صفحات

تلاش کریں

9-دیوانگی

 زندگی کاموڑ

اس روزآصفی محلے کی طرف جاتے ہوئے ایلی پہلی مرتبہ لوگوں کی نظریں بچاکرنکلنے کی کوشش کررہاتھا۔اسے خودبھی معلوم نہ تھاکہ کیوں ایساکررہاہے۔اگرچہ طبعی طورپروہ نگاہوں چڑھنے گھبراتاتھالیکن محلے کی اوربات تھی۔محلے میں اہمیت محسوس کیاکرتاتھا۔جب وہ محلے کے کسی لڑکے کی آوازسنتا!
”آگئے بابوبی۔“
توخوشی کی ایک لہر دوڑجاتی۔
محلے کے بازارمیں سب سے پہلے حکیم بوٹاکی دوکان تھی۔بوٹے کے اندازمیں سکنجبین کی سی ترشی تھی۔وہ ہمیشہ طنزبھری بات کرتا۔لیکن ایلی کوبری نہیں لگتی تھی۔بوٹے کے بعدچاندحلوائی کی دوکان تھی ایلی کودیکھتے ہی اس زرددانت نکل آتے۔
”آگئے بابوجی۔نمستے مہاراج۔“وہ دونوں ہاتھ جوڑکرماتھے پررکھ لیتا۔
اس روزنہ جانے ایلی کوکیاہواتھا۔ان جانے میں وہ چھپ چھپ کرگھرجارہاتھا۔کہیں حکیم نہ دیکھ پائے۔چانددکان پرموجودنہ ہو۔چانداورحکیم کے دیکھنے کاتوسوال ہی پیدانہ ہوتاتھاکیونکہ رات پڑچکی تھی۔لوگ دکانیں بڑھاچکے تھے۔بہرصورت نتھوتمباکوفروش کی دکان پرحسب معمول جھمگٹاتھااوروہ سب اندربیٹھے ہوئے چوپٹ کھیل رہے تھے۔انہیں دیکھ کرایک ساعت کے لئے وہ رکا۔پھرمنہ دوسری طرف موڑکرچپکے سے آگے نکل گیا۔نتھوکی دکان کی مشکل توحل ہوگئی اب سرداردودھ والے کی دکان سے گزرناتھا۔خوشی قسمتی سے اس روزاس کی دکان پرکوئی بھی نہ تھا۔پنچ خالی پڑاتھاجس پرمحلے کے لوگ اکثردیرتک بیٹھ کرادھرادھرکی گپ ہانکاکرتے تھے۔سردارخودبازارکی طرف پیٹھ کئے دودھ کی کڑاہی صاف کررہاتھا۔
مسجدکے قریب پہنچ کرایلی شاہ ولی کی خانقاہ کی چاردیواری کے سائے میں چلنے لگاتاکہ مسجدسے آتاہواکوئی بزرگ اسے نہ دیکھے۔چوگان ویران پڑاتھاجس کے اوپرمحلے کی کھڑکیاں یوں ٹمٹمارہی تھی جیسے قبرستان میں یہاں وہاں دئیے جل رہے ہوں۔ایک ساعت کے لئے وہاں رکااورپھرایک ہی جست میں چوگان کوپارکرکے چھتی گلی میں جاگھسا۔اتنی رات گئے فرحت کے گھرکی اندھیری ڈیوڑھی سے گزرناتوممکن نہ تھاکیونکہ وہ دروازہ توگھروالے سرشام ہی بندکرلیاکرتے تھے۔شہزادکی طرف سے جاتے ہوئے وہ گھبراتاتھاکیونکہ شہزادکے چوبارے کی نچلی منزلیں میں سعیدہ رہتی تھی اورسعیدہ کے سامنے اوپرجانا،یہ اسے گوارانہ تھا۔سعیدہ کے کہے گی۔منہ سے نہ بھی کہے تودل میں کہے گی۔اللہ کرے سعیدہ کادروازہ کھلاہوتاکہ اسے کھٹکھٹانانہ پڑے۔
دروازہ کھلادیکھ کراس نے اطمینان کاسانس لیااورپھرچندایک ساعت کے لئے نچلے منزل کاجائزہ لینے کے بعدوہ سائے کی طرح لپک کراوپرکے زینے میں جاپہنچا۔آہستہ آہستہ اس نے وہ سیڑھیاں نہ جانے کتنی دیرمیں طے کیں تاکہ سعیدہ یاشہزادکوپاوں کی چاپ سنائی نہ دے۔
سیڑھیوں میں چھپ کراس نے ایک نگاہ شہزادکے چوبارے پرڈالی۔چوبارے کے دروازے کے عین درمیان میں ایک چوکی پرسلائی مشین رکھے وہ کچھ سینے میں مصروف تھی۔شانے جھکے ہوئے تھے۔سیاہ تاروں والادوپٹہ ایک شان بے نیازی سے اس کے کندھوں پرلٹک رہاتھا۔سیاہ دوپٹے میں اس کاسفیدچہرہ کسی انجانی مسرت سے چمک رہاتھا۔سیاہ سرمگیں آنکھیں دواڑی ترچھی قندیلوں کی طرح چمک رہی تھیں۔اورماتھے کے عین درمیان میں سیاہ تلک آویزاں تھا۔آدھی آستینوں والے بھرے بھرے بازومشین پرلٹک رہے تھے۔
شہزادکودیکھ کراس کادل خوشی سے دھک سے رہ گیا۔ایلی نے محسوس کیاجیسے وہ سنگ مرمرکامجسمہ ہو۔جیتاجاگتامجسمہ۔وہ ایک سپناتھی۔سندرسپنا۔ایساسپناجس کی تعمیر کے متعلق اسے خودبھی علم نہ تھا۔
آہستہ آہستہ وہ شہزادکی طرف بڑھااورچپکے سے آنکھ بچاکراس کے پہلو میں جابیٹھااورپھراس کے لٹکتے ہوئے بازوکوگرفت میں لے کردیوانہ وارچومنے لگا۔
شہزاداسے دیکھ کرڈرگئی۔
”ہائے تم ہو۔“وہ چلائی۔”تم نے تومجھے ڈرادیا۔“
ایلی نے اپنامنہ اس کے گورے ہاتھوں میں گاڑدیا۔
”یہ کیاحماقت ہے۔“ ہو اسے گھورنے لگی لیکن اس کی شیریں آوازمیں مسکراہٹ کی واضح جھلک تھی۔جیسے تیوری محض دکھلاواہو۔
”یہ کیاپگلاپن ہے۔“شہزادنے اسے گھورا۔
”ہے پھر۔“وہ بولا۔”کرلوجوکرناہے۔“
”وہ ہنس پڑی:”اب پاگلوں سے کون لڑے ۔“
”لڑکردیکھ لو۔اگرہمت ہے تو۔“ایلی نے کہا۔
”اونہوں۔“شہزادنے ہونٹوں پرانگلی رکھ کرکہا:”چپ وہ--“
”کون ہے۔“ایلی گھبرااٹھا۔”کون ہے؟“
”جانو۔“وہ زیرلب بولی اوراس نے صحن کے پرلے کونے کی طرف اشارہ کیا۔”وہ ابھی آجائے گی میں نے اسے گھرکاکام کرنے کے لئے پاس رکھ لیاہے۔“
ایلی کی تمام ترمسرت مفقودہوگئی اوروہ چپ چاپ یوں بیٹھ گیاجیسے اسے شہزادکی آڑی ترچھی آنکھوں اس کے سیاہ دوپٹے اورگورے بازووں سے کوئی تعلق نہ ہو۔
”آخر آہی گئے تم۔“شہزادزیرلب بولی۔
”آناہی پڑا“۔ایلی نے کہا۔
”اورجواتنی دیر وہاں ٹھہرے رہے۔امتحان کے بعدوہ--“شہزادمسکرائی۔”بولو--جواب دو۔“
”تم نے جوکہاتھا۔میں شکایت کردوں گی۔یادہے کہاتھاناں۔“ایلی ہنسا۔
شہزادنے مسکراکرسراثبات میں ہلادیا۔
”جھوٹ کہاتھاکیا۔“وہ آنکھیں چمکاکربولی۔
ایلی نے محسوس کیاجیسے اس کے روبرودوشمعیں روشن ہوگئی ہوں۔
وہ نگاہ اس کے لئے ایک نئی چیز تھی جس میں چمک کے علاوہ عجیب سی گرمی تھی جس کے زیراثراس کے خون میں حدت پیداہوجاتی تھی۔کنپٹیاں تھرکنے لگتیں۔آنکھوں میں خمارامڈآتاورپلکیں بوجھل ہوکرجھک جاتیں۔اس ایک نگاہ سے ایلی نے محسوس کیاجیسے گردوپیش کوایک سہرے دھندلکے نے لپیٹ میں لے لیاہو۔جیسے تمام کائنات منورہوگئی ہو۔جیسے زندگی نے ایک نیاروپ دھارلیاہو۔وہ اس ایک بے پایاں نگاہ کے نشے میں سرشارنہ جانے کب تک بیٹھارہا۔حتیٰ کہ جانوہاتھ میں لوٹالئے باہرنکلی اوراسے دیکھ کرچلائی۔
”ایلی ہے۔کب آیا۔کیاسکول چھوڑدیایاویسے ہی چھٹی پرآیاہے۔اے ہے بولتانہیں۔“وہ پنجے جھاڑکراس کے پیچھے پڑگئی۔
”بولتاتوہوں۔کیاکہتی ہے تو۔“ایلی نے کہا۔
”کہاں بولتاہے توجیسے مدھک پی رکھی ہو۔آنکھیں تودیکھ اپنی۔“جانونے ہنس کرکہا۔
ایلی کوبات ٹالنے کی ترکیب نہ سوجھی،بولا:”تجھے دیکھ نہ جانے کیاہوگیاہے آنکھوں کو۔“
کسی کی جرات ہے میری طرف دیکھے۔“وہ غرائی ۔”دیدے نہ پھوڑدوں گی۔آج تک توجرات نہ ہوئی کسی کومیری طرف دیکھنے کی۔“
شہزادکی آنکھوں میں پھوارپڑنے لگی۔وہ ہنستے ہوئے بولی:”یہ تودیکھ رہاہے روک لے۔اسے ورنہ سرچڑھ جائے گا۔بات بڑھ جائے گی۔“
”ہوں ۔“وہ نفرت سی بولی۔”یہ کیاسرچڑھے گا۔“
”ناک نہ چڑھاجانو۔“ایلی قہقہہ مارکربولا:”پہلے ہی تیری ناک تلوارکی طرح تیزہے۔“
”لے کرلے بات۔“شہزادنے پھروہی نگاہ ایلی پرڈالی۔
”دفع کران آجکل کے چھوکروں کو۔جومنہ میں آتاہے بک دیتے ہیں۔“یہ کہتے ہوئے وہ کمرے کے پرلے کونے کی طرف چل پڑی اوربڑبڑاتی ہوئی کام میں مصروف ہوگئی۔
شہزادنے پھروہ نگاہ ایلی پرڈالی۔اس کی آنکھیں چمکیں ۔ہونٹوں میں نہ جانے کیسی مقناطیسی جنبش پیداہوئی اورپیشانی کاتلک دفعتاً منورہوگیا۔ایلی کے دل میں نہ جانے کیاہونے لگا۔اس کے جسم سے پھلجڑی کی طرح انگارے نکلنے لگے۔
ایلی کاسرشانوں پربھن بھن کررہاتھا۔شہزادیوں انہماک سے سوئی میں تاگاپرورہی تھی جیسے احساس ہی نہ ہوکہ پاس کون بیٹھاہے۔ایلی کی نگاہوں تلے شہزادکے سرکے گردایک سنہری ہالہ چمک رہاتھا۔دورجانونہ جانے کیابڑبڑارہی تھی۔
اس روزکواپنی گزشتہ زندگی ایک دھندلاخواب محسوس ہونے لگی۔اسے محسوس ہورہاتھاجیسے وہ ازسرنوپیداہواہے۔شہزادکے بطن سے پیداہواہواورایک نئی زندگی سے نوازاگیاہو۔
جیسے اس نے زندگی کاپہلاموڑطے کرلیاہواوراس کے طے کرتے ہی زندگی کی شکل کلیتہً بد ل گئی ہو۔اتنی سی بات نے اس کی زندگی بدل دی تھی۔صرف اتنی سی بات نے کہ اس نے دولٹکتے ہوئے بازووں کوتھام لیاتھااورخفت سے بچنے کے لئے محبت کاڈھونگ رچالیاتھا۔زندگی کس قدرعجیب تھی اوروہ زندگی کاموڑکس قدرحسین تھا۔

جانو

نہ جانے شہزادکاکیاہے۔ایلی سوچنے لگا۔نگاہ اٹھاکردیکھتی ہے تواس قدرقریب آجاتی ہے کہ نسوں میں تھرکتی محسوس ہوتی ہے۔پہلومیں دھڑکتی ہوئی سنائی دیتی ہے۔گرمی کی روکی طرح بندبندمیں رینگتی ہے اورکبھی یوں دیکھتی ہے جیسے کوسوں دورہو۔جیسے اسے ایلی کے وجودکابھی شعورنہ ہو۔احساس ہی نہ ہوکہ ان دونوں میںکوئی بندھن ہے۔
صرف نگاہ ہی نہیں اس کی خاموشی بھی ایسے ہی اثرات کی حامل تھی۔کبھی وہ آنکھیں جھکاکرکام میں لگ جاتی توکبھی ایلی کومحسوس ہوتاجیسے وہ اس پرجکھی ہوئی ہوجیسے اس کے جسم کی گرمی اسے پگھلارہی ہو۔جیسے اس کانرم وگذارجسم اس سے مس ہورہاہو۔مگر کبھی جب وہ آنکھیں جھکائے کام میں مصروف ہوتی توگویاوہ برف کاایک تودہ بن جاتی۔اس کے انگ انگ سے نیگانگیت کی لہریں نکلتیں اورایلی کومنجمدکردیتیں۔اوروہ اضطراب اورگھبراہٹ سے پہلو بدلنے لگتا۔نہ جانے یہ خصوصیت صرف شہزادمیں ہے یاسبھی عورتوں میں ہوتی ہے--بیٹھے بیٹھے وہ سوچنے لگاکیاسبھی عورتوں کے کئی روپ ہوتے ہیں۔کیاوہ سب آن میں رادھابن جاتی ہیں۔اسے کچھ سمجھ نہیں آتاتھا۔جب شہزادسے قرب کااحساس حاصل ہوتاتوایلی کے لئے سانس لینابھی پرلذت ہوجاتالیکن جب وہ بیگانگیت کاروپ دھارتی توایلی کے دل میں ازسرنواحساس کمتری جاگ اٹھتااوروہ دیوانہ واراپنے آپ کوکوستا۔
”اب توچائے پئے بغیرنہ جائے گاکیا؟“جانونے اس کے قریب آکرکہاتھا۔
وہ چونکا۔
”توابھی تک یہیں ہے۔“ایلی نے پوچھا۔
دونوں ہاتھ کمرپررکھ کرجانوسرہلانے لگی۔
”توکیاچلی جاوں۔اچھی نہیں لگتی تجھے۔“
”نہیں نہیں۔اچھی لگتی ہے تو۔“ایلی نے پینترابدلا۔“بہت اچھی لگتی ہے۔“
”نہ مجھے نہیں اچھالگتایہ مذاق ۔“جانوبولی۔
”تجھ سے نہ کرے توکس سے کرے مذاق ۔“شہزادنے کہا۔
”کیوں۔کیاماں بہن سے کرے گامذاق۔سچ ہے آخر بیٹاکس کاہے۔علی احمدکاہی نا“
”کیوں۔“وہ چمک کربولا۔”علی احمدنے کیاکیاتھامذاق۔“
جانوگالیاں دینے لگی۔
شرم نئیں آتی جو منہ میں آیابک دیا۔“
”توپلادے اسے چائے توخاموش ہوجائے گا۔“شہزادنے ویسے ہی بے پرواہی سے کہا۔اورجانوچائے بنانے لگی۔
جانوعرصہ درازسے آصفی محلے میں مقیم تھی وہ آصفی نہ تھی بلکہ ان لوگوں میں سے تھی جوباہر سے آکرمحلے میں رہنے لگے تھے۔جانوکاخاوندعرصہ درازسے فوت ہوچکاتھا۔اوراب دونوں ماں بیٹی کاگزارہ محلے والوں کے کام کاج میں ہاتھ بٹانے پرتھاکیونکہ اس کے علاوہ ان کاکوئی ذریعہ آمدنی نہ تھا۔کام کاج نہ بھی ہوتاتوبھی محلے والے جانوکوکچھ نہ کچھ دیتے رہتے۔
جانوکارنگ کھلاکھلاتھا۔نقوش ستواں تھے۔اسے دیکھ کرخیال آتاتھاکہ جوانی کے دونوں میں بے حسین ہوگی۔اگرچہ لب اس کے حسین نقوش پرضبط کی کرختگی کی مہرلگی ہوئی تھی۔محلے والے جانوکی بے حدعزت کرتے تھے۔کیونکہ نوجوانی میں بیوہ ہوجانے کے باوجوداس نے تمام زندگی پاکبازی میں گزاری تھی۔محلے میں کسی شخص نے کبھی اس پرانگلی نہ اٹھائی تھی۔محلے والے اس کی شرافت کاتذکرہ اکثرکیاکرتے تھے اورجانواپنی اہمیت کااحساس اس پاک دامانی سے اخذکرتی تھی اوراسی وجہ سے ہرکسی سے پاک دامنی کامطالبہ کرنے کی عادی ہوچکی تھی۔اس کی آوازمیں کرختگی پیداہوچکی تھی۔اس کے مزاج میں درشتی اورلاابالیت تھی۔محلے کے لوگ اس کی سخت مزاجی پرنکتہ چینی کرنے لگے تھے۔حالانکہ یہ خصوصیات انہوں نے بذات خوداس میں پیداکی تھیں۔بلکہ یوں کہئے کہ انہوں نے اپنے خیالات کے اظہارسے جانوپرعائد کردیاتھاکہ وہ کسی سے ملائمت اورالتفات سے بات نہ کرے کیونکہ اس کی تمامترعظمت اجتناب پرقائم کی جاچکی تھی۔بہرحال جانوکویہ احساس نہ تھاکہ لوگوں نے اس کے متعلق ایک رائے قائم کرکے دراصل اسے زندگی کے اثباتی پہلووں سے محروم کردیاہے۔
چونکہ جانوکی تمامتراہمیت ”دامن ترمکن ہشیارباش“پرمبنی تھی اس لئے وہ سمجھنے لگی تھی کہ وہ ”دامن ترمکن ہشیارباش“کی تلقین کرنے کے لئے دنیامیں بھیجی گئی ہے۔اپنی تمامترزندگی کوسنوارنے کے بعداب وہ دوسروں کی زندگی کوسنوارنااپنافرض سمجھتی تھی اوراسی وجہ سے ہرجوان لڑکی یامٹیارحسینہ کوبا ت بات پرہدایت کرنے کی عادی ہوچکی تھی۔اس کی عادت کی وجہ سے محلے کی بوڑھیاں اسے بہت اچھاسمجھتی تھیں اورمحلے کی جوان عورتیں اس کی آمدپرمحتاط ہوجاتی تھیں۔اورایسابرتاواختیارکرلیتیں کروہ زیادہ دیران کے پاس نہ ٹھہرے لیکن ان واضح اشارات کاجانوپرکوئی اثرنہ ہوتا۔یہ کیسے ہوسکتاتھاکہ وہ ان خصوصیات کورکاوٹ سمجھتی جن پراس کی اہمیت کاتمام تردارومدارتھا۔

مطعون محبوبہ

شہزاداس محلے کی فضامیں پل کرجوان نہ ہوئی تھی اس لئے وہ محلے کی رسومات اورآصفی برتاوکی تفیصلات سے نہ توواقف تھی اورنہ انہیں اہمیت دیتی تھی ۔وہ طبعاً ان تفیصلات سے بے نیازتھی اوراپنی طبعیت کے مطابق زندگی بسرکرنے کی قائل تھی۔شہزادکی کبھی نہ سوجھی تھی کہ ماحول کاتقاضاکیاہے۔اس نے کبھی نہ سوچاتھاکہ لوگ کیاسمجھیں گے۔کیااندازہ لگائیں گے۔وہ لوگوں کی اہمیت کاشعورہی نہ رکھتی تھی۔رکھتی بھی کیسے اس کے اپنے میاں برائے نام ہی نہیں بلکہ طبعاً شریف واقع ہوئے تھے اورشریف خاونداسے کہتے ہیں جوبیوی کی ہربات پرسرتسلیم خم کردے۔
شریف نے سرتسلیم کرنے کاایک انوکھابہانہ ایجادکررکھاتھا۔وہ ظاہرکرتاتھاکہ عشق حقیقی میں ڈوب کراسے کسی بات میں دلچسپی نہیں رہی۔اسے اتنی فرصت ہی نہ تھی کہ وہ بنیادی باتوں پرغورکرسکے۔اگرچہ شہزادکاحسن دیکھ کراس کی آنکھ میں چمک لہراتی اورہونٹوں سے لعاب ٹپکنے لگتاتھالیکن وہ توقطعی طورپراوربات تھی۔دلچسپی کے اس فقدان کے علاوہ شریف کی شخصیت میں کوئی ایسی بات نہ تھی جوشہزادکے دل میں اس کی عظمت کااحساس پیداکرتی اورشریف کی خوشنودی کے لئے ذاتی محسوسات کے چکرسے نکلنے پرمجبورکرتی یاشریف کوجیتنے پرابھارتی۔وہ توشہزادکی آمدسے پہلے جیتے جاچکے تھے اوراس حدتک جیتے جاچکے تھے کہ انہیں ازسرنوجیتنے کی کوشش سراسربے معنی ہوکررہ گئی تھی۔اگرچہ بظاہروہ یہ ظاہرکیاکرتے کہ وہ انورکے عادی ہوچکے ہیں مگر وہ محض ایک دل بہلاوہ تھا۔درحقیت وہ طبعاً سرجھکادینے کے عادی تھے اورعرصہ درازسے عملی طورپرشہزادکے سامنے بھی سرجھکاچکے تھے۔
ان حالات میں شہزادکی اپنی ذات سے ہٹ کرسوچنے یاسمجھنے کی ضرورت نہ تھی ۔اس لئے آصفی محلے میں آجانے کے باوجودوہ محلے کے تقاضوں سے بے نیازرہی۔محلے والوں کودیکھ کراس نے کبھی دوپٹہ یانگاہیں سنبھالنے کی کوشش نہ کی۔بات کرنے سے پہلے کبھی نہ سوچاکہ سن کرلوگ کیاکہیں گے اورغالباً اسی وجہ سے وہ محلے بھرکی محبوبہ بن چکی تھی۔
نوجوان حیرانی سے اس کی طرف دیکھتے اورسردھنتے۔وہ محسوس کرتے کہ شہزادمیں زندگی کوصحیح شکل میں دیکھ رہے ہیں۔دکھلاوے اوررسم سے آزادبے پروابلندوبے نیاز۔
محلے کی لڑکیاں حیرت سے اس کی طرف دیکھتیں اورمنہ میں انگلی ڈال کررہ جاتیں۔ابتدامیں تومحلے کی بوڑھیاں بھی اسے دیکھ کرحیران رہ گئی تھیں۔پھرآہستہ آہستہ انہیں احساس ہونے لگاکہ جوانی کے قائم اصولوں پرنہ چلے وہ اچھی کیسے کہلائی جاسکتی ہے۔اس کے باوجودشہزادکی معصومیت اس کے اخلاق اوراس کی طبعی فیاضی کی وجہ سے شہزادسے مل کران اصولوں کے باوجودخوشی محسوس ہوتی تھی۔جب وہ چلی جاتی توان کوغصہ آناشروع ہوجاتا۔
--توبہ کتنی بے پروالڑکی ہے--وہ محسوس کرتیں جیسے انہیں دھوکادیاگیاہواورفریب سے خوش کرلیاگیاہو۔پھران کی زبانیں حرکت میں آجاتیں اوردیرتک باتیں کرتی رہتیں۔کسی نہ کسی بہانے شہزادکی بے پروائی اورجرات پرنکتہ چینی کرتیں۔
”توبہ ۔کیازمانہ آیاہے۔اب توکل کی چھوکریاں ہرنیوں کی طرح قلانچیں بھرنے لگی ہیں۔ابھی یہاں تھی اوریہ لواب اوپرچوبارے سے بول رہی ہے جیسے پاوں تلے پہیے لگے ہوئے ہوں۔“
”اوربہن اللہ ماری یہ سیڑھیاں جوہیں۔انہیں گھٹنوں پرہاتھ رکھے بغیرچڑھنابھی توممکن نہیں۔“
”یوں چڑھ جاتی ہے جیسے پانی کاگلاس پی لیا۔“
”توبہ ماں یہ توبھلاسیڑھیاںہیں۔وہ تونگاہوں پرچڑھتی بیٹھی ہے۔آنکھیں میں آنکھیں ڈال کربات کرتی ہے۔ذرانہیں جھجکتی ۔“
”کوئی زمانہ آیاہے ماں۔پرشکرہے اپنے محلے کوہوانہیں لگی۔“
”اللہ بچائے لڑکی۔یہاں پربھی اللہ فضل ہے بس یہ باہر سے آنے والیاں ہی جل کوگنداکرتی ہیں ہاں میں توسچ کہوں گی۔“
نہ جانے شہزادکوان باتوں کاعلم تھایانہیں لیکن اس کے برتاو سے کبھی ظاہرنہ ہواتھا۔محلے کی عورتوں کودیکھ کروہ یوں کھل جاتی جیسے نوخیزکلی ہو۔ان کی ہرضرورت کوفراخدلی سے پوراکرتی لیکن اس کے علاوہ اسے ان سے کوئی تعلق نہ تھا۔صرف دوچارگھرانوں سے اس کامیل جول تھااوروہ بھی محض سرسری۔چوبارے کی کھڑکی میں کھڑی ہوکروہ کوئل کی طرح چیختی :
”کیوں چچی۔آج توبہت مصروف نظرآتی ہو۔کیاچچاامرتسرسے آگئے۔“
چچی منہ میں انگلی ڈال لیتی:
”ہائے اللہ۔اس لڑکی نے کیاکہہ دیا۔کوئی سنے گاتوکیاکہے گا۔“اس کے باوجوداس دبی دبی حقیقت سن کرچچی کے چہرے پرمسرت کی ایک رودوڑجاتی۔
محلے والیوں کے لئے شہزادکی باتیں انوکھی ہونے کی وجہ سے بے حدجاذب تھیںاوراسی جاذبیت کی وجہ سے وہ اس پرنکتہ چینی کرتی تھیں۔
جانوکے شہزادکے گھرمیں آنے کوایلی نے بہت برامانا۔جانوکی موجودگی کی وجہ سے اس کاشہزادکے پاس بیٹھنامشکل ہوگیا۔جانوکیاکہے گی۔یہ یہاں کیوں بیٹھ رہتاہے۔اپنے گھرکیوں نہیں جاتا۔اورپھرجانوتومنہ پرکہہ دینے سے بھی دریغ نہیں کرتی تھیں۔وہ توبراہ راست شہزادسے کہہ دے گی۔اسے نہ لگایاکر منہ ورنہ لوگ کیاکہیں گے۔اللہ رکھے اتنابڑاہوگیا۔اب کیابچہ ہے جوہروقت تجھ سے چپکارہتاہے،لیکن شہزادکویہ بات سوجھی تک نہ تھی۔شہزادجانوکی بات کواہمیت ہی نہ دیتی تھی جب وہ ایسے مسائل چھیڑلیتی توشہزادچپکے سے کسی کام میںمشغول ہوجاتی۔غالباً اس نے کبھی جانوکی بات کوسناہی نہ تھااگرچہ اس وقت وہ بے توجہی سے ہاںہاں کرتی رہتی۔
ادھرجانوجب سے شہزادکے پاس آئی تھی اس کی یوں رکھوالی کرنے لگی تھی جیسے شریف کی ایجنٹ ہواورشہزادکونظربدسے بچانے کے لئے متعین کی گئی ہو۔وہ شہزادکی آدھی آستینوںکودیکھ کرناک منہ چڑھاتی:
”اے ہے ۔یہ کیاننگی باہیں لئے پھرتی ہوتم خواہ مخواہ اپناگورارنگ چمکاتے پھرنا۔آستینیں توپوری ہونی چاہئیں جوعزت عورتوں کوسجتی ہیں۔“
اس پرشہزادمسکراکرکہتی:
”ہے نا۔اچھی لگتی ہیں نا۔وہ بھی کیاکہ آستینیں جوہاتھوں پرلٹکتی رہیں۔اچھااب چائے بناجاکر۔“
شہزادکے اس اندازکوپہلے پہل توجانوسمجھ نہ سکی۔شہزادکی باتیں سن کراسے سمجھ میں نہیں آتاتھاکہ جواب میں کیاکہے۔پھرآہستہ آہستہ وہ شہزادکے اندازسے مانوس ہوتی گئی اورآپ ہی آپ بڑبڑانے میں وقت بسرکرنے لگی۔
ایلی حیران تھاکہ شہزادکی باتوں پرسیخ پاکیوں نہیں ہوتی۔اسے غصہ کیوں نہیں آتا۔وہ بات ہنس کرکیوں ٹال دیتی ہے۔پیشانی پرشکن تک نہیں آتابلکہ بسااوقات وہ اس کی بات سنتی ہی نہیں جیسے جانوجھک ماررہی ہو۔

دکھیامینا

چائے بنانے کے بعدجانواپناکھانابرتن میں ڈال کرگھرچلی گئی اوردونوں اس دالان میں اکیلے رہ گئے۔شہزادکے ساتھ اپنے آپ کواکیلے پاکرایلی کادل دھڑکنے لگالیکن اسی کے باوجودشہزادخاموشی سے اپنے کام میں یوں لگی رہی جیسے اسے ایلی کے وجودکاعلم ہی نہ ہو۔
”شہزاد۔“ہردومنٹ بعدایلی زیرلب اسے آوازدیتا۔”شہزاد۔“
”ہوں۔“وہ جھکی جھکی آنکھوں سے جواب دیتی۔”کہو۔کیاکہتاہے۔“اس کی آوازمیں عجیب سی بیگانگی ہوتی جیسے وہ شہزادہی نہ ہوجس نے اس پروہ نگاہ ڈالی تھی۔
”ادھردیکھوناں۔“وہ منت سے کہتا۔
”کیادیکھوں؟“وہ بے نیازی سے جواب دیتی۔“کیاہے دیکھنے کویہاں ؟“
”اخوہ۔ایلی چلاتا۔”اتنی بے پرواہی۔“
”کیاہے؟“کچھ دیرکے بعدشہزادنے سراٹھایااوراس کی طرف یوں دیکھاجسے وہ زمین میں گڑاہواایک پتھرہو۔“
”بتاوناکیاہے۔“
ایلی نے جھپٹ کراس کابایاں بازوتھام لیا۔
”بس یہی کام تھا۔“وہ خشک آوازسے بولی اوربائیں بازوکواس کے حوالے کرکے یوں کام میں منہمک ہوگئی جیسے کوئی بات ہی نہ ہو۔حتیٰ کہ وہ محسوس کرنے لگاکہ اس کے ہاتھ میں کاٹھ کابازوہو۔بے کار۔بے جان
”یہ کیاحماقت ہے۔“وہ بولی۔
”کیاحماقت ؟“ایلی نے پوچھا۔
”اورکیاحماقت نہیں تو۔“شہزادنے بازوکھینچ لیا۔”بیٹھ کرباتیں کرونا۔“
”کیابات کروں؟“ایلی نے پوچھا۔
”کوئی بھی ہو۔“شہزادبولی۔
اچھا۔“ایلی کوسوجھی۔”تم اتنی پیاری کیوں ہوشہزاد؟“
”ہوں پھر۔کرلوجومیراکرناہے۔“وہ ہنسنے لگی۔
”کاش--میں کچھ کرسکتا۔“ایلی نے آہ بھری۔
”کچھ کربھی نہیں سکتے۔بس!“وہ ہنسنے لگی۔
”مجھے اکسارہی ہو۔“ایلی نے غصے میں بولا۔
”پیاریوں سے لڑابھی کرتے ہوتم؟“شہزادنے پوچھا۔
”لڑائی مجھے بڑی اچھی لگتی ہے۔تمہیں نہیں لگتی کیا؟“
”کس سے لڑوں ۔کوئی ہوبھی لڑنے کے لئے۔“
مجھ سے لڑونہ۔“
”تم سے کیالڑنا۔“شہزادمسکرائی۔
”اس سے لڑتی ہوکیا؟“ایلی نے پوچھا۔
”وہ۔“وہ قہقہہ مارکرہنسی۔اس کی ہنسی میں تحقیرکی دھارتھی۔”اسے آہیں بھرنے سے فرصت بھی ہو۔وہ کیالڑے گا۔اورآجکل تووہ اباجان کے پاس گیاہواہے۔“
”کیوں۔“ایلی نے پوچھا۔
”اب تمہیں کیابتاوں۔“وہ بولی”بکرے کی جان گئی پرکھانے کومزہ نہ آیا۔“
”میں نہیں سمجھا۔“وہ منت سے بولا۔
”وہ مسکرانے لگی:”تم کیاسمجھوگے؟“
”آخربات کیاہے۔خداکے لئے مجھے بتاو۔“ایلی نے محسوس کیاجیسے بات اس کی ذات سے متعلق ہو۔
”میںکیابتاوں۔انہیں سے پوچھ لیناکبھی۔“
”کس سے ؟“
”ان سے یاسانوری سے۔“شہزادنے ایک خصوصی اندازسے کہا۔
”سانوری سے ؟“
”ہاں ہاں اسی سے۔اب کیابھول گئے اسے۔ان دنوں جب وہ کوٹھے پرٹہلاکرتی تھی اورتم ادھرچھپ پرمنہ پرکتاب رکھے پڑھنے کے بہانے بیٹھے رہاکرتے تھے۔مجھے کیامعلوم نہیں۔“
”شہزاد۔“ایلی نے ندامت سے چلایا۔
”اس بے چاری کوکیاپتہ تھا۔وہ توتمہارے تھپڑپرہی مرمٹی۔“شہزادہنسنے لگی ۔”تمہاری دھنیں گاگاکررویاکرتی تھی۔“
”رویاکرتی تھی؟“ایلی حیران ہورہاتھا۔
”اپنی طرف سے تووہ محبت لگا بیٹھی تھی تم سے ۔اسے کیامعلوم تھاکیسے لگائی جاتی ہے محبت نہ جانے کونسی بات پسندآگئی تھی اسے تمہاری۔جب گھروالوں کومعلوم ہواتووہ سب اسے چھیڑنے لگے۔اس وجہ سے وہ اوربھی ضدمیں آگئی اوراس نے اماں سے صاف کہہ دیامیں ایلی سے شادی کروں گی۔“شہزادہنسنے لگی۔”ان دنوںمجھے کیاخبرتھی کہ ایلی۔“وہ بامعنی اندازسے رک گئی۔پھراس نے بامعنی نگاہ اس پرڈالی۔”کیاپتہ تھا۔“وہ ہنسنے لگی۔
ایلی نے شرم سے سرجھکالیا۔شہزادہنسنے لگی۔
”بے چاری نے بڑے بڑے طعنے سنے تمہارے لئے ۔سارے گھروالوں کی نکوبن کررہ گئی۔اماں تواسے آنکھیں دکھاتی تھی۔تمہارانام سن کراماں کی آنکھوں میں خون اترآتاتھا۔نہ جانے کیوں جیسے تم سے کوئی بیرہو۔“
”کیوں۔میں نے تمہاری اماں کابگاڑاتھا۔“ایلی نے کہا۔
”جب تونہیںبگاڑاتھامگراب تو--“اس نے ایک بارایلی کوپھراسی نگاہ سے دیکھا۔دوروشن دئیے اس کی طرف لپکے۔
”شہزاد۔“اس کے بازوکاسہارالینے کے لئے ایلی آگے بڑھا۔
”پھربات اباتک پہنچ گئی۔“شہزادنے دفعتاًاندازبدلا۔”اورانہوں نے فوراًمشورہ کرکے سانوری کارشتہ کردیا۔زبردستی۔“
”کس کے ساتھ۔“ایلی نے پوچھا۔
”نہ جانے کون ہیں۔کہتے ہیں کوئی ایس ڈی اوکالڑکاہے مگرمجھے تونہیں دکھتاایس ڈی او۔تمہارے شریف صاحب نے اباکی ہاں میں ہاں ملادی۔اب وہ بے چاری اپنی قسمت کورورہی ہے وہاں۔“
”میں تم سے کیامذاق کروں گی۔“وہ بولی۔”مذاق تواس بے چاری کااڑگیاجوتم سے دل کی بات بھی نہ کہہ سکی۔ بے چاری نے کئی ایک بارخط بھی لکھاتھامگرتمہاراپتہ معلوم نہ تھااوروہ ڈرتی تھی کہ کسی اورکے ہتھے نہ چڑھ جائے۔پھرجب اس نے سناکہ تم اس امرتسروالی لڑکی کے لئے پاگل ہورہے ہوتودل ٹوٹ گیا۔میرے پاس رویاکرتی تھی۔“
”شہزاد“ایلی نے اپناسراس کے بازووں پررکھ دیا۔
”اورآج تم میرے بازوسے لپٹے ہو۔“وہ قہقہہ مارکرہنسی۔ایلی نے محسوس کیاجیسے وہ قہقہہ اسے چھری کی طرح چیرتاجارہاتھا۔
”مجھے تم سے محبت ہے شہزاد۔“وہ گڑگڑاکربولا۔
”تو پھرمیں کیاکروں؟“دفعتاًشہزادکااندازبدل گیا۔
”تمہیں میراکوئی خیال نہیں کیا۔“اس نے پوچھا۔
”مجھے کسی کابھی خیال نہیں۔“وہ بولی۔
”تمہیں شریف کاخیال ہے ناں۔میں جانتاہوں۔“ایلی کی آنکھیں سرخ ہوئی جارہی تھیں۔کنپٹیاں تھرک رہی تھیں۔وہ محسوس کررہاتھاجیسے کوئی اس کاکلیجہ چاٹ رہاہو۔
”تمہیں شریف سے محبت ہے نا؟“
”یونہی سمجھ لو۔“ایلی چلایا۔”میں بے وقوف ہوں بے وقوف ۔“
”سیانے بھی ہوتے توکیافرق پڑجاتا۔“شہزادبولی۔
”سیاناہوتاتوتمہارے لئے یوں پاگل نہ ہوتا۔“ایلی نے کہا۔
”سچ ایلی۔ایک بات پوچھوں۔“وہ سنجیدہ ہوگئی۔تمہیں مجھ سے محبت جتانے کی کیاسوجھی؟“
”تمہارامطلب ہے میں فریب کررہاہوں۔“ایلی نے بناوٹی غصے سے کہا۔
”نہیں نہیں۔“وہ چلائی۔”میرامطلب ہے۔“اورپھررک گئی۔
”میں سمجھتاہوں تمہارامطلب ۔“وہ اٹھ بیٹھااورفرحت کی طرف چل پڑا۔
”ایلی ۔“شہزادنے اسے آوازدے کرروکناچاہا۔
مگرایلی کے لئے واپس جاناممکن ہوچکاتھا۔

اتنے قریب اتنے دور

اس رات وہ دیرتک کروٹیں بدلتارہا۔اس کے دل میں عجیب وغریب قسم کے شکوک اورتواہم بھڑوں کے چھتے کی طرح بھنبھنارہے تھے۔سینہ سلگ رہاتھا۔ کلیجہ کوئی مسل رہاتھا۔چاروں طرف سے لہریں سی اٹھ رہی تھیں جوہرساعت مزیدشدت اختیارکرتی جارہی تھیں۔کیایہی محبت ہے جس کے لئے وہ اس قدربیتاب تھا۔کیایہی محبت ہے جس کی شریف اسے تلقین کیاکرتاتھا۔
”محبت کروایلی محبت۔“وہ اس کے روبروکھڑامسکرارہاتھا۔”محبت کروایلی چاہے کسی سے کرو۔“
لیکن شریف کی اپنی کیفیت توایسی نہ تھی۔وہ تو اس طرح کروٹیں نہیں بدلتاتھا۔وہ توبڑے اطمینان سے منہ میں حقے کی نے لیے چھت کوتکتاتھااوراس کے ہونٹوں پرمبہم مسکراہٹ کھیلاکرتی تھی۔اوراس کی آنکھیں گویاہروقت نشے میں رہتی تھیں۔--نہیں نہیں یہ محبت نہیں ۔نہ جانے کیاہے محبت۔نہیں محبت توایک خمارہوتی ہے۔ایک نشہ ،ایک کیفیت!
دراصل اسے شہزادکے برتاوکے متعلق کچھ سمجھ نہ آتاتھا۔کسی وقت تووہ ایلی سے اس قدرقریب آجاتی کہ وہ محسوس کرتاجیسے دونوں ایک جان دوقالب ہوں۔اس وقت اس کے دل میں ایک سنسنی سی دوڑجاتی اوروہ محسوس کرتاجیسے وہ فاتح ہو۔جیسے اس نے دنیاکی بہترین نعمت ،بہترین لذت کوپالیاہو۔
لیکن جلد ہی منظربدل جاتااوردوسری ساعت میں شہزاداس سے کوسوں دورچلی جاتی۔جیسے اس کے وجودسے ہی بے خبرہو۔جیسے جانتی ہی نہ ہواوروہ دونوں ایک دوسرے سے قطعی طورپربیگانہ ہوں۔اس بیگانگیت کووہ روح کی گہرائیوں میں شدت سے محسوس کرتااوراس کاجی چاہتاکہ کسی کے گلے لگ کررودے۔چیخیں مارماکررودے اورپھرکوئی اکتارہ پکڑکردنیاکے کونے کونے میں بے وفائی کے گیت گاتاپھرے۔
اسے خیال آتاکہ شہزادکامحبت کاروپ محض ایک دکھلاواہے ۔ٹھیک توہے۔وہ سوچتا۔آخرشہزادکوکیاپڑی ہے کہ ایک بدصورت بے ڈھنگے چھوکرے سے محبت کرے۔کوئی محلے کی لڑکی ہوتی توبھی بات قابل قبول ہوتی۔لیکن شہزاد--وہ تو جس کوچاہتی اپنے روبروجھکاسکتی تھی۔شایداس کامقصدلوگوں کے سرجھکانے کے علاوہ کچھ نہ ہو۔لوگوں کوتسخیرکرنے کے علاوہ کوئی مقصدنہ ہو۔اس خیال پرایلی کے تصورمیں شہزادکرشن بھگوان کی طرح مرلی اٹھاکرایک اندازسے کھڑی ہوجاتی اوراس کے گردسینکڑوں سرجھکے دکھائی دیتے۔اورپھرایلی ان ان دیکھے سروں کوپہچاننے کی کوشش میں مصروف ہوجاتا۔یہ خوش نصیب کون ہے۔وہ کون۔پھراس کے دل میں وہم اٹھتے اوروہ سوچنے لگتاشایدرفیق وہ خوش نصیب ہو۔جبھی توشہزاداسے دیکھ کرمسکرایاکرتی ہے اورگھنٹوں کسی کونے میں ،سیڑھیوں پر،منڈیریاجنگلے پراس کے سامنے کھڑی رہاکرتی ہے۔مگرکسی وجہ سے اسے یقین نہ پڑتاکہ رفیق شہزادکے لئے جاذب توجہ ہوسکتاہے۔اس کی جیب کے ریشمیں رومال،پریم شاستراورسینٹ کی شیشی اوراس کی آنکھوں میں پڑتی ہوئی بنفشی پھوارکے باوجودجاذب توجہ ہوسکتاہے۔رفیق میں تھاہی کیا--نہیں نہیں--توپھر؟--ایک سوالیہ نشان اس کے روبروآکھڑاہوتا۔پھروہ نشان شریف کی شکل اختیارکرلیتا۔ضروراسے شریف سے محبت ہے جبھی تواس پرمینڈک پھینکاگیاتھا۔جبھی تواس کی آمدپرشہزادکی چال تک بدل جاتی ہے اوروہ سیڑھیاں اترکرچم سے رک جاتی ہے۔
”ایلی وہ بیٹھے چائے پرانتظارکررہے ہیں۔“
اس پرایلی احساس رقابت سے لوٹنے لگتااوراس کے سینے میں ایک جلن سی ہونے لگتی۔رات بھروہ اسی طرح دیوانہ وارکروٹیں بدلتارہااورپھرصبح کے قریب تھک کرسوگیا۔پھرجب وہ چائے پی رہاہوتاتوسیڑھیوں میں--چھم کی آوازسنائی دیتی اورشہزادرقص کرتی ہوئی اس کے روبروآکھڑی ہوتی اورمسکراکرکہتی:
”وہاں کب سے چائے بنی ہوئی ہے اورایلی تم یہاں بیٹھے ہو۔آونا۔“
یہ کہہ کروہ مسکراکروہی نگاہ اس پرڈالتی اوروہ اپنے تمام وہم اورعزم بھول کرپالتو کتے کی طرح اس کے پیچھے چل پڑتا۔
اس پرفرحت چلاتی:
”لے توتوایلی کوانگلی سے پکڑکرلے چلی نا۔“اس کی بات میں دھارہوتی تھی۔
مگرشہزادگویابہری بن جاتی تھی جیسے سناہی نہ ہو۔”اپنی خیرمنا۔“وہ چلاتی۔”کسی روزتجھے انگلی سے پکڑکرنہ لے جاوں۔“
”مجھے کون انگلی پکڑکرلے جاتاہے جی۔“فرحت زیرلب کہتی۔
”تم توآنکھیں دکھاتی ہو ورنہ لے ہی چلوں کبھی۔“شہزادہنستی۔
اوربات ہنسی میں ٹل جاتی۔
پھرہاجرہ مظلوم اندازمیں شہزادکے چوبارے کی چوکھٹ پرآکھڑی ہوتی:
”کب آئے گاتوایلی؟“
”نہیں ویسے ہی پوچھ رہی تھی۔جلدی آجاناایلی۔فرحت کھانے پرانتظارکرتی رہتی ہے۔“
”ٹھیک توہے۔“شہزادہنس کرکہتی۔”یہاںقحط پڑاہے۔کھانے کوتوصرف وہیں ملتاہے فرحت کے ہاں۔“
اوروہ دونوں بچوں کی طرح بیٹھ کرگپیں مارتے اورہنس ہنس کرلوٹ پوٹ ہوجاتے۔اورجانوانہیں دیکھ کرباورچی خانے کے برتنوں کوگھورتی اورآخرزیرلب کہتی۔”لوبیٹھوگے بھی چھنومنو۔یوں بھاگے دوڑتے پھرتے ہیں جیسے میلے پرآئے ہوئے ہوں۔میں کہتی ہوں لوگ دیکھ کرکیاکہتے ہونگے۔“
”جو ان کے جی چاہے وہ کہیں۔جو ہماراجی چاہے گاہم کریں گے۔“شہزادایلی کی طرف وہی نگاہ ڈالتی اورایلی محسوس کرتاجیسے اس ایک نگاہ کے سہارے کے لیے تیار تھا۔ جانے اس نگاہ میں کیا تھا۔ اسے دیکھ کر ایلی سبھی کچھ بھول جاتا تھا۔ اسے رات بھر کی گریہ و زاری بالکل ہی بھول جاتی۔اِس کے ذہن میں کوئی سوالیہ نشان نہ رہتا اور وہ سمجھتا کہ زندگی واقعی قابل زیست ہے۔
جانو شہزاد  کا جواب  سن کر بظاہر چپ ہو جاتی مگر وہ شکایت دن بھر اس کے انداز میں گویا بوند بوند  رستی رہتی۔ اس  کی چال سے ، اس کے سر ہلانے کے انداز سے، اس کے ہونٹوں کے خم سے، اس کی بات سے مترشح ہو تا تھا کہ وہ ایسی باتوں کو اچھا نہیں جانتی۔ مگر وہ دونوں جانو کے اس اظہار سے بے نیاز بیٹھ کر چائے پیتے اور گپیں ہانکتے اوربہانے بہانے ایک دوسرے کو دق کرتے
پھر جونہی جانو کسی کام کے لیے چوبارے سے نیچے اتر جاتی تو دفعتاً ان کی وہ رنگین باتیں ختم ہوجاتیں۔ایلی شہزاد کی طرف یوں دیکھنے لگتا جیسے بچہ ہو اور اس کے سامنے شہزاد مٹھائی کی ایک تھالی!
اس کی بدلی ہوئی نگاہ دیکھ کر شہزاد دفعتاً سنجیدہ ہوجاتی اور پھر کسی کام میں مصروف ہو جاتی اور یوں ایلی کے وجود سے بے نیاز ہو جاتی جیسے اس سے کوئی واسطہ نہ ہو۔ یہ دیکھ کر ایلی کے دل میں غصے کا ایک طوفان کھولتا اور وہ پاگلوں کی طرح شہزاد کی طرف بڑھتا۔
خدا کے واسطے!
وہ زیرِ لب سنجیدگی سے کہتی :
جانو آجائے گی!
نہیں نہیں !
وہ تو ابھی گئی ہے
کوئی اور آجائے گا
ہوش کرو ! شہزاد اسے گھورتی۔
اور تم تو کہتی تھیں:
ایلی کیا لوگوں سے ڈرتے ہو!
یاد ہے؟ ایلی کہتا:




بجائے شہزاد کو محض ایک رنگین تتلی سمجھتا یا خوب صورت کھلونا سمجھ کر اس سے کھیلتاتو بات یوں گل حکمت ہو کر خطرناک ہیولے پیدا نہ کرتی۔لیکن ایلی کو پیدائشی طور پر یہ تعلیم دی گئی تھی کہ ایسے تفریحی تعلقات گناہ کے مترادف ہوتے ہیں۔علی احمد کے کمرے کے خلاف اس نے جو بغض پال رکھا تھا اس کے خیال کو اور بھی مستحکم کرتا تھا۔اس کا خیال تھا کہ ایسے تعلقات یا ایسی خواہشات کو جائز بنانے کے لیے انہیں حقیقی شکل ضروری ہوتا ہے اور حقیقی عشق میں لازم ہے کہ انسان اپنی شخصیت کوتباہ کردے۔ زندگی کو ایک روگ بنالے ۔وصال کے تمام راستے اپنے ہاتھوں سے مسدود کردے اور پھر عمر بھر یاس وحرمان کا سہارا لیے ایک اپاہج بنارہے۔اسی وجہ سے ایلی نے اس تفریحی تعلق کو جو اس اداس شام کو اس معمولی سی لغزش کی وجہ سے عمل میں آیا تھا ، ماحول سے اخز کیے ہوئے اعتباروں کی وجہ سے ایک لامتناہی اور تباہ کن الجھن میں بدل دیا اور شہزاد کو کو دیوی بنا کر خود اس کے روبرو تپسوی بن کر بیٹھ گیا۔
اگر وہ شہزاد کو دیوی کی بجائے ایک جیتی جاگتی حسین عورت سمجھتا ، مرد کی حثیت سے اس کی آرزو کرتا تو شاید شہزاد میں بھی دو رُخی پیدا نہ ہوتی اور اس کا قرب، قرب ہوتا اور بعد بعد۔
مگر اب ان الجھے حالات میں شہزادبھی الجھ کررہ گئی تھی جس کی وجہ سے ایلی ان سوالیہ نشانات سے واقف ہوگیااوراس کی زندگی بے پناہ مسرت اوربے پایاں الم کے چکرمیں پس کررہ گئی۔

وہ راز

ایلی نے اس رازکواس قدرمتبرک بنادیاکہ محلے کی نانک شاہی انیٹیں جلترنگ کی طرح بجنے لگیں دروازے آہ وزاری کرنے لگتے کتے کسی آنے والی مصبت کے مبہم احساس سے مضطرب ہوکرچیخیں مارنے لگتے اورمحلے والیوں کے کان کھڑے ہوگئے:
محلے والیاں ایلی کودیکھ کرمنہ میں انگلیاں ڈال لتیں:
”ہائے ایلی توکیایہاں ہے۔لو--اورمیں سمجھ رہی تھی کہ لڑکاسکول میں پڑھنے گیاہواہے۔“
”لوہمیں کیامعلوم کبھی دیکھابھی ہوباہر چوگان میں۔پہلے تواللہ مارے ارجمندکے ساتھ پہروں لالٹین تلے کھڑارہتاتھااوراب گویاکسی تہ خانے میں چھپارہتاہے۔کیاہوگیاتری عقل کو۔“
کوئی کہتی:
”اے ہے لڑکے تواب شکل دکھانے سے بھی رہا۔ایسابھی کیا۔نہ لڑکے اپنوںسے ملنے ملاتے رہناہی اچھاہوتاہے۔“
کوئی مسکراکرکہتی:
”اپنوں سے توملتارہتاہے لال۔اپنے وہی ہوتے ہیں ناں جسے کوئی سمجھے۔ہم بوڑھیوں کواپناکیسے سمجھے۔ماشاءاللہ جوان ہے۔اب تو اس کی ماں کوچاہئے کہ شادی کردے اس کی۔“
”نہ جانے باپ کی طرح کتنی عورتیں گھرلائے گا۔“
”نہ بہن دعاکرو۔اللہ ہدایت دے۔“
محلے والیاں توپھربھی بات اشارتاً کرتی تھیں لیکن محلے کے لڑکے توکھلے بندوں اس سے سوالات کرتے تھے:
”کیوں بھئی۔کیاپھرماں کی گودمیں پڑگئے۔اب تودکھائی ہی نہیں دیتے۔کونسے چکرمیں پھنسے ہو۔اب تواونچی ہواوں میں اڑنے لگے ہونا۔“
وہ خودبھی انہیں ملنے سے کتراتاتھا۔باہرتووہ نکلتاہی نہ تھااس لئے اس کے پکڑے جانے کااحتمال ہی نہ تھااورگھرپرآوازدینے سے وہ ہچکچاتے تھے۔اگرکوئی آکرآوازدیتابھی توایلی خاموش ہورہتاکہ وہ سمجھے گھرپرنہیں اورواپس چلے جائیں۔
ان دنوں رفیق اورجمیل توعلی پورسے باہرگئے ہوتے تھے۔ارجمندکولاہورکے قریب تارپین کے تیل کے کارخانے میں ملازمت مل گئی تھی۔یوسف بھی وہاں نہ تھا۔لے دے کررضاتھا۔وہ لکڑی ٹیکتاہواآپہنچتااورمعصوم سامنہ بناکرنیچی نگاہوں سے شہزادکی کھڑکیوں تلے کھڑاہوکرآوازدیتا:
”ایلی!“--’ایلی!!“
ایلی آوازسن کرخاموش ہورہتا۔
جانوآگ بگولہ ہوجاتی:
”سدھ بدھ نہیں رہی کیا۔سنائی نہیں دیتاکوئی آوازدے رہاہے۔“
ایلی مسکراکرخاموش ہورہتااورشہزادیوں اپناکام میں منہمک دکھائی دیتی جیسے کچھ سناہی نہ ہو۔جانودوایک منٹ کے لئے کبھی ایلی اورکبھی شہزادکی طرف دیکھتی اورپھربڑبڑاتی ہوئی کھڑکی میں جاکھڑی ہوتی--
”کون ہے؟“جانوچلاتی۔
”ایلی ہے کیا؟“رضااوپردیکھے بغیرچلاتا۔
”بیٹھاہے۔“جانوغصے میں چیختی۔
”اچھا۔“رضاجان بوجھ کربہرابن جاتا۔”جب وہ آئے تودکان پربھیج دینا۔“
جانوپھرسے یوں چلاتی جیسے رضاکی بجائے اڑوس پڑوس والوں کوسنارہی ہو۔
”میں کہتی ہوں یہیں بیٹھاہے توبولتانہیں۔“
”اچھا۔“رضاچلتے ہوئے کہتا۔”جب وہ آئے تودکان پربھیج دینا۔“
جانوکامنہ غصے سے تپنے لگتا۔”عجب احمق ہے میں کچھ کہہ رہی ہوں اوروہ اپنی ہی کہے جاتاہے۔“
”کیاکہہ رہی ہوجانو۔مجھ سے کچھ کہہ رہی ہوکیا؟“ایلی اسے ستانے کے لئے معصوم اندازمیں پوچھتا۔
”لواب اسے بھی آگیاہوش۔کب سے چلارہی تھی کہ رضانیچے بلارہاہے۔سنتے ہی نہیں۔اوراب مجھ سے پوچھ رہاہے۔“
”ہائیں ۔مجھے بلارہاتھا۔“ایلی بن کرکہتا۔
”لو--“جانوچلانے لگتی اورخرافات بکناشروع کردیتی۔
پھرجب وہ تھک کرخاموش ہوجاتی توشہزادچپکے سے کہتی:
”کیابات ہے جانو۔آج توخاموش کیوں ہے۔بات ہی نہیں کرتی کوئی؟“
اس پرجانو کے تن بدن میں آگ لگ جاتی اوروہ ہاتھ ہلاہلاکرچلاتی۔شہزادآنکھ بچاکرایلی کی طرف دیکھ کربامعنی اندازسے مسکراتی۔اس پرایلی کے جسم میں خوشی کی رودوڑجاتی اوروہ محسوس کرتاجیسے وہ دونوں بچے ہوں اورمل کرجانوکے خلاف سازش کررہے ہوں۔
”مجھے کیوں ستارہے ہو۔اپناسرکھاو۔چاہے جوجی میں آئے کرو۔مجھے کیاواسطہ میں توتمہارے بھلے کی کہتی ہوں کہ یوں سارادن ایک جگہ بیٹھ رہنااچھانہیں۔لوگ ایسے برے ہیں کہ بات کئے بغیرنہیں رہتے۔چاہے کوئی کتناہی پاک پرہیزگارکیو ں نہ ہو۔لیکن تم نہیں سنتے۔میری تونہ سہی۔مجھے کیاغرض۔“جانوبکے جاتی۔
جب وہ ایک لمباچوڑالکچرپلاکرفارغ ہوتی توشہزادچپکے سے بات ٹالنے کے لئے کہتی:
”جانو!آج چائے نہیں پلاو گی کیا؟تم بالکل ہی بھوکاماروگی ہمیں--کیوں ایلی!چائے پیوگے نا؟“
ایلی ہنس کرکہتا:
”لوچائے بھی نہ ملی تومیں پیاسامرجاوں ِگا۔“اورشہزادچھپ چھپ کرمسکراتی۔اوراس کی مسکراہٹ کارازایلی کی روح میں ناچتااوروہ چھپاکررکھنے کی اوربھی شدت سے کوشش کرتا۔

ایسی باتیں کیسی باتیں

لیکن آصفی محلے کی سیاہ انیٹیں ایک دوسرے کی طرف دیکھ کرمسکراہٹ بھینچنے کی کوشش کرتیں اورآصفی مکانات کے دروازے زیرلب چوں چوں کرکے مسکراتے،ہنتے اورپھررات کے اندھیرے میں محلے کے کتے روتے،چمگادڑیں چیختیں اوران تہہ خانہ نمامکانات میں محلے والیاں سرجوڑکرباتیں کرتیں اورپھرانگلیاں ہونٹوں پررکھ لیتیں۔
ایلی کے شب وروزمیں اس کی علاوہ صرف ایک بات تھی۔ہرروزیاہردوسرے روزآصف کاایک نہ ایک خط آجاتاجس میں تباہی اوربربادی اورایلی کے امرتسرنہ آنے کے متعلق شکوے اورشکایات ہوتیں۔تباہی اوربربادی کے ان قصوں میں کوئی خاص بات نہ ہوتی اورایلی قطعی طورپراندازہ نہ لگاسکتاکہ اس پرکیابیت رہی ہے۔وہ سمجھتاکہ آصف تفریحاً بربادی کارونارورہاہے جیسے کہ اس کی عادت تھی۔وہ جانتاتھاکہ آصف کی تمامترزندگی جھجک کے محورکے گردگھوم رہی ہے اوراس کی محبت ”لوگ کیاکہیں گے“کے سواکچھ نہیں اس لئے ایلی کویقین تھاکہ آصف آگے قدم رکھنے کی جرات نہ کرے گااس لئے اس کاکسی خطرے میں گرفتارہوناممکن ہی نہیں لہٰذا بربادیکاسوال ہی پیدانہیں ہوتا۔زیادہ سے زیادہ یہ بربادی ہوسکتی تھی کہ محلے میں بدنامی ہوجائے اوروہ چنچل لڑکی اسے خوش کرنے کے لئے عام مجمع میں قمیض اٹھاکرچلانے لگے:
”اب شرماکربھاگ کیو ں رہے ہو؟“
ویسے بھی تووہ اس کی بیٹھک کے روشندانوں پرلگے ہوئے ٹاٹ کے ٹکڑوں پرخشت باری کیاکرتی تھی اوراعلانیہ چلاتی:
”انہیں اتاردوان پردوں کوہٹادو۔ان رکاوٹوں کودورکردواورخودمیرے سامنے آرام کرسی پربیٹھ جاوورنہ میں ماروں گی اینٹ۔“
ایلی کاخیال تھاکہ آصف محبت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ایلی کے نزدیک تومحبت وہ تھی جس میں انسان محبوبہ کے سوااورکسی کی پروانہ کرے۔اس لئے ایلی آصف کی طرف سے مطمئن تھااوراسے یقین تھاکہ کچھ بھی نہ ہوگا۔زیادہ زیادہ سے شہرچھوڑکروہ بھاگ جائے گااوراپنے باپ کے پاس جاپناہ لے گاجوکسی دوردرازمقام پرایکسائزانسپکٹرتھے۔
پہلے چارخطوں کاتوایلی نے جواب بھی نہ دیاتھا۔اسے باربارتاکیدکی تھی کہ حالات تفصیل سے لکھے۔ایلی کوآصف کے معاملے میں بہت دلچسپی تھی۔اس کاجی چاہتاتھاکہ ایک باراپنی آنکھوں سے اس نڈرعاشق کودیکھے جولڑکی ہونے کے باوجوداس قدربے باک اوردلیرتھی کہ اپنے بھائیوں،باپ اوردیگروارثوں کے سامنے بھی اظہارمحبت سے نہ گھبراتی تھی۔ایلی کاجی چاہتاتھاکہاسے بھی کوئی ایسی ساتھی مل جائے اوروہ دونوں ہاتھ پکڑے افق کی طرف چل پڑیں اورایک دوسرے کے لئے تمام دنیاکوٹھکرادیں۔
پہلے تو اس کے دل میں شہزادکے کہنے پر”ایلی تم لوگوں کی پرواکرتے ہو؟“بڑ ی بڑی امیدیں پیداہوگئی تھیں لیکن جلدی ہی وہ سب گارے کی طرح دیواروں کی طرح دھڑام سے نیچے آگریں۔اب بھی شہزاداس پروہ نگاہ ڈالتی یاجب وہ فرحت کی طرف آکرفرحت یاہاجرہ کے کسی طعنے کے جواب میں ظاہرکرتی جیسے لوگوں سے قطعی طورپربے نیازہو۔جب وہ لوگوں کی موجودگی کے باوجودآنکھ بچاکرایلی کاگال سہلاجاتی یاچلتے چلتے چپکے سے اسے چٹکی بھرلیتی یاباتوں ہی باتوں میں آنکھ بچاکراسے گھورتی یازبان نکال کراس کامنہ چڑاتی اس وقت ایلی کاسینہ چوڑاہوجاتااورشانے ابھرآتے۔وہ محسوس کرتاکہ وہ خوش قسمت شخص ہے جسے شہزادسی ساتھی میسر ہے مگرجونہی وہ تنہائی میں شہزادسے ملتاتواس کی تمام امیدیں اورمسرتیں خاک میں مل جاتیں۔
ایلی نے آصف کے دوایک خطوں کے جواب بھیجے تھے باربارمطالبہ کیاتھاکہ تفصیلات لکھ کربھیجے۔لیکن آصف میں اتنی ہمت کہاں تھی کہ کاغذپردل کارازلکھ کربھیجتا۔اس نے تواپنی شخصیت کویوں چھپاکررکھاتھاکہ خوداسے جاننے سے محروم ہوچکاتھا۔تفصیلات کی بجائے وہ تباہی اوربربادی کے راگ الاپتارہااورباربارایلی کوامرتسربلاتارہا۔”خداکے لئے ایک بارآاکرمجھے بربادی سے بچالو۔“۔۔۔مگرایلی کواتنی فرصت کہاں تھی کہ وہ آصف سے ملنے جاتا۔وہ توشہزادمیں اپناآپ کھوچکاتھا۔وہ توچاہتاتھاکہ شہزاداس کے سامنے بیٹھی مشین چلاتی رہے اوروہ اس کی ڈولتی آنکھوں اورلٹکتے ہوئے بھرے اورگوروں بازووں کودیکھتارہے۔اس کے حنامالیدہ ہاتھوں کامنتظررہے۔شہزادچھم سے زینے سے اترے اورکہے:
”ایک۔“
”ایک لقمہ کھاو توزندگی سنورجائے۔“
اس بات کامتمنی تھاکہ شہزادزبان نکال کرایلی کامنہ چڑائے اورپھرسنجیدگی سے جانوسے کہے:
”جانو۔تم آج بات ہی نہیں کرتیں۔ناراض ہوکیا؟“
اگرایلی کواحساس ہوجاتاکہ آصف شہرچھوڑکرجانے کے علاوہ کچھ اورکرنے کی بھی اہلیت رکھتاہے توحالات یہ رخ اختیارنہ کرتے لیکن ایلی کوتو یقین تھاکہ آصف خطرے میں کودنہیں سکتاچونکہ اس میں آگے قدم رکھنے کی جرات نہیں۔ایلی کوکبھی خیال نہیں آیاتھاکہ وہ قدم پیچھے ہٹاسکتاہے جوخطرناک نتائج پیداکرسکتاہے۔اگراسے اس بات کاذرابھی احساس ہوتاتوشایدوہ آصف کوملنے کے لئے امرتسرچلاجاتامگرایسانہ ہوا۔
بربادی اورتباہی کے اعلان کم ہوتے گئے۔شاعری کاعنصرنہ رہاجس سے اس کے پہلے خط لبریزہوتے تھے۔آہستہ آہستہ اس کے خطوط میں صبراورضبط کی جھلک واضح ہوگئی اورنفس مضمون میں اختصارپیداہوتاگیااورآخرش ایلی کوآصف وہ خط موصول ہواجس میں صرف ایک جملہ لکھاتھا:
”میں تادم تحریرزندہ ہوں۔“
ایلی نے وہ خط دیکھا۔اسے باربارپڑھالیکن اسے کچھ سمجھ نہ آیا۔آخرتادم تحریرزندہ ہوں سے اس کامقصدکیاتھا۔یہ بات توایک حقیقت تھی۔ایک ایسی حقیقت جسے کوئی جھٹلانہیں سکتاتھا۔انسان اپنے مستقبل کے متعلق کیسے جان سکتاہے۔وہ صرف حال کے متعلق ہی جانتاہے اورحال کیاہے ۔ایک ساعت ،ایک مختصرترین ساعت ۔ایلی نے لاشعوری طورپران باتوں کاجائزہ لیا۔
اس وقت شام کاوقت تھا۔ایک اداس شام شہزادکی موجودگی کے باوجوداداس،اس کی سیاہ آنکھوں میں چمکتی ہوئی شرارت کے باوجوداداس ۔وہ چپ چاپ شہزادکے پاس جابیٹھا۔
”شہزاد“وہ بولا۔”یہ دیکھوتو؟“
”یہ خط میرے دوست کاہے۔“ایلی نے اسے خط دیتے ہوئے کہا۔
”عجیب خط ہے۔“وہ بولی۔”اس سے توبہترتھااپنی تصویرہی بھیج دیتا“وہ ہنسنے لگی۔
”تم نہیں جانتیں۔“ایلی نے کہا۔”اسے ایک لڑکی سے محبت ہے۔“
”اچھا۔“وہ مسکرائی۔”محبت ہے--پھر؟“
”کہیں کوئی گڑبڑنہ ہوجائے۔“ایلی نے کہا۔”کہیں وہ مرنہ جائے۔“
”محبت میں مرجائے۔“اس نے پوچھا۔”کیالڑکی کواس کی پروانہیں۔“
”وہ توجان دیتی ہے اس پر۔“ایلی نے جواب دیا۔
”پھراسے کیاپڑی ہے کہ جان دے۔“شہزاد مسکراتے ہوئے بولی۔
”شاید--“ایلی سوچ رہاتھا۔
”واہ۔“وہ ہنسی ۔”محبت کرنے والے کبھی نہیں مرتے۔وہ توامرہوجاتے ہیں۔“
”اچھاامرہوجاتے ہیں کیا۔تومجھے بھی امرکردوشہزاد۔“
”امرہوتے ہیں ۔“وہ بولی۔“کئے نہیں جاتے۔“
”توکیامیں امرہوگیاہوں؟“ایلی نے پوچھا۔
وہ سوچ میں پڑگئی۔پھردفعتاً سراٹھاکربولی۔
”ایلی؟“
”جی ۔“ایلی نے امیدافزانگا ہ سے اس کی طرف دیکھا۔
”ایلی کیاتم واقعی--“پھردفعتاً وہ رک گئی۔
”بولونا۔“ایلی نے شہزادکابازوجھنجھوڑا۔”کیاکہہ رہی تھیں تم؟“
کچھ نہیں۔“شہزادکی آنکھوں میں آنسوتیرنے لگے۔
”نہیں نہیں۔“وہ ضدکرنے لگا۔”ضروربتاومجھے۔“
”کچھ ہوتوبتاوں میں--“وہ مسکرائی۔اس کی مسکراہٹ نمناک تھی۔
”اچھاتوکچھ بھی نہیں۔“ایلی نے بات کارخ بدلااورسرجھکاکربیٹھ گیا۔پھردفعتاً اس نے سراٹھایا۔
”شہزاد۔“وہ بولا۔”تمہاراکچھ بھی نہیں میرے لئے دنیابھرکے کے سبھی کچھ سے زیادہ ہے--“
شہزادنے تڑپ کرایلی کی طرف دیکھااورایلی کے منہ پرہاتھ رکھ دیا۔
”ایسی باتیں نہ کیاکروایلی۔“ وہ بولی۔
”کیسی باتیں؟“”ایلی نے پوچھا۔شہزادخاموش رہی۔
”کیوں نہ کیاکروں؟“ایلی نے پوچھا۔
”بس نہ کیاکروایلی--میری خاطر۔“شہزادنے منت سے کہا۔
”تمہاری خاطرمیں سبھی کچھ کرسکتاہوں شہزادمگریہ مطالبہ نہ کروکہ تمہاری خاطرمیں کچھ نہ کہوں۔“
”اچھا۔“وہ ہنسنے لگی--“میری خاطرتم کیاکیاکررہے ہو؟“
”جومیں اپنی خاطرنہیں کرسکتاتمہاری خاطرکرسکتاہوں صرف تمہاری خاطر۔“
”چپ ۔“وہ چلائی۔اوراس کی حنائی انگلی ایلی کے ہونٹوں پرٹک گئی۔
وہ پہلادن تھاجب تخلیئے میں شہزادنے ایلی سے اظہارالتفات کیاتھا۔اس اظہارالتفات کے بعدآصف کاوہ خط بے معنی ہوکررہ گیا۔ایلی کے لئے تمام کائنات شہزادسے بھرگئی۔ان جانے میں ایلی کاسرجھکااوربازوکی بجائے شہزادکے بلوری پاوں پرٹک گیااورشہزادنہ جانے کس افق پرکھوکررہ گئی۔

بلاوا

اگلے روزایلی جب چوبارے میں بیٹھاہوا حسب معمول شہزادکے پاوں کاجائزہ لے رہاتھاتودفعتاً چوگان سے شورسنائی دیا:۔
”کون ہے تو؟“
”ویرکسے ملے گاتو؟“کوئی محلہ والی بولی۔
”کون آیاہے بہن؟“دوسری چلائی۔
”میں کہتی ہوں کوئی آیاہے کیا؟“
”ہاں ہاں۔کوئی امرتسرسے آیاہے۔“
”کس کے ہاں آیاہے؟“
”اپنے علی احمدکے ہاں۔“
”اچھابسم اللہ۔سوبارآئے ۔کوئی مہمان ہوگالیکن علی احمد توآج کل نوکری پرہیں۔“
”کہتاہے ایلی سے ملناہے۔“
”ایلی سے ملناہے؟“
ایلی گھبراگیا۔وہ چپکے سے اٹھااورکھڑکی کی درزسے دیکھنے لگا۔چوگان کے عین درمیان میں ایک اونچالمبانوجوان کھڑادیکھ کروہ حیران رہ گیا۔نہ جانے کون ہے؟اس کے چہرے کوغورسے دیکھنے کے باوجودوہ اسے پہنچان نہ سکا۔
”بیٹے !کیانام ہے تیرا؟“مائی حاجاں چلاتے ہوئی چلاکربولی۔
”کیاکہاشفیع --اللہ تیرا بھلاکرے۔ابھی آجاتاہے ایلی یہیں ہوگا۔“
”اے ہاجرہ ۔اے لڑکی فرحت میں کہتی ہوں لڑکی کیانام ہے تیرا؟--“ہے مجھے تواللہ مارانام ہی بھول جاتاہے۔ہاں اپنی جانوں--اے جانوں--ذراہاجرہ کوآوازتودینا--کہناکوئی ایلی سے ملنے آیاہے۔“
ایلی کاجی چاہتاتھاکہ کسی سے کہلوادے کہ ایلی گھرپرنہیں اوراس اجنبی سے ملاقات کی کوفت سے جان بچالے لیکن اس وقت تک محلے میں چاروں طرف شورمچ چکاتھا۔محلے والیاں اجنبی کے متعلق سن کرگدھوں کی طرح کھڑکیوں اورمنڈیروں پرآکھڑی تھیں۔ہاتھوں کی پنکھیاں چل رہی تھیں ہاتھ چل رہے تھے۔زبانیں قینچی کی طرح چل رہی تھیں۔اب ان کی زدسے بچناممکن نہ تھا۔اس لئے وہ بادل نخواستہ نیچے اترگیااورڈرتے ڈرتے چوگان میں پہنچا۔
”کون ہے؟“اس نے پوچھا۔
چاروں طرف سے محلے والیوں نے ایلی کودیکھ کرشورمچادیا۔
”ہائیں تم شفیع۔“--شفیع کودیکھ کرایلی--حیران رہ گیا۔شفیع اس کا ہم جماعت تھا۔وہ اس کی شکل وصورت سے پوری طرح واقف تھا۔حیرانی اس بات پرتھی کہ اس نے شفیع کوپہچاناکیوں نہ تھااورفرض کیجئے دوری کی وجہ سے پہچان نہ سکاتھاتوبھی اس کے نام لئے جانے پروہ اسے کیوں نہ پہچان سکا؟
”آوآو۔“وہ گرمجوشی سے بولا۔”اوپرچلو۔“
”نہیں ۔“شفیع بولا۔”مجھے جلدی ہے۔“
”جلدی ہے توکیابیٹھوگے نہیں۔“ایلی نے پوچھا۔”کیسے آئے ہو؟“
”تمہیں لینے آیاہوں۔“شفیع نے جواب دیا۔
”مجھے لینے آئے ہو؟“
”ہاں۔“وہ رک کربولا۔”میرے ساتھ امرتسرچلناہے تمہیں۔“
”کیوں؟“ایلی کے منہ سے یوں نکل گیاجیسے اسے شفیع کی بات بری لگی ہو۔
ایک ساعت کے لئے شفیع گھبرارہاپھرمسکراکربولا:”آصف نے بلایاہے تمہیں۔“اس کی مسکراہٹ حسرت آلودہ تھی۔
”آصف نے بلایاہے۔“ایلی نے دہرایا۔
”ہاں ۔وہ کہتاتھااسے لے کرآنا۔“
”تم کسی اپنے کام سے آئے ہوگے یہاں؟“ایلی نے پوچھا۔
”نہیں تو۔صرف تمہارے لئے۔“
”صرف مجھے لے جانے کے لئے خیریت توہے؟“ایلی گھبراگیا۔
”آصف کی حالت اچھی نہیں۔“شفیع نے آنکھیں جھکاکرکہا۔
”حالت اچھی نہیں--کیامطلب؟“
”اس نے کہاتھامیری طرف سے کہہ دیناحالات اچھے نہیں اورساتھ لے کرآنا۔“شفیع نے بصدمشکل جملہ ختم کیا۔
”ہوں۔توحالات اچھے نہیں۔یہ کہونا۔اس کے حالات توکبھی اچھے نہ ہوں گے۔”ایلی چمک کربولا۔
”چلواب راستے میں باتیں کریں گے۔“شفیع بولا۔
”اگرمیں دوسری گاڑی میں آجاوں تو؟“ایلی نے پوچھا۔
”نہیں ۔“شفیع بولا۔”ابھی چلناہوگا۔ضروری ہے۔“
”اچھاتومیں تیارہوآوں۔“ایلی نے سوچتے ہوئے جواب دیا۔
”دیرنہ لگانا۔“شفیع نے اسے تاکیدکی۔

بے معنی کہرام

ایلی تیارہوکرآیاتووہ سٹیشن کی طرف چل پڑے۔محلے سے باہرنکلتے ہی ایلی نے سوالات کی بھرمارکردی:
”آصف تمہیں کیسے مل گیا؟کیاتم چھٹیوں میں باہر نہیں گئے تھے کہیں؟خودکیوں نہ آیاآصف؟تمہیں گھرکاپتہ کیسے مل گیا؟مجھے اس نے کیوں بلایاہے؟آخربات کیاہے؟“
شفیع ایلی کے سوالات سے گھبراگیا۔لیکن اس نے ان میں سے کسی کاجواب نہ دیابلکہ جواب دینے کی بجائے اس نے اپناقصہ چھیڑدیاکہنے لگا۔
”بات یہ ہے کہ آصف کوایک لڑکی سے محبت تھی۔“ایلی نے مصنوعی تعجب سے کہا۔
”ہاں اسے محبت ہوگئی تھی۔“شفیع نے کہا۔
”لیکن اس نے مجھ سے توکبھی بات نہیں کی تھی۔اس کے متعلق۔“ایلی نے منہ پکاکرلیا۔
”کسی سے بات کرنااس کی عادت میںداخل نہ تھا۔“شفیع نے آہ بھری۔
”پھراس نے تم سے بات کیسے کی۔تمہیں یہ رازکیسے بتادیاآصف نے؟“
”بے چارہ مجبورہوگیاہوگا۔پھربھی اس نے مجھ سے پوری بات نہیں کی۔“شفیع نے کہا۔
”کیابات کی تھی تم سے آصف نے؟“ایلی اپنی لاعلمی کااظہارکرنے کی کوشش کرنے لگا۔
”مجھ سے --“شفیع خاموش ہوگیا۔اس کی آنکھ سے ایک آنسوڈھلک آیا۔
”شفیع ۔“ایلی نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھا۔”تم رورہے ہو؟“
”نہیں۔“شفیع سے مسکرانے کی کوشش کی۔”دراصل میری آنکھیں دکھتی ہیں۔پانی گرتاہے۔آصف سے مجھے گھربلابھیجاتھاکہنے لگا۔شفیع کیا تم ایلی کوبلاسکتے ہو۔اگرایلی نہ آیاتو--تو--“وہ خاموش ہوگیا۔جس طرح وہ بات کرتاہے تم جانتے ہی ہو۔“شفیع نے پھربات شروع کی۔
”ہاں مجھے معلوم ہے۔“ایلی نے کہا۔”اچھی طرح معلوم ہے۔“
’‘پھراس نے میری منتیں کیں۔“شفیع کہنے لگا۔”لیکن میں نہ مانا۔میں نے کہاجب تک بلانے کی وجہ نہ بتاوگے میں نہ جاوں گا۔پھراس نے بتایامجھے کہنے لگامیں عجیب مصیبت میں گرفتارہوں۔اگرایلی نہ آیاتوسمجھ لومیری زندگی ختم ہوجائے گی۔“
”بے وقوف ۔“ایلی چلایا۔”محبت لڑکی سے ہے لیکن ایلی نہ آیاتوسمجھ لوزندگی ختم ہوجائے گی۔۔۔عجیب بے تکی سے بات ہے۔“
”نہیں ایلی۔“شفیع نے اس کاہاتھ پکڑلیا۔”وہ واقعی تکلیف میں ہے۔اس کی حالت اچھی نہیں۔“
”حالت اچھی نہیں۔“ایلی چلایا۔”اچھاخاصاہے۔کھاتاپیتاہے۔حالت اچھی کیوں نہیں۔“
”نہیں۔“شفیع رک رک کرکہنے لگا۔”اب توبے چارہ ختم ہوگیا۔منہ زردہوگیاہے۔آنکھیں نکل آئی ہیں۔پہچاناتک نہیں جاتا۔“شفیع نے کہا۔
”کیاواقعی ؟“ایلی سوچ میں پڑگیا۔
”ہاں--اب شایدوہ بچ نہ سکے۔“شفیع نے بھرائی ہوئی آوازمیں کہا۔
”بچ نہ سکے۔تم بھی حدکرتے ہو--“ایلی بولا۔
”سچ ایلی ۔“شفیع نے سرجھکالیا۔
شفیع کے اندازکی سنجیدگی کی وجہ سے ایلی خاموش ہوگیا۔وہ چاہتاتھاکہ شفیع کی بات کی پھبتی اڑادے مگرہمت نہ پڑی۔اس نے محسوس کیاجیسے اس کی طاقت گویائی ختم ہوتی جارہی ہو۔جیسے اس کی رگوں میں خون جم گیاہو۔وہ خاموش ہوگیا۔اوروہ دونوں نہ جانے کب تک خاموش بیٹھے رہے۔ایلی گاڑی کی کھڑکی کے باہردوڑتے ہوئے دیہات کے منظرکی طرف کھوئے کھوئے دیکھتارہااورشفیع کی دکھتی آنکھ سے قطرے گرتے رہے۔
دفعتاً گاڑی کودھچکالگااوروہ رک گئی۔امرتسرکے پلیٹ فارم کودیکھ کرایلی حیران رہ گیا۔اسے یادہی نہ رہاتھاکہ وہ امرتسرجارہاہے۔اسے یہ بھی خیال نہ رہاتھاکہ شہزاداس وقت بیٹھی مشین چلارہی ہوگی۔اسی طرح سرجھکائے بازولٹکائے۔اس وقت ایلی کے ذہین میں ایک وسیع خلاپھیلاہواتھا۔
سٹیشن سے وہ دونوں تانگے میں سوارہوگئے۔وہ دونوں خاموش ہوگئے تھے جیسے انہیں ایک دوسرے سے کچھ نہ کہناہو۔
جب وہ آصف کے گھرکے قریب پہنچے توشفیع نے مہرسکوت توڑا۔
”ایلی۔“وہ بولا۔
”جی۔“ایلی چونکا۔
شفیع رک گیاجیسے اسے یادنہ رہاہوکہ کیاکہناچاہتاہے۔”آصف کی حالت بہت خراب تھی۔بہت خراب ۔اس حدتک کہ شاید۔۔۔“
”سب ٹھیک کرلوں گامیں۔“ایلی چمک کربولا۔
”شایدوہ۔۔“شفیع نے کچھ کہنے کی کوشش کی۔
”شایدکاسوال ہی پیدانہیں ہوتا۔“ایلی نے اس کی بات کاٹ کرکہا۔
گلی کاموڑمڑتے ہی ایلی حیران رہ گیا۔وہ تنگ گلی لوگوں سے بھری ہوئی تھی۔کھڑکیوں میں ‘منڈیروں پرعورتوں کاہجوم تھا۔اس نے محسوس کیاجیسے وہاں غدرہوگیاہو۔لوگ چلارہے تھے۔چیخ رہے تھے۔
”یہ کیاہے؟“اس نے ہٹ کرشفیع سے پوچھا۔
شفیع نے ایلی کی بات کاکوئی جواب نہ دیابلکہ اس کاہاتھ پکڑکرمجمع چیرتاہواآگے نکل گیا۔آصف کے مکان کے نیچے وہ رکاجہاں لوگوں کی بھیڑلگی ہوئی تھی۔
”ایلی آگیاہے۔“وہ چیخ کربولا۔
”ایلی آگیاہے۔“اوپرسے زنانہ آوازیں آئیں اورپھردفعتاً لوگوں کی دلدوزچیخیں سنائی دیں۔ایک قیامت ٹوٹ پڑی۔چاروں طرف سے چیخوں کی آوازیں آنے لگیں:
”وہ آگیاہے۔وہ آگیاہے۔“
”ایلی آگیاہے مگرتوچلاگیاہے۔لے بیٹے آگیاتیرادوست۔اب اس سے توبات کر۔آصف تیرادوست تجھ سے ملنے آیاہے۔ہم سے توتونے کبھی بات نہ کی کیااس سے بھی بات نہ کرے گا۔ایلی بیٹے!تیراآصف چپ ہوگیاہے۔اب وہ نہیں بولتا۔اب وہ کبھی نہ بولے گا۔“
پھروہی چیخیں سنائی دینے لگیں جنہیں سن کرایلی سن ہوکررہ گیا۔جیسے وہ ایک بے جان چیزہو۔اس کے گردچاروں طرف چیخوں سے بھراہواایک ویرانہ پھیلاہواتھا۔اسے مٹیالے دھبے سے دکھائی دے رہے تھے۔دورکوئی بین کررہاتھااورسینکڑوں مدھم مدھم آوازیں کراہ رہی تھیں۔

ننگی رقاصہ

پھردفعتاً کوئی چلایا:”ہٹ جاوجنازہ آرہاہے۔“
اوروہ دھبے ہوامیں تیرنے لگے۔چاروں طرف عجیب عجیب آوازیں بلندہوئیں بے معنی آوازیں پھروہ سب ایک کھلے میدان میں کھڑے تھے جہاں ایک خوف ناک سناٹاچھایاہواتھا۔آسیب زدہ مکان میں بھوت پریت چل پھررہے تھے۔میدان میں قبروں کے درمیان کھلے بالوں والی ایک خوبصورت ڈائن کھڑی تھی۔اس نے اپنی چھاتیوں پرقمیض اٹھارکھی تھی۔اس کے گھنگھریالے بال چہرے کے گردپھیلے ہوئے تھے۔اس کی آنکھوں سے شرارے پھوٹ رہے تھے اوروہ رقص کررہی تھی۔مسرت بھرارقص۔۔وحشت بھرارقص۔لوگ اس کے وجودسے بے خبرسفیدکپڑے میں لپٹی ہوئی لاش کندھے پراٹھائے ہوئے تھے۔
پھردفعتاً ایک شوربرپاہوا۔وہ لدوزچیخیں وہ ہچکیاں کراہیں بندہوگئیں۔وہ نہ جانے کدھرکوچل پڑے۔ایلی نے محسوس کیاجیسے ان کے آگے آگے وہی ننگی رقاصہ ناچتی جارہی تھی۔
پھروہ نمازپڑھ رہے تھے اوروہ امامت کررہی تھی۔وہ لاش کودفنارہے تھے اوروہ قہقہے لگارہی تھی۔
”ایلی ۔“شفیع نے اسے آوازدی۔”چلوگھرچلیں۔“
ایلی نے نفی میں سرہلادیا۔
”توکیاتم علی پورجاوگے؟“شفیع نے پوچھا۔”اس وقت؟“
”ہاں۔“ایلی نے جواب دیا۔”میں جارہاہوں۔“
”اچھاتوچلومیں تمہیں سٹیشن پرچھوڑآوں گا۔“وہ بولا۔
دفعتاًایلی نے شفیع کی طرف دیکھا:
”شفیع ۔“وہ بولا۔کیاواقعی آصف مرگیا؟“
”لیکن لیکن--تم توکہتے تھے--“ایلی رک گیا۔
’‘میں میں۔“شفیع نے کچھ کہنے کی کوشش کی۔”میں تمہیں بتاناچاہتاتھالیکن۔۔۔“
”تمہیں معلوم تھاکہ؟“ایلی نے پوچھا۔
”ہاں۔“اس کی دکھتی آنکھ سے پانی جاری ہوگیا۔”آصف نے مرتے وقت وصیت کی تھی کہ تمہارے آنے سے پہلے اس کاجنازہ نہ اٹھایاجائے۔“
ایلی تڑپ کرمڑا۔وہ پھیلاہودھندلکادفعتاً ختم ہوگیا۔اس کی گرداونچے لمبے لوگ بھاگ رہے تھے۔ڈراونے مکانات سراٹھائے کھڑے تھے۔
”وصیت۔“ایلی گنگنایا۔
”ہاں۔“شفیع بولا۔”آصف سے کل رات زہرکھالیاتھا۔
”زہر؟“ایلی کے ہونٹ ہلے۔
”رات کے دوبجے وہ مرگیااورمرنے سے پہلے اس نے گھروالوں سے کہہ دیاکہ جب تک تم نہ آوجنازہ نہ اٹھایاجائے۔صبح اس کے گھروالوں نے مجھے بلاکرعلی پوربھیج دیاتاکہ تمہیں لے آوں۔“
”زہرکھالیا؟“ایلی اپنے آپ ہی بڑبڑایارہاتھا۔
”کہتے ہیں۔“شفیع نے کہا۔”اس لڑکی نے آصف کوخط لکھاتھا۔آوہم اکٹھے زہرکھالیں۔فلاں دن فلاں وقت اوردونوں مرجائیں۔“
”اوروہ بھی مرگئی کیا؟“ایلی نے پوچھا۔

انتقام---انتقام

”نہیں۔“شفیع بولا۔”وہ نہیں مری۔کوئی کہتاہے اسے کھانے کوزہرنہیں ملا۔کوئی کہتاہے وہ دراصل آصف سے انتقام لیناچاہتی تھی اس لئے اس نے اسے دھوکادیا۔اس لڑکی کی بے حدبدنامی ہوئی تھی نا۔اوراس کے بھائیوں نے اسے باندھ کرپیٹاتھا۔پھروہ اس محلے سے اسے لے گئے تھے۔دورکسی اورمحلے میں سفیدکٹڑے کے قریب لیکن سچی بات کے متعلق کسی کونہیں معلوم۔“شفیع نے کہا۔”میراخیال تھاشایدتمہیں معلوم ہوگا۔“
”مجھے--“ایلی سوچ میں پڑگیا۔”سب بیکارہے بالکل بے کار۔کوئی فائدہ نہیں۔“ایلی نے محسوس کیاجیسے وہ خودآصف کی موت کاذمہ دارہوجیسے اسی نے آصف کوماراہو۔ان اونچی عمارتوں کے اوپرایک حسین لڑکی مسکرارہی تھی۔مسکراتے ہوئے اس نے اپنی قمیض کے دامن کونیچے کونوں سے پکڑلیااورپھربازواوپراٹھائے۔اوپراوراوپر۔حتیٰ کہ وہ ننگی ہوگئی اورآصف اسے دیکھ کرچلانے لگا---”نہیں نہیں نہیں نہیں۔“---پھراس کارنگ ہلدی کی طرح زردپڑگیااوروہ بھوت بن گیااورلوگوں نے اسے سفیدلٹھے میں لپیٹ دیا۔اورکسی نے باآوازبلندچلاکرکہا۔”ہٹ جاو۔جنازہ آرہاہے۔“
”میں سمجھتاہوں۔“شفیع بولا۔”اس لڑکی نے واقعی آصف سے انتقام لیاہے کیونکہ آصف نے اس کی طرف التفات نہ کیاتھا۔کچھ لوگ کہتے ہیں وہ دونوں چارایک بارچوری چوری ملے بھی تھے۔کچھ کہتے ہیں نہیں لڑکی کی شوق ملاقات سے تڑپتی رہی لیکن آصف نے اپنی بے توجہی سے اسے بھسم کردیااس لئے وہ انتقام پرتل گئی۔کہتے ہیں اگرلڑکی کے پیارکوٹھکرادوتووہ انتقام لیتی ہے۔میرامطلب ہے اگراس کی آرزوئیں پوری نہ کروتووہ انتقام لیتی ہے۔“شفیع نے وضاحت کی۔
”انتقام لیتی ہے۔انتقام لیتی ہے۔“
گاڑی کاانجن چلاتاہواجارہاتھا۔
کھیتوں میں ایک برہنہ عورت ناچ رہی تھی۔اس کے بال کھلے تھے۔چھاتیاں ابھری ہوئی تھیں ۔ناخن بڑھے ہوئے تھے۔
”انتقام لیتی ہے۔انتقام لیتی ہے۔“انجن گویاایلی کودھمکیاں دے رہاتھا۔”انتقام لیتی ہے --انتقام لیتی ہے۔“
دفعتاً برہنہ عورت کے چہرے میں تبدیلی واقع ہوئی۔ایلی نے اسے پہچان کرچیخ سی ماری:
”شہزاد۔“اس کاجسم پسینے سے شرابورہوگیا۔
”کیاہے تمہیں بابو۔“ اس کے قریب بیٹھے ہوئے مسافرنے اس کی طرف دیکھ کرپوچھا۔
”بیمارہوبھائی؟“دوسرے نے پوچھا۔
ایلی گھبراگیا۔
”ہاں۔“وہ بولا“میری طبیعت ٹھیک نہیں ۔“
لیٹ جاو۔لیٹ جاو۔“انہوں نے زبردستی اسے لٹادیا۔
وہ برہنہ عورت تیرتی ہوئی کھیتوں سے گاڑی میں آگھسی اوراس کی چھاتی پربٹیھ گئی۔---
”انتقام۔انتقام۔“گاڑی چلائے جارہی تھی۔تڑپ کروہ اٹھ بیٹھا،”انتقام،انتقام“شفیع دورسے مسکراکربولا۔”اگراس کی خواہشات پوری نہ کی جائیں تووہ انتقام لیتی ہے۔“
برہنہ شہزادکے کھلے بال ایلی کے چہرے سے مس کررہے تھے۔”انتقام۔انتقام۔“انجن اسے خبردارکررہاتھا۔ڈبے کے سبھی مسافرحیرانی سے اسے دیکھ رہے تھے۔
”نہیں نہیں۔“وہ چلایا”نہیںنہیں۔“
”کیاہے تمہیں؟“کسی نے قریب آکرپوچھااوراس کے جسم کوہاتھ لگاکربولا۔”اسے توبخارہورہاہے۔“ ”نہیں نہیں۔“ایلی چلایا۔”بخارنہیں بخارنہیں۔“
پھراسے ہوش آیاتووہ چارپائی پرلیٹاہواتھا۔اس کے گردکئی ایک دھندلائے ہوئے چہرے تھے۔دفعتاً ایک چہرہ اس کے قریب ترہوگیاکھلے بالوں میں گھراہوا۔گھبرایاہوا۔
”شہزاد۔“اس کے ہونٹ کھلے ۔اسے دیکھ کروہ جوش میں آگیا۔”تم مجھ سے انتقام لوگی۔“اس نے اٹھ کربیٹھنے کی کوشش کی۔
شہزادہنسنے لگی:”کیاکہہ رہے ہوتم؟“
”نہ جانے بیہوشی میں کیابول رہاہے۔“ہاجرہ بولی۔”دیکھوتوبخارسے بدن تپ رہاہے۔“
”کیاہے تمہیں ایلی؟“شہزادنے پوچھا۔
”کچھ بھی نہیں۔کچھ بھی نہیں۔“ایلی خاموش ہوگیا۔
پھرجب سب لوگ چلے گئے تواس نے شہزادکوآوازدی۔وہ گھبراکراٹھ بیٹھی۔
”کیاہے ایلی؟“وہ قریب آکربولی۔
”تم مجھ سے انتقام تونہ لوگی۔“ایلی نے پوچھا۔
”انتقام۔کیاکہہ رہے ہوتم؟شہزادگھبراگئی۔
ایلی نے شہزادکابلوری پاوں پکڑلیا۔بے ساختہ اس کی آنکھوں سے آنسوبہنے لگے۔
”ہائیں۔“شہزادچلائی ۔”تم رورہے ہو؟“
”وعدہ کروشہزاد۔وعدہ کرو۔“وہ منت کرنے لگا۔”تم مجھ سے انتقام نہ لوگی۔وعدہ کرو۔“
”پاگل نہ بنو۔“وہ بولی۔
”نہیں نہیں۔وعدہ کرو۔“ایلی نے منت کی۔
”نہیں ۔میں تم سے انتقام نہ لوں گی۔“شہزادبولی۔”اب نہ روو۔“وہ اسے تھپکنے لگی اوروہ اس کے بلوری پاوں پرسررکھے روتاروتاسوگیا۔

نئی الجھن

شہزادکے اس وعدے کے باوجودایلی کے دل میں انتقام کاخوف جوں کاتوں قائم رہا۔اگرچہ شفیع نے اس روزوہ بات سرسری طورپرکی تھی مگرایلی کے دل میں وہ بات گھرکرگئی۔اورپھرنہ جانے آصف کی موت کی وجہ سے یاامرتسرکے لوگوں کی سرگوشیوں کی وجہ سے وہ بات ایلی کے دل کی گہرائیوں میں اترگئی۔
جب بھی ایلی شہزادکے پاس جاتاتوشفیع نہ جانے کدھرسے آنکلتااورمسکراکرکہتا:
”اگرعورت کی آرزوئیں پوری نہ کی جائیں--“دفعتاً اس کی مسکراہٹ خوف ناک سنجیدگی میں بدل جاتی اورساری دنیاپرسکوت طاری ہوجاتا۔خوف ناک سکوت۔اورپھرفاصلے پھیلتے اورشہزادکوسوں دورہوجاتی اوربڑبڑاتی اورجانومنظرسے خارج ہوجاتی۔
اکثراکیلے میں بیٹھے ہوئے وہ سوچتا۔آخرشہزادکوکیاپڑی ہے کہ مجھے اچھاسمجھے۔چاہتاتوبات ہی اورہے۔وہ شادی شدہ ہے۔اس کاخاوندہی جوچھت پرآنکھیں گاڑنے کے باوجودشہزادکی ہربات پرمسکرادیتاہے اورجب بھی اس کی طرف دیکھتاہے تواس کے ہونٹوں سے لعاب کاتارنکل آتاہے جیسے شہزادمٹھائی کی ٹوکری ہو۔ایسے خاوندکوچھوڑکرایلی سے محبت کرنے میں اسے کیافائدہ ہے۔ایلی کاناک نقشہ حسین نہ تھا۔اس کاجسم ہڈیوں کاایک ڈھانچہ تھا۔رنگ سیاہ تھاجس میں چوڑے چوڑے زرددانت نہایت بدنمالگتے تھے۔
ایلی کویقین نہ آتاتھاکہ کوئی عورت اس سے محبت کرسکتی ہے۔اس دورمیں ایلی کے خیالات روایتی رنگ لئے ہوئے تھے۔بہت سے روایتی اعتباراس کے دل میں جاگزیں تھے جن کی صحت کے متعلق اسے کبھی شک نہیں پڑاتھا۔شک بھی کیسے پڑتا؟وہ دوراس عمرکادورتھا
جب کہ اس کے والدین ،اس کے بزرگ اورمحلے کے بوڑھے اسے ایک بچے سے زیادہ حیثیت دینے کے لئے تیارنہ تھے۔
یہ وہ زمانہ تھاجب تجربہ سب سے بڑی خصوصیت سمجھاجاتاتھا۔جب علم اورفکرکی کوئی حیثیت نہ تھی اورانفرادیت دیوانگی کے مترادف سمجھی جاتی تھی۔اس زمانے میں شادی ہوجانے کے بعددفعتاً لوگ معززبن جاتے اورانہیں یہ حق حاصل ہوجاتاکہ وہ جملہ حقائق پرتبصرہ کریں اورکنواروں کوصراط مستقیم کے متعلق سمجھائیں۔
اس کے والدعلی احمدجب بھی ایلی کے متعلق اظہاررائے فرمایاکرتے توان کے انداز سے تحقیرکاعنصرواضح ہوتا۔ان حالات میں وہ بھلازندگی کے مسائل کے متعلق خودسوچنے کی جرات کیسے کرسکتاتھا۔اسے کیسے یقین آسکتاتھاکہ کوئی عورت اس سے محبت کرسکتی ہے ۔ایسی صورت میں اس کے نزدیک شہزادکے قرب کی آرزوکرنابھی جائزنہ تھا۔اس خیال پرہی وہ چونک جاتااورندامت محسوس کرتا۔چونکہ اسے یقین تھاکہ اس نے شہزادکوچھواتووہ میلی ہوجائے گی۔ناپاک ہوجائے گی۔اسی وجہ سے ایلی کی خواہش تھی کہ وہ شہزادکے دورسے پیارکرے ایلی کے سجدے شہزادکے لٹکنے والے بازووں، اس کے رنگین گدے سے ہاتھوں اوراس کے بلوری پاوں تک محدودرہے مگراب اس کی محبت کی راہ میں ایک نئی مشکل حائل ہوگئی تھی۔ایک ایسی مشکل جس نے اسے الجھن میں ڈال دیاتھا۔

جلتابجھتاسائن بورڈ

جب وہ شہزادکے پاوں پرسرجھکاتاتوچپکے سے شہزادکامسکراتاہواچہرہ اس کے قریب آجاتا۔اگرعورت کی آرزوئیں پوری نہ کی جائیں تووہ انتقام لیتی ہے۔اس کے ساتھ سفیدکفن میں لپٹاہواآصف منہ سے پلواٹھاکریوں بے بسی سے مسکراتاجیسے شفیع کی ہاں میں ہاں ملارہاہو۔ایلی چونک کراٹھ بیٹھتااورشہزادکی طرف دیکھ کراس کی بے نیازی اوربے پرواہی کومحسوس کرکے یہ سمجھنے لگتاکہ شہزادکی آرزوئیں پوری نہیں ہورہیں۔پھروہ گہری سوچ میں پڑجاتا۔ہاں جبھی وہ تخلیہ میں اس سے دورہوجاتی ہے اوردوری میں اسے اکساتی ہے جبھی وہ تنہائی میں یوں بے پرواہوجاتی ہے جیسے ایلی کے وجودکااسے احساس ہی نہ ہو۔اورفرحت ،ہاجرہ اورجانوکے سامنے بہانے بہانے اس کادامن کھینچتی ہے۔چوری چوری اس کاگال سہلاجاتی ہے یاچلتے چلتے چٹکی بھرلیتی ہے۔ظاہرہے وہ سوچتاکہ تخلیہ میں ایلی کوچرن تپسیہ کرتے دیکھ کروہ مایوس ہوجاتی ہے اورلوگوں کی پھرسے امیدکادیپ جلالیتی ہے۔
ان دنوں ایلی یہ نہ جانتاتھاکہ عورت کے لئے محبت محض ایک ماحول ہے۔چرن تپسیہ بھری نگاہوں اوررومان بھرے خوابوں سے بناہواماحول۔اسے یہ معلوم نہ تھاکہ عورت کومردانہ جسم کی خواہش ضمنی ہوتی ہے۔اس کے نزدیک محبت ایک ذہنی تاثرہے۔جسم کووہ صرف اس لئے برداشت کرتی ہے کہ وہ طلسم نہ ٹوٹے۔وہ تپسیہ بھری نگاہیں گم نہ ہوجائیں لیکن ایلی شہزادکی بے نیازی کومایوسی سمجھتاتھا۔حالانکہ وہ بے نیازی احساس تسخیرومسرت کابے پایاں اظہارتھی۔
ایلی ان باتوں کوسمجھتابھی کیسے؟اسے تویہ بتایاگیاتھاکہ زبان خلق نقارہ خداہوتی ہے۔اورخداکانقارہ کبھی دروغ بیانی کرسکتاہے بھلا---؟اس نے اپنے دوستوں کے علاوہ کئی بارچھپ چھپ کربزرگوں کی باتیں بھی سنی تھیں۔ان سب کاخیال تھاکہ عورت کی آرزوئیں پوری نہ کی جائیں تووہ انتقام لیتی ہے۔اوران آرزووں کے متعلق کئی بارعلی احمدہنس کرکہاکرتے تھے:
”ان عورتوں کی کیاپوچھتے ہومیاں۔یہ توتب تک تمہاری ہیں جب تک تمہاری گرفت میں ہیں۔ہاتھ سے نکل گئیں توپھرتم کون ہم کون؟“
اس نقارہ خداکے باوجودایلی کاجی نہیں چاہتاتھاکہ وہ اسے حقیقت تسلیم کرلے۔کیاعورت کی آرزویہی ہوتی ہے؟کیاشہزادیہی چاہتی ہے؟---نہیں نہیں۔وہ جھلااٹھتا۔شہزادایسی نہیں۔وہ عام عورت نہیں وہ کبھی ایسی بات کی آرزونہیں کرسکتی۔
اس کے باوجوددل ہی دل میں ایلی لوگوں کی باتوں کوتسلیم کرنے پرمجبورتھا۔وہ اس کش مکش میں ڈبکیاں کھاتارہا۔اندھیرے میں اپناراستہ ٹٹولتارہالیکن دوسری ساعت میں سورج کی منورکرنیں اس کی آنکھوں کوچکاچوندکردیتیں اورپھروہ اندھاہوجاتی۔اس کی کیفیت اس بجلی کے سائن بورڈکی سی تھی جو ایک ساعت میں روشن ہوجاتاہے اوردوسری ساعت میں بجھ جاتاہے۔

عزم

نقارہ خداکے شورکے باوجودشایدایلی کبھی اس راہ پرگامزن نہ ہوتامگراسے ڈرتھاکہ کہیں شہزاداکتاکہ اسے اپنے ہاتھ سے پھینک نہ دے۔وہ سبھی کچھ برداشت کرسکتاتھامگرشہزادسے قطع تعلقی اسے گوارانہ تھی۔اگرشہزادکی آرزووں کوقرب سے تعلق نہیں توقرب کی کوشش سے وہ زیادہ سے زیادہ ناراض ہوگی نامایوس نہ ہوگی---اس کے دل میں ایک خاموش عزم پیداہوگیا۔گویاایک نہتے زخمی سپاہی نے حملہ کرنے کی ٹھان لی۔
کئی ایک روز وہ سوچتارہا۔اس کایوں سوچتے رہناشہزادکے لئے خاصاپریشان کن تھا۔وہ باربارپوچھتی ”ایلی کیاہے تجھے؟“
”کچھ نہیں۔“ایلی جواب دیتا۔
”نہ ۔“شہزاداشارہ کرتی ۔”یوں سوچ بچارمیں نہیں پڑاکرتے۔جب سے امرتسرسے آئے ہونہ جانے کیاہوگیاہے تمہیں۔“
شہزادکوآصف کی موت کاپتہ تھااوراسی لئے وہ ایلی کے متعلق فکرمندتھی۔وہ دن کئی ایک بارفرحت کے ہاں آتی تاکہ ایلی کاپتہ لگائے۔ہرباروہاں آنے کے لئے وہ نئے سے نیابہانہ بہانہ تلاش کرتی۔اورہربارفرحت طنزاً بات کرتی جسے سن کرشہزادی ہنس دیتی۔پھروہ ایلی کے قریب آجاتی:
”کہوجی۔کیاابھی تک جنون نہیں گیا؟“وہ ہنس کرپوچھتی۔
ایلی مسکرادیتا۔”جنون بھی کبھی جاتاہے؟“
”اچھے امرتسرگئے تم۔اب چارپائی چھوڑنے کانام ہی نہیں لیتے۔“وہ ہنستی۔
”لے۔“ہاجرہ کہتی۔”وہ تو اس حالت میں بھی تمہاری طرف جانے کے لئے بے تاب رہتاہے۔“
”پتہ نہیں ۔“فرحت مسکرانے لگتی ۔”شہزادنے کیاجادوکررکھاہے ہم سب پر۔“
”جادوتوہوگا۔“شہزادآنکھیں چمکاکرکہتی۔
”مجھے بھی سکھادو۔“فرحت بات بدلنے کی کوشش کرتی۔
”اونہوں ۔یہ منہ اورمسورکی دال۔تم سے اتناتوہونہیں سکتاکہ خاوندکوکابل سے بلواسکو۔“
”سچ کہتی ہو۔“فرحت جل کرکہتی۔”یہ منہ اورمسورکی دال۔“
”اونہہ۔“شہزادآنکھیں چمکاتی۔”خالی منہ سے کیاہوتاہے۔بڑی بڑی شکل وصورت والیاں اپناسامنہ لے کررہ جاتی ہیں۔“پھروہ بات بدلتی۔”یہ ایلی پڑ ے پڑے کیاسوچتارہتاہے؟“”تمہارے متعلق ہی سوچتاہوگا۔“فرحت پھروارکرتی۔
”کیوں ایلی میرے متعلق سوچتے ہو؟۔“شہزادایلی پروہی نگاہ ڈالتی۔”جواب دو۔“
”ہاں تمہارے متعلق ۔“ایلی ہنستا۔
”اب کی بارآلیں۔ان سے شکایت کروں گی۔پھرمکرنہ جانا۔”شہزادسنجیدگی سے کہتی۔
”ان کوتوتم نے جان بوجھ کرباہر بھیج رکھاہے۔“فرحت چیختی۔
”ہے نا۔“شہزادہنستی ۔”اب تومجھے مانوگی نا۔“
”اب توبہت دیرہوگئی۔کب آئے کاشریف؟“ہاجرہ بات بدلنے کی خاطرپوچھتی۔
”کیامعلوم کب آئیں گے۔“شہزادمسکراتی۔
شریف کانام سن کرایلی کااحساس گناہ جاگ اٹھتا۔اس کے سینے پرایک ٹھیس لگتی اوروہ مزیدسوچ میں پڑجاتا۔

سوچ بچار

امرتسرسے واپسی کے بعدچارایک دن نے چارپائی پرگزاردیئے۔ویسے تووہ چل پھرسکتاتھااورشہزادکی طرف جاسکتاتھامگراس نے جان بوجھ کرادھرجانے سے احترازکیا۔ادھرجانے میں رکھاہی کیاہے۔وہاں شہزادکے قریب پہنچ کرتووہ بالکل معدوم ہوجایاکرتا۔پھرادھرجانے کیافائدہ---اس سے تویہی بہترتھاکہ وہ ادھر نہ جاتاتوشہزادباربارفرحت کی طرف آیاکرتی---اس کی نگاہ کی اس اذیت وبے التفاتی سے نجات ملی ہوتی تھی۔
مسلسل سوچ بچارکے بعدایلی کے ذہن میں ایک خیال آیا۔خوشی سے وہ اچھل پڑا۔اورپھراطمینان سے تفصیلات پرغورکرنے لگا۔
”واہ واہ کیاتجویزہے۔“
وہ حیران تھاکہ یہ خیال اسے پہلے کیو ں نہ آیا۔
پھرازسرنواس کے دل میں خدشات پیداہونے لگے۔
”اگرشہزادنے برانہ ماناتو---اگروہ ناراض ہوگئی تو---اگرکسی نے دیکھ لیاتو---اگربات شریف تک پہنچ گئی تو!۔“
شہزادتیسری منزل پرچوبارے میں رہتی تھی لیکن سب سے نچلی منزل میں ڈیوڑھی سے ملحقہ ایک بیٹھک بنی ہوئی تھی جوشریف کے قبضے میں تھی اورجہاں انہوں نے گھرکاسامان بندکررکھاتھا۔بیٹھک کرعرصہ درازسے بندپڑی تھی۔۔۔۔۔کبھی کبھارشہزادوہاں کوئی چیزرکھنے یالانے کے لئے جایاکرتی تھی۔ایلی نے بیٹھک میں کپڑے کی آرام کرسیاں رکھی ہوئی دیکھی تھیں۔
دوپہرکوجب شہزادآئی توایلی نے چپکے سے اس کی چابیاں اڑالیں۔جب وہ چلی گئی تووہ چپکے سے اٹھا۔شہزادکی بیٹھک کاقفل کھلااورکمرے میں داخل ہوکراس نے ایک کھڑکی کی اندرسے چٹخنی کھول دی۔لیکن پٹ جوں کے توں رہنے دئیے۔پھربیٹھک کے دروازے پرتالہ لگاکرواپس آگیا۔
اگلی روزجب شہزادآئی اورحسب معمول قریب آکرزیرلب بولی:
”ادھرنہ آوگے کیا؟۔“
”آوں گا۔“ایلی نے جواب دیا۔”بشرطیکہ ۔“
”اوہ ۔اب شرطیں لگانے لگے۔“شہزادنے آنکھیں چمکاکرکہا۔
”ہاں۔“وہ مسکرایا۔”شرطیں ہی لگائیں گے۔“
”اچھا۔“شہزادہنسنے لگی۔”کیاشرط ہے؟“
”وہاں میں کپڑے کی ایک آرام کرسی میں بیٹھوں گا۔“ایلی نے معصوم اندازسے کہا۔
”بس ۔اتنی سی بات ہے۔میں ابھی جانوکوبھیجتی ہوں نیچے سٹورمیں وہاں رکھی ہیں دوکرسیاں۔ابھی لے آئے گی۔ یہ کون سی بڑی بات ہے۔“
ایلی نے نفی میں سرہلادیا:
”جانوکونہ بھیجنا۔وہ باتیں بنائے گی۔خواہ مخواہ طعنے دے گی۔“
”اچھاتو۔“شہزادبولی۔“میں خودلے آتی ہوں۔اتنی سی بات تھی۔“
ہنستے ہنستے وہ اٹھی اورفرحت کوچھیڑتی ہوئی اپنے گھرکی طرف چل پڑی ۔اسے جاتے دیکھ کرپہلے توایلی کادل گھبراگیا۔پھرہمت کرکے دیوانہ واراٹھااوردوسرے راستے بیٹھک کی طرف بھاگاتاکہ شہزادکے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی کھلی کھڑکی کے ذریعے کمرے کے اندرجاپہنچے۔
ایلی کی تجویزکارگرہوچکی تھی لیکن عین موقعہ پراس کادل ڈوباجارہاتھا۔اس کی روح کی گہرائیوں سے نفرین کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔وہ محسوس کررہاتھاجیسے وہ محبت کی تذلیل کررہاہو۔اس روزپہلی مرتبہ اس نے محسوس کیاکہ وہ گناہ کررہاہے۔دوسرے کی بیوی سے محبت کی جذبات وابستہ کرنااس کے نزدیک قابل نفرین نہ تھا۔مگرمحبت میں جسمانی ملاپ کی خواہش کرنایقینا گناہ تھا۔
ذہنی طورپرایلی سمجھتاتھاکہ محبت دراصل ایک فطری تقاضاہے۔ایسافطری تقاضاجس میں جسمانی قرب ضروری ہے مگرجذباتی طور پرسمجھتاتھاکہ محبت ایک پاکیزہ جذبہ ہے۔ایک روحانی لگاو جوجسم کی آلائش سے قطعی پاک ہے۔یوسف زلیخا،ہیررانجھااورسسی پنوں کے قصے سن کراسے یقین ہوچکاتھاکہ محبت ایک جذبہ ہے جس میں محرومی کاعنصرلازم ہوتاہے اورجس کا نتیجہ موت ہوتاہے۔ان قصوں کے علاوہ علی احمدکے کمرے کے قرب میں رہ کراسے یقین ہوچکاتھاکہ محبت ایک ایساجذبہ ہے جس میں محرومی کاعنصرلازم ہوتاہے اورجس کانتیجہ موت ہوتاہے۔ان قصوں کے علاوہ علی احمدکے کمرے کے قرب میں رہ کراسے جسمانی محبت سے نفرت ہوچکی تھی۔وہ جسمانی محبت جس نے اسے والدکے قرب اوراس کی محبت سے محروم کررکھاتھا۔

بندبیٹھک

ان خیالات کے باوجودایلی دیوانہ وارشہزادکی بیٹھک کی طرف بھاگاجارہاتھا۔اس کے دل میں شہزادکے حسین جسم کاشوق نہ تھابلکہ جب بھی اے اس کاخیال آتاتووہ گھبراہٹ سی محسوس کرتا۔اسے محسوس ہوتاجیسے وہ چاندکومیلاکررہاہو۔اسے اپنے جسم سے نفرت تھی۔اسے اپنی جسمانی کمتری کاشدت سے احساس تھالیکن ان سب باتوں کے باوجودوہ آگے بڑھاجارہاتھا۔اس کے روبروشفیع مسکرارہاتھا:”ان کی آرزووزں پوری نہ کروتووہ انتقام لیتی ہیں۔“
بیٹھک کے پاس پہنچ کراس نے دھڑکتے دل کے ساتھ کھڑکی کھولی اوراندرداخل ہوگیا۔اس نے احتیاط سے کھڑکی کے پٹ بندکئے اورکباڑخانے کاجائزہ لینے لگا۔کمرے میں ٹوٹی ہوئی چارپائیاں ،چندمیزیں کرسیاں اوردیگرسامان گردسے اٹاپڑاتھا۔نہ جانے کب وہ کمرہ بندپڑاتھا۔جگہ جگہ مکڑی کے جالے تنے ہوئے تھے۔مکڑے بڑی بڑی ٹانگیں پھیلائے دیواروں پربیٹھے تھے۔ہرجگہ گردکی تہہ جمی ہوئی تھی۔
پاوں کی آہٹ سن کروہ ایک بچھی ہوئی چارپائی کے نیچے دبک کربیٹھ گیااورانتظارکرنے لگا۔کوئی سیڑھیاں اتررہاتھا۔
”اونہوں۔پاوں کی چاپ میں بھداپن واضح ہے وہ نہیں ہوسکتی۔اس کے قدموں کی چاپ میں لے ہوتی ہے۔“
پاوں کی چاپ قریب ترہوگئی---پھروہ آوازمدھم پڑگئی۔حتیٰ کہ خاموشی چھاگئی۔ایلی نے اطمینان کاسانس لیا۔اس کے دل کاایک حصہ دعائیں مانگ رہاتھاکہ شہزادنہ آئے۔
وہ غورسے اوپرکی آوازیں سننے لگا۔شہزادکاچوبارہ اوپرتیسری منزل پرتھااس لئے اس کی آوازیں سنائی نہیں دے رہی تھی۔درمیانی منزل میں عام طورپرسعیدہ رہاکرتی تھی جوان دونوں اپنے خاوندکے ساتھ کہیں باہرگئی ہوئی تھی۔اب وہاں اکیلی رابعہ رہتی تھی۔
رابعہ اپنے بیٹے کے ساتھ باتیں کررہی تھی۔”خبردار۔اسے ہاتھ نہ لگانا----نہ تجھے جوکہاہے بڑاپیارابیٹاہے یہ۔“
پھرخاموشی چھاگئی۔
ایلی نے محسوس کیاجیسے صدیاں بیت گئی ہوں۔اسے اس بندکمرے سے خوف آنے لگا۔باہرچوگان کی طرف شورسن کروہ چونکا۔اس نے محسوس کیاجیسے اس کے وہاں چھپنے کارازآشکارہوچکاہے۔
اوروہ سب اس کمرے کی طرف آرہے ہوں۔اس کادل ڈوبنے لگا۔
اس مٹی سے اٹے ہوئے کباڑخانے میں ایلی ایک قیدی کی طرح دبک کربیٹھاہواتھا۔ان حالات میں وہ اپنی محبوبہ شہزادکاانتظارکررہاتھاتاکہ اس کی آرزووں کوپوراکرکے ہمیشہ کے لئے اپنالے۔اورمحبوبہ بھی وہ جوپہلے سے ہی کسی اورکی تھی جوایک چھوٹی سی بچی کی ماں بن چکی تھی اوراس کااپنادل اس کے اپنے ارادوں پرنفرین بھیج رہاتھااوردل ہی دل میں چوری چوری دعائیں مانگ رہاتھاکہ شہزادنہ آئے۔
دفعتاً شہزادکی آوازسنائی دی۔اس کی پیٹھ پرگویاایک چوہاپھدکا۔وہ ڈرکراٹھ بیٹھا۔شہزادکی آوازمیں نہ جانے وہ لوچ کیسے آجاتاتھا۔اس کے گلے میں تارہی تارتھے۔اوراس کی ہربات میں مینڈسی سنائی دیتی تھی۔شہزادکی آوازسن کراس کے جسم میں جھانجریں بجنے لگیں۔
مگراس وقت وہ آوازاسے یوں سنائی دی جیسے موت کی گھنٹی بج رہی ہو۔ایلی کاحلق خشک ہوگیا۔دل میں دھنکی بجنے لگی اورجسم منوں بوجھل ہوگیا۔
”کیاہورہاہے رابعہ؟“اوپرکی منزل سے شہزادکی آوازسنائی دی۔
”کہاں جارہی ہے تو؟“رابعہ نے پوچھا۔”چابیوں کاگچھااٹھائے۔“
”ذرانیچے بیٹھک میں جارہی ہوں کچھ چیزیں لانے کے لئے۔“
”جانوکوبھیج دیتی۔وہاں توایک منٹ کے لئے ٹھہرانہیں جاتا۔“رابعہ کہہ رہی تھی۔
”جانوباہرگئی ہے۔“شہزادبولی۔
”توانتظارکرلیاہوتا۔“
شہزادہنسی:
”وہ کہاں کرتی ہے ایسے کام۔“یہ کہتے وہ سیڑھیاں اترنے لگی۔
اپنے احساس کمتری کودبانے کے لئے احساس گناہ کومعطل کرنے کے لئے اوراس آنے والے خطرے کامقابلہ کرنے کے لئے صرف ایک طریقہ تھاجیسے گھرے ہوئے کبوترکے لئے عقاب سے بچنے کاایک ہی طریق ہوتاہے۔وہ مڑکرعقاب پرچھپٹتاہے اوریہ حقیقتاً بھول جاتاہے کہ وہ ایک کبوترہے۔
جوںجوں آوازقریب ترہوتی گئی۔ایلی اپنے آپ میں وہی خودساختہ وحشت پیداکرنے کی سعی کرتارہا۔اس کی آنکھیں سرخ ہوتی گئیں بند بند جوش سے تھرکنے لگا۔ اور وہ بھول گیا کہ وہ ایلی ہے۔ اس نے سن رکھا تھا کہ ایسے حالات میں مردانہ وار مقابلہ کرنا چاہیئے اور مرد وہ ہوتا ہے جس میں وحشت او ربربریت ہو۔ وحشت اور بربریت عورتوں کو محبوب ہوتی ہے۔
دروازہ کھلا۔ شہزاد اندر داخل ہوئی۔
ایلی بجلی کی سی تیزی سے اپنی جگہ سے نکلا اور لپک کر اندر سے کنڈی لگا دی۔ شہزاد نے ڈر کر ایک ہلکی سی چیخ ماری۔
کنڈی لگانے کے بعد وہ شہزاد کے روبرو کھڑا ہو گیا۔
ایک ساعت کے لیے وہ گھبرا گئی مگر اسے پہچان کر مطمئن ہو کر بولیَ "تم یہاں۔"
ایلی کی خاموشی اور وحشت بھرے انداز کو دیکھ کر وہ از سر نو گھبرا گئی۔ "یہ سب کیا ہو رہا ہے۔" وہ بولی "تمہیں کیا ہو گیا ہے۔"
ایلی جواب دیئے بغیر اس کی طرف بڑھا۔
"پاگل ہو گئے ہو کیا؟۔" وہ زیر لب چلائی۔
وہ سمجھتی تھی کہ ایلی اس پر حملہ کرنے والا ہے۔ اسے معلوم نہ تھا کہ دراصل وہ اپنی شدید کمتری کی خفت کو مٹانے کی ناکام کوشش کر رہا ہے اور اپنا روپ چھپانے کے لئے اس نے شیر کی کھال پہننے کی مضحکہ خیز کوشش کی ہے۔
"خدا کے لئے۔۔۔" وہ چلائی۔ "ہٹ جاؤ۔ یہ کیا دیوانگی ہے۔"
وہ چپ چاپ آگے بڑھتا گیا۔
"ضرور تم پاگل ہو گئے ہو" وہ بولی۔ "تم اپنے حواس میں نہیں ہو۔"
"ہاں۔۔۔" ایلی نے بھیانک آواز میں جواب دیا۔۔۔ "نہیں ہوں۔"
"ایلی۔ کوئی سن لے گا۔ دیکھ لے گا۔ پاگل نہ بنو۔ پاگل نہ بنو۔ پاگل نہ بنو۔ پاگل نہ بنو۔"
ایک رنگین دھندلکا ایلی کے قریب تر آتا گیا۔ اور قریب اور قریب۔ اور وہ دیوانہ وار اس کی طرف بڑھتا گیا۔ اس کے ہونٹ شہزاد کا خون چوسنے کے لئے جونک کی طرح آگے بڑھے۔ ہاتھ بازو منہ سر جسم، وہ دیوانہ وار اس کے جسم کا ایک ایک حصہ چومنے لگا۔ پہلے تو شہزاد نے اپنے آپ کو اس کی گرفت سے چھڑانے کی کوشش کی۔ پھر وہ تھک ہار کر ایک لاش کی طرح میز پر گر پڑی۔ بھیانک خاموشی طاری ہو گئی۔
ایلی نے محسوس کیا جیسے اس کی وحشت ختم ہوتی جا رہی ہو۔ اس نے دیوانہ وار بھٹی میں نیا ایندھن دھکیلنے کی کوشش کی۔
"چرار۔۔۔ چرار۔۔۔" ریشمیں کپڑے کے پھٹنے کی آواز آئی۔
"ایلی۔ پاگل نہ بنو۔" ایک بار پھر مرمریں جسم میں حرکت ہوئی۔ "پاگل نہ بنو۔"
مدھم آواز میں مبہم سا احتجاج دیکھ کر وہ اور بھی بپھر گیا۔
دھپ۔۔۔ ایک ہوائی سی چھوٹ گئی۔ اور معاً گردوپیش تاریک ہو گئے۔
اس نے محسوس کیا جیسے وہ ڈوب گیا ہو۔ چاروں طرف اندھیرا تھا۔ گھور اندھیرا۔ خفت، ناکامی کا گھٹا ٹوپ اندھیرا۔ خود ساختہ وحشت کا سہارا چھوٹ چکا تھا۔ وہ دیوانگی ختم ہو چکی تھی اور اس کے عقب میں معصیت اور شکست کے منفی احساسات کا ریلا امڈا چلا آ رہا تھا۔ ایلی نے محسوس کیا جیسے اس کے منہ میں گھاس کا تنکا ہو۔ وہی تنکا جو پورس اپنے منہ میں لے کر سکندر کے حضور حاضر ہوا تھا۔
اس نئی خفت کو مٹانے کے لئے ایلی ایک بار پھر آگے بڑھا اور شہزاد کے بند بند کو چومنے لگا۔ اور بالآخر تھک کر بچے کی طرح اس کے قدموں میں گر پڑا:
"مجھے تم سے محبت ہے شہزاد۔ مجھے تم سے۔۔۔"
اپنے پاؤں پر آنسوؤں کے قطرے محسوس کر کے شہزاد اٹھ بیٹھی۔ اور اس کا بازو ایلی کی طرف بڑھا اور اسے تھپکنے لگا۔
اس کیفیت میں کتنا اطمینان تھا۔ ایلی نے محسوس کیا جیسے ماں کا ہاتھ سرزنش کرنے کی بجائے معاف کر دینے کے بعد اسے تھپک رہا ہو۔