قرب کی آرزُو
اب کی بار دولت پور میں پہنچ کر ایلی کے خیالات اور حسیات بدل رہے تھے۔ اس کے احساسات میں نئی بیداریاں پیدا ہو رہی تھیں۔ خیالات میں تبدیلیاں ہو رہی تھیں۔ جسم میں نئے تقاضے اُبھر رہے تھے۔ اُس کے دل میں عورت کے قرب کا شوق پیدا ہوتا جا رہا تھا۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ عورت کے قریب جائے۔ اُسے قریب سے دیکھے اُسے پیار کرے مگر یہ کیسے ممکن ہو سکتا تھا۔ آصفی سماج میں کسی عورت کے قریب جانے کا امکان نہ تھا۔ اور اگر ہوتا بھی تو ایلی میں اتنی جُرات کہاں؟ بہرحال اُس کی خواہش تھی کہ کسی کی بانہہ پکڑ لے اور پھر رو دے۔ پھر اُسے اس کوچے کا خیال آتا جہاں سے سارنگی کی سُریں گونجا کرتی تھیں، لیکن------- اگر بفرضِ محال وہاں چلا بھی جاتا تو ان عورتوں کو دیکھ کر عجیب سی کراہت محسوس ہوتی جو لالٹین جلائے ہوئی بیٹھی مردوں کا انتظار کیا کرتی تھیں۔ درحقیقت وہ انھیں عورتیں ہی نہیں سمجھتا تھا۔
اس کوچے میں پہنچے بغیر کسی عورت سے قرب ممکن نہ تھا۔ کسی کو بلوریں پاؤں سکھاتے ہوئے دیکھتا یا کسی کو کھڑکی سے جھانکتے ہوئے ایک نظر دیکھ لیتا تو اسے اور بھی مضطرب کر دیتا تھا پھر عورت سے قرب کی آرزو کیسے پوری ہو سکتی تھی۔
پھر دفعتا اسے ایک خیال آیا۔ ایک مکروہ بھاینک خیال-------- اور وہ لرز گیا مگر لرزنا بیکار تھا اس کا مسلسل طور پر اس خیال پر لا حول پڑھنا بیکار تھا کیونکہ ابتداء ہی سے یہ خیال اس کے دل کی گہرائیوں میں بیٹھ چکا تھا جب وہ ابھر کر ایلی کے شعوری ذہن کی طرف یورش کرتا تو ایلی اسے پھر دبا دیتا اور اس طرح اپنی دنیا کو محفوظ کر لیا کرتا مگر وہ دبایا ہوا خیال اندر ہی اندر دل کو متعفن کئے جا رہا تھا۔
جنسیاتی محور
ایلی کی تمام تر جنسیاتی زندگی علی احمد کے محور کے گرد کھو گئی تھی۔ جب کوئی جونک ان کے گھر آکر علی احمد کا خون چوسنے کے شغل میں مصروف کار ہو جاتی تو وہ غصے سے بھوت بن جاتا۔ علی آھمد کو ایسی زندگی بسر کرنے کا حق نہیں۔ اسے ٹین کے سپاہی کا کردار ادا کرنے کا کوئی حق نہیں۔ اسے اپنے آپ کو لوگوں کی نگاہوں میں ذلیل کرنے کا کیا حق ہے۔ کیا اسے ایسی سستی قسم کی عورتوں کے علاوہ کوئی باعزت عورت نہیں ملتی--------- وہ اس بات پر پیچ و تاب کھاتا۔ اور اگر سارہ صبورہ سی باعزت لڑکیاں علی احمد کے رنگین جال میں پھنس جاتیں تو بھی اسے غصہ آتا۔ کیا اسے اپنے عُمر کی عورتیں نہیں ملتیں۔ کیا اسے اس قسم کی سستی عورتیں نہیں مل سکتیں جو روپے کے عوض خریدی جا سکتی ہوں۔ ہر صورت میں اسے علی احمد پر غصہ آتا اور غسے کے بہانے اس کے جنسی پہلو میں اُبال آجاتا اور پھر وہ چوری چوری سوچتا کہ عورت سے قرب حاصل کرنے کا ایک طریقہ ہے ایک واحد امید اور پھر ایک عمر رسیدہ عورت بادلوں سے جھانکتی اور اس کی طرف دیکھ کر مسکراتی۔ اسے اپنی طرف بلاتی اور اس کا جی چاہتا کہ اس کی گود میں سر رکھ کر رو دے۔ روتا رہے حتیٰ کہ جسم کا درد دُور ہو جائےہڈیوں میں جو چیونٹیاں سی چلتی تھیں چٹکیاں لیتی تھیں ان سے نجات حاصل ہو۔ نسوں میں جو تناؤ سا اسے پریشان رکھتا تھا وہ ختم ہو جائے لیکن دفعتا وہ گود میں پڑے ہوئے محسوس کرتا کہ وہ اس بھر پور عورت کو جانتا ہے اس کی شکل و صورت مانوس سی دکاھئی دیتی اس کے منہ سے ایک چیخ نکل جاتی۔ اور وہ آنکھیں بند کر لیتا اور پھر معدوم ہونے کی کوشش میں کھو جاتا۔
ہائے ایلی !
اب کی بار جب وہ دولت پور میں آیا تو اس کے خیالات کی دنیا میں نئی تفصیلات کا اضافہ ہو گیا تھا۔ بیٹھے بٹھائے ایک رنگین سی آواز اس کے کان میں پڑتی پیارے بھول نہ جانا جی۔ ایک ملیح تصویر اس کی آنکھوں کے سامنے جھلملاتی۔ پھر ایک بامعنی ہنسی۔ واضح اور رنگین اور بالآخر مژگاں کے دو گھنے چھتر جھک جاتے اور ایک لمبی سی مخروطی پُرنم انگلی فضا میں ابھرتی۔ پھر دفعتا چھم سے کوئی آجاتا اور منظر یوں بدل جاتا جیسے پتھر گرنے سے جھیل کے ساکت پانی میں ساحل کے ایوانوں کے دھندلے مگر ھسین نقوش دفعتا پاش پاش ہو جاتے اور چاروں طرف لہریں اُٹھنے لگتیں۔ پھر فضا میں چاروں طرف مرکری دیوتا کے ٹخنوں پر لگے ہوئے ننھے بازو پھڑپھڑاتے۔ بلوریں پاؤں رقص کرتے اور بال دوپٹہ اور مژگاں ایک زناٹے سے اس کے قریب سے نکل جاتے اور دور------- دور ایک مدہم حسین آواز گنگناتی ہوئی سنائی دیتی ”ہائے ایلی وہ چائے پر انتظار کر رہے ہیں۔“ اس وقت ایلی چونکتا اور شرم سے سر جھکا لیتا۔ ایک مبہم سا احساسِ جُرم اس کے دل و دماغ پر چھا جاتا۔ دُور ایک ننھی سی حسین عورت سفید آنچل پھیلائے اڑے جاتی۔ اور اس کا جی چاہتا کہ کہیں سر رکھ کر رو دے اتنا روئے کہ کوئی ہاتھ لپک کر اسے تھپکنے پر مجبور ہو جائے۔ قریب ہی سے شریف کا مدہم قہقہہ گونجتا۔ ایلی محبت کرو۔ محبت کرو چاہے کسی چیز سے کرو محبت کرو۔ محبت کے بغیر تم کچھ بھی نہیں۔ وہ اپنا سر لحاف میں گاڑ دیتا آنکھیں بند کر لیتا۔ نہیں نہیں میں مجرم نہیں ہوں، میں جُرم نہیں کروں گا۔ اور پھر نجانے کہاں سے دو بلوریں ہاتھ اس کی طرف بڑھتے اور ہمدردی بھرے لمس اسے تھپکنے لگتے اور وہ یوں روتے روتے سو جاتا جیسے کوئی بچہ کسی کھلونے کو حاصل نہ کرنے پر روتے روتے تھک کر سو جاتا ہے۔
چھجو کا چوبارہ
خوش قسمتی سے انھی دنوں ایلی کا بہنوئی اجمل دولت پور میں آگیا۔ اسے دولت پور کی کچہری میں ایک نوکری مل گئی تھی۔
ایلی کو اجمل سے بہت ہمدردی تھی کیونکہ کئی ایک پہلوؤں سے اس کی اپنی زندگی اجمل سے ملتی جُلتی تھی۔ اس کے علاوہ اجمل نے اوائلِ عُمر میں ہی بصرہ اور کابل سے دُور دراز مقامات کے سفر کئے تھے جن کی وجہ سے اس کے دل میں اجمل کی عزت پیدا ہو گئی تھی۔
اجمل اُونچے لمبے قد کا لڑکا تھا جس کی قابلیت پر ایلی فخر محسوس کیا کرتا تھا اور سب سے بڑھ کر اسے اجمل کی رنگین طبیعت بہت پسند تھی۔ ہاجرہ کی نکتہ چینی کے باوجود یا شاید اسی وجہ سے اسے اجمل بہت پسند تھا اور وہ محسوس کرتا تھا کہ اجمل اس کا دوست ہے۔
اجمل کے دولت پور آجانے سے ایلی کو ایک سہارا مل گیا کیونکہ اجمل نے وہاں پہنچتے ہی اپنے اثر و رسوخ سے علی احمد کے گھر سے ملحقہ چھجو کا چوبارہ کرائے پر لے لیا اور ایلی کے لئے اجمل کا گھر ایک نعمتِ غیر مترقبہ ہو گیا۔
ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ اجمل کے آجانے سے ایلی نے شمیم کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا کھانے سے نجات پالی اب اسے پہلوان کی دوکان پر جا کر دودھ اور بن کھانے کی بھی ضرورت نہ پڑتی تھی۔
ادھر علی احمد نے ایک بار پھر--------- پرانے انداز کو اعلانیہ اپنا لیا تھا شاید اس لئے کہ کشمیر کا سیب اپنی تمام تر رنگینی کھو چکا تھا۔ اب علی احمد کو ان بل کھاتی ہوئی گلیوں سے گذر کراتنی دُور راجو کے گھر جانا نہیں پڑتا تھا بلکہ راجو خود ان کے یہاں آزادی سے آتی جاتی تھی اور علی احمد کا کمرہ ایک مرتبہ پھر وہی بام آباد کا کمرہ بن گیا تھا جہاں ربڑ کی گڑیا چیختی اور ٹین کا بکتر بند سپاہی جنگ کے نعرے لگاتا اور پھر رنگین ہنسی کی آواز سنائی دیتی جسے سن کر شمیم غصے سے بل کھاتی اور پھر انتقاما عقبی کھڑکی میں جا کھڑی ہوتی اور آنسو پونچھ کر مسکرانے کی کوشش کرتی۔
اگر چہ اب بھی ایلی علی احمد سے ڈرتا تھا گھبراتا تھا لیکن اب وہ علی احمد کے کمرے سے خائف نہ تھا۔ اب نہ تو اسے بوتل اُٹھا کر کنوئیں پر جانا پڑتا تھا اور نہ ہی چیختی ہوئی ربڑ کی گڑیا یا ٹین کے سپاہی کی آوازیں سننا پڑتی تھیں اس لئے کہ جب علی احمد کے کمرے میں میدانِ کارِ زار گرم ہوتا تو ایلی چُپکے سے اجمل کے چوبارے میں جا بیٹھتا اور وہاں پہنچ کر گہری سوچ میں کھو جاتا۔
نہ جانے کیوں
نہ جانے کیوں عورتیں ربڑ کی گڑیوں کی طرح چیں چیں کرتی ہیں اور مرد ٹین کے سپاہی کیوں بن جاتے ہیں کیا سبھی عورتیں ربڑ کی گڑیوں کی طرح چیں چیں کرتی ہیں۔ ان کے منہ سے بچوں کی طرح لاڈ بھری توتلی باتیں کیوں نکلتی ہیں۔ ویسے عام بات کریں تو ان کا لہجہ بالکل صاف ہوتا ہے۔ ذرا توتلا پن نہیں ہوتا، آواز میں لوچ نہیں ہوتا۔ ان امور کے علاوہ اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ علی احمد کس معیار کے مطابق عورتوں کو چنتے تھے، مثلا وہ کور تھی ، یہ راجو تھی۔ ان میں کوئی کشش بھی تو نہ تھی۔ کوئی بات بھی تو نہ تھی جسے قابلِ ستائش یا دلکش سمجھا جاسکتا۔ کیا حسن و خوبصورتی کی خصوصیات کے وسیلے کے بغیر عورت ذات بذاتِ خود قابلِ حصول ہوتی ہے لیکن یہ کیسے ممکن ہے۔ کچھ عورتوں کو دیکھ کر تو ایلی کو گھن آتی تھی۔
ایلی محسوس کرتا جیسے عورت ایک معمہ ہو ایک ایسا معمہ جو بند کمرے کے بغیر حل نہ ہو سکتا ہو۔ اس خیال پر اسے شدید خواہش محسوس ہوتی کہ ایک بار اسے بھی کسی عورت کے ساتھ کمرے میں بند ہونے کا اتفاق ہو اور اس کے رُوبرو بھی وہ اسرار کُھل جائیں صرف ایک بار۔ ایک بار۔
وہ راجو یہ راجو
ایک روز رات گئے جب ایلی گھر پہنچا تو علی احمد کے کمرے کے قریب پہنچ کر وہ ٹھٹھکا۔ کمرے سے ٹین کے سپاہی کے نعروں اور ربڑ کی گڑیا کی چیں چیں کی بجائے عجیب سی آوازیں آرہی تھیں۔ کوئی کراہ رہی تھی کوئی مدہم آواز میں ہمدردی جتا رہا تھا۔
ابھی وہ اپنے کمرے میں داخل نہ ہوا تھا کہ دفعتا علی احمد کے کمرے کا دروازہ کھلا اور اندر سے ہنستی کھیلتی راجو کی جگہ نحیف و نزار راجو برآمد ہوئی۔ اس نے اپنا ہاتھ علی احمد کے کندھے پر رکھا ہوا تھا اور بصد مشکل سہارا لے کر چل رہی تھی۔
”ایلی“ انھوں نے باہر نکلتے ہی ایلی کو آواز دی۔ ”ادھر آؤ ذرا۔ ہمارے ساتھ چلو۔“
”اِس وقت ، اتنی رات گئے!“ شمیم زیرِ لب بولی۔
”ضروری کام ہے ابھی لوٹ آئیں گے۔“ انھوں نے بے رُخی سے جواب دیا۔ ”چلو ایلی۔“
”اِس بچارے کو کیوں ساتھ خراب کرتے ہو!“ شمیم نے کہا۔
”چلو ایلی“ علی احمد نے شمیم کی بات نہ سنی۔ قافلہ چل پڑا۔ برقعے میں لپٹی ہوئی راجو علی احمد کے ساتھ گھسٹ گھسٹ کر چل رہی تھی۔ اور علی احمد نے اسے یوں سہارا دے رکھا تھا جیسے وہ بیمار ہو۔ پیچھے پیچھے ایلی سوچتا ہوا چلا جا رہا تھا نہ جانے کیا بات ہے۔ نہ جانے کمرے سے یہ کون سی راجو نکلی ہے ۔ راجو ایسی تو نہ تھی۔ وہ تو کتر کتر باتیں کیا کرتی۔ آنکھیں مٹکاتی نخرے کرتی۔ یہ راجو تو روئی روئی سی تھی۔ نہ جانے وہ کدھر جا رہے تھے اور چلتے ہوئے راجو گھسٹ کیوں رہی تھی۔ راجو اپنے گھر پہنچ کر دھڑام سے چارپائی پر گر پڑی اور علی احمد دوڑ کر دوسری چارپائی کے قریب کھڑے ہو کر چلانے لگے۔ ”رحیمن دوڑو دوڑو۔ دیکھو راجو کو کیا ہو گیا ہے؟“
کیا ہے کیا ہے؟ چاروں طرف سے عورتیں راجو کی طرف لپکیں اور یک آن میں بھیڑ لگ گئی۔
صرف وہ بڑھیا دُور کھڑی چلاتی رہی۔ ”کیا پاکھنڈ مچا رکھا ہے تم دونوں نے۔ میں مرتا ہوں۔ میں مرتی ہوں اور مرتا کوئی بھی نہیں نخرے دکھانے شروع کر رکھے ہیں۔ میں کہتی ہوں یہ شخص کیوں آتا ہے اِس گھر میں اور یہ مرنے جوگی اس سے کیوں ملتی ہے اس سے تو یہی بہتر ہے کہ مر جائے خس کم جہاں پاک۔“
”پاگل ہو گئی ہو ماں!“ راجو چلائی ”لڑکی بے ہوش ہے ہاتھ سے جا رہی ہے اور تو کھڑی وعظ کر رہی ہے جیسے مکے سے آئی ہو۔“
”تُو مجھے ماں نہ کہا کر ڈائن“ رحیمن چیخی۔
راجو حیرانی سے دیکھ رہی تھی۔ اس کے ٹوٹے ہوئے ہاتھ چھاتی پر پڑے تھے منہ خوف سے اور بھی بدنما ہو گیا تھا۔
راجو کے رُخسار پھول رہے تھے جیسے باسی ڈبل روٹی میں اُبال آگیا ہو۔
سیلز مین نے بڑھ کر راجو کو اُٹھا کر بٹھا دیا۔ ساجو نے اس کی مدد کی علی احمد نے سرسری طور پر سہارا دیا لیکن بیٹھنے کی بجائے وہ ڈھیر ہو کر گر پڑی۔
یہ دیکھ کر علی احمد گھبرا گئے۔ ”کاغذ کہاں ہے دوات دوات۔“ وہ چلانے لگے۔ کچھ دیر تلاش کرنے کے بعد انھوں نے کاغذ اور دوات علی احمد کو دے دی۔ علی احمد نے کاغذ پر کچھ لکھا اور چادر میں لپٹا ہوا سیلزمین اُسے لے کر بھاگا۔
چھوٹے کمرے میں رحیمن کھڑی چلا رہی تھی قریب ہی ساجو غصے سے گُھور رہی تھی۔ باہر دالان کے ایک کمرے میں آجو سہمی ہوئی بیٹھی تھی۔ اس سے پرے ایک ٹوٹی ہوئی کھاٹ پر ایلی بیٹھا سوچ رہا تھا نہ جانے کیا ڈرامہ کھیلا جا رہا ہے۔ راجو کیوں چارپائی پر ڈھیر ہوئی پڑی ہے؟ اس کی ماں بھی بیٹی سے ہمدردی کرنے کی بجائے ان سب کو صلواتیں کیوں سنا رہی ہے اور علی احمد اس قدر گھبرائے کیوں ہیں ؟
پھر دروازہ کُھلا اور چادر میں لپٹے ہوئے سیلز مین کی آواز سنائی دی، ”ڈاکٹر صاحب آگئے۔“ ”ڈاکٹر!“ ایلی نے دیوار کی طرف منہ پھیر لیا۔ کہیں ڈکٹر پہچان نہ لے۔ اس مکان میں دیکھ نہ لے۔ لیکن علی احمد؟ علی احمد بھی تو اسی گھر میں تھے اور علی احمد کا کیا ہوگا اگر علی احمد کو ڈاکٹر نے پہچان لیا تو؟
علی احمد کھسیانی ہنسی ہنس رہے تھے، ”ہی ہی ہی ڈاکٹر صاحب مریضہ بے ہوش ہے۔ آدھ گھنٹے سے یونہی پڑی ہے۔“ ”اِسے اندر لے چلو۔“ ڈاکٹر نے کہا اور وہ سب راجو کو اُٹھانے کے لئے دوڑے۔
بُو کا ریلا
اِس دوران ساجو آگئی اور ایلی کے قریب بیٹھ کر پان لگانے لگی۔ اندھیرے میں اس کے سفید دانت چمک رہے تھے۔
”گڈی گڈے کا کھیل بنا رکھا ہے انھوں نے۔“ اس نے کسی کو مخاطب کئے بغیر کہا، ”بس اپنا ہی ہوش ہے دوسرے جائیں جھنم میں اب تم ہی بتاؤ انہیں ایسا کرنا چاہئے تھا کیا؟“ وہ رُک گئی پھر آپ ہی آپ بولی، ”راجو کے خصم کو پتا چلا تو کیا ہوگا۔ اسی بات کا خیال ہونا چاہئے تھا انہیں۔ دولت پور میں وہ کون سا چوک ہے جہاں ان کی باتیں نہیں ہو رہی ہیں۔ کیوں نہ ہوں، ڈھنگ سے بات کریں تو ہے۔ نا وہ ایک رات بھی اس کے بغیر نہیں رہتی اور اگر رہ بھی سکے تو یہ بڈھا بچون کی طرح بلکنے لگتا ہے۔ اور رہی سہی بات اس بڑھیا نے ڈبو رکھی ہے۔ کولہوں پر ہاتھ رکھ کر چیختی ہت جو کسی نے نہیں سنی بات اُسے سنا کر رہے گی۔ پان کھاؤ گے“ وہ ایلی کے قریب سرک آئی۔
قریب ہی بہت قریب ساجو کے میلے دانت چمکے، بُو کا ایک ریلا آیا۔ ایلی نے محسوس کیا جیسے اسے کسی گندے نالے میں دھکیل دیا گیا ہو جہاں گلے سڑے گوشت کا ڈھیر لگا ہو۔ وہ گھبرا کر اُٹھ بیٹھا۔ ”پان تو کھا لے“ ایک سیاہ بازو اس کی طرف لپکا۔
”نہیں نہیں۔“ ایلی نے کچھ کہنے کی کوشش کی۔
”کاٹتا ہے کیا۔“ وہ عجیب انداز سے بولی، ”اچھا بیٹھ تو جا۔“ اور وہ اس سے دُور ہٹ کے چارپائی کے ایک کونے پر بیٹھ گیا۔
نیا عقدہ
چھوٹے کمرے کا دروزہ کُھلا۔ ڈاکٹر باہر نکلتے ہوئے بولا، ”اسے اکیلا پڑا رہنے دو۔ شاید ٹھیک ہو جائے۔ کل صبح مجھے اطلاع دینا۔“
یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔ ایک بار پھر سب نے چھوٹے کمرے کی طرف یورش کر دی اور وہاں لڑنے جھگڑنے لگے۔ نہ جانے کیا بات تھی جس پر وہ جھگڑ رہے تھے۔ بڑھیا چلا چلا کر رو رہی تھی جیسے غصے سے بھرا ہوا بلیڈر پھٹ گیا ہو۔ ساجو طعنے دے رہی تھی۔ سیلز مین شاید اپنے ذریعہ تجارت کو تباہ ہوتے دیکھ کر بوکھلا گیا تھا اس کے منہ سے بات نہ نکلتی تھیاور علی احمد اضطراب میں ٹہل رہے تھے جیسے وہ کمرہ ایک صحرا ہو۔ ہاتھ کولہون پر رکھے ہوئے تھے۔ ٹوپی ماتھے پر اُلٹی ہوئی تھی۔
آہستہ آہستہ شور کم ہوتا گیا۔ بڑھیا کی ہچکیاں مدہم پڑ گئیں۔ ساجو کے طعنے نفرت بھرہ نگاہ تک محدود ہو گئے۔ آجو دروازے کے باہر چوکھٹ کے قریب سہمی ہوئی کھڑی تھی اس کے منہ سے بات نہ نکلتی تھی۔
دیر تک خاموشی طاری رہی۔ رحیمن راجو کی کوٹھڑی میں جا کر لیٹ گئی۔ آجو باہر کھاٹ پر ڈھیر ہو گئی۔ ساجو پاندان سامنے رکھے بکری کی طرح جگالی کرتی رہی۔ علی احمد ویسے ہی گھبراہٹ بھرے انداز میں ٹہلتے رہے۔ پھر راجو کراہنے لگی۔ علی احمد اور ساجو دور کر اندر چلے گئے۔ کچھ دیر کے بعد وہ دونوں باہر نکلے۔ ساجو کولہے مٹکاتی باہر نکلی۔ پُھولے ہوئے جسم میں سفید سفید دانت اور آنکھیں چمکیں۔ پیچھے پیچھے علی احمد تھے ایلی کو دیکھ کر وہ چونکے۔
”تم۔ تم یہاں تم۔“ جیسے وہ ایلی کو ساتھ لانے کی تفصیل بُھول چکے ہوں۔ ”اچھا اچھا خیر۔“ دفعتا وہ گھبرا گئے۔ ”اب اِس وقت تو گھر جانا ٹھیک نہیں۔“ انہوں نے ایلی سے کہا، ”رات بہت گذر چکی ہے۔ یہیں لیٹ کر سو رہو۔ صبح سویرے چلے جائیں گے۔“
زہر
علی احمد کے انداز میں غیر معمولی ملائمت پیدا ہو گئی تھی نہ جانے کیوں؟ ”اور دیکھنا“ علی احمد اس کے قریب بیٹھ کر رازدارانہ انداز میں کہنے کہنے لگے، ”گھر جا کر یہ نہ کہنا کہ راجو بیمار تھی۔ کہ اس نے زہر کھا لیا تھا۔“
زہر-------- ایلی سکتے میں رہ گیا۔ کیا واقعی راجو نے زہر کھا لیا تھا؟ مگر کیوں کیا اُسے علی احمد سے محبت تھی؟ کیا راجو بھی محبت کی اہل تھی لیکن۔ وہ سیلز مین اور وہ دس کا نوٹ جو اس روز وہ راجو کے لئے لایا تھا۔ اس کی وہ نگاہیں جو اس نے غلام محمد پر ڈالی تھیں۔ نہیں اُسے محبت نہیں ہو سکتی۔ پھر اس نے زہر کیوں کھایا تھا۔ ایلی کے لئے یہ ایک نیا عقدہ تھا۔
”ساجو“ علی احمد نے منت سے کہا، ”بھئی ایلی کا کچھ انتظام کر دو۔ دن چڑھنے میں اب دو ایک گھنٹے ہی ہوں گے، پڑ رہے گا کہیں۔“ یہ کہہ کر وہ راجو کے کمرے میں داخل ہو گئے اور اندر سے دروازہ بند کر لیا۔
محبت ---------- نہ جانے محبت کیا ہوتی ہے۔ مگر نہیں محبت تو ایک پاکیزہ جذبہ ہے ، ایلی سوچنے لگا۔ نہ جانے لوگ عورت کے پیچھے اس قدر اندھے کیوں ہو جاتے ہیں۔ عورت میں وہ کون سی کشش ہے؟ راجو جیسی سیدھی سادھی گنوار لڑکی نے علی احمد کو دیوانہ بنا رکھا ہے۔ ایلی کے دل میں شدید خواہش پیدا ہوئی کہ وہ عورت کو قریب سے دیکھے۔ اُسے عورت کا قرب حاصل ہو۔ مگر کیسے حاصل ہو۔ کوئی صورت بھی ہو، اُس نے چوری چوری اپنے ارد گرد نگاہ دوڑائی۔ ایک طرف ٹوٹی ہوئی کھٹولی پر وہ پتلی دُبلی لڑکی آجو پڑی تھی جس کی آنکھون میں زرد زرد میل لگا رہتا تھا اور جس کے ہاتھ ٹوٹے ہوئے تھے۔ اُس نے جھرجھری محسوس کی۔ آجو میں کوئی بھی ایسی بات نہ تھی کہ اسے عورت سمجھا جا سکے۔
بدلاؤ
“ آؤ ایلی۔“ ------ ساجو چارپائی بچھاتے ہوئے بولی۔ “ یہاں آ جاؤ۔“ ایلی اٹھ کر اس چارپائی پر جا پڑا۔ ایلی نے ساجو کی طرف دیکھا۔ نہیں نہیں وہ عورت نہیں۔ ایلی کے لیے تو عورت ایک لطیف اور پاکیزہ چیز کا نام تھا۔ وہ سوچنے لگا نہیں نہیں یہ عورتیں نہیں یہ تو جونکیں ہیں اور وہ چپ چاپ پڑ گیا۔
ساجو نے ایک عجیب سی دن گنگنانی شروع کر دی۔ عجیب سی دھن تھی وہ جیسے کوئی کسی ویرانے میں تنہا بیٹھی کسی کا انتظار کر رہی ہو۔ اس دھن سے جسم کی بُو آتی تھی۔ وہ دھن جو لالٹین جلا کر بیٹھنے والی عورتیں ہی گنگنا سکتی ہیں۔
نفرت سے ایلی نے منہ موڑ لیا آنکھیں بند کر لیں۔ لیکن وہ گنگناہٹ لحظہ بہ لحظہ ننگی ہوتی گئی جیسے کوئی آہستہ ایک ایک کر کے کپڑے اتار رہا ہو۔ پھر چارپائی کھینچنے کی آواز سنائی دی لیکن وہ اپنے خیال میں کھویا ہوا تھا۔ اسے کسی ربڑ کی گڑیا کی چیں چیں سنائی دے رہی تھی۔ اس کی نگاہوں تلے ٹین کا سپاہی ابھر رہا تھا ------ بڑھ رہا تھا۔
“بابو جی۔“ کور کی مکروہ آواز سنائی دی۔ سفید دانت اندھیرے میں چمکے وہ سہم گیا۔ لیکن عین اس وقت خانم کے ہاتھ نے بڑھ کر کور کو پرے دھکیل دیا اور پھر وہ حسین بازو ایلی کی طرف بڑھا۔ اس لمس کی وجہ سے اندھیرے میں ایک الاؤ روشن ہو گیا۔ سرخ سرخ چھینٹے اڑے۔ چاروں طرف چیونٹیاں سی رینگ رہی تھیں۔ اس نے گھبرا کر پہلو بدلا۔ بو کا ریلا۔ اس کا دل دھک سے رہ گیا۔ ساجو کی چارپائی اس کے ساتھ ملی ہوئی تھی اور ایک حریص تھوتنی اس کی طرف بڑھ رہی تھی۔ گھبرا کر پیچھے ہٹنے کی بجائے اس نے اپنے آپ کو بدرو میں پھینک دیا اور گرم غلیظ جسم کے ایک بھبکے نے اسے آغوش میں لے لیا۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ چیخ مار کر اٹھ بیٹھے اور اس نائٹ مئیر سے اپنے آپ کو محفوظ کر لے لیکن اس کے برعکس نہ جانے کیوں اس دیوانگی کے تحت جو اس پر مسلط ہو چکی تھی اس نے اس غلاظت بھرے جوہڑ میں چھلانگ لگا دی۔ ایک لمس۔ ایک ڈبکی۔ آتش فشاں سے لاوے کا ایک ریلا نکلا جس نے ایلی کو تنکے کی طرح بہا کر نہ جانے کہاں پھینک دیا۔
قریب ہی سے تمسخر بھری مدہم آواز سنائی دی بس ------ اور ایلی نے محسوس کیا جیسے اس پر گھڑوں پانی پڑ گیا ہو۔ وہ ایک کیڑے کی طرح رینگ رہا تھا۔ رینگ رہا تھا پھر سیاہ ہمدردانہ اندھیرے نے اپنا دامن پھیلا کر اسے چھپا لیا۔
نائیٹ میئر
“ ایلی۔ ایلی۔“ آواز سن کر ایلی نے آنکھیں کھول دیں۔ ارے میں کہاں ہوں۔ پھر علی احمد کو دیکھ کر وہ اٹھ بیٹھا۔ اس نے حیرانی سے چاروں طرف دیکھا اور اس غیر مانوس جگہ کو دیکھ کر وہ سوچ میں پڑ گیا۔ ساتھ والی چارپائی پر ایک مبہم سی حرکت ہوئی۔ اس نے ادھر دیکھا ساجو ------ دفعتاً اس نے محسوس کیا کہ وہ ننگا ہے اور کوئی ڈائن اس کا پیچھا کر رہی ہے۔ اس کا مضحکہ اڑا رہی ہے۔ اور وہ بھاگ رہا ہے۔
سامنے افق پر لمبی مژگاں سے ڈھکی ہوئی دو پرنم آنکھیں تھیں۔ سانولی انگلی گرا ہوا آنسو پونچھ رہی تھی۔ نہیں ایلی۔ شریف مسکرا رہا تھا نہیں نہیں۔ محبت کرو چاہے کس سے کرو۔ کوئی بھی ہو لیکن محبت کرو ------ اور ایلی کا جی چاہتا تھا کہ شریف کے گلے لگ کر روئے۔
ایلی کے لیے وہ رات بھیانک خواب یا نائیٹ مئیر کی حیثیت رکھتی تھی جس کی یاد سے وہ لرز جاتا تھا۔ اسے محسوس ہوتا جیسے اس نے بہت بڑا جرم کیا ہو جیسے اس نے ہمیشہ کے لیے اپنے آپ کو قصر ذلت میں دھکیل دیا ہو اور وہ تمسخر اور تحقیر سے بھرا ہوا قہقہہ۔ کیا یہی عورت کا قرب تھا؟ کیا علی احمد کو اسی قرب کا شوق تھا۔ نہیں یہ نہیں ہو سکتا؟ عورت کے قرب کا مطلب غلاظت کے جوہڑ میں ڈبکیاں کھانا نہیں ہو سکتا ------ نہیں نہیں۔
کئی ایک دن وہ اس نائٹ مئیر کے تاثرات میں کھویا رہا۔ اس کے دل میں صرف ایک ہی خیال تھا کہ وہ عورت کے قرب کے قابل نہیں۔ اس میں وہ اہلیت ہی نہیں ورنہ وہ تمسخر بھرا قہقہہ جس کی وجہ سے وہ ایک کیڑے کی طرح رینگنے پر مجبور ہو گیا تھا۔
نہیں نہیں۔ شریف کی آواز سنائی دیتی۔ یہ نہیں محبت کرو محبت پھر وہ دیوانہ وار ادھر ادھر گھومتا۔ کس سے محبت کروں۔ کیسے محبت کروں اور اس کے دل میں جستجو کی ایک لہر رواں ہو جاتی۔
وہ بلوریں پاؤں واقعی اس قابل تھے کہ ان سے محبت کی جائے لیکن اسے اتنا بھی معلوم نہ تھا کہ وہ پاؤں کس کے ہیں۔ وہ کون ہے جو ان پاکیزہ پاؤں کی مالکہ ہے۔ اس نے کئی بار اسے دیکھنے کی کوشش کی تھی مگر تنگ پاجامہ ایک سیاہ آنکھ اور دو بلوریں پاؤں کے علاوہ اسے کچھ دکھائی نہ دیا تھا۔
ان حالات میں محبت کرنا کیسے ممکن تھا اس بھیانک خواب کا اتنا اثر ضرور تھا کہ اس کے دل میں عورت کے قرب کا خوف جاگزیں ہو گیا اور اپنی نااہلیت کا خیال یقین کی حد تک مستحکم۔
بے زاری
دولت پور میں اب ایلی کی زندگی نے ایک مخصوص رنگ اختیار کر لیا تھا۔ اس کے صبح و شام ایک مخصوس ڈگر پر چلنے لگے تھے۔ کالج اس کے لیے دلچسپی سے خالی تھا۔ اگرچہ اب وہ کالج جانے سے بالکل نہ گھبراتا۔ لیکن اس کی توجہ تعلیم کی طرف مبذول نہ ہوئی تھی۔ اسے یہ احساس نہیں ہوا تھا کہ تحصیل علم کرنا اس کے لیے ضروری ہے۔ ایلی کے لیے کالج محض ایک تفریح گاہ تھی۔
کالج سے واپس آتے ہی وہ کتابیں گھر میں پھینک کر اجمل کی طرف چلا جاتا اور وہاں کسی نہ کسی شغل میں مصروف ہو جاتا۔ گھر میں تو کوئی ایسی بات نہ ہوتی تھی جو اس کے لیے جاذب توجہ ہوتی۔
علی احمد حساب کا رجسٹر پر کرنے میں مصروف رہتے یا کسی نہ کسی بات پر شمیم سے جھگڑا شروع کر دیتے۔ شمیم دو ایک منٹ چیختی چلاتی اور پھر تھک کر رونا شروع کر دیتی۔ اسے روتا دیکھ کر اس کی دونوں بچیاں چیخنے لگتیں اور گھر میں کہرام مچ جاتا۔
راجو آ جاتی تو علی احمد کی حساب کتاب سے دلچسپی ختم ہو جاتی۔ رجسٹر بند کر کے وہ راجو کی طرف متوجہ ہو جاتے۔ بات بات پر ہنستے چہچہاتے۔ نہ جانے کیوں راجو کے آنے پر وہ بہانے بہانے شمیم کو بلاتے اس سے کچھ پوچھتے یا اس کی تعریف کرتے۔ شاید شمیم کو تنگ کرنے میں مزا آتا ہو یا شاید اس کی وجہ ان کی ازلی تماش بینی ہو۔ راجو کو دیکھ کر غصے کی وجہ سے شمیم کی آنکھوں کا فرق بے حد نمایاں ہو جاتا اور اس کی شکل و صورت بالکل ہی مضحکہ خیز ہو جاتی۔
بالآخر ٹین کا سپاہی قلعہ بند ہو جاتا اور کشمیر کا سیب انتقاماً ملحقہ کمرے کی عقبی کھڑکی میں لٹک جاتا۔ بند کمرے میں ربڑ کی گڑیا چیختی اور مٹی کا پہلوان گرتا اور پھر ایستادہ ہو جاتا پھر گرتا اور ایستادہ ہو جاتا۔ گڑیا تالیاں پیٹتی قہقہے لگاتی۔ نیچے سڑک سے گزرتے ہوئے لوگ ان بامعنی قہقہوں کو سن کر رک جاتے پھر پنواڑی کی دکان پر بات چل نکلتی۔
“ ہاں میاں روج آوے ہے اس چوبارے والے بابو کے پاس۔“
“ ٹھیک کہے ہے یہ، میں آپ دیکھے ہوں روج یہاں سے گجرتے ہوئے۔ یہاں آ کر آنکھیں جھکا لے ہے میں نے کبھی نہیں جتایا۔“
“ کیا کہا یہاں اس چوبارے ماں۔ ارے نہیں بھائی عقل کی بات کرو۔“
“ ارے ماں کھوب جانوں یہ چوبارے والا بابو بڑا گھاگ ہے یہ بابو۔ چار روج ماں نچوڑ لیا اس نے۔ اب وہ چلاوا پٹاخہ ہے۔ چلاوا۔“
شام پڑتی تو راجو رخصت ہو جاتی اور علی احمد پھر سے رجسٹر کھول کر مصروف ہو جاتے۔ پھر جب رات کے آٹھ بجتے تو وہ آپ ہی آپ گنگنانے لگتے۔ “ افوہ مجھے تو آج انسپکٹر صاحب نے بلایا تھا۔ یاد ہی نہیں رہا۔“ حافظہ کس قدر کمزور ہو گیا ہے۔“ یہ کہتے ہوئے وہ باہر جانے کے لیے کپڑے پہننے لگتے۔
چار ایک منٹ بل کھانے کے بعد شمیم گویا اپنے آپ سے کہتی، “ جیسے میں جانتی ہی نہیں ان کے انسپکٹر صاحب کو۔“
علی احمد ہنس پڑتے “ تو تو بالکل پگلی ہے۔ راجو کی طرف جانا ہوتا تو چھپانے کی کیا ضرورت تھی۔“
“ توبہ اتنا نڈر بھی نہ ہو کوئی۔ چوری اور پھر سینہ زوری شرم نہیں آتی۔“ شمیم جواب دیتی۔
“ بے وقوف شرم عورتوں کے لیے ہے۔“ وہ ہنسنے لگتے۔ “ مردوں کے لیے نہیں۔“
اس پر شمیم خاموش ہو جاتی اور چھوٹے کمرے میں سے سسکیوں کی آواز آنے لگتی۔ “ بس میں ابھی آیا۔“ کہہ کر علی احمد باہر نکل جاتے اور پھر آدھی رات تک راجو کے یہاں پڑے رہتے۔ ان کی واپسی پر گھڑی دو گھڑی تو میاں بیوی کی لڑائی ہوتی۔ شمیم بات بڑھانے کی کوشش کرتی لیکن علی احمد اسے چٹکیوں میں اڑا کے لیٹ جاتے۔
“ ٹھیک ہے“ وہ کہتے “ تو لڑنا چاہتی ہے تو میں ضرور تیری خواہش پوری کروں گا لیکن حقے کی چلم پیئے بغیر لڑنا۔ نہ بھئی یہ مشکل ہے۔ تو ذرا چلم بھر دے پھر لڑیں گے۔ کیوں نہیں لڑیں گے، تو چاہے اور ہم نہ لڑیں۔ بھئی واہ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔“ اس پر شمیم روتے ہوئے چلم بھرنے لگتی اور علی احمد کپڑے بدلتے ہوئے گنگنانے لگتے۔
گزشتہ خفت
جب بھی علی احمد باہر جانے لگتے تو ایلی گھبرا جاتا کہ کہیں علی احمد کو اسے ساتھ لے جانے کا خیال نہ آ جائے۔ ان کے ساتھ باہر جانے سے وہ ڈرتا تھا۔ اس مکان سے ڈرتا تھا جہاں اس نے وہ رات بسر کی تھی۔ اس سیاہ فام عورت سے ڈرتا تھا جس کا تحقیر بھرا قہقہہ اب تک اس کے کانوں میں گونجتا تھا۔ وہ اس قرب سے ڈرتا تھا جس کا وہ ایک بار سزاوار ہو چکا تھا۔
علی احمد باہر جانے لگتے تو وہ گھبرا جاتا۔ راجو ان کے گھر آتی تو وہ چپ چاپ دبے پاؤں باہر نکل جاتا۔ راجو کی زیر لب مسکراہٹ سے اسے ایسے محسوس ہوتا جیسے وہ ایلی کی گزشتہ خفت سے کماحقہ واقف ہو۔جیسے وہ جانتی ہو۔ جانے بغیر سمجھتی ہو۔ جیسے ساجو نے اسے اس تمسخر بھرے قہقہے سمیت ساری بات بتا دی ہو۔ اس کی مسکراہٹ ایلی کے سینے میں دھار بن کر اتر جاتی اور وہ محسوس کرتا جیسے وہ کہہ رہی ہو۔
“ اچھا تو جناب بھی اس میدان میں قدم رکھتے ہیں۔ واہ واہ بڑی خوشی ہوئی جان کر۔“ اس پر وہ گزشہ خفت از سرِ نو اس پر طاری ہو جاتی۔
کبھی تو راجو کو دیکھ کر ایلی کے دل میں ایک عجیب سی وحشت بیدار ہو جاتی اور اس کا دل چاہتا کہ بڑھ کر اس کی قمیض تار تار کر دے اور پھر چلا چلا کر کہے، “ میں تمہیں جانتا ہوں۔ تم جونک ہو جونک۔“ پھر وہ لاحول پڑھ کر اپنے آپ کو محفوظ کرنے کی کوشش میں کھو جاتا اور بالآخر چپکے سے گھر سے باہر نکل جاتا۔ سیڑھیاں اترتے ہوئے اسے شریف کی ہنسی کی آواز سنائی دیتی۔ “ نہیں نہیں ایلی محبت کرو محبت۔“
تین راہگیر
ایک روز راجو کے آنے پر جب وہ دبے پاؤں سیڑھیاں اتر رہا تھا تو علی احمد نے آواز دی۔
“ ایلی۔ جانا نہیں۔“
وہ رک گیا۔ اس کا دل دھک دھک کرنے لگا۔ “ نہیں نہیں میں نہیں جاؤں گا۔ میں ابا کے پاس نہیں جاؤنگا۔“
“ ایلی ادھر آؤ۔“ علی احمد نے پھر آواز دی۔
راجو اس کی طرف دیکھ کر مسکرائی۔ “ اب تو نظر ہی نہیں آتا ایلی۔“ اس نے لاڈ بھرے انداز سے کہا۔ “ جی نہیں چاہتا تیرا ملنے کو۔“ ایلی نے محسوس کیا جیسے وہ بات طنزاً کہی گئی ہو۔
“ایلی ذرا ہمارے ساتھ چلنا ہے تمہیں۔ ابھی چلتے ہیں ذرا ٹھہرو۔“ علی احمد بولے۔
“ میں نہیں جاؤں گا۔“ ایلی نے باآوازِ بلند کہنے کی ناکام کوشش کی۔ اور پھر اپنی بے بسی پر بل کھا کر خاموش ہو گیا۔
کچھ دیر کے بعد علی احمد تیار ہو گئے۔ “ چلو ایلی۔“ وہ بولے اور پھر علی احمد، راجو اور ایلی سیڑھیاں اترنے لگے۔
علی احمد اور راجو کے ساتھ دولت پور کے بازار سے گزرنا ایلی کے لیے بہت بڑی مشکل تھی۔ وہ محسوس کرتا تھا کہ پنواڑیوں کی دوکانوں پر کھڑے لوگ ان کی طرف دیکھ دیکھ کر مسکراتے تھے۔ ان کے متعلق زیر لب باتیں کرتے تھے۔ اس وقت ایلی کی حیثیت سیلز مین کی سی ہو جاتی تھی۔ اسے یہ بات بے حد ناگوار گزرتی لیکن وہ کر ہی کیا سکتا تھا۔
وہ تینوں راہگیر عجیب انداز سے چلے جا رہے تھے۔
علی احمد کو تو لوگوں کی موجودگی کا اھساس ہی نہ ہوتا تھا۔ راہ چلتے ہوئے انہوں نے کبھی راہگیروں یا پنواڑیوں کی طرف نگا اٹھا کر نہ دیکھا تھا۔ انہیں ادھر دیکھنے کی فرصت ہی نہ ہوتی تھی۔ وہ تو گردن اٹھا کر چلنے کے عادی تھے اور ان کی گردن کا زاویہ ایسا ہوتا تھا کہ سڑک نگاہ سے اوجھل رہتی بلکہ مکانات کی نچلی منزل کی طرف دیکھتا۔
ان کے لیے ممکن نہ رہتا اور دو رویہ بنے ہوئے چوباروں یا کوٹھوں کو منڈیروں کی طرف دیکھتے ہوئے وہ آگے بڑھے جاتے۔ ان کے عقب میں راجو برقعہ پہنے ہوئے گرگابی بجاتی ہوئی یوں چلتی جیسے وہ دولت پور کی راجو نہیں بلکہ کوئی اور ہی ہو جیسے اسے کوئی جانتا ہی نہ ہو۔ لیکن اس کے باوجود کبھی کبھی اس کا سینہ تن جاتا۔ قدموں میں شوخی لہراتی اور جالی کے پیچھے سے آنکھ لپکتی جیسے اس کا جی چاہتا ہو کہ ان آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے والے لوگوں سے کہے “ میں ہی ہوں دولت پور کا پٹاخہ میں ہی ہوں۔ کیا سمجھا ہے تم نے جہاں میرا جی چاہے جاؤں گی، جس کے ساتھ جی چاہے رہوں گی، کر لو میرا جو کرنا ہے۔“ اور دور پیچھے ایلی یوں چلا آتا جیسے بازار سے کوئی سودا خریدانے کے لیے جا رہا ہو اور اسے اس میلے برقعے میں ملبوس ٹھک ٹھک کرتی ہوئی عورت اور چوبارہ نگاہوں والے مرد سے کوئی تعلق نہ ہو۔
اس روز ان کے پیچھے چلتے ہوئے وہ دعائیں مانگ رہا تھا یا اللہ کہیں وہ اس گھر میں نہ جا رہے ہوں جہاں میلے پنڈے کی بو کے ریلے آتے ہیں اور وہ سیاہ گوشت میں میلے دانت۔ وہ اس کے روبرو کیسے جائے گا۔ نہیں نہیں۔
موڑ پر جا کر علی احمد رک گئے۔ “ اچھا راجو تو چل گھر۔ لیکن جلد اس جگہ پہنچ جائیو۔ سمجھی ہم انتظار کریں گے۔“
اچھا کہہ کر راجو چلی گئی اور علی احمد اور ایلی مڑ کر دوسری سڑک پر ہو لیے۔ کئی ایک راستوں سے ہوتے ہوئے بالآخر وہ ٹاؤن ہال میں داخل ہوئے جہاں لوگوں کا ہجوم تھا۔
بےبی شو
“ آؤ ایلی آؤ۔ یہاں آج بےبی شو ہے۔“ علی احمد نے ایلی کی طرف دیکھا، “ ارے بےبی شو نہیں جانتے اور کہنے کو کالج میں پڑھتے ہو۔“ وہ ہنسنے لگے۔ “ واہ یہ بھی لاجواب بات ہے۔ دیکھو بےبی کا مطلب ہے بچہ یعنی دودھ پیتا بچہ یعنی وہ بچہ جو ماں کا دودھ پیتا ہے۔ آج یہاں ان بچوں کا شو ہو گا میونسپل ہال میں۔ جو بچہ سب سے زیادہ تندرست ہو گا اسے انعام ملے گا۔ یعنی یعنی۔“ وہ ادھر ادھر تاکتے ہوئے کہنے لگے۔ “ یہ بچوں کی نمائش ہے سمجھے اور سرکار یہ نمائشیں اس لیے مروج کر رہی ہے تاکہ لوگوں کو توجہ بچوں کی صحت کی طرف مبذول ہو۔ ہی ہی ہی۔“ وہ نہ جانے کس کی طرف دیکھ کر ہنسے۔ اور پھر اپنا لیکچر شروع کر دیا۔
ہاں تو کیا کہہ رہا تھا میں۔ ہاں بےبی شو۔ شو کا مطلب ہے۔ مظاہرہ مطلب ہے دکھانا۔ سی یعنی ایس ڈبل ای۔ مطلب دیکھنا اور سی سے شو۔ یہ ٹاؤن ہے۔ سمجھے ------“ پھر خاموش ہو گئے۔
“ ہاں تو کیا کہہ رہا تھا میں۔ “ وہ پھر کسی طرف دیکھنے لگے۔
حفظانِ صحت اور زچہ و بچہ کا لیکچر تو محض جملہ معترضہ تھا۔ مطلب تو یہ تھا کہ اس احاطے میں کھڑے ہو کر باتیں کرنے کے بہانے اردگرد کے مجمع میں کسی کو تاکا جائے۔ ایلی محسوس کر رہا تھا جیسے بچوں کے بہانے وہ عورتوں کی نمائش ہو اور پھر دولت پور کی عورتیں بھی تو ایسی اچھی نہ تھیں۔ ان میں وہ امرتسر اور لاہور والی بات ہی نہ تھی۔ سیاہ رنگ کی دبلی پتلی عورتیں جن کی بانس نما ٹانگوں پر میلے تنگ پاجاموں کے غلاف چڑھے تھے اور جن کی گودیوں میں انسانی ڈھانچے لٹک رہے تھے۔
ہر جملے کے بعد علی احمد چاروں طرف دیکھتے اور ہر برقعہ پوش کو نگاہوں سے ٹٹولتے جیسے اسے تول رہے ہوں اور پھر ہنسنے لگتے۔
“ہی ہی ہی۔ تم انفینٹ مارٹیلٹی کو بھی نہیں جانتے۔ تمہیں کالج میں پڑھاتے کیا ہیں وہ۔ دیکھو ہم تمہیں سمجھاتے ہیں۔“ ------ “ ائیے خان صاحب آئیے۔ کہیے مزاج کیسے ہیں۔“ وہ ایک اجنبی سے کہنے لگے۔ “ ہاں ہاں میں ایلی کو سمجھا رہا تھا انفینٹ مارٹیلٹی کسے کہتے ہیں۔ بچے کو باتیں سمجھانے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ اسے ایسے تہوار دکھائے جائیں۔ ہی ہی ہی۔“ اور خان صاحب کے جانے کے بعد وہ مسکراتے ہوئے چاروں طرف دیکھنے لگے۔ “ ہاں تو کیا کہہ رہا تھا۔ میں یعنی مطلب ہے۔ ------- “
ایلی کو اچھی طرح معلوم تھا کہ مطلب کیا ہے اور وہ چاہتا تھا کہ چلا چلا کر لوگوں پر واضح کر دے کہ مطلب کیا ہے بلکہ خود انہیں بتا دے کہ وہ اچھی طرح سمجھتا ہے کہ مطلب کیا ہے۔
سفید دھبہ، بھوری لٹ
“ ہائیں تم ہو تسلیم۔ تم۔“ علی احمد ایک اجلے برقعے کی طرف بڑھے تم یہاں۔“ برقعہ پوش گھبرا کر رک گئی۔“ “ تم نے مجھے پہچانا نہیں۔ ہی ہی ہی۔ وہ ہنسنے لگے “ بھئی میں علی احمد ہوں۔ علی احمد اپنے آغا صاحب اور میں دونوں ایک ہی دفتر میں تو تھے۔ آج کل کہاں ہیں آغا صاحب۔“
“ امرتسر گئے ہوئے ہیں۔“ ایک باریک سی سہمی سی آواز سنائی دی۔ “ ہاں ہاں امرتسر ہی گئے ہوں گے۔ انہوں نے خود مجھ سے کہا تھا ہی ہی ہی۔“
“ پرانے دفتر سے چھٹی لی ہے کیا۔“
“ استغفے دے دیا ہے۔“
“ ہی ہی ہی۔ “ وہ ہنسے۔ “ ہاں ہاں استغفے دینے ہی کو تو کہتے تھے---------“
“ اور۔ اور تم یہیں ہو ابھی۔“
“ ہم بھی جا رہے ہیں۔“ وہ بولی
“ اوہ تو تم بھی جا رہی ہو۔ اس سلسلے میں میری مدد کی ضرورت ہو تو بلا روک ٹوک کہدو۔ آغا صاحب اور مجھ میں کوئی فرق نہیں۔ ہمارے پرانے دوست ہیں اور پھر خاندانی تعلقات ہیں۔ ہی ہی ہی۔“
جھوٹ جھوٹ۔ ایلی کا دل دھڑک رہا تھا۔ وہ محسوس کر رہا تھا جیسے کوئی مکڑا اپنے پنجے پھیلا رہا ہو، ہی ہی ہی کے تار سے جال بن رہا ہو اور مکھی قریب ہوئی جا رہی ہو اور قریب ------۔
ایلی کو اس بات پر غصہ آ رہا تھا کہ علی احمد چھوٹی سی لڑکی سے بھی ہی ہی ہی کیئے بغیر نہ رہتے۔ کتنی چھوٹی عمر تھی اس کی جب کہ وہاں علی احمد کے برابر کی عورتیں موجود تھیں پھر ------ِ
شاید وہ محسوس کر رہا تھا کہ وہ لڑکی کسی نوجوان کی توجہ کے لائق تھی۔ پھر دفعتاً اسے سارہ صبورہ یاد آ گئیں اور اسے علی احمد کی آواز سنائی دی۔ سارہ سو گئی کیا۔ ہی ہی ۔
“ شرماؤ نہیں تسلیم۔“ علی احمد اسے بھر مار رہے تھے “ ہاں ہاں برقعہ اٹھا لو کیا حرج ہے۔ ڈرو نہیں۔ ہم جو تمہارے ساتھ ہیں۔“
دفعتاً سفید رنگ کا ایک دھبہ ایلی کی آنکھوں تلے ابھرا اور گھنگھریالے بالوں کی ایک لٹ لہرائی اور اس نے گھبرا کر نگاہیں نیچی کر لیں۔
علی احمد کو تسلیم کی کلائی پر گھڑی باندھتے ہوئے دیکھ کر نہ جانے کیوں اسے شدید صدمہ محسوس ہوا جیسے کوئی اس کا دل مسل رہا ہو۔ ایلی کی نگاہوں میں وہ نمائش دھندلی پڑ گئی۔ بے بس غصے سے اس نے علی احمد کی طرف دیکھا اور پھر مٹھیاں بھینچ کر چل پڑا جیسے اس کے دل میں ایک عزم قائم ہو چکا ہو۔ جیسے اس نے ایک فیصلہ کر لیا ہو۔
“ نہیں نہیں میں اسے سارہ نہیں بننے دوں گا۔ اس کی زندگی تباہ نہیں ہو گی۔ اسے اپنی عمر راہب خانے میں بسر نہیں کرنی پڑے گی۔ نہیں نہیں۔“ وہ چلا رہا تھا۔ اس کے گرد لوگ شور مچا رہے تھے۔ تانگے والے چلا رہے تھے۔ عورتیں سینے سے بچے چمٹائے بھاگی جا رہی تھیں لیکن اس کے ذہن میں صرف ایک خیال تھا۔ ایک ارادہ تھا۔ سامنے شریف مسکرا رہا تھا۔ ہاں ایلی ہاں۔ محبت کرو۔ چاہے کسی سے کرو لیکن محبت کرو۔
اچھا تو
گھر پہنچ کر وہ دھڑام سے چارپائی پر گر پڑا۔ غصے اور بے بسی سے اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ ان آنسوؤں کے دھندلکے میں شریف تحسن بھر نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا “ محبت کے بغیر تم کچھ بھی نہیں ایلی ------ کچھ بھی نہیں۔“
اجمل دفتر سے آیا تو ایلی کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ “ ایلی تم رو رہے ہو۔ علی احمد سے لڑائی ہو گئی کیا۔“
“ نہیں تو۔“ وہ بولا۔
“ تو کیا شمیم نے کچھ کہا۔“
“ نہیں تو“ ایلی کی ہچکی نکل گئی۔ اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ وہ کیوں رہ رہا ہے۔ اس کی ہچکیاں کیوں نکل رہی ہیں۔ اس کی کوئی وجہ بھی تو نہ تھی، مگر اس کے باوجود وہ چاہتا تھا کہ کسی کے کندھے پر سر رکھ کر رو دے۔ اس کا دل چاہتا تھا کہ راز دارانہ انداز میں اجمل کو ایک طرف لے جائے اور اس سے کہے “ مجھے محبت ہو گئی ہے۔ اب میں کیا کروں۔“
ایلی بار بار کوشش کرتا کہ اپنی محبوبہ کے تصور میں کھو جائے لیکن ایک سفید سا دھبہ اور بھورے بالوں کی گھنگھریالی لٹ کے سوا کوئی اور تفصیل اس کے تصور میں نہ آتی بلکہ یہ تفاصیل بھی دھندلی پڑتی جا رہی تھیں۔ کتنا پیارا نام تھا اس کا تسلیم۔ اور آواز۔ کتنی میٹھی کتنی رسیلی۔
ایلی کی باتیں سن کر اجمل کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی “ ہوں “ اس نے ایک آہ بھر کر کہا۔ “ اچھا تو ایلی کو محبت ہو گئی ہے۔“ اتنا کہنے کے بعد وہ کسی خیال میں کھو گیا اور اس کی آنکھوں تلے نجو کا بلوریں جسم منور ہو گیا۔ نجو الڑ رقاصہ جو اس کے باپ کی داشتہ جانکی کی عزیزہ تھی اور جسے اس نے کئی ایک سال آنکھوں کا تارا بنائے رکھا تھا۔ وہ نجو جس کو بھلانے کے لیے اس نے بصرے کی خاک چھانی تھی اور کابل کی پہاڑیوں میں پناہ لی تھی اور جسے بھولنے کی شدید کوشش میں وہ اب تک ملحقہ چوباروں میں نہ جانے کس کی تلاش کیا کرتا تھا۔
کچھ نہیں سے ۔۔۔۔۔۔ بہت کچھ
اس حادثے کے بعد ایلی کا دولت پور میں رہنا قطعی طور پا ناممکن ہو گیا اس نے وہ آخری مہینہ بڑی مشکل سے گزارا۔ اب اس کی نگاہ میں علی احمد کی حیثیت ایک راکھشش کی رہ گئی تھی جس کا کام صرف یہ تھا کہ سیتاؤں کو اپنی لنکا کی بھینٹ چڑھاوے اور راجو ساجو تو غلیظ ڈھیروں کے سوا کچھ نہ تھیں۔ اس سے بات کرتے ہوئے ایلی کو گھن آنے لگی تھی۔
البتہ اب جب شمیم عقبی کھڑکی کا سہارا لیتی تو ایلی کو غصہ نہ آتا بلکہ اس کے دل میں ہمدردی کی ایک لہر دوڑ جاتی۔ بیچاری جو اس خوفناک لنکا میں بیکار بے مصرف مقید تھی۔ جو جھوٹے سہاروں پر اپنی زندگی کے دن کاٹ رہی تھی۔ جس کے لیے زندگی صبح و شام کے تواتر کے سوا کچھ نہ تھی۔
ایک ماہ کے لیے کالج میں امتحان کی تیاری کے لیے چھٹیاں ہو چکی تھیں۔ ایلی کتابیں لے کر اجمل کے پلنگ پر پڑ جاتا۔ ایک گھنگھریالی لٹ اس کی آنکھوں تلے لٹکتی۔ ایک سفید سا دھبہ چاند کی طرح چمکتا اور وہ چھت کی طرف ٹکٹکی باندھ کر بیٹھ جاتا اور نگاہوں کو مست بنانے کی شدید کوشش کرتا۔ چھت سے شریف کی متبسم آواز آتی۔ تم محبت کے بغیر کچھ بھی نہیں ایلی۔ کچھ بھی نہیں۔“ اور وہ محسوس کرتا کہ وہ بہت کچھ ہے بہت کچھ ------ پھر اسے امتحان دینے کے لیے اجلا ریاست میں جانا پڑا۔
ریاست اجلا
اجلا ایک ویران شہر تھا۔ جس میں یہاں وہاں آبادی کے ٹکڑے تھے۔ اور کہیں کہیں خوبصورت محل اور باغات تھے۔ اجلے کا بڑا بازار کا ایک وسیع اور غلیظ کوچہ تھا جس میں سیاہ فام چست و چالاک قسم کے لوگ ادھر ادھر گھومتے پھرتے تھے۔ جن کی زبان کچرکچر چلتی اور جن کی آواز میں نہ تو دلی کی سی رنگینی تھی اور نہ لاہور کی سی مٹھاس۔ باتوں میں عجیب کرختگی تھی۔ انداز میں عمومیت سی تھی جن کی باتیں گویا ننگی تھیں۔ بھونڈی اور ننگی۔
اس بازار کے ادھر ادھر پرانی وضع کی بڑی بڑی عمارتیں تھیں۔ جن پر ویرانی اور اداسی چھائی رہتی تھی۔ اور جن کی اندھیری لمبی ڈیوڑھیوں میں اونچے لمبے سپاہی بندوقیں اٹھائے پہرہ دیا کرتے تھے۔ کہا جاتا تھا کہ ان پرانے محلوں میں مہاراج کی وہ رانیاں مقیم تھیں جو مہاراجہ کا چاؤ ختم ہو جانے پر اس محلات میں منتقل کر دی گئی تھیں اور زندگی کے باقی دن نوکروں اور اہل کاروں کی نگاہِ التفات کے سہارے بسر کر رہی تھیں۔
ایلی محلات کے نوکروں کو مسرت کی نظر سے دیکھتا۔ دفعتاً اسے مہاراج پر غصہ آنے لگتا، پھر علی احمد کی آواز سنائی دیتی۔ “ شرمانے کی کیا بات ہے تسلیم۔ ہم کوئی بیگانے تو نہیں۔“ ایلی کی نگاہوں تلے ایک سفید دھبہ جھلملاتا، ایک بھوری لٹ لہراتی اور وہ آہ بھر کر آسمان کی طرف دیکھنے لگتا اور محسوس کرتا جیسے وہ سبھی کچھ ہو۔
کیا ہے تجھے
سارہ کا خیال آتے ہی اسے علی احمد یاد آ جاتے اور پھر بےبی شو کا وہ میدان دکھائی دیتا اور ایک اجلے برقعہ والی لڑکی اس کے روبرو آ کھڑی ہوتی۔ ایک سفید دھبہ ایک گھنگھریالی لٹ۔ پھر وہ چپ چاپ گھر جا کر بیٹھ جاتا اور دادی اماں پوچھتی ایلی کیا ہے تجھے کیا ہو گیا ہے۔ کیا بات ہے ایلی۔ ایلی کو خود بھی معلوم نہ تھا کہ اسے کیا ہو گیا تھا۔
محلے کا احاطہ ویران پڑا تھا۔ اس لیے کہ ارجمند نہ جانے کہاں کس نوکری پر چلا گیا تھا اور انکراینڈی کا کھیل ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا تھا۔ کبھی کبھی ایلی گھبرا کے ارجمند کے گھر چلا جاتا جہاں تخت پر ارجمند کی بانسری پڑی دیکھ کر اس کا دل بھر آتا۔ یا کسی وقت جب وہ نگاہ بچا کر مقابل کے مکان کی طرف دیکھتا اور وہاں ہکوری ڈکوری کا کوئی ایڈیشن نظر آتا تو دل پر ٹھیس لگتی۔ پھر وہ کچی حویلی کی کبڑی لالٹین تلے چلا جاتا لیکن وہاں کھڑا ہونا تو بالکل بیکار تھا۔ اگرچہ کیپ فوراً کھڑکی میں آ کھڑی ہوتی اور مسکرا مسکرا کر کسی نہ کسی سے باآواز بلند باتیں کرنے لگتی لیکن ایلی کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کرئے، کس طرح ہاتھ ہلائے، رومال لہرائے۔ وہاں بت کی طرح بے حس و حرکت کھڑے رہنا بھی تو بےمعنی بات تھی اور پھر لوگ ------ پھر وہ رضا کی دوکان پر جا بیٹھتا اور رضا اسے دلچسپ باتیں سناتا اور ہر آتے جاتے کو چھیڑتا اور بالآخر ایلی پر فقرے کسنے شروع کر دیتا۔ “ہوں تو ایلی بابو کو محبت ہو گئی ہے۔ بڑا خطرناک مرض ہے یہ۔ اللہ ہی بچانے والا ہے۔ ورنہ ایسے مریض بچتے نہیں۔“ اور ایلی کو اس کی باتوں کے علاوہ اپنی حماقت پر غصہ آتا کہ اس نے اپنی محبت کی بات رضا کو کیوں بتا دی تھی مگر رضا کو بتائے بغیر چارہ بھی تو نہ تھا۔ علی پور میں اور کون تھا جس سے وہ راز دل کہہ سکتا تھا۔ صرف ایک رضا تھا نا۔ رفیق بھی تو نوکری کے سلسلے میں کہیں جا چکا تھا۔
حمیدہ رشیدہ
محلے میں اس کے لیے دلچسپی کی کوئی صورت نہ تھی۔ گھر میں بوڑھی دادی کے سوا کوئی نہ تھا۔ سیدہ تو بالکل ہی خاموش رہا کرتی تھی۔ وہ ہر وقت دادی کے ساتھ چپ چاپ بیٹھی رہتی تھی۔ جوان ہونے کے باوجود وہ ازلی طور پر بوڑھی تھی۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کا خاوند اس کی پروا نہ کرتا تھا۔ کبھی کبھار سال دو سال کے بعد رات کے اندھیرے میں وہ چپ چاپ آ جاتا پھر اگلی صبح جب ایلی بیدار ہوتا تو اسے خبر ملتی کہ فاضل صاحب آئے ہوئے ہیں۔ وہ دور سے ہی اسے دیکھتا۔ سیاہ فام بھاری بھر کم سا مرد جس کے بال کالے ہونے کے باوجود سفید دکھائی دیتے تھے اور جس کی جھکی ہوئی کمر سے ظاہر ہوتا تھا جیسے وہ شانوں پر صدیوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہو۔ وہ دھیمی آواز میں باتیں کرنے کا عادی تھا یہاں تک کہ گھر والوں کو اس کی کھسر پھسر سے اندازہ نہ ہو سکتا تھا کہ وہ آپس میں محبت بھری باتیں کر رہے ہیں یا ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں۔ البتہ جب کبھی ایلی اس کے پاس جاتا تو وہ ایک نہ ایک دلچسپ بات شروع کر دیتا اور ایلی کو یقین نہ آتا کہ اس شکل و صورت کا شخص ایسی چمکیلی اور دلچسپ بات بھی کر سکتا ہے۔
ایلی کے گھر میں سیدہ کے علاوہ سیدہ کی مرحوم بہن نیاز کی بیٹیاں حمیدہ اور رشیدہ تھی رہتی تھیں مگر وہ تو بالکل بچیاں تھیں۔ حمیدہ اور رشیدہ کا ایک بھائی بھی تھا جس کا نام نقی تھا اور جس کے چہرے پر بہت بڑا داغ تھا۔
حمیدہ اور رشیدہ کے آنے سے ایلی کو چند ایک سہولیات ضرور حاصل ہو گئی تھیں کیونکہ اسے دو چھوٹی بہنیں میسر ہو گئی تھیں جو اس کے چھوٹے موٹے کاموں میں مصروف رہتی تھیں اور اس کا کام کرنے میں حقیقی مسرت محسوس کرتی تھیں مگر ان باتوں کے باوجود اسے گھر رہنے میں کوفت ہوتی تھی اور وہ ہر ممکن موقعہ پر رضا کے پاس جا بیٹھتا اور رضا اسے اداس دیکھ کر کہتا “ آؤ تمہیں گھما لائیں۔ کیا یاد کرو گے بابو۔“
وہ اپنی لاٹھی سنبھال کے ساتھ ہو لیتا اور جب وہ علی پور کی فصیل کے باہر چکر لگا لگا کر تھک جاتے تو وہ اسے پہلوان اور طفیل کے پاس لے جاتا۔ پہلوان اور طفیل آصفی محلے کے پڑوس میں رہتے تھے۔ پہلوان ایلی کو دیکھ کر مسکراتا۔ “ آئیے بابو جی۔“ اور پھر اپنی تمام تر معصومیت کو لیے ہوئے بیٹھا مسکراتا رہتا۔ طفیل ایک دبلا پتلا لڑکا تھا جس کی طبیعت میں رنگینی اور تیزی دونوں عنصر موجود تھے۔ وہ دونوں ایلی کے ساتھ بڑی محبت اور عزت سے پیش آتے تھے اور ایلی محسوس کرتا تھا جیسے وہ ایک بلند و برتر ہستی ہو۔ پھر وہ شیخ ہمدم کی طرف جا بیٹھتے جو چمڑے کا سوداگر تھا۔
شیخ ہمدم
پہلی دفعہ شیخ ہمدم کو دیکھ کر ایلی بہت متاثر ہوا تھا۔ شکل و صورت سے معزز دکھائی دینے کے باوجود اس کے خیالات نوجوانوں کے سے تھے اور طبیعت میں بلا کی چمک تھی۔ شیخ ہمدم پہلا شخص تھا جو عمر اور مرتبے میں بڑا ہونے کے باوجود ایلی سے دوستانہ حیثیت سے ملتا تھا۔ “ آئیے الیاس صاحب۔“ وہ اسے دیکھ کر مسکراتا “ تشریف رکھیے یہاں گھبرانے کی کوئی بات نہیں بس چار ایک منٹ میں سودا طے ہو جائے گا اور پھر بیٹھ کر گپ اڑائیں گے۔“ “ ہاں جی چودھری جی۔“ وہ اپنے گرد بیٹھے ہوئے بیوپاریوں سے کہتا “ بس جو کہہ دیا ہے نا میں نے وہ عین مناسب ہے۔ آپ بھی کیا یاد رکھیں گے چودھری صاحب۔ سو کے پیچھے ایک آنہ اور سہی۔ بس چودھری صاحب اب تو مطمئن ہو جانا چاہیے اپ کو۔ ٹھیک ہے ٹھیک ہے اچھا تو سلام علیکم ہاں جی الیاس صاحب۔ تو رہے گی شطرنج کی بازی۔ مگر ابھی تو آپ ناپختہ ہیں اس فن میں بہرحال چلیئے ہو ہی جائے ایک بازی۔ ہاں کیا پئیں گے آپ، نہیں چاہے تو واہیات ہے۔ او لڑکے دودھ والے، آدھ سیر دودھ میں چار پیڑے بلو کر لانا۔ ذرا بالائی زیادہ ڈالنا۔ الیاس صاحب بھی کیا یاد کریں گے کہ کسی شیخ سے پالا پڑا تھا۔ بابو الیاس صاحب دودھ پیجیئے۔ بالائی کھائیے اور ورزش کیجیئے ورزش۔ یہی عیش ہے آپ کی قسم۔ ہاں تو کہیے کیسی گزرتی ہے آج کل۔“
شیخ ہمدم میں زندگی تھی۔ جوانی تھی اور اس کے علاوہ وہ معزز شہری سمجھے جاتے تھے اور یہ سب باتیں علی پور میں ایلی کو نصیب نہ تھیں۔ گھر اور محلے والے اسے کھلنڈرہ لڑکا سمجھتے تھے اوربس وہ اس قابل نہ تھا کہ اسے کوئی اہمیت دی جائے۔ اس میں ذہنی چمک تو تھی مگر وہ ڈر اور خوف کے دبیز پردوں میں دم توڑ رہی تھی۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ خود کفیل نہ تھا جیسے کہ شیخ ہمدم تھے۔ جب شیخ ہمدم اسے الیاس صاحب کہتے تو وہ خوشی سے پھولا نہ سماتا اور اسے محسوس ہوتا کہ وہ بھی ایک حثیت کا مالک ہے باعزت فرد ہے ایک ایسا شخص جو بالغ العقل ہے۔
ان باتوں کے باوجود ایلی زیادہ تر شیخ ہمدم کے پاس نہیں بیٹھ سکتا تھا کیونکہ جلد ہی اس پر احساسِ کمتری چھا جاتا اور وہ وہاں سے چلے آنے کا کوئی نہ کوئی جواز پیدا کر لیتا۔ گھر آ کر وہ چارپائی پر لیٹ جاتا اور شریف کی سی آنکھیں بنا کر چھت کو گھورنے لگتا۔ چھت پر ایک سفید سا دھبہ چمکتا اور ایک بھوری لٹ لٹکتی دو سیاہ آنکھیں ڈولتیں۔ بار بار آہیں بھرتا اور پہلو بدلتا اور محسوس کرتا کہ زندگی ایک مسلسل کوفت ہے ایک دکھ بھری کیفیت۔
نتیجہ
ایلی کا نتیجہ نکلا تو وہ فیل تھا۔ اس خبر کو سنکر اسے بہت صدمہ ہوا لیکن اس نے اپنی تعلیمی ناکامی کو ایسی چابکدستی سے ناکامی محبت کی طرف مبذول کر دیا کہ اسے فیل ہونے کا کوئی صدمہ نہ رہا۔ وہ الجھی ہوئی لٹ اور پُر پیچ ہو گئی اور اس سفید دھبے میں دل کے خون کی ہلکی سی سُرخی شامل ہو گئی۔
نتیجہ کے اعلان کے بعد علی احمد کا ایک خط موصول ہوا جس میں ایلی کی مختصر طور پر ہدایت کی گئی تھی کہ وہ امرتسر جا کر ایڈورڈ روڈ پر روشن لال سے ملے۔ خط میں علی احمد نے یہ نہ لکھا تھا کہ یہ روشن لال کون تھے اور ان سے ایلی کو ملانے کا مقصد کیا تھا۔ ایلی صرف اس حد تک سمجھ سکا تھا کہ روشن لال علی احمد کے دوست تھے اور انہوں نے کسی نجی کام کے لیے اس سے روشن لال سے ملنے کو کہا تھا۔
ایلی کو معلوم نہ تھا کہ روشن لال امرتسر آریہ کالج کے پرنسپل تھے اور علی احمد کا مقصد اس ملاقات سے صرف یہ تھا کہ روشن لال ایلی کو امرتسر آریہ کالج میں داخل ہونے پر رضامند کر لیں اور وہ لاہور میں آوارگی کرنے سے محفوظ ہو جائے۔ انہیں معلوم نہیں تھا کہ ایلی کی سب سے بڑی خواہش یہی تھی کہ وہ امرتسر جائے۔ وہاں ایک سال رہنا تو بڑی خوش نصیبی تھی۔ شاید انہیں بےبی شو کا وہ معمولی واقعہ یاد ہی نہیں رہا تھا۔ ان کی زندگی ایسے واقعات سے بھری پڑی تھی۔ اس لیے انہوں نے اسے چنداں اہمیت نہ دی تھی۔ لیکن ایلی کے لیے اب بے بی شو کا وہ دن ایک تاریخی دن تھا ایک ایسا دن جسے وہ کبھی فراموش نہ کر سکتا تھا۔
پرنسپل
روشن لال خوش شکل اور جوان قسم کے آدمی تھے۔ ان کے بشرے سے ذہانت اور بے تکلفی ٹپکتی تھے۔
----- “ ہوں ------ “ وہ بولے “ تو تم علی احمد کے لڑکے ہو۔ جانتے ہو علی احمد میرے دوست ہیں لنگوٹیہ دوست، مگر تم گھبرائے ہوئے کیوں ہو۔ علی احمد کے بیٹے کو گھبرانا زیب نہیں دیتا۔ بیٹھ جاؤ، چائے پیو گے نا۔ اوہ تو تمہیں مجھ سے زیادہ ان سنہری مچھلیوں سے دلچسپی ہے۔“ ایلی کو بلور کے مرتبان میں تیرتی ہوئی مچھلیوں کی طرف گھورتے ہوئے دیکھ کر وہ ہنسنے لگے۔
“ اچھا تو الیاس یہ بتاؤ کہ جب مرتبان کا پانی گندہ ہو جائے اور مچھلیوں کو تازہ پانی بہم پہنچانا ہو یعنی مرتبان کا پانی بدلنا ہو تو کیا کریں گے؟“
ایلی سوچنے لگا “ ہاں ہاں سوچ لو۔“ وہ مسکرا کر بولے۔ “ مگر کوئی ایسی بات بھی نہیں۔ سائنس پڑھی تھی نا تم نے دسویں میں۔“
ایلی ان کی بے تکلف باتیں حیرانی سے سن رہا تھا۔ اس کا تو خیال تھا کہ روشن لال اسے کوئی ضروری پیغام دیں گے اور بزرگانہ انداز میں کچھ فرمانے کے بعد یہ ملاقات ختم ہو جائے گی۔ مگر وہ تو اس سے یوں باتیں کر رہے تھے جیسے وہ علی احمد کی بجائے خود ایلی کے دوست ہوں۔
“ اچھا تو الیاس تمہارے مشاغل کیا ہیں؟“ وہ پوچھنے لگے۔ “ سنا ہے فی الحال فیل ہونا تمہارا مشغلہ ہے۔ جب میں تمہاری عمر میں تھا تو میرا بھی یہی شغل تھا۔ کئی ایک سال میں کامیابی سے فیل ہوتا رہا۔“
ایلی حیران تھا کہ انہیں کیا جواب دے۔ وہ بڑے شوق سے ان کی باتیں سن رہا تھا اور مسکرا رہا تھا۔ “ اچھا بھئی “ بالاخر وہ بولے “ اگر تمہیں اعتراض نہ ہو تو ہم تمہیں اپنے کالج میں داخل کر لیں۔ خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو۔ کیوں۔“
“ آپ کا کالج “ ایلی نے خوشی سے پوچھا۔
“ ہاں ہاں۔“ وہ بولے “ ایک چھوٹا سا کالج ہے اور اسے چلانا میرا ذمہ ہے۔ تم ایسے لڑکے اگر میرے کالج میں داخل ہو جائیں تو بڑا اچھا ہو۔“
“ جی ہاں “ ایلی خوشی سے جھوم گیا۔ ایک تو امرتسر اور پھر روشن لال صاحب اس سے بہتر صورت اور کیا ہو سکتی تھی اور وہ داخل ہونے کا وعدہ کر کے چلا آیا۔
ہال دروازے میں پہنچ کر دفعتاً اسے خیال آیا کہ وہ یہاں رہتی ہے اس شہر میں۔ ان تانگوں میں بیٹھتی ہو گی۔ اس نے بازار میں چلتے ہوئے تانگوں کی طرف دیکھ کر سوچا۔ ان سڑکوں پر چلتی پھرتی ہو گی۔ کتنی خوش نصیب ہیں یہ سڑکیں، یہ راستے، یہ تانگے، یہ ہوا۔ ایک سفید سا دھبہ اس کی نگاہوں تلے چمکنے لگا اور گھنگھریالی لٹ لہرا لہرا کر اسے بلانے لگی۔ اللہ کرئے ابا روشن لال کی تجویز مان لیں اور میں امرتسر کالج میں داخل ہو جاؤں۔ اسے معلوم نہ تھا کہ وہ تجویز تو خود علی احمد کی تھی جسے روشن لال نے اپنی جانب سے پیش کیا تھا تا کہ ایلی کو یہ احساس نہ ہو کہ اسے امرتسر میں داخل ہونے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ اور وہ لاہور میں داخل ہونے کا مطالبہ نہ کرئے۔
دس دن کے اندر اندر علی احمد کا خط موصول ہوا جس میں اسے امرتسر میں داخل ہونے کی اجازت دے دی گئی تھی اور وہ اپنا مختصر سامان اٹھا کر امرتسر آ پہنچا اور آریہ کالج میں داخل ہو گیا اور پرنسپل روشن لال نے اسے بورڈنگ میں داخل ہونے کی خصوصی اجازت حاصل کر دی کیونکہ وہاں مسلمان لڑکوں کو رہنے کی اجازت نہ تھی۔
آم اور سانپ
بورڈنگ شہر سے بہت دور نہر کے کنارے آموں کی کوٹھی میں واقع تھے۔ آموں کی کوٹھی ایک ویران جگہ تھی۔ زرد رنگ کی یہ پرانی عمارت چاروں طرف سے آم کے درختوں میں گھری ہوئی تھی جہاں رات بھر زمین پر سانپ رینگتے اور دن بھر الو بولتا۔ مغرب کی جانب ایک کچھ سڑک تھی جس کے پرے امرودوں کا ایک باغ تھا۔ جنوب کی طرف نہر بہتی تھی اور دونوں طرف ویران زمین تھی۔
کوٹھی سے ایک پختہ سڑک شہر کی طرف نکل گئی تھی۔ سڑک کا یہ ویران ٹکڑا دو فرلانگ لمبا تھا جس کے دونوں طرف اونچے لمبے درخت لگے تھےاور وہ اتنے گنے تھے اور تعداد میں اس قدر زیادہ تھے کہ اچھی خاصی جنگل کی شکل بن گئی تھی۔ سڑک کے اس ویران ٹکڑے سے پرے کمپنی باغ اور ٹھنڈی کھوئی تھی۔
اڑتے پھلکے
بورڈنگ میں تقریباً بارہ تیرہ کمرے تھے جن سے ہٹ کر دو کمرے تھے جو باورچی خانے کے لیے مخصوص تھے جن میں چار ایک غلیظ باورچی اور نوکر ہر وقت کام میں مصروف رہتے تھے۔ کوٹھری کے مشرق میں دو بڑے کمرے بنگالی پروفیسر بیٹر جی کے لیے مخصوص تھے جو بورڈنگ کے سپرنٹنڈنٹ تھے اور اکثر چوری گھر میں مچھلی پکا کر کھایا کرتے تھے کیونکہ بورڈنگ میں گوشت مچھلی اور انڈا پکانا قانونی طور پر منع تھا۔ بورڈنگ کے باورچی خانے میں آلو ساگ بھنے ہوئے ٹنڈے، بینگن کا بھرتہ اور دالیں پکتی تھیں۔ رسوئی کے باہر ایک لمبی میز پڑی تھی۔ یہ میز لڑکوں کا ڈائینگ ہال تھی۔ بندہ باورچی چھوٹے چھوٹے پھلکے پکا کر انہیں باورچی خانے سے پُراسرار رکابیوں کی طرح ہوا میں پھینکتا اور باہر میز پر بیٹھے ہوئے لڑکے انہیں دبوچتے۔
“ بندو پھلگا “ رام لال چلاتا اور بندو ایک زرد زرد سا پھلکا فضا میں چھوڑتا جو رام لال کے ہاتھوں میں آ کر گرتا۔ ایلی بندو کی چستی اور نشانے پر حیران رہ گیا۔ وہ منظر عجیب تھا۔ باورچی خانے کے باہر سفید زمین پر ایک لمبی غلیظ میز پر دس بارہ لڑکے کٹوریاں سامنے رکھے بیٹھے تھے اور بندو کے پھلکے کبوتروں کی طرح ہوا میں اُڑ رہے تھے۔
“ بندو پھلکا “ اور ایک ساعت میں ایک پھلکا پکارنے والے کے ہاتھ میں آ گرتا۔
“ بندو دال “ ایک لڑکا چیختا اور ہنستا ایک کٹوری لے کر بھاگتا۔
ایلی کے لیے کھانے کی میز کا یہ منظر بالکل نیا تھا۔ نیا اور انوکھا۔ لیکن اسے اجازت نہ تھی کہ وہ اس میز پر بیٹھے کیونکہ وہ مسلمان تھا اور مسلمان کے لیے جنرل ٹیبل پر بیٹھنا منع تھا۔ اس کے لیے کچن کے برتنوں کو استعمال کرنا ممنوع تھا۔ خوش قسمتی سے اس سال بورڈنگ میں دو اور مسلمان لڑکے داخل ہو گئے تھے جنہیں خصوصی وجوہ کی بناء پر وہاں رہنے کی اجازت مل گئی تھی اور ان تینوں کا فرض تھا کہ یا تو وہ سب سے پہلے کھانا کھا لیں اور یا سب کے بعد اور یا کمرے میں بیٹھ کر جب جی چاہے کھائیں بشرطیکہ اس وقت کوئی نوکر فارغ ہو جو ان کے لیے کھانا لا سکے۔
کٹوریاں
نوکر ان زرد کٹوریوں میں کھانا لے آتا اور پھر کٹوریوں میں انگلیاں ڈال کر بڑی بے تکلفی سے دال یا سبزی ان کے ذاتی برتنوں میں انڈیل دیتا۔ اس عمل کے دوران میں وہ احتیاط رکھتا کہ اس کے جسم کا کوئی حصہ ان کے برتنوں سے چُھو کر بھرشٹ نہ ہو جائے اور پھر وہ تینوں باری باری چلاتے۔ “ بندو پھلکا “ اور پھلکے ہوا میں اُڑتے اور برتن بجتے اور وہ تینوں ایلی، شفیع اور مولا داد شور مچاتے۔
ہفتے کو سرِ شام ہی سے کچن سے باہر دودھ کی بڑی بڑی گاگریں قطار میں پڑی دکھائی دیتیں۔ نہ جانے وہ گاگریں کہاں سے آتی تھیں۔ شام کو ہر آدھ گھنٹے بعد کوئی مہرا سر پر گاگر اُٹھائے تیزی سے نیم چلتا نیم بھاگتا ہوا آتا دکھائی دیتا۔ اس کا جسم میل سے بھرا ہوتا۔ ہاتھوں کی انگلیاں گاگر میں ڈوبی ہوئی ہوتیں اور کہنیوں تک بازو دودھ میں تر ہوتے۔ دودھ کی چھلکتی ہوئی گاگر لیے وہ بھاگا آتا اور پھر بسنتے یا رامو کی مدد سے گاگر اتار لی جاتی۔
ہفتے کی رات بندو بڑے بڑے کڑاہے چولہوں پر رکھ کر آگ جلا دیتا اور پھر رات بھر ان کڑاہوں میں چمچہ چلانے کی آوازیں آتیں اور بندو باری باری بسنتے اور رامو کو ڈانٹتا۔ اگلے روز بڑی بڑی زرد تھالیوں میں کھیر ڈال دی جاتی۔ اس پر لڑکے خوشی سے پھولے نہ سماتے اور پھر میز پر بیٹھ کر کھیر بھری انگلیاں چاٹتے۔ اس روز بندو کے پھلکے ہوا میں نہ اُڑتے اور کٹوریاں باورچی خانے کے ایک کونے میں ڈھیر کر دی جاتیں۔
معزز آدمی
شفیع، مولا داد اور ایلی بورڈنگ کے ایک علیحدہ کمرے میں رہتے تھے۔ شفیع دبلا پتلا دراز قد لڑکا تھا جس کے خدوخال سے چستی اور ذہانت ٹپکتی تھی۔ اس کے والدین امرتسر کے قریب ہی کسی گاؤں کے زمیندار تھے۔ مولا داد کوتاہ قد اور جسیم تھا۔ خدوخال سے وہ کالج کا لڑکا معلوم ہی نہ ہوتا تھا اور گفتگو سے ظاہر ہوتا تھا جیسے کسی گاؤں کا جاٹ بھول کر شہر میں آ نکلا ہو۔ اس کا لباس بھی عجیب تھا۔ کم از کم ایلی کے لیے تو وہ لباس بہت ہی انوکھا تھا۔ اس کے لباس کو دیکھ کر پہلے ہی روز پرنسپل نے اسے دفتر میں بلا لیا اور کہنے لگا۔
“ مولا داد یہ کیا حلیہ بنایا ہے تم نے۔“
“ حلیہ “ مولا داد نے حیرانی سے دیکھا اور پھر ٹھوڑی پر ہاتھ پھیر کر بولا “ پرنسپل صاحب میں تو اپنے گاؤں کا ایک معزز آدمی ہوں اور جناب حلیہ تو مجرموں کا ہوتا ہے۔“ مولا داد کی آواز اور انداز میں ایک خاص قسم کی سنجیدگی اور معصومیت تھی۔
“ نہیں، نہیں، یہ تہہ بند کالج میں نہیں چلے گا۔ کوئی شلوار نہیں ہے تمہارے پاس پہننے کے لیے؟“
“ مل جائے تو پہن لوں گا۔“ وہ بولا
اس پر پرنسپل نے کسی فنڈ سے اسے دو شلواریں سلوا دیں تھیں۔ اس کے بعد بورڈنگ سے چلتے وقت مولا داد ایک شلوار اخبار کے کاغذ میں لپیٹ کر لے جاتا۔ جب کالج کی گھنٹی بجتی تو وہ تہہ بند اتار کر جھٹ شلوار میں داخل ہوتا اور جماعت میں جا بیٹھتا۔ جہاں خالی پیریڈ آتا وہ شلوار کاغذمیں لپیٹ لیتا اور تہہ بند باندھ کر اطمینان کا سانس لیتا۔
“ بھئی اب کرو بات۔“ وہ چلاتا “ یار اس شلوار میں تو دم گھٹتا ہے۔“
کوئی نہیں جانتا تھا کہ مولا داد کہاں کا رہنے والا تھا اور کہاں سے آیا تھا۔ اس نے کبھی اپنے گاؤں اور والدین کا ذکر ہی نہ کیا تھا البتہ اسے جیب خرچ بہت کم ملتا تھا اور اس کے زیادہ تر اخراجات کالج والے خود داد کیا کرتے تھے کیونکہ وہ کرکٹ کا ایک نہایت عمدہ کھلاڑی تھا اور بائیں ہاتھ سے گھگلی گیند پھینکنے کی وجہ سے کالج والے اس کی عزت کیا کرتے تھے۔
شفیع یا تو سانپ مارنے کو شوق میں ادھر ادھر گھومتا پھرتا اور یا ہاکی کھیلنے کے متعلق گپیں سناتا رہتا۔ مولا داد تہہ بند جھاڑتا اور عجیب عجیب منصوبے بناتا رہتا۔ پہلے ہفتے میں اس نے لنگوٹا باندھ کر جبڑے پر رومال باندھ کر ہاتھ میں لٹھ لے لیا اور رات کے وقت سڑک پر دو رویہ درختوں میں جا چھپا۔ جب بھی کوئی بورڈنگ سے متعلقہ لڑکا سڑک پر آتا دکھائی دیتا تو وہ لڑھ لے کر درختوں سے باہر نکل آتا۔
رکھ دے یہاں جو بھی تیرے پاس ہے۔ وہ ڈاکو بن کر انہیں ڈانٹتا۔ اس طرح پہلی رات اس نے کئی پنسلیں، چاقو، گھڑیاں اور سات روپے بارہ آنے نقد جمع کر لیے تھے اور بورڈنگ کے لڑکوں کے دل میں سڑک کے اس ویران حصے کا ڈر پیدا ہو گیا تھا۔
---- میں ہوں !
سویرے وہ تینوں تیار ہو کر کالج کی طرف چل پڑتے اور دو گھنٹے کی مسافت طے کرنے کے بعد کالج پہنچتے کیونکہ ان کے پاس بائیسکل نہ تھے اور تانگے پر جانے کی توفیق نہ تھی۔ راستے میں مولا داد بار بار تہہ بند جھاڑتا، جاٹوں کی طرح چنگھاڑتا اور عجیب و غریب حرکات کرتا۔
شفیع یا تو مست انداز میں کوئی دھن گنگناتا رہتا یا ہاکی کے میچوں کے متعلق قصے سناتا۔ ایلی چپ چاپ اپنے خیالات میں کھویا چلا جاتا۔ نہ جانے وہ کہاں رہتی ہے۔ نہ جانے اسے معلوم بھی ہے یا نہیں۔ اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کس طرح اس کا پتہ لگائے۔ اسے صرف یہی معلوم تھا کہ اس کے بھائی پہلے کسی دفتر میں ملازم تھے اور اب ان کا ارادہ تھا ملازمت چھوڑ کر وکالت شروع کر دیں اور ان کا نام آغا صاحب تھا۔ آغا غلام بخش۔“
وہ امرتسر میں آوارہ پھرتے ہوئے بڑے غور سے لوگوں کے بورڈ پڑھتا رہتا کہ شاید کہیں آغا غلام بخش کا بورڈ ہو، مگر کئی روز تک وہ بے کار گھومتا رہا اور اسے وہ بورڈ نظر نہ آیا۔
ایلی کے دل میں تسلیم کے متعلق نقوش دھندلے پڑتے جا رہے تھے اور جوں جوں وہ دھندلے پڑتے ڈوبتے کے مانند وہ ان تنکوں سے شدت سے چمٹے جاتا جس قدر وہ نقوش دھندلے تھے اسی قدر اس کا جذبہِ محبت بڑھتا جا رہا تھا۔ وہ ڈرتا تھا کہ کہیں وہ شکل اس کے دل سے محو نہ ہو جائے اور اسے محبوبہ کی ازسرِ نو جستجو کرنی پڑے۔ کہیں ایک مرتبہ “ سب کچھ “ ہو جانے کے بعد وہ پھر سے “ کچھ بھی نہ “ نہ رہ جائے۔
برقعہ میں لپٹی ہوئی ہر عورت کو وہ امید بھری نگاہ سے یوں دیکھتا جیسے اسے توقع ہو کہ وہ چپکے سے اس کے پاس چلی آئے گی اور قریب آ کر برقعہ اٹھا کر رازدارانہ انداز سے جھانکے گی اور پیار بھرے لہجے میں کہے گی۔ “ تسلیم ہوں میں۔“
ہر برقعہ پوش لڑکی جب اسکے قریب سے چپ چاپ گزر جاتی تو اسے دکھ سا محسوس ہوتا لیکن جلد ہی دور سے آتی ہوئی کوئی اور برقعہ پوش اس کی امید کا مرکز بن جاتی اور وہ بڑے شوق سے اسے ٹٹولتا شاید وہ نورانی دھبہ اور گھنگھریالی لٹ اس برقعے میں ملفوف ہو۔ اکثر مرتبہ ایسا بھی ہوتا کہ کمپنی باغ میں ٹہلتے ہوئے اسے لڑکیوں کے گروہ دکھائی دیتے جنہوں نے برقعے اٹھائے ہوتے اور اسے کئی ایک سفید دھبے اور گھنگھریالی بھوری لٹیں دکھائی دیتیں اور اس کی سمجھ میں نہ آتا کہ ان میں سے کون سی تسلیم ہے۔ اس کی سمجھ میں نہ آتا کہ وہ کس کر طرف دیکھے۔ اسے سبھی گوری چتی لڑکیاں حسین معلوم ہوتی تھیں لیکن ان میں سے کوئی بھی اس کے قریب نہ آتی اور راز دارانہ انداز میں نہ کہتی۔ “ تسلیم، میں ہوں۔“ یہ صورتِ حال بے حد تکلیف دہ تھی اور سب سے بڑی دقت یہ تھی کہ امرتسر میں وہ کسی سے دل کی بات نہ کہہ سکتا تھا۔
شفیع تو صبح و شام سانپ مارنے، اچھلنے کودنے، گنگنانے اور بالاخر ہاکی کی دلچسپی میں کھویا رہتا تھا اور مولا داد کی شکل و صورت ہی ایسی تھی کہ اس سے کوئی رنگین بات بیان ہی نہ کی جا سکتی تھی۔ کالج میں بیسوں لڑکے تھے مگر وہ ان سے اچھی طرح واقف نہ تھا۔ مثلاً مدھوک تھا، اونچا لمبا پیارا سا ساتھی، جس کے انداز سے بے پناہ ہمدردی ٹپکتی تھی اور جس کی آنکھوں پر گھنی اور لمبی بھویں عجیب ہپناٹک اثر رکھتی تھیں۔ مگر ان سب باتوں کے باوجود ایلی کے لیے مدھوک سے ایسی بات کرنا ممکن نہ تھا۔ پھر وہ پست قد بشیر تھا مگر وہ تو سراسر مسخرہ تھا، اس سے کوئی سنجیدہ بات نہ ہو سکتی تھی۔ البتہ آصف تھا۔
آصف ---------
آصف ایک خوبصورت اور دراز قد لڑکا تھا جو بات بات پر شرما جانے کا عادی تھا اور جس کے جذبات ہر لمحہ اس کے چہرے پر گلابی رنگ کی صورت میں ناچتے رہتے تھے۔ معمولی سی بات پر اس کے رخساروں پر ایک گلابی لہر دوڑ جاتی۔ نگاہیں جھک جاتیں، آنکھوں میں پھلجھڑیاں سی چلتیں اور جسم بید کی طرح جھولتا۔
آصف زیادہ باتیں کرنے کا شوقین نہ تھا اور نہ ہی محفل میں جانے کا دلدادہ جب بھی لڑکے خالی پیریڈ میں کالج کر گراؤنڈ میں کھڑے ہو کر خوش گپیاں کرتے وہ مسکراتا ہوا آ نکلتا اور چپکے سے ایلی کو اشارہ کرتا اور وہ دونوں چپکے سے وہاں سے کھسک جاتے اور یا تو پہلوان کی دکان پر بیٹھ کر پوری کچوری کھاتے یا رامو پان والے سے پان سگریٹ خریدتے۔ بازاروں میں گھومتے پھرتے ہوئے جب بھی کوئی عورت قریب یا دور سے گزرتی جس کے سینے پر سلوٹ پڑے ہوتے تو آصف ایلی کو کہنی مار کر چپکے سے کہتا “ وہ دیکھو، ادھر، وہ ادھر۔“
آصف کو کپڑوں کی سلوٹوں اور متناسب جسم کے دائروں سے بے پناہ دلچسپی تھی جسے اس نے عام لڑکوں کے سامنے کبھی ظاہر نہ کیا تھا۔ اس کے احساسات بے حد پاکیزہ اور لطیف تھے اور جذبات میں شاعرانہ رنگ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا لیکن عورت کے جمال کے علاوہ اسے اس سے کوئی اور دلچسپی نہ تھی بلکہ عورت کے قرب کا ڈر اس کے دل میں خطرناک قسم کی شدت اختیار کر چکا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ وہ عورت کے جمال کو دیکھے۔ اس کے جسم کے خم و پیچ کو جانچے، چوری چوری حسن سے محظوظ ہو مگر دیکھے جانے والی کو احساس نہ ہو جائے کہ اسے دیکھا جا رہا ہے۔ نگاہیں چار نہ ہو جائیں اگر کوئی شوخ راہ گیر نگاہ بھر کر اسے دیکھ لیتی تو آصف کو پسینہ آ جاتا۔ آنکھیں پلکوں تلے غروب ہو جاتیں اور رخساروں پر یوں ہوائیاں سی چلتیں جیسے غروبِ آفتاب کے وقت بادلوں میں گلابی نقوش بنتے بگڑتے ہیں۔
آصف کی طبیعت ایسی تھی کہ دیر تک اس سے دل کا راز نہ کہنا ممکن نہ تھا۔ اس لیے ایلی نے ایک روز ٹہلتے ٹہلتے اس سے اس دھبے اور گھنگھریالی لٹ کا راز کہہ دیا۔ ایلی کا قصہ سن کر آصف نے ہتھیلی پر رخسار رکھ کر ترچھی نگاہ سے اس کر طرف دیکھا اور پھر اس کی آنکھوں میں گلابی بوندیوں کی پھوار پڑنے لگی “ تم تو چھپے رستم ہو۔“ وہ مسکرانے لگا۔
آصف سے دردِ دل کہنے کا ایلی کو کوئی فاعدہ نہ ہوا۔ نہ کسی لڑکی نے نقاب پلٹ کر کہا “ تسلیم میں ہوں۔“ اور نہ ہی کسی بورڈ پر آغا غلام بخش لکھا نظر آتا۔ البتہ اتنا ضرور ہوا کہ جب ایلی لڑکوں میں کھڑا ہوتا تو آصف چپکے سے آ کر کہتا “ تسلیم “ اور ہاتھ اٹھا کر سر جھکاتا اور پھر مسکرائے جاتا جیسے آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے کچھ سمجھا رہا ہو، جتا رہا ہو۔
گلابی جھینپ
ایک روز حسبِ معمول آصف اور ایلی دونوں کالج گراؤنڈ کے درمیان کھڑے مہر کی طرف دیکھ رہے تھے جو کالج کا حسین ترین نو عمر لڑکا تھا۔ دفعتاً اسے ٹھوکر لگی اور اس کی ٹوپی دور جا پڑی۔ گھنگھریالے بال بکھر گئے۔ اس پر آصف مدہم آواز میں گنگنایا “ کہیں یہی تو نہیں تمہاری تسلیم “ اور ایلی نے ایک نظر مہر کی طرف دیکھا پھر محسوس کرنے لگا جیسے وہ تسلیم کا ہم شکل ہو۔
اس کے بعد کی تمام تر بکھری بکھری توجہ مہر پر مرکوز ہو گئی۔ اس کے ذہن میں تسلیم نے مہر کا روپ دھار لیا۔
علی الصبح ایلی بڑے شوق سے کالج آتا اور پھر آتے ہی اس دروازے پر کھڑا ہو جاتا جہاں سے مہر داخل ہوا کرتا تھا اور وہاں کھڑا مہر کا انتظار کرتا رہتا۔ مہر آ جاتا تو ایکی کے جسم میں بجلی کی ایک کرنٹ سی دوڑ جاتی اور پھر وہ سارا دن یہ سوچتا رہتا کہ کس مقام پر کھڑا ہو۔ اس کس سمت سے دیکھے تا کہ مہر کا مسکراتا ہوا چہرہ پورے طور پر نظر آتا رہے۔ دوپہر کے وقت جب رسس ہوتی تو آصف اور ایلی کالج کے دروازے کی طرف بھاگتے جس سے گزر کر مہر گھر جایا کرتا تھا۔ وہ گزر جاتا تو دونوں پہلوان کی دکان پر پوریاں کھاتے نسائی پیچ و خم دیکھتے۔ مہر کی واپسی کا انتظار کرتے۔ اگرچہ مہر کی حثیت محض نعم البدل کی تھی لیکن اس سفید دھبے اور بھوری لٹ کی نسبت جسے ڈھونڈ نکالنے میں وہ ناکام ہو چکے تھے، یہ نعم البدل ایک مثبت اور ٹھوس حقیقت تھی اور حقیقت بھی ایسی جس پر ایک خواب کا سا عالم طاری رہتا تھا۔ چونکہ مہر نہ تو گردن اٹھانے کا عادی تھا، نہ قریب آ کر بات کرنے کا۔ اس کے برعکس وہ ایک دور کا موہوم تبسم اور گلابی جھینپ کی آمیزش تھا۔ لٰہذا چاہے وہ لڑکا تھا یا لڑکی ایلی کے لیے چنداں فرق نہیں پڑتا تھا۔
کالج کے بعد ایلی اور آصف امرتسر کے بازاروں اور باغات میں گھومتے رہتے یا آصف کے گھر جا بیٹھتے۔ آصف گھومنے کا بہت شوقین تھا مگر اسے اپنے والدین کی عزت اور اپنی نیک نامی کا بہت خیال رہتا تھا۔ بازاروں میں چلتے ہوئے وہ ہمیشہ سر جھکا کر چلتا تاکہ اس کے رویے سے آوارہ پن ظاہر نہ ہو۔ نہ ہی وہ ایسے علاقوں میں جانے کے لیے تیار ہوتا جہاں پائے جانے پر بدنامی کا خدشہ ہو۔ مثلاً کٹڑہ رنگین میں کبھی داخل نہ ہوتا، حالانکہ یہ کٹڑہ ان کے مکان کے قریب ہی تھا۔
کٹڑہ رنگین
کٹڑہ رنگین میں رقصائیں رہتی تھیں اور وہاں سے ہر وقت دلکش آوازیں آیا کرتیں۔ کبھی دور سے سارنگی بین کرتی ہوئی سنائی دیتی کبھی ستار پر رقص کرتی اور کبھی طبلہ کی تھاپ سن کر ایلی کے دل کو کچھ کچھ ہونے لگتا۔ اس وقت ایلی کا دل چاہتا کہ ایک بار کٹڑہ رنگین میں سے گزرے اور ان آوازوں کو قریب سے سنے۔ آصف بھی ان آوازوں کو سن مسکراتا اور اس کی آنکھوں میں گلابی بوندیوں کی پھوار پڑتی لیکن وہ ایک لمبی آہ بھر کر کسی اور طرف مڑ جاتا۔ ایلی آصف کی وجہ سے مجبور تھا اس لیے وہ بھی کبھی اس کٹڑے میں داخل نہ ہوا تھا۔ وہاں اکیلے جانا بھی تو مشکل تھا ۔ اس نے کئی بار ادھر کا رخ کیا تھا مگر موڑ پر جا کر وہ گھبرا جاتا اور اس کا دل دھڑکنے لگتا۔
کئی ایک مرتبہ شیخ ہمدم کے ساتھ بھی اسے امرتسر کے بازاروں میں گھومنے کا اتفاق ہوا۔ ہمدم تجارت کے سلسلے میں امرتسر آتے رہتے تھے اور ہمیشہ آنے سے پہلے خط کے ذریعے ایلی کو اطلاع دے دیتے “ الیاس صاحب میں آ رہا ہوں۔ شام کو تین بجے مجھے کمپنی باغ کے مرکزی پلاٹ میں ملیے۔ وہاں سے ہم سینما جائیں گے۔“
ہمدم ایلی سے ملتے ہی مخصوص انداز میں چلانا شروع کر دیتے “ ایلی صاحب یہ کیا مصیبت ہے؟ آپ ایسے دکھائی دے رہے ہیں جیسے قیامت ٹوٹی ہوئی ہو۔ عشق تو نہیں ہو گیا کہیں۔ عشق سے بچنے کا بہترین طریقہ ہم بتائیں گے۔ آئیے آئیے نا صاحب۔“ اور وہ اسے دودھ کی دکان پر لے جاتے۔ ہاں پہلوان ذرا آدھ سیر دودھ میں چار پیڑے بلونا۔ بس الیاس صاحب صبح و شام کھاؤ پیو۔ انشاء اللہ عشق قریب نہیں پھٹکے گا۔ اس مرض کے لیے دودھ ہی تریاق ہے اور سگریٹ اور چائے سے پرہیز لازم ہے۔ آئیے اب سینما چلیں۔ سینما دیکھنا صحت کے لیے بے حد مفید ہوتا ہے۔ آئیے رام باغ میں مسٹریز آف نورا کی فلم لگی ہے۔ اور وہ دونوں سینما چلے جاتے۔ وہاں سگریٹ پیتے، پوریاں کھاتے اور پھر شیخ ہمدم رات کی گاڑی میں واپس علی پور چلے جاتے اور ایلی آموں والی کوٹھی کا رُخ کر لیتا۔ ایلی کے دل میں ایک دبی دبی امید تھی کہ شاید کسی روز شیخ ہمدم یاسمین سینما ہاؤس جانے کا ارادہ کر لیں جو کٹڑہ رنگین میں واقع تھی لیکن ہمدم نے کبھی اس ہال میں جانے کی بات نہ کی تھی۔
پھر ایک روز امرتسر میں دو مشہور شاعر تشریف لائے۔ جن سے آصف کے گہرے تعلقات تھے۔ ان کی آمد پر آصف کو امرتسر میں ایک عظیم مشاعرے کا انتظام کرنا پڑا اور حسنِ اتفاق سے وہ مشاعرہ یاسمین سینما ہال میں ہونا قرار پایا۔ جو اس ممنوع کٹڑہ میں واقع تھا۔ آصف نے پہلے تو بہت کوشش کی کہ مشاعرے کا انتظام کسی اور جگہ ہو جائے لیکن وہ کامیاب نہ ہوا۔ بہرحال آخرکار اسے کٹڑے میں جانا ہی پڑا۔
کٹڑہ رنگین امرتسر کے خوب صورت ترین بازارون میں سے تھا۔ اس کی لمبائی ایک فرلانگ سے زیادہ نہ تھی۔ ویسے کافی فراخ تھا۔ سڑک کے دو رویہ خوبصورت چوبارے بنے ہوئے تھے جن کے چھجے بڑھے ہوئے تھے جن پر رنگ روغن کیا ہوا تھا۔ ان چھجوں کے پیچھے فراخ چوباروں میں چاندنیاں بیچھی ہوئی تھیں۔ گاؤ تکیے لگے ہوئے تھے اور چھتوں سے جھاڑ فانوس لٹکتے دکھائی دیتے تھے۔ جنگلوں میں خوبصورت رقاصائیں دیدہ زیب ملبوسات پہنے بڑے طمطراق سے بیٹھی نگاہِ غلط انداز سے نیچے بازار کی طرف دیکھتی رہتیں۔ ان کی حرکات جمیل تھیں، آوازیں لوچدار تھیں۔
ایلی انہیں دیکھ کر حیران رہ گیا۔ وہ کبھی تصور نہ کر سکتا تھا کہ ناچنے گانے والی عورتیں اس قدر لطیف انداز اختیار کر سکتی ہیں۔ خصوصاً وہ چوبارے جو اس کے متصل اور ملحق تھے ان کی مکین تو بے حد جاذبِ نظر تھیں۔ بازار میں دو رویہ خوبصورت دوکانیں تھیں جن میں پنواڑیوں کی کثرت تھی۔
پنواڑیوں کی دوکانوں پر آتے جاتے پان کھانے کے بہانے کھڑے ہو جاتے اور پھر عاشقانہ نظروں سے چوباروں کی طرف دیکھتے۔ ان کے متعلق فقرے چُست کرتے یا عریاں اشارے کرتے جس پر چوباروں میں بیٹھی ہوئی رقاصائیں لطیف تبسم سے منہ پیر لیتیں۔
شام کے وقت اس کوچے میں گویا بہار آ جاتی تھی۔ چوبارے والیاں شام سے پہلے ہی نہا دھو کر نیا جوڑا بدلتیں، سنگار کرنے کے بعد وہ تیار ہو کر جنگلے میں آ بیٹھتیں۔
رات پڑتے ہی محفل ہائے نشاط آراستہ ہو جاتیں۔ کٹڑہ موسیقی کی آوازوں سے گونجتا، سارنگیاں چھڑ جاتیں، گھنگھرو بجتے، لے بلمپت سے شروع ہو کر درت ہوتی جاتی اور جوں جوں رات بھیگتی، گیت کے بولوں کی ادائیگی میں عریانی کا عنصر بڑھتا جاتا۔
نیچے بازار میں محروم مگر شوقین مزدوروں کی پیکوں سے سڑک اور دیواریں رنگی جاتیں اور ان کے نعرے بلند ہوتے جاتے۔
“ میری جان ۔۔ “
“ ایک نظر ادھر بھی ۔۔ “
“ ڈھول مکھنا دل پردیسیاں دارا جی رکھنا۔۔“
بالاخر ان کی محرومی اضطراب میں بدل جاتی اور کسی معمولی سے بہانے پر یہ اضطراب شدت اختیار کر لیتا اور پھر آپس میں گالی گلوچ تک نوبت پہنچ جاتی اور کٹڑہ میں لڑائی شروع ہو جاتی۔ کسی کا سر پھٹ جاتا، کسی کا پیٹ چاک کر دیا جاتا، پھر پولیس میدانِ عمل میں آ پہنچتی۔ اب جگر تھام کے بیٹھو میری باری آئی۔ کی سی نگاہیں ڈالتے ہوئے چوباروں میں بیٹھے ہوئے سیٹھ اس ہنگامے سے گھبرا کر میراثیوں کو برخواست کر دیتے اور رقاصہ کا قرب حاصل کر کے خود کو ایک شدید تر ہنگامے کے حوالے کر دیتے تاکہ کٹڑے کے ہنگامے سے نجات حاصل کر سکیں۔
مجسم شعر
ایلی یاسمین سینما کی فراخ ڈیوڑھی میں کھڑا حیرانی سے کٹڑے کی طرف دیکھ رہا تھا۔ سینما کے مقابل کے چوبارے میں بیٹھی ہوئی رقاصہ کس قدر حسین و جمیل تھی۔ اس کی حرکات کس قدر متوازن اور دلفریب تھیں۔ اس کا وہ بے پروائی اور بے نیازی بھرا انداز اسے اور بھی خوبصورت بنا رہا تھا۔ وہ محسوس کر رہا تھا جیسے رقاصہ نہیں ہو سکتی تھی۔ اس کی حرکت سے بھی تو سستا پن، عریانی یا نمائش کا اظہار نہیں ہوتا تھا۔
آصف سینما ہال کے اندر چھپا ہوا تھا تاکہ کوئی اسے وہاں دیکھ نہ پائے۔ ایلی ڈیوڑھی میں کھڑا چوری چوری چوباروں کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اس کے دائیں بائیں کھڑے سبھی لوگ بے تکلفی سے طوائفوں کی طرف دیکھ رہے تھے پھر بھی نہ جانے کیوں ادھر دیکھتے ہوئے اس کا دل دھڑکنے لگتا۔ ایک انجانا خوف طاری ہو جاتا۔ حالانکہ وہ سب ادھر دیکھنے میں اس حد تک مصروف تھے کہ انہیں ایلی کی طرف دیکھنے کی فرصت ہی نہ تھی اور اگر فرصت ہوتی بھی تو وہ اس کے اس فعل کو قطعی طور پر اہمیت نہ دیتے۔
دفعتاً ایک اور گروہ ڈیوڑھی میں داخل ہوا جس کے پیش پیش ایک نوجوان تھا جس کے بال بکھرے ہوئے تھے، آنکھوں میں مستی جھلک رہی تھی اور چہرے سے شگفتگی اور ذہانت ٹپکتی تھی۔
“ اخاہ ۔۔۔۔۔۔ “ وہ سامنے کے چوبارے میں بیٹھی ہوئی حسینہ کی طرف دیکھ کر بے تکلفی سے چلایا “ سبحان اللہ - حضور تو مجسم شعر ہیں۔ واہ وا۔ واہ وا۔“ وہ ٹکٹکی باندھ کر دیوانہ وار رقاصہ کی طرف دیکھنے لگا۔ اس کے ساتھ مسکرانے لگے۔
“ واہ واہ کیا اندازِ دلبری ہے۔ حسن بذاتِ خود انگشتِ بدنداں ہے۔“ رقاصہ نے شور سن کر ایک بھرپور نگاہ اس نوجوان پر ڈالی۔
نوجوان عالمِ مستی میں سینما کے دروازے کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر رقاصہ کی طرف دیکھ دیکھ کر چلانے لگا۔ “ اللہ کی قسم۔ ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است۔“ آصف بھاگتا ہوا ہال سے باہر نکلا۔ اس کا رنگ زرد ہو رہا تھا۔ وہ شاعر سے مخاطب ہو کر چلایا۔ “یہ کیا کر رہے ہیں آپ۔ لوگ کیا کہیں گے۔“
آغا
“ بھئی واہ۔“ بے خود حیرانی سے چلایا۔ “ اس میں کہنے کی بات کیا ہے۔ کیوں بھئی تم کچھ کہتے ہو کیا۔“ اس نے جملہ لوگوں کو مخاطب کر کے پوچھا۔ اور طوائف کی طرف ٹکٹکی باندھ کر باآوازِ بلند یہ شعر پڑھنے لگا :
نظر کو ہے عادت تماشا
جہاں ہو جیسا ہو جس طرح ہو
کوئی یہ حُسنِ ازل سے کہہ دے
کہ جلوہ آرا ہو جس طرح ہو
شعر سن کر سب لوگ جھومنے لگے اور آصف گھبرا کر ایلی کی طرف بڑھا۔
“ ہائیں۔ “ آصف ایلی کے پاس کھڑے ایک شخص جو دیکھ کر بولا۔ آپ ہیں آغا صاحب، آپ یہاں۔
آغا صاحب - ایلی نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھا۔ وہ درمیانے قد کا شخص تھا۔ چہرے پر متانت کے آثار تھے اور انداز سے خلوص ٹپکتا تھا۔
“یہ ہیں الیاس، میرے ہم جماعت اور دوست۔“ آصف نے آغا سے کہا۔
“ بڑی خوشی ہوئی آپ سے مل کر۔“ آغا صاحب نے ایلی سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا۔
“ آپ امرتسر کے رہنے والے ہیں۔“
“ جی میں۔ “ ایلی نے جواب دیا۔ “ میں تو علی پور کا ہوں۔“ “ علی پور “، آغا صاحب نے دہرایا “ وہاں میرے ایک عزیز دوست علی احمد رہتے ہیں۔ بڑے رنگین مزاج ہیں۔“ وہ ہنسنے لگا۔
“ یہ انہیں کے بیٹے ہیں۔“ آصف مسکرا کر بولا۔
“ علی احمد کے بیٹے۔“ آغا صاحب نے پھر ایلی سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا۔ “ کتنی خوشی ہوئی آپ سے مل کر۔ خاکسار کو آغا غلام بخش کہتے ہیں۔ آپ کے والد صاحب میرے گہرے دوست ہیں اور مہربان بھی۔“
آغا غلام بخش - ایلی کی نگاہ میں گرد و پیش دھندلا گئے۔ نہ جانے وہ جوان شاعر سیڑھیوں پر بیٹھا کیا کہہ رہا تھا۔ نہ جانے چوبارے میں بیٹھی ہوئی گلابی کریپ میں ملبوس رقاصہ کیسے مسکرا رہی تھی۔ ایلی کی نگاہوں تلے اس شور بھرے دھندلکے میں آغا صاحب کے علاوہ سبھی معدوم ہو چکے تھے اور آغا صاحب کے عقب میں ایک گھنگھریالی لِٹ لٹک رہی تھی اور ایک رنگین دھبہ مسکرا رہا تھا۔
“ تسلیم “ آصف نے مسکرا کر ایلی کی طرف بامعنی انداز سے کہا “ تسلیم “ آغا صاحب کے عقب میں کسی تبسم چہرے نے گھنگھریالی لِٹ جھٹک کر کہا۔
ایلی کے دل میں آرزو پیدا ہوئی کہ وہ خوشی سے ناچنے لگے اور چیخ چیخ کر کہے “ تسلم، مزاج اچھے ہیں۔“
“ تسلیم آپ آغا صاحب ہیں۔“ تسلیم مجھے آپ سے مل کر بے حد خوشی ہوئی۔“ “ تسلیم -------- “
آغا صاحب کا مکان یاسمین سینما کے قریب کٹڑہ رنگین میں واقع تھا۔ مکان کے باہر ایک سنار کی دکان تھی جس کے پیچھے ایک دلان تھا جس میں مگ کھلتا تھا جسے ملاقاتی کمرے کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا اور جس کے ایک پہلو میں ایک زینہ اوپر کو چلا گیا تھا۔ آغا کے گھر کے لوگ اوپر چوبارے میں رہتے تھے اور یہ چوبارہ کٹڑے کے باقی چوباروں کی طرح تھا۔ فرق صرف اس قدر تھا کہ اس کے آگے بالکونی نہ تھی اور چوبارے کی تین کھڑکیوں سے کبھی کسی نے باہر نہ جھانکا تھا۔
ایلی اس بات پر حیران نہ ہوا کہ وہ اس چوبارے میں کیوں رہتے تھے اور اگر رہتے تھے تو کٹڑے کی رسم کے مطابق وہ کھڑکیاں چقوں سے خالی کیوں نہ تھیں۔ یہ باتیں غیر اہم تھیں۔ اس لیے یہ تفصیلات اس کی توجہ کو جذب نہ کر سکیں اور وہ اپنی امیدوں کے اس گہوارے کو دیکھنے میں کھو گیا۔
تیم نیم
آغا کے ساتھ ملاقاتی کمرے میں بیٹھے ہوئے اس کے احساسات عجیب سے تھے۔ وہ اس بات پر مسرت محسوس کر رہا تھا کہ وہ اسی مکان میں بیٹھا ہے جہاں وہ رہتی ہے۔ اسی چھٹ تلے بیٹھا ہے جس کے اوپر نہ جانے وہ کس کام میں مصروف ہے۔ آغا سے باتیں کرنے کے باوجود اس کے کان ان آوازوں پر لگے ہوئے تھے جو اوپر سے آ رہی تھیں۔ “ ہائے میں کیا کروں۔ لو میں کیا جانوں یوں ہوتا ہے۔“ ان آوازوں میں لے تھے، راگ تھا۔ شوخی تھی۔ ان قدموں کی آوازوں میں ترنم تھا۔ اوپر سے بہت سے آوازیں آ رہی تھیں لیکن ان سب کا ایک ہی سا انداز تھا جیسے سانچے میں ڈھلی ہوں۔ نہ جانے اس کی آواز کون سی تھی۔
جب دالان کے اوپر جنگلے سے کوئی پلو لہراتا ہوا نکل جاتا تو ایلی کا دل دھک سے رہ جاتا۔ ان پلوؤں کی اڑان کتنی حسین تھی۔ بظاہر وہ آغا سے باتیں کر رہا تھا مگر اس کا دل کسی اور ہی لے پر ناچ رہا تھا اور آغا میں بھی کتنی مٹھاس تھی۔ اس کے چہرے پر اطمینان کی ایک دبیز تہہ چڑھی ہوئی تھی۔ سکون اور اطمینان۔ گویا وہ یوں اپنے آپ میں مگن تھا جیسے کوئی ناؤ کسی ساکن جھیل میں چپوؤں کی مدد کے بغیر آپ ہی آپ رواں ہو۔
“ اچھا بھئی میںذرا نہا لوں۔“ آغا صاحب اٹھ بیٹھے۔ “ ابھی پانچ منٹمیں حاضر ہوا۔“ وہ قریب ہی غسل خانے میں داخل ہو گئے۔
ایلی موقع غنیمت جان کر بلا تکلف اوپر دیکھنے لگا جہاں سفید سفید آنچل لہرا رہے تھے۔ “ بھائی جان۔“ ایک سریلی آواز سنائی دی۔ معصوم گلابی چہرہ بھکا۔ ایک تبسم جھلکا۔ “ بھائی جان۔“ پھر آواز آئی۔
چند ساعت کے بعد نو دس کی ایک حسین چینی کی گڑیا نیچے اتر آئی۔ اس نے ایلی کی طرف دیکھا اور پھر ایک متبسم مسکراہٹ سے شرما کر منہ موڑ لیا۔ وہ صابن اور تولیہ غسل خانے کے دروازے پر رکھ کر بھاگ گئی اور پھر دروازے کے درز سے مسکرا مسکرا کر جھانکنے لگی۔
“ رکھ دیا تیم۔ “ آغا نے پوچھا۔
“ جی دروازے میں ہے۔“ وہ بولی اور پھر بامعنی انداز سے مسکرا کر بھاگ گئی۔
آہستہ آہستہ ایلی اور نیم دوست بن گئے۔ جب ایلی زینے میں کھڑے ہو کر آواز دیتا “ آغا صاحب “ تو بالائی منزل کے دروازے میں رنگین سرگوشیاں ہوتیں۔ پھر نیم مسکراتی ہوئی نیچے اتر آتی۔
“ وہ کہاں ہے نیم۔“ ایلی اس سے دبی آواز میں پوچھتا۔
“ ہے “ وہ کہتی “ وہاں دروازے کی اوٹ میں۔“ وہ زیادہ تر اشاروں میں جواب دیتی تھی۔
اس کے اشارات میں عجیب شانِ بے نیازی تھی۔
“ اس سے کہو سامنے آئے۔“ ایلی کہتا۔
“ ہونہہ۔ وہ نہیں آتی، ہم کیا کریں۔“
“ تم نے کہا بھی تھا۔“
“ کہہ رہی ہوں، کہا تھا، کہا تھا، اور کیا کرتی۔“
“ پھر کیا کہتی ہے وہ۔“
“ بس ہنسے جاتی ہے۔ چھوڑو اسے۔“ وہ ہونٹ نکال کر جواب دیتی “ مجھے سائیکل کی سیر کراؤ نا۔ کراؤ گے۔“ وہ اپنی بات چھیڑ دیتی۔
“ لے چلوں گا۔ لے چلوں گا۔ پہلے یہ بتاؤ کیا رہ باہر نہیں نکلتی۔ کہیں جاتی نہین۔ سیر کرنے یا ویسے۔“
“ ہونہہ وہ کیا جائے گی۔“ وہ تحقیر سے ہونٹ نکالتی۔ “ چھوڑو اسے۔“
ہوتا ہے، ہوتا ہے
“ پہلے جا کر اس سے کہو کہ دروازے سے جھانکے۔ بڑی پیاری ہے نیم۔ جاؤ نا۔“ نیم بڑی مشکل سے اوپر جانے کے لیے تیار ہوئی۔ پھر آہستہ آہستہ چڑھتی پھر اوپر کے دروازے میں رنگین سرگوشیاں ہوتیں۔ ہلکے ہلکے قہقہے سنائی دیتے اور بالاخر دروازے سے ایک سفید بازو نکل کر لہراتا اور انگلیاں یوں ناچتیں جیسے کتھا کلی کے کسی مندرا کی مشق کر رہی ہوں۔ پھر گھنگھریالی لٹ اڑتی۔
لو اس سے کیا ہوتا ہے۔ کوئی ہنس کر کہتی۔
بالآخر نیم نیچے اتر آتی۔ “ وہ نہیں آتی سامنے۔ کہتی ہے ہم کسی کے سامنے نہیں آیا کرتے۔“ وہ منہ بنا کر کہتی۔
ایلی روز جان بوجھ کر ایسے وقت آغا کے یہاں جایا کرتا تھا جب وہ گھر پر نہ ہوں اور پھر ڈرتے ڈرتے دیر تک سیڑھیوں میں کھڑا رہتا۔ پھر وہ شام کے وقت دوبارہ وہاں جاتا اور آغا صاحب کے پاس بیٹھا رہتا اور اوپر سے عجیب و غریب بامعنی آوازیں سنائی دیتیں۔ پلو لہراتے اور کبھی کبھی موقعہ پا کر لوہے کی سلاخوں سے سفید بازو جھولتے اور کوئی کہتی “ لو اس سے کیا ہوتا ہے۔“ اور کوئی جواب دیتی۔ “ہوتا ہے ہوتا ہے۔“ اور ایلی محسوس کرتا جیسے اس آواز میں طنز ہو۔ پھر وہ سوچنے لگتا کہ آخر کس بات سے کچھ ہوتاہے اور وہ دیر تک سوچتا رہتا۔ حتٰی کہ آغا صاحب نہا کر باہر نکل آتے اور کپڑے پہننے لگتے اور پھر وہ دونوں باہر گھومنے کے لیے چلے جاتے۔
شام کے وقت حئی آ جاتا۔ حئی آغا کو چھوٹا بھائی تھا مگر اس کی طبیعت آغا صاحب سے قطعی طور پر مختلف تھی۔ جسمانی طور پر بھی ان دونوں میں کوئی مشابہت نہ تھی۔ حئی کا جسم پتلا دبلا تھا۔ اس کے چہرے پر شوخی اور اضطراب چھائے رہتے تھے۔ اس کے علاوہ حئی کے خدوخال بے حد جاذبِ نظر تھے۔ ایلی نے جب پہلی مرتبہ اسے دیکھا تو وہ چونک پڑا۔ اس وقت وہ گرم چادر میں لپٹا ہوا تھا۔ سبز چادر میں خوبصورت خدوخال کو دیکھ کر ایلی نے سمجھا جیسے کوئی خاتون غلطی سے مردانے میں آ گئی ہو۔
حئی بہت جلد ایلی سے مانوس ہو گیا۔ اس کی باتیں عجیب تھیں “ ایلی۔“ وہ چلاتا “ آؤ ایلی تمہیں عیش کرا لائیں۔ آؤ تمہیں تمہاری ہم نام کے پاس لے چلوں۔ اتنی رسیلی آنکھ ہے کہ اگر اس کی ایک نگاہ پڑ گئی تم پر تو طبیعت صاف ہو جائے گی اور کیا جسم ہے۔ شعلے نکلتے ہیں شعلے۔ چلو ملا لاؤں تمہیں۔ اپنے پر تو مرتی ہے لیکن بڑی اچھی ہے چلو۔“
ایلی حیرانی سے اس کی باتیں سنتا اور پھر گھبرا کر کہتا “ پھر سہی کبھی۔“ اور حئی منہ بنا کر کہتا “ اچھا بھئی تو پھر میں تو چلا۔“ اور پھر تنہائی میں بیٹھ کر ایلی اوپر مگ کی طرف دیکھتا اور نیم کو اشارے کرتا اور نیم تسلیم کا بازو پکڑ کر اسے سیڑھیوں کی طرف کھینچتی اور تسلیم ہنسے جاتی حتٰی کہ بوڑھی دادی شور مچانا شروع کر دیتی “ لڑکیو یہ کیا غل غپاڑہ ہے۔ آرام سے بیٹھو۔“ اور لڑکیاں خاموش ہو جاتیں اور ایلی چپ چاپ محروم اور مایوس انداز سے باہر نکل کر بورڈنگ کی طرف چل پڑتا۔
گہما گہمی
بورڈنگ کی اس ویران کوٹھی میں بیٹھے ہوئے وہ سوچتا۔ کیا یہ محبت ہے؟ کیا یہی وہ محبت ہے جس کے متعلق شریف اسے خبردار کیا کرتا تھا۔ لیکن دل ہی دل میں اسے احساس تشنگی ہوتا۔ بات کسی لحاظ سے بھی تو مکمل نہ تھی۔ نہ تو تسلیم نے کبھی تھیلی میں سلا ہوا مینڈک اس پر پھینکا تھا اور نہ کسی اور طریقے سے ایلی کی محبت کی سنجیدگی کو محسوس کیا تھا۔ بلکہ تسلیم کے رویے کو دیکھ ایلی سوچتا تھا کہ وہ تو بچوں کا کھیل کھیل رہے تھے، محبت نہیں کر رہے تھے۔ کیا محبت بچوں کا کھیل ہوتی ہے۔ نہیں نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔ اتنی عظیم چیز بچوں کا کھیل کیسے ہو سکتی ہے۔
اسے یوں خاموش بیٹھے دیکھ کر مولا داد چلاتا “یہ کیا صورت بنا رکھی ہے ایلی؟ کیا ہماری زندگی بھی حرام کرو گے۔ چلو باغ سے امرود چرا کا کھائیں۔ کیوں شفیع “
شفیع ہنس کر جواب دیتا “دیکھو تو اپنی صورت۔ دیکھنے میں ڈاکو نظر آتے ہو اور کرتے ہو چوریاں اور وہ بھی امرودوںکی۔“
پھر وہ دونوں ایلی کو طرف متوجہ ہو جاتے۔
“ اسے کیا ہے “
“ کیا ہے بے تجھے “
“ عشق کا روگ لگا ہے کیا۔“
“ وہ مہر لڑکا ہے نا کالج میں اس پر مرتا ہے تو۔“
“ لو اس میں کیا ہے۔“ مولا داد پیار سے کہتا۔ “ کہو تو اٹھا لاؤں اسے یہاں اس کمرے میں۔“
“ پاگل ہوئے ہو۔“ ایلی چلاتا۔
ایلی نے تسلیم کے متعلق مولا داد اور شفیع سے کبھی بات نہ کی تھی۔ یہ راز صرف آصف تک محدود تھا۔ جب کبھی وہ آصف سے ملتا، اس کا جی چاہتا کہ وہ سنجیدگی سے اس سے پوچھے کیوں آصف محبت کیا ہوتی ہے۔ کس طرح کی جاتی ہے۔ اس نے کئی ایک بار آصف سے یہ سوال پوچھا تھا مگر مسکرانے کے سوا آصف نے کبھی جواب نہیں دیا تھا۔
ہنگامہ
پھر خبر آئی کہ شریف چھٹی پر علی پور آیا ہوا ہے اور ایکی کی آنکھوں میں خوشی کے دیئے ٹمٹمانے لگے۔ “ میں جاؤں گا “ اس نے آصف سے کہا۔
“ تم نہیں جا سکتے “ آصف مسکرایا “ تم اسے چھوڑ کر کیسے جا سکتے ہو۔“
لیکن آصف کے اعتراض کے باوجود وہ گرمی کی چھٹیوں سے دس روز پہلے علی پور آ گیا۔
اب کی بار علی پور ویران نہ تھا۔ وہاں شریف تھا۔ شہزاد تھی، رفیق اور ارجمند تھے۔ سبھی موجود تھے۔ علی پور پہنچ کر خوشی سے اس کی باچھیں کھل گئیں۔ محلے میں پہنچنے سے پہلے ہی اس رضا مل گیا جو ایلی کو دیکھ کر چلانے لگا۔
“ کیوں بھئی فرہاد۔ وہ نہر کھودنے کا کام ختم ہو گیا۔“
“ کیا بکتا ہے تو۔“ ایلی نے گھورا۔
“ سارے محلے والے کہہ رہے ہیں۔“
“ کیا کہہ رہے ہیں۔“ ایلی نے گھبرا کر پوچھا۔
کہتے ہیں کہ امرتسر میں عشق کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ کالج تو محض بہانہ ہے۔ اس قدر قریب رہتے ہوئے بھی اب علی پور آنے کی فرصت نہیں ملتی۔“
رضا سے مل کر جب وہ محلے میں پہنچا تو اس نے محسوس کیا جیسے سبھی لوگ اس کی طرف دیکھ دیکھ کر تمسخر سے ہنس رہے ہوں۔
“ ہائیں “ چچا امداد چلائے “ کیوں بھی ایلی آ گیا تجھے بھی جوش۔ پڑ گیا اسی چاؤ کے چکر میں۔ آخر بیٹا کس کا ہے۔ شاباش “ غصے سے ایلی کے کان سرخ ہو گئے۔
“ اے ہے یہ تو ایلی ہے اپنا “ محلے کی عورتوں نے اسے دیکھ کر شور مچایا۔
“ اللہ عمر دراز کرئے۔ جیتا رہے۔ ماں کا کلیجہ ٹھنڈا رہے۔“
“ ہائے ایلی تُو اب عید کا چاند ہو گیا۔“ “ جوان ہو گیا ہے نا “ دوسری مسکرا کر بولی۔
“ ہمارے لیے تو وہی ایلی ہے۔“ ایک مسکرائی۔
“ کیوں ایلی کیا امرتسر میں جی لگ گیا تیرا۔ اب تو علی پور کو طرف رخ ہی نہیں کرتا۔“
“ پڑھائی سے فرصت بھی ہو۔“ ایک نے طنزاً کہا۔
“ تُو آیا ہے ایلی۔“ ہاجرہ شور سن کر بھاگی بھاگی آئی “ آ میں تو کب سے تیرا انتظار کر رہی تھی۔“
“ اب اس کا انتظار کیا کرے گی تو۔“ چچی نے مسکرا کر کہا “ اللہ رکھے اب جوان ہو گیا ہے۔“
دادی اماں اسے دیکھ کر کھڑکی سے چلائیں “ کب آیا تو۔“
“ جا دادی اماں سے مل لے۔ اس کا جی اچھا نہیں۔“ ہاجرہ نے کہا۔
دادی اماں کو دیکھ کر وہ بھاگا اور بھاگ کر اس سے بغل گیر ہو گیا۔
“ کیا کرتا ہے تو۔“ وہ چلائی “ وہی جاٹ کا جاٹ ہی رہا تو۔ اور وہ کھانسنے لگی۔
“ کیوں دادی اماں، بیمار ہو کیا؟“
“ نہیں تو۔“ وہ بولی “ اچھی بھلی ہوں۔“
“ دمے کا دورہ پڑتا ہے۔“ سیدہ نے کہا۔
“کیوں دادی اماں۔“ اس نے دادی سے پوچھا۔
“ اب بھی نہ پڑے گا دمے کا دورہ تو کب پڑے گا۔“ وہ ہنسی۔
عین اس وقت تیزی سے کیس کے سیڑھیوں سے اترنے کی آواز آئی اور چھم سے شہزاد اس کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔ “ سنا ہے ایلی آیا ہے۔“
ایک ساعت کے لیے ایلی شہزاد کو دیکھ کر بھونچکا رہ گیا۔ جالی کے سیاہ ڈوپٹے پر سفید پھول چمک رہے تھے اور وہ اس کے شانوں پر یوں اُڑ رہا تھا جیسے پر پھڑ پھڑا رہے ہوں۔ اس کے ہونٹوں پر عجیب سا تبسم تھا۔ تبسم جو اس سے پہلے ایلی نے کبھی نہ دیکھا تھا ۔ نگاہوں میں غیر معمولی چمک تھی اور گالوں پر سرخی جھلک رہی تھی جیسے لجا رہی ہو۔ وہ تو کبھی لجائی نہ تھی۔ اس کے انداز میں تو ہمیشہ بے نیازی کی جھلک ہوتی تھی۔ ایلی نے محسوس کیا جیسے دفعتاً شہزاد نے کینچلی بدل لی ہو۔
“ ایلی آؤ نا۔“ وہ بولی “ تمہیں بلا رہے ہیں وہ، جلدی آؤ۔“ وہ مسکرائی۔
ایلی کے جسم پر چیونٹیاں چلنے لگیں۔
“ اے ہے۔“ دادی اماں بولی “تو سن ہو کر کیوں رہ گیا۔ دیکھو تو یوں کھڑا ہے جیسے ہوش میں نہ ہو۔ جانا ہے ادھر تو جا ہو آ۔ میری طرف کیا دیکھتا ہے۔“
“ تمہیں مبارک ہو ایلی۔“ شریف اس کی طرف دیکھ کر مسکرایا “ تم پہلے امتحان میں پاس ہو گئے۔“
“ کون سا امتحان “ ایلی نے پوچھا۔
“ شریف نے ایک بھر پور نگاہ ایلی پر ڈالی “ پہلے امتحان میں تم پاس ہو گئے اور انشاء اللہ دوسرے امتحان میں بھی تم پاس ہو جاؤ گے۔“
“ میں تو ایف اے میں فیل ہو گیا ہوں۔“ ایلی نے گھبرا کر کہا۔ شریف قہقہہ مار کر ہنس پڑا اور پاس کھڑی شہزاد کی طرف دیکھنے لگا۔ سیاہ ڈوپٹے کے سفید پھولوں کے درمیان ایک گلاب کھلا ہوا تھا۔ “ سنتی ہو۔ “ وہ بولا “ ایلی کی باتیں سن رہی ہو۔“
“ سن رہی ہوں۔“ وہ بولی “اب تو میں بھی ایلی کی باتیں بڑے غور سے سننے لگی ہوں۔“
“ وہ کیسے۔“ شریف مسکرایا۔
“ اب اس کی نگاہیں تو دیکھو ذرا۔“ وہ بولی۔
“ اس کی نگاہ۔“ شریف تالی بجا کر اٹھ بیٹھا۔ “ اس کی نگاہ تم کیسے دیکھ سکتی ہو۔ ہر کسی کی نگاہ الگ ہوتی ہے۔ ہر کوئی اپنی نگاہ سے دیکھتا ہے اور - اور - “ اس نے ایک لمبی آہ بھری۔ “ دوسرے دیکھتے ہیں مگر دیکھتے نہیں۔“
“ مجھے کیا معلوم۔“ شہزاد منہ بنا کر خاموش ہو گئی۔
ایلی سوچنے لگا نہ جانے کیا باتیں کر رہے تھے وہ دونوں۔ دفعتاً اس نے محسوس کیا جیسے وہ شہزاد کو اپنی آنکھ سے دیکھ رہا ہو۔ ایسی نگاہ سے جس سے شاید شریف نے اسے کبھی نہ دیکھا ہو۔ لیکن شہزاد نہ جانے اسے کس کی نگاہ سے دیکھ رہی تھی۔ وہ گھبرا گیا۔
“ لیکن آپ تو امتحان کی بات کر رہے تھے۔“ اس نے شریف سے کہا۔
“ دنیاوی امتحانات کی بات نہیں۔ شریف شہزاد کی طرف دیکھ کر مسکرایا۔ “ میں تو اس امتحان کی بات کر رہا ہوں۔“ “اچھا تو پھر کون ہے وہ۔ کیسی ہے۔ سنا ہے بڑی خوبصورت ہے۔ “ شہزاد نے ایلی کو عجیب نگاہوں سے دیکھا۔ “ خوب صورت۔“ شریف ہنسا۔ “ خوب صورت تو وہ ہے ایلی جسے کوئی دیکھنے والا مل جائے۔“
شہزاد نے چتون چڑھا کر کہا “ آپ نے تو اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے خوبصورتی۔“
“ پاگل نہ بنو۔“ وہ آہ بھر کر بولا “ زخموں کو طنز سے نہیں کریدا کرتے۔“ ایک ساعت کے لیے شہزاد کی آنکھیں گویا کسی نامعلوم جھیل پر تیرنے لگیں۔ پھر دفعتاً وہ مڑی اور کمرے سے باہر نکل گئی اور وہ دونوں تنہا رہ گئے۔
“ اب تو تم بڑے آدمی بن گئے ہو۔“ شریف نے کہا “ اب تو لوگ تمہیں دیکھنے لگے ہیں۔ بس دو ہی باتیں ہیں صرف دو۔ باقی سب ہیچ ہے۔ سب ہیچ۔ یا تو تم خود دیکھنے کی اہلیت ہو یا دوسروں کی توجہ جذب کرنے کے۔ اور تم نے ثابت کر دیا ہے کہ تم دونوں خصوصیات رکھتے ہو۔“
ایلی گھبرا گیا۔ “ نہ جانے کیا کہہ رہے ہیں آپ۔ میں نہیں سمجھا۔“
“ سب سمجھ میں آ جائے گا۔“ شریف ہنسنے لگا۔ “ بیٹھ جاؤ۔ آج تم سے مل کر بڑی راحت ہو رہی ہے مجھے۔ تمہاری قسم بڑی راحت۔“
شریف سے ملنے کے بعد جب وہ احاطے میں پہنچا تو اسے ارجمند مل گیا۔ اسے دیکھتے ہی ارجمند چلایا “ اے ایلی۔ تم وہی تیلی کے تیلی رہے نا۔ ہمارا سارا اینکر اینڈی تم نے تباہ کر دیا بھئی۔ واہ عجیب آدمی ہو۔ اتنا ٹرین کیا تھا تمہیں۔ سب اکارت گیا۔ سنا ہے محبت لگا بیٹھے ہو۔ ارے بےوقوف محبت لگانا مردوں کا کام نہیں۔ مردوں کا کام تو پھول پھول پر بیٹھ کر لطف اندوز ہونا ہے اور ہم لوگوں کی دوستی ملاحظہ ہو یار جب سے شاہ کاکو کی فیکٹری میں ملازم ہوا ہوں ہر ساعت یہی خیال رہا ہے کہ گاؤں کی گوریاں چن چن کے پھنسا رکھوں۔ اپنے لیے نہیں۔ تمہاری قسم، بلکہ اس خیال سے کہ یار لوگوں کو بلا کر کبھی عیش کرا دوں۔ وہ محفل جماؤں کہ سالے عمر بھر یاد رکھیں۔ مگر یار ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا تم نے یہ عشق کی بیماری لگا کر۔ آخر تیلی ہی ہے نا۔ وہ کہتے ہیں نا کہ کتے کی دُم کو بیس سال لوہے کی نالی میں رکھو پر نکالو گے جب تو سالی ٹیڑھی ہی نکلے گی۔“
چھ بھائی
ارجمند کو شاہ کاکو کی فیکٹری میں نوکری کرتے صرف چھ ماہ کا عرصہ ہوا تھا۔ اس قلیل عرصے میں وہ بہت بدل چکا تھا۔ اول تو اس کا قد بہت لمبا ہو چکا تھا۔ ارجمند کے تمام بھائی دراز قد تھے۔ محلے میں کوئی بھی ایسا نہ تھا جو قد میں ان کی برابری کر سکتا ہو۔ ان بھائیوں میں تین عجیب خصوصیات تھیں۔ ایک تو وہ سب غیر معمولی طور پر دراز قد تھے۔ دوسرے تمام کے تمام بھائی خوش مزاج تھے اور سنجیدہ سے سنجیدہ بات کو مذاق میں ٹال دیا کرتے تھے اور بڑی سے بڑی مصیبت کو ہنس کے برداشت کرنے کے عادی تھے۔
ان کے والد ڈاکٹر تھے۔ والد کے زیرِ سایہ انہوں نے بڑی ناز و نعمت سے بچپن گزارا تھا لیکن والد کی وفات کے بعد مالی مشکلات کا دور آیا۔ وہ گھر میں چھپ کر چٹنی سے روٹی کھاتے اور پھر باہر نکل کر یوں مونچھیں سنوارا کرتے جیسے کوفتے کھا کر آئے ہوں۔ لیکن ان کی تیسری خصوصیت بہت الم انگیز تھی۔ بچپن گزر جانے پر وہ دفعتاً اونچے لمبے جوان بن جاتے تھے۔ یہاں تک کہ عام دروازوں سے گزرنا تھی ان کے لیے مشکل ہو جاتا لیکن جوانی اپنے ساتھ ہی پیغام اجل لے آتی۔ جوان ہوتے ہی وہ یا تو ٹی بی کا شکار ہو جاتے یا کسی اور وجہ سے آناً فاناً مر جاتے۔ باپ کی وفات کے بعد ارجمند کا بڑا بھائی بھر پور جوانی میں فوت ہو چکا تھا۔ اس کی وفات پر ان کے گھرانے کی حالت اور بھی نازک ہو گئی تھی۔ اب ارجمند جوان ہو رہا تھا۔
ارجمند کی بوڑھی ماں جو مصائب کی وجہ سے جیتے جی گویا پاگل ہو چکی تھی، ارجمند کی جوانی دیکھ کر اپنے دل میں فخر محسوس کرتی مگر دفعتاً نہ جانے اسے کیا خیال آتا کہ وہ مسرت بھری نگاہ حسرت میں بدل جاتی۔ اس کی آنکھیں بھر آتیں اور وہ منہ موڑ کر آنسو پونچھتی۔ اس پر ارجمند قہقہہ مار کر ہنستا اور کہتا “ اماں رہ رہی ہو تم۔ واہ اماں رونے کی اس میں کون سی بات ہے۔ مابدولت اب بڑے ہو گئے ہیں۔ اب گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ سمجھو اب سکھ چین کا زمانہ آ گیا۔ چٹنی کی جگہ مابدولت کے حکم سے چانپیں اور کوفتے ہوں گے اور سوکھی روٹی کی جگہ پراٹھے۔“ وہ جھک کر ماں کو آغوش میں لے لیتا۔ “ اب تو کوئی رونے کی بات نہیں اماں۔“ وہ ہنستا۔ “ نہیں اماں ہم مریں گے نہیں۔ اللہ میاں نے جو تیسویں پارے میں صاف لکھا ہے کہ ارجمند نہیں مرے گا جب تک اس کے یہاں بارہ لڑکے اور چھ لڑکیاں پیدا نہ ہو جائیں گی اور اس کی داڑھی دو فٹ گیارہ انچ تک نہ بڑھ جائے گی۔ واہ تم ویسے ہی روتی ہو اماں۔“
ان کی جواں مرگی کے متعلق تمام محلے میں چرچا تھا۔ لوگ محسوس کرتے تھے کہ ان کی جوانی پیغام اجل لاتی ہے۔ حالانکہ اب تک صرف ایک بھائی ہی فوت ہوا تھا اور پانچ بھائی بچپن کے مختلف مدارج طے کر رہے تھے۔
سچا عاشق
نوکر ہونے کے بعد ارجمند نے اعلانیہ طور پر احاطے میں کھڑے ہو کر انکر اینڈی کے شغل میں مصروف رہنے کی عادت چھوڑ دی تھی۔ وہ احاطے میں کھڑا ہوتا تو تھا مگر اس کے انداز میں ایک وقار سا پیدا ہو گیا تھا۔ اگرچہ اس کے جذبات وہی پرانے تھے اور اس کا طریق کار بھی نہ بدلا تھا۔
لیکن ایلی کے لیے اب اس شغل میں حصہ لینا ممکن نہ رہا تھا۔ وہ کیسے احاطے میں کھڑا ہو سکتا تھا۔ اسے بار بار یہ خیال آتا تھا کہ محبت لگانے کے بعد اس کا لڑکیوں کو دیکھنا مناسب نہیں۔ لوگ سمجھیں گے کہ اس کا عشق محض ایک ڈھونگ ہے۔ جسمانی لذت کے حصول کا ذریعہ - اور پھر وہ ہنس کر کہیں گے کیوں نہ ہو آخر بیٹا کس کا ہے۔
ایلی کو جس قدر نفرت اس ایک جملے سے تھی کسی اور چیز سے نہ تھی۔ اسے خود علی احمد کے طریقہ کار سے نفرت تھی۔ شاید اس لیے کہ ان کی اس خصوصیت کی وجہ سے اسے بہت دکھ سہنا پڑا تھا۔ اس کی ماں کی زندگی تباہ ہوئی تھی۔ ان کا گھر برباد ہو رہا تھا۔ پھر وہ اس انداز کو کیسے اچھا سمجھ سکتا تھا اس لیے اس نے اس طریق کار سے پہلو بچانے کے لیے دل میں یہ ایمان پیدا کر لیا تھا کہ محبت کو جسم سے کوئی تعلق نہیں بلکہ محبت اور جسم دو متضاد باتیں ہیں۔ وقت کٹی کے لیے لڑکیوں کی طرف دیکھا اس کی نظر میں جرم تھا۔ دل لگی کے لیے انکراینڈی کا کھیل کھیلنا اسے گوارا نہ تھا اور اب جب محلے بھر میں اس کے عشق کے چرچے ہو رہے تھے، اب تو اس کے لیے احاطے میں کھڑے ہونا ممکن ہی نہ رہا تھا۔ سچے عاشق کا کام یہ نہیں کہ چوگان میں کھڑے ہو کر نوجوان لڑکیوں سے آنکھیں لڑائے۔ اس کے برعکس سچے عاشق کو تو چاہیے کہ چارپائی پر لیٹ کر مست نگاہوں سے چھت کی طرف گھورتا رہے اور جب تھک جائے تو ٹھنڈی آہ بھر کر پہلو بدل لے۔
طوفانِ بدتمیزی
اس رات بستر پر لیٹے ہوئے جب وہ نیم کی سرگوشیوں کے متعلق سوچ رہا تھا تو اس نے پاؤں کی ہلکی سی آہٹ سنی جیسے نیم سیڑھیاں اترا کرتی تھی۔ وہ اٹھ بیٹھا۔ تصور میں کتنی قوت تھی۔ کیسی وضاحت سے آواز آ رہی تھی۔ پھر آہستہ سے دروازہ کھلا جیسے نیم کھولا کرتی تھی۔ “ مجھے بائیسکل کی سیر کرا دو۔“
ایک اونچی لمبی نیم کو سامنے دیکھ کر وہ گھبرا گیا۔
شہزاد ہنس پڑی “ ڈر گئے۔“
“ اوہ آپ ہیں خالہ جی۔“ ایلی اسے خالہ کہا کرتا تھا۔
“ ابھی سے سو گئے۔“ وہ پھولدار پروں کو سمیٹتے ہوئے بولی۔
بیٹھ جاؤ خالہ جی، کہہ کر وہ گھبرا گیا۔ اسے بٹھائے کہا۔ کمرے میں ایک چارپائی کے سوا بیٹھنے کی کوئی جگہ نہ تھی۔
“ کہاں بٹھاؤ گے۔“ شہزاد ہنسی۔
ایلی ٹھٹھکا۔ شہزاد دل کی بات کس طرح بھانپ لیتی تھی۔ کیا وہ اس کے دل کی سب باتوں کو سمجھتی تھی۔ اس خیال پر وہ لرز گیا کیونکہ اپنے دل کی سب باتوں کو اپنانے یا ان پر سوچنے کی اسے کبھی جرات نہ ہوئی تھی۔ کئی بار اپنی کسی پوشیدہ خواہش کی ہلکی سے جھلک دیکھ کر وہ گھبرا جایا کرتا تھا اور پھر دوسرے امور پر غور کرنے کی کوشش کرتا۔ اس وقت بھی اسے بٹھانے کے متعلق نہ جانے کیا خیال آیا تھا۔ اس کے دل میں اکثر شہزاد کو دیکھ کر طوفان سا پیدا ہو جاتا تھا۔ ایک عجیب سا طوفانِ بدتمیزی۔
ایک طرف مونگیا گٹھڑی کے پٹ کھل جاتے۔ دوسری طرف نیلی جھیل میں کنول سا ابھرتا۔ مینڈک ملہار گانے لگتا۔ ادھر وہ سفید سے بازو لہراتے، ادھر دو رنگین خونیں ہاتھ اس کی طرف لپکتے اور کہیں سے شریف کی متبسم آواز سنائی دیتی۔ “ ہر کوئی اپنی نگاہ سے دیکھتا ہے پگلی۔“ اور پھر وہ اس طوفانِ بدتمیزی کو سمیٹنے کی شدید کوشش کرتا۔
اس طوفانِ بدتمیزی پر اسے شدید غصہ آتا تھا۔ اپنے آپ پر غصہ آتا۔ وہ محسوس کرتا تھا جیسے علی احمد بنا جا رہا ہو۔ پھر اس کا جی چاہتا کہ بھاگ کر روپوش ہو جائے “ کہاں بٹھاؤ گے“ اسے خاموش دیکھ کر شہزاد نے اپنی بات دہرائی۔ “ اسے نہ بٹھا سکے تو مجھے کیسے بٹھاؤ گے۔“ وہ پھر ہنسی۔ اس کی ہنسی شرارت آمیز تھی۔
نہ جانے شہزاد کس قسم کی لڑکی تھی۔ ایک انوکھی ایک عجیب سی لڑکی۔ جس کی ہر بات نرالی تھی۔ جس کی ہر حرکت گویا مفہوم سے بھری ہوئی تھی۔ نہ جانے شہزاد کو ہر بات چھیڑ کیوں دیتی تھی۔ اس کی ہر نگاہ دل میں کھب کیوں جاتی تھی۔ اور یہی نہیں اس کا طرزِ عمل دو دھاری تھا۔ وہ ایک نگاہ سے یوں چھیڑتی تھی جیسے اسے چھیڑ دینے سے دلچسپی ہو اور دوسری نگاہ سے یوں الگ تھلگ ہو جاتی جیسے ان باتوں سے بلند تر ہو۔ جیسے اسے فانی مخلوق سے قطعی طور پر کوئی دلچسپی نہ ہو۔ ایک ساعت میں وہ اس قدر قریب آ جاتی جیسے پوچھ رہی ہو “ میں کہاں بیٹھوں “ اور دوسری ساعت میں اس قدر دور ہو جاتی۔ دور -------- اس افق سے بھی دور جہاں گلابی جھیلوں میں نیلے مینڈک بھدکتے تھے۔ اس وقت اس کا تبسم گویا دل کو کاٹ کر رکھ دیتا اور پھر دوسری ساعت میں اس کے ہونٹوں میں ایک ہلکی سی سلوٹ پیدا ہو جاتی اور محسوس ہوتا جیسے وہ مذاق اڑا رہی ہو۔ تضحیک کر رہی ہو۔ رنگینی کے باوجود اس میں بے نیازی کا عنصر بہت واضح تھے۔ ایلی اسے بلند و بالا ہستی سمجھتا تھا جس کے متعلق ایسی ویسی بات نہیں وسچی جا سکتی تھی۔ لیکن یہ کیا مصیبت تھی کہ ایسی ویسی بات نہ جانے کہاں سے اس کے دل میں آ گھستی اور وہ شرمندہ ہو کر کسی اور بات کے متعلق سوچنے کی شدید کوشش کرتا۔
طوطا اور مینا
لیکن اس روز تو شہزاد کا انداز قطعی طور پر مختلف تھا اور اس کا رات کے وقت وہاں اکیلے آنا اور پھر پوچھنا “ کہاں بٹھاؤ گے۔“
وہ چارپائی کے ایک کونے پر بیٹھ گئی۔ “ ایلی “ وہ بولی “ میں پوچھنے آئی ہوں کہ کیا واقعی تمہیں محبت ہو گئی ہے۔“
ایلی گھبرا گیا۔ وہ اسے کیا جواب دے۔
“ اس خبر کی تو محلے میں دھوم مچی ہے آج کل پھر تم مجھ سے کیوں چھپاتے ہو۔“
“چھپاتا تو نہیں۔“ ایلی نے بمشکل کہا۔
“ تو بتاؤ نا۔ یہ سچ ہے کیا؟“
ایلی نے اثبات میں سر ہلا دیا اور چپ رہا۔
“ کتنے بد نصیب ہو تم ایلی۔“ شہزاد کی آواز میں سنجیدگی تھی۔ “ بہت بد نصیب ہو تم “ وہ بولی “ اگر تم کچھ دیر صبر کرتے اگر تم جلد بازی نہ کرتے تو کتنا اچھا ہوتا۔“
“ میں نہیں سمجھا۔“ ایلی نے آہستہ سے کہا۔
وہ مسکرا دی۔ “ اب سمجھنے کا کیا فائدہ۔ اب تو نہ ہی سمجھو تو اچھا ہے۔ جب میں پہلے پہل یہاں محلے میں آئی اور تمہیں دیکھا تو میں سمجھی کہ ایلی ایک عام سا لڑکا ہے۔ مجھے یہ خیال بھی نہ پیدا ہوا تھا کہ تمہیں دیکھ کر کسی کے دل میں اتنا گہرا اثر پیدا ہو سکتا ہے۔ وہ تو آپے ہی میں نہ رہی۔ لیکن اب کیا فائدہ۔ بےکار ہے اب۔ بیچاری۔“ وہ آہ بھر کر خاموش ہو گئی۔
ایلی حیران تھا کہ وہ کیا کہہ رہی ہے۔
“ خالہ“ ایلی بولا “ یہ کیا طوطا مینا کی کہانی سنا رہی ہیں آپ۔“
“ ہاں۔“ وہ مسکرائی “ میں سمجھتی تھی۔“ وہ بولی “ یہ طوطا معمولی طوطا ہے جیسے ہوتے ہیں طوطے۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ یہ طوطا بولتا بھی ہے۔ اب تو ہمیں طوطے سے ڈر آنے لگا ہے۔“ وہ پھر ہنسی۔
“جبھی یہاں آ گئی ہو اس وقت اکیلی۔“ ایلی نے پہلی مرتبہ شہزاد سے مذاق کرنے کی جرات کی۔
“ اونہوں“ وہ سنجیدگی سے بولی “ میری بات چھوڑو۔ یہ تو مینا کا خیال تھا جو مجھے یہاں لے آیا ہے۔“
“ مینا کون ہے؟“ ایلی نے پوچھا۔
“ وہ بھی تھی بیچاری۔ نہ جانے اسے کیا ہو گیا۔ اس کی سُدھ بدھ جاتی رہی۔ اس نے کہا تھا طوطے کو مینا کی کہانی سنا دینا ایک بار۔ شاید اس کہانی کو سن کر سمجھ جائے مگر بیکار ہے۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ طوطا بن بولے باتیں کرتا ہے اور اس کا اثر اس حد تک ہو سکتا ہے تہ یہ ہے۔“ شہزاد نے جھرجھری لی۔ “ اچھا “ وہ کھڑی ہو گئی۔ “ میں چلتی ہوں۔ ناحق تمہیں بے آرام کیا۔ صبح آؤ گے ناں۔“
“ لیکن ذرا ٹھہر تو۔“ ایلی نے کہا۔
“ نہ بھئی “ وہ ہنسی “ اب تو تم سے ڈر آنے لگا ہے۔“ اور ہنستی ہوئی چلی گئی۔
ایلی دیر تک بستر پر پڑا کروٹیں بدلتا رہا۔ طوطا کون تھا۔ مینا کون تھی اور بے پروا بے نیاز شہزاد کو اب ڈر کیوں آنے لگا تھا۔ ایلی کے دل میں جذبات کی ایک بھیڑ لگی ہوئی تھی۔
ایلی کو یہ معلوم بھی کیسے ہوتا کہ شہزاد گوکل کے بن کی سانوری کے متعلق بات کر رہی ہے۔ وہ سانوری جسے وہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھا کرتا تھا اور سمجھتا تھا کہ وہ ایک سہانا خواب ہے۔ ایک دلکش تصویر۔ وہ خواب بھلا حقیقت کیسے ہو سکتا تھا۔ حقیقت تو محلے کی لڑکیاں تھیں جو چقوں کے پیچھے چھپ چھپ کر مسکراتی تھیں۔ اور پھر اپنے آپ سے ڈر کر پیچھے ہٹ جاتی۔ لیکن سانوری تو یوں کوٹھے پر ٹہلا کرتی تھی جیسے گردوپیش ایک ناقابل توجہ منظر پیش کر رہا ہو۔ وہ ایک ساعت کے لیے بھی یہ نہ سوچ سکتا تھا کہ طوطا مینا کی کہانی سانوری تھی جس نے کبھی آنکھ اٹھا کر اس کی طرف نہ دیکھا تھا۔ جو اسے قابلِ التفات ہی نہ سمجھتی تھی۔
اس زمانے میں ایلی نسائی دو رُخی سے واقف نہ تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ عورت بھی اس طرح ہوتی ہے جیسے لڑکے ہوتے ہیں۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ ان کی بظاہر بے نیازی محض ایک پردہ ہوا کرتی ہے۔ اس لیے وہ طوطا مینا کی کہانی کے مفہوم کو نہ سمجھ سکا۔ اگر اسے معلوم ہو جاتا کہ سانوری نے ایسا مرتبہ بخشا ہے تو وہ خوشی سے ناچنے لگتا لیکن مشکل یہ تھی کہ وہ ایک بار ڈنکے کو چوٹ سے تسلیم کے عشق کا اعلان کر چکا تھا۔
عشاق تو ایک بار محبت لگا کے پھر نہیں بدلتے۔ سچی محبت کی سب سے بڑی خصوصیت اس کے نزدیک وفا تھی۔ سرد مہری کے باوجود وفا، بےپروائی کے باوجود وفا۔ اگر اسے طوطا مینا کی کہانی کا مفہوم معلوم ہو جاتا تو الٹا وہ کشمکش میں گرفتار ہو جاتا کہ کس طرح تسلیم کو چھوڑ کر سانوری سے عشق لگائے۔
ایک اور
اگلے روز صبح ہی علی احمد کی آمد کا شور مچ گیا۔ چچا امداد جو کسی کام سے سٹیشن گئے ہوئے تھے، واپسی پر احاطے میں آ کر چلانے لگے “ بہن نواب، بہن نواب۔“
دادی اماں ان کی آواز سن کر بولیں “ اے ہے لڑکیو سنو تو امداد کی آواز آ رہی ہے۔ تم تو کانوں میں تیل ڈال کر بیٹھ رہتی ہو۔“
“ بہن نواب سے کہ دو۔“ چچا امداد چلائے “ علی احمد آ رہے ہیں۔ میں نے انہیں سٹیشن پر دیکھا ہے۔ کھانا وانا تیار رکھے اور سیدہ بیٹی“ وہ ہنس کر بولے، “ کہنا ساتھ شمیم بھی ہے، بچے بھی اور ایک اور بھی۔“ وہ ہنسنے لگے۔
“ اے ہے چچا“ ایک بولی۔ “ یہ ایک اور کون ہے۔“
چچا ہنسے “ ہر بار ہوتی ہے ساتھ ایک اور نئی بات ہے کیا۔“
“ کیوں نہ ہو ایک اور ساتھ“ دوسری بولی “ علی احمد کے ساتھ ایک اور نہ ہو تو کوئی کیسے جانے کہ علی احمد ہیں۔“
“ مگر چچی اب کی بار کون ہے؟“
“ ہو گی کوئی ترکھانی یا نٹنی۔“
“ اے ہے یہ نہ کہو، سنا ہے شریف زادیاں تھی آتی ہیں۔“
“ نہ بھئی میں تو نہیں مانتی۔ وہ شریف زادی ہی کیا ہوئی جو آ گئی۔ اور بہن یوں چپکے سے اور اطمینان سے انگلی پکڑے آتا ہے یہ علی احمد۔ جیسے کوئی بات ہی نہ ہو۔ جیسے میلے سے مٹی کی گوجری خرید کر لا رہا ہو۔ ذرا نہیں شرماتا، ذرا نہیں سوچتا کہ محلے میں جا رہا ہوں۔ محلے والے کیا کہیں گے۔“
“ ہونہہ محلے والے۔ محلے والوں کی بہن وہ پروا کرتا ہے کیا جو سچ پوچھو تو شرافت غریبوں ہی میں رہ گئی ہے۔ علی احمد کے پاس اللہ کے فضل سے چار پیسے ہیں۔ اچھے عہدے پر لگا ہے۔ اسے محلے والوں کی کیا پرواہ۔“
علی احمد کا قافلہ احاطے میں داخل ہوا تو محلے کے مکانوں کی تمام کھڑکھیاں بھری ہوئی تھیں۔ بوڑھیاں چوگان میں کھڑی تھیں، لڑکیا چقوں کے پیچھے دبکی ہوئی تھیں۔ جیسے علی احمد کی آمد ایک عظیم واقعہ ہو۔
“ علی احمد “ ایک بولی “ سنا ہے پھر ایک اور ساتھ لے آیا۔“
“ ہی ہی ہی۔ “ علی احمد ہنسے۔ چچی وہ تو شمیم کی سہیلی ہے۔“
“ ہمیشہ سہیلی ہی بن کر آتی ہے پہلے پہل۔“ ایک چلائی۔
“ اے ہے علی احمد تیرے بہانے نہ گئے۔ کیسے کیسے بہانے تراشتا ہے تو۔ دوسرے نے کہا۔
“ ہی ہی ہی۔“ وہ ہنسے “ تو اور کیا صاف صاف کہہ دوں۔ تمہارا لحاظ بھی کروں چاچی۔“
“ اے ہے۔ یہ اچھا لحاظ ہے علی احمد۔“ وہ قہقہہ مار کر ہنسے لگی۔
علی احمد ہی ہی ہی کرتے ہوئے ڈیوڑھی میں داخل ہو گئے اور محلے والیوں کی نگاہیں ان کے پیچھے چلتے ہوئے قافلے پر مرکوز ہو گئیں۔
“ چچی ہے تو اونچی لمبی۔“ ایک بولی
“ ہو گی تو ویسی ہی کالی کلوٹی۔ ایسی ہی لایا کرتا ہے علی احمد“ دوسرے نے کہا۔
نہ جانے کیا چاؤ ہے اس کو۔ گلی سڑی اٹھا لاتا ہے۔“ تیسری نے منہ بنا کر کہا۔
“ ہائے ری۔“ ایک چلائی “ میں مر گئی یہ تو نٹنی معلوم ہوتی ہے۔“
“ نٹنی ہے تو اور بھی اچھا ہے۔ اپنے علی احمد کو ناچ نچائے گی۔“
“ اے یہی تو وہ چاہتا ہے۔“ چچی نے جواب دیا۔
“ اتنی عمر بیت گئی پر ابھی یہ جنون اس کے سر سے نہ گیا۔“
“ وہ جنون ہی کیا ہوا اماں جو چلا جائے۔“
دادی اماں نے اپنے کمرے سے آنکھ بچا کر دیکھا پھر دھڑم سے تخت پر گر پڑی۔ جیسے اسے دھچکا لگا ہو۔ پھر بات کیے بغیر تخت پوش پر گڈمڈ ہو کر پڑی رہی جیسے سجدے میں پڑی ہو۔
شمیم نے گھر میں داخل ہوتے ہی برقعہ اتار کر پھینک دیا اور تیزی سے بھاگ کر اپنے کمرے میں داخل ہو گئی۔ ان کی منہ غصے سے سرخ ہو رہا تھا۔ آنکھیں رو رو کر ابلی ہوئی تھیں۔ اس کی دونوں لڑکیاں سہمی ہوئی تھیں۔
معذرت
علی احمد اور نووارد وہ چپ چاپ اطمینان سے الگ ایک کمرے میں جا بیٹھے جیسے کوئی بات
ہی نہ ہوباہرمحلے والیوں کاجھمگھٹالگ گیا۔
’’ایلی‘‘۔علی احمد نے آوازدی۔’’ایلی بھئی یہ راجوتم سے ملنے آئی ہے۔ہی ہی ہی کہتی تھی کہ علی پوردیکھوں گی۔اب یہ کام تمہاراہے ایلی کواسے گھماؤپھراؤ۔ایلی توعلی پورکے چپے چپے سے واقف ہوانا۔ہی ہی ہی ۔کیوں ایلی۔اچھاتوہاجرہ کہاں ہے اسے راجوسے ملائیں ۔‘‘
’’سیدہ ۔کیاکررہی ہے ۔تو۔ادھرآناادھردیکھ یہ راجوتجھ سے ملنے آئی ہے اورتووہاں چولہے کے پاس بیٹھی ہے۔ یہ دولت پورکے رہنے والے ہیں۔راجپوت ہیں۔ اپنی دوکانیں ہیں۔زمینیں ہیںسبھی جانتے ہیں انہیں وہاں دولت پورمیں مشہورخاندان کے ہیں۔راجپوت وہاں عزت والے سمجھے جاتے ہیں۔آجاؤ۔آجاؤبیٹھ جاؤ۔سیدہ راجویہ سیدہ ہے میری بہن کی بیٹی۔میری بیٹی ہی سمجھو۔اپنے یہاںہی رہتی ہے۔اورکہوسیدہ کیاحال چال ہے۔ہاجرہ نہیں آئی۔وہ شمیم کیاہوئی۔سفرکی وجہ سے تھک کرجاپڑی ہوگی اپنے کمرے میں ہی ہی ہی۔اچھابھائی سیدہ ذراچلم میں دوکوئلے تورکھ دینا۔واقعی سفرمیں انسان تھک جاتاہے۔‘‘
وہ مسلسل بولتے گئے جیسے خاموشی سے ڈرتے ہوں جیسی آواز کے تنکے کاسہارالے کرڈوبنے سے بچناچاہتے ہوں اورپھرہربات پران کاقہقہہ گونجتارہاکھوکھلاکھسیانہ قہقہہ جیسے وہ راجوکولانے پرمعذرت کررہے ہوں۔علی احمد‘‘بڑھیانے جواب دیا’’ذرادم کی تکلیف ہے ۔رک جاتاہے۔‘‘
’’پھرتوبہت تکلیف ہوئی۔‘‘
’’اب یہی کچھ ہوناہے نا۔کچھ وقت بیت گیاکچھ بیت جائے گامگر علی احمدیہ توکیالے آیاہے۔‘‘دادی اماں نے آہستہ سے کہا۔
’’اوہواماں۔‘‘وہ ہنسے ’’بہت دبلی ہوگئی ہو۔کوئی دواداروکررہی ہو۔‘‘ علی احمدکویوں بات بدلتے دیکھ کروہ مسکراکربولی ’’علی احمدتیری عادت نہ بدلی اوردواکاکیاپوچھتے ہو۔اب تودعاکرو۔‘‘
’’نہیں نہیں۔‘‘وہ بولے’’میں ڈاکٹرکوبلاؤں گااس سے پوچھوں گا۔‘‘اورپھرراجوکے پاس یوں جابیٹھے جیسے وہ خودمریض ہوں اورڈاکٹران کی طرف دیکھ کرمسکرانے لگی اورپھرعلی احمدکے کمرے کادروازہ بندہوگیا۔
گورودیومہاراج
راجوکے آنے پرایک دن محلے میں یہی شغل رہاایک مسکراکرپوچھتی ’’علی احمدیہ توکیالے آیاہے۔‘‘
علی احمدمسکراکرجواب دیتے ’’چچی یہی تومجھے تم سے پوچھناہے یہ میں کیالایاہوں۔خسارہ کاسودانہیں۔‘‘
دوسری پوچھتی’’ علی احمدیہ کیالے آیاتودیکھنے میں توکچھ بھی نہیں۔‘‘
علی احمدہنس کرکہتے ’’ہاں بہن دیکھنے میں کچھ نہیں۔‘‘
پھرکوئی محلے والاچلاتا۔’’علی احمداب تمہارے دن نہیںرہے۔‘‘
’’ہاں بھئی صاحب۔‘‘وہ ہنستے ’’جبھی توراتیں منارہاہوں۔‘‘
ایلی جوراجوکودیکھ کرحیران تھااس میں وہ بات ہی نہ تھی۔کوئی بھی توبات نہ تھی اس میں۔بالکل چلاہواپٹاخہ نہ جانے کیاہوگیاتھااسے۔جیسے کچھ ہوگیاہو۔
اگلے روزجب ایلی نے ارجمندسے بات کی تووہ قہقہہ مارکرہنسنے لگا۔’’بھئی وا ہ ایلی تم تیلی کے تیلی ہی رہے صرف علی احمدہی سیانے آدمی ہیں باقی تو سب الوکے پٹھے رہتے ہیں۔یہاں وہ ہاتھی کے دانت نہیں پالتے جوکھانے کے نہیں بلکہ دکھانے کے ہوں سمجھے میاں۔پیٹ کی بھوک آنکھیں سیراب کرنے سے نہیں مٹتی۔سمجھے مگرتم کیاسمجھوگے۔تم توہوئے تیلی کے تیلی۔مطلب یہ ہے بیٹاوہ کہاہے سیانوں نے کہ عورت دیکھنے کے لیے نہیںلائی جاتی گھرمیں۔پھرصورت پرکیاجاتا۔تمہارے اباتوگردویومہاراج ہیں۔دھن ہیں گردویومہاراج وہ انکراینڈی سیکھ رکھاہے کہ واہ وا۔یوں اڑی چلی آتی ہیںجیسے شمع پرپروانہ آتاہے۔آہاکیاگرسیکھ رکھاہے تمہارے ابانے بیٹااپنے اباکی قدرومنزلت اس خاکسارسے پوچھو۔اپنے خادم سے پوچھو۔خاکسارپرانی کھلاڑی ہے۔خاکسارنے یہ کھیل ڈسپنری کی میزوں پرسیکھاتھااورآج اتنے سال کے بعدجب خاکسارشاہ کاکوگیااورجناب یوں سمجھولوکہ ایک طرف شاہ گاؤں ہے اوردوسری طرف کاکوگاؤں اوردرمیان میں بروزے کی فیکٹری ہے جہاں خاکسارسٹورکیپرہے ۔ادھرسے شاہ کی شہزادیاں آتی ہیںاورادھرسے کاکو کی کراریاں۔خاکسارایک نظرادھررکھتاہے۔دوسری ادھر۔ اس قدرچاق وچوبندرہنے کے باوجودنتیجہ کیاہے۔بالکل فیل۔چھ ماہ میں صرف دوپھنسی تھیں اوروہ بھی سمجھ لومجبوری سے۔لیکن تمہارے ابا۔سبحان اللہ گرودیوجی مہاراج وہ انکراینڈی چلاتاہے بڈھاکہ دولت پورسے علی پورچلی آتی ہیں۔واہ وا۔بیٹابڑے ہوکرفخرکیاکروگے اس بڈھے کے کارناموں پر۔مگریاراس سے وہ نسخہ تولے لوجووہ استعمال کرتاہے۔ بیٹاہمارایہ کام کروگے توسداسکھی رہوگے۔‘‘
اب تومحلے کے سبھی لوگ اس بارے میں ایلی سے کچھ نہ کچھ کہنے کے لیے بے تاب ہورہے تھے۔
ایک کہتا’’میاں ایلی مبارک ہو۔‘‘
دوسراکہتا’’کہونئی ماں پسندآئی۔‘‘
تیسراکہتا’’کیوں ایلی تم کب تک دیکھتے رہوگے میاں اب توتمہارے دن آگئے۔‘‘
کوئی کہتی ’’ایلی تیرے اباکاچناؤکیساہے۔‘‘
ایک بولتی ’’ایلی تونہ اس راہ پرپیلوچھوڑاس کو۔اس نے تواپنی جندگی تباہ کرلی۔‘‘
پھراتفاق سے محلے میں دوایک شادیوں کااہتمام شروع ہوگیااورلوگوں کی توجہ علی احمداورراجوسے ہٹ کرشادیوں کی طرف مبذول ہوگئی۔
٭٭٭