صفحات

تلاش کریں

4- شہزاد

 لاہور

ایلی کو علی پور میں رہتے ہوئے ابھی کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ علی احمد آگئے اور آتے ہی بولے “ ایلی کالج میں داخل ہونے کے لیے تیار ہو جاؤ کل ہم جارہے ہیں۔ “ ایلی کے جسم میں ایک ہوائی سی چھوٹ گئی۔ لاہور وہ لاہور جہاں وہ اپنے ماموں قیوم کے ساتھ گیا تھا وہاں پیسہ اخبار محلے میں جہاں قیوم رہتا تھا۔
شام کے وقت جب قیوم اسے ٹانگے میں بٹھا کر سیر کو لے گیا تھا۔ سفید گھوڑی والا تانگہ جس کا کوچوان بوڑھا ہونے کے باوجود اس قدر زندہ دل تھا “ موتی بیٹی ۔ آج بابو جی کو سیل کرانا ہے۔۔۔۔۔۔۔ چل بیٹی دولہن کی چال چلیو۔ چل “ اور موتی یوں چلنے لگی تھی جیسے اس کی ٹانگوں تلے چھوتے چھوتے پہئے لگے ہوئے ہوں۔ گردن کے بال لہرا رہے تھے۔ نیچے سڑک پانی کے دھارے کی طرح بہہ رہی تھی اور یہ دھارا چوڑا ہوتا جا رہا تھا اور چوڑا۔ اور چوڑا ۔ سڑک کے دونوں کناروں پر سر سبز درخت اور اونچی عمارتیں ناچ رہی تھیں۔
پھر مکانات اور عمارتیں کم ہوتے گئے۔ ان کی جگہ دونوں طرف گھاس کے سبز قطعے پھیل گئے جن میں سے رنگ رنگ کے پھول سر اٹھا اٹھا کر دیکھنے لگے۔ سر سبز درخت جھوم رہے تھے۔ خاکستری ٹیلے لڑھک رہے تھے۔ سڑک بھورے فیتے کی طرح چل رہی تھی۔ سبز خمیدہ کھمبوں پر بتیاں یوں ٹمٹا رہی تھیں جیسے جگنو چمک رہے ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ لاہور!
لاہور کا نام سنتے ہی وہ اٹھ بھاگا۔ “ دادی اماں میری قمیض کہاں ہے دادی اماں میرا جوتا
۔۔۔۔۔۔‘‘دادی اماں پوچھ رہی تھیں۔’’لڑکے میٹھی روٹیاں پکادوں تجھے۔ساتھ لے جانااے ہے گاڑی میں بھوک لگے گی توکیاکرے گا۔‘‘
چندایک گھنٹوں میں ایلی کی تیاری مکمل ہوچکی تھی۔اس کے پاس تھاہی کیاکہ سنبھالنے میں دیرلگتی۔دوقمیض چارایک پاجامے ایک پراناکوٹ اورایک گھساہواجوتا۔
لاہورپہنچ کرعلی احمدنے اسے تانگے پربٹھایاوہ تانگہ انہیں گندے اوربھیڑسے بھرے بازاروں میں گھماتاہوابھاٹی دروازے لے گیا۔یہ کیسالاہورتھا۔کیایہ وہی لاہورتھا۔جہاں موتی نے اسے سیرکرائی تھی۔یہ لاہوراس لاہور سے کس قدرمختلف تھا۔
ایلی کی سمجھ میں نہ آیاپھربھی تسلی تھی کہ وہ لاہورآگیااب اسے گھرمیں دبک کررہنے کی کوفت سے نجات مل جائے گی۔اب اس سے کوئی نہ کہے گا’’ایلی حقہ بھردو۔‘‘اب اسے کنوئیں سے بوتل میں پانی بھرنانہیں پڑے گااورعلی احمدکاکمرہ دورہوگا۔بہت دور۔۔۔۔اب کوئی آساصحن میں بیٹھ کرتنکے سے زمین پر لکھنے میں مصروف دکھائی نہ دے گا اور نیم وا دروازے سے رضامندی بھر ے سفید دانت نہ چمکیں گے۔ اب اسے ہر چیز خریدنے کے لئے علی احمد کے سامنے ہاتھ پھیلانے نہ پڑیں گے۔ جب وہ علی احمد سے پیسے مانگتا تھا تو ۔۔۔ توبہ ہے وہ ایک جملہ کتنادوبھر ہو جاتا تھا اور ۔۔۔ اور جب وہ کچھ کہہ چکتا تو علی احمد کے جواب دینے سے پہلے دنیا پر سناٹاچھایارہتا۔ زندگی گویا کو برف کی سل بن جاتی اور پھر جب علی احمد اچھا کہتے تو گویا’’کن ‘‘ کی آواز آتی اور وہ انجماد اور تعطل ختم ہوجاتا اور چاروں طرف زندگی ازسرنو بیدار ہوجاتی۔ لیکن علی احمد اچھا کہاں کہتے تھے۔ اب اس کی اپنی جیب میں پیسے ہوں گے اوروہ مونگ پھلی خرید سکے گا اور گڑ کی ریوڑیاں۔۔کتنی کڑاکے دار ہوتی ہیں گڑ کی ریوڑیاں۔عیش خالص عیش۔اتنی آزادی۔ اتنی آزادی اسے مل جائیگی کیا۔وہ حیران تھا۔

گلیاں ہی گلیاں

رات علی احمد اور ایلی نے ایک عزیز کے یہاں بسر کی اور صبح سویرے ایلی کو ساتھ لے کر علی احمد کالج کی طرف چل پڑے۔۔۔’’ہائیں یہ ابا کدھر جارہے تھے۔‘‘ایلی سوچنے لگا۔یہ تو گلیاں ہیں۔ تنگ و تاریک گلیاں۔۔۔۔کیاکالج گلیوں میں ہوتے ہیں اورگلیاں فضول گھومے جارہی تھیں۔ لیکن وہاں کالج تو نہ تھا کوئی۔ وہاں تو عورتیں ہی عورتیں تھیں ۔کھڑکیوں سے لٹکتی ہوئی عورتیں ۔ منڈیروں سے جھانکتی ہوئی عورتیں۔ چوکیوں پربیٹھی ہوئی عورتیں ۔ بال بناتی ہوئی۔۔۔ دانتوں پردنداسہ ملتی ہوئی دوپٹے سنبھالتی ہوئی۔لجاتی ہوئی۔ گھورتی ہوئی۔چیختی ہوئی۔چلاتی ہوئی عورتیں۔۔۔۔اوروہ گلیاں ختم ہونے میں نہ آتی تھیں ایک ختم ہوتی تودوسری شروع ہوجاتی۔ ایک مڑ جاتی تو دوسری کھل جاتی ۔ گلیاں ہی گلیاں۔ تنگ کھلی۔ بودارگلیاں۔جہاں علی احمد کے سوامرد گردن جھکائے گزرتے تھے اور مٹیاریں سینہ ابھار کر چل رہی تھیں ۔۔ وہ تھک گیا مگر گلیاں چلے جارہی تھیں اور ان میں علی احمد سر اٹھائے منڈیروں کی طرف دیکھتے ہوئے شاہانہ انداز سے یوں چل رہے تھے جیسے باغ میں ٹہل رہے۔ دفعتاً گلیاں ختم ہوگئیں۔ چوڑی سڑک آگئی۔ ’’وہ تمہارا کالج ہے ۔ایلی‘‘علی احمد نے سامنے سرخ عمارت کی طرف اشارہ کیا’’اور دیکھا یہ ۔‘‘وہ گلیوں کی طرف اشارہ کرکے بولے ’’یہ لاہور ہے لاہور۔ خوب جگہ ہے لاہور۔‘‘وہ ہنسنے لگے۔

مال کا لال

علی احمد دو دن ٹھہرے۔ ایلی دعائیں مانگتارہا کہ وہ جلد رخصت ہوں اور اسے آزادی حاصل ہو لیکن جب سب کام مکمل ہوگیا۔ فیسیں ادا کردی گئیں۔ کتابیں مہیا کردی گئیں بورڈنگ میں 17نمبر کے کمرے میں اس کی چارپائی رکھوا دی گئی اور علی احمد رخصت ہونے لگے تونہ جانے کیوں وہ گھبرا گیا۔
بورڈنگ میں لڑکے ہی لڑکے بھر ے پڑے تھے۔ بڑے بڑے لڑکے۔ اونچے لمبے بھرے بھرے جسم کے مرد نما لڑکے عجیب سے چہروں والے لڑکے بڑی رعونت سے گھورنے کے عادی تھے۔ جو ڈانٹ کر یوں بات کرتے جیسے تھانے دار ہوں۔ ’’اے لڑکا۔ادھرآؤ۔‘‘اور’’اے تم کون ہو۔ کون ہو تم۔‘‘وہ ہروقت مونچھیں مروڑتے۔ اپنے تہہ بند جھاڑتے رہتے۔ کیونکہ پاجاموں کی جگہ انہوںنے بڑی بڑی چادریں لپیٹ رکھی تھیں۔ جن کے تلے طلائی جوتے تھے۔ جنکی نوکیں نکلی رہتی تھیں۔ ان لڑکوں کے ساتھ عمر رسیدہ نوکر تھے جو انہیں حقہ پلانے کے علاوہ مٹھی چاپی میں مصروف رہتے۔ ایلی انہیں دیکھ کر ڈر گیا اور پھر سہم کر سترہ نمبر کے ایک کونے میں دبک کر بیٹھ گیا۔
’’اے تو کون ہے ؟‘‘ایک لمبا تڑنگا لڑکا کمرے میں آگھسا’’کون ہے تو؟‘‘
’’جی ۔ جی۔جی۔۔‘‘ایلی گھبرا گیا۔
’’جی جی کیا۔سیدھی بات کرو۔‘‘
وہ چلا گیاتو ایلی اٹھ بیٹھا۔اس کے اردگرد دیواریں گھوم رہی تھیں۔ ہوسٹل میں ہر طرف اونچے لمبے جاٹ قسم کے لڑکے اس کا مذاق اڑار ہے تھے ۔ ’’ٹھہراولونڈے ۔ کہاں جا رہا ہے تو مار رہے تھے۔ منہ چڑا رہے تھے۔‘‘ ایلی بھاگنے لگا۔ ایک بھدی سی آواز پیچھے سے چلا رہی تھی۔ ’’ٹھہر او لونڈے ۔‘‘
ارے یہ لڑکیاں کہاں سے آگئیں۔ ‘‘ایک لڑکا ایلی کا راستہ روک کر کھڑ اہو گیا۔ اس نے زبردستی ایلی کی ٹھوڑی پکڑ لی اور اس کے منہ کو چاروں طرف گھما کر بولا’’یہ دیکھو ماں کا لال۔ ابھی ماں کا دودھ پینا نہیں چھوڑا اور آئے ہیں یہاں کالج میں داخل ہونے کے لئے ۔ ماں پیٹ ہی سے دسویں کرکے آتے ہیں۔‘‘
خوف سے ایلی کی حرکت قلب بند ہوئی جارہی تھی۔ اس کی کنپٹیاں تھرک رہی تھیں۔’’جا اپنی ماں کی گود میں جا کر بیٹھ ۔‘‘اس نے دھمکی دے کر کہا۔’’دوڑا می کی گود میں جا کر بیٹھ ۔‘‘ پھر ایلی کو کچھ معلوم نہیں۔وہ بھاگ رہاتھا۔ سڑکوں پر بھاگ رہاتھا۔ بھیڑ کوچیرتا ہوا جارہا تھا۔ لوگ اس کی طرف منہ اٹھا اٹھا کر دیکھ رہے تھے وہ زیر لب ایک دوسرے سے کچھ کہہ رہے تھے۔ ’’ماں کی پیٹ سے دسویں پاس کرکے آتے ہیں۔‘‘’’یہ دیکھو مائی کا لال۔ہا ہا ہا۔‘‘
سارا لاہور اس کے راز سے واقف تھا۔ سبھی اس پر ہنس رہے تھے ’’پکڑ لو۔ پکڑ لو۔‘‘ وہ پھر بھاگ اٹھتا۔ لڑکیاں نفرت سے اس کی طرف دیکھ کر مسکراتیں ۔ عورتیں ہاتھ چلا چلا کرباتیں کرتیں۔ تانگے والے اس کا مضکحہ اڑا رہے تھے ۔ ’’ہٹ بابو۔‘‘
اس کا جی چاہ رہاتھا کہ بھاگ کر دادی اماں کے پاس جا پہنچے اور وہ اسے تھپک تھپک کر سلا دے۔’’کیا ہے تجھے ایلی۔ سو جا۔ کچھ بھی نہیں۔ کچھ بھی نہیں۔‘‘ اور پھر مطمئن ہوکر وہ رضا کی دکا ن میں جا بیٹھے۔ ’’آؤ بابو ایلی۔ بیٹھ جاؤ۔‘‘ اور وہ پروقار انداز سے بیٹھ جائے یا ارجمند کے پاس جا کر کھڑا ہو۔’’ایلی وہ دیکھو بین بجی اور ناگ مست ہوا ہے نا۔‘‘ وہاں اس کی اہمیت تھی۔ وہاں لوگ اسے ماں کا لال نہیں سمجھتے تھے وہاں اس کی باتیں ایک حیثیت رکھتی تھیں۔ بازار میں جگہ جگہ چھابڑی والے مونگ پھلی، ریوڑیاں اور چنے بیچ رہے تھے لیکن اسے کچھ بھی تو دکھائی نہ دے رہا تھا۔ چاروں طرف بھیانک دھند لکا چھایا ہوا تھا اونچے اونچے کھمبے سروں پر ٹمٹماتی بتیاں اٹھائے ناچ رہے تھے۔
نہ جانے کب تک وہ بازاروں میں آوارہ گھومتا رہا لیکن آخر کار اسے واپس ہوسٹل میں آنا ہی پڑا ۔ واپس آنے کو اس کا جی تو نہ چاہتا تھا۔ اس گنوار خانے کی نسبت سٹیشن کے پلیپ فارم پر بیٹھ کر وقت کاٹنا کہیں بہتر تھا۔ لیکن سٹیشن بھی تو ایک اجنبی مقام تھا جہاں پولیس کے سپاہی ہر بیٹھے اور لیٹے مسافروں کو شک کی نظروں سے دیکھتے تھے۔ اسے کسی عزیز کے گھر کاراستہ بھی معلوم نہ تھا۔
ڈرتے ڈرتے وہ بورڈنگ میں جا داخل ہوا وہاں برآمدوں میں گراؤنڈ میں جگہ جگہ چارپائیاں بچھی ہوئی تھیں۔ حقے گڑاگڑا رہے تھے۔ سفید چادریں جھاڑی جاری تھیں۔’’او نذیرے۔ اوفقے۔‘‘ کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔
چپ چاپ وہ کمرہ نمبر سترہ میں جا پہنچا۔ہائیں وہاں تو کچھ بھی نہ تھا۔ نہ اس کا ٹرنک۔ نہ سوٹ کیس۔ نہ بستر نہ چارپائی کمرے کے دروازے کے قریب برآمدے میں ایک جاٹ کو بیٹھا دیکھ کر وہ اس کی جانب بڑھا۔
’’جی۔جی۔‘‘اس دل دھڑک رہاتھا’’یہاں اس کمرے میں یعنی کمرہ نمبر سترہ میں یہ والا میرا سامان بستر۔‘‘
جاٹ نے بے پروائی سے اس کیطرف دیکھا اورکھانس کر بولا’’معلوم نہیں۔‘‘
دومونچھوں والے جوان سامنے کوٹھے پر چارپائیوں پرپڑے تھے۔وہ ان کے قریب چلا گیا۔ لیکن ان سے بات کرنا کچھ آسان نہ تھا۔
’’کیوں بھئی۔ کیا دیکھتا ہے۔‘‘ ایک نے چلا کر کہا۔
’’کچھ نہیں جی۔ کچھ نہیں۔‘‘ ایلی نے کہا۔
’’ہوں۔کون ہے ۔ یہاں کیوں گھوم رہاہے۔‘‘
’’جی میں سترہ نمبر میں فرسٹ ائیر میں۔ میں ۔میں۔‘‘اس کی گھبراہٹ بڑھتی جارہی تھی۔’’جی میرا بستر چارپائی۔ٹرنک‘سب غائب ہیں۔‘‘
’’ہائیں۔کیا مطلب ہم چور ہیں۔‘‘ایک نے مونچھ مروڑتے ہوئے پوچھا۔
’’جی ۔جی۔نہیں۔‘‘ایلی نے جھٹ انہیں یقین دلانے کی کوشش کی’’یہ تو اپنے ہوسٹل کا نئیں ہے۔‘‘ایک نے اسے کھنکھار کر کہا’’ادھر آبے۔ ‘‘’’چوری کرنے آیا ہے تو۔‘‘
’’جی جی نہیں۔میں تو۔‘‘
’’بھاگ جا یہاں سے ورنہ پولیس کو بلائیں گے۔ دوڑ۔‘‘
ایلی پھر بھاگ رہا تھا۔ نہ جانے کہاں کس طرف ۔ لوگ اسے مشتبہ نظروں سے دیکھ رہے تھے ۔ پولیس مین کے سامنے پہنچ کر وہ گھبرا جاتا اور آنکھ بچا کر نکل جانے کی کوشش کرتا۔ نہ جانے کیوں وہ اپنے آپ کو چور سمجھنے لگا تھا۔ آوارہ۔چور پلیٹ فارم پر وہ ایک بنچ پر پڑ گیا۔ اسے مسافر خانے کے بنچ پر پڑے دیکھ کر پویس والا آدھمکا۔
’’ہے ۔کون ہے ۔تو۔کہاں جائے گا؟‘‘
’’جی جی۔‘‘وہ اٹھ بیٹھا۔
’’کہیں بھی نہیں۔‘‘وہ بولا۔
’’تو یہاں کیوں پڑا ہے؟‘‘
’‘میں ۔میں۔‘‘وہ گھبرا گیا اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کہے۔ نہ جانے اسے کیا کہنا چاہئے تھا۔ وہ اٹھ بیٹھا۔
’’بھاگ یہاں سے۔‘‘ حوالدار نے مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے کہا۔
ایک بار پھر وہ ویران لاہور کی سڑکوں پر گھوم رہاتھا۔ جہاں خوفناک شکلوں والے کتے بھونک رہے تھے۔ ہرقدم پر وہ ٹھٹھک جاتا۔ رک جاتا۔ نہ جانے کہاں سے کوئی آنکلے گا۔ کتا بھونکے گا یا کوئی حوالدار مونچھ مروڑ کر اسے گھورے گا۔ توبہ کس قدر ویران شہر تھا وہ کتنی چوڑی سڑکیں تھیں وہاں اورو ہ کھمبوں پر ٹنگی ہوئی بتیاں یوں ٹمٹما رہی تھیں۔ جیسے کسی ڈائن کی آنکھوں کی پتلیاں ہوں۔
پھر دفعتاً اسے خیال آیا آخر وہ پولیس والا یہی پوچھتاتھا نا کہ کہاں جائے گا۔ ٹکٹ کہاں ہے تیرا۔۔۔اس خیال پر وہ پھر سٹیشن کی طرف مڑ گیا۔ بکنگ آفس سے اس نے ٹکٹ خریدا اور ویٹنگ روم کی طرف چل پڑا۔
پھر جو اسے ہوش آیا تو وہ گاڑی میں بیٹھا اور گاڑی علی پور کی طرف فراٹے بھرتی ہوئی جارہی تھی۔

پناہ گاہ

علی پور پہنچ کر وہ اپنی تمام گزشتہ تکالیف کو بھول گیا۔ اس نے محسوس کیا جیسے ویرانی ختم ہوگئی ہو اور وہ پھر سے ایک حیثیت سے مالک ہوگیا ہو۔
’’ایلی ۔ایلی ۔ایلی۔‘‘ چاروں طرف سے آوازیں آرہی تھیں۔
’’ایلی۔‘‘دادی چلا رہی تھی ۔’’تیرا دل لگ گیا تھا وہاں لاہور میں ۔ توبہ اتنی دور تن تنہا جانا۔ نہ بھئی میں تو نہیں چاہتی تو وہاں اکیلا جائے۔‘‘
’’ایلی۔‘‘ ارجمند چلا رہاتھا۔ ’’تم آگئے ۔ اچھا ہوا تم آگئے۔ تم چلے جاتے ہو تو سب گڑ بڑ ہوجاتا ہے۔ اسٹنٹ نہ ہو تو بیچارہ ہیڈ کیا کرے۔ بڑی چیز ہوتی ہے اسٹنٹ ۔ ہاں تم جانتے دفتروں میں اس کی کیا حیثیت ہوتی ہے اور پھر یہاں انکر اینڈی آفس ہے۔‘‘
’’آگے ۔‘‘ رضا نے اپنی لنگڑی ٹانگ کو گھماتے ہوئے کہا۔’’آؤ بیٹھو۔ اب تو کالج والے بن گئے۔ بابو بن گئے تم۔‘‘
’’ایلی۔‘‘ جمیل اسے دیکھ کر مسکرانے لگا۔’’آؤ اونچی گلی میں آؤ وہاں آج لالہ نے تازہ گلاب جامن بنائے ہیں۔آؤ۔‘‘
’’توآگیا ایلی۔‘‘سعیدہ نے اپنا خوشبودار دوپٹہ سر پر لیتے ہوئے کہا’’آ جا‘آج رات کو چور سپاہی کی بازی لگے گی۔ آئے گانا تو۔۔۔‘‘
’’ہاں ۔ ہاں۔ ‘‘ایلی نے کہا ’’ضرور آؤں گا۔‘‘
’’ایلی۔۔۔۔اب تو کالج کے ٹھاٹھ ہیں نا۔‘‘ حکیم صاحب اسے دیکھ کر طنزاً مسکرائے۔
چودھری یہ سن کر بولا ’’کیا فرق ہے حکیم صاحب۔ یہ تو جیسے پہلے تھا ویسے ہی اب بھی ہے ۔ وہی رضا کی دوکان۔ وہی تاش کی گڈی۔‘‘
چچا عظمت رک گئے ’’کیا کہا چودھری۔ تاش کی گڈی۔ تاش کھیلنے کے علاوہ ان لنڈوروں کو آتا ہی کیاہے۔ اللہ آپ کابھلا کرے۔ ‘‘رضا ہنسا’’یہی میں کہہ رہاتھا۔ چچا عظمت ۔‘‘تو چچا عظمت نے رضا کی طرف انگلی سے یوں شست باندھی جیسے اسے گولی کا نشانہ بنا رہے ہوں تمہیں تو نے لچ پنے کا اڈہ بنا رکھا ہے۔ یہ دکان تو محض ایک بہانہ ہے۔‘‘
’’ہاں ۔ ‘‘ رضا ہنسا’’چچا جی یہی بتارہاتھا میں انہیں۔ لیکن ان احمقوں کی سمجھ میں آئے بھی بات‘ بالکل بھس بھرے ہیں یہ سب اور اور یہ ایلی۔۔۔‘‘
علی پور آجانے سے ایلی کی ایک حیثیت پیداہو جاتی تھی۔ اگرچہ محلے کے بزرگ اور بوڑھیاں اکثر پنجے جھاڑ کر پیچھے پڑے رہتے پھر بھی علی پور تھا اور لاہور۔ لاحول ولا قوۃ وہ تو ایک ویرانہ تھا۔ کھوے سے کھوا چھلنے کے باوجود ویرانہ۔
لاہور کا خیال آتے ہی ایلی گھبرا جاتا۔ اس کی پیشانی پر پسینہ چھوٹ جاتا۔ لیکن وہ دل ہی دل میں جانتا تھا کہ اسے لاہور جانا ہی ہوگا۔ علی پور میں رہنا ممکن نہ تھا۔ پھر بھی جتنے دن وہ علی پوررہ سکتا تھا۔ غنیمت تھا۔
’’اے ہے تیری چھٹی ابھی ختم نہیں ہوئی کیا۔‘‘ دادی اماں اسے چوتھے ہی روز گھورنے لگی ۔’’اب تو واپس بھی جائے گا یا یہیں آوارہ گردی کرتا رہے گا۔ میں تیرے ابا کو کیا جواب دوں گی۔‘‘
’’لیکن میں وہاں بورڈنگ میں جا کر بھوکوں مروں۔‘‘ ایلی کو سوجھی ’’لو وہاں تو بلکہ کھانے کو میوے ملتے ہیں تیرے ابا کہہ رہے تھے اس روز تو بھی پاس ہی تھا۔‘‘دادی نے جواب دیا۔
’’ہونہہ میوے۔ وہاں تو روٹی بھی نہیں ملتی۔ بڑے لڑکے سب کچھ کھا جاتے ہیں۔ فرسٹ ائیر والوں کو کون پوچھتاہے ۔
پہلے تو دادی اماں نے ایلی کی بات کااعتبار نہ کیا لیکن جب اس نے دیکھا کہ لاہور کے نام پر ایلی کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر جاتی ہیں تو اسے یقین آ گیا۔
’’نہ بھئی میں تو ایلی کو بورڈنگ میں نہ بھیجوں گی۔ اے ہے اپنا فیروز جو رہتا ہے ۔ وہاں لاہور میں پھر لڑکا بورڈنگ میں بھوکوں کیوں مرے۔ نہیں بھئی میرا ایلی وہاں نہیں رہے گا کبھی بھی۔ اپنا گھر نہ ہوتو بھلا مجبوری ہوئی۔لیکن فیروز کے ہوتے ہوئے لڑکے کو بھوکوں مارنا۔‘‘

قہقہہ اور نعرہ

فیروز کی جوانی دیر سے ڈھل چکی تھی ۔ لیکن اس کے رخساروں پر سرخی کی جھلک ابھی تک نمایاں تھی۔ جسم بھرا ہوا تھا۔ چہرہ پروقار ہونے کے باوجود نہ جانے کیوں بے جان سا محسوس ہوتا تھا شانے چوڑے تھے چال ایستادہ تھی اور جسم تنو مند اور مضبوط تھا۔ لیکن اس کے باوجود فیروز کو دیکھ کر محسوس ہوتا جیسے اس کی عظمت ماضی سے تعلق رکھتی ہے۔ جیسے وہ گزشتہ جاہ و حشمت اور عیش و عشرت کی ایک داستان ہو۔ اس کی آنکھوں میں چمک اور وقار دونوں خصوصیات بہ یک وقت موجود تھیں۔ لیکن ان میں ایک بے نام سے بے حسی کی جھلک تھی۔مبہم سی اکتاہٹ اور محرومی۔
فیروز کی زندگی اس ویرانی اور محرومی کے باوجود متوازن تھی۔ جسے پابندی اوقات سے خصوصی تعلق تھا۔ وہ صبح سویرے جاگ اٹھتا۔ ٹھنڈے پانی سے غسل کرنے کے بعد کپڑے پہن کر چہل قدمی کے لئے باہر نکل جاتا۔ واپسی پر چائے پینے کے بعد تھوڑا سا مطالعہ کرتا اور پھر کھانا کھا کر کپڑے اتار کر آرام کرتاحتیٰ کہ چائے کا وقت ہو جاتا اورچائے پینے کے بعد وہ کپڑے پہن کر باہر سیر کو چلا جاتا اور واپسی پر کھانا کھا کے لیٹ جاتا۔
فیروز کو باتیں کرنے سے قطعی دلچسپی نہ تھی۔ اس کی خاموشی کسی دلخراش المیہ کی شاہد تھی۔ فیروز کے کمرے کے قریب ہی ایک کوٹھڑی میں اس کی ہمیشرہ صابرہ رہتی تھی۔ وہ ہروقت چارپائی پر بیٹھی تسبیح پڑھتی رہتی تھی۔ اسکے سر پر خاکستری رنگ کی چادر پڑی رہتی۔ جس میں اس کا سرخ و سپید چہرہ یوں دیکھتا۔ جیسے کسی نے اندھیری کوٹھری میں کوئلے دہکا رکھے ہوں۔ اس کے سیاہ لمبے بال عام طور پر کھلے لٹکے رہتے۔ ’’بیٹھ جاؤ۔‘‘وہ نووارد کی طرف مسکرا کردیکھتی اور بڑے اخلاق سے اس سے باتین کرتی اور پھر دفعتاً اس کا قہقہہ گونجتا ایک بے پروا بے نیاز۔ پروقار قہقہہ۔ وہ ہر تکلیف اور پریشانی پر قہقہہ مار کر ہنستی اور نووارد محسوس کرتا جیسے وہ دنیاوی تفکرات پر خندہ زن ہو۔صابرہ کا چہرہ پڑا پروقار اور بارعب تھا۔ اس کا انداز بے حد پر اثر تھا۔
اس کوٹھڑی کے اردگرد کئی ایک کوٹھڑیوں میں صابرہ کی بیٹیاں رہتی تھیں۔ سب سے چھوٹی لڑکی فیضہ کی شادی کسی سید سے ہونے والی تھی جو کسی گاؤں میں زمیندار تھا ۔ سرور کا خاوند ایک معمولی دوکاندار تھا جس کی دوکان لوہے کے کباڑ خانے پر مشتمل تھی وہ حسرت زدہ امید سے خاوند کاانتظار کرتی کہ کب دوکان سے چار پیسے کما کرلائے اور وہ ہانڈی روٹی کا انتظام کرے۔ سرور دن بھر کپڑے دھوتی بچوں کو پیٹتی اور خاوند کو زیر لب برا بھلا کہتی رہتی۔ بچے چپ چاپ حیران نگاہوں سے کبھی ماں اور کبھی سیڑھیوں کی طرف دیکھتے۔
ایک کوٹھڑی میں خاور اجلے کپڑے پہنے کوئی کتاب پڑھتی رہتی یا سرورکے بچوں کی طرف دیکھ کر ناک بھوں چڑھاتی۔ فیضہ کو دیکھ کر محسوس ہوتا تھا۔جیسے وہ اس گھر کی فرد نہ ہو۔ اس کے انداز میں نہ تو مایوسی تھی اور نہ بے نیازی اس ویرانے میں فیضہ ایک سرسبز خطے کی طرح تھی۔ اسکے ہاتھ حنا کے رنگ سے چمکتے تھے۔ اس کے ہونٹ مسکراہٹ سے کھلے رہتے اور لبوں پر کسی ناکسی ڈھولک گیت دھن ناچتی۔ جب وہ ڈھولک کے ساتھ گاتی تو ایسا معلوم ہوتا جیسے بہار آگئی ہو۔
اوپروالی منزل میں انور اور اس کی بیٹی مینا رہتے تھے۔ ایک چھوٹے سے کمرے میں انور چولہے کے سامنے بیٹھی دیوار کی طرف تکتی رہتی۔ جیسے دیوار کے پار دور۔۔بہت دور نہ جانے کیا دیکھ رہی ہو۔ اس کی لٹ جھٹک کر منہ پر آ گرتی آنکھوں میں ان بہے آنسو چھلکتے اور وہ باربار آہ بھرتی اور ننھی مینا گڑیا تھامے کبھی ماں کی طرف دیکھتی اور کبھی دیوار کی طرف۔ یہ وہ مکان تھا جہاں لاہور میں ایلی کو قیام کرنا تھا۔
فیروز ایلی کا پھوپھا تھا۔ پھوپھی مر چکی تھی اور اب فیروز تنہائی کی زندگی بسر کر رہا تھا۔ ابتدائی زندگی میں محکمہ پولیس میں اچھے عہدے پر فائز تھا پھر شاید وہ مسلسل حکومت سے اکتا گیا اور اس کے دل میں محکومیت کی آرزو چٹکیاں لینے لگی یا شاید یہ سب راگ رنگ اور رقص کا اعجاز ہو۔مسلسل عیش و طرب انسان کے دل میں نسائی آرزوئیں پیدا کردیتا ہے ۔ بہرحال اسے ایک رقاصہ سے محبت ہوگئی اور ایک روز شراب کے نشے میں خود کشی کی عملی مگر ناکام کوشش کی وجہ سے وہ ملازمت سے بر طرف کردیا گیا اور بالاخر ظہور اس رقاصہ کے چوبارے پر جا بیٹھا۔ بائی نے کئی ایک سال اس کی خدمت کی ۔ پھر بائی کی اچانک موت پر وہ اپنی ہمیشرہ کے گھر آنے پر مجبور ہوگیا تھا اور اب وہ سب اکٹھے ایک مکان میں رہتے تھے۔ فیروز خاموشی سے میز پر بیٹھا رہتا یا چارپائی پر لیٹ کر ماضی کی یاد میں کھو جاتا۔ ملحقہ کمرے میں صابرہ بیٹھی تسبیح کے دانے گنتی رہتی اور کبھی کبھار ایک بے نیاز اور پرجلال قہقہہ لگاتی۔ ساتھ ایک نعرہ بھی’’داتا۔‘‘ اس قہقہے میں بے نیازی اور زندگی تھی اس نعرے میں جذبہ اور جوش تھا۔ وقار سے بھر پور زندگی احترام سے بھر پور جذبہ۔
اوپر والی منزل میں انور ڈبڈبائی ہوئی آنکھوں سے دیوار کی طرف دیکھتی اور پھر آہ بھر کر کہتی ’’ایلی تم نہیں جانتے ساس اور نندوں نے مینا کے ابا کو ہاتھ میں لے رکھا ہے اور میاں آپ بھی تو جانے کس مٹی کے بنے ہیں کہ انہیں کسی بات کا ہوش ہی نہیں راجہ اندر بنے بیٹھے ہیں۔ ہائے ایلی ماں باپ نے مجھے کہاں جھونک دیا۔ میری تو قسمت ہی پھوٹ گئی۔‘‘ اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرتے اور وہ انہیں پلو سے پونچھ کر پھر دیوار کی طرف ٹکٹکی باند ھ کر دیکھنے لگتی۔ اس پر ننھی مینا اور بھی سہم جاتی اور اسے گڑیا کا کھیل بھول جاتا اور ایلی سوچنے لگتا یااللہ یہ سب کیاہے؟ یہ روئی روئی خوبصورت عورت،وہ سپنے دیکھنے والا سرخ و سپید بزرگ، اور ایک دوسرے سے بے خبر بے نیاز، بہنیں اور ان کے بلکتے ہوئے بچے۔۔۔وہ حیران ہوتا اور پھر سوچ میں کھو جاتا۔ پھر دفعتاً صابرہ کا قہقہہ گونجتا اور داتا کا نعرہ بلند ہوتا جیسے وہ غربت اور ان مصائب کا جو اس کے گھر پر مسلط و محیط تھے۔ تمسخر اڑا رہی ہو۔
فیروز کے مکان کے متصل بھنگی رہتے تھے۔ جن کی لڑکیاں گایاکرتی تھیں۔ انکے یہاں روز ایک نہ ایک تقریب رہتی ۔نہ جانے کیوں۔ ہفتے میں دو چار مرتبہ ڈھولک بجتی اور عورتیں دیر تک گاتیں ۔ جیسے سن کر فیروز چپ چاپ پتھر کی طرف چارپائی پر پڑا رہتا اور صابرہ کی تسبیح اور بھی تیزی سے چلتی اور انور کے دوپٹے کا پلو بالکل ہی تر ہو جاتا اور خاور ناک سیکڑ کر کہتی’’توبہ ہے کس قدر چیختی ہیں یہ بھگنیں۔ کیسا واہیات محلہ ہے۔‘‘ اور فیضہ شوق سے شاہ نشین پر جا بیٹھتی اور ان کے گیت سننے میں محو ہو جاتی یا مسحور ہو کر چلانے لگتی ’’ہائے آیا کیسی اچھی ڈھولک بجاتی ہیں یہ ہائے میں کیا کروں۔‘‘

دھندلکا

صبح سویرے ایلی منہ ہاتھ دھو کر کالج کی طرف چل پڑتا۔ لیکن نہ جانے کیوں اسے جوں جوں کالج کے قریب پہنچتا اس کے دل میں ہول اٹھنے لگتے۔ دبی دبی گھبراہٹ ابھرتی اور اسے چاروں طرف سے گھیر لیتی ۔ کالج کی طرف چلتے ہوئے ہر قدم پر اس کی حیثیت کم تر ہو جاتی۔ حتی کہ کالج میں پہنچ کر وہ ایک ٹھنگنے میں بدل جاتا اور پھر چاروں طرف بڑے بڑے گلیور اس کے گرد گھومتے اسے گھورتے اس کا تمسخر اڑاتے۔ ایلی کی نگاہیں جھک جاتیں اس کا جی چاہتا کہ کہیں بھاگ جائے دور۔۔۔بہت دور جہاں کوئی نہ ہو۔ جہاں کوئی اس کا تمسخر نہ اڑائے۔ کوئی اسے دھمکی نہ دے جہاں لوگ اس قدر اونچے لمبے اور ہیبت ناک نہ ہوں پھر نہ جانے کیا ہوتا اس کے گردو پیش ایک دھندلکا سا چھا جاتا اور وہ دھند لکا ان گلیوروں کو ایلی کی نظروں سے چھپا دیتا۔ ان کے تمسخر بھرے قہقہے مدھم پڑ جاتے۔ پھر وہ دیکھتا کہ وہ بازاروں میں گھوم رہا ہے۔ ان جانے بازاروں میں ۔ نئی نئی سڑکوں پر یہ دیکھ کر اس کے دل کو اطمینان سا ہوجاتا۔ جیسے اس نے اپنی دنیا اور اپنی زندگی محفوظ کرلی ہو۔ جیسے وہ کسی بہت بڑے خطرے سے نکل آیا ہو۔
اس کے باوجود اس کے دل میں کھٹک سی لگی رہتی کہ وہ کالج میں حاضری نہیں دے رہا۔ کلاسز اٹنڈ نہیں کر رہا۔ بلکہ آوارہ گردی کررہا ہے۔ گناہ کا ارتکاب کر رہا ہے۔ گناہ کا خیال آتے ہی اس کی نگاہوں میں دو حنائی ہاتھ لٹکنے لگتے اور وہ ازسر نو مضطرب ہوجاتا۔ اس اضطراب سے مخلصی پانے کے لئے اس نے کئی ایک طریقے ایجاد کررکھے تھے۔ وہ مونگ پھلی اور ریوڑیاں کھانے میں مصروف ہوجاتا لیکن مونگ پھلی اور ریوڑیاں ایسی چیزیں صرف وقتی مصروفیات بہم پہنچا سکتی تھیں ۔ اس نے اس سلسلے میں سگریٹ کو بھی آزمایا تھا۔ مگر سگریٹ بھی مفید ثابت نہ ہوئے تھے الٹا وہ تو گلے میں کھرکھری سی پیدا کرتے تھے۔ جس سے اس کا اضطراب اور بھی بڑھ جاتا تھا ان سب باتوں سے اکتا کر سڑکوں پر بھٹکتے پھرنے سے تھک کر وہ کسی سینما ہال میں چلا جاتا اور چار آنے کا ٹکٹ خرید کر دو ڈھائی گھنٹے تک ایلمواور پیڈرو بہادر کے کارنامے دیکھنے میں کھو جاتا۔ سینما ہال کا اندھیرا اسے لوگوں کی ٹٹولتی ہوئی جانچتی ہوئی پریشانی کن نگاہوں سے محفوظ کر لیتا اور پھر اطمینان سے پیڈرو بہادر کا روپ دھار کر وہ بدمعاشی کو پیٹتا اور بالاخر حنائی ہاتھوں والی حسینہ کو گھوڑی پر چڑھا کر ہوا ہو جاتا۔
لیکن سینما سے فارغ ہو کر جب وہ گھر پہنچتا تو وہ حنائی ہاتھ شہ نشین کو تھامے ہوتے۔ جھکی جھکی نگاہوں سے وہ انہیں دیکھتا اور پھر چپ چاپ نگاہ اٹھائے بغیر چوبارے میں جا پہنچتا جہاں انور چارپائی پر بیٹھی فضاکو گھور رہی ہوتی۔
اسے قریب بیٹھے دیکھ کر وہ چونکتی۔ ’’ہائے ایلی میری قسمت ہی پھوٹ گئی۔ کیا تھا اور کیا ہوگیا۔ ایلی۔۔۔ انہوں نے اس قدر ظلم کیوں کیا مجھ پر۔ میںنے ان کا کیا بگاڑا تھا۔‘‘ اور وہ ٹپ ٹپ رونے لگتی۔
پھر صابرہ کے قہقہے کی آواز سنائی دیتی اور وہی نعرہ’’۔۔۔داتا‘‘ اور پھر متصل کوٹھڑیوں سے بھنگنوں کی ڈھولک اور گیت کی آوازیں بلند ہوتیں ۔’’اگ بال کے دھوئیں دے پج روواں لکوواں سجناں دا۔ ہائے سجناں دا۔‘‘
لاہور کی زندگی عجیب زندگی تھی۔ ایلی محسوس کرتا جیسے وہ خواب دیکھ رہا ہو۔ یہ عالم خواب چند روزہ ہو۔
وہ دھندلکا جو اس نے اپنے گردوپیش بکھیر رکھا تھا۔ اس کے لئے کس قدر اطمینان بخش تھا ۔ کیونکہ اس دھندلکے کے وجہ سے وہ دلخراش حقائق سے بیگانہ رہ سکتا تھا۔ لوگوں کی نگاہوں سے بچ سکتا تھا۔ لوگوں کو تو ہر آتے جاتے کو نگاہوں سے کریدنے کی بری عادت تھی۔ ایلی کے لئے سب سے مشکل لوگوں کی نگاہیں تھیں۔ بازار میں چلتے ہوئے اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ وہ اپنی لٹکتی ہوئی بانہوں کو کیسے سنبھالے اور اکھڑی اکھڑی گردن کو کیسے قائم رکھے کہ لوگ اس پر تمسخر سے نہ ہنسیں۔
چار ایک لوگوں کے قریب سے گزرنا یا ان کے پاس کھڑا ہونا یا ان سے باتیں کرنا ایلی کے لئے بے حد مشکل تھا۔ بازار کے لوگ تو خیر اکثر بے پروائی اور بے توجہی سے اس کے پاس سے گزر جاتے لیکن کالج کا ہر لڑکا اس کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگتا اور لڑکوں کے گرد اس کا مذاق اڑاتے۔
اس زمانے میں کالج کے لڑکے بھی تو عجیب سے تھے۔ لڑکے معلوم ہی نہ ہوتے تھے۔ یوں لگتا جیسے بڑے بڑے زمیندار اور رئیس ہوں۔۔۔ جو پنچائت کے اجلاس پر آئے ہوئے ہوں۔
جب وہ گاؤ ں سے لاہور آتے اور پھر سٹیشن سے بورڈنگ تک تانگے میں پہنچتے تو ایک عجیب منظر نظر آتا۔ تانگہ کے پائدان پر ان کا نوکر غلام علی۔ فتایا کریما بیٹھا ہوتا جو ایک ہاتھ میں تمباکو کا تھیلا دوسرے میں گھی کاپیپا تھامے ہوتا۔ چودھری سیٹ پر یوں اکڑفوں بیٹھا ہوتا۔ جیسے وہ رئیسی تانگہ ہو۔ ایک ہاتھ سے مونچھ مروڑتا دوسرے سے سر کھجاتا۔ سیٹ پر ایک طرف مربے کا مرتبان ہوتا اور دوسری طرف فرشی حقہ جس کی نے بے حدلمبی اور چمکدار ہوتی تھی۔
ان کے قداونچے لمبے ہوتے تھے۔ انہوںنے کالے اچکن اور بھاری بھرکم شلواریں پہنی ہوتی تھیں اور انکے سر کی پگڑی کا طرہ گویاتانگے کی چھت کو اٹھائے ہوتا۔
اسکے برعکس ایلی کا چھوٹا اور پرانا کوٹ جو علی احمد کو الٹا کر بنایا گیا تھا۔ اس کی سستی اور مختصر سی پتلون اور معمولی ساجوتا۔یہ تمام چیزیں صاف تانگے کی معلوم ہوتی تھیں اور ایلی کا چھوٹا قد اور پندرہ سال کی عمر۔۔۔ شاید انہیں باتوں پر کالج کے لڑکے اسے دیکھ کر ہنستے تھے۔ لیکن وہ نہ بھی ہنستے تو بھی ایلی کے لئے کالج جانا مشکل ہوتا کیونکہ اس کے دل پر کمتری کااحساس مسلط اور محیط رہتا تھا۔ جوا س نے اپنی والدہ سے ورثے میں پایا تھا اور جسے علی احمد کے گھر کے ماحول نے پالا پوسا تھا گرچہ یہ احساس کسی وقت دب بھی جاتا۔ لیکن مناسب وقت پر دفعتاً دل کے کونوں سے نکل کر اس پر یورش کردیتا اس وقت اس کی انا کی ناؤ ڈولنے لگتی اور پھر وہ گویا صفحہ ہستی سے معدوم ہو جاتا۔ عین اس وقت اس کے گرد وہی دھندلکا چھا جاتا جو اسے لوگوں کی بے رحم نگاہوں سے محفوظ کرلیتا تھا اور اس دھندلے میں گھومتا گھومتا وہ سینما ہال میں جا پہنچتا اور وہ دھندلی دھندلی تصاویر اسے اپنی آغوش میں پناہ دے دیتیں۔

پیڈرو بہادر

ویسے تو اس زمانے کے لاہور میں بھی خوبصورت عمارات اور سڑکیں تھیں خوشنما دکانیں اور ہوٹل بھی تھے۔ اگرچہ تعداد میں بہت کم تھے۔ لیکن جس لاہور میں ایلی رہتا تھا وہ لاہور عظیم الشان عمارتوں بڑے بڑے ہوٹلوں اور دوکانوں سے سجے ہوئے باغات اور خوبصورت سڑکوں سے قطعی طور پر خالی تھا۔ فیشن ایبل علاقے میں جانے کی ہمت نہ پڑتی تھی۔ اس نے کئی مرتبہ بڑی دوکان میں داخل ہونے کی کوشش کی تھی۔ مگر اس کا دل دھک دھک کرنے لگا اور پیشانی پسینے سے بھیگ گئی تھی اور وہ چپ چاپ سر جھکائے وہاں سے چلا آیا تھا۔ مال روڈ پر جانا اس کے لئے قطعی طور پر ناممکن تھا۔ وہاں لوگ اکڑ کر چلتے تھے اور انہیں دیکھ کر ایلی محسوس کرتا جیسے اس کی ڈولتی ہوئی ناؤ کسی عظیم الشان جہاز سے ٹکرانے لگی ہو۔ وہ سہم جاتا۔ پٹڑی پر چڑھ جاتا اور پٹڑی سے اتر کر سڑک کے کونے پر سمٹ کر کھڑا ہو جاتا۔ سینما دیکھنے کے لئے وہ اس ہال میں جو عام سا ہو اور جہاں عام سے لوگ جاتے ہوں۔ جس کی عمارت عظیم الشان نہ ہو جس میں داخل ہوتے ہوئے وہ گھبراہٹ محسوس نہ کرے۔
اس زمانے میں لاہور میں صرف چار ایک سنیماہال تھے ایک بھاٹی دروازے کے باہر ایک ہیرا منڈی میں ایک شاہ عالمی کے باہر او ریہ تینوں ہال معمولی اور گھٹیا قسم کے تھے جہاں وہ آسانی سے جاسکتا تھا۔
میکلوڈ روڈ اس زمانے میں ایک ویران سڑک تھی ۔جس پر ایک بیٹھی سی عمارت میں ایمرسن سینما تھا۔ یہ عمارت اگرچہ چنداں عظیم الشان نہ تھی مگر وہاں جانے والے تماشائی قطعی طور پر مختلف تھے اور سینما کے ماحول سے انگریزیت اور فیشن کی بو آتی تھی۔ وہاںجانا ایلی کے بس کی بات نہ تھی ۔گیا تو وہ کئی بار تھا۔ ایک روپے کا ٹکٹ خریدنے کے لئے ٹکٹ گھر تک پہنچ بھی گیا تھا۔ مگر وہی دھندلکا چھا گیا اور پھر جب وہ دھندلکا چھٹا تو وہ شاہ عالمی گیٹ سینما کے ٹین ہال میں بیٹھا مسٹریز آف مائزہ دیکھتے ہوئے مونگ پھلی کھا رہاتھا۔ ان دنوں فلم خاموش ہوا کرتے تھے۔ ایک فلم مہینوں چلا کرتا تھا۔ کیونکہ اس زمانے میں سیریل فلم دکھائے جاتے تھے۔ ممکن ہے برٹ انسٹی چیوٹ اور ایمپائر ہال میں ایسے فلم بھی دکھائے جاتے ہوں جو دس بارہ ریلوں میں ختم ہو جاتے ہوں۔ لیکن اس تفصیل کے متعلق ایلی کو کچھ معلوم نہ تھا۔بہرحال شہر کے سینما گھر میں بارہ پندرہ ایپی سوڈ دکھائے جاتے تھے ۔ جن کے اختتام پر ہیرو کسی بہت بڑی مشکل میں پھنس جاتا تھا اور بدمعاشوں کے نرغے میں ہیروئن اپنی عزت اور جان بچانے کی خاطر ہیرو کی امداد کے لئی دعائیں مانگ مانگ کر اس کا انتظار کرتے کرتے ہار کر مایوس ہو جاتی تھی۔
خاموش فلم دیکھنے میں ایک خوبی ضرور تھی۔ ہرچند ایک منٹ کے بعد چادر پر انگریزی میں مکالمے یا بیانیہ عبارت آ جاتی تھی اور ہال کے پچھلے حصے سے گنگناہٹ سی بلند ہوتی یہ مکالمے او رعبارتیں ایلی کے لئے واحد ذریعہ تعلیم تھیں۔ کیونکہ کالج میں لیکچر میں حاضر ہونا یہ سبق حاصل کرنا اس کے لئے ممکن نہ رہا تھا نہ ہی اسے یہ معلوم تھا کہ جماعتیں کہاں بیٹھتی ہیں اور کون پروفیسر انہیں پڑھاتے ہیں۔
پہلے دو سال کے دوران میں ایلی کا نام کئی ایک مرتبہ کالج سے خارج ہوا لیکن ہر بار کسی نہ کسی طرح علی احمد کو خبر مل جاتی اور علی پور کے کسی عزیز کو اطلاع دے دیتے اور جلد ہی محلے کا کوئی بزرگ علی پور سے آ پہنچتا اور دو ایک دن لمبے چوڑے لیکچر پلا کر اور ایلی کی فیس ادا کرکے واپس چلا جاتا اور ایلی کا نام ایک بار پھر کالج کے رجسٹر میں درج ہوجاتا۔ایک مرتبہ تو خود علی احمد اسے داخل کرانے کے لئے آگئے اور انہوںنے ایلی کو لیکچر پلانے کی جگہ ایک اور طریقہ اختیار کیا ۔ وہ باری باری ایلی کے تمام پروفیسروں اور کلرکوں سے ملے اور ایلی کو ان سب سے متعارف کرایا۔ پروفیسر حیران تھے کہ یہ کون لڑکا ہے کیونکہ انہوںنے ایلی کو جماعت میں کبھی نہ دیکھا تھا۔
اس واقعہ سے اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ ایلی کی جھجک کسی حد تک دور ہوگئی۔ وہ دھندلکا اب صرف کالج کے برآمدوں سیڑھیوں اور میدان تک محدود رہ گیا اور کلاس روم کا مطلع کھل گیا اب وہ بھاگ کر برآمدے سے گزرتا اور کلاس روم کی آخری بنچ پر بیٹھ جاتا اور پھر جب جماعت ایک لیکچر سے فارغ ہو کر دوسر ے کمرے کی جاتی تو وہ پہلے ہی بھاگ کر کسی کونے میں جا کھڑا ہوتا تاکہ لڑکوں کی نگاہیں اس پر نہ پڑیں۔ لیکن اس کے باوجود حاضر ی کے رجسٹر سے اس کا نام کٹنا بند نہ ہوا۔

طالب خیریت

خط لکھنے میں علی احمد کو کمال حاصل تھا انہیں ہر اس بات پر دلچسپی تھی جو لکھنے سے متعلق ہو مثلاً گھر میں ان کے لکھنے کے سامان کو بڑی اہمیت حاصل تھی۔ علی احمد میز پر بیٹھ کر نہیں لکھ سکتے تھے۔ لکھنے کے لئے انہیں فرش پر بیٹھنے کی ضرورت پڑتی۔ ان کی دوات ہمیشہ تھالی میں رکھی ہوتی۔ قلم کی نبیں گھس گھس کر اس قدر موٹی ہو جاتیں کہ دیکھنے والا شناخت نہ کرسکتا تھا کہ تحریر کلک سے لکھی گئی ہے۔ یا ریلیف کے نب سے لیکن علی احمد کو گھسی ہوئی نب سے لکھنے کا شوق تھاوہ ہر نئی نب کو گھس کر یا جانے کیسے موٹا کر لیا کرتے اور پھر اطمینان سے فرش پر بیٹھ کر لکھا کرتے اور اس شغل میں اس قدر کھو جاتے کہ انہیں گردوپیش کا احساس ہی نہ رہتا۔ یہ تو محض اتفاق کی بات تھی کہ لکھنے کے سلسلے میں ان کی توجہ حساب کتاب اور تاریخ پیدائش و وفات اور شادی بیاہ تک محدوو رہ گئی تھی۔ ورنہ اگر وہ تصنیف و تالیف کی طرف توجہ دیتے تو نہ جانے کیا نتائج ظہور میں آتے۔
خط لکھنے کے معاملے میں ان کی قابلیت کا اعتراف کرنا ہی پڑتا ہے۔ ایک تو خط میں وہ مناسب القابات اور معقول انداز تحریر کے شدت سے قائل تھے ۔ ہر بات کو مناسب جزئیات اور حصوں میں تقسیم کرتے اور پھر باقاعدہ طور پر انہیں نمبروار تحریر کرتے۔ ایلی اپنے خط میں چلاتا ’’جناب والا! آپ نے ابھی تک خرچ نہیں بھیجا میں سخت تکلیف میں ہوں۔ کالج کی فیس ادا کرنا ہے۔ جسم پر کپڑا نہیں۔ جیب میں پائی نہیں۔ از راہ کرم واپسی ڈاک خرچ بھیجئے تاکید مزید ہے‘ میں سخت تکلیف میں ہوں۔‘‘
بواپسی ڈاک ان کا گرامی نامہ ایک کارڈ پر موصول ہوتا کیونکہ وہ لفافہ لکھنے کے قائل نہ تھے ’’برخوردار الیاس تمہارا خط ملا۔ حالات سے آگاہی ہوئی یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی تم خریت سے ہو اور خوش و خرم ہو۔ یہاں سب خریت سے ہیں اور ہم سب تمہاری خریت کی خبر کے طالب ہیں۔ علی احمد۔‘‘
علی احمد کا خط پڑھ کر ایلی کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ۔ غصے میں وہ پھر سے ایک لمبا چوڑا خط لکھتا ’’یہاں بالکل خیریت نہیں‘حالات بالکل نامساعد ہیں۔ میں مرا جارہا ہوں۔ میری خبر لیجئے۔ اگر آپ نے خرچ نہ بھیجا تو نہ جانے کیا ہوجائے گا۔ بواپسی ڈاک خرچ روانہ کیجئے۔‘‘
بواپسی ڈاک علی احمد کے طرف سے کارڈ موصو ل ہوتا۔ برخوردار تمہارا خیریت نامہ ملا۔ اسی طرح ہر دوسرے دن اپنی خیریت کی خبر بھیجتے رہا کروتاکہ باعث فکر نہ ہو۔
اس زمانے میں ایلی کوعلی احمد کی فنکاری کااحساس نہ تھا۔ ان خطوط سے محظوظ ہونے کی بجائے چڑجاتا۔اس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ ایلی کومضحکہ خیزباتوں پرہنسنانہیں آتاتھا۔وہ ایسی باتوں پراپناتوازن کھوبیٹھتاتھااس کی شخصیت میں توازن اوروضع داری سرے سے مفقودتھی۔
علی احمدایلی کوخرچ ضروربھیجاکرتے تھے اس کی ضروریات سے زیادہ بھیجتے مگرازلی طورپرانہیں تنک بخشی کی عادت تھی وہ خرچ اقساط میں بھیجتے جس کانتیجہ یہ ہوتاکہ وہ پہلی قسط کوجیب میں اس امیدپراٹھائے پھرتاکہ دوسری قسط آنے پرفیس اداکردے گا۔لیکن دوسری قسط موصول ہوتی توپہلی خرچ ہوچکی ہوتی اوراسے تیسری قسط کاانتظار کرناپڑتا۔اس کے علاوہ علی احمدکے خطوط سے جودھندلکاپیداہوجاتااسے صاف کرنے کے لئے بھی توکافی خرچ ہوجاتاتھا۔ان تمام باتوں کانتیجہ یہ ہوتاکہ اس کے مالی حالات ہمیشہ بگڑے رہتے اوراس کاسینمادیکھنا،گنڈیریاں چوسنامونگ پھلی اورریوڑیاں کھانااوربھی ضروری ہوجاتا۔
ان مسائل سے اکتاکروہ انورکے پاس جابیٹھتا۔انوربال کھولے آنکھیں بنائے دیوارکی طرف گھورتے ہوئے کہتی ”ہائے ایلی کیاہوگیا۔“ ایلی کادل چاہتاکہ وہ بھی کسی سے عشق کی لو لگاکربیٹھ جائے اورعلی احمد کے خطوط اورکالج کے دھندلکے سے نجات حاصل کرلے لیکن اس کی سمجھ میں نہ آتاکہ عشق میں انورکی یہ کیفیت دیکھ کرکیسے عشق لگائے اپنی کوششوں کے باوجودوہ کسی سے عشق نہ لگاسکاتھا۔کسی کے سامنے جاکرتواس کی نگاہیں جھک جاتی تھیں۔دل دھک دھک کرنے لگتاتھااورزبان بندہوجاتی تھی۔پھرعشق کیسے لگتااس کی سمجھ میں نہ آتاتھاکہ کیاکرے۔
پھراسے خیال آتاکیوں نہ نذیران سے عشق لگالوں۔وہ نذیراں جوعلی پورکی اندھیری ڈیورھی میں اس کاانتظارکیاکرتی تھی اورجب وہ داخل ہوتاتوکھلکھلاکرہنس پڑتی ”توڈرگیا۔میںہوں۔ایلی میں ہوں۔“ اورپھرایک خوشبودارجسم اس کی طرف بڑھتادوسیاہ آنکھیں ۔موٹے ہونٹ اوربھداچہرہ اوروہ گھبراکربھاگتا۔
نہ جانے اسے نذیراں سے عشق کیوں نہ ہوتاتھا۔نذیراں واحد لڑکی تھی جو اسے دیکھ کراس کی طرف ہاتھ بڑھایاکرتی تھی۔باقی لڑکیاں تو اس کے وجودہی سے منکرتھیں۔اسے تسلیم بھی کرتیں توصرف ایک نگاہ غلط اندازڈال کراپنے کام میں مصروف ہوجاتیں۔مصیبت یہ تھی کہ ایلی کوان لڑکیوں سے ڈرلگتاتھاجواسے دیکھ کربڑھتی تھیں اورتمام لڑکیاںاسے پیاری لگتی تھیں جواسے دیکھ کرفوراً منہ موڑلیاکرتی تھی۔عجیب مصیب تھی۔اس مسئلہ میں اسے مشورہ دینے والاتوکوئی نہ تھا۔صرف ایک ارجمندتھا۔لیکن وہ اس معاملہ میں ایلی کی بالکل مددکرسکتاتھا۔وہ توانکراینڈی ماہا وں کوایک کھیل سمجھتاتھااورلڑکیوں سے یوں کھیلتاتھا۔جیسے وہ کھلونے ہوں انہیں لبھاتا۔چھیڑتاان کامذاق اڑاتا۔
اس کے برعکس ایلی ان کی عزت کرتاتھا۔انہیں پاکیزہ سمجھتاتھااورخاموشی سے انکی پرستش کرناچاہتاتھا۔وہ عشق کوایک بلندوبالاچیزسمجھتاتھاایک ایساتعلق جسے جسم سے کوئی واسطہ نہ ہو۔لیکن وہ تعلق کیسے قائم کیاجائے اس کے بارے میں اس کی سمجھ میں کچھ نہ آتا۔
دوسال کالج گزارنے کے بعداسے معلوم ہواکہ حاضریوں کی کمی کی وجہ سے اسے امتحان میں نہیں بھیجاجاسکتا۔یہ خبرسن کرگھبراہٹ توضرورہوئی لیکن صرف اس خیال پرکہ علی احمدکوکیاجواب دے گا،ویسے دل ہی دل میں اس نے خوشی محسوس کی کہ امتحان کی مصیبت سے چھٹکاراہوااوروہ فوراً گاڑی میں سوارہوکرعلی پورروانہ ہوگیا۔امتحان کے لئے نام نہیں جاسکتاتوپھرلاہورمیں رہنے کافائدہ؟
واپسی
ایلی کے احاطے میں قدم رکھتے ہی محلے والیوں نے شورمچادیا--”کون آیاہے؟“
”اے ہے ایلی ہے ماں جی اپناہاجرہ کابیٹا۔“
”اچھاہاجرہ کابیٹاآیاہے اللہ زندگی درازکرے۔“
”اب توبہن بابوصاحب بن گیاہے۔“
”بڑالائق لڑکاہے یہ ہاں میں توپہلے سے ہی جانتی تھی۔اے ہے ادھرتوآلڑکے شرماتاکس سے ہے ۔تیری خالائیں اورپھوپھیاں بیٹھی ہیںکوئی غیرتونہیں۔“
”چاچی بڑاشرمیلالڑکاہے۔بڑااچھاہے اوریہ محلے کے چھوکرے ۔توبہ طوفان مچارکھاہے۔انہوں نے۔“
”ابھی پیداہوہی نہیں پاتے اورشرارتیں پہلے ہی شروع کردیتے ہیں۔“
”لیکن ایلی ان لڑکوں سانہیں۔“”اے ہے بہن“چاچی بولی۔”ماں کے گھرکاچراغ اوروہ علی احمدوہ توبہن اپنی ہی دھن میں لگاہے۔بس ہرسال نئی نویلی ملے پرانی توباسی ہوجاتی ہے نا۔“
نہ جانے محلے میں جب بھی ایلی کی بات شروع ہوتی توجلد ہی علی احمداوراس کے شوق کاتذکرہ کیوں چھڑجاتااورپھرلوگ مسلسل طورپرعلی احمدکی باتیں کرتے رہتے جیسے ایلی کاتذکرہ محض علی احمدکی بات چھیڑنے کیلئے ایک بہانہ یامحض ایک تمہید۔محلے کی عورتیں جب بھی علی احمد کی بات چھڑتیں توایلی ان کی بات اوراندازمیں عجیب تضادمحسوس کرتا۔کہنے کوتوعلی احمدکے خلاف شکایات کرتیں اوران کی بری عادت پرہاتھ دھرتیں مگر ان کے اندازسے معلوم ہوتا۔جیسے وہ علی احمدکوسراہ رہی ہوں جیسے ان کی وہ خصوصیت بے حد پیاری ہواورعلی احمد تذکرہ شروع کرنے کے بعدوہ اسے جاری رکھنے پرمجبورہوں۔اسے برابھلاکہتے ہوئے ان کی آنکھوں میں چمک لہراتی ہونٹ مسکراہٹ کی وجہ سے کھل جاتے اورہلکی سی سرخی نہ جانے کہاں سے ابھرکررخساروں پرجھلکتی ۔ایلی کی سمجھ میں نہ آتاتھاکہ یہ کیسی نکتہ چینی تھی۔کہتی کچھ اورکرتیں کچھ اورسمجھاتی کچھ تھیں۔اثرکچھ اورلیتی تھیں۔
ہاجرہ سے جب وہ ہمدردی جتاتیں توایلی کومحسوس ہوتاکہ ہمدردی کے پردے میں درحقیت اس پرترس کھارہی ہیں”ہائے بیچاری ہاجرہ۔“اماں کہتی”لیکن اس کوکیاپرواعلی احمدجوچاہے کرے ۔اس کی بلاسے لگاتاپھرے عشق جہاں اس کاجی چاہے۔“
”وہ تورنگیلاراجہ ہے۔“دوسری مسکراتی۔
اس پرایلی محسوس کرتاکہ جیسے وہ درپردہ ہاجرہ پرہنس رہی ہوں اورعلی احمد کی اس پیاری خصوصیت پرپھولے نہ سماتی ہوں۔اس مرتبہ ایلی نے پہلی دفعہ محلے والیوں کی اس دورخی کوشدت سے محسوس کیا۔ایلی کے احساسات میں عجیب قسم کی گہرائی پیداہورہی تھی۔روزبروزوہ زودحس ہوتاجارہاتھا۔ایسی باتیں اسے چبھنے لگی تھیں۔
پہلی مرتبہ اس نے محسوس کیاکہ محلے والیوں نے ان کامذاق بنارکھاہے۔انکاہاجرہ سے سستی ہمدردی جتانادرحقیقت اپنی عظمت کااظہارکرنے کاایک ذریعہ تھاوہ ہاجرہ کے لئے کچھ نہ کرسکتی تھیں نہ ی وہ علی احمدسے شکایت کرسکتیں۔شکایت کاسوال ہی پیدانہ ہوتاتھا۔انہیں توالٹاان کی عادت پسند تھی۔علی احمدکی شخصیت پسندتھی اوراخلاق کے متعلق تو وہ صرف وعظ فرماناجانتی تھیں۔یہ سوچ کراس نے محلے والیوں کی باتوں سے اپنی توجہ ہٹالی۔
شریف کی وہ
اتفاق سے انہیں دنوں رخصت لے کرشریف علی پورآگیااورپھرسے شریف میں کھوگیا۔شریف نے ایلی کی طرف دیکھااوراپنی نیم واآنکھیں ایلی کے چہرے پرگاڑدیں۔ایلی نے حیرانی سے شریف کی طرف دیکھا۔اس سے بات کرنے کی کوشش کی مگروہ ویسے ہی چپ چاپ اس کے منہ کی طرف تکتارہا۔حتیٰ کہ ایلی محسوس کرنے لگا۔جیسے اس کی نگاہیں چیونٹیوں کی طرح اس کے جسم میں دھنسی جارہی ہیں۔اس کی نس نس میں رینگ رہی ہیں۔
شریف کے ہونٹوں پرتبسم چھلکا”گھبراگئے۔“وہ بولا”ابھی سے گھبراگئے۔“اورپھراس طرح ٹکٹکی باندھ کرایلی کی طرف دیکھنے لگااس کی نگاہوں میں عجیب سی مستی تھی۔
”مجھے جانا۔“ایلی نے گھبراکرایک مرتبہ پھراٹھنے کی کوشش کی۔
”تم نہیں جاسکتے ایلی۔“شریف مسکرایا”تم میری نگاہوں سے اوجھل نہیں ہوسکتے ۔یہیں بیٹھے رہناہوگا۔میرے روبرومیری نگاہوں کے سامنے اورمیں تمہیں دیکھتارہوں گا۔حتیٰ کہ میری آنکھیں پانی ہوکربہہ جائیں۔تم نے اس کودیکھاہے؟تم اس کے پاس رہے ہو۔یوں ہی تم اس کے روبروبیٹھاکرتے ہوگے اوروہ تمہیں دیکھاکرتی ہوگی۔تم نے اس مکان میں دوسال بسرکئے جس میں وہ رہتی ہے ۔تم اس فضا میں سانس لیاکرتے تھے۔کتناخوش قسمت ہوں میں جوتمہیں دیکھ رہاہوں۔“ شریف کی آنکھوں سے پانی بہہ رہاتھا۔مگراس کی آنکھیں اسی طرح ایلی کوگھورے جارہی تھیں ۔اس کے منہ سے حسب معمول رال بہہ رہی تھی۔چہرے پرحسرت ویاس کی دبیزتہہ چڑھی تھی اوروہ اپنی روئیدادکہے جارہاتھا۔
”کیاوہ وہاں تن تنہارہتی ہے۔اتنی بھیڑمیں تن تنہارہتی ہے ظالموں نے اسے وہاں قیدکررکھاہے۔ انہوں نے اس کے بازوکاٹ دیئے اوروہ تڑپ تڑپ کے وقت گزاررہی ہے۔اس نے تم سے کچھ کہاتھامیرے بارے میں۔“شریف رک گیا۔
ایلی کونفی میں سرہلاتے ہوئے دیکھ کر شریف نے لمبی آہ بھری”وہ کسی سے بات سے نہیں کرے گی۔انہوں نے اسے اس قدرڈرادیاہے کہ وہ گھٹ کرمرجائے گی مگرکسی سے دل کی بات نہ کہے گی اور-اور-“وہ جوش میں اٹھ بیٹھا”یہ سب اس ڈائن کی شرارت ہے۔جسے تم دادای اماں کہتے ہو۔اس خبیث بڑھیاکی۔وہ ہم دونوں کے درمیان دیواربن کرحائل ہوگئی۔اس نے وہ کھڑکیاں کیلوں سے بندکروادیں جو اسطرف کھلتی تھیں۔وہ روزن اینٹوں سے بھروادیئے تھے۔جس سے اس کی آوازمجھ تک پہنچ سکتی تھی۔“شریف بولے جارہاتھااورایلی حیران اس کے سامنے بیٹھاتھا۔اس کی سمجھ میں نہیں آتاتھاکہ کیاکہے ۔کیاکرے ۔کس طرح اپنی ہمدردی کااظہارکرے۔
دفعتاًسعیدہ داخل ہوئی۔”شرم نہیں آتی تجھے۔“اس نے حنامالیدہ ہاتھ لہراتے ہوئے کہا۔”اس بچے کوسامنے بٹھاکرروتے ہوئے شرم نہیں آتی۔اس بیچارے کوکیاسنارہاہے تواپناقصہ۔اسے کیامعلوم کیاہوتی ہیں یہ باتیں۔خواہ مخواہ کاپاکھنڈمچارکھاہے۔توتوعورتوں سے ہیٹاہوگیا۔اے ہے مردہزاروں جگہ آنکھیںلڑاتے ہیں اورپھراپنے اپنے دھندے میں لگ جاتے ہیں۔مگریہ میاں ہیں کہ مجنوں بنے ہوئے ہیں ۔چاہے دوسرے کوذرااحساس نہ ہو۔یہ اپنی جان ہلکان کئے جائے گا۔جاایلی تواپنے گھر۔“اس نے حنامالیدہ ہاتھ سے اس کامنہ سہلاتے ہوئے کہا”یہ میاں تومجنوں بننے کی قسم کھائے ہوئے ہیں۔“
اس وقت ایلی کوسعیدہ کے ہاتھ کالمس ناگوارگزرا۔اسے شریف کے پاس سے چلے آنے سے دکھ بھی ہوا۔لیکن اس دکھ میں خوشی کادبادباعنصربھی تھا۔کیونکہ شریف کی باتیں سن سن کراس کے دل میں جذبات کاایک طوفان اکٹھاہوچکاتھا۔جواسے مضطرب کئے جارہاتھا۔وہ چاہتاتھاکہ کہیں اکیلے میں جاکررودے۔شریف کے دکھ پرنہیں بلکہ اپنے دکھ پراپنی بدقسمتی پرکہ وہ کسی سے محبت نہ کرسکا۔

ماں کاآنسو

اگلے روزجب وہ شریف کی طرف جانے کوتیارہواتواماں نے اس کابازوتھالیا”ایلی ٹھہرجامجھے تجھ سے کچھ کہناہے۔“ایلی گھبراگیا۔کیااماں بھی شریف کے خلاف ہیں۔کیاوہ بھی نہیں چاہتیں ۔کہ میں اس سے ملوں۔
”ذراٹھہرجا۔“اماںبولی۔”بیٹھ یہاںابھی میں بھی چلتی ہوں تیرے ساتھ۔“وہاں بیٹھاسوچتارہانہ جانے اماں نے اسے وہاں کیوں بٹھایاتھانہ جانے وہ اس سے کیاکہناچاہتی تھیں۔لیکن وہ توہمیشہ بات کہہ دیاکرتی تھیں۔یوں توانہوں نے کبھی نہ کہاتھا۔ایلی ٹھہرجامجھے تجھ سے کچھ کہناہے۔
کچھ دیر کے بعداماں نے اس کاہاتھ پکڑلیااوراسے نیچے لے گئی۔نچلی منزل میں اس نے ایک کمرے میں جاکراندرسے کنڈی لگالی پھروہ ایلی کی طرف بڑھی۔ایلی کادل دھک دھک کررہاتھا۔نہ جانے وہ اس سے کیاکہنے والی تھیں۔
”ایلی۔“وہ بولی۔”میری عزت تیرے ہاتھ میں ہے اگرتومیری بات مان لے تومیں سرخروہوجا وں گی اوراگرتو نے انکارکردیاتوبس سمجھ لے کہ آئندہ سے توماں کانہیں باپ کابیٹاہوگا۔“
ایلی حیران تھا اس کی سمجھ میں نہیں آرہاتھاکہ اماں کی عزت کیسے بچاسکتاتھا۔آخروہ کونسی بات تھی۔جس پراماں کی عزت کادارومدارتھااوراس کی عزت ہی کیاتھی گھرمیں۔اس کی حیثیت تونوکروں کی سی تھی۔پھرعزت کی بات کرنااورعزت بچانے کاسوال،ایلی کی سمجھ میں کچھ نہ آرہاتھا۔
ہاجرہ نے اس کے سامنے ہاتھ جوڑدیئے۔”پھرتم جوچاہے کرلیناایلی اپنی بات پرقائم رہنایابدل جانالیکن اس وقت ہاں کردواگرتم نے ہاں نہ کی توتمہارے اباتمہیں اپنے رشتہ داروں کی جھولی میں ڈال دیں گے اورتم مجھ سے دورہوجا و گے۔“
”لیکن اماں یہ سب کیاہے؟“ایلی نے گھبراکرپوچھا۔”کچھ بتا و تومجھے پتہ چلے۔“
”تمہارے بھلے کی کہتی ہوں بیٹا۔“بولی ”اگرمیں نے ابھی ابھی کچھ نہ کیاتو وہ نہ جانے کیاکردیںگے۔توتوانہیں جانتاہی ہے۔وہ اچھے لوگ نہیں توتوجانتاہی ہے بیٹا۔“یہ کہہ کروہ رونے لگی۔
”لیکن بات کیاہے اماں ۔“وہ گھبراگیا۔
”تووعدہ کرے گاتومیں بتا وں گی۔“اماںنے جواب دیا۔”بس سمجھ لے کہ تیری بہتری ہی کی بات ہے۔
بھلامیں کوئی ایسی بات کرسکتی ہوں جوتیرے لئے اچھی نہ ہو۔بس توایک بارہاں کہہ دے۔“
”اچھااماں جوآپ کی مرضی۔“اس نے بات سمجھے بغیر ہی کشمکش سے نجات حاصل کرنے کے لئے کہہ دیاجواس پرمسلط ہوئی جارہی تھی۔
”اللہ عمردرازکرے۔خوشیاں نصیب کرے۔“ہاجرہ کی باچھیں کھل گئیں۔”میں جانتی تھی تومیری بات ردنہ کرے گا۔میں جانتی تھی تومجھے چھوڑکراباکی طرف نہ جائے گا۔تودیکھ لیجوتیرے لئے ایسی اچھی دولہن چنی ہے میں نے جولاکھوں میں ایک ہے۔لاکھوں میں۔محلے میں اس سے بہترلڑکی نہیں مل سکتی ۔کل تیری منگنی ہوجائے گی اورتیرے اباکے لئے ناممکن ہوجائے گاکہ وہ تجھے اپنے رشتہ داروں کے باندھ دیں۔“
ایلی حیرانی سے اماں کی طرف دیکھ رہاتھا۔اس کی سمجھ میںنہ آرہاتھاکہ آخراماں اس بات کواتنی اہمیت کیوں دے رہی تھیں۔اتنی سی بات کواس قدراہم کیوں سمجھ رہی تھیں۔اس کے ذہن میں توان دنوں اس معاملے کی اہمیت نہ تھی۔اس کاذہن ایک سادہ ورق تھاجس پرمحبت اورازواجی زندگی کاکوئی مبہم نقش بھی مرقوم نہ تھا۔
”لیکن اماں۔“اس نے بصدمشکل کہا”میں مہندی نہیں لگا وں گا۔میں انگوٹھی نہیں پہنوں گا۔“اس کے ذہن میں منگنی اورشادی کے متعلق سب سے بڑی مشکل مہندی اورانگوٹھی تھی۔
”توکچھ بھی نہ کیجو۔جیسے تیرادل چاہے۔میں کوئی رسم بھی نہ ہونے دوں گی۔بس مجھے تو صرف تجھے نامزدکرناہے۔تیرے اباکے رشتہ داروں سے بچاناہے اورمیراکوئی مقصدنہیں۔“
چنددنوں کے بعدمحلے کے چوگان میں علی پورکابہترین بینڈبج رہاتھا۔ایلی اورکلثوم کے گھروں کے درمیان آنے جانے والیوں کاتانتابندھاہواتھا۔عورتیں مرصع اورریشمیں کپڑے پہنے ادھر سے ادھرمٹک رہی تھیں۔لڑکیاں لڑکوں کودیکھ کر”اوئی اللہ“کہہ کرگھونگٹ میں چھپ جاتیں۔بوڑھیوں نے شایدتبسم کوچھپانے کے لئے ہونٹوں پرانگلیاں رکھی ہوئی تھیں۔محلے کی چودھرانیاں مٹھائی کے تھال اٹھائے گھرگھرلڈوبانٹ رہی تھیں۔محلے میں منگنی پرپہلی مرتبہ بتاشوں کی بجائے موتی چورکے لڈوبانٹے جارہے تھے اورایلی اس ہنگامے سے دور رضاکی دوکان کے پچھلے حصے میں چھپ کربیٹھاہواتھا۔اسے لوگوں کے روبروجاتے ہوئے شرم آتی تھی۔اس کے باوجودآتے جاتے لوگ رضاکی دوکان پررک جاتے اورایلی کی منگنی کی بات چھیڑدیتے۔

منگنی

”بڑی دھوم سے منگنی کی ہے ہاجرہ نے کیوں نہ ہوبھئی اکلوتابیٹاہے ماں کی کوئی اپنی خواہش آج تک پوری نہیں ہوئی تواسی بہانے سہی۔ مطلب توخوشی دیکھناہے نابھئی۔“
اس پررضانے ہنستے ہوئے چھپے ہوئے ایلی کی طرف دیکھااوربظاہربڑی سادگی سے باآوازبلندکہا”اورچچاجی لڑکابھی توگدڑی میں لعل ہے۔“
”لیکن وہ چھپاکہاں ہے آج دکھائی نہیںدیتا۔“چچامسکرائے۔”تمہاری دوکان کی گدڑی میں تونہیں چھپاہوا۔“چچانے یہ کہتے ہوئے ہاتھ بڑھاکرپردہ اٹھادیااورایلی کو چھپادیکھ کرہنسنے لگے۔”بھئی واہ ایلی تم یہاں چھپے ہواورمحلے میں تمہاری منگنی کے چرچے ہیں۔واہ بھئی واہ عجیب معاملہ ہے باپ شادی کاشوقین ہے اوربیٹامنگنی پرشرم کے کے مارے چھپاہواہے۔“
ایلی کادل دھک دھک کرنے لگااوروہ سمٹ کرپرانے ڈبوں کے انبارکے پیچھے سرک گیااورچچاہنستے ہوئے چل پڑے۔
پھررضانے شورمچادیا۔”سن لیاگڈری کے لعل اب چھپے رہی رہو گے کیا۔“ایلی کاجی چاہتاتھاکہ رضاکوگالیاں دے لیکن گالی دینااس کے نزدیک جائزنہ تھا۔وہ گالی دینے کی جرات نہ رکھتاتھا”بہت برے ہوتم بہت برے جورازکھول دیتے ہو۔“وہ غصے میں چلایا
رضاقہقہہ مارکرہنسنے لگا”شرمیلومیاںرازتوہوتے ہیں اس لئے کہ انہیں کھولاجائے اورلڑکیاں ہوتی ہیں اس لئے کہ انہیں پھانساجائے آج توتمہیں مونچھوں پرتا ودے کرچلناچاہئے آج تم-لیکن تمہارے منہ پرمونچھ بھی ہو۔“
پھرکوئی محلے والی آنکلی ادھر”ہائیں تویہاں بیٹھاہے۔“اس نے رضاسے کہا”یہاں بیٹھاسے تواورتیرے دوست کی منگنی ہورہی ہے آج توتیری پانچوں گھی میں ہونی چاہیں”فی الحال توسرہی کڑھائی میں ہے۔اماں۔“رضانے سنجیدگی سے جواب دیا”اے ہے۔“ماں مسکراتے ہوئے بولی۔”بات کرنے سے نہ چوکے گاتو۔ایک رگ زیادہ نا۔سچ کہاہے کسی نے لنگڑے کی ایک رگ زیادہ ہوتی ہے۔“
”ایک نہیں ماں یہاں توکئی زیادہ ہیں۔“رضانے جواب دیااوربڑھیاہاتھ چلاتی آنکھوں سے گھورتی اورہونٹوں سے مسکراتی چلی گئی۔
پھرارجمندآکرچلانے لگا”ارے لنگڑے کہاں چھپایاہے اس گدڑی کے لعل کو۔نہیں بتائے گاسالے تودوسری بھی لنگڑی کردوں گا۔“
”یہ تواوربھی اچھاہے۔لپٹنے کے لئے لنگڑی لاجواب ہے۔“رضانے جواب دیا۔
”یہ لپٹن وپٹن سب نکال دوں گابتاکہاں ہے۔“
”یہیں کہیں ہوگاشرم سے منہ چھپائے ہوئے۔“رضانے اشارہ کیا۔
”یہ لپٹن وپٹن سب نکال دوں گابتاکہاں ہے۔“
”ابے تویہاں ہے۔“ارجمنداندرآکربولا”بس ناس کردیاتونے یہ لیبل لگاکرستیاناس ہوگیا۔اینٹ الجرکی قسم تمہاری اس حرکت نے ساراانکراینڈی ختم کرکے رکھ دیا۔اب نہ پریم ٹوٹاکام آئے گانہ پریم سندیس اورنہ پریم پترسب بدک کربھاگ جائیں گی تیری لیبل کودیکھ کر۔ دوست توہمیں بھی لے ڈوباآٹے کے ساتھ گھن بھی پس گیا۔چل میاں چھپ کے کیوں بیٹھاہے۔چل وہ کپ کیپ اورہکوری ڈکوری جمع ہیں۔بھئی واہ کیاپھبن ہے چل اب پھنس گئی توپھڑکن کیسا۔جوہوگادیکھاجائے گا۔“
عین اس وقت جمیل آگیا”چلو بھائی۔“وہ چلایا”کیایادکروگے کہ دوست کی منگنی پرکچھ نہ کھلایا۔آج جوجی چاہے کھا و۔چلوتنگ گلی کے حلوائی نے تازہ پیڑے بنائے ہیں۔“
”ارجمندکوتوکیپ کپ کی لگی ہے۔چلوہم تینوں چلتے ہیں۔“رضانے شرارت سے لنگڑی ٹانگ کی ہاکی جھلاکرکہا۔
”اچھابھئی اگرپنچوں کی یہی مرضی ہے توآج کے دن ہم بھی پیڑے کھاکرگزارہ کرلیں گے کیاکیاجائے۔“ارجمندبولا۔
مجبوراًایلی ان کے ساتھ چل پڑامگر اسے رہ رہ کرخیال آتاکہ اگر کسی نے اسے مٹھائی کھاتے ہوئے دیکھ لیاتوکیاکہیں گے لوگ اپنی منگنی کی خوشی منارہاہے۔بہانہ بناکراس نے جست لگائی تاکہ رستے میں وہ اس کامذاق نہ اڑائیں۔
ارجمندہنسا”بڑی بے صبری ہے بھئی آج-بیچارے کوکیامعلوم کہ ابھی توصرف سیٹ ریزروہوئی ہے۔ریشمیں گٹھڑی تونصیب سے ملے گی۔“
رضا-ارجمنداورجمیل سے کئی کاٹ کروہ چھپتاچھپاتاسیدھاشریف کے پاس جاپہنچاتاکہ وہاں اطمینان سے بیٹھ سکے۔ شریف اسی طرح منہ میں حقے کی نے لئے چھت کی طرف گھوررہاتھا۔گھرکے سب افرادکلثوم کے یہاں تقریب منانے کے لئے جاچکے تھے۔اس لئے مکان سنسان پڑاتھا۔
”آگئے تم۔“شریف مسکرایا”مجھے معلو م تھا۔تم آ و گے۔ان ظالموںنے تمہیں بھی جکڑدیا۔تمہاری قسمت پربھی مہرثبت کردی۔“اس نے لمبی آہ بھری”ان کی خوشی اسی میں ہے کہ لوگوں کی تقدیروںسے کھیلیں ۔“ایلی کی سمجھ میں نہ آیاکہ وہ کیاکہہ رہاہے۔منگنی کرنے میں تقدیرسے کھیلنے کی کیابات تھی۔
”نہیں۔نہیں۔“وہ دبی آوازسے بولا”اماں نے تومجھے صرف نامزدکیاہے کہ تاکہ ابااپنے رشتہ داروں کی جھولی میں نہ ڈال دیں۔“
”وہ یونہی کہاکرتے ہیں۔ایلی وہ یونہی کہاکرتے ہیں۔وہ یونہی بھولے نوجوانوں کودام میں پھنسایاکرتے ہیںاورتم ان کے دام میں پھنس گئے ہو۔“
”نہیں۔نہیں۔“ایلی چلایا۔اسے یہ جان کرصدمہ ہواکہ شریف اسے بچہ سمجھتاہے۔ایلی کی خواہش تھی کہ شریف اسے دوست سمجھے اورکھل کراس سے باتیںکرے ۔اوراپنی زندگی کے رازبتائے۔یوں مشورے دے جیسے کہ دوستوں کودیئے جاتے ہیں۔
”نہیں۔نہیں“وہ بولا”اماں نے میرے سامنے ہاتھ جوڑے تھے۔اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔“
شریف قہقہہ مارکرہنس پڑا۔حقے کی نے اس کے منہ سے نکل کرنیچے گرپڑی-”ماں کے آنسو۔“وہ ہنساقصائی کی چھری تومفت میں بدنام ہے۔وہ ذبح کرتی ہے ایلی مگراس نے کبھی روپ نہیں بدلا۔اپنے آپ کوکسی اورشکل میں پیش نہیں کیا۔لیکن ما وں کے آنسو۔“اس نے دانت بھینچ کرکہا”وہ اسی طرح ہاتھ جوڑتی ہیں۔آنسوبہاتی ہیںاورپھرجب شکارپھنس جاتاہے تواس پرسواری کرتی ہیں۔ماں کے آنسو۔“شریف نے ایک بھیانک قہقہہ لگایا۔
عین اس وقت سعیدہ آگئی۔”ہائیں تویہاں بیٹھاہے ایلی۔“وہ چلائی۔”خداکے واسطے۔“
اس نے شریف کے آگے ہاتھ جوڑے۔”خداکے لئے اب ایلی کی زندگی کوتباہ نہ کر۔اپنی توبربادکرلی۔اب اس پررحم کر۔تجھے نہیں معلوم خالہ کی تمام امیدیں اورامنگیں ایلی سے وابستہ ہیں۔“سعیدہ کی آنکھوں میں آنسوآگئے۔”میری طرف دیکھ۔“شریف نے ایک دیوانہ وارقہقہہ لگایا۔کہنے لگا۔”ماں کی آرزوئیں پوری ہوں۔بہنوں کی امنگیں پوری ہوں مگر۔“بات ختم کئے بغیروہ خاموش ہوگیااورچھت کی طرف گھورنے لگا۔
”تم نے اس کی ماں کے آنسونہیں دیکھے۔“سعیدہ غصے میں چلائی۔
”تمہارے بھی دیکھ رہاہوں۔“شریف نے مسکراکرکہا”کیافرق پڑتاہے۔“
”ادھرآایلی۔“سعیدہ نے ایلی کابازوپکڑکراسے کھینچ لیا”جاگھرجا۔ماں تیراانتظارکررہی ہے۔یہاں بیٹھ کرکیاحاصل ہوگاتجھے۔جاگھرجا۔“
ایلی چپ چاپ گھرکی طرف روانہ ہوگیا۔اندھیری ڈیوڑھی میںوہ رکاباہرعورتیں باتیں کررہی تھیں ۔
”اچھاہی کیاکیاچاچی ہاجرہ نے جو بیٹے کوابھی سے جکڑلیاورنہ بڑے ہوکریہ قابومیں آتے ہیںکیا۔“
”توبہ کرلڑکی کوئی زمانہ آیاہے۔“
”پرمیں کہتی ہوں چچی بات بگڑتی ہوتوبگڑکرہی رہتی ہے۔چاہے جوکرلوآخراس کے اباکابیاہ بھی توچھٹپٹن میں ہی ہواتھا۔ہاجرہ سے۔اب دیکھ لواس نے کیاکردکھایا۔“
”ٹھیک کہتی ہے توغیب کی بات کون جانے پرمیں کہتی ہوں آخرہے اسی کابیٹا۔یہ کیاکم گل کھلائے گا۔“
ایلی سوچ رہاتھا۔نہ جانے کونسی بات سچی تھی۔اماں کے آنسویاشریف کاقہقہہ۔
ڈیوڑھی سے نکل کروہ چپکے سے دادی کے پاس چلاگیا۔دادی نے اسے دیکھ کرتیوری چڑھائی۔
”اے ہے کہاں بھٹکتاپھرتاہے تو۔ادھرتیری ماں اپناچا وپوراکررہی ہے۔آخروہ تمہاراباپ ہے۔اس کی رضامندی تولی ہوتی تیر ی ماںنے۔رضامندی نہ سہی اس سے بات ہی کی ہوتی آخرگھرکے مردسے بات کرنی ہی چاہیے تھی۔ہاجرہ کی سینہ زوری توبہ کیازمانہ آگیاہے۔یہ دیکھ لوعلی احمد کی چٹھی ۔میرے خط کے جواب میں کیالکھاہے اسنے ۔“دادی اماں نے تخت سے چٹھی اٹھاکراسے دی۔”وہ لکھتاہے ہمیں معلوم نہیں کہ ایلی کی منگنی ہورہی ہے۔کہاں ہورہی ہے۔ایلی کی ماں ہی جانتی ہوگی۔“وہ اپنی مرضی کررہاہے یہ اپنی مرضی کررہی ہے اورتومیرے لال توخواہ مخواہ ان چکی کے پاٹوں میں پساجارہاہے۔آبیٹھ یہاں میرے پاس۔دیکھ تومیں نے تیرے لئے کیامنگوایاہے۔غضب خداکاادھرعلی احمدآنکھیں دکھارہاہے ادھریہ بی بی آنسوچھلکارہی ہے۔آبھی جااب۔“
یہ پہلادن تھاجب اس نے محسوس کیاکہ دادی اماں پریشان ہے ۔اس کے ماتھے پرتیوری چڑھی ہوئی تھی ۔ویسے وہ گھورتی تووہ روزہی تھی۔جب محلے کے لڑکوں پرگرجتی تھی تووہ سب بھاگ کرچھپ جایاکرتے تھے۔مگرایلی کے لئے گویاوہ تیوری محض دکھاوے کی ہوتی تھی۔تیوری ہونے کے باوجودوہ تیوری تلخی کی حامل نہ ہوتی تھی اورایلی اسے دیکھ کرہنس دیاکرتاتھا۔لیکن اس روزدادی اماں تیوری چڑھانے کے بغیر ہی گھوررہی تھی۔جیسے اپنے آپ کوگھوررہی ہو۔اپنی بے بسی پرتلملارہی ہو-
باہر بینڈبج رہاتھا۔دورکلثوم کے گھرمیں لڑکیاں دھولک پرگیت گارہی تھیں۔
”نی متھاتراچندورگابودی کنڈلاں والی او۔“
ایلی کی منسوبہ ثمرہ اس کی خالہ زادبہن کلثوم کی لڑکی تھی۔کلثوم کے گھروہ اکثرجایاکرتاتھااوردیرتک وہاں بیٹھ کرباتیں کیاکرتاتھا۔اس دوران کئی بارثمرہ بھی وہاں آتی یاادھرادھرکام میں مصروف رہتی۔اس کے باوجوداسے ثمرہ کی شکل وصورت کے متعلق کچھ اندازنہ تھا۔منگنی کے روزایلی نے پہلی مرتبہ محسوس کیاکہ کہ اس نے ثمرہ کوکبھی دیکھاہی نہیں۔اس کے دل میں آرزوپیداہوئی کہ ثمرہ کوغورسے دیکھے۔کیسی ہے۔لیکن کسی کے گھرجاکرلڑکی کوغورسے دیکھناایلی کے لئے ممکن نہ تھا۔اسے نگاہ اٹھاکردیکھنے کی جرا ت نہ ہوتی تھی اورلڑکیاں بھی توعجیب پاس جاکردیکھوتویوں چنری سنبھال کربیٹھ جاتی ہیں جیسے بے جان گڑیاں ہوں۔دور سے کھڑکی میں کھڑے ہوکردیکھوتومورنیوں کی طرح دم پھیلاپھیلاکرناچتی ہیں۔چڑیوں کی طرح پھدکتی ہیں۔دورسے دیکھنے میں کس قدرلطف آتاتھا۔لیکن قریب سے اب ثمرہ کوقریب سے دیکھنابالکل ہی ممکن نہ رہاتھا۔اب تواس گھرمیں پا وں دھرنامشکل تھا۔
ایلی کی نظرمیں کلثوم کے گھرکے مناظریوں چلنے لگے جیسے فلم چلتی ہے۔دم پھیلاکرناچتی ہوثمرہ سرخی اورپا وڈرسے تھپے ہوئے چہرے والی کلثوم جس کے گلے میں پھولوں کاہارلٹکاکرتے تھے۔اورمرجھائے ہوئے چہرے والارحم علی جو کلثوم کاخاوندتھا-جسے دیکھ کرمحسوس ہوتاتھا۔جیسے وہ مظلوم ہو۔جیسے وہ کلثو م کامیاں نہیں بلکہ نوکرہو۔دفعتاًایلی کی نگاہوں تلے روغنی چہرے والی ثمرہ گلے میں ہارڈالے آکرچوکی پربیٹھ گئی۔اس اپنے چہرے میں تبدیلی رونماہوئی۔گال پچک گئے منہ پرجھریاں پڑگئیں اورصورت رحم علی کی طرح کی سی ہوگئی اورثمرہ کی چوکی کے قریب یوں جاکھڑاہواجیسے رحم علی ہو۔ایک مظلوم فرد’نوکر‘ایلی چونکااورگھبراکراٹھ بیٹھا۔
”کیاہے تجھے ۔“دادی اماں چلائی”اتنابے قرارکیوں ہے تو۔لیٹ جاآرام سے ۔لیٹ جا“
پھرایلی کی نگاہوں تلے چچاہنسنے لگے”بڑی دھوم سے منگنی کی ہے ہاجرہ نے۔“
”ستیاناس کردیا۔سواستیاناس۔“ارجمندچلایا۔”لیبل لگاکے کیوں مری مٹی خراب کی ۔ساری انکراینڈی ملیامیت ہوگئی۔“
پھرہاجرہ اس کے روبروآکھڑی ہوئی۔اس کے آنکھوں میں آنسوتھے۔”میری عزت تیرے ہاتھ ہے۔“
اچھاکیاچھٹپٹن میں جکڑلیا۔”ایک عورت بولی۔“
ماں کے آنسو۔ہاہاہا۔شریف کاقہقہہ سنائی دیا۔ماں کے آنسووہ تڑپ کراٹھ بیٹھا۔
”کچھ بھی نہیں۔کچھ بھی نہیں۔“دادی اماں نے گویاشریف کی ہاں میں ہاں ملادی۔”کیاہے تجھے “وہ بولی۔
دورلڑکیاں گارہی تھیں۔”بیٹھی ہنجواں دے ہارپروواں۔“

تھیلی میں مینڈک

اگلے روزہاجرہ ایلی کواکیلے میں لے گئی۔کہنے لگی ”شریف کی باتوں میں نہ آناایلی وہ توخواہ مخواہ تجھے گمراہ کررہاہے۔لوکوئی بات ہے بڑااپدیشک دیکھ لو۔شادی کے خلاف پرچارکرتاہے۔بھلاخودکیوں اپنی شادی کروارہاہے۔سعیدہ سے منتیں کیوں کرتاہے۔کیوں اس کے سامنے ہاتھ جوڑتاہے۔“
”ہاتھ جوڑتاہے؟“ایلی نے حیرانی سے پوچھا”وہ کس لئے؟“
”کہتاہے میرابیاہ کرادو۔میں اپناگھربسا وں گا۔دیکھ لو۔خودتواتناچا وہے دوسرابیاہ کرے گا اورتمہیں منگنی کے خلاف اکسارہاہے۔توبہ کوئی حدہوتی ہے زمانہ سازی کی۔“
زمانہ سازی اورشریف ۔ایلی کویقین نہیں آرہاتھا”نہیں نہیںایسانہیں ہوسکتانہیں ہوسکتا۔“وہ اٹھ بیٹھا’‘نہیں اماں یہ کیسے ہوسکتاہے۔“وہ چلایا”پوچھ دیکھ تواس سے ۔“ہاجرہ چمک کربولی۔”میں کیاغلط کہہ رہی ہوں۔“
ہاجرہ کے جانے کے بعدوہ سیدھاشریف کے گھرپہنچااورجاتے ہی بات چھیڑدی۔”آپ کی شادی ہورہی ہے کیا“ا س نے شریف سے پوچھا۔
شریف کے ہونٹوں پرزہرخندپھیل گیاچھت کی طرف دیکھتے ہوئے اس نے آہ بھری۔”شادی“۔وہ ہنسنے لگا۔عجیب سی ہنسی تھی وہ اس میں مسرت کی بجائے دھمکی تھی خوفناک دھمکی جیسے وہ شادی کی بجائے انتقام لے رہاہو۔اس کے قہقہے میں ایک تسلسل پیداہوتاگیاخوفناک تسلسل اورآوازبتدریج بلندہوتی گئی۔اس قدربلندہوگئی کہ گھرکے سب لوگ بھاگ کراس کے گردجمع ہوگئے۔”کیاہوا۔کیاہوا۔کیابات ہے۔“مگرشریف کسی کوجواب دیئے بغیراسی طرح قہقہہ مارکرہنسے جارہاتھا۔اس کی آنکھوں سے پانی پہنے لگا۔منہ سے رال کے تارنکل رہے تھے۔چہراسرخ ہورہاتھا۔
”اب کیامحلے والوں کوتماشادکھاناہے۔“سعیدہ چلائی۔”یاکوئی نیاکھیل ہے۔“
”اللہ رکھے اگلے ہفتہ برات لے کے جاناہے۔بہن شادی کی خوشی ہے ہنس لینے دو۔“
رابعہ نے بات ٹالنے کے لئے کہااورپھرایلی کاہاتھ پکڑکربولی”آتجھے دکھا وں کیسے اچھے کپڑے بنوائے ہیں اس کی دولہن کے لئے۔“ وہ گھسیٹ کرایلی کودوسرے کمرے میں لے گئی۔
”لیکن خالہ۔“اس نے رابعہ اورسعیدہ سے پوچھا“کہاں ہورہی ہے شریف کی شادی؟“
”بہت دور“رابعہ نے کہا”بہت دورجہاں نوکرہے وہاں نہ جانے کیانام ہے اس جگہ کا۔“
”مگربہن۔“سعیدہ نے کہا”ہیں تووہ خرم آبادکے رہنے والے نوکری نورپورمیں کرتے ہیںنالڑکی کے ابابہت بڑے افسر ہیں۔غلام علی نام ہے۔“دوسرے کمرے میں شریف کاقہقہہ ختم ہوچکاتھااوراب وہ کھانس رہاتھاجیسے تھک کرہارگیاہو۔
”دیکھا“رابعہ نے زیرلب مسکراکرکہا”اکیلے میں سب ٹھیک ہوگیا۔اب وہ کھانس رہاہے تم تو بہن اس کی دیوانگی کواوربھی ہوادیتی ہو۔“
”لومجھے کیامعلوم کہ ایسی ہوتی ہیں یہ باتیں۔“سعیدہ بولی”میں ذراجاکردیکھوں۔“ایلی نے دبی زبان سے کہااورپھرچپکے سے شریف کے پاس جابیٹھا۔شریف آنکھیں موندے ٹیک لگائے چپ چاپ بیٹھاتھا۔ پھردفعتاًاس کی نگاہ ایلی پرپڑی۔ہونٹوں پرتبسم لہرایا”شادی“وہ مدھم آوازمیں بولا”اب شادی کیاہوگی۔جب شادی کی آرزوتھی۔تب تویہ سب میرے راستے میں دیواربن کرکھڑے ہوگئے تھے۔یہ نہیں ہوسکتا۔انوراورشریف کی شادی ہوسکتی نہیں ہوسکتی۔ظالموں نے مجھے قیدکرلیااوراسے شہرسے دورنہ جانے کہاں لے گئے ۔اب کیاہے۔“ا س نے لمبی آہ بھری۔”یہ سمجھتے ہیں میں شادی کررہاہوں۔ان کوکیا معلوم ایلی۔ان میں احساس نہیں۔یہ کیاسمجھیں گے۔“پھروہ ایلی کے قریب ترہوگیااوررازدارانہ اندازمیں بولا”انہیںنہیں معلوم ایلی کے میں صرف اس لئے شادی کررہاہوں کہ اس کادل نہ ٹوٹے۔اس کی زندگی تباہ نہ ہو۔جیسے میری زندگی تباہ ہوئی تھی اوروہ کتنی معصوم ہے تم دیکھوگے تواندازہ ہوگاتمہیں اس بیچاری کوکیامعلوم کہ محبت کسے کہتے ہیں۔“شریفنے جھرجھری لی۔”نہ جانے اسے کیانظرآیاہے مجھے میں۔نہ جانے اسے کیاخوش فہمی ہے۔کاش وہ کسی جیتے جاگتے نوجوان کوچنتی۔مجھ ایسے مردہ شخص میں اب کیارہ گیاہے۔جوتھاوہ لوگوں کے ظلم کی بھینٹ چڑھ گیاہے۔اب کیادھراہے ۔لیکن اسے کون سمجھائے جوابھی دہلیزپرکھڑی مسکرارہی ہو اسے کیامعلوم کہ زندگی کیاچیزہے ۔نہ جانے محبت نے اس پرکیاجادوکردیاہے۔واقعی ہی وہ شہزادی ہے۔اسم بامسمیٰ ہے۔مجھے چھپ چھپ کردیکھنے کے بعدایک روزوہ مکان کی دہلیزسے باہرآگئی۔میرے روبرواوراس نے ایک مینڈک کے ذریعہ اظہارمحبت کردیا۔“
”مینڈک کے ذریعے محبت۔“ایلی نے حیرت سے پوچھا۔
”مینڈک کے ذریعہ اظہارمحبت۔“شریف ہنسنے لگا۔”اس نے مینڈک کوایک تھیلی میں ہی رکھاتھاجب میں سورہاتھاتواس نے وہ تھیلی مجھ پرپھینک دی۔میں ڈرکراٹھ بیٹھاوہ ہنسنے لگی۔“شریف نے ہنستے ہوئے کہا”محبت بھی اظہارکے انوکھے طریقے پیداکرتی ہے۔انوکھے۔“وہ رک گیااورطویل خاموشی کے بعدبولا”مجھے اس کی محبت کااحترام ہے اسے توشایدمیں ٹھکرادیتا۔مگرمحبت کوکیسے ٹھکراسکتاہوں۔میںنے خودمحبت کی ہے۔میں جانتاہوں کہ محبت کیاہوتی ہے۔عجیب چیز ہے محبت۔عجیب‘تم محبت کروایلی۔کسی سے کرومگرمحبت کرو۔“اس نے ایک طویل آہ بھری اورخاموش ہوگیا۔
آٹھ روزکے بعدوہ سب برات لے کرنورپورجارہے تھے۔اس انوکھی لڑکی کودولہن بناکرلانے کے لئے جس میں اتنی جرا ت تھی کہ گھرکی دہلیزسے باہر نکل کرشریف پرمینڈک پھینک سکتی تھی۔وہ لڑکی جسے ایساانوکھااظہارمحبت سوجھ سکتاتھا۔
محلے میں توایک بھی لڑکی ایسی نہ تھی جس میں مذاق کرنے کی صلاحیت ہویاجس میں جرا ت ہو۔انہیں تودبے پا وں چلنے۔چھپ چھپ کرجھانکنے اورمنہ پرپلولے کرمسکرانے کے سواکچھ نہ آتاتھا۔
لڑکے چوگان میں کھڑے ہوکرریشمیی رومال ہلاتے ہلاتے اوربال ٹھیک کرنے کے بہانے سلام کرتے کرتے تھک جاتے مگروہ یوں بے حس وحرکت کھڑی رہتیں۔جیسے پتھرکی بنی ہوئی ہوں چندایک جن پرمحلے کااثرزیادہ نہ تھالڑکوں کودیکھ کردوڑتیں بھاگتیں۔ایک دوسری کوپکڑتیں۔پلوجھٹکتیں۔اسے سنبھالتیں سبھی کچھ کرتیں مگر اظہارمحبت کرناتوکیاانہیں پیغامات محبت کومناسب طورپروصول کرنے تک کاشعورنہ تھا۔
جس دن سے شریف نے ایلی کواپنارازبتایاتھااسی دن سے بیٹھے بٹھائے ایلی کی نگاہوں تلے ایک شوخ متبسم حسینہ آکھڑی ہوتی۔اس کی طرف دیکھ دیکھ کرمسکراتی اورایلی کاجی چاہتاکہ وہ دہلیزسے باہرنکل آئے اورپھرتھیلی میں سلاہوامینڈک دھپ سے اس کے سینے پرآگرے اوروہ گھبراکراٹھ بیٹھے اورفضامیں ایک مدھم مگررنگین قہقہہ یوں گونجے جیسے گھنٹیاں بج رہی ہوں۔
اس روزبرات کے ساتھ نورپورجاتے ہوئے وہ غیرمعمول طورپرخاموش تھا۔کھڑکی سے باہرمٹیالے ٹیلے دوڑرہے تھے۔کبھی کوئی گہراکھڈمنہ پھاڑے آنکلتاجس کے تلے دورپانی کی ندی ناچتی۔پھروہی ٹیلے اوران پریہاں وہاں خشک ٹنڈمنڈدرخت۔ایلی کی نگاہیں اس گلابی افق میں کھوئی ہوئی تھیںجواس کے اندازے کے مطابق ان کی منزل تھااوروہاں گلابی متبسم چہرہ اسے دیکھ دیکھ کرمسکرارہاتھا۔
ڈبے میں بیٹھے ہوئے براتی اپنی باتوں میں مگن تھے۔ہرچندمنٹ کے بعدایک قہقہہ گونجتا۔کسی پرآوازہ کساجاتااورایلی چونک کرادھردیکھتا۔
ایک طرف محلے کے بزرگ تھے دوسری طرف جوان اورتیسری طرف اس کے اپنے ساتھی۔ارجمند،رضااورتفیق ۔ہرگروہ اپنے اپنے مشاغل میں مہمک تھا۔صرف دوفرداکیلے چپ چاپ بیٹھے تھے۔ایک کونے میں شریف تھاجومسلسل گاڑی کی چھت کوگھورے جارہاتھا۔دوسری طرف ایلی تھا۔جوکھڑکی سے باہر کسی رنگین افق کودیکھنے میں کھویاہواتھا۔ممکن ہے۔ریل کی چھت میں شریف بھی وہی رنگین افق دیکھ رہاہو۔ان دونو ں کومنزل کاخیال لگاہواتھا۔دونوں کے سینوں میں مینڈک کودرہے تھے دونوں کی نگاہوں میں رنگین تبسم جھلملارہے تھے۔
ہرچندمنٹ کے بعدغالباً اپنے تخیل اورمحسوسات کی نوعیت سمجھ کرایلی احساس ندامت سے گھبراجا۔اس خیال پرندامت محسوس کرتاکہ اپنے دوست کی بیوی کوتاک رہاہے۔ محسوس کرتاکہ وہ مجرم ہے پھرگھبراکرلاحول پڑھتااورکسی اوربات کی طرف متوجہ ہونے کی ناکام کوشش کرتا۔پھردفعتاً اس کے تخیل میں شہزادی پیچھے ہٹ جاتی اوراس کی چھوٹی بہن آگے بڑھتی۔شاید اس میں بھی دہلیزپارکرنے کی جرا ت ہو۔شایداسے بھی مینڈک پھینکنے سے دلچسپی ہو۔اس خیال پروہ اطمینان کاسانس لینااورپھراپنے رنگین خواب میں کھوجاتا۔
ایلی کے ذہن میں ایک نئی امیدکروٹ لے رہی تھی۔ایک نئی دنیاابھررہی تھی۔دورسامنے ٹیلے کی اوٹ میں مینڈکوں کی جھیل کے کنارے ایک دوشیزہ اسے دیکھ کرمسکراتی اسے اشارے کرتی ایلی کے جسم پرچیونٹیاں رینگتیں سینے میں مینڈک پھدکتے اوردل میں نہ جانے کیاکیاہوتا۔
شریف بھی باربارچونکتاجیسے وہ بھی خودکومجرم سمجھ رہاہو۔جب وہ اس رنگین منزل کے خیال میں کھویاہواہوتاتوایک سوگوارچہرہ اس کے روبروآکھڑاہوتا۔ستاہوامنہ کھلے پریشان۔ہونٹوں پرزہرخند۔اسے دیکھ کرشریف کواحساس ہوتاکہ وہ انورسے بے وفائی کررہاہے۔انورکی زندگی تباہ کرکے خودرنگین افق آبادکررہاہے۔اس خیال پروہ گھبراجاتا۔پھراس کی آنکھوںمیں حزن وملال کی گھٹائیں ابھرنے لگتیں دل سے آوازبلندہوتی ۔نہیں نہیں میراکیاہے۔یہ سب تواس لئے ہے کہ اس کادل نہ ٹوٹے۔اس کی زندگی تباہ نہ ہو۔
براتی دولہامیاں حالت دیکھ کرمسکراتے۔
”دیکھولوبھئی یہ دولہامیاںہیں یوں اپنی برات لئے جارہے ہیں۔جیسے کوئی دارپرچڑھ رہاہو۔“
علی احمدقہقہہ لگاتے۔”میاں دارہی توہے ۔اس حقیقت کوئی کوئی سمجھتاہے۔“
جوان قہقہہ لگاتے”جبھی توعلی احمددارپرچڑھتے چڑھتے نہیں تھکتے۔“
نوجوان چھپ چھپ کرمسکراتے سرگوشیاں کرتے اورپھرارجمندباآوازبلندکہتا”میاں ایلی تم تویوں بیٹھے ہوجیسے کوئی دارپرچڑھنے والاہو۔“
”کیوں میاں اسے شوق نہیںکیا۔بیٹاکس کاہے۔“
اورسب علی احمدکی طرف دیکھ کرہنستے اورگاڑی چیختی چلاتی ہوئی دوڑے جاتی۔
بالآخرایک وسیع وعریض پلیٹ فارم پرگاڑی رک گئی۔”لوبھئی نورپورآگیا۔“کوئی چلایاایلی کادل اچھل کرحلق میں آپھنسا۔
وہ ایک عجیب ساسٹیشن تھا۔جیسے ایک وسیع وعریض ریس کورس ہو۔پلیٹ فارموں کی چوڑائی اورلمبائی عام پلیٹ فارموں سے کئی گنازیادہ تھی۔سٹیشن کے احاطے کے چاروں طرف قدآدم فصیل تھی۔جس میں ایک پھاٹک لگاتھا۔جس سے ریل اندرداخل ہوتی ایک طرف سرخ رنگ کاایک اونچہ قلعہ بناہواتھاجس کی دیواروں میں بندوق کی نالیوں کے لئے سوراخ چھوڑے ہوئے تھے۔دوسری جانب سٹیشن کے سٹاف کے رہائشی کوارٹرتھے۔ بیٹھے بیٹھے سے معمولی کوارٹر اورقلعہ کے پیچھے اونچے سیاہ پہاڑ۔استادہ تھے۔
ایلی نے تعجب سے چاروں طرف دیکھا۔پھرا س کی نگاہیں ان کوارٹروں کی طرف مرکوزہواسے ایسے محسوس ہورہاتھاجیسے کھڑکیوں اوردروازوں کے پیچھے مینڈکوں سے بھری ہوئی تھیلیاں رکھی ہوں۔
باہرسٹیشن کے احاطے میں کوئی ایسی جگہ نہ تھی جہاں سے مینڈک دستیاب ہوسکتے ہوں۔مینڈک کیاوہاں توتالاب کانام ونشان تک نہ تھا۔
پھروہ ایک بہت بڑے کمرے میں کھاناکھارہے تھے۔بھنے اورتلے ہوئے مرغ مسلم رکابیوںمیںپڑے تھے۔قسم قسم کے چاول اورگوشت ۔وہ حیرانی سے ان بھر قابوں کی طرف دیکھ رہاتھاجوگوشت سے لدے ہوئے تھے۔علی احمد قہقہہ مارکرہنس رہے تھے۔محلے والوں کی باچھیں کھلی ہوئی تھیں اورشہزادکے والدکی آنکھوں میں گویاپھلجڑیاں چل رہی تھیں۔
”کیاجوڑی ہے۔“چچاچلانے لگے۔”بھائی غلام علی اورعلی احمدکی واہ وا۔“
”وہ کہتے ہیںنا“کسی نے آوازہ کسا”ساجن سے ساجن ملے کرکرلمبے ہاتھ۔“
”بڑی خوشی ہوئی آپ سے مل کربھائی غلام علی۔“علی احمدہنسے اورپھرمسلم مرغ پرپل پڑے۔
پھرایک نوکرانی آکرچلانے لگی“ایلی کواندربلایاہے۔“اندربلارہے ہیں ایلی کو۔ایلی کواندربلایاہے۔چاروں طرف آوازیں سنائی دینے لگیں۔ایک بھیانک دف بجنے لگی۔ایلی کی رگوں میں کوئی دھمکی بجانے لگانگاہوں میں اردگردکی چیزیں دھندلاگئیں۔
اندرجاتے ہی نہ جانے اسے کیاہوااس کی آنکھیں جھک گئیں۔حلق آوازسے خالی ہوگیا۔بازولٹکنے لگے۔چاروں طرف سے بھنبھناہٹ سی سنائی دے رہی تھی مگروہ گردن نہ اٹھاسکتاتھا۔”اپنے علی احمدکاایلی ہے“ محلے والی کی مکروہ آوازسنائی دی۔
”اچھابہن جیتارہے ۔“دوبڑے بڑے ہاتھوں نے اس کے سرپرگرفت میں لے لیااورپھروہ بھاگا۔
نہ جانے ایساکیوں ہوتاتھا۔کیوں جب وہ منزل پرپہنچتاتواس کے پا وں میں چلنے کی سکت نہ رہتی ۔اس کے بازوشل ہوجاتے۔نگاہیں ندامت سے دھندلاجاتیں۔ایساکیوں تھا۔پھرجب وہ تخیلے میں اپنے تخیل کی دنیامیں واپس پہنچتاتواندھے کی طرح منزل سے چمٹ جاتا۔ اس کی گرفت میں دیوانگی کاعنصرپیداہوجاتاتھا۔

مونگیاگٹھڑی

پھروہ نورپورسے واپس آرہے تھے اورایلی احسان ناکامی کی وجہ سے خاموش تھا۔اس کے تخیل کے پرگویاکٹ چکے تھے۔بازو وں میں طاقت پروازنہ رہی تھی۔ اس کے سامنے کوئی افق نہ تھا۔مٹیالے ٹیلے۔ٹنڈمنڈدرخت اورپھیلی ہوئی ویرانی۔
پھرارجمنداسے جھنجھوڑرہا۔”ابے اومردے۔“وہ چلایا۔”توپہلے ہی فوت ہوگیابڑااچھاہوا۔ورنہ آج ہماری طرح حرام موت مرنابچ گیایار۔توہمیشہ ہی بچ جاتاہے۔“
ارجمندکی بات سن کرایلی حیران ہوا۔ارجمندنے توکبھی ایسی بات نہ کی تھی۔اس کے اندازمیں کبھی مایوسی نہ دیکھی تھی ۔پھراسے کیاہواوہ یوں سرکوہاتھ سے تھامے بیٹھاتھا۔جیسے قطعی طورپرتباہ ہوچکاہو۔
”بیٹاہماراتوکلیان ہوگیا۔“وہ دبی آوازمیں بولا۔
”آخربات کیاہے۔“ایلی نے پوچھا۔
”بات۔“ارجمندہنسا۔“دیکھ لورفیق کی آنکھوں میں۔دیکھ لووہ بات۔دیکھ لوکیابیتی ہم پر۔
یارہم اس لائق تونہ تھے۔”ایلی نے رفیق کی طرف دیکھا۔اس کی آنکھوں میں گویابیربہوٹیاں رینگ رہی تھیں۔
”ہے ہے۔“ارجمندبولا“بس سمجھ لووہ منظرجوکپ نے چھ سال کے بعدچھلک کردکھاناتھاآج دیکھ لیاہے میں کیاکروں۔“اس نے لمبی آہ بھری۔”اب تویہی ہے کہ چوہے کی طرح اس ٹکڑے کوکترتے رہیں۔“یہ کہہ کراس نے جیب سے سوکھے ہوئے کیک کاایک ٹکڑانکالااوراسے کترنے لگا۔پھرایلی کی طرف دیکھ کرکہنے لگا”ہے ہے دے تودوں تجھے بیٹامگرجوڈال سے توڑکرکھانے میں بات ہے وہ کہاں اورپھراپن کے یہ ہاتھ بھی دیکھ لے جیسے کوہڑی کے ہوں اوروہ ہاتھ جن سے اس بھکاری کویہ ٹکڑاملاہے۔ہے ہے۔اچھاچل توبھی کرے دیوی کے درشن۔کیاچیزہے خداکی قسم۔آتوبھی کیایادکرے گا۔“وہ اسے گھسیٹ کرڈبے سے باہرلے گیااورپھرملحقہ زنانہ ڈبے میں اسے زبردستی ٹھونس کرچلانے لگا”یہ آیاہے ایلی خالہ سعیدہ کہتاہے میں خالہ سے ملوں گا۔“
”آایلی “خالہ بڑے تپاک سے بولی ”میں توکب سے تیراانتظارکررہی تھی۔یہ ایلی ہے۔میری خالہ ہاجرہ کابیٹا۔“اس نے مونگیاگٹھڑی سے کہاجو پاس ہی سیٹ پردھری تھی۔
مونگیاگٹھڑی میں جنبش ہوئی دوسفید خو ن میں بھیگے ہوئے ہاتھ ایلی کی طرف لپکے ۔تازہ تازہ خون کی بو کاایک ریلاآیا۔ایلی بھاگنے کی سوچ رہاتھاکہ گٹھڑی کے پٹ کھل گئے۔دوگلابی جھیلیں چھلکیں جن میں سیاہ گلاب ابھررہے تھے۔سارے منہ پر مخملی بیربہوٹیاں رینگ رہی تھیں۔پھرایک چھلکاہوتبسم۔ایلی کھڑے کھڑے کاکھڑارہ گیا۔گردوپیش جھلملاکرمعدوم ہوگیا۔
سعیدہ نہ جانے ہاتھ ہاتھ ہلاکرکیاکہہ رہی تھی۔باہر پلیٹ فارم پرارجمندآنکھ بچاکرچھاتی پیٹ رہاتھا۔رفیق ریشمیں رومال ہلارہاتھا۔اس کی آنکھوں میں بونداباندی ہورہی تھی۔پرے علی احمدحسب دستورکولہوں پرہاتھ رکھے ڈبے پرنگاہیں گاڑے کھڑے تھے جیسے کوئی چیل پرتول رہی ہو۔ان کے قریب ہی صفدرانگلیوں میں سگریٹ تھامے چٹکی بجابجاکرگنگنارہاتھا۔”اے دلربامیں ہوفدا۔“ایلی خاموش کھڑاتھا۔نہ جانے کب تک ویسے ہی کھڑارہا۔اسے معلوم نہ تھاکب مونگیاگٹھڑی کے پٹ بندہوئے۔
پھراسے کچھ پتہ نہ تھاکہ کھڑکی کے باہر ٹیلے بھاگ رہے تھے۔یاسرسبزمیدان پھیلے ہوئے تھے۔اس معلوم نہ تھاکہ لوگ باتیں کررہے ہیں یاہنس رہے ہیں۔دل میں ایک شوربرپاتھا۔رگوں میں لہریںاٹھ رہی تھیں۔سینے میں دھنکی بج رہی تھی۔سامنے ایک لق ودق ویرانہ پھیلاہواتھااوراس ویرانے میں ایک مونگیاگٹھڑی پڑی تھی۔اوردوخون آلودہاتھ۔اورگاڑی ہونکتی ہوئی جارہی تھی۔

شہزاد

محلے میں شہزادکی آمدیوں اثراندازہوئی جیسے جوہڑمیں پتھرگرتاہے۔محلے کے بندپانی میں چاروں طرف چھینٹے اڑے جیسے سوڈے میںکسی نے نمک کی چٹکی ڈال دی ہو۔پھرلہریں جوہڑکے طول وعرض تک دوڑگئیں ۔
عورتوں نے اسے دیکھااورہونٹوں پرانگلیاں رکھ کرخاموش ہوگئیں۔بوڑھوں نے آنکھیں پھاڑپھاڑکردیکھا۔مردوں کی آنکھیں پھٹی رہ گئیں۔بوڑھے اسے دیکھ کرچپ چاپ مسجد کی طرف چل پڑے اوروہاں جاکرسبحان اللہ کاوردکرنے لگے۔
محلے کے بڑوں میں صرف دورنگیلے آدمی تھے جو عمرمیں بڑے ہونے کے باوجودشوقین مزاج تھے اورزندگی میں لہریں پیداکرنے کے قائل تھے۔علی احمداورمحمداعظم ،انہیں لاحول پڑھنے۔گردن جھکاتے کھانسنے یامسجد میں جاکرسبحان اللہ کاوردکرنے سے قطعاً دلچسپی نہ تھی۔منہ سے گنگنانے کی بجائے سبحان اللہ،ان کی آنکھوں میں منعکس ہوجاتا۔جھجک کرپیچھے ہٹ جانے کی بجائے وہ آگے بڑھ کرکوئی بات چھیڑدیتے۔
”لڑکی تواداس تونہیں ہوگئی یہاں آکر۔“محمداعظم مسکراتے۔”گھبرانہیں دل لگ جائے گا۔“اورپھران کی نگاہوں سے ظاہرہوتاکہ دل لگ کرسب ٹھیک ہوگیاہے۔
صبح سویرے ہی محمداعظم آپہنچے۔”کیوں شہزادکچھ پکانے کھانے کابھی فکرہے یانہیں۔خالی خولی شہزادگی نہیں چلے گی یہاں ،بول کیامنگواناہے بازارسے۔ہائیں بینگن کھائے گی۔آج پھربینگن اونہوں بینگن نہیں کھایاکرتے گرمی ہوجاتی ہے۔اچھاشریف کوکھلائے گی بینگن۔لیکن اسطرح کب تک گزارہ ہوگا۔“اوروہ قہقہہ مارکرہنستے۔”اچھاچائے کاپیالہ توپلاایک سوداکمیشن اداکرنے کے بغیرنہیں جاتاسمجھی،ہائیں توبروک بانڈپیتی ہے۔اونہوں لڑکی چائے لپٹن کی۔“اوران کی متبسم نگاہیں کسی رنگین پیالی سے لپٹ جاتیں اوراندازسے معلوم ہوتاجیسے بینگن کھاکے آئے ہوں۔
محمداعظم کاطریق کارگھریلواندازکاحامل تھا۔ان کی باتوں میں اپنالینے کاپہلوواضح ہوتا۔بات کرتے اوراس دوران میں نگاہوں سے چانچتے۔اکساتے۔علی احمدچل کرجانے کے قائل نہیں تھے ان کی باتوں میں اشاریت کاپہلو ہوتاتھا۔وہ دورکھڑے پہلے توچیل کی طرح منڈلاتے پھرآوازدیتے۔باتوں سے رجھاتے اورتمام تربات زبان کی مددکے بغیرنگاہوں ہی میں طے کرلیتے اوربالآخربرسبیل تذکرہ آوازدیتے۔”میں نے کہاچاچی۔ابھی آجائیں گے چچا۔مسجد ہی میں گئے ہیں توکیوں پریشان ہورہی ہے۔“اورجب چاچی ہنس کرجھاڑجھپٹ کرتی توکہتے میں نے کہا۔یہ شریف کے گھرکی کھڑکی میں کون کھڑی ہے۔کوئی اندھی بہری معلوم ہوتی ہے نہ سلام نہ دعانہ بات نہ چیت-اچھاتوتوہے شہزادمیں سمجھاشایداندرگیس جلارکھاہے۔توآئی نہیں کبھی ۔دکھائی نہیں دیتی۔نہ جانے کن مشاغل میں کھوئی رہتی ہے۔“
علی احمد شہزادکوآوازسنتے توشمیم کے چوبارے سے ملحقہ جنگلے میں نکل آتے اورشمیم کویوں آوازدیتے جیسے شمیم سے بے حدضروری کام پڑگیاہو۔جب سے شہزادنے محلے میں قدم رکھاتھاعلی احمدکوباربارشمیم سے کام پڑرہاتھا۔گھرکے تمام لوگ ان کے اس ضروری کام کی نوعیت سے واقف تھے۔ایسے وقت سیدہ گھٹنوں میں منہ دے کرہنستی۔دادی اماں مسکراکرکہتی۔”توبہ اس لڑکے کوتواپنی سدھ بدھ نہیں رہتی۔“شمیم چوبارے میں ان کی آوازیں سنتی اورتیوری چڑھاکراپنے آپ سے کہتی ۔”میں جانتی ہوں ان کے ضروری کام کواچھی طرح معلوم ہے مجھے۔کون نہیں جانتا۔“شہزادجنگلے کے سامنے کھڑی ہوتی تو فوراً آواز دیتے
وہ جنگلے سے چلاتے"سنا کیا حال ہے؟"نور پور تو یاد نہیں آتا؟ کھلے میدانوں میں کلیلیں کرنے والیاں جب گھر میں قید ہو جاتی ہیں تو جی گھبراتا ہےنا!!!
وہ اپنی بات پر ہنستے اور دیر تک ہنسے جاتے
شہزاد کو دیکھ کر صفدر اپنے کھدے ہوئے بازو کو بھول جاتا-اسے بال جھٹک کر سر ہلانا بھی یاد نہ رہتا اور اپنا محبوب گیت "حافظ خدا تمہارا،جو وہ پارسی لڑکی کے ساتھ سٹیج پر گایا کرتا تھا، قطعی طور پربھول جاتا اور پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھنے میں کھو جاتا
محلے کے جوان تو شہزاد کو دیکھ کر حیران رہ گئےتھے۔ اس کی ہر بات نرالی  معلوم ہوتی تھی۔اس کا انداز بے حد انوکھا تھا۔چق کی آڑ میں کھڑے ہونے کی بجائے وہ چق کو لپیٹ دیتی تھی اور چھپ کر دیکھنے کی بجائے اطمنان سے کھڑکی کے زیریں سہارے پر پاؤں رکھ کے بے تکلفی سے ادھر ادھر دیکھتی۔اِس کا دوپٹہ اعلانیہ شانوں پر گِرا رہتا جیسے وہ سر کی جگہ شانوں سے متعلقہ لباس ہو۔اِس کے بال نیم کھلے رہتے اور آنکھوں کے کونوں میں دور کنپٹیوں تک سرمے کی دھار صاف دکھائی دیتی۔
رفیق اِسے دیکھ کر گھبرا جایا کرتا- اس کی گردن جھک جاتی اور اس کی نگاہیں احاطے کے فرش پر آوارہ ہوجاتیں اگرچہ ان میں ہوائیاں سیچلتی رہتیں اور اس کے ہونٹ ناجانے کیاگنگناتے۔ پھر وہ چپکے سے شہزاد کی سیڑھیاں چڑھ جاتا۔ “چچی کوئی سودا تو نہیں منگوانا“ اور اس کی آنکھوں سے گلابی شرارے پھوٹتے اور ہونٹوں سے اف اف کی آواز پیدا ہوتی۔ جیسے اسے بہت کچھ برداشت کرنا پڑ رہا ہو اور شہزاد بے نیازی سے اس کی طرف دیکھتی اور “نہیں“ کہہ کر یوں بے پروائی سے کسی کام میں لگ جاتی جیسے پتہ ہی نہ ہو کہ رفیق کو اتنا کچھ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔
ارجمند انکراینڈی کا تمام تر سامان لے کر چوگان میں کھڑا ہو جاتا اور بہانے بہانے شہزاد کی کھڑکی کی طرف دیکھتا ریشمیں رومال ہاتھوں میں اچھالتا۔ احتیاط سے بنائے ہوئے بالوں کو ریشمیں رومال سے سنبھالتا اور پھر بانسری ہونٹوں تلے رکھ کر سر اٹھا کر یوں اوپر کی طرف دیکھتا جیسے سپیرے کے ٹوکرے سے سانپ نکلنے والا ہو۔
لیکن نہ جانے شہزاد کس مٹی کی بنی ہوئی تھی کہ اس نے ارجمند کی حرکات کو کبھی درخور اعتنا نہ سمجھا تھا۔ وہ کھڑکی میں آتی ہر راہ چلتی ہوئی محلے والی سے کوئی بات چھیڑ لیتی۔ ہر آتے جاتے سے ہنس ہنس کر بات کرتی مگر اس نے کبھی ارجمند کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا تھا۔ ارجمند کی ساری کی ساری انکر اینڈی دھری کی دھری رہ گئی تھی۔ پھر وہ اکتا کر کچی حویلی کی طرف متوجہ ہو گیا تھا۔ جہاں کپ اسے دیکھ کر چھلکتی اور کیپ یوں پھدکتی جیسے پارے کو آگ دکھاوی گئی ہو۔ کچی حویلی میں پہنچ کر اس کے انکر اینڈی میں از سر نو تاثر ہو جاتا تھا اور پھر چہرے پر رونق آ جاتی۔
احاطے میں ایلی کے کھڑے ہونے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔ اول تو اس میں اتنی جرات نہ تھی کہ ارجمند سے سیکھے ہوئے داؤ کو آزما سکے۔ لیکن کبھی ارجمند کے ساتھ کھڑا بھی ہوتا تو کچی حویلی یا باہر کنوئیں کے قریب محلے کے احاطے میں کھڑے ہو نا ایلی کے لئے ناممکن تھا اور پھر وہاں شہزاد کے لئے کھڑے ہونا۔
جب سے ایلی نے ریل گاڑی میں اس مونگیا گٹھڑی کے پٹ کھول کر اس کی طرف جھانکا تھا۔ اس پر شہزاد کا اس قدر رعب پڑ گیا تھا کہ اس کی آواز سن کر نگاہیں جھک جاتیں اور وہ وہاں سے بھاگ لیتا۔ شہزاد کے رو برو جانا تو الگ بات تھی۔
شہزاد کے سامنے ایلی کے شانوں پر منوں بوجھ پڑ جاتا۔ نسوں میں گویا خون جم جاتا۔ دل دھک دھک کرتا۔ جی چاہتا کہ دوڑ کر کسی کونے میں جا بیٹھے اور اپنے آپ کو محفوظ کرے۔ شہزاد تو یوں دکھائی دیتی تھی جیسے کسی اور دنیا کی مخلوق ہو۔ جیسے وہ ایک ایسی پاکیزہ ہستی ہو جس کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنا جرم ہو۔ اس لئے گھر کے کسی کونے میں بیٹھ کر مسکراتی ہوئی شہزاد کی طرف حسرت ناک نگاہوں سے دیکھتا اور اس کے قریب تر جانے کی آرزو کو دل میں بسا کر گھنٹوں اس کے قدموں میں بیٹھ رہتا۔ اسے یہ بھی معلوم نہ تھا کہ آرزو کرنے کا مقصد کیا ہوتا ہے۔اسے تو بس شہزاد کے قرب کی آرزو تھی۔ وہ چاہتا تھا کہ اس سے قریب تر ہو جائے اور اسے دیکھ کر شہزاد کی آنکھوں میں ایسی پھلیجڑیاں چلیں جیسے شریف کو دیکھتے ہوئے چلا کرتی تھیں۔ مگر یہ نا ممکن تھا اور ممکن ہوتا بھی تو لیکن کیسے ممکن ہو سکتا تھا کہ وہ اپنے دوست کی بیوی کی آرزو کرے۔ کتنی بری بات تھی۔ کتنی ناجائز۔ اس بات کو بھلانے کے لئے اس نے اپنی توجہ دوسری باتوں کی طرف مبذول کرنے کی کوشش کی۔
چند ایک دنوں کے ارجمند نے بھی محلے کے چوگان میں کھڑا ہونا موقوف کر دیا۔ “نہ بھئی۔“ وہ چلانے لگا۔ “اپنے بس کی بات نہیں۔ اپنے تو پر جلتے ہیں اور بھئی ایلی بات یہ ہے کہ پکا پکایا کھانا نصیب میں نہیں۔ اپنے نصیب میں تو انتظار کرنا لکھا ہے۔ بس چھ سال کی بات ہے۔ صرف چھ سال۔ پھر کپ کو جھلکتے دیکھنا۔ اف غضب ہو جائے گا اور دوست رام تو ہم پہلے ہی کر لیں گے۔ اگر مناسب وقت پر رام نہ کر لیا جائے بھائی تو یہ بلا قابو میں نہیں آتیں۔ بس حبابوں کی کٹوریوں میں گلاب آیا تو سمجھ لو کہ دنیا ہی بدل گئی۔یوں آنکھیں پھیر لیتی ہیں جیسے جانتی ہی نہ ہوں اور وہ شہزاد۔ ارے وہ تو ظالم بے عزتی کر دیتی ہے بالکل بے عزتی۔ اس روز مجھ سے پوچھنے لگی۔ “کس داؤ پر کھڑا ہے تو ---------- کچھ کامیابی کی بھی امید ہے یا ایسے ہی ظالم نے مجھے کاٹ کر رکھ دیا اللہ بے اعتنائی کا یہ عالم ہے کہ ہم کسی گنتی میں شمار نہیں اور پھر یوں کاٹ کر رکھ دینا۔ بھئی واہ۔ نہ بھئی اپنے بس کی بات نہیں۔ لیکن تم آزادی سے آ جا سکتے ہو۔ دوست تم مزے میں ہو۔“
ارجمند اور ایلی دونوں اپنے آپ کو دھوکا دینے کے لئے کپ اور کیپ میں دلچسپی کا اظہار کرنے لگتے۔ ایلی کہتا “چلو وہاں چلیں تمھارے گھر میں ہکوڑی ڈکوری دیکھیں گے۔“ ارجمند مسکرا کر چلاتا “کیوں دوست ابھی سے چوہا گھڑی پر چڑھنے لگا۔“ اور وہ دونوں کھڑکی کی درزوں سے مقابل کے گھر میں جھانکتے۔ سبز جنگلے کا دروازہ کھلتا اور ایلی محسوس کرتا جیسے کسی مونگیا گٹھڑی کے پٹ کھل گئے ہوں۔ اس کے شانوں پر بوجھ پڑ جاتا۔ بند بند میں دھنکی سی بجنے لگتی اور وہ گھبرا کر کھڑکی سے ہٹ جاتا۔
“ارے کیا ہے تجھے۔“ ارجمند اسے یوں بے توجہی برتتے ہوئے دیکھ کر کہتا “میاں عین موقع پر میدان چھوڑنا مردوں کا کام نہیں۔“
اس پر ایلی لاجواب ہو کر بھاگ آتا اور اپنے چوبارے کے کونے میں بیٹھ کر اپنی کمتری کو شدت سے محسوس کرتا۔ اس کی نگاہوں میں فرار کی رنگین راہیں کھلتیں اور وہ ان میں کھو جاتا۔