دولت پور
کچھ روز کے بعد دولت پور سے علی احمد کا خط موصول ہوا۔ جس میں ایلی کو ہدایت کی گئی تھی کہ خط کو دیکھتے ہی وہ فوراً دولت پور آ جائے۔ خط پڑھ کر ایلی چونکا اسے ڈر تھا کہیں ابا اسے دولت پور کے کالج میں داخل ہونے پر مجبور نہ کریں۔ اس کی خواہش تھی کہ اسے پھر سے لاہور کے کسی کالج میں داخل کیا ھائے۔ کیونکہ لاہور میں وہ آزادانہ زندگی بسر کر سکتا تھا۔ لیکن جب سے علی احمد کا تبادلہ دولت پور نہیں ہوا تھا ایلی کو یہ فکر دامن گیر ہو گیا تھا کہ کہیں علی احمد اسے دولت پور کے کالج میں داخل ہونے پر مجبور نہ کریں۔ علی احمد کے مکان سے ایک مرتبہ چھٹکارہ حاصل کرنے کے بعد وہ از سر نو وہاں مقید نہیں ہونا چاہتا تھا۔ وہ علی احمد کے کمرے سے ڈرتا تھا۔ اسے کشمیر کے سیبوں پر پلی ہوئی ماں کی حنا مالیدہ ہاتھوں سے وحشت ہوتی تھی۔ سب سے بڑھ کر اسے علی احمد کے کمرے سے نفرت تھی۔ جہاں کوئی نہ کوئی کوریا خانم موجود رہتی تھی۔
لیکن علی پور میں رہ کر اپنی زندگی تباہ کرنا بھی تو اسے گراں ہو رہا تھا۔ ایک ان جانی کشمکش اسے چکی کے پاٹوں کی طرح پیس رہی تھی۔ اس لئے اس نے دولت پور جانا منظور کر لیا۔ کیونکہ علی پور سے مخلصی پانے کا یہی ایک واحد طریقہ تھا اور وہ مانگے کے سوٹ کیس میں اپنی چند ایک لودھیانے کی قمیض ڈال کر دولت پور کی طرف چل پڑا۔
دولت پورہ میں علی احمد کے مکان کو دیکھ کر وہ گھبرا گیا۔ وہ ایک پختہ چوبارہ تھا جو ایک جنگلے دو کمروں اور ایک کمرہ نما صحن پر مشتمل تھا۔
ایلی نے محسوس کیا کہ کہ وہ مکان گھر نہیں تھا بلکہ تمام تر علی احمد کا کمرہ تھا۔ گھر تو بام آباد میں تھا۔ جہاں ایک وسیع و عریض صحن تھا۔ جس کے پہلوؤں میں چار کمرے تھے۔ ایک دوسرے سے دور جہاں علی احمد کے ساتھ رہتے ہوئے بھی ان سے دور رہنا ممکن تھا۔ جہاں ایلی ٹین کے سپاہی کے میدان جنگ کی ہما ہمی سے دور رہ سکتا تھا۔ جہاں وہ اپنی انفرادیت کو بحال رکھ سکتا تھا۔ اور پانی کی بوتل بھرنے کے باوجود اپنے ذہن کو اس کمرے کے تاثرات سے محفوظ رکھ سکتا تھا۔ لیکن دولت پور کا گھر تو سب کا سب ایک کمرہ تھا۔ جسے بہت سے حصوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔ جیسے کبوتروں کے رہنے کے لئے ڈربے بنے ہوتے ہیں۔ اگرچہ دیواروں کے پردے کھڑے تھے۔ اس کے باوجود کسی کمرے کی انفرادی حیثیت نہ تھی۔
دولت پور کا چوبارہ دیکھ کر وہ لرز گیا۔ اسے ٹین کے سپاہی اور ربڑ کی چیخنے والی گڑیا کے ساتھ رہنا پڑے گا۔ نہیں نہیں وہ دولت پور کے کالج میں میں تعلیم نہیں پائے گا۔ کبھی نہیں۔
صحن میں چولہے کے سامنے شمیم بیٹھی تھی۔ کشمیر کا وہ سیب جو پکنے سے پہلے ہی سڑا جا رہا تھا۔ وہ شمیم۔ اس کے گرد کباڑی کی دوکاڑی کی مانند کھانے پینے کی چیزیں بکھری پڑی تھیں۔ گود کی ننھی بچی کی ناک بہہ رہی تھی۔ قریب ہی بڑی لڑکی حوائج سے فارغ ہونے میں مشغول تھی۔شمیم روٹیاں پکاتے ہوئے ننھی کی ناک پونچھتی۔ بڑی لڑکی کے جسم کو کپڑے سے صاف کرتی اور پھر انہیں ہاتھوں میں آٹے کا پیڑا اٹھا کر روٹی پکانے میں مصروف ہو جاتی۔ ساتھ والے کمرے میں علی احمد میلی سی دھوتی باندھے ایک بڑے سے رجسٹر میں آلو اور پیاز کا حساب لکھنے میں مصروف تھے۔ بغلی کمرے میں چیزیں گڈ مڈ پڑی تھیں۔
ایلی پر ایک گھبراہٹ طاری ہوئی جا رہی تھی۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ اس مکان سے مخلصی پالے۔ اس لئے وہ عقبی کھڑکی میں کھڑا ہو کر پچھواڑے کے مکانات کو دیکھنے میں مصروف ہو گیا۔ سامنے کوٹھے پر کوئی شخص منتظر نگاہوں سے ادھر ادھر دیکھ رہا تھا۔ اس کی نگاہوں میں امید کی کرن واضح تھی۔ اس کے انداز سے بے صبری عیاں تھی۔ چند لمحات کے لئے وہ کوٹھے پر ٹہلتا رہا۔ پردے کے قریب آ کر کھڑا ہو جاتا۔ نگاہیں اس کھڑکی پر مرکوز ہو جاتیں جس میں ایلی کھڑا تھا۔ چند منٹ ایلی وہاں کھڑا رہا پھر گھبرا کر پیچھے ہٹ گیا اور شمیم کی طرف متوجہ ہو گیا۔
شمیم کے رہنے سہنے کا انداز دیکھ کر اسے غصہ آنے لگا کیا میٹریکولیٹ ایسی ہوتی ہیں۔ کیا کشمیر میں پلی ہوئی عورتوں کا یہی طریقہ ہوتا ہے۔
--------------- ایلی کی نظروں میں شمیم کی آنکھوں کا فرق زیادہ نمایاں ہوتا جا رہا تھا۔ شمیم کے چہرے پر حزن و ملال کے آثار واضح تھے۔ رنگ زرد پڑ چکا تھا۔ “بیچاری۔“ وہ سوچنے لگا “ اس کی زندگی عام بیویوں سے کس قدر مختلف ہے اسے کیا کیا برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ جب چینی کی گڑیا آ کر چیختی ہو گی اور ٹین کا سپاہی میدان کار زار گرم کرتا ہو گا تو شمیم اس بغلی کمرے کی چارپائی پر بیٹھ کر کیا سوچتی ہو گی۔“ اس کے دل میں پہلی مرتبہ شمیم کے لئے ہمدردی پیدا ہوئی لیکن اس جذبہ ہمدردی میں ترس کا عنصر نمایاں تھا۔
سارا دن ایلی پریشان رہتا۔ سمجھ میں نہ آتا کہ کیا کرے۔ صحن میں شمیم کو روٹی پکاتے ہوئے دیکھ کر اس کی طبیعت مالش کرنے لگتی اور وہ دیوار کی طرف منہ موڑ لیتا ----------- کھڑکی سے کور جھانکتی۔ “بابو جی کہاں ہیں۔“ دروازے سے استانی تہہ بند جھاڑتی ہوئی داخل ہوتی۔ ادھر سے خانم مسکراتی۔ وہ زیادہ دیر وہاں نہیں بیٹھ سکتا تھا۔ بالاخر وہ بغلی کمرے کی کھڑکی سے اس بے قرار نوجوان کو دیکھنے میں کھو جاتا جو نہ جانے کس لئے دن بھر چھت پر بادیہ پیمائی کرنے میں مصروف رہتا تھا۔ پھر وہ گھبرا کر گھر سے باہر نکل جاتا اور دولت پور کے بازاروں میں بے مصرف گھومتا۔
دولت پور دوسرے شہروں سے کس قدر مختلف تھا۔ بام آباد کی تو اور بات تھی وہ تو شہر تھا ہی نہیں بلکہ محض ایک نو آبادی تھی۔ جہاں غریب لوگ رہتے تھے۔ لیکن دولت پور تو پرانا شہر تھا۔ پھر اس کے بازاروں میں اس قدر ویرانی کیوں تھی۔ اس کی دوکانوں میں وہ بھڑک نہ تھی ھو بڑے شہروں کی دوکانوں میں ہوتی ہے۔
بازاروں میں آتے جاتے لوگ سادہ طبیعت کے تھے۔ ان کے لباس میں دکھاوے کا عنصر نہ تھا۔ ان کی گفتگو میں ایک رجیب قسم کی معصومیت تھی۔ وہ اپنی غربت کا اظہار کرنے سے گھبراتے نہ تھے۔ ایک پیسے کا سودا لینے کی عار نہ سمجھتے تھے۔ دولت پور لاہور سے کس قدر مختلف تھا۔
سلفر اور پٹاخہ
دولت پور کی زندگی کا مرکز پنواڑی کی دوکان تھی جو عوام کے جذبات کی عکاسی کرتی تھی۔ ہر دوکان پر چار ایک نوجوان جمع رہتے جو پان کھاتے۔ ایک دوسرے پر فقرے کستے اور پھر سیٹھ گردداری لال یا مدن لال بھابھڑہ کے تازہ ترین معاشقے پر ہنس ہنس کر باتیں کرنے لگتے۔ ایلی دور سے ان کی باتیں سنتا اور پھر آگے نکل جاتا اس کے لئے ایسی دوکان پر جانا ممکن نہ تھا۔
جہاں لوگ کا جمگھٹا لگا ہو۔ پان خریدنے کے لئے وہ ایسی دوکان پر جایا کرتا تھا جہاں کوئی گاہک نہ ہو مگر کبھی کبھار ایسا بھی ہو جاتا کہ سودا خریدنے کے دوران میں گاہک آ جاتے اور مجمع لگ جاتا ایسے مواقع کی اسے دولت پور کی مجلسی زندگی کے متعلق چند ایک باتوں کا علم ہو گیا تھا۔ مثلاً اسے معلوم تھا کہ سیٹھ گردھاری لال کی حیثیت اب وہ نہیں رہی تھی جو کبھی پہلے تھی اور ان اس نے ساجو سے تعلقات پیدا کر رکھے تھے۔ اور ساجو ان کی یہاں آتی جاتی تھی اور دولت پور میں ایسا کون تھا جو ساجو سے واقف نہ ہو۔ کون نہیں جانتا تھا کہ وہ سلفے کی چلم ہے اگرچہ اب چلم میں راکھ رہ گئی ہے۔ لیکن پھر بھی شوقین اسے چوستے تھے اور اس کا دھندا چلتا تھا۔
اسے یہ معلوم نہ تھا کہ سیٹھ گردھاری لال کون ہے اور ساجو کس کا نام ہے۔اور وہ سلفے کی چلم کیوں ہے۔ وہ تو صرف یہ جانتا تھا کہ ساجو کوئی ہے۔ ہو گی کوئی اور سیٹھ گردھاری لال اسے چوس رہے تھے۔ لیکن اسے اس بات سے کیا تعلق۔
کئی مرتبہ حلوائی بازار کی طرف جاتے ہوئے جب وہ گلی میں سے گزرتا تو اسے خیال آتا کہ شاید یہی مکان ہو سیٹھ گردھاری لال کا۔ شاید یہی شخص جو چلا آ رہا ہے سیٹھ گردھاری لال ہے۔ کیونکہ دولت پور کے سیٹھوں اور عوام میں کچھ زیادہ فرق نہ تھا۔ دیکھنے میں وہ ایک سے ہی معلوم ہوتے تھے۔
پھر اسے معلوم ہوا کہ دولت پور میں ایک نیا فتنہ بیدار ہوا ہے۔ جس کی شکل پٹاخہ سی ہے۔ اور جو مست ہاتھی کی طرح چلتی ہے اور شوقین راستے میں کھڑے ہو کر گھنٹوں اس کا انتظار کرتے ہیں۔
اس سلفے کی چلم اور اس نئے فتنے کے باوجود ایلی کو دولت پور میں رہنے سے کوئی دلچسپی پیدا نہ ہوئی اور بلآخر مجبور ہو کر علی احمد سے کہنے لگا “ میں یہاں داخل نہیں ہوں گا۔ میں تو لاہور میں پڑھوں گا۔“ علی احمد نے ایک ساعت کے لئے اس کی طرف غور سے دیکھا اور پھر بولے۔“ اس وقت اس موضوع پر بات کرنا بیکار ہے اس لئے کہ ہمیں فرصت نہیں ہے کل دفتر آ جانا تو وہاں یہ مسئلہ طے کر لیں گے۔“
داخلہ
دفتر میں علی احمد کی حیثیت افسر کی تھی۔ ان کے لئے ایک علیحدہ کمرہ مخصوص تھا۔ جس میں بیٹھ کر وہ کام کرتے تھے۔ دوسرے دن ایلی اطمینان سے ان کے دفتر جا پہنچا اور بے تکلفی سے اسلام و علیکم کہہ کر کرسی پر بیٹھ گیا جو علی احمد کے میز کی دوسری جانب رکھی تھی۔
“ہوں۔“ علی احمد بولے “ تم یہاں داخل ہونے سے انکار کرتے ہو۔“
“جی ہاں۔“ ایلی نے جواب دیا۔ “مجھے لاہور داخل کروا دیجئے کیونکہ لاہور میں ------ “
“ہوں۔“ انہوں نے ایلی کی بات کاٹ کر کہا۔ “ تم یہاں داخل ہونے سے انکار کرتے ہو۔“ یہ کہتے ہوئے انہوں نے بید کی چھڑی اٹھائی جو پاس دیوار کے سہارے کھڑی تھی۔
“ تو تم یہاں داخل ہونے سے انکار کرتے ہو۔“ یہ کہتے ہوئے انہوں نے زن سے سوٹی اس کے سر پر دے ماری۔“
“ارے۔“ وہ گھبرا گیا۔ اسے اس سلوک کی توقع نہ تھی۔
“ہوں۔“ علی احمد نے کہا۔ “تم یہاں داخل ہونے سے انکار کرتے ہو۔“ اور سوٹی کی ایک اور ضرب لگائی۔ ایلی گھبرا گیا۔
“دیکھئے آپ مجھے مجبور نہ کریں۔“ وہ بولا۔
“ہوں تم یہاں داخل ہونے سے انکار کرتے ہو۔“ انہوں نے ایک اور ضرب لگائی۔ “ میں کہتا ہوں آپ مجھے مجبور کر رہے ہیں کہ۔“
زن سے ایک اور ضرب پڑی۔ نہ جانے اس وقت ایلی کو کیا ہوا وہ یہ بھول گیا کہ وہ ایلی ہے اور علی احمد اس کے والد ہیں۔ اس نے ایک جست لگائی اور اس میز پر چڑھ گیا جو باپ اور بیٹھے کے درمیان بچھی ہوئی تھی۔ جھپٹ کر علی احمد کے ہاتھ کی سوٹی کو پکڑ لیا۔ ایک کھولتی ہوئی نگاہ باپ پر ڈالی۔
“تو تم دولت پور کے کالج میں داخل ہونے سے انکار کرتے ہو۔“ علی احمد نے وہی فقرا پھر دہرایا ایلی نے ایک جھٹکا دے کر بید کی سوٹی علی احمد کے ہاتھ سے چھین لی اور اسے توڑ موڑ کر ایک طرف پھینک دیا۔ چند سماعت کے لئے وہ علی احمد کے روبرو کھڑا رہا۔ جیسے ان کا حریف ہو اور پھر میز سے اتر کر چپکے سے کمرے سے باہر نکل گیا۔
دو ایک گھنٹے نہ جانے وہ کہاں گھومتا رہا۔ بھاگ جانے کے خوفناک منصوبے بناتا رہا۔ سوچتا رہا کہ کس طرح وہ سمندری جہاز میں داخل ہو کر چھپ جائے گا اور جب جہاز گہرے سمندر میں
پہنچ جائےگا تو وہ باہر نکلے گا۔ اور جہاز والے بالاخر اسے رکابیاں دھونے پر ملازم رکھ لیں گے حتٰی کہ جہاز بصرہ کی بندرگاہ میں لنگر انداز ہو جائے گا ۔جیسے اس کے ایک عزیز نے کیا تھا۔لیکن یہ دلچسپ تفصیلات سوچنے کے بعد وہ گھر لوٹ آیا ۔ اس میں بھاگ جانے کی جرات نہ تھی۔لیکن اسکا یہ مطلب نہ تھا کہ وہ بھاگ جانے کی تفصیلات بھی نہ سوچے۔جب وہ گھر واپس پہنچا تو علی احمد اسکا انتظار کر رہے تھے۔“غلام محمد“ انہوں نے نوکر کو آواز دی۔“ایلی کو ڈاکٹر رام داس کے پاس لے جاو“ ڈاکٹر سے دوا لگوانے کے بعد وہ چارپائی پر لیٹ کر فیصلہ کرتا رہا کہ وہ دولت پور کے کالج میں داخل نہیں ہو گا چاہے کچھ ہو جائے لیکن تیسرے روز جب علی احمد نے اپنے ہیڈ کلرک کے ساتھ اسے دولت پور کینٹ کالج میں داخل ہونے کیلئے بھیجا تو وہ یوں چپکے سے اسکے ساتھ چل پڑا۔جیسے دولت پور کالج میں داخل نہ ہونے کا اس نے فیصلہ ہی نہ کیا ہو۔
چند ایک روز تو ایلی چبارے کے ان دونوں کمروں میں پریشان حال گھومتا رہا پھر قانع ہو کر اطمینان سے بیٹھ گیا۔جب شام کے وقت شمیم کھانا پکانے لگتی اور ناظمہ حوائج میں مصروف ہو جاتی اور انجم کی ناک بہتی تو وہ چپکے سے باہر نکل جاتااور دولت پور کی گلیوں میں گھومتے ہوئے سوچتا کہ یہ مکان سیٹھ گردھاری لال کا تو نہیں اور یہ لڑکی جو کھڑکی میں کھڑی ہے۔دولت ہور کا نیا فتنہ ہےیا سلفے کی چلم۔
وہ یونہی گھومتا رہتا تاکہ وہ شمیم کو کھانا پکاتے ہوئے نہ دیکھے۔ کھانا کھاتے ہوئے وہ سوچنے لگتا کہ کس طرح وہ جہاز میں چھپنے میں کامیاب ہو سکے گا ۔ اور پھر کس طرح جہاز کا کپتان اسے رکابیاں دھونے پر نوکر رکھنا منظور کر لے گا اور پھر بصرہ کی بندرگاہ میں کس طرح سے چوری چوری جہاز سے اترے گا۔ وہ مسلسل طور پر کچھ نہ کچھ سوچتا رہتا تاکہ کھانے کے دوران یہ خیال نہ آئے کہ یہ وہی کھانا ہے جسے شمیم نے پکایا ہے۔
جمعہ شاہ
پھر ایک روز علی احمد کے یہاں بالا اور اسکی چچی آ گئے۔ آگے آگے بالا تھا۔ اور اسکے ہاتھ میں سوٹ کیس تھا اور اسکے پیچھے اسکی چچی دیواروں کا سہارا لیتی ہوئی سیڑھیاں چڑھ رہی تھی۔
“سلام کہتا ہوں جی۔“ بالا شمیم سے مخاطب ہو کر بولا “ اپنے پھوپھا جان کہاں گئے ہیں ۔ ہوں گے! ہوں گے باہر سیر کو۔ ہائیں ایلی بھائی بھی یہاں ہیں۔ مزاج تو بخیر ہے نا۔شکر اللہ کا میں تو بالکل خیریت سے ہوں ہاں “۔ وہ اپنے آپ سے باتیں کئے جا رہا تھا جیسا کہ اسکی عادت تھی۔ خود ہی سوال کرتا ۔ پھر خود ہی اسکا جواب دینے لگتا۔ اسکی نگاہیں نہ جانے کس طرف دیکھنے میں کھوئی رہتی تھیں۔ جیسے دیوار کے پار کچھ دیکھ رہا ہو۔ اسکی چچی بالا کی طرف دیکھنے میں کھوئی رہتی جیسے ڈرتی ہو کہ کہیں بالا اسکی نگاہ سے اوجھل ہونے دیا گیا تو وہ پراسرار طریقے سے گم ہو جائے گا۔
جلد ہی شمیم اور ایلی کو معلوم ہو گیا کہ بالا اور اسکی چچی وہاں دو ایک مہینے ٹھہرنے کیلئے آئے تھے۔ کیونکہ انکا خیال تھا کہ شاید علی احمد کے زیراثر رہنے سےبالا میں دسویں پاس کرنے کی صلاحیت پیدا ہو جائے۔ اگرچہ علی احمد نے انکی آمد پر خوشی کا اظہار کیا تھا مگر ان کے انداز سے ظاہر تھا کہ انہیں قطعی طور پر خوشی نہیں ہوئی بلکہ انکے آنے سے کوفت محسوس ہو رہی تھی۔
بالا اپنے جواہرات کے ڈبے کھول کے بیٹھ جاتا۔ “یہ دیکھو ایلی ۔۔۔۔۔۔“ وہ اسے اکساتا ۔ “یہ نیلم جو ہے یہ کوہ سفید کے سوا اور کسی جگہ سے نہیں ملتا ہاں۔ کیونکہ وہی ایک پہاڑ ہے جہاں پریوں کی آمدورفت رہتی ہے۔ پریوں کو نیلم سے محبت ہوتی ہے۔ ہاں۔ پھر جب چودھویں رات کا چاند چمکتا ہے نا تو اس کا رنگ اور بھی گہرا ہو جاتا ہے اور ۔۔۔۔۔۔۔۔“
ایلی کو اب بالا کے قیمتی پتھروں سے وہ دلچسپی نہ تھی جو کسی زمانے میں ہوا کرتی تھی ۔ ایلی اسکی باتیں سن کر مسکراتا اور پھر سوچتا کہ کس طرح بالا کے طلسمی پتھروں سے مخلصی پائے لیکن اعلانیہ بالا کی بات کاٹ کر چلے جانا یہ اس کے لئے ممکن نہ تھا ۔ بہرحال وہ بالا کی باتیں سنتا جمائیاں لیتا اور نہ سننے کی آرزو کرتا۔
پھر دفعتاً بالا اٹھ بیٹھتا اور آپ ہی آپ بڑبڑانے لگتا۔ جیسے اسے کوئی بلا رہا ہو۔ “ ابھی آتا ہوں۔ بھئی۔ ابھی آیا میں۔ وہ بلا رہے ہیں نہ مجھے۔“ اسکے اشاروں میں رازدارانہ اور پراسرار انداز جھلکتا۔ اسکی مسکرائٹ میں احساس برتری کی جھلک ہوتی۔ جیسے وہ حالات کو بہتر طور پر سمجھتا ہو جیسے وہ فطرت کے راز سے کماحقہ واقف ہو۔ “ذرا انتظار کرو میں ہو آوں ۔“ وہ ایلی سے کہتا اور پھر چپ چاپ کوٹھے کی سیڑھیاں چڑھنے لگتا۔ اسکے جانے کے بعد کوٹھے سے زیر لب باتیں کرنے کی آوازیں سنائی دیتیں۔ پھر وہ لوٹ آتا لیکن سیڑھیاں اترتے وقت دفعتاً رکتاجیسے کسی نے اسے پھر بلایا ہو اور نہ جانے کس سے مخاطب ہو کر کہتا۔ “ نہیں نہیں یوں نہیں۔ جیسے میں نے کہا اسے پھر بلایا ہو اور نہ جانے کس سے مخاطب ہو کر کہتا ۔“ نہیں نہیں یوں نہیں۔ جیسے میں نے کہا تھا ویسے۔“ اور پھر مسکراتا ہوا نیچے اتر آتا۔ شمیم اور ایلی حیرانی سے اسکی طرف دیکھتے رہتے۔ اسے آتا دیکھ کر شمیم گھبرا کر اٹھ بیٹھتی اور انجم کو کلیجے سے لگا کر ناطمہ کے سر پر ہاتھ رکھ کر گویا انہیں محفوظ کر لیتی۔
پھر وہ گھبرا کر پوچھتی۔“بالا تم کس سے باتیں کیا کرتے ہو۔“
بالا مسکرا دیتا ہے۔ “ آپ نہیں جانتی پھوپھی۔ آپ انہیں نہیں جانتیں۔ اپنی ہی ہیں وہ۔ بڑے اچھے ہیں بیچارے“۔
بالا جواب دیتا۔ “ کہاں نہیں ہیں۔ ان کے لئے کوئی حد مقرر نہیں وہ ہر جگہ موجود ہیں۔ ہر مکان میں جنگل میں میدان میں۔ لیکن بڑے اچھے ہیں وہ بچارے بار بار مجھے بلا لیتے ہیں۔ ہی ہی ہی۔“ وہ ہنستا۔
“ اس وقت تو اپنے جمعہ شاہ کو نہیں جانتے بڑے زبردست ہیں وہ جو چاہیں کر لیں۔ جو چاہیں جسے چاہیں بلا لیں تو یہ بھئی کس میں ہمت ہے کہ انکی بات رد کرے۔ لیکن میں ہی ہی ہی۔“ وہ ہنسنے لگتا“ میری اور بات ہے۔ میرا ہم زاد بڑا زبردست ہے نا۔ اس لئے۔ لیکن تمہیں کیا معلوم پھوپھی میں نے کہی بات انہیں کہ ۔۔۔۔۔۔۔“
اور بالا اسی طرح ایک قصہ چھیڑ دیتا۔ جس کے دوران وہ بار بار مسکراتا اور انہیں یوں سمجھانے کی کوشش کرتا جیسے دونوں بچے ہوں پھر جب رات پڑ جاتی تو وہ کتاب سامنے رکھ کر دیوار کے پار دیکھنے میں مصروف ہو جاتا۔ اسکی نگاہوں میں عجیب قسم کی دیوانگی جھلکتی۔
ایلی کو بالا کی طرف دیکھ کر ڈر لگتا تھا۔ اس لئے وہ کوشش کیا کرتا کہ اسکی طرف نہ دیکھے۔ دوسری جانب بالا کی چچی یوں بیٹھی رہتی جیسے کپڑوں کی گٹھڑی پر کسی ڈائن کا سر کاٹ کر رکھ دیا گیا ہو۔ اسکی نگاہیں بالا پر مرکوز رہتیں اور وہ مسلسل طور پر پیار بھری سیاہ دار نگاہوں سے اسے گھورتی رہتی۔ حتٰی کہ بالا کی آنکھیں بند ہو جاتیں اور سر کتاب پہ جھک جاتا اور ٹانگیں یوں بکھر جاتیں۔ جیسے معاملے سے بنے ہوئے باوے کا اندرونی تاگا لوٹ گیا ہو۔
اس پر دفعتاً کپڑوں کی گٹھڑی میں حرکت پیدا ہوتی اور چچی اٹھ کر بالا کے بکھرے ہوئے اعضا کو سمیٹتی اور بصد مشکل اس لاش کو گھسیٹ کر چارپائی پر ڈال دیتی۔ اس وقت ایلی سوچتا کیا یہ وہی بالا ہے جو فطرت کے تمام رازوں سے کماحقہ واقف ہے۔ کیا یہ بے ہوشی بھی کوئی راز ہے۔ یہ سوچتے سوچتے ایلی اونگھنے لگتا اور پھر چپکے سےاٹھ کر بستر پر لیٹ جاتا اور علی احمد کے قلم کی چراؤں چراؤں کو غور سے سننے میں مصروف ہو جاتا جو ملحقہ کمرے میں حسابات کے رجسٹر پر کرنے میں مصروف رہتے۔ ایلی کو خوف دامن گیر رہتا تھا کہ کہیں علی احمد یہ نہ پوچھ لیں۔ “ایلی تم ابھی سے سو گئے ہوکیا سارا دن آوارہ پھرتے ہو اور سر شام ہی پڑ کر سو جاتے ہو کیا کیا وجہ ہے۔“ لیکن علی احمد کو حساب کتاب لکھنے میں اس قدر دلچسپی تھی کہ وہ رجسٹر سامنے رکھ کر دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو جاتے تھے۔
آتشیں میزائل
رات کو خواب میں عجیب و غریب اشکال ایلی کے پیچھے دوڑتیں اور وہ ڈر کر بھاگتا۔ خوف سے اسکے رونگٹے کھڑے ہو جاتے۔ دل دھڑکتا۔ مگر وہ دوڑے جاتا۔ پھر بالا نہ جانے کہاں سے اسکے سامنے آ کھڑا ہوتا اور مسکراتا۔ اسکی مسکرائٹ کو دیکھ کر عجیب قسم کی ہمدردی سی محسوس ہوتی تھی۔ کوئی بات نہیں کوئی بات نہیں۔“ بالا مسکرا کر کہتا ٹھیک ہو جائے گا۔ بالا کا چٹا سفید ہاتھ ایلی کی طرف بڑھتا اور اسے تھپکنے لگتا۔ ایلی جاگ اٹھتا اور اپنے آپ کو کمرے میں دیکھ کر اطمینان کا سانس لیتا۔ پھر آہستہ آہستہ ازسرنو اس پر خوف مسلط ہونا شروع ہو جاتا۔ اندھیرے میں اسکا دم گھٹنے لگتا اور وہ آنکھیں بند کر کے پڑ جاتا۔۔۔۔۔۔۔ دفعتاً اسے محسوس ہوتا کہ کوئی چیز اسکے جسم سے چھو رہی ہے۔ آہستہ آہستہ حرکت کر رہی ہے۔
پہلی مرتبہ اس نے یہ محسوس کیا تھا تو وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھا تھا۔ وہاں کچھ بھی نہ تھا۔ صرف بالا کا بازو چارپائی تلے یوں لٹک رہا تھا۔ جیسے قصائی کی دوکان پر بکرے لٹکا کرتے ہیں۔ یہ بات تعجب خیز نہ تھی۔ لیکن اکثر بالا کے اعضا چارپائی سے لٹکا کرتے تھے۔ اس نے کئی مرتبہ اسکا بازو اور ٹانگ چارپائی تلے دیکھے تھے اور بالا کی چچی تو اکثر رات کے وقت چلایا کرتی۔ “ بالا تیری دوسری ٹانگ کہاں ہے۔ بالا کہاں ہے۔ تیری دوسری ٹانگ۔ پھر وہ اٹھ کر بالا کی دوسری ٹانگ سمیٹتی اور گٹھڑی بن کر بالا کی پائلتی کی طرف پڑ جاتی اور بالا اسی طرح سویا رہتا یا زیر لب مسکرا کر آنکھیں یوں بند کر لیتا جیسے نیند میں ہو۔
بالا کے جسم کے معتلق ایلی کے لئے دو تین باتیں عجیب تھیں۔ ایک تو اسکا جسم سفید اور ملائم تھا۔ جیسے عورتوں کا ہوتا ہے۔ دوسرے وہ بالوں سے خالی تھا۔ اسکے ہاتھ اس قدر حساس تھے کہ ایلی کو حیرت ہوتی تھی۔ انگلیاں مخروطی تھیں اور جلد پر یوں گلابی جھال سی چمکتی تھی جیسے نائلون کی باریک جھلی چڑھا رکھی ہو۔
اس روز بالا کا ہاتھ چارپائی سے لٹکتے دیکھ کر ایلی کو تعجب نہ ہوا تھا۔ بلکہ اس نے آنکھیں بند کر کے سو جانے کی کوشش کی تھی۔ لیکن اسے نیند نہ آتی تھی۔ نہ جانے نیند کو کیا ہو گیا تھا۔ کمرے کے اندھیرے سے نجات پانے کے لئے اس نے سیٹھ گردھاری لال کے متعلق سوچنا شروع کر دیاتھا۔ نہ جانے سیٹھ گردھاری لال کیسا ہو گا۔ اسکے سلفے کی چلم ساجو اور دو پٹاخہ۔ نہ جانے کون تھی۔ وہ ۔۔۔۔۔۔۔ جو دولت پور میں پٹاخہ سمجھی جاتی تھی۔ کوئی ہو گی۔ پڑی ہوا کرے۔ ایلی نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ دفعتاً اس نے پھر وہی لمس محسوس کیا۔ وہی جنبش جیسے کوئی مخملی بیر بہوٹی چل رہی ہو۔ وہ پھر چونکا۔ بیر بہوٹی رک گئی۔ لیکن کچھ دیر کے بعد پھر سےچلنے لگی۔ اگرچہ وہ جنبش چونکا دیتی تھی۔ لیکن اس قدر مدھم تھی۔ وہ لمس اس قدر مخملی تھا کہ ایلی میں عجیب سی لذت بیدار ہو رہی تھی۔ جیسے رنگین جھولنے چپکے سے اسکی رضائی میں گھس گئے ہوں۔ بیر بہوٹی کی ہر جنبش پر وہ بدکتا اور اسکے بدکتے ہی وہ جھولا رک جاتا۔ وہ لمس جامد ہو کر رہ جاتا لیکن اس گھبرائٹ کے باوجود ایلی کا جی چاہتا کہ وہ جنبش پھر رواں ہو جائے وہ بیر بہوٹی پھر چلنے لگی۔ اس لمس کی وجہ جاننے کیلئے اس نے رضائی سے باہر دیکھنے کی خواہش محسوس کی تاکہ اسے معلوم ہو کہ بالا کا بازو کیا وہیں لٹک رہا ہے۔ لیکن چین اس وقت وہ جنبش پھر رواں ہو چکی تھی۔ ایلی نے رضائی سے منہ نکال کر باہر دیکھنے کی خواہش کو دبا لیا کہ ہلنے کی وجہ سے وہ بیر بہوٹی رک نہ جائے۔
بیر بہوٹی سرک رہی تھی۔ سرک رہی تھی۔ اسکے جسم کے ایک انجانے مرکز سےچاروں طرف لہریں اٹھ رہی تھیں۔ وقت گویا تھم چکا تھا۔
پھر دفعتاً ایک گرداب اٹھا۔ وہ ہلکی ہلکی لہریں ایک عجیب سے طوفان میں بدل گئیں۔ ایک آتشیں میزائل فضا میں بلند ہوا اور پھر ایٹم بم کی طرح پھٹ گیا۔چاروں طرف چنگاریاں اڑ رہی تھیں۔ ستارے ٹوٹ رہے تھے۔پھر گھٹا گھوپ اندھیرا چھا گیا اور ایلی نے محسوس کیا جیسے وہ ایک ٹوٹی ہوئی کشتی میں بہے جا رہا ہو اور چاروں طرف تھکی ہاری لہریں رینگ رہی ہوں۔
اس روز پہلی مرتبہ اسے اس تلاطم کا تجربہ ہوا تھا۔پہلی مرتبہ اسے معلوم ہوا تھا کہ اسکی اپنی شخصیت میں رنگین طوفان پنہاں ہیں۔ اگلے روز وہ بالا کے ہاتھ کو بڑے غور سے دیکھ رہا تھا۔ کتنا شفاف ہاتھ تھا وہ کس قدر مخملیں۔ اسے دیکھ کر ایلی کو بیک وقت نفرت اور دلچسپی محسوس ہو رہی تھی۔ نفرت کا احساس غالب تھا۔ مگر اس نفرت کے باوجود رات کی تاریکی میں اس چھائی ہوئی خاموشی کے پس منظر پردہ مخمل لمس رواں دواں ہو جاتا تو اسے محسوس ہوتا گویا کسی بربط کے تار لرز رہے ہوں۔ اس وقت وہ پہلو بدل کر اپنے آپ کو محفوظ کر لیتا۔ لیکن جلد ہی انجانے میں وہ کروٹ بدلتا۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر مخملی لہریں بڑھ کر طوفان کی شکل اختیار کر لیتیں افق پر خونی چھینٹے اڑتے ایک میزائل شوں سے آسمان کی طرف لپکتا۔ پھر دیر تک طوفان زدہ سمندر کی ویرانی میں وہ لکڑی کے ٹوٹے ہوئے تختوں پر پڑا ڈبکیاں کھاتا اور کسی انجانے احساس سے شرابور ہو جاتا۔ دن بھر وہ کالج سے متعلقہ مشاغل میں مصروف رہتا۔ شدت سے مصروف رہتا تاکہ اسکے ذہن میں بالا کا خیال نہ آئے۔ بالا کے روبرو جانے سے بھی اسے سخت تکلیف ہوتی تھی۔ روحانی تکلیف۔ بالا اسکے ذہن میں ایک رستے ناسور کی حیثیت اختیار کر چکا تھا۔ لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔
پیس میموریل
دولت پور کا کالج ایک وسیع احاطے میں طویلا نما عمارت میں واقع تھا۔ احاطے کے چاروں طرف ایک منزلہ کمرے بنے ہوئے تھے۔ جن کے ساتھ ساتھ ایک برامدہ چلا گیا تھا اور درمیان میں ایک وسیع و عریض صحن تھا۔ جس میں دو ایک پلاٹ دو ایک ٹینس اور بیڈمنٹن کے کورٹ تھے اور درمیان میں کنکر بچھے ہوئے راستے بنے ہوئے تھے۔
احاطے کا شرقی پہلو تعلیم و تدریس کیلئے مخصوص تھا اور باقی تین پہلوؤں میں بورڈنگ طلبا کے رہائشی کمرے تھے جو زیادہ تر خالی پڑے رہتے۔
اس کالج کی حیثیت محض ایک سکول کی سی تھی۔ احاطے کے دونوں پھاٹکوں میں سٹولوں پر بیٹھے چوکیدار اونگھتے۔ کالج ونگ کے برآمدے میں ڈھیلے ڈھالے چپڑاسی ہاتھوں میں کاغذ تھامے ننگے پاوں یوں گھومتے پھرتے جیسے بھکشو چل رہے ہیں۔ دفتر میں لالہ رام لال ہیڈ کلرک چشمہ ناک کی چونچ پہ رکھے بڑے بڑے رجسٹروں میں اندراج کرنے میں مصروف دکھائی دیتے۔ انکے اردگردکم سن کلرک حساب کتاب کے کھاتے کھولے بیٹھے رہتے۔
جماعتوں میں پروفیسر گنگنی آواز سے پڑھاتے اور لڑکے بینچوں پر بیٹھ کر اونگھتے۔ بورڈنگ کے ویران کمروں میں الگینوں پر دھوتیاں لنگوٹیاں اور پرنے سوکھتے۔رسوئی میں سال کی کڑاہیاں بجتیں۔ چولہے سے پھلکے اڑتے اور باہر بچھی ہوئی ڈائیننگ ٹیبل پر لڑکوں کے بے صبرے ہاتھ انہیں کیچ کرنے کیلئے بڑھتے۔
دولت پور کالج کا نام پیس میموریل کالج تھا جو کسی بڑے سیٹھ نے لوک رکشا کے لئے جاری کیا تھا۔ شاید اسی لئے کالج میں پیس صلح اور شانتی کے سوا کچھ نہ تھا۔لڑکے شانتی سے اونگھتے۔ چپڑاسی آواز پیدا کئے بغیر برآمدوں سے چلتے پھرتے۔ دفتر میں ہیڈ کلرک کے قلم کے چراؤں چراؤں کے سوا کوئی آواز پیدا نہ ہوتی۔
اس پیس میموریل کالج میں صرف ایک گروپ ایسا تھا جو اس چھائی ہوئی خاموشی کوتوڑنے کی کوشش کرتا۔ لیکن بسا اوقات انکی یہ کوشش بری طرح سے ناکام ہو جاتی۔ یہ گروپ دولت پور کے شہر کے مسلمان لڑکوں کا تھا۔
شہر کے لڑکے صبح سویرے اپنی بائیسکل سنبھالتے اور چھاؤنی کی طرف چل پڑتے جہاں کالج واقع تھا۔ شہر سے نکلتے تو تعداد کے لحاظ سے ایسا معلوم ہوتا جیسے سائیکلوں کا ایک جلوس نکلا یا سائیکلوں کی ریس ہو رہی ہے۔یہ جلوس گپیں اڑاتا۔ شور مچاتا۔ شانوں پہ ہاتھ رکھے ہینڈل چھوڑے قطار در قطار چلے جاتے۔ ان کے اس طور پر چلنے سے چھاؤنی اور شہر کے درمیان کی سڑک کا ٹریفک رک جاتا۔ ٹانگے والے چیختے رہتے بابو۔ بچ کے بابو۔ بیل گاڑی والے چلاتے۔ ٹریفک کے سپاہی سیٹیاں بجاتے۔ ویران کوٹھیوں میں سے صاحبوں کے کتے نکل کر بھونکتے۔ لیکن وہ جولس بے نیازی اور بے پروائی سے چلے جاتے۔
انکی زبانیں قینچیوں کی طرح چلتی تھیں۔ نگاہیں گوند کی طرح چپک جاتیں۔ چہروں سے شوخیاں جھلکتیں بھووں میں مستیاں لہراتیں۔ ہونٹوں پر مسکرائٹیں ابھرتیں۔ ایک دوسرے کولمڈا بنانے کی کوشش کرتا۔ دوسرا دل پھینک عاشق کا روپ دھار لیتا۔ ایک شریف کی سی آنکھیں بناتا۔ دوسرا علی احمد کی طرح میدان میں آکودتا۔
ایک کہتا“کیوں میری جان دیکھو گے یا مار ہی ڈالو گے۔“
دوسرا کہتا۔“ کیوں بے سالے ہماری بلی اور ہمیں سے میاوں۔“
“کیوں سالے۔ ہم سے تو چھپتا ہے اور دوسروں سے آنکھیں لڑاتا ہے۔“
“بھئی ہم تو سرکار کے نوکر ٹھہرے“
“ تو مشق ناز کر بے خون دو عالم ہماری گردن پر۔“
“ ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں۔ جان من۔“
ہر کسی کو شوق تھا کہ وہ عاشق کا رول ادا کرے اور دوسرے کو معشوق بنا کر رکھ دے۔ دولت پور کے لڑکوں کا صرف یہی ایک مذاق تھا۔ ان کے پاس بات کرنے کے لئے صرف یہی ایک موضوع تھا۔ جسے بات کرنی آتی تھی۔ جو چوٹ کر سکتاتھا۔ فی البدیہہ چست جواب دے سکتا تھا،وہ ہیرو بن جاتا اور جو لڑکے ازلی طور ہر گونگے تھے وہ نکو بن کر رہ جاتے۔
ایلی ازلی طور پر ایک گونگا لڑکا تھا۔ اسی وجہ سے اس کے لئے انکی باتیں بے حد پریشان کن ہوتی تھیں۔ اور وہ جلوس خاصہ اذیت دہ۔ اس لئے وہ اکثر کوشش کرتا کہ ایسے وقت کالج جائے جب لڑکوں کے جلوس میں شامل ہونے کا ڈر نہ ہو۔
یہ جلوس جب کالج کے دورازے پر پہنچتا تو اور بھی شور مچاتا۔ لیکن انکا وہ شور بے جان ہو کر رہ جاتا کوشش کے باوجود اس میں تسلسل پیدا نہ ہو سکتا۔ اس راہب خانہ نما احاطے میں عجیب خصوصیت تھی۔
اس احاطے میں بڑی سے بڑی شوخ بات بے جان ہو کر وہ جاتی۔ بڑی سے بڑی پھبتی فلیٹ ہو جاتی جیسے صحرا میں جھاڑیوں کی سبزی خشک ہو کر اڑ جاتی ہے۔
یہ جلوس احاطے میں داخل ہوتے ہی بے جان ہوجاتا۔ لڑکوں کے ہونٹ خشک ہو جاتے۔ انکے حلق کی آوازیں جم جاتیں اور وہ چپ چاپ کلاس روم میں بیٹھ کراونگھنے لگتے اور چھٹی کا انتظار کرتے تاکہ ایک بار پھر حرکت کر سکیں۔
پیس میموریل کے پروفیسر بھی عجیب تھے۔ ان میں شوخی یا بانکپن نام کو نہ تھا انکے لباس بھڑکیلے نہیں بلکہ بدرنگ تھے۔ انکی حرکات اس حد تک مدھم تھیں جیسے سلوموومنٹ پر فلم چل رہا ہو۔ انکی آوازیں احاطے کی خاموشی کو تقویت دیتی تھیں۔ انکے لیکچروں میں بھی علمینمائش مفقود تھی۔ لیکچر دیتے تو یوں محسوس ہوتاجیسے معلومات کا پرچار کرنے کے بجائے وہ اپنے علم کے عجز کا اظہار کر رہے ہوں۔ لڑکے انکے اس انداز پر تمسخر سے ہنستے تھے۔ اگرچہ چوری چوری ہنستے تھے۔ لیکن پروفیسروں کے برتاؤ کو محسوس کر کے ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کالج کی جگہ وہ ایک بودھی راہب خانہ ہوجہاں لوگ علم کی بجائے شانتی کا اپدیش سیکھ رہے ہوں۔
ایلی کے لئے وہ کالج خوش کن نہ تھا۔ ہاں اتنا ضرور تھا کہ وہاں احساس کمتری کی وجہ سے اسے بھاگنے کی ضرورت محسوس نہ ہوتی تھی۔ اس لئے وہ کالج میں باقاعدہ جاتا۔ اگرچہ اس نے کبھی پروفیسر کے لیکچر کی طرف دھیان نہ دیا تھا۔ جماعت میں وہ اونگھتا۔ ریسیس میں لڑکوں کی باتیں سنتا اور خالی پیریڈ میں انہیں کسی ویران کمرے میں تاش کھیلتے ہوئے دیکھتا رہتا یا کالج سےنکل کر چھاؤنی کے بازاروں میں گھومتا۔
کالج کے بند ہونے کے بعد وہ سیدھا گھر آتا۔ لیکن جوں جوں وہ گھر کے قریب پہنچتا اسکا دل بیٹھنے لگتا نہ جانے علی احمد کے کمرے میں کون ہو گی۔ نہ جانے شمیم کی بچیاں صحن میں بیٹھی کیا کر رہی ہونگی۔ سارے گھر میں کوئی کونہ بھی تو ایسا نہ تھا جہاں وہ الگ تنہائی میں بیٹھ سکتا ہو۔
کچی گری
پھر دولت پور میں پنکھے کے میلے کا دن آگیا۔ شہر کے پنواڑیوں کی دوکانوں پر بھیڑ لگ گئی۔ لوگ پان کھاتے پیکیں تھوکتے ایک دوسرے پر فقرے کستے۔ مذاق اڑاتے اور بالاخرشہر کے سیٹھوں اور پٹاخوں کے متعلق بات شروع کر دیتے۔
" کیوں بھئی غلام محمد کون کون آ رہی ہے اب کے پنکھے کے میلے ماں۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
" اپنی زہرہ ہے دلی والی۔ علی جان ہے اور پٹیالے کی نرالی بانو ہے۔"
"بڑی اچھی اچھی آئیں گی۔ اب کی بار بڑا ٹھاٹھ رہے گا۔ تو دیکھیو تو۔"
"کیوں رے بڑا تان سین آیا ہے تو سمجھنے والا راگ ودیا کا۔"
"اچھا خاصہ تو گاتی ہے وہ اور جب ہاتھ اٹھا کر کولہے مٹکاتی ہے تو دیکھ لیحو تیرے جیسوں کے دل کو نہ ہوا کچھ کچھ تو کہنا۔"
"ارے یار تو بھی بس لفاٹو ہی رہا۔ یہاں گانے میں اپنی زہرہ کا جواب نہیں اور پھر دیکھنے میں بھی تو چھپن چھری ہے نری۔"
"ہونہہ دیکھنے میں تو وہ ہے جو آج کل شہر کی آنکھ کا تارہ بنی ہوئی اے اور بھئی ہے بھی یوں سمجھ لو کچی گری۔۔۔۔۔۔۔۔ رضائی میں پڑ کر چباتے رہو۔ہاں۔"
پھر وہ سب اس کچی گری کو چبتے اور اپنے تخیل میں کھو کر پان کی پیک نگل جاتے اور پھر کھانستے اور چلاتے۔
"کیوں بھائی غلام محمد بڑا تیج ہے۔ تیرا تمباخوکہاں سے منگوایا ہے اب کی مرتبہ۔"
غلام محمد ایک شان بے نیازی سےچلاتا" ابے کیا سمجھا ہے تو نے اپنی دوکان پر چیج وہ آتی ہے۔ جو اول درزے کی ہو۔ ہاں۔"
میلے کے دن شہر میں گھومتے ہوئے راج چوک میں مرزا کی دوکان کے قریب ایلی انکی باتیں سن کر ٹھھکا۔
"ابے وہ سامنے تو ہے وہ شیخ کی دوکان کے اوپر جھرمٹ لگا ہے نا اس میں تو غور سے تو دیکھ۔ آنکھیں ہیں تیری یا بٹن جو کہ دیکھنے کی چیج رکھتی ہی نہیں۔"
" وہ تو اپنی بالیاں والی ہے۔ پٹاخہ کہاں رکھتا خود کو نہیں الٹا ہمیں جھٹلائے ہے۔"
"ہاں ہاں بالیاں والی کے ساتھ ہی تو ہے۔ بائیں ہاتھ کو ابے کیا ابھی سےآنکھوں پر چنا آگیا۔ کہا جو ہے تجھ سے بیسیوں بار چھوڑ دے یہ جیادتیاں۔ اندھا ہو کر راج چوک میں لاٹھی نہ ٹیکی تو نے تو اپنا نام مرجا نہیں۔"
ایلی غور سے دوکان کی چھت پر بیٹھی ہوئی عورتوں کو دیکھ رہا تھا۔ جہاں بھڑکیلے سستے کپڑے پہنےچند سانولی عورتیں بیٹھی تھیں۔ جن کے انداز میں نمائش کے علاوہ عریانی کی جھلک تھی۔ تو نے محسوس کیا۔ جیسے وہ سب بکاؤ ہیں۔ جنہیں سستے داموں خریدا جا سکتا ہو۔ تو کیا یہی تھی وہ دولت پور کی پٹاخہ جو ہوائی بن کر چھوٹی ہوئی تھی شہر میں۔
"دیکھ لیا۔" مرزا قہقہہ مار کر ہنسا " بڑے جوروں میں ہے آج کل یہ لمڑیا۔ اپنی لطیفن کی لمڈیا ہے یہ اے وی لطیفن جو منڈی میں دانے چھانتی ہے۔ اپنے سیٹھ مجید الرحیم کی دوکان پر تین بہنیں ہیں۔ بڑی نے سیٹھ گردھاری لال کو سنبھال رکھا ہے اور"
"اور کیا بے سلفے کی لاٹ کو کون نہیں جانتا۔ جانتا ہوں اسے اچھی طرح یوں۔"
"پر یار اس جالم پٹاخہ نے چکر دیا ہے سارے شہر کو۔"
ایلی حیرانی سے انکی طرف دیکھ رہا تھا۔ اسکی سمجھ میں نہیں آتا تھاکہ لوگ کس معیار سے انہیں پرکھتے تھے۔ نہ جانے کس نقطہ نظر سے انہیں عورتیں حیسن نظر آتی تھیں۔ دولت پور کے پنواڑیوں کی بات تو خیر الگ تھی۔ اپنے علی احمد کے خیالات بھی اس سلسلے میں عجیب تھے۔ ایلی کی سمجھ میں کچھ نہ آتا تھا۔ وہ چھپ چھپ کر ان عورتوں کو گھور رہا تھا جو شیخ کی دوکان پر بیٹھی پنکھوں کے جلوس کا انتظار کر رہی تھیں۔
"تو یہاں کیا کر رہا ہے؟" علی احمد کی آواز سنکر وہ چونکا۔
"جی۔جی۔ یونہی دیکھ رہا تھا۔"
"اس طرح پاگلوں کی طرح ادھر ادھر نہیں دیکھا کرتے۔" علی احمد نے کولہوں پر ہاتھ رکھ کر شیخ کی دوکان پر بیٹھی ہوئی عورتوں کی طرف انہماک سے دیکھتے ہوئے کہا۔
"اچھا تو ابھی جلوس یہاں نہیں پہنچا ہوں۔" انہوں نے ایلی کی طرف دیکھے بغیر کہا۔ " ابھی دیر میں پہنچے گا یہاں ہوں۔"
پھر وہ اس طرح کولہوں پر ہاتھ رکھے وہاں ٹہلنے لگا۔ علی احمد نے نہ جانے کیا کیا۔ شیخ کی دوکان پر بیٹھی عورتوں میں سے ایک نے بامعنی انداز سے دوسری کو کہنی ماری اور پھر مسکرا کر اٹھ بیٹھی۔ اسے اٹھتے دیکھ کر علی احمد بولے۔ "آو ایلی ذرا ادھر سے ہو آئیں۔اس طرف۔" اور وہ ایلی کو لے کر چوک کے عقب کی اندھیری گلی میں گھس گئے اور ایک جگہ رک کر گویا کسی کا انتظار کرنے لگے۔
ان گلیوں میں عورتوں کے گروہ ادھر ادھر جا رہے تھے۔۔۔۔۔۔ نہ جانے کیوں ایلی کو دولت پور کی عورتوں سے گھن آتی تھی۔ انکا انداز چال ڈھال،طور طریقہ گھٹیا قسم کا تھا۔ وہ عجیب کپڑے پہنتی تھیں۔ سستے اور بھڑکیلے ان کی حرکات میں کوئی حسن نہ تھا۔۔۔۔۔۔۔ انکا انداز تکلم تو بالکل ہی گنوارپن کا مظہر ہوتا۔ سب کے بڑھ کر یہ کہ انکا رنگ عموماً کالا تھا اور کالے رنگ سے ایلی کو قطعی دلچسپی نہ تھی۔
بلوری پاؤں
دولت پور میں کہیں کہیں سفید رنگ کے لوگ بھی نظر آتے تھے مگر انکی تعدار بہت کم تھی مثلاً علی احمد کے چوبارے کے سامنے جو بیٹھا بیٹھا گھر سا کچا گھر تھا۔ اس میں وہ لڑکی جو کبھی کبھار کوٹھے پر چڑھا کرتی تھی اور پردوں کے پیچھے چھپ چھپ کر بیٹھا کرتی تھی اسکا رنگ کتنا سفید تھا۔ اسکے انداز میں نمائش کا نشان تک نہ تھا۔ پہلی مرتبہ جب ایلی نے اسے دیکھا تھا تو وہ حیران رہ گیا تھا۔ پردے کی جالیوں کے پیچھے دو بلوری پاؤں گویا بڑی نفاست سے چارپائی پر رکھے ہوئے تھے اور ان کے روبرو دو مخروطی ٹانگیں جو میلے لٹھے کے پاجامے میں ملبوس تھیں۔ ایلی نے پہلی مرتبہ پاجامے کے حسن کو محسوس کیا تھا۔ چوڑی دار پاجامہ تو اس نے اکثر دیکھا تھا مگر اسے دیکھ کر نفرت محسوس ہوئی تھی۔ جیسے وہ پتلے پتلے بانسوں پہ چڑھا ہو۔
دولت پور کی عورتوں کا انداز اتنا بھدا تھا۔ انکی حرکات اس قدر بے ڈھب تھیں۔ انکی نگاہیں حجاب سے اس قدر بے بہرہ تھیں کہ ایلی نے انکے لباس کی خوبی پر کبھی غور ہی نہ کیا تھا۔ اسی لئے اس روز اس لڑکی کو دیکھ کر وہ حیران رہ گیا تھا۔ کتنی متناسب ٹانگیں تھیں اور پھر بلوری پاؤں پھر دفعتاً ایک سریلی دبی دبی آواز میں گونجتی۔ "آتی ہوں۔" اور وہ جھک کر چھپتے چھپتے پردوں کی اوٹ لیتی ہوئی غائب ہو گئی تھی۔
ایلی کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ اس اندھیری گلی میں ان آتے جاتے جامنی سایوں کو دیکھنے سے علی احمد کا مقصد کیا تھا۔ وہ وہاں کس لئے کھڑے ہر آتے جاتے کو تاکنے کی بے معنی کوشش میں مشغول تھے۔
میلہ
"تم ہو بابو جی۔۔۔۔۔" قریب ہی سے آواز آئی۔ ایلی چونکا۔
اندھیرے میں علی احمد کے دانت چمکے۔ " تم آ گئیں۔ ہی ہی ہی۔" ٹین کا سپاہی اپنے مخصوص انداز میں ہنسا۔
"پھر تم نے جو اشارہ کیا تھا۔" ربڑ کی گڑیا کی آنکھوں کی سفیدیاں چمکیں۔
"ہی ہی ہی۔۔۔۔۔۔۔ تو تو نے دیکھ لیا۔۔۔۔۔۔۔" وہ بولے۔ " میں تو سمجھا تھا شاید۔ ہی ہی ہی۔"
"کیسے نہ دیکھتی۔" وہ چمک کر بولی۔
اسکا دھیان تو تمہاری طرف ہی لگا رہتا تھا۔ قریب ہی چادر میں لپٹا ہوا ایک مرد گنگنایا۔ اسکی آواز سے سیلزمین شپ کی بو آتی تھی۔
"تو خواہ مخواہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔" وہ لاڈ سے غرائی۔ " تو نہ بول بیچ ماں۔"
علی احمد یوں ہنسے جا رہے تھے۔ جیسے انکی شان میں قصیدہ پڑھاجا رہا ہو۔ "اچھا تو ۔۔۔۔۔۔" وہ بولے "چلے گی اب۔"
"اب۔۔۔۔۔" وہ چونکی۔ " نہ بھئی ہم تو پنکھا دیکھ کر جاویں گے۔"
"بڑی متوالی ہے پنکھے کی۔" سیلز مین ہنسا۔
" متوالی ہی تو ہے۔" ٹین کے سپاہی نے گویا پھر وار کیا۔
"میلہ دیکھ کر پہنچوں گی۔ ہاں۔ سچی بات کہوں گی۔"
"میلہ تو تم خود ہو۔" علی احمد قہقہہ مار کر ہنسے۔ " دنیا دیکھ رہی ہے۔"
"اوں۔جھوٹ۔" اس نے لاڈ سے گویا شکایتاً کہا کوئی بھی تو نہیں دیکھتا۔"
"ہی ہی ہی۔" وہ ہنسے۔ " وہ تو انگلیاں اٹھا رہے تھے۔ تمہاری طرف۔"
"پڑے اٹھائیں۔ اپنی بلا سے۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ میری چیج لائے ہو۔"
ٹین کے سپاہی کا قہقہہ یک دم موقوف ہو گیا۔ "اوہ مجھے یاد نہیں رہا۔" وہ سنجیدگی سے بولے۔
"وہ کیوں یاد رہنے لگا۔" وہ بگڑ کر بولی۔
"بھیج دیں گے۔ بگڑتی کیوں ہو۔"
"کیوں نہ بگڑوں بس ایک ہی بات یاد رہتی ہے تمہیں۔"
"ایلی کے ہاتھ بھیج دوں گا۔ یہ ایلی ہے میرا لڑکا۔"
"اچھا تو یہ ہے ایلی۔" وہ لاڈ سے چلائی۔ "پڑھتا ہے تو۔"
صبح مل لینا اس سے اپنی چیز بھی لے لینا۔" علی احمد بولے۔ "چلو ایلی۔"
اس کے جانے کے بعد وہ بولے "چلو تمہیں میلہ دکھا دیں۔" دیکھو گے نا۔"
اگلے روز صبح سویرے ہی علی احمد نے ایلی کو آواز دی اور اس کے ہاتھ میں ایک دس کا نوٹ دیکر ایک گھٹڑی سے تھما دی۔ "یہ ادھر لےجا۔" وہ بولے۔ " غلام محمد چپڑاسی باہر کھڑا ہے وہ تمہیں ساتھ لے جائے گا۔ نوٹ جیب میں ڈال لو گر نہ جائےاور یہ گھٹڑی اسے دے دینا غلام محمد کو وہ اٹھا لے گا۔ سمجھے۔ غلام محمد۔" انہوں نے چپڑاسی کو آواز دی۔ " ایلی کو ادھر لے جاو۔"
ادھر کا نام سن کر شمیم تڑپ اٹھی۔ اسکی ناک پر حقارت آمیز جنبش ہوئی اور وہ گویا انتقاماً پچھواڑے کی کھڑکی میں جا کھڑی ہوئی۔ جس کے عقب میں کوٹھے پر وہ نوجوان کھڑا انتظار کیا کرتا تھا۔ اس نے اپنا دوپٹہ جھنجھوڑ کر پھینک دیا۔ اس کے ہونٹوں پر ایک بامعنی مسکراہٹ پھیل گئی۔ باہر میاں کھانس رہے تھے۔کھڑکی میں بیگم مسکرا رہی تھی۔ پلنگ پر پڑی ہوئی بچی ماں کی طرف دیکھ کر رو رہی تھی اور ننھی فاطمہ چاروں طرف غور سے دیکھ رہی تھی۔ جیسے گردوپیش کے حالات سے آشنا ہونے کی کوشش کر رہی ہو اور ایلی اچھلتے ہوئے دل سے سیڑھیاں اتر رہا تھا۔
جونکیں اور جسم
بازاروں اور گلیوں کا ایک لمبا چکر کاٹ کر ایلی کا رہبر ایک معمولی سے مکان میں داخل ہوا۔
صحن میں ایک سیاہ فام بڑھیا جھاڑو دے رہی تھی۔ اسکے کپڑے پھٹے ہوئے تھے۔ چہرہ ابلے ہوئے انڈے کی طرح جامد و ساکت تھا۔ پیشانی پر شکن تھے، انہیں داخل ہوتا دیکھ کر وہ رک گئی اور بے باکانہ طور پر انہیں گھورنے لگی۔ پھر کولہوں پر ہاتھ رکھ کر یوں کھڑی ہو گئی جیسے ہاتھ کی جھاڑو سے تواضع کرنے کیلئے تیار ہو۔
"آ گئے تم۔" بڑھیا غرائی۔
"کون ہے ماں" اندر سے آواز آئی۔ماں۔ایلی گھبرا گیاکیا یہ اسکی ماں تھی۔ماں
"تیرے ہی کچھ ہوں ہے مجھے کیا مالوم۔" وہ غرائی۔
"ابے گرمی کیوں کھا رہی ہے تو ماں۔"
"گرمی تو تیری ٹھنڈی ہونے میں نہیں آتی۔"
"تو تجھے کیا تخلیف ہے تو مکے کی حاجن بن کر بیٹھ رہ آرام سے۔"
"لہو لگا ہوا ہے تجھے لہو، اندھی ہو رہی ہے ہر آتے جاتے سے بخر ملاتی ہے۔" بڑھیا چیخنے لگی۔
"اوہ غلام محمد تو ہے۔ آجا ۔اندر آجا۔" کمرے سے کسی نے جھانک کر کہا۔
"بس لگاتی جا تو سینے سے۔" بڑھیا غرائی۔ " اور تیرا کام ہی کیا ہے مجھے کیا معلوم تھا کہ گود میں کتیاں پال رہی ہوں۔ کتیا یہ سب اس حرامی ساجو کا کام ہے اس شکارن نے سب کے منہ لہو لگا دیا۔ لہو چوستی ہیں۔ لیکن کب تک۔" اسکے منہ سے کف جاری تھا۔
"بڑی گرم ہے بڑھیا آج راجو۔" غلام محمد نے آنکھیں جھپکا کر کہا۔
"اسکا کیا ہے، یونہی بولتی بکتی رہتی ہے۔" راجو نے نخرے سے جواب دیا۔ غلام محمد اس سے قریب تر ہو گیا۔ اسکی نگاہوں میں عجیب سی چمک تھی۔ ایسی چمک جو کسی چپڑاسی کی آنکھ میں نہیں ہوتی۔
"ساجو کو کوستی ہے۔" وہ ہنسا " تجھے نہیں۔"
راجو نے ایک انداز سے زبان ہونٹوں میں لے لی اور دوسرے کونے میں بیٹھی ہوئی عورت کی طرف دیکھا۔
دوسرے کونے میں ایک پست قد فربہ سیاہ فام عورت چارپائی پر بیٹھی پان لگا رہی تھی۔ اسکی انگلیاں انگوٹھیوں سے لدی ہوئی تھیں۔ ابھرے ابھرے گالوں میں یوں رینگ رہی تھیں۔جیسے ڈبل روٹی میں سیاہ دراڑیں پڑی ہوں۔
"ابھی ساجو کا کیا دیکھا ہے اس بڑھیا نے۔" وہ بولی " ابھی تو دیکھے گی۔ غضب خدا کا اسے گھی کی روٹی ہضم نہیں ہوتی۔ سوکھے ٹکڑوں کے بغیر جی نہیں سکتی یہ۔"
ساجو کے ابھرے ہوئے گالوں اور موٹی انگلیوں پر گویا جلی حروف میں حرص و ہوس کندہ تھا۔ اس کے ہونٹوں کو دیکھ کر ایلی محسوس کر رہا تھا۔ جیسے جونکیں ہوں۔ نہ جانے کیوں ایلی کو لگ رہا تھا۔ جیسے ساجو سرخ گوشت کا ایک لوتھڑا ہو۔
اسکے قریب ہی سب سے چھوٹی بہن آجو بیٹھی تھی۔ جیسے کسی سوکھے درخت سے ٹوٹی ہوئی شاخ ہو۔ اسکے چہرے پر اداسی برس رہی تھی۔خدوخال سے ظاہر ہوتا تھا جیسے اپاہج ہو۔ہاتھ ٹنڈ سے تھے۔ جیسے انگلیاں ٹوٹی ہوں۔عمر بہت چھوٹی تھی لیکن چہری معصومیت سے خالی تھا۔
ان تینوں میں صرف راجو کو ہی برداشت کیا جا سکتا تھا۔ لیکن پھر بھی جوانی کے سوا اس میں کیا تھا اور جوانی بھی وہ جو نسائیت اور معصومیت سے یکسر خالی تھی۔ ایلی نے وہ نوٹ جیب سے نکال کر راجو کے سامنے رکھ دیا۔ساجو نے نوٹ دیکھ کر سر اٹھایااور پھر منہ بنا کر بیٹھ گئی۔
غلام محمد نوٹ دیکھ کر مسکرایا بولا " میرا حصہ ری۔"
"تیرا حصہ۔" راجو نے پیار بھری نظر اسکی طرف ڈالی اور پھر اپنی طرف یوں دیکھا جیسے اسکا حصہ سمجھ رہی ہو۔
"اور ہمارا نام ہی نہیں لیتا کوئی۔" زمین پر بیٹھے ہوئے سیلزمین نے اپنی چادر اتار کر مسکرا کر کہا۔
"بڑا سیٹھ مارا ہے نا اس لئے۔" ساجو نے ہاتھ چلا کر نفرت بھرے انداز میں کہا۔
دفعتاً ایلی کو یاد آیا ساجو۔ سلفے کی لٹ ساجو۔ سیٹھ گردھاری لال کی ساجو۔۔۔۔۔۔ اور اس نے پھر سے غور سے ساجو کی طرف دیکھا۔ کیا سیٹھ اس طرح کی داشتہ رکھتے ہیں۔ جو عام لوگوں کے سامنے ننگی بیٹھنے سے نہیں گھبراتی۔ پھر اس نے راجو کی طرف دیکھا۔ دولت پور کی پٹاخہ راجو۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی دانست میں تو وہ چلا ہوا پٹاخہ تھی اور اسکی حرکات و سکنات ۔۔۔۔۔۔۔ اسکا جی چاہا کہ اٹھ کر بھاگ لے اور صحن میں جا کر اس بڑھیا کے ساتھ مل کر چلائے۔
وہ اٹھ بیٹھا " میں اب جاتا ہوں۔"
"لے پان تو کھا جا۔ " ساجو نے بازاری انداز میں للکارا۔
آجو سہم کر کونے میں لگ گئی اور راجو مسکراتی ہوئی آگے بڑھی۔ " یہاں آیا کرنا تیرا اپنا گھر ہے یہ۔"
باہر بڑھیا چیخ رہی تھی۔ " حرام کاری کی لت پڑی ہے۔ انہیں خون چوسنے کا مزہ پڑ گیا ہے۔جونکیں ہیں جونکیں۔"
نہ جانے بڑھیا کی بات نے ایلی پر کیا اثر کر دیا کہ گھر لوٹتے ہوئے تمام منظر ہی اسکی نگاہوں میں بدلا ہوا تھا۔ دوکانوں پر بیٹھے ہوئے لالے یوں دکھائی دے رہے تھے جیسے مکڑے شکار کی تاک میں بیٹھے ہوں۔ سودا بیچتے ہوئے بھابڑے چادر میں لپٹے ہوئے سیلزمین کی طرح مسکرا رہے تھے۔تماش بینوں نے اپنی نگاہوں کے جال بچھا رکھے تھے۔
پنواڑیوں کی دوکان پر مسکراتے ہوئے کھجاتے ہوئے انسان پلپلے کپڑوں کی طرح ایک دوسرے کو اپنے لعاب دہن میں پھنسا رہے تھے۔گھر میں علی احمد حساب کے رجسڑوں کا خون چوس رہے تھے اور کھڑکی میں کھڑی شمیم یوں حسرت سے ان ویران کوٹھوں کی طرف دیکھ رہی تھی۔ جو چوبارے کےعقب میں صحرا کی طرح پھیلے ہوئے تھے۔جیسے وہ اسی بات کی متمنی ہو کہ کوئی جونک اپنے ہونٹ اس پر گاڑ دے۔ اسکے سر پر آسمان نیلے بازو پھیلائے ایک عظیم گدھ کی طرح چھایا ہوا تھا۔ایلی محسوس کر رہا تھا جیسے وہ خود ایک جونک ہو جسے خون چوسنے کیلئے کسی جسم کی تلاش ہو۔
جب ایلی گھر پہنچا تو بالا قیمتی پتھروں کا ڈبہ کھولے بیٹھا تھا۔" ہاں بھائی صاحب یہ لعل ہے۔ چاندنی میں یہ پکھراج بدل جاتا ہے اور پھر بندر اسکی چمک کو دیکھ کر اسے اٹھا لاتے ہیں۔" اسکے سفید مخملیں ہاتھ لعل کو یوں تھپک رہے تھے۔جیسے اسکی سرخی چوس رہے ہوں اور بالا کے قریب وہ بوڑھی جونک اسکی چچی بالا پر نگاہیں گاڑے بیٹھی تھی۔کتنی عجیب تھی دنیا اور جونکیں جونکیں اور اجسام اور اردگرد پھیلا ہوا چھایا ہوا ویرانہ۔
پھر ایلی کی زندگی کے بھیانک جمود میں ایک حرکت پیدا ہوئی۔ اسکے ماموں زاد بھائی رفیق اور یوسف تار کا کام سیکھنے کیلئے دو ماہ کیلئے دولت پور آ گئے۔ ان کے آنے سے ایلی کے لئے اس صحرا میں ایک چھوٹا سا نخلستان بن گیا۔
کچھ اور بھی
سیٹھ جمناداس کے یتیم خانے میں ایلی دن گزارتا۔ جس کا نام کالج رکھ دیا گیا تھا۔۔۔۔۔۔ وہ شام کے وقت کالج سے سائیکل پر پاوں مارتا ہوا گھر پہنچتا پھر رفیق اور یوسف کے ہمراہ بازاروں کے چکر کاٹتا اور رات کو گھر آ کر پڑا رہتا۔ اب وہ محسوس کرنے لگا تھا کہ دنیا صرف جونک اور جسم کے اجتماع کا نام نہ تھا وہاں جونکوں اور جسموں کے علاوہ اور بھی کچھ تھا۔بے نام سا کچھ جس میں پاکیزگی کی جھلک تھی۔ مثلاً رفیق اور یوسف مثلاً سامنے چوبارے میں دو بلوریں پاؤں چست پاجامہ یا وہ سیاہ آنکھیں جو کبھی کبھار ان جنگلوں میں سے طلوع ہوتی تھی۔ جس کا مقصد نہ دیکھنا تھا نہ دکھانا جسے یہ بھی معلوم نہ تھا کہ وہ حسین ہے اور کیف آور ہے اور چھلکتی ہے۔ ایلی اسے دیکھتا تھا یہ جتائے بغیر دیکھنا چاہتا تھا کہ وہ اسے دیکھ رہا ہے اسے اپنی طرف مائل کرنےکی کوشش کے بغیر اسے دیکھتا تھا۔اور پھر اس اضطراب سے بچنے کیلئے جو اسے دیکھنے سے ایلی پر طاری ہوجاتا۔وہ رفیق اور یوسف کو دیوانہ وار تلاش کرتا تھا۔
رفیق اور یوسف کے آنے اس سے ایک نقصان بھی ہوا۔ انہوں نے انجانے میں ایلی کا علی احمد کے گھر سے رہا سا تعلق بھی توڑ دیا۔
شام کو کھانے کے بعد وہ چپکے سے ایلی کو کہتے ایلی چلو ذراگھوم آئیں۔پہلی مرتبہ جب انہوں نے ایلی کو گھومنے کی دعوت دی تھی تو اسکا جی چاہتا تھا کہ انکار کر دے۔لیکن اپنی طبیعت کے خلاف وہ انکے ساتھ چل پڑاتھا۔
گھومنے پھرنے کے بعد جب وہ بڑے ڈاک خانے کی طرف سے مڑے تو وہ سوچنے لگا کہ ادھر جانے کا مطلب۔ وہ تو گھومنے پھرنے کی جگہ نہ تھی۔وہاں تو وہ بازار تھا۔جہاں لوگ دیکھے جانا پسند نہیں کرتے۔
وہ ایک دودھ کی دوکان پر رک گئے۔ "دودھ پیو گے ایلی۔؟" رفیق نے پوچھا۔
"نہیں۔" ایلی نے نفی میں سر ہلا دیا۔
"اچھا بھئی۔" رفیق بولا "پیو یا نہ پیو گھر جا کر بتانا نہیں۔"
"اور بتا بھی دو گے تو کیا ہوگا۔" یوسف اپنے سپاہیانہ انداز میں چلایا۔ "میرا تو بھوک کے مارے دم نکلا جا رہا ہے۔ڈالنا میاں آدھ سیر دودھ میں دو بن۔" اور وہ دونوں اپنے اپنے پیالے لیکر بیٹھ گئے۔ کچھ دیر تک وہ چپ چاپ بیٹھے رہے۔ پھر رفیق نے یوسف کو اشارہ کیا۔
"توبہ ہے۔" یوسف چلایا "شمیم کے ہاتھ کی پکی ہوئی روٹی کیسے کھا لیتے ہو تم ایلی۔"
"اسی ہاتھ سے بچوں کو پونچھتی ہے اور اسی ہاتھ سے آٹے کا پیڑا اٹھا لیتی ہے۔" رفیق نے آہ بھری۔
"اب کیا دودھ بھی حرام کرو گے تم۔" یوسف چلایا۔
اس کے بعد ایلی کے لئے بھی شمیم کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا مشکل ہوگیا اور وہ تینوں جھوٹ موٹ گھومنے پھرنے کا بہانہ کر کے رات کے اندھیرے میں پہلوان کی دوکان پر جا کر دودھ بن کھاتے اس وقت ایلی کے کان ملحق بازار میں رہتے۔ جہاں سے سارنگی کے سر گونجتے اور طبلے کی تھاپ کے ساتھ ساتھ ایلی کا دل دھک دھک کرتا اور وہ حسرت سے ان چوباروں کی طرف دیکھتا جہاں جانا اس کے لئے ممنوع تھا اور جہاں جانے کی تمنا روز بہ روز اسکے دل میں بڑھتی جا رہی تھی۔
سسٹر سارہ
رفیق اور یوسف کی ٹریننگ کلاس میں چار ایک عیسائی لڑکے بھی تھے،جن سے انکی راہ و رسم تھی۔ خصوصاً وکٹر اور جان سے تو ان کی دوستی کی زیادہ تر وجہ یہ تھی کہ وہ دولت پور کی عیسائی لڑکیوں کی باتیں کیا کرتے تھے اور رفیق لڑکیوں کی باتوں میں دلچسپی لیتا تھا۔ شاید اسی وجہ سے وہ انہیں اکثر دودھ پلانے کے لئے پہلوان کی دوکان پر لے جایا کرتے تھے۔
وکٹر اور جان آتے ہی رومانس کی بات چھیڑ دیتے۔انکے نزدیک زندگی کا مقصد صرف رومانس تھا اور انہیں اس لئے پیدا کیا گیا تھا کہ وہ روئے زمین پر رومانس کا سلسلہ ختم نہ ہونے دیں۔ وکٹر مس بھاگواور مس پھتو کا دیوانہ تھا جان کو مس رجی مس چاند اور مس بالو کی لگن تھی اور وہ دونوں اس بات کے خواہش مند تھے کہ ہر جان پہچان والے کو عیسائی احاطے میں لے جا کر اسے اپنی محبوبائیں دکھائیں بلکہ ان کو انٹروڈیوس کرائیں۔
دو ایک دفعہ رفیق یوسف اور ایلی بھی عیسائی احاطے میں گئے تھے۔ انہوں نے مس چاند بالو اور بھاگو کو دور سے دیکھا تھا اور مس پھتو سے انکا تعارف بھی کرایا گیا تھا۔ایلی کو عیسائی احاطے میں جا کر بے حد مایوسی ہوئی تھی وہ سمجھتا تھا کہ یہ مسیں اگر میموں کی سی نہیں تو انکے لگ بھگ ضرور ہوں گی۔ لیکن رنگ کالا تھا۔اور نقش بے حد بھدے تھے۔شاید وہ ان تفصیلات کو نظر انداز کر دیتا۔لیکن انکی آوازیں بے حد کرخت اور حرکات بھونڈی تھیں۔عیسائی احاطے کو دکھ کر ایلی کو جان اور وکٹر کی باتوں میں قطعی طور پر دلچسپی نہ رہی۔ بلکہ اسے یوسف اور رفیق پر غصہ آنے لگا۔
ایک روز وکٹر اور جان بھاگے بھاگے انکے پاس آئے۔آتے ہی انہوں نے ایک شور برپا کر دیا۔" حد ہو گئی یار۔" وکٹر چلایا۔
"اتنی ونڈوفل گرل آج تک دیکھنے میں نہیں آئی۔" جان بولا۔
"بالکل میڈونا کا سا فیس ہے۔" وکٹر نے سینے پر ہاتھ رکھ کر آہ بھری۔
"اور پھر کس طرح آنکھیں اٹھا کر دیکھتی ہے۔ہرنی سی آنکھیں ہیں۔بے وچنگ آئیز۔" جان نے کہا۔
"لیکن نہ جانے کس ظالم نے اسے تباہ کر دیا اسے بچہ ہو گیا۔یعنی پروف مل گیا اور اسے راہبہ بننا پڑا۔" وکٹر نے آہ بھری۔ " اگر وہ راہب خانے میں نہ ہوتی تو۔۔۔۔۔۔۔"
وہ دونوں اس نئی راہبہ کیتھی کے لئے پاگل ہو رہے تھے۔
کئی ایک دن تک وہ کیتھی کے سوا کوئی تذکرہ نہ کر سکے رفیق اور یوسف کا اشتیاق بڑھتا گیا حتٰی کہ یہ کیفیت ہو گئی کہ وہ خود کیتھی کا تذکرہ چھیڑ دیتے۔
نہ جانے کیتھی کیسی ہو گی۔ ایلی سوچتا اسے یقین نہ آتا تھاکہ وہ اتنی ہی خوبصورت ہو گی۔ بہرحال ایلی انکی باتیں سنا کرتا۔ کیتھی کو دیکھنے کا شوق رفیق کے دل میں اس قدر بڑھ گیا کہ اس نے ایک روز صاف کہہ دیا۔ " یار ہمیں بھی دکھاؤ۔"
ایلی کو اس بات پر بہت غصہ آیا۔بڑا عاشق مزاج تو دیکھو۔
"دیکھ لیں گے کیا حرج ہے۔" یوسف چلایا۔
"لیکن کیا فائدہ۔" وکٹر چلایا " خالی دیکھنے سے کیا فائدہ۔"
"وہ تو ایک ایتھریل چیز ہے۔ ایتھریل" جان آہیں بھرتا۔
"کیا واقعی۔" رفیق اور یوسف حیرانی سے پوچھتے۔
وہ تو جیسے میڈونا کی جیتی جاگتی مورت ہے۔" وکٹر چلاتا۔
"ہائے میں کیا کروں۔" جان آہ بھرتا۔" وہ تو کسی کی طرف دیکھتی نہیں۔ مسکاتی نہیں۔ بات نہیں کرتی بیچاری بڑی دکھی ہے۔ آنکھیں آنسووں سے بھری رہتی ہیں۔"
"جی چاہتا ہے جس نے کیتھی کو خراب کیا ہے اسے جان سے مار دوں" وکٹر گھونسا چلاتا " بیچاری کو بچہ ہو گیا۔ اس لئے راہبہ بننا پڑا۔ ورنہ راہب خانے میں نہ ہوتی تو ہم اس نے ملا کرتے۔ بس پروف دے دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ورنہ
پھر ایک روز جان اور وکٹر کے اصرار پر رفیق یوسف اور ایلی کیتھی کو دیکھنے کے لئے گرجا گھر گئے۔ اور روز رفیق کی آنکھوں میں گلابی بوندیاں اڑ رہی تھیں۔ یوسف کچھ زیادہ ہی قلانچیں بھر رہا تھا اور ایلی کے دل میں کچھ کچھ ہو رہا تھا۔۔۔۔۔۔ گرجے میں ہجوم تھا۔ عیسائی احاطے کے نوجوان آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر راہب خانے کے دروازے کی طرف دیکھ رہے تھے۔ عیسائی لڑکیاں ناک بھوں چڑھا رہی تھیں۔ بوڑھا پادری دزدیدہ نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔
دفعتاً راہب خانے کا دروازہ کھلا۔ مجمع پر سکوت طاری ہو گیا۔سات راہب لڑکیاں نگاہیں جھکائے گرجے میں داخل ہوئیں۔۔۔۔۔۔۔ " وہ ہے وہ۔" جان نے دبی آواز میں کہا۔ جوانوں کی بھوکی نگاہیں آخری لڑکی پر مرکوز ہو گئیں۔ اسکے نقوش ستواں تھے۔ چہرہ ستا ہوا تھا۔ہونٹوں سے اداسی ٹپک رہی تھی۔ شانے جھکے ہوئے تھے۔ سر لٹکا ہوا تھا اور وہ آہستہ آہستہ قریب آ رہی تھی۔
"ہائیں" دفعتاً رفیق کی چیخ سی نکل گئی اور وہ حسب دستور "سی سی" کرنے لگا جیسے کہ اسکی عادت تھی۔ ایلی نے حیرت سے اسکی طرف دیکھا۔ ادھر سے یوسف زیر لب چلایا " وہی تو ہے یہ سارہ۔۔۔۔۔ سارا۔۔۔۔۔۔۔ایلی۔" ایلی سے غور سے کیتھی کی طرف دیکھا۔ سارا کی آنکھوں سے دو آنسو گالوں پر ڈھلک آئے۔ پھر اس نے سر جھکا لیا۔ سسٹر نے آکر اسے تھام لیا۔
اندھا کنواں
پھر گرمی کی تعطیلات کی وجہ سے کالج بند ہو گیا۔یوسف اور رفیق کی ٹریننگ بھی ختم ہو چکی تھی۔علی احمد سے اجازت لیکر ایلی رفیق اور یوسف کے ساتھ علی پور آگیا۔
گرمی کی چھٹیوں میں محلے کی زندگی میں ایک عجیب گہماگہمی پیدا ہو جاتی تھی۔محلے کے ملازم پیشہ لوگ انہی دنوں چھٹی لیکر آیا کرتے تھے تاکہ محلے والوں سے میل ملاپ قائم رہے۔ اگر وہ خود چھٹی پر نہ آ سکتے تو وہ ایک ماہ کیلئے بچوں کو ضرور علی پور بھیج دیتے۔اتنی دیر باہر رہنے کے بعد عورتیں نرالی سج دھج کے ساتھ علی پور میں داخل ہوتیں اور اپنے نئے حاصل کردہ فیشن اور خیالات کو ایک شان سے محلے کے عوام کے سامنے پیش کرتیں۔ اپنی عظمت کا رعب ڈالنے کی کوشش کرتیں۔
" نہ بہن بچے کو ڈرایا نہیں کرتے اس طرح بچے کے دل میں ڈر بیٹھ جاتا ہے۔ ہاں میں تو پیٹ لیتی ہوں۔ اپنے سیدی کو لیکن ڈرانا۔۔۔۔۔۔۔۔ اونہوں!"
دوسری بولتی نہ بہن یہ چمکدار سانٹل نہ چلے گی اس شلوار کے ساتھ۔ اب تو بہن چمکدار چیز کوئی بھی پسند نہیں کرتا۔ میں نے جبھی بوسکی کی قمیضیں سلوا لی ہیں۔
جوان لڑکیاں کھڑکیوں میں کھڑی ہو کر محلے کی کھڑکیوں کے سامنے اپنے لباس کی نمائش کرتیں۔ لڑکے اپنے دوستوں سے مل کر نئی سیکھی ہوئی باتوں کا ریکارڈ چلاتے۔
محلے کے بوڑھے انکی باتیں سن کر مسکراتے جیسے پاگل خانے سے چھوٹ کر آئے ہوں پھر وہ کھنکارتے اور زیر لب لاحول پڑھتے مسجد کا رخ کرتے۔
بوڑھیاں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اردگرد دیکھتیں اور پھر " توبہ ہے کیا زمانہ آیا ہے۔" کہتی ہوئیں اپنے اپنے کام میں لگ جاتیں۔
محلے کی جوان لڑکیاں حسرت بھری نگاہوں سے ان نوواردوں کی طرف دیکھتیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کا جی چاہتا کہ باتیں کرتی رہیں اور وہ سنتی رہیں۔ انکی آنکھوں میں گویا شوق کے دیئے روشن ہو جاتے۔
اس لحاظ سے محلہ ہر سال موسم گرما میں کینچلی بدلا کرتا تھا۔ جس طرح خزاں میں درخت پرانے پتے گرا دیتے ہیں اور نیا سبز جامہ اوڑھ لیتے ہیں۔ اسکے باوجود آصفی محلے کی زندگی بنیادی طور پر ویسے ہی اپنے صدیوں پرانے محور میں گھومتی رہتی محلے میں تبدیلی آتی تو تھی۔ لیکن کچھوا چال سے کسی کیڑے کے رینگنے کے مترادف تھی۔ درحقیقت اپنی مخصوس کہنہ کج روی کی وجہ سے وہ محلہ لوگوں کو پیارا تھا۔ چونکہ وہاں جا کر وہ اپنی عظمت جتا سکتے تھے۔ نئے حاصل شدہ خیالات سے محلے والوں کو مستفید کرنے کے عمل میں یہ خوش فہمی دل میں رچا سکتے تھے کہ وہ نئے خیالات سے کماحقہ واقف ہیں۔ درحقیقت آصفی محلہ وہ اندھا کنواں تھا۔ جہاں کوئی سمندری مینڈک داخل نہ ہوا تھا۔ جہاں جوہڑ کے مینڈک پھدکتے تھے اور وہ کبھی اس قدر نہ پھولے تھے کہ وہ اپنے آپ میں سما نہ سکیں۔
سٹیشن کے قریب انہیں رضا مل گیا۔ "بھئی واہ۔" وہ چلایا۔ "آ گئے جناب۔ بھئی کیوں نہ آتے۔ اب بھی نہ آتے تو کب آتے ساون آیا اور مینڈک نہ ٹرائیں۔"
یہ کہہ کر وہ ایلی سے بات کئے بغیر لاٹھی گھماتا ہوا کچہری کی طرف چل پڑا۔" ابھی آتا ہوں ذرا کچہری جانا ہے۔" وہ کھٹ کھٹ چلتے ہوئے چلایا۔ " ہو گی ملاقات دوکان پر۔"
برساتی نالے کے پل پر انہیں چچا عماد ملے "ہوں" انہوں نے آنکھیں چمکاتے ہوئے کہا"آ گئی یہ بھجن منڈلی۔ چلو یہ بھی اچھا ہی ہوا۔ کب سے مندر میں گھنٹیاں بج رہی تھیں۔" یہ کہہ کر زیر لب لوحول پڑھتے ہوئے وہ سٹیشن کی طرف چل دیئے۔
"اس اللہ لوگ کو مندر کی گھنٹیوں کی کیا سوجھی۔" ایلی نے رفیق سے کہا۔
"بس جو منہ میں آیا چلا دیا۔" یوسف نے بے پروائی سے کہا۔
"کوئی بات ضرور ہے۔" رفیق اپنے بھیگے بھیگے انداز میں بولا۔
چوراہے کے قریب چچی اماں کو دیکھ کر ایلی نے جھک کر سلام کیا، " جیتے رہو۔" وہ بولی "چھٹی پر آئے ہو نہ۔اچھا ہے۔اچھا کیا۔دیکھ لو رونق چار دن کیلئے دن ہیں تمہارے۔"
چاچی اماں کی بات سنکر انکا ماتھا ٹھنکا ضرور کوئی بات ہے۔ نہ جانے کیا ہے۔ مگر ہے ضرور جبھی تو وہ سب اشارتاً انہیں سمجھا رہے تھے کچھ رفیق بھی گبھرا گیا۔ لیکن یوسف قہقہے مار کر ہنستا رہا " ارے یار خواہ مخواہ ڈرتے ہو۔"
ڈیوڑھی میں ارجمند نے اسے پکڑ لیا" ارے تم ہو ایلی۔ارے پٹ گئے۔تباہ ہو گئے۔برباد ہو گئے۔" پھر اس نے رفیق اور یوسف کو دیکھا اور دفعتاً پہلو بدلا۔ پہلو بدلنے میں ارجمند کو کمال حاصل تھا۔
"السلام علیکم بھائی صاحب مزاج اچھے ہیں صاحب اپنا حال تو تباہ ہو رہا ہےاس ایلی کے بغیر کم بخت منہ موڑتا ہے تو پھر ادھر آنے کا نام ہی نہیں لیتا اور فرمائیے آپ تو خیریت سے ہیں نا۔"
رفیق مسکرا کر آگے کو چل دیا۔تو ارجمند نے ایلی کو رکنے کا اشارہ کیا " ابے ٹھہر بے۔ ہم سے ملے بغیر دادی اماں کی جھولی میں کیسے جا سکے گا تو۔"
وہ اور وہ
رفیق اور یوسف کے جانے کے بعد ارجمند نے اپنے سینے پر دو ہتڑ مارنے شروع کر دئیے۔ "تباہی بربادی۔ تباہی بربادی۔ ارے یار وہ تو سارا اینٹ البحر کا دفتر بے معنی ہو کر رہ گیا وہ انکراینڈی خاک میں مل گئے اور یہ پریم ٹونا اور پریم پھریرا۔ اس نے اپنی بانسری اور ریشمیں رومال کی طرف اشارہ کر کے کہا "سب فیل" وہ تو نگاہ اٹھا کر نہیں دیکھتی نہ جانے وہ ناگ کس بین پر مست ہوگا۔ ارے ارے کوئی ناگ سا ناگ ہے۔اف،اف،اف کی پھبن ہے۔ کیا دم خم ہے۔کیا طمطراق ہے۔ ایک نگاہ دیکھ لے تو دن بھر سرور نہیں جاتا۔ اور سانورا رنگ جیسی گوکل کا کنہیا ہو۔اب بولو وہاں اس خاکسار کی بانسری کیا کر سکتی ہے۔ بیچاری" "آخر بات بھی کرو گے۔" ایلی نے جل کر پوچھا۔
"لو بھئی۔" ارجمند نے سر پیٹ لیا "اور یہ کیا بکواس کر رہا تھا۔ میاں دیکھو تو ہوش اڑ جائیں گے وہ چیز ہے جو دیکھے بنا تصور میں نہیں لائی جا سکتی۔اللہ اللہ کیا چیز ہے۔خدا کی قسم اس مسجد میں ایک۔۔۔۔۔۔۔ بھرپور نگاہ ڈال دے تو ایک آن میں سالی آپ ہی بت بن جائے۔ لو کر لو جو کرنا ہے۔ہئے۔ہئے۔"
ضیا کو آتے دیکھ کر ارجمند ایک ساعت کے لئے خاموش ہو گیا۔"لو بھئی۔" وہ زیرلب بولا۔" آگئی بٹھنڈا لائن لہٰذا اپنی گاڑی رک گئی۔"
اپن کی تو مین لائن ہے بھائی۔ سیدھے روڈ پر چلنا جانتے ہیں ہم ۔ ہمیں تو حوروں سے واسطہ ہے غلمانو کی بات بٹھنڈا لائن سے پوچھو۔ " ضیا حسب معمول آنکھوں میں مسکرانے لگا۔
"ان کی پانچوں گھی میں ہیں آج کل۔" ارجمند بولا "اور ہمارا سر کڑھائی میں ہے۔"
"کیوں بھئی یہ ٹھیک کہتا ہے ارجمند۔۔۔۔۔۔۔۔" ایلی نے بات سمجھے بغیر ضیا سے پوچھا۔
"بکتا ہے۔" ضیا ہنسا "وہ تو میرا بھائی بن گیا ہے ایمان سے۔" اور پھر چوگان کی طرف چل پڑا۔
"ہے۔" ارجمند نے چھاتی پر ہاتھ مارا۔ "وہ ہماری بہن ہی بن جاتی۔" وہ ضیا کی طرف دیکھ کر چلایا۔ پھر ایلی سے مخاطب ہو کر بولا " اچھا بیٹا تو جاؤ دادی اماں کے چرن چھو آؤ۔ خاکسار کچی حویلی کی لالٹین کے نیچے ڈیوٹی دے رہا ہو گا۔دادی اماں کے بنے ہوئے لڈو کھانے نہ بیٹھ جانا ورنہ خاکسار کی آہ پڑے گی تم پر۔"
ایلی کی سمجھ میں نہ آ رہا تھا کہ آخر وہ کون تھی اور وہ کون تھا اور محلے والوں کے اوسان کیوں خطا ہو رہے تھے ارجمند اور ضیا کی تو اور بات تھی مگر چچی اماں اور چچا عماد ظاہر تھا کہ چچا عماد بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے تھے۔ ایسا کون تھا وہ۔
چوگان میں پہنچ کر اس نے ڈرتے ہوئے چاروں طرف دیکھا مگر محلے والیوں کے سوا وہاں کوئی نہ تھا اور محلے والیاں حسب دستور اسے دعائیں دے رہی تھیں۔
"اللہ بڑا مرتبہ نصیب کرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
""کون آیا ہے چاچی۔"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" اے ہے اپنا ایلی آیا ہے۔"
"جیتا رہے بی بی ماں کے کلیجے کی ٹھنڈک ہے۔"
ڈیوڑھی میں جا کر وہ ڈر گیا اس کے سامنے نذیراں کھڑی مسکرا رہی تھی۔" تم آ گئے۔ اب چلے نہ جانا"۔
"ہائے کون ہے؟" دادی اماں چلائی۔ " دیکھ تو سیڑھیوں میں لڑکی جیسے کسی کی پٹائی ہو رہی ہو۔ ہائیں ایلی تو ہے۔ تو نے تو مجھے ڈرا ہی دیا۔ کیا ایسے چڑھا کرتے ہیں سیڑھیاں۔ کب آیا تو۔ راضی تو رہا نا۔ علی احمد کیسا ہے۔ بچے کیسے ہیں۔ وہ خود نہیں آیا چھٹیاں کب ہوں گی اسے؟"
سعیدہ اسی طرح گھٹنوں میں سر دیئے دادی اماں کے پاس بیٹھی تھی۔ " اماں سے ملا تو دادی اماں نے کہا۔ "وہ ادھر ہی رہتی ہے۔فرحت کے پاس۔اچھا مل لیجو جا کر ذرا بیٹھ تو۔ اب تو اتنابڑا ہو گیاہے تو منہ پر داڑھی نکل رہی ہے۔" دادی اماں نے حیرانی سے اسکا جائزہ لیا " بول کیا کھائے گا۔ تیرے لئے بہت کچھ رکھا ہوا ہے۔ میں نے ہاں۔ اے حمیدہ رشیدہ لڑکیو، تم کیا دیکھ رہی ہو۔جاؤ اپنا کام کرو۔" وہ ان دو لڑکیو سے مخاطب ہو کر کہنے لگی تو دروازے میں کھڑی غور سے ایلی کی طرف دیکھ رہی تھیں۔
رشیدہ اور حمیدہ سیدہ کی بہن نیاز کی بیٹیاں تھیں۔ انکی والدہ فوت ہو چکی تھی اور اب وہ دونوں دادی اماں کے ہاس آ گئی تھیں " جا رشیدہ جا کر وہ کمرہ صاف کر دے۔ حمیدہ تجھے تو بہت کام ہے ابھی برتن مانجھنے ہیں۔"
"اچھا ایلی۔" دادی اماں بولی "علی احمد نے میرا خرچ نہ بھیجا۔کیا اسے خود خیال نہیں آتا۔اے ہے میں کیوں یاد کراؤں۔خدا نہ کرے۔مجھے کوئی بے اعتباری ہے۔"ایلی نے بڑھ کر دادی اماں کو گود میں لے لیا۔ "اے ہے چھوڑ۔" وہ چلائی۔ " جیسے کوئی دس سال کی بچی ہو توتو میری ہڈیاں توڑ دے گا۔توبہ ہے۔ دیکھتے دیکھتے کتنے بڑے ہو جاتے ہیں یہ ہاتھوں کے جنے۔ اچھا تو کوئی اور بات سنا۔وہاں کیسے رہتا ہے تو۔" وہ بولے جا رہی تھی اور ایلی سوچ رہا ہے تھا کتنی پیاری ہے۔دادی اماں۔ اس کے پاس آ کر یوں لگتا ہے کہ جیسے بچہ گھونسلے میں آگیا ہو۔دادی اماں کے پاس جا کر وہ بھول جاتا کہ ارجمند کچی حویلی میں اس کا انتطار کر رہا ہے اور وہ کون تھاجسے ضیا نے بھائی بنا لیا۔وہ سانوری کون ہے جو کسی بین پر مست نہیں ہوتی۔
بیگم
نہ جانےوہ کب تک دادی اماں کی ہڈیوں سے چمٹ کر بیٹھا رہا حتٰی کہ ہاجرہ آ گئی۔
"ایلی آیا ہے۔" ہاجرہ کی باچھیں کھلی ہوئی تھیں "ایلی آ فرحت تیرا انتظار کر رہی ہے۔"
"جا مل آ۔" دادی اماں بولی۔ وہ اٹھ کر اماں کے ساتھ فرحت کی طرف چل پڑا۔
ابھی وہ فرحت سے بات کرنے ہی لگا تھا کہ اوپر کی سیڑھیوں میں شور ہوا۔ " سنا ہے ایلی آیا ہے۔" شہزادکی آواز دور سے گونجی۔ شہزاد کی آواز کی سرتال ہی نرالی تھی۔ اس کا ہر انداز محلے والیوں سے مختلف تھا۔ایلی نے شوق سے سیڑھیوں کی طرف دیکھا۔سامنے شہزاد کھڑی مسکرا رہی تھی۔مونگیا گٹھڑی کے پٹ پورے طور پر کھل چکے تھے۔
شہزاد کی ہر بات میں عورت اور لڑکی کی عجیب و غریب آمیزش تھی۔ ایسی آمیزش جو محلے کی کسی عورت یا لڑکی میں نہ تھی۔ شہزاد میں بچپن کی ایک ایسی جھلک تھی جو دوسروں کو کھیلنے پر اکساتی تھی۔
ایلی نے شہزاد کو دیکھ کر سر جھکا لیا۔ " جی ہاں۔" وہ بولا۔شہزاد کے روبرو اس کے جسم و روح کا رواں رواں جی ہاں کہہ کر سر جھکا لیا کرتا تھا۔
"وہ بلاتے ہیں تم کو چائے پر۔" شہزاد مسکرائی۔ "چلو میرے ساتھ۔" اور ایلی چپ چاپ اس کے ساتھ ہولیا۔
"تم آ گئے۔"شریف اسے دیکھ کر مسکرایا۔ اسکی آنکھیں اس طرح چھت پر لگی ہوئی تھیں۔البتہ ہونٹوں پر ہلکا سا تبسم تھا۔ایلی کی نگاہ میں شریف کس قدر خوش نصیب تھا۔جسے شہزاد نے اپنایا تھا۔ جسکی زندگی شہزاد کی روشنی سے منور تھی۔ لیکن بظاہر شریف پر اسکا کوئی اثر نہ تھا۔ وہ اب بھی انور کے خیال میں ویسے ہی مست رہتا تھا۔ کتنا وفا شعار سچا عاشق ہے۔ اس کی محبت کو کوئی چیز متزلزل نہیں کر سکتی۔ جس کی زندگی میں شہزاد سی مونگیا گٹھڑی کھل کربھی کوئی تبدیلی پیدا نہیں کر سکی۔
"ہوں تم کیسے ہو ایلی۔"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک باوقار حسین عورت اسکے روبرو آ کھڑی ہوئی۔ ایلی اسے دیکھ کر گھبرا گیا۔ "سلام کہتا ہوں۔" وہ کھڑا ہو گیا۔
"یہ ایلی ہے اماں۔" شہزاد نے اس عورت سے کہا۔
"مجھے یاد ہے۔" وہ بولی۔ "برات کے دن اندر آیا تھا۔وہی تو ہے۔" ایلی نے اس کی طرف ڈرتے ہوئے دیکھا۔ اونچا لمبا قد۔ فربہ جسم اور پروقار چہرہ۔ اس کے خدوخال میں حسن و وقار کی عجیب آمیزش تھی۔آنکھوں میں حکومت کی چمک تھی۔آواز میں دبدبہ تھا۔ اس کی انگلیوں میں عجیب قسم کی انگوٹھیاں تھیں۔ جن میں نگ کلی کی طرح ابھرے ہوئے تھے۔
"بیٹھ جاؤ۔" اس نے گویا ایلی کو ڈانٹا۔ سنا تیرے باپ کا کیا حال ہے۔ اب تو کشمیر کے سیب سے بھر گیا ہوگا اس کا دل کوئی نئی نویلی چڑھی ہے نگاہ میں۔"
"جی جی۔" ایلی بن سوچے سمجھے کہے جا رہا تھا۔ لیکن اسکا جی چاہتا تھا وہ اس کے روبرو بیٹھا رہے اور کنکھیوں سے اسکی طرف دیکھتا رہے۔ اس وقت وہ شہزاد کو بھی بھول چکا تھا۔ اور شریف تو بالکل ہی ذہن سے اتر چکا تھا۔
پھر ملحقہ کمرے سے کسی نے آواز دی اور بیگم بولی " پھر بیٹھوں گی کسی وقت تیرے پاس۔"یہ کہہ کر وہ چلی گئی اور طلسم ٹوٹ گیا۔
ملحقہ کمرے سے شہزاد کی سی کئی آوازیں سنائی دے رہی تھیں اور وہ محسوس کر رہا تھا۔ جیسے چمن میں بہار آ گئی ہو۔لیکن وہ چمن ایلی کے لئے ممنوع تھا۔ ممنوع نہ بھی ہوتا تو بھی اسکی جرات نہ ہوتی کہ وہاں جا کر دیکھتا کہ وہ آوازیں کن کی تھیں۔جرات ہوتی بھی کیسے۔ اس میں کوئی بھی خوبی نہ تھی۔چہرہ کارٹون سا تھا۔جسم ہڈیوں کا ڈھانچہ دکھائی دیتا تھا۔رنگ کالا تھا۔ کوئی بھی تو ایسی خصوصیت نہ تھی جس کے بل بوتے پر وہ اپنے آپ کو درخور اعتنا سمجھتا۔امید رچاتا اور جرات کو کام میں لاتا۔
سامنے شریف لیٹا ہوا نہ جانے کیا کہہ رہا تھا۔ وہ اپنی ہی دنیا میں کھویا ہوا تھا۔نگاہیں ماضی کی طرف دیکھ رہی تھیں۔اسے یہ احساس نہ تھا کہ ایلی دنیا میں کھویا ہوا تھا۔اور اسکی بات نہیں سن رہا۔اسے اس سے غرض نہ تھی کہ کوئی اس کی بات سنے۔ اسے تو کہنے سے غرض تھی اور بات کہنے کے لئے اس نے ایلی کو چن لیا تھا اور ایلی سننے کا انداز قائم کئے کچھ سوچ رہا تھا۔اسے خود بھی معلوم نہ تھا کہ وہ کیا سوچ رہا ہے کیا محسوس کر رہا ہے۔اپنے محسوسات کو اپنا کے شاید اسے ندامت ہوتی اس لئے اس نے اپنے محسوسات کو واضح طور پر کبھی نہ اپنایا تھا اور قریب ہی کسی چمن میں رنگین چڑیاں چہک رہی تھیں دور کچی حویلی کی لالٹین کے نیچے انکراینڈی کا شیدائی پریم سندیس تھامے اسکا انتظار کر رہا تھا۔
کار اور خاکسار
اگلے روز صبح سویرے ہی ارجمند آگیا۔ "او یزید کے چیلے۔" وہ آتے ہی چلایا "کل سارا دن مجھے کچی حویلی کے صحرا میں پیاسا مارا اور خود گوکل کے بن میں سانوری سے سانوری سے رنگ پچکاری کھیلنے میں مصروف رہا۔تف ہے تیری دوستی پر۔"
جب ایلی نے سانوری سے متعلق اپنی لاعلمی کا اظہار کیا تو ارجمند قہقہہ مار کر ہنس پڑا۔ "ہمیں بناتا ہے یار ہمیں جنہوں نے پریم دو یا پر بالپن ہی میں عبور حاصل کر لیا تھا۔ اپن وہ ہیں جنہوں نے پانی پت کی ڈسپنسری کی میزروں پر پریکٹیکل ٹریننگ حاصل کی ہوئی ہے۔کہو تو سند دکھا دیں۔سند یافتہ لوگوں کو چٹکیوں میں اڑانا آسان نہیں۔اچھا تو بیٹا کل کی رپورٹ دو۔کونسے مراحل طے کر لئے اور کون کونسے باقی ہیں۔لیکن یار کیا رنگ ہے کیا انداز پایا ہے۔اور پھر ماشااللہ حساس اور سمجھدار۔ہلکی سی جنبش بھی نوٹ کئے بغیر نہیں رہتی۔رومال کی ہلکی سی جنبش کی یوں۔مطلب خاکسار ابھی حاضر ہوا۔فوراً بات پالی لیکن کیا مجال کہ چتون سے ظاہر ہو۔صرف ایک لطیف مسکراہٹ اور پھر فوراً جتا بھی دیا۔ہم سمجھ گئے۔ خاکسار ہو آئے اجازت ہے جب تک ہمیں چوگان سے کوئی دلچسپی نہیں "اور پھر چوگان سے کوئی دلچسپی نہیں" اور پھر چوگان سے منہ موڑ کر کھڑے ہو گئے اور جب تک خاکسار واپس نہ آیا ویسے ہی کھڑے رہے۔واہ واہ کیا ذہانت ہے۔جتنی بڑی بے پرواہ ہے۔اتنی ہی چھوٹی حساس ہے۔ واہ واہ اپنا انکراینڈی وہ چلا ہے کہ بس کیا بتاوں۔" وہ رک گیا۔
"لیکن سب بیکار ہے۔" اس نے پینترا بدلا "سب بیکار انکراینڈی کا ہوش بھی رہا ہو۔کس کافر کو ہوش رہے گا۔میاں کب تک مچھلی کانٹے پر لگی تڑپتی رہے اب تو وقت ہے کہ سرکار ڈوری کھینچیں۔لیکن سرکار بھی کیا کریں ایلی وہ تو خود مہمان کی حیثیت سے آئے ہوئے ہیں وہ کیسے کھینچیں اور خاکسار کے لئے یہ رنگ محل ممنوع ہوا۔ وہاں جائے تو کس بہانے جائے اسی فکر میں تھا خاکسار کہ اللہ نے رحمت کا فرشتہ بھیج دیا یعنی تم آ گئے اور تم یہاں پہنچتے ہی یزید بن کر وہ گئے۔ہئے ہئے۔"
سانورے کنہیا
"ہاہاہا" دفعتاً ارجمند چیخ کر بولا۔ " ہم اپنی رام کہانی میں لگے ہیں اور وہ دیکھو وہ۔ اس کھڑکی میں ارے اندھے وہ والی جو اندھیری ڈیوڑھی کے اوپر کھلتی ہے۔ نہ جانے سانورے کنہیا کب سے اپنی گوپیوں کے انتظار میں کھڑے ہیں۔اے ٹھہر تو۔اتنا بے صبر کیوں ہوا جا رہا ہے۔مجھے پرنام تو کر لینے دو۔" اور وہ درشن کے بن ترس گئی اکھیاں گنگنانے اور رومال ہلانے لگا۔
کھڑکی میں ایک اونچی لمبی لڑکی لمبی لمبی پلکوں سے سیاہ خوابیدہ آنکھوں کو ڈھانپے کھڑی تھی۔ اس کے نقوش ستواں تھے۔چہرے پر انوکھی سی ریشمیں ملاحت کا شفاف سا نقاب پڑا تھا۔ جیسے کوئی سنڈریلا ہاتھ میں شیشے کا سلیپر لئے حیران کھڑی ہو۔" لیکن یہ ہے کون؟" ایلی چلایا۔
"کیا واقعی۔" ارجمند نے حیرانی سے ایلی کی طرف دیکھا۔ " ہم تو سمجھ رہے تھے کہ بنا رہا ہے ہمیں۔ارے بھائی یہ سب تمہاری اس مونگیا گٹھڑی سے نکلے ہوئے فتنے ہیں۔ جب سے وہ پنڈورا یہاں آئی ہے رنگین مصیبتوں کا صندوق کھل گیا ہے۔ اب کر لو جو کرنا ہے اور ابھیدیکھا گیا ہے ابھی تو وہ گلاب کا پھول اور رس گلا بھی ہیں۔اف! وہ گلاب کی کلی جب کلے گی تو دنیا پر رنگ کی وہ قیامت ٹوٹے گی کہ آنکھیں پھٹ جائیں گی۔چھ سال کی عمر میں یہ کیفیت ہے کہ مسکراتی ہے تو فضا میں قندیلیں روشن ہو جاتی ہیں اور وہ انکا بھائی شوکت جیسے موم کا پتلا ہو۔ضیا تو اسے دیکھ کر ہمیشہ کے لئے بدمعاشی سے توبہ کر چکا ہے اور جمیل پیڑے کھانے کے شغل کو بھول چکا ہے خیر اپنے کو تو بٹھنڈا لائن سے کوئی دلچسپی نہیں۔اپن کو تو یار یہ سانورے کنہیا لے ڈوبے اور حضور گاتے بھی ہیں واہ واہ کیا گاتے ہیں۔چار ایک دن ہوئے بھجن منڈلی میں براجمان ہوئے تھے۔وہ رنگ جمایا کہ بس کیا پوچھتے ہو۔محلے کے لڑکوں کے دل کانوں میں منتقل ہوگئے اور نبضوں نے وہ تال دی کہ بس اے ہے۔" وہ چھاتی پر دو ہتڑ مارنے لگا۔
عین اس وقت سیڑھیوں سے پاؤں کی چانپ سنائی دی جیسے کوئی نیزے پر ناچ رہا ہو اور پھر چھم سے شہزاد داخل ہوئی۔اسکا سانس چڑھا ہوا تھا۔دوپٹہ کندھوں پر اڑ رہا تھا۔منہ پر سرخی جھلملا رہی تھی۔ "ایلی ایلی۔" وہ بولی "کب سے تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔چائے سامنے رکھے چلو۔جلدی آؤ۔" یہ کہہ کر وہ واپس دوڑ گئی۔
ارجمند ازسرنو سر پیٹنے لگا "ہائے اللہ کیا کریں ہم کدھر جائیں ہمیں کوئی نہیں بلاتا چائے پر کوئی پوچھتا ہی نہیں کہ میاں کون ہو۔سیر ہو یا پاؤ ہو۔اچھا بھئی جاؤ۔مزے اڑاؤ۔اپن کا کیا ہے۔جیسے تیسے وقت بتا لیں گے بس یہی فرق ہے نا کہ تم سنگ ساتھی ہو اور ہم پردیسی۔پر یاد رکھو دوست۔سنگ ساتھی کو کبھی وہ رتبہ نہیں ملا جو پردیسی کو ملتا ہے۔آخر میں بازی پردیسی ہی کے ہاتھ میں رہتی ہے۔" یہ کہہ کر اس نے ایک حریفانہ سلوٹ مارا اور چلا گیا۔
اس کے بعد یہ معمول ہو گیا۔روز صبح سویرے چائے کے لئے شریف کی طرف سے بلاوا آتا۔پہلے فضا میں گھنگرو بجتے پھر چھم سے شہزاد اتر آتی۔دوپٹہ اس کے شانوں پر یوں لٹکتا جیسے ہوائی ڈاک کا اشتہار ہو۔بانہیں فضا میں لہراتیں جیسے رفتار ظاہر کرنے کے لئے مصور نے گلابی خطوط لگا دیئے ہوں۔ " وہ تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔" وہ ہنستی۔۔۔۔۔۔۔۔۔گھنٹیاں بجتیں۔
چائے پر شریف اسی طرح چھت ہر نگاہیں گاڑے رہتا اور ہر دو منٹ کے بعد ایک لمبی آہ بھرتا اور جوش میں دبی آواز سے کہتا "کسی سے محبت کرو ایلی۔چاہے وہ کوئی بھی ہو بس محبت کرو۔"
دوپہر کو جمیل یوسف کو بلا لاتا ہے۔وہ تینوں برساتی میں بیٹھ کر گپیں اڑاتے۔ جس کے دوران ایلی اس آٰئینے کی طرف دیکھتا رہتا جو جمیل نے ایسے زاویئے سے لگا رکھا تھا کہ نیچے سے آتا ہوا ہر شخص پہلے ہی نظر آ جائے۔
جمیل شوکت سے باتوں میں مشغول رہتا۔ شوکت نہایت معصومیت سے جمیل کی طرف دیکھتا اسکی سمجھ میں نہ آتا کہ وہ روز اسے اتنی مٹھائی کیوں کھلاتا ہے اور ایلی اس آئینہ پر کیوں جھکا رہتا ہے۔
دوپہر کے وقت شہزاد کی والدہ آجاتی جسے سب بیگم کہتے تھے اور وہ تھی بھی تو بیگم۔ایلی اکثر محسوس کرتا تھا کہ اسکے سر پر چھوٹا سا تاج بھی ہونا چاہئے تھا۔جیسے بیگمات پہنتی ہیں۔ اس کے انداز میں بلا کا رعب تھااور اس کی نگاہوں میں ایک عجیب شان بے نیازی تھی۔
بیگم کوآصفی محلہ بالکل ناپسند تھا "یہ کیا ہیں تمہارے محلے کے مکانات۔" وہ ایلی سے کہتی "اندھیرے کونے اجڑے ہوئے چوبارے جیسے گلی سڑی پیاز کے چھلکے ہوں ایک دوسے کے اوپر۔دوسرا تیسرے کے اوپر توبہ ہے ہمارے یہاں تو صاف ستھرے کمرے ہوتے ہیں اور شہزاد کے ابا۔تو ایک دن بھی نہ ٹھہریں یہاں بڑے صفائی پسند ہیں وہ یہ جو تمہارہ محلہ والیاں پکاتی ہیں۔جسے تم لوگ کھانا کہتے ہو۔ان کے سامنے رکھا جائے تو طوفان اٹھا دیں۔تمہارے محلے کے مرد تو بدھو نہیں بدھو۔مردوں کی سی بات نہیں ان میں۔کبھی ہمارے یہاں آؤ تو تمہیں دکھاوں میں۔"
ایلی مسحور ہو کر بیگم کی باتیں سنتا۔ اس وقت اسکی نگاہوں میں نور پور کا وسیع میدان پھیل جاتا اور قلعے کے برج ابھرتے اور وسیع فراخ کمرے کھلتے اور بالاخر ایک زرد مینڈک اور دو حنائی انگلیاں اس کی طرف بڑھتیں۔
پھر شام کے وقت جب سورج غروب ہونے کے لئے مغرب میں اترتا تو ایلی کوٹھے پر چڑھ جاتا اور کتاب ہاتھ میں لئے وہاں ٹہلتا جیسے سبق یاد کر رہا ہو تاکہ متصل کوٹھے پر سانوری کو دیکھ سکے اور متصل کوٹھے پر ہلکے رنگوں میں ملبوس سانوری یوں ٹہلتی جیسے اسے ایلی کی موجودگی کا احساس ہی نہ ہو۔
اس کی بڑی بڑی آنکھیں دور کسی افق پر موکوز ہو جاتیں۔ اس کا دوپٹہ یوں لٹکتا جیسے تاج پوشی کی تصاویر میں شہزادیوں کے پیچھے ریشمیں کپڑے لٹکتے ہیں۔ٹک ٹک ٹک۔ا س کی اونچی ایڑی والی گرگابی بلمپت لے میں تال دیتی اور پھر نہ جانے کیا ہوتا۔گردوپیش کے دھندلے مکانات سبز پیراہن پہن لیتے اور چوبارے یوں دکھائی دیتے جیسے تنکوں سے بنے ہوئے جنگلی جھونپڑے ہوں اور پھر دور سے بانسری کی سریں بلند ہوتیں اور کرشن کنہیا گوکل لے بن میں ٹہلتے اور ان کے چہرے کے ریشمیں سانولے پن میں اشیرباد کی مدھم روشنی شمکتی اور چوگان میں کوئی راکشش ارجمند کے رُوپ میں چلا جاتا ۔ “ نند گاؤں والے ابے او گوکل کے پجاری۔ لو بھئی یہ حضرت ہاتھ سے گئے۔ نہ جانے کیا زمانہ آیا ہے چھوٹوں کو بڑوں کا لحاظ نہیں رہا۔ اب بتاؤ اقربا میرے کریں خون کا دعوٰی کس پر۔“
گلِ حکمت کا متوالا
پھر بیٹھے رفیق کو سوجھی۔ رفیق کو ہمیشہ ہی سُوجھا کرتی تھیں اگر چہ بظاہر وہ ایک خاموش لڑکا تھا۔ رفیق کی تمام تر قوت اس کی آنکھوں اور گالوں میں سمٹ کر آ گئی تھی۔ جہاں تک زبان کا تعلق تھا وہ گونگا تھا۔ اس کے ساتھ کوئی بھی بات کر دو تو وہ مسکرا دیتا اس کی مسکراہٹ میں تلخی نہیں ہوتی تھی۔ ایسی بات کرو جو اسے ناپسند ہو تو اس کے ہونٹ ہلکے سے کھل جاتے اور اس کی آنکھوں میں ہلکی سی بُوندا باندی شروع ہوجاتی۔ ایسی بات چھیڑ دو جو اس کے لئے تکلیف دہ ہو تو وہ گھبرا جاتا۔ اُس کے ہونٹوں سے اُف اُف کی آواز نکلتی جیسے اُس نے کوئی گرم چیز منہ میں ڈال لی ہو اور اُس کی حرکات اضطرابی رنگ اختیار کر لیتیں۔
بے زبان ہونے کے باوجود رفیق بے حد حساس تھا۔ اس کی طبیعت میں دبی دبی رنگینی تھی۔ صبح سویرے ہی وہ شریف کے یہاں جا پہنچتا، ” چچی کوئی چیز تو نہیں منگانی؟“ اور پھر جب چچی رنگین اشتہار کی طرح اس کے سامنے آتی تو وہ گھبرا کے پیچھے ہٹ جاتا اس کی آنکھیں بھیگ جاتیں اور کوئی رنگین سر گلے میں پھنس جاتا۔ شدتِ تاثُر سے وہ اُف اُف سی کرتا آمکھوں کی بُوندا باندی اور تیز ہو جاتی۔ رفیق دبی دبی آنچ کو پسند کرتا تھا۔ وہ گُلِ حکمت کا متوالا تھا۔ اُسے بھڑک کر جلنے سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ اُس کے کردار میں دو پہلو نمایاں تھے رنگینی اور جھجک۔
آن ملا تھا
اس کے باوجود رفیق کو اکثر سوجھتی تھیں۔ اب کی بار اُسے لاجواب بات سُوجھی اور محلے کے لڑکے بات سن کر متفقہ طور پر جھومنے لگے۔
” میں کہتا ہوں“ وہ بولا --------- ” اگر ہم ایک ڈرامہ کھیلیں تو؟“
”ڈرامہ !“ ایلی کے دل میں گویا ایک رنگین ہوائی چل گئی۔
” ڈرامہ، آہا کیا بات ہے!“ ارجمند چلایا۔ ” کرشن کنیا ٹھیک رہے گا۔ آہاہا ادھر گائیاں ادھر گوپیاں اور بیچ میں بندرابن کا گوکل۔“
” ڈرامہ“ صفدر نے ایک لمبی آہ بھری اور سگریٹ کی راکھ جھاڑ کر شانے پھیلا کر گنگنانے لگا۔ ”حافظ خدا تمہارا۔“
یوسف سپاہیانہ ہنسی ہنسا ”یہ بھی کر دیکھو۔“ وہ بولا
رضا نے اپنی لنگڑی ٹانگ جھلا کر کہا، ”میاں کوئی بادشاہ کا پارٹ ہو تو ہمیں دے دینا۔ باقی سب خیریت ہے۔“
صفدر کے دالان میں پردوں کی جگہ کھیس اور چادریں لٹکائی گئیں۔ کیونکہ اس کے سامنے صحن کے اُوپر کی چھت گیلری کا کام دے سکتی تھی۔ جہاں سے محلے کی عورتیں ڈرامہ دیکھ سکتی تھیں۔ آغا حشر کے کھیل ”خوبصورت بلا“ کا ایک رنگین ٹکڑا کھیلنے کے لئے چُنا گیا۔ رفیق نے گُلخیرو کا پارٹ سنبھال لیا۔ ارجمند کو زٹیک کا کام ملا اور اسی طرح سب ہی پارٹ محلے کے بڑے لڑکوں نے سنبھال لئےاور وہ سب شدت سے ریہرسل میں مصروف ہو گئے۔
اس رات صحن کھچا کھچ لڑکوں سے بھرا تھا۔ اُوپر گیلری میں بیس تیس عورتیں بیٹھی تھیں۔ بستر کے لٹکے ہوئے کھیسوں اور چادروں کے پیچھے گلخیرو کی آنکھوں میں گلابی رنگ کی بوندا باندی ہو رہی تھی۔ ارجند زٹیک کے بھیس میں پریم پتر اور پریم ٹوٹا سنبھالے کھڑا تھا۔ صفدر ہدایت کار کی حیثیت سے شانے پھیلائے ”اے دلرُبا میں ہُوں فدا“ گُنگنا رہا تھا۔
کھیل شروع ہوا۔ ایکٹر یوں منہ اُٹھا کر باتیں کر رہے تھے، جیسے اللہ تعالٰی سے ہم کلام ہوں۔ گلخیرو کبوتر کی طرح سینے کو دیرا کئے کھڑا تھا۔ زٹیک چھت سے باتیں کر رہا تھا۔ پرامٹ کرنے والوں کے لئے کتاب پر نظریں جمائے رکھنا مشکل ہو رہا تھا۔ پٹاخہ بجا بھی دیتے تو پردہ کھینچنے والے کو معلوم ہی نہ ہوتا کہ اُسے پردہ کھینچنا چاہیے۔
ادھر زٹیک سامنے منظر کی وجہ سے اس حد تک مست ہوگیا تھا کہ ان جانے میں اس نے ڈنڈے کو یوں تھام لیا تھا جیسے وہ ایک بانسری ہو۔ صرف ایلی کی نگاہیں جُھکی جُھکی تھیں۔ اُسے زنانہ پارٹ کرنے میں شرم محسوس ہو رہی تھی۔
تماشائی بار بار تالیاں بجا رہے تھے۔ گیلری کے دھندلکے میں سفید سفید دانت چمک رہے تھے۔ ہلکی ہلکی روپہلی گھنٹیاں بج رہی تھیں جنہیں سن کر اداکار اور بھی چمکتےاور ان کے لئے اپنے پارٹ پر محدود رہنا مشکل ہو جاتا اور وہ اپنی طرف سے بڑھا چڑھا کر مکالمے بولتے۔ آخری گانے پر زبردست تالیاں پیٹی گئیں۔ گیلری سے دبا دبا واہ واہ کا شور بلند ہوا۔ اس پر گانے والے اور بھی چمکے اور وہ جوش میں گلا پھاڑ پھاڑ کر چلانے لگے اور وہ اپنے بازو جھلاتے ہوئے چلایا، ” آن ملا تھا اک پردیسی پیاری بھول نہ جانا۔“ جیسے گیلری میں کسی سے مخاطب ہو۔ اس پر تالیوں کا طوفان اور بھی تیز ہوگیا۔ گیلری سے با آوازِ بلند نعرے سنائی دیئے اور آخری ڈراپ گرا دیا گیا۔
کون خوش نصیب
اگلے روز جب ایلی چائے پینے کے لئے شریف کے گھر بیٹھا تھا اور شریف دو ایک منٹ کے لئے اُسے اکیلا چھوڑ کر خود کوٹھے پر گیا ہوا تھا تو دفعتا قریب ہی سے ایک سُریلی آواز اس کے کان میں پڑی، اس کا دل دھک سے رہ گیا۔ کوئی گا رہی تھی۔
” آن ملا تھا اک پردیسی پیارے بھول نہ جانا جی۔“ اس نے لپک کر ملحقہ کمرے میں جھانک کر دیکھا۔ سانوری کھڑی مُسکرا رہی تھی۔
اُس کی آنکھیں جُھکی ہوئی تھیں۔ جن پر لمبی لمبی پلکیں سایہ کئے ہوئے تھیں۔ اس کے سانورے رنگ میں مخملی چمک تھی اور کھڑے ہونے کے انداز میں واضح سپردگی۔ ایلی کا دل اُچھل کر اس کے گلے آ اٹکا۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اُسے دیکھ رہا تھا وہ مُسکرائے جا رہی تھی۔ ایلی کا جی چاہتا تھا کہ اس سے بات کرے اس سے پوچھے، ”تم سانوری ہو، کیا واقعی؟“ مگر اُس میں اتنی جُرات نہ تھی۔
شام کو ایلی جب دولت پور جانے کی تیاری میں مصروف تھا تو دفعتا وہ چونکا، ”ارے“ وہ چلایا، ”اُس نے تو کہا۔ پیارے بھول نہ جانا جی۔ پیارے ہاں ہاں یقینا اس نے پیارے کہا تھا۔ لیکن گیت میں تو پیاری تھا۔ پیاری بھول نہ جانا جی۔ پھر سانوری نے پیارے کیوں کہا تھا۔ پیارے سے اس کا مطلب کیا تھا؟ کس سے مخاطب تھی وہ؟۔ اس وقت کمرے میں تو کوئی بھی نہ تھا اور وہ کھڑکی میں تو نہ تھی۔ کھڑکی سے دُور اس دروازے کے قریب جو گھر میں کُھلتا تھا۔“ ایک ساعت کے لئے اس کی آنکھوں میں چمک لہرائی، ”شاید“ اس کے ذہن میں ایک خیال آیا، ”نہیں نہیں یہ کیسے ہو سکتا ہے، کیسے ہو سکتا ہے یہ۔ مجھ میں ہے ہی کیا، لا حول ولا قوۃ مجھ سے یہ جملہ کیسے کہا جاسکتا ہے۔ پھر سانوری کہے۔“
”لیکن پھر وہ کون تھا، کون تھا وہ؟“ وہ سوچ میں پڑ گیا۔ ”نجانے کون تھا۔ کوئی خوش نصیب ہوگا۔“
اس کی چھٹیاں کیسے نازک وقت پر ختم ہوئی تھیں۔ اگر وہاں کچھ دیر اور رہتا کاش ---------- کم از کم اُسے یہی معلوم ہو جاتا کہ وہ خوش نصیب کون ہے۔
پھر جب وہ شریف کو خدا حافظ کہنے کے لئے شہزاد کے گھر گیا تو اس نے دیکھا کہ سانوری کھڑکی میں کھڑی تھی۔ خاموش ، اُداس ، ایک ساعت کے لئے اُس کی پلکیں اُٹھیں ۔ اُس نے ایک ساعت کے لئے نگاہ بھر کر ایلی کی طرف دیکھا۔ ایک واضح آہ بھری پھر اُس کی آنکھیں جُھک گئیں۔ سانورے رنگ کی لمبوتری اُنگلی نے یوں رُخسار کو چھوا جیسے آنسو پونچھ رہی ہو پھر اُس نے منہ موڑ لیا۔
”تم جا رہے ہو ایلی۔“ شریف مُسکرایا، ”جاؤ چلے جاؤ۔ اس اندھے کنویں سے بھاگ جاؤ۔ جاؤ وہاں جہاں لوگ محبت کرنے کو گناہ نہیں سمجھتے۔ جاؤ محبت کرو ایلی۔“
ڈیوڑھی میں رفیق سر جُھکائے کھڑا تھا۔ اُس نے ایک لمبی آہ بھری۔ سی سی کی مدھم آواز سنائی دی۔ ”میں بھی جارہا ہوں ایلی“ وہ بولا، ”نوکری مل گئی ہے مجھے اب جانا ہی ہوگا۔“ وہ یوں آہیں بھر رہا تھا جیسے نوکری کا مل جانا بد قسمتی ہو۔
لالٹین کے قریب ارجمند کھڑا اس کی راہ دیکھ رہا تھا۔ ”یہ تم نہیں جارہے ایلی۔“ وہ بولا ”تمہیں کون خاطر میں لاتا ہے ------“ وہ رک گیا۔
”لیکن کیا؟“ ایلی نے مسکرانے کی کوشش کی۔
”پچکاری سے رنگ جا رہا ہے۔ بانسری سے نغمہ جارہا ہے“ ارجمند نے آہ بھر کر کہا۔
”پاگل ہو گئے ہو۔“ ایلی نے اُسے گھورا۔
”ہاں۔“ اس نے ہنسنے کی ناکام کوشش کی، ”سچ کہتا ہوں۔“ اس کی آنکھیں بھر آئیں۔
”سانوری کنہیا نے پاگل کر دیا ہے کیا؟“ ایلی نے پوچھا۔
”گوپیوں کے بغیر کنہیا کیا ہے۔ کچھ بھی نہیں اتنا بھی نہیں جانتے تم۔“ ارجمند نے پینترا بدلا ”چلے جاؤ۔ دفع ہو جاؤ۔ جاؤ ہم حکم دیتے ہیں جاؤ۔ ما بدولت کا فرمان بجا لاؤ۔ جاؤ۔------------“