میراثین
انہی دنوں علی پورمیں میراثنوں کاایک نیاٹولہ آیاتھا۔ان میں ایک میراثن زہرہ غضب کی رسیلی تھی۔جب وہ گاتی اس کاحلیہ ہی بدل جاتا۔اس پرایک عجیب کیفیت چھاجاتی ایسی کیفیت کہ دیکھنے والے مبہوت ہوکررہ جاتے۔
محلے کہ جوان بیچارے انتظارمیں رہتے تھے کہ کوئی بہانہ ہاتھ آئے تووہ میراثنوں کوبلائیں اورچھت پرچاندی بیٹھ کرزہرہ کوگاتے دیکھیں۔
کوٹھے پرایک طرف عورتیں بیٹھ جاتیں۔درمیان میں میراثنوں کے لئے جگہ مقررکردی جاتی۔دوسری طرف محلے کے جوان بیٹھ کرزہرہ کی طرف متبسم نگاہوں سے دیکھتے ۔جب وہ عورتوں کی طرف دیکھتی تواس کے چہرے پرمردنی چھائی ہوتی۔لیکن جب وہ جوانوں کی طرف آنکھ اٹھاتی تودفعتاًگویاسوکھاہواپھول ازسرنوتازہ ہوجاتااس پرجوانوں کے ہاتھ چپ چاپ جیبوں میں کچھ ٹٹولنے لگتے۔زہرہ کے ساتھیوں کے چہروں پرمسرت کی لہردوڑجاتی اوران کی تانوں میں جوش پیداہوجاتا۔
محلے کی عورتیں میراثنوں کوپسندنہ کرتی تھیں اگرچہ وہ اس بات کوتسلیم کرنے پرمجبورتھیں کہ ان کے آنے سے محلے میں رونق کی لہر دوڑجاتی ہے اورتقریب میں چہل پہل پیداہوجاتی ہے۔مگرنوجوانوںکامسکرامسکراکرزہرہ کی طرف دیکھنااورروپے پرروپے دیتے جاناانہیں بے حدناپسندتھا۔
محلے میں صرف چندایک لڑکیاں ایسی تھیں جومحلے کی عام عورتوں کے برعکس ایسے مواقع پرخوش دکھائی دیاکرتی تھیں ان میں شہزادپیش پیش تھی۔ڈھولک کی آوازسن کراس کی آنکھوں میں گلابی چھینٹے اڑنے لگتے شانوں پرریشمیں ڈوپٹے کاسنبھالنامشکل ہوجاتا۔بازویوں بات بات پرلہراتے جیسے کتھاکلی کے مندرااداکررہی ہو۔اس کی آوازبھی بدل جاتی تھی۔گلے کے سرچڑھ جاتے اوربات میں لوچ پیداہوجاتا۔
ہرنی ہے ہرنی
شہزادکی اس بات پرمحلہ والیوں میں چہ میگوئیاں ہوتی ۔دبی دبی آوازیں سنائی دیتیں۔
’’آخرخاندان کااثر نہیں جاتابہن۔‘‘
’’خودبھی توگاتی ہے۔سناتھا۔جب دولہن بن کرآئی تھی خوداپنے بیاہ پرگانے لگی تھی۔توبہ ذرانہ جھجھکی۔‘‘
’’میں کہتی ہوں چاچی یہ چیزیں خون میں ہوتی ہیں ہاں کہے دیتی ہوں۔‘‘
’’ابھی تودیکھتی جاؤچاچی۔ابھی دیکھاکیاہے۔‘‘
’’نہ اللہ نہ کرے۔اب توخدااٹھاہی لے تواچھاہے بہن۔‘‘
’’ہے اوروہ میراثن توبہ یوں دیکھتی ہے ۔جیسے آنکھوں کی جگہ میخیں ہوں۔بس گاڑدیتی ہے نگاہیں۔‘‘
’’آج کل کے نوجوانوں کوتویہی پسندہے بہن۔‘‘
’’توبہ وہ توان میخوں پربچھے جاتے ہیں۔‘‘
جب سے شہزادمحلے میں آئی تھی۔محلہ والیاں اسے حیرانی سے دیکھتی تھیں اورمنہ میں انگلی ڈال کرکھڑی کھڑی رہ جاتیں۔مگرشہزادنے کبھی اس تفیصل کواہمیت نہ دی تھی۔اسے محسوس ہی نہ ہواتھا کہ وہ اس کی طرف حیرانی سے دیکھتی ہیں اوراس کی حرکات کابغورجائزہ لیتی ہیں۔
وہ چلتے چلتے چاچی کی طرف دیکھ کرشورمچادیتی۔’’سناچاچی کس کاانتظارکررہی ہے۔فکرنہ کرواب آتے ہی ہوں گے ۔چچا۔‘‘اورپیشتراس کے کہ چاچی جواب دیتی وہ اس کے پاس سے نکل جاتی اورکسی اورسے جاکربات کرنے لگتی۔
’’باباعمروہیں۔سلام کہتی ہوںبابا۔نمازپڑھ کرآئے ہو۔یہ کس وقت کی نمازہوئی ۔دن میں نونمازیں پڑھتے ہوکیا۔‘‘اورپیشتراس کے باباکچھ کہیں وہ کسی بچے سے بات شروع کردیتی۔
رفیق اورسکینہ
’’شہزادکی عادتیں انوکھی تھیںجومحلے والیوں کی نگاہوں میں کھٹکتیں مگر اس کی ہنس مکھ طبیعت کی وجہ سے ۔
محلہ والیاں خاموش رہتی تھیں۔پھربھی دبی دبی رہنے کے باوجودبات نہ دبی اورمحلہ والیوں کی شرگوشیاں جاری رہیں۔’’ہرنی ہے ہرنی۔‘‘وہ اسے دیکھ کرکہتیں ۔’’کلیلس بھرتی ہے۔‘‘شایدسرگوشیوں میں لذت پیدانہیں ہوتی۔
اس لئے آہستہ آہستہ ان سرگوشیوں میں شہزادکے ساتھ رفیق کانام شامل کرلیاگیااورمحلے والیاں رفیق کی طرف مشکوک نگاہوں سے دیکھنے لگیں۔شایدرفیق کی طرف انگلیاں نہ اٹھتیں مگرمشکل یہ تھی کہ رفیق کی شادی ہوچکی تھی اوروہ بچپن ہی سے سکینہ کاخاوندبن چکاتھاجو اس کی ہرحرکت پرکڑی نگاہ رکھتی تھی اوراس کی ہرجنبش میں مقصدڈھونڈتی تھی۔رفیق کی آنکھوں میں بونداباندی ہوتی دیکھ کراس کے کپڑوں میں عطرکی خوشبومحسوس کرکے وہ ایک گہری سوچ میں پڑجاتی۔
رفیق اورسکینہ ایک قدامت پسندگھرانے کے افرادتھے۔ خاوندبیوی ہونے کے باوجودایک دوسرے سے آزادانہ طورپرمل نہ سکتے تھے۔ایک دوسرے سے بات کرنے کے لئے بھی انہیں بہانوں کاسہارالیناپڑتاتھااورپھرموقعہ اورمحل کودیکھناپڑتا۔رفیق کورومال دھلواناہوتاتووہ اسے دھوڈالناآج۔‘‘یہ کہتے ہوئے وہ سکینہ کی طرف قطعی طورپرنہ دیکھتااورچولہے کے قریب بیٹھی ہوئی،سکینہ ہنڈیامیں جھانکتے ہوئے گنگناتی’’رکھ دیجئے۔‘‘پھررفیق رومال کوجھاڑکریوں گرادیتاجیسے مداری تماشادکھارہاہو۔پھروہ باہرنکل جاتااورسکینہ لمباگھونگٹ سنبھالے آتی اورگراہوارومال اٹھالیتی اوراس سمت قطعی طورپرنہ دیکھتی۔جس سمت کورفیق گیاہوتا۔ان حالات میں سکینہ اپنے شوہرکونیچی نظروں سے دیکھنے کے سوااورکرہی کیاسکتی تھی۔اس کے برعکس رفیق شہزادسے سراٹھاکرملتاتھا۔اگرچہ بات عزت سے کرتاتھا۔لیکن اس کابہانے بہانے شہزادسے ملنا’’چچی کچھ منگواناتونہیں۔میں بازارجارہاہوں۔چچی ایسے اچھے چاول آئے ہیں۔بنواری لال کی دوکان پرمنگوانے ہیں کیا۔چچی چائے سستی ہوگئی ہے۔چچی بڑااچھاکپڑامنڈی میں آیاہے۔‘‘
دن میں رفیق دوبارشہزادکی طرف جاتااورپھردیرتک آہستہ آہستہ اس سے باتیں کرتارہتااورباتوں کے دوران میں سی سی کرنے کے علاوہ جھجکتااورگھبراگھبراکرادھرادھردیکھتا۔اس وقت اس کی آنکھوں سے پھلجھڑیاں چلتیں اورکانوں پرسرخ چیونٹیاں رینگتیں۔
رفیق کی بیوی سکینہ اسے شہزادکی طرف آتے دیکھ کراپنے لمبے گھونگٹ سمیت کوٹھے پرچڑھ آتی اوران کی طرف کھڑکی چھت یاطاق سے چوری چوری جھانکتی۔انہیں قریب قریب کھڑے دیکھ کررفیق کے متعلق نہ جانے کیاکیااندازے لگاتی۔پھراکیلے میں بیٹھ کرآنسوبہاتی اورمحلے والیاں اسے اداس دیکھ کرچہ میگوئیاں کرتیں اوران کی سرگوشیوں میں رفیق اورشہزادکے نام سنائی دیتے۔
ایلی نے بھی کئی ایک بارانہیں یوں قریب کھڑے باتیں کرتے ہوئے دیکھاتھااورخواہ مخواہ اس کے دل میں بھی جلن پیداہوئی تھی۔پھرتنہائی میں بیٹھ کرسوچتارہاتھا’’رفیق اثر پیداکرسکتاہے توکیاہے۔‘‘اس نے لاحول پڑھ کراس خیال کودل سے نکال دیاتھا۔لیکن یہ تواس زمانے کی بات تھی جب اسے تسلیم سے محبت نہ ہوئی تھی۔اب توجب بھی شہزادکی طرف دیکھتاتواس کی نگاہوں میں شہزادکے خدوخال دھندلے پڑجاتے اوراس رنگین دھندلکے میں سفیددھبے چمکتے اورگنگھریالے بالوں کی لٹ لہراتی اوروہ محسوس کرتاجیسے وہ شہزادنہیں بلکہ تسلیم ہوجیسے تسلیم نے بھیس بدل رکھاہو۔
ڈبل اینٹ
علی پورکے ان مشاغل میں ایلی کی چھٹیاں گویاچشم زون میں ختم ہوگئیں ۔اوروہ علی پورسے امرتسرچلاآیاکالج جانے سے پہلے آصف کے گھرگیااوردیرتک اسے آوازیں دیتارہابالآخران کانوکرنیچے آیا۔’’آصف صاحب ہیں۔‘‘اس نے پوچھا۔’’جی میں دیکھتاہوں۔‘‘وہ بولا’’آپ کانام کیاہے؟‘‘آصف نے توکبھی ایسانہ کیاتھا۔جب بھی ایلی اس تنگ گلی میں کھڑاہوکرآوازدیتاتوکھڑکی سے آصف جھانکتااورمسکراکرکہتا’’آیاابھی۔‘‘اس سے پہلے تونوکرنے کبھی نیچے آکرنہ کہاتھا’’جی میں دیکھتاہوں۔آپ کانام کیاہے۔‘‘
نوکردوسری بارآیا’’جی آئیے۔‘‘وہ بولا۔وہ اسے بیٹھک میں لے گیا۔’’بیٹھے وہ ابھی آتے ہیں۔‘‘وہ بیٹھک بہت ہی مختصرساکمرہ تھاجس کے کونے میں پلنگ پڑاتھااوردوسری جانب ایک میزاوردوکرسیاں رکھی ہوئی تھی،دوبڑی کھڑکیاں اورروشندان گلی میں کھلتے تھے۔ایلی نے آصف کی بیٹھک کودیکھ کرمحسوس کیاجیسی وہ بدلی بدلی سی ہو۔پہلے تواس میں اتنااندھیرانہ ہوتاتھانہ ہی وہ اس قدرویران تھی۔پہلے روشندانوں میں شیشے لگے ہوئے تھے لیکن اب ان پرٹاٹ لگاکربندکردیاگیاتھا۔
کچھ دیرکے بعدآصف داخل ہوااس کاچہرہ زردتھاآنکھیں روئی روئی نظرآتی تھیں اوراندازمیں جھجک تھی۔ایلی طرف دیکھ کراس نے مسکرانے کی کوشش کی لیکن اس کی مسکراہٹ بے حداداس تھی۔
’’تم آگئے ۔‘‘وہ بولا’’میں محسوس کررہاتھاکہ تم کبھی نہیں آؤ گے اورکالج ہمیشہ بندپڑارہے گااور۔۔اور۔۔’’اس کی آنکھیں بھرآئیں۔
’’تم بیمارہوکیا؟‘‘ایلی نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھا۔
’’نہیں ۔ہاں بیماری سمجھ لو۔‘‘وہ بولا۔
’’کیاتکلیف ہے۔؟‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’تکلیف ۔‘‘آصف مسکرایا’’تکلیف نہیں روگ لگاہے۔‘‘وہ ایلی کے قریب ترہوکرزیرلب باتیں کررہاتھا۔جیسے اپنی آوازسے ڈررہاہو۔
’’آخربات بھی توبتاؤنا؟‘‘ایلی نے چیخ کرکہا۔
آصف گھبراگیا۔’’خداکے لئے آہستہ بولو۔کوئی سن نہ لے۔‘‘
’’کون سن رہاہے تمہاری بات۔‘‘ایلی نے پوچھا
’’سن رہاہے۔سن رہاہے۔‘‘ اس نے روشن دانوں کی طرف اشارہ کیا۔
عین اس وقت گلی میں کسی نے قہقہہ لگایا۔ایلی چونکا:’’یہ کون ہنس رہی ہے؟‘‘
چلویہاں سے چلیں ۔وہ گھبراکربولا:’’لیکن ایسے نہیں تم پہلے جاؤ میں آجاؤں گا۔بازارمیں ملوں گا۔جلدی کرو جلدی۔‘‘
اس کارنگ ہلدی کی طرف زردہورہاتھا۔’’کھڑکی کھول دو۔‘‘قریب سے پھروہ عجیب وغریب آوازآئی۔
’’یہ ہے کون؟‘‘ایلی نے پوچھا۔آصف کاچہرہ اوربھی زردپڑگیا۔ہونٹ کانپنے لگے۔’’خداکے لیے بازارمیں میراانتظارکرنا۔شایدمجھے دیرہوجائے۔‘‘
عین اس وقت ایک ڈبل اینٹ روشندان کے ٹاٹ سے ٹکراکردھڑام سے گلی میں گری۔
باہرنکلتے ہوئے ایلی نے چوری چوری ایک نظرمقابل کے چوبارے پرڈالی۔کھڑکی میں کوئی کھڑاتھا۔اس کے سیاہ لمبے بال کھلے ہوئے تھے اورچہرہ سرخ ہورہاتھا۔
’’اس سے کہوباہر نکلے۔‘‘وہ چلائی۔
ایلی ڈرکربھاگاکہ کوئی اینٹ اس کے سرپرنہ گرجائے۔
کوئی نہیں کسی سے نہیں
بازارمیں وہ دیرتک ٹہلتارہامگرآصف نہ آیااس کاجی چاہتاتھاکہ پھرسے گلی میں داخل ہوجائے اورجاکراسے آوازدے مگرجرأت نہ پڑتی تھی۔نہ جانے وہ اینٹ کس نے ماری تھی نہ جانے وہ ڈانٹ کیوں رہی تھی۔نہ جانے وہ کون تھی اورحالات کیاتھے۔دیرتک وہ کھڑاسوچتارہااورپھران جانے میں اس نے اپنارخ آغاکے گھرکی طرف موڑلیااورپھرجواس نے نگاہ اٹھاکردیکھاتووہ تسلیم کی سیڑھیوں میں کھڑاتھا۔غیرازمعمول اس نے دروازہ کھٹکھٹایا۔لیکن گھرگویاویران پڑاتھاکوئی آوازنہیں آرہی تھی ڈیوڑھی زینہ اوربیٹھک سب ویران پڑے تھے۔اس نے پھردروازہ کھٹکھٹایا۔دورسے پاؤں کی چاپ سنائی دی۔اس کادل دھڑکنے لگا۔
’’کو ن ہے؟‘‘تسلیم کی آواز سن کراس کے اوسان خطاہوگئے۔دروازے میں تسلیم کاسفیدڈوپٹہ لہرایااورپھرایک گھنگھریالی لٹ جھلکی۔
’’تسلیم۔‘‘ایلی نے زیرلب کہا۔
’’اوئی اللہ۔‘‘وہ چلاپیچھے ہٹ گئی اورپھرہنسنے لگی۔
’’گھرکوئی نہیں۔‘‘وہ ہنستی ہوئے بولی۔اس کی ہنسی میں واضح اشارہ تھا۔
’’مجھے کوئی نہیں سے ملتاہے۔‘‘ایلی نے کہا۔
’’کوئی نہیں۔کسی سے نہیں ملتے ۔‘‘وہ پھرہنسی۔
’’ہاں ہاں۔‘‘ایلی نے کہا۔’’میں کسی سے نہیں ہوں۔‘‘
’’پڑے ہو۔‘‘وہ تنک کربولی۔’’ہم کیاکریں۔‘‘
’’یہی توتمہیں بتانے آیاہوں۔‘‘وہ بولا۔کہ تم کیاکرو۔‘‘
’’نہ جی۔‘‘ وہ کہنے لگی۔’’ہمیں نہ بتائیے کچھ ۔ہم نہیں سنتے ایسی ویسی بات۔کہوکام کیاہے؟‘‘
’’کام وہ آن پڑاہے۔‘‘ایلی گنگنانے لگا’’خداکے لئے ذرادروازے میں توآؤ۔‘‘
’’نہ میں نہیں آتی۔‘‘
’’ضروری بات ہے۔‘‘وہ منتیں کرنے لگا۔
’’پڑی ہو۔‘‘وہ بولی۔
ایلی نے دروازہ کھول دیا۔’’اچھاتومیں آتاہوں۔‘‘خداکے لئے ۔خداکے لئے۔‘‘وہ چلائی ۔’’وہ آنے ہی والے ہیں۔‘‘
’’توپھروعدہ کروکہ تم مجھ سے ملوگی۔‘‘ایک فاتح کی طرح باچھیں کھل گئیں۔
’’ملنے سے مطلب !‘‘وہ بولی۔
’’تمہیں دیکھناہے۔‘‘ایلی نے جواب دیا۔
’’دیکھناہے۔‘‘وہ قہقہہ مارکرہنسی ’’دیکھ کرکیالیں گے۔‘‘
’’کیالینے دینے کے بغیردیکھانہیں جاسکتا۔‘‘
’’بس جی بس۔‘‘وہ چڑکربولی۔’’اب جانے دوورنہ ۔‘‘
’’ورنہ ۔‘‘وہ چلایا۔’’میں اندرآرہاہوں۔۔۔۔۔۔۔
’’نہیں نہیں۔‘‘اس نے منت کی ۔
توپھرملنے کاوعدہ کروجلدی ۔‘‘
’’ملوں گی،ملوں گی۔‘‘
’’کب؟‘‘
’’کہہ جودیاملوں گی۔جاؤنااب۔جاؤبھی۔‘‘وہ چڑکربولی۔
ایلی سیڑھیاں اترتے ہوئے سوچنے لگا۔اگروہ اوپرسے ایک ڈبل اینٹ مارے یاپتھرہی سہی توزندگی کتنی دلفریب ہوجائے۔وہ چاہتاتھاکہ کچھ ہوجائے کوئی شرارت ۔کوئی شرارت۔کوئی حرکت جس سے زندگی زندگی بن جائے چاہے جو کچھ بھی ہویہ سوچتاہواوہ چپ چاپ آموں کی کوٹھی کی طرف طرف چل پڑا۔
پٹھو
جونہی وہ بورڈنگ میں پہنچا۔اللہ دادنے لپک کراسے پکڑلیااوراسے شانوں پراٹھاکرناچنے لگا۔ایلی نے شورمچایا۔ٹانگیں چلائیں۔لیکن بے کار۔اللہ دادنے اسے اٹھائے رکھا۔’’شفیع اوشفیع اب بن گئی بات۔اب تووہ باؤنڈری لگائیں گے کہ یہ مہاشے یادکریں گے۔‘‘شفیع کوتلاش کرنے کے بعدوہ دونوں ویسے ہی ایلی کواٹھائے ہوئے جلوس کی صورت میں ہرکمرے میں گھومنے لگے۔
’’لوبھئی ہوجاؤتیارہرنام سیاں اورگوبندرام ذراآجاؤمیدان میں ہماراپٹھوبھی پہنچ گیاہے وہ باؤنڈری لگے کی کہ یادرکھوگے۔‘‘
ہرنام سنگھ نے انہیں دیکھ کرمونچھ مروڑی ’’واہ گرو۔‘‘وہ دھاڑنے لگا۔’’وہ ہتھ دکھاؤں گا کہ یادکروگے۔۔۔‘‘
اللہ دادنے طنزبھراقہقہہ لگایا’’توآجاؤمیدان میں میرے یار۔‘‘
پھروہ رام گوپال کے کمرے میں جاگھسے ’’نکل آبے رامو۔‘‘اللہ دادچلایا’’دیکھیں گے آج تیرے ہاتھ ابے مسلوں کے سامنے کیاٹھہروگے تم۔آدم خورہوتے ہیں ہاں۔
رام گوپال نے ایک نعرہ لگایاجسے کاتی ماتابجرنگ بلی اورچھلانگ مارکرباہرنکل آیا۔
یونہی جلوس بڑھتاگیا۔وہ ہرکمرے میں داخل ہوتے اورپھرباہرنکل کرنعرے لگاتے اورلڑکوں کونکال کرآگے چل پڑتے۔سب سے آخرمیں وہ بنگالی سپرنٹنڈنٹ کے کمرے میں پہنچے۔
’’علی ۔۔مولاعلی‘‘اللہ دادنے نعرہ لگایا۔بنگالی بابوگھبراکرباہر نکل آیااورلڑکوں کے جلوس کودیکھ کراس کی گھبراہٹ نے مضحکہ خیزصورت اختیارکرلی۔
’’ارے یہ کیاگڑبڑہے بھئی۔‘‘بنگالی بولا۔
’’باہرنکلئے صاحب۔‘‘لڑکے ایک زبان ہوکرچلائے وقت ہوچکاہے وہ مقابلہ ہوگاآج کہ رہتی دنیاتک یادرہے گا۔‘‘
’’وہ ہاتھ دکھاؤں گاصاحب کے ہوش ٹھکانے آجائیں گے۔‘‘رام گوپال چلایا۔
’’واہ گرو۔‘‘ہرنام سنگھ کی آوازگونجی۔
’’علی ۔حیدر‘‘اللہ دادچیخنے لگا۔
’‘شورنہ مچاؤ۔‘‘بنگالی بابومسکرانے لگا’’چلوہم آتاہے۔‘‘لڑکے جانے لگے تواس نے انہیں روک لیا۔
’’ٹھہرو‘‘
’’ہاں بھئی۔‘‘بنگالی سپرنٹنڈنٹ نے کہا’’تم سب کورولوں کاکھبرہے۔‘‘
’’مسلمانوں کوگوشت منگانے کی اجازت دی جائے۔‘‘شفیع بولا۔
’’نو۔نو۔نہیں نہیں۔‘‘چاروں طرف سے آوازیں بلندہوئیں۔’’نہیں نہیں۔‘‘سپرنٹنڈنٹ نے کہا۔اس کی اجازت نہیں ہوسکتی۔‘‘
’’کچھ پروا نہیں۔‘‘اللہ دادبولا’’لیکن ہم تین مسلمان ہیں۔ہم مل کرمقابلہ کریں گے۔ہماراحساب اکٹھارکھاجائے۔بعدمیں اسے تین پرتقسیم کردیاجائے۔‘‘
’’نو۔نو۔‘‘لڑکے چلائے۔
’’اس میں کوئی حرج نہیں۔‘‘سپرنٹنڈنٹ بولا’’ہرے۔ ہرے۔‘‘شفیع اوراللہ دادچیخنے لگے۔
’’آدھ گھنٹے کے بعدمقابلہ شروع ہوجائے گااب تیاری شروع کرو۔‘‘بنگالی بابونے کہا۔
مقابلہ
سپرنٹنڈنٹ کی اس بات پرنعروں اورچنگھاڑوں کے بعدجلوس بکھرگیا۔اللہ دادایلی کوشانوں پراٹھائے ہوئے اپنے کمرے میں آیا۔
’’ابے کیسامقابلہ ہوگا۔مجھے بتاؤ توسہی۔‘‘ایلی نے اللہ دادسے پوچھا۔
’’ہائیں تمہیں معلوم نہیںکیا۔‘‘اللہ دادنے غصے میں دھم سے ایلی کوچارپائی پرپھینک کرپوچھا۔
’’ارے بدھوآج مسلمانوں کے امتحان کادن ہے۔آج انہیں کفارکونیچادکھاناہے۔بیٹاآج تمہیں ہماری لاج رکھنی ہے ۔اگرمسلمانوں کے ہوتے ہوئے’’پیٹو‘‘کاخطاب کسی اورکومل گیاتوبھئی کسی کومنہ دکھانے کے قابل نہ رہیں گے۔‘‘اللہ داد بولا۔
’’اتناکھاؤ آج۔اتناکھاؤکہ اس اسلامی پیٹ کے صحرامیں بندوکے پھلکے ریت کے ذرے بن جائیں ۔‘‘شفیع نے اپناادبی اندازدکھایا۔
’’ارے چھوڑویہ صحرادہرا۔‘‘اللہ دادبولا’’یوں کہہ کراتناکھاؤاتناکھاؤکہ میزسے اٹھانے کے لئے چارآدمی بلانے پڑیں۔یہ بنگالی بابوکیایادکرے گاسالاکہ مسلے کبھی آکرٹھہرے تھے بورڈنگ میں۔‘‘
کالج کے بورڈنگ کی رسم کے مطابق ہرسال ایک مرتبہ کھانے کامقابلہ ہواکرتاتھا۔شام کے کھانے پرباہرمیزیں لگادی جاتیں ۔تمام امیدواراپنی اپنی جگہ بیٹھ جاتے۔درمیان میں سپرنٹنڈنٹ کی کرسی رکھ دی جاتی تاکہ وہ فیراورفاؤل کافیصلہ کرسکے۔
کچن میں اس روزدوچاراچھے اچھے سالن پکائے جاتے۔اتنی مقدارمیں پکائے جاتے کہ امیدواروں کے لئے کافی ہوں کیونکہ مقابلے کے روزہرامیدوارکوئی ساسالن طلب کرسکتاتھا۔جب مقابلہ شروع ہوجاتاتوہرامیدوارکے پاس دوریفری کھڑے ہوجاتے جوپھلکوں کی تعدادگنتے جاتے اورہرنئے پھلکے پرآوازدیتے ’’رام گوپال بارہواں۔‘‘لیناسیاں پندرہواں۔‘‘اوردرمیاں میں بیٹھے ہوئے منشی ہرامیدوارکے نام کے سامنے تعدادلکھتے جاتے۔ان ریفریوں کے ساتھ مختلف پارٹیوں کے لڑکے کھڑے رہتے تاکہ تعدادلکھنے والے شرارت نہ کریں اورہربے ضابطی پرسپرنٹنڈنٹ کوپکاراجاتا۔’’پوائنٹ آف شکایت لالہ جی۔‘‘جولڑکااس مقابلے میں سب سے زیادہ پھلکے کھاتااسے ’’پیٹو‘‘کاخطاب دیاجاتااورگلے میں ہارڈال کراس کاجلوس نکالاجاتا۔جس کی ساتھ مناسب قسم کے نعرے لگائے جاتے۔
مقابلے کے دن کے لئے باورچی بندوپہلے ہی پھلکے پکارکھتاتاکہ پھلکوں کی کمی کی وجہ سے میچ میں خلل نہ پڑجائے پھرمقابلے کے وقت بندو۔رامو‘ہرنامہ اورکرشارسوئی میں بیٹھ کر پکے ہوئے پھلکے سینکنے میں مصروف ہوجاتے اوررامو۔کھمیااوربڈھاچوکیدارباہرمیزوں پرچیزیں مہیاکرنے کے لئے تیاررہتے۔
مقابلہ شروع ہوا۔رسوئی کی کھڑکیو ں اوردروازے سے پھلکوں کی بوچھاڑشروع ہوگئی اورایلی کویوں محسوس ہونے لگاجیسے رسوئی اورمیزوں کے درمیاں سفیدکبوتراڑرہے ہوں۔’’بندوپھلکا‘‘ہرنام سنگھ چیختا’’آٹھ‘‘اس کے سرپرکھڑاریفری چلاتااورپھرادھرسے رام گوپال شورمچادیتا۔’’بندوادھر‘‘پندرہ‘بندو’’پھلکی‘‘اللہ دادچیختاساتھ ہی شفیع اورایلی چیخنے لگتے۔’’پھلکاری پھلکاری۔‘‘ستاسٹھ ۔ستاسٹھ ۔‘‘کی آوازسن کررام گوپال چونک جاتا۔ارے پھردفعتاًاسے یادآتاکہ اللہ دادشفیع اورایلی کے پھلکوں کاحساب اکٹھاہورہاہے اورستاسٹھ کامطلب تھاستاسٹھ بٹاتین یعنی بائیس فی کس۔اسی قسم کی چاروں طرف سے آوازیں آرہی تھیں۔چاروں طرف سے شاباش رام گوپال اشکے اوے ہرنامے۔علی حیدرکے نعرے گونج رہے تھے اورہرلحظہ سکوربڑھتاجارہاتھا۔مقابلے میں صرف سات امیدوارتھے۔رام گوپال،ہرنام سنگھ،امرت لال،گوچرن سنگھ،ان کے علاوہ مسلمانوں کاایک گروپ تھا۔جس میں اللہ دادشفیع اورایلی تھے۔صحن میں پانچ چھ میزیں لگی ہوئی تھیں۔ہرمیزپرامیدواروںکے سروں پرریفری اورلڑکے کھڑے گنتی میں مشغول تھے۔درمیان میں چھ لڑکے؟کی حیثیت سے حساب کتاب لکھنے میں مصروف تھے۔جن کے پاس ہی آرام کرسی پربنگالی بابوسپرنٹنڈنٹ جج کی حیثیت سے بیٹھے تھے۔
تین پیٹو
’’ایک توستاون۔‘‘مسلمانوں کے گروپ کے ریفری نے آوازدی۔
’’علی حیدر۔‘‘اللہ دادچلایا۔’’بندوچٹنی۔‘‘
’’پوائنٹ آف آرڈر۔‘‘رام گوپال کھڑاہوگیا۔’’سپرنٹنڈنٹ صاحب اللہ دادصرف چٹنی کھارہاہے۔‘‘
’’علی حیدر۔‘‘اللہ داددہاڑنے لگا۔چاروں طرف شورمچ گیا۔
’’ٹھہرو،ٹھہرو۔‘‘بیزجی بولے۔’’چٹنی پرکوئی پابندی نہیں۔‘‘
’’علی حیدر۔‘‘اللہ دادغرایااوررام گوپال میزسے اٹھ کراندرچلاگیا۔اس کے جانے کے بعدشفیع اوراللہ داددیر تک چنگھاڑتے رہے پھرآہستہ آہستہ گوچرن نے بھی ہاتھ روک لیااورسب سے آخرمیں ہرنام سنگھ کی طبیعت مالش کرنے لگی’’علی حیدر۔‘‘تینوں مسلمان ہیروایک ستاون پراٹھ بیٹھے اوربورڈنگ والوں پرگویااوس پڑگئی۔
’’اجی یہ فاؤل ہے یہ مسلے چٹنی سے روٹی کھاتے رہے ہیں یہ اصول کے خلاف ہے‘‘لیکن ان کی ہربات پراللہ داد’’علی حیدر‘‘کانعرہ لگاکران کامنہ چڑاتااوربیزجی مسکراکرکہتے ’’چٹنی کھانااصولوں کے خلاف نہیں۔‘‘اوراللہ دادپھرسے تازہ دم ہوکرچنگھاڑتا۔’’علی حیدر‘‘
پیٹوکالقب توانہوں نے حاصل کرلیا۔لیکن رات بھران تنیوں کی بری حالت رہی۔چارپائیوں پرپڑے وہ دیرتک کروٹیں بدلتے رہے اورپھراللہ داداٹھ بیٹھااورکان پرہاتھ رکھ کرگانے لگااورپھردفعتاًچلاکربولا۔
’’ارے یارو۔کیوں اپنے آپ کودھوکادے رہے ہو۔نیندتوآج تمہارے باپ کوبھی نہیں آئے گی۔بیکارپڑے ہو۔آؤ چلوامرودوں کے باغ سے امرودتوڑکرلائیں۔بڑے ہاضم ہوتے ہیں۔تمہاری قسم۔‘‘
صبح سویرے اللہ دادنے پرنسپل کے نام ایک درخواست لکھی کہ حضورچھٹی لینے کانہ توہماراارادہ ہے ۔اورنہ چھٹی میں کوئی دلچسپی ہے ازراہ چارآدمی بھیج دیجئے جوہمیں اٹھاکرکالج لے آئیں۔
دوپہرکے وقت پرنسپل اپنی لینڈومیں آیااس کے ساتھ آصف تھا’’ہیلو‘‘پرنسپل بولا۔مبارک ہوتمہیں ۔پیٹوبولوکیاحال چال ہے تمہارا۔‘‘اللہ داد نے ہاتھ جوڑے ’’حضورآپ کادیاسب کچھ ہے صرف اتنی ارج ہے کہ چاردن کے لئے چارآدمی مقررکردیئے جائیں جوہمیں اٹھاکرگھماپھرالایاکریں۔‘‘پرنسپل نے ایک قہقہہ لگایااورپھر’’شابش ویل ڈن‘‘کہتاہوارخصت ہوگیا۔
اداس شام
پرنسپل کے جانے کے بعدآصف نے ایلی کواشارہ کیا۔ذرایہاں تک چلنامیرے ساتھ۔اس وقت اللہ اورشفیع اپنی ہی دھن میں لگے ہوئے تھے۔اس لئے ایلی چپکے سے آصف کے ساتھ چل پڑا۔آصف کارنگ زردہورہاتھا۔اس کے ہونٹوں پرمسکراہٹ توتھی مگرمسکراہٹ میں تازگی نہ تھی۔اسے ملتے ہی ایلی نے ایک سانس میں کئی سوال کرڈالے۔
’’کل تم کیوں نہ آئے وہ کون تھی جس نے ڈبل اینٹ ماری تھی۔وہ تمہیں گھورتی کیوں تھی۔تم سہمے ہوئے کیوں ہو۔کیاہے تمہیں آصف بولوبھی نا۔‘‘
لیکن آصف چپ چاپ کھڑاتھااس کے ہونٹوں پرکھسیانی مسکراہٹ تھی اوررنگ زردہورہاتھا۔پھرایلی بھی خاموش ہوگیااوردیرتک وہ درختوں تلے خاموش بیٹھے رہے ۔ہرچندمنٹ کے بعدآصف ایلی کی طرف دیکھ کربے بسی بھرے اندازسے مسکرادیتا۔
آخربولا۔کہنے لگا’’ایلی اگرمیں زہرکھالوں توتم براتونہ مانوگے۔‘‘
’’زہر۔‘‘ایلی نے پوچھا’’آخرکیوں؟‘‘
’’یہ نہ پوچھو۔‘‘آصف نے کہا’’اب زندگی بیکارہے۔بے عزتی کی زندگی سے مرجانابہترہے۔‘‘
’’اگرمیں کہوں کھالوتوکیاکھالوگے تم۔‘‘ایلی نے شرارت سے پوچھا’’ہاں ۔‘‘وہ بولا’’کھالوں گا۔‘‘
ایلی سوچ میں پڑگیا۔آصف چپ چاپ نہرکے پانی کوگھورنے لگا۔دورکوئی رہٹ رورہاتھا۔سامنے ندی کاپانی گویاچلتے چلتے رک گیاتھا۔اردگردپھیلے ہوئے کھیتوں میں پودے سرجھکائے کھڑے تھے اوروہ دونوں خاموش بیٹھے تھے۔
وہ یونہی خاموش بیٹھے رہے ۔حتیٰ کہ سورج مغرب میں جاڈوبااورآسمان پرسرخ دریاں پھیل گئیں اوررہٹ روروکرچپ ہوگیا۔کتنی اداس شام تھی وہ ۔
ایلی اٹھ بیٹھا’’نہیں‘‘وہ بولا’’ابھی تم زہرنہ کھاؤ۔‘‘
’’کیوں ۔‘‘آصف نے پوچھا’’کیوں نہ کھاؤں۔‘‘
’’بس ابھی نہیں کہہ جودیاہے میں نے۔‘‘
’’اچھا۔‘‘آصف نے آہ بھری۔’’پھرمیں کیاکروں۔‘‘
’’انتظارکرو۔‘‘ایلی بولا۔
اچھاکہہ کرآصف خاموش ہوگیااورپھربورڈنگ میں جانے کی بجائے شہرکوچل پڑا’’میں اب چلتاہوں۔‘‘
’’اچھا۔‘‘ایلی بولا‘‘کل پھرملیں گے۔۔۔۔۔
ساری رات ایلی سوچتارہاکہ آصف زہرکھانے پرکیوں آمادہ تھاوہ کونسی بات تھی جس کی وجہ سے دکھی تھا۔وہ لڑکی کون تھی وہ چلاکیوں رہی تھی اس روزکیاآصف کواس سے محبت تھی۔پھراس نے آصف کی بیٹھک پراینٹ کیوں پھینکی تھی اورچلاکرکیوں کہاتھا۔سامنے بلاؤاسے اگرانہیں محبت تھی تو۔لیکن محبت ایسے تونہیں کی جاتی محبت تھی توپھرزہرکھانے کی کیاضرورت تھی۔انہیں خیالات میں کھویاہواوہ سوچتے سوچتے سوگیا۔
آصف
آصف ایک خاموش اورشرمیلانوجوان تھا۔نہ جانے اس کی بے پناہ جاذبیت کاکیارازتھا۔شایداس کی وجہ اسکی خاموشی اورشرمیلاپن ہویاشایداس کاسفیدرنگ جھکی جھکی آنکھیں اوررخساروں پرجھلکتی ہوئی سرخی کواس سے کوئی تعلق ہوبہرصورت یہ امرمسلمہ ہے کہ محلے کی لڑکیاں اس کے لئے بے قراررہتی تھیں۔قرب وجوارمیں رہنے والیاں باربارکوٹھے پرچڑھتیں کہ شایدایک نظرآصف کودیکھنانصیب ہوجائے۔کئی گھنٹوں کوٹھے پرٹہلتی رہیتں یاجب کالج جانے یاوہاں سے لوٹنے کاوقت ہوتاتووہ گلی کی کھڑکیوں میں کھڑی ہوتیں۔کئی ایک اسے چھپ کردیکھتیں۔کئی ایک ایسی بھی تھیں جوبے پروائی کے پردے میں اپنی نمائش کرتیں کہ ایک نظرآصف انہیں دیکھ لے اورچندایک تودیوانہ وارچقیں اٹھالیتیں یاکھڑکیوں سے لٹکتیں شوخ لڑکیوں نے کئی باراعلانیہ طورپراسے سلام بھی کئے تھے۔اس کے علاوہ اعلانیہ بات بھی کی تھی۔مگرگلی میں چلتے ہوئے آصف نے کبھی گردن نہ اٹھائی تھی۔وہ چپ چاپ زمین پرنظریں گاڑے جلدی جلدی گلی میں سے گزرجانے کی کوشش کرتاتھا۔
کوٹھے پراس کارویہ مختلف ہوتاتھااوراوپرچڑھتے ہی نیچی نظرسے چھتوں کاجائزہ لیتااگرکوئی بزرگ صورت مردیاعورت قرب وجوارمیں نہ ہوتے تو وہ لڑکی پربھرپورنظرڈالتااورپھرچپکے سے سامنے سے ہٹ جاتاغالباًاس کی یہ بھرپورنظراس کی تمام ترمشکلات کی وجہ تھی۔
اسے لڑکیوں سے دلچسپی ضرورتھی ۔لیکن اس ہروقت یہ ڈرلگارہتاکہ لوگ کیاکہیں گے۔والدین کیاسمجھیں گے نہ جانے والدین کوخوشی کرنے کے لئے یااپنے زہدوتقویٰ کارعب جمانے کے لئے۔یاشایداس کی یہ وجہ ہو کہ وہ اپنی برتری کاعملی طورپراظہارکرناچاہتاہو۔چاہے اس کی وجہ سے کچھ بھی ہواورہواکثرکوٹھے سے اترکرماں کی طرف جاتااورکسی نہ کسی لڑکی کی شکایت کرتا’’دیکھ لوماں آج اس نے مجھے سلام کیاہے۔‘‘اوراس کی ماں نہ جانے کس غلط فہمی یاحمایت کی وجہ سے جھٹ نوکرکوبھیج کرلڑکی کے والدین تک شکایت پہنچادیتی۔
ایسی شکایت محلے کی کئی ایک لڑکیوں کے والدین تک پہنچ چکی تھی اوروہ سب آصف کی اس عادت سے نالاںتھیں۔والدین توپہلے ہی اپنی بچیوں کی معصومیت پریقین رکھنے کے خوہشمندہوتے ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی اپنی اولادبے حدمعصوم اورپاکبازہے البتہ دوسروں کے بچے انہیں گمراہی کی طرف راغب کرنے پرادھارکھائے بیٹھے ہیں۔آصف کی ان شکایات کانیتجہ یہ ہوا کہ لڑکیوں نے آنسوبہابہاکروالدین کویقین دلادیاکہ ان کاقصورنہیں اورمحلے والوں کے دلوں میں آصف کے خلاف بغض پیداہوگیا۔
اگلے روزجب وہ کالج میں ملے توآصف کے چہرے پرحقیقی انبساط کی جھلک تھی اوراس کے تبسم میں شگفتگی تھی۔ایلی کو دیکھ کرحسب معمول اس کی طرف بڑھااورہاتھ اٹھاکراس کی طرف دیکھ کربولا’’تسلیم۔‘‘ایک ہی نظرمیں ایلی کومحسوس ہوگیاکہ یہ آصف کل والاآصف نہیںتھاوہ آصف جوتین گھنٹے یوں چپ چاپ بیٹھارہاتھاجیسے پتھرکابناہو۔
’’زہرتونہیں کھالیاتم نے۔‘‘ایلی نے سنجیدگی سے پوچھا۔
’’نہیں۔‘‘وہ وبولا‘‘تم نے جوکہاتھاانتظارکرو۔‘‘
’’توانتظارکررہے ہو۔‘‘ایلی نے اسے چھیڑا۔
’’نہیں ۔‘‘وہ بولا‘‘اب اس کی ضرورت نہیں۔آؤتنہائی میں گھومیں یہاں لڑکے آجاتے ہیں۔اکیلیمیں بتاؤں گاتمہیں۔‘‘اوروہ دونوں میدان کی طرف نکل گئے۔
سفینہ
آصف نے بات شروع کی۔’’اس لڑکی نے مجھے بہت تنگ کیاہے ایلی ۔‘‘آصف نے مسکراتے ہوئے کہا’’وہی جو اس روزمقابل کے چوبارے میں کھڑی تھی۔جس روزتم آئے تھے۔جس نے روشن دان پراینٹ پھینکی تھی۔پھرنہ جانے اسے کیاہوگیاہے۔ایلی کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔وہ عام لڑکیوں کی طرح کوٹھے پرچڑھ کرہمارے گھر کی طرف جھانکاکرتی تھی۔میں نے دوایک مرتبہ اماں کی معرفت شکایت بھی بھجوائی۔لیکن اس سے کوئی فائدہ نہ ہوا۔الٹااس نے گھنٹوں اعلانیہ کوٹھے پرٹہلناشروع کردیا۔سارادن کوٹھے پردھوپ میں کھڑی رہتی ۔
خیروہ دن بھی گزرگئے پھرگرمیاں آئیں توہم کوٹھے پرسونے لگے۔ان کے کوٹھے پرہماری طرح پردے بہت چھوٹے چھوٹے ہیں۔صبح سویرے وہ اٹھ بیٹھتی اورآنکھوں پرہاتھ رکھے ہمارے کوٹھے کی طرف منہ کرکے بیٹھ رہتی۔ جب تک میں نہ جاگتاوہ اسی طرح بیٹھی رہتی پھرجب میں بیدارہوجاتاتووہ منہ سے ہاتھ ہٹاتی اورمجھے سلام کرکے مسکراتی۔ایسے معلوم ہوتاجیسے اس نے صبح سویرے مجھے دیکھنے اورسلام کرنے کی قسم کھارکھی تھی۔مجھے دیکھنے سے پہلے وہ منہ سے ہاتھ نہ ہٹاتی تاکہ کوئی اس کے روبرونہ آئے۔گھروالوں نے اس بات پراسے ماراپیٹا۔مگراپنی ہٹ سے بازنہ آئی۔آخرگھروالے ہارگئے۔
اس کی یہ کیفیت دیکھ کرمیرے تواوسان خطاہوجاتے ہیں۔محلے والے کیاکہیں گے۔میں سوچتارہتا۔محلے کے لوگوں کودیکھ کرسرجھکالیتا۔مجھے شرم محسوس ہوتی۔ایسے محسوس ہوتاجیسے وہ مجھ پرہنس رہے ہوں۔میرامذاق اڑارہے ہوں۔لیکن اب۔اب نہ جانے اسے کیاہوگیاہے ۔گویاوہ اپنے بس میں نہیں رہی اب اسے ہسٹریاکادورہ پڑتاہے یاوہ پاگل ہوچکی ہے۔ چندایک دن سے اس کی آنکھیں سرخ ہیں۔منہ سوجاہواہے اوراسے قطعی پروانہیں کہ وہ کیاکررہی ہے اسے کسی بڑے چھوٹے کی پروانہیں۔وہ کوٹھے پرچڑھ کرباآوازبلندمیرانام لے لے کرپکارتی ہے۔آوازیں دیتی ہے۔آصف آصف جی۔لوگ سن کرہنستے ہیں۔میرامذاق اڑاتے ہیں۔پھروہ مقابل کے چوبارے میں آجاتی ہے اورکھڑکی میں کھڑے ہوکرباآوازبلندباتیں کرتی ہے۔اگرمیں سامنے نہ جاؤں توپتھرپھینکتی ہے۔‘‘آصف نے آہ بھری اس کی آنکھیں ڈبڈباگئیں اوروہ خاموش ہوگیا۔ایلی یہ روئیدادسن کرخوشی کی ایک لہر محسوس کررہاتھا۔کتناخوش نصیب ہے اف۔وہ سوچ رہاتھا۔جسے کسی کی محبت حاصل ہے۔جسے دیکھنے کے لئے کوئی منہ پر ہاتھ رکھے بیٹھی رہتی ہے۔اس کی سمجھ نہ آرہاتھاکہ آصف اس بات پرآبدیدہ کیوں ہورہاتھا۔اس بات پرزہرکھانے کاکیامطلب۔
’’اور۔اور۔‘‘آصف نے پھربات شروع کی۔’’اس نے اپنانام بدل لیاہے۔اب وہ سفینہ کی بجائے اپنے آپ کو آصفہ کہتی ہے۔آصفہ توبہ کتنی جرات ہے۔لیکن اب وہ چلی گئی ہے۔‘‘آصف نے کہا’’اس کے والدین زبردستی اسے لے گئے ہیں۔ نہ جانے کہاں۔تاکہ بدنامی نہ ہو۔اللہ کرے وہ کبھی واپس نہ آئے۔
’’کیاواقعی اسے تم سے محبت ہے۔‘‘ایلی نے حسرت ناک اندازسے پوچھا۔
آصف ہنسنے لگا’’مجھے کیامعلوم۔‘‘وہ بولاکہ محبت کیاہوتی ہے اگریہی محبت ہے تواللہ بچائے توبہ کتنی بدنامی ہوئی ہے۔کتنی رسوائی۔’’کیاتمہیں بھی اس کاخیال ہے؟‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’مجھے نہیں معلوم۔‘‘وہ متبسم نگاہوں سے ایلی کودیکھنے لگا۔اس کی نگاہ میں تسخیرکی مسرت تھی۔
’’کیاوہ خوبصورت ہے آصف؟‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’خوبصورت ‘‘آصف سوچنے لگااورپھرہنس کربولا’’یہ سبھی خوبصورت دکھائی دتی ہیں۔‘‘
اس روزایلی آصف کی باتوں کے متعلق سوچتارہا۔کس قدرعجیب باتیں تھیں آصف کی۔شریف سے کس قدرمختلف۔اس کی سمجھ میں نہیں آرہاتھاکہ آخرمحبت کے متعلق ہرایک کانظریہ مختلف کیوں تھااورمحبت کی حقیت کیاتھی۔وہ تواس بات پرفخرکیاکرتاتھاکہ اسے تسلیم سے محبت ہے اورمحلے والوں کے سامنے اسے تسلیم کرنے میں ذرانہ ہچکچاتاتھا۔لیکن آصف۔
دن بھرایلی بورڈنگ میں بیٹھے ہوئے سوچتارہا۔اس کے سرپرآموں کے درختوںکی ٹہنیاں ہوامیں جھولتی رہیں۔کھیت گویابال پھیلائے سوگ مناتے رہے اوردوررہٹ کراہتارہا۔یونہی دوپہرسے شام ہوگئی اورمغرب میں بادل کسی ان جانے غم سے سلگنے لگے۔آگ کے شعلے لپکنے لگے۔ایک اضطراب ۔دکھ بھری بے قراری۔خاموش غم فضاسے چھنتارہا۔
بادلوں کے ان ٹکڑوں میں تسلیم اس کی طرف دیکھ کرمسکرارہی تھی۔اس کی لٹیں الجھی ہوئی تھیں۔پھردفعتاًایک حرکت سی ہوئی اورتسلیم نے گول مٹول صورت اختیارکرلی۔جیسے گٹھڑی ہو۔پھرسبزگٹھڑی کے پٹ کھل گئے اورچھم سے کسی نے جھانکا۔’’مجھے تم نے ڈرآتاہے ایلی۔‘‘ایک متبسم آوازسنائی دی اورپٹ پھرسے بندہوگئے۔وہ چونک پڑا۔توبہ ہے۔وہ زیرلب بولااورکسی اوربات کے متعلق سوچنے لگا۔لیکن جلدہی ایک بدلی نے کرشن کنہیاکاروپ دھارلیا۔ٹک ٹک قدموں کی چاپ سنائی دے رہی تھی۔ دوبڑی بڑی سیاہ کشتیاں ڈول رہی تھیں۔دورکوئی بانسری بجارہاتھا۔کتنی اداس تھی۔وہ شام۔اداس اورخاموشی۔
پگلی بہن
اگلے روزتسلیم کے گھرجاتے ہوئے وہ سوچ رہاتھااگرتسلیم کوبھی کچھ ہوجائے توجیسے آصفہ کوہواتھااوروہ کھڑکی سے چق اٹھاکرسامنے آکھڑی ہوجیسے اس روزآصفہ کھڑی تھی اورپھراسی طرح کہے’’تم سامنے کیوں نہیں آتے توکیازندگی بن جائے۔یاجب وہ وہاں پہنچے توتسلیم آنکھوں پرہاتھ رکھے بیٹھی ہواسے دیکھ کرہاتھ اٹھاکرمسکرائے ’’سلام‘‘اورپھرہنس کراندربھاگ جائے ۔صرف ایک مرتبہ صرف ایک مرتبہ۔روزنہ سہی صرف ایک بار۔صرف ایک بارصرف ایک بارکاوردکرتاوہ ان کے گھرپہنچ گیااوروہاں پہنچ کردفعتاًاسے خیال ہواکہ وہ منزل پرپہنچ چکاہے۔مگرمنزل ویران پڑی تھی۔کھڑکیاں بندتھی۔سیڑھیاں خالی تھیں۔دیر تک وہ وہاں کھڑامایوس ومحروم نگاہوں سے دیکھتارہا۔پھراس کاجی چاہاکہ چپکے سے لوٹ آئے اورنہروالی کوٹھی میں آموں کے درختوں تلے بیٹھ کرجی بھرکرروئے۔حتیٰ یا کہ اس کے جسم کے بندبندمیں وہ چلچلاتاہوادردختم ہوجائے جوان دنوں وہ محسوس کرنے لگاتھا۔
’’ہائیں۔‘‘تم ایلی۔‘ حنی اسے دیکھ کرچلایا۔’’یہ کیاصورت بنارکھی ہے۔جیسے پٹ کے آئے ہو،آؤ۔آؤ۔تمہارادل بہلاؤں۔اس کے پاس جاکرسب دکھ بھول جاتے ہیں۔نہیں نہیں گھبراؤنہیں۔اس کے یہاں کوئی نہیں آتاجاتا۔اس نے دھندہ چھوڑرکھاہے۔کیسے کرے دھندہ۔ہمارے عشق میں مری جارہی ہے اورایلی ایمان سے وہ توازلی طورپرگھریلوعورت ہے خالص پدمنی۔اس کے پاس بیٹھ کرایسے محسوس کرتاہوں۔جیسے ماں کی گودمیںبیٹھاہوں اتناآرام وسکون ملتاہے وہاں،آؤ۔آؤلے چلوں تمہیں۔‘‘
’’آہاایلی۔‘‘آغابال بناتاہواباہرنکلا۔’’بھئی اب توآتے ہی نہیں تم اس طرف۔کون سے نئے مشاغل پیداکرلئے ہیں اوروہاں۔‘‘
’’کیوں ایلی چلوگئے؟‘‘حئی نے آغاکی بات کوکاٹ کرکہا۔
’’نہ ۔نہ بھئی۔‘‘آغا نے حئی نے کہا’’اس پرتوکرم ہی کر۔‘‘اس پرحئی منہ بناکرچل پڑااورایلی آغاکے ساتھ اکیلارہ گیا۔لیکن اسکا جی چاہتاتھاکہ حئی اسے وہاں لے جائے جہاں ماں کی آغوش کاساسکون میسرہوتاہے۔جہاں وہ ہوجومحبت کے لئے دھندہ چھوڑنے کی جرات رکھتی ہے۔جوروپوں کوجھنکارکومحبت پرقربان کرسکتی ہے۔
’’کس سوچ میں کھوئے ہوئے ہوآج؟‘‘آغابولا’’بہت اداس ہو۔‘‘
جواب میں ایلی ہنس دیا’’نہیں تواداس تونہیں۔‘‘اس نے اہ بھرکرکہا۔
توکوئی بات سناؤ۔‘‘آغانے کہا۔
’’کوئی بات ہوبھی۔‘‘
’’اوہ ۔۔‘‘آغامسکرادیااورپھردانت صاف کرنے لگا۔
ایلی نے چوری چوری اوپرکی طرف نظردوڑائی مگروہاں کوئی پلودکھائی نہ دے رہاتھا۔نہ جانے اس قدرخاموشی کیوں چھائی ہوئی تھی۔
’’حئی کی بات سنی تم نے ؟‘‘آغانے بات شروع کی’’حدہوگئی اس کانام الماس ہے۔نئی نئی آئی ہے۔یہاں اچھی خاصی ہے ۔نوجوان ہے۔نہ جانے حئی نے کیاکردیاہے۔بیچاری نے دھندہ چھوڑرکھاہے۔اس کے جواری میراثی بھوکے مررہے ہیں اورحئی کے خون کے پیاسے ہورہے ہیں۔لیکن یہ کسی سے ڈرے۔توبہ کرو۔ڈرتواس کی گھٹی ہی میں نہیں۔سارادن وہاں جاکربیٹھ رہتاہے۔وہ اس کی جرابیں دھوتی ہے پتلونیں استری کرتی ہے۔چائے بنابناکرپلاتی ہے۔عجیب جذبہ ہے محبت کا۔‘‘آغاہنسنے لگا۔دھندہ کرنے والیوں کی بھی نہیں چھوڑتا۔کوئی معصوم نہیں ہے وہ اناڑی نہیں۔سب کچھ سمجھتی ہے ۔جانتی ہے کہ ان تلوں میں تیل نہیں۔حئی محض وقت کٹی کررہاہے۔پھربھی وہ فریب کھائے جاتی ہے۔عجیب بات ہے۔‘‘آغاہنسنے لگا۔’’آؤآج تمہیں سیرکرالائیں،آؤ۔‘‘
جب وہ چلنے لگے تودفعتاًاوپر سے نیم کی آوازآئی’’بھائی جان میں آرہی ہوں۔‘‘
’’توپھرمیں کیاکروں۔‘‘آغانے ہنس کرکہا۔
’’میں آجورہی ہوں۔‘‘وہ سیڑھیاں اترتے ہوئے بولی۔
’’خواہ مخواہ ۔مجھ سے کام ہے کیا۔‘‘
’’نہیں تو۔‘‘وہ دروازے میں کھڑی ہوگئی۔
’’توپھرمیں کیاکروں ۔‘‘
’’کچھ بھی نہیں۔‘‘وہ ہنسنے لگی۔
’’توپھرچلاکیوں رہی تھی تو۔‘‘
’’بس چلارہی تھی۔یونہی۔‘‘
’’اچھاشورنہ مچاہم جارہے ہیں۔آؤایلی ۔‘‘
آغابات کررہاتھاتوچھوٹی نیم اس کی پشت کے پیچھے سے یوں ہونٹ ہلارہی تھی جیسے کچھ کہہ رہی ہوجیسے کوئی پیغام دے رہی ہو۔لیکن ایلی کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔
جب آغاچلنے لگاتووہ پھرچلائی۔’’کہتی ہوں کوٹھے پربلارہے ہیں آپ کو۔‘‘
’’بلارہے ہیں کیوں۔‘‘
’’کیامعلوم ۔‘‘وہ پھرہونٹ ہلاکرایلی کواشارہ کرنے لگی۔
’’اس وقت نہیں۔ہم جارہے ہیں۔‘‘آغانے گھورکرکہا۔
’’اچھاتواچھے بھائی جان ہمیں ایک پان لے دو۔‘‘
’’اوہ۔تویہ بات ہے۔‘‘آغاہنسنے لگا۔’’خودلے لینایہ لوپیسے ۔‘‘
’’ہم توپان لیں گے پیسے نہیں۔‘‘وہ لاڈسے بولی۔
’’پاگل ہوگئی ہے کیا۔‘‘آغاہنسا۔
’’ہاں۔‘‘نیم نے سنجیدگی سے کہا’’پاگل ہوگئی ہوں۔‘‘
آغاقہقہہ مارکرہنس پڑا۔’’یہ بہنیں بھی بہت مہنگی پڑتی ہیں۔اچھامیں لاتاہوں پان۔تواب بھاگ نہ جائیو۔‘‘
’’نہیں بھاگتی۔‘‘وہ مسکرائی۔
آغاباہرنکلاتووہ ایلی کے قریب ترہوکربولی’’اپنابائیسکل نہ لے جانایہیں چھوڑجانااورکل شام کوتین بجے آکرکہنابائیسکل دو۔‘‘اس نے ایلی کی طرف یوں دیکھا۔جیسے وہ ایک بچہ ہو۔اس روزپہلے دن ایلی نے محسوس کیاکہ وہ ننھی سی معصوم بچی ایک مکمل عورت تھی جس کے پلومیں کئی آغوش مادرچھپی ہوئی تھیں۔یہ کہہ کروہ اوپرکی طرف بھاگی۔
’’ہائیں۔‘‘ایلی چلایا’’اوروہ پان۔‘‘
’’پان۔‘‘وہ ہنسی ۔’’میں نہیں کھاتی پان وان۔نہ بھئی۔‘‘
عین اس وقت آغاداخل ہوا۔’’ہائیں چلی گئی اوریہ پان۔‘‘اس نے پھرقہقہہ لگایا’’ہی ہی ہی۔یہ بہنیں بالکل ہی پگلی ہوتی ہیں۔‘‘اوروہ پان منہ میں ڈال کرہنسنے لگا۔
’’سائیکل لے لوچلیں۔‘‘آغانے ایلی سے کہا۔
’’نہیں ۔‘‘ایلی نے ڈرتے ہوئے جواب دیا۔’’یہاں ہی پڑارہے گاکل لے لوں گاکسی وقت۔’’اچھایوں ہی سہی۔‘‘آغانے بے پرواہی سے کہااوروہ دونوں چل پڑے۔
اتنی ساری
اس روزجب ایلی بورڈنگ میں پہنچاتووہ بے حد تھکاہواتھا۔کئی دنوں سے ایک بے نام سادرداس کے بندبندمیںچیونٹیوں کی طرح رینگ رہاتھا۔وہ محسوس کرنے لگاتھاجیسے اس کاوجودایک تکلیف دہ چیزہو۔اسکے گردنیلاآسمان روزبروزپھیکاپڑتاجاتاتھااوردنیایوں دکھائی دینے لگی تھی جیسے ایک ویرانہ ہو۔طویل وعریض ویرانہ ۔بے مقصدپھیلاؤ۔ایک اذیت دہ ٹھہراؤچاروں طرف ٹھاٹھیں مارتھا۔اس صحرامیں وہ خودایک ناؤ تھا۔جس کے گردریت کی لہریں بھتنوں کی طرح ناچ رہی تھیں۔
جب بھی ایلی کی توجہ اپنی جانب مبذول ہوتی وہ اس ٹھہراؤکوشدت سے محسوس کرتالیکن جب اس کی توجہ ریت کی لہروں کی طرف منعطف ہوتی تواسے حرکت کااحساس ہوتا۔جب وہ بستر پرلیٹاتواس کاخیال نیم کے پیغام پرمرکوزہوگیا۔نہ جانے نیم کامطلب کیاتھا۔مطلب تھا بھی یامحض تفریح یاکچھ اورپھربائیسکل رکھنے سے کیامقصدہوسکتاہے اوراسے واپس لانے کی سکیم سے کیافائدہ پہنچ سکتاہے۔دیرتک وہ اس پگلی لڑکی کی باتوں پرغورکرتارہا۔لیکن گتھی نہ کھلی ۔وہ سوچ سوچ کرہارگیا۔حتیٰ کے اس کی آنکھ لگ گئی۔
اگلے روزکئی دفعہ اسے خیال آیاکہ سائیکل وقت مقررہ پرلانے کی آخرکیاضرورت ہے۔کسی وقت بھی لے آؤں گا۔کیافرق پڑتاہے۔پھراس کے ذہن میں امیدکی ایک کرن روشن ہوجاتی۔شایدفرق پڑجائے پھرجلدہی وہ کرن بجھ جاتی اورگھٹاٹوپ اندھیراچھاجاتا۔لیکن اس کشمکش کے باوجودوہ مقررہ وقت پرآغاصاحب کے گھرجاپہنچا۔وہاں پہنچ کراس نے چوبارے کی کھڑکیوں پرنگاہ دوڑائی۔سیڑھیوں کی طرف مکان گویاویران پڑاتھا۔بے دلی سے اس نے دروازہ کھٹکھایا۔
’’کون ہے؟‘‘بڑھیانے آوازدی۔
’’میں ہوں ایلی‘‘وہ چلایا۔
’’کوئی گھرمیں نہیں ہے نہ آغاہے نہ حئی۔‘‘بڑھیانے رونے کے اندازمیں کہا۔
’’اپناسائیکل لینے آیاہوں۔‘‘وہ بولا
’’سائیکل؟‘‘بڑھیاخاموش ہوگئی۔ پھرمدھم سی سرگوشی سنائی دی۔’’سائیکل ساتھ والے گھر میں کھڑاہے۔یہ جوادھرہے ۔پنواڑی کے پیچھے والاسمجھ گیانا۔لے لے جاکرادھرسے۔‘‘
یہ انتہاتھی۔اتنی بے رخی تواجنبی کے ساتھ بھی نہیں برتی جاتی۔خیربڑھیاکی عادت ہی ایسی تھی۔لیکن وہ نیم کیاہوئی۔کم ازکم اسے توموجودرہناچاہیے تھا،کچھ دیرتووہ ڈیوڑھی میں کھڑاسوچتارہا۔اس امیدپرکہ شایدابھی دروازہ کھل جائے اورنیم جھانکے۔لیکن دروازہ بندہی رہا۔پھروہ مایوس ہوگیا۔اورسوچنے لگا۔اب کون پتہ لگائے کہ وہ مکان کونساہے۔جس میں بائیسکل پڑاہے۔چھوڑوبائیسکل لیکن اس نے محسوس کیاکہ وہ تھکاہواہے اوراتنی دورآموں کی کھوٹھی تک واپس پیدل جانا۔اس خیال پروہ پنواڑی کی دوکان پرجاکھڑاہوا۔’’کیوں صاحب۔‘‘وہ بولا’’آپ کے پچھلے مکان کی طرف کونساراستہ جاتاہے۔‘‘
’’یہ ہے۔‘‘پنواڑی نے قریب ہی ایک ڈیوڑھی کی طرف اشارہ کیا۔
’’انہوں نے کہاہے۔میرابائیسکل وہاں رکھاہے۔اس مکان میں کون رہتاہے؟‘‘اس نے پنواڑی سے ملتجیانہ اندازسے پوچھاپنواڑی نے غورسے ایلی کی طرف دیکھاپھربولا‘‘کوئی نہیں رہتاخالی پڑاہے۔‘‘
جھجکتے ہوئے اس نے ڈیوڑھی سے اندرجھانکا۔اندرکوئی دکھائی نہ دیا۔آوازتک بھی نہ آرہی تھی ۔پھرجرات کرکے وہ اندرداخل ہوگیا۔صحن کے عین درمیان میں سائیکل کھڑاتھا۔اورمکان ویران پڑاتھا۔
مکان کے درمیان ایک وسیع صحن تھا۔جس کے اردگردچاروں طرف دالان بنے ہوئے تھے۔جن میں بہت سے دروازے اورفراخ کھڑکیاںتھیں۔وہ چپ چاپ سرجھکائے سائیکل کی طرف بڑھااوراسے سٹینڈسے اتارنے لگا۔جب وہ اسے گھسیٹنے لگاتودفعتاًچاروں طرف دالانوں سے کئی ایک جوان لڑکیاں جھانکنے لگیں۔وہ سب ہنس رہی تھیں۔مسکرارہی تھیں۔پھروہ سب دالانوں سے نکل کرباہر صحن میں آگئیں اورآن کی آن میں اس صحن میں رنگین آنچل لہرانے لگیں۔
بیچارہ
’’لے جاؤبائیسکل‘‘ا یک پتلی لمبی لڑکی آگے بڑھ کربولی۔
’’کھڑے کیادیکھ رہے ہو؟‘‘دوسری نے کولہوں پرہاتھ رکھ کراسے ڈانٹااورپھرہنس پڑی۔
’’یہ ہے کون؟‘‘ایک اورچمک کربولی۔
’’پوچھونیم سے۔‘‘عقب سے ایک شوخ آوازآئی اورکھلکھلاکرہنسی۔
چاروں طرف سے ان لڑکیوں نے گویاایلی پریورش کردی۔خوشبوکاایک ریلاآیاکئی ایک اڑتے ہوئے آنچل ۔اس کی طرف لپکے جیسے کالے ناگ زبانیں نکالے جھپٹ رہے ہوں۔زن سے بالی کاسرجسم سے الگ ہوکرفضامیں اڑاجیسے بارودکابناہواہو۔رنگین خوشبودارآنچل شعلوں کی طرح اسے چاٹنے لگے۔اس کے اوسان خطاہوگئے۔آنکھوں کے تلے دھندچھاگئی۔گورے چٹے متبسم چہرے ۔سیاہ ڈولتی آنکھیں۔لہراتی ہوئی چوٹیاں اس سے ٹکرائیں۔پھردفعتاًنیم نیم کاشوربلندہوااوروہ سب بھاگیں اورایک مقام پریوں گڈمڈہوگئیں۔جیسے جمناسٹک گروپ دفعتاً ایک نئی ترتیت میں تشکیل ہوجاتاہے۔‘‘’’نیم نیم‘‘وہ کسی پرجھکی ہوئی چلارہی تھیں۔پھروہ کسی کوگھسٹیتی ہوئی ایلی کی طرف بڑھیں اورایلی رنگین آنچلوں،گوری گوری بانہوں،ریشمی چوڑیوں اڑتی ہوئی خوشبودارلٹوں اوردلنوازقہقہوں کے انبارمیں دب گیا۔
’’پکڑلو۔پکڑلوایس۔‘‘وہ ایلی کوللکاررہی تھیں’’سنبھالواپنی پیاری کواب پکڑبھی لونا۔‘‘کئی ایک گوری بانہیں اس کی طرف لپکیں اوربالآخردوبازواس کے ہاتھوں میں تھمادئیے گئے۔ایک قہقہہ گونجااورپھرسب ہنستی ہوئی اس زینے کی طرف بھاگیں جوصحن کے ایک کونے سے کوٹھے کی طرف چلاگیاتھا۔زینے پررنگین آنچل لہرائے قہقہوں کی آوازیں گونجیں اورپھرخاموشی چھاگئی۔ایلی نے دیکھاکہ وہ سفیدسفیدبازوتھامے تن تنہاکھڑاہے اورفرش پررنگین کپڑوں کی ایک گٹھڑی پڑی ہے۔اس کی سمجھ میں نہ آتاتھا ان سفیدبازوؤں کوکیاکرے اوراس گٹھڑی کوکس طرح کھولے’’نیم نیم‘‘اس نے بازوؤں کوجھنجھوڑا۔’’نیم ادھردیکھو۔‘‘اس نے گٹھڑی کوکھولنے کی کوشش کی مگرگٹھڑی اوربھی سمٹ گئی۔وہ اس بندگٹھڑی سے گویاکشتی لڑنے میں مصروف ہوگیا۔مگراس کی کوشش کانیتجہ صرف یہ ہواکہ گٹھڑی کے پلواورپھی لپٹ گئے۔حتیٰ کہ وہ بازوبھی کہیں گم ہوگیااوروہ گٹھڑی اس کے قدموں میں کپڑوں کاایک ڈھیرسابن کررہ گئی۔’’نیم نیم‘‘وہ چلایامگرکوئی جواب نہ ملا’’نیم۔‘‘اوپرسے بڑھیاکی آوازسنائی دی۔اس نے گھبراکراوپر کی طرف دیکھا۔تڑپ کروہ گینداس کے ہاتھوں سے پھسل کرنکل گئی۔ایک ساعت کے لئے زینے میں رنگین پلولہرایاپھرکوٹھے سے ایک سرخ چہرے نے اس کی طرف مڑکردیکھا۔جیسے وہ باغات کابناہواہوپھراس مکان پرموت کاسکوت چھاگیا۔دالانوں کے خاموش کونے گویاباہر نکل آئے اوراس پرہنسنے لگے۔اس کاتمسخراڑانے لگے۔’’تم تم‘‘اورکوٹھے کے پردے جھک جھک کراس کی طرف دیکھنے لگے’’بیچارہ۔بیچارہ۔‘‘
دفعتاًاس نے محسوس کیاکہ اس کارازکھل چکاہے۔وہ سب جان گئی ہیں کہ وہ کچھ بھی نہیں۔ایک گٹھڑی تک کونہیں کھول سکتا۔دوبازوؤں کونہیں سنبھال سکتا۔بیچارہ اس نے محسوس کیاکہ وہ سب دالانوں کی دیواروں کے پیچھے کھڑی اس پرہنس رہی ہیں۔اوراوپرکوٹھے پرنیم مایوس ومحروم کھڑی ہے۔اوراس کاچہرہ جذبہ تحقیرسے سرخ ہورہاہے۔صحن میں پڑاہواسائیکل سرک کرپرے ہٹ ہٹ گیا۔جیسے وہ اپناآپ اس کے حوالے کرنے کے لئے تیارنہ ہو۔ایلی کی پیشانی پرپسینہ آگیااوروہ سائیکل اٹھاکربھاگا۔بورڈنگ کی طرف جاتے ہوئے رہ رہ کر اسے اپنی بزدلی اورحماقت کااحساس ہوتااورمحسوس کرتاکہ وہ کچھ بھی نہیں۔اتنااچھاموقعہ ملنے کے باوجودوہ کچھ نہ کرسکا۔وہاں اتنی لڑکیاں تھیں۔مگروہ کسی کی طرف آنکھ اٹھاکربھی نہ دیکھ سکاحتیٰ کہ وہ نیم کی شکل بھی نہ دیکھ سکا۔اس کے دل میں اس واقعے کی یادکانٹابن کرچبھنے لگی اس طرح وہ واقعہ اس کے لئے تلخ اورخوشگوارواقعہ بن گیا۔’’بیچارہ۔بیچارہ۔بیچارہ۔‘‘
سائیکل کافری ویل چلارہاتھااورسڑک پردھندلی اشکال اس کامنہ چڑارہی تھیں۔
اس واقعہ کے بعدمدت تک ایلی کے آغاکی گھرجانے کی جرات نہ ہوئی۔جب بھی آغاکے مکان کے متعلق اسے خیال آتاوہ محسوس کرتاکہ اس کارازفاش ہوچکاہے،اس کوچے کی تمام نوجوان لڑکیاں چوباروں میں کھڑی اس پرہنس رہی ہیں۔اس پرانگلیاں اٹھارہی ہیں’’وہی ہے وہی۔‘‘اس خیال کے آتے ہی اسے پسینہ آجاتا۔
کھلاڑی
پھراتفاق سے کالج میں ایک نئی تحریک شروع ہوگئی،جس نے ایلی کی توجہ کوجذب کرلیا۔یہ تحریک ایک ڈرامہ کھیلنے کی تحریک تھی۔مگراس تحریک کی ابتداانوکھی تھی اوراس کی تمام ترذمہ داری اللہ دادپرعائد ہوتی ہے۔
اللہ دادفطری طورپرایک مسخرہ واقع ہواتھااور اس کامذاق اس قدرسنجیدگی کاپہلولئے ہوتاکہ انسان کوبے اختیارہنسی آجاتی مثال کے طورپرکالج میں اس کاداخلہ بھی انوکھے اندازسے ہواتھا۔ایک روزچادرباندھے ایک تھیلاسی قمیض پہنے اورشانے پرایک بڑاسارومال ڈالے وہ کالج کی کمپاؤنڈمیں کھڑاحسرت سے لڑکوں کی طرف دیکھ رہاتھاکہ اتفاق سے پرنسپل اس طرف سے گزراپرنسپل اسے کھڑادیکھ کرسمجھاکہ کوئی جاٹ کالج کی حدودمیں آگھساہے۔پرنسپل اس کے قریب آکھڑاہوا۔اس پروہ جھجک محسوس کئے بغیر وہیں کھڑارہا۔
’’اے چودھری۔‘‘پرنسپل نے کہا’’یہاں کیاکررہاہے تو؟‘‘
’’میں۔‘‘وہ چونکا۔’’دیکھتانہیں کہ کھڑاہوں۔کچھ بھی تونہیںکررہا۔‘‘یہ کہہ کروہ پھر لڑکوں کودیکھنے لگاجوکمپاؤنڈمیں کرکٹ کھیل رہے تھے۔
’’کسی سے ملے گاکیا؟‘‘پرنسپل نے پوچھا۔
’’اونہوں بھئی۔دیکھ رہے ہیں۔کرکٹ کایہ کھیل۔‘‘
کرکٹ کالفظ سن کرپرنسپل چونکا۔‘‘پڑھے لکھے ہوکیا؟‘‘
’’اورتوکیاویسے ہی کھڑے ہیں۔‘‘وہ بولا
’’یہاں کھڑے ہونے کی اجازت نہیں۔‘‘پرنسپل بولا۔’’یہ کالج گراؤنڈہے۔‘‘
’’اچھا۔‘‘وہ بولا’’اجازت نہیں توچلے جاتے ہیں۔‘‘ یہ کہہ کروہ پھلانگ کرکالج کی چاردیواری پرچڑھ گیااوردیوارپربیٹھ کرکرکٹ دیکھنے لگا۔
اس پرپرنسپل کوبے حدطیش آیااوراس نے قریب جاکرکہا’’اب دیوارپربیٹھ گئے۔‘‘
’’تم نے جو کہاکہ گراؤنڈمیں کھڑے ہونے کی اجازت نہیں۔اب کیایہاں بیٹھنے کی بھی اجازت نہیں۔‘‘وہ تنک کربولا۔
پرنسپل کواس کی دہقانیت پرہنسی آگئی۔بولا’’تم اس کھیل کوسمجھتے ہوکیا۔‘‘
’’سمجھتے۔‘‘ اس نے پرنسپل کی طرف دیکھا۔’’ہم نے اس کھیل کوکھیل کھیل کرچھوڑدیاہے ۔ اب کسی زمانے میںکھیلاکرتے تھے۔‘‘
’’کہاں کھیلاکرتے تھے؟‘‘پرنسپل نے پوچھا۔
’’مدرسے میں اورکہاں۔‘‘
’’اچھاتومدرسے میں پڑھتے رہے ہو۔‘‘
’’ہاں‘‘وہ بولا’’دس پاس کی ہیں۔‘‘
’’اوراب کیاکرتے ہو۔‘‘
’’کچھ بھی نہیں۔‘‘
’’کرکٹ کھیلوگے آؤ تمہیں کھلائیں۔‘‘
اللہ دادنے سمجھاکہ وہ مذاق کررہاہے۔کہنے لگا’’واہ کھڑاہونے تودیتے نہیں اورکہتے ہوکہ کرکٹ کھلائیںگے۔‘‘
پرنسپل قہقہہ لگاکرہنسنے لگااوراسے پکڑکرٹیم میں لے گیا۔’’لوبھئی ایک نیاپلیئر لائے ہیں ہم۔‘‘وہ بولا۔اللہ دادنے گینداٹھالیااوربائیں ہاتھ سے بال کرناشروع کردیاایک ہی اوورمیں اس نے کالج کے دوبہترین کھلاڑیوں کی وکٹیں اڑادیں توپرنسپل نے واہ واکاشورمچادیاپھرپرنسپل اسے اپنی لینڈومیں بٹھاکرگھرلے گیااوراگلے ہی روزاسے کالج میں داخل کرلیاگیا۔اس کی تمام فیسیں معاف کردی گئیںبلکہ پورفنڈمیں سے اس کے لئے کتابیں خریدی گئیں اورایک جوڑاکپڑوں کابناکردیاگیاتاکہ وہ مناسب کپڑے پہن کرکالج آسکے۔
مسخرا
ایک روزاللہ دادبرآمدے کے کونے پرکھڑانہ جانے کیاسوچ رہاتھاکہ گیارہوں کاکوئی چھوٹاسالڑکابھاگتاہواادھرآنکلااوراللہ دادسے ٹکراکرگرپڑا۔اللہ داد نے لپک کراسے اٹھایا۔’’نہ بیٹا۔‘‘وہ بزرگانہ اندازمیں بولا‘‘اندھادھندبھاگانہیں کرتے۔‘‘اللہ دادنے اس کے کپڑے جھاڑے اورپھراس کامنہ چوم کرکہا:’’نہ برخودارایسے نہیں کیاکرتے۔‘‘اس پراردگردکھڑے سب لڑکوں نے تالیاں پیٹ دیں اورہنگامہ برپاکیا۔اس شوراورہنگامے کی وجہ سے اس لڑکے نے جاکرپرنسپل سے رپورٹ کردی۔اس رپورٹ پرپرنسپل غصے میں آگیااوراس نے اللہ دادکوفوراًدفترطلب کیا۔’’اللہ دادتمہارے خلاف شکایت پہنچی ہے ہمیں۔‘‘انہوں نے غصے میں کہا:’’جی کیسی شکایت؟‘‘اللہ دادنے معصومیت سے پوچھا۔
’’کیایہ درست ہے تم نے گوبندکامنہ چوماہے؟‘‘وہ طیش میں بولے۔’’جی ہاں۔‘‘اللہ دادنے سرجھکالیا۔
’’ہوں ۔‘‘پرنسپل غرایا۔’’توتمہیں اس سزاملنی چاہیے۔‘‘
’’غلطی ہوگئی مجھ سے جناب۔‘‘اللہ دادبولا۔
ممکن ہے اللہ دادکایہ قصوربھی معاف کردیاجاتااوراسے آئندہ کے لئے سرزنش کردی جاتی۔لڑکوں کاخیال تھاکہ ایساہی ہوگاکیونکہ ہربات میںپرنسپل اللہ دادکی رعایت کیاکرتے تھے۔بلکہ ایک روزاللہ دادکی شرارت پرتوپرنسپل صاحب نے اعلانیہ قہقہہ مارکرکہہ دیاتھا:’’اللہ دادکومعاف نہ کروں تواورکیاکروں اگرجرمانہ کردوں تووہ جرمانہ بھی کالج کے کسی فنڈسے ہی اداکرناپڑے گا۔بھئی اس کے پاس کچھ ہوبھی۔‘‘پرنسپل کی یہ بات سچی تھی۔اللہ دادکے پاس کچھ بھی تونہ تھا۔
لیکن اس روزپرنسپل بے حدغصے میں تھے۔اس لئے انہوں نے اس کی اس بدتمیزی پراسے پانچ روپے جرمانہ کردیا۔اللہ دادنے توجرمانہ ادانہ کیا۔بہرحال دفترنے جرمانے کی ادائیگی کے لئے تقاضہ جاری رکھا۔حتیٰ کہ اللہ دادکواحساس ہوگیاکہ اسے یہ جرمانہ اداکرناہی ہوگا۔
ایک روزوہ شفیع سے کہنے لگا’’یارشفیع اب تو اس جرمانے کاکچھ کرناہی ہوگا۔‘‘
’’کرناکیاہے؟‘‘شفیع بولا’’پانچ روپے دے دواورکیا۔‘‘
’’اچھابھئی۔‘‘اللہ دادنے کہا۔’’تومجھے دس روپے قرض کے طوردے دے یار۔‘‘
’’ہاں یاردس ہی دے دو۔‘‘ا س نے کہا۔’’یاتویہ زائدپانچ اصل کوبھی واپس لے آئے اورنہیں تودسوں ہی گئے۔یہ جواکھیل ہی دیکھوں ۔‘‘
اگلے روزاکاؤنٹنٹ نے پرنسپل سے جاکرشکایت کی اللہ دادپانچ کی بجائے دس روپے جرمانہ اداکرنے پرمصرہے یہ ایک عجیب وغریب شکایت تھی۔
اللہ دادکوطلب کیاگیا۔’’یہ کیاحماقت ہے؟‘‘پرنسپل نے پوچھا۔’’جرمانہ توتمہیں پانچ روپے ہواہے اورتم دس اداکررہے ہویہ کیاحماقت ہے۔‘‘
اللہ دادنے سرجھکالیا۔’’نہیں حماقت نہیں جی۔‘‘وہ بولا۔’’توپھرکیاہے؟‘‘پرنسپل نے پوچھا۔
’’صاحب پانچ روپے توجرمانہ دیاہے اورپانچ روپے جمع کرادئیے ہیں۔‘‘
’’کیامطلب ؟‘‘پرنسپل نے پوچھا۔
’’جی کسی وقت پانچ روپے ہوتے ہیںکسی وقت نہیں ہوتے اوربرخورداروں کاکیااعتبارنہ جانے کب آکرالجھ جائیں۔‘‘
اللہ دادنے یہ بات ایسی سنجیدگی اورمعصومیت سے کہی کہ پرنسپل قہقہہ مارکرہنس پڑے۔’’تومطلب یہ ہے کہ پانچ ایڈوانس کے طورپردے رہے ہو۔ہاہاہا۔‘‘وہ ہنسے۔’’حدہوگئی۔اللہ دادتمہیں توتھیٹرکامسخراہوناچاہیئے خواہ مخواہ کالج میں پڑھ کروقت گنوارہے ہو تم۔ہی ہی ہی۔‘‘
’’حضورمیراکیاہے۔آپ نے کالج میں داخل کرلیاتوکالج میں داخل ہوگیا۔تھیٹرمیں داخل کردیتے توٹھیٹرمیں داخل ہوجاتا۔میراکیاہے۔‘‘
’’اچھاتوتمہیں تھیٹرمیں داخل کرادیںگے۔‘‘پرنسپل ہنستاہواچلاگیا۔
نتیجہ یہ ہواکہ ایک تواللہ دادکاجرمانہ معاف کردیاگیااوردوسرے کالج کی مجلس تمثیل کااجراہوگیا۔اورچندہی دنوں میں کالج میں شکنتلاکے کھیل کی ریہرسل شروع ہوگئی۔
شبھ لگن
ایلی کوموسیقی سے بے دلچسپی تھی۔گانے کی آوازسن کراس کے دل میں چوہے سے دوڑے لگتے۔دل بیٹھ جاتاایک رنگین اداسی اسے چاروں طرف سے گھیرلیتی۔جب سے جب سے شکنتلاکی ریہرسل شروع ہوئی تھی،اس کے لئے بورڈنگ میں جانامشکل ہوگیاتھا۔لیکن مصیبت یہ تھی کہ عام لڑکوں کوریہرسل دیکھنے کے لئے نہیں چناگیاتھا۔اس لئے جب ریہرسل شروع ہوتی تووہ ہال سے باہردروازے کے شیشے سے لگ کردیکھتارہتااورجب سازندے حمدکی دھن بجاتے تواس پرعجیب کیفیت طاری ہوجاتی۔چندیوم میں ایلی کوتین چارمرتبہ ریہرسل سنتے پکڑلیاگیااورآخرکارڈرامے کے انچارج اسے پرنسپل کے پاس لے گیا۔پرنسپل نے پہلے تواسے ڈانٹاڈپٹا۔پھردفعتاًنہ جانے اسے کیاسوجھی بولا۔’’ہوں اگرتمہیں ڈرامے میں دلچسپی ہے توعملی طورپرہماری مددکیوں نہیں کرتے۔‘‘
’’عملی طورپر‘‘ایلی سوچنے لگا۔
’’تم گاسکتے ہو؟‘‘پرنسپل نے پوچھا۔
’’جی نہیں۔‘‘ایلی نے جواب دیا۔
’’ناچ سکتے ہو؟‘‘
’’جی نہیں۔‘‘
’’یہ اچھی دلچسپی ہے۔‘‘وہ ہنسنے لگے’’گانہیں سکتے۔ناچ نہیں سکتے مگرڈارمے سے دلچسپی ہے۔‘‘
نتیجہ یہ ہواکہ ایلی کوپروفیسرانچارج کے حوالے کردیاگیاجومناسب کام کرسکتاہو،اس سے لیاجائے اورایلی کوریہرسل کے دوران ہال میں بیٹھنے کی اجازت مل گئی۔
جب ’’حمد‘‘کی مشق شروع ہوتی اورمیراثی طبلے پرہاتھ چلاتے توایلی کادل ڈوب جاتااوراس کے جسم پربیربہوٹیاں رینگنے لگتیں۔خاص طورپرجب ربابیوں کاوہ چھوٹاسالڑکانوراپنی بیٹھی بیٹھی سی آوازمیں ’’توجگ کاہے۔‘‘کہتاتواس کادل دھک سے رہ جاتاوہ سب کچھ بھو ل جاتا۔تمام تلخ یادیں محوہوجاتیں یہاں تک کہ وہ بائیسکل والاواقعہ بھی بھول جاتاجب وہ کپڑوں کی گٹھڑی کے بل کھولنے سے قاصررہاتھا۔اس وقت اسے شہزادکاچھم سے آنابھی بھول جاتا۔
پہلی مرتبہ اسے احساس ہواکہ موسیقی اسے تلخ یادوں سے آزادکرسکتی ہے۔خصوصاًجب نورکیسی شبھ لگن سے بہارآئی گاتاتوایلی یہ بھی بھول جاتاکہ وہ ایلی ہے کہ وہ علی احمد کابیٹاہے اورعلی احمدکوٹین کاسپاہی بننے سے دلچسپی ہے اسے سبھی کچھ بھول جاتااوروہ حیرانی سے اس سانورے سے چھوٹے سے نورکی طرف ٹکٹکی باندھ کردیکھتا۔دیکھتے چلاجاتا۔اس وقت نورکے چہرے کے گردایک ہالاسانمودارہوتاآنکھوں میں چمک لہراتی۔بازورقص کرنے لگتے۔اس وقت اسکی آنکھیں باتیں کرتیں اس کے چتون اظہارسے چھلکتے۔ان کاپیغام کس قدرحسین ہوتا۔
نورکودیکھ کرپہلی مرتبہ ایلی کونزہت کی عظمت کااحساس ہوا۔اس کاگیت سن کراس نے محسوس کیاجیسے واقعی بہارآگئی ہواوروہ شبھ لگن جس کی وجہ سے بہارآئی تھی۔نوربذات خودہو۔
اس کے بعدایلی کئی ایک دن شبھ لگن اوربہارمیں کھویارہا۔انتظارکرتے کرتے وہ تھک جاتا۔لیکن کالج کاوقت ختم ہونے میں نہ آتا۔خداخداکرکے ریہرسل کاوقت ہوتااورنورٹھمکتاہواہال میں داخل ہوتااورایلی کے لئے بہارآتی۔
معصوم فاحشہ
لیکن چندہی دن کے بعدایلی پریہ حقیقت واضح ہوگئی کہ اس پتلے دبلے سانورے لڑکے میں دوشخصیتیں کام کررہی ہیں۔دومختلف متضادشخصیتیں ۔ایک وہ نورجوگاتے وقت اس میں بیدارہوتا۔وہ نورجس کی حرکات میں حسن کی جھلک دکھائی دیتی۔جس کے گلے میں سے گویاپگھلی ہوئی چاندی کاایک فوارہ چھوٹتا۔لیکن یونہی وہ گاناختم کردیتاتواس کی آنکھوں میں عریانی بھراپیغام جھلکتااوراس کی حرکات سے ستے پن کامظاہرہ ہوتا۔
نورکی چال توبالکل ان عورتوں کی طرح تھی۔جوکٹڑارنگین میں دوسرے درجے کے چوباروں میں بیٹھتی تھیں۔نورکی ان باتوں کو دیکھ کرایلی کودکھ سامحسوس ہوتااورجلدہی کسی اوربات کی توجہ منعطف کرلیتاتاکہ خیال بٹ جائے۔مگر اس کے باوجوداس کے دل میں کانٹاساچبھارہتا۔پھروہ شدیدکوشش سے تصورکے زورپراس نورکوگانے والے نورمیں بدل دیتااوریوں وہ عریاںمنظرشبھ لگن میں تبدیل ہوجاتااوربہارآجاتی۔
جب آصف کوایلی کی اس نئی دلچسپی کاعلم ہواتووہ بہت ہنساکہنے لگا’’اچھابھئی آج دیکھیں گے تمہارانور۔‘‘اس شام کوآصف گال ہتھیلی پررکھے بیٹھانورکاگاناسنتارہا حتیٰ کہ اس کی آنکھیں شفاف پانی کی مچھلیوں میں بدل گئیں اس کے ہونٹوں کی وہ تمسخرآمیزسلوٹ دورہوگئی اورپاؤں انجانے میں تال دینے لگے۔
اس کے بعدآصف اورایلی فارغ وقت میں نورکولے کرآموں والی کوٹھی کے قریب نہرکے کنارے چلے جاتے۔ایلی کسی پیڑتلے بیٹھ جاتا۔آصف ندی میں پاؤں لٹکالیتااورنورگاتااوراس شبھ لگن میں ایلی کی نگاہوں تلے گھنگھریالی لٹ لہراتی اورآصف کی آنکھیں جھیلوں میں تیرتیں اورسوکھے ہوئے درختوں پرہربادل یورش کرتی اورندی کاپانی ناچتااورآسمان پرندے رقص کرتے۔
گانے کے اختتام پرنورکی آنکھ میں وہ نورانی چمک بجھ جاتی ایک رنڈی کپڑے اتارنگلی ہوکران کے روبروآکھڑی ہوتی اورنمائش کرنے میں مصروف ہوجاتی۔ہونٹ جونکوں کی طرح ان کی طرف بڑھتے اوردونوں گھبراکروہاں سے چل دیتے اورسوچتے کہ کس طرح اس سے اپناپیچھاچھڑائیں اس وقت انہیں یہ فکردامن گیرہوجاتاکہ کوئی انہیںنورکے ساتھ دیکھ نہ پائے۔لیکن جونہی وہ نورسے جداہوتے تووہ اس خیال میںکھوجاتے۔شبھ لگن پھرکب آئے گا۔
اتفاق سے ایک روزشیخ ہمدم بھی آگئے اوران تنیوں نے مل کرشبھ لگن منائی لیکن شیخ عمدم خاموش ہوگئے اورپھراپنے مخصوص اندازمیں کہنے لگے:’’یہ سب ٹھیک ہے ۔الیاس صاحب!لیکن امرتسرکے ربابیے لڑکے سے نہر کے کنارے پرگاناسننااورپھرماشااللہ گانے والے جناب نورصاحب ہوں بات ذراخطرناک ہے۔‘‘
’’خطرناک ہے۔‘‘ایلی کی سمجھ نہ آیاکہ آخربات خطرناک کیوں تھی ۔اس میں خطرے کی کیابات تھی۔نوران کے ساتھ بے حدمانوس ہوچکاتھااوراب تواس پرواضح ہوچکاتھاکہ ان کامقصدموسیقی کے سواکچھ نہیں اوراس کاپاؤں ٹھمکانا‘آنکھیں مٹکانااورہونٹ نکالناقطعی طورپربے کاتھا۔ایلی نے اب سے پہلے کبھی اتنے چھوٹے بچے کوایسی عریاں حرکات کرتے ہوئے نہیں دیکھاتھا۔
نورچندایک روزکے لئے توان کامنہ تکتارہاپھرجب اسے یقین ہوگیاکہ اس کایہ نیاتعلق اپنی نوعیت کابالکل انوکھاتعلق ہے تووہ حیران رہ گیا۔یہ بات اس کی سمجھ میں نہ آتی تھی۔سمجھ میں آتی توبھی اسے یقین نہیں پڑتاتھا۔پھرنہ جانے اسے کیاہواکہ ایک روزپھوٹ پھوٹ کررونے لگا۔
’’خداکے لئے مجھے بچالو۔مجھے اپنے ساتھ لے چلو۔میں یہ زندگی بسر نہیں کرناچاہتا۔‘‘اس کی آنکھوں میں آنسوتیررہے تھے۔پتلے پتلے ہونٹ لرزرہے تھے اوروہ امیدبھری نگاہوں سے ایلی اورآصف کی طرف دیکھ رہاتھا۔ندی کے کنارے پرسوکھے ہوئے درخت جوشبھ لگن سے ہرے ہوچکے تھے۔پھرسے سوکھ گئے۔ ندی کے پانی کی روانی تھم گئی۔جیسے وہ ایک جوہڑبن گئی ہواوران کے اردگردایک وسیع ویرانہ پھیلاہواتھا۔
بیگانے دوست
ایک روزآصف بھاگابھاگاایلی کے پاس آیااوراس کارنگ زردہورہاتھا۔
’’ایلی‘‘وہ بولا۔’’وہ ۔وہ سفینہ پھریہاں آرہی ہے۔اگروہ آگئی توپھرمیں کیاکروں گا۔چلوہم امرتسرسے بھاگ چلیںایلی۔‘‘
’’لیکن جائیں کہاں۔‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’کہیں بھی ۔‘‘اس نے آہ بھرکرکہا۔
’’نہیں آصف۔‘‘ایلی نے سنجیدگی سے جواب دیا۔’’اگروہاں بھی لڑکیوں نے تمہیں سلام کرنے شروع کردیئے تو۔‘‘
’’تو۔تو۔‘‘آصف سوچنے لگا۔’’تومیں کیاکروں ۔‘‘اس نے بے بسی سے ہاتھ چلایا۔
’’تم ان کی شکایت کرناچھوڑدو۔‘‘ایلی نے سوچ کرکہا’’شکایتوں کی وجہ سے وہ چڑجاتی ہیں۔ضدپیداہوتی ہے ۔ تم خودانہیں سلام کرناشروع کردوتاکہ وہ خودتمہاری شکائتیں کریں۔‘‘
’’میری شکائتیں۔‘‘آصف گھبراکربولا۔’’نہیں نہیںیہ میں برداشت نہیں کرسکتا۔‘‘
’’اگرتم انہیں سلام کرناشروع کردوگے توان کابرتاؤمحبوب کاساہوجائے گا۔‘‘ایلی نے کہا۔’’اوروہ تم سے دوربھاگنے لگیں گی۔انہیں دوربھگانے کی یہی ایک ترکیب ہے۔‘‘
’’اچھا۔‘‘آصف نے تالی بجائی۔’’کیایہ چلے گی۔پھرتوبہت اچھاہے۔‘‘
آصف سمجھ رہاتھاکہ ایلی اسے مشورہ دے رہاتھا۔حالانکہ درحقیت مشورے کے پردے میں وہ اپنی مشکل بیان کررہاتھاوہ محسوس کررہاتھاکہ کوئی لڑکی ایسی نہ تھی جوصبح سویرے اٹھ کراسے سلام کرتی ہو۔کوئی بھی تونہ تھی جو اس کے لئے بیقرارہو۔بلکہ قریب آکربھی وہ گٹھڑی کی طرح سمٹ جاتی تھیںاورکوشش کے باوجودبھی کھل نہ سکتی تھیں۔
’’لیکن لیکن آصف ۔‘‘ایلی نے کہا’’ایساکویں ہوتاہے اگرتم ان کی تلاش میں سرگردان ہوجاؤ تووہ دوربھاگتی ہیں اوراگرتم ان سے دوربھاگوتووہ تمہاراپیچھاکرتی ہیں۔‘‘
’’ہاں ‘‘آصف گنگنایا‘’’مگرمیں ان کی تلاش میں کیسے کھوجاؤں۔‘‘
اس کے برعکس ایلی سوچ رہاتھاکہ وہ انہیں اپنی تلاش میں کیسے سرگرداںکرے۔کس طرح انہیں تلاش پرمائل کرے۔
وہ دونوں بہترین دوست تھے لیکن ایک دوسرے سے اس قدرقریب ہونے کے باوجودایک دوسرے سے کس قدر دورتھے۔کس قدربیگانہ ۔ان کی مشکلات ایک دوسرے سے کس قدرمختلف اورمتضادتھیں۔
’’اچھا۔‘‘آصف نے کہا۔تومجھے بتاؤکہ میں کس طرح ان پرظاہرکروں کہ میں ان کامتلاشی ہوں۔‘‘
’’تم صبح اٹھ کران کوسلام کرناشروع کردو۔‘‘ایلی نے سوچتے ہوئے کہا۔’’اورکبھی کبھی دوپہریاشام کوکوشش کرکے کوٹھے یاکھڑی سے اسے دیکھ لیاکرو۔‘‘
’’اچھا۔میں کوشش کروں گا۔‘‘آصف بولا۔
اورایلی نے دل میں سوچااچھامیں کوشش کروں گاکہ کسی کواپنے لئے سرگرداں کروں۔مائل جستجوکروں۔
وہ کوچہ
ایلی اب محسوس کرنے لگاتھاجیسے وہ سمندرمیں بہتاہواتنکاہو۔خصوصاًجب وہ اس کوچے میں جاتاتویہ احساس اس کی رگ وپے میںبس جاتا۔وہاں پہنچ کروہ محسوس کرنے لگتاجیسے زندگی ایک گرداب ہوجس میں افرادکی چھوٹی چھوٹی قندیلیں اپنی اپنی دھن میں سلگ رہی ہوں اورگرداب کے بہاؤ کے ساتھ ساتھ دیوانہ وارگھوم رہی ہوں۔
جب کبھی شام کے وقت ایلی آغاسے ملنے ان کے یہاں جاتاتوآغاایلی کولے کرڈیوڑھی کے باہرکھڑے ہوجاتے تاکہ کٹڑے میں چلتے پھرتے لوگوں کاتماشاکرسکیں۔کٹڑے میں لوگ پان کھاتے،سگریٹ کے کش لیتے اورنگاہوں کی انگلیوں سے چوباروں میں بیٹھی ہوئی رقاصاؤں کوچھیڑتے۔اشارے کرتے۔تماشین تانگوں پربیٹھ کرچوباروں کی طرف گرم نگاہیں ڈالتے ہوئے گزجاتے۔مزدوروں کے گروہ کوچے میں ٹہلتے ۔تاجرنگاہیں جھکائے قدم اٹھاتے ہوئے نکل جاتے ۔شوقین مزاج دوکانداروں کی نگاہیں گاہکوں اوررقاصوں کے درمیان یوں گھومتیں جیسے گھڑی کاپنڈولم چلتاہے۔
ہرچندگھنٹوں کے بعدکٹڑے میں کوئی ایساشخص بھی آنکلتاجیسے دیکھ کرلوگوں کی نظروں چوباروں سے ہٹ کراس کی طرف منعطف ہوجاتیں۔بازارمیں ایک مدھم سی سرگوشی ابھرتی۔
’’کون ہے۔‘‘
’’ہائیں یہ ہے وہ۔‘‘
’’یارانہ ہے اس سے کیا؟‘‘
اوروہ سرگوشی برف کی گیندکی طرح لڑھکتی ۔لڑھکتے جاتی۔حتیٰ کہ ساراکٹڑااس کی لپیٹ میں آجاتا۔رقاصائیں بھی اپنے بے نیازانہ اندازکوچھوڑکربچوں کی طرح بازارکی طرف دیکھنے لگتیں اورچندساعت کیلئے انہیںیادنہ رہتاکہ وہ دیکھنے کے لئے نہیں بلکہ اپناآپ دکھانے کے لئے وہاں بیٹھ ہیں۔اس وقت رقاصاؤں میں نسائیت کی جھلک نمودارہوجاتی اورمحسوس ہونے لگتاکہ وہ گڑیاںنہیں بلکہ جیتی جاگتی عورتیں ہیں۔
لکھنؤ الہ آبادیامدارس کاکوئی مشہورسازندہ آجاتایاکوئی پیرانوکھالباس پہنے اپنے ساتھیوں کے ساتھ کٹڑے میں داخل ہوتا۔وہاں مشہورڈاکواورلیٹرے آیاکرتے تھے۔کروڑپتی اورگویے تواکثرآتے۔لیکن کٹڑے میں سب سے زیادہ دھوم انسپکٹررؤف کی تھی۔
انسپکٹررؤف
اگرانسپکٹررؤف آجاتاتوفوراًبازارپرسناٹاچھاجاتا۔پنواڑی سہم کرپیچھے ہٹ جاتے۔دوکاندارچوباروں کی طرف دیکھناموقوف کردیتے ۔راہ گیرنگاہیںجھکالیتے ۔ادھرچوباروں میں سرخی بھرے چہرے زردپڑجاتے۔نگاہوں میں شوخی کی جگہ گھبراہٹ دوڑجاتی ۔رقاصائیں یوں چپ چاپ گردن جھکائے بیٹھ جاتیں جیسے طبیعت ناسازہو۔
اس زمانے میں کٹڑے پررؤف کی حکومت تھی۔وہ کٹڑااس کی ریاست تھی۔جب شام کے وقت وردی پرسیٹی پیٹی لگائی۔سرپرطرے دارپگڑی باندھے اپنے باڈی گارڈکے ساتھ وہ کٹڑے میں نکلتاتوایک سرگوشی ابھرتی اورتیزی سے یہاں سے وہاں تک دوڑجاتی اوراپنے عقب میں بھیانک خاموشی چھوڑجاتی۔
پنواڑی چوباروں کی طرف تاڑنے کاشغل چھوڑکرشدت سے پان بنانے میں مصروف ہوجاتے۔دوکان پرکھڑے شوقین نظریں لڑانے کاخیال موقوف کردیتے۔جنرل مرچنٹس کے سلیزمین حساب کتاب کے رجسٹرکھول کرمصروف ہوجاتے۔
انسپکٹررؤف کی آمد کی خبرسن کرچوباروں میں سازندوں کے ہاتھ لرزکرممنوع سروں پرجاپڑے دکھ بھری سروں پرقیام لمبے ہوجاتے۔سارنگیاں ناچناچھوڑکرروناشروع کردیتیںاورمسکراتی ہوئی رقاصائیں گھبراکرگاناچھوڑدیتیں اورکھوئے ہوئے اندازمیں پان لگانے بیٹھ جاتیں۔
انسپکٹررؤف تمہیدکے طورکٹڑے کے دوتین چکرلگاتے ۔پھرکسی چوبارے کی دروازے پراپنے سپاہی کومتعین کردیتے اورخودسیڑھیاں چڑھ کراوپرجاپہنچتے۔ان کے سیڑھیاں چڑھتے ہی وہ طلسم گویاٹوٹ جاتا۔اس وقت کوئی پنواڑی نعرہ لگاتا’’علی ‘‘اس کاوہ نعرہ کن بن کرکٹڑے میں گونجتااورکٹڑے میں رکی ہوئی زندگی پھرسے حرکت میں آجاتی۔تماش بینوں کی نگاہیں بے باکی سے کھڑکیوں پرمنڈلاناشروع کریتیں۔پنواڑیوں کی دوکانوں پرکھڑے شرفاپھرسے رقاصاؤں کوتاڑنے لگتے۔رقاصاؤں کے ہونٹوں پرایک بارپھرتبسم لہراتااوران کے دل سے بوجھ اترجاتا۔
البتہ جس چوبارے پرانسپکٹررؤف چڑھ جاتے تھے وہاں لوگ کی حالت بد سے بدترہوجاتی۔محفل برخواست ہوجاتی۔سیٹھ اورتاجرچپکے سے نیچے اترآتے۔میراثی ہاتھ دھرکربیٹھ جاتے۔
پھراگررؤف کے حکم کے مطابق وہاں راگ رنگ ہوتابھی توسارنگیاں گانے کی بجائے بین کوتین طبلہ سرپیٹتا۔پھرکچھ دیرکے بعدچوبارے سے انسپکٹررؤف کے دھاڑنے کی آوازیں آتیں جوسارے کٹڑے میں گونجتیں۔وہ نشے میں چیختاچلاتااوردھمکیاں دیتا۔غلیظ گالیاں دیتااورپھرایسے لگتاجیسے چوبارے میں دنگافسادہورہاہو۔وہ بالآخربتیاں بجھ جاتیں اورسکوت چھاجاتااورکٹڑے والے محسوس کرتے جیسے اس گہری خاموشی سے کراہوں کی آوازآرہی ہو۔
انسپکٹررؤف کے علاوہ کوئی دوسری شخصیت جوکٹڑے پراثراندازہوتی تھی،پیرسبزپوش کی تھی۔جب بھی وہ کٹڑے میں داخل ہوتے توایک تعجب اورخاموشی بھری سرگوشی بلندہوتی۔پنواڑی پان لگاناچھوڑدیتے۔تماش بینوں کی نگاہیںچوباروں سے ہٹ کرپیر صاحب کے چہرے اور لباس پرمرکوزجاتیں۔سیزمین دوکان کے اندرونی حصے سے دوڑکرباہرآکھڑے ہوتے اوررقاصائیں جنگلوں پرکھڑی ہوکرنیچے دیکھنے لگ جاتیں۔
پیرصاحب کے سبزریشمیں پیراہن پران کی لابنی سیاہ زلفیں لٹکتیں ان کے سرپرریشمیں سبزرومال عربی اندازسے بندھاہوتااوران کاحسین نسائی چہرہ چمکتااوررسیلی سیاہ آنکھیں جھکی رہتیں۔ان کے خدوخال ستواں تھے۔ان کی آنکھیں دیکھنے والی نہیں بلکہ دکھنے والی تھیںاورانہیں دیکھ کرمحسوس ہوتاتھا۔جیسے کوئی حسین عورت جوگی لباس پہنے چوبارے سے اترکرتفریحاًکٹڑے کے بازارمیں گھوم کراپنی نمائش کررہی ہو۔
آنچل اورگٹھڑیاں
اس کوچے کودیکھ کرنہ جانے ایلی کوکیاہوجاتا۔اس کے جسم پرچیونٹیاں رینگنے لگتیں اورپھرایک عجیب سی کیفیت طاری ہوجاتی اوراس کاجی چاہتاکہ وہ وہیں کھڑادیکھتارہے ۔دیکھتارہے۔
اب اس کے لئے آغاکے ملاقاتی کمرے میں بیٹھناناممکن ہوچکاتھا۔جب بھی وہ وہاں بیٹھتاتواسے محسوس ہوتاکہ کوئی اس پرہنس رہاہے۔اس کامذاق اڑارہاہے۔ایک رنگین آنچل لہراتااورکوئی ہنستاجیسے مذاق اڑاتا۔ایلی گھبراکراٹھتااورزینے کی طرف بھاگتازینے میں کھڑی نیم کے ہونٹوں پرپراسرارتبسم ہوتا’’آگئے ،آگئے ۔‘‘وہ آنکھیں مٹکاکرکہتی ۔ایلی کواس کی آوازمیں بلاکاطنزمحسوس ہوتاپھروہ باہرنکل جاتااوربازارکے کسی کونے میںکھڑاہوکرلوگوں کی طرف دیکھنے میں کھوجاتا۔
کالج میںجب آصف مسکراکراس کی طرف دیکھتے ہوئے کہتا’’ایلی تسلیم۔‘‘توایک ریشمیں گٹھڑی دھم سے ان کے درمیان آگرتی اوراس کارازکھول دیتی۔وہ محسوس کرتاکہ آصف اس کے رازسے واقف ہے ۔ وہ جانتاہے کہ ایلی ایک ریشمیں گٹھڑی کھولنے کی ہمت بھی نہیں رکھتا۔
پھرشام کودودونوں آموں کی کوٹھی قریب نہرکے کنارے نورسے ملتے اورنورکسی پیڑکے نیچے بیٹھ کرگاتااورشبھ لگن سے بہارآجاتی۔لیکن سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ نورکے لئے شہرسے اتنی دورچل کرآموں کی کوٹھی تک پہنچنامشکل تھااورنورکوگھرسے بلاناممکن نہ تھا۔کیونکہ نورمحلے کے لڑکوں سے اس قدرخوف زدہ تھاکہ اسے یہ گوارانہ تھاکہ کوئی جاکرگھرسے اسے بلائے ۔نورسے ایک جگہ مقررکرلی جاتی اورایلی مقرروقت پروہاںجاکرنورکواپنے بائیسکل پربٹھاکربورڈنگ میں لے آتا۔ایلی کویہ احساس نہ تھاکہ نورکویوں بائیسکل پرلاناخطرے سے خالی نہیں۔اسے معلوم نہ تھاکہ نورکویوںبائیسکل پرلاناخطرے سے خالی نہیں اسے معلوم نہ تھاکسی لڑکے سے دوستی کی وجہ سے عداوت بھی پیداہوسکتی ہے۔
ایک روزجب ایلی سفیدچوک میں کھڑانورکاانتظارکررہاتھاتوایک پہلوان قسم کاشخص آگیااوربڑی بے تکلفی سے بولا۔’’دیکھ بابوتونورکاپیچھاچھوڑدے ورنہ خون بہہ جائے گااورتیری کھلڑی اترجائے گی۔‘‘یہ کہہ کراس نے غصے میں نل پرایک گھونسہ مارا۔پانی کاایک فوارہ چھوٹااورایلی کے کپڑے بھیگ گئے۔
اس روزآصف اورایلی تن تنہانہر کے کنارے خاموش بٹیھے رہے حتیٰ کہ سورج کی سرخ دھاریاں دھندلی پڑگئیں۔اوردورشہرکی بتیاں روشن ہوکرناچنے لگیں۔مگرشبھ لگن سے بہارنہ آئی۔دیرتک وہ دونوں خاموش بیٹھے رہے۔
پھرایلی نے کہا۔’’آصف میراجہاں جی نہیں لگتا۔‘‘
’’توپھرمیں علی پورسے ہوآؤں کیا۔‘‘ایلی نے کہا۔
’’اس سے کیاہوگا۔‘‘
’’پتہ نہیں۔‘‘ایلی بولاشاید۔‘‘
’’اچھا۔‘‘آصف نے آہ بھری۔’’لیکن میں کہاں جاؤں۔‘‘
’’کیوں ۔تم تویہاں خوش ہو۔‘‘
’’ہاں خوش ہوں۔بڑاخوش ہوںلیکن ۔‘‘آصف نے آہ بھری’’لیکن کیا۔‘‘ایلی نے کہا۔’’معلوم نہیں۔‘‘آصف نے سرجھکالیاایسے معلوم ہوتاہے جیسے اب یہ شہرویران ہوگیاہے۔جیسے کچھ باقی نہیںرہاجیسے کچھ کھوگیاہے۔‘‘
’’اب تووہ یہاں نہیں۔اب توتمہیں کوئی تنگ نہیں کرتی۔‘‘ایلی نے طنزاًکہا۔’’ہاں۔‘‘آصف نے آہ بھری۔’’اب مجھے کوئی تنگ نہیں کرتی۔‘‘
’’پھربھی تم اداس ہو۔عجیب بات ہے۔‘‘ایلی بولا۔
’’ہاں۔‘‘آصف نے اثبات میں سرہلایا۔’’عجیب بات ہے۔اچھاتم ہوآؤ علی پورسے۔‘‘اس نے آہ بھری۔’’کاش کہ میرابھی کوئی علی پورہوتا۔‘‘
اس روزوہ دونوں دیرتک اندھیرے میں نہرکے کنارے بیٹھے رہے حتیٰ کہ اللہ دادلکڑی اٹھائے ان کی تلاش میں آپہنچا۔
’’ارے یہاں بیٹھے ہوتم دونوں۔‘‘وہ چلایا۔’’اورمیں سمجھاشایدنہر میں ڈوب گئے جوابھی تک نہیںآئے۔’’ہاں ۔‘‘وہ انہیں خاموش دیکھ کرچلایا’’کیاکررہے ہومیاں۔یوں چپ چاپ بیٹھنے سے مطلب چلوایلی چلو۔‘‘
رات کے وقت لیٹے ہوئے ایلی نے شدت سے محسوس کیا جیسے شبھ لگن گزرگئی اوربہارکے بعدچاروں طرف خزاں کی ویرانی چھاگئی ہو۔چاروں طرف ایک لٹی ہوئی دنیاتھی۔دورندی کادھارااداس آوازمیں گنگتارہاتھا۔لہریں ہچکیاں لے رہی تھی۔درخت شائیں شائیں بھررہے تھے۔رسوئی میں راموبھدی آوازمیں کچھ گنگنارہاتھااورچاروں طرف گپ اندھیرالہریں ماررہاتھا۔
اس کاخیال نیم کی طرف منعطف ہوگیا۔ایک گٹھڑی سی لپٹ گئی۔ایک قہقہہ بلندہوااورزرداداس چہرے ستونوں کی اوٹ سے نکل کرجھانکنے لگے۔بڑی بڑی سیاہ آنکھیں تمسخرسے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔
گھبراکراس نے باورچی خانے کے نل کوگھورناشروع کردیا۔۔۔کتناغلیظ نل ہے۔اس نے جھرجھری لی۔نہ جانے راموکہاں ہے کس کام میں لگاہے۔شایدبرتن صاف کررہاہو۔شایدرسوئی میں بیٹھاہو۔اسکی نگاہیں پھرنل پررک گئی۔اگراس کے گرداینٹوں کاچبوترابنادیاجائے تواس کی نگاہ میں نل کے گردایک صاف ستھراچبوترہ بن گیا۔’’اوربابو۔‘‘ایک بدمعاش اس کی طرف لپکا‘‘کھلڑی اترجائے گی تیری۔ہاں۔‘‘ایلی نے گھبراکرآنکھیں بندکرلیں۔اسے محسوس ہونے لگاکہ نل سے چھینٹے اڑرہے ہیں اوروہ شرابورہوچکاتھا۔
رینگتی دیواریں
اگلے روزایلی گاڑی میں علی پورجارہاتھا۔
بخارکی وجہ سے اس کی کنپٹیاں تھرک رہی تھیں۔دل میں دھنکی بج رہی تھی۔گاڑی ہرے بھرے کھیتوں میں جارہی تھی۔یہاں وہاں سبزگٹھڑیاں پڑی تھیں۔
ایک گٹھڑی قریب آتی۔دفعتاً اس میں سے دوحنامالیدہ ہاتھ ایلی کی طرف لپکتے اورپھرشمیم کی ہنسی کی آوازسنائی دیتی۔’’ہی ہی ہی‘‘علی احمدقہقہہ مارتے۔’’کشمیرکے سیبوں پرپلی ہے ہاں۔‘‘
دوسری گٹھڑی کے پٹ کھل جاتے۔بھووں کے عین درمیان ایک تارہ چمکتا۔جیسے وہ روشن بندی ہو۔پھرسیاہ جھیلوں میں دودئیے روشن ہوجاتے۔
’’رے رے رے۔‘‘ارجمندچھاتی پیٹتا۔’’جب سے اس پنڈوراکی گٹھڑی کے پٹ کھلے ہیں ایک قیامت لوٹ پڑی محلے پر۔‘‘
لڑھکتی ہوئی ایک اورگٹھڑی قریب آجاتی اورکھلنے کی بجائے مزیدلپٹے جاتی۔پٹ اوربھی بندہوجاتے۔پھرچاروں طرف سے حسین چہرے جھانکتے۔ایک قہقہہ ابھرتا۔’’بے چارہ بے چارہ۔‘‘
ایلی چونک جاتا۔وہ اپنے آپ کوجھنجھوڑتا۔لیکن گذشتہ خفت کااحساس اس کے دل پرمسلط ہوجاتا۔پھرسبزگٹھڑی قریب آکرکہتی۔
’’اسے بھول جاؤایلی۔بھول بھول جاؤ۔میری طرف دیکھو۔میری طرف۔‘‘
گھبراکروہ لاحول پڑھنے لگتا۔’’یہ میں کیاسوچ رہاہوں!یہ کیسے ہوسکتاہے؟‘‘پھرشریف اس کی طرف دیکھ کرمسکراتا۔’’تم امتحان میں پاس ہوگئے ہوایلی۔تم میں جرات ہے۔جاذبیت ہے۔‘‘’’ہاں ہاں‘‘شہزادکہتی۔’’اب توایلی سے ڈرآنے لگاہے۔‘‘اوروہ گھبراکرپیچھے ہٹتی اوردفعتاًایلی دیکھتاکہ وہ اس پرجھک گئی ہے اورسیاہ جھیلوں پرکنول سے دیئے روشن ہوگئے ہیں۔
جب وہ محلے میں پہنچاتوشام پڑچکی تھی۔بڑی ڈیوڑھی ویران پڑی تھی چوگان میں کوئی نہ تھا۔چپکے سے وہ گھرکی سیڑھیاں چڑھنے لگا۔
گھر پرخاموش چھائی ہوئی تھی۔صرف دادی اماں کے کمرے میں مٹی کادیاجل رہاتھا۔وہ چپکے سے دروازے میں جاکھڑاہوا۔دادی اماں کاتخت جہاں وہ نمازپڑھاکرتی تھی،خالی پڑاتھا۔دادی اماں چارپائی پربے حس وحرکت پڑی تھی اورسیدہ اس کے اوپرجھکی ہوئی تھی۔حمیدہ اوررشیدہ چپ چاپ ایک کونے میں سہمی ہوئی بیٹھی تھیں۔
دیر تک وہ چپ چاپ کھڑارہا۔پھراس نے آہستہ سے آوازدی۔’’دادی اماں‘‘سید ہ نے مڑکراس کی طرف دیکھااورہونٹوں پرانگلی رکھ کرچپ رہنے کااشارہ کیادادی اماں میں حرکت پیداہوئی۔اس نے نحیف ونزارآوازمیں کہا۔’’ایلی ہے اچھااچھا۔‘‘اورپھرخاموش ہوگئیں۔
اس پرایلی سیدہ سے چمٹ گیا۔’’تم اس طرح سے کیوں بیٹھی ہو۔دادی اماں کوکیاہے وہ لیٹی ہوئی کیوں ہیں۔بولتی کیوں نہیں۔بولو۔بولو۔تم سب خاموش کیوں ہو۔‘‘سیدہ نے ایلی کے منہ پرہاتھ رکھ دیا۔اوراشارے سے بولی۔’’چل کمرے میں یہاں نہیں۔‘‘
جب وہ کمرے میں پہنچاتووہاں ماں کودیکھ کراوربھی گھبراگیا۔
’’ایلی آیاہے۔‘‘ہاجرہ چلائی۔’’کب آیاتو۔‘‘
’’دادی اماں کوکیاہواہے؟‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’اس کی حالت اچھی نہیں۔‘‘
’’بیمارہے؟‘‘
’’ڈاکٹروں نے جواب دے دیاہے۔توجاادھر فرحت کی طرف۔ادھرسوجاکے ۔یہاں ہم جوہیں۔‘‘
’’لیکن مجھے دادی اماں۔‘‘
’’اسے اپناہوش نہیں ۔بہت تکلیف میں ہے جاشاباش۔‘‘ہاجرہ نے منت کی ۔’’سیدہ‘‘وہ اس کے داخل ہونے چلاکربولا۔جواب میں سیدہ نے ہونٹوں پرانگلی رکھ کراشارہ کیا۔
’’شورنہ مچاہوش آتاہے تووہ مچھلی کی طرح تڑپتی ہے۔تین دن ہوچکے ہیں۔بڑے عذاب میں مبتلاہے۔اللہ اس کی مشکل آسان کرے۔‘‘سیدہ نے آنسوپونچھتے ہوئے کہا۔
’’آؤایلی ۔‘‘ہاجرہ بولی۔’’آؤادھر چلیں ۔‘‘اوروہ دونوں چپ چاپ فرحت کے گھرکی طرف چل پڑے۔
’’تیری دادی کی حالت اچھی نہیں۔کیامعلوم کب آنکھیں بندکرلے۔‘‘ہاجرہ نے کہا۔
’’لیکن ۔‘‘ایلی نے پوچھا۔’’کیابیماری ہے؟‘‘
’’بیماری؟اب میں اس کاکیاجواب دوں۔‘‘ہاجرہ مسکرائی۔’’عمرکاتقاضہ ہے آخرایک نہ ایک دن جاناہی ہے سب کو۔‘‘
ایلی خاموش ہوگیا۔وہ جانتاتھاکہ دادی بہت ضعیف ہے لیکن اس کے مرنے کے متعلق اسے کبھی خیال نہ آیاتھااوراب اس کے دل پرچوٹ لگی تھی۔
’’سب انتظامات کرچکی ہے اپنے ہاتھوں سے وہ‘‘۔ہاجرہ نے کہا۔’’کپڑالتاغریبوں کوبانٹ چکی ہے۔قل کے لئے چنے منگواکررکھ لئے ہیں۔کل خودہی ختم دیا۔کفن کاکپڑابھی منگواکررکھاہواہے۔بس اب توگھڑی پل کی بات ہے۔جبھی تومیں رات کوادھرہی رہتی ہوں۔لیکن ایلی توادھرفرحت ہی کی طرف سوئیو۔میں تمہیں وہاں چھوڑکرواپس آجاؤںگی۔‘‘
’’ہوں۔‘‘ایلی خاموش ہوگیا۔
’’تودادی کے پاس سوکرکیاکرے گا۔‘‘ہاجرہ نے کہا۔’’اسے تواپناہوش نہیں اس کاسانس بگڑتاہے۔توبڑی تکلیف ہوتی ہے اسے۔توکیاخدمت کرے گااس کی۔اس نے توکبھی کسی سے خدمت نہیں کرائی آج تک۔‘‘
ایلی نے محسو س کیاجیسے وہ علی پورنہیں بلکہ امرتسر ہی میں ہو۔چاروں طرف اداسی ہوئی تھی۔محلے کے اونچے لمبے مکانات خاموش کھڑے تھے۔نانک چندی اینٹوں کی دیواریں رینگ رہی تھیں۔دیواروں پرچمکاڈریں منڈلارہی تھیںوہ یوں چیخ رہی تھیںجیسے اس کی بیچارگی پرقہقہے لگارہی ہوں۔کھڑکیاں ویران پڑی تھیں۔جن پرسیاہ تیلیوں کے پردے جھول رہے تھے دورکچی حویلی میں کڑی لال ٹین سرجھکائے سوچ رہی تھی۔
فرحت کی طرف جاتے ہوئے ایلی محسوس کررہاتھاجیسے علی پورایک ویرانہ ہواس کے گردایک دھندلی اورلٹی ہوئی دنیاتھی۔جس میں کوئی بات بھی جاذب نظرنہ تھی وہ محسوس کررہاتھاجیسے جینے کے لئے کوئی جوازباقی نہ رہاہو۔جیسے زندگی اپنی تمام رنگینی اوردلچسپی کھوچکی ہو۔
گلال پچکاری
ہائیں۔وہ گھبراکررک گیااس کے روبروچوبارے میں شہزادبیٹھی اس کی طرف دیکھ کرمسکرارہی تھی۔تخت پرسینے کی مشین پڑی تھی۔جس کے ایک جانب دوبلوریں پاؤں قرینے سے رکھے تھے۔سیاہ جالی کے ڈوپٹے سے دوسفید بازونکل کر مشین کوتھامے ہوئے تھے۔ریشمیں ملبوس کے اوپرایک متبسم چہرہ،دونوکیلی آنکھیں اوران پرپیشانی کاسیاہ تل۔گھبراکرایلی نے نگاہ جھکالی۔
شہزادکے سرخ حنامالیدہ ہاتھوں نے جیسے اس کے منہ پرطمانچہ ماردیا۔سرخ بوندیاں ناچنے لگیں۔ایلی لڑکھڑاگیا۔
’’توآگیاایلی؟‘‘شہزادنے مسکراکرپوچھا۔دادی کی بیماری کی خبر سن کرآیاہے؟‘‘
’’نہ ۔نہ نہیں تو۔‘‘ایلی نے اپنے آپ کوسنبھالنے کی کوشش کی ۔’’آپ یہاں ہیں۔‘‘دفعتاً اس غیرمتحرک تصویر میں جنبش ہوئی۔ایک چمک لہرائی چبھتی ہوئی چمک’’ہاں۔‘‘شہزادمشین چلاتے ہوئے بولی۔’’اب کی بارمیں ان کے ساتھ نہیں گئی۔ میں نے کہاکچھ دیریہاں رہ لوں بیٹھ جاتو۔‘‘
’’کھڑاکیوں ہے تو؟‘‘
ایلی بیٹھ گیااورشہزادکی طرف دیکھ کرسوچنے لگا۔شہزادسراٹھاکردیکھتی تواس کے ہونٹوں پرایک مسکراہٹ چمکتی عجیب سی مسکراہٹ ایسے محسوس ہوتاکہ کہ گلال بھری پچکاری چل گئی ہوجیسے شہزادبہت قریب آگئی ہوبہت قریب ۔اتنی قریب کہ قرب کی وجہ سے ایلی کے بند بندمیں بتیاں سی روشن ہوگئی ہوںجیسے اس نے نہ جانے کیاپالیاہولیکن شہزادآنکھیں جھکالیتی توایلی محسوس کرتاجیسے گھٹاٹوپ اندھیراچھاگیاہوچاروں طرف ویرانی اوراداسی چھاجاتی اس وقت ایلی کوشہزادکے حنامالیدہ ہاتھوں سے گھن آنے لگتی اس وقت محسوس کرتاجیسے وہ ننگاہو۔جیسے اس کاوجودباعث ننگ ہو۔احسان ندامت سے اس کاسرجھک جاتااوروہ دل ہی دل میں لاحول پڑھنے لگتا۔لیکن اس کے باوجوداس کے دل میں شدت سے آرزوپیداہوتی کہ شہزادایک بارپھرنگاہ اٹھاکردیکھے۔اس منورپیشانی سے بجلی چمکے چھوٹی چھوٹی بتیاں یوں روشن ہوجاتیں جیسے گلال بھری پچکاری چل گئی ہواورشہزادکے حنامالیدہ ہاتھوں کی پچکاری سے گلال کی پھوارپڑے ۔شہزادکااندازعجیب ساتھا۔جب وہ مسکراتی توفضامیں اثبات کی پھلجھڑیاں چل جاتیں۔لیکن جب وہ سنجیدہ ہوجاتی توبے نیازی کادبیزپردہ پڑجاتااورپھروہ گویاایلی کی موجودگی اورگویاوجودسے بھی بے تعلق ہوجاتی۔نہ جانے یہ کیاسحرتھایوں لمحہ بھرمیں اس قدرقریب آجاتااورپھردوسرے لمحے میں جیسے کوسوں دورہو۔
ایلی اکثرسوچتاتھاکہ وہ خصوصی مسکراہٹ کیاتھی جوقرب کااحساس دیتی تھی۔نہ جانے اس کی مسکراہٹ میں کیاجادوتھا۔جیسے کوئی ان جانی شبھ لگن آگئی ہو۔اس نے کئی باررفیق کی بیوی کے ہونٹوں پروہ مسکراہٹ دیکھی تھی مگررفیق پراس کاذرابھی اثرنہ ہوتاتھا۔گلال کی اس پچکاری تلے کھڑے ہوکر بھی وہ ویسے ہی خشک رہتااورپھرتیوری چڑھاکرخشک آوازمیں اسے ڈانٹتا’’ڈوپٹہ سنبھالو۔سرننگاہواجارہاہے۔‘‘اورپھرباہر نکل جاتا۔
کئی بارشریف کے پاس بیٹھے ہوئے اس نے محسوس کیاتھاکہ شہزادکی آنکھوں میں وہی تبسم کی لہر چمک رہی ہے اوراس نے محسوس کیاتھاجیسے شہزادواضح الفاظ میں اپنے خاوندسے کچھ کہہ رہی ہو۔جیسے دورکھڑے رہنے کے باوجوداس کے قریب آگئی ہو۔اس کی گودمیں بیٹھ گئی ہو۔شریف اس کے جواب میں گھورتاتونہیں تھا۔لیکن اس کی آنکھوں مسرت کی جگہ اداسی جھلکتی حسرت اوراداسی،اورپھرشہزاداس کی حسرت بھری اداسی کومحسوس کرکے چونکتی۔وہ بتی بجھ جاتی،اورگھٹاٹوپ اندھیراچھاجاتا۔ایسی چمک اس نے مردوں کی آنکھوں میں کبھی نہ دیکھی تھی۔ہاں عورتوں کی آنکھوں میں کئی باردیکھی تھی،لیکن عورتوں میں نہ جانے کیاہوتاتھا۔نہ جانے وہ نگاہ کیاتھی،مسکراتی تووہ ویسے بھی تھیں لیکن ہرمسکراہٹ میں وہ بات پیدانہ ہوتی تھی۔
شہزاداکثرمسکرامسکراکرایلی سے باتیں کیاکرتی تھی۔لیکن اس کے باوجودایلی کومحسوس ہوتاجیسے وہ مسکراہٹ محض سطحی ہو لیکن شریف کی طرف دیکھ کرمسکراتی توایلی تڑپ اٹھتا۔وہ مسکراہٹ عام مسکراہٹ سے کس قدرمختلف ہوتی تھی۔ایلی کوجی چاہتاکہ کوئی اس کی طرف بھی وہی مسکراہٹ لہرائے۔ویسی ہی مسکراہٹ سے دیکھے۔ان دنوں ایلی کی سب سے بڑی آرزواورحسرت وہ مسکراہٹ تھی۔
ایلی کے جسم کابندبنداس نگاہ کابھوکاتھااورپھرشہزادسے’’میرے ایسے نصیب کہاں‘‘۔وہ سوچتاکہ شہزادمیری طرف وہ نگاہ ڈالے ۔پھربھی کبھی کبھاروہ محسوس کرتاکہ وہ گلال بھری پچکاری چلاہی چاہتی ہے اورشہزاداوروہ شرابورہواہی چاہتاہے۔لیکن دفعتاًنہ جانے کیاہوجاتا۔بات بگڑجاتی،گلال کی جگہ دوایک پھول پتیاں برستیں اورپھرمطلع غبارآلودہوجاتا۔پھول پتیوں کاکیاتھاوہ توہرتبسم پراڑاکرتی تھیں۔
کچھ دیرایلی شہزادکے سامنے بیٹھارہا۔پھراس کے لئے وہاں بیٹھے رہناناممکن ہوگیا۔شہزادنہ جانے کہاں تھی۔اس کے چہرے پرایک وقارتھی۔بے حسی تھی۔
ایلی اٹھ بیٹھا۔’’اچھااب میں جاتاہوں فرحت انتظارکررہی ہوگی۔‘‘
’’اچھاتومل آاسے ۔‘‘اس نے سراٹھائے بغیرکہا۔’’لیکن چائے یہاںپینانیچے جانوبنارہی ہے۔‘‘
’’اچھاتومیں ابھی۔‘‘یہ کہہ کروہ فرحت کی طر ف چل پڑا۔
احساس عظمت
نیچے صفدراندھیری کوٹھری کے ساتھ والاکمرہ صاف کررہاتھا۔
’’ہائیں ایلی ہے۔‘‘صفدراسے دیکھ کرچونکا’’چھٹی لے کرآئے ہو؟‘‘
’’دادی اماں ۔‘‘صفدرنے دانت پیسے۔’’وہ نہیں مرے گی وہ کبھی نہیں مرے گی وہ مرے تومیں پارٹی دوں گا۔ضروردوں گاایمان سے مذاق نہیں۔‘‘
ایلی کوصفدرکی بات اچھی نہ لگی۔
’’آؤ۔آؤ۔بیٹھ جاؤایلی۔‘‘صفدرنے اس کابازوپکڑلیا۔’’بیٹھ جاؤ۔‘‘
ایلی بہت خوش تھاکہ محلے کاایک بڑالڑکااسے اتنی اہمیت دے رہاتھااورپھروہ لڑکاجیسے تھیٹرکی پارسی لڑکی سے عشق تھا۔
’’تم مجھ سے کبھی ملتے ایلی۔میرے پاس بھی آکربیٹھاکرو۔اوروں کے پاس بیٹھتے ہوتوہمارے پاس بیٹھنے میں کیاحرج ہے۔‘‘
ایلی کوصفدرکی باتیں سمجھ میں نہ آرہی تھیں نہ جانے کیاکہہ رہاتھاوہ اس کے بازوعجیب اندازسے پھیلے ہوئے تھے۔دائیں بازوپرنیلے حروف میں کچھ کھداہواتھا۔شایداس پارسن کانام ہوایلی کوجی چاہتاتھاکہ وہ ان نیلے حروف کے متعلق صفدرسے پوچھے لیکن اس میں ہمت نہ پڑی۔
اگرچہ صفدراس وقت کمرے کی صفائی کرنے میں مشغول تھا۔لیکن کبھی کبھاروہ رک جاتااوراس کی آنکھوں میں چمک لہراتی۔سرخ بوندیاں اڑتیں۔لیکن جلدہی وہ چمک ماندپڑجاتی اورمحرومیت کے بادل چھاجاتے وہ ایک آہ بھرتا۔اس کے ہونٹوں میں وہی جنبش ہوتی۔’’حافظ خداتمہارا۔‘‘کی جنبش پھروہ تڑپ تڑپ کرمڑتااورایلی سے کہتا’’ایلی تم شریف کے پاس بیٹھاکرتے ہو۔لیکن میرے پاس تم کبھی میرے پاس تم کبھی نہیں آئے۔کبھی نہیں۔حالانکہ ہم دونوں کارشتہ زیادہ قریب ہے۔اچھا۔اچھاآج چائے اکٹھے پئیں گے۔‘‘
عین اس وقت چوبارے سے شہزادکی آوازآئی۔’’ایلی‘‘۔شہزادکی آوازسن کرصفدرچونک پڑااس کی آنکھوں میں چمک لہرائی اورایلی نے محسوس کیاجیسے اس کابندبندرقص کررہاہو۔
’’ایلی چائے تیارہے آؤ بھی نا۔‘‘شہزادکی آوازگونجی۔
شہزادکی آوازسن کرسبھی چونک جاتے تھے۔نہ جانے اس کی آوازمیں کیااثرتھا۔اس کی آوازمحلے والیوں کی آوازسے قطعی طورپرمختلف تھی جسے سن کریوں محسوس ہوتاجیسی ویرانی میں کوئی اڑتاہواپنچھی تان اڑاگیاہو،یاجیسے گھورگھٹامیں سورج کی کوئی کرن چمک گئی ہو۔اس کی آوازسن کرمحلے کے بزرگ بھی چونک پڑتے تھے اورپھرکسی سے پوچھتے۔’’یہ شہزادہے نا؟‘‘
صفدرنے ایلی کی طرف محروم نگاہ سے دیکھا۔’’ہاں بھئی۔‘‘وہ بولا’’اب میں کیاکہہ سکتاہوں۔کچھ بھی نہیں۔کون کچھ کہہ سکتاہے۔‘‘اس نے ایلی سے یااپنے آپ سے کہا’’اچھا۔‘‘
وہ بولا’’کبھی توہم دونوں اکٹھے چائے پئیں گے۔‘‘
ایلی صفدرکے کمرے سے باہرنکلاتوفرحت کھڑیتھی۔’’ایلی توکب آیا؟مجھے توپتہ ہی نہیں تھاکہ توآیاہے۔‘‘وہ حسرت بھری مسکراہٹ سے بولی۔’’اگرمیں شہزادکی آوازنہ سنتی تومجھے معلوم ہی نہ ہوتاکہ توآیاہے چلو شکرہے کہ ہم تیرانام توسن لیتے ہیں شہزادکی زبان ہی سے سہی۔چائے توہمارے یہاں بھی تیارہے۔‘‘
’’مگر۔۔‘‘اس نے شہزادکے چوبارے کی طرف حسرت بھری نگاہ سے دیکھ کرکہا’’تجھے فرصت مل جائے توآئیوآئے گانا۔ضرورآنا۔‘‘فرحت کی آنکھوں میں نمی نمی سی دیکھ کرایلی لرزگیا۔وہ حیران تھاکہ وہ سب ایلی کی طرف سے اس قدرمایوس کیوں تھے۔وہ سوچ رہاتھاکہ ان کی ان کہی شکایات کاکیاجواب دے مگران جانے میں ایلی میں ایک احساس برتری لہریں لے رہاتھا۔اسے اپنی عظمت کااحساس ہواجارہاتھااگرچہ اس کی سمجھ میں نہ آرہاتھاکہ وہ احساس عظمت کس وجہ سے ہے اوروہ سب اس سے مایوس کیوں تھے اوران کااندازحسرت زدہ کیوں تھا۔یہ سوچتاوہ شہزادکی طرف چل پڑا۔
بے نیازدرزن
جب وہ داخل ہواتوشہزاداسی طرح بیٹھی مشین چلارہی تھی اوراس کی نگاہ ریشمیں کپڑے پرجمی ہوئی تھی۔
’’آگئے تم۔‘‘اس نے نگاہ اٹھائے بغیرکہا۔’’دیکھوتوکب سے چائے پڑی ٹھنڈی ہورہی ہے۔‘‘
میزپرچائے کے برتن رکھے ہوئے تھے۔چندایک ساعت توایلی منتظررہاکہ ابھی شہزادآنکھ اٹھاکراس کی طرف دیکھے گی لیکن وہ جوں کی توں کام کرتی رہی۔آخروہ سوچنے لگاکہ آنکھ اٹھاکردیکھنانہ سہی لیکن اٹھ کرچائے توبنائے گی مگرجلدہی اس کی غلط فہمی دورہوگی۔
’’اب پی بھی لوناچائے۔‘‘وہ بولی ۔’’مجھے بھی ایک پیالہ بنادو۔‘‘ایلی کے تمام سہانے خیال صابن کے بلبلوں کی طرح پھوٹ گئے۔
اس نے محسوس کیاجیسے گردوپیش دھندلارہے ہوں۔جیسے وہ گراجارہاہو۔بلندیوںسے نیچے کی طرف لڑھک رہاہووہ احساس برتری کافورہوچکاتھا۔وہ سوچنے لگا’’میں چائے کابھکاری تونہیںجومیزپررکھی ہے۔‘‘اس کاجی چاہاکہ اٹھ کربھاگ جائے اوراپنے آپ کو برتراوربے نیازدرزن سے محفوظ کرلے،لیکن اٹھ کربھاگنے کی بھی ہمت نہ تھی۔پھردفعتاًاسے یادآیاکہ اس نے کہاتھاکہ میرے لئے بھی بنادوایک پیالہ،ڈوبتے کوتنکے کاسہارامل گیا۔میرے لئے بھی بنادو۔اس ایک فقرے میں جادوتھاکتنی اچھی ہے شہزاد۔۔وہ محسوس کرنے لگااورپھرچائے بنانے میں مصروف ہوگیا۔
اگلے روزصبح سویرے ہی شہزادچھم سے آنمودارہوئی۔’’چلوایلی۔‘‘وہ بولی۔’’میں کب سے انتظارکررہی ہوں۔چائے ٹھنڈی ہورہی ہے۔‘‘
’’یہاںجو بنی ہوئی ہے۔‘‘فرحت بولی۔’’دونوں بیٹھ کریہیں کیوں نہیں پی لیتے۔‘‘فرحت کے اندازمیں طنزتھی۔
’’یہاں نہیں۔‘‘شہزادتن کربولی۔‘‘چائے کامزااکیلے میں آتاہے۔‘‘
’’توجبھی ایلی کوبلانے آئی ہو۔‘‘فرحت نے پھروارکیا۔
’’ہاں ۔‘‘شہزادنے قہقہہ لگایا۔
’’مجھے بھی ساتھ لے چلو۔‘‘فرحت بولی۔
’’نہ بھائی۔‘‘شہزادنے جواب دیا۔
’’معلوم ہوتاہے کہ شریف جاتے ہوئے ایلی کوتمہیں سونپ گیاہے۔‘‘
’’ہاں۔‘‘شہزادمسکرائی۔‘‘وہ کہہ گئے ہیں ایلی کوچائے پرضروربلایاکرنا۔‘‘
’’اوہ‘‘فرحت شہزادکی دلیر ی پرگھبراگئی اورایلی چپ چاپ شہزادکے پیچھے پیچھے چل پڑا۔جب وہ شہزادکے چوبارے میں پہنچے توشہزادحسب معمول مشین کے سامنے بیٹھ کر بولی۔
’’ایک پیالہ مجھے بھی بنادو۔‘‘اورخودکام میں مصروف ہوگئی۔
دیرتک وہ چپ چاپ بیٹھاچائے پیتارہااورشہزادکپڑے سینے میں مہنمک رہی۔چائے پی کرجب وہ نیچے اتراتواندھیری کوٹھڑی میں صفدرکھڑاحسرت سے اس کی طرف دیکھ رہاتھا۔اس کے ہونٹ بھنچے ہوئے تھے جیسے ’’حافظ خداتمہارا۔گنگنانابھول چکے ہوں۔ایلی کودیکھ کر اس نے ایک ٹھنڈی آہ بھری۔ہونٹوں پرایک حسرت بھری مسکراہٹ آگئی۔نہ جانے وہ کیوں اس کی طرف حسرت سے دیکھتے تھے۔اس کاجی چاہاچلاکرکہے۔’’نہیں۔نہیں۔میں نے خوداپنے ہاتھ سے چائے بناکرپی ہے۔میرے ساتھ میزپرکسی نے چائے نہیں پی۔‘‘لیکن اس میں اتنی جرات نہ تھی۔چوگان میں عورتوں نے اس کی طرف معنی خیزنگاہوں سے دیکھا۔
’’اے ہے۔‘‘ایک بولی ’’ایلی آیاہے۔‘‘
’’میں کہہ رہی ہوں۔یہ کیاگورکھ دھندہ ہے۔‘‘چاچی بولی۔’’دادی تیری اس طرف بیمارپڑی ہے۔بہن تیری ادھر تواس ڈیوڑھی سے باہرنکل رہاہے۔‘‘
’’ہائے چاچی۔‘‘دوسری نے کہا۔’’آج کل کے لڑکے گھرپرکہاں بیٹھتے ہیں۔‘‘
’’نہ لڑکی۔‘‘چاچی نے پنترابدلا۔’’ہماراایلی ایسانہیں۔ہوگاکوئی کام آخرپڑجاتاہے اوروہ لڑکی ۔‘‘اس نے کان سے منہ لگاکرکچھ کہااورہنسنے لگی۔
’’دیکھ لوزمانے کے رنگ ہیں چاچی۔‘‘
’’یہی تودیکھ رہی ہوں۔توبہ کیازمانہ آیاہے مگرہماراایلی ایسانہیں۔‘‘
کیاکروں
پھررضاآگیا۔۔’’ٹھیک ہے بابواب کیوں ہمارے پاس آنے لگے تم۔اب توبس چوباروں میں بیٹھ کرچائے اڑتی ہے۔لوگ بلابلاکرپلاتے ہیں۔مگربابوجب اونچے چوباروں سے کوئی گرے توہڈی پسلی ایک ہوجاتی ہے ہاں۔‘‘اس نے اپنی لنگڑی ٹانگ دکھاتے ہوئے کہا۔
’’یقین نہ آئے تویہ دیکھ لو۔‘‘
’’بکواس بندکرو۔‘‘ایلی نے مذاق میں ٹالنے کی غرض سے کہا۔
’’کیسے کروں بند۔‘‘رضاہنسنے لگا’’اپناتوکام ہی بکناہے۔سناامرتسروالوں کاکیاحال ہے۔اب تومزے ہیںنا۔‘‘
رضااسے چھیڑنے لگا۔
’’بیٹھ جا۔‘‘بولا’’بیٹھ جامیاں ۔‘‘
’’اونہوں۔‘‘ایلی نے جواب دیا۔
’’کیوں ؟‘‘
بیٹھنے کوبھی نہیں چاہتاچل کہیں گھومیں پھریں ۔واہ دل خوش کردیارضانے لاٹھی پکڑی اورچل پڑا۔دیرتک دونوں فصیل سے باہرگھومتے رہے پھرایک درخت تلے بیٹھ گئے۔
’’رضا۔ایلی بولا؟‘‘’’میراجی نہیں لگتا۔‘‘
’’جی لگ جائے بابوتوپھربھی لگتا‘‘۔
’’کیامطلب ؟‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’سارے محلے میں تیری تسلیم کی باتیں ہورہی ہیں۔‘‘
’’لیکن رضاتسلیم تومیرے سامنے نہیں آتی کئی جتن کردیکھے۔‘‘
’’تسلیمین سامنے نہیں آیاکرتیںایلی۔سامنے آکھڑی ہوں توپھربات ہی کیاہے۔‘‘رضانے کہا۔یہ توہوتاہی ہے۔‘‘پھرایلی امرتسرکی باتیں سناتارہااوررضاقہقہے مارکرہنستارہا۔
سیرکرکے جب وہ واپس آئے تورضاسے رخصت ہوکرایلی دادی اماں کی طرف گیادروازے میں ہاجرہ کھڑی تھی۔’’تویہاں کیاکررہاہے۔‘‘وہ بولی۔‘‘جافرحت کی طرف دوڑجایہاں سے۔‘‘’’کیوں؟‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’کہاجوہے تم سے ۔‘‘بولی ۔’’وہ اسی طرح بے ہوش پڑی ہے۔آنکھیں کھولنے کی سکت نہیں رہی۔اس کے پاس بیٹھ کراپنادل براکرے گاتو۔جافرحت تیراانتظارکررہی ہوگی۔‘‘
وہ چپ چاپ فرحت کی طرف چل پڑا۔
شام کوجب وہ شہزادکے چوبارے میں پہنچاتوچوبارے سے ملحقہ چھپ پرپانچ چھ چارپائیاں بچھی ہوئی تھیں اورفرحت اورشہزادچارپائی پربیٹھی باتیں کررہی تھیں۔
’’توآگیاایلی۔‘‘فرحت اس کی طرف دیکھ کرمسکرائی۔’’اچھاکیاتونے کہ چلاآیا۔دادی اماں کی حالت اچھی نہیں۔نہ جانے کب۔‘‘
۔۔وہ رک گئی۔’’اماں توکئی راتوںسے ادھرہی رہتی ہیں‘آج کی رات۔شایدمجھے بھی جاناپڑے اسی لئے میں نے یہاں چارپائیاں بچھوادی ہی ںتاکہ بچے اکیلے نہ رہیں۔ ٹھیک ہے ناشہزاد۔‘‘وہ ہے تیری چارپائی ایلی وہ کونے والی۔‘‘
٭٭٭