صفحات

تلاش کریں

8- شہزاد

 سانپ اورسپیرا

رات کوشہزادکی طرف دیکھے بغیرایلی اپنی چارپائی پرچپ چاپ لیٹ گیااورسوچ میں غرق ہوگیا۔صحن میں چاندی۔چنکی ہوئی تھی روپہلی چاندنی میں شہزادکے دوبلوریں پاؤں کہیں رکھے ہوئے تھے اورسیاہ جالی داردوپٹے میں اس کی دودھیاپیشانی پرایک سیاہ بیربہونی چمٹی ہوئی تھی۔دونوکیلی آنکھیں ڈول رہی تھیں۔گھبراکرایلی نے دیوارکی طرف منہ موڑلیااورکسی اوربات کے متعلق سوچنے کی کوشش کرنے لگا۔
کچھ دیرکے بعددادی اماں کی طرف سے ہاجرہ نے فرحت کوآوازدی۔’’ادھرآنا۔جلدی۔‘‘
’’خداخیرکرے ۔‘‘فرحت نے گھبراکرکہااورملحقہ کوٹھاپھلانگ کردادی کی طرف چلی گئی۔فرحت کے جانے کے بعددیرتک خاموشی چھائی رہی۔نہ جانے شہزادبیٹھی کیاکررہی تھی۔
ایلی نے شہزادکی طرف نہ دیکھنے کاعزم کررکھاتھامگراس کے باوجوداس کی نگاہوں تلے سیاہ جالی دارڈوپٹے کاپلواڑرہاتھا۔شفاف پیشانی پرسیاہ بیربہوٹی رینگ رہی تھی۔ہرپانچ منٹ کے بعداسے احساس ہوتاکہ وہ شہزادکے متعلق سوچ رہاہے پھروہ گھبراکراپنی توجہ کسی اورطرف مبذول کرنے کی کوشش میں لگ جاتا۔
’’سوگئے ایلی۔‘‘قریب ہی شہزادکی آوازسن کروہ چونک پڑااورگھبراکراٹھ بیٹھا’’نہیں توجاگ رہاہوں۔‘‘
’’اوہ۔۔ میں سمجھی سوگیاہے۔لیکن یوں چپ کیوں پڑاہے تو‘‘وہ بولی ’’اورکیااٹھ کرناچوں ۔‘‘ایلی نے جل کرکہا۔
وہ بچوں کی طرح ہنسنے لگی’’ناچ تجھے کون منع کرتاہے۔‘‘
’’اکیلے میں توناچا بھی نہیں جاتا۔‘‘وہ بولا۔
’’توکیااکیلاہے۔‘‘شہزادنے اشارتاً‘‘اسے امرتسریاددلانے کی کوشش کی۔
’’اکیلاہی توہوں۔‘‘ایلی نے لمبی آہ بھری۔
وہ قہقہہ مارکرہنس پڑی۔‘‘اوہ میں سمجھی امرتسریادآرہاہے تجھے۔‘‘
’’امرتسر؟‘‘۔وہ گھبراگیا۔
’’تسلیم۔‘‘شہزادنے جھک اسے آداب کیااورپھرہنسنے لگی۔
ایلی کامنہ فق ہوگیا۔نہ جانے کیوں وہ سمجھتاتھاکہ شہزادامرتسراورتسلیم کے متعلق کچھ نہیں جانتی۔
’’کبھی تسلیم سے ملاقات بھی ہوئی ہے؟‘‘شہزادنے اس کے قریب آکرپوچھااورپھراس کی چارپائی پربیٹھ گئی۔
ایلی کے جسم پرچیونٹیاں رینگنے لگیں اسے محسوس ہونے لگاجیسے گرمی کی ایک لہراس کی طرف بڑھ رہی ہے۔ان جانااضطراب اس پرچھائے جارہاتھا۔ایک سرخ دھندلکااس کی کنپٹیوں میں تھرک رہاتھا۔صحن میں زردچاندنی اورگدرے سایوں کی عجیب سی دھاریاں پڑی ہوئی تھیں۔پاس ہی چوبارے میں اندھیرارینگ رہاتھا۔مسجد کے گنبدکے اوپرچمگادڑیں چیخ رہی تھیں۔
’’یادآتی ہے تمہیں۔‘‘شہزادنے ایلی کی طرف دیکھ کرپوچھا’’جبھی یوں چپ چاپ پڑارہتاہے تو۔‘‘
’’نہیں تو۔‘‘وہ وبولا۔
شہزاداپنے حنامالیدہ ہاتھوںسے کھیل رہی تھی۔سفیدہاتھوں پرحنائی رنگ اسے صاف دکھائی دے رہاتھا۔
’’نہیں۔نہیں۔‘‘وہ بولا
’’اچھا۔‘‘وہ ہنسی ’’اگر وہ یادبھی نہیں آتی توپھرفائدہ ہی کیاہوا؟‘‘
’’فائدہ۔۔‘‘اس نے شہزادکی اڑتی ہوئی لٹ کی طرف دیکھا۔
’’اچھی محبت ہے یہ۔‘‘وہ بولی۔
’’ایلی کاجی چاہتاتھاکہ اٹھ کربھاگ جائے وہ قرب نہ جانے کیاکررہاتھاجیسے اسے چھیڑرہاہو۔اس کی قوت عمل دھندلائی جارہی تھی،نہ جانے قرب کی وجہ سے یاکسی ان کہے ڈرسے جواس کی نسوںمیںدھنکی کی طرح بج رہاتھا۔وہ محسوس کررہاتھاکہ اگراس نے بات کرنے کی کوشش کی تواس کی آوازکی لرزش رازفاش کردے گی۔
’’میں پانی پی لوں۔‘‘ایلی نے گھبراکرکہا۔
’’میں پلاتی ہوں تمہیں پانی۔‘‘شہزاداٹھ کھڑی ہوئی۔
ایلی کابھاگ جانے کایہ بہانہ بھی بے کارہوکررہ گیا۔اس نے چاروں طرف دیکھاگھڑے کے پاس شہزادگلاس میں پانی ڈال رہی تھی۔اس کے گردچاندنی اوراندھیرے کی بساط بچھی ہوئی تھی اوراس بساط پرملکہ بیٹھی تھی۔اس کے سرپراڑتے ہوئے بالوں کاتاج تھا۔’’یہ لو۔‘‘شہزادکاحنامالیدہ ہاتھ اس کی طرف بڑھا۔ناگ نے پھن اٹھایا۔ایلی جھجک کرپیچھے ہٹا۔
’’لوبھی‘‘ہاتھ اورقریب آگیاایلی کاجی چاہتاکہ پانی کے گلاس کی بجائے اس کاہاتھ پکڑے اورپھر پھر۔۔مگرپھرکے متعلق اسے کچھ معلوم نہ تھا۔۔ایک سرخ دھندلکا۔۔چیخ چیخ ۔۔ایک چمگادڑکہیں قریب سے ایلی کی طرف لپکی۔ وہ گھبراکرپیچھے ہٹا۔شہزادنے گلاس چھوڑدیاایلی شرابورہوگیا۔شہزادکی سریلی ہنسی سے فضاگونجنے لگی۔
’’بالکل ہی مجنوں بن گئے۔‘‘وہ چلائی۔’’لاؤ میں پونچھ دوں۔‘‘وہ ہنستی ہوئی آگے بڑھی۔سرخ ناگ پھن پھلائے پھراس کی طرف لپکابوکاایک ریلاآیا۔پھرنہ جانے کیاہوا۔سرخ دیوانگی اس پرمسلط ہوگئی۔اس نے لپک کراس رنگین سانپ کوہاتھوں میں پکڑلیا۔جسے وہ سپیراہو۔اسے اپنی طرف کھینچا۔نہ جانے محض جنون کی وجہ سے۔محبت سے۔نفرت سے یااس خوف کی وجہ سے جواس پرمسلط ومحیط تھا۔اس کی دیوانگی اوربھی شدیدہوگئی۔اس نے ایک تازہ جھٹکادے کردیوانہ واراسے اپنی طرف کھینچا۔یوں بے دردی سے کھینچا۔جیسے شہزادمحض ایک رنگین گڑیاہو۔شایدوہ اسے دانتوں سے کاٹناچاہتاتھاتاکہ کاٹے اورجانے سے پہلے اس کی گردن چبالے اوراپنے آپ کومحفوظ کرے لیکن اس کے گرم لمس سے ایلی کے ہونٹ جلنے لگے اوران جانے میں اس نے اسے دیوانہ وارچومناشروع کردیا۔شہزادچارپائی پریوں گرچکی تھی جیسے ایک بارپھر مونگیاگٹھڑی میں تبدیل ہوگئی ہو۔
’’ایلی تم ۔۔؟‘‘وہ ہونک رہی تھی۔
ایلی کی نگاہ میں وہ زردچاندنی سرخ ہوئی جارہی تھی۔جیسے فضامیں گلال کی پچکاریاں چل رہی ہوں۔
عین اس وقت ملحقہ کوٹھے سے پاؤں کی چاپ سنائی دی۔فرحت چلاتی ہوئی آرہی تھی۔۔’’تم سوگئے کیا؟‘‘
فرحت کی آوازسن کروہ خونین طلسم ٹوٹ گیا۔ایلی کی گرفت ڈھیلی پڑگئی۔گٹھڑی لپک کرکھڑی ہوگئی اورایلی لیک یوں چپ چاپ پڑگیا۔جیسے عرصہ درازسے سورہاہو۔
’’تم آبھی گئی۔‘‘شہزادنے کہا۔
’’اماں نے بھیج دیا۔‘‘فرحت بولی۔
’’کیاحال ہے اب۔‘‘
’’اچھانہیں۔شایدآج کی رات۔‘‘
’’بیچاری کی جان چھٹے۔‘‘
’’میں سمجھی تم سوچکے ہوگے۔‘‘فرحت نے کہا۔
’’نہیں تو۔‘‘شہزادبولی۔’’ابھی توجاگ رہے ہیں۔‘‘
’’اورایلی غالباًسوچکاہے۔‘‘فرحت نے ایلی کی طرف دیکھ کرکہا۔
’‘ابھی توباتیں کررہاتھا۔مجھ سے۔‘‘شہزادکی آوازمیں کسی قسم کی لرزش نہ تھی ۔وہ یوں کوٹھے پرادھرادھر گھوم رہی تھی جیسے کچھ ہواہی نہ ہو۔

اگر- لیکن

ایلی پسینے میں شرابورتھا۔اسے اپنے کئے پرپشیمانی ہورہی تھی۔میں نے کیاکردیا۔کیوں کیا۔اگرشہزادنے فرحت سے کہہ دیاتو۔اگراس نے شریف کوبتادیاتووہ کیاکہے گا۔مجھ سے نفرت کرنے لگے گا۔دونوں مل کرتمسخرسے ہنسیں گے۔اس تمسخرکومحسوس کرکے اس کاسانس رک گیا۔
لیکن شہزادکسی کونہ بتائے ۔شایدوہ اس رازکوچھپالے۔ابھی تک تواس نے فرحت سے اس بارے میں بات نہ کی تھی۔شایدوہ موقعہ کی تلاش میں تھی کب ایلی کہیں جائے اوروہ ایلی کی حماقت کاقصہ بیان کرے۔فرحت اورہاجرہ سن کرکیاکہیں گی۔کہیں گی۔آخربیٹاکس کاہے۔اس خیال پراس کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔
لیکن شہزادکارویہ بے نیازی اوربے پروائی کامظہرتھا۔جیسے کچھ ہواہی نہ ہو۔اس کے اس رویے کی وجہ سے ایلی کے دل میں امیدکی کرن روشن ہوگئی۔شایدوہ کسی کونہ بتائے۔لیکن پھراسے خیال آتااگرنہ بھی بتائے توبھی وہ اپنے دل میں اسے ذلیل سمجھے گی۔اس کی اس مذہوم حرکت پررنجیدہ ہوگی۔ممکن ہے اب کبھی اس کے قریب نہ آئے اورآئے بھی تونفرت سے ناک سکیڑلے۔کیاوہ ہمیشہ کے لئے شہزادکی چھم سے محروم ہوجائے گا۔کیاوہ اسے دیکھ کرکبھی نہ مسکرائے گی۔اس کی آنکھوں میں ننھی بتیاں روشن نہ ہوں گی اوروہ گلال بھری پچکاری ۔۔نہیں نہیں۔اس سے توبہترہے کہ شہزادفرحت سے شکایت کردے۔ہاجرہ سے کہدے۔شریف سے کہہ دے۔جس سے جی چاہے کہہ دے مگراپنااندازنہ بدلے ہاں ہاں۔میں اس سے معافی مانگ لوں گا۔ہاتھ جوڑدوں گااورجب وہ معاف کردے گی تومنت کرکے کہوں گا۔’’میری ایک بات مان لوخداکے لئے۔صرف ایک بات۔اپنے ہاتھوں پرمہندی نہ لگایاکرواوراگراسے کے بغیرچارہ نہ ہوتواپناہاتھ میرے اس قدرقریب نہ لایاکرو۔‘‘
چارپائی پرپڑے پڑے وہ سوچ رہاتھا۔اس کے سرپراندھیرے کاایک بڑاٹکڑامنڈلارہاتھااورشیش محل کی سب سے اونچی منزل مٹیالی چاندنی میں اپنی بے نورکھڑکیوں سے اس کی طرف گھوررہی تھی۔قریب ہی شہزادفرحت سے باتیں کرتے ہوئے ہنس رہی تھی۔
شہزادکی ہنسی سن کروہ چونک پڑا۔وہ ہنس کیوں رہی تھی۔وہ باتیں کیوں کررہی تھی۔جیسے کچھ ہواہی نہ ہو۔شایدوہ اس کی اس حرکت کودرخوراعتنانہ سمجھتی ہو۔اس خیال پرکانپ گیا۔اگراس نے اس بات کواہمیت نہ دی تو۔۔اس کے ماتھے پرپسینہ آگیااوراضطراب میں کروٹیں بدلنے لگا۔
’’لویہ اوردیکھو۔‘‘شہزادہنسی۔’’ویسے سویاہواہے لیکن کروٹیں لئے جارہاہے۔‘‘
فرحت نے سنجیدگی سے کہا۔’’معلوم ہوتاہے کہ تم نے کبھی خیال نہیں کیاسوتے میں ہمیشہ کروٹیں لیتاہے۔‘‘
’’اچھا۔‘‘شہزادکی آوازمیں طنزتھی۔سوتے میں جاگتے کی سی حرکتیں کرتاہے اورجاگتے میں سوتے کی سی ۔عجیب بات ہے۔‘‘
فرحت شہزادکی بات سمجھ نہ سکی۔البتہ ایلی کی پیشانی پرچندقطرے نمودارہوئے اورسوچنے لگاکہ شہزادکی آوازمیں کتنی طنزتھی۔ضروراس نے اس حرکت کابراماناتھا۔ضروربراماناہوگا۔اب کیاہوگا۔کیاوہ اس گھرمیں آنے سے محروم کردیاجائے گا۔ساتھ ہی اسے خیال آتاکہ شکرہے اس نے کچھ تومانااسے اچھانہ سہی براسہی درخواعتناتوسمجھا۔اگروہ کچھ بھی نہ سمجھتی۔۔اس خیال پراسے خوشی توہوتی،مگروہی فکرسوہان روح ہوجاتا۔نہ جانے وہ کیاکرے گی۔
آہستہ آہستہ فرحت اورشہزادکی آوازیں مدھم پڑتی گئیں اوران کی باتوں میں وقفے بڑھتے گئے حتیٰ کہ چاروں طرف سناٹاچھاگیا۔
وہ چونک کرجاگ پڑا۔اس نے مڑکرچوری چوری فرحت اورشہزادکی چارپائیوں کی طرف دیکھاانہیں چپ چاپ پڑے دیکھ کروہ پانی پینے کے بہانے اٹھ بیٹھا۔فرحت چارپائی کے ایک پہلو پرسمٹی ہوئی پڑی تھی۔اس سے پرے شہزادچارپائی پریوںبچھی ہوئی تھی جیسے پلنگ پوش بچھاہوتاہے اس کے ہونٹوں پرمبہم سی مسکراہٹ تھی۔ایک ہاتھ ساتھ والی چارپائی پراپنی ننھی بچی صبیحہ پرپڑاتھا۔جیسے تھپکتے تھپکتے سوگئی تھی۔ایلی نے شدت سے محسوس کیاکہ کاش وہ صبیحہ ہوتااورشہزادکاہاتھ اسے تھپکتا۔
دفعتاًاس نے محسوس کیاجیسے وہ ہاتھ اسے تھپک رہاہواس کے بدن میں چیونٹیاں چلنے لگیں۔سرخ ناگ پھن اٹھاکراس کی طرف لپکا۔ایلی کسی شدیدجذبہ سے متاثرہوکرشہزادکی طرف بڑھا۔اس کاجی چاہتاکہ اس رنگین پھن سے لپٹ جائے اورپھرڈسے جانے کے بعداس خوابیدہ حسینہ پرگرکرڈھیرہوجائے۔لیکن عین اس وقت فرحت نے کروٹ لی اورگھبراکررک گیااورپھرچپ چاپ اپنی چارپائی پرجالیٹا۔

ندامت یاڈر

اگلے روزایلی سارادن اس کوشش میں لگارہاکہ شہزادکے روبرونہ جائے۔وہ شہزادسے ڈرتاتھا۔صبح سویرے ہی اٹھ کروہ باہرنکل گیااورکوٹلی جاکرقبرستان اورتالاب کے گردبے مصرف گھومتارہا۔واپس آکرچپکے سے اندھیری ڈیوڑھی سے گزرکرسیدھافرحت کے گھرآپہنچاحالانکہ وہ عام طورپرہمیشہ شہزادکے مکان سے گزرکرفرحت کی طرف آیاکرتاتھا۔پھرجب دوپہرکووہ گھربیٹھافرحت سے باتیں کرنے میں منہمک تھاتوسیڑھیوں سے طبلے کی تھاپ سنائی دی۔وہ خاموش ہوگیا۔اسے بھول گیاوہ کہہ رہاتھا۔کیاکہناچاہتاتھا۔فرحت اورہاجرہ حیرانی سے اس کی طرف دیکھنے لگیں۔وہ اٹھ بیٹھا’’اچھامیں ہوآؤں۔‘‘چھم سے شہزاداس کے قریب آرکی۔ایلی نے نگاہیں جھکالیں۔
’’ایلی ہے ۔‘‘شہزادنے لاپروائی سے کہا’’نظرہی نہیں آیاآج کہاں رہا۔‘‘وہ ہنسی اورفرحت کی طرف دیکھنے لگی۔
ایلی چپکے سے وہاں سے سرک گیا۔
چوگان ویران پڑاتھا۔چھوٹے چھوٹے بچے جوچوگان میں کھیل رہے تھے،مٹی کے پتلے معلوم ہورہے تھے۔پرانی حویلی کی خمیدہ لال ٹین کمر پردونوں ہاتھ رکھے اسے گھوررہی تھی۔کیپ کی کھڑکی کی چق لٹی لٹی دکھائی دے رہی تھی۔کنوئیں کے پاس رہنے والی کشمیرن یوں بولی بیٹھی تھی جیسے کسی نے چوکی پرزردرنگ کے گوشت کاڈھیرلگارکھاہو۔
پھروہ دادی اماں کے پاس جابیٹھا۔مگروہ خاموش چارپائی پرپڑی تھی۔’’توآگیا۔‘‘سیدہ نے اس کی طرف دیکھا۔’’نہیں نہیں۔‘‘وہ چلائی۔’’جا۔جاکرکھیل۔یہاں نہ بیٹھ بیمارکے پاس نہیں بیٹھاکرتے۔‘‘کچھ دیرتک وہ وہاں بیٹھارہاپھرگھبراکرباہر نکل آیا۔چاروں طرف ویرانی چھائی تھی۔
شام کوجب وہ فرحت کے ساتھ شہزادکے کوٹھے پرسونے کے لئے گیاتواس نے جھکی جھکی آنکھوں سے محسو س کیاکہ شہزادمسکرارہی ہے۔اس کی مسکراہٹ میں طنزکی دھارتھی۔نفرت بھری مسکراہٹ۔
’’توابھی یہیں ہے ایلی؟‘‘۔۔وہ بولی۔‘‘میں سمجھی چلاگیاہے واپس امرتسر۔‘‘
’’نہیںتو۔‘‘شہزادکی طرف دیکھے بغیراس نے جواب دیا۔
’’کیاہواہے تجھے؟‘‘۔۔وہ بولی ۔
’’کچھ بھی نہیں۔‘‘ایلی نے اس کی طرف دیکھے بغیرجواب دیااورچپکے سے چارپائی پرلیٹ گیا۔

مہرسکوت

اگلے روزوہ بہت دیرسے بیدارہوا۔اس نے کوٹھے پرچاروں طرف دیکھا۔فرحت جاچکی تھی۔شہزادکی چارپائی خالی پڑی تھی ۔صرف صبیحہ پڑی سورہی تھی۔موقعہ کوغنیمت جان کروہ جلدی سے اٹھاتاکہ شہزادکے آنے سے پہلے ہی فرحت کی طرف چلاجائے۔جب وہ دروازے میں داخل ہواتوکسی نے زورسے اس کی قمیض پکڑلی۔’’کہاں جاتاہے تو؟۔۔آادھرچائے پی کے جانا۔شہزادکودیکھ اسے پسینہ آگیا۔
’’نہیں نہیں۔‘‘اس نے کچھ کہنے کی کوشش کی۔
’’ادھرآکربات کرنا۔‘‘وہ گھسیٹ کراپنے کمرے میں لے گئی اورکرسی پربٹھاکرخودبے نیازی سے میزپرچائے کے برتن رکھنے میں مصروف ہوگئی جیسے ایلی سے کوئی واسطہ ہی نہ ہوجیسے وہ اسے پکڑکرلائی نہ ہو۔
دیرتک وہ یوں ہی چپ چاپ بیٹھارہا۔پھروہ اس کے سامنے آبیٹھی۔
’’پی چائے۔‘‘وہ یوں گھورکربولی جیسے بچے کودواپلارہی ہو۔‘‘’’پی سانپ سونگھ گیاہے تجھے کیا۔‘‘
’’ہاں۔‘‘وہ بولا‘‘سانپ سونگھ گیاہے۔‘‘
’’اچھا۔‘‘و ہ ہنسی ۔’’پھرتوتوبڑا ڈھیٹ ہے کہ اب تک اچھابھلاچلتاپھرتاہے۔‘‘
’’لوگ نہ جینے دیتے ہیں نہ مرنے ۔‘‘و ہ بولا۔
’’اتنی سی پرواکرتاہے تولوگوں کی۔‘‘
وہ لاجواب ہوگیا۔دیرتک کمرے میں خاموشی چھائی رہی۔
وہ سنجیدہ ہوگئی ۔’’ایلی۔‘‘وہ بولی۔‘‘ وہ کیاحماقت تھی۔مجھے تجھ سے ایسی توقع نہ تھی۔ایلی۔‘‘اس نے آہستہ سے کہا’’تجھے شرم نہ آئی۔‘‘
ایلی کی ناک پرپسینہ آگیااس کی آنکھیں اوربھی جھک گئیں سمجھ میں نہیں آرہاتھاکہ کیاجواب دے۔’’اورپھرتوایسی بات کرے۔توایلی۔‘‘وہ بولی’’کوئی اورکرتاتومجھے افسوس نہ ہوتا۔‘‘
ایلی کے دل میں آیاکہ اٹھ کربھاگ جائے مگراس میں ہمت نہ تھی پھراس نے سوچاکہ پاؤں پرگرکرمعافی مانگ لے لیکن پاؤ ں پرگرنابھی تومشکل تھا۔اس نے شہزادکے پاؤں کے طرف دیکھاکتنے خوبصورت تھے۔جیسے سنگ مرمرکے بنے ہوئے ہوں۔
شہزادنے کروٹ سی لی اوراس کاایک بازوکرسی سے نیچے لٹکنے لگا۔’’مجھے تم سے ایسی توقع نہ تھی۔‘‘اس نے اپنی بات دہرائی۔اس رنگین ناگ نے پھن اٹھایا۔ایلی کی نگاہیں اوپراٹھ گئیں۔اس کے چہرے کی زردی سرخی میں بد ل گئی۔۔وہ اٹھ کرشہزادکی طرف لپکااوراس کے لٹکتے بازوسے یوں لپٹ گیا۔جیسے کوئی نیولاسانپ سے لڑرہاتھا۔
اس نے شہزادکوچپ کرنے کے لئے اس کے منہ پرہاتھ رکھ دیاپھرنہ جانے کیامحسوس کرکے وہ شہزادکے بلوریں پاؤں سے لپٹ کراپنے ہونٹ ان سے ملنے لگا’’شہزاد۔شہزاد‘‘وہ گنگنایا۔’’مجھے تم سے محبت ہے۔‘‘
لیکن ایلی دیوانہ واراس کے پاؤں سے لپٹارہا۔آہستہ آہستہ شہزادکی آوازمدھم پڑتی گئی۔
’’مجھے تم سے محبت ہے شہزاد۔مجھے تم سے محبت ہے شہزاد۔مجھے تم سے۔۔۔‘‘
ایلی کی آوازبلندہوتی گئی۔حتیٰ کہ ایلی نے بڑھ کرشہزادکے لبوں پرمہرسکوت لگادی۔اس گٹھڑی کے پٹ ازسرنوبندہوگئے۔اس کی آنکھیں جھک گئیں۔مثرگان نے ان سیاہ شراروں کوڈھانپ لیااوراس کے بازوفضامیں معلق ہوکررہ گئے۔

ممکن ہے۔شاید

ایلی نے جواب میں یہ بات صرف اس لئے کہی تھی کہ اس کے علاوہ اورکوئی جواب دیناممکن نہ تھا۔معافی مانگ لینے کاامکان توتھا۔مگر اس میں اس کی بے عزتی تھی اگروہ معافی مانگ لیتاتواس کامطلب ہوتاکہ وہ حرکت اس نے کسی مذہوم خیال سے کی تھی۔سستی عیش وعشرت کے خیال سے یارنگین وقت کٹی کے لئے۔اس کے علاوہ اس نے محسوس کیاتھاکہ اگرمعافی مانگ لی توشہزادسے ہمیشہ کے لئے دورہوجائے گا۔کس منہ سے اس کے روبروجایاکرے گا۔بے شک اسے شہزادسے بے پناہ دلچسپی تھی۔شہزادکودیکھ کروہ مضطرب ہوجایاکرتاتھا۔مگریہ اضطراب بے نام اوربے مقصدتھا۔اس نے کبھی شعوری طورپرشہزادسے محبت کرنے کی آرزومحسوس نہ کی تھی۔نہ ہی اس نے کبھی سوچاتھاکہ شہزادسے وہ اس قسم کاتعلق پیداکرسکتاہے۔الٹاوہ تواسے اس قدربلنداورعظیم ہستی سمجھتاتھاکہ اس کے قرب کی آرزودل میںرچانے کے خیال ہی سے گویااس کی جان نکلتی تھی۔
اگر اس مٹیالی چاندنی میں وہ تنہائی میں اس کے قریب نہ بیٹھتی یااس کے ہاتھوں پرحنائی رنگ نہ ہوتایاحنامیں وہ بونہ ہوتی جوایلی کومشتعل کردیاکرتی تھی یاوہ ہاتھ ازراہ اتفاق ناگ کی طرح پھن نہ اٹھاتااورایلی کویہ محسوس نہ ہوتاکہ اسے اپنی حفاظت کرنی ہے تووہ کبھی شہزادکواپنی گرفت میں نہ لیتا۔
اگرشہزادبارباراسے نہ بلاتی تو اس کی گردن جھکی ہی رہتی اورآہستہ آہستہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسے اپنی حماقت کااحساس ہوجاتایااگرشہزادتنہائی میں اس سے اس کے احمقانہ رویہ کے متعلق استفارکرکے اسے لاجواب نہ کردیتی تووہ اپنی گزشتہ حماقت کااعادہ نہ کرتااوراس کی زندگی میں شہزادکارنگین بھنورپیدانہ ہی ہوتااوراس کی داستان حیات سراسرمختلف ہوتی۔
ان چھوٹی چھوٹی تفصیلات نے مل کرایلی کی زندگی کے دھارے کارخ پھیردیا۔ڈوبتے کی طرح ایلی کے لئے وہ رنگین ہاتھ تنکابن گئے اوروہ ان رنگین ناگوں سے دیوانہ وارچمٹ گیاان ہاتھوں سے چمٹنے کے لئے صرف ایک جوازہوسکتاتھا۔صرف ایک’’مجھے تم سے محبت ہے۔‘‘مجھے تم سے مجبت ہے۔‘‘اپنی لغزش پرپردہ ڈالنے کے لئے وہ اس جملے کودہراتاگیاحتیٰ کہ وہ کمرہ وہ مکان اس کے جملے سے گونجنے لگا۔’’مجھے تم سے محبت ہے شہزاد۔‘‘نہ جانے ان الفاظ نے یااس بڑھتی ہوئی شدت نے جس سے وہ اداکئے جاتے تھے یاان کی ادائیگی کے تواترنے شہزادکی عقل وخردکومغلوب کردیایاممکن ہے کہ اس میں قوت دماغ باقی نہ رہی ہو۔ممکن ہے شہزادان الفاظ کی بھوکی ہواورشریف نے ہمیشہ اسے اس جملے سے محروم رکھاہو۔اس لئے شہزادنے انجانے میں ایلی کووہ الفاظ کہنے پرمجبورکردیاہو۔شایدشہزاداپنے خاوندکے رویے سے اکتاچکی ہو،جوہروقت ٹکٹکی لگائے چھت کی طرف دیکھتارہتاتھا۔جوکبوترکی سی آنکھیں بناکرلیٹارہتاتھاجوہربات پرآہ بھرتاتھااورانورکی محبت کے خودساختہ فریب میں ڈبکیاں لینے میں لذت محسوس کرتاتھااورشہزاداس کے قریب اس بات کی تمنامیں گھلتی رہتی تھی کہ وہ ایک نظراس کی طرف دیکھے۔ایک بارماضی کے دھندلکے سے نکل کرحال کی طرف متوجہ ہو۔ممکن ہے کہ شہزادشریف کی سچی محبت کے اکتادینے والے تسلسل سے بیزارہوگئی ہواوراس کے دل میں یہ آرزوان جانے میں بیدارہوگئی ہوکہ وہ بھی کسی کی انوربن جائے۔بہرصورت اس کی کوئی بھی وجہ ہونتیجہ یہ ہواکہ شہزادکوفریب دینے کے بعدایلی نے ان جانے میں اپنے آپ کوفریب دیناشروع کردیااس نے حقائق کواپنے خودساختہ جذبات کے ایندھن میں جلاجلاکرسرخ کرلیااوراسے یقین ہوگیاکہ اسے شہزادسے محبت ہے۔

گودی کاگیند

اس روزوہ سارادن شہزادکے قدموں میں بیٹھاروتارہا۔’’مجھے تم سے محبت ہے شہزاد۔مجھے تم سے عشق ہے۔میں نے باربارچاہاکہ اظہارمحبت نہ کروں۔تمہیں ناراض نہ کروں ۔مجھے ڈرتھاکہ تم ناراض ہوجاؤگی اورتم ناراض ہوجاؤ توپھرزندگی میں باقی کیارہ جاتاہے۔شہزادتم ناراض تونہیں۔شہزاد۔بولوتم خاموش کیوں ہو۔میں تمہارے قابل نہیں شہزادمیں تمہارے قریب آجاؤں توتم میلی ہوجاتی ہو۔تم چاندہوشہزاداورمیں بے وقوف بچہ۔میں تمہارے قابل کہاں۔مجھے برداشت کروگی شہزاد۔بولوشہزاد۔‘‘
شہزادحیرانی سے اس کی باتیں سنتی رہی۔ابتدامیں تواس کی حیرانی میں بیگانگی کاعنصرغالب تھا۔مگرآہستہ آہستہ وہ بے تکی باتیں وہ احمقانہ شدت۔وہ بے مصرف پگلاپن جو ایلی کی باتوں اورچہرے سے ہویداتھا۔‘‘اس کے دل پرنہ جانے کیااثرپیداکرگیا۔ایلی کی بے تکی باتیں اس کے کانوں سے داخل ہوکرچہرے پررینگنے لگیں گالوں پرسرخی بن کرجھلکنے لگیں آنکھوں سے پرنم مستی بن کرجھانکنے لگیں۔
’’تم میری حماقت کسی کوبتاؤگی تونہیں شہزاد۔میری دیوانگی اپنے تک محدودرکھوگی نا۔وعدہ کروشہزاد،اگرتم نے کسی سے کہہ دیاتومیراکیاہوگا۔پھرمیں اس گھرمیں کیسے آسکوں گااور۔۔تم سے دوررہ کرزندگی کیسے کٹے گی۔شہزادغصہ نہ کرنا۔میں مجبورہوں شہزاد۔‘‘
شہزادکے چہرے پرحیاکی سرخی جھلکنے لگی۔اس کی آنکھیں جھکنے لگیں۔اس کی ناک پرپسینہ آنے لگااورپھراس کے بازوبے جان ہوکرلٹکنے لگے جیسے سپردگی کے شدیدجذبے سے شل ہوچکے ہوں۔
مگرایلی کویہ احساس نہ تھاکہ اس کے منہ پرحیاکیوں جھلک رہی ہے۔اس کی ناک پرپسینہ کیوں موتیوں کی طرح ابھرتاآرہاہے اوراس کے بازولٹک کیوں رہے ہیں۔وہ ابھی تک زینے کی پہلی سیڑھی پرہی قدم جمانے کی جدوجہدمیں دیوانہ وارمصروف تھا۔
’’تم بتاؤگی تونہیں شہزاد۔۔تم مجھے معاف کرسکوگی۔میں تمہیں دورسے دیکھاکروں گا۔دورسے بس۔اتناتم برداشت کرلوگی۔نا۔‘‘
ایلی عورت سے واقف نہ تھااسے معلوم نہ تھاکہ اس کی بے تکی باتوں نے شہزادکوکھوکھلاکردیاہے۔اسے احساس نہ تھاکہ تمام کاتمام زینہ گرکراس کے قدموں میں ڈھیرہوچکاہے اورپہلی سیڑھی پرقدم جمانے کی کوشش میں کھوئے رہنابیکارہے۔اسے احساس نہ تھاکہ وہ لٹکتے ہوئے رنگین ناگ اس کی الٹرگرفت کے لئے منتظرتھے۔بے تاب تھے اوروہ ڈولتی ہوئی پرنم شربتی آنکھیں اس انتظارمیں کھلی تھیں کہ کوئی لمس انہیں بندکرکے راحت بھراسکون بخش دے اوروہ رنگین گٹھڑی جوہرلمحہ بندہوئی جارہی تھی اس بات کی خواہشمندتھی کہ کوئی اسے اٹھاکرگودی کاگیندبنالے۔
اسے ان باتوں کااحساس بھی کیسے ہوسکتاتھا۔وہ بیچارہ عورت اورمحبت کی دنیاکی دہلیزسے بھی واقف نہ تھا۔اس کامقصدتوصرف اس قدرتھاکہ کسی نہ کسی طرح اپنے آپ کوبچالے اپنی حماقت کونشرنہ ہونے دے اپنے خودساختہ رازکومحفوظ کرے۔
عین اس وقت اگرہاجرہ نہ آجاتی تونہ جانے وہ دونوں کب تک یونہی ہی بیٹھے رہتے ۔ہاجرہ کے پاؤں کی چاپ سن کراس منتظرمونگیاگٹھڑی کاطلسم ٹوٹ گیا۔وہ اچھل کراٹھ بیٹھی۔
’’اچھاتوچائے ۔بناؤں تیرے لئے ۔‘‘وہ بولی
’’چائے ۔‘‘ وہ گھبراگیا۔چائے کی توبات ہی نہیں ہورہی تھی۔
’’نہیں۔نہیں۔‘‘شہزادبولی۔’’اب توچائے پی کرہی جانا۔‘‘
ہاجرہ کے آنے پرشہزادکااندازہی بدل گیاوہ یوں ہنس ہنس کراس سے باتیں کرنے لگی جیسے کوئی بچی انتہائے معصومیت میں اظہارمسرت کرتی ہے۔ایلی چپکے سے اٹھ بیٹھااوربن بتائے چوری سے باہرنکل گیاتاکہ کوئی اسے روک نہ لے۔جو ں جوں وہ شہزادکے چوبارے سے دورہوتاگیاتوں توں اس کے دل میں ازسرنویہ ڈرپیداہوتاگیاکہ شہزاداماں کووہ بات نہ بتادے شکایت نہ کردے۔اگراس نے شریف سے کہہ دیاتونہ جانے اس نے اس نے اسے معاف بھی کیاہے کہ نہیں۔

فرار

باہرجاکراس نے فیصلہ کرلیاکہ وہ واپس امرتسرچلاجائے گاتاکہ پھرشہزادکے سامنے جانے کاخدشہ نہ رہے۔
گھرپہنچ کراس نے اپنی تمام چیزیں اکٹھی کیں اورپھرسوٹ کیس اٹھاکرباہرنکلا۔صحن میں فرحت ہنڈیاپکارہی تھی۔’’میں جارہاہوں فرحت۔‘‘وہ بولا۔
’’جارہاہے توکیاواقعی جارہا ہے۔‘‘وہ بولی۔’’کہاں جارہاہے تو؟۔۔ہائیں۔اتنی جلدی۔‘‘وہ حیران رہ گئی۔‘‘تمہیں توابھی چاردن اوررہناتھا۔‘‘
’’نہیں ۔میں جارہاہوں۔ابھی ۔‘‘ایلی نے بولا۔
’’آخربات کیاہے؟فرحت نے پوچھا۔
’’کچھ نہیں۔‘‘ایلی نے جواب دیا۔
’’کسی بات سے ناراض ہوگیاہے کیا؟‘‘
’’اونہوں۔‘‘
’’نہ جانے توہم سے کیوں ناراض رہتاہے۔ایلی۔ہماراکیاقصورہے؟‘‘
’’نہیں تو۔‘‘وہ گھبراکربولا۔
’’توکیاشہزادنے کہاہے کچھ؟‘‘
’’میں کہتاہوں۔‘‘وہ چڑکربولا۔’’کچھ بھی نہیں۔کسی نے کچھ نہیں کہامجھ سے۔‘‘
’’تومیں شہزادکوبلاؤں۔وہی تمہیں روک سکتی ہے۔‘‘فرحت نے مخلصانہ طورپرکہا۔
’’نہیں۔نہیں۔‘‘شہزادکانام سن کروہ ڈرگیا۔’’مجھے امرتسرسے خط آیاہے۔‘‘
’’خط آیا؟‘‘
’’ہاں میرادوست بیمارہے۔‘‘
’’اوہ ۔‘‘اس نے اطمینان کاسانس لیا۔’’توپہلے کہاہوتامجھ سے ۔‘‘
’’اچھاتومیں چلتاہوں۔‘‘
’’لیکن اماں سے تومل کرجااورتیری دادی اماں۔وہ بھی توبیمارہے اس کی حالت۔‘‘
’’یہ کہہ کروہ چپکے سے سیڑھیاں اترنے لگا۔اسے ڈرتھاکہ راستے میں اس کادوست نہ مل جائے۔اگررضامل گیاتوغضب ہوجائے گا۔وہ اسے تنگ کرے گا۔لیکن خوش قسمتی سے چوگان میں بچوں کے سواکوئی نہ تھااوررضاسے بچنے کے لئے وہ ایک اورراستہ اختیارکرسکتاتھا۔
۔۔ریل میں بیٹھے ہوئے وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے چاروں طرف دیکھ رہاتھا۔اس روزدنیاہی بدلی ہوئی دکھائی دے رہی تھی۔سبزہ گویانئے اندازمیں لہرارہاتھا۔بوٹے عجیب شان سے کھڑے تھے۔پھول بہت شوخ تھے۔جیسے رنگین دیئے ٹمٹارہے ہوں۔کھیتوں میں کام کرتے ہوکسان انوکھی رومان بھری فضامیں ڈوبے ہوئے تھے۔گاڑی یوں چلی جارہی تھی جیسے مورچھاتی پھلاکرپروازکررہاہو۔ایلی کاجی چاہتاتھاکہ مناظرکے حسن پررودے۔
امرتسر پہنچ کراس نے محسوس کیاجیسے وہ کسی نئے شہرمیں آپہنچا،جسے اس نے سپنے میں دیکھاہو۔سٹیشن کے گنبدالف لیلےٰ کے کسی پراسرارمنظرکی یاددلارہے تھے۔سڑکیں خوشی سے ادھراودھردوڑرہی تھیں لوگ آرہے تھے۔جیسے کسی تقریب پراکٹھے ہورہے ہوں۔
لیکن بورڈنگ میں وہی ویرانی چھائی ہوئی تھی۔راموبیٹھابرتن صاف کررہاتھا۔بندوآٹے کی بوریاں میں سردئیے بیٹھاتھا۔ہرنام سنگھ،گورچرن سنگھ اورجیون ایک درخت کے نیچے بیٹھے اپنے کیس سکھارہے تھے۔کمرے میں اللہ دادکرسی پراپنی قمیض پھیلائے خودفرش پربیٹھاسرپرآم کی خشک گٹھلی رگڑرہاتھا۔
’’ارے ۔‘‘اللہ داداسے دیکھ کرچلایا۔’’توآگیا۔بیٹاچارروزپہلے ہی ماں کی گودچھوڑآیاتو۔اونہوں یہاں تیراجی نہیں لگے گا۔‘‘
’’بک نہیں۔‘‘ایلی نے بناوٹی غصے سے کہا۔
’’اچھابھئی۔‘‘اللہ دادچلایا۔’’ایک تم ہوکہ ماں کی گودنہیں چھوڑتے ایک وہ شفیع ہے ۔جوساراسارادن یوں سانپ مارنے میں لگارہتاہے۔جیسے کالج میں سانپ مارناسیکھنے کے لئے داخل ہو۔بس ایک میں رہ گیاہوں۔محنت کرنے کے لئے۔‘‘یہ کہہ کراس نے مظلومانہ اندازسے سرپرآم کی گٹھلی رگڑنی شروع کردی جیسے امتحان پاس کرنے کے لئے سرپرآم کی گٹھلی رگڑنالازم ہو۔
ایلی دھم سے چارپائی پرگرپڑا۔اسے اللہ دادکی باتوں سے کوئی دلچسپی نہ تھی نہ جانے کیاہواتھااسے،دفعتاًاسے اس بورڈنگ ،کالج اورشہرسے کوئی دلچسپی نہ رہی تھی۔وہ کمرہ بیگانہ محسوس ہورہاتھااوراللہ دادیوں لگ رہاتھاجیسے اجنبی ہو۔
دیرتک کمرے میں خاموشی چھائی رہی ۔گٹھلی رگڑتے رگڑتے اللہ دادنے ایک نظرایلی کی طرڈالی اورپھرچپکے سے بولا۔’’ارے بھائی پہلے توہم سمجھتے تھے کہ ایلی بابوںماں کی گودکے لئے بے تاب رہتاہے۔اس لئے باربارگھرکوبھاگتاہے۔‘‘یہ کہہ کروہ خاموش بیٹھارہاپھرآپ ہی آپ بولا’’لیکن آخروہ بھی توگودہے۔دونوںمیں کچھ زیادہ فرق نہیں ہوتا۔‘‘اللہ دادنے ایک لمبی آہ بھری۔’’وہ بھاگاں بھری تھی اپنی۔اللہ جانتاہے اس کی گودمیں پڑکرمجھے بے بے بھول جاتی تھی۔‘‘ایلی یہ سن کربھونچکارہ گیااس کم بخت کوکیسے معلوم ہوگیا۔کسے غصہ آنے لگا۔لیکن وہ کرہی کیاسکتاتھااوراللہ دادکی معصوم مسکراہٹ کے جواب میں غصہ کرنابالکل ہی بے معنی معلوم ہوتاتھا۔چپ چاپ اٹھ بیٹھااورٹہلتاٹہلتانہرکے کنارے پرجاپہنچادراصل اس کاجی چاہتاتھاکہ اچانک نورسے ملاقات ہوجائے اورشبھ لگن آجائے۔اس کے دل کے نچلے پردوں میں ایک شبھ لگن جھلک رہی تھی اوروہ چاہتاتھاکہ دل کی گہرائیوں سے نکل کر وہ اس پرمسلط ومحیط ہوجائے اورپھروہ پودوں کی اوٹ میں بیٹھ کرچپکے چپکے رو دے۔آنسو اس کے گالوں پرڈھلکیں اورنورپوچھے۔’’کیاہے جی۔‘‘جیسے اس کی عادت تھی اوروہ جواب دے۔‘‘کچھ بھی نہیں کچھ بھی تونہیں۔‘‘
’’ہائیں۔‘‘نہرکے کنارے آصف کوبیٹھے دیکھ کروہ حیران رہ گیااس کی آنکھوں میں وہی پھوارپڑرہی تھی لیکن یہ ظاہرنہ ہوتاتھاکہ وہ آیاوہ خوشی سے سرخ ہورہی ہیں یاغم کی وجہ سے۔
’’آگئے تم۔۔‘‘اس نے دبی دبی اداس مسکراہٹ سے کہا۔
’’ہاں۔‘‘ایلی نے آہ بھری۔’’تم یہاں کیاکررہے ہو۔نورکاانتظارکررہے ہوکیا؟‘‘
’’اونہوں۔‘‘آصف نے نفی میں سرہلایا۔
’’توپھر‘‘ایلی نے پوچھا۔’’سیرکرنے آئے تھے۔‘‘
’’سیر۔۔‘‘آصف نے زہرخندسے کہا۔’’میں کہاں جاؤں ایلی۔‘‘
’’کیوں۔‘‘ایلی نے گھبراکرپوچھا۔
کوئی جگہ بھی تونہیںرہی۔‘‘
’’کیوں ۔‘‘ایلی چلایا۔
دیس نکالا
’’وہ۔۔وہ واپس آگئی ہے۔‘‘آصف نے آہ بھرکرکہا۔
’’واپس آگئی ہے۔‘‘
’’ہاں۔‘‘۔۔وہ بولا۔‘‘’’جیسے انتقام لینے آئی ہو۔‘‘
’’انتقام ۔‘‘ایلی نے دہرایا۔
’’اب وہ کسی کالحاظ نہیں کرتی اورایلی اب تووہ اعلانیہ کھڑکی میں کھڑی رہتی ہے گھروالے بیچارے ہارگئے ہیں۔محلے میں کہرام مچاہواہے اورمیں گھرسے بھاگاپھرتاہوں۔اب ہوگاکیاایلی۔کیاکروںمیں۔‘‘
۔۔ایلی کی سمجھ میں نہیں آتاتھاکہ اس میں مشکل کونسی تھی۔یہ توبلکہ اس کی خوشی نصیبی تھی۔عجیب آدمی تھاآصف بھی۔
’’دیوانوں کی طرح آنکھیں پھاڑپھاڑکردیکھتی رہتی ہے۔‘‘
’’دیکھتی ہے تودیکھنے دو۔‘‘ایلی نے جواب دیا۔
’’اتنی رسوائی اتنی بدنامی ہورہی ہے کہ۔‘‘آصف سے جھرجھری لی۔’’میراتماشابنارکھاہے اس کے گھروالے کہتے ہیں ہم کیاکریں۔لڑکی ہوش وحواس کھوچکی ہے اوراگراس پر۔۔‘‘وہ خاموش ہوگیااورپھرحسرت ویاس بھری نگاہ سے اس نے ایلی کی طرف دیکھا۔
’’میری طرف محلے والے یوں دیکھتے ہیں جیسے کوئی مجرم ہوں۔جیسے اس کی دیوانگی میری وجہ سے ہو۔وہ توپاگل ہوکرآزادہوگئی ایلی مجھ سے تووہی اچھی ہے۔لیکن میں کیاکروں میرااپنے گھرمیں آناجانابندہوچکاہے۔مجھے تودیس نکالامل گیاہے۔‘‘
’’اچھا۔‘ایلی سوچ میں پڑگیا۔
’’اگرتم کہوتومیں تمہارے بورڈنگ میں آرہوں۔‘‘آصف سے پوچھا۔
’’ہاں۔ہاں۔‘‘ایلی نے کہا۔’’یہ تواوربھی اچھاہے۔‘‘
’’تومیں کل آجاؤں۔‘‘آصف کے منہ پرمسکراہٹ پھیل گئی جیسے وہ ایلی کاسہاراپاکرخوش ہوگیاہو۔
’’آجاؤ۔‘‘ایلی خوشی سے چلایا۔’’کتنااچھارہے گا۔ہم صبح وشام اکٹھے رہیں گے۔‘‘’’سچ‘‘آصف نے اس کاہاتھ دبایااورنہ جانے کب تک وہ اسی طرح ہاتھ میں ہاتھ پکڑے نہرکے کنارے بیٹھے رہے۔آصف اپنے خیالات میں مگن تھامگرایلی کے روبروکچھ اورہی تھاایک گوراگورابازواس کی طرف بڑھتااورحنامالیدہ ہاتھ اسے اپنی گرفت میں لے لیتا۔’’ایلی تم لوگوں کی پرواکرتے ہو؟‘‘۔۔دو گلابی آنکھیں اس کی طرف دیکھتیں ،گلال بھری پچکاری چلتی اوراسے شرابورکرجاتی۔وہ ایک نگاہ کس قدرمدہوش کن تھی۔ایک نگاہ۔۔اس نگاہ کوحاصل کرنے کے لئے ایلی دنیاکی بڑی سے بڑی مشکل کامقابلہ کرنے کوتیارتھا۔ساری دنیاکے خلاف جہادکرنے پرآمادہ تھا۔ایلی کاجی چاہتاتھاکہ آصف سے وہ رازکہدے کسی سے کہدے اوراپنے آپ کومحفوظ کرلے مگروہ شہزادکارازتھاوہ اسے کس طرح افشاکرسکتاتھااورپھرآصف سے وہ رازکہتاجواس غم میں گھل رہاتھاکہ ایک حسینہ اس کے لئے پاگل ہورہی ہے۔بھلاشہزادکی مست کن نگاہ آصف کیسے سمجھ سکے گا۔ایلی بات کہتے کہتے رک جاتااورپھرآسمان پرپھیلی ہوئی سرخی کودیکھنے میں کھوجاتااسے ایسامحسوس ہوتاجیسے شہزادکے گالوں سے اترکروہ سرخی آسمان پرپھیل گئی ہواوراس کاہرچھوٹے سے چھوٹادھبہ کہہ رہاہو۔’’تم لوگوں کی پرواکرتے ہو۔تم ایلی۔‘‘اگلے روزصبح سویرے وہ دونوں پرنسپل کے گھرچلے گئے اوراس سے درخواست کی کہ وہ آصف کوایک ماہ کے لئے بورڈنگ میں رہنے کی اجازت دے دے۔
پرنسپل نے ان کی بات سن کرحیرت سے ایلی طرف دیکھا۔
’’آصف کیابات ہے۔‘‘ وہ مسکرایا۔
’’بات توکوئی نہیں پرنسپل صاحب۔۔‘‘آصف کے چہر ے پرگھبراہٹ کاطوفان آگیاجواس کی بات کواعلانیہ جھٹلارہاتھا۔پرنسپل مسکرانے لگا۔’’بھئی ایک بات کرو۔زبان سے کہہ رہے ہوکہ کچھ نہیں اورنگاہیں کہہ رہی ہیں بہت کچھ ہے۔‘‘ایلی نے گھبراکرسچی بات کہہ دینے کی غرض سے منہ کھولا’’جی بات یہ ہے ۔‘‘آصف نے بھرپورنگاہ ایلی پرڈالی اس نگاہ میں ایک طوفان تھا۔غصہ تھا۔بے بسی تھی۔منت تھی۔دھمکی تھی۔ایلی سہم کرخاموش ہوگیا۔
پرنسپل نے ان دونوں کی طرف تعجب سے دیکھااس کے چہرے پرمسکراہٹ پھیل گئی ’’نہیں۔نہیں۔‘‘وہ ہنس کربولا’’پڑھائی کابہانہ نہ کرنا۔ادھرادھرکی باتیں کرنے کاکیافائدہ ہے توبہتر ہے کہ صاف کہہ دیاجاتاکہ اس کی وجہ بتانے سے ہم قاصر ہیں۔بہرصورت مجھے یقین ہے کہ تم شرارت کے درپے نہیں ہواورکوئی ایسی بات سرزدنہ ہوگی جوکالج کے لئے باعث بدنامی ہو۔‘‘
’’جی نہیں ایسی کوئی بات نہ ہوگی۔‘‘آصف بولا
’’اچھاتواجازت ہے۔‘‘پرنسپل نے کہا۔’’اب تم جاؤاورآرام کرومجھے صورت حال اچھی نہیں دکھتی اگرمجھے دوست سمجھ کربتادیتے توشایدمیں کچھ مددکرسکتا۔لیکن خیر۔۔‘‘
جب وہ بورڈنگ میں پہنچاتولڑکوں نے اسے دیکھ کرشورمچادیا۔’’ایلی،ایلی۔ارے تیراتارآیاہے۔‘‘

دادی اماں

تار۔۔ایلی کادل ڈوب گیا۔تارآیاہے ۔اسے زندگی بھرکبھی تارنہ آیاتھا۔بس شہزادکارازکھل گیا۔نہ جانے اب کیاہوگا۔شہزادنے وہ بات بتادی۔اس روزکہتی جوتھی۔ایلی مجھے تم سے ایسی توقع نہ تھی۔تم نے یہ کیاکیاایلی ۔ہائے تم نے یہ کیاکیا۔۔ایلی کے پاؤں تلے کی زمین نکل گئی۔اب کیاہوگااوربرآمدے میں کھڑاہوکرسوچنے لگا۔
’’ارے جاکرپتہ بھی لگائے گاکہ نہیں۔‘‘شفیع چلانے لگا۔
اللہ دادبولا’’بھئی تاروالاادھرہی توگیاہے تمہیں دیکھنے کے لئے۔‘‘
ایلی کاجی چاہتاتھاکہ چپکے سے بھاگ جائے ۔جہاں تاروالااسے تلاش نہ کرسکے تاکہ وہ اس خفت سے بچ جائے مگراسے تاروالے کی تلاش کرناہی پڑی۔اللہ دادکیاکہے گا۔لڑکے کیاسمجھیں گے اس کے باوجودوہ دعائیں مانگ رہاتھاکہ تاروالاجاچکاہو۔
تاروالے کودیکھ کراس کادل ڈوب گیا۔پیشانی پرپسینے کے قطرے ابھرآئے۔اسے یوں بت بنے دیکھ کراللہ دادنے تاراس کے ہاتھ سے چھین لیااورتارکھولتے ہوئے بولا۔‘‘ماں اپنے لاڈلے کی فرقت میں اداس ہوگئی ہوگی۔‘‘دفعتاًاللہ دادخاموش ہوگیا۔اس کی انگلیاں اضطراب سے تارکوپھرتہہ کرنے میں مصروف ہوگئیں۔’’ابے‘‘شفیع نے اس سے پوچھنے کے لئے کچھ کہناچاہامگراللہ دادکاچہرہ دیکھ کراس میں ہمت نہ پڑی دیرتک برآمدے میں خاموشی چھائی رہی ۔پھرآصف آہستہ سے بولا۔’’ایلی تمہاری دادی۔۔‘‘
’’دادی اماں۔‘‘ایلی نے حیرانی سے دہرایا۔
’’ہاں۔تمہاری دادی اماں چلی گئیں۔‘‘آصف نے کہا۔
’’چلی گئیں؟۔۔‘‘ایلی نے گھبراکرتارکی طرف دیکھااس کے منہ سے ایک ہچکی سی نکلی اورپھردورسے آوازآئی۔‘‘نہیں ایلی۔کچھ بھی نہیں کچھ بھی تونہیں۔‘‘
جب وہ محلے کے چوگان میں پہنچاتواس کادل ڈوب گیا۔چوگان کے عین درمیان میں جنازہ پڑاتھا۔چاروں طرف محلے والے کھڑے تھے۔محلے والیاں پنکھے چلاتے ہوئے کچرکچرباتیں کررہے تھے۔محلے والے جنازے کے متعلق یون تفصیلات طے کررہے تھے۔جیسے کوئی عام سی تقریب ہو۔جس میں غم یادکھ کاکوئی عنصرنہ ہو۔
ایلی کودیکھ کرکوئی چلائی ’’اے ہے لڑکے کوتوآلینے دواپنی دادی کے قریب۔‘‘
’’ہائیں آگیاتوایلی۔شکرہے آگیاتو۔‘‘
’’ہائے بہن اس کے بغیرتودم نکلتاتھااس کی دادی اماں کا‘‘۔۔۔‘‘
’’اس کے سوااورتھاہی کون اس کا۔علی احمدنے توکبھی پوچھاہی نہیں۔‘‘
’’آخری دم تک یادکرتی رہی تجھے۔لے دیکھ لے اس کامنہ۔‘‘
ایلی دادی اماں کی طرف دیکھنے سے ڈررہاتھاوہ نہیں چاہتاتھاکہ مری ہوئی دادی کی طرف دیکھے ۔نہیں نہیں وہ جیتی ہے مری نہیں۔اس کے تخیل میں وہ ابھی تک جیتی تھی۔وہ نہیں مرسکتی۔وہ کبھی نہیں مرسکتی ایلی نے نگاہ پھیرلی اوردادی اماں کی طرف دیکھے بغیرہی وہاں کھڑارہا۔

جنازہ

چاروں طرف لوگوں کاجھمگٹالگاہواتھاہرکوئی دوسرے سے بات کررہاتھا۔۔ان کی باتوں پرایلی کوغصہ آرہاتھا۔کیاانہیں دادی اماں کی موت کاغم نہیں۔کیاانہیں اس کی موت پردکھ نہیں ہوایوں شوخی سے ایک دوسرے سے باتیں کررہے تھے۔ناگاہ ایلی کی نگاہ علی احمدپرپڑی۔وہ چپ چاپ بت بنے کھڑے تھے۔
ایلی نے پہلی مرتبہ محسوس کیاجیسے وہ دکھ محسوس کررہے ہوں۔پہلی مرتبہ ایلی کوخیال آیا۔کہ ان کے دل میں بھی جذبات ہیں۔انہیں بھی کسی کے مرنے پردکھ ہوتاہے۔انہیں بھی عزیزوں کے دکھ سکھ کااحساس ہے۔یہ احساس ایلی کے لئے بالکل نیاتھااوراتناعجیب تھاکہ اس نے جلدہی اس سے مخلصی پانے کی کوشش کی۔پھرچاربزرگوں نے بڑھ کرجنازے کواٹھالیااوروہ سب ان کے پیچھے قبرستان کی طرف چل پڑے۔
علی پورکے بازارمیں جنازے کودیکھ کرراہ چلتے چلتے لوگ رک جاتے تھے۔دوکاندارسوداسلف تولناچھوڑکرایک طرف ادب سے کھڑے ہوجاتے گاہک بازارسے ہٹ کرکسی بنددوکان کے تختے پرچڑھ جاتے۔کھیلتے ہوئے بچے سہم کررک جاتے اورمنہ میں انگلیاں ڈال کرحیرانی سے اس جلوس کی طرف دیکھتے۔
بازارسے نکل کروہ کھیتوں میں جاپہنچے ۔کھیتوں پرکام کرنے والے کسان انہیں دیکھ کرکام چھوڑکران کے ساتھ چل پڑے۔
’’کیوں بھائی کس کاجنازہ ہے۔‘‘
’’مائی کس کی والدہ تھی۔‘‘
’’اچھاوہ جودفترکے بابوہیں۔‘‘
’’آیاکرتے ہیں کبھی اس طرف۔‘‘
’’کیاتکلیف تھی۔‘‘
’’جی ہاں۔‘‘وہ توبہانے ہوتے ہیں۔اصل میں توتقدیرکالکھاہوتاہے جوہوکررہتاہے۔‘‘
جنازے کے آگے محلے کے بوڑھے آخ تھوآخ تھوکرتے کھانستے چلے رہے تھے۔کبھی کبھارکوئی کھانستے کے علاوہ مدھم آوازمیں چلاتے ’’یارب العزت یااللہ‘‘۔۔’’قادرمطلق ۔۔‘‘ان کے پیچھے پیچھے محلے کے جوان تھے اورسب سے آخرمیں محلے کے نوجوان جوچلتے ہوئے ایک دوسرے کوکہنیاں مارتے تھے،چٹکیاں بھرتے تھے،پھریوں سنجیدگی اختیارکرلیتے تھے۔جیسے وہ ایسی حرکت کے اہل ہی نہ ہوں۔کبھی کبھی نوجوانوں کی قطاروں سے دبے دبے قہقہے بلندہوتے جس پرمحلے کے بوڑھے آخ کہہ کررک جاتے اورتھوکرنے کی بجائے غضب آلودنگاہوں سے پیچھے کی طرف دیکھتے۔
لیکن اس روزایلی سب سے پہلی قطارمیں چل رہاتھااسے احساس نہ تھاکہ بوڑھے مضحکہ خیزاندازمیں تھوآخ تھوکررہے ہیں یاجوان وزدیدہ نظروں سے کھیتوں میںبنے ہوئے گھروندوں سے جھانکتی ہوئی سیاہ فام مگرنوجوان لڑکیوں کی طرف دیکھ رہے ہیں یانوجوان کہنیاں مارمارکرایک دوسرے کوکسی قابل توجہ منظرکی طرف دیکھنے کااشارہ کررہے ہیں۔اس روزایلی کاذہن ایک وسیع خلامیں تبدیل ہوچکاتھا۔اس پرایک پریشان کن تعطل مسلط اورمحیط تھا۔نہ گھبراہٹ تھی نہ پریشانی نہ خوشی تھی نہ غم۔اس کی سمجھ میں نہ آرہاتھاکہ کیاہوگیاہے۔۔دادی اماں کی موت کامفہوم کیاہے۔اس کے نتائج کیاہوں گے۔اس کی سمجھ میں نہ آرہاتھا۔وہ چلے جارہاتھاخاموش بے حس!

وہ مرگئی

جنازے کی نمازکے بعدقبرستان میں دیرتک وہ اس جگہ بیٹھارہاجہاں کھڑے ہوکراس نے نمازپڑھی تھی اورجہاں پاس ہی چادرسے ڈھکی ہوئی چارپائی پردادی اماں پڑی تھیں۔وہاں بیٹھے ہوئے اس نے اللہ سے بڑی عجزبھری دعائیں مانگی تھیں۔’’یااللہ یہ کیاہوگیایااللہ دادی اماں اب مجھ سے کبھی نہ ملیں گی۔یااللہ‘‘اس نے بن سوچے سمجھے یہ سب دعائیں مانگی تھیں۔اسے یہ خیال بھی نہ آیاتھاکہ دعائیں مانگ رہاہے یاوہ دعائیں نہ تھیں بلکہ سوالات تھے۔عجیب سوالات تھے۔ایسے سوالات جن کاکوئی جواب نہ تھا۔دعائیں مانگ کروہ وہیں بیٹھ کرزمین کریدتارہاتھا۔حتیٰ کہ اسے اس مقام سے وحشت ہونے لگی۔دورلوگ قبرکھودنے میں مصروف تھے۔قبرستان میں یہاں وہاں محلے والے ٹولیوں میں بیٹھے ہوئے دبی دبی آوازوں میں باتیں کررہے تھے۔جوان دورپختہ تالاک کی طرف نکل گئے تھے اورنوجوان نہ جانے کہاں تھے۔
وہ اٹھ کربیٹھااورپھرتاپھراتاان کچی قبروں میں جاپہنچاجہاں محلے کے عام آدمی دفنائے جاتے ہے۔وہ گھبراکررک گیا۔سامنے صفدرایک پیڑکے نیچے چپ چاپ بیٹھاتھا۔نہ جانے وہ اپنی ہی دھن میں بیٹھاکیاسوچ رہاتھا۔اس وقت اس کی آنکھوں میں چمک نہ تھی۔بازولٹک رہے تھے اورہونٹوں پرکوئی بول نہ تھا۔۔
’’تم ایلی۔۔وہ اسے دیکھ کرگھبراکراٹھ بیٹھا۔’’آؤآؤ۔تالاب کی طرف چلیں۔آؤ۔ابھی قبرمیں اتارنے میں دیرہے ۔آؤ۔‘‘اس کی آوازروئی تھی۔
وہ دونوں چپ چاپ تالاب کی طرف چل پڑے ۔‘‘تم آگئے۔۔‘‘وہ بولاتم توچلے گئے تھے نااچھاکیاآگئے۔‘‘وہ بولا۔’’بہت اچھاکیا۔میں بھی جارہاتھامگرنہ گیا۔محض اتفاق ہے ورنہ چلاجاتا۔‘‘اس کاگلاخشک ہوگیا۔
دیرتک صفدرخاموش رہا۔پھرزیرلب بولا۔’’مرگئی۔۔‘‘اورچپ ہوگیاجیسے گلاآوازسے خالی ہو۔پھردفعتاًاس کے ہونٹ ہلے اوراس نے مٹی کاایک ڈھیلااٹھاکردورپھینک دیا۔ایلی نے محسوس کیاجیسے وہ کہہ رہاہوحافظ خداتمہاراجیسے دادی اماں پارسی لڑکی ہواوراس کے چلے جانے پرصفدرکاگلاآوازسے خالی رہ گیاہو۔
’’تم کہتے تھے وہ مرتی بھی نہیں ۔‘‘ایلی نے گلوگیرآوازمیں کہا۔
’’ہاں۔‘‘صفدربولا۔’’کہتاتھا۔مگروہ مرگئی۔مرگئی۔‘‘
ایسامعلوم ہوتاتھا۔جیسے صفدرکاوہ لفظ داستان کوچھپائے ہوئے ہو۔
’’ہاں مرگئی۔‘‘
صفدرکے کہنے کااندازایساتھاکہ ایلی کی آنکھوں میں پھرآنسوآگئے مگرصفدراپنی ہی دھن میں گنگنائے چلاجارہاتھااورہردس قدم کے بعدچپکے سے کہتا’’مرگئی۔‘‘

بھیانک اداسی

دادی اماں کودفنانے سے فارغ ہوکروہ محلے میں واپس پہنچے چوگان میں چاروں طرف کھڑکیوں اورمنڈیروں پرعورتیں کھڑی تھیں اسے علم نہ تھاکہ شہزادبھی وہیں کھڑی ہے۔اس کے سیاہ ڈوپٹے میں ستارے چمک رہے تھے بازوڈوپٹے سے الجھے ہوئے ہیں۔لمبی ترچھی آنکھوں پرمثرگاں ڈھلکی ہوئی ہیں۔اسے شہزادکے وجودکااحساس نہ تھا۔وہ اسے بھول چکاتھا۔اسے یادہی نہ تھاکہ شہزادنے اس کے ہاتھ تھام کراس سے کہاتھا:۔
’’ایلی تم لوگوں کی پرواکرتے ہو!۔۔تم ایلی ؟‘‘
چوگان سے وہ ان جانے میں گھرکی طرف چل پڑا۔لیکن سیڑھیاں چڑھتے ہوئے دفعتاًاس نے محسوس کیاکہ وہ کہاں جارہاہے۔کیوں جارہاہے۔گھرمیں اب کیادھراتھا۔کچھ بھی نہیں۔تخت ویران پڑاہوگا۔چولہے کے پاس گھٹنوں میں سردیئے کوئی بیٹھانہ ہوگا۔کوئی اس سے نہیں کہے گا۔
’’توآگیا۔میں نے تیرے لئے کچھ رکھاہواہے۔ہنڈیامیں۔‘‘
کوئی نہیں چیخے گا’’ہے تونے میری ہڈیاں توڑدیں۔‘‘
کسی کاجھریوں بھراہاتھ اسے تھپکے کانہیں۔’’کچھ بھی توانہیں ایلی۔‘‘وہ رک گیااورسیڑھیاں اترنے لگا۔
’’دادی اماں۔دادی اماں۔‘‘وہ قبرپربیٹھارہو رہاتھا۔’’دادی اماں یہ کیاہوگیا۔کیاہوگیاہے یہ۔‘‘ایک بوڑھاچہرہ اس کی طرف دیکھ کرمسکرایادوجھلی داربازواس کی طرف بڑھے۔’’کچھ نہیں ایلی۔کچھ بھی تونہیں۔‘‘چاروں طرف سے بھیانک اداسی چھائی تھی۔قریب ہی کوئی کنواں کراہ رہاتھا۔دورچکی ہونک رہی تھی۔مغرب میں سورج غروب ہورہاتھا۔
قبرستان سے اٹھ کرابھی اس نے چندایک قدم اٹھائے تھے کہ رضاآگیا۔’’تم‘‘ایلی نے رضاکی طرف تعجب سے دیکھا۔
’’چل۔‘‘رضا’’تیرے ابابلارہے ہیں۔‘‘وہ خاموشی سے ایلی کے ساتھ چلنے لگا۔ایلی کاجی نہیں چاہتاکہ گھرجائے لیکن وہ چپ چاپ رضاکے ساتھ چل پڑا۔
جب وہ گھرپہنچاتوعلی احمدنے اسے اپنے پاس بٹھالیا۔’’بیٹھ جاؤایلی۔تم کہاں آوارہ گھوم رہے ہو۔فضول۔۔ایلی کی ماں۔‘‘انہوں نے ہاجرہ کوبلایا’’اس کابستربچھادویہاں۔آج یہ یہیں رہے گا۔ہمارے پاس۔۔‘‘

ایلی تم ۔تم ایلی

اگلے روزصبح سویرے ایلی چپکے سے علی پورسے امرتسرچلاآیا۔نہ جانے اس کے لئے علی پورمیں رہناکیوں ناممکن ہوچکاتھا۔اس کاجی چاہتاتھاکہ علی پورسے چلاجائے اس مکان سے دوربھاگ جائے اس کے لئے تخت کی طرف دیکھناناممکن ہوچکاتھاجہاں دادی اماں بیٹھ کرنمازپڑھاکرتی تھی۔
وہ رات علی پورمیں اس نے یوں کاٹی جیسی کانٹوں پرپڑاہو۔اسے یقین نہیں پڑتاتھاکہ دادی فوت ہوچکی ہے۔ایسے محسوس ہوتاتھاجیسے کانٹوں پرپڑاہو۔اسے یقین نہ پڑتاتھاکہ دادی اماں فوت ہوچکی ہے۔ایسے محسوس ہوتاتھاجیسے وہ اپنے تخت پربیٹھی نمازپڑھ رہی ہواورابھی وہ نمازسے فارغ ہوکرچارپائی پراس کے سرہانے آبیٹھے گی اوراپنے جھلی دارہاتھوں سے اسے تھپکنے لگے گی۔‘‘سوجاایلی سوجا۔کچھ بھی تونہیں۔‘‘
اس خیال پرایلی کوخوف سامحسوس ہوتاکہ دادی مرچکی ہے اوراب وہ کبھی آکراس تخت پرنمازنہیں پڑھے گی ۔اسی بے نام ڈرکی وجہ سے اب کی بارعلی پورمیں رہنااس کے لئے ناممکن ہوگیاتھا۔علی الصبح وہ اٹھ بیٹھا۔سیدہ کھڑی کے پاس بیٹھی قرآن کریم پڑھی رہی تھی۔
’’خالہ۔‘‘اس نے سیدہ کی طرف دیکھے بغیرکہا۔’’میں جارہاہوں۔‘‘
’’کہاں جارہاہے تو۔‘‘سیدہ نے سرسری طورپرپوچھا’’جارہاہوں۔‘‘اس نے سرکی جنبش سے ظاہرکرنے کی کوشش کی ۔’’میں پوچھ رہی ہوں کہاں جائے گاتواس وقت ‘‘سیدہ چڑگئی۔
’’امرتسر‘‘وہ یوں بولاجیسے امرتسراس مکان کے کسی کمرے کانام ہو۔
’’امرتسر؟‘‘وہ حیرانی سے اس کی طرف دیکھنے لگی۔
’’ہاں۔‘‘ایلی نے کہا’’مجھے جاناہی چاہیۓ۔‘‘
’’اباسے توپوچھ لے۔‘‘وہ جھنجھلاکربولی۔
’’نہیں۔‘‘وہ بولا’’پوچھنے کی کیابات ہے اس میں۔‘‘
’’نہیں نہیں یہ مناسب  نہیں۔‘‘وہ بولی۔’’بڑوں سے بات کرنااچھاہوتاہے۔‘‘
ایلی نے گویاسیدہ کی بات سنی ہی نہیں۔وہ سیڑھیوں کی طرف چل پڑا۔
سیدہ نے شورمچایا۔’’ایلی امرتسرجارہاہے میں کہتی ہوں سناآپ نے ایلی جارہاہے۔‘‘اورسیدہ اسے آوازدیتی رہ گئی۔
علی احمدکی آوازسن کروہ رک گیااوراسے ان کے روبروحاضرہوناپڑا۔
’’مجھے امتحان کے لئے تیاری کرنی ہے۔‘‘اس نے کہا’’مجھے جاناہی چاہیئے۔‘‘
یہ بات سن کرعلی احمدخاموش ہوگئے۔
’’یہ توبلکہ اچھاہی ہے۔‘‘سیدہ بولی:’’پڑھائی میں لگ جائے گا۔‘‘
گاڑی میں بیٹھتے ہی ایلی نے محسوس کیاجیسے اس کے دل کابوجھ اترگیاہو۔وہ خلاجواس پرمسلط اورمحیط تھااب ختم ہواجارہاتھا۔لیکن اب غم بوندبونداس کے بندبندمیں سرائت کررہاتھا۔
ایلی کی نفسیات کی یہ عجیب خصوصیت تھی کہ کسی تکلیف دہ واقعہ پراس کے دل کوغم کادھچکانہیں لگتاتھابلکہ ایسے واقعہ کی خبرسن کراس کے ذہن میں ایک خلاپیداہوجاتاجواس کے تخیل اوراحساسیات کوشل کردیتا۔دیرتک اس پریہ کیفیت طاری رہتی۔جیسے وہ عالم خواب میں گھوم پھررہاہو۔پھربوندبوندغم اس کے دل میں سرائت کرتااداسی چاروں طرف سے یورش کرتی۔
گاڑی میں بیٹھتے ہی ایلی نے محسوس کیا۔جیسے ساری دنیاایک بے معنی پھیلاؤہوچاروں طرف سے اداسی امڈی آرہی تھی۔دوردرختوں کے جھنڈمیں دادی اماں اس کی طرف دیکھ کرمسکررہی تھی۔اس کاہاتھ ایلی کی طرف بڑھ رہاتھا۔’’اے ہے کیاہے تمہیں۔کچھ بھی تونہیںہوا۔کچھ بھی تونہیں۔‘‘لیکن اس کے باوجودایلی محسوس کررہاتھاجیسے کچھ ہوگیاہو۔کچھ کھوگیاہو۔ایلی نے آہ بھری۔’’اب مجھے کون تھپک کرسلائے گا۔‘‘
دفعتاًاس کی نگاہ گھاس کی سبزگٹھڑی میں حرکت ہوئی۔شہزادکامتبسم چہرہ نمودارہوا۔پھولداردوپٹے سے گوراچٹابازوبرآمدہوا۔’’میں جوہوں۔‘‘وہ مسکرائی۔‘‘میں جوہوں۔‘‘تم مجھے بھول گئے کیا۔‘‘
شہزادکودیکھ کروہ ششددرہ گیا۔’’ہائیں‘‘گھبراکراس نے شہزادکی طرف دیکھاشہزادتوبالکل اس کے ذہن سے مفقودہوچکی تھی۔اسے اس کے وجودکااحساس ہی نہ تھا۔پورے چوبیس گھنٹے علی پورمیں رہنے کے باوجوداس کے ذہن میں شہزادکاخیال نہ آیاتھااس نے محسوس کیاگویاوہ بہت بڑے گناہ کامرتکب ہواہو۔علی پورایک دن رہنے کے باوجوداسے شہزادکاخیال بھی نہ آیاتھا۔جیسے شہزاداس کے لئے ایک دم معدوم ہوگئی ہو۔شہزادکے گھرکی دیواروں کی طرف دیکھنے کے باوجوداس کی کھڑی کے سامنے کھڑے ہونے کے باوجوداس کااحساس ہی نہ ہواتھا۔اپنی اس دیوانگی پروہ بوکھلاگیا۔نہ جانے وہ دل میں کیاکہتی ہوگی ہوسمجھتی ہوگی کہ اس روزاس کے بازوپکڑکرجوکچھ ایلی نے کہاتھاوہ سب جھوٹ تھا۔فریب تھامحض وقتی دل بہلاواتھا۔اس پراس کے سینے پرسانپ لوٹ گیا۔شہزاددل میں کیاکہتی ہوگی۔اف ایلی نے دونوں ہاتھوں سے سرتھام لیا۔
پھراس کے دل میں شبہات پیداہونے لگے۔شایدشہزادکواس کی آمدکااحساس ہی نہ ہواہو۔شایداس نے ایلی کوقابل توجہ ہی نہ سمجھاہو۔شایداس کی وہ مسکراہٹ وہ جملہ۔’’تم لوگوں کی پرواکرتے ہو؟‘‘ایلی تم؟‘‘محض ایک مذاق ہواایک اداہو۔پھراسے اس تمام واقعہ کی حقیقت پرشک پڑنے لگا۔شایدیہ سب کچھ میرے دماغ کی اختراع ہو۔ورنہ شہزادمیری پرواکرے؟نہیں نہیں یہ کیسے ہوسکتاہے۔شہزادسی رنگین حسینہ مجھے دنیاکے روبروکھڑے ہونے کی شہہ دے۔نہیں نہیںیہ سب خوش فہمی ہے۔محض خوش فہمی!
یہ سوچ کرایلی گھبراگیا۔اس کی گردوپیش سرسبزکھیت ویران ہونے لگے سرسوں کے پھول خزاں زدہ پتے دکھائی دینے لگے۔پھردورایک ٹیلے پرکھڑی ہوکرکوئی مسکرانے لگی۔اس کے بازوایلی کی طرف بڑھنے لگے۔حنامالیدہ ہاتھوں کی مٹھیاں کھلیں ۔’’ایلی تم؟‘‘وہ مسکراکربولی۔’’تم ایلی؟‘‘وہ آوازگاڑی کے پہیوں میں گونجنے لگی۔ایلی تم،تم ،تم ایلی۔‘‘گاڑی کی رفتارتیزہوتی جارہی تھی۔ساری کائنات پھولدارآنچل میں لپٹی جارہی تھی۔

اکتاہٹ

بورڈنگ کی سڑک پرنہرکے قریب اسے مہراورنورملے وہ دونوں بورڈنگ سے واپس آرہے تھے۔
وہ دونوں ایلی کے قریب سے گزرگئے۔چارایک قدم چلنے کے بعدوہ رک گئے مہرکھڑاہوگیااورنورایلی کی طرف بڑھا۔اس کے ہونٹوںپروہی خم تھا۔آنکھوں میں وہی نگاہ تھی۔جسے دیکھ کرایلی ندامت سے زمین میں گڑگیامہرکیاکہے گا۔وہ ایلی کے متعلق کس قدرغلط اندازہ لگائے گا۔
’’آگئے۔‘‘نورنے ترچھی نگاہ سے ایلی کی طرف دیکھا۔
’’ہاں۔‘‘
’’کب آئے۔‘‘نورکی نگاہوں نے ایلی کے چہرے پرپنجے گاڑدیے۔
’’ابھی۔‘‘
’’وہ مجھے ادھرآنے نہیں دیتے۔‘‘اس نے شکایت کی۔
’’کون؟‘‘
’’وہی۔‘‘وہ مسکرایا’‘محلے والے۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’پتہ نہیں۔‘‘نورنے ہونٹ بٹوہ سے بنائے ۔
’’اچھا۔‘‘ایلی چل پڑا۔
’’وہ شک کرتے ہیں۔‘‘اس نے راستہ روک لیا۔
’’ہوں۔‘‘ایلی نے بے پروائی سے کہا۔
’’پھر؟‘‘نورنے یوں اس کی طرف دیکھاجیسے کہہ رہاہوتم ان کے شکوک کوپوراکیوں نہیںکرتے۔
’’پھرکچھ نہیں۔‘‘ایلی نے جواب دیااوربورڈنگ کی طرف چل پڑاجیسے نورکی با ت سمجھاہی نہ ہو،نہ چاروں طرف اکتاہٹ پھیلی ہوئی تھی۔
آموں کی کوٹھی کے میدان میں بہت سے لڑکے بیٹھے کھاناکھارہے تھے۔رسوئی سے پھلکوں کی بارش ہورہی تھی۔
’’آگئے بابوجی۔‘‘رامواسے دیکھ کرمسکرایا۔اس نے غلیظ دانت چمکے۔
کمرے میں آصف ہاتھوں میں سردئیے بیٹھاتھا۔’’تم آگئے۔‘‘وہ ایلی کودیکھ کربولااللہ دادنے سراٹھایااورتہہ بندجھاڑکرکہنے لگا۔’’یہ توجاتاآتاہی رہتاہے۔‘‘
شفیع نے اللہ دادکوڈانٹا’’بک نہیں ۔دادی اماں کی موت کوتوکیاجانے۔‘‘
’’یہ بھی ٹھیک ہے۔‘‘اللہ دادنے زیرلب کہا’’نہ اپنی کوئی دادی اورنہ اماں۔وہ جوکٹڑے میں رہتی ہے ناخورشیدبائی اس کے پاس گیاتھا۔بہتیری منتیں کیں کہ مجھے بیٹابنالولیکن سالی نے بات سنی ہی نہیں الٹا میراثیوں سے کہہ کرمجھے باہرنکلوادیا۔لوبولو۔اب میں کیاکروں توکیاکروں۔‘‘
شفیع ہنسنے لگا۔’’میں بتاؤں۔‘‘وہ بولا۔’’بس چپ چپ بیٹھارہ تو۔‘‘
اللہ دادآہ بھرکرخاموش ہوگیا۔
رات کوکھاناکھانے کے بعدآصف اورایلی چہل قدمی کے لئے باہرنکل گئے۔فضابے حداداس تھی۔چاروں طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی۔اندھیرے میں دھندلی سڑک ڈارونامنظرپیش کررہی تھی۔چپ چاپ وہ دونوں کمپنی باغ کی طرف چلے جارہے تھے۔دفعتاًآصف گویااس خاموشی سے اکتاکربولا’’ایلی‘‘
’’جی۔‘‘ایلی نے اپنے خیالات میں ڈوبے ہوئے کہا۔
’’میراکیاہوگاایلی۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’میراانجام کچھ اچھامعلوم نہیں ہوتا۔‘‘وہ بولا
’’خواہ مخواہ ۔‘‘
’’خواہ مخواہ نہیں۔‘‘آصف نے کہا۔’’میں محسوس کرتاہوں۔‘‘
’’کیامحسوس کرتے ہو۔‘‘
’’جیسے جیسے نہ جانے کیاہونے والاہے۔‘‘
’’آخربات تواتنی ہے ناکہ وہ آگئی ہے۔‘‘
’’نہیں یہ نہیں۔‘‘آصف نے آہ بھری۔
’’پھر؟‘‘
’’اس کی بات نہیں۔‘‘
’’توپھرکس کی بات کررہے ہو؟‘‘
’’میں کہتاہوں۔یہ لڑکیاں مجھے تنگ کیوں کرتی ہیں؟‘‘اس نے آہ بھرکرپوچھا۔
’’تنگ تم خودہوتے ہوآصف ۔‘‘ایلی نے کہا‘‘وہ نہیں کرتیں۔‘‘
’’تمہیں نہیں معلوم۔‘‘آصف نے جواب دیا‘‘اب دیکھوناکتنی بدنامی ہورہی ہے میری نہ جانے اس نے وہاں گھرمیں کیاطوفان بپاکررکھاہے۔اماں کیاکہتی ہوں گی اورمحلے والے وہ توپہلے ہی کہتے تھے۔تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔‘‘
’’توانہیں کہنے دوتمہاراکیاجاتایہ۔‘‘ایلی نے کہا۔
’’نہیں نہیں۔‘‘آصف چلایا۔‘‘تم ایسانہ کہاکرو۔‘‘
’’توبتاؤ کیاکہوں میں۔‘‘
’’یہ بتاؤکہ میراکیاہوگا؟‘‘آصف پھرآہ بھری۔
’’مجھے کیامعلوم ۔‘‘ایلی چڑگیا۔
’’نہ جانے کیاہوگا؟‘‘آصف نے ہاتھ مل کرکہا۔کچھ دیر کے لئے وہ دونوں خاموشی سے چلتے رہے پھرآصف نے بات بدلی۔
’’ایلی۔‘‘و ہ بولا’’تم نیم سے نہیں ملے؟‘‘
’’نیم۔‘‘ایلی چونک پڑا۔وہ نیم کوقطعی طورپربھول چکاتھا۔
’’مجھ سے چھپاتے ۔‘‘آصف ہنسا۔
’’نہیں تو۔‘‘ایلی نے کہا۔ایک ساعت کے لئے اس کے آئی کے آصف سے شہزادکی بات کہہ دے لیکن اس میں جرات نہ ہوئی۔آصف سے یہ بات کرناممکن نہ تھاایلی محسوس کرتاتھا۔جیساطبعی رنگینی کے باوجودآصف ایک ملاتھا۔جس سے دل کی بات نہ کہی جاسکتی تھی۔
اگلے روزکالج سے فارغ ہوکرایلی آغاکی طرف چل پڑا۔اسے اس کوچے سے بے حددلچسپی تھی،ان چہروں سے تواسے ڈرلگتاتھاجوکھڑکیوں اورجنگلوں میں بنے سنورے دکھائی دیتے تھے۔لیکن کٹڑے والیوں کی لوچدارآوازیں سن کرایلی کے دل پرسانپ جاتا۔اسے محسوس ہوتاجیسے کوئی کلیجہ مسل رہاہو۔اس میٹھی جلن میںکس قدرلذت تھی۔پھرجب سارنگی کسی ایک چوبارے میں بین کرتی اورطبلہ سرپیٹتاتوایلی پرایک کیفیت طاری ہوجاتی۔
ابھی وہ چوک میں ہی تھاکہ حئی نہ جانے کہاں سے آدھمکا۔’’ارے تم ایلی؟‘‘وہ چلایا‘‘تم توجیسے کھوگئے۔کیاہواتمہیں۔‘‘
’’دادی اماں فوت ہوگئیں تھیں۔‘‘ایلی نے رونی آوازمیں کہا۔
’’اوہ ۔‘‘ایک ساعت کے لئے حئی خاموش ہوگیا۔پھروہ مخصوص اندازسے مسکرانے لگا۔’’دادی مائیں ایسا ہی کیا کرتیں ہیں۔ان کی توعادت ہی ایسی ہے اب چھوڑوبھی۔تم نے توایساحال بنارکھاہے۔جیسے دنیاتیاگ دوگے۔آؤتمہیں اپنی عاشق کے پاس لے چلوں۔اسے دیکھ کرسب کچھ بھول جاؤگے۔شرط لگالو۔نہ بھولو۔تواپناذمہ۔میں اپنے دکھ وہاںاٹھاکرلے جاتاہوںاوروہ ایسی اچھی ہے کہ ایک نظردیکھ لے توسب بھول جاتاہے آؤ۔‘‘ایلی کاجی چاہتاتھاکہ حئی اسے زبردستی ساتھ لے جائے لیکن اس کے باوجوداس کے دل کے کسی کونے میں ڈرچھپاہواتھا۔
’’نہیں نہیں۔‘‘وہ جھجک کرپیچھے ہٹا۔ساتھ ہی وہ ڈررہاتھاکہ کہیں حئی اس کے احتجاج کوتسلیم نہ کرلے۔اسے اکیلاچھوڑکرنہ جائے۔لیکن حئی اسے کھینچتاہواچوبارے پرچڑھنے لگا۔

بائی۔اور’’ہے نا۔‘‘

پھرزینے میں حئی نے آوازدی۔’’ہے نا۔ادھرآؤبھاگ کرمیں ایک شخص کوپکڑلایاہوں۔بھاگ نہ جائے دوڑکرآؤنا۔وہ چلاتاگیا۔
’’ہے نا۔‘‘کودیکھ کرایلی حیران رہ گیا۔اس کاخیال تھاکہ وہ رقاصہ کی طرح بنی سنوری ہوئی عورت ہوگی ،اس کے کپڑوں میں وہی بھڑک ہوگی۔اس کے بال ویسے ہی بنے ہوں گے۔ان سے خوشبوکی لپٹیں آتی ہوںگی۔لیکن وہ توگویاباورچی خانے سے دال بھگارتی ہوئی اٹھ کرآئی تھی۔کپڑے عام سے تھے۔جن میں اجلاپن نام کونہ تھا۔بال الجھے ہوئے تھے۔آستینیں یوں اوپرچڑھی ہوئی تھیں۔جیسے روزکپڑے دھوتی ہواورچہرے پرجوانی کی شگفتگی کے سواسنگارکاکوئی عنصرنہ تھا۔وہ بھاگی بھاگی آئی اورسوچے سمجھے بغیرایلی کابازوپکڑکراسے کھینچنے لگی۔ایلی نے اس کی طرف حیرانی سے دیکھا۔وہ یوں مسکرارہی تھی جیسے صدیوں سے اسے جانتی ہواوراس کاجسم یوں بے تکلفی سے ایلی کوچھورہاتھاجیسے وہ عورت ہی نہ ہو۔
پھرچندمنٹوں میں ایلی کے پاس ایک چارپائی پربیٹھی ہوئی بلاتکلف باتیں کررہی تھی۔‘‘حئی نے مجھے کئی بارتمہارے متعلق بتایاہے۔حئی کہتاہے تم اس کے دوست ہو۔مجھے حئی کے سبھی دوست پیارے ہیں۔‘‘وہ مسکرائی اورپھرہم۔ہم نام بھی توہیں۔تم الیاس ہواورمیں الماس کچھ زیادہ فرق تونہیں۔ہے ناحئی مجھے پیارسے کہتاہے میرااصلی نام توالماس ہے۔‘‘
’’بکتی ہے یہ۔‘‘حئی چلایا۔’’الماس ولماس کوئی نہیں یہ۔وہ تونمائشی چیزہوتی ہے۔یہ ہے نا۔توخالص گھرکی رانی ہے ۔کیوں ایلی؟‘‘
’’ہاں۔‘‘ایلی نے اثبات میں سرہلایا۔
’’کیوں ایلی۔‘‘حئی نے پوچھا۔‘‘ہے ناالماس بائی ہوسکتی ہے کیا؟‘‘
’’ہے نا۔‘‘کی آنکھیں پرنم ہوگئیں۔۔وہ مسکرائی۔’’گھرکی رانی کوسبھی کچھ میسرہے ایک گھرنہیں۔اورنہ ہوگا۔‘‘اس کے گالوں پرآنسوڈھلکنے لگے۔
’’پاگل پاگل۔‘‘حئی غصے سے چیخنے لگا۔’’پھروہی حماقت۔‘‘
’‘مجھے معلوم ہے۔ہے نانے آنسوپیتے ہوئے کہا۔’’میرادل گواہی دیتاہے کہ گھرنصیب نہ ہوگاتم چاہے لاکھ کہو۔‘‘
’’میں کہتاہی کیاہوں۔‘‘حئی ہنسا۔
’’چاہے کہوبھی۔لیکن جولکھاہے ہوکررہتاہے یہ چنددن تومیں گھربناکررہ لوں گی پھرچاہے کچھ ہوجائے۔یہ روڈ۔‘‘اس کی آوازبھرآئی۔’’ایلی تم بھی یہاں میرے پاس رہو۔رہوگے؟چندروزتوہیں۔صرف چندروزپھرایک دن الماس بائی کوچوبارہ میںجاناہی پڑے گا۔‘‘
ہے نانے کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے کہا۔’’وہ وہیں جابیٹھے گی جہاں سے آئی ہے۔‘‘ہے نانے کھڑکی کی طرف اشارہ کیا۔
ایلی بت بنااس کی طرف دیکھ رہاتھا۔
’’پاگل ۔‘‘حئی چلایا۔
’’کیوں ایلی رہوگے میرے ساتھ؟جب حئی چلاجاتاہے تویہ گھرویران ہوجاتاہے،پھرمیں اکیلی بیٹھی گھبراجاتی ہوں۔تم آجاؤتوہم اکٹھے رہاکریں گے تمہیں بہت سی باتیں سنایاکروں گی میں۔۔بہت سی آؤگے نا؟‘‘
’’میں میں۔‘‘ایلی گھبراگیا۔لیکن اس کاجی چاہتاتھاکہ ہمیشہ کے لئے ہے ناکے پاس آرہے ہروقت چارپائی پراس کے پاس بیٹھ کراس سے باتیں کرتارہے لیکن مصیبت یہ تھی کہ اس کی باتیں سن کرایلی کاجی چاہتاتھاکہ اس کے قریب ہوجائے اورقریب اورقریب اورپھراپناسراس کے زانوپررکھ کرسوجائے۔اسے اپنی اس خواہش پرندامت محسوس ہوتی تھی۔ لیکن اس کے باوجودوہ خواہش اس کے دل سے نکلتی نہ تھی۔
دفعتاًکٹڑے میں شورسنائی دیا۔حئی تڑپ کراٹھا۔’’کیاہے کیاہے؟‘‘وہ چلایا۔
’’ہوناکیاہے۔‘‘ہے نابولی۔’’وہی جواس بازارمیں ہوتارہتاہے اورکیا۔‘‘
’’کیاہوتارہتاہے یہاں۔‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’دیکھ لوچل کر۔‘‘وہ بولی۔ ’’چلو۔‘‘
’’یہاں توبھیڑلگی ہے۔‘‘ایلی نے بازارمیں جھانک کرکہا۔
’’وہ تولگی رہتی ہے۔یہ بازاربوتل کی طرح چڑھ جاتاہے۔‘‘وہ بولی۔
’’ہے نا۔‘‘حئی دوسری کھڑی میں سے چلایا۔’’سناتم نے رؤف گرفتارہوگیا۔‘‘’’ہائیں‘‘ہے نانے سینہ تھام لیا۔’’وہ سیٹی پیٹی والاراجاگرفتارہوگیاکیا۔‘‘’’ہاں ‘‘حئی سیڑھیوں کی طرف بھاگتے ہوئے بولا۔’’وہی ۔میں ابھی آیا۔‘‘اورپھرزینہ اترنے لگا۔
ہے ناکھڑی میں ایلی پرجھک گئی حتیٰ کہ اس کاتمام ترجسم ایلی سے چھونے لگاایلی نے حیرانی سے ہے ناکی طرف دیکھامگروہ اپنی دھن میں نیچے دیکھ رہی تھی اسے احساس ہی نہ تھاکہ اس کاجسم ایلی سے مس ہورہاہے۔اس کے چہرے پروہی پاکیزگی وہی گھرکی دیوی پن واضح تھالیکن ایلی کی حالت غیرہورہی تھی۔وہ محسوس کررہاتھا۔جیسے وہ اس جھکی ہوئی عورت کادودھ پیتابچہ ہوجسے اس نے چھاتی سے لپٹارکھاہو۔
دفعتاً‘ہے نانے محسوس کیاکہ ایلی سمٹاجارہاہے۔
’’ہیں یہ تم سمٹے کیوں جارہے ہو۔‘‘اس نے پوچھا۔
’’تم بہت قریب ہونااس لئے۔‘‘ایلی نے ڈرتے ڈرتے اسے چھیڑا۔
’’توپھرکیاہوا۔‘‘وہ ہنسی اوراس نے ایلی کودونوں ہاتھوں سے آغوش میں لے کربھینچ لیا۔’’تم توہمارے اپنے ہو۔‘‘وہ یوں بولی جیسے کوئی ماں اپنے بچے کوآغوش میں لے کراس کامنہ چوم لیتی ہے۔
یہ محسوس کرکے ایلی احساس ندامت میں ڈوب گیااورہے ناپھرسے اس کے وجودسے بے خبرہوگئی۔
’’یہ سیٹی والی پیٹی والاکلمونہہ میرے پاس بھی آیاتھا۔سمجھتاتھاکہ ڈرجائے گی۔مگرمیں کیاسمجھتی ہوں ایسوں کو۔وہ ڈانٹامیں نے کہ پھرمیرے گھرکارخ نہیں کیا۔‘‘
’’لیکن اسے قیدکیوں کرلیاگیاہے؟‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’کچھ کردیاہوگانشے میں۔‘‘و ہ بولی۔’’کسی کاقتل نہ کردیاہو۔‘‘
اسی وقت ایک ساعت کے لئے ’’ہے نا‘‘کی جگہ بائی کھڑکی میں آکھڑی ہوئی اس نے دونوں ہاتھ اپنے کولہوں پررکھ لئے۔ہونٹ بٹوہ سے بن گئے اورآنکھ میں چمک لہرائی۔
’’سمجھتاتھا۔‘‘وہ بولی۔‘‘کہ اسے بھی دھمکی دے کرگرالوں گا۔بڑابنتاتھا۔‘‘
ایلی الماس کودیکھ کرگھبراگیا۔۔’’ہے نا‘‘وہ بولا۔’’پانی پلاؤ گئی۔‘‘
’’پانی ۔‘‘وہ چونک پڑی اوردفعتاًبائی کی جگہ ہے نامسکرانے لگی۔’’تم مجھے تنگ کرنے لگے ہو۔‘‘وہ چلائی اوراندرجاداخل ہوئی۔
’’ایلی یہاں آؤ۔یہاں نیچے بازارمیں۔‘‘حئی چلانے لگا۔اس کی آوازسن کرایلی نے پہلی مرتبہ محسوس کیاکہ وہ الماس کے چوبارے میں تھا۔اسے شرم آنے لگی۔گھبراکرکھڑکی سے پیچھے ہٹ گیااورپھردفعتاًاسے خیال آیاکہ حئی کوخاموش کرنے کے لئے اسے نیچے جاناہی پڑے گا۔جب وہ سیڑھیوں کے پاس پہنچاتوہے نابھاگی بھاگی آگئی۔
’’یہ لواپناپانی۔‘‘وہ بولی اوراپنے آپ کویوں سنبھالنے لگی۔جیسے گاؤں کی الڑگوریاں بھاگنے کے بعدتھک کرآنچل اوراپناآپ سنبھالتی ہیں۔
’’میں جارہاہوں۔‘‘ایلی نے کہااورزینہ اترنے لگا۔
’’پھرآؤگے نا۔‘‘وہ بولی ۔’’ضرورآنا۔میں یہاں اکیلی بیٹھے بیٹھے تھک جاتی ہوں۔ضرورآنا۔ضرور۔‘‘ اس کی آوازگونج رہی تھی اورایلی بازارمیں پہنچ چکاتھا۔

انوکھی تحقیق

کٹڑے میں بھیڑ لگی ہوئی تھی۔لوگ جگہ جگہ گروہوں میں کھڑے باتیں کررہے تھے۔پنواڑیوں کی دوکانوں پرلوگ جمع تھے۔پان کی پیک تھوک کریاسگریٹ کالمباکش لگاکروہ باربارسبزجنگلے والے چوبارے کی طرف دیکھتے اورپھرچہ میگوئیاں کرنے لگتے۔
چوباروں میں رقاصائیں منہ میں انگلیاں ڈالے کھڑی تھیں اس وقت انہیں بناؤسنگارکاہوش نہ تھا۔انہیں معلوم نہ تھاکہ ان کے بال پریشان ہورہے ہیں۔چہروں پرتھکن کی جھریاں پڑی ہیں۔گال پاؤڈراورروغن سے خالی ہیں یاپاؤں ننگے ہیں ۔غالباً اس وقت انہیں یہ احساس نہ تھاکہ وہ رقاصائیں ہیں۔اس وقت تمام بائیاں ہے ناہوئی تھیں۔جیسے دفعتاً باورچی خانے سے کام کرتے کرتے بھاگ کر جنگلے میں آکھڑی ہوں۔
وہ سب حیرانی سے سبزجنگلوں کے مکان کی طرف دیکھ رہی تھی۔سبزجنگلہ ویران پڑاتھا۔بازارمیں لوگ حیرانی سے چلارہے تھے:
’’بھئی حدہوگئی۔وہی سیٹی پیٹی والاراجہ۔۔حدہوگئی۔‘‘ایک بولا۔
’’سالہ مخومت کرتاتھایاں کٹڑے پر۔‘‘
’’حکومت سی حکومت سناہے سیٹھ جمناداس نے ہاتھ جوڑے تھے۔اس کے روبرو۔‘‘بھئی کیوں نہ جوڑتا۔دل کامعاملہ تھا۔‘‘
’’سیٹی پیٹی والاچاہتاتوسالہ چارموٹرکاریں مانگ لیتا۔سیٹھ سے۔‘‘
’’موٹرکیاہے جوچاہتاسولیتاہاں۔‘‘
’’پراسے تومیاں ’’شادی ‘‘کے سواکچھ سوجھتاہی نہ تھا۔وہ اس کے سرپرسوارتھی۔‘‘
’’وہ شادی سالی ہے بھی توبندبوتل چڑھ جاتی ہے ایک دم ۔‘‘
’’پراب توبابوکھل گئی وہ بندبوتل۔کیوں بھئی ۔‘‘
’’پرعالم کیسے ہواپہلوان کوکہ سالہ ویسے ہی راجہ بناہواہے جھوٹ موٹ کا۔‘‘
’’بس ہوگیا۔کاٹھ کی ہنڈیاکب تک چڑھتی ہے ۔ہاں۔‘‘
’’بھئی ہنڈیاتوآٹھ مہینے چڑھی رہی۔میرے بھائی۔‘‘
’’اورمیں کہتاہوں یہ توچڑھی ہی رہتی اگراپنے بابوکی بنی کونہ چھیڑتاوہ۔‘‘
’’کون بنی؟‘‘
’’ارے یہی سبزجنگلے والی۔‘‘
’’وہ جوسانوری سلونی سی ہے؟‘‘
’’ہاں ہاں بڑی مرچیلی ہے وہ۔بابواس کے ہاں آتاجاتاہے نا۔‘‘
’’کون بابو؟‘‘
’’بابوکونہیں جانتے ۔بھئی وہ گوراچٹا۔یہیں کٹڑے میں رہتاہے۔سرداراں کے چوبارے کے پچھواڑے کی گلی میں کھفیہ پولیس مین ہے وہ بابواپنا۔‘‘
’’لیکن کیسے معلوم ہواکہ سیٹی پیٹی والابناوٹی افیسربن کرتحقیق کررہاہے۔‘‘
’’بس جی بابونے پہلے تو اس بہروپیے کی منتیں کیں۔تم جانتے ہوایک محکمے کے آدمی ایک دوسرے سے بات کرلیتے ہیں اپنے بابونے کہابھئی جس پرجی چاہے ہاتھ رکھ ڈالواپنے کوکچھ تعلخ نہیں پر بنی پرہاتھ نہ ڈالنا۔
’’پھرکیاہوا؟‘‘
’’بات توکھری کہی بابونے پیارے۔‘‘
’’ہاں بھئی صاف بات اچھی ہوتی ہے۔‘‘
’’پروہ توگویاںنفلوں کابھوکاتھا۔اسی شام کووہ ’’بتی‘‘کے چوبارے پرچڑھ گیااوربابوخون کے گھونٹ پی کررہ گیا۔پھربابونے جاکردفترسے مالومات لیں۔اس سے پوچھاپوری  تخیخ  کی اورمالوم ہواکہ سرکارنے تفیش کے لئے کوئی حکم جاری نہیں کیااوربس صاحب آج بابومیاں دوخان پرآیااوربولااستادآج کہیں سرکنانہیں وہ تماشہ دکھاؤں گاکہ یادکروگے ایساتماشہ کٹڑے والوں نے کبھی نہ دیکھاہوگااوراس وقت وہ اوپر’’بنی ‘‘کے چوبارے میں ہے اورساتھ پلس ہے تاکہ سیٹی پیٹی والے کوہتکھڑی لگالے۔‘‘
’’ہوں تویہ بات ہے۔‘‘
’’بھئی شابشے بابوکا۔‘‘
’’بڑامجے کاآدمی ہے وہ اگرچہ ہے کھیفہ پلس کاپراپنایارہے۔‘‘
عین اس وقت آغاآگیا۔اس کے چہرے پروہی بے نیازی برس رہی تھی۔
’’تم ہوایلی؟‘‘آغااس کی طرف دیکھنے لگے۔
وہ سرسری اندازسے بولا۔’’آگئے تم۔اب کی مرتبہ تودیرکردی تم نے یہ تماشادیکھاحدہوگئی۔کس کومعلوم تھاکہ یہ انکوائری محض ڈھونگ ہے اوروہ سی آئی ڈی کاانسپکٹردراصل ایک موقوف شدہ پلسیہ ہے ۔پٹھے نے آٹھ مہینے کٹڑے میں عیش کئے ہیں۔دعوتیں اڑائی ہیں۔مجرے دیکھے ہیں۔گانے سنے ہیں اورجس کی سیج پرچاہالیٹاہے۔خداکی قسم ایساستم ظریف تھاکہ چوٹی کی بائیوں سے چلمیں بھرواتارہا۔‘‘وہ ہنسنے لگا۔
’’لیکن ۔‘‘ایلی نے پوچھا’’پوری بات میری سمجھ میں نہیں آئی۔‘‘
’’ہاں ۔‘‘آغاہنسا۔’’میں سمجھاشایدتم جانتے ہواس معاملے کوکٹڑے کاتوبچہ بچہ جانتاہے۔‘‘
آغاہنسنے لگے۔’’کیاواقعی ۔‘‘ایلی نے کہا۔
’’یہ سیٹی پیٹی والاانسپکٹرپہلے پولیس میں تھا۔پھرنہ جانے کس وجہ سے برخواست ہوگیا۔اس کے بعداس شخص نے ایک جعلی حکمنامہ بنایا۔جس میں لکھاتھاکہ فلاں شخص نے حکومت کاایک لاکھ روپیہ غبن کیاہے اوربیان کیاجاتاہے کہ اس نے زیادہ ترروپیہ امرتسرکٹڑہ رنگین میں اپنی محبوبہ بنام سردارویابہاروپرصرف کیاہے۔انسپکٹررؤف کوحکم دیاجاتاہے کہ وہ موقعہ پرجاکراس امرکی تحقیق کرے اوراپنی رپورٹ پیش کرے۔‘‘آغاصاحب ہنسنے لگے۔
’’کمبخت کوکیاسوجھی اورپھراس نے رقاصاؤں کے جودونام لکھے اس خط میں وہ بہت سوچ کرلکھے ۔ چونکہ کٹڑے میں ان ناموں کی بہت سی رقاصائیں ہیں اوروہ سب اوپرکے درجے کی ہیں۔بس تواس نے یہ خط یہاں کے ایس پی کودکھایا۔انہیں بھلاکیااعتراض ہوسکتاتھااس کے بعداس نے تفیش کے پردے میں وہ کیاجس کاجواب نہیں۔‘‘
’’آخاہ آخاہیں۔‘‘ایک نوواردان کی طرف بڑھااوروہ دونوں باتیں کرتے ہوئے سبزجنگلے والے چوبارے کی طرف چل دیئے۔
ایلی نے آغاکی ڈیوڑھی کی طرف دیکھاوہاں نیم کھڑی مسکرارہی تھی۔نیم کواپنے مخصوص اندازمیں مسکراتے ہوئے دیکھ کرایلی کادل ڈوب گیا۔معاًاسے خیال آیاشایدنیم بھی وہیں کہیںموجودہوگی۔وہ تڑپ کرمڑامگرآغاکے چوبارے کی کھڑکیاں جوں کی توں بندتھیں۔چقیں بے جان اندازسے لٹک رہی تھیں اورحرکت سے قطعی طورپربے گانہ تھیں۔اوپرکوٹھے کے منڈیرپرسریابازوکاکوئی حصہ بھی دکھائی نہ دے رہاتھا۔ایک بارپھراس پرمایوسی چھاگئی۔اس نے نیم کی طرف دیکھاجوویسے ہی کھڑی مسکرارہی تھی۔اس کی مسکراہٹ سے ظاہرہوتاتھاجیسے کوئی خوشخبری اس کے ہونٹوں میں دبی ہوئی ہو۔

باادب باملاحظہ ہوشیار

ایلی نے آغاکی طرف دیکھاوہ دورجاچکاتھا۔حئی پان کی دوکان پرکھڑاباتوں میں مصروف تھا۔اس نے دومرتبہ ادھرادھر دیکھااورپھرحالات کوسازگارسمجھ کرنیم کی طرف بڑھا۔اسے آتے دیکھ نیم کے ماتھے پرپیاراشکن پڑگیا۔بھویں کمانوں کی طرح ہوتی گئیں۔
’’ہم نہیں بولتے تم سے۔‘‘وہ ایک اندازسے زیرلب بولی۔
’’کیوں؟‘‘ایلی نے نگاہیں چمکاتے ہوئے کہا۔
’’بس تم نے کھودیا۔‘‘اس سے ناک چڑھاکرکہا۔
’’کیاکھودیا؟‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’سب کچھ ۔‘‘وہ بولی۔’’تم توبس کھوہی دیتے ہو۔میں بناتی ہوں بات اورتم بگاڑدیتے ہو۔‘‘
’’آخربتاؤ بھی نا۔‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’پھرتم آتے کیوں نہیں ہمارے یہاں۔‘‘وہ بولی۔
’’تمہاری آپاجوچھپی رہتی ہے۔‘‘اس نے پینترہ بدلا۔’’دیکھ لوآج بھی چھپی بیٹھی ہے۔‘‘
’’اوں۔‘‘وہ بولی۔’’وہ تونہیں چھپتی پردادی اسے باہرآنے بھی دے۔‘‘
’’کیوں دادی کیاپکڑے رکھی ہے اسے۔‘‘
’’سائے کی طرح سواررہتی ہے۔آپاکہتی تھی۔۔‘‘وہ رک گئی۔
’’میرے متعلق کچھ کہتی تھی۔بتاؤ‘‘ایلی نے منت کی۔
’’نہیں بتاتی۔‘‘اس نے بسورکرکہا۔’’مجھ سے ملتے جونہیں توبتاؤں کیوں۔‘‘
’’تم بڑی پیاری ہو۔‘‘وہ اس کے قریب ترہوگیا۔
’’جھوٹ ۔‘‘نیم نے اپناآپ اس کے حوالے کرتے ہوئے کہا۔’’چھوڑوہیں۔‘‘
ایلی نے محسوس کیاجیسے وہ چھوٹی سی لڑکی درحقیت ایک بالغ عورت ہو۔ایک عورت جولبھانے کے اندازسے پورے طورپرواقف ہو۔اس نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھانیم نے اس حوالگی کے باوجوداپنامنہ موڑرکھاتھا۔
عین اس وقت ایک شوراٹھااورکٹڑے میں کھڑے تمام لوگ سبزجنگلے والے مکان کی طرف بھاگے۔
’’ادھرآؤ۔ادھرآؤ۔‘‘حئی نے بڑھ کرایلی کاہاتھ پکڑلیا۔’’وہ اسے نیچے لارہے ہیں۔‘‘
حئی ایلی کودیوانہ وارگھسیٹنے لگا۔
وہاں ایک کہرام مچ گیا۔
’’جوتے ماروجوتے۔‘‘
’’کہاں ہے بہروپیہ؟‘‘
’’پکڑلیاکیا۔‘‘
’’سے لارہے ہیں۔‘‘
’’پہلوان ذرادیکھنادوکان کومیں آیا۔‘‘
سب لوگ دیوانہ وارسبزجنگلے والے چوبارے کی طرف لپکے ۔حئی نے دوایک کوگرایادوایک کوپچھاڑااوردھاڑتاہواایلی سمیت سبزجنگلے والے چوبارے کی سیڑھیوں کے سامنے جاپہنچا۔چندایک سپاہی سیڑھیوں سے نیچے اتررہے تھے۔ہجوم کودیکھ کرانہوں نے اپنے چابک چلانے شروع کردیئے۔’’ہٹ جاؤہٹ جاؤ۔‘‘لوگوں نے بڑی مشکل سے راستہ دیا۔حئی یہ دیکھ کراس دوکان کی طرف لپکاجوان سیڑھیوں سے ملحقہ تھی اوراس نے ایلی کوچھجے پرگھسیٹ لیا۔
سپاہوں کے پیچھے سیٹی پیٹی والارؤف ہتکھڑی پہنے بڑے وقارسے آرہاتھا۔ایک ساعت کے لے وہ رکا۔اس نے بڑے غیوراندازمیں چاروں طرف دیکھااوربارعب اندازمیں بولا۔جیسے اپنی رجمنٹ کوحکم دے رہاہو۔
’’اے ہمارے لئے موٹر بھی نہیں لائے تم۔ہم موٹرکے بغیرکیسے جائیں گے۔‘‘
بابونے ایک زہرخندمسکراہٹ سے اس کی طرف دیکھا۔سپاہی مسکرائے۔
’’اوردیکھو۔‘‘ملزم نے تحکمانہ لہجے میں کہا۔ہمیں سگریٹ چاہئیں پہلوان ’’وہ چلایا۔‘‘سگرٹ کاایک ٹین ۔‘‘
’’سگرٹ کانہیں۔‘‘پہلوان پنواڑی چلایا۔’’اب توبیٹے ویسے ہی ٹین پاٹ ہوگا۔‘‘
’’سالاموٹر مانگتاہے۔‘‘ہجوم سے آوازآئی چل توسہی تھانے میں تیراایکسیلیٹر دبائیں گے توہوش میں آجائے گا۔‘‘
’’ارے اوسیٹی والی پیٹی۔‘‘
’’خاموش‘‘ملزم نے انہیں ڈانٹا۔’’ہمیں نہیں جانتے تم۔‘‘
بابوہنسنے لگا’’اب سالہ دیوانہ بنتاہے۔‘‘
’’بکارخویش ہشیارہے۔‘‘
وہ جلوس آہستہ آہستہ کٹڑے میں چلنے لگا۔ہجوم نعرے لگارہاتھا۔لوگ بیڑیوں کے ٹکڑے اس معزول شدہ راجہ پرپھینک رہے تھے۔اوپررقاصائیں جنگلوں سے نیچے لٹکی ہوئی تھیں کئی ایک ہاتھ مل رہی تھیں۔کئی ایک شرمندگی محسوس کررہی تھیں کہ انہیں دھوکادے کرلوٹ لیاگیااورسیٹی پیٹی کامتوالاتحکمانہ اندازسے احکامات جاری کرتاہواچلاجارہاتھا۔
’’ہٹ جاؤیہ ہماراجلوس ہے باادب باملاحظہ ہوشیار۔‘‘
اس روزشام کوجب ایلی واپس اپنے بورڈنگ ہاؤس کوجارہاتھاتووہ محسوس کررہاتھاجیسے وہ خودسیٹی پیٹی کابہروپے ہواورایک روزاسے بھی یونہی جلوس میں چلتے ہوئے پکارناہوگیا’’باادب باملاحظہ ہوشیار۔‘‘

الوداع

پھروہ سب امتحانات کی تیاری میں مصروف ہوگئے ۔شفیع صبح سویرے ہی اپنی ہاکی سٹک اورکتابیں اٹھاکرقریب کے باغ میں جابیٹھااوروہاں دن بھرپڑھنے اورسانپ مارنے کے مشاغل میں وقت کاٹتا۔آصف اوروہاں دن بھرپڑھنے اورسانپ مارنے کامشاغل میں وقت کاٹتا۔آصف اورایلی نہر کے کنارے جابیٹھے۔جہاںآصف پڑھنے کے علاوہ ٹھنڈی آہیں بھرتااورباربارایلی سے پوچھتا‘‘ایلی اب کیاہوگا‘‘اورایلی یہ سن کرسونے لگتااوراس وقت اس کے روبروشہزادآکھڑی ہوتی اس کے حنامالیدہ ہاتھ ایلی کی طرف بڑھتے اورپھرایک رنگین آوازسنائی دیتی۔’’ایلی تم‘مجھے تم سے یہ توقع نہ تھی۔‘‘
’’ایلی اب کیاہوگا۔‘‘آصف کی آوازسنائی دیتی اورپھرایلی کے سامنے وہ سیٹی پیٹی کادیوانہ آموجودہوتااورتحکمانہ اندازسے چلاتا’’باادب باملاحظہ ہوشیار۔‘‘
اللہ دادسارادن کمرے میں بیٹھارہتااورپڑھنے کے علاوہ سرپرآم کی گٹھلی رگڑتارہتااورپھرباآوازبلندبنگالی بابوکوگالیاں دیتاجس کی وجہ سے گوشت کھانے سے محروم کردیاگیاتھا۔
’’ان ہندوؤں کواللہ غارت کرے یامہاتمابدھ ان پراپناقہرنازل فرماکہ انہوں نے ایک سچے مومن پرگوشت کھاناحرام کررکھاہے۔‘‘
رام ان کوبن باس دے کہ انہوں نے مجھے دال کھلاکھلاکرتباہ کردیاہے میرامعدہ ہروقت لاحول پڑھتاہے۔‘‘
اللہ دادکاشورسن کرہرنام اورلیناسیان آجاتے اوروہ سب مل کرشورمچاتے۔ہوسٹل کابنگالی سپرنٹنڈنٹ اللہ دادکی بددعائیں سنتااورچوری چوری مسکراتاکیونکہ وہ خودمظلوم تھا۔سبھاوالوں نے اس پربھی مچھلی کھانے کے خلاف پابندی لگارکھی تھی۔
جب وہ سب امتحان سے فارغ ہوئے تواللہ دادنے سکھوں کے ساتھ مل کربورڈنگ میںایک جلوس نکالا۔وہ جلوس تین لڑکوں پرمشتمل تھاایک ہندوایک مسلمان اورایک سکھ،اللہ دادخوداس جلوس کالیڈرتھا۔وہ ہرکمرے میں جاکرنعرہ لگاتے۔
’’جے ہندو دھرم کی جے۔‘‘
’’اے بندوؤ۔‘‘اللہ دادچلاتا۔’’خداتمہاراکلیان کرے۔تم نے سال بھرہمیں دالیں کھلاکھلاکراندرباہر سے خوشبوداربنادیاہے۔‘‘اس پرباقی لڑکے چلاتے۔’’جے ہندودھرم کی جے۔‘‘
اللہ دادکے نعرے سن کررسوئی کے تمام نوکرمسرت سے سرہلارہے تھے۔وہ سمجھتے تھے کہ واقعی اندرباہرسے خوشبودارہوناایک قابل تعریف امرہے۔ہندوجذبات کے اثرسے بھیگی ہوئی تحسین بھری نگاہوں سے اللہ دادکودیکھ رہاتھا۔دوربنگالی بابوزیرلب مسکراتے ہوئے ٹہل رہے تھے۔ادھرآصف اپنی ہی دھن میں کھویاہوایلی کے کان میں کہہ رہاتھا’’اب کیاہوگااب میں گھرکیسے جاؤں گاایلی؟‘‘
عین اس وقت پرنسپل اپنی لینڈومیں آموں والی کوٹھی میں آدھمکا۔چندایک ساعت کے لئے پودوں کے پیچھے چھپ کروہ لڑکوں کی باتیں سنتارہاپھرمعاملہ کی نوعیت کوبھانپ کرمسکرایااوروہیں سے چلانے لگا۔’’اواللہ دادیہ کیساشورہے؟‘‘جلوس پرنسپل کودیکھ کرتھم گیا۔سکھ دفعتاًاپنے کھلے بالوں میں کنگھی کرنے میں مشغول ہوگئے ۔اوررامواورلالوبھاگ کررسوئی میں برتن صاف کرنے لگے۔اللہ دادایک ساعت کے لئے چپ چاپ کھڑارہااورپھراسے سوجھی۔
اس نے جیب سے آم کی خشک گٹھلی نکالی اوراسے اپنے سرپررگڑنے لگا۔
’’کیاکررہے ہواللہ داد۔‘‘پرنسپل نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
’’سلام پرنسپل جی۔سرسے خشکی نکال رہاہوں۔‘‘
’’ہوں۔لیکن تمہاری سرکی خشکی کبھی نہ جائے گی۔خشکی آم کی گٹھلی سے نہیں جاتی عقل سے جاتی ہے۔‘‘اس پرسب لڑکے ہنس پڑے۔
’’حضور۔‘‘اللہ دادنے ہاتھ جوڑکرکہا۔’’اسی عقل کے کھوج میں اس کالج میں آیاتھاپریہاں بھی نہیںملی۔‘‘
”اچھالڑکو۔“پرنسپل نے بات کارخ بدلا۔”مجھے تم سے سے کچھ کہناہے۔“اس پرچاروں طرف سے لڑکے بھاگ بھاگے آئے اورپرنسپل کے گردجمع ہوگئے۔
”آج تم امتحان سے فارغ ہوکراپنے اپنے گھرجارہے ہو۔تم میں سے کئی لڑکے واپس اس کالج میں نہیں اس کالج میں نہیں آئیں گے اسی لئے میں تم سب سے الوداع کہنے آیاہوں۔“
اس پرسب لڑکوں نے تالیاں بجائیں اورپھرپرنسپل سے مصافحہ کرنے کے لئے قطارمیں کھڑے ہوگئے ۔اس اثناءمیں بنگالی سپرنٹنڈنٹ بھی آگیااوروہ دونوں باری باری لڑکوں سے ہاتھ ملانے لگے۔

دوبھگوڑے

پرنسپل کے جانے کے بعدبنگالی بابوکے کہنے کے مطابق وہ سب اپنابستربوریاباندھے لگے اورپھرباری باری تانگوں میں بیٹھ کررخصت ہونے لگے۔ایلی کوبسترباندھتے دیکھ کرآصف نہیں چپکے سے اس کاہاتھ پکڑلیا۔
”ایلی۔“اس کی آوازمیںمنت تھی۔”تم چلے گئے تومیں کیاکروں گا۔ایلی۔“
ایلی نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھا۔
”ا ب تومجھے جاناہی ہوگا۔“وہ بولا۔
”کیوں یہاں رہنے میںکیاحرج ہے۔تمہاری تسلیم بھی تویہیں ہے۔“
”میری تسلیم۔“ایلی چونکالیکن جلد ہی سنبھل کربولا”ہاں وہ۔“
”تم پھرتم کیوں علی پورجاتے ہوفضول۔یہیں رہوایلی میرے ساتھ۔یہاں سے نوربے شبھ لگن ہے مہرہے سبھی تویہاں ہیں۔یہیں رہومیری خاطر۔ایلی۔“
”لیکن یہاں رہیں گے کہاں۔تمہارے گھرمیں؟“
”نئیں نئیں۔“وہ چلایا”گھرمیں میںکیسے جاسکتاہوں۔“
”توپھر۔“ایلی نے پوچھا۔
”ہم یہاں کوئی مکان کرائے پرلے لیں گے۔“آصف نے جواب دیا۔
ایلی امرتسرمیں رہنانہ چاہتاتھا۔اسے آصف اورسفینہ کی کہانی میں قطعی دلچسپی نہ تھی۔دلچسپی ہوتی بھی کیسے۔اگرآصف لڑکی میں اثباتی دلچسپی محسوس کرتا۔اگروہ اسے ملنے کے منصوبے باندھتا۔اگروہ خطوط لکھنے اوروہاں تک پہنچانے کی ترکیبیں سوچنے کے فکرمیں گھلتااورایلی سے ان امورمیں مددچاہتا۔توشایدایلی کواس رومان میں دلچسپی محسوس ہوتی۔سفینہ سے بچنے کی ترکیبیں سوچنے میں ایلی کوکوئی دلچسپی نہ تھی۔لیکن آصف سے انکارکرنابھی توممکن نہ تھااورویسے بھی شہزادکی کشش کے باوجودان حنائی ناگوں کے سحرکے باوجودوہ علی پورجانے سے ڈرتاتھا۔وہ شہزادکے قرب سے ڈرتاتھااوران لٹکتی ہوئی گوری بانہوں سے ڈرتاتھا۔جن میں الجھنے کی زبردست آرزواس کے سینے میں سلگ رہی تھی۔
درحقیت اس وقت وہ دونو ں آصف اورایلی ”بھگوڑے “تھے اوران کاوہ انوکھافراران الجھنوں کاحامل تھاجو بندھنوں کی پیداوارہوتی ہیں۔وہ دونوں زندگی سے دوربھاگ رہے تھے۔
انسان کی بنیادی خواہشات سے منکرتھے اورزندگی کے دھارے سے ہٹ کرکنارے کے بنداورمتعفن پانیوں کے بھنورمیں ڈبکیاں کھارہے تھے۔وہ بھگوڑے دراصل مریض تھے۔جنہیں یہ احساس نہ تھاکہ وہ کیاکررہے ہیں جنہیں شعورنہ تھاکہ وہ اپنے ہاتھوں سے اپنی زندگی کاگلاگھونٹ رہے ہیں اورمستقبل کوتباہ کرےہ رہے ہیں۔زندگی کے ہاتھی کوٹٹولنے والے دواندھے۔
وہ چوبارہ جوانہیں رہنے کے لئے کرائے پرملا۔ایک چھوٹی سی گلی میں واقع تھاجوہال بازارسے نکل کررام باغ کے بازارمیں جاملتی تھی۔اس گلی کی نچلی منزل میں تمام تردوکانیں تھیں جوسرشام ہی بندہوجاتی تھیں۔اوپرکی منزل میں زیادہ ترگودام تھے جودن رات بندرہتے اس وجہ سے گلی ویران اورسنسان رہتی۔لیکن ان کے چوبارے کے جنگلے کی کھڑکیوں کے عین مقابل میں ایک نوجوان رقاصہ کی بیٹھک کاپچھلاحصہ تھا۔بیٹھک کی کھڑکیاں رام باغ کے بازارمیں کھلتی تھیں۔صدردووازبھی اسی بازارمیں تھامگر--پچھلے حصے کی کھڑکیاں اس چوبارے کے مقابل کھلتی تھیں۔
اس چوبارے میں دونوں بے سروسامان حالت میں جابیٹھے ۔ان کی پاس ایک ٹوٹے ہوئے ٹرنک اوردوبستروں کے سواکچھ نہ تھا۔کھڑکیوں کے پاس انہوں نے زمین پربستربچھائے اورموم بتیوں کاپیکٹ دیاسلائی سگریٹ سرہانے رکھ کردونوں بیٹھ گئے۔چندایک منٹ کے لئے وہ اجنبی ماحول کے متعلق باتیں کرتے رہے پھرخاموش ہوگئے۔خاموش گہری ہوتی گئی اورگلی کی ویرانی اوراس کے عقب میں بازارکادبا دبا شورخوفناک صورت اختیارکرتے گئے۔حتیٰ کہ رات کے اندھیرے نے اسے اوربھی بھیانک بنادیا۔
”ایلی۔“آصف نے لمبی آہ بھری۔
”ہاں۔“
”اب کیاہوگا؟“‘
”کیوں؟“ایلی نے پوچھا۔
”اب میں کیاکروں گا؟کیسے گھرجاوں گا؟“
”تم توخواہ مخواہ ڈرتے ہو۔“ایلی نے جواب دیا۔
”توکیاگھرچلاجاوں۔“آصف نے پوچھا۔
”تمہارااپناگھرہے۔“ایلی بولا۔
”لیکن محلے والے کیاکہیں گے۔“
”پڑے کہیں تم کوئی جرم کیاہے کیا۔“ایلی نے چمک کرکہا۔
”لیکن میں اس سے نجاب کیسے پاوں گا۔“
”نجات پانے کی ضرورت ہی کیاہے۔دیکھتی ہے توپڑی دیکھے۔تمہاراکیالیتی ہے۔تمہاراکیابگڑتاہے۔“
”سچ “آصف اٹھ کربٹیھ گیا۔
”اورکیا“ایلی نے تن کرکہا۔
”اوراگروہ آوازے کسے تو؟“
”توکیاکسنے دو؟“
”مگراس کاانجام کیاہوگا؟“
”انجام اچھاچاہتے ہوتواس پرظاہرکروکہ تمہیں اس سے محبت ہے۔“
”لیکن کیسے ظاہرکروں۔“
”تم اس کی طرف دیکھو۔“
”بس اتنی سی بات ہے۔“آصف نے مسکراکرپوچھا۔
”اورکیاوہ مطمئن ہوجائے گی اورتمہیں تنگ نہ کرے گی۔“ایلی نے وثوق سے کہا۔
”سچ ۔میں نے کبھی نہیں سوچاتھا۔“
”اس کے بعدآصف خاموش ہوجاتااورکسی گہرے خیال میں کھوجاتااوردیرتک وہ دونوں چپ چاپ لیٹے رہتے۔پھردفعتاً آصف چونکتا۔
”مگرایلی“آصف مدھم آوازمیں کہتاجیسے اپنے آپ سے کہہ رہاہو۔”اس طرح توبات بڑھ جائے گی۔“
”ہاں بات توبڑھ جائے گی۔“
”توپھرکیاہوگا؟“
”توپھر--“ایلی سوچ میں پڑجاتا۔
”اگلے روزصبح سویرے ہی آصف نے ایلی کوجگایا۔
”ایلی ایلی۔“اس نے اسے جھنجھوڑا۔ایلی کے بیدارہونے پروہ مسکرانے لگااس کی آنکھوں میں عجیب سی پھوارپڑرہی تھی۔”ایلی۔“وہ چلایا۔“چلومیں تمہیں دکھاوں ۔چلواوپرکوٹھے پر۔“
”اوپر“ایلی نے حیرانی سے پوچھا۔
”ہاں “وہ بولا۔وہ کوٹھے پرکھڑی ہے۔“
”وہ --؟یہاں کوٹھے پر۔“
”اپنے گھرکے کوٹھے پریہاں سے صاف نظرآتاہے۔آومیں تمہیں دکھاوں۔“
”لیکن وہ کون۔“ایلی کوکچھ سمجھ میں نہیں آرہاتھا۔
”بھئی وہی۔آونا۔“
”وہی تمہارے والی سفینہ ۔“
”ہاںہاں وہی۔کوٹھے سے صاف دکھائی دیتی ہے۔اپنے گھرکی چھت پرکھڑی ہے۔“
لیکن تمہارامحلہ تودورہے یہاں سے ۔“
”نہیںتواس چوبارے کے عین پچھواڑے میں ہے۔یہ ہال بازارکے پیچھے اس کٹڑے کے بائیں ہاتھ۔“
”لیکن --“ایلی کویقین نہ آتاتھا۔
”راستہ گھوم پھرکرجاتاہے ویسے یہاں سے قریب ہے چلونا۔بیچاری کھڑی میری راہ دیکھ رہی ہوگی ابھی تک ہمت نہیں ہاری،حالانکہ مجھے گھرسے نکلے اتنی دیرہوچکی ہے۔حدکردی اس نے یہ تومیری جان لے کرہی چھوڑے گی۔“
کوٹھے سے ایلی نے اس طرف نگاہ دوڑائی جدھر آصف اشارہ کررہاتھا۔چاروں طرف منڈیروں کوٹھوں اورچھتوں کاایک طوفان پھیلاہواتھااوروہ منڈیریں اورچھتیں ایک دوسرے سے شانے جوڑکرکھڑی تھیں۔جیسے ایک دوسرے کاسہارالے رہی ہوں ایسے محسوس ہوتاتھاجیسے مکانات مسمارہونے کے بعدملبے کے ڈھیربن گئے ہوں اورڈھیروں میں چند بالشتئیے چل پھررہے ہوں۔
”وہ دیکھووہ“آصف شرماتے ہوئے بولا۔”وہ جونیلی برساتی کے پاس زردرنگ کی منڈیروں والی چھت ہے اوراس کے قریب میلے سے کوٹھے پروہ جس کے پیچھے بڑے بڑے سوراخ ہیں دیوارمیں ان پردوں کے پاس وہ سفیدکپڑوں میں ملبوس لڑکی ہے ناآئی نظربس وہی ہے دیکھا۔“
غورسے دیکھنے کے باوجودایلی کوچھتوں کے انبارکے سواکچھ دکھائی نہ دیا۔لیکن آصف کے اصرارسے بچنے کے لئے اسے کچھ دیر کے بعد”ہاں ہاں--ہو“کہناہی پڑا۔
”اب دیکھ لو۔“آصف بولا۔”یوں کھڑی رہتی ہے جیسے پتھرکابت کھڑاہو۔“
”ہاں۔“ایلی بولا۔”تم نے تواسے پتھرکابنادیا۔“
”سچ “آصف سے مسکراتے ہوئے ایلی کی طرف دیکھا۔”وہ بھی یہی کہتی ہے۔“
”سچ کہتی ہے وہ۔“ایلی نے جواب دیا۔
”تم بھی یہی سمجھتے ہوکیا۔“آصف نے آہ بھرکرپوچھا۔
”تم اسے خواہ مخواہ بربادکررہے ہوآصف۔“ایلی غصے میں بولا۔
”میں؟“آصف نے مظلوم نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا۔
”ہاں تم۔“ایلی چلایا۔
”نہیں نہیں ایسانہ کہو۔“آصف نے منت کی۔
”اسے تم سے محبت ہے۔“ایلی نے جواب دیا۔”اسی لئے تم اسے ذلیل کررہے ہو۔“
”کیاواقعی محبت ہے اسے؟“آصف نے پوچھا۔
”ظاہرہے اورکیا۔“ایلی نے جواب دیا۔
”میں توسمجھتاہوں کہ اس کامقصدصرف مجھے بدنام کرناہے۔“
”تم پاگل ہوآصف۔“
”کیوں؟“وہ چلایا۔
”کیااس طرح وہ خوبدنام نہیں ہوتی۔“
”اسے بدنامی کی پروانہیں۔“
”لڑکی ہوکربدنامی کی پروانہیں؟کتنی عجیب بات کرتے ہوتم۔“
”ہاں عجیب سی ہی معلو م ہوتی ہے۔“آصف سوچ پرپڑگیا۔
اس قسم کی بے ڈھنگی باتیں کرتے کرتے دفعتاًوہ دونوں خاموش ہوجاتے۔آصف نہ جانے کس سوچ میں پڑجاتااورایلی کاجی چاہتاکہ اس کابھی کوئی انتظارکرے اس کے لئے بھی کوئی چھت پرکھڑی رہے حتیٰ کہ صبح سے شام ہوجائے۔اس کے لئے وہ ساری دنیاکامقابلہ کرنے کوتیارتھا۔ساری دنیاکوٹھکرانے لے لئے بے تاب تھا۔
پھردفعتاً ایک دھندلی سی شکل ایلی کی نگاہوں تلے واضح ہونے لگتی۔دوسفیدبانہیں لٹکتیں۔دوشنگرنی ہاتھ بڑھتے اورماتھے کے عین درمیان میںایک سیاہ تل ابھرآتا۔شہزادمسکراتی اورکہتی ”ایلی تم کیاتم دنیاوالوں کی پرواکرتے ہو؟“اس وقت ایلی خاموش ہوجاتااورآصف کی آوازسن کرچونک پڑتااوراس کاوہ حسین خواب ٹوٹ جاتا۔
اس طرح ایک دوسرے سے دورایک دوسرے سے بیگانہ وہ دونوں قریب قریب بیٹھ رہتے اوردیوانوں کی طرح اس اجڑتے ہوئے منڈیروں کے ڈھیرکی طرف دیکھتے رہتے۔

نرالی تجویز

ایک روزآصف بولا۔”ایلی کوئی ایساطریقہ نہیں کیاکہ وہ جھوٹی ثابت ہوجائے اورمیں اسے طعنہ دے سکوں۔“
ایلی کوبات سمجھ میں نہ آئی۔”میں نہیں سمجھا۔“وہ بولا۔
”مطلب یہ ہے کہ میں اسے کوئی ایسی فرمائش کروں جو وہ پوری نہ کرسکے اورپھرمیں اس سے کہوں بس دیکھ لی تمہاری محبت ۔“
”یہ توسیدھی سادھی بات ہے۔“ایلی چلایا۔”اسے کہہ کریوں اعلانیہ تم سے اظہارمحبت نہ کرے۔“
”اونہوں“آصف نے نفی میں سرہلایا۔”یہ وہ نہیں مانتی۔کوئی اوربات ہو۔“
”کوئی اوربات “ایلی سوچ میں پڑگیا۔دیرتک وہ دونوں خاموش رہے پھردفعتاًایلی نے چٹکی بجائی۔بن گئی بات۔
”کیا؟“آصف نے پوچھا۔
”اس سے بہترتجویرنہیں ہوسکتی۔“ایلی نے خوشی سے اچھل کرکہا۔
”کیاتجویزہے؟“آصف شوق سے ایلی کے قریب ترہوگیا۔
”لیکن اس پرعمل کرنے کے لئے تمہیں گھرجاناپڑے گا۔“ایلی بولا۔
”ہاں۔“آصف بولا۔”میں چلاجاوں گا۔“بتاوتو۔“
”جب تم گھرجاو توکوٹھے پرچلے جانا۔“ایلی نے گرمجوشی سے کہا۔
”گھرجاتاہوں توکوٹھے پرتوضرورجایاکرتاہوں اگرچہ لوٹالے جاتاہوں۔ویسے ہی دکھانے کو۔“آصف بولا۔
”اوروہ کوٹھے پرآجائے گی۔آجائے گی نا۔“
”ہاں۔وہ تواکثرکوٹھے پرہی رہتی ہے اورمجھے دیکھتے ہی اعلانیہ سلام کرتی ہے جھک کربڑے ادب سے۔“آصف ہنسنے لگا۔
”اب کی مرتبہ وہ سامنے آئے تواسے اشارہ کرکے اپنی قمیض کے نچلے کونے کوپکڑکراوپراٹھانا۔یہاں تک کہ بازوکے اوپرانگڑائی کی صورت معلق ہوجائیں۔“
”اس سے کیاہوگا؟“آصف نے پوچھا۔
‘’اس سے قمیض کااگلاحصہ اوپراٹھ جائے گا۔“
”پھر؟“آصف اس کے قریب ترہوگیا۔
”تمہاراساراجسم ننگاہوجائے گا۔“
”لیکن اس کافاہدہ۔“
”پھراس اشارہ کرناکہ وہ بھی ایساکرے ۔اشارے سے کہنامیری خاطر۔“
”یوں کرنے سے تواس کاجسم بھی ننگاہوجائے گا۔“آصف گھبراکربولا۔
”ہاں ۔“ایلی نے بڑے فخرسے کہا۔
”لیکن وہاں کوٹھے پراسے ننگاکردینا“--آصف ہچکچاکربولا۔”نہیں۔نہیں۔“
”یہی توبات ہے۔“ایلی نے کہا۔”وہ عورت ہے حیامانع ہوگی۔وہ مجبورہوگی اورتمہاری فرمائش پوری نہ کرسکے گی۔“
”ہوں۔“آصف بولا--“لیکن اگراس نے قمیض اٹھادی تو--“
قمیض اٹھادی تو--ایک ساعت کے لئے ایلی گھبراگیااس نے اس امکان پرغورہی نہ کیاتوپھربولا۔”نہیں نہیں وہ ایسانہیں کرسکتی خصوصاً کوٹھے پرکھڑی ہوکرایسا نہ کرے گی پھرتم تمسخرسے ہنس دینابس یہی ہے تمہاری محبت۔“
”لیکن تمسخرسے کس طرح ہنسوں گامیں ۔“آصف نے پوچھا۔
”جیسے تمسخرسے ہنستے ہیں۔“ایلی نے جواب دیا۔
پھرو ہ دونوں تمسخرسے ہنسنے کی کوشش کرنے لگے۔

سنگ مرمرکامجسمہ

اگلے روزصبح سویرے ایلی نے بصدمشکل آصف کوگھرجانے پرمجبورکردیاتاکہ وہ گھرجاکراس کی نئی تجویزپرعمل کرسکے۔نئی تجویزپرعمل کرنے کے لئے آصف گھرجاچکاتھااورایلی ردعمل کی تفیصلات جاننے کے لئے اس کاانتظارکررہاتھا۔
اس کے ذہین کی عجیب کیفیت تھی۔اس کادل گواہی دے رہاتھاکہ وہ لڑکی آصف کے کہنے پراپنی قمیض نہیں اٹھائے گی۔وہ اپنے آپ کودنیاکے سامنے عریاں نہ کرے گی۔مگردفعتاًاس کاسلسلہ خیال ٹو ٹ جاتااوردل میں یہ خواہش ابھرتی کہ وہ قمیض اٹھالے تاکہ آصف واپس گھرجانے پرمجبورہوجائے اوراس ویران چوبارے میں رہنے سے نجات مل جائے۔پھروہ لاحول پڑھنے لگتااوراسے احساس ہوتاکہ وہ کمینہ ہے جواپنے فائدہ کے لئے آصف کوگھرجانے پراکسارہاہے۔پھروہ چلااٹھتا۔“نہیںنہیں ایسانہیں ہوسکتاایسانہیں ہوگا۔
اس نے اپنے پیچھے آہٹ سنی۔”آصف “وہ چلایا۔”تم آگئے ۔“آصف ایک بت کی طرح اس کے عقب میں کھڑاتھا۔چہرے پرمرونی چھائی ہوئی تھی۔ہونٹ لرزرہے تھے ۔بازولٹک رہے تھے۔
”آصف “ایلی اس کی طرف مڑا”کیاہواآصف؟“
آصف سے اثبات میں سرہلادیا۔اس کی آنکھیں آنسووں سے چھلک رہی تھیں۔
”لیکن وہ۔وہ“وہ رک گیا۔”وہ لڑکی۔“
آصف نے اثبات میں سرہلانے کی کوشش کی۔
”اس نے کیاکیابولو۔“ایلی اضطراب سے دیوانہ ہورہاتھا۔
آصف نے پھراثبات میں سرہلادیااوراس کاسرایلی کی چھاتی پرلٹک گیا۔
”خداکے لئے بولو۔“ایلی چلایا۔
”ہاں اس نے قمیض اٹھادی۔“آصف زیرلب بولااوراس کے گالوں پردوموٹے موٹے آنسوڈھلک آئے۔
”بالکل ہی اٹھادی؟“ایلی نے دیوانہ وارپوچھا۔
”ہاں۔بالکل۔“
”پھر؟“ایلی کاسربھڑکے ڈنک کی طرح بھن بھن کررہاتھا۔
”ڈرسے مرے ہاتھ پاوں پھول گئے۔“آصف نے جواب دیا”اورمیں بھاگاکہ مجھے کوئی وہاں دیکھ نہ لے۔“
”اوروہ۔“ایلی نے پوچھا
”وہ ویسے ہی کھڑی تھی جیسے سنگ مرمرکاکوئی مجسمہ ہو۔سرکٹامجسمہ۔“
وہ دونوں خاموش ہو گئے۔ایلی تنکے سے زمین کریدنے لگااورآصف دیوارسے سہارالگاکرکھڑاہوگیااس کی آنکھوں سے آنسوبہہ رہے تھے۔دیرتک دونوں خاموش رہے۔
”ایلی۔“دیرکے بعدآصف گنگنایا۔
”ہاں۔“ایلی چونکا۔
”اس کاجسم اتناخوبصورت--“شدت جذبات سے آصف کی آوازرک گئی۔
”آصف ۔“دفعتاًایلی اٹھ بیٹھا۔”تم اب جاو۔یہاں رہنے کاکوئی فائد ہ نہیں کوئی نہیں۔“
”ایلی“--آصف چلایا۔
”اب تمہیں جاناہی ہوگا۔میں شام کی گاڑی سے علی پورجارہاہوں۔“
”ایلی ۔ایسانہ کرو۔“آصف نے منت سے کہا۔”میں تباہ ہوجاوں گا۔“
”نہیں ۔“ایلی بولا”اب تمہیں اسے اپناناہی ہوگا۔“اوروہ نیچے اترکاسامان باندھنے لگا۔
”ایلی --“آصف نے آخری باراسے پکارا۔لیکن وہ زینہ میں پہنچ چکاتھا۔
”اگرتم سیدھے گھرنہ گئے آصف تومیں تم سے کبھی نہ بولوں گا۔“یہ کہہ کرایلی گلی میں اترگیا۔
آصف نے حسرت بھری نگاہ سے ایلی کی طرف دیکھااوردیکھتارہاحتیٰ کہ وہ نظروں سے اوجھل ہوگیا۔
٭٭