صفحات

تلاش کریں

پیر کامل از عمیرہ احمد (حصہ دوم)

قسط نمبر 11
"بتاؤ نا۔ آخر تمہاری زندگی کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے؟" اس دن کالج میں امامہ نے جویریہ سے اصرار کیا۔
جویریہ کچھ دیر ا سکا چہرہ دیکھتی رہی۔ "میری خواہش ہے کہ تم مسلمان ہوجاؤ۔"
امامہ کو جیسے ایک کرنٹ سا لگا۔ اس نے شاک اور بے یقینی کے عالم میں جویریہ کو دیکھا۔ وہ دھیمے لہجے میں کہتی جارہی تھی۔
"تم میری اتنی اچھی اور گہری دوست ہو کہ مجھے یہ سوچ کر تکلیف ہوتی ہے کہ تم گمراہی کے راستے پر چل رہی ہو اور تمہیں اس کا احساس تک نہیں ہے۔۔۔۔۔ نہ صرف تم بلکہ تمہاری پوری فیملی۔۔۔۔۔ میری خواہش ہے کہ نیک اعمال پر اگر اللہ مجھے جنت میں بھیجے تو تم میرے ساتھ ہو لیکن اس کے لئے مسلمان ہونا تو ضروری ہے۔"
امامہ کے چہرے پر ایک کے بعد ایک رنگ آرہا تھا۔ بہت دیر بعد وہ کچھ بولنے کے قابل ہوسکی۔
"میں توقع نہیں کرسکتی تھی جویریہ کہ تم مجھ سے تحریم جیسی باتیں کرو گی۔ تمہیں تو میں اپنا دوست سمجھتی تھی مگر تم بھی۔۔۔۔۔" جویریہ نے نرمی سے اس کی بات کاٹ دی۔
"تحریم نے تم سے تب جو کچھ کہا تھا، ٹھیک کہا تھا۔" امامہ پلکیں جھپکائے بغیر اسے دیکھتی رہی، اسے جویریہ کی باتوں سے بہت تکلیف ہورہی تھی۔
"اور صرف آج ہی نہیں، میں اس وقت بھی تحریم کو صحیح سمجھتی تھی مگر میری تمہارے ساتھ دوستی تھی اور میں چاہنے کے باوجود تم سے یہ نہیں کہہ سکی کہ میں تحریم کو حق بجانب سمجھتی ہوں۔ اگر وہ یہ کہتی تھی کہ تم مسلمان نہیں ہو تو یہ ٹھیک تھا۔ تم مسلمان نہیں ہو۔"
امامہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ کچھ بھی کہے بغیر وہ ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ جویریہ بھی اس کے ساتھ کھڑی ہوگئی۔ امامہ کچھ بھی کہے بغیر وہاں سے جانے کی کوشش کی مگر جویریہ نے اس کا بازو پکڑ لیا۔
"تم میرا بازو چھوڑ دو۔۔۔۔۔ مجھے جانے دو، آئندہ کبھی تم مجھ سے بات تک مت کرنا۔" امامہ نے بھرائے ہوئے لہجے میں اس سے اپنا بازو چھڑانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
"امامہ! میری بات سمجھنے کی کوشش کرو۔۔۔۔۔ میں۔۔۔۔۔"
امامہ نے اس کی بات کاٹ دی۔ "تم نے کتنا ہرٹ کیا ہے مجھے۔ جویریہ مجھے کم از کم تم سے یہ امید نہیں تھی۔"
"میں تمہیں ہرٹ نہیں کررہی ہوں۔ حقیقت بتا رہی ہوں۔ رونے یا جذبات میں آنے کے بجائے تم ٹھنڈے دل و دماغ سے میری بات سوچو۔۔۔۔۔ میں آخر تم کو بے کار کسی بات پر ہرٹ کیوں کروں گی۔" جویریہ نے اس کا بازو نہیں چھوڑا۔
"یہ تو تمہیں پتا ہی ہوگا کہ تم مجھے ہرٹ کیوں کررہی ہو، مگر مجھے آج یہ اندازہ ضرور ہو گیا ہے کہ تم میں اور تحریم میں کوئی فرق نہیں ہے بلکہ تم نے تو مجھے اس سے بھی زیادہ تکلیف پہنچائی ہے۔ اس سے میری دوستی اتنی پرانی نہیں تھی جتنی تمہارے ساتھ ہے۔" امامہ کے گالوں پر آنسو بہہ رہے تھےا ور وہ مسلسل اپنا بازو جویریہ کی گرفت سے آزاد کروانے کی کوشش کررہی تھی۔
"یہ تمہارا اصرار تھا کہ میں تمہیں اپنی زندگی کی سب سے بڑی خواہش بتاؤں۔ میں اسی لئے تمہیں نہیں بتا رہی تھی اور میں نے تمہیں پہلے ہی متنبہ کردیا تھا کہ تم میری بات پر بہت ناراض ہوگی مگر تم نے مجھے یقین دلایا تھا کہ ایسا کبھی نہیں ہوگا۔" جویریہ نے اسے یاد دلانے کی کوشش کی۔
"مجھے اگر یہ پتا ہوتا کہ تم میرے ساتھ اس طرح کی بات کرو گی تو میں کبھی تم سے تمہاری زندگی کی سب سے بڑی خواہش جاننے پر اصرار نہ کرتی۔" امامہ نے اس بار قدرے غصے سے کہا۔
"اچھا میں دوبارہ اس معاملے پر تم سے بات نہیں کروں گی۔" جویریہ نے قدرے مدافعانہ انداز میں کہا۔
"اس سے کیا ہوگا۔ مجھے یہ تو پتا چل گیا ہے کہ تم درحقیقت میرے بارے میں کیا سوچتی ہو۔۔۔۔۔ ہماری دوستی اب کبھی بھی پہلے جیسی نہیں ہوسکتی۔ آج تک میں نے کبھی تم پر اس طرح تنقید نہیں کی مگر تم مجھے اسلام کا ایک فرقہ سمجھنے کے بجائے غیر مسلم بنا رہی ہو۔" امامہ نے کہا۔
"میں اگر ایسا کررہی ہوں تو غلط نہیں کررہی۔ اسلام کے تمام فرقے کم از کم یہ ایمان ضرور رکھتے ہیں کہ حضورصلی اللہ علیہ وآل وسلم اللہ کے آخری رسول ہیں اور ان کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے۔" اس بار جویریہ کو بھی غصہ آگیا۔
"مائنڈ یور لینگویج۔" امامہ بھی بھڑک اٹھی۔
"میں تمہیں حقیقت بتا رہی ہوں امامہ ۔۔۔۔۔ اور میں ہی نہیں یہ بات سب لوگ جانتے ہیں کہ تمہاری فیملی نے روپے کے حصول کے لئے مذہب بدلا ہے۔"
"امامہ! میری باتوں پر اتنا ناراض ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ٹھنڈے دل و دماغ سے۔۔۔۔۔"
امامہ نے جویریہ کی بات کاٹ دی۔" مجھے ضرورت نہیں ہے تمہاری کسی بھی بات پر ٹھنڈے دل و دعاغ سے غور کرنے کی ۔میں جانتی ہوں حقیقت کیا ہے اور کیا نہیں۔۔۔۔۔"
"تم نہیں جانتیں اور یہی افسوس ناک بات ہے۔" جویریہ نے کہا امامہ نے جواب میں کچھ کہنے کے بجائے اس بار بہت زور کے جھٹکے سے اپنا بازو چھڑالیا اور تیز قدموں کے ساتھ وہاں سے چل پڑی۔
اس بار جویریہ نے اس کے پیچھے جانے کی کوشش نہیں کی۔ وہ کچھ افسوس اور پریشانی سے اسے دور جاتے دیکھتی رہی۔ امامہ اس طرح ناراض نہیں ہوتی تھی جس طرح وہ آج ہوگئی تھی اور یہی بات جویریہ کو پریشان کررہی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
یہ سب کچھ اسکول میں ہونے والے ایک واقعے سے شروع ہوا تھا۔ امامہ اس وقت میٹرک کی اسٹوڈنٹ تھی اور تحریم اس کی اچھی دوستوں میں سے ایک تھی۔ وہ لوگ کئی سال سے اکٹھے تھے اور نہ صرف ایک ہی اسکول میں پڑھتے تھے بلکہ انکی فیملیز بھی ایک دوسرے کو بہت اچھی طرح جانتی تھیں۔ اپنی فرینڈز میں سے امامہ کی سب سے زیادہ دوستی تحریم اور جویریہ سے تھی مگر اسے حیرت ہوتی تھی کہ اتنی گہری دوستی کے باوجود بھی جویریہ اور تحریم اس کے گھر آنے سے کتراتی تھیں۔ امامہ ہر سال اپنی سالگرہ پر انہیں انوائیٹ کرتی اور اکثر وہ اپنے گھر پر ہونے والی دوسری تقریبات میں بھی انہیں مدعو کرتیں، وہ گھر سے اجازت نہ ملنے کا بہانہ بنا دیتیں۔ چند بار امامہ نے خود ان دونوں کے والدین سے اجازت لینے کے لئے بات کی، لیکن اس کے بے تحاشا اصرار کے باوجود ان دونوں کے والدین انہیں اس کے گھر آنے کی اجازت نہ دیتے۔ ان کے رویے پر کچھ شاکی ہوکر اس نے اپنے والدین سے شکایت کی۔
"تمہاری یہ دونوں فرینڈز سید ہیں۔ یہ لوگ عام طور پر ہمارے فرقہ کو پسند نہیں کرتے۔ اسی لئے ان دونوں کے والدین انہیں ہمارے گھر آنے نہیں دیتے۔"
ایک بار اس کی امی نے اس کی شکایت پر کہا۔
"یہ کیا بات ہوئی۔۔۔۔۔ ہمارے فرقے کو کیوں پسند نہیں کرتے۔" امامہ کو ان کی بات پر تعجب ہوا۔
"اب یہ تو وہی لوگ بتا سکتے ہیں کہ وہ ہمارے فرقے کو کیوں پسند نہیں کرتے۔۔۔۔۔ یہ تو ہمیں غیر مسلم بھی کہتے ہیں۔" اس کی امی نے کہا۔
"کیوں غیر مسلم کہتے ہیں۔ ہم تو غیر مسلم نہیں ہیں۔" امامہ نے کچھ الجھ کر کہا۔
"ہاں بالکل۔ ہم مسلمان ہیں۔۔۔۔۔ مگر یہ لوگ ہمارے نبی پر یقین نہیں رکھتے۔" اسکی امی نے کہا۔
"کیوں؟"
"اب اس کیوں کا میں کیا جواب دے سکتی ہوں۔ اب یہ لوگ یقین نہیں رکھتے۔ کٹر ہیں بڑے، یہ تو انہیں قیامت کے دن ہی پتا چلے گا کہ کون سیدھے رستے پر تھا۔ ہم یا یہ۔۔۔۔۔۔"
"مگر امی مجھ سے تو انہوں نے کبھی مذہب پر بات نہیں کی۔ پھر مذہب مسئلہ کیسے بن گیا۔۔۔۔۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے پھر دوسرے کے گھر آنے جانے سے کیا ہوتا ہے۔" امامہ ابھی بھی الجھی ہوئی تھی۔
"یہ بات انہیں کون سمجھائے۔۔۔۔۔ یہ لوگ ہمیں جھوٹا کہتے ہیں، حالانکہ خود انہیں ہمارے بارے میں کچھ پتا نہیں۔۔۔۔۔ بس مولویوں کے کہنے میں آکر ہم پر چڑھ دوڑتے ہیں، انہیں ہمارے بارے میں اور ہمارے نبی کی تعلیمات کے بارے میں کچھ پتا ہو تو یہ لوگ اس طرح نہ کریں۔ شاید پھر انہیں کچھ شعور آجائے۔۔۔۔۔ اور یہ لوگ بھی ہماری طرح راہ راست پر آجائیں۔ تمہاری فرینڈز اگر تمہارے گھر نہیں آتیں تو تمہیں پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ تم بھی ان کے گھر مت جایا کرو۔"
"مگر امی! انکی غلط فہمیاں تو دور ہونا چاہیں میرے بارے میں۔" امامہ نے ایک بار پھر کہا۔
"یہ کام تم نہیں کرسکتیں۔ ان لوگوں کے ماں باپ مسلسل اپنے بچوں کی ہمارے خلاف برین واشنگ کرتے رہتے ہیں۔ ان کے دلوں میں ہمارے خلاف زہر بھرتے رہتے ہیں۔"
"نہیں امی! وہ میری بیسٹ فرینڈز ہیں۔ ان کو میرے بارے میں اس طرح نہیں سوچنا چاہیے۔ میں ان لوگوں کو اپنی کتابیں پڑھنے کے لئے دوں گی، تاکہ ان کے دل سے میرے بارے میں یہ غلط فہمیاں دور ہوسکیں، پھر ہوسکتا ہے یہ ہمارے نبی کو بھی مان جائیں۔" امامہ نے کہا اس کی امی کچھ سوچ میں پڑ گئیں۔
"آپ کو میری تجویز پسند نہیں آئی؟"
"ایسا نہیں ہے۔۔۔۔۔ تم ضرور انہیں اپنی کتابیں دو۔۔۔۔۔ مگر اس طریقے سے نہیں کہ انہیں یہ لگے کہ تم اپنے فرقہ کی ترویج کے لئے انہیں یہ کتابیں دے رہی ہو۔ تم انہیں یہ کہہ کر کتابیں دینا کہ تم چاہتی ہو کہ وہ ہمارے بارے میں جانیں۔ ہم کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ سکیں اور ان سے یہ بھی کہنا کہ ان کتابوں کا ذکر وہ اپنے گھروالوں سے نہ کریں۔۔۔۔۔ ورنہ وہ لوگ زیادہ ناراض ہوجائیں گے۔" امامہ نے انکی بات پر سرہلادیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اس کے چند دنوں بعد امامہ اسکول میں کچھ کتابیں لے گئی تھی۔ بریک کے دوران وہ جب گراؤنڈ میں آکر بیٹھیں تو امامہ اپنے ساتھ وہ کتابیں بھی لے آئی۔
"میں تمہارے اور جویریہ کے لئے کچھ لے کر آئی ہوں۔
"کیا لائی ہو دکھاؤ!۔" امامہ نے شاپر سے وہ کتابیں نکال لیں اور انہیں دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے ان دونوں کی طرف بڑھا دیا۔ وہ دونوں ان کتابوں پر نظر ڈالتے ہی کچھ چپ سی ہوگئیں۔ جویریہ نے امامہ سے کچھ نہیں کہا مگر تحریم یکدم کچھ اکھڑ گئی۔
"یہ کیا ہے؟" اس نے سردمہری سے پوچھا۔
"یہ کتابیں میں تمہارے لئے لائی ہوں۔" امامہ نے کہا۔
"کیوں؟"
"تاکہ تم لوگوں کی غلط فہمیاں دور ہوسکیں۔"
"کس طرح کی غلط فہمیاں؟"
"وہی غلط فہمیاں جو تمہارے دل میں، ہمارے مذہب کے بارے میں ہیں۔" امامہ نے کہا۔
"تم سے کس نے کہا کہ ہمیں تمہارے مذہب یا تمہارے نبی کے بارے میں کچھ غلط فہمیاں ہیں؟" تحریم نے بڑی سنجیدگی سے پوچھا۔
"میں خود اندازہ کرسکتی ہوں۔ صرف اسی وجہ سے تو تم لوگ ہمارے گھر نہیں آتے۔ تم لوگ شاید یہ سمجھتے ہو کہ ہم لوگ مسلمان نہیں ہیں یا ہم لوگ قرآن نہیں پڑھتے یا ہم لوگ محمد ﷺ کو پیغمبر نہیں مانتے حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔۔۔۔۔ ہم لوگ ان سب چیزوں پر یقین رکھتے ہیں۔ ہم تو صرف یہ کہتے ہیں کہ محمد ﷺ کے بعد ہمارا بھی ایک نبی ہے اور وہ بھی اسی طرح قابل احترام ہے جس طرح محمد ﷺ۔" امامہ نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ وضاحت کرتے ہوئے کہا۔
تحریم نے اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی کتابیں اسے واپس تھما دیں۔ "ہمیں تمہارے اور تمہارے مذہب کے بارے میں کوئی غلط فہمی نہیں ہے۔۔۔۔۔ ہم تمہارے مذہب کے بارے میں ضرورت سے زیادہ جانتے ہیں۔ اس لئے تم کو کوئی وضاحت پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔" اس نے بڑے روکھے لہجے میں امامہ سے کہا۔ "اور جہاں تک ان کتابوں کا تعلق ہے تو میرے اور جویریہ کے پاس اتنا بے کار وقت نہیں ہے کہ ان احمقانہ دعوؤں، خوش فہمیوں اور گمراہی کے اس پلندے پر ضائع کریں جسے تم اپنی کتابیں کہہ رہی ہو۔" تحریم نے ایک جھٹکے کے ساتھ جویریہ کے ہاتھ میں پکڑی ہوئی کتابیں کھینچ کر انہیں بھی امامہ کے ہاتھ میں تھما دیا۔ امامہ کا چہرہ خفت اور شرمندگی سے سرخ پڑ گیا۔ اسے تحریم سے اس طرح کے تبصرے کی توقع نہیں تھی اگر ہوتی تو وہ کبھی اسے وہ کتابیں دینے کی حماقت ہی نہ کرتی۔
"اور جہاں تک اس احترام کا تعلق ہے تو اس نبی میں جس پر نبوت کا نزول ہوتا ہے اور اس نبی میں جو خودبخود نبی ہونے کی خوش فہمی میں مبتلا ہوجاتا ہے زمین اور آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ تم لوگوں کو اگر قرآن پر واقعی یقین ہوتا تو تمہیں اس کے ایک ایک حرف پر یقین ہوتا۔ نبی ہونے میں اور نبی بننے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔"
"تحریم! تم میری اور میرے فرقہ کی بے عزتی کررہی ہو۔" امامہ نے انکھوں میں امڈتے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ کہا۔
"میں کسی کی بے عزتی نہیں کررہی۔ میں صرف حقیقت بیان کررہی ہوں، وہ اگر تمہیں بے عزتی لگتی ہے تو میں اس کے بارے میں کچھ نہیں کرسکتی۔" تحریم نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
"روزہ رکھنے اور بھوکے رہنے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ قرآن پڑھنے اور اس پر ایمان لانے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ بہت سارے عیسائی اور ہندو بھی اسلام کے بارے میں جاننے کے لئے قرآن پاک پڑھتے ہیں تو کیا انہیں مسلمان مان لیا جاتا ہے اور بہت سے مسلمان بھی دوسرے مذہب کے بارے میں جاننے کے لئے دوسری الہامی کتابیں پڑھتے ہیں تو کیا وہ غیر مسلم ہوجاتے ہیں اور تم لوگ اگر حضور ﷺ کو پیغمبر مانتے ہو تو کوئی احسان نہیں کرتے۔ تم ان کی نبوت کو جھٹلاؤ گے تو اور کیا جھٹلاؤ گے، پھر تو انجیل کو بھی جھٹلانا پڑے گا۔ جس میں حضور ﷺ کی نبوت کی خوش خبری دی گئی ہے۔ پھر تو توریت کو بھی جھٹلانا پڑے گاجس میں ان کی نبوت کی بات کی گئی ہے، پھر قرآن پاک کو بھی جھٹلانا پڑے گا جو محمد ﷺ کو آخری نبی قرار دیتا ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اگر تمہارا نبی محمد ﷺ کی نبوت کو جھٹلاتا ہے تو وہ ان مناظروں کی کیا توجیہہ پیش کرتا جو وہ نبوت کا دعویٰ کرنے سے پہلے کئی سال عیسائی پادریوں سے محمد ﷺ کی نبوت اور اسلام کے آخری دین ہونے پر کرتا رہاتھا۔ اس لئے امامہ ہاشم! تم ان چیزوں کے بارے میں بحث کرنے کی کوشش مت کرو جن کے بارے میں تمہیں سرے سے کچھ پتا ہی نہیں ہے۔ تمہیں نہ اس مذہب کے بارے میں پتا ہے جس پر تم چل رہی ہو اور نہ اس کے بارے میں جس پر تم بات کررہی ہو۔"
تحریم نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
"اور میں ایک چیز بتادوں تمہیں۔۔۔۔۔ دین میں کوئی جبر نہیں ہوتا۔۔۔۔۔ تم لوگ محمد ﷺ کی نبوت کے ختم ہونے کا انکار کرتے ہو تو ہمارے پیغمبر ﷺ کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔"
"مگر ہم محمد ﷺ کی نبوت پر یقین رکھتے ہیں۔" امامہ نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا۔
"تو پھر ہم بھی انجیل پر یقین رکھتے ہیں، اسے الہامی کتاب مانتے ہیں، حضرت عیسٰی علیہ السلام کی نبوت پر یقین رکھتے ہیں تو کیا ہم کرسچن ہیں؟ اور ہم تو حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت داؤد علیہ السلام کی نبوت پر بھی یقین رکھتے ہیں تو کیا پھر ہم یہودی ہیں؟" تحریم نے کچھ تمسخر سے کہا۔ "لیکن ہمارا دین اسلام ہے، کیونکہ ہم محمد ﷺ کے پیروکار ہیں اور ہم ان پیغمبروں پر یقین رکھنے کے باوجود نہ عیسائیت کا حصہ ہیں نہ یہودیت کا، بالکل اسی طرح تم لوگوں کا نبی ہے کیونکہ تم اس کے پیروکار ہو۔ ویسے تم لوگ تو ہمیں بھی مسلمان نہیں سمجھتے۔ ابھی تم اصرار کررہی ہو کہ تم اسلام کا ایک فرقہ ہو۔۔۔۔۔ جبکہ تمہارے نبی اور اس کے بعد آنے والے تمہاری جماعت کے تمام لیڈرز کا دعویٰ ہے کہ جو مرزا کی نبوت پر یقین نہیں رکھتا وہ مسلمان ہی نہیں ہے۔۔۔۔۔ تو اسلام سے تو تم لوگ تمام مسلمانوں کو پہلے ہی خارج کرچکے ہو۔"
"ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔۔۔۔۔ میں نے ایسا کب کہا ہے؟" امامہ نے قدرے لڑکھڑائے ہوئے لہجے میں کہا۔
"تو پھر تم اپنے والد سے ذرا اس معاملے کو ڈسکس کرو۔۔۔۔۔ وہ تمہیں خاصی اپ ٹو ڈیٹ انفارمیشن دیں گے اس بارے میں۔۔۔۔۔ تمہارے مذہب کے خاصے سرکردہ رہنما ہیں وہ۔۔۔۔۔" تحریم نے کہا۔ "اور یہ جو کتابیں تم ہمیں پیش کررہی ہو۔۔۔۔۔ انہیں خود پڑھا ہے تم نے۔۔۔۔۔ نہیں پڑھا ہوگا۔۔۔۔۔ ورنہ تمہیں پتا ہوتا ان سرکردہ رہنماؤں کے بارے میں۔"
جویریہ تحریم کی اس ساری گفتگو کے دوران خاموش رہی تھی، وہ صرف کن اکھیوں سے امامہ کو دیکھتی رہی تھی۔ "اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ محمد ﷺ اس کے آخری نبی ہیں اور میرے پیغمبر ﷺ اس پر گواہی دیتے ہیں کہ وہ اللہ کے آخری نبی ہیں اور میری کتاب مجھ تک یہ دونوں باتیں بہت صاف واضح اور دوٹوک انداز میں پہنچا دیتی ہے تو پھر مجھے کسی اور شخص کے ثبوت اور اعلان کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔۔ سمجھیں۔"
تحریم نے اپنے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔
"بہتر ہے تم اپنے مذہب کو یا ہمارے مذہب کو زیر بحث لانے کی کوشش نہ کرو۔ اتنے سالوں سے دوستی چل رہی ہے، چلنے دو۔۔۔۔۔"
"جہاں تک تمہارے گھر نہ آنے کا تعلق ہے تو ہاں یہ بالکل ٹھیک ہے کہ میرے والدین کو تمہارے گھر آنا پسند نہیں ۔ یہاں اسکول میں تم سے دوستی اور بات ہے۔ بہت سے لوگوں سے دوستی ہوتی ہے ہماری اور دوستی میں عام طور پر مذہب آڑے نہیں آتا لیکن گھر میں آنا جانا۔۔۔۔۔ کچھ مختلف چیز ہے۔۔۔۔۔ انہیں شاید میری کسی عیسائی یا یہودی یا ہندو دوست کے گھر جانے پر اعتراض نہ ہولیکن تمہارے گھر جانے پر ہے۔۔۔۔۔ کیونکہ وہ لوگ اپنے مذہب کو مانتے ہیں وہ اپنے آپ کو مسلمان نہیں کہتے جس مذہب سے تعلق ہوتا ہے وہی بتاتے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جتنا تم لوگوں کو ناپسند کیا جاتا ہے اتنا ان لوگوں کو نہیں کیا جاتا کیونکہ تم لوگ صرف پیسے کے حصول اور اچھے مستقبل کے لئے یہ نیا مذہب اختیار کرکے ہمارے دین میں گھسنے کی کوشش کررہے ہو، مگر کرسچن، ہندو یا یہودی ایسا نہیں کرتے۔"
امامہ نے بے اختیار اسے ٹوکا۔ "کس پیسے کی بات کررہی ہو تم؟ تم ہماری فیملی کو جانتی ہو۔۔۔۔۔ ہم لوگ شروع سے ہی بہت امیر ہیں۔ ہمیں کونسا روپیہ مل رہا ہے اس مذہب پر رہنے کے لئے۔"
"ہاں تم لوگ اب بڑے خوشحال ہو، مگر شروع سے تو ایسے نہیں تھے۔ تمہارے دادا مسلمان تھے مگر غریب آدمی تھے۔ وہ کاشت کاری کیا کرتے تھے اور ایک چھوٹے کاشتکار تھے۔ ربوہ سے کچھ فاصلے پر ان کی تھوڑی بہت زمین تھی پھر تمہارے تایا نے اپنے کسی دوست کے توسط سے وہاں جانا شروع کردیا اور یہ مذہب اختیار کرلیا اور بے تحاشا امیر ہوگئے کیونکہ انہیں وہاں سے بہت زیادہ پیسہ ملا پھر آہستہ آہستہ تمہارے والد اور تمہارے چچا نے بھی اپنا مذہب بدل لیا پھر تم لوگوں کا خاندان اس ملک کے متمول ترین خاندانوں میں شمار ہونے لگا اور یہ کام کرنے والے تم لوگ واحد نہیں ہو زیادہ تر اسی طریقے سے لوگوں کو اس مذہب کا پیروکار بنایا جارہا ہے۔"
امامہ نے کچھ بھڑکتے ہوئے اس کی بات کو کاٹا "تم جھوٹ بول رہی ہو۔"
"تمہیں یقین نہیں آرہا تو تم اپنے گھر والوں سے پوچھ لینا کہ اس قدر دولت کس طرح آئی ان کے پاس۔۔۔۔۔ اور ابھی بھی کس طرح آرہی ہے۔ تمہارے والد اس مذہب کی تبلیغ کرتے ہیں۔ ہر سال لاکھوں ڈالرز آتے ہیں، انہیں غیر ملکی مشنز اور این جی اوز سے۔۔۔۔۔" تحریم نے کچھ تحقیر آمیز انداز میں کہا۔
"یہ جھوٹ ہے، سفید جھوٹ۔" امامہ نے بے اختیار کہا۔ "میرے بابا کسی سے کوئی پیسہ نہیں لیتے۔ وہ اگر اس فرقہ کے لئے کام کرتے ہیں، تو غلط کیا ہے۔ کیا دوسرے فرقوں کے لئے کام نہیں کیا جاتا۔ دوسرے فرقوں کے بھی تو علماء ہوتے ہیں یا ایسے لوگ جو انہیں سپورٹ کرتے ہیں۔"
"دوسرے فرقوں کو یورپی مشنز سے روپیہ نہیں ملتا۔"
"میرے بابا کو کہیں سے کچھ نہیں ملتا۔" امامہ نے ایک بار پھر کہا۔ تحریم نے اس کی بات کے جواب میں کچھ نہیں کہا۔ وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
امامہ نے اسے جاتے ہوئے دیکھا پھر گردن موڑ کر اپنے پاس بیٹھی جویریہ کی طرف دیکھا۔
"کیا تم بھی میرے بارے میں ایسا ہی سوچتی ہو؟"
"تحریم نے غصہ میں آکر تم سے یہ سب کچھ کہا ہے۔ تم اس کی باتوں کا برا مت مانو۔" جویریہ نے اسے تسلی دینے کی کوشش کی۔
"تم ان سب باتوں کو چھوڑو۔۔۔۔۔ آؤ کلاس میں چلتے ہیں۔ بریک ختم ہونے والی ہے۔" جویریہ نے کہا تو وہ اٹھ کھڑی ہوگئی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
قسط نمبر 12
اس دن وہ گھر واپس آکر اپنے کمرے میں بند ہوکر روتی رہی۔ تحریم کی باتوں نے اسے واقعی بہت دل برداشتہ اور مایوس کیا تھا۔
ہاشم مبین احمد اس دن شام کو ہی آفس سے گھر واپس آگئے ۔ واپس آنے پر انہیں سلمیٰ سے پتا چلا کہ امامہ کی طبیعت خراب ہے وہ اس کا حال احوال پوچھنےا س کے کمرے میں چلے آئے۔ امامہ کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔ ہاشم مبین حیران رہ گئے۔
"کیا بات ہے امامہ؟" انہوں نے امامہ کے قریب آکر پوچھا
وہ اٹھ کر بیٹھ گئی اور کچھ بہانہ کرنے کی بجائے بے اختیار رونے لگی۔ ہاشم کچھ پریشان ہوکر اس کے قریب بیڈ پر بیٹھ گئے۔
"کیا ہوا۔۔۔۔۔ امامہ؟"
"تحریم نے آج اسکول میں مجھ سے بہت بدتمیز کی ہے۔" اس نے روتے ہوئے کہا۔
ہاشم مبین نے بے اختیار ایک اطمینان بھری سانس لی۔ "پھر کوئی جھگڑا ہوا ہے تم لوگوں میں؟"
"بابا! آپ کو نہیں پتا اس نے میرے ساتھ کیا کیا ہے؟" امامہ نے باپ کو مطمئن ہوتے دیکھ کر کہا۔
"بابا! اس نے۔۔۔۔۔" وہ باپ کو تحریم کے ساتھ ہونے والی تمام گفتگو بتاتی گئی۔ ہاشم مبین کے چہرے کی رنگت بدلنے لگی۔
"تم سے کس نے کہاتھا۔ تم اسکول کتابیں لے کر جاؤ، انہیں پڑھانے کے لئے؟" انہوں نے امامہ کو ڈانٹتے ہوئے کہا۔
"میں ان کی غلط فہمیاں دور کرنا چاہتی تھی۔" امامہ نے قدرے کمزور لہجے میں کہا۔
"تمہیں ضرورت ہی کیا تھی کسی کی غلط فہمیاں دور کرنے کی۔ وہ ہمارے گھر نہیں آتیں تو نہ آئیں۔ ہمیں برا سمجھتی ہیں تو سمجھتی رہیں، ہمیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔" ہاشم مبین نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
"مگر اب تمہاری اس حرکت سے پتا نہیں وہ کیا سمجھے گی۔ کس کس کو بتائے گی کہ تم نے اسے وہ کتابیں دینے کی کوشش کی۔ خود اس کے گھر والے بھی ناراض ہوں گے۔ امامہ! ہر ایک کو یہ بتاتے نہیں پھرتے کہ تم کیا ہو۔ نہ ہی اپنے فرقہ کے بارے میں بحث کرتے ہیں اگر کوئی بحث کرنے کی کوشش بھی کرے تو ہاں میں ہاں ملا دیتے ہیں ورنہ لوگ خوامخواہ فضول طرح کی باتیں کرتے ہیں اور فضول طرح کے شبہات میں مبتلا ہوتے رہتے ہیں۔" انہوں نے سمجھایا۔
"مگر بابا! آپ بھی تو بہت سارے لوگوں کو تبلیغ کرتے ہیں؟" امامہ نے کچھ الجھے ہوئے انداز میں کہا۔ "پھر مجھے کیوں منع کررہے ہیں؟"
"میری بات اور ہے میں صرف ان ہی لوگوں سے مذہب کی بات کرتا ہوں جن سے میری بہت بے تکلفی ہوچکی ہوتی ہے اور جن کے بارے میں مجھے یہ محسوس ہو کہ ان پر میری ترغیب اور تبلیغ کا اثر ہوسکتا ہے۔ میں دوچار دن کی ملاقات میں کسی کو کتابیں بانٹنا شروع نہیں ہوجاتا۔" ہاشم مبین نے کہا۔
"بابا ان سے میری دوستی دوچار دن کی نہیں ہے۔ ہم کئی سالوں سے دوست ہیں۔" امامہ نے اعتراض کیا۔
"ہاں مگر وہ دونوں سید ہیں اور دونوں کے گھرانے بہت مذہبی ہیں۔ تمہیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے تھی۔"
"میں نے تو صرف انہیں اپنے فرقے کے بارے میں بتانے کی کوشش کی تھی تاکہ ہمیں وہ غیر مسلم تو نہ سمجھیں۔" امامہ نے کہا۔
"اگر وہ ہمیں غیر مسلم سمجھتے ہیں تو ہمیں بھی کیا فرق پڑتا ہے۔ وہ خود غیر مسلم ہیں۔" ہاشم مبین نے بڑی عقیدت سے کہا۔ "وہ تو خود گمراہی کے راستے پر ہیں۔"
"بابا وہ کہہ رہی تھی کہ آپ کو غیر ملکی مشنز سے روپیہ ملتا ہے۔ این جی اوز سے روپیہ ملتا ہے تاکہ آپ لوگوں کو ہمارے فرقہ کا پیروکار بنائیں۔"
ہاشم مبین نے تنفر سے گردن کو جھٹکا۔ "مجھے صرف اپنی جماعت سے روپیہ ملتا ہے اور وہ بھی وہ روپیہ ہوتا ہے جو ہماری اپنی کمیونٹی اندرون ملک اور بیرون ملک سے اکٹھا کرتی ہے۔ ہمارے پاس اپنے روپے کی کیا کمی ہے۔ ہماری اپنی فیکٹریز نہیں ہیں کیا اور اگر مجھے غیر ملکی منشز اور این جی اوز سے روپیہ ملے بھی تو میں بڑی خوشی سے لوں گا، آخر اس میں برائی کیا ہے۔ دین کی خدمت کررہا ہوں اور جہاں تک اپنے مذہب کی ترویج و تبلیغ کی بات ہے تو اس میں بھی کیا برائی ہے۔ اگر اس ملک میں عیسائیت کی تبلیغ ہوسکتی ہے تو ہمارے فرقے کی کیوں نہیں۔ ہم تو ویسے بھی اسلام کا ایک فرقہ ہیں۔ لوگوں کو راہِ ہدایت پر لانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔" ہاشم مبین نے بڑی تفصیل کے ساتھ بتایا۔
"مگر تم لوگوں سے اس معاملے پر بات مت کیا کرو۔ اس بحث مباحثے کا کوئی فائدہ ہنیں ہوتا۔ ابھی ہم لوگ اقلیت میں ہیں جب اکثریت میں ہوجائیں گے تو پھر اس طرح کے لوگ اتنی بے خوفی کے ساتھ اس طرح بڑھ بڑھ کر بات نہیں کرسکیں گے پھر وہ اس طرح ہماری تذلیل کرتے ہوئے ڈریں گے مگر فی الحال ایسے لوگوں کے منہ نہیں لگنا چاہیے۔"
"بابا! آئین میں ہمیں اقلیت اور غیر مسلم کیوں قرار دیا گیا ہے۔ جب ہم اسلام کا ایک فرقہ ہیں تو پھر انہوں نے ہمیں غیر مسلم کیوں ٹھہرایا ہے؟" امامہ کو تحریم کی کہی ہوئی ایک اور بات یاد آئی۔
"یہ سب مولویوں کی کارستانی تھی۔ اپنے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے وہ سب ہمارے خلاف اکٹھے ہوگئے تھے۔ ہماری تعداد بھی زیادہ ہوجائے گی تو ہم پھر اپنی مرضی کے قوانین بنوائیں گے اور اس طرح کی تمام ترمیمات کو آئین میں سے ہٹا دیں گے۔" ہاشم مبین نے پرجوش انداز میں کہا۔ "اور تمہیں اس طرح بے وقوفوں کی طرح کمرے میں بند ہوکر رونے کی ضرورت نہیں ہے۔"
ہاشم مبین نے اس کے پاس اٹھتے ہوئے کہا، امامہ انہیں وہاں سے جاتے ہوئے دیکھتی رہی۔
تحریم کے ساتھ وہ اس کی دوستی کا آخری دن تھا اور اس میں تحریم سے زیادہ خود اس کا رویہ وجہ تھا۔ وہ تحریم کی باتوں سے اس حد تک دل برداشتہ ہوئی تھی کہ اب تحریم کیساتھ د وبارہ پہلے جیسے تعلقات قائم رکھنا اس کے لئے مشکل ہوگیا تھا۔ خود تحریم نے بھی اس کی اس خاموشی کو پھلانگنے یا توڑنے کی کوشش نہیں کی۔
ہاشم مبین احمد احمدی جماعت کے سرکردہ رہنماؤں میں سے ایک تھے۔ ان کے بڑے بھائی، اعظم مبین احمد بھی جماعت کے اہم رہنماؤں میں سے ایک تھے۔ ان کے پورے خاندان میں سے چند ایک کو چھوڑ کر باقی تمام افراد بہت سال پہلےاس وقت قادیانیت اختیار کرگئے تھے جب اعظم مبین احمد نے اس کام کا آغاز یا تھا جن لوگوں نے قادیانیت اختیار نہیں کی تھی وہ باقی لوگوں سے قطع تعلق کرچکے تھےاپنے بڑے بھائی اعظم مبین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہاشم مبین نے بھی یہ مذہب اختیار کرلیا۔ اعظم مبین ہی کی طرح انہوں نے اپنے مذہب کے فروغ اور تبلیغ کے لئے کام کرنا بھی شروع کردیا۔ دس پندرہ سالوں میں وہ دونوں بھائی اس تحریک کے سرکردہ رہنماؤں میں شمار ہونے لگے۔ اس کی وجہ سے انہوں نے بے تحاشا پیسہ کمایا اور اس پیسے سے انہوں نے سرمایا کاری بھی کی مگر ان کی آمدنی کا بڑا ذریعہ تحریک کی تبلیغ کے لئے میسر ہونے والے فنڈز ہی تھے۔ ان کا شمار اسلام آباد کی ایلیٹ کلاس میں ہوتا تھا۔ بے تحاشا دولت ہونے کے باوجود ہاشم اور اعظم مبین کے گھر کا ماحول روایتی تھا۔ ان کی خواتین باقاعدہ پردہ کیا کرتی تھیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ ان خواتین پر ناروا پابندیاں یا کسی قسم کا جبر روا رکھا گیا تھا۔ اس مذہب کی خواتین میں تعلیم کا تناسب پاکستان میں کسی بھی مذہب کے مقابلے میں ہمیشہ ہی زیادہ رہا ہے ان لوگوں نے اعلی تعلیم بھی معروف اداروں سے حاصل کی۔
امامہ بھی اسی قسم کے ماحول میں پلی بڑھی تھی۔ وہ یقینا ً ان لوگوں میں سے تھی جو منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوتے ہیں اور اس نے ہاشم مبین کو بھی کسی قسم کے مالی مسائل سے گزرتے نہیں دیکھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس کے لئے تحریم کی یہ بات ناقابل یقین تھی کہ اس کے خاندان نے پیسہ حاصل کرنے کے لئے یہ مذہب اختیار کیا۔ غیر ملکی مشنز اور بیرون ملک سے ملنے والے فنڈز کا الزام بھی اس کے لئے ناقابلِ قبول تھا۔ وہ یہ بات اچھی طرح جانتی تھی کہ ہاشم مبین اس مذہب کی تبلیغ اور ترویج کرتے ہیں اور تحریک کے سرکردہ رہنماؤں میں سے ایک ہیں مگر یہ کوئی خلاف معمول بات نہیں تھی۔ وہ شروع سے ہی اس سلسلے میں اپنے تایا اور والد کی سرگرمیوں کو دیکھتی آرہی تھی۔ اس کے نزدیک یہ کام ایسا تھا جو وہ "اسلام" کی تبلیغ و ترویج کے لئے کررہے تھے۔
اپنے گھر والوں کے ساتھ وہ کئی بار مذہبی اجتماع میں بھی جاچکی تھی اور سرکردہ رہنماؤں کے لندن سے سیٹلائٹ کے ذریعے ہونے والے خطبات کو بھی باقاعدگی سے سنتی اور دیکھتی آرہی تھی۔ تحریم کے ساتھ ہونے والے جھگڑے سے پہلے اس نے کبھی اپنے مذہب کے بارے میں غور کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اس کے لئے اپنا فرقہ ایسا ہی تھا، جیسے اسلام کا کوئی دوسرا فرقہ۔۔۔۔۔ اس کی برین واشنگ بھی اسی طرح کی گئی تھی کہ وہ سمجھتی تھی کہ صرف وہی سیدھے راستے پر تھے بلکہ وہی جنت میں جائیں گے۔
اگرچہ گھر میں بہت شروع میں ہی اسے باقی بہن بھائیوں کے ساتھ یہ نصیحت کردی گئی تھی کہ وہ بلاوجہ لوگوں کو یہ نہ بتائیں کہ وہ دراصل کیا ہیں۔ اسکول میں تعلیم کے دوران ہی وہ یہ بھی جان گئی تھی کہ 1974ء میں انہیں پارلیمنٹ نے ایک غیرمسلم اقلیت قرار دے دیا تھا وہ سمجھتی تھی کہ یہ مذہبی داؤ میں آ کر کیا جانے والا ایک سیاسی فیصلہ ہے، مگر تحریم کے ساتھ ہونےو الے جھگڑے نے اسے اپنے مذہب کے بارے میں غور کرنے اور سوچنے پر مجبور کردیا تھا۔
تحریم سے ہونے والے جھگڑے کے بعد ایک تبدیلی جو اس میں آئی وہ اپنے مذہب کا مطالعہ تھا۔ تبلیغی مواد کے علاوہ ان کتابوں کے علاوہ جنہیں اس مذہب کے ماننے والے مقدس سمجھتے تھے اس نے اور بھی بہت سی کتابوں کا مطالعہ کرنا شروع کردیا اور بنیادی طور پر اسی زمانے میں اس کی الجھنوں کا آغاز ہوا مگر کچھ عرصہ مطالعہ کے بعد اس نے ایک بار پھر ان الجھنوں اور اضطراب کو اپنے ذہن سے جھٹک دیا۔ میٹرک کے فوراً بعد اسجد سے اسکی منگنی ہوگئی وہ اعظم مبین کا بیٹا تھا۔ یہ اگرچہ کوئی محبت کی منگنی نہیں تھی مگر اسکے باوجود امامہ اور اسجد کی پسند اس رشتہ کا باعث بنی تھی۔ نسبت طے ہونے کے بعد اسجد کے لئے امامہ کے دل میں خاص جگہ بن گئی تھی۔
اپنی پسند کے شخص سے نسبت کے بعد اس کا دوسرا ٹارگٹ میڈیکل میں ایڈمیشن تھا اور اسے اس کے بارے میں زیادہ فکر نہیں تھی۔ وہ جانتی تھی کہ اس کے باپ کی پہنچ اتنی ہے کہ اگر وہ میرٹ پر نہ بھی ہوئی تب بھی وہ اسے میڈیکل کالج میں داخل کروا سکتے ہیں اور اگر یہ ممکن نہ ہوتا تو بھی وہ بیرون ملک جاکر میڈیکل کی تعلیم حاصل کرسکتی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"تم پچھلے کچھ دنوں سے بہت پریشان ہو، کوئی پرابلم ہے؟" وسیم نے اس رات امامہ سے پوچھا وہ پچھلے کچھ دن سے بہت زیادہ خاموش اور الجھی الجھی نظر آرہی تھی۔
"نہیں، ایسی تو کوئی بات نہیں ہے تمہارا وہم ہے۔" امامہ نے مسکرانے کی کوشش کی۔
"خیر وہم تو نہیں، کوئی نہ کوئی بات ہے ضرور۔ تم بتانا نہیں چاہتیں تو اور بات ہے۔" وسیم نے سر جھٹکتے ہوئے کہا۔ وہ امامہ کے ڈبل بیڈ پر اس سے کچھ فاصلے پر لیٹا ہوا تھا اور وہ اپنی فائل میں رکھے نوٹس الٹ پلٹ رہی تھی۔ وسیم کچھ دیر اس کے جواب کا انتظار کرتا رہا پھر اس نے ایک بار پھر اسے مخاطب کیا۔
"میں نے ٹھیک کہا نا، تم بتانا نہیں چاہتیں؟"
"ہاں میں فی الحال بتانا نہیں چاہتی۔" امامہ نے ایک گہرا سانس لے کر اعتراف کیا۔
"بتا دو، ہوسکتا ہے میں تمہاری مدد کرسکوں۔" وسیم نے اسے اکسایا۔
"وسیم! میں خود تمہیں بتا دوں گی مگر فی الحال نہیں اور اگر مجھے مدد کی ضرورت ہوگی تو میں خود تم سے کہوں گی۔" اس نے اپنی فائل بند کرتے ہوئے کہا۔
"ٹھیک ہے جیسے تمہاری مرضی، میں تو صرف تمہاری مدد کرنا چاہتا تھا۔" وہ بیڈ سے اٹھ گیا۔
وسیم کا اندازہ بالکل ٹھیک تھا۔ وہ واقعی جویریہ کے ساتھ اس دن ہونے والے جھگڑے کے بعد سے پریشان تھی۔ اگرچہ جویریہ نے اگلے دن اس سے معذرت کرلی تھی مگر اس کی الجھن اور اضطراب میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔ جویریہ کی باتوں نے اسے بہت پریشان کردیا تھا۔ ایک ڈیڑھ سال پہلے تحریم کے ساتھ ہونے والا جھگڑا اسے ایک بار پھر یاد آنے لگا تھا اور اس کے ساتھ ہی اپنے مذہب کے بارے میں ابھرنے والے سوالات اور الجھنیں بھی جو اس نے اپنے مذہب کا تفصیلی مطالعہ کرنے کے بعد اپنے ذہن میں محسوس کی تھیں۔ جویریہ نے کہا تھا۔ "میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ کاش تم مسلمان ہوتیں۔"
"مسلمان ہوتی؟" وہ عجیب سی بے یقینی میں مبتلا ہوگئی تھی۔ "کیا میں مسلمان نہیں ہوں؟ کیا میری بہترین دوست بھی مجھے مسلمان نہیں مانتی؟ کیا یہ سب کچھ صرف ایک پروپیگنڈہ کی وجہ سے ہے جو ہمارے بارے میں کیا جاتا ہے؟ آخر ہمارے ہی بارے میں کیوں یہ سب کچھ کہا جاتا ہے؟ کیا ہم لوگ واقعی کوئی غلط کام کررہے ہیں؟ کسی غلط عقیدے کو اختیار کر بیٹھے ہیں؟ مگر یہ کیسے ہوسکتا ہے، آخر میرے گھر والے ایسا کیوں کریں گے اور پھر ہماری ساری کمیونٹی ایسا کیوں کرے گی؟ اور شاید یہ ان سوالوں سے نجات پانے کی ایک کوشش تھی کہ ایک ہفتے بعد اس نے ایک بہت بڑے عالم دین کی قرآن پاک کی تفسیر خریدی۔ وہ جاننا چاہتی تھی کہ ان کے بارے میں دوسرے فریق کا موقف کیا ہے۔ قرآن پاک کا ترجمہ وہ اس سے پہلے بھی پڑھتی رہی تھی مگر وہ تحریف شدہ حالت میں تھا۔ اسے اس سے پہلے اس بات کا یقین نہیں تھا کہ جو قرآن پاک وہ پڑھتے ہیں اس میں کچھ جگہوں پر کچھ تبدیلیاں کی گئی ہیں مگر اس مشہور عالم دین کی تفسیر پڑھنے کے دوران اسے ان تبدیلیوں کے بارے میں معلوم ہوگیا جو ان کے اپنے قرآن میں موجود تھیں۔ اس نے یکے بعد دیگرے مختلف فرقوں کے اداروں سے شائع ہونے والے قرآن پاک کے نسخوں کو دیکھا۔ ان میں سے کسی میں بھی وہ تبدیلیاں نہیں تھی جو خود ان کے قرآن میں موجود تھیں جبکہ مختلف فرقوں کی تفاسیر میں بہت زیادہ فرق تھا جوں جوں وہ اپنے مذہب اور اسلام کا تقابلی مطالعہ کررہی تھی اس کی پریشانی میں اضافہ ہورہا تھا۔ ہر تفسیر آخری نبی پیغمبر اسلام ﷺ کو ہی ٹھہرایا گیا تھا۔ کہیں بھی کسی ظلیّ یا امتی نبی کا کوئی ڈھکا چھپا اشارہ بھی موجود نہیں تھا۔ مسیح موعود کی حقیقت بھی اس کے سامنے آگئی تھی۔ اپنے مذہبی رہنما کی جھوٹی پیش گوئیوں میں اور حقیقت میں ہونے والے واقعات کا تضاد اسے اور بھی زیادہ چبھنے لگا تھا۔ اس کے مذہبی رہنما نے نبوت کا دعویٰ کرنے سے پہلے جن پیغمبر کے بارے میں سب سے زیادہ غیر مہذب زبان استعمال کی تھی وہ خود حضرت عیسٰی علیہ السلام ہی تھے اور بعد میں نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے سے پہلے یہ بھی کہا تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی روح کا حلول اس کے اندر ہوگیا ہے اور اگر اس عوے کی سچائی کو مان بھی لیا جاتا تو حضرت عیسٰی علیہ السلام اپنے دوبارہ نزول کے بعد چالیس سال تک زندہ رہتے اور پھر جب ان کا انتقال ہوا تو اسلام پوری دنیا پر غلبہ پاچکا ہوتا مگر ان رہنما کی وفات کے وقت دنیا میں اسلام کا غلبہ تو ایک طرف خود ہندوستان میں مسلمان آزادی جیسی نعمت کے لئے ترس رہے تھے۔ امامہ کو اپنے مذہبی رہنما کے گفتگو کے اس انداز پر بھی تعجب ہوتا جو اس نے اپنی مختلف کتابوں میں اپنے مخالفین یا دوسرے انبیائے کرام کے لئے اختیار کیا تھا۔ کیا کوئی نبی اس طرح کی زبان استعمال کرسکتا تھا جس طرح کی اس نبوت کے دعویٰ کرنے والے نے کی تھی۔
بہت غیر محسوس انداز میں اس کا دل اپنے مذہبی لٹریچر اور مقدس کتابوں سے اچاٹ ہونے لگا تھا۔ پہلے جیسا اعتقاد اور یقین تو ایک طرف اسے سرے سے ان کی صداقت پر شبہ ہونے لگا تھا۔ اس نے جویریہ سے یہ ذکر نہیں کیا تھا کہ وہ اب اپنے مذہب سے ہٹ کر دوسری کتابوں کو پڑھنے لگی تھی۔ اس کے گھر میں بھی کسی کو یہ اندازہ نہیں ہوا کہ وہ کس قسم کی کتابیں گھر لاکر پڑھ رہی تھی اس نے انہیں اپنے کمرے میں بہت حفاظت سے چھپا کر رکھا ہوا تھا۔ صرف ایک دن ایسا ہوا کہ وسیم اس کے کمرے میں آکر اس کی کتابوں میں سے کوئی کتاب ڈھونڈنے لگا۔ وسیم کے ہاتھ سب سے پہلے قرآن پاک کی وہی تفسیر لگی تھی اور وہ جیسے دم بخود رہ گیا تھا۔
"یہ کیا ہے امامہ؟" اس نے مڑ کر تعجب سے پوچھا۔ امامہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا اور دھک سے رہ گئی۔
"یہ۔۔۔۔۔ یہ۔۔۔۔۔ یہ قرآن پاک کی تفسیر ہے۔" اس نے یکدم اپنی زبان میں ہونے والی لڑکھڑاہٹ پر قابو پاتے ہوئے کہا۔
"میں جانتا ہوں مگر یہ یہاں کیا کررہی ہے۔ کیا تم اسے خرید کر لائی ہو؟" وسیم نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ پوچھا
"ہاں، میں اسے خرید کر لائی ہوں۔ مگر تم اتنا پریشان کیوں ہورہے ہو؟"
"بابا کو پتا چلے گا تو وہ کتنا غصہ کریں گے، تمہیں اندازہ ہے؟"
"ہاں، مجھے اندازہ ہے، مگر مجھے یہ کوئی اتنی قابل اعتراض بات نظر نہیں آتی۔"
"آخر تمہیں اس کتاب کی ضرورت کیوں پڑی؟" وسیم نے کتاب وہیں رکھ دی۔
"کیونکہ میں جاننا چاہتی ہوں کہ دوسرے عقائد کے لوگ آخر قرآن پاک کی کیا تفسیر کررہے ہیں۔ ہمارے بارے میں، قرآن کے حوالے سے ان کا نقطہ نظر کیا ہے۔" امامہ نے سنجیدگی سے کہا۔
وسیم پلکیں جھپکائے بغیر اسے دیکھتا رہا۔
"تمہارا دماغ ٹھیک ہے؟"
"میرا دماغ بالکل ٹھیک ہے" امامہ نے پرسکون انداز میں کہا۔ "کیا برائی ہے۔ اگر میں دوسرے مذاہب کے بارے میں جانوں اور ان کے قرآن پاک کی تفسیر پڑھوں۔"
"ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے۔" وسیم نے ناراضی سے کہا۔
"تمہیں ضرورت نہیں ہوگی، مجھے ضرورت ہے۔" امامہ نے دوٹوک انداز میں کہا۔ "میں آنکھیں بند کرکے کسی بھی چیز پر یقین کی قائل نہیں ہوں۔" اس نے واضح الفاظ میں کہا۔
"تو یہ تفسیر پڑھ کر تمہارے شبہات دور ہوگئے ہیں؟" وسیم نے طنزیہ لہجے میں پوچھا۔
امامہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ "پہلے مجھے اپنے اعتقاد کے بارے میں شبہ نہیں تھا، اب ہے۔"
وسیم اسکی بات پر بھڑک اٹھا۔ "دیکھا، اس طرح کی کتابیں پڑھنے سے یہی ہوتا ہے۔ میں اسی لئے تم سے کہہ رہا ہوں کہ تمہیں اس طرح کی کتابیں پڑھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارے لئے ہماری اپنی کتابیں کافی ہیں۔"
"میں نے اتنی تفاسیر دیکھی ہیں، قرآن پاک کے اتنے ترجمے دیکھے ہیں، حیرانی کی بات ہے وسیم! کہیں بھی ہمارے نبی کا ذکر نہیں ہے، ہر تفسیر میں احمد سے مراد محمد ﷺ کو ہی لیا جاتا ہے، ہمارے نبی کو نہیں اور اگر کہیں ہمارے نبی کا ذکر ہے بھی تو نبوت کے ایک جھوٹے دعوے دار کے طور پر۔" امامہ نے الجھے ہوئے انداز میں کہا۔
"یہ لوگ ہمارے بارے میں ایسی باتیں نہیں کریں گے تو اور کون کرے گا۔ ہمارے نبی کی نبوت کو مان لیں گے تو ہمارا اور ان کا تو اختلاف ہی ختم ہوجائے گا۔ یہ کبھی اپنی تفاسیر میں سچ نہیں شائع کریں گے۔" وسیم نے تلخی سے کہا۔
"اور جو ہماری تفسیر ہے، کیا ہم نے سچ لکھا ہے اس میں۔"
"کیا مطلب؟" وسیم ٹھٹکا۔
"ہمارے نبی دوسرے پیغمبروں کے بارے میں غلط زبان کیوں استعمال کرتے ہیں؟"
"وہ ان لوگوں کے بارے میں اپنی بات کرتے ہیں جو ان پر ایمان نہیں لائے۔" وسیم نے کہا۔
"جو ایمان نہ لائے کیا اسے گالیاں دینی چاہیں؟"
"ہاں غصہ کا اظہار تو کسی نہ کسی صورت میں ہوتا ہے۔" وسیم نے کندھے جھٹکتے ہوئے کہا۔
"غصے کا اظہار یا بے بسی کا؟" امامہ کے جملے پر وہ دم بخود اسے دیکھنے لگا۔
"جب حضرت عیسیٰ علیہ اسلام پر لوگ ایمان نہیں لائے تو انہوں نے لوگوں کو گالیاں تو نہیں دی۔ حضرت محمد ﷺ پر لوگ ایمان نہیں لائے تھے تو انہوں نے بھی کسی کو گالیاں نہیں دیں۔ محمد ﷺ نے تو ان لوگوں کے لئے بھی دعا کی جنہوں نے انہیں پتھر مارے، جو وحی قرآن پاک کی صورت میں حضرت محمد ﷺ پر نازل ہوئی ہے اس میں کوئی گالی نہیں ملتی اور جس مجموعے کو ہمارے نبی اپنے اوپر نازل شدہ صحیفہ کہتے ہیں وہ گالیوں سے بھرا ہوا ہے۔"
"امامہ! ہر انسان کا مزاج دوسرے سے مختلف ہوتا ہے، ہر انسان الگ طرح سے ری ایکٹ کرتا ہے۔" وسیم نے تیزی سے کہا۔ امامہ نے قائل نہ ہونے والے انداز میں سرہلایا۔
"میں ہر انسان کی بات نہیں کررہی ہوں۔ میں نبی کی بات کررہی ہوں جو شخص اپنے غصے پر قابو نہیں رکھ سکتا وہ نبوت کا دعوٰی کیسے کرسکتا ہے۔ جس شخص کی زبان سے گالیاں نکلتی ہوں اس کی زبان سے حق و صداقت کی بات نکل سکتی ہے؟ وسیم! مجھے اپنے مذہب اور عقیدے کے بارے میں الجھن سی ہے۔" وہ ایک لمحہ کے لئے رکی۔ "میں نے اتنی تفاسیر میں اگر کسی امتی نبی کا ذکر پایا ہے تو وہ حضرت عیسٰی علیہ السلام ہیں اور میں نہیں سمجھتی کہ ہمارے نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام یا مسیح موعود ہیں۔"
"نہیں۔۔۔۔ یہ وہ نہیں ہیں، جن کے آنے کے بارے میں قرآن پاک میں ذکر ہے۔" اس بار اس نے اپنے الفاظ کی خود ہی پُرزور تردید کی۔
"تم اب اپنی بکواس بند کرلو تو بہتر ہے۔" وسیم نے ترش لہجے میں کہا۔ "کافی فضول باتیں کرچکی ہو تم۔"
"فضول باتیں؟" امامہ نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔ "تم کہہ رہے ہو میں فضول باتیں کررہی ہوں۔ مسجد اقصیٰ اگر ہمارے شہر میں ہے تو پھر جو اتنے سینکڑوں سالوں سے فلسطین میں مسجد اقصیٰ ہے وہ کیا ہے۔ ایک نام کی دو مقدس جگہیں دنیا میں بنا کر خدا تو مسلمانوں کو کنفیوز نہیں کرسکتا۔ مسلمانوں کو چھوڑو، یہودی، عیسائی ساری دنیا اسی مسجد کو قبلہ اول تسلیم کرتی ہے۔ اگر کوئی نہیں کرتا تو ہم نہیں کرتے، یہ عجیب بات نہیں ہے؟"
"امامہ! میں ان معاملات پر تم سے بحث نہیں کرسکتا۔ بہتر ہے تم اس مسئلے کو بابا سے ڈسکس کرو۔" وسیم نے اکتا کر کہا۔ "ویسے تم غلطی کررہی ہو، اس طرح کی فضول بحث شروع کرکے۔ میں بابا کو تمہاری یہ ساری باتیں بتا دوں گا اور یہ بھی کہ تم آج کل کیا پڑھ رہی ہو۔" وسیم نے جاتے جاتے دھمکانے والے انداز میں کہا۔ وہ کچھ سوچ کر الجھے ہوئے انداز میں اپنے ہونٹ کاٹنے لگی۔ وسیم کچھ دیر ناراضی کا اظہار کرکے کمرے سے باہر چلا گیا۔ وہ اٹھ کر کمرے میں ٹہلنے لگی۔ وہ ہاشم مبین سے ڈرتی تھی اور جانتی تھی کہ وسیم ان سے اس بات کا ذکر ضرور کرے گا۔ وہ ان کے ردعمل سے خوفزدہ تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وسیم نے ہاشم مبین کو امامہ کے ساتھ ہونے والی بحث کے بارے میں بتا دیا تھا مگر اس نے بہت سی ایسی باتوں کو سنسر کردیا تھا جس پر ہاشم مبین کے بھڑک اٹھنے کا امکان تھا۔ اس کے باوجود ہاشم مبین دم بخود رہ گئے تھے۔ یوں جیسے انہیں سانپ سونگھ گیا ہو۔
"یہ سب تم سے امامہ نے کہا ہے؟" ایک لمبی خاموشی کے بعد انہوں نے وسیم سے پوچھا۔ اس نے اثبات میں سر ہلادیا۔
"اسے بلا کر لاؤ۔" وسیم کچھ جھجکتے ہوئے ان کے کمرے سے نکل گیا۔ امامہ کو خود بلا کر لانے کی بجائے اس نے ملازم کے ہاتھ پیغام بھجوا دیا اور خود اپنے کمرے میں چلا گیا۔ وہ امامہ اور ہاشم مبین کی گفتگو کے دوران موجود رہنا نہیں چاہتا تھا۔
ہاشم مبین کے کمرے کے دروازے پر دستک دیکر وہ اندر داخل ہوئی تواس وقت ہاشم اور ان کی بیگم بالکل خاموش بیٹھے تھے۔ ہاشم مبین نے اسے جن نظروں سے دیکھا تھا اس نے اس کے جسم کی لرزش میں کچھ اور اضافہ کردیا۔
"بابا۔۔۔۔۔ آپ نے۔۔۔۔۔ مجھے۔۔۔۔ بلوایا تھا۔" کوشش کے باوجود وہ روانی سے بات نہیں کہہ سکی۔
"ہاں، میں نے بلوایا تھا۔ وسیم سے کیا بکواس کی ہے تم نے؟" ہاشم مبین نے بلاتمہید بلند آواز میں اس سے پوچھا۔ وہ اپنے ہونٹوں پر زبان پھیر کر رہ گئی۔ "کیا پوچھ رہا ہوں تم سے؟" وہ ایک بار پھر دھاڑے۔ "شرم سے ڈوب مرنا چاہیے تمہیں، خود گناہ کرتی ہو اور اپنے ساتھ ہمیں بھی گناہگار بناتی ہو۔" امامہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ "تمہیں اپنی اولاد کہتے ہوئے مجھے شرم آرہی ہے۔ کونسی کتابیں لائی ہو تم؟" وہ مشتعل ہوگئے تھے۔ "جہاں سے یہ کتابیں لے کر آئی ہو، کل تک وہیں دے آؤ۔ ورنہ میں انہیں اٹھا کر پھینک دوں گا باہر۔"
"جی بابا!۔" اس نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے صرف اتنا ہی کہا۔
"اور آج کے بعد اگر تم نے جویریہ کے ساتھ میل جول رکھا تو میں تمہارا کالج جانا بند کردوں گا۔"
"بابا۔۔۔۔۔ جویریہ نے مجھ سے کچھ نہیں کہا۔ اس کو تو کچھ پتا ہی نہیں ہے۔" اس بار امامہ نے قدرے مضبوط آواز میں احتجاج کیا۔
"تو پھر اور کون ہے جو تمہارے دماغ میں یہ خناس بھر رہا ہے؟" وہ بری طرح چلائے۔
"میں۔۔۔۔۔ خود۔۔۔۔۔ ہی۔" امامہ نے کچھ کہنے کی کوشش کی۔
"ہوکیا تم، اپنی عمر دیکھو اور چلی ہو تم عقیدے جانچنے، اپنے نبی کی نبوت کو پرکھنے۔" ہاشم مبین کا پارہ پھر ہائی ہوگیا۔ "اپنے باپ کی شکل دیکھو جس نے ساری عمر تبلیغ میں گزار دی۔ کیا میں عقل کا اندھا ہوں یا پھر تم مجھ سے زیادہ عقل رکھتی ہو۔ جمعہ جمعہ چار دن ہوئے ہیں تمہیں پیدا ہوئےا ور تم چل پڑی ہو اپنے نبی کی نبوت کو ثابت کرنے۔" ہاشم مبین اب اٹھ کر کھڑے ہوگئے۔ "تم منہ میں سونے کا چمچ لے کر اسی نبی کی وجہ سے پیدا ہوئی ہو، جس کی نبوت کو آج تم جانچنے بیٹھ گئی ہو۔ وہ نہ ہوتا تو سڑک پر دھکے کھا رہا ہوتا ہمارا سارا خاندان اور تم اس قدر احسان فراموش اور بے ضمیر ہوچکی ہو کہ جس تھالی میں کھاتی ہو اسی میں چھید کررہی ہو۔"
ہاشم مبین کی آواز پھٹ رہی تھی۔ امامہ کی آنکھوں سے بہنے والے آنسوؤں کی رفتار میں اور اضافہ ہوگیا۔
"بند کرو یہ لکھنا پڑھنا اور گھر بیٹھو تم! یہ تعلیم حاصل کررہی ہو جو تمہیں گمراہی کی طرف لے جارہی ہے۔
ان کے اگلے جملے پر امامہ کی سٹی گم ہوگئی۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ اسے گھر بٹھانے کی بات کریں گے۔
"بابا۔۔۔۔۔ آئی ایم سوری۔" انکے ایک جملے نے اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا تھا۔
"مجھے تمہارے کسی ایکسکیوز کی ضرورت نہیں ہے۔ بس کہہ دیا کہ گھر بیٹھو، تو گھر بیٹھو۔"
"بابا۔۔۔۔۔ میں۔۔۔۔۔ میرا۔۔۔۔۔ میرا یہ مطلب تو نہیں تھا۔ پتا نہیں وسیم۔۔۔۔۔ اس نے آپ سے کس طرح بات کی ہے۔" اس کے آنسو اور تیزی سے بہنے لگے۔ "پھر بھی میں آپ سے کہہ رہی ہوں کہ میں آئندہ ایسا کچھ نہیں پڑھوں گی نہ ہی ایسی کوئی بات کروں گی۔ پلیز بابا!۔" اس نے منت کی۔
ان معذرتوں کا سلسلہ وہیں ختم نہیں ہوا تھا، اگلے کئی دن تک وہ ہاشم مبین سے معافی مانگتی رہی اور پھر تقریباً ایک ہفتے کے بعد وہ نرم پڑ گئے تھے اور انہوں نے اسے کالج جانے کی اجازت دے دی تھی مگر اس ایک ہفتے میں وہ اپنے پورے گھر کی لعنت ملامت کا شکار رہی تھی۔ ہاشم مبین نے اسے سخت قسم کی تنبیہ کے بعد کالج جانے کی اجازت دی تھی مگر اس ایک ہفتے کے دوران ان لوگوں کے رویے نے اسے اپنے عقیدے سے مزید متنفر کیا تھا۔ اس نے ان کتابوں کو پڑھنے کا سلسلہ روکا نہیں تھا۔ بس فرق یہ تھا کہ پہلے وہ انہیں گھر لے آتی تھی اور اب وہ انہیں کالج کی لائبریری میں پڑھ لیا کرتی تھی۔
ایف ایس سی میں میرٹ لسٹ پر آنے کے بعد اس نے میڈیکل کالج میں ایڈمیشن لے لیا تھا۔ جویریہ کو بھی اسی میڈیکل کالج میں ایڈمیشن مل گیا تھا، ان کی دوستی میں اب پہلے سے زیادہ مضبوطی آگئی تھی اور اس کی بنیادی وجہ امامہ کے ذہن میں آنے والی تبدیلی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
قسط نمبر 13
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبیحہ سے امامہ کی پہلی ملاقات اتفاقاً ہوئی تھی۔ جویریہ کی ایک کزن صبیحہ کی کلاس فیلو تھی اور اسی کے توسط سے امامہ کی اس سے شناسائی ہوئی۔ وہ ایک مذہبی جماعت کے اسٹوڈنٹ ونگ سے منسلک تھی اور ہفتے میں ایک بار وہ کلاس روم میں اسلام سے متعلق کسی نہ کسی ایک موضوع پر لیکچر دیا کرتی تھی۔ چالیس پچاس کے لگ بھگ لڑکیاں اس لیکچر کو اٹینڈ کیا کرتی تھیں۔
صبیحہ نے اس دن ان سے متعارف ہونے کے بعد انہیں بھی اس لیکچر کے لئے انوائٹ کیا ۔ وہ چاروں ہی وہاں موجود تھیں۔
"میں تو ضرور آؤں گی، کم از کم میری شرکت کے بارے میں آپ تسلی رکھیں۔" جویریہ نے صبیحہ کی دعوت کے جواب میں کہا۔
"میں کوشش کروں گی، وعدہ نہیں کرسکتی۔" رابعہ نے کچھ جھینپی ہوئی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
"میرا آنا ذرا مشکل ہے کیونکہ میں اس دن کچھ مصروف رہوں گی۔" زینب نے معذرت کرتے ہوئے کہا۔
صبیحہ مسکراتے ہوئے امامہ کو دیکھنے لگی جو اب تک خاموش تھی۔ امامہ کا رنگ کچھ فق ہوگیا۔
"اور آپ؟ آپ آئیں گی؟" امامہ کی نظر جویریہ سے ملی جو اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
"ویسے اس بار کس موضوع پر کریں گی آپ؟" اس سے پہلے کہ امامہ کچھ کہتی، جویریہ نے صبیحہ کی توجہ اپنی طرف مبذول کرلی۔ شاید ایسا اس نے دانستہ طور پر کیا تھا۔
"اس بار اسراف کے بارے میں بات ہوگی۔ اس ایک عادت کی وجہ سے ہمارا معاشرہ کتنی تیزی سے زوال پذیر ہورہا ہے اور اس کے سدباب کے لئے کیا کیا جاسکتا ہے۔ اسی موضوع پر گفتگو ہوگی۔" صبیحہ نے جویریہ کو تفصیل سے بتایا۔
"آپ نے بتایا نہیں امامہ! آپ آرہی ہیں؟" جویریہ سے بات کرتے کرتے صبیحہ ایک بار پھر امامہ کی طرف متوجہ ہوگئی۔ امامہ کا رنگ ایک بار پھر بدلا۔ "میں۔۔۔۔۔ میں ۔۔۔۔۔ دیکھوں گی۔" اس نے جھجکتے ہوئے کہا۔
"مجھے بہت خوشی ہوگی اگر جویریہ کے ساتھ آپ تینوں بھی آئیں۔ اپنے دین کی بنیادی تعلیمات کے بارے میں ہمیں روز نہیں تو کبھی کبھار کچھ علم حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ صرف میں ہی لیکچر نہیں دیتی ہوں ہم جتنے لوگ بھی اکٹھے ہوتے ہیں ان میں سے کوئی بھی اس موضوع پر گفتگو کرنے کے لئے آزاد ہوتا ہے جسے ہم نے منتخب کیا ہوتا ہے اور اگر آپ میں سے بھی کوئی کسی خاص موضوع کے حوالے سے بات کرنا یا کچھ بتانا چاہے تو ہم لوگ اسے بھی ارینج کرسکتے ہیں۔" صبیحہ بڑی سہولت سے بات کررہی تھی پھر کچھ دیر بعد جویریہ اور اس کی کزن کے ہمراہ ان کے کمرے سے باہر چلی گئی۔
کوریڈور میں صبیحہ نے جویریہ سے کہا۔ "آپ کم ازکم امامہ کو تو ساتھ لے آئیں۔ مجھے لگا ہے کہ وہ آنا چاہ رہی ہیں۔"
"اس کا عقیدہ بالکل الگ ہے، وہ کبھی بھی ایسی محفلوں میں شرکت نہیں کرے گی۔" جویریہ نے سنجیدگی سے اسے بتایا۔ صبیحہ کچھ حیران ہوئی۔
"آپ کو چاہیے کہ آپ انہیں اسلام کا مطالعہ کرنے کی دعوت دیں۔ ہوسکتا ہے اس طرح وہ صحیح اور غلط کا فرق کرسکیں۔" صبیحہ نے چلتے ہوئے کہا۔
"میں ایک بار ایسی کوشش کرچکی ہوں۔ وہ بہت ناراض ہوگئی تھی اور میں نہیں چاہتی کہ ہم دونوں کی اتنی لمبی دوستی اس طرح ختم ہو۔" جویریہ نے کہا۔
"اچھے دوست وہی ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کو گمراہی سے بچائیں اور آپ پر بھی فرض ہے کہ آپ ایسا ہی کریں۔" صبیحہ نے کہا۔
"وہ ٹھیک ہے مگر کوئی بات سننے پر بھی تیار نہ ہو تو؟"
"تب بھی صحیح بات کہتے رہنا فرض ہے۔ ہوسکتا ہے کبھی دوسرا آپ کی بات پر غور کرنے پر مجبور ہوجائے۔" صبیحہ اپنی جگہ درست تھی۔ اس لئے وہ صرف مسکرا کر رہ گئی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"تم جاؤ گی اس کا لیکچر سننے؟" صبیحہ کے نکلنے کے بعد زینب نے رابعہ سے پوچھا۔
"نہیں، میرا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ میں ایسے لیکچر ہضم نہیں کرسکتی۔" رابعہ نے اپنی کتابیں اٹھاتے ہوئے لاپروائی سے کہا۔ امامہ، زینب اور جویریہ کے برعکس وہ قدرے آزاد خیال تھی اور زیادہ مذہبی رجحان بھی نہیں رکھتی تھی۔
"ویسے میں نے صبیحہ کی خاصی تعریف سنی ہے۔" زینب نے رابعہ کی بات کے جواب میں کہا۔
"ضرور سنی ہوگی، بولتی تو واقعی اچھا ہے اور میں نے تو یہ بھی سنا ہے کہ اس کے والد بھی کسی مذہبی جماعت سے منسلک ہیں۔ ظاہر ہے پھر اثر تو ہوگا۔" رابعہ نے اس کی معلومات میں اضافہ کیا۔
امامہ ان سے کچھ دور ایک کونے میں اپنی کتابیں لئے بیٹھی بظاہر ان کا مطالعہ کرنے میں مصروف تھی مگر ان دونوں کی گفتگو بھی ان تک پہنچ رہی تھی۔ اس نے شکر کیا کہ ان دونوں نے اسے اس گفتگو میں گھسیٹنے کی کوشش نہیں کی۔
تین دن کے بعد امامہ مقررہ وقت پر ان لوگوں سے کوئی بہانہ بنا کر لیکچر اٹینڈ کرنے چلی گئی۔ رابعہ، جویریہ اور زینب تینوں ہی اس لیکچر میں نہیں گئیں پھر اس کا رادہ بدل گیا۔ امامہ نے ان لوگوں کو نہیں بتایا کہ وہ صبیحہ کا لیکچر اٹینڈ کرنے جارہی تھی۔
صبیحہ، امامہ کو دیکھ کر کچھ حیران ہوئی تھی۔
"مجھے ت خوشی ہورہی ہے آپ کو یہاں دکھ کر۔ مجھے آپ کے آنے کی توقع نہیں تھی۔" صبیحہ نے اس سے گرم جوشی سے ملتے ہوئے کہا۔
یہ پہلا قدم تھا اسلام کی جانب جو امامہ نے اٹھایا تھا۔ اس سارے عرصے میں اسلام کے بارے میں اتنی کتابیں تفاسیر اور تراجم پڑھ چکی تھی کہ کم از کم وہ کسی بھی چیز سے ناواقف اور انجان نہیں تھی۔ اسراف کے بارے میں اسلامی اور قرآنی تعلیمات اور احکامات سے بھی وہ اچھی طرح واقف تھی مگر اس کے باوجود صبیحہ کی دعوت کو رد کرنے کے بجائے قبول کرلینے میں اس کی پیش نظر صرف ایک ہی چیز تھی۔ وہ اپنے مذہب سے اسلام تک کا وہ فاصلہ طے کرنا چاہتی تھی جو اسے بہت مشکل لگتا تھا۔
اور پھر وہ صرف پہلا اور آخری لیکچر نہیں تھا۔ یکے بعد دیگرے وہ اس کا ہر لیکچر اٹینڈ کرتی رہی۔ وہی چیزیں جنہیں وہ کتابوں میں پڑھتی رہی تھی اس کے منہ سے سن کر پراثر ہوجاتی تھیں۔ اس کی صبیحہ سے عقیدت میں اضافہ ہوتاجارہا تھا۔ صبیحہ نے اسے یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ اس کے عقیدے کے بارے میں جانتی تھی مگر امامہ کو اس کے پاس آتے ہوئے دو ماہ ہوئے تھے جب صبیحہ نے ختم نبوت پر ایک لیکچر دیا۔
"قرآن پاک وہ کتاب ہے جو حضرت محمدﷺ پر نازل ہوئی۔" صبیحہ نے اپنے لیکچر کا آغاز کیا۔ "اور قرآن پاک میں ہی اللہ
نبوت کا سلسلہ حضرت محمد ﷺ پر ختم کردیتے ہیں۔ وہ کسی دوسرے نبی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رکھتے۔ اگر کسی نبی یعنی حضرت عیسٰی علیہ السلام کا دوبارہ نزول کا ذکر ہے بھی تو وہ بھی ایک نئے نبی کی شکل میں نہیں ہے بلکہ ایک ایسے نبی کا دوبارہ نزول ہے جن پر نبوت حضرت محمد ﷺ سے بہت پہلے نازل کردی گئی تھی اور جن کا دوبارہ نزول ان کی اپنی امت کے لئے نہیں بلکہ حضرت محمد ﷺ کی امت کے لئے ہی ہوگا اور آخری نبی حضرت محمد ﷺ ہی رہیں گے۔ کسی بھی آنے والے دور میں یا کسی بھی گزر جانے والے دور میں یہ رتبہ اور فضیلت کسی اور کو نہیں دی گئی کیا یہ ممکن ہے کہ اللہ ایک پیغمبر کو یہ ربتہ اور درجہ عطا کرتا اور پھر اسے اس سے چھین کر کسی دوسرے شخص کو دے دیتا ہے۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"بات میں اللہ سے بڑھ کر سچا کون ہے۔"
"تو کیا یہ ممکن ہے کہ وہ اپنی بات کو خود ہی رد کردیتا اور پھر اگر اللہ کی اس بات کی گواہی حضرت محمد ﷺ خود دیتے ہیں کہ ہاں وہ اللہ کے آخری رسول ﷺ ہیں اور ان کے بعد دوبارہ کوئی نبی نہیں آئے گا تو پھر کیا ہمارے لئے کسی بھی طور پر یہ جائز اور مناسب ہے کہ ہم کسی دوسرے شخص کے نبوت کے دعوے پر غور تک کریں؟ انسان اللہ کی مخلوقات میں سے وہ واحد مخلوق ہے جسے عقل جیسی نعمت سے نوازا گیا اور یہ ایسی مخلوق ہے جو اسی عقل کو استعمال کرکے سوچنے پر آئے تو خود اللہ کے وجود کے لئے ثبوت کی تلاش شروع کردیتی ہے پھر اس سلسلے کو یہیں پر محدود نہیں رکھتی، بلکہ اسے پیغمبروں کی ذات تک دراز کردیتی ہے۔ پہلے سے موجود پیغمبروں کی نبوت کے بارے میں سوال کرتی ہے پھر انہیں پیغمبر مان لیتی ہے اور اس کے بعد قرآن کے واضح احکامات کے باوجود زمین پر مزید پیغمبروں کی تلاش شروع کردیتی ہے اور اس تلاش میں یہ بات فراموش کردیتی ہے کہ نبی بنتا نہیں تھا، بنایا جاتا تھا، اسے مبعوث کیا جاتا تھا اور ہم انسانی evolution کی ان آخری دہائیوں میں کھڑے ہیں جہاں مزید نبیوں کی آمد کا سلسلہ اس لئے ختم کردیا گیا کیونکہ انسان کے لئے ایک دین اور ایک نبی کا انتخاب کرلیا گیا۔
اب کسی نئے عقیدے کی ضرورت نہیں بلکہ صرف تقلید کی ہے، صرف تقلید یعنی پریکٹس۔۔۔۔۔ اس ایک، آخری اور مکمل دین کی جسے پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ پر ختم کردیا گیا ہے اب وہ ہر شخص خسارے میں رہے گا، جو دین کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کے بجائے تفرقے کی راہ اختیار کرے گا۔ اگر ہماری اعلیٰ تعلیم اور ہمارا شعور ہمیں دین کے بارے میں صحیح اور غلط کی تمیز تک نہیں دے سکتے تو پھر ہم میں اور اس جانور میں کوئی فرق نہیں، جو سبز تازہ گھاس کے ایک گٹھے کے پیچھے کہیں بھی جاسکتا ہے، اس بات کی پرواہ کئے بغیر کہ اس کا ریوڑ کہاں ہے۔"
چالیس منٹ کے اس لیکچر میں صبیحہ نے کسی اور غلط عقیدے یا فرقے کا ذکر بھی نہیں کیا تھا۔ اس نے جو کچھ کہا تھا بالواسطہ کہا تھا۔ صرف ایک چیز بلاواسطہ کہی تھی اور وہ حضرت محمد ﷺ کی ختم نبوت کا اقرار تھا۔ "اللہ کے آخری پیغمبر حضرت محمد ﷺ تھے جنہوں نے چودہ سو سال پہلے مدینہ میں وفات پائی۔ چودہ سو سال سے پہلے مسلمان ایک امت کے طور پر اسی ایک شخص کے سائے میں کھڑے ہیں۔ چودہ سو سال بعد بھی ہمارے لئے وہ ایک آخری نبی ﷺ ہیں جن کے بعد کوئی دوسرا نبی بھیجا گیا نہ بھیجا جائے گا اور ہر وہ شخص جو کسی دوسرے شخص میں کسی دوسرے نبی کا عکس تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے اسے ایک بار اپنے ایمان کا ازسر نو جائزہ لے لینا چاہیے۔ شاید یہ کوشش اسے اس عذاب سے بچا دے جس میں وہ اپنے آپ کو مبتلا کرنے کی کوشش کررہا ہے۔"
امامہ ہر لیکچر کے بعد صبیحہ سے مل کر جایا کرتی تھی۔ اس لیکچر کے بعد وہ صبیحہ سے نہیں ملی۔ ایک لمحہ بعد وہاں رکے بغیر وہ وہاں سے چلی آئی۔ عجیب سے ذہنی انتشار میں مبتلا ہوکر وہ کالج سے باہر نکل کر پیدل چلتی رہی۔ کتنی دیر فٹ پاتھ پر چلتی رہی اور اس نے کتنی سڑکیں عبور کیں، اسے اندازہ نہیں ہوا۔ کسی معمول کی طرح چلتے ہوئے وہ فٹ پاتھ سے نیچے نہر کے کنارے بنی ہوئی ایک بنچ پر جاکر بیٹھ گئی۔ سورج غروب ہونے والا تھا اور اوپر سڑک پر گاڑیوں کے شور میں اضافہ ہوگیا تھا۔ وہ چپ چاپ نہر کے بہتے ہوئے پانی کو دیکھتی رہی۔
ایک لمبی خاموشی کے بعد اس نے بڑبڑاتے ہوئے خود سے پوچھا۔
"آخر میں کر کیا رہی ہوں اپنے ساتھ کیوں اپنے آپ کو الجھا رہی ہوں، آخر کس یقین کی کھوج میں سرگرداں ہوں اور کیوں؟ میں اس سب کے لئے تو یہاں لاہور نہیں آئی۔ میں تو یہاں ڈاکٹر بننے آئی ہوں۔ مجھے آئی اسپیشلسٹ بننا ہے۔ پیغمبر۔۔۔۔۔ پیغمبر۔۔۔۔۔ پیغمبر۔۔۔۔۔ میرے لئے ہر چیز وہاں کیوں ختم ہوجاتی ہے۔"
اس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا۔
"مجھے اس سب سے نجات حاصل کرنی ہے، میں اس طرح اپنی اسٹڈیز پر کبھی توجہ نہیں دے سکتی۔ مذہب اور عقیدہ میرا مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔ صحیح یا غلط جو میرے بڑوں نے دیا وہی ٹھیک ہے۔ میں اب صبیحہ کے پاس نہیں جاؤں گی۔ میں مذہب یا پیغمبر کے بارے میں کبھی نہیں سوچوں گی۔کبھی بھی نہیں۔" وہاں بیٹھے بیٹھے اس نے طے کیا تھا۔
رات کو آٹھ بجے وہ واپس آئی تو جویریہ اور رابعہ کچھ فکرمند سی تھیں۔
"بس ایسے ہی مارکیٹ چلی گئی تھی۔" اس نے ستے ہوئے چہرے کے ساتھ انہیں بتایا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"ارے امامہ! تم تو بہت عرصے بعد آئی ہو نا، آخر آنا کیوں چھوڑ دیا تم نے۔" بہت دنوں بعد ایک بار پھر صبیحہ کے پاس پہنچ گئی۔ صبیحہ کا لیکچر شروع ہونے والا تھا۔
"مجھے آپ سے کچھ باتیں کرنی ہیں، آپ اپنا لیکچر ختم کرلیں، میں باہر بیٹھ کر آپ کا انتظار کررہی ہوں۔" امامہ نے اس کی بات کا جواب دینے کے بجائے اس سے کہا۔
ٹھیک پنتالیس منٹ کے بعد جب صبیحہ اپنا لیکچر ختم کرکے باہر نکلی تو اس نے امامہ کو باہر کوریڈور میں ٹہلتے پایا۔ وہ صبیحہ کے ساتھ دوبارہ اسی کمرے میں آن بیٹھی جو اب خالی تھا۔ صبیحہ خاموشی سے اس کی طرف سے بات شروع کرنے کا انتظار کرتی رہی۔
امامہ چند لمحے کسی سوچ میں ڈوبی رہی پھر اس نے صبیحہ سے کہا۔
"آپ کو پتا ہے میں کس مذہب سے ہوں؟"
"ہاں، میں جانتی ہوں، جویریہ نے مجھے بتایا تھا۔" صبیحہ نے پرسکون انداز میں کہا۔
"میں آپ کو بتا نہیں سکتی میں کس حد تک فرسٹریٹڈ ہوں۔ میرا دل چاہتا ہے میں دنیا چھوڑ کر کہیں بھاگ جاؤں۔" اس نے کچھ دیر کے بعد صبیحہ سے کہنا شروع کیا۔ "میں۔۔۔۔۔ میں۔" اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پکڑ لیا۔ "مجھے پتہ ہے کہ۔۔۔۔۔" اس نے ایک بار پھر اپنی بات ادھوری چھوڑ دی پھر خاموشی۔ "مگر میں اپنا مذہب نہیں چھوڑ سکتی۔ میں تباہ ہوجاؤں گی، میرے ماں باپ مجھے مار ڈالیں گے۔ میرا کیرئیر، میرے خواب، سب کچھ ختم ہوجائے گا۔ میں نے تو سرے سے عبادت کرنا تک چھوڑ دی ہے مگر پھر بھی پتا نہیں کیوں مجھے سکون نہیں مل رہا ہے۔ آپ میری صورت حال کو سمجھیں۔ مجھے لگ رہا ہے یہ سب کچھ غلط ہے اور صحیح کیا ہے، مجھے نہیں معلوم۔
"امامہ! تم اسلام قبول کرلو۔" صبیحہ نے اس کی بات کے جواب میں صرف ایک جملہ کہا۔
"یہ میں نہیں کرسکتی، میں آپ کو بتا رہی ہوں۔ میں کتنے مسائل کا شکار ہوجاؤں گی۔"
"تو پھر میرے پاس کس لئے آئی ہو؟" صبیحہ اسی پرسکون انداز میں کہا۔ وہ اس کا منہ دیکھنے لگی پھر اس نے بے بسی سے کہا۔
"پتا نہیں میں آپ کے پاس کس لئے آئی ہوں؟"
"تم صرف یہی ایک جملہ سننے آئی ہو جو میں نے تم سے کہا ہے۔ میں تمہیں کوئی دلیل نہیں دوں گی، کیونکہ تمہیں کسی سوال کے جواب کی تلاش نہیں ہے۔ ہر سوال کا جواب تمہارے اندر موجود ہے۔ تم سب جانتی ہو، بس تمہیں اقرار کرنا ہے۔ ایسا ہی ہے نا۔"
امامہ کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔ "مجھے لگ رہا ہے میرے پاؤں زمین سے اکھڑ چکے ہیں۔ میں جیسے خلا میں سفر کررہی ہوں۔" اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔
صبیحہ نے اس کی بات کا جواب نہیں دیا۔ وہ بسم اللہ پڑھ رہی تھی۔ امامہ گیلی آنکھوں کے ساتھ اسکا چہرہ دیکھنے لگی۔
"کہیں کچھ بھی نظر نہیں آتا صبیحہ! کچھ بھی نہیں۔" اس نے اپنے ہاتھوں کی پشت سے اپنے آنسوؤں کو صاف کیا۔
"لاالہ الا اللہ۔" صبیحہ کے لب آہستہ آہستہ ہلنے لگے۔ امامہ دونوں ہاتھوں سے چہرہ ڈھانپ کر بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اور وہ روتے ہوئے صبیحہ کے پیچھے کلمے کے الفاظ دہرا رہی تھی۔ "محمد رسول اللہ" امامہ نے اگلے الفاظ دہرائے۔ اس کی آواز بھرا گئی۔
امامہ کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا اسے اتنا رونا کیوں آرہا تھا۔ اسے کوئی پچھتاوا، کوئی افسوس نہیں تھا مگر پھر بھی اسے اپنے آنسوؤں پر قابو پانا مشکل ہورہا تھا۔ بہت دیر تک روتے رہنے کے بعد اس نے جب سر اٹھایا تو صبیحہ اس کے پاس ہی بیٹھی ہوئی تھی۔ امامہ گیلے چہرے کے ساتھ اسے دیکھ کر مسکرا دی۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
رابعہ اور جویریہ ایک دوسرے کا منہ دیکھ رہی تھیں اور امامہ اپنے پاؤں کے انگوٹھے کے ساتھ فرش کو رگڑتے ہوئے کسی سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی۔
"تمہیں یہ سب کچھ ہمیں پہلے ہی بتا دینا چاہئے تھا۔" جویریہ نے ایک طویل وقفے کے بعد اس خاموشی کو توڑا۔ امامہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا اور پرسکون انداز میں کہا۔
"اس سے کیا ہوتا؟"
"کم از کم ہم تمہارے بارے میں کسی غلط فہمی کا شکار تو نہ ہوتے اور تمہاری مدد کرسکتے تھے ہم دونوں۔"
امامہ سر جھٹکتے ہوئے عجیب سے انداز میں مسکرائی۔ "اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔"
"مجھے تو بہت خوشی ہے امامہ! کہ تم نے ایک صحیح راستے کا انتخاب کیا ہے۔ دیر سے سہی مگر تم غلط راستے سے ہٹ گئی ہو۔" جویریہ نے اس کے پاس بیٹھتے ہوئے نرم لہجے میں کہا۔ "تم اندازہ نہیں کرسکتیں کہ میں اس وقت تمہارے لئے اپنے دل میں کیا محسوس کررہی ہوں۔" امامہ چپ چاپ اسے دیکھتی رہی۔
"تمہیں اگر ہم دونوں کی طرف سے کسی بھی مدد کی ضرورت ہو تو ہچکچانا مت، تمہاری مدد کرکے ہمیں خوشی ہوگی۔"
"مجھے واقعی تم لوگوں کی مدد کی بہت ضرورت ہے، بہت زیادہ ضرورت ہے۔" امامہ نے کہا۔
"میری وجہ سے اگر تم نے اپنے مذہب کی اصلیت جانچ کر اسے چھوڑ دیا ہے تو۔۔۔۔۔" جویریہ کہہ رہی تھی۔
"امامہ اس کا چہرہ دیکھنے لگی۔ "تمہاری وجہ سے؟" اس نے جویریہ کا چہرہ دیکھتے ہوئے سوچا۔ اس کا ذہن اسے کہیں اور لے جارہا تھا۔
دھند میں اب ایک اور چہرہ ابھر رہا تھا۔ وہ اسے دیکھتی رہی، وہ چہرہ آہستہ آہستہ واضح ہورہا تھا، زیر آب ابھرنے والے کسی نقش کی طرح۔۔۔۔۔ چہرہ اب واضح ہوگیا تھا۔ امامہ مسکرائی وہ اس چہرے کو پہچان سکتی تھی۔ اس نے اس چہرے کے ہونٹوں کو ہلتے دیکھا۔ آہستہ آہستہ وہ آواز سن سکتی تھی۔ وہ آواز سن رہی تھی۔

قطرہ مانگے جو تو اسے دریا دے دے
مجھ کو کچھ اور نہ دے اپنی تمنا دے دے

"میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ تم لوگ کسی کو کچھ نہ بتاؤ، زینب کو بھی نہیں۔" اپنے سر کو جھٹکتے ہوئے اس نے جویریہ اور رابعہ سے کہا تھا۔ ان دونوں نے اثبات میں سر ہلادیا۔

کچھ نہیں مانگتا شاہوں سے یہ شیدا تیرا
اس کی دولت ہے فقط نقشِ کف پا تیرا
پورے قد سے میں کھڑا ہوں تو یہ تیرا ہے کرم
مجھ کو جھکنے نہیں دیتا ہے سہارا تیرا
لوگ کہتے ہیں کہ سایہ تیرے پیکر کا نہ تھا
میں تو کہتا ہوں جہاں بھر پہ ہے سایہ تیرا

وہ اس آواز کو پہچانتی تھی۔ یہ جلال انصر کی آواز تھی
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
قسط نمبر 14
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امامہ میڈیکل کالج میں چند روز ہوئے تھے جب ایک ویک اینڈ پر اسلام آباد آنے بعد اس نے رات کو زینب کے گھر لاہور فون کیا۔
"بیٹا! میں زینب کو بلاتی ہوں، تم ہولڈ رکھو۔" زینب کی امی فون رکھ کر چلی گئیں۔ وہ ریسیور کان سے لگائے انتظار کرنے لگی۔

کچھ نہیں مانگتا ہوں شاہوں سے یہ شیدا تیرا
اس کی دولت ہے فقط نقشِ کفِ پا تیرا

مردانہ آواز میں فون پر سنائی دینے والی وہ نعت امامہ نے پہلے بھی سنی تھی مگراس وقت جو کوئی بھی اسے پڑھ رہا تھا وہ کمال جذب سے اسے پڑھ رہا تھا

پورے قد سے کھڑا ہوں تو یہ تیرا ہے کرم
مجھ کو جھکنے نہیں دیتا ہے سہارا تیرا

اسے اندازہ نہیں تھا کہ کسی مرد کی آواز اتنی خوب صورت ہوسکتی ہے۔ اس قدر خوب صورت کہ پوری دنیا اس آواز کی قید میں لگے۔ امامہ نے اپنا سانس روک لیا یا شاید وہ سانس لینا بھول گئی۔



لوگ کہتے ہیں کہ سایہ تیرے پیکر کا نہ تھا
میں کہتا ہوں جہاں بھر پہ ہے سایہ تیرا


انسان کی زندگی میں کچھ ساعتیں سعد ہوتی ہیں۔ شبِ قدر کی رات میں آنے والی اس سعد ساعت کی طرح جسے بہت سے لوگ گزر جانے دیتے ہیں، صرف چند اس ساعت کے انتظار میں ہاتھ اٹھائے اور جھولی پھیلائے بیٹھے ہوتے ہیں۔ اس ساعت کے انتظار میں جو چلتے پانی کو روک دے اور رکے ہوئے پانی کو رواں کردے، جو دل سے نکلنے والی دعا کو لبوں تک آنے سے پہلے مقدر بنا دے۔
امامہ ہاشم کی زندگی میں وہ سعد ساعت شبِ قدر کی کسی رات کو نہیں آئی تھی۔ نہ اس نے اس سعد ساعت کے لئے ہاتھ اٹھائے تھے نہ جھولی پھیلائی تھی پھر بھی اس نے زمین و آسمان کی گردش کو کچھ دیر کے لئے تھمتے دیکھا تھا۔ پوری کائنات کو ایک گنبد ِبے در میں بدلتے دیکھا تھا جس کے اندر بس ایک ہی آواز گونج رہی تھی۔

دست گیری میری تنہائی کی تو نے ہی تو کی
میں تو مر جاتا اگر ساتھ نہ ہوتا تیرا
وہ اندھیروں سے بھی دزانہ گزر جاتے ہیں
جن کے ماتھے پہ چمکتا ہے ستارا تیرا

آواز بہت صاف اور واضح تھی۔ امامہ بت کی طرح ریسیور ہاتھ میں لئے بیٹھی رہی۔
"ہیلو امامہ!" دوسری طرف زینب کی آواز گونجی اور وہ آواز میں گم ہوگئی۔ چند لمحوں کے لئے زمین کی رکی ہوئی گردش دوبارہ بحال ہوگئی۔
"ہیلو امامہ! آواز سن رہی ہو میری؟" وہ ایک جھٹکے سے ہوش کی دنیا میں واپس آئی۔
"ہاں، میں سن رہی ہوں۔"
"میں نے سوچا لائن کٹ گئی۔" دوسری طرف سے زینب نے کچھ مطمئن ہوتے ہوئے کہا۔ امامہ اگلے چند منٹ اس سے بات کرتی رہی مگر اس کا دل و دماغ کہیں اور تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جلال الدین انصر زینب کا بڑا بھائی تھا اور امامہ غائبانہ طور پر اس سے واقف تھی۔ زینب اس کی کلاس فیلو تھی اور اس سے امامہ کا تعارف وہیں میڈیکل کالج میں ہواتھا۔ چند ماہ میں ہی یہ تعارف اچھی خاصی دوستی میں بدل گیا۔ اس تعارف میں اسے یہ پتا چلا کہ وہ لوگ چار بھائی بہن تھے۔ جلال سب سے بڑا تھا اور ہاؤس جاب کررہا تھا۔ زینب کے والد واپڈا میں انجینئر تھے اور ان کا گھرانہ کافی مذہبی تھا۔
اسلام آباد سے واپسی پر اس نے زینب سے نعت پڑھنے والے اس شخص کے بارے میں پوچھا۔
"زینب! اس رات میں نے تمہیں فون کیا تو کوئی نعت پڑھ رہا تھا، وہ کون تھا؟" اس نے اپنے لہجے کو حتی الامکان نارمل رکھتے ہوئے کہا۔
"وہ۔۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔۔ جلال بھائی تھے۔۔۔۔۔ ایک مقابلہ میں حصہ لینے کے لئے وہ نعت یاد کررہے تھے۔ فون کوریڈور میں ہے اور ان کے کمرے کا دروازہ کھلا تھا اس لئے آواز تم تک پہنچ گئی۔" زینب نے تفصیل سے بتایا۔
بہت اچھی آواز ہے ان کی۔"
"ہاں،آواز تو بہت اچھی ہے ان کی۔ قرات تو نعت سے بھی زیادہ خوبصورت کرتے ہیں۔ بہت سے مقابلوں میں انعام بھی لے چکے ہیں۔ ابھی بھی کالج میں ایک مقابلہ ہونے والا ہے تم اس میں انہیں سننا۔"
زینب تب یہ نہیں جانتی تھی کہ امامہ کس مذہب کی تھی، وہ جس طرح پردے کا خیال رکھتی تھی زینب کا خیال تھا کہ وہ کسی مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتی ہے۔ خود زینب بھی خاصے مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتی تھی اور چادر اوڑھا کرتی تھی۔
دو تین دن کے بعد امامہ جلال انصر کی نعت سننے کے لئے اپنی فرینڈز کو بتائے بغیر کلاسز بنک کرکے نعتوں کے اس مقابلے میں چلی گئی تھی۔
جلال انصر کو اس دن پہلی بار اس نے دیکھا تھا۔ کمپئیر نے جلال انصر کا نام پکارا اور امامہ نے تیز ہوتی ہوئی دھڑکنوں کے ساتھ زینب سے مشابہت رکھنے والے عام سی شکل و صورت اور داڑھی والے ایک چوبیس پچیس سالہ لڑکے کو اسٹیج پر چڑھتے دیکھا۔ اسٹیج پر سیڑھیاں چڑھنے سے لے کر روسٹرم کے پیچھے آکر کھڑے ہونے تک امامہ نے ایک بار بھی اپنی نظر جلال انصر کے چہرے سے نہیں ہٹائی۔ اس نے اسے سینے پر ہاتھ باندھتے اور آنکھیں بند کرتے دیکھا۔

کچھ نہیں مانگتا شاہوں سے یہ شیدا تیرا
اس کی دولت ہے فقط نقشِ کفِ پا تیرا


امامہ کو اپنے پورے وجود میں ایک لہر سی دوڑتی محسوس ہوئی۔ ہال میں مکمل خاموشی تھی اور صرف اس کی خوبصورت آواز گونج رہی تھی۔ وہ کسی سحر زدہ معمول کی طرح بیٹھی اسے سنتی رہی۔ اس نے کب نعت ختم کی، کب وہ اسٹیج سے اتر کر واپس ہوا، مقابلے کا نتیجہ کیا نکلا، اس کے بعد کس کس نے نعت پڑھی، کس وقت سارے اسٹوڈنٹ وہاں سے گئے اور کس وقت ہال خالی ہوگیا امامہ کو پتا نہیں چلا۔
بہت دیر کے بعد اسے یکدم ہوش آیا تھا۔ اس وقت اپنے اردگرد دیکھنے پر اسے احساس ہوا کہ وہ ہال میں اکیلی بیٹھی تھی۔
"میں نے کل تمہارے بھائی کو نعت پڑھتے سنا۔" امامہ نے اگلے دن زینب کو بتایا۔
"اچھا۔۔۔۔۔ انہیں پہلا انعام ملا ہے۔" زینب نے اس کی بات پر مسکرا کر اسے دیکھا۔
"بہت خوبصورت نعت پڑھی تھی انہوں نے۔" کچھ دیر کی خاموشی کے بعد امامہ نے پھر اس موضوع پر بات کی۔
"ہاں! وہ بچپن سے نعتیں پڑھتے آرہے ہیں۔ اتنے قرات اور نعت کے مقابلے جیت چکے ہیں کہ اب تو انہیں خود بھی ان کی تعداد یاد نہیں ہوگی۔" زینب نے تفاخر سے کہا۔
"ان کی آواز بہت خوب صورت ہے۔" امامہ نے پھر کہا۔ "ہاں خوبصورت تو ہے مگر ساری بات اس محبت اور عقیدت کی ہے، جس کے ساتھ وہ نعت پڑھتے ہیں۔ انہیں حضورﷺ سے عشق ہے۔ اتنی محبت کہ جس کی کوئی حد نہیں۔ قرات اور نعت کے علاوہ انہوں نے کبھی کوئی اور چیز نہیں پڑھی، حالانکہ اسکول اور کالج میں انہیں بہت مجبور کیا جاتا رہا مگر ان کا ایک ہی جواب ہوتا کہ میں جس زبان سے حضرت محمد ﷺ کا قصیدہ پڑھتا ہوں اس زبان سے کسی اور شخص کا قصیدہ نہیں پڑھ سکتا۔ محبت تو ہم بھی حضور ﷺ سے کرتے ہیں مگر جیسی بھائی کرتے ہیں ویسی محبت تو ہم میں سے کوئی بھی نہیں کرسکتا۔ پچھلے دس سالوں میں ایک بار بھی انہوں نے نماز قضا نہیں کی۔ ہر ماہ ایک قرآن پاک پڑھتے ہیں۔ تم تو نعت کی تعریف کررہی ہواگر ان سے تلاوت سن لو تو۔"
وہ بڑے فخر سے بتا رہی تھی۔ امامہ چپ چاپ اسے دیکھ رہی تھی۔ اس نے زینب سے اس کے بعد کچھ نہیں پوچھا۔
اگلے دن وہ صبح کالج جانے کے لئے تیار ہونے کی بجائے اپنے بستر میں گھسی رہی۔ جویریہ نے خاصی دیر کے بعد بھی اسے بستر سے برآمد نہ ہوتے دیکھ کرجھنجھوڑا۔
"اٹھ جاؤ امامہ! کالج نہیں جانا کیا۔ دیر ہورہی ہے۔"
ہیں، آج مجھے کالج نہیں جانا۔" امامہ نے دوبارہ آنکھیں بند کرلیں۔
"کیوں؟" جویریہ کچھ حیران ہوئی۔
"میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔" امامہ نے کہا۔
"آنکھیں تو بہت سرخ ہورہی ہیں تمہار، رات کو سوئیں نہیں تم؟"
"نہیں، نیند نہیں آئی اور پلیز اب مجھے سونے دو۔" امامہ نے اس کے کسی اور سوال سے بچپن کے لئے کہا۔ جویریہ کچھ دیر اسے دیکھتے رہنے کے بعد اپنا بیگ اور فولڈر اٹھا کر باہر نکل گئی۔
اس کے جانے کے بعد امامہ نے آنکھیں کھول دیں۔ یہ بات ٹھیک تھی کہ وہ ساری رات سو نہیں سکی تھی اور اس کی وجہ جلال انصر کی آواز تھی۔ وہ اپنے ذہن کو اس آواز کے علاوہ اور کہیں بھی فوکس نہیں کر پارہی تھی۔
"جلال انصر!" اس نے زیر لب اس کا نام دہرایا۔ "آخر اس کی آواز کیوں مجھے اس قدر اچھی لگ رہی ہے کہ میں۔۔۔۔۔ میں اسے اپنے ذہن سے نکال نہیں پارہی؟" اس نے الجھے ہوئے ذہن کے ساتھ بستر سے نکلتے ہوئے سوچا۔ وہ اپنے کمرے کی کھلی ہوئی کھڑکی میں آکر کھڑی ہوگئی۔
"میرے بھائی کی آواز میں ساری تاثیر حضرت محمدﷺ کے عشق کی وجہ سے ہے۔" اس کے کانوں میں زینب کی آواز گونجی۔
"آواز میں تاثیر۔۔۔۔۔ اور عشق؟" اس نے بے چینی سے پہلو بدلا۔ "سوز،گداز، لوچ، مٹھاس۔۔۔۔۔ آخر کیا تھا اس آواز میں؟" وہ اٹھ کر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔ "دنیا عشق اللہ سے شروع ہوتی ہے اور عشق رسول ﷺ پر ختم ہوجاتی ہے۔" اسے ایک اور جملہ یاد آیا۔
"عشق رسول ﷺ؟" اس نے حیرانی سے سوچا۔ "عشق رسول ﷺ یا عشق محمد ﷺ؟" یکدم اسے اپنے ایک عجیب سا سناٹا اترتا محسوس ہوا۔ اس نے اس سناٹے اور تاریکی کو کوجھنا شروع کیا۔ اپنے اندر سیڑھی درسیڑھی اترنا شروع کیا۔ اسے کہیں کوئی روشنی نظر نہیں آئی۔ "آخر وہ کیا چیز ہوتی ہے جو حضرت محمد ﷺ کا نام سننے پر لوگوں کی آنکھوں میں آنسو اور لبوں پر درود لے آتی ہے۔ عقیدت، عشق، محبت۔۔۔۔۔ ان میں سے کیا ہے؟ مجھے کچھ کیوں محسوس نہیں ہوتا۔ میری آنکھوں میں آنسو کیوں نہیں آتے؟ میرے ہونٹوں پر درود کیوں نہیں آتا؟ میری آواز میں تاثیر۔۔۔۔۔" وہ لمحہ بھر کے لئے رکی اس نے زیر لب پڑھا۔


کچھ نہیں مانگتا شاہوں سے یہ شیدا تیرا
اس کی دولت ہے فقط نقش کف پا تیرا


اسے اپنی آواز بھرائی ہوئی محسوس ہوئی۔ "شاید ابھی جاگی ہوں، اس لئے آواز ایسی ہے۔" اس نے اپنا گلا صاف کرتے ہوئے سوچا۔ اس نے ایک بار پھر پڑھنا شروع کیا۔
"کچھ نہیں مانگتا۔۔۔۔۔" وہ ایک بار پھر رک گئی۔ اس بار اس کی آواز میں لرزش تھی۔ اس نے دوبارہ پڑھنا شروع کیا۔ "کچھ نہیں مانگتا ہوں شاہوں سے یہ شیدا تیرا۔" کھڑکی سے باہر نظریں مرکوز رکھتے ہوئے اس نے لرزتی بھرائی آواز اور کانپتے ہونٹوں کے ساتھ پہلا مصرع پڑھا پھر دوسرا مصرع پڑھنا شروع کیا اور رک گئی۔ کھڑکی سے باہر خلا میں گھورتے ہوئے وہ ایک بار پھر جلال انصر کی آواز اپنے کانوں میں اترتی محسوس کررہی تھی۔
بلند، صاف، واضح اور اذان کی طرح دل میں اتر جانے والی مقدس آواز۔۔۔۔۔ اسے اپنے گالوں پر نمی محسوس ہوئی۔
یکدم وہ اپنے ہوش و حواس میں آئی اور پتا چلا کہ وہ رو رہی تھی۔ کچھ دیر جیسے بے یقینی کے عالم میں وہ اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں دونوں آنکھوں پر رکھے دم بخود کھڑی رہی۔ اس نے اپنے آپ کو بے بسی کی انتہا پر پایا۔ آنکھوں پر ہاتھ رکھے وہ آہستہ آہستہ گھٹنوں کے بل وہیں زمین پر بیٹھ گئی اور اس نے پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کردیا۔
انسان کے لئے سب سے مشکل مرحلہ وہ ہوتا ہے جب اس کا دل کسی چیز کی گواہی دے رہا ہو مگر اس کی زبان خاموش ہو جب اس کا دماغ چلا چلا کر کسی چیز کی صداقت کا اقرار کررہا ہو مگر اس کے ہونٹ ساکت ہوں، امامہ ہاشم کی بھی اپنی زندگی اسی مرحلے پر آن پہنچی تھی، جو فیصلہ وہ پچھلے دو تین سالوں سے نہیں کر پارہی تھی وہ فیصلہ ایک آواز نے چند دنوں میں کروا دیا تھا۔ یہ جانے، یہ کھوجے، یہ پرکھے بغیر کہ آخر لوگ کیوں حضرت محمد ﷺ سے اتنی عقیدت رکھتے ہیں۔ آخر کیوں عشق رسول ﷺ کی بات کی جاتی ہے۔ اس نے اتنے سال اپنے نبی کے قصیدے سنے تھے، اس پر کبھی رقت طاری نہیں ہوئی تھی، کبھی اس کا وجود موم بن کر نہیں پگھلا تھا، کبھی اسے کسی پر رشک نہیں آیا تھا مگر ہر بار حضرت محمد ﷺ کا نام پڑھتے، دیکھتے اور سنتے ہوئے وہ عجیب سی کیفیات کا شکار ہوتی تھی۔ ہر بار، ہر دفعہ اس کا دل اس نام کی طرف کھنچتا چلا جاتا تھا اور صبیحہ کے پاس نہ جانے کے اس کے سارے ارادے بھاپ بن کر اڑ گئے تھے۔ جلال انصر کی آواز تاریکی میں نظر آنے والے جگنو کی طرح تھی جس کے تعاقب میں وہ بنا سوچے سمجھے چل پڑی تھی۔


میں تجھے عالمِ اشیا میں بھی پا لیتا ہوں
لوگ کہتے ہیں کہ ہے عالم بالا تیرا



٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
امامہ کے لئے وہ ایک نئے سفر کا آغاز تھا۔ وہ پہلے کی طرح باقاعدگی سے صبیحہ کے پاس جانے لگی۔ ان اجتماعات میں شرکت نے اسے اگر ایک طرف اپنے فیصلے پر استقامت بخشی تو دوسری طرف اس باقی ماندہ شبہات کو بھی دور کردیا۔
مذہب تبدیل کرنے کا فیصلہ امامہ کے لئے کوئی چھوٹا یا معمولی فیصلہ نہیں تھا، اس ایک فیصلے نے اس کی زندگی کے ہر معاملے کو متاثر کیا تھا۔ وہ اب اسجد سے شادی نہیں کرسکتی تھی کیونکہ وہ غیر مسلم تھا۔ اسے جلد یا بدیر اپنے گھر والوں سے علیحدگی بھی اختیار کرنی تھی کیونکہ وہ اب ایسے کسی ماحول میں رہنا نہیں چاہتی تھی جہاں اسلام شعائر اور عقائد میں اتنے دھڑلے سے تحریفات کی جاتی تھیں۔ وہ اس پیسے کے بارے میں بھی شکوک کا شکار ہونے لگی تھی جو اسے اپنی تعلیم اور دوسرے اخراجات کے لئے ہاشم مبین کی طرف سے ملتے تھے۔ چند سال پہلے تک پریوں کی کہانی نظر آنے والی زندگی یکدم ایک ڈراؤنے خواب میں تبدیل ہوگئی تھی اور زندگی کے اس مشکل راستے کا انتخاب اس نے خود کیا تھا۔ اسے بعض دفعہ حیرت ہوتی کہ اس نے اتنا بڑا فیصلہ کس طرح کرلیا۔ اس نے اللہ سے استقامت ہی مانگی تھی اور اسے استقامت سے نوازا گیا تھا مگر وہ ابھی اتنی کم عمر تھی کہ خدشات اور اندیشوں سے مکمل پیچھا چھڑا لینا اس کے لئے ممکن نہیں تھا۔
"امامہ! تم فی الحال اپنے والدین کو مذہب کی تبدیلی کے بارے میں نہ بتاؤ۔ اپنے پیروں پر کھڑی ہوجاؤ۔ اس وقت نہ صرف تم آسانی سے اسجد سے شادی سے انکار کرسکتی ہو بلکہ انہیں اپنے مذہب کی تبدیلی کے بارے میں بھی بتا سکتی ہو۔"
صبیحہ نے ایک بار اس کے خدشات سننے کے بعد اسے مشورہ دیا۔
"میں اس پیسے کو اپنے اوپر خرچ کرنا نہیں چاہتی جو میرے بابا مجھے دیتے ہیں، اب جبکہ میں جانتی ہوں کہ میرے والد ایک جھوٹے مذہب کی تبلیغ کررہے ہیں یہ جائز تو نہیں ہے کہ میں ایسے شخص سے اپنے اخراجات کے لئے رقم لوں؟"
"تم ٹھیک کہتی ہو مگر تمہارے پاس فی الحال کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ بہتر ہے تم اپنی تعلیم مکمل کرلو، اس کے بعد تمہیں اپنے والد سے بھی کچھ نہیں لینا پڑے گا۔" صبیحہ نے اسے سمجھایا۔ صبیحہ اگر اسے یہ راہ نہ دکھاتی تب بھی امامہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کرسکتی تھی۔ اس میں فی الحال اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ اپنی زندگی کی سب سے بڑی خواہش چھوڑ دیتی۔"
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اس وقت رات کے دس بجے تھے جب وہ سینما سے باہر نکل آیا تھا۔ اس کے ہاتھ میں اب بھی پاک کارن کا پیکٹ تھا اور وہ کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا پاپ کارن کھاتے ہوئے سڑک پر چل رہا تھا۔
آدھا گھنٹہ تک سڑکیں ناپتے رہنے کے بعد اس نے ایک بہت بڑے بنگلے کی گھنٹی بجائی تھی۔
"صاحب کھانا لگاؤں؟" لاؤنج میں داخل ہونے پر ملازم نے اسے دیکھ کر پوچھا
"نہیں۔" اس نے نفی میں سرہلاتے ہوئے کہا۔
"دودھ؟"
"نہیں۔" وہ رکے بغیر وہاں سے گزرتا چلا گیا۔ اپنے کمرے میں داخل ہوکر اس نے دروازہ بند کرلیا۔ کمرے کی لائٹ آن کرکے وہ کچھ دیر بے مقصد ادھر اُدھر دیکھتا رہا پھر باتھ روم کی طرف بڑھ گیا۔ شیونگ کٹ نکال کر اس کے اندر سے ایک ریزر بلیڈ نکال لیا اور اسے لے کر بیڈروم میں آگیا۔ اپنے بیڈ پر بیٹھ کر اس نے سائیڈ ٹیبل پر پڑا ہوا لیمپ جلا لیا اور بیڈروم کی ٹیوب لائٹ بند کردی۔ ریزر بلیڈ کے اوپر موجود ریپر کو اتار کر وہ کچھ دیر لیمپ کی روشنی میں اس کی تیز دھار کو دیکھتا رہا پھر اس نے بلیڈ کے ساتھ اپنے دائیں ہاتھ کی کلائی کی رگ کو ایک جھٹکے سے کاٹ دیا۔ اس کے منہ سے ایک سسکی نکلی اور پھر اس نے ہونٹ بھینچ لیے۔ وہ اپنی آنکھوں کو کھلا رکھنے کی کوشش کررہا تھا۔ اس کی کلائی بیڈ سے نیچے لٹک رہی تھی اور خون کی دھار اب سیدھا کارپٹ پر گر کر اس میں جذب ہورہی تھی۔
اس کا ذہن جیسے کسی گہری کھائی میں جارہا تھا پھر اس نے کچھ دھماکے سنے۔ تاریکی میں جاتا ہوا ذہن ایک بار پھر جھماکے کے ساتھ روشنی میں آگیا۔ شور اب بڑھتا جارہا تھا۔ وہ فوری طور پر شور کی وجہ سمجھ نہیں پارہا تھا۔ اس نے ایک بار پھر اپنی آنکھیں کھول دیں مگر وہ کسی چیز کو سمجھ نہیں پارہا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ سورہی تھی جب ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔ کوئی اس کا دروازہ بجا رہا تھا۔
"امامہ! امامہ!" وسیم دروازہ بجاتے ہوئے بلند آواز میں اس کا نام پکاررہا تھا۔
"کیا ہوا ہے؟ کیوں چلا رہے ہو؟" دروازہ کھولتے ہی اس نے کچھ حواس باختگی کے عالم میں وسیم سے پوچھا جس کا رنگ اڑا ہوا تھا۔
"فرسٹ ایڈ باکس ہے تمہارے پاس؟" وسیم نے اسے دیکھتے ہی فوراً پوچھا۔
"ہاں، کیوں؟" وہ مزید پریشان ہوئی۔
"بس اسے لے کر میرے ساتھ آجاؤ۔" وسیم نے کمرے کے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا۔
"کیا ہوا؟" اس کے پیروں کے نیچے سے جیسے زمین کھسکنے لگی۔
"چوچو نے پھر خودکشی کی کوشش کی ہے۔ اپنی کلائی کاٹ لی ہے اس نے۔ ملازم آیا ہوا ہے نیچے اس کا، تم میرے ساتھ چلو۔" امامہ نے بے اختیار اطمینان بھرا سانس لیا۔
"تمہارے اس دوست کو مینٹل ہاسپٹل میں ہونا چاہئیے جس طرح کی یہ حرکتیں کرتا پھرتا ہے۔" امامہ نے ناگواری سے اپنے بیڈ پر پڑا ہوا دوپٹہ اوڑھتے ہوئے کہا۔
"میں تو اسے دیکھتے ہی بھاگ آیا ہوں، ابھی وہ ہوش میں تھا۔" اس نے مڑ کر امامہ کو بتایا۔ وہ دونوں اب آگے پیچھے سیڑھیاں اتر رہے تھے۔
"تم اسے ہاسپٹل لے جاتے۔" امامہ نے آخری سیڑھی پر پہنچ کر کہا۔
"وہ بھی لے جاؤں گا، پہلے تم اس کی کلائی وغیرہ تو باندھو، خون تو بند ہو۔"
"وسیم! میں اسے کوئی بہت اچھی قسم کی فرسٹ ایڈ نہیں دے سکتی۔ پتا نہیں اس نے کس چیز سے کلائی کاٹی ہے اور زخم کتنا گہرا ہے۔ اس کے اپنے گھر والے کہاں ہیں؟" بات کرتے کرتے امامہ کو خیال آیا۔
"اس کے گھر میں کوئی بھی نہیں ہے، صرف ملازم ہیں۔ وہ تو کوئی فون کال آئی تھی جس پر ملازم اسے بلانے کے لئے گیا اور جب اندر سے کوئی جواب نہیں آیا تو پریشان ہوکر دوسرے ملازموں کے ساتھ مل کر اس نے دروازہ توڑ دیا۔" وہ دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہوئے اب اپنے گھر سے باہر نکل آئے۔
"تمہارا یہ دوست جو ہے نا۔۔۔۔۔" امامہ نے کچھ ناراضی کے عالم میں وسیم کے ساتھ چلتے ہوئے سالار کے بارے میں کچھ کہنا چاہا مگر وسیم نے غصے میں پلٹ کر اس کو جھڑک دیا۔
"فار گاڈ سیک۔ اپنی لعنت ملامت بند نہیں کرسکتیں تم۔ اس کی حالت سیریس ہے اور تم اس کی برائیوں میں مصروف ہو۔"
"ایسی حرکتیں کرنے والوں کے لئے میرے پاس کوئی ہمدردی نہیں ہے۔" وہ دونوں اب سالار کے لاؤنج میں پہنچ چکے تھے۔
چند قدم چلنے کے بعد وسیم ایک موڑ مڑا اور کمرے کے اندر داخل ہوگیا۔ امامہ اس کے پیچھے ہی تھی مگرپھر جیسے کرنٹ کھا کر رک گئی۔ کمرے کے دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی سامنے قد آدم کھڑکیوں پر کچھ ماڈلز اور ایکٹریسز کی بڑی بڑی عریاں تصویریں اس طرح لگائی گئی تھیں کہ ایک لمحے کے لئے امامہ کو یوں لگا جیسے وہ تمام لڑکیاں حقیقی طور پر اس کمرے میں موجود ہیں۔ اس کا چہرہ سرخ ہوگیا۔ ایک طرف بیڈ پر پڑے ہوئے زخمی کے بارے میں اس کی رائے کچھ اور خراب ہوگئی۔ وہ تصویریں اس کے کردار کی پستی کا ایک اور ثبوت تھیں اور کمرے میں تین چار لوگوں کی موجودگی میں اس کے لئے وہ تصویریں خاصی خفت اور شرمندگی کا باعث بن رہی تھیں۔ ان تصویروں سے نظریں چراتے ہوئے وہ تیز رفتاری سے ڈبل بیڈ کی طرف آگئی جہاں سالار سکندر لیٹا ہوا تھا۔ وسیم اس کے پاس بیڈ پر بیٹھا فرسٹ ایڈ باکس کھول رہا تھا جبکہ امامہ کا بڑا بھائی سالار کی اس کلائی کو بیڈ شیٹ کے ایک لٹکے ہوئے کونے کے ساتھ دبا کر خون روکنے کی کوشش کررہا تھا جبکہ خود سالار نشے میں ڈوبے ہوئے کسی انسان کی طرح اپنا ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کررہا تھا۔ وہ وسیم اور وہاں ملازموں سے کچھ کہہ بھی رہا تھا۔
امامہ کے آگے بڑھتے ہی اس کے بڑے بھائی نے اس کرسی کو چھوڑ دیا، جس پر وہ بیٹھے ہوئے تھے۔
"اس کے زخم کو دیکھو، میں نے چادر سے خون روکنے کی کوشش کی ہے مگر میں کامیاب نہیں ہوا۔" انہوں نے اس کی کلائی امامہ کو تھماتے ہوئے کہا۔ امامہ نے کرسی پر بیٹھتے ہی اس کی کلائی کے گرد لپٹا ہوا کونہ ہٹایا۔ زخم بہت گہرا اور لمبا تھا۔ ایک نظر ڈالتے ہی اسے اندازہ ہوگیا تھا۔
سالار نے پھر ایک جھٹکے کے ساتھ اپنا ہاتھ کھینچنے کی کوشش کی مگر امامہ مضبوطی سے کلائی کے کچھ نیچے سے اس کا بازو پکڑے رہی۔
"وسیم! بس بینڈیج نکال دو۔ یہ زخم بہت گہرا ہے۔ یہاں کچھ نہیں ہو سکتا۔ بینڈیج کرنے سے خون رک جائے گا پھر تم لوگ اسے ہاسپٹل لے جاؤ۔"اس نے ایک نظر نیچے کارپٹ پر جذب ہوتے خون پر ڈالی۔ وسیم تیزی سے فرسٹ ایڈ باکس میں سے بینڈیج نکالنے لگا۔
سالار نے بیڈ پر لیٹے لیٹے اپنے سر کو جھٹکا دیا اور آنکھیں کھولنے کی کوشش کی۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اب دھندلاہٹ سی تھی مگر اس کے باوجود اس نے اپنے بیڈ سے کچھ فاصلے پر بیٹھی ہوئی اس لڑکی اور اس کے ہاتھ میں موجود اپنے بازو کو دیکھا۔
کچھ مشتعل ہو کر اس نے ایک اور جھٹکے کے ساتھ اپنا ہاتھ اس لڑکی کے ہاتھ سے آزاد کرانے کی کوشش کی۔ ہاتھ آزاد نہیں ہوا مگر درد کی ایک تیز لہر نے بے اختیار اسے کراہنے پر مجبور کیا تھا۔ اسے چند لمحوں کے لئے یہی محسوس ہوا تھا جیسے اس کی جان نکل گئی مگر اگلے ہی لمحے وہ ایک بار پھر ہاتھ چھڑانے کی کوشش کر رہا تھا۔
"تم لوگ دفع ہو۔۔۔۔۔ جاؤ۔۔۔۔۔ کہاں سے۔۔۔۔۔ آ گئے۔۔۔۔۔ ہو؟" اس نے کچھ مشتعل ہو کر لڑکھڑاتے لہجے میں کہا۔" یہ میرا۔۔۔۔۔ کمرہ ہے۔۔۔۔۔تم لوگوں۔۔۔۔۔ کو اندر۔۔۔۔۔آنے کی جرات کیسے۔۔۔۔۔ ہوئی۔۔۔۔۔ تم۔۔۔۔۔تم۔۔۔۔ وسیم تم۔۔۔۔۔دفع۔۔۔۔۔ ہو جاؤ۔۔۔۔۔ گیٹ لاسٹ۔۔۔۔۔جسٹ ۔۔۔۔۔ گیٹ لاسٹ۔۔۔۔۔بلڈی باسٹرڈ۔"
اس نے بلند آواز میں مگر لڑکھڑاتی زبان سے کہا۔امامہ نے اس کے منہ سے نکلنے والی گالی کو سنا۔ ایک لمحے کے لئے اس کے چہرے کا رنگ بدلا مگر وہ پھر اس کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑے بیٹھی رہی۔ اس نے وسیم سے کاٹن لے کے کراہتے ہوئے سالار کی کلائی کے زخم پر رکھ دی جو ہاتھ کو کھینچنے اور ہلانے سے باز نہیں آ رہاتھا اور وسیم کے ہاتھ سے لے کر لپیٹنا شروع کر دیا۔ سالار نے دھندلائی ہوئی آنکھوں کے ساتھ اپنی کلائی کے گرد کسی چیز کی نرمی کو محسوس کیا۔
کچھ بے بسی اور جھنجھلاہٹ کے عالم میں سالار نے اپنے بائیں ہاتھ کے زور سے اپنے دائیں ہاتھ کو چھڑانے کی کوشش کی تھی۔ دھندلائی ہوئی آنکھوں کے ساتھ اس کا آگے بڑھنے والا بایاں ہاتھ لڑکی کے سر سے ٹکرایا تھا۔ اس کے سر سے نہ صرف دوپٹہ اترا تھا بلکہ اس کے بال بھی کھل گئے تھے۔
امامہ نے ہڑبڑا کر اسے دیکھا جو ایک بار پھر اپنا بایاں ہاتھ آگے لا رہا تھا۔ امامہ نے اپنے بائیں ہاتھ سے اس کی کلائی کو پکڑے رکھا جبکہ دائیں ہاتھ میں پکڑی ہوئی بینڈیج چھوڑ کر اپنی پوری قوت سے اپنا دایاں ہاتھ اس کے دائیں گال پر سے مارا۔ تھپڑ اتنا زناٹے دار تھا کہ ایک لمحے کے لئے سالار کی آنکھوں کے سامنے چھائی ہوئی دھند چھٹ گئی۔ کھلے منہ اور آنکھوں کے ساتھ دم بخود اس نے اس لڑکی کو دیکھا تھا جو سرخ چہرے کے ساتھ بلند آواز میں اس سے کہہ رہی تھی۔
اب اگر تم ہلے تو میں تمہارا دوسرا ہاتھ بھی کاٹ دوں گی، سنا تم نے۔"
سالار نے اس لڑکی کے عقب میں وسیم کو کچھ کہتے سنا مگر وہ کچھ سمجھ نہیں پایا۔ اس کا ذہن مکمل طور پر تاریکی میں ڈوب رہا تھا مگر اس نے پھر ایک آواز سنی، نسوانی آواز۔" اس کا بلڈ پریشر چیک کرو۔۔۔۔۔" سالار کو بے اختیار چند لمحے پہلے اپنے گال پر پڑنے والا تھپڑ یاد آیا۔ وہ چاہنے کے باوجود آنکھیں نہیں کھول سکا۔ وہی نسوانی آواز ایک بار پھر گونجی تھی مگر اس بار وہ اس آواز کو کوئی مفہوم نہیں پہنا سکا۔ اس کا ذہن مکمل طور پر تاریکی میں ڈوب گیا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
قسط نمبر 15
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلی بار جب اسے ہوش آیا تو وہ ایک پرائیویٹ کلینک میں موجود تھا۔ آنکھیں کھول کر اس نے ایک بار پھر اپنے اردگرد دیکھنے کی کوشش کی۔ کمرے میں اس وقت ایک نرس موجود تھی جو اس کے پاس کھڑی ڈرپ کو صحیح کرنے میں مصروف تھی۔ سالار نے اسے مسکراتے دیکھا تھا وہ اس سے کچھ کہنا چاہ رہا تھا مگر اس کا ذہن ایک بار پھر تاریکی میں ڈوب گیا۔
دوسری بار اسے کب ہوش آیا، اسے اندازہ نہیں ہوا مگر دوسری بار آنکھیں کھولنے پر اس نے اس کمرے میں کچھ شناسا چہرے دیکھے تھے۔ اسے آنکھیں کھولتے دیکھ کر ممی اس کی طرف بڑھ آئی تھیں۔
"کیسا محسوس کر رہے ہو تم؟" انہوں نے اس پر جھکتے ہوئے بے تابی سے کہا۔
"جسٹ فائن۔" سالار نے دور کھڑے سکندر عثمان کو دیکھتے ہوئے دھیمے لہجے میں کہا۔ اس سے پہلے کہ اس کی ممی کچھ اور کہتیں کمرے میں موجود ایک ڈاکٹر آگے آ گیا تھا۔ وہ اس کی نبض چیک کرنے لگا تھا۔
ڈاکٹر نے انجکشن لگانے کے بعد ایک بار پھر اسے ڈرپ لگائی۔ سالار نے کچھ بیزاری کے ساتھ یہ کاروائیاں دیکھیں۔ ڈرپ لگانے کے بعد وہ سکندر عثمان اور اس کی بیوی سے باتیں کرنے لگا۔ سالار اس گفتگو کے دوران چھت کو گھورتا رہا پھر کچھ دیر بعد ڈاکٹر کمرے سے نکل گیا۔
کمرے میں اب بالکل خاموشی تھی۔ سکندر عثمان اور اس کی بیگم اپنا سر پکڑے بیٹھے تھے۔ ان کی تمام کوششوں اور احتیاط کے باوجود یہ سالار سکندر کی خود کشی کی چوتھی کوشش تھی اور اس بار وہ واقعی مرتے مرتے بچا تھا۔ ڈاکٹرزکے مطابق اگر چند منٹو ں کی تاخیر ہوجاتی تو وہ اسے نہیں بچا سکتے تھے۔
سکندر اور ان کی بیوی کو ملازم نے رات کے دو بجے سالار کی خودکشی کی اس کوشش کے بارے میں بتایا تھا اور وہ دونوں میاں بیوی پوری رات سو نہیں سکے تھے۔ سکندر عثمان نے صبح فلائٹ ملنے تک تقریباً ڈیڑھ سو سگریٹ پھونک ڈالے تھے، مگر اس کے باوجود ان کی بے چینی اور اضطراب میں کمی نہیں ہو پار رہی تھی۔
"میری سمجھ میں نہیں آتا یہ آخر اس طرح کی حرکتیں کیوں کرتا ہے۔ آخر اس پر ہماری نصیحتوں اور ہمارے سمجھانے کا اثر کیوں نہیں ہوا۔" سکندر عثما ن نے دوران سفر کہا۔"میرا تو دماغ پھٹنے لگتا ہے جب میں اس کے بارے میں سوچتا ہوں۔ کیا نہیں کیا میں نے اس کے لئے۔ ہر سہولت، بہترین تعلیم حتیٰ کہ بڑے سے بڑے سائیکاٹرسٹ کو دکھا چکا ہوں مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔۔۔۔۔ میری تو سمجھ میں نہیں آتا کہ مجھ سے کیا غلطی ہو گئی ہے جو مجھے یہ سزا مل رہی ہے۔ جاننے والوں کے درمیان مذاق بن گیا ہوں میں اس کی وجہ سے۔" سکندر عثمان بہت پریشان تھے۔" ہر وقت میرا دم حلق میں اٹکا رہتا ہے کہ پتا نہیں وہ کس وقت کیا کر گزرے۔ اتنی احتیاط برتنے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ایک بار ہم غافل ہوئے اور وہ پھر وہی حرکت کر گزرا ہے۔" طیبہ نے اپنی آنکھوں میں امڈتے ہوئے آنسوؤں کو ٹشو کے ساتھ صاف کیا۔ وہ دونوں اسی طرح کی باتیں کرتے ہوئے کراچی سے اسلام آباد آئے تھے مگر سالار کے سامنے آ کر دونوں کو چپ لگ گئی تھی۔ ان دونوں ہی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ اس حالت میں اس سے کیا کہیں۔
سالار کو ان کی دلی اور ذہنی کیفیات کا اچھی طرح اندازہ تھا اور ان کی خاموشی کو وہ غنیمت جان رہا تھا۔ انہوں نے اس دن اس سے کچھ نہیں کہا تھا۔ اگلے دن بھی وہ دونوں خاموش ہی رہے تھے۔
مگر تیسرے دن ان دونوں نے اپنی خاموشی توڑ دی تھی۔
"مجھے صرف یہ بتاؤ کہ آخر تم یہ سب کیوں کر رہے ہو؟"سکندر نے اس رات بڑی تحمل مزاجی سے اس کے ساتھ گفتگو کا آغاز کیا تھا۔" آخر تمہارے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟ تم نے وعدہ کیا تھا کہ تم ایسی کوئی حرکت نہیں کرو گے۔ میں نے اسی وعدے پر تمہیں اسپورٹس کار بھی لے کر دی تھی۔ ہر بات مان رہے ہیں ہم لوگ تمہاری، پھر بھی تمہیں قطعاً احساس نہیں ہے ہم لوگوں کا، نہ خاندان کی عزت کا۔" سالار اسی طرح چپ بیٹھا رہا۔
"کسی اور کا نہیں تو تم ہم دونوں کا ہی خیال کرو۔ تمہاری وجہ سے ہماری راتوں کی نیندیں اڑ گئی ہیں۔" طیبہ نے کہا۔" "تمہیں کوئی پریشانی، کوئی پرابلم ہے، تو ہم سے ڈسکس کرو، ہم سے کہو۔۔۔۔۔ مگر اس طرح مرنے کی کوشش کرنا۔۔۔۔۔ تم نے کبھی سوچا ہے کہ اگر تم ان کوششوں میں کامیاب ہو جاتے تو ہمارا کیا ہوتا۔" سالار خاموشی سے ان کی باتیں سنتا رہا۔ ان کی باتوں میں کچھ بھی نیا نہیں تھا۔ خود کشی کی ہر کوشش کے بعد وہ ان سے اسی طرح کی باتیں سنتا تھا۔
"کچھ بولو، چپ کیوں ہو؟ کچھ سمجھ میں آ رہا ہے تمہیں؟" طیبہ نے جھنجھلا کر کہا۔ وہ انہیں دیکھنے لگا۔" ماں باپ کو اس طرح ذلیل کر کے بڑی خوشی ملتی ہے تمہیں۔"
"اس قدر شاندار مستقبل ہے تمہارا اور تم اپنی احمقانہ حرکتوں سے اپنی زندگی ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہو۔ لوگ ترستے ہیں اس طرح کے اکیڈمک ریکارڈ کے لئے۔" سکندر عثمان نے اسے اس کا اکیڈمک ریکارڈ یاد دلانے کی کوشش کی۔سالار نے بے اختیار ایک جماہی لی۔ وہ جانتا تھا اب وہ اس کے بچپن سے لے کر اس کی اب تک کی کامیابیوں کو دہرانا شروع کریں گے۔ ایسا ہی ہوا تھا۔ اگلے پندرہ منٹ اس موضوع پر بولنے کے بعد انہوں نے تھک کر پوچھا۔
"آخر تم کچھ بول کیوں نہیں رہے ، بولو"
"میں کیا بولوں، سب کچھ تو آپ دونوں نے کہہ دیا۔" سالارنے کچھ اکتائے ہوئے انداز میں کہا۔" میری زندگی میرا پرسنل معاملہ ہے پھر بھی میں نے آپ کو بتایا ہے کہ دراصل میں مرنے کی کوشش نہیں کر رہا تھا۔۔۔۔۔" سکندر نے اس کی بات کاٹی۔
"تم جو بھی کر رہے تھے، وہ مت کرو، ہم پر کچھ رحم کھاؤ۔" سالار نے ناراضی سے باپ کو دیکھا۔
"تم آخر یہ کیوں نہیں کہہ دیتے کہ تم آئندہ ایسی کوئی حرکت نہیں کرو گے۔ فضول میں بحث کیوں کرتے جا رہے ہو؟" اس بار طیبہ نے اس سے کہا۔
"اچھا ٹھیک ہے، نہیں کروں گا، ایسی کوئی بھی حرکت۔" سالار نے بے زاری سے جیسے ان دونوں سے جان چھڑانے کے لئے کہا۔ سکندر نے ایک گہری سانس لی۔ وہ اس کے وعدے پر مطمئن نہیں ہوئے تھے۔ نہ وہ۔۔۔۔۔ نہ ان کی بیوی۔۔۔۔۔ مگر ایسے وعدے لینے کے علاوہ ان کے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ وہ بچپن سے اپنے اس بیٹے پر فخر کرتے آ رہے تھے، مگر پچھلے کچھ سالوں سے ان کا وہ فخر ختم ہو گیا تھا۔ جتنا پریشان انہیں سالار نے کیا تھا اتنا ان کے باقی بچوں نے مل کے بھی نہیں کیا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"اب کیسا ہے تمہارا دوست؟ گئے تھے تم اس کی خیریت دریافت کرنے؟" امامہ وسیم کے ساتھ مارکیٹ جا رہی تھی کہ اچانک اسے سالار کا خیال آیا۔
"پہلے سے تو حالت کافی بہتر ہے اس کی۔ شاید کل پرسوں تک ڈسچارج ہو جائے۔" وسیم نے اسے سالار کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کیا۔" تم چلو گی واپسی پر اس کو دیکھنے؟" وسیم کو اچانک خیال آیا۔
"میں؟" امامہ حیران ہوئی۔" میں کیا کروں گی جا کر۔۔۔۔۔"
"خیریت دریافت کرنا اور کیا کرنا ہے تمہیں۔" وسیم نے سنجیدگی سے کہا۔
"اچھا۔" امامہ نے کچھ تامل سے کہا۔
"چلو ٹھیک ہے، چلیں گے۔ حالانکہ اس طرح کے مریض کی عیادت کرنا فضول ہے۔" اس نے لاپرواہی سے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
"ایسے مجھے توقع تھی کہ ا س کے پیرنٹس ہمارے گھر آئیں گے، شکریہ وغیرہ ادا کرنے کہ ہم نے ان کے بیٹے کی جان بچا لی۔ کس قدر بروقت مدد کی تھی ہم نے، مگر انہوں نے تو بھولے سے ہمارے گھر کا رخ نہیں کیا۔" امامہ نے تبصرہ کیا۔
"تم ان بیچاروں کی کنڈیشن کا اندازہ ہی نہیں کر سکتیں۔ کس منہ سے وہ شکریہ ادا کرنے آئیں اور پھر اگر کوئی یہ پوچھ بیٹھے کہ آپ کے بیٹے نے ایسی حرکت کیوں کی تو وہ دونوں کیا جواب دیں گے۔۔۔۔۔ وہ بیچارے عجیب مشکل میں پھنسے ہوئے ہیں۔"
وسیم نے قدرے افسوس کرنے والے انداز میں کہا۔" ویسے اس کے پیرنٹس نے میرا بہت شکریہ ادا کیا ہے اور امی اور بابا پرسوں جب اس کی خیریت دریافت کرنے گئے تھے تو انہوں نے وہاں بھی ان دونوں کا بہت شکریہ ادا کیا ہے۔ یہ تو امی اور بابا کی سمجھداری تھی کہ انہوں نے ان سے کوئی سوال نہیں کیا سالار کے بارے میں، ورنہ تو ادھر بھی خاصی خفت کا سامنا کرنا پڑتا انہیں۔" وسیم نے گاڑی موڑتے ہوئے کہا۔
"مگر آخر تمہارے اس دوست کا مسئلہ کیا ہے، کیوں بیٹھے بٹھائے اس طرح کی احمقانہ حرکتیں کرنے لگتا ہے؟" امامہ نے پوچھا۔
"تم مجھ سے اس طرح پوچھ رہی ہو جیسے وہ مجھے سب کچھ بتا کر یہ سب کچھ کرتا ہو گا۔ مجھے کیاپتا وہ کس لئے یہ سب کرتا ہے یا کیوں کرتا ہے۔"
"تمہارا اتنا گہرا دوست ہے، تم پوچھتے کیوں نہیں اس سے؟"
"اتنا گہرا بھی نہیں ہے کہ ایسی باتوں کے بارے میں بھی مجھے بتانے لگے اور ویسے بھی میں کیوں کریدوں، ہو گا اس کا کوئی مسئلہ۔"
"تو پھر بہتر نہیں ہے کہ تم ایسے دستوں سے کچھ فاصلے پر رہو، ایسے لوگوں سے دوستی اچھی نہیں ہوتی۔ اگر کل کو تم نے بھی اس طرح کی حرکتیں شروع کر دیں تو۔۔۔۔۔؟"
"ویسے تم نے اس دن جو حرکت کی تھی وہ اگر اسے یاد رہی تو ہماری دوستی میں خود ہی خاصا فرق آ جائے گا۔" وسیم نے کچھ جتانے والے انداز میں کہا۔
"میں نہیں سمجھتی کہ ا سے وہ تھپڑ یاد ہو گا۔ وہ صحیح طور پر ہوش میں تو نہیں تھا۔ تم سے ذکر کیا اس نے اس بارے میں؟" امامہ نے پوچھا۔
"نہیں مجھ سے کہا تو نہیں مگر ہو سکتا ہے کہ اسے یاد ہو۔ تم نے اچھا نہیں کیا تھا۔"
"اس نے حرکت ہی ایسی کی تھی۔ ایک تو اپنا ہاتھ کھینچ رہا تھا دوسرے گالیاں دے رہا تھا اوپر سے میرا دوپٹہ بھی کھینچ لیا۔"
"اس نے دوپٹہ نہیں کھینچا تھا، اس کا ہاتھ لگا تھا۔" وسیم نے سالار کا دفاع کرتے ہوئے کہا۔
"جو بھی تھا، اس وقت تو مجھے بہت غصہ آیا تھا مگر بعد میں مجھے بھی افسوس ہوا تھا اور میں نے تو اللہ کا بہت شکر ادا کیا کہ وہ بچ گیا۔ اگر کہیں وہ مر جاتا تو مجھے تو بہت ہی پچھتاوا ہوتا اپنے اس تھپڑ کا۔" امامہ نے قدرے معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔
"چلو تم آج جا رہی ہو تو معذرت کر لینا۔" وسیم نے مشورہ دیا۔
"کیوں ایکسکیوز کروں، ہو سکتا ہے اسے کچھ یاد ہی نہ ہو پھر میں خواہ مخواہ گڑے مردے اکھاڑوں۔ اسے یاد دلاؤں کہ میں نے اس کے ساتھ ایسا کیاتھا۔" امامہ نے فوراً کہا۔
"اور فرض کرو اسے سب کچھ یاد ہوا تو۔۔۔۔۔؟"
"تو۔۔۔۔۔ تو کیا ہو گا۔۔۔۔۔ وہ کون سا ہمارا رشتہ دار ہے کہ اس سے تعلقات خراب ہو جائیں گے یا میل جول میں فرق پڑے گا۔" امامہ نے لاپرواہی سے کہا۔
شاپنگ کرنے کے بعد سالار اسے کلینک لے آیا جہاں سالار زیر علاج تھا۔
وہ دونوں جس وقت اس کمرے میں داخل ہوئے اس وقت وہ سوپ پینے میں مصروف تھا۔
سالار نے وسیم کے ساتھ آنے والی لڑکی کو دیکھا اور فوراً پہچان لیا تھا۔ اگرچہ اس رات اس حالت میں وہ اسے شناخت نہیں کر سکا مگر اس وقت اسے دیکھتے ہی وہ اسے پہچان گیا تھا۔ اپنی ممی سے یہ بات وہ پہلے ہی جان چکا تھا کہ وسیم کی بہن نے اسے فرسٹ ایڈ دی تھی مگر اسے وہ فرسٹ ایڈ یاد نہیں تھی، بس وہ زناٹے دار تھپڑ یاد تھا جو اس رات اسے پڑا تھا۔ اس لئے امامہ کو دیکھتے ہی وہ سوپ پیتے پیتے رک گیا۔
اس کی چبھتی ہوئی نظروں سے امامہ کو اندازہ ہو گیا کہ اسے یقیناً اس رات ہونے والے واقعات کسی نہ کسی حد تک یاد تھے۔
رسمی علیک سلیک کے بعد اس کی ممی امامہ کا شکریہ ادا کرنے لگیں، جبکہ سالار نے سوپ پیتے ہوئے گہری نظروں سے اسے دیکھا۔ وسیم سے اس کی دوستی کو کئی سال گزر چکے تھے اور اس نے وسیم کے گھر میں امامہ کو بھی کئی بار دیکھا تھا مگر اس نے پہلے کبھی توجہ نہیں دی تھی۔ اس دن پہلی بار وہ اس پر قدرے تنقیدی انداز میں غور کر رہا تھا۔ اس کے دل میں امامہ کے لئے تشکر یا احسان مندی کے لئے کوئی جذبات نہیں تھے۔ اس کی وجہ سے اس کے سارے پلان کا بیڑہ غرق ہو گیا تھا۔
امامہ اس کی ممی سے گفتگو میں مصروف تھی مگر وہ وقتاً فوقتاً اپنے اوپر پڑنے والی اس کی نظروں سے بھی واقف تھی۔ زندگی میں پہلی بار اسے کسی کی نظریں اتنی بری لگی تھیں۔
ایک لمحے کے لئے اس کا دل چاہا وہ اٹھ کر وہاں سے بھاگ جائے۔سالار کے بارے میں اس کی رائے اور بھی خراب ہو گئی تھی۔ وہ اپنے اس تھپڑ کے لئے معذرت کے ارادے سے وہاں آئی تھی مگر اس وقت اس کا دل چاہا اسے دو چار اور تھپڑ لگا دے۔
تھوڑی دیر وہاں بیٹھنے کے بعد فوراً ہی وہ واپس جانے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی اور واپس جاتے ہوئے اس نے سالار کے ساتھ علیک سلیک کا تکلف بھی نہیں کیا تھا۔ وہ صرف اس کی ممی کے ساتھ دعا سلام کے بعد سالار کی طرف دیکھے بغیر باہر نکل آئی تھی اور باہر آ کر اس نے سکون کا سانس لیا تھا۔
"اس طرح کے دوست بنائے ہوئے ہیں تم نے؟" اس نے باہر نکلتے ہی وسیم سے کہا جس نے کچھ حیرانی سے اسے دیکھا۔
"کیوں ، اب کیا ہوا ہے؟"
"اسے دیکھنے تک کی تمیز نہیں ہے۔ اس بات کا احساس تک نہیں ہے کہ میں اس کے دوست کی بہن ہوں اور اس کے دوست کے ساتھ اس کے کمرے میں موجود ہوں۔"
وسیم اس کی بات پر کچھ خفیف سا ہو گیا۔
"یہ آدمی اس قابل نہیں کہ اس کی عیادت کے لئے جایا جائے اور تم اس کے ساتھ میل جول بند کرو۔"
"اچھا ٹھیک ہے میں محتاط رہوں گا۔ اب تم بار بار اس بات کو نہ دہراؤ۔" وسیم نے موضوع گفتگو بدلنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ۔ امامہ دانستہ طور پر خاموش ہو گئی مگر سالار اس کے ناپسندیدہ افراد کی لسٹ میں شامل ہو چکا تھا۔
یہ ایک اتفاق ہی تھا کہ وہ ان دنوں کچھ چھیاں گزارنے اسلام آباد آئی ہوئی تھی ورنہ شاید سالار سے اس کا اتنا قریبی اور اتنا ناپسندیدہ تعارف اور تعلق کبھی پیدا نہ ہوتا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اسلام قبول کرنے کے بعد اس نے پہلی بار جلال انصر کو تب قریب سے دیکھا جب ایک دن وہ چاروں کالج کے لان میں بیٹھی گفتگو میں مصروف تھیں، وہ وہاں کسی کام سے آیا تھا۔ رسمی سی علیک سلیک کے بعد وہ زینب کے ساتھ چند قدم دور جا کھڑا ہوا تھا۔ امامہ اس کے چہرے سے نظریں نہیں ہٹا سکی۔ ایک عجیب سی مسرت اور سر خوشی کا احساس اسے گھیرے میں لے رہا تھا۔
وہ چند منٹ زینب سے بات کرنے کے بعد وہیں سے چلا گیا۔ امامہ اس کی پشت پر نظریں جمائے اس وقت تک اسی دیکھتی رہی جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہیں ہو گیا۔ اس کے اردگرد بیٹھی اس کی فرینڈز کیا باتیں کر رہی تھیں، اسے اس وقت اس کا کوئی احساس نہیں تھا جب وہ اس کی نظروں سے اوجھل ہوا تو یکدم جیسے دوبارہ اپنے ماحول میں واپس آ گئی۔
جلال انصر سے اس کی دوسری ملاقات زینب کے گھر پر ہوئی تھی۔ اس دن وہ کالج سے واپسی پر زینب کے ساتھ اس کے گھر آئی تھی۔ زینب کچھ دنوں سے ان سب کو اپنے ہاں آنے کے لئے کہہ رہی تھی۔ باقی سب نے کوئی نہ کوئی بہانہ بنا دیا تھا، مگر امامہ اس دن اس کے ساتھ اس کے گھر چلی آئی تھی۔ اس کے گھر آ کر اسے عجیب سے سکون کا احساس ہوا تھا۔ شاید اس احساس کی وجہ جلال انصر سے اس گھر کی نسبت تھی۔
وہ ڈرائینگ روم میں بیٹھی ہوئی تھی اور زینب چائے تیار کرنے کے لئے کچن میں گئی تھی۔ جب جلال ڈرائینگ روم میں داخل ہوا۔ امامہ کو وہاں دیکھ کر کچھ چونک گیا۔ شاید اسے امامہ کو وہاں دیکھنے کی توقع نہیں تھی۔
"السلام علیکم! کیا حال ہے آپ کا؟" جلال نے شاید اس طرح بے دھڑک اندر داخل ہونے پر اپنی جھینپ مٹانے کے لئےکہا۔ امامہ نے رنگ بدلتے چہرے کے ساتھ اس کا جواب دیا۔
"زینب کے ساتھ آئی ہیں آپ؟" اس نے پوچھا۔
"جی۔"
"زینب کہاں ہے۔ میں دراصل اس کو ڈھونڈتے ہوئے یہاں آ گیا۔ مجھے پتا نہیں تھا کہ اس کی کوئی دوست یہاں موجود ہے۔" کچھ معذرت خواہانہ انداز میں کہتے ہوئے وہ پلٹ گیا۔
"آپ بہت اچھی نعت پڑھتے ہیں۔" امامہ نے بے ساختہ کہا۔ وہ ٹھٹک گیا۔
"شکریہ۔" وہ کچھ حیران نظر آیا۔" آپ نے کہاں سنی ہے؟"
"ایک دن میں نے زینب کو فون کیا تھا جب تک فون ہولڈ رہا مجھے آپ کی آواز آتی رہی، پھر زینب سے آپ کے بارے میں پتا چلا۔ میں اس نعتیہ مقابلے میں بھی گئی تھی جہاں آپ نےوہ نعت پڑھی تھی۔"
وہ بے اختیار کہتی چلی گئی۔ جلال انصر کی سمجھ میں نہیں آیا وہ حیران ہو یا خوش۔
"بہت اچھی تو نہیں، بس پڑھ لیتا ہوں۔ اللہ کا کرم ہے۔" اس نے حیرت کے اس جھٹکے سے سنبھلتے ہوئے سفید چادر میں لپٹی اس دبلی پتلی دراز قامت لڑکی کو دیکھا جس کی گہری سیاہ آنکھیں کوئی بہت عجیب سا تاثر لئے ہوئے تھیں۔ اپنی آواز کی تعریف وہ بہت سوں سے سن چکا تھا مگر اس وقت اس لڑکی کی تعریف اس کے لئے قدرے غیر معمولی تھی اور جس انداز میں اس نے یہ کہا تھا وہ اس سے بھی زیادہ عجیب۔
وہ پلٹ کر ڈرائنگ روم سے باہر نکل گیا۔ وہ ویسے بھی لڑکیوں سے گفتگو میں مہارت نہیں رکھتا تھا اور پھر ایک ایسی لڑکی سے گفتگو جس سے وہ صرف چہرے کی حد تک واقف تھا۔
امامہ ایک عجیب سی مسرت کے عالم میں وہاں بیٹھی ہوئی تھی۔ اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ اس نے جلال انصر سے بات کی تھی۔ اپنے سامنے۔۔۔۔۔ خود سے اتنے قریب۔۔۔۔۔ وہ ڈرائنگ روم کے دروازے سے کچھ آگے کارپٹ پر اس جگہ کو دیکھتی رہی جہاں وہ کچھ دیر پہلے کھڑا تھا۔ تصور کی آنکھ سے وہ اسے ابھی بھی وہیں دیکھ رہی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ان کی اگلی ملاقات ہاسپٹل میں ہوئی۔ پچھلی دفعہ اگر امامہ دانستہ طور پر زینب کے گھر گئی تھی تو اس بار یہ ایک اتفاق تھا۔ امامہ، رابعہ کے ساتھ وہاں آئی تھی جسے وہاں اپنی کسی دوست سے ملنا تھا۔ ہاسپٹل کے ایک کوریڈور میں فائنل سٹوڈنٹس کے ایک گروپ میں اس نے جلال انصر کو دیکھا۔ اس کی ایک ہارٹ بیٹ مس ہوئی۔ کوریڈور میں اتنا رش تھا کہ وہ اس کے پاس نہیں جا سکتی تھی اور اس وقت پہلی بار امامہ کو احسا س ہوا کہ اسے سامنے دیکھ کر اس کے لئے رک جانا کتنا مشکل کام تھا۔ رابعہ کی دوست کے ساتھ بیٹھے ہوئے بھی اس کا دھیان مکمل طور پر باہر ہی تھا۔
ایک ڈیڑھ گھنٹے کے بعد وہ رابعہ کے ساتھ اس کی دوست کے کمرے سے باہر آئی تھی۔ اب وہاں فائنل ائیر کے اسٹوڈنٹس کا وہ گروپ نہیں تھا۔ امامہ کو بے اختیار مایوسی ہوئی۔ رابعہ اس کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے باہر نکل رہی تھی جب سیڑھیوں پر ان دونوں کا آمنا سامنا جلال سے ہو گیا۔ امامہ کے جسم سے جیسے ایک کرنٹ سا گزر گیا تھا۔
"السلام علیکم۔ جلال بھائی! کیسے ہیں آپ؟" رابعہ نے پہل کی تھی۔
"اللہ کا شکر ہے۔"
اس نے سلام کا جواب دیتے ہوئے کہا۔
"آپ لوگ یہاں کیسے آ گئے؟" اس بار جلال نے امامہ کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔
"میں اپنی ایک فرینڈ سے ملنے آئی تھی اور امامہ میرے ساتھ آئی تھی۔" رابعہ مسکراتے ہوئے بتا رہی تھی جبکہ امامہ خاموشی سے اس کے چہرے پر نظریں جمائے ہوئے تھی۔


دستگیری میری تنہائی کی تو نے ہی تو کی
میں تو مر جاتا اگر ساتھ نہ ہوتا تیرا

اس کی آواز سنتے ہوئے وہ ایک بار پھر ٹرانس میں آ رہی تھی۔ اس نے بہت کم لوگوں کو اتنے شستہ لہجے میں اردو بولتے ہوئے سنا تھا، جس لہجے میں وہ بات کر رہا تھا۔ پتا نہیں کیوں ہر بار اس کی آواز سنتے ہی اس کے کانوں میں اس کی پڑھی ہوئی وہ نعت گونجنے لگتی تھی۔ اسے عجیب سا رشک آ رہا تھا اسے دیکھتے ہوئے۔
جلال نے رابعہ سے بات کرتے ہوئے شاید اس کی محویت کو محسوس کیا تھا، اسی لئے بات کرتے کرتے اس نے امامہ کی طرف دیکھا اور مسکرایا۔ امامہ نے اس کے چہرے سے نظریں ہٹا لیں۔ بے اختیار اس کا دل چاہا تھا وہ اس شخص کے اور قریب چلی جائے۔ جلال سے نظریں ہٹا کر اردگرد گزرتے لوگوں کو دیکھتے ہوئے اس نے تین بار لاحول پڑھی۔"شاید اس وقت شیطان میرے دل میں آ کر مجھے اس کی طرف راغب کر رہا ہے۔" اس نے سوچا مگر لاحول پڑھنے کے بعد بھی اس کے اندر کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ وہ اب بھی جلال کے لئے ویسی ہی کشش محسوس کر رہی تھی۔
اسجد سے اتنے سالوں کی منگنی کے بعد بھی کبھی اس نے اپنے آپ کو اس کے لئے اس طرح بےاختیار ہوتے نہیں دیکھا تھا جس طرح وہ اس وقت ہو رہی تھی۔ وہاں کھڑے اسے پہلی بار جلال سے بہت زیادہ خوف آیا۔ میں کیا کروں گی اگر میرا دل اس آدمی کو دیکھ کر اسی طرح بے اختیار ہوتا رہا، آخر اسے دیکھ کر مجھے۔۔۔۔۔ اس نے جیسے بے بسی کے عالم میں سوچا۔ میں اتنی کمزور تو کبھی بھی نہیں تھی کہ اس جیسے آدمی کو دیکھ کر اس طرح۔۔۔۔۔ اس نے اپنے وجود کو موم کا پایا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"بھائی! آپ فارغ ہیں؟" اس رات زینب دروازے پر دستک دے کر جلال کے کمرے میں داخل ہوئی۔
"ہاں ، آ جاؤ۔" اس نے اسٹڈی ٹیبل پر بیٹھے بیٹھے گردن موڑ کر زینب کو دیکھا۔
"آپ سے ایک کام ہے۔" زینب اس کے پاس آتے ہوئے بولی۔
"کیا کام ہے؟"
"آپ ایک کیسٹ میں اپنی آواز میں کچھ نعتیں ریکارڈ کر دیں۔" زینب نے کہا۔ جلا ل نے حیرت سے اس کی فرمائش سنی۔
"کس لئے؟"
"وہ میری دوست ہے امامہ اس کو آپ کی آواز بہت پسند ہے اس لئے۔۔۔۔۔ اس نے مجھ سے فرمائش کی اور میں نے ہامی بھر لی۔" زینب نے تفصیل بتائی۔
جلال اس فرمائش پر مسکرایا۔ امامہ سے کچھ دن پہلی ہونے والی ملاقات اسے یاد آ گئی۔
"یہ وہی لڑکی ہے جو اس دن یہاں آئی تھی؟" جلال نے سرسری انداز میں پوچھا۔
"ہاں وہی لڑکی ہے، اسلام آباد سے یہاں آئی ہے۔"
"اسلام آباد سے؟ ہاسٹل میں رہ رہی ہے؟" جلال نے کچھ دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا۔
"جی ہاسٹل میں رہ رہی ہے، کافی اچھا خاندان ہے اس کا، بہت بڑے انڈسٹریلسٹ ہیں اس کے فادر۔۔۔۔۔ مگر امامہ سے مل کے ذرا محسوس نہیں ہوتا۔" زینب نے بے اختیار امامہ کی تعریف کی۔
"کافی مذہبی لگتی ہے۔ میں نے اسے ایک دو بار تمہارے ساتھ کالج میں بھی دیکھا ہے۔ کالج میں بھی چادر اوڑھی ہوتی ہے اس نے۔ یہاں کالج کی"آب و ہوا" کا ابھی تک اثر نہیں ہوا اس پر۔" جلال نے کہا۔
"بھائی! اس کی فیملی بھی خاصی مذہبی ہے کیونکہ وہ جب سے یہاں آئی ہے اسی طرح ہی ہے۔ میرا خیال ہے کہ کافی کنزرویٹو لوگ ہیں، لیکن یہ ضرور ہے کہ اس کی فیملی خاصی تعلیم یافتہ ہے۔ نہ صرف بھائی بلکہ بہنیں بھی۔ یہ گھر میں سب سے چھوٹی ہے۔" زینب نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا۔" تو پھر آپ کب ریکارڈ کر کے دیں گے؟" زینب نے پوچھا۔
"تم کل لے لینا۔ میں ریکارڈ کر دوں گا۔" جلال نے کہا۔ وہ سر ہلاتے ہوئے کمرے سے نکل گئی۔ جال کچھ دیر کسی سوچ میں ڈوبا رہا پھر دوبارہ اس کتاب کی طرف متوجہ ہو گیا جسے وہ پڑھ رہا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ان کی اگلی ملاقات لائبریری میں ہوئی تھی۔ اس بار امامہ اسے وہاں موجود دیکھ کر بے اختیار اس کی طرف چلی گئی تھی۔ رسمی علیک سلیک کے بعد امامہ نے کہا۔
"میں آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتی تھی۔"
جلال نے حیرانی سے اسے دیکھا۔" کس لئے؟"
"اس کیسٹ کے لئے، جو آپ نے ریکارڈ کر کے بھجوائی تھی۔" جلال مسکرایا۔
"نہیں ، اس کی ضرورت نہیں۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ کبھی کوئی مجھ سے ایسی فرمائش کر سکتا ہے۔"
"آپ بہت خوش قسمت ہیں۔" امامہ نے مدھم آواز میں اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
"میں۔۔۔۔۔ کس حوالے سے؟" جلال نے ایک بار پھر حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔
"ہر حوالے سے۔۔۔۔۔ آپ کے پاس سب کچھ ہے۔"
"آپ کے پاس بھی تو بہت کچھ ہے۔"
وہ جلال کی بات پر عجیب سے انداز میں مسکرائی۔ جلال کو شبہ ہوا کہ اس کی آنکھوں میں کچھ نمی نمودار ہوئی تھی مگر وہ یقین سے نہیں کہہ سکتا تھا۔ وہ اب نظریں جھکائے ہوئے تھی۔
"پہلے کچھ بھی نہیں تھا، اب واقعی سب کچھ ہے۔" جلال نے مدھم آواز میں اسے کہتے سنا وہ نہ سمجھنے والے انداز میں اسے دیکھنے لگا۔
"آپ اتنی محبت سے رسوال ﷺ کا نام لیتے ہیں تو میں سوچتی ہوں کہ۔۔۔۔۔" اس نے اپنی بات ادھوری چھوڑ دی۔ جلال خاموشی سے اس کی بات مکمل ہونے کا انتظار کرتا رہا۔
"مجھے آپ پر رشک آتا ہے۔" چند لمحے بعد وہ آہستہ سے بولی۔
"سب لوگوں کو تو اس طرح کی محبت نہیں ہوتی جیسی محبت آپ کو حضرت محمد ﷺ سے ہے۔ ہو بھی جائے تو ہر کوئی اس طرح اس محبت کا اظہار نہیں کر سکتا کہ دوسرے بھی رسول ﷺ کی محبت میں گرفتار ہونے لگیں۔ محمد ﷺ کو بھی آپ سے بڑی محبت ہو گی۔" اس نے نظریں اٹھائیں ۔ اس کی آنکھوں میں کوئی نمی نہیں تھی۔
"شاید مجھے وہم ہوا تھا۔" جلال نے اسے دیکھتے ہوئے سوچا۔
"یہ میں نہیں جانتا، اگر ایسا ہو تو میں واقعی بہت خوش قسمت انسان ہوں۔ میں تو صرف یہ جانتا ہوں کہ مجھے واقعی حضور اکرم ﷺ سے بڑی محبت ہے۔ مجھ جیسے لوگوں کے لئے اتنا ہی کافی ہے۔ ہر ایک کو اللہ اس محبت سے نہیں نوازتا۔"
وہ بڑی رسانیت سے کہہ رہا تھا۔ امامہ اس کے چہرے سے نظریں نہیں ہٹا سکی۔ اسے کبھی کسی شخص کے سامنے اس طرح کا احساس کمتری نہیں ہوا تھا، جس طرح کا احساس کمتری وہ جلال انصر کے سامنے محسوس کرتی تھی۔
"شاید میں بھی نعت پڑھ لوں۔ شاید میں بھی بہت اچھی طرح اسے پڑھ لوں مگر میں۔۔۔۔۔ میں جلال انصر کبھی نہیں ہو سکتی۔ کبھی بن ہی نہیں سکتی۔ کبھی میری آواز سن کر کسی کا وہ حال نہیں ہو سکتا جو جلال انصر کی آواز سن کر ہوتا ہے۔" وہ لائبریری سے نکلتے ہوئے مسلسل مایوسی کے عالم میں سوچ رہی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
قسط نمبر 16
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جلال انصر سے ہونے والی چند ملاقاتوں کے بعد امامہ نے پوری کوشش کی تھی کہ وہ دوبارہ کبھی اس کا سامنا نہ کرے، نہ اس کے بارے میں سوچے، نہ زینب کے گھر جائے۔ حتیٰ کہ اس نے زینب کے ساتھ اپنے تعلقات کو بھی اپنی طرف سے بہت محدود کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس کی ہر حفاظتی تدبیر برے طریقے سے ناکام ہوتی گئی۔
ہر گزرتے دن کے ساتھ امامہ کی بے بسی میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا اور پھر اس نے گھٹنے ٹیک دئیے تھے۔
"اس آدمی میں کوئی چیز ایسی ہے، جس کے سامنے میری ہر مزاحمت دم توڑ جاتی ہے۔" اور شاید اس کا یہ اعتراف ہی تھا جس نے اسے ایک بار پھر جلال کی طرف متوجہ کر دیا تھا۔ پہلے اس کے لئے اس کی بے اختیاری لاشعوری تھی پھر اس نے شعوری طور پر جلال کو اسجد کی جگہ دے دی۔
"آخر کیا برائی ہے اگر میں اس شخص کا ساتھ چاہوں جس کی آواز مجھے بار بار اپنے پیغمبر ﷺ کی طرف لوٹنے پر مجبور کرتی رہی۔ میں کیوں اس شخص کے حصول کی خواہش نہ کروں جو حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ سے مجھ سے بھی زیادہ محبت رکھتا ہے۔ کیا مضائقہ ہے اگر میں اس شخص کو اپنا مقدر بنائے جانے کی دعا کروں، جس کے لئے میں انس رکھتی ہوں اور جس کے کردار سے میں واقف ہوں۔ کیا برا ہے اگر میں یہ چاہوں کہ میں جلال انصر کے نام سے شناخت پاؤں۔ اس واحد آدمی کے نام سے جسے سنتے، جیسے دیکھتے مجھے اس پر رشک آتا ہے۔" اس کے پاس ہر دلیل، ہر توجیہہ موجود تھی۔
بہت غیر محسوس طور پر وہ ہر اس جگہ جانے لگی جہاں جلال کے پائے جانے کا امکان ہوتا اور وہ اکثر وہاں پایا جاتا۔ وہ زینب کو اس وقت فون کرتی، جب جلال گھر پر ہوتا کیونکہ گھر پر ہوتے ہوئے فون ہمیشہ وہی ریسیو کرتا۔ دونوں کے درمیان چھوٹی موٹی گفتگو رفتہ رفتہ طویل ہونے لگی پھر وہ ملنے لگے۔
جویریہ ، رابعہ یا زینب تینوں کو امامہ اور جلال کے ان بڑھتے ہوئے تعلقات کے بارے میں پتا نہیں تھا۔ جلال اب ہاؤس جاب کر رہا تھا اور امامہ اکثر اس کے ہاسپٹل جانے لگی۔ باقاعدہ اظہار محبت نہ کرنے کے باوجود وہ دونوں اپنے لئے ایک دوسرے کے جذبات کے واقف تھے۔ جلال جانتا تھا کہ امامہ اسے پسند کرتی تھی اور یہ پسندیدگی عام نوعیت کی نہیں تھی۔ خود امامہ بھی یہ جان چکی تھی کہ جلال اس کے لئے کچھ خاص قسم کے جذبات محسوس کرنے لگا ہے۔
جلال اس قدر مذہبی تھا کہ اس نے کبھی اس کا بات کا تصور بھی نہیں کیا تھا کہ وہ کسی لڑکی کی محبت میں گرفتار ہو جائے گا، نہ صرف یہ کہ وہ محبت کرے گا بلکہ اس طرح اس سے ملا کرے گا۔۔۔۔۔ مگر یہ سب کچھ بہت غیر محسوس انداز میں ہوتا گیا۔ اس نے کبھی زینب سے اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ اس کے اور امامہ کے درمیان کسی خاص نوعیت کا تعلق ہے۔ اگر وہ یہ انکشاف کر دیتا تو زینب اسے یقیناً امامہ کی اسجد کے ساتھ طے شدہ نسبت سے آگاہ کر دیتی۔ بہت شروع میں ہی وہ امامہ کی ایسی کسی نسبت کے بارے میں جان لیتا تو وہ امامہ کے بارے میں بہت محتاط ہو جاتا پھر کم از کم امامہ کے لئے اس حد تک انوالو ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جس حد تک وہ ہو چکا تھا۔
ان کے درمیان ہونے والی ایسی ہی ایک ملاقات میں امامہ نے اسے پرپوز کیا تھا۔ اسے امامہ کی جرات پر کچھ حیرانی ہوئی تھی کیونکہ کم از کم وہ خود بہت چاہنے کے باوجود ابھی یہ بات نہیں کہہ سکا تھا۔
"آپ کا ہاؤس جاب کچھ عرصے میں مکمل ہو جائے گا، اس کے بعد آپ کیا کریں گے؟" امامہ نے اس دن اس سے پوچھا تھا۔
"اس کے بعد میں سپیشلائزیشن کے لئے باہر جاؤں گا۔" جلال نے بڑی سہولت سے کہا۔
"اس کے بعد؟"
"اس کے بعد واپس آؤں گا اور اپنا ہاسپٹل بناؤں گا۔
"آپ نے اپنی شادی کے بارے میں سوچا ہے؟" اس نے اگلا سوال کیا تھا۔ جلال نے حیران مسکراہٹ کے ساتھ اسے دیکھا تھا۔
"امامہ! شادی کے بارے میں ہر ایک ہی سوچتا ہے۔"
"آپ کس سے کریں گے؟"
"یہ طے کرنا ابھی باقی ہے۔"
امامہ چند لمحے خاموش رہی۔" مجھ سے شادی کریں گے؟"
جلال دم بخود اسے دیکھنے لگا۔ اسے امامہ سے اس سوال کی توقع نہیں تھی۔" آپ کو میری بات بری لگی ہے؟"
امامہ نے اسے گم صم دیکھ کر پوچھا۔ وہ یک دم جیسے ہوش میں آ گیا۔
"نہیں، ایسا نہیں ہے۔" اس نے بے اختیار کہا۔" یہ سوال مجھے تم سے کرنا چاہئیے تھا۔ تم مجھ سے شادی کروگی؟"
"ہاں ۔" امامہ نے بڑی سہولت سے کہا۔
"اور آپ؟"
"میں۔۔۔۔۔ میں۔۔۔۔۔ ہاں ، آف کورس۔ تمہارے علاوہ میں اور کس سے شادی کر سکتا ہوں۔" اس نے اپنے جملے پر امامہ کے چہرے پر ایک چمک آتے دیکھی۔
"میں ہاؤس جاب ختم ہونے کے بعد اپنے ماں باپ کو تمہارے ہاں بھجواؤں گا۔"
وہ اس بار جواب میں کچھ کہنے کے بجائے چپ سی ہو گئی۔"جلال! کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ میں آپ سے اپنے گھر والوں کی مرضی کے بغیر شادی کر لوں؟"
جلال اس کی بات پر ہکا بکا رہ گیا۔" کیا مطلب؟"
"ہو سکتا ہے میرے پیرنٹس اس شادی پر تیار نہ ہوں۔"
"کیا تم نے اپنے پیرنٹس سے بات کی ہے؟"
"نہیں۔"
"تو پھر تم یہ بات کیسے کہہ سکتی ہو؟"
"کیونکہ میں اپنے پیرنٹس کو اچھی طرح جانتی ہوں۔" اس نے رسانیت سے کہا۔
جلال یک دم کچھ پریشان نظر آنے لگا۔" امامہ! میں نے کبھی یہ سوچا ہی نہیں کہ تمہارے پیرنٹس کو ہم دونوں کی شادی پر کوئی اعتراض ہو سکتا ہے۔ میں تو سمجھ رہا تھا کہ ایسا نہیں ہو گا۔"
"مگر ایسا ہو سکتا ہے۔ آپ مجھے صرف یہ بتائیں کہ کیا آپ اس صورت میں مجھ سے شادی کر لیں گے؟"
جلال کچھ دیر خاموش بیٹھا رہا۔ امامہ اضطراب کے عالم میں اسے دیکھتی رہی۔ کچھ دیر بعد جلال نے اپنی خاموشی کو توڑا۔
"ہاں، میں تب بھی تم ہی سے شادی کروں گا۔ میرے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ میں اب کسی دوسری لڑکی سے شادی کر سکوں گا۔ میں کوشش کروں گا کہ تمہارے پیرنٹس اس شادی پر رضامند ہو جائیں لیکن اگر وہ نہیں ہوتے تو پھر ہمیں ان کی مرضی کے بغیر شادی کرنی ہو گی۔"
"کیا آپ کے پیرنٹس اس شادی پر رضامند ہو جائیں گے؟"
"ہاں ، میں انہیں منا لوں گا۔ وہ میری بات نہیں ٹالتے۔" جلال نے فخریہ انداز سے کہا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ ہیلو کی آواز پر پلٹی۔ اس سے چند قدم کے فاصلے پر سالار کھڑا تھا۔ وہ اپنے اسی بے ڈھنگے حلیے میں تھا۔ ٹی شرٹ کے سارے بٹن کھلے ہوئے تھے اور وہ خود جینز کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے کھڑا تھا۔ ایک لمحہ کے لئے امامہ کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کس طرح کے ردِ عمل کا اظہار کرے۔
سالار کے ساتھ تیمور بھی تھا۔
"آؤ۔ اس لڑکی سے ملواتا ہوں تمہیں۔" سالار نے امامہ کو کتابوں کی دوکان پر دیکھا تو قریب چلا آیا۔
تیمور نے گردن موڑ کر دیکھا اور حیرانی سے کہا۔" اس چادر والی سے؟"
"ہاں۔" سالار نے قدم بڑھائے۔
"یہ کون ہے؟" تیمور نے پوچھا۔
"یہ وسیم کی بہن ہے۔" سالار نے کہا۔
"وسیم کی؟ مگر تم اس سے کیوں مل رہے ہو؟ وسیم اور اس کی فیملی تو خاصی کنزرویٹو ہے۔ اس سے مل کر کیا کرو گے؟" تیمور نے امامہ پر دور سے ایک نظر ڈالتے ہوئے کہا۔
"پہلی بار نہیں مل رہا ہوں، پہلے بھی مل چکا ہوں۔ بات کرنے میں کیا حرج ہے؟" سالار نے اس کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا۔
امامہ نے میگزین ہاتھ میں پکڑے پکڑے ایک نظر سالار کو اور ایک نظر اس کے ساتھ کھڑے لڑکے کو دیکھا جو تقریباً سالار جیسے حیلے میں ہی تھا۔
"ہاؤ آر یو؟" سالار نے اسے اپنی طرف متوجہ دیکھ کر کہا۔
"فائن۔" امامہ نے میگزین بند کرتے ہوئے اسے دیکھا۔
"یہ تیمور ہے، وسیم سے اس کی بھی خاصی دوستی ہے۔" سالار نے تعارف کرایا۔
امامہ نے ایک نظر تیمور کو دیکھا پھر ہاتھ کے اشارے سے شاپنگ سنٹر کے ایک حصے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔" وسیم وہاں ہے۔"
سالار نے گردن موڑ کر اس طرف دیکھا جس طرف اس نے اشارہ کیا تھا اور پھر کہا۔
"مگر ہم وسیم سے ملنے تو نہیں آئے۔"
"تو؟" امامہ نے سنجیدگی سے کہا۔
"آپ سے بات کرنے آئے ہیں۔"
"مگر میں تو آپ کو نہیں جانتی، پھر آپ مجھ سے کیا بات کرنے آئے ہیں؟"
امامہ نے سردمہری سے کہا۔ اسے سالار کی آنکھوں سے وحشت ہونے لگی تھی۔ کاش یہ کسی سے نظریں جھکا کر بات کرنا سیکھ لیتا، خاص طور پر کسی لڑکی سے۔ اس نے میگزین دوبارہ کھول لیا۔
"آپ مجھے نہیں جانتیں؟" سالار مذاق اڑانے والے انداز میں ہنسا۔" آپ کے گھر کے ساتھ ہی میرا گھر ہے۔"
"یقیناً ہے مگر میں آپ کو"ذاتی" طور پر نہیں جانتی۔" اس نے اسی رکھائی سے میگزین پر نظریں جمائے ہوئے کہا۔
"چند ماہ پہلے آپ نے ایک رات میری جان بچائی تھی۔" سالار نے مذاق اڑانے والے انداز میں اسے یاد دلایا۔
"میڈیکل کی اسٹوڈنٹ ہونے کی حیثیت سے یہ میرا فرض تھا۔ میرے سامنے کوئی بھی مر رہا ہوتا، میں یہی کرتی۔ اب مجھے ایکسکیوز کریں، میں کچھ مصروف ہوں۔"
سالار اس کے کہنے کے باوجود ٹس سے مس نہیں ہوا۔ تیمور نے اس کے بازو کو ہولے سے کھینچ کر چلنے کا اشارہ کیا۔ شاید اسے وسیم کے حوالے سے امامہ کا لحاظ تھا مگر سالار نے اپنا بازو چھڑا لیا۔
"میں اس رات آپ کی مدد کے لئے شکریہ ادا کرنا چاہتا تھا۔ حالانکہ آپ نے مجھے پروفیشنل طریقے سے ٹریٹمنٹ نہیں دیا تھا۔"
اس بار سالار نے سنجیدگی سے کہا۔ امامہ نے اس کی بات پر میگزین سے نظریں ہٹا کر اسے دیکھا۔
"آپ کا اشارہ اگر اس تھپڑ کی طرف ہے تو ہاں وہ بالکل پروفیشنل نہیں تھا اور میں اس کے لئے معذرت کرتی ہوں۔"
"میں نے اسے مائنڈ نہیں کیا۔ میرا اشارہ اس طرف نہیں تھا۔" سالار نے لاپرواہی سے کہا۔
"مجھے توقع تھی کہ آپ اس تھپڑ کو مائنڈ نہیں کریں گے۔"(کیونکہ اسی کے مستحق تھے اور ایک نہیں دس) اس نے جملے کا آدھا حصہ ضبط کر لیا۔
"ویسے آپ کا اشارہ کس طرف تھا؟"
"بے حد تھرڈ کلاس طریقے سے بینڈیج کی تھی آپ نے میری اور آپ کو پراپر طریقے سے بلڈ پریشر تک چیک کرنا نہیں آتا۔" سالار نے لاپرواہی سے کہتے ہوئے چیونگم کی ایک اسٹک اپنے منہ میں ڈالی۔ امامہ کے کان کی لوئیں سرخ ہو گئیں۔ وہ پلکیں جھپکائے بغیر اسے دیکھتی رہی۔
"افسوس ناک بات ہے کہ ایک ڈاکٹر کو ایسے معمولی کام نہ آتے ہوں، جو کسی بھی عام آدمی کو آتے ہیں۔"
اس بار اس کا انداز پھر مذاق اڑانے والا تھا۔
"میں ڈاکٹر نہیں ہوں، میڈیکل کے ابتدائی سالوں میں ہوں، پہلی بات اور جہاں تک unprofessional ہونے کا تعلق ہے تو اگلی بار سہی، آپ نے تو ابھی اس طرح کی کئی کوششیں کرنی ہیں۔ میں آہستہ آہستہ آ پ پر پریکٹس کر کے اپنا ہاتھ صاف کر لوں گی۔"
ایک لمحہ کے لئے وہ کچھ نہیں بول سکا پھر اس کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری۔ یوں جیسے وہ اس کی بات پر محظوظ ہوا تھا مگر شرمندہ نہیں اور اس نے اس کا اظہار بھی کر دیا۔
"اگر آپ مجھے شرمندہ کرنے کی کوشش۔۔۔۔۔"
"کوشش کر رہی ہیں تو آپ اس میں ناکام ہوں گی۔ میں جانتی ہوں، آپ شرمندہ نہیں ہوتے، یہ صفت صرف انسانوں میں ہوتی ہے۔" امامہ نے اس کی بات کاٹ دی۔
"آپ کے خیال میں، میں کیا ہو؟" سالار نے اسی انداز میں کہا۔
"پتا نہیں، ایک vet اس بارے میں آپ کو زیادہ بہتر گائیڈ کر سکے گا۔" وہ اس بار اس کی بات پر ہنسا۔
"دو پیروں پر چلنے والے جانور کو ہر میڈیکل ڈکشنری انسان کہتی ہے اور میں دو پیروں پر چلتا ہوں۔"
"ریچھ سے لے کر کتے تک ہر چار پیروں والا جانور دو پیروں پر چل سکتا ہے۔ اگر اسے ضرورت پڑے یا اس کا دل چاہے تو۔"
"مگر میرے چار پیر نہیں اور میں صرف ضرورت کے وقت نہیں، ہر وقت ہی دو پیروں پر چلتا ہوں۔" سالار نے عجیب سے انداز میں اپنے لفظوں پر زور دیتے ہوئے کہا۔
"یہ آپ کی خوش قسمتی ہے کہ آپ کے چار پیر نہیں ہیں، اسی لئے میں نے آپ کو vet سے ملنے کو کہا ہے۔ وہ آپ کو آپ کی خصوصیات کے بارے میں صحیح بتا سکے گا۔"
امامہ نے سرد آواز میں کہا۔ وہ اسے زچ کرنے میں واقعی کامیاب ہو چکا تھا۔
"ویسے جتنی اچھی طرح سے آپ جانوروں کے بارے میں جانتی ہیں، آپ ایک بہت اچھی vet ثابت ہو سکتی ہیں۔ آپ کے علم سے خاصا متاثر ہوا ہوں میں۔"امامہ کے چہرے کی سرخی میں کچھ اور اضافہ ہو گیا۔"اگر آپ میری vet بن جاتی ہیں تو میں آپ کے بتائے ہوئے مشورے کے مطابق آپ ہی کے پاس آیا کروں گا تاکہ آپ میرے بارے میں ریسرچ کر کے مجھے بتا سکیں۔"
سالار نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔ وہ اس کی بات کے جواب میں کچھ نہیں کہہ سکی، صرف اسے دیکھ کر رہ گئی۔ وہ ضرورت سے کچھ زیادہ ہی منہ پھٹ تھا اور ایسے شخص کے ساتھ لمبی گفتگو کرنا آ بیل مجھے مار کہ مترادف تھا اور وہ یہ حماقت کر چکی تھی۔
"ویسے آپ کیا فیس چارج کریں گی؟" وہ بڑی سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا۔
"یہ وسیم آپ کو بتا دے گا۔" امامہ نے اس بار اسے دھمکانے کی کوشش کی۔
"چلیں ٹھیک ہے، یہ میں وسیم سے پوچھ لوں گا۔ اس طرح تو خاصی آسانی ہو جائے گی۔"
وہ اس کی دھمکی کو سمجھنے کے باوجود مرعوب نہیں ہوا اور اس نے امامہ کو یہ جتا بھی دیا۔ تیمور نے ایک بار پھر اس کا بازو پکڑ لیا۔
"آؤ سالار! چلتے ہیں، مجھے ایک ضروری کام یاد آ رہا ہے۔" اس نے عجلت کے عالم میں سالار کو اپنے ساتھ تقریباً گھسیٹنے کی کوشش کی مگر سالار نے توجہ نہیں دی۔
"چلتے ہیں یار! اس طرح کھینچو تو مت۔"وہ اس سے کہتے ہوئے ایک بار پھر امامہ کی طرف متوجہ ہو گیا۔
"بہرحال یہ سب مذاق تھا، میں واقعی آپ کا شکریہ ادا کرنے آیا تھا۔ آپ نے اور وسیم نے کافی مدد کی میری، گڈ بائے۔"
وہ کہتے ہوئے واپس مڑ گیا۔ امامہ نے بے اختیار ایک سکون کا سانس لیا۔ وہ شخص واقعی کریک تھا۔ اسے حیرت ہو رہی تھی کہ وسیم جیسا شخص کیسے اس آدمی کے ساتھ دوستی رکھ سکتا ہے۔
وہ ایک بار پھر میگزین کے ورق الٹنے لگی۔" سالار آیا تھا تمہارے پاس؟" وسیم نے اس کے پاس آ کر پوچھا۔ دور سے سالار اور تیمور کو دیکھ لیا تھا۔
"ہاں۔" امامہ نے ایک نظر اسے دیکھا اور ایک بار پھر میگزین دیکھنے لگی۔
"کیا کہہ رہا تھا؟" وسیم نے کچھ تجسس سے پوچھا۔
"مجھے حیرت ہوتی ہے کہ تم نے اس جیسے شخص کے ساتھ دوستی کیسے کر لی ہے۔ میں نے زندگی میں اس سے زیادہ بے ہودہ اور بدتمیز لڑکا نہیں دیکھا۔" امامہ نے اکھڑے ہوئے لہجے میں کہا۔"میرا شکریہ ادا کر رہا تھا اور ساتھ مجھ سے کہہ رہا تھا کہ مجھے بینڈیج تک ٹھیک سے کرنی نہیں آتی، نہ میں بلڈ پریشر چیک کر سکتی ہوں۔"
وسیم کے چہرے پر مسکراہٹ آئی۔" اس کو دفع کرو، یہ عقل سے پیدل ہے۔"
"میرا دل تو چاہ رہا تھا کہ میں اسے دو ہاتھ اور لگاؤں، اس کے ہوش ٹھکانے آ جائیں۔ منہ اٹھا کر اپنے دوست کو لے کر پہنچ گیا ہے یہاں۔ بھئی! کس نے کہا ہے تم سے شکریہ ادا کرنے کو اور مجھے تو وہ دوسرا لڑکا بھی خاصا برا لگا اور وہ کہہ رہا تھا کہ تمہاری اس کے ساتھ بھی دوستی ہے۔" امامہ کو اچانک یاد آیا۔
"دوستی تو نہیں، بس جان پہچان ہے۔" وسیم نے وضاحت پیش کی۔" تمہیں ایسے لڑکوں کے ساتھ جان پہچان رکھنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ حلیہ دیکھا تھا تم نے ان دونوں کا۔ نہ انہیں بات کرنے کی تمیز تھی، نہ لباس پہننے کا سلیقہ اور منہ اٹھا کر شکریہ ادا کرنے آ گئے ہیں۔ بہرحال تم اس سے مکمل طور پر قطع تعلق کر لو۔ کوئی ضرورت نہیں ہے اس طرح کے لڑکوں سے جان پہچان کی بھی تمہیں۔"
امامہ نے میگزین رکھتے ہوئے ایک بار پھر اسے تنبیہ کی اور پھر باہر جانے کے لئے قدم بڑھا دئیے۔ وسیم بھی اس کے ساتھ چلنے لگا۔
"مگر میں ایک بات پر حیران ہوں یہ جس حالت میں تھا اسے کیسے یاد ہے کہ میں نے اس کی بینڈیج اچھی نہیں کی تھی یا بلڈپریشر لینے میں مجھے دقت ہو رہی تھی۔" امامہ نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
"میں یہ سمجھ رہی تھی کہ یہ ایسے ہی ہاتھ پاؤں جھٹک رہا ہے۔ مجھے یہ اندازہ نہیں تھا کہ یہ اپنے اردگرد ہونے والی چیزوں کو بھی observe کر رہا ہے۔"
"ایسے بینڈیج واقعی خراب کی تھی تم نے اور اگر میں تمہاری مدد نہ کرتا تو بلڈپریشر کی ریڈنگ لینا بھی تمہیں لینا نہیں آتی۔ کم از کم اس بارے میں وہ جو بھی کہہ رہا تھا ٹھیک کہہ رہا تھا۔" وسیم نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"ہاں، مجھے پتا ہے۔" امامہ نے اعتراف کرنے والے انداز میں کہا۔"مگر میں اس وقت بہت نروس تھی۔ میں پہلی بار اس طرح کی صورت حال کا شکار ہوئی تھی پھر اس کے ہاتھ سے نکلنے والا خون مجھے اور خوف زدہ کر رہا تھا اور اوپر سے اس کا رویہ۔۔۔۔۔ کسی خود کشی کرنے والے انسان کو اس طرح کی حرکتیں کرتے نہیں دیکھا تھا میں نے۔"
"اور تم ڈاکٹر بننے جا رہی ہو، وہ بھی ایک قابل اور نامور ڈاکٹر، ناقابل یقین۔" وسیم نے تبصرہ کیا۔
"اب کم از کم تم اس طرح کی باتیں نہ کرو۔" امامہ نے احتجاج کیا۔" میں نے اس لئے تمہیں یہ سب نہیں بتایا کہ تم مذاق اڑاؤ۔" وہ لوگ پارکنگ ایریا میں پہنچ گئے تھے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کچھ دنوں سے وہ جلال اور زینب کے رویے میں عجیب سی تبدیلی دیکھ رہی تھی۔ وہ دونوں اس سے بہت اکھڑے اکھڑے رہنے لگے تھے۔ ایک عجیب سا تناؤ تھا، جو وہ اپنے اور ان کے درمیان محسوس کر رہی تھی۔
اس نے ایک دو بار جلال کو ہاسپٹل فون کیا، مگر ہر بار اسے یہی جواب ملتا کہ وہ مصروف ہے۔ وہ زینب کو اگر کالج سے لینے بھی آتا تو پہلے کی طرح اس سے نہیں ملتا تھا اور اگر ملتا بھی تو صرف رسمی سی علیک سلیک کے بعد واپس چلا جاتا۔ وہ شروع میں اس تبدیلی کو اپنا وہم سمجھتی رہی مگر پھر زیادہ پریشان ہونے پر وہ ایک دن جلال کے ہاسپٹل چلی آئی۔
جلال کا رویہ بے حد سرد تھا۔ امامہ کو دیکھ کر اس کے چہرے پر مسکراہٹ تک نہیں آئی۔
"کافی دن ہو گئے تھے ہمیں ملے ہوئے، اس لئے میں خود چلی آ ئی۔" امامہ نے اپنے سارے اندیشوں کو جھٹکنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
"میری تو شفٹ شروع ہو رہی ہے۔"
امامہ نے حیرانی سے اسے دیکھا۔"زینب بتا رہی تھی کہ اس وقت آپ کی شفٹ ختم ہوتی ہے، میں اسی لئے اس وقت آئی ہوں۔"
وہ ایک لمحہ کے لئے خاموش رہا پھر اس نے کہا۔" ہاں صحیح ہے، مگر آج میری کوئی اور مصروفیت ہے۔"
وہ اس کا منہ دیکھ کر رہ گئی۔"جلال! آپ کسی وجہ سے مجھ سے ناراض ہیں؟" ایک لمحے کے توقف کے بعد اس نے کہا۔
"نہیں ، میں کسی سے ناراض نہیں ہوں۔" جلال نے اسی رکھائی سے کہا۔
"کیا آپ دس منٹ باہر آ کر میری بات سن سکتے ہیں؟"
جلال کچھ دیر اسے دیکھتا رہا پھر اس نے اپنا اوور آل اپنے بازو پر ڈال لیا اور کچھ کہے بغیر کمرے سے باہر نکل آیا۔
باہر جاتے ہی جلال نے اپنی رسٹ واچ پر ایک نظر ڈوڑائی۔ یہ شاید اس کے لئے بات شروع کرنے کا اشارہ تھا۔"آپ میرے ساتھ اس طرح مس بی ہیو کیوں کر رہے ہیں؟"
"کیا مس بی ہیو کر رہا ہوں؟" جلال نے اکھڑ انداز میں کہا۔
"آپ بہت دنوں سے مجھے اگنور کر رہے ہیں۔"
"ہاں، کر رہا ہوں۔"
امامہ کو توقع نہیں تھی کہ وہ اتنی صفائی سے اس بات کا اعتراف کر لے گا۔
"کیونکہ میں تم سے ملنا نہیں چاہتا۔" وہ کچھ لمحوں کے لئے کچھ نہیں بول سکی۔"کیوں؟"
"یہ بتانا ضروری نہیں۔" اس نے اسی طرح اکھڑ انداز میں کہا۔
"میں جاننا چاہتی ہوں کہ آپ کا رویہ یک دم کیوں تبدیل ہو گیا ہے۔ کوئی نہ کوئی وجہ تو ہو گی اس کی۔" امامہ نے کہا۔
"ہاں وجہ ہے مگر میں تمہیں بتانا ضروری نہیں سمجھتا۔ بالکل اسی طرح جس طرح تم بہت سی باتیں مجھے بتانا ضروری نہیں سمجھتیں۔"
"میں؟" وہ اس کا منہ دیکھنے لگی۔"میں نے کون سی باتیں آپ کو نہیں بتائیں؟"
"یہ کہ تم مسلمان نہیں ہو۔"جلال نے بڑے تلخ لہجے میں کہا۔ امامہ سانس تک نہیں لے سکی۔
"کیا تم نے یہ بات مجھ سے چھپائی نہیں؟"
"جلال! میں بتانا چاہتی تھی۔" امامہ نے شکست خوردہ انداز میں کہا۔
"چاہتی تھی۔۔۔۔۔ مگر تم نے بتایا تو نہیں۔۔۔۔۔ دھوکا دینے کی کوشش کی تم نے۔"
"جلال! میں نے آپ کو دھوکا دینے کی کوشش نہیں کی۔" امامہ نے جیسے احتجاج کیا۔" میں آپ کو کیوں دھوکا دوں گی؟"
"مگر تم نے کیا یہی ہے۔" جلال نے سر جھٹکتے ہوئے کہا۔
"جلال میں۔۔۔۔۔" جلال نے اس کی بات کاٹ دی۔
"تم نے جان بوجھ کر مجھے ٹریپ کیا۔" امامہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
"ٹریپ کیا؟" اس نے زیرلب جلال کے لفظوں کو دہرایا۔
"تم جانتی تھیں کہ میں اپنے پیغمبر ﷺ سے عشق کرتا ہوں۔"
وہ شکست خوردہ انداز میں اسے دیکھتی رہی۔
"شادی تو دور کی بات ہے۔ اب جب میں تمہارے بارے میں سب کچھ جان گیا ہوں تو میں تم سے کوئی تعلق رکھنا نہیں چاہتا۔ تم دوبارہ مجھ سے ملنے کی کوشش مت کرنا۔" جلال نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
"جلال! میں اسلام قبول کر چکی ہوں۔"امامہ نے مدھم آواز میں کہا۔
"اوہ کم آن۔" جلال نے تحقیر آمیز انداز میں اپنا ہاتھ جھٹکا۔" یہاں کھڑے کھڑے تم نے میرے لئے اسلام قبول کر لیا۔" اس بار وہ مذاق اڑانے والے انداز میں ہنسا۔
"جلال! میں آپ کے لئے مسلم نہیں ہوئی۔ آپ میرے لئے ایک ذریعہ ضرور بنے ہیں، مجھے کئی ماہ ہو گئے ہیں اسلام قبول کیے اور اگر آپ کو میری بات پر یقین نہیں ہے تو میں آپ کو ثبوت دے سکتی ہوں۔ آپ میرے ساتھ چلیں۔"
اس بار جلال کچھ الجھے ہوئے انداز میں اسے دیکھنے لگا
"میں مانتی ہوں میں نے آپ کی طرف پیش قدمی خود کی۔ آپ کے بقول میں نے آپ کو ٹریپ کیا۔ میں نے ٹریپ نہیں کیا۔ میں صرف بے بس تھی۔ آپ کے معاملے میں مجھے خود پر قابو نہیں رہتا تھا۔ آپ کی آواز کی وجہ سے، آپ جانتے ہیں میں نے آپ کو بتایا تھا میں نے پہلی بار آپ کو نعت پڑھتے سنا تو میں نے کیا محسوس کیا تھا۔ آپ کو اگر میرے بارے میں پہلے ہی یہ سب کچھ پتا چل جاتا تو آپ میرے ساتھ یہی سلوک کرتے جو اب کر رہے ہیں۔۔۔۔۔ مجھے صرف اس بات کا اندیشہ تھا جس کی وجہ سے میں نے آپ سے بہت کچھ چھپائے رکھا۔ بعض باتوں میں انسان کو اپنے اوپر اختیار نہیں ہوتا۔ مجھے بھی آپ کے معاملے میں خود پر کوئی اختیار نہیں ہوتا۔"
اس نے رنجیدگی سے کہا۔
"تمہارے گھر والوں کو اس بات کا پتا ہے؟"
"نہیں، میں انہیں نہیں بتا سکتی۔ میری منگنی ہو چکی ہے۔ میں نے آپ کو اس بارے میں بھی نہیں بتایا۔۔۔۔۔" وہ ایک لمحہ کے لئے رکی۔"مگر میں وہاں شادی نہیں کرنا چاہتی۔ میں آ پ سے شادی کرنا چاہتی ہوں ۔ میں صرف اپنی تعلیم مکمل ہونے کا انتظار کر رہی ہوں۔ تب میں اپنے پیروں پر کھڑی ہو جاؤں گی اور پھر میں آپ سے شادی کروں گی۔"
"چار پانچ سال بعد جب میں ڈاکٹر بن جاؤں گی تو شاید میرے پیرنٹس آپ سے میری شادی پر اس طرح اعتراض نہ کریں جس طرح وہ اب کریں گے۔ اگر مجھے یہ خوف نہ ہو کہ وہ میری تعلیم ختم کروا کر میری شادی اسجد سے کر دیں گے تو شاید میں انہیں ابھی اس بات کے بارے میں بتا دیتی کہ میں اسلام قبول کر چکی ہوں مگر میں ابھی پوری طرح ان پر ڈپینڈنٹ ہوں۔ میرے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ آپ وہ واحد راستہ تھے جو مجھے نظر آیا۔ مجھے واقعی آپ سے محبت ہے پھر میں آپ کو شادی کی پیشکش نہ کرتی تو اور کیا کرتی۔ آپ اس صورت حال کا اندازہ نہیں کر سکتے جس کا سامنا میں کر رہی ہوں۔۔۔۔۔ میری جگہ پر ہوتے تو آپ کو اندازہ ہوتا کہ میں جھوٹ بولنے کے لئے کتنی مجبور ہو گئی تھی۔"
جلال کچھ کہے بغیر پاس موجود لکڑی کے بینچ پر بیٹھ گیا وہ اب پریشان نظر آرہا تھا۔ امامہ نے اپنی آنکھیں پونچھ لیں۔
"کیا آپ کے دل میں میرے لئے کچھ بھی نہیں ہے؟ صرف اس لئے میرے ساتھ انوالو ہیں، کیونکہ میں آپ سے محبت کرتی ہوں؟"
جلال نے اس کے سوال کا جواب دینے کے بجائے اس سے کہا۔
"امامہ ! بیٹھ جاؤ۔۔ پورا پینڈورا باکس کھل گیا ہے میرے سامنے۔۔۔۔ اگر میں تمہاری صورت حال کا اندازہ نہیں کر سکتا تو تم بھی میری پوزیشن کو نہیں سمجھ سکتی۔"
امامہ اس سے کچھ فاصلے پر رکھی بینچ پر بیٹھ گئی۔
"میرے والدین کبھی غیر مسلم لڑکی سے میری شادی نہیں کریں گے۔ قطع نظر اس کے کہ میں اس سے محبت کرتا ہوں یا نہیں۔"
"جلال! میں غیر مسلم نہیں ہوں۔"
"تم اب نہیں ہو مگر پہلے تو تھیں اور پھر تمہارا خاندان۔۔۔۔۔"
"میں ان دونوں چیزوں کے بارے میں کچھ نہیں کر سکتی۔" امامہ نے بے بسی سے کہا۔
جلال نے جواب میں کچھ نہیں کہا کچھ دیر وہ دونوں خاموش رہے۔
"کیا آپ اپنے پیرنٹس کی مرضی کے بغیر مجھ سے شادی نہیں کر سکتے؟" کچھ دیر بعد امامہ نے کہا۔
"یہ بہت بڑا قدم ہو گا۔" جلال نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔" اور بالفرض میں یہ کام کرنے کا سوچ لوں تو بھی نہیں ہو سکتا۔ تمہاری طرح میں بھی اپنے پیرنٹس پر ڈیپنڈنٹ ہوں۔" جلال نے اپنی مجبوری بتائی۔
"مگر آپ ہاؤس جاب کر رہے ہیں اور چند سالوں میں اسٹیبلش ہو جائیں گے۔" امامہ نے کہا۔
"میں ہاؤس جاب کے بعد اسپیشلائزیشن کے لئے باہر جانا چاہتا ہوں اور یہ میرے پیرنٹس کی مالی مدد کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ اسپیشلائزیشن کے بعد ہی میں واپس آ کر اپنی پریکٹس اسٹیبلش کر سکتا ہوں تین چار سال اپنی اسٹڈیز ختم کرنے میں بھی لگ جائیں گے۔"
جلال نے اسے یاد دلایا۔
"پھر؟" امامہ نے اسے مایوسی سے دیکھا۔
"پھر یہ کہ مجھے سوچنے کا وقت دو۔ شاید میں کوئی رستہ نکال سکوں، میں تمہیں چھوڑنا نہیں چاہتا مگر میں اپنا کیرئیر بھی خراب نہیں کر سکتا۔ میرا پرابلم صرف یہ ہے کہ میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے جو کچھ ہے ماں باپ کا ہے اور وہ اپنی ساری جمع پونجی مجھ پر خرچ کر رہے ہیں یہ سوچ کر کہ میں کل کو ان کے لئے کچھ کروں گا۔"
وہ بات کرتے کرتے رکا۔"کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ تمہارے والدین اپنی مرضی سے تمہاری شادی مجھ سے کر دیں۔ اس صورت میں کم از کم میرے والدین کو یہ اعتراض تو نہیں ہو گا کہ تم نے اپنے والدین کی مرضی کے خلاف انہیں بتائے بغیر مجھ سے شادی کی؟"
وہ جلال کا چہرہ دیکھنے لگی۔" میں نہیں جانتی۔۔۔۔۔ ایسا ہو سکتا ہے یا نہیں۔ میں کچھ بھی نہیں کہہ سکتی۔ وہ میری بات مانیں گے یا نہیں۔ میں۔۔۔۔۔" امامہ نے کچھ مایوسی کے عالم میں بات ادھوری چھوڑ دی۔ جلال بات مکمل ہونے کا انتظار کرتا رہا۔
"میری فیملی میں آج تک کسی لڑکی نے اپنی مرضی سے باہر کسی لڑکے سے شادی نہیں کی۔ اس لئے میں یہ نہیں بتا سکتی کہ ان کا ردِعمل کیا ہو گا مگر میں یہ ضرور بتا سکتی ہوں کہ ان کا ردِعمل بہت برا ہو گا۔ بہت برا۔ وہ مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں لیکن مجھے یہ اجازت نہیں دے سکتے کہ میں اتنا بڑا قدم اٹھاؤں۔ آپ کو اندازہ ہونا چاہئیے کہ میرے بابا کو کتنی شرمندگی اور بے عزتی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ صرف میرے لئے تو وہ سب کچھ نہیں بدل دیں گے۔"
"اگر مجھے اپنی فیملی سے مدد کی توقع ہوتی تو میں گھر سے باہر سہاروں کی تلاش میں ہوتی نہ ہی آپ سے اس طرح مدد مانگ رہی ہوتی۔"
دھیمے لہجے میں اپنے آواز کی لرزش پر قابو پاتے ہوئے اس نے جلال سے کہا۔
"امامہ! میں تمہاری مدد کروں گا۔۔۔۔۔ میرے پیرنٹس میری بات نہیں ٹالیں گے۔ سمجھانے میں کچھ وقت لگے گا مگر میں تمہاری مدد کروں گا۔ میں انہیں منا لوں گا۔ تم ٹھیک کہتی ہو کہ مجھے تمہاری مدد کرنی چاہئیے۔"
وہ پرسوچ مگر الجھے ہوئے انداز میں اس سے کہہ رہا تھا۔ امامہ کو عجیب سی ڈھارس ہوئی۔ اسے جلال سے یہی توقع تھی۔
امامہ نے سوچا۔" میرا انتخاب غلط نہیں ہے۔"
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
قسط نمبر 17
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"یہ احمقانہ تجویز اسجد کے علاوہ کسی دوسرے کی ہو ہی نہیں سکتی۔ اسے احساس نہیں ہے کہ ابھی میں پڑھ رہی ہوں۔" امامہ نے اپنی بھابھی سے کہا۔
"نہیں اسجد نے یا اس کے گھر والوں نے ایسا کوئی مطالبہ نہیں کیا۔ بابا خود تمہاری شادی کرنا چاہ رہے ہیں۔" امامہ کی بھابھی نے رسانیت سے جواب دیا۔
"بابا نے کہا ہے؟ مجھے یقین نہیں آ رہا۔ جب میں نے میڈیکل میں ایڈمیشن لیا تھا تب ان کا دور دور تک ایسا کوئی خیال نہیں تھا۔ وہ تو انکل اعظم سے بھی یہی کہتے تھے کہ وہ میرے ہاؤس جاب کے بعد ہی میری شادی کریں گے۔ پھر اب اچانک کیا ہوا؟"امامہ نے بے یقینی سے کہا۔
"کوئی دباؤ ہو گا مگر مجھے تو امی نے یہی بتایا تھا کہ یہ خود بابا کی خواہش ہے۔" بھابھی نے کہا۔
"آپ انہیں بتا دیں کہ مجھے ہاؤس جاب سے پہلے شادی نہیں کرنی۔"
"ٹھیک ہے میں تمہاری بات ان تک پہنچا دوں گی مگر بہتر ہے تم اس سلسلے میں خود بابا سے بات کرو۔" بھابھی نے اسے مشورہ دیا۔
بھابھی کے کمرے سے جانے کے بعد بھی وہ کچھ پریشانی سے وہیں بیٹھی رہی۔ یہ اطلاع اتنی اچانک اور غیر متوقع تھی کہ اس کے پیروں کے نیچے سے محاورتاً نہیں حقیقتاً زمین نکل گئی تھی۔ وہ مطمئن تھی کہ اس کی ہاؤس جاب تک اس کی شادی کا مسئلہ زیر بحث نہیں آئے گا اور ہاؤس جاب کرنے کے بعد وہ اس قابل ہو جائے گی کہ خود کو سپورٹ کر سکے یا اپنی جلال سے شادی کے بارے میں فیصلہ کر سکے۔ تب تک جلال بھی اپنی ہاؤس جاب مکمل کر کے سیٹ ہو جاتا اور ان دونوں کے لئے کسی قسم کا کوئی مسئلہ کھڑا نہیں ہوتا مگر اب اچانک اس کے گھر والے اس کی شادی کی بات کر رہے تھے۔ آخر کیوں؟"
"نہیں اسجد اور اس کے گھر والوں نے مجھ سے اس طرح کا کوئی مطالبہ نہیں کیا۔ میں نے خودان سے بات کی ہے۔"
اس رات وہ ہاشم مبین کے کمرے میں موجود تھی۔ اس کے استفار پر ہاشم مبین نے بڑے اطمینان کے ساتھ کہا۔
"بات بھی کر لی ہے؟ آپ مجھ سے پوچھے بغیر کس طرح میری شادی ارینج کر سکتے ہیں۔" امامہ نے بے یقینی سے کہا۔
ہاشم مبین نے کچھ سنجیدگی سے اسے دیکھا۔" یہ نسبت تمہاری مرضی سے ہی طے ہوئی تھی۔ تم سے پوچھا گیا تھا۔" انہوں نے جیسے اسے یادہانی کرائی۔
"منگنی کی بات اور تھی۔۔۔۔۔ شادی کی بات اور ہے۔۔۔۔۔ آپ نے مجھ سے کہا تھا کہ ہاؤس جاب سے پہلے آپ میری شادی نہیں کریں گے۔" امامہ نے انہیں ان کا وعدہ یاد دلایا۔
"تمہیں اس شادی پر اعتراض کیوں ہے۔ کیا تم اسجد کو پسند نہیں کرتیں؟"
"بات پسند یا ناپسند کی نہیں ہے۔ اپنی تعلیم کے دوران میں شادی نہیں کرنا چاہتی۔ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ میں آئی اسپیشلسٹ بننا چاہتی ہوں۔ اس طرح آپ میری شادی کر دیں گے تو میرے سارے خواب ادھورے رہ جائیں گے۔"
"بہت سی لڑکیاں شادی کے بعد تعلیم مکمل کرتی ہیں۔ تم اپنی فیملی میں دیکھو ۔۔۔۔۔کتنی۔۔۔۔۔" ہاشم مبین نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
امامہ نے ان کی بات کاٹ لی۔ "وہ لڑکیاں بہت ذہین اور قابل ہوتی ہوں گی۔ میں نہیں ہوں۔ میں ایک وقت میں ایک ہی کام کر سکتی ہوں۔"
"میں اعظم بھائی سے بات کر چکا ہوں، وہ تو تاریخ طے کرنے کے لئے آنے والے ہیں۔" ہاشم مبین نے اس سے کہا۔
"آپ میری ساری محنت کو ضائع کر رہے ہیں۔ اگر آپ کو میرے ساتھ یہی کرنا تھا تو آپ کو چاہئیے تھا کہ آپ اس طرح کا کوئی وعدہ ہی نہ کرتے۔" امامہ نے ان کی بات پر ناراضی سے کہا۔
"جب میں نے تم سے وعدہ کیا تھا تب کی بات اور تھی۔۔۔۔۔ تب حالات اور تھے اب۔۔۔۔۔"
امامہ نے ان کی بات کاٹی۔" اب کیا بدل گیا ہے۔۔۔۔۔حالات میں کون سی تبدیلی آئی ہے جو آپ میرے ساتھ یہ سلوک کر رہے ہیں؟"
"میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ اسجد تمہاری تعلیم میں تمہارے ساتھ پورا تعاون کرے گا۔ وہ تمہیں کسی چیز سے منع نہیں کرے گا۔" ہاشم مبین نے اس کی بات کا جواب دیتے ہوئے کہا۔
"بابا مجھے اسجد کے ساتھ تعاون کی ضرورت نہیں ہے مجھے آپ کے تعاون کی ضرورت ہے۔ آپ مجھے میری تعلیم مکمل کرنے دیں۔" امامہ نے اس بار قدرے ملتجیانہ انداز میں کہا۔
"امامہ تم فضول ضد مت کرو۔۔۔۔۔ میں وہی کروں گا جو میں طے کر چکا ہوں۔" ہاشم مبین نے دو ٹوک انداز میں کہا۔" میں ضد نہیں کر رہی درخواست کر رہی ہوں۔ بابا پلیز میں ابھی اسجد سے شادی کرنا نہیں چاہتی۔" اس نے ایک بار پھر اسی ملتجیانہ انداز میں کہا۔
"تمہاری نسبت کو چار سال ہونے والے ہیں اور یہ ایک بہت لمبا عرصہ ہوتا ہے۔ اگر انہوں نے خود کچھ عرصے کے بعد کسی نہ کسی وجہ سے منگنی توڑ دی تو۔"
"تو کوئی بات نہیں کوئی قیامت نہیں آئے گی وہ منگنی توڑنا چاہیں تو توڑ دیں بلکہ ابھی توڑ دیں۔"
"تمہیں اس شرمندگی اور بے عزتی کا احساس نہیں ہے، جس کا سامنا ہمیں کرنا پڑے گا۔"
"کیسی شرمندگی بابا! یہ ان لوگوں کا اپنا فیصلہ ہو گا۔ اس میں ہماری تو کوئی غلطی نہیں ہو گی۔" اس نے انہیں قائل کرنے کی کوشش کی۔
"تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے یا پھر تم عقل سے پیدل ہو۔" ہاشم مبین نے اسے جھڑکتے ہوئے کہا۔
"بابا! کچھ نہیں ہو گا لوگ دو چار دن باتیں کریں گے پھر سب کچھ بھول جائیں گے۔آپ اس بارے میں خواہ مخواہ پریشان ہو رہے ہیں۔" امامہ نے قدرے بے فکری اور لاپرواہی سے کہا۔
"تم اس وقت بہت فضول باتیں کر رہی ہو۔ فی الحال تم یہاں سے جاؤ۔" ہاشم مبین نے ناگواری سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
امامہ بادل ناخواستہ وہاں سے چلی آئی مگر اس رات وہ خاصی پریشان رہی۔
اگلے دن وہ واپس لاہور چلی آئی۔ ہاشم مبین نے اس سے اس سلسلے میں دوبارہ بات نہیں کی لاہور آ کر وہ قدرے مطمئن ہو گئی اور ہر خیال کو ذہن سے جھٹکتے ہوئے اپنے امتحان کی تیاری میں مصروف ہو گئی۔
ہاشم مبین نے اس واقعہ کو ذہن سے نہیں نکالا تھا، وہ ایک محتاط طبیعت کے انسان تھے۔
وہ امامہ کے بارے میں پہلی بار اس وقت تشویش میں مبتلا ہوئے تھے، جب سکول میں تحریم کے ساتھ جھگڑے والا واقعہ پیش آیا تھا۔ اگرچہ وہ کوئی ایسا غیر معمولی واقعہ نہیں تھا مگر اس واقعے کے بعد انہوں نے احتیاطی تدابیر کے طور پر امامہ کی نسبت اسجد کے ساتھ طے کر دی تھی۔ ان کا خیال تھا اس طرح اس کا ذہن ایک نئے رشتے کی جانب مبذول ہو جائے گا اور اگر اس کے ذہن میں کوئی شبہ یا سوال پیدا ہوا بھی تو اس نئے تعلق کے بعد وہ اس بارے میں زیادہ تردد نہیں کرے گی۔ ان کا یہ خیال اور اندازہ صحیح ثابت ہوا تھا۔
امامہ کا ذہن واقعی تحریم کی طرف سے ہٹ گیا تھا۔ اسجد میں وہ پہلے بھی کچھ دلچسپی لیتی تھی مگر اس تعلق کے قائم ہونے کے بعد اس دلچسپی میں اضافہ ہو گیا تھا۔ ہاشم نے اسے بہت مطمئن اور مگن دیکھا تھا۔ وہ پہلے ہی کی طرح تمام مذہبی سرگرمیوں میں دلچسپی لیتی تھی۔
مگر اس بار جو کچھ وسیم نے انہیں بتایا تھا اس نے ان کے پیروں کے نیچے سے زمین نکال دی تھی۔ وہ فوری طور پر یہ نہیں جان سکے مگر انہیں یہ ضرور علم ہو گیا کہ امامہ کے عقائد اور نظریات میں خاصی تبدیلی آ چکی تھی اور یہ نہ صرف ان کے لئے بلکہ ان کے پورے خاندان کے لئے تشویش کا باعث تھا۔
وہ اپنی بڑی بیٹیوں کی طرح اسے بھی اعلیٰ تعلیم دلوانا چاہتے تھے اور یہ اس لئے بھی اہم تھا کہ اسے شادی کے بعد خاندان ہی میں جانا تھا۔ وہ خاندان بہت تعلیم یافتہ تھا۔ خود ان کا ہونے والا داماد اسجد بھی امامہ کو اعلیٰ تعلیم یافتہ دیکھنا چاہتا تھا۔ ہاشم مبین کے لئے اس کی تعلیم کا سلسلہ منقطع کر کے اسے گھر بٹھا لینا آسان نہیں تھا، کیونکہ اس صورت میں اسے اعظم مبین کو اس کی وجہ بتانی پڑتی اور امامہ سے سخت ناراض ہونے کے باوجود وہ نہیں چاہتے تھے کہ اعظم مبین اور ان کا خاندان امامہ کے ان بدلے ہوئے عقائد کے بارے میں جان کر برگشتہ اور بدظن ہوں اور پھر شادی کے بعد وہ اسجد کے ساتھ بری زندگی گزارے۔ انہوں نے ایک طرف اپنے گھر والوں کو اس بات کو راز رکھنے کی تاکید کی تو دوسری طرف امامہ کی منت سماجت پر اسے اپنی تعلیم جاری رکھنے کی اجازت دے دی۔
امامہ صبیحہ کے لیکچر اٹینڈ کرنے اور اس کے وہاں جانے یا جلال سے ملنے کے معاملے میں اس قدر محتاط تھی کہ اس کا یہ میل جول ان لوگوں کی نظروں میں نہیں آ سکا۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ جویریہ اور رابعہ کو بھی ہر چیز کے بارے میں اندھیرے میں رکھے ہوئے تھی۔ ورنہ اس کے بارے میں ضرور کوئی نہ کوئی خبر اِدھر اُدھر گردش کرتی اور ہاشم مبین تک بھی پہنچ جاتی مگر ایسا نہیں ہوا ہاشم مبین اس کی طرف سے مطمئن ہو گئے تھے، مگر امامہ کے اندر آنے والی ان تبدیلیوں نے انہیں تشویش میں مبتلا کر دیا تھا۔
ان کے دماغ میں جو واحد حل آیا تھا وہ اس کی شادی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ اس کی شادی کر دینے سے وہ خود امامہ کی ذمہ داری سے مکمل طور پر آزاد ہو جائیں گے۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے اس طرح اچانک اس کی شادی کا فیصلہ کر لیا تھا۔
"جلال! میرے پیرنٹس اسجد سے میری شادی کر دینا چاہتے ہیں۔" لاہور آنے کے بعد امامہ نے سب سے پہلے جلال سے ملاقات کی تھی۔
"مگر تم تو کہہ رہی تھی کہ وہ تمہاری ہاؤس جاب تک تمہاری شادی نہیں کریں گے۔" جلال نے کہا۔
"وہ ایسا ہی کہتے تھے، مگر اب وہ کہتے ہیں کہ میں اپنی تعلیم شادی کے بعد بھی جاری رکھ سکتی ہوں۔ اسجد لاہور میں گھر لے لے گا تو میں زیادہ آسانی سے اپنی تعلیم مکمل کر سکوں گی۔"
جلال اس کے چہرے سے اس کی پریشانی کا اندازہ کر سکتا تھا۔ جلال بھی یک دم فکر مند ہو گیا۔
"جلال ! میں اسجد سے شادی نہیں کر سکتی۔ میں کسی صورت اسجد سے شادی نہیں کر سکتی۔" وہ بڑبڑائی۔
"پھر تم اپنے پیرنٹس کو صاف صاف بتا دو۔" جلال نے یک دم کسی فیصلے پر پہنچتے ہوئے کہا۔
"کیا بتا دوں؟"
"یہی کہ تم مجھ سے شادی کرنا چاہتی ہو۔"
"آپ کو اندازہ نہیں ہے کہ وہ کس طرح ری ایکٹ کریں گے۔۔۔۔۔ مجھے انہیں پھر سب کچھ ہی بتانا پڑے گا۔" وہ بات کرتے کرتے کچھ سوچنے لگی۔
"جلال ! آپ اپنے پیرنٹس سے میرے سلسلے میں بات کریں۔ آپ انہیں میرے بارے میں بتائیں۔ اگر میرے پیرنٹس نے مجھ پر اور دباؤ ڈالا تو پھر مجھے پنا گھر چھوڑنا پڑے گا، پھر مجھے آپ کی مدد کی ضرورت ہو گی۔"
"امامہ! میں اپنے پیرنٹس سے بات کروں گا۔ وہ رضامند ہو جائیں گے۔ میں جانتا ہوں میں انہیں منا سکتا ہوں۔ " جلال نے اسے یقین دلایا پوری گفتگو کے دوران پہلی بار امامہ کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری۔
اگلے چند ہفتے وہ اپنے پیپرز کے سلسلے میں مصروف رہی، جلال سے بات نہ ہو سکی۔ آخری پیپر والے دن وسیم اسے لینے کے لئے لاہور آ گیا تھا۔ وہ اسے وہاں یوں دیکھ کر حیران رہ گئی۔
"وسیم! میں ابھی تو نہیں جا سکتی۔ آج تو میں پیپرز سے فارغ ہوئی ہوں مجھے ابھی یہاں کچھ کام ہیں۔"
"میں کل تک یہیں ہوں۔ اپنے دوست کے ہاں ٹھہر جاتا ہوں جب تک تم اپنے کام نمٹا لو پھر اکٹھے چلیں گے۔" وسیم نے اس کے لئے مدافعت کا آخری راستہ بھی بند کر دیا۔
"میں چلتی ہوں تمہارے ساتھ۔"امامہ نے کچھ بے دلی سے فیصلہ کرتے ہوئے کہا۔ اسے اندازہ تھا کہ وسیم اسے ساتھ لے کر ہی جائے گا۔
"تم اپنی چیزیں پیک کر لو۔ اب تم ساری چھٹیاں وہاں گزار کر ہی آنا۔" اسے واپس مڑتے دیکھ کر وسیم نے کہا۔
اس نے سر ہلا دیا مگر اس کا اپنی تمام چیزیں پیک کرنے یا اسلام آباد میں ساری چھٹیاں گزارنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ اس نے طے کیا تھا کہ وہ چند دن وہاں گزار کر کسی نہ کسی بہانے سے واپس لاہور آ جائے گی اور یہ ہی اس کی غلط فہمی تھی۔
رات کے کھانے پر وہ سب گھر والوں کے ساتھ کھانا کھا رہی تھی اور سب خوش گپیوں میں مصروف تھے۔
"پیپرز کیسے ہوئے تمہارے؟" ہاشم مبین نے کھانا کھاتے ہوئے اس سے پوچھا۔
"بہت اچھے ہوئے۔ ہمیشہ کی طرح۔" اس نے چاول کا چمچ منہ میں ڈالتے ہوئے کہا۔
"ویری گڈ۔ چلو پیپرز کی ٹینشن تو ختم ہوئی۔ اب تم کل سے اپنی شاپنگ شروع کر دو۔"
امامہ نے حیرانی سے انہیں دیکھا۔" شاپنگ؟کیسی شاپنگ؟"
"فرنیچر کی اور جیولر کے پاس پہلے چلے جانا تم لوگ۔ باقی چیزیں تو آہستہ آہستہ ہوتی رہیں گی۔"
ہاشم مبین نے اس کے سوال کا جواب دینے کے بجائے اس بار اپنی بیوی سے کہا۔
"بابا! مگر کس لئے؟" امامہ نے ایک بار پھر پوچھا۔"تمہاری امی نے بتایا نہیں تمہیں کہ ہم نے تمہاری شادی کی تاریخ طے کر دی ہے۔"
امامہ کے ہاتھ سے چمچ چھوٹ کر لپیٹ میں جا گرا۔ ایک لمحے میں اس کا رنگ فق ہو گیا تھا۔
"میری شادی کی تاریخ؟" اس نے بے یقینی سے باری باری سلمیٰ اور ہاشم کو دیکھا جو اس کے تاثرات پر حیران نظر آ رہے تھے۔
"ہاں تمہاری شادی کی تاریخ۔۔۔۔۔" ہاشم مبین نے کہا۔
"یہ آپ کیسے کر سکتے ہیں؟ مجھ سے پوچھے بغیر۔ مجھے بتائے بغیر۔" ہونق چہرے کے ساتھ انہیں دیکھ رہی تھی۔
"تم سے پچھلی دفعہ بات ہوئی تھی، اس سلسلے میں۔" ہاشم مبین یک دم سنجیدہ ہو گئے۔
"اور میں نے انکار کر دیا تھا۔میں۔"
ہاشم مبین نے اسے بات مکمل نہیں کرنے دی۔" میں نے تمہیں بتا دیا تھا کہ مجھے تمہارے انکار کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ میں اسجد کے گھر والوں سے بات کر چکا ہوں۔" ہاشم مبین نے تیز آواز میں کہا۔
ڈائیننگ ٹیبل پر یک دم گہری خاموشی چھا گئی کوئی بھی کھانا نہیں کھا رہا تھا۔
امامہ یک دم اپنی کرسی سے کھڑی ہو گئی۔" آئی ایم سوری بابا، مگر میں اسجد سے ابھی شادی نہیں کر سکتی۔آپ نے یہ شادی طے کی ہے۔ آپ ان سے بات کر کے اسے ملتوی کر دیں ورنہ میں خود ان سے بات کر لوں گی۔" ہاشم مبین کا چہرہ سرخ ہو گیا۔
"تم اسجد سے شادی کرو گی اور اسی تاریخ کو جو میں نے طے کی ہے۔ تم نے سنا؟" وہ بے اختیار چلائے۔
“It’s not fair” امامہ نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔
"اب تم مجھے یہ بتاؤ گی کیا فئیر ہے اور کیا نہیں۔ تم بتاؤ گی مجھے؟" ہاشم مبین کو اس کی بات پر اور غصہ آیا۔
"بابا! جب میں نے آپ سے کہا تھا کہ مجھے ابھی شادی نہیں کرنی تو آپ زبردستی کیوں کر رہے ہیں میرے ساتھ۔" امامہ بےا ختیار رونے لگی۔
"کر رہا ہوں زبردستی پھر میں حق رکھتا ہوں۔" وہ چلائے۔ امامہ اس بار کچھ کہنے کے بجائے اپنے ہونٹ بھنیچتے ہوئے سرخ چہرے کے ساتھ تیزی سے ڈائیننگ روم سے نکل آئی۔
"میں اس سے بات کرتی ہوں، آپ پلیز کھانا کھائیں۔ اتنا غصہ نہ کریں۔ وہ جذباتی ہے اور کچھ نہیں۔" سلمیٰ نے ہاشم مبین سے کہا اور خود وہ اپنی کرسی سے اٹھ کھڑی ہوئیں۔
ا ن کے کمرے سے نکلتے ہی وسیم کو دیکھ کر امامہ بے ختیار اٹھ کھڑی ہوئی۔
"تم دفع ہو جاؤ یہاں سے۔ نکل جاؤ۔"اس نے تیزی سے وسیم کے پاس جا کر اسے دھکا دینے کی کوشش کی وہ پیچھے ہٹ گیا۔
"کیوں؟ میں نے کیا کیا ہے؟"
"جھوٹ بول کر اور دھوکا دے کر تم مجھے یہاں لے آئے ہو۔ مجھے اگر لاہور میں پتا چل جاتا کہ تم اس لئے مجھے اسلام آباد لا رہے ہو تو میں کبھی یہاں نہ آتی۔" وہ دھاڑی۔
"میں نے وہی کیا جو مجھ سے بابا نے کہا۔ بابا نے کہا تھا میں تمہیں نہ بتاوں۔" وسیم نے وضاحت پیش کرنے کی کوشش کی۔
"پھر تم یہاں میرے پاس کیوں آئے ہو۔ بابا کے پاس جاؤ۔ ان کے پاس بیٹھو۔ بس یہاں سے دفع ہو جاؤ۔" وسیم ہونٹ بھینچتے ہوئے اسے دیکھتا رہا پھر کچھ کہے بنا کمرے سے نکل گیا۔
امامہ اپنے کمرے میں جا کر کمرے میں بیٹھ گئی۔ اس وقت اس کے پیروں سے صحیح معنوں میں زمین نکل چکی تھی۔ یہ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس کے گھر والے اس کے ساتھ اس طرح کر سکتے ہیں۔ وہ اتنے قدامت پرست یا کٹر نہیں تھے جتنے وہ اس وقت ہو گئے تھے۔ اسے ابھی بھی یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب اس کے ساتھ ہو رہا تھا۔ اس کا دل ڈوبنے لگا۔ مجھے اس صورت حال کا سامنا کرنا ہے۔ مجھے ہمت نہیں ہارنی۔ مجھے کسی نہ کسی طرح فوری طور پر جلال سے کانٹیکٹ کرنا ہے۔ وہ یقیناً اب تک اپنے پیرنٹس سے بات کر چکا ہو گا۔ اس سے بات کر کے کوئی نہ کوئی رستہ نکل آئے گا۔
وہ بے چینی سے کمرے میں ٹہلتے ہوئے سوچتی رہی۔ اس کے کمرے میں دوبارہ کوئی نہیں آیا۔
رات بارہ بجے کے بعد وہ اپنے کمرے سے نکلی۔ وہ جانتی تھی اس وقت تک سب سونے کے لئے جا چکے ہوں گے۔ اس نے جلال کے گھر کا نمبر ڈائل کرنا شروع کر دیا۔ فون کسی نے نہیں اٹھایا۔ اس نے یکے بعد دیگرے کئی بار نمبر ملایا۔ آدھ گھنٹہ تک اسی طرح کالز کرتے رہنے کے بعد اس نے مایوسی کے ساتھ فون رکھ دیا۔ وہ جویریہ یا رابعہ کو فون نہیں کر سکتی تھی۔ وہ دونوں اس وقت ہاسٹل میں تھی۔ کچھ دیر سوچتے رہنے کے بعد اس نے صبیحہ کا نمبر ڈائل کرنا شروع کر دیا۔ اس کے والد نے فون اٹھایا۔
"بیٹا! صبیحہ تو پشاور گئی ہے اپنی امی کے ساتھ۔" صبیحہ کے والد نے امامہ کو بتایا۔
"پشاور۔" امامہ کے دل کی دھڑکن رک گئی۔
"اس کے کزن کی شادی ہے۔ وہ لوگ ذرا پہلے چلے گئے ہیں۔ میں بھی کل چلا جاؤں گا۔" اس کے والد نے بتایا۔"کوئی پیغام ہو تو آپ مجھے دے دیں میں صبیحہ کو پہنچا دوں گا۔"
"نہیں شکریہ انکل!" وہ ان کے ساتھ اس سارے معاملے میں کیا بات کر سکتی تھی۔
اس نے فون رکھ دیا۔ اس کے ڈیپریشن میں اضافہ ہونے لگا۔ اگر میرا جلال سے کانٹیکٹ نہ ہوا تو، اس کا دل ایک بار پھر ڈوبنے لگا۔
ایک بار پھر اس نے جلال کا نمبر ڈائل کرنا شروع کر دیا اور تب ہی کسی نے اس کے ہاتھ سے ریسیور لے لیا۔ وہ سن ہو گئی ہاشم مبین اس کے پیچھے کھڑے تھے۔
"کس کو فون کر رہی ہو؟" ان کے لہجے میں بے حد ٹھہراؤ تھا۔
"دوست کو کر رہی تھی۔" امامہ نے ان کی طرف دیکھے بغیر کہا۔ وہ ان سے نظریں ملا کر جھوٹ نہیں بول سکتی تھی۔
"میں ملا دیتا ہوں۔" انہوں نے سرد آواز میں کہتے ہوئے ری ڈائل کا بٹن دبا دیا اور ریسیور کان سے لگا لیا۔ امامہ زرد چہرے کے ساتھ انہیں دیکھنے لگی۔ وہ کچھ دیر تک اسی طرح ریسیور کان سے لگائے کھڑے رہے پھر انہوں نے ریسیور کریڈل پر رکھ دیا۔ یقیناً دوسری طرف کال ریسیو نہیں کی گئی تھی۔
"کون سی دوست ہے یہ تمہاری جس کو تم اس وقت فون کر رہی ہو۔" انہوں نے درشت لہجے میں امامہ سے پوچھا۔
"زینب۔۔۔۔۔" فون کی ا سکرین پر زینب کا نمبر تھا اور وہ نہیں چاہتی تھی کہ ہاشم مبین کو زینب پر کسی قسم کا شک ہو اور وہ جلال تک جا پہنچیں، اس لئے اس نے ان کے استفار پر جلدی سے اس کا نام بتا دیا۔
"کس لئے کر رہی ہو؟"
"میں اس کے ذریعے جویریہ تک ایک پیغام پہنچانا چاہتی ہوں۔" اس نے تحمل سے کہا۔
"تم مجھے وہ پیغام دے دو، میں جویریہ تک پہنچا دوں گا، بلکہ ذاتی طور پر خود لاہور دے کر آوں گا۔"
"امامہ! مجھے صاف صاف بتاؤ کسی اور لڑکے میں انٹرسٹڈ ہو تم؟" انہوں نے کسی تمہید کے بغیر اچانک اس سے پوچھا۔ وہ انہیں کچھ دیر دیکھتی رہی پھر اس نے کہا۔
"ہاں!"
ہاشم مبین دم بخود رہ گئے۔"کسی اور لڑکے میں انٹرسٹڈ ہو؟" انہوں نے بے یقینی سے اپنا جملہ دہرایا۔ امامہ نے پھر اثبات میں سر ہلا دیا۔ ہاشم مبین نے بے ختیار اس کے چہرے پر تھپڑ کھینچ مارا۔
"مجھے اسی بات کا اندیشہ تھا تم سے، مجھے اسی بات کا اندیشہ تھا۔" وہ غصہ میں تنتنا سے گئے۔ امامہ گم صم اپنے گال پر ہاتھ رکھے انہیں دیکھ رہی تھی۔ یہ پہلا تھپڑ تھا جو ہاشم مبین نے اس کی زندگی میں اسے مارا تھا اور امامہ کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ تھپڑ اسے مارا گیا تھا۔ وہ ہاشم مبین کی سب سے لاڈلی بیٹی تھی پھر بھی انہوں نے۔۔۔۔۔ اس کے گالوں پر آنسو بہہ نکلے تھے۔
"اسجد کے علاوہ میں تمہاری شادی کہیں اور نہیں ہونے دوں گا۔ تم اگر کسی اور لڑکے میں انٹرسٹد ہو بھی تو اسے ابھی اور اسی وقت بھول جاؤ۔ میں کبھی۔۔۔۔۔ کبھی۔۔۔۔۔ کبھی تمہاری کہیں اور شادی نہیں ہونے دوں گا۔۔۔۔۔ اپنے کمرے میں چلی جاؤ۔۔۔۔۔ اور دوبارہ اگر میں نے تمہیں فون کے پا س بھی دیکھا تو میں تمہاری ٹانگیں توڑ دوں گا۔"
وہ اسی طرح گال پر ہاتھ رکھے میکانکی انداز میں چلتے ہوئے اپنے کمرے میں آ گئی۔ اپنے کمرے میں آ کر وہ بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔" کیا بابا مجھے ۔۔۔۔۔ مجھے اس طرح مار سکتے ہیں؟" اسے یقین نہیں آ رہا تھا۔ بہت دیر تک اسی طرح روتے رہنے کے بعد اس کے آنسو خود بخود خشک ہونے لگے۔ وہ اٹھ کر اضطراب کے عالم میں اپنے کمرے کی کھڑکی کی طرف آ گئی اور خالی الذہنی کے عالم میں بند کھڑکیوں کے شیشوں سے باہر دیکھنے لگی۔
نیچے اس کے گھر کا لان نظر آ رہا تھا اور پھر لاشعوری طور پر اس کی نظر دوسرے گھر پر پڑی۔ وہ سالار کا گھر تھا۔ اس کا کمرہ نچلی منزل پر تھا۔ دور سے کچھ بھی واضح نہیں ہو رہا تھا۔ اس کے باوجود وہ اس گھر میں ایک دفعہ جانے کے بعد اس کی لوکیشن اور کمرے میں پھرنے والے کے حیلے اور جسامت سے اندازہ لگا سکتی تھی کہ وہ سالار کے علاوہ کوئی اور نہیں ہو سکتا تھا۔
اس کے ذہن میں ایک جھماکا ہوا۔
"ہاں! یہ شخص میری مدد کر سکتا۔ اگر میں اسے ساری صورت حال بتا دوں اور اس سے کہوں کے لاہور جا کر جلال سے رابطہ کرے تو۔۔۔۔۔ تو میرا مسئلہ حل ہو سکتا ہے مگر اس سے رابطہ کیسے۔۔۔۔۔؟"
اس کے ذہن میں ایک دم اس کی گاڑی کے پچھلے شیشے پر لکھا ہوا اس کا موبائل نمبر اور نام یاد آیا۔ اس نے ذہن میں موبائل نمبر کو دہرایا، اسے کوئی دقت نہیں ہوئی۔ کاغذ کا ایک ٹکڑا لے کر اس نے احتیاط کے طور پر اس نمبر کو لکھ لیا۔ تین بجے کے قریب وہ آہستہ آہستہ ایک بار پھر لاؤنج میں آ گئی اور اس نے وہ نمبر ڈائل کرنا شروع کر دیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سالار نے نیند میں اپنے موبائل کی بیپ سنی تھی۔ جب لگاتار موبائل بجتا رہا تو اس نے آنکھیں کھول دیں اور قدرے ناگواری کے عالم میں بیڈ سائیڈ ٹیبل کو ٹٹولتے ہوئے موبائل اٹھایا۔
"ہیلو!" امامہ نے سالار کی آواز پہچان لی تھی، وہ فوری طور پر کچھ نہیں بول سکی۔
"ہیلو۔" اس کی خوابیدہ آواز دوبارہ سنائی دی۔"سالار!" اس نے اس کا نام لیا۔
"بول رہا ہوں۔" اس نے اسی خوابیدہ آواز میں کہا۔
"میں امامہ بول رہی ہوں۔" وہ کہنے والا تھا ۔"کون امامہ۔۔۔۔۔ میں کسی امامہ کو نہیں جانتا۔" مگر اس کے دماغ نے کرنٹ کی طرح اسے سگنل دیا تھا اس نے بے اختیار آنکھیں کھول دیں۔ وہ نام کے ساتھ اس کی آواز کو بھی پہچان چکا تھا۔
"میں وسیم کی بہن بول رہی ہوں۔" اس کی خاموشی پر امامہ نے اپنا تعارف کرایا۔
"میں پہچان چکا ہوں۔"سالار نے ہاتھ بڑھا کر بیڈ سائیڈ لیمپ کو آن کر دیا۔ اس کی نیند غائب ہو چکی تھی۔ ٹیبل پر پڑی ہوئی اپنی رسٹ واچ اٹھا کر وقت دیکھا۔ گھڑی تین بج کر دس منٹ بجا رہی تھی۔ اس نے قدرے بے یقینی سے ہونٹ سکوڑتے ہوئے گھڑی کو دوبارہ ٹیبل پر رکھ دیا۔ دوسری طرف اب خاموشی تھی۔
"ہیلو!" سالار نے اسے مخاطب کیا۔
"سالار! مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے۔" سالار کے ماتھے پر کچھ بل آئے۔" میں نے ایک بار تمہاری زندگی بچائی تھی، اب میں چاہتی ہوں تم میری زندگی بچاؤ۔" وہ کچھ نہ سمجھنے والے انداز میں اس کی بات سنتا رہا۔" میں لاہور میں کسی سے رابطہ کرنا چاہتی ہوں مگر کر نہیں پا رہی۔"
"کیوں؟"
"وہاں سے کوئی فون نہیں اٹھا رہا۔"
"تم رات کے اس وقت۔۔۔۔۔"
امامہ نے اس کی بات کاٹ دی۔" پلیز! اس وقت صرف میری بات سنو، میں دن کے وقت فون نہیں کر سکتی اور شاید کل رات کو بھی نہ کر سکوں۔ میرے گھر والے مجھے فون نہیں کرنے دیں گے، میں چاہتی ہوں کہ تم ایک ایڈریس اور فون نمبر نوٹ کر لو اور اس پر ایک آدمی سے کانٹیکٹ کرو، اس کا نام جلال انصر ہے، تم اس سے صرف یہ پوچھ کر بتا دو کہ میرے پیرنٹس نے یہاں میری شادی طے کر دی ہے اور وہ مجھے اب شادی کے بغٖیر لاہور آنے نہیں دیں گے۔"
سالار کو اچانک اس سارے معاملے سے دلچسپی پیدا ہونے لگی۔ کمبل کو اپنے گھٹنوں سے اوپر تک کھینچتے ہوئے وہ امامہ کی بات سنتا رہا۔ وہ ایک ایڈریس اور فون نمبر دہرا رہی تھی۔ سالار نے اس نمبر اور ایڈریس کو نو ٹ نہیں کیا۔ اس کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ اس نے پوچھا۔
"اور اگر میرے فون کرنے پر بھی کسی نے فون نہیں اٹھایا تو؟" جب وہ خاموش ہو گئی تو اس نے پوچھا۔
دوسری طرف لمبی خاموشی رہی پھر امامہ نے کہا۔" تم لاہور جا کر اس آدمی سے مل سکتے ہو۔۔۔۔۔ پلیز۔۔۔۔۔ یہ میرے لئے بہت ضروری ہے۔۔۔۔۔" اس بار امامہ کی آواز ملتجیانہ تھی۔
"اور اگر اس نے پوچھا کہ میں کون ہوں تو؟"
"تم جو چاہے اسے بتا دینا۔۔۔۔۔ مجھے اس سے دلچسپی نہیں ہے۔۔۔۔۔ میں صرف اس مصیبت سے چھٹکارا چاہتی ہوں۔"
"کیا یہ بہتر نہیں کہ ہے تم اس آدمی سے خود بات کرو۔" سالار نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
"میں تمہیں بتا چکی ہوں کہ شاید مجھے دوبارہ فون کا موقع نہ ملے اور فی الحال تو آدمی فون ریسیو نہیں کر رہا۔"
سالار نے اس کی بات کے جواب میں کچھ نہیں کہا اور اس نے مایوسی کے عالم میں مزید کچھ کہے بغیر فون رکھ دیا۔
سالار موبائل بند کرنے کے بعد کچھ دیر اسے ہاتھ میں لے کر بیٹھا رہا۔جلال انصر۔۔۔۔۔ امامہ ہاشم۔۔۔۔۔ رابطہ۔۔۔۔۔ پیرنٹس سے بات۔۔۔۔۔ زبردستی کی شادی۔۔۔۔۔" اس نے وہاں بیٹھے بیٹھے اس جگسا پزل کے ٹکڑوں کو جوڑنا شروع کر دیا۔ اس نے امامہ سے جلال کے بارے میں پوچھا نہیں تھا کہ اس سے امامہ کا تعلق کس طرح کا ہو سکتا تھا۔ وہ اپنی داہنی ٹانگ ہلاتے ہوئے ان دونوں کے بارے میں سوچتا رہا۔ اسے یہ صورت حال خاصی دلچسپ محسوس ہو رہی تھی کہ امامہ جیسی لڑکی اس طرح کے کسی افئیر میں انوالو ہو سکتی تھی۔۔۔۔۔ وہ اپنے لئے اس کی ناپسندیدگی سے بھی واقف تھا اور اسے یہ بات بھی حیران کر رہی تھی کہ اس سے باوجود وہ اس سے مدد مانگ رہی تھی۔
"یہ کیا کر رہی ہیں خاتون؟۔۔۔۔۔ مجھے استعمال کرنے کی کوشش۔۔۔۔۔ یا پھنسانے کی کوشش۔۔۔۔۔؟"
اس نے دلچسپی سے سوچا۔
کمبل اپنے سینے تک کھینچتے ہوئے آنکھیں بند کر لیں، مگر نیند اس کی آنکھوں سے مکمل طور پر دور تھی۔ وہ پچھلے کئی سالوں سے وسیم اور اس کے گھر والوں کو جانتا تھا۔ وہ امامہ کو بھی سرسری طور پر دیکھ چکا تھا۔۔۔۔۔ مگر ان ملاقاتوں میں اس نے امامہ پر کبھی غور نہیں کیا تھا۔ وہ اس کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں جانتا تھا۔ اس کے اپنے گھر والوں کے برعکس وسیم کا گھرانہ خاصا روایت پرست تھا اور وہ کبھی بھی اس طرح کھلے عام ان کے گھر نہیں جا سکا، جس طرح وہ اپنے دوسرے دوستوں کے گھروں میں جاتا تھا۔۔۔۔۔ مگر اس نے اس بات پر بھی کبھی زیادہ غور و خوض نہیں کیا تھا۔۔۔۔۔ اس کا خیال تھا کہ ہر خاندان کا اپنا ماحول اور روایات ہوتی ہیں، اسی طرح وسیم کے خاندان کی بھی اپنی روایات تھیں۔ اسے امامہ کے موڈ اور ٹمپرامنٹ کا تھوڑا اندازہ تھا۔
مگر اس طرح اچانک امامہ کی کال وصول کر کے وہ اس حیرت کے جھٹکے سے سنبھل نہیں پا رہا تھا جو اسے لگا تھا۔
جب وہ کافی دیر تک سونے میں کامیاب نہیں ہوا تو وہ کچھ جھنجھلا گیا۔
To hell with Imama and all the rest (بھاڑ میں جائے امامہ اور یہ سارا قصہ) وہ بڑبڑایا اور کروٹ لے کر اس نے تکیہ اپنے چہرے کے اوپر رکھ دیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
امامہ اپنے کمرے میں آ کر بھی اسی طرح بیٹھی رہی، اسے اپنے پیٹ میں گرہیں پڑتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔ صرف چند گھنٹوں میں سب کچھ بدل گیا تھا۔ وہ پوری رات سو نہیں سکی۔ صبح وہ ناشتے کے لئے باہر آئی۔ اس کی بھوک یک دم جیسے غائب ہو گئی تھی۔
دس ساڑھے دس بجے کے قریب اس نے پورچ میں کچھ گاڑیوں کے سٹارٹ ہونے اور جانے کی آوازیں سنیں۔ وہ جانتی تھی اس وقت ہاشم مبین اور اس کے بڑے بھائی آفس چلے جاتے تھے اور اسے ان کے آفس جانے کا انتظار تھا۔ ان کے جانے کے آدھ گھنٹہ بعد وہ اپنے کمرے سے باہر آئی۔ لاؤنج میں اس کی امی اور بھابھی بیٹھی ہوئی تھیں۔ وہ خاموشی سے فون کے پاس چلی گئی۔ اس نے فون کا ریسیور اٹھانے کے لئے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ اسے اپنی امی کی آواز سنائی دی۔
"تمہارے بابا کہہ کر گئے ہیں کہ تم کہیں فون نہیں کرو گی۔" اس نے گردن موڑ کر اپنی امی کو دیکھا۔
"میں اسجد کو فون کر رہی ہوں۔"
"کس لئے؟"
"میں اس سے بات کرنا چاہتی ہوں۔"
"وہی فضول باتیں جو تم رات کو کر رہی تھیں۔" سلمیٰ نے تیز لہجے میں کہا۔
"میں آپ کے سامنے بات کر رہی ہوں، آپ مجھے بات کرنے دیں۔۔۔۔۔ اگر میں نے کوئی غلط بات کی تو آپ فون بند کر سکتی ہیں۔" اس نے پرسکون انداز میں کہا اور شاید یہ اس کا انداز ہی تھا جس نے سلمیٰ کو کچھ مطمئن کر دیا۔
امامہ نے نمبر ڈائل کیا مگر وہ ا سجد کو فون نہیں کر رہی تھی۔ چند بار بیل بجنے کے بعد دوسری طرف فون اٹھا لیا گیا۔ فون اٹھانے والا جلال ہی تھا۔ خوشی کی ایک لہر امامہ کے اندر سے گزر گئی۔
"ہیلو! میں امامہ بول رہی ہوں۔" اس نے جلال کا نام لیے بغیر اعتماد سے کہا۔
"تم بتائے بغیر اسلام آباد کیوں چلی گئیں میں کل تم سے ملنے ہاسٹل گیا تھا۔" جلال نے کہا۔
"میں اسلام آباد آئی ہوں اسجد!" امامہ نے کہا۔
"اسجد!" دوسری طرف سے جلال کی آواز آئی۔" تم کس سے کہہ رہی ہو؟"
"مجھے بابا نے رات ہی بتایا کہ میری شادی کی تاریخ طے ہو گئی ہے۔"
"امامہ؟" جلال کو جیسے ایک کرنٹ لگا۔"شادی کی تاریخ۔" امامہ اس کی بات سنے بغیر اسی پرسکون انداز میں بولتی رہی۔" میں جاننا چاہتی ہوں کہ تم نے اپنے پیرنٹس سے بات کی ہے؟"
"امامہ! میں ابھی بات نہیں کر سکا۔"
"تو پھر تم بات کرو، میں تمہارے علاوہ کسی دوسرے سے شادی نہیں کر سکتی، یہ تم جانتے ہو۔۔۔۔۔ مگر میں اس طرح کی شادی نہیں کروں گی۔ تم اپنے پیرنٹس سے بات کرو اور پھر مجھے بتاؤ کہ وہ کیا کہتے ہیں۔"
"امامہ! کیا تمہارے پاس کوئی ہے۔" جلال کے ذہن میں اچانک ایک جھماکا ہوا۔
"ہاں۔"
"اس لئے تم مجھے اسجد کہہ رہی ہو؟"
"ہاں۔"
"میں اپنے پیرنٹس سے بات کرتا ہوں، تم مجھے دوبارہ رنگ کب کرو گی؟"
"تم مجھے بتا دو کہ میں تمہیں کب رنگ کروں؟"
"کل فون کر لو، تمہاری شادی کی تاریخ کب طے کی گئی ہے۔" جلال کی آواز میں پریشانی تھی۔
"یہ مجھے نہیں پتا۔"امامہ نے کہا۔
"ٹھیک ہے امامہ! میں آج ہی ا پنے پیرنٹس سے بات کرتا ہوں۔۔۔۔۔ اور تم پریشان مت ہونا۔۔۔۔۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔" اس نےا مامہ کو تسلی دیتے ہوئے فون بند کر دیا۔
امامہ نے شکر ادا کیا کہ اس کی بھابھی یا امی کو یہ شک نہیں ہو سکا کہ وہ اسجد سے نہیں کسی اور سے بات کر رہی تھی۔
"یہ شادی تمہارے بابا اور اعظم بھائی نے مل کر طے کی ہے۔ تمہارے یا اسجد کے کہنے پر وہ اسے ملتوی نہیں کریں گے۔" سلمیٰ نے اس بار قدرے نرم لہجے میں کہا۔
"امی! میں مارکیٹ تک جا رہی ہوں، مجھے کچھ ضروری چیزیں لینی ہیں۔" امامہ نے ان کی بات کا جواب دینے کے بجائے کہا۔
"فون کی بات دوسری ہے مگر میں تمہیں گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں سے سکتی۔ تمہارے بابا نہ صرف مجھے بلکہ چوکیدار کو بھی ہدایت کر گئے ہیں کہ تمہیں باہر جانے نہ دیں۔"
"آمی! آپ لوگ میرے ساتھ آخر اس طرح کیوں کر رہےہیں؟" امامہ نے کچھ بے بسی کے عالم میں صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔۔" میں نے آپ کو اپنی شادی سے تو منع نہیں کیا۔ میری ہاؤس جاب تک انتظار کر لیں، اس کے بعد میری شادی کر دیں۔"
"میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ تم شادی سے انکار کیوں کر رہی ہو، تمہاری شادی جلد ہو رہی ہے مگر تمہاری مرضی کے خلاف تو نہیں ہو رہی۔" اس بار اس کی بھابھی نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
"خواہ مخواہ کل رات سے پورا گھر ٹینشن کا شکا ر ہے اور میں تو تمہیں دیکھ کر حیران ہوں تم تو کبھی بھی اس طرح ضد نہیں کرتی تھیں پھر اب کیا ہو گیا ہے تمہیں۔۔۔۔۔ جب سے تم لاہور گئی ہو بہت عجیب ہو گئی ہو۔"
"اور ہمارے چاہنے سے ویسے بھی کچھ نہیں ہو گا۔ میں نے تمہیں بتایا ہے، تمہارے بابا نے طے کیا ہے یہ سب کچھ۔"
"آپ انہیں سمجھا تو سکتی تھیں۔" امامہ نے سلمیٰ کی بات پرا حتجاج کیا۔
"کس بات پر؟" سمجھاتی تو تب اگر مجھے کوئی بات قابلِ اعتراض لگتی اور مجھے کوئی بات قابلِ اعتراض نہیں لگی۔" سلمیٰ نے بڑے آرام سے کہا۔ امامہ غصہ کے عالم میں وہاں سے اٹھ کر اپنے کمرے میں آ گئی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
قسط نمبر 18
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سالار صبح خلاف معمول دیر سے اٹھا۔ گھڑی دیکھتے ہوئے اس نے کالج نہ جانے کا فیصلہ کیا۔ سکندر اور طیبہ کراچی گئے ہوئے تھے اور وہ گھر پر اکیلا ہی تھا، ملازم جس وقت ناشتہ لے کر آیا وہ ٹی وی آن کئے بیٹھا تھا۔
"ذرا ناصرہ کو اندر بھیجنا۔" اسے ملازم کو دیکھ کر کچھ یاد آیا۔ اس کے جانے کے چند منٹ بعد ناصرہ اندر داخل ہوئی۔
"جی صاحب! آپ نے بلایا ہے؟" ادھیڑ عمر ملازمہ نے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا۔
"ہاں، میں نے بلایا ہے۔۔۔۔ تم سے ایک کام کروانا ہے۔" سالار نے ٹی وی کا چینل بدلتے ہوئے کہا۔
"ناصرہ! تمہاری بیٹی وسیم کے گھر کام کرتی ہے نا؟" سالار اب ریموٹ رکھ کر اس کی طرف متوجہ ہوا۔
"ہاشم صاحب کے گھر؟" ناصرہ نے کہا۔
"ہاں، ان ہی کے گھر۔"
"ہاں جی کرتی ہے۔" وہ کچھ حیران ہو کر اس کا منہ دیکھنے لگی۔
"کس وقت جاتی ہے وہ ان کے گھر؟"
"اس وقت ان کے گھر پر ہی ہے۔۔۔۔۔کیا ہوا ہے۔۔۔۔۔ سالار صاحب؟" ناصرہ اب کچھ پریشان نظر آنے لگی۔
"کچھ نہیں۔۔۔۔۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ تم اس کے پاس جاؤ، یہ موبائل اسے دو اور اس سے کہو کہ یہ امامہ کو دےدے۔" سالار نے بڑے لاپرواہ انداز میں اپنا موبائل اٹھا کر اس کی طرف بڑھایا۔
ناصرہ ہکا بکا رہ گئی۔ میں آپ کی بات نہیں سمجھی۔
"یہ موبائل اپنی بیٹی کو دو اور اس سے کہو کسی کو بتائے بغیر یہ امامہ تک پہنچا دے۔"
"مگر کیوں؟"
"یہ جاننا تمہارے لئے ضروری نہیں ہے، تمہیں جو کہا ہے وہی کرو۔" سالار نے ناگواری کے عالم میں اسے جھڑکا۔
"لیکن اگر کسی کو وہاں پتا چل گیا تو۔۔۔۔۔" ناصرہ کی بات کو اس نے درشتی سے کاٹ دیا۔
"کسی کو پتا تب چلے گا جب تم اپنا منہ کھولو گی۔۔۔۔۔ اور تم اپنا منہ کھولو گی تو صرف تمہیں اور تمہاری بیٹی کو نقصان ہو گا اور کسی کو نہیں۔۔۔۔۔ لیکن اگر تم اپنا منہ بند رکھو گی تو نہ صرف کسی کو پتا نہیں چلے گا بلکہ تمہیں بھی خاصا فائدہ ہو گا۔"
ناصرہ نے اس بار کچھ کہے بغیر خاموشی سے وہ موبائل پکڑ لیا۔" میں پھر کہہ رہا ہوں۔۔۔۔۔ کسی کو اس موبائل کے بارے میں پتا نہیں چلنا چاہئیے۔" وہ اپنا والٹ نکال رہا تھا۔
ناصرہ سر ہلاتے ہوئے جانے لگی۔"ایک منٹ ٹھہرو۔" سالار نے اسے روکا۔ وہ اب اپنے والٹ سے کچھ کرنسی نوٹ نکال رہا تھا۔
"یہ لے لو۔" اس نے انہیں ناصرہ کی طرف بڑھا دئیے۔ ناصرہ نے ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ وہ نوٹ پکڑ لئے۔ وہ جن گھروں میں کام کرتی رہی تھی وہاں کے بچوں کے ایسے بہت سے رازوں سے واقف تھی، اسے بھی پیسے کمانے کا موقع مل گیا تھا۔ اس نے فوری اندازہ یہی لگایا تھا کہ امامہ اور سالار کا چکر چل رہا تھا اور یہ موبائل وہ تحفہ تھا جو اسے امامہ کو دینا تھا، مگر اسے حیرانی اس بات پر ہو رہی تھی کہ اس سب کا اسے پہلے پتا کیوں نہیں چلا۔۔۔۔۔ اور پھر امامہ۔۔۔۔۔ اس کی تو شادی ہو رہی تھی۔۔۔۔۔ پھر وہ کیوں اس طرح کی حرکتیں کر رہی تھی۔
"اور دیکھو ذرا مجھے، میں امامہ بی بی کو کتنا سیدھا سمجھتی رہی۔" ناصرہ کو اب اپنی بے خبری پر افسوس ہو رہا تھا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"ابو! میں آپ سے ایک بات کرنا چاہتا ہوں۔" جلال رات کو اپنے والد کے کمرے میں چلا آیا۔ اس کے والد اس وقت اپنی ایک فائل دیکھنے میں مصروف تھے۔
"ہاں آؤ، کیابات ہے۔" انہوں نے جلال کو دیکھتے ہوئے کہا۔ وہ ان کے پاس ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر وہ اسی طرح خاموش بیٹھا رہا، اس کے والد نے غور سے اس کا چہرہ دیکھا، انہیں یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ کچھ پریشان ہے۔" انہیں یک دم تشویش ہونے لگی۔
"ابو! میں شادی کرنا چاہتا ہوں۔" جلال نے کسی تمہید کے بغیر کہا۔
"کیا؟" انصر جاوید کو اس کے منہ سے اس جملے کی توقع نہیں تھی۔" تم کیا کرنا چاہتے ہو؟"
"میں شادی کرنا چاہتا ہوں۔"
"یہ فیصلہ تم نے یک دم کیسے کر لیا۔ کل تک تو تم باہر جانے کی تیاریوں میں مصروف تھے اوراب آج تم شادی کا ذکر لے بیٹھے ہو۔" انصر جاوید مسکرائے۔
"بس۔۔۔۔۔ معاملہ ہی کچھ ایسا ہو گیا ہے کہ مجھے آپ سے بات کرنی پڑ رہی ہے۔"
انصر جاوید سنجیدہ ہو گئے۔
"آپ نے زینب کی دوست امامہ کو دیکھا ہے۔" اس نے چند لمحوں کے توقف کے بعد کہا۔
"ہاں! تم اس میں انٹرسٹڈ ہو۔" انصر جاوید نے فوراً اندازہ لگایا۔
جلال نے اثبات میں سر ہلا دیا۔" مگر وہ لوگ تو بہت امیر ہیں۔۔۔۔۔ اس کا باپ بڑا صنعت کا ر ہے اور وہ مسلمان بھی نہیں ہے۔" انصر جاوید کا لہجہ بدل چکا تھا۔
"ابو ! وہ اسلام قبول کر چکی ہے، اس کی فیملی قادیانی ہے۔" جلال نے وضاحت کی۔
"اس کے گھر والوں کو پتا ہے؟"
"نہیں۔"
"تمہارا خیال ہے وہ یہ پرپوزل قبول کر لیں گے؟" انصر جاوید نے چبھتے ہوئے لہجہ میں پوچھا۔
"ابو! اس کی فیملی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔ ان لوگوں کی اجازت کی بغیر ہم شادی کرنا چاہتے ہیں۔"
تمہارا دماغ ٹھیک ہے؟" اس بار انصر جاوید نے بلند آواز میں کہا۔" میں تمہیں کسی حالت میں اجازت نہیں دے سکتا۔"
جلال کا چہرہ اتر گیا۔"ابو! میری اس کے ساتھ کمٹمنٹ ہے۔" اس نے مدھم آواز میں کہا۔
"مجھ سے پوچھ کر کمٹمنٹ نہیں کی تھی تم نے۔۔۔۔۔ اور اس عمر میں بہت ساری کمٹمنٹس ہوتی رہتی ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ بندہ اپنی زندگی خراب کر لے۔۔۔۔۔ انہیں اپنے پیچھے لگا کر ہم سب برباد ہو جائیں گے۔"
"ابو! میں خفیہ طور پر شادی کر لیتاہوں۔۔۔۔۔ کسی کو بتائیں گے نہیں تو کچھ بھی نہیں ہو گا۔"
"اور اگر پتا چل گیا تو۔۔۔۔۔ میں ویسے بھی تمہاری تعلیم کے مکمل ہونے تک تمہاری شادی کرنا نہیں چاہتا۔ ابھی تمہیں بہت کچھ کرنا ہے۔"
"ابو! پلیز۔۔۔۔۔ میں اس کے علاوہ کسی اور سے شادی نہیں کر سکتا۔" جلال نے مدھم آواز میں اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا۔
"اچھا۔۔۔۔۔ ایسا ہے تو تم اس سے کہو کہ وہ اپنے والدین سے اس سلسلے میں بات کرے۔ اگر اس کے والدین مان جاتے ہیں تو میں تم دونوں کی شادی کر دوں گا۔" انہوں نے تیز مگر حتمی لہجے میں کہا۔" مگر میں تمہاری شادی کسی ایسی لڑکی سے قطعی نہیں کروں گا جو اپنے گھر والوں کی مرضی کے خلاف تم سے شادی کرنا چاہے۔۔۔۔۔"
"ابو! آپ اس کا مسئلہ سمجھیں۔ وہ بری لڑکی نہیں ہے۔۔۔۔۔ وہ بہت اچھی لڑکی ہے۔ بس وہ کسی مسلمان سے شادی کرنا چاہتی ہے جس پر اس کے گھر والے راضی نہیں ہوں گے۔" جلال نے دانستہ طور پر اسجد اور اس کی منگنی کا ذکر گول کر دیا۔
"مجھے کسی دوسرے کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور تمہیں بھی نہیں ہونی چاہئیے۔ یہ امامہ کا مسئلہ ہے، وہ جانے۔ تم اپنے کام سے کام رکھو۔ اپنے مستقبل کے بارے میں سوچو۔" انصر جاوید نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
"ابو ! پلیز۔۔۔۔۔ میری بات سمجھیں۔ اس کو مدد کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔"
"بہت سے لوگوں کو مدد کی ضرورت ہوتی ہے تم کس کس کی مدد کرو گے۔۔۔۔۔ اور ویسے بھی ہمارے اور ان کے اسٹیٹس میں اتنا فرق ہے کہ ان سے کوئی دشمنی یا مخالفت مول لینا ہمارے بس کی بات نہیں، سمجھے تم اور پھر میں ایک غیر مسلم لڑکی سے شادی کر کے اپنے خاندان والوں کا سامنا کیسے کروں گا۔"
ابو! وہ مسلمان ہو چکی ہے۔۔۔۔۔ میں نے آپ کو بتایا ہے۔" جلال نے جھنجھلا کر کہا۔
"چار ملاقاتوں میں وہ تم سے اتنی متاثر ہو گئی کہ ا س نے اسلام قبول کر لیا۔"
"ابو! اس نے مجھے ملنے سے پہلے اسلام قبول کر لیا تھا۔"
"تم نے اسلام قبول کرتے دیکھا تھا اسے؟"
"میں اس سے مذہب کے بارے میں تفصیلاً بات کرتارہا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ وہ اسلام قبول کر چکی ہے۔"
"بالفرض وہ ایسا کر بھی چکی ہے۔۔۔۔۔ تو پھر اسے اپنے مسائل سے خود نمٹنا چاہئیے۔ تمہیں بیچ میں نہیں گھسیٹنا چاہئیے۔ اپنے والدین سے دو ٹوک بات کرے، انہیں بتائے کہ وہ تم سے شادی کرنا چاہتی ہے۔۔۔۔۔ پھر میں اور تمہاری امی دیکھیں گے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں۔۔۔۔۔ دیکھو جلال اگر اس کا خاندان اپنی مرضی اور خوشی سے اس کی شادی تمہارے ساتھ کرنے پر تیار ہو جائے تو میں اسے بخوشی قبول کر لوں گا۔۔۔۔۔ مگر کسی بے نام و نشان لڑکی سے میں تمہاری شادی نہیں کروں گا۔ مجھے اس معاشرہ میں رہنا ہے۔۔۔۔۔ لوگوں کو منہ دکھانا ہے۔۔۔۔۔ بہو کے خاندان کے بارے میں کیا کہوں گا میں کسی سے۔۔۔۔۔ یہ کہ وہ گھر چھوڑ کر آئی ہے اور اس نے اپنی مرضی سے میرے بیٹے سے شادی کر لی ہے۔"
"ابو! یہ ہمارا مذہبی فریضہ ہے کہ ہم اس کی مدد کریں اور۔۔۔۔۔" انصر جاوید نے تلخی سے اس کی بات کاٹ دی۔
"مذہب کو بیچ میں مت لے کر آؤ، ہر چیز میں مذہب کی شرکت ضروری نہیں ہوتی۔ صرف تم ہی یہ مذہبی فریضہ ادا کرنے والے رہ گئے ہو، باقی سارے مسلمان مر گئے ہیں۔"
"ابو! اس نے مجھ سے مدد مانگی ہے، میں اس لئے کہہ رہا ہوں۔"
"بیٹا! یہاں بات مدد کی یا مذہب کی نہیں ہے، یہاں صرف زمینی حقائق کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ بہت اچھی بات ہے کہ تم میں مدد کا جذبہ ہے اور تمہیں اپنے مذہبی فرائض کا احساس ہے مگر انسان پر کچھ حق اس کے والدین کا بھی ہوتا ہے اور یہ حق بھی مذہب نے ہی فرض کیا ہے اور اس حق کے تحت میں چاہتا ہوں کہ تم اس کے خاندان کی مرضی کے بغیر اس سے شادی نہ کرو۔۔۔۔۔ فرض کرو تم اس سے شادی کر بھی لیتے ہو۔۔۔۔۔ تو کیا ہو گا۔۔۔۔۔ تم تو چند ماہ میں امریکہ ہو گے۔۔۔۔۔ اور وہ یہاں گھر بیٹھی ہو گی۔۔۔۔ میرے پاس اتنا پیسہ نہیں ہے کہ میں تم چاروں کی تعلیم پر بھی خرچ کروں اور اس کی تعلیم پر بھی۔۔۔۔۔ تم اچھی طرح جانتے ہو کہ تم پر میرا کتنا پیسہ خرچ ہو رہا ہے۔۔۔۔۔ تو وہ ڈاکٹر تو نہیں بنے گی۔۔۔۔۔ یہاں گھر میں کتنے سال تم اسے بٹھا سکتے ہو۔۔۔۔۔ اور اگر اس کے خاندان نے تم پر یا ہم پر کیس کر دیا تو اس صورت میں تم بھی پابند ہو کر رہ جاؤ گے اور میں بھی۔۔۔۔۔ تم کو اپنی بہن کا احساس ہونا چاہئیے، تم یہ چاہتے ہو کہ اس عمر میں، میں جیل چلا جاؤں۔۔۔۔۔ اور شاید تم بھی۔۔۔۔۔"
جلال کچھ بول نہیں سکا۔
"ان چیزوں کے بارے میں اتنا جذباتی ہو کر نہیں سوچنا چاہئیے۔ میں نے تمہیں راستہ بتا دیا ہے۔۔۔۔۔ اس سے کہو اپنے والدین سے بات کر کے انہیں رضامند کرے۔۔۔۔۔ ہو سکتا ہے وہ رضامند ہو جائیں پھر مجھے کیا اعتراض ہو گا تم دونوں کی شادی پر لیکن اگر وہ یہ نہیں کرتی تو پھر اس سے کہو کہ وہ کسی اور سے شادی کر لے اور تم ٹھنڈے دل سے سوچو، تمہیں خود پتا چل جائے گا کہ تمہارا فیصلہ کتنا نقصان دہ ہے۔"
انصر جاوید نے آخری کیل ٹھونکی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"باجی ! میں آپ کا کمرہ صاف کر دوں؟"ملازمہ نے دروازے پر دستک دیتے ہوئے امامہ سے پوچھا۔
"نہیں ، تم جاؤ۔"امامہ نے ہاتھ کے اشارے سے اسے جانے کے لیے کہا۔ملازمہ باہر جانے کی بجائے دروازہ بند کر کے اس کے پاس آ گئی۔
"میں نے تم سے کہا ہے نا کہ تم۔۔۔۔۔"امامہ نے کچھ کہنے کی کوشش کی مگر پھر اس کی بات حلق میں ہی رہ گئی۔ملازمہ نے اپنی چادر کے اندر سے ایک موبائل نکالا تھا۔ امامہ حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔
"باجی ! یہ میری ماں نے دیا ہے ، وہ کہہ رہی تھی کہ ساتھ والے سالار صاحب نے آپ کے لیے دیا ہے۔"اس نے امامہ کی طرف عجلت کے عالم میں وہ موبائل بڑھایا۔ امامہ نے تیزی سے موبائل کو جھپٹ لیا۔ اس کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔
"دیکھو ، تم کسی کو بتانا مت کہ تم نے مجھے کوئی موبائل لا کر دیا ہے۔"امامہ نے اسے تاکید کی۔
"نہیں باجی ! آپ بےفکر رہیں ، میں نہیں بتاؤں گی۔ اگر آپ کو بھی کوئی چیز سالار صاحب کے لیے دینی ہو تو مجھے دے دیں۔"
"نہیں ، مجھے کچھ نہیں دینا ، تم جاؤ۔"اس نے اپنے حواس پر قابو پاتے ہوئے کہا۔
ملازمہ کے کمرے سے نکلتے ہی اس نے کمرے کو لاک کر لیا۔ کانپتے ہاتھوں اور دل کی بےقابو ہوتی ہوئی دھڑکنوں کے ساتھ اس نے دراز سے موبائل اور اس پر جلال کا نمبر ڈائل کرنا شروع کیا۔ وہ اسے تفصیل سے ساری بات بتانا چاہتی تھی۔فون جلال کی امی نے اٹھایا۔
"بیٹا ! جلال تو باہر گیا ہوا ہے ، وہ تو رات کو ہی آئے گا۔تم زینب سے بات کر لو۔اسے بلا دوں؟"جلال کی امی نے کہا۔
"نہیں آنٹی ! مجھے کچھ جلدی ہے ، میں زینب سے پھر بات کر لوں گی۔بس میں نے ان سے چند کتابوں کا کہا تھا ، مجھے ان ہی کے بارے میں پوچھنا تھا۔میں دوبارہ فون کر لوں گی۔"امامہ نے فون بند کرتے ہوئے کہا۔
امامہ نے اس دن دوپہر کو بھی کھانا نہیں کھایا۔وہ صرف رات ہونے کا انتظار کر رہی تھی تاکہ جلال گھر آ جائے اور وہ اس سے دوبارہ بات کر سکے۔شام کے وقت ملازمہ نے اسے اسجد کے فون کی اطلاع دی۔
وہ جس وقت نیچے آئی اس وقت لاؤنج میں صرف وسیم بیٹھا ہوا تھا۔وہ اسے مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے فون کی طرف چلی گئی۔فون کا ریسیور اٹھاتے ہی دوسری طرف اسجد کی آواز سنائی دی تھی۔بےاختیار امامہ کا خون کھولنے لگا۔یہ جاننے کے باوجود کہ اس شادی کو طے کرنے میں اسجد سے زیادہ خود ہاشم مبین کا ہاتھ تھا۔امامہ کو اس پر غصہ آ رہا تھا۔
وہ اس کا حال دریافت کر رہا تھا۔
" اسجد ! تم نے اس طرح میرے ساتھ دھوکا کیوں کیا ہے؟"
"کیسا دھوکہ امامہ ! "
"شادی کی تاریخ طے کرنا۔۔۔۔۔تم نے اس سلسلے میں مجھ سے بات کیوں نہیں کی۔"وہ کھولتے ہوئے بولی۔
"کیا انکل نے تم سے بات نہیں کی۔"
"انہوں نے مجھ سے پوچھا تھا اور میں نے ان سے کہا تھا کہ میں ابھی شادی کرنا نہیں چاہتی۔"
"بہر حال اب تو کچھ نہیں ہو سکتا۔۔۔۔۔اور پھر کیا فرق پڑتا ہے کہ شادی اب ہو یا کچھ سالوں کے بعد۔"اسجد نے قدرے لاپرواہی سے کہا۔
"اسجد ! تمہیں فرق پڑتا ہو یا نہیں ، مجھے پڑتا ہے۔میں اپنی تعلیم مکمل کرنے تک شادی نہیں کرنا چاہتی۔۔۔۔۔اور یہ بات تم اچھی طرح جانتے تھے۔"
"ہاں ، میں جانتا ہوں مگر اس سارے معاملے میں ، میں تو کہیں بھی انوالو نہیں ہوں۔تمہیں بتا رہا ہوں ، شادی انکل کے اصرار پر ہی ہو رہی ہے۔"
"تم اسے رکوا دو۔"
"تم کیسی باتیں کر رہی ہو امامہ ! میں اسے کیسے رکوا دوں۔"اسجد نے کچھ حیرانی سے کہا۔
"اسجد پلیز ! "
"امامہ ! میں ایسا نہیں کر سکتا ، تم میری پوزیشن سمجھو۔اب تو ویسے بھی کارڈ چھپ چکے ہیں ، دونوں گھروں میں تیاریاں ہو رہی ہیں اور۔۔۔۔۔۔"
امامہ نے اس کی بات سنے بغیر ریسیور پٹخ دیا۔وسیم نے اس پوری گفتگو میں کوئی مداخلت نہیں کی تھی۔وہ خاموشی سے اسجد کے ساتھ ہونے والی اس کی گفتگو سنتا رہا تھا جب امامہ نے فون بند کر دیا تو وسیم نے اس سے کہا۔
"تم خوامخواہ ایک فضول بات پر اتنا ہنگامہ کھڑا کر رہی ہو۔کل بھی تو تم نے شادی اسجد کے ساتھ ہی کرنی ہے پھر اس طرح کر کے تم خود اپنے لئے مسائل پیدا کر رہی ہو۔بابا تم سے بہت ناراض ہیں۔"
"میں نے تم سے تمہاری رائے نہیں مانگی ، تم اپنے کام سے کام رکھو۔جو کچھ تم میرے ساتھ کر چکے ہو وہ کافی ہے۔"
امامہ اس پر غرائی اور پھر واپس کمرے میں آ گئی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ رات کو بھی اپنے کمرے سے نہیں نکلی تھی مگر ملازم کے کھانا لانے پر اس نے کھانا کھا لیا تھا۔رات کو گیارہ بجے کے قریب اس نے جلال کو فون کیا۔فون جلال نے ہی اٹھایا تھا۔شاید وہ امامہ کے فون کی توقع کر رہا تھا۔مختصر سی تمہید کے بعد وہ اصل موضوع کی طرف آ گیا۔
"امامہ ! میں نے ابو سے کچھ دیر پہلے بات کی ہے۔"اس نے امامہ سے کہا۔
"پھر؟"وہ اس کے استفسار پر چند لمحے خاموش رہا پھر اس نے کہا۔
"ابو ! اس شادی پر رضامند نہیں ہیں۔"
امامہ کا دل ڈوب گیا۔"مگر آپ تو کہہ رہے تھے انہیں اس شادی پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔"
"ہاں ، میرا یہی خیال تھا مگر انہیں بہت ساری باتوں پر اعتراض ہے۔وہ سمجھتے ہیں تمہارے اور ہمارے گھرانے کے اسٹیٹس میں بہت فرق ہے۔۔۔۔۔اور وہ تمہارے خاندان کے بارے میں بھی جانتے ہیں اور انہیں سب سے بڑا اعتراض اس بات پر ہے کہ تم اپنے گھر والوں کی مرضی کے بغیر مجھ سے شادی کرنا چاہتی ہو۔انہیں یہ خوف ہے کہ اس صورت میں تمہارے گھر والے میرے گھر والوں کو تنگ کریں گے۔"
وہ ساکت بیٹھی موبائل کان سے لگائے اس کی آواز سنتی رہی۔"آپ نے انہیں رضامند کرنے کی کوشش نہیں کی۔"ایک لمبی خاموشی کے بعد اس نے کہا۔
"میں نے بہت کوشش کی۔انہوں نے مجھ سے کہا ہے کہ اگر تمہارے گھر والے اس شادی پر تیار ہو جاتے ہیں تو پھر وہ بھی راضی ہو جائیں گے۔اس بات کی پرواہ کیے بغیر کہ تمہارا خاندان کیا ہے لیکن تمہارے گھر والوں کی مرضی کے بغیر وہ میری اور تمہاری شادی کو تسلیم نہیں کریں گے۔"جلال نے اس سے کہا۔
"اور آپ۔۔۔۔۔آپ کیا کہتے ہیں؟"
"امامہ ! میری کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا۔"جلال نے کچھ بےبسی کے عالم میں کہا۔
"جلال ! میرے پیرنٹس کبھی آپ سے میری شادی پر تیار نہیں ہوں گے ، بصورتِ دیگر ہماری پوری کمیونٹی ان کا بائیکاٹ کر دے گی اور وہ یہ کبھی برداشت نہیں کر سکتے اور پھر آپ اسجد سے میری منگنی کو کیوں بھول رہے ہیں۔"
"امامہ ! تم پھر بھی اپنے والدین سے بات تو کرو ، ہو سکتا ہے کوئی راستہ نکل آئے۔"
"میں کل بابا سے تھپڑ کھا چکی ہوں۔صرف یہ بتا کر کہ میں کسی دوسرے میں انٹرسٹڈ ہوں۔"امامہ کی آواز بھرانے لگی۔"اگر انہیں یہ پتا چل گیا کہ میں جسے پسند کرتی ہوں وہ ان کے مذہب کا نہیں ہے تو وہ مجھے مار ڈالیں گے۔پلیز آپ انکل سے بات کریں۔آپ انہیں میرا پرابلم بتائیں۔"اس نے ملتجیانہ لہجے میں کہا۔
"میں ابو سے کل دوبارہ بات کروں گا اور امی سے بھی۔۔۔۔۔پھر میں تمہیں بتاؤں گا کہ وہ کیا کہتے ہیں۔"جلال پریشان تھا۔
امامہ نے جس وقت اس سے بات کرنے کے بعد فون بند کیا وہ بےحد دل گرفتہ تھی۔اس کے وہم و گمان میں بھی یہ نہیں تھا کہ جلال کے والدین کو اس شادی پر اعتراض ہو گا۔
موبائل ہاتھ میں لیے وہ بہت دیر تک خالی الذہنی کے عالم میں بیٹھی رہی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"تمہارے ابو مجھ سے پہلے ہی اس سلسلے میں بات کر چکے ہیں اور جو وہ کہہ رہے ہیں وہ بالکل ٹھیک ہے۔تم کو اس طرح کے خطروں میں کودنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔"جلال کی امی نے قطعی لہجے میں اس سے کہا۔وہ امامہ کے کہنے پر ان سے بات کر رہا تھا۔
"مگر امی ! اس میں خطرے والی کیا بات ہے۔۔۔۔۔کچھ بھی نہیں ہو گا ، آپ خوامخواہ خوفزدہ ہو رہی ہیں۔"جلال نے کچھ احتجاجی انداز میں کہا۔
"تم حماقت کی حد تک بےوقوف ہو۔"اس کی امی نے اس کی بات پر اسے جھڑکا۔"امامہ کے خاندان اور اس کے والد کو تمہارے ابو بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔تم کیا سمجھتے ہو کہ تمہارے ساتھ شادی ہونے کی صورت میں وہ تمہارا پیچھا چھوڑ دیں گے یا ہمیں کچھ نہیں کہیں گے۔"
"امی ! ہم اس شادی کو خفیہ رکھیں گے ، کسی کو بھی نہیں بتائیں گے۔میں اسپیشلائزیشن کے لئے باہر جانے کے کچھ عرصہ بعد اسے بھی وہاں بلوا لوں گا۔سب کچھ خفیہ ہی رہے گا کسی کو بھی پتہ نہیں چلے گا۔"
"ہم آخر ! امامہ کے لئے کیوں اتنا بڑا خطرہ مول لیں اور تمہیں ویسے بھی یہ پتا ہونا چاہئیے کہ ہمارے یہاں اپنی فیملی میں ہی شادی ہوتی ہے۔ہمیں امامہ یا کسی اور کی ضرورت نہیں ہے۔"امی نے موضوع بدلتے ہوئے کہا۔
"مجھے اگر یہ اندازہ ہوتا کہ تم اس طرح اس لڑکی میں دلچسپی لینا شروع کر دو گے تو میں اس سے پہلے ہی تمہاری کہیں نسبت طے کر دیتی۔"اس کی امی نے قدرے ناراضی سے کہا۔
"امی ! میں امامہ کو پسند کرتا ہوں۔"
"اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تم اسے پسند کرتے ہو یا نہیں۔اہم بات یہ ہے کہ اس بارے میں ، میں اور تمہارے ابو کیا سوچتے ہیں۔۔۔۔۔اور ہم دونوں کو نہ تو وہ پسند ہے اور نہ ہی اس کا خاندان۔"امی نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
"امی ! وہ بہت اچھی لڑکی ہے ، آپ اسے بہت اچھی طرح جانتی ہیں ، وہ یہاں آتی رہی ہے اور تب تو آپ اس کی بہت زیادہ تعریف کرتی تھیں۔"جلال نے انہیں یاد دلایا۔
"تعریف کرنے کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ میں اسے اپنی بہو بنا لوں۔"وہ خفگی سے بولیں۔
"امی ! کم از کم آپ تو ابو جیسی باتیں نا کریں۔تھوڑا سا ہمدردی سے سوچیں۔"اس بار جلال نے لجاجت آمیز لہجے میں کہا۔
"جلال ! تمہیں احساس ہونا چاہئیے کہ تمہاری اس ضد اور فیصلے سے ہمارے پورے خاندان پر کس طرح کے اثرات مرتب ہوں گے۔ہمارا بھی خواب ہے کہ ہم تمہاری شادی کسی اچھے اور اونچے خاندان میں کریں۔تمہارے ابو اگر تمہیں اس شادی کی اجازت دے بھی دیں تو بھی میں کبھی نہیں دوں گی۔نہ ہی میں امامہ کو اپنی بہو کے طور پر قبول کروں گی۔"
" امی ! آپ اس کی صورتِ حال کو سمجھیں ، وہ کتنا بڑا قدم اٹھا رہی ہے۔اس وقت اسے مدد کی ضرورت ہے۔"
"اگر وہ اتنا بڑا قدم اٹھا رہی ہے تو پھر اسے کم از کم دوسرے کے لیے کوئی پریشانی کھڑی نہیں کرنی چاہئیے۔میں اسے برا نہیں کہہ رہی۔وہ بہت اچھا فیصلہ کر رہی ہے مگر ہم لوگوں کو اپنی کچھ مجبوریاں ہیں۔تم کچھ عقل سے کام لو۔تمہیں اسپیشلائزیشن کے لیے باہر جانا ہے۔اپنا ہاسپٹل بنانا ہے۔"اس کی امی نے قدرے نرم لجے میں کہا۔"بیٹا ! اچھے خاندان میں شادی ہو تو انسان کو آگے بڑھنے کے لیے بہت سے مواقع ملتے ہیں اور تمہارے لیے تو پہلے ہی بہت سے خاندانوں کی طرف سے پیغام آ رہے ہیں۔جب اسپیشلائزیشن کر لو گے تو کتنے اونچے خاندان میں تمہاری شادی ہو سکتی ہے۔تمہیں اس کا اندازہ بھی نہیں ہے۔خود سوچو ، صرف امامہ سے شادی کر کے تمہیں کیا ملے گا۔۔۔۔۔خاندان اس کا بائیکاٹ کر چکا ہو گا۔۔۔۔۔۔معاشرے میں جو بدنامی ہو گی ، وہ الگ ہے۔۔۔۔۔اور تم سے شادی ہو بھی جائے تو کل کو تمہارے بچے تمہارے اور امامہ کے بارے میں کیا سوچیں گے۔۔۔۔۔یہ کوئی ایک دو دن کی بات نہیں ہے ساری عمر کی بات ہے۔"امی اسے سنجیدہ لہجے میں سمجھا رہی تھیں۔جلال کسی اعتراض یا احتجاج کے بغیر خاموشی سے ان کی باتیں سن رہا تھا۔
اس کے چہرے سے کچھ اندازہ نہیں ہو رہا تھا کہ وہ قائل ہوا ہے یا نہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
امامہ نے اگلی رات جلال کو پھر فون کیا۔فون جلال نے ہی اٹھایا تھا۔
"امامہ ! میں نے امی سے بھی بات کی ہے۔وہ ابو سے زیادہ ناراض ہوئی ہیں میری بات پر۔"امامہ کا دل گویا مکمل ڈوب گیا۔
"وہ کہہ رہی ہیں کہ مجھے ایک فضول معاملے میں خود انوالو کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔"جلال نے صاف گوئی کا مظاہرہ کیا۔"میں نے انہیں تمہارے پرابلم کے بارے میں بھی بتایا ہے مگر ان کا کہنا ہے کہ یہ تمہارا پرابلم ہے ، ہمارا نہیں۔"
امامہ کو اس کے لفظوں سے شدید تکلیف ہوئی تھی۔
"میں نے انہیں بہت سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ رضامند نہیں ہیں اور نہ ہی ہوں گی۔"جلال کی آواز دھیمی ہو گئی تھی۔
"مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے جلال ! "اس نے ڈوبتے دل کے ساتھ کسی موہوم سی اُمید پر کہا۔
"میں جانتا ہوں امامہ ! مگر میں کچھ نہیں کر سکتا۔میرے والدین اس پرپوزل پر راضی نہیں ہیں۔"
"کیا تُم ان کی مرضی کے بغیر مجھ سے شادی نہیں کر سکتے؟"
"نہیں ، یہ میرے لیے ممکن نہیں ہے۔مجھے ان سے اتنی محبت ہے کہ میں انہیں ناراض کر کے تم سے شادی نہیں کر سکتا۔"
"پلیز جلال ! "وہ گڑگڑائی۔"تمہارے علاوہ میرے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہے۔"
"میں اپنے والدین کی نافرمانی نہیں کر سکتا ، تم مجھے اس کے لیے مجبور نہ کرو۔"
"میں آپ کو نافرمانی کے لیے نہیں کہہ رہی ہوں۔میں تو آپ سے اپنی زندگی کی بھیک مانگ رہی ہوں۔"
اس کے اعصاب چٹخ رہے تھے۔اسے یاد نہیں تھا کہ اس نے زندگی میں کبھی کسی سے اتنے التجائیہ اور منت بھرے انداز میں بات کی ہو۔
"آپ مجھ سے صرف نکاح کر لیں ، اپنے والدین کو اس کے بارے میں نہ بتائیں۔بےشک آپ بعد میں ان کی مرضی سے بھی شادی کر لیں ، میں اعتراض نہیں کروں گی۔"
"تم اب بچوں جیسی باتیں کر رہی ہو۔خود سوچو اگر ایسے کسی نکاح کے بارے میں ابھی میرے والدین کو پتا چل جاتا ہے تو وہ کیا کریں گے۔۔۔۔۔وہ تو مجھے گھر سے نکال دیں گے۔۔۔۔۔اور پھر تم اور میں کیا کریں گے۔"
"ہم محنت کر لیں گے ، کچھ نہ کچھ کر لیں گے۔"
"تمہارے اس کچھ نہ کچھ سے میں باہر پڑھنے جا سکوں گا؟"اس بار جلال کا لہجہ چبھتا ہوا تھا ، وہ بول نہیں سکی۔
"نہیں امامہ ! میرے اتنے خواب اور خواہشات ہیں کہ میں انہیں تمہارے لیے یا کسی کے لیے بھی نہیں چھوڑ سکتا۔مجھے تم سے محبت ہے اس میں کوئی شک نہیں مگر میں اس جذباتیت کا مظاہرہ نہیں کر سکتا جس کا مظاہرہ تم کر رہی ہو۔تم دوبارہ مجھے فون مت کرنا کیونکہ میں اب اس سارے معاملے کو یہیں ختم کر دینا چاہتا ہوں ، مجھے تم سے ہمدردی ہے مگر تم اپنے اس مسئلے کا حل خود نکالو ، میں تمہاری مدد نہیں کر سکتا ، خدا حافظ۔"
جلال نے فون بند کر دیا۔
رات دس بج کر پچاس منٹ پر اسے اپنے اردگرد کی پوری دنیا دھوئیں میں تحلیل ہوتی نظر آئی۔کسی چیز کے مٹھی میں ہونے اور پھر دور دور تک کہیں نہ ہونے کا فرق کوئی امامہ سے بہتر نہیں بتا سکتا تھا۔ماؤف ذہن اور شل ہوتے ہوئے اعصاب کے ساتھ وہ بہت دیر تک کسی بت کی طرح اپنے بیڈ پر ٹانگیں لٹکائے بیٹھی رہی۔
مجھے بتا دینا چاہئیے اب بابا کو سب کچھ۔۔۔۔۔اس کے سوا اب اور کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔۔۔۔۔شاید وہ خود ہی مجھے اپنے گھر سے نکال دیں۔۔۔۔۔کم از کم مجھے اس گھر سے تو رہائی مل جائے گی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
قسط نمبر 19
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"میں اسجد سے شادی کرنا ہی نہیں چاہتی تو شاپنگ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔"امامہ نے مستحکم لہجے میں امی سے کہا۔سلمیٰ اسے اگلے روز اپنے ساتھ مارکٹ جانے کا کہنے کے لیے آئی تھیں۔
"پہلے تمہیں شادی پر اعتراض تھا ، اب تمہیں اسجد سے شادی پر اعتراض ہے ، آخر تُم چاہتی کیا ہو۔"سلمیٰ اس کی بات پر مشتعل ہو گئیں۔
"صرف یہ کہ آپ اسجد سے میری شادی نہ کریں۔"
"تو پھر کس سے کرنا چاہتی ہو تم۔"ہاشم مبین اچانک کھلے دروازے سے اندر آ گئے تھے۔یقیناً انہوں نے باہر کوریڈور میں امامہ اور سلمیٰ کے درمیان ہونے والی گفتگو سنی تھی اور وہ اپنے غصے پر قابو نہیں رکھ پائے تھے۔امامہ یک دم چپ ہو گئی۔
"بولو ، کس سے کرنا چاہتی ہو۔۔۔۔۔اب منہ بند کیوں ہو گیا ہے ، آخر تم اسجد سے شادی کیوں نہیں کرنا چاہتی۔۔۔۔۔کیا تکلیف ہے تمہیں۔"انہوں نے بلند آواز میں کہا۔
"بابا ! شادی ایک بار ہوتی ہے اور وہ میں اپنی پسند سے کروں گی۔"وہ ہمت کر کے بولی۔
"کل تک اسجد تمہاری پسند تھا۔"ہاشم مبین نے دانت پیستے ہوئے کہا۔
"کل تھا ، اب نہیں ہے۔"
"کیوں ، اب کیوں نہیں ہے؟"امامہ کچھ کہے بغیر ان کا چہرہ دیکھنے لگی۔
"بولو ، اب کیوں پسند نہیں ہے وہ تمہیں۔"ہاشم مبین نے بلند آواز میں پوچھا۔
"بابا ! میں کسی مسلمان سے شادی کروں گی۔"ہاشم مبین کو لگا آسمان ان کے سر پر گر پڑا تھا۔
"کیا۔۔۔۔۔کہا تم نے۔۔۔۔۔؟"انہوں نے بےیقینی سے کہا۔
"میں کسی غیر مسلم سے شادی نہیں کروں گی کیونکہ میں اسلام قبول کر چکی ہوں۔"
کمرے میں اگلے کئی منٹ تک مکمل خاموشی رہی۔سلمیٰ کو جیسے سکتہ ہو گیا تھا اور ہاشم مبین۔۔۔۔۔وہ ایک پتھر کے مجسمے کی طرح اسے دیکھ رہے تھے۔ان کا منہ کھلا ہوا تھا وہ جیسے سانس لینا بھول گئے تھے۔ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ کبھی انہیں زندگی میں اپنی اولاد اور وہ بھی اپنی سب سے لاڈلی بیٹی کے سامنے اس طرح کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ان کے چالیس سال مکمل طور پر بھنور کی زد میں آ گئے تھے۔
"تم کیا بکواس کر رہی ہو۔"ہاشم مبین کے اندر اشتعال کی ایک لہر اٹھی تھی۔
"بابا ! آپ جانتے ہیں میں کیا کہہ رہی ہوں۔آپ بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔"
"تم پاگل ہو گئی ہو۔"انہوں نے آپے سے باہر ہوتے ہوئے کہا۔امامہ نے کچھ کہنے کی بجائے نفی میں گردن ہلائی۔وہ ہاشم مبین کی ذہنی کیفیت کو سمجھ سکتی تھی۔"اس لیے تمہیں پیدا کیا۔۔۔۔۔تمہاری پرورش کی کہ تم۔۔۔۔۔تم ۔۔۔۔۔"ہاشم مبین کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ اس سے کیا کہیں۔"صرف اسجد سے شادی نہ کرنے کے لیے تم یہ سب کر رہی ہو ، صرف اس لیے کہ تمہاری شادی اس آدمی سے کر دیں جس سے تم چاہتی ہو۔"
"نہیں ، ایسا نہیں ہے۔"
"ایسا ہی ہے۔۔۔۔۔تم بےوقوف سمجھتی ہو مجھے۔"ان کے منہ سے جھاگ نکل رہا تھا۔
"آپ میری شادی کسی بھی آدمی سے کریں ، مجھے کوئی اعتراض نہیں۔بس وہ آپ کی کمیونٹی سے نہ ہو۔۔۔۔۔پھر آپ کم از کم یہ نہیں کہہ سکیں گے کہ میں کسی خاص آدمی کے لیے یہ سب کر رہی ہوں۔"
ہاشم مبین اس کی بات پر دانت پیسنے لگے۔
"تم جمعہ جمعہ آٹھ دن کی پیداوار۔۔۔۔۔۔تمہیں پتا کیا ہے۔۔۔۔۔"
"میں سب جانتی ہوں بابا ! میری عمر بیس سال ہے ، میں آپ کی انگلی پکڑ کر چلنے والی بچی نہیں ہوں۔۔۔۔۔میں جانتی ہوں آپ کے اس مذہب کی وجہ سے ہمارے خاندان پر بڑی برکات نازل کی گئی ہیں۔"
وہ بڑے مستحکم اور ہموار انداز میں کہتی گئی۔"تم۔۔۔۔۔تم۔۔۔۔۔۔بخشش نہیں ہو گی تمہاری۔۔۔۔۔تم۔۔۔۔۔"
ہاشم مبین غصے کے عالم میں انگلی اٹھا کر بولنے لگے۔امامہ کو ان پر ترس آنے لگا۔اسے دوزخ میں کھڑے ہو کر دوزخ سے ڈرانے والے شخص پر ترس آیا ، اسے آنکھوں پر پٹی باندھ کر پھرنے والے شخص پر ترس آیا ، اسے مہر شدہ دل والے آدمی پر ترس آیا ، اسے نفس زدہ آدمی پر ترس آیا ، اسے گمراہی کی سب سے اوپر والی سیڑھی پر کھڑے آدمی پر ترس آیا۔
"تم گمراہی کے رستے پر چل پڑی ہو۔۔۔۔۔چند کتابیں پڑھ کر تم ۔۔۔۔۔۔"امامہ نے ان کی بات کاٹ دی۔
"آپ اس بارے میں مجھ سے بحث نہیں کر سکیں گے ، میں سب کچھ جانتی ہوں ، تحقیق کر چکی ہوں ، تصدیق کر چکی ہوں۔آپ مجھے کیا بتائیں گے ، کیا سمجھائیں گے۔آپ نے اپنی مرضی کا راستہ چن لیا ہے ، میں نے اپنی مرضی کا راستہ چن لیا۔آپ وہ کر رہے ہیں جو آپ صحیح سمجھتے ہیں ،میں وہ کر رہی ہوں جو میں صحیح سمجھتی ہوں۔"آپ کا عقیدہ آپ کا ذاتی مسئلہ ہے۔میرا عقیدہ میرا ذاتی مسئلہ ہے۔کیا اب یہ بہتر نہیں ہے کہ آپ میرے اس فیصلے کو قبول کر لیں ، جذباتی حماقت کی بجائے بہت سوچ سمجھ کر اٹھایا جانے والا قدم سمجھ کر۔"
اس نے بڑی رسانیت اور سنجیدگی کے ساتھ کہا۔ہاشم مبین کی ناراضی میں اور اضافہ ہوا۔
"میں۔۔۔۔۔میں اپنی بیٹی کو مذہب بدلنے دوں تاکہ پوری کمیونٹی میرا بائیکاٹ کر دے۔۔۔۔۔میں فٹ پاتھ پر آ جاؤں۔۔۔۔۔نہیں امامہ ! یہ نہیں ہو سکتا۔تمہارا اگر دماغ بھی خراب ہو گیا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ میرا دماغ بھی خراب ہو جائے۔کوئی بھی مذہب اختیار کرو مگر تمہاری شادی میں اسجد سے ہی کروں گا ، تمہیں اسی کے گھر جانا ہو گا۔۔۔۔۔اس کے گھر چلی جاؤ اور پھر وہاں جا کر طے کرنا کہ تمہیں کیا کرنا ہے کیا نہیں۔ہو سکتا ہے تمہیں عقل آ جائے۔"
وہ غصے کے عالم میں کمرے سے نکل گئے۔
"مجھے پتا ہوتا کہ تمہاری وجہ سے ہمیں اتنی ذلت کا سامنا کرنا پڑے گا تو میں پیدا ہوتے ہی تمہارا گلا دبا دیتی۔"ہاشم مبین کے جاتے ہی سلمیٰ نے کھڑے ہوتے ہوئے دانت پیس کر کہا۔"تم نے ہماری عزت خاک میں ملانے کا تہیہ کر لیا ہے۔"
امامہ کچھ کہنے کی بجائے خاموشی سے انہیں دیکھتی رہی۔وہ کچھ دیر اسی طرح بولتی رہیں پھر کمرے سے چلی گئیں۔
انہیں اس کے کمرے سے گئے ایک گھنٹہ ہی ہوا تھا جب دروازے پر دستک دے کر اسجد اندر داخل ہوا۔امامہ کو اس کے اس وقت وہاں آنے کی توقع نہیں تھی۔اسجد کے چہرے پر پریشانی بہت نمایاں تھی۔یقیناً اسے ہاشم مبین نے بلوایا تھا اور وہ اسے سب کچھ بتا چکے تھے۔
"یہ سب کیا ہو رہا ہے امامہ؟"اس نے اندر داخل ہوتے ہی کہا۔وہ اپنے بیڈ پر بیٹھی اسے دیکھتے رہی۔
"تم کیوں کر رہی ہو یہ سب کچھ۔"
"اسجد ! تمہیں اگر یہ بتا دیا گیا ہے کہ میں کیا کر رہی ہوں تو پھر یہ بھی بتا دیا گیا ہو گا کہ میں کیوں کر رہی ہوں۔"
"تمہیں اندازہ نہیں ہے کہ تم کیا کر رہی ہو۔"وہ کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔
"مجھے اندازہ ہے۔"
"اس عمر میں انسان جذبات میں آ کر بہت سے غلط فیصلے کر لیتا ہے۔۔۔۔۔"
امامہ نے ترشی سے اس کی بات کاٹ دی۔"جذبات میں آ کر۔۔۔۔۔؟کوئی جذبات میں آ کر مذہب تبدیل کرتا ہے؟کبھی نہیں۔۔۔۔۔میں چار سال سے اسلام کے بارے میں پڑھ رہی ہوں ، چار سال کم نہیں ہوتے۔"
"تم لوگوں کی باتوں میں آ گئی ہو۔۔۔۔۔تم۔۔۔۔۔"
"نہیں ، میں کسی کی باتوں میں نہیں آئی۔میں نے جس چیز کو غلط سمجھا اسے چھوڑ دیا اور بس۔"
وہ کچھ دیر بےچارگی کے عالم میں اسے دیکھتا رہا پھر سر جھٹکتےہوئے اس نے کہا۔
"ٹھیک ہے ان سب باتوں کو چھوڑو ، شادی پر کیوں اعتراض ہے تمہیں۔۔۔۔۔تمہارے عقائد میں جو تبدیلی آئی ہے وہ ایک طرف۔کم از کم شادی تو ہونے دو۔"
"میری اور تمہاری شادی جائز نہیں۔"
وہ اس کی بات پر ہکا بکا رہ گیا۔"کیا میں غیر مسلم ہوں؟"
"ہاں ، تم ہو۔۔۔۔۔"
"انکل ٹھیک کہہ رہے تھے کسی نے واقعی تمہارا برین واش کر دیا ہے۔"اس نے اکھڑے ہوئے لہجے میں کہا۔
"پھر تم ایک ایسی لڑکی سے شادی کیوں کرنا چاہتے ہو۔بہتر ہے تم کسی اور سے شادی کرو۔"اس نے ترکی بہ ترکی کہا۔
"میں نہیں چاہتا کہ تم اپنی زندگی برباد کر لو۔"وہ اس کی بات پر عجیب سے انداز میں ہنسی۔
"زندگی برباد۔۔۔۔۔کون سی زندگی۔۔۔۔۔یہ زندگی جو میں تم جیسے لوگوں کے ساتھ گزار رہی ہوں۔جنہوں نے پیسے کے لیے اپنے مذہب کو چھوڑ دیا۔۔۔۔۔"
"Behave yourself ۔۔۔۔۔تم بات کرنے کے تمام مینرز بھول گئی ہو۔کس کے بارے میں کیا کہنا چاہئیے اور کیا نہیں ، تم نے سرے سے ہی فراموش کر دیا ہے۔"اسجد اسے ڈانٹنے لگا۔
"میں ایسے کسی شخص کا احترام نہیں کر سکتی جو لوگوں کو گمراہ کر رہا ہو۔"امامہ نے دوٹوک انداز میں کہا۔
"جس عمر میں تم ہو۔۔۔۔۔اس عمر میں ہر کوئی اسی طرح کنفیوز ہو جاتا ہے جس طرح تم کنفیوز ہو رہی ہو۔جب تم اس عمر سے نکلو گی تو تمہیں احساس ہو گا کہ ہم لوگ صحیح تھے یا غلط۔"۔اسجد نے ایک بار اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
"اگر تم لوگوں کو یہ لگتا ہے کہ میں غلط ہوں ، تب بھی تم لوگ مجھے چھوڑ کیوں نہیں دیتے۔اس طرح مجھے گھر میں قید کر کے کیوں رکھا ہوا ہے اگر تم لوگوں کو اپنے مذہب کی صداقت پر اتنا یقین ہے تو مجھے اس گھر سے چلے جانے دو۔۔۔۔۔حقیقت کو جانچنے دو۔۔۔۔۔"
"اگر کوئی اپنا ، اپنے آپ کو نقصان پہنچانے پر تل جائے تو اسے اکیلا نہیں چھوڑا جا سکتا اور وہ بھی ایک لڑکی کو۔۔۔۔۔امامہ ! تم اس مسئلے کی نزاکت اور اہمیت کو سمجھو ، اپنی فیملی کا خیال کرو ، تمہاری وجہ سے سب کچھ داؤ پر لگ گیا ہے۔"
"میری وجہ سے کچھ بھی داؤ پر نہیں لگا۔۔۔۔۔کچھ بھی نہیں۔۔۔۔۔اور اگر کچھ داؤ پر لگا بھی ہے تو میں اس کی پرواہ کیوں کروں۔میں تم لوگوں کے لئے دوزخ میں کیوں جاؤں ، صرف خاندان کے نام کی خاطر اپنا ایمان کیوں گنواؤں۔نہیں اسجد ! میں تم لوگوں کے ساتھ گمراہی کے اس راستے پر نہیں چل سکتی۔مجھے وہ کرنے دو جو میں کرنا چاہتی ہوں۔"اس نے قطعی لہجے میں کہا۔
"مجھ سے اگر تم نے زبردستی شادی کر بھی لی تو بھی تمہیں اس سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔میں تمہاری بیوی نہیں بنوں گی ، میں تم سے وفا نہیں کروں گی۔مجھے جب بھی موقع ملے گا ، میں بھاگ جاؤں گی۔تم آخر کتنے سال مجھے اس طرح قید کر کے رکھ سکو گے ، کتنے سال مجھ پر پہرے بٹھاؤ گے۔۔۔۔۔مجھے صرف چند لمحے چاہئیے ہوں گے تمہارے گھر ، تمہاری قید سے بھاگ جانے کے لیے ۔۔۔۔۔اور میں۔۔۔۔۔میں تمہارے بچوں کو بھی ساتھ لے جاؤں گی۔تم ساری عمر انہیں دوبارہ دیکھ نہیں سکو گے۔"
وہ اسے مستقبل کا نقشہ دکھا کر خوفزدہ کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
"اگر میں تمہاری جگہ پر ہوتی تو میں کبھی امامہ ہاشم جیسی لڑکی سے شادی نہ کروں۔۔۔۔۔یہ سراسر خسارے کا سودا ہو گا۔۔۔۔۔حماقت اور بےوقوفی کی انتہا ہو گی۔۔۔۔۔تم اب بھی سوچ لو۔۔۔۔۔اب بھی پیچھے ہٹ جاؤ۔۔۔۔۔تمہارے سامنے تمہاری ساری زندگی پڑی ہے۔۔۔۔۔تم کسی بھی لڑکی کے ساتھ شادی کر کے پُر سکون زندگی گزار سکتے ہو۔۔۔۔۔کسی پریشانی۔۔۔۔۔کسی بےسکونی کے بغیر مگر میرے ساتھ نہیں۔میں تمہارے لیے بدترین بیوی ثابت ہوں گی ، تم اس سارے معاملے سے الگ ہو جاؤ ، شادی سے انکار کر دو ، انکل اعظم سے کہہ دو کہ تم مجھ سے شادی کرنا نہیں چاہتے یا کچھ عرصے کے لیے گھر سے غائب ہو جاؤ۔جب تمام معاملہ ختم ہو جائے تو پھر آ جانا۔"
"تم مجھے اس طرح کے احمقانہ مشورے مت دو ، میں کسی بھی قیمت پر تم سے دستبردار نہیں ہو سکتا۔۔۔۔۔کسی بھی قیمت پر۔نہ میں انکار کروں گا ، نہ اس معاملے سے الگ ہوں گا ، نہ ہی گھر سے کہیں جاؤں گا ۔۔۔۔۔میں تم سے ہی شادی کروں گا امامہ ! اب یہ ہمارے خاندان کی عزت اور ساکھ کا معاملہ ہے۔یہ شادی نہ ہونے اور تمہارے گھر سے چلے جانے سے ہمارے پورے خاندان کو جتنا نقصان اٹھانا پڑے گا اس کا تمہیں بالکل اندازہ نہیں ورنہ تم مجھے کبھی یہ مشورہ نہ دیتیں۔جہاں تک بُری بیوی ثابت ہونے یا گھر سے بھاگ جانے کا تعلق ہے۔۔۔۔۔تو یہ سب بعد کا مسئلہ ہے۔میں تمہیں بہت اچھی طرح جانتا ہوں ، تم اس طرح کے ٹمپرامنٹ کی مالک نہیں ہو کہ دوسروں کو بےجا پریشان کرتی رہو۔۔۔۔۔اور وہ بھی مجھے ، جس سے تمہیں محبت ہے۔"اسجد بڑے اطمینان سے کہہ رہا تھا۔
"تمہیں غلط فہمی ہے ، مجھے کبھی بھی تم سے محبت نہیں رہی۔۔۔۔۔کبھی بھی۔۔۔۔۔میں ذہنی طور پر تمہارے ساتھ اپنے تعلق اور رشتے کو اس وقت سے ذہن سے نکال چکی ہوں جب میں نے اپنا مذہب چھوڑا تھا۔تم میری زندگی میں اب کہیں نہیں ہو ، کہیں بھی نہیں۔۔۔۔۔اگر میں اپنے گھر والوں کے لئے مسائل کھڑے کر سکتی ہوں تو کل تمہارے لیے کتنے مسائل کھڑے کروں گی تمہیں اس کا احساس ہونا چاہئیے اور اس غلط فہمی سے باہر نکل آنا چاہئیے۔۔۔۔۔ہم دونوں کبھی بھی اکٹھے نہیں ہو سکتے۔میں تم لوگوں کے خاندان کا حصہ کبھی نہیں بنوں گی۔
نہیں اسجد ! تمہارے اور میرے درمیان بہت فاصلہ ہے ، اتنا فاصلہ کہ میں تمہیں دیکھ تک نہیں سکتی اور میں اس فاصلے کو کبھی ختم نہیں ہونے دوں گی۔میں کبھی بھی تم سے شادی کے لئے تیار نہیں ہوں گی۔"
اسجد بدلتی ہوئی رنگت کے ساتھ اس کا چہرہ دیکھتی رہا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"کیا تم میرا ایک کام کر سکتے ہو؟"
"تمہارا کیا خیال ہے اب تک میں اس کے علاوہ کیا کر رہا ہوں۔"سالار نے پوچھا۔
دوسری طرف کچھ دیر خاموشی رہی ، پھر اس نے کہا۔"کیا تم لاہور جا کر جلال سے مل سکتے ہو۔"سالار نے ایک لمحہ کے لیے اپنی آنکھیں بند کیں۔
"کس لئے۔"اسے امامہ کی آواز بہت بھاری لگ رہی تھی۔یوں جیسے اسے فلو تھا پھر اچانک اس کو خیال آیا کہ وہ یقیناً روتی رہی ہو گی۔یہ اسی کا اثر تھا۔
"تم میری طرف سے اس سے ریکویسٹ کرو کہ وہ مجھ سے شادی کر لے۔۔۔۔۔ہمیشہ کے لیے نہیں تو کچھ دنوں کے لیے ہی۔۔۔۔۔میں اس گھر سے نکلنا چاہتی ہوں اور میں کسی کی مدد کے بغیر یہاں سے نہیں نکل سکتی۔۔۔۔۔بس وہ مجھ سے نکاح کر لے۔"
"تمہارا تو اس سے فون پر رابطہ ہے تو پھر تم یہ سب خود اس سے فون پر کیوں نہیں کہہ دیتیں۔"سالار نے چپس کھاتے ہوئے بڑے اطمینان سے اسے مشورہ دیا۔
"میں کہہ چکی ہوں۔"اسے امامہ کی آواز پہلے سے زیادہ بھرائی ہوئی لگی۔
"پھر؟"

"اس نے انکار کر دیا ہے۔"
"ویری سیڈ۔"سالار نے افسوس کا اظہار کیا۔
"تو یہ ون سائیڈڈ لو افئیر تھا۔"اس نے کچھ تجسس کے عالم میں پوچھا۔
"نہیں۔"
"تو پھر اس نے انکار کیوں کر دیا؟"
"تم یہ جان کر کیا کرو گے۔"وہ کچھ چڑ کر بولی۔سالار نے ایک اور چپس اپنے منہ میں ڈالا۔
"میرے وہاں جا کر اس سے بات کرنے سے کیا ہو گا ، بہتر ہے تم ہی دوبارہ اس سے بات کر لو۔"
"وہ مجھ سے بات نہیں کر رہا ، وہ فون نہیں اٹھاتا۔ہاسپٹل میں بھی کوئی اسے فون پر نہیں بلا رہا۔وہ جان بوجھ کر کترا رہا ہے۔"امامہ نے کہا۔
"تو پھر تم اس کے پیچھے کیوں پڑی ہو ، جانے دو اسے۔وہ تم سے محبت نہیں کرتا۔"
"تم یہ سب کچھ نہیں سمجھ سکتے ، تم صرف میری مدد کرو ، ایک بار جا کر اسے میری صورت حال کے بارے میں بتاؤ ، وہ مجھ سے اس طرح نہیں کر سکتا۔"
"اور اگر اس نے مجھ سے بات کرنے سے انکار کر دیا تو۔"
"پھر بھی تم اس سے بات کرنا ، شاید۔۔۔۔۔شاید کوئی صورت نکل آئے ، میرا مسئلہ حل ہو جائے۔"
سالار کے چہرے پر ایک مسکراہٹ نمودار ہوئی ، اسے امامہ کے حال پر ہنسی آ رہی تھی۔
فون بند کرنے کے بعد چپس کھاتے ہوئے بھی وہ اس سارے معاملے کے بارے میں سوچتا رہا۔ہر گزرتے دن کے ساتھ وہ اس سارے معاملے میں زیادہ سے زیادہ انوالو ہوتا جا رہا تھا۔یہ اسے اپنی زندگی کا سب سے بڑا ایڈونچر محسوس ہو رہا تھا۔پہلے امامہ تک فون پہنچانا اور اب جلال سے رابطہ۔۔۔۔۔امامہ کا بوائے فرینڈ ۔۔۔۔۔اس نے چپس کھاتے ہوئے زیرِ لب دُہرایا۔امامہ نے اسے اس کے ہاسپٹل اور گھر کے تمام کوائف سے آگاہ کر دیا تھا اور اب وہ سوچ رہا تھا کہ اسے جلال انصر سے مل کر کیا کہنا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سالار نے اس شخص کو اوپر سے نیچے تک دیکھا اور وہ خاصا مایوس ہوا۔سامنے کھڑا لڑکا بڑی عام سی شکل و صورت کا تھا۔سالار کے لمبے قد اور خوبصورت جسم نے اسے صنفِ مخالف کے لئے کسی حد تک پرکشش بنا دیا تھا مگر سامنے کھڑا ہوا وہ شخص ان دونوں چیزوں سے محروم تھا۔وہ نارمل قد و قامت کا مالک تھا۔اس کے چہرے پر داڑھی نہ ہوتی تو وہ پھر بھی قدرے بہتر نظر آتا۔سالار سکندر کو جلال انصر سے مل کر مایوسی ہوئی تھی۔امامہ اب اسے پہلے سے زیادہ بےوقوف لگی۔
"میں جلال انصر ہوں ، آپ ملنا چاہتے ہیں مجھ سے؟"
"میرا نام سالار سکندر ہے۔"سالار نے اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا۔
"معاف کیجئیے گا مگر میں نے آپ کو پہچانا نہیں۔"
"ظاہر ہے آپ پہچان بھی کیسے سکتے ہیں۔میں پہلی بار آپ سے مل رہا ہوں۔"
سالار اس وقت جلال کے ہاسپٹل میں اسے ڈھونڈتے ہوئے آیا۔چند لوگوں سے اس کے بارے میں دریافت کرنے پر وہ اس کے پاس پہنچ گیا تھا۔اس وقت وہ ڈیوٹی روم کے باہر کھڑے تھے۔
"کہیں بیٹھ کر بات کر سکتے ہیں؟"جلال اب کچھ حیران نظر آیا۔
"بیٹھ کر بات۔۔۔۔۔مگر کس سلسلے میں۔"
"امامہ کے سلسلے میں۔"
جلال کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔"آپ کون ہیں؟"
"میں اس کا دوست ہوں۔"جلال کے چہرے کا رنگ ایک بار پھر بدل گیا۔وہ چپ چاپ ایک طرف چلنے لگا۔سالار اس کے ساتھ تھا۔
"پارکنگ میں میری گاڑی کھڑی ہے ، وہاں چلتے ہیں۔"سالار نے کہا۔
گاڑی تک پہنچنے اور اس کے اندر بیٹھنے تک دونوں کے درمیان کوئی بات نہیں ہوئی۔
"میں اسلام آباد سے آیا ہوں۔"سالار نے کہنا شروع کیا۔
"امامہ چاہتی تھی کہ میں آپ سے بات کروں۔"
"امامہ نے کبھی مجھ سے آپ کا ذکر نہیں کیا۔"جلال نے کچھ عجیب سے انداز میں کہا۔
"آپ امامہ کو کب سے جانتے ہیں؟"
"تقریباً بچپن سے۔۔۔۔۔ہم دونوں کے گھر ساتھ ساتھ ہیں۔بڑی گہری دوستی ہے ہماری۔"
سالار نہیں جانتا اس نے آخری جملہ کیوں کہا۔شاید یہ جلال کے چہرے کے بدلتے ہوئے رنگ تھے جن سے وہ کچھ اور محفوظ ہونا چاہتا تھا۔وہ جلال کے چہرے پر نمودار ہونے والی ناپسندیدگی دیکھ چکا تھا۔
"امامہ سے میری بہت تفصیلی بات ہو چکی ہے ، اتنی تفصیلی بات کے بعد اور کیا بات ہو سکتی ہے۔"جلال نے سپاٹ لہجے میں کہا۔
"امامہ چاہتی ہے کہ آپ اس سے شادی کر لیں۔"سالار نے جیسے نیوز بلیٹن پڑھتے ہوئے کہا۔
"میں اپنا جواب اسے بتا چکا ہوں۔"
"وہ چاہتی ہے آپ اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں۔"
"یہ ممکن نہیں ہے۔"
"وہ اس گھر میں اپنے والدین اور گھر والوں کی قید میں ہے۔وہ چاہتی ہے آپ اگر ہمیشہ کے لیے نہیں تو وقتی طور پر اس سے نکاح کریں اور پھر بیلف کی مدد سے اسے چھڑا لیں۔"
"یہ ممکن ہی نہیں ہے ، وہ ان کی قید میں ہے تو نکاح ہو ہی کیسے سکتا ہے۔"
"فون پر۔"
"نہیں ، میں اتنا بڑا رسک نہیں لے سکتا۔میں ایسے معاملات میں انوالو ہونا ہی نہیں چاہتا۔"جلال نے کہا۔"میرے والدین مجھے اس شادی کی اجازت نہیں دیں گے اور پھر وہ امامہ کو قبول کرنے پر تیار بھی نہیں ہیں۔"
جلال کی نظریں اب سالار کے بالوں کی پونی پر جمی ہوئی تھیں ، یقیناً سالار کی طرح اس نے بھی اسے ناپسندیدہ قرار دیا ہو گا۔
"اس نے کہا کہ آپ وقتی طور پر اس سے صرف نکاح کر لیں تاکہ وہ اپنے گھر سے نکل سکے ، بعد میں آپ چاہیں تو اسے طلاق دے دیں۔"
"میں نے کہا نا میں اس کی مدد نہیں کر سکتا اور پھر اس طرح کے معاملات ۔۔۔۔۔آپ خود اس سے شادی کیوں نہیں کر لیتے۔۔۔۔۔اگر وقتی شادی کی بات ہے تو آپ کر لیں۔آخر آپ اس کے دوست ہیں۔"
جلال نے کچھ چھبتے ہوئے انداز میں سالار سے کہا۔"آپ اسلام آباد سے لاہور اس کی مدد کے لیے آ سکتے ہیں تو پھر یہ کام بھی کر سکتے ہیں۔"
"اس نے مجھ سے شادی کا نہیں کہا ، اس لئے میں نے اس بارے میں نہیں سوچا۔"سالار نے کندھے جھٹکتے ہوئے بےتاثر لہجے میں کہا۔"ویسے بھی وہ آپ سے محبت کرتی ہے ، مجھ سے نہیں۔"
"مگر عارضی شادی یا نکاح میں تو محبت کا ہونا ضروری نہیں۔بعد میں آپ بھی اسے طلاق دے دیں۔"جلال نے مسئلے کا حل نکال لیا تھا۔
"آپ کا مشورہ میں اسے پہنچا دوں گا۔"سالار نے سنجیدگی سے کہا۔
"اور اگر یہ ممکن نہیں ہے تو پھر امامہ سے کہیں کہ وہ کوئی اور طریقہ اپنائے۔۔۔۔۔بلکہ آپ کسی نیوز پیپر کے آفس چلے جائیں اور انہیں امامہ کے بارے میں بتائیں کہ کس طرح اس کے خاندان نے اسے زبردستی قید کر رکھا ہے۔جب میڈیا اس معاملے کو ہائی لائٹ کرے گا تو خود ہی وہ امامہ کو چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں گے یا پھر آپ پولیس کو اس معاملے کی اطلاع دیں۔"
سالار کو حیرانی ہوئی۔جلال کی تجویز بری نہیں تھی۔واقعی امامہ اس بارے میں کیوں نہیں سوچ رہی تھی۔یہ راستہ زیادہ محفوظ تھا۔
"میں آپ کا یہ مشورہ بھی اسے پہنچا دوں گا۔"
"آپ دوبارہ میرے پاس نہ آئیں بلکہ امامہ سے بھی یہ کہہ دیں کہ وہ مجھ سے کسی بھی طریقے یا ذریعے سے دوبارہ رابطہ نہ کرے۔میرے والدین ویسے بھی میری منگنی کرنے والے ہیں۔"جلال نے جیسے انکشاف کیا۔
""ٹھیک ہے ، میں یہ ساری باتیں اس تک پہنچا دوں گا۔"سالار نے لاپرواہی سے کہا۔جلال مزید کچھ کہے بغیر گاڑی سے اُتر گیا۔
اگر امامہ کو یہ توقع تھی کہ سالار جلال کو اس سے شادی کرنے کے لیے قائل کرے گا تو یہ اس کی سب سے بڑی بھول تھی۔وہ امامہ سے کوئی ہمدردی رکھتا تھا نہ ہی کسی خوفِ خدا کے تحت اس سارے معاملے میں کودا تھا۔۔۔۔۔اس کے لئے یہ سب کچھ ایک ایڈونچر تھا اور ایڈونچر میں یقیناً جلال سے امامہ کی شادی شامل نہیں تھی۔اگر جلال سے اس کی شادی کے لئے دلائل دینے بھی پڑتے تو وہ کیا دیتا۔اس کے پاس صرف ایک دلیل کے علاوہ اور کوئی دلیل نہیں تھی کہ جلال اور امامہ ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اور یہ وہ دلیل تھی جسے جلال پہلے ہی رد کر چکا تھا۔وہ مذہبی یا اخلاقی حوالوں سے قائل نہیں کر سکتا تھا کیونکہ وہ خود ان دونوں چیزوں سے نا بلد تھا۔مذہب اور اخلاقیات سے اس کا دور دور سے بھی کوئی واسطہ نہیں تھا اور سب سے بڑی بات یہ تھی کہ آخر وہ امامہ کے لیے ایک دوسرے آدمی سے اتنی لمبی بحث کرتا کیوں۔وہ بھی ایسا آدمی جسے دیکھتے ہی اس نے ناپسند کر دیا تھا۔
اور یہ تمام وہ باتیں تھیں جو وہ اسلام آباد سے لاہور آتے ہوئے سوچ رہا تھا۔وہ آیا اس لیے تھا کیونکہ وہ جلال سے ملنا چاہتا تھا اور دیکھنا چاہتا تھا کہ امامہ کے پیغام پر اس کا ردِ عمل کیا رہتا تھا۔اس نے امامہ کا پیغام اسی کے لفظوں میں کسی اضافے یا ترمیم کے بغیر پہنچا دیا تھا اور اب وہ جلال کا جواب لے کر واپس جا رہا تھا اور خاصا محفوظ ہو رہا تھا۔آخر اس پیغام کے جواب میں وہ کیا کرے گی ، کہے گی۔اسجد سے شادی تو وہ نہیں کرے گی ، جلال اس سے شادی کرنے پر تیار نہیں ، گھر سے وہ نکل نہیں سکتی ، کوئی اور ایسا آدمی نہیں جو اس کی مدد کے لیے آ سکے پھر آخر وہ آگے کیا کرے گی۔عام طور پر لڑکیاں ان حالات میں خودکشی کرتی ہیں۔اوہ یس۔۔۔۔۔وہ یقیناً اب مجھ سے زہر یا ریوالور پہنچانے کی خواہش کرے گی۔
سالار متوقع صورت حال کے بارے میں سوچ کر پُر جوش ہو رہا تھا۔"خودکشی۔۔۔۔۔ویری ایکسائیٹنگ۔
"آخر اس کے علاوہ وہ اور کر بھی کیا سکتی ہے۔"
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"تم مجھ سے شادی کرو گے؟" سالار کو جیسے شاک لگا۔"فون پر نکاح؟" وہ کچھ دیر کے لئے بول نہیں سکا۔
لاہور سے واپس آنے کے بعد اس نے امامہ کو جلال کا جواب بالکل اسی طرح سے پہنچا دیا تھا۔ اس کا اندازہ تھا کہ وہ اب رونا دھونا شروع کرے گی اور پھر اس سے کسی ہتھیار کی فرمائش کرے گی، مگر وہ کچھ دیر کے لئے خاموش رہی پھر اس نے سالار سے جو کہا تھا اس نے چند ثانیوں کے لئے سالار کے ہوش گم کر دئیے تھے۔
"مجھے صرف کچھ دیر کے لئے تمہارا ساتھ چاہئیے۔ تاکہ میرے والدین اسجد کے ساتھ میری شادی نہ کر سکیں اور پھر تم بیلف کے ذریعے مجھے یہاں سے نکال لو۔ اس کے بعد مجھے تمہاری ضرورت نہیں رہے گی اور میں کبھی بھی اپنے والدین کو تمہارا نام نہیں بتاؤں گی۔" وہ اب کہہ رہی تھی۔
"اوکے کر لیتا ہوں۔۔۔۔۔ مگر یہ بیلف والا کام تھوڑا مشکل ہے۔ اس میں بہت سی legalities انوالو ہو جاتی ہیں۔ وکیل کو ہائر کرنا۔۔۔۔۔ اور۔۔۔۔۔"امامہ نے دوسری طرف سے اس کی بات کاٹ دی۔"تم اپنے فرینڈز سے اس سلسلے میں مدد لے سکتے ہو۔ تمہارے فرینڈز تو اس طرح کے کاموں میں ماہر ہوں گے۔"
سالار کے ماتھے پر کچھ بل نمودار ہوئے۔"کس طرح کے کاموں میں۔"
"اسی طرح کے کاموں میں۔"تم کیسے جانتی ہو۔"
"وسیم نے مجھے بتایا تھا کہ تمہاری کمپنی اچھی نہیں ہے۔"
امامہ کے منہ سے بے اختیار نکلا اور پھر وہ خاموش ہو گئی۔ یہ جملہ مناسب نہیں تھا۔
"میری کمپنی بہت اچھی ہے، کم از کم جلال انصر کی کمپنی سے بہتر ہے۔" سالار نے چبھتے ہوئے لہجے میں کہا۔ وہ اس بار بھی خاموش رہی۔
"بہرحال میں دیکھتا ہوں، میں اس سلسلے میں کیا کر سکتا ہوں۔"سالار کچھ دیر اس کے جواب کا انتظار کرنے کے بعد بولا۔" مگر تمہیں یہ بات ضرور یاد رکھنی چاہئیے کہ یہ کام بہت رسکی ہے۔"
"میں جانتی ہوں مگر ہو سکتا ہے میرے والدین صرف یہ پتا چلنے پر ہی مجھے گھر سے نکال دیں کہ میں شادی کر چکی ہوں اور مجھے بیلف کی مدد لینی نہ پڑے یا ہو سکتا ہے وہ میری شادی کو قبول کر لیں اور پھر میں تم سے طلاق لے کر جلال سے شادی کر سکوں۔"
سالار نے سر کو قدرے افسوس کے عالم میں جھٹکا۔ اس نے دنیا میں اس طرح کا احمق پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ وہ احمقوں کی جنت کی ملکہ تھی یا شاید ہونے والی تھی۔
"چلو دیکھتا ہوں، کیا ہوتا ہے۔" سالار نے فون بند کرتے ہوئے کہا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"میں ایک لڑکی سے نکاح کرنا چاہتا ہوں۔" حسن نے سالار کے چہرے کو غور سے دیکھا اور پھر بےاختیار ہنسا۔
"یہ اس سال کا نیا ایڈونچر ہے یا آخری ایڈونچر؟"
"آخری ایڈونچر۔"سالار نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ تبصرہ کیا۔"یعنی تم شادی کر رہے ہو۔"
حسن نے برگر کھاتے ہوئے کہا۔
"شادی کا کون کہہ رہا ہے۔" سالار نے اسے دیکھا۔
"تو پھر؟"
"میں ایک لڑکی سے نکاح کرنا چاہ رہا ہوں۔ اس کو مدد کی ضرورت ہے، میں اس کی مدد کرنا چاہتا ہوں۔" حسن اس کا چہرہ دیکھنے لگا۔
"آج تم مذاق کے موڈ میں ہو؟"
"نہیں، بالکل بھی نہیں۔ میں نے تمہیں یہاں مذاق کرنے کے لئے تو نہیں بلایا۔"
"پھر کیا فضول باتیں کر رہے ہو۔۔۔۔ نکاح۔۔۔۔۔ لڑکی کی مدد۔۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔" اس بار حسن نے قدرے ناگواری سے کہا۔" محبت ہو گئی ہے تمہیں اس سے؟"
"مائی فٹ۔۔۔۔۔ میرا دماغ خراب ہے کہ میں کسی سے محبت کروں گا اور وہ بھی اس عمر میں۔" سالار نے تحقیر آمیز انداز میں کہا۔
"یہی تو۔۔۔۔۔ میں بھی یہی کہہ رہا ہوں کہ پھر تم کیا کر رہے ہو۔"
سالار نے اس بار اسے تفصیل سے امامہ اور اس کے مسئلے کے بارے میں بتایا۔ اس نے احسن کو صرف یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ لڑکی وسیم کی بہن ہے کیونکہ حسن وسیم سے بہت اچھی طرح واقف تھا لیکن اس سے تفصیلات سننے کے بعد حسن نے پہلا سوال ہی یہ کیا تھا۔
"وہ لڑکی کون ہے؟" سالار نے بے اختیار ایک گہرا سانس لیا۔
"وسیم کی بہن۔"
"واٹ۔" حسن بے اختیار اچھلا۔"وسیم کی بہن۔۔۔۔۔ وہ جو میڈیکل کالج میں پڑھتی ہے۔"
"ہاں۔"
"تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے ، تم کیوں خوامخواہ اس طرح کی حماقت کر رہے ہو۔وسیم کو بتا دو اس سارے معاملے کے بارے میں۔"
"میں تم سے مدد مانگنے آیا ہوں ، مشورہ مانگنے نہیں۔"سالار نے ناگواری سے کہا۔
"میں تمہاری کیا مدد کر سکتا ہوں۔"حسن نے کچھ اُلجھے ہوئے انداز میں کہا۔
"تم نکاح خواں اور کچھ گواہوں کا انتظام کرو ، تاکہ میں اس سے فون پر نکاح کر سکوں۔"سالار نے فوراً ہی کام کی بات کی۔
"مگر تمہیں یہ نکاح کر کے کیا فائدہ ہو گا۔"
"کچھ بھی نہیں ، مگر میں کسی فائدے کے بارے میں سوچ بھی کب رہا ہوں۔"
"دفع کرو سالار ! اس سب کو۔۔۔۔۔تم کیوں کسی دوسرے کے معاملے میں کود رہے ہو اور وہ بھی وسیم کی بہن کے معاملے میں۔۔۔۔۔بہتر۔۔۔۔۔"
سالار نے اس بار درشتی سے اس کی بات کاٹی۔"تم مجھے صرف یہ بتاؤ میری مدد کرو گے یا نہیں۔۔۔۔۔باقی چیزوں کے بارے میں پریشان ہونا تمہارا مسئلہ نہیں ہے۔"
"ٹھیک ہے ، میں تمہاری مدد کروں گا۔میں مدد کرنے سے انکار نہیں کر رہا ہوں ، مگر تم یہ سوچ لو کہ یہ سب بہت خطرناک ہے۔"حسن نے ہتھیار ڈالنے والے انداز میں کہا۔
"میں سوچ چکا ہوں ، تم مجھے تفصیلات بتاؤ۔"سالار نے اس بار فرنچ فرائز کھاتے ہوئے کچھ مطمئن انداز میں کہا۔
"بس ایک بات۔۔۔۔۔اگر انکل اور آنٹی کو پتا چل گیا تو کیا ہو گا۔"
"انہیں پتا نہیں چلے گا ، وہ یہاں نہیں ہیں ، کراچی گئے ہوئے ہیں اور ابھی کچھ دن وہاں رکیں گے۔وہ یہاں ہوتے پھر میرے لیے یہ سب کچھ کرنا بہت مشکل ہوتا۔"سالار نے اسے مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔وہ اپنا برگر تقریباً ختم کر چکا تھا۔حسن اب اپنا برگر کھاتے ہوئے کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا نظر آ رہا تھا مگر سالار اس کے تاثرات کی طرف دھیان نہیں دے رہا تھا۔وہ جانتا تھا کہ حسن اس وقت اپنا لائحہ عمل طے کرنے میں مصروف ہے۔اسے حسن سے کسی قسم کا خوف یا خطرہ نہیں تھا۔وہ اس کا بہترین دوست تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
19-19-19-19
قسط نمبر 20
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حسن نے نکاح کے انتظامات بہت آسانی سے کر لیے تھے۔سالار نے اسے کچھ رقم دی تھی جس سے اس نے تین گواہوں کا انتظام کر لیا تھا۔چوتھے گواہ کے طور پر وہ خود موجود تھا۔نکاح خواہ کو اندازہ تھا کہ اس نکاح میں کوئی غیر معمولی کہانی تھی۔مگر اسے بھاری رقم کے ساتھ اتنی دھمکیاں بھی دے دی گئی تھیں کہ وہ خاموش ہو گیا۔
حسن سہ پہر کے وقت اس نکاح خواں اور تینوں گواہوں کو لے آیا تھا۔وہ سب سالار کے کمرے میں چلے گئے تھے۔وہیں بیٹھ کر نکاح نامہ بھرا گیا تھا۔سالار امامہ کو اس بارے میں پہلے ہی انفارم کر چکا تھا۔مقررہ وقت پر فون پر نکاح خواں نے ان دونوں کا نکاح پڑھا دیا تھا۔سالار نے ملازمہ کے ذریعے امامہ کو پیپرز بھجوا دیے تھے۔امامہ نے پیپرز لیتے ہی برق رفتاری سے ان پر سائن کر کے ملازمہ کو واپس دے دئیے تھے۔ملازمہ ان پیپرز کو واپس سالار کے پاس لے آئی تھی ، مگر وہ بری طرح تجسس کا شکار تھی۔
آخر وہ لوگ کون تھے جو سالار کے کمرے میں تھے اور یہ پیپرز کیسے تھے جن پر امامہ نے سائن کیا تھا۔اس کا ماتھا ٹھٹک رہا تھا اور اسے شبہ ہو رہا تھا کہ ہو نہ ہو وہ دونوں آپس میں شادی کر رہے تھے۔سالار کو پیپرز واپس دیتے ہوئے وہ پوچھے بغیر رہ نہیں سکی تھی۔
"یہ کس چیز کے کاغذ ہیں سالار صاحب؟"اس نے بظاہر سادگی اور معصومیت سے پوچھا۔
"تمہیں اس سے کیا۔۔۔۔۔جیسے بھی پیپرز ہوں۔۔۔۔۔تم اپنے کام سے کام رکھو۔"سالار نے درشتی سے اسے جھڑک دیا۔
"اور ایک بات تم کان کھول کر سن لو ، اس سارے معاملے کے بارے میں اگر تم اپنا منہ بند رکھو گی تو یہ تمہارے لیے بہتر ہو گا بلکہ بہت بہتر ہو گا۔۔۔۔۔"
"مجھے کیا ضرورت ہے جی کسی سے بھی اس بارے میں بات کرنے کی۔میں نے تو ویسے ہی پوچھ لیا۔آپ اطمینان رکھیں صاحب جی ! میں کسی کو کچھ نہیں بتاؤں گی۔"
ملازمہ فوراً گھبرا گئی تھی۔سالار ویسے بھی اتنا اکھڑ مزاج تھا کہ اسے اس سے بات کرتے ہوئے خوف آیا کرتا تھا۔سالار نے کچھ نخوت بھرے انداز میں سر کو جھٹکا۔اسے اس بات کا کوئی خوف نہیں تھا کہ ملازمہ یہ سب کسی کو بتا سکتی تھی۔اگر بتا بھی دیتی تو اسے کوئی فرق نہیں پڑنے والا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"تم ایک بار پھر جلال سے ملو ، ایک بار پھر پلیز۔۔۔۔۔"وہ اس دن اس سے فون پر کہہ رہی تھی۔
سالار اس بات پر چڑ گیا۔"وہ تم سے شادی نہیں کرنا چاہتا امامہ ! وہ کتنی بار کہہ چکا ہے۔آخر تم سمجھتی کیوں نہیں ہو کہ دوبارہ بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔اس نے بتایا تھا کہ اس کے ماں باپ اس کی کوئی منگنی وغیرہ کرنا چاہ رہے ہیں۔۔۔۔۔"
"وہ جھوٹ بول رہا ہے۔"امامہ نے بےاختیار اس کی بات کاٹ دی۔"صرف اس لیے کہ میں اس سے دوبارہ کانٹیکٹ نہ کروں ، ورنہ اس کے پیرنٹس اتنی جلدی اس کی منگنی کر ہی نہیں سکتے۔"
"تو جب وہ نہیں چاہتا تم سے شادی کرنا اور کانٹیکٹ کرنا۔۔۔۔۔تو تم کیوں خوار ہو رہی ہو اس کے پیچھے۔"
"کیونکہ میری قسمت میں خواری ہے۔"اس نے دوسری طرف سے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔
"اس کا کیا مطلب ہوا؟"وہ اُلجھا۔
"کوئی مطلب نہیں ہے۔نہ تم سمجھ سکتے ہو۔۔۔۔۔تم بس اسے جا کر کہو کہ میری مدد کرے ، وہ حضرت محمد ﷺ سے اتنی محبت کرتا ہے۔۔۔۔۔اس سے کہو کہ وہ آپ ﷺ کے لئے ہی مجھ سے شادی کر لے۔"وہ بات کرتے کرتے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
"یہ کیا بات ہوئی۔"وہ اس کے آنسوؤں سے متاثر ہوئے بغیر بولا۔"کیا یہ بات کہنے سے وہ تم سے شادی کر لے گا۔"
امامہ نے جواب نہیں دیا ، وہ ہچکیوں سے رو رہی تھی۔وہ بیزار ہو گیا۔
"تم یا تو رو لو۔۔۔۔۔یا پھر مجھ سے بات کر لو۔"
دوسری طرف سے فون بند کر دیا گیا۔سالار نے فوراً کال کی۔کال ریسیو نہیں کی گئی۔
پندرہ بیس منٹ کے بعد امامہ نے اسے دوبارہ کال کی۔"اگر تم یہ وعدہ کرتی ہو کہ تم روؤ گی نہیں تو مجھ سے بات کرو ، ورنہ فون بند کر دو۔"سالار نے اس کی آواز سنتے ہی کہا۔
"پھر تم لاہور جا رہے ہو۔"اس کے سوال کا جواب دینے کی بجائے اس نے اس سے پوچھا۔سالار کو اس کی مستقل مزاجی پر حیرانی ہوئی۔وہ واقعی ڈھیٹ تھی۔وہ اب بھی اپنی ہی بات پر اٹکی ہوئی تھی۔
"اچھا ، میں چلا جاؤں گا۔تم نے اپنے گھر والوں کو شادی کے بارے میں بتایا ہے۔"سالار نے موضوع بدلتے ہوئے کہا۔
"نہیں ، ابھی نہیں بتایا۔"وہ اب خود پر قابو پا چکی تھی۔
"کب بتاؤ گی؟"سالار کو جیسے ڈرامے کے اگلے سین کا انتظار تھا۔
"پتا نہیں۔"وہ کچھ اُلجھی۔"تم کب لاہور جاؤ گے؟"
"بس جلد ہی چلا جاؤں گا۔ابھی یہاں مجھے کچھ کام ہے ورنہ فوراً ہی چلا جاتا۔"
اس بار سالار نے جھوٹ بولا تھا۔نہ تو اسے کوئی کام تھا اور نہ ہی وہ اس بار لاہور جانے کا ارادہ رکھتا تھا۔
"جب تم بیلف کے ذریعے اپنے گھر سے نکل آؤ گی تو اس کے بعد تم کیا کرو گی۔۔۔۔۔آئی مین ! کہاں جاؤ گی؟"سالار نے ایک بار پھر اسے اس موضوع سے ہٹاتے ہوئے کہا۔"اس صورت میں جب جلال بھی تمہاری مدد کرنے پر تیار نہ ہوا تو۔۔۔۔۔"
"میں ابھی ایسا کچھ فرض نہیں کر رہی ، وہ ضرور میری مدد کرے گا۔"امامہ نے اس کی بات کاٹتے ہوئے پُر زور انداز میں کہا۔سالار نے کندھے اُچکائے۔
"تم کچھ بھی فرض کرنے کو تیار نہیں ہو ، ورنہ میں تم سے ضرور کہتا کہ شاید وہ نہ ہو جو تم چاہتی ہو پھر تم کیا کرو گی۔۔۔۔۔تمہیں دوبارہ اپنے پیرنٹس کی مدد کی ضرورت پڑے گی۔۔۔۔۔تو زیادہ بہتر یہی ہے کہ تم ابھی یہاں سے نہ جانے کا سوچو۔۔۔۔۔نہ ہی بیلف اور کورٹ کی مدد لو۔بعد میں بھی تو تمہیں یہاں ہی آنا پڑے گا۔"
"میں دوبارہ کبھی یہاں نہیں آؤں گی ، کسی صورت میں نہیں۔"
"یہ جذباتیت ہے۔"سالار نے تبصرہ کیا۔
"تم ان چیزوں کو نہیں سمجھ سکتے۔"امامہ نے ہمیشہ کی طرح اپنا مخصوص جملہ دُہرایا۔سالار کچھ جزبز ہوا۔
"اوکے۔۔۔۔۔کرو جو کرنا چاہتی ہو۔"اس نے لاپرواہی سے کہہ کر فون بند کر دیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"کل شام کو ہم لوگ اسجد کے ساتھ تمہارا نکاح کر رہے ہیں۔تمہاری رخصتی بھی ساتھ ہی کر دیں گے۔"
ہاشم مبین نے رات کو اس کے کمرے میں آ کر اکھڑے ہوئے لہجے میں کہا۔
"بابا ! میں انکار کر دوں گی۔۔۔۔۔آپ کے لئے بہتر ہے آپ اس طرح زبردستی میری شادی نہ کریں۔"
"تم انکار کرو گی تو میں تمہیں اسی وقت شوٹ کر دوں گا ، یہ بات تم یاد رکھنا۔"وہ سر اٹھائے انہیں دیکھتی رہی۔
"بابا ! میں شادی کر چکی ہوں۔"ہاشم مبین کے چہرے کا رنگ اُڑ گیا۔"میں اس لیے اس شادی سے انکار کر رہی تھی۔"
"تم جھوٹ بول رہی ہو۔"
"نہیں ، میں جھوٹ نہیں بول رہی ہوں۔میں چھے ماہ پہلے شادی کر چکی ہوں۔"
"کس کے ساتھ۔"
"میں یہ آپ کو نہیں بتا سکتی۔"
ہاشم مبین کو اندازہ نہیں تھا کہ وہ اس اولاد کے ہاتھوں ا تنا خوار ہوں گے۔آگ بگولہ ہو کر وہ امامہ پر لپکے اور انہوں نے یکے بعد دیگرے اس کے چہرے پر تھپڑ مارنے شروع کر دئیے۔وہ چہرے کے سامنے دونوں ہاتھ کرتے ہوئے خود کو بچانے کی کوشش کرنے لگی مگر وہ اس میں بری طرح ناکام رہی۔کمرے میں ہونے والا شور سن کر وسیم سب سے پہلے وہاں آیا تھا اور اسی نے ہاشم مبین کو پکڑ کر زبردستی امامہ سے دور کیا۔وہ دیوار کے ساتھ پشت ٹکائے روتی رہی۔
"بابا ! آپ کیا کر رہے ہیں ، سارا معاملہ آرام سے حل کیا جا سکتا ہے۔"وسیم کے پیچھے گھر کے باقی لوگ بھی اندر چلے آئے تھے۔
"اس نے۔۔۔۔۔اس نے شادی کر لی ہے کسی سے۔"ہاشم مبین نے غم و غصہ کے عالم میں کہا۔
"بابا ! جھوٹ بول رہی ہے ، شادی کیسے کر سکتی ہے۔ایک بار بھی گھر سے نہیں نکلی۔"یہ وسیم تھا۔
"چھے ماہ پہلے شادی کر لی ہے اس نے۔"امامہ نے سر نہیں اٹھایا۔
"نہیں ، میں نہیں مانتا۔ایسا نہیں ہو سکتا ، یہ ایسا کر ہی نہیں سکتی۔"وسیم اس کی رگ رگ سے واقف تھا۔امامہ نے دھندلائی آنکھوں کے ساتھ اسے دیکھا اور کہا۔
"ایسا ہو چکا ہے۔"
"کیا ثبوت ہے۔۔۔۔۔نکاح نامہ ہے تمہارے پاس؟"وسیم نے اکھڑ لہجے میں کہا۔
"یہاں نہیں ہے ، لاہور میں ہے ، میرے سامان میں۔"
"بابا ! میں کل لاہور سے اس کا سامان لے آتا ہوں۔دیکھ لیتے ہیں۔"وسیم نے ہاشم مبین سے کہا۔امامہ بےاختیار پچھتائی۔سامان سے کیا مل سکتا تھا۔
"شادی کر بھی لی ہے تو کوئی بات نہیں ، طلاق دلوا کر تمہاری شادی اسجد سے کرواؤں گا اور اس آدمی نے طلاق نہ دی تو پھر اسے قتل کروا دوں گا۔"ہاشم مبین نے سرخ چہرے کے ساتھ وہاں سے جاتے ہوئے کہا۔کمرہ آہستہ آہستہ خالی ہو گیا۔وہ اپنے بیڈ پر بیٹھ گئی۔اسے پہلی بار احساس ہو رہا تھا کہ جال میں پھنسنے کے بعد کے احساسات کیا ہوتے ہیں۔یہ ایک اتفاق تھا کہ نکاح نامے کی کاپی سالار نے اس کو نہیں بھجوائی تھی۔اگر اس کے پاس ہوتی بھی تو تب بھی وہ اسے ہاشم مبین کو نہیں دے سکتی تھی ورنہ سالار سکندر کا نام نکاح نامے پر دیکھنے کے بعد ان کے لئے اس تک پہنچنا اور اس سے چھٹکارا حاصل کرنا منٹوں کا کام تھا اور اس کے سامان سے نکاح نامہ نہیں ملے گا تو اس کے اس بیان پر کسی کو یقین نہ آ سکتا کہ وہ نکاح کر چکی تھی۔
اس نے کمرے کے دروازے کو لاک کر دیا اور موبائل پر سالار کو کال کرنے لگی۔اس نے اسے ساری صورتِ حال سے آگاہ کر دیا تھا۔
"تم ایک بار پھر لاہور جاؤ اور جلال کو میرے بارے میں بتاؤ۔۔۔۔۔میں اب اس گھر میں نہیں رہ سکتی۔مجھے یہاں سے نکلنا ہے اور اس کے علاوہ میں کہیں نہیں جا سکتی۔تم میرے لئے ایک وکیل کو ہائر کرو اور اس سے کہو کہ وہ میرے پیرنٹس کو میرے شوہر کی طرف سے مجھے حبس بےجا میں رکھنے کے خلاف ایک کورٹ نوٹس بھجوائے۔"
"تمہارے شوہر ، یعنی میری طرف سے۔"
"تم وکیل کو اپنا نام مت بتانا بلکہ یہ بہتر ہے کہ اپنے کسی دوست کے ذریعے وکیل کو ہائر کرو اور میرے شوہر کا کوئی بھی فرضی نام دے سکتے ہو۔تمہارا نام وکیل کے ذریعے انہیں پتا چلے گا تو وہ تم تک پہنچ جائیں گے اور میں یہ نہیں چاہتی۔"
امامہ نے اسے یہ نہیں بتایا کہ اسے کیا خدشہ ہے اور نہ ہی سالار نے اندازہ لگانے کی کوشش کی۔
اس سے بات کرنے کے بعد امامہ نے فون بند کر دیا۔اگلے روز دس گیارہ بجے کے قریب کسی وکیل نے فون کر کے ہاشم مبین سے امامہ کے سلسلے میں بات کی اور انہیں امامہ کو زبردستی اپنے گھر رکھنے کے بارے میں اس کے شوہر کی طرف سے کئے جانے والے کیس کے بارے میں بتایا۔ہاشم مبین کو مزید کسی ثبوت کی ضرورت نہیں رہی تھی۔وہ غصے میں پھنکارتے ہوئے اس کے کمرے میں گئے اور اسے بری طرح مارا۔
"تم دیکھنا امامہ ! تم کس طرح برباد ہو گی۔۔۔۔۔ایک ایک شے کے لیے ترسو گی تم۔۔۔۔۔جو لڑکیاں تمہاری طرح اپنے ماں باپ کی عزت کو نیلام کرتی ہیں ان کے ساتھ یہی ہوتا ہے۔تم ہمیں کورٹ تک لے گئی ہو۔۔۔۔۔۔تم نے وہ سارے احسان فراموش کر دئیے ، جو ہم نے تم پر کئے۔تمہارے جیسی بیٹیوں کو واقعی پیدا ہوتے ہی دفن کر دینا چاہئیے۔"
وہ بڑی خاموشی سے پٹتی رہی۔اپنے باپ کی کیفیات کو سمجھ سکتی تھی مگر وہ اپنی کیفیات اور اپنے احساسات انہیں نہیں سمجھا سکتی تھی۔
"تم نے ہمیں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا ، کسی کو نہیں۔ہمیں زندہ درگور کر دیا ہے تم نے۔"
سلمیٰ اس کے پیچھے کمرے میں داخل ہوئی تھیں مگر انہوں نے ہاشم مبین کو روکنے کی کوشش نہیں کی۔وہ خود بھی بری طرح مشتعل تھیں ، وہ جانتی تھیں کہ امامہ کا یہ قدم کس طرح ان کے پورے خاندان کو متاثر کرنے والا تھا اور خاص طور پر ان کے شوہر کو۔
"تم نے ہمارے اعتماد کا خون کیا ہے۔کاش تم میری اولاد نہ ہوتیں۔کبھی میرے خاندان میں پیدا نہ ہوئی ہوتیں۔پیدا ہو ہی گئی تھی تو تب ہی مر جاتی۔۔۔۔۔یا میں ہی تمہیں مار دیتا۔"امامہ آج ان کی باتوں اور پٹائی پر نہیں روئی تھی۔اس نے مدافعت کی کوئی کوشش نہیں کی تھی۔وہ صرف خاموشی کے ساتھ پٹتی رہی پھر ہاشم مبین احمد جیسے تھک سے گئے اور اسے مارتے مارتے رک گئے۔ان کا سانس پھول گیا تھا۔وہ بالکل خاموشی سے ان کے سامنے دیوار کے ساتھ لگی کھڑی تھی۔
"تمہارے پاس ابھی بھی وقت ہے ، سب کچھ چھوڑ دو۔اس لڑکے سے طلاق لے لو اور اسجد سے شادی کر لو۔ہم اس سب کو معاف کر دیں گے ، بھلا دیں گے۔"اس بار سلمیٰ نے تیز لہجے میں اس سے کہا۔
"نہیں ، واپس آنے کے لئے اسلام قبول نہیں کیا ،مجھے واپس نہیں آنا۔"امامہ نے مدھم مگر مستحکم آواز میں کہا۔"آپ مجھے اس گھر سے چلے جانے دیں ، مجھے آزاد کر دیں۔"
"اس گھر سے نکل جاؤ گی تو دنیا تمہیں بہت ٹھوکریں مارے گی۔۔۔۔۔تمہیں اندازہ ہی نہیں ہے کہ باہر کی دنیا میں کیسے مگرمچھ تمہیں ہڑپ کرنے کے لیے بیٹھے ہیں۔جس لڑکے سے شادی کر کے تم نے ہمیں ذلیل کیا ہے وہ تمہیں بہت خوار کرے گا۔ہمارے خاندان کو دیکھ کر اس نے تمہارے ساتھ اس طرح چوری چھپے رشتہ جوڑا ہے ، جب ہم تمہیں اپنے خاندان سے نکال دیں گے اور تم پائی پائی کی محتاج ہو جاؤ گی تو وہ بھی تمہیں چھوڑ کر بھاگ جائے گا ، تمہیں کہیں پناہ نہیں ملے گی ، کوئی ٹھکانہ نہیں ملے گا۔"سلمیٰ اب اسے ڈرا رہی تھیں۔"ابھی بھی وقت ہے امامہ ! تمہارے پاس ابھی بھی وقت ہے۔"
"نہیں امی ! میرے پاس کوئی وقت نہیں ہے ، میں سب کچھ طے کر چکی ہوں۔میں اپنا فیصلہ آپ کو بتا چکی ہوں۔مجھے یہ سب قبول نہیں۔آپ مجھے جانے دیں ، اپنے خاندان سے الگ کرنا چاہتے ہیں ، کر دیں۔جائیداد سے محروم کرنا چاہتے ہیں ، کر دیں۔میں کوئی اعتراض نہیں کروں گی مگر میں کروں گی وہی جو میں آپ کو بتا رہی ہوں۔میں اپنی زندگی کے راستے کا انتخاب کر چکی ہوں۔آپ یا کوئی بھی اسے بدل نہیں سکتا۔"
"ایسی بات ہے تو تم اس گھر سے نکل کر دکھاؤ ، میں تمہیں جان سے مار دوں گا لیکن اس گھر سے تمہیں جانے نہیں دوں گا۔۔۔۔۔اور اس وکیل کو تو میں اچھی طرح دیکھ لوں گا۔تمہیں اگر یہ خوش فہمی ہے کہ کوئی کورٹ یا عدالت تمہیں میری تحویل سے نکال سکتی ہے تو یہ تمہاری بھول ہے ، میں تمہیں کبھی بھی کہیں بھی جانے نہیں دوں گا۔میں بیلف کے آنے سے پہلے اس گھر سے کہیں اور منتقل کر دوں گا پھر میں دیکھوں گا کہ تم کس طرح اپنے فیصلے کو تبدیل نہیں کرتیں اور مجھے اگر وہ لڑکا نہ ملا جس سے تم نے شادی کی ہے تو پھر میں اس بات کی پرواہ کیے بغیر کہ تمہارا نکاح ہو چکا ہے اسجد سے تمہاری شادی کر دوں گا۔میں اس شادی کو سرے سے ماننے سے انکار کرتا ہوں۔تمہاری شادی صرف وہ ہو گی جو میری مرضی سے ہو گی ، اس کے علاوہ نہیں۔"وہ مشتعل انداز میں کہتے ہوئے سلمیٰ کے ساتھ باہر نکل گئے۔وہ وہیں دیوار کے ساتھ کھڑی خوفزدہ اور پریشان نظروں سے دروازے کو دیکھتی رہی۔اس نے جس مقصد کے لیے شادی کی تھی اس کا کوئی فائدہ ہوتا نظر نہیں آ رہا تھا۔ہاشم مبین احمد اپنی بات پر چٹان کی طرح اڑے ہوئے تھے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"بےچاری امامہ بی بی ! " ناصرہ نے سالار کے کمرے کی صفائی کرتے ہوئے اچانک بلند آواز میں افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔سالار نے مڑ کر اسے دیکھا۔وہ اپنی اسٹڈی ٹیبل پر پڑی ہوئی کتابوں کو سمیٹ رہا تھا۔ناصرہ اسے متوجہ دیکھ کر تیزی سے بولی۔
"بڑی مار پڑی ہے جی کل رات کو۔"
"کس کو مار پڑی ہے؟"سالار نے کتابیں ایک طرف رکھتے ہوئے کہا۔
"امامہ بی بی کو جی ! اور کسے۔"وہ کتابیں ایک طرف کرتے کرتے رک گیا اور ناصرہ کو دیکھا جو کمرے میں موجود ایک شیلف کی جھاڑ پونچھ کر رہی تھی۔
"ہاشم مبین نے کل بہت مارا ہے اسے۔"
سالار بےحد محفوظ ہوا۔"واقعی؟"
"ہاں جی ، بہت زیادہ پٹائی کی ہے ، میری بیٹی بتا رہی تھی۔"ناصرہ نے کہا۔
"ویری نائس۔"سالار نے بےاختیار تبصرہ کیا۔
"جی۔۔۔۔۔آپ کیا کہہ رہے ہیں؟"ناصرہ نے اس سے پوچھا۔
اس کے ہونٹوں پر موجود مسکراہٹ ناصرہ کو بڑی عجب لگی۔اسے توقع نہیں تھی کہ وہ اس خبر پر مسکرائے گا۔اس کے ذاتی "قیافوں " اور "اندازوں" کے مطابق ان دونوں کے درمیان جیسے تعلقات تھے اس پر سالار کو بہت زیادہ افسردہ ہونا چاہئیے تھا مگر یہاں صورت ِحال بالکل برعکس تھی۔
"بےچاری امامہ بی بی کو پتا چل جائے کہ سالار صاحب اس خبر پر مسکرا رہے تھے تو وہ تو صدمے سے ہی مر جائیں۔"ناصرہ نے دل میں سوچا۔
"کس بات پر مارنا ہے جی ! سنا ہے وہ اسجد صاحب سے شادی پر تیار نہیں ہیں کسی اور "لڑکے" سے شادی کرنا چاہتی ہیں۔"ناصرہ نے لڑکے پر زور دیتے ہوئے معنی خیز انداز میں سالار کو دیکھا۔
"بس اس بات پر۔"سالار نے لاپرواہی سے کہا۔
"یہ کوئی چھوٹی بات تھوڑی ہے جی ، ان کے پورے گھر میں طوفان مچا ہوا ہے۔شادی کی تاریخ طے ہو چکی ہے ، کارڈ آ چکے ہیں اور اب امامہ بی بی بضد ہیں کہ وہ اسجد صاحب سے شادی نہیں کریں گی۔بس اسی بات پر ہاشم صاحب نے ان کی پٹائی کی۔"
"یہ تو کوئی بڑی بات نہیں ہے کہ اس پر کسی کو مارا جائے۔"وہ اپنی کتابوں میں مصروف تھا۔
"یہ تو آپ کہہ رہے ہیں نا۔۔۔۔۔ان لوگوں کے لیے تو یہ بہت بڑی بات ہے۔"ناصرہ نے اسی طرح صفائی کرتے ہوئے تبصرہ کیا۔"میں تو بڑی دکھی ہوں ! امامہ بی بی کے لیے۔بڑی اچھی ہیں ، ادب لحاظ والی۔۔۔۔۔اور اب دیکھیں۔۔۔۔۔کیا قیامت ٹوٹ پڑی ہے ان پر۔ہاشم صاحب نے گھر سے نکلنے پر پابندی لگا دی ہے۔میری بیٹی روز ان کا کمرہ صاف کرتی ہے۔۔۔۔۔۔اور وہ بتاتی ہے کہ ان کا تو چہرہ ہی اُتر کر رہ گیا ہے۔"
ناصرہ اسی طرح بول رہی تھی۔شاید وہ شعوری طور پر یہ کوشش کر رہی تھی کہ سالار اسے اپنا اور امامہ کا حمایتی اور طرف دار سمجھتے ہوئے کوئی راز کہہ دے مگر سالار احمق نہیں تھا اور اسے ناصرہ کی اس نام نہاد ہمدردی سے کوئی دلچسپی تھی بھی نہیں۔اگر امامہ کی پٹائی ہو رہی تھی اور اسے کچھ تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا تو اس سے اس کا کیا تعلق تھا ، مگر اسے اس صورت ِحال پر ہنسی ضرور آ رہی تھی۔کیا اس دور میں بھی کوئی اس عمر کی اولاد پر ہاتھ اٹھا سکتا ہے اور وہ بھی ہاشم مبین احمد جیسے امیر طبقے کا آدمی ۔۔۔۔۔حیرانی کی بات تھی۔۔۔۔۔"
سوچ کی ایک ہی رُو میں بہت سے متضاد خیالات بہ رہے تھے۔
ناصرہ کچھ دیر اسی طرح بولتی اپنا کام کرتی رہی مگر پھر جب اس نے دیکھا کہ سالار اس کی گفتگو میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہا اور اپنے کام میں مصروف ہو چکا ہے تو وہ قدرے مایوس ہو کر خاموش ہو گئی۔"یہ پہلے محبت کرنے والے تھے ، جن کا رویہ بےحد عجیب تھا۔۔۔۔۔کوئی اضطراب۔۔۔۔۔ بےچینی اور پریشانی تو ان دونوں کے درمیان نظر ہی نہیں آ رہی تھی۔۔۔۔۔ایک دوسرے کی تکلیف کا بھی سن کر ۔۔۔۔۔شاید امامہ بی بی بھی ان کے بارے میں اس طرح کی کوئی بات سن کر اسی طرح مسکرائیں ، کون جانتا ہے۔"
ناصرہ نے شیلف پر پڑی ایک تصویر اٹھا کر صاف کی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
گھر چھوڑ دینے کا فیصلہ اس کی زندگی کے سب سے مشکل اور تکلیف دہ فیصلوں میں سے ایک تھا مگر اس کے علاوہ اس کے پاس اب دوسرا کوئی راستہ نہیں تھا۔ہاشم مبین احمد اسے کہاں لے جاتے اور پھر کس طرح اسے طلاق دلوا کر اس کی شادی اسجد سے کرتے ، وہ نہیں جانتی تھی۔واحد چیز جو وہ جانتی تھی وہ یہ حقیقت تھی کہ ایک بار وہ اسے کہیں اور لے گئے تو پھر اس کے پاس رہائی اور فرار کا کوئی راستہ نہیں بچے گا۔وہ یہ بات اچھی طرح جانتی تھی کہ وہ اسے جان سے کبھی نہیں ماریں گے مگر زندہ رہ کر اس طرح کی زندگی گزارنا زیادہ مشکل ہو جاتا ، جیسی زندگی کی وہ اس وقت توقع اور تصور کر رہی تھی۔
ہاشم مبین احمد کے چلے جانے کے بعد وہ بہت دیر تک بیٹھ کر روتی رہی اور پھر اس نے پہلی بار اپنے حالات پر غور کرنا شروع کیا۔اسے گھر سے صبح ہونے سے پہلے پہلے نکلنا تھا اور نکل کر کسی محفوظ جگہ پر جا کر پہنچنا تھا۔محفوظ جگہ۔۔۔۔۔؟اس کے ذہن میں ایک بار پھر جلال انصر کا خیال آیا ، اس وقت صرف وہی شخص تھا جو اسے صحیح معنوں میں تحفظ دے سکتا تھا۔ہو سکتا ہے مجھے اپنے سامنے دیکھ کر اس کا فیصلہ اور رویہ بدل جائے ، وہ اپنے فیصلے پر غور کرنے پر مجبور ہو جائے ، ہو سکتا ہے وہ مجھے سہارا اور تحفظ دینے پر تیار ہو جائے ، اس کے والدین کو مجھ پر ترس آ جائے۔
ایک موہوم سی اُمید اس کے دل میں اُبھر رہی تھی۔وہ مدد نہیں بھی کرتے تب بھی کم از کم میں آزاد تو ہوں گی۔اپنی زندگی کو اپنی مرضی سے گزار تو سکوں گی مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میں یہاں سے کیسے نکلوں گی اور جاؤں گی کہاں۔۔۔۔۔؟
وہ بہت دیر تک پریشانی کے عالم میں بیٹھی رہی ، اسے ایک بار پھر سالار کا خیال آیا۔
"اگر میں کسی طرح اس کے گھر پہنچ جاؤں تو وہ میری مدد کر سکتا ہے۔"
اس نے سالار کے موبائل پر اس کا نمبر ملایا۔موبائل آف تھا ، کئی بار کال ملائی لیکن اس سے رابطہ نہ ہو سکا۔امامہ نے موبائل بند کر دیا۔اس نے ایک بیگ میں اپنے چند جوڑے ، کپڑے اور دوسری چیزیں رکھ لیں۔اس کے پاس کچھ زیورات اور رقم بھی تھی ، اس نے انہیں بھی اپنے بیگ میں رکھ لیا پھر جتنی بھی قیمتی چیزیں اس کے پاس تھیں ، جنہیں وہ آسانی سے ساتھ لے جا سکتی تھی اور بعد میں بیچ کر پیسے حاصل کر سکتی تھی وہ انہیں اپنے بیگ میں رکھتی گئی۔بیگ بند کرنے کے بعد اس نے اپنے کپڑے تبدیل کیے اور پھر دو نفل ادا کیے۔
اس کا دل بےحد بوجھل ہو رہا تھا۔بےسکونی اور اضطراب نے اس کے پورے وجود کو اپنی گرفت میں لیا ہوا تھا۔آنسو بہا کر بھی اس کے دل کا بوجھ کم نہیں ہوا تھا۔نوافل ادا کرنے کے بعد جتنی آیات اور سورتیں اسے زبانی یاد تھیں اس نے وہ ساری پڑھ لیں۔
بیگ لے کر اپنے کمرے کی لائٹ بند کر کے وہ خاموشی سے باہر نکل گئی۔لاؤنج کی ایک لائٹ کے علاوہ ساری لائٹیں آف تھیں۔وہاں زیادہ روشنی نہیں تھی۔وہ محتاط انداز میں چلتے ہوئے سیڑھیاں اُتر کر نیچے آ گئی اور پھر کچن کی طرف چلی گئی۔کچن تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔وہ محتاط انداز میں چیزوں کو ٹٹولتے ہوئے کچن کے اس دروازے کی طرف بڑھ گئی جو باہر لان میں کھلتا تھا۔عقبی لان کے اس حصے میں کچھ سبزیاں لگائی گئی تھیں اور اس گھر میں کچن کا وہ دروازہ واحد دروازہ تھا جسے لاک نہیں کیا جاتا تھا ، صرف چٹخنی لگا دی جاتی تھی۔دروازہ اس رات بھی لاک نہیں تھا۔وہ آہستگی سے دروازہ کھول کر باہر نکل آئی۔کچھ فاصلے پر سرونٹ کوارٹرز تھے ، وہ بےحد محتاط انداز میں چلتے ہوئے لان عبور کر کے اپنے اور سالار کے گھر کی درمیانی دیوار تک پہنچ گئی۔دیوار بہت زیادہ بلند نہیں تھی ، اس نے آہستگی سے بیگ دوسری طرف پھینک دیا اور پھر کچھ جدوجہد کے بعد خود بھی دیوار پھلانگنے میں کامیاب ہو گئی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭