا حامی ہے، کہ اربوں کی آبادی میں سے اگر اربوں انسان تلف بھی ہو جائیں تو کچھ فرق نہیں پڑے گا اور باقی ماندہ سکون کی زندگی گزاریں گے۔‘‘

’’تو کیا وسائل کم نہیں ہو رہے؟ پانی کی قلت، غذا کی قلت، سہولیات کی عدم دستیابی، ضروریاتِ زندگی کی ناقابلِ اکتفا حالتیں، یہ سب مسائل موجود تو ہیں۔‘‘ایک اور طالب علم بولا۔

’’یہی وہ نکتہ ہے، جسے سمجھا نہیں جا رہا۔ آسٹریلیا کے جنگلات کو آگ لگی؟

مگر اس سے پہلے جانوروں کا قتلِ عام اس لیے کیا گیا کہ وہاں کے انسانوں کا خیال تھا، کہ جانور اُن کے حصے کا پانی کم کر رہے ہیں۔ پھر اُنھوں نے اپنے حصے سے کہیں زیادہ پانی آگ بجھانے پر صرف کیا۔ خلافِ فطرت اگر کچھ ہوتا ہے تو فطرت اُس کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ تم مصنوعی بارشیں برساؤ، مصنوعی روشنیاں اُگاؤ، مصنوعی زلزلے لاؤ، رو بوٹس تیار کرو، ڈرون اور ریموٹ بموں سے تباہیاں مچاؤ، سٹلائٹ، اینڈرائیڈ اور دوسرے ذرائع سے انسان کی داخلی زندگیوں کو محدود کرنے کے جتن کرو اور پھر یہ بھی یقین رکھو کہ جو تم چاہو گے، وہی ہو گا؟‘‘

ایک نو عمر استاذ نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے لقمہ دیا:

’’جنابِ عالی! سائنس بہت سی چیزوں کو مٹھی میں کر تو چکی ہے اور مزید بھی ہو جائیں گی۔‘‘

’’ڈھیل کو طاقت خیال کرنے سے ہی توانسان دھوکا کھاتا ہے۔ وہ جو موت کو شکست دینے کا جتن کر رہے تھے، وہ جو مدیر کو نظرانداز کر کے مدار کو اپنی مرضی کے تابع کرنا چاہتے تھے، اس ایک وائرس سے ہراساں ہو چکے ہیں۔ پوری دُنیا حزن آشنا اور نا قابلِ یقین صورت حال کا شکار ہے۔ کوئی ہو گا، جو طمانیت سے مستقبل کی طرف دیکھتا ہو، ورنہ اکثریت ایک ان دیکھے خوف میں مبتلا ہے۔ لوگ اپنے ہم جنسوں سے میل ملاقات اور تعلق استوار کرتے ہو یے وحشت زدہ ہو رہے ہیں۔ موت کو کیفیت سمجھ کر ٹالنے کا جتن کرنے والے گھروں میں منھ چھپائے کونوں میں دبکے پڑے ہیں۔ فطرت آزاد ہے اور اپنی سطحیں ہموار کر رہی ہے۔

زمین کا بدلاؤ جاری ہے، فضائیں منزہ ہوں گی، سمندوں میں سے تابکاری کے اثرات ختم ہوں گے، انسان کا بے ڈھنگا اور بے ہنگم طرزِ زندگی سدھرے گا۔‘‘

میں نے دیکھا محفل میں موجود بہت سے لوگ پورے دھیان سے ان باتوں کو سُن رہے تھے اور جن دماغوں میں سوالات کی ٹوکریاں سبدِ گل فروش کا منظر پیش کر رہی تھیں، اُن کے چہرے جوشِ گُل سے دمکتے تھے لیکن کچھ چہروں کی پیلاہٹ اور بیزاری بتا رہی تھی، کہ اُن کے دلوں میں کوئی بات نہیں اُتری۔ شاید اُنھیں زمین کے بدلاؤ سے کوئی خوف تھا، نہ سائنس دانوں کی اختراعات و ایجادات میں دلچسپی۔ گویا نیا منظر نامہ بھی اُن کے لیے کوئی خاص وقعت نہ رکھتا تھا۔ البتہ میرے دماغ میں ایک ملا جلا شور تھا، جو اِدھر کا پاس دار تھا، نہ اُدھر کا:

زمین بدل رہی ہے۔

انسان، سورج کو اپنی مٹھی میں لے کر رہے گا۔

فطرت اپنی سطح ہموار رکھتی ہے۔

موت کو بہ ہر حال موت ہو جائے گی اور انسان نہ ختم ہونے والی زندگی جیے گا۔

محفل ختم ہوئی۔ میں نے دیکھا لوگ ایک انجانے خوف میں مبتلا تھے اور ایک دوسرے سے جان بچا کر نکل رہے تھے، وبا کے دنوں کی یہ باتیں خیال کی گٹھریوں میں باندھنے کا وقت سرک چکا تھا، ابھی شاید فاقوں سے مر جانے کا خوف باقی تھا۔

٭٭٭














تمھارے ساتھ برسوں میں جیا ہوں

کہو سچ مچ مری صورت نہیں یاد



خاور چودھری