صفحات

تلاش کریں

سفر نامہ- سفرِِعشق (طارق محمود مرزا)

فہرست

  1. انتساب 
  2. اپنی بات
  3. سفرِ عشق 
  4. جانِ مشتاقم بہ آں جا 
  5. سفرِ عقیدت کا اِرادہ 
  6. پریشاں فکری
  7. حج کی تیاریاں 
  8. اللہ کی طرف سے معجزہ 
  9. ذہنی تیاریاں
  10. سڈنی سے مدینہ منورہ
  11. آسٹریلیا میں کسٹمر سروس کا معیار
  12. مدینہ آمد
  13. حرم میں پہلی نماز
  14. کملی والے کے در پر حاضری 
  15. مدینے کے بازار 
  16. مسجدِ نبویؐ اور آغازِ اسلام 
  17. مسجد کے باہر 
  18. حجازِ مقدس کے ہوٹل
  19. حرمین شریفین میں وقت کا صحیح استعمال 
  20. ریاض الجنۃ میں داخلے کی کوشش ناکام 
  21. آبِ زم زم 
  22. سعودی عرب میں صفائی کا انتظام
  23. معجزے حرم کے 
  24. آخر اِذن مل گیا 
  25. ضرورتِ اعتدال 
  26. جنت البقیع 
  27. مدینہ کی زیارتیں 
  28. انتظامی مسائل 
  29. کچھ ملاقاتیں کچھ یادیں
  30. کچھ بد مزاج لوگ 
  31. مسجد نبویؐ کی عظمت 
  32. وقتِ جدائی 
  33. اہتمامِ ملن 
  34. مدینے میں آخری دن
  35. مدینہ سے مکہ کا سفر 
  36. مکہ آمد اور عمرہ 
  37. حضرت حاجرہؑ اور آب زمزم 
  38. قیامِ منیٰ 
  39. کیمپ کا ماحول 
  40. مفت مشورے 
  41. حاجی عبدالقدوس کی کہانی 
  42. ریحان علی کی کہانی 
  43. بغیر اندراج حاجی 
  44. میدانِ عرفات کا قیام 
  45. وادیِ مزدلفہ میں شب بسری 
  46. دس ذوالحج 
  47. گیارہ ذوالحج 
  48. 12 ذوالحج 
  49. بیت اللہ کی کشش 
  50. قیامِ مکہ 
  51. آخری چند دن 
  52. پچھلی صدی کا حج 
  53. مکہ ٹاور 
  54. بیت اللہ کی تاریخ 
  55. الوداعی خاموشی 
  56. سفرِ واپسی 
  57. دبئی ائرپورٹ 
  58. پاک سر زمین
  59. وجہ تصنیف 

انتساب

اپنی شریکِ حیات کے نام
جو
شریکِ سفر بھی تھی
غمِ حیات نہ خوفِ قضا مدینے میں
نمازِ عشق کریں گے ادا مدینے میں

اپنی بات

میں جب حج ادا کرنے گیا تھا تو اس بارے میں لکھنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ نہ دورانِ حج اور نہ واپس آنے کے فوراً بعد میں نے ایسا سوچا تھا۔ دورانِ حج میں نے کوئی تصویر بنائی، نہ ڈائری لکھی اور نہ نوٹ تحریر کیے تھے۔ میں تو صرف فرض ادا کرنے گیا تھا۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس عقیدت بھرے سفر کی یادیں میرے ذہن و دل کو اس درجہ گرمانے لگیں کہ میں نے بے اختیار قلم اٹھا کر ان یادوں اور ان جذبوں کو قلم بند کرنا شروع کر دیا۔ یہ یادیں اور یہ سوچیں مجھے بے چین کیے ہوئے تھیں۔
لکھتے وقت میں نے یہ طے نہیں کیا تھا کہ اِسے کتابی شکل دینا ہے۔ مجھے اس تحریر کے مواد اور معیار کا بھی اندازہ نہیں تھا۔ میرے پاس اس موضوع پر لکھی ہوئی کوئی کتاب بھی نہیں تھی جس سے کچھ راہنمائی ملے۔ تاہم اتنا علم ضرور تھا کہ مجھ سے پہلے بہت اچھے مصنفین نے اس موضوع پر بہت اچھی کتابیں لکھ رکھی ہیں۔ میں جانتا تھا کہ میں اپنے خام علم اور فہم زبان و ادب سے نیم آشنائی کے ساتھ ان بڑے اور مشہور مصنفین کے لکھے ہوئے موضوع پر مزید اضافہ نہیں کر سکتا۔ لیکن میرا مسئلہ نہ تو کتاب لکھنا تھا نہ ہی اپنی تحریر کی دھاک بٹھانا تھی۔ مجھے تو صرف اپنے اندر کی آگ کم کرنی تھی۔ اپنے اندر کی تپش، بے قراری اور سلگتے جذبوں کو اظہار کے ذریعے ٹھنڈا کرنا مقصود تھا۔
یوں میں نے بے ارادہ اور بغیر تیاری کے لکھنا شروع کر دیا۔ نہ تو میرے پاس یاداشتیں محفوظ تھیں۔ نہ نوٹ لکھے ہوئے تھے۔ نہ تحریری حوالے تھے اور نہ کسی رفیقِ حج سے تبادلہ خیال ہوا تھا۔ صرف احساسات، جذبات اور مشاہدات تھے جنہیں احاطہ تحریر میں لانا تھا۔ ان جذبوں کو لفظوں میں پرونا آسان نہیں تھا۔ یہ عام کہانی یا ناول نہیں تھا جس میں قلم کار کو کھلی چھوٹ ہوتی ہے کہ وہ جہاں تک چاہے اشہبِ قلم دوڑا سکتا ہے۔ اس پر کوئی قدغن نہیں ہوتی۔ یہ عام افسانہ نہیں تھا جس میں مبالغہ آرائی کی جا سکتی ہے۔ نہ یہ کسی انوکھے مقام کی سیاحت تھی جس سے عام قاری واقف نہ ہوں۔ حجازِ مقدس اور مقاماتِ مقدسہ سے بچہ بچہ واقف ہے۔ اس لیے یہ میرا موضوع نہیں تھا۔ نہ ہی ایسی تقریب کی روداد تھی جس کو زورِ قلم سے رنگین بنایا جا سکے۔ نہ ہی دنیاوی نقطہ نظر سے خوبصورت اور دلکش مقامات کا ذکر تھا جس سے قاری کا دل بہلایا جا سکے۔ نہ ہی تاریخ میرا موضوع تھا جس سے اپنی علمیت کا رُعب ڈال سکوں اور کاغذ کا پیٹ بھر سکوں۔
یہ صرف اور صرف جذبوں کے رنگ ہیں جو پوری کتاب میں بکھرے ہوئے ہیں۔ میرے مشاہدات، تجربات اور خیالات اور واقعات ہیں۔ اس میں خواہ مخواہ کا اضافی رنگ اور زبردستی کی ظرافت شامل کرنے کی کوشش نہیں کی ہے۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ اس میں عبادات کے علاوہ کچھ اور شامل نہیں ہے۔ اس میں حرمین شریفین کا ذکر ہے۔ سفر کے واقعات ہیں۔ دلچسپ لوگوں سے ملاقات کا تذکرہ ہے۔ اس میں دینی اور دنیاوی دونوں معاملات موضوعِ سخن ہیں۔ آسٹریلیا سے لے کر دبئی، دبئی سے لے کر سعودی عرب اور سعودی عرب سے لے کر پاکستان تک کے سفر کا دلچسپ حال بھی اس کا حصہ ہے۔
لیکن اصل موضوع حرمین شریفین روضہ رسولﷺ، بیت اللہ، عرفات، منیٰ، مزدلفہ اور سعی، مروہ بھی ہیں۔ کیونکہ یہی وہ مقامات ہیں جو میں بھول نہیں سکتا۔ انہی مقامات نے مجھے قلم اٹھانے پر مجبور کیا ہے اور انہی کے گرد یہ سارا مضمون گھومتا ہے۔
اس کتاب کو لکھنے میں بہت سی کوتاہیاں اور غلطیاں سرزد ہوئی ہوں گی۔ سب سے پہلے تومیں اللہ تبارک و تعالیٰ سے دُعا مانگتا ہوں کہ وہ میری ان غلطیوں اور کوتاہیوں کو معاف کر دے۔ اگر میری اس ٹوٹی پھوٹی کاوش سے خیر اور بھلائی کا کوئی پہلو نکلتا ہے تو وہ میری خوش قسمتی ہو گی۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ میری اس ادنیٰ سے کاوش کو اپنے دربار میں شرف قبولیت عطا فرمائے اور اِسے میری نجات کا ذریعہ بنا دے۔ آمین

سفرِ عشق

صبح تین بجے کا وقت تھا جب ہم سرور کائنات، اِمام الانبیاء، حبیب خدا محمد حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے دربار میں حاضری دینے کے لیے اپنے ہوٹل سے نکلے۔ میرے ہمراہ میری اہلیہ بھی تھیں۔ ہم اسی رات دس بجے مدینہ منورہ کے ہوائی اڈے پر اُترے تھے اور بارہ بجے کے قریب اپنے ہوٹل پہنچے تھے۔ سڈنی سے حجازِ مقدس تک تقریباً چوبیس گھنٹے کی مسافت سے ہمارے جسم بہت تھک چکے تھے مگر ذہن و دِل بدستور تر و تازہ تھے۔

یہ کوئی عام سفر نہیں تھا۔ یہ عقیدتوں کا سفر تھا۔ ہم نے مدتوں اس سفر کا انتظار کیا تھا۔ سڈنی سے روانہ ہوتے ہی میرے دل کی ہر دھڑکن سے صلّ علیٰ کی صدا بلند ہونے لگی۔ جیسے جیسے امارات ائیر لائنز کا طیارہ ارضِ مقدس کی طرف اڑتا جاتا تھا ویسے ویسے یہ صدائیں بلند ہوتی جاتی تھیں۔ اس منفرد سفر کا ہر لمحہ تاجدار حرمﷺ کے خیالوں سے مزّین تھا۔

آج ہماری منزل وہ شہر تھا جس کا تصور ہر مومن کی آنکھوں کا نور اور دل کا قرار ہے۔ اس شہر کے تصور سے ہی دِل میں رنگ و نور کی بارش برسنے لگتی ہے۔ اِس شہر میں ہمارے پیارے نبیﷺ کا روضہ اقدس واقع ہے۔ اِس کی گلیوں سے اُن کی یادیں وابستہ ہیں۔ اس شہر کی فضائیں دل کو سکون اور آنکھوں کو ٹھنڈک بخشتی ہیں۔ آج قسمت ہمیں اس شہر میں لے آئی تھی۔

جونہی نبی پاکﷺ کے شہر کی خاک پر قدم رکھا دل میں جلنے والی شمعِ وصل جیسے بھڑک اُٹھی تھی۔ لیکن ابھی عشق کے کئی اور امتحان باقی تھے۔

ہوٹل میں پہنچتے ہی اہلیہ نے کہا ’’روضہ رسولﷺ پر حاضری کے لیے چلتے ہیں‘‘

میں نے کہا ’’صبر کریں۔ اس دربار میں حاضری کے کچھ آداب ہیں۔ ہر وقت اور ہر حال میں حاضری کی اجازت نہیں ہے‘‘

’’کیا مطلب؟ ہم یہاں آئے کس لیے ہیں۔ حضور کا روضہ سامنے ہے ہم ابھی وہاں کیوں نہیں جا سکتے؟‘‘

میں نے کہا ’’شاید آپ کو یاد نہیں۔ سڈنی میں ہم نے جو تربیتی لیکچر سنے تھے اس میں معلم نے بتایا تھا کہ حرم شریف اور مسجد نبویﷺ میں جانے میں جلد بازی کا مظاہرہ نہ کریں۔ میلے بدن اور میلے لباس کے ساتھ حاضری سے گریز کریں۔ نہا دھو کر صاف ستھرا لباس زیب تن کر کے اور خوشبو لگا کر جانے کی تلقین کی گئی ہے۔ حضور نبی پاکﷺ کو یہ آداب پسند تھے۔ تھوڑی دیر آرام کر لیں۔ انشاء اللہ تہجد کے وقت حاضری دیں گے‘‘

ہمیں مدینہ النبیﷺ کے اوقاتِ صلوٰۃ کا علم نہیں تھا۔ صرف دو گھنٹے بعد یعنی صبح دو بجے ہی ہم اٹھ کر بیٹھ گئے۔ اگلے ایک گھنٹے میں تیار ہو کر ہم تیرھویں منزل پر واقع اپنے کمرے سے نکل آئے۔ لفٹ کے ذریعے گراؤنڈ فلور پر پہنچے تو استقبالیہ ڈیسک سامنے ہی موجود تھا۔ وہاں موجود باریش نوجوان سے علیک سلیک کے بعد میں نے پوچھا ’’کیا آپ بتا سکتے ہیں مسجد نبویﷺ میں نماز فجر کس وقت ادا ہوتی ہے اور مسجد کس طرف واقع ہے؟‘‘

نوجوان نے مسکراتے ہوئے کہا ’’آپ ہوٹل سے باہر نکلیں گے تو بے شمار لوگوں کو ایک طرف جاتا دیکھیں گے۔ وہ سب مسجدِ نبویؐ میں جا رہے ہیں۔ مسجد یہاں سے مغرب کی سمت اور چھ سات منٹ کی دوری پر واقع ہے۔ اور یہ رہا نماز کے اوقات کا ٹائم ٹیبل۔ کچھ اور خدمت میرے لائق؟‘‘

ہم اس کا شکریہ ادا کر کے ہوٹل سے باہر نکلے تو دیکھا کہ ہوٹل کے سامنے والی سڑک اور دونوں طرف کے فٹ پاتھ لوگوں سے بھرے ہوئے تھے۔ بے شمار مرد اور عورتیں ایک ایک، دو دو اور اور اس سے بڑی ٹولیوں کی شکل میں خاموشی کے ساتھ ایک ہی طرف چلے جا رہے تھے۔ نماز کے اوقات میں یہ سڑک ٹریفک کے لیے بند کر دی جاتی تھی اس لیے لوگ بے فکر ہو کر سڑک کے بیچ میں چل رہے تھے۔ نمازی اپنے علاقائی اور آبائی لباسوں میں ملبوس تھے۔ پاکستانی خواتین و حضرات شلوار قمیض میں ملبوس تھے تو بنگالی کرتا اور دھوتی پہنے ہوئے تھے۔ جبکہ افریقن اور وسط ایشیائی ریاستوں کے شہری اپنے اپنے ملک کے لباس میں تھے۔ پتلون اور انگریزی قمیض کا استعمال بہت کم نظر آتا تھا۔ ہم آسٹریلیا میں رہنے والوں کے لیے یہ انوکھا منظر تھا۔

اس سفر حج میں، میں نے یہ بھی جانا کہ اردو صرف ہندوستان اور پاکستان میں ہی نہیں بولی جاتی بلکہ دنیا کے اور بہت سے ملکوں کے لوگ بھی اُردو جانتے ہیں۔

سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے

اسی طرح شلوار قمیص بھی پاکستان ہندوستان اور افغانستان میں ہی نہیں پہنی جاتی بلکہ دنیا کے کئی اور ملکوں کے شہری بھی یہی لباس پہنتے ہیں۔ جیسے وسط ایشیائی ریاستیں، نیپال، بنگلہ دیش، ایران حتیٰ کہ بعض عربی اور افریقن بھی یہی لباس پہنے ہوئے تھے۔ تاہم مختلف علاقوں میں اس کے انداز الگ ہو جاتے ہیں۔ مثلاً تاجکستان کے لوگ کھلے گھیرے کی شلوار کے اوپر انگریزی طرز کی قمیص پہنتے ہیں۔ قمیص کو شلوار کے اندر اُڑستے ہیں اور کمر پر بیلٹ باندھتے ہیں۔ بر صغیر پاک و ہند کے کرتے کا استعمال تو آج کل آسٹریلیا، یورپ اور امریکہ میں بھی عام ہے۔ چند سال پہلے لاہور میں امریکن قونصلیٹ ہر تقریب میں شلوار قمیص میں نظر آتا تھا۔ پچھلے دنوں میں نے کینیڈا کے وزیر اعظم کو شلوار قمیض پہن کر کسی مسجد میں افطار کرتے دیکھا۔ یہ نوجوان وزیر اعظم مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر رمضان کے روزے بھی رکھتا ہے۔

علیٰ الصبح برقی قمقموں کی روشنی میں اوس سے بھیگی سڑکوں پر چلتے نمازی عقیدت، شوق اور جذبہ عبودیت سے سرشار تھے۔ دل ہی دل میں شاید وہ دعائیں مانگ رہے ہوں لیکن زبانیں خاموش تھیں۔ پورا ماحول عقیدت اور عبارت کے جذبے سے معمور تھا۔ ہم بھی اس خاموش قافلے کا حصہ بن کر اسی طرف چل پڑے جدھر سب لوگ جا رہے تھے۔ سڑک کے دونوں اطراف بڑے بڑے ہوٹل واقع تھے۔ اِن ہوٹلوں سے لوگ نکل نکل کر باہر آ رہے تھے اور خاموش قافلے کا حصہ بنتے جا رہے تھے۔

ان بڑے ہوٹلوں کے رہائشی اور فٹ پاتھ پر رات بسر کرنے والے اس وقت ایک حلیے میں، ایک جذبے اور ایک مشن کے ساتھ ایک دربار میں حاضری ہونے جار ہے تھے۔ اس وقت ان میں کوئی شاہ تھا نہ گدا۔ کوئی امیر تھا نہ غریب۔ کوئی مالک تھا نہ نوکر۔ کوئی افسر تھا نہ ملازم۔ کوئی آقا تھا نہ غلام۔ تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے۔ یہ اتنا بڑا دربار تھا کہ دنیا کے سارے جاہ و جلال اس کے سامنے ہیچ تھے۔

میری حالت اس وقت غیر معمولی تھی۔ دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ قدم من من ہو رہے تھے۔ آنکھوں کے آگے جیسے اندھیرا سا چھا رہا تھا۔ ایک ایک قدم اٹھانا دُوبھر ہو رہا تھا۔ کئی دفعہ رکا۔ پھر چلا۔ پھر رُکا۔ ہمت جیسے ساتھ چھوڑ رہی تھی۔ یہ عجیب ہی کیفیت تھی۔ متضاد سوچوں نے جیسے میرے اندر ایک کشمکش سی پیدا کر دی تھی۔ ایک طرف عقیدت اور شوق کا عالم تھا۔ روضہ رسولﷺ کے دیدار کے لیے دل وفورِ شوق سے سرشار تھا۔ میں کب سے اللہ کے نبیﷺ کے اس شہر میں سانس لینے کی امید لگائے بیٹھا تھا۔ اس مقدس خاک کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بنانے کے لیے کب سے بے تاب تھا۔ اس مقدس سرزمین کو دیکھنے، اس سبز گنبد کی زیارت اور اس دربار میں حاضری کا مجھے مدتوں سے انتظار تھا۔ آج یہ انتظار ختم ہو رہا تھا۔ دُوریاں مٹنے والی تھیں۔ اس سے زیادہ خوشی، اطمینان اور کامیابی کیا ہو سکتی تھی۔

دوسری جانب میرے اندر ایک اور سوچ پر پھیلا رہی تھی۔ کوئی نادیدہ طاقت جیسے میرا راستہ روک رہی تھی۔ اتنے طویل انتظار کے بعد جب تمنا پوری ہوا ہی چاہتی تھی تو میں خوف کا شکار ہو گیا۔ اتنا بے ہمت اور بے بس تو میں کبھی بھی نہ تھا۔ میں سفیروں، وزیروں، گورنر اور وزیر اعظم سے بھی مل چکا تھا۔ میں چکا چوند روشنیوں میں ٹی وی شو میں شامل ہو کر انٹرویو دے چکا تھا۔ ان کیمروں سے مجھے کوئی خوف اور ڈر محسوس نہیں ہوا۔ میں نے بھرے مجمع کے سامنے تقریریں کیں۔ پروگراموں کی میزبانی کی اور بڑی بڑی بزنس میٹنگ میں اپنی رائے کا برملا اظہار کیا تھا۔ اس سے پہلے نہ کبھی میرے قدم ڈگمگائے تھے نہ میرے ماتھے پر اس طرح پسینہ آیا تھا نہ میرا دل اس طرح دھڑکا تھا اور نہ میری ٹانگیں اس طرح کانپی تھیں۔ پھر آج کیا ہو گیا تھا۔

اس خوف، رُکاوٹ، ہچکچاہٹ اور ڈگمگاہٹ کی وجہ میں خود تھا۔ میرے اعمال تھے۔ جو میرے راستے کی دیوار بن کر میرے سامنے آ کھڑے ہوئے تھے۔ میں اس دربار میں حاضری کا اہل نہیں تھا۔

دنیاوی محفلوں کی بات الگ ہے۔ ان محفلوں میں لوگ آپ کا ظاہر دیکھتے ہیں۔ آپ کا لباس دیکھتے ہیں۔ آپ کا چہرہ دیکھتے ہیں۔ آپ کا انداز دیکھتے ہیں۔ آپ کا اعتماد دیکھتے ہیں۔ آپ کے الفاظ دیکھتے ہیں جو اکثر رسمی ہوتے ہیں۔ آپ کا انداز گفتگو دیکھتے ہیں جو بناوٹی ہو سکتا ہے۔ آپ کی سج دھج دیکھتے ہیں جو آپ کا ظاہر ہے۔ کوئی آپ کے اندر نہیں جھانک سکتا۔ آپ کے اعمال نہیں جان سکتا۔ آپ کا باطن نہیں دیکھ سکتا۔

لیکن جس دربار میں میری حاضری تھی یہ منفرد دربار تھا۔ اس میں ظاہری سج دھج کی نہیں صاف باطن کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس میں ایسا نامہ اعمال چاہیے جس میں نیکیوں کا پلڑا بھاری ہو۔ ایسے کردار کی ضرورت ہوتی ہے جو گناہوں سے پاک ہو۔ جس زندگی میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت شامل ہو۔

اس دربار میں وہی جا سکتا ہے جس نے اللہ اور رسولﷺ کے بتائے ہوئے طریقے سے زندگی بسر کی ہو۔ جس نے تقویٰ کا راستہ اپنایا ہو۔ جس نے ساری زندگی گناہوں سے بچنے کی کوشش کی ہو۔ جس کی زندگی میں قناعت، تقویٰ، پرہیز گاری، دین داری اور خوفِ خدا شامل ہو۔ جو دنیا کی لالچ اور طمع سے پاک ہو۔ جس نے دنیا میں آخرت کمائی ہو۔ جس نے اس دربار میں آنے کی تیاری کی ہو۔ جو اس دربار کے آداب جانتا ہو اور جس کا من صاف ہو۔

میں ان میں سے کسی شرط پر پورا نہ اُترتا تھا۔ میرا دامن گناہوں سے آلودہ تھا۔ اور میرے من میں طمع و حرص کے ہزاروں بت گڑے تھے۔ میں نے ساری زندگی دنیا سمیٹنے میں گزار دی تھی۔ میں نے اس دربار میں آنے کی کوئی تیاری کی تھی اور نہ ہی کبھی آخرت کی فکر کی تھی۔ میں ساری زندگی حرص و ہوس کے بت جمع کرتا رہا۔ اپنے دل کو ان بتوں سے پاک کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ بلکہ ہر بت کے حصول کے بعد اِتراتا رہا اور خوش ہوتا رہا کہ لو میں نے ایک اور جھنڈا گاڑ لیا ہے۔ جس من میں دنیا داری کے اتنے بت جمع ہو چکے ہوں وہاں ایمان کی روشنی کہاں باقی رہتی ہے۔ اگر ہوتی بھی ہے تو ماند پڑ چکی ہوتی ہے اس روشنی کو فروزاں رکھنے کے لیے عبودیت اور تقویٰ کے جس ایندھن کی ضرورت ہوتی ہے میں نے اس کا بھی کبھی اہتمام نہیں کیا تھا۔ لہٰذا میرا من اندھیروں میں گم ہوتا چلا گیا اور یہ سیاہی میرے دل و دماغ پر چھاتی چلی گئی۔

اب اسی سیاہ اور داغ دار دامن کے ساتھ میں دُنیا کے سب سے اُجلے دربار میں حاضری دینے چلا آیا تھا۔ کہاں میرا سیاہ دامن اور کہاں یہ پاکیزہ دربار۔ کوئی جوڑ نہیں بنتا تھا۔ حاضری کی کوئی گنجائش نہیں نکلتی تھی اور نہ حاضری قبول ہونے کی کوئی امید تھی۔ قبولیت تو بعد کی بات ہے گناہوں کی پوٹلی لے کر اس دربار میں حاضر ہونے کی میرے اندر جرأت اور ہمت بھی نہیں تھی۔ میرے اعصاب جواب دینے لگے۔ ٹانگیں جیسے بے جان ہوتی جا رہی تھیں۔ میں انہیں گھسیٹ گھسیٹ کر قدم اٹھا رہا تھا۔ اس کے لیے جسم و جان کی پوری توانائی صرف کر رہا تھا۔ یہ توانائی بھی کمزور پڑتی جا رہی تھی۔

اس کشمکش میں صرف ایک شے میرے حق میں تھی۔ جس سے مجھے کچھ اُمید دکھائی دیتی تھی۔

میری زندگی اگرچہ نیکیوں کی خوشبو سے عاری اور گناہوں سے آلودہ تھی۔ میرے گناہوں کا پلڑا میری نیکیوں پر بھاری تھا۔ میری زندگی عمل اور اطاعتِ اِلٰہی سے خالی تھی۔ اتنا عرصہ میں اللہ اور اس کے رسولﷺ سے دور رہا تھا۔

لیکن!

میرا دل عشق رسولﷺ سے ہمیشہ مزین رہا۔ میں نے اپنے دل کی گہرائیوں سے ایک ہی ہستی کو اپنا آئیڈیل مانا۔ اس عظیم ہستی کی محبت سے میرے دل کا کوئی ایک حصہ ہمیشہ روشن رہا۔ تمام بے عملیوں، گناہوں اور کوتاہیوں کے باوجود بچپن سے لے کر اب تک ایک لمحے کے لیے بھی میرا دل عشق رسولﷺ سے خالی نہیں رہا۔ میرے لیے وہ دنیا کے بہترین انسان، محسنِ انسانیت، رحمتُ اللعالمین اور ہادی و راہنما تھے۔ ان کی سیرت، ان کا کردار، بلند اور روشن مینار کی طرح ہمیشہ میری آنکھوں میں رہا۔ ایک لمحے کے لیے بھی ان کی ذاتِ گرامی کی عظمت، ان کی سچائی، ان کی محبت اور ان سے عقیدت میرے دل سے کم نہیں ہوئی۔ یہ محبت ہمیشہ میرے دل پر نقش رہی۔

اس عشق اور اس محبت کا آغاز تو ایک دین دار گھرانے کا چشم و چراغ ہونے کی وجہ سے آغوشِ مادر سے ہی ہو گیا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ عشق پروان چڑھتا رہا۔ اس میں کبھی کمی نہیں آئی۔ میرے علم اور میرے مطالعے نے اس یقین میں مزید پختگی پیدا کی۔ اس عشق اور اس وارفتگی کے پیچھے صرف جذبہ ہی کارفرما نہیں تھا بلکہ اس میں علم، جواز اور منطق بھی شامل ہوتا چلا گیا۔ میرا علم اور مطالعہ جو صرف اسلامی لٹریچر تک محدود نہیں ہے مجھے بتاتا ہے کہ میرے نبیﷺ انسانیت کا عروج، اس کا کمال اور اس کی انتہا بن کر دنیا میں آئے ہیں۔ ان کے آنے سے انسانیت کی تکمیل ہوئی ہے۔ ان کی سیرت، ان کا کردار اور ان کی زندگی پوری دنیا کے لیے مشعلِ راہ اور درخشندہ مثال ہے۔ وہ دونوں جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں اور انسانیت کے نجات دہندہ ہیں۔


جانِ مشتاقم بہ آں جا



حضورﷺ کی عظمت و حرمت میرے دل میں مسلّم ہے۔ ان کے نام نامی کی حرمت کے لیے جان حاضر ہے۔ ان کی حرمت پر حرف آئے یہ میں نے کبھی برداشت نہیں کیا۔ تیرہ چودہ برس پہلے سڈنی کی ایک رات کا واقعہ مجھے کبھی نہیں بھولے گا۔ ویک اینڈ کی رات تھی۔ رات ایک بجے اپنی شفٹ ختم کر کے میں گھر واپس جا رہا تھا۔ یہ دس پندرہ منٹ کی پیدل مسافت تھی۔ عام طور پر مجھے پیدل چلنا اچھا لگتا ہے لیکن اُس رات تھکاوٹ اور سردی کی وجہ سے دوبھر ہو رہا تھا۔

میں اپنی دھُن میں مگن چلا جا رہا تھا کہ ایک قدرے تاریک گلی میں چار شرابیوں سے پالا پڑ گیا۔ چاروں نوجوان تھے اور کسی پارٹی سے آ رہے تھے۔ وہ اتنی بلند آواز میں گفتگو کر رہے تھے جیسے لڑ رہے ہوں۔ ان کی گفتگو میں گالیوں کا کھلا استعمال ہو رہا تھا۔ اس وقت گلی میں دور نزدیک تک کوئی اور شخص نظر نہیں آ رہا تھا۔ میں نے کترا کر ان کے پاس سے نکلنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے چاروں طرف سے مجھے گھیر لیا اور الٹی سیدھی بکواس کرنے لگے۔ اس طرح کے شرابیوں سے لڑائی جھگڑے سے ہر ممکن بچنا چاہیے۔ کیونکہ انہیں اچھا یابرا کسی چیز کا ہوش نہیں ہوتا ہے۔ میں نے ہیلو ہائے کرتے ہوئے ان سے جان چھڑانے کی کوشش کی۔ لیکن میرے رنگ اور میرے تلفظ سے انہیں اندازہ ہو گیا کہ میرا تعلق ہندوستان یا پاکستان سے ہے۔ ان دنوں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف تعصب کی لہر چلی ہوئی تھی۔ ہوش مند پھر بھی اپنا تعصب ظاہر نہیں ہونے دیتے تھے جبکہ ان شرابیوں کا تعصب کھل کر سامنے آ گیا۔ وہ میرا نام جاننا چاہتے تھے جبکہ میں انہیں ٹال رہا تھا۔ اچانک ان میں سے ایک بولا تمہارا نام ضرور محمد ہو گا۔ نشے میں ہونے کے باوجود انہیں اندازہ ہو گیا کہ میرا تعلق پاکستان سے ہے۔

دوسرابولا ’’محمد او محمد‘‘

تیسرے نے بھی محمد محمد الاپنا شروع کر دیا۔ چوتھا کیسے پیچھے رہتا وہ بھی اس مبارک نام کا مذاق اُڑانے لگا۔ آغاز میں ان شرابیوں کی بد تمیزیوں کو میں برداشت کر رہا تھا۔ لیکن اس مقدس نام کو اس انداز میں ان کی زبان سے سن کر میں خود پر کنٹرول نہ کر سکا اور اپنے سامنے والے کے منہ پر مکا دے مارا۔ وہ چاروں نوجوان اور بھاری بھر کم جسموں کے مالک تھے۔ میں ان کے ہتھے چڑھ جاتا تو وہ میرا کچومر نکال دیتے۔ میں یہ نہیں ہونے دینا چاہتا تھا۔ اس لیے ان سے قدرے ہٹ کر کھڑا ہو گیا۔ تاہم بھاگنے کی کوشش نہیں کی۔ مجھے علم تھا کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں وہ مجھے آ لیں گے۔ وہ چاروں اکٹھے آگے بڑھے۔ جس کو مکا لگا تھا وہ سب سے آگے تھا اور مغلظات بک رہا تھا۔ میں بھی تیار تھا جوں ہی وہ میری دسترس میں آیا میری لات اس کے پیٹ پر پڑی اور وہ لڑکھڑا کر پیچھے والوں کے اُوپر جا گرا۔ ان کا غیظ و غضب مزید بڑھ گیا۔ وہ توقع نہیں کر رہے تھے کہ میں ان کی ہرزہ سرائیوں کا جواب دوں گا۔

وہ چاروں سمتوں سے گھیرا ڈال کر مجھ پر حملہ اور ہوئے۔ جب میرے بہت قریب آئے تو میں دوڑ کر ایک طرف ہو گیا۔ میں نے محسوس کر لیا کہ نشے میں ہونے کی وجہ سے ان کے قدم مضبوطی سے ایک جگہ پر قائم نہیں ہیں۔ اس لیے میں بھاگ کر ادھر ادھر ہو رہا تھا اور ان کو لاتیں مارنے میں بھی کامیاب ہو رہا تھا۔ اب وہ قدرے سنبھل کر آگے بڑھے اور چاروں طرف سے مجھے گھیر لیا۔ لگتا تھا کہ ان کا نشہ کم ہو گیا ہے یا پھر انہوں نے خود پر قابو پا لیا ہے۔ کیونکہ اب وہ زبان درازی کے بجائے سنجیدگی سے مجھے سبق سکھانا چاہتے تھے۔ میں نے ادھر ادھر نظر دوڑائی میرے لیے کوئی جائے فرار نہیں تھی اور نہ ہی کسی مدد کی امید نظر آ رہی تھی۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ مجھے ان سے خوف محسوس نہیں ہو رہا تھا۔ حالانکہ میں جانتا تھا کہ وہ میری جان بھی لے سکتے ہیں۔

انہوں نے چاروں طرف سے بیک وقت لاتوں اور مکوں سے حملہ کیا۔ جہاں تک ممکن تھا میں نے خوب ہاتھ پیر چلائے لیکن میری کوشش دفاعی نوعیت کی تھی۔ میں چاروں کا بیک وقت مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔ خود کو جس حد تک بچا سکتا تھا وہ کوشش کر رہا تھا۔ میری زیادہ سے زیادہ کوشش تھی کہ نہ صرف ان کے حملے کو روکوں بلکہ اپنے پاؤں پر کھڑا رہوں۔ میں جانتا تھا اگر میں گر گیا تو پھر میرا بچنا نا ممکن ہے۔ اپنے سخت بوٹوں سے ٹھوکریں مار مار کر انہوں نے میرا حلیہ خراب کر دیتے۔ کئی منٹ تک یہ کشمکش جاری رہی۔ مجھے سخت چوٹیں بھی لگیں لیکن میرے ہوش وحواس قائم رہے اور آخر تک اپنا دفاع کرتا رہا۔

اچانک سائرن کی آواز سنائی دی اور گلی کے دونوں جانب سے پولیس کی گاڑیاں روشنیاں چمکاتی آتی دکھائی دیں۔ اگلے ہی لمحے پولیس نے ہمیں گھیرے میں لے لیا۔ شایدکسی راہ گیر یا پڑوسی نے پولیس طلب کی تھی۔ میری قسمت اچھی تھی کہ بروقت پولیس آ گئی ورنہ چھٹی کی راتوں میں وہ بہت مصروف ہوتے ہیں اور بعض اوقات بہت تاخیر سے آتے ہیں۔

پولیس نے آتے ہی صورت حال بھانپ لی اور ان چاروں کو ہتھکڑی لگا لی۔ دو پولیس افسر مجھے ایک طرف لے گئے اور دریافت کیا کہ کیا ہوا تھا۔ میں نے پورا واقعہ سنا دیا۔ پولیس نے ان چاروں نوجوانوں کا الکوحل لیول چیک کیا جو ہتھکڑی لگتے ہی اس شرافت سے کھڑے تھے جیسے انہوں نے کچھ کیا ہی نہ ہو۔

اس کے بعد پولیس نے اپنی وین میں بٹھا کر مجھے میرے گھر چھوڑا اور ان شرابیوں کو گرفتار کر کے لے گئی۔ پولیس نے مجھے ہسپتال لے جانے کی بھی پیش کش کی لیکن میں نے انکار کر دیا۔ مجھے چوٹیں کافی آئی تھیں لیکن شکر اَلحمدُ لِلہ ان میں سے کوئی بھی خطرناک نہیں تھی۔ میرے ہاتھ پاؤں اور ہڈیاں سلامت تھیں۔ ان چوٹوں کا درد کافی دن تک رہا لیکن مجھے اطمینان تھا کہ میں نے اپنے پیارے نبی کی حرمت پہ آنچ نہیں آنے دی۔

میں سمجھتا ہوں کہ میں نے کوئی نیا یا انوکھا کام نہیں کیا تھا۔ میری جگہ کوئی دوسرا مسلمان ہوتا تو اس کا رد عمل بھی مختلف نہیں ہوتا۔ کیونکہ نبی کریمﷺ کی حرمت پر اپنی جانیں قربان کرنے کا سلسلہ آغازِ اسلام سے جاری ہے اور آئندہ بھی کملی والے کے دیوانے یہ کام انجام دیتے رہیں گے۔ ہمارے پیغمبر کی حرمت اور ناموس پر آنچ آئے تو یہ ہماری برداشت سے باہر ہے۔ کوئی غیرت مند مسلمان، کوئی نبیﷺ کا پروانہ نبی پاکﷺ کی توہین برداشت نہیں کرے گا۔ اُن کے لیے ہماری جانیں بھی حاضر ہیں اور مال اسباب اور اولاد بھی آپؐ پر قربان ہے۔

ببریں جانِ مشتاقم بہ آں جا

فدائے روضہ خیرالبشر کن (جامی)

(میری بے تاب جاں کو اس جگہ لے جا کہ یہ حضور کے روضہ اقدس پر نثار ہو جائے)

ہمارے ہوٹل سے مسجد نبویﷺ اگرچہ چند منٹوں کی مسافت پر واقع تھی لیکن بلند و بالا عمارات کی وجہ سے ہوٹل سے نظر نہیں آتی تھی۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ مسجد ہمارے ہوٹل والی سڑک کی سیدھ میں نہیں تھی بلکہ آگے جا کر بائیں طرف مڑ نا پڑتا تھا۔ ہم جونہی اس مقام پر پہنچے جہاں بائیں مڑنا تھا تو ہمارے سامنے ایک چونکا دینے والا منظر تھا۔ پہلی نظر میں یہ روشنیاں ہی روشنیاں تھیں جو زمیں سے آسمان تک پھیلی نظر آتی تھیں۔ یہ روشنیاں ایک وسیع و عریض علاقے پر محیط تھیں۔ یہ مسجدِ نبویؐ تھی۔ مسلمانانِ عالم کی دوسری مقدس ترین عبادت گاہ۔

مسجد کے طول و عرض میں پھیلی روشنیاں رنگ و نور برسا رہی تھیں۔ میں نے دیکھا کہ مسجد کے صحن میں ایستادہ بڑے بڑے کھمبوں کے اُوپر، مسجد کے میناروں سے بھی اُوپر اور سبز گنبد کے اوپر روشنیاں آسمانوں کو چھوتی محسوس ہو رہی تھیں۔

سبز گنبد پر نظر پڑتے ہی میرے قدم جیسے زمین میں گڑ گئے۔ آنکھوں میں نمی اتر آئی۔ زباں سے درود شریف کا ورد جاری ہو گیا۔ اس سبز گنبد کے بارے میں کتنا پڑھا اور سنا تھا۔ آج خدا نے اسے قریب سے دیکھنے کا موقع دیا تھا۔ یہ بھی کیسا نظارہ تھا جس کے آگے دنیا کے سب نظارے ہیچ ہیں۔

سبز گنبد کی جھلک دیدہ تر سے آگے

دیکھ سکتی ہے نظر حدّ نظر سے آگے (عباس تابش)

پورا ماحول روشنیوں سے نہایا ہوا تھا۔ مجھے ایسا لگا کہ یہ روشنیاں آسمانوں سے اتر کر اللہ کے اس خاص گھر کو منور کر رہی ہیں۔ یہ آسمانی روشنیاں اسے چھو کر اسے اور بھی پاکیزہ اور مقدس بنا رہی ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ اس مسجد اور اس کے مکین کا نور آسمان کو چھو رہا ہو۔ یہ طے کرنا مشکل تھا کہ کہاں کی روشنی کسے روشن کر رہی ہے۔ کیونکہ یہاں آسمان اور زمین ایک ہی رنگ میں رنگے دکھائی دے رہے تھے۔ یہ عام روشنیاں نہیں تھیں۔ یہ نور تھا۔ یہ رنگ تھے۔ یہ حسن تھا۔ رنگ و بو کی یہ بہار آسمان سے زمین تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس نور بھرے منظر کو دیکھ کر آنکھیں خیرہ ہو رہی تھیں۔ اس وقت جیسے میرا پورا جسم آنکھ بن چکا تھا۔ میرے حواسِ خمسہ میں سے صرف ایک حس یعنی بصارت کام رہی تھی۔ باقی سارے حواس معطل ہو چکے تھے۔ اس منظر پر میری آنکھیں ایسی جمی تھیں کہ قدم اُٹھانا تو درکنار آنکھیں جھپکانا بھی بھول گیا تھا۔

شکستہ دل، تنِ مردہ اور آنکھیں میری نم دیدہ

میں سوچ رہا تھا کہ کس منہ سے اس دربار میں حاضری دُوں۔ کیسے ان کا سامنا کروں۔ میرے دامن میں تو گناہوں کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔

پھر خیال آتا کہ لاکھ گناہگار سہی، اُنہی کا اُمتی ہوں۔

میرے نبیﷺ تو رحمۃ اللعالمین ہیں۔ انہوں نے تو اپنے جانی دشمنوں کو بھی معاف کر دیا تھا۔ انہوں نے منکروں اور کافروں کو بھی بخش دیا تھا۔ میں تو پھر بھی ان کا کلمہ گو ہوں۔ ان کا والہ و شیدا ہوں۔ وہ مجھے بھی اپنے دامن عفو میں جگہ عنایت کریں گے۔ مجھے ضرور معاف کریں گے۔ کیوں نہیں کریں گے۔ وہ اپنی اُمّت کے رکھوالے، ان کے محافظ، ان کے شفیع اور ان کے مددگار جو ٹھہرے۔ ان کی شفاعت کی امید لیے ہم ان کے دربار میں حاضر ہونے آئے ہیں۔ وہ اپنے اس حقیر سے اُمتی کو ٹھکرائیں گے نہیں۔ بلکہ اپنی نظر کرم سے نوازیں گے۔ مجھے امید کی کرن دکھائی دی اور میں اس کِرن کے تعاقب میں چل پڑا۔


سفرِ عقیدت کا اِرادہ



کئی برسوں سے میرا اور میری اہلیہ کا حج ادا کرنے کا پروگرام بن رہا تھا۔ پروگرام بنتا اور پھر اگلے سال تک کے لئے ملتوی ہو جاتا۔ اہلیہ کو جلدی تھی اور میں تاخیر کر رہا تھا۔ کچھ کاروباری مصروفیات تھیں اور کچھ میرے من کا کھوٹ تھا جو اس ارادے کو عملی جامہ پہنانے میں رکاوٹ بن رہا تھا۔ میں بھی حج کرنا چاہتا تھا لیکن چند برسوں بعد۔ میں سوچتا تھا کہ جلدی کیا ہے۔ ایک حج فرض ہے وہ کبھی بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں ہماری کئی دفعہ بحث ہوئی۔ میں تاخیر کے لیے بہانے ڈھونڈتا رہا۔ وجہ صرف یہ تھی کہ میں ابھی دنیا ترک نہیں کرنا چاہتا تھا۔ ابھی اپنی مرضی کی زندگی جینا چاہتا تھا۔ من مانی والی زندگی۔ میں اپنی باگیں کسی کے ہاتھ میں نہیں تھمانا چاہتا تھا۔ سوچتا تھا کہ اس سے تو زندگی میں کوئی رنگ نہیں بچے گا۔ زندگی بالکل روکھی پھیکی اور بے رنگ ہو جائے گی۔ میں ذہنی طور پر اس کے لیے تیار نہیں ہو پا رہا تھا۔

ایسا بھی نہیں تھا کہ میں بالکل ہی بے مہار زندگی گزار رہا تھا۔ اس میں کافی حد تک نظم و ضبط، اخلاقی ضابطے اور ذمہ داری کا عنصر شامل تھا۔ میں اپنے کاروبار، خاندان حتیٰ کہ سماجی ذمہ داریوں سے کبھی غافل نہیں رہا۔ پھر بھی اللہ اور اس کے رسولﷺ کے بتائے ہوئے راستے پر اس طرح نہیں چل رہا تھا جس طرح چلنا چاہیے۔ اس سلسلے میں بہت سی کوتاہیاں اور غیر ذمہ داریاں برت رہا تھا۔ میں اپنے فرض کو کبھی نہیں بھولا تھا۔ لیکن سست روی کا شکار ضرور تھا۔ اس لاپرواہی، غیر ذمہ داری، غفلت کو میں زندگی سمجھ بیٹھا تھا۔ ایمان بُلاتا تھا اور شیطان روکتا تھا۔ میرے دل و دماغ میں اسی طرح کشمکش جاری رہتی تھی۔

یہ کشمکش اُس دن ختم ہو گئی جب میں نے حج کا حتمی ارادہ کر لیا۔ میرے اندر کا مسلمان، والدین کی تربیت کا اثر اور سب سے بڑھ کر اللہ کا فضل شامل حال ہوا تو گماں باطل ہوا، یقیں غالب آ گیا اور منزل صاف دکھائی دینے لگی۔ ایک دفعہ ارادہ کیا تو پھر صورت حال بدل گئی۔ اب مجھے کوئے یار پہنچنے کی اتنی جلدی تھی کہ وقت کاٹنا دوبھر ہو گیا۔ روضہ رسولﷺ پر حاضری کی دیرینہ خواہش اُبھر کر سامنے آ گئی تھی۔ جی چاہتا تھا کہ وقت پر لگا کر اڑ جائے اور ہم رخت سفر باندھ کر سوئے حرم چل دیں۔

آسٹریلیا میں بہت سے ٹریول گروپ حج پر لے کر جاتے ہیں۔ ہر گروپ کے پاس حج اور عمرے کے مختلف پیکج ہوتے ہیں۔ اس میں مختلف دورانیے، مختلف سہولتوں پر مبنی اور مختلف بجٹ پر مشتمل پیکج ہیں۔ انٹرنیٹ پر ان تمام کی تفصیل دستیاب ہوتی ہے۔ ہم نے بھی مختلف ٹریول ایجنسیوں کے پیکجز کا جائزہ لیا۔ ایک دو دوستوں سے مشورہ بھی کیا اور بالآخر لبیک نامی ٹریول ایجنسی کا انتخاب کیا۔ اس کمپنی کا دفتر ہمارے شہر سڈنی میں نہیں بلکہ ملبورن میں ہے۔ اس کی انتظامیہ لبنان اور مصر سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ سڈنی میں بہت سے گروپ دستیاب تھے ان میں کچھ کے منتظم پاکستانی ہیں۔ لبیک کے انتخاب کی وجہ اس کی اچھی شہرت تھی۔ اس گروپ کے ساتھ حج پر جانے والوں نے اس کی تعریف کی تھی۔ ان گروپوں سے سب سے بڑی شکایت یہی ہوتی ہے کہ وہ اپنے وعدے پورے نہیں کرتے۔ جن سہولیات کا وعدہ کر کے وہ حاجیوں کو لے کر جاتے ہیں حرمین شریفین میں پہنچ کر وہ سہولیات اس طرح فراہم نہیں کر پاتے۔

لبیک کے بارے میں اس طرح کی کوئی شکایت نہیں ملی تھی۔ اچانک پیش آنے والے مسائل کے حل کے لیے جس تجربے کی ضرورت ہوتی ہے وہ لبیک کو حاصل تھا۔ اس تجربے کی بنا پر وہ حاجیوں کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کرنے کی بہتر پوزیشن میں تھے۔

ہمارا یہ فیصلہ درست ثابت ہوا۔ تھوڑی بہت شکایت کے باوجود اس گروپ نے اپنے وعدے پورے کیے۔ حج کی تکالیف اور بھاگ دوڑ اپنی جگہ لیکن لبیک نے عمومی طور پر کوئی وعدہ خلافی نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر حاجی ان سے مطمئن لوٹے۔ مکمل اور بے عیب انتظامات ممکن بھی نہیں ہیں۔ دورانِ حج ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں کہ انتظامیہ آپ کی مدد کرنے سے قاصر ہو جاتی ہے۔ بہتری کی ہمیشہ گنجائش رہتی ہے۔ تاہم تمام صورت حال سامنے رکھتے ہوئے ان کی کاوشوں کو سراہنا چاہیے۔

اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ دوسرے گروپ اور ان کا انتظام کم تر تھا۔ ہر گروپ اپنی اپنی جگہ بہتر سے بہتر خدمات فراہم کی کوشش کرتا ہے تاکہ اس کے کسٹمر مطمئن ہو سکیں اور ان کو کسی قسم کی شکایت نہ ہو۔ یہ ان کے کاروبار کے لیے ضروری ہے۔ شکایات عام ہونے کی صورت میں کسٹمر اس گروپ سے منہ موڑ سکتے ہیں اور ان کا کاروبار متاثر ہو سکتا ہے۔

میرے خیال میں حج اور عمرے پر لے جانے والے گروپوں کو عازمین کی ناراضی اور خوشنودی سے زیادہ اللہ کی ناراضی یا خوشنودی کا خیال رکھنا چاہیے۔ انسانوں سے زیادہ خدا کا خوف ہونا چاہیے۔ گاہکوں کو مطمئن کرنے سے زیادہ ضمیر کا اطمینان ہے۔ اگر دل میں خدا کا خوف ہو گا، آخرت کی فکر ہو گی اور ضمیر جاگ رہا ہو گا تو حج اور عمرے جیسی اہم عبادت میں کسی سے زیادتی کرنے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا ہے۔

لبیک والوں کے تین پیکج تھے۔ پہلے پیکیج کے مطابق عازمینِ جدہ میں لینڈ کر کے سیدھا مکہ مکرمہ میں جاتے اور وہاں تین دن قیام کے بعد حج کے مناسک شروع ہو جاتے۔ حج کے فوراً بعد یہ گروپ مدینہ کے لیے روانہ ہو جاتا۔ ایک ہفتہ وہاں قیام کے بعد ان کی وطن واپسی ہوتی۔

دوسرے پیکج کے مطابق حج سے صرف تین دن پہلے عازمین کی براہ راست مدینہ منورہ میں آمد طے تھی۔ تین دن بعد مکہ مکرمہ کے لیے روانگی تھی۔ جہاں پہنچتے ہی مناسک حج شروع ہو جاتے۔ حج کے بعد چند دن مکہ میں قیام اور پھر وطن واپسی۔

تیسرے پیکج کے مطابق بھی براہ راست مدینہ آمد تھی۔ لیکن یہ حج سے آٹھ دن پہلے تھی۔ اس طرح مدینہ میں چالیس سے زائد نمازیں پڑھنے کا موقع ملتا تھا۔ مدینہ میں آٹھ دن قیام کے بعد براہ راست عزیزیہ پہنچنا تھا۔ جہاں دوسرے دن حج شروع ہو جاتا۔ حج کے بعد چند دن مکہ میں قیام اور پھر براستہ جدہ وطن واپسی طے تھی۔

ہم نے دوسرے پیکج کا انتخاب کیا اور پیشگی رقم بھی ادا کر دی۔ اس پیکج کے مطابق حرمین شریفین کا کل قیام سترہ دن بنتا تھا۔ اس میں تین چار دن مدینہ منورہ میں گزارنے تھے۔ وہاں سے براہِ راست عزیزیہ (مکہ) میں منتقلی اور مناسکِ حج کی ادائیگی اور اس کے بعد تین چار دن مکہ میں قیام کے بعد وطن واپسی تھی۔

فیصلہ کرنے اور کچھ رقم کی ادائیگی کے باوجود ہمارا دل مطمئن نہیں ہو رہا تھا۔ دل چاہتا تھا حرمین شریفین میں ہمارا قیام اور بڑھ جائے۔ تینوں پیکیج میں مکہ میں مزید رہنے کی گنجائش نہیں تھی۔ لیکن تیسرے پیکیج کے مطابق مدینہ منورہ میں ہمارا قیام بڑھ سکتا تھا۔ کئی دن کی سوچ بچار کے بعد ہم نے پیکیج تبدیل کر کے مدینہ میں قیام بڑھانے کا فیصلہ کر لیا۔

حالانکہ حج کی شرائط میں مدینہ منورہ کی زیارت شامل نہیں ہے نہ ہی مسجد نبویﷺ میں چالیس نمازوں کی پابندی ہے۔ لیکن دوسرے ملکوں سے جانے والے حجاج فریضہ حج ادا کرنے کے ساتھ پیغمبر اسلام کے روضے پر حاضری ضرور دیتے ہیں۔ جہاں وہ اللہ کے دربار میں حاضر ہوتے ہیں وہاں اللہ کے بنیﷺ کے دربار میں بھی حاضری کا شرف حاصل کرتے ہیں۔

پھر وہاں مسجد نبویؐ بھی ہے جو اللہ اور اس کے رسولﷺ کی پسندیدہ مسجد ہے۔ جہاں پڑھی جانے والی ایک ایک نماز کا اجر عام نماز سے ہزار گنا زیادہ ہے۔ حجاز مقدس کی سرزمین پر بیت اللہ کے بعد سب سے مقدس عبادت گاہ مسجد نبویؐ ہے۔ اور اس زمین پر خانہ کعبہ کے بعد سب سے بڑی اور سب سے بابرکت زیارت گاہ روضہ رسولﷺ ہے۔ کوئی صاحب ایمان نبیﷺ کے روضے، نبیﷺ کی مسجد اور ان کے محبوب شہر سے بیگانہ نہیں رہ سکتا۔ اس شہر کی ایک ایک گلی، ایک ایک چپہ زمین اور اس کی ہوائیں اور فضائیں نبیﷺ کے عاشقوں کی روح کی غذا ہیں۔ ان فضاؤں سے نبیﷺ کی خوشبو آتی ہے۔ یہاں چپے چپے پر نبیﷺ کی یادیں بکھری ہیں۔ نبیﷺ کے دیوانے اس کو دیکھے بغیر کیسے واپس لوٹ سکتے ہیں۔

ہمارے ابتدائی پیکج کے مطابق ہمارا تین دن مدینہ منورہ میں قیام متوقع تھا۔ ہمارا دل پہلے ہی چاہنے لگا کہ یہ قیام بڑھ جائے۔ نبی پاکﷺ کا قرب اور ان کی خوشبوئیں چند دن مزید سمیٹ لیں۔ اس سبز گنبد کے مکین کے پاس اس کے منبر کے ارد گرد اور ریاض الجنہ میں کچھ اور لمحے مزید گزار لیں۔ پھر کبھی یہاں آنا نصیب ہو یا نہ ہو۔ مجھ سے زیادہ میری اہلیہ کی یہ خواہش تھی۔ لہٰذا میں نے لبیک والوں سے رابطہ کر کے پیکج بدلنے کی درخواست کی۔ اس میں کوئی دقت نہ ہوئی انہوں نے اضافی رقم لے کر ہمارا پیکج تبدیل کر دیا۔ اس نئے پیکج کے مطابق مدینہ منورہ میں ہمارا قیام تقریباً آٹھ دن پر محیط تھا۔ حج سے پہلے مدینہ منورہ سے براہ راست عزیزیہ (جو مکہ کا نواحی علاقہ ہے) جانا تھا جہاں سے منیٰ، مزدلفہ اور عرفات زیادہ دور نہیں ہیں۔ حج کے بعد خانہ کعبہ کے قریب الشہداء میں چند روز قیام تھا۔ اس کے بعد جدہ ایئرپورٹ سے دوبئی اور اسلام آباد جانا تھا۔

میں نے زندگی میں بہت سفر کیا ہے۔ اجنبی ملکوں کے بڑے بڑے شہروں اور نت نئے ہوٹلوں میں قیام کا موقع ملا۔ ہر نئے سفر سے پہلے اور نئی جگہ جانے سے پہلے ایک جوش، خوشی، تجسس اور خوف محسوس ہوتا ہے۔ خوشی نئی سرزمین دیکھنے اور اس کے باشندوں سے ملنے کی ہوتی ہے، خوف اس بات کا ہوتا ہے کہ سفر میں کوئی انہونی بات، کوئی مسئلہ یا کوئی حادثہ نہ پیش آ جائے۔ کسی لٹیرے یا ٹھگ سے نہ پالا پڑ جائے۔ کسی وعدہ خلاف ٹریول ایجنٹ یا وعدہ خلاف ہوٹل کا سامنا نہ ہو جائے۔ کوئی اہم چیز کہیں بھول نہ جاؤں۔ کچھ کھو نہ جائے۔

جوش و مسرّت کے رنگ میں بھنگ ڈالنے والے اس خوف کی ابتدا ادھیڑ عمری سے ہوتی ہے۔ ورنہ نوجوانی تو بے فکری کا نام ہے۔ اس عُمر میں فکروں اور پریشانیوں کو انسان جھٹک دیتا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا کہ جوانی دیوانی ہوتی ہے۔

میرے معاملے میں اچھی بات یہ ہے کہ اس خوف اور خدشے پر جوش اور تجسس غالب رہتا ہے۔ میری حالت اس بچے جیسی ہو جاتی ہے جسے عید سے ایک دن پہلے نئے کپڑے اور جوتے ملتے ہیں تو وہ انہیں سنبھالتا پھرتا ہے۔ ڈرتا ہے انہیں کوئی چوری نہ کر لے۔ اس ڈر سے یہ جوتے اور کپڑے وہ سرھانے کے نیچے رکھ کر سوتا ہے۔ وہ جتنا خوش ہوتا ہے اتنا ڈرتا بھی ہے۔

اس سفر میں میرے جذبات بالکل الگ تھے۔ اس میں جوش، خوشی اور خوف کے ساتھ ساتھ عقیدت اور محبت بھی شامل تھی۔ سڈنی سے روانہ ہوتے ہی میرا دھیان مدینہ منورہ پر مرکوز تھا۔ ذہن میں نبی پاکﷺ کا خیال آتا تو شوقِ محبت سے میرے دل کی کلی کھل اٹھتی۔ مجھے رنگ و نور کی بارش برستی محسوس ہوتی۔ میں سر تا پا اس بارش میں بھیگ جاتا۔ نبیﷺ کی محبت کا رنگ میرے اندر اور میرے باہر پھیل جاتا۔ میرا دل چاہتا کہ اگلے لمحے میں وہاں پہنچ جاؤں۔ روضے کی سنہری جالی کو تھام کر حضورﷺ سے اپنے دل کا حال بیان کر دوں۔

از جامی بے چارا رسانید سلامے

ہر در گہہ دربار رسوِل مدنی را (جامی)

(بے چارہ جامی رسول مدنیﷺ کے دربار پُر انوار پر سلام پیش کرنے کے لیے حاضر ہے۔)

ایک طرف تو نبی پاکﷺ کی محبت کے جذبات تھے اور دیدار کی جلدی بھی اور دوسری طرف خوف بھی تھا۔ یہ قدرتی بات بھی ہے انسان جسے بہت چاہتا ہے اس سے ڈرتا بھی ہے۔ میں ڈرتا تھا کہ نہ جانے کیا ہو۔

میری محبت اپنی جگہ پر، وہاں سے قبولیت ملے گی یا نہیں؟

ان کے در پر حاضری کی اِذن ملے گی یا نہیں؟

یہ حاضری قبول ہو گی یا نہیں؟

میرے دل کا چور کبھی ڈراتا، کبھی تسلی دیتا اور کبھی خوف میں مبتلا کر دیتا تھا۔ سارے سفر میں دل و دماغ میں یہ کشمکش جاری رہی۔ خوشی اور خوف ساتھ ساتھ چلتے رہے۔


پریشاں فکری



سفرِ حج پر روانگی کے وقت کچھ اور بھی عجیب و غریب سوچیں ہمراہ تھیں۔ ایک بات تو طے تھی کہ اللہ کے گھر اور اس کے پیارے نبیﷺ کے روزے کی زیارت کے لیے تو میں بے چین تھا۔ ساری زندگی اس کے شوقِ دیدار میں گزاری تھی۔ لیکن حج کی ادائیگی کے لیے میرا جذبہ اتنا توانا نہیں تھا۔ محض ایک فرض تھا جسے ادا کرنا تھا۔ لیکن اس میں شوق کی وہ انتہا شامل نہیں تھی جو حرم پاک اور روضہ رسولﷺ پر حاضری کے بارے میں تھی۔

حج اور حاجیوں کے بارے میں وقت کے ساتھ ساتھ میرے خیالات بھی بدلتے رہے۔ اپنے بچپن کے دنوں میں مجھے حاجیوں سے بے انتہا عقیدت محسوس ہوتی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ قدرے ماند پڑ گئی۔ اس کے باوجود جب کوئی حاجی حرم پاک یا مسجد نبویؐ کا ذکر کرتا تو میرا دل وفورِ شوق سے بھر جاتا اور میں مجسم سماعت بن جاتا تھا۔ لیکن جب وہ حج کے ارکان کا ذکر کرتے تو مجھے اتنا جوش اور ولولہ محسوس نہیں ہوتا تھا۔ اس میں کچھ قصور میرے دل و دماغ کا تھا اور کچھ معاشرتی رویے کا بھی عمل دخل تھا۔

یہ خیالات اور جذبات ہمیشہ سے ایسے نہیں تھے۔ پچھلے چند سالوں سے میرے اندر کئی تبدیلیاں آئی تھیں۔ آسٹریلیا میں میرے کافی دوست حج کی سعادت حاصل کر چکے تھے۔ میں ان سے ملتا تھا تو مجھے یوں محسوس ہوتا تھا کہ یہ کوئی الگ ہی مخلوق ہیں۔ بہت اعلیٰ، ارفع اور پاکیزہ۔ میں خود کو اُن سے کم مایہ محسوس کرتا۔ میں انہیں حیرت سے دیکھتا اور ان کی باتیں سنتا۔

کبھی کبھی کوفت بھی ہوتی کیونکہ! نہ حرم کی باتیں۔ نہ اس کے مکین کی باتیں۔ نہ اس کے حبیب کی باتیں۔ نہ مقام ابراہیم کی باتیں۔ نہ حطیم کی باتیں۔ یہ تو تجارتی، تنقیدی اور سیاسی باتیں ہیں۔ میں یہ سننے تو نہیں آیا تھا۔ اس کے لیے اخبارات اور ٹی وی موجود ہیں۔ میں تو اس گھر کے مکین کی باتیں سننے آیا تھا جس گھر کے وہ پھیرے لینے گئے تھے۔ لیکن وہاں انتظامات کی شکایات، سیاسی اور معاشی تجزیے، مختلف قومیت کے لوگوں پر تبصرے شروع ہو جاتے۔ اس وجہ سے کبھی کبھی حج اور حاجیوں سے دل اُچاٹ سا ہو جاتا۔ اب میں سوچتا ہوں کہ سارا قصور بتانے والے کا نہیں ہے۔ یہ سامعین پر بھی منحصر ہے کہ وہ کیا سننا چاہتے ہیں۔

ایک دفعہ میں چھٹیوں پر پاکستان گیا ہوا تھا۔ میں دوستوں کی ایک محفل میں آسٹریلیا میں حلال کھانوں اور وہاں موجود اسلامی مراکز کے موضوع پر بات کر رہا تھا کہ ایک دوست بول اٹھا ’’تم آسٹریلیا میں رہتے ہو یا سعودی عرب میں۔ ہم آسٹریلیا کے قصے سننے آئے تھے تم تبلیغ کرنے بیٹھ گئے‘‘

اسی طرح ہم حج کے بعد پاکستان گئے تو ایک دوست بار بار ایک ہی سوال کر رہا تھا ’’وہاں سونے کا بھاؤ کیا تھا‘‘

میرے بچپن کے دنوں میں بہت کم لوگ حج کی سعادت حاصل کرتے تھے۔ ان دنوں جو بھی حاجی ملتا تھا ہمارے لیے وہ آسمان سے اتری ہوئی انوکھی اور منفرد مخلوق کی طرح ہوتا تھا۔ میں حاجیوں سے قریب ہونے ان کی باتیں سننے کی کوشش کرتا تھا۔ مجھے ان حاجیوں سے مکہ مدینہ کی خوشبو آتی تھی۔ میرا ایمان تھا کہ یہ یقینی طور پر جنت کے حقدار اور گناہوں سے پاک معصوم فرشتوں کی طرح ہیں۔ میں ان کی قسمت پر رشک کرتا تھا۔

میں نے جب مطالعہ کیا تو یہ سیکھا کہ حج صرف عبادت ہی نہیں بلکہ بہت بڑی سعادت ہے۔ اللہ کی طرف سے ایک خصوصی پروانہ ہے جو صرف خاص لوگوں کو ملتا ہے۔ حج کے لیے صرف مال و دولت ضروری نہیں اللہ کی رضا، اس کی اجازت اور اس کی خوشنودی بھی لازم ہے۔ ہم اگر اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو ایسے کئی لوگوں کو جانتے ہوں گے جو وسائل رکھنے کے باوجود اس سعادت سے محروم رہے۔ اس کے کرم، اس کے حکم اور اس کے فیصلہ کے بغیر یہ ممکن ہی نہیں ہے۔ اللہ کے نبیﷺ کا فرمان ہے کہ اللہ کی بارگاہ میں قبول ہونے والے حج کے بعد حاجی گناہوں سے اس طرح پاک اور صاف ہو جاتا ہے جس طرح نو مولود بچہ گناہوں سے پاک اور معصوم ہوتا ہے۔ حاجی پر اللہ اور اس کے رسولﷺ کی رحمت کا سایہ رہتا ہے۔

ایک خاص عمر تک میرے خیالات و جذبات یہی رہے۔ بچپن اور لڑکپن میں جذبات میں جو شدت تھی رفتہ رفتہ اس میں کمی آتی گئی۔ حالات، واقعات، مشاہدات اور غور و فکر سے سوچوں کی نئی نئی راہیں کھلنے لگیں۔ اس سے میرے اندر کئی مثبت اور کئی منفی تبدیلیاں آئیں۔ عقل و شعور جذبات پر حاوی ہوتے چلے گئے۔ اور دنیاوی حرص وہوس عقل و شعور کا مرکز و محور بن گئی۔ میرے قوّتِ فیصلہ اور قوّتِ ارادی میں واضح اضافہ ہوا۔

والد صاحب کا سایہ بچپن میں ہی سر سے اٹھ گیا تھا۔ لہٰذا شروع سے ہی احساسِ ذمہ داری کا بوجھ کندھوں پر رہا۔ حالات کی چکی میں پس کر اپنے حالات کو بہتر کرنے کی دھُن سوار تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حالات بہتر ہونا شروع ہو گئے۔ لیکن میری جد و جہد کا سلسلہ جاری رہا۔ ان حالات میں نوجوانی کے جذبات دبتے چلے گئے۔ ان کی جگہ حالات و واقعات اور مشاہدات پر غور و فکر کا عنصر غالب آتا گیا۔ اس غور و فکر نے میرے اندر کئی تبدیلیاں پیدا کیں۔ ان کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھانے لگا۔ اس دوران ہی اپنے اور اپنے خاندان کے لئے کئی مشکل فیصلے کرنے پڑے۔ ان فیصلوں کو گھر کے اندر اور گھر کے باہر توصیف و تنقید دونوں کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن میں ہمیشہ ان پر قائم رہا۔ ان مشکل فیصلوں کے نتیجے میں میری اور میرے خاندان کی زندگیوں میں بڑی بڑی تبدیلیاں آئیں۔ مجھے اس پر اطمینان اور مسرت ہے کہ اس میں سے پیشتر فیصلے درست ثابت ہوئے۔ کچھ میں ناکامی کا بھی سامنا کرنا پڑا لیکن آگے چل کر علم ہوا کہ اس ناکامی کے پردے میں در اصل کامیابی تھی۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ انسان صرف کوشش کر سکتا ہے۔ کامیابی یا ناکامی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ بہرحال اللہ نے انسان کو جو عقل سلیم دی ہے اور ہاتھ پاؤں دیے ہیں ان کا استعمال ضروری ہے۔ کیونکہ کامیابی پلیٹ میں رکھ کر کوئی نہیں دیتا۔ دوسرے یہ کہ ارادوں یا فیصلوں کی ناکامی میں بھی اللہ کی کوئی مصلحت ہوتی ہے جو اس وقت سمجھ میں نہیں آتی ہے۔ اس لیے ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔

غور و فکر کی عادت اور شعور کی پختگی کا نقصان بھی ہوا۔ سب سے بڑا نقصان تو یہ ہوا کہ میرے ایمان میں دراڑیں پڑنا شروع ہو گئیں۔ میں ہر چیز کا جواز اور منطق تلاش کرنے لگا۔ اگر کسی خیال، جذبے یا کام میں منطق یا عقلی دلائل نہ ملتے تو میرا یقین شک و شبہ کی نذر ہونے لگتا۔ ادھر سے بے عملی بھی جواز ڈھونڈنے لگتی۔ ایک دفعہ دِین سے دُوری ہوئی تو پھر فاصلے بڑھتے ہی چلے گئے۔ میری دنیا داری کی ہوس اور میری بے عملی کو سو بہانے مل گئے۔ حالانکہ یہ بہانے خود مجھے بھی ڈھکوسلے اور جھوٹے محسوس ہوتے تھے۔ کبھی کبھی جب میں تنہا ہوتا تو ساری تگ و دو اور کامیابیاں ہیچ لگنے لگتیں اور اپنے اندر ایک خلا سا محسوس ہونے لگتا۔ بچپن کی یادیں اور والدین کی تربیت یاد آتی تو پھر سجدوں میں ہی پناہ ملتی۔ میں پھر اپنے مدار میں لوٹ آتا۔ خالق سے رجوع کرتا تو ساری بے چینیاں ختم ہو جاتیں۔ میرا بچپن اور لڑکپن پلٹ آتا جو معصومیت سے عبارت تھا۔ جس میں دین کی پاسداری تھی۔ ایمان کی پختگی تھی اور توکل اِلی اللہ تھا۔ جس ماحول میں میں نے زندگی کا ابتدائی حصہ گزارا تھا وہ کبھی مجھ سے مکمل طور پر جدا نہیں ہوا۔ حالانکہ میں اس ماحول سے بہت دور چلا آیا تھا۔

اپنے خالق سے تعلق کی سفید چادر پر جب دھبے پڑ جاتے تو کہیں نہ کہیں کوئی گھنٹی ضرور بج اٹھتی تھی۔ پھر کبھی بادِ صبا کے ایک جھونکے سے، قرآن کی کسی آیت سے، ایک بھولے بسرے سجدے سے، کسی صاحبِ نظر کی ایک نظر سے، گھر کے ماحول سے، بچوں کی پیار بھری شرارتوں سے، قدرت کے کسی خوبصورت نظارے سے، رمضان کی آمد سے، اذان کی سریلی آواز سے یا کسی خوبصورت جملے سے یہ چادر دھُل جاتی اور میرے اندر قائم دِین کی خوبصورت عمارت دھُل کر چمکنے لگتی۔

باہر کے شیطان کو شکست دی جا سکتی ہے۔ لیکن اندر کے شیطان سے لڑنا اور مسلسل لڑنا بہت مشکل ہے۔ انسان کی زندگی اللہ اور شیطان کے درمیان کشمکش میں امتحان بن کر گزر جاتی ہے۔

جوانی کے ایّام میں جب میں دنیاوی معاملات میں کھو کر مذہب سے قدرے دور ہو گیا تو حج اور حاجیوں کے بارے میں وہ جذبات نہ رہے جو بچپن یا لڑکپن میں ہوتے تھے۔ تجربے نے یہ بھی بتا یا کہ ہر وہ آدمی جس کے نام کے ساتھ حاجی کا لاحقہ لگا ہوا ہے یکساں طور پر اتنا پاک باز اور راست باز بھی نہیں ہے جتنا میں سوچتا تھا۔ حج جیسی عظیم سعادت حاصل کرنے اور حرمین شریفین جیسی مقدس جگہوں کی زیارت کے اثرات بھی ہر زائر اور ہر حاجی پر ایک جیسے مرتب نہیں ہوتے۔ کسی کی نیتوں سے تو اللہ ہی واقف ہوتا ہے لیکن بعض لوگوں کا حال ظاہر ہو جاتا ہے۔

حاجیوں کے بارے میں جہاں اچھی اور روحانی باتیں مشہور ہوتی ہیں وہاں کچھ لوگ از راہِ تفنن بھی بات کرتے ہیں۔ مثلاً ہمارے محلے کے ایک صاحب حج کر کے واپس آئے تو ان کا بہت شاندار استقبال کیا گیا۔ چند دن بعد وہ گلی میں سے گزر رہے تھے کہ ایک آدمی نے پوچھا ’’عبد الغنی کیا حال چال ہے؟‘‘

حاجی صاحب نے گھور کر اس آدمی کو دیکھا اور بولے ’’میں نے پورا ایک لاکھ روپیہ خرچ کیا ہے۔ آئندہ مجھے عبد الغنی نہیں حاجی عبد الغنی کہنا۔ سمجھے؟

’’حاجی‘ ‘عبد الغنی کی یہ بات کافی مشہور ہوئی۔

ایک پروفیسر صاحب سناتے ہیں۔ میں ٹرین میں سفر کر رہا تھا میرے ساتھ والی سیٹ پر جو صاحب براجمان تھے ان سے علیک سلیک شروع ہوئی۔ جب تعارف ہونے لگا تو ان صاحب نے بتایا ’’میرا نام حاجی محمدالیاس ہے‘‘

پروفیسر صاحب کی رگِ ظرافت پھڑک اٹھی بولے ’’میرا نام نمازی اعجاز حسین ہے‘‘

وہ صاحب حیران ہو کر بولے ’’نمازی اعجاز حسین؟‘‘

پروفیسر صاحب نے کہا ’’جی آپ نے درست سنا ہے‘‘

ان صاحب کی حیرانی ختم نہیں ہوئی کہنے لگے ’’بڑا عجیب نام ہے! نمازی اعجاز حسین!‘‘

پروفیسر صاحب نے کہا ’’آپ نے کتنے حج کیے ہیں؟‘‘

’’جی ایک‘‘ انہوں نے جواب دیا۔

پروفیسر صاحب نے کہا ’’آپ ایک حج کر کے حاجی صاحب کہلوا سکتے ہیں تو میں دن میں پانچ وقت نماز پڑھ کر نمازی کیوں نہیں کہلوا سکتا؟‘‘

حاجی صاحب کو کوئی جواب نہیں سوجھا۔ وہ پروفیسر صاحب کی شرارت کو بھانپ گئے تھے۔

مولویوں کے بارے میں بہت سے لطیفے مشہور ہیں۔ حاجیوں کے متعلق بھی یار لوگوں نے کئی لطیفے گھڑ رکھے ہیں۔ ایک محفل میں ایک صاحب سنا رہے تھے کہ ایک سڑک کے کنارے ایک نابینا بھکاری کشکول اٹھائے بھیک مانگ رہا تھا۔ اس نے محسوس کیا کہ کوئی آدمی کشکول میں پیسے ڈالنے کے بجائے نکال رہا ہے۔ اس نے فوراً کہا ’’یہ ظلم نہ کریں حاجی صاحب‘‘

اس آدمی نے کہا ’’تمہیں کیسے پتہ چلا کہ میں حاجی ہوں‘‘

بھکاری بولا ’’اتنا ظلم کوئی حاجی ہی کر سکتا ہے‘‘

خیر ایسے لطیفے لوگوں نے گھڑ رکھے ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کچھ لوگ غلط کام کرتے ہیں اور ساتھ میں فخر سے یہ بھی بتاتے ہیں کہ انہوں نے حج بھی کر رکھا ہے۔ یہ اللہ کے گھر سے توبہ کر کے لوٹنے والوں کی شان نہیں ہے۔ حالانکہ اس گھر میں جانے والوں پر اللہ کی اتنی رحمت ہو جاتی ہے کہ ان کا قلب موم ہو جاتا ہے اور گناہوں سے نفرت ہو جاتی ہے۔ ان کے دل و دماغ میں اللہ اور اس کے نبیﷺ کی محبت اور اطاعت کا جذبہ زندہ و جاوید ہو جاتا ہے۔ اللہ سے ہمیشہ دعا کرنی چاہیے کہ یہ جذبہ ہمیشہ سلامت رہے اور مرتے دم تک دل سے اللہ کے گھر کی خیر و برکت کم نہ ہو۔ جب دم نکلے تو نظروں میں کعبہ اور اس کا مکین ہو۔

میرے خیال میں حج کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر بہت بڑا کرم کیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سفرِ حج پر روانگی کے وقت انسان دنیاوی دھندوں، کاروباری معاملات، خاندانی مسائل، قانونی پیچیدگیوں، خاندانی دشمنیوں اور دیگر دنیاوی مسائل کو الگ کر کے صرف ایک جانب اپنی توجہ مرکوز رکھے۔ اور وہ ہے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی خوشنودی، اپنے گناہوں سے توبہ واستغفار، اللہ اور اس کے نبیﷺ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش اور زیادہ سے زیادہ عبادت کے ذریعے اپنے اندر کے میل کو صاف کرنا۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے کہ اگر سچے دل سے توبہ کرو گے تو وہ اپنے گھر سے کسی سائل کو مایوس نہیں لوٹاتا ہے۔ اس کے تمام گناہوں کو معاف کر کے اپنی رحمت اور شفقت کے سائے میں رخصت کرتا ہے۔ چند دن کی عبادت کے صلے میں یہ اللہ کا اتنا بڑا کرم اور انعام ہے کہ ساری زندگی اس کا شکر ادا کرنے میں گزار دینی چاہیے۔


حج کی تیاریاں



رجسٹریشن کرانے کے کچھ عرصہ بعد ہماری تربیت اور کاغذی کار روائی کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ لبیک والوں نے سڈنی کے ایک ہوٹل میں تین تربیتی نشستوں کا اہتمام کیا تھا۔ ایک پیکج کے انتخاب سے پہلے اور دو رجسٹریشن کرانے کے بعد۔ علاوہ ازیں پاسپورٹ، تصاویر، حفاظتی ٹیکے لگوانے کا میڈیکل سرٹیفیکیٹ، نکاح نامے کی تصدیق اور کسی امام مسجد سے مسلمان ہونے کا سرٹیفیکیٹ حاصل کرنا ضروری تھا۔

اس سلسلے میں ایک ہندو لیڈی ڈاکٹر، ایک عیسائی پولیس آفیسر اور ایک پاکستانی امام مسجد کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہو گا۔

ڈاکٹر شیلا برسوں سے ہماری فیملی ڈاکٹر ہے۔ ڈاکٹر شیلا اور اس کے خاوند ڈاکٹر ستیش بھٹ کی سرجری ہمارے گھر سے زیادہ دور نہیں ہے۔ ڈاکٹر شیلا نے سعودی سفارت خانے کی ہدایت کے مطابق حفاظتی ٹیکے لگائے اور سرٹیفیکیٹ دے دیا۔ اس کے ساتھ اس نے احتیاطاً سعودی عرب میں قیام کے دوران مختلف ممکنہ بیماریوں کے نسخے بھی لکھ دیے۔ پھر اس نے کافی وقت صرف کر کے ہم دونوں کے میڈیکل سرٹیفیکیٹ بنائے جس میں درج تھا کہ ہمیں ان دواؤں کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ ایئر پورٹ پر ان دواؤں کے بارے میں کوئی سوال پوچھے تو اس کا جواب ہمارے پاس اس سرٹیفیکیٹ کی صورت میں موجود ہو۔ اس طرح اس نے ہمیں کسی ممکنہ پریشانی سے بچانے کا پورا انتظام کیا۔

ان دواؤں میں عام استعمال کی ادویات جیسے قے روکنے کی دوا، الرجی کی دوا، ایڑھیاں پھٹنے کی دوا، نزلہ زکام اور گلہ خراب ہونے کی دوا شامل تھیں۔

آسٹریلیا میں ڈاکٹر کسی بھی دوا کا نسخہ لکھ کر دینے میں بہت محتاط رہتے ہیں کیونکہ ان کی فیس حکومت ادا کرتی ہے۔ دواؤں کی قیمت میں بھی حکومت کا حصہ ہوتا ہے۔ یعنی مریض کو عموماً دوائی کی پوری قیمت نہیں دینی پڑتی ہے۔ اس میں سے کچھ حصہ حکومت ادا کرتی ہے۔ اس لیے ڈاکٹر بغیر ضرورت اور بغیر بیماری کے کبھی دوا لکھ کر نہیں دیتے۔ عام حالات میں ڈاکٹر شیلا بھی یہی کرتی تھی۔ ہمیں اتنی ساری دوائیں لکھ کر دینے کی وجہ اس نے یہ بتائی ’’دورانِ حج وہاں بہت خلقت جمع ہوتی ہے۔ مختلف بیماریوں کے جراثیم عام ہوتے ہیں۔ اس سے بہت سے لوگ متاثر ہو جاتے ہیں۔ تقریباً ہر آدمی پر یہ بیماریاں حملہ اور ہوتی ہیں۔ اگر آپ کے پاس یہ دوائیں ہوں گی اور وقت پر استعمال کریں گے تو ان امراض سے بچاؤ ممکن ہو سکے گا‘‘

ڈاکٹر شیلا نے درست کہا تھا سفرِ حج میں اور قیام حرمین شریفین کے دوران میں ہمیں ان دواؤں کی بار بار ضرورت پڑی اور یہ دوائیں ہمارے بہت کام آئیں۔ اگر یہ دوائیں ہمارے پاس نہ ہوتیں تو یقیناً ہمیں سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا۔

ہم اپنی اس ڈاکٹر کے ہمیشہ ممنون رہیں گے۔ خدا اس کو سکون اور شانتی دے۔ کیونکہ سب کا ایک ہی مالک ہے۔

نکاح نامے کی تصدیق کی باری آئی تو اس کی شرط یہ تھی کہ کوئی پولیس آفیسر ہی اس کی تصدیق کر سکتا ہے عام طور پر آسٹریلیا میں دستاویزات کی تصدیق Justice of Peace جسے عرف عام میں جے پی کہا جاتا ہے، کرتے ہیں۔ یہ عام شہریوں میں سے نامزد کیے جاتے ہیں۔ میرے دوستوں میں سے بھی چند ایک جے پی ہیں۔ ہمیں پاکستانی جے پی کی ضرورت اس وقت پڑتی ہے جب کسی اُردو دستاویز کی تصدیق کرانی پڑ جائے۔ یہ جے پی مختلف شعبہ ہائے زندگی سے متعلق ہوتے ہیں۔ مثلاً کیمسٹ، پوسٹ آفس کا کلرک، بنک اسٹاف، ٹریول ایجنٹ یا دُکاندار یہ ذمہ داری لیتے ہیں۔ تاکہ لوگ آسانی سے ان تک پہنچ کر کاغذات کی تصدیق کروا سکیں۔

میرا نکاح نامہ اُردو میں ہے۔ ماہ وسال کی گردش کے ساتھ دولہا اور دلہن کی طرح نکاح نامہ بھی عمر رسیدہ اور خستہ حال ہو چکا ہے۔ وہ اپنی ابتدائی رنگت اور شکل و شباہت کھو کر زردی مائل اور گھسے پٹے کاغذ میں بدل چکا ہے۔ اگرچہ میں نے اس پر میک اپ کی تہیں (پلاسٹک کوٹنگ) چڑھا کر اور زمانے کے گرم و سرد سے محفوظ رکھنے کی اپنی سی کوشش کر کے اس کی چمک دمک برقرار رکھنا چاہی لیکن عمر رسیدہ مرد اور بوسیدہ کاغذ کی کڑک کب قائم رہتی ہے۔ لہٰذا وہ اپنی اُڑی اُڑی رنگت، پیلاہٹ اور مدھم الفاظ کی وجہ سے تقریباً ناقابل فہم ہو چکا ہے۔ برسوں پہلے جب میں آسٹریلیا آ رہا تھا تو اسلام آباد سے میں نے اس کا انگریزی ترجمہ کروایا تھا وہ اب کام آیا۔ لیکن تصدیق بہرحال اصلی نکاح نامے کی ہونا تھی۔ یہ اصل نکاح نامہ اور اس کا انگریزی ترجمہ لے کر میں مقامی پولیس اسٹیشن گیا۔ کاؤنٹر پر موجود پولیس آفیسر کو میں نے نکاح نامہ، اس کا انگریزی ترجمہ اور سعودی سفارت خانے کا ویزہ فارم دکھایا تو وہ تینوں کاغذات لے کر دفتر کے اندر چلا گیا۔ تقریباً پانچ چھے منٹ کے بعد وہ واپس آیا تو اس کا منہ ایسے لٹکا ہوا تھا جیسے رس بھرا آم درخت سے گرنے والا ہو۔ اس نے جب بات کی تو لگا کہ بس رو ہی دے گا ’’مجھے افسوس ہے میں اس دستاویز کی تصدیق نہیں کر سکتا کیونکہ مجھے اس کا ایک لفظ بھی سمجھ نہیں آیا ہے۔ میں نے انگریزی ترجمہ دیکھا ہے لیکن اس سے اس لیے مدد نہیں ملتی کہ میں نے اردو نکاح نامے کی تصدیق کرنا ہے جسے میں پڑھ نہیں سکتا۔ اس لیے میں معذرت خواہ ہوں‘‘

اس پولیس آفیسر کے انکار پر اس کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر مجھے غصے سے زیادہ اس پر ترس آیا۔ اس کے پریشان حال چہرے کو دیکھ کر میں نے تسلی آمیز لہجے میں کہا ’’کوئی بات نہیں آپ کاغذات واپس کر دیں میں معلوم کروں گا کہ اس مسئلے کا حل کیا ہے‘‘

اس نے حیران ہو کر کہا ’’آپ یہ کاغذات واپس کیوں لے جانا چاہتے ہیں؟‘‘

میں نے کہا ’’آپ نے تصدیق کرنے سے انکار کر دیا ہے تو میں انہیں یہاں چھوڑ کر تو نہیں جا سکتا‘‘

وہ بولا ’’لیکن ویزے کی شرائط کے مطابق اس ڈاکومنٹ کی تصدیق صرف پولیس کر سکتی ہے۔ ورنہ آپ کو ویزا نہیں ملے گا‘‘

’’میں جانتا ہوں آفیسر لیکن آپ تصدیق کرنے سے انکار کر چکے ہیں‘‘ میں نے قدرے جھنجھلا کر کہا۔

مجھے سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ وہ کیا کہنا چاہ رہا ہے۔

پولیس آفیسر جس کا نام رابرٹ تھا اسی معذرت خواہانہ لہجے میں بولا ’’میں نے تصدیق سے انکار اس لیے کیا ہے کہ مجھے اُردو نہیں آتی ہے۔ لیکن اس مسئلے کا حل پولیس کی ذمہ داری ہے۔ آپ کو اگر بہت زیادہ جلدی نہیں ہے تو یہ کاغذات ہمیں دے جائیں۔ ہم کسی مستند اُردو مترجم کو بلوائیں گے۔ اس سے پڑھوانے کے بعد اس کی تصدیق کر دیں گے‘‘

’’اس میں کتنے دن لگیں گے؟‘‘میں نے دریافت کیا۔

’’زیادہ سے زیادہ دو دن! اگر آج مترجم نہ مل سکا تو کل تک ضرور بندوبست ہو جائے گا۔ اس کی تصدیق کے بعد میں اپنے دستخط کر کے اور مہر لگا کر یہ کاغذات آپ کے گھر پہنچادوں گا‘‘

’’اس کی ضرورت نہیں میں آپ کو فون نمبر دے دیتا ہوں۔ میرا دفتر یہاں قریب ہی ہے۔ کاغذات کی تصدیق ہو جائے تو مجھے فون کر لیں میں آ کر لے جاؤں گا‘‘ میں نے کہا

رابرٹ نے کہا ’’بالکل ٹھیک ہے۔ کل تک آپ کو کاغذات مل جائیں گے۔ آپ کو جو دشواری ہوئی ہے اس کے لیے میں معذرت خواہ ہوں لیکن یہ ہماری ذمہ داری ہے۔ پڑھے بغیر ہم کسی دستاویز کی تصدیق نہیں کر سکتے‘‘

دوسرے دن صبح دس بجے کے لگ بھگ رابرٹ کا فون آ گیا۔ اس نے بتایا کہ میرے کاغذات کی تصدیق ہو چکی ہے میں جب چاہوں آ کر انہیں لے جا سکتا ہوں۔ ایک گھنٹے بعد میں کاغذات اٹھانے پولیس اسٹیشن گیا تو ڈیوٹی پر موجود آفیسرنے اپنے انچارج کو بلا لیا۔ انچارج نے بھی مجھ سے معذرت کی کہ ہم کل کاغذات کی تصدیق نہ کر سکے۔ اس نے بھی وضاحت کی اس کی وجہ کیا تھی۔ مجھے علم تھا کہ مترجم ہر کام کی فیس لیتے ہیں۔ میں نے جب فیس کی بابت پوچھا تو انچارج نے کہا ’’ہاں مترجم کی فیس ہوتی ہے جو پولیس اپنے فنڈ سے ادا کرے گی۔ کیونکہ اس کی ضرورت ہمیں تھی۔ اُسے ہم نے اسے بلایا تھا لہٰذا اس کی فیس بھی ہم ہی ادا کریں گے‘‘

میں شکریہ ادا کر کے جانے لگا تو انچارج نے ہولے سے کہا

’’Good Luck and have a safe trip of Mecca‘‘

میں نے اس کا دوبارہ شکریہ ادا کیا اور اس نظام کا مزید معترف ہو گیا جس میں سرکاری ملازم عوام کے آقا نہیں بلکہ ان کے خادم ہوتے ہیں۔ وہ عوام کو سہولیات فراہم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہتے ہیں۔ وہ لوگوں کے مسائل کواس طرح حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جیسے یہ ان کا ذاتی مسئلہ ہو۔ اسی وجہ سے عوام امن اور چین کی زندگی بسر کرتی ہے۔

ویزے کی ایک شرط یہ بھی تھی کہ کسی امام مسجد سے سرٹیفیکیٹ لیا جائے کہ درخواست دہندہ مسلمان ہے۔ سڈنی کے تقریباً سبھی پاکستانی آئمہ مساجد سے میری جان پہچان ہے۔ چند ایک سے دوستی بھی ہے۔ ان میں سے ایک مولانا سے خاصی بے تکلفی ہے۔ حالانکہ مجھے ان سے اختلاف رائے بھی رہتا ہے لیکن ہمارے باہمی تعلقات کبھی متاثر نہیں ہوئے۔ اختلاف کی وجہ کوئی ذاتی عناد نہیں ہے۔ در اصل مولانا صاحب کا ایک خاص مدرسے اور خاص سوچ سے تعلق ہے۔ وہ اپنی تقریروں اور پروگراموں میں اس خاص مدرسے کی سوچ کو پروان چڑھانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ان کے پروگراموں میں اگر کوئی مختلف سوچ کا آدمی شرکت کرے تو اسے کوفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ مولانا کا سارا زور اپنے فرقے پر ہوتا ہے۔ میں نے انہیں کئی دفعہ سمجھانے کی کوشش کی کہ فرقہ بندی کے بجائے دین کی بنیادی تعلیمات اور حقوق و فرائض کو زیر بحث رکھنا چاہیے۔ فرقہ وارانہ مسائل چھیڑ کر خواہ مخواہ نوجوانوں کا ذہن پراگندہ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ بہرحال مولانا صاحب اسی ڈگر پر قائم ہیں۔ میں دوستی اور محبت کے مارے گاہے گاہے ان کے پروگراموں میں شرکت کر لیتا ہوں لیکن پابندی سے نہیں جاتا۔ ہم نے انہی مولانا صاحب سے رابطہ کیا اور سعودی سفارت خانے کے مطلوبہ سرٹیفیکیٹ کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے بتایا ’’یہ سرٹیفیکیٹ کوئی بھی امام مسجد دے سکتا ہے جو آپ کو جانتا ہو‘‘

’’کیا آپ بھی یہ سرٹیفیکیٹ دینے کے مجاز ہیں؟‘‘ میں نے پوچھا

کہنے لگے ’’جی ہاں میں بھی یہ سرٹیفیکیٹ دے سکتا ہوں لیکن آپ اپنے علاقے کے مولانا سے ہی لے لیں تو بہتر ہے‘‘

’’اس کی کوئی وجہ ہے؟‘‘ میں نے دریافت کیا۔ در اصل ہمارے علاقے کی مسجد زیرِ مرمت اور بند تھی۔

مولانا صاحب فرمانے لگے ’’اس کی وجہ یہ ہے میں اپنے گروپ کے لوگوں کو یہ سرٹیفیکیٹ دیتا ہوں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو میرے پروگراموں میں باقاعدگی سے شرکت کرتے ہیں اور مالی معاونت بھی کرتے ہیں۔ پھر بھی آپ کو اگر کوئی مسئلہ در پیش۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔؟‘‘

’’میں سمجھ گیا ہوں اور انشاء اللہ کوئی مسئلہ نہیں ہو گا‘‘ میں نے مولانا کو جواب دیا اور فون بند کر دیا۔

اب میں نے فون اٹھایا اور سعودی سفارت خانے سے ملایا۔ سلام دعا کے بعد میں نے ان سے دریافت کیا کہ یہ مطلوبہ سرٹیفیکیٹ دینے کا مجاز کون ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپ کسی بھی اسلامک سینٹر، مسجد یا مصلیٰ کے امام سے یہ سرٹیفیکیٹ لے سکتے ہیں یا پھر آپ یہاں قونصلیٹ آفس آ جائیں۔ پاسپورٹ ساتھ لے آئیں۔ ہماری ٹیم یہ سرٹیفیکیٹ دے دے گی۔ آپ کے علاقے میں اگر مسجد نہیں ہے تو لکھ کر بھیج دیں ہم اس کے بغیر بھی ویزا جاری کر دیں گے۔ یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔

سعودی سفارت خانے نے جن لوگوں کی فہرست بھیجی اس میں ہمارے علاقے کی زیرِ تعمیر مسجد کی انتظامیہ سے تعلق رکھنے والے میرے دوست ضیاء الحق کا نام بھی شامل تھا۔ میں نے اُن سے رابطہ کیا تو انہوں نے بلا تاخیر سرٹیفیکیٹ لکھ کر اور مہر لگا کر میرے حوالے کر دیا۔

میں آج بھی پہلے والے مولانا کے رویے پر غور کرتا ہوں تو افسوس ہوتا ہے۔

میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں آسانیاں بہم پہچانے والا بنائے۔ جس طرح ڈاکٹر شیلا اور سینئر کانسٹیبل رابرٹ نے ہمارے لیے آسانیاں پیدا کیں۔ ان تین مثالوں سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ بحیثیت مجموعی پوری کمیونٹی بری یا اچھی نہیں ہوتی ہے۔ بلکہ ہر کمیونٹی میں اچھے اور برے ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ یہ افراد ہیں جن سے قوم اچھی یا بری بنتی ہے۔ جہاں بہت سی کمیونٹیز پر مشتمل مخلوط معاشرہ ہوتا ہے وہاں افراد کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔ کیونکہ وہ پوری کمیونٹی کی ترجمانی کر رہے ہوتے ہیں۔ ایک فرد کے طرز عمل سے بعض اوقات پوری کمیونٹی کو اچھے یا برے لفظوں میں یاد کیا جاتا ہے۔ دیار غیر میں ہر فرد اپنے اپنے ملک کا سفیر ہوتا ہے۔ اس کے ایک ایک قدم سے اس کے ملک کا امیج متاثر ہو سکتا ہے۔ اس لیے ہمیں ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھانا چاہیے اور ایسی ہر چیز اور ہر عمل سے بچنا چاہیے جو ہماری، ہمارے خاندان یا ہمارے ملک کی بدنامی کا باعث بنے۔

میں نے چھوٹے بھائی خالد محمود مرزا کے توسط سے پاکستان سے کچھ کتابیں منگوا لیں جو مناسک حج اور دعاؤں پر مشتمل تھیں۔ یہ کتابیں میں نے کئی بار پڑھیں اور تربیتی کلاسز میں بھی حصہ لیا۔ حج نہایت اہم فرض اور عبادت ہے جو عموماً زندگی میں ایک بار کی جاتی ہے۔ اس لیے ہر حاجی کی کوشش ہوتی ہے اس میں کوئی کمی نہ رہ جائے۔ کوئی غلطی اور کوتاہی نہ ہو جائے۔ مکروہات اور ممنوعات کا بخوبی علم ہوتا کہ ان سے بچا جا سکے۔ حج کو اس کی روح کے مطابق مکمل شرائط کے ساتھ ادا کیا جائے۔ اور اس طریقے سے ادا ہو جس طرح پیغمبر اسلام حضرت محمدﷺ نے ادا کیا تھا۔ یعنی سنت رسولﷺ پر ہو بہو عمل کیا جائے۔ اللہ اور اس کے نبیﷺ نے جو طریقہ بتایا ہے اس طریقے سے ذرا سا بھی انحراف نہ ہو۔ دوران حج زیادہ سے زیادہ نیکیاں سمیٹی جائیں اور گناہوں کی کالک دھوئی جائے تاکہ پاکیزہ ہو کر واپس لوٹیں۔ قبولیت تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے لیکن عازمین اپنی طرف سے پوری کوشش کرتے ہیں کہ ان کی طرف سے کوئی کسر باقی نہ رہے۔

حج کے جو کتابچے مجھے ملے ان میں حج کے ہر رکن کا اجمالی تذکرہ تھا۔ مختلف علماء کے درمیان کچھ اختلاف بھی پایا جاتا تھا۔ زیادہ فرق حج کی سنتوں اور ارکان کی تفصیلات میں تھا۔ ان باتوں سے میری الجھن میں مزید اضافہ ہو گیا۔ بہرحال بنیادی ارکان اور شرائط پر سبھی متفق تھے اس لیے میں نے فی الحال تفصیلات میں الجھنے سے گریز کیا اور بنیادی امور کی طرف زیادہ توجہ مرکوز رکھی۔ ویسے بھی دوران حج معلم آپ کے ساتھ ہوتا ہے اور مختلف مراحل میں آپ کی رہنمائی کرتا رہتا ہے۔ دوران حج بھی تربیتی سیشن جاری رہتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ سیشن زیادہ تر اگلے دن کے پروگرام کے بارے میں ہوتے ہیں۔ حج کے تمام مناسک کو بمع تفصیل قبل از وقت سمجھنا بہت دشوار ہے۔ ویسے بھی جب مسائل درپیش ہوں تو ان کا حل بھی اسی وقت سمجھ آتا ہے۔


اللہ کی طرف سے معجزہ



جتنا ہمیں علم تھا اس کے مطابق ہم نے تیاری شروع کر دی۔ ایک اہم بات یہ بھی تھی کہ حج ادا کرنا آسان نہیں ہے۔ یہ انتہائی محنت اور جانفشانی کا کام ہے۔ یہ اس طرح بھی نہیں ہے جیسے اذان سنتے ہی ہم مسجد کا رخ کرتے ہیں، جماعت کے ساتھ نمازادا کرتے ہیں اور دعا مانگ کر گھر واپس آ جاتے ہیں۔ حج دنیا کا سب سے بڑا اجتماع ہے۔ اس اجتماع کے دوران آپ کو مناسک حج بھی ادا کرنے ہوتے ہیں۔ یہ لاکھوں کا مجمع ہوتا ہے۔ سخت دھکم پیل ہوتی ہے۔ گرمی اور ہجوم ہوتا ہے۔ نیند پوری نہیں ہوتی۔ بے انتہا تھکاوٹ، جسمانی اور ذہنی مشقت اور بھوک پیاس برداشت کرنا پڑتی ہے۔ ریاض الجنۃ میں نفل ادا کرنے کے دوران نمازی فٹ بال کی طرح ایک جگہ سے دوسری جگہ اُچھالے جاتے ہیں۔ رکوع و سجود کی جگہ ہی نہیں ملتی ہے۔ جس جگہ کھڑے ہو کر نیت باندھتے ہیں دوران نماز اس جگہ پر کھڑے رہنا مشکل ہوتا ہے۔ دھکم پیل سے کہیں کا کہیں پہنچ جاتے ہیں۔ اس دھکم پیل کے باوجود توجہ نماز کی طرف ہی رکھنا پڑتی ہے۔ ورنہ نماز پڑھ ہی نہیں سکتے۔ گویا حج کی ادائیگی کے لیے جسمانی چُستی اور تندرستی بہت ضروری ہے۔

اُدھر ہم میاں بیوی کئی برسوں سے گھٹنوں اور ٹخنوں کی سُوجن (knee Arthritis) کا شکار تھے۔ ہم نماز بھی کرسی پر بیٹھ کرا دا کرتے تھے۔ چھے سات برس قبل میرے دائیں گھٹنے کا آپریشن ہوا تھا۔ اس کے بعد سے میں نے کرسی پر بیٹھ کر نماز ادا کرنا شروع کی تھی۔ اس سے میرے گھٹنے، ٹانگیں اور ٹخنے مزید کمزور ہو گئے اور زمین پر بیٹھنے کی طاقت ہی نہیں رہی۔ مجھے علم تھا کہ مسجد نبویﷺ اور خانہ کعبہ میں بہت سے لوگ اپنے ساتھ چھوٹی چھوٹی کرسیاں لے کر جاتے ہیں اور انہی پر بیٹھ کر نماز ادا کرتے ہیں۔ یہ ایک تکلیف دہ عمل ہے۔ ہر روز چھ مرتبہ کرسی اٹھا کر مسجد میں لے جانا اور پھر واپس لے کر آنا آسان نہیں ہے۔ حرمین شریفین میں رش کی وجہ سے کرسی ایک جگہ رکھ کر آسانی سے نماز ادا نہیں ہوتی کیونکہ صفیں گھٹتی اور بڑھتی رہتی ہیں۔ کرسی کی وجہ سے خود کو یا کسی نمازی کو چوٹ بھی لگ سکتی ہے۔ حرمین شریفین میں نمازوں کے وقفے کے دوران نمازی اکثر وہیں رُکے رہتے ہیں۔ وہ عبادت کرتے ہیں۔ مسجد نبوی، خانہ کعبہ یا روضہ رسولﷺ کی زیارت کرتے رہتے ہیں۔ مسجد کے اندر یا بیرونی صحن میں گھومتے پھرتے رہتے ہیں۔ باتھ روم میں جاتے ہیں یا چائے وغیرہ پینے مسجد سے باہر بھی چلے جاتے ہیں۔ ایسے میں کرسی کمر پر باندھ کر پھرنا دقت کا باعث ہے۔ لہٰذا ہم نے کرسی سے نجات پانے کا تہیہ کر لیا۔

کرسی سے جان چھڑانے کی میرے نزدیک ایک اور وجہ بھی تھی۔ وہ یہ کہ مسجد نبویﷺ ہو، نبی پاکﷺ کا منبر سامنے ہو، ریاض الجنہ میں موجود ہوں اور روضہ رسولﷺ آپ کی آنکھوں کے سامنے ہو تو سجدہ اس خاک پر کرنے میں مزا آتا ہے جس خاک پر اللہ کے پیارے نبی نے سجدے کیے ہیں۔ اسی طرح اگر خانہ کعبہ میں موجود ہوں، اللہ کا گھر سامنے موجود ہو، رب کائنات آپ کے سامنے جلوہ گر ہو۔ ایک ایک نماز اور ایک ایک سجدہ ہزار نمازوں سے بھی افضل ہو تو یہ سجدہ اسی خاک پر ادا کرنے میں مزا آتا ہے جہاں ہمارے پیارے نبیﷺ سمیت نہ جانے کتنے پیغمبروں، صحابیوں اور ولیوں نے سجدے کیے ہیں۔ اس خاک کے ایک ایک ذرے پر اس دنیا کی برگزیدہ ترین ہستیوں کے نشان باقی ہیں۔ اس خاک کو تو چاند اور سورج بھی سلام پیش کرتے ہوں گے۔ اس خاک پر جبین ٹیکنے کا جو سرور ہے وہ دنیا کی کسی چیز میں نہیں ہے۔ لہٰذا ہم نے فیصلہ کیا کہ چاہے کچھ بھی ہو ہم کرسی پر بیٹھ کر اشاروں سے نہیں بلکہ اللہ کے ان مقدس ترین گھروں کی خاک پر سجدہ ریز ہوں گے۔

جب سے میرے گھٹنے کا آپریشن ہوا تھا میں پاؤں کے بل نہیں بیٹھ سکتا تھا نہ دوڑ سکتا تھا۔ ڈاکٹر نے مجھے بتا دیا تھا کہ اب میں کبھی دوڑ نہیں سکوں گا۔ اس نے مجھے احتیاط سے چلنے کا مشورہ دیا تھا۔ خصوصاً سیڑھیاں چڑھتے اور اترتے وقت بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت تھی۔

اب کئی سالوں کے بعد میں نے پاؤں پر بیٹھنے کی کوشش کی تو ٹانگوں سے درد کا طوفان اٹھا اور پورا جسم جھنجھنا اٹھا۔ لیکن میں نے آہستہ آہستہ یہ مشق جاری رکھی اور درد کو برداشت کرتا رہا۔ چند دن بعد کرسی کے بغیر کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کی کوشش کی تو سجدوں اور التحیات کے لیے بیٹھنا دوبھر ہو گیا۔ گھٹنے، ٹانگیں، ٹخنے اور پاؤں درد سے بلبلا اٹھے۔ نیچے بیٹھنے کے لیے مجھے اتنا ہی تردد کرنا پڑتا تھا جتنا وزن سے لدے ہوئے اونٹ کو نیچے بیٹھنے کے لیے کرنا پڑتا ہے۔ جب زور لگا کر بیٹھ جاتا تو گھٹنوں سے نیچے تمام اعضاء سراپا احتجاج بن جاتے اور ہلنے سے انکار کر دیتے۔ پاؤں اور ٹخنے جیسے لکڑی کی طرح اکڑ جاتے۔ میں اٹھنے کی کوشش کرتا تو ٹخنوں میں کڑکڑاہٹ سی ہوتی اور ایسے محسوس ہوتا کہ میرے اندر ٹوٹ پھوٹ ہو رہی ہے۔ درد سے جسم سن ہو جاتا اور انگ انگ سے صدائے احتجاج بلند ہونے لگتی۔ نماز میں دھیان جو پہلے ہی کم تھا اور بھی کم ہو جاتا۔

اس تمام تکلیف کے باوجود میں نے ہمت نہیں ہاری اور مشق جاری رکھی۔ نماز کے اندر خشوع و خضوع لانے کی شعوری کوشش سے بھی مدد ملی۔ دن بدن درد کم ہوتا گیا اور اٹھنے بیٹھنے میں قدرے آسانی ہونے لگی۔ حتیٰ کہ ڈیڑھ دو ہفتوں میں آسانی سے نماز پڑھنے لگا۔ یہ تکلیف اب برائے نام رہ گئی ہے جسے میں برداشت کر سکتا ہوں۔

اس مشق سے نہ صرف دوران حج بلکہ اس کے بعد بھی نماز کے لیے کرسی کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی اور اس سے جان چھوٹ گئی۔ اس مشق سے ایک اور فائدہ بھی ہوا۔ وہ یہ کہ مدتوں سے سیٹ والی کموڈ استعمال کرنے کی عادت کے باوجود دوران حج منیٰ اور عرفات میں عام کموڈ کے استعمال میں بھی زیادہ دقت نہیں ہوئی۔ ورنہ یہ بھی بہت بڑا مسئلہ بن سکتا تھا۔ دوران حج یورپ اور امریکہ سے آنے والے حجاج کو جہاں دیگر کئی مسائل سے دوچار ہونا پڑتا ہے وہاں یہ دیسی کموڈ کا استعمال بھی کسی امتحان سے کم نہیں ہوتا ہے۔ جس نے ساری زندگی یا مسلسل چند سال سیٹ والی کموڈ استعمال کی ہو وہ پیروں پر بیٹھنے کے قابل نہیں رہتا ہے۔ ہم جن ہوٹلوں میں مقیم رہے وہاں تو سیٹ والی کموڈ کی سہولت موجود تھی۔ لیکن منیٰ، مزدلفہ اور عرفات میں دیسی کموڈ استعمال کرنا پڑتی ہیں جو یورپ امریکہ یا آسٹریلیا جیسے ملکوں سے جانے والے حاجیوں کے لیے سخت مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔

بس ایک جذبہ ایمانی ہوتا ہے جو حاجیوں کو ان تمام مشکلوں سے گزرنے میں مدد دیتا ہے۔ جب میں پاؤں، ٹانگوں اور گھٹنوں کی مشقیں کر رہا تھا تو یہ ڈاکٹر کے مشورے کے برعکس تھا۔ اس سے نقصان پہنچنے کا احتمال تھا۔ لیکن میں جس مقصد کے لیے اور جس کی رضا کے لیے یہ سب کچھ کر رہا تھا اس پر مجھے پورا یقین بلکہ ایمان تھا کہ وہ ضرور میری مدد کرے گا۔ یہ اس کی مدد ہی تھی کہ نا ممکن کام ممکن ہو گیا تھا۔

اس سے پہلے جب میں جمعہ کی نماز ادا کرنے کے لیے مسجد جاتا تھا تو وہاں معذور اور ضعیف افراد کے لیے رکھی ہوئی کرسیوں سے استفادہ کرتا تھا۔ جب اچانک میں نے کرسی چھوڑ دی اور عام نمازیوں کے ساتھ کھڑا ہو کر نماز ادا کرنے لگا تو میرے احباب کو حیرت ہوئی۔ انہوں نے دریافت کیا تو میں نے جواب دیا ’’اللہ نے مدد کی ہے اور اس نے میری ٹانگوں اور پاؤں کی طاقت لوٹا دی ہے‘‘

احباب اور خاندان والوں کو یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی۔

مجھے دیکھ کر اور میری تحریک پر میری اہلیہ نے بھی یہی مشقیں شروع کر دیں۔ انہیں بھی آرتھرائٹس کی وجہ سے گھٹنوں، ٹخنوں اور پاؤں میں درد رہتا تھا۔ وہ مدتوں سے کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھتی تھیں۔ مسلسل مشق اور قوتِ ارادی سے انہوں نے بھی اپنے آپ کو اس قابل بنا لیا کہ کھڑے ہو کر نماز ادا کرنے لگیں۔ انہوں نے حج پرلے جانے کے لیے دو کرسیاں بھی خرید لی تھیں۔ ان کی کبھی ضرورت نہیں پڑی اور آج تک ہمارے گھر میں موجود ہیں۔

ہم نے روزانہ پیدل چلنے کا دورانیہ بڑھا کر آدھ گھنٹہ سے ایک گھنٹہ کر دیا۔ پیدل چلنے کی ہمیں پہلے سے بھی عادت تھی۔ آخری چند ہفتوں میں روزانہ ایک گھنٹہ پیدل چلنے سے ہمیں ذہنی اور جسمانی طور پر چُست ہونے میں مزید مدد ملی۔ اس طرح دوران حج پیدل چلنے اور دیگر جسمانی مشقتوں کے لیے ہم کافی حد تک تیار ہو گئے۔

دوران تربیت ہمیں بتایا تھا کہ حج چھٹیوں پر جانے کا نام نہیں ہے۔ نہ ہی یہ اتنی آسان عبادت ہے کہ جب اور جس کا جی چاہے کر سکتا ہے۔ اس میں جسمانی مشقت، بھوک پیاس، نیند اور ہجوم میں رہنے کی عادت، ہمت اور صبر کی ضرورت ہے۔ اس لیے ایک خاص عمر تک ہی حج کرنا مناسب ہے۔ بہت زیادہ ضعیف اور بیمار لوگوں کے لیے حج پر جانا مناسب نہیں ہے۔ جسمانی چُستی کے علاوہ صبر اور برداشت کی بے حد ضرورت ہوتی ہے۔ صبر اور برداشت ہی سب سے بڑا ہتھیار ہے جس کی مدد سے عازمینِ حج مشکل ترین منزلوں کو آسانی سے سر کر لیتے ہیں۔


ذہنی تیاریاں



آسٹریلیا، یورپ یا امریکہ وغیرہ جیسے ممالک سے جانے والے عازمین حج کا پیکج خاصا مہنگا ہوتا ہے۔ ان کے لیے جو ہوٹل بک ہوتے ہیں وہ بھی کافی بلند معیار کے یعنی فائیو سٹار ہوتے ہیں۔ ہوٹل میں کھائیں تو کھانا بھی معیاری بلکہ بہت اچھا ہوتا ہے (اگر حاجی نے رہائش کے ساتھ ساتھ کھانے کی بھی بکنگ کرا دی ہو تو یہ سہولت ملتی ہے)۔ لیکن جتنا بھی مہنگا پیکج لیا گیا ہو حاجی ہر وقت ہوٹل میں تو نہیں رہتا۔ اسے باہر نکل کر حرم شریف، مسجد نبویﷺ، منیٰ، عرفات، مزدلفہ، اور خاص طور پر رمی کرتے وقت دنیا بھر سے آئے ہوئے عازمین حج کے ساتھ ہی یہ مناسک ادا کرنے پڑتے ہیں۔ ان جگہوں پر سستے اور مہنگے پیکج کا فرق مٹ جاتا ہے۔ وہاں صرف شوق، محبت، ہمت، حوصلہ اور برداشت کام آتی ہے۔ پُر ہجوم مقامات پر یہ مناسک ادا کرتے ہوئے یورپ اور امریکہ کے عازمین حج کو زیادہ برداشت کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ یورپ اور آسٹریلیا کے لوگوں نے اس طرح کے سخت موسم کا کبھی سامنا ہی نہیں کیا ہوتا ہے۔ یہ لوگ اس سخت گرمی اور ہجوم کے عادی نہیں ہوتے۔ جبکہ ہم پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش میں اس طرح کے موسم کو بھگتتے رہتے ہیں۔۔ لہٰذا یہ موسم، ایساجم غفیر اور اتنا گرد و غبار یورپی حاجیوں کے لیے کڑا امتحان ہوتا ہے۔ خاص طور پر ان نوجوانوں کے لیے جو پہلی دفعہ یورپ سے باہر کسی گرم ملک میں گئے ہوں۔ وہ یورپ کے یخ بستہ اور کم آبادی والے ملکوں سے آتے ہیں اور براہ راست دنیا کے گرم ترین مقام میں دنیا کے سب سے بڑے اجتماع کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ان کے لیے یہ بالکل نیا اور انوکھا تجربہ ہوتا ہے۔ دوران حج ایسے بے شمار لڑکوں اور لڑکیوں سے ہماری ملاقات رہی جو گرمی اور ہجوم کے ستائے ہوئے ہوتے تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ جذبہ ایمانی سے بھی سرشارر ہوتے تھے۔ یہ وہ نوجوان ہیں جو بغیر دباؤ اور بغیر کسی دکھاوے کے خالصتاً اللہ کی خوشنودی کے لیے دانستہ اس آزمائش میں اُترے ہیں۔ ان کا جذبۂ ایمانی قابلِ ستائش ہے۔

میرے جیسے سرد و گرم چشیدہ شخص کے لیے یہ موسم نیا نہیں تھا۔ پاکستان کے علاوہ عمان میں بھی چند سال گزار کر میں ایسے موسم سے بخوبی آشنا تھا۔ وہ الگ بات ہے پچھلے بیس پچیس سال آسٹریلیا میں گزار کر میرے جسم میں بھی گرمی برداشت کرنے کی صلاحیت کم ہو چکی تھی۔ مجھے یاد ہے 2008 میں جب چھٹیوں پر پاکستان گیا تو اپریل اور شروع مئی کی گرمی بھی میرے لیے ناقابل برداشت ہو گئی تھی۔ اس گرمی سے میرے جسم کی حدت اتنی بڑھ گئی کہ دن میں پانچ چھ بار نہانے سے بھی کم نہیں ہوتی تھی۔ یہ تپش دن رات ستاتی تھی۔ گھر کے اندر اور پنکھے کے نیچے بھی سکون نہیں تھا۔ آخر اس گرمی کا اثر اتنا بڑھا کہ نیم بے ہوشی کی کیفیت ہو گئی اور مجھے ہسپتال پہنچا دیا گیا۔ ہسپتال میں مجھے انتہائی ٹھنڈے کمرے میں رکھا گیا اور گلوکوز کی ڈرپ لگائی گئی۔ اس سے قدرے افاقہ تو ہوا لیکن جسم کے اندر کی گرمی بدستور تنگ کرتی رہی۔ اگلے چند دن بڑے بھائی کے ہاں ان کے ائیر کنڈیشنڈ کمرے میں بند رہا جس کا درجہ حرارت 20C سے بھی کم تھا۔ کمرے سے نکل کر سیدھا ایئر پورٹ اور وہاں سے آسٹریلیا واپس آ گیا۔ آسٹریلیا آنے کے دو ہفتے کے بعد میرے جسم کا درجہ حرارت معمول پر آیا۔

پاکستان کی جس گرمی میں میری یہ حالت ہوئی تھی وہ سعودی عرب کی گرمی کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں تھی۔ سعودی عرب میں صبح سویرے ہی لو چلنے لگتی تھی۔ ظہر کے وقت تو جیسے سورج آگ برسا رہا ہوتا تھا۔ پسینہ سر سے پیر تک جسم کو بھگو دیتا اور پھر اسی گرمی سے خشک بھی ہو جاتا۔ اس حالت میں گرمی اور پسینے کی وجہ سے جسم میں پانی کی کمی ہو جاتی ہے۔ اس لیے ایک گھنٹے میں پانچ چھ دفعہ پانی پینا پڑتا ہے۔ حرمین شریفین میں پانی کی کمی نہیں ہے۔ بلکہ ٹھنڈا میٹھا اور صحت مند آب زم زم فراوانی کے ساتھ دستیاب ہے۔ لیکن ان دو مساجد کے باہر جیسے جمرات میں رمی کے لیے آتے جاتے ہوئے، مسجد آتے اور جاتے ہوئے، بازار یا گاڑی میں، مزدلفہ اور منیٰ وغیرہ میں پانی کی ضرورت بار بار پڑتی ہے۔ آپ کتنی ہی بوتلیں لے کر ساتھ رکھیں ختم ہو جائیں گی یا پھر اتنی گرم ہو جائیں گی کہ پینے کے قابل ہی نہیں رہتیں۔ یہی وہ مقامات ہیں جہاں سعودیہ کی گرمی اور پیاس کا اندازہ ہوتا ہے۔

حج صرف جسمانی اور مالی عبادت ہی نہیں بلکہ شاندار تربیت بھی ہے۔ حج کے ان چند ایام میں ایسی تربیت، ایسی صفائی اور ایسی کایا پلٹ ہوتی ہے کہ کسی اور جگہ ایسا ممکن نہیں۔ حرمین شریفین میں گزرنے والا ہر لمحہ جسمانی، ذہنی اور روحانی تربیت اور مشق فراہم کرتا ہے۔ حج کے دوران میں انسان اخلاق، برداشت، تحمل، روا داری، بھائی چارہ، اخوت، احترام انسانیت، احترام خواتین، پابندی وقت، خشوع و خضوع، concentration، خوف خدا، اللہ اور اس کے رسولﷺ سے محبت، اللہ اور اس کے رسولﷺ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق زندگی گزارنے کے آداب اور بے شمار مثبت تعمیری سبق سیکھتا اور ان پر عمل کرتا ہے۔ آنے والے سالوں میں اس کی زندگی میں انقلابی تبدیلیاں آتی ہیں اور بحیثیت مجموعی پورا اسلامی معاشرہ اس سے فیضیاب ہوتا ہے۔ یہاں رات دن آدمی ان تربیتی مراحل سے گزرتا ہے۔ یہاں آ کراس کا غرور، اس کی نخوت، اس کا اکڑ پن، اس کا گھمنڈ، اس کی لاپرواہی، اس کی سستی، اس کی بے عملی، اس کی بد اخلاقی، اس کی بد زبانی ختم ہو جاتی ہے۔ اس کے اندر سے ایک نیا انسان جنم لیتا ہے جو ان برائیوں سے کم از کم دوران حج بچا رہتا ہے۔ غالب امکان یہ ہوتا ہے کہ یہ اچھائیاں اور مثبت تبدیلیاں وہ حج کے بعد بھی اپنائے رکھے گا۔ اللہ اور اس کا رسولﷺ بھی اس کی مدد کرتا ہے اور وہ بہتر انسان اور بہتر مسلمان بن کر وہاں سے لوٹتا ہے۔ اگر یہی تربیت اور یہی پیغام لے کر ہر حاجی اپنے ملک اور اپنے گھر واپس جائے اور اپنی بقیہ زندگی اس تربیت اور اس پیغام کے ساتھ بسر کرنے کی کوشش کرے تو اس سے پورے سماج میں خوشگوار تبدیلی آ سکتی ہے۔

یہ حج کے مقاصد میں ایک مقصد ہے۔ پوری دنیا سے فرزندانِ توحید کو اکٹھا کر کے اخوت و محبت کا وہ سبق سکھایا جاتا ہے۔ جو دنیا میں روشنی کا پیغام لے کر آگے بڑھتا ہے۔ ورنہ اللہ خواہ مخواہ کسی کو تکلیف میں نہیں ڈالتا۔ وہ انسان کی بہتری چاہتا ہے۔ اسے پیغمبروں، ولیوں بزرگوں اور الہامی کتابوں کے ذریعے اپنا پیغام دیتا رہتا ہے۔ یہ پیغام دے کر پھر وہ انسان کو آزاد کر دیتا ہے۔ اس کی رسی دراز کر دیتا ہے۔ اب انسان پر منحصر ہے کہ وہ کون سا راستہ اختیار کرتا ہے۔ نیکی اور فلاح کا یا بدی اور برائی کا۔


سڈنی سے مدینہ منورہ



2 اکتوبر 2013 کی صبح چھ بجے سڈنی سے ہماری پرواز کی روانگی تھی۔ امارات ایئر لائن کی یہ سولہ گھنٹے کی فلائٹ اس وقت تک میری زندگی کی طویل ترین فلائٹ تھی۔ دبئی میں چند گھنٹے رک کر دبئی ایئر لائن کی فلائٹ سے ہم مدینہ منورہ جا رہے تھے۔ صبح تین بجے میرے ایک دوست محمد جاوید نے ہمیں ائر پورٹ ڈراپ کیا۔ اتنی صبح سڈنی ائیر پورٹ آنے کا بھی میرا یہ پہلا تجربہ تھا۔ اس وقت بین الاقوامی ایئرپورٹ کا وسیع و عریض لاؤنج دور دور تک خالی ہی نظر آ رہا تھا۔ کیونکہ صبح کی سب سے پہلی فلائٹ ہماری ہی تھی۔ سڈنی ائرپورٹ رات کے وقت بند کر دیا جاتا ہے۔ اتنا بڑا اور مصروف ائر پورٹ ہونے کے باوجود رات دس بجے سے صبح چھ بجے تک کوئی پرواز نہ یہاں سے روانہ ہوتی ہے اور نہ یہاں اُترتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ائیر پورٹ کے گرد و نواح میں رہنے والے لوگوں کے آرام میں خلل نہ آئے۔

پروازوں کی اس بندش سے ایئر لائنوں، ایوی ایشن اور ملک کو کتنا نقصان ہوتا ہو گا اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ لیکن یہاں عوام کی سہولت اور آرام کو پہلی ترجیح حاصل ہے۔ کوئی مالی فائدہ اور نقصان عوام سے بڑھ کر نہیں ہے۔ آسٹریلیا کی تمام حکومتوں کا یہی طریقہ کار رہا ہے۔ وہ عوام کی بات سنتے ہیں اور انہیں کی فلاح و بہبود کا کام کرتے ہیں۔ اس لیے عوام خوشحال اور مطمئن زندگی گزار رہے ہیں۔ حکومت دن رات ان کی فلاح و بہبود کے لیے تگ ودو کرتی رہتی ہے۔ لوگ اپنی آمدنی کا ایک بڑا حصہ ٹیکس کی شکل میں حکومت کو دیتے ہیں اور حکومت اس ٹیکس کا ایک ایک پیسہ عوام پر ہی خرچ کرتی ہے۔ اس طرح عوام اور حکومت اعتماد اور خدمت کی خوبصورت زنجیر میں بندھے رہتے ہیں اور ملک ترقی کی منزلیں طے کرتا رہتا ہے۔ آسٹریلیا میں پارلیمنٹ کے ممبر حقیقی معنوں میں عوام کے نمائندے ہوتے ہیں اور سرکاری ملازم عوام کے خادم ہوتے ہیں اس کی مثال آپ پولیس آفیسر رابرٹ کی شکل میں دیکھ چکے ہیں۔

امارات ایئر لائن کا یہ جہاز آدھے سے زائد خالی تھا۔ اس سفر میں کئی انوکھی چیزیں دیکھیں۔ اس میں یہ بات بھی شامل تھی کہ سڈنی سے روانہ ہونے والی کسی بین الاقوامی پرواز میں اتنی سیٹیں خالی تھیں۔ ورنہ یہاں سے روانہ ہونے والے تمام جہاز اس طرح بھرے ہوتے ہیں جیسے کراچی کی ویگنیں۔ سیٹوں کا خالی ہونا بھی ہمارے لیے نعمت تھا۔ ایک ہی سیٹ پر بیٹھ کر سولہ گھنٹے گزارنا بہت مشکل ہے۔ مجھے تین گھنٹے مسلسل بیٹھنے کے بعد گھٹنوں میں درد شروع ہو جاتا ہے۔ لہٰذا ہر دو تین گھنٹے کے بعد میں سیٹ چھوڑ دیتا ہوں اور ISLE میں چہل قدمی کرتا ہوں۔ اس سے یہ درد ختم ہوتا ہے۔

آج کل اکانومی کلاس میں سیٹوں کے آگے درمیانی جگہ بہت کم کر دی گئی ہے۔ پر پُرانے جہازوں میں یہ جگہ اتنی کم نہیں ہوتی تھی۔ بہرحال لمبی پرواز میرے لیے ہمیشہ آزمائش بن جاتی ہے۔ جگہ کم ہونے کی وجہ سے ٹانگیں جوڑ کر بیٹھنا پڑتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ اکڑ جاتی ہیں۔ اوپر سے ہوائی سفر بور بھی ہوتا ہے۔ باہر دیکھنے کے لیے کچھ ہوتا نہیں اور اندر وہی فضائی میزبان اور ساتھی مسافر۔ ان کو کتنی بار دیکھیں گے۔ اس لیے میں ہمیشہ سو کر سفر گزارتا ہوں۔ وہ الگ بات ہے کہ اتنی تنگ جگہ میں سمٹ سمٹا کر فٹ بال بن کر سونا آسان نہیں ہوتا۔ پی آئی اے کو چھوڑ کر دوسری ایئر لائنوں کے کھانے ایسے ہوتے ہیں جیسے ہسپتال میں دل کے مریضوں کو دئیے جاتے ہیں۔ چائے طلب کریں تو نیم گرم پانی میں ٹی بیگ ڈال کر تھما دیا جاتا ہے۔ میرے جیسے کڑک چائے پینے والوں کے لیے یہ سرے سے چائے نہیں ہے۔ ایئر ہوسٹس کی بناؤٹی مسکراہٹ، ہمسفروں کے نخرے اور جہاز کی مسلسل گھوں گھوں سے انسان اُکتا جاتا ہے۔ ایک جگہ بیٹھے بیٹھے جسم اکڑ جاتا ہے۔ اگر درمیانی یا کھڑکی والی سیٹ ہو تو دوسرے مسافروں کو اٹھانا پڑتا ہے یا ان کے اوپر سے چھلانگ لگا کر ISLE میں جانا پڑتا ہے۔ اگر ہم سفر ذرا نخریلے ہوں تو یہ مشکل مزید بڑھ جاتی ہے۔

میں سوچتا ہوں اس سے تو پاکستان کی ٹرینیں اچھی ہیں۔ جہاں مسافروں، خوانچہ فروشوں، دوا فروشوں، بھکاریوں اور بھانت بھانت کے مسافروں کی وجہ سے کتنی رونق ہوتی ہے اور وقت گزرنے کا پتا ہی نہیں چلتا ہے۔ تا ہم یہ ساری رونق نچلی کلاس تک محدود ہوتی ہے۔ اپرکلاس وہاں بھی دڑبوں میں بند ہو کر دنیا سے الگ تھلگ ہو جاتی ہے۔ طالب علمی کے زمانے میں میں نے کراچی سے پنجاب کے درمیان ٹرین میں بہت سفر کیا ہے۔ اس سفر سے میں کبھی بور نہیں ہوتا تھا اور نہ ہی تھکتا تھا۔ کیا بات ہے اپنے وطن کی اور کیا بات ہے پاکستان ریلوے کی۔

ریلوے کا ذکر چل نکلا ہے تو آسٹریلیا کی ریل کا بھی مختصر سا ذکر کر دوں۔ سڈنی میں سالہا سال تک میں نے ریل میں سفر کیا ہے۔ بہت صاف ستھری اور ایئر کنڈیشنڈ ٹرینیں اپنے نظام الاوقات کے مطابق چلتی ہیں۔ لیکن ان میں ذرا بھی رونق نہیں ہوتی ہے۔ صبح ٹرین میں سوار ہوں تو ایک سرے سے دوسرے سرے تک مسافروں سے بھری ہوتی ہیں۔ کوئی اکا دکا سیٹ خالی ملتی ہے۔ لیکن اس بھری ہوئی ٹرین میں ایسے سناٹا ہوتا ہے جیسے یہ سب کسی کو دفنانے جا رہے ہوں۔ مجال ہے جو کسی کی زبان سے لفظ بھی پھوٹے۔ کوئی کسی کی طرف دیکھ کر مسکرا دے۔ کوئی حال چال ہی پوچھ لے۔

سب سر جھکا کر کتاب پڑھنے میں مصروف ہوتے ہیں۔ آنکھیں بند کر کے سستا رہے ہوتے ہیں۔ یا لیپ ٹاپ میں اُلجھ کر دنیا و مافیہا سے بے خبر ہوتے ہیں۔ ایسے میں کسی کو چھینک آ جائے یا کسی کو کھانسی آئے تو وہ اسے بھی روکنے کی کوشش کرتا ہے کہ کہیں یہ بظاہر مردے زندہ نہ ہو جائیں۔ اگر یہ کھانسی دوبارہ آئے تو کئی مسافر سر اٹھا کر اسے ایسے دیکھتے ہیں کہ کھانسنے والا بے چارہ شرمندہ ہو جاتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ اس سے کتنا بڑا گناہ سر زد ہو گیا ہے اور اس نے کیسے معصوم لوگوں کی نیند خراب کر دی ہے۔ لہٰذا اپنی منزل پر پہنچتے ہی وہ ڈاکٹر یا کیمسٹ شاپ کا رخ کرتا ہے تا کہ کوئی دوا وغیرہ لے کر اس مرض سے جلد چھٹکارا حاصل کر لے اور آئندہ ٹرین میں یہ شرمندگی نہ اٹھانی پڑے۔

دوسری طرف اپنے وطن کی ٹرینوں کی رونق سے ہم سب واقف ہیں۔ اس لیے وطن کی ٹرینوں کی ہمیشہ یاد آتی رہتی ہے۔ خاص طور پر مختلف اسٹیشنوں پر ہاکروں کی صدا ہمیشہ کانوں میں گونجتی رہتی ہے۔ چائے لے لو چائے۔ ملتان دا سوہن حلوہ۔ مرغ چھولے۔ ٹھنڈی ٹھار بوتلیں۔ آنکھوں کے ہر مرض کا علاج مصطفائی سرمہ، پیٹ کے ہر درد کا علاج لاہوری چورن، حیدر آباد کی چوڑیاں، کرارے پکوڑے، چٹپٹی دال جو دیکھنے میں دال اور کھانے میں مرغ ہے۔ ان کے علاوہ بھانت بھانت کے بھکاری، گا کر مانگنے والے، مساجد کے لیے چندہ جمع والے اور جنت کے گھر بانٹنے والے، اخبار اور رسالے والے۔ ان سب کے ہوتے ہوئے انسان کبھی بور ہو سکتا ہے بھلا۔ یوں سفر جتنا لمبا ہو آسانی سے گزر جاتا ہے۔ اس کا علم پاکستان ریلوے کو بھی ہے۔ میراچوبیس گھنٹے کا سفر اکثر تیس گھنٹے یا اس سے بھی بڑھ جاتا تھا۔ وقت پر پہنچنے کی نہ مجھے توقع ہوتی تھی اور نہ فکر۔ بھلا اتنی رونق چھوڑ کر جانے کو کس کا دل چاہے گا۔

سڈنی کی ٹرینیں اس کے مقابلے میں بالکل رُوکھی پھیکی محسوس ہوتی ہیں۔ ان کو چاہیے کہ پاکستان ریلوے سے سبق سیکھیں اور مسافروں کی سہولت کے لیے ٹرینوں میں کچھ تو رونق پیدا کریں۔ اور نہیں تو ہاکروں کو ویزے دے کر یہاں لے آئیں۔ انہیں ٹرینوں میں چٹپٹی اور کارآمد چیزیں بیچنے کا موقع دے کر نہ صرف ٹرینوں کی رونق بڑھائیں بلکہ مسافروں کی صحت بھی بہتر کریں۔ اس سے آسٹریلیا کی ریل کی آمدن بڑھے گی اور اس کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہو گا۔

میں ہوائی جہاز کے سفر کا ذکر کر رہا تھا اس سفر میں مجھے سب سے زیادہ دقت یہ ہوتی ہے کہ دوران پرواز سگریٹ نوشی نہیں کر سکتا۔ اس تکلیف کا اندازہ سگریٹ نوش ہی کر سکتے ہیں کیونکہ دوسرے لوگ تو ہم سگریٹ نوشوں سے ویسے ہی تنگ رہتے ہیں۔ صاحبو! سگریٹ نوشی کے خلاف اتنا لکھا اور بولا جاتا کہ جو لوگ سگریٹ نوشی نہیں کرتے وہ سگریٹ نوشوں سے ہی نفرت کرنے لگتے ہیں۔ مانا کہ سگریٹ نوشی بری عادت ہے۔ لیکن سگریٹ نوشوں سے نفرت تو کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ سگریٹ نوشی کو میں خود بھی اچھا نہیں سمجھتا ہوں۔ لیکن کیا کروں چھٹتی نہیں منہ سے یہ کافر لگی ہوئی۔ ویسے یہ مصرعہ شاعر نے کسی اور بلا کے بارے میں کہا تھا جو سگریٹ کی نسبت پھر بھی آسانی سے چھوڑی جا سکتی ہے۔ سگریٹ نوشی ترک کرنا اس سے کہیں زیادہ مشکل ہے۔ آخر اس بات کو میرے احباب کیوں نہیں سمجھتے کہ سگریٹ نوشی بری سہی لیکن کھانے اور چائے کے بعد ظالم مزا بہت دیتی ہے۔ اور اگر نہ پو تو کھانے کا مزہ بھی کرکرا ہو کر رہ جاتا ہے۔ زندگی میں کوئی ذائقہ تو باقی رہنا چاہیے۔ ورنہ کیا فائدہ سیدھی، سپاٹ اور رُوکھی پھیکی بے کیف زندگی کا۔ یہ بات میں اپنے ان دوستوں کے لیے کہہ رہا ہوں جو میری سگریٹ نوشی چھڑوا کر دنیا سدھارنا چاہتے ہیں۔ ان کے خیال میں اگر میں سگریٹ نوشی چھوڑ دوں تو امریکہ مزید کوئی جنگ نہیں چھیڑے گا اور دنیا امن کا گہوارہ بن جائے گی۔ گویا میری سگریٹ نوشی سے دنیا کا امن خطرے میں ہے۔ گلوبل وارمنگ بھی میری وجہ سے ہی ہے۔

خیر میرے یہ دوست اپنی دھن کے پکے ہیں تو ہماری مسقل مزاجی بھی کسی سے کم نہیں ہے۔ تو صاحبو میری یہ مستقل مزاجی پچھلے تیس سال سے برقرار ہے۔ یہ مستقل مزاجی اُس وقت ختم ہو گی جب سگریٹ نہیں ہوں گے یا پھر سگریٹ نوش نہیں ہو گا۔ لہٰذا میرے ناصح دوست اپنے پند و نصائح اور طنز کے تیر خواہ مخواہ ضائع نہ کریں۔

سگریٹ نوشی کچھ عرصہ پہلے تک اتنی بری نہیں سمجھی جاتی تھی جتنی فی زمانہ ہو گئی ہے۔ آج سے بیس پچیس برس قبل سگریٹ اور حقہ ہر گھر میں موجود ہوتا تھا چاہے گھر میں کوئی پینے والا ہو یا نہیں۔ دیہاتوں میں کسی کے گھر میں مہمان آتے تھے تو کھانے یا چائے کے ساتھ حقّہ ضرور پیش کیا جاتا تھا۔ سردیوں میں درجنوں خواتین و حضرات اور بچے بڑے کمرے میں بیٹھے ہوتے تھے۔ چائے کے دور چلتے تھے۔ مونگ پھلی اور کِینو کھا کر چھلکے فرش پر ڈھیر کیے جاتے تھے۔ اس کے ساتھ مردانہ اور زنانہ حقہ بھی گردش میں رہتا تھا۔ کبھی ایک کے ہاتھ میں اور کبھی دوسرے کی دسترس میں۔ کمرے کے دروازے اور کھڑکیاں سردی کی وجہ سے بند رہتی تھیں اور اندر دھُواں بھرا رہتا تھا۔ سردی کی شدت بڑھ جائے تو اُپلوں والی انگیٹھی بھی جلا کر کمرے کے درمیان رکھ دی جاتی تھی اور دھُوئیں میں مزید اضافہ ہو جاتا تھا۔ کسان جہاں بھی جمع ہوتے تھے حقہ ان کے درمیان گرم رہتا تھا۔ نہ کسی کو دھُوئیں سے بیر تھا اور نہ حقہ پینے والے سے۔

شہروں میں بھی اس وقت سگریٹوں کی ممانعت نہ تھی۔ دفاتر، بنک، ٹرینوں اور ہوائی جہاز، دکانیں حتیٰ کہ ہسپتال میں بھی لوگ سگریٹ نوشی کرتے نظر آتے تھے۔ آج سے پندرہ بیس سال قبل تک ہوائی جہازوں میں سگریٹ نوشی کی اجازت ہوتی تھی۔ جہاز اُڑتے ہی سگریٹ نوشی والی بتی بجھ جاتی تھی اور سگریٹ جل اٹھتے تھے۔ پرانی فلموں اور ڈراموں میں پروفیسر کلاس میں سگریٹ یا سگار پیتے دکھائی دیتے تھے۔ سگریٹ نوشی کی حوصلہ شکنی میں آسٹریلیا دنیا بھر میں سر فہرست ہے۔ آسٹریلوی حکومت کو مجھ سے تو خصوصی پرخاش ہے۔ وہ اس طرح کہ سگریٹ نوشی پر پابندیوں کا سلسلہ 1994 میں میری آسٹریلیا آمد کے فوراً بعد شروع ہوا۔ شروع میں دفاتر، بنک اور ہسپتالوں میں سگریٹ نوشی پر پابندی لگی۔ پھر شاپنگ سنٹرز اور ریستوران اس کی زد میں آ گئے۔ پھر عوامی ٹرانسپورٹ اور ہوائی جہازوں میں بھی ممانعت ہو گئی۔ دس بارہ برس قبل سگریٹ فروشوں کو حکم ہوا کہ سگریٹ نظر نہیں آنے چاہیے اور انہیں ڈھک کر رکھیں۔ پھر ان کے نام تبدیل کرنے کا حکم ملا۔ اس میں شامل نیکوٹین کی مقدار لکھنے پر پابندی لگی۔ آخر میں اس کی پیکنگ بدل کر انہیں سادہ کر دیا گیا۔ ان پر ڈراؤنی تصاویر اور سگریٹ نوشی سے انتباہ پر مشتمل جملے تحریر کیے گئے۔ اس دوران سگریٹ پر ٹیکس اس قدر بڑھا دیا گیا کہ 1996 میں جو پیکٹ تین چار ڈالر میں ملتا تھا اب وہ تیس ڈالر سے بھی تجاوز کر گیا ہے۔ حالانکہ باقی اشیائے ضرورت کے نرخ اس تناسب سے کبھی نہیں بڑھے۔ غرض یہ کہ آسٹریلین گورنمنٹ نے میری سگریٹ نوشی پر قدغن لگانے کے لیے ہر جتن آزمایا۔ لیکن انہیں کامیابی پھر بھی نہیں ملی۔ ان کی ادائیں قاتلانہ ہیں تو ہم بھی تیر ستم کھانے کو تیار بیٹھے ہیں۔ دیکھتے ہیں ان کی ادائے جورو ستم کی حد کہاں تک ہے۔

ادھر آ ستم گر ہنر آزمائیں

تو تیر آزما ہم جگر آزمائیں

امارات ایئر لائن کی سولہ گھنٹے کی طویل فلائٹ میں نے زیادہ تر سوتے ہوئے گزاری۔ سیٹیں خالی ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے چار سیٹوں کو اپنا بستر بنایا ہوا تھا۔ دوسرے مسافر بھی یہی کچھ کر رہے تھے۔ میرے سامنے والی سیٹ پر دو لڑکیاں سفر کر رہی تھیں۔ اپنے حلیے سے وہ یورپی سیاح لگ رہی تھیں۔ ڈھیلا ڈھالا لباس، لا پرواہ انداز، موسیقی سننے اور ہنسنے میں مگن۔ ایسا لگتا تھا کہ ان کھلنڈری لڑکیوں کو دنیا کے مسائل سے پالا ہی نہیں پڑا۔ سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ میرے ہاتھ میں کتاب دیکھی تو ان میں سے ایک نے پوچھا ’’یہ کس زبان میں ہے‘‘

اس کے لہجے سے میں نے اندازہ لگایا کہ انگریزی اس کی مادری زبان نہیں ہے۔ وہ یورپ کے کسی ایسے ملک سے تعلق رکھتی ہے جس کی زبان انگریزی نہیں ہے۔ بعد میں علم ہوا کہ وہ جرمن لڑکیاں تھیں اور آسٹریلیا کی سیاحت کے بعد واپس جا رہی تھیں۔ میں نے اسے بتایا ’’یہ اُردو کی کتاب ہے‘‘

کہنے لگی ’’یہ کس ملک میں بولی جاتی ہے۔؟‘‘

’’ویسے تو اردو کئی ممالک میں بولی اور سمجھی جاتی ہے لیکن پاکستان کی قومی زبان ہے اور میرا تعلق بھی بنیادی طور پر وہاں سے ہے‘‘

اس کا اگلا سوال تھا ’’آپ کی قومی زبان اُردو ہے تو آپ انگریزی کیسے بول سکتے ہیں۔ کیا یہ بھی پاکستان میں پڑھائی جاتی ہے‘‘

میں نے کہا ’’جی ہاں نہ صرف پڑھائی جاتی ہے بلکہ وہاں کی دفتری یا سرکاری زبان انگریزی ہی ہے‘‘

وہ بہت حیران ہوئی اور کہنے لگی ’’پاکستان جیسا ملک جس کا انگریزی سے کوئی تعلق ہی نہیں وہاں کی سرکاری زبان انگریزی کیوں ہے‘‘

’’حکومت کی ہے۔ انہی کی وجہ سے انگریزی وہاں آئی ہے‘‘

’’اب جب کہ آپ لوگ آزاد ہیں تو آپ انگریزی زبان سیکھنے اور دفاتر میں استعمال کرنے پر کیوں مجبور ہیں۔ کیا آپ کی قومی زبان اردو میں یہ کام نہیں ہو سکتا‘‘

اس نوجوان اور خوبصورت لڑکی نے جو تھوڑی دیر پہلے مجھے کھلنڈری اور لا پرواہ محسوس ہو رہی تھی ایسا سوال پوچھ لیا تھا جس کا جواب میرے پاس نہیں تھا۔ لہذا بہانہ تراشنا پڑا ’’بالکل ہو سکتا ہے اُردو ایک مکمل اور بڑی زبان ہے۔ لیکن ہمیں انگریزی بھا گئی ہے۔ اس سے پیچھا چھڑانا اتنا آسان نہیں ہے‘‘ میں نے ہنستے ہوئے کہا۔

اس لڑکی کے چہرے پر مسکراہٹ نہیں آئی۔ بہت سنجیدہ لہجے میں بولی ’’قوموں پر اچھا اور برا وقت آتا رہتا ہے۔ لیکن زندہ قومیں ہمیشہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی کوشش میں مصروف رہتی ہیں۔ وہ کبھی بھی ہار نہیں مانتیں اور کبھی بھی مکمل آزادی کی جد و جہد ترک نہیں کرتیں۔ پاکستان اور ہندوستان بڑے ملک ہیں۔ وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں تو دنیا میں اپنا الگ مقام بنا سکتے ہیں۔ اس کے لیے آپ لوگوں کو اپنی الگ شناخت قائم کرنے اور اپنا الگ راستہ متعین کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ دوسروں کی چیزوں پر فخر کرنے والے اور اپنی زبان کو کم تر سمجھنے والے کبھی بھی سر اٹھا کر چلنے کے قابل نہیں ہوتے ہیں۔ پاکستان کے جو لوگ جرمنی میں موجود ہیں ان میں بہت صلاحیت ہے۔ وہ بہت اچھے ڈاکٹر، انجینئر، آئی ٹی ایکسپرٹ اور معاشیات کے ماہر ہیں۔ اتنی صلاحیتیں رکھنے والی قوم کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لیے مشکل نہیں ہونی چاہیے بشرطیکہ راستہ متعین ہو، منزل واضح ہو اور کوئی راستہ دکھانے والا ہو۔ تب ہی ایسا ممکن ہے‘‘

اس لڑکی نے اپنے سنجیدہ رویے اور انتہائی سنجیدہ گفتگو سے مجھے سخت متاثر کیا میں نے اس سے دریافت کیا ’’کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ تمہارا پیشہ کیا ہے؟‘‘

’’میں تاریخ کی لیکچرر ہوں اور بر صغیر پاک ہند کی تاریخ سے بخوبی آگاہ ہوں‘‘

میں نے کہا ’’بہت اچھا لگا تمہاری باتیں سن کر اور یہ جان کر تمہیں پاک و ہند کی تاریخ سے دلچسپی ہے۔ میں بھی وہی بات دہراؤں گا کہ قوموں کی تاریخ میں عروج و زوال آتے رہتے ہیں۔ یورپ کی نسبت پاک و ہند پیچھے رہ گیا ہے اور اپنی شناخت و ثقافت پر پوری طرح سے کاربند نہیں رہ سکا۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ چند صدیاں پہلے ہندوستان یورپ سے ٹیکنالوجی میں پیچھے تھا لیکن اس کی ثقافت اور کلچر پوری طرح محفوظ تھا۔ وہ ٹیکنالوجی میں شاید یورپ سے قدرے پیچھے ہوں لیکن ان کی تہذیب کا دیا پوری طرح روشن تھا۔ یہ یورپ ہی تھا جو کبھی ولندیزیوں کی شکل میں، کبھی فرانسیسیوں اور کبھی انگریزوں کی شکل میں ہندوستان کی تہذیب و ثقافت اور اس کی معیشت پر حملہ اور ہوتا رہا۔ ہمارے لوگ بھولپن میں اور جدید جنگ و جدل سے لا علمی کی بنا پر ان کے زیر نگین آئے اور پھر سالوں بلکہ صدیوں تک غلامی کی زنجیروں میں جکڑے رہے۔ جب یورپ یونیورسٹیاں، مدرسے اور ریل کی پٹریاں بچھا رہا تھا اور ہندوستان سے لوٹی ہوئی دولت لندن، ایمسٹرڈم اور پیرس میں کام آ رہی تھی، اس وقت ہندوستانی جہالت میں بھٹک رہے تھے۔

آزادی کے بعد صرف چند دہائیوں میں ہم نے صدیوں کا فرق مٹانا تھا جو مٹا رہے ہیں۔ جلد ہی یہ فاصلے بھی مٹ جائیں گے۔ جرمنی یا یورپ کو طویل غلامی کی اس لعنت سے دوچار نہیں ہونا پڑا جس میں ہندوستان کے لوگ جکڑے رہے۔ اب بھی یورپ اور امریکہ اپنے اپنے مفاد کے لیے ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتے رہتے ہیں۔ ہمیں کمزور کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ان کی یہ کوششیں بھی ضائع جائیں گی۔ کیونکہ آزادی جیسی نعمت حاصل کرنے کے بعد ہندوستان اور پاکستان کے لوگ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا بھی سیکھ چکے ہیں۔ ان کادوسروں پر انحصار آہستہ آہستہ کم ہوتا جا رہا ہے اور وہ وقت دور نہیں جب یہ انحصار مکمل طور پر ختم ہو جائے گا‘‘

’’آپ سے بات کر کے اچھا لگا۔ لگتا ہے آپ کو بھی تاریخ سے دلچسپی ہے‘‘ شیرل نے نرم لہجے میں کہا۔

’’مجھے لوگوں سے دلچسپی ہے چاہے وہ کسی بھی خطے سے تعلق رکھتے ہوں۔‘‘ میں نے کہا ’’میں نے بھی تاریخ پڑھی ہے۔ تاریخ ہمیں بہت کچھ سکھاتی ہے لیکن اس سے تکلیف بھی بہت ہوتی ہے۔ میری گفتگو میں شاید آپ کو یہی تلخی محسوس ہوئی ہو گی۔‘‘

شرل نے کہا ’’میں آپ کے جذبات سمجھ سکتی ہوں‘‘

اس کے بعد ہمارے درمیان مختلف موضوعات پر ہلکی پھلکی گفتگو ہوتی رہی تاوقتیکہ مجھے نیند آ گئی۔

آج صبح جب ہم گھر سے نکلے تھے تو ہمارا دھیان منزل پر لگا ہوا تھا اس دفعہ ہم سب فکریں، سب پریشانیاں اور سب سوچیں وہیں چھوڑ کر نکلے تھے۔ اس سے پہلے جب بھی سفر پر نکلتے تھے تو دھیان پیچھے کی طرف لگا رہتا تھا۔ کاروبار کی فکر رہتی تھی۔ بچوں اور گھر کی فکر دامن گیر رہتی تھی۔ موبائل فون پر مسلسل رابطہ رہتا تھا۔ روزانہ کی رپورٹ لیتا اور ہدایات دیتا رہتا تھا۔ لیکن اس بار کاروبار مینیجر کے ذمے لگاتے ہوئے میں نے کہا ’’آپ یوں سمجھیں کہ ایک ماہ کے لیے آپ اکیلے ہی تمام امور کے ذمہ دار ہیں۔ ہر سوال کا جواب اور ہر مسئلے کا حل خود تلاش کرنا ہو گا۔ مجھے فون کر کے کوئی سوال نہ کرنا اور نہ میں جواب دوں گا‘‘

میں نے سوچ لیا تھا کہ اگر اس وجہ سے کاروبار میں نقصان بھی ہوتا ہے تو ہونے دو۔ میں اپنی توجہ اس نفع پر مرکوز رکھوں گا جو ہمیشہ کام آنے والا ہے۔ ایسا ہی ہوا۔ اگلے تین چار ہفتے کے لیے دنیا کے مسائل جیسے میرے ذہن کی سلیٹ سے صاف ہو گئے۔ میرا دھیان بھی اس طرف نہیں جاتا تھا۔ کوئی فکر اور پریشانی ستاتی یا بھٹکاتی نہیں تھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بھی اللہ پاک کا میرے اوپر خصوصی کرم تھا ورنہ اتنے دنیاوی مسائل کو یکسر نظر انداز کر کے یہ ذہنی یکسوئی حاصل کرنا میرے بس سے باہر تھا۔

اس سفر کے بعد جب غور کرتا ہوں تو یہ بات صاف سمجھ آتی ہے کہ اللہ جب اپنے گھر میں بلانے کی توفیق عطا کرتا ہے تو اس کے بعد جیسے آپ کا ہاتھ تھام لیتا ہے۔ قدم قدم پر آپ کی راہنمائی اور مدد کرتا رہتا ہے۔ اس کی وجہ سے نا ممکن کام بھی ممکن ہو جاتے ہیں۔

حجازِمقدس میں جا کر انسان اتنا مصروف ہو جاتا ہے کہ اس کے پاس بے کار سوچوں، غیر ضروری فکروں اور دنیاوی غم کے لیے وقت نہیں بچتا۔ اس دوران نماز، عبادات اور مناسک حج میں اتنا مصروف ہوتا ہے کہ سونے اور کھانے پینے کا بھی ہوش نہیں رہتا۔ علاوہ ازیں وہاں وہ نظارے اور وہ رنگ و بو دیکھنے کو ملتا ہے کہ دل چاہتا ہے بس انہیں دیکھتے ہی جائیں دیکھتے ہی جائیں۔ ان میں روضہ رسولﷺ، مسجدنبویﷺ، منبر رسول، جنت البقیع، خانہ کعبہ، حطیم، مقام ابراہیم، صفا اور م روہ، منیٰ، مزدلفہ اور عرفات شامل ہیں۔ ایسے مقامات آپ کی نظروں کے سامنے ہوں تو کس کا دل چاہے گا کہ ہزاروں میل دور اپنے کاروبار کے بارے میں سوچیں۔ ان نظاروں کے سامنے تو انسان سب کچھ قربان کر سکتا ہے۔ وہاں کیسی فکر اور کیسی پریشانی۔ کس کی مجال ہے کہ ان نظاروں سے صرف نظر کر سکے۔ جب کالی کملی والے کا روضہ آنکھوں کو ٹھنڈک بخش رہا ہو تو آنکھیں جھپکنے کو دل نہیں چاہتا ہے۔ وہاں کسی اور خیال کا گزر کیسے ممکن ہے۔

سفر میں جب بھی وقت ملتا میں حج کے بارے میں کتاب کا مطالعہ کرتا رہتا۔ کئی دفعہ پڑھنے کے بعد بھی تمام مناسک اور ان کی ترکیب و ترتیب ازبر نہیں ہوئی۔ کئی سوال ذہن میں ابھرتے رہتے۔ ترتیب بار بار محو ہو جاتی اور حج کا پورا نقشہ ذہن میں نہیں سماتا تھا۔ یہی کیفیت دوران حج بھی رہی۔ کیونکہ قبل از وقت ہمیں پورا حج سمجھایا بھی نہیں جاتا تھا۔ بلکہ اگلے دن کا پلان بتایا جاتا تھا۔ سارا حج مکمل جزئیات سمیت قبل از وقت سمجھنا اور سمجھانا مشکل ہے۔ یہ مرحلہ وار ہی سمجھ میں آتا ہے۔ جب تمام مراحل مکمل ہو جاتے ہیں تو پھر مکمل حج کی سمجھ آتی ہے۔

طویل اُڑان کے بعد بالآخر ہمارا طیارہ دبئی ائیر پورٹ پر اتر گیا۔ زمین سے رابطہ ہوا تو جیسے جان میں جان آئی۔ دبئی ایئرپورٹ بھی شہر کی مانند ہے۔ اتفاق کی بات ہے کہ اسّی کی دہائی کے بعد میں پہلی دفعہ دبئی ایئر پورٹ پر اُترا تھا۔ بیس پچیس سال کے بعد نہ وہ پرانا والا ائیر پورٹ تھا اور نہ وہ پرانا امارات۔ ائیر پورٹ بتاتا تھا کہ متحدہ عرب امارات بیس پچیس سال قبل والا نہیں ہے۔ بلکہ اب دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں سے ایک ہے۔ میں نے نوٹ کیا ہے کہ بین الاقوامی ہوائی اڈے کسی بھی ملک کا آئینہ ہوتے ہیں۔ جس ملک کا ایئر پورٹ جدید، ترقی یافتہ، صاف ستھرا اور منظم ہوتا ہے وہ ملک بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ ورنہ ایئر پورٹ سے ملک کی اصلی حالت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ یہ نہایت خوش آئند بات تھی کہ برادر اسلامی ملک متحدہ عرب امارات اب دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں شامل ہو چکا ہے۔

امارات ایئر لائن کی پرواز سے پہنچنے کے بعد دوبئی ایئر لائن کے ٹرمینل تک رسائی کے لیے ہمیں ایئرپورٹ کے اندر ہی لمبا سفر کرنا پڑا۔ اس کے لیے دو بسیں بدلیں، بہت سا پیدل چلے اور دو دفعہ چیک اِن کرانا پڑا۔ ایک دفعہ دوسرے ٹرمینل پر جانے کے لیے بس میں سوار ہونے سے پہلے اور دوسری دفعہ اس ٹرمینل میں پہنچنے کے بعد۔ شکر ہے ہمارا سامان ایئر لائنوں کے پاس جمع رہا ورنہ سارے سامان سمیت اتنی لمبی بھاگ دوڑ ممکن نہیں تھی۔

کافی انتظار کے بعد بورڈنگ شروع ہوئی تو پہلی دفعہ اپنے ارد گرد حج کا ماحول نظر آیا۔ اس پرواز میں سوار ہونے والے تمام مسافر عازمین حج تھے جو دنیا کے مختلف ممالک سے آئے تھے۔ امارات ایئر لائن کی نسبت اس چھوٹے جہاز کی تمام نشستیں بھر گئیں۔ بھانت بھانت کی بولیاں کانوں میں پڑ رہی تھیں۔ مسافروں میں عمر رسیدہ اور ضعیف العمر افراد کی کثرت تھی۔ وہ اپنے اپنے ملکوں کے لباس میں ملبوس تھے۔ امارات ایئر لائن کی نسبت اس جہاز کی سیٹیں تنگ، ایئر کنڈیشنز تھکن کا شکار اور عملہ سست تھا۔ دبئی اترنے کے بعد جس گرمی نے استقبال کیا تھا وہ اس جہاز میں زوروں پر تھی۔ تمام مسافر بے چینی سے انتظار کر رہے تھے کہ جہاز چلے تو کچھ سکون کا سانس لے سکیں۔ شور، گرمی اور تنگی کی وجہ سے جیسے سانس بند ہو رہا تھا۔ خدا خدا کر کے ایک گھنٹے کے انتظار کے بعد انجن گڑگڑائے، پہیے چرچرائے اور رن وے پر تھوڑی سی بھاگ دوڑ کے بعد جہاز نے پر پھیلائے اور زمین سے دامن چھڑا کر آسمان کی وسعتوں میں محو پرواز ہو گیا۔

یہ میری غالباً پہلی پرواز تھی جس کا تمام عملہ اور مسافر مسلمان تھے۔ کیونکہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں غیر مسلموں کا داخلہ ممنوع ہے۔ اس پرواز کے زیادہ تر مسافروں کا تعلق وسط ایشیائی ریاستوں سے تھا۔ اس کے علاوہ ایران اور دوسرے برادر ملکوں کے عازمین حج بھی اس میں شامل تھے۔

جہاز فضا میں بلند ہوا تو قدرے سکون ہوا۔ ورنہ حاجیوں کا دستی سامان ہی سنبھل نہیں آ رہا تھا۔ رش اور گرمی کی وجہ سے پیاس ستا رہی تھی۔ میں نے جب عملے سے پانی طلب کیا تو معلوم ہوا کہ اس فلائٹ میں کھانا اور پانی مفت نہیں ملتا۔ ادھر میرے پاس امارات کی کرنسی نہیں تھی۔ پانی کی ایک بوتل کے لیے کریڈٹ کارڈ کا استعمال مجھے مناسب نہیں لگا۔ اس لئے ہم نے مدینہ منورہ پہنچنے تک پیاس برداشت کرنے کا فیصلہ کیا۔ دوسرے مسافروں کے پاس پانی کی بوتلیں موجود تھیں۔ جبکہ ہم نے ایئر پورٹ سے خریدی ہوئی بوتلیں بورڈنگ سے پہلے ہی پھینک دی تھیں۔ کیونکہ سڈنی ایئرپورٹ پر بورڈنگ کے وقت پانی لے کر جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔

یکایک اگلی سیٹ سے ایک ہاتھ نمودار ہوا جس کے ہاتھ میں پانی سے بھری ہوئی بوتل تھی۔ اس کے پیچھے ایک باریش ایرانی نوجوان کا خوبصورت چہرہ تھا۔ اس نے رواں انگریزی میں ہمیں پانی پیش کیا۔ ہم نے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا تو نوجوان نے کہا ’’آپ یہ بوتل لے لیں، ہمارے پاس مزید بوتلیں ہیں‘‘

ہم اس نوجوان کے جذبے سے بہت متاثر ہوئے اور شکریہ کے ساتھ بوتل لے کی۔ مدینہ منورہ پہنچنے تک اس بوتل نے خوب ساتھ دیا کیونکہ طیارے میں گرمی کافی تھی۔

اس ایرانی نوجوان نے جس جذبۂ خیر سگالی کا مظاہرہ کیا تھا یہ ہمارے سفرِ حج کا پہلا تجربہ تھا لیکن آخری نہیں۔ آگے چل کر اخوت اسلامی، جذبۂ قربانی اور جذبۂ خیر سگالی کی اتنی مثالیں دیکھیں کہ انہیں یاد کر کے آج بھی اپنی قوم پر فخر ہوتا ہے۔ اگر ہم اپنی اپنی کمیونٹی میں واپس جانے کے بعد یہ جذبہ برقرار رکھیں تو ہمارے ملک جنت نظیر بن جائیں گے۔ اس سفر میں میں نے یہ بھی جانا کہ ملکوں کی حیثیت سے ہمارے درمیان جتنے بھی فاصلے ہوں، تمام کلمہ گو محبت و اخوت کی ایک خوبصورت لڑی میں پروئے ہوئے ہیں۔ یہ لڑی اللہ اور اس کے پیارے نبیﷺ سے محبت کی ہے جو مسلمانانِ عالم کے دلوں میں آباد ہے۔ کلمہ گو دنیا کے جس خطے میں ہوں لا الہ الا اللہ کے مضبوط رشتے سے باہم جڑے ہوتے ہیں۔ مختلف رنگ ونسل کے اجنبیوں کے دل السلام علیکم کی مختصر مگر جامع دعا کے ساتھ ہی مل جاتے ہیں اور ان کے درمیان باہمی محبت کی شمع روشن ہو جاتی ہے۔ ان دو لفظوں سے ساری دوریاں مٹ جاتی ہیں۔ اجنبیت ختم ہو جاتی ہے اور اللہ اور اس کے رسولﷺ کے نام لیوا یک جان دو قالب ہو جاتے ہیں۔ یہ الگ ہی رنگ ہے۔ یہ محبت و اخوت کا رنگ ہے۔ یہ بھائی چارے اور احترام کا رنگ ہے۔ یہ نبی پاکﷺ کے عشق کا رنگ ہے۔ یہ قرآن پاک کی برکتوں کا رنگ ہے۔ یہ تمام جہانوں کے خالق کا رنگ ہے۔ جو انسان سمیت اس کی ہر تخلیق میں موجود ہے۔

دبئی ایئر لائن کی ہماری پرواز مدینہ منورہ پہنچی تو اندھیرا پھیل چکا تھا۔ برقی روشنیاں شہر نبیﷺ میں ضو فشانی کر رہی تھیں۔ شہر کے طول و عرض میں روشنیوں کا جال بچھا نظر آتا تھا۔ ان میں اللہ کے حبیبﷺ کا روضہ اور مسجدِ نبوی کی روشنیاں بھی شامل ہوں گی۔ اسی لئے ہم اشتیاق سے نیچے دیکھ رہے تھے۔ لیکن اس کا موقع نہیں ملا کیونکہ جہاز نیچے سے نیچے ہوتا جاتا تھا۔ حتیٰ کہ ایئر پورٹ صاف دکھائی دینے لگا۔ تھوڑی دیر بعد جہاز نے زمین کو چھوا اور پھر رن وے پر دوڑنے لگا۔ آہستہ آہستہ اس کی رفتار دھیمی ہوتی جا رہی تھی۔ حتیٰ کہ ٹرمینل کے گیٹ کے سامنے جا کر ساکت ہو گیا۔


آسٹریلیا میں کسٹمر سروس کا معیار



جہاز رُکتے ہی مسافروں میں وہی ہل چل مچ گئی جو دبئی ایئر پورٹ پر بورڈنگ کے وقت نظر آئی تھی۔ لوگ جلدی جلدی سامان اُتار رہے تھے۔ چند ہی لمحوں میں وہ بیگ اٹھائے قطار میں کھڑے تھے۔ حالانکہ گیٹ ابھی تک بند تھے۔ لوگوں کی بے چینی دیکھ کر ایسا لگتا تھا چند منٹ مزید انہیں جہاز کے اندر رکنا پڑ گیا تو طوفان آ جائے گا۔

ہر پرواز میں یہی ہوتا ہے۔ لوگ گھنٹوں جہاز کے اندر گزار لیتے ہیں۔ لیکن جہاز رکنے کے بعد کے چند منٹ گزارنا ان کے لیے مشکل ہو جاتا ہے۔ اس وقت وہ اس قدر جلدی میں نظر آتے ہیں کہ اپنے ساتھیوں، ہمسفروں اور سفر میں بننے والے دوستوں کو بھول جاتے ہیں۔ ان پر بس ایک ہی دھن سوار ہوتی ہے کہ گیٹ کھلتے ہی تیر کی طرح باہر نکلیں۔ ان میں ایک پرواز سے دوسری پرواز پر بیٹھنے والے مسافر بھی ہوتے ہیں اور یہ دوسری پرواز گھنٹوں بعد ہوتی ہے۔ وہ بھی آندھی اور طوفان کی طرح جہاز سے نکلتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ دوسرا جہاز سامنے کھڑا ان کا انتظار کر رہا ہے۔ حالانکہ انہوں نے بیزاری کی حالت میں ایئر پورٹ پر ہی بہت سارا وقت گزارنا ہونا ہوتا ہے۔

مسافروں کو اس طرح بھاگتے دیکھ کر مجھے سکول کی چھٹی کی گھنٹی اور اس وقت کی بھاگ دوڑ یاد آ جاتی ہے۔ بہرحال تمام مسافر اس بھاگ دوڑ میں شامل نہیں ہوتے۔ جب جہاز رکتا ہے اور لوگ اٹھ اٹھ کر سامان اکھٹا کرنا شروع کرتے ہیں کچھ لوگ سکون سے بیٹھے کتاب پڑھتے رہتے ہیں یا فلم دیکھتے رہتے ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ انہیں علم ہی نہیں ہے کہ جہاز رک چکا ہے۔ جب تمام مسافر جہاز سے نکل جاتے ہیں تو وہ پھر آرام آرام سے خراماں خراماں دروازے کا رخ کرتے ہیں۔ میرا شمار ان دوسری قسم کے لوگوں میں ہوتا ہے۔ میں ہمیشہ سب سے آخر میں اترنے والے مسافروں میں شامل ہوتا ہوں۔

ہجوم اور دھکم پیل سے جیسے میری جان جاتی ہے۔ لڑکپن اور نوجوانی کے دور میں فلم کے پہلے شو کے ٹکٹ خریدنا میرے لیے نا ممکن ہوتا تھا۔ اس عادت کی وجہ سے اکثر سینما سے بے نیل و مرام لوٹتا تھا۔ تاہم میرے کچھ دوست اس کام کے ماہر تھے۔

اسی طرح قطار میں کھڑے ہو کر بل جمع کرانا ہویا ٹرین کا ٹکٹ خریدنا بھی میرے لئے کڑا امتحان ہوتا تھا۔ اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ قطار میں کھڑا ہونا میرے لیے کسرِ شان تھا۔ اصل وجہ یہ تھی کچھ لوگ تو قطار میں کھڑے انتظار کر رہے ہوتے اور کچھ سیدھے اندر گھس جاتے ہیں۔ وہ اپنا کام کرا کر مونچھوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے دندناتے ہوئے چلے جاتے ہیں۔ آپ قطار میں کھڑے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔ قطار آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی ہے۔ اچانک آپ دیکھتے ہیں کہ کوئی سفارشی ٹٹو، کوئی سیاسی چمچہ، کوئی غنڈہ یا کوئی سرکاری کارندہ قطار کو نظر انداز کر کے براہ راست اندر جاتا ہے اسے چائے بھی پیش کی جاتی ہے اور دوسروں کا کام روک کر پہلے اسے فارغ کیا جاتا ہے۔ یہ سرا سر زیادتی اور حق تلفی ہے۔ اس روش کو میں نے کبھی قبول نہیں کیا اور اس سے ہمیشہ نفرت کی ہے۔

شکر ہے کہ آسٹریلیا میں ایسا نہیں ہوتا ہے۔ یہاں کسی بھی دفتر میں رنگ ونسل، زبان یا کسی اور وجہ سے کوئی آپ کی حق تلفی نہیں کر سکتا۔ بنکوں اور سرکاری اداروں میں مشینیں لگی ہوتی ہیں۔ اندر داخل ہوتے ہی اس مشین سے ٹکٹ حاصل کریں اور پھر ٹکٹ پر لکھے ہوئے نمبر کے حساب سے اپنی باری کا انتظار کریں۔ جونہی آپ کا نمبر آتا ہے آپ کا ٹکٹ نمبر کاؤنٹر کی ٹی وی سکرین پر روشن ہو جاتا ہے اور اس کا اعلان بھی کیا جاتا ہے۔ آپ متعلقہ کاؤنٹر پر جائیں تو پوری عزت اور توجہ سے آپ کی بات سنی جاتی ہے۔ جب تک آپ کا کام نہیں ہو جاتا اگلے کسٹمر کو نہیں بلایا جاتا چاہے گھنٹوں لگ جائیں۔ بنک اگر چار بجے بند ہوتا ہے اور آپ تین بج کر انسٹھ منٹ پر بنک کے اندر داخل ہو گئے ہیں تو آپ کا جو بھی کام ہے وہ ضرور نمٹایا جائے گا، چاہے چھ بج جائیں۔ بنک کے اندر موجود کسٹمرز کا کام نمٹائے بغیر عملہ کام ختم نہیں کر سکتا۔

سرکاری ادارہ ہو یا پرائیویٹ بنک اہلکارسب سے پہلے مسکرا کر آپ کی خیریت دریافت کرے گا پھر آپ کا کام کرتے ہوئے دوستانہ گفتگو جاری رکھے گا۔ آپ کو ایسا لگے گا کہ آپ کسی دوست سے گپ شپ کر رہے ہیں۔ کسٹمر سروس والے عملے کے چہرے پر کبھی جھنجھلاہٹ نہیں نظر آئے گی۔ حالانکہ بعض کسٹمر بہت ترش رُو ہوتے ہیں۔ لیکن کاؤنٹر کے پیچھے کھڑا شخص چاہے وہ مرد ہو یا عورت اپنی مسکراہٹ برقرار رکھے گا۔ وہ ہر صورت میں کسٹمر کو مطمئن کر کے ہی فارغ کرے گا۔ بنک ہو یا دُکان، وکیل ہو یا ڈاکٹر، ٹریول ایجنٹ ہو یا پراپرٹی ایجنٹ یاکسی اور کمپنی کا نمائندہ، فوقیت ہمیشہ کسٹمر کو ہی ملتی ہے۔ اس کی غلط بات بھی صحیح سمجھی جاتی ہے۔ کسٹمرکی معمولی سے معمولی شکایت کو بہت سنجیدگی سے لیا جاتا ہے اور اس کی ہر ممکن طریقے سے تلافی کی جاتی ہے۔ کسٹمر کی شکایت سننے اور ان کے تدارک کے لیے ہر محکمے میں باقاعدہ ایک سیکشن قائم ہوتا ہے۔ یہ شرطیہ امر ہے آسٹریلیا میں کوئی بزنس، کوئی سروس، کوئی محکمہ بہترین کسٹمر سروس کے بغیر نہیں چل سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کوئی ڈگری لیں یا کوئی اور کام سیکھیں کسٹمر سروس نصاب کا لازمی حصہ ہوتا ہے۔ چاہے یہ کام نائی، موچی یا درزی کا ہی کیوں نہ ہو۔ کسٹمر سروس کا امتحان پاس کیے بغیر آپ کو سرٹیفیکیٹ نہیں ملے گا۔

سفرِ حج کی روداد کے درمیان میں آسٹریلیا کی کسٹمر سروس کا ذکر بظاہر بے جا اور بے محل نظر آتا ہے لیکن آگے چل کر اس کی وجہ بھی سمجھ آ جائے گی۔ کیونکہ اس میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور اپنے پیارے وطن کی کسٹمر سروس کا بھی ذکر آئے گا۔ اگر میرے وطن کے کسی ایک شخص پر بھی اس تحریر کے مثبت اثرات مرتب ہو گئے تو میں سمجھوں گا کہ میرا مقصد پورا ہو گیا ہے۔

ویسے بھی لکھنے والا صرف آنکھوں دیکھی ہی نہیں دِل پر گزری بھی لکھتا ہے۔ اس کے ہاتھ میں جتنی دیر قلم رہتا ہے وہ اپنے جذبات و احساسات کو بھی احاطۂ تحریر میں لاتا رہتا ہے۔ سفر نامے کا یہ مقصد بھی نہیں کہ متعلقہ سفر سے ہٹ کرکسی موضوع پر بات ہی نہیں کی جائے۔ نہ یہ سرکاری خط ہوتا ہے جو جچے تلے اور مختصر ترین الفاظ میں مدعا بیان کرتا ہے۔ سفر نامہ ایک مضمون یا ایک کہانی بھی نہیں ہے جس میں موضوع سے رو گردانی جائز نہیں ہوتی ہے۔ سفر نامے میں راہ کے بلکہ کائنات کا ہر رنگ شامل کیا جا سکتا ہے۔ یہ رنگ مصنف کے مشاہدے اور تجربے کا رنگ بھی ہو سکتا ہے اور اس کے اندر کا رنگ بھی۔ اس لیے ارد گرد کی دنیا کے ساتھ ساتھ اس کتاب میں میرے جذبات، خیالات اور تجربات آپ کو جا بجا بکھرے نظر آئیں گے۔ اصل میں جذبوں کا اظہار ہی اس کاوش کا مطلوب و مقصود ہے۔ چاہے وہ میرے دینی جذبات ہوں یا دنیاوی خیالات ہوں۔ ورنہ اس موضوع پر کتابوں کی کوئی کمی تو نہیں ہے۔ مجھ سے بہت بہتر لکھنے والوں نے بہت اچھی اچھی کتابیں لکھ رکھی ہیں۔ میں توبس اپنے جذبوں، اپنی سوچوں، اپنی تمناؤں اور التجاؤں کو صفحہ قرطاس پر بکھیر کر اپنے اندر کی تپش کم کرنا چاہتا ہوں۔ شاید کوئی لفظ، کوئی جملہ، کوئی اِلتجا اس کے در پر دستک بھی دے دے۔


مدینہ آمد



مدینہ منورہ کے ایئرپورٹ پر ہمارا جہاز کھڑا تھا۔ تھوڑی دیر میں ہم خاکِ یثرب پر قدم رکھنے والے تھے۔ اس وقت میرے جو جذبات تھے انہیں بیان کرنا مشکل ہے۔ اس شہر کی خاک عاشقانِ رسولﷺ کی آنکھوں کا سرمہ ہے۔ اس کی گلیوں میں نبیﷺ کے قدموں کے نشان ہیں۔ مدینہ میں ہمارے پیارے نبیﷺ نے عمرِ عزیز کے کئی سال گزارے تھے۔ وہ اس شہر کی فضاؤں میں سانس لیتے رہے۔ اس کی خاک کو اپنے قدموں کی زینت بخشتے رہے۔ ان گلیوں میں چلتے پھرتے رہے۔ وہ اپنے عزیز اقارب اور صحابہ کے گھر تشریف لے جاتے تھے۔ مسجد قبا اور مسجد قبلتین میں جاتے تھے۔

اس زمین کے ذرے ذرے میں ان کی پاکیزہ مقدس اور ملکوتی خوشبو رچی ہوئی ہے۔ عاشقان رسولﷺ کو یہاں اُن کا جلوہ دکھائی دیتا ہے۔ ان ہواؤں اور فضاؤں سے نبیﷺ کی خوشبو آتی ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ میرے نبیﷺ یہیں کہیں موجود ہوں۔ وہ ہمیں محبت بھری نظروں سے دیکھ رہے ہوں اور ہماری التجائیں اور دعائیں سن رہے ہوں گے۔ مدینہ میں نبی پاکﷺ اپنے ارد گرد محسوس ہونے لگتے ہیں۔ اس لیے عاشقانِ رسولﷺ کے لیے اس شہر میں بے پناہ کشش ہے۔ اسی لئے تو کہتے ہیں:

در پہ ساقیِ کوثر کے پینے چلیں

مے کشو آؤ آؤ مدینے چلیں

اس سرزمین پر قدم رکھتے ہوئے ڈر بھی لگتا ہے کہ کہیں کوئی بے حرمتی نہ ہو جائے۔ اس خاک کی پاکیزگی پر ہمارے گنہگار قدموں سے کوئی حرف نہ آ جائے۔ میں ذاتی طور پر اس پاک زمین پر قدم رکھتے ہوئے سخت جھجھک محسوس کر رہا تھا۔ میں اپنے آپ کو اور اپنے اعمال کو دیکھتا تھا تو کانپ سا جاتا تھا۔ دوسری طرف خوشی اور شوق بھی تھا۔ ڈر اور خوف بھی تھا اور ملن کی خوشی بھی تھی۔ اور اپنی بے وقعتی کا احساس بھی ہے۔

دربارِ عالیہ کی بلندی بھی محلِ نظر ہے اور اپنی کوتاہ قامتی بھی پوشیدہ نہیں ہے۔ اس خاک کا تقدس دل و نظر میں سمایا ہوا ہے تو اپنی کم مائیگی اور اپنے گناہ بھی یاد ہیں۔ ملنے کی خوشی اور جدائی کا خوف دونوں دامن گیر ہیں۔ غم اور خوشی آپس میں خلط ملط ہو رہے ہیں۔ جوش اور ولولے کے ساتھ ندامت کے آنسو بھی ہیں۔ رسول پاکﷺ کی رحمت اور عظمت بھی مد نظر ہے اور اپنے گناہوں کی شرمندگی بھی ہے۔

جے ویکھاں میں اپنے عملاں ول تے ککھ نہیں میرے پلّے

جے ویکھاں تیری رحمت ولوں تے بلّے بلّے او بلّے

انہی جذبات واحساسات کے ساتھ ہم سر زمینِ یثرب پر اُترے۔ اور دھڑکتے دِل کے ساتھ ایئرپورٹ کی عمارت کی طرف چل دئیے۔

تھوڑی ہی دیر میں ہم تین ساڑھے تین سو مسافر ایک بڑے سے ہال میں پانچ چھ قطاروں میں کھڑے تھے۔ عملہ اِدھر اُدھر موجود تھا لیکن کاؤنٹر خالی تھے۔ انہوں نے امیگریشن کا عمل شروع نہیں کیا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ عملہ بھی غائب ہو گئے۔ مسافروں میں بوڑھے لوگ بھی تھے جو لمبے سفر کے بعد رات کے اس وقت پہر تھکن کا شکار نظر آ رہے تھے۔۔ قطار میں صرف کھڑے ہونے کی گنجائش تھی وہاں بیٹھا نہیں جا سکتا تھا۔ لیکن کتنی دیر کھڑے رہیں۔ پندرہ منٹ، آدھا گھنٹہ، پون گھنٹہ اور اب ایک گھنٹے سے اُوپر گزر چکا تھا۔ ابھی تک امیگریشن شروع نہیں ہوئی تھی۔ عملہ کاؤنٹر کے پاس موجود تھا۔ وہ ادھر ادھر ٹولیوں کی شکل میں کھڑے گپ شپ لگا رہے تھے۔ ایک دو افراد کمپیوٹر دیکھ رہے تھے۔ لیکن کسی نے مسافروں کو یہ بتانے کی زحمت گوارا نہ کی کہ تاخیر کا سبب کیا ہے؟ ہمیں یوں کیوں کھڑا کر دیا گیا ہے؟ کب یہاں سے جان چھوٹے گی؟۔ امیگریشن کا عمل شروع ہونے میں رکاوٹ کیا ہے؟۔ اگر کوئی فنی خرابی تھی یا کوئی اور وجہ تھی تو بتائی جا سکتی تھی۔ بوڑھے اور کمزور لوگوں کو بیٹھنے کی اجازت دی جا سکتی تھی۔

لیکن یہاں ایسا کچھ نہیں تھا۔ لوگ دستی سامان اٹھائے کھڑے تھے۔ مسلسل کھڑے ہونے کی اذیت اور لامتناہی انتظار کی اکتاہٹ کے باوجود عازمین حج خاموش تھے۔ کسی نے احتجاج نہیں کیا۔ کوئی شور شرابہ نہیں ہوا۔ لوگ اللہ کے نام کی گردان کر رہے تھے۔ کسی کے ہاتھ میں تسبیح تھی۔ کوئی قرآن پڑھ رہا تھا۔ کوئی ویسے ہی خاموش کھڑا تھا اور کوئی سرگوشیوں میں باتیں کر رہا تھا۔ صبر اور برداشت ان کے چہروں پر لکھی ہوئی تھی۔ انہیں علم تھا کہ یہ سفر ہی صبر اور برداشت کا ہے۔ آگے چل کر ایسے بہت سے مقاماتِ آہ و فغاں آئیں گے جنہیں اللہ اور اس کے رسولﷺ کے در پر حاضری دینے والے صبر، ہمت اور برداشت سے ہی پار کر سکیں گے۔ حصول منزل کے لیے راہ کے کانٹے چننے تھے لیکن اُف نہیں کرنی تھی۔ پاؤں فگار کرنے تھے لیکن زبان سے شکر کے علاوہ کوئی اور کلمہ ادا نہیں کرنا تھا۔

تقریباً ایک گھنٹہ اور بیس منٹ انتظار کے بعد ہمارا نمبر آ گیا۔ میں نے اپنا اور اہلیہ کا پاسپورٹ اور دیگر کاغذات امیگریشن آفیسر کے حوالے کیے۔ خشخشی داڑھی والے اس منحنی سے عربی نے کچھ کہا جو میری سمجھ میں بالکل نہیں آیا۔ میں نے انگریزی میں کہا کہ مجھے افسوس ہے مجھے عربی نہیں آتی ہے۔ وہ پھر بھی عربی میں کچھ بولتا رہا۔ آخر اس نے میری اہلیہ کے کاغذات اس کے حوالے کیے اور جانے کا اشارہ کیا۔ جبکہ میرے کاغذات اس نے اپنے پاس رکھ لیے اور بدستور عربی بولتے ہوئے ایک طرف رکنے کا اشارہ کرنے لگا۔ باقی مسافر ویزہ لگوا کر بیرونی ہال کا رخ کر رہے تھے۔ اہلیہ میرے بغیر نہیں جا سکتی تھیں لہذا ہم دونوں ایک طرف ہو کر کھڑے ہو گئے۔ مجھے بالکل سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ معاملہ کیا ہے اور امیگریشن آفیسر کیا کہہ رہا ہے۔ میں نے اُس سے دریافت کرنے کی کوشش کی تو وہ غرّانے لگا لیکن بتایا کچھ نہیں۔ یا پھر عربی سے نابلد ہونے کی وجہ سے مجھے سمجھ نہیں آیا۔

لیکن یہ تو میرا قصور نہیں ہے۔ سعودی عرب میں پورے سال حج اور عمرے کے لیے دنیا بھر سے لوگ آتے رہتے ہیں۔ ان سب کو عربی آنا ضروری تو نہیں ہے۔ ان لوگوں کے لیے بین الاقوامی ایئر پورٹ پر ایسا عملہ موجود ہونا چاہیے جو انگریزی اور دوسری بین الاقوامی زبانیں بھی سمجھ سکتا ہو یا پھر ترجمان کا بندوبست ہونا چاہیے۔ یوں تو سعودی عرب میں انگریزی عام ہے لیکن ائر پورٹ پر انگریزی سمجھنے والا عملہ کیوں نہیں تعینات کیا جاتا ہے اس کی وجہ سمجھ میں نہیں آئی۔ دنیا بھر میں مسافروں کی سہولت کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جاتے ہیں۔ جس میں مختلف زبانوں کے ترجمان کی فراہمی بھی شامل ہے۔ میں نے ہیتھرو ایئر پورٹ پر اُردو بولنے والا عملہ دیکھا ہے۔ جو پاکستان اور ہندوستان سے آنے والے انگریزی سے نابلد مسافروں کی مدد کے لیے رکھا گیا ہے۔ امیگریشن آفیسر اگر برطانوی ہوتا ہے تو ایسے مسافروں کی مدد کے لیے اُردو ترجمان موجود ہوتا ہے۔ سعودیہ میں ایسا کیوں نہیں ہے۔ حالانکہ یہاں ان دنوں دنیا بھر کے لوگ مسلسل آ رہے تھے۔

آسٹریلیا منتقل ہونے سے پہلے میں چند سال سلطنت آف عمان میں بھی رہا تھا۔ ان چند برسوں میں میں نے عربی میں اچھی خاصی شدبد حاصل کر لی تھی۔ اُس زمانے میں عرب ملکوں میں رہنا ہو تو عربی لازمی سیکھنی پڑتی تھی۔ کیونکہ مقامی لوگ عربی کے علاوہ دوسری کوئی زبان نہیں سمجھ سکتے تھے۔ میرے ساتھ کام کرنے والے عمانی اگرچہ کافی پڑھے لکھے اور انگریزی سے واقف تھے۔ لیکن ہمارے بیرے، خانساماں، ڈرائیور، کلینر وغیرہ سے صرف عربی میں ہی گفت و شنید کی جا سکتی تھی۔ لہٰذا ان چند برسوں کے دوران میں تھوڑی بہت عربی سیکھ گیا تھا۔ لیکن بیس پچیس برس گزر جانے کے بعد اب وہ عربی میرے ذہن سے محو ہو چکی تھی۔ آج اتنے عرصے بعد مجھے اپنی بھولی ہوئی عربی یاد کرنا تھی۔ کیونکہ اس دھن کے پکے عربی سے بات کرنے کا کوئی اور ذریعہ نہیں تھا۔ اس لیے میں نے ذہن کے کونوں کھدروں سے بھولے بسرے عربی کے چند جملے نکالے اور انہیں جھاڑ پونچھ کر اس آفیسر کے سامنے پہنچ گیا۔ اس سے عربی میں پوچھا ’’مسئلہ کیا ہے اور مجھے کیوں روک رکھا ہے؟‘‘

اُس نے حیرت سے میری طرف دیکھا کہ ابھی تو یہ عربی سے بے بہرہ ہونے کا اعلان کر رہا تھا اور اب بول رہا ہے۔ ا س نے رک رک کر مجھے سمجھایا ’’تھوڑا انتظار کریں ہمیں کچھ تصدیق کرنا ہے‘‘

میں نے شکریہ ادا کیا اور پھر ستون کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا۔ تقریباً پندرہ منٹ کے بعد اس نے ہمیں بلایا اور میرے پاسپورٹ پر ویزہ لگا کر میرے حوالے کر دیا۔ ہم نے سکھ کا سانس لیا اور تیزی سے باہر کی طرف لپکے جہاں ہمارے ہمسفر کب کے جا چکے تھے۔

ہم نے برقی پٹے سے اپنا سامان اُٹھایا اور بیرونی دروازے کی طرف بڑھے۔ میرے ہاتھ سے کسی نے ٹرالی لے لی اور اُردو میں کہا ’’میرے ساتھ آئیے۔‘‘

میں نے بے خیالی میں ٹرالی اس کے حوالے کر دی۔ مجھے یہ فکر دامن گیر تھی کہ زیادہ تاخیر کی صورت میں میرے ساتھی اور گروپ کے لوگ ہمیں چھوڑ کر ہوٹل نہ روانہ ہو جائیں۔ رات کے اس پہر ہم کہاں دھکے کھاتے پھریں گے۔ چند ہی قدم کے فاصلے پر بیرونی دروازہ تھا۔ وہاں ٹرالی بردار نے ٹرالی ہمارے حوالے کی اور کہنے لگا ’’جی میری مزدوری‘‘

میں نے کہا ’’میرے پاس مقامی کرنسی نہیں ہے‘‘

کہنے لگا ’’آپ کے پاس جو بھی کرنسی ہے وہی دے دیں‘‘

میں نے بٹوا نکالا۔ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اسے کیا دوں۔ بالآخر بیس ڈالر کا نوٹ اسے تھمایا تو وہ خوش ہو گیا اور پلک جھپکتے ہی وہاں سے غائب ہو گیا۔ بعد میں علم ہوا کہ چند منٹ ٹرالی تھامنے کا معاوضہ بیس ڈالر بہت زیادہ تھا۔

گیٹ سے باہر ایک آدمی لبیک کی تختی لیے کھڑا تھا۔ اسے دیکھ کر میری جان میں جان آئی۔ میں نے آگے بڑھ کر اپنا تعارف کرایا تو وہ کہنے لگا ’’شکر ہے آپ آ گئے ہم آپ کا ہی انتظار کر رہے تھے۔ آپ کے ساتھی کب کے آ چکے ہیں۔ آئیں اس طرف بس کھڑی ہے‘‘

بس کی طرف جاتے ہوئے اس نے پوچھا ’’کہیے دوران سفر کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی؟‘‘

میں نے تاخیر سے آنے پر معذرت کرتے ہوئے اسے وجہ بتائی تو وہ کہنے لگا ’’کبھی کبھی کمپیوٹر پر پوری معلومات نہیں پہنچتیں تو وہ فون کر کے ہم سے تصدیق کرتے ہیں۔ ویسے تو لبیک کا نام ہی کافی ہے۔ تاہم جہاں کوئی ضروری معلومات درکار ہوں انہیں ایسی کاروائی کرنا پڑتی ہے‘‘

بس میں ہمارے علاوہ دو اور خاندان موجود تھے۔ ان میں ایک مسٹر اور مسز جاوید تھے جو سڈنی کے شمال میں واقع ایک شہر نیوکاسل سے آئے تھے۔ ان سے ہماری سڈنی میں ملاقات ہو چکی تھی۔ وہ تربیتی کورس میں باقاعدگی سے شرکت کرتے رہے تھے۔

دوسرا نوجوان جوڑا برسبین سے سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر علی اور ان کی دلہن پر مشتمل تھا۔ یہ دونوں خاندان بنیادی طور پر لاہور سے تعلق رکھتے تھے۔ آگے چل کر ہمارا بہت سا وقت اکھٹے گزرا۔

ابھی بس چلی نہیں تھی کہ عربی ڈرائیور بخشیش بخشیش کا سبق پڑھنے لگا۔ جاوید صاحب کہنے لگے ’’ان لوگوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ یہ کمپنی سے تنخواہ بھی لیتے ہیں اور مسافروں کو قریب قریب ہراساں کر کے اچھی خاصی رقم بٹور لیتے ہیں‘‘

ہم تینوں نے ابھی تک کرنسی بھی نہیں بدلوائی تھی لہٰذا ہمارے پاس سعودی کرنسی موجود ہی نہ تھی۔ اس طرح اس بد قسمت ڈرائیور کے اصرار کے باوجود سب نے اپنا سامان اتارا اور ہوٹل کی جانب بڑھ گئے۔ وہ کافی دیر تک بخشیش بخشیش پکارتا رہا۔ مجھے افسوس تو بہت ہوا لیکن اپنے ساتھیوں کی وجہ سے چپ ہی رہا۔

رامادا (Ramada) ہوٹل مسجد نبویﷺ کے گر و نواح میں بے شمار ہوٹلوں میں سے ایک ہے۔ یہ پنج ستارہ ہوٹل خاصا بڑا، نہایت آرام دہ اور مسجد کے قریب ہی واقع ہے۔ چیک اِن کے بعد ہم اپنے کمرے میں پہنچے تو اسے ہر لحاظ سے آرام دہ، صاف ستھرا اور تمام سہولتوں سے مزین پایا۔ اس میں دو بیڈز کے علاوہ، ٹی وی، فریج، استری، ٹوسٹر، برقی کیتلی، سائیڈ لیمپ، وارڈ روب، لکھنے کی میز، کھانے کا میز، صوفہ، سائیڈ ٹیبل، نمبروں والا سیف، جائے نماز اور قرآن پاک وغیرہ سبھی کچھ موجود تھا۔ اس کا باتھ روم بھی صاف ستھرا ور تمام سہولتوں سے آراستہ تھا۔

میرے کچھ دوست کہتے ہیں کہ دوران حج ایسی سہولتوں سے کیا لینا دینا۔ حج تو قربانی، برداشت اور صبر کا نام ہے۔ اس میں امیری نہیں فقیری ہونی چاہیے۔ فرش کا بستر اور بازو کا تکیہ ہونا چاہیے۔ جو روکھی سوکھی ملے کھائیں، آب زم زم پئیں اور اللہ اللہ کریں۔ یہاں ہر لمحہ عبادت کے لیے مختص ہونا چاہیے۔ اس میں آرام دہ بستر اور ایسے کمروں کی کیا ضرورت ہے۔ اس طرح وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ فائیو سٹار کی رہائش اس کے کھانے غیر ضروری اور اسراف ہیں۔ یہاں تندور موجود ہیں جہاں قطار میں کھڑے ہو کر ترکاری خریدیں۔ اس کے ساتھ روٹیاں مفت ملتی ہیں۔ یہ کھانا لے کر وہیں کہیں فٹ پاتھ پر یا مسجد کے صحن میں بیٹھ کر کھائیں اور اللہ اللہ کریں۔

میں ان دوستوں کو غلط نہیں سمجھتا۔ وہ درست کہتے ہیں۔ حج واقعی قربانی، صبر اور برداشت کا نام ہے۔ لیکن اس صبر اور برداشت کا مظاہرہ وہاں کریں جہاں اس کی ضرورت ہو۔ مثلاً اگر آپ اچھے ہوٹل کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے تو درمیانے یا کم درجے کے ہوٹل میں گزارا کریں۔ اگر آپ کو اپنے ہوٹل کا کھانا مہنگا محسوس ہوتا ہے تو تندور پر ضرور جائیں۔ لیکن اگر اللہ نے آپ کو اپنے فضل سے نواز رکھا ہے تو پھر دوران حج اسے اپنے آرام اور سہولت کے لیے خرچ نہ کرنا کہاں کی عقلمندی اور کیسی قربانی ہے۔ اگر آپ کے پاس آپ کی حلال کی کمائی سے اچھا کھانا کھانے کی استطاعت ہے اس کے باوجود بھوکا رہنا اور خواہ مخواہ فقیری کا روپ دھار کر رکھنا کہاں تک درست ہے۔ یہ تو ایسے ہی ہے کہ آپ کے سامنے کنواں موجود ہے۔ لیکن اپنے صبر اور برداشت کو آزمانے کے لیے پیاسے بیٹھے رہیں۔

یورپ، آسٹریلیا اور امریکہ سے حجاج کے جتنے قافلے آتے ہیں وہ عموماً فائیو سٹار ہوٹلوں میں ٹھہرائے جاتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ طویل عرصے تک معتدل اور ٹھنڈے موسم میں رہنے کے بعد ان کے جسم چوبیس گھنٹے کی مسلسل گرمی، تیز دھوپ اور حبس برداشت کرنے کے قابل نہیں رہتے۔ وہ چاہیں بھی تو ان کا جسم اس کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے۔

یہ میرا ذاتی تجربہ ہے۔ آسٹریلیا میں کافی عرصہ رہنے کے بعد اب جب بھی میں چھٹیوں میں پاکستان جاتا ہوں تو گاڑیوں کے ہارن کا شور برداشت نہیں کر پاتا۔ میرے کان جھنجھنا اٹھتے ہیں اور پھر رات کو بھی بجتے رہتے ہیں۔ یہ وہی پاکستان ہے جہاں میں نے آنکھ کھولی۔ بچپن اور جوانی گزری۔ اس وقت صوتی کثافت، ہوائی کثافت اور موسم کی شدت مجھے کچھ بھی نہیں کہتی تھی۔ کنوئیں بلکہ ندی نالے کا پانی بھی بآسانی ہضم ہو جاتا تھا۔ گھر یا بازار ہر قسم کا کھانا کھا لیتا تھا اور آسانی سے ہضم ہو جا تا تھا۔ لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ اب وہاں جا کر ہر وقت صاف پانی کی بوتل ساتھ رکھنی پڑتی ہے۔ ورنہ بازاری یا نلکے کا پانی کا ایک گلاس یا چاٹ کی ایک پلیٹ ہسپتال پہچانے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ جب ہم پاکستانی کینیڈا یا کسی دوسرے ٹھنڈے ملک میں جاتے ہیں تو وہاں کی ٹھنڈ برداشت نہیں ہوتی ہے۔ جبکہ مقامی لوگ مزے سے گھوم پھر رہے ہوتے ہیں۔

پرائیویٹ کمرہ خاصا مہنگا تھا۔ لیکن ہمیں اس سے بہت فائدہ ہوا۔ وہ اس طرح کہ نمازوں کے درمیان اگر ایک گھنٹہ بھی فارغ ملتا تھا تو بغیر کسی مداخلت کے سو سکتے تھے۔ اس ایک گھنٹے میں کسی شور شرابے کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا۔ جب چاہیں بتیاں گل کر دیں، جب چاہے جلا لیں۔ نہ کسی کو ہم تکلیف دیتے تھے نہ کوئی ہمارے آرام میں مخل ہوتا تھا۔ آرام کے لیے جو مختصر مختصر وقفے دستیاب ہوتے تھے ہم اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے تھے۔ اس سے کسی حد تک نیند پوری ہو جاتی تھی۔ وہاں نیند کا پورا نہ ہونا سب سے بڑا مسئلہ تھا۔ نیند کی کمی وجہ سے بہت سے عازمین کی طبیعت خراب رہتی تھی۔ نیند کی کمی کے علاوہ دن رات کی عبادت، نمازوں اور مسجد آنے جانے کے مسلسل عمل سے سبھی عازمین سخت تھکاوٹ کا شکار ہوتے ہیں۔ نمازوں کے درمیانی وقفے میں اگر آرام نہ کیا جائے تو یہ تھکاوٹ بڑھتی ہی چلی جاتی ہے فلو بخار یا کسی اور بیماری کی صورت میں سامنے آتی ہے۔ ہمارے ایک دوست ہم سے ایک سال بعد حج کے لیے گئے۔ انہوں نے جو کمرہ لیا وہ مشترکہ تھا۔ اس کمرے میں ہمارے دوست کے علاوہ مزید تین عازمین حج مقیم تھے۔ ملحقہ کمرے میں ان چاروں کی بیگمات فروکش تھیں۔ ہمارے گروپ بلکہ آسٹریلیا سے جانے والے دوسرے گروپوں کے لیے ایسا ہی انتظام ہوتا ہے۔ الگ کمرہ مہنگا ہوتا ہے اور بہت کم لوگ لیتے ہیں۔

ہمارے دوست بتاتے ہیں کہ ان کے ایک روم میٹ بیمار ہوئے تو وہ ان کا فلو سب کو ہو گیا۔ یہ بیماری ہمارے دوست پر اتنی غالب آئی کہ وہ حج کے مناسک بھی ادا نہ کر سکے اور انتہائی کمزوری کی حالت میں آسٹریلیا واپس آئے۔ ان کی صحت پوری طرح بحال ہونے میں کئی مہینے لگ گئے۔ وہ بتاتے ہیں ’’بیماری الگ مسئلہ تھی اور بے آرامی اس سے بھی بڑا مسئلہ تھی۔ ہر وقت کھٹ پٹ ہوتی رہتی تھی۔ کبھی روشنی جل اٹھتی۔ کبھی بجھ جاتی۔ کوئی آ رہا ہوتا اور کوئی جا رہا ہوتا۔ کوئی سو رہا ہوتا اور کوئی باتیں کر رہا ہوتا۔ بیگم بھی دوسرے کمرے میں مقیم تھیں۔ اس لیے تیمار داری کرنے والا بھی کوئی نہیں تھا۔ بیماری کی وجہ سے بھوک ختم ہو کر رہ گئی تھی۔ اوپر سے اس بیماری کی حالت میں باہر جا کر اور قطار میں کھڑا ہو کر تندور سے کھانا خریدنا پڑتا تھا۔ اگر ہم نے ہوٹل سے ڈنر کا پیکج لیا ہوتا تو روز باہر جا کر کھانا ڈھونڈنے کی مشقت نہ کرنا پڑتی‘‘۔

ہمارا دوست بلکہ آسٹریلیا سے جانے والے اکثر حجاج الگ کمرہ افورڈ کر سکتے ہیں۔ لیکن کسی وجہ سے وہ ایسا نہیں کرتے۔ جس کا نتیجہ بعض اوقات اس صورت میں نکلتا ہے جس کا ہم نے ذکر کیا ہے۔ بہرحال یہ حتمی اور پکا فارمولا نہیں ہے۔ مشترکہ کمروں میں رہائش پذیر تمام لوگوں کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا ہے۔ اکثر لوگ با آسانی گزار لیتے ہیں۔ الگ یا مشترکہ کمرہ حاجیوں کی مالی اور جسمانی طاقت، قوت برداشت، جذبہ مفاہمت اور ذاتی پسند وناپسند پر منحصر ہے۔ کسی ایک اصول یا مسئلے کا اطلاق سب پر نہیں کیا جا سکتا ہے۔ تاہم اگر جیب اجازت دے تو الگ کمرہ بہر صورت زیادہ آرام دہ اور باسہولت ہوتا ہے۔


حرم میں پہلی نماز



صبح کے تین بجے ہم مسجد نبویﷺ میں داخل ہوئے تو وہاں نور کی فضا تھی۔ نمازی جوق در جوق مختلف دروازوں سے صحن میں داخل ہو رہے تھے۔ ٹھنڈی ٹھنڈی روشنیاں آنکھوں، دل اور دماغ کو فرحت بخش رہی تھیں۔ ہم مسجد کی پشت اور دائیں جانب کے دروازے سے داخل ہوئے۔ جب صحن میں آگے بڑھے تو دیکھا کہ مسجد کے آخری حصے میں خواتین داخل ہو رہی تھیں۔ وہ اس حصے کے سامنے صحن میں بھی بیٹھی ہوئی تھیں۔ مرد آگے بڑھے چلے جا رہے تھے۔ ہم واپس اسی گیٹ پر آئے اور نماز کے بعد ملنے کی جگہ طے کی۔ اہلیہ خواتین والے حصے کی جانب بڑھ گئیں اور میں مسجد کے اگلے حصے کی طرف بڑھتا چلا گیا۔ مسجد سے ملحقہ صحن میں بھی صفیں بچھی ہوئی تھیں۔ مختلف دروازوں سے لوگ مسجد کے اندر بھی جار ہے تھے۔

جوں ہی میں مسجد کے اندر داخل ہوا ایک انوکھا نظارا میرا منتظر تھا۔ مسجد کا اندرونی منظر انتہائی حسین، با وقار اور متاثر کن تھا۔ خوبصورت در و دیوار، بلند چھتیں اور اس میں لٹکے ہوئے انتہائی دیدہ زیب فانوس ماحول کو بقعہ نور بنائے ہوئے تھے۔ لگتا تھا کہ مسجد کے طول و عرض میں رنگ و نور کا سیلاب آیا ہوا ہے۔ اتنی بڑی اور اتنی شاندار مسجد میں نے پہلی دفعہ دیکھی تھی۔ اندر کا درجہ حرارت آرام دہ، خوبصورت قالین، نقشین ستون، ترتیب وار خوبصورت فانوس اور پیارے نبیﷺ کے قرب کا احساس، جسم و جاں بلکہ روح تک کو ضو فشاں کر رہا تھا۔

اس وقت میرے جو احساسات تھے چاہوں بھی تو قلمبند نہیں کر سکتا۔ یہ وصل کے وہ انوکھے لمحات تھے جب انسان خود سے بھی بیگانہ ہو جاتا ہے۔ یہ وہ انتہائے قرب ہے جب نظریں دھندلا جاتی ہیں۔ آقائے مومنینﷺ کے خیال اور اس مسجد کے حسن نے مجھے مبہوت سا کر دیا تھا۔ فن تعمیر کا اس سے بہتر نمونہ میری نظر سے اس سے پہلے نہیں گزرا تھا۔ اس کا ظاہری اور باطنی حسن دونوں لاجواب تھے۔ اسے دیکھنے کے لیے بھی ظاہری آنکھوں کے ساتھ ساتھ دِل کی آنکھوں کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔ میں مسحور ہو کر نہ جانے کب تک ایک ہی مقام پر کھڑا رہا۔ میری نظریں اس نظارے سے ہٹ ہی نہیں رہی تھیں۔ کسی نے آرام سے ٹہوکا دیا تو جیسے مجھے ہوش آ گیا۔ ایک جگہ بیٹھنے کے بعد میں نے ارد گرد نظر دوڑائی تو اس انتہائی وسیع و عریض مسجد کے طول و عرض میں لاکھوں لوگ نظر آئے۔ جو نوافل ادا کر رہے تھے۔ قرآن پاک کی تلاوت کر رہے تھے۔ تسبیح کے ساتھ حمد اور درود شریف پڑھ رہے تھے یا پھر گھٹنوں پر سر رکھ کر سستا رہے تھے۔ چند ایک ستونوں کے ساتھ ٹیک لگا کر با قاعدہ سو رہے تھے۔ ان سب کے لباس الگ، نسلیں جدا اور زبانیں مختلف تھیں۔ لیکن اس وقت ایک ہی دربار میں سوالی بنے بیٹھے تھے۔

میں نے تہجد کی نیت باندھی تو اس خاص الخاص مقام پر نماز کے احساسات بھی خاص اور جدا تھے۔ بعد میں مسجد نبوی اور خانہ کعبہ میں پڑھی جانے والی تمام نمازوں میں احساسات اور جذبات کی یہی کیفیت رہی۔ ایسا خشوع و خضوع اور ارتکاز پہلے کبھی نصیب نہیں ہوا تھا۔ نماز کا ایسا مزا، تسکین اور روحانی مسرت بھی پہلے کبھی محسوس نہیں ہوئی تھی۔ حرمین شریفین میں ادا کی جانے والی ہر نماز کا ذائقہ اور رنگ ہی الگ تھا۔ قیام، رکوع اور سجود سبھی دل سے ادا ہوتے تھے۔ یوں لگتا تھا کہ باری تعالیٰ سامنے موجود ہے اور غور سے دیکھ رہا ہے۔ یہ احساس اتنا گہرا ہوتا تھا کہ سبحان ربی العظیم، سبحان ربی الاعلیٰ کہتے ہوئے ایک سرور سا آ جاتا تھا۔ یہ سرور، یہ مزا اور یہ ذائقہ جو حرمین شریفین میں نصیب ہوا پھر کہیں اور نصیب نہیں ہوا۔

تہجد کے ادائیگی کے بعد میرے پاس بہت وقت تھا۔ نماز فجر میں ابھی ڈیڑھ گھنٹہ باقی تھا۔ اس دوران میں مسجد کے ظاہری اور باطنی حسن سے لطف اندوز ہوتا رہا۔ اور دنیا بھر سے آئے ہوئے عازمین حج کو آتے اور جاتے دیکھتا رہا۔ وہیں ستون کے ساتھ ایک ریک پر قرآن مجید کے نسخے موجود تھے۔ تھوڑی دیر قرآن کی تلاوت کی تو اس کا رنگ بھی جدا تھا۔ اس تلاوت کا بھی بہت مزا آیا۔ لگتا تھا کہ نماز، تلاوت اور دوسری عبادتوں کا اصل مزا حرمین شریفین میں ہی ہے۔ نماز کے بعد مسجد کے تمام دروازوں پر ہجوم بڑھ گیا۔ مجھے مطلوبہ گیٹ اور ستون ڈھونڈنے میں تھوڑی دیر لگ گئی جہاں بیگم سے ملنا طے تھا۔ یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ انہوں نے یہ جگہ مجھ سے پہلے ڈھونڈ لی تھی اور میرا انتظار کر رہی تھیں۔


کملی والے کے در پر حاضری



ہم مقررہ جگہ پر ملے اور پھر دنیا کی عظیم ترین ہستی کے دربار میں حاضری کے لیے روانہ ہو گئے۔ نبی آخر زمانﷺ کا روضہ مبارک مغرب کی سمت مسجد کے سامنے والے حصے میں واقع ہے۔ مسجد نبویﷺ میں نماز ادا کرنے والے اسی سمت رُخ کر کے نماز ادا کرتے ہیں۔ روضہ رسولﷺ اور اس سے ملحق ریاض الجنۃ اور حضور پاکﷺ کے منبر کا مقام اب مسجد کا حصہ ہیں۔ اور مرکزی عمارت سے منسلک ہیں۔ لہٰذا جب نماز کی جماعت ہوتی ہے تو اس حصے میں موجود نمازی بھی جماعت میں شامل ہوتے ہیں۔ اس طرح روضہ رسولﷺ بھی مسجد کے اندر ہی واقع ہے۔ روضہ رسولﷺ اور ریاض الجنۃ والا حصہ مرکزی مسجد سے کم چوڑا ہے۔ اس لیے یہ حصہ مسجد سے آگے اُبھرا ہوا نظر آتا ہے۔ روضہ رسولﷺ کی زیارت کے لیے روضہ سے ملحق ایک پتلی سے گلی ہے جس کے اوپر چھت ہے۔ اگر ریاض الجنۃ میں داخلے کا مقررہ وقت نہ ہو تو بھی روضہ رسولﷺ کی زیارت اس گلی سے کی جا سکتی ہے۔ زائرین اس گلی کے ایک سرے سے داخل ہوتے ہیں اور دوسری طرف سے باہر نکلتے ہیں۔ حج کے دنوں میں اتنا ہجوم ہوتا ہے کہ اس میں رُکنے یا دعا مانگنے کا وقت نہیں ملتا ہے۔ تاہم روضہ رسولﷺ انتہائی قریب سے دیکھنے کی سعادت حاصل ہو جاتی ہے۔ روضہ رسولﷺ سے ملحق حضور پاکﷺ کے یارِ غار اور خلیفہ اوّل حضرت ابو بکر صدیقؓ اور حضور کے دوسرے ساتھی مجاہدِ اسلام خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروقؓ کی قبورِ پُر انوار بھی واقع ہیں۔ گویا جنہوں نے حضور کا زندگی بھر ساتھ دیا وہ بعد از وفات بھی اُن سے دور نہ ہوئے۔ واللہ کیا شان اور کیا مقام ہے ان جلیل القدر ہستیوں کا۔

جب میں روضہ رسولﷺ پر نظریں جمائے اس کے قریب جا رہا تھا تو اس وقت میرے دل کی عجیب کیفیت تھی۔ اس سبز گنبد کے بارے میں عاشقان رسولﷺ نے کیا کچھ نہیں لکھا تھا۔ یہ وہی روضہ رسولﷺ تھا جس کے بارے میں ہوش سنبھالتے ہی سننا اور پڑھنا شروع کر دیا تھا۔ اس روضے کے بارے میں شاعروں اور ادیبوں نے بے شمار کتابیں لکھی ہیں۔

اس سبز گنبد اور اس کی سنہری جالی کو دیکھنے اور چھونے کی تمنا کب سے میرے دل میں کروٹیں لے رہی تھی۔ جس عظیم ہستی کی وجہ سے اس شہر کی خاک کا ایک ایک ذرہ ہمارے لیے مہتاب تھا یہاں ان کا جسدِ خاکی دفن تھا۔ ان کی قبرِ انور تھی۔ وہ ہمارے سامنے محوِ استراحت تھے۔ ایسے لگتا تھا وہ ہمیں دیکھ رہے ہیں۔ ہماری دعائیں ہماری التجائیں سن رہے ہیں۔

ریاض الجنۃ میں داخلے کے لئے مردوں اور عورتوں کے الگ الگ اوقات مقرر تھے۔ مردوں کو فجر کے بعد داخلے کی اجازت تھی جب کہ خواتین کے لئے عشاء کے بعد کا وقت مقرر تھا۔ جب ہم روضہ رسولﷺ کی طرف جا رہے تھے تو اِس سے ذرا پہلے ایک دروازے کے باہر جم غفیر جمع تھا۔ اس وقت ہمیں علم نہیں تھا کہ یہ کیوں جمع ہیں۔ بعد میں علم ہوا کہ یہ زائرین ریاض الجنۃ میں داخل ہونے کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ ہماری نظریں اس وقت ایک ہی نظارے پر مرکوز تھیں۔ وہ روضہ رسولﷺ تھا۔

روضے سے ملحق گلی سے گزرنے کے لیے جوتے اتارنے کی ضرورت نہیں تھی لیکن ہم نے اُتار کر بیگ میں رکھ لیے۔ جیسے جیسے آگے بڑھ رہے تھے ہم ایک نور کے ہالے میں داخل ہو رہے تھے۔ اللہ اللہ وہ کیا ماحول تھا۔ کیا منظر تھا۔ کیا فضا تھی۔ نور ہی نور، محبت ہی محبت، روشنی ہی روشنی، ٹھنڈک ہی ٹھنڈک، جذبوں کی بوچھار، تقدس کے چھینٹے، رقت انگیزی، نم آنکھوں میں ملن کے روشن دیپ اور روضے پر نظر پڑتے ہی آنسوؤں کی برسات۔ جذبوں کی اس برکھا میں سب دعائیں سب التجائیں بھول گئے۔ صرف آنسو تھے جو اِن جذبوں کی زبان بنے ہوئے تھے۔

اس وقت ہماری آنکھیں ڈبڈبائی ہوئی اور دل و دماغ منور و خیرہ تھے۔ کچھ سوجھتا اور دِکھتا نہیں تھا۔ بس ایک تجلی تھی۔ ایک روشنی تھی۔ قرب کا احساس تھا۔ ملن کا خیال تھا۔ اپنے دُکھوں، اپنے گناہوں اور اپنی بے وقعتی کا احساس تھا۔ اس دربار کی عظمت کا احساس تھا اور اپنی پست قامتی کا احساس تھا۔

اسی حالت میں عازمین کے دھکوں اور شُرطوں کی ڈانٹ پھٹکار کے درمیان ہم نے روضہ اقدس کا اپنی آنکھوں سے طواف کیا۔ چھونے کی اجازت نہیں تھی۔ لیکن ہماری آنکھوں اور ہمارے دل نے ان جالیوں کو، ان محرابوں کو، ان دروازوں کو خوب چوما۔ اتنا چوما کہ میرے دل کی کالک بھی دھلنے لگی۔ ایسے لگا کہ اندر اور باہر دونوں طرف سے دھُلنے لگا ہوں۔ ایک روشنی دل و دماغ میں سرایت کرتی محسوس ہو رہی تھی۔ روضہ اقدس پر نظریں جمائے آگے بڑھے تو حضور پاکﷺ کے سب سے قریبی صحابہ بلکہ رفقاء حضرت ابو بکر صدیقؓ اور حضرت عمر فاروقؓ کی قبروں کی بھی زیارت کی اور سلام پیش کیا۔

روضہ رسولﷺ کی زیارت میری زندگی کا بہت اہم واقعہ ہے۔ اس زیارت کے لیے کب سے میری آنکھیں ترس رہی تھیں۔ یہ وہ مقام تھا جہاں پہنچنے کی ایک عرصے سے جستجو تھی۔ یہ میرے شوق کی انتہا تھی۔ میرے عشق کا نقطہ وصال تھا۔ ہوش سنبھالنے سے لے کر اب تک جس برگزیدہ ترین ہستی کے بارے میں سنتا، پڑھتا اور سوچتا آ رہا تھا۔ جس کے عشق نے میرے دل و دماغ میں گھر کیا ہوا تھا آج وہ میرے سامنے تھی۔ حالانکہ وہاں صرف ان کی قبر تھی۔ لیکن مجھے یوں لگ رہا تھا کہ وہ میرے سامنے مجسم موجود ہیں۔ ہمیں دیکھ رہے ہیں

ہماری بے قراری، ہماری عقیدت اور ہمارے شوق کو محسوس کر رہے ہیں۔ ان کی آنکھوں میں محبت اور لبوں پر مسکراہٹ ہے۔

یہ ایک ایسا احساس تھا جس کا بیان ممکن نہیں ہے۔ جذبوں کو لفظوں کا جامہ پہنانا بہت مشکل ہے۔ ان جذبوں اور اس احساس کو صرف محسوس کیا جا سکتا ہے۔ آج کا یہ منظر میری زندگی کے تمام مناظر پر حاوی ہو گیا۔ دل اور دماغ پر یہ منظر چھا کر رہ گیا۔ قرب کا احساس آنکھوں سے دل اور پھر رگ و پے میں سما گیا۔ ز بان گنگ تھی۔ بس آنکھیں دیکھتی تھیں۔ دل دھڑکتا تھا اور اشک بہتے جا رہے تھے۔

گلی کی دوسری جانب نکلے تو یوں لگا کہ ہمیں جنت سے زمین پر پٹخ دیا گیا ہو۔ ایک انتہائی خوش رنگ گلشن سے نکل کر صحرا میں پہنچ گئے ہوں۔ اندر کا منظر ابھی تک نگاہوں میں گھوم رہا تھا۔ ہمارے قدم جیسے اٹھنے سے انکاری تھے۔ دل کرتا تھا کہ وہیں کھڑے کھڑے آنکھیں بند کریں اور پھر وہیں پہنچ جائیں جہاں اپنا دل اور دماغ چھوڑ آئے تھے۔ ہماری آنکھیں اب تک اشک بار تھیں۔ انہی اشک بار آنکھوں اور بوجھل قدموں کے ساتھ ہم ہوٹل کی طرف چل دیے۔


مدینے کے بازار



جب ہم گیٹ سے باہر نکلے تو دیکھا کہ گیٹ کے بالکل سامنے بہت سی ریڑھیاں کھڑی تھیں۔ ان ریڑھیوں کی وجہ سے راستہ تقریباً بند تھا۔ ان ریڑھیوں کے بیچ میں سے بڑی مشکل سے لوگ راستہ بنا رہے تھے۔ یہ ریڑھیاں یوں کھڑی کرنا یقیناً غیر قانونی تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جیسے ہی پولیس کی گاڑی آتی تھی یہ ریڑھیاں پلک جھپکتے میں وہاں سے غائب ہو جاتی تھیں۔ جیسے ہی پولیس واپس جاتی یہ چلتی پھرتی دُکانیں پھر وہیں آ موجود ہوتیں۔ ان ریڑھیوں کا شمار ممکن نہیں تھا۔ ان میں خواتین ریڑھی بردار زیادہ تھیں۔ سر تا پا کالے برقعے میں ملبوس چالیس پینتالیس ڈگری گرمی میں اور سخت دھوپ میں وہ وہاں نہ جانے کیسے کھڑی رہتی تھیں۔ چلچلاتی دھوپ، حبس اور اس برقعے کے اندر ان کا کیا حال ہوتا ہو گا، یہ سوچ کر ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے تھے۔ کسی نے بتایا کہ سعودی مرد بڑی بڑی گاڑیوں میں آتے ہیں اور ان خواتین کو اس کام کے لیے چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ جب کام ختم ہو جاتا ہے تو آ کر انہیں لے جاتے ہیں۔ کیونکہ سعودی خواتین خود گاڑی نہیں چلا سکتیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا تھا کہ وہ مرد خود یہ کام کیوں نہیں کرتے۔ شاید یہ کام کرنا ان کے لیے کسرِ شان تھا۔ وجہ کچھ بھی ہو سعودی خواتین ایام حج میں خصوصاً اور بقیہ سال عموماً خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے گرد و نواح میں کاروبار میں مصروف دکھائی دیتی ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ خواتین عربی کے علاوہ دیگر کوئی زبان نہیں سمجھتی ہیں۔ تاہم ان میں سے کچھ نے دوسرے دُکانداروں کی طرح اُردو کے ہند سے یاد کیے ہوئے ہیں اور انہیں دہراتی رہتی ہیں۔ مثلاً دس ریال، پانچ ریال، آٹھ ریال وغیرہ۔

ہوٹل واپس جاتے ہوئے میں نے دیکھا کہ سڑک پر ریڑھی بردار خواتین کے علاوہ پرائیویٹ ٹیکسیوں کی بھرمار تھی۔ یہ عام کاریں تھیں جسے عربی ڈرائیور ٹیکسی یا کرائے کی کار کے طور پر استعمال کر کے خوب کما تے تھے۔ اصل ٹیکسیاں جس پر ٹیکسی لکھا ہوتا ہے وہ بہت کم نظر آتی تھیں۔ سڑک پر گاڑیاں اور پیدل لوگ ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ فٹ پاتھ پر ریڑھیوں کا قبضہ تھا۔ دونوں اطراف میں دُکانیں اور بڑے بڑے ہوٹل تھے۔ یہ دُکانیں انہی ہوٹلوں کے نچلے فلور پر واقع تھیں۔ یوں لگتا تھا کہ اس پورے علاقے میں ہوٹل ہی ہوٹل ہیں۔ یوں تو پورا سال ان ہوٹلوں کو مکین دستیاب رہتے ہیں لیکن ان دنوں تو شاید ہی کوئی کمرہ خالی ہو گا۔ حج کے علاوہ رمضان المبارک میں بھی زائرین کا اتنا ہی رش ہوتا ہے۔ اس وقت بھی تمام ہوٹل بھر جاتے ہیں۔ مجھے یہ باتیں میرے ہوٹل کے منیجر نے بتائی تھیں۔ میرے ایک سوال کے جواب میں اس نے بتایا کہ حج کے بعد ہجوم کم ہو جاتا ہے لیکن ختم نہیں ہوتا ہے۔ زائرین کی آمد و رفت سارا سال جاری رہتی ہے۔ ایک ڈیڑھ ماہ بعد زائرین کی تعداد بڑھنا شروع ہو جاتی ہے۔ رمضان المبارک میں تو حج کی طرح ہجوم ہوتا ہے۔ رمضان المبارک کے بعد یہ تھوڑا سا کم ہوتا ہے۔ اس کے بعد حاجیوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اس لیے ہوٹل، دُکانیں اور دوسرے کاروبار سارا سال مصروف رہتے ہیں۔

مکہ اور مدینہ میں سیاحت سے متعلق کاروبار اتنے زیادہ مصروف رہتے ہیں کہ دنیا میں کہیں ایسی مثال نہیں ملتی۔ یہاں دُکانوں اور ریستورانوں میں ہر وقت گاہک بھرے نظر آتے ہیں۔ یہ دُکانیں چاہے عام اشیائے ضرورت کی ہوں، چاہے اشیائے خورد و نوش کی ہوں، چاہے چمکتے دھمکتے سونے کے زیورات کی ہوں، چاہے تحائف کی ہوں، ہر وقت گاہکوں سے بھری نظر آتی ہیں۔ دُکان دار اس قدر مصروف ہوتے ہیں کہ ان کی توجہ حاصل کرنے کے لیے طویل انتظار کرنا پڑتا ہے۔ حتیٰ کہ کرنسی تبدیل کرنے والی دکانیں بھی اس قدر مصروف ہوتی ہیں جیسے گرم سموسے یا جلیبیاں بیچ رہے ہوں۔ کرنسی تبدیل کرنے والے کاؤنٹر تک رسائی کے لیے قطار میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ بیرونی کرنسی کے بدلے میں جو کچھ ملتا ہے لوگ صبر و شکر کر کے جیب میں ڈالتے ہیں اور اپنی اپنی راہ لیتے ہیں۔ کرنسی کے متبادل نرخ معلوم کرنے اور کاؤنٹر پر پیسے گننے کا موقع نہیں ملتا ہے۔

یہی حال دوسری تمام دکانوں کا ہے۔ تمام دکانیں اشیائے ضرورت سے بھری ہوتی ہیں۔ گاہکوں کی بھرمار ہوتی ہے۔ ریال دھڑا دھڑ جمع ہو رہے ہوتے ہیں۔ دنیا بھر کی کرنسی لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں سعودی عرب میں جمع ہوتی رہتی ہے اور یہ سلسلہ سارا سال جاری رہتا ہے۔ زائرین مقامی لوگوں کی تلخ و ترش باتوں کو بھی ہنسی خوشی برداشت کر لیتے ہیں اور اس سرزمین پر آمد کا سلسلہ کبھی کم نہیں ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس زمین کے باسیوں کو کتنی نعمتوں سے نوازا ہے۔

ہم جمعرات کی رات مدینہ منورہ میں پہنچے تھے۔ آج جمعۃُ المبارک تھا۔ اگلے جمعہ کی شام تک ہمارا یہاں قیام تھا۔ ان آٹھ دنوں میں ہمیں مسجد نبویﷺ میں تینتالیس نمازیں ادا کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ تہجد اور دوسری نفلی نمازیں الگ تھیں۔ مسجد نبویﷺ میں چالیس نمازیں ادا کرنا حج کا حصہ بالکل نہیں ہے۔ نہ ہی کسی اور وقت چالیس نمازوں کی پابندی ہے۔ لیکن اللہ کے اس گھر میں ان نمازوں کی فضیلت بہرحال بر حق ہے۔ مختلف احادیث میں حضور پاکﷺ کا فرمان ہے کہ مسجد نبویﷺ میں ادا کی جانے والی نماز کا ثواب دوسری مساجد میں ادا کی جانے والی نماز سے ہزار گنا زیادہ ہے۔ جب کہ حرم شریف کی نماز کا مسجد نبوی کی نماز سے بھی سو گنا زیادہ اجر ہے۔ گویا حرم شریف اور مسجد نبویؑمیں ادا کی جانے والی ہر نماز کا اجر و ثواب بے شمار اور بے حساب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فرزندانِ توحید ان دو عظیم مساجد میں پورا سال حاضری دیتے اور عبادات میں مشغول رہتے ہیں۔


مسجدِ نبویؐ اور آغازِ اسلام



مسجد نبویؐ اللہ کے پسندیدہ ترین گھروں میں سے ایک ہے۔ مسجد نبوی اسلامی سلطنت کی پہلی باقاعدہ عمارت، اسلام کی ابتدائی درس گاہ، نبی پاکﷺ سے جائے ملاقات، مقامِ مشاور ت اور مجلسِ شوریٰ منعقد کرنے کی جگہ تھی۔ گویا یہ نوزائیدہ اسلامی سلطنت کا مرکزی مقام، مرکزی دفتر، تعلیم و تربیت اور تبلیغ کا مرکز اور عبادت گاہ تھی۔ نبی پاکﷺ کی رہائش گاہ اس سے ملحق واقع تھی۔ یہیں اللہ کے رسولﷺ دوسرے ممالک کے وفود سے ملاقات کرتے تھے۔ دین کی تبلیغ اور صحابہؓ کی تربیت کرتے تھے اور مسلمانوں کو شریعت کے احکام سکھاتے تھے۔ صحابہ کرامؓ سے مشورے کے بعد یہاں بڑے بڑے فیصلے ہوتے تھے۔ گویا یہ اسلام کی پہلی پارلیمنٹ تھی۔

جب کفارِ مکہ نے مدینہ منورہ پر بہت بڑے لاؤ لشکر کے ساتھ زبردست طریقے سے چڑھائی کی تو اسلام کی یہ نوزائیدہ مملکت کھلی جنگ کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی۔ حضرت محمدﷺ نے صحابہ کرام سے مشورہ کیا۔ حضرت سلمان فارسیؓ جن کے نام سے ہی ظاہر ہوتا ہے کہ فارس سے تشریف لائے تھے۔ انہوں نے اپنے تجربے کی روشنی میں مدینہ میں داخل ہونے والے راستے میں خندق کھودنے کا مشورہ دیا۔ مدینہ منورہ قدرتی طور پر تین اطراف سے پہاڑوں میں گھرا ہوا ہے۔ ان تین اطراف سے دشمن کے حملے کا خطرہ نہیں تھا۔ حضرت سلمان فارسیؓ ایران میں ایسی کئی جنگوں میں شرکت کر چکے تھے جہاں خندقوں کا استعمال ہوا تھا۔ جبکہ عربوں میں اس سے پہلے اس کا رواج بالکل نہیں تھا۔

یہی وجہ ہے جب کفارِ مکہ نے اپنے سامنے خندقیں کھدی دیکھیں تو گھبرا گئے۔ انہیں ان خندقوں کو پھلانگنے کا کوئی طریقہ سمجھ نہ آیا۔ لہٰذا وہ کئی دن تک خندقوں کے دوسری طرف پڑے سوچتے رہے۔ آخر تائید غیبی آ پہنچی اور طوفان باد و باراں سے کفار کے خیمے اکھڑ گئے۔ اُن کے جانور بدک کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ ان نقصانات کی تاب نہ لا کر اور خندقوں کا جواب نہ پا کر وہ ناکام و نامراد لوٹ گئے۔

یوں رسول اللہﷺ نے بھی اپنی فہم و فراست، اپنی قائدانہ صلاحیتوں، اپنی دلیری، جمہوریت پسندی اور صحابہ کرام کی بہادری اور جوانمردی سے یہ جنگ جیت لی۔ اللہ کی نصرت سے اسلام فتح سے ہمکنار اور اور باطل شکست خوردہ اور اپنے ناپاک ارادوں میں ناکام ہوا۔

مدینے کی فضائیں آج بھی بہت سہانی ہیں۔ یہاں پھلوں کے بے شمار باغات ہیں یہاں کے لوگ نرم اور دھیمے مزاج کے مالک ہیں۔ اس شہر کی فضا میں نبی پاکﷺ کی خوشبو رچی ہوئی ہے۔ اس شہر اور اس کے باسیوں نے ہمارے نبی کا اس وقت ساتھ دیا تھا جب کفار مکہ ان کی جان کے دشمن بنے ہوئے تھے۔ اگر اس وقت اہلِ مدینہ حضور پا کﷺ اور مسلمانانِ مکہ کی مدد نہ کرتے، انہیں اس شہر میں پناہ نہ دیتے تو نعوذ باللہ اسلام کے نام لیوا ہی باقی نہ رہتے اور اسلام کو پھلنے پھولنے کاہی موقع نہ ملتا۔ لہٰذا اہل مدینہ کا تمام ملتِ اسلامیہ پر یہ احسان ہے کہ انہوں نے ہمارے نبیﷺ کو پناہ دی۔ انہیں عزت دی اور اسلام کا پیغام پھیلانے کا موقع فراہم کیا۔

شریعت اسلامیہ کو عملی شکل دینے کے لیے جس اسلامی ریاست کی ضرورت تھی وہ بھی مدینہ نے ہی پوری کی۔ چند برسوں میں ہی اسلام کا یہ پیغام نہ صرف صحرائے عرب بلکہ افریقہ، ایشیاء اور یورپ تک پھیل گیا۔ یہ اسلام کی حقانیت اور پیغمبرِ اسلام کی کرشمہ ساز شخصیت کا کمال تھا کہ تئیس برس کی مختصر مدت میں ایک اُمیؐ کا پیغام اور اس کی شریعت جو در اصل اللہ کی شریعت تھی دنیا کے بڑے بڑے ممالک اور کئی براعظموں میں پہنچ چکی تھی۔ اس پیغام کی سچائی نے دنیا کے طول و عرض میں لوگوں کے دلوں پر دستک دی تھی۔ حضورﷺ کی زندگی میں ہی اسلام کے ماننے والوں کی تعداد لاکھوں تک پہنچ چکی تھی۔ اس دور کے ذرائع رسل ورسائل اور سفر کے وسائل کو مد نظر رکھا جائے تو یہ کامیابیاں حیرت انگیز بلکہ ناقابل یقین ہیں۔ اس میں اللہ کی مدد کے ساتھ ساتھ نبی پاکﷺ کی فہم و فراست کا بھی بہت اہم کردار ہے۔

روشنی کا یہ سفر آج تک جاری ہے۔ لاکھ رُکاوٹوں، مخالفتوں اور دشمنیوں کے باوجود اللہ کے نبی کا یہ پیغام سینوں کو منور کر رہا ہے۔ ان ملکوں میں بھی جہاں کی حکومتیں اسلام کی دشمن تھیں وہاں کے لوگوں کو بھی اسلام مسخر کر رہا ہے۔ تاتاریوں کی مثال سب کے سامنے ہے جو اسلام کو تاراج کرنے نکلے تھے انہوں نے مسلمانوں پر ظلم بھی بہت ڈھائے تھے۔ بالآخر اس پورے خاندان اور ان کی تمام حکومتوں کو اسلام نے مسخر کر لیا۔ وہ ملک جہاں تاتاریوں کی حکومت تھی آج اسلام کے قلعے ہیں اور تاتاری نسل اسلام سے بہرہ مند ہو چکی ہے۔

پیغمبر اسلامﷺ کی ان غیر معمولی کامیابیوں میں جہاں اللہ کی تائید و نصرت شامل تھی وہاں ان کی قائدانہ صلاحیتیں، حکمت و دانائی، صلح جوئی، صحابہ کرام سے مشاور ت اور عزم صمیم نے بھی اپنا کردار ادا کیا تھا۔ چند ہی سالوں میں مدینے کی ریاست امن کا گہوارہ بن گئی۔ حتیٰ کہ یہاں یہودی اور غیر مسلم بھی محفوظ و ممنون تھے۔ اسلام سے پہلے عرب قبائل جنگ و جدل کے اتنے خوگر تھے کہ معمولی معمولی تنازعات کو بنیاد بنا کر صدیوں تک ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما رہتے تھے۔ ہزاروں افراد لقمہ اجل بن جاتے لیکن دشمنیاں پھر بھی باقی رہتی تھیں۔

رسول اللہﷺ نے اپنی ریاست میں ان تمام قبائلی جنگوں کو روک دیا۔ وہی قبائل جو پہلے بلاوجہ ایک دوسرے سے دست و گریبان رہتے تھے اب مل کر لشکرِ اسلام کا حصہ بنے اور اللہ کی راہ میں جہاد کے راستے پر چل پڑے۔ اس راستے میں انہوں نے ایسے ایسے کارنامے انجام دیے کہ رہتی دنیا تک یہ کارنامے یاد رکھے جائیں گے۔ اسلام کے جھنڈے تلے جمع ہو کر وہ جذبۂ اخوت سے مالا مال ہو گئے اور ایک دوسرے پر جانیں نچھاور کرنے لگے۔ یہ اللہ کی رحمت، اسلام کی برکت اور حضور نبی پاکﷺ کی تربیت تھی کہ سخت مزاج قبائلی عرب سدھر کر حلقہ یاراں میں ریشم کی طرح نرم اور رزم حق و باطل میں فولاد بن جاتے تھے۔ ان کے شب و روز اللہ اور اس کے نبیﷺ کی خوشنودی حاصل کرنے میں بسر ہوتے تھے۔ ان کی باہمی دشمنیاں دوستیوں میں بدل چکی تھیں۔ جہالت کا اندھیرا علم و حکمت کی روشنی سے مٹنے لگا۔ سخت مزاجی نرمی اور حلاوت میں تبدیل ہو گئی اور دشمنی دوستی بلکہ جانثاری میں بدل گئی تھی۔ مختلف غزوات میں صحابہ کرامؓ نے اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر دوسرے صحابہؓ کی جس طرح جان بچائی، یہ اسلامی تعلیمات اور نبیﷺ کی قیادت کا اثر تھا۔

صحابہ کرامؓ جب باہم اکھٹے ہوتے تھے تو اخوت ومساوات کا پیکر نظر آتے تھے۔ وہ آپس میں شیر و شکر ہو جاتے تھے۔ ایک دوسرے کے بغیر ان کا نوالہ حلق سے نیچے نہیں اترتا تھا۔ خود بھوکا رہ کر دوسرے کا پیٹ بھرنے کی کوشش کرتے۔ خود پیدل چلتے اور دوسروں کو سواری پیش کرتے۔ بغیر بتائے اور بغیر جتلائے ایک دوسرے کی مدد کرتے تھے۔ اتنی نرم دلی کے باوجود جب وہ کفار کے سامنے سینہ سپر ہوتے تھے تو پھر فولاد نظر آتے تھے۔ اس وقت ان کا جینا مرنا اللہ اور ان کے نبیﷺ کے لیے ہوتا تھا۔ موت ان کے لیے حیات اور کامیابی کی معراج ہوتی تھی۔ صحابہ کرامؓ جہاد کے لیے گھر سے نکلتے ہی جذبہ شہادت سے سرشار ہوتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہر طوفان کا مقابلہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کرتے تھے۔ وہ حضورﷺ کے ایک اشارے پر جان نچھاور کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار ملتے تھے۔ حضورﷺ سے وفا داری کا یہ عملی جذبہ، شجاعت کا یہ جذبہ اور اخوت اور قربانی کی یہ مثالیں مسلمانوں کی کامیابی اور کامرانی کی راہ ہموار کرتی گئیں۔ اسی وجہ سے صدیوں تک مسلمانوں کا عروج رہا۔ انہوں نے دنیا پر اپنی حکمرانی کا سکہ جما کر رکھا۔ قرونِ اولیٰ کے ان مسلمانوں کی وجہ سے ہی آج اسلام دنیا کا دوسرا بڑا مذہب اور اس کے ماننے والے دنیا کے ہر خطے میں موجود ہیں۔ اللہ کے سپاہی اور اس کے نبیﷺ کے پروانے اپنے دلوں میں وہ جذبہ لیے پھرتے ہیں جو گود سے لے کر گور تک ان کے سینے منور وتاباں رکھتا ہے۔ یہ حضورﷺ سے عشق ہے جو دلوں میں شمع کی مانند روشن ہے۔ یہ عشق ہوش سنبھالتے ہی ہر کلمہ گو کے دل میں فروزاں ہو جاتا ہے اور مر تے تک اس کی روشنی قائم و دائم رہتی ہے۔ ایک مسلمان چاہے کتنا ہی گنہگار کیوں نہ ہو نبیﷺ کی محبت سے اس کا دل خالی نہیں ہوتا ہے۔ گنہگار سے گنہگار مسلمان بھی نبیﷺ کی حرمت پر جان نثار کرنے کے لیے تیار رہتا ہے۔

مسلمان تو پھر مسلمان ہیں میرے نبی کو ماننے والوں میں غیر مسلم بھی شامل ہیں۔ غیر مسلموں نے سیرت نبیﷺ پر کتابیں اور نعتیں لکھی ہیں۔ ان کی محبت اور احترام اپنوں اور غیروں سب میں پا یا جاتا ہے۔ ایک غیر مسلم معاشرے کا شہری ہونے کی حیثیت سے میں خود اس بات کا گواہ ہوں۔ میں نے غیر مسلموں کی زبان سے جب بھی پیغمبراسلامﷺ کا نام سنا ہے اس میں عزت اور احترام شامل ہوتا ہے۔ جو جتنا پڑھا لکھا ہوتا ہے وہ اتنا ہی ہمارے نبیﷺ کا معترف اور معتقد ہوتا ہے۔


مسجد کے باہر



مسجد نبوی کے چہار جانب بلند وبالا ہوٹل چھائے ہوئے ہیں۔ ان میں پانچ ستارے سے لے کر چارپائی ہوٹل تک موجود ہیں۔ تاہم مسجد کے قرب و جوار میں کئی ستاروں والے بڑے بڑے ہوٹلوں کا قبضہ ہے۔ درمیانے اور چھوٹے ہوٹل قدرے فاصلے پر ہیں۔ ہمارا ہوٹل مسجد کے عقبی حصے کے دائیں کنارے کی طرف واقع تھا۔ مسجد کے گیٹ سے نکل کر تقریباً آٹھ دس منٹ کی مسافت پر یہ ہوٹل ایک ہائی وے کے کنارے پر بنایا گیا تھا۔ دس منٹ کی یہ مسافت عموماً آدھے گھنٹے میں تبدیل ہو جاتی تھی۔ کیونکہ نماز سے پہلے اور خصوصاً نماز کے بعد سڑک اور فٹ پاتھ بالکل بھر جاتی تھی۔ ریڑھیاں، گاڑیاں اور بھکاری رکاوٹ بن جاتے تھے۔ ریڑھیوں و الے فٹ پاتھ تقریباً بند کر دیتے تھے۔ جبکہ سڑک پر گاڑیاں ہوتی تھیں۔ حالانکہ نمازوں کے اوقات میں یہاں گاڑیوں کا داخلہ ممنوع تھا اس کے باوجود یہ آمد و رفت جاری رہتی تھی۔

بعض اوقات گیٹ سے باہر ایک جمگھٹا سا لگ جاتا تھا جس میں سے نکلنا مشکل ہوتا تھا۔ تاہم وہاں بے حد رونق رہتی تھی۔ مسجد سے باہر نکلتے ہی دونوں جانب سجی اور بھری ہوئی دکانیں، ہر دُکان میں گاہکوں کا ہجوم، سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر سامان سے لدی ریڑھیاں، مختلف اشیاء کی دھڑا دھڑ فروخت، سیاہ برقعے میں ملبوس سعودی خواتین دُکاندار اور پولیس کے آتے ہی ان کی بھاگ دوڑ۔ یہ سب روزمرّہ کا معمول تھا۔ یہ خواتین اتنی تیز دھوپ اور گرمی میں چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھی ریڑھی پر بٹھا کر رکھتی تھیں۔ وہ بچوں کو بھی سنبھالتیں اور دُکانداری بھی کرتی تھیں۔ ان ریڑھیوں میں پھل، جائے نمازیں، تسبیحیں، جوتے، قندورے (عربی لباس)، بڑے بڑے عربی رومال، کھجوریں، قرآن پاک کے نسخے، بچوں کے کپڑے، مصنوعی زیورات، مسواکیں، زنانہ سکارف، برقعے، برتن اور ایسی ہی دوسری چیزیں بِک رہی ہوتی تھیں۔

ہر ریڑھی کے پاس اور ہر دُکان میں زائرین خریداری میں مصروف نظر آتے تھے۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ زائرین کے یہاں دو ہی مشغلے ہیں۔ ایک اللہ کے گھر میں زیادہ سے زیادہ عبادت کرنا اور دوسرا جی بھر کر شاپنگ کرنا۔ اسی لیے جب وہ مکہ سے مدینہ یا مدینہ سے مکہ اور پھر وطن واپس لوٹتے ہیں تو سامان سے لدے پھندے نظر آتے ہیں۔ سب سے زیادہ منظم زائرین ترکی کے ہوتے ہیں۔ ان کا قافلہ ہر جگہ منظم، منفرد اور جدا نظر آ تا ہے۔

برصغیر کے زائرین کی شاپنگ کا یہ سلسلہ اس وقت تک جاری و ساری رہتا ہے جب تک کہ حاجیوں کے پاس وقت اور رقم باقی ہوتی ہے۔ پاکستانی زائرین سب سے زیادہ کھجوریں اور جائے نمازیں خریدتے ہیں۔ یہ اشیاء وہ عزیز اقربا اور دوست احباب کو دیتے ہیں۔ گھر والوں کے لیے زیورات اور کپڑوں کی شاپنگ حسب توفیق اور حسب استطاعت چلتی رہتی ہے۔

ایک پاکستانی حاجی نے مجھے بتایا اس نے پچاس کلو سے زائد صرف کھجوریں خریدی ہیں۔ اس کی کل شاپنگ پانچ لاکھ روپے سے تجاوز کر چکی تھی اور وہ ابھی سیر نہیں ہوا تھا۔ ابھی مزید شاپنگ کرنا چاہتا تھا۔

مسجد نبوی کے اطراف میں سونے کے زیورات کی بے شمار دکانیں ہیں۔ یہ دکانیں سونے کی چمک دمک سے جگمگا رہی ہوتی ہیں۔ ان دُکانوں میں بھی گاہک اتنی تعداد میں موجود ہوتے ہیں جس طرح دوسری تمام اشیائے ضرورت کی دکانوں پر ہوتے ہیں۔ نہ جانے وہ اتنا سونا کیوں اور کس لیے خریدتے ہیں اور اس خریداری کے لئے اتنی رقم کہاں سے کر کر آتے ہیں۔

جہاں تک جائے نمازوں کے تحفے کا تعلق تھا کچھ حجاج کا کہنا تھا کہ چین، بنگلہ دیش اور ترکی کی بنی ہوئی ایسی جائے نمازیں پاکستان میں وافر تعداد میں دستیاب ہیں۔ سعودی عرب سے اتنا وزن اٹھا کر لے جانے کی کیا ضرورت ہے۔ وہیں سے خرید کر تحفہ دیا جا سکتا ہے۔ لیکن رواج اور مذہبی عقیدت آڑے آ جاتی ہے۔ ایک دفعہ جو شے مکہ اور مدینہ میں آ جائے وہ مقدس اور با برکت سمجھی جاتی ہے۔ اگر کسی دوست یا عزیز کو علم ہو جائے کہ حاجی صاحب اسے جو جائے نماز تحفتاً دے رہے ہیں وہ مکہ مدینہ سے نہیں لائی گئی بلکہ مقامی بازار سے خریدی گئی ہے تو لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زائرین اپنی استطاعت سے بڑھ کر تحفے خریدنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

ہمارا ہوٹل رامادا (Ramada) مدینہ منورہ کے بڑے اور مشہور ہوٹلوں میں سے ایک ہے . لبیک والوں کے تمام زائرین اسی ہوٹل میں ٹھہرتے ہیں۔ یہاں رہنے سہنے کے علاوہ کھانے پینے کا بھی بہت اچھا انتظام ہے۔ لیکن ایک مسئلہ ہمیں دن میں بار بار پیش آتا تھا وہ لفٹ کے لیے انتظار کا تھا۔ حالانکہ دو بڑی لفٹیں ہر وقت اوپر نیچے آتی جاتی رہتی تھیں۔ تاہم یہ سہولت ہوٹل کے مہمانوں کے تناسب سے کم لگتی تھی۔ خصوصاً نماز کے لیے جاتے ہوئے لفٹ کا انتظار بہت گراں گزرتا تھا۔ یہ لفٹیں ہر فلور پر رک کر لوگوں کو اتارتی اور چڑھاتی تھیں۔ اس میں بہت وقت صرف ہو جاتا تھا۔ جب لفٹ آ کر رکتی تو اکثر بھری ہوئی ہوتی تھی۔ لہٰذا اس کے اگلے چکر کا انتظار کرنا پڑتا تھا۔ اگر نماز کا وقت قریب ہو تو یہ انتظار بہت کٹھن ہوتا۔

شکر ہے کہ ہماری کوئی نماز اس وجہ سے متاثر نہیں ہوئی۔ ہمیں ان لفٹوں پر زیادہ بھروسہ نہیں تھا۔ لہٰذا آخر وقت تک انتظار کرنے کے بجائے وقت سے پہلے تیار ہو کر نیچے اُتر آتے تھے۔ نمازوں کے علاوہ صبح و شام کے اوقات میں فرسٹ فلور پر ریستوران میں جانے کے لیے بھی بسا اوقات بہت انتظار کرنا پڑ جاتا تھا۔ یہ بھی مصروف وقت ہوتا تھا۔ اس مسئلے کی وجہ سے کچھ عازمینِ حج سخت خفا نظر آتے تھے۔ کئی دفعہ ایک دوسرے سے تو تو میں میں بھی ہو جاتی۔ پھر خوفِ خدا غالب آ جاتا اور وہ باہم شیر و شکر ہو جاتے۔ ان حالت میں بھی اکثریت صبر کا مظاہرہ کرتی تھی۔ زیادہ تر عازمین اس وقت دوسروں سے خفا ہوتے جب ان کے سامنے لفٹ آ کر کھلتی لیکن انہیں جگہ دینے کے لیے کوئی اپنی جگہ سے نہیں ہلتا تھا۔ در اصل اس وقت لفٹ میں جگہ ہی نہیں ہوتی تھی۔ جب کہ کچھ لوگوں کو غلط فہمی ہوتی کہ ہمیں جگہ نہیں دی جا رہی ہے۔ بعض خواتین و حضرات زبردستی گھسنے کی کوشش کرتے۔ اگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہوتے تو دوسروں پر خفا ہوتے اور پیر پٹختے ہوئے باہر نکل جاتے۔ اچھی بات یہ تھی کہ یہ خفگی چند لمحوں کی ہوتی تھی۔ مسجد نبویﷺ کا نظارہ دیکھتے ہی وہ تمام رنجشیں فراموش کر دیتے تھے۔

انسان کو نازک جذبات کا حامل بنایا گیا ہے اور اس کے اندر بہت سی کمزوریاں بھی رکھی گئی ہیں۔ غلطیوں اور کمزوریوں سے پاک صرف اللہ کی ذات ہے۔ انسان اپنی تمام کمزوریوں سمیت آزمائش کے لیے زمین پر اتارا گیا ہے۔ ان کمزوریوں پر قابو پانے اور صراط مستقیم پر چلنے کی مسلسل کوشش ہی آدمی کو انسان بناتی ہے۔ قدم قدم پر آزمائش درپیش آتی ہے۔ کچھ لوگ ان آزمائشوں کے آگے ہتھیار ڈال دیتے ہیں اور نفس کے غلام بن کر رہ جاتے ہیں۔ کچھ خندہ پیشانی سے ان کا مقابلہ کرتے ہیں اور ان سے سرخرو ہو کر نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کچھ اس آزمائش سے نکلنے کے لیے منفی اور غلط راستہ اپنا لیتے ہیں۔ درست طریقہ یہ ہے کہ صحیح اور درست راستہ اپناؤ اور اس پر ڈٹ جاؤ۔ ہر آزمائش کو اللہ کی طرف سے امتحان سمجھو۔ اگر اس میں کامیابی ہو تو اللہ کا شکر ادا کرو۔ اگر ناکامی ہو تو بھی صبر اور ہمت کا دامن نہ چھوڑو۔

حدیث رسولﷺ ہے کہ پہلوان وہ نہیں جو دوسرے کو پچھاڑ دے۔ بلکہ پہلوان وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے نفس پر قابو رکھے۔

اس طرح خوشی، غم، مصیبت، بیماری، مشکلات، کامیابی اور امیری پر انسان کو آپے سے باہر نہیں ہونا چاہیے۔ اپنے جذبات کو قابو میں رکھ کر معتدل رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ یہی کامیابی اور فلاح کا راستہ ہے۔

ہمارے ہوٹل کے ویٹر زیادہ تر بنگالی تھے جو اُردو سمجھتے اور بولتے تھے۔ ہوٹل کے یہ ویٹر اور اس طرح کے سیکڑوں ہزاروں دوسرے ملازمین جو حرم شریف، میدان عرفات اور دوسری جگہوں پر زائرین اور حجاج کی خدمت کرتے ہیں وہ بخشش TIP پر زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ حرمین شریفین میں صفائی ستھرائی پر مامور خدام کی اس بخشش کی وجہ سے بہت اچھی آمدنی ہوتی ہے۔ کیونکہ حرم شریف اور مسجد نبوی میں تمام نمازی دل کھول کر صدقہ دیتے ہیں۔ کئی نمازی ہر نماز کے بعد یہ صدقہ دیتے ہیں۔ کیونکہ حرمین شریفین میں دوسری عبادات کی طرح صدقے کا اجر بھی بہت زیادہ ہے۔ زائرین اور حجاج یہ صدقہ اس لیے بھی دیتے ہیں کہ ان کی نمازوں اور دیگر عبادات میں اگر کوئی کمی رہ گئی ہو تو اللہ تعالیٰ کی راہ میں اس صدقے کے ذریعے یہ کمی پوری ہو جائے۔

ان خدام کی تنخواہ کتنی ہے اس کا تو علم نہیں ہے۔ لیکن بقول ان خدام کے یہ تنخواہ بہت زیادہ نہیں ہے۔ اس لیے بھی لوگ دل کھول کر انہیں صدقہ اور خیرات دیتے رہتے ہیں۔ اس اضافی آمدنی کی وجہ سے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے گرد و نواح میں واقع بڑے ہوٹلوں میں ملازمت حاصل کرنا بہت مشکل ہے۔ لیکن ایک دفعہ جسے یہ ملازمت مل جائے تو پھر سمجھو اس کے وارے نیارے ہو گئے۔ اس تنخواہ کے ساتھ بخشش اور تحائف بھی زائرین ان ملازمین کی نذر کر کے جاتے ہیں۔ یہ صدقہ اور خیرات بہت اچھی بات ہے۔

تاہم کچھ ملازمین اس بخشش اور تحفوں کے عادی ہو جاتے ہیں۔ اگر آپ کو اپنے کمرے کی روزانہ صفائی درکار ہے، روزانہ نئے تولیے، صابن، شمیپو، چائے، دودھ، چینی، بستر کی چادریں اور تکیہ کے غلاف درکار ہیں تو پھر ہوٹل کے بیروں کو بخشش سے نوازتے رہیں۔ یہ کام بغیر کسی رکاوٹ کے ہوتے رہیں گے۔ دوسری صورت میں دس دفعہ بلانے پر بھی نہیں آئیں گے۔ ملازمین کو ٹپ اور تحفوں کی عادت پڑ جائے تو اس کے بغیر کام نہیں کر تے یا پھر نیم دلی اور بے زاری سے کرتے ہیں۔ جوں ہی انہیں ٹپ (بخشش) ملتی ہے ان کے جسم میں کرنٹ دوڑ جاتا ہے اور چہرے پر رونق آ جاتی ہے۔ وہ انتہائی خوش اخلاق اور خدمت گزار نظر آ نے لگتے ہیں۔

اِسے کہتے ہیں پیسہ پھینک تماشا دیکھ۔ پیسے اور تماشے کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور بہت پرانا ہے۔ ویسے تو یہ دنیا ہی ایک تماشا ہے۔ یہ تماشا پیسے کی وجہ سے ہے یا پھر پیسے سے کھیلا جاتا ہے۔ کہیں پیسے کے پیچھے بھاگنے والوں کا تماشا ہے۔ کہیں پیسہ سمیٹنے کا تماشا ہے۔ کہیں پیسہ چھپانے کا تماشا ہے۔ کہیں پیسہ بنانے کا تماشا ہے۔ کہیں پیسہ چھیننے کا تماشا ہے۔ کہیں پیسہ چھن جانے کا تماشا ہے۔ کہیں پیسے کے لیے تماشا بننے کا تماشا ہے۔ کہیں پیسے سے تماشا رچانے کا تماشا ہے۔ کہیں تماشائی بن کر پیسہ لٹانے کا تماشا ہے۔ کہیں تماشا بن کر پیسہ لوٹنے کا تماشا ہے۔ کہیں پیسوں کے لیے جان لینے کا تماشا ہے۔ کہیں پیسوں کے لئے جان گنوانے کا تماشا ہے۔ کہیں پیسوں کی کمی کا تماشا ہے۔ کہیں پیسوں کی زیادتی کا تماشا ہے۔ کیسے کیسے تماشے دکھاتا ہے یہ پیسہ۔ ہائے پیسہ وائے پیسہ


حجازِ مقدس کے ہوٹل



حجازِ مقدس میں پنج ستارہ، چار ستارہ اور دوسرے بڑے ہوٹل دنیا کے دوسرے ملکوں کے ہوٹلوں سے مختلف ہیں۔ دُنیا بھر میں ان بڑے ہوٹلوں میں مہمانوں کے آرام کے ساتھ ساتھ ان کے ناز نخروں اور ان کے عیش و آرام کا بھی خیال رکھا جاتا ہے۔ یورپی ممالک اور دوسرے بین الاقوامی ہوٹلوں میں چاکلیٹ،، بسکٹ، چپس اور سافٹ ڈرنک کے علاوہ شرابیں بھی رکھی ہوتی ہیں۔ ان اشیاء کے استعمال پر ان کا بھی بل ادا کرنا پڑتا ہے۔ وہ الگ بات کہ بہت سے لوگ ان چیزوں کو چھوئے بغیر وہاں کئی کئی دن رہ لیتے ہیں۔ یورپی ممالک میں رہنے والے مسلمان ان سے بچنے کے طریقے جانتے ہیں۔ ہمارے لوگوں کو اکثر ایسی پارٹیوں میں شرکت کرنا پڑتی ہے جہاں شراب پانی کی طرح پی جاتی ہے۔ لیکن آفرین ہے ان لوگوں پر جو محفل کا بھی خیال رکھتے ہیں۔ لیکن اپنا دامن آلودہ کیے بغیر گھر بھی لوٹ کر آتے ہیں۔

بات سجدوں کی نہیں خلوصِ دِل کی ہوتی ہے اقبالؔ

ہر میخانے میں شرابی، ہر مسجد میں نمازی نہیں ہوتا

ایسے ہوٹلوں میں کئی دن ٹھہرنے کے بعد جب مسلمان چیک آؤٹ کرا رہے ہوتے ہیں تو ان کے کمرے میں سجی سجائی بار اسی حالت میں دیکھ کر عملہ بھی حیران رہ جاتا ہے۔ وہ بھی سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ یہ لوگ کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں۔ کہ جام بھی ہے مینا بھی ہے اور تنہائی بھی ہے۔ لیکن جو ہاتھ اللہ کی بارگاہ میں اُٹھ جائیں ان ہاتھوں میں جام و ساغر کیسے آ سکتا ہے۔ اسی طرح مشرقی ایشیا سے لے کر یورپ، امریکہ اور دوسرے ممالک کے ہوٹلوں میں مساج کرنے والی خواتین کے نمبر لکھے ہوتے ہیں۔ بلکہ مہمانوں کو فون کر کے اس طرح کی سروس کی آفر کی جاتی ہے۔ دنیا بھر کے ہوٹلوں میں بار، کسینیو، مساج روم اور عیاشی کے دوسرے سامان موجود ہوتے ہیں۔

لیکن حرمین شریفین کے تمام ہوٹل ان ہوٹلوں سے الگ، منفرد اور ممتاز ہیں۔ ان ہوٹلوں میں ڈبل بیڈ نہیں بلکہ سنگل بیڈ ہوتے ہیں۔ غسل خانے میں وضو کرنے کی جگہ بنی ہوتی ہے۔ طہارت کے لیے مسلم پائپ نصب ہوتا ہے۔ شرابوں کے بجائے چائے بنانے کا سامان ہوتا ہے۔ قیمتی اشیاء کو محفوظ کرنے کے لیے سیف بنا ہوتا ہے۔ مقاماتِ مقدسہ کی زیارت کے لیے دستیاب سروس کے فون نمبر درج ہوتے ہیں۔ سائیڈ ٹیبل پر قرآن مجید رکھا ہوتا ہے۔ کمرے کے کونے میں جائے نماز بچھی ہوتی ہے۔ ٹی وی پر خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کی لائیو ریکارڈنگ یا تلاوتِ قرآن چلتی رہتی ہے۔ نماز کے اوقات درج ہوتے ہیں۔ ہر ہوٹل میں با جماعت نماز ادا کرنے کا اہتمام ہوتا ہے۔ جہاں پانچ وقت با جماعت نماز ادا کی جاتی ہے۔

ان مقدس شہروں میں غیر ذبیحہ اور حرام کھانے کا گزر ہی نہیں ہے۔ آپ کسی بھی دُکان یا ریستوران سے کچھ بھی خرید کر بے فکر ہو کر کھا پی سکتے ہیں۔ یہاں سو فیصد مسلمان ہوتے ہیں لہٰذا آپ بغیر جھجک کے کسی سے بھی سلام دعا کر سکتے ہیں۔ خواتین برقعے میں ملبوس ہوتی ہیں اور ان کا بے پناہ احترام کیا جاتا ہے۔ وہ بے خوف خطر جہاں چاہے آ جا سکتی ہیں۔ یہاں ایک مکمل برادرانہ اور باہمی محبت و احترام والا ماحول ملتا ہے۔ یہ سب کچھ میرے لیے انوکھا، خوشگوار اور اطمینان بخش تھا۔


حرمین شریفین میں وقت کا صحیح استعمال



ہمارا ناشتہ اور رات کا کھانا ہمارے پیکج کا حصہ تھا۔ لیکن ہمیں یہ علم نہیں تھا کہ یہ کھانا کیسا اور کس معیار کا ہو گا۔ ہم نے محض سہولت کی خاطر یہ اضافی رقم ادا کر دی تھی۔ در اصل حرمین شریفین میں قیام کے دوران عبادات اور زیارتوں کے بعد کسی اور کام کے لیے وقت ہی نہیں ملتا ہے۔ چھ نمازوں کی ادائیگی اور مسجد میں آنے جانے کے اوقات کے بعد سونا تک نصیب نہیں ہوتا ہے۔ بے حد تھکن ہو جاتی ہے۔ اکثر زائرین اس سخت شیڈول کی وجہ سے بیمار پڑ جاتے ہیں۔ دوران حج غیر ضروری سرگرمیوں کے لئے نہ وقت بچتا ہے اور نہ ایسی سرگرمیاں اختیار کرنی چاہیے ہیں۔ ان اضافی سرگرمیوں میں شاپنگ، دوستوں کے ساتھ گپ شپ، مقاماتِ مقدسہ کی زیارت اور کھانے پینے کے بندوبست میں بہت زیادہ بھاگ دوڑ شامل ہیں۔ یہاں میں اس بات کی وضاحت کر دوں کہ مقاماتِ مقدسہ کی زیارت غیر ضروری کیسے ہو سکتی ہے۔ میں مانتا ہوں کہ ان مقامات کی زیارت باعثِ اجر و ثواب اور وجہ راحتِ قلب ہوتی ہے۔ یہ کسی بھی لحاظ سے غلط یا غیر شرعی نہیں ہے۔ بلکہ مقامات مقدسہ کی زیارت ہر صاحبِ ایمان اور عاشق رسولﷺ کے دل کی چاہ ہوتی ہے۔ لیکن عازمین کو یہ ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ان کے لیے حج اور اس کے تمام ارکان کی ادائیگی سب سے زیادہ ضروری اور اہم ہے۔ دوسرسے نمبر پر خانہ کعبہ اور مسجد نبوی میں نمازیں اور دیگر عبادات ہیں۔ ان کا اتنا زیادہ اجر و ثواب ہے کہ وہاں رہ کر یہ یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ کوئی نماز قضا یا ان دو مساجد سے باہر نہ ادا ہونے پائے۔ تیسرے نمبر پر عمرہ اور طوافِ خانہ کعبہ ہے۔ اگر مکہ میں قیام ہو تو زیادہ سے زیادہ مرتبہ طواف کرنے کی سعادت حاصل کرنی چاہیے۔ اس کا بھی بے حد اجر و ثواب ہے۔

چوتھے نمبر پر خانہ کعبہ میں موجود رہنا اور اللہ سے دعائیں مانگتے رہنا بہترین عمل ہے۔ دعا مانگنے کے لیے اس سے بہتر جگہ اور کوئی نہیں ہے۔ اتنا اجر اور اتنا ثواب اور کہاں ملے گا۔

سب سے بڑی اور اہم بات یہ ہے کہ جب نظروں کے سامنے خانہ کعبہ ہو اور گنبدِ خضراء ہو تو پھر نگاہ کسی اور طرف اُٹھ بھی کیسے سکتی ہے۔

مکہ مکرمہ کے ارد گرد تاریخی اور مقدس مقامات کا شمار نہیں ہے۔ لیکن ان میں اللہ کے گھر سے بڑھ کر کوئی نہیں ہے۔ وہی مطمحِ نظر، وہی قبلہ، وہی کعبہ، وہی مسجد، وہی منبر، وہی ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک، وہی ہمارے دل کا قرار، وہی مقامِ قیام و سجود، وہی جائے گفت و شنید، وہی مقام ابراہیم، وہی جنت سے لایا حجر اسود، وہی فرشتوں کی آمد کی جگہ، وہی مظہرِ نورِ کبریا جلوہ نما ہوتا ہے۔ اُسے دیکھتے رہیں اور اس کے نور کو سمیٹتے رہیں۔

اسی طرح مدینہ منورہ میں بھی مسجد نبوی کے علاوہ مقدس اور تاریخی مقامات کی کمی نہیں ہے۔ ہر مسلمان کے دل میں یہ خواہش کلبلا رہی ہوتی ہے کہ ان تمام جگہوں کی زیارت کی سعادت حاصل ہو۔ لیکن ایسا نہ ہو کہ اس زیارت کی وجہ سے مسجد نبوی کی نماز سے محروم نہ رہ جائیں۔ اللہ کے محبوب نبیﷺ کی اس محبوب جگہ سے دور جا کر اس کے قرب سے دور نہ ہو جائیں۔ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے حضور حاضر رہنا ہے اور ایک ایک لمحہ عبادت میں صرف کرنا ہے۔ اپنے دماغ کو ادھر ادھر بھٹکنے نہیں دینا ہے۔ اپنی توجہ ایک ہی جانب مرکوز رکھنی ہے۔ صرف اس کی طرف جو سب کچھ دے سکتا ہے۔ سبز گنبد اور اس کے والی سے دُور جائیں بھی جائیں کہاں کہ وہی تو ملجا ہے وہی تو ماوا ہے۔ کملی والےﷺ کے آستانے سے بڑھ کر کون سی جگہ زیارت کے قابل ہو سکتی ہے۔

ہم نے وقت کی قلت کو مد نظر رکھتے ہوئے ہوٹل کے کھانے کو ترجیح دی تھی۔ قدرے مہنگا ہونے کے باوجود اس سے بہت فائدہ ہوا۔ ایک تو کھانوں میں بہت ورائٹی تھی۔ درجنوں ڈشیں موجود ہوتی تھیں۔ ان میں عربی، افریقی، ہندوستانی اور یورپی سبھی قسم کے کھانے موجود ہوتے تھے۔ کھانے کے ساتھ ہر قسم کے مشروبات، جوس، سلاد، دہی، چٹنی، اچار، چائے اور کافی سبھی کچھ ہوتا تھا۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ کھانا حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق تیار ہوتا تھا۔ اور صاف ستھرے ماحول میں پیش (Serve) کیا جاتا تھا۔ وقت پر کھانا تیار ملتا تھا اور کہیں دُور جانے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی تھی۔

اتنے زیادہ کھانوں کی کسی کو ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ نہ اتنے کھانے کوئی کھا سکتا تھا۔ تھکے ہارے اور عمر رسیدہ عازمین کتنا کچھ کھا لیتے ہوں گے۔ کئی دفعہ تو ہم سرے سے کھانا کھانے جاتے ہی نہیں تھے۔ آبِ زمزم اور چائے سے ہی گزارا ہو جاتا تھا۔ یا پھر ایک آدھ سیب یا کیلا ہی کافی ہوتا تھا۔ یہ سہولت بہرحال موجود تھی۔ صبح آٹھ نو بجے ناشتہ کرنے کے بعد عشاء کی نماز کے بعد ڈنر ہوتا تھا۔ دوپہر میں اول تو بھوک نہیں لگتی تھی۔ اگر محسوس ہو تو کمرے میں موجود ہلکی پھلکی چیزوں کو کھا کر گزارا ہو جاتا تھا۔

بہت سے عازمین باہر سے کھانا خرید کر کھاتے تھے۔ اُن تندور ہوٹلوں میں بیٹھنے کی جگہ نہیں ہوتی ہے۔ لوگ قطار میں کھڑے ہو کر سالن اور روٹیاں خریدتے ہیں۔ کبھی باہر فٹ پاتھ پر، کبھی ہوٹل کے کمرے میں اور کبھی صحنِ حرم میں بیٹھ کر کھا رہے ہوتے ہیں۔ حرمین شریفین کے گرد و نواح میں ہر جگہ ہجوم ہوتا ہے۔ ہر دُکان اور ریستوران لوگوں سے بھرا ہوتا ہے۔ سکون سے بیٹھنے کی جگہ آسانی سے نہیں ملتی۔ اسی طرح کھانے خریدنے کے لیے رش اور دھکم پیل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سب سے بڑھ کر کھانے کے معیار اور صفائی ستھرائی کا کوئی بھروسہ نہیں ہوتا۔ کھانے کے معیار کی بات نہ بھی کی جائے تو تینوں اوقات میں ہوٹل سے نکل کر ان ریستورانوں کے آگے قطار میں کھڑے ہو کر کھانا خریدنے میں کتنا وقت صرف ہوتا ہو گا۔ جبکہ وقت ہی وہاں سب سے قیمتی اور سب سے نایاب سرمایہ ہوتا ہے۔ یہ وقت اللہ اور اس کے حبیب کے حضورﷺ حاضری، عبادت اور نمازوں میں صرف کرنے کی ضرورت ہے۔

تاہم جہاں کوئی اور چارہ نہ ہو وہاں کھانے کے بغیر بھی گزارہ نہیں ہے۔ زندگی کے ہر معاملے میں میانہ روی اور اعتدال کی ضرورت ہے۔ دوران حج بہت سے عازمینِ حج اس وجہ سے بیمار پڑ جاتے ہیں کہ وہ عبادات میں اتنے مصروف ہو جاتے ہیں کہ اپنی نیند اور خوراک کا خیال نہیں رکھ پاتے۔ آہستہ آہستہ تھکاوٹ، نیند کی کمی اور بھوک ان کی قوتِ مدافعت پر اثر انداز ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ ایسے زائرین پہلے کمزوری اور تھکن کا شکار ہوتے ہیں اور پھر بیمار ہو جاتے ہیں۔ یہ بیماری بعض اوقات اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ وہ حرمین شریفین میں نمازیں ادا کرنے، حتیٰ کہ مناسکِ حج ادا کرنے کے بھی قابل نہیں رہتے ہیں۔ عام بیماری سے تو شاید ہی کوئی بہت خوش قسمت حاجی بچ پاتا ہو۔ کوئی نہ کوئی بیماری تقریباً ہر حاجی کے حصے میں آ ہی جاتی ہے۔ وہ خواتین و حضرات خوش قسمت ہوتے ہیں جو ان بیماریوں کے حملوں سے جلد چھٹکارا پا لیتے ہیں۔ اور اس بیماری کی وجہ سے ان کے ارکانِ حج متاثر نہیں ہوتے ہیں۔

اس سے زیادہ بد قسمتی کیا ہو گی کہ انسان ساری زندگی کی منصوبہ بندی کے بعد زندگی میں صرف ایک بار حج کے لیے جائے اور وہاں پہنچ کر بیماری یا کسی اور وجہ سے حج ادا نہ کر سکے۔ عبادتوں، نمازوں اور حج کو شرفِ قبولیت حاصل ہوتا ہے یا نہیں، اس کا حال صرف اللہ کو معلوم ہے۔ لیکن کوئی بھی عبادت پوری صحت اور صفائی کے ساتھ انجام دینے کا اپنا مزا اور اطمینان ہے۔

صبح تین بجے نماز تہجد سے لے کر رات نو بجے نماز عشاء کی ادائیگی تک ہم تھک کر چور ہو چکے تھے۔ عشاء کے بعد رات نو بجے کھانے کے کمرے میں جانے کی بالکل ہمت نہیں تھی۔ جی چاہتا تھا کہ سیدھا کمرے میں جائیں اور بستر پر جا گریں۔ لیکن کھانا بھی ضروری تھا۔ لہٰذا کھانے پینے اور آنے جانے میں مزید ایک گھنٹہ صرف ہو گیا۔

بمشکل تین چار گھنٹے سو پائے ہوں گے کہ الارم بج اٹھا۔ اللہ کے نبیﷺ کے دربار میں حاضری کا وقت آ گیا تھا۔ ماتھے پر کوئی بل ڈالے بغیر، کوئی شکوہ شکایت کیے بغیر ہم اٹھ کر تیار ہوئے اور سوئے حرم روانہ ہو گئے۔ باہر سڑک پر وہی کل والا خاموش سیلاب رواں دواں تھا۔ ہر گلی، ہر سڑک اور ہر عمارت سے جیسے نمازی اُبل اُبل کر باہر آ رہے تھے اور ایک ہی رُخ بہنے والے اس سیلاب کا حصہ بنتے جا رہے تھے۔ ان کی جبینیں اللہ کے حضور سجدہ ریز ہونے کے لیے بے تاب تھیں۔ یہ عاشقانِ رسولﷺ کا قافلہ تھا۔ اُن کی آنکھیں آقائے دو جہاںﷺ کے روضے کی مشتاق تھیں۔ رات کے اس پہر اتنا بڑا اور اتنا خاموش مجمع میں نے پہلی دفعہ دیکھا تھا۔

حرمین شریفین میں نماز تہجد کی باقاعدہ اذان دی جاتی ہے اور با جماعت نماز ہوتی ہے۔ گویا اللہ کے ان دو مقدس گھروں میں دن میں چھ مرتبہ اذان اور چھ مرتبہ با جماعت نماز ادا ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ تقریباً ہر فرض نماز کے بعد کسی نہ کسی جنازے کی نماز بھی شامل ہو جاتی ہے۔ ایک عام زائر نے زندگی بھر میں اتنے جنازے نہیں پڑھے ہوتے جتنے حرمین شریفین کے چند ہفتے کے قیام کے دوران پڑھ لیتا ہے۔

تہجد کے بعد وقفہ اور پھر نماز فجر ہوتی ہے۔ سورج طلوع ہو کر جب قدرے بلند ہوتا ہے تو اس کے بعد نماز اشراق ادا کی جاتی ہے۔ بہت سے نمازی یہ نماز ادا کر کے گھر لوٹتے ہیں۔ نماز فجر کے بعد مردوں کو ریاض الجنۃ میں داخلے اور دو رکعت نفل ادا کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ ریاض الجنۃ رسول پاکﷺ کے روضہ اقدس سے ملحق وہ جگہ ہے جہاں آنحضورﷺ کا منبر اور اس کے سامنے کا حصہ ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں حضور پاکﷺ نماز ادا کرتے تھے۔ اسلام کی تعلیم وتربیت، دینی اور شرعی مسائل کی وضاحت اور نوزائیدہ اسلامی مملکت کے اہم فیصلے یہاں صادر فرمایا کرتے تھے۔ یہ جگہ اسلام کی ابتدائی درسگاہ اور مرکزی مقام تھا۔ یہیں حضورﷺ کا حجرہ مبارک بھی تھا۔ حضور پاکﷺ کے فرمان کے مطابق ریاض الجنۃ (جیسا کہ اس کے نام سے بھی ظاہر ہے) جنت کا ایک باغ ہے۔ اس مقدس ترین مقام پر دو رکعت نوافل ادا کرنے والے پر دوزخ کی آگ حرام کر دی جاتی ہے۔ اُس کے لیے بہشت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ یہ عاشقانِ رسولﷺ کے لیے قربِ رسولﷺ حاصل کرنے کی بہترین جگہ ہے۔ کیونکہ یہ نبی پاکﷺ کے روضے سے ملحق اور اُن کے منبر کے سامنے واقع ہے۔ یہ جگہ نبیﷺ کی خوشبو سے رچی ہوئی ہے۔ یہاں صرف مقدر والے ہی پہنچ پاتے ہیں۔ گناہگاروں کو یہ مقام اپنے قریب بھی نہیں پھٹکنے دیتا۔

میں بھی ان گناہگاروں میں شامل تھا۔ جسے نبیﷺ کی خوشبو سے معمور اس باغِ بہشت کے دروازے سے ہی دھتکار دیا گیا۔ پہلے دن تو ہمیں علم ہی نہیں تھا کہ ریاض الجنۃ میں جانے کے لیے مردوں اور خواتین کے لیے کون کون سے اوقات مقرر ہیں۔ بعد میں معلوم ہوا کہ نماز فجر کے بعد مرد اور نمازِ عشاء کے بعد خواتین اندر جا سکتی ہیں۔ میں اگلی صبح کا بے چینی سے انتظار کرنے لگا۔ مسجد نبویؐ کی زیارت، اس میں نمازیں ادا کرنے کی سعادت، روضہ رسولﷺ کا دیدار اور اس سے آنکھوں کو ٹھنڈک اور دل کو فرحت اور پہچانے کے بعد میرے شوقِ جستجو کی اگلی منزل جنت کا ایک باغ یعنی ریاض الجنۃ تھی۔

قیامِ مدینہ کے دوران میں ہم اکثر نمازِ عصر کے لیے مسجد جاتے اور عشاء پڑھ کر ہی واپس آتے تھے کیونکہ بار بار کا آنا جانا تھکا دیتا تھا۔ اس معمول میں لبیک والوں نے مداخلت کر دی۔ انہوں نے سخت اور تھکا دینے والے شب و روز میں مداخلت کرتے ہوئے نمازِ عصر کے بعد ہوٹل کے تہہ خانے میں تربیتی نشستوں کا اہتمام شروع کر دیا۔ اب ہم مغرب کے لیے مسجد جاتے اور عشاء پڑھ کر واپس آتے۔ پہلے دو تین دن کے بعد اہلیہ عشاء کے بعد گھر واپس آنے کے بجائے ریاض الجنۃ میں چلی جاتیں۔ میں اکیلا کھانے کے کمرے میں جاتا۔ خود کھاتا اور اہلیہ کے لیے لا کر کمرے میں رکھ دیتا۔ وہ نوافل ادا کر کے آتیں تو کبھی ٹھنڈا کھانا کھا کر صبر شکر کر لیتیں اور کبھی تھکن سے مغلوب ہو کر کچھ کھائے بغیر سو جاتیں۔


ریاض الجنۃ میں داخلے کی کوشش ناکام



نماز فجر کے بعد میں نے مسجد کے اگلے حصے کا رُخ کیا۔ جہاں دنیا کے عظیم ترین انسان کی آخری آرام گاہ اور برکتوں اور رحمتوں سے بھرا ریاض الجنۃ ہے۔ آنحضورﷺ کے روضے کی زیارت کے لیے واقع راہداری سے پہلے ریاض الجنۃ کا دروازہ ہے۔ اس دروازے کے باہر دور تک ایک جم غفیر جمع تھا۔ سینکڑوں لوگ دروازے کے باہر بیٹھے ہوئے تھے۔ باقی ان کے ارد گرد جم گھٹا لگا کر کھڑے تھے۔ پولیس کے سپاہی دروازے کے پاس پہرہ دے رہے تھے۔ ہر شخص کی نظر دروازے پر جمی ہوئی اور آنکھوں میں شوق اور عقیدت کی شمع روشن تھی۔ وہاں کوئی قطار کوئی راہنما اور سیدھا راستہ نہیں تھا۔ میں جس جانب سے بھی آگے بڑھنے کی کوشش کرتا دھکیل کر پیچھے دیا جاتا۔ کوئی یہ بتانے کے لیے تیار نہیں تھا کہ اندر جانے کا درست راستہ اور صحیح طریقہ کیا ہے۔ کوئی کچھ کہنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ سب نظریں اس دروازے پر مرکوز تھیں۔

ایسے میں میری طرف کون دیکھتا۔ جس کے سامنے رنگ و نور کا سیلاب ہو، وہ میرے گناہوں کی سیاہی سے اٹے چہرے کی طرف کیوں دیکھے گا۔ کس کی نظر روشنیوں سے ہٹ کر تاریکی پر ٹکے گی۔ کون میرے اشکوں پر توجہ دے گا۔ مجھ جیسے گناہگار سے کسے ہمدردی ہو سکتی ہے۔

لہٰذا مجھے دھکے لگتے رہے۔ ایک طرف سے دھکا لگتا تو دوسری جانب چلا جاتا۔ وہاں سے دھتکارا جاتا تو تیسری جانب گرنے لگتا۔ ان دھکوں اور دھتکار میں میں اس در کے قریب ہونے کے بجائے دور ہوتا چلا گیا۔ بالآخر بے نیل و مرام سر جھکائے ہوٹل کی طرف چل دیا۔

اس وقت جو میری حالت تھی وہ میں ہی جانتا ہوں۔ میں چاروں طرف سے مایوسی کے اندھیروں میں گھِر چکا تھا۔

روشنی کی صرف ایک کرن باقی تھی۔ وہ یہ کہ میرے شوق کی شمع بدستور روشن تھی۔ میرے اندر کی آگ، میری لگن اور میرا عشق اپنی جگہ پر قائم تھا۔ مدینے کی پر نور فضاؤں کی تجلیاں اسی طرح روح پر چھائی ہوئی تھیں۔ ان ہواؤں کی خوشبو اور ان فضاؤں کی روشنیوں میں ہر دم اپنے ارد گرد محسوس کرتا تھا۔ میرے گناہوں کی وجہ سے حضورﷺ کی محبتوں کا در میرے لیے بند تھے۔ لیکن میرا دل ان کی محبت، ان کی عظمت اور ان کے عشق کی روشنی سے اسی طرح فروزاں تھا۔ مسجد نبوی کے اندر، اس کے منوّر صحن میں بلکہ مدینہ کی اجلی فضاؤں میں نبیﷺ کی تجلیاں میری آنکھوں کو خیرہ کرتی رہتی تھیں۔ اس لیے میرے دل میں امید کی شمع ابھی بجھی نہیں تھی۔ جہاں مجھے اپنے گناہوں کا احساس تھا وہاں رحمۃ اللعالمینﷺ کی بے پناہ اور بے انداز رحمتوں کا بھی علم تھا۔ میں کتنا ہی گنہگار اور سیاہ کار تھا، اُمتی تو اُن کا تھا، جنہیں دو جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا۔ مجھے اس وقت کا انتظار تھا جب میری التجا ان کے در پر دستک دے دیتی اور میرے لیے ان کی رحمت کے دروازے کھول دئے جاتے۔

ناشتے کے بعد میں اپنے ہوٹل کے عقب میں واقع ہائی وے کے دوسری جانب نکل گیا۔ وہاں نسبتاً چھوٹے ہوٹل، ریستوران، دکانیں لانڈری، چھوٹے چھوٹے بے ترتیب مکان، تنگ گلیاں اور مقامی لوگوں سے زیادہ پاکستانی اور بنگالی نظر آئے۔ یہ تمام دُکانیں اور کاروبار بھی یہی لوگ چلاتے نظر آئے۔ وہ الگ بات ہے کہ سعودیہ کے قانون کے مطابق ان دُکانوں کا مالک کوئی مقامی شخص ہی ہو سکتا ہے۔

ہمیں ایک پاکستانی بیکری نظر آئی۔ باہر کی نسبت اندر سے کافی کشادہ اور صاف ستھری تھی۔ اس میں تازہ مٹھائیاں، ، ملک شیک، لسی، قلفی، ملتانی حلوے، چاٹ، پکوڑے، سموسے اور ایسی ہی دوسری مزے دار اور چٹپٹی اشیائے خورد و نوش سجی ہوئی تھیں۔ انہیں دیکھ کر منہ میں پانی بھر آیا۔ کیونکہ آسٹریلیا میں اب تک ایسی دکانیں ندارد ہیں۔ بس صاحب! اس کے بعد ہر روز ہمارا دوپہر کا کھانا سمجھ لیں، ریفریشمنٹ سمجھ لیں یا پھر دوسرا ناشتہ سمجھ لیں، یہیں ہوتا تھا۔ کسی دن چاٹ، کسی دن دہی بھلے، کسی دن سموسے اور چائے کبھی لسی، کبھی ملک شیک، کبھی قلفی اور کبھی فالودہ۔ ہماری ہر صبح کو شیریں بناتا رہا۔ وہاں سے کچھ مٹھائیاں اور سوہن حلوہ خرید کر ہم نے اپنے کمرے میں بھی رکھ لیا۔ اب صفائی کرنے والے بنگالی ملازم کو ٹپ کے ساتھ ساتھ یہ مٹھائیاں بھی دیتے تھے۔ وہ بھی شکریے کے ساتھ پورا ڈبہ ہی اٹھا کر چل دیتا۔

ان دُکانوں میں ایک دھوبی کی دکان بھی تھی جس کے نرخ مزاجِ یار کی طرح ہر روز بدلتے رہتے تھے۔ جیسے جیسے زائرین میں اضافہ ہوتا جاتا تھا ویسے ویسے اس کے نرخوں میں بھی اضافہ ہوتا جاتا تھا۔ لیکن کیا کیجئے حرمین شریفین میں قیام کے دوران کوئی بھی لباس دوسرے دن پہننے کے قابل نہیں رہتا تھا۔ پسینے اور گرد و غبار سے بدن اور لباس میلا چیکٹ ہو جاتا تھا۔ اس لیے دن میں کئی دفعہ نہانا پڑتا تھا۔ جہاں تک لباس کا تعلق ہے۔ وہاں صرف شلوار قمیض ہی استعمال ہوتی تھی۔ میں جو چار پانچ جوڑے لایا تھا وہ کم پڑ رہے تھے۔ کیونکہ روزانہ بلکہ بعض اوقات دن میں دو مرتبہ بھی لباس تبدیل کرنا پڑتا تھا۔


آبِ زم زم



اتنا پسینہ مجھے زندگی میں نہیں آیا ہو گا جتنا ایامِ حج میں بہایا۔ اسی طرح جتنا پانی ہم نے ان دنوں پیا اتنا شاید آسٹریلیا میں پورے سال میں بھی نہیں پیتے ہوں گے۔ مکہ مکرمہ کے علا وہ مدینہ منورہ میں بھی ہم زیادہ تر آب زمزم ہی پیتے تھے۔ جتنی دیر مسجد نبویﷺ میں گزارتے تھے بہت ٹھنڈا اور عام درجہ حرارت والا دونوں طرح کا آبِ زمزم وافر دستیاب رہتا تھا۔ مسجد کے اندر اور باہر صحن میں جگہ جگہ پر یہ آبِ رحمت و صحت موجود ہے۔ اس کے ساتھ ڈسپوز ایبل گلاس رکھے ہوتے ہیں۔ زائرین ہر دفعہ نیا گلاس استعمال کرے پاس رکھی ہوئی بن میں پھینک دیتے ہیں۔ یہ بن تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد خالی کیے جاتے ہیں۔ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے قیام کے دوران میں حرمین شریفین میں آبِ زمزم کی کبھی کمی نہیں دیکھی۔ بہت سارے لوگ یہ پانی ضائع بھی کرتے ہیں۔ وہ اس سے ہاتھ منہ دھونے لگ جاتے ہیں۔ کئی ایک کو میں نے باقاعدہ اس سے وُضو کرتے دیکھا۔ بعض لوگ گرمی کا زور کم کرنے کے لیے اپنے اوپر زم زم اُنڈیل رہے ہوتے ہیں۔ مکہ مکرمہ سے لا کر مدینہ میں اس بڑی مقدار میں آب زمزم ہمہ وقت دستیاب رکھنا بے شک حکومت کا ایک قابلِ ستائش کارنامہ ہے۔ مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ میں مقیم زائرین نہ صرف یہ پانی حرم شریف کے اندر پیتے ہیں بلکہ بڑی بڑی بوتلوں میں بھر کر گھر بھی لے جاتے ہیں۔

مسجد نبویﷺ کے احاطے کے ایک کونے میں بہت بڑے ٹینک موجود ہیں۔ وہاں ہر وقت لوگ پانی بھرتے نظر آتے ہیں۔ یہ ٹینک اس گیٹ کے بالکل قریب تھا جو ہمارے آنے جانے کا راستہ تھا۔ ہم لوگ بھی چند چھوٹی چھوٹی بوتلیں بھر کر ساتھ لے جاتے تھے۔ یوں یہ پانی ہوٹل میں بھی کام آتا رہتا تھا۔ حرمین شریفین کے قیام کے دوران ہم صرف آبِ زمزم ہی پیتے رہے۔ آب زمزم بھی اللہ کی قدرت کا ایک خوبصورت مظہر ہے۔ ہزاروں برس پرانے اس چشمے میں پانی کی آمد کا سلسلہ ہمیشہ جاری و ساری رہتا ہے۔ دنیا بھر میں تمام کنوئیں ایک مخصوص مدت کے بعد خشک ہو جاتے ہیں۔ یا ان میں پانی کم ہو جاتا ہے۔ لیکن وادی مکہ جیسی خشک اور بے آب و گیاہ پہاڑی علاقے میں واقع اس کنوئیں پر اللہ کی ایسی رحمت ہے کہ اس کے ٹھنڈے میٹھے اور انتہائی صحت افزا پانی میں کبھی کمی نہیں ہوتی ہے۔

میرا ایک دوست محمد اعجاز جدہ میں مقیم ہے۔ وہ جب بھی مکہ مکرمہ جاتے ہیں تو بڑی بڑی پلاسٹک کی بوتلوں میں آبِ زمزم بھر کر ساتھ لے جاتے ہیں۔ وہ جدہ میں رہ کر بھی آبِ زمزم ہی استعمال کرتے ہیں۔ اس طرح لاکھوں زائرین اور مقامی لوگ نہ صرف یہ پانی بے تحاشا استعمال کرتے ہیں بلکہ دنیا بھر میں لے کر جاتے ہیں۔ جیسا کہ میں نے اوپر عرض کیا ہے یہ ضائع بھی ہوتا ہے۔ لیکن اس میں کبھی کمی نہیں ہوتی۔ یہ پانی، اس کی افراط اور اس کی برکات بے شک اللہ کی نشانیوں میں سے ایک ہیں۔

آب زمزم جنت کے چشموں میں سے ایک ہے۔ یہ سب سے پہلا انعام ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کی دعا کے بعد ان کو عطا فرمایا۔ یہ مبارک کنواں اس شہر کی آبادی کا سبب بنا۔ آبِ زمزم روئے زمین پرسب سے عمدہ، سب سے افضل اور سب سے برکت والا پانی ہے۔ یہ چشمہ زمین کے سب سے مقدس اور محترم حصے پر واقع ہے۔ اس پانی سے سرور کائناتﷺ کا قلبِ اطہر ایک سے زیادہ مرتبہ دھویا گیا۔ اس پانی کی صفت یہ ہے کہ یہ بھوکے کے لیے کھانا اور پیاسے کے لیے پانی ہے۔ یہ پانی سردرد اور بینائی کے لیے اکسیرکا کام کرتا ہے۔ اسے جس نیت سے پیا جائے وہی کام انجام دیتا ہے۔ یہ نیک لوگوں کا مشروب ہے۔ احباب و اقرباء کے لیے بہترین تحفہ ہے۔ ضیافت کے لیے عمدہ ہے۔ جسم اور دماغ کو توانائی بخشتا ہے۔ یہ چشمہ پانچ ہزار سال سے بھی پرانا ہے۔ لیکن اس میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی ہے۔

میں اور میری فیملی جب بھی چھٹیوں میں پاکستان جاتے ہیں تو انتہائی احتیاط کے باوجود اور اچھی کمپنی کا بوتلوں میں بند پانی پینے کے بعد بھی اکثر پیٹ کی بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ میری زندگی کا بڑا حصہ یہی پانی پیتے گزرا ہے۔ در اصل آسٹریلیا میں خالص پانی پینے سے ہمارے جسم میں جراثیموں کے خلاف قوت مزاحمت ختم ہو چکی ہے۔ لہٰذا جراثیم زدہ پانی کا ایک گھونٹ ہی ہمیں ہسپتال پہچانے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ یہ جراثیم زدہ پانی کراچی سے لے کر پشاور تک ہر جگہ ملتا ہے۔ جسے لوگ صحت مند پانی سمجھ کر پیتے رہتے ہیں۔ لیکن سعودیہ میں ہم آب زمزم اس طرح پیتے رہے جیسے اپنا اندر صاف کر رہے ہوں یا پیٹ کا ڈرم بھر رہے ہوں۔ حالانکہ یہ کبھی بھرتا نہیں تھا۔ جتنا زیادہ پیتے تھے اتنی ہی جلدی یہ خالی ہو جاتا تھا۔ ہم نے ایک گھنٹے میں چھ چھ بوتلیں بھی پی لیں۔ خصوصاً َمنیٰ، عرفات جمرات میں جب پیدل چلتے تھے تو ہر دس منٹ بعد پانی کی ایک بوتل پی جاتے تھے۔


سعودی عرب میں صفائی کا انتظام



پانی کی یہ خالی بوتلیں مکہ، مدینہ منیٰ، عرفات، عزیزیہ اور جمرات میں ہر جگہ ایسے بکھری ہوتی ہیں جیسے ان کا فرش بچھا ہوا ہو۔ میں نے اپنی استعمال شدہ بوتلیں بیگ میں رکھنے کی کوشش کی تاکہ انہیں ڈسٹ بن میں پھینک سکوں۔ بیگ بھر جاتا تھا لیکن ڈسٹ بن نہیں ملتا تھا۔ ہمیں آسٹریلیا کی عادتیں پڑی ہوئی تھیں جہاں اس طرح کوئی کچرا زمین پر نہیں پھینکتا ہے۔

مجھے یاد ہے بہت عرصہ پہلے سڈنی کے سٹی سنٹر کے ایک فٹ پاتھ پر میں نے سگریٹ پھینکا اور پاؤں سے مسل دیا۔ میرے پیچھے آنے والے سوٹ میں ملبوس ایک شخص نے وہ ٹکڑا اٹھایا اور چند قدم کے فاصلے پر واقع ڈسٹ بن میں جا کر پھینک دیا۔ اس نے مجھ سے کچھ کہنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی۔ لیکن اس کا کچھ نہ کہنا بھی بہت کچھ کہہ گیا تھا۔ اس کے بعد میں نے ہمیشہ اس بات کا خیال رکھا کہ سگریٹ تو درکنار اس کی راکھ بھی کبھی یوں لاپرواہی سے نہ پھینکوں۔

مسجد نبویﷺ اور خانہ کعبہ میں صفائی ستھرائی کا اعلیٰ انتظام موجود ہے۔ کچرا پھینکنے کے لیے بن جگہ جگہ موجود ہیں۔ جنہیں ہر تھوڑی دیر بعد خالی بھی کیا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ سینکڑوں خدام ہر وقت وہاں موجود رہتے ہیں۔ وہ مسجد کے اندر اور اس کے صحن میں پڑا کاغذ کا ایک ٹکڑا بھی فوراً اُٹھا لیتے ہیں۔ ان خدام کو زائرین نہایت دریا دلی سے نوازتے رہتے ہیں۔ وہ بھی ہر نماز کے بعد راستے میں کھڑے ملتے ہیں اور دورانِ طواف بار بار آپ کے سامنے آتے ہیں۔ مجھے یقین ہے ان خدام پر اللہ کا خصوصی فضل ہے۔ ایک تو انہیں انتہائی مقدس ترین جگہ پر صفائی کا موقع ملا اور دوسرا یہ کہ دنیا وی دولت کی بھی ان کو کوئی کمی نہیں ہے۔ تیسرے یہ کہ انہیں حرمین شریفین میں نماز ادا کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ جو انتہائی اجر و ثواب کا کام ہے۔ چوتھے یہ کہ انہیں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی قربت نصیب ہے جو ہر کسی کے نصیب میں نہیں ہے۔ لہٰذا یہ خدام ہر لحاظ سے خوش قسمت ہیں۔

اس طرح حرمین شریفین تو ہر وقت صاف ستھرے اور چمکتے دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن جوں ہی ان مساجد سے باہر نکلیں تو منظر بدل جاتا ہے۔ ایک تو خانہ کعبہ اور مسجد نبویﷺ کے صحن تیز دھوپ اور سخت گرمی میں بھی ٹھنڈے ہوتے ہیں۔ ان فرشوں کو اس طرح بنایا گیا ہے کہ ان پر گرمی کا اثر نہیں ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں مسجد نبویﷺ کے صحن میں ایستادہ دیو قامت چھتریوں سے پانی کا باریک فوارہ بھی ماحول کو یخ بستہ رکھتا ہے۔ لیکن جونہی ان دو عظیم مساجد کے صحن سے باہر نکلیں تو نہ صرف زمین تپتی ہوئی ملتی ہے بلکہ آسمان بھی آگ برسا رہا ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی بے ترتیبی اور بد نظمی کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہر نماز سے پہلے اور بعد میں اس بد نظمی کا سامنا کرتے ہوئے مسجد جانا اور آنا پڑتا ہے۔ فٹ پاتھ اور سڑکیں کچرے خصوصاً مشروبات کی خالی بوتلوں سے بھری ہوتی ہیں۔ ہر قدم پر کوئی نہ کوئی بوتل آپ کے پاؤں کے نیچے آ کر ٹوٹ رہی ہوتی ہے۔ ان بوتلوں پر سے پھسلنے کا بھی خطرہ ہوتا ہے۔ کیونکہ نمازی چپل پہنے ہوتے ہیں۔ لہٰذا ان سے پاؤں پر چوٹ بھی آتی ہے اور تکلیف بھی ہوتی ہے۔ سڑکوں، فٹ پاتھوں اور دوسرے خالی مقامات پر جیسے ان خالی بوتلوں کا فرش سا بچھا ہوتا ہے۔ صفائی کرنے والی گاڑیاں آتی ہیں۔ بڑے بڑے برشوں سے ان بوتلوں کو سمیٹتی اور صاف کرتی ہیں۔ لیکن چند منٹوں بعد ہی سڑکیں وہی پرانا منظر پیش کرنے لگتی ہے۔

خانہ کعبہ سے سے باب عبد العزیز کے راستے ہمارا ہوٹل الشہداء چھ سات منٹ کی مسافت پر واقع ہے۔ لیکن ہجوم، سٹرک پر کچرے کی بہتات، ریڑھیوں کی بھرمار اور حاجیوں کی سر راہ بیٹھی ہوئی ٹولیوں کی وجہ سے یہ فاصلہ کبھی بھی آدھے گھنٹے سے کم میں طے نہیں ہوتا تھا۔ خانہ کعبہ کے اطراف میں فٹ پاتھوں پر کچرا پھینکنے کے بن مجھے کہیں نظر نہیں آئے۔ گویا سٹرک اور فٹ پاتھ پر کچرا پھینکنے کی یہ پالیسی حکومتی پالیسی تھی۔ ورنہ اس کا کوئی متبادل نظام موجود ہوتا۔ مدینہ کی سٹرکوں اور منیٰ اور عرفات میں بھی یہی کچھ نظر آیا۔ منیٰ میں کیمپوں کے درمیانی سڑکیں کچرا گاہ بنی نظر آتی تھیں۔ وہاں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر بڑے بڑے کچرا گھر تو بنے ہوئے تھے۔ لیکن سڑک یا فٹ پاتھ پر بن یا کچرا پھینکنے والے خالی بیگ موجود نہیں تھے۔ سعودی حکومت جہاں دیگر بہت سے انتظامات کرتی ہے۔ وہاں سڑکوں اور فٹ پاتھوں کو صاف ستھرا رکھنے کے لیے کوئی لائحہ عمل کیوں اختیار نہیں کرتی یہ بات مجھے سمجھ نہیں آ ئی۔ اگر بن نہیں رکھے جا سکتے تو خالی بیگ ایک ڈنڈے کے ساتھ جگہ جگہ لٹکائے جا سکتے ہیں۔ اگر کوئی شخص زمین پر کچرا نہ پھینکنا چاہے تو اس کے لیے کوئی متبادل بندوبست تو ہو نا چاہیے۔


معجزے حرم کے



قیام مدینہ کے دوران مسلسل چپل کے استعمال اور کارپٹ پر ننگے پاؤں چلنے کی وجہ سے پاؤں پر کئی زخم آئے۔ میرے پاؤں کے تلوے پہلے سخت اور کھردرے ہوئے اور پھر ان میں کریک پیدا ہو گئے۔ جن سے خون رسنے لگا اور درد رہنے لگا۔ میں ایک کیمسٹ شاپ میں گیا۔ اسے اپنا مسئلہ بتایا تو اس نے کہا کہ یہ زائرین کے ساتھ پیش آنے والی ایک عام سی بیماری ہے۔ اس نے ایک کریم دی جس سے یہ کریک جلد ہی مندمل ہو گئے۔

اس کے علاوہ پاؤں ٹانگوں گردن اور بازوں پر کئی جگہ سے جلد سرخ اور حساس ہو گئی۔ ان جگہوں پر خارش سی محسوس ہوتی تھی۔ معلوم ہوا یہ مسئلہ بھی وہاں عام ہے۔ ایک دوسری کریم نے یہ مسئلہ بھی حل کر دیا۔ اس کریم کے استعمال سے جلد کا وہ حصہ ٹھیک ہو جاتا۔ لیکن کچھ وقت کے بعد اس کا حملہ جسم کے کسی دوسرے حصے پر ہو جاتا تھا۔ یہ سلسلہ آخر تک جاری رہا۔ اس دوران یہ کریم کافی کام آئی۔ بعض حاجیوں کی جلد بہت زیادہ خراب نظر آئی۔ شکر ہے ہمارے ساتھ ایسا نہیں ہوا اور یہ مرض قابو سے باہر نہیں ہوا۔

مسلسل محنت، پیدل چلنے کھڑے رہنے اور نیند کی کمی کی وجہ سے ہمارے اعضاء شدید تھکن کا شکار ہوتے جا رہے تھے۔ اس تھکاوٹ اور گلے کی خرابی کی وجہ سے بخار کا بھی حملہ ہوا۔ یہ بخارمجھ پر ہلکا اور میری اہلیہ پر شدت سے اثرانداز ہوا۔ لیکن اس سے ہمارے شب و روز کے معمول میں کوئی فرق نہیں پڑا۔ ہم پہلے کی طرح دن میں چھ مرتبہ اللہ کے حضور حاضری دیتے رہے۔ عصر کے بعد تربیتی کلاس بھی اٹینڈ کرتے رہے۔

جب اہلیہ کو بہت تیز بخار نے آ لیا تو میں معلم سے ملا۔ میں نے دریافت کیا کہ اس بیماری کی حالت میں اگر وہ نماز کمرے میں ادا کر لیں تو اس کا اجر کیا ہو گا۔ معلم نے بتایا ’’اگرچہ مسجد نبوی میں ادا کی جانے والی نمازوں کا اجر کہیں اور پڑھی جانے والی نماز سے ہزار گنا زیادہ ہے۔ لیکن یہ نمازیں حج کا حصہ ہر گز نہیں ہیں۔ اگر کسی کی طبیعت خراب ہو تو وہ کمرے میں نماز پڑھ سکتا ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔ جہاں تک اجر کا تعلق ہے کمرے میں ادا کی جانے والی نماز کا اجر مسجد نبوی کی نماز کے برابر نہیں ہو سکتا ہے۔ یہ اجر مسجد کے اندر نماز ادا کرنے سے ہی ملتا ہے‘‘

میں نے جب یہ باتیں اہلیہ کو بتائیں تو انہوں نے کہا ’’میں یہ نمازیں مسجد میں ہی ادا کروں گی چاہے کچھ بھی ہو جائے‘‘

’’اس سے آپ کی طبیعت مزید خراب بھی ہو سکتی ہے‘‘ میں نے اندیشہ ظاہر کیا۔

’’اللہ مالک ہے۔ جس کے لیے مسجد جاؤں گی وہی مدد کرے گا‘‘

ظہر کے وقت میں انہیں تھام کر آہستہ آہستہ مسجد نبویﷺ لے گیا۔ اس وقت تک انہیں خاصا تیز بخار تھا۔ نماز کے بعد ہم مخصوص جگہ پر ملے تو انہوں نے بتایا ’’میری طبیعت اب کافی بہتر ہے۔ میں عشاء تک یہیں رہوں گی۔ آپ چاہئیں تو واپس ہوٹل چلے جائیں‘‘

میں نے ان کی کلائی تھامی تو بخار اُتر چکا تھا۔ یہ حیران کن بات تھی۔ مسجد نبویﷺ میں نماز ادا کرنے کے بعد ان کا بخار بالکل ٹھیک ہو گیا تھا۔ یہاں اللہ کے پیارے نبیﷺ کی آخری آرام گاہ تھی۔ یہ اللہ کے پسندیدہ ترین گھروں میں سے ایک ہے۔ یہاں ریاض الجنۃ ہے۔ یہاں منبر رسولﷺ ہے۔ یہاں ابو بکر صدیقؓ اور حضرت عمر فاروقؓ کی آرام گاہیں ہیں۔ یہاں فرشتے اُترتے رہتے ہیں۔ یہاں ہر سورحمتوں کا نزول ہوتا ہے۔ ان فضاؤں اور ہواؤں میں بیماری کا یوں پل بھر میں چلے جانا باعثِ حیرت بھی نہیں تھا۔

حج کے بعد اور آج تک میں یہی سوچتا ہوں کہ اللہ کتنا رحیم اور کتنا کریم ہے۔ اس نے ہمیں آسٹریلیا جیسے ملک سے لے جا کر انتہائی گرم مقام، اتنے بڑے ہجوم، گرد و غبار اور بے شمار بیماریوں اور جراثیموں کے باوجود محفوظ و مامون رکھا۔ یہ اس کی مہربانیوں کی انتہا ہے۔ حرمین شریفین میں بہت سے نمازی کھانسی، فلو، بخار، گلے کی تکلیف، جلد کی بیماریوں اور دوسرے کئی عوارض میں مبتلا ہوتے ہیں۔ دورانِ نماز جب وہ سانس لیتے ہیں یا کھانستے ہیں تو ان کی بیماری کے جراثیم دوسرے لوگوں تک بھی پہنچتے ہیں۔ حج کے دوران ان جراثیموں سے بچنا نا ممکن ہے۔ لیکن اگر اللہ اپنی رحمت سے آپ کے اندر اتنی طاقت اور ہمت پیدا کر دے کہ آپ ان بیماریوں سے بچے رہیں۔ یا ان بیماریوں کو برداشت کر لیں اور آپ کا حج متاثر نہ ہو تو میں سمجھتا ہوں یہ اس کا خصوصی کرم ہے۔

ہم بھی ان خوش قسمت لوگوں میں شامل تھے جن پر اللہ تعالیٰ نے یہ کرم کیا۔ حج کی سعادت بمع اس کے تمام ارکان بخوبی ادا کرنے کے قابل بنایا۔ ورنہ میں نے خود بہت سے حاجیوں کو اتنا بیمار دیکھا کہ وہ نماز اور حج کے کئی ارکان ادا کرنے سے قاصر ہو گئے۔ بعض کو ہسپتال داخل کرانا پڑا اور کتنے ہی لوگ دوران حج اللہ کو پیارے ہو گئے۔

مجھے سب سے زیادہ فکر یہ تھی کہ ہمارے گھٹنے آرتھرائٹس کا شکار تھے۔ وہ بہت زیادہ مشقت برداشت کرنے کے قابل نہیں تھے۔ دوسری فکر اپنے معدے کی تھی جو آسٹریلیا سے باہر نکلتے ہی آپے سے باہر ہو جاتا تھا۔ لیکن حجاز مقدس میں نہ تو میرا معدہ بگڑا اور نہ ہی گھٹنے کی تکلیف ناقابلِ برداشت ہوئی۔ بلکہ اس مشق سے ہمارے گھٹنے پہلے سے زیادہ مضبوط ہو گئے۔ یہ سب حج کی برکت اور اللہ کی رحمت کی وجہ سے ہوا ہے۔


آخر اِذن مل گیا



آج مسجد نبویﷺ میں میری چوتھی نماز فجر تھی۔ پہلے دن تو ہم نے ریاض الجنۃ میں داخلے ہونے کی کوشش نہیں کی تھی۔ اگلے دو دن میں مسلسل وہاں جاتا رہا۔ نماز کے بعد کافی دیر اس لیے انتظار کرنا پڑتا ہے کہ سورج طلوع ہونے کے بعد ایک خاص وقت تک کوئی نماز نہیں پڑھی جاتی۔ یہ وقت نماز کے لیے مکروہ ہوتا ہے۔ اس لیے ریاض الجنۃ کے اندر موجود لوگ وہیں بیٹھے رہتے ہیں اور باہر والے ان کے نکلنے کے انتظار میں باہر بیٹھے رہتے ہیں۔ جب اندر موجود لوگ دوسرے دروازے سے باہر نکلتے ہیں تو شرطے باہر کے لوگوں کو آہستہ آہستہ اندر بھیجتے ہیں۔ میں نے دونوں دن اندر داخل ہونے کی بہت کوشش کی۔ ایک گروپ نکلتا اور دوسرا داخل ہوتا رہا لیکن میں بہشتی دروازے کے قریب بھی نہ پھٹک سکا۔ بلکہ ہر دفعہ دھکے کھا کر مزید دُور ہو گیا۔ حتیٰ کہ اندر جانے کی ہمت ہی جواب دے گئی۔

میں دھکے دینے اور دھکے کھانے کا کبھی بھی عادی نہیں رہا تھا۔ میں چاہتا تھا کہ جتنا وقت بھی درکار ہو میں قطار میں کھڑا رہوں گا۔ جب میری باری آئے تو مجھے اندر جانے کی اجازت دی جائے۔ لیکن وہاں کوئی قطار تھی ہی نہیں۔ کوئی ترتیب نہیں تھی۔ لوگ دروازے کے باہر گھیرا ڈال کر کھڑے ہو جاتے۔ یہ گھیرا بڑا ہوتا جاتا۔ دور تک پھیلتا چلا جاتا۔ جب دروازہ کھلتا اور شرطے اندر آنے کے لیے اشارہ کرتے تو چاروں طرف سے ایک سیلاب سا اُمڈ کر دروازے کی جانب بڑھتا۔ شرطے اس سیلاب کو روکتے اور ایک ایک کر کے اندر چھوڑتے۔ وہ بھی چاہتے تھے کہ لوگ ترتیب سے آئیں۔ لیکن دروازے کے پاس اتنا ہجوم اور اتنی دھکم پیل ہوتی کہ الامان۔ لوگ اندر کی جانب زور لگا تے اور شرطے انہیں باہر دھکیلتے ہیں۔ اِسی دھکم پیل میں آہستہ آہستہ لوگ اندر جاتے رہتے ہیں۔ میں ہر روز ان لوگوں میں شامل ہوتا۔ طویل انتظار کے بعد دروازہ کھلتا تو آگے بڑھنا شروع کرتا۔ کبھی دروازے کے پاس پہنچ کر اور کبھی اس سے پہلے ہی دھکیل کر مجھے دور کر دیا جاتا۔ میں کوشش جاری رکھتا لیکن اس دروازے کے اندر کبھی داخل نہ ہو پاتا۔ حتیٰ کہ اندر گنجائش ختم ہو جاتی اور دروازہ بند کر دیا جاتا۔ یہ دروازہ اس وقت تک بند رہتا جب تک اندر موجود لوگ نوافل ادا نہیں کر لیتے۔ اسی طرح وقفہ وقفہ سے دروازہ بند ہوتا اور کھلتا رہتا۔ حتیٰ کہ مردوں کے لیے مخصوص وقت کا خاتمہ ہو جاتا۔ جو لوگ اندر داخل ہونے سے رہ جاتے وہ مایوس لوٹ جاتے۔ میرے ساتھ بھی پچھلے دو دن یہی ہوا تھا۔ دونوں دن گھنٹوں انتظار کرنے اور دھکے کھانے کے باوجود اندر جانے کی اِذن نہیں ملا تھا۔ مجھے دھکے کھانے پر بھی اعتراض نہیں تھا اگر ان کے بعد اندر جانے کی کوئی سبیل نظر آتی۔ افسوس تو یہ ہے کہ دھکے مجھے اس دروازے سے دور رکھنے کے لیے دیے گئے۔ دروازے کے اندر جانے کے لیے کسی نے دھکا نہیں دیا۔

آج چوتھی صبح تھی۔ میں اسی شوق اور اُمید کے ساتھ ریاض الجنۃ کے باہر بیٹھے ہوئے لوگوں میں شامل ہو گیا۔ کافی دیر انتظار کے بعد دروازہ کھلا جس پر سب کی نظریں جمی ہوئی تھیں۔ دروازہ کھلتے ہی بھگدڑ سی مچ گئی۔ لوگ اندھا دھند دروازے کی طرف بڑھے۔ میں بھی ان میں شامل تھا۔ لیکن آج پھر وہی ہوا جو پچھلے دو دن سے ہو رہا تھا۔ لوگ اندر داخل ہو گئے اور میں دُور کھڑا رہ گیا۔ میرا فاصلہ دروازے سے گھٹنے کے بجائے بڑھ گیا تھا۔ جب میرے پاؤں زمین پر لگے تو ایسا لگا کہ مجھے پٹخ کر دور پہنچا دیا گیا ہے۔ میں جان گیا کہ اِذن نہیں ہے۔ میں اس در کے اندر جا ہی نہیں سکتا۔ اس قابل تھا ہی نہیں کہ اندر جا سکوں۔

میرا شوق اور اور میرا عشق نا اُمیدی کے بھنور میں ڈوبنے لگے۔ اس شوق کو شرفِ قبولیت نہیں ملا تھا۔ مجھے دھتکار دیا گیا تھا۔ میری اُمید یں مایوسی میں بدل گئیں۔ ہر سو تاریکی سی دکھائی دینے لگی۔ یہ سفر ہی مجھے ناکام لگنے لگا۔ مجھے اللہ کے گھر جانے کی جتنی خوشی تھی، اللہ کے نبیﷺ کے آستانے پر حاضری کا اتنا ہی شوق تھا۔ اظہارِ محبت کے علاوہ اللہ کے کرم تک رسائی کے لیے اس کے حبیبﷺ کا وسیلہ بھی درکار تھا۔ رحمت الّلعالمینﷺ کی رحمتوں میں سے اپنا حصہ درکار تھا۔

لیکن میرے ہاتھ تو کچھ بھی نہیں آیا تھا۔ یہ کوئی عام سی محرومی نہیں تھی۔ یہ آقائے دو جہاںﷺ کے حضور شرف باریابی سے محرومی تھی۔ اس باریابی سے روک دیے جانے کی مایوسی تھی۔ احساسِ گناہ اور پچھتاوا تھا۔ یہ پچھتاوا اور یہ احساسِ گناہ جیسے میرے اندر چیخ رہے تھے۔ میرا دل بلکہ بال بال رو رہا تھا میری آنکھوں نے اتنی برکھا برسائی کہ میرا دامن بھیگنے لگا۔ میرا چہرہ آنسو سے تر تھا۔ آنکھیں دھندلانے لگیں۔ مایوسی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں جسم و جاں بھی جواب دینے لگے۔ قریب تھا کہ میں وہیں ڈھیر ہو جاتا کہ وہ ہو گیا جس کی کوئی امید نہیں تھی۔ یہ کیوں اور کیسے ہوا، اس کا مجھے آج تک علم نہیں ہے۔

وہ در جس کے سامنے میں پچھلے تین دن سے کھڑا تھا، اچانک کھلا۔ اگلے ہی لمحے مجھے جیسے اٹھا کر ریاض الجنۃ کے وسط میں پہنچا دیا گیا ہو۔ مجھے احساس بھی نہیں ہوا اور میں وہاں پہنچ گیا جہاں پہنچنا چند لمحے پہلے تک نا ممکن لگ رہا تھا۔ یہ مقام چند لمحے پہلے مجھ سے جیسے ہزاروں کوس دور تھا۔ لیکن اب میں وہاں پہنچ چکا تھا۔ میں پھٹی پھٹی آنکھوں سے چاروں طرف دیکھ رہا تھا۔ روضہ رسولﷺ مجھے سے چند فٹ کے فاصلے پر تھا۔ منبر رسولﷺ میرے بالکل سامنے تھا۔ مجھے یہ منظر جنت کا ہی منظر لگا۔ میں جنت کے باغ میں پہنچ گیا تھا۔

واہ میرے مولا! تو جتنا بے نیاز ہے۔ اتنا ہی اپنے بندوں کی فریاد سنتا ہے۔ اپنے بندوں کی پکار ہر وقت سنتا ہے۔ ان کے دل کے درد کو بھی سمجھتا ہے۔ یہ تو ہم ہی ہیں جو بھول جاتے ہیں کہ تو رحیم ہے، کریم ہے، غفار ہے، رحمان ہے۔ تو نے میری پکار سنی۔ میرے آنسوؤں کی لاج رکھ لی۔ اے اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے۔ میرے لہو کا ایک ایک قطرہ اور میرے جسم کا ایک ایک بال تیرا شکر ادا کرتا ہے۔

مجھے اپنی مایوسی پر شرم محسوس ہونے لگی۔ اللہ اور اس کے پیارے نبیﷺ کی رحمت سے مجھے مایوس نہیں ہونا چاہیے تھا۔ آخر ہم آزمائش کے لیے تو دنیا میں اتارے گئے ہیں۔ ہم اس امتحان میں بھی پورے نہیں اترتے۔ اس کی نافرمانی کرتے ہیں۔ ہم گناہوں سے آلودہ ہیں۔ اس کے باوجود بھی وہ اپنی رحمتوں سے ہمیں نوازتا رہتا ہے۔ یہ اس کی مہربانی ہے۔ اس کی بڑائی ہے۔ اس کا عفو و درگزر ہے۔ جس کی وجہ سے ہم اپنے سیاہ اعمال کے باوجود اس کی رحمتوں سے مالا مال ہیں۔ پھر بھی ہم مایوسی اور نا امیدی کا اظہار کریں تو ہم جیسا ناشکرا کون ہو گا۔

ہم اس کے کرم اور مہربانیوں کو بھول جاتے ہیں۔ اسی لئے مایوسی کی بات کرتے ہیں۔ ہم زندگی کا ایک ایک لمحہ اس کا شکر ادا کرنے میں صرف کریں تو بھی کافی نہیں ہے۔ اس کی نعمتیں ان گنت ہیں۔ اس کے احسان بے شمار ہیں۔ اس کے جود و کرم کی کوئی حد نہیں۔ تم اس کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے (القرآن)

اے اللہ میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں۔ اے اللہ تو ہی ہے جو ہمیں اپنا شکر گزار اور تابعدار بنا سکتا ہے۔ ہمارے جسموں، ہماری جانوں، ہماری زبانوں، ہمارے ذہنوں اور ہمارے دلوں کو اپنا مطیع اور فرمانبردار بنا سکتا ہے۔ اگر ایسا کر دے تو یہ تیرا احسان ہو گا۔ تیرا کرم ہو گا۔ یا اللہ ہمیں اس قابل بنا کہ ہماری زبانیں ہر وقت تیری حمد و ثناء کریں۔ تیرا شکر ادا کریں۔ حتّی کہ جب جان نکل رہی ہو تو زبان پر تیرا ہی کلمہ رواں ہو۔ (آمین)

ریاض الجنۃ منبرِ رسولﷺ اور حضرت عائشہؓ کے حجرے کے درمیان والی جگہ ہے۔ روضہ رسولﷺ کا ایک رُخ ریاض الجنۃ کی طرف ہے۔ حضورﷺ کا روضہ وہاں سے اتنا قریب ہے کہ میرا دل چاہتا تھا کہ اسے چھو لوں۔ اسے اپنی آنکھوں میں سمو لوں۔ اپنے دل میں سمیٹ لوں۔ میری نظریں وہاں سے ہٹ ہی نہیں رہی تھیں۔ مجھے ارد گرد کا بھی ہوش نہیں تھا۔ اندر سخت دھکم پیل ہو رہی تھی۔ شرطے ڈانٹ ڈانٹ کر لوگوں کو وہاں سے اٹھا رہے تھے تاکہ دوسروں کو اندر آنے کا موقع مل سکے۔ لوگ بڑی عقیدت کے ساتھ نوافل پڑھ رہے تھے۔ قرآن پاک کی تلاوت کر رہے تھے۔ جگہ اتنی کم تھی کہ رکوع و سجود کے لیے فٹ بال بننا پڑتا تھا۔

شرطوں کی پکار سن کر جیسے مجھے ہوش آ گیا۔ میں نے فوراً دو رکعت اشراق کی نیت باندھ لی۔ نماز کے دوران دھکے لگتے رہے۔ جگہ بدلتی رہی۔ سجدہ کرنا انتہائی مشکل ہو گیا۔ لیکن پھر بھی ہو گیا۔ یہ ایسا سجدہ تھا جس کا مزا، جس کی تاثیر اور جس کا ذائقہ آج تک میرے دل و دماغ میں محفوظ ہے۔ مجھے یوں لگ رہا تھا کہ اللہ اور اس کے حبیبﷺ سامنے کھڑے مجھے دیکھ رہے ہیں۔ ان کی رحمتیں میرے اوپر بارش کی طرح برس رہی ہیں۔ میرا دل جیسے دھُل رہا ہے۔ میرے دل سے ایک کالک اُتر رہی ہو۔ اس کی جگہ ایک روشنی سی میرے اندر سمائی جائی رہی ہو۔ ایک خوشبو میری جان اور میرے روح کو معطر کر رہی ہو۔ میں ان روشنیوں اور ان خوشبوؤں میں جیسے نہا رہا ہوں۔ میرا جسم و جاں اور میرے دل کا ایک ایک ذرہ اس روشنی سے فیض یاب ہو رہا تھا۔ مجھے اپنا آپ ہلکا ہوتا محسوس ہو رہا تھا۔ ایسے لگتا تھا میں ہواؤں میں اُڑ رہا ہوں۔ فضاؤں میں تیر رہا ہوں۔ روشنیوں میں نہا رہا ہوں اور خوشبوؤں سے معطّر ہوں۔

میرا سجدہ طویل ہو گیا۔ یہ روایتی سجدہ نہیں تھا۔ یہ رٹا رٹایا سبحان ربی الاعلیٰ نہیں تھا۔ یہ میرے دل کی پکار تھی۔ یہ پکار وہاں جا رہی تھی جس کے لیے یہ کلمے کہے جاتے ہیں۔ لفظ میرے دل سے ادا ہو رہے تھے اور سیدھے آسمانوں کو چھو رہے تھے۔ جی ہاں! مجھے بالکل ایسا ہی محسوس ہو رہا تھا۔ میرا یقین، میرا ایمان اور میرا آپ گواہی دے رہا تھے کہ یہ صدا آسمانوں کو چھو رہی ہے۔ عرشِ عالی تک پہنچ رہی ہے۔ سننے والا سن رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ تم ایک بار توبہ کرو گے تو میں سو بار معاف کروں گا۔ تم گناہ گار ہو لیکن میری رحمت کی کوئی حد نہیں ہے۔ حتّی کہ تم جیسے گناہ گاروں کے لیے بھی میری رحمت کے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔ بس ایک بار مجھے دل سے پکار کر تو دیکھو۔ تم میری کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے۔

میری دُعا قبول ہوئی یا نہیں اس کا تو مجھے علم نہیں لیکن میری پکار ضرور سنی گئی۔ کیونکہ میری روح پر لدا منوں بوجھ اتر گیا تھا۔ میں خود کو بالکل ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا۔ میں نبی پاکﷺ کو اپنے بہت قریب محسوس کر رہا تھا۔ یوں لگ رہا تھا وہ میرے بالکل سامنے کھڑے مجھے ہی دیکھ رہے ہیں۔ میری تڑپ، میری بے قراری اور میرے شوق کو مشفق نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ مجھے ہر جانب یہ نگاہیں محسوس ہو رہی تھیں۔ ان نظروں کی ٹھنڈک کو میں اپنے جسم و جاں پر محسوس کر رہا تھا۔ یہ شفقت، یہ ٹھنڈک اور یہ مسکراہٹ آج بھی میرے ساتھ ہے۔ اور دعا ہے کہ روزِ قیامت تک میرے ساتھ رے۔

شرطوں نے جب ہمیں دوسرے دروازے سے باہر بھیجا تو یوں لگا کہ میں جنت سے زمین پر آ گیا ہوں۔ حالانکہ باہر بہت رونق تھی لیکن میری نگاہوں کے سامنے اندر کا منظر گھوم رہا تھا۔ میرے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ آنکھیں چمک رہی تھیں اور دل بلیوں اچھل رہا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے میں ماؤنٹ ایورسٹ سر کر کے آ رہا ہوں۔ بڑی سے بڑی ڈگری اور بڑی سے بڑی کامیابی سے جو خوشی اور اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ وہی خوشی اس وقت مجھے ہو رہی تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے نوبل پرائز جیت لیا ہے۔ ایسی خوشی، ایسی مسرت اور ایسا اطمینان مجھے پہلے کبھی نصیب نہیں ہوا تھا۔ میرا انگ انگ اس مسرت اور شادمانی سے جیسے ناچ رہا تھا۔ میری اہلیہ نے دیکھا تو حیران رہ گئیں۔ اُنہوں نے کوئی سوال نہیں کیا بلکہ براہ راست مبارک باد دی۔ پھر حسبِ عادت شکرانے کے نفل پڑھنے کے لیے جائے نماز بچھانے لگیں۔

خواتین کے لیے ریاض الجنۃ میں داخلے کا وقت نماز عشاء کے بعد تھا۔ اسی رات میری اہلیہ نے بھی آسانی سے وہاں تک رسائی حاصل کر لی۔ اس کے بعد جتنے دن ہم مدینہ منورہ میں رہے ہم متواتر ریاض الجنۃ میں جاتے رہے۔ اب جیسے راستہ ہموار ہو گیا تھا۔ اللہ کے فضل سے وہ دروازہ ہمارے لیے کھل گیا تھا۔ اب بھی رش ہوتا تھا۔ اب بھی دھکم پیل ہوتی تھی۔ اب بھی شرطوں کی ڈانٹ ڈپٹ ہوتی تھی۔ لیکن اب یہ سب برا نہیں لگتا تھا۔ اس دن کے بعد میں جب بھی اس در پر حاضر ہوتا تھا تو یوں محسوس ہوتا تھا کہ کوئی غیبی ہاتھ آگے بڑھتا ہے اور تھام کر اندر لے جاتا ہے۔

میں جب بھی وہاں جاتا تھا بس دو رکعت نفل ادا کرتا تھا۔ اس سے زیادہ کی میں نے کوشش نہیں کی۔ حالانکہ اس کا اجر و ثواب بے شمار ہے۔ کیا کرتا دل کو سنبھالتا یا جگر کو تھامتا۔ روضے پر نظر پڑتی تو ہٹتی نہیں تھی۔ اس روضے کے مکین سے بات کرتا یا اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوتا۔ اللہ تو ہر جگہ موجود ہے۔ ثواب اور اجر کمانے کے بھی مواقع ملتے رہیں گے۔ لیکن نظروں کو یہ نظارہ پھر شاید ملے یا نہ ملے۔ اس لیے میں آنکھوں اور دل کو ایک ہی منظر پر مرکوز کر لیتا۔ پھر وہ شفیق آنکھیں ہر جانب مسکرانے لگتیں۔ اوپر، نیچے، دائیں، بائیں جہاں تک نظر جاتی، وہ مسکراتی ہوئی شفیق آنکھیں جیسے ٹھنڈی پھوار برساتی، میرے جسم و جاں بلکہ روح تک کو معطر کرنے لگتیں۔ مجھے اپنا وجود بھی مہکتا محسوس ہوتا۔

شروع میں یہ منظر صرف ریاض الجنۃ میں دکھائی دیتا تھا۔ بعد میں مسجد نبوی اور خانہ کعبہ میں میرے ساتھ ساتھ رہا۔ اب ہمارازیادہ وقت مسجد میں ہی گزرنے لگا۔ عصر سے عشاء تک ہوٹل واپس جانا بالکل چھوٹ گیا۔ فجر کے بعد ریاض الجنۃ، کبھی کبھی جنت البقیع اور مسجد نبویﷺ اور اس کے ارد گرد علاقے میں گھومتا رہتا۔ کبھی ہوٹل کے عقب میں ہائی وے کے دوسرے طرف دُکانوں کی طرف نکل جاتا۔ اس طرح دن میں آرام کرنے کا سلسلہ بالکل ختم ہو گیا۔ بس اللہ، اس کے نبیﷺ اور اللہ کے گھر کی طرف دھیان لگا رہتا تھا۔


ضرورتِ اعتدال



ہم دونوں کی بھوک اور نیند کم ہوتی جا رہی تھی۔ پہلے دوپہر کا کھانا چھوٹا۔ پھر شام میں کبھی کھاتے اور کبھی بغیر کچھ کھائے تھک ہار کر سو جاتے۔ تاہم میں سارا دن چائے پیتا رہتا رہتا تھا۔ کمرے میں پہنچتے ہی چائے بننا شروع ہو جاتی اور ہر گھنٹے یہ سلسلہ چلتا رہتا۔ جتنی دیر مسجد میں گزرتی اس میں بھی ہر گھنٹے ڈیڑھ کے بعد باہر جاتا۔ چائے کا ایک کپ اور سگریٹ پی کر ہی واپس آتا۔ چائے اور پیناڈول کی گولیوں نے ہمیں چلنے پھرنے کے قابل بنایا ہوا تھا۔ ورنہ ہم دونوں کے گلے میں درد اور جسم میں حرارت اور شدید تھکاوٹ رہتی تھی۔ چائے اور شہد کے مسلسل استعمال نے گلے کو مزید خراب ہونے سے بچایا ہوا تھا۔

اس کے ساتھ آسٹریلیا سے لائی ہوئی تمام دوائیں جیسے Amoxil (اینٹی بائیوٹک) بھی استعمال کر رہے تھے۔ یہ سلسلہ پورے دوران حج چلتا رہا۔ دوائیں ہم خوراک کی طرح استعمال کر رہے تھے۔ یہ دوائیں کام بھی بہت آ رہی تھیں۔ ورنہ دورانِ حج مختلف بیماریوں کے جراثیم اس طرح حملہ اور ہوتے رہتے ہیں جیسے امریکہ کمزور ملکوں پر چڑھائی کرتا رہتا ہے۔ ہماری ہندو ڈاکٹر کی دی ہوئی دوائیں ان شیطانی جراثیموں کو بھگانے میں معاون ثابت ہو رہی تھیں۔ اور ہمیں اللہ کے حضور خشوع و خضوع کے ساتھ سجدہ ریز ہونے کا موقع فراہم کر رہی تھیں۔ ڈاکٹر شیلا کی لکھی ہوئی تمام دوائیں ہم خرید لائے تھے۔ میں آج تک اس ڈاکٹر کا ممنون ہوں۔ اب وہ ہمارے علاقے میں پریکٹس نہیں کرتی بلکہ دوسرے علاقے میں چلی گئی ہے۔ میں پھر بھی علاج معالجے کے لیے اسی کے پاس جاتا ہوں۔

دیگر عازمین بھی نیند، خوراک کی کمی اور مسلسل محنت و مشقت کی وجہ سے شدید تھکن کا شکار نظر آتے تھے۔ کئی ایک مسجد نبویﷺ میں نماز ادا کرنے سے بھی قاصر نظر آتے تھے۔۔ در اصل حرمین شریفین میں قیام کے دوران زائرین کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کا زیادہ سے زیادہ وقت عبادت میں گزرے۔ تہجد سمیت چھ نماز وں، نوافل اور دیگر عبادات میں بہت وقت صرف ہوتا ہے۔ جو وقت بچتا ہے وہ کھانے پینے کے بندوبست میں لگے رہتے ہیں یا پھر عزیز واقارب کے لیے شاپنگ کرتے رہتے ہیں۔ ان مصروفیات کے بعد آرام کے لیے ان کے پاس چند ہی گھنٹے بچتے ہیں۔ اٹھارہ بیس گھنٹوں کی محنت مشقت کے بعد تین چار گھنٹے آرام کے لیے نا کافی ہوتے ہیں۔ یہی روٹین کئی دن تک رہے تو جسم شدید تھکن کا شکار ہو جاتا ہے۔ قوتِ مدافعت میں کمی کی وجہ سے بخار یا کوئی اور مرض حملہ اور ہو سکتا ہے۔ اس صورت میں عازمینِ حج مسجد میں جا کر فرض نمازیں ادا کرنے کے قابل بھی نہیں رہتے ہیں۔

زائرین اور خصوصاً عازمینِ حج کو اعتدال برتنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ علالت کی وجہ سے ان کا حج متاثر ہو سکتا ہے۔ کیونکہ حج کے تین چار دن بہت بھاری ہوتے ہیں۔ یہ سفر میں رہنے کے دن ہوتے ہیں۔ بے آرامی کے دن ہوتے ہیں۔ اگر ان دنوں طبیعت خراب ہو جائے تو حج کا مزہ کر کرا ہو سکتا ہے۔ ارکان حج کی ادائیگی متاثر ہو سکتی ہے۔ خود پر اور اپنے ساتھیوں پر بھی مشکل آ سکتی ہے۔ لہٰذا عبادت ہو یا شاپنگ ہر کام میں میانہ روی کی ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں بہت سے عازمین دوران حج اپنی خوراک کا بھی خیال نہیں رکھتے۔ وہ عبادتوں میں اس قدر مصروف ہو جاتے ہیں کہ کئی کئی وقت فاقوں میں گزار دیتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ سب کچھ وہ اللہ کی خوشنودی اور اجر و ثواب کے لیے کرتے ہیں۔ لیکن اس دوران میں ان کی صحت کس قدر متاثر ہو رہی ہے وہ اس کا خیال نہیں کرتے ہیں۔ بعض عازمینِ حج سستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھوکے رہتے ہیں جس کے اثرات بعد میں ظاہر ہوتے ہیں۔

میرے چھوٹے بھائی خالد محمود مرزا نے دو مرتبہ حج کیا ہے۔ دونوں مرتبہ وہ پاکستان سے حج کے لیے گئے۔ وہ بتاتے ہیں کہ انہیں خود اپنے کھانے کا بندوبست کرنا ہوتا تھا۔ لیکن ان کے ساتھی زیادہ وقت مسجد میں گزارتے اور صرف سونے کے لیے ہی کمرے میں آتے تھے۔ لہٰذا اکثر کھانا نہیں بنتا تھا۔ کبھی کبھی چوبیس گھنٹے کھائے بغیر گزر جاتے تھے۔ وہ جب اپنے ساتھیوں کو اس طرف متوجہ کرتے تو وہ کہتے کہ ہم یہاں کھانا کھانے نہیں بلکہ عبادت و ریاضت کے لیے آئے ہیں۔ اس کی وجہ سے بھائی کی صحت خراب رہنے لگی۔ ناچار انہیں ایک اور گروپ کے ساتھ کھانے پینے کا بندوبست کرنا پڑا۔ ان کا انتظام قدرے مہنگا لیکن تسلی بخش تھا۔ جس کی وجہ سے اس کی صحت بحال ہوئی اور وہ زیادہ تسلی سے نمازوں اور عبادتوں میں مشغول ہو گئے۔

اس کے علاوہ حاجیوں پر تحفے خریدنے اور شاپنگ کرنے کا بہت دباؤ ہوتا ہے۔ وہ پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھاتے لیکن عزیز اقارب کے لیے مہنگے سے مہنگے تحفے خریدنے میں لگے رہتے ہیں۔ اپنا پیٹ کاٹ کر دوسروں کو قیمتی تحفے دینا۔ خود روکھی سوکھی کھا کر گزارا کرنا اور اہل خانہ اور عزیز و اقارب پر ساری کمائی لٹا دینا۔ ایسا میں نے پہلی دفعہ نہیں دیکھا تھا۔ دیارِ غیر میں رہنے والے اکثر پاکستانیوں کا یہی المیہ ہے۔ میں نے عمان کے قیام کے دوران میں بارہا ایسا دیکھا تھا۔ میرے محکمے میں کام کرنے والے زیادہ تر پاکستانی ادھیڑ عمر اور پاکستان کے سرکاری اداروں سے سبک دوش ہوئے تھے۔ اُنہیں جتنی تنخواہ ملتی تھی پوری کی پوری وطن بجھوا دیتے تھے۔ اپنے لئے وہ دس ریال بھی نہیں رکھتے تھے۔ وہ میس کا کھانا کھاتے اور سرکاری رہائش گاہ میں جا کر سو رہتے تھے۔ کیمپ سے باہر کی دُنیا، بازار یا کسی دُکان کی پورا سال شکل بھی نہیں دیکھتے تھے۔ ان کے کمرے میں چائے کی کیتلی تک نہیں ہوتی تھی نہ ہی کھانے کی کوئی چیز ہوتی تھی۔ ہم میس میں جو کھانا کھاتے تھے اس کا یہ بہت معقول سا بل ادا کرنا پڑتا تھا۔ کیونکہ اس میں حکومت اپنا حصہ ڈالتی تھی۔ علاوہ ازیں میس کے عملے کی تنخواہیں اور دیگر اخراجات بھی حکومت ہی ادا کرتی تھی۔ سستا ہونے کے باوجود ہمارے کئی ساتھی تین کے بجائے صرف دو وقت کا کھانا کھاتے تھے۔

وہ پورا سال یوں ہی قیدیوں کی طرح گزار دیتے۔ لیکن جب ان کی چھٹیاں قریب آتی تھیں تو جیسے بھونچال سا آ جاتا تھا۔ ان کا ہر ویک اینڈ بازار میں گزرتا۔ تھیلے بھر بھر کر لا رہے ہوتے۔ سوٹ کیس پیک ہو رہے ہوتے۔ ان کے ہاتھ میں عزیز و اقارب کی فرمائشوں کی فہرست ہوتی تھی۔ اور وہ سب کے لیے کچھ نہ کچھ خرید رہے ہوتے تھے۔

مجھے ان لوگوں پر ترس آتا تھا کیونکہ ان کے اپنے پاس اپنے پہننے کے لیے مناسب کپڑے تک نہیں ہوتے تھے۔ صبح ناشتہ کرتے تھے تو رات کے کھانے تک ایک کھیل بھی اُڑ کر اُن کے منہ میں نہیں جاتی تھی۔ کیونکہ پیسہ بچانے کے لئے دوپہر کا کھانا انہوں نے دانستہ چھوڑ رکھا ہوتا تھا۔ کمرے میں بھی کھانے کی کوئی چیز لے کر نہیں رکھتے تھے۔ وہ اپنے کپڑے خود دھوتے تھے۔ اپنے اوپر ایک پیسہ بھی خرچ کرنے سے وہ گریز کرتے تھے۔

دوسری طرف جن لوگوں کے لیے وہ یہ سب کچھ کر رہے ہوتے تھے انہیں اس کی پرواہ تک نہیں ہوتی تھی۔ جب میں چھٹیوں پر جا رہا تھا تو میرے ایک ساتھی نے میرے ہاتھ کچھ تحفے اپنے گھر بھجوائے۔ میں جب ان کے گھر گیا اور اہلِ خانہ کے رنگ ڈھنگ دیکھے تو حیران رہ گیا۔ میں وہاں تقریباً ایک گھنٹہ رکا۔ اس دوران ان کے بیٹے نے دو سوٹ بدلے۔ گھر کے کھانے کو برا بھلا کہا اور باہر سے کھانا منگوا کر کھایا۔ موٹر سائیکل کے بار بار خراب ہونے کا گلہ کیا۔ مہنگی گھڑی کی فرمائش کی اور بڑی سکرین والے ٹی وی کا مطالبہ کیا۔ بقیہ لوگوں کی بھی اپنی اپنی فرمائشیں تھیں۔ کسی نے مجھ سے یہ پوچھنے کی زحمت نہیں کی کہ جس سے اتنی فرمائشیں کر رہے ہیں وہ خود کس حالت میں ہے۔

یہ چھبیس ستائیس سال پہلے کی بات ہے۔ اس سے متاثر ہو کر میں نے یہ نظم لکھی تھی۔ جو اب تک میری ڈائری میں موجود ہے۔

دُوردیس میں ایک اجنبی

تپتے صحرا میں آبلہ پا

زیست کی تلخیوں سے نبرد آزما

اپنوں کی آسائش کی خاطر

برسوں سرگرداں رہا

برسوں بعد جب اس کے

شب و روز کی مشقت سے

تنہائیوں کے کرب سے

جسم و جاں شکستہ ریز ہوتے گئے

تو ایسے میں درد سے چور بدن

دید کا ترسا من

دل کہ مشتاقِ ارض وطن

تصور محبوب آنکھوں میں سجائے

دل میں وصل کے دیپ چلائے

وہ راہی منزل شوق

منزل سے ہمکنار ہوا

محبوب نے اٹھلاتے ہوئے

ناز و انداز دکھلاتے ہوئے

کہا اے جان من

کاش ایک برس اور نہ آتے

میرے گہنے پورے ہو جاتے


جنت البقیع



قیام مدینہ کے دوران میں میرا دو مرتبہ جنت البقیع جانا ہوا۔ جنت البقیع کے معنی جنت کا باغ ہیں۔ یہ مدینہ کا سب سے پرانا قبرستان ہے۔ جو مسجد نبویﷺ سے مشرق کی سمت واقع ہے۔ مسجد سے اس کی مسافت پانچ منٹ سے بھی کم ہے۔ صبح اشراق کے بعد اسے زیارت کے لیے کھولا جاتا ہے۔ اس قبرستان میں بہت سے نامور صحابی اور صحابیات اور اہلِ بیت مدفون ہیں۔ ان میں حضرت ابراہیم بن حضرت محمدﷺ، بی بی فاطمہ الزہرا، حضرت خدیجہ الکبریٰؓ اور حضرت عثمانؓ سمیت اہلِ بیت اور صحابۂ کرام محوِ آرام ہیں۔ عثمانیوں کے دور میں یہاں بہت سی پختہ قبریں اور مقبرے بنے ہوئے تھے۔ لیکن نجدی حضرات نے جب شریف حسین کو شکست دے کر یہاں قبضہ کیا تو انہوں نے بہت سی قبریں مسمار کر دیں۔ تاہم اب بھی کچھ پختہ قبریں وہاں باقی ہیں۔ رسول پاکﷺ نے فرمایا تھا کہ جو شخص مدینہ میں مرے اور بقیع میں دفن ہو وہ میری شفاعت سے بہرہ ور ہو گا۔ یہاں خواتین کا داخلہ ممنوع ہے۔ لہٰذا میں اکیلا ہی گیا۔ سیڑھیاں چڑھ کر قبرستان کی سطح کے برابر پہنچا تو وہاں بہت سے لوگ اکھٹے تھے۔ وہ ماتم کناں تھے۔ تاہم ان کی آواز زیادہ بلند نہیں ہوتی تھی۔ کیونکہ سامنے ہی سیکورٹی والے کھڑے تھے۔ یہ سیکورٹی والے رونے پیٹنے اور ماتم کرنے سے منع کر رہے تھے۔ ان سیکورٹی والوں میں اردو بولنے والے بھی تھے۔ ان میں سے ایک مجھے سمجھانے آ گیا ’’دیکھیں اس طرح قبروں پر رونا پیٹنا بہت بڑی بدعت ہے۔ اس سے مرحوم کو تو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ الٹا آپ گناہ گار ہوں گے۔ کیونکہ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اس کے حکم سے اگر کسی کی موت واقع ہوتی ہے تو انسان رو پیٹ کر اللہ کے حکم کو چیلنج کر رہا ہوتا ہے۔ اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ آخرت میں انسان اپنے اعمال ہی ساتھ لے کر جا سکتا ہے۔ اس کو کوئی ثواب اور صدقہ نہیں پہنچایا جا سکتا۔ یہ بھی گناہ ہے کہ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

وہ صاحب کچھ اور بھی کہہ رہے تھے لیکن میں ٹہلتا ہوا آگے نکل گیا۔ سامنے دو تازہ قبریں کھودی جا رہی تھیں۔ تیسری میں کسی کو دفنایا جا رہا تھا۔ یہ قبرستان اسلام کی آمد سے بھی پہلے کا ہے۔ اتنے سو سال کے بعد اس میں مردے دفنانے کی گنجائش اس لیے نکل آتی ہے کہ چند سالوں بعد پرانی قبروں کو برابر کر دیا جاتا ہے۔ وہاں نئی قبریں بنانے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ لہٰذا اس قبرستان کی ایک ایک قبر میں کئی کئی لوگ دفن ہیں۔

میں نے معلوم کرنے کی کوشش کی کہ حضرت بی بی فاطمہؓ اور حضرت عثمانؓ کی قبریں کون سی ہیں۔ مگر وہاں کوئی بھی بتانے کے لیے تیار نہیں تھا۔ شاید انہیں بھی اس کا علم نہیں تھا۔ میں نے دل ہی دل میں چند سورتیں پڑھ کر دعائے فاتحہ پڑھی اور واپس لوٹ آیا۔


مدینہ کی زیارتیں



لبیک والے ہمیں ایک دن چند زیارتوں پر لے گئے۔ صبح کے ناشتے اور نماز ظہر کے درمیانی وقفے پر محیط اس دورے میں ہم غزوہ احد کے مقام، مسجد قبا، مسجدقبلتین اور غزوہ خندق والی جگہ پر گئے۔ کئی بسوں پر مشتمل ہمارا قافلہ مدینہ منورہ کی مختلف سڑکوں پر سفر کرتا ہوا غزوۂ احُد کے مقام پر جا رکا۔ وہاں جا کر اندازا ہوا کہ اُحد کا مقام مدینہ منورہ سے بہت قریب واقع ہے۔ نبی پاکﷺ نے دفاعی نقطہ نظر سے اس مقام کا انتخاب کیا تھا۔ قریش مکہ نے مدینہ پر چڑھائی کی تھی جس کا نوخیز اسلامی سلطنت دفاع کر رہی تھی۔

اس وقت تک مسلمانوں کی حالت اس قابل نہیں ہوئی تھی کہ وہ جارحانہ کاروائیاں کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے حضور نبی پاکﷺ کو جہاں اور بہت سی صلاحیتوں اور صفات سے نوازا تھا وہاں ان کو ایک بہترین سپہ سالار بھی بنایا تھا۔ اگر تمام غزوات کا بغور جائزہ لیا جائے اور اس وقت کے حالات، مسلمانوں کی جنگی صلاحیت اور کفار کی طاقت کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے تو ہوشیار سے ہوشیار جرنیل بھی حضور پاکﷺ کی سپہ سالاری کا معترف ہو جائے گا۔

سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں نے اسی جنگ یعنی احد میں اٹھایا تھا۔ غزوہ احد کا یہ مقام آج اپنی اصل شکل میں نہیں ہے۔ اس کے باوجود اگرمسلمانوں کی قلیل تعداد اور ان کی بے سروسامانی کا تصور میں کیا جائے تو یہ جگہ دفاع کے لیے بہترین تھی۔ سامنے اُحد کا پہاڑ تھا۔ دائیں بائیں بھی پہاڑیاں واقع تھیں۔ لہٰذا مسلمان بے فکر ہو سامنے سے آنے والے دشمنوں کا مقابلہ کر سکتے تھے۔ مسلمان نسبتاً بلند جگہ پر پڑاؤ ڈالے ہوئے تھے۔ جب کہ دشمن قدرے نشیب میں تھا۔ مسلمانوں کے عقب میں بھی پہاڑی تھی۔ اگرچہ وہ مدینہ کی طرف تھی اور اس طرف سے حملے کا خطرہ نہیں تھا۔ لیکن حضور نبی کریمﷺ نے ستر تیر اندازوں کو احتیاطاً اس پہاڑی پر تعینات کر دیا تھا۔ اگر یہ لوگ اپنی جگہ سے نہ ہٹتے تو دشمن منہ کی کھا کر واپس چلے جاتے۔ لیکن کچھ صحابہؓ کی غلطی کی وجہ سے پانسہ پلٹ گیا۔ دشمن دُو بدو جنگ میں شکست کھا کر بھاگ رہے تھے کہ انہیں اس وقت نئی زندگی مل گئی جب خالد بن ولید نے ایک بہت لمبا چکر کاٹ کر عقبی پہاڑی سے نمودار ہو کر مسلمانوں پر حملہ کر دیا۔ اس وقت تک صحابہؓ نے دشمنوں کو بھاگتا دیکھ کر پہاڑی پر سے اپنی جگہ چھوڑ دی تھی۔ یہ فاش غلطی مسلمانوں کے نقصان کا باعث بنی اور ستر صحابہؓ شہید ہو گئے۔ مسلمان بے خبری میں مارے گئے تھے۔ وہ اپنے سامنے دشمنوں کو شکست خوردہ اور بھاگتا دیکھ رہے تھے اور اس اچانک افتاد کے لیے تیار نہیں تھے۔ خالد بن ولید کو عقب سے حملہ کرتے دیکھ کر بھاگتے ہوئے کفار بھی رک گئے اور انہوں نے بھی مسلمانوں پر حملے شروع کر دیے۔ مسلمان بھی جان توڑ کر لڑے لیکن ان میں وہ ترتیب اور نظم نہیں تھا جو ایسی جنگ کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ وہ اِدھر اُدھر بکھر کر انفرادی جنگ لڑ رہے تھے۔ کفار کا بھی بہت ساجانی اور مالی نقصان ہوا۔ وہ مسلمانوں کو ختم کرنے کے ارادے سے آئے تھے لیکن ناکام اور نامراد لوٹے۔

اس غزوہ میں حضور پاکﷺ کے چچا حضرت حمزہؓ بھی شہید ہوئے۔ خود حضور پاکﷺ بھی زخمی ہوئے اور ان کے دو دندان مبارک شہید ہو گئے۔ جب یہ خبر حضرت اویس قرنیؒ تک پہنچی تو انہوں نے اپنے سارے دانت نکلوا دیے۔ کیونکہ انہیں علم نہیں تھا کہ حضورﷺ کے کون سے دانت شہید ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنے تمام دانت نکلوا کر حضورﷺ سے اپنی محبت اور اپنے عشق کا ثبوت دیا۔ اگر مسلمان رسول پاکﷺ کی منصوبہ بندی اور ہدایت پر عمل کرتے تو انہیں کبھی اتنا نقصان نہ اٹھانا پڑتا۔

جنگ احد کے شہداء کی قبروں کے گرد بلند دیواروں پر مشتمل چاردیواری بنی ہوئی ہے۔ وہاں پولیس کے سپاہی تعینات ہیں جو زائرین کو دیوار کے قریب آنے اور فاتحہ پڑھنے سے روکتے ہیں۔ ادھر احد کی وہ پہاڑی جس کے عقب سے آ کر خالد بن ولید کے دستے نے حملہ کیا تھا اب ایک چھوٹا سا ٹیلا بن کر رہ گئی ہے۔ یہ اب اتنا چھوٹا ٹیلا ہے کہ نوجوان دوڑ کر اوپر چڑھتے اور دوڑ کر نیچے اترتے ہیں۔ اسی بھاگ دوڑ میں جو بچی کھچی پہاڑی ہے وہ بھی مٹی اور پتھر گرنے سے ملیامیٹ ہو رہی ہے۔ جتنے لوگ اس کے اوپر چڑھتے ہیں اتنا ہی اس کی بلندی کم ہو رہی ہے۔ اگر یہی حال رہا تو کچھ عرصے میں وہ بالکل زمین کے برابر ہو جائے گی۔ مجھے یہ سمجھ نہیں آئی کہ لوگ سامنے کھڑے ہو کر زیارت کرنے کے بجائے اس کے اوپر کیوں چڑھتے ہیں۔ اسے محفوظ رکھنے کے لیے اس کے ارد گرد باڑ لگائی جا سکتی ہے۔ یہ ایک تاریخی پہاڑی ہے جو کچھ عرصے میں ختم ہو جائے گی۔

سعودی حکومت مقدس زیارتوں کو ختم کرنے کے درپے ہے۔ ان کا اگر بس چلے تو خانہ کعبہ کے اوپر بھی کوئی ہوٹل تعمیر کر دیں۔ عین ممکن ہے مستقبل میں غارِ حرا کو بھی کسی ہوٹل میں تبدیل کرد یا جائے۔ یہ بھی غنیمت ہے کہ حرمین شریفین اپنی جگہ پر قائم ہیں۔ یہ شاید ان کی کمائی کے ذرائع ہیں اس لیے انہیں نہیں چھیڑ رہے۔ ورنہ نہ جانے ان کا بھی کیا حشر کرتے۔ آج یہ عالم ہے کہ خانہ کعبہ کے بالکل سامنے پہنچیں تو وہ نظر آتا ہے۔ وہ چاروں طرف سے بلند وبالا ہوٹلوں میں بالکل چھپ گیا ہے۔ یہ ہوٹل اتنے بڑے، اتنے شاندار اور اتنے بلند و بالا ہیں کہ خانہ خدا ان کے بیچ میں نقطہ سا دکھائی دیتا ہے۔ ان بڑے بڑے ہوٹلوں سے سعودی شاہی خاندان اور ان کے منظور نظر لوگ جھولیاں بھر بھر کر کما رہے ہیں۔ اب درمیانے اور چھوٹے پیکج والے زائرین اور عازمین کے لیے خانہ کعبہ کے قرب و جوار میں کوئی ہوٹل نہیں بچا ہے۔ وہ ہر نماز کے لیے میلوں چل کر حرم شریف تک پہنچتے ہیں یا پھر وہیں رکے رہتے ہیں اور تمام نمازیں پڑھ کر رات سونے کے لیے اپنے ہوٹل واپس جاتے ہیں۔ دوسری طرف خانہ کعبہ سے ملحق اتنے بڑے بڑے اور انتہائی مہنگے مہنگے ہوٹل ہیں جن کے اندر رہ کر خانہ کعبہ کی نماز میں با جماعت شامل ہوا جا سکتا ہے۔ یعنی ہوٹل سے نکلے بغیر جماعت کے ساتھ نماز پڑھ سکتے ہیں۔ نہ سفر کی ضرورت۔ نہ رش کا سامنا۔ نہ گرمی سے واسطہ۔ اور نہ کسی اور تردد یا پریشانی کا خطرہ۔ اسِے کہتے ہیں وی آئی پی حج۔

اب تو سعودیہ نے حج اور عمرے کی فیس، ہوٹلوں میں ٹھہرنے کا ٹیکس، سفر کا ٹیکس اور دیگر اخراجات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ ادھر دنیا بھر کی ٹریول ایجنسیاں جو حج اور عمرے کا اہتمام کرتی ہیں ان میں مقابلے کا رجحان ہے۔ بڑے بڑے ہوٹلوں میں قیام، اچھے سے اچھا کھانا فراہم کرنے کی یقین دہانی، حرم سے انتہائی قریب قیام کی گارنٹی اور ایسی ہی دوسری وی آئی پی سہولتوں کا جیسے مقابلہ ہوتا ہے۔ یہ ایجنسیاں ہر حال میں دوسروں سے بازی لے جانا چاہتی ہیں۔ حرم سے قریب رہائش کی خواہش ہر زائر کی ہوتی ہے لیکن اتنے بڑے بڑے ہوٹلوں میں ان وی آئی پی سہولتوں کی مانگ تو کوئی بھی نہیں کرتا۔ نہ ہی انہیں ہر کھانے میں درجنوں ڈشیں درکار ہوتی ہیں۔ حج اور عمرے پر جانے والے لوگ چھٹیوں پر نہیں جا رہے ہوتے۔ وہ اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے اور فرض ادا کرنے جاتے ہیں۔ یہ ٹریول ایجنسیاں اور سعودی حکومت انہیں وی آئی پی بنا کر دونوں ہاتھوں سے لوٹتی ہیں۔

خود ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ مکہ اور مدینہ میں ہمارے ہوٹل کیسے ہوں گے اور ہمیں کھانا کیسا ملے گا۔ وہاں جا کر میں نے دیکھا کہ بہت سے حجاج کو یہ سہولتیں حاصل نہیں ہیں جو ہمیں حاصل ہیں۔ انہیں دیکھ کر احساسِ ندامت ہوتا تھا۔ جیسا کہ میں نے لکھا ہے کہ ہمارا ناشتہ اور شام کا کھانا بھی ہمارے پیکیج میں شامل تھا۔ ہمیں یہ بتایا گیا تھا کہ آپ کو دونوں وقت حفظانِ صحت کے اصولوں کے تحت تیار کیا گیا تازہ کھانا ملے گا۔ جس سے آپ کی صحت خراب ہونے کا اندیشہ نہیں ہو گا اور وقت بھی ضائع نہیں ہو گا۔ وہاں جا کر ہم نے دیکھا کہ دونوں اوقات کے کھانوں میں اتنی بے شمار ڈشیں بنی ہوتی تھیں کہ ان سب کو چکھنا بھی نا ممکن تھا۔ ظاہر ہے یہ کھانا ضائع ہوتا ہو گا۔ الشہداء ہوٹل کا ریستوران کھانوں کی نمائش گاہ بنا ہوتا تھا۔ اتنے زیادہ کھانے رکھے ہوتے تھے کہ انہیں دیکھ کر ہی دل بھر جاتا تھا۔ یہ سراسر افراط تھی۔ بلا ضرورت افراط۔ جو ٹریول ایجنسیوں اور بڑے بڑے ہوٹلوں کی مسابقت کی وجہ سے بغیر ضرورت اور بغیر مانگے عمل میں لائی جاتی ہے۔

میں نہیں سمجھتا کہ حاجی صاحبان کو ان لگژری ہوٹلوں اور اتنے کھانوں کی پرواہ ہوتی ہو گی۔ اکثریت ان سہولتوں سے صرفِ نظر کر کے اور اپنی خواہشات سے بالا تر ہو کر صرف اللہ اور اس کے رسولﷺ کی خوشنودی کی خاطر عبادات میں مصروف رہتی ہے۔ ان کے شب و روز نمازوں، طواف، نوافل اور قرآن کی تلاوت میں گزرتے ہیں۔ وہ ہلکا پھلکا کھانا کھا تے ہیں اور کبھی وہ بھی نہیں کھاتے اور اللہ کی عبادت میں مصروف رہتے ہیں۔ بہت کم لوگ ہوں گے جنہیں یہ افراط و تفریط پسند ہو گی۔

میرے خیال میں مکہ مدینہ میں یہ بڑے بڑے ہوٹل اور ان میں وی آئی پی کلچر نہیں ہونا چاہیے۔ زائرین کو بنیادی سہولتیں فراہم کر کے عبادات کے لیے زیادہ سے زیادہ وقت فراہم کرنا چاہیے۔ تمام حاجیوں کو یہ مواقع یکساں میسر ہونے چاہیں۔ یہ نہیں کہ کچھ تو حرم شریف سے ملحق اپنے کمروں میں کھڑے ہو کر خانہ کعبہ کی نماز میں شامل ہو جائیں اور کچھ سڑک پر چلچلاتی دھوپ میں کھڑے ہو کر یہ فریضہ انجام دیں۔ میرے خیال میں سعودی حکومت کو غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے حاجیوں کی آسائش اور سہولت کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے۔ اگر دکانداروں، ٹیکسی ڈرائیوروں اور ہوٹل مالکان کو ناجائز منافع خوری سے روک کر جائز منافع اور جائز معاوضہ پر خدمات مہیا کرنے کا اہتمام کر لیا جائے تو یہ بھی زائرین کی خدمت اور مدد ہو گی۔ اگر امیر لوگوں سے اتنے بڑے بڑے ہوٹلوں کے ذریعے اتنا کمایا جاتا ہے تو غریب حاجیوں کو قدرے دور سے حرم آنے کے لیے مفت ٹرانسپورٹ فراہم کر دی جائے تو یہ ان کے حق میں بڑی نیکی ہو گی۔

غزوہ اُحد کے مقام سے واپسی پر ہم غزوہ خندق والی جگہ سے گزرے جہاں اب متعدد مسجدیں بنی ہوئی ہیں۔ اردگرد آبادی ہے۔ اس لیے وہاں رُکنے اور دیکھنے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ وہاں سے تھوڑے ہی فاصلے پر اسلام کی سب سے پہلی مسجد یعنی مسجد قبا واقع ہے۔ ہم یہاں رُکے اور دو رکعت نفل ادا کیے۔ جب رسول پاکﷺ مکہ سے مدینہ تشریف لائے تو اسلام کی اس پہلی مسجد کی بنیاد انہوں نے اپنے ہاتھوں سے رکھی تھی۔ یہ مسلمانوں کی پہلی باقاعدہ عبادت گاہ تھی۔ بعد میں یہی مقام مسجد نبوی کو حاصل ہوا اور وہ مرکزی حیثیت اختیار کر گئی۔ مسجد قبا سے حضور نبی کریمﷺ کو بہت محبت تھی۔ وہ کبھی کبھار پیدل چل کر یہاں آتے تھے اور یہاں نماز ادا کرتے تھے۔

اسی طرح کبھی کبھار وہ مسجد قبلتین بھی پیدل چلے جاتے تھے۔ ہماری اگلی منزل وہی تھی۔ اس وقت سڑک پر ٹریفک بہت بڑھ گیا تھا۔ اس کی وجہ سے بس بہت آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی تھی۔ لہٰذا جب ہم قبلتین پہنچے تو اتنا وقت نہیں بچا تھا کہ وہاں رک کر نفل ادا کرتے۔ ہم نے سامنے کھڑے ہو کر مسجد کی زیارت کی، دُعا مانگی اور واپس بسوں میں سوار ہو گئے۔ در اصل انتظامیہ کو اور ہمیں بھی واپسی کی یوں جلدی تھی کہ کہیں ہماری ظہر کی نماز مسجد نبوی میں ادا ہونے سے نہ رہ جائے۔

زیارت جتنی بھی اہم ہو مسجد نبوی اور خانہ کعبہ میں با جماعت نماز کو ہر چیز پر ترجیح حاصل ہے۔ اتنا اجر و ثواب کہیں اور نہیں ملتا ہے۔ مسجد قبلتین بھی حضور پاکﷺ کے دور میں بنی تھی۔ یہی وہ مسجد ہے جہاں عین نماز کے دوران قبلہ تبدیل کرنے کا حکم آیا تھا۔ حضور نبی پاکﷺ نے نماز کے دوران اپنا رخ بیت المقدس سے خانہ کعبہ کی طرف کر لیا تھا۔ شروع میں یہ مسجد بیت المقدس کے رخ پر تعمیر کی گئی تھی۔ بعد میں اس کا رخ خانہ کعبہ کی طرف کیا گیا۔ لیکن بیت المقدس کے رخ پر بنا اس کا محراب ویسے ہی چھوڑ دیا گیا۔ اس لیے اسے مسجد قبلتین یعنی دو قبلوں والی مسجد کہا جاتا ہے۔

واپسی کے سفر میں سڑکیں زیادہ مصروف ملیں۔ ہماری بس جیسے رینگتی رینگتی، دھیرے دھیرے ہوٹل کی طرف گامزن تھی۔ ہوٹل سے کچھ فاصلے پر ٹریفک بالکل ہی رکی ہوئی تھی۔ کچھ بزرگ عازمینِ حج اور معذوروں کے علاوہ اکثر لوگ بس سے اتر گئے اور پیدل ہی ہوٹل کی طرف چل پڑے۔ عین دوپہر کا وقت تھا۔ ایسے لگتا تھا کہ سورج سروں پر آگ برسا رہا ہے۔ سخت گرمی اور حبس محسوس ہو رہا تھا۔ ادھر سڑک اور فٹ پاتھ بھرے ہوئے تھے جس کی وجہ سے چلنے میں دقت ہو رہی تھی۔ ایسی حالت میں ہانپتے کانپتے ہم بمشکل ہوٹل پہنچے۔

اندر داخل ہوئے تو سانس میں سانس آئی۔ در اصل ایئر کنڈیشنگ کی وجہ سے ہوٹل کے اندر اور باہر کے درجہ حرارت میں بہت زیادہ فرق تھا۔ باہر اگر پینتالیس ڈگری کی جلد جلا دینے والی گرمی ہوتی تھی تو ہوٹل کا دروازہ کھولتے ہی بائیس ڈگری کے انتہائی آرام دہ درجہ حرارت کا سامنا ہوتا تھا۔ ہم دن میں جتنی مرتبہ بھی ہوٹل سے باہر نکلتے تھے گرمی سے جان نکلتی محسوس ہوتی تھی۔ مگر ہوٹل یا پھر مسجد میں داخل ہونے کے بعد ٹھنڈ ہی ٹھنڈ، سکون ہی سکون ملتا تھا۔ ایئر کنڈیشنر کی صحیح قدر ایسے گرم مقام پر ہی ہوتی ہے۔ سعودیہ میں ایئر کنڈیشنر صرف بڑے ہوٹلوں تک محدود نہیں ہیں۔ بلکہ آج کل تقریباً ہر عمارت ہی ایئر کنڈیشنڈ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے بغیر وہاں گزارا ہی نہیں ہے۔ یہ بھی شکر ہے کہ وہاں بجلی نہیں جاتی اور ایئر کنڈیشنر چوبیس گھنٹے مصروف عمل رہتے ہیں۔

خیربجلی جا نے اور لوڈشیڈنگ کے لیے ہمارا وطن پاکستان پوری دنیا میں مشہور ہے۔ دنیا بھر میں ایسا ظلم کہیں بھی نہیں ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں حکومتیں مستقبل کی منصوبہ بندی کر کے چلتی ہیں۔ وہ وقت سے پہلے ہر چیز کا انتظام کر لیتی ہیں۔

ایسا نہیں ہوتا کہ لوگوں کو سالہاسال تکلیف اور پریشانی میں مبتلا رکھنے کے بعد اس کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کرتی ہوں۔ حکومت میں ایسے ادارے موجود ہوتے ہیں جن کی ڈیوٹی یہ ہوتی ہے کہ وہ ہر مسئلے کی پیشگی منصوبہ سازی کریں اور وقت پڑنے پر کسی شے کی کمی نہ ہو۔ اگر صاحبانِ اقتدار میں اتنی منصوبہ بندی اور ر صلاحیت نہ ہو کہ وہ عوامی ضروریات کا بر وقت خیال رکھ سکیں تو انہیں حکومت کرنے کا حق نہیں دیا جاتا۔ کسی بھی جمہوری ملک میں کوئی حکومت عوام کی ضروریات کا خیال رکھنے میں ناکام رہے تو ایسی حکومت اور اس کے فرمانرواؤں کو ایسی پستی میں پھینک دیا جاتا ہے جہاں سے اٹھ کر وہ دوبارہ عوام کا سامنا نہیں کر سکتے۔ ایسی حکومت اور ایسے حکمران کو زیادہ دیر تک اپنے سر پر مسلط رہنے کی اجازت نہیں دیتے ہیں۔


انتظامی مسائل



تمام لوگ جلدی جلدی تیار ہوئے اور نماز ظہر کی ادئے گی کے لیے مسجد روانہ ہو گئے۔ نماز ظہر کے بعد ہم مسجد میں ہی رکے رہے اور عصر پڑھ کر ہی واپس آئے۔ مسجد کے آگے کرائے کے لئے گاڑیاں دستیاب ہوتی ہیں۔ در اصل یہ نجی کاریں ہوتی ہیں جو حج اور دوسرے مصروف دنوں میں ٹیکسی کی جگہ استعمال ہو رہی ہوتی ہیں۔ کچھ لوگ انہیں کرائے پر لیتے ہیں اور مختلف زیارتوں پر لے جاتے ہیں۔ میں نے ایک دو مرتبہ ان سے مختلف جگہوں کا کرایہ معلوم کیا تو ڈرائیوروں نے مختلف کرائے بتائے۔ مثلاً ایک نے مسجد قبلتین کا کرایہ سو ریال بتایا۔ دوسرے نے اسّی اور تیسرے نے پچاس ریال مانگے۔ اس کا مطلب یہ تھا وہاں کوئی مقر رہ کرایہ نہیں تھا بلکہ وقت اور حالات کے پیشِ نظر گھٹتا بڑھتا رہتا تھا۔

زائرین مجبوراً یہ گاڑیاں کرائے پر لیتے ہیں۔ ورنہ ہر شخص کو علم ہے کہ مکہ اور مدینہ میں ٹیکسی ڈرائیوروں اور کرائے کی گاڑیوں کے نرخ مقرر نہیں ہیں۔ ڈرائیور من مانا کرایہ لیتے ہیں۔ ایسی پرائیویٹ کاروں پر کوئی باقاعدہ نشانی نہیں ہوتی جس سے معلوم ہو کہ کہ یہ کرائے کی کار ہے۔ نہ ہی ڈرائیور نے یونیفارم پہنا ہوتا ہے۔ نہ ہی ان ڈرائیوروں کو عربی کے علاوہ دوسری کوئی زبان آتی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ منہ مانگا کرایہ لیتے ہیں۔ مسافروں سے بدتمیزی سے پیش آتے ہیں۔ جہاں جی چاہتا ہے انہیں دھکا دے کر گاڑی سے اتار دیتے ہیں۔ ان ڈرائیوروں کو نہ تو قانون کا خوف ہوتا ہے اور نہ ہی اللہ سے ڈرتے ہیں۔ جہاں کسی کو زیادہ مجبور دیکھتے ہیں وہاں دس گنا زیادہ کرایہ بھی لے لیتے ہیں۔ مجھے علم نہیں کہ ان کی سرزنش کے لیے کوئی ادارہ وہاں موجود ہے یا نہیں۔ اگر ہے تو وہ یقیناً اپنا فرض ادا نہیں کر رہا ہے۔ ورنہ یہ ٹیکسی ڈرائیور اور پرائیویٹ کار ڈرائیور یوں من مانی نہ کرتے۔

حج کی روداد بیان کرتے ہوئے انتظامات کی خامیوں پر روشنی ڈالنے اور تنقید کرنے کا مقصد اپنے دُکھ کا اظہار ہے۔ ہم سب حجاز مقدس کی حرمت کے قائل ہیں۔ یہ اسلام کا مرکز ہیں۔ یہاں اللہ کا گھر ہے۔ یہاں ہمارے نبیﷺ پیدا ہوئے۔ یہیں دفن ہوئے۔ اس زمین کا ذرہ ذرہ ہمیں اپنی جان سے پیارا ہے۔ یہ بد نظمی سعودی حکومت اور انتظامیہ کی غفلت اور کوتاہی کی نشاندہی کرتی ہیں جس سے اس سرزمین کا تقدس مجروح ہوتا ہے۔ اسے دیکھ کر بحیثیت مسلمان ہمیں دلی تکلیف ہوتی ہے۔ ورنہ آج کے دور میں ان انتظامات کو اس سے بہت بہتر بنانا نا ممکن نہیں ہے۔ اس میں خود سعودی عرب کے لوگوں اور ان کی حکومت کی نیک نامی ہو گی۔ اور لاکھوں لوگ انہیں دعائیں دیں گے۔

اس سلسلے میں میں ایک مثال دینا چاہوں گا۔ 2000 میں جب سڈنی میں اولمپک کھیلوں کا انعقاد ہوا تو شہر کو تقریباً نئے سرے سے بنایا اور سجایا گیا۔ اولمپک پارک ہوم بش میں ایک نیا شہر بسایا گیا۔ ان کھیلوں کے چھ کروڑ سات لاکھ ٹکٹ فروخت ہوئے۔ پوری دنیا سے کئی ملین لوگ ان کھیلوں کو دیکھنے اور آسٹریلیا کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہونے آئے۔ کئی ہفتوں پر مشتمل ان کھیلوں کے دوران میں کسی ایک شخص نے بھی شکایت نہیں کی کہ اسے یہاں کسی قسم کی پریشانی یا تکلیف کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ہوم بش کے لیے نیا ٹرین ٹریک بنایا گیا۔ جہاں روزانہ دو سے چار لاکھ لوگ جاتے تھے۔ شہر بھر میں پبلک ٹرانسپورٹ، عوامی خدمات کے ادارے اور اشیائے ضرورت پر مشتمل دُکانیں یکساں نرخ پر اشیاء اور خدمات مہیا کرتی رہیں۔ ان کھیلوں میں سفر کرنے والے غیرملکی مہمان دیر سویر جب بھی کہیں جانا چاہتے یا انہیں کسی چیز کی ضرورت ہوتی تو کوئی نہ کوئی رضاکار ان کی خدمت کے لیے موجود ہوتا تھا۔ ان کھیلوں کے دوران کسی مہمان کو خراش تک نہیں آئی۔ لوگ ہمیشہ مطمئن اور خوش باش نظر آئے۔ لہٰذا جب اولمپک کھیلیں ختم ہوئیں تو سڈنی کی انتظامیہ اور یہاں کے عوام کی میزبانی اور حسنِ انتظام کو بے حد سراہا گیا۔ سڈنی کے لوگوں نے ان کھیلوں سے بہت فائدہ بھی اٹھایا اور پوری دنیا میں ایک اچھا اور مثبت پیغام بھی پہنچایا۔

سڈنی میں اتنا بڑا ایونٹ 2000 میں ہوا اور دو ہفتوں میں ختم ہو گیا۔ لیکن اپنے پیچھے ایک نیا شہر چھوڑ گیا۔ اسے اولمپک سٹی کہتے ہیں۔

جب کہ سعودی عرب میں حج ہر سال ہوتا ہے اور سارا سال لوگ وہاں آتے رہتے ہیں۔ ان حالات میں وہاں کی انتظامیہ کا تجربہ بھی وسیع ہونا چاہیے اور مستقبل کی منصوبہ بندی بھی بہت اچھے طریقے سے ہونی چاہیے۔ آسٹریلیا اگر ایک دفعہ اولمپک کرا کر دنیا بھر میں ایک مثبت پیغام بھیج سکتا ہے تو سعودی عرب کو یہ موقع ہر سال ملتا ہے۔ اس سے وہ بہت زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ مہمانوں کو اپنی اچھی اور مؤثر میزبانی کے ذریعے اپنا معترف، گرویدہ اور سفیر بنا کردنیا بھر میں واپس بھیج سکتے ہیں۔ اس سے ہمیں بھی خوشی ہو گی کہ ایک مسلمان ملک کو دنیا بھر میں پُر ستائش نظروں سے دیکھا اور سراہا جائے گا۔

مسجد نبویﷺ کے گرد و نواح میں شاپنگ کرنے کے لیے چاہے، وہ ونڈو شاپنگ ہی کیوں نہ ہو، بہت کچھ موجود ہے۔ اس کے علاوہ بھی وہاں بہت رونق اور چہل پہل ہے۔ ہر شخص کی دلچسپی کا سامان موجود ہے۔ بڑے اور چھوٹے ہوٹل، رنگا رنگ دکانیں، عارضی بازار، منی ایکسچینجر، ملبوسات، چمکتے دمکتے زیورات، بسیں، ٹیکسیاں، ریڑھیاں، ٹریول ایجنسیاں غرضیکہ کہ سب کچھ موجود ہے۔ چھوٹے بڑے ریستوران، ٹیک اوے شاپ اور اتوار بازار کی طرز پر عارضی دُکانوں کے بازار بھی موجود ہیں۔

ان دُکانوں میں گاہکوں کی کوئی کمی نہیں۔ جس دُکان ریستوران میں قدم رکھو، جس ہوٹل کے آگے سے گزرو، لوگ ہی لوگ نظر آتے ہیں۔ پورے عالم اسلام سے آئے ہوئے، رنگ برنگے ملبوسات پہنے، مختلف زبانیں بولنے والے اور مختلف رنگ ونسل کے لوگوں کی ٹولیوں کی ٹولیاں جا بجا نظر آتی ہیں۔ مسجد کے صحن کے اندر بھی نمازوں کے وقفے کے دوران میں یہ ٹولیاں جگہ جگہ بیٹھی نظر آتی ہیں۔ کچھ باتوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔ کچھ تبلیغ و تربیت کر رہے ہوتے ہیں۔ کچھ بیٹھے اور لیٹے ہوتے ہیں۔ کچھ خورد و نوش میں مصروف ہوتے ہیں۔ کچھ باقاعدہ خراٹے لے رہے ہوتے ہیں۔ مختلف زبانوں اور مختلف لہجوں کی آوازیں کانوں کو بھلی لگ رہی ہوتی ہیں۔ سب ایک ہی نبیﷺ کے پروانے ہیں۔ تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے۔


کچھ ملاقاتیں کچھ یادیں



مسجد سے جس سمت میں باہر نکلو، ہر طرف زائرین چلتے پھرتے، کھاتے پیتے اور شاپنگ کرتے نظر آتے تھے۔ میں روزانہ کئی مرتبہ مختلف سمتوں میں نکل جاتا تھا۔ اگر نہ بھی جانا چاہتا تو چائے اور سگریٹ کی طلب زبردستی لے جاتی تھی۔ جس طرف بھی جاتا اور جوپہلی چیز ڈھونڈنے کی کوشش کرتا وہ چائے خانہ ہوتی تھی۔ چاہے وہ ریستوران ہو، دکان ہو یا ٹھیلا ہو، بس چائے ملنی چاہیے۔ بہرحال چائے کی تلاش میں یا یوں کہیے کہ بہتر سے بہتر چائے کی تلاش میں میں نے یہ پورا علاقہ چھان مارا۔ ویسے بھی یہ فالتو وقت گھومنے پھرنے اور بھانت بھانت کے لوگوں سے ملنے کی وجہ سے اچھا گزر جاتا تھا۔ اس دوران میری بہت سے لوگوں سے ملاقات ہوئی۔ ان میں دنیا کے مختلف ملکوں سے آئے ہوئے لوگ بھی تھے۔ اور میرے وطن پاکستان کے باسی بھی تھے۔ آخری مرتبہ پاکستان گئے ہوئے مجھے پورے پانچ برس ہو چکے تھے۔ اس لیے وہاں کی یادیں اور باتیں اچھی لگتی تھیں۔

ایک دن تین سندھی دیہاتیوں سے ملاقات ہوئی۔ وہ ٹوٹی پھوٹی اردو بول سکتے تھے۔ وہ نہ تو پڑھے لکھے تھے اور نہ ہی سندھ میں اپنے گاؤں سے باہر گئے تھے۔ وہ تینوں جامشورو کے علاقے میں واقع اپنے گاؤں میں کھیت مزدور کا کام کرتے تھے۔ سعودیہ میں آ کر بھی انہیں یہی کام ملا تھا۔ میں نے ان سے پوچھا ’’آپ کتنے عرصے سے یہاں ہیں؟‘‘

ایک نے کہا ’’دوسال ہو گئے ہیں۔ ہم مدینے سے کافی دور ایک چھوٹے سے گاؤں میں کھجوروں کے باغ میں کام کرتے ہیں۔‘‘

’’کتنی تنخواہ ملتی ہے؟‘‘ میں نے وہ سوال کیا جو عام حالات میں اور عام لوگوں میں بالکل نہیں کرتا۔

’’جی ہم پانچ سو ریال سے ہزار ریال تک کما لیتے ہیں‘‘

میں نے حساب لگایا اور ان سے تصدیق چاہی ’’یہ تو تقریباً دس ہزار سے بیس ہزار روپے کے درمیان بنتے ہیں۔ کیا یہی آپ کی کل آمدنی ہے۔‘‘

پہلے نے کہا ’’جی تقریباً اتنی ہی ہے۔ اس میں سے بھی کچھ کھانے پینے پر خرچ ہو جاتے ہیں۔ کبھی کبھار جب سیزن نہیں ہوتا تو یہ بھی نہیں ملتے۔‘‘

’’تو آپ کے گھر والے کیسے گزارا کرتے ہوں گے؟‘‘ میں نے حیرانی سے پوچھا ’’آپ نے یہاں آنے کے لیے بھی کچھ خرچ کیا ہو گا۔ کم از کم ٹکٹ اور پاسپورٹ کے لیے پیسے تو دیے ہوں گے‘‘

’’جی آپ درست کہہ رہے ہیں۔ ہم اسّی ہزار روپے فی کس دے کر یہاں آئے ہیں۔ جو تھوڑا بہت کماتے ہیں وہ گھر بھیج دیتے ہیں۔ خود کبھی کبھار کنگال بھی ہو جاتے ہیں۔ بس یہی فائدہ ہے کہ دو سال بعد ہمیں حج کی اجازت مل گئی ہے۔‘‘

تیسرا بولا ’’ہمیں یہاں آنے کا سب سے بڑا فائدہ یہی ہوا ہے کہ ہم حج کر لیں گے‘‘

’’آپ کا مالک کیسا ہے اور اس کا آپ لوگوں سے سلوک کیسا ہے؟‘‘ میں نے سوال جاری رکھے

’’جی اچھا ہے۔ اس نے ہمیں حج کی اجازت دی ہے۔ بس جب اس کی آمدنی کم ہوتی ہے تو ہمیں تنخواہ نہیں دیتا ہے۔ ہم اس کے باغ میں بنے کھجوروں کے چھپر میں رہتے ہیں۔ مہینے میں ایک مرتبہ قریبی قصبے میں جا کر سودا سلف خرید لاتے ہیں۔ خود ہی پکاتے کھاتے ہیں۔ بس جی گزارا ہو رہا ہے‘‘

ان کی صحت اچھی نہیں تھی۔ یوں لگتا تھا کہ انہیں پیٹ بھر کر کھانا نصیب نہیں ہوتا ہے۔ لیکن ایسے صابر لوگ گلہ شکوہ بھی نہیں کرتے ہیں۔ وہ ہر حال میں گزارا کر لیتے ہیں۔ زبان سے اف تک نہیں کرتے۔ میں نے ان کے لیے چائے کے ساتھ سینڈوچ بھی لئے اور اپنا انٹرویو جاری رکھا ’’آپ کا پاسپورٹ آپ کے پاس ہے کیا؟‘‘

جواب آیا ’’جی نہیں! یہ مالک کے پاس رہتا ہے۔ جب ہم چھٹیوں پرجائیں گے تو پھر ملے گا‘‘

’’کب جائیں گے چھٹیوں پر؟ آپ کو گھر والے تو یاد آتے ہوں گے؟‘‘

میں نے دیکھا کہ میرے مخاطب کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اس نے کاندھے پر دھرے بڑے سے رو مال سے انہیں صاف کیا اور آہستہ سے کہا ’’بس دعا کریں۔ جب اللہ چاہے گا واپس چلے جائیں گے۔ آپ یاد کرنے کی بات کرتے ہیں۔ ہم تو چوبیس گھنٹے انہی کی باتیں کرتے ہیں۔ ہمارا تو دل چاہتا ہے کہ آج ہی ان کے پاس چلے جائیں۔ لیکن ہم ایسا نہیں کر سکتے۔ ابھی تک بڑی مشکل سے وہ رقم لوٹائی ہے جو یہاں آنے کے لیے زمیندار سے قرض لی تھی۔ ہمارے یا ہمارے گھر والوں کے پاس تو کچھ بھی نہیں بچا۔ جس طرح خالی ہاتھ آئے تھے اسی طرح اب بھی خالی ہاتھ ہیں۔ وہاں بھی مجبور تھے یہاں بھی مجبوری ہے۔ وہاں زمیندار تھا یہاں کفیل ہے۔ وہاں بھی سارا دن محنت کرتے اور بمشکل دو وقت کی روٹی نصیب ہوتی تھی یہاں بھی یہی ہو رہا ہے۔ ہمارے حالات ویسے کے ویسے ہیں‘‘

میں نے دیکھا کہ تینوں نے کھانا چھوڑ دیا تھا۔ وہ آنکھوں سے اُبلنے والے آنسوؤں کو صاف کر رہے تھے۔ مجھے افسوس ہوا کہ میں نے ان کے دکھوں کو تازہ کر دیا ہے۔ میں سوچ رہا تھا کہ غربت بھی ایک بلا کی مانند ہے۔ جس سے چمٹ جاتی ہے اس کی جان نہیں چھوڑتی ہے۔ حتّیٰ کہ موت ہی اس سے نجات دلاتی ہے۔

ایک چائے کی دکان پر گوجرانوالہ کے ایک پہلوان سے ملاقات ہو گئی۔ وہ بار بار ایک ہی بات دُہرا رہے تھے۔ ’’ہم عام حاجیوں کے ساتھ نہیں آئے۔ بلکہ وی آئی پی پیکج لے کر آئے ہیں۔ ہم عام ہوٹل میں نہیں ٹھہرے بلکہ مہنگے ہوٹل میں مقیم ہیں۔‘‘

یہ بات انہوں نے دو منٹ میں تین دفعہ دہرائی تو میں نے دریافت کیا ’’آپ کا ذریعہ معاش کیا ہے؟‘‘

’’ہم کاروبار کرتے ہیں۔ گوجرانوالہ میں ہماری آئس کریم کی دُکان بہت مشہور ہے۔ نواز شریف نے بھی ہماری آئس کریم کھائی ہے‘‘

’’آپ کتنے لوگ حج کے لیے آئے ہیں؟‘‘ میں نے دریافت کیا۔

’’جی میں، میری بیوی، میرا بھائی، اس کی بیوی اور ہماری ایک بہن آئی ہے۔ ہم عام حاجیوں کے ساتھ نہیں بلکہ وی آئی پی پیکج لے کر آئے ہیں اور بہت مہنگے ہوٹل میں ٹھہرے ہیں‘‘

’’آئس کریم کے علاوہ اور کیا بزنس ہے آپ کا؟‘‘ میں نے جرح جاری رکھی۔

پہلوان جی نے بتایا ’’آئس کریم کا بزنس اتنا بڑا ہے کہ کچھ اور کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ ہمارے پاس بڑے بڑے لوگ آتے ہیں آئس کریم کھانے کے لیے۔ نواز شریف نے بھی ہماری آئس کریم کھائی ہے‘‘

’’حجازِ مقدس آ کر اور مسجد نبوی دیکھ کر کیسا لگا آپ کو؟ میں نے ان کی توجہ دوسری طرف مبذول کرانے کے لیے پوچھا

’’جی ہم سوچ رہے ہیں کہ یہاں آئس کریم کا کاروبار شروع کر دیں تو بہت چلے گا۔ ویسے تو ہمارے پاس پہلے ہی پیسے کی کمی نہیں ہے۔ اسی لیے ہم عام حاجیوں کے ساتھ نہیں آئے بلکہ وی آئی پی پیکج لے کر آئے ہیں۔ آپ پاکستان آئیں تو ہماری دکان پر ضرور آئیں۔ بڑے بڑے لوگ آتے ہیں نواز شریف نے بھی ہماری آئس کریم کھائی ہے‘‘

میں نے پھر وہی سوال دہرایا ’’یہاں آ کر آپ کو کیسا لگ رہا ہے؟‘‘

’’اچھا ہی جی! لیکن گوجرانوالہ تو گوجرانوالہ ہے۔ ایسا شہر کہیں اور نہیں ملے گا۔ پھر ہماری دکان وہاں بہت مشہور ہے۔ بڑے بڑے لوگ۔۔ ۔۔ ۔‘‘

’’اچھا یہ بتائیں پاکستان کے حالات کیسے ہیں؟‘‘ میں نے ان کو آئس کریم کی دکان سے نکالنے کے لیے پوچھا

’’جی بہت اچھے ہیں۔ لگتا ہے آپ سعودیہ میں رہتے ہیں۔ جب ہی پاکستان کے حالات پوچھ رہے ہیں۔ بس پیسہ ہونا چاہیے۔ حالات کا کیا ہے۔ ہمارے پاس تو پیسہ اتنا ہے کہ دکان میں ہر وقت اے سی چلتا رہتا ہے۔ کیونکہ بڑے بڑے لوگ آتے ہیں۔ لاہور سے بھی آتے ہیں۔ نواز شریف نے بھی ہماری آئس کریم کھائی ہے‘‘

میں نے پہلوان سے اجازت چاہی ’’اجازت دیں۔ عشاء کا وقت ہوا چاہتا ہے‘‘

’’جی اللہ بیلی! میں تو پہلے کمرے میں جا کر ٹھنڈا ٹھار ہوں گا۔ پھر نماز پر جاؤں گا۔ ہمارے کمرے میں ہر وقت اے سی چلتا رہتا ہے اور کمرہ ٹھنڈا ٹھار رہتا ہے۔ یہ مہنگا ہوٹل ہے۔ کیونکہ ہم عام حاجیوں کے ساتھ نہیں آئے بلکہ وی آئی پی پیکج لے کر آئے ہیں‘‘

’’خدا حافظ‘‘ میں نے چلتے ہوئے کہا

’’ہماری دُکان پر ضرور آنا۔ بڑے بڑے لوگ آتے ہیں۔ نواز شریف نے بھی۔۔ ۔۔‘‘

جب تک میں کافی دور تک نہیں چلا گیا پہلوان کی آواز آتی رہی۔ آہستہ آہستہ میں اس کی دسترس سے دور ہوتا گیا۔

ایک صبح نماز فجر کے بعد میں حسب معمول روضہ رسولﷺ کی طرف چل پڑا۔ وہاں پہنچ کر سلام و درود پڑھا۔ سبز گنبد کی طرف نظر اٹھائی تو شفقت بھری آنکھیں نظر آئیں۔ یہ شفیق آنکھیں زمین سے آسمان تک نظر آ رہی تھیں۔ میں جیسے رنگ ونور میں نہا گیا۔ اپنے آپ کو ہواؤں میں اڑتا محسوس کرنے لگا۔ یہ منظر مجھے پتنگ کی طرح فضاؤں میں پہنچا دیتا تھا۔ یہ ناقابلِ فراموش نظارہ میرے دل و دماغ کو خیرہ کر دیتا تھا۔ پھر مجھے کچھ سجھائی نہیں دیتا تھا۔ چاروں جانب، تا حد نظر، پاتال سے آسمان کی حدوں تک آنکھیں ہی آنکھیں نظر آتی تھیں۔ ان آنکھوں کو دیکھنے کے لیے میرا پورا جسم آنکھیں بن جاتا تھا۔ اس کے علاوہ کوئی اور حس جیسے کام ہی نہیں کرتی تھی۔ زبان گنگ ہو جاتی تھی وہ جیسے بھولنا بھول گئی ہو۔ کوئی صدا یاد نہیں رہتی تھی۔

میں نے پلکوں سے درِ یار پر دستک دی ہے

میں وہ سائل ہوں جسے کوئی صدا یاد نہیں

میں ریاض الجنۃ میں جانا چاہتا تھا۔ لیکن اس منظر نے جیسے مجھے جکڑ لیا تھا۔ میں کافی دیر تک اس حالت میں کھڑا رہا۔ نہ جانے کتنا وقت گزر گیا تھا۔ اچانک جیسے مجھے ہوش آ گیا۔ میں روضہ رسولﷺ اور ریاض الجنۃ کے سامنے کھڑا تھا۔ ایک سفید ریش بزرگ کو اپنے سامنے بیٹھے پایا۔ وہ سر اٹھا کر مجھے ہی دیکھ رہے تھے۔ اُن کی نظریں میرے اُوپر جمی ہوئی تھیں۔ میں نے سوچا کہ شاید انہیں کسی مدد کی ضرورت ہے۔ میں اُنہیں اٹھانے کے لیے جھکا تو انہوں نے میرا ہاتھ تھام لیا۔ میرے چہرے سے انہوں نے نظریں نہیں ہٹائیں۔ میں نے ہولے سے پوچھا ’’کیا آپ کو مدد کی ضرورت ہے؟‘‘

جب میں نے دیکھا کہ وہ اٹھنا ہی نہیں چاہتے تو میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا اور کہا ’’بابا میرے لیے دُعا کرنا‘‘

’’آپ بھی‘‘ بابا نے کہا

میں کچھ نہ سمجھتے ہوئے وہاں سے چل دیا۔ کافی دیر تک بابا کی نظریں مجھے اپنی پیٹھ پر گڑی محسوس ہوتی رہیں۔

اس بابا کی نظروں میں معلوم نہیں کیا تھا کہ آج تک میں انہیں بھلا نہیں پایا۔ وہ مقام ہی ایسا تھا۔ نہ جانے وہاں کتنے لوگ اپنے دامن میں لعل و گہر لے کر پھر رہے ہوں گے۔ یہ انوکھی اور ناقابلِ فہم دنیا تھی۔

حرمین شریفین میں مجھے اپنے اندر ایک بہت بڑی کمی محسوس ہوئی۔ اپنے اندر یہ کمی مجھے کچھ لوگوں کو دُعا مانگتے دیکھ کر محسوس ہوئی۔ جب وہ دعا مانگ رہے ہوتے تھے تو ان میں اتنی عاجزی، اتنی انکساری، اتنا خشوع و خضوع اور اتنی گہرائی ہوتی تھی کہ مجھے ان پر رشک آتا تھا۔ میری دعاؤں میں ارتکاز اور گہرائی نہیں تھی۔ مجھے دعا مانگنے کا سلیقہ ہی نہیں تھا۔ بس ایک رٹا رٹایا سبق تھا جو دن میں بار بار پڑھ دیتا تھا۔ حالانکہ اس عربی دُعا کا ترجمہ بھی مجھے آتا تھا۔ سب سے بری بات یہ تھی کہ جس سے مانگتا تھا اس کو ہی نہیں سمجھتا تھا۔ اس کی قدرت کو، اس کی فیاضی کو، اس کی رحمت کو، مد نظر رکھ کر اس طرح سے نہیں مانگتا تھاجس طرح مانگنے کا حق ہے۔

کئی دفعہ میں سوچتا، یا اللہ یہ انکسار یہ عاجزی یہ درد کہاں سے لاؤں۔ کچھ لوگ دعا مانگتے تو اپنے آپ کو مجسم دُعا بنا لیتے تھے۔

اس پورے سفرِ حج میں میں نے کوئی دُعا ایسی نہیں مانگی جس سے مجھے خود بھی اطمینان ہوا ہو۔

لیکن! میں جس سے ملنے گیا تھا اس سے باتیں ضرور ہوئیں۔

دل کھول کر ہوئیں۔

آمنے سامنے ہوئیں۔

جی بھر کر ہوئیں۔

میں نے اپنا دل کھول کر دکھا دیا۔

اپنے دل کی کیفیت ظاہر کر دی۔

مجھے پورا اطمینان ہو گیا کہ میرا پیغام پہنچ گیا ہے۔

اِن میں کوئی دعا نہیں تھی۔ کوئی مانگ نہیں تھی۔ کوئی مطالبہ نہیں تھا۔ کوئی غرض نہیں تھی۔

بس جذبے تھے۔ جذبوں کی تحریر تھی۔ میرے دل کا پیغام تھا۔

میں مطمئن اور خوش تھا کہ میرا سفر ضائع نہیں ہوا۔

دُعاؤں کا کیا ہے۔ وہ تو کبھی بھی مانگ سکتا ہوں۔ پیغام پہچانا ضروری تھا۔

دل کا حال سنانا ضروری تھا۔ وہ پہنچ گیا۔

اب کچھ اور نہیں چاہیے تھا۔

میرے لیے اتنا ہی کافی تھا۔

اب میں اپنے کمرے میں صرف رات کے وقت ہی جاتا تھا۔ رات کے کھانے پر دوسرے ساتھیوں سے بھی ملاقات ہو جاتی تھی۔ ہمارے گروپ کے زیادہ تر لوگ آسٹریلیا سے آئے تھے۔ تاہم ان میں سے کچھ نیوزی لینڈ اور فیجی سے بھی تعلق رکھتے تھے۔ فیجی کے ہی کے ایک دو لوگ انتظامیہ کی بھی مدد کرتے تھے۔ ویسے تو لبیک کی انتظامیہ لبنانی نژاد عربوں پر مشتمل تھی۔ لیکن انہوں نے کچھ دوسرے لوگ بھی اپنی مدد کے لئے رکھے ہوئے تھے۔

ہمارے گروپ میں ایک خاتون بیٹے کے ساتھ حج ادا کرنے آئی تھی۔ یہ بنیادی طور پر فیجی کی ہندوستانی نژاد تھی اور آسٹریلیاکے شہر ملبورن میں رہتی تھی۔ فاطمہ نامی اس خاتون کی کہانی کافی دلچسپ تھی۔ وہ فیجی کے ایک ہندو گھرانے میں پیدا ہوئی۔ جیسا کہ جوانی میں بہت سے لوگ اپنے مذہب سے بیگانہ ہو جاتے ہیں، وہ بھی انہیں میں شامل تھی۔ جوانی کی رنگ رلیوں میں وہ اپنے مذہب، اپنے ملک اور اپنے والدین کو چھوڑ کر آسٹریلیا کی بھول بھلیوں میں گم ہو گئی۔ اس دوران اس نے کئی بوائے فرینڈ بدلے، کئی شہر بدلے اور کئی رنگ بدلے، لیکن اس کی بے چین روح ہل من مزید کہتی رہی۔ وہ ہوس کی آگ بجھانے کے لیے رات دن ایک کیے رہی۔ اسے اطمینان پھر بھی نہیں ہو رہا تھا۔ اپنے مذہب کو وہ آزما چکی تھی۔ اس میں بھی اسے سکون نہیں ملا تھا۔ لہٰذا وہ اپنا آپ لے کر در بدر پھرتی رہی۔

آخر اس کی ملاقات ایک پاکستانی نوجوان سے ہوئی جو اُسے اچھا لگنے لگا۔ لیکن ایک مسئلہ پیش آ گیا۔ وہ یہ کہ اس پاکستانی نوجوان نے اس کا کھلونا بننے سے انکار کر دیا۔ اس حسینہ کو اپنے حسن پر بہت ناز تھا۔ مگر پہلی دفعہ کسی نے اس کے حسن کے ہتھیار کو ناکام بنا دیا تھا۔ اس نوجوان نے شرط رکھ دی کہ ہمارے درمیان تعلق جب ہی پیدا ہو سکتا ہے جب تم مسلمان ہو کر میرے ساتھ باقاعدہ نکاح کر لو ورنہ میں تمہارے قریب بھی نہیں آؤں گا۔

مونا نامی اس پلے گرل کا پہلی دفعہ کسی باقاعدہ مرد سے سامنا ہوا تھا۔ ورنہ اس سے پہلے اس سے جتنے بھی لوگ ملے تھے نہ وہ سنجیدہ تھے نہ یہ وفادار تھی۔ لہٰذا رات گئی اور بات گئی والا معاملہ ہوتا تھا۔

مونا نے اس پاکستانی نوجوان محمد علی پر اپنے ہتھیار آزمانے میں کوئی کسر روا نہیں رکھی لیکن اس کی ایک نہ چلی۔ بالآخر وہ ہار مان گئی۔ باقاعدہ بنیادی اسلامی تعلیم حاصل کر کے اس نے کلمہ پڑھا اور مسلمان ہو گئی۔ اس کا اسلامی نام فاطمہ علی رکھا گیا۔

محمد علی سے نکاح کے بعد اس کی زندگی کا ایک نیا دور شروع ہو ا۔ جو پہلے سے بالکل مختلف تھا۔ اس میں مکمل گھریلو زندگی تھی۔ خاوند کا پیار اور اعتماد تھا۔ ٹھہراؤ تھا۔ سکون تھا۔ سب سے بڑھ کر اطمینانِ قلب تھا۔

فاطمہ کو یہ زندگی راس آ گئی۔ اس کے اندر اسلام سے محبت کا چراغ روشن ہو گیا۔ جس نے اس کے اندر کے تمام اندھیروں کو دور کر کے اس کی جگہ ایک خوبصورت روشنی بھر دی۔ اٹھارہ سال کی رفاقت کے بعد فاطمہ کی زندگی میں اس وقت بھونچال آیا جب محمد علی کا ایک حادثے میں انتقال ہو گیا۔ ان کا ایک بیٹا تھا۔ محمد علی کے جانے کے بعد فاطمہ نے نہ صرف گھر اور بیٹے کی ذمہ داری سنبھالی بلکہ محمد علی کا کاروبار بھی کامیابی سے چلایا۔

اللہ کے سہارے اور ایمان کی طاقت نے اسے کمزور نہیں ہونے دیا۔ وہ اِسلام کی سچائی، حقانیت اور اس کی برکتوں سے فیض یاب ہوتی رہی۔ اب اللہ کا بلاوا آیا تو اس کے در پر حاضری دینے کے لیے بیٹے کے ساتھ چلی آئی۔ فاطمہ نے اپنے گھر میں درس قرآن اور اسلامی تعلیم کا مدرسہ بنایا ہوا ہے جہاں درجنوں بچے اسلامی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اسے اسلامی سوسائٹی میں عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔


کچھ بد مزاج لوگ



ریاض الجنۃ میں اشراق کی ادائیگی کے بعد ایک صبح ہم مسجد سے ملحق مقامی مارکیٹ میں چلے گئے۔ یہ مارکیٹ مسجد کے شمال مغرب میں واقع ہے۔ اتوار بازار کی طرز پر اس مارکیٹ کے اندر چھوٹی چھوٹی بہت سی دکانیں ہیں۔ جن میں زائرین کی دلچسپی اور ضرورت کی بہت سی اشیاء فروخت ہوتی ہیں۔ ان میں جائے نمازیں، مصلے، چھوٹے چھوٹے قالین، مسواکیں، کھجوریں، خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کی فریم شدہ تصاویر، تسبیحیں، چپلیں، احرام، خواتین اور بچوں کے ملبوسات، عربی لباس، ٹوپیاں، قہوے کے برتن، تھرماس، ریشمی اور سوتی بڑے رو مال اور ایسی ہی دوسری چیزیں بکتی ہیں۔ اکثر دکانوں کی دکاندار مقامی خواتین ہیں۔ یہ انتہائی تند خو اور بد مزاج واقع ہوئی ہیں۔ بین الاقوامی شہروں کے برعکس یہاں کسی شے پر اس کے نرخ درج نہیں ہوتے۔ لہٰذا ہم نے ایک خاتون دکاندار سے جائے نماز کی قیمت دریافت کی۔ اس کا شکریہ ادا کر کے جانے لگے تو وہ چلانے لگی۔ وہ عربی میں ہمیں برا بھلا کہہ رہی تھی۔ پوری بات تو سمجھ میں نہیں آئی۔ لیکن اسے ہمارا نرخ پوچھنے کے بعد کچھ نہ خریدنا برا لگا تھا۔ اس لیے وہ اپنے غصے کا اظہار کر رہی تھی۔ ہماری شلوار قمیض ہمارے پاکستانی ہونے کا اعلان کر رہی تھی۔ لہٰذا وہ (کل پاکستانی خربان) کہہ کر تمام پاکستانیوں کو برا بھلا کہہ رہی تھی۔ ہم نے اسے کیا جواب دینا تھا بس مسکرا کر چل دیے۔

سعودی لوگوں کی بد مزاجی کے جواب میں دنیا بھر کے زائرین یہی کرتے ہیں۔ کوئی اُن سے نہیں الجھتا ہے۔ کوئی ان کی بد مزاجی کا جواب نہیں دیتا۔ بلکہ لوگ اللہ اکبر کہہ کر آگے چل دیتے ہیں۔ حجاز مقدس میں جانے والے زائرین کے دل انتہائی نرم اور خدا خوفی سے معمور ہوتے ہیں۔ وہ ایسی باتوں کا برا نہیں مانتے۔ بلکہ ہنس کر ٹال دیتے ہیں۔ ایک تو وہ اللہ کے خوف اور اپنے مقدس سفر کو مقدس کاموں میں صرف کرنے کی وجہ سے ان زیادتیوں کا جواب نہیں دیتے۔ دوسرا انہیں اس سسٹم میں اپنی شنوائی کی امید بھی نہیں ہوتی ہے۔ ورنہ کسی ترقی یافتہ ملک میں کسی سیاح کے ساتھ ایسی زیادتی کو کبھی برداشت نہیں کیا جاتا ہے۔ ان حرکات سے سعودی شہریوں اور وہاں کے نظام کے بارے میں دنیا بھر میں کیا تاثر جاتا ہو گا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ بے شمار ملکوں کے لاکھوں زائرین ہر سال سعودی عرب جاتے ہیں۔ وہ وہاں ہفتوں قیام کرتے ہیں اور اپنی خون پسینے کی کمائی وہاں خرچ کرتے ہیں۔ جس سے سعودی عرب کو بڑی تعداد میں زر مبادلہ گھر بیٹھے مل جاتا ہے۔ مقامی لوگوں کی تجارت اور خدمات کے عوض بے انتہا آمدنی ہوتی ہے۔ ہوٹل، ریستوران، دکانیں اور پبلک ٹرانسپورٹ والے سبھی ان سے کماتے ہیں۔ یہ سلسلہ سارا سال جاری رہتا ہے۔ سعودی عرب میں عموماً اور مکہ مدینہ میں خصوصاً لوگوں کا روزگار چلتا رہتا ہے۔ اس کے بدلے میں مقامی لوگ اور سعودی حکومت ان زائرین کو عزت، سہولت اور ہر قسم کی حفاظت مہیا کرے تو مقامی لوگوں اور حکومت کا اچھا تاثر پوری دنیا میں پھیل جائے۔ وہ لوگ جو وہاں کی بدانتظامی کی وجہ سے نہیں آتے وہ بھی آئیں گے۔ جس طرح لوگ متحدہ عرب امارات میں جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس سرزمین اور اس کے باشندوں کو حرمین شریفین کی صورت میں اتنا بڑا تحفہ دیا ہے۔ انہیں اس کی قدر کرنی چاہیے اور خود کو اس کی میزبانی کا اہل ثابت کرنا چاہیے۔

حکومت کی جانب سے بہت سے اقدامات کے باوجود حج کے پورے عمل کا مکمل اور غلطیوں سے مبرّا انتظام نہیں ہے۔ اس لیے ہر سال بہت سے لوگ وہاں جا کر بھی حج کی ادائیگی سے محروم رہ جاتے ہیں۔ درجنوں بد انتظامی کی وجہ سے لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ 2015میں رمی کے دوران 700 سے زیادہ افراد کی ہلاکت کا واقعہ سب کے سامنے ہے۔

سب سے زیادہ افسوس مقامی شہریوں کے رویے پر ہوتا ہے۔ وہ انتہائی بدمزاج اور بد اخلاق واقع ہوئے ہیں۔ اس کا تجربہ آپ کو قدم قدم پر ہو گا۔ سب سے زیادہ بد مزاجی کا مظاہرہ وہ غیرملکیوں کے ساتھ ہی کرتے ہیں۔ خدا جانے کیا وجہ ہے ان کی بد مزاجی کی۔ وہ اپنے ملک میں آنے والے مہمانوں کی عزت کیوں نہیں کرتے۔ ان کو روزگار اور ان کے ملک کو زر مبادلہ پہچانے والے غیرملکی زائرین کے ساتھ حسن سلوک کا مظاہرہ کیوں نہیں کرتے۔ وہ اپنے آپ کو ہر قانون اور ضابطے سے مبرّا کیوں سمجھتے ہیں۔ دوسروں کو اپنے سے کم تر کیوں سمجھتے ہیں۔

حالانکہ قرآن اور حدیث عربی زبان میں ہیں۔ ہمارے پیغمبر حضرت محمدﷺ انہیں میں مبعوث ہوئے تھے۔ نبی کریمﷺ کے اخلاق کی دنیا مثالیں دیتی ہے۔ صحابہ کرامؓ حسن اخلاق کا نمونہ تھے۔ اسی حسنِ اخلاق کی وجہ سے اسلام پھیلا۔ اُس وقت کے مسلمان جہاں بھی جاتے تھے اپنے اعلیٰ اخلاق اور حسن سلوک سے لوگوں کا دل جیتتے تھے۔ اُنہوں نے بزور شمشیر اسلام نہیں پھیلایا تھا۔ محمدبن قاسم، طارق بن زیاد، خالد بن ولید اور دوسرے فاتحین اسلام کو مقامی لوگ اپنا دیوتا مانتے تھے۔ محمد بن قاسم کے بت بنا کر ہندؤں نے گھروں میں سجا دیے تھے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ قرآن و حدیث حسن اخلاق کی تعلیم دیتے ہیں۔ یہ لوگ نماز روزے کا پورا اہتمام کرتے ہیں۔ قرآن بھی پڑھتے ہیں۔ لیکن ان کی زندگیوں پر اس کے اثرات کیوں مرتب نہیں ہوتے۔ ممکن ہے اچانک دولت آنے سے ان کے ذہن و دل میں ایسی رعونت آ گئی ہو یا پھر مقامی اور غیر مقامی لوگوں میں جو قانوناً فرق رکھا گیا ہے اس کے بھی اثرات ہوتے ہوں گے۔ تعصب کی روک تھام کے لیے مناسب قانون کی عدم موجودگی بھی اس کی وجہ ہو سکتی ہے۔

نجی محفلوں میں احباب کے ساتھ اس موضوع پر بات ہوتی ہے تو اکثریت میری ہم خیال ہوتی ہے۔ لیکن کچھ دوستوں کو اختلاف بھی ہے۔ خصوصاً پاکستان میں رہنے والے کچھ دوست ان انتظامات سے مطمئن نظر آتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں ہر طرف بد انتظامی کا دور دورہ ہے۔ صفائی ستھرائی کا مناسب انتظام نہیں ہے۔ ایسی صورت میں پاکستان سے جا کران احباب کو سعودی عرب کے انتظامات اور قانون پر عمل درآمد بہتر محسوس ہوتا ہے۔ یہ حقیقت بھی ہے کہ قانون پر عمل درآمد کے معاملے میں سعودی عرب بہت سے ممالک سے بہتر ہے۔ حرمین شریفین کے اندر کے انتظامات کافی بہتر ہیں۔ لیکن پورے حج اور شہر کے حالات کو سامنے رکھا جائے تو بہتری کی بہت زیادہ گنجائش موجود ہے۔

موجودہ دور کی ٹیکنالوجی، رسل ورسائل کے ذرائع اور آمدورفت کے وسائل کو مد نظر رکھا جائے تو ان انتظامات کو بہت بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ کچھ چیزیں ایسی ہیں کہ ان کو بہتر بنانے کے لیے زیادہ تردّد کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ صرف انتظامی اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں میں تین مثالیں دینا چاہوں گا۔

(الف) مکہ اور مدینہ میں دکاندار کیمسٹ، حجام، ٹیکسی ڈرائیور، دھوبی اور ریستورانوں والے منہ مانگی قیمت اور معاوضہ لیتے ہیں۔ ہر دُکان کا نرخ دوسری دکان سے الگ ہے۔ ہر ٹیکسی ڈرائیور کا اپنا کرایہ ہے۔ ہر شخص اپنی مرضی کی قیمت وصول کر رہا ہے۔ اس مسئلے کا حل نہایت آسان ہے۔ صرف ایک حکم نامے سے یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔

(ب) دوران حج لوگوں کو جو پانی ملتا ہے وہ چھوٹی چھوٹی بوتلوں میں ہوتا ہے۔ یہ بوتلیں اور کچرا پھینکنے کے لیے مکہ مدینہ، عزیزیہ، منیٰ، عرفات اور جمرات کہیں بھی بن دستیاب نہیں ہیں۔ لہٰذا لوگ یہ بوتلیں سٹرک اور فٹ پاتھ پر پھینکنے پر مجبور ہیں۔ اگر حکومت کچرے کے ڈبے نہیں رکھ سکتی خالی بیگ تو آسانی سے رکھ سکتی ہے۔ اس میں کیا مشکل ہے؟

(ج) مکہ اور مدینہ کی سڑکیں دورانِ حج پارکنگ کا نمونہ پیش کرتی ہیں۔ ٹریفک اتنی زیادہ اور اس قدر بے قابو ہوتی ہے کہ ہم نے دس کلومیٹر کا فاصلہ چار گھنٹے میں طے کیا۔ کیا مکہ اور مدینہ میں لندن، پیرس، ٹوکیو اور سنگاپور کی طرح تیز ٹرینیں نہیں چلائی جا سکتیں۔ جہاں ٹنوں سونے کے کلاک نصب کیے جا سکتے ہیں۔ دنیا کی بلند ترین عمارتیں بنائی جا سکتی ہیں وہاں ٹرین ٹریک بنانا کیا مشکل ہے؟

یہ صرف تین مثالیں ہیں۔ ایسے کئی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ جو آسان بھی ہیں اور فائدہ مند بھی۔ یہ اقدامات مستقبل میں نہ صرف زائرین بلکہ مقامی لوگوں کے بھی کام آ سکتے ہیں۔ سب سے زیادہ ضروری حکومت اور عام لوگوں کا رویّہ تبدیل کرنا ہے۔ ملک میں ایسا محفوظ ماحول بنانے کی ضرورت ہے جس میں غیر ملکی کارندے اور زائرین اپنے آپ کو ہر قسم کے تعصب، زیادتی، بد اخلاقی اور بے قانونی سے محفوظ اور اچھے اور خوشگوار ماحول میں محسوس کریں۔ جیسا ترقی یافتہ ملکوں میں ہوتا ہے۔


مسجد نبویؐ کی عظمت



میں نے مکہ اور مدینہ میں قیام کے دوران میں محسوس کیا کہ مدینہ میں مسجد نبویؐ اور مکہ میں خانہ کعبہ آپ کو مسحور کر لیتے ہیں۔ جتنا وقت وہاں گزرتا رہتا ہے آپ کو اللہ کے ان دو گھروں سے محبت ہوتی جاتی ہے۔ میں مدینہ منورہ میں اپنے قیام کے بارے میں لکھ رہا ہوں۔ مدینہ میں رہ کر مسجد نبویؐ سے دور رہنا مشکل ہوتا جاتا ہے۔ یہ مسجد ہر دم آپ کو اپنے پاس بلاتی رہتی ہے۔ جتنی دیر اس سے دور رہو ایک خلش سی لگی رہتی ہے۔ جونہی اس کی چاردیواری میں قدم رکھو دل میں ایک ٹھنڈک سی محسوس ہونے لگتی ہے۔ میں روزانہ بہت وقت اس مسجد کو دیکھنے میں صرف کرتا تھا۔ اندر سے، باہر سے، قریب سے، دُور سے، ہر زاویے سے دیکھتا تھا۔ یہ ہر زاویے سے ہی حسین و جمیل نظر آتی تھی۔ خوبصورت، دلنشین، مرصع، مسجع، آرام دہ، وسیع و عریض، کھلی، ہوادار، ہر دم ٹھنڈک اور نرمی کا احساس دلاتی ہوئی۔ اس کی دیواریں، اس کی چھت، اس کے ستون، اس کا فرش تو خوبصورت ہے ہی اس کا صحن بھی انتہائی صاف ستھرا، ٹھنڈا ٹھنڈا، کھلا کھلا، ہوادار بلکہ خوشبودار محسوس ہوتا ہے۔ خصوصاً اس کی بڑی بڑی چھتریوں کے کھلنے اور بند ہونے کا منظر بھولتا ہی نہیں ہے۔

مسجد نبوی کی جگہ خود رسول پاکﷺ نے منتخب کی تھی۔ اس کی تعمیر میں بھی اپنے دست مبارک سے حصہ لیا تھا۔ اس وقت یہ گھاس پھونس کا ایک چھپر تھی۔ جو آج کل دنیا کی خوبصورت ترین عمارتوں میں سے ایک ہے۔ یہ جگہ دو یتیم بھائیوں کی تھی۔ جو اِسے بلا معاوضہ مسجد کے لیے وقف کرنا چاہتے تھے۔ لیکن حضور پاکﷺ نے اصرار کر کے اس کی پوری قیمت ادا کی۔ اس وقت مختصر سی مسجد تعمیر ہوئی جس میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا رہا۔ پہلا اضافہ نبی پاکﷺ کی زندگی میں ہوا۔ بعد میں خلفائے راشدین نے ارد گرد کے علاقے کو خرید کر مسجد میں اضافہ کیا۔ حضرت عثمانؓ نے مسجد کے آگے ایک برآمدے کا اضافہ کیا۔ 707ء میں ولید بن مالک کے دور میں چاروں کناروں پر مینار بنائے گئے اور دروازوں اور چھت پر سونے کی ملمع کاری کی گئی۔ 1481ء میں مصری دور حکومت میں مسجد کو آگ لگ گئی اور اس کی دوبارہ تعمیر ہوئی جو 380 سال تک چلتی رہی۔

1861 ء میں عثمانی ترکوں نے مسجد کو نئے سرے سے تعمیر کیا اور جس جذبے اور جس محبت سے تعمیر کیا اس کی مثال نہیں ملتی ہے۔ لوگ تاج محل کو محبت کی علامت قرار دیتے ہیں۔ مگر عثمانی دور میں مسجد نبویؐ کی تعمیر، تعمیرات کی دنیا میں محبت اور عقیدت کی معراج ہے۔ ترکوں نے جب مسجد نبویؐ کی تعمیر کا ارادہ کیا تو انہوں نے اپنی وسیع و عریض سلطنت میں اعلان کیا کہ انہیں عمارت سازی سے متعلق فنون کے ماہرین درکار ہیں۔ اعلان کی دیر تھی کہ فنِ تعمیر کے مانے ہوئے لوگوں نے اپنی خدمات پیش کر دیں۔ سلطان کے حکم سے استنبول کے باہر ایک شہر بسایا گیا جس میں اطرافِ عالم سے آئے ہوئے ماہرین فنون کو الگ الگ محلوں میں ٹھہرایا گیا۔ اس کے بعد عقیدت اور حیرت کا ایسا باب شروع ہوا جس کی نظیر مشکل ہے۔ خلیفہ وقت جو دنیا کا سب سے بڑا فرمانروا تھا شہر میں آیا اور ہر شعبہ کے ماہر کو تاکید کی کہ وہ اپنے ذہین ترین بچے کو اپنا فن اس طرح سکھائے کہ اسے یکتا اور بے مثال کر دے۔ اس دوران ترک حکومت اس بچے کی ذمہ داری اٹھائے گی۔ اسے حافظِ قرآن اور شہسوار بنائے گی۔

دنیا کی تاریخ کا یہ عجیب وغریب منصوبہ کئی سال جاری رہا۔ پچیس سال بعد نوجوانوں کی ایک ایسی جماعت تیار ہوئی جو نہ صرف اپنے شعبے میں یکتائے روزگار تھے بلکہ ہر شخص حافظ قرآن اور باعمل مسلمان بھی تھا۔ یہ لگ بھگ پانچ سو لوگ تھے۔ اس دوران ترکوں نے پتھروں کی کانیں دریافت کیں۔ جنگلوں سے لکڑیاں کٹوائیں۔ تختے حاصل کیے گئے اور شیشے کا سامان باہم پہنچایا گیا۔ یہ سارا سامان نبی آخر زمانﷺ کے شہر میں پہنچایا گیا تو احترام کا یہ عالم تھا کہ مدینہ سے دور ایک بستی بسائی گئی تاکہ شور سے مدینہ کا ماحول خراب نہ ہو۔ اگر کسی پتھر میں ترمیم کی ضرورت ہوتی تو مسجد کے احترام کی وجہ سے یہ پتھر واپس بستی میں پہنچایا جاتا۔ ماہرین کو حکم تھا کہ ہر شخص کام کے دوران با وضو رہے اور درود شریف اور تلاوت قرآن میں مشغول رہے۔ حجرہ مبارک کی جالیوں کو کپڑے سے لپیٹ دیا گیا کہ گرد و غبار اندر روضہ مبارک تک نہ پہنچ پائے۔ یہ کام پندرہ سال تک چلتا رہا۔ تاریخ عالم گواہ ہے کہ ایسی محبت اور عقیدت سے کوئی تعمیر نہ پہلے کبھی ہوئی ہے اور نہ کبھی بعد میں ہو گی۔ اس تعمیر میں پہلی دفعہ سنگ مرمر کا استعمال ہوا۔ اس تعمیر کو عمارت مجیدیہ بھی کہتے ہیں جو آج بھی پوری شان و شوکت سے قائم ہے۔

1952 میں مسجد کی مزید توسیع ہوئی اور پہلی بار کنکریٹ استعمال ہوئی۔ مسجد نبوی کی تاریخ کی سب سے بڑی توسیع جسے ہم آج دیکھتے ہیں شاہ فہد کے دور میں 1984-94 کے دوران ہوئی۔ اس وقت مسجد کے اندر تہہ خانے اور چھت کو ملا کر سات لاکھ نمازیوں کی گنجائش ہے اور مسجد کی چھت کے اوپر مزید نمازیوں کی گنجائش بھی رکھی گئی ہے۔ اس دیدہ زیب مسجد کو دیکھ کر ایمان تازہ ہو جاتا ہے۔


وقتِ جدائی



جوں جوں دن گزر رہے تھے توں توں مدینے کی فضاؤں سے جدائی کا خیال ستا رہا تھا۔ ان مقدس فضاؤں، ان مہکتی ہواؤں سے بچھڑنے کے تصور سے ہی دل میں ملال بھر آتا تھا۔ پھر نہ جانے کب ان گلیوں میں آنا نصیب ہو۔ زندگی میں دوبارہ یہ موقع ملے یا نہ ملے۔ یہ سبز گنبد، ان پر اُڑتے اور بیٹھتے کبوتر، یہ خوبصورت مسجد، میرے پیارے نبیﷺ کی آخری آرام گاہ، ان کا منبر، مسجد نبویؐ کے صحن میں کھلنے اور بند ہونے والی خوبصورت چھتریاں، اس کا ٹھنڈا اور ساف ستھرا فرش، اس کے خوبصورت در و دیوار، اس میں بسی ہمارے پیارے نبیﷺ کی یادیں اور صحابہؓ کی یادوں کی خوشبوئیں، یہ سب کچھ دامن کو پکڑ لیتی تھیں۔ دل یہی چاہتا تھا کہ اس مسجد اور اس روضے کے سامنے بیٹھ کر انہیں دیکھتے رہیں۔

اور کسی جانب کیوں جائیں اور کسی کو کیوں دیکھیں

اپنا سب کچھ گنبد خضریٰ کل بھی تھا اور آج بھی ہے (صبیح رحمانی)

د وسری جانب حج اور مکہ کی فضائیں بھی صدائیں دے رہی تھیں۔ لبیک اللہمّ لبیک کی آوازیں کانوں میں گونجتی رہتی تھیں۔ وہ خانہ کعبہ جو ہمارا محور و مرکز ہے بلاتا رہتا تھا۔ صدیوں سے قائم یہ چھوٹا ساگھر خالق حقیقی کے قرب کا احساس دلاتا رہتا ہے۔ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے۔ یہ اللہ کا گھر ہے۔ یہ ہمارا قبلہ و کعبہ ہے۔ یہ ہمارے دلوں میں بستا ہے۔ اسے دیکھنے کو جی مچلتا تھا۔

تیسری طرف ہمارے رہنما اور ہمارے معلمین آنے والے سخت دنوں کے لیے ذہنی طور پر تیار کر رہے تھے۔ عصر کے بعد تربیتی سیشن جاری تھا۔ سفر اور انتظامی امور کی بریفنگ دی جاتی تھی۔ دینی امور کی بریفنگ کے لیے ہمارے ساتھ کینبرا کی مرکزی مسجد کے امام کویتی تھے۔ وہ بہت موثر انداز میں حج اور اس کے ارکان کی تشریح کرتے رہتے تھے۔


اہتمامِ ملن



میرا پھوپھی زاد بھائی کا بیٹا جو عمر میں مجھ سے تھوڑا ہی چھوٹا ہے اپنی بیوی کے ساتھ پاکستان سے حج کے لیے آیا ہوا تھا۔ اس کی بیوی بھی میرے دوسرے کزن کی بیٹی ہے۔ یوں رشتے میں یہ دونوں میرے بھتیجا اور بھتیجی ہیں۔ لیکن رشتہ داری سے بڑھ کر ہمارے درمیان دوستی کا رشتہ ہے۔ وہ پہلے مکہ مکرمہ میں رہے اور ان دنوں مدینہ منورہ میں مقیم تھے۔ کوشش کے باوجود ہمارے درمیان رابطہ نہیں ہو رہا تھا۔ پاکستان سے روانہ ہونے سے پہلے جو نمبر اس نے مجھے دیا تھا وہ بھی کام نہیں کر رہا تھا۔ اس طرح پانچ چھ دن گزر گئے۔ ایک دن نماز فجر کے بعد میں ریاض الجنۃ میں بیٹھا اشراق کے وقت کا انتظار کر رہا تھا کہ میری آنکھ لگ گئی۔ مجھے یوں لگا کہ میری بھتیجی صفیہ نے مجھے آواز دی ہے۔ فوراً میری آنکھ کھل گئی۔ میں نے بائیں طرف دیکھا جہاں سے آواز آئی تھی۔ وہاں مرد ہی مرد تھے۔ اس وقت خواتین وہاں نہیں آ سکتی تھیں۔ میں جب ہوٹل واپس آیا تو اہلیہ سے کہا ’’آج اے ڈی اور صفیہ سے ملاقات ہو جائے گی‘‘

اس نے کہا ’’آپ کو ان کی کوئی خبر ملی ہے‘‘

’’ہاں‘‘ میں نے مختصر جواب دیا

اسی رات ہی عشاء کے بعد ریاض الجنۃ میں میری اہلیہ کی صفیہ سے ملاقات ہو گئی۔ صفیہ نے فون کر کے اپنے خاوند کو بھی بلا لیا۔ وہ تینوں ہمارے کمرے میں آ گئے۔ مجھے بے حد خوشی ہوئی اور اللہ کا شکر ادا کیا۔ اس رات ہم ایک پل کے لیے بھی نہیں سوئے۔ بلکہ صبح تک باتیں کرتے رہے۔ ہم پانچ برس سے پاکستان نہیں گئے تھے۔ لہٰذا ان میاں بیوی سے برادری کے تازہ ترین حالات جاننے کا موقع ملا۔

ویسے بھی میرا یہ بھتیجا اے ڈی مرزا جہاں موجود ہوتا ہے وہاں موضوعات کی کمی نہیں ہوتی۔ اس کی باتیں، اس کے قہقہے ہر دم محفل گرماتے رہتے ہیں۔ اس رات ہمارے کمرے میں یہ بزم سجی۔

صبح تہجد کے وقت ہم چاروں اکھٹے مسجدِ نبویؐ گئے۔ وہ میاں بیوی اسی دن واپس مکہ روانہ ہو گئے۔ حج کے بعد مکہ مکرمہ میں بھی ہماری ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ یہ بھی اللہ کا خصوصی کرم تھا۔ ورنہ لاکھوں کے مجمع میں کسی اپنے کا اس طرح مل جانا کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔ سچ ہے وہ جو چاہے کر سکتا ہے۔ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔


مدینے میں آخری دن



اگلے دن جمعۃ المبارک تھا۔ یہ مدینہ منورہ میں ہمارا دوسرا جمعہ تھا۔ گرمی حسب معمول عروج پر تھی۔ عین دوپہر کے وقت جب ہم مسجد نبوی میں داخل ہوئے تو مسجد کا طول و عرض نمازیوں سے بھرا ہوا تھا۔ کہیں خالی جگہ نظر نہیں آ رہی تھی۔ حالانکہ وسیع وعریض صحن میں بھی دریاں بچھی ہوئی تھیں۔ لیکن وہاں بھی تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ میں عموماً مسجد کے اندر جا کر نماز ادا کرتا تھا۔ لہٰذا جتنا آگے بڑھ سکتا تھا بڑھتا چلا گیا۔ میں نے دیکھا کہ لوگ سیڑھیوں کے ذریعے چھت پر جا رہے تھے۔ میں بھی ان کے ساتھ ہو لیا۔ اُوپر چلچلاتی دھوپ نے استقبال کیا۔ میں نے جوتے اتارے ہوئے تھے۔ ننگے فرش پر پاؤں رکھنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ خیال تھا کہ اتنی تیز دھوپ میں یہ ٹائلیں آگ کی طرح تپ رہی ہوں گی۔ ادھر کئی لوگ مزے سے اس فرش پر چل رہے تھے۔ میں حیران تھا کہ انہیں یہ تپش کیوں محسوس نہیں ہو رہی ہے۔ تجربے کے لیے میں نے کنکریٹ کے فرش پر ننگا پاؤں رکھا تو حیران رہ گیا۔ فرش بالکل گرم نہیں تھا۔ میں اطمینان سے چلتا ہوا اس حصے میں پہنچ گیا جہاں نمازیوں کے لیے چٹائیاں بچھی تھیں۔

در اصل مسجد نبوی کے چھت اور صحن کا فرش اس طرح بنایا گیا ہے کہ یہ گرم نہیں ہوتا بلکہ ٹھنڈا رہتا ہے چاہے و ہاں تیز دھوپ ہی کیوں نہ ہو۔ یہ انجینئرنگ کا کمال تھا۔ اس کی وجہ سے مسجد کے اندر، اس کے صحن اور حتیٰ کہ اس کی چھت پر بھی ٹھنڈی اور خوشگوار فضا برقرار رہتی ہے۔ جونہی مسجد کے گیٹ سے باہر قدم رکھیں منظر یکدم بدل جاتا ہے۔ مسجد کے صحن میں بلند و بالا اور دیو قامت چھتریاں نہ صرف دھوپ سے بچاتی ہیں بلکہ سخت گرمی میں پانی کی ہلکی پھوار بھی پھینکتی رہتی ہیں۔ جس کی وجہ سے صحن میں ایک خوشگوار اور ٹھنڈا ماحول برقرار رہتا ہے۔ جس سے روحانی کے ساتھ ساتھ جسمانی تسکین بھی حاصل ہوتی ہے۔

نماز عصر کے بعد ہم مکہ مکرمہ کے لئے روانہ ہو رہے تھے۔ نماز عصر سے پہلے ہمارا سامان بسوں پر لاد دیا گیا۔ ہم کم سے کم اشیائے ضرورت پر مشتمل بیگ کے ساتھ نماز عصر کے لیے مسجد نبویؐ روانہ ہو گئے۔ پچھلے کئی دنوں قافلوں کے قافلے مکہ کی جانب روانہ ہو رہے تھے۔ اب حج میں صرف دو دن رہ گئے تھے۔

یوں تو میقات مدینہ منورہ سے کچھ فاصلے پر ذوالحلیفہ نامی مقام پر واقع ہے۔ لیکن ہم نے اپنے معلم کی ہدایت کے مطابق عصر سے پہلے مدینہ میں ہی احرام باندھ لیے تھے۔ میقات، مکہ مکرمہ کے مختلف اطراف میں وہ مقامات ہیں جہاں سے عازمینِ حج احرام باندھ کر ہی آگے جاتے ہیں۔ جس راستے سے ہم مکہ مکرمہ کی طرف جا رہے تھے وہاں میقات مکہ مکرمہ سے بہت پہلے اور مدینہ منورہ کے قریب ہی واقع ہے۔ مکہ مکرمہ سے سب سے قریبی میقات مسجد عائشہؓ کے مقام پر ہے۔ یہ جگہ مکہ سے زیادہ دور نہیں ہے۔ مکہ مکرمہ میں مقیم عازِمین حج جب حج کی نیت کرتے ہیں تو مسجدِ عائشہؓ کے اندر جا کر احرام باندھتے ہیں اور پھر مکہ کا رخ کرتے ہیں۔ ذو الحلیفہ جو ہمارے راستے میں میقات ہے وہ مدینہ منورہ سے 9 کلومیٹر دور اور مکہ مکرمہ سے 450 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔

آج مسجد بھی اداس نظر آ رہی تھی اور گنبد خضریٰ بھی خاموش خاموش لگ رہا تھا۔ شفیق آنکھوں میں مسکراہٹ کی جگہ اداسی چھائی ہوئی تھی۔ نمازی بھی رو بوٹ کی طرح بے جان لگ رہے تھے۔۔ حتیٰ کہ گنبد خضریٰ کے اوپر بیٹھے کبوتر بھی اداس اور چپ چپ تھے۔ اس مسجد، اس گنبد اور ان در و دیوار سے بچھڑنے کے خیال سے دل میں درد سا اٹھتا تھا۔ حج کے دنوں میں یہ مسجد کتنی خالی خالی ہو گی۔ صرف مقامی لوگ ہوں گے اور بس۔

مسجد نبویﷺ میں آخری نماز پڑھ کر مسجد اور گنبد خضریٰ پر الوداعی نظریں ڈالیں تو بے اختیار آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ درود وسلام پڑھتا ہوا واپس چلا تو قدم من من کے ہو رہے تھے۔ بڑی مشکل سے بس تک پہنچا تو دیکھا کہ ہمارے ساتھی بس میں سوار ہو چکے تھے۔ ہم نے بھی اپنی سیٹیں سنبھالیں اور لمبے سفر کے لیے تیار ہو گئے۔

آج میں نے پہلی دفعہ احرام باندھا تھا۔ اِسے سنبھالنے میں کافی دقّت پیش آ رہی تھی۔ دو تولیہ نما بڑی بڑی چادروں کو باندھنا اور لپیٹنا شروع میں کافی مشکل لگتا تھا۔ آہستہ آہستہ اس کی عادت ہو گئی۔ سخت گرمی میں اُوپر کی چادر کھول کر یہ زیادہ ہوادار محسوس ہوتا ہے۔ تاہم مسلسل کئی دن پہننے کی وجہ سے یہ بہت میلا ہو جاتا ہے۔ لیکن حج کی شرائط کے مطابق اسے اُتارا نہیں جا سکتا۔ کچھ لوگ ایک سے زائد احرام خرید لیتے ہیں اور بدل بدل کر پہنتے رہتے ہیں۔ تاہم زیادہ تر حاجی ایک ہی احرام باندھے رہتے ہیں اور سنت بھی یہی ہے۔ کیونکہ رسول پاکﷺ نے دوران حج ایک ہی احرام استعمال کیا تھا۔ حاجیوں کے لباس اور جسم کی میل اور بدبو بھی اللہ کو عزیز ہے۔ رسول پاکﷺ اور صحابہؓ نے احرام بدلنے یا دھونے کی زحمت نہیں کی تھی۔ حالانکہ اس کی ممانعت نہیں ہے۔ حج کی روح کے مطابق حاجی گرد و غبار اور پسینے کو برداشت کرتے تھے۔ تاہم آج کل کے انتظامات میں گرمی اور گرد و غبار کا اتنا سامنا نہیں کرنا پڑتا جتنا ماضی میں ہوتا ہو گا۔

ہم مسجد ذوالخلیفہ جا کر رکے تو وہاں پہلے سے بہت سی بسیں رُکی ہوئی تھیں۔ مغرب کا وقت ہونے والا تھا۔ میں نے وضو کر کے نماز پڑھی اور پھر حج قران کی نیت کی تھی۔ اس طریقہ حج میں حج اور عمرہ یکجا ہو جاتے ہیں۔ بالفاظ دیگر عمرہ وحج کا احرام ایک ساتھ باندھا جاتا ہے۔ عمرہ کرنے کے بعد احرام کھولا نہیں جاتا۔ بلکہ فریضۂ حج ادا کرنے کے بعد ہی کھولا جاتا ہے۔


مدینہ سے مکہ کا سفر



مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ تک تقریباً 400 کلو میٹر سے بھی لمبا سفر ہے۔ یہ آسان سفر نہیں ہے۔ حج کے دنوں میں سڑکیں مصروف ہو جاتی ہیں اور ٹریفک اتنی رواں نہیں ہوتی۔ اس لیے بس پوری رفتار سے نہیں چل پاتی۔ سڑک کے علاوہ کوئی دوسرا ذریعۂ سفر بھی نہیں ہے۔ ہوائی راستے سے بھی جدہ تک ہی جا سکتے ہیں۔ جدہ سے پھر زمینی سفر کرنا پڑتا ہے۔ سنا ہے سعودی حکومت اب مکہ اور مدینہ کے درمیان ریلوے لائن بچھا رہی ہے۔ معلوم نہیں اتنے وسائل ہونے کے باوجود یہ کام پہلے کیوں نہیں کیا گیا۔ یورپ، امریکہ، جاپان، آسٹریلیا اور دوسرے بہت سے ممالک میں پہاڑ کاٹ کاٹ کر ٹرین لائنیں بنائی گئی ہیں۔ بعض جگہوں پر شہروں کے نیچے بلکہ سمندروں کے نیچے سرنگیں بنا کر بھی ریل لائن بچھا دی گئی ہے۔ لندن اور پیرس میں یہ کام سو سال سے پہلے کر لیا گیا تھا۔ کاش کہ کوئی مسلمان ملک بھی اس طرف توجہ دے دیتا۔

ذوالخلیفہ سے روانہ ہوئے تو عازمین نے بآواز بلند لبیک اللھم لبیک، لبیک لاشریک لکَ لبیک ان الحمدہ والنعمتہ ولملک ولاشریک لکَ پڑھنا شروع کر دیا۔ سارے راستے یہ مسحور کن کلمات گونجتے رہے۔ بلکہ اگلے کئی روز یہ ولولہ انگیز صدا ہر جانب سنائی دی۔ ان کلمات نے جیسے ہمارے دلوں میں برقی رو سے دوڑا دی تھی۔ ہم سب ایک ہی منزل، ایک ہی مرکز اور ایک ہی گھر میں حاضری کے لیے یکجا ہو رہے تھے اور پکار پکار کر اپنے آنے کی اطلاع دے رہے تھے۔ یہ قافلہ اہلِ ایمان کا قافلہ تھا جو اللہ کے گھر حاضری سے اپنے دلوں کو گرمانے جا رہا تھا۔ یہ ایمان کی روشنی تھی جس کی کرنیں ہر سو پھوٹتی محسوس ہو رہی تھی۔ اس روشنی کا مرکز وہیں تھا جہاں یہ قافلے چلے جا رہے تھے۔ اس مرکزیت نے ہمارے دلوں کو ایک دوسرے سے جوڑ دیا تھا۔ ہم ایک ہی لڑی میں پروئے ہوئے، ایک ہی رنگ میں رنگ رنگے ہوئے اور ایک ہی کلمہ ادا کرتے جا رہے تھے۔ سب ایک ہی سرکار کے گدا تھے، ایک ہی در کے فقیر تھے، ایک ہی در پر سجدہ کرنے والے تھے اور اِسی در کی طرف جا رہے تھے۔ ہماری نظریں کعبہ پر لگی تھیں۔ زبانوں پر تلبیہ جاری تھا اور جبینوں میں سجدے تڑپ رہے تھے۔

ایک دو جگہ رک کر ہمیں کھانے اور عشاء کی نماز پڑھنے کا موقع دیا گیا۔ ہماری بس کا ایئر کنڈیشنر صحیح کام نہیں کر رہا تھا جس سے بس میں بہت گرمی تھی۔ یہ پرانی بس تھی۔ اس کی سیٹیں تنگ اور بے آرام تھیں۔ اے سی چل تو رہا تھا لیکن ٹھنڈا نہیں کر رہا تھا۔ کھڑکیاں کھولنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ کیونکہ باہر اس سے بھی زیادہ گرمی تھی۔ اس گرم اور کثیف ماحول میں میری اہلیہ اور دوسری کئی خواتین کی طبیعت خراب ہو گئی اور انہوں نے قے کرنا شروع کر دی۔ شکر ہے ساتھیوں میں سے کسی نے برا نہیں مانا۔ بلکہ خواتین ایک دوسرے کی مدد کرتی رہیں۔ اس بس کو دیکھ کر مجھے زمانہ طالب علمی کی وہ بس یاد آ گئی جس پر بیٹھ کر ہم کالج جاتے تھے۔ اس بس کا انجر پنجر ہلا ہوا تھا۔ چلتی تھی تو میلوں دور تک اس کی کھڑکھڑاہٹ اور چرچراہٹ سنائی دیتی تھی۔ اس کا کوئی بھی پرزہ دُرست نہیں تھا۔ دروازہ یا سیٹ کچھ بھی اپنی جگہ پر نہیں تھا۔ اس بس میں ڈرائیور کے سامنے ایک شعر لکھا ہوتا تھا۔

انجن کی خوبی ہے نہ ڈرائیور کا کمال

اللہ کے سہارے چلی جا رہی ہے

اگر کبھی جاگنے اور کبھی سونے کو سونا کہتے ہیں تو میرا زیادہ تر سفر سوتے ہی گزرا۔ میں آس پاس بیٹھے ہوئے ساتھیوں کی باتیں بھی سن رہا تھا اور ایئر کنڈیشنر کی تھکی تھکی گھوں گھوں بھی۔ اہلیہ کو بھی سنبھال رہا تھا اور ساتھ ساتھ آنکھیں موند کر سو بھی رہا تھا۔ ایک تو بس اور جہاز والے سیٹوں کے آگے اتنی کم جگہ چھوڑتے ہیں کہ میرے جیسے بھاری تن و توش کے مالک اور چھ فٹ قد والے شخص کے گھٹنے بالکل جڑ کر رہ جاتے ہیں۔ ہوائی جہاز میں وقتاً فوقتاً اٹھ کر ٹہلنے کی گنجائش ہوتی ہے۔ بس میں یہ بھی ممکن نہیں۔ مجھے ایسالگ رہا تھا کہ جب بس رکے گی تومیں اپنی ٹانگوں کو سیدھا نہیں کر سکوں گا۔ شاید یہی سوچ دوسرے مسافروں کی بھی ہو گی۔ کیونکہ ان میں اکثر میری ہی جسامت کے تھے۔ بلکہ کئی مجھ سے بھی بڑے تن و توش کے مالک تھے۔

یہ اچھی بات ہے کہ وقت ایک جیسا نہیں رہتا اور ہر سفر کا کوئی نہ کوئی انجام ضرور ہوتا ہے۔ یہ مشکل سفر اور مشکل وقت گزر گیا۔ بالآخر صبح تین بجے کے لگ بھگ ہم عزیزیہ پہنچ گئے جہاں حج پر روانگی سے قبل اور بعد میں ٹھہرنے کے لیے ہمارا ہوٹل واقع تھا۔

میں نے سکون کا سانس لیا۔ بس کے لمبے اور تھکا دینے والے سفر نے سب کو ہلکان کر دیا تھا۔ اہلیہ کی طبیعت کی خرابی نے نہ صرف ہمارا سفر دشوار کر دیا تھا بلکہ پریشانی پیدا کر دی تھی کہ آگے چل کر کیا ہو گا۔ یہ تو صرف آغاز تھا۔ آگے چل کر اس سے بھی زیادہ مشکل مقام آنے تھے۔ رش گرمی، بے آرامی اور بھوک پیاس سب کچھ برداشت کرنا تھا۔ یہ سب ہم سے ہو پائے گا یا نہیں، یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔


مکہ آمد اور عمرہ



مکہ اور مدینہ کے مقابلے میں عزیزیہ کا یہ ہوٹل درمیانہ سا تھا۔ لیکن پھر بھی صاف ستھرا اور بنیادی سہولتوں سے آراستہ تھا۔ یہاں ہمیں الگ کمرہ بھی نہیں ملا۔ بلکہ چار لوگوں کو ایک کمرے میں اور ان کے ساتھ کی چار خواتین کو ملحقہ کمرے میں ٹھہرایا گیا۔ رات بھر کے جاگے اور تھکے ہوئے جسموں کو بستر اور ایئر کنڈیشنر کی ٹھنڈک ملی تو سکون آ گیا۔ لیکن سونے کے لیے ہمارے پاس دو تین گھنٹے ہی تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ صبح سات بجے ہم عمرہ کے لیے مکہ مکرمہ روانہ ہو رہے تھے۔

منیٰ، عرفات، مزدلفہ اور جمرات وغیرہ عزیزیہ کے قریب ہیں۔ اس لیے حج سے پہلے اور حج کے بعد اکثر حاجیوں کو عزیزیہ میں ہی ٹھہرایا جاتا ہے۔ منتظمین کی کوشش ہوتی ہے کہ حاجیوں کا زیادہ وقت اسی علاقے میں گزر جائے۔ تاکہ انہیں مکہ میں خانہ کعبہ کے گرد و نواح والے مہنگے ہوٹلوں کا کرایہ کم سے کم ادا کرنا پڑے۔

اگلے دن حج کا سلسلہ شروع ہو رہا تھا اور ہم منیٰ کے کیمپ میں شفٹ ہو رہے تھے۔ اس سے پہلے آج عمرہ کرنا ضروری تھا۔ جس کے لیے ہم صبح سات بجے ہی مکہ کے لیے روانہ ہو گئے۔ صبح ہم فجر کی نماز پڑھ کر سوئے تھے۔ صرف دو ڈھائی گھنٹے کے بعد ہی اٹھ کر تیار ہو گئے۔ آج میں نے عازمینِ حج کے چہروں پر شوق اور عقیدت کا رنگ چڑھا دیکھا۔ ان کی آنکھوں میں کعبہ کی تصویر سجی ہوئی تھی۔ کسی نے بھی نیند یا تھکاوٹ کا گلہ نہیں کیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جہاں وہ آج جا رہے تھے وہاں جانے کے انہوں نے برسوں سے دل میں خواہش کے دیپ جلائے ہوئے تھے۔ ہزاروں دعائیں مانگی تھیں۔ آنکھوں میں طلب کی جوت جگائی تھی۔ وہ اس گھر کو دیکھنے کے لیے بے تاب تھے۔ بے قرار تھے۔ دل میں دعائیں تھی اور زبان پر اللہ ہم لبیک کی صدائیں تھیں۔

عزیزیہ سے مکہ کا فاصلہ دس گیارہ کلومیٹر سے زیادہ نہیں ہے۔ لیکن سڑکیں پارکنگ کا منظر پیش کر رہی تھیں۔ آج ہر گاڑی کا رخ سوئے کعبہ تھا۔ ان میں بسیں، ویگنیں کاریں، ٹیکسیاں، کرائے کی گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں تک شامل تھیں۔ لوگوں کو جلدی تھی لیکن ٹریفک اتنی زیادہ تھی کہ گاڑی چلتی کم تھی اور رکتی زیادہ تھی۔ گرمی حسب معمول عروج پر تھی اور پیاس تھی کہ کم ہونے کا نام نہیں لیتی تھی۔ تقریباً سبھی زائرین نے اپنے پاس پانی کی بوتلیں رکھی ہوئی تھیں۔ وہ بوتل نکالتے، چند گھونٹ لے کر حلق تر کرتے اور بوتل واپس اپنے بیگ میں رکھ لیتے۔

میں نے بس کے شیشے سے باہر نظر دوڑائی تو شہر سے کچھ فاصلے پر بڑے بڑے پہاڑ دکھائی دیے۔ یہ سنگلاخ پہاڑ سبزے اور درختوں سے خالی اور پتھروں سے اٹے ہوئے تھے۔ دھوپ میں یہ پتھر چمک رہے تھے۔ شہر میں بھی تیز دھوپ اور حبس کاراج تھا۔ رہی سہی کسر گاڑیوں کے انجن کی گرمی اور دھوئیں نے پوری کر دی تھی۔ دھوئیں اور پٹرول کی یہ بدبو بس میں بھی محسوس ہو رہی تھی۔

شہر میں پرانی اور نئی عمارتوں کا ملا جلا عکس نظر آیا۔ بڑی اور جدید سڑکوں کے ساتھ ساتھ چھوٹی اور تنگ گلیاں بھی تھیں۔ شہر میں بھی سبزہ اور درخت کم ہی نظر آئے۔ کہیں کہیں کھجور اور اسی قبیل کے چند دوسرے درخت تھے۔ مجموعی طور پر یہ شہر عمارتوں، سڑکوں اور گلیوں پر مشتمل تھا۔ پارک، باغات، کھیل کے میدان، درخت، پودے اور گھاس بہت کم نظر آئی۔

حالانکہ درخت زمین کا زیور ہیں۔ شہر ہوں یا گاؤں، سڑک کا کنارہ ہو یا پارک ہوں، درختوں سے ہی رونق اور خوبصورتی ہوتی ہے۔ آسٹریلیا میں ہمیں ایک انچ زمین بھی سبزے یا درختوں سے خالی نظر نہیں آتی۔ پکی جگہ ہوتی ہے یا پھر گھاس اور پودے ہوتے ہیں۔ شہروں میں بھی درخت ہی درخت نظر آتے ہیں۔ کوئی گلی کوئی گھر کوئی علاقہ درختوں سے خالی نہیں ہے۔ درخت کاٹنا وہاں جرم ہے۔ حتیٰ کہ آپ اپنے گھر میں لگے درخت کو بھی بغیر اجازت نہیں کاٹ سکتے اور اکثر اس کی اجازت نہیں ملتی ہے۔ ہر محلے میں بڑے بڑے پارک، تھوڑے تھوڑے فاصلے پر گولف کورس حتیٰ کہ شہر کے مختلف حصوں میں باقاعدہ جنگل واقع ہیں۔

یہی وجہ کہ پورا آسٹریلیا سرسبز و شاداب ہے۔ یہی حال امریکہ، کینیڈا اور یورپ کا ہے۔ لیکن مسلمان ملکوں میں بدقسمتی سے اس کا بالکل رواج نہیں ہے۔ ا س کی ایک وجہ موسم ہو سکتا ہے۔ لیکن پوری مسلم دنیا میں سبزہ اور درخت نہ اگانے کی وجہ صرف موسم نہیں ہو سکتا۔ اس میں ہماری لاپرواہی، منصوبہ بندی کا فقدان، حکومتوں کی نا اہلی اور عوام کی بے علمی بھی شامل ہے۔ درخت اور سبزہ اُگانا ہماری ترجیحات میں ہی شامل نہیں ہیں۔ یہاں آسٹریلیا میں بھی ہم لوگ ایسے گھر پسند کرتے ہیں جہاں درخت نہ ہوں۔

ساٹھ اور ستر کی دھائی میں جی ٹی روڈ کے دونوں اطراف میں درختوں کی بہتات تھی۔ جہلم اور راولپنڈی کے درمیان لگے یہ گھنے درخت میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے۔ ان کے علاوہ مقامی سڑکوں کے کنارے پر بھی بے شمار درخت لگے ہوتے تھے۔ گاؤں اور دیہات میں تو درختوں کا کوئی شمار نہیں تھا۔ میں گورئنمنٹ ہائی سکول کونتریلہ (تحصیل گوجرخان) پڑھتا تھا۔ وہاں بے شمار درخت، پھول دار پودے اور سرسبز میدان تھے۔ جن کی دیکھ بھال ایک مالی سارا دن کرتا رہتا تھا۔ یہ مالی ان پودوں اور سکول کی حفاظت کے لئے رات کو سوتا بھی وہیں تھا۔ سکول کے صحن میں خوبصورت باغیچہ مجھے آج بھی یاد ہے۔ اس میں ہر رنگ کے پھول کھلے ہوتے تھے۔ چند سال پہلے میں اس سکول گیا تو وہاں خاک اُڑ رہی تھی۔ وہ باغیچہ، وہ درخت اور وہ سر سبز میدان قصۂ پارینہ بن چکے ہیں۔

ساڑھے نو بجے ہم خانہ کعبہ سے کچھ فاصلے پر واقع ہوٹل الشہداء کے سامنے اُترے۔ یہ بہت بڑا اور خوبصورت ہوٹل ہے۔ حج کے بعد ہمیں یہیں قیام کرنا تھا۔ آج ہم نے وہاں وضو کیا اور اپنے راہنما کے بلند علم کے پیچھے پیچھے خانہ کعبہ کی طرف چل دیے۔ راستہ لوگوں سے اٹا پڑا تھا۔ بہت ہی مشکل سے آگے بڑھنے کا راستہ مل رہا تھا۔ اس ہجوم میں ہم بہت آہستہ آہستہ اپنی منزل کی جانب گامزن تھے۔ ہمارے دونوں اطراف میں بلند و بالا عمارتیں تھیں جن میں زیادہ تر ہوٹل تھے۔ نیچے بڑی بڑی دُکانیں اور ریستوران تھے۔ سڑک اور فٹ پاتھ دونوں انسانوں سے بھرے ہوئے تھے۔

اچانک خانہ خدا ہمارے سامنے آ گیا۔ ایسا لگا کہ ہم نہیں وہ چل کر ہمارے سامنے آ گیا ہو۔ سیاہ رنگ کا چھوٹا سا چوکور گھر جسے ہم نے تصویروں میں ہزاروں بار دیکھا تھا آج ہمارے سامنے موجود تھا۔ یہی وہ گھر ہے جسے دیکھنے کی تمنا بیک وقت کروڑوں اربوں دلوں میں پلتی رہتی ہے۔ لیکن بہت کم لوگ اسے دیکھ پاتے ہیں۔ یہی تو وہ گھر ہے جسے دیکھنے کے لیے ہزاروں دعائیں مانگی جاتی ہیں۔ اس گھر کا ذکر ہماری زندگیوں میں روزانہ ہوتا ہے۔ نماز ادا کرتے ہوئے، نیت باندھتے ہوئے، گفت و شنید میں، مطالعہ کرتے ہوئے، درسی ودینی کتب میں، مسجد و منبر سے، حمد و نعت میں، ماں کی گود سے گور تک اس گھر کا ذکر ہوتا رہتا ہے۔ آج یہ گھر ہمارے سامنے تھا۔ ان خوش قسمت لوگوں میں آج میں بھی شامل ہو گیا تھا جنہیں اس گھر کی زیارت نصیب ہوئی تھی۔

میرے ہاتھ دُعا کے لئے اٹھ گئے۔ اے اللہ تو کتنا رحیم ہے۔ کتنا کریم ہے۔ تو دلوں کا بھید جانتا ہے۔ تو اپنے بندوں کے دلوں کی آواز سنتا ہے۔ یہ تو ہی ہے جو ہم جیسے گناہ گاروں اور سیاہ کاروں کو بھی اپنے گھر آنے کی اجازت اور ہمت عطا کرتا ہے۔ اے اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے۔

دنیا میں کروڑوں اربوں انسان اس گھر کو دیکھنے کی حسرت لیے دنیا سے سدھار گئے۔ ان میں سے کتنے ہی ایسے تھے جن کے پاس دولت اور طاقت بھی تھی۔ لیکن ان کے نصیب میں اس گھر کی زیارت نہیں تھی۔ کتنے ہی لوگ ہیں جو دن رات دعائیں مانگتے رہے لیکن وہ یہاں نہ پہنچ سکے۔ اے اللہ تو نے ہماری دعائیں سن لیں۔ ہماری آرزو پوری کی۔ ہمیں اپنے گھر میں حاضری کے قابل سمجھا اور حاضر ہونے کا اِذن عطا فرمایا۔

اے اللہ مجھ پر اور میرے خاندان پر اپنی رحمتوں کے دروازے کھول دے۔ یا اللہ مجھے مستجاب الدُعا بنا دے۔ یا اللہ اس گھر پر برستی رحمتوں میں مجھے بھی شریک کر کر لے۔ یا اللہ تیری رحمتیں یہاں بارش کی طرح برس رہی ہیں۔ گناہ گاروں کے گناہوں کو دھو رہی ہیں۔ توبہ کے دروازے کھل رہے ہیں۔ دلوں کے قفل وا ہو رہے ہیں۔ باطن کی سیاہی دھل رہی ہے۔ اس کی جگہ روشنی اور نور لے رہا ہے۔ یہ گھر ہی ایسا ہے جہاں سے کوئی خالی نہیں جاتا۔ جو بھی یہاں آتا ہے دامن بھر کر جاتا ہے۔

اے اللہ تو کتنا رحیم ہے۔ معاف کرنے والا ہے۔ توبہ قبول کرنے والا ہے۔ مجھے بھی اپنے دامن میں پناہ دے دے۔ یا اللہ میرے تمام گناہوں کو معاف فرما دے۔ یا اللہ مجھے اپنی رحمت کی آغوش میں سمیٹ لے۔ یا اللہ میرے دل کو ایمان کی روشنی سے بھر دے۔ یا اللہ میرے اور میرے خاندان پر رحم فرما۔ یا اللہ میرے والدین کو بخش دے۔ انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرما۔ یا اللہ ان کی قبروں کو جنت کے باغ بنا دے۔ یا اللہ ہمارے خاندان میں اتفاق اور اتحاد قائم و دائم رکھ۔ یا خدا ہمارے دلوں کو اپنی اور اپنے بندوں کی محبت سے مالا مال کر دے۔ یا اللہ ہمارے دلوں کو ایمان، محبت یقین اور حق وسچ کی روشنی سے بھر دے۔ یا اللہ میرے وطن اور اس کے باسیوں کو امن اور ترقی عطا فرما۔ یا اللہ اس دنیا کو امن کا گہوارہ بنا دے۔ یا میرے مالک تجھے اپنے حبیبﷺ کا واسطہ، میرے اس سفر کو، میرے حج کو اور میری عبادتوں کو قبول فرما۔ آمین

خانہ کعبہ کو دیکھتے ہی میرے جسم پر کپکپی سی طاری ہو گئی تھی۔ میری اہلیہ نے میرا ہاتھ تھاما ہوا تھا۔ ان کی حالت بھی مجھ سے مختلف نہیں تھی۔ ہماری آنکھیں نمناک ہو گئیں اور زبان گنگ ہو کر رہ گئی۔ آنکھیں بھی جھپکنا بھول گئی تھیں۔ یہ رعبِ خداوند تھا۔ خوف خدا تھا۔ اپنی قسمت پر رشک تھا۔ اپنے گناہوں کا احساس تھا یا پھر دنیا کے سب سے بڑے دربار کا رُعب تھا۔ جو کچھ بھی تھا اس نے ہماری طاقت سلب کر لی تھی۔ ہم کافی دیر تک اس کیفیت سے باہر نہ نکل سکے۔

خانہ کعبہ کو دیکھ کر مجھے یوں لگا کہ انوارِ الٰہی کی بارش ہو رہی ہے۔ زمین سے آسمان تک فرشتوں کی آمد ہو رہی ہے۔ یہ گھر مجھے زمین کا حصہ نہیں بلکہ آسمان سے اُترا ہوامحسوس ہوا۔ اس کے ارد گرد آسمانوں تک نور کا ہالہ تھا۔ میری زبان سے تلبیہ جاری ہوئی اور پھر یہ دعا مانگی یا اللہ مجھے مستجاب الدعوات بنا دے۔ یا اللہ ہماری حاضری کو منظور و قبول فرما۔

زبان کے بعد جسم کے باقی اعضاء نے بھی کام شروع کر دیا۔ ہم معلم کی ہدایت کے مطابق عمرے کی تیاری میں لگ گئے۔ جس کا پہلا جزو طوافِ خانہ کعبہ تھا۔ اللہ کا شکر ہے کہ حج سے صرف ایک دن پہلے اور صبح کے اس وقت بھی ہمیں خانہ کعبہ کے سامنے نچلے حصے میں طواف کا موقع مل گیا۔ اس نچلے حصے میں طواف کا فاصلہ سب سے کم ہوتا ہے۔ ویسے تو طواف کرنے والوں کی تعداد پر منحصر ہوتا ہے کہ آپ کے طواف کا دائرہ کتنا بڑا یا چھوٹا ہو گا۔ تاہم اوپر کی دو منزلوں کی نسبت یہ مختصر ہوتا ہے۔

آج کے بعد ہمارے اگلے سارے طواف اُوپر کی منزل پرہی ہوئے تھے۔ سب سے اوپر یعنی تیسری منزل پر طواف سب سے طویل طواف بن جاتا ہے۔ آج پہلا طواف نہ صرف ہمیں نیچے کرنے کا موقع مل گیا بلکہ حج کا موقع ہونے کے باوجود ہجوم قابلِ برداشت تھا۔ ہم خانہ کعبہ کے قریب تو نہ پہنچ سکے کیونکہ وہاں بہت بھیڑ تھی تاہم درمیانے فاصلے سے خانہ کعبہ کے سات چکر مکمل کرنے میں کامیاب رہے۔ اس کا آغاز اور اختتام حجر اسود کے سامنے سے ہوتا ہے۔ سب سے زیادہ ہجوم بھی وہیں ہوتا ہے کیونکہ بہت سے لوگ وہاں رک کر تکبیر پڑھتے ہیں۔ جبکہ یہ عمل چلنے کے دوران بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس مقام پر جھمگٹے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ جن لوگوں کے سات چکر مکمل ہوتے ہیں وہ وہاں سے باہر نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس سے لوگوں کا بہاؤ متاثر ہوتا ہے۔

دنیا بھر کے مسلمان یہاں طواف کر رہے ہوتے ہیں۔ افریقی ممالک سے آئے ہوئے گرانڈیل مسلمان بھی ان میں شامل ہوتے ہیں۔ یہ قوی الجثہ افریقی اپنے مضبوط کندھوں سے لوگوں کے درمیان سے ایسے راستہ بناتے ہیں۔ جیسے ٹینک کچے پکے راستوں پر بلا روک ٹوک بڑھتا چلا جاتا ہے۔ ان کے دھکوں سے مضبوطی سے پکڑے ہاتھ بھی چھوٹ جاتے ہیں۔ بہت سے لوگوں نے کپڑے کی مدد سے خود کو دوسرے کے ساتھ باندھ رکھا ہوتا ہے۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس دھکم پیل میں ایک دوسرے سے بچھڑ نہ جائیں۔

طواف صرف جسمانی بھاگ دوڑ کا نام نہیں ہے۔ یہ اللہ کے گھر کا طواف ہوتا ہے۔ حجرِ اسود، مقامِ ابراہیم، حطیم سب آپ کے سامنے ہوتے ہیں۔ اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنے اور اس کی رحمت طلب کرنے کا بہترین وقت ہوتا ہے۔

طواف کعبہ کے دوران جتنی دعائیں مجھے یاد تھیں وہ مانگتا رہا۔ جو سورتیں یاد تھیں پڑھتا رہا۔ خود کو اور اہلیہ کو دھکم پیل سے بچاتا رہا۔ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ کسی بڑی مشکل سے دوچار ہوئے بغیر ہمارا طواف مکمل ہو گیا۔

طواف کے بعد ہجوم سے باہر نکلنا آسان نہ تھا۔ کیونکہ پیچھے سے لوگوں کا ریلہ چلا آ رہا ہوتا ہے۔ وہاں رُکنے یا سمت بدل کر باہر نکلنے کا موقع نہیں ہوتا، ریلے کے ساتھ ہی چلنا پڑتا ہے۔ آہستہ آہستہ اس ریلے سے باہر نکلا جا سکتا ہے۔ یہی مناسب طریقہ ہے۔ ورنہ حجر اسود کے سامنے تو ویسے بھی ہجوم بہت زیادہ ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ یہی نقطہ آغاز اور یہی اختتام ہے۔

حضرت عمر فاروقؓ نے ایک مرتبہ حجر اسود کو بوسہ دیتے ہوئے فرمایا تھا ’’میں جانتا ہوں تو محض ایک پتھر ہے۔ جو نہ کسی کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ نفع۔ اگر میں نے رسول اللہﷺ کو تجھے چومتے نہ دیکھا ہوتا تو میں کبھی تجھے نہ چومتا۔‘‘

حضرت عمرؓ کے ان الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمان صرف حق تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے کسی اور کی نہیں۔ مسلمان حجر اسود کو بوسہ دیتے ہوئے محض اتباع سنت کرتے ہیں۔

حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسمعیلؑ خانہ کعبہ کی تعمیر کر رہے تھے تو حضرت جبرائیل علیہ السلام یہ پتھر لے کر آئے۔ روایت ہے کہ یہ پتھر حضرت آدم علیہ السلام کے ساتھ جنت سے اتارا گیا تھا۔ اس وقت اس کا رنگ سفید تھا۔ مگر اولاد آدم کے گناہوں کے باعث سیاہ ہو گیا ہے۔ طوفانِ نوح میں بھی یہ پتھر قدرت الٰہی سے محفوظ رہا۔ سن 6ہجری میں حضرت عبداللہ بن زبیر اور اموی افواج میں جنگ چھڑ گئی۔ پھر خانہ کعبہ کے غلاف کو آگ لگ گئی۔ تپش کے باعث حجرِ اسود کے تین ٹکڑے ہو گئے۔ بعد میں حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے چاندی کے موٹے خول میں ان ٹکڑوں کو ملفوف کر کے خانہ کعبہ کی دیوار کے ساتھ لگا دیا۔ 189 ہجری میں خلیفہ ہارون الرشید نے حجر اسود کے ان ٹکڑوں میں سوراخ کر کے چاندنی سے ملفوف کر دیا۔ 317 ہجری میں ابو طاہر نامی حاکم حجر اسود کو اکھاڑ کر بحرین لے گیا۔ 27 سال بعد یہ پتھر واپس اپنی جگہ نصب ہوا۔

حجر اسود کے ساتھ ایک لائٹ (روشنی) نصب کر دی گئی ہے۔ جس کی وجہ سے زائرین کو دور سے بھی یہ جگہ نظر آ جاتی ہے۔ ہر چکر کے بعد زائر اس کے سامنے رکتا ہے، اللہ اکبر کہہ کر دایاں ہاتھ اٹھاتا ہے، انہیں چومتا ہے اور پھر آگے بڑھ جاتا ہے۔ اگر لوگ زیادہ ہوں اور رکنے کا موقع نہ ملے تو چلتے چلتے یہ عمل مکمل کیا جاتا ہے۔

طواف مکمل کر کے ہم آہستہ آہستہ مطاف (خانہ کعبہ کے ارد گرد جگہ جہاں طواف کیا جاتا ہے) سے باہر آ گئے۔ سامنے ہی آبِ زم زم موجود تھا۔ وہاں سے جی بھر کر آب زمزم پیا تو گرمی کا اثر کم ہو۔ ورنہ طواف کے دوران دھوپ، گرمی، حبس اور رش کی وجہ سے پسینہ ایڑھی تک بہہ رہا تھا۔ اللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال ہوتی ہے ورنہ چالیس پینتالیس ڈگری کی گرمی، تیز دھوپ اور اتنے دھکم پیل میں انتہائی بوڑھے لوگ بھی طواف کر لیتے ہیں۔ اس وقت گرمی اور پسینے کی طرف دھیان جاتا ہی نہیں۔ زائر کا دھیان سامنے کی طرف ہوتا ہے۔ ورنہ کسی نہ کسی سے ٹکراؤ ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔ یا پھر اپنے ساتھی کا خیال ہوتا ہے کہ وہ اس دھکم پیل میں الگ نہ ہو جائے۔ سب سے زیادہ دھیان تو اس گھر اور اس کے مکین کی طرف ہوتا ہے۔ لہٰذا گرمی اور پسینے کی فکر نہیں ہوتی۔

اس کے بعد ہم نے دو رکعت نفل ادا کیے اور سعی کے لیے چل پڑے۔ سعی دو پہاڑیوں کے درمیان ہوتی ہے۔ ان پہاڑیوں کے نام صفا اور مروہ ہیں۔ یہ پہاڑیاں اور ان کا درمیانی راستہ اب ایک چھت کے نیچے ہے۔ تاہم دونوں پہاڑیاں اب بھی درمیانی وادی سے بلند ہیں۔ اس چھت والے راستے میں ایئر کنڈیشنر نصب ہیں۔ درمیان میں آب زم زم پینے کے لیے موجود ہے۔ اس لیے وہاں نہ تو دھوپ اور گرمی ہے اور نہ پیاس کا مسئلہ ہے۔ پھر بھی پیدل چلنا تو پڑتا ہے

صفا اور مروہ خانہ کعبہ کے قریب ہی واقع ہیں۔ عربی اور اُردو میں لکھے ہوئے سائن بورڈ منزل کا پتہ بتا دیتے ہیں۔ انہیں دیکھتے ہوئے ہم صفا پر پہنچ گئے جہاں سے سعی شروع ہوتی ہے۔ ہم نے نیت کی اور حضرت حاجرہؑ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے ان دو پہاڑیوں کے درمیان آنے اور جانے لگے۔ سعی کے لفظی معنی دوڑنے کے ہیں۔ چونکہ حضرت حاجرہؑ جو حضرت ابراہیمؑ کی بیوی اور حضرت اسمعیلؑ کی والدہ تھیں، پانی کی تلاش میں ان دو پہاڑیوں کے درمیان دوڑی تھیں۔ اللہ تعالیٰ کو ان کا یہ دوڑنا اس قدر پسند آیا کہ اسے حج کا حصہ بنا دیا۔

اگر غور کیا جائے تو حج، عمرہ، طواف اور سعی یہ سب ایک ہی خاندان یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہیں۔ خانہ کعبہ بھی حضرت ابراہیمؑ اور ان کے بیٹے حضرت اسمعیلؑ نے ہی تعمیر کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کو اس خاندان سے اتنا پیار تھا کہ ان کے ہر عمل کو حج کا حصہ بنا دیا۔ حج اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ہے۔ گویا اس خاندان کی سنت پر قیامت تک عمل ہوتا رہے گا۔


حضرت حاجرہؑ اور آب زمزم



اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت ابراہیمؑ حضرت حاجرہؑاور حضرت اسمعیلؑ کو جواس وقت شیرخوار تھے اس لق و دق صحرا میں چھوڑنے آئے تھے۔ انہوں نے حضرت حاجرہؑ کو تھوڑاسا زادِ راہ اور پانی کا ایک مشکیزہ دیا۔ جانے لگے تو حضرت حاجرہؑ نے پوچھا ’’آپ ہمیں کس کے سہارے چھوڑ کر جا رہے ہیں۔‘‘

حضرت ابراہیمؑ نے فرمایا ’’اللہ کے سہارے جس کے حکم پر میں آپ لوگوں کو یہاں چھوڑ رہا ہوں۔‘‘

حضرت حاجرہؑ نے اطمینان کا اظہار کیا۔ چند روز بعد خوراک اور پانی ختم ہو گئے۔ حضرت اسمعیلؑ پیاس کی وجہ سے نڈھال ہو گئے۔ حضرت حاجرہؑ پانی کی تلاش میں صفا پر چڑھیں کہ کہیں پانی کا چشمہ نظر آ جائے یا کوئی قافلہ دکھائی دے جائے۔ لیکن صفا پر انہیں ایسا کچھ نہ دکھائی دیا۔ وہ مروہ کی طرف دوڑ پڑیں۔ اس پہاڑی پر چڑھ کر انہوں نے پانی یا قافلے کو دیکھنے کی کوشش کی لیکن انہیں ناکامی ہوئی۔ بے قراری سے وہ دوبارہ صفا کی طرف دوڑیں اور پھر مروہ کی طرف۔ اس طرح انہوں نے سات چکر لگائے۔ ساتویں چکر کے بعد انہوں نے مروہ کے اوپر سے ہی دیکھا کہ نشیب میں جہاں بچہ موجود تھا وہاں سے ایک قدرتی چشمہ ابل پڑا ہے۔ آپ فوراً ہی بچے کے پاس آئیں تو دیکھا کہ پانی بچے کے ارد گرد پھیل رہا ہے۔ آپ نے پانی کے ارد گرد مٹی کے کنارے بناتے ہوئے کہا کہ زم زم یعنی ٹھہر جا ٹھہر جا۔ پانی ٹھہر گیا۔ آپ نے بچے کو بھی پانی پلایا اور خود بھی پیا۔ کچھ عرصے بعد ایک قافلے کا وہاں سے گزر ہوا۔ وہ حیران ہوئے کیونکہ اس چشمے کا پہلے وجود نہیں تھا۔ وہ حضرت حاجرہؑ کے پاس گئے اور اس میٹھے چشمے کا پانی استعمال کرنے کی اجازت طلب کی۔ حضرت حاجرہؑ نے بخوشی اجازت دے دی۔ قافلے والوں نے خود بھی پانی پیا۔ اُونٹوں کو پلایا اور مشکیزے بھی بھر لیے۔ اس طرح یہ چشمہ دور و نزدیک سب جگہ مشہور ہو گیا۔ اس کی وجہ سے کچھ لوگ یہاں آ کر بس گئے۔ یوں یہ صحرا آباد ہوتا چلا گیا۔

حضرت ابراہیمؑ بیس سال بعد یہاں آئے تو حضرت اسمعیل جوان ہو چکے تھے۔ دونوں باپ بیٹے نے مل کر خانہ کعبہ کی تعمیر شروع کر دی۔ خانہ کعبہ جو آب زم زم والے چشمے سے زیادہ دور نہیں ہے اس کی نشاندہی اللہ کے حکم سے حضرت جبرائیلؑ نے کی تھی۔ خانہ کعبہ کی تعمیر کے بعد حضرت ابراہیمؑ نے لوگوں کو حج کی دعوت دی جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔

دوران سعی ہم نے دیکھا کہ وہاں کرائے کی وھیل چیئرز بھی دستیاب ہیں۔ یہ وھیل چیئر سعی اور طواف دونوں کے لیے دستیاب ہیں۔ اُنہیں چلانے والے لوگ بھی معاوضے پر مل جاتے ہیں۔ اگر صرف وھیل چئیر ہی درکار ہو تو وہ بھی مل جاتی ہے۔ اسے گھر کا کوئی فرد بھی چلا سکتا ہے۔ دورانِ حج و عمرہ وھیل چیئر سے بچنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ اکثر لوگوں کو زخمی کر دیتی ہے۔ خصوصاً پیشہ ور چلانے والے بہت جلدی میں ہوتے ہیں۔ وہ ہٹو بچو کے نعرے لگاتے ہوئے لوگوں کے بیچ میں سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔

یہ اچھی بات ہے کہ طوافِ خانہ کعبہ کے لیے وھیل چیئرز کے لئے اب ایک الگ فلور ہے۔ اب تمام وھیل چیئرز صرف پہلی منزل پر نظر آتی ہیں۔ اس طرح زمینی فلور اور دوسری منزل والا فلور ان سے خالی ہوتا ہے۔

سعی مکمل ہوتے ہی ہمارا عمرہ بھی مکمل ہو گیا۔ ہم نے اللہ کا شکر ادا کیا۔

طواف اور سعی کے لیے ہم تین گھنٹے سے زیادہ پیدل چلے تھے۔ اس سے پہلے ہوٹل سے بھی پیدل چل کر یہاں آئے تھے۔ عام حالات میں ہم اتنا زیادہ چلنے کی ہمت نہیں رکھتے تھے۔ لیکن یہاں حالات مختلف تھے۔ یہاں کا ماحول اور منظر ہی الگ تھا۔ یہاں شوق تھا۔ عقیدت تھی۔ فرض تھا۔ سنت رسولﷺ تھی۔ نظروں کے سامنے خانہ کعبہ تھا۔ صفا اور مروہ میں حضرت حاجرہؑ اور حضرت اسمعیلؑ کا تصور آنکھوں میں تھا۔ کیسے حضرت حاجرہؑ معصوم بچے کو سنگلاخ پہاڑوں کے درمیان بٹھا کر پانی کی تلاش میں ادھر ادھر دوڑتی ہوں گی۔ اس وقت وہ امید اور نا امیدی کی کس کیفیت سے دوچار ہوں گی۔ سخت دھوپ، گرمی، پیاس کی شدت اور دور دور تک کسی انسان کی نا موجودگی۔ ایک ماں پر اس وقت کیا گزر ہی ہو گی۔

پھر اللہ نے اس بچے کی جس طرح مدد کی۔ سبحان اللہ وہ بھی کیا منظر ہو گا۔ ایک لمحہ پہلے جہاں سنگلاخ اور سوکھے پتھر ہوں گے۔ اگلے لمحے وہاں سے ٹھنڈے اور میٹھے پانی کا چشمہ اُبل رہا ہو گا۔ یا اللہ تیری کیا شان ہے۔ تیری قدرت کیا کیا کرشمے دکھا سکتی ہے۔

یہ اللہ کی قدرت اور مدد ہی تھی کہ اتنا زیادہ چلنے اور اتنی زیادہ گرمی کے باوجود ہم اپنے اندر ہمت اور طاقت محسوس کر رہے تھے۔ واپس ہوٹل کی طرف چلے تو میں نے ٹیکسی لینے کا ارادہ ظاہر کیا۔ اہلیہ نے کہا ’’رہنے دیں پیدل ہی چلتے ہیں۔ جہاں اتنا چلے ہیں وہاں پندرہ بیس منٹ اور سہی۔‘‘

مجھے اس کی ہمت پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ میں نے کبھی اسے اتنا چلتے نہیں دیکھا تھا۔ گھٹنوں کے آرتھرائٹس، ٹانگوں کی کمزوری اور وزن کی زیادتی کی وجہ سے یہ اس کے لیے آسان نہیں تھا۔ لیکن اس اللہ کی بندی نے پورے حج میں کہیں بھی چلنے سے معذوری کا اظہار کیا نہ تھکن کی شکایت کی۔ حالانکہ ان میں سے بعض دن ایسے تھے کہ ہم تھکن سے چور ہو کر گرنے والے ہو گئے تھے۔ جہاں فریضہ نظر آیا وہاں اس نے تھکن کی شکایت کیے بغیر خوش دلی سے یہ کام سر انجام دیا۔ ہاں فرض ادا کرنے کے بعد تھکن کے آثار ظاہر ہوئے لیکن اس سے ہمارا حج یا اس کے ارکان متاثر نہیں ہوئے۔

یہ بھی اللہ تعالیٰ کی مہربانی، اس کا کرم اور اس کی مدد تھی۔ ورنہ انسان کی اوقات تو اتنی سی ہے کہ ایک ٹھوکر کھا کر اس کی ہڈی پسلی ٹوٹ سکتی ہے۔ ایک دھکے سے گر کر معذور ہو سکتا ہے۔ معمولی سی بیماری اسے جکڑ کر بستر کا قیدی بنا سکتی ہے۔ انسان صرف ارادہ اور نیت کرتا ہے۔ اس پر عمل درآمد صرف اللہ کے حکم سے ہو سکتا ہے۔ اسی لیے حضرت علیؓ نے فرمایا تھا ’’میں نے اپنے ارادوں میں ناکامی سے اللہ کو پہچانا ہے‘‘

ڈھُونڈتے ڈھُونڈتے اور گاڑیوں میں جگہ بناتے بناتے بالآخر ہم الشہداء میں پہنچ گئے۔ جب سب لوگ آ گئے تو جا کر بسوں میں سوار ہو گئے۔ ان بسوں نے شام سے پہلے ہمیں واپس عزیزیہ پہنچا دیا۔ اگلے روز ہم منیٰ میں منتقل ہو رہے تھے اور حج کا سلسلہ شروع ہو رہا تھا۔ آج کا عمرہ بھی حج کا ہی حصہ تھا۔ لیکن مناسک حج کل منیٰ سے شروع ہونا تھے۔

عزیزیہ میں ہمارا ہوٹل ایک پہاڑ یکے سامنے واقع تھا۔ اس پہاڑی کی بلندی پر ایک بس سٹاپ بنا ہوا تھا۔ اُوپر نیچے جانے کے لئے لفٹ لگی ہوئی تھی۔ ہمیں بتایا گیا کہ یہ بسیں جمرات تک جاتی ہیں۔ جمرات وہ مقام یا پہاڑی ہے جسے رمی کیا جاتا ہے (یعنی کنکریاں ماری جاتی ہیں)۔ وہ منزل بعد میں آنی تھی۔ فی الحال ہم منیٰ جا رہے تھے۔ منیٰ، عرفات، مزدلفہ اور جمرات ہی وہ مقامات ہیں جہاں اگلے کئی روز ہمیں رہنا تھا۔ ہمارا قیام بہرحال منیٰ میں تھاسوائے ایک رات کے جو مزدلفہ میں بسر کی جاتی ہے۔

عزیزیہ میں ہمارے ہوٹل میں کھانا پکانے کی سہولت نہیں تھی۔ لبیک کی انتظامیہ یہ کھانا کہیں اور سے بنوا کر لاتی تھی۔ یہاں پر رامادا ہوٹل مدینہ یا الشہداء ہوٹل مکہ کی طرح رنگ برنگے کھانے نہیں ہوتے تھے۔ تاہم تینوں وقت تازہ اور گرم کھانا مل جاتا تھا۔ منیٰ اور عرفات میں بھی اسی قسم کا کھانا ملتا تھا۔ یہ کھانا عموماً ایک ہی ڈش پر مشتمل ہوتا تھا۔ یا پھر سالن کے ساتھ روٹی اور چاول دونوں دستیاب ہوتے تھے۔ اگرچہ اس میں مسالے پاکستانی کھانوں کی طرح نہیں ہوتے تھے تاہم اتنا پھیکا بھی نہیں ہوتا تھا۔ دورا نِ حج کھانے کی کمی کہیں محسوس نہیں ہوئی۔ علاوہ ازیں پینے کا پانی اور دوسرے مشروبات جن میں فروٹ جوس اور سافٹ ڈرنک وافردستیاب تھے۔ میرے پسندیدہ مشروب یعنی چائے کی بھی کمی نہیں تھی۔ یہ بھی ہر جگہ دستیاب تھی۔


قیامِ منیٰ



آٹھ ذوالحجہ کی صبح نماز فجر کے بعد تیار ہو کر ہم بسوں میں بیٹھ گئے۔ ہماراسامان الشہداء بھیج دیا گیا تھا۔ ہمارے پاس انتہائی ضروری چیزوں پر مشتمل ایک چھوٹا سا بیگ تھا اور بس۔ چاروں جانب سے بسوں کے قافلے منیٰ کی جانب بڑھے چلے آ رہے تھے۔ ہر طرف لبیک الّھم لبیک کی صدائیں گونج رہی تھیں۔ ٹریفک تقریباً رُکی ہوئی تھی۔ گاڑیوں کے انجن آن تھے۔ ایئرکنڈیشنز چل رہے تھے۔ فضا میں دھُواں پھیلا ہوا تھا۔ اس حالت میں رینگتے ہوئے بسیں ایک ایک انچ آگے سرک رہی تھیں۔ آخر ظہر کے قریب ہم اپنے کیمپ میں پہنچ گئے۔

منیٰ کا میدان حد نظر تک ایک جیسے بڑے بڑے خیموں سے سجا ہوا تھا۔ یہ بھی انتہائی منفرد اور انوکھا منظر تھا۔ اتنے خیمے دنیا میں کہیں اور نصب نہیں ہوتے جتنے یہاں ہر سال ہوتے ہیں۔ یہ خیموں پر مشتمل دنیا کا سب سے بڑا کیمپ تھا۔ آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، برطانیہ، فرانس، امریکہ اور کینیڈا سے آنے والے عازمین حج کے خیمے ایک دوسرے کے قریب تھے۔ گویا ہم پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، افغانستان اور دوسرے ایشیائی و افریقی ملکوں کے حاجیوں سے قدرے الگ تھے۔ حالانکہ تمام خیمے ایک سائز کے تھے اور ان کے اندر کی سہولتیں بھی ایک جیسی تھیں۔ فرق صرف اتنا تھا کہ پاکستانی کیمپوں میں پاکستانی، بنگلہ دیشی کیمپوں میں بنگالی کھانا ملتا تھا۔ ان کے معلم بھی ان کی اپنی زبان میں تقریریں کرتے تھے۔ لہٰذا وہ لوگ مزے میں تھے۔ ہمیں کھانا ایسا ملتا تھا کہ ہر کوئی یہی سمجھتا کہ یہ دوسرے ملک کے لوگوں کے لیے بنا ہے۔ کسی کو بھی یہ کھانا اپنے ملک کے ذائقے کے مطابق نہیں لگتا تھا۔ اسی طرح ہمارے امام اور معلم انگریزی میں اعلانات اور تقریریں کرتے تھے جس میں وہ مزا نہیں تھا جو اپنی زبان میں ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ حاجیوں کے درمیان اگر کوئی تو تو میں میں ہوتی تھی تو وہ بھی انگریزی میں ہوتی تھی۔ لہٰذا اس لڑائی کا بھی مزا نہیں تھا۔ اتنے دن بین الاقوامی Continental کھانے کھا کھا کر ہمیں اپنے کھانوں کا ذائقہ بھی بھول گیا۔ ادھر سعودیہ میں جا کر بھی ہماری جان انگریزی سے نہیں چھوٹی تھی۔ بہرحال زبان ہمارے حج کے آڑے نہیں آئی۔ عربی اور پاکستانی ذائقوں پر مشتمل ملا جلا کھانا بھی کسی کو برا نہیں لگا۔ انگریزی تقریروں کا بھی کسی نے برا نہیں منایا۔ وہاں سب لوگ گلوں شکووں سے بے نیاز ہو چکے تھے۔ اللہ کے قرب کے نے انہیں دوسرے ذائقوں سے بے گانہ کر دیا تھا۔ منیٰ اور عرفات میں حجاج اللہ کی عبادت میں مصروف رہتے تھے۔ دنیاوی باتیں کم ہوتی تھیں۔ جو ہوتی تھیں وہ بھی اخوت اور محبت کی مظہر ہوتی تھیں۔ سب ایک دوسرے کا خیال رکھتے تھے۔ یہ جگہ اسلامی اخوت، رواداری اور باہمی احترام کا بہترین منظر پیش کرتی تھی۔

مکہ اور مدینہ کے فائیو سٹار ہوٹلوں سے نکلے تو ہم عزیزیہ کے ایک عام سے ہوٹل میں جا ٹھہرے۔ جہاں بستروں اور باتھ روموں کے علاوہ کوئی اور سہولت میسر نہیں تھی۔ وہاں سے نکل کر منیٰ کے کیمپوں میں پہنچے تو پھر خاک نشینی تھی۔ یہاں کوئی پلنگ کوئی فرنیچر نہیں تھا۔ زمین کے فرش پر پتلے سے گدے بچھے تھے۔ اس گدے سے جڑا ایک تکیہ تھا۔ ایک چادر نما کمبل تھا۔ یہ گدا اتنا بڑا تھا کہ کروٹ بدلوتو ساتھ والے گدے پر لیٹے ساتھی سے بغل گیر ہونے کا موقع مل جاتا تھا۔ گدّوں کے درمیان چاروں طرف کوئی خلا نہیں تھا۔ آپ کے دائیں بائیں ہر طرف گدّے جڑے ہوتے ہیں۔ آپ کا پاؤں اور سر دوسروں کے گدّوں کو چھو رہے ہوتے ہیں۔ کسی کا پاؤں آپ کے سرہانے اور آپ کا پاؤں کسی دوسرے کے سرہانے پر ہوتا ہے۔ آپ کا بازو ساتھ والے کے پیٹ پر دھرا ہوتا ہے۔ آپ کے دوسری طرف والے ساتھی کی ٹانگ آپ پر رکھی ہوتی ہے۔ اس طرح ہمارے درمیان تمام فاصلے مٹ گئے تھے۔

ان فرشی بستروں کے بیچ میں سے گزرنے کا راستہ نہیں ہوتا تھا بلکہ گدّوں پر پاؤں رکھ کر ہی اِدھر اُدھر آ جا سکتے تھے۔ اس کی وجہ سے شروع میں کچھ ساتھیوں نے منہ بنایا لیکن بعد میں عادت ہو گئی۔ دن کے وقت جب گدّے لپیٹ دیے جاتے تو قدرے آسانی سے گزرا جا سکتا تھا۔ اس طرح ہر نماز کے وقت بھی یہ گدے لپیٹ دیے جاتے اور وہیں جائے نماز بچھا کر نماز ادا کی جاتی تھی۔ یہ پتلی سی جائے نمازیں بھی ہمیں وہیں دی گئی تھیں۔ آتے ہوئے ہم لوگ یہ گدّے، کمبل اور جائے نمازیں وہیں چھوڑ آئے۔

خواتین بھی اسی کیمپ کے آدھے حصے میں مقیم تھیں۔ درمیان میں آڑ سی حائل تھا۔ یہ خواتین ہمارے ساتھ ہی ہمارے امام کی اقتداء میں نماز ادا کرتی تھیں۔ اپنے گھر کی خواتین کو بلانا ہو تو باہر جا کر ان کے دروازے پر موجود کسی بھی خاتون کے ذریعے پیغام بھجوایا جا سکتا تھا۔ یہ پیغام رسانی کافی موثر تھی۔ خواتین بہت جلد ایک دوسرے کو پیغام پہنچا دیتی تھیں۔ اسی طر یقے سے خواتین بھی اپنے محرم کو بلاتی تھیں۔

ہمارے سروں پر بڑے بڑے شامیانے نصب تھے۔ درمیان میں شامیانے کی دیواریں تھیں۔ ان دیواروں پر پنکھے نصب تھے۔ جو دن میں گرم اور رات میں ٹھنڈی ہوا پھینکتے رہتے تھے۔ گرمی سے گدّے بھی گرم ہو جاتے۔ جسم کا جو حصہ گدّے پر ٹکا ہوتا وہ پسینے سے تر ہو جاتا۔ کروٹ بدل کر اس حصے کو پنکھے کی ہوا اور دوسرے حصے کو گدّے کی گرمی کی سزا دینی پڑتی تھی۔ کیمپوں کے اندر یہ گرمی کافی حد تک قابلِ برداشت تھی۔ کیونکہ باہر سخت ترین گرمی تھی۔ ٹھنڈے مشروبات ہمارے دروازے کے باہر ڈرموں میں ہر وقت موجود رہتے تھے۔ ان ڈرموں میں برف ڈال کر ان مشروبات کو ٹھنڈا رکھا جاتا تھا۔ دو کیمپوں کے درمیان والی گلی میں ایک بنگالی لڑکا چائے کا سامان سجائے ہر وقت تیار بیٹھا ہوتا تھا۔ جب بھی جاؤ چائے بنا کر مسکرا کر پیش کرتا تھا۔

میرے بستر کے دونوں اطراف میں جو حاجی صاحبان مقیم تھے وہ بھی بنیادی طور پر پاکستان سے ہی تھے۔ ان میں ایک حاجی ابتسام صاحب سڈنی سے آئے تھے اور دوسرے جاوید صاحب سڈنی سے کچھ فاصلے پر واقع شہر نیوکاسل میں رہتے تھے۔ جاوید صاحب کو میری طرح سگریٹ نوشی کی عادت تھی۔ لہٰذا ہم دونوں اکثر کیمپ سے باہر ایک ہاتھ میں چائے کا کپ اور دوسرے ہاتھ میں سگریٹ لیے کھڑے نظر آتے تھے۔ جاوید صاحب گفتگو کے رسیا اور دلچسپ شخصیت کے مالک تھے۔ ان کے ساتھ میرا کافی وقت گزرتا تھا۔ وہ سوتے بہت کم تھے۔ رات کے جس پہر میری آنکھ کھلتی وہ اپنے بستر سے غائب ہی نظر آتے۔ کبھی وہ کم ہجوم کا فائدہ اٹھا کر رات گئے غسل کر رہے ہوتے یا پھر باہر کھڑے ہو کر چائے اور سگریٹ کے شغل میں مصروف ہوتے۔

دوسرے کئی سگریٹ نوش حضرات بھی ہم سے آ ملتے۔ اس طرح ہمارا ایک سموکنگ گروپ بن گیا تھا۔ مکہ اور مدینہ میں سگریٹ نوشی اور سگریٹ فروشی قانوناً ممنوع ہے۔ میں جب تک وہاں رہا مجھے اس قانون کا علم ہی نہیں ہوا۔ کیونکہ مجھے ہر جگہ سگریٹ نوش نظر آ جاتے تھے۔ کہیں سگریٹ نوشی کی ممانعت کا سائن نظر نہیں آیا۔ اس طرح سگریٹ فروشی بھی وہاں ممنوع تھی لیکن یہ آسانی سے دستیاب تھے۔ بس اتنا تھا کہ دکانوں میں سامنے نہیں رکھے ہوتے تھے۔ طلب کرنے پر دکاندار نکال کر دے دیتے تھے۔ جہاں تک سگریٹ نوشی کا تعلق تھا، عرب خواتین بھی سگریٹ نوشی کرتی نظر آتی تھیں۔ ہوٹل کے کمروں میں بھی سگریٹ نوشی کی ممانعت نہیں تھی بلکہ وہاں ایش ٹرے رکھی ہوئی تھی۔ جب کہ آسٹریلیا میں کسی بھی ہوٹل میں سگریٹ نوشی نہیں کی جا سکتی ہے۔ اس قانون پر بہت سختی سے عمل کرایا جاتا ہے۔ اگر سعودی عرب میں سگریٹ فروشی اور سگریٹ نوشی ممنوع ہے تو پھر وہاں اتنی آسانی سے سگریٹ کیوں مل جاتے ہیں۔ لوگ ہر جگہ سگریٹ نوشی کیسے کر لیتے ہیں۔ یہ بات مجھے سمجھ نہیں آئی ہو سکتا ہے کہ یہ قانون صرف کتاب کی زینت ہو اور اس پر عمل درآمد ابھی شروع نہ ہوا ہو۔


کیمپ کا ماحول



کیمپ کے اندر کا ماحول ہلکا پھلکا بلکہ خوشگوار تھا۔ پہلے دن کہیں جانا بھی نہیں تھا۔ اس لیے راوی چین ہی چین لکھتا تھا۔ بس نمازیں پڑھو۔ قرآن پاک کی تلاوت کرو۔ اس کے بعد آرام ہی آرام تھا۔ ایسے لگتا تھا کہ کیمپنگ کے لیے آئے ہوئے ہیں۔ لیکن اس ہلکے پھلکے ماحول میں بھی سنجیدگی کا عنصر غالب رہتا تھا۔ جب بھی کوئی کھل کر ہنستا یا قہقہہ لگاتا تو کسی نہ کسی کی تنبیہی نظر کا سامنا کرنا پڑتا۔ کچھ احباب ہر وقت عبادت میں رہنا پسند کرتے۔ کچھ بس نماز کا اہتمام کرتے باقی وقت گھومنے پھرنے اور آرام میں گزارتے۔ کچھ میانہ روی اختیار کرتے اور عبادت اور آرام میں توازن اختیار کرتے۔

مجھے آج تک یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ بعض مذہبی رہنما اتنے زیادہ سنجیدہ کیوں رہتے ہیں۔ ان کے ساتھ جتنا وقت گزرتا ہے ایسا لگتا ہے کسی کی میت پر آئے ہوں۔ اسلام تو دین فطرت ہے۔ یہ اتنا زیادہ سنجیدہ بلکہ رنجیدہ کیسے ہو سکتا ہے۔ میں نے رسول پاکﷺ کی زندگی کے بارے میں جتنا پڑھا ہے اس کے مطابق وہ تو باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے۔ صحابہؓ ان کے ساتھ گھنٹوں گزارتے تھے اور کبھی بور نہیں ہوتے تھے۔ اگرانسان دینی اور دنیاوی ذمہ داریاں ادا کرنے کے بعد فارغ وقت میں دوست احباب اور عزیز و اقارب کے ساتھ خوشگوار وقت گزارے تو اس میں کیا برائی ہے۔ لیکن نہ صرف دورانِ حج بلکہ عام زندگی میں بھی کچھ لوگ ہنسی مذاق کو بالکل پسند نہیں کرتے۔ میرے ساتھی جاوید صاحب کو ہنسی مذاق کی عادت تھی۔ وہ ہر وقت کوئی نہ کوئی چٹکلا چھوڑتے رہتے تھے۔ کبھی تو ہم خاموش رہتے یا صرف مسکرا دیتے۔ کبھی ان کے چٹکلوں پر ہنسی بھی آ جاتی تھی۔ ایسے میں کئی ماتھوں پر بل پڑ جاتے۔ کئی خشمگیں نظروں کا سامنا کرنا پڑتا۔ شکر ہے کہ بات اس سے آگے نہیں بڑھتی تھی۔

بعض اوقات احباب میں ہلکی پھلی جھڑپ بھی ہو جاتی تھی۔ لیکن یہ محدود رہتی اور جھگڑا بڑھتا نہیں تھا۔ جگہ تنگ ہونے کی وجہ سے کئی دوست اپنے اوپر سے گزرنے والوں اور بے آرام کرنے والوں سے قدرے ناراض ہوتے تھے۔ کبھی گدّا اور دوسرا سامان ساتھیوں کی آمدورفت کی وجہ سے اِدھر اُدھر ہو جاتا۔ کبھی تو وہ پیار سے گلہ کرتے اور کبھی غصے کا اظہار کرتے۔

قیام منیٰ کے دوران کم سے کم سامان رکھنے والوں کو آسانی رہتی ہے۔ ورنہ جتنا زیادہ سامان ہو اسے سنبھالنا اتنا ہی مشکل ہوتا ہے۔ ایک چھوٹا سا بیگ ہو تو اسے سرہانے کے نیچے رکھا جا سکتا ہے۔ پہلے دن گدّے صاف ستھرے تھے۔ اگر کوئی اس پر پاؤں رکھ دیتا تھا تو احباب برا مناتے تھے۔ بعد میں سب کو عادت ہو گئی۔ کیونکہ گزرنے والوں کے پاس کوئی متبادل راستہ نہیں تھا۔ بعض اوقات گزرنے والے کا پاؤں سوئے ہوئے شخص کے جسم سے بھی ٹکرا جاتا تھا۔ لیکن ایک اللہ اور ایک نبیﷺ کے ماننے والے جس جذبے سے سرشار تھے، اس میں یہ قربانی معمولی تھی۔ اسی ترتیب سے دور دور تک فرزندانِ توحید وہاں مقیم تھے۔ اگر ان میں اللہ کا خوف نہ ہوتا اور نبیﷺ کی حرمت کا پاس نہ ہوتا تو ایسی جگہ پر روزانہ نہ جانے کتنی لڑائیاں ہوتیں۔ الحمدُ للہ یہ دین کے سپاہیوں کا قافلہ تھا جن کا ایک ایک قدم اللہ اور اس کے رسولﷺ کے بتائے ہوئے راستے پر چلتا ہے۔ ان کے دل میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی خوشنودی حاصل کرنے کی لگن ہوتی ہے۔ اللہ بھی ایسے لوگوں پر مہربان ہوتا ہے اور ان کے لیے آسانیاں فراہم کرتا ہے۔ ان کے دلوں میں نرمی پیدا کر دیتا ہے۔

اگلے تین دنوں میں حاجی آپس میں اس قدر شیر و شکر ہو چکے تھے کہ من و تو کا سلسلہ بالکل بند ہو گیا۔ کھانا آتا تو لوگ پہلے دوسرے کو پیش کرتے پھر خود لیتے۔ باہر نکلتے تو ساتھیوں سے پوچھتے کہ کسی کو چائے کی طلب تو نہیں۔ میرے قریب زیادہ تر پاکستانی، بنگالی اور ہندوستانی حاجی مقیم تھے۔ تھوڑے فاصلے پر عربی اور دوسرے لوگ اکھٹے تھے۔ ہر طرف برادر برادر کی آواز سنائی دیتی۔ ہر لہجے میں مٹھاس گھلی ہوتی۔ ہر کسی کی زبان سے شہد ٹپکتا محسوس ہوتا۔ احترام اور بھائی چارے کی خوشبو آتی۔ ایسے لگتا تھا کہ دنیا بھر سے آئے ہوئے یہ مسلمان ایک جسم ایک جان ہیں۔ ان میں کسی قسم کا کوئی فرق نہیں ہے۔ ان میں کوئی چھوٹا یا بڑا نہیں ہے۔ کوئی امیر یا کوئی غریب نہیں ہے۔ کوئی گورا یا کالا نہیں ہے۔ کوئی عرب یا عجم نہیں ہے۔ کوئی کمزور یا طاقت ور نہیں ہے۔ سب ایک لڑی میں پروئے موتی ہیں۔ اس لڑی کا نام ہے لا الہَ اِلآ اللہ محمّد الرّسول اللہ۔

منیٰ اور عرفات کے خیموں میں لیٹے ان خاک نشینوں کا تعلق امریکہ، آسٹریلیا، یورپ، افریقہ، ایشیا، جنوبی امریکہ، وسط ایشیا، عرب، عجم اور ہر خطے اور ملک سے تھا۔ ان کی زبانیں، لباس، خوراک، تہذیب و تمدن سب الگ الگ تھے۔ ان میں انتہائی دولت مند بھی تھے۔ درمیانے درجے والے اور غریب بھی تھے۔ لیکن یہاں پہنچ کر سب ایک جیسی حالت میں ایک ہی جگہ رہ رہے تھے۔ فائیوسٹار والے اور فٹ پاتھ والے سب برابر ہو گئے تھے۔ سب ایک ہی در پر کشکول لیے سوالی بنے کھڑے تھے۔ سب ایک ہی آقا کے غلام تھے۔ ایک اللہ، ایک نبیؐ، ایک کتاب، ایک شریعت اور ایک خانہ کعبہ کے ماننے والے ایک ہی جگہ جمع تھے۔ ان کے درمیان میں محبت اور بھائی چارے کی خوشبو رچ بس گئی تھی۔ کاش کہ ہم جہاں بھی جائیں یہ محبت، یہ یگانگت، یہ خوشبو ہمارے ساتھ ساتھ جائے۔ دنیا میں یہ خوشبو عام ہو جائے۔

قیام منیٰ کے دوران جب بھی کسی حاجی کو شکایت ہوئی تو دوسرے نے فوراً معافی مانگ لی یا پھر شکایت کرنے والے نے اپنی شکایت واپس لے لی۔ تھوڑی دیر بعد وہ دونوں شیر و شکر نظر آئے۔ معاملہ آسانی سے رفع دفع ہو جاتا تھا۔

لیکن ہمارے ساتھ والے کیمپ میں ایک انہونا واقعہ پیش آ گیا۔ یہ کیمپ برطانیہ سے آئے ہوئے حاجیوں پر مشتمل تھا۔ اِس میں زیادہ تر عرب نژاد حاجی تھے۔ پاکستانی نژاد حاجیوں کا کیمپ الگ تھا۔ ہمارے کیمپ اور ان کے کیمپ کا نمبر ایک ہی تھا۔ بس درمیان میں ایک گلی سی بنی ہوئی تھی۔ ہمارے غسل خانے بھی مشترک تھے۔ اکثر وہ ہمارے کیمپ کے آگے چائے لیتے نظر آتے تھے۔ ویسے بھی احرام میں یہ پہچاننا مشکل ہوتا ہے کہ کون کہاں سے آیا ہے۔ صرف انگریزی کے لب و لہجے سے ہم اندازہ لگاتے تھے کہ یہ حاجی آسٹریلیا سے ہے یا برطانیہ سے۔

ایک رات شور سے میری آنکھ کھل گئی۔ میں نے گھڑی پر نظر دوڑائی۔ رات کے اڑھائی بجے تھے۔ کچھ ساتھی سوئے ہوئے تھے اور کچھ جاگ کر میری طرح آنکھیں مل رہے تھے۔ ہم اُٹھے اور خاموشی سے باہر کا رخ کیا۔ معلوم ہوا کہ سامنے والے شامیانے میں دو حاجیوں کے درمیان لڑائی ہو گئی ہے۔ یہ دونوں عرب نژاد طویل القامت پہلوان جیسے لگ رہے تھے۔ ان کے ننگے بازوؤں کی اُبھری ہوئی مچھلیاں ان کے تنے ہوئے سینے ان کے پہلوان ہونے کی گواہی دے رہے تھے۔ کچھ لوگوں نے انہیں تھام رکھا تھا۔ لیکن وہ ان کے ہاتھوں سے پھسل پھسل کر ایک دوسرے پر حملہ اور ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ ان کی آنکھوں میں جیسے شرارے پھوٹ رہے تھے۔ بدن زور آزمائی کے لیے بے قرار تھے۔ انہیں پکڑنے والے بھی تنومند لوگ تھے۔ جنہوں نے بڑی مشکل سے انہیں قابو کیا ہوا تھا۔ چند ہی منٹوں میں پولیس وہاں پہنچ گئی۔ اُنہوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ دونوں کو ہتھکڑی لگائی، گاڑی میں ڈالا اور یہ جا وہ جا۔

لوگ قیاس آرائیاں کرتے ہوئے ادھر ادھر بکھر گئے۔ جھگڑے کی وجہ کسی کی سمجھ میں نہیں آئی۔ وجہ کچھ بھی رہی ہو یہ انتہائی نا خوشگوار واقعہ تھا۔ دورانِ حج ایک دوسرے سے اس طرح الجھنا کہ آپ کا حج بھی فاسد ہو جائے اور سعودیہ کی پولیس میں آپ کے خلاف کیس بھی درج ہو جائے، انتہائی بد قسمتی کی بات تھی۔ اتنی منصوبہ بندی کے بعد، اتنا لمبا سفر کر کے اور اتنے دور آ کر اپنا حج ایسے ادھورا چھوڑ دینا کہ آئندہ بھی اسے مکمل کرنے کا موقع نہ ملے انتہائی افسوس ناک بات تھی۔ ہمیں بتایا گیا کہ اگر سعودی عرب میں آپ کے خلاف کوئی کیس بن جائے تو دوبارہ یہاں کا ویزا نہیں ملتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس جھگڑے کا انجام کیا ہوا لیکن یہ واقعہ ہم سب کے ذہنوں پر ایک گہرا اثر مرتب کر گیا۔ حاجی زیادہ سنجیدگی سے اپنی عبادتوں میں مصروف ہو گئے۔

کیمپ کے اندر ایک مسجد بھی تھی۔ ظاہر ہے وہ تمام حاجیوں کے لیے کافی نہیں تھی۔ اس لئے حاجی اپنے کیمپ میں ہی با جماعت نماز ادا کرتے تھے۔ ہمارے معلم امامت کے علاوہ دین کی تبلیغ بھی کرتے اور حج کی تربیت بھی دیتے تھے۔ کیمپ میں بھی باقاعدہ چھ اذانیں اور چھ نمازیں بشمول تہجد با جماعت ادا ہوتی تھیں۔ اس کے علاوہ حاجی نوافل پڑھتے، قرآن مجید کی تلاوت کرتے اور دینی کتابوں سے استفادہ کرتے تھے۔ کئی حاجیوں کے پاس حج کی تفصیلات پر مشتمل کتابیں بھی تھیں۔ ان میں سے کچھ کتابوں سے میں نے بھی استفادہ کیا۔

ان میں سے ایک سڈنی کے عالم ڈاکٹر شبیر احمد کی لکھی ہوئی کتاب بھی تھی۔ اردو میں لکھی ہوئی یہ کتاب حج کے موضوع کا بڑی تفصیل سے احاطہ کرتی ہے۔ ڈاکٹر شبیر احمد نہ صرف اچھے عالمِ دین ہیں بلکہ حج کا وسیع تجربہ بھی رکھتے ہیں کیونکہ وہ ہر سال حاجیوں کا گروپ لے کر جاتے ہیں۔


مفت مشورے



میرے قریب جو حاجی مقیم تھے ان میں سے ملبورن سے آئے ہوئے ایک پروفیسر تھے، کینبرا سے آئے ایک ڈاکٹر تھے۔ دوسرے لوگ بھی تعلیم یافتہ، اعلیٰ عہدوں پر فائز اور کاروباری شخصیات تھیں۔ ڈاکٹر صاحب سے ہمیں بہت فائدہ ہوا کیونکہ وہ ہمیں طبی مشورے دیتے تھے۔ یہ مشورے وہ مشورہ طلب کیے بغیر نہیں دیتے تھے۔

تاہم ہمارے ساتھ ایسے احباب کی کمی نہیں تھی جو مفت مشوروں کی فیکٹریاں تھیں۔ کچھ احباب طبی مشورے دیتے تھے اور کچھ دینی مشوروں سے نوازتے رہتے تھے۔ مثلاً میرے ہی شہر کے ایک صاحب جب بھی مجھے ملتے تو کہتے ’’آپ نے بال نہیں کٹوائے۔ آپ کا حج کیسے ہو گا‘‘

میں نے عرض کیا ’’میں نے حج قِرِان کی نیت کی ہے۔ اس میں دس ذوالحج والے دن قربانی کے بعد بال کٹوائے جاتے ہیں‘‘

کہنے لگے ’’یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ حج کی شرط یہ ہے کہ سات ذوالحج تک عمرہ کر کے بال کٹوانے پڑتے ہیں ورنہ آپ کا حج نہیں ہوتا‘‘

میں نے بحث کرنا مناسب نہیں سمجھا اور ٹالنے کے لیے کہا ’’کچھ ذمہ داری معلمین کے لیے بھی رہنے دیں۔ آخر ہم انہیں اس کا معاوضہ دیتے ہیں‘‘

وہ ہمارے ساتھ ہمارے معلم کو بھی غلط ثابت کرنے پر تل گئے۔ وہاں سے اٹھ کر ہی میں نے اپنی جان چھڑائی۔ وہ جب بھی ملتے پھر وہی موضوع چھیڑ دیتے۔

ہمیں احرام کا ایک سیٹ لبیک والوں نے دیا تھا۔ میں نے مدینہ منورہ سے ایک اور احرام خرید لیا۔ سوچا اگر دوران حج ایک احرام زیادہ میلا ہو گیا تو دوسرا استعمال کر لوں گا۔ وہی ہوا۔ دو دن میں ہی احرام بہت زیادہ میلا ہو گیا۔ میں نے دوسرا احرام نکال کر پہننا چاہا۔ لیکن اس کی چادریں اتنی چھوٹی نکلیں کہ میرے بدن کو ڈھانپنے سے قاصر تھیں۔ لہٰذا میں نے وہ احرام استعمال کئے بغیر پھینک دیا۔ جب میں یہ احرام خرید رہا تھا تو دکاندار سے میں نے ایک ہی بات پوچھی تھی ’’کیا تمام احرام کا سائز ایک ہی ہوتا ہے یا یہ چھوٹے بڑے ہوتے ہیں‘‘

دکاندار نے بڑے وثوق سے کہا ’’نہیں جی تمام احرام کا سائز ایک ہی ہوتا ہے‘‘

یہ بات میں نے اپنے ساتھیوں کو بتائی تو ایک صاحب نے فوراً فتویٰ دے دیا۔ ’’آپ کا حج مکروہ ہو گیا ہے۔ کیونکہ آپ نے غیبت کی ہے۔ فوراً توبہ کریں‘‘

میں نے عرض کیا ’’میں نے تو حقیقت عرض کی ہے‘‘

کہنے لگے ’’پھر بھی یہ گناہ ہے‘‘

ایک دوسرے صاحب نے فتویٰ دینے والے کو ٹوکا ’’کل رات جو آپ کھانے کی شکایت کر رہے تھے اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟ حالانکہ آپ یہ شکایت آپ براہ راست انتظامیہ سے کر سکتے تھے۔ ان کی غیر موجودگی میں تنقید کو آپ کسی زمرے میں لیں گے‘‘

ان صاحب کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔

اس طرح دوران حج مشورے اور فتویٰ دینے والوں کی کمی نہیں تھی۔ حالانکہ زیادہ تر عازمین حج خود پڑھے لکھے، سمجھ دار اور با شعور تھے۔ معلم کے ہوتے ہوئے عام لوگوں کے مشورے کی ویسے بھی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن یہ مشورے بن مانگے ملتے تھے۔

یہ شاید ہمارا قومی کھیل ہے۔ ہر آدمی دوسرے کو مشورہ دینے کے لیے تیار بیٹھا ہوتا ہے۔ کچھ لوگ موبائل فون کو استعمال کرتے دیکھتے تو کہتے ’’اس شیطان کے چرخے کو یہاں لانا ضروری تھا کیا۔ صاحب یہ اللہ اللہ کرنے کی جگہ ہے۔ اس کی وجہ سے آپ کا پورا حج متاثر ہو سکتا ہے‘‘

کچھ دوست یوں سمجھاتے نظر آتے ’’زیادہ چائے نوشی آپ کی صحت خراب کر سکتی ہے اس سے بچے رہیں تو بہتر ہے‘‘

کچھ سگریٹ نوشی پر اعتراض کرتے۔ کچھ باتیں کرنے اور ہنسنے مسکرانے پر نالاں نظر آتے اور سنجیدگی اختیار کرنے کا مشورہ دیتے۔

حج سے ہٹ کر بھی دیکھا جائے تو بعض لوگ دوسروں کے کام میں جا بجا ٹانگ اُڑانا اور بن مانگے مشورے دینا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ اگر ان کا علم واقعی وسیع ہو اور وہ آپ کو ایسی بات بتائیں یا سمجھائیں جو آپ کے لیے نئی ہو تو ان کا مشورہ سر آنکھوں پر۔ حالانکہ کسی خواہ مخواہ مشورہ دینا میں پھر بھی درست تصور نہیں کرتا۔

لیکن اگر مشورہ دینے والے کا اپنا علم محدود ہو۔ صرف سنی سنائی باتیں جانتا ہو اور محض رُعب ڈالنے کے لیے ہر کس وناکس کو روک کر مشورہ دینا اپنا فرض سمجھتا ہو تو یہ انتہائی مضحکہ خیز بات ہے۔

مجھے یاد ہے بہت سال پہلے میں چھٹیوں پر کراچی گیا ہوا تھا۔ ایک دن صبح صبح میری والدہ کی طبیعت خراب ہو گئی۔ میں ڈاکٹر کو بلانے کے لیے پیدل ہی اس کے گھر روانہ ہو گیا۔ ڈاکٹر کا گھر وہاں سے زیادہ دور نہیں تھا۔ میں پریشانی کے عالم میں تیز تیز چلا جا رہا تھا کہ کسی نے بازو پکڑ کر مجھے روک لیا۔ میں نے گھوم کر دیکھا تو وہ ایک باریش نوجوان تھا جس کے سر پر پگڑی بھی موجود تھی۔ میں نے حیران ہو کر پوچھا ’’کیا بات ہے آپ نے مجھے کیوں پکڑ رکھا ہے؟‘‘

کہنے لگا ’’میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ آپ نے جو سونے کی چین پہن رکھی ہے وہ حرام ہے۔ آپ اسے فوراً اتار دیں‘‘

میں نے جان چھڑانے کے لیے کہا ’’ٹھیک ہے۔ اب میں جاؤں؟‘‘

انہوں نے اسی مضبوطی سے میرا بازو پکڑے رکھا اور کچھ احادیث وغیرہ سنانے لگے جو غلط تھیں۔ وہ احادیث کو قرآن کہہ رہے تھے اور قرآنی آیات کو احادیث فرما رہے تھے۔ میں نے پھر کہا ’’میں بہت جلدی میں ہوں میں نے آپ کی بات سن لی ہے اب میں جاؤں؟‘‘

انہوں نے میری بات سنی ان سنی کرتے ہوئے اپنی تبلیغ جاری رکھی۔ اس دوران اس نے میری کلائی اس مضبوطی سے پکڑی ہوئی تھی کہ مجھے درد ہونے لگا۔ آخر تنگ آ کر ایک جھٹکے سے میں نے بازو چھڑوایا اور کہا ’’یہ تبلیغ کرنے یا فتویٰ دینے کا کون سا طریقہ ہے؟ آپ میرے بارے میں کیا جانتے ہیں؟ بہتر یہ ہے کہ پہلے خود دین سیکھیں پھر فتو یٰ دینے اور تبلیغ کرنے کا کام شروع کریں۔ ورنہ آپ دین کی خدمت نہیں بلکہ اسے بدنام کر رہے ہیں‘‘

وہ اب بھی وعظ میں مصروف تھے لیکن میں وہاں سے چل دیا۔

بچپن میں میں نے نماز پڑھنی سیکھی تو فرض، سنت اور نفل کا فرق معلوم نہیں تھا۔ کیونکہ ہمارے گاؤں میں لوگ نفل بھی اسی اہتمام سے پڑھتے تھے جس اہتمام سے فرض پڑھتے تھے۔ میں نے جب مطالعہ شروع کیے تو معلوم ہوا کہ نفل فرض کی طرح ضروری نہیں ہیں۔ اگر نہ بھی پڑھیں تو نماز ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد میں کبھی تو نفل پڑھتا تھا اور کبھی جلدی میں ہوتا تھا تو نہیں پڑھتا تھا۔ اسی بات پر کئی نمازی میرے خلاف ہو گئے۔ ایک دن ظہر کی نماز میں فرض اور سنت پڑھ کر گھر جانے کے لیے اٹھا تو کسی نے میری قمیض کا دامن پکڑ لیا۔ میں نے گھوم کر دیکھا تو وہ میرے محلے کے ایک بزرگ تھے۔ وہ باقاعدہ نمازی تھے۔ لیکن بچوں کو زیادہ پسند نہیں کرتے تھے۔ نماز کی غرض سے مسجد میں آنے والے بچوں کو خواہ مخواہ ڈانٹتے رہتے تھے۔ میں بھی اس وقت دس گیارہ سال سے زیادہ کا نہیں تھا۔ لہٰذا ان کی ڈانٹ کا شکار بنتا رہتا تھا۔ آج وہ خود نماز میں تشہد پڑھ رہے تھے۔ لیکن ایک ہاتھ سے انہوں نے میری قمیض پکڑ رکھی تھی تاکہ میں جانے نہ پاؤں۔

جونہی انہوں نے سلام پھیرا تو لال سرخ آنکھوں سے میری طرف دیکھا اور گویا ہوئے ’’اوئے تم نماز پوری کیوں نہیں پڑھتے ہو۔ یہاں حاضری لگوانے آتے ہو کیا؟‘‘

میں نے ادب سے جواب دیا ’’میں نے پوری نماز پڑھی ہے‘‘

بولے ’’میں تمہیں دیکھ رہا تھا۔ تم نے نفل نہیں پڑھے۔ جب تک نفل نہیں پڑھو گے تمہاری نماز نہیں ہو گی‘‘

یہ بزرگ نماز اپنی پڑھ رہے تھے اور رکعتیں میری گن رہے تھے۔ اس وقت مسجد میں چار پانچ نمازی موجود تھے۔ زیادہ تر اسی بزرگ کی عمر کے تھے۔ صرف ایک جوان اور پڑھا لکھا سرکاری ملازم تھا۔ اس نے مداخلت کی ’’چاچا یہ لڑکا صحیح کہہ رہا ہے۔ نفل پڑھے بغیر بھی نماز ہو جاتی ہے‘‘

چاچا پھر بھی نہیں مانے۔ الٹا اس نوجوان پر چڑھ دوڑے۔ ’’تم نے بھی اس لڑکے کی طرح چار کتابیں پڑھ لی ہیں اور باپ دادا سے جو چیزیں چلتی آ رہی ہیں اس کو غلط کہہ رہے ہو۔ پتہ نہیں ان اسکولوں میں کیا پڑھایا جاتا ہے آج کل‘‘

یہ کہہ کر وہ پیر پٹختے ہوئے چلے گئے۔ اس باریش نوجوان نے مجھے شاباش دی اور کہا ’’گھبراؤ نہیں تم بالکل ٹھیک کہہ رہے تھے۔ ان کے کہنے پر تم نماز پڑھنا یا مسجد آنا نہیں چھوڑ دینا۔ ایسی باتیں چلتی رہتی ہیں ان کا اثر نہیں لینا چاہیے‘‘

عمر بھر مسجد میں روک ٹوک، نماز پر فتوے، روزے کے مسائل پر بحث اور اب حج کے دنوں میں بہت سے مشورے فتوے اور مسئلے سننے کو ملتے رہے۔ اب اس عمر میں یہ سب کچھ سننے اور برداشت کرنے کی عادت سی ہو گئی ہے۔ لیکن بچپن اور نوجوانی میں اس طرح کی روک ٹوک نہ جانے کتنے ہی لوگوں کو دین سے ہی دور لے جاتی ہو گی۔ انسان خطا کا پتلا ہے۔ غلطیاں اور گناہ انسان سے ہی ہوتی ہیں۔ ان کا حساب لینے کے لیے اللہ کا پورا نظام موجود ہے۔ پھر ہم انسان ایک دوسرے کو جنت اور دوزخ کیوں بانٹتے پھرتے ہیں۔ ہمیں اس کا اختیار کس نے دیا ہے۔ کہیں ہم اپنے اختیار سے تجاوز تو نہیں کر رہے۔ سوچنے کی باتیں ہیں۔

سوال یہ ہے کہ اگر ایسے لوگ اپنی خو نہیں بدلتے تو ان کا تدارک کیا ہے۔ ان سے کس طرح نبٹنا چاہیے۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ایسے لوگ جب مشورہ یا فتویٰ دے رہے ہوتے ہیں تو کبھی یہ نہیں کہتے کہ میرا خیال یہ ہے یا میری رائے یہ ہے۔ بلکہ وہ شروع ہی اس طرح کرتے ہیں کہ مخاطب کے پاس جواب دینے کی گنجائش ہی نہیں چھوڑتے۔ ان کی رائے اتنی بے لچک اور فتویٰ اتنا حتمی ہوتا ہے کہ بحث مباحثے کی گنجائش بالکل نہیں ہوتی۔ ویسے بھی کسی کو جھٹلانا مناسب نہیں ہوتا۔ تاہم بہت ادب اور طریقے سے انہیں باور کرایا جا سکتا ہے کہ آپ کی رائے سر آنکھوں پر، لیکن مختلف لوگوں کی مختلف رائے ہو سکتی ہے۔ لہٰذا آپ اپنی رائے پر قائم رہیں اور ہمیں اپنی زندگی جینے دیں۔

بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ مشورہ دینے والا آپ کے سر پر کھڑا ہو کر اپنے مشورے پر عمل کروانا چاہتا ہے۔ اگر آپ بیمار پڑ جائیں تو تیمار داری کے لیے آنے والے ہر شخص کے پاس کوئی نہ کوئی مشورہ ضرور ہوتا ہے۔ پہلے تو وہ یہ پوچھتے ہیں کہ آپ نے اب تک یہ چیز استعمال کیوں نہیں کی۔ پھر ایسی نظر سے دیکھتے ہیں جیسے اہلِ خانہ، مریض حتیٰ کہ ڈاکٹر تک سبھی نادان ہیں۔

جب کہ مریض سوچ رہا ہوتا ہے کہ

یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح

کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غم گسار ہوتا

ہم میں سے ہر کوئی کبھی نہ کبھی بیمار ہوا ہو گا۔ اسے اس کے دوست احباب اور عزیز و اقارب نے مختلف مشوروں سے بھی ضرور نوازا ہو گا۔

وہ مشورے کیسے ہوتے ہیں۔ ان میں کچھ مشورے ملاحظہ فرمائیں۔

۱۔ اسے گلی کی نکڑ والے حکیم صاحب کے پاس لے جائیں ان کی دوائی سے ضرور تندرست ہو جائیں گے۔ حکیم صاحب ایسی بیماریوں کا چٹکی بجاتے علاج کر دیتے ہیں۔

۲۔ میرے گھر میں گلے کی بیماری کی دوا موجود ہے۔ کسی بچے کو بھیج کر منگوا لیں۔ فوراً آرام آ جائے گا۔ میری آزمائی ہوئی ہے۔

۳۔ اس بیماری کا علاج صرف ڈاکٹر امان اللہ ہی کر سکتا ہے۔ کسی اور ڈاکٹر کے پاس اس بیماری کا علاج نہیں ہے۔ انہیں اس کے کلینک میں لے جائیں۔ (کتنی پکی اور بے لچک رائے ہے۔ اس سے اختلاف کرنے کی کوئی جراٗت کر سکتا ہے)

۴۔ انہیں جڑی بوٹیوں والا کڑوا جوشاندہ پلائیں۔ دوا کے بغیر ہی ٹھیک ہو جائیں گے۔

۵۔ پیر کرم صاحب سے تعویذ لے آئیں۔ کسی دوا کی کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ ہمارا آزمودہ نسخہ ہے۔ ہم تو ہمیشہ اسی پر عمل کرتے ہیں۔

۶۔ بھئی ہمارے گھر میں تو دادی کے زمانے سے ایک پھکی (چورن) استعمال ہوتی ہے۔ جب بھی کسی کی طبیعت خراب ہو تو ڈاکٹروں سے لٹنے کے بجائے اس پھکی کا استعمال کرتے ہیں۔ آپ چاہیں تو میں بھجوا سکتا ہوں۔

۷۔ میں تو کہتی ہوں گاؤں کا چکر لگائیں اور بابا علی شاہ کے مزار پر حاضری دیں۔ ایسی بیماریاں پل بھر میں ہوا ہو جاتی ہیں۔ لیکن آج کل کے پڑھے لکھے بچے ہماری باتوں پر کب توجہ دیتے ہیں۔

اس طرح کے کئی مشورے ہر مریض کو سننے پڑتے ہیں۔ سب سے خطرناک مرحلہ وہ ہوتا ہے جب تیمار دار اپنی جیب سے دوا نکالتا ہے اور گھر والوں سے کہتا ہے لو بھئی دوا تو میں لے آیا ہوں۔ پانی لے کر آئیں اِسے ابھی یہ دوا پلاتے ہیں، تم لوگ دیکھنا! آرام آتا ہے یا نہیں۔ یہ وہی بیماری ہے جو پچھلے سال مجھے ہوئی تھی اس لئے آتے ہوئے میں دوا ساتھ لیتا آیا ہوں۔

بعض تیمار دار زود رنج ہوتے ہیں۔ جس طرح ان سے بچنا آسان نہیں ہوتا اس طرح انہیں جھٹلانا بھی آسان نہیں ہوتا۔۔ اس مسئلے کو بہت سمجھ داری سے نمٹانا پڑتا ہے۔ انہیں یقین دلانا پڑتا ہے کہ ان کا نسخہ سب سے اچھا ہے۔ ورنہ ان کی دوستی اس طرح دشمنی میں بدل سکتی ہے جس طرح ہندوستان اور پاکستان کے درمیان حالات بدلتے رہتے ہیں۔

یوں تو حج میں ہفتے لگ جاتے ہیں۔ لیکن منیٰ اور عرفات کا چند دن کا قیام ہی اصل حج ہے۔ یہی دن آزمائش کے دن ہوتے ہیں۔ یہاں ہوٹل کی طرح رہنے سہنے اور کھانے پینے کی سہولیات نہیں ہوتیں۔ انتہائی تنگ جگہ میں سخت گرمی میں صرف پنکھے کی ہوا میں شب و روز بسر کرنے پڑتے ہیں۔ مٹی، گرد و غبار، دھویں اور پسینے سے احرام میلا چکٹ ہو کر جسم سے چپک چپک جاتا ہے۔ وہاں کئی جلدی بیماریاں بھی جنم لے لیتی ہیں۔ میں نے ان بیماریوں کے اثرات کئی ساتھیوں کے ہاتھوں پاؤں پر نمایاں ہوتے دیکھے۔ جلد پر سرخ اور سیاہ دھبے پھیل جاتے ہیں جس میں خارش ہوتی ہے۔ میری جلد بھی چند ایک جگہ سے حساس ہو کر سرخی مائل ہو گئی جسے میں نے ایک کریم کے ذریعے قابو میں رکھا۔

یہ سارے مسائل اتنے بڑے نہیں تھے جتنا بڑا مسئلہ غسل خانے اور بیت الخلاء کا تھا۔ حجاج کے تناسب سے غسل خانے اور بیت الخلاء بہت کم تھے۔ ان کے سامنے رات دن چوبیس گھنٹے قطاریں لگی رہتی تھیں۔ ایک کھلے منہ والے بڑے سے پائپ پر مشتمل شاور والا غسل خانہ اور بیت الخلاء انتہائی تنگ بنا ہوتا ہے۔ یہ بیت الخلا پاکستانی طرز کا یعنی پاؤں پر بیٹھنا والا ہوتا ہے۔ اگر انگریزی سیٹ والی ایک آدھ کموڈ ہوتی بھی ہے تو اتنے لوگوں کے ہوتے ہوئے اس تک رسائی نا ممکن ہوتی ہے۔

یورپ، امریکہ اور آسٹریلیا سے آئے ہوئے حجاج ان دیسی بیت الخلاؤں کے عادی نہیں ہوتے۔ یہ عادت نہ ہونے کی وجہ سے ان کی ٹانگیں اس کا ساتھ نہیں دیتیں۔ لہٰذا ان کے لیے ایسے ٹوائلٹ استعمال کرنا کڑے امتحان سے کم نہیں ہوتا۔ جن لوگوں کی ٹانگیں یا گھٹنے عمر یا بیماری کی وجہ سے کمزور یا نازک ہوتے ہیں ان کے لیے یہ مشکل مزید بڑھ جاتی ہے۔ مجھے بھی گھٹنوں کا اتھرائیٹس ہے اور برسوں سے پاؤں پر بیٹھنے کی عادت نہیں ہے۔ نہ ہی ٹانگوں میں اتنی طاقت ہے۔ لہٰذا میری ٹانگوں نے جو صدائے احتجاج بلند کیا وہ میں ہی جانتا ہوں۔ یہ پہلے دو دن کی بات ہے۔ تیسرے دن عادت ہو گئی اور یہ تکلیف قدرے کم ہو گئی۔ یہ سچ ہے کہ انسان ہر ماحول میں جینا سیکھ لیتا ہے۔

لوگ غسل خانے کے آگے قطار میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرتے تھے۔ میں نے وہاں کوئی بدنظمی یا کسی قسم کی نوک جھونک نہیں دیکھی۔ شاید اس وجہ سے کہ یورپ اور آسٹریلیا سے آئے ہوئے یہ لوگ قطار بندی کے عادی تھے۔ یا پھر حج کے موقع پر عام مسلمان جس جذبہ اخوت اور جذبہ قربانی سے بھرا ہوتا ہے اس کی وجہ سے ایسی نوبت نہیں آئی۔ ورنہ عام زندگی میں ایسی جگہوں پر لڑائی جھگڑا عام سی بات ہے۔

حج کی شرائط کے مطابق جب آپ احرام باندھ لیتے ہیں تو بہت سی چیزیں اور کام آپ کے لیے حرام ہو جاتے ہیں۔ مثلاً

۱۔ حجامت نہیں بنوا سکتے ۲۔ شکار نہیں کر سکتے ۳۔ خوشبو نہیں لگا سکتے۔ ۴۔ خوشبو والا صابن نہیں استعمال کر سکتے۔ ۵۔ شیمپو یا ٹوتھ پیسٹ استعمال نہیں کر سکتے ۶۔ موزے یا جرابیں نہیں پہن سکتے۔ ۷۔ بند جوتے نہیں پہن سکتے۔ ۸۔ احرام کے علاوہ کوئی اور لباس نہیں پہن سکتے۔

ان شرائط کی وجہ سے حاجی وہاں ایک خاص قسم کا صابن ہی استعمال کر تے ہیں جو خوشبو دار نہیں ہوتا۔ میں نے اس صابن کی دو ٹکیاں خرید رکھی تھیں۔ یہ ٹکیاں میں پہلے ہی روز دونوں وقت کے غسل کے دوران وہیں بھول آیا۔ لہٰذا اگلے کئی دن تک میرے پاس کوئی صابن کوئی شیمپو نہیں تھا۔ میں نلکا کھول کر کچھ دیر اس کے نیچے کھڑا رہتا اور پھر گیلے بدن پر ہی احرام لپیٹ کر باہر نکل آ تا۔ یہ عمل میں دن میں کئی دفعہ دہراتا تھا۔ جب بھی غسل خانے جانا ہوتا شاور کے بعد ہی باہر نکلتا تھا۔ دوسرے حاجی بھی اس سخت گرمی میں یہی کرتے تھے۔ شکر ہے قدرے گرم سہی نل میں پانی آتا رہتا تھا۔ پانی کی کمی صرف ایک جگہ پیش آئی۔ یہ جگہ مزدلفہ تھی۔ جہاں ہم نے نو ذوالحج والی رات قیام کیا تھا۔

دوران حج منیٰ میں پورا ایک شہر بسا ہوتا ہے۔ پچیس تیس لاکھ لوگوں پر مشتمل یہ شہر دنیا کے کئی بڑے شہروں کے برابر ہو جاتا ہے۔ سڈنی جو رقبے کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا شہر ہے، کی کل آبادی بیالیس لاکھ ہے۔ برسبین جو آسٹریلیا کا تیسرا بڑا شہر ہے، کی آبادی بیس لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ منیٰ کے اس عارضی شہر میں ترتیب سے سڑکیں بنی ہوئی ہیں۔ ان کھلی سڑکوں کے دونوں اطراف میں خیموں میں آنے جانے کے گیٹ ہیں جہاں سیکورٹی موجود رہتی ہے اور آپ کی شناخت کر کے ہی اندر جانے دیتی ہے۔ ان سڑکوں پر تھوڑے تھوڑے فاصلے پر وضو گاہیں، ٹھنڈے پانی کے کولر اور کچرا گاہیں ہیں۔ جہاں پر خیموں سے کچرا لا کر پھینکا جاتا ہے۔ بڑے بڑے ٹرک آتے ہیں اور یہ کچرا اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ ان سڑکوں پر ٹھیلے والے سودا بیچتے ہیں۔ حالانکہ کیمپ کے کچھ مخصوص علاقے ہیں جہاں باقاعدہ بازار موجود ہے۔ بہرحال ٹھیلے والے ہر کیمپ کے سامنے ٹھیلا لگائے ہوئے ہیں۔ ان میں عام اور فوری استعمال والی اشیاء اور پھل وغیرہ ہوتے ہیں۔ ان سڑکوں پر بھکاریوں کی بھی کمی نہیں ہے۔ برقعہ میں ملبوس عرب خواتین بھیک بھی مانگتی ہیں اور ٹھیلہ برداری بھی کر رہی ہوتی ہیں۔

ایک دن میرے ساتھی جاوید صاحب نے میری توجہ ایک بھکاری عورت کی طرف دلائی جو بڑی صفائی سے ایک ٹھیلے سے پھل چرا کر اپنے برقعہ میں چھپا رہی تھی۔ ہمیں متوجہ پا کر بنگالی دکاندار بھی ہوشیار ہو گیا۔ اس نے بھی عورت کو چوری کرتے دیکھ لیا۔ دُکاندار نے اس عورت سے پھل واپس رکھنے کے لیے کہا تو عورت نے صاف انکار کر دیا۔ اس بنگالی دکاندار نے جب پولیس بلانے کی دھمکی دی تو عورت کے برقعے سے سیب اور کیلے برآمد ہونا شروع ہو گئے۔ اس نے پھل واپس کر دیے اور دُکاندار کو بُرا بھلا کہتی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔

ہمارا خیمہ منیٰ کیمپ کے شروع کے حصے میں تھا۔ منیٰ ہسپتال، دکانیں اور دفاتر یہاں سے قریب تھے۔ اس محل وقوع کا نقصان اس وقت سامنے آیا جب ہم رمی کے لئے جمرات تک گئے۔ اس وقت ہمیں معلوم ہوا ہمارا خیمہ جمرات سے سب سے زیادہ دور ہے۔ اتنا دُور کہ جتنا چاہے چلتے جاؤ یہ فاصلے ختم ہونے کا نام نہیں لیتا تھا۔ ہم نے اگلے تین دن یہ عمل دہرا نا تھا۔ حج کے دوران سب سے مشکل کام، سب سے زیادہ رش اور سب سے زیادہ گھٹن کا سامنا رمی کے دوران ہوتا ہے۔ وہاں اکثر بڑے بڑے حادثے پیش آتے ہیں۔ 2015ء میں کئی سو حاجی یہاں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔

میں اپنے خیمے سے نکل کر کبھی کسی ساتھی کے ساتھ تو کبھی اکیلا ہی ادھر ادھر گھومتا رہتا تھا۔ اس ڈر کی وجہ سے کہ کہیں واپسی کا راستہ ہی نہ بھول جاؤں اپنے خیمے سے زیادہ دور نہیں جاتا تھا۔ اسے اتفاق کہیں کہ میری سستی کہ میں نے اپنے کیمپ کا نمبر بھی نوٹ نہیں کیا تھا۔ مجھے اس بات کا خیال ہی نہیں آیا۔ شروع میں اس کی ضرورت بھی پیش نہیں آئی کیونکہ ہم کیمپ سے باہر جہاں بھی جاتے تھے اپنے گروپ کے ساتھ اور اپنے معلم کی راہنمائی میں جاتے تھے۔ اس لیے کیمپ کا نمبر اور اس کا محل وقوع یاد رکھنے کی کبھی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ یہ میری بہت بڑی غلطی تھی جس کا ہمیں خمیازہ بھگتنا پڑا۔

اپنے کیمپ سے باہر نکل کر دوسرے حاجیوں سے ملاقات ہوتی رہتی۔ ان میں کوئی برطانیہ کے پر فضا خطے سے آیا ہوتا۔ کوئی یخ بستہ ملک کینیڈا سے اللہ کے حضور حاضری دینے کے لیے اس گرم ترین جگہ پر موجود ہوتا۔ ان میں سے چند ایک سے میرا اب بھی رابطہ ہے۔ ایک بزرگ حاجی عبدالقدوس نے کیمپ کے باہر رکھے بینچ پر بیٹھے بیٹھے اپنی کہانی سنائی۔


حاجی عبدالقدوس کی کہانی



میں پچھلے اکتیس برس سے برطانیہ میں مقیم ہوں۔ میں اپنے چچا کی مدد سے وہاں گیا تھا۔ پہلے دس برس خود کو قانونی بنانے کے چکر میں صرف ہو گئے۔ ان دس برسوں میں جو کچھ کماتا رہا میرپور (آزاد کشمیر) میں اپنی بیوی بیٹے اور بیٹیوں کے لیے بھیجتا رہا۔ جو کچھ باقی بچتا تھا وہ وکیلوں کی نذر ہو جاتا تھا۔ کئی درخواستیں رد ہوئیں۔ کئی فیسیں ضائع ہوئیں۔ لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری۔ نئی درخواستوں اور نئی فیسوں کے ساتھ اپنی قانونی جنگ جاری رکھی اور محنت مزدوری بھی کرتا رہا۔ اس دوران مجھے نہ تو کوئی اچھی نوکری ملی اور نہ رہنے کے لیے مستقل ٹھکانا تھا۔ میں مزدور تھا۔ کبھی کسی فیکٹری یا ویئرہاؤس میں کام کر رہا ہوتا اور کبھی کسی عمارت میں اینٹیں ڈھو رہا ہوتا۔ کام کے ساتھ ساتھ کرائے کے گھر بھی بدلتے رہتے تھے۔ گھر کیا ہوتا تھا بس رات گزارنے کا ٹھکانا ہوتا تھا۔ ان دس سالوں میں میں وطن واپس نہیں جا سکا۔ سارا دن مزدوری کرتا اور رات بچوں کو یاد کرتے گزر جاتی۔

اس ساری تگ و دو اور بدن توڑ مشقت کا یہ فائدہ ہوا کہ میرے گھر کے حالات کافی بدل گئے۔ میرے بچے غربت کے چنگل سے آزاد ہو کر خوشحال زندگی بسرلگے۔ میرا گھر میرے باپ کے وقتوں کا بنا ہوا تھا۔ میری بیوی نے اسے گروا کر وہاں نیا مکان بنوایا اور گھر میں رکھنے کے تمام لوازمات بھی خرید لیے۔ حتیٰ کہ انہوں نے ایک سیکنڈ ہینڈ کار بھی لے لی۔ جب کہ میں برطانیہ میں رہتے ہوئے ابھی تک بسوں اور ٹرینوں کے دھکے کھا رہا تھا۔ اس دوران میری بیٹیاں اور بیٹا پرائمری سے ہائی سکول اور پھر کالج جا پہنچے۔ آخر دس سال بعد وہ وقت آ گیا جس کا مجھے بر سوں سے انتظار تھا۔ میری کوششیں رنگ لائیں اور مجھے برطانیہ کی مستقل سکونت مل گئی۔ میں خوشی سے دیوانہ ہو گیا۔ احباب میں مٹھائیاں بانٹیں۔ کاغذ بننے کے فوراً بعد میں نے سامان باندھا اور پہلی فرصت میں میرپور پہنچ گیا جو صرف چند گھنٹے کی مسافت پر تھا۔ لیکن اس چند گھنٹے کی مسافت نے میری زندگی کے دس برس نگل لیے تھے۔ اپنا گھر اور بچے دیکھ کر میں بہت خوش ہوا۔ لیکن یہ خوشی عارضی ثابت ہوئی۔

در اصل میرے گھر والے برطانیہ جانے کے لیے تیار بیٹھے تھے۔ جب کہ ان میں سے کسی کا بھی ویزا نہیں لگا تھا۔ نہ ہی اس عمر میں بچوں کے ویزے لگنے کا امکان تھا۔ میں نے اپنی درخواست میں خود کو کنوارا ظاہر کیا تھا۔ کیونکہ اس طرح شہریت ملنے کے زیادہ امکانات تھے۔ اب اگر میں ان کو بتاتا کہ نہ صرف میں شادی شدہ ہوں بلکہ تین بچوں کا باپ ہوں تو میری فیملی کا ویزا ملنا تو درکنار میرا بھی منسوخ ہو سکتا تھا۔ مجھ پر غلط بیانی اور دھوکہ دہی کا کیس بھی بن سکتا تھا۔ ان حالات میں میری فیملی کے برطانیہ جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا، نہ میں نے انہیں کبھی ایسی امید دلائی تھی۔

لیکن میری بیوی اور بچے کچھ سننے کے لیے تیار نہیں تھے۔ اس سلسلے میں وہ چاروں ہمنوا ہو گئے اور مجھ پر دباؤ ڈالنے لگے۔ میں نے بیوی کو سمجھا بجھا کر اپنا ہم خیال بنانے کی کوشش کی لیکن وہ میری بات سننے اور سمجھنے کے لیے تیار ہی نہیں تھی۔ در اصل ہمارے عزیز و اقارب اور گاؤں کے بہت سے لوگ برطانیہ میں مقیم تھے۔ میرے گھر والے بھی ان کی دیکھا دیکھی وہاں جانے کی امید لگائے بیٹھے تھے۔ ان کے ذہنوں میں یہی تھا کہ جب فیملی کے سربراہ کو ویزا مل گیا ہے تو بقیہ گھر والوں کو خودبخود مل جائے گا۔ شاید ہمارے عزیزوں میں سے ہی کسی نے ان کو ایسا بتایا ہو۔ لیکن میری غلطی یا غلط بیانی کی وجہ سے اب یہ نا ممکن تھا۔

میں نے تو یہی سوچا تھا کہ میرپور میں رہ کر غربت کی زندگی بسر کرنے کے بجائے اپنی فیملی کے لیے قربانی دیتا رہوں گا۔ خود محنت مزدوری کر کے گھر والوں کو ہر آسائش فراہم کرتا رہوں گا۔ کم از کم میرے گھر والے تو خوش و خرم زندگی بسر کر سکتے ہیں۔ ان کی خوشی میں ہی میری خوشی تھی۔ لیکن خوشی شاید میری قسمت میں نہیں تھی۔ اتنی بڑی قربانی دے کر اور اپنی زندگی کے دس برس ضائع کر کے بھی میں انہیں خوش نہیں کر سکا تھا۔ ان کی خوشی یا غمی مجھ سے وابستہ نہیں تھی بلکہ برطانیہ پہنچنے میں پوشیدہ تھی۔

دیکھتے ہی دیکھتے ہمارے گھر کے حالات میرے لیے اتنے خراب ہو گئے کہ اس گھر میں رہنا دوبھر ہو گیا۔ سب سے زیادہ دکھ مجھے اس بات کا تھا کہ جن بچوں کے لیے میں گھر سے بے گھر ہوا اور در در کی خاک چھانتا رہا وہ بھی میرے خلاف ہو گئے تھے۔ آخر تنگ آ کر صرف چھ ہفتوں بعد ہی میں برطانیہ لوٹ آیا۔ حالانکہ میں یہ سوچ کر گیا تھا کہ چھ ماہ سے ایک سال تک رہ کرواپس آؤں گا۔

اگلے پانچ برس تک میں مختلف وکیلوں سے مشورے کرتا رہا کہ اپنی فیملی کو برطانیہ کیسے بلا سکتا ہوں۔ کسی نے مجھے امید نہیں دلائی۔ اُدھر میری بیوی اور بچے مجھ سے بدستور ناراض تھے حتیٰ کہ فون پر بھی بات نہیں کرتے تھے۔ در اصل میری بیوی کی جہالت نے میرے بچوں کو مجھ سے بہت بد ظن کر دیا تھا۔ پھر بھی میں بلا باغہ ہر ماہ انہیں خرچ بھیجتا رہا۔ بلکہ جو کچھ کماتا تھا تھوڑا بہت اپنے لیے چھوڑ کر سب کچھ انہیں بھیج دیتا تھا۔ حالانکہ اب میرا بیٹا جوان ہو چکا تھا اور کمانے لگا تھا۔ جسمانی اور ذہنی مشقت سے میں اندر سے ٹوٹ گیا تھا۔

اس دن تو میری مایوسی اور میرے دکھ کی انتہا ہو گئی جب اطلاع ملی کہ میری بیوی نے میری بیٹی کی شادی طے کر دی ہے۔ انہوں نے مجھ سے مشورہ تو درکنار مجھے بتانا بھی ضروری نہیں سمجھا تھا۔ پچھلے سولہ سال کی تگ ودو، محنت مزدوری، سخت اور بے آرام زندگی، قانونی جنگ اور بیوی بچوں سے دوری کے دکھوں کو جھیلنے کے بعد مجھے یہی صلہ ملا تھا کہ میری بیوی اور بچے مجھے بالکل بھول گئے۔ انہوں نے میری قربانیوں، میری محبتوں اور دکھوں کو نظرانداز کر دیا تھا۔ میں اتنا دل برداشتہ ہوا کہ خودکشی کے بارے میں بھی سوچتا رہا۔

ایک دن بیٹھا سوچ رہا تھا کہ میں نے زندگی میں کیا کھویا اور کیا پایا کہ اچانک میرے خیالات بدل گئے۔ اس دن میں خودساختہ پابندیوں سے آزاد ہو گیا۔ جو مجھے بھولے ہوئے تھے میں بھی انہیں بھول گیا۔ اپنے بیوی بچوں، اپنے عزیز و اقارب اپنے دوست احباب اور اپنے وطن سے بہت دور آئرلینڈ کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں جا بسا۔ اپنے پیچھے میں نے کوئی اتا پتا بھی نہیں چھوڑا تھا۔ یہ گاؤں انتہائی پرفضا اور سادہ لوح دیہاتیوں پر مشتمل تھا۔ زندگی کی گاڑی چلانے کے لئے میں نے ایک فارم میں کام شروع کر دیا۔ تھوڑی بہت جمع پونجی میرے پاس تھی۔ کچھ قرض لے کر میں نے اپنا گھر بھی خرید لیا۔ آہستہ آہستہ وہ فارم بھی میں نے خرید لیا جس میں کام کرتا تھا۔

اس گاؤں کے لوگ بہت سادہ دل اور پر خلوص تھے۔ انہی میں ایک خاتون مارگریٹ بھی تھی جو اس علاقے کی کونسل میں ملازم تھی۔ رفتہ رفتہ مارگریٹ اور میں قریب ہوتے گئے اور ایک دن باہمی رضامندی سے نکاح کر لیا۔ مارگریٹ نے مسلمان ہو کر اپنا نام آمنہ رکھا۔ پچھلے پندرہ سال سے ہم اکٹھے رہ رہے ہیں اور اللہ کے فضل سے خوش ہیں۔ شادی کے وقت میری عمر پچاس اور آمنہ کی پینتالیس سال تھی۔ یہ بھی اتفاق تھا کہ آمنہ نے اس عمر تک شادی نہیں کی تھی۔

اسے رُوحانی اطمینان حاصل نہیں تھا۔ اسلام کا مطالعہ اس نے بہت پہلے سے شروع کر دیا تھا۔ وہ کبھی چرچ نہیں گئی تھی اور نہ اس نے زندگی بھر کوئی غیرا سلامی کام کیا تھا۔ جیسے جیسے وہ اسلام کا مطالعہ کرتی گئی ویسے ویسے اس کے ایمان میں پختگی آتی گئی۔ اب نہ صرف وہ پکی اور با عمل مسلمان ہے بلکہ اسلام کی حقانیت اور سچائی پر اس کا راسخ ایمان ہے۔ اس کی وجہ سے میں بھی نماز روزے کی طرف راغب ہو گیا۔ ہم یہ حج بھی آمنہ کی خواہش پر کرنے آئے ہیں۔

ہمارے گاؤں میں اب قاعدہ مسجد بنی ہوئی ہے جو میرے ہی فارم کے اندر ہے۔ یہاں پر گرد و نواح کے بہت سے مسلمان خواتین و حضرات نماز ادا کرنے آتے ہیں۔ ہمارے گاؤں میں اب مسلمانوں کے چھ خاندان آباد ہیں۔ جمعہ والے دن اور عیدین پر ہمارے فارم ہاؤس میں خوب رونق ہوتی ہے۔ یہ سب آمنہ کی کوششوں اور محنت کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ اس نے نہ صرف اپنی بلکہ میری بھی زندگی بدل کر رکھ دی ہے۔ اس کے اثرات ہمارے ارد گرد کے لوگوں پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔

ہر انسان کے اندر کئی کہانیاں چھپی ہوتی ہیں۔ عبدالقدوس سے میری اچانک اور سرسری ملاقات ہوئی تھی لیکن وہ ایک اثر انگیز کہانی سنا گئے۔ اپنے عزیز اقارب اور گھر والوں کی خاطر دیس پردیس کی خاک چھاننے والوں کی کیسی کیسی کہانیاں اور کیسے کیسے مسائل ہیں۔ اپنوں کی آسائش خاطر اپنی زمین سے دور غیروں کی مزدوری کرنے والوں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے بجائے ٹی وی پر چند نام نہاد دانشور ایسی ایسی باتیں سنا جاتے ہیں جو نہ صرف خلاف حقیقت بلکہ لاکھوں دلوں کی آزاری کا باعث بنتی ہیں۔ وطن میں ہر طبقے کے دفاع کی کوئی نہ کوئی صورت نکل آتی ہے سوائے ان پردیسیوں کے جو نہ صرف اپنے کنبے اور عزیز اقارب بلکہ ملک کی خوشحالی میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔ اس کا صلہ اکثر انہیں اس طرح ملتا ہے جیسے عبدالقدوس کو ملا۔ اپنے ہی لوگ اپنے ہی احباب اور اپنا ہی ملک نہ صرف انہیں اکیلا چھوڑ دیتا ہے بلکہ قدم قدم پران کی حق تلفی ہوتی ہے۔ جن عزیزوں کے لیے وہ باہر جا کر فکر مند رہتے ہیں وہی انہیں لوٹنے کے درپے ہوتے ہیں۔ ہزاروں لوگ ساری زندگی کی جمع پونچی ان ’’اپنوں‘‘ پر لٹا کر اپنا بڑھاپا اولڈ ہاؤس میں سرکاری خرچ پر گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ائرپورٹ سے لے کر جہاں جہاں وہ جائیں شکار سمجھ کر کتنے ہی شکاری ان کے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔ ان کی زمینیں جائیدادیں اور خون پسینے سے کمائے ہوئے گھروں پر لوگ قبضہ کر لیتے ہیں۔ ان کی کہیں شنوائی نہیں ہوتی۔ وہ روتے پیٹتے واپس چلے جاتے ہیں۔ ایسے ایک دو نہیں سیکڑوں واقعات ہو تے رہتے ہیں۔ ان لوگوں کے لیے جو قیمتی زِر مبادلہ بھجوا کر ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتے ہیں، کیا یہی انصاف ہے؟۔ جو ساری زندگی دیارِ غیر میں رہ کر بھی پاکستان کے گن گاتے ہیں، اپنے وطن کے لیے جان نچھاور کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں، کب انہیں اپنا سمجھا جائے گا؟۔ کب ان پر اپنی ہی زمین تنگ کرنے کا سلسلہ بند ہو گا؟۔ کب انہیں ڈالر اور پونڈ کمانے والی مشین نہیں بلکہ جیتا جاگتا انسان سمجھا جائے گا؟۔


ریحان علی کی کہانی



منیٰ میں قیام کے دوران ہی میری ملاقات ایک باریش پاکستانی امریکن سے ہوئی۔ ریحان علی نامی یہ نوجوان لاہور کے ایک کھاتے پیتے گھرانے کا فرد تھا۔ وہ محض آزادی عیاشی اور کھیل کھیلنے کے لیے امریکہ گیا تھا۔ لیکن امریکہ جا کر چند ہی سالوں میں اس کے اندر اتنی بڑی تبدیلی آئی کہ نہ صرف اس نے گناہوں سے لتھڑی زندگی چھوڑ دی بلکہ توبہ کر کے صراط مستقیم پر آ گیا۔ اس راستے پر آتے ہی اللہ اور اس کے رسولﷺ کی محبت میں ایسا گرفتار ہوا کہ آج منیٰ کے کیمپ میں بیٹھا اللہ اللہ کر رہا تھا۔ یہ انقلابی تبدیلی تھی۔ اور نوجوانی کی عمر میں امریکہ جیسے ملک میں اکیلے رہتے ہوئے آئی تھی۔ اس انقلاب کے پیچھے کیا محرکات کارفرما تھے، میں نے انہیں جاننے کی کوشش کی۔ اس کوشش کے نتیجے میں ریحان علی نے اپنی آب بیتی یوں سنائی۔

میرا تعلق لاہور کے ایک کھاتے پیتے گھرانے سے ہے۔ میں نے بی ایس سی تک پڑھا ہے۔ گھر والوں کی خواہش تھی کہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کروں۔ لیکن میرا دھیان غلط کاموں کی طرف ہو گیا اور پڑھائی سے دل اچاٹ ہو گیا۔ شراب اور شباب میرے روز و شب کے شغل بن گئے۔ دوستوں کی محفلیں جمتیں۔ منشیات بھی استعمال ہوتی۔ جوا بھی چلتا۔ شراب سے بھی شغل ہوتا اور بگڑی ہوئی امیر زادیوں سے بھی دل بہلتا۔ میرے دن رات جب اسی کام میں صرف ہونے لگے تو گھر والوں کو کچھ ہوش آیا۔ انہوں نے مجھے روکنے کی کوشش کی لیکن مجھے ان کی مداخلت پسند نہیں آئی۔ کیونکہ میرے ماں باپ اور بھائیوں نے شروع میں مجھے بالکل روکا ٹوکا نہیں تھا۔ اب جب کہ میں سرتاپا ان عیاشیوں میں ڈوب چکا تھا تو انہوں نے قدغن لگانے کی کوشش کی۔ میرے لیے واپسی اب ممکن نہیں تھی۔

جب گھر والوں نے دباؤ بڑھایا تو اس کا حل میں نے یہ نکالا کہ ملک ہی چھوڑ دیا اور ویزا لگوا کر امریکہ چلا گیا۔ یہ سٹوڈنٹ ویزا تھا جو صرف تین سال کے لیے اس شرط پر کارآمد تھا کہ میں اپنی فیس باقاعدگی سے ادا کرتا رہوں۔ ہر چھ ماہ کے سمسٹر میں فیس کی مد میں اتنی بڑی رقم ادا کرنے اور اپنا خرچ پورا کرنے کے لئے مجھے زندگی میں پہلی بار نوکری کرنا پڑی۔ یہ آسان نوکری نہیں تھی۔ سخت سردی میں صبح چار بجے میں ایک سٹور میں کام کرنے جاتا تھا۔ دن کے بارہ بجے تک وزنی اشیاء ڈھو کر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچاتا رہتا تھا۔ ان آٹھ گھنٹوں میں میرا انجر پنجر ہل کر رہ جاتا تھا۔ یہ بہت سخت اور تھکا دینے والا کام تھا۔ سب سے زیادہ مشکل کام صبح چار بجے گرم بستر چھوڑنا اور ٹرین کے ذریعے کام پر پہنچنا ہوتا تھا۔

ہفتے میں تین دن پڑھنے کے لیے یونیورسٹی بھی جاتا تھا۔ پڑھتا وغیرہ برائے نام تھا۔ کالج میں حاضری ضروری تھی ورنہ میرا ویزا منسوخ ہو سکتا تھا۔ ان سخت حالات میں میری عیاشیوں کا سلسلہ رک گیا۔ صرف ویک اینڈ پر چند دوستوں کے ساتھ کلب چلا جاتا تھا۔ یا پھر جب چھٹیاں ہوتی تھیں تو نشے میں غرق رہتا تھا۔ زندگی اسی طرح چل رہی تھی۔ اسی دوران کئی لڑکیوں سے دوستی ہوئی۔ چند ایک گرل فرینڈ بھی بنیں لیکن یہ سلسلہ زیادہ دیر چل نہ سکا۔ اس کی وجہ میرے پاس وقت اور سرمائے کی کمی تھی۔ ان لڑکیوں کو دینے کے لیے نہ تو میرے پاس وقت ہوتا تھا اور نہ اتنی رقم کہ انہیں تحفے دے کر خوش کروں، انہیں گھما پھرا سکوں یا کسی ریسٹورنٹ میں لے جاؤں۔ میری آمدنی محدود تھی جس سے بمشکل فیس پوری ہوتی اور میرا گزارا ہوتا تھا۔ رہنے کے لیے میرے پاس الگ فلیٹ بھی نہیں تھا بلکہ کچھ دوستوں کے ساتھ رہتا تھا۔ ان حالات میں پارٹیاں اور عیاشیاں سب ختم ہو کر رہ گئی تھیں۔

میں سوچتا تھا کہ امریکہ آ کر کیا پایا۔ جانوروں کی طرح بار برداری کرتا ہوں۔ صبح سے شام تک نوکری اور پھر گھر کے کام بھی خود کرنے پڑتے ہیں۔ سونے کے لیے بھی بمشکل چند گھنٹے ملتے ہیں۔

جو تصور لے کر میں امریکہ آیا تھا کہ وہاں جا کر خوب عیاشی کروں گا وہ ملیا میٹ ہو گیا تھا۔ یہاں آ کر میں کولہو کا بیل بن گیا تھا۔ کبھی میں سوچتا کہ پاکستان واپس چلا جاؤں۔ پھر خیال آتا گھر والوں کو کیا منہ دکھاؤں گا۔ ان سے اجازت لینا تو درکنار میں تو انہیں بتا کر بھی نہیں آیا تھا۔ اب اگر ڈگری ہی لے لوں تو انہیں کچھ منہ دکھانے کے قابل ہو سکوں گا۔

یہ بھی خیال آتا تھا کہ پاکستان جا کر کروں گا کیا۔ پڑھنا تو میں نے پہلے ہی چھوڑ دیا تھا۔ امریکہ میں ڈپلومہ حاصل کرنے کے بعد گرین کارڈ ملنے کے امکانات تھے۔ یہ یقینی نہیں تھا بہرحال ایک امید تھی۔ اسی لالچ، ڈر یا قوت فیصلہ کی کمی کی وجہ سے دو سال گزر گئے اور میرے شب روز تبدیل نہیں ہوئے۔ ان دو سالوں میں مزدوری، کالج اور گھر کے علاوہ اور کچھ نہیں کر پایا تھا۔ اس کے باوجود میرے اندر کا شیطان زندہ اور سلامت تھا۔ تاہم میرے شب و روز اُسے کھل کھیلنے کا موقع نہیں دیتے تھے۔ ان دو سالوں میں میں یہ بھی بھولا رہا کہ میں ایک مسلمان گھر میں پیدا ہوا تھا۔ اتنے عرصے میں نہ تو کبھی نماز پڑھی اور نہ روزہ رکھا اور نہ عید اور شب برات کا خیال آیا۔ میرے لیے سال کے تین سو پینسٹھ دن ایک جیسے تھے۔

اس دوران ایک ترک نوجوان ہمارے ساتھ رہنے آ گیا۔ انور پاشا کا مرس میں ڈپلومہ حاصل کرنے امریکہ آیا تھا۔ دو بیڈروم والے اس فلیٹ میں دو ہندوستانی اور ایک میں مل کر رہ رہے تھے۔ اس سے پہلے ایک اور ہندوستانی طالب علم تھا جو کورس مکمل کر کے واپس چلا گیا تھا اور ایک آدمی کی جگہ خالی ہو گئی تھی۔ جہاں انور پاشا آ کر ٹھہرا۔ اس کا بستر میرے ہی کمرے میں تھا۔ انور کا تعلق استنبول کے ایک امیر گھرانے سے تھا۔ اُس کی فیس اور دیگر اخراجات کے لیے رقم ترکی سے آتی تھی۔ پھر بھی وہ ہفتے میں ایک دو دن ایک ترکش ریسٹورنٹ میں کام کر کے کچھ اضافی رقم کما لیتا تھا۔ ہم لوگ اپنا اپنا کھانا بناتے تھے۔ لیکن جس دن انور گھر ہوتا تو وہ اپنے ساتھ ہمارے لیے بھی کھانا بنا لیتا تھا جو بھنے ہوئے گوشت پر مشتمل ہوتا تھا۔ کبھی کبھار اس کے ساتھ اُبلے ہوئے چاول بھی ہوتے تھے۔ ہم نے انور کو اس کا معاوضہ دینے کی کوشش کی لیکن اس نے ان کار کر دیا۔

انور کے آنے سے ہمارے گھر میں کافی تبدیلی آ گئی تھی۔ یہ پہلے سے زیادہ صاف ستھرا اور سلیقے سے سجا ہوا لگتا تھا۔ تولیے بستر اور صوفے کے بجائے باہر لٹکے ملتے۔ جو تے اور بیگ ادھر ادھر بکھرے ہونے کے بجائے اپنی اپنی جگہ پر سلیقے سے رکھے ہوتے۔ انور خاموشی سے یہ کام کر دیتا تھا۔ کسی سے گلہ کرتا اور نہ احسان جتلاتا۔ اس کی دیکھا دیکھی ہم خود بھی صفائی کا خیال رکھنے لگے۔

انور پاشا پنچ وقتہ نمازی تھا اور روزانہ کچھ دیر کے لیے قرآن کی تلاوت بھی کرتا تھا۔ اس نے مجھے یا کسی اور کو کبھی نماز کے لیے نہیں کہا۔ اس لیے ہم اپنے حال میں خوش رہتے اور اسے اس کے حال پر چھوڑا ہوا تھا۔

ایک دن دوپہر کے وقت وہ نہا دھو کر اور صاف ستھرے کپڑے پہن کر تیار ہوا تو میں نے پوچھ لیا ’’کہاں جار ہے ہو؟‘‘

اس نے سرسری لہجے میں بتایا ’’جمعہ کی نماز پڑھنے جا رہا ہوں‘‘

انور کے سرسری لہجے (جیسے وہ مجھے مسلمان ہی نہ سمجھتا ہو)، جمعہ کے دن سے میری لاعلمی اور برسوں سے مسجد کا رخ نہ کرنے کے خیال سے میرا دل جھنجنا سا گیا۔ مجھے یاد آیا کہ باوجود ساری عیاشیوں اور لا پرواہیوں کے میں لاہور میں جمعہ کی نمازضرور پڑھتا تھا۔ ہم تینوں بھائی اور والد صاحب اکٹھے محلے کی مسجد میں جایا کرتے تھے۔ امریکہ آ کر جیسے میں بالکل بھول ہی گیا تھا کہ میں مسلمان ہوں۔ میں نے بے اختیار انور سے کہا ’’رُکو میں بھی تمہارے ساتھ جاؤں گا‘‘

اسلامک سینٹر ہمارے گھر سے چند بلاک کے فاصلے پر تھا جس کا مجھے علم ہی نہیں تھا۔ نماز ادا کرنے کے بعد میرے اندر ایسی طمانیت اور خوشی ہوئی کہ جب بھی وقت ملتا میں انور کے ساتھ مسجد چلا جاتا۔ آہستہ آہستہ میں اپنا خالی وقت وہیں گزارنے لگا۔ امام صاحب سے جن کا تعلق پاکستان سے تھا، میری اچھی رسم و راہ پیدا ہو گئی۔ امام صاحب کی باتوں میں بہت تاثیر تھی۔ لہٰذا میں کوشش کرتا تھا کہ ان کا وعظ ضرور سنوں۔ مسجد کے ماحول، انور کی دوستی اور مولانا صاحب کے لیکچر نے میرے اندر تبدیلی لانی شروع کر دی۔ اب میں پنچ وقتہ نماز ادا کرنے لگا تھا۔ اگر کوئی نماز قضا ہوتی تو مجھے اپنے اندر ایک کمی اور خلا سا محسوس ہوتا۔ اس سے مجھے دکھ اور پچھتاوا ہوتا۔ اس دوران میرا کورس بھی مکمل ہو گیا۔ سال ڈیڑھ سال کی مزید تگ ودو کے بعد مجھے گرین کارڈ بھی مل گیا۔ گرین کارڈ ملتے ہی میں وطن واپس گیا۔ میرے والدین میرے ماضی کے کرتوتوں کی وجہ سے مجھ سے مایوس ہو چکے تھے۔ میں نے پاکستان میں رہ کر بھی ان کی کبھی نہیں سنی تھی اور ان کی مرضی کے خلاف ملک چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ اب میرا حلیہ اور میرے اندر آئے ہوئے انقلاب کو دیکھا تو ان کی خوشی دیدنی تھی۔ میری ماں جو شروع سے ہی صوم و صلوٰۃ کی پابند تھی اور میری حرکتوں سے نہ صرف نالاں بلکہ شرمندہ ہوتی تھی مجھے راہ راست پر دیکھ کر بے انتہا خوش ہوئی۔ ایک تو میں برسوں بعد گھر لوٹا تھا دوسرا یہ کہ ان کی منشا کے مطابق اللہ اور اس کے رسولﷺ کے راستے پر چل نکلا تھا۔

میری چھٹیوں کے دوران گھر والوں نے میری شادی کرا دی۔ اللہ کے فضل سے میری اہلیہ بھی قرآن وسنت پر عمل پیرا ہے جس سے ہمارے درمیان بہت ہم آہنگی پیدا ہو گئی۔ ہم دونوں امریکہ میں نہ صرف اپنی ملازمت کرتے ہیں بلکہ چھٹی والے دن اسلامک سینٹر میں رہ کر لوگوں تک اللہ کا پیغام پہچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اللہ کے فضل سے ہمارے گھر میں خوشیاں ہیں اور اس سے بڑھ کر اس کی رحمتیں اور برکتیں ہیں۔ اللہ نے ہمیں آج یہ توفیق دی ہے کہ میں اپنی اہلیہ اور اپنے والدین کو حج پر لے کر آیا ہوں۔ میرے والدین کبھی پاکستان میں اور کبھی امریکہ میں آ کر میرے پاس رہتے ہیں۔ وہ مجھے اور میں انہیں دیکھ کر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں۔


بغیر اندراج حاجی



منیٰ کے کیمپ میں ایئر کنڈیشنر تو نہیں لگ سکتے کیونکہ یہ شامیانے ہوتے ہیں اور ہر طرف سے ہوا داخل اور خارج ہوتی رہتی ہے۔ تاہم وہاں پائپ نما پنکھے نصب ہوتے ہیں۔ جو کافی موثر ہوتے ہیں۔ ان پنکھوں سے گرمی کا زور قدرے ٹوٹ جاتا ہے۔ شامیانوں کے اندر گرمی کافی حد تک قابل برداشت ہوتی ہے۔ دن کے وقت شامیانے سے باہر نکلتے ہی سورج جیسے سوا نیزے پر محسوس ہوتا ہے۔ دوران حج پیدل بہت چلنا پڑتا ہے۔ اس شدید گرمی اور ہجوم میں پیدل چلنا دل گردے کا کام ہے جسے لوگ اللہ کی رضا کی خاطر ہنسی خوشی برداشت کر لیتے ہیں۔

اس سے کہیں زیادہ مشکل اور سخت کام میں نے ان لوگوں کو کرتے دیکھا جو باقاعدہ اور رجسٹرڈ حاجی نہیں تھے۔ بلکہ اپنا نام اندراج کرائے اور سرکاری فیس ادا کئے بغیر کسی طور حج کرنے پہنچ جاتے ہیں۔ ایسے عازمین کو نہ تو کوئی کیمپ الاٹ ہوتا ہے اور نہ کوئی شامیانہ ملتا ہے۔ انہوں نے حج کی شرائط کے مطابق منیٰ، عرفات اور مزدلفہ میں قیام کرنا ہوتا ہے اور جمرات کی رمی کرنی ہوتی ہے۔ وہ لوگ اپنا بوریا بستر لے آتے ہیں اور کیمپوں کے درمیان جو سڑک ہے اس کے کنارے پر دری یا گدا بچھا کر لیٹ جاتے ہیں۔ یہ انتہائی مصروف اور گرد و غبار سے اٹا راستہ ہے جہاں بے شمار لوگ ہر وقت ادھر ادھر آ جا رہے ہوتے ہیں۔ صفائی والے ٹرک، راشن سپلائی والی گاڑیاں اور بسیں آتی جاتی رہتی ہیں۔ خاکروب سڑک صاف کرتے ہیں۔ ٹھیلے والے اور بھکاری بھی اپنے دھندوں میں مصروف ہوتے ہیں۔ ان کے بیچ میں چوبیس گھنٹے پڑے رہنا کتنا مشکل ہوتا ہو گا اس کا اندازہ لگانا دشوار نہیں۔ ان حاجیوں کے سر پر کوئی چھت نہیں ہوتی۔ رات کے وقت وہ شاید جیسے تیسے سو جاتے ہوں لیکن دن بھر آرام کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

دن کے وقت تیز دھوپ ہوتی ہے۔ شور شرابہ ہوتا ہے۔ لوگوں کی مسلسل آمدورفت رہتی ہے۔ ایسے میں ایک گدّا اور ایک تھیلا لے کر راہ میں پڑے رہنا انہی لوگوں کا کام ہے۔ یہ لوگ خاصی بڑی تعداد میں منیٰ میں موجود ہوتے ہیں۔ میں پورے منیٰ کیمپ میں تو نہیں گیا لیکن میرے اپنے کیمپ کے اردگرد ان بوریا نشینوں کی تعداد درجنوں تھی۔ پورے منیٰ میں یہ سینکڑوں بلکہ ہزاروں بھی ہو سکتے ہیں۔ یہ وہ با ہمت لوگ ہیں جو کم وسائل کے باوجود حج کا فریضہ ادا کرنے آ گئے تھے۔

انہی کی طرح دوسرے سینکڑوں حاجی ہمارے کیمپ کے سامنے والے بڑے سے پہاڑ پر نیچے سے لے کر اوپر تک پتھروں پر مقیم تھے۔ وہ پہاڑ کے دامن سے لے کر کافی بلندی تک تھوڑے تھوڑے فاصلے پر پتھروں کی طرح پڑے نظر آتے تھے۔ جب یہ اٹھتے بیٹھتے یا چلتے پھرتے تھے تو معلوم ہوتا تھا کہ یہ پتھر نہیں انسان ہیں۔ یہ بھی ہماری طرح حج کے لیے آئے تھے۔ اس سنگلاخ اور تپتے ہوئے پہاڑ پر وہ دن کیسے گزارتے ہوں گے یہ سوچ کر ہی حیرت ہوتی تھی۔ اس سرخ سنگلاح پتھروں سے بھرے اور چلچلاتی دھوپ میں تپتے ہوئے پہاڑ پر وہ صبر اور ہمت سے بیٹھے رہتے تھے۔ بعض لوگ کہتے کہ یہ مقامی بدّو ہیں جو اس موسم کے عادی ہیں۔ بعض کہتے یہ پاکستان بنگلہ دیش اور دوسرے ملکوں سے آئے ہوئے مزدور ہیں جو سارا سال اس موسم میں کام کرتے ہیں اور ان کو عادت ہو گئی ہے۔

کچھ بھی ہو وہ انسان ہیں۔ گرمی دھوپ اور تپش کا احساس انہیں بھی ہوتا ہو گا۔ اس چلچلاتی دھوپ کو برداشت کرنے کے لیے جس صبر حوصلے اور قوت برداشت کی ضرورت ہے کاش کہ وہ مجھے بھی حاصل ہو جائے۔ یہ قوت ایمانی ہے جو ان کو اس انتہائی سخت موسم کو برداشت کرنے کی ہمت اور حوصلہ عطا کرتی ہے۔ اے اللہ میرے اندر بھی یہ جذبہ ایمان، یہ حوصلہ اور صبر و شکر کی طاقت عطا فرما۔ آمین

کچھ احباب نے بتایا کہ یہ وہ پاکستانی، ہندوستانی اور بنگالی ہیں جو ویزا ختم ہونے کے بعد محض اس لیے یہاں رکے ہوئے ہیں کہ وطن جانے سے پہلے حج ادا کر لیں۔ پھر نہ جانے زندگی میں یہ موقع ملے یا نہ ملے۔ حالانکہ ان غریبوں پر شاید حج فرض بھی نہ ہو لیکن وہ اس ثواب عظیم سے محروم نہیں ہونا چاہتے خواہ بعد میں جیل میں ہی جانا پڑے۔ اپنی اپنی سمجھ اور اپنی اپنی سوچ کی بات ہے۔ کچھ لوگ اسے غلط بھی کہتے ہیں کیونکہ یہ غیر قانونی طریقہ ہے۔

ہمیں یہ ذہن میں رکھنا چاہیے ہر مومن کے دل میں اللہ کے گھر کی زیارت کی خواہش موجود ہوتی ہے۔ یہ منیٰ، عرفات، مزدلفہ کے میدان اہل ایمان کو بلاتے رہتے ہیں۔ ہر سال جب فرزندانِ توحید حج کر رہے ہوتے ہیں تو دنیا بھر کے لوگ انہیں ٹی وی پر دیکھتے ہیں۔ انہیں دیکھ کر مومنین کے دل میں شوق و عقیدت انگڑائیاں لیتی ہے۔ ان مقدس مقامات کی زیارت کی خواہش دل میں ابھرتی ہے۔ وسائل ہونا یا نہ ہونا ایک الگ مسئلہ ہے۔ یہ معاملہ دل کا معاملہ ہے جسے صرف اہل دل ہی سمجھ سکتے ہیں۔

کسی کو سمجھانا اور بات ہے اور اس کے جذبات کو سمجھنا اور بات ہے۔ مسلمانوں کا مکہ مدینہ اور دیگر مقامات مقدسہ سے انتہائی جذباتی رشتہ ہے۔ سعودی عرب کی حکومت کو بھی مسلمانوں کے اس جذبے کو مد نظر رکھنا چاہیے۔ اگر کوئی اس لیے یہاں رک جاتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی خوشنودی حاصل کر سکے۔ حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کر سکے تو اس جذبے کی قدر کرنی چاہیے۔ ایسے لوگوں کو سزا دینے سے گریز کرنا چاہیے۔

غریب اور بے وسیلہ مسلمانوں کے جذبۂ ایمانی پر اللہ تعالیٰ ان کو اجر عظیم دے سکتا ہے۔ وہ اپنے بندوں پر رحم کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر نیک مومن کو اپنے گھر اور اپنے نبیﷺ کے آخری ٹھکانے کی زیارت نصیب فرمائے۔


میدانِ عرفات کا قیام



نو ذوالحج کی صبح ہم میدان عرفات جانے کے لیے تیار ہو گئے۔ بڑی بڑی بسوں میں بیٹھ کر ہمارا قافلہ عرفات کی جانب چلا تو جلد ہی منیٰ سے نکل کر بیرونی شاہراہ پر آ گئے۔ میدان عرفات میں جانے کے لیے بہت سی کھلی کھلی سڑکیں موجود ہیں۔ جو اس وقت بسوں کاروں اور دوسری گاڑیوں سے بھری تھیں۔ ایک انچ جگہ بھی خالی نظر نہیں آتی تھی۔ چند کلومیٹر پر مشتمل یہ فاصلہ ہم نے تقریباً تین گھنٹے میں طے کیا اور پہاڑی پر واقع سفید رنگ کی مسجدِ نمرہ سے کافی نیچے میدان میں ایک سجے سجائے خیمے میں پہنچ گئے۔ یہاں بھی خیمے دور دور تک ترتیب سے بنے ہوئے تھے۔ تاہم دن کے وقت ہم نے یہ بھی دیکھا کہ بہت سے لوگ بغیر خیموں کے اس میدان میں مقیم تھے۔ ہمارے خیمے کے ساتھ ہی ہمارے گروپ کی خواتین کا خیمہ تھا۔ ایک طرف غسل خانے اور وضو گاہیں بنی ہوئی تھیں۔ چائے اور مشروبات کا بہت اچھا بندوبست تھا۔ علاوہ ازیں ڈبوں میں بند کھانا بھی مہیا کیا گیا۔ لبیک والے اس معاملے میں کافی منظم تھے۔ وہ چھوٹی چھوٹی ضروریات کا بھی خیال رکھتے تھے۔

جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا میدانِ عرفات احرام پہنے حاجیوں کی وجہ سے سفید ہوتا جا رہا تھا۔ اُوپر پہاڑی سے لے کر نیچے دور تک پھیلی ہوئی وادی تک سفید لباس میں ملبوس فرزندانِ توحید اللہ کے نبیﷺ کی پیروی کرتے ہوئے اس میدان میں جمع تھے۔ ایسا منظر میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ دیکھا تھا۔ چمکتے دمکتے سورج کی روشنی میں پوری وادی سفید ہو گئی تھی۔ شاید فرشتے بھی ایڑھیاں اُٹھا اُٹھا کراس منظر کو دیکھ رہے ہوں گے۔ حاجیوں کی زبانوں پر لبیک اللّھَمَ لبیک کا تلبیہ جاری تھا۔ دل میں اللہ کے دربار میں حاضری کا جوش تھا۔ ان کی نظریں آسمانوں پر ٹکی تھیں۔ وہ اپنے رب سے ہمکلام ہونے کے لیے یہاں جمع ہوئے تھے۔

میدان عرفات کے اس قیام کو حج کا رُکن اعظم کہا جاتا ہے کیونکہ اس کے بغیر حج مکمل نہیں ہوتا۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ ظہر سے مغرب تک اس میدان میں قیام کیا جائے۔ مغرب کے وقت یہاں سے مزدلفہ کے لیے روانگی ہوتی ہے۔ مغرب اور عشاء کی نمازیں مزدلفہ میں اکٹھی ادا کی جاتی ہیں۔ یہ رات مزدلفہ میں کھلے آسمان کے نیچے گزاری جاتی ہے۔ میدان عرفات میں قیام کے دوران بظاہر ظہر اور عصر کی نمازوں کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا کیونکہ عام حاجی حج کا خطبہ نہیں سن پاتے۔ لیکن اِس میدان میں میں نے حاجیوں کے دل کا غبار نکلتے بلکہ انہیں اندر سے دھُلتے دیکھا۔ یہاں پر دعائیں اس طرح مانگی جاتی ہیں جیسے رب اور بندے کے درمیان کوئی پردہ حائل نہ ہو۔ یہاں دُعا مانگنے کا جو مزا، جو سکون اور جو اطمینان ہے وہ کہیں اور نہیں ہوتا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ دعا کے الفاظ زبان سے نکلے نہیں اور انہیں شرفِ قبولیت حاصل ہو گئی۔ یہاں مانگی جانے والی دعاؤں کی پہنچ آسمانوں تک ہوتی ہے۔ میدان عرفات میں حاجی توبہ استغفار کرتے ہیں۔ اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں۔ وہ اپنی اور اپنے خاندان اور ملک و ملت کی سلامتی کی دعائیں کرتے ہیں۔

ہمارے خیمے کے طول و عرض میں حاجی مختلف مصروفیات میں مشغول تھے۔ کچھ نوافل پڑھ رہے تھے۔ کچھ قرآن پاک کی تلاوت کر رہے تھے۔ کچھ حاجی گروپوں میں بیٹھے حج کے ارکان اور شرائط پر تبادلہ خیال کر رہے تھے۔ یہاں چند گھنٹے ہی گزارنے ہوتے ہیں اس لیے حاجیوں کو مخصوص جگہیں الاٹ نہیں کی گئیں۔ وہ اپنی سہولت کے مطابق جہاں دل چاہے بیٹھ سکتے تھے۔

میں اور جاوید صاحب اپنے کیمپ سے باہر نکل کر کھلی شاہراہ پر آ گئے۔ اس شاہراہ کی اونچائی سے دور و نزدیک کا منظر صاف دکھائی دیتا تھا۔ چاروں طرف سفید احرام میں ملبوس فرزندانِ توحید نظر آ رہے تھے۔ مسجد نمرہ جو وہاں سے کافی بلندی پر واقع تھی اس کے ارد گرد بہت ہجوم دکھائی دیتا تھا۔ ہمیں انتظامیہ نے منع کر دیا تھا کہ وہاں جانے کی ضرورت نہیں۔ نہ ہی اس کے اندر جانے کی جگہ ملے گی۔ خواہ مخواہ گرمی، رش اور اونچائی کی وجہ سے کوئی حادثہ یا عارضہ لاحق ہو سکتا ہے۔ ہمارے معلم نے کہا ’’یہ پورا میدان ہی آج مسجد ہے۔ یہ وہ میدان ہے جہاں آج کے دن اللہ اپنے بندوں پر اپنی رحمتیں برساتا ہے۔ یہ اس سے مانگنے کا دن ہے۔ یہ گناہوں سے نجات پانے کا دن ہے۔ بس اس سے مانگتے رہیں۔ اپنے گناہوں پر توبہ استغفار کرتے رہیں۔ اپنے لیے، اپنے خاندان کے لیے اور عالم اسلام کے لیے اللہ سے خیر و عافیت اور دنیا اور آخرت کی کامیابی طلب کرتے رہیں۔ اللہ یہ دُعائیں ضرور سنتا ہے۔ یہ وہ میدان ہے جہاں مانگی گئی دُعاؤں کی قبولیت کی ضمانت دی گئی ہے۔ خدا اپنے بندوں کو یہاں سے مایوس نہیں لوٹاتا۔ وہ اپنے بندوں کا دامن اپنی رحمتوں اور برکتوں سے بھر دیتا ہے۔ بس یہ دامن ربِّ ذوالجلال کے آگے پھیلاتے رہیں۔ آپ کا دامن بھر جائے گا اس کی رحمتیں کم نہیں ہوں گی۔ آج کے دن اس کی رحمتیں بے بہا اور بے شمار ہیں۔ بے شک اس سے بڑا رحمن اور اس سے بڑا رحیم کوئی نہیں ہے۔

کیمپ سے باہر سڑک پر کھڑے ہو کر ہم نے دیکھا کہ مختلف قسم کی چھوٹی بڑی گاڑیاں آتی ہیں۔ وہ حاجیوں میں پانی کی بوتلیں دیگر مشروبات اور ڈبے میں بند کھانا تقسیم کرتی ہوئی چلی جاتی ہیں۔ ان اشیاء سے وہ حاجی صاحبان مستفید ہو رہے تھے جو کیمپ سے باہر اور کھلے آسمان تلے دن گزار رہے تھے۔ مجھے علم نہیں تھا کہ ان کے کھانے پینے کا بندوبست ان کی انتظامیہ کی طرف سے تھا یا نہیں تاہم وہاں اشیائے خورد و نوش کی کمی نہیں تھی۔ منیٰ اور عرفات میں ہمارے پاس جو کھانا زائد از ضرورت ہوتا تھا ہم باہر لا کر ان ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیتے تھے۔ میرے خیال میں کیمپوں سے باہر رہنے والے اور کام کاج کرنے والے کسی بھی شخص کو وہاں کھانے کی کمی ہر گز نہیں ہو گی۔ منیٰ کے کیمپ میں کھانا وافر مقدار میں آتا تھا۔ اسے پھینکنے سے پہلے باہر سڑک پر موجود ٹھیلے والوں، بھکاری خواتین، بے خیمہ حاجیوں کے درمیان بانٹ دیا جاتا تھا۔ دوسرے عام کیمپوں والے بھی یہی کرتے تھے۔ اس کے علاوہ مخیر حضرات کھانا اور پانی گاڑیاں میں لاد کر لاتے تھے۔ حج کے دوران مکہ، مدینہ، عرفات، عزیزیہ، غرضیکہ جہاں جہاں حاجی اور مسافر انہیں ملتے تھے وہ ان کے درمیان تقسیم کرتے رہتے تھے۔ عزیزیہ جیسی جگہ جو بنیادی طور پر رہائشی علاقہ ہے حج کے دنوں میں وہاں بے شمار حاجی گھوم پھر رہے ہوتے ہیں وہاں سڑکوں اور گلیوں میں یہ کھانا اور پانی تقسیم ہوتا رہتا تھا۔ اللہ کے یہ بندے خانہ کعبہ اور مسجد نبویؐ میں کھجوریں اور کھانا بانٹ رہے ہوتے۔ مسجد نبویؐ سے نماز پڑھ کر باہر نکلیں تو کئی دروازوں کے باہر کھانا تقسیم ہو رہا ہوتا۔ میری ملاقات ایسے کئی حاجی صاحبان سے ہوئی جو اس کھانے سے استفادہ کرتے تھے اور خود کھانا بنانے کے تردّد سے بچے رہتے تھے۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے ان لوگوں میں مقامی سعودیوں کے علاوہ دوسرے ملکوں کے مسلمان بھی شامل ہیں جو سعودیہ میں مقیم ہیں۔

یہ بھی کیسا منظر ہوتا ہے کہ لوگ اپنی محنت سے کمائی حلال آمدنی اپنے مسلمان بہن بھائیوں پر دل کھول کر خرچ کر رہے ہوتے ہیں۔ اسلام کے نظام میں صدقہ، خیرات، زکوٰۃ اور نفاق فی سبیل اللہ نے ایک توازن اور ایک حسن قائم کر رکھا ہے۔ ا س معاشرے میں ناداروں، مسافروں، یتیموں، بیواؤں اور مسکینوں کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا مخیر اور اہل زر کا ہے۔ اس سے معاشرہ کتنا خوبصورت دکھائی دیتا ہے۔ اس معاشرے میں کوئی بے بس اور مجبور نہیں ہوتا۔ کوئی بھوکا اور ننگا نہیں ہوتا۔ ہر شخص کو اس کے حصے کے مطابق رزق اور پناہ مل جاتی ہے۔ کاش کہ اسلام کا یہ نظام مکمل طور پر نافذ ہو جائے اور اسلامی معاشرے کا ہر فرد اس سے مستفید ہو سکے۔

ظہر کی نماز کے وقت میں وض وکرنے گیا تو وہاں گھڑی اتار کر رکھی۔ وضو کے بعد وہاں سے اٹھانا بھول گیا۔ نماز پڑھنے کے کافی دیر بعد اس گمشدگی کا احساس ہوا۔ یہ خاصی قیمتی گھڑی تھی۔ میں جلدی جلدی خیمے سے نکل رہا تھا۔ ادھر سے ہماری انتظامیہ یعنی لبیک کے باس کا بیٹا اندر داخل ہو رہا تھا۔ سلام دینے کے بعد اس نے پوچھا ہے ’’خیریت ہے نا؟‘‘

میں نے کہا ’’یوں تو خیریت ہے۔ میں اپنی گھڑی وضو گاہ میں بھول آیا ہوں۔ وہی لینے جا رہا ہوں‘‘

اُس نے مسکراتے ہوئے کہا ’’آپ اطمینان سے جائیں آپ کی گھڑی وہیں ہو گی۔ اسے کوئی نہیں اٹھائے گا‘‘

وہی ہوا۔ میری گھڑی وہیں تھی جہاں میں نے رکھی تھی۔ اس دوران سینکڑوں لوگ وہاں گئے ہوں گے لیکن کسی نے گھڑی چھونے کی بھی کوشش نہیں کی۔ اس میدان میں ہر شخص اس وقت اللہ کا سپاہی بنا ہوا تھا۔ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی خوشنودی حاصل کرنے کا جذبہ ہر دل میں موجزن تھا۔ وہ کسی غلط کام کا تصور تک نہیں کر سکتے تھے۔ اللہ تعالیٰ یہ جذبہ ہمیشہ ہمارے دلوں میں جاگزین رکھے۔

ظہر اور عصر کے درمیان ہمارے کیمپ میں اجتماعی دُعا ہوئی جس میں خواتین بھی شامل تھیں۔ ہمارے اور خواتین کے کیمپوں کے درمیان مشترکہ ساؤنڈ سسٹم قائم تھا۔ کیونکہ وہ بھی امام صاحب کی اقتداء میں نماز ادا کرتی تھیں۔ میں نہیں جانتا کہ یہ دُعا کون کروا رہا تھا۔ کیونکہ جہاں میں کھڑا تھا وہاں سے اس کا چہرہ واضح نظر نہیں آ رہا تھا۔ یہ دُعا اُردو یا عربی میں نہیں تھی۔ ہماری مادری، قومی یا علاقائی زبان میں بھی نہیں تھی۔

شاعر نے کہا تھا

پیامبر نہ میسر ہوا تو خوب ہوا

زبانِ غیر سے کیا شرح آرزو کرتے

ہماری شرح آرزو زبان غیر یعنی انگریزی میں تھی۔ ہمارے گروپ میں بہت کم لوگ ایسے ہوں گے جن کی مادری زبان انگریزی ہو گی۔ ہمارا قافلہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سے آیا تھا لیکن ہم میں سے بیشتر کی مادری اور پہلی زبان اُردو، عربی، بنگالی، پنجابی اور پشتو وغیرہ تھیں۔ ہم سب نے انگریزی زبان سیکھی تھی۔ یہ ہماری پہلی یا ترجیحی زبان نہیں تھی۔ صرف ہماری اولادوں میں وہ نوجوان جو آسٹریلیا میں ہی پلے بڑھے تھے ان کی پہلی اور ترجیحی زبان انگریزی تھی۔ لیکن ایسے نوجوان ہمارے درمیان بہت کم تھے۔ بہت سے خواتین و حضرات کی انگریزی خاصی کمزور تھی۔ لیکن آج زبان کسی کے آڑے نہیں آئی۔

ہمارے دُعا خواں نے اپنی پر سوز آواز اور درد بھرے اندازسے وہ سماں باندھا کہ اس کی زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ سب کو اپنے دل میں اُترتا محسوس ہو رہا تھا۔ دُعا خواں کے دِل سے نکلی ہوئی دعاؤں میں اتنی رقّت، اتنا سوز، اتنا درد اور اتنا عجز تھا کہ کیمپ میں موجود شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو گا جس کی آنکھوں سے اشک رواں نہیں ہوں گے۔ جو دُعا خواں کی صدا پر لبیک کہتے ہوئے خود مجسم دُعا نہ بن گیا ہو۔ کوئی شخص بھی بیٹھا نہ رہ سکا۔ سب قبلہ رُو کھڑے تھے۔ سب ہاتھ دعاؤں کے لیے اٹھے ہوئے تھے۔ نظریں جیسے کسی خاص مرکز پر جمی ہوئی تھیں۔

وہ دعائیں تھیں التجائیں تھیں یا کراہیں تھی کہ اس کا اثر سے زمین آسمان پر نظر آ رہا تھا۔ اشکوں سے چہرے، داڑھیاں اور احرام تر ہو رہے تھے۔ دُعا مانگنے والے کے اندر کا درد، کرب اور التجا سب کو اپنے دل کی صدا محسوس ہو رہی تھی۔ اس کے الفاظ اس کی طلب سب کو اپنی طلب لگ رہی تھی۔ اس کا رونا سب کو رُلا رہا تھا۔ اس کی دعاؤں، اس کی التجاؤں اور اس کی تڑپ نے کٹھور سے کٹھور شخص کو بھی آبدیدہ کر دیا تھا۔ اشک ایسے بہہ رہے تھے جیسے برسات ہو رہی ہو۔

میرے ساتھ نیوزی لینڈ سے آیا ہوا ایک حاجی کھڑا لب بہ دُعا تھا۔ یہ نیوزی لینڈ کامقامی سیاہ فام تھا۔ معلوم نہیں کب وہ یا اس کے آباء و اجداد مسلمان ہوئے تھے۔ اللہ کے دربار میں دُعا مانگتے ہوئے وہ اس قدر ڈوب چکا تھا کہ آنسوؤں سے اس کی داڑھی اور اس کا احرام تر ہو گئے تھے۔ اس کی زبان پر بار بارایک ہی لفظ آ رہا تھا۔ اللہ!

اس کے دل کا سارا درد اس ایک لفظ میں سمٹ آیا تھا۔ اللہ پریقینِ کامل کا حامل اور اس سے نجات کا طالب یہ شخص اللہ اللہ ایسے پکار رہا تھا جیسے اس کا کلیجہ کٹ کر باہر آ جائے گا۔ اس کا بال بال اللہ کا ورد کر رہا تھا۔ اللہ کوپکارنے کے اس انداز سے اللہ سے اس کے گہرے رشتے کا پتہ چلتا تھا۔ ایسے محسوس ہوتا تھا کہ اسے اللہ اپنے سامنے نظر آ رہا ہے۔ اللہ سے اس کی عقیدت اور محبت اس کی پکار سے ظاہر تھی۔ اسے اپنے ارد گرد کا کوئی ہوش نہیں تھا۔ ہونٹوں پر پیپڑیاں جمی ہوئی تھیں اور بدن کانپ رہا تھا۔

مجھ سے اس کی یہ حالت دیکھی نہ گئی۔ میں نے پانی کی بوتل اس کی طرف بڑھائی تو کافی دیر تک اسے کچھ نظر ہی نہیں آیا۔ اچانک وہ لہرایا اور سجدے میں چلا گیا۔ سجدے میں بھی اس کا جسم ہچکولے کھا رہا تھا اور اللہ اللہ کی صدا بلند ہو رہی تھی۔

یہ شخص تھوڑی دیر پہلے ملا تھا۔ اس نے اپنا تعارف کراتے ہوئے بتایا تھا کہ وہ نیوزی لینڈ سے آیا ہے۔ اس سے پہلے اور اس کے بعد یہ شخص مجھے کہیں دکھائی نہیں دیا۔ نہ جانے کون تھا وہ۔

حج پر جا کر پہلی دفعہ میں نے محسوس کیا مجھے دعا مانگنے کا سلیقہ نہیں ہے۔ میں دُعا ایسے مانگتا تھا جیسے بے خیالی میں سانس لیتے ہوں۔ جیسے کسی سوچ میں گم ہوں اور کھا نا بھی کھا رہے ہوں۔ جیسے رٹا رٹایا ایسا سبق پڑھ رہے ہوں جس کا مطلب بھی سمجھ نہ آتا ہو۔ جیسے پہاڑا سنا رہے ہوں۔ دعا مانگتے ہوئے نہ تو مجھے مقام دُعا یاد رہتا تھا اور نہ اس کی یاد آتی تھی جس سے مانگتا تھا۔ یہ رٹی رٹائی دُعا تھی جو بچپن میں یاد کی تھی۔ حالانکہ اس عربی دعا کا ترجمہ مجھے آتا تھا۔ لیکن دعا مانگتے ہوئے یہ ترجمہ میرے ذہن میں نہیں ہوتا تھا۔

بے شک ہمارا رب غفور الرحیم ہے۔ وہ ہماری حاجات سے واقف ہے۔ ہمارے دلوں کے بھید جانتا ہے۔ وہ ہماری دعائیں سنتا ہے۔ وہ ہمیں نوازتا رہتا ہے۔ لیکن ہمیں اس کے قریب ہونے کی ضرورت ہے۔ بہت قریب۔ اتنا قریب جتنا وہ ہمارے قریب ہے۔ وہ تو ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم بھی اس کے بارے میں ایسا سمجھتے ہیں۔ کیا ہماری زندگیاں اسی انداز میں گزرتی ہیں جس انداز میں وہ چاہتا ہے۔ کیا ہم اس کے فرمان پر ویسے ہی عمل کرتے ہیں جیسے وہ چاہتا ہے۔ وہ ہمیں دیکھ رہا ہوتا ہے۔ ہمارے دلوں کے بھید بھی جانتا ہے۔ تو پھر ہم اس سے اتنے دور دور کیوں ہیں۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ ہم اس کی رحمتیں اور نعمتیں بھول جاتے ہیں۔ اس کی جزا اور سزا کو فراموش کر دیتے ہیں۔ اپنی موت کو بھول جاتے ہیں جو برحق ہے۔ آخر ہماری یادداشت اتنی کمزور کیوں ہے۔ شاید یہی ہمارا امتحان ہے۔ کاش کہ رب کی موجودگی کا احساس ہر وقت میرے ساتھ رہے۔ کاش کہ میری دعاؤں میں وہ تاثیر پیدا ہو جائے جو اسے پسند ہے۔

میدانِ عرفات میں جس طرح ہمارے پیشوا نے دُعا مانگی اس طرح ہم روزانہ نہیں تو ہفتے عشرے میں مانگیں تو ہمارے دلوں پر زنگ نہیں جمے گا۔ میرے رب کو اپنے بندوں کی اطاعت، فرمانبرداری اور دعائیں بہت پسند ہیں۔ یہی تو وہ چاہتا ہے کہ اس کے بندے اس کے فرمانبردار رہیں۔ جو بھی حاجت ہو اسی سے مانگیں۔ بس شرط یہ ہے کہ جب بھی مانگیں دل سے مانگیں۔ گڑ گ ڑا کر مانگیں۔ اس سے توبہ استغفار کرتے رہیں۔ اس کا شکر ادا کرتے رہیں۔ اس کا رحم اور اس کا کرم طلب کرتے رہیں۔ اللہ سے رشتہ ٹوٹنے نہ پائے۔ دعاؤں کا سلسلہ رکنے نہ پائے۔

آسٹریلیا میں ایک ڈاکٹر صاحب ہمارے اچھے دوست ہیں۔ ریٹائر ہونے کے بعد انہیں حج کا شوق چرایا لیکن ان کا دل و دماغ پوری طرح اس طرف مائل نہیں تھا۔ ساری زندگی دین سے دوری میں گزری تھی۔ اللہ معاف کرے ایمان بھی ڈانواں ڈول رہتا تھا۔ تاہم آبائی دین ہونے کی وجہ سے رسمی مسلمانیت باقی تھی۔ حج کا خیال آیا تو محض فرض سمجھ کر چل پڑے۔ دل میں کوئی تڑپ اور توبہ کا ارادہ شامل نہیں تھا۔ عمرے کے دوران بھی ان پر اثرات مرتب ہوئے ہوں گے۔ لیکن ان میں اصل تبدیلی خانہ کعبہ یا مسجد نبویﷺ میں نہیں بلکہ اونچے سنگلاخ پہاڑوں سے گھرے میدانِ عرفات میں آئی۔

وہ ہمارے ساتھ نہیں تھے۔ ان کا گروپ الگ تھا۔ حج کے بعد ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا ’’یار میرے ساتھ عجیب واقعہ ہوا۔ میدانِ عرفات میں پہنچتے ہی نہ جانے کیوں میرے آنسو رواں ہو گئے۔ یہ آنسو رُکنے کا نام ہی نہیں لیتے تھے۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ میری پوری زندگی ایک فلم کی طرح میرے سامنے چلنے لگی۔ پہلے بچپن کا خیال آیا جہاں والدین کے زیر سایہ دین کی تعلیم حاصل کی، قرآن مجید پڑھنا سیکھا اور نماز روزے کی بھی تربیت دی گئی۔ ا سکول کی حد تک نماز میں پابندی رہی اور دین سے تعلق قائم رہا۔

کالج جاتے ہی یہ سلسلہ ختم ہوا اور پھر ڈاکٹر بننے کے بعد میں صرف نام کا مسلمان رہ گیا۔ عید پر بھی مسجد کی شکل نہیں دیکھتا تھا۔ سائنس اور میڈیکل میں اُلجھ کر میرا ایمان بھی ڈانواں ڈول ہو گیا تھا۔ پوری زندگی اسی طرح گزر گئی۔ اب بڑھاپے میں دورانِ حج اور وہ بھی قیامِ عرفات کے دوران معلوم نہیں کیا ہوا کہ اپنے سارے گناہ ایک ایک کر یاد آنے لگے۔ اپنی بد اعمالیاں اور اللہ سے دوری ستانے لگی۔ احساسِ گناہ اور یہ پچھتاوا اتنا بڑھا کہ آنسور کنے کا نام نہیں لیتے تھے۔ زبان سے اللہ اللہ کے علاوہ اور کچھ نہیں نکلتا تھا۔ روتے روتے جیسے میرے اندر کی کالک بھی دھل گئی اور اللہ کا نور دل و دماغ میں سمانے لگا۔ رکوع و سجود میں لطف آنے لگا۔ اذان کی آواز سے پیار ہونے لگا۔ قرآن پڑھنا جیسے میں بھول چکا تھا پھر سے وہ وردِ زبان ہو گیا۔ آسٹریلیا واپس آیا تو میں مختلف شخص تھا۔ خالی ہاتھ گیا تھا دامن بھر کر لوٹا۔ میں نے زندگی بھر جو دولت جمع کی وہ ان چند دنوں کی حاصل کردہ دولت کے آگے ہیچ ہے۔ میرے اندر اللہ نے اتنی بڑی تبدیلی پیدا کر دی کہ گھر والے اور دوست احباب حیران رہ گئے۔ یہ اللہ کا کرم ہے اور اس مقدس جگہ کی برکت ہے کہ مجھ جیسے گناہ گار کو بھی ہدایت کی روشنی نصیب ہوئی۔

میرے ساتھی جاوید صاحب جو کبھی بھی سنجیدہ نہیں ہوتے تھے انہیں بھی میں نے میدانِ عرفات میں روتے اور گڑگڑاتے دیکھا۔ حالانکہ وہ عبادات میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتے تھے۔ فرض نماز پڑھ لیتے تھے اور بس۔ ادھر ادھر گھومتے پھرتے، چائے اور سگریٹ سے شغل کرتے یا پھر آرام کرتے رہتے تھے۔ لگتا تھا کہ حج پر نہیں چھٹیاں منانے نکلے ہیں۔ لیکن میدانِ عرفات میں دورانِ دُعا ان کی حالت دیدنی تھی۔ وہ گڑ گڑا کر اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگ رہے تھے۔ انہیں اس حالت میں دیکھ کر میں دنگ رہ گیا۔ یا اللہ تو کتنے رنگ دکھاتا ہے۔ تیرے بندوں میں تیرے ہی رنگ بکھرے ہیں۔ کائنات کے تمام رنگ تیرا ہی پرتو ہیں۔

ہمارے اجتماعی دُعا تقریباً ایک گھنٹہ جاری رہی۔

خوب گھٹائیں چھائیں۔

اور برکھا برسی۔

ہر طرف جل تھل کا سماں ہو گیا۔

برکھا کی یہ جلترنگ سنگلاخ اور بے آب و گیاہ چٹانوں پر بھی برسی۔

وہاں سے بھی جھرنے بہہ نکلے۔

خشک ندی نالے بھرنے لگے۔

مرجھائی ہوئی کھیتیاں ہری ہونے لگیں۔

جب برکھا تھمی تو پتہ پتہ بوٹا بوٹا بھیگ چکا تھا۔

سوکھی کھیتیوں میں جان پڑ گئی تھی۔

زمین سے نئی کونپلیں سر اُٹھا رہی تھیں۔

درخت، پہاڑ، گھاس پھونس سب دھل کر تر و تازہ اور نکھر چکے تھے۔

دور آسمانوں پر سات رنگوں کی قوسِ قزح نئے موسموں کی نوید دے رہی تھی۔


وادیِ مزدلفہ میں شب بسری



غروبِ آفتاب کے بعد ہماری یہاں سے روانگی تھی۔ ہماری اگلی منزل انہی پہاڑی سلسلوں میں سے ایک وادیِ مزدلفہ تھی۔ منیٰ، عرفات اور مزدلفہ ایک دوسرے سے بہت زیادہ دور نہیں ہیں۔ خاص طور پر مزدلفہ اور منیٰ تو بہت قریب ہیں۔ یہ ایک ہی پہاڑی سلسلہ ہے جو مکہ معظمہ کے نواح میں واقع ہے۔ منیٰ، عرفات اور مزدلفہ ان پہاڑوں میں گھری وادیاں ہیں۔ ویسے تو مکہ شہر بھی ایک وادی ہی ہے۔ ان وادیوں کے چاروں طرف پہاڑ ایستادہ ہیں۔ منیٰ، مزدلفہ اور عرفات میں کچھ من چلے دوڑ کر ان پہاڑوں پر چڑھ جاتے تھے۔

غروب آفتاب کے بعد ہم عرفات سے چل دئیے۔ اس وقت سڑکیں اتنی زیادہ مصروف نہیں ہوئی تھیں۔ تھوڑی ہی دیر میں ہم مزدلفہ پہنچ گئے۔ اس وقت میدان کھلا کھلا اور خالی خالی لگ رہا تھا۔ لیکن اگلے ایک ڈیڑھ گھنٹے میں وہاں تل دھرنے کی جگہ نہیں رہی۔ عرفات سے روانگی کے وقت ہی ہمیں ایک پتلا سا گدا، چھوٹا ساتکیہ اور ایک چادر دی گئی۔ یہی ہماری شب بسری کا کل سامان تھا۔ اسی میں رات گزارنا تھی۔ پلنگ کی جگہ اللہ کی کھلی زمین تھی جہاں دل چاہے وہاں بستر لگا لو۔ آج زمین بھی اپنی اور آسمان بھی اپنا تھا کیونکہ ہمارے اُوپر کوئی چھت نہیں تھی۔ یہ کوئی صاف ستھرا اور گھاس والا میدان نہیں تھا بلکہ مٹی، ریت اور پتھروں سے بھرا ہوا تھا۔ چھوٹے بڑے ہر طرح کے پتھر اِدھر ادھر بکھرے ہوئے تھے۔ زمین ناہموار اور اونچی نیچی تھی۔ اس میں ٹیلے اور پہاڑیاں بھی تھیں۔ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر بڑے بڑے کھمبے نصب تھے۔ جس پر طاقت ور برقی لیمپ روشن تھے۔

ہم نے پتھر ہٹا کر جگہ بنائی اور گدّے بچھا کر کھلے آسمان کا نظارہ کرنے لگے۔ اتنی دیر میں مؤذّن نے اذان دی۔ ہم نے مغرب اور عشاء کی نمازیں اکٹھی ادا کیں۔ مزدلفہ میں کھانے کا بندوبست نہیں تھا۔ ہم عرفات سے تھوڑا بہت کھا کر نکلے تھے اِس لیے فکر بھی نہیں تھی۔ ہمارے بستروں سے تھوڑی دور ایک سعودی خاتون نے پتھر جوڑ کر چولہا بنایا۔ لکڑیاں جلائیں اور ایک بڑی سی کیتلی میں پانی گرم کرنے لگی۔ جب پانی اُبل گیا تو اس نے ایک ریال فی کپ کے حساب سے چائے بنا کر بیچنا شروع کر دی۔ ساری رات اس کا چائے خانہ خوب چلا۔ دو تین دفعہ تو ہم نے بھی چائے لی۔ سعودیہ میں تازہ دودھ کی کمی ہے۔ وہاں ڈبے میں بند گاڑھا دودھ چائے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ دودھ وہاں بہت زیادہ مقبول ہے۔

اس طرح کی کچی پکی چائے دورانِ حج ہر جگہ ملتی ہے۔ تقریباً ہر جگہ اس کی قیمت ایک ریال ہے۔ تھکے ماندے حاجی چائیسے اپنی تھکن اُتارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر ان کی قسمت اچھی ہو تو کسی جگہ اچھی چائے بھی مل جاتی ہے۔ ورنہ عموماً گرم پانی میں چائے کا ایک بیگ اور تھوڑا سا دودھ ڈال کا پکڑا دیا جاتا ہے۔

مزدلفہ میں جہاں ہم مقیم تھے وہاں کے بیت الخلاء اور غسل خانے حال ہی میں تعمیر کئے گئے تھے۔ ان میں سے کچھ ابھی مکمل نہیں ہوئے تھے۔ کچھ غسل خانوں میں ٹونٹیاں بھی نہیں لگی تھیں۔ مزدلفہ کے ان غسل خانوں میں پانی کم آتا تھا۔ کچھ ٹونٹیوں میں قطرہ قطرہ آتا تھا باقی خشک تھیں۔ جن بیت الخلاؤں میں پانی آتا تھا ان کے آگے لمبی قطاریں لگی ہوئی تھیں۔ یہ بھی اللہ کی طرف سے آزمائش تھی۔ اسی کے فضل سے ہم اس آزمائش سے بھی گزر گئے۔

رات کے پہلے حصے میں لوگ اپنے اپنے بستروں اور جگہوں پر اس طرح قابض ہوئے جیسے یہ بستر اور یہ جگہ ان کے نام ہو گئی ہو۔ اگر کوئی بیچ میں سے گزرنا چاہتا تواسے منع کر دیا جاتا۔ چونکہ بستروں کی کوئی ترتیب نہیں تھی اس لیے ادھر ادھر جانے کے راستے بھی بند ہو گئے۔ اگر کسی کو باتھ روم جانا ہوتا تو اس کے لیے مشکل کھڑی ہو جاتی۔ دوسروں کے بستر پر پاؤں رکھ کر گز رنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں تھا۔ کچھ خواتین و حضرات اپنے بستروں پر پاؤں رکھنے کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔ لیکن یہ سلسلہ زیادہ دیر چل نہیں سکا۔ وہاں موجود ہر شخص کو احساس ہو گیا کہ بستر پھلانگے بغیر گزارہ نہیں۔ لہٰذا یہ جھگڑے جلد ہی ختم ہو گئے۔ ساری رات لوگ ایک دوسرے کے او پر سے پھلانگتے آتے جاتے رہے۔

میری اہلیہ باتھ روم گئیں تو واپسی پر اپنا ٹھکانہ بھول گئیں۔ یہ غلطی یا مسئلہ وہاں عام تھا۔ کھلا میدان تھا اور چاروں طرف ایک جیسے بستر نظر آتے تھے۔ لوگ اپنی اپنی جگہ پر لیٹے ہوئے تھے۔ ایسے میں اپنے ساتھیوں کو پہچاننا اور بھی مشکل تھا۔ میں نے تھوڑی دیر انتظار کیا اور انہیں دیکھنے زنانہ بیت الخلاء کی طرف چل دیا۔ شکر ہے کہ وہ راستے میں ہی نظر آ گئیں۔ انہوں نے بھی خدا کا شکر ادا کیا کیونکہ اگر میں نہ جاتا تو انہیں سمت کا ہی اندازہ نہیں تھا۔

دوران حج اگر حاجی اپنے ساتھی اور اپنے گروپ سے بچھڑ جائے تواس سے بڑا مسئلہ کوئی نہیں ہے۔ خاص طور پر منیٰ، عرفات، مزدلفہ، جمرات میں اپنے ساتھیوں سے الگ ہو جائیں تو ایک دوسرے کو دوبارہ ڈھونڈنا آسان نہیں ہے۔ ان میں سے سب سے مشکل مقام رمی کا ہے۔ دس ذوالحج کی صبح وہاں بے تحاشا رش ہوتا ہے۔ سب سے زیادہ حادثے اور بچھڑنے کے واقعات بھی وہیں ہوتے ہیں۔ ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا۔ اس کا ذکر آگے آئے گا۔

مزدلفہ میں خواتین اور مردوں کے واش روم تو الگ تھے لیکن میدان میں مردوں اور خواتین کے سونے کے لیے الگ جگہیں نہیں تھیں۔ بلکہ ایک ہی خاندان کے تمام لوگ جن میں مرد اور خواتین شامل تھے اکٹھے ہی ڈیرہ ڈالے ہوئے تھے۔ ہمارے ایک طرف جاوید صاحب اور ان کی اہلیہ تھیں۔ دوسری طرف سڈنی کے دوست زاہد جمیل صاحب اور ان کی اہلیہ فروکش تھیں۔ زاہد جمیل صاحب آسٹریلیا میں جنوبی ایشیا کے بزرگ مسلمانوں کے لیے ایک انجمن چلا رہے ہیں۔ ہمارے دوسرے دوست بھی قریب قریب ہی موجود تھے۔

باتھ روم کی طرف جاتے ہوئے سڈنی کے بہت پرانے دوست حنیف مقدم صاحب سے ملاقات ہو گئی۔ یہ محض اتفاقی ملاقات تھی۔ مجھے علم نہیں تھا کہ وہ بھی حج پر آئے ہوئے ہیں۔ حنیف مقدم صاحب پاکستان پیپلز پارٹی آسٹریلیا کے صدر ہیں اور انتہائی متحرک سماجی کارکن ہیں۔

تیس لاکھ حاجیوں میں کسی دوست یا عزیز کو ڈھونڈنا بھوسے کے ڈھیر میں سوئی تلاش کرنے کے مترادف ہے۔ میرے عزیز و اقارب میں سے میرا ایک بھتیجا اور اس کی بیوی حج پر آئے ہوئے تھے۔ ان سے ہماری اچانک کیسے ملاقات ہوئی اس کا ذکر آ چکا ہے۔ اس کے علاوہ میری ایک تایا زاد بہن اپنی بیٹے اور بہو کے ساتھ حج کے لیے آئی ہوئی تھی۔ ان کا بیٹا ذوالفقار مرزا سعودیہ میں ہی کام کرتا ہے اس نے ماں اور بیوی کو حج کے لیے سپانسر کیا تھا اور خود بھی ان کے ساتھ حج کر رہا تھا۔ حج کے تیسرے دن ہم منیٰ سے واپس عزیزیہ ہوٹل میں منتقل ہو چکے تھے۔ اسی شام میں اپنے ہوٹل کے سامنے رکھی کرسیوں پر بیٹھا چائے پی رہا تھا۔ مجھے شک سا ہوا کہ ایک خاتون جو میرے سامنے سڑک پر جا رہی ہیں وہی میری تایازاد بہن ہیں۔ انہوں نے برقعہ پہنا ہوا تھا۔ صرف تھوڑا سا چہرہ کھلا تھا۔ مجھے ان کے چہرے کی ایک جھلک ہی نظر آئی تھی۔ یہ جھلک دکھا کر وہ آگے گزر گئیں۔ میری زبان سے بے اختیار نکلا۔ ’’آپا‘‘

میں نے بہت آہستہ سے کہا کیونکہ یقین نہیں تھا۔ ہمارا درمیانی فاصلہ بھی کافی تھا۔ میں اونچائی پر تھا اور سڑک خاصی نیچے تھی۔ وہ خاتون فوراً رُک گئیں اور میری طرف مڑتے ہوئے کہا ’’طارق‘‘

اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے آگے چلنے والے مرد اور عورت کو آواز دی جو در اصل ان کا بیٹا اور بہو تھے۔ وہ بھی رک گئے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان کے بیٹے کو میں نہیں پہچان سکا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میں اس سے تقریباً بائیس برس کے بعد ملا تھا۔ میں آسٹریلیا سے پاکستان جاتا تھا تو وہ سعودی عرب میں ہوتا تھا۔ وہ کافی صحت مند اور پہلے سے مختلف لگ رہا تھا۔ جب کہ اس کی والدہ سے میری ملاقات ہر مرتبہ ہوتی تھی اور ان میں کوئی بڑی تبدیلی بھی نہیں آئی تھی۔ اس لیے میں انہیں پہچان گیا تھا۔ وہ لوگ ہوٹل کے اندر آ گئے۔ یہ اتفاقیہ اور خوشگوار ملاقات تھی۔ آپا اور ان کا خاندان اس دن جمرات کی رمی کر کے مکہ واپس جار ہے تھے۔ اس سال ہماری برادری سے ہمارے علاوہ یہی دو خاندان حج کرنے گئے تھے۔ اللہ نے ان دونوں سے ہماری ملاقات کروا دی تھی۔

قیامِ مزدلفہ میں کچھ لوگ عبادت میں مصروف تھے۔ کچھ آرام کر رہے تھے۔ کیونکہ اگلا دن جو در اصل حج کا دن تھا سب سے زیادہ مصروف اور سب سے زیادہ تھکا دینے والا تھا۔ مزدلفہ میں ہمارا قیام محض چند گھنٹے کا تھا۔ اگلی صبح بعد نمازِ فجر یہاں سے منیٰ کیمپ میں واپسی تھی۔ اس رات وادی مزدلفہ کے طول و عرض میں اللہ کی حمد و ثناء بیان ہو رہی تھی۔ بڑے بڑے کھمبوں پر نصب لیمپوں کی روشنی میں کچھ لوگ قرآن مجید کی تلاوت کر رہے تھے۔ کچھ سعودی خاتون کی چائے پی رہے تھے۔ ہر کوئی اپنے اپنے شغل میں مصروف تھا۔ یہاں مرد بھی تھے اور عورتیں بھی۔ خانہ کعبہ میں دورانِ طواف مرد اور عورتیں اکھٹے ہوتے ہیں۔ جمرات آتے جاتے اور دیگر کئی جگہوں پر بھی مرد اور عورتیں اکھٹے ہوتے ہیں۔ تیس لاکھ کے مجمع میں کوئی مرد کسی عورت کی طرف نظرِ غلط نہیں ڈالتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت وہ سب اللہ کے گھر سوالی بن کر آئے تھے۔ ان کا مطمحِ نظر صرف اور صرف اللہ کی خوشنودی حاصل کرنا تھا۔ ایسے میں شیطان وہاں پھٹک بھی نہیں سکتا۔ وہاں کسی بھی عورت کو دیکھ کر سوائے جذبہ احترام کے کچھ اور محسوس نہیں ہوتا۔ نظریں خود بخود جھک جاتی ہیں۔ اللہ کا خوف اور اس کی موجودگی کا احساس ہر دم ہر جگہ دامن گیر ہوتا ہے۔

منیٰ، عرفات، حرمین شریفین اور دوسری جگہوں پر حاجیوں کا قیمتی سامان ان کے بٹوے اور ان کے موبائل فون ادھر ادھر پڑے رہتے ہیں۔ منیٰ میں کسی کے پاس سوٹ کیس نہیں ہوتا اور نہ ہی سامان کو لاک رکھا جاتا ہے۔ اس کے باوجود کس حاجی نے کبھی یہ شکایت نہیں کی کہ اس کا سامان یا نقدی چوری ہو گئی ہے۔ خواتین کا احترام کرنے کی درخواست کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ یہ سب حاجیوں کے منشور میں شامل ہوتا ہے۔ ان کے دل میں ایسا خیال ہی نہیں آتا۔ وہ کسی کو آزار نہیں پہنچاتے۔ کسی کو دکھ نہیں دیتے۔ کسی کی طرف بری نظر سے نہیں دیکھتے۔ کسی سے حسد نہیں کرتے اور نہ کسی کی غیبت کرتے ہیں۔ وہاں منفی سوچیں اور منفی خیالات دل میں ابھرتے ہی نہیں کہ انہیں دبانا پڑے۔ کیونکہ اللہ ان کی انگلی پکڑ کراپنے راستے پر چلا رہا ہوتا ہے۔

حج کے دنوں میں عموماً اور حج کے علاوہ بھی پورا سال حرمین شریفین میں لاکھوں خواتین حاضری دیتی ہیں۔ وہاں مردوں کی تعداد بھی لاکھوں میں ہوتی ہے۔ یہ خواتین مردوں کی بُری نظروں سے ایسے ہی محفوظ ہوتی ہیں جیسے وہ اپنے گھر میں ہوں۔ یہ اسلامی تعلیم، تقویٰ، اللہ کا خوف اور ان مقدس مقامات کی برکت کا کمال ہے۔ دنیا میں کہیں اور اتنا بڑا اجتماع ہو تو نہ جانے کیسے کیسے واقعات پیش آ جائیں۔

یہ تمام برکتیں حرمین شریفین کی ہیں۔ مکہ اور مدینہ کی ہیں۔ منیٰ، مزدلفہ اور عرفات کی ہیں۔ یہ وہ مقدس جگہیں ہیں جہاں اللہ کی رحمت برستی رہتی ہے۔ یہاں جو اخلاقی معیار ہوتا ہے وہی اصل اسلام ہے۔ جس کے معنی امن اور سلامتی کے ہیں۔ جہاں اسلام ہو گا وہاں بے امنی، بے سکونی، زیادتی اور بد اخلاقی نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ یہ اسلام کی تعلیمات اور اس کی روح کے خلاف ہیں۔ اگر اسلام کی اصل تعلیمات عام ہو جائیں تو دنیا امن اور سلامتی کا گہوارہ بن جائے۔

مزدلفہ میں ہم نے وہ کنکریاں چن کر جمع لیں جو اگلے تین دن شیطان کو مارنا تھیں۔ دوسرے حاجی بھی یہاں سے کنکریاں جمع کر رہے تھے کیونکہ یہاں سے کنکریاں جمع کرنا سنت ہے۔ کسی کی آواز آئی ’’ارے بھئی! ذرا موٹی موٹی کنکریاں چنو۔ بھلا ان چھوٹی چھوٹی کنکریوں سے شیطان کا کیا بگڑے گا۔‘‘

اس کی بیوی نے کہا ’’بگڑنا تو اس کا ان سے بھی کچھ نہیں ہے۔ وہ اپنا کام کرتا رہے گا جب تک اللہ کا حکم ہے۔‘‘

’’ہم بھی اللہ کے حکم سے ہی اُسے مارنے جا رہے ہیں۔ کچھ توہوتا ہو گا اُسے اس مار سے‘‘ خاوند نے کہا

خاتون بولی ’’شرم تو آتی ہو گی اس لعین کو۔ مگر اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتا‘‘

’’میں تو اسے خوب ٹکا ٹکا کر ماروں گا‘‘ مرد نے اپنا ارادہ ظاہر کیا

خاتون نے کہا ’’اب اتنا بھی نہیں مارنا، آپ کا پرانا دوست ہے‘‘

سب لوگ ہنس پڑے۔

میرے قریب جاوید صاحب لیٹے یہ مکالمہ سن رہے تھے۔ کہنے لگے ’’کنکریاں وغیرہ بے کار ہیں۔ اسے گولیوں سے بھون دینا چاہیے۔ ہر حاجی کو رائفل میں سات سات گولیاں ڈال کر دینی چاہیں۔ بندوق کا نشانہ بھی پکا ہو گا اور شیطان کو بھی سمجھ آ جائے گی‘‘

میں نے کہا ’’وہ تو پہاڑیاں ہیں۔ گولیوں سے اُن کا کیا بگڑے گا سوائے پتھر اُڑنے کے۔‘‘

جاوید صاحب کہنے لگے ’’تو پھر وہاں بمباری کرنی چاہیے۔ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری‘‘

اب بیگم جاوید کی باری تھی۔ انہوں نے بھی دوسری خاتون کی طرح میاں کو جھاڑا ’’اب بس بھی کریں۔ بہت مار لیا شیطان کو۔ سو جائیں۔ کل بہت زیادہ چلنا ہے‘‘

جاوید صاحب نے کہا ’’تم کیوں شیطان سے ہمدردی جتا رہی ہو؟ کہیں وہ میرا سسرالی رشتہ دار تو نہیں ہے‘‘

’’توبہ توبہ! بیگم جاوید نے کہا ’’کہاں سے کہاں پہنچ جاتے ہو۔ شیطان کا تو نام ہی بدنام ہے۔ ورنہ کچھ لوگ اس کے بھی باپ ہیں‘‘

’’ہاں تو ہم اس سے ڈرتے ہیں کیا؟ دیکھ لیں گے کل اُسے بھی‘‘ جا وید صاحب نے کہا

ہم سب ان میاں بیوی کی باتوں سے محظوظ ہوتے رہے۔


دس ذوالحج



نماز فجر کے بعد ہم نے اپنے گدے تکیے وہیں چھوڑے۔ اپنے چھوٹے چھوٹے تھیلے گلے میں ڈالے اور اپنے رہنما کے جھنڈے کے پیچھے پیچھے منیٰ کی جانب چل دے۔ ہمیں بتایا گیا کہ مزدلفہ اور منیٰ کی درمیانی سڑک اتنی مصروف ہے کہ بس کی نسبت پیدل جلدی پہنچ جائیں گے۔ یہ آج کا پہلا پیدل سفر تھا۔ آج ایسے کئی بلکہ اس سے بھی طویل سفر اور کرنے تھے۔ واقعی سڑک انتہائی مصروف تھی۔ بسیں ایک دوسرے کے پیچھے جڑی کھڑی تھیں کیونکہ چلنے کی جگہ نہیں تھی۔ تاہم ان کے انجن آن تھے۔ وہ دھواں اُگل اُگل کر ماحول کو مزید کثیف اور ناقابلِ برداشت بنا رہی تھیں۔ اسی حالت میں سفر کرتے تقریباً پون گھنٹے میں ہم اپنے کیمپ میں پہنچ گئے۔ ناشتہ تیار تھا۔ جس کو موقع ملا اس نے جلدی جلدی نہا لیا، جس کو نہیں ملا اس نے منہ ہاتھ دھونے پر اکتفا کیا۔ کیونکہ غسلا خانوں کے آگے ہر وقت لمبی قطار رہتی تھی۔ سب لوگ جلدی جلدی ناشتہ کر رہے تھے۔ کیونکہ اس کے بعد دو لمبے سفر کرنے تھے۔ ایک منیٰ کیمپ سے جمرات تک اور دوسرا جمرات سے عزیزیہ میں اپنے ہوٹل تک۔

اُس دن عید تھی۔ لیکن حاجی عید نہیں منا سکتے۔ نہ سویاں۔ نہ نئے کپڑے۔ نہ عید کی نماز۔ نہ عید ملنا اور نہ دوستوں اور رشتہ داروں کی محفلیں۔ قربانی کی اس عید میں اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہوتا ہے۔ لیکن حاجی اس سب سے محروم رہتے ہیں۔ کیونکہ وہ اس وقت بہت بڑا اور اہم فریضہ ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ اس وقت ان کی سنت ادا کر رہے ہوتے ہیں جن کی وجہ سے عید منائی جاتی ہے۔ یعنی حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسمعیلؑ کی سنت ادا کرتے ہوئے اسی جگہ پر طواف، سعی اور قربانی دیتے ہیں جہاں حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسمعیلؑ نے قربانی کا یہ سلسلہ شروع کیا تھا۔ عید کے بدلے میں اللہ تعالیٰ حاجیوں کو اس سے بڑی مسرّت، سعادت اور صلہ عطا کرتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی بارہ گاہ میں حج قبول ہو جائے (جسے حجِ مبرور کہتے ہیں) تو حاجی کے سارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ وہ نومولود بچے کی طرح گناہوں سے پاک اور صاف ہو جاتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا حقدار اور دوزخ کی آگ سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے میری دعا ہے کہ وہ ہماری اس کاوش کو اپنے دربار میں منظور و قبول فرمائے۔

ناشتے کے بعد ہم رمی کے لیے روانہ ہوئے۔ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا ہمارا کیمپ جمرات سے مخالف سمت میں تقریباً ایک کنارے پر واقع تھا۔ اس لیے جمرات تک پہنچنے کے لیے ہمیں سب سے زیادہ چلنا تھا۔ ہمیں اس کا علم تو تھا لیکن یہ اندازہ نہیں تھا کہ کتنا زیادہ چلنا پڑے گا۔ اس وقت پورا منیٰ کیمپ جمرات کی طرف رواں دواں تھا۔ رنگ برنگے جھنڈے اٹھائے ہوئے بے شمار قافلے محوِ سفر تھے۔ یہ جھنڈا معلم کا نائب اُٹھا کر آگے آگے چلتا تھا۔ پورا گروپ اس کی رہنمائی میں اس کے پیچھے چلتا تھا۔ آگے چل کر بہت سے گروپوں کے جھنڈے بالکل ایک جیسے لگنے لگے۔ سمجھ نہیں آتی تھی کون سا جھنڈا ہمارے گروپ کا ہے اور کون سا کسی اور کا۔ پیدل چلنے والوں کے بیچ میں بیماروں، ضعیفوں اور معذوروں کی وھیل چیئرز بھی تھیں۔ ان چیئرز کی وجہ سے کم از کم دو دفعہ میرا پاؤں زخمی ہوا تھا۔ اس وقت تمام مرد احرام میں اور خواتین برقعے میں ملبوس تھیں۔ احرام کے ساتھ بوٹ یا بند چپل نہیں پہنا جا سکتا۔ لہٰذا ہم ہوائی چپل یا سینڈل ہی پہنتے تھے۔ ہوائی چپل پہن کر پیدل چلنا آسان نہیں تھا۔ اسی کی وجہ سے میرا پاؤں نہ صرف بار بار زخمی ہو رہا تھا بلکہ میرے پاؤں کے تلووں میں کریک بھی آ گئے تھے۔ اس میں سے خون رِستا تھا اور ٹیس اُٹھتی رہتی تھی۔

جمرات کی طرف چلتے میں سوچ رہا تھا کہ اب منزل دور نہیں ہے۔ آج رمی اور قربانی کے بعد ہم نے احرام اُتار دینے ہیں۔ قربانی کے لئے ہم نے پہلے سے رقم جمع کروائی ہوئی تھی۔ یہ قربانی سعودی حکومت کے زیر انتظام ہونی تھی۔ اس قربانی کا گوشت مناسب طریقے سے تقسیم کرنا یا ٹھکانے لگانا بھی حکومت کی ذمہ داری تھی۔ ہمیں اس میں سے کوئی حصہ نہیں مل رہا تھا۔ ہمارے لیے اتنا ہی کافی تھا کہ ہماری طرف سے بروقت یہ فریضہ ادا کر دیا جائے۔ قربانی کے بعد احرام اُتار نا تھا اور بال کٹوانے تھے۔ اس کے بعد اللہ کے فضل سے ہمارا حج مکمل ہو جاتا۔ حالانکہ طوافِ زیارت اور منیٰ کیمپ میں دو راتوں کا قیام ابھی باقی تھا۔ لیکن حج کے بنیادی ارکان آج مکمل ہو جانا تھے۔ انشاء اللہ۔

لیکن ابھی مسافت جاری تھی۔ ہم سخت گرمی، تیز دھوپ اور بے پناہ رش میں تار کول سے بنی چمکتی سڑک پر چلتے ہوئے جمرات کی طرف چلے جا رہے تھے۔ منیٰ سے نکل کر لوگوں کے ریلے بڑی بڑی سڑکوں پر ایک ہی سمت میں چل رہے تھے۔ اس رش میں ایک دوسرے سے بچھڑنے کا قوی احتمال تھا۔ اس لیے کئی لوگوں نے خود کو ایک دوسرے کے ساتھ باندھ رکھا تھا۔ کچھ نے صرف ہاتھ پکڑنے پر اکتفا کیا ہوا تھا۔ میری اہلیہ نے میری کمر سے لپٹے بیلٹ کو تھاما ہوا تھا۔ یہ بھی اس کی بڑی ہمت تھی کہ سخت رش اور دھکم پیل کے باوجود اس نے کہیں بھی یہ بیلٹ نہیں چھوڑا۔ ورنہ یہاں ایک ریلے میں انسان دوسرے سے الگ ہو سکتا ہے۔ اس وقت آپ کے اپنے اختیار میں کچھ نہیں ہوتا۔ بعض جگہوں پر ہجوم کی وجہ سے پاؤں زمین سے ہی اُٹھ جاتے ہیں۔ ایسے میں خدانخواستہ کوئی نیچے گر جائے تو اُس کا اٹھنا محال ہے۔ اُسے بچانے کی کوشش کرنے والا بھی نیچے آ کر کچلا جا سکتا تھا۔ اتنے ہجوم میں آپ کے پاس دوسرا کوئی راستہ نہیں ہوتا سوائے اس کے کہ ہجوم کے ساتھ ساتھ اور اسی رفتار میں سنبھل سنبھل کر آگے بڑھتے رہیں۔ وہاں نہ آپ سمت تبدیل کر سکتے ہیں اور نہ رفتار کم یا زیادہ کر سکتے ہیں۔ جہاں رمی کی جاتی ہے وہ جگہ اب کئی منزلہ ہے۔ لوگ مختلف سمتوں سے آ رہے ہوتے ہیں۔ مگر ان کا نقطہ اجتماع ایک ہی مقام یعنی رمی والی پہاڑیاں ہوتی ہیں۔ یہاں سارے گروپ تقریباً گڈمڈ ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ اب چلنا نہیں بلکہ رُکنا اور رمی کرنا ہوتا ہے۔ کچھ لوگ کھڑے ہو کر تسلی سے کنکریاں مارنا چاہتے ہیں۔ کچھ چلتے چلتے یہ فریضہ ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی طرح لوگوں کا بہاؤ چلتا، رُکتا، ٹوٹتا، گھٹتا اور بڑھتا رہتا ہے۔

اس مقام پر پہنچنے سے پہلے ہی ہمارے گروپ کی خواتین اور بزرگ تھکن کا شکار ہو گئے تھے۔ ہمیں اس طرح گھسٹتے ہوئے تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ ہو گیا تھا۔ پاؤں زخمی تھے اور درد کر رہے تھے۔ گرمی عروج پر تھی۔ پیاس تھی کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتی تھی۔ ہر دس منٹ بعد پیاس سے جان نکلنا شروع ہو جاتی تھی۔ میرے پاس پانی کی چھوٹی چھوٹی (تین سو ملی لیٹر) کی کافی بوتلیں تھی۔ جو اب خالی ہوتی جا رہی تھیں۔ پانی پینے کے بعد میں خالی بوتلیں اپنے بیگ میں ڈال رہا تھا کیونکہ راستے میں کوئی بن نظر نہیں آئی۔ لوگوں کی اکثریت یہ بوتلیں سڑک پر پھینک رہی تھی۔ ان بوتلوں کی وجہ سے پیدل چلنے میں رکاوٹ پیدا ہو رہی تھی۔ چپل کے نیچے آ کر کرِچ کرِچ کی آواز آتی اور پاؤں میں درد کی لہر اُٹھتی۔ وہ خواتین و حضرات جنہیں پیدل چلنے کی عادت نہیں تھی سخت تھکن کا شکار نظر آ رہے تھے جب کہ ہمارا رہنما کہیں رُکے بغیر مسلسل چلتا جا رہا تھا۔ بہت سے لوگ یہ چاہتے تھے کہ کہیں رک کر دم لے لیا جائے۔ لیکن رُکنے کی کوئی جگہ بھی نہیں تھی اور ہمارے رہنما کا ارادہ بھی نہیں تھا۔

سخت دھوپ میں چلتے چلتے اچانک راستے میں ایک سرنگ آ گئی۔ اس میں ایئر کنڈیشنر اور پنکھے چل رہے تھے۔ تیز دھوپ اور گرمی سے اچانک اس جان فزا مقام پر پہنچ کر بہت راحت ملی۔ لوگوں نے سکون کا سانس لیا۔ آگے چل کر یہ سرنگ ختم ہو گئی اور ہم پھر تپتی دھوپ میں آ گئے۔ اب ہم جمرات کے قریب پہنچ تھے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگلا کام آسان تھا۔ یہی وہ مقام تھا جہاں سب سے زیادہ حادثے ہوتے ہیں۔ ہم ایک پل پر پہنچ چکے تھے جس پر کھوے سے کھوا چھل رہا تھا۔ وہاں جا کر ہماری رفتار بہت کم ہو گئی۔ بہت مشکل اور زور آزمائی سے ایک ایک قدم اٹھتا تھا۔ پل کے اُوپر، نیچے، دائیں، بائیں، دُور اور نزدیک لوگ ہی لوگ نظر آ رہے تھے۔ یہاں سے منیٰ کا کیمپ دور تک نظر آتا تھا۔ سفید رنگ کے ایک جیسے بڑے بڑے خیموں پر مشتمل دنیا کاسب سے بڑا سفری کیمپ ہماری نظروں کے سامنے تھا۔ اتنے بڑے کیمپ کا نظارہ بھی ایک انوکھا نظارہ تھا۔ اس انوکھے کیمپ میں تقریباً تیس لاکھ لوگ مقیم تھے۔ ان میں سے بہت سے اس پہاڑی پر چڑھ کر شیطان کو کنکریاں مارنے آئے ہوئے تھے۔ آج شام تک ہر حاجی نے یہ سنت ادا کرنا تھی۔ آج اس پہاڑی پر سنگ باری کرنا تھی جسے عرفِ عام میں جمرات الا ولیٰ یا بڑا شیطان کہتے ہیں۔

اس پہاڑی اور لوگوں کے درمیان ایک فاصلہ رکھا گیا ہے۔ لہٰذا اس کے بہت قریب کوئی نہیں جا سکتا۔ لوگ دور سے ہی تاک تاک کر اُسے پتھر مار رہے تھے۔ کچھ منچلے پیچھے ہٹ کر اور دوڑ کر نشانہ لگانے کی کوشش کر رہے تھے۔ کچھ محض رسمی طور پر کنکر پھینک کر اپنا فرض ادا کر رہے تھے۔ کچھ تو باقاعدہ شیطان پر غصہ اُتار رہے تھے۔ میں نے خود کئی ایک کو اُردو اور پنجابی میں گالیاں دیتے ہوئے سنا۔ ایک نے غصے میں آ کر اپنی چھتری دے ماری تھی۔ اب باہر جا کر کر اُسے دھوپ میں بغیر چھتری کے چلنا تھا۔ میرے بائیں جانب دو لوگ شاید دوست ہوں گے۔ ایک دوسرے کو کہہ رہا تھا ’’یار ہاتھ ہولا رکھ تیرا تے پرانا بیلی اے۔ (یار ہاتھ ہلکا رکھو تیرا تو پرانا دوست ہے)‘‘

دوسرا کہہ رہا تھا ’’مینوں سمجھ نہیں آ رہی پہلاں کیہڑے شیطاننوں ماراں۔ انوں یا تینوں (مجھے سمجھ نہیں آ رہی پہلے کون سے شیطان کو ماروں اسے یا تمہیں)۔

ویسے یہ مسئلہ تو مجھے بھی درپیش تھا۔

میری سمجھ میں بھی نہیں آ رہا تھا کہ کس شیطان کو نشانہ بناؤں۔

شیطان کا علامتی مجسمہ میرے سامنے تھا۔

اس سے بڑا شیطان میرے اندر موجود تھا۔

میں سوچ رہا تھا یہ پتھر میں کسے اور کیوں مار رہا ہوں۔

ساری زندگی میں نے اُسے اپنے اندر چھپا کر رکھا ہے۔

اسے اپنا دوست بنا کر رکھا ہے۔

اسی کی سنتا اور اسی کے پیچھے چلتا رہا۔

میں نے اپنا آپ اسے سونپا ہوا تھا۔

اس کے ہاتھ پر بیعت کی ہوئی تھی۔

اس کے بتائے ہوئے راستے پر آنکھیں بند کر کے چلتا رہا۔

یہ پتھر تو مجھے خود کو مارنے چاہیے۔

جس نے مجھے سب کچھ دیا تھا اسی کو فراموش کر بیٹھا۔

جو میرا سب کچھ چھین کر میرا اندر باہر خالی کر رہا تھا میں اُس کا ہو کر رہ گیا تھا۔

میں راہِ راست سے بھٹک کر کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔

لیکن کیا واقعی یہ بھٹکنا تھا؟

یہ راستہ تو میں نے دانستہ طور پر خود اختیار کیا تھا۔

یہ شیطان کوئی اور نہیں تھا۔

میں خود تھا۔

میرا نفس تھا۔

اس وقت میں آئینہ دیکھتا تو سامنے والے شیطان میں اور مجھ میں کوئی فرق نہ ہوتا۔

یہاں ایک نہیں دو شیطان آمنے سامنے موجود تھے۔

کنکر کم تھے اور شیطان زیادہ۔

اس لیے وہ پٹنے سے بچ گیا۔

وہ ہمیشہ بچ جاتا ہے۔

کیونکہ اس تک کوئی پتھر نہیں پہنچتا۔

جب تک وہ اس جگہ موجود ہے وہ محفوظ ہے۔

لیکن جس کے اندر وہ چھپا ہے وہ قطعی غیر محفوظ ہے۔

رمی کے بعد ہم دوسری طرف باہر نکلے۔ وہاں بھیک مانگنے والے، بال کاٹنے والے اور حاجیوں کو لے کر جانے والے موجود تھے۔ میں نے حجام کا لفظ دانستہ استعمال نہیں کیا۔ کیونکہ بہت سے حاجی ایک دوسرے کی حجامت کر رہے تھے۔ وہاں بے حد شور و غل تھا۔ ہم عزیزیہ میں واقع اپنے ہوٹل جا رہے تھے جہاں دن گزار کر رات واپس منیٰ پہنچنا تھا۔ ہم نے یہ احرام کئی دنوں سے پہنے ہوئے تھے جو سخت میلے ہو چکے تھے۔ شیو بڑھی ہوئی تھی۔ اتنے دنوں سے صابن یا شیمپو استعمال نہیں کیا تھا لہٰذا جسم پر میل جمی ہوئی تھی۔ ہوٹل میں جا کر ان سب سے نجات حاصل کرنا تھی اور نہا دھوکر صاف ستھرے کپڑے پہننے تھے۔ اس تصور سے ہی حاجی خوش تھے۔ کیونکہ آج حج کا اہم مرحلہ طے ہو گیا تھا۔ لیکن ہمیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ ابھی عشق کے کئی اور امتحان باقی ہیں۔ ہمیں رہنماؤں نے بتایا کہ ہوٹل وہاں سے آدھ گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔ چونکہ اتنے رش میں گاڑیاں نہیں چل سکتیں۔ لہٰذا یہ سفر بھی پیدل ہی کرنا پڑے گا۔

ہم صبح مزدلفہ سے منیٰ تک پون گھنٹہ چلے تھے۔ تقریباً دو گھنٹے منیٰ سے جمرات تک لگ گئے۔ اُوپر سے سورج جیسے آگ برسا رہا تھا۔ اس حالت میں مزید چلنے کی سکت کسی میں بھی نہیں تھی۔ ادھر سے رش اور حبس بھی بہت زیادہ تھا۔ ان حالات میں لوگوں نے پیدل چلنے سے معذوری ظاہر کر دی۔ رہنما نے کہا ’’ہمارے پاس کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے۔ سڑکوں کی حالت آپ لوگوں کے سامنے ہے۔ یہاں پیدل چلنے کی جگہ نہیں ہے گاڑی کیسے آئے گی۔ یہاں سے ہمارا ہوٹل منیٰ کیمپ کی نسبت قریب ہے۔ لہٰذا ہوٹل جانے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ ہاں شام کو واپس جانے کے لیے ہم بسوں کا بندوبست کر لیں گے۔ لہٰذا ہمت اور صبر سے یہ فاصلہ طے کرنے کی کوشش کریں‘‘

ناچار لوگ پھر سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر گھسٹ گھسٹ کر چلنے لگے۔ گھسٹ کا لفظ میں اس لیے استعمال کر رہا ہوں کہ چلنے کی ہمت کسی میں نہیں تھی۔ قدم اٹھانا دوبھر ہو رہا تھا۔ مجھے خواتین پر ترس آ رہا تھا۔ سخت تھکن کا شکار نظر آ رہی تھیں۔ پھر بھی برقعے میں ملبوس گرمی اور پسینے میں تر مردوں کے شانہ بشانہ چلی جا رہی تھیں۔ وھیل چیئرز بھی حسب معمول ہمارے درمیان موجود تھیں۔ انہیں چلانے والے دوہری ڈیوٹی نبھا رہے تھے۔

ہمارے بیگ میں پانی کی بوتلیں ختم ہو چکی تھیں۔ اس شدید گرمی میں پانی کے بغیر چند منٹ گزارنا دشوار تھا۔ دوسری طرف ہمارا رہنما رُکے اور پیچھے دیکھے بغیر تیز تیز چلا جا رہا تھا۔ اس کی وجہ سے ہمیں رُکنے، دم لینے یا کسی دُکان سے پانی خریدنے کا موقع نہیں مل رہا تھا۔ میں نے اہلیہ سے کہا ’’آپ اپنے گروپ کے ساتھ چلتی جائیں۔ میں دُکان سے پانی لے کر بھاگ کر آپ لوگوں تک پہنچ جاؤں گا‘‘

اس نے خدشہ ظاہر کیا ’’کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ پیچھے رہ جائیں۔ آپ کو ہوٹل کے راستے کا بھی علم نہیں ہے‘‘

میں نے کہا ’’اللہ مالک ہے۔ معلوم نہیں ابھی کتنا سفر باقی ہے۔ پانی کے بغیر یہ سفر کیسے طے ہو گا۔ آپ لوگ چلتے جائیں۔ میں آپ لوگوں کے ساتھ انشاء اللہ آ ملوں گا‘‘

آگے ایک دُکان نظر آئی تو میں اپنے قافلے سے الگ ہو کر اس میں چلا گیا۔ وہاں پہلے ہی کافی گاہک موجود تھے۔ وہ پانی دوسرے مشروبات اور دیگر اشیاء خرید رہے تھے۔ میری باری آنے اور پانی خریدنے میں کافی وقت لگ گیا۔ باہر نکلا تو میرے گروپ کے کوئی آثار نظر نہیں آتے تھے۔ مجھے پریشانی نے آ گھیرا۔ اپنے گروپ تک پہنچنا مشکل لگ رہا تھا۔ کیونکہ اتنے ہجوم میں بھاگا بھی نہیں جا سکتا۔ اگر آگے جا کر وہ کسی سڑک یا گلی میں مڑ گئے تو مجھے کیسے پتہ چلے گا۔ اپنے ساتھیوں کو ڈھونڈے بغیر ہوٹل پہنچنا مشکل تھا۔ میرے پاس تو اس کا پتہ بھی نہیں تھا۔ یہ بھی میری غلطی تھی۔ مجھے اس ہوٹل کا نام، پتہ اور فون نمبر اپنے پاس محفوظ رکھنا چاہیے تھا۔ اب یہ بعد کا مسئلہ تھا۔ فوری طور پر اپنے گروپ تک پہنچنا ضروری تھا۔

اگلے دس منٹ جس طرح میں نے میراتھن دوڑ لگائی وہ میں ہی جانتا ہوں۔ لوگوں کے بیچ میں راستہ بناتا ہوا کسی کو دھکیلتا اور کسی کے دھکے سے بچتا ہوا ہر ممکن تیزی سے آگے بڑھتا رہا۔ میری نظریں اپنے گروپ کا جھنڈا تلاش کر رہی تھیں۔ پسینہ سر سے پاؤں تک بہہ رہا تھا۔ احرام کی اوپر والی چادر میں نے اکٹھی کر کے کندھے پر ڈالی ہوئی تھی۔ اسی بھاگ دوڑ میں میرے پاؤں میں چھالے بھی پڑ گئے۔ لیکن میں نے گوہر مقصود پا لیا۔ میں اپنے قافلے والوں کو ڈھونڈنے اور ان تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔

جتنی خوشی مجھے ہوئی اس سے زیادہ اہلیہ کو ہوئی۔ وہ پچھلے بیس منٹ سے ہلکان ہوئی جا رہی تھی۔ وہاں پہنچ کر میں نے دیکھا کہ قافلے کے اکثر لوگوں کے ہاتھ میں ٹھنڈے پانی کی بوتلیں ہیں۔ ایک بوتل اہلیہ کے پاس بھی تھی۔ اس نے بتایا آپ کے الگ ہونے کے بعد آگے ایک ٹرک کھڑا تھا۔ وہ لوگ حاجیوں میں پانی کی بوتلیں تقسیم کر رہے تھے۔ بہت سارے حاجیوں نے ان سے پانی کی بوتلیں لے لیں۔ میری نظر اپنے بیگ پر پڑی جس میں میری خریدی ہوئی بوتلیں میری بے صبری کا منہ چڑا رہی تھیں۔

آگے چل کر ایسے کئی ٹرک، وین اور دوسری گاڑیاں سڑک کنارے کھڑی نظر آئیں جو پانی کھجوریں اور روٹی وغیرہ تقسیم کر رہی تھیں۔ حاجیوں کی تعداد اتنی تھی کہ ہر ایک کو یہ سب کچھ نہیں مل رہا تھا۔ تاہم جس کو مل جاتا وہ خدا کا شکر ادا کر کے لے لیتا۔ جس کو نہ ملتا وہ بھی صبر اور شکر کرتا۔ عام حالات میں حاجیوں کے پاس پانی موجود ہوتا ہے۔ لیکن آج انہیں بہت زیادہ چلنا پڑ رہا تھا۔ گرمی بھی بہت زیادہ تھی۔ اس لئے ہر شخص کو پانی کی طلب تھی۔

میں جب اپنے گروپ سے جا کر ملا تو اس کے چند منٹ بعد ہی ہمارا قافلہ بڑی سڑک سے ایک چھوٹی سڑک میں مڑ گیا۔ اگر ان سے ملنے میں تھوڑی تاخیر ہو جاتی تو میں انہیں نہیں ڈھونڈ سکتا تھا۔ اللہ نے مدد کی اور مجھے اس آزمائش سے بچا لیا۔ آگے چل کر تنگ گلیوں کا جال سا پھیلا ہوا تھا۔ کبھی ہم دائیں مڑ رہے تھے اور کبھی بائیں۔ کبھی ایسا لگتا تھا کہ واپس اسی سمت جا رہے ہیں جہاں سے آئے تھے۔ ان تنگ راہوں پر چلنا مزید مشکل ہو گیا۔ یہاں حبس بہت زیادہ تھا۔ ہمیں چلتے ہوئے ایک گھنٹے سے بھی زائد ہو چکا تھا۔ جبکہ ہمیں بتایا گیا تھا کہ یہ کُل آدھے گھنٹے کی مسافت ہے۔ ہمارے رہنما کے چہرے پر بھی ہوائیاں اُڑ رہی تھیں۔ لگتا تھا کہ وہ راستہ بھول چکا ہے۔ اب تو وہ لوگوں کی باتوں کا جواب بھی نہیں دے رہا تھا۔ سب لوگ تھک کر چور ہو چکے تھے۔ ایک ایک قدم اٹھانا مشکل ہو رہا تھا۔ کوئی شخص بات تک نہیں کر رہا تھا۔ شروع دن والی شوخیاں اور دوستیاں دم توڑ چکی تھیں۔ ہر ایک کی آنکھ میں ایک ہی سوال تھا اور کتنا چلنا پڑے گا؟ہمارا ہوٹل کب آئے گا؟ اب ہمیں چلتے ہوئے ڈیڑھ گھنٹا ہو چکا تھا۔

ان گلیوں میں ٹریفک بھی رواں دواں تھی۔ ہم ایک ون وے گلی میں چلے جا رہے تھے کہ ہماری مخالف سمت جہاں سے داخلہ ممنوع تھا، ایک بڑی سی موٹرکار گلی میں داخل ہو گئی۔ یہ گلی زیادہ کھلی نہیں تھی۔ ہمارا چارسو لوگوں کا قافلہ بھی اسی میں چل رہا تھا۔ ڈرائیور رفتار کم کئے بغیر اور یہ دیکھے بغیر کہ مخالف سمت جو اصل میں گاڑیوں کے داخلے کی درست سمت تھی وہاں سے کوئی گاڑی آ گئی تو کیا ہو گا، بڑھا چلا آ رہا تھا۔ وہی ہوا۔ دوسری طرف سے بھی ایسی ہی گاڑی اندر آ گئی۔ آگے چل کر دونوں گاڑیاں آمنے سامنے کھڑی ہو گئیں کیونکہ وہاں کراسنگ کی جگہ تھی ہی نہیں۔ غلط سمت سے آنے والی گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر ایک نوجوان لڑکا تھا جس کی عمر بارہ تیرہ سال سے زیادہ نہیں ہو گی۔ معلوم نہیں اُس کو ڈرائیونگ آتی تھی یا نہیں لیکن ٹریفک کے قواعد بہرحال اُسے معلوم نہیں تھے۔ ورنہ یوں ون وے سٹریٹ میں نہ آ پھنستا۔ اس کی وجہ سے اس سٹرک میں ٹریفک جام ہو گئی۔ پیدل چلنے والوں کو بھی سخت مشکل درپیش تھی کیونکہ اس گلی میں فٹ پاتھ بھی نہیں تھا۔ ہم گاڑیوں کے بیچ میں سے گزر رہے تھے۔ پہلے ہارن بجنے شروع ہوئے۔ پھر ڈرائیور گاڑیوں سے باہر نکل آئے۔ زبانی تو تو میں میں شروع ہو گئی۔ ہم یہ تماشا دیکھتے ہوئے وہاں سے گزر گئے۔

میرے ذہن سے سعودی عرب کے بارے میں دوستوں کی اس بات کا بھی رعب جاتا رہا جب وہ کہتے تھے کہ سعودیہ میں ٹریفک کے قوانین پر سختی سے عمل کیا جاتا ہے۔ وہ کہتے تھے کہ وہاں ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنا بہت مشکل ہے۔ لائسنس صرف اس کو ملتا ہے جو بہت اچھا ڈرائیور ہو۔ اس کے علاوہ وہاں کوئی گاڑی نہیں چلا سکتا۔ ہمارا تجربہ اس کے برعکس ثابت ہوا۔ ہم نے مکہ مکرمہ جیسے انتہائی مصروف شہر میں عین حج کے دنوں میں بارہ تیرہ سال کے بچوں کو گلیوں میں گاڑیاں اور موٹر سائیکل دوڑاتے دیکھا۔ منیٰ اور جمرات کے بیچ سڑکوں پر انہیں ایک پہیے پر موٹر سائیکل دوڑاتے دیکھا۔ دھوئیں اور شور سے حاجیوں کو حیران اور پریشان ہوتے دیکھا۔

ایک پاکستانی حاجی کا مضمون میری نظر سے گزرا تھا۔ اس مضمون میں انہوں نے تحریر کیا کہ سعودی عرب میں پیدل چلنے والوں کا بے حداحترام کیا جاتا ہے۔ جونہی کوئی پاپیادہ شخص سٹرک پر قدم رکھتا ہے دونوں طرف کی ٹریفک اس وقت تک رکی رہتی ہے جب تک وہ شخص سٹرک پار نہیں کر لیتا۔ یہ مضمون میں نے کافی عرصہ پہلے پڑھا تھا اور اس سے سعودیہ میں ٹریفک کے قوانین کی پاسداری کے بارے میں میرے ذہن میں ایک اچھا تاثر قائم ہوا تھا۔ لیکن جب میں نے اپنی آنکھوں سے یہاں کی ٹریفک دیکھی تو وہ سارا تاثر زائل ہو گیا۔ حج کے دنوں میں ٹریفک کا رش تو فطری عمل ہے لیکن ٹریفک کے قواعد و ضوابط پر عمل درآمد اور پیدل چلنے والوں کا وہ احترام میں نے یہاں کہیں نہیں دیکھا جس کا صاحبِ مضمون نے تذکرہ کیا تھا۔

شاید دیکھنے والی نظر کا فرق تھا۔ وہ صاحب پاکستان سے سعودیہ گئے تھے جب کہ میں آسٹریلیا سے آیا تھا۔ دونوں کا تجربہ الگ الگ تھا۔ پاکستان کے باسی دنیا میں جہاں بھی جائیں ٹریفک کا نظام پاکستان سے بہتر ہی پائیں گے۔ کیونکہ وطنِ عزیز کی سٹرکوں پر ٹریفک جس طرح بے لگام چل رہی ہوتی ہے دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا۔ و ہاں ڈرائیوروں کی اکثریت کو ٹریفک کے قوانین کا علم نہیں ہوتا۔ ان قوانین پر عمل درآمد تو بہت بعد کی بات ہے۔

دوسری طرف آسٹریلیا میں انتہائی ماہر ڈرائیور کو بھی اس وقت تک لائسنس نہیں ملتا جب تک وہ ٹریفک کے قوانین نہیں سیکھ لیتا۔ بلکہ اس کو ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنے کی بھی اجازت نہیں ہوتی۔ آسٹریلیا میں ٹریفک کے قوانین پر عمل درآمد کرانے کے لیے پولیس اور دوسرے قانون نافذ کرنے والے اس طرح سرگرم عمل رہتے ہیں جیسے وہ جرائم پیشہ افراد کے پیچھے لگے رہتے ہیں۔ اس لیے وہاں ٹریفک کے قوانین پر سختی سے عمل کرایا جاتا ہے۔ زیبرا کراسنگ پر ڈرائیور کا پاؤں خود بخود بریک پر پہنچ جاتا ہے چاہے وہاں کوئی سڑک کراس کرنے والا ہو یا نہ ہو۔ اسی طرح شہروں میں پیدل چلنے والوں اور سائیکل سواروں کی حفاظت کے لیے بہت سے قوانین موجود ہیں۔ جن کی وجہ سے حادثے بہت کم ہوتے ہیں۔

دوسری طرف سعودی عرب میں بھی ڈرائیوروں کے حالات اتنے اچھے نہیں ہیں۔ وہ تیز رفتاری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ بلا ضرورت ہارن بجاتے ہیں اور پیدل چلنے والوں کو گالیاں بھی دیتے ہیں۔

مدینہ منورہ کے جس ہوٹل میں ہم مقیم تھے اس کے عقب میں ایک بڑی اور مصروف سٹرک تھی۔ اس سڑک کے درمیان ایک قدرے اونچا فٹ پاتھ تھا۔ جس کے دونوں اطراف میں ٹریفک مخالف سمتوں میں چلتی رہتی تھی۔ اس سڑک کے دوسری طرف آبادی تھی۔ جس میں درمیانے اور چھوٹے درجے کے ہوٹل دکانیں ریستوران اور رہائشی مکانات بنے ہوئے تھے۔ وہاں بہت سے حاجی بھی رہائش پذیر تھے جو دن میں کئی بار نماز پڑھنے کے لیے مسجد نبویؐ جاتے تھے۔ ان سب کے لیے اور دوسرے لوگوں کے لیے جو کسی کام کے لیے ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر آتے تھے یہ سڑک کراس کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔ نہ تو وہاں کوئی زیبرا کراسنگ تھی اور نہ ہی ٹریفک کی بتیاں تھیں۔ حالانکہ وہاں ہر وقت درجنوں لوگ سٹرک عبور کرنے کے لیے دونوں اطراف کھڑے نظر آتے تھے۔ اپنے کمرے کی بالکونی میں بیٹھ کر میں اکثر یہ نظارہ دیکھتا تھا۔

ان لوگوں نے سڑک عبور کرنے کا انوکھا طریقہ اپنایا ہوا تھا۔ وہ سڑک کے کنارے رک کر انتظار کرتے۔ یہ انتظار گاڑیاں رُکنے یا پولیس کا نہیں ہوتا تھا بلکہ مزید لوگوں کا ہوتا تھا۔ جب یہ تعداد معقول ہو جاتی تو وہ سارے مل کر سڑک پر آ جاتے۔ اتنے سارے لوگوں کو سٹرک پر آتے دیکھ کر بریکیں چرچرا اُٹھتیں۔ ہارن بج اٹھتے۔ ڈرائیوروں کی کھڑکیاں کھل جاتیں۔ وہ مغلظات بکتے۔ یہ لوگ ان کی پرواہ کیے بغیر مزے سے سڑک عبور کر کے دوسری طرف پہنچ جاتے۔ یہ طریقہ ہر روز سینکڑوں مرتبہ دہرایا جاتا تھا۔ میں حیران ہوتا کہ اتنی مصروف سٹرک، اتنے سارے پاپیادہ لوگ اور وہاں پولیس کا ایک سپاہی بھی متعین نہیں ہے۔ ٹریفک کے قوانین کے مطابق اور محفوظ انداز سے سڑک کراس کرنے کا وہاں کوئی بندوبست نہیں تھا۔

پبلک ٹرانسپورٹ کی وہاں جو حالت ہے اس کا ذکر پہلے ہی ہو چکا ہے۔ یہ بھی ٹریفک اور عوامی خدمات کے زمرے میں آتا ہے۔ ٹیکسی ڈرائیور اور کرائے کی گاڑیوں والے منہ مانگا معاوضہ لیتے ہیں۔ ان کو روکنے والا کوئی نہیں ہے۔ ایک اور بات جو ہم نے نوٹ کی کہ مقامی لوگوں کے لیے اور زائرین کے لیے الگ الگ قوانین ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ ہو یا دکاندار مقامی لوگوں سے مختلف نرخ طلب کرتے ہیں اور غیرملکیوں سے الگ۔ ان ڈرائیوروں کی شکایت درج کرنے کے لیے ٹیکسی یا بس میں کوئی فون نمبر دیا ہوتا ہے اور نہ ہی ڈرائیور کا شناخت نامہ چسپاں ہوتا ہے۔ ایسے میں زائرین جائیں تو جائیں کہاں۔ کس سے شکایت کریں۔

جمرات سے عزیزیہ کے سفر کی روداد بیان کرتے کرتے میں نے سعودیہ کی ٹریفک کی صورت حال پر روشنی ڈال دی۔ در اصل لکھنے والے کے خیالات بھی ٹریفک ہی کی طرح رواں دواں ہوتے ہیں۔ ان خیالات کے راستے میں کوئی سپیڈ بریکر آ جائے تو خیالات کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے۔ ضروری نہیں کہ یہ سلسلہ اسی شکل میں دوبارہ بحال ہو سکے۔ لہٰذا کسی اہم موضوع پر کوئی اہم نقطہ ذہن میں آئے تو اسے اسی وقت احاطہ قلم میں لانا بہتر ہے۔ ورنہ یہ بیان ہونے سے رہ سکتا ہے۔

اس ون وے گلی کے اختتام پر ہم نسبتاً ایک کشادہ سڑک پر نکل آئے جس کے دوسری طرف پہاڑی تھی۔ اس سڑک پر ہی ہمارا ہوٹل تھا۔ ہم پورے دو گھنٹے میں جمرات سے یہاں تک پہنچے تھے۔ ا س کی وجہ یہ تھی کہ ہم آنکھیں بند کر کے جس رہنما کی رہنمائی پر بھروسہ کر رہے تھے وہی غلط راستے پر جا نکلا تھا۔ وہ ہمیں عزیزیہ کے طول و عرض میں گول دائرے کی شکل میں گھماتا رہا۔ اور ہم اس امید پر کہ بس منزل آیا ہی جاتی ہے اپنے آپ کو اس کے پیچھے گھسیٹتے رہے۔

کیا کِیا خضر نے سکندر سے

اب کسے رہنما کرے کوئی

صبح سے اب تک ہم مسلسل پانچ گھنٹے چلے تھے۔ بہت سے لوگ یہی کہتے سنے گئے کہ آج سے پہلے وہ کبھی اتنا نہیں چلے۔ گویا یہ ہم سب کا نیا ریکارڈ تھا۔

ہوٹل پہنچ کر اپنے اپنے کمروں میں جا کر لوگ بستروں پر گر گئے۔ ٹھنڈے کمرے، ٹھنڈا پانی اور ٹھنڈا بستر اس وقت دنیا کی سب سے بڑی نعمت تھی۔ کچھ دیر کے لئے اس نعمت سے سب نے استفادہ کیا۔ لیکن ان ٹھنڈے کمرے سے مردوں کو بہرحال نکلنا پڑا۔ اس کی وجہ حج کی ایک اور شرط تھی۔ ہماری طرف سے قربانی دی جا چکی تھی۔ اب حجامت کرانا باقی تھا۔ جمرات سے آتے ہوئے ہم نے دیکھا۔ سڑک کے کنارے، فٹ پاتھوں پر، دُکانوں میں، ہوٹلوں کے سامنے جگہ جگہ حاجی حجامت بنوا رہے تھے۔

اس سے پہلے میں نے تسلی سے غسل کیا۔ کافی دنوں بعد صابن اور شیمپو کا استعمال کیا تو بدن پر جمی میل اور پسینے سے نجات ملی۔ میرا سر اور جسم ہلکا پھلکا ہو گیا۔ کیمپ کی نسبت یہاں پانی ٹھنڈا تھا لہٰذا اس غسل کا بہت سرور آیا۔ جی تو چاہتا تھا کہ اسی سے کھیلتا رہوں لیکن ساتھیوں کی آواز آئی ’’ہم باہر جار ہے ہیں جلدی نکلو‘‘

ہمارے ہوٹل کے دونوں اطراف میں بہت سی باربر شاپ تھیں۔ ان میں شاید کچھ اصلی باربر شاپ بھی ہوں۔ تاہم زیادہ تر ایسی تھیں جو صرف آج کے دن کے لیے کھولی گئی تھیں۔ یہ صبح کھلی تھیں اور ات بند ہو جائیں گی۔ کل پرسوں اِس دکان میں کچھ اور بک رہا ہو گا۔ ہو سکتا ہے سبزی بک رہی ہو۔ پھل برائے فروخت ہوں۔ کپڑے کی دکان کھلی ہو یا پھر موٹرسائیکلوں کی مرمت ہو رہی ہو۔ لیکن آج ان دُکانوں میں ایک ہی کام ہو رہا تھا۔ آج وہاں درجنوں نائیوں کے آگے درجنوں حاجی سر جھکائے ہوئے تھے۔ جبکہ سینکڑوں قطار میں کھڑے انتظار کر رہے تھے۔

یہ نائی پیشہ ور یا کل وقتی نہیں ہوتے۔ پورا سال کچھ اور کام کرتے ہیں لیکن حج والے دن نائی بن جاتے ہیں۔ اس کے لیے انہیں کسی تربیت کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حاجیوں کے سروں پر مشین یا اُسترا پھیرنا ہوتا ہے۔ اس کے لیے کسی کاریگری کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ مشین یا اُسترا چلانا آتا ہو اور بس۔ وہ جانتے ہیں اگر اکا دکا بال کٹنے سے رہ جائے یا کسی کو کٹ لگ جائے تو حاجی ان پر کیس نہیں کریں گے۔ وہ تو مہمان ہیں۔ فرض ادا کرنے آئے ہیں۔ فرض ادا ہو جائے گا تو اپنے اپنے ملکوں میں لوٹ جائیں گے۔

ہم کوئی ایسی باربر شاپ ڈھونڈ رہے تھے جہاں ہجوم کم ہو۔ ایسی دُکان مل نہیں رہی تھی۔ جہاں تک حجامت بنوانے کے معاوضے کا تعلق تھا اس کا انحصار گاہکوں کی قطار کی لمبائی پر تھا۔ دس ریال سے لے کر سو ریال تک بھی لیے جا رہے تھے۔ اگر قطار لمبی ہو تو معاوضہ سو ریال یا اس سے بھی اوپر چلا جاتا تھا۔ اگر قطار کم لمبی ہو یا ختم ہونے والی ہو تو یہ فیس گھٹتے گھٹتے دس ریال تک آ جاتی ہے۔ ہم دُکانیں دیکھتے اور نرخ دریافت کرتے کرتے کافی دور تک نکل آئے جہاں سے واپسی کا سفر شروع ہوا۔ وہی سوال جواب دہراتے ہوئے ہم واپس ہوٹل کی طرف چل پڑے۔ ہر دکان کا نرخ دوسری سے مختلف تھا۔ کسی کا جاتے ہوئے زیادہ تھا اور آتے ہوئے کم اور کسی کا جاتے ہوئے کم تھا اور واپسی پر بڑھ گیا تھا۔ جتنی تیزی سے ان کے بھاؤ تبدیل ہو رہے تھے اتنی تیزی سے سٹاک مارکیٹ میں شیئرز کی قیمت بھی نہیں بدلتی۔ بالآخر ایک دکان میں ہجوم قدرے کم دیکھ کر ہم وہاں رک گئے۔

دکان میں کھڑے ہونے کی جگہ نہیں تھی۔ کیونکہ کرسیاں ساتھ ساتھ رکھی ہوئی تھیں۔ جہاں درجنوں نائی بیک وقت حاجیوں کی بڑھی ہوئی فصل تیزی سے کاٹ رہے تھے۔ جب میرا نمبر آیا تو میں ایک کرسی پر جا بیٹھا۔ اس کرسی کے ارد گرد منوں کے حساب سے بال جمع تھے۔ کرسی کے ہتھے اور پشت پر بھی بال ہی بال تھے۔ دکان میں درجنوں نائی، دو تین خزانچی اور تین چار لوگ آوازیں لگانے کے لیے کھڑے تھے۔ یہ گاہکوں کو پکڑ پکڑ کر اندر لا رہے تھے۔ ان میں سے کسی کو اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ فرش پر پڑے بال دھکیل کر ایک طرف کر دے۔ یہ تمام لوگ میرے ہم وطن یعنی پاکستانی تھے۔ صفائی سے زیادہ انہیں گاہکوں کو قابو کرنے اور جلدی جلدی فارغ کرنے کی فکر تھی۔

کچھ عرصہ پہلے مجھے نیوزی لینڈ کے ایک فارم میں ایک کسان کا ایک بھیڑ کی اُون اتارنے کا عمل دیکھنے کا موقع ملا۔ اُون سے بھری اس بڑی سی بھیڑ کی اون اتارنے میں کسان نے پانچ منٹ بھی نہیں لگائے تھے۔ میرے سر پر مشین پھیرنے میں اس نائی نے نیوزی لینڈ میں بھیڑوں کی اُون اتارنے والے سے زیادہ پھُرتی دکھائی۔ چند منٹوں کے اس عمل کو میں دیکھنے سے قاصر تھا کیونکہ میرے سامنے آئینہ موجود نہیں تھا۔ درجنوں نائیوں اور درجنوں کرسیوں والی اس دکان میں آئینہ نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔

آخر میں کسان نے بھیڑ کو آئینہ دکھا کر اس سے داد بھی چاہی۔ جبکہ میرا حجام داد و دہش سے بے نیاز تھا۔ لہذا اس نے آئینہ دکھانے کا تکلف نہیں کیا۔ حجام نے اس کسان سے کم وقت میں حجامت بنا کر عالمی ریکارڈ بنانے کی کوشش کی۔ نیوزی لینڈ کے اس کسان نے ہمیں بتایا تھا کہ ہم کسان روزانہ دو سو سے اڑھائی سو بھیڑوں کی اُون اتار لیتے ہیں۔ ایک بھیڑ کی اون اتارنے کا معاوضہ ڈیڑھ سے دو ڈالر تک ہے۔ سعودی عرب میں نائیوں کی بال کاٹنے کی رفتار نیوزی لینڈ کے کسانوں سے کہیں تیز اور سروں کی تعداد ان بھیڑوں سے کہیں زیادہ ہے۔ ان کا معاوضہ بھی نیوزی لینڈ کے کسان سے کہیں بہترتیس ریال فی کس ہے جو بڑھ کر سوریال تک بھی پہنچ جاتا ہے۔ یوں یہ نائی اس کسان سے کہیں زیادہ کماتے ہیں لیکن سال میں صرف ایک دن یعنی حج کے موقع پر۔

دکان سے واپسی پر میں نے کچھ پھل خرید لیے کیونکہ آج دوپہر کا کھانا بھی نہیں کھایا تھا۔ ہوٹل پہنچتے پہنچتے عصر کی نماز کا وقت ہو گیا۔ عصر کے بعد منیٰ واپسی تھی۔ اس دفعہ بسوں کا انتظام تھا۔ لیکن کچھ لوگوں کی حالت اتنی خراب تھی کہ وہ بستر سے اٹھنے کے بھی قابل نہیں تھے۔ خاص طور پر گھریلو اور عمر رسیدہ خواتین کی حالت بہت خستہ تھی۔ ہوٹل کے یخ بستہ ماحول میں سب کو اتنا آرام ملا تھا کہ کسی کا بھی واپس جانے کا جی نہیں چاہ رہا تھا۔ لیکن دس اور گیارہ ذو الحج کی راتیں منیٰ میں گزارنا ضروری تھیں۔ جبکہ بارہ ذوالحج والی رات اختیاری تھی۔ یعنی اگر چاہیں تو یہ رات وہاں گزاریں اور اگر نہ چاہیں تو یہ لازمی نہیں ہے۔

ہم سب نے دوبارہ غسل کیا۔ بلکہ جب تک وہاں سے روانگی نہیں ہوئی بار بار غسل کیا۔ ہم قیامِ منیٰ کی کسر پوری کر رہے تھے۔ اہلیہ نے بتایا کہ جاوید صاحب کی بیگم کی طبیعت کافی خراب ہے اور ان کا منیٰ واپس جانے کا ارادہ نہیں ہے۔ میں اپنے کمرے میں واپس آیا تو جاوید صاحب نے بھی تصدیق کی کہ وہ واپس منیٰ نہیں جا رہے۔ بیگم جاوید کی ٹانگوں میں درد تھا اور بخار بھی ہو گیا تھا۔ جاوید صاحب خود بھی بے انتہا تھکے ہوئے تھے۔ حتیٰ کہ وہ بال کٹوانے بھی نہیں گئے۔ میں نے سمجھایا ’’جاوید صاحب ہمت کریں۔ آپ کو منیٰ واپس جانا پڑے گا۔ قیامِ منیٰ حج کا حصہ ہے‘‘

بولے ’’ہم دونوں کی حالت بہت خراب ہے۔ ہم نہیں جا سکیں گے‘‘

مجھے بہت افسوس ہوا۔ اتنے دور آسٹریلیا سے آ کر اور اتنی محنت مشقت سے گزر کر آخری مرحلے میں انہوں نے ہمت ہار دی تھی۔ دوسرے ساتھیوں نے بھی انہیں سمجھانے کی کوشش کی لیکن سب بے سود۔ بیگم جاوید تو بیمار تھی لیکن جاوید صاحب نے بھی صاف انکار کر دیا۔ در اصل آج کے سخت دن، سخت گرمی اور مشکل سفر نے انہیں جسمانی اور ذہنی طور پر شکستہ دل اور شکستہ جان کر دیا تھا۔ بقیہ لوگ باہر کھڑی بسوں میں سوار ہونا شروع ہو گئے۔ بسیں کم تھیں اور سواریاں زیادہ۔ اس کی وجہ سے ہمیں کافی انتظار کے بعد آخری بس میں جگہ ملی۔ در اصل یہی بسیں لوگوں کو منیٰ چھوڑ کر واپس آئی تھیں۔ اس لیے اتنی تاخیر ہوئی تھی۔

لبیک کی انتظامیہ کو بھی علم ہو گیا کہ جاوید صاحب اور ان کی اہلیہ منیٰ واپس نہیں جا رہے۔ ہمارا معلم جاوید صاحب کے کمرے میں گیا اور انہیں سمجھایا کہ منیٰ کا قیام ضروری ہے۔ جاوید صاحب نے ان کی بات بھی نہیں مانی۔ ان کا عذر تھا کہ ہم جسمانی طور پر منیٰ یا کہیں اور جانے کے قابل ہی نہیں ہیں۔ معلم نے شرعی حکم بتانا تھا سو بتا دیا۔

اس کے بعد لبیک کا مالک جو اچھا منتظم ہونے کے علاوہ اچھا عالم بھی ہے وہ جاوید صاحب اور ان کی اہلیہ کو سمجھانے گیا۔ ابتدا میں اس نے شرعی نقطہ نظر سے منیٰ کے قیام کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور انہیں قائل کرنے کی کوشش کی۔ اس طرح بات نہیں بنی تو اس نے دوسرا طریقہ اختیار کیا اور کہا ’’آپ ویسے بھی آج رات اس ہوٹل میں نہیں ٹھہر سکتے کیونکہ آج رات کے لیے ہم نے اسے بک ہی نہیں کرایا ہے۔ اگر آپ اپنا کرایہ دے کر بھی یہاں رہنا چاہیں تو آپ کو نہ رات کا کھانا ملے گا اور نہ صبح کا ناشتہ۔ اس کے لیے آپ کو خود بندوبست کرنا پڑے گا۔ دوسری طرف آپ بس میں بیٹھ کر منیٰ جائیں گے۔ وہاں آپ نے صرف آرام کرنا ہے۔ کم از کم وہاں آپ کو وقت پر کھانا ملتا رہے گا۔ جب کہ یہاں آپ کو دیکھنے والا بھی کوئی نہیں ہو گا۔ سب سے بڑی اور اہم بات یہ ہے کہ یہ دو راتیں رات وہاں گزار لیں اور بعد میں کسی وقت طواف کعبہ کر لیں تو آپ کا حج ہر لحاظ سے مکمل ہو جائے گا۔ ورنہ آپ کی ساری محنت اور پیسہ ضائع جائے گا۔ کیا آپ چاہیں گے کہ اتنا لمبا سفر کر کے اور اتنی رقم لگا کر بھی آپ حج کیے بغیر واپس چلے جائیں۔ زندگی کا کیا بھروسہ کہ آئندہ یہ موقع ملے یا نہ ملے۔ آپ واپس جا کر اپنے بچوں، عزیز اقارب اور دوستوں کو کیا منہ دکھائیں گے۔ کیا کہیں گے کہ ہم وہاں جا کر بھی حج کیے بغیر واپس لوٹ آئے۔ کل قیامت والے دن خدا کو کیا جواب دیں گے کہ ہم تھک گئے تھے اس لیے حج ادھورا چھوڑ دیا‘‘

ہم آخری بس میں سوار تھے۔ یہ بس چلنے والی تھی کہ ہم نے دیکھا جاوید صاحب اور ان کی اہلیہ سیڑھیاں اُترتے نظر آئے۔ وہ تھکے تھکے لیکن پر عزم لگ رہے تھے۔ انہیں دیکھ کر میں نے تالیاں بجائیں تو بس میں سوار سبھی مسافر تالیاں بجانے لگے۔ جاوید اور بیگم جاوید ان تالیوں کی گونج میں اس طرح سوار ہوئے جیسے کوئی وی آئی پی شخصیت جلوہ افروز ہوتی ہے۔ ان کے بیٹھتے ہی بس کے دروازے بند ہوئے اور ہم سنت محمدیﷺ کی پیروی کرنے سوئے منیٰ روانہ ہو گئے۔


گیارہ ذوالحج



کیمپ میں پہنچے تو حجاج نے آج کے طویل، پر مشقت لیکن کامیاب دن کے اختتام پر اللہ کا شکر ادا کیا۔ شدید تھکاوٹ کے بعد فرشی بستر مزہ دینے لگے۔ اگلے دن یعنی گیارہ ذوالحج والے دن ایک ہی اہم کام انجام دینا تھا۔ یہ تینوں شیطانوں کی رمی تھی۔ اس دن ہم نے تینوں شیطانوں پر سنگ باری کرنا تھی۔ ان تینوں میں سے کم از کم ایک شیطان کچھ زیادہ ہی شیطان تھا۔ اس مار کا انتقام اس نے اس طرح لیا کہ ہمیں اپنے قافلے سے الگ کر کے راستے سے بھٹکا دیا۔ جس کی وجہ سے ہمیں بہت دقت اُٹھانی پڑی۔

گیارہ ذوالحج والے دن بعد نمازِ عصر ہمارا قافلہ رمی کے لئے روانہ ہوا۔ وہی قافلہ، وہی راستہ اور وہی علم بکف رہنما تھا۔ لیکن آج ہجوم کل کی طرح نہیں تھا۔ آج کے دن حاجی صبح سے شام کسی بھی وقت رمی کر سکتے تھے۔ اس لئے مختلف لوگ مختلف اوقات میں رمی کے لئے جا تے ہیں۔ جبکہ دس ذوالحج والے دن تقریباً سب لوگ بیک وقت وہاں کا رخ کرتے ہیں۔ اس لئے ہجوم ناقابلِ برداشت ہو جاتا ہے۔

جبکہ گیارہ ذوالحج والے دن کچھ لوگ صبح، کچھ دن چڑھے، کچھ دوپہر اور کچھ سہ پہر کے وقت رمی کے لئے نکلتے ہیں۔ اس کی وجہ رش تقسیم ہو جاتا ہے۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ رش بالکل نہیں ہوتا۔ جمرات کے ارد گر وہی عالم ویسے ہی رہتا ہے جیسا پہلے دن تھا۔ وہاں ہر وقت لاکھوں لوگ موجود ہو تے ہیں۔

آج بھی سڑکوں پر وہی عالم تھا۔ تپتی ہوئی سڑک، چلچلاتی ہوئی دھوپ، آنکھوں میں گھستا ہوا سورج، سڑکوں پر بکھری بوتلیں، علم بردار قافلے، ایک دوسرے سے بندھے ہوئے حاجی اور فضا میں اللہ اللہ کی صدائیں۔ یہ سب اللہ کے سپاہی تھے جو اللہ کے حکم پر یہاں جمع ہوئے تھے۔ اسی کے حکم کی بجا اور ی کے لئے پاپیادہ چلے جا رہے تھے۔

راستے میں ہجوم کم تھا لیکن جمرات کے قریب بہت بڑھ گیا۔ چاروں طرف سے آئے ہوئے قافلے یہاں یکجا ہو گئے۔ مختلف گروپوں کے جھنڈے آگے پیچھے ساتھ ساتھ دکھائی دینے لگے۔ آج تینوں شیطانوں کی رمی کرنا تھی۔ پہلے شیطان کی حد تک تو ہم اپنے گروپ کے ساتھ تھے۔ دوسرے شیطان کی تلاش کرتے کرتے گروپ سے کافی پیچھے رہ گئے۔ جب کہ تیسرے شیطان کی تلاش ہمیں مہنگی پڑی۔ ہمارا قافلہ ہماری نظروں سے اوجھل ہو گیا تھا۔

ہم نے تینوں شیطان کو کنکریاں مار لی تھیں۔ اگلا کام اپنا قافلہ ڈھونڈنا تھا۔ جب کہ وہ انسانوں کے سمندر میں کسی طرف مڑ کر ہماری نظروں سے اوجھل ہو چکے تھے۔ وہاں بہت سے راستے مختلف سمتوں میں جا رہے تھے۔ ہمیں بالکل سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کون سا راستہ اختیار کریں۔ اہلیہ گھبرا گئیں اور کہنے لگیں ’’ا ب کیا ہو گا۔ ہم انہیں کیسے ڈھونڈیں گے۔ معلوم نہیں کس طرف گئے ہیں‘‘

میں نے تسلی دی ’’گھبرائیں نہیں اللہ مالک ہے۔ ہم انشاء اللہ اپنا کیمپ ڈھونڈ لیں گے۔‘‘

میں نے انہیں تسلی تو دے دی لیکن ان بھول بھلیوں سے نکلنے کاراستہ ہی نہیں مل رہا تھا۔ جس راستے سے ہم آئے تھے وہ صرف آنے والوں کے لیے مخصوص تھا۔ واپس جانے کے لیے کوئی دوسرا راستہ اختیار کرنا تھا۔ جو ہم نے خود ڈھونڈنا تھا۔ کیونکہ وہاں صرف زائرین تھے۔ عملے کا کوئی شخص دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ ہم نے کوشش جاری رکھی۔ بالآخر ایک راستے سے باہر نکل کر منیٰ کی طرف آ گئے۔ کیمپ کے مختلف حصوں میں جانے کے لیے مختلف راستے تھے۔ وہاں پر بتانے والا کوئی نہیں تھا نہ ہی کوئی نقشہ تھا۔ مجبوراً ہمیں جو راستہ دکھائی دیا اسی پر چل پڑے۔ یہ منیٰ جانے کے لیے غالباً سب سے لمبا راستہ تھا کیونکہ اس کے ساتھ ساتھ آبادی بھی نظر آ رہی تھی۔ وہیں ایک مسجد میں مغرب کی اذان ہو رہی تھی۔ ہم نماز کے لیے اس مسجد میں چلے گئے۔ نماز کے بعد باہر نکلے تو کھمبوں پر روشنیاں جل اٹھی تھیں۔ اب موسم بھی بہتر ہو گیا تھا لہٰذا اب ہم خراماں خراماں شامیانوں کی جانب چل پڑے۔

ایک چھوٹے سے پل پر کچھ پاکستانی نوجوان بیٹھے نظر آئے۔ یہ خدام الحجاج تھے۔ ان سب کا تعلق سرائیکی علاقے سے تھا۔ میں نے ان سے اپنے کیمپ کا راستہ پوچھا تو انہوں نے کہا ’’آپ کے کیمپ کا نمبر کیا ہے؟‘‘

میں نے انہیں بتایا کہ یہ کیمپ آسڑیلیا سے آئے ہوئے حاجیوں پر مشتمل ہے۔ اس کے سامنے ہی برطانیہ سے آئے ہوئے حجاج کا کیمپ ہے۔ وہ سمجھ گئے۔ ایک نے بتایا ’’آپ نے اپنے کیمپ جانے کے لیے سب سے لمبے راستے کا انتخاب کیا ہے۔ بہرحال اب یہاں سے سیدھا اسی سڑک پر چلتے جائیں۔ جہاں یہ سٹرک ختم ہوتی ہے آپ کا کیمپ اس کے بالکل قریب ہے۔ وہاں جا کر کسی سے پوچھ لینا‘‘

منیٰ اور عرفات میں ایسے بہت سے خدام سے ہماری ملاقات ہوئی تھی۔ یہ سب انتہائی غریب گھروں سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ پڑھے لکھے بھی نہیں تھے۔ لہٰذا انگریزی تو دور کی بات ہے اُردو بھی ٹھیک سے نہیں بول سکتے تھے۔ وہ بہاولپور کے علاقے کی مخصوص زبان بولتے تھے۔ بھوک اور افلاس ان کے چہروں پر تحریر تھی۔ بھوک، بیماری اور سخت زندگی کی وجہ سے ان کے رنگ جھلسے ہوئے تھے۔ چہرے مرجھائے ہوئے اور بدن گوشت سے عاری ہڈیوں کے پنچر کی طرح نظر آتے تھے۔ حاجی دل کھول کر خدام کی مدد کرتے رہتے تھے۔ کھانا اور دوسری چیزیں بھی لا لا کر انہیں دیتے رہتے تھے۔ لیکن یہ چند لوگ تھے جو یہاں آئے تھے۔ ان کے پورے علاقے بلکہ پاکستان کے دیگرپسماندہ علاقوں کے لوگوں کی بہت بڑی تعداد ایسی ہی غربت کا شکار تھی۔ کاش ان سب کے لیے کچھ کیا جا سکتا۔

ہم اپنے اہل وطن احباب کے مشورے پر اسی سڑک پر چلتے گئے۔ جانے سے پہلے میں نے کچھ رقم ان دوستوں میں بانٹ دی۔ انہوں نے شکریہ ادا کیا اور دعائیں دیں۔ ان میں سے ایک نے پیش کش کی کہ وہ ہمیں کیمپ میں چھوڑ کر آ سکتا ہے۔ یہ غالباً ان کے آرام کا وقت تھا جسے وہ اکھٹے بیٹھ کر گزار رہے تھے۔ میں نے اس نوجوان کو تکلیف دینا مناسب نہیں سمجھا اور شکریے کے ساتھ اس کی پیش کش قبول نہیں کی۔

مختلف کیمپوں کے بیچ سے گزرتے بالآخر ہم اس جگہ پہنچ گئے جہاں پر سڑک ختم ہوتی تھی۔ اس وقت تک ہم سخت تھک چکے تھے۔ تقریباً تین گھنٹے سے مسلسل پیدل چل رہے تھے۔ ابھی بھی اپنے کیمپ کا علم نہیں تھا۔

وہاں جا کر مجھے یوں لگ رہا تھا کہ یہ جگہ میری دیکھی ہوئی ہے۔ شاید اس جگہ میں گھومتا رہا تھا۔ لیکن ایک جیسے محرابوں والے دروازوں پر مشتمل ایک جیسے کیمپوں میں ہمارا کیمپ کون سا تھا اس کی سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ ہم نے کچھ لوگوں سے دریافت کیا۔ وہ بھی لاعلم تھے۔ ایک خوبصورت باریش نوجوان سے جب میں نے پوچھا تو پہلے تو اس نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ پھر کہنے لگا ’’آپ کے کیمپ کا نمبر کیا ہے؟‘‘

یہ نوجواں رواں انگریزی میں بات کر رہا تھا۔ میں نے جب اسے بتایا کہ ہمیں کیمپ کا نمبر معلوم نہیں تو اس نے موبائل فون نکالا۔ کسی کا نمبر ملایا اور عربی میں گفتگو شروع کر دی۔ بیچ بیچ میں وہ آسٹریلیا کا ذکر کر رہا تھا۔ بالآخر اس نے فون بند کیا اور ہمیں بتایا ’’آپ کے کیمپ کا نمبر147 ہے۔ اب یہ معلوم کرنا پڑے گا کہ وہ کس سمت میں واقع ہے۔ اس نے اپنے آئی فون میں سے کچھ تلاش کرنا شروع کر دیا۔ اس

طرح بیس پچیس منٹ تک وہ ہماری مدد کے لیے رُکا رہا۔ اتنی دیر میں ایک پاکستانی صاحب بھی ہمارے پاس آ کر رک گئے۔ انہوں نے پوچھا کیا مسئلہ ہے؟

میں نے بتایا ’’ہم رمی کرنے گئے تھے۔ وہاں اپنے قافلے سے بچھڑ گئے اور اب اپنا کیمپ نہیں مل رہا‘‘

بولے ’’یہ مسئلہ یہاں عام ہے۔ بہت لوگوں کے ساتھ ایسا ہو جاتا ہے‘‘

میں نے کہا ’’جی ہاں شیطان کو مار کر آئے ہیں۔ وہ بھی کچھ نہ کچھ تو کرے گا‘‘

وہ ہنسنے لگے ’’آپ نے اُسے زیادہ زور سے تو نہیں مارا کہ وہ انتقامی کاروائی پر اُتر آیا ہے‘‘

’’جی ہاں! نہ ہم نے کسر چھوڑی ہے اور نہ اس نے‘‘ میں نے جواب دیا

وہ صاحب بولے ’’آپ لوگوں کا کیمپ یہاں سے زیادہ دور نہیں ہے۔ میں کینیڈا سے آیا ہوں۔ ہمارے کیمپ ایک دوسرے کے قریب ہی ہیں۔ وہ اپنے کسی ساتھی کو فون کر کے پوچھنے لگے۔ اس دوران اس باریش نوجوان نے شاید ہمارے کیمپ کا محل وقوع دریافت کر لیا تھا۔ وہ ہمیں اُردو میں باتیں کرتا دیکھ کر خاموش کھڑا تھا۔ اس نے پوچھا ’’کیا یہ صاحب آپ کو وہاں پہنچا دیں گے‘‘

میں نے کہا ’’ہاں وہ معلوم تو کر رہے ہیں‘‘

اس نوجوان نے کہا ’’تو مجھے اجازت ہے کیا؟‘‘

میں نے اس خوبصورت اور اس نیک سیرت نوجوان کا شکریہ ادا کیا۔ کسی اچھے خاندان کا ہونہار اور نیک فرزند تھا۔ دورانِ گفتگو اس نے بتایا کہ اس کا تعلق مصر سے ہے اور وہ سعودیہ میں تعلیم حاصل کرنے آیا ہوا ہے۔

ادھر کینیڈا والے صاحب پہلے تو کافی پراعتماد نظر آ رہے تھے لیکن آہستہ آہستہ ان کے اعتماد کے غبارے سے ہوا نکل گئی اور کہنے لگے ’’سوری پتا نہیں چل رہا کہ آپ کا کیمپ کس سمت میں ہے۔ مجھے اجازت دیں میری بیوی انتظار کر رہی ہو گی‘‘

ہم نے پھر گھومنا شروع کر دیا کہ شاید خود ہی ہمارا کیمپ نظر آ جائے۔ کیمپ تو نظر نہیں آیا لیکن انفارمیشن سنٹر (معلومات کا مرکز) کا سائن نظر آ گیا۔ ہم نے اسے غیبی مدد سمجھا اور اور سائن کی مدد سے کچھ دفاتر پر مشتمل کیبن کے سامنے پہنچ گئے۔ انفارمشن سنٹر میں پہلے ہی درجنوں لوگ موجود تھے جنہیں ہماری طرح اپنا کیمپ نہیں مل رہا تھا۔ خوش قسمتی سے ایسے شخص سے بات کرنے کا موقع ملا جسے انگریزی سمجھ آتی تھی۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ اس کا رویہ بھی دوستانہ تھا۔ اس نے ہمارے گلے میں لٹکے شناختی کارڈ کی مدد سے آسانی سے ہمارا کیمپ معلوم کر لیا اور ہمیں وہاں چھوڑ کر آیا۔

اس دفتر سے ہمارا کیمپ پانچ سات منٹ کی مسافت پر واقع تھا۔ لیکن ایک جیسی گلیوں اور ایک جیسے شامیانوں کی وجہ سے اس کا تعین نہیں ہو رہا۔ خیر اب تو ہم نے کیمپ کا نقشہ بھی حاصل کر لیا تھا لیکن آئندہ اس کی ضرورت نہیں پڑی۔ ہم اپنے کیمپ میں پہنچے تو عشاء کی نماز ہو چکی تھی اور رات کا کھانا بھی کھایا جا چکا تھا۔ میرے ساتھیوں کو میری فکر ہو رہی تھی۔ انہوں نے ہمارا کھانا لے کر رکھا ہوا تھا۔ ایک ساتھی نے کہا ’’کس نے کہا تھا شیطان کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر مارو۔ وہ بھی تو جوابی وار کرے گا‘‘

دوسرا بولا ’’شیطان ان تین دنوں میں اتنا پٹتا ہے لیکن باز پھر بھی نہیں آتا‘‘

ایک اور صاحب بولے ’’شیطان کو اللہ نے کھلی چھٹی دی ہوئی ہے۔ وہ انسان پر کہیں اور کوئی بھی وار کر سکتا ہے۔ اس لیے اس سے بچ کر رہنا چاہیے۔ جس دن شیطان بند ہو جائے گا اس دنیا بھی ختم ہو جائے گی۔ وہ قیامت تک انسان کا امتحان لیتا رہے گا‘‘

دیر تک ایسی ہی ہلکی پھلکی باتیں ہوتی رہیں۔

میں نے اللہ کا شکر ادا کیا جس نے آج11ذوالحج کے فرائض ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ وہ اگر نہ چاہے تو انسان ایک قدم بھی نہیں اٹھا سکتا۔ اے اللہ تو کتنا رحمن اور کتنا رحیم ہے۔ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے۔


12 ذوالحج



ہمارے گروپ کے معلمین کے مطابق 12 ذوالحج والے دن رمی کرنا تھی اور بس۔ ان کے مطابق اس دن اور کوئی قابل ذکر کام نہیں تھا۔ لیکن حاجیوں کے درمیان ایک بحث چل رہی تھی۔ در اصل ہماری انتظامیہ مصری اور لبنانی عربوں پر مشتمل تھی جو امام شافعی رحمۃ اللہ کی پیروی کرتے ہیں۔ جبکہ ہم پاکستان ہندوستان اور بنگلہ دیش والوں کی اکثریت امام ابو حنیفہؒ کی مقلد تھی۔ یوں تو ان اماموں کی فقہ میں اتنا زیادہ فرق نہیں ہے۔ نہ ہی دوران حج ہمیں کوئی مسئلہ پیش آیا۔ لیکن اب ایک مسئلہ سامنے آ گیا تھا۔

امام ابو حنیفہؒ کے مطابق قربانی کرنے، احرام اتارنے اور بال کٹوانے کے بعد 12 ذوالحج تک طوافِ زیارت کرنا ضروری ہے۔ امام شافعیؒ کے نزدیک بھی یہ طواف زیارت لازمی ہے لیکن انہوں نے اس میں 12 ذوالحج تک کی پابندی نہیں رکھی تھی۔ امام شافعیؒ کے مطابق یہ طواف 13 ذوالحج یا اس کے بعد کیا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ اس لیے ہمارے گروپ کے منتظمین نے ہمیں طواف پر لے جانے کا انتظام نہیں کیا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ 13ذوالحج کے بعد جب منیٰ کا قیام ختم ہو جائے گا اور ہم مکہ واپس جائیں گے تو یہ طواف کیا جا سکتا ہے۔ امام شافعیؒ کے مطابق یہ درست تھا۔ پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت سے تعلق رکھنے والے حاجیوں میں سے کچھ 10 ذوالحج اور کچھ 11 ذوالحج والے دن اپنے طور پر جا کر یہ طواف کر آئے تھے۔ تاہم حاجیوں کی اکثریت ابھی تک یہ طواف نہیں کر سکی تھی جن میں ہم بھی شامل تھے۔

مجھے اطمینان نہیں تھا۔ میرا دل چاہ رہا تھا کہ جس امام کی ہم پیروی کرتے ہیں یہاں بھی انہی کی تشریحِ فقہ کی پابندی کرتے ہوئے 12ذوالحج تک طوافِ زیارت کر لینا چاہیے۔ اس طواف سے پہلے جمرات کی رمی کرنا ضروری تھی۔ پھر وہاں سے مکہ مکرمہ جا کر طواف کرنا اور رات کو منیٰ کیمپ میں واپس آنا خاصا مشکل کام تھا۔ اس رات منیٰ میں قیام ضروری نہیں تھا۔ لہٰذا ہم نے فیصلہ کر لیا 12ذوالحج کی صبح ہم منیٰ سے روانہ ہو جائیں گے۔ پہلے رمی اور پھر طواف کے لیے جائیں گے اور وہاں سے رات عزیزیہ میں واقع اپنے ہوٹل واپس آئیں گے۔ یہ سب کچھ ہم نے بغیر کسی رہنمائی یا مدد کے اکیلے کرنا تھا۔

یہ فیصلہ کرنے میں پاکستان میں میرے چھوٹے بھائی خالد محمود مرزا نے بھی مدد کی۔ میرا یہ بھائی الحمد للہ نماز روزے بلکہ شریعت کا پابند اور دینی علوم سے بخوبی واقف ہے۔ وہ اللہ کے فضل سے دو حج بھی کر چکا ہے۔ ایک حج اس نے اپنا کیا تھا اور دوسرا ہماری والدہ صاحبہ کے لیے حجِ بدل کیا تھا۔ اس نے بذریعہ فون اور ایس ایم ایس کے ذریعے حج کی تمام شرائط اور تفصیل بتائیں اور 12ذوالحج تک حجِ زیارت کرنے کی تلقین کی۔ کہنے لگا ’’بھائی جان آپ کسی بحث میں پڑے بغیر حج کی یہ آخری شرط یعنی طواف زیارت12ذوالحج تک پوری کر لیں تاکہ کسی قسم کا شک و شبہ باقی نہ رہے‘‘

میری اہلیہ نے بھی اس کی تائید کی۔ ہم نے 12 ذوالحج والی صبح منیٰ سے رخصت ہونے کا پروگرام بنا لیا۔

صبح ناشتے کے بعد ہم نے اپنا مختصر سامان اٹھایا اور پیدل ہی منیٰ کیمپ سے باہر نکل کر نزدیکی شاہراہ تک جا پہنچے۔ تھوڑی ہی دیر میں ایک بس آئی جس کا کنڈکٹر عزیزیہ عزیزیہ کی آوازیں لگا رہا تھا۔ ہم بسم اللہ پڑھ کر اس میں سوار ہو گئے۔ میں نے کنڈیکٹر اور ڈرائیور کو بتا دیا کہ ہمیں عزیزیہ میں اتار دیناکیونکہ ہمیں اس کا علم نہیں ہے۔ لیکن ان دونوں نے ہمیں خبر نہیں دی اور بس عزیزیہ سے آگے آخری سٹاپ تک پہنچ گئی۔ وہاں جا کر ڈرائیور نے جو اردو بولتا تھا ہمیں بتایا ’’عزیزیہ تو پیچھے رہ گیا ہے لیکن زیادہ دور نہیں ہے‘‘

مجبوراً ہم نے ٹیکسی روکی اور اسے ہوٹل کا نام بتایا۔ ڈرائیور خاصا ہوشیار تھا۔ کہنے لگا ’’مجھے معلوم ہے آپ کا ہوٹل کہاں ہے‘‘

میں نے پوچھا ’’کرایہ کتنا ہو گا؟‘‘

کہنے لگا ’’سو ریال‘‘

یہ ٹیکسی بھی پرائیویٹ کار تھی۔ جس میں کوئی میٹر، کرایہ نامہ، ڈرائیور کا اتا پتا کچھ بھی نہیں ہوتا۔ ڈرائیور نے گاڑی روک کر پوچھا تو ہمیں علم ہوا کہ یہ کرائے کے لیے دستیاب ہے۔ ان کاروں کے ڈرائیور جو کرایہ طلب کرتے ہیں وہ اس طرح ہوتا ہے کہ انہیں چینچ نہ دینا پڑے۔ مثلاًچارسو ریال، تین سو ریال، دو سو ریال یا سو ریال۔ مسافر بھی کرایہ کم کرانے کے لیے جو رقم آفر کرتے ہیں وہ بھی سو یا پچاس میں تقسیم ہونے والی ہوتی ہے۔ مثلاً اگر ڈرائیور چار سو ریال طلب کرے تو مسافر کہے گا ’’دو سو لو گے؟‘‘

اب یہاں طلب اور رسد والا معاملہ آ جاتا ہے۔ اگر وہاں مزید سواریاں موجود ہوں تو ڈرائیور قبول نہیں کرے گا۔ اگر ایسا نہ ہو تو وہ کرایہ کم کرنے پر راضی ہو جاتا ہے۔ ہمارا ڈرائیور پچاس ریال میں تیار ہو گیا۔ کیونکہ وہاں ہمارے علاوہ دوسری کوئی سواری نہیں تھی۔ صرف پانچ منٹ میں اس نے ہمیں ہوٹل کے سامنے اتار دیا۔ اگر ہمیں راستوں کا علم ہوتا تو دس پندرہ منٹوں میں پیدل ہی وہاں پہنچ جاتے۔

ہم اپنے کمرے میں گئے جو خالی پڑے ہوئے تھے۔ نہا دھو کر لباس تبدیل کیا۔ نیچے لابی میں آ کر چائے بنائی اور ہوٹل کے سامنے والی پہاڑی پر چڑھنے لگے۔ اس پہاڑی کے اوپر لاری اڈہ بنا ہوا تھا۔ جہاں سے وقفے وقفے سے ایک بس جمرات کی جانب جاتی تھی۔ تھوڑی ہی دیر میں بس آ گئی۔ بس میں کھڑے ہونے کی جگہ ملی۔ اس بس نے صرف دس منٹ میں ہمیں جمرات کے بہت قریب پہنچا دیا۔ وہاں سے تقریباً پندرہ منٹ کی مسافت پر جمرات واقع تھا۔ اس طرح ہم بہت کم وقت میں اور آسانی سے وہاں پہنچ گئے۔

یہی وجہ تھی کہ ہم منیٰ سے براہ راست جمرات نہیں گئے تھے۔ منیٰ سے جمرات کا فاصلہ زیادہ تھا اور ہمارے ہوٹل سے کم تھا۔ ہم حیران تھے کہ 10 ذوالحج والے دن ہمارا رہنما ہمیں کہاں کہاں گھما کر ہوٹل لے کر گیا۔ جس میں پورے دو گھنٹے لگ گئے تھے۔ جب کہ جس راستے سے

ابھی ہم جمرات گئے تھے وہاں سے یہ فاصلہ آدھے گھنٹے سے زائد کا نہیں تھا۔ آج تو ہمیں بس سے بھی مدد ملی تھی۔ لیکن اگر بس نہ بھی ہوتی تو

یہ راستہ اتنا طویل نہیں تھا۔

آج شیطان سے دو دو ہاتھ کرنے کا آخری موقع تھا۔ لہٰذا ہم نے خوب بھڑاس نکالی۔ لیکن وہ بھی شیطان تھا۔

ایسے مسکراتا رہا جیسے کہہ رہا ہو کچھ بھی کر لو ہوں تو میں تمہارا ہی ہمزاد۔

مجھ میں اور تم میں کوئی فرق نہیں ہے۔

میں سوچتا ہوں اور تم عمل کرتے ہو۔

تم تو میرا دست و بازو ہو۔

میرا مشن تو تم ہی مکمل کرتے ہو۔

مجھے کہیں جانے کی بھی ضرورت نہیں مجھے تم اپنے اندر چھپا کر رکھتے ہو۔

اوپر سے پارسا بنے پھرتے ہو اور اپنے من میں مجھے پناہ دے رکھی ہے۔

مجھ سے دوستی کر رکھی ہے۔

تم ساری زندگی میری ہی تو سنتے رہے۔

گھر، باہر، کام کے دوران، محفل میں، تنہائی میں، حتیٰ کہ عبادت کا ڈھونگ رچاتے وقت بھی تمہارے اندر میں ناچتا پھرتا تھا۔

تم نماز کی نیت کرتے ہو لیکن سوچتے مجھے ہو۔

نام اللہ کا لیتے ہو لیکن تصور میرا ہوتا ہے۔

ارے مجھے کیوں مارتے ہو۔

مارنا ہے تو خود کو مارو۔

سنگسار کرنا ہے تو خود کو کرو۔

اتنا نقصان میں نے تمہیں نہیں پہنچایا جتنا تم نے خود کو پہنچایا ہے۔

ارے تم ان شیطانوں کو چھوٹا اور بڑا کہتے ہو۔

سب سے بڑا شیطان تمہارا نفس ہے۔

جس کے تم غلام ہو۔

غلام اپنے آقا کا حکم مانتے ہیں۔

اس کی پیروی کرتے ہیں۔

اسے پتھر نہیں مارتے۔

جاؤ جاؤ یہاں سے چلے جاؤ۔

اور میں وہاں سے چلا آیا۔

جمرات سے ہم سیدھا مکہ جا رہے تھے۔ لہٰذا مکہ کے سائن کی پیروی کرتے ہوئے لوگوں کے ریلے میں شامل ہو گئے۔ جمرات سے بہت سی سڑکیں مختلف سمتوں میں نکلتی ہیں۔ مکہ کی طرف جانے والی شاہراہیں لوگوں سے بھری ہوئی تھیں۔ اس دفعہ ہمیں راہ میں کوئی بس نظر نہیں آئی لہٰذا پیدل ہی چلتے رہے۔ یہ شاہراہیں آگے جا کر سمٹتی اور شاخوں میں تقسیم ہوتی جا رہی تھیں۔ ہم سڑکوں پر لگے سائن بورڈ کو دیکھتے ہوئے بالآخر ایک ایسی سڑک پر پہنچ گئے جس پر بسیں ٹیکسیاں کاریں اور دوسری گاڑیاں ایک ہی سمت میں چلی جا رہی تھی۔ یہ وہ سمت تھی جس کی جانب رخ کر کے ہر مومن نماز ادا کرتا ہے۔ ان گاڑیوں کی منزل وہی تھی جو دنیا بھر کے اربوں مسلمانوں کا مرکز و محور ہے۔ ہم بھی ایک بس میں سوار ہو گئے۔ کنڈکٹر نے بیس ریال فی کس کے حساب سے چالیس ریال لئے اور ہمیں بس کے آخری حصے میں ایک سیٹ پر بٹھا دیا۔ سیٹ پر بیٹھتے ہی اس کی سیٹ کی پشت پیچھے کی طرف جھک گئی۔ میں نے اسے کھینچ کر سیدھا کیا۔ ٹیک لگا کر بیٹھا تو وہ پھر کسی سے راز و نیاز کرنے پیچھے کی طرف جھک گئی۔ میں نے جان لیا کہ اس میں کوئی خرابی ہے۔ میں اس پر ٹیک لگا کر نہیں بیٹھ سکتا۔ ورنہ پیچھے بیٹھے تینوں مسافروں کو تکلیف ہو گی۔ لہٰذا میں اگلی سیٹ پر سر ٹکا کر سو گیا۔ آدھ پون گھنٹے بعد آنکھ کھلی تو بس ابھی وہیں کھڑی تھی۔ اہلیہ نے بتایا سڑک پر ٹریفک اتنی زیادہ ہے کہ گاڑیاں اپنی جگہ سے ہل بھی نہیں رہیں۔ مجھے فکر ہوئی۔ اگر یہی حال رہا تو ہم شام تک خانہ کعبہ نہیں پہنچ پائیں گے۔ میں نے سوچا ہمیں ٹیکسی لینی چاہیے شاید وہ ہمیں جلدی پہنچا دے۔ میں نے کنڈکٹر کو بلوایا اور کرایہ واپس کرنے کے لیے کہا کہنے لگا ’’کیا مسئلہ ہے کیوں اترنا چاہتے ہو؟‘‘

میں نے ٹوٹی پھوٹی عربی میں کہا ’’جس رفتار سے آپ لوگ چل رہے ہیں اس طرح تو ہم بہت لیٹ ہو جائیں گے۔ ہم ٹیکسی لینا چاہتے

ہیں‘‘

اس نے باہر اشارہ کیا اور کہا ’’ٹیکسی بھی اسی رفتار سے جائے گی۔ پورے مکہ میں ٹریفک کی یہی حالت ہے‘‘

میں نے کہا ’’آپ کرایہ واپس کر دیں ہم کوئی بندوبست کر لیں گے‘‘

در اصل بس بالکل رکی ہوئی تھی۔ اس کا ایئر کنڈیشنر بھی صحیح کام نہیں کر رہا تھا اور سخت گرمی تھی۔ اس گرمی میں نہ جانے کتنے گھنٹے یوں گزارنے مشکل تھے۔ مجھے امید تھی کہ ٹیکسی والا شاید کوئی بہتر راستہ ڈھونڈ کر ہمیں جلدی پہنچا دے۔ بس کا کنڈکٹر غصے میں چلانے لگا ’’نہیں نہیں! کرایہ واپس نہیں ملے گا۔ اُترنا ہے تو اُتر جائیں۔ میں کرایہ واپس نہیں کروں گا‘‘

میں کھڑا ہو گیا لیکن اہلیہ نے ہاتھ تھام کر کہا ’’صبر کریں اور بیٹھے رہیں۔ اللہ بہتر کرے گا‘‘

دوران حج جب بھی گروپ کی سطح پر، حکومتی یا انفرادی سطح پر کوئی بد انتظامی یا مسئلہ سامنے آتا تو حاجیوں کو ایک ہی بات کہی جاتی ہے۔ ’’صبر کریں‘‘

یہ لفظ کبھی انتظامیہ کہتی ہے اور کبھی ہم ایک دوسرے سیکہتے ہیں۔ لہٰذا اس سفر میں ہر بد انتظامی اور ہر بد اخلاقی کے جواب میں صبر کرنا ہم اچھی طرح سیکھ گئے۔ کیونکہ اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔

اس وقت دن کے دو بجے تھے جب ہم بس میں سوار ہوئے۔ تین بجے تک بس وہیں کھڑی ہوئی تھی۔ بس اس کا انجن غرا رہا تھا۔ دھواں اگل کر ماحول کو مزید کثیف بنا رہا تھا۔ اس کے اندر بھی گرمی اور ڈیزل کی بو پھیلی ہوئی تھی۔ بس میں مختلف ملکوں سے آئے ہوئے زائرین صبر سے بیٹھے راستہ کھلنے کا انتظار کر رہے تھے۔

میرے پیچھے والی سیٹ پر سوڈان سے تعلق رکھنے والے سیاہ فام زائرین بیٹھے ہوئے تھے۔ خاتون نے تو حسب رواج برقعہ پہنا ہوا تھا۔ دونوں مرد سفید لباس کے اوپر بڑی بڑی سفید پگڑیوں میں پنجاب کے زمیندار لگ رہے تھے۔ میں نے بے خیالی میں اپنی سیٹ کی پشت پر وزن ڈالا تو وہ پیچھے کی طرف جھک گئی۔ بڑی پگڑی والے صاحب گرم ہو گئے اور سیٹ کو دھکے دینے لگے۔ وہ عربی میں کچھ کہہ رہے تھے جو میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ تاہم یہ ظاہر تھا کہ وہ میری سیٹ سے ناخوش تھے۔ میں نے معذرت کرتے ہوئے سیٹ کو سیدھا کر لیا۔ تھوڑی دیر بعد سیٹ پھر پیچھے کی طرف جھک کر پگڑی والے صاحب کے غضب کو آواز دینے لگی۔ اس دفعہ وہ کھڑے ہو کر زور زور سے چلانے لگے۔ کنڈکٹر آیا تو میں نے اسے بتایا ’’یہ سیٹ خراب ہے۔ بار بار پیچھے کی جانب لڑھک جاتی ہے‘‘

اس نے پگڑی والے صاحب کو عربی میں سمجھایا تو وہ ٹھنڈے ہوئے۔

ان کے ساتھ برقع میں ملبوس خاتون انہیں کچھ سمجھا رہی تھی۔ جس میں صبر، شکر، اللہ اور اجر کے الفاظ شامل تھے۔ اس خاتون کے سمجھانے سے یا ان کو یاد آ گیا کہ وہ حج کے لیے آئے ہوئے ہیں۔ وہ آگے جھکے اور مجھ سے معافی مانگنے لگے۔ انہیں اپنے رویے پر پشیمانی تھی۔ انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر چوم لیا اور پھر میری سیٹ کھینچ کر خود پیچھے کی اور کہنے لگے ’’النوم! النوم! یعنی سو جاؤ۔ سو جاؤ۔‘‘

وہ بار بار معافی مانگ رہے تھے اور میرا ہاتھ چوم رہے تھے۔ میں نے انہیں تسلی دی کہ میں ان سے ناراض نہیں ہوں۔ اس لیے پریشان نہ ہوں۔ لیکن وہ بار بار پشیمانی کا اظہار کرتے رہے اور معافیاں مانگتے رہے۔ حتیٰ کہ میں اپنی سیٹ سے اٹھا۔ انہیں بھی اٹھایا اور گلے لگایا تو پھر جا کر ان کی تسلی ہوئی۔ ہم دونوں کی آنکھیں آبدیدہ ہو گئیں۔

یہ اس شہر کا کمال تھا۔ اس شہر میں بنے اللہ کے گھر کا فیض تھا۔ اس گھر میں حاضری کا سرور تھا کہ لوگ پگھلے جا تے تھے۔ ہر طرف نرمی، محبت، بھائی چارے اور جذبہ قربانی کا راج تھا۔ اگر کسی بات پر غصہ آتا بھی تھا تو رب کی قربت کا،ا س کے گھر کا خیال آتا تو یہ غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ جاتا تھا۔

میرے مقابل والی سیٹ پر شلوار قمیص میں ملبوس ایک افغانی بزرگ تنہا سفر کر رہے تھے۔ یہ عمر رسید بزرگ بہت تھکے ہوئے اور گرمی سے بے حال لگ رہے تھے۔ میں نے بیگ سے پانی کی بوتل نکالی تو انہوں نے آب کہتے ہوئے ہاتھ آگے بڑھا دیا۔ میں نے وہ بوتل انہیں تھما دی۔ ہمارے پاس ایک چھوٹی بوتل رہ گئی تھی جس سے ہم نے اگلے چار گھنٹے گزارے۔ اس بزرگ سے اگلی سیٹ پر ایک سعودی نوجوان اپنی اہلیہ سمیت سفر کر رہا تھا۔ ایک جگہ پر جب ہماری بس ٹریفک میں رکی ہوئی تھی تو وہ بھاگ کر گیا اور سامنے والی دُکان سے ایک اور نج جوس کا ڈبہ اور ایک پانی کی بوتل لے کر آیا۔ بابا جی نے اس کی طرف بھی ہاتھ بڑھا دیا۔ اس نوجوان نے جوس کا ڈبہ بابا جی کو دے دیا اور پانی کی بوتل اہلیہ کو۔ بابا جی نے مزید دو مسافروں سے بھی پانی لے کر پیا۔ وہ پوچھتے نہیں تھے بلکہ آب کہہ کر ہاتھ آگے بڑھا دیتے تھے جس کا جواب سب نے مثبت انداز میں دیا اور اپنے حصے کا پانی بابا جی کو دے دیا۔

لوگوں کا جذبۂ اخوت اور جذبۂ قربانی تازہ تھا۔ وہ بخوشی اپنے حصے کا کھانا اور اپنے حصے کا پانی دوسروں کو دے دیتے تھے۔ دوسری طرف بابا جی کی پیاس تھی کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ لگتا تھا کڑھائی گوشت کھا کر بس میں بیٹھے ہیں۔ میں نے آنکھیں موندی ہوئی تھیں کبھی آنکھ لگ جاتی کبھی کھل جاتی۔ یہ جگہ سونے کے قابل نہیں تھی۔ لیکن نیند تو ہر جگہ آ جاتی ہے۔ میری اہلیہ ایسی جگہوں پر بالکل نہیں سو سکتی۔ لہٰذا اس کا سفر ہمیشہ سخت اور دشوارہوتا ہے۔ اس بس میں اس کی طبیعت کافی خراب تھی۔ وہ تو شکر ہے گرمی رش اور بدبو کے باوجود اسے قے نہیں آئی۔ ورنہ معاملہ مزید گھمبیر ہو جاتا۔

خدا خدا کر کے ہم چھ بجے کے قریب خانہ کعبہ کے قریب پہنچ گئے۔ جہاں ہمیں اتارا گیا وہاں سے خانہ کعبہ نظر نہیں آتا تھا۔ کافی دیر چلنے کے بعد وہ سیاہ پوش گھر ہمارے سامنے آ گیا جو ہماری منزل تھی۔ اس گھر کے لیے ہم نے طویل سفر کیا تھا۔ یہاں آنے کے لیے لمبا انتظار کیا تھا۔ اس گھر کو دیکھنے کی خواہش ہماری سب سے بڑی خواہش تھی۔ اس گھر میں اتنی کشش ہے کہ یہ آنکھوں میں کھب جاتا ہے۔ اس پر سے نظریں ہٹانا مشکل ہو جاتا ہے۔ ہم آج دوسری دفعہ یہاں آئے تو یوں لگا کہ صدیوں سے یہیں تھے۔ یہ گھر ہمارے دلوں میں بسا ہوا تھا۔ آج ہمارا دل اور ہماری آنکھیں ایک ہی منظر پر مرکوز تھے۔ آج ہم اس کا طواف کر رہے تھے۔ اس کے دیدار اور اس کے قرب سے جسم و جاں کو معطر کر رہے تھے۔

ہم نہ جانے کون سے گیٹ سے اندر داخل ہوئے کہ تیسری منزل والے مطاف پر پہنچ گئے۔ اُوپر سے نیچے کا منظر دیکھا تو وہاں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ شاید اسی وجہ سے ہمیں نیچے کئی گیٹ بند ملے تھے اور ہمیں اوپر کا راستہ دکھایا گیا تھا۔ درمیان والی منزل پر صرف ویل چیئرز والے زائرین طواف کرتے ہیں۔ سب سے اوپر والے مطاف کا فاصلہ سب سے طویل ہے۔ اگرچہ یہاں رش قدرے کم تھا لیکن یہاں ایک چکر میں تقریباً آدھا گھنٹہ لگ جاتا ہے۔ یوں طواف ختم کرنے کے لیے تقریباً تین گھنٹے درکار ہوتے ہیں۔ ہم نے وضو کر کے عصر کی نماز ادا کی اور اللہ کا نام لے کر طواف شروع کر دیا۔ اس اوپر والی منزل میں طواف میں یہ آسانی تھی کہ اس کے اوپر چھت ہے اور براہِ راست دھوپ نہیں پڑتی تھی۔ دوسرا فائدہ یہ تھا کہ یہاں رش قابل برداشت تھا۔ اگر ہم لوگوں کے ریلے سے ہٹ کر چلتے تو اپنی رفتار سے چل سکتے تھے۔ اتنی دھکم پیل بھی نہیں تھی۔ علاوہ ازیں ایک دوسرے سے بچھڑنے کا بھی خطرہ نہیں تھا۔ بس یہاں ایک ہی مسئلہ تھا کہ اس کا فاصلہ بہت زیادہ تھا۔

ہم نے حجر اسود کے سامنے جا کر اپنا طواف شروع کیا۔ واپس وہاں آنے تک آدھا گھنٹہ لگ گیا تھا۔

میں طواف کے دوران دعائیں مانگتا رہا۔ جتنا قرآن پاک یاد تھا پڑھتا رہا۔ جب عربی میں یاد کی ہوئی ساری دُعائیں اور سورتیں کئی دفعہ پڑھ لیں تو پھر اُردو میں دُعا مانگنی شروع کر دی۔ اس دُعا کا بہت مزا آیا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ براہ راست اللہ سے رابطہ قائم ہے۔ وہ دیکھ اور سن رہا ہے۔ میں نے اس کے گھر پر نظریں جمائی ہوئی تھیں۔ اس گھر کے گرد چکر لگا رہا تھا۔ اس گھر کے مکین سے براہ راست ہم کلام تھا۔ وہ مجھے

سن رہا تھا اور مسکرا رہا تھا۔ یہ مسکراہٹ مجھے دکھائی دینے لگی۔ جدھر دیکھتا تھا یہ مسکراہٹ مجھے نظر آتی تھی۔ زمین سے آسمان تک مسکراہٹ ہی مسکراہٹ تھی۔ میں نے جی بھر کر تسلی سے خانہ کعبہ دیکھا۔ اس کے مکین سے جی بھر کر باتیں ہوئیں۔ میں نے اپنا حالِ دل صاف صاف بیان کر دیا۔

من کے اندر پھیلی کالک دھونے آیا ہوں

تیرے گھر کے اندر تیرا ہونے آیا ہوں

نیکی کہاں میرے پاس میزان میں رکھنے کو

میں تو آنسو اور فریادیں ڈھونے آیا ہوں

طواف کے دوران ہم نے بوتلوں میں آب زم زم بھر لیا بلکہ بار بار بھرتے رہے اور پیتے رہے۔ حرم شریف میں آبِ زمزم جگہ جگہ پر با آسانی دستیاب ہے۔ یہ آب زم زم طاقت، توانائی اور تازگی جیسے عطا کرتا ہے۔ جتنا جی چاہے پیتے جائیں۔ نہ صرف یہ آسانی سے ہضم ہو جاتا ہے بلکہ جو کچھ کھایا پیا ہو اُسے بھی ہضم کرنے میں مدد دیتا ہے۔ گرمی کا زور کم کر دیتا ہے۔ انسان کے اندر ویسے ہی انرجی آ جاتی ہے جو کافی یا انرجی ڈرنک پینے سے آتی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ کافی یا انرجی ڈرنک ایک خاص مقدار سے زائد پی لیں تو موت کا سامان بن سکتے ہیں جب کہ آبِ زمزم جتنا پی لو یہ صرف شفا دیتا ہے۔ اسے پینے سے ذہنی جسمانی اور روحانی بالیدگی حاصل ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس سدا بہار معجزے پر دل عش عش کر اٹھتا ہے۔

ہم ہرچکر کے بعد حجر اسود کے اوپر جلتی ہوئی روشنی کے سامنے رُکتے۔ دونوں ہاتھ بلند کر کے اللہ اکبر کہتے اور نیا چکر شروع کر دیتے۔ ابھی صرف چار چکر ہی مکمل ہوئے تھے کہ مغرب کی اذان ہو گئی۔ نماز شروع ہوئی تو طواف کرنے والے جہاں موجود تھے وہیں قبلہ رخ ہو گئے۔ سب کا رخ مطاف کے مرکز میں واقع خانہ کعبہ کی طرف ہو گیا۔ یہ بھی عجیب منظر تھا۔ ساری زندگی نمازیوں کو ایک رخ کر کے نماز پڑھتے دیکھا تھا۔ وہ سمت ظاہر ہے خانہ کعبہ کی ہوتی تھی۔ اب جب کہ ہم خانہ کعبہ کے چاروں طرف کھڑے تھے تو نمازیوں کا رخ ایک طرف نہیں بلکہ چاروں طرف تھا۔ جو شمال کی طرف تھے ان کا رخ جنوب کی طرف تھا۔ اسی طرح مغرب اور جنوب والوں کا رخ مخالف سمت کی طرف تھا۔ چاروں طرف کھڑے نمازیوں کا رخ ایک دوسرے کی طرف تھا۔ جو بالکل انوکھا منظر تھا۔ فرق صرف یہ تھا کہ خانہ کعبہ ان سب کے درمیان اور مرکز میں موجود تھا۔ زمین پر اللہ کایہ پہلا گھر جو دنیا بھر کے مسلمانوں کا محور و مرکز ہے وہ جدید تحقیق کے مطابق کرّہِ ارض کا بھی مرکز ہے۔

مسلمان جہاں بھی نماز ادا کرتا ہے پہلے یہ یقین کرتا ہے کہ اس کا رخ اللہ کے اس گھر کی طرف ہے۔ اس کے لیے وہ پرانے زمانے کے آزمودہ طریقوں سے لے کر آج کے جدید قطب نماجو موبائل فونوں میں بھی موجود ہیں استعمال کرتا ہے۔ اسے جب تک یہ تسلی نہیں ہو جاتی کہ وہ قبلہ رو ہے وہ نماز شروع نہیں کرتا۔ جنگل ہو یا پہاڑ، خشکی ہو یا سمندر، گھر پر ہو یا باہر، عمارت ہو یا میدان، مسلمان ہر جگہ اللہ کے اس گھر کا رخ کر کے ہی رکوع و سجود کرتا ہے۔ یہ اللہ کے اس گھر کی فضیلت ہے۔ فضیلت والا یہ گھر ہماری نظروں کے سامنے تھا۔ ہمارے سجدوں اور رکوع کا خود گواہ تھا۔ نماز کا یہ مزا کہیں اور نہیں آئے گا۔ اس نماز اور ان سجدوں کا ذائقہ اور تسکین ہی الگ تھی۔ قیام، رکوع، سجود، درود، سلام، ان سب کا یہاں الگ ہی مزا تھا۔ سجدے میں جاؤ تو سر اٹھانے کو دل ہی نہیں چاہتا تھا۔ خانہ کعبہ نظروں کے سامنے ہو تو ایسے سجدے پر تو ہزاروں سجدے قربان کیے جا سکتے ہیں۔ یہ ایسا ہی سجدہ تھا جسے کبھی بھلایا نہیں جا سکتا۔ اس کی تسکین اور اس کا مزا آج تک میرے دل و دماغ میں نقش ہے۔ ویسے تو خانہ کعبہ میں پڑھی ہوئی ساری نمازیں، تلاوت قرآں، رکوع و سجود، اذان کی آواز اور وہاں گزرا ہوا ایک ایک لمحہ میری زندگی کے حسین ترین لمحات میں سے ہیں۔ یہ لمحات میرا اثاثہ ہیں۔ ان لمحات نے میری زندگی میں رنگ اور خوشبو بھر دی ہے۔ یہ رنگ اور یہ خوشبو میری آخرت کا بھی توشہ ہے اور میری دنیا بھی اسی سے رنگین ہے۔

سات چکر مکمل ہوئے تو ہم نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ بیٹھ کر تسلی سے آب زمزم پیا تو اس وقت محسوس ہوا کہ ہماری ٹانگیں ٹخنوں کے اُوپر سے سوج چکی ہیں۔ اُن میں درد بھی ہو رہا تھا۔ یہ اللہ کے گھر کی برکت تھی، احساس فرض تھا یا ماحول کا اثر تھا کہ اس درد کی وجہ سے ہمارا طواف متاثر نہیں ہوا۔ یہ طواف مکمل ہونے میں تین گھنٹے لگ گئے تھے۔ ان تین گھنٹوں میں ہماری رفتار کم نہیں ہوئی۔ بلکہ اللہ کے فضل سے ایک ہی رفتار سے چلتے رہے۔ اس سے پہلے صبح جمرات سے عزیزیہ تک بھی پیدل چل کر آئے تھے۔ تین چار گھنٹے بس کے دھکے کھائے تھے۔ اس بھاگ دوڑ سے تھک کر چور ہو چکے تھے۔ دل یہ چاہتا تھا کہ وہیں کہیں پڑھ کر سو جائیں لیکن ابھی سفر باقی تھا۔ ابھی ہم نے سعی کرنا تھی۔ اس کے بعد عزیزیہ واپس جانا تھا۔

لہذا ہم بلا توقف صفا اور مروہ کی طرف چل پڑے۔ اب ہماری رفتار پہلے سے بھی بڑھ چکی تھی۔ ایسے لگتا تھا کہ ہمارے جسم میں نئی توانائی آ گئی ہے۔ پتا ہی نہیں چلا اور ہم نے صفا اور مروہ کے درمیان سات چکر مکمل کر لئے۔ اس کے لئے ہم ڈیڑھ گھنٹہ مسلسل چلے تھے۔ آج ہم مجموعی طور پر سات آٹھ گھنٹے سے کم نہیں چلے تھے۔

سعی کے بعد باہر نکلے تو یاد آیا صبح سویرے ہلکے پھلکے ناشتے کے بعد سارا دن ہم نے کچھ بھی نہیں کھایا تھا۔ اس دوران صرف پانی سے ہی کام چلتا رہا۔ اس بھاگ دوڑ میں کھانے کا وقت ہی نہیں ملا۔ اب اللہ کے فضل سے حج کی آخری شرط بھی پوری ہو گئی تھی۔ اگرچہ ہم بہت زیادہ تھک چکے تھے۔ لیکن ایک احساس طمانیت اور احساس مسرت تھا کہ ہمارا حج پایہ تکمیل تک پہنچ گیا ہے۔

اس احساس طمانیت کے ساتھ ہی بھوک بھی جاگ اٹھی تھی۔ جب ہم خانہ کعبہ کی حدود سے باہر نکلے تو رات کے گیارہ بج چکے تھے۔ اکثر دکانیں بند ہو چکی تھیں۔ چند ایک کھلی ہوئی تھیں۔ میں کوئی ریستوران یا پاکستانی تنور ڈھونڈ رہا تھا۔ ترجیح یہ تھی کہ کوئی ایسا ریستوران مل جائے جس کے اندر بیٹھ کر کھانا کھانے کی جگہ ہو۔ دوسری طرف عزیزیہ جانے کی بھی فکر تھی۔ ہمیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ عزیزیہ یہاں سے کتنا دور ہے اور رات کے اس وقت وہاں جانے کے لیے کس قسم کی ٹرانسپورٹ دستیاب ہے۔ یکدم مجھے خیال آیا کہ سعودی کرنسی بھی ہمارے پاس ختم ہو چکی ہے۔ اس کے بغیر نہ ہم کھانا خرید سکتے تھے اور نہ ٹیکسی لے سکتے تھے۔ لہٰذا منی ایکس چینج والے کی تلاش میں چل پڑے۔ دو دفاتر نظر آئے جو بند ہو چکے تھے۔ خوش قسمتی سے ایک دفتر کھلا ہوا مل گیا۔ حسب معمول وہاں بہت ہجوم تھا لیکن اب ہم عادی ہو چکے تھے۔ وہاں سے میں نے آسٹریلین ڈالرز کو سعودی ریالوں میں تبدیل کرایا۔ اس دوران ہم نے کئی ریستوران بھی دیکھے لیکن وہ پسند نہیں آئے۔ ہم

بہتر ریستوران کی تلاش میں آگے سے آگے چلتے گئے۔ ایسا ریستوران تو نظر نہیں آیا لیکن ہم بازار سے باہر بڑی سڑک پر ضرور پہنچ گئے۔ اہلیہ اتنی تھکی ہوئی تھی کہ اس نے کھانے سے ہی معذوری ظاہر کر دی۔ اسے اپنی ٹانگوں پر کھڑا ہونا مشکل ہو رہا تھا۔

مجبوراً میں نے ریستوران کے بجائے ٹیکسی کی تلاش شروع کر دی۔ دو ٹیکسی ڈرائیوروں سے پوچھا۔ ایک نے چار سوریال اور دوسرے نے تین سو ریال مانگے۔ ظاہر ہے یہ کھلی لوٹ تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہاں بہت سے لوگ ٹیکسی کو تلاش میں بھٹک رہے تھے۔ بالآخر ایک کار ڈرائیور نے عزیزیہ کی آواز لگائی۔ میں اس کے پاس گیا تو دیکھا کہ کار میں دو سواریاں پہلے سے موجود ہیں۔ اسے دو مزید سواریاں درکار تھیں۔ اس نے سو ریال فی سواری کے حساب سے دو سو ریال طلب کیے تو ہم اس ٹیکسی میں بیٹھ گئے۔

چلنے سے پہلے میں نے ڈرائیور کو ہوٹل کا نام بتایا اور کہا کہ ہمیں ہوٹل کے آگے اُتارنا ہے کیونکہ ہم اس علاقے سے اچھی طرح واقف نہیں ہیں۔ یہ عربی ڈرائیور اُردو جانتا تھا۔ کہنے لگا ’’آپ فکر نہ کریں میں آپ کو وہیں اتاروں گا‘‘

صبح بس سے مکہ جاتے ہوئے ہمیں چار گھنٹے لگ گئے تھے۔ اس لیے ہمیں غلط فہمی تھی کہ عزیزیہ سے مکہ کافی دور ہے۔ رات کے وقت ٹریفک بہت کم تھی اور ڈرائیور بہت تیز تھا۔ صرف بارہ منٹ بعد اس نے گاڑی روکی اور بولا ’’یہاں سے آپ کا ہوٹل قریب ہی ہے۔ آپ یہاں اُتر جائیں‘‘

میں نے ارد گرد نظر دوڑائی تو ہوٹل کے کوئی آثار نہیں آئے۔ میں نے پوچھا ’’کہاں ہے ہوٹل؟‘‘

’’آپ سڑک پار کر کے ادھر جائیں۔ دائیں مڑیں اور وہاں سے تیسری گلی میں مڑ جائیں۔ اس گلی میں چلتے جائیں تو ایک سٹرک پر پہنچ جائیں گے۔ اس سڑک پر دائیں مڑیں تو آپ کا ہوٹل سامنے ہی ہے‘‘

میں نے کہا ’’مجھے بالکل سمجھ نہیں آئی نہ ہم یہاں اتریں گے۔ آپ ہمیں ہوٹل اتار کر آئیں۔ آپ نے یہی وعدہ کیا تھا‘‘

ڈرائیور اکڑ گیا ’’میں ادھر گلی میں نہیں جا سکتا۔ آپ لوگ یہیں اتر جائیں۔‘‘

میں نے کہا ’’دیکھیں ہم یہاں غیر ملکی ہیں اور حج کرنے آئے ہیں۔ آپ کا منہ مانگا کرایہ دے رہے ہیں۔ آپ کا فرض ہے کہ آپ ہمیں ہماری منزل تک پہنچائیں۔ آپ اس طرح ہمیں راستے میں نہیں اُتار سکتے‘‘

ڈرائیور پر کوئی اثر نہیں ہو۔ وہ اسی طرح اسٹیرنگ پر سر رکھ کر بیٹھا رہا اور کہنے لگا ’’ہم سیدھا آگے جا رہے ہیں اگر آپ نہیں اُترے تو میں گاڑی چلا دوں گا‘‘

’’میں پولیس میں شکایت کروں گا۔۔ ۔‘‘ میں کہہ ہی رہا تھا کہ اہلیہ نے روک دیا۔ کہنے لگی ’’چلیں اُتر جاتے ہیں۔ اللہ مدد کرے گا‘‘

ظاہر ہے وہ جھگڑے سے بچنا بلکہ مجھے بچانا چاہ رہی تھی۔ میں بھی جھگڑا نہیں چاہتا تھا۔ لیکن غصہ بہت آیا۔ پندرہ منٹ کی مسافت کے دو سو ریال لوٹ کے زمرے میں آتے تھے۔ اس کے باوجود بھی وہ ہمیں منزل پر پہچانے کے بجائے راستے میں دھکا دے رہا تھا۔ اُوپر سے دھمکیاں بھی دے رہا تھا۔ ناچار میں نے دو سو ریال اس کی طرف پھینکے اور نیچے اُتر آیا۔ اس نے دو سو ریال پکڑے اور یہ جا وہ جا۔ اگر وہ آسٹریلیا جیسے ملک میں ایسا کرتا تو اس کا لائسنس بھی منسوخ ہو سکتا تھا اور جیل بھی جا سکتا تھا۔

ہم وہ شاہراہ پار کر کے دوسری طرف پہنچ گئے۔ وہاں سے دائیں مڑے اور ڈرائیور کی ہدایت کے مطابق تیسری گلی میں داخل ہو گئے۔ چلتے چلتے ایک اور سڑک پر نکل آئے۔ وہاں ہمارا ہوٹل نہیں تھا۔ تاہم وہاں ایک شاپنگ سنٹر نظر آیا۔ اسے دیکھ کر مجھے یاد آیا کہ کل حج والے دن ہم یہاں آئے تھے۔ شاپنگ سنٹر سے ملحق ایک گلی پیچھے کی طرف جاتی تھی۔ اس گلی میں جا کر پہلے بائیں اور پھر دائیں مڑیں تو سامنے سڑک آتی ہے۔ جس پر ہمارا ہوٹل واقع ہے۔ رات کے اس پہر مجھے سو فیصد یقین تو نہیں تھا۔ تاہم ہم اندازے سے آگے بڑھتے رہے۔ آخر ہم اس سٹرک پر نکل آئے جس کے سامنے پہاڑ تھا اور جمرات جانے والی بسوں کا اڈہ تھا۔ دائیں مڑتے ہی چند گز کے فاصلے پر ہمارا ہوٹل واقع تھا۔

ہم نے خدا کا شکر ادا کیا۔ اہلیہ کو کمرے میں چھوڑ کر میں کھانا لانے کے لیے باہر جانا چاہتا تھا لیکن اس نے منع کر دیا۔ وہ اتنی تھکی ہوئی تھی کہ بمشکل اپنی ٹانگوں پر کھڑی تھی۔ ورنہ اتھرائٹس کی مریض ہونے اور ٹانگوں میں شدید درد ہونے کے باوجود تقریباً سارا دن چلنا آسان نہیں تھا۔ اس کی حالت اتنی ابتر تھی کہ وہ فوراً سونا چاہتی تھی۔ ظاہر ہے میں بھی اتنا ہی تھکا ہوا تھا۔ میں نے بھی کھانے کا ارادہ ملتوی کر دیا اور بستر پر جا گرا۔ اس وقت یہ ٹھنڈا کمرہ اور آرام دہ بستر دنیا کی سب سے بڑی نعمت محسوس ہوئی۔ خالی پیٹ ہونے کے باوجود ہم کسی نہ کسی طرح سو ہی گئے۔

صبح نماز فجر کے بعد میں کھانے کی تلاش میں نکل پڑا۔ ادھر ادھر گھومنے کے بعد میری تلاش ایک پاکستانی تنور پر جا کر ختم ہوئی۔ وہاں سے میں نے دو ترکاریاں اور گرم نان لیے اور ہوٹل آ کر تسلی سے ناشتہ کیا۔

دوپہر تک ہمارے دوسرے ساتھی بھی آ گئے۔ ان کے آنے سے ہوٹل ایک دم بھر گیا۔ ہر طرف رونق ہی رونق ہو گئی۔ ہر شخص خوش دکھائی دیتا تھا۔ اس مسرت اور شادمانی کی وجہ یہ تھی کہ حج جیسی اہم اور مشکل عبادت کامیابی سے پایہ تکمیل تک پہنچ گئی تھی۔ کچھ حاجیوں کا طوافِ زیارت ابھی باقی تھا۔ جو اگلے چند دنوں میں کیا جا سکتا تھا۔ ہماری طرح کئی حاجیوں نے یہ فریضہ پہلے ہی سرانجام دے دیا تھا۔ آج کے بعد جو وقت حجاز مقدس میں باقی تھا وہ عبادت میں اور اللہ کے گھر میں بسر کرنا تھا۔

حج کا فریضہ الحمد للہ پایہ تکمیل تک پہنچ گیا تھا۔ اس پر اللہ کا جتنا شکر ادا کریں وہ کم تھا۔ یہ اس کی دی ہوئی توفیق اور ہمت تھی جس کی وجہ سے ہم یہاں تک پہنچ پائے تھے۔ اس کا اذن نہ ہوتا تو یہاں تک پہنچنا ہی ممکن تھا۔ پھر حج جیسی عبادت تمام مناسک اور شرائط کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق اسی نے دی تھی۔ اس کی قدرت کے آگے انسان کی کیا بساط ہے۔ یہ سب اس کا کرم تھا۔ اس کی مہربانی تھی۔ ورنہ ہم کیا اور ہماری حیثیت کیا تھی۔ ہم جیسے کتنے دِل میں یہ حسرت لے کر مر جاتے ہیں۔ اے اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے۔


بیت اللہ کی کشش



عزیزیہ میں ہمارے ہوٹل کے تہہ خانے میں با جماعت نماز کا بندوبست تھا۔ سب لوگوں کی آمد پر ہمیں وقت پر ناشتہ اور کھانا بھی ملنے لگا۔ ہماری شدید خواہش تھی کہ ہمیں جلد از جلد مکہ مکرمہ کے ہوٹل میں شفٹ کیا جائے۔ جہاں ہم اپنی نمازیں ہوٹل میں نہیں بلکہ خانہ کعبہ میں ادا کر سکیں۔ اللہ کے اس مقدس ترین گھر میں ادا کر سکیں جو اس کے برگزیدہ پیغمبر حضرت ابراہیمؑ نے بنایا تھا۔ جو ہمارے نبی پاکﷺ کا کعبہ تھا۔ جہاں آپ نے سجدے کیے تھے۔ طواف کیے تھے اور اپنے ہاتھوں سے حجر اسود نصب کیا تھا۔ یہ سیاہ پوش گھر ہمیں بلاتا رہتا تھا۔ جی چاہتا تھا اس گھرکے سامنے بیٹھ کرا سے دیکھتے رہیں۔ اس کے مکین کو دیکھتے رہیں۔ وہ بھی کیا لمحات ہوتے ہیں جب آپ اس سیاہ پوش گھر کو اور اس کے مکین کو دیکھتے ہیں۔ وہ آپ کو دیکھتا اور مسکراتا ہے اور یہ مسکراہٹ زمین سے آسمان تک پھیل جاتی ہے۔ پوری کائنات مسکرانے لگتی ہے۔ یہ اس چھوٹے سے سیاہ پوش گھر کا کمال ہے کہ وہ دیکھنے والے کو اپنا اسیر کر لیتا ہے۔ ایسا اسیر کر لیتا ہے کہ ہزاروں میل دور جانے کے بعد بھی یہ آپ کے دل میں گھر بنائے رکھتا ہے۔ آپ کو بلاتا رہتا ہے۔ خود کو بھولنے نہیں دیتا۔ جتنا وقت گزرتا جاتا ہے اس کی دید کی خواہش بڑھتی جاتی ہے۔ ا س کی طلب فزوں تر ہوتی جاتی ہے۔ دل کرتا ہے کہ پر لگ جائیں اور اڑ کر اس گھر تک پہنچ جاؤں۔ پھر وہ گھر ہو اور میری آنکھیں۔ بیچ میں کوئی حائل نہ ہو۔ یوں ہی زندگی تمام ہو جائے۔ یہ گھر سامنے ہو تو دیکھنے والے کو کسی اور منظر کی حاجت نہیں رہتی۔ وہ ساری زندگی اس ایک منظر کے سہارے گزار سکتا ہے۔ کیونکہ اس منظر میں ہزاروں منظر چھپے ہیں۔ اس منظر میں وہ خود بھی چھپا ہے جو اس منظر کا خالق ہے۔ یہ منظر دیکھنے والے کو کسی اور ہی دنیا میں لے جاتا ہے۔

اس لیے ہم لبیک والوں سے اصرار کر رہے تھے کہ اتنے قریب رہ کر ہمیں اس مقام خاص سے دور نہ رکھیں۔ ہمیں وہاں لے چلیں جہاں ایک ایک نماز، ایک ایک سجدہ اور ایک ایک دعا اتنی تاثیر رکھتی ہے کہ اس کا متبادل کچھ نہیں ہے۔ نہ صرف ان نمازوں اور ان عبادتوں کا بے شمار اجر ہے، اس میں سکون اور مسرت کا بے پایاں احساس بھی ہے۔


قیامِ مکہ



ہر ٹریول ایجنسی کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ مکہ مکرمہ کے مہنگے ہوٹلوں کا کرایہ کم سے کم دنوں کا ادا کرنا پڑے اور حاجیوں کو عزیزیہ جیسی جگہ رکھ کر پیسے بچائے جائیں۔ ان کے پیکج اور اشتہاروں میں صرف بڑے ہوٹل ہی دکھائے جاتے ہیں۔ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور ہوتے ہیں۔

عزیزیہ میں دو راتیں گزارنے کے بعد اگلی صبح بسیں ہمیں لینے کے لیے ہوٹل کے سامنے موجود تھیں۔ ہم نے عزیزیہ میں اپنے ہوٹل اور اس کے سامنے اس پہاڑ پر بھی الوداعی نظر ڈالی۔ یہ سارا علاقہ انتہائی اہم اور تاریخی ہے۔ منیٰ میں جہاں تین شیطانوں کے مجسمے ہیں یہ وہ جگہ ہے جہاں حضرت ابراہیمؑ اپنے فرزند حضرت اسماعیلؑ کی قربانی کرنا چاہتے تھے۔ شیطان نے ان کو بہت ورغلانے کی بہت کوشش کی کہ اپنے بیٹے کے بجائے دنبے کی قربانی دے دو۔ جب حضرت ابراہیمؑ نے اس کی بات نہیں مانی تو پھر اس نے حضرت اسماعیلؑ کو بہکانے کی کوشش کی کہ تمہارے باپ کا دماغ خراب ہو گیا ہے۔ وہ تمہیں ذبح کرنا چاہتا ہے تم اس سے جان چھڑا کر بھاگ جاؤ۔ دونوں پیغمبروں نے شیطان پر لعنت بھیجی اور اللہ کا حکم بجا لانے کے لیے تیار ہو گئے۔ بعد میں اللہ تعالیٰ نے خود ہی حضرت اسماعیلؑ کو بچا لیا اور ان دونوں باپ بیٹے کی فرمانبرداری کو اتنا پسند کیا کہ قربانی کی یہ سنت ہمیشہ کے لیے عام کر دی اور ان شیطانوں کو ہمیشہ کے لیے لعنت کا نشانہ بنا دیا۔

منیٰ میں ہمارے دو حاجیوں کے درمیان جھگڑا ہوا تھا اور پولیس آ گئی تھی۔ یہ جگہ جہاں اللہ اور اس کے برگزیدہ پیغمبروں کو مرغوب ہے وہاں شیطان کو بھی پسند ہے۔ وہ بھی اس جگہ پر پھیلانے کی خوب کوشش کرتا ہے۔ ایک طرف توبہ استغفار کے دروازے کھلے ہوتے ہیں۔

گناہوں کی معافی مانگی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے اس کی رحمت اور مغفرت طلب کی جاتی ہے۔ دوسری طرف شیطان کے سینے پر سانپ لوٹ رہے ہوتے ہیں۔ وہ کب یہ چاہتا ہے کہ لوگ گناہوں کی دلدل سے باہر نکل جائیں۔ ان کے دلوں پر گناہوں کی سیاہی کے بجائے ایمان کی روشنی آ جائے۔ جہاں اللہ تعالیٰ اپنی رحمتوں کی بارش برساتا ہے اور اپنے بندوں کو دوزخ کی آگ سے دور لے جاتا ہے وہاں شیطان اپنی محنت کو ضائع ہوتے دیکھ کر بہت سٹپٹاتا ہے۔ وہ انہیں ورغلانے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگا دیتا ہے۔ یہ پورا علاقہ جس میں منیٰ، مزدلفہ، عرفات اور جمرات واقع ہیں یہ سب اللہ اور شیطان کے درمیان کشمکش والے علاقے ہیں۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ یہاں شیطان کو ہمیشہ منہ کی کھانا پڑی ہے۔ یہاں اللہ نے اس کو بری طرح رسوا کیا ہے اور اپنے بندوں کے لیے رحمتوں برکتوں اور اپنی محبتوں کے دروازے کھول دیے ہیں۔ گناہ گاروں کے گناہ معاف کر کے انہیں اپنے سایہ رحمت میں پناہ دی ہے۔ یہاں آنے والوں اور توبہ استغفار کرنے والوں کو شیطان کے شر سے بچا کر اپنے دامنِ رحمت و عفو میں جگہ دی ہے۔ ان کے لیے جنت کے دروازے کھول دیے ہیں۔

آج بھی مکہ جانے والی سٹرکیں اتنی ہی مصروف تھی۔ آج بھی ہر گاڑی کا رخ خانہ کعبہ ہی کی جانب تھا۔ لیکن آج ہمارے اُوپر کوئی دباؤ نہیں تھا۔ جلدی پہنچنے کی اتنی فکر نہیں تھی جتنی 12 ذو الحج والے دن تھی۔

ہم ہوٹل کے سامنے اُترے تو ظہر کی نماز کا وقت ہوا چاہتا تھا۔ اس لیے ہم ہوٹل کے بجائے سیدھے خانہ کعبہ کی جانب چل دیے۔ لیکن وہاں پہنچنا اتنا آسان نہیں تھا۔ سڑک لوگوں سے بھری ہوئی تھی۔ کچھ حرم کی طرف جا رہے تھے۔ کچھ راہ میں کھڑے تھے اور کچھ واپس بھی آ رہے تھے۔ ہجوم کی وجہ سے ایک ایک قدم اٹھانا مشکل ہو رہا تھا۔ ابھی ہم راستے میں تھے کہ نماز کا وقت ہو گیا اور جماعت کھڑی ہو گئی۔ یہ جماعت صرف خانہ کعبہ میں موجود نمازیوں پر مشتمل نہیں تھی بلکہ خانہ کعبہ کے گرد و نواح کی تمام سڑکیں، دکانیں، فٹ پاتھ ہر جگہ نمازی اس جماعت میں شامل تھے۔ امام کی آواز دور دور تک سنائی دے رہی تھی اور نمازی حرم کے امام کے ساتھ ساتھ رکوع و سجود کر رہے تھے۔

سڑک اور فٹ پاتھ دوپہر کی تپتی دھوپ میں آگ کی طرح تپ رہے تھے۔ اس تپتی سڑک اور فٹ پاتھ پر لوگ اس انہماک سے کھڑے تھے جیسے ایئر کنڈیشنڈ کمرے میں اور قالین پر کھڑے ہوں۔ اس وقت اندر اور باہر کے نمازیوں کے انہماک میں کوئی فرق نہیں تھا۔ اللہ اللہ یہ بھی کیا حسین منظر تھا۔

اگلے کئی دن ہماری نمازیں اسی طرح کبھی حرم کے صحن میں، کبھی راہ میں، کبھی سڑک پر اور کبھی فٹ پاتھ پر ادا ہوئیں۔ اس لیے ہم ہمیشہ وضو کر کے گھر سے نکلتے تھے اور جائے نماز اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ جہاں راستہ بند ہوا اور نماز شروع ہوئی وہیں سے ہماری مسجد شروع ہو جاتی تھی۔

حج کے دنوں میں خانہ کعبہ بلکہ ارد گرد کا سارا علاقہ لوگوں سے بھرا نظر آتا ہے۔ کوئی سڑک، کوئی فٹ پاتھ، کوئی دکان، کوئی کیفے ایسا نہیں تھا جہاں جمگھٹا نہ لگا ہو۔ میں حرم سے ملحق مکہ ٹاور کی دکانوں اور ریستورانوں میں گھومتا رہا۔ وہاں بھی ہر دکان اور کیفے لوگوں سے بھری ہوتی تھی۔ کہیں بیٹھنے کی یا سکون سے کھڑے ہونے کی جگہ نہیں ملتی تھی۔ شاپنگ مال کے اندر بھی کہیں بیٹھنے کی جگہ نظر نہیں آئی۔ دکانوں کے اندر دکاندار اور گاہک دونوں کھڑے نظر آئے۔ ان ہی دکانوں کے درمیان ہمیں گلوریا جین (بین الاقوامی کافی شاپ) نظر آیا۔ وہاں کرسیاں اور میز لگے ہوئے تھے۔ ہمیں سستانے کا ایک ٹھکانہ مل گیا۔ جب نمازوں سے فرصت ہوتی اور کمرے میں جانے کا جی نہ چاہتا تو یہیں آ کر بیٹھتے تھے۔ کئی دفعہ کافی کی طلب نہیں ہوتی تھی لیکن وہاں بیٹھنے کے لالچ میں پینا پڑتی تھی۔ ہم وہاں بیٹھ کر کافی بھی پیتے اور دنیا بھر سے آئے ہوئے زائرین کو بھی دیکھتے رہتے تھے۔

سعودی عرب میں میرے کالج کے زمانے کے کچھ دوست تھے۔ کالج سے نکلنے کے بعد ہم ایسے بچھڑے کہ پچیس چھبیس برس تک رابطہ نہ ہو سکا۔ حالانکہ کالج کے زمانے میں ہماری دوستیاں ایسی ہوتی تھیں کہ ایک دن بھی الگ رہنا دشوار لگتا تھا۔ زندگی کی دوڑ میں جذبات، رشتے ناتے، دوستیاں، شوق اور محبتیں تک حالات اور واقعات کی نذر ہو جاتی ہیں۔ وقت مرہم بھی ہے اور جراح بھی۔ خود ہی زخم دیتا ہے اور خود ہی اسے سیتا ہے۔ یہ وقت ہی ہے جو محبتوں کی مالا بن کر زندگی کو حسین بناتا ہے۔ جب یہ وقت بدلتا ہے تو اس مالا کا ہر موتی بکھر کر وقت کی گردمیں گم ہو جاتا ہے۔

ایک دوست کے بھائی سے سڈنی میں اچانک ملاقات ہوئی تو اس کے ذریعے دوسروں سے بھی رابطہ ہو گیا۔ جب میں حج پر گیا تو ان دوستوں میں سے ایک ملک محمد اعجاز نے جدہ سے مکہ مکرمہ آ کر ہم سے ملاقات کی۔ دوسرے دوستوں میں سے کچھ بہت دور مقیم تھے اور ایک چھٹیوں پر پاکستان گیا ہوا تھا۔ مکہ سے سب سے قریب ملک اعجاز ہی تھا جو جدہ میں رہائش پذیر ہے۔ ایک صبح ملک اعجاز اپنی اہلیہ کے ہمراہ ہمارے ہوٹل پہنچ گیا۔ 1987 میں جب ہم ایک دوسرے سے الگ ہوئے تھے تو ہم دونوں کی عمریں چھبیس برس تھیں۔ 2013 میں جب ہماری اگلی ملاقات ہوئی چھبیس مزید برس گزر چکے تھے اور ہم اپنی عمر کی نصف سنچریاں سکور کر چکے تھے۔ چھبیس سال قبل ہم نوجوان تھے مستقبل بنانے کی فکرمیں رہتے تھے۔ اسی سلسلے میں ملک اعجاز وزارت دفاع قطر اور میں وزارت دفاع عمان میں بھرتی ہو کر دو مختلف ملکوں میں چلے گئے۔ میں عمان سے آسٹریلیا آ گیا اور ملک اعجاز چندبرس بعد قطر سے پاکستان اور پھر سعودی عرب چلا گیا جہاں وہ اب بھی مقیم ہے۔ میں پہلی دفعہ بھابھی سے ملا تو بہت متاثر ہوا۔ وہ بہت اچھی خاتون ہیں۔ بدقسمتی سے ان کے ہاں اولاد نہیں ہے۔ تاہم دونوں میاں بیوی اولاد نہ ہونے کے باوجود خوش رہتے ہیں۔ ملک اعجاز انتہائی ہنس مکھ، خوش اخلاق اور خوش لباس ہے۔ جس محفل میں وہ موجود ہو وہاں کوئی بور نہیں ہوتا۔ چکوال کے علاقے کی مخصوص زبان بولتا ہے جس میں ساری زندگی تبدیلی نہیں آئی۔ جیسا خوش باش وہ کالج کے دنوں میں ہوتا تھا ویسا ہی اب بھی ہے۔ وقت نے اس شخص کا کچھ نہیں بگاڑا تھا۔

ہوٹل کے دروازے پر دیکھتے ہی میں نے اُسے پہچان لیا۔ قدرے فربہ ہونے کے باوجود اس کی شکل و شباہت میں زیادہ تبدیلی نہیں آئی تھی۔ جب گفتگو ہوئی تو اندازہ ہوا کہ اس کے کھلبلے پن، شرارت اور حسِ مزاح میں بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ وہ ویسا ہی ہنس مکھ، یار باش اور دریا دل ملک اعجاز تھا۔ یہ صبح کا وقت تھا۔ ہم نے بھابھی کو اوپر کمرے میں میرے اہلیہ کے پاس پہنچا دیا اور خود ایک اور ہم جماعت سیملنے مکّہ ٹاور کی طرف چل دیے۔

سلیم احمد بھی ہماراہم جماعت اور بہت اچھا دوست تھا۔ ہر وقت مسکرانے والا خاموش طبع سلیم احمد اساتذہ سمیت ہم سب کا پسندیدہ تھا۔ کسی نے اُ سے اونچی آواز میں بولتے نہیں سنا۔ اپنے نام کی طرح سلیم الطبع شخصیت کا مالک سلیم اس وقت سعودیہ میں بہت اچھے کاروبار کا مالک تھا۔ وہ سارا دن سونے سے کھیلتا تھا کیونکہ اس کی سونے کی دُکانیں تھی۔ یہ دکانیں سعودیہ کی سب سے بڑی عمارت اور سب سے مصروف جگہ مکہ ٹاور کے اندر تھیں۔ وہاں سلیم احمد کی ایک دو نہیں بلکہ پانچ دکانیں تھیں جسے وہ خود اور اس کے بھائی سنبھالتے تھے۔

ہماری ملاقات سلیم کے بھائی سے ہوئی۔ اس نے بتایا ’’بھائی گھر گیا ہے۔ میں فون کرتا ہوں ابھی آ جائے گا‘‘

اس نے سلیم کو فون کر کے ہمارے بارے میں بتا دیا۔ میں سلیم کے چھوٹے بھائی کو دیکھ رہا تھا جس نے لمبی داڑھی رکھی ہوئی تھی۔ سفید داڑھی میں وہ اچھا خاصا بزرگ لگ رہا تھا۔ تھوڑی دیر میں سلیم احمد پہنچ گیا۔ اس کو پہچاننا مشکل ہوا کیونکہ اس کی داڑھی بھائی سے بھی لمبی اور اس سے زیادہ سفید تھی۔ بعد میں انہوں نے بتایا کہ تمام چھ بھائیوں نے ایسی ہی لمبی اور برف کی طرح سفید داڑھیاں رکھی ہوئی ہیں۔ میں اس میں پُرانا سلیم احمد تلاش کر رہا تھا جو دِل کش خد و خال کا مالک تھا۔ وہ مسکرایا تو چمکتی آنکھوں اور سفید دانتوں کی وجہ سے وہی پرانا سلیم نظر آیا۔

سلیم کی دکانیں سونے کی زیورات سے بھری ہوئی اور چکا چوند روشنیوں سے آنکھوں کو خیرہ کر رہی تھیں۔ اس کے بھائی اور ملازم گاہکوں کو نمٹانے میں مصروف تھے۔ دُکان میں بیٹھنے کی جگہ نہیں تھی لہٰذا ہم کافی شاپ میں جا بیٹھے۔ چھبیس سال کے بعد تین دوست ملے تو اتنے لمبے عرصے کی یادوں اور واقعات کا سلسلہ چل نکلا۔ یادوں کا یہ لامتناہی سلسلہ ظہر تک جاری رہا۔ ظہر کی نماز ہم تینوں نے خانہ کعبہ میں اکھٹے ادا کی۔ ہم نے اللہ کا شکر ادا کیا جس نے بچھڑے دوستوں کو ملوا دیا تھا۔

ملک اعجاز جدہ سے لمبی ڈرائیو کر کے مجھے ملنے آیا تھا۔ وہ میرے لیے اور میری اہلیہ کے لیے تحفے بھی لایا تھا۔ مکہ میں آ کر بھی کھانے اور چائے کا بل اس نے دیا۔ یہ اس کی بہت پرانی عادت تھی۔ وہ ہمیشہ سے دریا دل اور یار باش واقع ہوا تھا۔ طالب علمی کے زمانے میں بھی جب ہم نکھٹو تھے تو وہ کنجوسی کا مظاہرہ نہیں کرتا تھا۔ اس کی یہ عادت اب بھی برقرار تھی۔ اس معاملے میں وہ کسی کی نہیں سنتا تھا۔

شام کو جب وہ میاں بیوی واپس جانے لگے تو میری آنکھیں بے اختیار نم ہو گئیں۔ ملک اعجاز بھی رو مال سے اپنی آنکھیں صاف کر رہا تھا۔ اس کا ہنستا مسکراتا چہرہ چند لمحوں کے لیے بجھ سا گیا۔ میں چند دنوں بعد آسٹریلیا واپس جا رہا تھا اور آئندہ ملاقات کا کوئی اتا پتا نہیں تھا۔ دو دوستوں کی دوستی میں وقت اور زمانہ اس طرح حائل ہوا تھا کہ ربع صدی گزر گئی تھی۔ ا تنے عرصے بعد آج مختصر سی ملاقات ہوئی مگر ایک بار پھر بچھڑنے کے لئے۔

سوسو جوڑ سنگت دے ویکھے، آخر وِتھاں پیئاں

جنہاں باجوں ایک پل نہیں سی لنگدا، اَج شکلاں یاد نہ رہیاں (میاں محمد)

چھبیس سالوں کے سفر میں ہم جوانی سے بڑھاپے میں داخل ہو چکے تھے۔ اگلے چھبیس سال کس نے دیکھے تھے۔ یہاں کل کی خبر نہیں ہے۔ زندگی کے پچاس پچپن سال ایسے گزرے تھے جیسے چند لمحے یا زیادہ سے زیادہ چند سال گزرتے ہیں۔ کل تک ہم دنیا کو فتح کرنے کے خواب دیکھا کرتے تھے اور آج اپنی شامِ زندگی کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ کل تک جن کے بغیرسانس لینا دشوار تھا آج ان کی شکلیں بھی یاد نہیں ہیں۔

یاد تھیں ہم کو بھی رنگا رنگ بزم آرائیاں

لیکن اب نقش و نگارِ طاقِ نسیاں ہو گئیں (غالب)


آخری چند دن



اگلے تین دن پلک جھپکتے میں گزر گئے۔ حجاز مقدس میں آنے کے فوراً بعد ہمارے گلے میں درد کا سلسلہ شروع ہوا جو آخر تک ختم نہیں ہوا۔ حالانکہ ہم نے تمام احتیاطی تدابیر اختیار کی تھیں اور دوا کا بھی اہتمام کیا تھا۔ لیکن کسی دوا کا اثر نہیں ہوا۔ گلے کی اس دُکھن کی وجہ سے بخار اور جسم میں درد رہنے لگا تھا حالانکہ اینٹی بائیوٹک دواؤں اور پیناڈول کا استعمال بھی جاری تھا۔ یہ دوائیں ہم آسٹریلیا سے بھی لے کر گئے تھے اور سعودیہ میں کیمسٹ شاپ سے بھی خریدتے رہتے تھے۔ پینا ڈول ہماری روزمرہ کی خوراک بن گئی تھی۔ اس کے بغیربستر سے اٹھنا محال تھا۔ اس دوا نے ہمیں نمازیں پڑھنے کے قابل بنایا ہوا تھا۔ اس کے مضر اثرات بھی مرتب ہو رہے تھے۔ ہماری بھوک بالکل ختم ہو کر رہ گئی تھی۔ جسم میں نقاہت تھی۔ ہر وقت ٹھنڈ لگتی تھی۔ آخری دنوں میں ہم نے اے سی بھی بند کر دیا تھا۔ اے سی چلتا تھا تو جسم مزید اکڑ جاتا تھا اور اُٹھنا دو بھر ہو جاتا تھا۔ آخری دنوں میں جب ہم الشہداء میں مقیم تھے تو اکثر چوبیس گھنٹے میں ایک وقت کا کھانا کھاتے تھے۔ حالانکہ یہاں ناشتے اور رات کے کھانے کے لیے ہم نے اضافی رقم ادا کی ہوئی تھی۔ انہوں نے ہمیں ہر کھانے کے ٹوکن دے دیئے تھے۔ ہم ہر کھانے پر ایک ایک ٹوکن ان کو واپس کر دیتے تھے۔

مدینہ منورہ کے رامادا ہوٹل میں بھی کھانے کی کوئی کمی نہیں ہوتی تھی بلکہ افراط ہی افراط تھی۔ لیکن الشہداء میں تو ڈشیں شمار کرنا ہی مشکل تھا۔ وسیع و عریض ریستوان میں ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک رنگا رنگ اور گرما گرم ڈشیں سجی ہوتی تھیں۔ ان میں عربی، ترکی افریقی، ایشیائی، یورپین اور پاکستانی، بنگالی سبھی قسم کے کھانے شامل ہوتے تھے۔ ہم اکثر کھانا کھانے جاتے ہی نہیں تھے۔ اگر جاتے بھی تو ایک آدھ چیز پلیٹ میں رکھ کر بیٹھ جاتے۔ سب لوگوں کی حالت ہماری طرح خراب نہیں تھی۔ ہم نے کچھ احباب کو دل کھول کر کھاتے دیکھا۔ صحت اچھی ہو تو بھوک لگنا لازم ہے۔ صحت کی خرابی نے ہمیں کھانوں کا ذائقہ ہی بھلا دیا تھا۔ کوئی شے بھاتی ہی نہیں تھی۔ تاہم پانی پینے اور چائے نوشی میں کوئی کمی نہیں آئی۔ اس کے علاوہ ہم گرم پانی میں شہد ملا کر اکثر استعمال کرتے رہتے تھے۔ اس کی وجہ سے گلے کا درد قابو میں رہتا تھا۔

میرا بھتیجا اے ڈی مرزا اور اس کی اہلیہ بھی مکہ میں تھے۔ وہ ہمیں ملنے ہمارے ہوٹل چلے آئے۔ ان کا ہوٹل خانہ کعبہ سے کافی دور تھا۔ وہ دن میں ایک بار آتے اور جاتے تھے۔ درمیان کا سارا وقت وہ خانہ کعبہ اور اس کے گرد و نواح میں گھوم پھر کر گزارتے تھے۔ انہیں ہمارا ہوٹل اور کمرہ بہت پسند آیا۔ اب وہ اِدھر اُدھر گھومنے کے بجائے فالتو وقت ہمارے ساتھ ہی گزارنے لگے۔ اُن کے آنے سے ہمیں خوشی ہوتی تھی۔

ہمارے پاس ناشتے اور ڈنر کے اضافی ٹوکن موجود تھے۔ لہٰذا ہم ان میاں بیوی کو ایک دن ناشتے پر اور ایک دن ڈنر پر لے گئے۔ اتنی ساری ڈشیں دیکھ کر میرا بھتیجا کہنے لگا ’’آپ لوگ کسی پارٹی میں آئے ہوئے ہیں کیا؟‘‘

ایسا ہی لگتا تھا۔ وہاں کھانے کی اتنی افراط دیکھ کر یہی گمان ہوتا تھا کہ کوئی مہنگی پارٹی ہو رہی ہے۔ اس افراط کو ہم نے کبھی پسند نہیں کیا نہ ہمیں اتنے کھانوں کی ضرورت تھی۔ ہمیں تو تازہ بنا ہوا تھوڑا سا سالن اور ایک روٹی کافی تھی۔ اِس کے علاوہ وہاں جو کچھ بھی تھا ہمارے لیے بے کار تھا۔ در اصل یہ بڑے بڑے ہوٹل دوسرے ہوٹلوں سے مقابلہ بازی کی وجہ سے اس افراط کا مظاہرہ کرتے تھے۔ جسے حاجیوں کی اکثریت پسند نہیں کرتی۔ ہماری نسبت ہمارا بھتیجا اور اس کی اہلیہ جوان اور صحت مند تھے۔ انہوں نے کسی حد تک اس بوفے میں کھانے کا حق ادا کیا۔ ہم انہیں کھاتا دیکھ کر خوش ہوتے رہے۔ دورانِ حج اس طرح کسی عزیز کا ساتھ مل جائے تو یہ بھی غنیمت ہے۔

اس دوران ہماری طبیعت نے تھوڑی اجازت دی تو ہم نے ایک اور طواف کر لیا۔ یہ طواف بھی اوپر کی منزل سے کرنے کا موقع ملا۔ ہم نے بھی بہت زیادہ دھکم پیل سے بچنے کے لیے اس لمبے مگر پرسکون طواف کو ہی پسند کیا۔ اس طواف میں میں نے اپنی پسندیدہ دُعا بار بار مانگی۔ یہ دُعا میں نے اسکول کے زمانے میں دعاؤں کی ایک کتاب سے سیکھی تھی۔ یہ دعا مجھے اتنی اچھی لگی کہ پوری دعا میں نے کتاب سے نقل کر لی اور اسے زبانی یاد کرنے لگا۔ اس عربی دعا کا مطلب مجھے کافی حد تک سمجھ آ گیا تھا۔ تاہم اسے پوری طرح سمجھنے کے لیے اور اس کا ترجمہ کرانے کے لیے میں اسے اپنے عربی کے استاد کے پاس لے گیا۔ مولانا ظفر صاحب عربی کے بہت اچھے استاد تھے۔ میں نے ان سے درخواست کی کہ براہ مہربانی اس دُعا کا اردو ترجمہ لکھ دیں۔ مولانا سمجھے کہ مجھے یہ دُعا کسی اور نے لکھ کر دی ہے جو مولانا کی عربی استعداد کا امتحان لینا چاہتا ہے۔ میں نے ان کی غلط فہمی دور کرتے ہوئے بتایا کہ یہ دُعا میں نے مسجد میں رکھی ایک دُعاؤں کی کتاب سے نقل کی ہے۔ یہ مجھے بہت پسند ہے۔ میں اسے یاد کر رہا ہوں اور ا س کو سمجھنے کی کوشش بھی کر رہا ہوں۔ مولانا کو میری بات کا یقین آ گیا اور وہیں بیٹھے بیٹھے اس دُعا کے نیچے اس کا ترجمہ لکھ کر دے دیا۔

یہ 1972 کا واقعہ ہے جب میں چھٹی جماعت میں پڑھتا تھا۔ اس وقت سے میں ہر نماز کے بعد، تلاوتِ قرآن کے بعد اور دیگر مواقع پر یہی دُعا مانگتا ہوں۔ اس دعا میں اللہ تعالیٰ سے بہت ادب کے ساتھ درج ذیل دعائیں یا حاجات مانگی گئی ہیں۔ ایمانِ مستقیم، دائمی فضل، رحمت کی نظر، مکمل عقل، علم نافع، منور دل، احسان کرنے کی توفیق، صبر جمیل، اجرِ عظیم، ذکر کرنے والی زبان، صابر بدن، وسعتِ رزق، شکر کرنے والی زبان، مغفرت، مقبول عمل، نیک اولاد، اچھی صحت، مستجاب الدعوات، جنت الفردوس میں دائمی ٹھکانہ، دوزخ سے نجات، حیا والی آنکھ، والدین کی دُعائیں، نبی پاکﷺ کے روضے کی زیارت اور خانہ کعبہ میں حاضری کی توفیق۔

اس کے اکتالیس برس بعد جب میں خانہ کعبہ میں طواف کر رہا تھا اور مذکورہ دُعا بار بار مانگ رہا تھا تو اچانک میرے اُوپر انکشاف ہوا کہ میرے رب نے تو میری دُعائیں کب کی سن لی ہیں۔ اُنہیں شرف قبولیت بھی عطا کر دیا۔ چالیس بیالیس سال پہلے جب میں نے یہ دعائیں مانگنی شروع کی تھی تو اس وقت مجھے شاید یقین نہیں ہو گا کہ یہ دعائیں قبول ہوں گی یا نہیں۔ لیکن آج میں اس دُعا کے ایک ایک لفظ، ایک ایک سوال اور اپنی ایک ایک حاجت پر غور کر رہا تھا تو میرے رونگٹے کھڑے ہو رہے تھے۔ سوائے ان کے جن کا مجھے علم نہیں ہے باقی ساریں حاجتیں میرے رب نے میرے سامنے اور میری زندگی میں ہی پوری کر دی تھیں۔ ظاہر ہے روزِ آخرت اور قیامت کے بارے میں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اس کے علاوہ میں نے جو کچھ ربِّ ذو الجلال سے مانگا تھا وہ مجھے پہلے ہی عنایت کر چکا تھا۔ والدین کی دعائیں، وسعتِ رزق، احسان کرنے والا ہاتھ، نیک اولاد، عقل سلیم، ذکر کرنے والی زبان، نفع دینے والا علم، ایمان کی روشنی، نبی پاکﷺ کے روضے کی زیارت، حج خانہ کعبہ اور وہ سب کچھ جو میں زندگی بھر مانگتا رہا، اللہ تعالیٰ رفتہ رفتہ ان سب سے مجھے نوازتا رہا۔

مجھ اپنے رب سے پوری اُمید ہے کہ جس طرحا س نے میری دوسری تمام حاجات کو پورا کیا ہے اسی طرح وہ مجھے آخرت میں بھی شرمندہ نہیں کرے گا۔ اپنے نیک بندوں کے ساتھ اٹھائے گا اور اپنے پیارے نبیﷺ کی شفاعت نصیب فرمائے گا۔ اس کے علاوہ بھی میرے رب نے مجھے بہت کچھ عطا کیا تھا جس میں دنیا کی ہر نعمت، گھر کی ہر خوشی، نیک اور وفادار شریک حیات، نیک اور تابعدار اولاد، معاشرے میں با عزت مقام، زبان اور قلم میں اظہار کی طاقت، صحت مند جسم، دین اور دنیا کا علم۔

میں اپنے رب کی کس کس نعمت کو یاد کروں۔

میرے سامنے ان نعمتوں کی ایک لمبی فہرست ہے جن کا میں شاید حق دار بھی نہیں تھا۔ لیکن میرے مالک نے مجھے دل کھول کر نوازا تھا۔

اس نے مجھے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے، کسی کا احسان اٹھانے اور کسی کے آگے شرمندہ ہونے سے ہمیشہ بچایا۔

میں تو اسے بھی بھولا ہوا تھا لیکن اس نے مجھے کبھی نہیں بھلایا۔ بلکہ مجھے ساری زندگی نوازتا ہی رہا۔ نوازتا ہی رہا۔

اس انکشاف کے بعد کہ میرے مالک نے میری دعاؤں کو اپنی رحمت و کرم سے منظور اور مقبول فرما لیا ہے بلکہ مجھے وہ سب کچھ عطا کیا ہے جو میں نے اس سے کبھی دل سے اور کبھی بے دلی سے مانگا تھا، میں سر تا پا شکر سے بھر گیا۔

طواف کے باقی چکروں میں میں نے دُعا مانگنا بند کر دی۔ صرف شکر ادا کرتا رہا۔ وہ سامنے بیٹھا دیکھ، سُن اور مسکرا رہا تھا۔ اس سیاہ پوش گھر سے اس کی مسکراہٹ بلند ہونا شروع ہوتی تھی تو آسمانوں تک پھیل جاتی تھی۔ یہ مسکراہٹ ہر سو دکھائی دیتی تھی۔ اُسے اپنے بندوں سے کتنا پیار تھا۔ اس مسکراہٹ میں اس کی شفقت، اس کی محبت اور اس کا کرم پوشیدہ تھا۔ اس مسکراہٹ میں انعام ہی انعام تھا۔ خوشی ہی خوشی تھی۔۔ خوشخبری تھی۔ ایسے رنگ تھے جنہوں نے میری زندگی کو رنگین بنا دیا۔

یہ سچ ہے کہ اس کے کارخانے میں رحمت ہی رحمت اور مغفرت ہی مغفرت ہے۔

وہ توبہ قبول کرنے والا، دُعاؤں کو سننے والا اور نوازنے والا ہے۔

اس کے گھر میں دیر ہے لیکن اندھیر نہیں ہے۔

اس لیے اس سے مانگتے رہنا چاہیے۔

عاجزی اور انکساری کے ساتھ اس کے در پر صدا بلند کرتے رہیں۔

کسی بھی وقت اس کی رحمت جوش میں آ سکتی ہے۔

بس وہی ہے جو توفیق دیتا ہے۔

ایک لمحے میں انسان کی کایا پلٹ دیتا ہے۔

بھٹکے ہوؤں کو راہِ راست پر لا سکتا ہے۔

یا اللہ میرے قلب کو اپنے نور سے منور فرما دے۔

یا اللہ میرے دل میں اپنا گھر کر دے۔

آمین

ہمارے ساتھی روز کم ہونا شروع ہو گئے۔ کچھ مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہو گئے۔ یہ وہ ساتھی تھے جو براہِ راست مکہ مکرمہ آئے تھے اور حج کے بعد نبی پاک حضرت محمد مصطفیﷺ کے دربار میں حاضری کے لیے مدینہ جا رہے تھے۔ ہم نے اللہ کے فضل سے حج سے پہلے یہ سعادت حاصل کر لی تھی۔ اس لیے ہماری واپسی مکہ مکرمہ سے ہونا تھی۔ مکہ میں چونکہ بین الاقوامی ہوائی اڈہ نہیں ہے اس لیے ہم مکہ سے جدہ جا رہے تھے جہاں سے براستہ دبئی اسلام آباد جانا تھا۔

حاجیوں کے چہروں پر بشاشت کھل کر نظر آ رہی تھی۔ آغازِ سفر والی سنجیدگی اور فکر اب نظر نہیں آتی تھی۔ وہ اپنے مشن میں کامیاب ہو کر واپس جا رہے تھے۔ حج جیسا مشکل، طویل اور صبر سآزما فریضہ ادا کرنے کے بعد اپنے اپنے گھروں کو لوٹ رہے تھے۔ یہ دُہری خوشی تھی جو ان کے چہروں اور آنکھوں سے عیاں تھی۔ ایک تو فرض کی ادائیگی کی خوشی، حاجی بن جانے کی خوشی اور گھر لوٹنے کی خوشی۔ کئی ہفتوں کی جدائی کے بعد جلد ہی وہ اپنے اپنے گھروں میں اپنے عزیز و اقارب کے درمیان ہوں گے۔ اب ان کے جذبات کی شکل تبدیل ہو گئی تھی۔ آتے ہوئے جن چہروں پر گھمبیر سنجیدگی طاری تھی اب وہاں مسکراہٹیں ناچ رہی تھیں۔ وہ اپنے بیوی بچوں کے تصور میں مگن تھے۔

حج کے بعد صبح شام حاجیوں کی واپسی جاری تھی۔ یہ سلسلہ کئی ہفتوں تک چلتا رہتا ہے۔ تاہم آسٹریلیا یورپ اور امریکہ کے حجاج کا قیام اتنا طویل نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس طرف جانے والی پروازوں میں اتنا رش نہیں ہوتا جتنا پاکستان بھارت اور بنگلہ دیش جانے والی پروازوں میں ہوتا ہے۔ ان تین ممالک کے حاجیوں کی تعداد ماشاء اللہ بہت زیادہ ہوتی ہے۔ حج کے دوران جدھر نظر دوڑائیں ان تین ممالک کے حاجی ضرور دکھائی دیتے ہیں۔ مکہ مدینہ حرمین شریفین اور دوسرے مقدس مقامات پر ان تین ممالک کے حاجی سب سے زیادہ نظر آتے ہیں۔

اسی حساب سے ان تین ممالک سے بے شمار پروازیں حاجیوں کو لاتی اور لے جاتی ہیں۔ اَلحمدُ للہ اب لوگوں کے پاس پیسہ بھی خوب آ گیا ہے۔ لہذا ان ان تین ملکوں سے جہاز بھر بھر کر سعودیہ جاتے ہیں۔ جہاں یہ لوگ نہ صرف حج اور عمرہ کرتے ہیں بلکہ جی بھر کر شاپنگ بھی کرتے ہیں۔


پچھلی صدی کا حج



چند عشرے پہلے یہ صورتِ حال نہیں تھی۔ اس وقت نہ تو لوگوں کے پاس اتنا پیسہ تھا کہ وہ حج اور عمرہ ادا کر سکیں اور نہ سعودی عرب کی حکومت زیادہ لوگوں کو آنے کی اجازت دیتی تھی۔ تیس چالیس برس قبل کوٹہ سسٹم پر سختی سے عمل ہوتا تھا۔ عازمین سالہا سال تک درخواستیں دیتے رہتے تھے۔ بہت کم لوگوں کو اجازت ملتی تھی۔ بہت سے لوگ وسائل ہونے کے باوجود کوٹہ سسٹم کی سختی کی وجہ سے حج پر نہیں جا سکتے تھے۔ جن خوش نصیبوں کو اجازت ملتی تھی دُور دُور سے لوگ انہیں مبارک باد دینے آتے تھے۔ اُس دور میں پورے علاقے میں اکّا دکّا حاجی ہوتا تھا۔ لوگ اسے حاجی صاحب کہتے اور اُس کا بے حد احترام کرتے تھے۔ اس کی خوش قسمتی پر رشک کرتے تھے۔ لوگ حاجیوں سے مکے اور مدینے کی باتیں سنتے ہوئے اس طرح ہمہ تن گوش ہو جاتے تھے جیسے قرآن سن رہے ہوں۔ ان دنوں حج کرنا اتنا آسان بھی نہیں تھا۔ اسّی کی دہائی تک حاجیوں کی اکثریت بحری جہاز کے ذریعے سعودی عرب جاتی تھی۔ حج پر جانے حج کی ادائیگی کرنے اور واپس گھر پہنچنے تک اُنہیں چھ چھ ماہ لگ جاتے تھے۔ کئی لوگ سمندری بیماری کا شکار ہو کر راستے میں ہی لقمہِ اجل بن جاتے تھے۔ ان کی لاشیں سمندر کی نذر کر دی جاتی تھیں۔

مکہ اور مدینہ میں ان دنوں رہائش اور سفر کی اتنی سہولتیں نہیں تھیں۔ اشیائے ضرورت گراں اور ہوٹل بہت کم اور مہنگے تھے۔ لہذا اکثریت خیموں میں رہتی تھی۔ ظاہر ہے گرمی ان دنوں بھی اتنی ہی ہوتی تھی جتنی آج کل ہے۔ صرف فرق یہ ہے کہ اِن دنوں مکہ مدینہ میں ہر چھوٹا بڑا ہوٹل ائر کنڈیشنڈ ہے۔ اُس دور میں خیمے ہوتے تھے جن میں ائیر کنڈیشنر تو درکنار پنکھا بھی نہیں ہوتا تھا۔

اُس دور میں عازمینِ حج اشیائے خوردونوش اپنے ہمراہ لے کر جاتے تھے۔ وہ نہ صرف آٹا لے کر جاتے تھے بلکہ روٹی پکانے کے لئے توا اور چولہا بھی ان کے سامان کا حصہ ہوتا تھا۔ لمبے سفر میں وہ جہاں قیام کرتے، شامیانے نصب کرتے، چولہے جلاتے، کھانا پکاتے اور کھاتے تھے۔

بزرگ بتاتے ہیں کہ ساٹھ ستر برس قبل متعدد عازمینِ حج سفری صعوبتیں برداشت نہیں کر پاتے تھے اور راستے میں یادورانِ حج ہی اللہ کو پیارے ہو جاتے تھے۔ وہ لوگ بہت خوش قسمت ہوتے تھے جو نہ صرف طویل اور جاں گسل مسافت بلکہ حجاز مقدس کی سختیوں کو برداشت کر لیتے تھے اور بخیریت گھر کو لوٹتے تھے۔ اُس دور میں سفر حج پر روانہ ہونے سے پہلے عازمینِ حج اپنے عزیز واقارب اور دوست احباب سے بخشوا کر نکلتے تھے۔ وہ اپنی جائیدادا ورجمع پونجی ورثاء کے حوالے کر کے اور وصیت لکھ کر سفر کا آغاز کرتے تھے۔ کیونکہ ان دنوں اس سفر سے زندہ سلامت لوٹنا معجزے سے کم نہیں ہوتا تھا۔

اس سے بھی تھوڑا پیچھے چلے جائیں تو بیسویں صدی کے شروع کے عشروں میں عازمینِ حج پیدل اور اُونٹ بردار قافلوں کے ذریعے سرزمینِ عرب جایا کرتے تھے۔ اونٹوں پر سامان لدا ہوتا تھا اور لوگ کبھی پیدل اور کبھی اونٹ پر سوار ہو کر سفر کرتے تھے۔ ان دنوں حج پر آنے اور جانے میں سالوں لگ جاتے تھے۔ ان دنوں سفر کے ذرائع تو ناپید تھے ہی ذرائع رسل و رسائل بھی عنقا تھے۔ جب تک حاجی دو تین سال بعد گھر لوٹ کر نہیں آتا تھا اس دوران گھر والوں کو اس کی کوئی خبر نہیں ہوتی تھی۔ انہیں یہ بھی علم نہیں ہوتا تھا کہ وہ زندہ بھی ہے یانہیں۔

جب قافلہ واپس آتا تھا تو تب علم ہوتا تھا کہ کون زندہ لوٹ کر آیا ہے اور کون اس سفر میں کام آ گیا۔

کچھ لوگ سفر کی صعوبتوں کا شکار ہو جاتے تھے اور کچھ راہزنوں کی بھینٹ چڑھ جاتے تھے۔ یہ راہزنی سرزمین عرب پر عام تھی۔ کیونکہ عرب کے بدّوؤں میں جہالت، غربت اور لاقانونیت عام تھی۔ یہ وہ دور تھا جب عرب دنیا میں بھوک اور بے روزگاری تھی۔ بہت سے عرب مزدوری کرنے ہندوستان اور دوسرے ملکوں میں جاتے تھے۔ حاجیوں اور زائرین کے قافلوں کو لوٹنا اور انہیں قتل کر دینا عام سی بات تھی۔ مکہ اور مدینہ میں بھکاریوں کی بھرمار ہوتی تھی۔ مقامی لوگ کام کم کرتے تھے۔ زیادہ تر لوٹ مار کرتے تھے یا پھر بھیک مانگتے تھے۔ اس وقت ہندوستان کی مسلم ریاستیں مثلاً حیدرآباد دکن وغیرہ ان عربوں کی مدد کرتی رہتی تھیں۔ عرب مزدوروں کی زیادہ تعداد انہی ریاستوں میں مزدوری کرنے آتی تھی۔ ان میں سے بہت سے یہیں رچ بس گئے۔ ان کی نسلیں اب ہندوستانی ہیں۔

1950 کی دہائی میں عرب ملکوں میں تیل نکلنے کے بعد تبدیلی آنا شروع ہوئی جو اسّی کی دہائی میں عروج پر پہنچ گئی۔ اب وہ دوبارہ مائل بہ زوال ہیں۔ دیکھتے ہیں مستقبل میں عربوں کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ یہ سب تیل پر منحصر ہے۔


مکہ ٹاور



طبیعت کی ناسازی کے باوجود ہم اپنی نمازیں خانہ کعبہ میں ہی ادا کر رہے تھے۔ صرف چند نمازیں ہوٹل کی مسجد میں ادا ہوئیں۔ اگر کسی دن خانہ کعبہ میں نہیں پہنچ سکتے تھے تو اپنے ہوٹل کے باہر فٹ پاتھ پر کھڑے ہو کر خانہ کعبہ کی جماعت میں شامل ہو جاتے تھے۔ دوسرے بے شمار لوگ جو خانہ کعبہ کے ارد گرد رہتے تھے وہ بھی یہی کرتے تھے۔

امام کعبہ کی آواز بذریعہ لاؤڈ اسپیکر دور دور تک سنائی دیتی ہے۔ لوگ جہاں موجود ہوتے ہیں وہیں خشوع خضوع کے ساتھ سجدہ ریز ہو جاتے ہیں۔ حرم شریف سے ملحق کئی ہوٹل ایسے ہیں جہاں آپ ہوٹل کے اندر رہ کر بھی خانہ کعبہ کی نماز میں شامل ہو سکتے ہیں۔ گویا کہ ہوٹل کو خانہ کعبہ کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔ اس طرح کی ایک عمارت کا نام مکہ ٹاور ہے۔

نمازوں کے وقفے کے دوران میں اکثر مکہ ٹاور میں چلا جاتا تھا۔ البرج البیت کے نام سے یہ دنیا کی چوتھی بڑی عمارت ہے۔ رقبے کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی عمارت ہونے کے علاوہ یہ دیگر کئی ریکارڈز کی بھی حامل ہے۔ اس کی اونچائی چھے سو دس میٹر ہے اور اس میں 95 منزلیں ہیں۔ اس عمارت کے اوپر ٹاور (مینار) دنیا کا سب سے بلند ٹاور ہے۔ البرج البیت میں سات ٹاور شانہ بشانہ ایستادہ ہیں۔ اس عمارت میں ایک لاکھ سے زائد لوگ رہائش پذیر ہیں یا کاروبار کرتے ہیں۔ اس عمارت کے بلند ترین ٹاور پر دنیا کا سب سے بڑا کلاک نصب ہے۔ اس کلاک کا قطر 40 میٹر ہے جو بِگ بین (Big been) سے چھ گنا بڑا ہے۔ ٹاور یامینار کے اوپر نصب چاند چوبیس قیراط سونے کا بنا ہوا ہے۔ یہ سونا منوں کے حساب سے ہے۔ دنیا کے اس بلند ترین مینار کے اندر بھی نماز پڑھنے کی جگہ ہے۔ یہ دنیا کی بلند ترین نظارہ گاہ ہے۔ اس اونچے گھڑیال میں مختلف رنگوں کی روشنیاں دکھائی دیتی ہیں۔ اس کلاک کو اٹھارہ کلومیٹر کے فاصلے سے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ مینار کے اوپر نصب طلائی چاند کی روشنیاں آٹھ کلومیٹر بلند ہو کر آسمان کو چھوتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ اس مینار میں کل اکیس ہزار برقی لیمپ (Lights) نصب ہیں۔

سعودی عرب کے فرمانروا عبد اللہ بن عزیز کی سرپرستی میں یہ عجوبہ روزگار عمارت محض چھ برس کی ریکارڈ مدت میں پایہ تکمیل کو پہنچی۔ اسے بنانے اور ڈیزائن کرنے والے انجینئر سبھی مسلمان تھے کیونکہ مکہ مکرمہ میں غیر مسلموں کا داخلہ ممنوع ہے۔

ڈیڑھ ارب ڈالر سے زائد کی مالیت سے تعمیر ہونے والی اس عدیم المثال عمارت، گھڑیال، مینار اور سونے کے چاند سے، جہاں سعودی فرمانرواؤں کی بے پناہ دولت و ثروت کا اظہار ہوتا ہے وہاں مسلمانوں کی فن تعمیر سے رغبت اور مہارت کا ثبوت بھی ملتا ہے۔

یہ عمارت فن تعمیر کا ایسا نمونہ ہے جس نے ثابت کر دیا ہے کہ امت مسلمہ میں ایسے نابالغہ روزگار انجینئر اور معمار موجود ہیں جن پر پوری امت فخر کر سکتی ہے۔ اگر حالات اور مواقع میسر ہوں تو قوم اپنی کیا نہیں کر سکتی۔

ذرانم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیر ہے ساقی

البرج البیت، بیت اللہ سے ملحق تعمیر کیا گیا ہے۔ یوں یہ دنیا کا سب سے بڑا مینار، دنیا کا سب سے بڑا کلاک اور دنیا کی سب سے بڑی عمارت، کرہ ارض کی سب سے مقدس عمارت کے ساتھ کھڑا ہے۔


بیت اللہ کی تاریخ



اللہ کا یہ گھر اتنا بڑا، اتنا عظیم اور اتنا متبرک ہے کہ ہر کلمہ گو کے دل میں بستا ہے۔ ہر مسلمان دن میں کئی مرتبہ اس گھر کا نام لیتا ہے اور اس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتا ہے۔ اللہ کا یہ گھر حجم اور جسامت کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے روحانی تقدس اور مرکز اسلام ہونے کی وجہ سے عظیم ہے۔

اس سیاہ پوش گھر کی عجیب تاثیر اور کشش ہے۔ اس کے اندر سے جیسے نورسا پھوٹتا محسوس ہوتا ہے۔ اس کی طرف دیکھتے رہیں تو دل و دماغ کی عجیب کیفیت ہونے لگتی ہے۔ ایک برقی رو سی اس عمارت کے اندر سے نکلتی اور آپ کے دل و دماغ میں اترتی محسوس ہوتی ہے۔ یہ کوئی عام دنیاوی عمارت نہیں ہے بلکہ کرہ ارض پر اللہ کے حکم سے فرشتوں کی مدد سے تعمیر ہونے والا پہلا خانہ خدا ہے۔

جی ہاں بیت اللہ کی سب سے پہلی تعمیر فرشتوں نے کی تھی۔ حضرت ابراہیمؑ سے پہلے اس کے وجود کی تصدیق اس طرح سے ہوتی ہے۔ امام بخاریؒ نے حضرت عباسؓ سے نقل کیا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ حضرت حاجرہؑ اور حضرت اسماعیلؑ کو چھوڑ کر چلتے چلتے اس مقام پر رُکے جہاں سے حضرت حاجرہ اور حضرت اسماعیل آپ کو نہیں دیکھ سکتے تھے۔ آپ نے بیت اللہ کا رخ کیا اور اللہ سے یہ دعا مانگی ’’اے ہمارے رب میں اپنی اولاد میں سے بعض کو ایک بے زراعت میدان میں تیرے محترم گھر کے پاس آباد کر رہا ہوں‘‘ (سورۃ ابراہیم 3)

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ نے یہ دعا اس وقت مانگی جب آپ نے حضرت اسماعیلؑ اور ان کی والدہ کو مکہ مکرمہ کی بے آب و گیاہ وادی میں چھوڑ چکے تھے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بیت اللہ کا وجود حضرت ابراہیمؑ سے پہلے موجود تھا۔ ہو سکتا ہے عمارت کا ڈھانچہ منہدم ہو چکا ہو لیکن بنیادیں موجود تھیں۔ حضرت ابراہیمؑ اور ان کے بعد والوں نے خانہ کعبہ کی تعمیرِ نو انہی بنیادوں پر کی۔

زید بن ہارون کہتے ہیں میں اس وقت موجود تھا جب حضرت عبد اللہ بن زبیر نے بیت اللہ کی عمارت کو منہدم کیا اور اسے ازسرنو تعمیر کرتے ہوئے حطیم کو اس میں شامل کر لیا۔ میں نے دیکھا کہ وہ بنیادیں اُبھری شکل کے پتھر تھے جیسے اونٹ کی کوہان۔ ان بنیادوں کی مضبوطی کا اندازہ اس تحقیق سے بھی ہوتا ہے جو 1417 ہجری میں کئی گئی۔ شاہ فہد بن عبدالعزیز نے جب اس کی بنیادوں کی کھدائی کروائی تو خانہ کعبہ کی بنیادوں کے پتھر کسی سیمنٹ اور مسالے کے بغیر نہایت مضبوطی سے اس میں جڑے ہوئے تھے۔ ان کی ظاہری شکل اونٹ کے کوہان کی سی ہے۔ 1417 ہجری میں خانہ کعبہ کی تعمیر نو کا کام چھ ماہ میں مکمل ہوا۔ اس کی تعمیر بن لادن کمپنی نے کی۔ بنیادیں اگرچہ وہی ہیں البتہ انہیں مضبوط کر دیا گیا ہے۔ پتھروں کے درمیان نیا مسالہ لگایا گیا ہے۔ دونوں چھتوں کو از سر نو تعمیر کر کے تینوں ستونوں کو نئی لکڑی سے بنایا گیا۔

بیت اللہ کی بنیادوں کی پائیداری کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ حضرت ابراہیمؑ کے زمانے سے ہی حساب لگایا جائے تواس کی تعمیر کو چار ہزار سال ہو گئے ہیں۔ اس سے پہلے کے حالات اللہ تعالیٰ کو معلوم ہیں۔ اس طویل تاریخی دور میں ان بنیادوں نے نہ جانے کتنے طوفانوں اور سیلابوں کا سامنا کیا ہو گا لیکن آج بھی وہ اپنی جگہ پر مضبوطی سے قائم ہیں۔ کعبۃ اللہ آج بھی پوری شان سے قائم ودائم ہے۔ یہ بے شک اللہ تعالیٰ کا معجزہ ہے۔ ورنہ زمانے کے دست وبرد سے محفوظ سے محفوظ عمارتیں بھی خاک ہو کر خاک میں مل جاتی ہیں۔


الوداعی خاموشی



جیسے جیسے جدائی کا وقت قریب آ رہا تھا ویسے ویسے دل غم کے سمندر میں ڈوبتا جاتا تھا۔ آغاز میں اس سیاہ پوش گھر میں اتنی زیادہ کشش محسوس نہیں ہوتی تھی جتنی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھی۔ اب تو نفل نمازیں اور قرآن کی تلاوت بھی چھوٹ گئی تھی۔ میں جب بھی فرائض سے فارغ ہوتا تھا تو کسی گوشے میں بیٹھ کر ٹکٹکی لگا کر اس گھر کو دیکھتا رہتا تھا۔ بعض اوقات اسے دیکھنے میں اتنا منہمک ہوتا کہ گھنٹوں گزر جاتے۔ دل پھر بھی نہیں بھرتا تھا۔ اللہ کے گھر میں کچھ ایسی کشش تھی کہ اسے دیکھے بغیر چین نہیں آتا تھا۔ اب جب کہ ہمارے درمیان فاصلے حائل ہو گئے ہیں تو بھی یہ اسی طرح اپنی طرف بلاتا رہتا ہے۔

خانہ کعبہ میں انسان کبھی بے کیف نہیں ہوتا۔ اللہ کے گھر کی اپنی کشش ہوتی ہے۔ زائرین اور عقیدت مندوں کا میلہ الگ سجا ہوتا ہے۔ اس میں مختلف رنگ ونسل کے حامل، مختلف زبانیں بولنے والے اور مختلف لباسوں میں ملبوس ہر نوع کے لوگ شامل ہوتے ہیں۔ ایک چیز ان سب میں یکساں ہوتی ہے وہ ہے عقیدت اور محبت۔ وہ سب اللہ کی محبت سے سرشار ہوتے ہیں۔ ان کے چہروں سے ان کی آنکھوں سے اور ان کے انداز سے ان کی محبت ٹپک رہی ہوتی ہے۔ زائرین خانہ کعبہ کو دیکھتے ہیں تو ایک روحانی مسرت ان کے چہروں پر نمایاں ہو جاتی ہے۔ وہ اپنے رب کے حضور دعائیں مانگتے ہیں۔ گڑگڑا کر اپنے گناہوں سے توبہ کرتے اور دوزخ سے نجات مانگتے ہیں۔ لوگوں کے جذبات کھلی کتاب کی طرح پڑھے جا سکتے ہیں۔ میں گھنٹوں یہ کتابیں پڑھتا رہتا تھا۔

مجھے ان لوگوں پر رشک آتا تھا جو اللہ سے اس طرح مانگتے تھے کہ ابھی لے کر ہی اٹھیں گے۔ یقین اور ایمان ان کے چہروں پر نقش ہوتا تھا۔ یہ یقین اور یہ ایمان اللہ کی کتنی بڑی نعمت ہے۔ کتنا بڑا تحفہ ہے۔ مجھ جیسے گناہ گار جو ہر چیز کو شک کی نظر سے سائنسی توجیہہ سے اور منطق سے پرکھنے کے عادی ہوتے ہیں کبھی اتنے پختہ یقین اور ایمان کے حامل نہیں ہو سکتے۔ ہم کتابوں میں اس قدر کھو جاتے ہیں کہ اپنے ہی من کو پڑھنے سے قاصر رہتے ہیں۔ ساری زندگی یقین اور بے یقینی کی درمیانی کیفیت میں بھٹکتے رہتے ہیں۔ ہم سائنسی فارمولوں کو تو مانتے ہیں لیکن اس کے ماننے میں تساہل اور تاخیر سے کام لیتے ہیں جس نے انسان کا دماغ اور یہ سائنس بنائی ہے۔ اگر مانتے بھی ہیں تو اس میں وہ یقین وہ شدت اور وہ گہرائی نہیں ہوتی جو ایک کم پڑھے لکھے سائنس سے نابلد اور کتابوں سے دُور رہنے والے شخص میں ہوتی ہے۔

کاش کہ یہ شدت اور یہ گہرائی مجھے نصیب ہو جائے۔ میں گہرے پانی میں اپنا قدم رکھوں تو میرا توکل اور میرا ایمان نہ ڈگمگائے۔

اے میرے مالک اپنے کرم سے میرے دل کی یہ ڈگمگاہٹ دور کر دے۔ یا اللہ اس میں اپنے پختہ ایمان کی روشنی بھر دے۔ جو تو اپنے نیک اور صالح بندوں کے دل میں بھرتا ہے۔ اے دو جہانوں کے مالک میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ تیرا ہو جاؤں۔ صرف تیرا۔ اپنے اور میرے بیچ کے سارے فاصلے مٹا دے۔ مجھے اپنے قریب کر لے۔ بہت قریب۔

مکہ مکرمہ واپس آنے کے بعد ہم نے ایک دفعہ طواف کیا تھا۔ اگلے تین چار دن نیچے والے فلور پر بے پناہ رش اور اوپر والے فلور کے طویل المسافت طواف کے لیے خرابی صحت آڑے آ رہی تھی۔ مسلسل بخار، بدن کا درد، بھوک کی کمی، کمزوری اور ٹھنڈ نے ہمیں نڈھال کیا ہوا تھا۔ پیناڈول نے اس حد تک سہارا دیا ہوا تھا کہ خانہ کعبہ میں نماز یں ادا کر رہے تھے۔

واپسی سے ایک روز قبل بعد نماز عصر میں اپنے معلم امام کویتی سے ملا۔ میں نے ان سے دریافت کیا ’’امام صاحب میری اور اہلیہ کی طبیعت ناساز ہے۔ تاہم ہم نمازوں کے لیے خانہ کعبہ حاضری دے رہے ہیں۔ مگر پچھلے تین دن سے طواف نہیں کر سکے۔ عزیزیہ سے واپس آنے کے بعد ہم نے ایک طواف کیا ہے۔ آپ کیا کہتے ہیں اس کو طوافِ وداع قرار دیا جا سکتا ہے یا نہیں؟‘‘

کویتی صاحب شرعی مسئلہ بتا کر جان چھڑانے کی کوشش نہیں کرتے تھے بلکہ ہر وہ بات بتاتے تھے جو ہمیں اللہ سے قریب لے جا سکے۔ کہنے لگے ’’دیکھئے الحمد للہ آپ کا حج مکمل ہو چکا ہے۔ اس کے بعد ایک اضافی طواف بھی ہو گیا۔ اب آپ کسی بھی وقت رخصت ہو سکتے ہیں۔ آپ پر کوئی ذمہ داری باقی نہیں ہے۔ لیکن جاتے ہوئے اسے مل کر نہیں جاؤ گے جس کے لیے اتنا لمبا سفر کیا ہے۔ پھر نہ جانے زندگی میں یہ موقع ملے یا نہ ملے۔ اس رات سے فائدہ اٹھائیں اور جانے سے پہلے ایک اور طواف کر لیں۔ اس سے الوداعی ملاقات کر لیں۔ اپنی اور اپنے خاندان کی صحت و سلامتی اور بہتری کی دعا مانگیں۔ جہاں تک آپ کی خرابی صحت کا تعلق ہے میں آپ کو گارنٹی دیتا ہوں وہ آپ کو کچھ نہیں ہونے دے گا۔ آپ جس سے ملنے جائیں گے وہی آپ کا خیال رکھے گا۔‘‘

میں نے دیکھا کہ کویتی صاحب کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے جو انہوں نے اپنے ہاتھوں سے صاف کیے۔ میں ان کے گلے لگ گیا ’’بہت شکریہ امام صاحب! ہم یہ طواف ضرور کریں گے۔ آپ ہمارے لیے دُعا کریں‘‘

امام صاحب نے میری پشت پر تھپکی دی اور سلام دے کر رخصت ہو گئے۔

اسی رات بعد نماز عشاء ہم نے طواف کی نیت کی۔ اس دفعہ بھی نیچے والی منزل پر خانہ کعبہ سے ملحق حصے پر تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ وہاں کھوے سے کھوا چھل رہا تھا۔ اس لیے ہم حسب سابق سب سے اوپر والی منزل پر جا پہنچے۔ وہاں بھی رش کم نہیں تھا۔ تاہم اس میں گنجائش موجود تھی۔ رات کے اس پہر موسم بھی قدرے معتدل تھا۔ ہم نے رات کا کھانا نہیں کھایا تھا بلکہ آب زم زم پی کر ہی گزارا ہو رہا تھا۔

سعودی عرب کی شدید گرمی میں پسینے کے مسلسل اخراج کی وجہ سے جسم میں پانی کی گنجائش ہر وقت موجود رہتی ہے۔ حرمین شریفین میں آب زم زم کی وافر اور مسلسل دستیابی کی وجہ سے زائرین کو بہت فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ اس شدید گرمی میں اگر وہاں پانی کی کمی ہو تو نہ جانے کتنے لوگ موت کا شکار ہو جائیں۔ آب زم زم نہ صرف لاکھوں لوگوں کی زندگی بچاتا ہے بلکہ ان کی صحت بھی بحال رکھتا ہے۔

اسی آب زم زم کے سہارے اور اللہ کی مدد کے سہارے ہم نے تین گھنٹے میں طواف وداع مکمل کر لیا۔ دوران طواف رب تعالیٰ سے اپنی، اپنے بچوں، اپنے عزیز و اقارب اور دوست احباب کی خیریت و عافیت اور دین و دنیا کی بھلائی کی دعا مانگتا رہا۔ جن جن اصحاب نے دُعا کے لیے کہا تھامیں نے ان سب کا نام لے کر اللہ رب ذوالجلال سے ان کے لیے دعائے عافیت مانگی۔ اپنے وطن کی امن و ترقی کی، اپنے ہم وطنوں کے سکون، اتفاق و محبت اور خوشحالی کی دُعا مانگی۔

طواف کے بعد آدھی رات کے وقت ہم ہوٹل کی جانب روانہ ہوئے تو بیت اللہ میں طواف کرنے والوں اور عبادت کرنے والوں کا اتنا ہی زور تھا جتنا دن میں ہوتا تھا۔ خصوصاً زمینی حصے (گراؤنڈ فلور) میں ذرا بھی کمی نہیں ہوئی تھی۔

در اصل بعض لوگ یہ سوچ کر رات کے اس حصے کا انتخاب کرتے ہیں کہ اس وقت طواف کرنے والوں کا ہجوم کم ہو گا۔ مگر دوسرے بہت سے لوگوں نے بھی یہی سوچا ہوتا ہے۔ یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ خانہ کعبہ میں کس وقت ہجوم کم ہوتا ہے۔ اللہ کے اس گھر میں چوبیس گھنٹے عبادت گزاروں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ یہاں دن اور رات ایک جیسے ہوتے ہیں۔ رات بھر لوگ اسی طرح آتے رہتے ہیں جیسے دن میں آتے ہیں۔ بیت اللہ کی خوبصورت روشنیوں نے ویسے بھی دن کا سماں پیدا کر رکھا ہوتا ہے۔ صفائی والا عملہ دن رات مصروف رہتا ہے۔ سیکورٹی والے چوبیس گھنٹے ہوشیاری سے اپنے فرائض انجام دیتے رہتے ہیں۔

عبادت کے ساتھ ساتھ کچھ لوگ وہاں آرام بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ کچھ ٹولیاں بنا کر بیٹھے اور مصروفِ گفتگو ہوتے ہیں۔ خانہ خدا ہر شخص کو اپنی آغوشِ میں سمیٹنے کے لیے ہمہ وقت تیار ملتا ہے۔

خانہ کعبہ سے باہر سڑک پر بھی لوگوں کی کمی نہیں تھی۔ وہاں بھی دن کا ہی سماں تھا۔ لوگ گھوم پھر رہے تھے۔ کھا پی رہے تھے۔ ادھر ادھر آ جا رہے تھے۔ گویا پورے علاقے میں خوب چہل پہل تھی۔ کنگ عبدالعزیز روڈجس پر ہمارا ہوٹل واقع تھا وہاں اکثر دکانیں کھلی ہوئی تھیں۔ رات کے اس وقت بھی دکانوں میں گاہکوں کی کمی نہیں تھی۔ ہم ان کے بیچ میں سے گزرتے الشہداء پہنچ گئے۔ لفٹ کے زریعے کمرے میں پہنچے تو ہمارے پاس آرام کے لیے صرف تین گھنٹے باقی تھے۔ اس کے بعد تہجد کی نماز، پھر فجر اور پھر کوچ تھا۔

تین گھنٹے بعد الارم بجا تو ہم بلا تاخیر اٹھ گئے۔ حجازِ مقدس میں اللہ کی ایسی مدد شامل حال تھی کہ نیند یا سستی اس کے در پر حاضری کے آڑے نہیں آتی تھی۔ پہلے دن جب ہم مدینہ منورہ پہنچے تھے اور چند گھنٹوں کے آرام کے بعد صبح تین بجے تیار ہو کر مسجد نبویﷺ میں حاضر ہوئے تھے اُس دن سے آج اس مقدس سرزمین پر آخری رات تک اللہ کے گھر کا بلاوا نیند، سستی حتیٰ کہ بیماری پر بھی غالب رہا۔ گھر میں میری آنکھ اتنی آسانی سے نہیں کھلتی۔ لیکن حرمین شریفین کی سحرخیزی میں ایک لطف اور سرور ہے۔ اس کی وجہ سے ایک لمحے کی تاخیر بھی ناگوار گزرتی ہے۔

علی الصبح برقی قمقموں کی روشنی میں کنگ عبدالعزیز روڈ جیسے خنک چاندنی میں نہایا ہوا تھا۔ ہلکی ہلکی بادِ صبا جسم و جاں کو معطر کر رہی تھی۔ اوس میں بھیگی فضا، آخری پہر کا سناٹا، جس میں درجنوں لوگ خاموشی سے سوئے کعبہ رواں دواں تھے۔ عجیب خوابناک ماحول تھا۔

چھوٹے چھوٹے خاموش قافلے ہر سمت اور ہر دروازے سے حرم پاک میں داخل ہو رہے تھے۔

آج نہ جانے خاموشی کا راج کیوں تھا۔

حتیٰ کہ حرم پاک کے اندر ہزاروں لاکھوں لوگ بھی خاموش تھے۔

سب دم سادھے چپ چاپ بیٹھے تھے۔

میں نے سر اٹھا کر سیاہ پوش گھر کو دیکھا۔

وہاں بھی خاموشی تھی۔

الوداعی خاموشی۔

اداس کر دینے والی خاموشی۔

بچھڑنے کی خاموشی۔

یہ خاموشی دور تک میرے اندر بھی پھیل گئی۔

نماز کے بعد دُعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو زبان نے ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔ وہ بھی خاموش تھی۔ اس دن میں صرف ایک ہی دعا مانگنا چاہتا تھا کہ جہاں کہیں بھی ہوں لوٹ کر یہیں آؤں۔ میرا دل صدائیں دے رہا تھا لیکن زبان اس کا ساتھ نہیں دے رہی تھی۔ بڑی مشکل کے بعد میری زبان سے لفظ ادا ہونے شروع ہوئے۔

اے میرے مالک مجھے ہمیشہ اپنا قرب عطا کرنا۔

ہمیشہ اپنی شفقت اپنے کرم اور اپنی محبت کا سایہ میرے سر پر قائم رکھنا۔

یا اللہ میرا ہاتھ تھامے رکھنا۔ میری رہنمائی کرتے رہنا۔

یا اللہ مجھے اس راستے پر گامزن رکھنا جو تمہیں پسند ہو۔

اے میرے مالک اس راستے سے دور رکھنا جس پر چلنے والے تیرے معتوب ہوئے۔

یارب مجھے اپنے نیک بندوں میں شامل کرنا۔ اے دو جہانوں کے مالک اپنے اور میرے حبیب حضرت محمدﷺ کی شفاعت نصیب فرمانا۔

یا اللہ مجھے اپنے پیارے نبیﷺ کے سامنے شرمندہ نہ ہونے دینا۔

اے ربّ ذو الجلال میری اور میرے خاندان کی حفاظت کرنا۔ میرے بچوں کو دین کے راستے پر چلانا۔

انہیں دین اور دنیا کی کامیابیاں عطا کرنا۔

انہیں اپنے در پر حاضری کی توفیق اور ہمت عطا کرنا۔

اے میرے مالک میری عبادتوں میری نمازوں اور میرے حج کو قبول کرنا۔

یا اللہ میرے ٹوٹے پھوٹے الفاظ اور ادھوری دعاؤں کو شرف قبولیت عطا کرنا۔

یا اللہ میری دُعا قبول فرما۔ یا اللہ میری دُعا قبول فرما۔ یا اللہ میری دُعا قبول فرما۔

کافی دیر تک میں گڑگڑاتا رہا۔ اس دوران میری زبان سے لفظ کم اور آنکھوں سے اشک زیادہ جاری تھے۔ ان اشکوں کو روکنا بہت مشکل تھا۔ ہر وقت جیسے پلکوں پر اٹکے ہوئے تھے۔ اِدھر رب کا تصور ذہن میں آتا اُدھر یہ بارش کی طرح برسنا شروع کر دیتے ہیں۔ جب بہنا شروع کرتے تو رکنے کا نام نہیں لیتے۔

اتنے بڑے دربار میں ایک ادنیٰ شخص آنسوؤں کے علاوہ اور کیا نذرانہ دے سکتا ہے۔ اس کے پاس اظہار کا دوسرا ذریعہ بھی نہیں ہوتا۔ رہ

سہ کر آنسو رہ جاتے ہیں۔ کاش ان اشکوں کو زباں مل جائے۔ کاش یہ میراحالِ دل بیان کر سکیں۔ کاش یہ اس کے دربار تک رسائی حاصل کر سکیں۔

نماز کے بعد میں نے سیاہ پوش گھر پر الوداعی نظر ڈالی اور بھاری قدموں اور بھاری دل کے ساتھ واپس ہوٹل چل دیا۔


سفرِ واپسی



راستے میں ٹی سٹال سے ہم نے چائے کا ایک ایک کپ لیا۔ کمرے میں آ کر ایک دو بسکٹ کھائے اور روانگی کے لیے تیار ہو گئے۔ ہمارا سامان رات سے ہی بندھا رکھا تھا۔ فوری استعمال والی چند اشیاء سمیٹ کر بیگ میں ڈالیں۔ کمرے میں الوداعی نظر دوڑائی اور سامان لے کر باہر نکل آئے۔

الشہداء کی وسیع و عریض خوبصورت لابی جو اکثر مہمانوں سے آباد نظر آتی ہے وہاں کچھ لوگ گروپوں کی شکل میں موجود تھے۔ ایک خالی گوشہ دیکھ کر ہم نے سامان رکھا اور صوفوں پر بیٹھ گئے۔ اس وقت صبح کے سات بجے تھے جبکہ آٹھ بجے ہماری جدہ کے لیے رواںگی تھی۔ جہاں سے دبئی کے لیے ہماری پرواز سہ پہر چار بجے تھی۔

حاجیوں کو اسی طرح سات آٹھ گھنٹے قبل ایئر پورٹ پہنچا دیا جاتا ہے۔ اس میں سے کچھ وقت مکہ مکرمہ سے جدہ کے سفر میں گزرتا ہے بقیہ کاغذی کاروائی کرنے میں کام آتا ہے۔ سب سے اہم کام متعلقہ محکمے سے اپنا پاسپورٹ وصول کرنا ہوتا ہے۔ جب تک مسافر کو پاسپورٹ نہیں ملتا اور اس کا بورڈنگ کارڈ اس کے ہاتھ میں نہیں آ جاتا اسے سکون نہیں ملتا۔ کیونکہ تیس لاکھ حاجیوں کے ہوتے ہوئے کچھ بھی انہونی ہو سکتی ہے۔ اگر ہم جیسے بین الاقوامی مسافروں کا پاسپورٹ کھو جائے تو بہت بڑی مصیبت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

اس کے علاوہ کچھ اضافی ادا کیے ہوئے ٹیکس ایئر پورٹ پر ہی واپس کیے جاتے ہیں۔ بورڈنگ کارڈ کا حصول اور چیک اِن کا مرحلہ بھی جدہ میں آسان اور سیدھا نہیں ہوتا۔ جدہ ایئر پورٹ ان دنوں بے انتہا مصروف ہوتا ہے۔

ان وجوہات کی بنا پر حاجیوں کو آٹھ گھنٹے قبل ایئرپورٹ پہنچایا جاتا ہے۔ یا کم از کم ہوٹل سے فارغ کر کے روانہ کر دیا جاتا ہے۔ اس کی قسمت اچھی ہو تو ڈرائیور وقت پر ایئرپورٹ پر پہنچا دیتا ہے۔ اگر قسمت خراب ہو تو پھر کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ایئر پورٹ کے لیے اتنا پہلے روانہ ہونے کی کچھ اور بھی وجوہات ہیں جو سفر کی تفصیل پڑھ کر آپ کی سمجھ میں آ جائیں گی۔

ہم لابی میں بیٹھے ہوئے تھے کہ لبیک کا مالک ہمیں الوداع کہنے کے لیے آ گیا۔ وہ ہر حاجی کو رخصت کرنے خود آتا تھا۔ سلام دعا کے بعد اس نے کہا ’’آپ اوپر جا کر ناشتہ کر لیں۔ ابھی آپ کی بس جانے میں کچھ وقت ہے‘‘

میں نے اہلیہ کی طرف دیکھا تو اس نے اشارہ کیا اس کا دل نہیں چاہ رہا ہے۔ میرا دل اس سے بھی زیادہ کھانے سے اُچاٹ تھا۔ لہٰذا میں نے جواب دیا ’’آپ کا شکریہ! ہمیں اس وقت کھانے کی طلب نہیں ہے‘‘

اس نے کہا ’’جیسے آپ کی مرضی! آپ کو آب زمزم کی ایک بوتل ہماری طرف سے دی جائے گی۔ ہمارے لوگ آپ کو بس کے اڈے پر اتار کر آئیں گے۔ بس کا بندوبست ہم نے کیا ہوا ہے‘‘

وہ رخصت ہوئے تو ہمارے گروپ کے مزید تین جوڑے ہوٹل کی لابی میں آ گئے۔ ان میں جاوید صاحب بھی شامل تھے جو سڈنی واپس جا رہے تھے۔ باقی دوستوں میں ایک جوڑا لاہور اور دوسرا ملبورن جا رہا تھا جبکہ ہماری منزل اسلام آباد تھی۔ ان سب کا تعلق آسٹریلیا سے تھا۔ تقریباً ساڑھے آٹھ بجے دو کاروں میں بٹھا کر ہمیں لاری اڈے پہنچا دیا گیا۔ وہاں بہت سی بسیں موجود تھیں۔ ہمیں ایک بس ڈرائیور کے حوالے کرنے کے بعد ہمارا مینجر لوٹ گیا۔

بس ڈرائیور نے ہماری طرف توجہ ہی نہیں دی۔ وہ وہاں موجود دوسرے ڈرائیوروں سے بات چیت میں مصروف رہا۔ یہ ڈرائیور خالص بدو تھا۔ اس نے قندورہ پہن رکھا تھا جو بے حد میلا اور گندا تھا۔ چپلوں میں سے اس کے کھردرے اور گندے پاؤں جھانک رہے تھے۔ لگتا تھا صدیوں سے یہ پاؤں دھوئے نہیں گئے اور جوتوں سے بھی بے نیاز رہے ہیں۔ اس کے دانت میل خوردہ اور چہرے پر خشخشی سی داڑھی تھی۔ عربی کے علاوہ وہ کسی اور زبان کا ایک لفظ بھی نہیں سمجھتا تھا۔ جبکہ ہم مسافروں میں سے کسی کو بھی عربی نہیں آتی تھی۔

گھنٹہ ڈیڑھ تو اس ڈرائیور نے ہماری طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ ایسے لگتا تھا کہ ہمارے ساتھ اس کا کوئی تعلق ہی نہیں ہے یا ہم اس کی بس کے مسافر ہی نہیں ہیں۔ اس دوران آٹھ دس مزید سواریاں ہمارے ساتھ آ شامل ہوئیں۔ ان کا تعلق کسی دوسرے گروپ سے تھا۔

یہ ایک ویران سا بس اڈہ تھا۔ جس کے سامنے بڑے بڑے خشک پہاڑ اور چٹیل علاقہ تھا۔ قرب و جوار میں کوئی آبادی نہیں تھی۔ بس اڈے پر ایک انتظار گاہ اور ایک چھوٹا سا چائے خانہ تھا۔ ہم لوگ انتظار گاہ کے بجائے اپنی بس کے پاس ہی اپنے اپنے سوٹ کیسوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔

تقریباً ساڑھے دس بجے ہمارا سامان بس پر چڑھا دیا گیا۔ بعض مسافر بھی اپنی اپنی سیٹوں پر براجمان ہو گئے۔ لیکن بس چلنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ وہ تو شکر ہے بس کا انجن اور ایئر کنڈیشنر آن تھا ورنہ اس کھلے اور چٹیل میدان میں دھوپ اور گرمی عروج پر تھی۔ سبزہ یا درخت نام کی کوئی شے نظر نہیں آتی تھی۔ بس پتھر تھے جو اس دھوپ میں چمک رہے تھے۔

ہمارے سوٹ کیس بس کی چھت پر رکھے ہوئے تھے۔ وہاں موجود دو عربوں نے اس کام میں ڈرائیور کی مدد کی تھی۔ میں نے نوٹ کیا کہ انہوں نے سوٹ کیس اوپر جا کر رکھ دیے ہیں لیکن کسی رسی وغیرہ سے باندھا نہیں ہے۔ میں نے اپنے ساتھیوں کو بتایا تو ایک صاحب کہنے لگے ’’شاید چلتے وقت ڈرائیور انہیں رسی سے باندھے گا‘‘

اس وقت بارہ بج چکے تھے جب ہماری بس اپنی جگہ سے ہلی۔ یوں اس اڈے پر ہم نے تین گھنٹے سے زائد انتظار کیا تھا۔ ڈرائیور نے اُوپر جا کر سامان نہیں باندھا تھا۔ بس کے اندر بھی کافی جگہ اور سیٹیں خالی تھیں۔ لیکن ہم نے اپنا سامان پہلے ہی اوپر رکھ چکے تھے۔ متوقع رش کے پیش نظر میں نے اپنا چھوٹا بیگ بھی اوپر رکھوا دیا تھا جس میں نقدی اور دوسری قیمتی اشیاء تھیں۔ اب مجھے اس کی فکر ہونے لگی۔ میں نے ڈرائیور سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن زبان آڑے آ گئی۔ اسے انگریزی اور اردو بالکل نہیں آتی تھی جبکہ میری ٹوٹی پھوٹی عربی بھی اس کی سمجھ سے بالاتر تھی۔ ناچار ہم خاموش ہو گئے۔ ہم نے سوچا کہ آخر وہ پیشہ ور بس ڈرائیور ہے۔ سامان کیسے باندھنا ہے اور گاڑی کیسے چلانی ہے، وہ ہم سے بہتر جانتا ہو گا۔ لیکن یہ ہماری غلط فہمی تھی۔ وہ شخص عقل اور پیشہ ورانہ مہارت ہر پہلو سے عاری تھا۔ مسافروں سے اُس نے سلام دعا تک نہیں کی تھی۔ وہ کسی کی بات سننے کے لیے تیار نہیں تھا اور خود عقل سے پیدل تھا۔

وہی ہوا جس کا ہمیں ڈر تھا۔ عین موٹر وے پر جہاں بس کی رفتار سو کلو میٹر سے زائد تھی گڑگڑاہٹ سی سنائی دی۔ کسی سواری نے سامان گرتے دیکھ لیا تو اس نے شور مچایا۔ ڈرائیور متوجہ ہوا تو اس نے آہستہ آہستہ گاڑی کی رفتار کم کرنے کی کوشش کی۔ رفتار کم ہوتے ہوتے اور رُکنے کے لیے مناسب جگہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے بس کئی کلومیٹر آگے نکل آئی۔ ڈرائیور نے بھی بیک ویو مرر سے کچھ گرتا دیکھا تھا۔ اس موٹر وے پر گاڑیوں کی حد رفتار اتنی زیادہ ہے کہ پیچھے آنے والی گاڑیوں کو اس سامان کی وجہ سے حادثہ بھی پیش آ سکتا تھا۔

ڈرائیور کو اپنی غلطی کا اندازہ ہو گیا تھا۔ وہ پہلی دفعہ پریشان نظر آیا۔ ہم ڈرائیور سے اور اس مسافر سے پوچھ رہے تھے کہ کتنے سوٹ کیس گرے ہیں۔ لیکن کسی کو صحیح علم نہیں تھا۔

سعودی عرب میں ٹریفک سڑک کے دائیں طرف چلتی ہے۔ جس سڑک پر ہم سفر کر رہے تھے اس کے دائیں جانب کافی گہرا اور پتھریلا علاقہ تھا۔ سڑک کا فی اونچائی پر تھی۔ اگر سوٹ کیس سڑک پر گرے تھے تو وہ حادثے کا باعث بن سکتے تھے۔ پیچھے سے آنے والی تیز رفتار گاڑی کی ٹکر سے گاڑی کو بھی نقصان پہنچ سکتا تھا اور سوٹ کیس بھی ٹوٹ کر بکھر سکتے تھے۔ اگر وہ سڑک سے باہر گہرائی میں جا کر گرے تھے تو انہیں ڈھونڈنا تقریباً نا ممکن تھا۔

ادھر ڈرائیور بس کے پیچھے کھڑا آنے والی گاڑیوں کے ڈرائیوروں سے اشارے کی مدد سے گرے ہوئے سامان کے بارے میں پوچھ رہا تھا۔ ڈرائیور کی اشارہ بازی کے جواب میں ایک کار آ رکی۔ اس میں دو مقامی نوجوان سوار تھے۔ انہوں نے ڈرائیور کو کچھ بتایا۔ میں جلدی سے اس کے پاس گیا اور ان سے پوچھا۔ وہ انگریزی سمجھتے تھے۔ انہوں نے بتایا ’’آپ کی بس سے گرا ہوا ایک سوٹ کیس سڑک پر پڑا تھا۔ ہم نے اسے اٹھا کر سٹرک کے کنارے رکھ دیا ہے اور پولیس کو فون کر کے بتا دیا ہے‘‘

میں نے اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ’’آپ ہمارے ڈرائیور کو بتا سکتے ہیں کہ اِسے کس پولیس اسٹیشن میں جانا چاہیے۔‘‘

انہوں نے ڈرائیور کو سمجھایا اور چلے گئے۔

ہم دوبارہ بس میں بیٹھے اور ڈرائیور نے بس چلا دی۔ میں نے پھر اس سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن اس کا لہجہ میری سمجھ میں نہیں آیا۔ لہٰذا ہم اس کے رحم و کرم پر خاموشی سے بیٹھ گئے۔ بس بدستور جدے کی طرف دوڑتی جا رہی تھی جبکہ ہم میں سے ایک یا زائد کا سامان پیچھے رہ گیا تھا۔ پندرہ بیس کلومیٹر کے بعد موٹر وے سے نکلنے کا پہلا راستہ نظر آیا تو ڈرائیور نے وہ ایگزٹ لے لیا۔ باہر نکل کر اس نے یو ٹرن لیا اور واپس اسی موٹر وے پر مکہ کی جانب گامزن ہو گیا۔ اس وقت تک ہم تقریباً ایک گھنٹے سے زائد ڈرائیو کر چکے تھے۔ میرے حساب سے ہم جدہ کے قریب پہنچ چکے تھے۔ لیکن اب پھر دور جا رہے تھے۔ اس وقت تک ڈیڑھ بج چکا تھا۔ اب ان حالات میں خطرہ تھا کہ ہم بر وقت ایئرپورٹ نہیں پہنچ پائیں گے۔ یہ حج فلائٹ تھی جس کے لیے گھنٹوں پہلے پہنچنا ضروری ہوتا ہے۔

ہم تو آٹھ گھنٹے پہلے ہوٹل سے نکل آئے تھے لیکن ایسے ڈرائیور کے ہتھے چڑھ گئے تھے جو اپنی ہی دھُن میں مگن تھا۔ اسے احساس ہی نہیں تھا کہ تاخیر کی صورت میں ان مسافروں کو کتنی بڑی مصیبت کا سامنا کرنا پڑھ سکتا ہے۔ حج کے دنوں میں آپ کی فلائٹ چھوٹ جائے تو پھر دوسری فلائٹ آسانی سے نہیں ملتی۔ کیونکہ لاکھوں لوگ پہلے ہی انتظار میں بیٹھے ہوتے ہیں۔ یہی فکر ہم سب کو کھائے جا رہی تھی کہ اب کیا ہو گا۔

تقریباً آدھے گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد ڈرائیور نے ایک پولیس اسٹیشن کے باہر بس روکی۔ بھلا ہو پولیس والوں کا وہ فوراً باہر نکل آئے۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں ایک ہی سوٹ کیس ملا ہے۔ پولیس والوں کے کہنے پر ہم نے بس کی چھت پر چڑھ کر اپنا اپنا سامان چیک کیا۔ میں نے اس وقت خدا کا شکر ادا کیا جب دیکھا کہ ہمارے تینوں سوٹ کیس وہیں موجود تھے۔ میں نے اہم کاغذات والا چھوٹا سوٹ کیس نیچے اتار لیا۔

پولیس والے اندر سے جو سوٹ کیس لائے وہ جاوید صاحب کا تھا۔ یہ کافی بڑا اور بھاری سوٹ کیس تھا۔ خوش قسمتی سے گرنے کے باوجود ٹوٹ پھوٹ سے بچ گیا تھا اور بدستور مقفل تھا۔ پولیس نے وہ سوٹ کیس ہمارے حوالے کیا۔ اس دفعہ ڈرائیور نے سامان کے اوپر ایک جال سا بچھایا اور پھر رسی بھی پھیر دی۔ یہی کام وہ شروع میں کر لیتا تو اتنی پریشانی نہ اٹھانی پڑتی اور نہ ہی اتنی تاخیر ہوتی۔

اب ہم دوبارہ جدّہ کی طرف محو سفر تھے۔ اس دفعہ راستے میں کوئی واقعہ پیش نہیں آیا لیکن جدہ پہنچ کر ڈرائیور ایئر پورٹ کا راستہ بھول گیا۔ وہ کسی سے پوچھ رہا تھا اور نہ کسی کو بتا رہا تھا۔ بس گاڑی بے مقصد شہر میں گھما رہا تھا۔ میں نے نوٹ کیا کہ ہماری بس ایک مقام سے دو دفعہ گزر چکی ہے۔ میں نے اپنے ساتھیوں کو بتایا تو وہ بھی فکر مند ہو گئے۔ ہمیں گڑ بڑ کا احساس ہو چکا تھا۔ دوسرے ساتھی بھی چوکنا ہو گئے۔ ڈرائیور کے چہرے پر ہوائیاں اُڑ رہی تھیں۔ حسبِ سابق کسی بات کا جواب بھی نہیں دے رہا تھا۔ آخر ایک پٹرول پمپ پر اس نے بس روک دی اور ایئر پورٹ کا راستہ معلوم کرنے کے لیے آفس کے اندر چلا گیا۔

تمام مسافر حیران و پریشان بیٹھے تھے۔ اڑھائی بج چکے تھے۔ ہماری فلائٹ کی روانگی میں صرف ڈیڑھ گھنٹہ باقی تھا۔ ابھی تک ہم ایئرپورٹ ہی ڈھونڈ رہے تھے۔ خدا خدا کر کے ڈرائیور واپس آیا اور واپس اسی راستے پر بس موڑ لی جدھر سے آئے تھے۔ اس دفعہ ہم سب بھی باہر دیکھ رہے تھے۔ آگے چل کر ائیر پورٹ کا سائن نظر آیا تو ہم نے ڈرائیور کو متوجہ کیا۔ اس نے بروقت گاڑی اس طرف موڑ لی ورنہ وہ آگے نکلا ہی جا رہا تھا۔

اتنی دیر میں ایک ساتھی نے اپنے موبائل پر جدہ کا نقشہ کھول لیا۔ وہ ڈرائیور کے پاس جا بیٹھا اور اس کی رہنمائی کرنے لگا۔ ان صاحب کی رہنمائی میں ہم ایئرپورٹ تو پہنچ گئے لیکن وہ اندرون ملک والی پروازوں کا ائیر پورٹ تھا۔

ایک دفعہ پھر ہماری بس سڑکوں پر دوڑنے لگی۔ پانچ دس منٹ بعد ہمیں بین الاقوامی ہوائی اڈہ نظر آیا تو مسافروں نے سکھ کا سانس لیا۔ اس وقت پونے تین بج چکے تھے۔ ایئرپورٹ کی عمارت کے سامنے ایک مخصوص زاویے پر بسیں پارک کرنا پڑتی ہیں۔ ہمارا ڈرائیور کافی دیر تک کوشش کرتا رہا لیکن ان مخصوص نشانوں کے اندر پارک نہ کر سکا۔ تھک ہار کر اس نے درمیان میں ہی بس روک لی اور پھر سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ ہم نے اپنی مدد آپ کے تحت اپنا سامان چھت سے اتارا اور نیچے اتر کر ڈرائیور کا انتظار کرنے لگے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہمارے پاسپورٹ ڈرائیور نے ہی لے کر دینے تھے۔ آج ہمارا کنٹرول اسی کے ہاتھ میں تھا۔

جب وہ باہر نکلا تو ہم نے اسے ائیرپورٹ کے اندر چلنے کے لیے کہا۔ لیکن اس کے پاس وہی جواب تھا جو صبح سے سنتے آئے تھے ’’انامافی معلوم۔ انا مافی معلوم۔ (مجھے علم نہیں ہے۔ مجھے علم نہیں ہے)۔ ہم تقریباً دھکیلتے ہوئے اُسے اندر لے گئے۔ وہاں پاسپورٹ حاصل کرنے والا کاوئنٹر بھی ہم نے ہی ڈھونڈا۔ انہوں نے یہ پاسپورٹ ڈرائیور کو دیے اور اس سے دستخط لینے لگے۔ اس دوران ہم نے یہ پاسپورٹ اپنے ہاتھ میں لیے اور ساتھیوں کے درمیان تقسیم کر دیے۔ پاسپورٹ ہاتھ میں آتے ہی ہم نے دوڑ لگا دی۔ اُدھر ڈرائیور بخشش بخشش کہتا ہوا ہمارے پیچھے پیچھے دوڑ رہا تھا۔ لیکن کسی نے پیچھے مڑ کر دیکھا تک نہیں۔ سب تیر کی طرح چیک اِن کاؤنٹر پر جا کر رُکے۔

لیکن یہ ساری بھاگ دوڑ بیکار گئی۔ وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا۔ ہماری فلائٹ کا کاؤنٹر بند ہو چکا تھا۔

حالانکہ پرواز میں ایک گھنٹہ ابھی باقی تھا۔ دنیا کے مختلف ایئر پورٹ پر بین الاقوامی فلائٹ کا کاؤنٹر بند ہونے کے مختلف اوقات مقرر ہیں۔ بیشتر فضائی کمپنیوں کے کاؤنٹر ایک گھنٹہ پہلے بند ہو جاتے ہیں۔ لیکن میں نے ایسے ایئر پورٹ بھی دیکھے ہیں جہاں پندرہ منٹ پہلے بھی بورڈنگ کارڈ ایشو کر دیا گیا۔ سعودی عرب جیسے ملک میں ہم بحث نہیں کر سکتے تھے اور نہ ہی کوئی دباؤ ڈال سکتے تھے۔ لہٰذا ہم اُسی طرح قطار بنا کر کاؤنٹر کے سامنے کھڑے رہے۔ حالانکہ عملے کے دونوں افراد نے جواب دے دیا تھا۔ انہوں نے صاف بتا دیا تھا کہ اس فلائٹ کی سروس بند ہو چکی ہے۔ اب کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ آپ لوگ کسی دوسری فلائٹ میں سیٹیں بک کرا لیں۔ یہ کہہ کر وہ کاؤنٹر سے بھی ہٹ گئے تھے۔

ہماری مایوسی اور پریشانی اس وقت دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ ہم نے اپنا ہوٹل چھوڑ دیا تھا اور مکہ سے جدہ آ گئے تھے۔ اس فلائٹ نے ہمیں دبئی پہچانا تھا جہاں سے ہمیں اگلی فلائٹ پکڑنا تھی۔ سب ساتھیوں نے مختلف پروازوں کے ذریعے مختلف جگہوں پر جانا تھا۔ جہاں ہمارے عزیز و اقارب انتظار کر رہے تھے۔ مگر ہم تو جدہ میں ہی پھنس گئے تھے۔ یہاں سے متبادل فلائٹ ملنا بہت مشکل تھا۔ کیونکہ ہر فلائٹ مہینوں پہلے پوری طرح بک ہو چکی ہوتی ہے۔ پھر ہماری اگلی فلائٹ کا بھی مسئلہ تھا۔ اس کی بھی نئے سرے سے بکنگ کروانا پڑتی۔ غلطی بہرحال ہماری تھی کیونکہ ہم بر وقت ائیر پورٹ نہیں پہنچ پائے تھے۔

اگر ہم اس پرواز سے نہ جا سکے تو پھر کون سی پرواز سے جائیں گے؟

اس دوران ہم کہاں ٹھہریں گے؟

کیا ہمیں دوبارہ ٹکٹ خریدنا پڑیں گے؟

یہاں ہمارے گروپ والے بھی ہماری مدد کو موجود نہیں تھے۔ انہوں نے آج صبح ہمیں فارغ کر دیا تھا۔ ہمارے ذہنوں میں یہی سوالات گردش کر رہے تھے۔ بلکہ ہم سب کے چہروں پر بھی تحریر تھے۔

اتنی دیر میں مقامی لباس میں دو عربی آئے۔ وہ ہماری قطار کو نظر انداز کر کے سیدھے کاؤنٹر پر جا دھمکے۔ ان کے ہاتھ میں ٹکٹ اور پاسپورٹ تھے۔ انہیں دیکھ کر عملے کے دونوں آدمی واپس آ گئے۔ ان کی گفتگو شروع ہوئی جو ظاہر ہے ہمیں پوری طرح سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ بار بار دبئی کا ذکر ہو رہا تھا اور گھڑی دکھائی جا رہی تھی۔ دوسری طرف عملے کے لوگ اپنی گھڑیاں دکھا رہے تھے اور ان کے گھڑے جیسے سر نفی میں ہِل رہے تھے۔

دو تین منٹ کی بحث کے بعد عملے کے ان آدمیوں نے ان عربیوں سے پاسپورٹ اور ٹکٹ لے لیے۔ تھوڑی ہی دیر میں ان کے ہاتھ میں بورڈنگ کارڈ تھما دیے گئے۔ ان کے ساتھ ساتھ انہوں نے ہم چار خاندانوں کے پاسپورٹ بھی پکڑ لیے۔ اگلے چند منٹوں میں ہمارے بورڈنگ کارڈ ہمارے ہاتھ میں تھے اور ہم امیگریشن کاؤنٹر کی طرف بھاگے چلے جا رہے تھے۔

عملے کے وہ دونوں آدمی ہمیں جانوروں کی طرح ہانک رہے تھے اور جلدی جلدی کی رٹ لگائے ہوئے تھے۔ اس سے پہلے انہوں نے جو دس پندرہ منٹ ضائع کیے تھے اس کا انہیں احساس نہیں تھا۔ وہ ہمیں ایسے ہانک رہے تھے جیسے کوئی جانوروں کو ہانکتا ہے۔ کیا خوب کسٹمرسروس ہے ہمارے عربی بھائیوں کی۔ وہ بین الاقوامی مسافروں کو بھیڑ بکریاں سمجھ کر اپنے زیرِ کفالت مزدوروں کی طرح ہانک رہے تھے۔

امیگریشن ہال میں جانے سے پہلے ہم نے فارم بھرے اور کاؤنٹر پر جا کھڑے ہوئے۔ یہ فارم ہال کے دروازے پر رکھے ہوئے تھے۔ سیکورٹی کے عملے اور امیگریشن والوں کو کوئی جلدی نہیں تھی۔ وہ معمول کے مطابق بال کی کھال اتار رہے تھے۔ میرے ساتھیوں میں سے ہر ایک کو اتنی جلدی تھی کہ کوئی پیچھے مڑ کر دیکھنے کا بھی روا دار نہیں تھا۔

جب میرا نمبر آیا تو معلوم ہوا کہ میں نے غلط فارم بھر دیا ہے۔ اس دوران میرے سارے ساتھی امیگریشن کے مراحل سے نکل کر جہاز کی طرف بڑھ گئے۔ میں نے امیگریشن والوں سے دوسرا فارم مانگا تو وہ ان کے پاس نہیں تھا۔ لہٰذا میں امیگریشن ہال کے داخلی دروازے کے باہر گیا اور نیا فارم لے کر آیا۔ فارم بھر کر پھر نئے سرے سے قطار میں کھڑا ہونا پڑا۔ اتنی دیر میں میرا اور میری اہلیہ کا نام پکارا جانے لگا۔ اعلان تھا کہ آپ کی فلائٹ روانگی کے لیے تیار ہے آپ جلد از جلد گیٹ نمبر بارہ پر پہنچیں۔

میں نے ہاتھ بلند کر کے عملے کو بتایا کہ یہ ہم ہیں۔ اس دفعہ انہوں نے پاسپورٹ لیے اور فوری کاروائی شروع کر دی۔ اگلے چند منٹ میں ہمیں جہاز پر پہنچا دیا گیا۔ جونہی ہم اندر پہنچے دروازے بند کر دیے گئے۔ ہم جہاز میں سوار ہونے والے سب سے آخری مسافر تھے۔

سعودی ایئر لائن کے جہاز کی سیٹ پر بیٹھے تو یوں لگا کہ لمبی میراتھن ریس کے بعد منزل پر پہنچے ہوں۔ پچھلے کئی گھنٹے بلکہ یہ پورا دن ایسا گزرا تھا کہ اس کے بارے میں سوچ کر آج بھی پسینہ آ جاتا ہے۔ ہم انتہا درجے کی جسمانی اور ذہنی مشقت بلکہ اذیت سے گزرے تھے۔ صرف اس وجہ سے کہ ہمیں نا تجربہ کار، جاہل اجڈ ڈرائیور کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ اس شخص کو یہ کام سونپنے سے پہلے ذرا بھی نہیں سوچا گیا کہ اس کی وجہ سے کتنے لوگوں کو تکلیف اور پریشانی اُٹھانا پڑ سکتی ہے۔

اگر کسی ترقی یافتہ ملک میں ایسا ہوتا (اگرچہ ایسا ہونے کے امکانات ہی نہیں ہیں) تو اس کی شکایت بہت دور تک جاتی اور اس کے ذمہ دار تمام لوگوں کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا۔

اگر پاکستان میں بھی ہوتا تو کسی نہ کسی کو شکایت کی جا سکتی تھی یا میڈیا میں خبر آ سکتی تھی۔ لیکن سعودی عرب جیسے ملک میں یہ سب چلتا ہے۔ وہاں سب سے نرالا لیکن ان کا اپنا انداز حکمرانی ہے۔ جس میں کسی کی کوئی شنوائی نہیں ہے۔ ہمارے بس میں محض ایک چیز تھی جو وہاں پر ہر روز سکھائی جاتی تھی وہ ہے صبر۔ سو ہم بھی صبر کے گھونٹ پی کر وطن لوٹ آئے۔

حجاز مقدس اور خصوصاً حرمین شریفین میں جتنی خیر و برکت اور روح کی بالیدگی حاصل ہوئی اس کے عوض میں ہم نے ان تمام لوگوں کو دل سے معاف کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان تمام لوگوں کو معاف کرے جن کے ہاتھوں مجھے یا دیگر لوگوں کو تکلیف پہنچی۔ اللہ تعالیٰ ان کو آسانیاں فراہم کرنے کی توفیق عطا کرے۔

جہاز کی آرام دہ سیٹ بہت آرام اور سکون دے رہی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ شدید جسمانی اور ذہنی تھکن کے بعد سکون کا سانس لینے کا موقع ملا تھا۔ جب سر پر سے فکر اور پریشانی کا بوجھ کم ہوا تو احساس ہوا کہ ہم کتنے تھک چکے ہیں۔ پچھلی رات ہم صرف دو اڑھائی گھنٹے سوئے تھے۔ اُوپر سے دن کا ایک ایک لمحہ پریشانی، فکر اور تشویش میں گزرا تھا۔ اس فکر اور پریشانی میں ہمیں خیال ہی نہیں آیا کہ کل رات سے لے کر آج شام تک ہم نے کچھ نہیں کھایا تھا۔ بھاگ دوڑ میں بھوک پیاس حتیٰ کہ اپنی بیماری کو بھی بھولے ہوئے تھے۔

تاہم اب کچھ سکون ملا تو بھوک اور پیاس محسوس ہونے لگی۔ جسم کا درد بھی یاد آنے گا اور گلے کی تکلیف بھی ستانے لگی۔ یہ سچ ہے کہ بڑی مصیبت میں انسان چھوٹی چھوٹی پریشانیوں کو بھول جاتا ہے۔ ہم بھی فلائٹ چھُٹ جانے کی بڑی فکر میں مبتلا تھے جس کی وجہ سے بھوک پیاس اور دکھ درد سب بھولے ہوئے تھے۔ اب فلائٹ مل گئی اور اس کی آرام دہ سیٹ پر بیٹھ کر وہ چھوٹے مسائل یاد آ گئے تھے۔ بھوک چمک اٹھی تھی۔

ایسا بہت دنوں بعد ہوا تھا۔ پچھلے کئی دنوں سے یا تو ہم نے کھانا ہی چھوڑ دیا تھا۔ اگر دن میں ایک آدھ مرتبہ کھاتے بھی تھے تو بہت بے دلی اور بے رغبتی سے نوالہ حلق سے نیچے اترتا تھا۔ مگر آج اتنے دنوں بعد سعودیہ ایئرلائن میں ملنے والے پلاؤ اچھا لگ رہا تھا۔ ہم نے رغبت سے کھایا۔ یہ سلسلہ اگلی پرواز میں بھی جاری رہا۔ میری طبیعت بحال ہونے لگی تھی۔

جدہ ایئر پورٹ پر میرے ساتھیوں نے ایسی پھرتیاں دکھائیں کہ ہم بار بار ان سے پیچھے اور اکیلے رہ جاتے تھے۔ سب پر افراتفری کا عالم طاری تھا۔ ایسے لگتا تھا کہ ہم ایک دوسرے کو پہچانتے بھی نہیں تھے۔ امیگریشن کے کاؤنٹر پر جب ہمیں روک لیا گیا تو انہوں نے اندر جاتے ہوئے ہمدردی بھری نظر ڈالی اور پردے کے پیچھے غائب ہو گئے۔ جہاز میں جا کر ہم پھر شیر و شکر ہو گئے۔ سب باری باری ہماری سیٹ پر آ کر ہماری خیریت دریافت کرتے رہے۔ دبئی ایئر پورٹ پر اُتر کر پھر وہی منظر دہرایا گیا۔ ایئر پورٹ کے طول عرض میں ساتھی اس طرح گم ہوئے کہ جاتے ہوئے خدا حافظ بھی نہیں کہا۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا تھا۔ سفر میں بننے والی دوستیاں (چاہے یہ سفر کتنا ہی لمبا کیوں نہ ہو) سفر ختم ہوتے ہی ایسے ختم ہوتی ہیں جیسے ریت میں بنے گھروندے تیز ہوا سے اُڑ جاتے ہیں۔

اتنے عرصے بعد ائیر ہوسٹس کو پورے میک اپ کے ساتھ بنا سنورا دیکھا تو عجیب سا لگا۔ در اصل دورانِ حج کوئی مرد یا عورت نہیں ہوتا، عازمینِ حج ہوتے ہیں یا پھر حاجی۔ کوئی کسی کو دوسری نظر سے نہیں دیکھتا ہے۔ حالانکہ دورانِ طواف، قیام مزدلفہ اور دوسری جگہوں پر مرد اور عورتیں اکٹھے ہوتے ہیں لیکن مجال ہے کہ کسی مرد یا عورت کے ذہن میں جنسِ مخالف کے بارے میں کوئی غلط خیال بھی آ جائے۔

لیکن جہاز میں بیٹھتے ہی جیسے شیطان آزاد ہو گیا تھا۔ تنگ لباس میں ملبوس ایئر ہوسٹس، اس کا شوخ میک اپ، اس کا انداز دلبرانہ، مردوں کی ستائشی نظریں، سعودی مردوں کا اس سے مذاق اور باقی مسافروں کا دبے دبے مسکرانا، یہ سب عجیب لگ رہا تھا۔ لیکن کیا سب کے لیے ایسا کہا جا سکتا ہے۔ شاید نہیں۔ کسی کے دل کا حال دوسرا کیسے جان سکتا ہے۔ پھر یہ تو اس دُنیا کے مسافر تھے جس کے بارے میں جاننا اور بھی مشکل ہے۔

یہ شہرطلسمات ہے کچھ کہہ نہیں سکتے

پہلو میں کھڑا شخص فرشتہ ہے کہ ابلیس


دبئی ائرپورٹ



سعودیہ ایئر لائن میں جس دنیا کی ایک جھلک نظر آئی تھی دبئی ایئرپورٹ پر اس کے جلوے عام تھے۔ دبئی ائیر پورٹ کئی دُنیاؤں کا سنگم ہے۔ وہاں حاجیوں کے قافلے بھی اُترتے ہیں اور یورپین سیاح بھی نظر آتے ہیں۔ وہاں شلوار قمیض اور دھوتی کرتا پہنے پاکستانی اور بنگالی مزدور بھی نظر آتے ہیں تو شارٹ اسکرٹ میں ملبوس یورپی اور امریکی خواتین بھی اپنے بدن کی نمائش کر رہی ہوتی ہیں۔ عربی قندورے بھی نظر آتے ہیں اور افریقی لباس کی جھلک بھی دکھائی دیتی ہے۔ وہاں برقع پوش خواتین بھی ہوتی ہیں اور بھارت اور پاکستان کی الٹرا ماڈرن خواتین بھی اپنے لباس اور جسم کی چکا چوند دکھا رہی ہوتی ہیں۔ ایک طرف معمولی لباس پہنے مزدور نظر آتے ہیں تو دوسری طرف پچاس پچاس افراد کی معیت میں پاکستانی سیاستدان اور ان کے خاندان بھی شاپنگ کے لیے دبئی آتے جاتے رہتے ہیں۔

دبئی ایئر پورٹ پر انتہائی مہنگی اشیاء پر مشتمل دکانیں اور بین الاقوامی کھانوں کے ریستوران موجود ہیں۔ ان کے کھانوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرتی نظر آتی ہیں۔ کئی کیفے ایسے ہیں جن میں کافی کا ایک کپ دس ڈالر کا ہے۔ چمکتے دمکتے سونے کے زیورات، جدید ترین فیشن کے ملبوسات، دنیا کے مہنگے ترین عطریات (پرفیوم) مہنگی شرابیں، سگریٹ، چمڑے کی مصنوعات، فن پارے، تحائف (گفٹ شاپ) کی دکانیں اور وہ ہر چیز برائے فروخت ہے، جو تصور میں آ سکتی ہے۔

ان کے علاوہ کھانے پینے کے لیے ہر قسم کے ریستوران جگہ جگہ موجود ہیں۔ ان میں دنیا بھر کے کھانے ملتے ہیں۔ ان کی قیمت سن کر ایک دفعہ تو بھوک اڑ جاتی ہے۔ لیکن یہ دبئی ہے جو دنیا بھر کے چور اچکوں، رشوت خوروں، کرپٹ اور ناجائز کمانے والوں کی جنت ہے۔ ان کی حرام کی کمائی، ان کی یہ جنت غریبوں اور مزدوروں کے لیے دوزخ سے کم نہیں ہے۔ کیونکہ ایک طرف اگر کوئی پچاس ڈالر کا لنچ کھا کر مونچھوں پر ہاتھ پھیرتا ہوا باہر نکلتا ہے تو دوسری طرف مزدور بینچ پر بیٹھے گھر کا بنا انڈا پراٹھا کھا رہے ہوتے ہیں۔ یہ دو مختلف دنیاؤں کے لوگ ہیں۔

کچھ مسجد سے نماز پڑھ کر آ رہے ہوتے ہیں اور کچھ مے خانے اور جوئے خانے میں گھسے ہوتے ہیں۔

کچھ لوگ قیمتی تحائف خرید رہے ہوتے ہیں کچھ ان تحائف والوں کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔

ایئر پورٹ کے ایک حصے میں دو بنچوں پر چند پاکستانی اور ہندوستانی مزدور بیٹھے غالباً اپنی فلائٹ کا انتظار کر رہے تھے۔ ان کے حلیے اور انداز سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ بڑے شہروں سے دور کسی ایسی جگہ مزدوری کرتے ہیں جہاں صنفِ نازک کا گزر بہت کم ہوتا ہے۔ وہ ہر مسافر کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہے تھے۔ لیکن کسی ماڈرن یا فیشن زدہ عورت کو دیکھتے تو جیسے ان کی باچھیں کھل جاتیں اور دیدے کھلے کے کھلے رہ جاتے۔ جیسے یہ منظر انہوں نے پہلی مرتبہ دیکھا ہو۔

اتنے میں برٹش ائیر ویز کی ایئرہوسٹس اپنے چست لباس، مختصر ترین سکرٹ، برہنہ ٹانگوں اور اونچی ایڑی والی جوتی کے ساتھ ایک طرف سے نمودار ہوئی۔ اپنے دراز قد، سنہرے بالوں اور بدن کو نمایاں کرنے والے لباس کے ساتھ وہ ان دیہاتیوں پر جیسے بجلی بن کر گر پڑی۔ وہ سانس تک لینا بھول گئے تھے۔ آنکھوں کے ساتھ ساتھ ان کے منہ بھی کھلے کے کھلے رہ گئے تھے۔ جیسے جیسے وہ ان کے قریب آتی جا رہی تھی ویسے ویسے ان کا فشارِ خون بلند ہوتا جا رہا تھا۔ ائیر ہوسٹس اونچی ایڑی والی جوتی سے ٹک ٹک کرتی گویا ان کے دل پر وار کرتی ان کے پاس سے گزر گئی۔ اس کے ہر قدم سے مزدوروں کے دل بھی دھک دھک کر رہے تھے۔ جونہی وہ ان کے پاس سے گزری تو اس کی ہیجان انگیزی میں مزید اضافہ ہو گیا۔ مزدور پہلے سے بھی زیادہ بے چین دکھائی دینے لگے۔ ایسے لگتا تھا کہ ان میں سے ایک آدھ کا دل ضرور بیٹھ جائے گا۔ ان کی نظریں اس پر اس وقت تک گڑی رہیں جب تک وہ ایک موڑ پر جا کر نظروں سے اوجھل نہیں ہو گئی۔ اس حسینہ کو بھی اپنی جان لیوا اداؤں کا احساس تھا۔ وہ ان کی نظروں کو پڑھ کر آگے گئی تھی۔ لہٰذا اس نے موڑ مڑنے سے پہلے گھوم کر ایسی قاتلانہ نظروں سے دیکھا کہ رہی سہی کسر بھی پوری ہو گئی۔ یہ سات آٹھ نوجوان مرغِ بسمل کی طرح تڑپ کر رہ گئے۔

دبئی ایئر پورٹ ایک ایسے بین الاقوامی شہر کی مانند ہے جہاں دنیا بھر کے لوگ اپنے اپنے لباس، اپنی تہذیب و تمدن، اپنے عقیدے اور اپنی زبان کے ساتھ آزادی کے ساتھ زندگی بسر کر سکتے ہیں۔ ان میں ہر رنگ ونسل، ہرزبان، ہر تہذیب، ہر طبقے اور ہر علاقے کے لوگ شامل ہیں۔ اس انتہائی وسیع و عریض، صاف ستھرے اور منظم ایئر پورٹ پر کام کرنے والے عملے کے تمام ارکان انگریزی سمجھتے اور بولتے ہیں۔ وہ ہر ممکن مسافروں کی مدد کرتے ہیں۔ ان کا انداز اور طریقہ بہت دوستانہ اور خوشگوار ہے۔

ایک اسلامی ملک میں بین الاقوامی سطح کی کسٹمر سروس دیکھ کر دلی مسرت ہوئی۔ کاش کہ تمام اسلامی ممالک یو اے ای کی تقلید کرتے ہوئے اسی مثالی کسٹمر سروس کا مظاہرہ کریں اور اقوام عالم میں اچھی اور عزت کی نگاہ سے دیکھے جائیں۔ اس سے اسلام کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے آئے گا جو اس وقت عام دنیا سے پوشیدہ ہے۔ ا صل اسلام اور اس کا اصلی چہرہ وہ ہر گز نہیں ہے جو یورپ، امریکہ، آسٹریلیا اور دوسرے غیر مسلم ممالک کے لوگوں کے ذہنوں میں بدقسمتی سے بٹھا دیا گیا ہے۔

اسلام کا اصل چہرہ دیکھنے کے لیے ریاست مدینہ اور اس کے شہریوں کا تصورذ ہن میں لانا پڑے گا۔ جو اتنا دوستانہ، اتنا حلیم اور اتنا انسان نواز تھا کہ اس کی مثال نہیں ملتی ہے۔ اللہ کے وہ بندے جن کی تربیت خود رسول پاکﷺ نے کی تھی اخلاق کا بہترین نمونہ تھے۔ یہ ان کا اخلاق تھا جس کی وجہ سے اسلام جنگل کی آگ کی طرح پوری دنیا میں پھیل گیا تھا۔ اس دور کے مسلمانوں کے اخلاق حسنہ کی وجہ سے غیر مسلموں کے جھنڈ کے جھنڈ دائرہ اسلام میں داخل ہوتے تھے۔ جہاں مسلمانوں کا قدم پڑتا تھا وہاں وہ اپنے حسنِ اخلاق سے نئی مثالیں اور نئی تاریخ رقم کرتے تھے۔ اسلام بروز شمشیر نہیں بلکہ اسی اخلاق کی وجہ سے پھیلا ہے۔ مسلمانوں کا سب سے بڑا ہتھیار اللہ پر ایمان اور ان کا اخلاق تھا۔ جس کی وجہ سے انہوں نے آدھی دنیا فتح کر لی تھی۔ پیغمبراسلامﷺ کی انسان دوستی، حسن اخلاق، احترام انسانیت، عفو و درگزر، رحم دلی، جود و سخا اور نرم دلی کی ایسی ایسی مثالیں موجود ہیں جن کا اعتراف دنیا بھر کے غیر مسلموں نے بھی کیا ہے۔ وہ اپنے بدترین دشمنوں کو بھی بددُعا نہیں دیتے تھے۔ انہوں نے اپنے، اپنے خاندان اور مسلمانوں کے جانی دشمنوں اور قاتلوں کو بھی معاف کر کے رہتی دنیا تک مثال قائم کر دی۔

حضور نبی کریمﷺ اپنے اوپر کوڑا پھینکنے والی بڑھیا کی مزاج پرسی کے لیے اس کے گھر تشریف لے گئے تھے۔ صلح حدیبیہ میں ان کی صلح جوئی، فتح مکہ کے موقع پر عام معافی کا اعلان، جنگ بدر کے قیدیوں کی واپسی، مدینہ کے یہودیوں کو تحفظ کی یقین دہانی، اہل طائف کے ظلم کے جواب میں ان کو بد دعا دینے سے انکار کرنا، اہل قریش کے تمام ظلم و ستم کو معاف کر دینا، اپنے خاندان کے خون معاف کر دینا، غلاموں سے حسنِ سلوک، خواتین کا احترام، چھوٹوں سے شفقت، جنگی قیدیوں سے رحم دلی سے پیش آنا۔ یہ تمام حالات و واقعات پیغمبر اسلامﷺ کے اعلیٰ ترین اخلاق، انسانیت نوازی اور صلہ رحمی کی وہ روشن مثالیں ہیں کہ ان کا عشر عشیر بھی اگر کسی عام مسلمان کے کردار میں شامل ہو جائے تو وہ حسنِ اخلاق کا روشن مینار بن جائے۔

اسلامی ریاستوں میں ایک کتا بھی بھوکا نہیں رہتا تھا اور کمزور سے کمزور شخص بھی اتنا ہی محفوظ تھا جتنا مملکت کا سربراہ ہوتا تھا۔ اسلام دوسرے مذاہب اور ان کے پیروکاروں کا احترام سکھاتا ہے۔ تحمل اور بردباری کا سبق دیتا ہے۔ برداشت اور صبرسکھاتا ہے۔ ایک اچھا مسلمان کسی کی دل آزاری کر ہی نہیں سکتا۔ وہ مہمان کی عزت کرتا ہے اور پڑوسی کی بھی حفاظت کرتا ہے۔ یہ تمام چیزیں تعلیمات اسلام کا حصہ ہیں۔

ان سے ہر مسلمان واقف ہے۔ ہم نماز روزے کی پابندی تو کرتے ہیں۔ حج اور زکوٰۃ کا بھی اہتمام کرتے ہیں جو اچھی بات ہے۔ اس کے ساتھ اگر ہم پیغمبراسلام کے حسن اخلاق کی تعلیمات پر بھی عمل کریں تو نہ صرف ہماری زندگی سنورسکتی ہے بلکہ پورا معاشرہ جنت نظیر بن سکتا ہے۔

اسلام کی اصل تعلیم اور عبادات کا مقصد انسان کے اخلاق کی تعمیر ہے۔ اگر غور کیا جائے نماز، روزہ حج، زکوٰۃ سبھی ارکانِ اسلام ہمارے اخلاق کو سنوارنے کا ذریعہ اور راستہ ہیں۔ با جماعت نماز پر اس لیے زور دیا گیا ہے کہ مسلمان دوسرے مسلمانوں سے میل ملاقات رکھے۔ روزہ جسمانی قربانی ہے جو یاد دلاتی ہے کہ بھوکے اور نادار لوگوں کا بھی ہمارے اوپرحق ہے۔ حج مسلمانوں کے بین الاقوامی اجتماع کا نام ہے۔ جہاں جسمانی اور مالی قربانی کے علاوہ دنیا بھر کے مسلمانوں سے ملنے ملانے اور دوست بنانے کا موقع ملتا ہے۔ زکوٰۃ تو نام ہی مدد اور قربانی کا ہے۔ آپ اپنی حلال کمائی سے کمزوروں اور ناداروں اور حق داروں کی اس طرح مدد کرتے ہیں کہ ان کی عزت نفس بھی محفوظ رہے۔

گویا اسلام کے بنیادی ارکان اور عبادات جہاں اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں وہاں یہ معاشرے کی اونچ نیچ کم کرنے، کمزوروں کی مدد کرنے، بھائی چارہ، اخوت اور مساوات بھی سکھاتے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ ان عبادات کو اس کی روح کے مطابق ادا کیا جائے۔

دبئی ایئرپورٹ کی طرح امارات ایئر لائن کا طیارہ بھی تمام سہولتوں سے مزین اور خوش شکل اور خوش اطوار عملے پر مشتمل تھا۔ کسی بھی ایئر لائن کے طیارے میں داخل ہوتے ہی اس کی سروس کا اندازہ عملے کے استقبال سے ہو جاتا ہے۔ یہ اندازہ لگانا بھی مشکل نہیں ہوتا کہ عملے کی یہ مسکراہٹ اصلی ہے یا کاروباری۔ بعض ایئر لائنوں میں ان دونوں کا فقدان ہوتا ہے۔ ان کے عملے کا انداز ایسا ہی ہوتا ہے جیسے نیو خان کے بس کنڈیکٹر ہوتے تھے۔ (یہ بسیں استعمال کئے ہوئے ایک مدت ہو گئی ہے اللہ کرے اب پہلے سے بہتر حالات ہوں) جو سواریوں کو بس کے اندر دھکیل رہے ہوتے تھے۔ کچھ ایئر لائنیں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ ان کے فضائی میزبان نہ ہی مسکرائیں تو بہتر ہے۔

آپ بورڈنگ کارڈ ہاتھ میں لے کر خوشگوار موڈ میں کسی جہاز میں داخل ہوتے ہیں اور توقع کر رہے ہوتے ہیں کہ کوئی خوش شکل ایئر ہوسٹس مسکرا کر آپ کا استقبال کرے گی۔ سیٹ تک آپ کی راہنمائی کرے گی۔

اس کے برعکس اندر داخل ہوتے ہی کسی حسینہ کی بجائے ایک اُدھیڑ عمر مرد جس کی توند ڈیڑھ فٹ آگے نکلی ہوئی ہے گھور کر مشکوک نظروں سے آپ کا بورڈنگ دیکھتا ہے۔ جیسے پرائمری سکول کے استاد بچوں کا ہوم ورک دیکھتے ہیں۔ پھر زبان سے کچھ کہے بغیر آگے جانے کا اشارہ کر کے خود دُوسری طرف دیکھنے لگتا ہے۔

ایسے فضائی میزبان کو پورے سفر میں زحمت دینے سے گریز کیا جاتا ہے۔ اگر پیاس بھی لگی ہو تو صبر کے گھونٹ سے گزارا کیا جاتا ہے۔ اس ماسٹر ٹائپ میزبان سے ڈرسا محسوس ہوتا ہے کہ کہیں بُرا ہی نہ منا جائے۔ ویسے بھی بزرگوں سے خدمت کرانا کوئی اچھی بات نہیں ہے۔

ایسے میزبانوں کا ایک فائدہ بہرحال ضرور ہے کہ ان کے ہوتے ہوئے بچے اور بڑے کسی بدنظمی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ کھانے پینے کی چیزیں بھی کم استعمال ہوتی ہیں۔ فضائی میزبان کے رُعب اور دبدبے کی وجہ سے کسی بدنظمی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور اسی رُعب اور دبدبے کی وجہ سے کوئی ان سے کھانا اور پانی بھی طلب نہیں کرتا لہٰذا فضائی کمپنی کی ہر لحاظ سے بچت ہی بچت ہے۔

امارات ایئر لائن اور طیارے کا عملہ بہرحال ایسا ہر گز نہیں تھا۔ نوجوان مردوں اور نوجوان خواتین پر مشتمل یہ عملہ آدھا مقامی یعنی عربی بولنے ولا اور باقی یورپین تھا۔ یہ عربی لڑکے اور لڑکیاں بھی رواں انگریزی بول رہے تھے۔ امارات ایئر لائن ان دنوں دنیا کی بڑی اور مصروف ترین فضائی کمپنیوں میں سے ایک ہے۔ اس کا یہ بھی فائدہ ہے کہ اس کے سارے کھانے حلال ہوتے ہیں۔ ورنہ بڑی بڑی فضائی کمپنیوں کے حلال کھانے ایسے بے ذائقہ اور بدمزہ ہوتے ہیں جیسے مسلمان مسافروں کو جیل کی سی کلاس کے قیدی سمجھ رہے ہوں۔

کہا جاتا ہے کہ امارات ائیر لائن کو بنانے اور سنوارنے میں پی آئی اے کا بڑا کردار ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ملائشیا، سنگاپور، کوریا اور چین کی معیشت کے پہئیے بھی پاکستانی ماہرین کے ہاتھوں کے لگے ہوئے ہیں۔

میرا سوال ہے کہ یہی پاکستانی اپنی ائیر لائن اور اپنے ملک کی معیشت کی گاڑی آگے کیوں نہیں بڑھا سکتے۔ اپنے ملک کے اداروں کو بنانے اور سنوارنے میں کیا رکاوٹ درپیش ہے۔ کیا ان ماہرین کی مہارت اپنے گھر میں استعمال نہیں ہو سکتی۔ یا پھر اہلِ حکومت کی نیت ہی ٹھیک نہیں ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ایک ہاتھ بنانے اور سنوارنے والا ہو اور دو ہاتھ اس کو بگاڑنے اور تباہ کرنے میں لگے ہوں۔ ان تخریبی ہاتھوں کے ہوتے ہوئے گاڑی آگے نہیں بڑھ سکتی۔ ان ہاتھوں کو روکنے بلکہ مروڑنے اور توڑنے کی ضرورت ہے۔ خدا کرے وہ وقت جلد آئے جب اچھی نیت والے، مثبت سوچ والے، تعمیری نقطہ نظر والے، ایماندار اور محب وطن اور مخلص لوگ آگے آئیں اور قوم کی ڈوبتی ہوئی معیشت، ڈوبتے اداروں اور بلکتے اور سسکتے عوام کی حالت بہتر بنا سکیں۔

اس سلسلے میں قوم کے ہر فرد کی انفرادی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنا کردار خوش اسلوبی سے ایمانداری سے اور بھرپورانداز میں ادا کرے۔ اپنی نیت صاف رکھے اور کسی دباؤ اور لالچ کے بغیر اچھے نیک اور صاحب کردار لوگوں کا ساتھ دے۔ اور جو لوگ اس معیار پر پورا نہیں اترتے ان سے ہر صورت میں قطع تعلق کریں۔ قومیں افراد سے بنتی ہیں۔ جب افراد سدھر جائیں گے تو قوم کی حالت سدھرنے میں دیر نہیں لگے گی۔ کیونکہ خدا بھی انہی کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں۔


پاک سر زمین



اس وقت تقریباً آدھی رات تھی جب ہمارے جہاز کے پہیوں نے پاک سرزمین کو چھوا۔ اسلام آباد ائیر پورٹ کی کھلی فضا میں اس وقت اوس بھری خنکی تھی۔ چاندنی اور ائیر پورٹ کی روشنیوں میں خاصے فاصلے پر چند جہاز کھڑے نظر آتے تھے۔ لیکن کہیں ہل چل نہیں تھی۔ ہر طرف خاموشی کا راج تھا۔ اس خاموشی کو توڑتی ہوئی شٹل بس جہاز کے سامنے آ کر رکی۔ ہم ایک مقدس سرزمین سے دوسری پاک سرزمین پر قدم رکھنے والے تھے۔ یہ زمین بھی میرے لیے مقدس تھی۔ اس پاک سرزمین پر میرا جنم ہوا تھا۔ میں اس کی مٹی، اس کی فضاؤں اور اس کی ہواؤں میں پروان چڑھا تھا۔ اس زمین سے میرا ازلی رشتہ تھا۔ یہ زمین میرے پرکھوں کی وارث تھی۔

مسافر ایک ایک کر کے بس میں سوار ہونے لگے۔ میں نے سیڑھیوں سے اُتر کر زمین پر قدم رکھا تو ایک ٹھنڈک سی رگ وپے میں دوڑ گئی۔ یہ ٹھنڈک میری مٹی اور اس کے پیار کی تھی۔ میرے وطن اور اس کی فضاؤں کی تھی۔ ان فضاؤں میں ایک نور سا گھلتا محسوس ہوا۔ یہ پورے چاند کی چاندنی کا کمال تھا یا میرے دل میں انگڑائی لینے والے کسی قومی نغمے کا سرور تھا۔ یہ چاندنی، یہ خنکی، یہ خاموشی اور دور کھڑے سرو کے درخت جیسے جادو سا کر رہے تھے۔ جی چاہتا تھا کہ جوتے اتار کر ننگے پاؤں اس دودھیا روشنی میں چہل قدمی شروع کر دوں۔ میں نے سر اٹھا کر چاند کی طرف دیکھا تو یوں لگا جیسے مسکرا کر خوش آمدید کہہ رہا ہو۔

چاند تو ہر جگہ اور ہر ملک میں اپنی چاندنی بکھیرتا ہے لیکن یہ منظر کہیں اور نظر نہیں آیا۔ یہ میرے اندر چھپا پیار تھا کہ مجھے باہر کا منظر یوں حسین لگ رہا تھا۔

یہ میرے وطن کی مٹی اور اس کی ہواؤں کا کمال تھا جس نے میرے اندر اور باہر دونوں کو رنگین بنا دیا تھا۔

اپنے آبائی وطن سے محبت انسان کے خون میں رچی ہوتی ہے۔ روزگار اگر ہمیں وطن سے دور لے بھی جاتا ہے تو ہمارے دل وطن سے دور نہیں ہوتے بلکہ اس کے ساتھ ہی دھڑکتے ہیں۔ پردیس میں رہنے والے تمام پاکستانی چاہے وہ پچاس سال سے ہی باہر کیوں نہ رہ رہے ہوں پاکستان کے لیے فکر مند رہتے ہیں۔ اگر وطن پر ذرا سی آنچ آتی ہے تو انہیں تشویش اور فکر لاحق ہو جاتی ہے۔ اگر وطن سے اچھی خبریں آتی رہیں تو ان کے دل کو تسلی رہتی ہے۔

یہ تمام پردیسی دیار غیر میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہیں۔ پاکستان کے قومی دن اور قومی تہوار جوش و خروش سے مناتے ہیں۔ قومی مشاہیر کی یاد میں تقریبات منعقد کرتے ہیں۔ قومی زبان اور اس کے ادب کی ترویج و ترقی کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں اور پاکستان سے ادبی شخصیات کو بلا کر ان کے لیے ادبی تقریبات منعقد کرتے ہیں۔

وہ پاکستان سے آنے والی ہر ہم شخصیت کا والہانہ استقبال کرتے ہیں اور اسے اپنے سرآنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔ بیرون ملک رہنے والے پاکستانی اپنے ملک کی قومی ٹیموں کی بھرپور پذیرائی کرتے ہیں۔

یہ پاکستانی پاکستان کے اندر ہر فلاحی ادارے کی دل کھول کر مدد کرتے ہیں۔ اپنے اہل خانہ، اپنے عزیز و اقارب اور احباب کی مدد کرتے ہیں اور ان کی زندگیوں میں بہتری لانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں چاہے خود ان کو کتنی ہی محنت کیوں نہ کرنا پڑے۔ زر مبادلہ کی مسلسل ترسیل کے ذریعے وہ پاکستان کی معیشت بہتر بنانے میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔

ملک سے باہر رہنے والے پاکستانی ملک سے اتنی ہی محبت کرتے ہیں جتنی ملک کے اندر رہنے والے۔ لہٰذا ان کی وفاداری اور حب الوطنی پر سوال اٹھانے سے پہلے ذرا سوچ لینا چاہیے کہ ایسے کلمات سے لاکھوں پاکستانیوں کی دلآزاری ہوتی ہے۔ آپ ان پاکستانیوں کو ووٹ کا حق نہیں دیتے، نہ دیں۔ انہیں انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دیتے، نہ دیں۔ لیکن ان کی حب الوطنی پر شک نہ کریں۔

دوسرے لوگ جس میں سرکاری اور نیم سرکاری اہلکار، کاروباری افراد، سفارت خانوں کا عملہ، کھلاڑی اور صحافی باہر جا کر اپنے فرائض انجام دیتے ہیں تو اس میں کوئی برائی نہیں سمجھی جاتی اور نہ ہے۔ اسی طرح عام پاکستانی بھی بہتر روزگار حاصل کرنے اپنی اور اپنے خاندان کی بہتر کفالت کرنے اور بیرون ملک جا کر رہتے ہیں تواس سے ان کی حب الوطنی پر سوالیہ نشان کیوں کھڑا کر دیا جاتا ہے۔

اگر یہ سارے پاکستانی وطن واپس آ جائیں تو اس سے ملک کو کیا فائدہ ہو گا۔ اس سے پاکستان کی معیشت پر سخت منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ ایک تو زر مبادلہ کی ترسیل بند ہو جائے گی اور دوسرا ان تمام لوگوں کے لیے روزگار کا بندوبست کرنا پڑے گا۔ گویا ان لاکھوں پردیسیوں نے باہر جا کر وطن کے بے روزگار نوجوانوں کے لیے بالواسطہ طور پر روزگار فراہم کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔

بیرون ملک رہنے الے پاکستانیوں کے بارے میں اخبارات اور ٹی وی پر دل آزار باتیں ہوتی رہتی ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ یہ باتیں وہ لوگ کرتے ہیں جو ملک کے دماغ، آنکھیں اور زبان ہیں یعنی صحافی، دانشور اور اینکر حضرات۔ ان کی زبانی یہ باتیں سن کر نہ صرف دل دکھتا ہے بلکہ افسوس بھی ہوتا ہے کہ یہ سب خلاف حقیقت اور گمراہ کن باتیں ہوتی ہیں۔

ہم آپ کی نظروں سے دور ہوئے ہیں ہمیں اپنے دل سے دور تو نہ کریں۔

اللہ کرے کہ وطن عزیز میں روزگار کے اتنے مواقع حاصل ہو جائیں کہ کسی کو وطن نہ چھوڑنا پڑے۔ کسی کو اپنوں کی جدائی کا غم نہ سہنا پڑے۔ اللہ کرے کہ کسی کو اپنے وطن سے دور کسی غیرمٹی میں نہ دفن ہونا پڑے۔

٭٭٭







وجہ تصنیف



حج ہمارے اوپر فرض تھا۔ اہلیہ کا اصرار تھا کہ یہ فرض جلد از جلد ادا کر کر لیا جائے جب کہ میں سُستی اور مصروفیات کی وجہ سے اِسے ملتوی کرتا جا رہا تھا۔ جب پروگرام حتمی شکل اختیار کر گیا تو میں نے سوچا چلو فرض بھی ادا ہو جائے گا اور بیگم کی ضد بھی پوری ہو جائے گی۔ ایک دفعہ یہ فرض پورا ہو جائے میں پھر اسی زندگی کی طرف لوٹ جاؤں گا جیسی اب تک گزاری ہے۔ واپس آ کر وہی پہلے والے شب روز ہوں گے۔

وہی دُنیا کے دھندے، وہی کاروباری جھمیلے، وہی دوستوں کی محفلیں، وہی کتابوں کی دنیا اور وہی سیرسپاٹے ہوں گے۔ پھر وہی زندگی ہو گی جس میں صرف دُنیا اور دُنیاداری کے تقاضے ہوتے ہیں۔ اِس کے علاوہ کوئی اور فکر نہیں ہو گی۔ آخرت کی کوئی پرو اہ نہیں ہو گی۔ نہ قیامت کا ڈر ہو گا نہ حساب کی فکر ہو گی۔ میں نے زندگی کچھ ایسے ہی گزاری تھی۔ سب کچھ جان کر بھی انجان بنا رہا۔ حج کے بعد میں اسی دنیا میں لوٹ جانا چاہتا تھا۔ ویسی ہی زندگی گزارنا چاہتا تھا۔ حج پر جانے سے پہلے میں نے یہی سوچا تھا۔ لیکن انسان جو کچھ سوچتا ہے ضروری نہیں وہ ایسا کر پائے۔ سب کچھ اس کے ہاتھ میں نہیں ہوتا ہے۔ کوئی اور بھی ہے جو کسی بھی وقت بھاگ کھینچ کر اُسے راستہ بدلنے پر مجبور کر سکتا ہے۔

حج کے تجربات قلم بند کرنے کا میرا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ میں نے وہاں جا کر کوئی تصویر نہیں بنائی تھی۔ کوئی ڈائری نہیں لکھی تھی۔ کوئی نوٹ تحریر نہیں کیا تھا۔ میں تو صرف اپنا فرض ادا کرنے گیا تھا۔ فرض ادا کرنے کے بعد پرانی دنیا میں لوٹ جانا چاہتا تھا۔ حجازِ مقدس سے لوٹنے کے بعد میرے اندر کچھ ایسی تبدیلیاں آئیں کہ انہوں نے میری زندگی کا رُخ بدل دیا۔ میرے شب و روز کی کا یا پلٹ دی۔ میں جس طرح کی زندگی گزار رہا تھا اس میں کشش ختم ہو گئی۔ میں اپنا کاروبار آگے بڑھانا چاہتا تھا مگر اس کی وجہ سمجھ نہیں آتی ہے۔ بہت سے پرانے مشاغل سے دِل اُچاٹ ہو گیا ہے۔ سیر و سیاحت کا سلسلہ ختم تو نہیں ہوا لیکن اس میں بھی پہلے والا مزا نہیں رہا۔ حتیٰ کہ پینتیس برس سے جاری سگریٹ نوشی جو دورانِ حج بھی جاری رہی، وہ بھی ترک کر دی۔

واپس آنے کے بعد جیسے جیسے وقت گزرتا گیا حرمین شریفین میں گزرا ایک ایک لمحہ جیسے مجھے ہانٹ کرتا رہا۔ میرے درِ دل پر دستک دیتا رہا۔ وہ مناظر اور وہ لمحات میرے دل و دماغ سے اوجھل نہیں ہوتے تھے۔ میں کچھ اور سوچنا چاہتا تھا مگر میری سوچوں پر سبز گنبد اور سیاہ پوش گھر چھا جاتا تھا۔ مسجد نبویؐ اور خانہ کعبہ جیسے میری نظروں کے سامنے پھرتے رہتے تھے۔ حرم پاک میں گزرا ایک ایک لمحہ، ایک ایک دُعا، ایک ایک نماز، ایک ایک طواف اور ان سے ملنے والی تسکین، سرور اور روحانی مسرت جیسے میرے دل کو گدگداتی رہتی تھی۔ سب سے بڑھ کر بیت اللہ کا نظارہ میرے ذہن ودل پر نقش ہو کر گیا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان جذبات میں اضافہ ہوتا چلا گیا حتّیٰ کہ ان پربند باندھنا مشکل ہو گیا۔

جب یہ سیلاب بہت بڑ ھ گیا تو میں نے اپنے ہاتھ میں قلم تھام لیا اور اِسے تحریر شروع کر دیا۔ دورانِ تحریر اس کی شدت میں مزید اضافہ ہوتا گیا۔ جذبوں کے بند ٹوٹنے لگے۔ یہ جذبے سیلابی صورت اختیار کر گئے۔ سوچنا اور لکھنا تو درکنار دل کو سنبھالنا مشکل ہو گیا۔ اشکوں کا سلسلہ بار بار رواں ہو جاتا۔ لفظ کاغذ پر پھیل کر کچھ اور شکل اختیار کر لیتے۔ اس دھُندلاہٹ میں سبز گنبد اور سنہری جالی جھانکنے لگتی۔ اس کیفیت سے نکلنا بھی آسان نہیں ہوتا۔ اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے کئی دن لگ جاتے۔ کئی کئی مہینے کاغذ اور قلم سے نا تا ٹوٹ جاتا۔ لیکن یہ سفر رُکا نہیں۔ آہستہ آہستہ تقریباً دو سال تک چلتا رہا۔ جب بھی غبار بڑھتا تھا تو لفظوں کو صفحۂ قرطاس پر بکھیر کر اسے کم کرنے کی کوشش کرتا تھا۔

میں سمجھتا ہوں کہ نہ تو میں اس موضوع پر لکھنے کے قابل تھا اور نہ اس کا اہل۔ یہ کام میں نے بلا ارادہ بلکہ مجبوراً کیا ہے۔ اللہ جانتا ہے یہ میری پہلی تحریر ہے جو میں نے دماغ سے نہیں دِل سے لکھی ہے۔

اسے لکھتے ہوئے اکثر اپنے آپ کو سمیٹنا اور سنبھالنا مشکل ہو جاتا تھا۔ اِسے لکھ کر میرے من کی آگ میں قدرے کمی آئی ہے۔ یہ تپش کچھ لفظوں اور کچھ اشکوں کی صورت میں خارج ہوئی۔

جی چاہتا ہے کہ ایک بار پھر روضہ رسولﷺ اور بیت اللہ کی زیارت نصیب ہو۔ حالانکہ یہ دونوں مقام میرے دل کی کتاب پرسجے ہوئے ہیں۔ یہ میری خوش بختی ہو گی کہ اللہ کے ان گھروں میں دوبارہ حاضری نصیب ہو۔

اللہ تبارک و تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ میری اس ٹوٹی پھوٹی اور خام تحریر کو اپنی بارگاہ میں منظور و قبول فرمائے۔ اس تحریر میں جو کوتاہیاں، غلطیاں اور خامیاں ہیں انہیں معاف فرمائے۔ اس میں اگر کوئی اچھی بات اور اچھا پیغام ہے تو اُسے میری شفاعت کا ذریعہ بنائے۔
٭٭٭