صفحات

تلاش کریں

امر بیل از عمیرہ احمد(دوسرا اور آخری حصہ باب 31 تا 56)

باب: 31

”لئیق انکل! میں آپ سے صرف ایک بات پوچھ رہا ہوں۔ کیا پاپا نے واقعی مجھے آپ کے پاس انٹرویو اور سائیکالوجیکل ٹیسٹ کیلئے بھیجا ہے۔”
اس رات وہ بڑی سنجیدگی کے ساتھ انکل کی اسٹڈی میں ان سے پوچھ رہا تھا۔
”تمہارا کیا خیال ہے؟” انہوں نے جواب دینے کے بجائے براہ راست اس سے سوال کیا۔
”آپ میرے خیال کو چھوڑیں کیونکہ میرا خیال جان کر آپ کو کچھ زیادہ خوشی نہیں ہوگی۔ آپ صرف میرے سوال کا جواب دیں۔۔۔” اس کے لہجے میں اضطراب تھا۔
”ہاں! ٹیسٹ کی تیاری کیلئے ہی بھیجا ہے۔” لئیق انکل دوبارہ اس فائل کو دیکھنے میں مصروف ہوگئے جو ان کے سامنے میز پر کھلی پڑی تھی۔
”یہ سفید جھوٹ ہے۔” اس نے بڑی بے خوفی سے تبصرہ کیا۔
لئیق انکل نے فائل بند کردی۔ ”مجھے سفید یا سیاہ کوئی بھی جھوٹ بولنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ میں تم سے خوف زدہ تو نہیں ہوں کہ تم سے جھوٹ بولوں گا۔” وہ عمر کو گھورنے لگے۔
”مجھ سے خوف زدہ نہیں ہیں مگر پاپا سے ہیں۔”
”تم آخر مجھ سے کیا اگلوانا چاہتے ہو؟” وہ یکدم جیسے تنگ آگئے۔
”صرف یہ کہ آپ مجھے یہاں رکھ کر پاپا کیلئے کون سی سروسز فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔”
”میں کسی قسم کی کوئی سروس فراہم نہیں کر رہا۔”
”تو پھر کیا کر رہے ہیں؟”
”تمہیں جہانگیر نے یہاں صرف ٹیسٹ کی تیاری کیلئے بھجوایا ہے۔” انہوں نے بڑے مستحکم لہجے میں کہا۔
”پھر آپ مجھے اتنے فنکشنز میں کیوں لے جارہے ہیں؟” اس کا لہجہ چبھتا ہواتھا۔
لئیق انکل کچھ دیر خاموشی سے جواب دیئے بغیر اس کا چہرہ دیکھتے رہے۔
عمر نے بات جاری رکھی ”اور ان فنکشنز میں تین چار فیملیز سے بار بار کیوں ملوا رہے ہیں مجھے… میں اسے اتفاق تو نہیں سمجھ سکتا کیونکہ ان فیملیز کا رویہ۔۔۔”
لئیق انکل نے یکدم اس کی بات کاٹ دی ”تمہارا کیا خیال ہے، میں ایسا کس لیے کر رہا ہوں؟”
”کیا مجھے یہ بتانے کی ضرورت ہے؟” عمر نے سنجیدگی سے انہیں دیکھتے ہوئے کہا۔
”ہاں! بالکل ہے۔”
”وہ فیملیز مجھے جس طرح پرکھ رہی ہیں، اس سے تو صرف یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مجھ سے شناسائی بڑھانا چاہتی ہیں۔ کچھ روابط… اور پھر شاید رشتے بھی۔” اس نے اپنے لفظوں پر زور دیتے ہوئے کہا۔
”اور تم کسی رشتے سے اتنے خوفزدہ کیوں ہو؟” اس بار لئیق انکل کے چہرے پر ایک مسکراہٹ تھی۔
”یعنی میرا اندازہ ٹھیک ہے۔” عمران کی مسکراہٹ سے متاثر نہیں ہوا۔
میں نے تم سے پوچھا ہے کہ تم کسی رشتے سے اتنے خوفزدہ کیوں ہو؟”
”میں خوفزدہ نہیں ہوں۔” اس بار وہ کچھ اکھڑ انداز میں بولا۔
”اگر خوفزدہ نہیں ہو تو پھر اتنی نارمل چیز پر اتنا اعتراض کیوں ہے تمہیں؟”
”کس نارمل چیز پر؟”
”شادی پر”۔
”میں اپنی شادی کے بارے میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتا۔” عمر نے دوٹوک انداز میں کہا۔
”تم 26 سال کے ہو اب تمہاری شادی یا منگنی وغیرہ ہوجانی چاہیے۔”
”لئیق انکل! یہ آپ کا مسئلہ نہیں ہے، میرا ہے اور میرے مسئلے میں خود ہی ہینڈل کروں تو بہتر ہے۔” وہ اس بار خاصی بےرخی سے بولا۔
”زندگی میں چانسز سے فائدہ اٹھانا سیکھو۔ تم جانتے ہو آج کل کون کون سی فیملیز تم میں انٹرسٹڈ ہیں۔ جہانگیر معاذ کے بیٹے سے رشتہ کسی بھی فیملی کیلئے اعزاز کی بات ہے۔”
”مگر میں کسی آکشن کا حصہ بننا نہیں چاہتا… نہ ان فیملیز میں مجھے کوئی دلچسپی ہے… میری زندگی جس طرح گزر رہی ہے، میں اسے اسی طرح گزارنا چاہتا ہوں۔”
”ان فیملیز سے جڑنے والا ایک رشتہ تمہیں کہاں سے کہاں لے جاسکتا ہے۔ کبھی تم نے اس کے بارے میں سوچا ہے؟”
”آپ میرے سامنے پاپا کی فلاسفی پیش نہ کریں۔ میں ان کے طریقے سے زندگی گزارنے پر یقین نہیں رکھتا۔ وہ ایک کامیاب بیوروکریٹ ضرور ہوں گے مگر ایک برے بیٹے، برے بھائی، برے شوہر اور برے باپ بھی ہیں اور اب وہ یہ رول میرے سرتھوپ دینا چاہتے ہیں۔” اس نے خاصی صاف گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا۔
”تم جہانگیر سے بہت زیادتی کرجاتے ہو۔”
”نہیں! پاپا سے کوئی برے سے برا سلوک بھی زیادتی نہیں کہلا سکتا۔ وہ اس سب کے مستحق ہیں۔” اس نے تندی سے کہا۔
”عمر! ہم جس سوسائٹی کا حصہ ہیں وہاں آگے بڑھنے کیلئے ایک ایک قدم بڑی احتیاط سے اٹھانا پڑتا ہے، سوچنا پڑتا ہے کہ ہمارا کیا جانے والا ہر فیصلہ ہمارے لیے کتنا فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے۔ تم جہانگیر سے ناراض ہوسکتے ہو مگر تم اس کے خلوص پر شبہ نہیں کرسکتے۔ وہ شخص واقعی چاہتا ہے کہ تم زندگی میں کامیابی کی سیڑھیاں بہت تیزی سے پھلانگو اور وہ کچھ بھی غلط نہیں کر رہا۔ یہاں سب یہی کرتے ہیں۔ میں نے بھی عرفان کی منگنی اسی طرح کی، ایک بڑی فیملی میں کی تھی۔ اب دیکھو عیش کر رہا ہے وہ سسرال والوں کی وجہ سے۔ جو پوسٹنگ اسے دوسرے سال مل گئی ہے، اس کو پانے کیلئے لوگ دس دس سال جھک مارتے رہتے ہیں۔” لئیق انکل نے اپنے سول سرونٹ بیٹے کا حوالہ دیا۔
”مگر میں شادی کرنا ہی نہیں چاہتا۔” وہ کچھ تنگ آگیا۔
”کیوں؟”
”بس میرا دل نہیں چاہتا۔”
”جہانگیر اور زارا کی ڈایؤورس کی وجہ سے؟”
”آپ جو چاہیں سمجھ لیں۔”
”ضروری تو نہیں ہے کہ اگر پیرنٹس کی شادی ناکام رہے تو بچوں کی بھی اتنی ہی ناکام رہے۔”
”مجھے پیرنٹس کی شادی کی ناکامی سے کوئی غرض نہیں ہے۔ میں بس اپنے کندھوں پر کوئی ذمہ داری لادنا نہیں چاہتا اور شادی جیسا احمقانہ کام کم از کم اس عمر میں، میں افورڈ نہیں کرسکتا بلکہ شاید کسی بھی عمر میں… اور ہاں! میں کل واپس جارہا ہوں۔” عمر نے بات کا موضوع بدلنے کی کوشش کی۔
لئیق انکل چونک گئے۔۔”کل؟… کیوں…؟ اتنی جلدی جانے کی کیا ضرورت ہے؟”
”اتنی جلدی تو نہیں جارہا ہوں، بہت دن ہوگئے ہیں۔ ویسے بھی اب یہاں میرا کوئی کام نہیں ہے۔”
”تم نے جہانگیر کو بتا دیا ہے۔”
”آپ ان کو بتا دیں میں بتانا نہیں چاہتا۔ میں دوبارہ ان سے کوئی جھگڑا نہیں کرنا چاہتا۔” اس نے بڑی لاپروائی سے کہا۔
”سائیکالوجسٹ سے ملوانا چاہتے تھے وہ مجھے… میں مل چکا ہوں… دوسرے ضروری کام بھی کرچکا ہوں… اب صرف فنکشنز اٹینڈ کرنے کیلئے تو یہاں نہیں رہ سکتا۔”
”چلو ٹھیک ہے۔ فنکشنز اٹینڈ مت کرو… ویسے ہی رہو، چند دن تک ثمرین بھابھی بھی اسلام آباد آرہی ہیں۔ ان کے آنے تک تو تمہیں یہاں رہنا چاہیے۔” لئیق انکل نے اسے اطلاع دی۔
”کیوں ان کے آنے تک میں کیوں یہاں رہوں۔ میرا ان سے ملنا ضروری نہیں ہے۔ جب میں ان کے ساتھ ان کے گھر پر رہا کرتا تھا یا ہاسٹل سے چھٹیاں گزارنے گھر آتا تھا تو انہوں نے کبھی گھر پر میرا انتظار نہیں کیا۔ پھر اب ان کے ساتھ ایسی کون سی ٹریجڈی ہوگئی ہے کہ میں ان کا انتظار کروں۔ وہ پاپا کی زندگی میں خود بھی دوسری بیوی بن کر آئی تھیں۔ پھر اب اگر کوئی تیسری بیوی آگئی ہے تو کون سی قیامت آگئی ہے… برداشت کریں… جیسے دوسرے بہت سے لوگوں نے انہیں برداشت کیا تھا۔ ویسے بھی وہ تو پاپا کو آئیڈیل مین کہا کرتی تھیں، پھر ان جیسا perfectionist اب انہیں اپنی زندگی کے جس حصے میں رکھنا چاہ رہا ہے وہ چپ کر کے رہیں۔ اتنا شور کرنے کی کیا ضرورت ہے۔’ ‘اس کے لہجے میں تلخی تھی۔
”عمر! تم اب جاؤ… مجھے ان فائلز کو دیکھنا ہے۔”
لئیق انکل نے اس کی بات کے جواب میں کچھ کہنے کے بجائے بڑی سردمہری سے سامنے پڑی فائل پر نظریں جمالیں۔
”ٹھیک ہے! میں جارہا ہوں۔ صبح کی فلائٹ سے میں لاہور چلا جاؤں گا۔ پاپا سے آپ کی بات ہو تو ان کو بتادیں۔”وہ کہتا ہوا کمرے سے نکل گیا۔
علیزہ لاؤنج میں داخل ہوتے ہی ٹھٹھک گئی۔ عمر، نانو کے ساتھ صوفہ پر بیٹھا خوش گپیوں میں مصروف تھا۔ علیزہ کو دیکھ کر وہ مسکرایا۔
”ہیلو علیزہ! میں تمہارا ہی انتظار کر رہا تھا۔”
”آپ کب آئے؟” وہ کندھے سے اپنا بیگ اتارتے ہوئے کچھ آگے بڑھ آئی۔
”صبح آیا تھا۔ تم تب کالج جاچکی تھیں۔” عمر نے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
”بالوں کا نیا اسٹائل۔” عمر نے ستائشی انداز میں اس کے کندھوں پر جھولتے بالوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔ وہ یکدم کچھ گڑبڑا گئی۔
”یار! یہ ہیرکٹ بہت سوٹ کر رہا ہے تمہیں۔” وہ کچھ بول نہیں سکی۔
”کیوں گرینی؟” اب وہ نانو سے پوچھ رہا تھا۔ انہوں نے مسکرا کر سرہلایا۔
”میں کپڑے چینج کر کے آتی ہوں۔”
وہ یکدم بیگ پکڑ کر کھڑی ہوگئی۔ لاشعوری طور پر وہ نروس ہونے لگی تھی۔
عمر نے لاؤنج سے نکلتے ہوئے اسے غور سے دیکھا۔ پھر وہ نانو کے ساتھ دوبارہ باتوں میں مصروف ہوگیا۔
علیزہ کچھ پریشان ہو کر اپنے کمرے میں آئی تھی۔ عمر کے اسلام آباد جاتے ہوئے وہ جتنی اداس اور پریشان تھی اس کی واپسی نے بھی اسے اتنا ہی پریشان کر دیا تھا۔ اسے عمر کا یکدم واپس آجانا اچھا نہیں لگا۔ نانو اور نانا سے پچھلے چند ہفتوں سے جاری اپنی سرگرمیاں چھپانا آسان تھا مگر عمر سے… وہ کچھ دیر پریشانی کے عالم میں بیڈ پر بیٹھی رہی۔ پھر خاصی بے دلی کے عالم میں اس نے کپڑے تبدیل کیے۔ آج بھی اسے برٹش کونسل میں ذوالقرنین سے ملنا تھا اور اب عمر کو دیکھ کر اسے اپنا پروگرام غارت ہوتا نظر آرہا تھا کیونکہ عمر یقیناً اس کے ساتھ گفتگوکیلئے اسے گھر پر رہنے پر مجبور کرتا۔
دوپہر کا کھانا اس نے عمر اور نانو کے ساتھ کھایا تھا۔ عمر کھانے کی میز پر مسلسل چہک رہا تھا۔ علیزہ نے اسلام آباد جاتے ہوئے اس کے چہرے پر افسردگی اور تناؤ کی جو کیفیت دیکھی تھی وہ اب یکسر مفقود تھی۔ وہ نانو کو اسلام آباد میں لئیق انکل کے گھر والوں کے حالات و واقعات سنانے میں مصروف تھا اور علیزہ یہ سوچ رہی تھی کہ وہ نانو سے اس کے سامنے برٹش کونسل جانے کی اجازت کیسے لے۔
کھانا کھانے کے بعد یکدم عمر اٹھ کر چند لمحوں کیلئے اپنے کمرے میں گیا اور علیزہ نے موقع غنیمت جانتے ہوئے نانو سے برٹش کونسل جانے کی اجازت لے لی۔ نانو نے اسے جلد واپس آنے کی تاکید کی۔
”ڈونٹ وری نانو! میں جلدی آجاؤں گی۔” وہ بہت مسرور ہو کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔
بیگ لے کر جب وہ واپس لاؤنج میں آئی تو اس نے عمر کو ایک بار پھر نانو کے پاس پایا۔ علیزہ اسے نظر انداز کرتے ہوئے بیرونی دروازے کی طرف بڑھی تھی کہ اس نے عمر کو کھڑے ہوتے اور نانو کو اپنا نام پکارتے دیکھا۔
”علیزہ! رکو۔ عمر بھی تمہارے ساتھ جارہا ہے۔”
وہ گڑبڑا گئی ”میرے ساتھ…؟”
”ہاں، تم برٹش کونسل جارہی ہو۔ میں نے سوچا، میں بھی ایک چکر وہاں کا لگا آؤں کافی عرصہ ہوگیا۔” اس بار عمر نے اس کے قریب آتے ہوئے کہا۔ وہ چند لمحوں کیلئے کچھ بھی سمجھ نہیں پائی کہ اسے کیا کہنا چاہیے۔
”مگر مجھے تو وہاں کافی دیر رہنا ہے۔” اس نے جیسے بہانا گھڑنے کی کوشش کی۔
”کوئی بات نہیں، جتنی دیر چاہو رہنا۔ میں اپنا کام کروں گا تم اپنا کام کرنا۔”
عمر نے دوستانہ انداز میں مسکراتے ہوئے کہا۔ علیزہ یکدم پریشان ہوگئی تھی۔ اسے توقع نہیں تھی کہ عمر اس طرح اس کے ساتھ برٹش کونسل جانے کیلئے تیار ہوجائے گا۔ وہاں ذوالقرنین اس کا انتظار کر رہا تھا اور عمر کے ساتھ جاکر وہ اس سے تو نہیں مل سکتی تھی اور اسے برٹش کونسل میں ذوالقرنین سے ملنے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں تھا۔ وہ شش و پنج کے عالم میں عمر کا منہ دیکھ رہی تھی اور عمر شاید اس کے تاثرات پر حیران تھا۔
”کیوں علیزہ! تم میرے ساتھ جانا نہیں چاہتیں۔” عمر نے فوراً اندازہ لگالیا، علیزہ یک دم گڑبڑائی۔
”نہیں، ایسی تو کوئی بات نہیں ہے… میں تو۔۔۔” اس کی سمجھ میں نہیں آیا، وہ اپنے پس و پیش کو کیا نام دے۔
”تو پھر ٹھیک ہے، چلتے ہیں۔” عمر نے اس کی بات مکمل ہونے کا انتظار کیے بغیر باہر کا رخ کیا۔
علیزہ کچھ دیر خاموشی سے اس کی پشت کو گھورتی رہی، پھر بے دلی سے اس کے پیچھے باہر پورچ میں آگئی۔
وہ اب ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر اس کیلئے فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھول رہا تھا، علیزہ کو گھبراہٹ ہونے لگی۔ وہ اب برٹش کونسل کسی صورت نہیں جانا چاہتی تھی… وہاں ذوالقرنین اسے دیکھتے ہی اس کی طرف آجاتا اور وہ عمر کے سامنے اس سے ملنا نہیں چاہتی تھی۔
الجھے ہوئے ذہن کے ساتھ وہ دروازہ بند کرتے ہوئے سیٹ پر بیٹھ گئی۔
”تم میری غیرموجودگی میں کچھ زیادہ خوبصورت نہیں ہوگئیں علیزہ؟”
عمر نے گیٹ سے گاڑی سڑک پر لاتے ہوئے مسکرا کر کہا۔ چند لمحوں کیلئے وہ سرخ ہوئی، کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے اس نے خود پر قابو پایا۔
”کیوں علیزہ؟” وہ جواب چاہ رہا تھا۔
”پتا نہیں۔” اس نے بادل نانخواستہ کہا۔
”نہیں یار! واقعی بہت خوبصورت ہوگئی ہو… ہیرکٹ چینج ہوگیا ہے، چہرے پر بھی خاصی رونق ہے، بات کیا ہے۔ علیزہ؟” وہ شاید اسے چھیڑ رہا تھا مگر علیزہ کے ماتھے پر پسینہ نمودار ہونے لگا۔
”کیا عمر کو کوئی شک ہوگیا ہے؟” اس نے گھبرا کر سوچا۔
”مگر یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ اسے یہاں آئے چند گھنٹے ہی تو ہوئے ہیں اور ابھی تو میری اس سے باقاعدہ بات بھی نہیں ہوئی پھر اسے ذوالقرنین کے بارے میں کچھ پتا کیسے چل سکتا ہے؟” وہ بے چین ہونے لگی۔
”نہیں، ایسا کچھ نہیں ہے… میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔” وہ اس کے مسلسل سوالوں پر زچ ہوگئی۔
”کیوں طبیعت کو کیا ہوگیا ہے؟” وہ کچھ حیران ہوا۔
”ابھی تو تم بالکل ٹھیک تھیں۔”
”پلیز آپ کچھ دیر کیلئے خاموش ہوجائیں۔” وہ یکدم بلند آواز میں بولی۔
عمر نے حیرانی سے اسے دیکھا، وہ بہت ناراض نظر آرہی تھی۔ اس کے موڈ میں اچانک ہونے والی تبدیلی اس کیلئے حیران کن تھی، علیزہ سے مزید کوئی سوال پوچھے بغیر وہ خاموشی سے گاڑی ڈرائیو کرتا رہا۔
برٹش کونسل کے اندر عمر کے ساتھ داخل ہوتے ہوئے وہ بے تحاشا گھبرائی ہوئی تھی۔
”تمہیں کون سی بکس لینی ہیں؟” عمر نے اپنے والٹ میں سے کارڈ نکالتے ہوئے کہا۔
”مجھے کوئی بکس نہیں لینی… مجھے صرف بکس دیکھنی ہیں۔” اس نے نظریں ملائے بغیر کہا۔
”اچھا بہر حال… میں برٹش ہسٹری پر ایک دو کتابیں لینا چاہ رہا ہوں۔ اب تم چاہو تو میرے ساتھ رہو یا پھر آدھ گھنٹہ تک میں exit پر آجاؤں گا۔ تم بھی تب تک وہاں آجانا۔” عمر نے پروگرام سیٹ کرتے ہوئے کہا۔
علیزہ نے فوراً سرہلادیا۔ ”ٹھیک ہے میں تب تک آجاؤں گی۔” عمر اپنے مطلوبہ سیکشن کی طرف چلا گیا۔
وہ اسے تب تک دیکھتی رہی، جب تک وہ شیلوز کے پیچھے اوجھل نہیں ہوگیا۔ اس کی گھبراہٹ میں یکدم جیسے کمی آگئی تھی۔ اسے خوشی تھی کہ وہ ایک بار پھر ذوالقرنین سے مل سکتی ہے۔
جب اسے تسلی ہوگئی کہ عمر دوبارہ کسی کام کیلئے بھی واپس اس کی طرف نہیں آئے گا تو پھر وہ اس حصے کی طرف بڑھ آئی جہاں ذوالقرنین سے اس کی ملاقات ہوتی تھی۔ ہمیشہ کی طرح ذوالقرنین وہاں موجود تھا۔
آج پہلی بار تم دیر سے آئی ہو۔” ذوالقرنین نے اسے دیکھتے ہی گھڑی پر نظر دوڑاتے ہوئے کہا۔
”تھوڑی پرابلم ہوگئی تھی، اس لیے دیر ہوگئی۔” وہ کرسی کھینچ کر اس کے قریب بیٹھ گئی۔
”کیا پرابلم ہوگئی؟” ذوالقرنین نے استفسار کیا۔
”نانو نے میرے کزن کو میرے ساتھ بھیج دیا ہے۔” اس نے ہلکی آواز میں کہا۔
”کیا۔۔۔” ذوالقرنین یکدم گھبرایا ”کزن کو بھیج دیا ہے؟ کہاں ہے وہ؟ تم اسے یہاں کیوں لائی ہو؟”
”میں خود نہیں لائی ہوں… نانو نے زبردستی بھجوایا ہے… دراصل اسے بھی برٹش کونسل میں کوئی کام تھا… تو نانو نے اسے میرے ساتھ ہی بھجوا دیا۔” وہ بتانے لگی۔
”اب وہ کہاں ہے؟”
”وہ اپنی بکس دیکھ رہا ہے۔”
”تم نے اسے میرے بارے میں تو کچھ نہیں بتایا۔” ذوالقرنین گھبرایا ہوا تھا۔
”نہیں۔۔۔”
”تم بالکل بے وقوف ہو علیزہ…! اگر کزن ساتھ آیا تھا تو تمہیں مجھ سے ملنے نہیں آنا چاہیے تھا۔”
”مگر کیوں؟ تم میرا انتظار کرتے رہتے۔ اور پھر عمر نے کہا ہے کہ وہ آدھ گھنٹہ کے بعد مجھے ملے گا۔”
”اور اگر وہ آدھ گھنٹے سے پہلے ہی یہاں آگیا اور اس نے مجھے تمہارے ساتھ دیکھ لیا تو…؟”
”اسے کیسے پتا چلے گا کہ میں یہاں ہوں میں نے اسے بتایا ہی نہیں کہ میں کس سیکشن میں جارہی ہوں۔”
”یہ لائبریری ہے… یہاں کسی کو ڈھونڈنا کوئی مشکل کام نہیں ہے اور ضروری نہیں کہ وہ تمہیں ڈھونڈنے کیلئے ہی اس طرف آئے وہ کسی بھی کام سے ادھر آسکتا ہے۔”
”مجھے اس کا خیال نہیں آیا۔” علیزہ کچھ پریشان ہوئی۔
”بہر حال اب میں جارہا ہوں اور تم آئندہ محتاط رہنا۔ اگر ساتھ کزن یا کوئی بھی ہو تو پھر مجھ سے ملنے کی کوشش مت کیا کرو… میں نہ خود کسی پریشانی میں پڑنا چاہتا ہوں، نہ ہی تمہیں کسی پریشانی میں ڈالنا چاہتا ہوں۔” ذوالقرنین کھڑا ہوگیا۔
”مگر پھر تم انتظار کرتے رہو گے۔”
”نہیں میں انتظار نہیں کروں گا، جب بھی تم اس طرح لیٹ ہوجاؤ گی۔ میں سمجھ جاؤں گا کہ تمہارے ساتھ کوئی دوسرا ہے اور پھر میں تمہارا انتظار کرنے کے بجائے چلا جایا کروں گا۔”
وہ خدا حافظ کہتے ہوئے وہاں سے چلا گیا، علیزہ بے حد مایوس اور دل گرفتگی کے عالم میں اسے جاتا دیکھتی رہی اسے عمر پر بے تحاشا غصہ آیا تھا، صرف اس کی وجہ سے ذوالقرنین کو اس طرح وہاں سے جانا پڑا تھا۔
”کیا تھا، اگر وہ اس طرح میرے ساتھ آنے کی ضد نہ کرتا… کم از کم ذوالقرنین کو اس طرح پریشان ہو کر جانا تو نہ پڑتا۔”
وہ اس وقت عمر کی وجہ سے ذوالقرنین کو ہونے والی پریشانی کے علاوہ اور کچھ نہیں سوچ رہی تھی۔
”اب آگے کیا ہوگا؟ اگر عمر نے دوبارہ میرے ساتھ برٹش کونسل آنے کیلئے اصرار کیا تو؟ پھر میں کیا کروں گی؟ کیا مجھے ذوالقرنین کے ساتھ ملاقات کی جگہ بدل لینی چاہیے۔” وہ جیسے کسی فیصلہ پر پہنچنے کی کوشش کر رہی تھی۔
واپسی پر اس کا موڈ بہت زیادہ خراب تھا اور عمر نے اس کا سامنا ہوتے ہی اس بات کا اندازہ لگا لیا تھا۔
”چلو علیزہ! میں تمہیں کافی پلواتا ہوں۔” اس نے علیزہ کا بگڑا ہوا موڈ بحال کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
”مجھے کافی نہیں پینی۔” اس نے اکھڑ انداز میں کہا۔
”پھر کیا کھانا ہے؟… یا کیا پینا…؟ تم خو د بتا دو۔” وہ اسے بچے کی طرح بہلاتے ہوئے پوچھ رہا تھا۔
”مجھے کچھ بھی کھانا پینا نہیں ہے۔ آپ بس گھر چلیں۔” اس نے بے رخی سے کہا۔
”مگر یار! میں تو کچھ کھانا پینا چاہ رہا ہوں، آخر اتنے ہفتے کے بعد لاہور آیا ہوں۔”
”مجھے گھر چھوڑ دیں اس کے بعد آپ جو چاہیں کریں۔” اس کا غصہ بڑھتا جا رہا تھا۔
”یہ تو میں جان چکا ہوں کہ تمہیں میرا ساتھ آنااچھا نہیں لگا، مگر میں صرف اس کی وجہ کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔ کیا تم اس بارے میں میری مدد کر سکتی ہو؟” وہ یک دم سنجیدہ ہو گیا ۔ وہ جواب دینے کی بجائے خاموش رہی۔
”علیزہ! تم سے یہ کس نے کہہ دیا ہے کہ تم خاموشی میں بہت خوبصورت لگتی ہو؟” عمرنے اپنے لہجے کو ایک بار پھر شگفتہ کرنے کی کوشش کی۔
ایک لمحہ کے لئے اس کا چہرہ سرخ ہوا پھر وہ کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔
عمر کچھ دیر خاموشی سے اسے دیکھتے ہوئے جیسے کسی اندازے پر پہنچنے کی کوشش کرتا رہا۔ پھر اس نے اپنی توجہ ڈرائیونگ پر مرکوز کرلی۔
٭٭٭
”تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے…؟ جانتے ہو کیا کہہ رہے ہو؟” نانو کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔
”بیگم صاحبہ! میں سچ کہہ رہا ہوں… علیزہ بی بی کو ڈھونڈنے میں ہی تو دیر ہوئی ہے۔” ڈرائیور نانو سے کہہ رہا تھا۔
عمر نے لاؤنج میں داخل ہوتے ہوئے ان دونوں کے درمیان ہونے والی گفتگو نہیں سنی۔ وہ نانو کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر چونکا تھا، وہ اب بے تابی کے عالم میں صوفہ سے کھڑی ہو گئی تھیں۔
”کیا ہوا گر ینی؟ خیریت تو ہے؟” اس نے معاملے کی نوعیت سمجھنے کی کوشش کی۔
”علیزہ کالج میں نہیں ہے۔” انہوں نے فق چہرے کے ساتھ کہا۔
”کیا…؟” عمر بھی یک دم سنجیدہ ہو گیا۔
”علیزہ کالج میں نہیں ہے، ڈرائیور اس کا انتظار کرکے تھک کر آگیا ہے۔” نانو اب روہانسی ہونے لگی تھیں۔
”اس میں پریشان ہونے والی کیا بات ہے؟ وہ کسی دوست کی طرف چلی گئی ہو گی۔” عمر نے نانو کو تسلی دینے کی کوشش کی۔
”نہیں وہ کبھی کسی دوست کی طرف مجھے بتائے بغیر نہیں جاتی، خاص طور پر کالج سے، اور اس کی دوست ہے بھی کون… شہلا… ڈرائیور کہہ رہا ہے کہ چوکیدار نے اندر موجود لڑکیوں سے علیزہ کے بارے میں پوچھا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ آج کالج ہی نہیں آئی۔”
”کیا … کالج نہیں گئی؟” عمر ہکا بکا رہ گیا۔
”اگر وہ کالج نہیں گئی تو کہاں گئی ہے؟” نانو اب بڑبڑا رہی تھیں۔
”یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ علیزہ کالج نہ گئی ہو۔…وہ وہیں ہو گی ڈرائیور کو غلط فہمی ہو سکتی ہے، ہو سکتا ہے لڑکیوں نے کسی دوسری علیزہ کے بارے میں کہا ہو؟” عمر یک دم ڈرائیور کی طرف متوجہ ہو گیا۔
”نہیں جی مجھے کوئی غلط فہمی نہیں ہوئی، چوکیدار کو علیزہ بی بی کا پتہ ہے، پہلے بھی کئی بار میں اسی کے لئے ذریعے علیزہ بی بی کو بلواتا ہوں، پھر آج غلط فہمی کیسے ہو سکتی ہے؟
ویسے بھی کالج تو بالکل خالی ہو چکا تھا تو صرف چند لڑکیاں ہی رہ گئی تھیں اگر علیزہ بی بی وہاں ہوتیں تو اب تک گیٹ پر ہی موجود ہوتیں۔”
ڈرائیو نے کچھ گھبرائے ہوئے انداز میں وضاحت دینے کی کوشش کی۔
”گرینی! آپ ذرا شہلا کو فون کریں، ہو سکتا ہے وہ اس کے گھر ہو؟”
عمر نے نانو سے کہا، عمر اب کچھ پریشان نظر آنے لگا۔ نانو کچھ بوکھلائی ہوئی فون کے پاس گئیں اور انہوں نے ریسیور اٹھا کر کال ملانی شروع کر دی۔
”فون شہلا کی ممی نے اٹھایا، نانو نے ان کی آواز سنتے ہی ان سے شہلا کے بارے میں پوچھا۔
”شہلا کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔ اس لئے وہ آج کالج نہیں گئی… اس وقت بھی وہ اپنے کمرے میں سو رہی ہے۔”
شہلا کی ممی نے کہا اور نانو کی گھبراہٹ میں کچھ اور اضافہ ہو گیا۔ مزید کچھ کہے سنے بغیر انہوں نے فون رکھ دیا۔
”شہلا تو آج کالج گئی ہی نہیں۔” انہوں نے کانپتی آواز میں عمر سے کہا۔
”ہو سکتا ہے علیزہ کسی اور فرینڈ کے ساتھ چلی گئی ہو؟”
”نہیں اس کی اور کوئی ایسی دوست نہیں ہے جس کے ساتھ وہ اس طرح بغیر بتائے چلی جائے… وہ تو شہلا کے گھر بھی مجھے بتائے بغیر نہیں جاتی۔ صدیق! تم مجھے کالج لے کر چلو، میں خود وہاں دیکھتی ہوں آخر وہ جا کہاں سکتی ہے؟”
نانویک دم کھڑی ہو گئیں۔
”نہیں گرینی! آپ یہیں رہیں… میں جاتا ہوں؟” عمر نے ہاتھ کے اشارے سے انہیں روکا تھا۔
”نہیں مجھے بھی ساتھ جانا ہے۔”
”آپ کے ساتھ جانے سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ آپ گھر پر ہی رہیں… میں خود کالج جاتا ہوں، گھبرانے والی کوئی بات نہیں ہے۔ وہ وہیں ہو گی۔”
عمر بات کرتے کرتے نانو کا جواب سنے بغیر باہر نکل آیا۔
ڈرائیور صدیق بھی اس کے پیچھے آیا تھا پورچ میں آکر عمر نے گاڑی کی چابی اس سے لے لی۔
”مجھے اکیلے ہی جانا ہے، میں خود گاڑی ڈرائیو کر لوں گا۔” ا س نے ڈرائیور سے کہا اور پھر گاڑی لے کر باہر نکل آیا۔
وہ جب سے اسلام آباد سے واپس آیا تھا علیزہ کا رویہ اسے الجھن میں ڈال رہا تھا وہ مسلسل اس کی زندگی میں شامل ہونے والی اس نئی ”سرگرمی” کے بارے میں اندازہ لگانے کی کوشش کر رہا تھا، جس نے علیزہ میں اتنی نمایاں تبدیلیاں کر دی تھیں اور یہ اندازہ وہ بہت پہلے لگا چکا تھا کہ علیزہ کی دوستی کسی لڑکے سے ہے۔ مگر وہ حیران تھا کہ نانو کو اس بات کا اندازہ کیوں نہیں ہوا جب کہ انہوں نے ہمیشہ علیزہ پر کڑی نظر رکھی تھی۔
خود عمر کے لئے کسی لڑکے سے دوستی نہ تو کوئی خلاف معمول بات تھی اور نہ ہی کوئی غیر معمولی چیز اور نہ ہی اسے اس بات پر کوئی اعتراض ہوا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ علیزہ کو لوگوں سے رابطے اور تعلقات بڑھانے چاہئیں اس کی شخصیت میں موجود بہت سی خامیاں اسی طرح دور ہو سکتی تھیں مگر جس طرح علیزہ سب کچھ چھپانے کی کوشش کر رہی تھی اس سے عمر کو یہ بھی اندازہ ہو گیا تھا کہ علیزہ کا اس لڑکے سے تعلق صرف دوستی کی حد تک نہیں تھا، وہ اس میں دوسرے انداز میں دلچسپی لے رہی تھی۔ اسے اس چیز پر بھی اعتراض ہوا تھا نہ تجسس… کیونکہ وہ اسے بھی ایک بہت ہی نیچرل چیز سمجھ رہا تھا۔ مگر اب وہ جس صورت حال کا سامنا کر رہا تھا، اس نے اسے واقعی پریشان کر دیا تھا۔ علیزہ کا اس طرح کالج سے غائب ہونا… اسے توقع نہیں تھا کہ علیزہ اس طرح کی حرکت کر سکتی تھی۔
جس وقت نانو شہلا کے گھر فون کر رہی تھی، اس وقت وہ یہ اندازہ لگانے کی کوشش کر رہا تھا کہ وہ کہاں ہو سکتی تھی، ایک بات کا اسے یقین تھا کہ وہ اس طرح اچانک کسی کے ساتھ ہمیشہ کے لئے کہیں نہیں جا سکتی تھی۔ مگر پھر وہ کہاں گئی تھی۔ تب ہی اس کے ذہن میں بے اختیار ایک خیال آیا تھا۔
”ہو سکتا ہے وہ اس لڑکے کے ساتھ ہی کہیں گئی ہو، اور ابھی تک کالج نہ پہنچ پائی ہو… اور ہو سکتا ہے اس وقت وہ کالج پہنچ چکی ہو اور یقیناً وہ پوری طرح حواس باختہ ہو گی۔”
اس نے سوچا اور یہی وجہ تھی کہ نانو کے اصرار کے باوجود اس نے انہیں ساتھ نہیں لیا کالج واقعی خالی ہو چکا تھا چوکیدار نے اسے بھی وہی بتایا تھا جو وہ ڈرائیو کو بتا چکا تھا، چوکیدار سے گفتگو کرنے کے بعد واپس گاڑی میں آکر بیٹھ گیا، لیکن اس نے گاڑی اسٹارٹ نہیں کی، اسے گاڑی میں بیٹھے دس منٹ ہوئے تھے۔ جب اس نے کالج کے گیٹ سے کچھ فاصلے پر ایک گاڑی کو رکتے اور فرنٹ سیٹ سے علیزہ کو اترتے دیکھا۔ بے اختیار اس نے ایک پر سکون سانس لیا۔ گاڑی اسٹارٹ کرکے وہ علیزہ کی طرف لے آیا جو تیز قدموں سے کالج کے گیٹ کی طرف بڑھ رہی تھی۔
علیزہ نے گاڑی اور عمر دونوں کو دیکھ لیا تھا اور عمر دور سے بھی اس کے چہرے کی فق ہوتی ہوئی رنگت کو دیکھ سکتا تھا۔ وہ سڑک پر ہی رک گئی تھی۔ عمر نے اس کے قریب گاڑی کھڑی کی اور کچھ کہے بغیر فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھول دیا۔ علیزہ بھی اسی خاموشی کے ساتھ اندر بیٹھ گئی تھی۔
سڑک پر نظریں جمائے وہ ڈرائیونگ کر رہا تھا، علیزہ کو نہ دیکھنے کے باوجود وہ اس کی کیفیت سے واقف تھا اور اسے اس پر ترس بھی آیا تھا۔ وہ بہت بری طرح پکڑی گئی تھی اور اب وہ اس خوف سے دوچار تھی کہ عمر گھر جا کر نانو کو سب کچھ بتا دے گا… جب کہ عمر ایسا کچھ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا تھا۔
گاڑی سیدھی گھر لے جانے کی بجائے اس نے ایک مارکیٹ میں لے جاکر روک دی۔ علیزہ نے اسے گاڑی سے نکلتے دیکھا… اس کی گھبراہٹ میں کچھ اور اضافہ ہو گیا۔ وہ کچھ دیر بعد ہاتھ میں جوس کے دو پیک لیے واپس آتا دکھائی دیا۔ علیزہ اسے گاڑی کی طرف آتا دیکھتی رہی، بڑے اطمینان کے عالم میں وہ دروازہ کھول کر اندر بیٹھا اور اس نے جوس کا ایک پیک علیزہ کی طرف بڑھا دیا۔ وہ ہکا بکا اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔
”تمہارے لئے لے کر آیا ہوں۔” اس نے عمر کی نرم آواز سنی تھی۔
”مجھے ضرورت نہیں ہے۔” علیزہ نے سر جھکا لیا۔
”کچھ دیر بعد ضرورت پڑے گی جب گرینی کے پاس جاؤ گی… بہتر ہے اسے پی لو اور اپنے نروز پر قابو رکھو، چہرے پر ان تاثرات کے ساتھ تم گرینی کے سامنے جھوٹ نہیں بول پاؤ گی… بولوگی بھی تو وہ یقین نہیں کریں گی۔”
علیزہ نے بے اختیار سر اٹھا کر اسے دیکھا، پھر مزید کچھ کہے بغیر اس نے عمر کے ہاتھ سے جوس کا پیک پکڑ لیا، عمر نے اس کے ہاتھ میں کپکپاہٹ دیکھی تھی۔ جوس پکڑاتے ہوئے اس نے ایک بار پھر علیزہ کے چہرے پر نظر دوڑائی، اور پر سکون انداز میں کہا۔
”اتنا خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں… تم کوئی قتل کرکے نہیں ائی ہو کہ تمہیں اس طرح لرزنا پڑے بندے میں اتنی ہمت ہونی چاہئے کہ ہر بڑا قدم اٹھانے کے بعد کانپنے کی بجائے صورت حال کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہے۔ تم میں بھی یہ ہمت ہونی چاہئے۔ علیزہ!” وہ جوس پیتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
علیزہ کے حلق میں جوس اٹکنے لگا۔
عمر اب موبائل نکال رہا تھا ” میں گرینی سے بات کرنے لگا ہوں، انہیں تمہارے بارے میں بتا رہا ہوں… تم تب تک یہ طے کر لو کہ تمہیں ان سے کیا کہنا ہے، مگر ان سے بات کرتے ہوئے اپنی آواز اور نروز پر قابو رکھنا۔ گھبرانا مت۔”
وہ اس کو اس طرح ہدایت دے رہا تھا، جیسے ذوالقرنین کی بجائے وہ خود اسے اپنے ساتھ لے کر گیا تھا… علیزہ کو یوں لگا جیسے وہ زمین میں دھنسنے لگی ہو۔
وہ جوس پیتے ہوئے موبائل پر گھر کا نمبر ڈائل کر رہا تھا۔ فون حسب توقع نانو نے ہی اٹھایا تھا شاید وہ تب سے فون کے پاس ہی بیٹھی تھی۔
”ہیلو گرینی…! میں عمر بول رہا ہوں۔”
”علیزہ کا کچھ پتا چلا؟” نانو نے اس کی آواز سنتے ہی پوچھا۔
”ہاں گرینی…! نہ صرف پتا چلا ہے بلکہ میرے ساتھ گاڑی میں بیٹھی ہے۔ ہم واپس گھر آرہے ہیں۔ میں نے آپ کو یہی بتانے کے لئے فون کیا ہے۔” عمر نے اپنے لہجے کو حتی الامکان پر سکون رکھتے ہوئے کہا۔
”اوہ خدایا… تیرا شکر ہے ، وہ کہاں تھی؟” نانو نے بے اختیار سکون کا سانس لیتے ہوئے اگلا سوال کیا۔
”وہ کالج میں ہی تھی۔” علیزہ عمر کا چہرہ دیکھ کر رہ گئی جو بڑی روانی سے جھوٹ بول رہا تھا۔ ”اندر ہی کچھ کلاس فیلوز کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی، اس کے کسی کلاس فیلو کی برتھ ڈے پارٹی تھی۔ اسے چھٹی کے وقت کا کچھ اندازہ ہی نہیں ہوا۔ جب وہ گیٹ پر آئی تب تک صدیق چوکیدار سے اس کے بارے میں پوچھ کر جا چکا تھا اب میں یہاں پہنچا ہوں تو وہ یہاں پریشان بیٹھی تھی۔ گھربھی اس نے دو تین بار فون کیا مگر فون انگیج مل رہا تھا میرا خیال ہے اس نے اسی وقت فون کیا ہو گا جب آپ شہلا کی ممی سے بات کر رہی تھیں۔”
”مگر چوکیدار تو کہہ رہا تھا کہ وہ صبح کالج آئی ہی نہیں۔” نانو کے لہجے میں اب تشویش کی بجائے غصہ تھا۔
”ہاں میں نے چوکیدار سے پوچھا تھا وہ شرمندہ ہو گیا۔ وہ کسی دوسری علیزہ کی بات کر رہا تھا اور اسے واقعی یہ پتا نہیں تھا کہ اندر لڑکیاں کسی پارٹی میں مصر وف ہیں۔” وہ جھوٹ پر جھوٹ بولنے میں مصروف تھا۔
”تم علیزہ سے میری بات کرواؤ۔” نانو نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔ عمر نے موبائل علیزہ کی طرف بڑھا دیا۔
”گرینی سے بات کرلو۔”
علیزہ نے کچھ نروس ہو کر موبائل ہاتھ میں لیا۔
”لاپروائی کی حد کر دی تم نے۔” موبائل پر ہیلو کہتے ہی اس نے دوسری طرف نانو کو کہتے سنا ”میں تصور بھی نہیں کر سکتی تھی کہ تم اتنی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کر سکتی ہو، تمہیں شرم آنی چاہئے۔ تمہاری وجہ سے کتنی پریشانی اٹھانی پڑی ہے مجھے۔”
نانو اس کی بات سنے بغیر مسلسل بول رہی تھیں اور اس وقت علیزہ کو اسی میں اپنی عافیت محسوس ہو رہی تھی کہ وہ چپ چاپ ان کی جھڑکیاں کھاتی رہے۔ وضاحتیں پیش کرنے سے اس وقت یہ کام بہرحال بہتر تھا وہ ڈوبتے ڈوبتے بچ گئی تھی۔ نانو کچھ دیر اسی کام میں مصروف رہیں، پھر انہوں نے جلدی گھر آنے کا کہہ کر فون بند کر دیا۔
عمر تب تک گاڑی کو دوبارہ سڑک پر لا چکا تھا، علیزہ نے موبائل بند کرنے کے بعد اس کی طرف بڑھا دیا۔ گاڑی میں ایک بار پھر خاموشی چھا گئی۔
کچھ دیر پہلے اگر وہ خوفزدہ تھی تو اس وقت وہ بے حد شرمندہ تھی۔ عمر نے اگرچہ اسے نانو کے سامنے کسی جواب دہی سے بچا لیا تھا، مگر خود اس کی خاموشی اسے چبھ رہی تھی۔
کیا یہ مجھ سے واقعی کچھ بھی پوچھنا نہیں چاہتا؟
کیا یہ مجھ سے ناراض ہے؟ یہ میرے بارے میں کیا سوچ رہا ہے؟
یہ اب مجھے اچھی لڑکی تو نہیں سمجھ رہا ہو گا۔
بہت سے سوال اسے یکے بعد دیگرے بے چین کر رہے تھے۔
دوسری طرف عمر اسی لاپروائی اور بے نیازی سے گاڑی چلانے میں مصروف تھا۔
وہ اب یہ سوچنے میں مصروف تھی کیا اسے خودعمر کو مخاطب کر لینا چاہئے، اور یہ ایسا کام تھا جو وہ خود کرنے کی ہمت نہیں پا رہی تھی۔ اسے حیرت ہو رہی تھی کہ کیا عمر واقعی اس سے کچھ پوچھنا نہیں چاہتا تھا کیا اسے کوئی تجسس نہیں ہے، کہ میں کہاں گئی تھی اور کسی کے ساتھ گئی تھی، اور اس نے نانو سے میرے بارے میں جھوٹ کیوں بولا ہے، کیا یہ واقعی میری اتنی پروا کرتا ہے کہ مجھے ہر نقصان سے بچانا چاہتا ہے۔ یا پھر یہ مجھ پر احسان کرکے…
وہ اب اس کی خاموشی سے الجھنے لگی۔
کیا یہ وہ واقعی نانو نانا سے یہ بات چھپائے رکھے گا کہ میں کسی لڑکے کے ساتھ گئی تھی یا پھر یہ میرے سامنے ایک ڈرامہ کر رہا ہے۔
وہ سوچ رہی تھی اور اس کے پچھتاوے میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔
مجھے ذوالقرنین کے ساتھ نہیں جانا چاہئے تھا اگر میں اس کے ساتھ نہ جاتی تو آج کم از کم میں اس طرح عمر سے نظریں نہ چرا رہی ہوتی۔ وہ سوچ رہی تھی۔
آج پہلی بار ذوالقرنین کے اصرار پر اس کے ساتھ گئی تھی ورنہ اس سے پہلے اس کی ذوالقرنین سے ملاقاتیں صرف برٹش کونسل اور ایک دو جگہوں تک ہی محدود تھیں۔ وہ ان جگہوں پر جاتی، ذوالقرنین پہلے سے وہاں موجود ہوتا، دونوں کچھ دیر وہاں بیٹھے باتیں کرتے رہتے اور پھر واپس چلے آتے… مگر عمر کے آنے کی وجہ سے اس کا برٹش کونسل کا شیڈول بری طرح متاثر ہو رہا تھا۔ وہ کوشش کے باوجود ذوالقرنین سے مل نہیں پا رہی تھی کیونکہ نانو ہر جگہ عمر کو اس کے ساتھ بھیجنے کی کوشش کرتیں۔ خود عمر بھی بڑی خوش سے اس کے ساتھ چلنے پر آمادہ رہتا اور یہ چیزہ علیزہ کو بری طرح ڈسٹرب کر رہی تھی شاید یہ اسی فرسٹریشن کی وجہ سے تھا کہ جب ذوالقرنین نے اس سے کالج سے اپنے ساتھ چلنے کے لئے کہا تو وہ زیادہ دیر تک انکار نہیں کر سکی تھی۔
ڈرائیور نے صبح اسے کالج اتارا تھا اور وہ ڈرائیور کے جانے تک کالج کے گیٹ کے اندر نہیں گئی تھی اور جب ڈرائیور چلا گیا تو وہ گیٹ سے کچھ فاصلے پر کھڑی ذوالقرنین کی گاڑی کی طرف گئی تھی۔ جسے وہ کالج آتے ہوئے دیکھ چکی تھی اور پھر وہ دونوں سارا دن جگہ جگہ گھومتے رہے تھے۔ ذوالقرنین نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ وہ کالج کی چھٹی ہونے کے وقت اسے کالج کے باہر ڈراپ کر دے گا اور وہاں سے وہ اپنے گھر چلی جائے گی مگر ذوالقرنین کے ساتھ پھرتے ہوئے اسے وقت گزرنے کا بالکل احساس نہیں ہوا اور جس وقت ایک ریسٹورنٹ میں بیٹھے لنچ کرتے ہوئے اسے یہ خیال آیا… اس وقت کالج کو بند ہوئے بہت دیر ہو چکی تھی اور تب صحیح معنوں میں علیزہ کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے تھے۔
اس کے برعکس ذوالقرنین بالکل خوفزدہ نہیں تھا بلکہ وہ اسے بھی تسلیاں دینے کی کوشش کر رہا تھا۔ مگر اس کی تسلیوں نے اس پر کوئی زیادہ اثر نہیں کیا تھا، کالج پہنچتے پہنچتے ساڑھے تین بج چکے تھے اور رہی سہی کسر اس وقت پوری ہو گئی تھی۔ جب علیزہ نے عمر کی گاڑی کو کالج کے گیٹ پر کچھ فاصلے پر دیکھا تھا۔اس نے ذوالقرنین کو اس وقت وہاں عمر کی موجودگی کے بارے میں نہیں بتایا تھا مگر اس کا جسم تب تک کانپنا شروع ہو چکا تھا اسے توقع تھی کہ عمر کے ساتھ نانو بھی وہاں ہوں گی اور شاید وہ اس وقت کالج کے اندر ہوں گی مگر بعد میں عمر کو اکیلا وہاں دیکھ کر اسے کچھ حیرت ہوئی اور عمر کے اب تک کے رویے نے اس حیرت میں بتدریج اضافہ ہی کیا تھا۔
وہ اپنے کمرے میں ایک کتاب پڑھنے میں مصروف تھا جب دروازے پر دستک ہوئی۔ ”کم ان” عمر نے کتاب سے نظر اٹھا کر دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ دروازہ آہستہ آہستہ کھلا اور عمر نے علیزہ کو اندر آتے دیکھا۔ عمر وال کلاک کو دیکھتے ہوئے کچھ حیران ہوا۔ رات کے اس وقت علیزہ کا وہاں آنا خاصا حیران کن تھا۔
”میں نے آپ کو ڈسٹرب تو نہیں کیا؟” اس نے اندر آکر پوچھا۔
”ناٹ ایٹ آل… آؤ بیٹھو۔۔۔” عمر نے کتاب بند کرکے سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا۔
وہ کچھ سوچتے ہوئے کمرے میں موجود صوفہ پر بیٹھ گئی، عمر اس کا چہرہ دیکھنے لگا وہ اب کارپٹ پر نظریں جمائے بیٹھی تھی۔
”کوئی پریشانی ہے؟” عمر نے اسے مسلسل خاموش دیکھ کر گفتگو شروع کرنے میں اس کی مدد کی۔
”نہیں۔۔۔”اس نے اسی طرح کارپٹ پر نظریں جمائے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
چند لمحے کمرے میں خاموشی رہی پھر علیزہ نے خاموشی کو توڑا۔
”آپ مجھے رات کے اس وقت یہاں دیکھ کر حیران ہوئے ہوں گے؟”
”نہیں۔” اس بار عمر نے اسی کے انداز میں جواب دیا۔ علیزہ نے بے اختیار سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ وہ بے حد پر سکون نظر آرہا تھا”تم اگر یہ سوچ کر پریشان ہو رہی ہو کہ میں گرینی کو تمہارے بارے میں کچھ بتا دوں گا، تو بے فکر رہو… میں ایسا نہیں کروں گا۔”
علیزہ نے بے اختیار ہونٹ بھینچ لیے، وہ خود ہی اس موضوع پر آگیا تھا۔
”آپ مجھ سے پوچھیں گے نہیں؟” اس نے کچھ جھجکتے ہوئے کہا۔
”مثلاً کیا؟” عمر اب بھی اسی طرح پر سکون تھا۔
”آج… کے… واقعہ… کے بارے میں” اس نے کچھ لڑکھڑاتے ہوئے کہا۔
”نہیں۔” اس نے اطمینان سے کہا۔
”کیوں؟” وہ بے چین ہوئی۔
”یہ تمہارا پرسنل معاملہ ہے، تمہاری اپنی زندگی ہے۔ جو چاہے کرو۔” عمر کے لہجے میں لاپروائی تھی اور علیزہ کو یہ لا تعلقی اچھی نہیں لگی۔
”آپ واقعی مجھ سے کچھ نہیں پوچھیں گے۔” اسے ابھی بھی جیسے عمر کی بات پر یقین نہیں آیا تھا۔
”نہیں میں واقعی کچھ نہیں پوچھوں گا، لیکن تم اگر کچھ بتانا چاہتی ہو… تو ٹھیک ہے، میں سن لیتا ہوں۔”
”کیا آپ کو میری حرکت بری نہیں لگی؟”
”میں نے اس بارے میں سوچا نہیں… اور ویسے بھی مجھے دوسروں کے کاموں میں فتوے دینے کا کوئی شوق نہیں ہے۔” اس نے بڑی صاف گوئی کا مظاہرہ کیا۔
”پھر آپ نے نانو سے میرے بارے میں جھوٹ کیوں بولا؟”
”تمہیں بچانے کے لئے۔”
”اور آپ مجھے بچانا کیوں چاہتے ہیں؟”
”کیونکہ تم میری دوست اور کزن ہو، دوستوں کے لئے میں اکثر جھوٹ بولتا رہتا ہوں۔” وہ بڑے دوستانہ انداز میں کہہ رہا تھا۔
”آپ کو مجھ سے کچھ توپوچھنا چاہئے۔”
”مثلاً کیا؟”
”یہی کہ میں کہاں گئی تھی؟”
”تم کہاں گئی تھیں علیزہ؟” عمر نے اسی کے انداز میں اس کا سوال دہرا دیا۔
وہ کچھ دیر خاموش رہی پھر اس نے کہا ”ذوالقرنین کے ساتھ۔”
”اور یہ… یہ ذوالقرنین کون ہے؟” اس بار عمر نے اگلا سوال خود ہی کیا تھا۔
”میرا فرینڈ ہے۔”
”کب سے دوستی ہے تمہاری اس کے ساتھ؟”
”اور یہ شخص کرتا کیا ہے؟”
”تقریباً ڈیڑھ ماہ ہوا ہے۔”
”میڈیکل کالج میں ہے۔”
”تمہاری دوستی کیسے ہوئی؟”
وہ اب آہستہ آہستہ اس سے سب کچھ اگلوا رہا تھا، علیزہ نے اسے ذوالقرنین کے ساتھ ہونے والی پہلی ملاقات کے بارے میں بتا دیا۔
”تم اس سے اکثر ملتی ہو؟”
”اکثر تو نہیں، مگر ملتی ہوں۔” اس نے اعتراف کیا۔
”اسی طرح کالج سے غائب ہو کر؟”
”نہیں، آج پہلی بار کالج سے گئی تھی ورنہ پہلے تو کبھی نہیں گئی… ہم برٹش کونسل میں ملتے ہیں۔”
”اور آج کہاں گئی تھیں؟”
”ہم سارا دن پھرتے رہے، بہت ساری جگہوں پر۔”
عمر کچھ دیر خاموش ہو کر کچھ سوچتا رہا۔”ذوالقرنین سے صرف دوستی ہے نا… کوئی رومانٹک انوالومنٹ؟” علیزہ کا چہرہ سرخ ہوا۔
”صرف… دوستی نہیں ہے۔۔۔” مدہم آواز میں اس نے کہا۔
”ٹھیک ہے دوستی نہیں ہے۔ محبت ہے مگر کیا صرف تمہاری طرف سے ہے یا پھر ذوالقرنین بھی اسی طرح کے خیالات رکھتا ہے؟”
”وہ بھی… مجھے … پسند کرتا ہے۔۔۔”
”تو پھر کیا پروگرام ہے تم دونوں کا… اس نے پروپوز کیا تمہیں، کچھ شادی وغیرہ کا ارادہ ہے؟”
”پروپوز نہیں کیا۔”
”کیوں نہیں کیا… اگر وہ پسند کرتا ہے اور سیریس ہے تو اسے کر دینا چاہئے۔”
علیزہ نے سر جھکا لیا۔
”یا پھر تم پروپوز کر دو۔۔۔”
اس نے عمر کی بات پر حیران ہو کر اس کا چہرہ دیکھا۔
”میں پروپوز کروں؟”
”ہاں… تم کیوں نہیں کر سکتیں۔ یہ کوئی ایسی حیران ہونے والی بات تو نہیں ہے۔”
”مگر میں تو یہ کبھی نہیں کر سکتی۔”
”تم جانتی ہو علیزہ! تم کوئی افیئرافورڈ نہیں کر سکتیں۔ آج نہیں تو کل گرینی کو تمہارے اور ذوالقرنین کے بارے میں پتا چل ہی جائے گا ، تو ان کا ری ایکشن کیا ہو گا۔ اس کا اندازہ تم اچھی طرح کر سکتی ہو۔” وہ اب سنجیدہ ہو گیاتھا۔
”اگروہ اچھا بندہ ہے تو اسے سیدھی طرح سے گرینی سے ملواؤ، یا پھر مجھ سے ملوا دو… میں بات کرتا ہوں اس سے۔”
علیزہ چونکی ”میں آپ سے ملواؤں؟”
”ہاں، کیوں تم ملوانا نہیں چاہتیں؟”
”نہیں… نہیں ایسی بات نہیں ہے۔۔۔۔” اس نے جلدی سے کہا۔
”تو پھر ٹھیک ہے۔ تم ذوالقرنین سے بات کرو، میں بھی دیکھنا چاہتا ہوں، کیسا بندہ ہے وہ۔” عمر کا لہجہ اب شگفتہ ہو گیا تھا۔
”ٹھیک ہے میں اس کو آپ سے ملوا دوں گی۔”
”اور اس سے ملنے کے بعد میں گرینی سے خود اس کے بارے میں بات کر لوں گا۔”
عمر نے جیسے اسے یقین دہانی کروائی، وہ سر جھکائے خاموش بیٹھی رہی۔
”آپ مجھے برا تو نہیں سمجھتے۔” کچھ دیر بعد عمر نے علیزہ کو سر جھکائے کہتے سنا۔
”نہیں… میں تمہیں برا کیوں سمجھوں گا… تم نے ایسا کوئی کام نہیں کیا۔”
”کالج سے جانابھی غلط نہیں ہے؟”وہ اس سے پتا نہیں کس چیز کی یقین دہانی کروانا چاہ رہی تھی۔
”تم سچ سننا چاہتی ہو یا جھوٹ؟” عمر سنجیدہ ہو گیا۔
”سچ۔۔۔” ”تو پھر اس طرح جانا واقعی غلط ہے۔ میں کوئی کنزرویٹو بندہ تو نہیں ہوں، مگر اپنی فیملی کو اچھی طرح جانتا ہوں اور تمہیں بھی… تم میچور نہیں ہو… ٹین ایج میں ہر چیز تھرلنگ لگتی ہے مگر یہاں اس سوسائٹی میں ایسے ایڈونچرز خاصے مہنگے ثابت ہو سکتے ہیں۔ ذوالقرنین اچھا ہے یا برا، میں نہیں جانتا مگر تم ابھی لوگوں کو پرکھنا نہیں جانتیں، تمہارا کوئی Exposure نہیں ہے۔ اس لئے اپنی زندگی کے بارے میں محتاط رہو تو خاصا بہتر ہے۔”
وہ خاموشی سے سر جھکائے اس کی باتیں سنتی رہی۔
”ذوالقرنین ایسا نہیں ہے۔” اس نے اپنا گلا صاف کرتے ہوئے کہا۔
”تم یہ کیسے کہہ سکتی ہو؟”اس نے دو بدو کہا۔
) “He is Different” وہ مختلف ہے(
عمر بے اختیار ہنسا ”یہ اس نے تم سے کہا یا تم نے خود سوچا؟”
”He is really Different (وہ واقعی دوسروں سے مختلف ہے۔)” علیزہ نے جیسے اسے یقین دلانے کی کوشش کی۔
”ہر انسان دوسرے انسان سے مختلف ہوتا ہے۔ فنگر پرنٹس سے لے کر جینز تک کچھ بھی ایک جیسا نہیں ہوتا۔” عمر نے بڑی لاپروائی سے کہا۔
”وہ اندر سے مختلف ہے۔” علیزہ نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا۔
”تم اس کے اندر کیسے پہنچ گئیں۔ اوہ آئی سی وہ ڈاکٹر بن رہا ہے، ہو سکتا ہے اس نے اپنی ڈائی سیکشن کرکے تمہیں اپنا اندر دکھایا ہو۔ ٹھیک کہہ رہا ہوں ناں؟”
وہ اب مذاق اڑا رہا تھا۔ علیزہ کا چہرہ سرخ ہونے لگا۔
”وہ واقعی ایک مختلف مرد ہے۔”
وہ اب بھی اپنی بات پر مصر رہی۔
”What a typical statement!” عمر ایک بار پھر ہنسا” Different man” کوئی مرد مختلف نہیں ہوتا مائی ڈیئر کزن… کم از کم گرل فرینڈ کے معاملے میں کوئی مختلف نہیں ہوتا۔ ہر ایک کی سوچ اور محسوسات ایک جیسے ہوتے ہیں۔”
” میں اس کی گرل فرینڈ نہیں ہوں۔” علیزہ کو اس کی بات پر شاک لگا۔
”اس کا فیصلہ تو بعد میں ہو گا میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ تم کچھ Realistic(حقیقت پسند) ہو جاؤ۔ ہم دنیا میں رہ رہے ہیں اور دنیا میں کوئی مختلف نہیں ہوتا بعض لوگ جو ہمیں بظاہر مختلف لگتے ہیں، وہی ہمارے لئے سب سے زیادہ عذاب لاتے ہیں۔ تب ہمیں پتہ چلتا ہے کہ وہ کتنے معمولی اور عام سے ہوتے ہیں اور شاید بے قیمت بھی بلکہ بعض دفعہ وہ عام لوگوں سے بھی زیادہ بے قیمت ثابت ہوتے ہیں۔”
وہ بات کرتے کرتے سنجیدہ ہو گیا۔
”ذوالقرنین ایسا نہیں ہے۔” اس کی ساری باتیں سننے کے بعد اس نے سر اٹھا کر بڑے اعتماد سے کہا۔
”میری خواہش ہے… واقعی ایسا ہی ہو۔” عمر نے اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے کہا۔
وہ حسب معمول رات کے وقت نانو اور نانا کے سو جانے کے بعد لاؤنج میں آئی… ہمیشہ کی طرح لائٹ آن کئے بغیر صرف کوریڈور میں روشن زیرو پاور کے بلب اور باہر پورچ کی کھڑکیوں سے آنے والی دھندلی روشنی میں صوفہ پر بیٹھ کر ذوالقرنین کو کال کرنا شروع کیا۔
”کوئی پریشانی تو نہیں ہوئی؟”
رابطہ قائم ہوتے ہی ذوالقرنین نے پہلا سوال کیا تھا۔ وہ بھی علیزہ کو کالج چھوڑتے ہوئے عمر کی گاڑی میں علیزہ کو بیٹھتے دیکھ چکا تھا۔
”نہیں کچھ نہیں ہوا… عمر نے نانو سے جھوٹ بول دیا… اس نے کہا کہ میں اندر کالج میں ہی تھی چوکیدار کو غلط فہمی ہو گئی تھی۔ نانو نے اس کی بات پر اعتبار کر لیا، اگر وہ جھوٹ نہ بولتا تو نانو سے بچنا آج بہت مشکل ہو گیا تھا۔ وہ بے حد غصے میں تھیں۔”
اس نے دھیمی آواز میں کہا۔
”تم خواہ مخواہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر پریشان ہوتی رہتی ہو۔ میں تم سے کہہ بھی رہا تھا کہ کچھ نہیں ہو گا۔” ذوالقرنین نے جواباً خاصی لاپروائی سے کہا۔
”مگر عمر نہ ہوتا یا وہ جھوٹ نہ بولتا تو پھر میرے ساتھ کیا ہو سکتا تھا، آپ کو اس کا اندازہ نہیں ہے کیونکہ آپ نانو کو نہیں جانتے۔” علیزہ نے کہا۔ ”میں آئندہ اس طرح کالج سے کبھی نہیں جاؤں گی۔”
”تم بہت بزدل ہو علیزہ” ذوالقرنین نے اس کی بات کے جواب میں کہا، وہ خاموش رہی۔
”تمہاری نانو آخر کیا کر سکتی ہیں… جان سے تو نہیں مار سکتی ہیں۔”
”پھر بھی مجھے اچھا نہیں لگا اگر ان کو پتہ چل جاتا تو۔۔۔”
”تم اپنی نانو سے اتنا ڈرتی کیوں ہو؟” ذوالقرنین نے کچھ الجھ کر کہا۔

باب: 32

”ہیلو ایاز ! کیسے ہو تم؟” نانو نے آواز پہچانتے ہی کہا تھا۔ ایاز حیدر ان کا سب سے بڑا بیٹا تھا۔
”میں بالکل ٹھیک ہوں ممی، آپ کیسی ہیں؟”
”میں بھی ٹھیک ہوں… تم نے آج اس طرح اچانک فون کیسے کیا؟” نانو کو ایک ہفتے میں دوسری بار اپنے بیٹے کی کال آنے پر حیرانی ہوئی… ایاز حیدر اگر بہت جلدی بھی انہیں کال کرتے تو ہفتے میں صرف ایک بار کال کرتے تھے… اور چند دن پہلے وہ ان سے بات کر چکی تھیں۔
”کوئی کام ہے؟” نانو نے اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
”ہاں میں عمر سے بات کرنا چاہتا ہوں، ویک اینڈ پر آپ کے پاس آیا ہو گا۔”
”نہیں وہ تو جب سے سہالہ گیا ہے… یہاں ویک اینڈ گزارنے نہیں آتا۔”
”مگر سہالہ میں تو وہ نہیں ہے… وہیں سے مجھے پتا چلا ہے کہ وہ ویک اینڈ پر لاہور آیا ہے… میں نے سوچا کہ لاہور میں آپ ہی کے پاس آیا ہو گا۔”
”نہیں وہ یہاں نہیں ہے تم نے موبائل پر اسے کانٹیکٹ نہیں کیا؟”
”اس کے موبائل کا نمبر نہیں ہے میرے پاس۔ آپ کے پاس ہو تو مجھے لکھوا دیں۔”
”ہاں میرے پاس ہے ایک منٹ۔” نانو نے فون کے پاس موجود ڈائری کھول لی۔ ”ہاں یہ نوٹ کرو۔” انہوں نے عمر کا نمبر انہیں نوٹ کروایا ”کیوں کوئی ضروری بات کرنی ہے اس سے؟” نانو کو تجسس ہوا۔
”ہاں، خاصی ضروری بات کرنی ہے، اچھا خدا حافظ۔” ایاز حیدر نے مزیدکوئی تفصیل بتائے بغیر فون بند کر دیا نانو نے کچھ سوچتے ہوئے فون رکھ دیا۔
دو گھنٹے بعد ایاز حیدر نے دوبارہ کال کی۔ اس بار بھی فون نانو نے ہی ریسیو کیا۔
”عمر کا موبائل آف ہے، میں پچھلے دو گھنٹے سے اسے کال کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ مگر کامیاب نہیں ہو رہا… آپ کچھ اندازہ لگا سکتی ہیں کہ وہ لاہور میں کہاں ہو گا۔” انہوں نے چھوٹتے ہی نانو سے پوچھا۔
”نہیں میں تو نہیں جانتی کہ وہ یہاں کس کے پاس ہو گا اور پتا نہیں لاہور میں ہے بھی یا نہیں ، ہو سکتا ہے جعفر کے ساتھ ہو اس کے ساتھ خاصی دوستی ہے اس کی۔” نانو نے اپنے ایک دوسرے پوتے کا نام لیتے ہوئے کہا۔
”نہیں ۔ جعفر کے ساتھ نہیں ہے۔ میں اس کے گھر فون کر چکا ہوں، آپ ایک کام کریں عمر کے بارے میں پتہ کریں، میں کچھ دیر بعد دوبارہ آپ کو فون کرتا ہوں۔” ایاز حیدر نے بہت سنجیدہ لہجے میں کہا۔
”آخر بات کیا ہے؟ اس طرح عمر کو تلاش کرنے کی کیا ضرورت پڑ گئی ہے تمہیں؟” نانو کو اب تشویش ہونے لگی۔
”میں آپ کو بعد میں بتا دوں گا… فی الحال تو آپ وہی کریں جو میں کہہ رہا ہوں۔” ایاز حیدر نے بہت عجلت میں فون بند کیا تھا۔ نانو فون کا ریسیور ہاتھ میں لئے پریشان ہو رہی تھیں۔
”مرید ! ذرا علیزہ کو بلاؤ۔” انہوں نے خانساماں کو آواز دیتے ہوئے کہا۔ خانساماں سر ہلاتے ہوئے علیزہ کے کمرے کی طرف چلا گیا۔ علیزہ ناشتہ کرکے کچھ دیر پہلے ہی اپنے کمرے میں واپس گئی تھی۔ چھٹی کا دن ہونے کی وجہ سے بہت دیرجاگی تھی اور اب ناشتے کے بعد اپنی ایک اسائنمنٹ تیار کرنے کے لئے بیٹھی ہی تھی۔ جب مرید نے دروازہ بجا دیا۔
”ٹھیک ہے میں آتی ہوں۔” اس نے نانو کا پیغام سننے کے بعد کہا۔
جس وقت وہ لاؤنج میں آئی۔ نانو فون پر کوئی نمبر ڈائل کر رہی تھیں۔
”نانو! آپ نے مجھے بلایا ہے۔”اس نے نانو سے پوچھا۔
”ہاں بیٹھو۔” انہوں نے نمبر ڈائل کرتے ہوئے کہا۔ علیزہ صوفہ پر بیٹھ گئی۔
کال مل گئی تھی۔ نانو عمر کے بارے میں پوچھ رہی تھیں، علیزہ کو حیرانی ہوئی۔ ”یک دم نانو کو عمر میں اتنی دلچسپی کیسے پیدا ہو گئی ۔” اس نے سوچا۔
فون بند کرکے نانو نے بتایا۔”ایاز کا فون آیا تھا۔ وہ عمر سے کوئی بات کرنا چاہتا ہے۔” انہوں نے علیزہ کو بتانا شروع کیا۔
”مگر عمر یہاں لاہور میں تو نہیں ہے۔” علیزہ نے کہا۔
”وہ جانتا ہے مگر وہاں سے اسے پتہ چلا ہے کہ عمر یہاں ویک اینڈ پر لاہور آیا ہوا ہے۔”
”لیکن عمر یہاں تو نہیں آیا، آپ نے انکل ایاز کو یہ نہیں بتایا؟”
”میں یہ بھی بتا چکی ہوں، وہ کہہ رہا تھا کہ پھر میں اس کے تمام فرینڈز سے رابطہ کرکے اس کے بارے میں معلوم کروں۔”
”اس کے فرینڈز سے رابطہ کرنے کی کیا ضرورت ہے، اس کے موبائل پر کال کریں اور اسے بتا دیں کہ انکل ایاز اس سے بات کرنا چاہ رہے ہیں۔” علیزہ نے جیسے حل تجویز کیا۔
”اس کا موبائل فون آف ہے، میں نے تمہیں اسی لئے بلایا ہے کہ تم باری باری اس کے تمام فرینڈز اور سارے رشتہ داروں کے گھر فون کرنا شروع کرو۔”
”نانو! کتنا آکورڈلگے گاکہ میں اس طرح فون کرکے عمر کے بارے میں پوچھوں جیسے وہ کوئی چھوٹا بچہ ہے جو گم ہو گیا ہے، ایاز انکل تھوڑا انتظار کر لیں، وہ ویک اینڈ پر لاہور آیا ہے، کل واپس چلا جائے گا پھر وہ اطمینان سے اس سے بات کر لیں، اتنی افراتفری کی کیا ضرورت ہے۔”
”ایاز کو کوئی ضروری بات کرنی ہے ورنہ ایاز اس طرح آسان سر پر نہ اٹھاتا وہ بھی جانتا ہے کہ کل وہ واپس سہالہ چلا جائے گا اور وہ وہاں اس سے رابطہ کر سکتا ہے۔ پھر بھی وہ اگر اسے ڈھونڈنے پر بضد ہے تو یقیناً کوئی ایمرجنسی ہی ہو گی۔”
” میرا نہیں خیال کہ وہ کسی فرینڈ وغیرہ کے گھر پر ہو گا۔ اگر وہ آپ کے پاس نہیں آیا تو پھر یقیناً ہوٹل میں ٹھہرا ہوگا اور یہاں لاہور میں دو ہی تو ہوٹلز ہیں جہاں وہ ٹھہرتاہے۔ اس لئے وہاں فون کرکے پتہ کر لیتے ہیں۔” علیزہ نے چند لمحے سوچنے کے بعد کہا۔
”ہاں یہ ٹھیک ہے، پہلے ان ہوٹلز میں فون کرتے ہیں۔” علیزہ نے ڈائریکٹری پکڑی اس سے نمبر دیکھ کر نمبر ملایا۔ پہلے ہوٹل میں ہی انہیں عمر کی موجودگی کا پتہ چل گیا۔ ”وہ اس وقت ہوٹل میں نہیں ہے۔ آپ میسج چھوڑ دیں۔”
”ان سے کہیں کہ اپنا موبائل آن کریں یا پھر اپنی گرینی کو فون کر لیں۔” علیزہ نے فون بند کر دیا۔
”انکل ایاز اس سے اتنی ایمرجنسی میں کیا بات کرنا چاہتے ہیں؟” فون بند کرتے ہی علیزہ نے پاس بیٹھی نانو سے پوچھا۔
”یہ تو میں نہیں جانتی۔ میں نے پوچھا بھی مگر ایاز نے بتایا نہیں مگر بہت سنجیدہ لگ رہا تھا۔” نانو نے بتایا۔
”ہو سکتا ہے ۔ عمر کا پھر کوئی جھگڑا ہو گیا ہو انکل جہانگیر سے اور انکل ایاز اسی سلسلے میں بات کرنا چاہتے ہوں۔” علیزہ نے اندازہ لگانے کی کوشش کی۔
”میں کیا کہہ سکتی ہوں۔ یہ تو ایاز ہی بتائے گا تو پتا چلے گا۔” نانو کچھ متفکر نظر آرہی تھیں۔
وہ دونوں وہیں لاؤنج میں بیٹھی باتیں کر رہی تھیں، جب فون کی گھنٹی بجی فون کا ریسیور نانو نے اٹھایا۔ خلاف توقع دوسری طرف عمر تھا۔
”تم نے موبائل آف کیوں کیا ہوا ہے۔ میں کب سے تم سے کانٹیکٹ کرنے کی کوشش کر رہی ہوں۔” نانو نے چھوٹتے ہی شکوہ کیا۔
”آپ کا میسج ملتے ہی آپ کو کال کر رہا ہوں، بائی دا وے، آپ کو یہ کیسے پتا چلا کہ میں یہاں لاہور میں اس ہوٹل میں ٹھہرا ہوا۔” عمر نے ہوٹل کا نام لیتے ہوئے کہا۔
دوسری طرف عمر تھا۔
”ایاز نے فون کیا تھا۔ اسی نے بتایا کہ تم ویک اینڈ پر لاہور آئے ہو اور علیزہ نے اندازاہ لگایا کہ تم ہوٹل میں ٹھہرے ہو گے۔”
”انکل ایاز نے میرے بارے میں آپ سے بات کی۔” اس کا لہجہ سنجیدہ ہو گیا تھا۔
”ہاں وہ تم سے بات کرنا چاہتا ہے، تم سے اس کا رابطہ نہیں ہو رہا تھا۔ اس لئے اس نے مجھے فون کیا اور تمہیں اس طرح ہوٹل میں ٹھہرنے کی کیا ضرورت ہے۔ کیا میرے پاس نہیں آسکتے تھے اور یہاں آنے کے بعد تم سے یہ بھی نہیں ہوا کہ مجھے فون ہی کر لیتے۔” نانو کو اپنی شکایتیں یاد آنے لگیں۔
”انکل ایاز مجھ سے کیا بات کرنا چاہتے ہیں انہوں نے آپ کو بتایا؟” عمر نے ان کی شکایت سنی ان سنی کر دی۔
”پتا نہیں اس نے تو کچھ بھی نہیں بتایا بس یہ کہا کہ تم سے اس کا رابطہ کراؤں اب تم اسے فون کر لو یا پھر اپنا موبائل آن رکھو… وہ خود تمہیں فون کر لے گا۔”
”میں انہیں فون کر لیتا ہوں لیکن کوئی اور آپ کو کال کرکے میرے بارے میں پوچھے تو نہ میرا کانٹیکٹ نمبر دیں اور نہ ہی کسی کو یہ بتائیں کہ میں کہاں ٹھہرا ہوں۔” عمر نے اسی سنجیدگی سے کہا۔
”مگر وہ کیوں ؟کیا بات ہے؟” نانو کچھ پریشان ہوئیں۔
”آپ کو پتا چل جائے گا گرینی کہ اس بار آپ کے بیٹے نے میرے ساتھ کیا کیا ہے۔” دوسری طرف عمر نے خاصی تلخی سے کہہ کر فون بند کر دیا تھا۔

باب: 33

”ہم نے معدہ واش کر دیا ہے ۔ وہ اب ٹھیک ہے۔ دس پندرہ منٹ بعد اسے کمرے میں شفٹ کر دیں گے۔ تب آپ اس سے مل سکتے ہیں۔”
ڈاکٹر نے انہیں اطلاع دی۔ نانو اور عمر نے ایک دوسرے کا چہرہ دیکھا نانو کے چہرے پر اطمینان ابھر آیا جبکہ عمر پہلے ہی کی طرح سنجیدہ نظر آرہا تھا۔
علیزہ کو ہاسپٹل لے جاتے ہوئے عمر نے گاڑی میں نانو کو ذوالقرنین کے بارے میں بتا دیا تھا۔ علیزہ کی سائیڈ ٹیبل پر پڑا ہوا کاغذ جو علیزہ کے بیڈ کے پاس جاتے ہی عمر کو نظر آیا تھا۔ اس نے نانو کو دکھا دیا جس میں علیزہ نے اپنی خودکشی کے بارے میں لکھا تھا۔
نانو خط ہاتھ میں لئے پورا راستہ سکتے کے عالم میں بیٹھیں رہیں۔ ان کے فیملی ڈاکٹر نے ہاسپٹل پہنچنے پر فوری طور پر علیزہ کے کیس کو ڈیل کیا تھا۔ فیملی ڈاکٹر ہونے کی وجہ سے اس نے اس کیس کو پولیس میں بھی رپورٹ نہیں کیا۔
”اس نے کیا کھایا تھا؟” عمر نے ڈاکٹر سے پوچھا۔
”سلیپنگ پلز تھیں، آپ لوگ اسے بہت جلدی لے آئے ابھی پوری طرح حل نہیں ہو سکی تھیں اور اس پر زیادہ اثر اس لئے بھی نہیں ہوا کہ وہ یہ گولیاں لینے کی عادی لگتی ہے ورنہ جتنی تعداد میں اس نے یہ گولیاں لی ہیں اس کی حالت خاصی خراب ہونی چاہئے تھی۔” ڈاکٹر آہستہ آہستہ بتا رہا تھا۔ ‘
”لیکن علیزہ نے اس طرح کیوں کیا ہے، وہ تو بہت سمجھ دار بچی ہے… پھر اس طرح ۔” ڈاکٹر نے اپنی بات ادھوری چھوڑ کر جواب طلب نظروں سے نانو کو دیکھا۔
”کالج میں کچھ فرینڈز سے اس کا جھگڑا ہو گیا اور شاید ڈپریشن میں یا غصے میں اس نے یہ کیا ہے۔” عمر نے ڈاکٹر کو مطمئن کرنے کی کوشش کی۔
”گرینی کیا علیزہ سلیپنگ پلز لیتی ہے؟”
”یہ گولیاں تو نہیں کوئی اور دوا لیتی رہی ہے مگر وہ بھی صرف تب جب سائیکاٹرسٹ کے ساتھ سیشنز ہوتے تھے۔”
”تو پھر اس کے پاس یہ Pills کہاں سے آئیں؟”
”میں تو خود حیران ہوں۔”
”کیا گرینڈ پا لیتے ہیں؟”
”نہیں وہ تو نہیں لیتے ہو سکتا ہے اس نے کہیں سے خرید لی ہوں۔” نانو نے اندازہ لگانے کی کوشش کی۔
”کب خریدی ہیں اس نے، یہی تو سمجھ نہیں پا رہا۔ پارک سے تو میں اس کو سیدھا گھر لایا ہوں اور اس کے بعد وہ گھر سے باہر نہیں گئی پھر اس کے پاس یہ Pillsکہاں سے آگئیں۔ آپ کہہ رہی ہیں کہ گرینڈ پا بھی نہیں لیتے… پھر۔”
عمر الجھے ہوئے انداز میں کہتے کہتے یک دم سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ اس نے اپنی بات ادھوری چھوڑ دی۔
”کیا ہوا؟” نانو نے کچھ حیران ہو کر اس کے چہرے کے تاثرات کو دیکھا۔
”کچھ نہیں؟” وہ یک دم بہت پریشان نظر آنے لگا تھا۔
وہ اگلے دن ہاسپٹل سے ڈسچارج ہو کر گھر آگئی تھی۔ ہاسپٹل میں اس سے ملاقات کے دوران کسی نے اس سے کچھ پوچھنے یا اسے کچھ کہنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ نانا کو اگر اس سارے واقعہ سے شاک لگا تھا تو نانو بہت خوفزدہ ہو گئی تھیں، شاید وہ دونوں علیزہ سے اس حرکت کی توقع نہیں کر سکتے تھے۔
نانو کو اب بھی یقین نہیں آرہا تھا کہ علیزہ پچھلے ایک ماہ سے اتنی کامیابی سے انہیں دھوکا دے رہی تھی۔ ”علیزہ، علیزہ اس طرح کی حرکت کیسے کر سکتی ہے۔ وہ تو بہت شائی ہے۔ ریزرو، انٹروورٹ آج تک وہ ایک سے دوسرا دوست نہیں بنا سکی پھر بوائے فرینڈ اور وہ بھی اس طرح چھپ کر،میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا میں نے تو اس پر بہت محنت کی تھی، اس کی اچھی تربیت کی تھی۔”
شام کو اس کے گھر آنے کے بعد نانو، عمر اور نانا کے ساتھ لاؤنج میں بیٹھی ہوئی کہہ رہی تھی، علیزہ اپنے کمرے میں تھی اور عمر کسی قسم کے تاثر کے بغیر نانا اور نانی کی گفتگو سن رہا تھا۔
”مجھے افسوس اس بات پر ہے کہ عمر نے سب کچھ ہم سے چھپایا اگر یہ ہمیں پہلے بتا دیتا تو یہ سب کچھ نہ ہوتا۔” نانا نے اچانک عمر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”اگر میں آپ کو بتا دیتا تو آپ کیا کرتے۔” عمر نے بڑی سنجیدگی سے پہلی بار گفتگو میں حصہ لیا۔
”کم از کم یہ سب کچھ نہ ہونے دیتا جو اب ہوا ہے۔”
”میں آپ کو بتا دیتا تو آپ اس کو ڈانٹتے ذوالقرنین سے ملنے پر پابندی لگا دیتے۔ پھر کیا ہوتا ، وہ پھر بھی یہی کرتی۔”
”تب کی تب دیکھی جاتی۔ مگر تمہارے اس طرح سب کچھ چھپانے سے حالات زیادہ خراب ہوئے ہیں۔” اس بار نانو نے کہا۔
”آپ جو چاہے کہہ سکتے ہیں ۔ میں اس سلسلے میں اب تو کچھ کہہ ہی نہیں سکتا۔ مگر مجھے کوئی شرمندگی نہیں ہے کہ میں نے علیزہ اور ذوالقرنین کے افیئر کو آپ سے چھپایا۔ میں نے اپنے طور پر یہ مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی اور شاید میں نے ایسا کر بھی لیا تھا، مگر پرابلم صرف علیزہ کی اس حرکت سے ہوا ورنہ ذوالقرنین کا معاملہ تو ختم ہو چکا تھا۔” اس نے بڑے پر سکون انداز میں کہا۔
”آپ اب آگے کے بارے میں سوچیں ، اب آپ اس سے اس سارے معاملے کے بارے میں کیا کہیں گے یہ طے کریں۔”
”میں ذوالقرنین کی فیملی سے رابطہ قائم کروں گا اگر سب کچھ ٹھیک ہو تو میں ذوالقرنین کے ساتھ علیزہ کی شادی کرا دوں گا۔” نانا نے یک دم جیسے اپنا فیصلہ سنا دیا۔
”وہ لڑکا اچھا نہیں ہے۔ گرینڈ پا…! وہ صاف صاف انکار کر گیا ہے اس شادی سے۔” عمر کچھ بے چین ہوا۔
”عمر تمہارے بات کرنے میں اور میرے بات کرنے میں بہت فرق ہو گا، ہماری فیملی کی اپنی ایک حیثیت ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ ہم کسی فیملی کے ساتھ رشتہ جوڑنا چاہیں اور وہ بغیر سوچے سمجھے انکار کر دیں۔ ذوالقرنین شادی پر تیار نہیں بھی ہو گا تو اس کے ماں باپ اسے تیار کر لیں گے۔”
”وہ اچھا لڑکا نہیں ہے گرینڈ پا! کم از کم مجھے اس نے امپریس نہیں کیا۔”
”اچھا ہے یا برا، مجھے اس کی پروا نہیں ہے، اگر علیزہ کو وہ پسند ہے اور وہ اس سے شادی کرنا چاہتی ہے تو میرے لئے اتنا ہی کافی ہے ساری عمر اسے پالنے اور بڑا کرنے کے بعد میں یہ تو نہیں چاہوں گا کہ وہ اس طرح خودکشی کرلے اگر وہ اس شخص کے ساتھ خوش رہ سکتی ہے تو ٹھیک ہے۔ اتنا بڑا ایشو بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔ جہاں تک اس کی اچھائی یا برائی کا تعلق ہے میں پتہ کروا لوں گا اس کے بارے میں۔” نانا وہیں بیٹھے بیٹھے فیصلے کرتے جا رہے تھے۔ نانو اور عمر کچھ کہے بغیر خاموشی سے ان کا چہرہ دیکھتے رہے۔
اگلے چند دن بھی عمر اور علیزہ کے درمیان کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ اپنے تحریری امتحان کے رزلٹ آنے کے بعد وہ اسلام آباد چلا گیا۔ وہاں سے اس کی واپسی دو ہفتے کے بعد ہوئی۔
”آپ نے ذوالقرنین کے سلسلے میں اس سے بات کی؟”
رات کے کھانے پر ڈائننگ ٹیبل پر علیزہ سے اس کا سامنا ہوا۔ رسمی سلام دعا کے بعد وہ سر جھکائے خاموشی سے کھانا کھاتی رہی اور پھر کھانے سے فارغ ہو کر سب سے پہلے ٹیبل سے اٹھ کر چلی گئی۔ اس کے جانے کے بعد عمر نے نانا سے پوچھا۔
”وہ اس سلسلے میں کوئی بات کرنے کے لئے تیار ہی نہیں، میں نے اس سے بات کرنے کی کوشش کی مگر اس نے دھمکی دی کہ اگر میں نے دوبارہ ذوالقرنین کے بارے میں کچھ کہا تو وہ خودکشی کرلے گی یا پھر گھر سے بھاگ جائے گی، میں تو خوفزدہ ہو گئی، علیزہ کبھی بھی اتنے باغیانہ انداز میں بات نہیں کرتی تھی۔ مگر اب تو وہ بالکل بدل گئی ہے اس کا دل چاہے کالج جاتی ہے دل چاہے توگھر سے باہر نہیں نکلتی۔ دو دن پہلے جا کر سارے بال کٹوا آئی، پچھلے ایک ہفتے میں تین بار شہلا آچکی ہے۔ اس سے بات کرنے کی بجائے اسے دیکھتے ہی کمرے میں چلی جاتی ہے وہ دروازہ بجاتی رہی ، اس نے دروازہ نہیں کھولا وہ روہانسی ہو کر واپس گئی۔ باقی سب کچھ تو چھوڑو کر سٹی کی ساری چیزیں اٹھا کر کمرے سے باہر پھینک دیں۔ وہ آگے پیچھے پھرتی رہتی ہے مگر مجال ہے۔ علیزہ اسے ہاتھ بھی لگا جائے گھر میں ہو تو سارا دن بلند آواز میں اسٹیریو آن رکھتی ہے۔ پہلے کبھی اس نے یہ بھی نہیں کیا، دل چاہے تو کھانا کھائے گی ورنہ دو چمچ لے کراٹھ جاتی ہے اور ان سے بات کروں تو یہ کہتے ہیں کہ وہ جو کچھ کر رہی ہے کرنے دوں میں کوئی اعتراض نہ کروں۔ مگر اس طرح سب کچھ کتنے دن اور کیسے چلے گا۔”
عمر خاموشی سے نانو کی شکایتیں سنتا رہا، جبکہ نانا بڑی بے نیازی سے کھانا کھانے میں مصروف رہے۔
”گرینڈ پا نے ٹھیک کہا۔ وہ جو کر رہی ہے اسے کرنے دیں۔ آہستہ آہستہ وہ خود ہی نارمل ہو جائے گی۔” عمر نے پانی پیتے ہوئے کہا۔
”میں نے ان سے کہا۔ اسے سائیکاٹرسٹ کو دکھائیں، دوبارہ سے سیشن کروائیں اس کا ڈپریشن تو کم ہو مگر یہ اس پر بھی تیار نہیں۔” نانو کو ایک بار پھر سے شکایت ہو رہی تھی۔
”میں اس کی مرضی کے بغیر اسے سائیکاٹرسٹ کے پاس کیسے لے جا سکتا ہوں اور اس نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ وہ اب کسی سائیکاٹرسٹ کے پاس نہیں جائے گی کیونکہ وہ پاگل نہیں ہے اور میں اسے مجبور نہیں کر سکتا نہ ہی کرنا چاہتا ہوں۔” نانا نے پہلی بار گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا۔
”میری بات کرنے کا نتیجہ تو آپ دیکھ ہی چکے ہیں، مجھے تو پہلے ہی شرمندگی ہے نہ میں ذوالقرنین سے بات کرتا اور نہ یہ سب ہوتا۔ وہ خوش تھی خوش رہتی۔” عمر کو واقعی پچھتاوا تھا۔
”پھر بھی تم اس سے بات کرو، اس طرح اس کو اکیلا تو نہیں چھوڑا جا سکتا پرسوں سکندر کا فون آیا تھا، اس سے بات کرنے سے انکار کر دیا۔ سات آٹھ دن پہلے ثمینہ کا فون آیا تھا، تب بھی اس نے یہی کیا میں نے سمجھانے کی کوشش کی تو اس نے صاف کہہ دیا میرے کوئی ماں باپ نہیں ہیں، نہ ہی میں کسی سے فون پر بات کرنا چاہتی ہوں مجھے کوئی ٹیلی فونک رشتہ نہیں چاہئے۔” نانو نے رنجیدہ لہجے میں کہا۔
”میں نے اتنے سال اس کی تربیت پر لگا دیے اور اب یہ سب کر رہی ہے، میری ساری محنت اس نے ضائع کر دی۔”
”گرینی! آپ نے اس کی تربیت نہیں کی، آپ نے اس کی شخصیت بننے ہی نہیں دی۔” نانو نے عمر کی بات کاٹ دیں۔
”میں نے اسے ہر چیز دی۔”
”تربیت سہولتوں اور چیزوں کو نہیں کہتے۔” اس نے مستحکم آواز میں کہا۔ ”آپ نے اس کو صرف پالا ، پالنے میں اور تربیت کرنے میں فرق ہوتا ہے۔ آپ نے اس کی تربیت کی ہوتی تو وہ ذوالقرنین کے ساتھ افیئر نہ چلاتی یا ایسی غلطی کر بھی لیتی تو اس طرح خودکشی کی کوشش نہ کرتی۔ میں نہیں مانتا کہ اس کو ذوالقرنین سے محبت ہوئی ہے… ذوالقرنین کی جگہ آ ج کوئی دوسرا بندہ آکر وہی سب کچھ اس سے کہنا شروع کر دے جو ذوالقرنین کہتا تھا وہ اس کے ساتھ بھی اسی طرح آنکھیں بند کرکے چل پڑے گی… اس کو جہاں سے توجہ اور محبت ملے گی ، وہ وہاں چلے جائے گی۔ کیونکہ اس کو یہ چیزیں آپ سے یا اپنے پیرنٹس سے نہیں ملی ہیں۔
”اس خاندان میں اور بھی تو بہت سے اس جیسے بچے ہیں جن کے پیرنٹس میں علیحدگی ہو چکی ہے کسی نے بھی ویسے پرابلمز کھڑے نہیں کئے جیسے علیزہ نے کئے ہیں۔”
”اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ باقی سارے بچے علیحدگی کی صورت میں پیرنٹس میں سے کسی ایک کے پاس رہے ہیں اور دوسرے سے ملتے رہے ہیں، علیزہ کی طرح کسی کو نانا، نانو کے پاس نہیں چھوڑا گیا۔”
”تم بھی تو ہو عمر! تم تو بورڈنگ میں رہے ہو، جہانگیر نے مستقل تمہیں اپنے پاس نہیں رکھا اور زارا سے بھی ملنے نہیں دیا پھر بھی تم نے کسی کے لئے کوئی پرابلمز کھڑے نہیں کئے۔” عمر کے چہرے پر ایک تلخ مسکراہٹ ابھری۔
”میں کتنا نارمل ہوں، یہ میں ہی جانتا ہوں۔ ۔ مرد کی زندگی کا دائرہ عورت کی زندگی کے دائرے سے مختلف ہوتا ہے۔ میری ساری زندگی گھر کے باہر گزرتی ہے، میرے پاس بہت سی مصروفیات ہیں، بہت سی تفریحات ہیں پھر ایک کیرئیر ہے اور پھر میں چھبیس سال کا ہوں۔ مجھے اس ٹین ایجر سے تو کمپیئر نہیں کر سکتے جس کی زندگی کے دائرہ میں ایک دوست، دو گرینڈ پیرنٹس ایک بلی اور چند خواب ہوں۔”
”اس کے پیرنٹس کی سیپریشن کی ذمہ دار میں نہیں ہوں، اگر اس نے کوئی دکھ اٹھایا ہے تو میری وجہ سے نہیں کیا، میں اسے جودے سکتی تھی، میں نے دیا اب چوبیس گھنٹے تو میں اس کو گود میں لے کر نہیں بیٹھ سکتی اور پھر اب وہ بچی نہیں ہے۔ میچور ہو رہی ہے۔ اپنی سیچویشن اور پرابلمز کو سمجھے حالات کے ساتھ ایڈجسٹ کرنا سیکھے۔”
”تیراکی سکھائے بغیر آپ کسی کو انگلش چینل کراس کرنے کے لئے سمندر میں دھکیل دیں گی تو اس کے ساتھ وہی ہو گا جو علیزہ کے ساتھ ہو رہا ہے اس پر ترس کھانے کے بجائے اس کے ساتھ وقت گزاریں۔”
”وہ پاس بیٹھنے کو تیار تو ہو۔” عمر کھانا ختم کرچکا تھا۔
”میں اس سے بات کرتا ہوں، لیکن میرا خیال ہے اس کو کچھ عرصہ کے لئے لے جائیں۔”
”کہاں لے جاؤں؟”
”کہیں بھی کسی ہل اسٹیشن یا اس سے پوچھ لیں، جہاں وہ جانا چاہے۔” وہ ٹیبل سے اٹھ گیا۔

علیزہ کے کمرے کے دروازے پر ناک کرکے وہ جواب کا انتظار کئے بغیر اندر داخل ہو گیا۔ وہ اپنی راکنگ چیئر پر جھول رہی تھی۔ عمر کو دیکھ کر کچھ گڑبڑائی۔
”کیسی ہو علیزہ؟” عمر نے بڑے دوستانہ انداز میں مسکراتے ہوئے کہا۔ اس نے جھولنا بند کر دیا۔ اس کے چہرے پر جواباً کوئی مسکراہٹ نمودار ہوئی نہ ہی اس نے عمر کے سوال کا جواب دیا۔ وہ صرف بے تاثر چہرے کے ساتھ عمر کو دیکھتی رہی۔ جو اطمینان سے اس کی کرسی کے قریب بیڈ پر بیٹھ گیا۔
”آپ مجھ سے میرا حال پوچھنے نہیں آئے۔ کچھ اور پوچھنے آئے ہیں۔”
”تم نے ٹھیک کہا۔ میں واقعی کچھ اور پوچھنے آیا ہوں۔”
”میں جانتی ہوں۔ آپ کیا پوچھنے آئے ہیں؟” اس نے اپنی گود میں رکھا ہوا ہیئربینڈ اپنے بالوں میں لگاتے ہوئے کہا۔
”یہ تو بڑی اچھی بات ہے، اچھا تو کیا پوچھنے آیا ہوں میں؟” عمر نے بڑے اطمینان سے پوچھا۔
”آپ مجھ سے کہیں گے کہ میں نے خودکشی کی کوشش کیوں کی؟”
”نہیں میں یہ پوچھنے نہیں آیا۔”
علیزہ کی آنکھوں میں بے یقینی لہرائی۔ ”پھر آپ مجھ سے یہ کہنے آئے ہوں گے کہ میں نے خودکشی کی کوشش کرکے اچھا نہیں کیا۔ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔”
”نہیں میں یہ کہنے نہیں آیا۔”
”پھر نانو نے آپ سے میرے بارے میں کچھ کہا ہو گا۔ آپ مجھے سمجھانے آئے ہوں گے کہ میں اپنا رویہ ٹھیک کر لوں۔”
”سوری علیزہ! تمہارا اندازہ اس بار بھی غلط ہے، میں یہ بھی کہنے نہیں آیا۔ میں صرف یہ پوچھنے آیا ہوں کہ تم کب سے میرے کمرے سے سلیپنگ پلز لیتی آرہی ہو؟” عمر نے دیکھا کہ علیزہ کے چہرے کا رنگ اڑ گیا۔
”اور ظاہر ہے تم میرے سامان کی اچھی خاصی جانچ پڑتال کرتی رہی ہو۔”
علیزہ نے کچھ کہنا چاہا عمر نے اسے ٹوک دیا۔ ”نہیں، کم از کم میرے ساتھ جھوٹ نہیں۔ میں جانتا ہوں تم میرے کمرے میں پلز لیتی رہی ہو اورتم نے میرے کمرے سے ہی پلز لے کر خودکشی کی کوشش کی کیا میں غلط کہہ رہا ہوں؟”
”ہاں ٹھیک ہے میں نے آپ کے کمرے سے پلز لیں… لیکن مجھے ضرورت تھی اس لئے لیں اور اس میں بری بات کیا ہے؟ آپ بھی تو یہ گولیاں کھاتے ہیں۔”
وہ کچھ لمحوں کے لئے کچھ بول نہیں سکا۔ ”تمہاری اور میری عمر میں بڑا فرق ہے اور میں نے اسے عادت نہیں بنایا۔”
”مگر آپ لیتے تو ہیں نا۔” اس نے اپنے لفظوں پر زور دیتے ہوئے کہا۔
”لیکن میں مرنے کے لئے تو نہیں لیتا۔”
اس بار وہ چپ ہو گئی۔ ”ذوالقرنین نے گھرجا کر ایک بار بھی تمہارے بارے میں نہیں سوچا ہو گا اور تم نے اس کے لئے مرنے کی کوشش۔”
علیزہ نے تیز آواز میں اس کی بات کاٹ دی۔ ”آپ اس کے بارے میں بات نہ کریں۔”
”کیوں کیا اب تم اس سے نفرت کرنے لگی ہو؟” عمر نے جیسے مذاق اڑایا۔ ”مگرتمہیں اس سے نفرت کبھی نہیں ہو سکتی تو پھر ٹھیک ہے گرینڈ پا کہہ رہے ہیں نا کہ تم چاہو تو وہ تم سے اس کی شادی کروا دیتے ہیں پھر تم ان کا پرپوزل قبول کر لو۔”
”مجھے ذوالقرنین کی ضرورت نہیں ہے۔ مجھے اب کسی کی بھی ضرورت نہیں ہے مجھ میں اتنی سیلف ریسپیکٹ (عزت نفس) ہے کہ جو شخص میری انسلٹ کرے ، میں اس سے شادی نہ کروں اور اس نے میری انسلٹ کی ہے۔” اس کی آنکھوں میں یک دم آنسو امڈ آئے۔ اس نے چہرہ جھکا لیا۔
”تو پھر ایسے شخص کے لئے اس طرح کی حرکت کرنے کی کیا ضرورت تھی؟” اس نے جواب دینے کی بجائے اپنا سر گھٹنوں میں چھپا لیا۔ عمر نے اپنا سوال دہرایا۔
وہ اب رو رہی تھی۔ ” لوگ اتنے جھوٹے ہوتے ہیں، اتنے مکار ہوتے ہیں کہ میں تو ان کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔ لوگ اپنے چہرے پر اتنے ماسک چڑھا کر پھرتے ہیں کہ میں تو کسی کو پہچان ہی نہیں سکتی ہر چیز کا استعمال کرتے ہیں لفظوں کا بھی، میں تو لوگوں کو نہیں سمجھ سکتی اس نے مجھ سے بہت دفعہ محبت کا اظہار کیا۔ اس نے مجھ سے بہت دفعہ کہا کہ وہ مجھ سے شادی کرے گا، اور اور اس دن آپ کے سامنے اس نے صاف انکار کر دیا کہ اس نے ایسا کہا ہی نہیں نہ اس نے مجھ سے محبت کا اظہار کیا ہے ،نہ اس نے مجھ سے کبھی شادی کا وعدہ کیا ہے۔ اسے احساس بھی نہیں ہوا کہ وہ میرے ساتھ کیا کر رہا ہے۔ اس کے لئے سب کچھ ٹائم پاس تھا۔ مگر میرے لئے تو ٹائم پاس نہیں تھا میں تو اب کسی کا سامنا کرنے کے قابل نہیں رہی نہ نانا کا نہ نانو کا نہ ہی آپ کا۔میرے بارے میں کیا سوچتے ہوں گے سب کہ میں کس طرح کی لڑکی ہوں۔ میرا دل چاہتا ہے دنیا کا ایک دروازہ ہو جس سے میں باہر نکل جاؤں اگر اکیلے رہنا ہے تو پھر وہاں جا کر رہوں۔”
”اور تم نے وہ دروازہ سلیپنگ پلز کھا کر ڈھونڈنے کی کوشش کی؟”
علیزہ نے ایک دم سر اٹھا کر عمر کو دیکھا۔ ”پتہ نہیں میں نے کیا کیا آپ اس دن کی بات نہ کریں۔ آپ کچھ بھی نہ کہیں مجھے بار بار سب کچھ یاد نہ دلائیں۔”
”ٹھیک ہے میں کوئی بات نہیں کرتا، ہم سب کچھ بھول جاتے ہیں سب کچھ ذوالقرنین کو بھی۔ اب تم بتاؤ آگے کیا کرنا ہے؟”
”وہی جواب کر رہی ہوں۔”
”تم جانتی ہو تمہاری وجہ سے گرینی اور گرینڈ پا کتنے پریشان ہیں؟”
”میری سمجھ میں نہیں آتا ہر ایک میری وجہ سے پریشان کیوں ہوتا ہے۔ وہ دونوں اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کی وجہ سے پریشان کیوں نہیں ہوتے جو کچھ آپ کے پاپا نے کیا۔ اس پر وہ پریشان کیوں نہیں ہوتے۔”
وہ بات کرتے کرتے چپ ہو گئی۔ عمر کا رنگ ایک لمحہ کے لئے بدلا پھر وہ اسی طرح اسے دیکھتا رہا۔
”کہتی رہو خاموش کیوں ہو گئیں۔” اس نے بڑے نارمل انداز میں اس سے کہا۔
”آپ نانا اور نانو سے کہیں وہ میرے بارے میں پریشان نہ ہوں میں بالکل ٹھیک ہوں۔”
”ٹھیک ہے میں کہہ دوں گا۔ کرسٹی کو کیوں چھوڑ دیا تم نے اور شہلا سے کیوں نہیں مل رہیں۔”
”مجھے وہ دونوں اچھی نہیں لگتیں۔”
”پھر ایک دوسری بلی اور دوسری فرینڈ بنالو۔” علیزہ نے تیکھی نظروں سے اسے دیکھا۔
”جس چیز سے دل بھر جائے اسے Replaceکر دینا چاہئے۔” عمر نے بات جاری رکھی۔
”بالکل ویسے ہی جیسے ذوالقرنین نے مجھے Replaceکردیا؟”
عمر چپ ہو گیا۔ میں ذوالقرنین کی بات نہیں کر رہا۔” کچھ دیر بعد اس نے کہا۔
”آپ اپنی زندگی میں چیزوں کو Replaceکرتے ہیں؟”وہ اسی طرح سر اٹھا کر اس سے پوچھ رہی تھی۔
”نہیں، میں نہیں کر پاتا۔” عمر نے اعتراف کیا۔ ”مگر میں سیکھ جاؤں گا۔ جس پروفیشن میں جا رہا ہوں، وہ پروفیشن مجھے سب کچھ سکھا دے گا۔”
”مگر میں کبھی کسی چیز کو Replaceکرنا نہیں سیکھ سکتی۔”
”پھر زندگی بڑی مشکل ہو جائے گی ۔ تمہارے لئے۔”
”مشکل ہو جائے گی؟ مشکل ہے۔” وہ عجیب سے انداز میں ہنسی۔
”میں چاہتا ہوں علیزہ! تم خود کو اس طرح ضائع مت کرو میں چاہتا ہوں۔ تم بہت اچھی زندگی گزارو۔” اس نے بڑی سنجیدگی سے علیزہ کا ہاتھ پکڑ لیا۔
”آپ ایسا کیوں چاہتے ہیں۔”
”پتہ نہیں، مگر میں تمہاری پروا کرتا ہوں۔ میں تمہیں تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا۔”
”آپ واقعی پروا کرتے ہیں میری ؟” علیزہ نے پوچھا۔
”کیا تمہیں اب بھی مجھ سے یہ پوچھنے کی ضرورت ہے۔ میرا خیال تھا تم یہ جانتی ہو گی۔”
”میں کچھ نہیں جانتی میں نے آپ سے کہا نا میں لوگوں کو نہیں سمجھ سکتی۔” اس نے مایوسی سے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
”مجھے ان لو گوں میں شامل مت کرو تمہیں مجھ پر اعتماد ہونا چاہئے۔ علیزہ سکندر کو عمر جہانگیر کبھی دھوکا نہیں دے سکتا۔”
علیزہ بہت غور سے اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔ وہ اب بھی اسی طرح اس کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لئے ہوئے تھا۔
”کیا آپ مجھ سے شادی کریں گے؟” اس نے سر اٹھا کر عمر سے پوچھا۔

باب: 34

”ہیلو! میں عمر بول رہا ہوں۔”
”ہیلو عمر کہاں تھے تم؟ صبح سے کتنی بار کال کر چکا ہوں… مگر تم نے موبائل آف کیا ہوا تھا۔ ہو کہاں تم؟” ایاز حیدر نے دوسری طرف سے کہا۔
”یہیں ہوں میں ، لاہور میں۔ گرینی نے بتایا کہ آپ مجھ سے بات کرنا چاہ رہے تھے کس سلسلے میں بات کرنا چاہتے ہیں مجھ سے؟”
”تم نے آج کے نیوز پیپرز دیکھے ہیں؟”
”دیکھ چکا ہوں۔” عمر نے اسی بے تاثر انداز میں کہا۔
”اپنے بارے میں خبر دیکھی ہے؟”
”ہاں۔”
”میں اسی سلسلے میں تم سے بات کرنا چاہ رہا تھا۔”
”کیا بات کرنا چاہتے ہیں آپ مجھ سے ، ہمدردی کرنا چاہتے ہیں۔”
”میں تمہیں یہ بتانا چاہ رہا تھا کہ کچھ دنوں تک تمہیں Suspend(معطل) کرکے تمہارے خلاف انکوائری شروع ہونے والی ہے؟” ایاز حیدر نے جیسے انکشاف کیا۔
”تھینک یو اور کچھ؟”
”تم یہاں اسلام آباد آجاؤ۔”
”مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔ مجھے جو کچھ کرنا ہے میں یہیں رہ کر کروں گا۔”
”کیا کرو گے تم؟”
”وہی جو پاپا نے کیا انہوں نے میرے خلاف پریس میں یہ سب کچھ شائع کروایا۔ میں بھی ان کے خلاف پریس کو وہ سارے پیپرز دے دوں گا جو میرے پاس ہیں۔”
”بے وقوفی مت کرو… میں جہانگیر سے بات کر چکا ہوں۔ پریس نے تمہارے اور چند دوسرے آفیسرز کے بارے میں جو کچھ شائع کیا ہے۔ اس میں جہانگیر کا ہاتھ نہیں ہے۔ وہ تو خود نیوز پیپرز دیکھ کر حیران ہوا ہے۔… اس نے مجھے بتایا ہے کہ وہ تمہیں پہلے ہی خبردار کر چکا تھا کہ تم اگر اس پرپوزل کو ریجیکٹ کرو گے تو تمہارے لئے سروس میں رہنا بہت مشکل ہو جائے گا۔”
”میں سب کچھ جانتا ہوں، کون کیا کر رہا ہے اور کیوں کروا رہا ہے۔ آپ صرف پاپا کو یہ اطلاع دے دیں کہ وہ کل کا نیوز پیپرز بھی ضرور پڑھیں۔ انہیں خبروں میں رہنے کی خاصی عادت ہے کل ان کے بارے میں بھی کچھ خبریں لگیں گی ہو سکتا ہے کافی پسند آئیں انہیں۔” عمر کا لہجہ تلخ تھا۔
”عمر تم کچھ نہیں کرو گے۔ یار! کیا ہو گیا ہے تمہیں یہاں آؤ اسلام آباد میں تمہاری اور جہانگیر کی بات کرواتا ہوں۔ کوئی حل سوچتے ہیں۔” ایاز حیدر نے مصالحانہ انداز میں بھتیجے سے کہا۔
”میں اب ان سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتا اب باتوں کا وقت رہا ہی نہیں، وہ میرے لئے ہر راستہ بند کرتے جا رہے ہیں۔”
”اس میں جہانگیر کا کیا قصور ہے۔ تم نے امریکہ میں جو کچھ کیا۔ ایجنسیز کے آدمیوں نے اس کے بارے میں گورنمنٹ کو رپورٹ کر دی۔ اب اگر اس رپورٹ میں سے کچھ Excerptsپریس کے ہاتھ لگ گئے اور پریس نے شائع کر دیئے تو اس میں جہانگیر کی انوالومنٹ کہاں سے ثابت ہوتی ہے۔”
”اور انکوائری کے بارے میں کیا خیال ہے۔ وہ بھی پریس نے شروع کروائی ہے؟”
عمر ! تمہارے خلاف بہت Serious offense ہے Treason Case بنتا ہے۔ اب ظاہر ہے ایسی رپورٹس پر گورنمنٹ انکوائری تو کروائے گی۔”
”میں نے امریکہ میں جو کچھ کیا پاپا کے لئے کیا اور پاپا کے کہنے پر کیا۔Treason Case پاپا کے خلاف بننا چاہئے، یہ انکوائری بھی ان ہی کے خلاف شروع ہونی چاہئے۔ ایجنسیز کے لوگ اتنے ہوشیار ہیں کہ مجھے انہوں نے فوراً ٹریس آؤٹ کر لیا اور پاپا، پاپاکے بارے میں وہ ایک لفظ تک رپورٹ نہیں کر سکے اور اس ملک میں پریس تک سرکاری افسروں کے بارے میں وہی کچھ آتا ہے جو گورنمنٹ پہنچاناچاہتی ہے ورنہ کم از کم ایجنسیز کی رپورٹس اس طرح لیک آؤٹ نہیں ہوتیں۔” عمر کا اشتعال بڑھتا جا رہا تھا۔
”دیکھو عمر! تم۔۔۔” عمر نے ایاز حیدر کی بات کاٹ دی۔
”میں نے اگر ایمبیسی میں فائلز اور رپورٹس کی کاپیز کسی کوپہنچائی ہیں تو پاپا کے کہنے پر کی ہیں۔ آپ کیا کر سکتے ہیں اگر آپ کا باس آپ کے پاس موجود فائلز کسی کو دینے کے لئے کہے اور وہ باس آپ کا باپ بھی ہو جس نے سارے رولز اور ریگولیشنز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے بیٹے کو وہاں پوسٹ ہی اسی لئے کروایا ہو۔۔۔”
”عمر! موبائل پر اس طرح کی باتیں مت کرو… ہو سکتا ہے کہیں یہ سب سنا جا رہا ہو۔” ایاز حیدر نے اسے ٹوکا۔ ”I don’t Care(مجھے پروا نہیں سنا جا رہا ہے تو سنا جائے۔) وہ میرا سروس ریکارڈ خراب کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور میں ان کے بارے میں ایک لفظ بھی نہ کہوں پہلے بھی انہوں نے مجھے استعمال کیا اور اب پھر وہ یہی کرنا چاہ رہے ہیں۔”
”تمہیں خواہ مخواہ غلط فہمی ہو گئی ہے۔ وہ تمہیں کیوں استعمال کرے گا؟”
”وہ مجھے استعمال کر رہے ہیں، کیونکہ اب گورنمنٹ جانے والی ہے اور انہوں نے اس سیاست دان کو میرے بارے میں کچھ بھی شائع کرنے سے نہیں روکا کیونکہ جب چند ماہ بعد گورنمنٹ جائے گی تو وہ عبوری حکومت میں میرے کیس کو استعمال کرکے فائدہ اٹھائیں گے۔ یہ ظاہر کرتے ہوئے کہ وہ اور ان کا بیٹا ان بیوروکریٹس میں سے ہیں جو اس حکومت کے زیر عتاب ہیں بعد میں اگلی گورنمنٹ سے وہ پھر اچھی پوسٹنگ لے جائیں گے مگر میرا سروس ریکارڈ تو خراب ہو جائے گا۔”
”عمر، جہانگیر ایسا کچھ کرنا نہیں چاہتا۔” اس بار ایاز حیدر کا لہجہ پہلے سے محتاط تھا۔
”Oh really(واقعی) تو پھر ان سے کہیں کہ میں اب اس منسٹر کی بیٹی سے شادی پر تیا ر ہوں، وہ جب چاہیں میری شادی کر سکتے ہیں۔”
دوسری طرف سے ایاز حیدر نے ایک گہرا سانس لیا۔
”آپ خاموش کیوں ہو گئے ہیں۔”عمر نے طنزیہ انداز میں کہا۔
”تم احمقانہ بات کر رہے ہو اور احمقانہ باتوں کا کوئی جواب نہیں ہوتا۔”
”انکل! میں کوئی بچہ نہیں ہوں کہ ایسی چالوں کو نہ سمجھوں ، پاپا سے کہیں اب جوڑیں رشتہ داری اس منسٹر سے۔ اب وہ کسی قیمت پر میری شادی اس شخص کی بیٹی سے نہیں ہونے دیں گے، کیونکہ چند ماہ تک گورنمنٹ چلی جائے گی اور اگلی گورنمنٹ پچھلی گورنمنٹ کے تمام رشتہ دار بیوروکریٹس پر انکوائریز لائے گی او ایس ڈی بنا دے گی یا پھر وہ پوسٹنگز دے گی جو بے کار ہیں۔”
”تم امکانات کی بات کر رہے ہو۔” ایاز حیدر کا لہجہ بہت ٹھنڈا تھا۔
”میں حقائق کی بات کر رہا ہوں اگر یہ امکان ہے تو پاپا اسلام آباد میں جم کر کیوں بیٹھے ہوئے ہیں۔ اگلی پوسٹنگ لینے سے کیوں ہچکچا رہے ہیں میڈیکل لیو کو کیوں بڑھایا ہے انہوں نے جبکہ وہ بالکل ٹھیک ہیں اور آپ انگلینڈ سے اسلام آباد کیوں آگئے ہیں۔۔۔”
”عمر میں تمہارے اور جہانگیر کے مسئلے کو حل کروانا چاہتا ہوں، میں واقعی ایسا چاہتا ہوں۔ تم یہاں آؤ آمنے سامنے بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔” ایاز حیدر نے بہت پر سکون انداز میں بات کا موضوع تبدیل کر دیا۔
”نہیں میں نے اب کوئی آمنا سامنا نہیں کرنا اگر وہ سب کچھ پریس میں لے گئے ہیں تو میں بھی سب کچھ پریس میں لے جاؤں گا اور میرے پاس ان کے بارے میں جو کچھ ہے۔ وہ ایک بار پریس میں آگیا تو کوئی گورنمنٹ بھی انہیں سروس میں نہیں رکھ سکے گی۔ وہ اپنی باقی زندگی جیل میں گزاریں گے یا کسی دوسرے ملک میں فرار ہو کر ۔”
”تم جانتے ہو اس سے کیا ہوگا۔ ہماری پوری فیملیSuffer کرے گی۔ ریپوٹیشن خراب ہو جائے گی ہماری، جہانگیر کا کیرئیر ختم ہو گا،تو تمہارا بھی ختم ہو جائے گا۔” ایاز حیدر پہلی بار بلند آواز میں بولے۔
”مجھے کسی چیز کی پروا نہیں ہے نہ فیملی کی نہ اپنے کیریئر کی۔ اگر کچھ ختم ہو رہا ہے تو ختم ہو جائے بلکہ سب کچھ ختم ہو جانے دیں۔”
”عمر! تم جذباتی ہو رہے ہو، ذرا ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچو، اگر پریس میں تمہارے بارے میں کچھ آبھی گیا ہے تو اس کو کور اپ کیا جاسکتا ہے۔ تم اکیلے آفیسر نہیں ہو اور بھی آفیسرز کا نام آیا ہے۔ ان کی فیمیلز بھی ہاتھ پاؤں ماریں گی۔ ہم کسی نہ کسی طرح انکوائری کو Delayکروالیں گے۔ چند ماہ تک ویسے ہی سیاسی سیٹ اپ تبدیل ہونے والا ہے۔ اک بار وہ منسٹر وہاں سے ہٹ گیا تو کون دوبارہ انکوائری شروع کروائے گا پھر اگراس نے جلدی انکوائری کروانا بھی چاہی تو ہم دیکھ لیں گے کہ انکوائری بورڈ میں سے کون سے ممبرز ہیں ان کے ساتھ ڈیل کی جا سکتی ہے۔”
”لیکن میرے سروس ریکارڈ میں یہ سب کچھ آجائے گا۔”
”اس کے بارے میں بھی کچھ نہ کچھ کر لیں گے۔”
”تو پھر ٹھیک ہے جب پاپا کے بارے میں پریس کچھ شائع کرے تو آپ بالکل اسی طریقے سے سارے معاملے کو ہینڈل کریں، جس طرح آپ میرے معاملے کو ہینڈل کرنے کا کہہ رہے ہیں۔” وہ اب بھی اپنی بات پر اڑا ہوا تھا۔
”انہوں نے میرے ساتھ جو کیا ہے میں بھی ان کے ساتھ وہی کروں گا… کم از کم اب وہ مجھے استعمال کرکے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے۔”
”میں نے تمہیں بتایا ہے کہ جہانگیر نے یہ سب نہیں کروایا۔”
”مگر انہوں نے یہ سب ہونے سے روکا بھی نہیں۔ انکل !آپ اپنے بیٹے کے خلاف ایسی کوئی رپورٹ پریس تک آنے دیتے؟ خاص طور پر تب جب وہ آپ کے کہنے پر ہی سب کچھ کرتا رہا ہو۔”
ایاز حیدر اس کے سوال کا کوئی جواب نہیں دے سکے۔
”کوئی اپنے گھر کے کتے کے ساتھ بھی وہ نہیں کرتا جو میرے باپ نے میرے ساتھ کیا ہے۔ مجھے پوری طرح دلدل میں پھنسا دیا ہے۔ میرے بارے میں جو الزامات آئے ہیں۔ ان کے بعد میں تو کسی کو منہ بھی نہیں دکھا سکتا میں صرف اس گندگی کی وجہ سے فارن سروس چھوڑ کر آیا تھا کہ نہ میں وہاں ہوں گا نہ مجھے اس طرح کے کام کرنا پڑیں گے اور پاپا مجھے یہاں بھی رہنے نہیں دے رہے، اگر وہ رپورٹ اس شخص نے پریس تک پہنچائی ہے تب بھی کیوں نہیں انہوں نے روکا اسے؟ مگر جہاں جہانگیر معاذ کی اپنی ذات آجائے وہاں تو انہیں اور کچھ نظر ہی نہیں آتا حتیٰ کہ اپنی اولاد بھی اگر یہ میرے ساتھ یہ سب کچھ کریں گے تو پھر میں بھی ان کا لحاظ نہیں کروں گا۔”
”Enough is enough. Now I’ ll pay him in the same coin.(اب میں انہیں ان ہی کی زبان میں جواب دوں گا)” اس نے فون بند کر دیا۔
ایاز حیدر نے پریشانی کے عالم میں اس کا نمبر دوبارہ ملنا شروع کیا۔ موبائل آف کر دیا گیا تھا۔ ایک گہری سانس لے کر انہوں نے جہانگیر معاذ کا نمبر ملانا شروع کر دیا۔
”پتا نہیں ایاز کو کیا بات کرنی ہے عمر سے، کہہ رہا تھا مجھے فون کرکے بتا دے گا مگر ابھی تک فون بھی تو نہیں کیا اس نے۔”
لنچ کرتے ہوئے نانو مسلسل عمر کے بارے میں پریشان ہو رہی تھیں۔ علیزہ ان کی بڑبڑاہٹ سنتے ہوئے خاموشی سے کھانا کھا رہی تھی۔
”تم ذرا فون کرو عمر کو۔” بالآخر نانو نے اس سے کہا۔
”فون کرنے سے کیا ہو گا؟”
”میں بات تو کروں نا اس سے پتا تو چلے کہ ایاز کو اس سے کیا بات کرنی تھی۔
”نانو! آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے انکل نے کام کے حوالے سے ہی کوئی بات کرنی ہو گی۔ ہمیں بتانے والی بات ہوتی تو انکل آپ کو بتا دیتے یا پھر عمر ہی آپ کو بتا دیتا۔” علیزہ اب بھی مطمئن تھی۔
”نہیں کوئی نہ کوئی بات ضرور ہے۔ مجھے لگتا ہے۔ اس کا پھر جہانگیر کے ساتھ کوئی جھگڑا ہو گیا ہے۔ وہ کچھ کہہ بھی رہا تھا۔”
”تو یہ کون سی نئی بات ہے چند ماہ پہلے بھی تو یہیں جھگڑا ہوا تھا۔ انکل جہانگیر اور اس کے درمیان تو ہمیشہ ہی جھگڑے ہوتے رہتے ہیں۔” علیزہ نے نانو کو مطمئن کرنے کی کوشش کی۔
”پھر بھی کچھ پتا تو چلنا چاہئے، تم عمر کو فون کرو۔” نانو نے اصرار کیا۔
”کھانا تو کھا لینے دیں پھر کر دیتی ہوں۔” علیزہ کو ان کے اصرار سے کچھ الجھن ہوئی۔
کھانا کھانے کے بعد علیزہ نے عمر کے موبائل کا نمبر ڈائل کیا۔
”موبائل آف ہے۔” اس نے نانو کو اطلاع دی۔
”تم ہوٹل میں فون کرو۔” نانو نے ہدایت دی۔
علیزہ نے ہوٹل کا نمبر ڈائل کیا کچھ وقت کے بعد ہوٹل کی ایکسچینج کے تھرو عمر سے اس کا رابطہ ہو گیا۔
”نانو! آپ سے بات کرنا چاہ رہی ہیں۔” اس نے عمر کی آواز سنتے ہی ریسیور نانو کو تھما دیا۔
”ہیلو گرینی! اب کیا مسئلہ ہے؟” وہ اکتایا ہوا لگا۔
”تم نے مجھے دوبارہ فون نہیں کیا۔ ایاز سے بات ہو گئی تمہاری؟”
”ہاں ہو گئی؟”
”کیا کہا اس نے تم سے؟”
”آپ نے آج کا نیوز پیپر دیکھا؟” عمر نے جواباً سوال پوچھا۔
”ہاں دیکھا ہے۔”
”پھر بھی آپ پوچھ رہی ہیں۔”
”کیا مطلب؟”
”فارن سروس کے کچھ آفیسرز کے بارے میں فرنٹ پیج پر ایک ہیڈ لائن ہے، اسے ذرا غور سے پڑھ لیں۔ اس میں میرا نام نہیں دیا گیا مگر میرے عہدے اور پوسٹنگ کے حوالے سے کچھ انفارمیشن دی گئی ہے۔ انکل ایاز اس کے سلسلے میں بات کرنا چاہ رہے تھے۔ میرے خلاف انکوائری ہونے والی ہے چند دنوں تک مجھے Suspend(معطل)کر دیا جائے گا۔”
اس نے ایک گہری سانس لے کر بتایا۔ نانو یک دم پریشان ہو گئیں۔
”پھر کیا ہوگا؟ تم نے آخر ایسا کیا کیا ہے کہ وہ تمہیں Suspend(معطل)کر رہے ہیں۔”
”گرینی! اس وقت مجھ سے کچھ نہ پوچھیں، میں رات کو آپ کی طرف آؤں گا۔ کھانا آپ کے ساتھ کھاؤں گا تب آپ کو سب کچھ بتا دوں گا۔”
”ٹھیک ہے میں رات کو تمہارا انتظار کروں گی۔” عمر نے خدا حافظ کہہ کر فون رکھ دیا۔
”عمر کو معطل کر رہے ہیں؟” علیزہ نے نانو کے فون رکھتے ہی ان سے پوچھا۔
”ہاں تم ذرا آج کا نیوز پیپر لاؤ۔” نانو بے حد فکرمند نظر آنے لگی تھیں۔
علیزہ اخبار لے کر ان کے پاس آگئی۔ وہ بھی یک دم سنجیدہ نظر آنے لگی تھی۔ نانو نے اخبار اپنے سامنے پھیلا لیا۔ علیزہ نے انہیں ڈسٹرب نہیں کیا۔
خاصی دیر بعد انہوں نے سر اٹھایا۔
”نیوز پیپرز میں عمر کے بار ے میں کوئی خبر ہے؟”
”ہاں۔” نانو نے مزید کچھ کہے بغیر وہ صفحہ اس کی طرف بڑھا دیا۔
”عمر نے یہ سب کچھ کیوں کیا؟” وہ جیسے حیرت سے چیخ اٹھی۔ ” مجھے یقین نہیں آرہا کہ عمر بھی یہ سب کر سکتا ہے۔” خبر پڑھ کر اس کے چہرے پر بے یقینی ابھر آئی تھی۔
رات کو عمر کے آنے تک وہ دونوں فکر مندی کے عالم میں وہاں بیٹھی اسی کے بارے میں بات کرتی رہیں۔ مگر جب وہ آیا تو اس کے چہرے کے تاثرات نے ان دونوں کو حیران کیا۔
خلاف توقع وہ بہت پر سکون اور مطمئن نظر آرہا تھا۔ کھانے کی میز پر وہ نانو سے مختلف ڈشز کو ڈسکس کرتا رہا۔ علیزہ اس کے چہرے کو غور سے دیکھتی رہی وہ ہمیشہ کی طرح بڑے اطمینان سے اپنے آپ کو چھپائے ہوئے تھا۔ اس کے چہرے سے یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ وہ کسی قسم کی مشکل یا پریشانی سے دوچار تھا۔
کھانے کے بعد وہ تینوں کافی پینے لاؤنج میں بیٹھ گئے اور تب نانو نے خود بات شروع کی۔
”تم نے یہ سب کچھ کیوں کیا؟”
”آپ کے بیٹے کے لئے کیا” اس نے ایک لمحے کے توقف کے بغیر کہا۔
”تمہیں نہیں کرنا چاہئے تھا۔''
”یہاں اس وقت کافی کے سپ لیتے ہوئے یہ مشورہ دینا بہت آسان ہے گرینی! مگر جب آپ ٹی وی لاؤنج کے بجائے ایمبیسی کے آفس میں بیٹھے ہوں اور آپ کا باس جو آپ کا باپ بھی ہو وہ آپ سے یہ کہے کہ اس فائل کی ایک کاپی کسی ایسے شخص کو دے دو جو سیکیورٹی رسک ہو تو آپ انکار نہیں کر سکتے۔ آپ کس طرح اعتراض کر سکتے ہیں یہ کہیں گے کہ میں نہیں دوں گا یا اپنی حب الوطنی کے بارے میں کوئی تقریر شروع کر دیں گے۔ ایسا کرنے کے بعد آپ اس آفس میں کتنی دیر اور دن بیٹھ سکتے ہیں جہاں کے چپراسی سے لے کر ایمبیسیڈر تک سب ایک جیسے ہوں۔”
”جہانگیر کو ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔” نانو نے افسردگی سے کہا۔
”یہ جملہ آپ نے پچیس سال دیر سے کہا پچیس سال پہلے آپ اپنے بیٹے کو یہ بات کہہ دیتیں تو شاید وہ چند لمحے سوچتا کہ زندگی میں کیا کرنا چاہئے اور کیا نہیں مگر اب پچیس سال بعد اس کے لئے یہ ایک بے معنی جملہ ہے ان فائلز کے بدلے میرے باپ کے پاس اتنے ڈالرز آگئے ہیں کہ ان سے خریدی جانے والی چیزیں کسی بھی رشتے سے زیادہ مہنگی ہوتی ہیں۔”
علیزہ کو اندازہ نہیں ہوا کہ اس کی باتیں زیادہ تلخ تھیں یا وہ کافی جو وہ اپنے اندر انڈیل رہی تھی۔
”اب کیا ہو گا؟” نانو نے اس کی بات کے جواب میں کہا۔
”پتا نہیں۔” عمر نے کندھے اچکائے۔
”بس میرے پاس پاپا کے خلاف جو بھی پیپرز ہیں، میں بھی انہیں پریس کے ذریعے سامنے لا رہا ہوں… پاپا نے مجھے ڈبونے کی کوشش کی ہے۔ میں انہیں ڈبونے کی کوشش کروں گا۔”
اس کے لہجے میں عجیب سرد مہری تھی۔
ٹی وی پر نو بجے کا نیوز بلیٹن شروع ہو چکا تھا۔ وہ اب کافی پینے کے ساتھ خبروں کی طرف متوجہ تھا۔
”اور تمہارا کیا ہو گا؟” نانو اس کے لئے فکر مند تھیں۔
”میرا ؟” وہ ہنسا ”کچھ بھی نہیں چند ہفتے یا مہینے معطل رہوں گا پھر دوبارہ پوسٹنگ مل جائے گی۔ البتہ ریکارڈ خراب ہو جائے گا ہاں مگر پاپا کو خاصے فوائد حاصل ہوں گے۔ ان خبروں اور میری Suspensionسے ۔ وہ واقعی بہت خوش قسمت آدمی ہیں ٹرمپ کارڈ ہمیشہ انہی کے ہاتھ رہتا ہے۔” وہ ٹی وی اسکرین پر نظریں جمائے کہہ رہا تھا۔
”آج کراچی میں کچھ نامعلوم حملہ آوروں نے معروف صحافی شہبازمنیر کو اس وقت گولی مار کرہلاک کردیا جب وہ اپنے آفس میں تھے۔ مقتول ایک صف اول کے انگلش اخبار کے ایڈیٹر تھے حملہ آور جانے سے پہلے ان کے آفس میں موجود تمام دستاویزات کو آگ لگا گئے۔ پولیس نے مقدمہ درج کرکے تفتیش شروع کردی ہے وزیر اعلیٰ اور گورنر نے اس حادثہ پر دلی افسوس۔۔۔”
”ایک تو یہ روز روز کے قتل پتا نہیں حکومت لا اینڈ آرڈر کو ٹھیک کیوں نہیں کر پاتی۔”
نانو کی بڑبڑاہٹ نے علیزہ کی سوچوں کا تسلسل توڑ دیا۔ ٹی وی پر اب نیوز کاسٹر کوئی اور خبر پڑھ رہی تھی۔
”تمہیں کیا ہوا ہے عمر؟” علیزہ نے نانو کی آواز پر چونک کر عمر کو دیکھا۔ وہ ہونٹ بھینچے زرد چہرے کے ساتھ صوفے کی پشت سے ٹیک لگائے ہوئے تھا۔

باب: 35

عمر اس کا چہرہ دیکھنے لگا۔
”آپ کریں گے مجھ سے شادی؟”علیزہ کا انداز اس بار پہلے سے بھی زیادہ اکھڑ تھا۔
عمر یک دم ہنس پڑا۔ ”مذاق کر رہی ہو؟”
”نہیں۔ میں مذاق نہیں کر رہی۔ میں بالکل سنجیدہ ہوں اور آپ نے ایسا سوچا بھی کیوں کہ میں آپ سے اس بارے میں مذاق کروں گی۔”
عمر کی مسکراہٹ غائب ہو گئی۔
”بتائیں۔ آپ کریں گے مجھ سے شادی؟” وہ اسی سنجیدگی کے ساتھ پوچھ رہی تھی۔ ”آپ خاموش کیوں ہیں؟”
”ہر سوال کا جواب ضروری ہوتا ہے کیا؟”
”ہاں ضروری ہوتا ہے، کم از کم اس سوال کا جو میں آپ سے پوچھ رہی ہوں۔”
عمر اس کا چہرہ دیکھتا رہا پھر اس نے مستحکم انداز میں کہا۔”نہیں۔”
علیزہ کی رنگت متغیر ہوئی پھر اس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ ابھری۔ ”میں جانتی تھی، آپ کا جواب یہ ہی ہو گا۔ میں اتنے ہفتوں سے یہی جاننے کی کوشش کر رہی ہوں کہ ذوالقرنین نے آخر مجھ سے شادی سے انکار کیوں کیا۔ کوئی تو ایسی خامی ہو گی۔مجھ میں کہ اس نے مجھے صرف ٹائم پاس سمجھا۔ مجھ سے مستقل تعلق نہیں جوڑا اور میں نے خودکشی سوچے سمجھے بغیر نہیں کرنا چاہی۔ میں نے سب کچھ سوچ کر وہ پلز لی تھیں۔ آپ جب سے یہاں آئے ہیں۔ مجھے یہی بتاتے رہتے تھے کہ میں بالکل نارمل ہوں، مجھ میں کوئی کمی نہیں ہے۔ مجھ میں بہت ساری کوالٹیز ہیں۔ آپ کو پتا ہے آپ میں ذوالقرنین میں زیادہ فرق نہیں ہے، وہ بھی مجھ سے یہی سب کہتا رہتا تھا۔ بس آپ نے اس کی طرح مجھ سے اظہار محبت نہیں کیا۔” اس نے کہا۔
”علیزہ !”عمر نے کچھ کہنے کی کوشش کی۔
”آپ مجھے بات کرنے دیں، روکیں نہیں۔ مجھ میں کوئی ایسی خامی تو ہو گی جس کو کور کرنے کے لئے آپ اور ذوالقرنین میری آنکھوں پر سب اچھا ہے کی پٹی باندھتے رہے۔”
”ایسا نہیں ہے۔” عمر نے مدھم آواز میں کہا۔
”ایسا ہے۔ مجھ میں کچھ تو ابنارمل ہے… کوئی کمی تو ہے۔”
”تم میں ٹین ایج Impulsivenessکے علاوہ اور کوئی خامی نہیں ہے۔” عمر نے جیسے اسے یقین دلانا چاہا۔
”لوگوں کو میرے بارے میں بات کرنے کا بہت شوق ہے۔” وہ عمر کی بات سنے بغیر بولتی گئی۔ ”چاہے وہ آپ ہوں یا پھر نانو، نانا… ہر ایک نے زندگی کا مقصد علیزہ پر تبصرہ کرنا بنا لیا ہے۔”
عمر کچھ کہتے کہتے رک گیا۔” میں تنگ آگئی ہوں اس سب سے… ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے۔”
”تمہیں ہم لوگوں سے شکایتیں ہیں؟” عمر نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
”پتہ نہیں۔۔۔” وہ حد درجہ بیزار نظر آئی۔
”تم کچھ عرصہ کے لئے اپنے پیرنٹس میں سے کسی کے پاس چلی جاؤ۔”
”کیوں جاؤں؟” وہ یک دم ہتھے سے اکھڑ گئی۔
”تمہارا ڈپریشن دور ہو جائے گا… خود کو بہتر محسوس کروں گی تم۔”
”پیرنٹس کے پاس جا کر خود کو بہتر محسوس کروں گی، میں؟… مجھے ان کی ضرورت نہیں ہے… وہ اگر مجھے اپنی زندگی سے نکال چکے ہیں تو میں نے بھی انہیں اپنی زندگی سے نکال دیا ہے… میں دوبارہ کبھی ان دونوں سے ملنا نہیں چاہتی۔”
”ٹھیک ہے ان کے پاس مت جاؤ… کہیں اور چلی جاؤ گرینی کے ساتھ۔”
”مجھے نانو کے ساتھ بھی کہیں نہیں جانا۔””گرینڈ پا کے ساتھ چلی جاؤ۔”
”ان کے ساتھ بھی نہیں جانا۔”” اکیلے جانا چاہتی ہو؟”
”مجھے نہیں پتا…بار بار ایسے نہ کہیں۔” وہ اب اس سے الجھ رہی تھی۔
”کیا پرابلم ہے علیزہ؟ کیوں اس طرح کر رہی ہو؟”
”آپ میں سے کوئی بھی میرے پرابلمز کا اندازہ نہیں کر سکتا کیونکہ آپ میں سے کوئی علیزہ سکندر نہیں ہے۔”
”ٹھیک ہے ہم میں سے کوئی بھی تمہارے پرابلمز کو نہیں سمجھ سکتا کیونکہ ہم علیزہ سکندر نہیں ہیں مگر تم خود اپنے ساتھ کیا کر رہی ہو؟ تم نے یہ سوچا ہے؟”
”میں جو بھی کر رہی ہوں ٹھیک کر رہی ہوں۔”
”تم ٹھیک نہیں کر رہیں… تم اپنی زندگی اور خود کو ضائع کر رہی ہو۔”
”اگر میں ایسا کر رہی ہوں تو مجھے کرنے دیں۔”
”چار پانچ سال بعد تم کہاں کھڑی ہو گی۔کیا تم نے کبھی یہ سوچا ہے؟” عمر کا لہجہ یک دم نرم ہو گیا۔



کیا ضروری ہے کہ میں چار پانچ سال کے بعد بھی زندہ ہوں۔ اتنی زیادہ زندگی مجھے کیا کرنی ہے؟” عمر چند لمحے کچھ بول نہیں سکا۔
”یہ زیادہ زندگی ہے؟”
”زیادہ؟… بہت زیادہ… پچھلے اٹھارہ سال سے میں بالکل اکیلی ہوں کیا میری کسی کو ضرورت ہے… میرے پیرنٹس کو، نہیں۔ وہ اپنی زندگی جی رہے ہیں۔… نانو اور نانا کو، نہیں ان کے لئے اور بہت سے لوگ ہیں… شہلا کے پاس بھی اور بہت سے فرینڈز ہیں… ہر شخص کے پاس میرا نعم البدل ہے… پھر میری کیا ضرورت ہے۔” وہ پھر اسی ذہنی انتشار کا شکار نظر آئی۔
”تمہاری زندگی میں یہ Meaninglessnessاس لئے ہے کیونکہ تم اپنی زندگی کو سوچے سمجھے بغیر گزارنے کی کوشش کر رہی ہو… زندگی کو پازیٹو طریقے سے دیکھو گی تو دنیا کے اسٹیج پر تمہیں اپنی جگہ نظر آجائے گی۔ مگر نیگیٹو طریقے سے دیکھو گی تو تم خود کو کہیں بھی دیکھ نہیں سکو گی۔” عمر نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
علیزہ پلکیں جھپکے بغیر بے تاثر چہرے کے ساتھ اسے دیکھتی رہی۔
”تمہیں ایک بہت لمبی اور اچھی زندگی گزارنی ہے… پر سکون اور با مقصد زندگی۔” عمر بولتا رہا۔ ”کس کس کے لئے روتی رہو گی… اور کب تک… پھر ایک دن تو تمہیں چپ ہونا ہی ہے… مگر تب تم اتنا وقت ضائع کر چکی ہو گی کہ تم کہیں بھی کھڑی نہیں ہو پاؤ گی۔ ذہنی طور پر تم ایک اندھی گلی کے آخری سرے پر ہو گی۔ تب واپسی کا راستہ تم بھول چکی ہو گی، اور تمہارے آگے کوئی رستہ نہیں ہو گا۔ پھر تم کیا کرو گی…؟”
علیزہ اب بھی بے تاثر چہرے کے ساتھ اسے دیکھ رہی تھی۔ عمر اس کے جواب کا انتظار کر رہا تھا۔
”آپ ایک انتہائی عجیب انسان ہیں۔” وہ علیزہ سے اس جواب کی توقع نہیں کر رہا تھا۔ ” آپ مجھے وہ چیزیں سکھانا چاہتے ہیں جو خود آپ کو نہیں آتیں۔” عمر ساکت رہا۔ ”زندگی کے اسٹیج پر آپ کی جگہ کہاں ہے؟ کیا آپ خود یہ جانتے ہیں؟” عمر کچھ بول نہیں سکا۔
”علیزہ اب جیسے اسے کھوجنے کی کوشش کر رہی تھی۔” آپ کو پتا ہے بعض دفعہ مجھے آپ پر کتنا ترس آتا ہے؟”
عمر کا چہرہ سرخ ہوا۔” کتنی ہمدری محسوس ہوتی ہے آپ کے لئے۔” وہ انتہائی بے رحمی سے اس کی شخصیت کی پرتیں اتار رہی تھی۔ ”آپ اور میں دونوں زندگی میں ایک ہی جگہ کھڑے ہیں۔ بس فرق یہ ہے کہ آپ کو خود کو چھپانا آتا ہے… مجھے نہیں آتا۔” عمر کو وہ یک دم بہت میچیور لگی۔ وہ اس کی بات میں مداخلت کئے بغیر اسے دیکھتا رہا۔
”کیا آپ نے خود ہر چیز کے ساتھ کمپرومائز کر لیا ہے؟” وہ اب اس سے پوچھ رہی تھی۔
”کس چیز کے ساتھ؟”
”اپنے پیرنٹس کی علیحدگی کے ساتھ؟” وہ کچھ نہیں بولا۔ علیزہ کے ہونٹوں پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ ابھری۔
”اور آپ چاہتے ہیں میں یہ بھول جاؤں کہ میرے پیرنٹس اپنی الگ دنیا بسا چکے ہیں۔” وہ اب اسے تکلیف پہنچانا چاہتی تھی۔ ”آپ دس سال کے تھے جب آپ کے پیرنٹس میں طلاق ہوئی۔ کیا آپ نے کچھ بھی محسوس نہیں کیا؟ کیا آپ کو کوئی ڈپریشن نہیں ہوا۔” وہ اب اس کو چیلنج کر رہی تھی۔ ”پھر جہانگیر انکل کو ناپسند کیوں کرتے ہیں آپ؟… اپنی ممی کی شکل دیکھنے پر تیار کیوں نہیں؟… اپنے سوتیلے بہن بھائیوں کا کبھی نام تک نہیں لیاآپ نے۔۔۔”
”تم مجھ سے کیا جاننا چاہتی ہوں علیزہ؟” عمر کا لہجہ پر سکون تھا۔ علیزہ چڑ گئی۔
”سچ… صرف سچ… وہ سچ جو آج تک آپ نے مجھے نہیں بتایا۔”
”سچ یہ ہے کہ مجھے اپنے ماں باپ سے نفرت ہے۔ … سچ یہ ہے کہ میں آج تک ان دونوں کو معاف نہیں کر سکا۔ سچ یہ ہے کہ میں ان دونوں میں سے کسی کی بھی عزت نہیں کرتا… سچ یہ ہے کہ میرے سوتیلے بہن بھائی میرے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتے… سچ یہ ہے کہ مجھے ان لوگوں کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا… سچ یہ ہے کہ سولہ سال پہلے ان دونوں کے درمیان ہونے والی علیحدگی کی یاد ابھی بھی ایک گرم سلاخ کی طرح میرے وجود میں اتر جاتی ہے۔” وہ اب بولتا جا رہا تھا۔
”سچ یہ ہے کہ تمہاری طرح مجھے بھی دنیا میں اپنے ماں باپ سے زیادہ خودغرض کوئی نہیں لگتا۔ سچ یہ ہے کہ تمہاری طرح میں بھی بہت عرصہ یہ سب کچھ بھلانے کے لئے ایک سائیکالوجسٹ کے زیر علاج رہا… سچ یہ ہے کہ تمہاری طرح میں نے ایک بار سلیپنگ پلز کھا کر خودکشی کی کوشش کی۔ سچ یہ ہے کہ اب بھی تمہاری طرح مجھے بھی اپنی زندگی کا کوئی مقصد نظر نہیں آتا… اور سچ یہ بھی ہے کہ اس سب کے باوجود اب میں زندہ رہنا چاہتا ہوں… کیا اتنا سچ کافی ہے یا تم کچھ اور سچ بھی سننا چاہتی ہو؟” اس کا چہرہ یہ سب بتاتے ہوئے اتنا بے تاثر اور لہجہ اتنا مطمئن تھا کہ علیزہ کو یوں لگا جیسے وہ اپنے بارے میں بات کرنے کے بجائے کسی دوسرے کی بات کر رہا ہو… یا پھر کسی ایکٹ کے ڈائیلاگ اسکرپٹ…… دیکھ کر پڑھنے کی کوشش کر رہا ہو۔
”میں تمہیں صرف تکلیف سے بچانا چاہتا ہوں۔” عمر نے سنجیدگی سے کہا۔ ”میں اس رستے سے پہلے گزر چکا ہوں، جانتا ہوں کہاں گڑھا ہے۔ کہاں پتھر… کہاں پیر زخمی ہوسکتے ہیں ۔ کہاں گھٹنوں کے بل گرنے کا خدشہ ہے اور میں چاہتا ہوں تم اس رستہ سے گزرتے ہوئے وہاں ٹھوکر نہ کھاؤ… جہاں میں کھا چکا ہوں۔” وہ چپ چاپ اسے دیکھتی رہی۔
”ہم Lost generationہیں علیزہ… ہمارے پیچھے کیا تھا ہم بھلانا چاہتے ہیں ہمارے آگے کیا ہے ہمارے لئے ڈھونڈنا مشکل ہے۔ مگر کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ تو ہمارے لئے ہے۔”
اسے عمر کی آواز میں افسردگی محسوس ہوئی۔
”ہم بڑے گھروں میں رہتے ہیں۔ زندگی میں ان آسائشات سے محظوظ ہوتے ہیں جو اس ملک کی ٩٨ فیصد آبادی کے پاس نہیں ہے… شاندار لباس سے لے کر بہترین اداروں میں ملنے والی تعلیم تک… کوئی بھی چیز ہماری رسائی سے باہر نہیں ہوئی، لیکن جب سوال رشتوں کا آتا ہے تو ہمارے چاروں طرف ایسی تاریکی چھا جاتی ہے جس میں کچھ بھی ڈھونڈنا مشکل ہوتا ہے… لیکن ہمارے لئے اس زندگی سے باہر بھی کچھ نہیں ہے۔ ہمارا مقدر یہی ہے کہ ہم ان ہی رشتوں کے ساتھ رہیں۔ جو ہمیں مصنوعی لگتے ہیں۔” وہ بول رہا تھا۔
”دنیا کا کوئی دروازہ نہیں ہوتا جسے کھول کر ہم اس سے باہر نکل جائیں۔” اس نے علیزہ کا جملہ دہرایا علیزہ نے سر جھکا لیا۔ ”دنیا کی صرف کھڑکیاں ہوتی ہیں جن سے ہم باہر جھانک سکتے ہیں۔ بعض دفعہ یہ کھڑکیاں دنیا سے باہر کے منظر دکھاتی ہیں۔ بعض دفعہ یہ اپنے اندر کے منظر دکھانے لگتی ہیں۔ مگر رہائی اور فرار میں کبھی مدد نہیں دیتیں۔”
وہ جیسے فلسفہ بول رہا تھا۔ علیزہ کو حیرت ہوئی اس نے عمر کو اس طرح کی باتیں پہلے کبھی کرتے نہیں سنا تھا۔
”زندگی ذوالقرنین سے شروع ہوتی ہے نہ اس پر ختم ہوتی ہے… ذوالقرنین تمہارے لئے وہ تجربہ ہے جس پر کبھی تم بہت ہنسو گی… یہ سوچ کر کہ کیا تم اس شخص کے لئے خودکشی کر رہی تھیں۔”
”زندگی میں انسان کو ایک عادت ضرور سیکھ لینی چاہئے جو چیز ہاتھ سے نکل جائے اسے بھول جانے کی عادت۔ یہ عادت بہت سی تکلیفوں سے بچا دیتی ہے۔” وہ اب لا پروائی سے کہہ رہا تھا۔
”انسان چیزیں نہیں ہوتے آپ نے کسی سے محبت کی ہے یا نہیں… لیکن میں یہ ضرور جانتی ہوں کہ آپ کو کسی نے میری طرح ریجیکٹ نہیں کیا ہو گا… اس طرح کسی نے آپ کے احساسات کا مذاق نہیں اڑایا ہو گا۔ جیسا ذوالقرنین نے میرے ساتھ کیا۔”
عمر اس کی بات پر بے اختیار ہنسا۔ ”یہ غلط فہمی دور کر لو علیزہ… مجھے کس کس طرح اور کتنی دفعہ ریجیکٹ کیا گیا ہے۔ اس کا اندازہ تم نہیں لگا سکتی کیونکہ اس کا اندازہ خود مجھے بھی نہیں ہے۔ ریجیکشن انسان کی زندگی کا ایک اہم حصہ ہوتا ہے۔ کبھی ہم کسی کو ریجیکٹ کرتے ہیں پھر کوئی ہمیں ریجیکیٹ کر دیتا ہے۔ اس چیز کے بارے میں اتنا پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے اسے تو بہت نارمل لینا چاہئے۔ تمہیں کسی دن بتاؤں گا کہ مجھے کتنی دفعہ ریجیکٹ کیا گیا۔” وہ اب بالکل نان سیریس نظر آرہا تھا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے اب وہ علیزہ کے ساتھ ہونے والی گفتگو سے محظوظ ہو رہا ہو۔
”تم اتنی خوبصورت ہو کہ آج سے پانچ سال بعد ذوالقرنین اور میرے جیسے بہت سے تمہارے لئے لائن میں لگے ہوں گے، اور تب تم کہو گی، نہیں اس قسم کے لوگ نہیں چاہئیں مجھے۔ ان سے بہتر چیز ہونی چاہئے۔ جیسے دکان پر جوتا پسند کرتے ہیں نابالکل ویسے۔” وہ کس کا مذاق اڑا رہا تھا،علیزہ اندازہ نہیں کر سکی۔
”اور علیزہ سکندر کا شوہر ایک بڑا خوش قسمت شخص ہو گا۔”
اس نے بچوں کی طرح سر اٹھا کر دیکھا۔ عمر کے چہرے پر عجیب سی مسکراہٹ تھی۔
”عمر جہانگیرکی بیوی بھی ایک بہت خوش قسمت لڑکی ہو گی۔” اس نے کچھ جھجکتے ہوئے کہا۔
”نہیں عمر جہانگیر کی کوئی بیوی کبھی بھی نہیں ہوگی کیونکہ مجھے شادی میں سرے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔” عمر نے لاپروائی سے کہا۔
”کیوں؟”
”بس ویسے ہی… مجھے یہ آزادی اچھی لگتی ہے۔ بیوی سے خاصے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں اور میرے پاس مسائل کی پہلے بھی کمی نہیں ہے۔”
”یہ تو بڑی فضول بات ہے۔” علیزہ کو اس کی رائے پر اعتراض ہوا۔
”نہیں فضول بات نہیں ہے، حقیقت ہے… میں کسی کی بھی ذمہ داری اپنے سر نہیں لے سکتا اور بیوی ایک بڑی ذمہ داری ہے… بہرحال اس موضوع پر دوبارہ کبھی بات کریں گے… فی الحال تو میں
تمہیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں واپس امریکہ جا رہا ہوں۔”
اس نے بات کا موضوع بدل دیا۔ علیزہ کو ایک دھچکا لگا۔
”کیوں؟”
”انٹرویو دے چکا ہوں میں اب رزلٹ کا انتظار کرنے کے علاوہ کوئی اور کام نہیں ہے مجھے، اور رزلٹ میں چند ماہ لگ جائیں گے۔ پھر ٹریننگ شروع ہوتے ہوتے سات آٹھ ماہ تو لگ ہی جائیں گے اور اتنا لمبا عرصہ میں یہاں تو نہیں رہ سکتا۔ واپس جا کر سکون سے کچھ وقت گزاروں گا۔ وہاں میرے فرینڈز ہیں۔ ہو سکتا ہے چند ماہ کے لئے اسپین چلا جاؤں یا پھر انگلینڈ لیکن کچھ چینج چاہتا ہوں۔ پاکستان میں اتنے ماہ ایک ہی طرح کی روٹین سے تنگ آگیا ہوں۔” اس نے تفصیل سے اپنا پروگرام بتاتے ہوئے کہا۔
”آپ مت جائیں۔”
”کیوں بھئی، کیوں نہ جاؤں۔ تمہیں یاد ہے جب میں یہاں آتا تھا، تو شروع میں تم مجھے رکھنا نہیں چاہتی تھیں۔”
عمر نے اسے یاد دلایا۔ وہ کچھ خجل سی ہو گئی۔
”تب اور بات تھی۔”
”اب کیا ہے۔”
”اب مجھے آپ کے یہاں رہنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے، بلکہ مجھے اچھا لگے گا آپ کا یہاں رہنا۔”
”مجھے واپس آنا ہی ہے بس کچھ ماہ کی بات ہے پھر یہیں لاہور میں ٹریننگ ہو گی اور میں لاہور میں ہی ہوں گا۔” عمر نے اسے تسلی دی۔
”میں آپ کو بہت مس کروں گی۔”
”میرے لئے بڑے اعزاز کی بات ہے یہ کہ علیزہ سکندر مجھے مس کرے گی۔”
”میں سیریس ہوں۔”
”اگر تم سائیکالوجسٹ سے دوبارہ اپنا علاج شروع کرواؤ تو میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں جلدی واپس آجاؤں گا۔”
”میں علاج کرواؤں گی۔”علیزہ نے بلا توقف کہا۔
”ٹھیک ہے پھر میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں بہت جلد یہاں واپس آجاؤں گا۔” عمر نے اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ علیزہ نے کچھ بے جان انداز میں اس سے ہاتھ ملا یا۔
”تو کل ہم دوبارہ پہلے والی علیزہ سے ملیں گے۔ ٹھیک ہے نا؟” عمر نے اٹھتے ہوئے کہا۔ وہ مسکرا دی۔ ”کرسٹی کو تمہارے کمرے میں چھوڑ دوں؟” عمر نے جاتے جاتے پوچھا۔
”نہیں، میں خود اسے لے آتی ہوں۔” علیزہ اپنی کرسی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔

باب: 36

نانو کی بات کا جواب دینے کی بجائے عمر نے اپنے سامنے سینٹر ٹیبل پر پڑا ہوا موبائل اٹھا لیا… وہ اب کوئی نمبر ملا رہا تھا۔
علیزہ نے نانو کو دیکھا، وہ کچھ نہ سمجھنے والے انداز میں عمر کو دیکھ رہی تھیں۔ اس خبر پر عمر کا ردعمل ان کے لئے غیر معمولی اور حیران کن تھا۔ وہ بار بار موبائل پر کچھ نمبر ڈائل کر رہا تھا۔ مگر شاید رابطہ قائم نہیں ہو پا رہا تھا۔ اب اس کے چہرے پر جھنجھلاہٹ نظر آنے لگی۔ موبائل بند کرکے اس نے تقریباً اسے سینٹر ٹیبل پر پھینک دیا۔ جو وہاں سے پھسلتا ہوا نیچے کارپٹ پر گر پڑا اب وہ لاؤنج میں موجود ٹیلی فون کی طرف بڑھ گیا۔ علیزہ اور نانو خاموشی سے اس کی سرگرمیاں دیکھتی رہیں۔
”انکل ایاز سے بات کرواؤ۔” وہ اب فون پر بڑی درشتی کے ساتھ کسی سے کہہ رہا تھا۔
”آپ کون ہیں؟” دوسری طرف سے اس سے یقیناً یہی پوچھا گیا تھا جس کے جواب میں اس نے کہا۔
”میں عمرجہانگیر ہوں۔ ان کا بھتیجا۔”
علیزہ نے یک دم اس کے چہرے کو سرخ ہوتے دیکھا۔
”بات نہیں کرنا چاہتے وہ مجھ سے؟… فون دو تم انہیں۔” وہ اب بلند آواز سے کسی سے کہہ رہا تھا۔
”میں انہیں فون نہیں دے سکتا۔ وہ آپ سے بات کرنا نہیں چاہتے۔ البتہ آپ کے لئے ان کا ایک پیغام ہے۔”
دوسری طرف سے اسے اطلاع دی گئی۔
”کیا پیغام ہے؟” اس کے ماتھے پر بل آگئے۔
”وہ کل لاہور آرہے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ آپ کل لاہور میں ہی رہیں۔ واپس نہ جائیں۔ وہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔”
”لیکن میں ان سے ابھی اور اسی وقت بات کرنا چاہتا ہوں۔” عمر نے پیغام سننے کے بعد کہا۔
”یہ ممکن نہیں ہے۔”
”کیوں ممکن نہیں ہے؟”
”وہ اس وقت مصروف ہیں۔”
”میں تھوڑی دیر بعد کال کر لوں گا۔”
”وہ تب بھی مصروف ہوں گے۔”
”کیا وہ ساری رات ہی مصروف رہیں گے؟” عمر کا غصہ بڑھتا جا رہا تھا۔
”ہو سکتا ہے۔” عمر نے فون پٹخ دیا۔
اس کے فون رکھتے ہی نانو نے اسے مخاطلب کیا۔
”کیا پریشانی ہے عمر تمہیں؟”
”کوئی پریشانی نہیں ہے۔” اس نے اسی طرح جھنجھلائے ہوئے انداز میں کہا۔
”ایاز کو کیوں بار بار فون کر رہے ہوں؟”
عمر نے ان کے سوال کے جواب میں کچھ نہیں کہا۔ علیزہ نے عمر کے چہرے پر پہلی بار تھکن دیکھی۔
”انکل ایاز نے شہباز کا قتل کروایا ہے۔” علیزہ نے کچھ دیر بعد اسے کہتے سنا۔
”کیا کہہ رہے ہو تم؟ کون شہباز؟” نانو کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔
”آپ نے ابھی ٹی وی پر جس جرنلسٹ کے قتل کی خبر سنی ہے میں اسی کی بات کر رہا ہوں۔”
”مگر… مگر ایاز کیوں کسی کو قتل کروائے گا؟”
”شہباز دوست تھا میرا…میں نے پاپا کے خلاف سارے ڈاکومنٹس اس کو آج ہی فیکس کئے تھے۔ مجھے اندازہ نہیں تھا۔ انکل ایاز اتنی آسانی سے اور اتنی جلدی اس تک پہنچ جائیں گے۔”
”نہیں ایاز اتنی سی بات پر کسی کو قتل نہیں کروا سکتا۔ وہ تو قتل کروا ہی نہیں سکتا۔”
نانو کو عمر کی بات پر یقین نہیں آیا۔
”آپ کے بیٹے بیورو کریسی میں ایسے گینگ لیڈر ہیں جو خود کو بچانے کے لئے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔” عمر کے لہجے میں تلخی تھی۔
”کراچی کے حالات ویسے ہی خراب ہیں، وہاں اخبارات کے دفاتر پر حملے روز کا معمول ہیں۔ یہ بھی ایسا ہی کوئی حملہ ہو گا۔” نانو نے عمر کی بدگمانی دور کرنے کی کوشش کی۔
”اخبارات کے دفاتر لاہورمیں بھی ہوں اور وہ سچ چھاپنے کی کوشش کریں گے تو ان پر اسی طرح حملے ہوں گے۔ ان کے ایڈیٹرز کو اسی طرح قتل کیا جاتا رہے گا۔ یہاں بات کراچی اور لاہور کی نہیں ہے صرف اپنے چہرے پر چڑھے ہوئے ماسک کو اترنے سے بچانے کی ہے۔”
”پھر بھی ایاز ایسا نہیں کر سکتا۔ اسے کیا ضرورت ہے خوامخواہ کسی کو قتل کروانے کی۔ سارا جھگڑا تو تمہارا اور جہانگیر کا ہے، وہ خود کو تم دونوں کے جھگڑے میں کیوں انوالو کرتا۔”
”یہ کام کسی ایجنسی کے آدمیوں کا ہے اتنی دیدہ دلیری سے صرف وہی شہباز کے دفتر کو آگ لگا سکتے ہیں اور انکل ایاز اس وقت انٹیرئر منسٹری میں ہیں۔ ایسی غنڈہ گردی وہی کروا سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے انہوں نے پاپا کے کہنے پر ہی شہباز کو قتل کروایا ہو مگر شہباز کو ٹریس آؤٹ صرف انکل ایاز ہی کروا سکتے ہیں اور شاید وہ اس وقت یہ کام کروا چکے تھے جب انہوں نے فون پر مجھ سے بات کی تھی۔ پاپا کو اندازہ ہو گا کہ اخبار میں میرے بارے میں یہ سب کچھ آنے پر میرا فوری ردعمل کیا ہوگا… اس لئے وہ پہلے ہی شہباز منیر کو ٹریس آؤٹ کئے بیٹھے تھے، جب انہیں یقین ہو گیا کہ میں ان کے سمجھانے پر باز نہیں آؤں گا اور جب وہ یہ بھی جان گئے کہ ڈاکو منٹس شہباز تک پہنچ چکے ہیں تو انہوں نے وقت ضائع کئے بغیر اسے مار دیا… مجھے اگر انکل سے بات کرتے ہوئے ذرہ برابر بھی شک ہو جاتا کہ وہ شہباز کے بارے میں جانتے ہیں تو میں کبھی شہباز کو وہ ڈاکو منٹس نہ دیتا یا کچھ دن انتظار کر لیتا ۔ ” اس کی آواز میں پچھتاوا تھا۔
”تم وقت سے پہلے نتائج اخذ کر لیتے ہو۔ اتنی بدگمانی ٹھیک نہیں ہوتی اور وہ بھی اپنے باپ اور انکل کے بارے میں ۔”
نانو کو اس کی بات پر اب بھی یقین نہیں تھا۔ ان کا خیال تھا، عمر جذباتی ہو کر سوچ رہا ہے، اس لئے اس طرح کی باتیں کر رہا ہے۔
”گرینی ! میں اپنے خاندان کو آپ سے بہتر جانتا ہوں۔ آپ صرف ماں بن کر سوچتی ہیں، آپ کو پاپا اور انکل ایاز یا کسی بھی دوسرے انکل کی کوئی خامی نظر نہیں آسکتی۔ نہ آج… نہ ہی آئندہ کبھی۔”
”مگر عمر۔۔۔” نانو نے کچھ کہنے کی کوشش کی مگر عمر نے ان کی بات کاٹ دی۔
”انکل کل لاہور آرہے ہیں… یہیں آپ کے سامنے میری ان کے ساتھ ملاقات ہو گی۔ آپ دیکھ لیجئے گا… آپ کا بیٹا کتنا معصوم ہے۔” عمر نے جیسے بات ختم کر دی۔
لاؤنج میں اب مکمل خاموشی تھی۔ وہاں بیٹھے ہوئے تینوں کردار جیسے اپنی اپنی سوچ میں گم تھے۔
”تم آج رات یہیں رکو گے؟” نانو نے ایک لمبے وقفے کے بعد اس خاموشی کو توڑا۔
”ہاں !” عمر نے مختصر جواب دیا۔
”علیزہ! عمر کا کمرہ کھلوا دو۔۔۔” ایک بار خود بھی دیکھ لو، کسی چیز کی ضرورت نہ ہو۔ ” نانو نے اس بارعلیزہ کو مخاطب کیا۔ وہ کچھ کہے بغیر کافی کے مگ سمیت وہاں سے اٹھ گئی۔
عمر کا کمرہ کھلواتے اور بیڈ شیٹ چینج کرواتے ہوئے وہ خود بھی بری طرح الجھی ہوئی تھی۔ اس کا ذہن یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ انکل ایاز اس طرح کسی کا قتل کیسے کروا سکتے ہیں، اور وہ بھی اتنی معمولی سی بات پر… کیا چند خبروں کو شائع ہونے سے روکنا ان کے لئے اتنا اہم ہو گیا تھا کہ انہوں نے ایک انسانی زندگی کو ختم کرنا ضروری سمجھا۔ یا پھر یہ سب عمر کی بدگمانی اور غلط فہمی ہے…
”ہو سکتا ہے یہ سب واقعی کسی غلط فہمی کا نتیجہ ہو۔”
اس نے جیسے سوچتے سوچتے خود کو تسلی دینے کی کوشش کی۔
”ہو سکتا ہے نانو ٹھیک ہی کہہ رہی ہوں کہ عمر وقت سے پہلے نتائج اخذ کرنے کی کوشش کرتا ہے… اس کے تو ہر ایک کے ساتھ اختلاف ہوتے رہتے ہیں۔ کسی بارے میں بھی اس کی رائے ٹھیک نہیں ہے… جو شخص ہر ایک کے بارے میں خراب رائے رکھتا ہو اس کی رائے کو آخر کتنی اہمیت دی جا سکتی ہے… اور دینی بھی نہیں چاہئے۔”
وہ اس کے کمرے سے نکلنے والی تھی جب عمر وہاں آگیا۔
”کیا ریفریجریٹر میں پانی کی بوتل ہے؟”اس نے اندر آتے ہی پوچھا۔
”نہیں، میں لا دیتی ہوں۔” وہ کمرے سے نکل گئی۔
کچن میں موجود فریج سے پانی کی بوتل نکال کر وہ جب واپس کمرے میں آئی تو وہ بیڈ پر بیٹھا ایک سگریٹ سلگا رہا تھا۔ اس نے پہلی بار عمر کو سگریٹ نوشی کرتے دیکھا تھا۔ مگر اسے حیرانی نہیں ہوئی۔ جو ڈرنک کر سکتا ہے وہ اسموکننگ تو یقیناً کرتا ہوگا۔ اس پر ایک سرسری نظر ڈالتے ہوئے اس نے سوچا اور روم ریفریجریٹر کی طرف بڑھ گئی۔ ریفریجریٹر کو آن کرنے کے بعد اس نے پانی کی بوتل اندر رکھی اور کچھ کہے بغیر دروازے کی طرف بڑ گئی۔
”علیزہ!” عمر نے اس کو آواز دی تھی۔ اس نے پلٹ کر اسے دیکھا۔ ”کچھ دیر میرے پاس بیٹھ سکتی ہو۔” اسے تھپڑ مارے جانے والے واقعہ کے بعدآج پہلی بار وہ اسے مخاطب کر رہا تھا۔
”علیزہ کا دل چاہا وہ کہے ۔ ”نہیں” مگر وہ کچھ بھی کہے بغیر اس کی طرف آگئی۔ اس سے کچھ فاصلے پر وہ بیٹھ گئی۔
”میں تم سے کچھ کہنا چاہتا تھا۔” عمر نے بلا توقف کہا۔ وہ اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔ عمر اب جیسے کچھ لفظ تلاش کر رہا تھا۔
”میں تم سے معذرت کرنا چاہتا تھا۔” اس نے کہا۔ علیزہ کو اس جملے کی توقع نہیں تھی۔ اس نے عمر کے چہرے سے نظریں ہٹا لیں۔
”مجھے ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔” وہ اس وقت سے یہ سب کہہ رہا تھا جب وہ اس معذرت کی توقع کرنا بھی چھوڑ چکی تھی۔
”کیا نہیں کرنا چاہئے تھا؟” مدھم آواز میں کہتے ہوئے اس نے عمر کے چہرے کو ایک بار پھر دیکھنے کی کوشش کی۔
”تم پر ہاتھ نہیں اٹھانا چاہئے تھا۔”
”آپ کو ہاتھ اٹھانے پر افسوس ہے؟”
”نہیں… صرف ”تم” پر ہاتھ اٹھانے پر افسوس ہے۔”
وہ جان نہیں پائی، اس کی آنکھوں میں آنسو کیوں آئے تھے۔ کیا اسے خوشی ہوئی تھی کہ وہ اس سے معذرت کر رہاتھا یا پھر اسے یہ ملال ہوا تھا کہ وہ اتنے لمبے عرصے کے بعد اس سے معذرت کر رہا تھا۔ اس نے عمر کے چہرے سے نظریں ہٹا لیں کم از کم وہ اب اس کے سامنے بچوں کی طرح رونا نہیں چاہتی تھی۔
”میں تم سے بہت پہلے معذرت کرنا چاہتا تھا مگر مجھے تم سے اتنی شرمندگی محسوس ہو رہی تھی کہ… وہ کہتے کہتے رک گیا۔
”شرمندگی؟” علیزہ نے سوچا۔
”کم از کم تم وہ واحد ہستی ہو جسے میں کبھی کوئی تکلیف نہیں پہنچا سکتا۔”
علیزہ نے یاد کرنے کی کوشش کی کہ عمرنے یہ جملہ اس سے کتنی بار کہا تھا۔ ”واحد ہستی؟” وہ اس بار کسی الیوژن کا شکار نہیں ہوئی۔ وہ اب خاموش تھا شایداس سے کچھ سننا چاہتا تھا۔
”مجھے تھپڑ مارنا پسند کرو گی؟” علیزہ نے بے اختیار اسے دیکھا، اس کے چہرے پر سنجیدگی کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔
”اس کا دل چاہا وہ عمر سے کہے۔ ”تم بھی وہ واحد شخص ہو جسے میں کوئی تکلیف نہیں پہنچا سکتی۔”
”نہیں۔” اس نے بس اتنا کہا۔
”کیا میں یہ سمجھوں کہ تم نے مجھے معاف کر دیا ہے؟” اس نے پوچھا۔ وہ دھویں کے مرغولوں میں اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔
”عمر! آپ سول سروس چھوڑ دیں۔” اس نے اس کے سوال کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔

عمر کے چہرے پر اسے حیرانی نظر آئی۔ شاید وہ اس سے اس مشورے کی توقع نہیں کر رہا تھا۔
”آپ کے پاس بزنس ایڈمنسٹریشن کی ڈگری ہے آپ واپس امریکہ چلے جائیں یا پھر انگلینڈ جہاں آپ پہلے کام کر رہے تھے۔”
”تم ایسا کیوں کہہ رہی ہو؟”
”کیونکہ مجھے آپ کی پروا ہے، آپ خود کو ضائع کر رہے ہیں… سول سروس آپ کو آپ کی ساری خوبیوں سے محروم کر دے گی۔ ” اس نے عمر کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھی۔
”کیا عمر جہانگیر میں کوئی خوبی ہے؟”
”پانچ سال پہلے آپ ایسے نہیں تھے مگر اب… آپ… میں نہیں جانتی۔ آپ کو خود اندازہ ہے یا نہیں مگر آپ بدلتے جا رہے ہیں۔”
”میں جانتا ہوں لیکن میں کچھ نہیں کر سکتا۔”
”آپ واپس چلے جائیں۔” اس نے اصرار کیا۔
”میں نہیں جا سکتا۔” اس نے نرم آواز میں کہا۔
”کیوں؟” عمر نے ایک اور سگریٹ سلگا لیا۔
”چند ہزار روپے کی یہ جاب آپ کے لئے اتنی بڑی Temptationکیوں بن گئی ہے؟”
”بات اس جاب کی نہیں ہے۔ بات اس پاور کی ہے، اس اتھارٹی کی ہے جو یہ جاب مجھے دے رہی ہے۔”
”آپ کو کیا ضرورت ہے اس اتھارٹی کی؟”
”ضرورت ہے، کم از کم اپنے باپ کے سامنے کھڑا ہونے کے لئے مجھے اس اتھارٹی کی ضرورت ہے۔ میرے ہاتھ میں طاقت ہو گی تو میں وہ سب کچھ کر سکتا ہوں جو میں ابھی تک نہیں کر پایا۔”
”کچھ سالوں کے بعد انکل جہانگیر ریٹائرڈ ہو جائیں گے۔ تب آپ کا اور ان کا مقابلہ ویسے ہی ختم ہو جائے گا۔ کیا بہتر نہیں ہے کہ آپ اس بے معنی مقابلے میں خود کو ضائع نہ کریں… پہلے ہی یہ سب کچھ چھوڑ دیں۔” وہ بڑے خلوص سے اسے سمجھانے کی کوشش کر رہی تھی۔
”تم ابھی بھی میچور نہیں ہو علیزہ۔”
”ہو سکتا ہے، آپ ٹھیک کہہ رہے ہوں مگر اس میچورٹی کا کیا فائدہ ہے جو انسان کو ایک پر سکون زندگی گزارنے نہیں دے رہی۔”
عمر نے سر اٹھا کر سنجیدگی سے اسے دیکھا۔
”تمہارا خیال ہے میں پر سکون نہیں ہوں۔”
”ہاں آپ پر سکون نہیں ہیں، جو پر سکون زندگی گزار رہا ہو، وہ ڈرنک نہیں کرتا۔ اسے اسموکنگ… یہ دونوں عادتیں آپ نے اب اختیار کی ہیں۔”
وہ اسے قائل کرنا چاہ رہی تھی۔
”تم غلط سمجھ رہی ہو علیزہ! سول سروس میں آنے سے پہلے بھی میں اسموکنگ اور ڈرنک کرتا تھا۔” اس نے انکشاف کیا۔ ” میں چودہ سال کی عمر سے ڈرنک اور اسموکنگ کر رہا ہوں۔” وہ کچھ بول نہیں پائی۔ وہ اب ہاتھ میں پکڑے سگریٹ کو دیکھ رہا تھا۔
”یونیورسٹی میں پڑھنے کے دوران کو کین بھی لیتا رہا اس لئے ان چیزوں کا سول سروس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔”
”مگر پانچ سال پہلے جب آپ یہاں آئے تھے تب تو آپ ان دونوں چیزوں کو استعمال نہیں کرتے تھے۔” علیزہ نے ہکلاتے ہوئے کہا۔
”کرتا تھا… عادتاً نہیں شوقیہ… مگر جب تک یہاں رہا، Avoidکرتا رہا۔”
علیزہ کو سمجھ میں نہیں آیا وہ اب کیا کہے۔ ”مگر تم ٹھیک کہتی ہو میں پر سکون زندگی نہیں گزار رہا۔ ” وہ اب تیسرا سگریٹ سلگاتے ہوئے اعتراف کر رہا تھا۔ ”مگر کیا کیا جا سکتا ہے؟”
”صرف اتھارٹی کے لئے آپ اپنی زندگی برباد کر دیں گے؟”
”میرے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔”
”کیوں نہیں ہے، آپ واپس چلے جائیں… کم از کم یہ ساری ٹینشن تو ختم ہو جائے گی؟”
”کیا ملے گا واپس جا کر؟ کیا ہے باہر؟ تنہائی، مادہ پرستی ” وہ عمر کی بات پر حیران ہوئی۔ بتیس سال کی عمر میں کیا عمر اب بھی تنہائی سے خوفزدہ ہے؟ مادہ پرستی سے ڈرتا ہے… کیا عمر؟”
”ایک جاب مل جائے گی… دو کمروں کا ایک کابک جتنا اپارٹمنٹ… صبح سے رات تک ڈالرزاور پاؤنڈز کمانے کے لئے مشینی زندگی… کیونکہ ایک لائف اسٹائل Maintainکرنا ہے… کیونکہ زندگی کی وہ آسائشات چاہئیں جن کے ساتھ میں بڑا ہوا ہوں… پینی اور سینٹ جمع کرکے بنایا ہوا بینک بیلنس… نوکروں سے محروم ایک ایسی زندگی جہاں پر اپنے جوتے پالش کرنے سے کھانا پکانے تک ہر کام مجھے خود کرنا پڑے گا۔ جہاں پر گھر میں کچھ مہمان آجانے پر میری سمجھ میں یہ نہیں آئے گا کہ انہیں کہاں بٹھاؤں اور کہاں سلاؤں… تم تو اپنی ممی کے پاس جاتی رہتی ہو، اندازہ کر سکتی ہو، وہ کیسی زندگی گزار رہی ہیں۔”
”مگر سب کچھ ہمیشہ ایسا تو نہیں رہے گا، کچھ وقت گزرنے کے بعد آپ وہاں سیٹل ہو جائیں گے۔” علیزہ نے کمزور آواز میں کہا۔
”ہاں، ساری جوانی روپے کے پیچھے بھاگنے کے بعد بڑھاپے میں میرے پاس اتنا روپیہ ضرور جمع ہو جائے گا، کہ میں کچھ نہ کرنے کے باوجود بھی عیش کر سکتا ہوں… عیش؟” وہ عجیب سے انداز میں ہنسنا۔
”مگر یہ سب کچھ تو نہیں ہو گا… یہ الزامات… وہ سب کچھ جو آپ کو مجبوراً کرنا پڑتا ہے وہ تو نہیں کرنا پڑے گا۔”
”مگر وہاں میرے پاس وہ آسائشیں نہیں ہوں گی جو یہاں ہیں اور یہ سب کچھ میری زندگی کا حصہ بن چکا ہے جیسے مچھلی پانی کے بغیر نہیں رہ سکتی، ویسے ہی میں ان سب سہولتوں کے بغیر نہیں رہ سکتا۔”
وہ اس کا چہرہ دیکھ کر رہ گئی۔

”ان پانچ سالوں میں اتنا کچھ بنا لیا ہے میں نے… پاکستان سے جا کر اگلے دس سالوں میں بھی نہیں بنا سکتا۔”
”مگر ضمیر پر بوجھ لے کر زندہ رہنا آسان ہے؟”
”ضمیر؟” وہ ہنسا ”اس نام کی کوئی چیز دنیا میں نہیں ہوتی۔”
وہ اندازہ نہیں کر سکتی وہ کس پر ہنس رہا تھا۔
”اس صدی میں ضمیر کو لے کر کون پھرے گا اپنے ساتھ… کم از کم میرے جیسا شخص نہیں جس کی پرورش حرام پر ہوئی ہے، جس کے خون میں حرام کی اتنی آمیزش ہو چکی ہو کہ وہ نہ حلال کھا سکے نہ کما سکے۔ ضمیر کا کوئی بوجھ نہیں ہے علیزہ میرے کندھوں پر۔” وہ اسے پہلی بار بے بس نظر آرہا تھا۔
”ضمیر اگر اس صدی میں بھی کچھ لوگوں کے پاس ہوتا ہے تو اس کا وہ حال ہوتا ہے جو شہباز منیر کا ہوا۔” علیزہ کو اس کے چہرے پر کچھ سائے لہراتے نظر آئے۔ وہ اب ایک اور سگریٹ سلگا رہا تھا۔ ”ایک ہفتہ پہلے بیٹا پیدا ہوا اس کے ہاں، ابھی اس نے نام نہیں رکھا تھا اس کا۔” وہ اب جیسے اعتراف کر رہا تھا۔ ”پچھلے دس سال سے میری دوستی تھی اس کے ساتھ… کیلی فورنیا یونیورسٹی میں میرے ساتھ پڑھتا رہا… ڈگری لینے کے بعد اگلے دن منہ اٹھا کر پاکستان آگیا۔ اسکالر شپ مل رہا تھا مزید تعلیم کے لئے… نہیں لیا۔” وہ اٹھ کر کھڑکی کے پاس جاکر کھڑا ہو گیا۔
”یونیورسٹی سے جاب کی آفر ہوئی… یہاں نہیں کرنی۔”
اسے اندازہ تھا، وہ کھڑکی کے پاس کیوں چلا گیا تھا اس کی آواز اب بھرانے لگی تھی۔ وہ اب رک کر کر بات کر رہا تھا۔
”جس سے محبت کی اس سے شادی بھی نہیں کی… اس کے ساتھ کیلی فورنیا میں پڑھتی تھی وہ لڑکی… اس کے ساتھ پاکستان آنے کو بھی تیار تھی۔ میں نے اس سے کہا ”پاکستانی لڑکی ہے تمہارے ساتھ پاکستان جا کر ایڈجسٹ ہو جائے گی پھر کیا مسئلہ ہے۔ وہ کہنے لگا ایڈجسٹ نہیں ہو گی۔ دو ماہ رہے گی… چار ماہ رہے گی۔ چھ ماہ بعد شور کرے گی واپس جاناہے… پھر یہ بتانا شروع کر دے گی کہ میں امریکہ میں کتنا کما سکتا ہوں اور پاکستان میں کتنا کما رہا ہوں۔ پھر روئے گی اور کہے گی میں اسے تکلیف دے رہا ہوں اور میں اس سے اتنی محبت کرتا ہوں کہ یہ وہاں جا کر روئے گی تو میں برداشت نہیں کر سکوں گا پھر شاید اس کے لئے سب کچھ چھوڑ کر واپس آجاؤں… اور یہ سب میں نہیں چاہتا، بہتر ہے کل رونے کی بجائے یہ آج رولے… گالیاں دے لے مجھے، پھرآرام سے اپنی زندگی شروع کر لے گی… میں بھی پاکستان جا کر کچھ عرصہ کے بعد وہاں کی کسی لڑکی سے شادی کر لوں گا اور کچھ بھی ہو کم از کم وہ پاکستان چھوڑنے کے بارے میں نہیں کہے گی۔”
وہ خاموش ہو گیا۔ علیزہ اس کی پشت کو دیکھتی رہی۔
”ایک ہی جملہ ہوتا تھا اس کی زبان پر… پاکستان جانا ہے… ضرورت ہے میرے ملک کو میری… اس کے فادر بھی جرنلسٹ ہیں اور اس کی اس برین واشنگ کے ذمہ دار بھی… میں نے تین نیوز پیپرز کے ایڈیٹرز سے کانٹیکٹ کیا۔ پاپا کے بارے میں وہ سارے ثبوت شائع کروانے کے لئے ، تین بڑے نیوز پیپرز جن کا دعویٰ ہے کہ وہ سچ کے علاوہ کچھ شائع نہیں کرتے۔ تینوں کے ایڈیٹرز نے معذرت کر لی۔۔۔” وہ بات کرتے کرتے رک گیا۔
”جہانگیر معاذ کے بارے میں خبر شائع کرنے کے لئے جس حوصلے اور جرأت کی ضرورت تھی وہ ان میں نہیں تھی… سچ کے نام نہاد علمبرداروں کے پاس … پھر مجھے شہباز منیر یاد آیا، اور اب مجھے پچھتاوا ہے کہ کاش میں اسے وہ سب کچھ نہ بھجواتا یا پھر وہ بھی دوسروں کی طرح انکار کر دیا تو شاید آج زندہ ہوتا… خبروں کا کیا ہے صرف خبریں لگنے سے کسی ملک کی تقدیر نہیں بدلا کرتی… مگر وہ ایسا نہیں سوچتاتھا… ضمیرتھا نا اس کے پاس اس لئے… اور اس ضمیر نے اسے موت دے دی۔” وہ یک دم خاموش ہو گیا۔
علیزہ کی سمجھ میں نہیں آیا وہ اس سے کیا کہے۔ کیا اسے یہ بتا دے کہ نانو کی طرح اسے بھی اس بات پر یقین نہیں تھا کہ ایاز انکل نے اتنی معمولی بات پر اتنا بڑا قدم اٹھایا ہو گا… مگر عمر کے لہجے کا اعتماد اور یقین ہمیشہ کی طرح اس کی رائے کو متزلزل کر رہا تھا۔
”عمر! کیا آپ کو یقین ہے کہ انکل ایاز۔۔۔” علیزہ نے اپنا جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔ عمر ایک گہری سانس لے کر پلٹا۔ کچھ کہے بغیر وہ ایک بار پھر بیڈ پر آکر بیٹھ گیا۔ علیزہ نے اپنا سوال نہیں دہرایا۔
”اب آپ کیا کریں گے؟” وہ اب بھی خاموش تھا۔ علیزہ کو یک دم یوں لگا جیسے وہ ذہنی طور پر کہیں اور پہنچا ہواہے… وہ پریشان تھا… وہ الجھا ہوا تھا… یا پھر وہ اپنے لئے آگے کی حکمت عملی طے کر رہا تھا۔ علیزہ اندازہ نہیں لگا سکی۔
اگلی صبح ہمیشہ کی طرح تھی۔ عمر دیر سے اٹھا تھا۔ ناشتے کی میز پر تینوں نے بڑی خاموشی کے ساتھ ناشتہ کیا۔
بارہ بجے کے قریب علیزہ نے پورچ میں کسی گاڑی کے رکنے کی آواز سنی۔ عمر لاؤنج میں نیوز پیپرز دیکھ رہا تھا وہ اٹھ کر باہر نکل گیا۔ نانو بھی اس کے پیچھے نکل گئیں۔ کچھ دیر کے بعد اس نے انکل ایاز اور جہانگیر انکل کے ساتھ نانو اور عمر کو دوبارہ لاؤنج میں آتے دیکھا۔ عمرکے چہرے پر تناؤ کی
کیفیت تھی جب انکل ایاز اور انکل جہانگیر بہت پر سکون نظر آرہے تھے۔
رسمی علیک سلیک کے بعد وہ لاؤنج سے اٹھ کر کچن میں آگئی۔ نانو نے اسے دوپہر کا کھانا اپنی نگرانی میں تیار کروانے کا کہا تھا۔ عمر اور نانو لاؤنج میں ہی تھے۔
کچن میں ان سب کے درمیان ہونے والی گفتگو بآسانی سنی جا سکتی تھی اور وہ چاہتے ہوئے بھی لاؤنج سے آنے والی آوازوں کو نظر انداز نہیں کر سکی۔
جہانگیر انکل کے برعکس انکل ایاز کا بات کرنے کا ایک مخصوص انداز تھا۔ وہ بہت نرمی سے بات کرتے تھے اور ان کے چہرے پر ہمیشہ ایک مسکراہٹ موجود رہتی تھی اور یہ مسکراہٹ کئی بار سامنے بیٹھے ہوئے شخص کے لئے خاصی صبر آزما ثابت ہوتی تھی۔ وہ بہت لائٹ موڈ میں بات کیا کرتے تھے اور اکثر بے معنی اور بے مقصد باتوں سے گفتگو کا آغاز کرتے تھے۔
اس وقت بھی اندر یہی ہو رہا تھا۔ ”بلیو کلر بہت سوٹ کرتا ہے تمہیں۔۔۔” وہ عمر سے کہہ رہے تھے۔ ”کیوں جہانگیر…! یہ عمر کچھ زیادہ ہینڈ سم نہیں ہو گیا… یا پھر اس کا ٹیسٹ بہت اچھا ہو گیا ہے۔ میں نے کچھ شرٹس منگوائی ہیں چند دنوں پہلے… ابھی واپس اسلام آباد جاتے ہی تمہیں بھجواؤں گا۔”
وہ انتہائی خوشگوار انداز میں کہہ رہے تھے۔
”اسلام آباد سے یہی بتانے آپ یہاں آئے ہیں؟” عمر نے کسی تمہیدی گفتگو کے بغیر کہا۔
”ارے نہیں یار! تمہارے لئے آئے ہیں۔ بچوں والی حرکتیں شروع کر دی ہیں تم نے۔ میں جہانگیر کو خاص طور پر ساتھ لے کر آیا ہوں کہ بھئی طے کرو اپنے پرابلمز… کیوں ساری فیملی کو مصیبت میں ڈال رہے ہو… اب یہ تمہارے سامنے بیٹھا ہے… جو کچھ کہنا ہے کہو… مگر بات ختم کرو۔ ممی لنچ میں کیا بنوا رہی ہیں؟”
ایاز حیدر نے کمال مہارت کے ساتھ ایک موضوع سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے پر آتے ہوئے کہا۔ وہ یوں ظاہر کر رہے تھے جیسے اس جھگڑے کی سرے سے کوئی اہمیت ہی نہیں تھی اور وہ درحقیقت کسی فیملی گیٹ ٹوگیدر میں شرکت کے لئے آئے تھے۔
”آپ کو پتا ہے۔ آپ نے کیا کیا ہے؟”
”میں نے؟” انکل ایاز نے کچھ چونکنے کی اداکاری کرتے ہوئے کہا۔
”شہباز کو قتل کروایا ہے آپ نے۔”
”یہ تم کیسے کہہ سکتے ہو؟”
”کیونکہ میں آپ کو اچھی طرح جانتا ہوں۔”
”اگر ایسا ہوا ہے تو یہ تمہاری ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے ہوا ہے۔” انکل جہانگیر نے گفتگو میں مداخلت کرتے ہوئے کہا۔
”میں آپ سے بات نہیں کر رہا ہوں۔” عمر نے درشتی سے انہیں ٹوک دیا۔
نانو کو انکل جہانگیر کے اس اعتراف سے جیسے کوئی شاک لگا تھا اور کچھ یہی حال کچن میں موجود علیزہ کا تھا۔ عمر کے قیاس صرف قیاس نہیں تھے۔
”تم کتے کی وہ دم ہو جو ہمیشہ ٹیڑھی رہتی ہے… یہاں تمہارے پاس میں کوئی منت سماجت کرنے نہیں آیا… تمہارے جیسے معمولی جونیئر افسر کی اوقات کیا ہے میرے سامنے… تمہارا دل چاہے تو کسی دوسرے شہباز منیر کی خدمات حاصل کر لینا اور نتیجہ دیکھ لینا۔”
اس کی بات کے جواب میں جہانگیر معاذ نے بے حد سرد اور تلخ لہجے میں اس سے کہا۔ اس سے پہلے کہ عمر کچھ کہتا۔ انکل ایاز نے بروقت مداخلت کی۔
”کیا فضول باتیں شروع کر دیں ہیں تم نے…جہانگیر! میں تمہیں یہاں عمر سے لڑنے کے لئے نہیں لایا ہوں۔ عمر تمہارے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جائے گا۔”
عمرنے ان کی بات کے جواب میں کہا۔
”آپ نے شہباز کو قتل کیوں کروایا؟”
”تم بہت اچھی طرح جانتے ہو۔”
”آپ کتنے لوگوں کو قتل کروائیں گے؟” ڈاکو منٹس تو اب بھی میرے پاس ہیں۔ میں کل کسی اور نیوز پیپر کو دے دوں گا… آپ مجھ پر کتنی نگرانی کروا سکتے ہیں؟”
”کیا ڈاکومنٹس ہیں تمہارے پاس؟ جہانگیر کے کچھ فارن اکاؤنٹس کی تفصیلات… کچھ اور ڈیلز کی تفصیلات… بس؟” ایاز حیدر کا لہجہ یک دم بدل گیا۔
”میرے پاس تمہارے سارے اکاؤنٹس کی تفصیلات ہیں۔ ان کو کیسے جسٹی فائی کرو گے… جب اپنا حصہ لے چکے ہو تو اتنا شور کرنے کی کیا ضرورت ہے… تمہیں یقین تو دلا رہے ہیں کہ انکوائری بھی شروع نہیں ہونے دیں گے۔”
”آپ یہاں مجھے دھمکانے آئے ہیں؟” اس بار عمر نے بلند آواز میں کہا اور علیزہ نے انکل ایاز کو جواباً اس سے بھی بلند آواز میں بولتے سنا۔
”میرے سامنے گلا پھاڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ میں جہانگیر نہیں ہوں کہ تمہاری بکواس اور بدتمیزی برداشت کر لوں گا۔ آواز کو آہستہ رکھ کر بات کرو… پچاس سال سے میرے خاندان نے جو عزت بنائی ہے اسے تم جیسے بیوقوف شخص کے ہاتھوں تبا ہ ہونے تو میں نہیں دوں گا۔ کل بھی تمہیں خاصا سمجھانے کی کوشش کی میں نے… آج بھی صرف تمہارے لئے جہانگیر کو یہاں لے کر آیا ہوں مگر اس سے زیادہ کچھ نہیں کروں گا… بڑے خاندان اپنا نام اور وقار برقرار رکھنے کے لئے بڑی قربانیاں مانگتے ہیں اور خاندان کا نام بچانے کے لئے شہباز منیر کی جگہ عمر جہانگیر بھی ہو سکتا ہے۔ اس خاندان کو عمر جہانگیر کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ بات تم اچھی طرح یاد رکھو۔”
علیزہ نے ایاز انکل کو بلند آواز میں اس طرح بات کرتے پہلی بار سنا تھا۔ بلند آواز اس کے لئے اتنی حیران کن نہیں تھی جتنا ان کا غصہ تھا۔
اس کا خیال تھا، عمر جواباً زیادہ تلخ اور بلند آواز میں بات کرے گا… شایدوہ چاہتی بھی یہی تھی… مگر اس کی توقع کے برعکس لاؤنج میں اب بالکل خاموشی تھی۔
اسے حیرت ہوئی۔ ”عمر چپ کیوں ہو گیا ہے؟” اس نے سوچا۔ عمر اگلے کئی منٹ خاموش رہا۔
”میرے خاندان کا نام میرے لئے کسی فخر کا باعث نہیں ہے۔”
”تمہارے لئے اس نام کی کوئی اہمیت ہو یا نہ ہو… لیکن بیورو کریسی میں اس خاندان کانام ہی تمہیں بچائے ہوئے ہے۔ ورنہ تمہارے جیسے سینکڑوں افسر یہاں رُلتے پھرتے ہیں کیونکہ ان کے پیچھے خاندان ہوتا ہے نہ ہی دولت… صرف محنت ہوتی ہے یا پھر قابلیت اور یہ دونوں وہ پر ہیں جو بیورو کریسی کے آسمان پر پرواز کرنا نہیں سکھاتے۔”
علیزہ نے اس بار انکل ایاز کو قدرے ہلکے لہجے میں بات کرتے سنا۔
”جن عہدوں پر تم رہ چکے ہو… وہاں کام کرنے کے لئے لوگ عمریں گزار دیتے ہیں۔ باقی باتوں کو تو چھوڑو… یہ جو فارن سروس سے چھلانگ لگا کرتم فوراً پولیس سروس میں آگئے ہوں۔ اس میں کتنے رولز اور ریگولیشنز حائل ہوتے ہیں۔ اس کے بارے میں تو تم اچھی طرح جانتے ہو گے۔” عمران کی بات کے جواب میں ایک بار پھر خاموش رہا۔ علیزہ کو مایوسی ہوئی۔
رات کو جس طرح وہ شہباز کے بارے میں جذباتی ہو رہا تھا۔ اب اس کے لہجے میں اس افسردگی یا جذباتیت کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔
لاؤنج میں ایک بار پھر خاموشی چھا گئی۔ پھر اس نے اندر کچھ سرگوشیاں سنیں… اب مدہم آواز میں انکل ایاز اور عمر کے درمیان کچھ بات ہو رہی تھی۔ آواز اتنی مدہم تھی کہ وہ بات سن سکتی تھی نہ سمجھ سکتی تھی۔ اسے تجسس ہو رہا تھا۔ آخر انکل ایاز اب عمر سے کیا کہہ رہے تھے جو وہ اتنی خاموشی سے سن رہا تھا؟
”میں وہ میگزین جوائن کرنا چاہتی ہوں جس کے بارے میں تم اس دن بتا رہی تھیں۔ ” اس دن شام کو وہ شہلا سے فون پر بات کر رہی تھی۔
”یہ یک دم تمہیں میگزین کیسے یاد آگیا؟” شہلا نے کچھ حیران ہو کر دوسری طرف سے پوچھا۔
”بس ویسے ہی میں گھر بیٹھے بیٹھے بور ہونے لگی ہوں، اس لئے سوچا کہ کچھ کیا جائے۔” اس نے کہا۔
”مگر یار! میں تو کوئی این جی او جوائن کرنے کا سوچ رہی تھی۔ آخر ہمارے سبجیکٹ کا تعلق تو ایسے ہی کاموں سے بنتا ہے۔ یہ جرنلزم بیچ میں کہاں سے آگئی؟” شہلا نے اپنا پروگرام بتایا۔
”تو ٹھیک ہے، تم این جی او جوائن کر لو مگر میں تو یہ میگزین ہی جوائن کرنا چاہتی ہوں۔”
”لیکن پہلے تو تمہارا ارادہ بھی این جی او کے لئے کام کرنے کا ہی تھا۔”
”ہاں پہلے تھا لیکن اب نہیں۔”
”کیوں اب کیا ہو گیا ہے؟”
”کچھ نہیں ، بس ویسے ہی۔”
”کہیں تمہارے کزن نے پھر تمہیں کوئی لیکچر تو نہیں دیا؟” شہلا فوراً مشکوک ہوئی۔
”نہیں عمر نے تو ایسا کچھ نہیں کہا۔”
”پھر؟”
”بس میں نے خود ہی اپنا ارادہ بدل دیا۔ این جی او کے لئے بھی کام کرنا چاہتی ہوں لیکن ابھی نہیں رزلٹ آنے کے بعد۔”
”یار تم نے تو میرا پروگرام بھی ڈانواں ڈول کر دیا ہے۔”
”کیوں تمہارا پروگرام کیوں ڈانواں ڈول ہوا ہے؟”
”تم جانتی ہو، مجھے ہر کام تمہارے ساتھ کرنے کی عادت ہے۔ اب یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ تم میگزین جوائن کر لو اور میں این جی او کے ساتھ دھکے کھاتی پھروں۔”
”تو پھر تم بھی میگزین جوائن کرلو… انجوائے کرو گی۔ ویسے بھی فیشن میگزین ہے، کام دلچسپ ہے۔”
”اچھا ٹھیک ہے۔ میں کچھ سوچتی ہوں۔” شہلا نے ہامی بھری۔
”سوچو مت بس کل چلتے ہیں وہاں۔” علیزہ نے کہا۔
”اتنی جلدی۔”
”ہاں اس سے پہلے کہ وہ جابز کسی اور کو مل جائیں۔ ہمیں وہاں بات کر لینی چاہئے۔”
”اتنا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، وہاں جاب نہ بھی ملی تو کہیں نہ کہیں ضرور مل جائے گی۔ پاپا کے اتنے تعلقات ضرور ہیں۔” شہلا نے اسے تسلی دی۔
”جو جاب تعلقات استعمال کرکے ملے ، وہ بھی کوئی جاب ہے… مزہ تو تب ہے کہ ہم اپنی صلاحیتیں استعمال کرکے یہ جاب حاصل کریں۔” علیزہ نے فوراً کہا۔
”ٹھیک ہے یار! چلو اپنی صلاحیتیں استعمال کر لیتے ہیں۔ پھر کل کتنے بجے آؤں؟” شہلا فوراً مان گئی۔
”نو بجے میری طرف آجاؤ، یہاں سے اکٹھے چلیں گے۔ ” علیزہ نے پروگرام سیٹ کرنے کے بعد فون بند کر دیا۔
پیپرز سے فارغ ہونے کے بعد آج کل وہ گھر پر ہی تھی اور کچھ دن پہلے شہلا نے اسے ایک فیشن میگزین سے نکلنے والی کچھ جابز کے بارے میں بتایا تھا۔
علیزہ نے فوری طور پر اس میں کوئی دلچسپی نہیں لی۔ اسے جرنلزم کا شعبہ کبھی بھی اتنا پسند نہیں آیا تھا۔ کہ وہ اسے اپنانے کا سوچتی۔ اس کا خیال تھا کہ وہ رزلٹ آنے کے بعد کسی اچھی این جی او کے ساتھ منسلک ہو کر کام کرے گی۔
مگر شہباز منیر والے واقعہ کے بعد یک دم ہی اسے جرنلزم میں دلچسپی پیدا ہو گئی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ آج اس نے شہلا کو فون کرکے اس جاب کے بارے میں اپنی دلچسپی کا اظہار کیا تھا۔
وہ نہیں جانتی تھی کہ نانو کا اس قدم کے بارے میں کیا ردعمل ہو گا۔ مگر پچھلے بہت سے سالوں سے وہ آہستہ آہستہ اپنے بہت سے فیصلے خود کرنے لگی تھی۔ خاص طور پر نانا کی ڈیتھ کے بعد نانو نے اس کی زندگی میں پہلے کی طرح مداخلت کرنا چھوڑ دی تھی۔ اسے نانو کی طرف سے کسی مخالفت کی توقع نہیں تھی اور اگر نانو مخالفت کرتیں تو بھی انہیں قائل کرنے کے لئے ذہنی طور پر تیار تھی

باب: 37

اس سے ہونے والی اس لمبی چوڑی گفتگو کے چوتھے دن عمر امریکہ چلا گیا۔ علیزہ نے اس بار پہلی دفعہ اس کے جانے کو سنجیدگی سے لیا تھا۔
وہ اس کی باتوں پر عمل کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ وہ اپنی زندگی کو نارمل کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ نانا اور نانو نے اس سے پچھلے کچھ ہفتوں میں ہونے والے واقعات کے بارے میں کوئی بات نہیں کی ان کے لئے شاید اتنا ہی کافی تھا کہ وہ دوبارہ کالج جانے لگی ہے، اس کی خود ساختہ قید تنہائی ختم ہوگئی تھی اور شہلا ایک بار پھر سے اس کی زندگی کا حصہ بن گئی تھی۔ اس کے ٹیسٹ پہلے کی طرح اچھے ہونے لگے تھے۔ مگر اس کی پہلی والی سنجیدگی اور کم گوئی ابھی بھی برقرار تھی۔
عمر نے واپس جانے کے ایک ہفتے بعد انہیں فون کیا تھا۔ نانو سے بات کرنے کے بعد اس نے علیزہ سے بھی بات کی۔ علیزہ کو وہ پہلے سے زیادہ پر جوش اور خوش لگا تھا۔
”یار! میں تمہیں بہت مس کر رہا ہوں۔” اس نے ہمیشہ والی بے تکلفی کے ساتھ علیزہ کی آواز سنتے ہی کہا۔
علیزہ اس کی بات پر بچوں کی طرح خوش ہوئی۔ ”میں بھی آپ کو بہت مس کر رہی ہوں۔” اس نے جواباً کہا۔
”یہ تو بڑی حیران کن بات ہے کہ علیزہ سکندر جیسی ہستی ہمیں مس کر رہی ہیں واپس آجاؤں؟” اس کی آواز میں شوخی تھی۔
”آجائیں۔” علیزہ اس کے انداز سے محظوظ ہوئی۔
”آجاؤں گا مگر ابھی نہیں۔ ابھی میں اسپین جا رہا ہوں۔”
”کیوں؟”
”بس ویسے ہی سیرو غیرہ کے لئے، کچھ دوستوں کے ساتھ جا رہا ہوں۔” اس نے اطلاع دی۔
”واپس کب آئیں گے؟”
”پاکستان یا امریکہ؟” عمر نے پوچھا۔
”پاکستان۔” ”چند ماہ تک۔”
”آپ نے کہا تھا۔ میں سیشنز کروانا شروع کردوں تو آپ جلدی آجائیں گے۔” علیزہ نے اسے یاد دلایا۔
”ہاں مجھے یاد ہے، تم باقاعدگی سے سیشنز کے لئے جا رہی ہو؟”
”ہاں پھر آپ کب آئیں گے؟” علیزہ نے ایک بار پھر بے تابی سے پوچھا۔
”پتا نہیں۔ دراصل مجھے کچھ کام بھی ہے لیکن پھر بھی میں وعدہ کرتا ہوں، جلدی آجاؤں گا۔” عمر نے اسے مطمئن کرنے کی کوشش کی۔ وہ مطمئن ہوئی یا نہیں مگر اس نے عمر سے مزید اصرار نہیں کیا۔ اسے یقین تھا وہ جلدی واپس آجائے گا۔

باب: 38

اسے میگزین جوائن کئے تین ماہ ہو گئے تھے، اور یہ تین ماہ اس کے لئے بہت اچھے ثابت نہیں ہوئے تھے۔ وہ جرنلزم کے بارے میں جو خواب لے کر اس میگزین میں گئی تھی۔ وہ پہلے ہفتے ہی ختم ہو گئے جب اسے کچھ غیر ملکی میگزین یہ کہہ کر دیئے گئے کہ اسے ان میں سے شوبزنس کی خبریں منتخب کرنی ہیں۔ وہ کچھ ہکا بکا ہو کر سارا دن وہ میگزینز دیکھتی رہی۔ شہلا اس دن آفس نہیں آئی۔ علیزہ نے گھر واپس جاتے ہی اسے فون کیا۔
”کیا ہوا بھئی؟ اتنی پریشان کیوں لگ رہی ہو؟” شہلا نے اس کی آواز سے فوراً اندازہ لگایا کہ وہ کسی وجہ سے پریشان ہے۔ علیزہ نے اسے ساری تفصیل بتا دی۔
”تو پھر؟ ”شہلا نے اس کی ساری باتیں سننے کے بعد بڑے اطمینان سے پوچھا۔
”تو پھر کیا مطلب ہے تمہارا؟”
”میرا مطلب ہے کہ تم کیوں پریشان ہو اس سب سے؟”
”میں پریشان کیوں ہوں؟” میں اس لئے پریشان ہوں کیونکہ یہ وہ کام تو نہیں ہے جس کے لئے میں وہاں گئی ہوں۔” علیزہ اس کی بات پر حیران ہوتے ہوئے بولی۔
”آپ کس لئے گئی ہیں وہاں؟”
”کوئی تخلیقی اور چیلنجنگ کام کرنے، غیر ملکی میگزینز سے خبریں چننے نہیں گئی۔ ہم کیا کریں گے وہاں باہر کی خبریں غیر ملکی ماڈلز کے فیشن شوٹس کی کاپی کرتے ہیں بس فرق یہ ہوتا ہے کہ ماڈل اپنی ہوتی ہے اور فوٹو گرافر بھی۔ میک اپ اور ہیر اسٹائل تک ان ہی جیسا ہوتا ہے یہ کیا چیز ہے جو ہم اپنے لوگوں کو دے رہے ہیں، تفریح۔” وہ واقعی اکتائی ہوئی تھی۔
”ابھی تو جانا شروع کیا ہے وہاں۔ اتنی جلدی کوئی نتیجہ اخذ نہیں کرنا چاہئے۔ ابھی تو ہمیں جرنلزم کی الف ب کا بھی پتا نہیں ہے۔ تھوڑا عرصہ وہاں کام کریں گے تو کچھ پتا چلے گا۔ کچھ تجربہ ہو گا تو ہم لوگ ٹرینڈز بدل بھی سکتے ہیں۔” شہلا نے اسے مطمئن کرنے کی کوشش کی۔
”ہم ٹرینڈ بدل سکتے ہیں؟ کیا ٹرینڈ بدل سکتے ہیں؟ غیر ملکی میگزینز میں سے چوری کی جانے والی خبریں اور آرٹیکلز روک سکتے ہیں۔ یا اپنے فوٹو گرافر کو اوریجنل شوٹ کے لئے مجبورکر سکتے ہیں۔” وہ اب بھی اتنی ہی مایوس تھی۔
”تم جاب چھوڑنا چاہتی ہو؟” شہلا نے مزید کچھ کہے بغیر اس سے براہ راست پوچھا۔
”پتا نہیں میں کنفیوزڈ ہوں۔”
”کنفیوز کیوں ہو، اگر یہ سب تمہیں پسند نہیں ہے تو جاب چھوڑ دو کچھ اور کر لو۔” شہلا نے اسے کھٹ سے مشورہ دیا۔
”اور کیا کروں؟”
”تم این جی او جوائن کرنا چاہتی ہو، وہ جوائن کر و۔”
”نہیں۔ میں ابھی این جی او جوائن کرنا نہیں چاہتی میں کچھ عرصہ جرنلزم کے ساتھ ہی منسلک رہنا چاہتی ہوں۔” علیزہ نے فوراً انکار کیا۔
”تو پھر پرابلم کیا ہے کام کرتی رہو۔”
”مگر یہ وہ جرنلزم نہیں ہے جس کے ساتھ میں منسلک ہونا چاہتی ہوں نہ ہی یہ وہ کام ہے جو میں کرنا چاہتی ہوں۔”
”میں نے تم سے کہا ہے۔ کچھ وقت۔۔۔”
”اگر کچھ وقت کے بعد بھی سب کچھ ایسا ہی رہا تو پھر، پھر مجھے افسوس ہو گا کہ میں نے وقت ضائع کیا اور اتنے عرصہ میں یہ بات کرتے رہنے سے شاید میری ساری تخلیقی صلاحیت بھی ختم ہو جائے۔” علیزہ نے شہلا کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”تم یہ کام کرنا بھی چاہتی ہو اور اس سے خوش بھی نہیں ہو۔ ایسا کرتے ہیں۔ ایڈیٹر سے بات کرتے ہیں۔ انہیں کہتے ہیں، ہمیں شوبز نیوز کے بجائے کوئی دوسرا پیچ دے دیں۔” شہلا نے کچھ سوچنے کے بعد کہا۔
”میں میگزین کے بجائے کسی اخبار کے ساتھ کام کرنا چاہتی ہوں۔” علیزہ نے اس کی بات کے جواب میں کہا۔
”علیزہ ! تمہیں کوئی تجربہ نہیں ہے۔ تجربے کے بغیر کوئی اخبار بھی تمہیں جاب آفر نہیں کرے گا۔ ذرا حقیقت پسندی سے کام لو۔” شہلا نے کہا۔
”میں جانتی ہوں مگر یہ بند کمرے کی جرنلزم میں نہیں کر سکتی۔”
”کیا مطلب؟”
”آفس بیٹھے بٹھائے پورا میگزین تیار ہو جاتا ہے۔ کھانے کی تراکیب سے لے کر کپڑوں کے ڈیزائنز تک اور آرٹیکلز سے لے کر شوبز کی خبروں تک ہر چیز ادھر ادھر سے اٹھا لی جاتی ہے۔ حتیٰ کہ Celebrities کے انٹرویوز تک ادھر ادھر سے اکٹھے کئے جاتے ہیں۔ کیا یہ جرنلزم ہے؟”
”تم ضرورت سے زیادہ تنقید کر رہی ہو علیزہ۔”
”نہیں ۔ میں ضرورت سے زیادہ تنقید نہیں کر رہی، میں نے ایک ہفتے میں جو دیکھا ہے وہی بتا رہی ہوں اتنا جھوٹ چھاپا جا رہا ہے کہ مجھے حیرت ہوتی ہے جس مقامی آرٹسٹ کے انٹرویوز کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے اس کے بارے میں اپنے پاس سے خبریں گھڑ کر لگا دی جاتی ہیں۔ وہ آرٹسٹ اچھا ہے جو انٹرویوز دینے پر فوراً تیار ہو جائے جو انکار کرے ، وہ برا ہے اس کا پورا ماضی حال اور مستقبل کھود کر رکھ دو۔ اس کی پرسنل لائف کی دھجیاں اڑا دو۔ اس کی دوسری، تیسری چوتھی شادی کی خبریں شائع کر دو۔ اس کے نام نہاد افیئرز کی تفصیلات چھاپنا شروع کر دو اور یہ سب تب تک کرتے رہوجب تک وہ مجبور ہو کر آپ سے رابطہ قائم نہ کر لے۔ کیا یہ جرنلزم ہے؟ ” وہ خاصی دل برداشتہ نظر آرہی تھی۔
”میں نے تم سے کہا ہے، تم جاب چھوڑ دو۔ فضول کی ٹینشن لینے کی کیا ضرورت ہے اگر تم کسی چیز سے مطمئن نہیں ہو تو وہ مت کرو۔” شہلا نے اپنا مشورہ دہرایا۔
”میں اتنی جلدی جاب چھوڑدوں گی۔ تو نانو کیا کہیں گی میں انہیں دکھانا چاہتی ہوں کہ میرے اندر مستقل مزاجی ہے۔ میں اتنی نازک نہیں ہوں کہ جاب کی ٹینشن سے گھبرا کربھاگ جاؤں۔ وہ پہلے ہی مجھے منع کر رہی تھیں کہ میرا جاب والا ٹمپرامنٹ نہیں ہے اس لئے میرے لئے یہی بہتر ہے کہ میں یہ کام نہ کروں۔”
”ٹھیک ہے تو پھر کچھ عرصہ تک مستقل مزاجی دکھاؤ کام کرو پھر چھوڑ دینا کوئی اخبار جوائن کر لینا۔” شہلا نے ایک بار پھر اس سے کہا۔
”ویسے بھی میں صبح آفس آؤں گی تو ایڈیٹر سے کہوں گی کہ ہمیں مختلف سوشل ایکٹیویٹیز کی رپورٹنگ کے لئے بھجوائیں یہ آفس والا کام نہ دیں۔” شہلا نے لاپروائی سے کہا۔
”وہ مان جائیں گی؟”
”کیوں نہیں مانیں گی۔ فیملی ٹرمز ہیں ان کے ساتھ، اتنا لحاظ تو ضرور کریں گی۔”
”ٹھیک ہے پھر تم صبح آفس آؤ وہیں تفصیل سے بات ہو گی اگر وہ ان ایونٹس کی کوریج کے لئے بھیجنے پر تیار نہ ہوئیں تو پھر میں جاب چھوڑ دوں گی اگرچہ نانو کے سامنے خاصی شرمندگی ہو گی مجھے مگر جو کام مجھے اچھا نہیں لگ رہا، وہ میں نہیں کروں گی۔” شہلا نے اسے تسلی دی علیزہ نے فون رکھ دیا۔
شہباز منیر کے قتل کو اس نے بڑی دلچسپی کے ساتھ Follow کیا تھا اگرچہ اس دن عمر وہاں سے چلا گیا تھا مگر پھر بھی علیزہ کو امید تھی کہ وہ اس کے قتل کے بارے میں کچھ نہ کچھ ضرور کرے گا۔ خاص طور پر اس لئے کہ یہ قتل اس کی وجہ سے ہوا تھا اور وہ یہ بھی جانتا تھا کہ یہ قتل کس نے کروایا تھا۔
شاید اس لئے اسے امید تھی کہ اگر وہ براہ راست اس بارے میں کچھ نہ بھی کر سکا تو کسی نہ کسی طرح انکل ایاز کا نام ضرور میڈیا میں آجائے گا۔ یہی وجہ تھی کہ اگلے کئی ہفتے تک وہ تمام اخبارات کی ایک ایک خبر پڑھتی رہی۔ شہباز منیر کے قتل نے کچھ عرصہ تک صحافیوں میں ہلچل ضرور مچائی تھی۔ اس کے لئے چند جلوس بھی نکلے تھے اور اس کے اپنے اخبار نے چند روز ہڑتال بھی کی تھی، روز اس کے قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ بھی کسی نہ کسی اخبار میں پیش ہوتا رہا مگر پھر اس خبر پر گرد بیٹھنے لگی۔
وزارتِ اطلاعات کی طرف سے اس کی بیوہ کے لئے ایک چیک جاری کر دیا گیا جس کی تفصیل بھی اخبار میں آئی گورنمنٹ کی طرف سے اسے ایک پلاٹ بھی دے دیا گیا یہ قدرے حیران کن تھا خاص طور پر تب جب گورنمنٹ خود جانے والی تھی مگر علیزہ اندازہ کر سکتی تھی کہ اس چیک اور پلاٹ کے پیچھے کس کی مہربانی کار فرما تھی۔
ایک دو ماہ بعد یک دم گورنمنٹ تبدیل ہو گئی اور پولیٹیکل سیٹ اپ کے بدلتے ہی شہباز منیر کا قتل مکمل طور پر بیک گراؤنڈ میں چلا گیا۔ اخبارات کے صفحے اب سیاسی خبروں اور بیانات سے بھرے ہوئے تھے۔ اگلے انتخابات کے بارے میں قیاس آرائیاں جاری تھیں۔ اتنے دھوم دھڑکے میں کس کو یاد تھا کہ شہباز منیر نام کا ایک شخص تھا جس نے ایک دفعہ اپنے ماں باپ کی احمقانہ باتوں کی وجہ سے اپنے ملک کی طرف واپس ہجرت کی تھی۔ وہ اپنی مرضی سے بیسویں صدی سے واپس بارہویں صدی میں آگیا تھا۔ پھر اس نے اپنے ایک دوست کی احمقانہ باتوں میں آکر لوگوں تک سچ پہنچانے کی کوشش کی تھی۔ بارہویں صدی کے لوگوں کے سامنے بیسویں صدی کی جرأت دکھانے کی کوشش کی تھی کیا ہوا تھا؟ کچھ بھی نہیں۔ اس کے ساتھ وہی کیا گیا تھا جو کرنا چاہئے تھے۔ اس ملک کو کس نے کتنا خو ن دیا تھا یہ یاد رکھنے والی بات نہیں تھی۔ اس ملک میں کس نے کتنا خون لیا ہے۔ شاید یاد انہیں ہی رکھا جاتا ہے، شہباز منیر کو بھی بھلا دیا گیا تھا مگر علیزہ کو وہ یاد تھا اور ہر بار اس کا خیال آنے پر اسے عمر سے شکوہ ہونے لگتا اس نے اتنی آسانی سے سب کچھ کیسے بھلا دیا گیا تھا ۔کیا اسے یاد نہیں کہ شہباز منیر کی موت کی وجہ وہی تھا، وہ کم از کم ایک بار اس سے اس بارے میں بات ضرور کرنا چاہتی تھی۔
مگر عمر سے اگلے کچھ ماہ اس کی ملاقات نہیں ہوئی، انکل ایاز اور انکل جہانگیر کے ساتھ اس کی کیا سیٹلمنٹ ہوئی تھی وہ نہیں جانتی تھی مگر وہ اسی دن چلا گیا تھا اس کے بارے میں دوبارہ اخبار میں کوئی خبر نہیں آئی تھی اور نہ ہی وہ معطل ہوا تھا۔ اگلے چند ماہ کے دوران جو واحد خبر علیزہ تک پہنچی تھی، وہ اس کی ایک بہت اچھے شہر میں پوسٹنگ کی تھی اور پھر اس نے اپنا سامان انیکسی سے منگوا لیا تھا۔ وہ سامان لینے خود نہیں آیا تھا۔ اس نے نانو سے فون پر بات کرکے انہیں اپنا سامان منگوانے کے بارے میں بتا دیاتھا اور نانو نے اپنی نگرانی میں اس کے بھجوائے ہوئے ٹرک پر سامان لوڈ کروایا۔
علیزہ نے ایک دن نانو سے شہباز منیر کے قتل کے بار ے میں بات کرنے کی کوشش کی اور وہ اس وقت سن ہو گئی جب نانو نے بہت اطمینان سے کہا۔
”یہ مردوں کے معاملات ہیں، انہیں پتا ہے کس طرح لوگوں کو ڈیل کرنا ہے۔ غلطی عمر کی ہے اس نے کیوں شہباز منیر کو استعمال کرنے کی کوشش کی۔”
”مگر نانو ! کیا انکل ایاز کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ کسی کو قتل کر دیں۔”
”اس نے کون سا اپنے ہاتھ سے کسی کو قتل کیا ہے ۔ اپنے آدمیوں کو اس نے شہباز کو ڈرانے دھمکانے کے لئے کہا ہو گا۔ اب انہوں نے قتل کر دیا تو وہ کیا کر سکتا تھا۔” وہ ان کی منطق پر حیران رہ گئی۔
”اپنے ہاتھ سے قتل کرنے والا ہی قاتل نہیں ہوتا۔ قتل کروانے والا بھی مجرم ہوتا ہے۔” اسے نانو کی بات پر افسوس ہوا۔
”ہمیں اس بارے میں بحث کرنے کی یا پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے نہ ہمارا شہباز منیر سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی اس واقعہ کے بارے میں ہم سے پوچھ کر کچھ کیا گیا ہے۔ ایاز نے جیسے بہتر سمجھا، معاملے کو ڈیل کیا۔” نانو ابھی بھی مطمئن تھیں۔
”مگر نانو ! انکل ایاز نے ایک غلط کام کیا۔”
”جو کچھ شہباز کرنے جا رہا تھا۔ وہ بھی ٹھیک نہیں تھا۔ ہمارے خاندان کی بہت رسوائی ہوتی اگر وہ جہانگیر کے بارے میں وہ رپورٹس شائع کر دیتا، میرے سارے بیٹوں کا کیرئیر متاثر ہوتا۔ اب ظاہر ہے ایاز خاموش تو نہیں بیٹھ سکتا تھا۔”
”مگر شہباز جو کچھ شائع کرنے جا رہا تھا۔ وہ جھوٹ نہیں تھا۔ سچ تھا اگر خاندان کی عزت کی بات تھی تو انکل جہانگیر نے کیوں اس طرح کے کام کئے، وہ اس وقت یہ سب کچھ سوچتے جب وہ روپے کے لئے اپنے عہدے کا بری طرح استعمال کر رہے تھے۔”
”مگر شہباز منیر کو دوسروں کے ذاتی معاملات میں دخل دینے کی کیا ضرورت تھی؟”
”ذاتی معاملات ؟ نانو ! یہ انکل جہانگیر کے ذاتی معاملات نہیں تھے۔ وہ ان کے کسی اسکینڈل یا افیئر کے بارے میں خبر شائع نہیں کر رہا تھا وہ ان اہم فائلز کی بات کر رہا تھا، جنہیں بیچ کر انہوں نے کئی ملین ڈالرز بنائے ہیں۔”
”پھر بھی شہباز منیر کا اس سارے معاملے میں کیا تعلق تھا؟ اس نے کیوں۔۔۔”
علیزہ نے نانو کی بات کاٹ دی۔”نانو ! اس نے اپنا فرض پورا کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس نے کوئی غلط کام نہیں کرنا چاہا۔ آپ کو یہ کچھ اس لئے برا نہیں لگ رہا کیونکہ آپ کے اپنے بیٹے ان سب چیزوں میں انوالو ہیں۔ آپ شہباز منیر کی ماں بن کر سوچیں تو آپ کو احساس ہو گا کہ اس کو ایک صحیح کام کی سزا دی گئی ہے۔ آج کوئی انکل ایاز کو اس طرح بے رحمی سے مار دے تو آپ کیا محسوس کریں گی؟”
”علیزہ! تم فضول بکواس مت کرو۔”
”یہ فضول بکواس نہیں ہے نانو! یہ سچ ہے جو چیز غلط ہے ، وہ غلط ہے۔ چاہے وہ میں کروں یا آپ، قتل وہ جرم ہے کہ اگر عام آدمی کرے گا تو قانون اسے پھانسی پر لٹکا دے گا مگر انکل ایاز جیسے لوگ کریں یا کروائیں تو اس کی Justificationکیسے دے سکتے ہیں۔ ہم یا آپ اور کچھ نہیں تو اتنا تو کر ہی سکتے ہیں کہ غلط چیز کو غلط کہیں اور غلط کام کرنے والے پر تنقید کریں۔ اس کے ہاتھ مضبوط کرنے کی کوشش تو نہ کریں۔”
”علیزہ! یہ سب تمہارے سوچنے اور کرنے کے کام نہیں ہیں۔ بہتر ہے ان معاملات کے بارے میں تم کوئی تبصرہ نہ کرو اگر ایاز کو پتا چل گیا تو وہ بہت ناراض ہو گا۔” نانو نے اسے جیسے دھمکانے کی کوشش کی۔
”وہ ناراض ہوتے ہیں تو ہو جائیں۔ میں ان سے خوفزدہ نہیں ہوں۔ آپ کی طرح ان کی ناراضگی کے خوف سے ان کی حمایت تو نہیں کر سکتی۔”
وہ ان کی باتوں پر بری طرح جھنجھلا رہی تھی۔
نانو اس کا چہرہ خاموشی سے دیکھتی رہیں۔ ”جب سے تم نے جاب شروع کی ہے، تم کچھ زیادہ بدتمیز نہیں ہو گئیں؟”
وہ بے اختیار ان کی بات پر ہنس پڑی۔ ”بدتمیز؟ آپ بھی کمال کرتی ہیں نانو بدتمیزی کو جاب سے منسلک کر رہی ہیں جاب کا اس سب سے کیا تعلق ہے میں جاب نہ بھی کرتی تب بھی اس واقعہ کے بارے میں میرا ردعمل یہی ہوتا خاص طور پر خود انکل ایاز کے منہ سے سننے کے بعد کہ انہوں نے شہباز کو قتل کروایا ہے۔”
”فرض کرو، میں بھی تمہاری طرح یہ سب کہنے لگوں تو بھی فائدہ کیا ہو گا۔ میرا کسی پر کوئی اختیار نہیں ہے کہ میں انہیں اب اس عمر میں اچھائی اور برائی کا فرق سمجھا سکوں۔ وہ اپنے بارے میں خود سوچ سکتے ہیں، خود فیصلے کر سکتے ہیں۔ میں ان سب چیزوں کے بارے میں کیا کر سکتی ہوں۔”
نانو نے پہلی بار دھیمی آواز میں اپنی بے بسی کا اظہار کیا۔
”نانو! کم از کم اتنا تو آپ کر ہی سکتی ہیں کہ آپ ان سب چیزوں کو غلط کہیں۔ انکل ایاز کے ساتھ بحث کریں۔ ان کی ہر بات پر سر نہ جھکا دیں۔”
نانو نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ وہ بہت بے چین نظر آرہی تھی۔ ”تم کرسکتی ہو یہ سب کچھ؟” بڑے پر سکون انداز میں انہوں نے علیزہ سے پوچھا۔
”میں؟”
”ہاں تم، تم بحث کر سکتی ہو ایاز سے یا اپنے کسی دوسرے انکل سے۔ ان سے یہ کہہ سکتی ہو کہ انہوں نے غلط کیا؟”
نانو نے جیسے اسے چیلنج کرتے ہوئے کہا۔
وہ ان کا چہرہ دیکھتی رہی۔ ”ہاں میں کر سکتی ہوں اگر ضرورت پڑی تو میں یہ سب ان سے بھی کہوں گی۔ میں آپ کی طرح ان کی ہاں میں ہاں نہیں ملاؤں گی، کم از کم آپ علیزہ سکندر سے اس بات کی توقع نہ کریں۔”
وہ یک دم اٹھ کر اندر چلی گئی۔ نانو حیرانی سے اس کو جاتے ہوئے دیکھتی رہیں۔ علیزہ کا یہ روپ پہلی دفعہ ان کے سامنے آیاتھا۔
شہلا کے کہنے پر انہیں سوشل ایکٹیویٹیز کی کوریج کا کام سونپ دیا گیا تھا۔ یہ کام کسی حد تک دلچسپ تھا اور کچھ عرصے تک تو علیزہ کو واقعی اپنے کام میں لطف آنے لگا۔
شہر میں ہونے والی مختلف سماجی تقریبات کے دعوتی کارڈز ان کے آفس آتے رہتے۔ وہ ایک دن میں بعض دفعہ تین چار جگہوں پر بھی جاتیں۔ ادبی محفلیں، مختلف نمائشیں، میوزک کنسرٹس ، سوشل گیدرنگز بہت کم عرصے میں وہ ان جگہوں پر پہچانی جانے لگی مگر جہاں تک اطمینان کا تعلق تھا۔ وہ ابھی بھی اپنے کام سے مطمئن نہیں تھی۔
”یہ سب بے کار کام ہے جو کچھ تم اور میں کر رہے ہیں۔ اس سے لوگوں کی زندگیوں میں کوئی تبدیلی اور بہتری نہیں آسکتی۔” وہ اکثر شہلا سے کہتی۔
”تو تم کوئی انقلاب لانا چاہتی ہو؟” شہلا مذاق میں کہتی۔
”نہیں۔ میں کوئی انقلاب لانا نہیں چاہتی۔ میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ جو کام میں کروں ۔ اس سے لوگوں کی زندگیوں میں کچھ بہتری تو آئے صرف ایک جاب کرنا تو کوئی بڑی بات نہیں میں چاہتی ہوں میرے کام سے دوسروں کو بھی فائدہ ہو۔”
”تم اچھی بھلی تھیں علیزہ! بس کچھ عرصے سے تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے خاص طور پر پچھلے دو سال میں۔” شہلا تبصرہ کرتی۔
”اس ملک میں اتنی غربت ہے شہلا! کہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ سڑکوں پر پھرتے ہوئے لوگوں کو دیکھ کر انسان کا دماغ خراب نہ ہو، سوشیالوجی پڑھنے کے بعد بھی اگر میں تمہاری طرح مطمئن بیٹھی یہ سوچتی رہوں کہ ایک دن کوئی مسیحا آئے گا، اور سب کچھ ٹھیک کر دے گا تو شاید اس سے بڑی حماقت اور کوئی نہیں ہو گی۔”
”یار ! میں کب منع کر رہی ہوں تمہیں ، رزلٹ آجائے کوئی این جی او جوائن کر لینا ، سوشل ورک کرنا چاہتی ہو کرنا پھر دیکھ لینا، کتنی بڑی تبدیلیاں لے کر آتی ہو۔”
”ایک شخص سب کچھ نہیں بدل سکتا۔ مگر جس حد تک تبدیلی لا سکتا ہے اس حد تک تبدیلی اور بہتری کے لئے کوشش تو کرنی چاہئے۔ ایک Passive observer بن کر تو زندگی نہیں گزارنی چاہئے۔”
شہلا اس کی باتوں سے قائل ہوتی یا نہ ہوتی مگر خاموش ضرور ہو جایا کرتی تھی اس کا خیال تھا یہ علیزہ کا وقتی جنون ہے جو کچھ عرصہ کے بعد خود ہی ختم ہو جائے گا۔
اس شام بھی وہ ایک میوزک کنسرٹ کی کوریج کے لئے گئی ہوئی تھیں۔ کنسرٹ نو بجے کے قریب ختم ہو گیا۔ وہ کنسرٹ ختم ہونے سے کچھ پہلے ہی ہال سے نکل آئی تھیں کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ کنسرٹ ختم ہونے کے بعد اتنا رش ہو جائے گا کہ ان کے لئے باہر نکلنا مشکل ہو جائے گا۔
وہ کنسرٹ کے بارے میں باتیں کرتے ہوئے پارکنگ کی طرف آرہی تھیں۔ جب انہوں نے اپنے پیچھے کچھ قہقہے سنے، ان دونوں نے مڑ کر دیکھا۔ وہ چار لڑکوں کا ایک گروپ تھا جو ان سے کچھ فاصلے پر تھا مگر ان لوگوں کی نظریں ان ہی پر جمی ہوئی تھیں۔ واضح طور پر وہ ان ہی کے بارے میں بات کر رہے تھے۔ وہ دونوں انہیں نظر انداز کرتے ہوئے پارکنگ کی طرف جانے لگیں۔
”یہ ہے ہماری نئی جنریشن جنہوں نے اکیسویں صدی میں اس ملک کو Lead کرنا ہے۔”
”Three cheers for them” شہلا نے چلتے ہوئے بلند آواز میں تلخی سے کہا۔ علیزہ نے کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
ان لڑکوں کی آوازیں اور قہقہے اب اور بلند ہو گئے تھے۔ وہ لوگ مسلسل ان کے پیچھے آرہے تھے۔
”کیا خیال ہے مڑ کر کچھ کہا جائے ان سے؟” شہلا نے سرگوشی میں علیزہ سے پوچھا۔
”نہیں۔ کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ابھی ہم لوگ گاڑی تک پہنچ جائیں گے پھر یہ خود ہی دفع ہو جائیں گے۔”
علیزہ نے بھی سرگوشی میں جواب دیتے ہوئے کہا۔
”مگر یہ لوگ بے ہودہ باتیں کر رہے ہیں۔” شہلا نے کچھ احتجاج کیا۔
”کرنے دو، ہمارے روکنے پر یہ باز تو نہیں آئیں گے۔ خوامخواہ بات بڑھ جائے گی اور یہ لوگ یہی چاہتے ہیں۔”
علیزہ نے اسے سمجھایا۔ شہلا مطمئن نہیں ہوئی لیکن خاموش ضرور ہو گئی۔
وہ دونوں اب گاڑی کے پاس پہنچ گئی تھیں جبکہ وہ چاروں لڑکے بھی پارکنگ میں داخل ہو گئے۔ علیزہ اور شہلا نے اپنی گاڑی کے اندر بیٹھ کر اطمینان کا سانس لیا۔
علیزہ گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے سڑک پر لے آئی۔ وہ دونوں بڑے مطمئن انداز میں باتیں کر رہی تھیں۔ جب علیزہ نے بیک ویو مرر سے ایک گاڑی کو بڑی تیزی سے اپنے پیچھے آتے دیکھا۔ گاڑی انہیں اوورٹیک کرنے کی بجائے ان کے پیچھے گاڑی کے ساتھ ساتھ دوڑنے لگی۔ گاڑی میں وہی چاروں لڑکے سوار تھے۔ علیزہ نے پہلی ہی نظر میں انہیں پہچان لیا۔
”یہ تو پیچھے آنے لگے ہیں ، اب کیا کریں؟” علیزہ نے کچھ پریشان ہو کر شہلا سے کہا۔
”تم کار کی اسپیڈ آہستہ کرو، ہو سکتا ہے۔ آگے نکل جائیں۔”
علیزہ نے شہلا کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے کار کی اسپیڈ آہستہ کر دی۔ ان لڑکوں نے بھی اپنی کار کی سپیڈ آہستہ کر دی۔ شہلا نے بے اختیار اپنے دانت پیسے۔
”یہ ذلیل پیچھا نہیں چھوڑیں گے۔ تم اسپیڈ بڑھا دو دیکھتے ہیں کیا ہو سکتا ہے۔”
علیزہ نے یک دم کار کی سپیڈ بڑھا دی۔ ان لڑکوں کی کار اب برابر چلنے کی بجائے ان کی کار کے پیچھے آرہی تھی۔ کچھ دیر تک وہ مختلف سڑکوں پر کار بھگاتی رہی مگر وہ گاڑی مسلسل ان کے پیچھے رہی۔ تم میرے گھر ہی چلو۔ ہو سکتا ہے، وہاں پیچھا چھوڑ دیںـ” شہلا نے اس سے کہا۔
”لیکن رستے میں اگر ان لوگوں نے گاڑی روک لی تو تمہارے گھر کے راستے پر اس وقت بالکل بھی ٹریفک نہیں ہوتی۔” علیزہ نے اپنے خدشے کا اظہار کیا۔
”تم اسپیڈ بہت تیز رکھو اور انہیں اوورٹیک نہ کرنے دینا ایک بار میرے گھر کے باہر گاڑی پہنچ گئی تو پھر کوئی پریشانی نہیں ہو گی۔ چوکیدار ایک منٹ میں گیٹ کھول دے گا۔ نہ بھی کھولا تو باہر تو آہی جائے گا پھر یہ لوگ وہاں نہیں رکیں گے۔”
”مگر مجھے تو ابھی اکیلے ہی گھر جانا ہے۔”
”تم گاڑی اندر لے آنا۔ کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد چیک کر لیں گے کہ یہ لوگ باہر تو نہیں ہیں پھر تم چلی جانا ویسے یہ لوگ رکنے والے نہیں ہیں۔ ہمیں اندر جاتا دیکھ کر دفع ہو جائیں گے یہ بس خوفزدہ کر رہے ہیں ہمیں۔” شہلا نے کہا۔
علیزہ نے اس کی بات کے جواب میں کچھ کہنے کے بجائے گاڑی اس روڈ پر موڑ دی جہاں شہلا کی کالونی تھی۔ بہت تیز رفتاری سے گاڑی چلاتے ہوئے وہ شہلا کے گھر پہنچی تھی۔ ان لڑکوں کی گاڑی بھی اب پوری رفتار سے ان کے پیچھے تھی اور ان کی گاڑی کو ایک سنسان سڑک پر مڑتے دیکھ کر انہوں نے دو تین بار اوورٹیک کرنے کی کوشش کی مگر علیزہ ہر بار کار کی رفتار بڑھاتی رہی۔
شہلا کے گیٹ کے سامنے پہنچتے ہی اس نے ہارن پر ہاتھ رکھ دیا اور کار روک دی۔ وہ لڑکے تیزی سے ان کی گاڑی کے پاس سے گزرے اور پھر علیزہ نے ان کی کار کی رفتار کم ہوتے دیکھی۔ چوکیدار تب تک گیٹ کھول چکا تھا۔ علیزہ برق رفتاری سے کار اندر لے گئی۔ ان دونوں نے پیچھے مڑ کر چوکیدار کو گیٹ بند کرتے دیکھا اور ان کی جان میں جان آئی تھی۔
”ایک بات تو طے ہے، میں دوبارہ کبھی رات کو اکیلے کہیں نہیں جاؤں گی۔” علیزہ نے گہرے سانس لیتے ہوئے کار کی سیٹ کے ساتھ ٹیک لگالی۔
”پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہ لوگ دفع ہو گئے ہوں گے، سارا موڈ غارت کر دیا انہوں نے، میں چوکیدار سے کہتی ہوں۔ ذرا باہر جھانک کر دیکھے۔”
شہلا نے کار سے نکلتے ہوئے کہا۔ وہ اب گیٹ کی طرف جا رہی تھی۔
۔ علیزہ نے بیک ویو مرر سے اسے چوکیدار سے باتیں کرتے دیکھا۔
چوکیدار چند لمحوں کے بعد چھوٹا گیٹ کھول کر باہر نکل گیا۔ شہلا واپس علیزہ کے پاس آگئی۔
”اب یا تو تم آج رات یہیں رہ لو یا پھر چند گھنٹوں کے بعد چلی جانا۔ اتنی گھبراہٹ میں کار چلاؤ گی تو؟” اس نے بات ادھوری چھوڑ دی۔
”نہیں، میں یہاں نہیں رہ سکتی، نانو اکیلی ہیں اور چند گھنٹوں کے بعد کیا ہو گا۔ سڑکیں اور سنسان ہو جائیں گی۔ میں چلا لوں گی گاڑی۔ تم فکر مند مت ہو۔ کچھ دیر پہلے بھی تو چلائی ہے۔” علیزہ نے اسے تسلی دی۔
چوکیدار اب واپس اندر آگیا اور اس نے سڑک خالی ہونے کی اطلاع دی۔
”بس ٹھیک ہے، میں چلتی ہوں،۔” علیزہ نے کار سٹارٹ کر دی۔
”جاتے ہی مجھے فون کر دینا۔ میں انتظار کروں گی۔” شہلا نے کہا۔ علیزہ سر ہلاتے ہوئے گاڑی کو ریورس کرنے لگی۔
بیرونی سڑک واقعی خالی تھی۔ علیزہ کچھ اور مطمئن ہو گئی۔ تیز رفتاری سے اس نے ذیلی سڑک عبور کی اور پھر ایک ٹرن لیتے ہی اس کا سانس رک گیا۔ ان لڑکوں کی گاڑی اب وہاں کھڑی تھی اور وہ گاڑی سے باہر کھڑے تھے۔ علیزہ گاڑی واپس نہیں موڑ سکی اب اس کا وقت نہیں رہا تھا۔

باب: 39
اگلے چند ہفتے علیزہ کو ایک بار پھر ہاسپٹل کے چکر لگانے میں گزارنے پڑے۔ اسے اچانک اپینڈکس کا پرابلم ہوا اور بہت ایمرجنسی میں آپریشن کروانا پڑا آپریشن ٹھیک ہو گیا مگر گھر آنے کے دوسرے دن باتھ روم جاتے ہوئے گری اور اس کے ٹانکے ٹوٹ گئے۔
دوبارہ ٹانکے لگوانے کے بعد ایک ہفتہ تک وہ بخار میں مبتلا رہی۔ اس کا وزن بہت تیز رفتاری سے کم ہوتا رہا۔ اس تمام عرصہ کے دوران عمر سے ایک بار بھی اس کی بات نہیں ہوئی وہ اسپین جا چکا تھا اور وہاں سیر و تفریح میں مصروف تھا۔ جس شام تقریباً ایک ماہ کے بعد اس نے فون کیا۔ اس دن بھی علیزہ کو بخار تھا۔ نانو نے فون پر عمر کو علیزہ کے آپریشن اور اس کی بیماری کے بارے میں بتایا۔ اس نے علیزہ سے بات کرنے کی خواہش ظاہر کی۔
علیزہ فون پر اس کی آواز سنتے ہی رونے لگی۔ وہ اس کے رونے سے زیادہ اس کی آواز کی نقاہت پر پریشان ہوا تھا۔
”علیزے! علیزے! چپ ہو جاؤ یار کیا ہو گیا۔” وہ اسے کسی بچے کی طرح بہلانے لگا۔ وہ پھر بھی روتی رہی۔
”تمہارا آپریشن تو ٹھیک ہو گیا ہے نا؟” اس نے پھر بھی کوئی جواب نہیں دیا۔
”گرینی بتا رہی تھیں۔ تمہیں بخار ہے، زیادہ بخار ہے؟” وہ کسی نہ کسی طرح اسے خاموش کروانا چاہ رہا تھا۔ وہ اب بھی روتی رہی۔
”علیزہ ! مجھے تکلیف ہو رہی ہے تمہارے رونے سے ۔ پلیز چپ ہو جاؤ۔”
وہ چپ نہیں ہوئی۔
”مجھے بتاؤ میں کیا کروں؟”اس نے بالآخر تھک کر کہا۔
”میں نے آپ سے کہا تھا۔ آپ واپس آجائیں۔ آپ نہیں آئے۔ پتا نہیں ہر کوئی میرے ساتھ جھوٹ کیوں بولتا ہے۔” اس نے ہچکیوں اور سسکیوں کے درمیان کہا اور ایک بار پھر رونے لگی۔
”میں نے تم سے بالکل جھوٹ نہیں بولا۔ میں کل نہیں تو پرسوں جو بھی فلائٹ ملتی ہے، اس سے آجاتا ہوں اب تو رونا بند کردو۔” اس بار علیزہ واقعی چپ ہو گئی۔
”آپ سچ کہہ رہے ہیں؟”
”بالکل سچ کہہ رہا ہوں۔ میں بس آجاتا ہوں اگر تمہاری ضد یہی ہے تو ٹھیک ہے۔ میں تمہاری بات مان لیتا ہوں۔ اب مجھے بتاؤ تم کیسی ہو؟”
”میں ٹھیک ہوں۔” رونے سے اس کے سر میں درد ہونے لگا تھا۔
”میڈیسن لے رہی ہو؟”
”ہاں۔”
”اور کھانا”
”وہ بھی۔”
”تمہارے لئے کیا لے کر آؤں یہاں سے؟”
”پتا نہیں۔”
”ٹھیک ہے میں اپنی مرضی سے کچھ بھی لے آؤں گا۔ تم بس یہ کرو کہ میرے آنے تک اپنا بخار ختم کر دو۔ میں کم از کم تمہیں بستر میں دیکھنا نہیں چاہتا۔”
”نانو کہتی ہیں ، میں ہر وقت لیٹی رہوں، آپ کہتے ہیں، میں بستر میں نظر نہ آؤں۔ پھر میں کیا کروں؟” اس نے بے چارگی سے کہا۔
”تم اپنا بخار ختم کر دو تاکہ گرینی کو تم سے یہ کہنا نہ پڑے۔” وہ اب بھی بچوں کی طرح اسے بہلا رہا تھا۔
”آپ کل آجائیں گے؟” وہ اس کی بات کے جواب میں اس سے پوچھنے لگی۔
”کل یا پرسوں مگر آجاؤں گا۔” اس نے یقین دلایا۔
اور تیسرے دن وہ واقعی اس کے سامنے تھا۔ علیزہ کو اس دن بھی ہلکا ہلکا بخار تھا اور وہ اپنے کمرے میں تھی جب وہ دروازے پر دستک دے کر اندر داخل ہوا۔ وہ اسے دیکھ کر بے اختیار مسکرانے لگی مگر عمر اسے دیکھ کر فکر مند ہو گیا۔ علیزہ اپنے بستر سے اٹھ کر بیٹھ گئی۔ وہ سیدھا اس کے پاس آکر بیٹھ گیا۔
”کم آن علیزہ! کیا حال بنایا ہوا ہے تم نے، میں تو پہچان ہی نہیں سکا۔” وہ اس کے کندھے پر بازو پھیلائے کہہ رہا تھا۔ وہ مسکرائی۔
اس کی فکر مندی اسے اچھی لگ رہی تھی۔ اس کے خوش ہونے کے لئے اتنا ہی کافی تھا کہ وہ صرف اس کے لئے اتنی دور سے سب کچھ چھوڑ کر آگیا تھا۔
”تمہارا بخار کیسا ہے؟” عمر کو یک دم یاد آیا علیزہ کے جواب کا انتظار کیے بغیر اس نے علیزہ کے ماتھے پر ہاتھ رکھ دیا۔
”ابھی بھی بخار ہے؟”
”ہاں لیکن زیادہ نہیں۔”
”ٹھیک ہے اگر زیادہ بخار نہیں تو پھر اٹھو۔” وہ کھڑا ہو گیا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اٹھانے لگا۔
”کہاں جانا ہے؟” وہ کچھ حیران ہوتے ہوئے اٹھ کرکھڑی ہو گئی۔
”کہیں دور نہیں جانا۔ بس لاؤنج تک جانا ہے۔ کسی سے ملوانا ہے تمہیں۔”
وہ اب اس کا ہاتھ پکڑے کمرے کے دروازے کی طرف جا رہا تھا۔
”کس سے ملوانا ہے؟”
”ایک دوست سے۔” وہ مسکرایا۔ علیزہ کچھ حیران ہوئی۔ اس سے پہلے عمر نے کبھی اسے اپنے کسی دوست سے ملوانے کی کوشش نہیں کی تھی، اب یک دم ایسا کون سا دوست آگیا ہے جس سے ملوانا وہ ضروری سمجھ رہا تھا۔
”میں کپڑے چینج کر لوں۔” اس نے ٹھٹکتے ہوئے کہا۔
”کوئی ضرورت نہیں۔ ” وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر دوبارہ کھینچنے لگا۔
”بالوں میں برش تک نہیں کیا ہے میں نے۔” علیزہ نے احتجاج کیا۔
”یار! تمہیں ضرورت ہی نہیں ہے برش کی، تم اس طرح بھی بہت خوبصورت لگتی ہو۔” وہ اب کمرے سے باہر نکل آئے تھے۔
”یہ دوست کہاں سے لائے ہیں؟” علیزہ نے تجسس کے عالم میں پوچھا۔ عمر کچھ کہنے کے بجائے پر اسرار انداز میں مسکرایا۔
لاؤنج میں داخل ہوتے ہی علیزہ ٹھٹھک گئی۔ اس کے بالکل سامنے صوفہ پر نانو کے ساتھ ایک غیر ملکی لڑکی بیٹھی ہوئی تھی۔ اس کی عمر تیئس چوبیس سال تھی اور اس کے نقوش خاصے تیکھے تھے، بلیک ٹراؤزر اور سفید ٹی شرٹ میں ملبوس وہ اس وقت لاؤنج کی سب سے نمایاں چیز تھی۔
علیزہ اپنی جگہ سے ہل نہیں سکی۔
”آؤ نا علیزہ ! رک کیوں گئی ہو؟”
عمر اب اس سے انگلش میں مخاطب تھا۔ اس لڑکی نے چونک کر ان دونوں کو دیکھا اور پھر اس کے چہرے پر ایک خوبصورت مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ علیزہ نے کچھ خشمگیں نظروں سے عمر کو دیکھا اور پھر آگے بڑھ آئی۔
”علیزہ ہے، میری کزن اور علیزہ ! یہ جوڈتھ ہے میری بہت اچھی دوست۔ ”
عمر نے ان دونوں کا تعارف کروایا۔ علیزہ نے کسی رسمی مسکراہٹ کے بغیر اپنا ہاتھ آگے بڑھا دیا۔ جوڈتھ نے اس سے ہاتھ نہیں ملایا۔ وہ چند قدم آگے بڑھی اور بڑی بے تکلفی کے ساتھ اس نے علیزہ کے دونوں شانوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے اس کا گال چوم لیا۔ علیزہ اس کی اس گرم جوشی پر بے اختیار سٹپٹائی۔
”کیسی ہو علیزہ؟” وہ اب پوچھ رہی تھی۔
”میں ٹھیک ہوں۔ آپ کیسی ہیں؟” اس نے کہا۔
علیزہ نے اس سے یہ نہیں پوچھا کہ وہ اسے کیسا توقع کر رہی تھی۔ وہ یک دم ہر چیز میں دلچسپی کھو بیٹھی تھی چند لمحے پہلے تک عمر کو اپنے سامنے دیکھ کر وہ جتنی خوش ہوئی تھی۔ اب اس خوشی کا کہیں نام و نشان بھی باقی نہیں رہا تھا۔
جوڈتھ اب واپس نانو کے ساتھ صوفہ پر بیٹھ گئی تھی۔ علیزہ کچھ جھجکتے ہوئے ایک دوسرے صوفہ پر بیٹھ گئی۔ عمر اب جوڈتھ کا تفصیلی تعارف کروا رہا تھا۔
”ہماری دوستی دس سال پرانی ہے۔ جو ڈتھ اور میں ایک ہی اسکول میں جاتے رہے ہیں، پھر کیلی فورنیا یونیورسٹی میں بھی یہ میرے ساتھ ہی رہی۔”
علیزہ کو اس کے تعارف میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ عمر کے چہرے پر نظریں جمائے بیٹھی رہی۔ وہ پچھلے کئی ماہ سے وہاں تھا اور اس سارے عرصے کے دوران اس نے ایک بار بھی جوڈتھ کا ذکر نہیں کیا اور اب وہ بتا رہا تھا کہ وہ پچھلے دس سال سے ایک دوسرے کے ساتھ ہیں، علیزہ کا دل چاہا وہ یک دم اٹھ کر وہاں سے چلی جائے۔ مگر وہ خود پر ضبط کئے وہاں بیٹھی رہی۔
”عمر تمہارا بہت ذکر کرتا ہے۔ علیزہ ! ابھی بھی تمہارے لئے اسپین سے واپس چلے آئے ہیں۔ وہ بہت پریشان تھا تمہارے لئے۔ ” جوڈتھ اب اس سے کہہ رہی تھی ۔ علیزہ کو کوئی خوشی نہیں ہوئی۔
”تو یہ وہ ضروری کام تھا جس کے لئے عمر بار بار واپس امریکہ جانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس کی دس سال پرانی گرل فرینڈ اور یہی وہ دوست تھے جن کے ساتھ وہ اسپین گیا تھا علیزہ کو یقین تھا جوڈتھ کے علاوہ وہ کسی دوسرے کو اسپین لے کر نہیں گیا ہو گا وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی اسے جوڈتھ پر رشک آرہا تھا یا اس سے حسد ہو رہا تھا یا پھر وہ اس سے نفرت کرنے لگی تھی۔
”مجھے نیند آرہی ہے نانو! میں سونے جا رہی ہوں۔”
جوڈتھ کی لمبی چوڑی گفتگو کے جواب میں علیزہ نے اٹھتے ہوئے صرف یہی کہا ، جوڈتھ نے کچھ حیرانی سے اسے دیکھا، شاید اسے علیزہ سے اتنے سر مہری کی توقع نہیں تھی۔
عمر نے گہری نظروں سے علیزہ کو دیکھا وہ اس کا چہرہ پڑھنے کی کوشش کر رہا تھا۔
”علیزہ! بیٹھو کچھ دیر باتیں کرتے ہیں۔” عمر نے اسے روکنے کی کوشش کی ۔ وہ رکی نہیں۔
”مجھے نیند آرہی ہے مجھے سونا ہے۔” وہ اس بار عمر کا چہرہ دیکھے بغیر لاؤنج سے نکل گئی۔
لاؤنج میں چند لمحوں کے لئے ایک عجیب سی خاموشی چھا گئی تھی۔
پھر عمر نے اس خاموشی کو تھوڑا ”میں تھوڑی دیر تک آتا ہوں۔” اس نے مسکراتے ہوئے جوڈتھ سے کہا وہ جواباً کچھ بولے بغیر مسکرائی۔ عمر کمرے سے نکل گیا۔
علیزہ کے کمرے پر دستک دے کر اس نے کمرے کے اندر جانے کی کوشش کی مگر دروازہ نہیں کھلا۔ وہ لاکڈ تھا۔ وہ رک گیا۔ اس نے ایک بار پھر دروازے پر دستک دی۔ اس بار اس نے علیزہ کا نام پکارا۔
علیزہ نے اپنے دروازے پر ہونے والی دستک سنی اور اس کی آواز بھی پہچان لی مگر وہ اسی طرح خاموشی سے اپنے بیڈ پر لیٹی رہی۔ اسے اس وقت عمر پر بے تحاشا غصہ آرہا تھا۔
عمر نے دوبارہ دروازے پر دستک دی۔
”میں سو رہی ہوں، آپ مجھے ڈسٹرب نہ کریں۔” اس بار عمر نے علیزہ کی آواز سنی۔
”تم اتنی جلدی کیسے سو سکتی ہو؟ وہ بھی کھانا کھائے بغیر۔” عمر نے بلند آواز میں کہا۔
”مجھے کھانا نہیں کھانا۔ مجھے بھوک نہیں ہے، اب آپ جائیں۔”
”میں تمہارے لئے سب کچھ چھوڑ کر اسپین سے آیا ہوں اور تم میرے ساتھ اس طرح Behaveکر رہی ہو۔” عمر نے شکایت کی۔
”آپ کچھ بھی چھوڑ کر نہیں آئے ۔ آپ سب کچھ ساتھ لے آئے ہیں۔”
علیزہ نے بے اختیار کہا اور جواباً اس نے عمر کی بے ساختہ ہنسی سنی۔
”تم جوڈتھ کی بات کر رہی ہو؟” علیزہ کو اب خود پر شرمندگی محسوس ہوئی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا، وہ فوری طور پر اپنی بات کے ازالے کے لئے کیا کہے۔ وہ خاموش رہی۔
”تمہیں اس کا آنا اچھا نہیں لگا؟”
وہ اب بھی چپ رہی۔
”علیزہ ! میں تم سے بات کر رہا ہوں” وہ اب بلند آواز میں کہہ رہا تھا۔
”اسے واپس بھجوا دوں ؟” وہ اب پوچھ رہا تھا۔
”ٹھیک ہے، میں اسے واپس بھجوا دیتا ہوں۔”
اسے اس کی بات پر یقین نہیں آیا۔ دروازے کے باہر اب خاموشی تھی

باب: 40

علیزہ کا پاؤں بے اختیار بریک پر پڑا اور گاڑی رک گئی۔ علیزہ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا ان میں سے ایک لڑکا گاڑی کا ٹائر بدل رہا تھا اور شاید وہ اسی وجہ سے وہاں رکے تھے۔ ورنہ اس طرح وہاں نہ رکتے۔ علیزہ نے ان لوگوں کے چہرے پر یک دم حیرت دیکھی اور پھر انہوں نے اسے اور اس کی گاڑی کو پہچان لیا۔ جب تک وہ گاڑی کو ریورس کرنے کی کوشش کرتی۔ وہ تینوں بھاگتے ہوئے اس کی گاڑی کے پاس آگئے۔
علیزہ نے تیزی سے دروازے کو لاک کیا۔ کھڑکی کا شیشہ پہلے ہی اوپر تھا۔ وہ تینوں اسی کے دروازے کی طرف آئے تھے۔ سڑک اتنی چوڑی نہیں تھی کہ وہ اس پر گاڑی کو موڑ لیتی۔ اسے گاڑی کو مسلسل ریورس کرنا تھا۔ جب تک کہ وہ اس پچھلی سڑک تک نہ پہنچ جاتی جہاں سے اس نے ٹرن لیا تھا۔
وہ لڑکے اب اس کی گاڑی کے دائیں طرف والے دونوں دروازوں کے ہینڈلز پر ہاتھ رکھے انہیں کھولنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس میں ناکامی پر انہوں نے کھڑکی کے شیشوں پر ہاتھ مارنے کی شروع کر دیئے۔
علیزہ بے حد خوفزدہ تھی، اسے لگ رہا تھا جیسے کھڑکی کا شیشہ ابھی ٹوٹ جائے گا۔ اس کا ہاتھ بری طرح کانپ رہا تھا۔ یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے اس نے زندگی میں کبھی گاڑی نہیں چلائی۔ وہ بالکل بھول چکی تھی کہ اس کا کون سا پیر کہاں ہونا چاہئے۔ وہ خوف کے عالم میں اپنی کھڑکی کے شیشے پر ان کے ہاتھ دیکھنے لگی_
تب ہی ان میں سے ایک لڑکے کی نظر اس کی برابر والی سیٹ کے دروازے پر پڑی۔ علیزہ نے اسے کچھ کہتے ہوئے ادھر اشارا کرتے دیکھا اور پھر ان تینوں کو اچانک گاڑی کی دوسری طرف لپکتے دیکھا علیزہ نے بے اختیار دوسری طرف دیکھا اور اس کے منہ سے چیخ نکلی۔ دوسری کھڑکی کا شیشہ کھلا ہوا تھا۔ وہ بجلی کی طرح دوسری سیٹ پر آتے ہوئے تیزی سے شیشہ چڑھانے لگی۔ مگر وہ لوگ وہاں پہنچ چکے تھے۔ علیزہ نے ایک ہاتھ لاک پر رکھ دیا۔ ان میں سے ایک لڑکا کھڑکی کے اندر ہاتھ ڈال کر لاک سے اس کا ہاتھ ہٹانے لگا۔ آدھا شیشہ اوپر جا چکا تھا۔ علیزہ نے لاک سے ہاتھ نہیں اٹھایا۔ وہ پوری قوت سے شیشہ اوپر کرتی رہی۔ اس لڑکے نے اپنے ہاتھوں کے ناخنوں سے اس کے ہاتھ کو بری طرح زخمی کیا۔ علیزہ نے اپنا ہاتھ پھر بھی نہیں ہٹایا۔ وہ جانتی تھی کہ وہ اس کا ہاتھ ہر قیمت پر وہاں سے ہٹا دینا چاہتا تھا۔
گاڑی کا شیشہ اتنا اوپر جا چکا تھا کہ وہ بازو کے علاوہ خود اندر نہیں آسکتا تھا۔ مگر اب علیزہ کھڑکی کا شیشہ پوری طرح بند نہیں کر سکتی تھی۔ اس لڑکے نے یک دم لاک پر رکھے ہوئے اس کے ہاتھ کو چھوڑ دیا اور اس ہاتھ سے اس کے چہرے پر مکا مارا۔ وہ ایک چیخ کے ساتھ پلٹ کر دوسری سیٹ پر گری۔ مگر ایک بار پھر اس نے اپنے دونوں ہاتھ اس لاک پر رکھ دیئے۔ سر نیچے جھکا کر اس نے اس کے مزید کسی حملے سے بچنے کی کوشش کی۔ اس کے چہرے میں شدید تکلیف ہو رہی تھی اور وہ اب روتے ہوئے خوف سے چیخ رہی تھی۔
وہ ان کی آوازیں سن رہی تھی۔ وہ لڑکا اب دوسرے سے کہہ رہا تھا۔
”میں اس کے بال کھینچتے ہوئے اسے لاک سے پیچھے کرتا ہوں۔ تم اپنا ہاتھ اندر ڈال کر لاک کھول دینا۔”
علیزہ نے سر اٹھا کر اس لڑکے کو دیکھا۔ وہ گردن موڑے تیز آواز میں اپنے پیچھے کھڑے دوسرے لڑکے سے مخاطب تھا۔ اس کا بازو کھڑکی کے اندر تھا اور اس وقت وہ بالکل ساکت تھا۔ علیزہ نے بجلی کی تیزی کے ساتھ اس کے بازو پر اپنے دانت جما دیئے۔ وہ جتنے زور سے اسے کاٹ سکتی تھی، اس نے کاٹا تھا۔ اس لڑکے نے ایک چیخ ماری اور تیزی سے اپنا بازو گاڑی سے نکال لیا۔
اس سے پیشتر کہ دوسرا لڑکا آگے بڑھتا۔ علیزہ نے شیشہ بند کر دیا۔ اس نے ان لڑکوں کو گالیاں دیتے سنا ۔ وہ روتے ہوئے اپنی سیٹ پر واپس آئی اور اس نے گاڑی اسٹارٹ کرکے اسے ریورس کرنا شروع کر دیا۔
وہ لڑکے اب اس کی گاڑی کے ساتھ بھاگ رہے تھے۔ علیزہ نے یک دم انہیں رکتے دیکھا۔ وہ گاڑی ریورس کرتی رہی اور پھر اچانک اس نے ایک لڑکے کو جھک کر زمین سے کچھ اٹھاتے دیکھا۔ جب وہ سیدھا ہوا تو علیزہ نے بے اختیار چیخ ماری۔ اس لڑکے کے ہاتھ میں ایک بڑا سا پتھر تھا ا ور وہ جان چکی تھی کہ وہ کیا کرنا چاہتے تھے۔
وہ لڑکا ایک بار پھر دوڑتا ہوا گاڑی کی طرف آیا اور علیزہ نے اسے ونڈ اسکرین پر وہ پتھر اچھالتے دیکھا۔ اس نے آنکھیں بند کر لیں اسے ایک دھماکے کی آواز سنائی دی اور اپنے چہرے اور لباس پر شیشے کی کرچیاں لگتی محسوس ہوئیں۔ ونڈ اسکرین ٹوٹ چکی تھی مگر خوش قسمتی سے وہ پتھر اسے نہیں لگا تھا۔ وہ گاڑی ریورس کرتی رہی۔ بایاں بازو اٹھا کر اس نے اپنے سامنے کی ٹوٹی ہوئی اسکرین کو آنکھیں کھولے بغیر محسوس کیا۔ اسے خوف تھا کہ آنکھیں کھولنے پر ہوا سے اڑ کر کوئی کرچی اس کی آنکھوں میں جا سکتی ہے مگر اسکرین مکمل طور پر ٹوٹ چکی تھی۔
جس وقت اس نے آنکھیں کھولیں۔ اس وقت وہ لڑکے خاصی دور سڑک پر تھے خوش قسمتی سے گاڑی سڑک پر ہی رہی تھی، اور پیچھے کسی چیز سے نہیں ٹکرائی۔ مگر وہ سڑک گزر چکی تھی جس پر وہ مڑنا چاہتی تھی وہ گاڑی ریورس کرتی رہی۔ آگے کی طرف جانا بے کار تھا۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ وہ کسی طرح بھی ان لڑکوں کے قریب جائے۔ اس نے سوچا تھا کہ وہ اسی طرح گاڑی ریورس کرتی جائے گی اور آگے آنے والی سڑک پر مڑ جائے گی۔
اس کا خوف اب قدرے کم ہو گیا۔ وہ لڑکے اب بہت دور رہ گئے تھے۔ مگر وہ اب بھی انہیں سڑک پر دیکھ سکتی تھی، اور تب ہی اچانک اس نے کھڑے ان لڑکوں کو پیچھے مڑ کر دیکھتے ہوئے دیکھا۔ علیزہ کا سانس رکنے لگا۔ ان لڑکوں کی گاڑی اب اس کی طرف آرہی تھی۔ یقیناً اس لڑکے نے ٹائر تبدیل کر لیا تھا اور اب وہ گاڑی کو ان لڑکوں کی طرف لارہا تھا اور اس کے بعد…
وہ جانتی تھی، وہ اس کے بعد کیا کرتے۔ وہ ایک بار پھر اس کے پیچھے آتے اور اس بار وہ ان سے کسی طرح جان نہیں چھڑا سکتی تھی۔
وہ اب گاڑی پر سوار ہو رہے تھے اور علیزہ جانتی تھی کہ چند لمحوں کے بعد وہ اس کے سر پر ہوں گے۔ اس نے دعائیں پڑھتے ہوئے گاڑی کی اسپیڈ کچھ اور بڑ ھا دی۔
اور پھر اچانک اسے سڑک نظر آگئی۔ گیئر بدلتے ہوئے اس نے گاڑی کو اس سڑک پر ڈال دیا۔ وہ بھی ایک ذیلی سڑک تھی۔ مگر اب علیزہ یہ نہیں جانتی تھی کہ وہ کون سی سڑک ہے ۔ اسے واحد تسلی یہ تھی کہ گاڑی اب ریورس گئیر میں نہیں تھی اور وہ تیز رفتاری سے اسے چلا سکتی تھی مگر سامنے سے آتی ہوئی ہوا اسے آنکھیں بند کرنے پر مجبور کر رہی تھی۔
تب ہی اس نے سائڈ مرر سے ان لڑکوں کو اس روڈ پر ٹرن لیتے دیکھا۔ اس نے ہونٹ بھنچ لیے۔ وہ گاڑی بہت تیز رفتاری سے اس کے قریب آتی جا رہی تھی۔ علیزہ نے بہت تیزی سے ایک اور ٹرن لیا۔ جوں جوں وقت گزر رہا تھا۔ اس کے اعصاب جواب دیتے جا رہے تھے۔ اسے اندازہ ہونے لگا کہ وہ بہت تیز رفتاری سے کار نہیں چلا سکتی کیونکہ ٹوٹی ہوئی ونڈ اسکرین سے آنے والی ہوا کے تھپیڑے اسے سڑک پر کچھ بھی دیکھنے نہیں دے رہے تھے۔ وہ سڑکیں ویران تھیں۔ سامنے سے کوئی ٹریفک نہیں آرہی تھی۔اس لئے وہ کسی نہ کسی طرح ان پر گاڑی چلا رہی تھی۔ مگر وہ جب بھی مین روڈ پر پہنچتی وہ کسی نہ کسی حادثے کا شکار ضرور ہو جاتی۔ وہاں وہ اس طرح آنکھویں کھولتے بند کرتے گاڑی نہیں چلا سکتی تھی۔
وہ پھر بھی مین روڈ پر جانا چاہتی تھی، اس کا خیال تھا وہاں جا کر وہ گاڑی روک کر سڑک پر اتر جائے گی اور مدد لے لے گی۔ وہ جانتی تھی کہ اتنی ٹریفک اور لوگوں کے درمیان وہ لڑکے اس تک پہنچنے کی کوشش نہیں کرتے۔
اسے اب اپنی اور شہلا کی حماقت کا احساس ہو رہا تھا۔ انہیں ان لڑکوں سے جان چھڑانے کے لئے کسی بھی چوک میں تعینات ٹریفک کانسٹیبل کے پاس گاڑی روک دینی چاہئے تھی۔ وہاں ٹریفک کانسٹیبل اور لوگ کسی نہ کسی طرح ان کی مدد کر سکتے تھے۔ اس کی دوسری حماقت یہ تھی کہ ایک بار شہلا کے گھر پہنچنے کے بعد اس نے دوبارہ اکیلے نکلنے کی غلطی کی۔
”میں اس کے ڈرائیور کے ساتھ کیوں نہیں آئی یا اپنی گاڑی وہاں چھوڑ کر میں اس کی گاڑی لے آتی۔ کم از کم یہ لوگ گاڑی کو اتنی جلدی نہ پہچان لیتے۔ ” وہ خود کو کوس رہی تھی۔
ایک ذیلی سڑک سے دوسری ذیلی سڑک پر مڑتے ہوئے اسے احساس ہو رہا تھا کہ وہ بری طرح اس علاقے میں پھنس چکی ہے۔ وہ یہ تک نہیں پہچان پا رہی تھی کہ وہ کس سڑک پر ہے۔ اسے یہ بھی خوف تھا کہ گاڑی کی ٹنکی میں زیادہ پیٹرول نہیں تھا اور گاڑی کبھی بھی بند ہو سکتی تھی یا اس طرح چکر لگاتے لگاتے اس کا ٹائر فلیٹ ہو جاتا تو…
”مجھے کسی گھر کے اندر داخل ہوجانا چاہئے… کسی بھی گھر کے اندر… اور پھر ان سے مدد لینی چاہئے۔” اس نے یک دم فیصلہ کر لیا۔ علیزہ نے کارچلاتے ہوئے اب گھرو ں کے گیٹ دیکھنے شروع کر دیئے اور پھر ایک موڑ ہوئے وہ گاڑی ایک گھر کے کھلے گیٹ کے اندر لے گئی۔
وہ گاڑی روکے بغیر سیدھا پورچ میں لے گئی اور وہاں کھڑی گاڑی کے پیچھے اسے روک دیا۔ اس نے اپنے پیچھے گیٹ کی طرف سے آتے ہوئے چوکیدار کو چلاتے سنا۔
علیزہ نے برق رفتاری سے کار کا دروازہ کھولا اور نیچے اتر آئی۔ ” گیٹ بند کر دو۔” اس نے چلا کر چوکیدار سے کہا۔ مگر وہ اس کی طرف آتا رہا۔ اسے اچانک خوف محسوس ہونے لگا کہ لڑکوں کی گاڑی بھی اسی طرح کھلے گیٹ سے اندر آسکتی ہے۔ اگر انہیں یہ شک ہو گیا کہ یہ اس کا اپنا گھر نہیں ہے تو…
”گیٹ بند کردو… کچھ لوگ میرے پیچھے آرہے ہیں۔” وہ بلند آواز میں چلائی اور تب ہی اسے اندازہ ہوا کہ چوکیدار اس کی بات سن نہیں پا رہا۔ وہ خاصا دور تھا اور مسلسل اس کی طرف آرہا تھا۔
”مجھے خود بھاگ کر گیٹ بند کر دینا چاہئے۔” اس نے سوچا اور ایک قدم بڑھایا اور عین اس وقت اس نے کھلے گیٹ کے سامنے سڑک پر ایک گاڑی کو آہستہ آہستہ رکتے ہوئے دیکھا۔ وہ چاروں گاڑی میں بیٹھے ہوئے گردنیں موڑے اندر کا جائزہ لے رہے تھے اور علیزہ ان کے بالکل سامنے تھی۔ اس نے پلک جھپکتے میں ان کو گاڑی روکتے اور پھر تھوڑا سا پیچھے ہوتے دیکھا اور وہ جان چکی تھی کہ وہ لوگ گاڑی اندر لانے والے ہیں۔
وہ سر پٹ گھر کے اندرونی دروازے کی طرف بھاگی اور اسے کھول کر اندر داخل ہو گئی۔
وہ اس گھر کا لاؤنج تھا۔ علیزہ نے ایک عورت کو چیختے سنا۔ اس نے اس عورت پر توجہ دیئے بغیر پلٹ کر اس دروازے کو بند کیا اور اسے لاک کرنے کی کوشش کرنے لگی۔ اسے ایک پل میں اندازہ ہو گیا کہ وہ دروازہ لاک نہیں ہو سکتا تھا۔ اس کی چابی لاک ہول میں نہیں تھی۔ دروازے پر کوئی چٹخنی بھی نہیں تھی۔
علیزہ نے مڑ کر لاؤنج میں دیکھا۔ وہاں ایک عورت اور مرد حواس باختہ اسے دیکھ رہے تھے۔
”کون ہو تم، اندر کیوں آئی ہو؟” مرد چلایا۔
”پلیز مجھے چھپا لیں۔ میرے پیچھے کچھ لڑکے ہیں، وہ اندر آرہے ہیں۔” وہ ان سیڑھیوں کی طرف بھاگتی ہوئی بولی۔ جو اس نے لاؤنج میں دیکھی تھیں۔ پلک جھپکتے میں وہ سیڑھیوں پر تھی۔
”نہیں، تم ہمارے گھر سے چلی جاؤ۔ نکلو یہاں سے۔” وہ مرد کہہ رہا تھا۔ مگر علیزہ رکی نہیں۔
اس نے باہر کچھ بھاگتے قدموں کی آوازیں سن لی تھیں اور وہ جانتی تھی کہ لاؤنج کا دروازہ کسی بھی وقت کھل سکتا ہے۔
برق رفتاری سے سیڑھیاں پھلانگتے ہوئے وہ اوپر کی منزل پر آگئی اور ایک کوریڈور میں داخل ہوئی ۔ وہاں کچھ کمروں کے دروازے نظر آرہے تھے۔ اس نے پہلا دروازہ کھولنے کی کوشش کی۔ وہ نہیں کھلا، وہ لاکڈ تھا۔
تب ہی اس نے لاؤنج میں شور سنا۔ وہاں بہت سے لوگوں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ مرد اب بلند آواز میں چلا رہا تھا۔ علیزہ بھاگتی ہوئی اگلے دروازے پرپہنچی اور ہینڈل پر ہاتھ رکھ کر دروازہ کھول دیا۔ دوسرے ہی لمحے وہ کمرے کے اندر تھی۔ اس نے پلٹ کر دروازہ بند کر دیا۔ کی ہول میں لگی ہوئی چابی اس نے گھما کر دروازے کو لاک کر دیا اور اس کے بعد اوپر لگا ہوا بولٹ چڑھا دیا۔

وہ ایک بہت بڑا کمرہ تھا اور اس کی لائٹ آن تھی۔ بستر کی سلوٹوں سے محسوس ہو رہا تھا کہ وہاں چند لمحے پہلے کوئی سویا یا لیٹا ہوا تھا مگر اب وہاں کوئی بھی نہیں تھا اور تب ہی اس کی نظر بیڈ سائیڈ ٹیبل پر رکھے ہوئے فون پر پڑی۔ اکھڑے ہوئے سانس اور پسینے سے بھیگے ہوئے وجود کے ساتھ وہ چیل کی طرح فون پر جھپٹی ، اس نے برق رفتاری سے ریسیور اٹھا کر شہلا کا نمبر ملانا شروع کر دیا۔ اسے سیڑھیوں پر کسی کے بھاگتے قدموں کی آواز سنائی دی۔ وہ لوگ یقیناً اب اوپر آرہے تھے۔ اس کا سانس رکنے لگا۔ وہ کسی بھی لمحے اس تک پہنچنے والے تھے بیل ہو رہی تھی مگر کوئی بھی ریسیور نہیں اٹھا رہا تھا۔
”یا اللہ… یااللہ… اللہ کے واسطے فون اٹھاؤ۔” وہ التجائیہ انداز میں بڑبڑانے لگی اور تب ہی دوسری طرف سے ریسیور اٹھا لیا گیا۔
”ہیلو۔” اس نے شہلا کی آواز سنی مگر اس سے پیشتر کہ وہ کچھ بولتی ، اس نے ساتھ والے دروازے پر کسی کو ٹھوکر مارتے سنا اور پھر کوئی بلند آواز میں گالیاں دیتے ہوئے اسے دروازہ کھولنے کے لئے کہنے لگا۔
”شہلا! میں علیزہ ہوں۔” اس نے اکھڑے ہوئے سانس کے ساتھ سرگوشی میں کہا۔ وہ ابھی اس کا دروازہ نہیں بجا رہے تھے اور وہ چاہتی تھی کہ انہیں یہ شک نہ ہو کہ وہ اس کمرے کے بجائے ساتھ والے کمرے میں ہے۔
”علیزہ تم… تم گھر پہنچ گئی ہو؟” شہلا نے دوسری طرف سے اس سے پوچھا۔
”میں گھر نہیں پہنچی ہوں۔”
”کیوں اور تم اتنا آہستہ کیوں بول رہی ہو؟” شہلا کی آواز میں حیرت تھی۔
”شہلا پلیز ! اس وقت کوئی سوال مت کرو صرف میری بات سنو۔ میں مصیبت میں ہوں، وہ لوگ میرے پیچھے آئے تھے۔ میں ایک گھر میں گھس گئی ہوں اور ایک کمرے سے تمہیں فون کر رہی ہوں۔ وہ لوگ بھی اندر آچکے ہیں۔ اور اب ساتھ والے کمرے کا دروازہ کھلوانے کی کوشش کر رہے ہیں۔۔۔” اسے دوسری طرف سے شہلا کی چیخ سنائی دی۔
”پلیز! پلیز میری مدد کرو… وہ مجھ تک پہنچ جائیں گے۔” علیزہ کی ہمت جواب دے گئی وہ رونے لگی۔
”تم کہاں ہو…؟ کس گھر میں ہو؟”
”مجھے کچھ پتا نہیں… مجھے کچھ بھی پتا نہیں… مگر میں تمہارے ہی علاقے میں ہوں۔ ”
”گھر کا ایڈریس بتا سکتی ہو؟”
”نہیں۔”
”گھر کی کوئی نشانی؟ ”
”نہیں… نہیں۔” وہ گڑگڑائی اور تب ہی اس نے اپنے کمرے کے دروازے کے باہر ایک آواز سنی۔
”مجھے لگتا ہے ، وہ یہاں ہے۔ اس کمرے کی لائٹ آن ہے۔ نیچے جا کر چابیاں لاؤ۔”
”شہلا… شہلا! وہ میرے کمرے تک پہنچ گئے ہیں۔” اس نے روتے ہوئے اسے بتایا۔
”ممی…!ممی…! موبائل سے پولیس کا نمبر ملائیں… ممی! موبائل سے پولیس کا نمبر ملائیں۔” اس نے شہلا کو چلا کر اپنی ممی کو ہدایت دیتے سنا۔
اب دروازے پر ٹھوکریں ماری جار ہی تھیں۔ وہ گالیوں کی آوازیں سن رہی تھی۔ علیزہ گھٹی ہوئی آواز میں رو رہی تھی۔
”علیزہ… ! علیزہ…! فون بند مت کرنا۔ ہم کال ٹریس کرواتے ہیں۔ دیکھو گھبرانا مت۔” وہ شہلا کی آواز سن رہی تھی۔ وہ بھی اب رو رہی تھی۔
”علیزہ…! علیزہ…! ” اس نے ریسیور پر اب شہلا کے بھائی فاروق کی آواز سنی۔
”فاروق…! دروازہ ٹوٹنے والا ہے۔ وہ اندر آجائیں گے، وہ ابھی اندر آجائیں گے۔ ” وہ یک دم بلند آواز میں چلا اٹھی۔ دروازہ اب واقعی اتنی بری طرح دھڑدھڑایا جا رہا تھا کہ یوں لگتا تھا وہ کسی بھی لمحے ٹوٹ کر نیچے گر پڑے گا۔
”علیزہ کمرے میں باتھ روم دیکھو… وہاں اگر باتھ روم ہے تو اس کے اندر جا کر دروازہ بند کر لو اور کمرے کی لائٹ آف کر دینا۔ فون اگر باتھ روم کے اندر لے جا سکتی ہو تو لے جاؤ اگر تار لمبی نہیں ہے تو پھرفون اٹھا کر بیڈ کے پیچھے چھپا دو مگر فون بند مت کرنا۔” فاروق بلند آواز میں اسے ہدایات دینے لگا۔
”ہم کال ٹریس کر لیتے ہیں۔ ہم ابھی تم تک پہنچ جائیں گے۔ گھبرانا مت… رو ؤ مت۔”
”مجھے ایک دروازہ نظر آرہا ہے۔ وہ باتھ روم کا ہی ہو گا۔”
”تم وہاں چلی جاؤ… اور اندر جا کر دیکھو، وہاں کوئی ایسی چیز ہے جسے تم اپنے دفاع کے لئے استعمال کر سکتی ہو اور مجھے یہ بتاؤ تم جس گھر کے اندر گئی ہو کیا گاڑی لے کر گئی ہو۔”
”ہاں۔” دروازے پر کوئی چیز ماری گئی تھی۔ علیزہ کے ہاتھ سے ریسیور گر پڑا۔ دروازہ بری طرح ہلا تھا۔ وہ بھاگتے ہوئے باتھ روم کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی اور بولٹ چڑھا لیا۔
باتھ روم میں ایک نظر دوڑاتے ہی اسے اپنے بالکل سامنے ایک اور دروازہ نظر آیا۔ وہ باتھ روم یقیناً دو کمروں کے درمیان تھا اور وہ کمرہ وہی تھا جسے اس نے سب سے پہلے کھولنے کی کوشش کی تھی مگر وہ بند تھا۔ اس نے برق رفتاری سے وہ دروازہ کھولا اور اس کے حلق سے چیخ نکلی۔

کمرے میں سولہ سترہ سالہ ایک لڑکا نائٹ ڈریس میں اس کے بالکل سامنے کھڑا تھا۔ وہ بھی اسے دیکھ کر بے حد خوفزدہ ہو گیا۔ کمرے میں نائٹ بلب جلا ہوا تھا اور باتھ روم کے کھلے دروازے کی روشنی نے صرف اتنی جگہ کو روشن کیا تھا جہاں وہ کھڑا تھا۔
”آپ کون ہیں اور یہاں کیوں آئی ہیں؟” علیزہ کو فوراً اندازہ ہو گیا کہ وہ اس گھر کا ایک فرد ہے اور یقیناً وہ کچھ دیر پہلے ہی اپنے دروازے پر پڑنے والی ٹھوکروں سے خوفزدہ ہو کر اٹھا ہو گا مگر اس نے دروازہ کھولنے کی ہمت نہیں کی اور پھر شاید باتھ روم میں ہونے والا شور سن کر وہ ادھر آیا ہو گا مگر اسی لمحے علیزہ اس باتھ روم سے باہر نکل آئی۔
علیزہ نے مڑ کر باتھ روم کے اس درواز ے کو بھی بند کر دیا۔ ”پلیز میری مدد کرو… یہ لوگ مجھے پکڑنا چاہتے ہیں۔ وہ اس کمرے کا دروازہ توڑ رہے ہیں اور اس کے بعد وہ اس باتھ روم کے دروازے کو توڑ کر یہاں آجائیں گے۔” وہ اندھیرے میں اس لڑکے کے سامنے روتے ہوئے گڑگڑائی۔
”میرے پاپا اور ممی ٹھیک ہیں…؟” اس لڑکے نے اس سے پوچھا۔
”ہاں وہ ٹھیک ہوں گے، ان لڑکوں کے پاس کوئی ہتھیار نہیں ہے۔ انہوں نے انہیں نقصان نہیں پہنچایا ہو گا۔ یہ صرف مجھے نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔” وہ اب بری طرح رو رہی تھی۔
”میرے پاس موبائل ہے میں نے پولیس کو فون کیا ہے۔۔۔” وہ لڑکا بات کرتے کرتے رک گیا۔ ایک دھماکے کی آواز آئی تھی۔ برابر والے کمرے کا دروازہ یقیناً ٹوٹ گیا تھا۔ وہ دونوں خوفزدہ ہو کر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ باتھ روم کا دروازہ اب دھڑدھڑایا جانے لگا تھا۔
”پلیز مجھے کہیں چھپا دو…وہ لوگ یہ دروازہ بھی توڑ دیں گے۔” وہ پوری طرح وحشت زدہ ہو چکی تھی۔
”میرے کمرے کی کھڑکیاں پورچ کی چھت پر کھلتی ہیں، آپ وہاں اتر جائیں اور لیٹ جائیں۔ اندھیرے میں آپ نظر نہیں آئیں گی یا آپ وہاں سے نیچے لان میں اتر سکیں تو… مگر پتا نہیں یہ کتنے لوگ ہیں اگر نیچے کوئی ہوا۔ نہیں آپ بس پورچ کی چھت پر اتر کر وہاں چھپ جائیں۔ اگر یہ لوگ میرا دروازہ دھڑدھڑانا بند نہ کر دیتے تو میں بھی وہیں چھپتا۔ یہ لوگ ابھی دروازہ توڑنے میں بہت وقت لیں گے۔ ہو سکتا ہے تب تک پولیس آجائے۔ اگر پولیس نہیں بھی آئی تب بھی میں ان لوگوں سے یہی کہوں گا کہ آپ میرے کمرے میں آئی تھیں اور پھر میرے کمرے کا دروازہ کھول کر چلی گئیں۔” اس لڑکے نے تیزی سے کھڑکیاں کھولتے ہوئے کہا۔
”اس نمبر پر رنگ کرکے اپنے گھر کا ایڈریس بتاؤ۔” علیزہ نے کھڑکی پر چڑھتے ہوئے اسے شہلا اور نانو کے نمبر بتائے اور لڑکے نے سر ہلا دیا۔
وہ بڑی احتیاط اور خاموشی سے پورچ کی چھت پر اتر گئی۔ اس نے اپنے پیچھے کھڑکیوں کو دوبارہ بند ہوتے دیکھا۔ گھر کا گیٹ اب بند تھا۔ علیزہ کا دل بیٹھنے لگا، باہر چوکیدار نظر نہیں آرہا تھا۔ بالکل خاموشی تھی۔ وہ پورچ کی چھت سے نیچے اترنا چاہتی تھی مگر ہمت نہیں کر سکی۔لان کی تمام لائٹس آن تھیں اور پورچ بھی روشن تھا۔ کوئی بھی اسے نیچے اترتے دیکھ لیتا تو… وہ نہیں جانتی تھی وہ چاروں اندر تھے یا پھر ان میں سے کوئی باہر بھی تھا۔وہ پورچ کی چھت کے سب سے تاریک کونے میں جا کر بیٹھ گئی اور تب ہی اس نے کمرے کو روشن ہوتے دیکھا جس کی کھڑکیوں سے وہ اتری تھی، یقیناً وہ لوگ اب وہاں تھے اور اگر ان میں سے کسی نے کھڑکیوں کے پردے ہٹا دیئے تو… وہ فوراً جان جاتے کہ کھڑکیوں میں کوئی گرل نہیں تھی اور اس کے ذریعے نیچے اترا جا سکتا تھا۔ اس کا پورا جسم خوف سے کانپ رہا تھا۔ وہ دم سادھے وہیں بیٹھی رہی۔
اور پھر اچانک اس نے دور کہیں پولیس سائرن کی آواز سنی۔ اس کا ر کا ہوا سانس یک دم بحال ہونے لگا۔ اسے اندازہ تھا کہ سائرن کی آواز گھر کے اندر بھی جا رہی ہوں گی، اور وہ چاروں لڑکے اب وہاں نہیں ٹھہریں گے۔ پھر اچانک اسے احساس ہوا کہ سائرن کی صرف ایک آواز نہیں ہے۔ ایک سے زیادہ پولیس کی گاڑیاں سائرن بجا رہی تھیں۔ اس نے یک دم نیچے پورچ میں دروازہ کھلنے اور کچھ بھاری قدموں کی آواز یں سنیں۔ پھر اس نے ایک لڑکے کو بھاگ کر گیٹ کی جانب جاتے ہوئے دیکھا۔ وہ پورچ کی چھت پر سر نیچے کر کے لیٹ گئی_
نیچے پورچ میں کوئی گاڑی اسٹارٹ ہو رہی تھی۔ پھر اس نے ایک گاڑی کے دروازے کی آواز سنی۔ اس نے پھر بھی گردن نہیں اٹھائی۔ وہ وہیں گہرے سانس لیتے ہوئے لیٹی رہی۔
پورچ میں اب یک دم کچھ اور آوازیں آنے لگی تھیں۔ اس نے ایک عورت کی آواز سنی۔ علیزہ جان گئی کہ گھر کے افراد باہر نکل آئے تھے۔ وہ چاروں لڑکے یقیناً وہاں سے جا چکے تھے۔ علیزہ اب بھی اٹھنے کی ہمت نہیں کر پائی۔ اسے اپنا وجود بے جان لگ رہا تھا۔ اسے کچھ دیر پہلے کے واقعات پر یقین نہیں آرہا تھا۔ پہلی بار اسے اپنے جبڑے اور ہاتھ میں تکلیف کا احساس ہونے لگا۔
علیزہ نے آہستہ آہستہ اٹھنے کی کوشش کی۔ اٹھ کر بیٹھنے کے بعد اس نے اپنے گھٹنوں کے گرد بازو لپیٹ کر منہ چھپا لیا۔ سائرن کی آوازیں اب بہت قریب آتی جا رہی تھیں۔ وہ شاک کے عالم میں چہرہ گھٹنوں میں چھپائے ہوئے بیٹھی رہی۔
اگلے دس منٹوں میں اس نے اس گھر کے بالکل سامنے پولیس کی ایک موبائل رکتے ہوئے دیکھی۔ سائرن کی آواز کانوں کو پھاڑ رہی تھی۔ علیزہ نے ایک نظر اس گاڑی پرڈالی اور پھر گردن دوبارہ اپنے گھٹنوں میں پھنسالی۔
سائرن کی آواز اب بڑھتی جا رہی تھی۔ وہ بہت ساری گاڑیوں کے ٹائروں کی آوازیں سن سکتی تھی۔ مگر وہ گردن نہیں اٹھا پا رہی تھی۔
”آپ ٹھیک ہیں؟” اس نے اچانک اپنے قریب ایک آواز سنی۔ علیزہ نے سر اٹھایا۔ اس کے سامنے پورچ کی چھت پر وہی سولہ سترہ سالہ لڑکا کھڑا تھا۔ مگر اب اس کے ساتھ تیرہ چودہ سالہ ایک اور لڑکا بھی تھا۔ وہ یقیناً ان ہی دو کھلی کھڑکیوں سے کود کر آئے تھے۔
”وہ لوگ چلے گئے ہیں… پولیس آگئی ہے۔ خطرے والی کوئی بات نہیں۔ میرے ممی ، پاپا اور بہن بھائی بالکل ٹھیک ہیں۔ ” وہ بڑی خوشی کے ساتھ اسے بتا رہا تھا۔
وہ مسکرانا چاہتی تھی مگر اسے احساس ہوا کہ وہ مسکرا نہیں سکتی۔ وہ کچھ بھی نہیں کر سکتی۔ وہ صرف اس کا چہرہ دیکھتی رہی اور پھر اس نے گردن موڑ کر باہر سڑک دیکھی۔ گیٹ ایک بار پھر کھلا ہوا تھا اورسڑک پولیس کی گاڑیوں سے بھری ہوئی تھی۔ سائرن اب آہستہ آہستہ بند ہو رہے تھے۔ وہ گیٹ کے اندر اور باہر پولیس کی یونیفارم میں ملبوس بہت سے لوگوں کو دیکھ سکتی تھی۔
”آئیں۔ واپس کمرے میں چلتے ہیں۔” اس لڑکے نے علیزہ سے کہا۔ وہ لڑکھڑاتے قدموں سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ پہلی بار اسے احساس ہوا کہ اس کے پیروں میں جوتا ہے نہ گلے میں دوپٹہ…
وہ لڑکے اب اس کے آگے چل رہے تھے۔ کھڑکی کے پاس پہنچ کر وہ بڑی پھرتی سے کھڑکی پر چڑھ گئے۔ مگر علیزہ کو اندازہ ہو گیا کہ وہ کھڑکی پر نہیں چڑھ سکتی۔ وہ لڑکا اب نیچے ہاتھ لٹکائے ہوئے اس کی مدد کرنا چاہ رہا تھا۔
”نہیں۔ میں نہیں چڑھ سکتی۔” وہ سر ہلاتے ہوئے ایک بار پھر پورچ کی چھت پر بیٹھ گئی۔اس نے ان لڑکوں کو کھڑکی سے غائب ہوتے دیکھا۔ چند منٹوں بعد پورچ کی چھت سے ایک سیڑھی لگائی گئی۔ علیزہ کو ایک بار پھر اسی لڑکے کا سر نظر آیا۔
”آپ یہاں سے آجائیں۔” وہ لڑکا کہتے ہوئے نیچے اتر گیا۔ علیزہ نے سیڑھی پکڑ کر نیچے جھانکا اور وہ نیچے اترنے کی ہمت نہیں کر سکی۔
نیچے بہت سے لوگ کھڑے تھے۔ وہ یک دم پیچھے ہٹ گئی۔ اسے یوں لگ رہا تھا جیسے وہ سیڑھی پر پہلا قدم رکھتے ہی نیچے گر جائے گی۔ اس کے پیروں میں اتنی لرزش تھی۔
پھر اس نے نیچے سے کسی کو اپنا نام پکارتے سنا، ایک لمحہ میں وہ آواز پہچان گئی۔ وہ عباس حیدر تھا۔ انکل ایاز حیدر کاتیسرا بیٹا… وہ بھی پولیس میں تھا اور لاہور میں ہی پوسٹڈ تھا۔
”علیزہ … میں عباس ہوں۔ نیچے آجاؤ، گھبرانے کی ضرورت نہیں، سب کچھ ٹھیک ہے۔” وہ بلند آواز میں اس کا نام پکارتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
وہ رونا نہیں چاہتی تھی مگر اسے بے تحاشا رونا آرہا تھا۔ وہ جانتی تھی کہ عباس کی شکل دیکھتے ہی وہ خود پرقابو نہیں رکھ پائے گی بلکہ اس وقت اپنی فیملی کے کسی بھی شخص کو دیکھ کر وہ رونے کے علاوہ کچھ نہ کرتی۔ اس نے اپنے کپکپاتے ہونٹوں کو بھینچ لیا اور سیڑھی کی طرف بڑھ گئی۔
”نہیں۔ اتنے لوگوں کے سامنے مجھے رونا نہیں ہے اور پھر میں بالکل ٹھیک ہوں۔ کچھ بھی تو نہیں ہوا۔” اس نے دل ہی دل میں کہا اور نیچے جھانکا۔ عباس اب سیڑھی پر ہاتھ رکھے کھڑا تھا۔ شاید وہ چڑھنے کا سوچ رہا تھا مگر علیزہ کو نمودار ہوتے دیکھ کر وہ چند قدم پیچھے ہٹ گیا۔
”ویری گڈ علیزہ… آجاؤ نیچے۔” اس نے اسے پچکارتے ہوئے کہا۔ وہ ہونٹ بھنچتے کانپتے ہوئے قدموں کے ساتھ سیڑھی اترنے لگی۔
آخری سیڑھی پرآتے ہی عباس نے اسے آگے بڑھ کر تھام لیا۔
”تم ٹھیک ہو؟” وہ نرم لہجے میں اس سے پوچھنے لگا۔
علیزہ نے اس کے چہرے کی طرف دیکھے بغیر سر ہلایا۔ وہ خود پر قابو رکھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ وہ اب پولیس والوں کو ہدایت دے رہا تھا۔
وہ اس کے ساتھ چلتی ہوئی پورچ میں آگئی اور تب ہی اس نے ایک شخص کو اپنی طرف بڑھتے دیکھا اور اس کا سارا حوصلہ جواب دے گیا۔ وہ عمر تھا۔ عباس کے برعکس وہ یونیفارم میں نہیں تھا۔ اسے ننگے پاؤں دوپٹے کے بغیر اس حالت میں اس کے سامنے آکر بے تحاشا بے عزتی کا احساس ہوا۔ مگر وہ جب اس کے قریب آیا تو وہ ننھے بچوں کی طرح اس سے لپٹ کر بلند آواز میں رونے لگی۔
”اسے گاڑی میں لے جاؤ۔” اس نے عباس کو کہتے سنا۔ عمر بہت نرمی کے ساتھ اسے اپنے ساتھ لپٹائے اس کا سر تھپک رہا تھا۔
”پانی لے کر آؤ” وہ اب کسی سے کہہ رہا تھا۔ اس نے علیزہ کو چپ کروانے کی کوشش نہیں کی۔
”گاڑی میں دیکھو، ان کا دوپٹہ اور جوتا ہے۔ اگر نہیں تو گھر کے اندر دیکھو… یا ان سے مانگ لینا۔” وہ مسلسل کسی کو ہدایت دے رہا تھا۔
”کافی ہے علیزہ…!” نرمی سے کہتے ہوئے اس نے علیزہ کو خود سے الگ کر دیا۔
”سر! یہ ان کا جوتا، دوپٹہ اور بیگ۔۔۔” ایک کانسٹیبل گاڑی کے اندر سے اس کی چیزیں لے کر پاس آگیا۔
عمر نے دوپٹہ اور بیگ پکڑ لیا۔ وہ جوتا پہننے لگی۔ عمر نے دوپٹا اس کے کندھے پر رکھ دیا۔ علیزہ نے دوپٹہ ٹھیک سے پھیلاتے ہوئے اس کے ایک کونے سے اپنا چہرہ صاف کیا اور بیگ کے لئے ہاتھ پھیلایا۔
”یہ میں پکڑ لیتا ہوں۔ تم پانی پی لو۔” اس نے اب گھر کے اندر سے منگوایا جانے والا پانی کا گلاس اس کی طرف بڑھایا۔ علیزہ نے ایک ہی سانس میں پورا گلاس خالی کردیا۔
”اور چاہئے۔” اس نے پوچھا، اس نے نفی میں سر ہلا دیا۔
عمر نے اس کے ہاتھ سے گلاس لیتے ہوئے اس شخص کی طرف بڑھایا۔جو پانی لے کر آیا تھا۔ گلاس دینے کے بعد اس نے بہت نرمی سے علیزہ کی ٹھوڑی پر ہاتھ رکھ کر چہرہ اوپر کرتے ہوئے اس کے چہرے کا جائزہ لیا۔
”یہاں کیا ہوا ہے؟” علیزہ کی آنکھوں میں ایک بار پھر نمی آنے لگی۔
”ان میں سے کسی نے مارا ہے؟” اس نے سر ہلا دیا۔ عمر نے اس کے چہرے سے اپنا ہاتھ ہٹا لیا۔
”آؤ چلیں۔ ” وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر باہر آگیا۔ پولیس کی کسی گاڑی کی طرف لے جانے کے بجائے وہ اسے اپنی گاڑی کی طرف لے آیا۔ پچھلا دروازہ کھول کر اس نے اس کا بیگ اندر رکھا اور پھر اسے بیٹھنے کے لئے کہا۔
”میں ابھی آتا ہوں۔” وہ دروازہ بند کرکے چلا گیا۔ سڑک پر موجود پولیس کی گاڑیاں اب وہاں سے روانہ ہو رہی تھیں۔
علیزہ نے دور ایک گاڑی کے پاس عباس اور عمر کو چند دوسرے پولیس والوں کے ساتھ باتیں کرتے دیکھا۔ وہ دس پندرہ منٹ تک وہیں باتیں کرتے رہے۔ پھر اس نے عباس کو اس گھر کے اندر جاتے دیکھا جہاں عمر اس کی طرف آیا۔
گاڑی کا پچھلا دروازہ کھول کر وہ اس کے پاس آکر بیٹھ گیا۔ ”اب مجھے تفصیل سے بتاؤ۔ کیا ہوا تھا… شہلا سے میں بات کر چکا ہوں۔ یہ جانتا ہوں وہ چار لڑکے تھے۔ گاڑی کا نمبر بھی اس گھر کے چوکیدار نے بتا دیا ہے۔ میں شہلا کے گھر سے یہاں تک کی ساری تفصیل جاننا چاہتا ہوں۔” وہ بڑے نرم انداز میں کہہ رہا تھا۔
”اور علیزہ ! کچھ بھی چھپانے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں سب کچھ جاننا چاہتا ہوں۔” علیزہ نے سیٹ کی پشت پر اپنا سر رکھ دیا۔ اسے وہ سب یاد کرتے ہوئے خوف آنے لگا تھا۔
”میں بہت تھک گئی ہوں۔ اس وقت مجھے گھر لے جائیں۔ میں صبح بتا دوں گی۔”
”میں تمہیں گھر لے جاؤں گا مگر یہ سب جاننا ضروری ہے۔ ہم انہیں ابھی پکڑنا چاہتے ہیں۔”
وہ چپ چاپ ونڈ اسکرین سے باہر دیکھتی رہی۔ عمر چند لمحے منتظر نظروں سے اسے دیکھتا رہا پھر کار کے کھلے دروازے سے نیچے اتر گیا۔
دس منٹ بعد وہ دوبارہ نمودار ہوا۔ علیزہ نے دور سے اس کے پیچھے چلتے ہوئے ایک شخص کے ہاتھ میں ایک ٹرے دیکھی۔ کار کے پاس آنے پر عمر نے دروازہ کھول دیا۔ اس شخص نے وہ ٹرے کار کی پچھلی سیٹ پر رکھ دی اور دروازہ کھلا چھوڑ کر چلا گیا۔
عمر اب پسنجر سیٹ پر بیٹھا ہوا گلو کمپارٹمنٹ سے کچھ نکال رہا تھا۔ چند لمحوں بعد وہ بسکٹ کا ایک پیکٹ لے کر پچھلی سیٹ پر آگیا۔ علیزہ اس وقت تک ٹرے میں رکھے ہوئے چائے کے دو کپس میں سے ایک اٹھا چکی تھی۔ عمر نے بسکٹ کا پیکٹ کھول کر ٹرے میں رکھ دیا اور دوسرا کپ اٹھا لیا۔
علیزہ کو اس وقت بے تحاشا بھوک لگ رہی تھی۔ یکے بعد دیگرے اس نے تقریباً سارے بسکٹ کھا لئے۔ عمر خاموشی سے اسے دیکھتے ہوئے چائے پیتا رہا۔ جب اس نے چائے کا کپ ٹرے میں رکھ دیا تو عمر نے اس سے کہا۔
”اب بات شروع کرتے ہیں۔” علیزہ نے اس سے کوئی سوال نہیں کیا۔ وہ ٹرانس میں آئے ہوئے کسی شخص کی طرح اسے اٹک اٹک کر ساری تفصیلات بتاتی رہی۔ عمر اس سے چھوٹے چھوٹے سوال پوچھتا رہا۔ گفتگو کے دوران اس نے علیزہ کے ہاتھ پر لگی ہوئی وہ خراشیں بھی دیکھیں جن سے ابھی تک خون رس رہا تھا۔ علیزہ نے گاڑی میں بیٹھنے کے بعد اپنے بیگ سے ٹشو نکال کر ہاتھ کو صاف کرنے کی کوشش میں ناکام ہونے کے بعد وہ ٹشو اس پر لپیٹ دیا۔ اپنی بات کے اختتام پر اس نے عمر کو خاموشی سے گاڑی سے اترکر گھر کے اندر جاتے دیکھا۔
اس بار اس کی واپسی آدھ گھنٹہ کے بعد ہوئی۔ عباس بھی اس کے ساتھ تھا۔ مگر گاڑی کی طرف آنے کے بجائے وہ دونوں ایک بار پھر پولیس کی گاڑی کی طرف چلے گئے۔ دس منٹ تک وہاں کھڑے کچھ پولیس والوں سے باتیں کرتے رہے۔
پھر علیزہ نے ان دونوں کو اپنی طرف آتے دیکھا۔ عباس پسنجر سیٹ کا دروازہ کھول کر اندر بیٹھ گیا۔ جبکہ عمر نے پچھلا دروازہ کھول کر پچھلی سیٹ پر رکھی ہوئی ٹرے نکالی اور اسی شخص کو تھما دی جو پہلے وہ ٹرے لایا تھا۔ پھر وہ خود بھی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا۔ علیزہ نے اسی وقت اپنی گاڑی کو گیٹ کے اندر سے باہر آتے دیکھا۔ اسے کوئی پولیس والا ڈرائیو کر رہا تھا۔
عمر نے اب اپنی گاڑی اسٹارٹ کر لی۔ عباس کے پاس ایک وائرلیس سیٹ تھا جسے اس نے ہینڈ بریک کے پاس رکھ دیا۔
”پہلے تو ہاسپٹل چلتے ہیں، تھوڑی فرسٹ ایڈ تمہیں مل جائے۔ اس کے بعد پھر گھر چلیں گے۔ گرینی کو میں نے بتا دیا ہے تمہارے بارے میں…اور شہلا تم سے بات کرنا چاہتی ہے۔ تم اسے کال کر لو۔”عمر نے اپنا موبائل اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ علیزہ نے تھکے تھکے انداز میں موبائل لے لیا۔
”تھینک گاڈ تم ٹھیک ہو… میری تو جان پر بنی ہوئی تھی۔ ” کال ملتے ہی شہلا نے اس سے کہا۔
”لو ممی سے بات کرو۔” علیزہ نے باری باری شہلا کی ممی، پاپا اور دونوں بہن بھائیوں سے بات کی۔ پھر اس نے فون بند کرکے عمر کی طرف بڑھا دیا۔
”علیزہ ! میں تو تمہاری بہادری پر حیران ہوں۔ تمہیں توپولیس میں ہونا چاہئے۔” عباس خاصی شگفتگی سے کہہ رہا تھا۔ علیزہ مسکرا نہیں سکی۔
”کیوں عمر…! ہم لوگ تو اسے خوامخواہ ڈرپوک سمجھتے تھے۔ مگر یہ تو خاصی جرأت مند خاتون ثابت ہوئی ہیں۔”
”نہیں۔ میں نے تو کبھی بھی علیزہ کو بزدل نہیں سمجھا۔ ” علیزہ اپنے بار ے میں کی جانے والی گفتگو کو کسی دلچسپی کے بغیر سنتی رہی۔ وہ جانتی تھی کہ وہ نہ اس کی جرات سے متاثر ہوئے تھے اور نہ ہی اس نے ایسا کوئی کارنامہ کیا تھا۔ وہ صرف اسے چیئر اپ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
ہاسپٹل میں فرسٹ ایڈ کے بعد اسے کوئی انجکشن لگا دیا گیا۔ وہ واپس گاڑی میں آکر بیٹھی تو عمر نے اس سے کھانے کا پوچھا۔
”نہیں، مجھے بھوک نہیں ہے۔” علیزہ نے انکار کر دیا۔ ”میں صرف گھر جانا چاہتی ہوں۔” اس نے کہا۔
گاڑی چلنے کے کچھ دیر بعد اسے احساس ہوا کہ وہ لوگ اسے گھر نہیں لے جا رہے ہیں۔ عمر خلاف عادت گاڑی بہت آہستہ چلا رہا تھا اور بار بار ذیلی سڑکوں پر گاڑی موڑ رہا تھا۔ وہ دونوں آپس میں کوئی گفتگو نہیں کر رہے تھے۔ علیزہ کو اپنے اعصاب پر عجیب سا نشہ طاری ہوتا محسوس ہو رہا تھا۔ اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ اسے کوئی سکون آور انجکشن دیا گیا ہے۔
اس سے پہلے کہ وہ عمر سے گھر نہ لے جانے کے بارے میں پوچھتی اس نے وائرلیس پر کوئی پیغام آتے سنا۔ عباس نے پیغام سننا شروع کر دیا۔
”پکڑ لیا۔۔۔” علیزہ یک دم چونک گئی۔ ”مگر دو لڑکے ہیں چار نہیں۔ گاڑی کی نمبر پلیٹ وہی ہے… تو ٹھیک ہے یہ وہی ہوں گے۔ تم لوگوں نے ان سے باقی دو کا پوچھا ہے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ دو ہی تھے۔ ان دونوں نے باقی دو کو ڈراپ کر دیا ہو گا۔ وہ مان نہیں رہے ہیں، تو منواؤ، پوچھو ان سے ، کدھر چھوڑ کر آئے ہیں باقی دونوں کو۔ نہیں پولیس اسٹیشن نہیں لے کر جانا۔ ہم لوگ وہیں آتے ہیں۔ ” عباس نے وائرلیس بند کرتے ہوئے عمر سے کہا۔
”گاڑی پکڑلی ہے مگر اس میں دو لڑکے ہیں اور وہ یہ مان ہی نہیں رہے کہ انہوں نے کسی کا تعاقب کیا ہے نہ ہی یہ مان رہے ہیں کہ ان کے ساتھ کوئی اور بھی تھا۔ میرا خیال ہے ان لوگوں نے اس چیز کو پہلے ہی ورک آؤٹ کر لیا ہے اور ان دونوں کو ان کے گھر ڈراپ کر دیا ہے۔” عباس نے ابھی بات ختم کی ہی تھی کہ وائرلیس پر دوبارہ پیغام آنے لگا۔
”کچھ پتا چلا… کیا کہہ رہے ہیں۔ اچھا… ہاں… جس نے اپنا تعارف کروایا ہے، سب سے پہلے اس کی ٹھکائی کرو اور بالکل بے فکر ہو کر کرو۔” عباس نے اوور کہتے ہوئے بات ختم کر دی۔
”حرام زادہ اپنے باپ کا تعارف کروا رہا تھا۔ چیمبر آف کامرس کا وائس پریذیڈنٹ ہے۔” علیزہ نے اس بار ان دونوں کی گفتگو میں مداخلت کی۔
”آپ مجھے گھر کیوں نہیں چھوڑ رہے؟”
”علیزہ! تمہیں ہم وہیں لے کر جارہے ہیں۔ ایک تو تم ان چاروں کو شناخت کرنا، دوسرا اس کے بارے میں بتانا جس نے تمہیں مارا تھا۔” عمر نے اس سے کہا۔
”یہ کام میں صبح کر لوں گی۔ صبح آپ مجھے پولیس اسٹیشن لے جائیں لیکن ابھی میں بہت تھک گئی ہوں۔ مجھے نیند آرہی ہے۔ میں ان لوگوں کا سامنا کرنا نہیں چاہتی۔” علیزہ نے بے بسی سے کہا۔
”اچھا ٹھیک ہے۔” عمر نے گاڑی کی اسپیڈ یک دم بڑھا دی۔
علیزہ کا خیال تھا کہ وہ اسے نانو کے پاس لے کر جا رہا ہے مگر ایسا نہیں تھا۔ دس منٹ بعد انہوں نے ایک بہت پوش علاقے کی ایک ویران سڑک پر ایک پولیس موبائل کے پاس گاڑی روک دی۔ علیزہ کا خون خشک ہونے لگا۔ اس نے موبائل سے کچھ فاصلے پر کھڑی گاڑی پہچان لی تھی۔ وہ ان ہی لڑکوں کی گاڑی تھی مگر اس وقت وہ خالی تھی۔
عباس اور عمر گاڑی سے اتر گئے۔ وہ موبائل کے پچھلے حصے کی طرف چلے گئے۔ کچھ دیر بعد علیزہ نے عباس کو ایک لڑکے کو کالر سے گھسیٹتے ہوئے اپنی طرف لاتے دیکھا۔ وہ ایک پل میں اسے پہچان گئی۔ وہ ان ہی لڑکوں میں سے ایک تھا۔ علیزہ کی کھڑکی کے پاس آکر عباس نے اس لڑکے کے منہ پر ایک زور دار تھپڑ مارا۔
”اندر دیکھو۔” اس لڑکے نے اندر دیکھا۔ علیزہ سے اس کی آنکھیں ملیں اور اس نے آنکھیں چرالیں۔
”میں نہیں پہچانتا۔” اس نے عباس سے کہا۔ عباس نے علیزہ کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”تم پہچانتی ہو اسے؟”
”ہاں… یہ ان میں سے ایک ہے۔” عباس نے ایک اور تھپڑ اس لڑکے کے منہ پر مارا۔
”اب حرام زادے یا تو تم ان دونوں کے بارے میں بتاؤ گے یا پھر میں تمہاری قبر اسی وقت یہاں بنوا دوں گا۔”
”میں بتا دیتا ہوں… وہ … ان دونوں کو گھر چھوڑ آئے ہیں ان کے… سر ! غلطی ہو گئی ہم سے… پلیز معاف کر دیں۔” وہ یک دم عباس کے سامنے ہاتھ جوڑنے لگا۔
عباس نے پولیس کے ایک سپاہی کو اسے موبائل میں بٹھانے کے لئے کہا۔ عباس وہیں کھڑا رہا۔ علیزہ نے عمر کو گاڑی کی طرف آتے دیکھا۔ عباس گاڑی کا دروازہ کھول کر اندر بیٹھ گیا۔
”عمر! تم ان لوگوں کی گاڑی میں بیٹھ جاؤ۔ ان دونوں میں سے ایک لڑکے کو بھی اسی گاڑی میں بٹھا دیتا ہوں۔ ان دونوں لڑکوں کے گھروں پر جا کر اسی لڑکے کو گیٹ پر بھجوانا۔ یہ انہیں باری باری باہر بلوائے گا اور پھر ہم انہیں پکڑ لیں گے۔ یہ نہ ہو کہ انہیں کوئی شک ہو جائے اور وہ باہر ہی نہ آئیں۔ جج کے گھر پر تو ویسے بھی گارڈ لگی ہو گی اور میں نہیں چاہتا۔ وہ کسی یونیفارم والے کو دیکھے۔ مجھے تو ویسے ہی پہچان جائیں گے۔ اس لئے میں گاڑی پیچھے رکھوں گا۔”
ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھولتے ہی عباس نے عمر سے کہا۔
عمر دوبارہ گاڑی سے نکل گیا۔ عباس پسنجر سیٹ سے ڈرائیونگ سیٹ پر آگیا۔
”پلیز مجھے تو گھر چھوڑ دیں، مجھے نیند آرہی ہے۔” علیزہ نے ایک بار پھر عباس سے کہا۔
”ڈونٹ وری… چھوڑ دیتے ہیں۔ چھوڑ دیتے ہیں۔” اس نے گاڑی اسٹارٹ کر دی۔ علیزہ نے پولیس کی موبائل اور ان لڑکوں کی گاڑی کو سڑک پر حرکت میں آتے دیکھا۔
عباس کی گاڑی ان دونوں گاڑیوں سے پیچھے تھی۔ دس منٹ کے بعد علیزہ نے موبائل کی رفتار آہستہ ہوتے دیکھی۔ عباس نے اسے اوورٹیک کر لیا۔ اب اس کے آگے ان لڑکوں کی گاڑی تھی۔ علیزہ نے اچانک اس گاڑی کی ایک کھڑکی سے عمر کا بازو باہر نکلتے دیکھا۔ وہ کوئی اشارہ کر رہا تھا۔
عباس نے گاڑی کی رفتار کو آہستہ کرتے ہوئے گاڑی سڑک کے کنارے کھڑی کر دی۔ ان لڑکوں کی گاڑی مسلسل چلتی رہی اور پھر ان کی گاڑی سے خاصا آگے جا کر وہ گاڑی رک گئی۔ علیزہ نے گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ سے ایک لڑکے کو اتر کر دائیں طرف کے ایک گیٹ پر جاتے دیکھا۔ وہ لڑکا اب گیٹ پر بیل بجا کر چوکیدار سے بات کر رہا تھا۔
پانچ منٹ کے بعد علیزہ نے گھر کے اندر سے ایک اور لڑکے کو باہر آتے دیکھا۔ وہ اس لڑکے کے ساتھ گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔ علیزہ نے ان دونوں کو گاڑی میں بیٹھتے اور گاڑی کو تیزرفتاری کے ساتھ آگے بڑھتے دیکھا۔ اس گاڑی کے آگے بڑھتے ہی عباس نے اس گاڑی کے پیچھے جانے کی بجائے وہیں سڑک پر گاڑی موڑلی اور بہت تیزرفتاری سے گاڑی ڈرائیو کرنا شروع کر دی۔ علیزہ نے کچھ فاصلے پر ایک بار بھر موبائل کو اپنے پیچھے آتے دیکھا۔ کچھ دیر بعد اس موبائل وین نے ان لوگوں کی کار کو اوورٹیک کیا اور آگے نکل گئی۔ عباس اب اس کے پیچھے جا رہا تھا۔
ایک سڑک پر ٹرن لیتے ہی علیزہ نے ان لڑکوں کی گاڑی کو وہاں کھڑے دیکھا۔ پولیس کی گاڑی بھی اس کے پاس جا کر رکی اور علیزہ نے کار سے ایک اور لڑکے کو پولیس کی گاڑی میں منتقل ہوتے دیکھا۔
ایک بار پھر وہ تینوں گاڑیاں آگے پیچھے دوڑنے لگیں۔ ایک سڑک پر مڑنے کے بعد عباس نے گاڑی روک لی۔ پولیس کی موبائل بھی وہیں رک گئی جبکہ عمر والی گاڑی آفیسر ز کالونی میں داخل ہو گئی۔ اب وہ گاڑی ان کی نظروں سے اوجھل ہو چکی تھی۔ علیزہ کی بے چینی اور اضطراب میں بہت اضافہ ہو گیا تھا۔
”عباس بھائی! پلیز مجھے تو گھر چھوڑ دیں میرے سر میں درد ہو رہا ہے۔” علیزہ نے ایک بار پھر عباس سے کہا۔
”علیزہ بس دس منٹ اور… اس کے بعد میں تمہیں گھر چھوڑ دوں گا۔ تم آرام سے سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا کر سو جاؤ۔” عباس نے اس سے کہا۔
دس منٹ بعد اچانک عباس کے موبائل کی گھنٹی بجنے لگی۔
”ہیلو۔” عباس فون پر بات کرنے لگا۔
”کچھ پرابلم ہو گیا ہے۔” علیزہ نے دوسری طرف سے عمر کی آواز سنی۔گاڑی میں اتنی خاموشی تھی کہ وہ دوسری طرف سے آنے والی آواز بھی سن رہی تھی۔
”وہ لڑکا باہر نہیں آرہا۔ اس کے باپ نے کہا ہے کہ وہ سو گیا ہے۔”
”تم اس لڑکے سے کہو کہ اس لڑکے سے موبائل پر کانٹیکٹ کرے اگر ا س لڑکے کے پاس موبائل ہے تو وہ اس پر اس سے کانٹیکٹ کرے ورنہ پھرگھر کے نمبر پر۔” عباس نے موبائل بند کر دیا۔ پانچ منٹ اور اسی طرح گزر گئے۔
پھر موبائل پر ایک بار کال آنے لگی۔ ” نہیں وہ لڑکا باہر نہیں آیا۔ اس نے اپنا موبائل آف کر دیا ہے۔جبکہ گھرکا فون اس کے باپ نے اٹھایا ہے اور وہ یہی کہہ رہا ہے کہ وہ سو گیا ہے۔” علیزہ نے ایک بار پھر عمر کی آواز سنی۔ عباس نے اس کی بات کے جواب میں کچھ گالیاں دیں اور پھر کہا۔
”اس نے اپنے باپ کو اپنے کرتوت کے بارے میں بتا دیا ہو گا اور مجھے لگتا ہے انہیں کوئی شک ہو گیا ہے۔ میں سول کپڑوں میں کچھ لوگوں کو بلواتا ہوں۔ اٹھا لائیں گے وہ اسے اندر سے گارڈ کا پتا کرتا ہوں کہ وہاں کس کی ڈیوٹی ہے کچھ دیر کے لئے اسے وہاں سے ہٹا دیتا ہوں۔ جب اس لڑکے کو اندر سے لے آئیں گے تو پھر گارڈ کو واپس بھجوا دیں گے۔ ” عباس نے ایک بار پھر موبائل بند کر دیا اور وائرلیس سیٹ پر کسی سے بات کرنے لگا۔
”مجھے سول کپڑوں میں آٹھ بندے چاہیں اور گاڑیاں بھی پرائیویٹ ہونی چاہئیں’ نمبر پلیٹ بدلوا دینا۔” علیزہ کی غنودگی یک دم ختم ہو گئی۔ وہ اس کی بات غور سے سننے لگی۔ وہ اب ایک جج کا نام لیتے ہوئے دوسری طرف ہدایات دے رہا تھا۔
”پتا کراؤ کہ اس کے گھر میں کون تعینات ہے۔ پتا کروانے کے بعد ان لوگوں کو کہنا کہ کچھ دیر کے لئے اسے وہاں سے ہٹا دیں۔ جج اور اس کی فیملی کو کچھ نہیں کہنا’ انہیں کسی کمرے میں بند کر دینا۔ اس کے بس ایک بیٹے کو وہاں سے لے کر آنا ہے۔ اس کا حلیہ تمہیں اس کے گھر کے باہر کھڑی گاڑی سے بتا دیا جائے گا۔ آپریشن بہت اچھے طریقے سے ہونا چاہئے۔ کوئی گڑ بڑ نہیں ہونی چاہئے اور ہاں انہیں کہنا ‘ واپس آنے سے پہلے گارڈ کو باندھ دیں اوور۔” عباس نے وائرلیس پر پیغام ختم کیا تو علیزہ نے اس سے پریشانی کے عالم میں پوچھا۔
”عباس بھائی! آپ کیا کرنے والے ہیں۔” وہ گردن موڑ کر اس کی طرف دیکھتے ہوئے مسکرایا۔
”پولیس ریڈ۔۔۔”
”مگر اس طرح ۔۔۔”
”ہاں بھئی، اس طرح بھی ہوتا ہے۔”
”آپ ان کے گھر جا کر خود سب کچھ بتا دیں اور اسے پکڑ لیں مگر اس طرح ۔۔۔” وہ سمجھ نہیں پائی کہ اس سے کیا کہے۔ ”آپ زبردستی گھر میں گھسیں گے؟”
”نہیں۔ پریشان مت ہو… وہ اندر جا کر بتا دیں گے… اندر تو جانا ہے کسی طرح۔” عباس کے لہجے میں حد درجہ اطمینان تھا۔
”مگر آپ تو کہہ رہے تھے۔ کہ وہ ۔۔۔” عباس نے اس کی بات کاٹ دی۔
”اس بات کو چھوڑو کہ میں کیا کہہ رہا تھا… مجھے یہ بتاؤ کہ چہرے پر زیادہ درد تو نہیں ہو رہا۔” علیزہ نے بے اختیار اپنا گال چھوا۔ وہ اندازہ لگا سکتی تھی کہ اس کا گال سوج چکا تھا اور یقیناً اس پر نیل بھی ہو گا۔
”نہیں۔ ٹھیک ہے۔” اس نے کہا۔
”اگلی بار جب بھی تم گھر سے نکلو تو اپنا موبائل ضرورساتھ رکھو۔ موبائل ہے نا تمہارے پاس؟ ”
”نہیں۔ مجھے اس کی کبھی ضرورت نہیں پڑی۔”
”میں صبح تمہیں ایک بھجوا دوں گا۔”
”نہیں’ میں خرید لوں گی۔”
”میں نے کہانا بھجوا دوں گا۔ رزلٹ کب تک آرہا ہے… یا آچکا ہے؟”
”ابھی نہیں آیا’ چند ہفتوں تک آجائے گا۔”
”پتا چلا تھا مجھے کوئی میگزین جوائن کیا ہوا ہے تم نے؟”
”ہاں… تھوڑا عرصہ ہوا ہے۔”
”کیسا کام جا رہا ہے؟” وہ اسے اپنے کام کی تفصیل بتانے لگی۔ وہ بڑی دلچسپی سے سن رہا تھا۔ علیزہ کو اندازہ نہیں ہوا کہ وہ کتنی مہارت سے بات کاموضوع بدل چکا ہے۔ وقتاً فوقتاً وہ گاڑی سے باہر نظریں دوڑاتا رہا۔
وہ اس کے ایک اور سوال کا جواب دے رہی تھی جب اس نے سنسان سڑک پر اچانک آگے پیچھے تیز رفتاری کے ساتھ دو گاڑیاں اس کالونی کے اندر جاتے دیکھیں۔ عباس بھی ان ہی گاڑیوں کو دیکھ رہا تھا۔ جب گاڑیاں اندر مڑ گئیں تو اس نے علیزہ سے کہا۔
”تم خاموش کیوں ہو گئیں؟ تمہیں چاہئے تم کوئی اس سے اچھا میگزین جوائن کرو۔” علیزہ نے کچھ الجھ کر اسے دیکھا اور پھر اس کے چہرے پر سنجیدگی پائی تو ایک بار پھر اس کے سوالوں کا جواب دینے لگی۔
پندرہ منٹ بعد اس نے اچانک عمر والی گاڑی کو اس کالونی سے نکلتے دیکھا۔ عباس نے بڑی پھرتی سے گاڑی اسٹارٹ کر دی۔ عمر کی گاڑی ان کے بالکل پاس آکر رکی اور عمر نیچے آیا

باب: 41

علیزہ کچھ دیر بستر میں لیٹی رہی۔ دروازے کے باہر اب بالکل بھی آواز نہیں تھی’ پھر اسے دور ایک گاڑی کے اسٹارٹ ہونے کی آواز آئی۔ وہ جھٹکے سے اٹھ کر بیٹھ گئی۔
”کیا عمر واقعی جوڈتھ کو لے کر جا رہا ہے؟” وہ ششدر تھی۔
تیزی سے اٹھ کر اس نے دروازہ کھولااور لاؤنج میں آئی۔ وہاں نانو کے علاوہ اب واقعی کوئی نہیں تھا۔
”نانو! عمر کہاں گیا؟” اس نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”وہ جوڈتھ کے ساتھ چلا گیا۔” نانو نے اخبار کا صفحہ پلٹتے ہوئے کہا۔
”کیوں…؟” وہ تقریباً چلائی’ نانو نے حیرانی سے اسے دیکھا۔ ”تم خود ہی تو یہ چاہتی تھی۔”
”میں کب یہ چاہتی تھی؟” وہ مایوسی سے ان کے پاس صوفہ پر بیٹھ گئی۔
”تم نے عمر سے یہ نہیں کہا کہ تمہیں جوڈتھ کا آنا برا لگا ہے؟”
”نہیں میں نے ایسا تو کچھ بھی نہیں کہا۔”
”عمر نے خو دمجھ سے یہی کہا تھا کہ تمہیں جوڈتھ کا آنا اچھا نہیں لگا۔”
علیزہ کی شرمندگی میں اضافہ ہوا۔ ”نہیں ایسی کوئی بات نہیں تھی۔”
”اگر ایسی بات نہیں تھی تو پھر یہاں بیٹھنا چاہئے تھا۔ جوڈتھ اور عمر کو کمپنی دینی چاہئے تھی۔”
”نانو! مجھے نیند آرہی تھی بس’ میں اس لئے… مگر آپ نے عمر کو روکا کیوں نہیں… آپ کو روکنا چاہئے تھا۔” وہ اب روہانسی ہو رہی تھی۔
”میں نے روکا تھا مگر جب اس نے تمہاری ناپسندیدگی کا بتایا تو پھر میں کچھ نہیں کہہ سکی۔”
علیزہ کچھ بھی کہے بغیر صوفے پر لیٹ گئی اوراس نے نانو کی گود میں چہرہ چھپا لیا۔ اس کی اداسی اور شرمندگی یک دم بہت بڑھ گئی تھی نانو نے اخبار رکھ دیا۔
”وہ شام کو دوبارہ آئے گا۔ تم اس سے ایکسیکیوز کر لینا۔ اتنا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔” نانو نے اس کا سر تھپکتے ہوئے کہا۔
علیزہ نے بے اختیار سر اٹھا کر انہیں دیکھا۔ ”وہ واپس اسپین نہیں گیا؟”
”نہیں بھئی’ اسپین کیسے جا سکتا ہے، وہ تو دوبارہ فلائٹ وغیرہ دیکھ کر سیٹ بک کروائے گا۔ تب ہی جا سکے گا۔ ابھی تو ڈرائیور اسے اور جوڈتھ کو کسی ہوٹل چھوڑنے گیا ہے۔”
علیزہ نے اطمینان کا سانس لیا۔ ”وہ آئے گا تو میں اس سے ایکسکیوز کر لوں گی۔ اور پھر اس سے کہوں گی کہ وہ جوڈتھ کو یہاں لے آئے۔ ٹھیک ہے نانو؟” علیزہ نے نانو سے اپنی بات پر رائے لی۔
”ہاں ٹھیک ہے تمہارے بار ے میں بہت فکر مند ہو رہا تھا، کہہ رہا تھا کہ تم بہت کمزور ہو گئی ہو۔ میں تمہیں کسی اچھے ڈاکٹر کو دکھاؤں… میں نے اس سے کہا ایساآپریشن کی وجہ سے ہے۔ پھر یہ جو تمہیں بخار ہو جاتا ہے۔ تمہیں اپنا خیال رکھنا چاہئے۔” نانو اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے کہہ رہی تھیں۔ مگر علیزہ کا دھیان کہیں اور اٹکا ہوا تھا۔
”نانو! آپ کو جوڈتھ کیسی لگی ہے؟” اس نے کچھ دیر سوچتے رہنے کے بعد نانو سے پوچھا۔
”جوڈتھ؟ بہت اچھی ہے وہ … تم کیوں پوچھ رہی ہو؟”
”بس ایسے ہی۔ وہ کہہ رہی تھی کہ وہ پچھلے دس سال سے عمر کی فرینڈ ہے مگر عمر نے پہلے کبھی اس کا ذکر ہی نہیں کیا۔”
نانو نے لاپروائی سے کندھے اچکا دیئے۔ ”ہاں اس نے پہلے کبھی ذکر نہیں کیا مگر اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ ہر بات تو وہ نہیں بتا سکتا، ویسے بھی وہ کس کس کے بارے میں بتائے۔ اس کے دوست بہت زیادہ ہیں۔”
”مگر اس کو جوڈتھ کے بارے میں بتانا چاہئے تھا، باقی فرینڈز کا بھی تو نام لیتا رہتا ہے۔” علیزہ نے اصرار کیا۔
”وہ آئے گا تو اس سے پوچھ لینا کہ اس نے جوڈتھ کا ذکر کیوں نہیں کیا۔” نانو نے بات کا موضوع بدلنے کی کوشش کی مگر وہ کامیاب نہیں ہوئیں۔
”آپ کو پتا ہے وہ جوڈتھ کو ساتھ لے کر اسپین گیا ہوا تھا؟”
”ہاں۔۔۔” نانو نے ایک لفظی جواب دیا۔ علیزہ خاموشی سے ان کا چہرہ دیکھتی رہی۔
”اس نے فون پر یہ بھی نہیں بتایا۔ بس یہی کہا کہ وہ کچھ فرینڈز کے ساتھ اسپین میں ہے۔ اس کو بتانا چاہئے تھا نا؟” علیزہ نے ایک بار پھر ان کی حمایت چاہی۔ ” میں کہہ رہی ہوں ناکہ وہ آئے گا تو تم اس سے یہ سب کچھ پوچھ لینا۔ تم مجھے یہ بتاؤ کہ چکن کارن سوپ بنواؤں تمہارے لئے۔” نانو نے ایک بار پھر بات کا موضوع بدل دیا۔
”پتا نہیں… جو مرضی کریں۔” علیزہ نے ان کی بات میں دلچسپی نہیں لی۔
”ٹھیک ہے۔ بنوا لیتی ہوں مگر تم پی ضرور لینا۔ یہ نہ ہو کہ پرسوں کی طرح پھر رکھ چھوڑو۔”
علیزہ نے کچھ نہیں کہا وہ ایک بار پھر کسی سوچ میں مصروف تھی۔
”نانو! جوڈتھ عمر کی بیسٹ فرینڈ ہے۔ ہے نا…؟” نانو نے ایک گہرا سانس لیا۔
”تم کیوں اتنا پریشان ہو رہی ہو، دونوں کے بارے میں۔ فرض کرو اگر وہ اس کی بیسٹ فرینڈ ہے تو بھی کیا فرق پڑتا ہے۔” نانو نے اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے نرم آواز میں اس سے کہا۔
”مجھے لگتا ہے ، وہ مجھ سے زیادہ اس کی دوست ہے۔” اس کی بہت ہلکی آواز میں کہا گیا جملہ ان تک پہنچ گیا۔
”وہ دس سال سے اس کے ساتھ ہے… دونوں اسکول میں اکٹھے رہے بعد میں ایک ہی یونیورسٹی میں گئے۔ پھر ہم عمر بھی ہیں۔ ظاہر ہے عمر کی اس کے ساتھ زیادہ اچھی اور بہتر انڈر اسٹینڈنگ ہے۔
”ان کی وضاحت علیزہ کو بری لگی۔”میرے ساتھ اس کی Affiliationیا انڈر اسٹینڈنگ نہیں ہے؟”
”تمہارے ساتھ اس کا تعلق اور طرح کا ہے۔ تم اس کی کزن ہو۔ ظاہر ہے تمہیں وہ اس طرح سے ٹریٹ کرتا ہے۔”
”مگر وہ مجھے بھی اپنا دوست کہتا ہے۔ اس نے کہا تھا میں اس کی بیسٹ فرینڈ ہوں۔” علیزہ نے بے تابی سے کہا۔
”تمہاری اور اس کی دوستی کو ابھی بہت تھوڑا وقت ہوا ہے۔”
”اس کا مطلب ہے کہ وہ میری پروا نہیں کرتا؟” اس نے برق رفتاری سے نتیجہ اخذکیا۔
”میں نے یہ کب کہا؟ پروا کرتا ہے تو تمہارے لئے اسپین سے واپس آگیا ہے۔ مگر جوڈتھ کے ساتھ اس کی دوستی زیادہ گہری ہے، اور شاید دوستی نہیں ہے۔”
”دوستی نہیں ہے۔ تو پھر کیا ہے؟” علیزہ نے کچھ الجھتے ہوئے پوچھا۔
”میرا خیال ہے وہ ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اور ہو سکتا ہے بہت جلد شادی کر لیں۔” نانو نے جیسے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
علیزہ کچھ اور کہہ نہیں سکی۔
عمر شام کو وہاں آیا تھ امگر اس بار وہ اکیلا تھا جوڈتھ اس کے ساتھ نہیں تھی۔ علیزہ پہلے ہی لاؤنج میں بیٹھی اس کی منتظر تھی۔ اس نے علیزہ کو دیکھتے ہی بڑی شگفتگی سے ہاتھ اٹھاتے ہوئے کہا۔
”دیکھ لو علیزہ ! اب میں بالکل اکیلا ہوں۔ میرے ساتھ کوئی نہیں ہے۔” علیزہ خاموش رہی۔
وہ علیزہ کے پاس صوفہ پر آکر بیٹھ گیا اور اس نے ہاتھ میں پکڑا ہوا ایک بیگ اس کے سامنے ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا۔
”میں تمہارے لئے کچھ چیزیں لایا ہوں، دیکھ لو۔”
وہ اب کرسٹی کو اس کی گود سے لے رہا تھا، علیزہ نے بیگ کی طرف ہاتھ نہیں بڑھایا۔
”میں نے آپ سے یہ تو نہیں کہا تھا کہ آپ چلے جائیں۔” اس کی بات کے جواب میں اس نے سنجیدگی سے کہا۔ عمر نے کرسٹی کو اپنی گود میں بٹھاتے ہوئے اسے دیکھا اور اطمینان سے کہا۔
”ہاں کہا تو نہیں تھا مگر تمہیں جوڈتھ کا آنا اچھا نہیں لگا تھا” وہ اب کرسٹی کے سر پر ہاتھ پھیر رہا تھا۔
”نہیں ایسا نہیں تھا۔” علیزہ نے جھوٹ بولا۔
عمر اسے دیکھ کر مسکرایا اور ایک بار پھر کرسٹی کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ وہ اس کے جواب کا انتظار کر تی رہی لیکن جب اس نے کچھ نہیں کہا تو علیزہ نے ایک بار پھر اسے متوجہ کیا۔
”میں نے آپ سے کچھ کہا ہے؟”
“Aleeza! your face has a tell-tale quality.” (علیزہ تمہارا چہرہ سب کہانی کہہ دیتا ہے) وہ اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
”یہ سب کچھ بتا دیتا ہے، تمہاری پسندیدگی ناپسندیدگی، تم کچھ بھی چھپا نہیں سکتیں۔ تمہاری رائے تمہارے احساسات، سب کچھ تمہارے چہرے پر آجاتے ہیں۔ میں کیا کوئی بھی تمہارا چہرہ پڑھ سکتا ہے، جیسے اس وقت تمہارا چہرہ کہہ رہا ہے کہ تم جھوٹ بول رہی ہو۔ جہاں تک میری صبح کی ریڈنگ کی بات ہے تو وہ بھی غلط نہیں تھی۔ صرف میں نے ہی نہیں جوڈتھ نے بھی یہی محسوس کیا تھا، کہ تم اس کے آنے پر خوش نہیں ہو۔ اس لئے پھر ہم نے یہی طے کیا کہ ہوٹل چلے جائیں۔”
کرسٹی اب عمر کی شرٹ کے ساتھ اپنا سر رگڑ رہی تھی۔ علیزہ یک دم ناراض ہو گئی۔
”جوڈتھ نے آپ سے میرے بارے میں کوئی غلط بات کہی ہو گی۔ وہ جان بوجھ کر چاہتی ہے کہ آپ میرے بارے میں برا سوچیں۔”
”اس نے مجھ سے تمہارے بارے میں کوئی بری بات نہیں کی اور نہ ہی وہ یہ چاہتی ہے کہ میں تمہارے بارے میں برا سوچوں۔ اس نے تمہارے بارے میں مجھ سے کہا تھا۔”
“Aleeza is a pretty girl, I liked her.”
علیزہ چند لمحوں تک کچھ بھی نہیں کہہ پائی۔ ”لیکن انہوں نے آپ سے یہ کیوں کہا کہ مجھے ان کا آنا اچھا نہیں لگا۔ وہ آپ تو یہ کہتی ہیں کہ وہ مجھے پسند کرتی ہیں، مگر میرے بارے میں کہتی ہیں کہ میں انہیں پسند نہیں کرتی۔”
”She is very crafty” (وہ بہت چالاک ہے)
عمر نے اسے دیکھا، اس بار واضح طور پر اس کے چہرے پر ناپسندیدگی تھی۔
”جوڈی میری دوست ہے اور میں یہ کبھی پسند نہیں کروں گا کہ کوئی میرے دوستوں کے بارے میں فضول تبصرہ کرے۔”
علیزہ نے بے یقینی سے اسے دیکھا پھر وہ روہانسی ہو گئی، اس نے ایک جھٹکے سے کرسٹی کو عمر کی گود سے کھینچ لیا۔ عمر نے چند لمحوں کے اندر اس کی آنکھوں کو موٹے موٹے آنسوؤں سے بھرتے دیکھا
اور پھر وہ پاؤں پٹختے ہوئے کچھ کہے بغیر لاؤنج سے چلی گئی۔ عمر اس کے پیچھے نہیں آیا۔ وہ خاموشی سے لاؤنج کی کھڑکیوں سے اسے لان میں جاتا دیکھتا رہا۔
وہ آدھا گھنٹہ لان میں بیٹھ کر روتی رہی پھر ملازم اسے چائے کے لئے بلانے آیا۔
”مجھے نہیں پینی۔۔۔” اس نے صاف انکار کر دیا۔
وہ جانتی تھی ملازم اندر جا کر اس کا جواب ایسے ہی پہنچا دے گا اور اسے توقع تھی کہ عمر یا نانومیں سے کوئی خود اسے لینے آئے گا یا پھر ملازم کو دوبارہ بھیجا جائے گا۔ ایسا نہیں ہوا، ملازم دوبارہ آیا نہ ہی عمر یا نانو میں سے کوئی اسے بلانے آیا وہ اور دل گرفتہ ہوئی۔ اس کے آنسو آہستہ آہستہ خود ہی تھم گئے۔
شام کچھ اور ڈھلی اور لان میں تاریکی اترنے لگی، مگر وہ وہیں بیٹھی رہی۔ بالآخر اس نے عمر کو پورٹیکو میں نکلتے دیکھا وہ بے اختیار خوش ہوئی اس کا خیال تھا کہ وہ اسے منانے کے لئے آیا تھا۔ مگر ایسا نہیں تھا عمر لان کی طرف دیکھے بغیر پورٹیکو میں کھڑی گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔ علیزہ کو جیسے کرنٹ لگا۔
”کیا وہ واپس جا رہا ہے، مگر اس نے تو رات کا کھانا بھی نہیں کھایا۔”
وہ بے چین ہو گئی…اسے توقع تھی کہ وہ رات کے کھانے تک رکے گا مگر… کرسٹی لان میں پھر رہی تھی، عمر کو لاؤنج سے باہر نکلتے دیکھ کر وہ بھاگتی ہوئی اس کی طرف گئی۔ عمر نے گاڑی کے دروازے کے ہینڈل پر ہاتھ رکھا ہی تھا جب وہ اس کے قریب پہنچ گئی اور اس کی ٹانگوں سے اپنا جسم رگڑنے لگی۔ علیزہ نے عمر کو رکتے دیکھا اس نے جھک کر کرسٹی کو گود میں اٹھا لیا پھر علیزہ نے اسے پلٹتے دیکھا۔ وہ اب لان کی طرف دیکھ رہا تھا۔ پھر علیزہ نے اسے اپنی جانب آتے دیکھا۔ اس کے قریب آنے پر علیزہ نے اپنی ناراضی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پوچھا۔
”آپ جا رہے ہیں؟”
”ہاں۔۔۔” عمر نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ کرسٹی کو اس نے دوسرے بازو میں پکڑا ہوا تھا۔
”’کھانے کے لئے نہیں رکیں گے؟” علیزہ نے اس کے ہاتھ کو نظر انداز کرتے ہوئے مایوسی سے کہا۔ ”نہیں۔۔۔”
علیزہ نے اس کے بڑھے ہوئے ہاتھ کو دیکھا اور پھر اپنا ہاتھ بڑھا دیا۔
اس کا خیال تھا وہ اس سے ہاتھ ملانا چاہتا تھا مگر ایسا نہیں تھا۔ عمر نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کھینچا۔
”اٹھ جاؤ علیزہ۔۔۔” وہ نرم آواز میں کہہ رہا تھا۔ علیزہ اس کے ہاتھ کو پکڑ کر کھڑی ہو گئی۔
”ناراضی ختم ہو گئی تمہاری؟” وہ اب اس سے پوچھ رہا تھا۔
”میں ناراض نہیں ہوں، آپ ناراض ہیں۔”
”واک آؤٹ تو تم نے کیا تھا۔”
”آپ بھی تو کر رہے ہیں۔” وہ اس بار اس کی بات پر مسکرایا۔
”ہاں میں بھی کر رہا ہوں مگر یہ احتجاجاً نہیں ہے اور جہاں تک تم سے خفگی کا تعلق ہے تو میں تم سے کبھی بھی ناراض نہیں ہو سکتا۔”
”پھر آپ کھانا کھائے بغیر کیوں جا رہے ہیں؟” علیزہ نے فوراً کہا۔
”کیونکہ مجھے جوڈی کے ساتھ کھانا کھانا ہے۔”
وہ اس کا چہرہ دیکھ کر رہ گئی۔ وہ اب کرسٹی کو اس کی طرف بڑھا رہا تھا۔ علیزہ نے بے دلی کے عالم میں کرسٹی کو پکڑ لیا۔
”آپ کے لئے جوڈتھ بہت اہم ہے۔”
”میرے لئے تم بھی بہت اہم ہو۔” عمر نے اس کی بات کے جواب میں بلا تامل کہا۔
”مگر جوڈتھ جتنی نہیں۔” اس کی آواز میں مایوسی تھی۔
”اگر تم میرے لئے کم اہم ہوتیں تو میں تمہارے کہنے پر یوں فوراً نہ آجاتا…اپنا موازنہ کسی دوسرے سے مت کرو… میرے لئے جو تم ہو، وہ تم ہو۔”
وہ خوش نہیں ہوئی۔ ”اور جو جوڈتھ ہے، وہ جوڈتھ ہے۔”
”ہاں۔” عمر نے ایک بار پھر بلا تامل کہا۔
ایک دوسرے کے ساتھ چلتے ہوئے وہ لان سے باہر آنے لگے۔
”آپ اور وہ دونوں یہاں آجائیں… ہوٹل میں نہ رہیں۔” علیزہ نے اس سے کہا۔
”نہیں… اب نہیں۔۔۔” عمر نے قطعی لہجے میں کہا۔
”کیوں…؟”
”جو لوگ مجھ سے وابستہ ہوں، میں ان کی بے عزتی برداشت نہیں کر سکتا۔ اگر کسی کو مجھے عزت دینی ہے مجھ سے پہلے ان لوگوں کو دینی ہو گی جو مجھ سے منسلک ہیں۔ مجھے جوڈتھ کے ساتھ تمہارا رویہ اچھا نہیں لگا اور ایک بار واپس لے جانے کے بعد میں اسے دوبارہ رہنے کے لئے تو یہاں نہیں لاؤں گا۔ اگر میں ایسا کرتا ہوں تو یہ جوڈتھ کی انسلٹ ہو گی، اور میں ایسا کبھی نہیں کروں گا۔”
”میں نے ان کی انسلٹ نہیں کی۔” اس نے کمزور لہجے میں کہا۔
”ہاں مگر تم نے یہ ضرور ظاہر کیا ہے کہ تم اسے ناپسند کرتی ہو۔”
”میں ان سے ایکسیکیوز کر لوں گی۔” علیزہ چلتے چلتے رک گئی۔
”اور میں یہ بھی کبھی نہیں چاہوں گا، میں تم کو ڈی گریڈ کبھی نہیں کر سکتا۔ مجھے اس میں بھی اپنی بے عزتی محسوس ہو گی۔”
اس کے لہجے میں صاف گوئی تھی، وہ کچھ دیر اسے دیکھتی رہی پھر اس نے کہا۔”آپ جوڈتھ سے محبت کرتے ہیں؟”
وہ خاموشی سے اسے دیکھتا رہا۔

”اس لئے اسے ناپسند کر رہی ہو تم؟ ” اس کے بات کے جواب میں اس نے بڑے پر سکون لہجے میں کہا۔
علیزہ نے کرسٹی کو زمین پر اتار دیا۔ وہ جانتی تھی عمر کو اس کے جواب کی ضرورت نہیں۔ اس کا ہر جواب بقول عمر اس کے چہرے پر تحریر ہوتا تھا اور عمر کو یقیناً وہ جواب مل گیا تھا۔
”وہ آپ کو بہت اچھی لگتی ہے؟” اس نے اکھڑے ہوئے لہجے میں پوچھا۔
”ہاں۔۔۔” عمر نے بلاتامل کہا۔
”پھر آپ اس سے شادی کرلیں۔”
”مجھے تو سڑک پر چلنی والی ہر خوبصورت لڑکی اچھی لگتی ہے۔ کیا سب سے شادی کر لوں؟”
”میں جوڈتھ کی بات کر رہی ہوں۔”
عمر نے ایک گہرا سانس لیا۔ ”تم کو اور جوڈی کو کچھ دیر اکھٹے بیٹھنا چاہئے، اس کے ساتھ وقت گزارو گی تواتنا ناپسند نہیں کرو گی اسے اور اگر صرف اس لئے اسے ناپسند کررہی ہو کہ میں اسے پسند کرتا ہوں تو پھر تم کو یہ جان لینا چاہئے کہ میں ہمیشہ اسے پسند کرتا رہوں گا۔ میں اپنے دوست اور دشمن کبھی نہیں بدلتا، وہ میری دوست تھی، دوست ہے، اور ہمیشہ دوست ہی رہے گی۔”
عمر نے کسی لگی لپٹی کے بغیر کہا۔ علیزہ نے پہلی دفعہ اس کو اس موڈ میں دیکھاتھا، پچھلے کئی ماہ سے وہ مسلسل اس کے ناز اٹھاتا رہا تھا۔ آج پہلی دفعہ وہ علیزہ کی ناپسندیدگی کی پروا کئے بغیر ایک دوسری ”ترجیح” کے بارے میں بات کر رہا تھا۔ اس سے پہلے یہی ہوتا تھا کہ عمر ہر چیز میں اس کی پسندناپسند کو مدنظر رکھتا تھا۔ وہ کھانے کی کوئی ڈش ہو یا پھر خریدی جانے والی کوئی چیز… کوئی پکنک پوائنٹ ہو یا پھر کسی چیز کے بارے میں رائے۔
عمر بڑی آسانی سے اس کی بات مان لیا کرتا تھا۔ شاید لاشعوری طور پر علیزہ نے سوچا تھا کہ وہ جوڈتھ کے لئے ناپسندیدگی کا اظہار کرے گی تو عمر بھی ایسا ہی کرے گا مگر پہلی بار یہ نہیں ہوا تھا۔
”ہم لوگ کل دو چار جگہوں پر جا رہے ہیں تم چلو گی۔” وہ اس سے کہہ رہا تھا یقیناً وہ جوڈتھ کوشہر کی سیر کروانا چاہتا تھا۔
”نہیں۔۔۔”
عمر نے ایک گہرا سانس لے کر اسے دیکھا وہ بہت رنجیدہ نظر آرہی تھی۔
”مجھے دیر ہو گئی ہے۔” اس نے قدم آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔
”آپ کل آئیں گے؟” علیزہ اس کے پیچھے آئی۔
وہ ٹھٹک گیا۔ ”تم چاہتی ہو میں آؤں؟”
”ہاں۔۔۔”
”ٹھیک ہے میں آجاؤں گا۔”
”مگر آپ تو جوڈتھ کے ساتھ سیر کے لئے جا رہے ہیں۔” علیزہ نے اسے یاد دلایا۔
”اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔… تم یہ بتاؤ میں کب آؤں؟”
”کل رات ڈنر پر۔۔۔”
”ٹھیک ہے۔” وہ فوراً مان گیا۔ ”بس یا کچھ اور…؟”
”نہیں بس۔۔۔” عمر کو یک دم کچھ یاد آگیا، اپنی جینز کی پاکٹ میں ہاتھ ڈالتے ہوئے اس نے علیزہ سے کہا۔ ”ذرا اپنا ہاتھ بڑھاؤ۔”
علیزہ نے کچھ متجسس ہو کر ہاتھ آگے کر دیا، عمر نے اس کی کلائی میں کوئی چیز پہنائی۔ علیزہ نے دیکھا وہ ایک خوبصورت فرینڈ شپ بینڈ تھا۔
”بارسلونا میں ایک سوینئر شاپ سے لیا تھا۔۔۔” عمر نے بتایا۔ بینڈ کے ساتھ لٹکنے والی چین کے ساتھ ایک ملوربل فائٹر ، کی تھی۔ ”Amigo” علیزہ نے بینڈ پر کندہ لفظ پڑھا۔ اس نے سر اٹھا کر عمر کو دیکھا وہ مسکرا رہا تھا۔
”تھینک یو۔۔۔”وہ واقعی مسرور تھی۔ وہ ایک بار پھر گاڑی کی طرف جانے لگا، جہاں ڈرائیور اس کا منتظر تھا۔ علیزہ اس بار خاصی خوشی کے عالم میں اسے گاڑی تک چھوڑنے آئی
”اگلی صبح وہ جب بیدار ہو کر ناشتہ کے لئے لاؤنج میں آئی تو اس نے نانو اور نانا کو خاصی پریشانی کے عالم میں لاؤنج میں بیٹھے دیکھا۔ نانا فون پر کسی سے بات کر رہے تھے مگر ان کے چہرے کے تاثرات… نانو اسے دیکھ کر علیزہ کے پاس آگئیں جو ابھی کھڑی تھی۔
”کیا ہوا نانو؟ نانا پریشان ہیں، کیا بات کر رہے ہیں؟” علیزہ نے پوچھا۔
”جہانگیر کی بڑی بیٹی کی ڈیتھ ہو گئی ہے امریکہ میں… رات دو بجے اس کا فون آیاتھا۔” علیزہ نے بے اختیار سانس روکا۔ ”نمرہ کی؟؟”
”ہاں۔” نانو نے سر ہلایا۔
”کیسے…؟ اس کو کیا ہوا؟”
”نیند میں اپنے اپارٹمنٹ کی کھڑکیوں سے نیچے گر گئی۔” نانو کی آنکھوں میں آنسو آنے لگے۔
”مائی گاڈ… آپ نے مجھے رات کو کیوں نہیں بتایا”
”تم سو رہی تھیں… فائدہ کیا تھا، میں اور تمہارے نانا تو ساری رات نہیں سو پائے۔”
”عمر کو پتا ہے؟” علیزہ کے ذہن میں پہلا خیال عمر ہی کا آیا۔
”ہاں اس کو بھی جہانگیر نے فون کر دیا تھا۔”
”مگر نانو ثمرین آنٹی تو اسلام آباد نہیں آگئی تھیں؟” علیزہ کو یاد آیا۔
”ثمرین اسلام آباد میں ہی ہے۔ مگر ولید اور نمرہ وہیں تھے۔”
”اب کیا ہوگا…؟ آپ امریکہ جائیں گی؟”
”نہیں، جہانگیر ڈیڈ باڈی پاکستان لا رہا ہے۔ ابھی کچھ انتظامات ہیں جو وہ کرنے میں مصروف ہے، مگر وہ کہہ رہا تھا کل یا پرسوں تک وہ اسے یہاں لے آئے گا۔”نانو نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔
”یہاں ہمارے گھر لے کر آئیں گے؟”
”ہاں… تمہارے نانا سب رشتہ داروں کو فون کر رہے ہیں اسی سلسلے میں… جہانگیر کو ابھی کچھ گھنٹوں کے بعد دوبارہ فون کریں گے۔ اس سے فلائٹ کے بارے میں کنفرم کرنا ہے، تاکہ نیوز پیپرز میں ایڈ دیا جا سکے۔”
”آپ نے ثمرین آنٹی سے بات کی ؟”
”وہ امریکہ چلی گئی ہیں، ابھی تو پہنچی بھی نہیں ہوں گی، وہاں پہنچ جائے پھر اس سے بات کروں گی”
”اور عمر… وہ واپس جا رہا ہے؟”
”نہیں ، جہانگیر نے اسے یہیں ٹھہرنے کے لئے کہا ہے۔ میں نے انیکسی کھلوائی ہے۔ ملازموں سے کہا ہے کہ وہ وہاں کی صفائی کریں، اوپر والے پورشن کو بھی صاف کرنا ہے۔ تم انیکسی کو دیکھ لینا۔ کافی لوگ آئیں گے۔ تمہارے سارے انکلز اپنی فیمیلیز کے ساتھ آرہے ہیں۔ ہو سکتا ہے انہیں ٹھہرنا بھی پڑے کیونکہ فلائٹ کا کوئی پتا نہیں ، تم ناشتہ کرلو۔”
نانو کو ہدایت دیتے ہوئے اچانک خیال آیا۔ علیزہ کی بھوک ختم ہو چکی تھی۔
”میں کر لوں گی۔” اس نے نانو کو ٹالا، وہ واپس نانا کے پاس چلی گئی۔

باب: 42

وہ جس وقت عمر کے ساتھ گھر پہنچی آدھی رات گزر چکی تھی۔ نانو گیٹ کے چکر لگاتے ہوئے اس کا انتظار کر رہی تھیں گاڑی کے پورچ میں رکتے ہی وہ برق رفتاری سے علیزہ کے پاس آگئیں۔ علیزہ بمشکل اپنی آنکھیں کھول پا رہی تھی، سکون آور انجکشن اب مکمل طور پر اثر کر رہا تھا۔
گاڑی سے پاؤں باہر رکھتے ہوئے وہ لڑکھڑائی تو نانو نے اسے پکڑ لیا۔ اس کے سوجے ہوئے نیلے گال کو دیکھ کر ان کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔
”تم ٹھیک ہو؟” انہوں نے علیزہ سے پوچھا۔
”ہاں نانو! میں ٹھیک ہوں۔” وہ بات کرتے ہوئے دقت محسوس کر رہی تھی۔
”اس کو کیا ہو رہا ہے؟”
نانو کچھ گھبرا گئیں۔ عمر تب تک ڈرائیونگ سیٹ چھوڑ کر پیچھے آچکا تھا۔
”کچھ نہیں گرینی… انجکشن دیا ہے، اس لئے نیند آرہی ہے اسے۔” علیزہ نے اسے کہتے سنا اور پھر شاید اس نے نانو کو ہاتھ ہٹا کر خود اس کا بازو پکڑا تھا۔
علیزہ بمشکل قدم اٹھا پا رہی تھی۔
”تم تو کہہ رہے تھے کہ اسے کچھ نہیں ہوا مگر اس کو تو چوٹیں لگی ہیں۔ ” نانو نے اس کے چہرے اور ہاتھ پر بندھی ہوئی بینڈیج کو دیکھتے ہوئے گلو گیر آواز میں کہا۔
”یہ معمولی چوٹیں ہیں، یہ بالکل ٹھیک ہے۔” وہ اب لاؤنج میں داخل ہو گئے۔
”علیزہ ! کون تھے وہ لڑکے… کیوں تم دونوں کے پیچھے پڑ گئے تھے؟” نانو اب ایک بار پھر اس کی طرف متوجہ ہوئیں۔
”گرینی! ابھی اس سے کچھ نہ پوچھیں… ابھی اسے سونے دیں۔”
علیزہ کے کچھ کہنے سے پہلے ہی عمر نے نانو سے کہا۔
وہ لاؤنج میں رکا نہیں اس لئے وہ اور نانو سیدھا اس کے کمرے میں چلے گئے، علیزہ نے بیڈ پر لیٹتے ہی آنکھیں بند کر لیں۔ اس کے جسم کو عجیب سا سکون ملا تھا۔ کسی نے اسے ایک چادر اوڑھائی تھی۔ عمر شاید نانو سے کچھ کہہ رہا تھا، علیزہ اب اس کے الفاظ کو سمجھ نہیں پا رہی تھی۔ چند لمحوں بعد اس نے اپنے اردگرد مکمل خاموشی پائی، آخری احساس کمرے میں ہونے والی تاریکی کا تھا۔ پھر کسی نے دروازہ بند کر دیا۔
اگلے دن وہ جس وقت اٹھی اس وقت دو بج رہے تھے کچھ دیر تو اسے یقین ہی نہیں آیا کہ وہ اتنی دیر تک سوئی رہی ہے۔ پھر اسے پچھلی رات کے تمام واقعات یاد آنے لگے۔ اس نے انہیں ذہن سے جھٹکنے کی کوشش کی۔ اس کا جسم اورذہن اس وقت بالکل ہلکے پھلکے تھے، اور وہ ایک بار پھر ٹینس ہونا نہیں چاہتی تھی۔
وارڈ روب سے کپڑے نکال کر اس نے شاور لیا اور پھر اپنے کمرے سے نکل آئی۔ لاؤنج میں آتے ہی اس نے عمر اور نانو کو وہاں بیٹھے دیکھا۔ عمر اسے دیکھ کر مسکرایا۔ وہ بھی جواباً مسکرائی، نانو اس کے پاس آکر اس کا چہرہ دیکھنے لگیں۔
”ابھی بھی سوجن ختم نہیں ہوئی۔” انہوں نے تشویش سے کہا۔
”نہیں پہلے سے کم ہے مگر درد کچھ زیادہ ہو رہا ہے۔ رات کو تو چوٹ کا اتنا پتہ نہیں چلا۔” علیزہ نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
”ایک دو دن میں درد ختم ہو جائے گا، البتہ نشان کافی دنوں تک رہے گا۔” عمر نے اس سے کہا۔
”گرینی کھانا لگوا دیں اس کے لئے۔”
”آپ لوگ کھانا کھائیں گے؟”
”نہیں، ہم لوگ کھانا کھا چکے ہیں۔ میں تو صرف تمہارا انتظار کر رہا تھا مجھے واپس جانا ہے۔ میں بس ایک بار تمہیں دیکھنا چاہ رہا تھا۔” عمر نے کہا۔ نانو کچن میں جا چکی تھیں۔
”کیسا محسوس کر رہی ہو تم؟”
”میں ٹھیک ہوں۔” اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ”جو بھی کچھ ہوا وہ بہت خوفناک تھا مگر میں… ٹھیک ہوں۔”
وہ اسے دیکھتا رہا ”تم پہلے سے کافی بدل گئی ہو۔” کچھ دیر بعد اس نے کہا علیزہ نے چونک کر اسے دیکھا وہ مسکرا رہا تھا۔ ”Much more mature and composed” (زیادہ میچور اور سلجھی ہوئی) اچھی بات ہے۔”
”پتا نہیں … شاید۔۔۔”
”ابھی چند ہفتے تم گھر پر ہی رہنا، اور آئندہ اگر رات کو باہر جاؤ تو ہمیشہ اپنے پاس کوئی ریوالور رکھو۔”
“میں دوبارہ کبھی رات کو باہر ہی نہیں جاؤں گی۔”
”کیوں بھئی… کیوں نہیں ، جاؤ گی تم باہر… کسی حادثے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ گھر میں خود کو بند کر لیا جائے۔ جو ہوا گزر گیا۔ عباس نے دو تین بار فون کیا ہے تم سو رہی تھیں۔ اس لئے میں نے بات نہیں کروائی۔ اس سے بات کر لینا ایک بار ، اور ایاز انکل نے بھی فون کیا ہے۔ ان کو بھی کال کر لینا۔”
”ایاز انکل کو… کیوں…؟ کیا ان کو سب کچھ پتا چل گیا ہے؟” وہ کچھ متفکر ہوئی۔
”ہاں ان سے میری رات کو بات ہوئی تھی ، عباس نے ان کو فون کیا تھا وہ بس تمہاری خیریت دریافت کرنا چاہتے ہیں۔” عمر نے کہا۔
”آپ کل یہاں کیسے…؟” عمر نے اس کی بات کاٹی۔
”میں اتفاقاً آیا تھا، عباس کے پاس تھا جب گرینی نے اس کو فون کیا۔ پھر میں رات یہیں رک گیا۔ بس ابھی نکل جاؤں گا۔” عمر نے تفصیل سے بتایا۔
”ان لڑکوں کا کیا ہوا؟ کیس فائل ہو گیا؟” علیزہ کو وہ چاروں یاد آئے۔
”ہاں، میں چلتا ہوں، دیر ہو رہی ہے۔ شام ہو جائے گی مجھے واپس پہنچتے پہنچتے۔” عمر نے اپنی رسٹ واچ دیکھتے ہوئے کہا اور کھڑا ہو گیا۔
”میں واپس جا کر ایک بار پھر تمہیں فون کروں گا۔ اور علیزہ! “Just forget about every thing.”(سب کچھ بھلا دو۔) کچھ بھی نہیں ہوا… سب کچھ ٹھیک ہے۔ ” علیزہ نے ایک گہرا سانس لے کر سر ہلا دیا۔ وہ اسے خدا حافظ کہہ کر باہر نکل گیا۔
علیزہ فون کا ریسیور اٹھا کر عباس کو کال ملانے لگی۔
”ہاں علیزہ! کیسی ہو تم؟” عباس نے رابطہ ہوتے ہی کہا۔
”میں ؟ٹھیک ہوں۔”
”میں کتنی بار کال کر چکا ہوں، تم سو رہی تھی۔ ابھی دوبارہ کال کرنے ہی والا تھا میں۔ ” عباس نے کہا۔ ”پاپا سے بات ہوئی ہے تمہاری؟”
”انکل ایاز سے… نہیں ابھی میں ان کو کال کروں گی، عمر نے بتایا تھا کہ انہوں نے صبح کال کی تھی۔” علیزہ نے کہا۔ ”تمہاری گاڑی ورکشاپ میں ہے، ایک دو دن تک میں بھجوا دوں گا۔ شام کو میں آؤں گا گرینی کی طرف۔ عمر ابھی وہیں ہے یا چلا گیا؟”
”وہ ابھی ابھی گئے ہیں۔ عباس بھائی ایف آئی آر میں میرا نام بھی آئے گا؟” علیزہ کو کچھ دیر پہلے خیال آیا۔
”نہیں تمہارا نام کیوں آئے گا؟”
”نہیں تو کیس کیسے فائل ہو گا؟
”تم اس کو چھوڑ دو، یہ بتاؤ چہرے پر لگی ہوئی چوٹ ٹھیک ہو ئی ہے کچھ؟ ” عباس نے بات کا موضوع بدل دیا۔
”ہاں۔۔۔”
”گڈ… شام کو میں تمہیں ایک بار پھر ڈاکٹر کے پاس لے جاؤں گا۔ وہ تمہارے ہاتھ کی بینڈیج چینج کر دے گا۔ گرینی کو کہو کہ اچھا سا کھانا تمہیں کھلائیں۔ اس کے بعد تم آرام سے کوئی اچھی سی فلم دیکھو یا پھر کسی دوست کو بلوا لو۔ گپ شپ لگاؤ اینڈ جسٹ انجوائے یور سیلف اور ہاں، ایک بہت ضروری بات … ابھی کچھ ہفتے گھر سے نہیں نکلنا۔ گھر پر میں نے گارڈ لگوا دی ہے۔ ابھی کچھ ہفتے اگر کہیں جانا بھی ہے تو پہلے مجھ کو انفارم کر نا ہے اس کے بعد۔۔۔”
وہ پزل ہو گئی۔ ”کیوں…؟”
”بس ویسے ہی… احتیاط اچھی چیز ہے۔ اچھا پھر شام کو آتا ہوں میں خدا حافظ”
فون بند ہو گیا ، وہ الجھی ہوئی ریسیور ہاتھ میں لئے اسے دیکھتی رہی ۔
نانو کھانا لگوا چکی تھیں۔ علیزہ نے کھانا کھایا نانو نے اس سے رات کے واقعات کے بار ے میں کچھ بھی نہیں پوچھا۔ شاید عمر انہیں منع کر چکا تھا۔ وہ صرف اسے اکیلے واپس آنے پر ڈانٹتی رہیں۔ علیزہ خاموشی سے ان کی ڈانٹ سنتی رہی۔ وہ ابھی کھانا کھا رہی تھی، جب ایاز انکل کا فون آیا تھا۔ وہ کچھ نروس ہو گئی جب نانو نے فون پر بات کرنے کے بعد اسے بلوایا۔
”ہیلو علیزہ بیٹا! ہاؤ آر یو…؟” ایاز حیدر نے اس کی آواز سنتے ہی کہا۔
”فائن…!”
”میری عباس سے بات ہوئی تھی رات کو… ڈونٹ وری… سب کچھ ٹھیک ہو گیا ہے، اور تمہاری چوٹیں کیسی ہیں؟”
”بہت معمولی چوٹیں ہیں۔ میں بالکل ٹھیک ہوں۔” علیزہ نے کہا۔
وہ کچھ دیر اسی طرح اس سے ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے۔
”اچھا بیٹا! میں آج رات یا کل لاہور آؤں گا، باقی باتیں پھر ہوں گی، اور ابھی کچھ ہفتے باہر نہیں جانا گھر پر رہنا اور کوئی فون کال خود ریسیو نہیں کرنی ، ممی کو کرنے دو۔ اس کے بعد تم ریسیو کرنا اور اپنے میگزین فون کرکے ریزائن کردو۔”
وہ حیرانی سے ان کی ہدایات سنتی رہی، ریسیور رکھنے کے بعد اس نے کچھ الجھی ہوئی نظروں سے نانو کو دیکھا۔
”شہلا کچھ دیر تک آئے گی وہ بھی صبح سے فون کر رہی ہے میں نے اس سے کہا تھا کہ وہ سہ پہر کو آجائے۔ ” نانو نے اس کے چہرے کے تاثرات کو نظر انداز کرتے ہوئے اسے بتایا۔
”اچھا۔۔۔” وہ صوفے پر بیٹھ کر ان تینوں کی ہدایات کے بارے میں سوچتی رہی۔
وہ ابھی لاؤنج میں ہی تھی جب آدھ گھنٹہ کے بعد انٹر کام کی بیل سنائی دی۔ خانساماں نے انٹر کام پر بات کی اور پھر باہر نکل گیا کچھ دیر بعد شہلا اندر داخل ہوئی اس نے بڑی گرم جوشی کے ساتھ علیزہ کو گلے لگایا۔ پھر وہ اس کے ساتھ بیڈ روم میں آگئی۔ رات کے واقعات کے بارے میں وہ دونوں دوبارہ باتیں کرتی رہیں۔
”تمہارے گھر کے باہر اب پولیس کب تک رہے گی؟” شہلا نے اچانک اس سے پوچھا۔
”گھر کے باہر…؟گیٹ پر ایک دو لوگ ہوں گے، مگر کیا گھر کے باہر بھی پولیس ہے۔”
”ہاں پولیس کی ایک گاڑی کھڑی ہے۔ میری گاڑی انہوں نے اندر آنے نہیں دی۔ خانساماں سے تصدیق کروانے کے بعد مجھے اندر آنے دیا۔”
”پتا نہیں کیا پرابلم ہے، مجھ سے بھی سب کہہ رہے ہیں کہ میں چند ہفتے تک باہر نہ جاؤں۔ فون بھی ریسیو نہ کروں اور ایاز انکل نے کہا ہے کہ میں میگزین کی جاب سے ریزائن کردوں۔”
شہلا نے کندھے اچکائے۔” شاید احتیاط کے طور پر یہ سب کر رہے ہوں گے۔ خیر میں کل پھر آؤں گی ، ممی بھی آنا چاہ رہی تھیں مگر میں نے آج انہیں روک دیا۔ کل انہیں لاؤں گی۔” شہلا نے اٹھتے ہوئے کہا۔
”وہ تو اتنی خوفزدہ ہیں کہ آج انہوں نے مجھے ڈرائیور کے ساتھ بھجوایا ہے۔” شہلا اسے بتاتی رہی۔
علیزہ دروازے تک اسے چھوڑنے آئی۔
شام ہو چکی تھی اور اب اسے عباس کا انتظار تھا، لیکن وہ نہیں آیا اس نے فون پر اپنے نہ آنے کی اطلاع دیتے ہوئے کہا۔
”علیزہ مجھے کچھ ضروری کام ہے، اس لئے ابھی نہیں آسکوں گا۔”
”کوئی بات نہیں، میری بینڈیج ابھی بالکل ٹھیک ہے۔”
علیزہ نے کہا اس سے پہلے کہ وہ اس سے کچھ اور کہتی اس نے ریسیور میں دور سے عمر کی آواز سنی۔
”تم میرے ساتھ چلو گے یا میں خود چلا جاؤں؟”
وہ چونک گئی۔
”اچھا علیزہ ! مجھے کچھ کام ہے، خدا حافظ۔”
عباس نے خاصی عجلت میں فون بند کر دیا۔
”عمر وہاں کیسے ہے، وہ تو واپس اپنے شہر چلا گیا تھا۔” وہ کچھ اور الجھ گئی۔
رات کے کھانے کے بعد وہ اپنے کمرے میں چلی آئی، کافی دیر تک اسے نیند نہیں آئی۔ وہ ایک کتاب پڑھتی رہی مگر اس کا ذہن بری طرح الجھا ہوا تھا۔ جب بہت دیر تک وہ سو نہیں پائی تو اس نے نیند کی ایک گولی لے لی۔
اگلی صبح وہ نو بجے کے قریب بیدار ہوئی۔ ناشتہ کی میز پر نانو نے اس کا استقبال کیا، علیزہ کو خلاف معمول میز پر کوئی بھی نیو ز پیپرز نظر نہیں آیا۔
”نانو! نیوز پیپر کہاں ہیں؟” علیزہ نے اپنے لئے چائے کا کپ تیار کرتے ہوئے پوچھا۔
”یہیں تھے۔” نانو نے کہا۔ ”تم ناشتہ کرو، بعد میں دیکھ لینا۔”
اسی وقت فون کی گھنٹی بجی، نانو اٹھ کر فون کی طرف بڑھ گئیں۔ دوسری طرف شہلا تھی۔ نانو نے علیزہ کو بلایا۔
”تم نے آج کے اخبار دیکھے ہیں؟” شہلا نے اس کے لائن پر آتے ہی کہا۔
”نہیں۔ کیوں؟”
”تم فوراً دیکھو… فرنٹ پیج۔” علیزہ نے ریسیور رکھ دیا۔
”نانو! نیوز پیپر دکھائیں مجھے… کہاں ہیں؟” وہ نانو کے پاس آگئی۔
”تم ناشتہ۔۔۔” علیزہ نے ان کی بات کاٹ دی۔
”پلیز دکھائیں… آپ چھپا کیوں رہی ہیں؟”
”میرے بیڈ روم میں ہیں۔” نانو نے مدھم آواز میں کہا۔
وہ ان کا چہرہ دیکھتی ہوئی ان کے بیڈ روم میں چلی گئی۔
اس نے ایک اردو اخبار اٹھایا اور اس کا فرنٹ پیج کھول کر اس پر نظر دوڑانے لگی۔ شہلا اسے کیا بتانا چاہتی تھی۔ اسے دیر نہیں لگی۔ فرنٹ پیچ کے بائیں کونے میں ایک چار کالمی باکس کے اوپر چار تصویروں کے نیچے ایک پولیس مقابلے کی ہیڈ لائن لگی ہوئی تھی اور اس کے نیچے اس پولیس مقابلے کے بارے میں کچھ مزید خبریں تھیں۔ علیزہ کے ہاتھ کانپنے لگے، بلیک اینڈ وائٹ خون میں لت پت چار چہروں کی وہ تصویریں شاید وہ اس خبر کے بغیر کبھی نہ پہچان پاتی۔
“ماڈل ٹاؤن میں ڈکیتی کے بعد فرار ہونے والے چاروں ڈاکو پولیس مقابلے میں ہلاک۔”
وہ نانو کے بیڈ پر بیٹھ گئی۔ اس کے پیر بے جان ہو رہے تھے۔
”لاہور (نامہ نگار، پی پی آئی) اتوار کی رات ماڈل ٹاؤن ڈی بلاک میں ڈکیتی کی ایک ناکام واردات کے بعد فرار کی کوشش کرنے والے چاروں ڈاکوؤں کو پولیس نے تعاقب کے بعد ایک سخت مقابلے کے بعد ہلاک کر دیا۔ ملزمان کی فائرنگ سے دو پولیس کانسٹیبل بھی زخمی ہوئے۔ پولیس کی جوابی فائرنگ سے چاروں ملزمان ہلاک ہو گئے۔ تفصیلات کے مطابق اتوار کی رات کو رانا مظفر علی خان کے گھر چار ڈاکوؤں نے ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کی۔ چوکیدار کو رسیوں سے باندھنے کے بعد ان ڈاکوؤں نے نچلی منزل میں موجود گھر کے تمام افراد کو گن پوائنٹ پر ایک کمرے میں بند کر دیا مگر اسی دوران صا حب خانہ کے ایک بیٹے نے جو دوسری منزل پر تھا موبائل پر پولیس کو اطلاع دے دی۔ جس پر ایس پی عباس حیدر کی فوری ہدایات پر انسپکٹر اختر کی قیادت میں ایک پولیس پارٹی نے موقع واردات پر پہنچنے کی کوشش کی پولیس کی گاڑیوں کے سائرن کی آواز سننے پر ملزمان نے پولیس کی گاڑی پر سیون ایم ایم کے ذریعے زبردست فائرنگ کی جس کے نتیجہ میں دو پولیس کانسٹیبل بری طرح زخمی ہوگئے، جن کی حالت نازک بتائی جاتی ہے۔ پولیس پارٹی کی طرف سے دفاع میں فائرنگ کرنے کی کوشش میں چاروں ملزمان شدید زخمی ہو گئے۔ جن میں سے دو موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔ جب کہ دو ہاسپٹل لے جاتے ہوئے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جان بحق ہوئے۔
چاروں ملزمان تعلیم یافتہ اور با اثر خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ جن میں سے ایک ہائی کورٹ کے ایک جج کا بیٹا بتایا جاتا ہے۔ جب کہ ایک اور ملزم لاہور چیمبر آف کامرس کے ایک اہم عہدے دار کا بیٹا تھا۔ ایس پی عباس حیدر نے پولیس آپریشن میں شامل تمام پولیس والوں کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے انہیں نقد انعامات اور محکمانہ ترقی دینے کا اعلان کیا ہے، ملزمان کی کار سے بھاری تعداد میں خود کار اسلحہ برآمد کیا گیا ہے۔ گاڑی کی نمبر پلیٹ بھی نقلی تھی۔ پولیس کے ذرائع کے مطابق ملزمان پہلے بھی اس علاقے میں ہونے والی کئی ڈکیتیوں میں ملوث رہے ہیں۔ مگر ہر بار فرار ہونے میں کامیاب ہو جاتے۔ اس علاقے میں ہونے والی کئی ڈکیتیوں میں واردات پر پائے جانے والے فنگر پرنٹس ملزمان کے فنگر پرنٹس سے مل گئے ہیں۔ پولیس نے گاڑی سے برآمد ہونے والا تمام مسروقہ مال اپنی تحویل میں لے لیا ہے جسے ضروری کارروائی کے بعد اصل مالکان کے حوالے کر دیا جائے گا۔”
اس ہیڈ لائن کے نیچے اس خبر کی تفصیلات کے بعد ایک اور دو کالمی ہیڈ لائن تھی۔ ”پولیس نے میرے بے گناہ بیٹے کو گھر سے اٹھا کر مار ڈالا۔” جسٹس نیاز نے پولیس مقابلے میں اپنے بیٹے کے مارے جانے پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے اپنے ایک بیان میں ایس پی عباس حیدر کو اپنے معصوم بیٹے اور اس کے دوستوں کا قاتل قرار دیتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس پولیس مقابلہ کی انکوائری کروائیں۔ اور ایس پی عباس حیدر کو معطل کیا جائے۔ جسٹس نیاز کے بیان کے مطابق اتوار کو ان کا بیٹا گھر پر اپنے بیڈ روم میں سو رہا تھا۔ جب سادہ کپڑوں میں ملبوس کچھ پولیس والے ان کے گھر میں گھس آئے۔ انہوں نے انہیں ایک کمرے میں بند کر دیا اور ان کے بیٹے کو گن پوائنٹ پر باہر لے گئے۔ اہل خانہ کے شور مچانے پر کالونی کے چند دوسرے چوکیدار ان کے گھر آئے اور انہوں نے ان کے گھر پر موجود دونوں گارڈز کو رسیوں سے آزاد کیا اور پھر اہل خانہ کو بھی دروازہ کھول کر آزادی دلوائی۔ جسٹس نیاز کے مطابق انہوں نے اسی وقت لاہور کے ایس ایس پی امتنان صدیقی کو فون کے ذریعے اپنے بیٹے کے اغوا کی اطلاع دی، جس پر انہوں نے انہیں یقین دلایا کہ اسے بہت جلد برآمد کر لیا جائے گا۔ مگر چند گھنٹوں کے بعد انہیں ایک پولیس مقابلے میں ان کے بیٹے کی موت کی اطلاع دی گئی۔ جب ایس ایس پی امتنان صدیقی سے اس بار ے میں معلومات حاصل کرنے کے لئے رابطہ قائم کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ جسٹس نیاز کے فون کرنے سے پہلے ہی ان کا بیٹا ایک پولیس مقابلے میں مارا جا چکا تھا۔ مگر ابھی اس کی شناخت ہونا باقی تھی اس لئے انہوں نے جسٹس نیاز کو اطلاع نہیں دی۔ انہوں نے اخباری نمائندوں کو یہ بھی بتایا کہ جسٹس نیاز کے گھر پر تعینات گارڈز کے بیانات کے مطابق مقتول جلال اس وقت تک ابھی گھر پر نہیں آیا تھا اور نہ ہی انہوں نے ان لوگوں کو جلال کو لے جاتے دیکھا۔ جسٹس نیاز کے گھر پہنچنے والے گارڈز کا بیان تھا کہ اگرچہ جسٹس نیاز کے گھر کا بیرونی دروازہ کھلا ہوا تھا لیکن جس کمرے میں وہ سب تھے اس کمرے کا دروازہ لاکڈ نہیں تھا اور نہ ہی گھر میں کسی کوزبردستی لے جانے کے آثار نظر آرہے تھے۔ تاہم ایس ایس پی نے یقین دلایا کہ وہ جسٹس نیاز کی شکایت پر مکمل تحقیقات کروائیں گے۔
جسٹس نیاز کے علاوہ تینوں ملزمان کے لواحقین نے پولیس پر یہی الزام لگایا ہے کہ ان کے بیٹوں کو زبردستی گھر سے اٹھا کر جعلی پولیس مقابلہ میں مار دیا گیا، لیکن جس علاقے میں ڈکیتی کی کوشش کی گئی تھی، اس علاقے کے لوگوں اور گھر کے افراد نے پولیس کے بیانات کی تصدیق کرتے ہوئے پولیس کی بروقت کارروائی کو سراہا ہے۔ گھر کے مالک اور دوسرے افراد خانہ نے ان چاروں ملزمان کو شناخت کر لیا ہے۔
ایک اور یک کالمی خبر چاروں ملزمان کے پوسٹ مارٹم رپورٹ کے بارے میں تھی، جس میں ڈاکٹرز جو موت کا وقت بتایا تھا، وہ اس وقت سے پہلے تھا، جب جسٹس نیاز نے ایس ایس پی امتنان صدیقی کو فون کیا تھا۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق ملزمان کے جسم پر تشدد کے کوئی نشانات نہیں تھے اور ان کی موت بہت دور سے چلائی جانے والی رائفلز کی گولیوں سے ہوئی تھی۔ اخبار کی رپورٹ کے مطابق پنجاب کے چیف منسٹر نے جسٹس نیاز کی شکایت پر اس واقعہ کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔
وہ اخبار ہاتھ میں لئے بہت دیر تک بے حس و حرکت وہیں بیٹھی رہی۔
”ابھی ان چاروں کا کیا کریں گے؟” اسے اس رات عمر سے پوچھا جانے والا اپنا سوال یاد آیا۔
”کچھ نہیں…پولیس اسٹیشن لے جائے گا۔ ایف آئی آر کاٹے گا اور پھر بند کر دے گا۔”
”اس کے بعد کورٹ میں کیس چلے گا۔ سزا وغیرہ ہو جائے گی۔”
وہ بے یقینی سے اس رات ان دونوں کی گفتگو کے بارے میں سوچتی رہی۔
”تم علیزہ کو گھر لے جاؤ، علیزہ ! تم گھر جا کر آرام سے سو جاؤ۔ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے۔” اسے عباس کی باتیں یاد آئیں۔ میں نے کیوں یہ نہیں جانا کہ وہ دونوں نہیں، وہ دونوں نہیں صرف عباس… ان چاروں کو اس وقت مارنے کے لئے اکٹھا کر رہا تھا ورنہ وہ مجھے فوری شناخت کے لئے ساتھ لئے لئے نہ پھرتا، اگلے دن کا انتظار کرتا پولیس مقابلہ… پولیس مقابلہ۔۔۔”
اس کا چہرہ پسینے میں بھیگنے لگا۔ وہ ان چاروں کے خون میں لتھڑے ہوئے چہروں پر دوبارہ نظر ڈالنے کی جرات نہیں کر سکی۔ غم و غصے اور بے یقینی کا ایک آتش فشاں جیسے اس کے اندر ابل پڑا تھا۔
”اتنی بے رحمی سے کوئی کسی کو کیسے مار سکتا ہے۔ اور اس طرح… اس طرح… عباس کو کوئی خوف نہیں آیا اس نے مجھے اور عمر دونوں کو اندھیرے میں رکھا۔” اس کا دماغ جیسے پھٹنے لگا تھا۔اخبار لئے وہ غصے کے عالم میں باہر لاؤنج میں آئی، اس نے شہلا سے بات کرنے کی بجائے لائن ڈس کنیکٹ کردی اور عباس کا نمبر ملانے لگی۔
”صاحب میٹنگ میں گئے ہوئے ہیں۔” دوسری طرف سے اسے اطلاع دی گئی۔ اس نے فون پٹخ دیا۔
نانو نے اس کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے اخبار اور اس کے چہرے کے تاثرات سے اندازہ لگا لیا تھا کہ وہ عباس سے بات کیوں کرنا چاہتی تھی، لیکن اس کے باوجود انہوں نے علیزہ کو مخاطب کیا۔
”کیا ہوا علیزہ…؟ عباس سے کیا بات کرنی ہے؟”
علیزہ نے وہ اخبار ٹیبل پر پٹخ دیا۔ He is a murderer” آپ دیکھیں نانو! اس نے کس طرح ان چاروں کو قتل کروایا ہے۔ چار لوگوں کو… میرے خدا …میرے سامنے اس نے ان میں سے دو کو ان کے گھروں سے اٹھوایا تھا… اور وہ چاروں پولیس کسٹڈی میں زندہ تھے اور وہ کہتا ہے پولیس مقابلے میں مر گئے۔” ا س کا چہرہ غصے سے سرخ ہو رہا تھا۔
نانو اس کی بات کے جواب میں کچھ کہنے کے بجائے صرف خاموشی سے اسے دیکھتی رہیں۔ وہ اب دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پکڑے صوفہ پر بیٹھی ہوئی تھی۔ اس کے چہرے پر غصہ اور بے بسی نمایاں تھی۔
”مرید بابا! پانی لے کر آئیں۔” نانو نے بلند آواز میں خانساماں کو پکارا۔
”مجھے پانی کی ضرورت نہیں ہے نانو۔” علیزہ نے یک دم سر اٹھا کر انہیں دیکھا ، اس کا چہرہ اب بھی سرخ تھا۔ وہ اٹھ کر کھڑی ہو گئی تھی۔
”نہ انکل ایاز کے نزدیک انسانی زندگی کی کوئی اہمیت تھی نہ ان کے بیٹے کے نزدیک۔” وہ بے چینی سے لاؤنج میں ٹہل رہی تھی۔
”آپ کو شہباز منیر یاد ہے نا… انکل ایاز نے اسے بھی اسی طرح ختم کروا دیا تھا، عمر ٹھیک کہتا تھا وہ بالکل ٹھیک کہتا تھا۔” اس کا اشتعال اب بڑھتا جا رہا تھا، مجھے… مجھے سمجھ لینا چاہئے تھا کہ وہ … آپ نے کیوں عباس کو مدد کے لئے بلوایا؟” وہ یک دم چلائی۔
”تو اور کس کو بلاتی؟ فوری طور پر اور کون آسکتا تھا؟” نانو نے کچھ روکھے انداز میں کہا۔
”یہ سب میری وجہ سے ہوا ہے… سب میری وجہ سے۔” وہ ایک بار پھر کمرے کے چکر کاٹنے لگی۔
”اس طرح کمرے میں پھرنے سے کیا ہو گا؟” نانو نے اسے ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔ ”تم آرام سے بیٹھ جاؤ۔”
”نانو! میں… میں آرام سے کیسے بیٹھ جاؤں؟… چار انسانوں کا خون اپنے سر لے کر میں آرام سے بیٹھ جاؤں… آپ کیسی باتیں کرتی ہیں؟”
”تم نے ان چار انسانوں کو قتل نہیں کیا، اس لئے تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔”
”ہاں، میں نے قتل نہیں کیا، مگر وہ میری وجہ سے قتل ہوئے ہیں۔”
”وہ تمہاری وجہ سے قتل نہیں ہوئے۔ اپنی حرکتوں کی وجہ سے ہوئے ہیں۔ نہ وہ اس طرح کی حرکت کرتے نہ یوں مارے جاتے۔” نانو نے سنجیدگی سے کہا۔
وہ چلتے چلتے رک گئی۔ ”نانو ! یہ آپ کہہ رہی ہیں؟”
”ہاں، میں کہہ رہی ہوں۔ عباس نے جو کیا ٹھیک کیا۔”
وہ بے یقینی سے ان کا چہرہ دیکھتی رہ گئی۔
”مجھے یقین نہیں آرہا نانو! کہ میں یہ سب کچھ آپ کے منہ سے سن رہی ہوں۔”
”تمہیں اس بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، یہ گھر کے مردوں کے ہینڈل کرنے کے معاملات ہوتے ہیں اور انہوں نے جس طرح بہتر سمجھا اس معاملے کو ہینڈل کیا۔” نانو نے سپاٹ لہجے میں کہا۔
”اور مردوں کی اس ہینڈلنگ نے چار انسانوں کو زندگی سے محروم کر دیا۔ آپ تو بہت سوشل ورک کرتی رہی ہیں نانو! کیا آپ یہ چھوٹی سی بات نہیں سمجھ سکتیں کہ۔۔۔”
نانو نے اس بار کچھ غصے کے عالم میں اس کی بات کاٹ دی۔
”تم جو چاہے کہو۔ مجھے مرنے والوں سے کوئی ہمدردی نہیں ہے وہ چند گھنٹے جو میں نے پرسوں رات تمہارے انتظار میں گزارے تھے۔ ان کی تکلیف بھی کسی قتل سے کم نہیں تھی… یہ چاروں بے گناہ تو نہیں مارے گئے۔”
”مگر ان کے جرم کی سزا کم از کم میرے نزدیک موت نہیں تھی… اور پھر اس طرح کی مو ت کہ چار انسانوں کو کسی ٹرائل کے بغیر اٹھا کر مار دیا جائے۔” وہ نانو کی جذباتیت سے متاثر ہوئے بغیر بولی۔ ”یہ پولیس اسٹیٹ تو نہیں ہے جہاں کسی کو بھی پکڑ کر اس کے جرم کی سنگینی اور نوعیت کا اندازہ کئے بغیر شوٹ کر دیا جائے۔”
”تمہیں ان چاروں سے اتنی ہمدردی جتانے کی ضرورت نہیں ہے۔”
کیوں نہیں ہے… جب میں یہ جانتی ہوں کہ ان چاروں کو پولیس نے واقعی قتل کیا ہے۔ وہ کسی پولیس مقابلے میں انوالوڈ نہیں تھے تو پھر میں ان سے ہمدردی کیوں نہ جتاؤں… جب میں یہ بھی جانتی ہوں کہ وہ صرف میری وجہ سے اس طرح مارے گئے ہیں۔”
نانو یک دم اٹھ کر کھڑی ہو گئیں ” میں تم سے پہلے بھی کہہ چکی ہوں۔ وہ تمہاری وجہ سے نہیں اپنی حرکتوں کی وجہ سے مارے گئے ہیں، ایسے لوگوں کے ساتھ یہی ہوتا ہے… آج نہیں تو کل… تمہاری وجہ سے نہیں تو کسی اور کی وجہ سے مارے جاتے… مگر مارے ضرور جاتے۔”
وہ کہہ کر لاؤنج سے نکل گئیں، واضح طور پر وہ علیزہ کے ساتھ کسی مزید بحث سے بچنا چاہتی تھیں۔ وہ پلکیں جھپکائے بغیر انہیں کمرے سے نکلتے دیکھتی رہی۔
وہ نانو کے جانے کے بعدوہ بے بسی سے صوفہ پر بیٹھ گئی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ وہ کیا کرے۔ اس کے کانوں میں بار بار اس رات عباس کی گفتگو گونجتی رہی اور یاد آنے والا ہر جملہ اس کے غم و غصہ میں اضافہ کرتا رہا۔
شہلا نے کچھ دیر بعد ایک بار پھر فون کیا تھا اور علیزہ نے دوسری طرف سے شہلا کی آواز سنتے ہی کہا۔
”شہلا! میں ابھی تم سے بات نہیں کر سکتی… تم تھوڑی دیر کے بعد مجھے رنگ کرنا۔”
شہلا کچھ حیران ہوئی ”تم ٹھیک تو ہو؟”
”نہیں۔ میں ٹھیک نہیں ہوں… میں بالکل بھی ٹھیک نہیں ہوں۔ اسی لئے تو تم سے بات نہیں کر سکتی۔” اس نے فون کا ریسیور پٹخ دیا۔ وہ خود نہیں سمجھ سکی تھی کہ اسے شہلا پر اتنا غصہ کیوں آیا تھا۔
وہ کچھ دیر اسی طرح اپنے اگلے اقدام کے بارے میں سوچتی رہی پھر اس نے ایک بار پھر عباس کو فون کیا۔ آپریٹر نے پہلے والا جواب دوبارہ دہرایا۔
”وہ میٹنگ میں ہیں۔”
”کب فارغ ہوں گے؟”
”اس کے بارے میں پتا نہیں ، آپ میسج چھوڑ دیں۔”
علیزہ نے کوئی پیغام چھوڑنے کے بجائے فون بند کر دیا اور عباس کے موبائل پر کال کرنے لگی۔ موبائل آف تھا۔ اس نے عمر کے موبائل پر نمبرملایا، عمر کا موبائل بھی آف تھا۔ اس کی بے چینی بڑھنے لگی۔ عمر آخر اس وقت کہاں تھا؟ وہ جاننا چاہتی تھی، پچھلی دوپہر عباس کے ساتھ تھا۔ یہ وہ جانتی تھی اورکیوں تھا؟ اب وہ اندازہ کر سکتی تھی۔
”وہ یقیناً عباس کے ساتھ اس سارے معاملے کے بارے میں بات کر رہا ہو گا، میری طرح اسے بھی شاک لگا ہو گا اور وہ شاید کل ہی یہ سب کچھ جان گیا تھا۔ اسی لئے وہ واپس جانے کے بجائے لاہور میں ٹھہر گیا تھا۔ اس نے یقیناً عباس سے اپنی ناراضی کا اظہار کیا ہو گا۔ اسے بتایا ہو گا کہ اس نے کتنا غلط کام کیا ہے۔ وہ ضرور اس سارے معاملے کے بارے میں کوئی نہ کوئی قدم ضرور اٹھائے گا۔ کم ازکم اس بار وہ عباس کو بچنے نہیں دے گا… اس طرح جس طرح انکل ایاز شہباز کو قتل کروانے کے بعد بچ گئے۔ اس بار تو عمر کے پاس ہر ثبوت موجود ہے۔ میں گواہی دوں گی۔ پھر یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ انکل ایاز کے بیٹے کو سزا نہ ملے۔” وہ لاؤنج میں بیٹھی سوچ رہی تھی۔
”مگر عمر… عمر کہاں ہے؟… اسے موبائل تو آف نہیں کرنا چاہئے تھا… مجھے فون کرنا چاہئے تھا اسے… مجھ سے بات کرنی چاہئے۔ یہ تو وہ جان ہی گیا ہو گا کہ نیوز پیپرز کے ذریعے ہر چیز مجھے پتا چل گئی ہے… اسے احساس ہونا چاہئے تھا کہ میں اسے کال کر سکتی ہوں۔”
وہ بری طرح جھنجھلا رہی تھی، جب فون کی گھنٹی بجنے لگی۔ اس نے فون کا ریسیور اٹھالیا۔
”جسٹس نیاز بہت غصے میں تھے اور ان کا غصہ بجا ہے۔” چیف جسٹس ثاقب شاہ اس وقت فون پر چیف منسٹر سے فون پر بات کر رہے تھے۔
”اگر کسی کے بیٹے کو گھر سے اس طرح اٹھا کر مار دیا جائے گا اور وہ بھی ہائی کورٹ کے ایک جج کے بیٹے کو… تو پھر ایک عام شہری کے ساتھ آپ کی یہ پولیس کیا کرتی ہو گی؟” چیف منسٹر نے ان کے لہجے کی تلخی محسوس کی۔
”شاہ صاحب! میں اس واقعے پر کس قدر شرمندہ ہوں۔ میں بتا نہیں سکتا۔ ” ثاقب شاہ نے ان کی بات کاٹ دی۔
”خالی شرمندگی سے تو کچھ نہیں ہو گا۔”
”میں نے انکوائری شروع کروا دی ہے۔ جیسے ہی۔۔۔” ثاقب شاہ نے ایک بار پھر ان کی بات کاٹی۔
”کیسی انکوائری؟… پولیس نے اس کو مارا ہے اور آپ پولیس کے ہاتھوں ہی انکوائری کروا رہے ہیں۔ آپ کا خیال ہے کہ پولیس سچ سامنے لے آئے گی؟”
”ٹھیک ہے پولیس کے بجائے کسی جج سے کروا لیتے ہیں ؟ آپ نام تجویز کر دیں۔میں آرڈر ایشو کر دیتا ہوں۔” چیف منسٹر نے فوراً تجویز پیش کرتے ہوئے کہا۔
”آپ کمیشن پہ کمیشن بٹھائے جائیں، مگر عملی طور پر کچھ نہیں کریں گے۔”اس بار ثاقب شاہ کی آواز پہلے سے زیادہ بلند تھی۔
”شاہ صاحب! آپ غصہ نہ کریں… آپ بتائیں کہ میں کیا کروں… کس طرح مدد کر سکتا ہوں؟” چیف منسٹر نے اپنی آواز قدرے مدہم کرتے ہوئے کہا۔
”جسٹس نیا زکا مطالبہ کیوں نہیں مانتے آپ؟”
”کون سا مطالبہ؟”
”عباس حیدر کی معطلی کا۔"
”انہوں نے مجھ سے تو ایسی کوئی بات نہیں کی، بلکہ میرا تو وہ فون اٹینڈ کر رہے ہیں نہ ہی مجھے اپنے گھر آنے کی اجازت دے رہے ہیں، میرا پی۔اے دو گھنٹے لگا تار ان کی منت سماجت کرتا رہا ہے کہ وہ میرا فون اٹینڈ کر لیں یا پھر مجھے اپنی خدمت میں حاضر ہونے کا موقع دیں۔ مجھے بھی افسوس ہے ان کے بچے کی موت کا… اور میں چاہتا تھا کہ خود ان کی فیملی سے ملاقات کروں… ان کے گھر جاؤں… مگر انہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ چیف منسٹر کو میرے گھر آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر وہ آئے گا تو گیٹ کے باہر کھڑا رہے گا ۔ میں اس کی شکل تک نہیں دیکھوں گا۔ آپ خود سوچیں کہ یہ کوئی طریقہ ہے ایک صوبے کے چیف منسٹر کے بارے میں بات کرنے کا۔” چیف منسٹر نے پہلی بار قدرے بلند آواز میں جسٹس نیاز کے رویے کی شکایت کی۔
”غصے میں انسان بہت کچھ کہہ جاتا ہے… آپ یہ بھی تو دیکھیں کہ ان کا جوان بیٹا مار دیا ہے آپ کی پولیس نے۔” ثاقب شاہ نے فوراً جسٹس نیاز کی طرف داری کرتے ہوئے کہا۔
”ٹھیک ہے… مانتا ہوں… وہ غصہ میں ہیں، مگر یہ سب کچھ انہیں پریس کے سامنے تو نہیں کہنا چاہئے تھا۔ چار اخباروں نے آج اسی خبر کو انہی کے الفاظ کے ساتھ فرنٹ پیج پر ہیڈ لائن بنا دیا ہے۔ جسٹس نیاز کا چیف منسٹر سے ملنے سے انکار… آپ خود سوچیں انتظامیہ پر کیا اثر ہو گا اس ہیڈ لائن کا۔۔۔”
ثاقب شاہ نے اس کی بات ایک بار پھر کاٹ دی۔
”جسٹس نیاز نے آپ سے ملنے سے تب انکار کیا تھا۔ جب آئی جی نے عباس حیدر کو معطل کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ نہ صرف اس سے انکار کیا بلکہ اسے بے گناہ بھی قرار دیا۔ میرے کہنے پر بھی آئی جی اپنی بات پر اڑا رہا… اس نے کہا کہ امتنان صدیقی نے اسے جو رپورٹ دی ہے ، اس کے مطابق تو عباس حیدر نے ایک کارنامہ کیا ہے… بروقت کارروائی سے اس نے ایک پورے خاندان کی جان بچائی ہے۔ جب میں نے کارروائی پر اصرار کیا۔ تو آئی جی نے کہا کہ چیف سیکریٹری سے بات کرلیں یا چیف منسٹر سے اگر اوپر سے آرڈرز آجائیں تو میں عباس کو معطل کر دوں گا۔” ثاقب شاہ اب غصے میں بول رہے تھے۔
”اور چیف سیکریٹری دو گھنٹے پہلے سروسز ہاسپٹل کے کارڈیک یونٹ میں داخل ہو گیا ہے۔ اس کے پی اے کے مطابق اسے دل کی تکلیف شروع ہو گئی ہے اور اس نے دو ہفتے کی میڈیکل لیو مانگ لی ہے۔ ڈاکٹرز کی ہدایات کے مطابق… دو ہفتے کے بعد جب سارا معاملہ ختم ہو جائے گا تو وہ فوراً صحت یاب ہو کر سروسز سے باہر آجائے گا اور آپ سے بات کر رہا ہوں تو آپ کہہ رہے ہیں کہ جسٹس نیاز نے ایسا کوئی مطالبہ کیا ہی نہیں۔”
”شاہ صاحب… جسٹس نیاز صاحب کا مطالبہ مجھ تک پہنچا تھا۔ آئی جی نے بتایا تھا مجھے… لیکن تحقیق کے بغیر میں ایک سینئر پولیس آفیسر کو کیسے معطل کر سکتا ہوں؟ آئی جی نے تو مجھ پر اپنی ناراضی ظاہر کی تھی جس طرح آپ نے اورجسٹس نیازنے ان سے بات کی… انہوں نے کہا تھا کہ آپ پولیس کے کام میں دخل اندازی کر رہے ہیں، شکایت کی جاتی ہے کہ لااینڈ آرڈر ٹھیک کیا جائے جب ٹھیک کرنے کی کوشش کی جائے تو پھر اوپر سے اس طرح کا پریشر پڑنا شروع ہو جاتا ہے۔ ” ثاقب شاہ کو ان کی بات پر اور غصہ آیا۔
”آئی جی کے بیان کی آپ کے نزدیک ہائی کورٹ کے جج اور چیف جسٹس سے زیادہ اہمیت ہے؟”
”ایسی بات نہیں۔۔۔” ثاقب شاہ نے ان کی بات نہیں سنی۔
”جسٹس نیاز کے معصوم بیٹے کو اس کے گھر سے اٹھا کر قتل کرنے کے بعد آپ کی پولیس کہتی ہے کہ وہ لا اینڈ آرڈر ٹھیک کر رہی ہے… ہائی کورٹ کے جج کے بیٹے کو مارنے سے لا اینڈ آرڈر ٹھیک ہو جائے گا؟” چیف منسٹر مشکل میں پھنس گئے۔
”آپ میری بات نہیں سمجھے شاہ صاحب! میں تو آئی جی کا بیان دہرا رہا تھا آپ کے سامنے، میں نے تو نہیں کہا کہ ان ہی کا بیان ٹھیک ہے، ہو سکتا ہے ان کے پاس بھی صحیح معلومات نہ ہوں۔”
”آئی جی کے پاس صحیح معلومات نہ پہنچیں… یہ ممکن نہیں ہے تو وہ کیسے ایک صوبہ سنبھالے گا… پھر تو اس کو بھی اتارنا چاہئے۔ اس سے بہتر شخص لے کر آئیں اس پوسٹ پر۔”
”میں آپ کے غصے کو سمجھ سکتا ہوں۔”
”نہیں، آپ میرے غصے کو سمجھ ہی نہیں سکتے۔ آپ اپنی انتظامیہ کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ میرا غصہ کسی فرد کا غصہ نہیں ہے۔ سارے ججز ناراض ہیں… آج جسٹس کے بیٹے کو مارا ہے۔ کل میرے بیٹے کو اٹھا کرلے جائیں گے آپ لوگ۔”
”ابھی تو چوبیس گھنٹے ہی گزرے ہیں اس واقعہ کو… اتنی جلدی نتائج اخذ مت کریں۔” چیف منسٹر نے انہیں ٹوکا۔
”آپ عباس کو معطل کر دیں۔ میں کوئی نتیجہ اخذ نہیں کرتا۔”
”میں اسے معطل نہیں کر سکتا۔” چیف منسٹر نے اپنی بے بسی کا پہلی بار اظہار کیا۔
”کیوں ؟….اس لئے کہ وہ ہوم سیکرٹری کا بیٹا ہے؟”
”بات صرف ایک ہوم سیکریٹری کی نہیں ہے۔ وفاقی اور صوبائی سطح پر بیورو کریسی کا ایک پورا حصہ ہے اس کے ساتھ۔ عباس کی بہن کور کمانڈر کے بیٹے کے ساتھ بیاہی ہوئی ہے… عباس کی بیوی کا چچا وفاقی حکومت میں وزیر ہے… وہ کوئی عام سول سرونٹ تو ہے نہیں جسے میں اٹھا کر باہر پھینک دوں۔ آپ میری پوزیشن سمجھنے کی کوشش کریں۔”
”آپ بھی میری پوزیشن سمجھنے کی کوشش کریں۔ چیف جسٹس کے طور پر اپنے ماتحت کام کرنے والے ججز کے ساتھ ہونے والی کسی زیادتی پر ایکشن لینا میرا فرض بنتا ہے۔ ” ثاقب شاہ کی آواز کچھ دھیمی پڑ گئی۔
”جسٹس نیاز نے باقاعدہ مجھ سے شکایت کی ہے… بلکہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے بھی خود فون کرکے مجھ سے اسی سلسلے میں بات کی ہے۔”
”میں سمجھتا ہوں سب کچھ… شاہ صاحب آپ جسٹس نیاز کو تھوڑا سمجھائیں، عباس کے خلاف انکوائری کروا دیتے ہیں مگر معطل کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس کے باپ نے بات کی ہے مجھ سے… کل وہ لاہور آرہا ہے تو اس سے آمنے سامنے بات ہو گی… میں ان کانسٹیبلز اور انسپکٹرز کو معطل کر دیتا ہوں جنہوں نے اس آپریشن میں حصہ لیا تھا… پھر اگر انکوائری میں عباس کے خلاف کوئی ثبوت مل گئے تو ایکشن لینے کا کوئی جواز تو ہو گا پاس… ابھی اگر اس کو معطل کر بھی دیتے ہیں… اور بعد میں وہ بے گناہ ثابت ہوا تو میری وزارت اعلیٰ چلی جائے گی۔ اس لئے میں اتنا بڑا رسک نہیں لے سکتا۔ آپ جسٹس نیاز کو سمجھائیں، ان سے بات کریں… بلکہ وہ کل میرے گھر آجائیں، ان سے وہاں ایاز حیدر اور عباس کی بھی ملاقات کروا دوں گا… آمنے سامنے بات ہو تو زیادہ بہتر ہے۔"
ثاقب شاہ خاموشی سے ان کی بات سنتے رہے۔
”میں جسٹس نیاز تک آپ کا پیغام پہنچا دوں گا… جہاں تک سمجھانے کا تعلق ہے تو یہ کام میں نہیں کر سکتا۔ آپ اس سلسلے میں خود ان سے بات کریں۔”
”آپ نے انکوائری کے لئے کسی کا نام تجویز نہیں کیا؟” چیف منسٹر نے انہیں یاد دلایا۔
”میں پہلے جسٹس نیاز سے بات کرلوں، اس کے بعد ہی اس سلسلے میں آپ کو کوئی نام دے سکوں گا… اگر انہوں نے آپ کی پیش کش مان لی تو ٹھیک ہے ورنہ پھر میں کسی کا نام تجویز نہیں کروں گا۔”
چیف جسٹس نے صاف لفظوں میں کہا اور پھر اختتامی کلمات کہتے ہوئے فون بند کر دیا۔

باب: 43

اگلے دو دن گھر میں کالز اور ملنے کے لئے آنے والوں کا تانتا باندھا رہا ۔ علیزہ شادیوں کے علاوہ پہلی بار اپنے تقریباً تمام جاننے والوں اور رشتہ داروں کو دیکھ رہی تھی۔ زیادہ تر لوگ بار بار فون کرکے نمرہ کی آخری رسومات کے بارے میں حتمی معلومات لے رہے تھے۔ گھر میں اس کے تمام انکلز اپنی فیملیز کے ساتھ آچکے تھے۔
علیزہ نے لوگوں کے اسی آنے جانے کے دوران عمر کو بھی دو تین بار گھر آتے جاتے دیکھا۔ اس کے ساتھ جوڈتھ نہیں تھی اور وہ اکیلا ہی تھا۔ وہ اس سے تعزیت کرنا چاہتی تھی مگر عمر کے رویے نے اسے اس قدر حیران کیا کہ وہ اس سے بات کرنے کی ہمت ہی نہیں کر سکی۔
وہ جانتی تھی کہ نمرہ اس کی سگی بہن نہیں ہے پھر بھی عمر جس قدر جذباتی اور نرم دل شخص تھا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ اپنی بہن کی موت پر خاصا افسردہ ہو گا۔ مگر عمر کے تاثرات اس کی سمجھ سے بالاتر تھے۔ وہ بالکل پر سکون تھا۔ لوگوں کے تعزیتی کلمات وصول کرتے ہوئے بھی اس کے چہرے پر کسی غم یا افسردگی کا شائبہ تک نہیں تھا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے اسے نمرہ کی موت پرکوئی شاک لگا تھا نہ ہی دکھ ہوا تھا… یا پھر شاید اسے نمرہ کی مو ت یا زندگی سے کوئی دلچسپی ہی نہیں تھی۔
علیزہ کے لئے اس کے تاثرات بہت شاکنگ تھے۔ جو شخص ایک کزن اور ایک گرل فرینڈ کے لئے آؤٹ آف دا وے جا کر سب کچھ کرنے پر تیار ہو۔ جو اپنے ایک انڈور پلانٹ کی کاٹی جانے والی شاخ کو دوبارہ گملے میں تب تک لگائے رکھتا ہے جب تک وہ سوکھ نہ جائے اور سوکھنے کے بعد بھی جو اسے ہٹانے پر تیار نہ ہو… وہ ایک سوتیلے سہی مگر خونی رشتہ کی اس طرح کی موت پر کسی ردعمل کا اظہار نہیں کر رہا تھا… کیا عمر کا واقعی اپنی فیملی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا؟ … کیا وہ واقعی ان کے بارے میں کسی قسم کے کوئی احساسات نہیں رکھتا؟ کیا وہ اپنی فیملی کو اس حد تک ناپسند کر سکتا ہے کہ…؟ یا پھر وہ ہمیشہ کی طرح بہت کچھ چھپانے کی کوشش کر رہا ہے؟
علیزہ اپنے ذہن میں ابھرنے والے ان تمام سوالوں سے الجھ رہی تھی، وہ بہت اچھی چہرہ شناس نہیں تھی مگر اسے پھر بھی یہ یقین تھا کہ اس نے عمر کا چہرہ پڑھنے میں کوئی غلطی نہیں کی۔ اس کے چہرے پر بے حسی اور لا تعلقی کے علاوہ ایک تیسرا تاثر بھی تھا اور یہ تیسرا تاثر علیزہ کو زیادہ خوفزدہ کر رہا تھا… عمر کے چہرے پر اطمینان تھا۔
تیسرے دن جہانگیر نمرہ کی ڈیڈ باڈی لے کر پاکستان آگئے۔ ان کے ساتھ ثمرین اور باقی دونوں بچے بھی تھے۔ علیزہ کو جہانگیر معاذ کے چہرے پر بھی کسی رنج یا افسردگی کے تاثرات نظر نہیں آئے۔ ان کے چہرے پر سنجیدگی تھی… وہی سنجیدگی جو وہ پہلے بھی کئی بار تب ان کے چہرے پر دیکھ چکی تھی، جب وہ شدید غصے میں ہوتے تھے۔
جہانگیر کے برعکس ثمرین خاصی نڈھال نظر آرہی تھیں۔ ان کے باقی دونوں بچوں کے چہروں پر بھی ایسے ہی تاثرات تھے۔
بیرون ملک سے اکٹھے آنے کے باوجود تمام لوگوں کی طرح علیزہ نے بھی محسوس کیا ثمرین ، ان کے بچوں اور جہانگیر کے درمیان ایک عجیب سی کشیدگی اور سرد مہری تھی۔ علیزہ کا خیال تھا کہ انکل جہانگیر کی کچھ عرصہ پہلے ہونے والی تیسری شادی اس کی وجہ ہو سکتی تھی، مگر اس کے علاوہ اور وجہ بھی ہو سکتی تھی یہ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔
نمرہ کی تدفین کے بعد آہستہ آہستہ تمام لوگ واپس جانا شروع ہو گئے، مگر جہانگیر معاذ اور اس کے دو بڑے بھائی اپنی فیملیز کے ساتھ ابھی وہیں تھے، جب ایک رات علیزہ نے لاؤنج میں سب کے سامنے ان کے اور ثمرین کے درمیان شدید جھگڑا دیکھا۔
وہ دونوں سب کے سامنے ایک دوسرے پر الزامات لگا رہے تھے اور چلا رہے تھے۔ علیزہ کے لئے ایسا جھگڑا کوئی نئی چیز نہیں تھی۔ نانو کے ہاں وہ اپنے انکلز اور ان کی بیویوں کے درمیان پچھلے کئی سالوں سے ایسے بہت سے جھگڑے ہوتے دیکھتی ہوئی آئی تھی۔
مگر اس بار جس انکشاف نے اسے ہولایا تھا، وہ نمرہ کی موت کی وجہ تھا۔ وہ نیند میں اپارٹمنٹ کی کھڑکی سے نہیں گری تھی۔ اس نے خودکشی کی تھی اور اپارٹمنٹ کی کھڑکی سے چھلانگ لگانے سے پہلے اس نے ایک خط میں تفصیلی طور پر اپنی موت کا ذمہ دار جہانگیر معاذ کو ٹھہرایاتھا۔
پولیس کو وہ خط مل گیا تھا۔ مگر چونکہ جہانگیر سفارت خانہ سے منسلک تھے اس لئے ہر چیز بڑی مہارت سے کو ر اپ کر لی گئی تھی۔ ایک سینئر ڈپلومیٹ کے حوالے سے اس طرح کا کوئی اسکینڈل پاکستانی حکومت کے لئے خاصی ندامت اور شرمندگی کا باعث بنتا۔
چند گھنٹوں کے اندر اندر حکومت پاکستان کی درخواست پر پولیس نے اس خودکشی کو اتفاقی موت قرار دے کر فائل بند کر دی۔
نمرہ پاکستان ایمبیسی کے ملٹری اتاشی کے ساتھ انوالو تھی۔ وہ جہانگیر معاذ سے بھی عمر میں بڑے اس شخص کے ساتھ شادی پر بضد تھی اور جہانگیر اس کے اس مطالبے کو کسی طور ماننے پر تیار نہیں تھے۔ ایمبیسی میں ان کی بیٹی اور اتاشی کے درمیان چلنے والے اس افیئر کے بارے میں ایمبیسی میں کام کرنے والا ہر شخص جانتا تھا اور یہ معاملہ جہانگیر کے لئے خاصی خفت کا باعث بن رہا تھا۔
اگر نمرہ ایمبیسی کے کسی چھوٹے موٹے اہلکار کے ساتھ انوالو ہوتی تو جہانگیر بہت پہلے اس شخص کا پتہ صاف کر چکے ہوتے۔ یا پھر چار دن کے اندر اس شخص کو ایمبیسی سے نکال دیتے۔ مگر یہاں وہ بری طرح پھنس گئے تھے۔
انہوں نے نمرہ کو زبردستی پاکستان بھجوانے کی کوشش کی، مگر وہ اس پر تیار نہیں ہوئی، اس نے واپس پاکستان بھجوائے جانے پر مجبور کرنے پر جہانگیر کو گھر سے چلے جانے اور شادی کر لینے کی دھمکی دی۔ مگر جہانگیر جانتے تھے کہ یہ صرف دھمکی ہی تھی۔ وہ قانونی اعتبار سے ابھی بالغ نہیں ہوئی تھی، اور وہ ملٹری اتاشی اتنا احمق نہیں تھا کہ وہ ایک نابالغ لڑکی سے شادی کرکے اپنا کیرئیر خطرے میں ڈالتا۔ دوسری طرف جہانگیر اس بات سے بھی واقف تھے کہ کچھ عرصے کے بعد جب وہ قانونی اعتبار سے بالغ ہو جائے گی تو اس وقت ان کے لئے نمرہ کو روکنا مشکل ہو جائے گا اس لئے وہ بہت مایوس ہو کر اسے پریشرائز کر رہے تھے اور جب انہیں یقین ہو گیا کہ وہ ان کے کسی دباؤ میں نہیں آئے گی تب انہوں نے نمرہ کو دھمکی دی کہ وہ اگر واپس پاکستان نہیں گئی تو وہ نہ صرف ثمرین کو طلاق دے دیں گے، بلکہ نمرہ سمیت باقی دونوں بچوں کو بھی اپنی جائیداد سے عاق کر دیں گے_
نمرہ ان کی دھمکی پر پہلی بار دباؤ میں آئی اور اس حربے کو کامیاب ہوتے دیکھ کر جہانگیر اس پر اپنا دباؤ بڑھاتے گئے۔ دوسری طرف وہ ملٹری اتاشی نمرہ کو مجبور کر رہا تھا کہ وہ واپس نہ جائے، شاید اسے بھی یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ ایک بار وہ واپس پاکستان چلی گئی تو پھر اس کا واپس اس کے ہاتھ آنا مشکل تھا۔ نتیجہ وہی ہوا تھا جو ہو سکتا تھا۔ نمرہ ذہنی طور پر اتنی فرسٹرٹیڈ ہو گئی کہ اس نے خودکشی کر لی۔
اور اب جہانگیر اورثمرین ایک دوسر ے پر تابڑ توڑ الزامات لگانے میں مصروف تھے۔
”یہ سب کچھ تمہاری وجہ سے ہوا ہے ۔ تم نے اپنی بیٹی کو میرے خلاف ہتھیار بنا کر استعمال کرنے کی کوشش کی، تم ایسا نہ کرتیں تو وہ کبھی خودکشی نہ کرتی۔” جہانگیر ثمرین پر دھاڑ رہے تھے۔
”میں نے اسے ہتھیار نہیں بنایا… میں تمہارے جیسے تھرڈ کلاس حربے استعمال نہیں کرتی، اس نے صرف تمہاری وجہ سے خودکشی کی ہے۔ تم اس طرح پریشرائز نہ کرتے تو وہ کبھی یہ قدم نہ اٹھاتی۔”
”میں اسے پریشرائز نہ کرتا اور اس پچپن سالہ شخص کو اپنا داماد بنا کر لوگوں کو خود پر ہنسنے کا موقع دیتا۔”
”اگر تم دوسروں کی اٹھارہ، بیس سالہ بیٹیوں کے ساتھ شادی کر سکتے ہو اور افیئر چلا سکتے ہو تو دوسرے بھی کر سکتے ہیں، پھر تم کو اعتراض کس چیز پر ہے۔” ثمرین اب بلند آواز میں چلا رہی تھیں۔
”اپنا منہ بند رکھو گھٹیا عورت۔”
”کیوں منہ بند رکھوں، پتا چلنا چاہئے تمہارے خاندان کو تم کیا گل کھلاتے پھر رہے ہو۔”
ثمرین بالکل خوفزدہ نہیں تھیں۔
”تم نے جان بوجھ کر اس کو اس طرح ٹریپ کیا۔ صرف اس لئے تاکہ مجھ کو بلیک میل کر سکو۔” جہانگیر ایک بار پھر بولنے لگے۔
”ہاں، سب کچھ میں نے ہی کیا تھا۔ مگر تمہارے لئے تو سب کچھ بہت اچھا ثابت ہوا ہے۔ جان چھوٹ گئی ہے تمہاری اپنی اولاد سے آزاد ہو گئے ہو تم… اب مزید عیش کر سکو گے۔” ثمرین کا لہجہ زہریلا تھا۔
”عیش تو میں کر سکوں گا یا نہیں، مگر ایک چیز تو طے ہے کہ تم اور میں اب اکٹھے نہیں چل سکتے۔”
”تمہارے ساتھ اکٹھے چلنا کون چاہتا ہے۔ کم از کم اب میں تو تمہاری بیوی بن کر نہیں رہ سکتی۔ میں کورٹ میں ڈائی وورس کے لئے کیس فائل کر رہی ہوں، اور میں تمام اثاثوں کی برابر تقسیم کا دعویٰ بھی کروں گی،’ ثمرین شاید اس بار بہت سے فیصلے پہلے ہی کر چکی تھیں۔
”اثاثے ؟ کون سے اثاثے؟ کون سے اثاثوں کی برابر تقسیم چاہتی ہو تم؟” جہانگیر کے اشتعال میں یک دم اضافہ ہو گیا۔
”تم بہت اچھی طرح جانتے ہو، میں کن اثاثوں کی بات کر رہی ہوں۔ تمہاری لوٹ مار کی کمائی کی بات کر رہی ہوں میں۔”
”میں تم کو ایک پائی بھی نہیں دوں گا۔

باب: 44

دوسری طرف عباس تھا اس کی آواز سنتے ہی ریسیور پر علیزہ کے ہاتھ کی گرفت سخت ہو گئی۔
”ہیلو علیزہ… کیا پرابلم ہے؟ تم نے دوبار فون کیا… سب کچھ ٹھیک تو ہے۔”
”میں نے نیو ز پیپر دیکھ لئے ہیں۔”
دوسری طرف یک دم خاموشی چھا گئی۔
”عباس بھائی! مجھے یقین نہیں آرہا کہ، آپ اس طرح چار انسانوں کو قتل کر سکتے ہیں۔ ”
”علیزہ! تم ان چیزوں کو نہیں سمجھتیں۔” عباس نے بڑے مطمئن انداز میں کہا۔
”تم نے صرف اسی موضوع پر بات کرنے کے لئے فون کیا تھا؟” عباس نے اس کے سوال کا جواب گول کرتے ہوئے کہا۔
”ہاں مجھے صرف اسی بارے میں بات کرنی ہے۔ آپ نے مجھ سے کہاتھا کہ آپ ان لوگوں کو پولیس اسٹیشن لے جانا چاہتے ہیں اس لئے اکٹھے کر رہے ہیں مگر آپ نے انہیں ما ردیا۔” وہ یک دم پھٹ گئی۔
”کوئی انسان اتنی بے رحمی کا مظاہرہ نہیں کر سکتا۔”
”تم تو واقعی غصے میں ہو علیزہ۔” وہ جیسے اس کے غصے سے محظوظ ہوا، علیزہ کو ہتک کا احساس ہوا۔
”آپ کو احساس ہے کہ آپ نے کتنا بڑاظلم کیا ہے؟”
”بالکل احساس ہے کہ میں نے کیا کیا ہے۔ البتہ میں تمہاری طرح اسے ظلم نہیں سمجھتا۔ میں نے وہی کیا ہے جو مناسب سمجھا۔” اس کے اطمینان اور سکون میں رتی بھر کمی نہیں آئی۔
”چار بے گناہ انسانوں کو اس طرح اٹھا کر مار دینا کہاں سے مناسب لگا ہے آپ کو؟”
”پہلی بات تو یہ کہ وہ بے گناہ نہیں تھے اور دوسری بات یہ کہ انہیں میں نے نہیں مارا۔ پولیس مقابلے میں مرے ہیں وہ۔” عباس نے اسے ٹوکتے ہوئے کہا۔
”پولیس مقابلہ…؟ کون سا پولیس مقابلہ؟ مجھے تو بے وقوف نہ بنائیں۔ میرے سامنے آپ نے ان چاروں کو اپنی گاڑی میں بٹھایا ہوا تھا۔”
”ٹھیک … اگر تمہیں یہ یاد ہے تو پھر یہ بھی یاد ہو گا کہ میں نے انہیں کیوں پکڑا تھا۔”
”میری وجہ سے پکڑا تھا آپ نے انہیں،اور میری وجہ سے ہی مار دیا۔”
”تو کیا غلط کیا۔ اب اگر لوگ ہماری عورتوں تک آنا شروع کر دیں۔ تو ہم Don’t do it again (آئندہ ایسا نہیں کرنا) کہہ کر گال کو سہلا کر تو کسی کو نہیں چھوڑ سکتے۔”
”میں نے آپ کو انہیں چھوڑنے کے لئے تو نہیں کہا تھا، آپ انہیں گرفتار کر لیتے مگر اس طرح مارتے تو نہ۔”
”علیزہ! تم ان باتوں کو نہیں سمجھتیں… بہتر ہے اس معاملے کے بارے میں بات نہ کرو۔”
”میں کیا نہیں سمجھتی ۔ میں سب کچھ سمجھتی ہوں۔”
”تمہیں اتنی ہمدردی کیوں ہو رہی ہے ان سے؟”
”مجھے ہمدردی نہیں ہو رہی، میں صرف اس غلط کام کی نشاندہی کر رہی ہوں جو آپ نے کیا ہے؟”
”غلط یا صحیح کام کی تعریف تم میرے لئے چھوڑ دو، تم اس کے بارے میں اپنے ذہن کو مت الجھاؤ ،میں اپنا کام بہت اچھی طرح سے جانتا ہوں۔” عباس کی آواز میں اس بار سرد مہری تھی۔
”کیا کام جانتے ہیں آپ، صرف لوگوں کو جانوروں کی طرح قتل کردینا، اور جعلی پولیس مقابلے قرار دے کر میڈلز بانٹنا۔”
”ان چاروں کے ساتھ وہی ہوا ہے جس کے وہ مستحق تھے۔ میرے خاندان کی عورت کے پیچھے کوئی اس طرح آئے گا تو یہی کروں گا۔ ان کتوں کو عام عورتوں اور ہماری فیملی کی عورتوں میں کوئی فرق نہیں لگا۔”
”وہ نہیں جانتے تھے کہ میرا تعلق کس خاندان سے ہے میرے خاندان کے بارے میں چھان بین کرکے انہوں نے میرا پیچھا کرنا شروع نہیں کیا۔”
”اگر نہیں جانتے تھے تو ان کو جان لینا چاہیے تھا، آنکھیں اور دماغ نہیں رکھتے تھے کیا وہ۔ آج بے خبری میں تمہاری پیچھے آئے تھے کل جانتے بوجھتے آتے۔”
”آپ کی منطق میری سمجھ سے باہر ہے۔”
”تمہاری سمجھ سے تو بہت ساری چیزیں باہر ہیں۔ تم جانتی ہو وہ تمہیں پکڑ لیتے تو کیا کرتے؟”
”مگر انہوں نے مجھے پکڑا نہیں تھا، نہ ہی مجھے کوئی نقصان پہنچایا ، میں بچ گئی تھی۔”
”تم اس لئے بچ گئی تھیں کہ پولیس دس منٹ کے اندر اس علاقے میں پہنچ گئی تھی ورنہ وہ تو تمہارا کوئی لحاظ نہ کرتے۔”
”وہ کیا کرتے اور کیا نہیں میں اس کی بات نہیں کر رہی ہوں۔ انہوں نے جو کیا آپ اس کی بات کریں۔ انہوں نے صرف ایک لڑکی کا پیچھا کیا اسے اغوا کرنے کی کوشش کی اور اس جرم کی سزا دنیا کے کسی قانون کے تحت بھی موت نہیں ہو سکتی۔”
”مجھے اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ دنیا کے کسی قانون میں اس جرم کی سزا موت ہے یا نہیں میں نے انہیں اس جرم کے لئے سزا دی جو وہ کرنا چاہتے تھے۔”
”مگر کیا تو نہیں تھا؟”
”کرنا تو چاہتے تھے۔” وہ اپنی بات پر اڑا ہواتھا۔
”پولیس صرف ارادے پر لوگوں کو سزائے موت کب سے دینے لگی؟”
عباس نے دوسری طرف ایک گہرا سانس لیا۔
People are judged by their intentions.”(لوگ اپنے ارادوں سے ہی جانے جاتے ہیں۔)” اس کا لہجہ اس بار بالکل خشک تھا۔
”لیکن انہیں صرف ان کے ارادوں کی وجہ سے سزا نہیں دی جاتی۔”
”علیزہ! میں اس وقت بہت مصروف ہوں، ایک میٹنگ سے فارغ ہوا ہوں، تھوڑی دیر بعد دوسری میٹنگ ہے۔ اس لئے بہتر ہے اس بات کو ابھی ختم کر دیں۔ بعد میں اس پر تفصیلی گفتگو ہو گی۔ تم یہ بتاؤ تمہاری چوٹ پہلے سے بہتر ہے یا نہیں؟”
وہ اب واقعی موضوع بدل دینا چاہتا تھا۔
”آپ میری چوٹ کے بارے میں بات نہ کریں، آپ مجھ سے صرف وہی بات کریں جو میں کرنا چاہتی ہوں۔”
”اور اگر یہی بات میں تم سے کہوں کہ تم مجھ سے صرف وہی بات کرو جو میں کرنا چاہتا ہوں تو پھر؟” عباس کی ٹون میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔
”یہ میری بدقسمتی تھی کہ نانو نے آپ سے مدد مانگی، وہ ایسا نہ کرتیں تو وہ چاروں آج زندہ ہوتے۔”
”وہ چاروں اگر آج زندہ ہوتے تم زندہ نہ ہوتیں۔” عباس نے جیسے اسے یاد دہانی کروائی۔
”آپ ایک بار پھر ان کی سوچ کی بات کر رہے ہیں۔”
”ہر جرم سوچ سے ہی شروع ہوتا ہے۔”
”میں آپ کی طرح پریکٹیکل نہیں ہو سکتی کہ منہ اٹھاؤں اور جس کو جہاں چاہوں مار دوں یہ کہہ کر وہ جرم کرنے والا تھا۔”
”میں فون بند کر رہا ہوں۔” عبا س نے علیزہ سے کہا۔
”کر دیں مگر وہ بات ضرور سن لیں، جو میں آپ سے کہنا چاہتی ہوں۔” اس بار علیزہ کی آواز میں ٹھہراؤ تھا عباس ریسیور رکھتے رکھتے رک گیا۔ اسے حیرت ہوئی علیزہ ایسی کون سی بات کہنا چاہتی تھی۔
”کیا ابھی کوئی بات باقی رہ گئی ہے۔ جو تم کہنا چاہتی ہو؟”
”ہاں میں آپ کو یہ بتانا چاہتی ہوں کہ میں جسٹس نیاز کے گھر والوں کو سب کچھ بتا رہی ہوں۔”
ریسیور پر عباس کے ہاتھ کی گرفت سخت ہو گئی۔
”اس رات جو کچھ ہوا تھا، میں انہیں بتا دوں گی۔”
”بتا دوں گی۔” عبا س نے دل ہی دل میں دہرایا، اس کا ذہن برق رفتاری سے اپنا لائحہ عمل طے کر رہا تھا۔
ایک ہاتھ میں ریسیور لئے اس نے دوسرے ہاتھ سے انٹر کام کا ریسیور اٹھایا اور کان سے لگانے کے بعد کندھے کی مدد سے ٹکائے رکھا دوسرے ہاتھ سے اس فون کا ریسیور کان سے ہٹا کر نیچے کیا اور ماؤتھ پیس پر دوسرا ہاتھ رکھ دیا۔
”جسٹس نیاز کے آپریٹر سے کہہ دو کہ جب تک اسے دوبارہ ہدایات نہ ملیں، وہ جسٹس نیاز کے گھر آنے والی کسی کال کے کالر کی ان سے بات نہ کروائے اور جس فون نمبر پر میں ابھی بات کر رہا ہوں۔ اس کو چند منٹوں کے اندر ایکسچینج کے ذریعے ڈس کنکٹ کروا دو۔ انسپکٹر قیوم سے کہو، دو منٹ کے اندر مجھ سے رابطہ قائم کرے۔ ”
دھیمی آواز میں اس نے ساری ہدایات دینے کے بعد انٹر کام بند کر دیا اور دوبارہ فون ریسیور کو کان سے لگا کر علیزہ کی گفتگو سننے لگا، اس کے ماتھے پر بل تھے۔ واضح طور پر اس کی گفتگو اس کے لئے ناگواری کا باعث تھی۔
”ہر شخص پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ”وہ اب کہہ رہی تھی۔” کہ وہ اپنے سامنے ہونے والے جرم کو پولیس سے نہ چھپائے، پولیس کو اس کے بارے میں ضرور انفارم کرے۔ میں نے بھی آپ کو اپنے سامنے ہونے والے اس جرم سے انفارم کر دیا ہے، جس میں خود پولیس ہی انوالو ہے۔ آپ چونکہ اس پر کوئی کارروائی نہیں کریں گے اس لئے میں خود تمام انفارمیشن پریس اور ان لوگوں کی فیمیلیز کو پہنچا دوں گی۔ جن کے بیٹوں کو آپ نے مارا ہے۔”
دوسری طرف مکمل خاموشی تھی، علیزہ کو پہلی بار سکون محسوس ہوا تھا۔ بات مکمل کرنے کے بعد اس نے فون بند کر دیا۔
اس کے فون کے بند ہوتے ہی آپریٹر نے انسپکٹر قیوم سے اس کا رابطہ کروا دیا۔
”جس گھر پر میں نے گارڈ لگوائی ہے۔ اس گھر سے اب نہ تو کوئی باہرآئے گا۔ نہ ہی اندر جائے گا۔ جب تک میں اجازت نہ دوں، تم اسی ہدایت پر عمل کرو گے۔ گھر کے کسی ملازم کو بھی باہر نکلنے نہیں دو گے۔”
اس نے فون بند کرنے کے بعد آپریٹر کو عمر سے رابطہ کروانے کے لئے کہا۔
”ہاں عمر! میں عباس بول رہا ہوں۔” رابطہ ہوتے ہی اس نے کہا۔
”ہاں عباس ! کیا بات ہے؟”
”علیزہ سے جا کر ملو۔” عباس نے کسی توقف کے بغیر کہا۔
”کیا مطلب ؟ سب کچھ ٹھیک تو ہے؟” عمرکچھ چونک گیا۔
”نہیں، کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے۔ علیزہ کا دماغ خراب ہو گیا ہے۔” عباس کے لہجے میں خفگی تھی۔
”کیا ہوا؟”
”ابھی کچھ دیر پہلے فون پر میری اس سے بات ہو رہی تھی۔ وہ کہہ رہی تھی کہ وہ جسٹس نیاز کو سب کچھ بتا دے گی۔”
”کیا؟” عمر نے بے اختیار کہا۔
”مگر کیوں؟”
”کیونکہ وہ ہیومن رائٹس کی چیمپئن ہے۔ اس کا خیال ہے کہ میں نے ان چاروں کو ”قتل” کیا ہے اور یہ غلط تھا۔ اس لئے اب یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ سب کچھ جسٹس نیاز اور پریس کو بتا دیا جائے۔”
”اس کا دماغ واقعی خراب ہو گیا ہے۔ ” عمر نے خفگی سے کہا۔
”بہرحال جو بھی ہے اب تم اس کے پاس جاؤ اور اسے سمجھاؤ۔” عباس نے اس سے کہا۔
”میں نے کچھ حفاظتی انتظامات تو کئے ہیں۔ مگر کب تک ۔ اس کے دماغ کا ٹھیک ہونا بہت ضروری ہے۔”
”تم فکر نہ کرو، میں ابھی اس کے پاس جاتا ہوں۔ سمجھا دوں گا میں اسے سب کچھ وہ جذباتی ہو جاتی ہے۔”
”جذباتی ہونے میں اور عقل سے پیدل ہو جانے میں بہت معمولی فرق ہوتا ہے۔ میں نہیں چاہتا یہ سب کچھ پاپا کو پتا چلے وہ تو بالکل Furious(برہم) ہو جائیں گے۔ ابھی پہلے ہی صورت حال خاصی خراب ہے۔ اس پر اس کا کوئی بیان یا نام کہیں پہنچ گیا تو سب کچھ ہاتھ سے نکل جائے گا۔ تم اس کے پاس جاؤ اور پھر اس سے بات کرنے کے بعد مجھ سے رابطہ کرو۔ ” وہ کچھ دیر مزید عمر سے اسی بارے میں بات کر تا رہا اور پھر اس نے فون بند کر دیا۔
علیزہ نے عباس کو فون کرنے کے بعد ایکسچینج سے جسٹس نیاز کا نمبر لیا۔ وہ اس نمبر کو ملا رہی تھی جب فون لائن اچانک ڈیڈ ہو گئی۔ وہ کچھ حیران ہوئی ، فون کچھ دیر پہلے بالکل ٹھیک کام کر رہا تھا۔ اس نے فون ریسیوررکھ دیا۔ چند منٹوں کے بعد اس نے ریسیور اٹھایا۔ لائن اب بھی ڈیڈ تھی۔ یہ عارضی خرابی نہیں تھی جو ریسیور رکھ کر دوبارہ اٹھا لینے پر ٹھیک ہو جاتی۔ وہ کچھ بے چین ہونے لگی۔ وہ جلد از جلد جسٹس نیاز سے رابطہ کرنا چاہتی تھی۔
کچھ دیر وہ وہیں بیٹھی کچھ سوچتی رہی اور پھر ایک خیال آنے پر اٹھ کر اپنے کمرے میں آگئی۔ اپنا شولڈر بیگ نکال کر اس نے والٹ اندر ڈالا اور پھر جوتا بدل کر باہر نکل آئی۔ نانو کے کمرے سے اس نے دوسری گاڑی کی چابی لی۔ نانو اس وقت کمرے میں نہیں تھیں۔ وہ باہر لان میں تھیں۔ علیزہ باہر پور ٹیکو میں نکل آئی کار کو اسٹارٹ کرکے اس نے ریورس کرنا شروع کیا، لیکن وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ چوکیدار نے گیٹ نہیں کھولا بلکہ گیٹ کے پاس بنے چھوٹے سے کمرے سے نکل کر اس کی طرف آنے لگا۔ اس نے گاڑی روک دی۔
”علیزہ بی بی! آپ کہاں جا رہی ہیں؟” چوکیدار نے قریب آکر اس سے پوچھا۔
”کہاں جا رہی ہوں؟” وہ حیران ہوئی ”باہر جا رہی ہوں، تم گیٹ کھولو۔”
”علیزہ بی بی! مجھے نہیں پتا… بس کچھ دیر پہلے مجھے بتایا گیا تھا کہ میں کسی کو باہر نہ جانے دوں۔” چوکیدار نے اسے بتایا۔
”میں خود بات کرتی ہوں ان سے، دیکھتی ہوں یہ مجھے کیسے روکتے ہیں۔”
وہ تیز قدموں کے ساتھ گیٹ کی طرف بڑھ گئی۔
گیٹ کی سائیڈ پر موجودہ چھوٹا گیٹ کھول کر اس نے باہر نکلنے کی کوشش کی، مگر وہ کامیاب نہیں ہوئی گیٹ کا بولٹ کھلتے ہی باہر موجود ایک پولیس گارڈ اس کے سامنے آگیا۔ وہ منہ اٹھا کر اسے دیکھنے لگی۔
”آپ اندر چلی جائیں، باہر نہیں جا سکتیں۔” اس کی آواز میں سختی مگر لہجہ مؤدب تھا۔
”کیوں نہیں جا سکتی؟”
”ہمیں صاحب نے حکم دیا ہے کہ گھر سے کسی کو بھی باہر نکلنے نہ دیا جائے۔”
”کون سے صاحب نے حکم دیا ہے تمہیں؟”
”عباس صاحب نے۔ آپ پہلے ان سے بات کرکے اجازت لے لیں پھر ہم آپ کو باہر آنے دیں گے۔”
وہ ہونٹ کاٹتے ہوئے اسے دیکھتی رہی۔ فون میں ہونے والی اچانک خرابی اب اس کی سمجھ میں آنے لگی تھی۔ عباس یقیناً اتنا کمزور نہیں تھا جتنا وہ سمجھ رہی تھی۔
”فون خراب ہے۔ میں ساتھ والے گھر سے فون کرکے عباس سے اجازت لے۔۔۔” پولیس گارڈ نے اس کی بات مکمل نہیں ہونے دی۔
”آپ کہیں بھی نہیں جا سکتیں۔ عباس صاحب اگر آپ کو اجازت دینا چاہیں گے تو خود آپ سے رابطہ کریں گے یا ہدایات دے دیں گے۔ اس لئے بہتر ہے آپ اندر چلی جائیں۔”
اس کی آواز میں قطعیت تھی، علیزہ مزید بحث کئے بغیر واپس اندرآگئی۔ وہ شدید غصے کے عالم میں تھی۔ پاؤں پٹختے ہوئے وہ اندر لاؤنج میں چلی آئی، اندر آتے ہی اس نے وہ بیگ صوفے پر اچھال دیا جو وہ گاڑی سے نکال لائی تھی۔ اسے شدید بے بسی کا احساس ہو رہا تھا۔
چوکیدار نے نانو کو سارے واقعہ کی اطلاع دے دی۔ وہ چند منٹوں کے بعد اندر لاؤنج میں تھیں۔
ں جانا چاہ رہی ہو علیزہ؟” انہوں نے آتے ہی پوچھا۔
”مارکیٹ تک جانا چاہ رہی تھی۔”
”کیوں؟”
”کچھ کام تھا نانو…! مگر عباس نے باہر موجود گارڈ سے کہا ہے کہ کوئی اندر سے باہر نہ جائے۔” اس نے برہمی سے کہا۔
”عباس نے کہا ہے تو کچھ سوچ کر ہی کہا ہو گا۔ تم فون پر اس سے بات کر لو۔” نانو اس کے قریب بیٹھتے ہوئے کہا۔
”فون لائن ڈیڈ ہے اور عباس، عباس کبھی کچھ بھی سوچ سمجھ کر کرنے کا عادی نہیں ہے۔”
”فون لائن ڈیڈ ہے؟ ابھی کچھ دیر پہلے تو بالکل ٹھیک تھی۔”
نانو فون کا ریسیور اٹھا کر اسے چیک کرنے لگیں۔ پھر کچھ مایوسی کے ساتھ انہوں نے ریسیور رکھ دیا۔ ”یہ کام نہیں کر رہا۔”

”یہ کام کر بھی کیسے سکتا ہے؟ یہ عباس کی وجہ سے بند ہے۔” علیزہ نے تلخی سے کہا۔
”فون کیوں بند کروایا ہے عباس نے؟” نانو کچھ فکر مند ہو گئیں۔
علیزہ کچھ کہتے کہتے رہ گئی، اسے اچانک خیال آیا تھا کہ نانو سے کچھ بھی کہنا مناسب نہیں ہوگا۔ وہ انہیں پریشان کرنا نہیں چاہتی تھی۔
”نانو! آپ مجھے ساتھ والوں کے گھر بھجوائیں، میں وہاں سے فون کروں گی۔”
”تمہیں فون کرنا کہاں ہے؟”
”شہلا کو فون کرنا ہے۔” اس نے جھوٹ بولا۔
”صبح اس سے بات تو ہوئی تھی تمہاری۔”
”نہیں ہوئی تھی، میں نے فون بند کر دیا تھا۔”
”اتنا بے چین ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے ابھی کچھ دیر تک وہ خود آجائے۔”
نانو نے اسے سمجھایا، وہ سوچ میں پڑ گئی۔
”اچھا آپ مرید بابا سے کہیں، وہ ساتھ والوں کے گھر سے اسے فون پر یہاں آنے کے لئے کہیں۔”
اس کے ذہن میں ایک اور خیال آیا۔ نانو اسے جواب دینے کے بجائے مرید بابا کو پکارنے لگیں۔
”جواد صاحب کے گھر جاؤ اور شہلا کو فون کرکے یہاں آنے کے لئے کہو۔” مرید بابا کے آنے پر نانو نے اس سے کہا۔
”اس سے یہ بھی کہیں کہ اپنا موبائل فون لے کر آئے۔” علیزہ نے نانو کی ہدایات کے بعد کہا۔ مرید بابا سر ہلاتے ہوئے لاؤنج میں نکل گئے۔ مگر ان کی واپسی چند منٹوں کے بعد ہی ہو گئی۔
”گیٹ پر موجود پولیس باہر جانے نہیں دے رہی۔ ” انہوں نے آتے ہی اطلاع دی۔
”آپ انہیں بتا دیتے کہ آپ کو ضروری کام سے نانو نے بھیجا ہے۔ ” علیزہ ایک بار پھر بے چین ہو گئی۔
”میں نے ان سے کہا تھا۔ مگر انہوں نے کہا کہ گھر سے کوئی بھی باہر نہیں جائے گا۔”
علیزہ نے بے اختیار اپنے ہونٹ بھینچ لیے۔
”ٹھیک ہے، آپ اپنا کام کریں۔” نانو نے مرید بابا کو ہدایت دی۔
ان کے جانے کے بعد انہوں نے علیزہ سے کہا۔ ”تم شہلا کا انتظار کرو، جب فون نہیں ملے گا تو وہ خود ہی یہاں آجائے گی۔”
انہوں نے جیسے علیزہ کو تسلی دی ”اور اگر باہر موجود پولیس نے اسے بھی اندر آنے نہ دیا تو…؟” وہ سوالیہ لہجے میں ان سے بولی۔
”تو، تو۔۔۔” نانو کو کوئی جواب نہیں سوجھا۔
”پتہ نہیں یہ سب کچھ کیا ہو رہا ہے، اچھی بھلی زندگی گزر رہی تھی اور اب یک دم۔”
انہوں نے بڑبڑاتے ہوئے اپنی بات ادھوری چھوڑ دی۔ علیزہ نے ان کی بات پر غور نہیں کیا۔ وہ اپنا ناخن کاٹتے ہوئے کچھ سوچنے میں مصروف تھی۔
”آپ کے بیٹے کی وجہ سے بہت بڑی مصیبت میں گرفتار ہو چکا ہوں۔” چیف منسٹر نے ایاز حیدر سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔ وہ ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی چیف منسٹر ہاؤس پہنچے تھے۔
”مجھے حیرت ہو رہی ہے آپ کی بات پر، عباس کا سروس ریکارڈ شاندار ہے۔ اس نے ہمیشہ اپنے فرائض کو بڑی ایمانداری سے سر انجام دیا ہے اور وہ آئندہ بھی ایسا ہی کرے گا۔ آپ خود کئی بار اس کی تعریف کر چکے ہیں۔ ” ایاز حیدر نے بڑے خوشگوارانداز میں مسکراتے ہوئے کہا۔
وہ دونوں اس وقت وہاں اکیلے تھے اور اب صوفوں پر بیٹھ چکے تھے۔
”مجھے اس کی قابلیت یا ذہانت پر کوئی شبہ نہیں مگر دو دن پہلے جو کچھ ہوا ہے، میں عباس حیدر جیسے آفیسر سے اس کی توقع نہیں رکھتا تھا۔ ہائی کورٹ کے ایک جج کے بیٹے کو اس طرح گھر سے اٹھا کر مار دینا اور پھر یہ کہنا کہ وہ پولیس مقابلے میں مارا گیا ہے۔”
”سر میری عباس سے اس معاملے میں تفصیلاً بات ہوئی ہے۔ وہ لڑکا اسی رات واقعی پولیس مقابلے میں مارا گیا تھا۔ ڈکیتی کی کوشش…۔” چیف منسٹر نے ایاز حیدر کی بات کاٹ دی۔
”میرے سامنے وہ بیان نہ دہرائیں جو اخباروں کو دیا گیا ہے۔ اس کا باپ کہہ رہا ہے کہ گھر سے سادہ کپڑوں میں پولیس اہلکار اس کے بیٹے کو اٹھا کر لے گئے۔”
”جسٹس نیاز یہ نہیں کہیں گے تو اور کیا کہیں گے… ایک جج کا بیٹا ایک جرم کرتے ہوئے اس طرح مارا جائے تو اس کی ساکھ کس حد تک متاثر ہو گی۔ آپ تو اچھی طرح اس کا اندازہ کر سکتے ہیں۔”
ایاز حیدر نے بڑے پر سکون انداز میں کہا۔ چیف منسٹر جواب میں کچھ بولے بغیر خاموشی سے انہیں گھورتے رہے۔
”جسٹس نیاز جھوٹ پر جھوٹ بول رہے ہیں اور یہ ان کی مجبوری ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس جھوٹ کی بنا پر آپ عباس کو سزا دیں۔ میں یہ بات اس لئے نہیں کہہ رہا کہ عباس میرا بیٹا ہے۔ وہ میرا بیٹا بعد میں ہے، آپ کی انتظامیہ کا ایک رکن پہلے ہے اور اس کی ایمانداری اور فرض شناسی سب پر بہت واضح ہے میں جانتا ہوں اپ اپنے ایک اچھے اور مستعد آفیسر کو کبھی کھونا نہیں چاہیں گے۔”
ایاز حیدر بڑے نپے تلے لفظوں میں اپنی بات آگے تک پہنچا رہے تھے۔ چیف منسٹر اب بھی کچھ کہے بغیر ان کا چہرہ دیکھ رہے تھے۔
عباس نے کوئی غلط کام کیا ہوتا تو میں کبھی یہاں نہ بیٹھا ہوتا۔ آپ اس کے ساتھ جو چاہے کرتے۔ مجھے کوئی اعتراض نہ ہوتا، لیکن اب عباس نے جو بھی کیا ہے، وہ لا اینڈ آرڈر کو برقرار رکھنے کے لئے کیا ہے، اور اگر عباس حیدر جیسے آفیسرز کو سزا دی جائے گی تو اس سے ساری پولیس فورس کا مورال ڈاؤن ہو گا۔ خود عباس اس سارے واقعہ پر بہت اپ سیٹ ہے، وہ تو ریزائن کر دینا چاہتا تھا مگر میں نے زبردستی اس سے روکا وہ کہہ رہا تھا کہ پریس تو ہمیشہ پولیس کا نیگیٹو امیج ہی لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے، مگر جب اوپر والے بھی اپنے آفیسرز کو سپورٹ کرنے کے بجائے ان کے ایکشن پر شک و شبہ کا اظہار کریں تو پھر کام کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ میں نے اسے خاصا سمجھایا۔ مگر وہ پھر بھی بہت بد دل ہو گیا ہے اس سارے واقعہ پر، وہ مجھ سے شکایت کر رہا تھا کہ آپ نے اس معاملہ میں اس کی حمایت کرنے کے بجائے انکوائری کا حکم دے دیا ہے۔ اس کا واضح مطلب تو یہی ہوا کہ آپ کو جسٹس نیاز کی بات زیادہ وزنی لگ رہی ہے۔ اور وہ کہہ رہا تھا کہ آپ کے اس حکم سے اس کی کریڈ یبلٹی متاثر ہوئی ہے۔”
چیف منسٹر ایاز حیدر کی بات سنتے ہوئے مسلسل سگار پی رہے تھے۔ ان کا چہرہ بالکل بے تاثر تھا۔ ایاز حیدر کی باتیں ان پر اثر کر رہی تھیں یا نہیں، کم از کم ایاز حیدر کو ان کے چہرے سے یہ جاننے میں کوئی مدد نہیں مل رہی تھی ۔ وہ کچھ دیر اور بات کرتے رہے پھر جب وہ خاموش ہو گئے توچیف منسٹر نے کچھ آگے جھکتے ہوئے سامنے پڑی ٹیبل پر موجود ایش ٹرے میں سگار کی راکھ جھاڑی۔


”عباس کے خلاف انکوائری کا حکم میں نے نہیں دیا۔” وہ رکے پھر بولے۔
”میں نے اس پورے معاملے کی تحقیقات کا حکم دیا ہے اور یہ آرڈر میں نے کسی خاص شخص کو فوکس (مرکز) بنا کرکے نہیں دیا۔”
”سر! بات ایک ہی ہو جاتی ہے۔ عباس کے خلاف انکوائری کروائی جائے یا پھر اس واقعے کے بارے میں دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ” ایاز حیدر نے کہا۔
”انکوائری تو مجھے کروانا ہی ہے۔ جسٹس نیاز نے Publically (عوام میں) آپ کے بیٹے کو مجرم ٹھہرایا ہے۔”
”آفیشلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے اس واقعے پر احتجاج کیا ہے۔”
”جسٹس نیاز کے الزامات بے بنیاد ہیں، میں آپ سے پہلے… ” چیف منسٹر نے ان کی بات کاٹ دی۔
”ان کے الزامات اتنے بھی بے بنیاد نہیں ہیں۔ پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹرز سے تفصیلی بات ہوئی ہے میری۔ انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ موت کا وقت وہ نہیں تھا جو انہوں نے دیا ہے۔ جسٹس نیاز نے جس وقت امتنان صدیقی سے بات کی، اس وقت ان کا بیٹا زندہ تھا اور ان کے فون پر امتنان صدیقی سے بات کرنے کے تقریباً ایک گھنٹے کے بعد اس کی موت ہوئی۔”
چیف منسٹر اب ایاز حیدر کے چہرے پر نظریں جمائے بول رہے تھے۔ ایاز حیدر کے چہرے کی رنگت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ وہ بالکل پر سکون انداز میں چیف منسٹر کی بات سن رہے تھے۔
”ڈاکٹرز نے یہ بھی اسے بتایا ہے کہ ان چاروں کی موت بہت قریب سے گولیاں لگنے سے ہوئی ہے۔ زیادہ سے زیادہ سات یا آٹھ فٹ کے فاصلے سے اور کچھ گولیاں کم فاصلے کی وجہ سے ان کے جسم کے آرپار بھی ہو گئیں۔”
چیف منسٹر ایک بار پھر سگار کی راکھ جھاڑ رہے تھے۔ ایاز حیدر پلکیں جھپکائے بغیر ان کا چہرہ دیکھ رہے تھے، یوں جیسے وہ انہیں کوئی بہت دلچسپ کہانی سنانے میں مصروف تھے۔
”اور یہ جان کر بھی آپ خاصے محظوظ ہوں گے کہ چاروں کے جسم سے ملنے والی گولیاں ایک ہی رائفل سے چلائی گئی ہیں۔ اب پولیس فورس میں کتنے ماہر نشانہ باز ہیں۔ یہ آپ بھی جانتے ہیں اور میں بھی۔ کیا یہ حیران کن بات نہیں کہ ایک پولیس مقابلے کے چاروں مجرم ایک ہی پولیس والے کا نشانہ بنے؟”
چیف منسٹر کے چہرے پر اب ایک عجیب سی مسکراہٹ تھی۔
”ڈاکٹرز کے مطابق وہ چند منٹوں کے فرق سے تقریباً ایک ہی وقت مرے ہیں اور پولیس کا کہنا ہے مقابلہ دو گھنٹے جاری رہا اور چار مختلف جگہوں پر انہیں شوٹ کیا گیا ایک رائفل ہے؟ چلو مان لیتے ہیں مگر پھر کم از کم موت کے وقت میں دس پندرہ نہیں تو آٹھ دس منٹ کا فرق ہوتا۔” ان کی آواز میں اب کچھ تلخی جھلکنے لگی تھی۔
”اور ڈاکٹر ز کا یہ کہنا ہے کہ جسٹس نیاز کے بیٹے کو موت سے پہلے اچھے خاصے تشدد کا سامنا کرنا پڑا ۔ اس کی پسلی کی کچھ ہڈیوں میں فریکچرز تھے، اور جسم پر چوٹوں کے کچھ نشانات بھی تھے۔ اب آپ اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟” انہوں نے کچھ طنزیہ انداز میں ایک اور کش لیتے ہوئے کہا۔
”میں صرف یہی کہوں گا کہ ایسے ڈاکٹرز پر کیس چلنا چاہئے، انکوائری ان کی ہونی چاہئے… جو ڈاکٹر پہلے ایک بیان دے رہے ہیں پھر دوسرا۔ ان پر اعتماد کیسے کیا جا سکتا ہے؟ آپ نے ان سے یہ نہیں پوچھا کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں انہوں نے سب کچھ کیوں نہیں بتایا۔”
ایاز حیدر نے اسی پر سکون انداز میں کہا، جس پر سکون انداز میں وہ چیف منسٹر کی ساری گفتگو سنتے رہے تھے۔
”پوچھا تھا۔ انہوں نے کہا کہ انہیں عباس حیدر نے پوسٹ مارٹم رپورٹ بدلنے پر مجبور کیا۔”
ایاز چیف منسٹر کی بات پر بے اختیار ہنسے۔
”مگر سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ عباس نے ایسے کیوں کیا؟”
”اسی سوال کا جواب لینے کے لئے تو میں نے آپ کو یہاں بلایا ہے۔ آپ بتایئے عباس نے یہ سب کیوں کیا؟”
”آپ کی عباس سے بات ہو چکی ہے؟”
”ہاں۔”
”یہ سوال آپ اس سے کر سکتے تھے سر! وہ زیادہ بہتر طریقے سے آپ کو ان سب باتوں کے بارے میں بتاتا۔”
”ڈاکٹرز سے میری بات چند گھنٹے پہلے ہوئی ہے۔ جبکہ عباس سے بات کل ہوئی تھی۔ اگر آپ یہاں نہ آئے ہوتے تو اس وقت عباس ہی یہاں بیٹھاہوتا۔ میں آپ سے سچ سننا چاہتا ہوں۔ کیا جسٹس نیاز کی فیملی کے ساتھ آپ کے کوئی اختلافات تھے؟”
”نہیں ان کی فیملی کے ساتھ ہمارے کیا اختلافات ہو سکتے ہیں۔ میں تو ان کی فیملی کو ٹھیک طرح سے جانتا تک نہیں ہوں۔ ان کا رورل بیک گراؤنڈ ہے، ہمارا اربن ہے پھر کسی اختلاف کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور اختلاف کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ میرا بیٹا کسی کو بھی ایسے ہی اٹھا کر مار دے۔”
ایاز حیدرنے صاف لفظوں میں انکار کرتے ہوئے کہا۔
چیف منسٹر نے ایک گہرا سانس لیا اور صوفے کی پشت سے ٹیک لگالی۔
”اب باتیں کچھ کھل کر ہوں گی۔ یہ بات تو صاف طے ہے کہ عباس نے ان چاروں کو ایک جعلی پولیس مقابلے میں مارا ہے۔ کیوں مارا ہے۔۔۔۔؟”
”انہوں نے کچھ توقف کیا اور سامنے ٹیبل پر پڑی ایک فائل کو کھول کر اس میں سے ایک ایڈریس پڑھنے لگے۔ ایاز حیدر کے چہرے پر پہلی بار تناؤ کی کیفیت نظر آنے لگی۔ وہ ایڈریس اس گھر کا تھا جہاں علیزہ نانو کے ساتھ رہ رہی تھی۔
”یہ ایڈریس اس گھر کا ہے جہاں آپ کی والدہ آپ کے والد کے انتقال کے بعد رہ رہی ہیں۔ ان کے ساتھ آپ کی ایک بھانجی بھی رہتی ہے۔… علیزہ سکندر۔”
وہ خاموش ہو گئے اور فائل میں موجود کاغذات کو دیکھتے رہے، پھر انہوں نے وہ فائل واپس ٹیبل پر رکھ دی اور ایاز حیدر کو دیکھنے لگے۔
”جس رات یہ واقعہ ہوا تھا اس رات آپ کی یہ بھانجی اپنی ایک دوست کے ساتھ کسی کنسرٹ سے واپس آرہی تھی۔ جب ان چاروں لڑکو ں نے ان دونوں کا پیچھا کیا۔ آپ کی بھانجی کی دوست اپنے گھر چلی گئی، لیکن جب آپ کی بھانجی گھر جا رہی تھی تو اس کا ایک بار پھر پیچھا کیا گیا۔ پولیس ہیڈکوارٹرز میں یکے بعد دیگرے کئی کالز آئیں… چند کالز آپ کی والدہ نے کیں کچھ اس گھر سے کی گئیں جہاں آپ کی بھانجی چھپ گئی تھی۔”
وہ بڑی روانی سے سب کچھ بتاتے جا رہے تھے۔ ایاز حیدر کو ان کی معلومات پر کوئی حیرت نہیں ہوئی، پولیس صرف عباس حیدر کی وفادار نہیں ہو سکتی تھی۔
”جس گھر میں آپ کی بھانجی چھپی تھی۔ وہاں کوئی ڈکیتی نہیں ہو رہی تھی، البتہ وہ لڑکے آپ کی بھانجی کے پیچھے ضرور گئے تھے۔ عباس حیدر کے ساتھ اس دن عمر جہانگیر بھی تھا اور اس پورے آپریشن کے دوران اس کے ساتھ رہا۔ عمر جہانگیر کو تو جانتے ہیں نا آپ؟”چیف منسٹر نے مسکرا کر عجیب سے انداز میں کہا اور پھر بات جاری رکھی۔ ”عباس نے اس پورے علاقے کا گھیراؤ کر لیا اور اس گھر تک بھی پہنچ گیا۔ وہ لڑکے اس وقت تک فرار ہو چکے تھے۔ اس کے بعد کیا ہوا کیا یہ بتانے کی ضرورت ہے یا اتنا ہی کافی ہے؟ یہ ضرور یاد رکھیں کہ آپ کی بھانجی کی کار اس وقت بھی پولیس ورکشاپ میں ہے اور اس گھر پر اس وقت بھی پولیس گارڈ لگی ہوئی ہے۔”
انہوں نے بڑے محظوظ ہوتے ہوئے ایاز حیدر کو دیکھ کر پوچھا۔ ایاز حیدر نے ایک گہرا سانس لیا۔
”میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا عباس نے آپ کی بھانجی کی وجہ سے ان چاروں کو مارا تھا۔ کیا صرف اس لئے کہ ان چاروں نے آپ کی بھانجی کا پیچھا کیا تھا یا پھر اس لئے کہ آپ کی بھانجی ان میں سے کسی کے ساتھ انوالوڈ تھی؟ خاص طور پر جسٹس نیاز کے بیٹے کے ساتھ کیونکہ اس کے علاوہ باقی کسی پر اتنا تشدد نہیں کیا گیا تھا۔ آپ کو یہاں بلانے کی وجہ یہی تھی کہ یہ باتیں آمنے سامنے ہوسکیں۔ عباس صورت حال کی سنگینی کو انڈر اسٹیمیٹ کر رہا ہے۔ آپ یقیناً ایسا نہیں کریں گے۔ اب یہ آپ کو طے کرنا ہے کہ آپ ابھی بھی مجھے سچ بتائیں گے یا پھر وہی سب باتیں دہرائیں گے جو پہلے دہرا رہے ہیں اور یہ بات ذہن میں ضرور رکھیں کہ ایسا کرنے کی صورت میں، میں انکوائری ٹیم کو پوری اتھارٹی دے دوں گا اور جو کچھ اس وقت میرے سامنے اس فائل میں پڑا ہے، وہ یقیناً ان تک بھی ضرور پہنچ جائے گا۔ اس کے بعد آپ اور آپ کی فیملی کو کیسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔
کیا آپ کی فیملی اس طرح کے کسی اسکینڈل کو افورڈ کر سکے گی؟ عباس حیدر کا سوچئے اس کا کیا ہو گا۔ عمر جہانگیر وہ بھی بچ نہیں سکے گا۔”
وہ زیرک سیاست دان بیورو کریسی کے ایک مہرے کو پھانسنے کے لئے اپنے پتے بڑی ہوشیاری سے کھیل رہا تھا۔
دوسری طرف ایاز حیدر اس کی باتوں کو غور سے سنتے ہوئے سارے حساب کتاب میں مصروف تھے۔
”جسٹس نیاز جس سیاسی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، آپ اسے اچھی طرح جانتے ہیں۔ اچھی طرح نہ بھی جانتے ہوں تو یہ ضرور آپ کے علم میں ہو گا کہ اسمبلی کے بہت سے ممبرز کی پشت پناہی حاصل ہے انہیں۔ ان کی بات نہ سننے پر مجھے اسمبلی میں خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا اور جسٹس نیاز کا مطالبہ ہے، کہ آپ کے بیٹے کو معطل کیا جائے۔ اب آپ مجھے یہ بتائیں کہ میں کس بنیاد پر ایسا کرنے سے انکار کروں۔ خاص طور پر یہ جاننے کے بعد کہ آپ کے بیٹے نے ایک غلط کام کیا ہے۔”
”میرے بیٹے نے کوئی غلط کام نہیں کیا، نہ عباس نے نہ ہی عمر جہانگیر نے۔ آپ کو ملنے والی اطلاعات ٹھیک ہیں۔ ان چاروں کو ایک جعلی پولیس مقابلے میں مارا گیا تھا اور یہ اس لئے کیا گیا تھا کیونکہ۔۔۔”
ایاز حیدر نے چیف منسٹر کی بات سننے کے بعد بڑے دھیمے اور مستحکم لہجے میں بات کرنا شروع کی۔ چیف منسٹر خاموشی سے اس کی بات سنتے رہے۔
علیزہ نانو کے ساتھ لاؤنج میں ہی بیٹھی ہوئی تھی، جب اسے باہر پورچ میں کسی گاڑی کے رکنے کی آواز آئی۔
”شاید شہلا آئی ہے۔” نانو نے اس سے کہا۔
”نہیں یہ شہلا کی گاڑی کی آواز نہیں ہے۔ ” علیزہ نے کچھ الجھے ہوئے انداز میں کہا۔ اسی وقت عمر لاؤنج کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔ علیزہ بے اختیار خوش ہوئی۔ کچھ دیر پہلے وہ بے بسی کے جس احساس سے دوچار تھی، وہ یک دم غائب ہو گیا تھا۔
”ہیلو۔” عمر کا لہجہ بالکل خوشگوار نہیں تھا۔ اس کے چہرے پر سنجیدگی تھی۔
”اچھا ہوا عمر! تم آگئے۔ یہ علیزہ بہت پریشان ہو رہی تھی۔ فون ڈیڈ ہے اور باہر موجود پولیس گارڈ کسی کو اندر آنے دے رہا ہے نہ ہی باہر جانے دے رہا ہے۔ علیزہ مارکیٹ تک جانا چاہتی تھی، تم اسے لے جاؤ۔” نانو نے عمر کو دیکھتے ہی کہا۔
”مارکیٹ تک کس لئے؟” عمر نے علیزہ کو بڑے غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔ وہ اب اس کے قریب صوفہ پر بیٹھ رہا تھا۔
”وہ شہلا کو فون کرنا چاہتی ہے۔” نانو نے کہا۔
”کس لئے؟”
”وہ اسے بلانا چاہ رہی ہے یہاں۔”
”ٹھیک ہے میرا موبائل لے لو اس پر کال کرو اسے۔” عمر نے اپنا موبائل اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
”ہاں اس پر کال کر لو۔” علیزہ نے اس سے موبائل لے لیا اور اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔
”تم کہاں جا رہی ہو؟” عمر نے اسے اٹھتے دیکھ کر ٹوکا۔
”اپنے کمرے میں۔”
”میرے سامنے بات کرو شہلا سے۔”
”ہاں علیزہ یہیں فون کر لو۔ نانو نے بھی مداخلت کی۔”
علیزہ نے چونک کر عمر کو دیکھا، اس کے چہرے پر سنجیدگی کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں تھا۔
”نہیں نانو! میں یہاں فون نہیں کر سکتی۔” اس نے لاؤنج سے نکلتے ہوئے کہا۔
”گرینی میں ابھی آتا ہوں۔”
علیزہ نے چلتے چلتے عمر کو کہتے سنا، وہ اب اس کی طرف آرہا تھا۔ علیزہ کچھ حیران ہو کر اسے دیکھنے لگی۔ وہ اب اس کے قریب آکر بڑی نرمی سے اس کے ہاتھ سے موبائل لے رہا تھا۔
”آؤ تمہارے کمرے میں چلیں، کچھ باتیں کرنی ہیں تم سے۔”
وہ قدرے مدہم مگر مستحکم آواز میں کہہ رہا تھا۔
”مجھے بھی آپ سے کچھ باتیں کرنی ہیں۔” وہ اس کے ساتھ چلتے ہوئے بولی۔
وہ دونوں کمرے میں آگئے۔ کمرے کا دروازہ بند کرتے ہی علیزہ نے عمر سے کہا۔
”آپ نے دیکھا عباس نے ان چاروں کے ساتھ کیا کیا ہے؟”
عمر نے اس کی بات کا جواب دینے کے بجائے اس سے کہا۔
”علیزہ بیٹھ جاؤ اور پھر بات کرو۔” وہ صوفہ پر بیٹھ گئی۔
”عباس نے ان چاروں کو قتل کر دیا ہے یہ کہہ کر کہ وہ پولیس مقابلے میں مارے گئے۔ یہ سب جھوٹ ہے، آپ تو اچھی طرح جانتے ہیں۔ سب کچھ آپ کے سامنے ہی تو ہوا تھا۔”
عمر اب خود بھی دوسرے صوفے پر بیٹھ گیا تھا اور بڑے اطمینان سے اسے دیکھ رہا تھا۔
”اس نے چاروں کے ساتھ وہی کیا جو انکل ایاز نے شہباز کے ساتھ کیا… مجھے اب آپ کی بات پر یقین آگیا ہے، آپ تب سچ کہہ رہے تھے۔” وہ کہتی جا رہی تھی، عمر نے کسی ردِ عمل کا اظہار نہیں کیا۔
”آپ شہباز کے بارے میں کچھ نہیں کر سکے، مگر ان چاروں کے بارے میں ہم بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ آپ اور میں گواہ ہیں سب کچھ ہمارے سامنے ہوا تھا۔ ہم عباس کو ایک غلط کام کے لئے سزا دلوا سکتے ہیں۔”
وہ اب بھی بے تاثر چہرے کے ساتھ اسے دیکھ رہا تھا۔
”کیا یہ ضروری ہے کہ ہر غلط کام کرنے کے بعد عباس اور انکل ایاز جیسے لوگ بڑی آسانی سے بچ جائیں۔ کبھی تو انہیں یہ احساس ہونا چاہئے کہ وہ غلط کر رہے ہیں۔ وہ ہر کام غلط طریقے سے کر رہے ہیں، ان کے نزدیک انسانی زندگی کی اہمیت کیوں نہیں ہے۔”
اسے بات کرتے کرتے محسوس ہوا کہ عمر نے اب تک اس کی کسی بات کی تائید نہیں کی تھی، نہ منہ سے نہ چہرے کے کسی تاثر سے۔ وہ یک دم خاموش ہو گئی ۔ لاشعوری طور پر وہ یہ توقع کر رہی تھی کہ عمر اس کی ہر بات کی نہ صرف تائید کرے گا بلکہ فوراً اس کی مدد کی ہامی بھی بھر لے گا۔ مگر وہ … وہ اس کے سامنے بے تاثر چہرے کے ساتھ بالکل خاموش بیٹھا ہوا تھا۔
”کچھ اور بھی کہنا ہے تمہیں؟ یا بس یہی سب کہنا تھا؟” اس کے یک دم خاموش ہونے پر اس نے کہا۔ اس کا لہجہ اتنا عجیب تھا کہ وہ چاہنے کے باوجود ایک لفظ بھی نہیں بول سکی۔
”میرا نام کیوں نہیں شامل کیا تم نے اس لسٹ میں… ایاز انکل، عباس حیدر اور عمر جہانگیر؟” وہ حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔
”مجھ کو بھی اس کیٹیگری میں رکھو۔”
”عمر! میں۔۔۔”
عمر نے ہاتھ اٹھا کر اس کی بات کاٹ دی۔ ”زندگی میں جو لوگ دماغ کو استعمال نہیں کرتے، وہ ہمیشہ منہ کے بل گرتے ہیں اس لئے اپنے دماغ کو استعمال کرنا سیکھو۔” اس بار اس کی آواز میں تلخی تھی۔
”اور جو لوگ صرف دماغ استعمال کرتے ہیں، وہ کیسے گرتے ہیں؟”
”وہ گر سکتے ہیں مگر منہ کے بل نہیں۔ عباس نے ایک صحیح کام لیا۔”
”اس نے آپ کی برین واشنگ کر دی ہے ورنہ آپ اس طرح کے قتل کو تو کبھی صحیح ثابت کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔” وہ بے اختیار برہمی سے بولی۔ وہ عجیب سے انداز میں ہنسا۔
”برین واشنگ مائی فٹ۔ میں کوئی پانچ سال کا بچہ نہیں ہوں جس کی برین واشنگ کر دی گئی ہے۔ اس رات ان چاروں کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ ہم دونوں نے مل کر طے کیا تھا۔”
وہ دم بخود اسے دیکھتی رہی وہ بڑے اطمینان سے اسے بتا رہا تھا۔
”اس کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ ہمارے پاس نہیں تھا۔”
”آپ نے مجھ سے کہا تھا کہ عباس ان لوگوں کو لاک اَپ میں بند کر دے گا۔ ان پر کورٹ میں کیس چلے گا۔”اس نے شکستہ آواز میں کہا۔
”میں نے جھوٹ بولا تھا۔”
وہ اس کا منہ دیکھ کر رہ گئی۔
”علیزہ سکندر کو کسی بھی عمر میں بے وقوف بنانا دنیا کا آسان ترین کام ہے۔” اس نے دل ہی دل میں اعتراف کیا۔” میں لوگوں کو جانچنے اور پرکھنے میں آج بھی اتنی ہی ناکام ہوں جتنا پہلے تھی۔ کوئی ڈگری ، کوئی تجربہ میری سمجھ داری میں اضافہ نہیں کر سکتا۔ میں کبھی بھی لوگوں کے لفظوں میں چھپے ہوئے اصلی مفہوم تک نہیں پہنچ سکتی یا شاید عمر جہانگیر وہ شخص ہے جس کے لفظوں کو میں کبھی جانچنا نہیں چاہوں گی۔”
”یہ جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت تھی۔ آپ مًجھے صاف صاف بتا سکتے تھے۔”
”تاکہ جو حماقت تم اب کر رہی ہو، وہ اسی وقت کرنا شروع کر دیتیں۔” اس کی آواز میں اس بار ترشی تھی۔
”کیا کرنا شروع کر دیتی؟”
”تم بہت اچھی طرح جانتی ہو کہ تم کیا کر رہی ہو؟” اس کی آواز میں تنبیہ تھی۔
”نہیں، میں نہیں جانتی میں کیا کر رہی ہوں۔ آپ بتادیں۔”
”عباس کو فون پر کیا کہا تھا تم نے؟” وہ چند لمحے اسے گھورتے رہنے کے بعد بولا۔
علیزہ کو اب کوئی خوش فہمی باقی نہیں رہی… اس کا ایک اور اندازہ بالکل غلط ثابت ہو گیا۔ وہ جان گئی تھی وہ یہاں کس کے لئے آیا تھا ۔ عباس کو بچانے کے لئے یا پھر شاید اپنے آپ کو بچانے کے لئے۔
”اگر آپ کو یہ پتا ہے کہ میں نے عباس کو فون کیا تھا تو پھر یہ بھی پتا ہو گا کہ کیوں کیا تھا۔” اس نے اپنی آواز پر حتی المقدور قابو پاتے ہوئے کہا۔
”تم اپنے لئے اور دوسروں کے لئے پرابلمز پیدا کرنے کی کوشش مت کرو۔” اس نے تیز آواز میں اس سے کہا۔
”میں کسی کے لئے پرابلمز پیدا نہیں کر رہی۔ میں صرف وہ کر رہی ہوں جسے میں ٹھیک سمجھتی ہوں۔”
”کیا ٹھیک سمجھتی ہو تم۔ خود کو اور خاندان کو اسکینڈلائز کرنا۔۔۔”
”میں کسی کو اسکینڈلائز نہیں کر رہی ہوں۔” اس نے عمر کی بات کاٹ دی۔ ”اگر آپ کو اس چیز کا خوف تھا تو آپ کو یہ سب کچھ نہیں کرنا چاہئے تھا۔”
”اچھا یہ نہیں کرنا چاہئے تھا؟ تو پھر کیا کرنا چاہئے تھا، تم بتاؤ گی مجھے؟”
اس کی آواز میں طنز تھا اور وہ اسے بخوبی محسوس کر سکتی تھی۔
”آپ کو وہی کرنا چاہئے تھا جو مناسب تھا، جو جائز تھا۔ آپ کو انہیں صرف لاک اپ میں بند کر دینا چاہئے تھا۔ان پر کورٹ میں کیس چلتا پھر جو سزا کورٹ انہیں دیتی آپ اس پر عمل کرتے۔”
”لاک اپ میں بند کرنا چاہئے تھا؟ کتنے گھنٹوں کے لئے؟”
”کیا مطلب؟”
”تمہیں کچھ اندازہ ہے کہ وہ کتنے با اثر گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے۔ انہیں لاک اپ میں بند کیا جاتا اور رات گزرنے سے پہلے انہیں چھڑوا لیا جاتا، کسی کے ایک فون پر ، کسی ضمانت یا کارروائی کے بغیر۔”
”یہ کیسے ممکن ہے۔ آپ لوگ ایف آئی آر رجسٹر کرتے تو وہ کیسے رہا ہو سکتے تھے۔”
”کون سی ایف آئی آر؟ اور کیا حیثیت ہے ایک ایف آئی آر کی؟ جاننا چاہو گی؟”
عمر نے ترش لہجے میں کہتے کہتے سائیڈ ٹیبل پر پڑے ہوئے پیپرز میں سے ایک کو لے کر برق رفتاری سے پھاڑتے ہوئے قالین پر اچھال دیا۔
”یہ حیثیت ہے ایک ایف آئی آر کی ۔ جو کام میں نے یہاں تمہارے سامنے بیٹھ کر کیا ہے وہ ایسے با اثر خاندانوں کے لوگ پولیس اسٹیشن میں بیٹھ کر کرتے ہیں۔”
وہ دم سادھے قالین پر گرتے ان ٹکڑوں کو دیکھتی رہی۔
”کاغذ کے ایک ردی ٹکڑے سے زیادہ اہمیت نہیں ہوتی، ایف آئی آر کی۔ کون سا خاندان اپنے سپوتوں کا نام پولیس اسٹیشن کے ریکارڈ میں آنے دے گا۔ چاہے انہوں نے جو بھی کیا ہو، یہ خاندان کی ساکھ اور مستقبل کا معاملہ ہوتا ہے۔ کوئی ان چیزوں کو داؤ پر نہیں لگا سکتا۔” وہ رسانیت سے بولتا جا رہا تھا۔
”اور اس صورت حال سے بچنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو مار دیا جائے۔ ایک جعلی پولیس مقابلے میں ۔ اس طرح سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ ” وہ طنز سے بولی۔
”سب کچھ نہ سہی بہت کچھ۔”
”آپ کی کوئی بات مجھے قائل نہیں کر رہی۔ سوچے سمجھے بغیر ایک غلط کام کرنے کے بعد آپ اسے صحیح ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ کہہ کر ایف آئی آر کے باوجود بھی وہ چھٹ جاتے۔ آپ ان کو نہ رہا ہونے دیتے۔ اتنا اثر و رسوخ تو ہمارے خاندان کا بھی ہے، ان چاروں کو کورٹ تک لے جانا آپ کے لئے کوئی مشکل یا نا ممکن کام نہیں تھا۔” وہ اس سے کہہ رہی تھی۔
”اچھا لے جاتے ان چاروں کو ہم کورٹ میں، اس کے بعد کیا ہوتا؟” وہ چیلنج کرنے والے انداز میں اس سے پوچھ رہا تھا۔
”ان پر کیس چلتا کورٹ انہیں سزا دیتی۔”
”کون سے یو ٹوپیا میں رہ رہی ہو تم علیزہ! یہاں اس ملک میں ایک با اثر خاندان کے فرد پر ایک لڑکی کا پیچھا کرنے پر کیس چلتا۔ جب یہ ہونا شروع ہو جائے گا تو پھر ایسے لوگ پولیس مقابلوں میں مارے نہیں جائیں گے پھر وہ واقعی کورٹس تک پہنچائے جائیں گے۔” اس نے اب صوفے کی پشت سے ٹیک لگالی۔
”یہاں اب کورٹس میں ججز انصاف کرتے نہیں، انصاف بیچتے ہیں۔ جیب میں روپیہ اورما تھے پر بڑے خاندان کی اسٹمپ ہونی چاہئے پھر وکیل کی ضرورت نہیں پڑتی۔ نہ گواہوں کی ، نہ ثبوتوں کی پھر جج خود آپ کا ہو جاتا ہے۔ ہائی کورٹ کے جج کے بیٹے کو کون سا جج سزا دیتا۔”
وہ اب عجیب سے انداز میں مسکرا رہا تھا۔
”چیمبر آف کامرس کے ایک عہدے دار کے بیٹے کو کون سلاخوں کے پیچھے رکھ سکتا ہے اور کتنی دیر۔”
”پھر بھی آپ کوشش تو کر سکتے تھے، قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کا حق آپ کو کس نے دیا؟” وہ اس کی کسی بات سے قائل نہیں ہو رہی تھی۔
”قانون کو ہاتھ میں ا س لئے لینا پڑا کیونکہ قانون ان چاروں کے بارے میں کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا۔ وہ چاروں اسی رات رہا کروا لئے جاتے اور اگر کسی طرح ان پر کیس کر بھی دیا جاتا تو کس طرح جیتا جا سکتا تھا، ثبوت کیا تھے ہمارے پاس؟”
وہ بے یقینی سے اس کا چہرہ دیکھنے لگی۔
”ثبوت تھے ہمارے پاس۔” اس نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔
”کون سے ثبوت؟ پولیس جب گھر پر پہنچی تو ان چاروں میں سے کوئی بھی وہاں نہیں تھا۔”
”لیکن اس گھر کے لوگوں نے انہیں دیکھا… جب وہ زبردستی اندر آئے تھے۔”
”اس گھر کے لوگ؟” وہ استہزائیہ انداز میں ہنسا۔ ”اس گھر کے کتنے لوگ تمہارے لئے گواہی دینے کورٹ میں آئیں گے ، ایک بھی نہیں۔”
”آپ انہیں ایسا کرنے کے لئے پریشرائز کر سکتے ہیں۔”
”اور یہی کام نہ کرنے کے لئے ان چاروں کے گھر والے بھی انہیں پریشرائز کر سکتے تھے۔”
”ٹھیک ہے وہ گواہی نہ دیتے ، میں تو دے سکتی تھی۔ میں پہچانتی تھی ان چاروں کو۔”
وہ اس کی بات پر ایک بار پھر ہنسا۔
”تم کون ہو علیزہ سکندر؟ کیا حیثیت رکھتی ہے تمہاری گواہی۔ جانتی ہو وہ کن اداروں میں پڑھ رہے تھے؟ کورٹ تم سے پوچھتی کہ چار اعلیٰ حسب و نسب کے نوجوانوں نے آخر تمہارا ہی کیوں پیچھا کیا ۔ ہو سکتا ہے تم نے ان کو ترغیب دی ہو؟ ہو سکتا ہے وہ کہہ دیتے کہ وہ تمہیں پہلے ہی جانتے ہیں اور ان میں سے کسی کا تمہارے ساتھ افئیر چل رہا تھا۔ جب اس نے تمہارے ساتھ تعلقات ختم کئے تو تم نے اسے سزا دینے کے لئے یہ سب کچھ پلان کیا۔ یہ بھی ممکن تھا کہ وہ صاف صاف کہہ دیتے کہ انہوں نے ایسا کچھ نہیں کیا، وہ تمہیں جانتے تک نہیں اور رات وہ چاروں اپنے اپنے گھر میں تھے، دو کو تو ہم نے بھی گھر سے ہی اٹھایا۔ یا پھر ہو سکتا تھا کہ ان کے خاندان یہ کہتے کہ یہ ان کے کسی دشمن کی سازش ہے، کوئی ان کی ریپوٹیشن خراب کرنا چاہتا ہے۔ تم کیسے کاؤنٹر کرتیں ان سب چیزوں کو ، کورٹ پہلی ہی پیشی میں ان چاروں کو بری کر دیتا۔ ”با عزت بری” اور اس کے بعد تم کہاں پر کھڑی ہوتیں؟”
وہ کسی ترحم کے بغیر بڑی بے رحمی اور سفاکی سے اسے سب کچھ سنا رہا تھا۔
”ٹھیک ہے کورٹ انہیں سزا نہ دیتی، مگر سب کچھ جائز طریقہ سے تو ہوتا، غلط طریقے سے تو نہیں۔”
”اور اس جائز طریقے کا جو خمیازہ تم کو بھگتنا پڑتا اس کا اندازہ ہے تمہیں۔ جو لڑکے اتنی دیدہ دلیری کے ساتھ تمہارے نام پتہ سے واقف نہ ہونے کے باوجود تمہارا اس طرح پیچھا کر رہے تھے۔ وہ تمہارے بارے میں جاننے کے بعد تمہیں چھوڑ دیتے۔ تم ان کو کورٹ میں لے کر جاتیں اور وہ اس کے بعد تمہیں بخش دیتے۔”
”آپ عباس کی طرح Hypothetical(فرضی) باتیں نہ کریں۔ وہ کیا کر دیتے، کیا کر سکتے تھے۔ یہ ہو جاتا وہ ہو جاتا حقیقت تو یہی ہے کہ انہوں نے مجھے کوئی نقصان نہ پہنچایا۔”
”عباس ٹھیک کہہ رہا تھا، تم سچ مچ حواس کھو چکی ہو۔ ” عمر بے اختیار جھلایا۔
علیزہ نے اسے دیکھا۔ ”یہ جو اتنا لمبا چوڑا بیان دے رہے ہیں آپ، اس کے بجائے آپ صرف یہ کیوں نہیں کہہ دیتے کہ عباس اور آپ کے لئے یہ انا کا مسئلہ بن گیا تھا۔ وہی میل شاؤنزم جو یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ اس کی فیملی کی عورت کو ایسے کسی کرائسس سے گزرنا پڑے۔ آپ کی نسبت عباس زیادہ صاف گو ہے۔ جس نے واضح طور پر اس بات کا اقرار کیا۔ آپ صرف ایک کے بعد دوسری کے بعد تیسری وضاحت پیش کر رہے ہیں۔ آپ بھی عباس کی طرح یہ اعتراف کر لیں کہ یہ صرف Family Pride (خاندانی انا) تھی جسے Intact (قائم) رکھنے کے لئے آپ نے یہ سب کیا۔”
عمر نے اس کی بات کے جواب میں بڑے واشگاف انداز میں کہا۔
”او کے، تم ایسا سمجھتی ہو تو ایسا ہی سہی۔ ہاں میں بھی یہ برداشت نہیں کر سکا کہ کوئی میری فیملی کی کسی عورت کے ساتھ اس طرح کا سلوک کرے ، کیا یہ کافی ہے تمہارے لئے؟”
”کیا وہی عمر ہیں آپ، جو چند ماہ پہلے شہباز منیر کے موت پر واویلا کر رہا تھا اور آج وہ خود چارانسانوں کو مارنے کے بعد بھی ضمیر پر کوئی بوجھ محسوس نہیں کر رہا۔ کیا انکل ایاز کے نقش قدم پر چل رہے ہیں آپ بھی؟”
اس نے تلخی سے کہا۔
اگلا خیال اسے نانو کا آیا تھا۔ ”پتا نہیں وہ کہاں ہوں گی؟ شاید اپنے کمرے میں یا پھر۔۔۔” اس نے بیڈ کو ٹٹولتے ہوئے فرش پر کھڑے ہونے کی کوشش کی۔ فائرنگ اب بھی کسی توقف کے بغیر جاری تھی۔ لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ اندھیرے میں دروازہ تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہوئے وہ رستے میں آنے والی کئی چیزوں سے ٹکرائی مگر دروازے تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئی۔
دروازے کو کھول کر وہ کوریڈور میں نکل آئی۔ کوریڈور بھی مکمل طور پر تاریک تھا۔ فائرنگ میں اب اور بھی شدت آگئی تھی۔ علیزہ نے کوریڈور کی دیواروں کو ٹٹولتے ہوئے نانو کے کمرے تک پہنچنے کی کوشش کی ۔ نانو کے کمرے کے دروازے تک پہنچتے ہی اس نے وحشت کے عالم میں اسے دھڑ دھڑایا۔ دروازہ لا کڈ تھا۔
”نانو…! نانو…! دروازہ کھولیں۔ میں علیزہ ہوں۔” اس نے بلند آواز میں پکارنا شروع کر دیا۔ فائرنگ کی آواز کے دوران بھی اس نے اندر سے آنے والی نانو کی آواز سن لی۔
”علیزہ…! ٹھہرو میں آرہی ہوں… دروازہ کھولتی ہوں۔”
چند لمحوں کے بعد نانو نے دروازہ کھولتے ہوئے پوچھا۔
”یہ کیا ہو رہا ہے؟” نانو بہت خوفزدہ لگ رہی تھیں۔
”مجھے نہیں معلوم نانو! یہ کیا ہو رہاہے؟”
”تم ٹھیک تو ہو؟”
”ہاں میں ٹھیک ہوں۔ آپ ٹھیک ہیں؟”
”ہاں میں ابھی تمہارے پاس ہی آنا چاہ رہی تھی مگر اندھیرے میں رستہ۔۔۔” وہ خاصی سراسمیگی کے عالم میں کہہ رہی تھیں۔ ”اور لائٹ… پتا نہیں لائٹ کیوں چلی گئی ہے؟”
”نانو! یہ فائرنگ کہاں ہو رہی ہے؟”
”پتا نہیں… مجھے کیسے پتا ہو سکتا ہے۔۔۔” اندھیرے میں نانو کی آواز ابھری۔
”ہمیں فون کرنا چاہئے۔ پولیس کو۔” علیزہ نے بے تابی سے کہا۔
”کیا آپ نے پولیس کو فون کیا ہے؟”
”نہیں… میں تو کچھ سمجھ ہی نہیں پا رہی… ابھی میں چند منٹ پہلے ہی اٹھی ہوں۔۔۔”
”پتا نہیں اصغر کہاں ہے؟” علیزہ نے چوکیدار کا نام لیا۔ ”میں لاؤنج میں جا کر اس سے انٹر کام پر فائرنگ کے بارے میں پوچھتی ہوں… ہو سکتا ہے یہ ہمارے گھر کے باہر نہ ہو رہی ہو۔” علیزہ نے کسی امید کے تحت کہا۔
”ٹھہرو میں بھی تمہارے ساتھ چلتی ہوں، مجھے ٹارچ نکال لینے دو۔” نانو نے اسے روکتے ہوئے کہا۔ فائرنگ ابھی بھی اسی طرح جا ری تھی، اس کی شدت میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔
نانو اب خاموش تھیں۔ وہ کمرے میں ٹارچ ڈھونڈنے کی کوشش کر رہی تھیں۔
”نانو پلیز، جلدی کریں۔ اگر ٹارچ نہیں مل رہی تو رہنے دیں۔ کچن سے ٹارچ لے لیں گے یا پھر اسی طرح لاؤنج میں چلتے ہیں۔” علیزہ نے بے صبری سے کہا۔
”نہیں مل گئی ہے مجھے۔” نانو نے اسی وقت ٹارچ روشن کر دی۔ کمرے کی تاریکی یک دم ختم ہو گئی۔
وہ نانو کے ساتھ چلتے ہوئے لاؤنج میں آگئی۔ انٹر کام کا ریسیور اٹھا کر اس نے گیٹ پر چوکیدار کے کیبن میں اس سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی۔ وہ کامیاب نہیں ہو سکی۔
”کیا ہوا؟” نانو نے بے تابی سے پوچھا۔
”میں یہ تو بھول ہی گئی تھی لائٹ نہیں ہے۔ انٹر کام کیسے کام کر سکتا ہے۔” علیزہ نے پریشانی کے عالم میں کہا۔
”کیا باہر نکل کر اسے دیکھیں۔”
وہ کہتے کہتے رک گئی۔” علیزہ بی بی! آپ باہر مت آئیے گا۔” پیچھے سے خانساماں کی آواز آئی تو وہ چونک کر مڑی۔
”کیوں؟”
”ہمارے گھر پر فائرنگ ہو رہی ہے۔”
”ہمارے گھر پر؟” اس کا دل اچھل کر حلق میں آگیا۔
”ہاں، میں کچھ دیر پہلے باہر نکلا تھا مگر اصغر نے مجھے واپس بھجوا دیا۔” خانساماں نے چوکیدار کا نام لیا۔
”فائرنگ کون کر رہا ہے؟” علیزہ نے پوچھا۔
”یہ تو نہیں پتا… مگر اصغر کہہ رہا تھا کہ باہر کوئی گاڑی ہے اور کچھ لوگوں نے دیوار پھلانگنے کی کوشش بھی کی۔ وہ اندر آنا چاہ رہے تھے۔ کتوں کے بھونکنے پر اصغر نے انہیں دیکھ لیا اور وہ اندر نہیں آئے مگر اس کے بعد سے وہ مسلسل فائرنگ کر رہے ہیں۔ اصغر بھی ان پر جوابی فائرنگ کر رہا ہے۔ مگر وہ لوگ تعداد میں زیادہ ہیں اور ابھی تک گیٹ کے باہر موجود ہیں۔ا نہوں نے گیٹ پر بھی بری طرح فائرنگ کی ہے۔ ” وہ مرید بابا کی آواز میں لرزش محسوس کر سکتی تھی۔
”ہمارے گھرکے علاوہ ارد گرد کے تمام گھروں میں لائٹ موجود ہے۔ شاید انہوں نے بجلی کی سپلائی کاٹ دی ہے۔ اصغر خوفزدہ ہے کہ کہیں وہ اندر نہ آجائیں۔ اندھیرے میں وہ انہیں دیکھ نہیں سکے گا۔”
”مرید بابا! میں ابھی پولیس کو فون کرتی ہوں۔ آپ گھبرائیں مت، بس اپنے کوارٹر میں ہی رہیں۔”
علیزہ نے اپنے حواس پر قابو پانے کی کوشش کی۔
”علیزہ،! یہ کیا ہو رہاہے؟” نانو بے حد خوفزدہ تھیں۔
”ہمیں پولیس کو فون کرنا چاہئے۔ ابھی پولیس آجائے گی، سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔”
علیزہ نے انٹر کام بند کر دیا اور تیزی سے فون کی طرف بڑھی۔ ٹیلی فون کا ریسیور اٹھاتے ہی وہ ساکت ہو گئی۔
”کیا ہوا؟ … فون ملاؤ۔”
”نانو! فون ڈیڈ ہے، شاید کسی نے فون کی تار کاٹ دی ہے۔” اس نے کانپتے ہاتھ کے ساتھ ریسیور واپس رکھتے ہوئے کہا۔
”اور میرا موبائل بھی کام نہیں کر رہا، اس کا کارڈ ختم ہو چکا ہے۔”
”میرے خدا اب کیا ہو گا؟ اگر یہ لوگ اندر آگئے تو ؟” نانو اپنے قدموں پر کھڑی نہیں رہ سکیں۔ وہ صوفے پر بیٹھ گئیں۔
”نہیں ، وہ اندر کیسے آئیں گے؟ پورا علاقہ جاگ چکا ہے… اتنی فائرنگ ہو رہی ہے۔ ابھی کچھ دیر میں ساتھ والے گھروں کے چوکیدار بھی باہر نکل آئیں گے۔ پھر تو یہ لوگ بھاگ جائیں گے۔” علیزہ نے اپنے خشک ہوتے ہوئے حلق کے ساتھ کہا۔
”بے وقوفی کی باتیں مت کرو علیزہ۔” نانو نے اسے ڈانٹا ”کون اپنے گھر سے اتنی بے تحاشا فائرنگ میں باہر نکلے گا؟ کوئی نہیں۔۔۔”
”مگر نانو! وہ لوگ پولیس کو ضرور اطلاع کر دیں گے، بلکہ ہو سکتا ہے اب تک وہ پولیس کو انفارم کر چکے ہوں۔ ابھی پولیس آنے والی ہی ہو گی۔”
علیزہ نے کہا۔ نانو اس کی بات کے جواب میں کچھ کہنے کے بجائے خاموش رہیں۔
ٹارچ کی مدہم روشنی میں بے تحاشا فائرنگ اور کتوں کے بھونکنے کی آوازوں میں ، وہ چند لمحے دم سادھے ایک دوسرے کو دیکھتی رہیں۔
”یہ سب عمر کی وجہ سے ہوا۔ اس نے پولیس گارڈ کیوں ہٹا لی ہے۔” نانو اچانک غصیلی آواز میں بولیں۔ ”شام کو پولیس گارڈ ہٹی اوراب ہم یہ سب بھگت رہے ہیں۔”
علیزہ کچھ نہیں بول سکی، وہ کچھ چور سی بن گئی۔ وہ انہیں بتا نہیں سکتی تھی کہ یہ سب کچھ خود اس کی وجہ سے…
نانو ایک دم اٹھ کر کھڑی ہو گئیں۔ ” میں مرید سے بات کرتی ہوں۔ وہ کچھ کرے۔”
وہ ٹارچ پکڑے باہر کی طرف بڑھیں، علیزہ خاموشی سے انہیں جاتا دیکھتی رہی۔ نانو اب مرید بابا سے بات کر رہی تھیں۔
”تم کسی طرح کوارٹر سے باہر نکل کرساتھ والے گھر کی دیوار پھلانگ کر ان کے ہاں جانے کی کوشش کرو۔ انہیں ساری صورت حال بتاؤ۔”

علیزہ نے اچانک ان کے پاس آتے ہوئے ان کی بات کاٹی۔
”مگر نانو! مرید بابا کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ اگر ساتھ والوں کے چوکیدار نے ان پر فائرنگ کر دی تو… اور وہاں بھی تو کتے موجود ہیں۔”
”تو پھر کیا کیا جائے۔ آخر کتنی دیر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھا جا سکتا ہے۔ ” نانو نے اسے جواب دیا
علیزہ ان کی گھبراہٹ اور پریشانی کا اندازہ کر سکتی تھی۔ وہ خود بھی ان ہی کیفیات سے دوچار تھی مگر وہ پھر بھی سوچ رہی تھی کہ چند منٹوں کے بعد پولیس کسی نہ کسی طرح وہاں آجائے گی اور سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ چند دن پہلے ہونے والے واقعہ نے اگر ایک طرف اسے خوف اور سراسمیگی سے دوچار کیا تھا تو دوسری طرف وہ یہ بھی جان گئی تھی کہ اسے مضبوط پشت پناہی حاصل ہے اور ایسی کسی صورتِ حال میں وہ کسی عام شہری کی طرح غیر محفوظ نہیں تھی اس لئے پریشان ہونے کے باوجود وہ پچھلی بار کی طرح سراسمیگی کا شکار نہیں تھی۔
”پتا نہیں اور کیا کیا مصیبت ابھی باقی ہے۔” نانو نے صوفے کی طرف جاتے ہوئے کہنا شروع کیا۔ ”اچھی بھلی زندگی گزر رہی تھی اور اب اچانک۔۔۔”
انہوں نے بات ادھوری چھوڑ دی اور سر پکڑے ہوئے صوفہ پر بیٹھ گئیں۔ علیزہ ان کی ادھوری بات بہت اچھی طرح سمجھ گئی۔ وہ جانتی تھی کہ یہ کچھ اسی کی وجہ سے ہو رہا تھا اور پچھلے کچھ دنوں سے نانو کے لئے وہی کسی نہ کسی طرح پریشانی کا باعث بن رہی تھی۔
اسے اندازہ نہیں تھا کہ پولیس گارڈ ہٹائے جاتے ہی اس طرح کی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، اس کا خیال تھا کہ عباس اور عمر ضرورت سے زیادہ احتیاط کا مظاہرہ کر رہے تھے اور اس کی قطعاً ضرورت نہیں تھی… مگر اس وقت وہاں بیٹھے، وہ دل ہی دل میں اعتراف کر رہی تھی کہ وہ بہت سے معاملات میں ضرورت سے زیادہ امیچیور تھی۔
اگر اسے معمولی سا شائبہ بھی ہوتا کہ اسے ایسی کسی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ تو وہ عمر کو کبھی پولیس گارڈ ہٹانے نہ دیتی۔ اگرچہ وہ جانتی تھی کہ پولیس گارڈ ہٹانے کی واحد وجہ اس کی اپنی ذات تھی۔ اگر وہ جسٹس نیاز کو فون نہ کرتی تو شاید سب کچھ پہلے ہی کی طرح رہتا۔ وہ اس قدر غیر محفوظ نہ ہوتی مگر ان تمام اعترافات کے باوجود وہ اس وقت وہاں پر بالکل بے بس بیٹھی ہوئی تھی۔
باہر ہونے والی فائرنگ یک دم بند ہو گئی۔ وہ دونوں چونک گئیں۔ کتوں کے بھونکنے کی آوازیں ابھی بھی پہلے کی طرح آرہی تھیں۔ مگر فائرنگ کی آواز بند ہو گئی تھی۔
”مجھے لگتا ہے وہ لوگ چلے گئے ہیں۔” علیزہ نے غیر معمولی پر امیدی سے کہا۔
”ہاں شاید ۔۔۔” نانو نے مدہم آواز میں کہا۔ وہ باہر کان لگائے بیٹھی تھیں۔
”میں مرید بابا سے بات کرتی ہوں۔ وہ باہر نکل کر دیکھیں کہ چوکیدار کہاں ہے۔ ” علیزہ نے باہر کی طرف جاتے ہوئے کہا۔ نانو خاموش رہیں۔
اسی وقت لاؤنج کے دروازے کے بیرونی جانب کچھ آہٹیں ابھریں، وہ دونوں یک دم چونک گئیں۔
”میرا خیال ہے مرید بابا اور چوکیدار آئے ہیں… وہ لوگ یقیناً بھاگ گئے ہیں۔” علیزہ نے کچھ مطمئن ہوتے ہوئے کہا۔ وہ بے اختیار لاؤنج کے دروازسے کی طرف گئی اس سے پہلے کہ وہ دروازہ کھول دیتی۔ نانو نے اسے روک دیا۔
”دروازہ مت کھولو، پہلے تصدیق کر لو کہ باہر چوکیدار یا مرید ہی ہے۔”
نانو نے دبی آواز میں کہا۔ علیزہ رک گئی۔ دروازے سے کچھ فاصلے پر رک کر اس نے دروازے کی طرف دیکھا۔ دروازے کی دوسری جانب کچھ مدہم آوازیں ابھر رہی تھیں مگر ان میں سے کوئی آوز بھی شناسا نہیں تھی۔ پھر کسی نے دروازے کی ناب پر ہاتھ رکھ کر اسے گھمایا۔ علیزہ کے پورے جسم میں سنسناہٹ ہونے لگی۔ مرید بابا یا اصغر اگر دروازے کے دوسری طرف موجود ہوتے تو وہ کبھی اس طرح دروازہ کھولنے کی کوشش نہ کرتے۔ وہ بلند آواز میں اجازت لیتے۔
اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے اس نے خوف کے عالم میں پلٹ کر نانو کو دیکھا۔ وہ بھی صوفے پر بالکل ساکت بیٹھی تھیں۔
”باہر کون ہے؟” علیزہ نے یک دم اپنی آواز کی لڑکھڑاہٹ پر قابو پاتے ہوئے بلند آواز میں کہا۔ دروازے کے باہر یک دم خاموشی چھا گئی۔
”باہر کون ہے؟” اس نے ایک بار پھر بلند آواز میں کہا اس بار بھی کسی نے جواب نہیں دیا۔ وہ یک دم بدک کر نانو کی طرف گئی۔
”اب کیا ہو گا نانو؟ وہ لوگ اندر آچکے ہیں… اور پتا نہیں… پتا نہیں انہوں نے چوکیدار اور مرید بابا کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے؟”
اس نے نانو کے قریب جا کر دبی ہوئی آواز میں کہا۔ نانو نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
”پتا نہیں اب کیا ہو گا؟”
”اگریہ لوگ دروازہ کھول کر اندر آگئے تو؟”
”علیزہ ہمیں لاؤنج سے چلے جانا چاہئے۔” نانو نے دبی ہوئی آواز میں سرگوشی کی۔
”کہاں چلے جانے چاہئے؟”
”اندر… اندر کسی کمرے میں۔”
”نانو! وہ وہاں بھی آجائیں گے… ہم کہاں چھپیں گے… وہ ہمیں ڈھونڈ لیں گے۔” وہ اب روہانسی ہو رہی تھی۔
دروازے پر ایک بار پھر آوازیں گونج رہی تھیں۔ ناب کو ایک مرتبہ پھر گھمایا جا رہا تھا۔ پھر باہر سے ایک بھاری اور بلند مردانہ آواز میں کسی نے کہا۔
”ہم لوگ جانتے ہیں اندر صرف تم دونوں ہو… ہم صرف علیزہ کو یہاں سے لے جانے کے لئے آئے ہیں… اور اسے نقصان نہیں پہنچائیں گے… بہتر ہے تم دونوں دروازہ کھول دو… ورنہ ہم دروازہ توڑ دیں گے۔”
درشتی اور کرختگی سے کہے گئے، ان جملوں نے اندر موجود دونوں عورتوں کے باقی ماندہ حواس بھی گم کر دیئے تھے۔
”میرا نام… یہ میرا نام کیسے جانتے ہیں؟ ” علیزہ نے خوف اور بے یقینی کے عالم میں کہا۔
”ان کو کس نے بھیجاہے…؟ یا اللہ… علیزہ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟” نانو یک دم اٹھ کر کھڑی ہو گئیں۔
”ہمیں بیسمنٹ میں چلے جانے چاہئے۔ یہ لوگ وہاں نہیں آسکیں گے۔ جلدی کرو۔” وہ علیزہ کا ہاتھ پکڑ کر کھینچنے لگیں۔
”جب تک پولیس نہیں آجائے ہم وہیں چھپے رہیں گے۔” تیزی سے اس کے ساتھ چلتے ہوئے نانو نے کہا۔ وہ ماؤف ہوتے ہوئے ذہن کے ساتھ نانو کی ہدایت پر بلا چوں و چرا عمل کر رہی تھی۔
تہہ خانہ کا دروازہ اندر سے لا ک کرنے کے بعد نانو نے ٹارچ اندر سے بجھا دی۔ وہ تاریکی میں۔ ایک پرانے صوفہ پر بیٹھ گئیں۔ جو وہاں پڑا ہوا تھا۔ وہاں بہت پرانا سامان پڑا ہوا تھا اور وہ ایسے سامان کو اسٹور کرنے کے لئے ہی کام میں لایا جا رہا تھا۔ وہاں بیٹھ کر وہ اوپر گھر میں ہونے والی کسی کارروائی کو جان نہیں سکتی تھیں۔
علیزہ کا ذہن اب بھی اس شخص کے کہے جانے والے جملے میں اٹکا ہوا تھا۔
”ہم علیزہ کو لینے آئے ہیں۔ میرا نام… میرا ایڈریس… آخر کس لئے… یہ کون لوگ ہیں؟” اسے اپنا آپ کسی مکڑی کے جال میں پھنسا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ چند دن پہلے کی پر سکون زندگی یک دم جیسے قصۂ پارینہ بن گئی تھی اور اب… اب آگے اور کیا ہونے والا تھا۔
”یہ کون لوگ ہوسکتے ہیں۔ علیزہ؟ ” نانو کی متفکر آواز میں اندھیرے میں گونجی۔
”میں نہیں جانتی نانو…! میں کیا بتا سکتی ہوں۔” اس نے اپنے سر کو دونوں ہاتھوں میں پکڑے ہوئے کہا۔
”وہ لوگ تمہارا نام لے رہے تھے۔”
”ہاں، میری یہی تو سمجھ میں نہیں آرہا کہ وہ میرا نام کیوں لے رہے تھے۔ مجھے کیسے اور کس حوالے سے جانتے ہیں۔” اندھیرے میں وہ ایک دوسرے کو دیکھ نہیں سکتی تھیں مگر ان کی آوازیں ان کی کیفیات کو ظاہر کرنے کے لئے کافی تھیں۔
”یہ سب عمر اور عباس کی وجہ سے ہوا… یہ لوگ یقیناً ان چاروں لڑکوں میں سے کسی فیملی کے بھجوائے ہوئے ہیں۔” وہ یک دم مشتعل ہو کر بولی۔ ” نہ وہ ان چاروں کو قتل کرتے نہ یہ لوگ یہاں اس طرح میرے پیچھے آتے۔”
”عمر اور عباس نے تمہیں بچانے کے لئے سب کچھ کیا۔”
”کیا بچایا ہے انہوں نے… جو بات چند گھنٹوں میں ایک ایف آئی آر کے ساتھ ختم ہو سکتی تھی۔ وہ اب مجھے اس طرح اپنی زندگی بچانے کے لئے یہاں چھپنے پر مجبور کر رہی ہے۔ کیا حفاظت کی ہے ان دونوں نے میری۔”
اس کا خوف اب مکمل طور پر اشتعال میں تبدیل ہو گیا تھا۔
”نہ یہ لوگ انہیں قتل کرتے نہ کوئی اس طرح بدلہ لینے کے لئے مجھے ٹریس آؤٹ کرتا… یہ سب ان کی وجہ سے ہوا۔” وہ عباس اور عمر کو مورد الزام ٹھہرا رہی تھی۔
”اوپر سے پولیس گارڈ بھی ہٹا لی۔۔۔” اس نے بے بسی سے بات ادھوری چھوڑ دی۔ ”انہیں سوچنا چاہئے تھا کہ یہ آخر مجھے کب تک اور کہاں تک تحفظ دے سکتے ہیں، مجھے ان ہی چیزوں سے خوف آتا ہے جو اب بھوت بن کر میرے سامنے کھڑی ہیں۔”
”وہ دونوں تمہارے دشمن نہیں ہیں۔” نانو نے ان دونوں کے دفاع کی کوشش کی۔
”دشمن نہیں تو وہ میرے دوست بھی ثابت نہیں ہوئے۔”
اس نے درشتی سے کہا۔ نانو کی طرف سے ان دونوں کے لئے حمائیت اس وقت اسے بری طرح مشتعل کر رہی تھی۔
”پتا نہیں انہوں نے چوکیدار اور مرید بابا کے ساتھ کیا کیا ہے؟” اسے بات کرتے کرتے اچانک ان دونوں کا خیال آیا۔
”پولیس کو اب تک آجانا چاہئے تھا… آخر اتنی فائرنگ ہوئی ہے اس علاقے میں اور پھر ساتھ والے سارے گھروں نے بھی پولیس کو رنگ کیا ہو گا… پھر بھی پتا نہیں ابھی تک پولیس کیوں نہیں آرہی۔” نانو کو اچانک ایک دوسری تشویش ستانے لگی۔
”اگر پولیس نہ آئی تو؟”
”تو…تو… پتا نہیں کیا ہو گا؟” نانو کے سوال نے اس کے خوف کو پھر بیدار کر دیا۔
”آخر ہم یہاں کب تک بیٹھے رہیں گے؟” کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد نانو نے کہا۔
”ہم باہر کیسے نکل سکتے ہیں… اگر وہ لوگ وہاں ہوئے تو…؟”
وہ ہمیں پورے گھر میں ڈھونڈ رہے ہوں گے اگر ہم انہیں وہاں نہ ملے تو۔۔۔” علیزہ بات کرتے کرتے خاموش ہو گئی۔
”تو وہ پھر شاید یہی سوچیں گے کہ ہم کسی بیسمنٹ میں ہیں… اور… اور پھر… وہ لوگ شاید یہاں پہنچ جائیں گے۔”
علیزہ نے اپنے ہاتھ کی مٹھیاں بار بار کھولنی اور بند کرنی شروع کر دیں۔ اس کے ہاتھوں اور پیروں کی لرزش بڑھتی جا رہی تھی۔
”میں نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ مجھے زندگی میں ایسی صورت حال کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔” نانو نے اس بار دھیمی آواز میں کہا۔ علیزہ چپ چاپ تاریکی کو گھورتی رہی۔ اس کے کان باہر سے آنے والی کسی بھی آواز پر لگے ہوئے تھے۔
”Its Terrible” (یہ کس قدر ہولناک ہے) اس نے نانو کی بات کا جواب نہیں دیا۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ چند دن پہلے کے واقعات اتنی جلدی دہرائے جائیں گے اور پہلے سے زیادہ بدتر انداز میں۔
نانو اب خاموش ہو گئی تھیں۔ شاید وہ علیزہ کی کیفیات کو سمجھ رہی تھیں۔
وہ دونوں وہاں کتنی دیر چپ چاپ بیٹھی رہیں، انہیں اندازہ نہیں ہوا مگر یہ ضرور جانتی تھیں کہ انہیں وہاں بیٹھے کئی گھنٹے گزر گئے تھے۔
پھر اچانک انہوں نے تہہ خانے کے دروازے پر کچھ آہٹیں اور آوازیں سنیں۔ علیزہ نے بے اختیار نانو کا ہاتھ پکڑ لیا۔ نانو اس کی ہاتھ کی کپکپاہٹ اور ٹھنڈک کو محسوس کر سکتی تھیں۔
”نانو…!” اس کی آواز بھی اسی طرح لرز رہی تھی۔ وہ کیا کہنا چاہتی تھی، نانو اچھی طرح سمجھ سکتی تھیں۔ تہہ خانے کے دروازے کو اب کوئی کھولنے کی کوشش کر رہا تھا۔ وہ دونوں دم سادھے بیٹھی رہیں۔ پھر علیزہ نے ایک بلند آواز سنی۔
”گرینی اندر ہیں آپ؟” وہ عباس تھا۔
”یا اللہ ! ” نانو کے منہ سے نکلا۔ علیزہ کا رکا ہوا سانس دوبارہ چلنے لگا۔
”عباس آگیا ہے… پولیس پہنچ گئی ہو گی۔ آؤ، اب یہاں سے نکلتے ہیں۔” علیزہ نے نانو کو کھڑا ہوتے ہوئے محسوس کیا۔ وہ بھی ان کے ساتھ کھڑی ہو گئی۔ نانو نے ہاتھ میں پکڑی ہوئی ٹارچ جلا دی۔ تہہ خانے کا اندھیرا ایک دم غائب ہو گیا۔
ٹارچ کی روشنی میں چلتے ہوئے وہ دونوں دروازے تک پہنچیں اور انہوں نے دروازہ کھول دیا۔ عباس دروازے کے بالکل سامنے تھا۔ گھر میں اب روشنی تھی، شاید بجلی کی کٹی ہوئی تاریں جوڑ دی گئی تھیں۔
عباس اور علیزہ کے درمیان خاموش نظروں کا تبادلہ ہوا پھر عباس نے نانو کا ہاتھ پکڑ لیا۔
”آپ ٹھیک ہیں؟”
”ہاں، میں ٹھیک ہوں۔ خدا کا شکر ہے۔ وہ لوگ چلے گئے۔”
”ہاں، پولیس کے آنے سے پہلے ہی چلے گئے۔”
اس نے علیزہ کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا تھا۔ یوں جیسے وہ وہاں موجود ہی نہیں تھی۔ وہ وجہ جانتی تھی۔
”کون لوگ تھے وہ؟” عباس اب نانو سے پوچھ رہا تھا۔
نانو نے ایک بار پلٹ کر علیزہ کو دیکھا۔ عباس نے ان کی نظروں کا تعاقب کیا۔ علیزہ کے چہرے کی رنگت کچھ تبدیل ہو گئی ۔ نانو شاید کسی کش مکش کا شکار تھیں۔
”وہ… وہ… اوہ یا اللہ … ان لوگوں نے کیا کیا ہے؟” نانو عباس کی بات کا جواب دیتے ہوئے یک دم اس کمرے کی چیزوں کو دیکھنے لگیں جو ادھر ادھر بکھری ہوئی تھیں۔
”پورے گھر کا یہی حال ہے۔” عباس نے نانو کو اطلاع دی۔ علیزہ باکل شاکڈ تھی۔
”تم کب یہاں آئے؟”
”میں آدھ گھنٹہ پہلے پہنچا ہوں یہاں پر۔”
”مرید اور اصغر کہاں ہیں؟” نانو کو اچانک یاد آیا۔
”اصغر تو زخمی ہے۔ اس کے بازو پر گولی لگی ہے…اور مرید کو باندھ کر انہوں نے کوارٹر میں بند کر دیا تھا۔ پولیس نے آکر اسے وہاں سے نکالا ہے۔” عباس نانو کے ساتھ چلتے ہوئے بتا رہا تھا۔
”یہ لوگ اندر کیسے آگئے؟”
”لاؤنج کے دروازے کا لاک ٹوٹا ہوا تھا۔ وہیں سے آئے تھے۔ آپ نے بہت اچھا کیا کہ بیسمنٹ میں چھپ گئیں۔ میں تو یہاں آتے ہی پریشان ہو گیا تھا، پہلے تو مجھے یہی خیال آیا کہ شاید وہ لوگ آپ کو اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔ کیونکہ گھر میں کوئی نہیں تھا، مگر پھر مجھے بیسمنٹ کا خیال آیا اور میں نے اسے چیک کرنا ضروری سمجھا۔” وہ اب بھی علیزہ کو مکمل طورپر نظر انداز کئے ہوئے تھے۔
وہ لوگ اب لاؤنج میں داخل ہو گئے تھے۔ گھر میں جگہ جگہ پولیس والے فنگر پرنٹس لے رہے تھے۔
”فون اور بجلی کی تاریں کٹی ہوئی تھیں جب میں یہاں آیا سب سے پہلے تو میں نے انہیں ہی ٹھیک کروایا۔ وہ کون لوگ تھے گرینی…! کیا آپ کو کچھ اندازہ ہے؟” عبا س نے بات کرتے کرتے ایک بار پھر پوچھا۔
نانو نے ایک بار پھر علیزہ کو دیکھا ”پتا نہیں” ان کی آواز مدہم تھی۔
عباس نے بھی علیزہ کو دیکھا۔ اس کے چہرے کے تاثرات بہت عجیب تھے۔ اس پر ایک نظر ڈالنے کے بعد وہ پھر سے نانو کی طرف متوجہ ہو گیا۔
”دو گاڑیوں میں آئے تھے وہ لوگ… آٹھ دس تو ضرور ہوں گے۔ تین چار کو تو اصغرنے بھی دیکھا تھا۔ باؤنڈری والاگیٹ تو انہوں نے فائرنگ سے مکمل طور پر تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔”
وہ لاؤنج میں کھڑا نانو کو بتاتا رہا۔ علیزہ اس کے چہرے پر نظر ڈالے بغیر اس کی بات سنتی رہی۔
”پولیس ابھی تک باہر سے گولیاں اکٹھی کر رہی ہے۔”
”یہ سب عمر کی وجہ سے ہوا۔ وہ پولیس گارڈ نہ ہٹاتا تو یہ سب نہ ہوتا۔”
علیزہ نے پہلی بار گفتگو میں مداخلت کی۔ اس کی آواز میں اشتعال تھا۔ عباس نے بہت سرد نظروں سے اسے دیکھا۔
”عمر نے آخر پولیس گارڈ کیوں اس طرح اچانک ہٹائی…؟ اسے احساس ہونا چاہئے تھا۔” نانو نے بھی کچھ برہم ہوتے ہوئے کہا۔
عباس نے یک دم ان کی بات کاٹ دی۔
”اس سے پوچھیں کہ عمر نے پولیس گارڈ کیوں ہٹا دی۔” اس نے علیزہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ علیزہ ساکت ہو گئی۔
”علیزہ سے؟” نانو نے حیران ہو کر کہا ”علیزہ کا اس سے کیا تعلق ہے… پولیس گارڈ تو عمر نے ہٹائی ہے۔”
”عمر آرہا ہے… چند منٹوں تک یہیں ہو گا، اس سے پوچھ لیجئے گا کہ اس نے پولیس گارڈ کیوں ہٹائی۔” عباس نے نانو سے کہا۔
”علیزہ ! کیا تم نے عمر سے گارڈ ہٹانے کے لئے کہا تھا؟” نانو نے اچانک مڑ کر علیزہ سے پوچھا۔
”نہیں نانو! میں نے اس سے گارڈ ہٹانے کے لئے نہیں کہا۔”
اس نے مدھم آواز میں سر جھکائے ہوئے کہا۔ اس سے پہلے کہ نانو کچھ کہتیں۔ عباس نے اچانک لاؤنج میں موجود پولیس کے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
”باقی کام کل کرنا… اب سب کچھ رہنے دو۔” وہ لوگ اپنا سامان سمیٹنے لگے۔
”علیزہ تو۔۔۔” نانو نے کچھ کہنے کی کوشش کی مگر عباس نے ایک بار پھر ان کی بات کاٹ دی۔
”عمر کو آجانے دیں۔ اس کے بعد بات ہو گی۔”
نانو الجھی ہوئی نظروں سے علیزہ کو دیکھتے ہوئے لاؤنج کے صوفہ پر بیٹھ گئیں۔ لاؤنج میں موجود پولیس والے آہستہ آہستہ اپنا سامان اٹھاتے ہوئے وہاں سے نکلنے لگے۔ عباس بھی ان کے ساتھ وہاں سے نکل گیا۔
پانچ منٹ کے بعد وہ دوبارہ اندر داخل ہوا، اس بار اس کے ساتھ عمر بھی تھا۔ علیزہ اس وقت نانو کے ساتھ صو فہ پربیٹھی ہوئی آنے والے وقت کے لئے خود کو تیار کر رہی تھی۔
عباس نے اندر داخل ہوتے ہی لاؤنج کا دروازہ اندر سے بند کر لیا۔
”تو علیزہ بی بی ! کیا کرنا چاہتی ہیں آپ؟”
عباس نے اس کے بالمقابل صوفہ پر بیٹھے ہوئے کہا۔ اس نے سر اٹھا کر اسے اور عمر کو دیکھا۔ سرد مہری اور سنجیدگی کے علاوہ ان دونوں کے چہرے پر اور کچھ بھی نہیں تھا۔
فون پر عباس سے بات کرنا اور بات تھی۔ آمنے سامنے اس سے کچھ کہنا دوسری بات… اور وہ بھی ان حالات میں جس میں وہ گرفتار تھی۔ وہ عمر نہیں تھا جس پر وہ چلا لیتی۔ اس کی بات کے جواب میں کچھ بھی کہنے کے بجائے اس نے سر جھکا لیا۔ وہ جانتی تھی اب نانو سب کچھ جان جائیں گی۔ پچھلے دن عمر کے ساتھ ہونے والی اس کی گفتگو اور اس کے بعد جسٹس نیاز کے سامنے کیا جانے والا انکشاف۔
”میں نے تم سے کچھ پوچھا ہے؟” اس کی آواز میں اب کچھ تیزی تھی۔
”میں… میں کیا کرنا چاہتی ہوں؟” اس نے بمشکل کہا۔
”کل فون پر کچھ کہہ رہی تھیں تم مجھ سے؟” علیزہ نے نانو کی طرف دیکھا۔ وہ اسی کو دیکھ رہی تھیں۔ علیزہ کی سمجھ میں نہیں آیا۔ وہ عباس کی بات کے جواب میں کیا کہے۔ اس کا غصہ اور اشتعال یک دم جھاگ کی طرح بیٹھ گیا تھا۔
”اب خاموش کیوں ہو تم؟” عباس نے ایک بار پھر تلخی سے کہا۔
”آپ کیا پوچھنا چاہتے ہیں مجھ سے؟” اس نے سر اٹھایا۔
”وہی سب کچھ جو تم فون پر مجھ سے کہہ رہی تھیں۔” عباس نے اسے گھورتے ہوئے کہا۔
”جو کچھ میں نے آپ سے فون پر کہا۔ مجھے اس پر کوئی شرمندگی نہیں ہے۔” اس نے عباس سے نظریں ملائے بغیر کہا۔
”اور جو کچھ تم نے جسٹس نیاز سے کہا…؟”
”مجھے اس پر بھی کوئی شرمندگی نہیں ہے۔”
”جسٹس نیاز… کیا علیزہ نے جسٹس نیاز سے کچھ کہا ہے؟” نانو بے اختیار چونکیں۔
”کچھ؟… سب کچھ گرینی ! یہ انہیں فون پر سب کچھ بتا چکی ہے۔ کس طرح میں نے اور عمر نے ان کے بیٹے اور اس کے دوستوں کو مارا… کیوں مارا؟ سب کچھ۔”
”علیزہ؟” نانو کو جیسے عباس کی بات پر یقین نہیں آیا۔
عباس یک دم ہونٹ بھینچتے ہوئے اپنے صوفہ سے اٹھا اور اس نے ایک جھٹکے کے ساتھ علیزہ کے ہاتھ پکڑ کر اسے بھی اس کی جگہ سے اٹھادیا۔ علیزہ عباس کی اس حرکت کے لئے تیار نہیں تھی۔ وہ اسی طرح اسے بازو سے کھینچتے ہوئے لاؤنج کے دروازے کی طرف جانے لگا۔
”عباس! اسے کہاں لے کر جا رہے ہو؟” نانو نے مداخلت کرنے کی کوشش کی۔
”کہیں نہیں گرینی! ابھی واپس لے آتا ہوں۔ آپ اطمینان سے بیٹھیں۔”
اس نے علیزہ کی مزاحمت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کہا۔ جو اب اس سے اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کر رہی تھی۔ وہ دروازہ کھول کر اسی طرح اسے کھینچتے ہوئے باہر لے آیا۔
”عباس بھائی! میرا ہاتھ چھوڑ دیں۔ آپ کہاں لے کر جانا چاہتے ہیں مجھے؟” عباس نے یک دم اس کا ہاتھ چھوڑ دیا۔
”کہیں نہیں لے کر جانا چاہتا تمہیں۔ میں تمہیں صرف باہر کی دیوار اور وہ گولیاں دکھانا چاہتا ہوں جو چند گھنٹوں میں یہاں برسائی گئی ہیں۔ تمہیں دیکھنا چاہئے، تمہاری حماقت کی وجہ سے کیا ہوا ہے؟”
”مجھے کچھ نہیں دیکھنا۔” علیزہ نے واپس اندر جانے کی کوشش کی۔
عباس نے ایک بار پھر اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور اسے کھینچتے ہوئے گیٹ کی طرف لے جانے لگا۔
”کیوں نہیں دیکھنا جو چیز تمہاری وجہ سے ہوئی ہے۔ اسے دیکھنا چاہئے تمہیں۔” وہ کہہ رہا تھا۔ علیزہ نے مزاحمت ختم کر دی۔ اس کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔
گیٹ کی طرف جاتے ہوئے اس نے بہت دور سے گیٹ پر بے شمار چھوٹے چھوٹے سوراخ دیکھ لیے تھے۔ وہ سوراخ کس چیز کے تھے، اسے پوچھنے کی ضرورت نہیں تھی۔ گیٹ تھوڑا سا کھلا ہوا تھا اور اس کے باہر پولیس کی دو گاڑیاں موجود تھیں۔ گیٹ پر موجود پولیس والے عباس کو آتا دیکھ کر مستعد ہو گئے تھے۔ علیزہ کی شرمندگی میں پہلے سے زیادہ اضافہ ہو گیا۔ عباس اب خاموش تھا مگر وہ اب بھی اس کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھا۔
گیٹ کے باہر جاتے ہوئے اس نے انگلش میں علیزہ سے کہا۔
”دروازے بند کرکے گھر کے اندر بیٹھے ہوئے باتیں کرنا، بہت آسان ہوتا ہے۔ تمہاری طرح ہر ایک کو اخلاقیات یاد آسکتی ہیں۔ یہاں کھڑے ہو کر اس دیوار کو دیکھو اور پھر سوچو کہ دیوار کی جگہ تم ہوتیں تو۔”
اس نے عباس کی بات کے جواب میں کچھ بھی نہیں کہا۔ وہ صرف خاموشی سے باؤنڈری وال کو دیکھتی رہی جو بری طرح مسخ ہو چکی تھی۔ باہر لگے ہوئے آرائشی پتھر کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ادھر ادھر پڑے ہوئے تھے۔ رات کو فلڈ لائٹس کی روشنی میں وہ دیوار اور گیٹ جتنا خوفناک لگ رہا تھا۔ دن کے وقت اس سے زیادہ لگتا۔
”تمہارے لئے صرف ایک گولی کافی تھی۔” وہ مدھم آواز میں انگلش میں بولا۔ شاید وہ اردگرد موجود دوسرے لوگوں کی وجہ سے احتیاط کر رہا تھا۔ علیزہ کچھ بول نہیں سکی۔ وہ اب اس کا ہاتھ چھوڑ چکا تھا۔
”اندر آؤ۔” وہ درشتی سے اس سے کہتے ہوئے واپس گیٹ کی طرف مڑ گیا۔
علیزہ نے اسی خاموشی کے ساتھ سر جھکائے ہوئے اس کی پیروی کی۔ اس نے گیٹ کے اندر آکر اس سے کچھ نہیں کہا۔ تیز قدموں کے ساتھ وہ اندر جا رہا تھا۔علیزہ سر جھکائے اس کے پیچھے چلتی رہی۔

آگے پیچھے چلتے ہوئے جب وہ لاؤنج میں پہنچے تو نانو اور عمر ابھی بھی وہیں بیٹھے ہوئے تھے۔ نانو کے چہرے پر تشویش تھی جبکہ عمر کے ہاتھ میں اس وقت پائن ایپل کا ایک ٹن تھا اور وہ ٹانگ پر ٹانگ رکھے ہوئے بڑے اطمینان سے کانٹے کے ساتھ پائن ایپل کے سلائس کھانے میں مصروف تھا۔ ان دونوں کو اندر آتے دیکھ کر اس نے ایک لمحے کے لئے نظر اٹھائی اور پھر ایک بار پھر پائن ایپل کھانے میں مصروف ہو گیا۔
علیزہ خاموشی کے ساتھ صوفہ پر جا کر بیٹھ گئی۔
”اب اس کے بعد اور کیا ہے آپ کے ذہن میں؟” عباس نے اس بار علیزہ کا نام نہیں لیا تھا مگر علیزہ جانتی تھی، یہ سوال اس سے ہی کیا گیا ہے۔
”مجھے اب بھی کوئی شرمندگی نہیں ہے۔ یہ سب میری وجہ سے نہیں ہو رہا ۔”
عمر پائن ایپل کھاتے کھاتے رک گیا۔ عباس اوراس نے ایک دوسرے کو دیکھا۔
”اگر عمر گارڈ نہ ہٹاتا تو وہ لوگ یہاں کبھی حملہ نہ کرتے۔” وہ کہہ رہی تھی۔
”کون لوگ؟” عباس نے تلخ اور تیز آواز میں اس سے کہا۔
”جو لوگ بھی یہاں آئے ہیں۔”
”کون لوگ آئے ہیں؟”
”مجھے نہیں پتا۔”
”کیوں نہیں پتا۔”
”مجھے کیسے پتا ہو سکتا ہے؟”
”تمہارے علاوہ اور کس کو پتا ہو سکتا ہے۔”
”آپ غلط کہہ رہے ہیں۔ مجھے کیسے پتا ہو سکتا ہے کہ یہاں کون آیا ہے۔”
”تم فون کرکے لوگوں کو یہاں بلواتی ہو اور پھر یہ کہتی ہو کہ تمہیں پتا نہیں ہے۔”
وہ عباس کا منہ دیکھنے لگی۔ ”میں لوگوں کو فون کرکے بلواتی ہوں؟”
”ہاں تم۔”
”میں نے کسی کو فون کرکے یہاں نہیں بلوایا۔”
”تم نے جسٹس نیاز کو فون کیا تھا۔”
اس کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ ”آپ… آپ کا مطلب ہے کہ ان… ان لوگوں کو جسٹس نیاز نے بھجوایا تھا؟”
”اور کون ہو سکتا ہے۔”
وہ الجھی ہوئی نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔ ” یہ … یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ جسٹس نیاز یہ کیسے کر سکتے ہیں؟”
”تم کس دنیا میں رہتی ہو۔ اپنی آنکھوں پر کون سے بلائنڈز لگا کر پھر رہی ہو۔”
وہ ماؤف ہوتے ہوئے ذہن کے ساتھ عباس کا چہرہ دیکھتی رہی۔
”جسٹس نیاز… جسٹس نیاز مجھے… مجھے اغوا کرنے کی کوشش کریں گے۔ وہ… وہ یہ سب کریں گے… کیوں… یا اللہ۔” اس کا ذہن سوالوں کے گرداب میں پھنسا ہوا تھا۔
”مجھے یقین نہیں ہے کہ جسٹس نیاز نے یہ سب کیا ہے۔”
عباس بے اختیار اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔ ”فون پڑا ہوا ہے تمہارے سامنے … نمبر تم جانتی ہو، فون ملاؤ اور ان سے بات کر لو… اپنی خیریت کی اطلاع دو انہیں اور ساتھ یہ بھی بتا دو کہ ابھی تک تم یہیں ہو۔ وہ دوبارہ کسی کو بھیجیں۔”
علیزہ اپنی جگہ سے نہیں ہلی۔
”تم عقل سے پیدل ہو۔”
”آپ مجھے اس لئے یہ سب کچھ کہہ رہے ہیں کیونکہ آپ خوفزدہ ہیں… یہ سب کچھ آپ دونوں کی وجہ سے ہوا ہے۔ آپ لوگ ان چاروں کوقتل نہ کرتے تو آج یہ سب کچھ نہ ہو رہا ہوتا۔” اس نے سر اٹھاکر عباس سے کہا۔
”ایکسکیوزمی میڈم…! کون خوفزدہ ہے اور کس سے… تم سے؟ … جسٹس نیاز سے… مائی فٹ۔” عباس اس بار بری طرح ہتھے سے اکھڑا تھا۔
”تم کیا سمجھتی ہو کہ میں بہت خوفزدہ ہوں کل سے۔” وہ اس کے بالکل سامنے کھڑا ہوا کہہ رہا تھا۔ ”مجھے اپنا کیرئیر تاریک نظر آرہا ہے؟”
علیزہ نے سر جھکالیا۔
”اپنی گردن میں پھانسی کا پھندہ نظر آرہا ہے؟”
وہ اپنے ہاتھوں کو دیکھتی رہی۔
”تمہارے اس انکشاف کی وجہ سے میں نے کھانا پینا چھوڑدیا ہے؟ ” عباس کی آواز بہت بلند تھی۔
” جسٹس نیاز کے ساتھ ہونے والی گفتگو نے میری نیند اور سکون حرام کر دیا ہے؟”
اس نے عباس کو کبھی اتنے اشتعال میں نہیں دیکھا تھا۔ انکل ایاز کی طرح وہ بھی ایک نرم خو شخص تھا مگر اس وقت وہ جس طرح بول رہا تھا۔
”تمہارا خیال ہے کہ کل میں سلاخوں کے پیچھے ہوں گا؟ ”
علیزہ نے سر جھکائے ہوئے کن اکھیوں سے عمر کو دیکھا۔ وہ عباس یا علیزہ کی طرف متوجہ نہیں تھا۔ وہ ہاتھ میں پکڑے ہوئے کانٹے اور پائن ایپل کے ڈبے کے ساتھ مصرو ف تھا… ہر چیز سے بے پروا… ہر چیز سے بے نیاز… یوں جیسے وہاں بہت دوستانہ گفتگو ہو رہی تھی۔
”تم کون ہو علیزہ سکندر… اور جسٹس نیاز کون ہے۔”
علیزہ ایک بار پھر اپنے ہاتھوں کو دیکھنے لگی جواب لرز رہے تھے، وہ اس لرزش کو چھپانے کی کوشش کر رہی تھی۔
”جس خاندان سے تم اور میں تعلق رکھتے ہیں، اس خاندان کے کسی شخص کو کورٹ میں لے جانا اتنا ہی ناممکن ہے جتنا سورج کا مغرب سے نکلنا۔ تم نے کل فون پر مجھ سے جو بھی کچھ کہا۔ میں اس سب پر لعنت بھیجتا ہوں۔”
”تم میرے خلاف پرائم Witness (عینی گواہ) بننا چاہتی ہو ضرور بنو، لیکن میں تمہیں ایک بات بتا دوں۔”
اس نے سر اٹھا کر عباس کو دیکھا۔
”وہ جو چار لڑکے میں نے مارے ہیں نا ، وہ چاروں اگر خود بھی زندہ ہو جائیں اور کورٹ میں جا کر میرے خلاف بیان دیں تو بھی… مجھے سزا دلوانا تو دور کی بات، لاہور سے میرا ٹرانسفر تک کوئی نہیں کروا سکتا۔”
اس کی آواز اور انداز میں کھلا چیلنج تھا۔
”میں یہیں تھا۔ یہیں ہوں، یہیں رہوں گا۔”
اس کی آواز اب پہلے سے ہلکی اور پہلے سے زیادہ سرد تھی۔
”اگر جسٹس نیاز یا تم جیسے لوگوں کے کہنے پر پولیس کو سزائیں ملنے لگیں۔ تو پورے ملک کی پولیس تمہیں سلاخوں کے پیچھے نظر آئے گی۔”
علیزہ نے سر جھکا لیا۔
”تم نے کل خاصی لمبی چوڑی بات کی تھی مجھ سے … لیکن مجھے کوئی فرق نہیں پڑا اس سے۔
یہ سب کچھ میری نیندیں نہیں اڑا سکتا۔ میرے پیروں کے نیچے سے زمین نکالنے کے لئے تمہیں اس سے دس گناہ زیادہ بڑا سٹنٹ چاہئے۔” وہ جو کچھ کہہ رہا تھا وہ صرف بڑکیں نہیں تھیں۔ یہ وہ جانتی تھی عباس حیدر کو بڑکوں کی ضرورت ہی نہیں تھی۔
”عباس بھائی! مجھے آپ سے کوئی دشمنی نہیں ہے… میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ ایک غلط کام۔۔۔”
عباس نے درشتی سے اس کی بات کاٹ دی۔
”مائنڈ یور اون بزنس۔ میرے پروفیشن کی اخلاقیات سکھانے کی کوشش مت کرو۔ میں اپنے پروفیشن کو تم سے بہتر سمجھتا ہوں۔ کیا صحیح ہے کیا غلط ، اس کی تعریف مجھے تم سے نہیں چاہئے۔”
وہ خاموش ہو گئی۔)”And don’t try to poke your nose into my affairs.” تمہیں میرے معاملات میں ٹانگ اڑانے کی ضرورت نہیں۔)
وہ اس کی کوئی بات سننے کے لئے تیار نہیں تھا۔

”دو ماہ کسی تھرڈ کلاس میگزین کے دفتر میں کام کرنے سے تم اس قابل نہیں ہو گئی ہو کہ دوسروں کو صحیح اور غلط کا فرق بتاتی پھرو۔” علیزہ نے ہونٹ بھینچ لیے۔ ”تمہارے جیسے Self Employed reformers۔ ہمیں اور نہ ہی تمہیں ہیومن رائٹس کی چیمپئن بننے کی ضرورت ہے۔”
نانو نے اب تک ہونے والی گفتگو میں کوئی مداخلت نہیں کی تھی۔ وہ اگر مداخلت کرتیں بھی تو عباس انہیں بولنے کا موقع نہ دیتا۔ علیزہ کو اس کا اندازہ تھا۔
”چند منٹ اور اگر پولیس کو آنے میں دیر ہو جاتی تو وہ لوگ بیسمنٹ تک بھی پہنچ جاتے۔ اس کے بعد وہ کیا کرتے، تمہیں اس کا اندازہ ہے مائی ٹیلنٹڈ کزن؟” اس کے لہجے میں اب طنز تھا۔ ”تمہیں یہیں مار دیتے وہ یا پھر لے جاتے ساتھ… کہاں … یہ پھر کسی کو پتا نہ چلتا۔”
علیزہ کے ہونٹ لرزنے لگے۔” اپنے آپ کو کس طرح پھنسا لیا ہے تم نے… تمہیں اندازہ ہے؟” علیزہ کی آنکھیں بھیگنے لگیں۔
”تمہیں ان سب چیزوں سے بچانے کے لئے ان چاروں کو مارا تھا، لیکن تم نے خود ساری مصیبتوں کو دعوت دے دی ہے… اپنے ساتھ تم نے گرینی کی زندگی کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔” وہ اپنے ہونٹ کاٹنے لگی۔
”اب کیا کرو گی تم… بیٹھی رہو گی یہاں اندر… اسی تہہ خانے میں… کتنے دن رکھیں گے پولیس گارڈ باہر… اور کہاں کہاں پروٹیکشن دیں گے تمہیں… بڑا شوق ہے نا تمہیں ہیروئن بننے کا… لائم لائٹ میں آنے کا… تمہیں اندازہ ہے؟” اس کے آنسوؤں نے عباس پر کوئی اثر نہیں کیا۔
”جسٹس نیاز یا باقی تینوں کے گھر والے میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے مگر تمہیں وہ نہیں چھوڑیں گے۔ آخر مارے تو وہ تمہاری وجہ سے ہی گئے تھے۔” اس کی آواز میں اب تلخی کے ساتھ بے رحمی بھی تھی۔
علیزہ نے اپنے ہاتھوں سے اپنی آنکھوں کو ڈھانپ لیا۔
”اپنے فیوچر کے بارے میں سوچا ہے، کیا ہو گا آگے؟”
اس کی آواز اب پہلے سے زیادہ مدہم تھی مگر آواز میں موجود تلخی کم نہیں ہوئی۔
”اخباروں میں تمہارا نام آئے گا… اور کس طرح آئے گا؟… لوگ سیلوٹ کریں گے تمہیں؟… یا تمہارے ہیرو ازم کو… یا پھر انگلیاں اٹھائیں گے تمہارے کریکٹر پر؟” وہ اب بھی اسی طرح بول رہا تھا۔ ”اور کون کھڑا ہو گا… تمہارے پیچھے… جسٹس نیاز … کب تک؟ … ٹشو پیپر کی طرح استعمال کریں گے وہ تمہیں… اس کے بعد… کیا کرو گی… تم؟”
اس کا دل چاہ رہا تھا وہ ، اٹھ کر وہاں سے بھاگ جائے مگر وہ ایسا نہیں کر سکتی تھی۔ وہ عباس کی تمام باتیں سننے پر مجبور تھی۔
”اور فیملی کے لوگ کیا کہیں گے؟ اس کے بارے میں سوچا ہے ۔ جو بھی کیا گیا تمہارے لئے کیا گیا اوراگر تم دوسروں کو ڈبونے کی کوشش کرو گی تو تمہیں ڈبوتے ہوئے بھی کوئی تم سے اپنا رشتہ سوچے گا… نہ لحاظ کرے گا… اور جب تمہاری اپنی فیملی تمہارے خلاف ہو جائے گی تو تم کیا کرو گی؟ ” وہ تیکھے لہجے میں اس سے پوچھ رہا تھا۔
”کیا اتنی بہادر ہو تم کہ اکیلے دنیا کا مقابلہ کر سکو… اور ایک دو دن کے لئے نہیں… ساری زندگی کے لئے۔”
وہ بے آواز رو رہی تھی۔
”جس معاشرے میں تم رہ رہی ہو… ا س کی Norms(اطوار) جانتی ہو… خاندان کی Discarded(ٹھکرائی ہوئی) عورت کا مقام جانتی ہو تم… تم کسی پہاڑ کی چوٹی پر ساری عمر کے لئے چلہ کاٹنے بھی بیٹھ جاؤ تو بھی تمہاری پاک بازی پر کوئی یقین نہیں کرے گا۔”
عباس کی باتوں میں وہی تلخی تھی جو عمر کی باتوں میں ہوا کرتی تھی۔ عمر کے لہجے میں اس کے لئے سرد مہری کے باوجود کبھی کبھار اپنائیت جھلکنے لگتی تھی… عباس کے لہجے میں ایسی کوئی اپنائیت نہیں تھی۔ وہ بہت ٹھوس لہجے میں بول رہا تھا۔
”اور تمہیں اگر کہیں یہ شائبہ ہے کہ میں کبھی اپنی اس حرکت پر پچھتاوا محسوس کروں گا یا مجھے اپنے فیصلے پر کوئی شرمندگی ہو گی… تو یہ تمہاری غلط فہمی ہے۔”
وہ مسلسل بول رہا تھا۔
”اگر دوبارہ وقت پیچھے چلا جائے تو میں ایک بار پھر وہی کروں گا جو میں نے کیا… میں ان چاروں کو پھر شوٹ کروا دوں گا… اوردس بار موقع ملنے پر بھی میں یہی کروں گا۔”
اس کا لہجہ اب بھی اتنا ہی تلخ تھا۔ ”یہ کوئی بے سوچا سمجھا فیصلہ نہیں تھا… طے شدہ تھا… میں نے وہی کیا جو مجھے کرنا چاہئے تھا اور مجھے اس پر کوئی شرمندگی نہیں ہے۔” وہ اب اپنے صوفہ پر جا کر بیٹھ گیا۔
”میں نے ابھی تک پاپا کو تمہاری کل کی حرکت کے بارے میں نہیں بتایا۔ اب بتاؤں گا… باقی باتیں تم خود ان سے کر لینا۔” اس کی آواز کا اشتعال اب بہت کم ہو گیا تھا۔
”گرینی! آپ اپنی پیکنگ کر لیں۔ آپ ابھی میرے گھر شفت ہو رہی ہیں کیونکہ میں آپ کو یہاں نہیں چھوڑ سکتا… کم از کم تب تک جب تک سب کچھ ٹھیک نہیں ہوجاتا۔” وہ اب نانو سے مخاطب تھا۔
”اور علیزہ جہاں تک تمہارا تعلق ہے۔ تم اپنی سیکورٹی کی خود ذمہ دار ہو… بہتر ہے تم خود جسٹس نیاز کے پاس چلی جاؤ۔ اس طرح کم از کم تمہاری زندگی محفوظ رہے گی… اور اگر تم یہاں ہی رہنا چاہتی ہو تو رہ سکتی ہو لیکن تمہارے لئے میں اب یہاں کوئی پولیس پروٹیکشن نہیں دے سکتا۔”
وہ بات کرتے کرتے اُٹھ گیا۔
”آئیے گرینی! آپ کے ساتھ آپ کی پیکنگ کرواؤں۔”
علیزہ اسی طرح سر جھکائے آنسو بہاتی رہی۔ چند منٹوں کے بعد اس نے نانو، عمر اور عباس کو لاؤنج سے نکلتے محسوس کیا۔
علیزہ نے اپنی آنکھوں سے ہاتھ ہٹا لیے اور سر اوپر اٹھایا۔ چند لمحے کے لئے وہ ساکت ہو گئی۔ عمر وہیں تھا… سامنے صوفہ پر بیٹھے ہوئے… اس پر نظریں جمائے… اب اس کے ہاتھ میں پائن ایپل کا ٹن نہیں تھا۔ علیزہ نے ایک بار پھر سر جھکا لیا۔
عمر اپنی جگہ سے اٹھ کر اس کے پاس آگیا۔ سینٹر ٹیبل کو کھینچ کر وہ اس کے بالمقابل لے آیا اور ٹیبل پر بیٹھتے ہوئے اس نے علیزہ کی آنکھوں سے اس کے ہاتھ ہٹا دیئے۔ علیزہ نے برہمی سے اس کے ہاتھ پیچھے کرنے کی کوشش کی۔
”یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے عمر۔”
”میری وجہ سے؟”
”تم نے پولیس گارڈ ہٹائی تھی۔”
”وہ تمہاری خواہش تھی۔”
”تمہاری وجہ سے عباس نے میری انسلٹ کی ہے۔”
”اس نے تمہاری انسلٹ نہیں کی… تمہیں حقائق بتائے ہیں۔”
وہ جواب میں کچھ کہنے کی بجائے رونے لگی۔
”تم نے سوچا ہے، ابھی کچھ دیر کے بعد جب ہم سب یہاں سے چلے جائیں گے تو کیا ہو گا؟… یہاں اکیلے رہ سکو گی… اور پھر جو کچھ تم کرنا چاہتی ہو… یا اس کے نتائج پر غور کیا ہے تم نے، تم منظر سے ہٹ کیوں نہیں جاتیں؟”
وہ ایک لمحہ کے لئے رکا۔” Why don’t you get out of every thing.
علیزہ نے سر اٹھا کر بے یقینی سے اسے دیکھا۔ ” کیا یہ ممکن ہے؟… اب؟”
”کیوں نہیں؟”
”کیسے؟”
”یہ مجھ پر چھوڑ دو۔”
”لیکن کیسے؟”
”اپنا سامان پیک کرو اور عباس کے ساتھ چلی جاؤ… صبح وہ تمہیں اسلام آباد انکل ایاز کے پاس بھجوا دے گا۔ چند ماہ وہاں رہو… جب سب کچھ سیٹل ہو جائے تو واپس آجانا…It’s as simple as that…اس نے جیسے چٹکی بجاتے میں حل پیش کیا۔
”کیا عباس مجھے لے کر جائے گا؟”
”ہاں کیوں نہیں… وہ نہیں تو میں اپنے ساتھ لے جاؤں گا۔ تم اب بھی ہمارا حصہ ہو۔” اس نے جیسے علیزہ کو یقین دلایا۔
”مگر میں جو کچھ جسٹس نیاز کو بتا چکی ہوں… سب کچھ کل پریس میں آسکتا ہے… اور پھر۔۔۔”
”اس کو ہم ہینڈل کر لیں گے… وہ اب تمہارا درد سر نہیں ہے… تم بس خاموشی سے اسلام آباد میں رہنا۔ ” وہ پلکیں جھپکائے بغیر عمر کا چہرہ دیکھنے لگی۔
”میں تم پر کوئی دباؤ نہیں ڈال رہا ہوں… تم فیصلہ کرنے کے لئے آزاد ہو، لیکن میں تمہاری مدد کرنا چاہتا ہوں… میں نہیں چاہتا کہ تمہاری زندگی برباد ہو جائے۔۔۔” وہ محتاط اور سنجیدہ لہجے میں کہہ رہا تھا۔
”تمہیں کسی چیز کے لئے بھی گلٹی فیل کرنے کی ضرورت نہیں ہے… اگر تمہارے نزدیک کوئی غلط کام ہوا ہے تو اس کے ذمہ دار میں اور عباس ہیں… پھر تم اپنی زندگی کیوں خراب کر رہی ہو۔” وہ چند لمحوں کے لئے رکا۔
”ابھی کسی کو کچھ بھی نہیں پتا… فیملی میں نانو، میرے اور عباس کے علاوہ اور کوئی بھی کچھ نہیں جانتا… اور ہم تینوں تمہاری اس حماقت کو بھلا سکتے ہیں… چند ماہ بعد تم اپنی زندگی دوبارہ یہیں سے شروع کر سکتی ہو۔”
اس کے بہتے ہوئے آنسو رک گئے۔ “Stay out of everything Aleeza! just stay out.” (دور چلی جاؤ علیزہ! اس سب سے دور چلی جاؤ)
وہ اس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے اور لفظوں کو سنتے ہوئے مکمل طور پر کنفیوژن کا شکار ہو چکی تھی۔ کچھ دیر اسے دیکھتے رہنے کے بعد اس نے تھکے ہوئے انداز میں سر جھکا لیا۔
”ٹھیک ہے۔”
عمر کے چہرے پر پہلی بار ایک پر سکون مسکراہٹ ابھری۔
”تم جا کر اپنی چیزیں پیک کرو۔ میں عباس سے بات کرتا ہوں۔”
اس نے علیزہ کا ہاتھ تھپتھپاتے ہوئے کہا۔ وہ کچھ کہے بغیر اٹھ کر اپنے کمرے میں آگئی۔
اپنے بیگ میں اپنے کپڑے اور دوسری چیزیں رکھتے ہوئے وہ بری طرح شکست خوردہ تھی۔ اسے یوں لگ رہا تھا جیسے وہ جنگ کے میدان سے بھاگ جانے والا فوجی ہو۔
”لیکن اس میں میرا کیا قصور ہے؟… جسٹس نیازنے کیوں یہ سب کچھ کروایا … جب میں اپنی مرضی سے ان کا ساتھ دینے پر تیار تھی تو پھر اس سب کا کیا مطلب تھا۔” وہ اپنے فیصلے کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
”اور پھر میں نے عمر اور عباس کو نہیں کہا تھا کہ وہ ان چاروں کو مار دیں۔ پھر میں آخر کس چیز کی سزا بھگتوں۔” وہ جانتی تھی ساری دلیلیں شرمندگی کے اس احساس کو مٹانے میں ناکام تھیں جس نے اس کا گھیراؤ کیا ہواتھا۔
ستے ہوئے چہرے کے ساتھ وہ جس وقت اپنا بیگ اٹھائے لاؤنج میں آئی، اس وقت عباس، عمر اور نانو تینوں وہیں تھے۔ شاید وہ اسی کا انتظار کر رہے تھے۔ عمر نے آگے بڑھ کر اس کا بیگ اٹھا لیا۔ کچھ کہے بغیر ساتھ چلتے ہوئے وہ لاؤنج سے باہر نکل آئے جہاں اب ایک کار کھڑی تھی۔ وہ چاروں بڑی خاموشی کے ساتھ اس میں سوار ہو گئے۔نانو کے گھر سے عباس کے گھر تک کا سفر بھی اسی خاموشی سے طے ہوا تھا۔ عباس کی بیوی تانیہ ان کا انتظار کر رہی تھی۔ شاید عباس نے اسے فون کیا تھا۔
”کیا ہوا عباس! میں تو بہت پریشان ہو گئی تھی… سب کچھ ٹھیک تو ہے؟” اس نے پورچ میں ان لوگوں کا استقبال کرتے ہوئے کہا۔
”کون لوگ تھے گرینی؟” وہ اب نانو سے پوچھ رہی تھی۔
”کون لوگ ہو سکتے ہیں… ڈاکو وغیرہ تھے۔” عباس نے بات گول کرتے ہوئے کہا۔
”اوہ گاڈ… کوئی نقصان تو نہیں ہوا؟” وہ اب تشویش بھرے لہجے میں علیزہ سے پوچھ رہی تھی۔
”نہیں۔
”تم مجھے یہ بتاؤ کہ میں اس سارے سلسلے میں تمہاری کیا مدد کر سکتا ہوں؟”
ہمایوں شکیل نے ایاز حیدر کے ساتھ ہونے والی لمبی چوڑی گفتگو کے بعد کہا۔ وہ ایاز حیدر کے فرسٹ کزن تھے اور سی بی آر میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ ایاز حیدر کو کچھ دیر پہلے انہوں نے فون کیا تھا۔
پچھلے چند دنوں میں ایاز حیدر بہت سارے رشتہ داروں ، کو لیگز اور دوستوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھے۔ اخبارات میں یہ اسکینڈل سامنے آنے پر اور عباس کی اس میں انوالومنٹ کی خبر پاتے ہی یہ روابط شروع ہو گئے تھے۔ ہر ایک انہیں اپنے تعاون اور مدد کا یقین دلا رہا تھا اور ایاز حیدر اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ صرف خالی خولی باتیں نہیں ہیں۔ وہ لوگ واقعی ہر قیمت پر ان کے بیٹے کی مدد کرنا چاہ رہے تھے۔
”میں چاہتا ہوں، قاسم درانی کو ہینڈل کرنے میں تم میری مدد کرو۔” ایاز حیدر نے ان کی پیشکش پر کہا۔
”کس طرح کی مدد؟”
”اس کی فیکٹریز کی ٹیکس فائلز کو ذرا ایک بار پھر کھولو… ٹیکس کے معاملے میں ٹریک ریکارڈ کیسا ہے اس کا؟”
ایاز حیدر نے پوچھا۔
ہمایوں نے ایک ہلکا سا قہقہہ لگایا ”کیسا ہو سکتا ہے؟… بھئی ویسا ہی ہے جیسا چیمبر آف کامرس کے کسی بھی عہدے دار کا ہو سکتا ہے… جو جتنا بڑا ٹیکس چور… وہ اتنا ہی بڑا انڈسٹریلسٹ۔"
”یعنی ہاتھ صاف نہیں ہیں اس کے؟”
”مجھے تفصیل کا تو پتا نہیں… مگر میرا خیال ہے، یہ بھی ان انڈسٹریلٹس میں شامل ہے جو پولیٹیکل فیورز کی وجہ سے بچا ہوا ہے… پرائم منسٹر کی پارٹی کو فنڈ میں خاصی لمبی چوڑی رقوم دیتا رہتا ہے۔”
”تم ذاتی طور پر نہیں جانتے اسے؟”
”نہیں… دو چار پارٹیز میں سلام دعا ضرور ہوئی ہے اور چہرے سے واقف ہوں مگر کوئی لمبے چوڑے روابط نہیں ہیں اس کے ساتھ۔” ہمایوں نے بتایا۔
”تمہارا کیا خیال ہے، اس کے ٹیکس ریکارڈ کی چھان بین شروع ہونے پر ”اوپر” سے مداخلت ہو سکتی ہے؟”
”یہ تو طے شدہ ہے… میں نے تمہیں بتایا نا کہ خاصی بڑی رقوم ڈونیٹ کرتا رہا ہے پرائم منسٹر کی پارٹی کو۔”
ہمایوں نے اپنی رائے دی۔
”دیکھو، میں کوئی اس کے ٹیکس کے معاملات ٹھیک کروانا نہیں چاہتا، نہ ہی میں اس کے خلاف تمہارے ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے کوئی کیس کروانا چاہتا ہوں۔”
”تو پھر؟”
”میں صرف فوری طور پر اسے پریشرائز کرنا چاہتا ہوں اور اس کے ساتھ چیمبر کے جو دو سرے لوگ کھڑے ہیں، انہیں تھوڑا سا خوفزدہ کرنا چاہتا ہوں۔” ایاز حیدرنے ان کے ساتھ اپنا لائحہ عمل ڈسکس کرتے ہوئے کہا۔
”انٹریئرمنسٹر نے مجھے بتایا ہے کہ چیمبر کے ایک وفد نے اسی سارے معاملے پر ان تک اپنا احتجاج پہنچانے کے لئے ان سے اپائنٹمنٹ لی ہے… اور مجھے یہ خدشہ ہے کہ یہ اسلام آباد چیمبر کو بھی اس سلسلے میں پریشرائز نہ کرے… ایس کے علیگی اس کے بڑے بیٹے کا سسر ہے۔ ”
”تم اسلام آباد چیمبر کی فکر مت کرو… سلیمان سے بات کر لوں گا میں … وہ وہاں ایسی کوئی چیز نہیں ہونے دے گا… پھر میں بھی ادھر ہی ہوں… پریشانی والی کوئی بات نہیں ہے۔” ہمایوں نے اپنے ایک دوست کا نام لیا جو اسلام آباد چیمبر آف کامرس کا عہدے دار تھا۔
”خالی وفود کے ملنے سے میں پریشان نہیں ہوتا مگر اگر ان لوگوں نے کوئی اسٹرائیک یا جلوس لانچ کرنے کی کوشش کی تو پھر صورتِ حال خاصی خراب ہو گی… میڈیا پہلے ہی سارے معاملے کو بہت ہائی لائٹ کر رہا ہے، انہیں اور فرنٹ پیج اسٹف مل جائے گا۔”
”ایاز! تم خواہ مخواہ پریشان ہو رہے ہو… قاسم خاصا بااثر آدمی ہے۔ مگر جہاں تک ایسی کسی اسٹرائیک کا تعلق ہے تو مجھے یہ ممکن نظر نہیں آتا چیمبر کے الیکشنز قریب ہیں اور قاسم کا مخالف گروپ خاصا مضبوط ہے… عام خیال یہی ہے کہ آنے والے الیکشن میں مخالف گروپ کلین سویپ کرے گا… قاسم ویسے بھی آئندہ الیکشنز میں حصہ نہیں لے رہا… ایسی صورتِ حال میں چیمبر کی کتنی سپورٹ اس کے پاس ہے۔ یہ تو بہت کلیئر ہے۔” ہمایوں نے صورتِ حال کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا۔
”میں رؤف کو کہوں گا کہ وہ اس سلسلے میں مخالف گروپ سے بات کرے… نیازی کا ایک ہلکا پھلکا بیان تو آج کے اخبار میں بھی تھا جس میں اس نے دبے لفظوں میں کہا ہے کہ چیمبر کو کسی کے ذاتی مفادات کے لئے استعمال نہیں ہونا چاہئے اور اس کا اشارہ قاسم کے بیٹے کی موت کے سلسلے میں جانے والے ان وفود کی طرف ہی تھا۔
”لیکن چیمبر کے بہت سے لوگ جو مذمتی بیانات دے رہے ہیں اورقراردیں پیش ہوئی ہیں ان کے بارے میں کیا کہو گے تم؟” ایاز حیدر نے کہا۔
”اوہ یار! بیانات اور قراردادوں کو چھوڑو… اخباری بیانات کی ویلیو کیا ہوتی ہے… آج ان کے چار بیانات شائع ہو رہے ہیں کل کو ہمارے آٹھ شائع ہو جائیں گے… میں نے نیازی کے بیان کی بات اس لئے کہ تمہیں چیمبرکے نام نہاد اتحاد کے بارے میں بتادوں، جس کے بارے میں تم فکر مند ہو… اچھے خاصے اختلافات ہیں قاسم اور نیازی کے گروپ میں اور… جوں جوں وقت گزرے گا یہ بڑھیں گے۔ اس لئے میں نہیں سمجھتا کہ اسٹرائیک یا جلوس کی نوبت آسکتی ہے۔ ” ہمایوں کے لہجے میں لاپروائی تھی۔
”میں پھر بھی یہ چاہتا ہوں کہ قاسم کے ٹیکس ریٹرنز کو ایک بار پھر دیکھا جائے بلکہ اگر کچھ آفسز پر ریڈز ہو جائیں تو اور بھی بہتر ہے۔”
”دیکھو اس کو نوٹس بھی بھجوا دیتا ہوں… ریڈز بھی کروا دیتا ہوں مگر کیا وہ اس پر اور نہیں بگڑے گا؟”
”مجھے اس کے بگڑنے کی پروا نہیں ہے… میں اسے اس حوالے سے پریشان کرنا چاہتا ہوں… نہ صرف اسے بلکہ اس کے حواریوں کو بھی انہیں اپنے ٹیکس ریٹرنز کی فکر شروع ہو جائے گی۔”
”ٹھیک ہے ، میں کل صبح ہی یہ کام کروا دیتا ہوں لیکن یحییٰ کچھ مسئلہ کھڑا کرے گا۔ قاسم درانی کی Pay roll پر ہے وہ اور قاسم سیدھا اسے ہی پکڑے گا۔” ہمایوں نے اس علاقے کے انکم ٹیکس کمشنر کا نام لیا جہاں قاسم کی فائلز جاتی تھیں۔
”یحییٰ کو سارا مسئلہ بتاؤ… اسے کہو کہ یا تو وہ چند دن کی چھٹی لے کر کہیں چلا جائے… یا پھر قاسم کو بالکل نظر انداز کرے، اس کے رابطہ کرنے پر بھی اس سے بات نہ کرے اور اگر مجبوراً اسے قاسم سے بات کرنی پڑ جائے تو پھر ٹال مٹول کرے… قاسم سے کہے کہ سب کچھ اوپر سے ہو رہا ہے۔ اس کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں ہے۔ ”
”قاسم اسے کچا چبا جائے گا… وہ ہر ماہ لاکھوں دے رہا ہے اسے… ضرورت پڑنے پر یحییٰ اس کے کام نہ آیا تو وہ تو برداشت نہیں کرے گا… میں یہی کرتا ہوں کہ یحییٰ کو چھٹی لینے پر مجبور کرتا ہوں۔” ہمایوں نے کہا۔
”ٹھیک ہے جو بھی چاہو کرو… مگر جلدی کرو… اور مجھے قاسم درانی کے انکم ٹیکس ریٹرنز کی کچھ کاپیز چاہئیں۔”
”کیوں؟”
”پریس کے لئے۔”
”مگر وہ تو کانفیڈنشل ہوتی ہیں، میں تمہیں دے بھی دوں تو پریس والے اعتراض کریں گے انہیں شک ہو گا اور پھر وہ واقعی سمجھیں گے کہ قاسم کے دعوؤں میں حقیقت ہے اور بیوروکریسی اسے پریشان کر رہی ہے۔ انکم ٹیکس والے جان بوجھ کر اس وقت ٹیکس کے معاملے کے گڑے مردے اکھاڑ کر سامنے لا رہے ہیں۔”
”ہمایوں! وہ سب میں دیکھ لوں گا… پریس میں ہیں کچھ میرے جاننے والے… وہ سب کچھ سنبھال لیں گے۔” ایاز حیدر نے لاپروائی سے کہا۔
”اوکے… میں پھر کل تم سے دوبارہ کانٹیکٹ کرتا ہوں اور تمہیں آگے کی صورت حال بتاتا ہوں، لیکن میں تمہیں بتا دوں کہ اس کے ٹیکس کے معاملات اتنے خراب ہیں کہ اسے بچانے کے لئے بیورو کریسی کے اندر کے بہت سے لوگ سامنے آجائیں گے۔ جن کی مدد سے اس نے پچھلے بیس پچیس سال میں ٹیکس بچایا ہے۔ پھر تمہیں بھی خاصی مخالفت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ ” ہمایوں نے اپنے خدشے سے آگاہ کیا۔
”مجھے اس کے ٹیکس کے معاملات ٹھیک کروانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ میں صرف اپنے بیٹے اور عمر کو اس معاملے سے نکالنا چاہتا ہوں… قاسم اس تماشے کو ختم کرے… میں اس کے ٹیکس افیئرز کو بھاڑ میں پھینک دوں گا اور یہ چیز تم ان Big wigs کو اچھی طرح سمجھا سکتے ہو۔ ” ایاز نے کہا۔
”تمہارا کیا خیال ہے؟ یہ سب کتنے دن چلے گا؟” ہمایوں نے کچھ سوچتے ہوئے پوچھا۔
”مجھے کوئی اندازہ نہیں یہ تو قاسم اور جسٹس نیاز کے اسٹیمنا پر منحصر ہے۔ ” ایاز حیدر نے کہا۔
”قاسم کو تو اس طرح قابو کر لو گے… لیکن جسٹس نیاز کے لئے کیا کرو گے؟” ہمایوں نے پوچھا۔
”جسٹس نیاز کے بارے میں خاصی خبریں ہیں میرے پاس… تمہارے کافی کام آئیں گی… انصاف ”بیچنے” میں خاصی شہرت حاصل ہے اس آدمی کو۔۔۔”
”اس کا یہ حوالہ میرے لئے بھی پوشیدہ نہیں ہے۔”
”چیف منسٹر کے ساتھ اگلی میٹنگ کب ہے تمہاری؟”
”اس کے بارے میں مجھے پتا نہیں… وہ کوشش کر رہے ہیں کہ مجھے اور جسٹس نیاز کو آمنے سامنے بٹھا کر معاملات طے کروا دیں۔ فی الحال جسٹس نیاز اس پر رضا مند نہیں ہے… اس کامطالبہ ہے کہ پہلے عباس اور عمر کو معطل کیا جائے… اس کے بعد پھر کچھ طے ہو گا… اور میں ان دونوں کا سروس ریکارڈ خراب نہیں ہونے دوں گا… ” ایاز حیدر نے کہا۔
”ڈونٹ وری، کچھ نہیں ہو گا۔ جسٹس نیاز کو ویسے بھی لائم لائٹ میں رہنے کا شوق ہے، ہر دو چار ماہ کے بعد کوئی نہ کوئی ایشو بنایا ہوتا ہے اس نے… اس بار پریس کو پہلے کی طرح استعمال کرے گا تو خاصا پچھتائے گا۔” ہمایوں شکیل نے فون بند کرنے سے پہلے آخری جملہ ادا کیا۔
اگلے دن شام کی فلائٹ سے وہ اسلام آباد چلی گئی۔ ایاز حیدر کے ڈرائیور نے ائیر پورٹ پر اسے ریسیو کیا اور گھر پہنچنے پر اس نے ایاز حیدر کی بیوی کو اپنا منتظر پایا۔
رسمی علیک سلیک کے بعد وہ جان چکی تھی کہ ایاز حیدر لاہور میں تھے اور انہیں ابھی چند دن وہیں رہنا تھا۔ ایاز حیدر کی بیوی سے بات کرکے اسے یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ پچھلے کچھ دنوں کے واقعات میں علیزہ کی انوالومنٹ کے بارے میں کچھ نہیں جانتی تھیں۔ انہیں صرف اتنا پتا تھا کہ لاہور والے گھر پر کچھ ڈاکوؤں نے حملہ کیا تھا… اور کچھ عرصہ کے لئے نانو اور علیزہ نے وہ گھر چھوڑ دیا ہے… مرمت وغیرہ ہو جانے کے بعد وہ دونوں واپس وہاں چلی جائیں گے۔
وہ علیزہ سے ہونے والے نقصان کے بارے میں پوچھتی رہیں اور اپنے افسوس کا اظہار کرتی رہیں۔
”لاء اینڈآرڈر کا تو تم پوچھو ہی مت… لاہور کے حالات تو خیر پہلے ہی خاصے خراب ہیں مگر اب اسلام آباد بھی محفوظ نہیں رہا… ہر چوری اب پوش علاقے میں ہو رہی ہے۔” وہ چائے پینے کے دوران اسے اپنے بے لاگ تبصرے سے نوازتی رہیں۔
علیزہ کوشش کے باوجود ان کی باتیں نہ توجہ سے سن سکی اور نہ ہی گفتگو میں کوئی خاطر خواہ اضافہ کر سکی۔ پچھلی رات ابھی بھی پوری طرح اس کے حواس پر اثر انداز ہو رہی تھی اور رہی سہی کسر اس وقت اس کی وہاں موجودگی پوری کر رہی تھی۔ ندامت… شرمندگی… بے بسی… پچھتاوا… وہ اپنی فیلنگز کو پہچان نہیں پا رہی تھی۔ نہ ہی انہیں کوئی نام دے پا رہی تھی۔
سجیلہ ایاز کو بہت جلد ہی اس کی غائب دماغی کا احساس ہو گیا۔ ”تم آرام کرو… یقیناً تھک گئی ہو گی۔”
علیزہ نے بے اختیار خدا کا شکر ادا کیا… تنہائی کے علاوہ اسے اس وقت کسی چیز کی ضرورت نہیں تھی۔
اگلے کئی دن وہ اخبار کھنگالتی رہی۔ عمر اور عباس کی بات بالکل ٹھیک تھی۔ کسی بھی اخبار میں جسٹس نیاز کے ساتھ فون پر کئے جانے والے اس کے انکشاف کے بارے میں کوئی بھی خبر نہیں تھی۔ وہ اندازہ نہیں لگا سکی۔ اسے اس سے خوشی ہوئی تھی یا مایوسی۔
اگلے چند دنوں کے بعد ایاز حیدر اسلام آباد واپس آگئے تھے۔ ان کے رویے سے علیزہ کو احساس نہیں ہوا کہ وہ کچھ بھی جانتے تھے۔ وہ کم از کم اس معاملے میں خدا کا شکر ادا کر رہی تھی۔ عمر اور عباس نے اس معاملے میں اسے بچا لیا تھا۔ کم از کم وہ یہی سمجھ رہی تھی۔
ایاز حیدر کے گھر پر وہ ایک بہت لگی بندھی زندگی گزار رہی تھی۔ ایاز اور سجیلہ کی اپنی مصروفیات تھیں۔ وہ دونوں بہت کم ہی گھر پر ہوتے۔ علیزہ سارے دن گھر پر ٹی وی دیکھتے یا کتابیں پڑھتے ہوئے وقت گزارتی… یا پھر لانگ ڈرائیو پر نکل جاتی۔ رات کے وقت سجیلہ اور ایاز حیدر اسے اکثر ان مختلف ڈنرز میں ساتھ لے جاتے جہاں وہ مدعو ہوتے۔ وہ دونوں بہت سوشل تھے اور بہت کم ہی کوئی رات ہوتی جب وہ کہیں نہ کہیں مدعو نہ ہوتے… علیزہ بعض دفعہ خوشی سے ان کے ساتھ جاتی اور بعض دفعہ ایاز حیدر کے اصرار پر زبردستی، وہ دونوں آہستہ آہستہ اسے بہت ساری فیملیز کے ساتھ متعارف کروا رہے تھے۔
عمر اسے وقتاً فوقتاً فون کر تا رہتا تھا۔
”میں واپس کب آؤں گی؟” وہ ہر بار اس سے ایک ہی سوال کرتی۔
”بس کچھ دن اور” وہ ایک ہی جملہ دہراتا اور پھر کوئی اور بات شروع کر دیتا۔
پھر آہستہ آہستہ اس کی کالز میں آنے والا وقفہ بڑھنے لگا،لیکن ہر بار کال آنے پر اس کی آواز اور لہجے میں اتنی گرم جوشی ہوتی کہ علیزہ شکایت کرنا بھول جاتی یا شاید اگلی بار کے لئے ملتوی کر دیتی۔
وہ نانو اور شہلا سے بھی مسلسل رابطے میں تھی۔ اپنے رزلٹ کا بھی اسے شہلا کے ذریعے ہی پتا چلا تھا۔ لاہور واپس جانے کے لئے اس کی بے تابی میں اضافہ ہو گیا تھا۔
عمر نے اسے مبارک باد دینے کے لئے فون کیا۔ ”ابھی کچھ ہفتے لگیں گے… وہاں کچھ مرمت ہو رہی ہے… اس لئے وہاں تو تم نہیں ٹھہر سکو گی… عباس کے ہاں ہی رکنا پڑے گا تمہیں… یا پھر تم میرے پاس آجاؤ۔” عمر نے ایک بار پھر اس کے سوال پر کہا۔
”نہیں پھر میں یہیں اسلام آباد میں ہی رہتی ہوں لیکن آپ مجھے یہ تو بتا دیں کہ یہ مرمت کب ختم ہو گی؟”
”بہت جلدی… میں جانتا ہوں۔ تم واپس آنا چاہتی ہو… جیسے ہی وہاں کام ختم ہوا میں تمہیں بتا دوں گا… پھر تم آجانا۔” عمر نے ایک بار پھر اسے یقین دہانی کروائی۔
علیزہ نے اسلام آباد آنے کے بعد عمر سے دوبارہ اس سارے معاملے کے بارے میں بات نہیں کی… اسے تجسس تھا اور اخبارات میں لگنے والی مختلف خبروں نے اس تجسس کو اور بڑھا دیا تھا… مگر وہ اپنے اندر اتنی ہمت نہیں پاتی تھی کہ عمر یا عباس سے ا س ساری صورتِ حال کے بارے میں پوچھے۔
پھر یک دم اخباروں میں اس سارے معاملے کے بارے میں خبریں آنا بند ہو گئیں۔ کچھ دنوں کے بعد اسے پتا چلا کہ عباس حیدر ایک سال کی چھٹی لے کر انگلینڈ کرمنالوجی کا کوئی کورس کرنے جا رہا تھا۔ اس کی چھٹی منظور ہونے سے پہلے اس کی پروموشن ہو گئی تھی۔ علیزہ کو اندازہ ہو گیا کہ جسٹس کا کیس ختم ہو چکا ہے۔ عمر بھی اپنے پہلے والے شہر میں ہی پوسٹڈ تھا۔ علیزہ کے احساس جرم میں کچھ اور اضافہ ہو گیا۔
”باتیں یاد عویٰ کرنا بہت آسان ہوتا ہے، یہ کام کوئی بھی کر سکتا ہے… مگرسسٹم کو بدلنا یا بدلنے کے لئے ایک چھوٹا سا قدم اٹھانا بھی آسان نہیں ہوتا۔” بہت عرصہ پہلے عمر کی کہی ہوئی کچھ باتیں اسے بار بار یاد آئیں۔
جو تجزیہ اسے اس وقت اور خود غرضانہ لگا تھا وہ اب کس قدر صحیح لگ رہا تھا… یہ صرف وہی جانتی تھی۔
”چیزوں کو ناپسند کرنا اور بات ہے… اٹھا کر پھینک دینا اور … یہ حقیقت مان لینی چاہئے کہ کم از کم ہماری کلاس اس سسٹم کو بدلنے کی اہلیت ، صلاحیت یا شاید جرات نہیں رکھتی۔ کوئی بھی شخص اس ٹہنی کو نہیں کاٹتا جس پر خود سوار ہو… اور ہماری کلاس کسی دوسرے کو یہ سسٹم بدلنے نہیں دے گی… کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو بھی وہ ٹہنے کاٹنے نہیں دیتا جس پر وہ سوار ہو… یہ You miss I hit والی صورتِ حال ہے… ہماری کلاس کی خوش قسمتی ہے، ابھی تک ہم کسی بھی طرح ریسیونگ اینڈ پر نہیں پہنچے۔”
وہ اس وقت بعض دفعہ اس کی باتوں سے اتفاق نہیں کرتی تھی۔ بعض دفعہ بحث کرتی… یا پھر ناپسندیدگی کے اظہار کے لئے خاموش ہو جاتی، وہ اب ان ساری باتوں کے بار ے میں سوچ کر صرف شرمندہ ہوتی تھی۔
اسے شہباز منیر والا واقعہ اچھی طرح یاد تھا۔ اس وقت اسے عمر سے شکایت ہوئی تھی کہ اس نے ایاز انکل سے کمپرومائز کیوں کیا… سب کچھ پریس تک اور کورٹ تک کیوں نہیں لے گیا۔
اب خود ایاز حیدر کے گھر بیٹھے وہ حالات کی ستم ظریفی پر حیران ہوتی۔ وہ عمر سے کسی بھی طرح مختلف ثابت نہیں ہوئی تھی۔ جب اسے اپنی زندگی خطرے میں نظر آنے لگی تو وہ بھی کمپرومائز کرنے پر مجبور ہو گئی تھی۔
”زندگی بڑی شرمندہ کروانے والی چیز ہے… تم … میں … یا کوئی بھی… ہم سب ایک ہی جھولے میں سوار ہیں اور کوئی بھی اس میں سے اترنا نہیں چاہتا… کیونکہ نیچے کھڑے ہو کردوسروں کو آسمان تک پہنچتے دیکھنا بڑا صبر آزما اور تکلیف دہ کام ہوتا ہے۔ کم از کم مجھ میں تویہ حوصلہ نہیں ۔” اسے عمر کی باتیں اب سمجھ میں آرہی تھیں۔
”میں تم لوگوں کی باتوں پر قطعاً یقین نہیں کر سکتا۔ تم اور تمہارے بیٹے کے پاس جھوٹ کے علاوہ اور کچھ ہے ہی نہیں۔ ” جسٹس نیاز چیف منسٹر کی موجودگی کی پروا کئے بغیر ایاز حیدر اور عباس پر اشتعال کے عالم میں چلا رہے تھے۔
وہ چاروں اس وقت چیف منسٹر کی رہائش گاہ پر موجود تھے۔ ایاز حیدر اور عباس بڑے سکون اور تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے جسٹس نیاز کے الزامات اور چیخ و پکار کو سن رہے تھے ۔ چیف منسٹر بار بار جسٹس نیاز کا اشتعال کم کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ وہ یہ نہ کر رہے ہوتے تو شاید جسٹس نیاز یقیناً اب تک ایاز حیدر اور عباس کے ساتھ ہاتھا پائی کر رہے ہوتے۔
”نیاز صاحب! آپ… دیکھیں… میری سنیں… میں آپ کے جذبات سمجھتا ہوں مگر دیکھیں… اس طرح سب کچھ کیسے طے ہو گا… آپ دونوں فریق آرام سے ایک دوسرے کی بات سنیں۔” چیف منسٹر نے ان کا پارہ نیچے لانے کی ایک اور کوشش کی۔
”آپ مجھے کہہ رہے ہیں کہ میں بات سنوں… میں صبر و تحمل کا مظاہرہ کروں۔ ” جسٹس نیاز ان کی بات پر اور مشتعل ہوئے۔ ”میرا جو ان اور معصوم بیٹا اس نے مار دیا ہے اور آپ کہہ رہے ہیں کہ میں چلاؤں بھی نہ ۔ ” جسٹس نیاز نے عباس کو گالی دیتے ہوئے کہا۔ چند لمحوں کے لئے عباس کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔
”سر! گالی نہ دیں… گالی کے بغیر بات کریں، میں آپ کی بہت عزت کرتا ہوں لیکن گالیاں کھانے کے لئے ہم لوگ یہاں نہیں آئے ہیں۔” ایاز حیدر نے یک دم جسٹس نیاز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
”تم میرے پورے خاندان کو پریس کے ذریعے اسکینڈلائز کر رہے ہو… میرے بیٹے کو گھر سے اٹھا کر تمہارے بیٹے نے جعلی پولیس مقابلے میں مار دیا اور میں تمہارے بیٹے کو گالی تک نہیں دے سکتا۔”
”جو کچھ ہوا مجھے اور عباس کو اس پر افسوس ہے… مگر جو کچھ آپ کے بیٹے نے کیا وہ بھی۔۔۔”
جسٹس نیاز نے غصے کے عالم میں ایاز حیدر کی بات کاٹ دی۔ ”کیا کیا میرے بیٹے نے… بولو کیا کیا تھا میرے بیٹے نے؟”
”میں آپ کو بتا چکا ہوں، آپ کے بیٹے نے کیا کیا تھا۔”
”تم بکواس کرتے ہو… جھوٹ بولتے ہو۔”
”مجھے نہ بکواس کرنے کی ضرورت ہے نہ جھوٹ بولنے کی… جب انسان کے پاس ثبوت اور حقائق ہوں تو اسے یہ دونوں کام نہیں کرنا پڑتے۔”
”تم اور تمہارے ثبوت اور حقائق … میں بے وقوف نہیں ہوں۔”
”آپ کی اس چیخ و پکار سے تو آپ کی کوئی عقلمندی نہیں جھلک رہی۔” ایاز حیدر نے دو بدو کہا۔
”میرے بیٹے نے گھر آنے کے بعد مجھے سب کچھ بتایا تھا۔ اس نے مجھے کہا تھا اس نے ایک لڑکی کا صرف تعاقب کیا تھا اپنے چند دوستوں کے ساتھ… جسٹ فار انجوائے منٹ… اور اس نے اسے کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔”
”آپ کے بیٹے نے آپ سے جھوٹ بولا تھا۔” ایاز حیدر نے پر سکون انداز میں کہا۔
”نہیں… اس نے مجھ سے کوئی جھوٹ نہیں بولا۔ مجھے اس کے ایک ایک لفظ پر اعتبار ہے۔” جسٹس نیاز نے اپنی پر زور دیتے ہوئے کہا۔
”بہتر ہے، آپ اس کے لفظوں کے بجائے حقائق پر اعتبار کرنا سیکھیں۔ ” ایاز حیدر نے اسی پر سکون انداز میں کہا۔
”آپ کا بیٹا جس کردار کا مالک تھا… آپ وہ۔۔۔”
جسٹس نیاز نے بلند آواز میں ایاز حیدر کی باٹ کاٹ دی۔ ”میرے بیٹے کے کردار کے بارے میں بکواس کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں اسے اچھی طرح جانتا ہوں۔ LUMSمیں پڑھ رہا تھا میرا بیٹا… اپنے Batch کا سب سے آؤٹ اسٹینڈنگ اسٹوڈنٹ تھا اور تم اس پر اس طرح کے تھرڈ کلاس الزامات لگا رہے ہو۔” ان کی آواز غصے سے جیسے پھٹ رہی تھی۔
LUMS “کی ڈگری آپ کے بیٹے کا کریکٹر سر ٹیفکیٹ نہیں ہے۔ وہ اگر ہسٹری شیٹر نہیں بنا تو اس کی وجہ آپ کا عہدہ تھا۔ ورنہ لاہور کی ساری پولیس کو اس کے اور اس کے دوستوں کے بارے میں بہت کچھ پتا ہے۔” اس بار ایاز حیدر کی آواز بھی بلند تھی۔
”آپ کو اپنے بیٹے کی موت کی بہت تکلیف ہے اور مجھے اپنی بھانجی کی بے عزتی کا کوئی دکھ نہیں ہونا چاہئے۔”
”میرے بیٹے نے تمہاری بھانجی کی کوئی بے عزتی نہیں کی اس نے صرف اس کا تعاقب کیا۔”
”Your son raped my niece.” ایاز حیدر نے اس بار سرخ چہرے کے ساتھ کہا۔
”علیزہ! بھوربن چلو گی میرے ساتھ؟” اس شام سجیلہ آنٹی نے ڈنر ٹیبل پر اچانک اس سے کہا۔
ایاز حیدر کسی ڈنرپر انوائیٹڈ تھے اور کافی دنوں کے بعد خلافِ معمول سجیلہ آنٹی اس کے ساتھ گھر پر ہی ڈنر کر رہی تھیں۔
”بھوربن کس لئے؟” علیزہ کو حیرت ہوئی۔
”دو میوزیکل ایوننگز ہیں وہاں پر… اسد امانت علی خان اور طاہرہ سید کے ساتھ۔”
”کس لیے؟”
”فنڈ ریزنگ کر رہے ہیں ہم ایس او ایس ویلج کے لئے ۔” انہوں نے کباب کے ٹکڑے کرتے ہوئے کہا۔
”تو یہاں اسلام آباد میں ہی کر لیتے۔ وہاں بھوربن جانے کی کیا ضرورت ہے۔” علیزہ نے کہا۔
”جسٹ فار اے چینج… آج کل وہاں کا موسم بہت خوشگوار ہے۔ ویمن کلب کے ممبرز کا اصرار تھا کہ یہ فنکشن وہیں ارینج کیا جائے۔” انہوں نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا۔ دو دن کے لئے اچھی آؤٹنگ رہے گی۔ تمہیں تو ویسے بھی میوزک سے خاصی دلچسپی ہے۔” انہوں نے کہا۔
”انکل بھی جا رہے ہیں؟” علیزہ نے پوچھا۔
”ایاز؟ نہیں وہ کہاں جا رہا ہے… ایک دن کی ہوتی تو شاید اس کا موڈ بن بھی جاتا مگر دو دن کے لئے وہاں رکنا تو خاصا مشکل ہو جائے گا، اس کے لئے۔”
”ٹھیک ہے، میں چلوں گی۔” علیزہ نے کچھ سوچتے ہوئے ۔ ” جانا کب ہے؟”
”اگلے ویک اینڈ پر۔” انہوں نے گلاس میں پانی انڈیلتے ہوئے کہا۔
”اگلے ویک اینڈ پر تو میں واپس جانا چاہتی ہوں۔”
”کیوں؟”سجیلہ نے کچھ چونک کر کہا۔ ”ایاز نے تو تمہارے واپس جانے کے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔ نہ ہی عباس نے اس سلسلے میں کچھ کہا ہے۔”
”تم بور ہو رہی ہو یہاں پر؟” سجیلہ نے اچانک پوچھا۔
”نہیں، بور تو نہیں ہو رہی… مگر میں اب واپس جا کر کچھ کرنا چاہتی ہوں… رزلٹ کا انتظار تھا مجھے اور اب تو وہ بھی آچکا ہے… ویسے بھی میں نانو کو خاصا مس کر رہی ہوں۔”
”کیا کرنا چاہتی ہو تم واپس جا کر؟” سجیلہ نے دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا۔
”کسی نیوز پیپر کو جوائن کروں گی یا پھر… کسی این جی او کو… ان ہی دو چیزوں میں دلچسپی ہے مجھے۔” اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”ایک تیسری چیز بھی تو ہے۔ اس میں بھی دلچسپی لے سکتی ہو تم۔” انہوں نے اپنی پلیٹ میں چاول نکالتے ہوئے کہا۔
”ایسی کون سی چیز ہے؟” علیزہ کو اچانک دلچسپی محسوس ہونے لگی۔
”شادی!”
علیزہ جواب میں کچھ کہنے کے بجائے ہولے سے مسکرائی اور اپنی پلیٹ میں سویٹ ڈش نکالنے لگی۔
”کیوں تمہیں دلچسپی محسوس نہیں ہوئی؟” سجیلہ نے اس کے چہرے کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
”نہیں۔” اس نے یک لفظی جواب دیا۔
”حالانکہ ہونی چاہئے۔” سجیلہ نے دو ٹوک انداز میں کہا۔ علیزہ نے اس بار بھی کچھ نہیں کہا۔ وہ ایک بار پھر صرف مسکرا کر رہ گئی۔
”علیزہ! اگر تم اسے بہت پرسنل نہ سمجھو تو ایک پوچھوں؟” سجیلہ نے اچانک اس سے کہا۔
”ضرور۔۔۔” علیزہ نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
”تم کسی میں انٹرسٹڈ ہو؟”
علیزہ کی سمجھ میں نہیں آیا وہ اس سوال کا کیا جواب دے ، سامنے پڑی ہوئی سویٹ ڈش یک دم اپنی مٹھاس کھونے لگی۔
”میرا مطلب ہے، کسی کے لئے کوئی پسندیدگی … جس کے ساتھ شادی وادی کرنا چاہ رہی ہو تم؟” علیزہ کی آنکھوں کے سامنے ایک ہی چہرہ جھما کے کے ساتھ ابھرا۔ ایک گہرا سانس لے کر اس نے سجیلہ کو دیکھا۔
”نہیں… مجھے کسی میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔” اس نے ہاتھ میں پکڑا ہوا چمچہ آہستگی سے واپس پلیٹ میں رکھ دیا۔
”کیوں؟” سجیلہ کی مسکراہٹ کچھ گہری ہو گئی۔
”پتا نہیں۔” علیزہ اس بار مسکرا نہیں سکی۔
”بڑی حیرت کی بات ہے… مجھے لگتا ہے… ممی نے تمہیں ضرورت سے کچھ زیادہ ہی دباؤ میں رکھا ہوا ہے۔” ان کا اشارہ نانو کی طرف تھا۔
”نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے… نانو نے مجھ پر ایسی کوئی پابندی نہیں لگائی۔ وہ بہت لبرل ہیں۔” علیزہ نے نانو کا دفاع کرنے کی کوشش کی۔
”اسی لئے تو مجھے حیرت ہو رہی ہے… بہرحال تم نے اس بارے میں سوچا کیا ہے۔ تعلیم تو مکمل ہو ہی گئی ہے تمہاری۔” وہ اب سویٹ ڈش نکال رہی تھیں۔ علیزہ سویٹ ڈش کھانا بند کر چکی تھی۔
”نہیں، میں فی الحال شادی نہیں کرنا چاہتی… مجھے کسی نہ کسی فیلڈ میں اپنا کیرئیر بنا نا ہے۔”
”کیریئر کا کیا ہے، وہ تو ساتھ ساتھ چل سکتا ہے… جرنلزم ہو یا سوشل ورک دونوں اتنے Time Consuming (وقت طلب) تو نہیں ہیں کہ بندہ ان کے ساتھ ساتھ شادی کا سوچ ہی نہ سکے۔ تمہارا کیا خیال ہے؟”
”میں کیا کہہ سکتی ہوں۔” وہ بمشکل مسکرائی۔
”یہ تمہاری زندگی کا معاملہ ہے، تمہارے علاوہ کوئی اور اس کے بارے میں کیا کہہ سکتا ہے۔ بہرحال اس مسئلے پر دوبارہ کبھی بات کریں گے… ابھی تو میں تمہیں یہ کہنا چاہ رہی ہوں کہ تم ایک دو ہفتے کے لئے اپنا قیام یہاں بڑھاؤ… اگلے ویک اینڈ پر میرے ساتھ بھوربن چلو… تم یقیناً انجوائے کرو گی۔” وہ اب نیپکن سے اپنا منہ پونچھتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
”وہاں پر بہت سی این جی اوز کے لوگ بھی ہوں گے۔ جرنلسٹ بھی ہوں گے۔ تمہارے لئے انٹر ایکشن کا خاصا اچھا موقع ہے۔” وہ کہہ رہی تھیں۔ علیزہ صرف سر ہلا کر رہ گئی۔
سجیلہ ایاز کھانا ختم کرکے ٹیبل سے اٹھ گئیں لیکن علیزہ وہیں بیٹھی رہی… بہت دنوں کے بعد اسے ایک بار پھر عمر یاد آرہا تھا۔ اسے علیزہ سے رابطہ کئے بہت دن ہو گئے تھے۔ وہ جانتی تھی وہ واپس اپنے شہر چلا گیاہو گا اورشاید اپنے کاموں میں بری طرح پھنسا ہو گا… یا پھر شاید اس کے پاس کچھ اور ”مصروفیات ” ہوں گی۔
اس کی چند لمحے پہلے کی بے فکری اچانک ختم ہو گئی۔ وہ بہت عجیب سے احساس سے دوچار ہورہی تھی۔ ڈنر ٹیبل سے اٹھتے ہوئے وہ جانتی تھی کہ وہ آج رات پر سکون نیند نہیں سوئے گی۔
لاؤنج سے نکلتے ہوئے اس کی نظر اچانک فون پر پڑی۔ لاشعوری طور پر وہ اپنے کمرے کی طرف جاتے جاتے واپس پلٹ آئی۔ فون کے پاس آکر ریسیور اٹھاتے ہوئے اس نے میکانکی انداز میں عمر کے موبائل کا نمبرڈائل کیا۔ موبائل خلافِ معمول آف نہیں تھا۔ پہلی بیپ کے ساتھ ہی اسے دوسری طرف عمر کی آواز سنائی دی۔
”ہیلو” اس نے کچھ کہنے کے لئے منہ کھولا لیکن کچھ کہنے سے پہلے ہی اس کی آواز حلق میں دم توڑ گئی۔ اس نے ریسیور میں عمر کی آواز کے علاوہ ایک اور آواز بھی سنی تھی۔ شستہ انگلش میں اس نسوانی آواز نے عمر سے صرف ایک جملہ کہا تھا۔ دوبارہ وہ آواز سنائی نہیں دی… وہ ایک جملے کے بجائے ایک لفظ بھی بولتی تو علیزہ کو اس آواز کو شناخت کرنے میں کوئی دقت نہ ہوتی۔
”ہیلو کون بول رہا ہے؟” عمر اب ایک بار پھر کہہ رہا تھا۔ علیزہ نے کچھ کہے بغیر ریسیور نیچے رکھ دیا۔
اس سے پہلے کہ وہ صوفہ سے اٹھتی، فون کی گھنٹی بجنے لگی، CLIپر موجود نمبر عمر کا تھا۔ علیزہ نے بے اختیار آنکھیں بند کرلیں۔
عمر کی ہر حرکت ریفلیکس ایکشن کی طرح بے اختیار اور تیز تھی… وہ کبھی بھی اس سے چھپ نہیں سکتی تھی۔
”اس نے یقیناً اپنے موبائل پر ایاز حیدر کا نمبر پہچان لیا ہو گا اور اسے توقع ہو گی کہ یہ کال میں نے ہی کی تھی۔”
علیزہ نے ریسیور اٹھا کر کریڈل سے نیچے رکھ دیا۔ وہ اس ذہنی کیفیت کے ساتھ عمر سے بات نہیں کرنا چاہتی تھی۔ چند منٹ وہیں بیٹھے رہنے کے بعد اس نے ریسیور واپس کریڈل پر رکھ دیا۔
لاؤنج سے نکلتے ہوئے اس نے ملازم کو ہدایت دی۔ ”ظہیر ! اگر عمر کا فون ہو تو ان سے کہہ دینا کہ میں بہت دیر پہلے سو گئی تھی… میری ان سے بات مت کروانا۔”
اس نے ملازم کی حیرت کو نظر اندا زکرتے ہوئے کہا۔
اپنے کمرے میں پہنچ کر وہ سیدھا بیڈ کی طرف جانے کے بجائے کھڑکی کی طرف بڑھ گئی۔ کھڑکی کے پردے ہٹا کر وہ باہر لان میں دیکھنے لگی۔ جہاں اکا دکا جلنے والی روشنیاں اسے مکمل تاریکی سے بچا رہی تھیں۔
”Umer! I’ll be back in a minute.”
ریسیور پر سنی جانے والی آواز ایک بار پھر اس کی سماعتوں میں گونج رہی تھی۔ اسے باہر موجود ساری تاریکی اپنے اندر اترتی محسوس ہونے لگی۔
”عمر کے بارے میں میرا ہر اندازہ ہمیشہ غلط کیوں ہوتا ہے؟… کیا میں ہمیشہ اتنی ہی بے وقوف رہوں گی یا پھر شاید۔۔۔” وہ مایوسی سے اپنے ہونٹ کاٹنے لگی۔
”میرا خیال تھا جوڈتھ اس کی زندگی سے نکل چکی ہے… مگر وہ ایک بار پھر آگئی ہے یا پھر وہ شاید کبھی کہیں گئی ہی نہیں۔” اس کی آنکھوں میں نمی اترنے لگی۔
”میں تمہاری بکواس پر یقین نہیں کر سکتا۔ ” جسٹس نیاز نے بڑے تحقیرانہ انداز میں اپنے ہاتھ کو جھٹکا۔
”حقیقت کو آپ بکواس کہیں یا اس پر یقین نہ کریں، اس سے اس کا وجود ختم ہوتا ہے نا اس کی Authenticity” ایاز حیدر نے ایک بار پھر تحمل سے کہا۔
”تم اور تمہارے حقائق۔” جسٹس نیاز نے ایک بار پھر ایاز حیدر کو گالی دیتے ہوئے کہا۔ اس بارایاز کا چہرہ سرخ ہو گیا، مگر اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتے چیف منسٹر نے مداخلت کی۔
”نیا زصاحب! میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ مہذب زبان استعمال کریں۔ اس گالم گلوچ سے صورت حال اور خراب ہو گی اور فریقین میں سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔”
جسٹس نیاز ، چیف منسٹر کی بات پر ایک بار پھر آگ بگولہ ہو گئے۔ ”میں یہاں انصاف لینے آیا ہوں کوئی فائدہ نہیں۔”
”آپ کے بیٹے کے ساتھ انصاف ہی کیا گیا تھا۔” ایاز حیدر کا لہجہ اس بار بالکل سرد تھا۔
اس سے پہلے کہ ان کی اس بات پر جسٹس نیاز اور مشتعل ہوتے چیف منسٹر نے ایک پھر مداخلت کی۔
”اس فضول بحث کا کوئی فائدہ نہیں ہے کہ کس نے کیا کیا میں نے آپ دونوں کو یہاں معاملات طے کروانے کے لئے بلوایا ہے۔ جو کچھ ہو چکا ہے۔ اس کو تو بدلا نہیں جا سکتا، نہ آپ بدل سکتے ہیں نہ یہ۔”
”ہمیں دوستانہ تصفیہ کرلینا چاہئے۔”
”ہم اس کے لئے تیار ہیں اور ہم یہاں اسی لئے موجود ہیں؟” ایاز حیدر نے ان کی تجویز پر کہا۔
”مگر میں اس کے لئے تیار ہوں نہ اس لئے یہاں آیا ہوں۔” جسٹس نیاز کے لہجے میں کوئی تبدیلی نہیں تھی۔
”نیاز صاحب! آپ معاملے کو طول دینے کی کوشش نہ کریں۔ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔” چیف منسٹرنے اس بار کچھ جھنجھلا کر کہا۔
”اگر آپ کو یہ لگ رہا ہے کہ میں معاملے کو طول دے رہا ہوں تو ایسا ہی سہی۔”
چیف منسٹر نے ان سے کچھ کہنے کی کوشش کی مگر جسٹس نیاز نے ہاتھ اٹھا کر انہیں روک دیا۔
”ہو سکتا ہے آپ اس کے پریشر میں ہوں، مگر میں ایاز حیدر اور اس کے گینگ سے نہیں ڈرتا۔”
ایاز حیدر نے ان کی بات پر ایک لمحہ کے لئے اپنے ہونٹ بھینچ لئے۔
”سر! میرے لئے اس طرح کے الفاظ استعمال نہ کریں۔ میں یہاں کسی تلخی کو بڑھانے نہیں آیا اور میں بہت برداشت کا مظاہرہ کر رہا ہوں۔” ایاز حیدر نے اس بار براہ راست جسٹس نیاز کو مخاطب کیا۔
”کس نے کہا ہے کہ تم برداشت کا مظاہرہ کرو، مت کرو۔” جسٹس نیاز نے تقریباً دھاڑتے ہوئے کہا۔
”میرے بیٹے کو تم نے مار ڈالا اور اب تم اس پر الزام لگا رہے ہو۔ اخبارات کے ذریعے مجھے بدنام کر رہے ہو اور یہ بھی چاہتے ہو کہ میں تم لوگوں کے ساتھ تصفیہ بھی کرلوں۔ تم ایک انتہائی گھٹیا اور کمینے شخص ہو ایاز حیدر۔” وہ ایک ہی سانس میں بولتے گئے۔
”آپ کے بیٹے کو جس وجہ سے مارا گیا، وہ میں آپ کو بتا چکا ہوں… یہ کوئی سوچا سمجھا قتل نہیں تھا۔ عباس اور عمر کی جگہ آپ ہوتے اور میری بھانجی کی جگہ آپ کی بیٹی ہوتی تو آپ بھی یہی کرتے۔” ایاز حیدر نے کرسی پر کچھ آگے جھکتے ہوئے کہا۔ ”اور میں آپ کے بیٹے پر جھوٹا الزام کیوں لگاؤں گا… میں اپنی بھانجی کو خود بدنام کروں گا۔ اپنے خاندان کی عزت کو بازار میں اچھا لوں گا؟”
وہ ایک لحظہ کے لئے رکے۔
”جہاں تک اخبارات کا تعلق ہے تو وہاں شائع ہونے والی خبروں میں بھی میرا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔”
”تم۔” جسٹس نیاز نے غصے کے عالم میں ان کی بات کاٹنا چاہی، مگر چیف منسٹر نے انہیں روک دیا۔
”نیاز صاحب!آپ انہیں بات تو کرنے دیں۔ پہلے ان کی سن لیں پھر جو چاہے کہیں۔” ان کا لہجہ اس بار التجائیہ تھا۔ جسٹس نیاز پتا نہیں کیا سوچ کر چپ ہو گئے۔
”اخبارات کا جو دل چاہتا ہے وہ چھاپ دیتے ہیں ۔ وہ میرے حکم سے نہیں چلتے، نہ ہی ان پر مجھے کوئی کنٹرول ہے۔ آج وہ آپ کے بارے میں خبریں شائع کر رہے ہیں تو کل میرے بارے میں بھی چھاپ سکتے ہیں۔”
ایاز حیدر نے ایک بار پھر بڑی سنجیدگی سے اپنی بات شروع کی۔
”ویسے بھی جن لوگوں کے حوالے سے وہ خبریں شائع کر رہے ہیں ان سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ آپ کا ہی تعلق ہے آپ مختلف اوقات میں ان مقدمات میں فیصلے دیتے رہے ہیں اور ان لوگوں کو ان فیصلوں کے حوالے سے اعتراضات ہیں۔”
جسٹس نیاز کے ماتھے پر پڑے ہوئے بلوں میں اضافہ ہوتا گیا۔
”اور یہ لوگ صرف اب ہی اخبارات میں بیان نہیں دے رہے، یہ پہلے بھی بہت سے بیانات دیتے رہے ہیں۔ کیا اس وقت بھی انہیں اخبارات تک لانے کا ذمہ دار میں تھا۔”
ایاز حیدر اس بار کچھ غصے کے عالم میں کہتے گئے۔
”آپ کے بیٹے کے ساتھ سب کچھ کس وجہ سے ہوا میں آپ کو بتا چکا ہوں۔ آپ اسے جھوٹ سمجھیں یا جو بھی کہیں اس سے حقیقت تبدیل نہیں ہو گی۔” انہوں نے اچانک اپنی ٹون بدلی۔
”آپ کو اگر اپنے بیٹے کی موت کا دکھ ہے تو مجھے بھی اپنی بھانجی کی بے عزتی کا رنج ہے… اگر آپ کے بیٹے کو زندگی سے محروم ہونا پڑا ہے تو میری بھانجی کی زندگی بھی تباہ ہو گئی ہے۔” اس بار ان کی آواز میں واضح افسردگی موجود تھی۔
”وہ ابھی تک اسلام آباد کے ایک کلینک میں زیر علاج ہے، اس کی ذہنی حالت اتنی خراب ہے کہ ڈاکٹرز اسے علاج کے لئے بیرون ملک لے جانے کا کہہ رہے ہیں۔”
جسٹس نیاز اس بار خاموش نہیں رہ سکے۔”تم دنیا کے سب سے بڑے جھوٹے آدمی ہو… میں نے تمہیں بتایا ہے میرے بیٹے نے تمہاری بھانجی کا صرف تعاقب کیا ہے۔ وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ وہ تمہاری بھانجی تھی اور اس نے مجھے یہ سب کچھ بتا دیا تھا۔”
”آپ جھوٹ بول رہے ہیں۔” ایاز حیدر نے اس بار پہلی دفعہ ان کی بات کاٹی۔
”میں جھوٹ بول رہا ہوں؟”
”ہاں آپ جھوٹ بول رہے ہیں۔ اگر یہ سچ ہوتا تو آپ نے میری مدر کے گھر پر فائرنگ کروا کر میری بھانجی کو اغوا کرنے کی کوشش نہ کی ہوتی۔”
”میں نے کیا کیا؟” جسٹس نیاز جیسے ہکا بکا رہ گئے۔
”آپ نے ہمارے خاندانی گھر پر حملہ کروایا اور میری بھانجی کو اغوا کرنے کی کوشش کی، یہ صرف ایک اتفاق تھا کہ میری بھانجی وہاں نہیں تھی اور پولیس وقت پر وہاں پہنچ گئی۔”
جسٹس نیاز کچھ نہ سمجھتے ہوئے چیف منسٹر کو دیکھنے لگے۔
”یہ کیا کہہ رہاہے، میری سمجھ میں نہیں آرہا… کون سا حملہ؟ کیسا اغوا؟”
”یہ حقیقت ہے نیاز صاحب ! ایاز حیدر غلط نہیں کہہ رہے نہ ہی جھوٹ بول رہے ہیں۔ ان کے گھر پر حملہ ہوا ہے۔” اس بار چیف منسٹر نے سنجیدگی سے کہا۔ “حملہ کرنے والوں نے چوکیدار کو زخمی کرنے کے علاوہ گھر پر زبردست فائرنگ کی… سامان کو توڑ پھوڑ ڈالا… ان کی بھانجی وہاں نہیں تھیں، صرف مسز معاذ حیدر تھیں۔ جو چھپ گئیں… اسی دوران پولیس وہاں پہنچ گئی اور ان کی جان بچ گئی۔ کیونکہ وہ لوگ وہاں سے فرار ہو گئے۔ ایاز حیدر نے مجھے فوری طور پر اسی وقت اس واقعہ کی اطلاع دے دی تھی۔”
چیف منسٹر نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا۔
”ہو سکتا ہے ہوا ہو ایسا ، لیکن اس سے میرا تعلق کیسے بنتا ہے؟” جسٹس نیاز نے اس بار الجھے ہوئے انداز میں کہا۔
”ایاز حیدر نے آپ کا اور قاسم کا نام لیا ہے ان کا خیال ہے کہ یہ کام آپ دونوں کے علاوہ اور کوئی نہیں کر سکتا۔ وہ اس سلسلے میں آپ دونوں کے خلاف ایف آئی آر لکھوانا چاہتے تھے مگر، میں نے انہیں روک دیا… میں اس جھگڑے کو اور طول نہیں دینا چاہتا۔”
”یہ سب بکواس اور فراڈ ہے میں اور میرا خاندان ابھی تک اپنے بیٹے کی موت کے شاک سے باہر نہیں آئے اور آپ کہہ رہے ہیں کہ میں نے اس کے گھر پر حملہ کروایا اور اس کی بھانجی کو اغوا کرنے کی کوشش کی ۔” انہوں نے برہمی سے چیف منسٹر کی بات کے جواب میں کہا۔
”مجھے تو یہ تک پتا نہیں تھا کہ وہ لڑکی اس کی بھانجی تھی پھر میں یہ کیسے کروا سکتا تھا۔” وہ ایک بار پھر مشتعل ہو رہے تھے۔
”ہو سکتا ہے، آپ نے یہ نہ کروایا ہو… قاسم درانی نے کروایا ہو۔” چیف منسٹر نے کچھ نرمی سے کہا۔
ایاز حیدر بالکل خاموشی سے گفتگو سن رہے تھے۔
”اگر قاسم نے یہ کروایا ہے تو پھر آپ کو یہ سب کچھ قاسم کو بتانا چاہئے تھا، مجھے کیوں بتا رہے ہیں۔ ” انہوں نے ترشی سے چیف منسٹر سے کہا۔
”نیاز صاحب آپ اس وقت اس بات کو چھوڑیں میں نے کہا ہے نا کہ گڑے مردے اکھاڑنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ میں نے ایاز حیدر کو بھی سمجھایا ہے میں آپ کو بھی سمجھا رہا ہوں تعلقات مزید کشیدہ کرنے کے بجائے معاملہ ختم کر دیں۔”
”آپ کا بیٹااس طرح مرا ہوتا تو آپ معاملہ اس طرح ختم کر دیتے؟” جسٹس نیاز نے چبھتے ہوئے اندار میں کہا۔
”یہ حالات پر منحصر ہوتا… اگر میرے بیٹے نے وہ سب کچھ کیا ہوتا جو آپ کے بیٹے نے کیا تو میں اس کو خو دگولی مار دیتا۔” چیف منسٹر نے بے دھڑک کہا۔
”میں نے آپ کو کہا ہے میرے بیٹے نے کچھ بھی نہیں کیا۔ وہ بے گناہ تھا۔ ” جسٹس نیاز ان کی بات کے جواب میں چلائے۔
”اگر صرف گلا پھاڑنے سے کسی کا جرم یا بے گناہی ثابت ہوتی ہے تو میں آپ سے زیادہ گلا پھاڑ سکتا ہوں۔ اگر آپ بضد ہیں کہ آپ کے بیٹے نے میری بھانجی کے ساتھ کچھ نہیں کیا تو میں بھی کہتا ہوں کہ میرے بیٹے نے بھی آپ کے بیٹے کے ساتھ کچھ نہیں کیا۔ وہ واقعی پولیس مقابلے میں مارا گیا۔”
ایاز حیدر کے تلخ لہجے میں کہے گئے جملے کے جواب میں جسٹس نیاز اس بار صرف خاموشی سے انہیں گھورتے رہے۔
”نیاز صاحب ! ہو سکتا ہے آپ کے بیٹے نے آپ کو حقیقت نہ بتائی ہو… جس طرح کی حرکت اس نے کی تھی اس کے بعد آپ خود سوچیں۔ وہ کس طرح دیدہ دلیری سے آپ کے سامنے اس کا اعتراف کر سکتا تھا… ہائی کورٹ کے ایک جج کے سامنے۔”
چیف منسٹر نے اس بار نفسیاتی حربہ استعمال کرتے ہوئے کہا۔
”اسے خدشہ ہو گا کہ آپ اسے فوراً پولیس کے حوالے کر دیں گے اور اس کا مستقبل تباہ ہو جائے گا… ہو سکتا ہے اسی خوف سے اس نے آپ کو ساری بات نہ بتائی ہو۔” چیف منسٹر اب جسٹس نیاز پر دوسرا حربہ آزما رہے تھے۔
”چلیں میں آپ کی مان لیتا ہوں، فرض کیا اس نے کسی خدشہ کے تحت مجھ سے حقیقت چھپائی تھی اور واقعی یہ جرم کیا تھا… تو کیا اس جرم کی سزا یہ تھی کہ اسے کسی کیس ، کسی ٹرائل کے بغیر پکڑ کر یوں جانوروں کی طرح مار دیا جاتا۔”
”میں نے آپ کو بتایا ہے ، یہ سب فوری اشتعال کے تحت ہو ا اور اپنی بھانجی کے ساتھ یہ سب ہونے کے باوجود مجھے آپ کے بیٹے کی موت کا افسوس ہے، میں اس کے لئے معذرت کرتا ہوں۔”
ایاز حیدر نے فوری طور پر چیف منسٹر اور جسٹس نیاز کے درمیان ہونے والی گفتگو میں مداخلت کی۔
”تم اور تمہاری معذرت…تمہاری معذرت میرے بیٹے کو واپس لا سکتی ہے؟… مجھے ابھی بھی تمہاری بکواس پر یقین نہیں ہے… میرا بیٹا ایسا نہیں تھا۔” جسٹس نیاز پر ایاز حیدر کی معذرت کا کوئی خاطر خواہ اثر نہیں ہوا۔
”آپ کا بیٹا کیسا تھا… یہ آپ اس فائل کو پڑھ کر جان جائیں گے۔”
عباس حیدر نے تمام گفتگو کے دوران پہلی بار مداخلت کی، اپنے سامنے پڑی ہوئی ایک فائل کو اس نے ٹیبل کے دوسری طرف بیٹھے ہوئے جسٹس نیاز کی طرف کھسکا دیا۔
”پچھلے دو سالوں میں پولیس کو اس کے بارے میں بہت ساری شکایات ملتی رہی ہیں۔ مگر پولیس نے ایک بار بھی اس کے خلاف ایف آئی آر نہیں کاٹی اور صرف آپ کے عہدے کے احترام کی وجہ سے ہر بار اسے بچایا گیا۔”
”تم اپنا منہ اور بکواس بند کرلو۔” جسٹس نیاز اس پر دھاڑنے لگے۔
”سر! میں نے اپنا منہ اور بکواس ابھی تک بند ہی رکھی تھی۔ مگر آپ اپنے بیٹے کی تعریف میں جو زمین و آسمان کے قلابے ملا رہے ہیں۔ وہ اب ناقابل برداشت ہو رہے ہیں۔” عباس کا لہجہ پر سکون اور سرد تھا۔ ”سچ صرف آپ کو کہنا آتا ہے۔ دوسروں کو نہیں۔ دو دفعہ آپ کا بیٹا لبرٹی میں لڑکیوں سے پرس چھینتے ہوئے پکڑا گیا دونوں دفعہ اسے چھوڑ دیا گیا، ایک دفعہ اس نے کسی کی گاڑی چرا کر بیچ دی… آپ نے اس کو پولیس اسٹیشن جا کر ایف آئی آر سے پہلے ہی چھڑوا لیا اور پولیس نے اس آدمی کو آپ کے ساتھ معاملہ طے کر نے پر مجبورکر دیا۔”
”تم اپنی حد سے باہر نکل رہے ہو۔” جسٹس نیاز کا چہرہ اب سرخ ہو رہا تھا۔
”نہیں۔ میں آپ کو ان سب چیزوں کے ثبوت دے سکتا ہوں… آواری میں دو دفعہ اس نے شراب پی کر ہنگامہ کھڑا کیا… وہاں کے منیجرنے پولیس کو بلوایا اور پولیس اسے پولیس اسٹیشن لے جانے کے بجائے صرف آپ کی وجہ سے آپ کے گھر چھوڑ آئی۔”
”میں تمہیں اور تمہاری پولیس کو اچھی طرح سے جانتا ہوں… ڈاکو راج بنایا ہوا ہے تم لوگوں نے۔”
”ہاں پولیس بری ہے۔ پولیس صرف اس وقت اچھی تھی جب پچھلے سال آپ کی گھریلو ملازمہ کے اپنے کوارٹر میں خودکشی کے کیس کو اس نے حادثہ قرار دے کر فائل بند کر دی… اس لڑکی کے بھائی نے آپ کے بیٹے کی شکایت کی تھی… اگر وہ جج کا بیٹا نہ ہوتا تو اس وقت جیل کاٹ رہا ہوتا… ان مہربانیوں کے وقت تو آپ کو پولیس سے کوئی شکایت نہیں ہوئی۔ اب آپ کو پولیس والے گندے اور ڈاکو لگنے لگے ہیں۔”
عباس کی آواز میں طنز تھا۔ ” یہ ابھی چند واقعات ہیں، آپ کی خواہش ہے تو میں آپ کو اور بہت سے واقعات کی تفصیلات سے بھی آگاہ کردیتا ہوں۔” جسٹس نیاز پلکیں جھپکائے بغیر اسے دیکھ رہے تھے۔ وہ یقیناً اس وقت اپنے آپ کو بے بسی کی انتہا پر پہنچا ہوا محسوس کر رہے تھے۔
”میں آپ کی طرح کسی Mud Slinging میں انوالو ہونا نہیں چاہتا تھا، مگر آپ نے مجھے اس کے لئے مجبور کر دیا۔” عباس نے اس سنجیدہ لہجے میں اپنی بات جاری رکھی۔
ایاز حیدر اب بڑے اطمینان اور لا پروائی سے سگار پینے میں مصروف تھے انہوں نے عباس کو کسی بھی اسٹیج پر روکنے کی کوشش نہیں کی۔
”جس علاقے میں آپ کا گھر ہے۔ اس علاقے میں آپ کا بیٹا خاصی شہرت رکھتا تھا اور یہ یقیناً آپ سے پوشیدہ تو نہیں ہو گی۔” عباس کہہ رہا تھا۔ ”لیکن شاید آپ کے نزدیک ایسی باتوں کی اہمیت ہی نہیں تھی، اگر آپ نے شروع میں اپنے بیٹے کو روکا ہوتا تو آج اس کے ساتھ یہ سب کچھ نہ ہوا ہوتا۔”
”مجھے نصیحت کرنے کی ضرورت نہیں ہے… تم اور تمہارا باپ خود کیا نہیں کرتے؟” جسٹس نیاز نے ایک بار پھر اسی طرح چیختے ہوئے کہا۔ ”تم دونوں خود کیا ہو؟”
”میں اور میرا باپ کون ہیں، یہ سارا ملک جانتا ہے۔”
عباس ان کی دھاڑ سے متاثر ہوئے بغیر بولا۔ ”ہم اس ملک اور اس قوم کی خدمت کر رہے ہیں۔ ہم آپ کے بیٹے کی طرح رات کو لڑکیوں کا تعاقب کرتے نہیں پھرتے۔ ”اس کی آواز میں تحقیر اور تنفر تھا۔
”اور تم جو جو کرتے ہو۔” جسٹس نیاز نے مشتعل آواز میں کہنا چاہا۔
”ہم اور جو جو کرتے ہیں، وہ آپ کو ہمیں بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ ان جو جو کے حوالے سے خود کوئی شفاف ٹریک ریکارڈ نہیں رکھتے۔” عباس نے یک دم ہاتھ اٹھا کر ان کی بات کاٹ دی۔
”پریس میں جو کچھ آپ کے بارے میں آرہا ہے وہ ہماری نظروں سے بھی گزرتا ہے اور پولیس والے کم از کم اتنی عقل ضرور رکھتے ہیں کہ سچ اور جھوٹ کو پہچان لیں۔”
”پریس میں جو کچھ آرہا ہے ، وہ تم لوگوں کی سازش ہے۔ تم لوگ اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں میرے خلاف۔”
”ہمیں ایسے کسی اوچھے ہتھکنڈے کی ضرورت نہیں ہے، اگرہم ایسے حربوں میں یقین رکھتے تو پریس کے پاس صرف الزامات نہیں ثبوت بھی پہنچے ہوتے۔”
اس بار چیف منسٹر نے ان دونوں کی گفتگو میں مداخلت کی۔
”اس بحث کا کوئی فائدہ نہیں ہے، اس معاملے کو اب ختم ہو جانا چاہئے۔”
”میں کسی معاملے کو ختم نہیں کروں گا… میں اپنے بیٹے کے قاتلوں کو اس طرح نہیں چھوڑ سکتا۔” جسٹس نیازنے صاف الفاظ میں کہا۔
”ٹھیک ہے آپ کی مرضی… اگر آپ کو کسی تصفیہ کی خواہش نہیں ہے تو ہم بھی کسی Settlement(تصفیہ) کے لئے مجبور نہیں ہیں… ہم بڑا دل کرکے یہاں آئے تھے لیکن آپ معاملہ کو بڑھانا چاہتے ہیں تو ضرور بڑھائیں۔ ہم بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دیں گے۔”
”ایاز حیدر! آپ بیٹھ جائیں میں نے آپ لوگوں کو صرف آمنے سامنے کے لئے نہیں لایا۔
ایاز حیدر اور عباس کے باہر نکلتے ہی جسٹس نیاز نے مشتعل انداز اور تند لہجے میں چیف منسٹر سے کہا۔ ”دیکھا آپ نے اس شخص اور اس کے بیٹے کا لب و لہجہ؟”
چیف منسٹر نے کچھ کہنے کی کوشش کی، مگر جسٹس نیاز نے ان کی بات نہیں سنی۔
”اور آپ نے مجھے اس شخص کے ساتھ سیٹل منٹ کے لئے بلایا تھا۔۔۔”
”نیاز صاحب! آپ … ”جسٹس نیاز نے ایک بار پھر ان کی بات کو مکمل طورپر نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔
”اس شخص نے مجھ پر من گھڑت الزامات کی بھرمار کر دی… مجھے بلیک میل کرنا چاہتے ہیں یہ دونوں باپ بیٹا۔” اس بار چیف منسٹر بالآخر اپنی بات کہنے میں کامیاب ہو گئے۔
”نیاز صاحب! آپ نے ان کی بات نہیں سنی۔ کم از کم میری بات تو سنیں… مجھے تو کچھ کہنے کا موقع دیں۔” چیف منسٹر کے لہجے میں تلخی اور ترشی نمایاں تھی۔ جسٹس نیاز ہونٹ بھنچتے ہوئے انہیں دیکھنے لگا۔
”میں اگر یہ چاہتا ہوں کہ آپ دونوں کی سیٹل منٹ ہو جائے تو یہ میں آپ کے لئے کر رہا ہو… ایاز حیدر کے لئے نہیں۔” چیف منسٹر نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔ ”آپ کی فیملی اور خود آپ کا نام کتنا خراب ہو جائے گا۔ آپ کا کیرئیر داؤ پر لگ جائے گا۔"
”آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ کیا آپ کو بھی اس شخص کی بکواس پر یقین آگیا ہے کہ میرے بیٹے نے… ” جسٹس نیاز نے بے اختیار مشتعل ہو کر کہا۔
”نیاز صاحب ! بات یقین کی نہیں ہے۔ بات ان ثبوت اور حقائق کی ہے جو میرے سامنے ہیں… آپ کے بیٹے نے واقعی ایسی حرکت کی تھی۔” چیف منسٹر نے جسٹس نیاز کی بات کاٹتے ہوئے بڑی سنجیدگی سے کہا۔
”میرے بیٹے نے… ” جسٹس نیاز نے ایک بار پھر اپنا مؤقف دہرانے کی کوشش کی، مگر چیف منسٹر نے ان کی بات ایک بار پھر کاٹ دی۔
”ٹھیک ہے مان لیتے ہیں کہ آپ کا بیٹا بے قصور تھا، اس نے کچھ بھی نہیں کیا۔ یہ بھی مان لیتے ہیں کہ آپ نے اس کی بھانجی کو اغوا کرنے کی کوشش کی نہ ہی اس کے گھر پر حملہ کروایا… تو پھر اس سب سے کیا فرق پڑتا ہے۔”
”اس معاملہ کو طے تو آپ کو پھر بھی کرنا پڑے گا… ایاز حیدر کے ساتھ آپ جھگڑا جتنا بڑھائیں گے۔ آپ کو اتنا ہی نقصان پہنچے گا… آپ اس کی دشمنی افورڈ نہیں کر سکتے۔” چیف منسٹر نے آہستہ آہستہ ان کے سامنے حقائق رکھنا شروع کر دیئے۔
”کیوں نہیں افورڈ کر سکتا… کیس کروں گا میں۔ ”
”بچوں جیسی باتیں نہ کریں نیاز صاحب! آپ خود جج ہیں… اس ملک میں قانون اور انصاف کے نظام کو کوئی آپ سے بہتر نہیں سمجھ سکتا۔” چیف منسٹر نے انہیں ٹوک دیا۔
”کتنے سال بھاگیں گے آپ، اس کیس کے پیچھے اور عدالت ثبوت مانگتی ہے… یہ دونوں کہاں سے لائیں گے؟”
”اگر مجھے اصلی گواہ اور ثبوت نہ ملے تو میں بھی جھوٹے گواہ اور ثبوت لے آؤں گا… آپ نے خود ہی کہا ہے میں جج ہوں… عدالت کے نظام کو مجھ سے بہتر کون جانتا ہے۔”جسٹس نیاز نے طنزیہ انداز میں کہا۔
”ٹھیک ہے۔ آپ یہ کر لیں گے مگر یہ ثبوت اور گواہ استعمال کس کے خلاف کریں گے… ایاز حیدر ایک واحد شخص نہیں ہے ایک پورے گروپ کا نمائندہ ہے… مجھ پر پہلے ہی کہاں کہاں سے پریشر پڑ رہا ہے، آپ کو اندازہ نہیں ہے۔ میں ان لوگوں کو Resist (مزاحمت) نہیں کر سکتا۔” چیف منسٹر نے صاف گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا۔
”مجھے ابھی اپنی معیاد پوری کرنی ہے اور میں اپنے خلاف کوئی محاذ کھڑا کرنا نہیں چاہتا۔ آپ ایاز حیدر کو اچھی طرح جانتے ہیں وہ ہر ہتھکنڈہ استعمال کرنے کا ماہر ہے اور میں یہ نہیں چاہتا کہ اگلے الیکشنز میں پریس میرے خلاف کوئی الزامات لگائے اور مجھے اور میری پارٹی کو نقصان پہنچے۔ ہم نے ان لوگوں کے ذریعے اگر اپنے غلط اور ناجائز کام کروائے ہیں تو پھر ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ وہ آنکھیں اور منہ صرف اسی وقت تک بند رکھتے ہیں، جب تک ہم ان کی دم پر پیر نہ رکھیں۔”
”مجھے افسوس ہو رہا ہے، یہ دیکھ کر آپ اس حد تک ایاز حیدر سے خوفزدہ ہیں… مگر میں اس سے خوف زدہ نہیں ہوں… اگر اس کے پاس ایک پریشر گروپ ہے تو میرے پاس بھی پولیٹیکل سپورٹ ہے، میں اسے اس کے خلاف استعمال کروں گا۔”
”میں اس سے خوفزدہ نہیں ہوں، صرف سمجھداری سے کام لے رہا ہوں۔ اسی سمجھداری سے جس کا مظاہرہ قاسم درانی نے کیا ہے۔اگر آپ کے پاس پولیٹیکل سپورٹ ہے تو اس کے پاس بھی ایک پریشر گروپ ہے، مگر وہ بھی چار دن اخبارات میں بیانات دینے کے علاوہ اور کچھ نہیں کر سکا۔”
”میں قاسم کی طرح بزدل نہیں ہوں۔” جسٹس نیاز اب بھی اپنی بات پر اڑے ہوئے تھے۔
”بزدلی اور سمجھداری میں فرق ہوتا ہے۔ قاسم نے بزدلی کا نہیں سمجھداری کا ثبوت دیا۔ بیٹا تو اس کا چلا گیا وہ تو آنہیں سکتا، چاہے وہ کچھ بھی کر لے ۔ مگر انکم ٹیکس کی فائلز کھلوا کر وہ اپنا بزنس کیوں تباہ کروائے… باقی دونوں فیمیلیز نے بھی آپ سے معذرت کر لی ہے کہ انہوں نے اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا ہے اور وہ اس کیس کی پیروی کرنا نہیں چاہتے… یقیناً یہ بھی انہوں نے بغیر سوچے سمجھے تو نہیں کیا ہو گا… کچھ نہ کچھ تو سوچا ہی ہو گا انہوں نے۔” چیف منسٹر اب بے دھڑک انہیں سب کچھ بتاتے جا رہے تھے۔
”میں چاہتا ہوں آپ بھی ایسی ہی سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کریں پریس میں شائع ہونے والی خبروں سے آپ کو یہ اندازہ تو ہو ہی گیا ہو گا کہ ایاز حیدر کس حد تک جا سکتا ہے… اب جب وہ آپ کے بیٹے کے بارے میں یہ سارا مواد پریس کو دے دے گا تو پریس کیا شور مچائے گا۔ آپ کو اس کا اندازہ ہونا چاہئے۔”
جسٹس نیاز چیف منسٹر کا منہ دیکھتے رہے۔
”ابھی تو اسے اپنی فیملی کی عزت اور ساکھ کا احساس ہے اس لئے وہ اصل تفصیلات نہیں بتا رہا اخبارات تک نہیں پہنچا رہا، اگر اس نے ایسا کر دیا تو آپ کو اپنے بیٹے، اس کے کردار اور اس کی حرکات کے حوالے سے کتنے سوالات کے جوابات دینا پڑیں گے، آپ کو اس کا اندازہ نہیں ہے۔”
”ایاز حیدر آپ کے ساتھ واقعی اچھی ڈیل کرنا چاہتا ہے… اگر آپ اس کے بیٹے اور بھتیجے کے خلاف انکوائری پر اصرار نہ کریں اور اس کیس کو ختم کر دیں تو وہ سپریم کورٹ کا جج بنوانے کے لئے آپ کے لئے لابنگ کرے گا اور اسے حکومت اور عدلیہ کے حلقوں میں جتنا اثر و رسوخ حاصل ہے، یہ کام اس کے لئے بالکل مشکل نہیں ہو گا۔”
”میں اپنے بیٹے کے قتل کا سودا کر لوں… آپ یہ چاہتے ہیں؟” جسٹس نیاز نے ایک بار پھر تلخ لہجے میں کہا، مگر اس بار ان کی آواز پہلے کی طرح بلند نہیں تھی۔
”میں آپ کو مجبور نہیں کرتا… آپ اپنے آپشنزکو دیکھ لیں… اگر کوئی اور بہتر صورت حال نظر آتی ہے تو وہ اختیار کر لیں۔ مگر میرے خیال میں اس سے بہتر موقع آپ کے پاس نہیں ہے… آپ اپنے بیٹے کے لئے اپنا کیریئر تو داؤ پر نہیں لگا سکتے؟”
جسٹس نیاز اس بار ان کی بات کے جواب میں خاموش رہے۔ چیف منسٹر کو ان کے تاثرات سے اندازہ ہو چکا تھا کہ وہ آہستہ آہستہ اپنا اعتماد کھو رہے ہیں۔ شاید وہ اب پہلی بار اپنے عمل کے نتائج پر غور کر رہے تھے۔ جو چیف منسٹر نے ان کے سامنے رکھے تھے۔
”ایاز حیدر اور اس کی قبیل کے لوگوں کو ہر پنجرے سے نکلنا آتا ہے۔ مگر آپ اور میں اتنی چابیاں نہیں بدل سکتے، بہتر ہے ایک با عزت سیٹلمنٹ کے ساتھ اس معاملہ کو ختم کر دیا جائے۔ ” چیف منسٹر کا لہجہ اور مستحکم ہو تا جا رہا ہے۔
”کون سی سیٹلمنٹ ؟ میری خاموشی کے عوض صرف سپریم کورٹ کی ایک سیٹ؟” جسٹس نیاز نے کچھ سوچتے ہوئے لہجے میں کہا۔
”تو آپ کیا چاہتے ہیں؟… سپریم کورٹ کا جج بننا کوئی معمولی بات تو نہیں ہے۔”
”میرے لئے معمولی ہی ہے۔ میں جو کچھ گنوا کر یہ عہدہ حاصل کر رہا ہوں… وہ ایسے بہت سے عہدوں سے بڑھ کر ہے۔
مجھے ایاز حیدر سے کچھ نہیں چاہئے… مگر مجھے آپ سے یہ گارنٹی چاہئے کہ مجھے واقعی سپریم کورٹ میں سیٹ مل جائے گی… میں اس سلسلے میں واضح یقین دہانی چاہتا ہوں۔”
”آپ کو میں زبان دیتا ہوں… مجھ پر بھروسا ہونا چاہئے …آپ کو… آپ کے ساتھ کیا جانے والا وعدہ ہر صورت میں پورا کیا جائے۔” چیف منسٹر نے انہیں یقین دلایا۔
”یہ تو وقت بتائے گا۔” جسٹس نیاز نے ایک طویل سانس لی۔ ان کے پورے وجود سے اب شکست خوردگی عیاں تھی۔

”مجھے اندازہ نہیں تھا کہ آپ میوزک کو اتنا ناپسند کرتی ہوں گی۔” وہ اب اس کے قریب آتے ہوئے بڑے خوشگوار لہجے میں کہہ رہا تھا۔
”آپ کا اندازہ ٹھیک نہیں ہے میں میوزک کو قطعاً ناپسند نہیں کرتی۔” علیزہ نے اس کے تبصرے پر مسکرا کر کہا۔
”پھر اس وقت یہاں آپ کی موجودگی کیا ظاہر کر رہی ہے؟” وہ اس کے بالکل سامنے کھڑا ہو گیا۔
”میں کچھ دیر خاموشی میں بیٹھنا چاہتی تھی۔ اس لئے باہر نکل آئی۔ ” اس نے وضاحت کی۔
”پھر تو شاید میں نے آپ کو ڈسٹرب کیا؟” اس کا لہجہ اس بار معذرت خواہانہ تھا۔
”نہیں ایسا نہیں ہے۔”
”میں بیٹھ سکتا ہوں یہاں؟”
وہ اس سے کچھ فاصلے پر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر تک دونوں خاموش رہے پھر اس خاموشی کو ایک بار پھر جنید نے ہی توڑا۔
”آپ کو خاموش رہنا اچھا لگتا ہے؟” وہ اس کے سوال پر کچھ حیران ہوئی۔
”پتا نہیں۔۔۔”
”مجھے اچھا لگتا ہے۔”
”خاموش رہنا؟”
”ہاں۔”
”دوسروں کا؟” علیزہ نے حیرانی سے اسے دیکھا۔
”نہیں بھئی اپنا۔”
علیزہ نے غور سے اسے دیکھا۔ ”مگرآپ خاموش تو نہیں رہتے۔”
جنید یک دم کھلکھلا کر ہنس پڑا۔ ”آپ کو لگتا ہے کہ میں بہت باتیں کرتا ہوں؟” وہ جیسے اس کے تبصرے پر پوری طرح محظوظ ہوا تھا۔
”بہت نہیں مگر باتیں تو کرتے ہیں۔”
اس نے کہا۔ ”مجبوری ہے۔ تھوڑا بہت تو بولنا پڑے گا مجھے، بالکل خاموش رہ کر تو کام نہیں چلے گا۔”
علیزہ نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا، وہ صرف مسکرائی۔
”یہاں پہلے کبھی آئی ہیں؟”
”ہاں چند بار۔”
”کیسی لگی یہ جگہ؟”
”اچھی ہے۔”
”صرف اچھی؟” وہ حیران ہوا۔
”آپ کے پاس کوئی Superlatives (بہترین اصطلاح) نہیں ہیں اس جگہ کے لئے؟”
علیزہ نے کندھے اچکائے۔
”نہیں بہت اچھی ہے۔”
وہ ایک بار پھر ہنسا۔
”اصل میں ، میں ایسی جگہوں پر زیادہ آرام محسوس نہیں کرتی۔” اس نے مدہم مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
”ارے یہ تو بہت ہی عجیب بات ہے ۔ میں یہاں بالکل گھر کاسا آرام محسوس کرتا ہوں۔”
”اپنے اپنے ٹمپرامنٹ کی بات ہے۔”
”ہاں شاید… مجھے لگتا ہے آپ کو سیر و تفریح میں زیادہ دلچسپی نہیں۔” وہ اس کے درست اندازے پر مسکرائی۔
”مجھے سیر و سیاحت میں خاصی دلچسپی ہے۔ وجہ جو بھی ہو۔"
But I love to be here, there, everywhere.
That’s where men differ from women.
وہ کہہ کر ایک لمحہ کے لئے رکا… شاید وہ علیزہ کا ردعمل دیکھنا چاہتا تھا، مگر اسے پھر خاموش پا کر اس نے اپنی بات جاری رکھی۔
”یہ جگہ چھٹیاں گزارنے کے لئے بہترین ہے میری ہمیشہ خواہش تھی کہ مجھے کبھی ایسی کسی جگہ پر کوئی پروجیکٹ ملے… پہاڑی علاقے میں کوئی بھی پروجیکٹ ڈیزائن کرنا زیادہ مشکل کام ہے۔ بہت سی چیزوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے… آپ کے Potential (استعداد) اور Caliber(قابلیت) کا ٹیسٹ ہوتا ہے… ایک ہی پروجیکٹ سے آپ کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ آپ کتنے پانی میں ہیں۔”
وہ جتنی دلچسپی سے بتا رہا تھا وہ اتنی ہی غیر دلچسپی سے سن رہی تھی۔
”حالانکہ بہت تھوڑا سا کام ہے جو مجھے کرنا ہے اور کسی بلڈنگ کا Extension (توسیع) یا Renovation(ترمیم) کرنے میں آرکٹیکٹ کے پاس کام کا اتنا مارجن نہیں ہوتا، جتنا ایک نئی بلڈنگ ایک Full fledged(مکمل) بلڈنگ بنانے میں ہوتا ہے مگر میں پھر بھی اس پروجیکٹ کو انجوائے کر رہا ہوں… اچھا تجربہ ہے اور یہ… ”
بات کرتے کرتے وہ یک دم رک گیا۔
”آپ کو میری باتیں سمجھ میں نہیں آرہی ہوں گی۔” علیزہ کا دل چاہا وہ اس سے کہے کہ اسے خاصی تاخیر سے اس بات کا احساس ہوا ہے ، مگر اس نے کہا۔
”میں سمجھنے کی کوشش کر رہی ہوں۔”
”آپ کو آرٹ میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔”
”نہیں مجھے ہے۔ میں پینٹنگ کرتی ہوں مگر پینٹنگ اور آرکیٹیکچر میں بہت فرق ہوتا ہے آرکیٹکچر خاصی ٹیکینکل چیز ہے۔ ”
”چلیں یہ ٹاپک بھی گیا۔” اس نے جنید کو بہت مدہم آواز میں بڑبڑاتے سنا اور حیرت سے اس کے چہرے کو دیکھا۔ اس کا تبصرہ خاصا غیر متعلق تھا۔
”آپ کا دل نہیں چاہا یہاں آکر کچھ پینٹ کرنے کو؟” اس نے فوراً ہی اگلا سوال کیا۔
آرٹسٹ اور پینٹرز تو ایسی جگہوں سے بہت انسپائر ہوتے ہیں ویسے آپ کیا بناتی ہیں لینڈ اسکیپ… اسٹل لائف یا پورٹریٹ؟”
”موڈ پر ڈپینڈ کرتا ہے مگر اکثر لینڈ اسکیپ ، باقی دونوں میں بہت زیادہ دلچسپی نہیں ہے مجھے۔”
”تو پھر تو آپ کو اپنا ایزل اور کینوس لے کر آنا چاہئے تھا یہاں۔”
علیزہ کو بہت عرصے بعد اچانک اس وقت احساس ہوا کہ ایک لمبے عرصے سے اس نے واقعی کوئی لینڈ اسکیپ بنانے کی کوشش نہیں کی تھی اور یہ واقعی حیرت کی بات تھی کہ یہاں آکر بھی اسے کچھ بنانے کی تحریک نہیں ہو رہی تھی… چاروں طرف پھیلے ہوئے رنگوں اور خوبصورتی کے باوجود اس نے ایک گہری سانس لی جنید ابھی تک اس کے جواب کا منتظر تھا۔
”ہاں آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں مگر میں واقعی اپنے ساتھ کچھ لے کر نہیں آئی۔” ایک پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ اس نے کہا۔
”چلیں کوئی بات نہیں اگلی بار سہی۔” جنید نے بڑی لاپروائی کے ساتھ کہا۔
اس سے پہلے کہ وہ اس سے کچھ کہتی جنید کے موبائل کی بیپ سنائی دینے لگی۔ جنید نے اپنا موبائل نکال کر کال کا نمبر چیک کیا۔ علیزہ نے اس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ پھیلتے دیکھی۔
”یہ یقیناً میری امی ہوں گی۔” اس نے علیزہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اور موبائل کان سے لگا لیا۔
السلام علیکم امی… کیسی ہیں آپ؟”
”میں بالکل ٹھیک ہوں۔” وہ اب دوسری طرف سے ہونے والے سوالات کا جواب دینے میں مصروف تھا۔
”نہیں اب مجھے بالکل بھی ٹمپریچر نہیں ہے… میں نے ابھی آدھ گھنٹہ پہلے چیک کیا ہے… بالکل نارمل تھا۔”
”جی، جی میں نے جوشاندہ بھی پیا ہے… پچھلے دو گھنٹے میں دوبار آپ کو آواز سے اندازہ ہو ہی گیا ہو گا کہ گلے کی حالت کیسی ہے۔” وہ دوسری طرف سے اپنی امی کی بات سنتے ہوئے اچانک ہنسا۔
”ایک ہائی نیک پہنا ہے شرٹ کے نیچے… ایک اور سویٹر پہنا ہے… اور جیکٹ بھی پہنی ہوئی تھی۔ مگر اس وقت میری گود میں پڑی ہوئی ہے کیونکہ آج سردی زیادہ نہیں ہے… میں پہن لوں گا… امی! پہن لوں گا… اچھا… اچھا… اچھا ابھی پہن لیتا ہوں جی۔”
علیزہ دلچسپی سے اسے دیکھتی رہی، وہ اب موبائل گود میں رکھے برق رفتاری سے جیکٹ پہننے میں مصروف تھا۔
”میں نے پہن لی ہے۔” وہ اب موبائل پکڑ کر مسکرائے ہوئے کہہ رہا تھا۔ پھر وہ اچانک اپنی گھڑی دیکھنے لگا، علیزہ نے اس کے چہرے پر موجودمسکراہٹ کو بہت گہرا ہوتے دیکھا۔
”تھینک یو۔۔۔” وہ اب کچھ کہنے کے بجائے دوسری طرف سے آنے والی آواز سن رہا تھا۔
”ٹھیک ہے… تھینک یو… ہاں بات کروائیں۔۔۔” وہ اب ایک بار پھر کسی اور سے بات کرتے ہوئے شکریہ ادا کر رہا تھا۔
”تھینک یو فری…!میں ٹھیک ٹھاک ہوں انجوائے کر رہا ہوں… تم بھجوا دینا۔۔۔”
وہ اب فون پر کسی اور کا نام لے رہا تھا اور ایک بار پھر شکریہ ادا کرتے ہوئے دوسری طرف آنے والی آواز کی بات سنتے ہوئے ہنس رہا تھا۔
کچھ دیر بعد اس نے خدا حافظ کرتے ہوئے موبائل بند کیا اور معذرت خواہانہ انداز میں علیزہ سے کہا۔
”سوری… میں گھر بات کر رہا تھا… آپ بہت بور ہوئی ہوں گی۔” اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی موبائل پر ایک بار پھر بیپ ہونے لگی۔ وہ ایک بار پھر معذرت کرکے کال ریسیور کرنے لگا۔
اگلے دس پندرہ منٹ وہ لگاتار ایک کے بعد ایک کال ریسیور کرتا رہا۔ موبائل بند کرتے ہی ایک بار پھر بیپ ہونے لگتی اور وہ پھر گفتگو میں مصروف ہو جاتا… پھر اس نے موبائل کو بند کر دیا۔ ایک گہرا سانس لیتے ہوئے اس نے علیزہ سے کہا۔
”آج میری برتھ ڈے ہے۔ اب صبح تک موبائل اسی طرح بجتا رہے گا۔”
”ہیپی برتھ ڈے۔” علیزہ نے اسے مبارک باد دی، وہ پہلے ہی اس کا اندازہ کر چکی تھی۔
”میرا خیال ہے، اب ہمیں اندر چلنا چاہئے، کافی رات ہو چکی ہے… آپ مزید تو یہاں بیٹھنا نہیں چاہتی ہوں گی؟” جنید نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا وہ بھی اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔
”آپ بیمار ہیں؟” جنید کے ساتھ سیڑھیاں اترتے ہوئے اس نے پوچھا۔
”بیمار ہوں نہیں ، بیمار تھا۔”جنید نے مسکراتے ہوئے بتانا شروع کیا۔ ”چند دن پہلے فیور اور فلو تھا… امی کو فون پر آواز سے پتا چل گیا اور پھر بس میری شامت آگئی۔ اصل میں دو تین ماہ پہلے مجھے ٹائیفائیڈ ہو گیا تھا کچھ عرصہ ہاسپٹل میں بھی رہنا پڑا۔ امی اس وجہ سے زیادہ پریشان تھیں… حالانکہ یہاں پرویسی سردی نہیں ہے جس سے مجھے کوئی پریشانی ہو، مگر وہ پھر بھی فکر مند ہیں بالکل روایتی ماں ہیں وہ۔ ” وہ مسکراتا ہوا کہتا گیا۔
علیزہ نے اسے رشک سے دیکھا۔ ”آپ کی امی بہت محبت کرتی ہیں آپ سے؟”
”ہاں خاصی۔” جنید نے خوش دلی سے کہا۔
”آپ کو آپ کے فرینڈز رنگ کر رہے تھے؟”
”ہاں فرینڈز بھی… کزنز بھی، کچھ کو لیگز بھی۔”
”آپ بہت سوشل ہیں؟”
”بہت زیادہ نہیں… مگر میرا سوشل سرکل پھر بھی وسیع ہے۔” جنید نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
”آپ بہت خوش قسمت ہیں۔” اس نے چند لمحوں کی خاموشی کے بعد جنید سے کہا اسے واقعی جنید پر رشک آرہا تھا۔ جنید نے اس کی بات پر مسکرا کر اسے بڑے غور سے دیکھا۔
”آپ کل کھانا کھائیں گی میرے ساتھ؟” علیزہ نے کچھ حیرانی سے اسے دیکھا۔
”میں برتھ ڈے کے سلسلے میں ہی دعوت دے رہا ہوں آپ کو۔” جنید نے جلدی سے وضاحت کی۔”آپ میرے ساتھ لنچ کریں گی تو مجھے بہت خوشی ہو گی۔”
وہ اسے صاف انکار کر دینا چاہتی تھی، مگر وہ ایسا نہیں کر سکی۔ غیر محسوس طور پر اس نے جنید کی بات پر سر ہلا دیا۔ جنید بے اختیار مسکرایا۔
”تھینک یو۔” علیزہ نے محسوس کیا جیسے وہ اس آفر کو قبول کرنے پر خوش تھا۔
”اس کے بعد آپ چاہیں تو کل رات بھی ہم یہیں واک کر سکتے ہیں… یا پھر میں آپ کو شام کو ہائکنگ پر لے جا سکتا ہوں۔ آپ واپس اسلام آباد کب جا رہی ہیں؟”
علیزہ کچھ حیرت سے رک کر اسے دیکھنے لگی۔ وہ اس طرح شیڈول طے کر رہا تھا جیسے دونوں کی بہت پرانی جان پہچان ہو۔ اس کے انداز میں جو تھا وہ بے تکلفی نہیں تھی… کچھ اور تھا… شاید اپنائیت یا پھر وہ اسے کوئی نام نہیں دے پا رہی تھی۔
”پرسوں۔” کچھ دیر اسے دیکھتے رہنے کے بعد اس نے جنید سے کہا۔ وہ ایک بار پھر ساتھ ساتھ چلنے لگے۔
”ہم لوگ پانچ بہن بھائی ہیں… میں دوسرے نمبر پر ہوں… ایک بہن مجھ سے بڑی ہیں۔” اگلے دن وہ لنچ پراسے بتا رہا تھا۔ ”دوسرا بھائی سب سے چھوٹا ہے۔ خاصی روایتی قسم کی فیملی ہے ہماری۔ ” وہ مدہم آواز میں مسکراتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
”میری بڑی بہن کی شادی ہو چکی ہے۔ وہ اسلام آباد میں ہی ہوتی ہے۔ میری فیملی لاہور میں ہے، میں بھی وہیں اپنے بابا کی فرم میں کام کرتا ہوں… میرے بابا بھی آرکیٹکٹ ہیں۔”
کھانا کھاتے ہوئے اس کی باتیں سنتی رہی، کل کی نسبت آج اس کا ڈپریشن خاصا کم ہو چکا تھا اور وہ اندازہ نہیں کر پا رہی تھی کہ اس میں جنید کا کتنا ہاتھ تھا۔
اس دن لنچ پر ان دونوں میں خاصی طویل گفتگو ہوئی اور علیزہ کو احساس ہوا کہ جنید اور اس کی بہت سی عادات ایک جیسی تھیں۔ وہ بہت شائستہ اور نفیس مزاج کا مالک تھا۔ اپنی عمر کے عام نوجوانوں کے برعکس وہ خاصی میچور سوچ رکھتا تھا۔ وہ بڑے نپے تلے انداز میں گفتگو کرتا تھا۔
وہ اس سہ پہر کو اس کے ساتھ ہائکنگ کے لئے بھی گئی۔
جنید ایک بہت اچھا فوٹو گرافر بھی تھا۔ علیزہ کو اس وقت خوشگوار حیرت ہوئی جب اس نے کیمرہ پاس ہونے کے باوجود اپنے کیمرہ سے علیزہ کی کوئی تصویر نہیں لی، البتہ خود اس کے کیمرہ سے کچھ بہت اچھے مناظر کے علاوہ علیزہ کی بھی چند تصویریں یہ کہتے ہوئے کھینچیں۔
”مجھے امید ہے کہ آپ جب اس رول کو ڈویلپ اور پرنٹ کروائیں گی تو آپ کو احساس ہو گا کہ میں صرف اچھا آرکٹیکٹ ہی نہیں فوٹو گرافر بھی ہوں۔”
رات کو وہ پول کے پاس پھرتے رہے، جنید کے طے کئے ہوئے شیڈول کے مطابق۔
پھر اگلی صبح وہ اسے اور سجیلہ کو خدا حافظ کہنے بھی آیا۔
”اچھا لڑکا ہے جنید۔” سجیلہ نے واپسی پر راستے میں گاڑی میں اس سے کہا۔
”ہاں۔” اس نے مختصر جواب دیا۔
”تمہارا اچھا وقت گزر گیا اس کے ساتھ… مجھ سے تمہاری تعریف کر رہا تھا۔۔۔” سجیلہ نے مسکراتے ہوئے اسے بتایا۔ وہ جواباًمسکرائی۔
”ہاں بہت اچھا وقت گزرا میرا اس کے ساتھ۔”
”بہت گرومڈ لگا مجھے وہ۔” سجیلہ نے ایک اور تبصرہ کیا۔
”آپ اس کی فیملی کو جانتی ہیں؟” علیزہ نے جواب میں کچھ کہنے کے بجائے سوال کیا۔
”کافی عرصے سے۔” سجیلہ نے مختصر جواب دیا ،پھر کہا۔
”تم ملنا چاہو گی اس کے گھر والوں سے؟”
”نہیں۔” علیزہ گڑبڑا گئی۔ ”میں کیوں ملنا چاہوں گی۔”
”اچھے لوگ ہیں۔”
”ہاں جنید سے مل کر اس کا اندازہ ہوتا ہے، مگر مجھے جنید کو دیکھ کر بہت عجیب سا احساس ہوتا رہا۔”
سجیلہ نے چونک کر اسے دیکھا۔ ”عجیب سا احساس؟”
”ہاں مجھے یوں لگتا ہے جیسے میں نے اسے پہلے بھی کہیں دیکھا ہے… یا اس کی آواز سنی ہے۔ اس کا نام بھی مجھے بہت شناسا لگا… مگر بہت سوچنے کے باوجودبھی مجھے یادنہیں آیا کہ میں نے اسے کہاں دیکھا ہے۔” علیزہ نے پر سوچ انداز میں کہا۔
”کیا جنید نے تم سے ایسا کچھ کہا؟”
”نہیں اس نے تو ایسا کچھ نہیں کہا۔”
سجیلہ نے ایک گہرا سانس لیا۔
”تو پھر یہ تمہارا وہم ہو گا… بعض لوگوں کی شکل ہمیں ویسے ہی شناسا لگتی ہے۔” علیزہ الجھے ہوئے انداز میں کندھے اچکا کر رہ گئی۔
”شاید ہو سکتا ہے۔”
بھوربن سے واپسی کے بعد تیسرے دن وہ لاہور چلی آئی۔نانو واپس اپنے گھر شفٹ ہو چکی تھیں۔ گھر کی بیرونی دیوار اور گیٹ کی نئے سرے سے تزئین و آرائش کر دی گئی تھی۔ مگر گیٹ پر پہلی نظر نے علیزہ کو پھر اس رات کی یاد دلائی۔ وہ کچھ دیر گیٹ پر موجود چوکیدار کا حال احوال دریافت کرتی رہی۔
پھر اندر آکر اس نے سب سے پہلی کال شہلا کو کی۔
”میں ابھی آتی ہوں تمہاری طرف۔”
اس نے علیزہ کی آواز سنتے ہی کہا۔ علیزہ نے فون بند کر دیا۔ وہ جانتی تھی وہ آدھا گھنٹہ کے بعد وہاں موجود ہوگی، اور ایسا ہی ہوا اور اس وقت لاؤنج میں نانو کے ساتھ گپ شپ میں مصروف تھی جب شہلا آگئی۔
رات تک وہ دونوں باتیں کرنے میں مصروف رہیں۔ اس کے جانے کے بعد وہ اپنے کمرے میں سونے کے لئے جانا چاہتی تھی۔ جب نانو نے اسے روک لیا۔
”تم سے کچھ بات کرنی ہے۔ علیزہ”
”سارا دن ہم باتیں ہی تو کرتے رہے ہیں نانو۔”ا سے نانو کی بات پر کچھ حیرت ہوئی۔
”ہاں باتیں ہی کرتے رہے ہیں مگر یہ ذرا سنجیدہ بات ہے اور میں چاہتی ہوں تم اسے توجہ سے سنو۔” نانو اب سنجیدہ تھیں۔
”ٹھیک ہے آپ باتیں کریں۔ میں سن رہی ہوں۔” وہ بھی سنجیدہ ہو گئی۔
”اسلام آباد میں سجیلہ نے تمہیں ایک لڑکے سے ملوایا تھا۔ جنید ابراہیم نام تھا اس کا۔” انہوں نے بات شروع کرتے ہوئے کہا۔
”اسلام آباد میں نہیں… بھوربن میں ملوایا تھا۔” اس نے تصحیح کرتے ہوئے کہا۔
”چلو بھوربن ہی سہی… تم یہ بتاؤ… تمہیں کیسا لگا ہے وہ؟”
علیزہ کے دل کی دھڑکن یک دم تیز ہو گئی۔ نانو کا سوال اب اس کے لئے سوال نہیں رہا تھا۔
”کیا مطلب ہے نانو آپ کا، وہ ویسا ہی تھا جیسے سارے لڑکے ہوتے ہیں۔” اس بار اس کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہو چکی تھی۔
”جنید ابراہیم کے گھر سے پرپوزل آیا ہے تمہارے لئے۔”
نانو نے اب تمہید ختم کر دی۔ وہ بے حس و حرکت بیٹھی رہی۔
”مجھے اچھے لگے ہیں اس کے گھر والے۔” نانو نے اس کے تاثرات سے بے خبر اسے بتا رہی تھیں۔ ”میں نے لڑکے کی تصویر دیکھی ہے… مجھے وہ بھی بہت اچھا لگا ہے۔ سجیلہ سے فون پر میری بات ہوئی تو اس نے بھی کافی تعریف کی اس کی۔”
وہ بات کرتے کرتے ایک لحظہ کے لئے رکیں۔ پھر اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے انہوں نے کہا۔
”لیکن بہرحال میں نے ابھی ان سے سوچنے کے لئے کچھ و قت مانگا ہے۔ کیونکہ تم سے پوچھے بغیر تو کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔”
”مجھے شادی میں کوئی دلچسپی نہیں ہے… اور فی الحال تو بالکل بھی نہیں۔”
”یہ ایک انتہائی احمقانہ بات ہے اور کم از کم میں ایسی کسی بات کی بنا پر تو تمہاری شادی کے بارے میں سوچنا نہیں چھوڑ سکتی۔” نانو نے قطعی انداز میں کہا۔
”مجھے کچھ وقت چاہئے… چند سال اور۔”
”کس لئے؟”
”آپ جانتی ہیں نانو! میں کسی این جی او یا نیوز پیپر کو جوائن کرنا چاہتی ہوں… میں کچھ سوشل ورک کرنا چاہتی ہوں۔”
علیزہ یہ کام تم شادی کے بعد بھی کر سکتی ہو۔”
”نہیں ۔ میں یہ کام شادی کے بعد نہیں کر سکتی۔ شادی کے بعد کوئی اتنا یکسو ہو کر کام نہیں کر سکتا۔”
نانو اس کی بات پر بے اختیار ہنسیں۔ ”یہ کیا احمقانہ بات ہے۔”
وہ خاموش رہی۔
”بس یہی وجہ ہے یا کوئی اور بھی وجہ ہے؟” اس نے کچھ کہے بغیر صرف ایک نظر انہیں دیکھا۔
”نانو ! میں اس سے صرف دو تین بار ملی ہوں اور وہ بھی اسے ایک عام سا شخص سمجھ کر… اگر میں نے یہ کہہ دیا ہے کہ وہ ایک اچھا آدمی ہے تو اس کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ اس اچھے شخص کو میرے سر پر ہی مسلط کر دیا جائے۔” اس بار اس کی آواز میں خفگی نمایاں تھی۔
”کون مسلط کر رہا ہے کسی کو تمہارے سر پر…؟ میں نے تو تمہیں صرف ایک پرپوزل کے بارے میں بتایا ہے۔” اس بار نانو نے قدرے مفاہمانہ انداز میں کہا۔
”ثمینہ اور سکندر کا بہت پریشر ہے مجھ پر… وہ بار بار مجھ سے اس بارے میں پوچھتے رہتے ہیں۔ ابھی تک تو میں یہی کہتی رہی کہ تم اپنی تعلیم مکمل کر رہی ہو مگر اب میں اس سے اور کیا کہوں… پھرتمہارے انکلز کا بھی بہت پریشر ہے… اب تمہیں اپنے مستقبل کے بارے میں کچھ سوچ لینا چاہئے۔”

وہ اپنے بائیں ہاتھ کے انگوٹھے کو کھرچتے ہوئے ان کی باتیں سنتی رہی۔
”ٹھیک ہے… کوئی بات نہیں۔ میں تمہیں کچھ اور لوگوں کے بارے میں بتا دیتی ہوں، تم ان کے بارے میں غور کر لو۔” نانو نے تحمل سے کہا۔
”میں ان میں سے کسی کے ساتھ شادی کرنا نہیں چاہتی۔” اسے نانو کے ان مجوزہ پرپوزلز کے بارے میں پیشگی اندازہ تھا۔
”یعنی آپ اپنی زندگی قوم کی خدمت کے لئے وقف کرنا چاہتی ہیں۔ ” وہ اب ان کے چہرے اور آواز میں خفگی محسوس کر سکتی تھی۔ ”یا پھر شاید کسی نیوز پیپر میں کام کرکے کوئی انقلاب لانا چاہتی ہیں… اسی قسم کا انقلاب جو آپ نے چند ماہ پہلے لانے کی کوشش کی اور جس کے نتیجے میں آپ کو یہاں سے جانا پڑا۔”
وہ اب قدرے بلند آواز میں بات کر رہی تھیں۔ علیزہ اسی طرح سر جھکائے اپنی انگلیوں کو انگوٹھے سے کھرچتے ہوئے کسی دلچسپی کے بغیر ان کی باتیں سنتی رہیں۔
”کیا بننا چاہتی ہیں آپ…؟” جون آف آرک یا پھر مدر ٹریسا … یا پھر آپ نے بس یہ طے کر لیا ہے کہ آپ ایک کے بعد ایک کرکے میرے لئے مصیبتیں لاتی رہیں گی۔”
”نانو! آپ ایک فضول بات پر ناراض ہو رہی ہیں۔” اس نے ان کی باتوں کے جواب میں خاصی بے زاری سے کہا۔
”فضول بات…؟ تم نے کبھی سوچا ہے تم کس قدر Irrationalہو ۔ علیزہ … اپنے یوٹوپیا سے باہر آکر کبھی حقیقی دنیا کو بھی دیکھا کرو۔” ان کی ڈانٹ جاری رہی۔
”میں بہت اچھی طرح جانتی ہوں نانو کہ میں کتنی Irrational ہوں… آپ کو مجھے اس بارے میں بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں نے آپ سے یہ تو نہیں کہا کہ میں شادی نہیں کروں گی… میں صرف یہ کہہ رہی ہوں کہ میں ابھی شادی نہیں کرنا چاہتی۔”
”تم جنید سے شادی نہیں کرنا چاہتی تو پھر کس سے شادی کرنا چاہتی ہو؟” نانو کے منہ سے بے اختیار نکلا۔
اور پھر جیسے انہیں اپنے سوال پر افسوس ہوا۔ علیزہ نے سر اٹھا کر انہیں دیکھا۔ اس نے کچھ نہیں کہا تھا اور اس نے سب کچھ کہہ دیا تھا۔ نانو کا غصہ اور ناراضی یک دم جھاگ کی طرح غائب ہو گئی۔ وہ کئی منٹ بالکل خاموش بیٹھی رہیں۔
”تم جو چاہتی ہو علیزہ… وہ ممکن نہیں ہے۔”
”میں نے تو آپ سے کچھ بھی نہیں کہا۔”
”میں اس کے باوجود سب کچھ جانتی ہوں۔ ہر بات کو سمجھنے کے لئے لفظوں کا سہارا ضروری نہیں ہے۔”
وہ کچھ دیر ان کا چہرہ دیکھتی رہی۔ ”نانو ! اگر آپ واقعی سب کچھ جانتی ہیں تو پھر آپ مجھ سے یہ سب کیوں کہہ رہی ہیں؟”
”تم واقعی عمر سے شادی کرنا چاہتی ہو۔”
”میں ابھی شادی نہیں کرنا چاہتی۔” اس کا سر جھکا ہوا تھا۔
”میں نے تم سے یہ نہیں پوچھا … کچھ اور پوچھا ہے۔”
”نانو ! میں نے ابھی شادی کے بارے میں کچھ نہیں سوچا۔”
”علیزہ ۔” انہوں نے اس بار تنبیہی انداز میں کہا۔
”جس سوال کا جواب آپ جانتی ہیں ، وہ مجھ سے کیوں کہہ رہی ہیں؟” اس بار اس کی آواز میں واضح شکست خوردگی تھی۔
”عمر کے علاوہ میں اور کس سے شادی کر سکتی ہوں۔” اس کی آواز میں لرزش تھی یوں جیسے وہ اپنے آنسوؤں پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہو۔ ”آپ میرے سامنے ہر دوسرے دن کوئی نہ کوئی پرپوزل لا کر رکھ دیتی ہیں… آپ مجھ سے عمر کے پرپوزل کے بارے میں بات کیوں نہیں کرتیں… لیکن میں جانتی ہوں ۔ آپ یہ نہیں کر سکتیں۔ اگر عمر کو مجھ میں دلچسپی ہی نہیں ہے تو۔۔۔”
”اس کے باوجود تم۔۔۔” نانو نے اپنی بات ادھوری چھوڑ دی۔
”نانو! میں کیا کر رہی ہوں۔ آپ جانتی ہیں… میں حقیقت پسند ہونے کی کوشش کر رہی ہوں۔” وہ ایک لمحہ کے لئے رکی ”میں کوشش کر رہی ہوں کہ زندگی کو عمرکے بغیر گزارنا سیکھ جاؤں… مگر یہ بہت مشکل ہے۔ ” وہ مسکرائی… مگر اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
”جنید بہت اچھا لڑکا ہے۔” نانو نے موضوع بدلنے کی کوشش کی۔
”عمر بھی بہت اچھا ہے۔”اس نے جواباً کہا۔
لاؤنج میں چند لمحے خاموش رہی۔
”نانو! ایک بار آپ اس سے میرے بارے میں بات کیوں نہیں کرتیں… آپ ایک بار اس سے میرے بارے میں بات تو کریں۔” اس بار اس کی آواز میں التجا تھی۔ ”آپ اسے یہاں بلا کر اس سے میرے بارے میں بات کریں۔”
”اور اگر اس نے انکار کر دیا تو…؟”
”اگر… اگر اس نے انکار کر دیا… تو پھر ٹھیک ہے۔ آپ جنید سے میری شادی کر دیں… میں اعتراض نہیں کروں گی۔” وہ مزید کچھ کہے بغیر اٹھ کر اپنے کمرے میں آگئی۔
”محبت اور عزت نفس کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہوتا ہے۔ محبت سب سے پہلے عزت نفس کو ختم کر دیتی ہے۔ یا بندہ محبت کرلے … یا پھر اپنی عزت… ہاتھ کی مٹھی میں دونوں چیزیں اکٹھی نہیں اسکتیں۔”
اپنے کمرے میں آنے کے بعد وہ بھی کچھ ایسا ہی محسوس کر رہی تھی… اسے یک دم بہت زیادہ تھکن کا احساس ہو رہا تھا۔
”کیا میں نے ٹھیک کیا ہے؟” کھڑکی کے پردے ہٹاتے ہوئے اس نے باہر پھیلی تاریکی میں جھانکتے ہوئے سوچا۔
”کیا خود کو اس قدر گرا دینا ٹھیک ہے؟” وہ اب سینے پر بازو لپیٹے سوچ رہی تھی۔ ”یہ جاننے کے باوجود کہ عمر اور جوڈتھ… پھر میں آخراپنے لئے کس رول کا انتخاب کرنا چاہ رہی ہوں۔” اس نے اپنے ہونٹ بھینچ لیے۔ ”یہ جاننے کے باوجودکہ عمر شاید کبھی بھی مجھ سے شادی کے لئے انٹرسٹڈ نہیں رہا۔ میں اس سے پھر بھی یہ تعلق کیوں قائم کرنا چاہتی ہوں۔” اس نے ایک گہرا سانس لیا۔” آخر عمر ہی کیوں۔۔۔” وہ خود کو بے حد بے بس محسوس کر رہی تھی۔ ”شاید میں ابھی بھی میچور نہیں ہوئی ہوں… شاید میں کبھی بھی میچور نہیں ہو سکتی… یا پھر عمر جہانگیر وہ حد ہے جہاں میری میچوریٹی ختم ہو جاتی ہے۔ میرے حواس خمسہ کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں… پھر میں صرف وہ دیکھتی ، وہ سنتی اور وہ کہتی ہوں جو اس کی خواہش ہوتی ہے… یا شائید اسی کیفیت کو محبت کہتے ہیں۔
اسے اپنی آنکھیں دھندلی ہوتی محسوس ہوئیں۔
اعتراف کا لمحہ عذاب کا لمحہ ہوتا ہے۔

باب: 45

عمر نے مقابلے کے امتحان میں کامیابی کے بعد اگلے دو سال لاہور اور اسلام آباد میں گزارے تھے۔ وہ نانو کے گھر نہیں رہا تھا مگر وہ مستقل علیزہ سے ملتا اور اسے فون کرتا رہتا تھا۔ کبھی ایسا کوئی دن نہیں گزرتا تھا جب وہ علیزہ کو فون نہ کرتا ہو۔ وہ دونوں ایک دوسرے کو اپنے پورے دن کی روداد سناتے۔ عمر اسے وقتاً فوقتاً اپنے مشوروں سے نوارتا رہتا تھا، اور وہ آنکھیں بند کرکے ان پر عمل کرتی۔
عمر پر اس کا انحصار ہر معاملے میں بڑھ گیا تھا اور ایسا کرنے میں بڑا ہاتھ عمر ہی کا تھا۔ شاید وہ ہر معاملے میں اس کی اس طرح مدد نہ کرتا تو وہ ہر معاملے میں اسے انوالو کرنا چھوڑ دیتی۔
انہیں دو سالوں کے دوران معاذ حیدر کا انتقال ہو گیا۔ ان کے انتقال کے بعد نانو میں یک دم بہت ساری تبدیلیاں آگئیں۔ ان کی سوشل سرگرمیاں بہت محدود ہو گئیں اور علیزہ پر ان کی توجہ بہت بڑھ گئی۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اب اکیلی ہو چکی تھیں اور ان کے لاشعور میں یہ احساس تھا کہ کچھ عرصہ کے بعد علیزہ کی شادی کی صورت میں وہ مکمل طور پر تنہا ہو جائیں گی۔شایداسی وجہ سے انہوں نے علیزہ پر بہت سی پابندیاں ختم کر دیں تھیں۔ وہ اب اسے کسی بات پر مجبور نہیں کرتی تھیں۔
عمران دنوں اپنی پہلی بیرون ملک پوسٹنگ پر امریکہ جا چکا تھا۔ ان کے درمیان رابطہ بھی ابھی قائم تھا مگر فون کالز کے تسلسل میں کمی ہو چکی تھی۔ نانو کے ساتھ زندگی میں پہلی بار اس کی بے تکلفی اور دوستی میں اضافہ ہو رہا تھا۔ یہ اسی دوستی کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے اے لیولز کے دوران اس کے لئے پرپوزلز کی تلاش ترک کر دی تھی۔ ثمینہ اور سکندر کے اصرار اور دباؤ کے باوجود انہوں نے اس معاملے میں وہی کیا تھا جو علیزہ نے چاہا تھا۔ اس میں بڑا ہاتھ عمر کا بھی تھا جو مسلسل نانو کی برین واشنگ کرتا رہتا تھا۔
نانو کے لاشعور میں شاید کہیں یہ بات بھی تھی کہ عمر اپنی ذاتی دلچسپی کی وجہ سے یہ خواہش رکھتا ہے کہ علیزہ کی ابھی کہیں شادی نہ ہو اور کچھ عرصہ کے بعد جب وہ مکمل طور پر اسٹیبلش ہو جائے گا تو تب وہ خود اس سے شادی کرنا چاہے گا۔ ان کا خیال تھا کہ وہ جو اس کی تعلیم مکمل کروانے پر اتنا اصرار کر رہا ہے تو اس کی وجہ بھی یہی پسندیدگی ہے۔
عمر کی امریکہ پوسٹنگ ہونے کے بعد بھی نانو کے ذہن سے یہ خیال محو نہیں ہوا کیونکہ عمر کا ابھی بھی ان کے اور علیزہ کے ساتھ رابطہ تھا۔ اگرچہ یہ رابطہ پہلے کی طرح مستقل نوعیت کا تھا مگر پھر بھی ابھی اس رابطے نے رسمی نوعیت اختیار نہیں کی تھی۔
وہ اب بھی علیزہ کے بارے میں فکر مند رہتا تھا اور اس کے بارے میں اکثر نانو سے گفتگو کرتا رہتا۔ اہم مواقع پر بھی وہ کبھی علیزہ کو کال کرنا نہ بھولتا۔
لیکن پھر آہستہ آہستہ علیزہ اور نانو کے لئے کی جانے والی فون کالز میں کمی آنے لگی۔ وہ اپنی جاب سے مطمئن نہیں تھا… کیوں مطمئن نہیں تھا یہ بات اس نے کبھی تفصیل سے بتانے کی کوشش نہیں کی تھی، مگر وہ جب بھی فون پر نانو یا علیزہ سے بات کرتا… وہ تلخ ہو جاتا… اس کے لہجے میں رچ جانے والی اس تلخی کی وجہ کیا تھی… جہانگیر معاذ… پا پھر ہر چیز سے بہت جلد اکتا جانے کی اس کی اپنی عادت… یا پھر جہانگیر معاذ کے دباؤ پر کئے جانے والے مسلسل غیر قانونی کام۔
”پاپا مجھے ربر اسٹیمپ کی طرح استعمال کر رہے ہیں۔ مجھے بعض دفعہ محسوس ہوتا ہے کہ میں کوئی بھی کام اپنی مرضی سے کبھی کر ہی نہیں سکتا۔ ہر چیز میں پاپا کی انوالومنٹ بہت ضروری ہے۔”
وہ فون پر علیزہ اور نانو سے شکایت کرتا۔
”وہ کہیں گے دن تو مجھے دن کہنا ہے… وہ کہیں گے رات تو مجھے رات کہنا ہے… مجھے اگر یہ اندازہ ہو جاتا کہ پاپا میری پرسنل اور پروفیشنل لائف میں اس قدر مداخلت کریں گے تو میں کبھی اس پروفیشن میں نہ آتا… میں نارتھ پول پر بیٹھنے کو ترجیح دیتا… واشنگٹن میں کام کرنے کی نسبت۔۔۔” وہ بولتا رہتا۔
”تمہیں اگر جہانگیر کی اپنے کام میں مداخلت ناپسند ہے تو تم اسے صاف کہہ دو… پہلے بھی تو تم اس سے دو ٹوک بات کرلیتے تھے۔” نانو اسے مشورہ دیتیں اور وہ آگے سے خاموش ہو جاتا۔
”ایک پاپا کو مداخلت کرنے سے منع کر دوں تو اور کتنوں کو روکوں… جس سسٹم کا میں حصہ بن گیا ہوں وہاں کھڑے ہو کوئی تقریریں تو کر سکتا ہے تبدیلی نہیں لا سکتا… غلط کام کرنے سے بچنے کے لئے میں اپنے آفس ٹیبل کے نیچے چھپ سکتا ہوں نہ فائل پر سائن کرنے سے انکار کر سکتا ہوں… جو چیز مجھ تک پہنچتی ہے اور اسے کسی نے غلط نہیں سمجھا تو اسے میں غلط سمجھنے والا کون ہوتا ہوں… بہترین بیورو کریٹ وہ ہوتا ہے جو آنکھیں، کان اور منہ بند رکھے۔ جو سسٹم کا Cog بن کر رہے Maker بننے کی کوشش نہ کرے۔” وہ استہزائیہ انداز میں ہنستے ہوئے کہتا۔
نانو کو تب ہی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ احساس ہوتا گیا کہ علیزہ میں عمر کی دلچسپی کم ہو گئی ہے۔ یا پھر سرے سے ہی ختم ہو گئی ہے۔ پھر وہ بھی جان گئیں کہ جہانگیر، عمر کی شادی ایک بڑے اور نامور سیاسی گھرانے میں کرنا چاہ رہا تھا۔ اگرچہ عمر اس پر تیار نہیں تھا، مگر تب پہلی بار انہیں یہ اندازہ ہو گیا کہ علیزہ کے ساتھ عمر کی شادی ممکن نہیں ہے۔ جلد یا بدیر جہانگیر، عمر کو اس گھرانے میں شادی پر تیار کر ہی لے گا۔ جہانگیر معاذ کے دباؤ کے سامنے ٹھہرنا عمر کے لئے بہت مشکل تھا اور اگر وہ کسی طرح جہانگیر کے دباؤ میں نہ آتے ہوئے اس شادی سے انکار کر بھی دیتا تب بھی اس بات کا کوئی امکان نہیں تھا کہ وہ علیزہ میں گزشتہ دلچسپی کی وجہ سے شادی کی خواہش کرتا۔
علیزہ کی عمر میں دلچسپی حد سے زیادہ بڑھ چکی تھی مگر اس کے باوجود نانو یہ بات اچھی طرح جانتی تھیں کہ وہ عمر کو پسند کرتی ہے اور خود علیزہ کو بھی احساس تھا کہ نانو اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں۔
نانو کا خیال تھا، عمر کے واپس آنے کے امکان بہت کم ہیں… اور وقت گزرنے کے ساتھ جوں جوں وہ میچور ہو گی… وہ یقیناً عمر کو اپنے ذہن سے نکال دے گی، خاص طور پر اس صورت میں جب ان دونوں کے درمیان ہونے والا رابطہ کم سے کم ہوتا جارہا تھا۔
ان دونوں کے درمیان رابطہ تقریباً ختم ہو گیا تھا… اور وہ وقت گزرنے کے ساتھ نانو کی توقعات کے مطابق میچور بھی ہو گئی تھی۔ مگر نانو کا یہ اندازہ غلط ثابت ہوا تھا کہ وہ عمر کو اپنے ذہن سے نکال دے گی… عمر کے لئے اس کی پسندیدگی پہلے سے زیادہ بڑھ گئی تھی اور رہی سہی کسر پانچ سال بعد اس کی یک دم واپسی نے پوری کر دی تھی۔
عمر کی شخصیت میں یقیناً بہت زیادہ تبدیلیاں آچکی تھیں اور یہ ذہنی اور جذباتی تبدیلیاں اس کی پوری شخصیت کا احاطہ کئے ہوئے تھیں… مگر علیزہ ایک بار پھر کسی مقناطیس کی طرح اس کی طرف کھنچ رہی تھی… اور نانو کو اس بات کا خدشہ تھا عمر پاکستان میں رہتا تو کسی نہ کسی طرح وہ دونوں رابطے میں رہتے… اور ا سکے بعد کیا ہو گا۔ وہ اچھی طرح اندازہ کر سکتی تھیں۔

باب: 46

وہ اس دن فیروز سنز سے کچھ کتابیں لینے گئی تھی۔ شہلا اس کے ساتھ تھی۔ کتابیں دیکھتے ہوئے وہ دونوں مختلف حصوں کی طرف بڑھ گئیں۔
وہ ایک کتاب کا فلیپ پڑھنے میں مصروف تھی جب اس نے اپنی پشت پر ایک آواز سنی۔کسی نے اس کا نام لیا تھا۔ بے اختیار اس نے پلٹ کر دیکھا اور چند لمحوں کے لئے ساکت رہ گئی۔ وہ جنید ابراہیم تھا۔ فوری طور پر اس کی سمجھ میں نہیں ایا کہ وہ اسے کیا رسپانس دے۔
وہ اب مسکراتا ہوا اس کی طرف آرہا تھا۔ وہ کوشش کے باوجود مسکرا نہیں سکی۔ گردن موڑ کر اس نے ہاتھ میں پکڑی کتاب کو بند کیا اور واپس رکھ دیا۔
جنید تب تک اس کے قریب پہنچ چکا تھا۔ رسمی سی سلام دعا کے بعد اس نے علیزہ سے کہا۔
”مجھے توقع نہیں تھی کہ آج آپ سے یہاں ملاقات ہو گی۔”
وہ سپاٹ چہرے کے ساتھ اسے دیکھتی رہی۔ چند ہفتے پہلے بھوربن میں اس کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی گرم جوشی یک دم ہی کہیں غائب ہو گئی تھی۔ جنید نے اس تبدیلی کو فوراً محسوس کر لیا تھا۔ اس کے انداز و اطوار میں خاصی سرد مہری تھی۔ وہ قدرے خفیف ہو گیا۔
”ہاں مجھے اپنا وقت ضائع کرنے کا خاصا شوق ہو رہا ہے آج کل… میں جگہ جگہ اس طرح کی سرگرمیوں میں ضائع کرتی پھر رہی ہوں۔”
جنید سمجھ نہیں سکا، وہ کس سرگرمی کا ذکر کر رہی ہے۔
اس نے ایک کتاب کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔
”اچھی کتابوں کی تلاش کرنا کوئی غیر مناسب سرگرمی نہیں ہے، نہ ہی ایسی سرگرمی ہے جس پر کوئی وقت ضائع کرنے کا لیبل لگا سکے۔”
اس نے لا محالہ یہی اندازہ لگایا کہ وہ اپنے وہاں آنے کے بارے میں بات کر رہی تھی۔ علیزہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ جنید کے چہرے پر اتنی سنجیدگی تھی کہ اسے بے اختیار عجیب سی شرمندگی ہوئی۔
”شاید میں واقعی ہر قسم کے ادب آداب بھولتی جا رہی ہوں۔” اس نے دل میں سوچا۔
”آپ بھوربن سے کب آئے؟” وہ بمشکل اپنے چہرے پر ایک نمائشی مسکراہٹ لائی۔
”کافی دن ہو گئے۔” جنید کو اس کے چہرے پر مسکراہٹ ابھرتی دیکھ کر عجیب سی تسلی ہوئی۔
”آپ کا کام ختم ہو گیا؟”
”نہیں، مکمل طور پر تو نہیں… مگر بڑی حد تک۔”
”دوبارہ کب جا رہے ہیں؟”
”ابھی فوری طور پر تو نہیں جاؤں گا… کچھ عرصہ کے بعد چکر لگاؤں گا۔”
وہ خاموش ہو گئی… اور کیا سوال کیا جائے، کسی ایسے شخص سے جس کے لئے آپ کے پاس کوئی حقیقی سوال نہ ہو۔ وہ سوچ میں گم تھی۔
اس کا اندازہ تھا کہ جنید اب اس سے اپنے پرپوزل کے بارے میں بات ضرور کرے گا۔… اس کا اندازہ درست ثابت نہیں ہوا۔ وہ بھی اب خاموش تھا۔ شاید وہ خود بھی سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ وہ علیزہ سے کیا بات کرے یا پھر علیزہ کے تاثرات نے اسے کچھ محتاط کر دیا تھا۔
”آپ اکیلی آئی ہیں؟” چند لمحوں کے بعد جنید نے پھر خاموشی کو توڑا۔
”نہیں۔ میری فرینڈ میرے ساتھ ہے۔” علیزہ نے شہلا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
جنید نے گردن موڑ کر اس طرف دیکھا، جہاں وہ اشارہ کر رہی تھی پھر اس نے مسکراتے ہوئے روانی میں کہا۔
”شہلا!”
وہ منہ کھولے جنید کو دیکھنے لگی… پلکیں جھپکے بغیر… کسی بت کی طرح…
جنید نے گردن موڑ کر اسے دیکھا اور پھر بے اختیار اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔
”میری بہن بھی میرے ساتھ آئی ہوئی ہے۔” اس نے بہت تیزی سے بات کا موضوع بدلتے ہوئے کہا۔
”وہ… وہاں ” اس نے کچھ فاصلے پر کھڑی ایک لڑکی کی طرف اشارہ کیا جس کے ساتھ پانچ چھ سال کا ایک چھوٹاسا بچہ بھی کھڑا تھا۔
علیزہ نے اس لڑکی کی طرف دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ اب بھی پلکیں جھپکائے بغیر جنید کو گھور رہی تھی۔
جنید اس کے تاثرات سے کچھ گڑ بڑا گیا۔
”آپ میری فرینڈ کا نام کیسے جانتے ہیں؟” اس نے جنید کے چہرے پر نظریں جماتے پوچھا۔
”میں… میں نے کچھ دیر پہلے آپ کو اس کا نام پکارتے سنا تھا۔”
وہ الجھی ہوئی نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔ اس کے چہرے پر اب کچھ دیر پہلے کی گھبراہٹ کی بجائے اطمینان تھا۔
علیزہ نے ایک بار پھر گردن موڑ کر شہلا کو دیکھاپھر اس نے کندھے اچکا دیے۔
”آپ پریشان کیوں ہو گئی ہیں؟” جنید نے اب اس سے پوچھا۔
”نہیں میں پریشان تو نہیں ہوئی۔”
”تو پھر آپ کی فرینڈ کا نام لینے پر آپ کو اتنی حیرت کیوں ہوئی؟” جنید نے دلچسپی سے کہا۔
”کیا یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ کوئی مجھے ٹھیک سے جانتا بھی نہ ہو اور میری فرینڈز کو پہچانتا ہو۔”
”میں نے آپ کو بتایا…میں آپ کی فرینڈ کو نہیں پہچانتا… صرف آپ کے منہ سے میں نے ان کا نام سنا تھا… وہی دہرا دیا۔” جنید نے معذرت خواہانہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
”لیکن جہاں تک آپ کو جاننے کا تعلق ہے تو۔۔۔” وہ بات کرتے کرتے رکا۔ ”تو آپ کا یہ اندازہ غلط ہے کہ میں آپ کو جانتا نہیں ہوں… ہم بھوربن میں اچھا خاصا وقت اکٹھے گزار چکے ہیں۔” اس نے جیسے علیزہ کو یاد دہانی کروائی۔ ”اور… مجھے لگتا ہے ، میں آپ کے بارے میں بہت کچھ جاننے لگا ہوں۔”
علیزہ کا دل چاہا وہ اس سے کہے۔ ”آپ مجھے اتنا بھی نہیں جاننے لگے کہ مجھے پرپوز کرنے لگیں۔” مگر کچھ کہنے کے بجائے اس نے صرف مسکرانے پر اکتفا کیا۔
”میں آپ کو اپنی بہن کے بارے میں بتا رہا تھا۔” جنید نے ایک بار پھر بات شروع کرتے ہوئے کہا۔ ”آئیں، میں آپ کو ان سے ملواؤں۔” جنید نے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔
”نہیں١ میں پھر کبھی ان سے مل لوں گی۔” علیزہ نے اپنی جگہ سے ہلے بغیر کہا۔ ” اس وقت مجھے کچھ جلدی ہے۔”
جنید نے اسے غور سے دیکھا۔ اس کے چہرے پر انکار صاف تحریر تھا۔
”چند منٹوں کی بات ہے۔ زیادہ وقت نہیں لگے گا۔”
”میری فرینڈ کو بھی بہت جلدی ہے، ہمیں گھر سے نکلے خاصی دیر ہو گئی ہے۔”
”آپ کی فرینڈ اس وقت کتابیں دیکھنے میں مصروف ہے… جب تک وہ کچھ خریدیں اور بل بنوائیں تب تک آپ رابعہ سے مل سکتی ہیں۔”
جنید نے ایک بار پھر کہا۔ علیزہ شش و پنج کا شکار تھی۔
”لیکن میں اصرار نہیں کروں گا… اگر آپ کو پسند نہیں ہے تو ٹھیک ہے۔ ” جنید نے نرمی سے کہا۔
”میں مل لیتی ہوں۔” اس نے ایک گہری سانس لے کر قدم آگے بڑھا دیا۔
”رابعہ! یہ علیزہ سکندر ہیں۔” رابعہ کے قریب جاتے ہی جنید نے تعارف کروایا مگر رابعہ کے چہرے پر پہلے سے موجود شناسا مسکراہٹ نے علیزہ کو بتا دیا تھاکہ یہ تعارف رسمی ہے… وہ اس کے بغیر بھی علیزہ کو جانتی… اور شاید پہچانتی بھی تھی… کیسے؟ اسے حیرانی تھی۔
رابعہ نے چند قدم آگے بڑھ کر اس کے گالوں کو خیر مقدمی انداز میں چوما۔
”اور یہ میری بڑی بہن ہیں رابعہ… یہ ان کا بیٹا ہے صالح۔”
”جنید نے کافی ذکر کیا تھا تمہارا؟” رابعہ اب بڑی بے تکلفی سے کہہ رہی تھی۔ ”مجھے بہت خواہش تھی تم سے ملنے کی۔” وہ مسکراتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
”جنید نے آپ کا ذکر بھی کیا تھا… کچھ ہفتے پہلے… جب ہم بھوربن میں ملے تھے۔ ”علیزہ نے کہا۔
”میں نے تو جنید سے جب بھی کہا تھا کہ تمہیں میرے گھر کھانے پر لائے… تم اسلام آباد میں ٹھہری تھیں نا!… میری رہائش وہیں پر ہے۔”
علیزہ اسے دیکھتے ہوئے سوچ رہی تھی۔ وہ جنید سے بہت زیادہ مشابہت رکھتی ہے۔ ”میں تمہیں بہت اچھی کمپنی دے سکتی تھی… تمہاری بوریت خاصی کم ہو جاتی… خود میرا بھی کچھ وقت اچھا گزرجاتا۔”
”میں بھوربن سے آنے کے بعد زیادہ دن اسلام آباد میں نہیں ٹھہری۔ تیسرے دن ہی واپس آگئی تھی اس لئے یہ ہو نہیں سکتا تھا۔” علیزہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”نہیں بھئی! میں بھوربن جانے سے پہلے کی بات کر رہی ہوں… تم دوتین ماہ رہی ہو وہاں۔” علیزہ مسکرائی۔
”پہلے آپ سے ملاقات کیسے ہوسکتی تھی۔ میں تو جنید کو جانتی بھی نہیں تھی۔”
علیزہ نے جنید اور رابعہ کو ایک لمحے کیلئے ایک دوسرے کی طرف دیکھتے پایا پھر اگلے ہی لمحے جنید نے کہا۔
”ہم لوگ صالح کی فرمائش پر اب آئس کریم کھانے کے لئے جائیں گے… ہمیں بہت خوشی ہو گی اگر آپ اور آپ کی فرینڈ بھی ہمیں جوائن کریں۔”
بات کا موضوع ایک بار پھر بدل گیا تھا… یہ دانستہ طور پر ہوا تھا یا نادانستہ طور پر… علیزہ اندازہ نہیں کر سکی۔
”مجھے اور شہلا کو واپس جانا ہے… میں نے آپ سے پہلے بھی کہا تھا کہ ہمیں جلدی ہے… کافی دیر سے نکلے ہوئے ہیں گھر سے۔” علیزہ نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔
”اگر تھوڑا سا وقت تم میرے ساتھ گزار دو تو مجھے بہت اچھا لگے گا۔” اس بار رابعہ نے کہا۔
”میں ضرور گزارتی… اور مجھے انکار کرتے ہوئے شرمندگی بھی ہو رہی ہے مگر یہ ممکن نہیں ہے۔”
”کوئی بات نہیں… آپ کے پاس واقعی جینوئن ایکسکیوز ہے۔” جنید نے اس کی معذرت قبول کرتے ہوئے کہا۔
وہ انہیں خدا حافظ کہہ کر جب واپس شہلا کی طرف آئی تو وہ پہلے ہی اس کی طرف متوجہ تھی۔
”یہ کون تھے؟” اس نے علیزہ کے قریب آتے ہی پوچھا۔
”تم یہاں سے چلو… پھر بتاتی ہوں۔” علیزہ نے اس کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا۔
”مگر مجھے تو ابھی کچھ اور کتابیں دیکھنی ہیں۔”
”وہ تم دوبارہ کسی دن دیکھ لینا…فی الحال یہاں سے چلو۔” علیزہ نے اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔
جنید اور رابعہ ابھی وہیں تھے اور وہ نہیں چاہتی تھی کہ ان سے جھوٹ بولنے کے بعد اب وہ شہلا کے ساتھ زیادہ دیر ان کے سامنے ٹھہرے۔
”تمہیں جلدی کس بات کی ہے؟” شہلا نے قدر حیرانی سے کہا۔
”تم باہر چلو، میں تمہیں بتا دیتی ہوں۔” اس نے شہلا کے ساتھ باہر نکلتے ہوئے کہا۔
بل ادا کرنے کے بعد شہلا نے اپنی کتابیں لیں اور دونوں باہر نکل آئیں۔ ڈرائیونگ سیٹ سنبھالتے ہی شہلا نے علیزہ سے پوچھا۔
”اب بتاؤ… کیا ہوا ہے… اتنی افراتفری میں مجھے کیوں لائی ہو؟”
”میں ان لوگوں کو Avoidکرنا چاہتی تھی اس لئے۔” علیزہ نے اطمینان سے کہا۔
”کیوں؟ ” شہلا نے گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوئے حیرت سے کہا۔
”وہ آئس کریم کھانے کے لئے ساتھ چلنے کی آفر کر رہے تھے، اس لئے۔”
”تھے کون یہ؟” وہ گاڑی کو پارکنگ سے نکالتے ہوئے بولی۔
”اس لڑکے کا نام جنید ابراہیم ہے۔” علیزہ نے کچھ سوچتے ہوئے کہنا شروع کیا۔ ”چند ہفتے پہلے بھوربن میں ملاقات ہوئی تھی میری اس کے ساتھ۔ آنٹی سجیلہ کے کسی جاننے والوں کا بیٹا ہے۔”
”پھر؟”
علیزہ چند لمحوں کے لئے خاموش رہی۔
”میرے لاہور واپس آنے سے پہلے اس کے گھر والے نانو کے پاس آئے تھے… پرپوزل لے کر۔”
”پھر نانو نے کیا کہا… زیجیکٹ کر دیا؟” شہلا نے قیاس آرائی کی۔
”نہیں… انہوں نے سوچنے کے لئے کچھ وقت مانگا ہے۔”
وہ اب ونڈ اسکرین سے باہر سڑک پر نظریں جمائے ہوئے تھی۔ شہلا نے غور سے اس کا چہرہ دیکھا۔
”نانو نے تم سے بات کی ہو گی۔”
”ہاں۔”
”اور تم نے حسب معمول انکار کر دیا ہو گا۔” علیزہ خاموش رہی۔
شہلا نے ایک گہرا سانس لیا۔ ”کیا کرتا ہے یہ؟”اس کا اشارہ جنید کی طرف تھا۔
”آرکیٹکٹ ہے۔”
”اس کے ساتھ کون تھا؟”
”اس کی بڑی بہن اور بھانجا۔”
”مجھے دیکھنے میں اچھا لگا ہے۔ سوبر اور ڈیسنٹ ۔” شہلا نے رائے دی۔ ”تمہیں کیسا لگا؟”
اس بار علیزہ نے گردن موڑ کر کچھ ترشی سے پوچھا۔
”کس حوالے سے…؟” ”تمہارا کیا اندازہ ہے۔ میں کس حوالے سے پوچھ رہی ہوں۔”
”جس حوالے سے تم پوچھ رہی ہو۔ میں نے وہ حوالہ ذہن میں رکھ کر اس پر غور نہیں کیا۔ ویسے وہ اچھا ہے۔ بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح۔” اس نے دو ٹوک انداز میں کہا اور ایک بار پھر ونڈ اسکرین سے باہر دیکھنے لگی۔
گاڑی میں کچھ دیر خاموشی رہی پھر شہلا نے اس سے کہا۔
”تمہیں آخر پریشانی کس بات کی ہے… تم کو یہ پرپوزل قبول نہیں ہے، انکار تم کر چکی ہو۔ نانو یہ انکار ان تک پہنچا دیں گی۔ بات ختم ہوئی۔”
”میں نے انکار نہیں کیا۔” شہلا نے بے اختیار گردن موڑ کر اسے دیکھا۔ وہ اب بھی باہر سڑک پر نظریں جمائے تھی۔
”انکار نہیں کیا… تمہیں یہ پرپوزل قبول ہے؟”
”میں نے یہ تو نہیں کہا۔”
”یہ کیا بات ہوئی… تم نے انکار نہیں کیا تو اس کا واضح مطلب تو یہی ہے کہ وہ تمہیں پسند ہے یا کم از کم تمہیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے مگر اب تم کہہ رہی ہو کہ تم نے اقرار بھی نہیں کیا۔” شہلا کچھ الجھ گئی۔
”میں نے نانو کو عمر سے بات کرنے کے لئے کہا ہے۔”
” کیا بات کرنے کے لئے؟”
علیزہ نے گردن موڑ کر شہلا کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ ”It’s very humiliating. لیکن میں نے ان سے کہا ہے کہ وہ عمر سے میرے پرپوزل کے بارے میں بات کریں۔۔۔” وہ ایک لمحہ کے لئے رکی۔ ”یہ بہت تکلیف دہ ہے مگر میرے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے… میں آخر کب تک عمر کے لئے ہر پرپوزل کو ریجیکٹ کرتی رہوں گی۔”
وہ ہونٹ بھینچتے آنسوؤں کو روکنے کی کوشش کر رہی تھی۔
”نانو نے عمر کو لاہور بلوایا ہے…وہ ابھی کچھ مصروف تھا۔ اس لئے نہیں آسکا… چند دن تک آجائے گا… تب نانو اس سے بات کریں گی۔” اس نے شہلا کو بتایا۔
”تمہیں پتا ہے جوڈتھ پاکستان آئی ہوئی ہے…؟”
پانچ چھ سال پہلے جب جوڈتھ ایک دو بار پاکستان آئی تھی، تب نانو کے گھر پر شہلا سے بھی اس کی چند ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ بعد میں بھی علیزہ، جوڈتھ کے بارے میں اسے خاصی تفصیلات بتاتی رہی مگر اب اچانک اس کے منہ سے جوڈتھ کا نام سن کر اسے حیرت ہوئی تھی۔
”تمہیں کیسے پتا ہے؟” علیزہ نے بے اختیار کہا۔
”اس کا مطلب ہے ، تم اس کی یہاں موجودگی سے بے خبر نہیں ہو۔”
وہ شہلا کی بات پر چپ سی ہو گئی۔ ”دونوں پچھلے کئی دنوں سے لاہور میں ہیں۔ میں تمہیں بتانا نہیں چاہتی تھی۔ میرا خیال تھا۔ تم پریشان ہو گی۔” وہ چند لمحوں کے لئے خاموش ہوئی۔ ”ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے ہیں دونوں ایک ہی روم میں … مسٹر اینڈ مسز عمر جہانگیر کے طور پر۔”
علیزہ نے فق ہوتے چہرے کے ساتھ اسے دیکھا۔ وہ گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے ونڈ اسکرین سے باہر دیکھ رہی تھی۔
”فاروق کچھ دن پہلے اپنے ایک غیر ملکی کسٹمر کو ٹھہرانے گیا تھا وہاں۔” اس نے اپنے بھائی کا نام لیتے ہوئے کہا۔
”اس وقت عمر بھی وہاں ریسیپشن پر چیک اِن کر رہا تھا۔ فاروق سے ملا اور جوڈتھ کا تعارف بھی کروایا… فرینڈ کے طور پر… مگر وہاں چیک ان مسٹر اور مسز عمر جہانگیر کے طور پر کیا۔”
وہ دم بخود اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔ ”فاروق نے گھر آکر مجھ سے پوچھا تھا عمر کی شادی کے بارے میں … ظاہر ہے، میں نے تو یہی کہنا تھا کہ نہیں ہوئی… پھر اس نے مجھے یہ سب بتایا… پھر پرسوں میں نے ان دونوں کو خود فورٹریس میں دیکھا… اس کا مطلب ہے ابھی تک وہ دونوں یہیں ہیں… اور تم نانو سے کہہ رہی ہو کہ وہ عمر سے تمہارے پرپوزل کے بارے میں بات کریں۔” شہلا نے کچھ استہزائیہ انداز میں اپنی بات ختم کی۔
”عمر نے جوڈتھ سے شادی نہیں کی۔” علیزہ نے بے اختیار کہا۔
”یہ تم کیسے کہہ سکتی ہو؟”
”وہ اگرشادی کرتا تو اس طرح چھپ کر نہ کرتا۔ کھلم کھلا کرتا… اور اگر چوری سے کرتا تو بھی کم از کم نانو کو ضرور بتا دیتا۔”
”ہو سکتا ہے اس نے کسی وجہ سے اپنی شادی کو خفیہ رکھا ہو۔”شہلا نے خیال ظاہر کیا۔
”میں نہیں سمجھتی کہ ایسی کوئی بات ہے… وہ اس طرح چھپ کر شادی کر ہی نہیں سکتا۔"
”ٹھیک ہے اس نے شادی نہیں کی ہو گی… مگر شادی کے بغیر جوڈتھ کے ساتھ اس کا ایک ہی روم میں قیام زیادہ قابل اعتراض بات ہے۔ خاص طور پر اس صورت میں جب تم اس سے شادی کرنا چاہتی ہو۔”
”یہ اس کا ذاتی مسئلہ ہے۔” علیزہ نے کمزور سے لہجے میں کہا۔
”کم آن… ذاتی مسئلہ… تم اس کی زندگی کا ایک حصہ بننا چاہتی ہو اور تم کہہ رہی ہو کہ اتنا بڑا ایشو اس کا ذاتی مسئلہ ہے۔” علیزہ اس بار خاموش رہی۔
”تم نے کبھی ان دونوں کے تعلق کے بارے میں غیر جانب داری سے سوچنے کی کوشش کی ہے؟”
علیزہ نے کوئی جواب نہیں دیا۔
”وہ خود تمہارے بقول وہ دونوں ہائی اسکول میں اکٹھے ہیں… بیس سال تو ہو ہی گئے ہیں ان دونوں کی دوستی کو … اور ایک زمانے میں تمہیں یہ شک بھی تھا کہ عمر اس سے محبت کرتا ہے اور شاید اسی سے شادی کرے گا۔”
”مگر وہ صرف شک تھا… عمر نے اس سے شادی نہیں کی۔” علیزہ نے مداخلت کی۔
”اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ عمر نے ابھی تک کسی سے بھی شادی نہیں کی… اگر وہ شادی کرنے کا فیصلہ کرتا ہے… تو وہ کس کا انتخاب کرے گا… کیا تم بتا سکتی ہو؟”شہلا اسے آڑے ہاتھوں لے رہی تھی۔
تم عمر پر آج اتنی تنقید کیوں کر رہی ہو ، اس کے لئے میری پسند یدگی تم سے کبھی بھی چھپی نہیں رہی… پہلے تو کبھی تم نے جوڈتھ کو ایشو بنانے کی کوشش نہیں کی۔” علیزہ نے کچھ حیرانی سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
”ہاں۔ میں عمر کے لئے تمہاری پسندیدگی سے ہمیشہ سے ہی واقف تھی مگر جوڈتھ اور عمر کی ایک دوسرے کے لئے فیلنگز یا ان کے تعلق کے بارے میں زیادہ نہیں جانتی تھی… مگر اب یہ جاننے کے بعد کہ عمر کے اس کے ساتھ تعلقات صرف دوستی اور محبت کی حد تک نہیں ہیں۔ میں تمہیں یہی مشورہ دوں گی کہ تم پیچھے ہٹ جاؤ۔ عمر تمہارے ساتھ وفادار نہیں ہو سکتا۔”
”میں عمر کے بغیر نہیں رہ سکتی… تم اس کے لئے میری فیلنگز سے اچھی طرح واقف ہو۔” اس نے شہلا سے احتجاج کیا۔
”زندگی صرف فیلنگز کے ساتھ نہیں گزاری جا سکتی۔ فرض کرو۔ تمہاری شادی اس کے ساتھ ہو جاتی ہے اور جوڈتھ مسلسل اس کے ساتھ اس طرح کی دوستی رکھتی ہے تو پھر آپ کیا کریں گی محترمہ…؟ ” شہلا نے استہزائیہ انداز میں کہا۔”
”ایسا نہیں ہو گا۔”
”کیوں تم پر کوئی وحی نازل ہوئی ہے کہ ایسا نہیں ہو گا… اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتی ہو تم؟” شہلا نے مذاق اڑایا۔
”عمر ایک دیانت دار شخص ہے… دھوکا نہیں دے گا مجھے۔” اسے اپنی آواز خود کھوکھلی لگی۔
”اور فرض کرو اگر اس نے دیا تو۔۔۔”
”میں ایسی کوئی نا ممکنات فرض نہیں کر سکتی۔” اس نے خفگی سے کہا۔
”زندگی میں بعض دفعہ ناممکنات ہی ڈراؤ نے خواب بن کر سامنے آجاتی ہیں۔”
”شہلا! ہمیں ٹاپک چینج کر دینا چاہئے۔”
”کیونکہ تم عمر کے بارے میں سچ سننے کو تیار نہیں ہو۔ ہے نا؟” اس نے ایک بار پھر اس کا مذاق اڑایا۔
”ضروری تو نہیں ہے کہ عمر کو جوڈتھ سے ہی محبت ہو؟”
علیزہ خاموش ہو گئی۔
”اس کو تم سے محبت نہیں ہے علیزہ… یہ بات تم تسلیم کیوں نہیں کر لیتیں۔” اس بار شہلا کا لہجہ بہت نرم تھا۔
”اسے تم سے محبت ہوتی تو وہ تمہیں اتنے سالوں میں کبھی تو پرپوز کرتا… کبھی تو تم سے اظہارِ محبت کرتا… کبھی تو تمہیں کوئی آس دلاتا… اس نے کبھی ایسا کچھ نہیں کیا۔”
”میں نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ اسے مجھ سے محبت ہے۔ کیا میں نے آج تک تم سے کبھی یہ کہا ہے؟” وہ شہلا کی بات کاٹ کر بولی۔ ”میں نے تو یہ خواہش کی بھی نہیں کہ اسے مجھ سے محبت ہو… میں تو صرف شادی کی بات کر رہی ہوں… کیونکہ مجھے اس سے محبت ہے۔”
”ون سائیڈ ڈ افیئر”(یک طرفہ محبت)
”ہاں تم اس کو ون سائیڈ کہہ لو… مگر کیا برائی ہے۔ اگر اس چیز کو حاصل کرنے کی کوشش کی جائے جو اچھی لگتی ہے۔ ”
”چیزوں میں اور انسانوں میں بہت فرق ہو تا ہے۔ علیزہ … انسانوں کو کوئی زبردستی اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتا۔”
”میں بھی اس سے کوئی زبردستی نہیں کروں گی… پرپوزل کے بارے میں بات کرنا تو کوئی بری بات نہیں ہے۔” اس نے وضاحت کرتے ہوئے کہا۔
”اور اگر اس نے تم سے شادی سے انکارکر دیا تو؟ ”
”تو… پتا نہیں… پھر نانو کسی سے بھی میری شادی کر دیں… میں کچھ نہیں کہوں گی۔”
”اور وہ ”کسی” یقیناً جنید ابراہیم ہو گا۔”
”ہاں… وہ بھی ہو سکتا ہے۔”
”کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ تم جنید ابراہیم کو ہی اپنا پہلا انتخاب رکھو۔ کم از کم اس کی زندگی میں کوئی جوڈتھ نہیں ہے۔”
”عمر کے علاوہ کسی دوسرے شخص کے بارے میں سوچنے کے لئے بڑے حوصلے کی ضرورت ہے اور میرے پاس یہ حوصلہ نہیں ہے۔” اس نے بجھی ہوئی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
”مجھے حیرت ہے علیزہ… چند ماہ پہلے یہ تم ہی تھیں جو عباس اور عمر کے خلاف اتنی باتیں کر رہی تھیں اور اب… تم خود اس کی زندگی کا ایک حصہ بننا چاہتی ہو… اس کی ساری برائیوں کو جانتے ہوئے بھی۔۔۔” شہلا عجیب سے انداز میں ہنسی۔”حالانکہ میرا خیال تھا کہ ان حالیہ واقعات نے عمر کے بارے میں تمہاری فیلنگز کو خاصا بدل دیا ہو گا… لیکن میں غلط تھی۔ ” شہلا کی آواز میں افسوس جھلک رہا تھا۔ ” عمر پر اتنی تنقید کرنے کے بعد بھی تم ابھی تک اس کی محبت میں اسی طرح گرفتار ہو جس طرح پانچ سال پہلے تھیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا۔”
وہ اندازہ نہیں کر سکی۔ وہ اسے ڈانٹ رہی تھی یا نصیحت کر رہی تھی۔ جو کچھ بھی تھا، اس وقت اسے ناگوار لگ رہا تھا۔
”میری اس کے ساتھ جو جذباتی انوالومنٹ ہے۔ وہ کسی اور کے ساتھ نہیں ہے… میرے لئے اس سے نفرت کرنا ممکن نہیں ہے۔ کم از کم تم تو یہ بات سمجھو۔” اس کے لہجے میں بے بسی تھی۔
”میں نے تمہیں اس سے نفرت کرنے کے لئے نہیں کہا… میں جانتی ہوں۔ تم ایسا نہیں کر سکتیں۔ میں تو صرف یہ کہہ رہی ہوں کہ تم اس کے بارے میں سوچتے ہوئے وقتی طور پر جذبات کو ایک طرف رکھ دو۔ جس آدمی کے ساتھ شادی کرکے زندگی گزارنی ہو۔ اس کے بارے میں صرف جذبات سے کام نہیں لیا جاسکتا۔ بہت سی باتوں کو مدنظر رکھنا پڑتا ہے۔” وہ اب قدرے مدھم آواز میں اسے سمجھا رہی تھی خاص طور پر اس صورت میں جب یہ صرف ون سائیڈڈ لو افیئر ہو۔”
”شہلا ! یہ افیئر نہیں ہے۔” علیزہ نے اس کی بات کاٹ دی۔ ”ہم میں سے کوئی بھی ایک دوسرے کے ساتھ افیئر نہیں چلا رہا… میری اس کے لئے کچھ خاص فیلنگز ہیں… یا تم یہ کہہ لو کہ مجھے اس سے محبت ہے… مگر یہ کسی افیئر کی کیٹگری میں نہیں آتی۔”
”ٹھیک ہے۔ تم جو کہہ رہی ہو۔ میں مان لیتی ہوں… یہ افیئر نہیں ہے… محبت ہے… مگر تم اس کے ساتھ انوالوڈ ہو… اور وہ کسی اور کے ساتھ انوالوڈ ہے… کتنا پر سکون رہ سکتی ہو تم اس طرح کے آدمی کے ساتھ۔”
”شہلا! اس ٹاپک پر بات نہ کرو… تم اس طرح بات کرو گی تو مجھے بہت تکلیف ہو گی۔”
”ہو سکتا ہے ایسا ہی ہو رہا ہو مگر کبھی نہ کبھی تو تمہیں اس تکلیف سے گزرنا ہی ہے۔ میں نہیں کہوں گی… کوئی اور کہے گا… پانی میں نظر آنے والے عکس کو چادر ڈال کر چھپایا نہیں جا سکتا۔” شہلا نے صاف گوئی سے کہا۔ ”تم اپنے لئے فیصلے کرنے میں آزاد ہو۔ میں یا کوئی دوسرا تمہارا ہاتھ پکڑ سکتا ہے نہ ہی تمہاری آنکھوں پر پٹی باندھ سکتا ہے… عمر کے حوالے سے تم نے جو ٹھیک سمجھا وہ کیا… میری صرف اتنی خواہش ہے کہ تم اس کے بارے میں ذرا جذبات سے کام لئے بغیر سوچو۔”
”تم اگر میری جگہ ہوتیں تو کیا کرتیں؟” اس نے گردن موڑ کر شہلا کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔ ” کیا تم بھی وہی نہیں کرتیں جو میں نے کیا ہے… کیا تم بھی اس شخص سے شادی کرنے کی خواہش نہ رکھتیں جسے تم پسند کرتی ہوتیں۔”
”ہاں یقیناً اگر اس کی زندگی میں کوئی جوڈتھ نہ ہوتی تو۔” وہ شہلاکی بات کے جواب میں چند لمحوں کے لئے کچھ نہیں کہہ سکی۔
کچھ کہنے کے بجائے اس نے شہلا کے چہرے سے نظریں ہٹاتے ہوئے سیٹ کی پشت سے سر ٹکا کر آنکھیں بند کرلیں۔
”عمر کے علاوہ دوسروں کے بارے میں بھی غور کرو… عمر سے بہتر لوگ موجود ہیں… ہر لحاظ سے … مجھے جنید بھی اچھا لگا ہے۔”
علیزہ نے آنکھیں نہیں کھولیں۔
”عمرکا کیا پتا… ہو سکتا ہے اس نے واقعی جوڈتھ کے ساتھ شادی کرلی ہو… ہو سکتا ہے، وہ کہہ دے…ہمیشہ کی طرح کہ وہ شادی کرنا ہی نہیں چاہتا۔ ہو سکتا ہے… وہ اگر کچھ عرصہ کے بعد شادی کرے بھی تو جوڈتھ سے ہی… وہ ناقابل یقین شخصیت ہے۔ میں مانتی ہوں تمہاری اس کے ساتھ بہت انڈر اسٹینڈنگ ہے۔ مگر وہ تو کسی کے ساتھ بھی ہو سکتی ہے… یہی حال ایموشنل اٹیچمنٹ کا ہوتا ہے۔ وہ بھی ڈیو لپ کی جا سکتی ہے… یہ ضروری تو نہیں ہے کہ عمر کے علاوہ تم کسی دوسرے کے لئے یہ سب محسوس ہی نہ کر سکو۔” وہ اسی مدھم آواز میں بول رہی تھی۔
”تم سے ایک بات پوچھوں؟” علیزہ نے یک دم آنکھیں کھول کر شہلا سے کہا۔
”ہاں۔”
”تم سے نانو نے کہا ہے کہ مجھ سے یہ سب کہو۔”
شہلا کچھ بول نہیں سکی۔ اسے علیزہ سے ایسے سوال کی توقع نہیں تھی۔ اسے اس طرح چپ ہوتے ہوئے دیکھ کر علیزہ عجیب سے انداز میں مسکرائی۔
”مجھے پہلے ہی اندازہ ہو رہا تھا… آج فیروز سنز بھی تم مجھے جان بوجھ کر لے گئی تھیں… یہ بھی یقیناً تم سے نانو نے کہا ہو گا۔”
”تمہیں کیسے پتا چلا…؟” شہلا نے کچھ خفت سے کہا۔
”شہلا! میں بے وقوف نہیں ہوں… میں اب بچی بھی نہیں رہی… اور تم لوگوں کو بھی یہ بات جان لینی چاہئے۔۔۔” اس کی آواز میں خفگی تھی۔ ”میں بھی حیران تھی کہ جنید کو تمہارا نام کیسے پتا ہے… وہ بھی جھوٹ بول رہا تھا مجھ سے کہ اس نے مجھے تمہارا نام لیتے سنا ہے… جبکہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے فیروز سنز پر ایک بار بھی تمہارا نام نہیں لیا۔”
”علیزہ! میں۔۔۔” علیزہ نے شہلا کی بات کاٹ دی۔
”کبھی سجیلہ آنٹی مجھے ٹریپ کرکے اس سے ملوا رہی ہیں… کبھی نانو… اور اب تم… میں اس قدر احمق اور امیچور نہیں ہوں جتنا تم لوگ مجھے سمجھ رہے ہو۔” اس کا غصہ اب بڑھتا جا رہا تھا۔
”نانو اگر عمر سے بات کرنا نہیں چاہتی تو نہ کریں مگر تمہارے ذریعے اس کے خلاف میری برین واشنگ کرنے کی کوشش بھی نہ کریں۔”
”علیزہ ایسی بات نہیں ہے میں تمہاری برین واشنگ کرنے کی کوشش نہیں کر رہی ہوں نہ ہی انہوں نے مجھ سے ایسا کچھ کرنے کے لئے کہا ہے۔” شہلا اب کچھ پریشان ہو گئی تھی۔
”اگر ایسی بات نہیں ہے، تو وہ یہ سب کچھ خود مجھ سے کہہ سکتی تھیں۔ تمہارے ذریعے کیوں کہلوایا ہے انہوں نے یہ سب ؟ ”
”ان کا خیال تھا ، میں تمہیں یہ سب کچھ زیادہ بہتر طریقے سے بتا سکتی ہوں۔”
”ہاں عمر کے خلاف باتیں کرکے… جھوٹ بول کر تم مجھے ہر چیز زیادہ بہتر طریقے سے سمجھا سکتی ہوں۔”
وہ مکمل طور پر شہلا سے برگشتہ ہو چکی تھی۔ ”انہوں نے مجھے خود صاف صاف یہ کیوں نہیں بتا دیا کہ وہ عمر سے بات نہیں کریں گی… ایسی من گھڑت کہانیاں سنانے کی کیا ضرورت ہے… عمر اور جوڈتھ کی شادی… نان سینس”
”یہ کوئی من گھڑت کہانی نہیں ہے۔ عمر واقعی جوڈتھ کے ساتھ اس ہوٹل۔۔۔”
علیزہ نے خفگی سے شہلا کی بات کاٹ دی۔” ”Enough is enough… کم از کم میرے سامنے ان دونوں کے حوالے سے کچھ بھی مت کہنا۔”
”تمہیں اگر یقین نہیں آتا تو تم خود وہاں جا کر اس بات کو کنفرم کر لو۔”
”میں اتنی تھرڈ کلاس حرکت کبھی نہیں کر سکتی کہ اس کی جاسوسی کرتی پھروں، تمہیں مجھ سے ایسی باتوں کی توقع تو نہیں کرنی چاہئے۔ ” اس نے سرخ چہرے کے ساتھ شہلا سے کہا۔
”تم میری بات ماننے کو تیار نہیں ہو… میری ہر بات تمہیں جھوٹ لگ رہی ہے۔ پھر میں اس کے علاوہ اور کیا کر سکتی ہوں کہ تمہیں خود تمہاری آنکھوں سے سب کچھ دکھا دوں۔”
علیزہ ناراضی سے کھڑکی سے باہر دیکھتی رہی۔
”اب کم از کم مجھ سے ناراضی تو ختم کر دو۔” شہلا نے اس کا موڈ ٹھیک کرنے کی کوشش کی۔
”تمہیں نانو کا ماؤتھ پیس بننے کے لئے کس نے کہا تھا۔” اس نے ایک بار پھر گردن موڑ کر اکھڑے ہوئے انداز میں اس سے کہا۔
”مجھے تمہاری فکر تھی… اس لئے ۔۔۔”
”کم آن شہلا ! یہ پروا اور فکر جیسے لفظ استعمال مت کرو۔ دوستوں کو کبھی فکر اور پروا کے نام پر حقائق چھپانے اور جھوٹ بولنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے۔ اس سے دوستی جیسا رشتہ کتنی بری طرح متاثر ہوتا ہے۔ اس کا اندازہ تمہیں نہیں ہے۔۔۔” وہ اس بار سنجیدگی سے کہہ رہی تھی۔ ”تم اب مجھ سے عمر اور جوڈتھ کے علاوہ اور کسی کے بارے میں کچھ بھی کہہ لینا… مگر ان کے بارے میں کچھ نہیں۔ میں اس سارے معاملے سے خود نپٹنا چاہتی ہوں اور اگر میں نانو کو عمر سے بات کرنے کے لئے کہہ سکتی ہوں تو پھر نانو کے سامنے بیٹھ کر یہ سب باتیں بھی ڈسکس کرسکتی ہوں۔” وہ رکی پھر قدرے توقف سے بولی..
”نانو کو مجھے اب واقعی میچور سمجھ لینا چاہئے کہ میں ہر ایموشنل کرائسس کا سامنا کر سکتی ہوں… کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے والے فیز سے گزر چکی ہوں میں… بلکہ اسے بہت پیچھے چھوڑ آئی ہوں۔”
”مجھے نانو اور تمہارے خلوص اور میرے لئے اپنی محبت پر شبہ نہیں ہے… مگر تم لوگوں کو عمر کے لئے میری فیلنگز کو بھی تو سمجھنا چاہئے۔ میں اسے صرف کسی سنی سنائی بات کی بنا پر نہیں چھوڑ سکتی۔ یہ میرے لئے ممکن ہی نہیں ہے۔” اس کے لہجے میں اس بار نمایاں بے بسی تھی۔
”جہاں تک جوڈتھ کا تعلق ہے تو وہ تو ہمیشہ سے اس کی زندگی میں رہی ہے… تب بھی جب وہ کئی سال پہلے یہاں ہمارے گھر میں ہمارے ساتھ رہا تھا… اور اگر اسے مجھ میں کوئی دلچسپی نہ ہوتی تو وہ … میرے لئے وہ سب کچھ کیوں کرتا رہتا جو وہ آج تک کرتا آیا ہے… ہر ایک کے لئے تو نہیں کرتا وہ …کچھ تو ہو گا اس کے دل میں میرے لئے… اور مجھ سے یہ نہ کہو کہ یہ محبت نہیں ہے… ہمدردی ہے… یا مروت … یہ کم از کم ان دونوں چیزوں میں سے کچھ بھی نہیں ہے۔” اس نے اپنے ہونٹوں کی لرزش چھپانے کے لئے ہونٹ بھینچ لئے۔ اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں اور وہ انہیں چھلکنے سے روکنے کی کوشش میں مصروف تھی۔
شہلا نے ہمدردی سے اسے دیکھا پھر اس نے نرمی سے اس کے کندھے پر اپنا بازو پھیلا دیا۔ ”میں تمہاری فیلنگز سمجھ سکتی ہوں… تم اگر واقعی یہ سمجھتی ہو کہ عمر کے علاوہ… تو ٹھیک ہے تم نانو کو کہو۔ ایک بار پھر… کہ وہ اس سے بات کریں… ہو سکتا ہے وہ … واقعی تمہارے لئے کچھ خاص فیلیگز رکھتا ہو… اور اگر ایسا ہوا تو مجھ سے زیادہ تمہارے لئے اور کوئی خوش نہیں ہو گا… بلکہ اگر تم چاہو تو میں خود عمر سے۔۔۔” وہ اب تلافی کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
میں نے آج شام عمر کو بلوایا ہے۔” نانو نے صبح ناشتے کی میز پر علیزہ کو بتایا۔ وہ سلائس پر جام لگاتے ہوئے رک گئی۔ اسے اپنے خون کی گردش اور دھڑکن تیز ہوتی ہوئی محسوس ہوئی۔
وہ شام کے بجائے رات کو آیا تھا۔ علیزہ اس وقت اپنے کمرے میں تھی۔ نانو نے اس کیلئے رات کا کھانا تیار کروایا ہوا تھا اور اس کے آنے کے تھوڑی دیر بعد ہی نانو نے علیزہ کو کھانے کے لئے پیغام بھجوایا۔
”مجھے بھوک نہیں ہے۔” اس نے ملازم سے کہلوایا تھا۔
وہ اس وقت عمر کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی… نہ ہی وہ کر سکتی تھی۔ اس کے اسلام آباد کے قیام کے بعد وہ آج پہلی بار یہاں آیا تھا۔اس کے آنے کے کچھ دیر بعد اپنے کمرے کی لائٹ بند کرکے وہ اپنے بیڈ پر آکر لیٹ گئی۔ اس کی آنکھوں سے نیند مکمل طور پر غائب تھی۔ نائٹ بلب کی روشنی میں وہ چھت کو گھورتی رہی۔
عمر بارہ بجے کے قریب واپس گیا تھا۔ اس نے اس کی گاڑی کے اسٹارٹ ہونے کی آواز سنی تھی۔ بے اختیار اس کا دل چاہا، وہ اٹھ کر باہر جائے اور نانو سے پوچھے کہ اس نے کیا کہا ہے۔ کیا ہمیشہ کی طرح وہی رٹا رٹایا جملہ۔
”میں شادی کرنا ہی نہیں چاہتا نہ ہی کبھی کروں گا… میں آزاد ہوں اور مجھے اپنی یہ آزادی پسند ہے۔” یا پھر یہ کہ ”میں ابھی شادی کرنا نہیں چاہتا… کچھ سال کے بعد اس کے بارے میں غور کروں گا اور جب شادی کے بارے میں سوچوں گا تو علیزہ کے بارے میں بھی غور کروں گا۔”
اسے کئی سال پہلے نانو کے ساتھ ہونے والی اس کی گفتگو یاد آئی جو اس نے اتفاقاً سن لی تھی اور تب پہلی بار اس نے عمر کے بارے میں بڑی حیرت سے سوچا تھا۔ ”عمر سے شادی…؟ کیا وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے…؟ کیا میں اس سے شادی کر لوں گی۔” ایک ٹین ایجر کے طور پر اسے اس بات پر ہنسی آئی تھی مگر وہ بات اس کے ذہن سے کبھی محو نہیں ہوئی… وہ اس کے لاشعور کا ایک حصہ بن گئی تھی اور وقتاً فوقتاً اس کے ذہن میں ابھرتی رہتی تھی۔
وہ اٹھ کر باہر نانو کے پاس نہیں گئی۔ ”نانو یقیناً اب سونے کے لئے جا چکی ہوں گی۔ اگر وہ سونے کے لئے نہ بھی گئیں تب بھی ہو سکتا ہے، وہ اس موضوع پر مجھ سے اس وقت بات نہ کریں۔ بہتر ہے میں ان سے صبح ہی بات کروں۔”
اس نے آنکھیں بند کرتے ہوئے سونے کی کوشش شروع کر دی۔ یہ کام خاصا مشکل تھا مگر وہ رات کے کسی پہر سونے میں کامیاب ہو ہی گئی تھی۔
وہ صبح جس وقت بیدار ہوئی نو بج رہے تھے۔ آنکھیں کھولتے ہی جو پہلا خیال اس کے ذہن میں آیا، وہ رات کو عمر کی نانو کے ساتھ ہونے والی ملاقات کے بارے میں تھا۔ ہر روز صبح بیدار ہونے کے بعد کی معمول کی بے فکری یک دم کہیں غائب ہو گئی تھی۔ رات والی بے چینی اور اضطراب نے یک دم اسے اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔
ناشتہ کرنے کے لئے وہ جس وقت ڈائننگ ٹیبل پر آئی، اس وقت نانو پہلے ہی وہاں موجود تھیں۔ علیزہ نے ان کے چہرے کو پڑھنے کی کوشش کی، اسے ناکامی ہوئی۔ نانو سنجیدہ نظر آرہی تھیں۔ وہ عام طور پر سنجیدہ ہی رہتی تھیں۔ انہوں نے ہمیشہ کی طرح علیزہ کو ناشتہ پیش کرنا شروع کر دیا تھا۔ وہ اس وقت ان کے منہ سے یہ نہیں سننا چاہتی تھی۔
”آج میں نے تمہارے لئے فرنچ ٹوسٹ بنوائے ہیں۔ تم کھاؤ ، تمہیں پسند آئیں گے۔”
”یا پھرآملیٹ لو گی یا بوائلڈ ایگ یا فرائیڈ ؟”
وہ کم از کم آج صبح ان سے ایسی کوئی بات سننا نہیں چاہتی تھی اور وہ اس سے وہی باتیں کر رہی تھیں۔
وہ اپنے اعصاب پر قابو رکھے ان کی باتیں سنتے ہوئے ناشتہ کرتی رہی۔ وہ منتظر تھی، وہ ابھی خود بات شروع کریں گی۔ نانو نے ایسا نہیں کیا جب اس کا صبر جواب دے گیا تو اس نے سلائس کو سامنے پڑی پلیٹ میں رکھتے ہوئے نانو سے کہا۔
”آپ نے عمر سے بات کی۔”
نانو نے چائے پیتے ہوئے سر اٹھا کر اسے دیکھا پھر کپ پرچ میں رکھ دیا۔ وہ سانس روکے، پلکیں جھپکائے بغیر ان کا چہرہ دیکھتے ہوئے ان کے منہ سے نکلنے والے لفظوں کی منتظر رہی۔
”وہ تم سے شادی نہیں کرنا چاہتا۔”
اس نے تصور بھی نہیں کیا تھا کہ عمر اتنا دو ٹوک انکار کرے گا نہ ہی یہ توقع تھی کہ نانو اس دوٹوک انکار کو اسی طرح کسی لگی لپٹی کے بغیر اس کے سامنے پیش کردیں گی۔
”کیوں؟” زندگی میں کبھی ایک لفظ بولنے کے لئے اسے اتنی جدوجہد نہیں کرنی پڑی تھی جتنی اس وقت کرنی پڑی۔
نانو نے ایک گہرا سانس لیا۔ اب اس کا میں کیا جواب دوں؟”
”کیا عمر سے آپ نے یہ نہیں پوچھا؟”
”پوچھا تھا۔”
”پھر؟”
”اس کے پاس بہت سی وجوہات ہیں۔”
”مثلاً؟”
”وہ خاندان میں شادی نہیں کرنا چاہتا۔”
”یہ تو کوئی وجہ نہیں۔” اس نے بے یقینی سے نانو کو دیکھا۔ ”کیا صرف اس بنا پر وہ مجھے رد کر رہا ہے کہ میں اس کی کزن ہوں۔ میں صرف اس کی کزن ہی تو نہیں ہوں۔”
”میں نے اس سے کہا تھا یہ مگر اس نے کہا کہ اگر اس بات کو نظر انداز کر بھی دیا جائے تب بھی تم سے شادی نہ کرنے کے لئے اس کے پاس بہت سی وجوہات ہیں۔” نانو نے سنجیدگی سے کہا۔
”کیا کہا ہو گا اس نے یہی کہ وہ ابھی شادی نہیں کرنا چاہتا۔” علیزہ نے رنجیدگی سے نانو کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ ”یا یہ کہا ہو گا کہ و ہ شادی کرنا ہی نہیں چاہتا۔”
وہ ایک لمحہ کے لئے رکی۔
”نانو! میں اس کا انتظار کر سکتی ہوں، دس سال بیس ، تیس سال، ساری زندگی۔”
نانو خاموشی سے اسے دیکھتی رہیں۔
”اور میں یہ ماننے کو تیار نہیں ہوں کہ وہ کبھی شادی نہیں کرے گا کبھی نہ کبھی تو اسے شادی کرنا ہی پڑے گی۔ وہ ساری زندگی اکیلا تو نہیں رہ سکتا پھر اس طرح کی بات کیوں کرتا ہے وہ؟” اس کے لہجے میں اب بے چارگی تھی ۔
”آپ بتائیں یہی سب کہا ہے نا اس نے؟”
”نہیں۔” اس نے حیرانی سے نانو کے چہرے کو دیکھتے ہوئے ان کے منہ سے نکلنے والا لفظ دہرایا۔
”اس نے یہ سب نہیں کہا؟”
”تو پھر اس نے یہ کہا ہو گا کہ میں اس کو ناپسند کرتی ہوں اور اس کی ہر بات پر اعتراض کرتی ہوں اس لئے اسے لگا ہو گا کہ ایسا کوئی رشتہ دیرپا ثابت نہیں ہوسکتا اس نے یہی سب کہا ہے نا آپ سے؟”
نانو نے ایک لمحہ کے لئے اس کا چہرہ دیکھا۔ علیزہ کو محسوس ہوا، وہ بات کرتے ہوئے کچھ متامل تھیں۔
”اس نے مجھ سے ایسا کچھ نہیں کہا کہ وہ ابھی شادی کرنا نہیں چاہتا۔” نانو نے چند لمحوں کے بعد بات شروع کی ”یا پھر کبھی شادی کرنا ہی نہیں چاہتا۔” وہ رکیں ”وہ خود بھی شادی کے بارے میں سوچ رہا ہے اور وہ کہہ رہا تھااکہ ایک دو سال تک وہ شادی کر لے گا۔”
علیزہ نے ٹیبل پر رکھے اپنے ہاتھ کو ہٹا لیا۔ وہ نہیں چاہتی تھی، نانو اس کے ہاتھ کی لرزش دیکھیں مگر اس وقت اس کے چہرے پر کتنے رنگ بدل رہے ہوں گے، یہ وہ جانتی تھی۔
”اس نے مجھ سے کہا کہ اسے تم میں کبھی بھی کوئی دلچسپی نہیں رہی، تم اس کے لئے ایک کزن یا دوست سے زیادہ کچھ بھی نہیں رہی۔” وہ دم سادھے ان کا چہرہ دیکھتی رہی۔ ” اس نے یہ بھی کہا کہ تم اس سے آٹھ سال چھوٹی ہو اور تم اس کے ٹمپرامنٹ کو سمجھ نہیں سکتیں۔”
وہ پلکیں جھپکائے بغیر ان کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔

”اس کا خیال ہے کہ اس کے اور تمہارے درمیان کوئی انڈر اسٹینڈنگ نہیں ہے۔ تم امیچور ہو اور خوابوں میں رہنے والی بھی، اس کو اپنی بیوی میں زیادہ Pragmatic (عملی) اپروچ چاہئے جو تم میں نہیں۔”
نانو چند لمحوں کے لئے رکیں اور پھر انہوں نے علیزہ سے نظریں چراتے ہوئے کہا۔
”اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ جوڈتھ میں انٹرسٹڈ ہے۔ اس کی جوڈتھ کے ساتھ انڈر سٹینڈنگ ہے اور اس کا خیال ہے کہ ایک دو سال میں جب وہ شادی کرے گا، تو جوڈتھ سے ہی کرے گا وہ اس بات پر حیران ہو رہا تھا، کہ میں تمہارے پرپوزل کے بارے میں اس سے بات کر رہی تھی۔ اسے تو ایسی کوئی توقع ہی نہیں تھی کہ میں تمہارے لئے اس کے بارے میں سوچوں گی۔ میں نے اسے یہ نہیں بتایا کہ میں تمہارے کہنے پر اس سے بات کر رہی ہوں۔”
نانو خاموش ہو گئی تھیں، شاید اب ان کے پاس کہنے کے لئے کچھ نہیں رہا تھا، بالکل ویسے ہی جیسے علیزہ کے پاس پوچھنے کے لئے کچھ نہیں رہا تھا۔
”میں نے تمہیں پہلے ہی ان سب باتوں کے بارے میں خبردار کیا تھا۔” نانو کا لہجہ بہت نرم تھا۔ شاید وہ علیزہ کی جذباتی کیفیت سمجھ رہی تھیں۔”مگر اب ان سب باتوں کو بھول جاؤ جو ہو گیا اسے جانے دو عمر میں ایسے کون سے سر خاب کے پر لگے ہوئے ہیں اور پھر تمہار ے لئے میرے پاس عمر سے بہتر پرپوزلز ہیں۔” انہوں نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا۔ اس نے رونا شروع نہیں کیا تھا حالانکہ انہیں توقع تھی کہ وہ ان کی باتیں سننے کے بعد… لیکن وہ خاموش تھی نانو کو یوں لگا جیسے وہ شاکڈ تھی۔
وہ شاکڈ نہیں تھی، اسے صرف یقین نہیں آرہا تھا کہ عمر کے بارے میں اس سے اندازے کی اتنی بڑی غلطی ہو سکتی ہے… یا وہ ضرورت سے زیادہ بیوقوف تھی یا پھر خوش گمانی کی حدوں کو چھو رہی تھی جو بھی تھا، اس وقت اسے یونہی محسوس ہو رہا تھا، جیسے شدید سردی کے موسم میں کسی نے اسے گرم کمرے سے نکال کر یخ پانی میں پھینک دیا ہو۔
”Pragmatism (عملی) اور Realism(حقیقت پسند)” اس نے اپنے کانوں سے عمر کی آواز کی جھٹکنے کی کوشش کی، بے یقینی ختم ہونے میں نہیں آرہی تھی۔
”بس کزن اور دوست کیا میں یہ بات مان سکتی ہوں کہ اس کے علاوہ عمر نے مجھے کبھی کچھ اور سمجھا ہی نہ ہو۔”
وہ ماؤف ذہن کے ساتھ ٹیبل پر پڑی ہوئی اپنی پلیٹ کو بے دھیانی کے عالم میں دیکھتی رہی۔
”علیزہ کے ساتھ میری کوئی انڈر سٹینڈنگ نہیں ہے۔”
انڈر سٹینڈنگ کے علاوہ اور تھا ہی کیا جو مجھے تمہاری طرف کھینچ رہا تھا۔” اس کی رنجیدگی بڑھتی جا رہی تھی۔
”ٹمپرامنٹ اور ایج ڈفرنس….! کیا مذاق ہے۔ پچھلے دس سالوں میں تو ان دونوں چیزوں میں سے کسی نے ہمارے تعلق کو متاثر نہیں کیا پھر اب یہ دونوں چیزیں درمیان میں کہاں سے آگئیں؟”
وہ ہونٹ بھینچے ٹیبل کو دیکھتی جا رہی تھی۔
”یا پھر… یا پھر یہ بس جوڈتھ ہے جو کسی خلیج کی طرح تمہار ے اور میرے درمیان حائل ہے اور میری حماقت یہ تھی کہ میں نے اتنے سالوں میں بھی تم دونوں کے تعلق کے بارے میں سنجیدگی سے سوچا بھی نہیں ورنہ شاید بہت سال پہلے… تم میری زندگی سے نکل چکے ہوتے۔ Pragmatism تم ٹھیک کہتے ہو، میں نے کبھی اپنے تصورات کی دنیا سے باہر نکل کر اپنے اور تمہارے تعلق کے بارے میں غور ہی نہیں کیا تھا۔”
”علیزہ !” نانو نے اس کی غائب دماغی کو محسوس کر لیا تھا۔
”مجھے چائے بنا دیں۔” اس نے انہیں دیکھے بغیر کہا۔ نانو کچھ کہتے کہتے خاموش ہو گئیں۔ وہ سلائس کو ایک بار پھر کھانے کی کوشش کر رہی تھی۔ سلائس کے ٹکڑوں کو حلق سے نیچے اتارنے کے لئے بھی اس قدر جدوجہد کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ ا س کا اندازہ اسے پہلی بار ہوا تھا۔
نانو نے چائے بنا کر اس کے سامنے رکھ دی۔ سر جھکائے کسی مشین کی طرح اس نے سلائس ختم کیا، چائے پی اور پھر اٹھ کھڑی ہوئی۔
نانو نے اسے روکا نہیں۔ وہ لاؤنج سے نکل گئی۔ نانو نے اس کے جانے کے بعد شہلا کو فون کیا۔ انہوں نے مختصراً اسے فون پر اس کے ساتھ ہونے والی گفتگو بتانے کے بعد آنے کے لئے کہا۔
آدھے گھنٹہ کے بعد جب شہلا اس کے کمرے میں داخل ہوئی تو وہ کارپٹ پر بیٹھی اپنے سامنے ایزل پر رکھی ایک پینٹنگ کو مکمل کرنے میں مصروف تھی۔
اس نے شہلا سے رسمی سی ہیلو ہائے کرنے کے بعد ایک بار پھر کینوس اسٹروک لگانے شروع کر دیئے، شہلا اس سے کچھ فاصلے پر فلور کشن پر بیٹھ گئی۔ علیزہ خاموشی سے کینوس پر اسٹروک لگاتی رہی۔ اس نے شہلا سے کوئی بات کرنے کی کوشش نہیں کی وہ واقعی مصروف تھی۔ مصروف نظر آنے کی کوشش کر رہی تھی یا پھر شہلا کو نظر انداز کرنا چاہتی تھی۔شہلا اندازہ نہیں کر سکی۔ مگر اس کا چہرہ اتنا بے تاثر تھا کہ شہلا کو اس سے بات شروع کرنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔
اسے ویسے بھی اپنے اندازے کے غلط ہونے پر حیرت ہو رہی تھی۔نانو سے بات کرنے کے بعد اس کا خیال تھا کہ جب وہ علیزہ کے پاس آئے گی تو وہ اسے روتا ہوا پائے گی اور وہ سارا راستہ یہی سوچتی ہوئی آئی تھی کہ اسے علیزہ سے
کیا کیا کہنا ہے۔ اسے کس طرح تسلی دینی ہے۔
مگر اب اسے اس طرح دیکھ کر اس کے سارے لفظ ، ساری تسلیاں غائب ہو گئی تھیں۔
”پینٹنگ کیسی لگ رہی ہے؟” اس نے بہت دیر بعد کینوس پر اسٹروک لگاتے لگاتے یک دم ہاتھ روک کر شہلا سے پوچھا۔
”پتہ نہیں۔”
”کیوں تم پینٹنگ کو دیکھ نہیں رہیں؟”
”نہیں۔ میں یہاں پینٹنگ کو دیکھنے نہیں آئی۔” علیزہ اسٹروک لگاتے لگاتے مسکرائی۔
”تم یقیناً یہاں مجھے دیکھنے کے لئے آئی ہو، پھر کیا مجھے یہ پوچھنا چاہئے کہ میں کیسی لگ رہی ہوں؟” وہ جیسے مذاق اڑاتے ہوئے بولی۔
اس کی مسکراہٹ اب غائب ہو گئی تھی مگر وہ اب بھی کینوس کی طرف ہی متوجہ تھی۔ شہلا نے ایک گہرا سانس لیا کم از کم اس کی خاموشی ختم ہو گئی تھی۔
”میں تم کو دیکھنے نہیں آئی، تم سے باتیں کرنے آئی ہوں۔”
”کس چیز کے بارے میں؟” اس کے لہجے میں سرد مہری تھی۔ شہلا کچھ بول نہیں سکی۔
”اوہ! یاد آیا۔ عمر کے انکار پر کچھ تبصرہ کرنا چاہتی ہو۔” وہ اسی طرح کینوس پر اسٹروک لگاتے ہوئے بولی۔
”یا پھر شاید تم یہ جاننا چاہتی ہو کہ ریجیکشن کے بعد میں کیا محسوس کر رہی ہوں۔ بہت اچھا محسوس کر رہی ہوں۔ اپنی اوقات کا پتا چل جانے کے بعد بندہ جتنا ہلکا پھلکا محسوس کر سکتا ہے۔ میں بھی ایسا ہی محسوس کر رہی ہوں۔”
وہ ہاتھ روک کر شہلا کی طرف دیکھتے ہوئے مسکرائی۔ ”وہ کسی نے کہا ہے نا۔ ” وہ رک کر کچھ یاد کرنے لگی۔ ” ہاں یاد آیا۔
Since i gave up hope i feel much better.
تو میں بھی کچھ ایسا ہی محسوس کر رہی ہوں۔”
وہ پلیٹ پر کچھ اور رنگ بنانے لگی۔
”میں نے پہلے ہی تمہیں یہ سب کچھ بتا دیا تھا ، اس تکلیف سے بچانا چاہتی تھی تمہیں۔” شہلا نے نرم آواز میں کہا۔
علیزہ بے اختیار ہنسی۔ ”دنیا میں لڑکیوں سے زیادہ احمق اور کوئی نہیں ہوتا۔ خوش فہمی کا آغاز اور اختتام ہم پر ہی ہوتا ہے۔ ساری عمر ہم محبت کی بیساکھیوں کا انتظار کرتی رہتی ہیں تاکہ زندگی کی ریس شروع کر سکیں۔ ہمیں ہر مرد کے بارے میں خوش فہمیاں رہتی ہیں کہ وہ آئے گا، ہمیں دیکھے گا اور ہمارا ہو جائے گا۔ کوئی ہم سے ہمدردی کرے تو ہمیں خوش فہمی ہونے لگتی ہے۔ کوئی ہمیں سرا ہے تو ہمیں وہ اپنی مٹھی میں قید نظر آنے لگتا ہے۔ کوئی ہمارے ساتھ وقت گزارے تو ہمارے ہوش و حواس اپنے ٹھکانے پر نہیں رہتے۔ ” وہ رکی۔ ”عمر کا خیال ہے مجھ میں میچورٹی نہیں ہے، یہ تو کسی لڑکی میں بھی نہیں ہوتی کبھی لڑکیاں بھی میچور ہو سکتی ہیں؟”
وہ ایک بار پھر ہنسی۔
”ہم میں میچورٹی صرف تب آتی ہے جب ہمیں اس طرح ریجیکٹ کیا جاتا ہے۔ جیسے اب میں میچور ہو گئی ہوں۔” اس نے مسکراتے ہوئے پیلٹ نیچے رکھ دی۔
”اگر دنیا میں بیوقوفی اور حماقت کا کوئی سب سے بڑا ایوارڈ یا میڈل ہوتا تو میں اس کے لئے علیزہ سکندر کا نام ضرور بھجواتی۔” وہ بڑبڑائی ”اور اس سال کم از کم میرے علاوہ کوئی اور اس ایوارڈ کا حقدار ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ a die-hard، فول ۔” شہلا خاموشی سے اسے بولتا دیکھتی رہی۔
”عمر کا خیال ہے کہ میری اور اس کی انڈر اسٹینڈنگ ہی نہیں ہے .
علیزہ کو مطمئن کرنے کی اس کی ساری کوششیں اس وقت بری طرح ناکام رہیں جب وہ دونوں ایک ریسٹورنٹ میں جا کر بیٹھیں۔ شہلا نے ویٹر کو آرڈر نوٹ کروایا اور ویٹر کو گئے ابھی چند منٹ ہی ہوئے تھے جب شہلا نے عمر کو جوڈتھ کے ساتھ ریسٹورنٹ میں آتے دیکھا۔ وہ دونوں اس وقت جس ٹیبل پر بیٹھی ہوئی تھیں۔ وہ ایسی جگہ پر تھی کہ اندر آنے والے ہر شخص کی پہلی نظر ان پرہی پڑتی۔نہ صرف شہلا نے عمر کو دیکھا تھا بلکہ عمر کی بھی اندر داخل ہوتے ہی ان پر نظر پڑی تھی وہ ٹھٹھک گیا تھا۔
شہلا نے علیزہ کو دیکھا۔ وہ بھی عمر اور جوڈتھ کو دیکھ چکی تھی۔ شہلا کا خیال تھا عمر ان دونوں کی طرف نہیں آئے گا لیکن اس کی یہ توقع غلط ثابت ہوئی ۔
عمر جوڈتھ سے کچھ کہہ رہا تھا پھر شہلا اور علیزہ نے جوڈتھ کو بھی اپنی ٹیبل کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے دیکھا۔ علیزہ نے ان دونوں سے نظریں ہٹا لیں۔
”ہیلو! ” عمر نے قریب آکر کہا علیزہ نے سر اٹھا کر نہیں دیکھا۔ شہلا اپنی کرسی سے کھڑی ہو گئی تھی۔
”ہیلو علیزہ !” ا س بار علیزہ نے جوڈتھ کی گرم جوش آواز سنی۔ وہ بھی اپنی سیٹ سے کھڑی ہو گئی۔
اس نے جوڈتھ کی طرف ہاتھ بڑھایا مگر جوڈتھ نے اس کا ہاتھ تھامنے کی بجائے اسی پرانی بے تکلفی اور گرم جوشی کے ساتھ آگے بڑھ کر اس کے دونوں گالوں کو خیر مقدمی انداز میں چوما۔
”مجھے یقین نہیں آرہا کہ یہ علیزہ ہی ہے، خوبصورت تو یہ پہلے ہی تھی مگر اب… کیوں عمر؟”
وہ علیزہ کے دونوں کندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے بڑی بے تکلفی کے ساتھ عمر سے پوچھ رہی تھی۔ علیزہ کا دل چاہا وہ اپنے کندھوں سے اس کے ہاتھوں کو جھٹک دے۔
عمرنے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔
”بہت سالوں کے بعد دیکھا ہے میں نے تمہیں علیزہ ! کتنے سالوں بعد، کچھ یاد ہے تمہیں؟”
علیزہ نے مسکرانے کی کوشش کی، وہ جانتی تھی یہ بہت مشکل کام تھا۔
”نہیں۔” اس نے یک لفظی جواب دیا۔ اپنی آواز اسے بے حد کھوکھلی لگی تھی، صرف چہرے ہی نہیں آوازیں بھی انسان کی کیفیات کا آئینہ ہوتی ہیں۔
جوڈتھ اب شہلا سے ہیلو ہائے میں مصرو ف تھی۔
”تم لوگ یہاں لنچ کے لئے آئے ہو؟” عمر نے پوچھا۔
”ہاں۔” شہلا نے کہا۔
”اکٹھے لنچ کر لیتے ہیں۔” اس بار جوڈتھ نے کہا۔
”نہیں۔ ہم لوگ اکیلے لنچ کرنا چاہتے ہیں۔”
نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے لہجے میں سرد مہری آگئی تھی اور شاید جوڈتھ نے اسے محسوس بھی کیا تھا۔
”کوئی بات نہیں۔ تم لوگ لنچ کرو۔ ہم دونوں کافی پینے آئے تھے لیکن میں سوچ رہا ہوں کہ کہیں اور پیتے ہیں یہاں کافی رش ہے۔ اچھا خدا حافظ!” عمر نے بڑی آسانی کے ساتھ بات ختم کرتے ہوئے کہا۔ اس نے ایک بار بھی علیزہ کو مخاطب کرنے کی کوشش نہیں کی علیزہ نے پوری گفتگو کے دوران ایک بار بھی عمر کے چہرے پر نظر نہیں ڈالی۔ اس میں اتنی ہمت باقی نہیں رہی تھی۔ وہ صرف جوڈتھ کو دیکھ رہی تھی جو ایک بہت خوبصورت سبز شلوار قمیض میں ملبوس تھی۔ اس میں زیادہ تبدیلی نہیں آئی تھی۔ صرف اس کا ہیر اسٹائل اور بالوں کا کلر بدل گیا تھا۔
علیزہ کو یک دم اپنی بھوک بھی ختم ہوتی ہوئی محسوس ہوئی۔ وہ ان دونوں کو اس وقت تک دیکھتی رہی جب تک وہ دونوں ریسٹورنٹ سے باہر نہیں نکل گئے۔
ویٹر اب ان کی ٹیبل پر کھانا سرو کر رہا تھا مگر کھانے میں اس کی دلچسپی ختم ہو گئی تھی۔ وہ اب یہاں سے بھاگ جانا چاہتی تھی۔
اپنی پلیٹ میں کچھ چاول ڈال کر وہ بے دلی سے شہلا کا ساتھ دینے کے لئے کھانا کھاتی رہی۔ شہلا نے کھانے میں اس کی عدم دلچسپی کو محسوس کر لیا تھا ، مگر اس نے علیزہ سے کچھ نہیں کہا اس کے لیے اتنا ہی کافی تھا کہ وہ کھانا کھا رہی تھی اور اس نے کھانا چھوڑ کر جانے کی کوشش نہیں کی تھی۔
شہلا کے کھانا ختم کرتے ہی علیزہ نے اس سے کہا ۔ ”میں گھر جانا چاہتی ہوں۔”
یہ جیسے ایک اعلان تھا کہ وہ اب گھومنا نہیں چاہتی۔
”مگر ہم دونوں نے تو یہ طے کیا تھاکہ ہم آج سارا دن ادھر ادھر پھریں گے پھر یک دم تم نے اپنا فیصلہ کیوں بدلا ہے؟ ” شہلا نے اعتراض کیا۔
”بس میں گھر جانا چاہتی ہوں۔ میں کچھ دیر آرام کرنا چاہتی ہوں۔”
وہ اپنا شولڈر بیگ اٹھاتے ہوئے شہلا سے پہلے ہی اپنی کرسی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
شہلا نے بھی اصرار نہیں کیا۔ اس کے گھر کے گیٹ پر شہلا نے گاڑی روک کر ہارن دیا تو علیزہ نے اس کی طرف دیکھے بغیر کہا۔
”شہلا! اب تم جاؤ…میں کچھ وقت اکیلے رہنا چاہتی ہوں۔”
”مگر علیزہ! میں۔۔۔” شہلا نے کچھ کہنے کی کوشش کی۔ علیزہ نے نرمی سے اس کی بات کاٹ دی۔
”پلیز…کچھ دیر کے لیے مجھے واقعی اکیلا رہنے دو…میں اس وقت تنہائی کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں چاہتی، تم میرے ساتھ رہو گی تو میں ڈسٹرب رہوں گی۔”
چوکیدار نے گیٹ کھول دیا۔ شہلا چپ چاپ اسے گاڑی سے اترتے اور جاتے دیکھتی رہی، اس نے گیٹ کے اندر جانے سے پہلے مڑ کر ایک بار شہلا کو دیکھا اور ہلکے سے مسکرائی اس کے بعد وہ اندر غائب ہو گئی۔
اگلے کئی دن وہ اسی آسیب کی گرفت میں رہی۔ ہر چیز اپنی اہمیت کھو چکی تھی۔ وہ دن اور رات کے کسی بھی لمحے میں عمر کے خیال سے غافل نہیں رہتی تھی اور اگر کبھی کچھ دیر کے لیے کوئی اور خیال اس کے ذہن میں آتا بھی تو صرف چند لمحوں کے لیے اس کے بعد وہ پھر اسی تکلیف دہ خیال میں لوٹ جاتی تھی۔
کئی ہفتوں کے بعد نانو نے ایک بار پھر اس سے جنید ابراہیم کے بارے میں بات کی تھی۔ اس نے اقرار یا انکار کچھ بھی نہیں کیا تھا۔
”آپ جو ٹھیک سمجھیں، کریں۔” اس نے صرف یہ کہا تھا۔
جنید کے ساتھ اس کی نسبت کتنی برق رفتاری کے ساتھ طے ہوئی تھی، اسے اس کی توقع بھی نہیں تھی۔ نانو پہلے ہی ثمینہ اور سکندر سے جنید کے بارے میں بات کر چکی تھیں۔ دونوں بخوشی اس پر پوزل کو قبول کرنے پر تیار ہو گئے تھے۔
سکندر مسقط سے کراچی شفٹ ہونے کے بعد پہلی بار اس سے ملنے لاہور آئے تھے۔ ان کی یہ آمد بنیادی طور پر جنید سے ملاقات کے لیے تھی اور وہ خاصے مطمئن واپس گئے تھے۔
”کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ تم جنید سے ایک بار پھر مل لو۔” باقاعدہ طور پر جنید کے گھر والوں کو اس پر پوزل کے لیے اپنی رضا مندی دینے سے پہلے نانو نے ایک دن اس سے کہا۔
”میں پہلے ہی اس سے مل چکی ہوں۔ ایک بار اور مل کر کیا کر لوں گی؟” اس نے دوٹوک انکار کر دیا۔
”پھر بھی یہ ضروری ہے…پہلے کی بات اور تھی۔۔۔”
علیزہ نے نانو کی بات کاٹ دی۔ ”کیا وہ مجھ سے ملنا چاہتا ہے؟”
”نہیں۔ اس نے ایسی کسی خواہش کا اظہار نہیں کیا…میں خود یہ چاہتی ہوں کہ تم دونوں ایک بار اور آپس میں مل لو بلکہ بہتر یہ ہے کہ تم اس کے سارے گھر والوں سے مل لو۔ یہ اس کی امی کی خواہش ہے۔” نانو نے اسے بتایا۔
”میں اس کے تقریباً سارے گھر والوں سے ہی مل چکی ہوں۔ وہ پچھلے کئی ہفتے سے آ جا رہے ہیں ہمارے گھر۔”علیزہ نے کہا۔
”ٹھیک ہے، وہ آتے رہے ہیں مگر تم سے اتنی بے تکلفی سے گفتگو تو نہیں ہوئی۔ جنید کی امی چاہتی ہیں کہ تم ان کے گھر کھانے پر آؤ۔ کچھ وقت ان کے ساتھ گزارو تاکہ تمہیں ان کے گھر کے ماحول کا اچھی طرح اندازہ ہو سکے۔”
”اس کا فائدہ کیا ہے؟” اسے الجھن ہوئی۔ ”مجھے جنید کو جتنا جاننا تھا، میں جان چکی ہوں۔”
”اگر اس کی امی کی خواہش ہے کہ تم وہاں کچھ وقت گزارو تو تمہیں اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔” نانو نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
”کیا وہ مجھے اکیلے انوائیٹ کر رہی ہیں؟” اس نے چند لمحے خاموش رہنے کے بعد نانو سے پوچھا۔
”نہیں، وہ مجھے بھی ساتھ کھانے پر بلا رہی ہیں۔”
علیزہ نے ایک نظر انہیں دیکھا اور پھر کہا۔ ”ٹھیک ہے مجھے کوئی اعتراض نہیں، آپ انہیں ہمارے آنے کے بارے میں بتا دیں۔”
تیسرے دن شام کو وہ نانو کے ساتھ جنید کے گھر موجود تھی۔
گیٹ پر انہیں جنید نے ہی ریسیو کیا تھا۔ رسمی سلام دعا کے دوران ان دونوں کے درمیان مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوا۔
”مجھے آپ کو یہاں دیکھ کر بہت خوشی ہوئی ہے۔” نانو کے اس کی امی کے ساتھ آگے چلے جانے پر اس نے علیزہ سے کہا ”اور یہ رسمی الفاظ نہیں ہیں۔”
اس نے اپنے لفظوں پر زور دیتے ہوئے کہا۔ علیزہ کوشش کے باوجود اپنے ہونٹوں پر مسکراہٹ لانے میں ناکام رہی۔ ہر چیز پہلے سے زیادہ کھو کھلی لگنے لگی تھی۔ ساتھ چلتے ہوئے اس شخص سے اسے یکدم خوف آنے لگا تھا۔
”میری خاصی دیرینہ خواہش پوری ہوئی ہے آپ کو یہاں دیکھ کر۔” وہ ساتھ چلتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
”اور یہاں تک پہنچنے کے لیے میری ایک دیرینہ خواہش کا خون ہوا ہے۔” اس نے سوچا۔
جنید کے گھر والوں کے ساتھ اگلے چند گھنٹے اس نے بہت مشکل سے گزارے تھے۔ وہ ایک اچھی فیملی سے تعلق رکھتا تھا۔ یہ وہ بھوربن میں ہونے والی اس سے اپنی پہلی ملاقات میں ہی جان چکی تھی حالانکہ تب تک وہ اس کی فیملی سے ملی تھی نہ اس نے انہیں دیکھا تھا۔ اسے ان کے بارے میں اور کچھ بھی جاننے کی خواہش نہیں تھی۔
جنید کا گھرانہ بہت زیادہ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بہت روایتی تھا۔ وہ سب آپس میں بہت بے تکلف تھے اور علیزہ کی وہاں موجودگی اسی بے تکلفی کا ایک ثبوت تھی۔
جنید کی چھوٹی دونوں بہنیں گھر پر موجود تھیں۔ اس کا چھوٹا بھائی گھر پر نہیں تھا نہ ہی اس کی بڑی بہن جس سے وہ پہلے مل چکی تھی مگر اس کے باوجود اندازہ کر سکتی تھی، گفتگو کے دوران بار بار جنید کی امی اور پاپا کی طرف سے ان کے ذکر کی وجہ سے کہ ان کی غیر موجودگی سے کوئی زیادہ فرق نہیں پڑا تھا۔
وہ جنید کی دادی اور دادا سے بھی ملی تھی۔ اسے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ وہ دونوں علی گڑھ کے گریجویٹس تھے۔ اس کے دادا بہت عرصہ ایک انگلش اخبار سے منسلک رہے تھے ، وہ فری لانس جرنلسٹ تھے اور تحریک پاکستان کے بارے میں بہت سی کتابیں بھی تحریر کر چکے تھے۔
جنید کے والد سول انجینئر تھے اور اس کمپنی کی بنیاد انہوں نے ہی رکھی تھی جس میں اب جنید ابراہیم کام کر رہا تھا۔ اگرچہ اس کی امی اور دادی ورکنگ ویمن نہیں تھیں مگر وہ اس کے باوجود بہت ایکٹو تھیں۔ کمیونٹی ڈویلپمنٹ کے بہت سے کاموں میں وہ دونوں حصہ لیتی رہی تھیں۔

چند گھنٹے وہاں گزارنے کے دوران اسے یہ احساس ہو گیا تھا کہ وہ سب اسے پہلے ہی اس گھر کے ایک فرد کی حیثیت دے چکے تھے۔ اب جو کچھ ہو رہا تھا وہ صرف رسمی نوعیت کا تھا۔
رات کے کھانے کے بعد جب وہاں سے واپس آئی تو پہلے سے زیادہ خاموش اور مضطرب تھی۔ نانو نے اس کے چہرے کے تاثرات سے اس کی دلی کیفیات جاننے کی کوشش کی، وہ متفکر ہو گئیں۔ وہ کسی طرح بھی خوش یا مطمئن نظر نہیں آرہی تھی۔
”علیزہ…!کیسے لگے تمہیں وہ لوگ؟” انہوں نے اسے کریدنے کی کوشش کی۔
”اچھے ہیں۔” وہ جتنا مختصر جواب دے سکتی تھی اس نے دیا۔ نانو نے بے اختیار سکون کا سانس لیا۔
”تو پھر تم اتنی پریشان نظر کیوں آرہی ہو؟ وہاں بھی تم بہت چپ چپ تھیں۔”
”کچھ نہیں آپ کو یوں ہی محسوس ہو رہا ہے۔” اس نے انہیں ٹالنے کی کوشش کی۔ نانو کچھ دیر خاموش رہیں۔ ”میں جنید کے گھر والوں کو تمہاری رضامندی دے دوں؟” انہوں نے کچھ دیر کے بعد پوچھا۔
”جیسے آپ کی مرضی۔” اس نے تھکے تھکے انداز میں کہا۔
”وہ لوگ فوری شادی نہیں چاہتے، ایک ڈیڑھ سال تک شادی چاہتے ہیں۔ جنید کو چند کورسز کے لیے سنگاپور جانا ہے۔ پھر کچھ عرصہ کے لیے کوئٹہ بھی رہنا ہے، وہاں کوئی پروجیکٹ ہے اس کا۔” وہ اسے بتانے لگیں۔
”ابھی وہ چاہتے ہیں کہ انگیجمنٹ ہو جائے۔” وہ خالی الذہنی کے عالم میں ان کا چہرہ دیکھتی رہی۔
”میں نے ثمینہ سے بات کی تھی۔ وہ بہت خوش ہے، تمہاری انگیجمنٹ کے لیے آنا چاہتی ہے۔ اس کی فلائٹ کا پتا چل جائے تو ہم لوگ انگیجمنٹ کی ڈیٹ طے کر لیں گے۔” نانو اپنی رو میں اسے بتاتی جا رہی تھیں وہ ذہنی طور پر کہیں اور پہنچی ہوئی تھی۔
”ثمینہ چاہتی ہے کہ خاصی دھوم دھام سے تمہاری انگیجمنٹ ہو، پوری فیملی آرہی ہے اس کی۔”
”میں جاؤں نانو ؟” وہ یک دم کھڑی ہو گئی۔ نانو اسے کھڑا ہوتے دیکھ کر خاموش ہو گئیں۔
”ٹھیک ہے تم چلی جاؤ” وہ انہیں شب بخیر کہتے ہوئے ان کے کمرے سے نکل آئی۔
اگلے دو تین ہفتے اس کے لیے بہت صبر آزما ثابت ہوئے۔ ثمینہ اپنی فیملی کے ساتھ اس کی انگیجمنٹ میں شرکت کے لیے پاکستان آئی تھیں۔
وہ بڑے جوش و خروش سے آتے ہی اس کی انگیجمنٹ کی تیاریوں میں لگ گئی تھیں، ہر روز علیزہ کو ساتھ لے کر وہ مارکیٹس کی خاک چھاننے نکل کھڑی ہوتیں۔
انہیں علیزہ کے رویے سے بالکل یہ احساس نہیں ہوا تھا کہ وہ خوش نہیں ہے یا کسی چیز کی وجہ سے پریشان ہے اور علیزہ کو اس بات پر حیرت نہیں ہوئی۔ وہ اس کی ماں تھیں مگر اتنے سال ایک دوسرے سے کٹ کر رہنے کے بعد ان سے یہ توقع کرنا کہ وہ اس کے چہرے پر جھلکنے والے ہر رنگ کو پہچان سکیں عبث تھا۔
اپنے سوتیلے بہن بھائی اسے خونی رشتوں سے زیادہ مہمان لگ رہے تھے نہ صرف وہ بلکہ ثمینہ بھی اور علیزہ اپنی پوری کوشش کر رہی تھی کہ وہ مہمانوں سے اچھے طریقے سے پیش آئے۔
منگنی والی شام سٹیج پر جنید کے ساتھ بیٹھے اس نے کچھ فاصلے پر عمر کو دیکھا تھا اس کے چہرے پر موجود مصنوعی مسکراہٹ غائب ہو گئی۔ عمر بہت خوش باش نظر آرہا تھا۔ متحرک اور زندہ دل، وہ سٹیج کی طرف ہی آرہا تھا۔
فوٹو گرافر اس وقت مختلف رشتہ داروں کے ساتھ ان دونوں کی تصویریں بنا رہا تھا۔ عمر سٹیج پر آنے کے بعد سیدھا جنید کی طرف گیا۔ جنید اٹھ کر عمر سے گلے ملا باقی لوگوں کا تعارف جنید سے باری باری کروایا گیا تھا چند کزنز کے سوا۔
علیزہ کو حیرت ہوئی عمر اور جنید کو ایک دوسرے سے تعارف کی ضرورت نہیں پڑی، کیا عمر جنید سے واقف تھا؟
”مبارک ہو علیزہ…!” اس نے علیزہ کے سامنے کھڑے ہو کر اسے مخاطب کیا۔ وہ اس کے سیاہ چمکتے جوتوں کو دیکھتی رہی۔ اس نے ان جوتوں کو دیکھتے ہوئے ہی اس کا شکریہ ادا کیا تھا۔
وہ کچھ دیر جنید کے ساتھ باتیں کرتارہا پھر علیزہ نے اسے سٹیج سے اترتے دیکھا۔
اس کے بعد علیزہ نے اسے ہال میں کئی جگہ پر مختلف لوگوں کے ساتھ گفتگو میں مصروف دیکھا، وہ ایک لمحے کے لیے بھی اس پر سے اپنی نظر اور دھیان نہیں ہٹا سکی، جنید یک دم پس منظر میں چلا گیا تھا بلکہ وہ شاید کبھی پیش منظر میں آیا ہی نہیں تھا۔
رات دس بجے کے قریب وہ سب واپس آئے تھے۔ شہلا، علیزہ کے ساتھ تھی اور اسے رات وہیں اس کے ساتھ رکنا تھا۔
پورا گھر مہمانوں سے بھرا ہوا تھا۔ اس کے سارے انکلز اپنی فیملیز کے ساتھ وہاں موجود تھے، اس کے کزنز میں سے کچھ منگنی کی تقریب میں شرکت کے بعد ہوٹل سے ہی واپس چلے گئے تھے مگر ابھی بھی کافی کزنز وہیں تھے جنہیں اگلے دن واپس جانا تھا۔
ایک لمبے عرصے کے بعد لاؤنج میں بیٹھے ہوئے لوگوں کے درمیان خوشگوار گپ شپ ہو رہی تھی۔
وہ بھی کپڑے تبدیل کرنے کے بعد کافی دیر اپنی کزنز کے ساتھ گفتگو کرتی رہی پھر وہ سونے کے لیے اپنے کمرے میں آگئی۔
اس نے عمر کو بھی وہیں موجود دیکھا تھا اور اسے حیرت ہو رہی تھی کہ وہ تقریب کے فوراً بعد واپس کیوں نہیں گیا۔
شہلا کچھ دیر اس کے ساتھ باتیں کرتی رہی پھر وہ دونوں لائٹ بند کرکے سونے لیٹ گئیں مگر بستر پر لیٹتے ہی علیزہ کی آنکھوں سے نیند غائب ہو گئی تھی۔ نائٹ بلب کی ہلکی سی روشنی میں وہ چھت کو دیکھتے ہوئے پچھلے کچھ گھنٹوں کے بارے میں سوچتی رہی۔ اس کے لیے سب کچھ ایک بھیانک خواب کی طرح تھا، جواب شروع ہوا تھا اور شاید کبھی ختم نہیں ہونے والا تھا۔
وہ لائٹ جلائے بغیر اپنے بیڈ سے نیچے اتر گئی، شہلا گہری نیند میں تھی۔ علیزہ جانتی تھی وہ ایک بار سونے کے بعد اتنی معمولی سی حرکت پر نہیں جاگے گی۔
اپنے کمرے کا دروازہ کھول کر وہ باہر کوریڈور میں نکل آئی۔ لاؤنج سے ابھی بھی باتوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ یقیناً وہ سب ابھی بھی وہاں موجود تھے۔ وہ لاؤنج میں جانے کے بجائے گھر کے پچھلے حصے کی طرف آئی اور دروازہ کھول کر عقبی لان میں نکل آئی۔
باہر عجیب سی خاموشی نے اس کا استقبال کیا تھا۔ دور بیرونی دیوار کے پاس لگی لائٹس اگرچہ تاریکی کو ختم کرنے کی کوشش کر رہی تھیں مگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہو پا رہی تھیں، لان بڑی حد تک تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا، تاریکی، خاموشی اور تنہائی اسے اس وقت ان ہی چیزوں کی ضرورت تھی۔
نیچے لان میں اترنے کے بجائے وہ ماربل کی سیڑھیوں میں سب سے اوپر والی سیڑھی پر بیٹھ گئی۔ بایاں ہاتھ اپنی گود میں رکھتے ہوئے اس نے دایاں ہاتھ ماربل کے فرش پر رکھ دیا۔ فرش کی ٹھنڈک اسے پوروں کے ذریعے اپنے اندر اترتی محسوس ہوئی۔
”تو آج بالآخر آپ کے یوٹوپیا کا خاتمہ ہو گیا اور اب ایلس ونڈر لینڈ سے باہر آگئی ہے۔”
باہر کی خاموشی نے اس کے اندر کی خاموشی کو توڑ دیا تھا۔ وہ بہت آہستگی سے فرش پر انگلیوں کی پوریں پھیرنے لگی۔
”کاش معجزے ہونا بند نہ ہوتے، ایک معجزہ میری زندگی میں بھی ہوتا، میں آنکھیں بند کروں اور پھر کھولوں تو مجھے پتا چلے یہ سب خواب تھا۔ حقیقت یہ ہو کہ جنید کی جگہ پر عمر ہو جو ڈتھ اور جنید ہم دونوں کی زندگی میں موجود ہی نہ ہوں۔” اس نے سوچتے ہوئے آنکھیں بند کیں پھر آنکھیں کھولیں۔ خواب ختم نہیں ہوا، حقیقت بدل نہیں سکی۔ وہ آنکھوں میں نمی لیے مسکرائی۔
ہم کہ دشت جہاں کو آباد کیے بیٹھے ہیں
آرزوئے یار کو اب خاک کیے بیٹھے ہیں
خواب کے تار سے خواہش کو رفو کرتے
دامنِ دل کو اب چاک کیے بیٹھے ہیں
اس نے زیر لب اس غزل کے شعروں کو دہرانے کی کوشش کی جنہیں وہ دو سال سے بڑی باقاعدگی سے سنتی آرہی تھی۔
کاش وہ آئے جلائے یہاں کوئی چراغ
دل کے دربار کو ہم طاق کیے بیٹھے ہیں
اس نے دور دیوار پر لگی ہوئی لائٹس پر نظریں جمادیں۔ اس کا دل چاہ رہا تھا وہ لائٹس بھی بجھ جائیں۔ مکمل تاریکی، ویسی جیسی اس وقت میرے اندر ہے۔ کیا چند لمحوں کے لیے ویسی تاریکی نہیں ہو سکتی ہر طرف؟ اس کے اندر خواہش ابھری۔
”علیزہ !” اس نے بے اختیار گردن موڑ کر پیچھے دیکھا پھر اسی رفتار سے گردن واپس موڑی۔ وہ اپنے چہرے کے تاثرات کو چھپانا چاہتی تھی ، پھر اسے یاد آیا یہ کام پہلے ہی وہاں چھائی ہوئی تاریکی کر رہی تھی۔ اس نے بھی عمر کو اس کی آواز اور قدوقامت سے ہی پہچانا تھا اور عمر نے اسے کیسے پہچانا تھا یہ صرف وہی جانتا تھا۔
وہ اتنے دبے قدموں آیا تھا کہ اسے اس کی آمد کی خبر ہی نہیں ہوئی یا پھر شاید وہ اپنی سوچوں میں اس قدر گم تھی کہ اپنے اردگرد ہونے والی ہر چیز سے مکمل طور پر بے نیاز ہو گئی تھی۔
”تم اس وقت یہاں کیا کر رہی ہو؟” وہ اب اس کے عقب میں کھڑا پوچھ رہا تھا۔
”کچھ نہیں ویسے ہی نیند نہیں آرہی تھی اس لیے باہر آگئی۔” اس نے اپنی آواز پر قابو رکھتے ہوئے اسے دیکھنے کی کوشش کیے بغیر کہا۔ اس کا خیال تھا، وہ اسے اندر جانے کا کہے گا…یا پھر اندر جانے کی ہدایت دے کر خود چلا جائے گا۔ ایسا نہیں ہوا۔
وہ اس کی بات کے جواب میں کچھ کہے بغیر اس کے عقب میں خاموشی سے کھڑا رہا۔ پھر علیزہ نے اسے چند قدم آگے بڑھتے اور اسی سیڑھی پر بیٹھتے دیکھا جس پر وہ بیٹھی تھی۔
اس کا دل چاہا وہ اٹھ کر وہاں سے بھاگ جائے یا پھر پوری قوت سے دھکا دے کر اسے وہاں سے دھکیل دے وہ چند لمحے اور اس کے پاس بیٹھتا تو اپنے آنسوؤں پر قابو پانے کی اس کی ساری کوششیں ناکام ہو جاتیں اور وہ اب عمر جہانگیر کے سامنے رونا نہیں چاہتی تھی۔
اس کی طرف دیکھے بغیر گردن سیدھی رکھے، وہ دور دیوار پر موجود لائٹس کو دیکھتی رہی مگر اس کی ساری حسیات بالکل بیدار تھیں۔ وہ اس کے سانس کی آواز سن رہی تھی۔ وہ اس کے کولون کی مہک کو محسوس کر رہی تھی۔ اسے اپنی گردن سیدھی رکھنا مشکل ہو رہا تھا۔
وہ سیڑھیاں دونوں کے لیے نئی نہیں تھیں، وہ بہت بار وہاں بیٹھے تھے دن کی روشی میں۔ رات کی تاریکی میں مگر اس بار خاموشی ایک تیسرے فرد کی طرح ان دونوں کے درمیان موجود تھی۔ پہلے وہ کبھی نہیں آئی تھی، وہ دونوں یہاں بیٹھ کر گپیں ہانکتے رہتے، گفتگو میں کسی بھی وقفے کے بغیر، انہی سیڑھیوں پر بیٹھ کر عمر نے اسے بہت سے لطیفے سنائے تھے۔ وہ ہر بار لطیفہ سنانے سے پہلے اس سے کہتا۔ ”تمہیں ایک جوک سناتا ہوں۔”
علیزہ ہنسنا شروع ہو جاتی۔ ”کم آن یار! پہلے سن تو لو۔ تم تو پہلے ہی ہنسنا شروع ہو جاتی ہو۔” وہ اسے ٹوکتا وہ سنجیدہ ہو جاتی۔
”ایک باپ اپنے بچے کو ایک سائیکولوجسٹ کے پاس لے کر گیا۔” وہ لطیفہ شروع کرتا پھر رک کر اضافہ کرتا۔” میری طرح کے بچے کو، اس نے سائیکولوجسٹ سے کہا کہ یہ بچہ بہت ضدی ہے۔ اس نے مجھے اور باقی گھر والوں کو بہت پریشان کر دیا ہے۔ اپنی فضول ضدوں کی وجہ سے۔ میں چاہتا ہوں آپ اس کا علاج کریں تاکہ یہ اپنی اس عادت سے باز آ جائے۔
سائیکولوجسٹ نے باپ کی بات غور سے سنی اور پھر بچے کو سمجھانے کے بجائے باپ سے کہا کہ وہ کچھ تحمل سے کام لے، وقت گزرنے کے ساتھ وہ خود ہی یہ عادت چھوڑ دے گا۔
باپ نے کہا۔ ”اس وقت جو ضد کر رہا ہے اسے ہم نہیں مان سکتے اور یہ چھوڑنے پر تیار نہیں۔”
سائیکولوجسٹ نے پوچھا ”اب یہ کون سی ضد کر رہا ہے۔”
”یہ کہتا ہے مجھے ایک کینچوا لا کر دیں، میں وہ کھاؤں گا۔ اب آپ خود بتائیں کہ میں اسے کینچوا کیسے کھانے دے سکتا ہوں۔”
سائیکولوجسٹ نے باپ کو سمجھایا کہ بچے پر سختی کرنے سے اس پر نفسیاتی طور پر برا اثر پڑے گا۔ بہتر ہے کہ آپ اسے کینچوا کھانے دیں۔”
باپ کچھ پس و پیش کے بعد مان گیا۔
سائیکولوجسٹ نے اپنے اسسٹنٹ کو بھجوا کر ایک کینچوا منگوایا اور بچے کے سامنے میز پر رکھ دیا۔
بچے نے ایک نظر کینچوے پر ڈالی اور پھر بڑے آرام سے کہا۔
”آپ اس کینچوے کے دو ٹکڑے کریں۔ ایک آپ کھائیں، ایک میں کھاؤں گا۔”
سائیکولوجسٹ اس کے مطالبے پر گڑبڑا گیا۔
”دیکھا میں نے بتایا ہے نا کہ یہ بہت فضول ضدیں کرتا ہے۔” باپ نے کہا۔
سائیکولوجسٹ نے باپ کو تسلی دی اور ایک چاقو کے ساتھ کینچوے کے دو ٹکڑے کیے اور ایک ٹکڑا اٹھا کر اپنے منہ میں ڈال لیا اور اس نے بچے سے کہا ۔”اب تم اپنا ٹکڑا کھاؤ۔”
بچے نے سائیکولوجسٹ کا چہرہ دیکھا اور کہا۔
”آپ نے میرا ٹکڑا کھا لیا۔”
علیزہ کو بے اختیار گھن آئی ”یہ کیا جوک تھا۔ وہ بچہ اور سائیکولوجسٹ دونوں پاگل تھے۔ کینچوا کیسے کھا سکتے ہیں؟” وہ ہنسنے کے بجائے جھرجھری لے کر پوچھتی۔
”جوک تھا بھئی…حقیقت تو نہیں تھی۔” وہ اسے یاد دلاتا۔
”مگر پھر بھی کینچوے۔” اسے ایک بار پھر جھرجھری آئی۔
”اچھا…اچھا چلو، میں تمہیں ایک اور جوک سناتا ہوں۔” وہ جلدی سے ہاتھ اٹھا کر کہتا ”ایک جرنلسٹ ایک مینٹل ہاسپٹل میں گیا وہاں وہ مختلف وارڈز میں پھر رہا تھا کہ اچانک اس کی نظر ایک آدمی پر پڑی جو بہت خاموشی سے ہاتھ میں اخبار لیے کرسی پر بیٹھا تھا۔ اس نے بہت شاندار قسم کا سوٹ پہنا ہوا تھا، جرنلسٹ اس کے پاس گیا اور حیرانی سے پوچھا۔

”کیا آپ پاگل ہیں؟”
اس نے اخبار سے نظر اٹھا کر بڑی سنجیدگی سے کہا۔ ”نہیں۔”
”تو پھر آپ کو یہاں کیوں رکھا ہے؟” جرنلسٹ نے پوچھا۔
”کیونکہ میں نے ایک کتاب لکھی تھی دو ہزار صفحات کی۔”
جرنلسٹ کو شدید حیرت ہوئی اس نے پوچھا۔ ”آپ نے کس چیز کے بارے میں کتاب لکھی تھی؟”
”گھوڑوں کے بارے میں۔” اس نے بڑی سنجیدگی سے بتایا۔
جرنلسٹ غصے کے عالم میں ڈاکٹر کے پاس گیا اور اس سے کہا۔ ” آپ نے بے سوچے سمجھے ایک ذہین آدمی کو پکڑ کر یہاں بند کر دیا جس نے گھوڑوں پر دو ہزار صفحات پر مشتمل کتاب لکھی ہے۔”
ڈاکٹر نے بڑے سکون سے اس کی بات سنی اور کہا۔
”آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ اس شخص نے گھوڑوں پر واقعی دو ہزار صفحات کی ایک کتاب لکھی ہے مگر اس کی کتاب کے دو ہزار صفحات پر صرف ایک ہی بات ہے۔”
”وہ کیا؟” جرنلسٹ نے کچھ تجسس کے عالم میں پوچھا۔ ڈاکٹر نے ایک گہری سانس لی اور کہا ”دگڑ…دگڑ۔”
وہ لطیفہ سنانے کے بعد علیزہ کو دیکھتا جو اب بھی پورے انہماک اور سنجیدگی کے ساتھ اسے دیکھ رہی ہوتی۔ ”سمجھ میں نہیں آیا نا؟” وہ بڑی ہمدردی سے پوچھتا۔ وہ پلکیں جھپکائے بغیر اسے دیکھتی رہتی۔ انکار اور اقرار دونوں مشکل تھے۔
”آپ آسان جوکس سنایا کریں۔”
”مثلاً…ہاں ایسے والے ایک بچہ ماں سے کہتا ہے۔ ”ممی آج مجھے ٹیچر نے ایک ایسے کام کے لیے سزا دی جو میں نے کبھی کیا ہی نہیں۔” ماں حیرانی سے کہتی ہے۔
”کون سا کام؟”
”ہوم ورک۔” بچہ مزے سے کہتا ہے۔
وہ کندھے اچکاتا ہوا لطیفہ ختم کرتا۔ علیزہ ہنسنے لگتی۔ وہ بے اختیار گہرا سانس لیتے ہوئے کہتا۔
”وہ جو آپ میرے جوک سنانے سے پہلے ہنستی ہیں نا، وہی ٹھیک ہے۔ کم از کم مجھے یہ اطمینان تو ہو گا کہ تمہاری حس مزاح اچھی ہے۔” وہ مصنوعی اندازسے خفگی اسے ڈانٹتا۔
وہاں بیٹھے بیٹھے علیزہ کو بہت کچھ یاد آرہا تھا، چاروں طرف چھائی تاریکی ایک ایسا گنبد بن گئی تھی جس کے اندر اسے اپنی اور عمر کی آوازوں کی بازگشت سنائی دے رہی تھی ”اور شاید آج ہم آخری بار یہاں ان سیڑھیوں پر ایک دوسرے کے اتنے قریب بیٹھے ہیں۔”
اس نے دل گرفتی کے عالم میں سوچا۔
”تم آج بہت اچھی لگ رہی تھیں۔” عمر نے یک دم خاموشی کو توڑا۔
”تمہارے علاوہ ہر ایک کو۔” اس نے سوچا۔
”جنید بہت خوش قسمت ہے۔” وہ کہہ رہا تھا۔
”اور میں بہت بدقسمت ہوں۔” اس کے جواب اس کے اندر گونج رہے تھے۔
علیزہ کی مستقل خاموشی شاید اس کے لیے غیر متوقع تھی۔ وہ چند لمحوں کے لیے خود بھی خاموش ہو گیا۔
”آپ واپس نہیں گئے؟” علیزہ نے اچانک اس سے پوچھا۔
”میں جانا چاہ رہا تھا۔ گرینی نے روک لیا۔ سب فیملی ممبرز اکٹھے ہوئے تھے اس لیے۔” وہ مدھم آواز میں بتانے لگا۔
”ابھی بھی سب اندر بیٹھے ہوئے ہیں۔ صرف میں باہر آیا ہوں۔ کچھ دیر واک کرنا چاہ رہا تھا۔ تمہیں دیکھا تو ادھر آ گیا۔”
وہ اب لائٹر سے ہونٹوں میں دبا ہوا ایک سگریٹ جلا رہا تھا۔ چند لمحے جلتے رہنے والے شعلے میں علیزہ نے اس کا چہرہ دیکھا پھر شعلہ بجھ گیا۔
عمر نے لائٹر واپس جیب میں نہیں رکھا۔ وہ اسے ایک بار پھر جلا رہا تھا۔ اس بار وہ لائٹر جلا کر علیزہ کے ہاتھ کے پاس لے گیا۔ لائٹر سے اٹھنے والے شعلے کی روشنی میں علیزہ کے ہاتھ میں پہنی ہوئی انگوٹھی جگمگانے لگی تھی۔ وہ کچھ دیر اس کے ہاتھ میں موجود انگوٹھی کو دیکھتا رہا پھر اس نے لائٹر بند کر دیا۔ وہ اب اپنے بائیں ہاتھ سے سگریٹ کو ہونٹوں سے نکال رہا تھا۔ سگریٹ کا ننھا سا شعلہ اب اس کے ہونٹوں سے انگلیوں میں منتقل ہو چکا تھا۔ علیزہ اندھیرے میں ہونے والی اس حرکت کو دیکھتی رہی۔
”تم نے مجھ سے کوئی گفٹ نہیں مانگا؟” کچھ دیر بعد اس نے مدھم آواز میں کہا۔ علیزہ کو اپنے حلق میں آنسوؤں کا پھندا لگتا ہوا محسوس ہوا۔
”گفٹ؟ جو کچھ تم مجھ سے لے چکے ہو۔ اس کے بعد پوری دنیا اٹھا کر میرے سامنے رکھ دینے پر بھی خوش نہیں ہو سکتی۔” اس کے اندر ایک اور سرگوشی ہوئی تھی۔
”تم مجھ سے بات نہیں کرو گی؟” وہ بہت نرم آواز میں پوچھ رہا تھا۔” تمہاری ناراضی ختم نہیں ہو گی؟”
وہ ساکت رہ گئی، وہ کس ناراضی کی بات کر رہا تھا کیا وہ جانتا تھا۔ وہ اس سے ناراض ہے اور اگر وہ یہ جانتا تھا تو پھر کیا اس کی ناراضی کی وجہ سے بھی واقف تھا پھر بھی وہ اب تک اتنی بے نیازی دکھا رہا تھا۔
”اندھیرے میں بیٹھ کر رونے کی عادت چھوڑ دو علیزہ۔” اس کی نرم آواز اسے ایک چابک کی طرح لگی تھی۔ ساری دنیا میں وہی ایک شخص تھا جو تاریکی میں بھی اسے پہچان سکتا تھا جو اس کے چہرے پر ایک نظر ڈالے بغیر بھی اس کی ساری کیفیات سے باخبر تھا۔ اس نے خود کو بے بسی کی انتہا پر پایا۔
”میرے ساتھ یہ کیوں کیا آپ نے؟” وہ یک دم پھٹ پڑی۔ ”آپ نے میری پوری زندگی تباہ کر دی۔ آپ نے مجھے میرے قدموں پر کھڑے رہنے کے قابل تک نہیں چھوڑا۔” وہ بچوں کی طرح بلک رہی تھی۔
”مجھے یقین نہیں آتا کہ آپ کو مجھ سے محبت نہیں ہے۔ مجھے یقین نہیں آتا کہ آپ مجھے اپنی زندگی سے اس طرح باہر نکال کر پھینک سکتے ہیں۔” وہ بالکل خاموش تھا۔
”جوڈتھ۔ آپ کس طرح اسے اپنی زندگی میں لا سکتے ہیں، کس طرح اسے میری جگہ دے سکتے ہیں۔”
”کیا ان سب باتوں کا اب کوئی فائدہ ہے؟” اس کی آواز اب بھی اتنی ہی مدھم تھی۔
”کیوں فائدہ نہیں۔ کیوں فائدہ نہیں ہے؟” اس نے بلند آواز میں کہا۔
”آپ کو پتا ہے آپ نے کس طرح میری ذات کی نفی کی ہے… کس طرح Crippled (بے بس) کر دیا ہے مجھے؟”
”علیزہ۔” عمر نے کچھ کہنے کی کوشش کی مگر وہ بولتی رہی۔
”دس سال میں آپ کو ایک بار بھی یہ احساس نہیں ہوا کہ میں آپ کے لیے عام فیلنگز نہیں رکھتی۔ میں آپ کی کزنز میں سے ایک اور کزن نہیں ہوں۔ میں آپ کی فرینڈز میں سے ایک اور فرینڈ نہیں ہوں۔
you always meant so much to me. آپ نے کبھی ایسا سوچا ہی نہیں آپ کو کبھی اس کا احساس ہی نہیں ہوا۔ میں یقین نہیں کر سکتی، کبھی یقین نہیں کر سکتی۔”
وہ اب اس کے کندھے کو سختی سے پکڑے ہوئے کہہ رہی تھی۔
”میں نے تم سے کبھی کوئی وعدہ نہیں کیا۔ کیا کبھی میں نے تم سے کچھ کہا؟” اس نے پرسکون انداز میں پوچھا۔ وہ چند لمحوں کے لیے کچھ بھی نہیں کہہ سکی.
”تم اسے مانو یا نہ مانو مگر حقیقت یہی ہے کہ میں نے کبھی تمہارے بارے میں اس طرح سے سوچا ہی نہیں۔” وہ بہت نرمی سے اپنے کندھے کو اس کے ہاتھ کی گرفت سے چھڑا رہا تھا۔ وہ گیلے چہرے کے ساتھ اندھیرے میں اس کے چہرے کے نقوش کو کھوجتی رہی۔
”اگر مجھے تم میں کوئی دلچسپی ہوتی تو میں اتنے سالوں میں ضرور بتا دیتا۔ اگر میں نے ایسا نہیں کیا تو اس کا صاف مطلب ایک ہی ہے اور وہ وہی ہے جو تم سمجھنا نہیں چاہ رہیں۔”
عمر کے لہجے کی ٹھنڈک اور سرد مہری نے اسے عمر سے مزید برگشتہ نہیں کیا۔ اپنے کندھے سے اس کا ہاتھ ہٹانے سے بھی وہ دل برداشتہ نہیں ہوئی۔
”تم بہت اچھی ہو لیکن مجھے تم سے محبت نہیں ہے۔” وہ بہت صاف اور واضح لفظوں میں کہہ رہا تھا۔ وہ نہیں جانتی اسے کیا ہوا۔ وہ اندر نہیں بھاگی۔ وہ عمر پر نہیں چلائی۔ وہ ننھے بچوں کی طرح دونوں ہاتھوں سے اس کا بازو پکڑ کر اس کے کندھے سے سر ٹکائے بچوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگی۔

”مجھ سے یہ مت کہو۔ تمہیں پتا ہے اس سے کتنی تکلیف ہوتی ہے مجھے۔”
عمر اب بالکل ساکت تھا یوں جیسے وہ پتھر کا کوئی مجسمہ ہو۔
”میرے ساتھ وہ سب کچھ مت کرو جو ذوالقرنین نے کیا۔ تم دنیا کے آخری آدمی ہو گے جس سے میں یہ توقع کروں گی کہ وہ مجھ سے یہ کہے گا اسے مجھ سے محبت نہیں ہے۔” وہ اسی طرح روتی رہی۔
”میں کبھی جنید کے ساتھ وفادار نہیں ہو سکتی۔ میں کبھی کسی کے ساتھ وفادار نہیں ہو سکتی۔ تم کیوں نہیں سمجھتے، ہم دونوں بہت اچھی زندگی گزار سکتے ہیں، ہم دونوں اب بھی اکٹھے رہ سکتے ہیں۔ سب کچھ ٹھیک ہو سکتا ہے۔ اگر تم چاہو تو…اگر تم چاہو تو۔”
”اور میں ایسا نہیں چاہتا۔” اس کی پرسکون آواز میں کوئی اضطراب تھا نہ ارتعاش…وہ اب بھی اپنی بات پر اسی طرح اڑا ہوا تھا۔ اس کے بازو پر علیزہ کی گرفت اور سخت ہو گئی۔
”تم کیوں نہیں چاہتے…؟ تم کیوں نہیں چاہتے؟” وہ اس کے بازو سے ماتھا ٹکائے بچوں کی طرح بے تحاشا روتی گئی۔ عمر نے بازو پر اس کے آنسوؤں کی نمی کو محسوس کیا۔
”مجھے آج یہاں نہیں آنا چاہیے تھا۔” عمر بڑبڑایا۔ ”میں نے یہاں آکر غلط کیا۔”
علیزہ نے اس کے کندھے پر ٹکا سر اٹھا کر اندھیرے میں دھندلی آنکھوں کے ساتھ اسے تلاش کرنے کی کوشش کی اور بہت سالوں کے بعد پہلی بار اسے احساس ہوا کہ اس نے اپنی زندگی کے دس سال ایک غلط شخص کے لیے ضائع کر دیئے۔ اس کے نزدیک علیزہ کی کیا اہمیت تھی؟ اس کے نزدیک اس کے آنسو کیا معنی رکھتے تھے…؟ اس کے نزدیک اس کی خوشی کی کیا حیثیت تھی…اس کے نزدیک علیزہ کیا تھی…؟
دس سالوں کے بعد پہلی بار اس نے آئینے میں اپنے چہرے کو آنکھیں بند کر کے دیکھنے کی کوشش کرنے کے بجائے آنکھیں کھول کر دیکھنے کی کوشش کی۔
اپنے کانپتے ہوئے ہاتھوں کو اس نے عمر کے بازو سے ہٹا لیا۔
”تم آج بھی وہیں ہو، جہاں میں نے تمہیں اتنے سال پہلے دیکھا تھا۔ تم میں کوئی تبدیلی نہیں آئی…پہلے بھی تمہاری سوچ بچکانہ تھی۔ آج بھی ہے۔” وہ اندازہ نہیں کر سکی۔ وہ اسے جھڑک رہا تھا یا اسے آئینہ دکھا رہا تھا۔
”تمہیں اس بات پر یقین آئے یا نہ آئے بہرحال میں نے دس سال تمہارے لیے کچھ محسوس نہیں کیا۔”
علیزہ نے اپنے ہونٹ کھینچ لیے۔
”میں بہت کوشش کروں تو بھی میں اپنے اندر تمہارے لیے کوئی خاص قسم کے جذبات دریافت کرنے میں ناکام ہو جاتا ہوں۔ میں نے بارہا خود کو ٹٹولا ہے لیکن میرے دل سے کوئی آواز نہیں آئی۔ کیا اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مجھے تم سے محبت نہیں ہے؟” اس کی سفاک حقیقت پسندی عروج پر تھی، وہی سفاکی جس کے لیے وہ مشہور تھا۔
”دس سال میں کبھی ایسا ہوا کہ میں نے تم سے اظہار محبت کیا ہو…؟ نہیں میں نے ایسا کچھ نہیں کیا…اگر دنیا میں محبت نام کا کوئی جراثیم موجود بھی ہے تو میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ اس سے میرا دل کبھی متاثر نہیں ہوا۔”
علیزہ کے آنسو رک چکے تھے۔ وہ پلکیں جھپکائے بغیر اندھیرے میں اپنے سے چند انچ دور اس شخص کے ہیولے کو دیکھ رہی تھی جسے اس نے اپنی زندگی میں سب سے زیادہ چاہا تھا۔
”مرد اور عورت کے درمیان ہر رشتہ محبت کا رشتہ نہیں ہوتا…چاہو تو بھی نہیں بن سکتا…جیسے تمہارا اور میرا رشتہ…اپنے اور میرے رشتے کو اگر تم نے اتنے سالوں میں نہیں پرکھا تو یہ تمہاری غلطی ہے، میری نہیں…میں کسی حماقت آمیز خوش فہمی کا حصہ نہیں بن سکتا۔”
وہ ہر چیز کے چیتھڑے اڑا رہا تھا…اس کے اعتماد کے…عزت نفس کے…زندگی کے…خوابوں کے…خواہشات کے…اور علیزہ سکندر کو دس سال یہ زعم رہا تھا کہ یہ سب چیزیں اس نے اسی شخص سے لی تھیں۔
”اگر تم نے میرے حوالے سے کوئی خوش فہمیاں پال لیں تو میں کیا کر سکتا ہوں …میرا اس سب میں کیا حصہ ہے، در حقیقت میں اس سارے معاملے میں کبھی بھی حصہ دار نہیں رہا۔” اس نے عمر کو کندھے اچکاتے دیکھا۔
”میں تو اتنے سالوں میں سینکڑوں لڑکیوں سے ملتا رہا ہوں …میں سب کے ساتھ فرینڈلی رہا ہوں …سب کے ساتھ میرا ایک جیسا رویہ رہا ہے …اور میرے لئے تم بھی ان سب سے مستثنیٰ نہیں تھیں۔” وہ دم بخود تھی۔
”دوست تم تھیں …ہو …رہو گی …مگر اس سے دو قدم آگے بڑھ کر کسی خاص رشتے کے حوالے سے تمہیں دیکھنا بہت مشکل ہے …بلکہ نا ممکن۔”
Rude,harsh,bitter اس سے پہلے اس نے عمر کو دوسرے لوگوں کے ساتھ ان خصوصیات کا استعمال کرتے دیکھا تھا۔ آج وہ اس پر استعمال کر رہا تھا۔
”شادی کوئی ون سائیڈڈ افئیر نہیں ہوتی اور نہ ہی اسے بنانے کی کوشش کرو …یہ ایسا نہیں ہوتا کہ تم نے کہا اور میں نے مان لیا …نہ ہی یہ کوئی کیک ہوتا ہے جو میں بیکری سے بنوا کر لا دوں …ساری زندگی کے لئے کسی شخص کو چن کر، اس کے ساتھ رہنا بہت سوجھ بوجھ مانگتا ہے …صرف دماغ ہی نہیں دل بھی اس جگہ پر ہونا چاہیے جس شخص کے ساتھ جس جگہ پہ رشتہ آپ قائم کرنا چاہتے ہیں۔”
اس کی آواز میں ٹھنڈک تھی …وہ اس عمر سے پہلی بار ملی تھی۔
”گرینی نے مجھ سے تمہارے بارے میں بات کی …میں نے انکار کر دیا ……مجھے سوچنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ It was like a reflex action …کوئی ہچکچاہٹ …کوئی تامل …کوئی تردد …میں نے کچھ محسوس نہیں کیا …تو اس کا صاف صاف مطلب تو یہی ہے کہ جن خواتین کے بارے میں، میں نے کبھی کچھ خاص جذبات محسوس کرنے یا خاص خیالات رکھنے …یا آسان لفظوں میں جن سے شادی کے بارے میں سوچنے کی کوشش کی …ان میں تم کبھی نہیں آئیں …نہ شعوری طور پر، نہ لا شعوری طور پر۔”
علیزہ کو اب اپنے ہونٹ خشک ہوتے ہوئے محسوس ہو رہے تھے۔
”پھر اگر صرف تمہاری ضد پر یہ یک طرفہ شادی ہو جائے تو کیا ہو گا۔ a total disaster میں زندگی میں سارے حساب کتاب کر کے رسک لیتا ہوں، آنکھیں بند کر کے سوچے سمجھے بغیر کسی کھائی کو سوئمنگ پول سمجھ کر اس میں چھلانگ لگانے کا عادی نہیں ہوں …اور تم مجھ سے یہی سب کچھ چاہتی ہو۔”
وہ پانی پینا چاہتی تھی …اس کے حلق اور بدن پر کانٹوں کا جنگل اگ آیا تھا۔
”ممکن ہے، تم مجھ سے شادی کر کے خوش رہو …مگر سوال یہ ہے کہ کیا میں خوش رہ سکتا ہوں …کیا تم نے میری خوشی کا سوچا ہے؟ تم نے نہیں سوچا ہو گا …میں کسی شاپنگ آرکیڈ کے کسی شو کیس میں لگی ہوئی چیز نہیں ہوں جو تمہیں پسند آ جائے اور تم ہر قیمت پر اسے گھر لے جانے پر تل جاؤ۔” اس کی آواز کے چابک اپنا کام بخوبی کر رہے تھے۔
”جہاں تک تمہاری اس غلط فہمی کا تعلق ہے کہ میں نے تمہیں اپنی زندگی سے نکال دیا …تو میں صرف یہی کہہ سکتا ہوں کہ نہ میں تمہیں زندگی کے اندر لایا تھا، نہ میں نے باہر نکالا ہے۔ تم جس رول میں میری زندگی موجود ہو …اس رول میں ہمیشہ رہو گی …ہاں، مگر تم جو رول لینا چاہتی ہو، وہ میرے لئے قابل قبول نہیں ہے …اگر اس بات کو تم زندگی سے نکال دینا سمجھتی ہو تو میں اس کے بارے میں کیا کہہ سکتا ہوں۔”
اس کا دل چاہا وہ وہاں سے بھاگ جائے۔
”میں نے تمہاری زندگی تباہ کر دی …میں نے تمہیں معذور کر دیا …نہیں علیزہ ! میں نے ایسا کچھ نہیں کیا …اگر یہ کسی نے کیا ہے تو تم نے خود کیا ہے۔” اس نے دو ٹوک لہجے میں کہا۔
”جہاں تک جنید کا تعلق ہے …اس کے ساتھ تمہاری وفاداری کا سوال ہے …یا تمہاری خوشی کا مسئلہ ہے تو میں اس کے بارے میں کیا کہہ سکتا ہوں …سوائے اس کے کہ یہ بھی صرف اور صرف تمہارا مسئلہ ہے اور تمہیں ان دونوں چیزوں کے بارے میں منگنی سے پہلے سوچ لینا چاہئے تھا۔ تمہیں یہ محسوس ہوتا تھا کہ تم اس کے ساتھ خوش نہیں رہ سکتیں تو تمہیں اس سے منگنی کرنا ہی نہیں چاہئے تھی۔ کسی نے یقیناً تمہیں پریشرائز نہیں کیا ہو گا اس پرپوزل کے لئے کہ تم یہیں شادی کرو …تم نہ کرتیں۔”
وہ اسے مسئلے کا حل نہیں بتا رہا تھا، وہ اسے اس کی حماقت جتا رہا تھا۔
”بلکہ اب منگنی توڑ دو …اگر تمہیں یہی محسوس ہوتا ہے کہ تمہیں وہ پسند نہیں ہے یا وفاداری اور خوشی کا سوال ہے تو ٹھیک ہے یہ رشتہ ختم کر دو …ابھی صرف منگنی ہوئی ہے اور منگنی کوئی ایسا بڑا رشتہ نہیں ہوتا جس کے باے میں دوبارہ نہ سوچا جا سکے۔”
علیزہ کو اپنے ہاتھ پیر سن ہوتے ہوئے لگ رہے تھے۔
”لیکن اگر اس خوشی اور وفاداری کے ایشو کو تم میری ذات سے منسلک کر رہی ہو تو فار گیٹ اباؤٹ اٹ …مجھے ہر چیز …ہر تعلق …ہر رشتے …ہر بیک گراؤنڈ …ہر فور گراؤنڈ سے نکال کر دیکھو …مجھ کو بھول کر جنید کو جج کرو …پھر بھی تمہیں یہی لگے کہ وہ تمہارے لئے ٹھیک نہیں ہے۔ تو یہ رشتہ ختم کر دو …مگر یہ ذہن میں ضرور رکھو کہ جنید نہیں ہو گا تو کوئی دوسرا ہو گا …کوئی دوسرا نہیں ہو گا تو کوئی تیسرا ہو گا… کوئی بھی سہی مگر …وہ …میں …نہیں …ہوں گا …نہ آج …نہ آئندہ کبھی۔”
اس نے آخری جملے کا ایک ایک لفظ ٹھہر ٹھہر کر کہا تھا …ہر لفظ پر زور دیتے ہوئے …صاف …واضح اور دو ٹوک انداز میں …کسی مغالطے یا خوش فہمی کی گنجائش رکھے بغیر۔
علیزہ نے ہر لفظ سنا تھا۔ کسی دشواری …یا رکاوٹ کے بغیر …کسی خوش فہمی یا غلط فہمی کے بغیر …عمر کے وہاں آنے سے پہلے وہ خواہش کر رہی تھی، سب کچھ ختم ہو جائے …اس کی خواہش پوری ہو گئی تھی۔ سب کچھ ختم ہو گیا تھا۔
بہت سے لیبلز کے ساتھ وہ آج بھی وہیں تھی، جہاں دس سال پہلے تھی …اندھیرے نے ساتھ بیٹھے ہوئے شخص کی شناخت ختم نہیں کی تھی …یہ کام روشنی نے کیا تھا …روشنی معجزے کرتی ہے …وجود کو اس طرح عیاں کرتی ہے کہ کسی فریب اور دھوکے میں رہنا ممکن ہی نہیں رہتا …مقدر کو منور کر دیتی ہے …ہار ماننے پر قبر میں گاڑ دیتی ہے …نہ ماننے پر صلیب چڑھا دیتی ہے …بس چیزوں کو ان کے مقام پر نہیں رہنے دیتی …پارس چھوئے بغیر بھی انسان سونا بن جاتا ہے اور آگ کے پاس آئے بغیر بھی موم کی طرح پگھلنے لگتا ہے …روشنی واقعی معجزے کرتی ہے۔
وہاں اب خاموشی تھی …مکمل خاموشی …علیزہ کبھی کسی ”اجنبی” کے اتنا قریب نہیں بیٹھی تھی …آج بیٹھی تھی …وہ انتظار کر رہی تھی عمر کچھ اور کہے …کچھ اور ملامتیں …اور عمر شاید ان تمام باتوں کے جواب میں اس کی طرف سے کچھ کہے جانے کا منتظر تھا …شاید چند وضاحتیں …کچھ معذرتیں …پچھتاوے …اسے توقع تھی۔ علیزہ اسی طرح کا اظہار کرے گی۔ اس نے ایسا کچھ نہیں کیا۔
”آپ ٹھیک کہتے ہیں۔” وہ اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔
سب کچھ اسی گھر میں شروع ہوا تھا …سب کچھ اسی گھر میں ختم ہو گیا تھا۔ علیزہ نے مڑ کے اوپر والی سیڑھی پر قدم رکھ دیا …عمر نے اپنی جگہ سے حرکت نہیں کی …نہ ہی اس نے کچھ کہا۔
وہ غیر ہموار قدموں سے چلی آئی …اس نے پیچھے مڑ کر دیکھنے کی کوشش نہیں کی ……وہ جانتی تھی۔ پیچھے رہ جانے والے شخص نے بھی اسے مڑ کر نہیں دیکھا ہو گا …وہ اس کا ماضی تھا …ایسا ماضی جس پر اس کا پچھتاوا اب شروع ہوا تھا۔
وہ اسی طرح چلتی ہوئی اندر اپنے کمرے میں آ گئی۔ شہلا سو رہی تھی۔ کمرے میں تاریکی تھی …وہ دبے قدموں ڈریسنگ روم میں چلی آئی۔ لائٹ جلاتے ہی سامنے قد آدم آئینے میں اس نے اپنا عکس دیکھا اور وہ چند لمحوں کے لئے ساکت رہ گئی۔ آئینے میں نمودار ہونے والا عکس کس کا تھا …اس نے نظریں چرا لیں …شکست …احساس جرم …پچھتاوا …ہر چیز اس کے چہرے پر تحریر تھی ۔۔۔”بولتا ہوا چہرہ” کوئی آواز اس کے کانوں میں لہرائی۔ اس نے آئینے کی طرف پشت کر لی …وہ اس وقت وہاں مزید کسی ماتم کے لئے نہیں آئی تھی …ماتم کی گنجائش ہی کہاں رہ گئی تھی۔
وہ باتھ روم میں چلی گئی۔ چہرے پر پانی کے چند چھینٹے مار کر، اس نے ان ابھری ہوئی تحریروں کو مٹانے کی کوشش کی …نیم گرم پانی نے اس کی سوجھی ہوئی آنکھوں کو قدرے سکون پہنچایا …وہ بنا سوچے سمجھے کسی مشین کی طرح چہرے پر پانی کے چھینٹے مارتی گئی …واش بیسن میں گرتے ہوئے پانی کی آواز سے وہ جیسے اپنے کانوں میں گونجتی ہوئی آوازوں کے شور کو دبانے کی کوشش کر رہی تھی …جب وہ اس میں نا کام رہی تو اس نے ہار ماننے والے انداز میں چھینٹے مارنا بند کر دیئے۔ پانی کی ٹونٹی بند کر کے وہ واپس ڈریسنگ روم میں آ گئی اور دراز میں نیند کی گولیاں تلاش کرنے لگی۔
واپس نیم تاریک بیڈ روم میں جا کر، وہ ایک گلاس میں پانی لے کر ڈریسنگ روم میں آئی اور اس نے دو گولیاں پانی کے ساتھ نگل لیں۔ پھر وہ ڈریسنگ روم کی ایک دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر فرش پر بیٹھ گئی۔
اس کے ہاتھ میں پانی کا گلاس ابھی بھی موجود تھا، مگر اس میں پانی نہیں تھا۔ وہ خالی الذہنی کے عالم میں گلاس کو دونوں ہاتھوں کے درمیان گھماتی رہی …وہ نیند کا انتظار کر رہی تھی۔ واحد چیز جس کے سوا اسے اس وقت اور کسی چیز کی ضرورت نہیں تھی۔ صرف نیند ہی اسے ان آوازوں سے چھٹکارہ دلا سکتی تھی جنہوں نے اس وقت اس کے پورے وجود کو گنبد بنا کر رکھ دیا تھا …آوازیں …باز گشت …سر گوشیاں …ہنسی …قہقہے …وہاں کیا نہیں تھا۔
”اگلی بار میں علیزہ کو Joy دوں گا …پھر …Eternity ”
گلاس پر علیزہ کی گرفت سخت ہو گئی۔ اسے نیند کے علاوہ کسی چیز کا انتظار نہیں تھا۔
”میں تمہیں مس کروں گا۔” وہ اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔ شاید نیند لانے کے لئے دو گولیاں کافی نہیں تھیں۔ اس نے پانی کے ساتھ ایک اور گولی نگل لی اور دوبارہ وہیں بیٹھ گئی۔
”کیوں گرینی ! علیزہ پہلے سے زیادہ خوبصورت نہیں ہو گئی۔”
اس نے ہاتھ میں پکڑا ہوا گلاس دور پھینک دیا۔ شیشے کا گلاس کارپٹ پر گرا لیکن ٹوٹا نہیں۔ اسے وہاں موجود ہر چیز سے الجھن ہو رہی تھی۔
”میں بہت کوشش کروں تو بھی میں اپنے اندر تمہارے لئے کوئی خاص قسم کے جذبات دریافت کرنے میں نا کام ہو جاتا ہوں اور ایسا متعدد بار ہوا ہے تو کیا میں یہ نہ سمجھوں کہ مجھے تم سے محبت نہیں ہے۔”
علیزہ کو نیند آنے لگی تھی۔ اس نے اپنی آنکھوں کو بوجھل ہوتے ہوئے محسوس کیا۔
”دس سال میں کبھی ایسا ہوا کہ میں نے تم سے اظہار محبت کیا ہو …؟ میں نے نہیں کیا …اگر دنیا میں محبت نام کا کوئی جراثیم موجود ہے تو میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ اس سے میرا دل اور دماغ کبھی متاثر نہیں ہوا۔”
وہ اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔ لڑ کھڑاتے قدموں کے ساتھ وہ ڈریسنگ روم کا دروازہ بند کر کے بیڈ روم میں آ گئی۔
”مرد اور عورت کے درمیان ہر رشتہ محبت کا رشتہ نہیں ہوتا …چاہو تو بھی نہیں بن سکتا۔ جیسے تمہارا اور میرا رشتہ …اپنے اور میرے رشتے کو اگر تم نے اتنے سالوں میں کبھی غیر جانبداری سے نہیں دیکھا تو یہ تمہاری غلطی ہے …میں کسی Comedy of errors (حماقت) کا حصہ نہیں بن سکتا۔” وہ بیڈ روم کی کھڑکیوں کی طرف بڑھ گئی۔ وہ پردے کھینچ رہی تھی.

باب: 47
”علیزہ ! جنید کا فون ہے، وہ تم سے بات کرنا چاہتا ہے۔” وہ ناشتہ کرنے کے لیے لاؤنج میں داخل ہو رہی تھی جب نانو نے اس کو مخاطب کیا۔ وہ فون کا ریسیور ہاتھ میں تھامے ہوئے تھیں۔
علیزہ ایک لحظہ کے لیے ٹھٹھکی اور پھر ان کی طرف بڑھ آئی۔ صوفہ پر بیٹھ کر اس نے نانو کے ہاتھ سے ریسیور لے لیا۔ وہ حیران تھی، جنید عام طور پر اس وقت فون نہیں کیا کرتا تھا۔
”ہیلو!” اس نے ریسیور تھامتے ہوئے ماؤتھ پیس میں کہا۔
”کیسی ہو علیزہ؟” دوسری طرح سے وہی نرم پچکارتی ہوئی آواز سنائی دی جس کی اب وہ کچھ عادی ہو گئی تھی۔
”میں ٹھیک ہوں۔ آپ نے اس وقت فون کیسے کیا؟”
”تمہیں حیرانی ہو رہی ہے۔” جنید نے خوشگوار لہجے میں کہا۔
”کسی حد تک۔”
”تمہیں لنچ پر لے جانا چاہ رہا تھا۔” اس نے کسی تمہید کے بغیر کہا۔
”آپ رات کو مجھے بتا دیتے جب آپ نے مجھے کال کی تھی۔”
”اس وقت مجھے یاد نہیں رہا فون بند کر دیا، تب یاد آیا پھر میں نے سوچا کہ دوبارہ کال کرنا ٹھیک نہیں۔ میں صبح کر لوں گا اسی لیے تمہیں اب کال کر رہا ہوں۔” جنید نے بتایا۔
وہ کچھ سوچ میں پڑ گئی۔ ”تمہارا لنچ آور کب شروع ہو رہا ہے؟” اسے خاموش پا کر جنید نے پوچھا۔
”ایک بجے۔” علیزہ نے کہا۔
”ٹھیک ہے پھر میں آفس سے ساڑھے بارہ بجے نکلتا ہوں۔ آدھے گھنٹہ میں تمہارے آفس پہنچ جاؤں گا۔” جنید نے پرگرام طے کرتے ہوئے کہا۔ ”تم لنچ آور شروع ہوتے ہی باہر آ جانا۔ ہم کسی قریبی ریسٹورنٹ میں لنچ کر لیں گے پھر میں تمہیں واپس ڈراپ کر دوں گا۔”
”مگر آج تو میں لنچ کرنا ہی نہیں چاہ رہی تھی۔” علیزہ نے کہا۔
”کیوں ؟”
”آج خاصا مصروف دن گزرے گا آفس میں…شاید ایک دو فنکشنز کور کرنے کے لیے بھی جانا پڑے تو لنچ آور تو نکل ہی جائے گا۔” اس نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔
دوسری طرف کچھ دیر خاموشی رہی پھر جنید نے کہا۔
”تمہیں یقین ہے کہ تم کسی طرح بھی کچھ وقت نہیں نکال سکتیں؟”
”اگر مجھے یقین نہیں ہوتا تو میں آپ سے کبھی نہیں کہتی۔” علیزہ نے کہا ”ہم کسی اور دن لنچ کر لیتے ہیں۔” اس نے فوری طور پر ایک متبادل حل پیش کیا۔
”ٹھیک ہے۔ کسی اور دن لنچ کر لیتے ہیں۔ آپ بتا دیجئے کہ آپ کس دن دستیاب ہوں گی۔”
علیزہ اس کی بات پر مسکرائی۔ وہ اسے آپ اسی وقت کہتا تھا جب وہ خاصے خوشگوار موڈ میں ہوتا تھا۔
”کل چلتے ہیں۔” علیزہ نے اپنی گھڑی پر نظر دوڑاتے ہوئے کہا۔
”کل…؟ ایک منٹ میں ذرا اپنا شیڈول دیکھ لوں…مجھے لگتا ہے کل، میں آفس سے نکل نہیں سکوں گا۔”
علیزہ نے اسے بڑبڑاتے سنا پھر کچھ دیر خاموشی رہی…چند منٹوں کے بعد جنید کی آواز دوبارہ آئی۔
”کل ممکن نہیں ہوگا علیزہ…! پرسوں چلتے ہیں…پرسوں میرے پاس خاصا وقت ہوگا۔”
”ٹھیک ہے پھر پرسوں ہی چلتے ہیں…آپ سے میں نے ایک کام کہا تھا۔ آپ کو یاد ہے۔” علیزہ کو بات کرتے کرتے اچانک یاد آیا۔
”نہ صرف یاد ہے بلکہ میں پہلے ہی آپ کا کام کر چکا ہوں…دو دن میں، میں نے وہ نقشہ مکمل کر لیا تھا۔ اب میں نے اپنے ایک اسسٹنٹ کو اسے دیا ہے تاکہ ایک دفعہ دوبارہ وہ اسے دیکھ لے۔ مجھے امید ہے، آج یا کل تک وہ یہ کام کر دے گا۔ پھر میں تمہیں سارے پیپرز بھجوا دوں گا۔”
”مجھے شکریہ ادا کرنا چاہیے؟” علیزہ نے خوشگوار انداز میں کہا۔
”یقیناً…اس میں تو پوچھنے والی کوئی بات ہی نہیں ہے۔” دوسری طرف سے جنید نے بڑی سنجیدگی سے کہا ”بلکہ بہتر ہے تم مجھے شکریہ کا ایک کارڈ بھجوا دو۔ فارمیلٹی اچھی ہوتی ہے۔ اس سے میرے جیسے بندے کو اپنی اوقات کا پتا چلتا رہتا ہے۔” وہ اسی سنجیدگی سے کہتا گیا۔
علیزہ بے اختیار ہنسی ”ایک کارڈ ٹھیک رہے گا؟” اس نے بظاہر سنجیدگی کے ساتھ جنید سے پوچھا۔
”ہاں ٹھیک رہے گا…گزارہ ہو جائے گا۔” جنید کی سنجیدگی میں کوئی فرق نہیں آیا۔
”اچھا میں بھجوا دوں گی…اور بہت زیادہ شکریہ۔”
”کیا مجھے My pleasureکہنا چاہیے؟” وہ اب اس سے پوچھ رہا تھا۔
”ویل… کہنے میں کوئی حرج نہیں۔” اس نے اپنی مسکراہٹ دباتے ہوئے اسی سنجیدگی کے ساتھ کہا۔
”My pleasure”…جنید نے اس کی بات سننے کے بعد بڑی سنجیدگی سے کہا۔ وہ بے اختیار مسکرائی۔
”آپ آج بہت اچھے موڈ میں ہیں۔”
”میں ہمیشہ اچھے موڈ میں ہوتا ہوں۔” جنید نے برجستگی سے کہا۔
”لیکن آج کچھ غیر معمولی طور پر اچھے موڈ میں ہیں۔”
”اس کی واحد وجہ صبح صبح آپ سے گفتگو بھی تو ہو سکتی ہے۔”
فوری طور پر علیزہ کی سمجھ میں نہیں آیا وہ کیا جواب دے۔ وہ مسکراتے ہوئے خاموش رہی۔
”بہر حال اتنا وقت دینے کے لیے شکریہ۔ میں کارڈ کا انتظار کروں گا۔” جنید نے خدا حافظ کہتے ہوئے کہا۔ علیزہ نے فون رکھ دیا۔
”نانو پلیز، ناشتہ جلدی لگوا دیں۔ مجھے دیر ہو رہی ہے۔”
علیزہ نے ریسیور رکھتے ہی بلند آواز میں نانو سے کہا جو اس وقت کچن میں جا چکی تھیں۔
وہ علیزہ کی آواز سن کر کچن سے باہر نکل آئیں۔
”مرید ناشتہ تیار کر چکا ہے، بس چند منٹوں میں ٹیبل پر لگا دے گا۔ ”تم آج واپس کب آؤ گی؟”
”آپ کیوں پوچھ رہی ہیں؟” علیزہ کو حیرت ہوئی ، وہ عام طور پر یہ سوال نہیں کرتی تھیں۔
”مسز رحمانی نے آج ڈنر دیا ہے۔ پچھلی دفعہ میں تمہاری وجہ سے نہیں جا سکی اور وہ بہت ناراض ہوئیں اور اس بار تو انہوں نے خاص طور پر تاکید کی ہے۔” نانو نے اپنی کلب کی ایک ساتھی کا نام لیتے ہوئے کہا۔
”نانو! میں تو آج بھی خاصی دیر سے ہی آؤں گی۔ مجھے آج ایک دو فنکشنز کی کوریج کے لیے جانا ہے۔ آپ پلیز اکیلی چلی جائیں۔” علیزہ نے فوراً معذرت کرتے ہوئے کہا۔
”مسز رحمانی نے صرف مجھے انوائیٹ نہیں کیا، تمہیں بھی کیا ہے۔” نانو نے اسے جتایا۔
”میں جانتی ہوں لیکن میں کیا کر سکتی ہوں۔ آپ کو پتا ہے میں آج کل بہت مصروف ہوں۔” علیزہ نے وضاحت کی۔
”یہ ساری مصروفیت تم نے خود پالی ہیں۔ کس نے کہا تھا دوبارہ اخبار جوائن کرنے کو…بہتر نہیں تھا گھر میں رہتیں۔ کلب میں آتیں جاتیں۔” نانو نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا۔
علیزہ خانساماں کو ٹیبل پر ناشتہ لگاتے دیکھ چکی تھی۔ وہ صوفہ سے اٹھ کر ڈائننگ ٹیبل کی طرف بڑھ گئی۔
آفس ہمیشہ کی طرح تھا۔ وہ اپنے کیبن کی طرف بڑھ گئی۔ اس کی میز پر چھوٹے موٹے بہت سے نوٹس رکھے ہوئے تھے۔ اپنا بیگ ایک طرف رکھ کر وہ برق رفتاری سے ان نوٹس کو دیکھنے لگی۔ چند سرکلرز تھے سٹاف کے لیے…کچھ آج کے دن کے حوالے سے ہدایت اور چند دوسرے نیوز پیپرز آرٹیکلز کی کٹنگ جو اس کو بھیجے گئے تھے۔
”تم نے بہت دیر کر دی۔ میں کب سے تمہارا انتظار کر رہی تھی۔” صالحہ اس کے کیبن میں داخل ہوئی۔
”تین دفعہ آئی ہوں تمہاری تلاش میں۔” صالحہ نے کہا۔
”ہاں۔ آج مجھے کچھ ضرورت سے زیادہ دیر ہو گئی۔” علیزہ نے معذرت خواہانہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ ”کتنے بجے نکلنا ہے یہاں سے؟”
وہ صالحہ کے ساتھ ہی ان سوشل ایکٹیوٹیز کی کوریج کے لیے نکلا کرتی تھی۔
”وہ تو بارہ بجے ہی نکلیں گے…میں تمہیں یہ آرٹیکل دکھانا چاہ رہی تھی۔” صالحہ نے چند پیپرز اس کی ٹیبل پر رکھ دیئے۔
”اس وقت ضروری ہے؟ میں دراصل یہ سارے پیپرز دیکھنا چاہ رہی ہوں…کیا یہ کل کے نیوز پیپر کے لیے جا رہا ہے؟” علیزہ نے اس کے آرٹیکل پر نظر ڈالتے ہوئے کہا۔
”نہیں۔ کل کے نیوز پیپر کے لیے تو نہیں جا رہا مگر شاید پرسوں چلا جائے۔ میں چاہتی تھی تم اس کو دیکھ لو۔ سائرہ نے تو اس کو کچھ مختصر کرنے کے لیے کہا ہے۔ میں نے کوشش کی ہے مگر زیادہ ایڈیٹنگ کرنے سے اس کا اوور آل تاثر خراب ہو جائے گا۔” اس نے ایڈیٹر کا نام لیتے ہوئے کہا۔
”پھر تو میں اسے گھر بھی لے جا سکتی ہوں، کل تمہیں دے دوں گی۔ آج مجھے ذرا یہ کام نپٹانے دو۔” علیزہ نے کہا۔
”ٹھیک ہے۔ کل دے دینا…مگر رات کو رنگ کرکے مجھے بتا ضرور دینا کہ تم نے اسے پڑھ لیا ہے۔” صالحہ نے اس کے کیبن سے نکلتے ہوئے کہا۔
علیزہ نے اس کے آرٹیکل کو اپنے فولڈر میں رکھ لیا اور دوبارہ اپنی میز پر پڑے ہوئے کاغذات دیکھنے لگی۔
گیارہ بجے تک وہ اسی طرح کام کرتی رہی۔ چند بار وہ آفس کے دوسرے حصوں اور ایڈیٹر کے پاس بھی گئی۔ بارہ بجے وہ اور صالحہ آفس سے نکلنے کی تیاری کر رہے تھے جب اس کے موبائل پر میسج آنے لگا۔
”Still Waiting for the Card” (کارڈ کے لیے انتظار کر رہا ہوں)
وہ میسج پڑھ کر بے اختیار مسکرائی، اس کے ذہن سے جنید کے ساتھ صبح ہونے والی گفتگو اور کارڈ غائب ہو چکا تھا۔
”جنید کا میسج ہے؟” صالحہ نے اسے موبائل کا پیغام پڑھ کر مسکراتے دیکھ کر پوچھا۔
”ہاں!” علیزہ نے سر ہلایا۔ صالحہ نے اس کے ساتھ چلتے ہوئے گردن آگے بڑھا کر اس کے موبائل پر نظر ڈالی۔
”یہ کون سے کارڈ کا انتظار ہو رہا ہے؟” صالحہ نے مسکراتے ہوئے کچھ تجسس آمیز انداز میں کہا۔ ” اس کی برتھ ڈے ہے؟”
”نہیں۔ برتھ ڈے نہیں ہے۔” علیزہ نے موبائل بیگ میں رکھتے ہوئے کہا۔ ”وہ شمع نے جو ویلفیئر ہوم شروع کیا ہے اس کا نقشہ میں نے جنید سے بنوایا تھا، اس نے کچھ چارج کیے بغیر ہی کام کر دیا جبکہ شمع صرف یہ چاہتی تھی کہ وہ نسبتاً کم چارج کرے۔”
علیزہ نے اپنی ایک کولیگ کا نام لیتے ہوئے کہا۔
”صبح اس سے اسی کے بارے میں بات ہو رہی تھی۔ میں نے شکریہ ادا کیا تو اس نے کہا۔ بہتر ہے میں کارڈ بھیج دوں…میں نے کہا ٹھیک ہے بھجوا دوں گی۔ اب یہاں آکر میں اتنی مصروف ہو گئی کہ مجھے یاد نہیں رہا اور وہ شاید ابھی کارڈ چاہ رہا ہے۔”
”تو ہم باہر تو جا ہی رہے ہیں۔ تم رستے سے کارڈ لو اور کورئیر سروس کے ذریعے بھجوا دو۔” آفس کے بیرونی دروازے سے نکلتے ہوئے صالحہ نے کہا۔
”ہاں۔ میں بھی یہی سوچ رہی ہوں کہ راستے سے کارڈ لے کر پوسٹ کر دوں۔” علیزہ نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
ایک کارڈ سنٹر سے کارڈ لے کر اس نے کورئیر سروس کے ذریعے جنید کے آفس بھجوا دیا اور خود وہ صالحہ کے ساتھ اس فنکشن میں چلی گئی جو انہیں کور کرنا تھا۔
فنکشنز اور ایک نمائش کو کور کرنے کے بعد وہ صالحہ کو اس کے گھر ڈراپ کرکے جس وقت گھر آئی اس وقت آٹھ بج رہے تھے۔ نانو گھر میں موجود نہیں تھیں۔ علیزہ انہیں گھر پر نہ پا کر مطمئن ہو گئی۔ ان کی عدم موجودگی کا مطلب یہی تھا کہ وہ اس کا انتظار کیے بغیر مسز رحمانی کے ڈنر میں چلی گئی تھیں۔
”میں کھانا لگا دوں؟” مرید بابا نے اسے اپنے بیڈ روم کی طرف جاتے دیکھ کر کہا۔
”نہیں۔ میں کھانا باہر سے کھا کر آئی ہوں۔” علیزہ نے انکار کر دیا۔
”بیگم صاحبہ تاکید کر کے گئی ہیں کہ آپ کھانا ضرور کھائیں۔” خانساماں نے کہا۔
”میں جانتی ہوں مرید بابا! لیکن میں کھانا کھا کر آئی ہوں، اب دوبارہ تو نہیں کھا سکتی… آپ نانو کو کہہ دیجئے گا کہ میں نے کھا لیا۔” اس نے خوشگوار انداز میں کہا ۔
”جنید صاحب نے پھول بھجوائے تھے آپ کے لیے۔ میں نے آپ کے کمرے میں رکھ دیئے ہیں۔” وہ مرید بابا کی اطلاع پر خوشگوار حیرت کا شکار ہوئی۔
”میں دیکھ لیتی ہوں۔” وہ خانساماں سے کہہ کر اپنے کمرے کی طرف چلی گئی۔
بیڈ روم کی لائٹ آن کرتے ہی ڈریسنگ ٹیبل پر پڑے ہوئے سرخ گلابوں کے ایک بوکے نے اس کی توجہ اپنی جانب مبذول کروالی۔ وہ بیگ اور فولڈر بیڈ پر اچھالتے ہوئے ڈریسنگ ٹیبل کی طرف چلی آئی۔
ڈریسنگ ٹیبل کے اسٹول پر بیٹھتے ہوئے اس نے پھولوں کو اٹھا لیا۔ اس کی طرف سے بھیجا جانے والا یہ پہلا بوکے نہیں تھا۔ وہ اکثر اسے اسی طرح حیران کیا کرتا تھا۔ اس نے مسکراتے ہوئے بوکے پر لگا ہوا چھوٹا سا کارڈ کھول لیا۔
”Always at your disposal!” (ہمیشہ آپ کے لیے حاضر)
”Junaid Ibrahim”
ہلکی سی مسکراہٹ اس کے چہرے پر نمودار ہوئی۔ ایک گہرا سانس لیتے ہوئے اس نے پھول بوکے سے نکال کر ڈریسنگ ٹیبل پر رکھے ہوئے کرسٹل کے گلدان میں لگا دیئے۔ ایک لمبی ٹہنی والے گلاب کو چھوڑ کر اس نے سارے گلاب گلدان میں سجا دیئے۔
پھر اس واحد گلاب کو لے کر اپنے بیڈ پر آگئی اور اسے بیڈ سائیڈ ٹیبل پر رکھے ہوئے گلاس میں رکھ دیا۔ جگ سے کچھ پانی اس نے اس گلاس میں ڈالا اور پھر اسے دیکھنے لگی۔
اس نے ایک بار پھر ہاتھ میں پکڑے ہوئے اس چھوٹے سے کارڈ کو کھول کر دیکھا، جسے اس نے پھولوں سے الگ کر لیا تھا۔
عمر کے ساتھ اس رات ہونے والی تند و تیز گفتگو کے بعد اگلے کئی دن وہ بری طرح ذہنی انتشار کا شکار رہی تھی۔ اس رات سونے کے لیے نیند کی گولیاں لینے کے بعد وہ اگلا سارا دن سوتی رہی تھی اور سہ پہر کے قریب جس وقت وہ بیدار ہوئی۔ اس وقت گھر میں شہلا، اس کی ممی اور نانو کے علاوہ اور کوئی موجود نہیں تھا۔
”حد کر دی علیزہ تم تو، سارے گدھے گھوڑے بیچ کر سو گئیں۔ ” اس کے بیدار ہوتے ہی شہلا نے کہا۔ وہ اسی وقت کمرے میں داخل ہوئی تھی اور اس نے علیزہ کو بیڈ پر آنکھیں کھولے دیکھ لیا تھا۔
علیزہ اس کی بات کے جواب میں کچھ کہنے کے بجائے اٹھ کر بیٹھ گئی۔
”تمہیں اندازہ ہے کیا وقت ہو رہا ہے؟” شہلا نے اس کو خاموش دیکھ کر، اس کی توجہ کلاک کی طرف مبذول کرواتے ہوئے کہا۔
علیزہ نے بے تاثر چہرے کے ساتھ دیوار پر لگی ہوئی گھڑی پر نظر دوڑائی۔ وہاں پانچ بج رہے تھے، اسے حیرت نہیں ہوئی۔ وہ پہلے ہی اندازہ کر چکی تھی کہ وہ بہت دیر سے سو رہی تھی۔
”تم مجھے اٹھا دیتیں۔” اس نے اپنے کھلے ہوئے بالوں میں کلپ لگاتے ہوئے کہا۔
”میں نے ایک بار کوشش کی تھی مگر تم اتنی گہری نیند میں تھیں کہ میں نے تمہیں جگانا مناسب نہیں سمجھا۔” شہلا نے کھڑکی کے پردے کھینچتے ہوئے کہا۔ ” سب لوگ تم سے ملے بغیر ہی چلے گئے۔ میں خود بھی صرف اس لیے رکی ہوئی ہوں کہ تم اٹھ جاؤ پھر جاؤں…اور تم ذرا اپنی شکل دیکھو۔ کیا حلیہ بنایا ہوا ہے…آنکھیں دیکھو، کتنی بری طرح سوجی ہوئی ہیں اور سرخ بھی ہیں…تم روتی رہی ہو؟” شہلا کو بات کرتے کرتے اچانک خیال آیا۔
”میں کس لیے روؤں گی؟” وہ بیڈ سے اٹھتے ہوئے سرد آواز میں بولی۔
تو پھر تمہاری آنکھوں کو کیا ہوا ہے…شاید زیادہ دیر تک سونے کی وجہ سے ایسا ہوا ہے،” شہلا نے کہتے کہتے اچانک بات بدل دی۔
”جنید نے دوبار رنگ کیا ہے۔” وہ ڈریسنگ روم میں داخل ہوتے ہوئے رک گئی۔
”کیوں؟”
”کیوں…کیا مطلب…ظاہر ہے تم سے بات کرنے کے لیے فون کیا تھا۔ ” شہلا نے کہا۔ ”میں نے اسے بتا دیا کہ تم ابھی سو رہی ہو، وہ بعد میں فون کر لے۔”
”میں بعد میں بھی اس سے بات نہیں کروں گی۔” شہلا نے حیرانی سے اسے دیکھا۔ اس کے لہجے میں کوئی غیر معمولی چیز تھی۔
”کیا مطلب ؟”
علیزہ اس کے سوال کاجواب دیئے بغیر ڈریسنگ روم میں داخل ہو گئی۔ شہلا اس کے پیچھے آئی۔ وہ وارڈ روب کھولے اپنے کپڑے نکال رہی تھی۔
”مجھے لگتا ہے۔ تم ابھی بھی نیند میں ہو۔” شہلا نے کہا۔
”تمہیں ٹھیک لگتا ہے، میں واقعی نیند میں ہوں…شاید کوما میں۔” وہ کپڑے نکالتے ہوئے بڑبڑائی۔
”تم جنید سے بات کرنا نہیں چاہتیں؟” شہلا نے کچھ الجھے ہوئے انداز میں کہا۔
”نہیں۔” کسی تو قف کے بغیر جواب آیا۔
”کیوں؟”
” فی الحال تو میں اس کیوں کا جواب نہیں جانتی، جب جان جاؤں گی تو تمہیں بتا دوں گی۔” علیزہ نے وارڈ روب بند کرتے ہوئے کہا۔
”جنید کا اب فون آئے تو کیا کہوں؟”
”وہی جو میں نے کہا ہے…بتا دینا کہ میں اس سے بات نہیں کرنا چاہتی۔ وہ مجھے فون نہ کرے۔” وہ اب اپنے کپڑے ہینگر سے نکال رہی تھی۔
”اس کی امی نے بھی فون کیا تھا۔ وہ بھی تم سے بات کرنا چاہتی تھیں۔” شہلا نے چند لمحوں کی خاموشی کے بعد کہا۔
”میں اس کی امی سے بھی بات نہیں کرنا چاہتی تم انہیں بھی بتا دو۔” اس کے لہجے میں ابھی بھی وہی پہلے والی سرد مہری تھی۔
”تم ٹھیک تو ہو؟”
”بالکل ٹھیک ہوں۔”
”رات کو توتم نے جنید سے بات کی تھی۔ اس وقت تم نے اعتراض نہیں کیا۔”
”غلطی کی تھی اب نہیں کروں گی۔”
”تم جا کر نہاؤ پھر تم سے بات کروں گی اس وقت تم عقل سے پیدل ہو۔” شہلا نے ڈریسنگ روم سے نکلتے ہوئے کہا۔
وہ آدھ گھنٹہ کے بعد بیڈ روم میں آئی تھی۔
”تمہارا موڈ خراب کیوں ہے؟” وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے آ کر بالوں کو برش کرنے لگی تو شہلا نے اس سے کہا۔
”تمہیں غلط فہمی ہو رہی ہے۔ میرا موڈ خراب نہیں ہے۔” علیزہ نے بالوں میں برش کرتے ہوئے پرسکون انداز میں کہا۔
”مجھے کوئی غلط فہمی نہیں ہوئی میں بے وقوف نہیں ہوں۔” شہلا نے قدرے خفگی سے کہا۔
”میرے علاوہ اور کوئی بے وقوف ہو بھی کیسے سکتا ہے۔ ” علیزہ اس کی بات کے جواب میں بڑبڑائی۔
”جنید اتنا اچھا بندہ ہے۔ میں اس سے بہت متاثر ہوئی ہوں۔” شہلا نے اس کی بات پر کوئی ردعمل ظاہر کیے بغیر کہا۔ ” سب کو ہی بہت اچھا لگا ہے سب تعریف کر رہے تھے۔”
”مجھے اس کی خوبیوں اور اچھائیوں میں کوئی شبہ نہیں ہے ۔ یقیناً اتنا ہی اچھا ہے وہ جتنا تم کہہ رہی ہو۔” علیزہ نے آئینے میں دیکھتے ہوئے اس سے کہا ۔
”تو پھر اس سے خفگی کی وجہ کیا ہے؟”
”میں اس سے ناراض نہیں ہوں۔”
”پھر تم اس سے بات کرنے سے انکار کیوں کر رہی ہو؟”
”یہ میں نہیں جانتی۔”
”یہ کیا بات ہوئی؟” شہلا نے کچھ برا مانتے ہوئے کہا۔
”بس میں اس سے بات کرنا نہیں چاہتی۔”
”یہی تو پوچھ رہی ہوں …کیوں؟”
”یہ ضروری نہیں ہے ہر شخص کے پاس ہر سوال کا جواب ہو۔”
”یہ اتنا مشکل سوال نہیں ہے جس کے جواب میں تمہیں دقت پیش آئے۔” شہلا بحث کرنے کے موڈ میں تھی۔
”میں اس سے کیا بات کروں؟” علیزہ نے اچانک ہیئر برش ڈریسنگ ٹیبل پر پٹختے ہوئے شہلا کی طرف مڑ کر کہا۔
”کیا ڈسکس کروں اس سے؟”
شہلا حیرانی سے اس کا چہرہ دیکھنے لگی۔ ”اس کا شکریہ ادا کرنے کے لیے اس سے بات کروں یا پھر اظہار محبت کرنے کے لیے کہ مجھے منگنی ہوتے ہی آپ سے محبت ہو گئی ہے اور آپ جیسا آدمی میں نے پہلے زندگی میں نہیں دیکھا نہ ہی آپ سے پہلے میں نے کسی سے۔” وہ بات کرتے کرتے اچانک رک گئی۔ اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔
شہلا نے اسے مڑ کر ایک بار پھر ہیئر برش اٹھاتے ہوئے دیکھا۔
”تمہارے ساتھ جو کچھ ہوا، اس میں جنید کسی طور پر بھی قصوروار نہیں ہے۔”
علیزہ نے اس کی بات کاٹ دی۔” میں نے اسے قصوروار نہیں ٹھہرایا۔”
”تمہارے رویے سے تو یہ بات ثابت نہیں ہوتی۔”
”شہلا! میں جنید کو کوئی سزا دے رہی ہوں نہ ہی میں اسے قصوروار سمجھ رہی ہوں۔ میں بس اس سے بات نہیں کرنا چاہتی۔ کچھ عرصہ کے لیے ، تب تک جب تک میں ذہنی طور پر اس کے اور اپنے تعلق کو تسلیم نہیں کر لیتی۔ مجھے کچھ وقت چاہیے، کسی کی یادوں سے نکلنے کے لیے نہیں۔ صرف اس پچھتاوے سے نکلنے کے لیے جس کا میں شکار ہوں۔”
وہ بات کرتے کرتے تھکے ہوئے انداز میں ڈریسنگ ٹیبل کے اسٹول پر بیٹھ گئی۔
”کوئی شخص پچھتاوے اور احساس جرم کی اس اذیت کا اندازہ نہیں کر سکتا جس کا میں شکار ہوں۔ اس سے بات کرنے کے لیے جس اخلاقی جرأت کی ضرورت ہے، وہ میرے پاس نہیں ہے۔ کس منہ سے میں فون پر اس سے بات کروں۔ مجھے کتنی شرمندگی ہے یہ میں نہیں بتا سکتی اور تمہارا اصرار ہے میں اس سے بات کروں۔ میں کچھ عرصہ اس سے کیا کسی سے بھی بات نہیں کرنا چاہتی۔ نانو کا اصرار تھا منگنی کر لوں۔ وہ میں نے کروا لی۔ اب مجھے آزاد چھوڑ دیا جانا چاہیے۔”
شہلا کچھ کہنے کے بجائے صرف اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔
جنید سے بات نہ کرنے یا اسے نظر انداز کرنے کا فیصلہ زیادہ دیر تک قائم نہیں رہا۔
منگنی کے تیسرے دن اسے کوئٹہ جانا تھا اور وہ وہاں جانے سے پہلے اپنے گھر والوں کے ساتھ ان کے ہاں آیا۔ اس کے رویہ سے کسی طرح بھی اس بات کا اظہار نہیں ہوا کہ وہ علیزہ کے اس کا فون ریسیو نہ کرنے پر ناراض ہے۔ اس نے اس سلسلے میں سرے سے علیزہ سے کوئی بات ہی نہیں کی۔
معمول کے خوشگوار انداز میں وہ اس کے ساتھ گفتگو کرتا رہا۔ صرف واپس جانے سے پہلے اس نے لاؤنج سے باہر نکلتے ہوئے علیزہ سے کہا۔
”میرے پیرنٹس خاصے لمبے عرصے سے میری شادی کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ خاص طور پر میری بڑی بہن کی شادی کے بعد۔ میری فیملی روایتی قسم کی فیملی ہے جس طرح بڑے بیٹے سے بہت ساری توقعات لگائی جاتی ہیں۔ اسی طرح اس کی بیوی سے بھی خاصی توقعات وابستہ کر لی جاتی ہیں۔ شعوری طور پر یا لاشعوری طور پر۔”
وہ چند لمحوں کے لیے رکا، باقی لوگ لاؤنج سے نکل چکے تھے صرف وہی دونوں ابھی اندر تھے، علیزہ دم سادھے اس کی بات سنتی رہی۔
”میری خواہش ہے کہ آپ ان توقعات پر پورا اتریں کیونکہ توقع اس سے وابستہ کی جاتی ہے جس سے محبت ہوتی ہے یا جسے ہم اپنے بہت قریب پاتے ہیں اور آپ ہماری فیملی کا ایک حصہ بن چکی ہیں۔” وہ سنجیدگی سے کہتا گیا۔
”مجھ سے بات کرنا نہ کرنا کوئی بڑا ایشو نہیں ہے لیکن میں یہ چاہوں گا کہ آپ میری فیملی کے ساتھ رابطے میں رہیں۔ کوئی برائی نہیں ہے اگر آپ ان کے فون ریسیو کر لیں یا ان سے تھوڑی بہت گپ شپ کر لیں یا ان کی دعوت پر ہمارے گھر آ جائیں۔ اس سے خوشی کے علاوہ اور کچھ نہیں ملے گا۔ آپ کو مجبور نہیں کر رہا لیکن آپ میری درخواست مان لیں گی تو مجھے اچھا لگے گا۔”
وہ اپنی بات کے اختتام پر ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ باہر نکل گیا۔ علیزہ قدم نہیں ہلا سکی۔
بہت غیر محسوس انداز میں اس نے جنید کے گھر آنا جانا شروع کر دیا اور اس میل جول نے آہستہ آہستہ اس کے اس ڈپریشن اور احساس جرم کو کم کرنا شروع کر دیا جس کا شکار وہ منگنی کی رات عمر سے ہونے والی گفتگو کے بعد ہوئی تھی۔ اس کا احساس زیاں مکمل طور پر غائب نہیں ہوا تھا مگر اس کی شدت میں کمی آنا شروع ہو گئی تھی اور اس میں بڑا ہاتھ اس اہمیت کا تھا جو اسے جنید کے گھر میں ملتی تھی۔
جنید کی امی تقریباً روز ہی اس سے فون پر بات کیا کرتی تھیں اور جس دن ان سے گفتگو نہ ہوتی اس دن جنید کی چھوٹی بہن سے گفتگو ہوتی۔ فری کے ساتھ اس کی خاصی دوستی ہو گئی تھی۔ اس کی وجہ شاید یہ بھی تھی کہ جنید کی فری کے ساتھ خاصی بے تکلفی تھی، وہ جنید سے دو سال چھوٹی تھی اور ایک سال پہلے اس کا نکاح ہوا تھا۔
شروع میں جنید کے گھر جا کر وہ بالکل خاموش بیٹھی رہا کرتی تھی اس کی سمجھ میں ہی نہیں آتا تھا کہ وہ وہاں کس کے ساتھ کیا گفتگو کرے وہ ہر بات کا بہت مختصر جواب دیتی اور زیادہ تر یہی کوشش کرتی رہتی کہ کسی لمبی چوڑی گفتگو میں حصہ لینے سے گریز کرے۔ وہ کسی بات پر بھی اپنی رائے نہیں دیا کرتی تھی اور اگر کبھی اسے مجبور بھی کیا جاتا تو وہ اسے ہاں اور نہیں تک ہی محدود رکھتی تھی۔
آہستہ آہستہ اسے اندازہ ہونے لگا کہ اس کی یہ کم گوئی ختم ہوتی جا رہی تھی۔ لاشعوری طور پر، وہ جنید کے گھر اور وہاں کے افراد میں بہت زیادہ انوالو ہونے لگی تھی۔ لاشعوری طور پر وہ اس گھر میں جا کر خود کو بہت پرسکون اور خوش پانے لگی تھی۔
لاشعوری طور پر اسے جنید اور اس کے گھر والوں کی طرف سے کی جانے والی کالز کا انتظار رہنے لگا تھا۔
لاشعوری طور پر وہ اپنے گھر میں بھی جنید اور اس کے گھر والوں کے بارے میں سوچنے لگی تھی نہ صرف یہ بلکہ نانو، شہلا اور دوسرے لوگوں کے ساتھ گفتگو میں اکثر جنید اور اس کے گھر والوں کے حوالے بھی آنے لگے تھے اور لاشعوری طور پر عمر اس کے ذہن سے غائب ہونا شروع ہو گیا تھا۔
منگنی کی رات ہونے والی ملاقات کے بعد اگلے کئی ماہ تک عمر کے ساتھ اس کی کوئی ملاقات یا گفتگو نہیں ہوئی۔ وہ لاہور نہیں آیا۔ اگر آیا بھی تو اس نے نانو سے ملنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ علیزہ کو فون کرنا پہلے ہی بند کر چکا تھا اور نانو کے ساتھ فون پر بات کرتے ہوئے بھی اس نے کبھی علیزہ کے ساتھ بات کرنے کی خواہش ظاہر نہیں کیا اور اگر وہ کرتا بھی تو علیزہ اس سے بات نہ کرتی۔ اس کے اندر اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ اب دوبارہ اس سے گفتگو کر سکے۔
کئی ماہ تک وہ اس بات کے لیے خود کو ملامت کرتی رہی تھی۔ آخر کیوں اس نے عمر کے سامنے اس طرح گڑگڑا کر بھیک مانگی تھی۔ کیوں اس کے سامنے اس طرح زاروقطار روئی تھی۔ اپنی عزت نفس کو کوڑے کے ڈبہ میں کیوں پھینک دیا تھا۔ عمر کے سامنے اپنی رہی سہی عزت کیوں خاک میں ملا دی تھی۔ آخر کیوں وہ خود پر قابو رکھنے میں ناکام رہی تھی۔ وہ سوچتی اور اس کی ندامت اور احساس جرم بڑھتا جاتا۔ اس کی خواہش ہوتی کہ وہ کسی طرح اس رات کو کاٹ کر اپنی زندگی سے الگ کر دے اور یہ اس کا احساس ندامت ہی تھا کہ وہ عمر کا سامنا کرنے یا اس سے بات کرنے کی ہمت خود میں نہیں پاتی تھی۔ عمر اس کی زندگی کی سب سے تکلیف دہ یاد بن چکا تھا۔ اس نے عمر سے نفرت نہیں کی تھی مگر اس نے عمر کی وجہ سے اپنے آپ سے بہت زیادہ نفرت کی تھی۔
منگنی کے بعد کئی ماہ اس نے عمر کا ذکر نہیں سنا تھا حتیٰ کہ نانو بھی اس کے بارے میں بالکل خاموش تھیں۔ پہلے کی طرح اس کا فون آنے پر وہ علیزہ کو اس سے ہونے والی گفتگو سے مطلع نہیں کرتی تھیں اور علیزہ جانتی تھی وہ ایسا جان بوجھ کر کرتی تھیں۔ وہ شعوری طور پر کوشش کر رہی تھیں کہ علیزہ عمر کو مکمل طور پر اپنے ذہن سے نکال دے مگر انہیں یہ پتا نہیں تھا کہ یہ کام عمر پہلے ہی کر چکا ہے۔ اب اگر وہ علیزہ کو اس کے فون کے بارے میں بتا بھی دیتیں تو وہ اس کے لیے کسی پریشانی کا باعث نہیں بن سکتا تھا۔ کم از کم علیزہ کا یہی خیال تھا۔
عمر جہانگیر اس کی زندگی سے ہوا کے کسی جھونکے کی طرح پلک جھپکتے میں نہیں نکلا تھا۔ وہ اس کی زندگی سے ایک تندوتیز طوفان کی طرح گزر کر گیا تھا۔ ہر چیز کو اڑاتے اور گراتے ہوئے، ہر چیز کو ملیامیٹ کرتے ہوئے اس طوفان کے گزر جانے کے بعد ملبے کے علاوہ پیچھے کچھ بھی نہیں بچا تھا اور علیزہ کو اس ملبے پر دوبارہ ایک عمارت کھڑی کرنے کے لیے کتنی محنت کرنی پڑی تھی۔ اس کا اندازہ صرف وہ ہی کر سکتی تھی اور جو چیز اتنی تباہی اور بربادی کرکے گزری ہو اسے فراموش کر دینا مشکل نہیں ناممکن ہوتا ہے۔ وہ غیر محسوس طور پر انسان کے لاشعور کا حصہ بن جاتی ہے اور لاشعور سے شعور تک آنے میں اسے صرف چند سیکنڈ لگتے ہیں اور علیزہ کو خوف تھا کہ اس طوفان کے چھوڑے ہوئے نقوش دوبارہ نہ ابھرنے لگیں۔
جنید سے منگنی کے ایک ہفتہ کے بعد اس نے ایک انگلش اخبار جوائن کر لیا تھا جو ملک کے چند بڑے اخبارات میں سے ایک تھا۔ یہاں کام کرنا اس کے لیے ایک منفرد تجربہ تھا۔ اخبار کو جوائن کرنا ڈپریشن سے فرار کی ایک کوشش تھی جسے اس نے اضافی مصروفیت میں ڈھونڈنا چاہا تھا مگر اخبار جوائن کرنے کے بعد اسے اندازہ ہوا کہ وہاں اس کے کرنے کے لیے بہت کچھ تھا۔ بہت سی ایسی چیزیں اور ایسے تجربات جن کا موقع اسے پہلے نہیں ملا تھا جب وہ ایک نسبتاً غیر معروف میگزین کے ساتھ منسلک تھی۔
یہاں اسے پروفیشنل جرنلسٹس کے ساتھ کام کرنے کا موقع مل رہا تھا۔ ان لوگوں کے ساتھ کام کرنے کا اور ان لوگوں سے سیکھنے کا جن کے آرٹیکلز واقعی پڑھے جاتے تھے اور پھر ان پر بڑی تعداد میں تبصرے بھی کیے جاتے تھے۔
وہ لوگ جنہیں اندر کی خبر ہوتی تھی اور حکومت کی ہر پالیسی کی تفصیلات ان کی انگلیوں پر ہوتی تھیں۔
انہیں ہر آنے اور جانے والے کی خبر ہوتی تھی جو گڑے مردے اکھاڑنے میں ماہر سمجھے جاتے تھے اور جن سے ہر حکومت خوفزدہ رہتی تھی۔ جن کی تنقید اور بیان کردہ حقائق پر حکومتی اور انتظامی عہدے داران کو وضاحتی نوٹ جاری کرنے پڑتے تھے۔
وہ اخبار کے دفتر میں اپنے کو لیگز کے درمیان ہونے والے بحث مباحثہ سنتی اور وہ ان کی معلومات اور طرز استدلال پر رشک کرتی۔
جمہوریت کا چوتھا ستون بھی اتنا ہی طاقتور تھا جتنے باقی تین ستون۔ اتنے طاقتور کہ بعض دفعہ وہ باقی تینوں ستونوں کو ہلا دیتا تھا۔
علیزہ اخبار کے پولیٹیکل پیجز سے وابستہ نہیں تھی۔ وہ سوشل ایشوز پر آرٹیکلز لکھتی تھی اور مختلف تقریبات کی کوریج بھی کرتی اور ان تقریبات کو کور کرنے کے دوران اسے جرنلسٹس کے ساتھ لوگوں کے غیر معمولی رویے پر حیرت ہوتی۔
اخبار میں لگنے والی ایک سرخی لوگوں کے لیے کتنی اہمیت رکھتی تھی۔ فرنٹ پیج نیوز آئٹم بننے کے لیے لوگ کیسی کیسی حرکات اور کیسے کیسے بیانات دینے پر اتر آتے تھے ۔ اخبار میں آنے والا نام ایک عام اور غیر معروف آدمی کو معروف کر دیتا تھا، مسلسل خبریں چھپتے رہنے سے کسی شخص کو جہاں لوگوں کی یادداشت سے اوجھل نہ ہونے کی سہولت رہتی تھی، وہیں انگلش اخبار میں چھپنے والی خبر اس کلاس تک رسائی کا ذریعہ بن جاتی تھی جسے رولنگ یا ایلیٹ کلاس کہا جاتا ہے۔
میڈیا کی صحیح طاقت کا اندازہ اسے اس بڑے اخبار سے منسلک ہونے کے بعد ہی ہوا تھا، جہاں اخبار کو اشاعت اور سرکولیشن کے لیے مختلف لوگوں کے اشتہارات پر انحصار نہیں کرنا پڑتا تھا۔ نتیجہ کے طور پر اخبار کسی کے ہاتھ کا کھلونا بن سکتا تھا نہ ہی کسی کی انگلیوں پر نچائی جانے والی کٹھ پتلی، کم از کم علیزہ کا یہی خیال تھا۔
فیئر اور Factual جرنلزم کا بانی ہونے کا دعویٰ کرنے والا اخبار حکومتی پالیسیوں پر اپنے بے لاگ اور کڑے تبصروں اور جائزوں کی وجہ سے ان چند اخبارات میں شامل تھا جن کی وجہ سے حکومت ہمیشہ مشکل میں رہتی تھی اور جس میں شائع ہونے والی خبر یا بات کے مستند نہ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
ڈپریشن اور اپنے Sense of Loss (احساس زیاں) سے نجات کی کوشش کے لیے جوائن کیا جانے والا اخبار اس کے لیے ایک ایسا ذریعہ بن گیا تھا جس سے وہ دوسروں کے ڈپریشن اور Sense of Loss کو کم کرنے کے لیے کچھ کر سکتی تھی۔
چھ سات ماہ کے دوران اس نے اخبار کے سوشل ایشوز کے ایڈیشن میں اپنے آرٹیکلز سے اپنا اعتبار اسٹیبلش کر لیا تھا اور اپنے نام سے ملنے والی یہ شناخت اس کے لیے Source of Strength ثابت ہو رہی تھی۔ وہ سوشیالوجی میں پڑھے جانے والے فلسفے اور تھیوریز کو موجودہ دور کے حالات و واقعات پر لاگو کرکے نتائج اخذ کرنے اور تبصرے کرنے کی کوشش کرتی تھی۔ اخبار کے ذریعے ملنے والے Exposure سے اسے یہ اندازہ تو ہو گیا تھا کہ پاکستان کے سوشل سیکٹر کی حالت اس سے کہیں زیادہ خراب ہے جتنی وہ کبھی سوشیالوجی کی مختلف کتابوں میں کیے جانے والے اعداد و شمار سے جان سکی تھی۔
بعض حالات اور جگہوں میں تو سماجی عدم مساوات اور محرومیوں کی کہانی خوفناک حد تک تکلیف دہ ہے۔ Haves اور Have-nots کے درمیان حائل خلیج جتنی وسعت اب اختیار کر گئی تھی، اتنی پہلے کبھی نہیں بڑھی تھی۔
ہر آرٹیکل اور رپورٹ اتنے Sordid facts سامنے لے کر آتے تھے کہ بعض دفعہ اسے اس بے خبری پر حیرت ہوتی جس کا شکار ایلیٹ کلاس تھی یا پھر شایدپاکستان کا ہر وہ شہری جو جائز ناجائز ذرائع سے اپنے آپ کو Establish کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔
تیسری دنیا اور اس سے منسلک ساری ٹرمز پہلے اس نے کتابوں سے پڑھی تھیں یا پروفیسرز سے سنی تھیں۔ اب وہ انہیں پریکٹیکل لائف میں اپنے سامنے دیکھ رہی تھی۔ ”ترقی پذیر” ہونے کا صحیح مطلب اسے اب سمجھ میں آتا تھا۔ جب وہ اکنامکس سروے کے سوشل سیکٹر میں حکومت کے دیئے جانے والے ”سرکاری” اعدادوشمار کا موازنہ ”غیر سرکاری” تنظیموں کے اکٹھے کیے جانے والے اعدادوشمار کے ساتھ کرتی ۔ پینے کے صاف پانی تک رسائی اب بھی چالیس فیصد لوگوں کی ہی تھی۔ کئی ہزار دیہات اب بھی بجلی اور گیس کے بغیر ہی تھے۔ لٹریسی ریٹ کا گراف اب بھی کوئی واضح تبدیلی نہیں دکھا رہا تھا۔
Human developmentکے قلعے اب بھی صرف ہوا میں ہی تعمیر کیے جا رہے تھے۔ لوگوں کے سماجی رویے بھی بد سے بدتر ہوتے جا رہے تھے اور ایسی صورت حال میں ایک آرٹیکل لکھنا کوئی بڑی تبدیلی نہیں لا سکتا تھا مگر کم از کم یہ اسے اپنا نقطہ نظر لوگوں تک پہنچانے میں مدد ضرور دے رہا تھااسے یہ سوچ کر حیرت ہوتی کہ بعض دفعہ صرف دوسروں تک اپنی بات پہنچا دینا کتنا دل ہلکا کر دیتا ہے نہ صرف اپنے لیے بلکہ دوسروں کے لیے بھی۔
کی امی بھی کسی نہ کسی حد تک سوشل ورک میں انوالو رہی تھیں اور علیزہ کی ان سے اس بات پر گفتگو ہوتی رہتی۔ اس کے چند کولیگ چند این جی اوز کے ساتھ منسلک تھے اور ایک ویلفیئر ہوم کی تعمیر کے لیے سرگرداں تھے اور علیزہ نے ان کے کام میں آسانی پیدا کرنے کے لیے جنید کے ذریعے اس عمارت کا نقشہ بنوا دیا تھا۔
جنید صرف اسی کام میں اس کا مددگار نہیں رہا تھا، پچھلے چھ آٹھ ماہ میں وہ اور بھی بہت سے مواقع پر اس کی مدد کرتا رہا تھا۔ چاہے یہ رپورٹس اور آرٹیکلز کے لیے ریفرنسز کا معاملہ ہو یا پھر کوئی دوسری مدد۔ اس کا سوشل سرکل خاصا وسیع تھا اور اس سوشل سرکل میں ہر فیلڈ کے لوگ شامل تھے۔ وہ اس کا کام خاصا آسان کر دیا کرتا تھا مگر بڑے غیر محسوس طریقے سے اور اس تعاون نے بڑے عجیب سے انداز میں دونوں کے درمیان موجود رشتے کو مضبوط کیا تھا۔ علیزہ کو کبھی اندازہ تک نہیں تھا کہ وہ عمر کے علاوہ کسی اور شخص پر اس طرح اعتماد کرے گی مگر جنید نے بڑی عمدگی کے ساتھ عمر کی جگہ لے لی تھی۔
”زندگی میں ہر چیز ہر شخص، ہر فیلنگ کا Replacement (متبادل) موجود ہوتا ہے اور جو لوگ کہتے ہیں ایسا نہیں ہوتا وہ بکواس کرتے ہیں۔”
کئی بار اسے عمر کی کہی ہوئی بات یاد آتی اور چند لمحوں کے لیے خود کو جیسے کسی کٹہرے میں پاتی تب اس نے عمر کی بات سے اختلاف کیا تھا۔ بہت ناراض ہو کر
”آپ غلط کہتے ہیں۔ ان تینوں میں سے کسی کا بھی متبادل نہیں ہو سکتا۔ آپ جسے متبادل کہتے ہیں وہ دراصل کمپرومائز ہوتا ہے ورنہ ایک چیز ایک شخص یا ایک جذبے کے ختم ہو جانے کے بعد کوئی دوسرا اس کی جگہ نہیں لے سکتا۔ ایک ہاتھ کٹ جائے تو کیا اس کی جگہ دوسرا ہاتھ اگ سکتا ہے؟” اس نے اپنی جانب سے بڑی مضبوط دلیل دینے کی کوشش کی تھی۔
”بازار سے مل جاتا ہے نقلی ہاتھ۔” عمر متاثر ہوئے بغیر بولا۔
”میں اصلی ہاتھ کی بات کر رہی ہوں۔ کیا نقلی ہاتھ اس طرح کام کر سکتا ہے جس طرح اصلی ہاتھ۔”
”مگر کام تو کرتا ہے۔ اگر انسان کا دل خراب ہو جائے تو کسی دوسرے کا دل ٹرانسپلانٹ کر دیتے ہیں۔ کیا یہ Replacement نہیں ہے۔ دل سے زیادہ اہم تو جسم کا کوئی دوسرا حصہ نہیں ہے اگر اس کی Replacement ہو سکتی ہے تو پھر باقی کیا رہ جاتا ہے۔”
”بات اہمیت کی نہیں ہے۔ آپ کا پوائنٹ تھا کہ ”ہر چیز” میں آپ کو بتا رہی ہوں کہ ہر چیز نہیں۔”
”سائنس ہاتھ کو Cultureکرنے کی کوشش بھی کر رہی ہے۔ جس دن یہ کوشش کامیاب ہو گئی اس دن جسم کے دوسرے بہت سے حصوں کی طرح ہاتھ بھی اگا لیے جائیں گے۔ Replacement سائیکل پوری پوری ہو جائے گی۔” اس کے لہجے میں ہنوز اطمینان تھا۔
چیزوں کی بات چھوڑیں۔ انسانوں کی بات کریں اگر کسی عورت کا شوہر مر جائے تو کیا اس کی کمی پوری ہو سکتی ہے۔ اس کی Replacementمتبادل ہو سکتا ہے؟”
”بالکل ہو سکتا ہے۔”
”کیسے…؟”
”دوسرے شوہر سے۔”
”اور اگر پہلے شوہر سے اسے محبت ہو تو؟”
”دوسرے سے بھی ہو جائے گی۔”
”ایسا نہیں ہوتا۔”
”کم از کم جس دنیا میں میں رہتا ہوں، وہاں ایسا ہی ہوتا ہے۔ فرض کرو، دوسرا شوہر ساری دنیا کی آسائش لا کر اس کے سامنے رکھے تو کیا پھر بھی اسے اس سے محبت نہیں ہو گی۔”
”میں آپ کو اپنی بات کبھی نہیں سمجھا سکتی۔ آپ ہر بات کو اور طرح سے لیتے ہیں۔” علیزہ نے کچھ بے بس ہوتے ہوئے کہا تھا۔
”آپ کا پوائنٹ منطقی ہے ہی نہیں علیزہ بی بی یہ خواتین کی سائیکی کا حصہ ہوتا ہے۔ Replacement پرابلم Graveyard is full of indispensable peopleایسے لوگ جن کے بارے میں ہمیں خوش فہمی رہتی ہے کہ ان کا کوئی Replacement نہیں ہے تو کیا دنیا ان کے بغیر بھی اسی طرح نہیں چل رہی۔ چل رہی ہے کیونکہ نیچرل سائیکل کے تحت ان کے متبادل آ گئے کچھ اور لوگ ان کی جگہ آگئے۔ اسی کام کو کرنے کے لیے اسی رول کو سرانجام دینے کے لیے۔”
اس نے بڑی بے نیازی سے کندھے جھٹکتے ہوئے بات ختم کی تھی۔ علیزہ اس سے متفق نہیں تھی مگر وہ خاموش ہو گئی تھی۔
اور اب جنید کے بارے میں سوچتے ہوئے اسے عمر کی وہی Replacement theory (نظریہ متبادل) یاد آئی ۔ کیا واقعی ہر چیز کی Replacement ہو جاتی ہے۔ ہر فیلنگ کی، ہر شخص کی؟ وہ کئی بار خود سے پوچھتی اور پھر ذہن میں گونجنے والے جواب اور آوازیں اسے پریشان کرنے لگتیں۔
کمرے کے دروازے پر یکدم دستک کی آواز سنائی دی۔ علیزہ چونک گئی۔ اس کی سوچوں کا سلسلہ ٹوٹ گیا تھا سائیڈ ٹیبل پر گلاس میں پڑے ہوئے گلاب پر ایک نظر ڈالتے ہوئے وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ دستک کی آواز دوبارہ سنائی دی تھی۔
”جنید صاحب کا فون ہے۔” دروازہ کھولنے پر ملازم نے اسے اطلاع دی۔
”تم چلو، میں آتی ہوں۔” اس نے اپنی آنکھوں کو مسلتے ہوئے کہا۔
چند منٹوں کے بعد وہ لاؤنج میں فون پر جنید سے بات کر رہی تھی۔ دس پندرہ منٹ اس سے باتیں کرتے رہنے کے بعد وہ واپس اپنے بیڈ روم میں آگئی اور تب ہی اسے اس آرٹیکل کا خیال آیا جو صالحہ نے اسے دیا تھا۔ اس نے آرٹیکل کو نکال لیا۔
اپنے بیڈ پر نیم دراز ہوتے ہوئے اس نے آرٹیکل کو پڑھنا شروع کیا۔ اس کے چہرے پر شکنیں ابھرنے لگی تھیں۔ الجھن اور اضطراب…
چند منٹوں بعد وہ اٹھ کر بیڈ پر بیٹھ گئی۔ اس کا چہرہ یکدم بہت زرد نظر آنے لگا تھا۔
ہاتھ میں پکڑا ہوا آرٹیکل اس نے سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا اور اپنی پیشانی کو مسلنے لگی۔ کچھ دیر اسی طرح بیٹھے رہنے کے بعد اس نے سائیڈ ٹیبل پر رکھا ہوا موبائل اٹھا لیا اور صالحہ کا نمبر ڈائل کیا۔
”ہیلو! صالحہ میں علیزہ بول رہی ہوں۔ ” علیزہ نے اس کی آواز سنتے ہی کہا۔
”ہاں علیزہ ! وہ آرٹیکل پڑھ لیا؟” صالحہ کو اس کی آواز سنتے ہی یاد آیا۔
”ہاں، ابھی کچھ دیر پہلے ہی پڑھا ہے اور میں اس کے بارے میں تم سے کچھ بات کرنا چاہتی ہوں۔” علیزہ نے کچھ بے چینی سے کہا۔
”ہاں بولو، کیا کہنا چاہتی ہو، کیا تمہیں آرٹیکل پسند نہیں آیا؟” صالحہ نے پوچھا۔
”صالحہ! تم نے یہ آرٹیکل کیوں لکھا ہے؟” علیزہ نے اس کے سوال کو نظر انداز کرتے ہوئے پوچھا۔
”کیا مطلب کیوں لکھا ہے، کیا مجھے نہیں لکھنا چاہیے تھا۔” وہ اس کے سوال پر حیران ہوئی علیزہ کچھ دیر خاموش رہی پھر اس نے کہا۔
”میں نے یہ نہیں کہا کہ تمہیں نہیں لکھنا چاہیے تھا، میں صرف یہ پوچھ رہی ہوں کہ تم نے کیوں لکھا ہے؟”
”بھئی! کیوں لکھتے ہیں ایسے آرٹیکلز…عوام تک حقائق لانے کے لیے، انہیں تصویر کا اصلی رخ دکھانے کے لیے، ان لوگوں کی اصلیت سے آگاہ کرنے کے لیے جو ان ہی کے ٹیکسوں سے ان کے حکمران بنے بیٹھے ہیں۔” صالحہ نے ہمیشہ کی طرح اپنی تقریر کا آغاز کر دیا۔
”مگر یہ سب کچھ سامنے لانے کے لیے الزام تراشی ضروری ہے؟” علیزہ نے اس کی بات کو بے صبری سے کاٹتے ہوئے کہا۔
”الزام تراشی کیا مطلب؟ کون سی الزام تراشی؟” صالحہ اس کے سوال پر کچھ چونکی۔
”میں تمہارے آرٹیکل کی بات کر رہی ہوں۔” علیزہ نے کہا۔
”میرا آرٹیکل ! فار گاڈسیک علیزہ! میرے آرٹیکل میں کون سی الزام تراشی تمہیں نظر آگئی ہے۔” صالحہ نے بے اختیار اس کی بات پر ناراض ہوتے ہوئے کہا۔
”جو کچھ تمہارے آرٹیکل میں ہے، مجھے وہ سچ نہیں لگتا۔” علیزہ نے کہا۔
”جو کچھ میرے آرٹیکل میں ہے، وہ حقائق کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ مجھے حیرت ہو رہی ہے کہ تمہیں وہ سب جھوٹ لگا ہے اور شاید پہلی بار ہوا ہے۔” صالحہ نے کہا۔
”تم نے اپنے آرٹیکل میں صرف الزامات لگائے ہیں، کوئی ثبوت نہیں دیا۔ اتنا غیر محتاط ہو کر کچھ بھی لکھنے کی کیا ضرورت ہے کہ اگلے دن یا تو اخبار کو معذرت کرنی پڑے یا پھر کورٹ میں کیس چلایا جائے۔” علیزہ نے کہا۔
”میرے آرٹیکل میں کوئی ایک بھی ایسی چیز نہیں ہے جو جھوٹ ہو یا جس کا میرے پاس ثبوت نہ ہو مگر ہر ثبوت آرٹیکل میں نہیں دیا جا سکتا اور جہاں تک معذرت یا کسی کا تعلق ہے تو اس شخص میں اتنی ہمت کبھی ہو ہی نہیں سکتی کہ وہ یہ دونوں کام کرے کیونکہ میرے تمام الزامات درست ہیں اور وہ انہیں کسی طور پر بھی غلط ثابت نہیں کر سکتا۔” صالحہ نے بڑے پراعتماد انداز میں کہا۔
”تمہیں یہ ساری معلومات کہاں سے ملی ہیں؟” علیزہ نے اس کی بات پر کچھ تذبذب کا شکار ہوتے ہوئے کہا۔
”کم آن علیزہ! کم از کم تم تو ایسی بچوں جیسی باتیں نہ کرو، ہم دونوں جرنلسٹ ہیں اور تم جانتی ہو کہ جرنلسٹس کے اپنےsource of information (معلومات کے ذرائع) ہوتے ہیں۔
”اور یہ کبھی کبھار غلط معلومات اور خبریں بھی دے دیتے ہیں۔” علیزہ نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا۔
”ہاں بالکل دے دیتے ہیں مگر کم از کم اس شخص کے بارے میں میرے پاس جتنی بھی معلومات ہیں وہ بڑے باوثوق ذرائع سے آئی ہیں اور وہ غلط نہیں ہیں۔ غلط ہو ہی نہیں سکتیں۔” صالحہ نے اسی کے انداز میں اپنی بات پر زور دیا۔
”پھر بھی صالحہ! تمہیں ایک بار پھر ان تمام الزامات کی صداقت کو پرکھ لینا چاہیے۔” علیزہ نے اس بار قدرے کمزور آواز میں کہا۔
”اس کی ضرورت ہی نہیں ہے، جب میں کہہ رہی ہوں کہ یہ باوثوق ذرائع سے آئی ہیں تو تم مان لو کہ یہ واقعی باوثوق ذرائع سے آئی ہیں اور غلط نہیں ہو سکتیں۔” صالحہ نے اس کی بات کاٹتے ہوئے مضبوط لہجے میں کہا۔
”مگر مجھے حیرت ہے کہ آخر تم اس آرٹیکل میں موجود الزامات پر اتنی پریشان کیوں ہو رہی ہو۔ اس سے پہلے تو کبھی تم نے اس طرح کی کسی آرٹیکل پر کبھی اعتراض کیا نہ ہی مجھے خبردار کرنے کی کوشش کی ہے پھر اس بار کیا خاص بات ہے۔”
صالحہ کچھ متجسس انداز میں کہا اور پھر بات کرتے کرتے چونک سی گئی۔ ”کیا تم اس شخص کو ذاتی طور پر جانتی ہو؟”
علیزہ اس اچانک پوچھے گئے سوال پر گڑبڑا گئی۔
”نہیں، ایسی کوئی بات نہیں ہے میں اسے ذاتی طور پر کیسے جان سکتی ہوں، میں تو صرف اس لیے تمہیں خبردار کر رہی ہوں کہ تمہارے لگائے گئے الزامات بہت سنگین ہیں اور اخبار میں یہ آرٹیکل شائع ہو جانے کے بعد تمہیں کسی پریشانی کا سامنا بھی کرناپڑ سکتا ہے۔” علیزہ نے کہا۔
”یہ زین العابدین کی دی گئی معلومات پر مشتمل آرٹیکل ہے اور زین العابدین کتنا پروفیشنل ہے اور اس کی دی گئی انفارمیشن کس قدر authentic(معتبر) ہو سکتی ہے تم خود اندازہ لگا سکتی ہو۔”
صالحہ نے اپنے اخبار کے سب سے اچھے انوسٹی گیٹو جرنلسٹ کا نام لیتے ہوئے کہا۔
علیزہ کا دل بے اختیار ڈوبا۔ ”زین العابدین…؟ کیا وہ اس پر کام کر رہا ہے؟”
”فی الحال نہیں، مگر یہ اس کی اگلی اسائنمنٹ ہے۔” صالحہ نے علیزہ کو آگاہ کیا۔
”مگر زین العابدین اس معاملے میں کیوں دلچسپی لے رہا ہے، ایسے چھوٹے چھوٹے معاملات پر کام کرنا تو کبھی اس کا خاصا نہیں رہا۔” علیزہ نے خشک ہوتے ہوئے حلق کے ساتھ کہا۔
”یہ تو زین العابدین ہی بتا سکتا ہے۔ مجھے تو بس سنڈے ایڈیشن کے لیے ایک آرٹیکل لکھنا تھا اور اس کے لیے مجھے انفارمیشن کی ضرورت پڑی تو کسی نے مجھے ٹپ دی کہ زین العابدین کی اگلی اسائنمنٹ یہی ہو گی اور وہ یقیناً اس بارے
میں میری مدد کر سکتا ہے۔” صالحہ نے بڑی لاپروائی سے کہا۔ ”جب میں نے زین العابدین سے بات کی تو اس نے مجھے خاصی معلومات فراہم کیں۔” صالحہ خاموش ہو گئی۔
علیزہ موبائل کان سے لگائے گم صم بیٹھی رہی۔
”ہیلو علیزہ۔” صالحہ نے اسے خاموش پا کر مخاطب کیا۔
”ہاں میں سن رہی ہوں۔” وہ غائب دماغی کے عالم میں بولی۔
”کیا سن رہی ہو؟ میں تو اپنی بات ختم بھی کر چکی ہوں۔” صالحہ نے جتایا۔ ”تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے؟” اسے اچانک تشویش ہوئی۔
”ہاں…نہیں، سر میں کچھ درد محسوس ہو رہا تھا۔” علیزہ کو اچانک اپنی گفتگو کی بے ربطگی چھپانے کا بہانہ مل گیا۔
”اچھا تو تم سو جاتیں۔” صالحہ نے کہا۔
”ہاں ، مگر مجھے تمہارا آرٹیکل یاد آگیا۔ تم نے کہا تھا کہ میں آج ہی اسے پڑھ کر تمہیں اس کے بارے میں رائے دوں۔” علیزہ نے کہا۔
”اتنی ایمرجنسی بھی نہیں تھی، تمہاری طبیعت اگر ٹھیک نہیں تھی تو تم اسے نہ پڑھتیں کل پڑھا جا سکتا تھا۔ بہرحال اب تم نے پڑھ لیا ہے تو تم مجھے بتاؤ کیا اس میں کچھ مزید ایڈیٹنگ کی ضرورت ہے۔” صالحہ نے کہا۔
”اپنی رائے تو میں نے تمہیں دے دی ہے۔ مجھے الزامات کچھ زیادہ سنگین لگے لیکن اگر تمہیں یقین ہے کہ وہ ٹھیک ہیں اور بعد میں ان کی وجہ سے تمہیں کسی پریشانی کا سامنا نہیں ہوگا تو ٹھیک ہے تم اسے بھجوا دو۔” علیزہ نے کہا۔
”میں نے تمہیں بتایا ہے۔ اس اسائنمنٹ پر زین العابدین کام کرنے والا ہے اور اس کے سامنے تو میرا آرٹیکل اور اس میں شامل الزامات کچھ بھی نہیں ہیں، وہ تو جس طرح گڑے مردے اکھاڑتا ہے، تم اچھی طرح جانتی ہو۔” علیزہ کو دوسری طرف سے صالحہ کی ہنسی کی آواز سنائی دی۔
”ٹھیک ہے ، پھر تم اسے بھجوا دو۔” علیزہ نے اپنے لہجے کے اضطراب کو چھپاتے ہوئے کہا۔
”تم صبح آرہی ہو؟” صالحہ نے اس سے پوچھا۔
”کہاں؟” علیزہ نے ایک بار پھر غائب دماغی سے کہا۔
”بھئی آفس اور کہاں۔”
”ہاں، آفس تو یقیناً آؤں گی تم کیوں پوچھ رہی ہو؟” علیزہ نے کہا۔
”نہیں،بس ایسے ہی
نئی تعمیر شدہ منڈی شہر سے باہر اپنے مکینوں کا انتظار ہی کرتی رہی۔ پھر ہر بار نئی آنے والی انتظامیہ اور بلدیہ نے اس کام کا بیڑا اٹھایا اور ہر بار وہ دودھ کے جھاگ کی طرح بیٹھتے رہے۔ بلدیاتی انتخابات میں ہر بار شہریوں سے منڈی کی شہر سے باہر منتقلی کے وعدے پر ووٹ لیے جاتے اور الیکشن جیتنے کے بعد اس وعدے کو پس پشت ڈال دیا جاتا۔ پھر اس کام کا بیڑا رضی محمود اور عمر جہانگیر نے اٹھایا تھا۔ تمام سیاسی دباؤ کو پس پشت ڈالتے ہوئے سبزی منڈی میں کاروبار کرنے والے لوگوں کو ڈیڈ لائن دے دی تھی۔ دونوں پر پیچھے سے پڑنے والا دباؤ اس لیے کارگر ثابت نہیں ہو رہا تھا کیونکہ دونوں ہی بہت بااثر خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے اور ان کی ٹرانسفر کروانا آسان کام نہیں تھا۔
رضی محمود، عمر جہانگیر کے بیج میں سے تھا اور اس کی عمر کے ساتھ اچھی خاصی دوستی تھی۔ ایک ہی ضلع میں اتفاقاً ہونے والی تعیناتی کے دوران دونوں کے درمیان ہر معاملے میں اچھی خاصی کوآرڈی نیشن رہی اور سبزی منڈی کی تبدیلی کا کام اسی مطابقت کا ایک نتیجہ تھا۔
جب کسی قسم کا کوئی دباؤ کام میں نہیں آیا تو آڑھتیوں اور بیوپاریوں نے ہڑتال کی دھمکی دے دی۔ رضی محمود اور عمر جہانگیر نے بڑے اطمینان سے اس ہڑتال کی دھمکی کو نظر انداز کر دیا۔
منڈی کے لوگوں کے احتجاج میں اور شدت آ گئی اور مقررہ تاریخ پر ان کی ہڑتال شروع ہو گئی۔
مقررہ تاریخ پر رضی محمود نے قریبی شہر کی سبزی منڈی میں وہاں کے بااثر لوگوں کے ذریعے پھل اور سبزیاں منگوائیں اور شہر میں کئی جگہوں پر انتظامیہ اور بلدیہ کی زیر نگرانی سستے داموں فراہم کرنا شروع کر دیا اور اس کے ساتھ ساتھ سارے شہر میں اعلان ہوتا رہا کہ اگلے دو ہفتوں میں انتظامیہ اور کن کن جگہوں پر ایسے بازاروں کا انعقاد کرے گی اور ان کے اوقات کیا ہوں گے۔
غیر محدود مدت کے لیے شروع ہونے والی ہڑتال اگلے دن ہی ختم ہو گئی، انہیں ضلعی انتظامیہ کی طرف سے ایسے کسی اقدام کا اندازہ نہیں تھا۔
ہڑتال ختم ہونے کے باوجود سبزی منڈی میں کاروبار کرنے والوں کا احتجاج ختم نہیں ہوا بلکہ اس میں اور شدت آ گئی اور جب مقررہ ڈیڈ لائن پر پولیس منڈی کو خالی کروانے گئی تو آڑھتیوں کی انجمن کے صدر نے انہیں وہ اسٹے آرڈر دکھایا جو وہ کورٹ سے لے چکے تھے۔ عدالت نے ضلعی انتظامیہ کو تب تک سبزی منڈی کو خالی کروانے سے روک دیا تھا جب تک اس مقدمے کا فیصلہ نہیں ہو جاتا اور مقدمہ کرنے والوں کو یقین تھا کہ مقدمے کا فیصلہ ہونے میں اتنا وقت ضرور لگ جائے گا کہ عمر جہانگیر اور رضی محمود وہاں سے پوسٹ آؤٹ ہو جاتے اور ان کی جگہ پر آنے والے نئے افسر ضروری نہیں تھا کہ ان جیسے ہی ہوتے، سبزی منڈی کے لوگوں کو یقین تھا کہ ان کا مسئلہ حل ہو چکا تھا۔ اسٹے آرڈر دیکھنے کے بعد ڈپٹی کمشنر اور ایس پی کی قیادت میں آنے والا پولیس کا دستہ بڑی خاموشی کے ساتھ سبزی منڈی کے لوگوں کے بلندوبانگ فاتحانہ نعروں کی گونج میں کسی قسم کے ردعمل کا اظہار کیے بغیر وہاں سے چلا گیا۔
سارا دن سبزی منڈی میں مٹھائیاں بٹتی رہیں، انتظامیہ کو ایک بار پھر شکست دے دی گئی تھی۔ انہیں شہر سے کوئی نہیں نکال سکتا تھا۔
اگلی رات دو بجے سبزی منڈی کی طرف دوسرے شہر سے آنے والا ٹرک پویس کے قائم کیے گئے اس ناکے پر کھڑا اوپر لدی ہوئی ایک ایک پیٹی اتروا کر پولیس کے ان چار لوگوں کو دکھا رہا تھا جو کرسیوں پر بڑے اطمینان سے بیٹھے تھے۔ اس سڑک پر وہ پہلا ناکہ تھا اور اس ناکہ کے بعد آدھ کلومیٹر کے فاصلے پر چھ اور ایسے ہی ناکے تھے۔ وہ ٹرک جو عام طور پر رات ڈھائی بجے کے قریب سبزی منڈی پہنچ جاتا تھا، وہ اس دن صبح دس بجے کے قریب سبزی منڈی پہنچا پولیس نے سبزی منڈی کی دونوں بیرونی سڑکوں کو بلاک کرکے اس پر جابجا ناکے لگا دیئے تھے اور وہ دونوں سڑکیں مکمل طور پر بلاک ہو گئی تھیں۔ پولیس والے ایک ایک پیٹی اترواتے پھر چڑھاتے اگلے ناکے پر پھر یہی عمل دہرایا جاتا، اس سے اگلے ناکے پر پھر…انتظامیہ نے شہر میں اعلان کر دیا تھا کہ امن و امان کی بگڑی ہوئی صورت حال کے پیش نظر شہر میں آنے والے تمام ٹرکوں کے سامان کی اچھی طرح چھان بین کی جائے گی اور شہر میں آنے والے زیادہ تر ٹرک سبزی منڈی ہی جاتے تھے۔ نتیجتاً اس سڑک پر ٹرکوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں اور گرمی کے موسم میں بہت سے ٹرکوں میں لدا ہوا پھل اور سبزیاں خراب ہونے لگے۔ دوسرے شہروں سے بھیجے جانے والے پھلوں اور سبزیوں کے سودے ختم ہونے لگے۔
ٹرکوں پر لدے ہوئے پھلوں اور سبزیوں کے خراب ڈھیر کو خریدنے کے لیے سبزی منڈی میں کوئی تیار نہیں تھا اور دوسرے شہروں سے لوگ اپنی اجناس اس طرح ضائع کروانے کے لیے تیار نہیں تھے۔ پولیس اسٹے آرڈر کی پوری طرح پاس داری کر رہی تھی۔ سبزی منڈی میں کاروبار کرنے والے کسی شخص کو تنگ نہیں کیا گیا تھا البتہ امن و امان کی حالت کو ٹھیک رکھنا ایک ایسا فرض تھا جو پولیس کو ہر صورت پورا کرنا تھا اور یہ کام رضی محمود اور عمر جہانگیر اپنی نگرانی میں کروا رہے تھے۔
چھٹے دن پرانی سبزی منڈی کے لوگ خاموشی سے نئی سبزی منڈی منتقل ہونا شروع ہو گئے، ایک ہفتہ میں یہ منتقلی ختم ہو گئی، ایک ہفتہ کے بعد پولیس نے اس سڑک پر تمام ناکے یہ کہتے ہوئے ختم کر دیئے کہ امن و امان کی صورت حال میں بہت زیادہ بہتری آنے کی وجہ سے اب ان دو سڑکوں پر ناکوں کی ضرورت نہیں رہی۔ پرانی سبزی منڈی سے نئی سبزی منڈی میں منتقلی کا کام جس قدر سہولت سے ہوا تھا اور اس کے نتیجے میں شہریوں کو جو سکون کا سانس نصیب ہوا تھا۔
اس نے رضی محمود اور عمر جہانگیر کے لیے بھی عام شہریوں کے اندر خاصے اچھے جذبات پیدا کیے تھے لوکل پریس میں شائع ہونے والی تعریفی خبریں ملکی پریس میں بھی آئیں اور پھر کچھ کالم نویسوں کے کالمز کی زینت بھی بنیں۔
بات شاید یہیں تک رہتی تو رضی محمود اور عمر جہانگیر کا ہیرو والا درجہ اسی طرح قائم رہتا اور دوسرے لوگوں کی طرح علیزہ بھی یہی سمجھتی رہتی کہ ان دونوں نے بڑے اچھے طریقے سے ایک مشکل صورت حال کو ہینڈ کیا تھا مگر صالحہ کے آرٹیکل نے اس تمام معاملے پر سے ایک نیا پردہ اٹھاتے ہوئے عمر اور رضی کی ہیرو والی حیثیت کو ختم کرتے ہوئے انہیں ولن کی حیثیت دے دی تھی۔
سبزی منڈی کی نئی جگہ منتقلی کے بعد رضی محمود اور عمر جہانگیر نے شہر کے وسط میں موجود اس سبزی منڈی کی کروڑوں مالیت کی زمین کو بیچ کر رقم آپس میں تقسیم کر لی تھی اور صالحہ نے اس فراڈ کی تمام تفصیلات کو اپنے آرٹیکل میں شائع کیا تھا۔ اس نے نہ صرف زمین کے نئے مالکان کے ناموں کی تفصیل دی تھی بلکہ یہ بھی بتایا تھا کہ چند کالم نویسوں کو کس طرح روپیہ دے کر اخبارات میں رضی محمود اور عمر جہانگیر کے نام نہاد پروفیشنلزم کی تعریف کرتے ہوئے انہیں مثالی بیورو کریٹ قرار دیا گیا تھا۔ ایسے بیورو کریٹ جن پر اس ملک اور آنے والی نسلوں کو فخر ہوگا…دلچسپ بات یہ تھی کہ پرانی سبزی منڈی کا علاقہ اب شہر کے مصروف ترین کمرشل ایریاز میں شامل ہو گیا تھا اور اسی کمرشل ایریا میں اس شہر سے تعلق رکھنے والے ایک ایسے کالم نویس کو بھی کچھ زمین عطا کی گئی تھی جو اپنے کالمز میں وقتاً فوقتاً اپنے آبائی شہر کے ڈپٹی کمشنر اور ایس پی کی تعریفوں میں زمین اور آسمان کے قلابے ملاتا رہتا تھا۔ صالحہ نے زمین کے اس ٹکڑے کی مالیت کے حوالے سے بھی تحریری ثبوت فراہم کیے تھے۔
صالحہ کے آرٹیکل نے بہت سارے کچے چٹھے کھول کر رکھ دیئے تھے اور اس رات اس آرٹیکل کو پڑھتے ہی علیزہ کو اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ آرٹیکل عمر جہانگیر کے لئے خاصے مسائل کھڑے کر سکتا ہے اور ایسا ہی ہوا تھا اخبار کے دفتر میں اس آرٹیکل کے حوالے سے دھڑا دھڑ فون آ رہے تھے لوگ اپنی رائے کا اظہار کر رہے تھے اور ان میں سے کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو زمین کی اس خرید و فروخت کے حوالے سے مزید معلومات فراہم کرنا چاہتے تھے۔
شام کو وہ گھر آئی تو بہت زیادہ تھکی ہوئی تھی …اپنے اخبار میں شائع ہونے والا وہ آرٹیکل اسے اپنے کندھوں پر ایک بوجھ کی طرح لگ رہا تھا …وہ جانتی تھی وہ آرٹیکل عمر کو بھی خاصا پریشان کر رہا ہو گا اور عمر کی پریشانی کا تصور اس کے لئے بہت نا خوشگوار ثابت ہو رہا تھا۔
وہ ابھی اپنے کمرے میں آئی ہی تھی کہ اس کا موبائل بجنے لگا نہ چاہتے ہوئے بھی اس نے کال ریسیو کی۔
”ہیلو! علیزہ کیسی ہو؟” دوسری طرف سے ہمیشہ کی طرح جنید نے کہا۔
”بالکل ٹھیک ہوں۔” علیزہ نے اپنے سر کا بوجھل پن جھٹکتے ہوئے کہا۔
”بالکل ٹھیک ہو تو یہ اچھی بات ہے۔ اس کا مطلب ہے میں اگلے پندرہ منٹ کے بعد تمہیں ڈنر کے لئے پک کر سکتا ہوں۔” جنید نے بڑے خوشگوار انداز میں کہا۔
وہ انکار کر دینا چاہتی تھی مگر اس نے ایسا نہیں کیا، وہ اپنے سر سے اس آرٹیکل کو جھٹک دینا چاہتی تھی اور اس وقت جنید کے ساتھ گزارا ہوا کچھ وقت یقیناً اسے یہ موقع فراہم کر دیا۔
”ٹھیک ہے، میں تیار ہو جاتی ہوں، آپ مجھے پک کر لیں۔” اس نے ہامی بھرتے ہوئے کہا۔
فون بند کر کے وہ اپنے کپڑے لے کر باتھ روم میں گھس گئی، اس کو اندازہ تھا۔ جنید واقعی پندرہ منٹ بعد یہاں ہو گا اور وہ اس کو انتظار نہیں کروانا چاہتی تھی۔
پندرہ منٹ بعد جب وہ لاؤنج میں آئی تو جنید واقعی وہاں موجود نانو سے گپ شپ کر رہا تھا۔ وہ دونوں باہر نکل آئے۔
گاڑی میں جنید اس کے ساتھ ہلکی پھلکی گفتگو میں مصروف رہا …علیزہ کو ہمیشہ کی طرح اپنی ٹینشن ریلیز ہوتی ہوئی محسوس ہوئی۔
جنید کم گو مگر اچھی گفتگو کرنے والا آدمی تھا اور وہ جتنا اچھا سامع تھا۔ جب بولنے پر آتا تو اس سے بھی زیادہ اچھا گفتگو کرنے والا ثابت ہوتا۔ اسی خوبی کے باعث علیزہ نے جنید کو ذہنی طور پر جلد ہی قبول کر لیا تھا۔
”کہاں چلیں؟” اس نے بات کرتے کرتے اچانک علیزہ سے پوچھا۔
”کہیں بھی …میرے ذہن میں کوئی خاص جگہ نہیں ہے۔” علیزہ نے ڈنر کی جگہ کے انتخاب کو اس پر چھوڑتے ہوئے کہا۔
”فاسٹ فوڈ؟” جنید نے ایک بار پھر اس سے پوچھا۔
”یہ بھی آپ پر منحصر ہے …میں کسی خاص کھانے کا سوچ کر باہر نہیں نکلی۔” علیزہ نے ایک بار پھر پہلے کی طرح اس سے کہا۔
جنید اس کے جواب پر مسکرا کر خاموش ہو گیا۔ کچھ دیر تک وہ خاموشی سے گاڑی ڈرائیو کرتا رہا پھر اس نے علیزہ سے کہا۔
”میں آج تمہارا نیوز پیپر دیکھ رہا تھا۔”اس نے علیزہ کے اخبار کا نام لیتے ہوئے کہا۔ علیزہ نے گردن موڑ کر دیکھا۔ اسے احساس ہوا کہ جنید خلاف معمول کچھ سنجیدہ نظر آ رہا تھا۔
”اس میں، میں نے وہ آرٹیکل پڑھا، تمہاری دوست صالحہ کا آرٹیکل۔”
علیزہ کو بے اختیار سبکی اور ہتک کا احساس ہوا۔ جنید کے منہ سے اس آرٹیکل کا تذکرہ سننا اس کے لئے سب سے زیادہ شرمندگی کا باعث تھا۔ وہ نہیں جانتی تھی وہ اس کے خاندان کے بارے میں کیا سوچ رہا ہو گا۔
”اس نے تمہارے کزن کے بارے میں لکھا ہے، عمر جہانگیر، تمہارا وہی کزن ہے نا جس سے میں ملا تھا اور یہ آرٹیکل اسی کے بارے میں ہے نا؟” جنید نے جیسے تصدیق چاہی۔
علیزہ نے کچھ خفت کے عالم میں سر ہلا دیا۔
”کافی فضول باتیں لکھی ہیں صالحہ نے۔” جنید نے اس کے سر ہلانے پر تبصرہ کیا۔ علیزہ خاموشی سے سامنے دیکھتی رہی۔
”اس قسم کے بے بنیاد الزامات لگانا جرنلسٹ کا کام نہیں ہوتا۔” جنید کہہ رہا تھا۔
”تمہیں اس آرٹیکل کے شائع ہونے سے پہلے صالحہ نے اس کے بارے میں بتایا ہو گا۔”اچانک اس نے پوچھا۔
”ہاں، اس نے مجھے بتایا تھا۔” علیزہ نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
”تو پھر تمہیں اسے منع کرنا چاہیے تھا کہ وہ تمہاری فیملی کے بارے میں اس طرح کا آرٹیکل نہ لکھے۔” جنید نے سنجیدگی سے کہا۔
علیزہ نے حیرانی سے اس کا چہرہ دیکھا۔ ”میں کیسے منع کر سکتی تھی؟”
جنید نے اس کی بات پر گردن موڑ کر دیکھا۔ ” وہ تمہاری دوست ہے۔ تم چاہتیں تو اسے منع کر سکتی تھیں۔” اس نے اپنے الفاظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔
”نہیں، میں اسے منع نہیں کر سکتی تھی۔ ” علیزہ نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
”کیوں…تم ایسا کیوں نہیں کر سکتی تھی؟” جنید نے پوچھا۔
وہ کچھ دیر خاموشی سے اس کی چہرے کو دیکھتی رہی پھر گردن موڑ کر گاڑی کی کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔
”جرنلسٹس دوستوں کے کہنے پر اپنی کہانیاں نہیں بدلا کرتے۔” اس نے کچھ دیر کی خاموشی کے بعد کہا۔
جنید اس کی بات پر بے اختیار ہنسا۔ علیزہ ایک بار پھر اسے دیکھنے پر مجبور ہو گئی۔
”تم کیا بات کر رہی ہو علیزہ…!یہ پاکستان ہے۔ یہاں سب کچھ ہوتا ہے اور یہاں جرنلسٹ کس طرح کے ہوتے ہیں، وہ تم مجھ سے زیادہ اچھی طرح جانتی ہو کیونکہ آخر تم اس پروفیشن سے منسلک ہو۔”
وہ جنید کے منہ سے پہلی بار اس قسم کا بے لاگ تبصرہ سن رہی تھی اور شاید اس تبصرے نے اسے کچھ دیر کے لیے حیران بھی کر دیا تھا۔ اسی لیے وہ جنید کی بات کے جواب میں فوری طور پر کچھ کہنے کے بجائے خاموش ہو گئی۔
جنید کو یکدم احساس ہوا کہ علیزہ کو شاید اس کی بات بری لگی تھی۔
”میں نے ایک جنرل تبصرہ کیا ہے۔ میں کسی خاص شخص کے حوالے سے ایسا نہیں کہہ رہا۔” اس نے وضاحت کی۔
”میں صالحہ سے وہ آرٹیکل شائع نہ کرنے کے لیے کیوں کہتی؟” اس نے سنجیدگی سے جنید سے پوچھا۔
جنیدنے حیرت سے اس کا چہرہ دیکھا۔ ”کیونکہ وہ تمہاری فیملی کے ایک فرد کے بارے میں تھا۔”
”اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ وہ کس کے بارے میں تھا۔”جنید اس بار خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔ وہ یک دم بہت سنجیدہ نظر آنے لگی تھی۔
”جرنلسٹس کو بے بنیاد الزامات لگانے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔”
صالحہ کا کہنا ہے کہ وہ بے بنیاد الزامات نہیں ہیں۔
”ہر چیز اس وقت تک بے بنیاد ہوتی ہے جب تک اس کے بارے میں ثبوت نہ دیئے جائیں۔”
صالحہ نے اپنے آرٹیکل میں اتنے ثبوت دئیے ہیں جتنے ضروری تھے۔”
”ایسے ثبوت کوئی بھی دے سکتا ہے۔ چار چھ لوگوں کے بیانات اور چند کاغذات کی نقول کوئی ایسا ثبوت نہیں ہو تا کہ اس کی بنیاد پر ایک اہم عہدے پر فائز شخص کے بارے میں اخبارات میں کوئی چیز شائع کر دی جائے۔”
وہ اس بار جنید کی بات پر خاموش رہی۔
”ایک ذمہ دار جرنلسٹ کی ذمہ داری صرف دوسروں پر کیچڑ اچھالنا ہی نہیں ہوتی۔ حقائق کو حقائق بنا کر پیش کرنا بھی ضروری ہوتا ہے، مرچ مسالا لگا کر انہیں بریکنگ نیوز بنا کر پیش نہیں کرنا چاہیے۔” جنید بولتا رہا ”تم تو خود جرنلسٹ ہو، ان چیزوں کو مجھ سے زیادہ اچھی طرح جانتی ہو۔ تمہیں صالحہ سے اس کے بارے میں بات کرنی چاہیے تھی۔” جنید نے ایک بار پھر اپنی بات دہرائی۔
”میں اس سے یہ سب نہیں کہہ سکتی تھی۔”
”کیوں؟”
”کیونکہ میں نے صالحہ کو عمر جہانگیر سے اپنے کسی تعلق کے بارے میں نہیں بتایا۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ میرا فیملی ممبر ہے۔” گاڑی میں کچھ دیر خاموش رہی۔
”تمہیں اسے بتا دینا چاہیے تھا۔” جنید نے کچھ دیر کے بعد کہا۔
”میں نے یہ ضروری نہیں سمجھا۔ یہ عمر جہانگیر اور صالحہ کا مسئلہ ہے، میں اس میں کیوں آؤں؟” اس نے بڑی سرد مہری سے کہا۔
”یہ صرف عمر جہانگیر اور صالحہ کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ تمہاری فیملی کا بھی مسئلہ ہے۔ عمر تمہاری فیملی کا ایک حصہ ہے۔ فیملی کے ایک شخص کا نام خراب ہو تو پوری فیملی پر اثر پڑ جاتا ہے۔ تم اتنی میچور تو ہو کہ یہ بات سمجھ سکو۔” جنید تحمل بھرے انداز میں اسے سمجھاتا رہا۔
”یہ بات عمر کو سوچنی چاہیے۔ وہ اس طرح کی پریکٹسز میں انوالو کیوں ہوتا ہے کہ بعد میں پریس کے ہاتھوں سیکنڈ لائز ہو۔ اگر اس کو خود اپنی اور اپنی فیملی کی عزت یا ریپوٹیشن کی پروا نہیں ہے تو کوئی دوسرا کیوں کرے۔”
علیزہ نے ایک بار پھر سرد مہری سے جواب دیا۔ اسے جنید کے منہ سے عمر کے لیے نکلنے والے یہ حمایتی فقرے اچھے نہیں لگ رہے تھے۔
”مجھے اس آرٹیکل کی کسی بات پر یقین نہیں ہے۔ مجھے وہ صرف ایک defamation compaign کا حصہ لگے۔” جنید نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
علیزہ نے جنید کو غور سے دیکھا ”عمر میرا کزن ہے، میں عمر کو آپ سے زیادہ اچھی طرح جانتی ہوں۔ وہ کیا کر سکتا ہے اور کیا نہیں۔ اس کے بارے میں بھی میری رائے آپ سے زیادہ اہم ہے اور میں صالحہ کو بھی اچھی طرح جانتی ہوں وہ کسی Defamation Campaign کا حصہ نہیں ہو سکتی۔” اس نے مستحکم انداز میں کہا ”اور آخر وہ ایسی کسی کیمپین کا حصہ کیوں بنے گی۔ اس کی عمر جہانگیر سے کوئی مخالفت ہے نہ ہی اسے کسی سے کوئی فائدہ حاصل کرنا ہے۔ عمر وہی کاٹ رہا ہے جو اس نے بویا ہے۔” اس نے کندھے اچکائے۔
”صالحہ کے پاس اس آرٹیکل کے لیے میٹریل کہاں سے آیا؟ وہ تو عام طور پر ایسے ایشوز پر نہیں لکھتی۔” جنید نے اچانک اس سے پوچھا۔
”یہ میں نہیں جانتی۔ صالحہ سے اس آرٹیکل کے بارے میں میری کوئی بہت تفصیلی گفتگو نہیں ہوئی۔” علیزہ نے کہا۔
”کیا یہ حیران کن بات نہیں ہے کہ صالحہ نے ایک دم اس قسم کا متنازعہ ایشو لے کر اس پر لکھا جب کہ اسے اس کا کوئی تجربہ ہے، نہ ہی اس حوالے سے اس کا کوئی بیگ گراؤنڈ ہے۔”
”یہ بات اتنی حیران کن نہیں ہے جتنی آپ کو لگ رہی ہے، وہ جرنلسٹ ہے۔ جب چاہے جس چیز کے بارے میں لکھ سکتی ہے۔ اہم بات تو صرف یہ ہے کہ جو چیز لکھی جائے وہ اچھی طرح لکھی جائے اور اس میں کوئی جھول نہ ہو اور میں سمجھتی ہوں اس کے اس آرٹیکل میں کوئی جھول نہیں ہے۔” علیزہ نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
”لیکن صالحہ کے پاس ان تمام باتوں کے بارے میں اتنی معلومات اور ثبوت کہاں سے آئے ہیں۔ کیا وہ عمر کے شہر گئی تھی۔” جنید نے پوچھا۔
”نہیں، وہ وہاں نہیں گئی۔ اس نے یہ ساری انفارمیشن ایک دوسرے جرنلسٹ سے لی ہیں۔” علیزہ نے کہا۔ ” دوسرے جرنلسٹ سے؟” جنید کچھ حیران ہوا۔
”ہاں ایک دوسرے جرنلسٹ سے۔ وہ اس ایشو پر کام کر رہی تھی۔ انفارمیشن کی ضرورت پڑی تو اس نے اس سے مدد لی۔” علیزہ نے بتایا۔
”کس جرنلسٹ سے؟” جنید نے پوچھا۔
”آپ اس معاملے میں اتنی دلچسپی کیوں لے رہے ہیں۔ یہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے، یہ عمر کا پرابلم ہے۔ ہم خواہ مخواہ اس کے بارے میں کیوں پریشان ہوں۔” علیزہ نے جنید کی بات کا جواب دینے کے بجائے کہا۔
”کیا تمہیں یہ حیرانی کی بات نہیں لگ رہی کہ صالحہ نے ایک دوسرے جرنلسٹ کی فراہم کردہ معلومات اپنے آرٹیکل میں شامل کیں۔ یہ پروفیشنلزم ہے۔ ان چیزوں کو شائع کرنا یہ کہہ کر یہ proofs authenticated(مستند ثبوت) ہیں جب کہ درحقیقت آپ خود بھی اس کی authenticity کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔” جنید نے بڑبڑاتے ہوئے کہا۔
”یہ کوئی بات نہیں ہے ہم لوگ اکثر آپس میں معلومات کا تبادلہ کرتے رہتے ہیں۔” علیزہ نے اس کے اعتراض کے جواب میں کہا۔
” اور اگر وہ انفارمیشن غلط ہو تو؟” جنید نے چیلنج کرنے والے انداز میں کہا۔
”ایسا نہیں ہوتا۔” علیزہ نے مدھم آواز میں کہا۔
”ہو بھی سکتا ہے آخر جرنلسٹس پر وحی تو نازل نہیں ہوتی۔”
”ہم صرف وہی انفارمیشن ایک دوسرے کو دیتے ہیں جن کے بارے میں ہمیں یہ یقین ہو کہ وہ غلط نہیں ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ اگر غلط انفارمیشن دیں گے تو اپنا امیج بھی خراب کریں گے اور اخبار کا بھی۔” علیزہ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا۔
”صالحہ کو کس نے انفارمیشن دی تھی؟” جنید نے اس کی بات کے جواب میں کچھ کہنے کے بجائے اس سے پوچھا۔
”زین العابدین نے۔” علیزہ نے سنجیدگی سے کہا۔
”زین العابدین نے؟” وہ چونک سا گیا۔
”اور آپ جانتے ہیں زین العابدین غلط انفارمیشن فراہم نہیں کر سکتا۔ کم از کم اس معاملے میں اس کی کریڈیبلٹی پر شک نہیں کیا جا سکتا۔” علیزہ نے کہا۔
”مگر زین العابدین کے پاس عمر کے بارے میں اتنی معلومات کیسے آگئی ہیں۔ عمر اور اس کا تو دور دور تک بھی کوئی تعلق نہیں بنتا۔” جنید نے کہا۔
”زین العابدین! عمر کے بارے میں اگلے کچھ ہفتوں میں کسی اسائنمنٹ پر کام کرنے والا ہے اور وہ اسی سلسلے میں عمر کے بارے میں تمام معلومات اکٹھی کر رہا ہے۔” علیزہ نے لاپروائی سے کھڑکی سے باہر جھانکتے ہوئے کہا۔
”کس طرح کی اسائنمنٹ ، کیا تمہیں کچھ اندازہ ہے؟” جنید نے اس سے پوچھا۔
”نہیں، میں کچھ نہیں جانتی۔ ہو سکتا ہے اسی طرح کے چھوٹے موٹے معاملات ہوں۔” علیزہ نے اپنی رائے دی۔
”مگر زین العابدین چھوٹے موٹے معاملات پر تو کام نہیں کرتا۔” جنید بڑبڑایا
”ہو سکتا ہے، زین العابدین کے نزدیک یہ چھوٹا معاملہ نہ ہو۔ اس کے علاوہ بھی کوئی اور بات ہو جو اس کی دلچسپی کا باعث ہو۔” علیزہ نے اپنا خیال ظاہر کیا۔
”ہاں۔ جانتا ہوں۔ اس کے نزدیک دلچسپی کی اور کیا وجہ ہو سکتی ہے۔” جنید بے اختیار بڑبڑایا اور علیزہ نے حیرانی سے اسے دیکھا۔
”آپ زین العابدین کو ذاتی طور پر جانتے ہیں؟” اس نے جنید سے کہا۔
”کسی حد تک…تم صالحہ سے کہو کہ وہ ان معاملات سے دور رہے۔ یہ بہت خطرناک معاملات ہیں اور بہتر ہے وہ کسی دوسرے کے ہاتھ کا ہتھیار نہ بنے۔”
جنید نے اچانک گاڑی ایک ریسٹورنٹ کی پارکنگ میں داخل کرتے ہوئے کہا۔
”جنید! آپ چاہتے ہیں، میں صالحہ کو دھمکاؤں ؟” علیزہ کو جیسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا۔
”نہیں، میں چاہتا ہوں تم ایک اچھی دوست کی طرح اسے ایسے آرٹیکل تحریر اور شائع کرنے کی صورت میں پیش آنے والے اقدامات اور خطرات کے بارے میں آگاہ کرو۔” جنید نے گاڑی روکتے ہوئے کہا ”مجھے امید تو یہی ہے کہ وہ تمہاری نصیحت پر کان نہیں دھرے گی مگر پھر بھی تم اپنا فرض تو ادا کر دو۔”
”صالحہ کو کیا خطرہ ہو سکتا ہے؟” وہ الجھے ہوئے تاثرات کے ساتھ جنید کو دیکھنے لگی۔
”یہ میں کیسے بتا سکتا ہوں۔ میں متعلقہ پارٹی نہیں ہوں یہ تو متعلقہ پارٹی ہی بتا سکتی ہے کہ وہ ایسی صورت حال میں کیا قدم اٹھاتی ہے۔ ”جنید نے لاپروائی سے اپنے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
”فرض کریں اگر یہ آرٹیکل آپ کے بارے میں ہوتا تو آپ کا ردعمل کیا ہوتا؟” علیزہ نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔
”میرا ردعمل؟” جنید چند لمحے سوچتا رہا۔ ”میں مس صالحہ پرویز کو کورٹ میں لے جاتا، ہتک عزت کے دعویٰ میں” جنید نے چند لمحے سوچنے کے بعد کہا ”نہ صرف اسے بلکہ اس کے اخبار کو بھی۔”
”یہ آپ اس صورت میں کرتے اگر الزامات غلط ہوتے، فرض کریں اگر الزامات صحیح ہوتے تو پھر آپ کیا کرتے؟” جنید علیزہ کا چہرہ دیکھنے لگا۔
”تب تو آپ کبھی بھی اسے کورٹ میں لے جانے کا نہیں سوچ سکتے تھے تب آپ کیا کرتے؟”
”میں نے ایسے ہی کسی اقدام سے بچنے کے لیے تمہیں صالحہ کو محتاط کرنے کے لیے کہا ہے۔” جنید نے پرسکون انداز میں کہا۔
”یعنی آپ بھی یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ الزامات غلط نہیں؟” جنید کچھ لمحوں کے لیے کچھ نہیں بول سکا۔ وہ دونوں خاموشی سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔
”کیا آپ سے انکل ایاز یا عباس نے مجھ سے یہ سب کچھ کہنے کے لیے کہا ہے؟” علیزہ نے پرسکون آواز میں پوچھا۔
”نہیں۔۔۔” جنید نے گاڑی بند کر دی۔
”پھر آپ اس سارے معاملے میں اتنی دلچسپی کیوں لے رہے ہیں؟” اس کے لہجے میں سرد مہری تھی۔
”میں آج آپ کو یہ صاف صاف بتا دوں کہ میرا خاندان صرف میرا خاندان ہے۔ وہ آپ کا خاندان نہیں ہے اور میں یہ پسند نہیں کروں گی کہ آپ میرے خاندان کے بارے میں مجھے کوئی مشورہ دیں یا میرے خاندان کے کسی معاملے کو اتنی تفصیل سے زیر بحث لائیں۔”
جنید ہکا بکا اسے دیکھتا رہا۔
”انکل ایاز کے خاندان سے آپ کے تعلقات کتنے گہرے ہیں یا عباس بھائی سے آپ کی دوستی کی نوعیت کیا ہے، مجھے اس کی پروا نہیں، لیکن میں اپنی فیملی یا اپنے دوستوں کے لیے کسی قسم کے مشورے نہیں چاہتی…نہ آج، نہ آئندہ کبھی…اب آپ مجھے گھر واپس چھوڑ آئیں۔”
”علیزہ !” جنید نے جیسے بے یقینی کے عالم میں کہا۔
”مجھے گھر چھوڑ دیں۔” علیزہ نے جنید کے لہجے پر توجہ دیئے بغیر اسی طرح کہا۔
”اتنا غصہ کس بات پر آرہا ہے تمہیں؟” جنید اب بھی حیران نظر آرہا تھا۔
”مجھے گھر چھوڑ دیں۔” اس نے جنید کے سوال کا جواب دیئے بغیر کہا۔
”میں تم سے کچھ پوچھ رہا ہوں۔” جنید نے اس کی بات پر کوئی توجہ نہیں دی۔
”آپ یہ سوال مجھ سے پوچھنے کے بجائے اپنے آپ سے پوچھیں۔” علیزہ نے ناراضی سے کہا۔
”کیا تمہاری فیملی میری فیملی نہیں ہے؟” جنید نے اسے بغور دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”نہیں۔” علیزہ نے دوٹوک لہجے میں کہا ”میری فیملی صرف میری فیملی ہے…جیسے آپ کی فیملی صرف آپ کی فیملی ہے۔ کیا میں نے آپ کو کبھی آپ کی فیملی کے بارے میں کوئی مشورہ دینے کی کوشش کی ہے؟ میں نے کبھی کسی چیز کو آپ پر امپوز کرنے کی کوشش نہیں کی۔”
”میں نے بھی تم پر کوئی چیز امپوز کرنے کی کوشش نہیں کی۔” جنید نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”غلط بیانی مت کریں۔” علیزہ نے ترشی سے کہا۔
”کیا غلط بیانی کر رہا ہوں میں؟ کیا میں نے تم پر کوئی چیز امپوز کرنے کی کوشش کی ہے؟” وہ اب برہم نظر آرہا تھا۔
”پچھلے آدھ گھنٹے سے آپ اور کیا کر رہے ہیں؟” علیزہ نے اکھڑ انداز میں کہا۔ جنید دم بخود اسے دیکھتا رہا۔
”کیا امپوز کرنے کی کوشش کر رہا ہوں میں آپ پر…یہ وضاحت کرنا پسند فرمائیں گی؟” اس نے کہا۔
”میں آپ سے بحث کرنا نہیں چاہتی…آپ بس مجھے گھر چھوڑ آئیں۔” علیزہ نے اسی انداز میں کہا۔
”مگر میں تم سے بحث کرنا چاہتا ہوں…غلط بیانی کرتا ہوں…اپنی بات تم پر امپوز کرنے کی کوشش کر رہا ہوں…ایسے الزامات لگانے کے بعد تم صرف یہ کہہ کر تو یہاں سے نہیں جا سکتیں کہ تم مجھ سے بحث نہیں کرنا چاہتیں۔”
علیزہ نے پہلی بار اسے مشتعل دیکھا تھا۔ وہ بلند آواز میں بات نہیں کر رہا تھا مگر اس کے دھیمے لہجے کی ترشی اور تلخی کوئی بھی آسانی سے محسوس کر سکتا تھا۔
”رشتے خلوص مانگتے ہیں۔” وہ قدرے نرم ہو کر بولا۔
علیزہ نے برہم ہو کر اسے دیکھا۔ ” آپ اپنی اور میری بات کر رہے ہیں؟”
وہ جواب دینے کے بجائے ناراضی سے اسے دیکھتا رہا۔
”آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ میں آپ کے ساتھ مخلص نہیں ہوں۔” اس نے غم و غصہ کے عالم میں کہا۔
”اتنی جلدی نتیجے اخذ مت کیا کرو علیزہ …! میں اپنی اور تمہاری بات نہیں کر رہا ہوں۔” جنید نے برہمی سے اس کی بات کاٹی۔
”پھر آپ اور کس رشتے کی بات کررہے ہیں۔ جہاں میں مخلص نہیں ہوں۔”
”میں تمہاری اپنی فیملی کی بات کر رہا ہوں۔”
”آپ باہر بیٹھ کر اپنے خاندان کے ساتھ میری مخلصی کے بارے میں اندازے مت لگائیں۔” وہ ایک بار پھر مشتعل ہوئی۔ ”ان کے ساتھ میرے تعلق کو آپ سمجھ سکتے ہیں نہ آپ کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔”
”کیوں ضرورت نہیں ہے مجھے؟”
”کیونکہ آپ میرے خاندان کا حصہ نہیں ہیں۔”
”ابھی نہیں ہوں…ہو جاؤں گا۔”
”نہیں۔ تب بھی نہیں ہوں گے۔ میں آپ کو پہلے ہی بتا چکی ہوں۔ میری فیملی میری فیملی ہے۔ ان کا تعلق صرف مجھ سے ہے اور آپ کا تعلق بھی صرف مجھ سے ہے۔ آپ کا اور میری فیملی کا آپس میں کوئی تعلق نہیں نہ ہی آئندہ کبھی بن سکتا ہے۔”
جنید نے اس کی بات پر ایک گہرا سانس لیا۔ اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔ علیزہ اندازہ کر سکتی تھی کہ وہ اپنے اشتعال پر قابو پانے کی کوشش کر رہا تھا۔
”تمہاری فیملی کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔” اس نے چند لمحے خاموش رہنے کے بعد دوبارہ کہا۔
”تمہارے نزدیک نہیں ہے…دنیا کے نزدیک ہے۔ تمہارے کزن کے بارے میں اس طرح کی خبریں شائع ہونے سے صرف تمہاری فیملی کی ریپوٹیشن ہی خراب نہیں ہوگی۔ میری فیملی کی ریپوٹیشن بھی خراب ہو گی۔ ان سکینڈلز کا میں کیا جواب دوں گا۔”
علیزہ نے اس کی بات کاٹ دی۔ ”آپ کوئی جواب مت دیں۔ آپ صرف یہ کہہ دیں کہ آپ اس خاندان کو نہیں جانتے نہ اس کے ساتھ آپ کا تعلق ہے۔”
سے لوگوں کے منہ بند ہو جائیں گے؟”
” ہو جانے چاہئیں۔”
” اور وہ یقین کر لیں گے کہ جو میں کہہ رہا ہوں وہی سچ ہے۔”
”کر لینا چاہیے۔”
” اور اگر میری بات پر کسی کو یقین نہ آئے تو میں کیا کروں…اپنا مذاق بنواؤں یا پھر بات کرنے والے کو تمہارے پاس بھیجوں ؟”
وہ اس کا چہرہ دیکھنے لگی۔
”لوگ میرے جھوٹ پر یقین نہیں کریں گے۔”
”آپ اس بات کو جھوٹ نہ رہنے دیں۔”
”کیا مطلب؟”
”یہ رشتہ ختم کر دیں…جھوٹ سچ میں بدل جائے گا۔”
وہ دم بخود اسے دیکھتا رہا۔
”ایسا کیوں کروں میں؟” وہ کچھ دیر بعد جیسے بھڑک کر بولا۔
”آپ کو لوگوں کے سوالوں کا جواب نہیں دینا پڑے گا…ان سے جھوٹ نہیں بولنا پڑے گا۔” علیزہ نے سنجیدگی سے کہا۔
”تم یہ رشتہ ختم کرنے پر تیار ہو مگر تم یہ نہیں کر سکتیں کہ اپنی دوست کو ایسے سکینڈلز شائع کرنے سے روکو۔”
”نہیں۔ میں ایسا نہیں کر سکتی۔” اس نے دوٹوک انداز میں انکار کیا۔ ”جس نے جو غلط کام کیا ہے،
اسے اس کی سزا ملنی چاہیے۔”
”غلط کام کی جو تعریف تمہارے اور تمہاری دوست کے پاس ہے، اس پر صرف عمر پورا اترتا ہے۔” جنید نے مشتعل ہوتے ہوئے کہا۔ ”صالحہ کو کہو، وہ ہر روز ایک آرٹیکل لکھے…ہر روز ایک افسر کی عزت اچھالے جو کام عمر نے کیے ہیں وہ تو اور بھی بہت سے کر رہے ہیں۔ پھر عمر جہانگیر ہی کیوں؟ باقیوں کے بھی نام دے…اپنے خاندان کے لوگوں کے بھی نام دے۔”
”عمر سے اتنی ہمدردی کیوں ہے آپ کو؟ وہ میرا کزن ہے، مجھے اس کی پروا ہ نہیں ہے…مگر آپ۔۔۔”
جنید نے اس کی بات کاٹ دی۔ ” وہ تمہارا کزن ہے…میں تمہیں یہی یاد دلانے کی کوشش کر رہا ہوں۔۔۔”
”یہ یاد دلانا آپ کا کام نہیں ہے۔ آپ کو عمر کے بارے میں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایسی چھوٹی موٹی باتوں سے وہ پریشان نہیں ہوتا۔ یہ کارنامے تو سرخاب کے پر ہیں جو ہر بیورو کریٹ اپنے سر پر سجانا فخر سمجھتا ہے۔ آپ خواہ مخواہ اپنا سر کھپا رہے ہیں۔” علیزہ نے سرد مہری سے کہا۔
”میں صالحہ سے خود بات کرنا چاہتا ہوں۔”
”آپ ایسا نہیں کریں گے۔”
”کیوں نہیں کروں گا۔ تمہیں اگر اپنی فیملی سے دلچسپی نہیں ہے تو مجھے ان کی پرواہ کرنے دو۔”
”میری فیملی کو آپ کی پرواہ اور دلچسپی کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ پہلا سکینڈل نہیں ہے جو وہ فیس کر رہے ہیں…ایسی چھوٹی موٹی باتوں پر پریشان نہیں ہوتے۔”
علیزہ نے اسی طرح سرد مہری سے کہا۔
”اور اگر ہوں تو وہ خود ہی ہر مسئلے کا حل نکال لیتے ہیں۔ کسی دوسرے کو زحمت نہیں دیتے…اور صالحہ جیسے جرنلسٹس کے آرٹیکلز ان کے لیے کوئی بڑی بات نہیں ہے… وہ جرنلسٹس کے ہاتھوں پریشان ہونے والوں میں سے نہیں ہیں…بہتر ہے، آپ اس سارے معاملے سے خود کو دور رکھیں۔” اس بار علیزہ نے قدرے نرمی سے کہا۔
”یہ آپ کا مسئلہ سرے سے ہے ہی نہیں…انکل ایاز اور عباس خود اس مسئلے کو ہینڈل کر سکتے ہیں…بلکہ عمر بھی…آپ صرف انکل ایاز اور عباس کو یہ بتا دیں کہ صالحہ نے میرے کہنے پر یہ آرٹیکل نہیں لکھا اور نہ ہی میں اس کے کسی آرٹیکل پر کوئی اعتراض کروں گی ۔ وہ میری دوست ضرور ہے مگر وہ جو چاہے لکھ سکتی ہے…اسے میرے مشوروں کی ضرورت نہیں ہے۔”
علیزہ کے لہجے کی سرد مہری اسی طرح برقرار تھی۔
جنید کچھ دیر ہونٹ بھینچے اسے دیکھتا رہا پھر اس نے کہا۔
”اور اگر میں تم سے ریکویسٹ کروں کہ تم میرے کہنے پر صالحہ سے بات کرو اور اس سے کہو کہ وہ۔۔۔”
علیزہ نے جنید کو بات مکمل نہیں کرنے دی۔ ”تو میں آپ سے معذرت کر لوں گی…میں یہ کام نہیں کروں گی…چاہے آپ کہیں، چاہے کوئی اور۔۔۔”
جنید کچھ دیر اسے دیکھتا رہا پھر اس نے کچھ بھی کہے بغیر گاڑی دوبارہ اسٹارٹ کر دی اور اسے پارکنگ سے باہر لے آیا۔
واپسی کا سارا سفر بڑی خاموشی سے طے ہوا تھا۔ گاڑی کی فضا میں کشیدگی محسوس کی جا سکتی تھی۔ علیزہ کے ڈپریشن میں اور اضافہ ہو چکا تھا۔ اب وہ پچھتا رہی تھی کہ اس نے جنید کے ساتھ آنے کا فیصلہ کیوں کیا تھا…وہ اس کے ساتھ نہ آتی تو ان کے درمیان یہ جھگڑا کبھی نہ ہوتا نہ ہی جنید کا موڈ اس طرح خراب ہوتا۔
جنید ہر بار اسے گھر کے اندر چھوڑنے جاتا تھا مگر اس دن اس نے گیٹ پر ہی گاڑی روک دی۔ علیزہ گاڑی کا دروازہ کھول کر خاموشی سے اتر گئی۔ اس کے اترتے ہی جنید نے کچھ بھی کہے بغیر گاڑی کو موڑ لیا۔
جتنی دیر میں چوکیدار نے گیٹ کھولا۔ وہ وہاں سے جا چکا تھا۔ وہ سر جھٹکتی ہوئی اندر چلی آئی۔
نانو لاؤنج میں ہی تھیں۔
”جنید اندر نہیں آیا؟” انہوں نے اسے دیکھتے ہی پوچھا۔
نہیں اسے کچھ کام تھا۔” علیزہ نے مسکرانے کی کوشش کی مگر اسے اندازہ ہو رہا تھا کہ اس کا چہرہ اس کا ساتھ نہیں دے رہا ہوگا۔
”تمہیں کیا ہوا ہے؟” نانو نے اس کی کیفیت منٹوں میں بھانپ لی۔
”کچھ نہیں…بس میں تھک گئی ہوں۔ سونا چاہتی ہوں۔” وہ نانو سے نظریں چرا کر لاؤنج سے نکلنے لگی۔
”علیزہ !” نانو کی آواز پر اس نے مڑ کر دیکھا۔
”جنید سے تمہارا کوئی جھگڑا ہوا ہے؟”
”نہیں۔” اسے توقع نہیں تھی۔ نانو اتنی جلدی بات کی تہہ تک پہنچ جائیں گی۔
”میں اسے فون کرتی ہوں۔” نانو فون کی طرف بڑھتے ہوئے بولیں، وہ بے اختیار جھنجھلاتے ہوئے لاؤنج سے باہر نکل گئی۔
جنید نے ہمیشہ کی طرح رات کو اسے فون نہیں کیا۔ اپنے کمرے میں آنے کے بعد وہ بیڈ پر لیٹی کافی دیر تک لاشعوری طور پر اس کے فون کا انتظار کرتی رہی۔
اگلے دن صبح اس کا موڈ بہت خراب تھا۔ آفس جانے کو بھی جی نہیں چاہ رہا تھا مگر اس دن اسے آفس میں کچھ ضروری کام نپٹانے تھے۔
”جنید کو فون کیا تھا رات کو میں نے۔”
ناشتے کی میز پر نانو نے اسے بتایا۔ ایک لمحہ کے لیے ناشتہ کرتے ہوئے اس کے ہاتھ رکے پھر وہ دوبارہ ناشتہ کرنے میں مصروف ہو گئی۔
”وہ تو کہہ رہا تھا کہ تم دونوں کے درمیان کوئی جھگڑا نہیں ہوا۔” نانو چائے کپ میں ڈالتے ہوئے کہہ رہی تھیں ” وہ کہہ رہا تھا کہ صرف تمہارا موڈ خراب تھا۔ شاید آفس کی کسی مصروفیت کی وجہ سے۔”
”میں نے آپ کو پہلے ہی کہا تھا کہ اس کے ساتھ میرا کوئی جھگڑا نہیں ہوا۔” علیزہ نے سر جھٹکتے ہوئے کہا ”آپ خواہ مخواہ پریشان ہو رہی ہیں۔ آپ کو اسے فون ہی نہیں کرنا چاہیے تھا۔”
”تمہارا موڈ کس وجہ سے خراب ہے؟” نانو نے اس کی بات پر توجہ دیئے بغیر اس سے پوچھا۔
”کوئی موڈ خراب نہیں ہے میرا۔۔۔” وہ اپنی پلیٹ پر جھکتے ہوئے بڑبڑائی۔
”تو پھر جنید ایسا کیوں کہہ رہا تھا؟”
”اب یہ آپ جنید سے ہی پوچھ لیتیں تو بہتر تھا۔ میں کیا بتا سکتی ہوں۔”
اس کے لہجے میں نہ چاہتے ہوئے بھی کچھ ناراضی جھلک آئی۔
”وہ آفس کے مسئلے کا ذکر کر رہا تھا۔ کیا تم واقعی آفس کے کسی مسئلے کی وجہ سے پریشان ہو؟”
”کوئی مسئلہ نہیں ہے آفس میں…بس کام کا لوڈ زیادہ ہے آج کل…اسی وجہ سے میں کچھ اپ سیٹ ہوں۔” اس نے نانو کو مطمئن کرنے کی کوشش کی۔
”میں تم سے پہلے بھی کہتی آرہی ہوں، تم جاب چھوڑ دو۔ یہ تمہارے بس کی بات نہیں ہے۔ فل ٹائم جاب تمہارے لیے ہے ہی نہیں۔ خود کو بھی تھکاتی ہو، دوسروں کو بھی پریشان کرتی ہو، بہتر ہے تم اپنے پرابلمز میں سے جاب کا پرابلم نکال دو۔”
نانو نے ہمیشہ کی طرح اسے لیکچر دینا شروع کر دیا ”میں نے تو رات جنید سے بھی کہا کہ اس کو تمہیں روکنا چاہیے تھا اس جاب سے۔ میری تو تمہیں پرواہ نہیں ہے، شاید اس کی بات مان لو۔”
وہ ان کی بات کا جواب دینے کے بجائے ٹیبل سے اٹھ گئی۔
”اب تم پھر آفس جا رہی ہو۔ اگر زیادہ کام کی وجہ سے پریشان ہو تو کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ ایک دو دن کی چھٹی لے کر آرام کرو تاکہ تم کچھ ریلیکس تو ہو سکو۔” نانو نے اسے اٹھتے دیکھ کر ٹوکا۔
”میں دو دن کے لیے گھر پر رہوں گی۔ آفس میں کام اور زیادہ ہو جائے گا، بہتر ہے میں آفس جا کر سارا کام نمٹا لوں، اس سے زیادہ اچھا طریقہ کوئی نہیں ہے خود کو ریلیکس کرنے کا۔”
وہ کہتی ہوئی لاؤنج سے باہر نکل گئی، نانو نے ایک گہری سانس لے کر اسے جاتے ہوئے دیکھا اور پھر کچھ ناراضی کے عالم میں بڑبڑانے لگیں۔
اس کی پریشانی اگر نانو سے چھپی نہیں رہی تھی تو آفس میں بھی وہ دوسروں سے اپنی ذہنی اور دلی کیفیات نہیں چھپا سکی تھی۔ سب سے پہلے صالحہ نے اس سے اس کا حال احوال پوچھا تھا۔
”تمہیں کوئی پرابلم تو نہیں ہے؟” اس نے سلام دعا کرنے کے بعد پہلا سوال یہی کیا۔
”نہیں کوئی پرابلم نہیں ہے۔” علیزہ نے اپنی میز پر پڑے آرٹیکلز پر اپنی نظریں جماتے ہوئے کہا۔
”پھر اتنی سنجیدہ کیوں نظر آرہی ہو؟” صالحہ کو اس کی بات پر یقین نہیں آیا۔
”کام کرنے کے دوران میں ہمیشہ سنجیدہ ہی نظر آتی ہوں۔” علیزہ نے اسی طرح آرٹیکلز پر نظر دوڑاتے ہوئے کہا۔
”میں اس بات پر یقین نہیں کر سکتی۔ صبح تمہیں آفس میں داخل ہوتے دیکھ کر ہی مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ تمہارا موڈ خراب ہے مگر تم کہہ رہی ہو کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔”
”میری طبیعت کچھ خراب ہے، باقی تو سب کچھ واقعی ہی ٹھیک ہے۔” علیزہ نے اس بار سر اٹھا کر مسکرانے کی کوشش کی۔
”مجھے اب بھی یقین نہیں آیا۔” صالحہ نے اس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے بے یقینی سے کہا۔ وہ ایک ٹھنڈا سانس لے کر ایک بار پھر ان آرٹیکلز پر جھک گئی۔
”میں مدد کر سکتی ہوں کچھ؟” صالحہ نے کچھ دیر کے بعد کہا۔
”نہیں۔۔۔” علیزہ صفحات الٹتے ہوئے بولی۔
”پھر صالحہ کو اسی طرح دیکھ کر نرم آواز میں بولی۔
”کیا تم تھوڑی دیر کے لیے مجھے اکیلا چھوڑ سکتی ہو؟”
”ہاں کیوں نہیں۔۔۔” صالحہ قدرے حیرانی سے اسے دیکھتے ہوئے اٹھ گئی۔
”Hope you won’t mind” علیزہ نے کہا۔
”It’s alright”صالحہ ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کمرے سے نکل گئی۔
علیزہ نے اس کے باہر جاتے ہی اپنے سامنے پڑے ہوئے آرٹیکلز ایک طرف رکھ دیئے۔ ان آرٹیکلز کو پڑھنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ وہ اس وقت ان کا سر پیر سمجھنے سے قاصر تھی۔ جنید اس وقت اسے آفس میں فون کیا کرتا تھا۔ آج اس نے فون نہیں کیا تھا۔ وہ کوشش کے باوجود اس کو اپنے ذہن سے جھٹک نہیں پا رہی تھی۔ پچھلی رات اس کے ساتھ ہونے والی گفتگو ایک بار پھر اسے یاد آرہی تھی اور وہ ایک بار پھر خفگی کی ایک لہر سی اپنے اندر اٹھتی محسوس کر رہی تھی۔ ” آخر اسے عمر کی خاطر مجھ سے لڑنے کی کیا ضرورت تھی۔ ایک ایسے شخص کی حمایت کرنے کی جسے وہ براہ راست جانتا تک نہیں۔۔۔”اسے جھنجھلاہٹ ہو رہی تھی۔
”کیا اسے مجھ سے زیادہ میری فیملی کی فکر ہو سکتی ہے؟” اس نے ہاتھ میں پکڑا ہوا پین ٹیبل پر رکھ دیا۔” اور آخر اسے مجھ سے یہ سب باتیں کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔” وہ جھنجھلا رہی تھی۔
”پھر اتنی چھوٹی سی بات پر وہ اس طرح ناراض ہو گیا ہے اور اس کا دعویٰ ہے، وہ مجھ سے محبت کرتا ہے۔” وہ بہت مضطرب تھی۔
”کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ میں اسے فون کر لوں؟” اسے یکدم ایک خیال آیا۔
”مگر میں اسے فون کیوں کروں…ناراض وہ مجھ سے ہے، میں تو نہیں۔”
”غلط بات اس نے کی تھی میں نے تو نہیں۔۔۔” اس نے ایک بار پھر آرٹیکلز کو اپنے سامنے کھینچ لیا۔
”مگر اس سے بات کرکے میں کم از کم اس ٹینشن سے تو نکل سکتی ہوں۔” اسے ایک بار پھر خیال آیا۔
”لیکن اگر فون کرنے پر اس نے ایک بار پھر مجھ سے وہی مطالبہ کیا تو…؟” اس کے دل میں خدشہ پیدا ہوا۔
”اسے خود مجھے فون کرنا چاہیے، میں اسے فون کیوں کروں…اسے احساس ہونا چاہیے اپنی غلطی کا۔۔۔” علیزہ نے ایک بار پھر اپنا ارادہ بدل دیا۔
صالحہ اس دن بہت خوش تھی۔ اس کے آرٹیکل پر ملنے والا رسپانس بہت اچھا تھا، شاید وہ علیزہ سے اس رسپانس کو ہی ڈسکس کرنا چاہتی تھی مگر علیزہ کے خراب موڈ نے اسے قدرے حیران کر دیا تھا۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا کہ علیزہ کا موڈ اس طرح خراب ہو ۔ وہ عام طور پر خوشگوار موڈ میں رہا کرتی تھی۔
تین چار بجے کے قریب صالحہ ایک بار پھر علیزہ کے کمرے میں آگئی۔
”تمہارا موڈ کچھ ٹھیک ہوا؟” اس نے اندر داخل ہوتے ہی کہا۔
علیزہ اس بار اسے دیکھ کر مسکرائی ”ہاں ٹھیک ہو گیا۔”
”خدا کا شکر ہے ورنہ میں سوچ رہی تھی کہ شاید تم آج سارا دن ہی اسی طرح منہ لٹکائے پھرو گی۔” صالحہ نے ایک گہری سانس لے کر کرسی کھینچ لی۔
”تمہارا کام ختم ہو گیا ہے؟”
”تقریباً ختم ہو گیا ہے۔” علیزہ نے اس کی بات کا جواب دیا۔
”چلو اچھا ہے، کچھ دیر گپ شپ تو کر سکتی ہوں تمہارے ساتھ۔” صالحہ اطمینان سے بولی۔
”مجھے لگتا ہے، آج تمہارے پاس کرنے کے لیے اور کچھ بھی نہیں ہے؟” علیزہ مسکرائی۔
”ہاں واقعی آج میرے پاس کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ ایک فنکشن کی کوریج کرنی تھی۔ وہ میں کر آئی ہوں۔ چند چھوٹے موٹے دوسرے کام تھے۔ وہ بھی کر چکی ہوں۔ اس لیے آج میری کوئی اور مصروفیت نہیں ہے۔”
”یعنی راوی چین ہی چین لکھتا ہے تمہارے لیے۔” علیزہ نے تبصرہ کیا۔
”کہہ سکتی ہو، کم از کم آج تو راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے۔ دو دن سے تو ویسے بھی میں تعریفی کالز اور کلمات کا ڈھیر اکٹھا کرتی پھر رہی ہوں۔” صالحہ نے فخریہ انداز میں کہا۔
علیزہ نے سر اٹھائے بغیر صرف نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔ وہ بولتی جا رہی تھی۔
”حالانکہ مجھے شرمندگی بھی ہو رہی ہے کہ اس آرٹیکل میں میرا کوئی کنٹری بیوشن نہیں ہے۔ سارا کام تو زین العابدین کا ہے۔ میں نے تو صرف ایک دو گھنٹے بیٹھ کر اس کی دی گئی معلومات پر وہ آرٹیکل لکھ دیا۔”
علیزہ نے ایک گہری سانس لے کر اپنے سامنے پڑی فائل بند کرکے ایک طرف سرکا دی۔ صالحہ اب بھی بول رہی تھی۔
”اگر اصل کریڈٹ کسی کو جاتا ہے تو وہ زین العابدین کو جاتا ہے مگر تم زین العابدین کو دیکھو۔ اس نے خود بھی فون کر کے مجھے اتنا اچھا آرٹیکل لکھنے پر سراہا ہے۔” صالحہ نے زین العابدین کی تعریف کی۔
”ویسے مجھے کبھی کبھی لگتا ہے کہ اس آدمی کے پاس الٰہ دین کا چراغ ہے ورنہ جس طرح کی معلومات اس کے پاس اس آسانی سے پہنچ جاتی ہیں، وہ کبھی کسی دوسرے کے پاس نہیں پہنچ سکتیں۔” وہ اپنی کرسی کو جھلاتے ہوئے تحسین آمیز انداز میں بولی۔
”تمہیں پتا ہے علیزہ! عمر جہانگیر اور رضی محمود کے خلاف انکوائری شروع ہونے والی ہے۔” بات کرتے کرتے اچانک صالحہ کو جیسے کچھ یاد آیا۔
”مجھے کیسے پتا ہو سکتا ہے؟” علیزہ نے مدھم آواز میں کہا۔
”ہاں واقعی تمہیں کیسے پتا ہو سکتا ہے۔ بہرحال مجھے یہ خبر بھی زین العابدین نے دی ہے۔ تم خود سوچو۔ کتنا زبردست امپیکٹ پڑے گا اس آرٹیکل کا اور میرا کہ ایک آرٹیکل کی وجہ سے مجبور ہو کر کسی بیورو کریٹ کے خلا ف کارروائی شروع کر دی جائے۔” صالحہ کے لہجے میں جوش تھا ”اور وہ بھی عمر جہانگیر اور رضی محمود جیسے بیورو کریٹس کے خلاف…پاکستان کے سب سے طاقتور ترین خاندانوں میں سے دو کے خلاف، تصور کرو۔”
علیزہ خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھتی رہی، صالحہ کو ابھی اس نیوز پیپر کو جوائن کیے دو تین ماہ ہی ہوئے تھے۔ اس سے پہلے وہ فری لانس جرنلسٹ کے طور پر کام کر رہی تھی مگر اب اس نے علیزہ کے اخبار کو جوائن کر لیا تھا اور پہلے دن سے ہی علیزہ کے ساتھ اس کی بہت اچھی دوستی ہو گئی تھی مگر دونوں ایک دوسرے کی فیملی کے بارے میں زیادہ نہیں جانتی تھیں نہ علیزہ نے کبھی اپنے انکلز اور کزنز کے بارے میں وہاں کسی کو بتایا تھا نہ ہی صالحہ نے اپنے قریبی رشتہ داروں کے علاوہ کسی کے بارے میں بات کی تھی اور اب وہ علیزہ کو عمر جہانگیر اور اس کے خاندان کے بارے میں معلومات فراہم کر رہی تھی۔
”عمر جہانگیر کے خاندان کو بدمعاشوں کا ٹولہ کہا جا سکتا ہے۔” علیزہ کا چہرہ صالحہ کے تبصرے پر سرخ ہو گیا۔ صالحہ ہمیشہ بے لاگ قسم کے تبصرے کیا کرتی تھی۔ اس سے پہلے اس کے ایسے کسی تبصرے نے علیزہ کو کبھی پریشان نہیں کیا کیونکہ ایسے تبصرے کا تعلق اس سے نہیں تھا مگر اب وہ براہ راست اس کے خاندان کی بات کر رہی تھی اور علیزہ سننے پر مجبور تھی۔
میں تو حیران ہو گئی، زین العابدین سے اس کے خاندان کے بارے میں سن کر۔ کسی دوسرے ملک میں یہ لوگ ہوتے تو ڈیڑھ سو سال کی قید کاٹ رہے ہوتے۔ بیوی بچوں سمیت…مگر ان کی خوش قسمتی ہے کہ یہ پاکستان میں ہیں اور اس Land of the pure میں گُل چھرے اڑا رہے ہیں۔” صالحہ نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
”اور ان کے اثر و رسوخ کا یہ عالم ہے کہ آج کہیں اس فیملی کے حوالے سے تعارف کروایا جائے تو ریڈ کارپٹڈ استقبال ہوگا، سمجھ نہیں آتا ایسے سسٹم پر ہنسا جائے یا رویا جائے۔”
علیزہ چپ چاپ اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔
”تمہیں پتا ہے، پچھلے سال ان لوگوں نے میرے انکل اور ان کے خاندان کے ساتھ کیا کیا؟” صالحہ نے دوسرا قصہ شروع کیا۔
”میرے انکل کے بیٹے کو ایک جھوٹے پولیس مقابلے میں مار دیا گیا۔”
علیزہ کا سانس یکدم رک گیا۔
”میرے انکل کے بیٹے اور اس کے تین دوستوں کو۔”
علیزہ کو لگا اس کی خاموشی اب کبھی ختم نہیں ہو سکے گی۔
”ایک یہ عمر جہانگیر تھا، ایک اس کا کزن تھا عباس حیدر۔ ابھی ایک سال کے بعد باہر سے آیا ہے، لاہور میں پوسٹنگ ملی ہے۔ ان دونوں نے میرے کزن کو اس کے گھر سے اٹھوا کر قتل کر دیا۔ تم نے پڑھی ہو گی یہ خبر۔ جسٹس نیاز کا نام بھی سنا ہو گا؟”
وہ اب علیزہ سے پوچھ رہی تھی۔ علیزہ سر نہیں ہلا سکی۔
”اور اس پر اور اس کے دوستوں پر الزام یہ لگایا تھا کہ ان چاروں نے کسی گھر پر ڈاکہ ڈالا تھا اور وہاں سے فرار ہوتے ہوئے پولیس کے ساتھ مقابلے میں مار دیئے گئے۔” صالحہ اب غصے کے عالم میں بول رہی تھی۔
”مگر یہ سب جھوٹ تھا، ان میں سے کوئی بھی اپنے گھر سے باہر نہیں تھا اس رات۔ پولیس چوروں کی طرح رات کو انہیں ان کے گھر سے اٹھا کر لے گئی اور قتل کر دیا۔”
علیزہ نے ٹیبل پر ہاتھ رکھ کر اپنے ہاتھوں کی لرزش کو چھپایا۔
”میرا کزن ایک آؤٹ سٹینڈنگ سٹوڈنٹ تھا اور ان لوگوں نے اس طرح اسے مار دیا۔ بعد میں میرے انکل نے تو بہت ہنگامہ کیا۔ عباس حیدر کے باپ کو اسلام آباد سے آنا پڑا، معافیاں مانگتا رہا کہ ایسا غلطی سے ہو گیا مگر بعد میں یکدم گرگٹ کی طرح رنگ بدل کر کہنے لگا کہ میرے کزن اور اس کے دوستوں نے اس کی کسی بھانجی کو ریپ کیا اور اس کے گھر پر فائرنگ کی۔ میرے انکل تو ہکا بکا ہو گئے اس الزام پر۔ ان کے تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ لوگ خود کو بچانے کے لیے ان پر اس طرح کا الزام لگائیں گے۔ چیف منسٹر تک ان لوگوں کی حمایت کر رہا تھا۔”
صالحہ سرخ چہرے کے ساتھ بولتی جا رہی تھی اور علیزہ کا دماغ ماؤف ہو رہا تھا۔
”زبردستی مجبور کر دیا میرے انکل کو سیٹلمنٹ کرنے پر۔ تم اندازہ کر سکتی ہو، یہ لوگ خود کو بچانے کے لیے کس طرح کے اوچھے ہتھکنڈوں کا استعمال کر سکتے ہیں۔” صالحہ کی آواز میں نفرت تھی۔
”تمہیں یہ سب کچھ کس نے بتایا؟” علیزہ نے اپنے حواس بحال کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
”کس نے بتانا تھا ظاہر ہے انکل نے بتایا…ہم نے تو مجبور کیا تھا انہیں کہ یہ سب کچھ پریس تک لے جائیں کورٹ میں کیس کریں مگر وہ تیار نہیں ہوئے۔ تم اندازہ کر سکتی ہو کہ ہائی کورٹ کا ایک جج پولیس اور ان لوگوں سے خوفزدہ تھا کہ وہ لوگ اسے اور اس کے خاندان کو مزید تنگ کریں گے۔ وہ جج کسی دوسرے شخص کو کیا انصاف دے گا جو اپنے لیے انصاف نہ مانگ سکتا ہو۔” وہ کہتی گئی۔
”ان لوگوں نے خود یہ کہا تھا کہ ان کی بھانجی۔۔۔” علیزہ کو تو جیسے اب بھی یقین نہیں ا رہا تھا۔
”ہاں خود کہا تھا، پنجاب کی پوری بیورو کریسی کو اس معاملے کا پتا ہے۔” صالحہ نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
”مجھے یقین نہیں آ رہا۔” علیزہ بڑبڑائی۔
”مجھے بھی یقین نہیں آیا تھا مگر پھر یقین کرنا پڑا۔”
صالحہ نے اس کی بڑبڑاہٹ کے جواب میں کہا، علیزہ کا سر چکرا رہا تھا۔
”تمہارے انکل نے ان لوگوں کے گھر پر حملہ نہیں کروایا تھا؟” وہ زرد چہرے کے ساتھ صالحہ سے پوچھ رہی تھی۔
”میرے انکل کیسے حملہ کروا سکتے تھے جب انہیں یہ پتا ہی نہیں تھا کہ اس سارے معاملے میں وہ کسی لڑکی کو انوالو کررہے ہیں۔ وہ تو خود حیران ہو گئے تھے ان کا یہ الزام سن کر …اور پھر یہ بھی کہ وہ لڑکی اسلام آباد کے ذہنی مریضوں کے کسی کلینک میں زیر علاج تھی اس واقعہ کے بعد۔” صالحہ نے کہا۔
”اسلام آباد… ذہنی مریضوں کا کلینک؟” وہ ایک بار پھر خالی الذہنی کے عالم میں بڑبڑائی۔
”ہاں، وہ لوگ کہہ رہے تھے کہ اس حادثے کے بعد اس لڑکی کی ذہنی حالت خراب ہو گئی تھی اور انہوں نے اسے اسلام آباد کے کسی کلینک میں ایڈمٹ کروا دیا تھا۔ جھوٹ سب جھوٹ۔۔۔”صالحہ نے ہاتھ کو جھٹکتے ہوئے کہا۔ پھر اچانک اس کی نظر علیزہ کے چہرے پر پڑی اور وہ ٹھٹھک گئی۔
”تمہیں کیا ہوا؟” اس نے علیزہ سے پوچھا۔
”مجھے…مجھے کچھ بھی نہیں۔۔۔” علیزہ نے مسکرانے کی کوشش کی لیکن وہ جانتی تھی، وہ اس کوشش میں ناکام رہی ہو گی۔
”میں بس گھر جانے کا سوچ رہی ہوں۔” اس نے ماؤف ہوتے ہوئے ذہن کے ساتھ ٹیبل پر پڑی ہوئی چیزوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی، وہ اب صالحہ سے نظریں چرا رہی تھی۔
صالحہ نے اس کی بات پر وال کلاک پر نظر دوڑائی اور پھر کچھ حیرانی سے اسے دیکھا۔
”ابھی تو آفس آورز ختم نہیں ہوئے تم آج جلدی جا رہی ہو؟”
”ہاں…میں نے ایڈیٹر کو بتا دیا ہے۔ میں آج جلدی گھر جانا چاہتی ہوں۔”
وہ اب اپنی کرسی سے اٹھ کر کھڑی ہو گئی اور اپنی دراز کھول کر باقی ماندہ چیزیں اس میں رکھنے لگی۔ صالحہ بھی اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔
”چلو ٹھیک ہے پھر تم سے کل ملاقات ہو گی۔ آرہی ہو نا کل؟” اس نے کمرے سے نکلتے نکلتے علیزہ سے پوچھا۔”ہاں …شاید پتا نہیں…ہو سکتا ہے نہ ہی آؤں، یا پھر لیٹ آؤں گی۔” علیزہ الجھے ہوئے انداز میں اپنی میز کی دراز لاک کرنے لگی۔
”فون کر دینا۔ مجھے کل آرٹس کونسل جانا ہے، تمہیں یاد ہے۔ اگر تم نہیں آئیں تو پھر میں ثمین کے ساتھ چلی جاؤں گی۔” صالحہ نے اسے یاد دہانی کروائی۔
”تم ثمین کے ساتھ چلی جانا۔ میں اگر آ بھی گئی تو تمہارے ساتھ نہیں جا پاؤں گی۔” علیزہ نے پیشگی معذرت کرتے ہوئے کہا۔
”ٹھیک ہے پھر میں آج ہی ثمین کو انفارم کر دیتی ہوں۔ یہ نہ ہو کل وہ بھی نہ آئے۔” صالحہ نے آفس سے نکلتے ہوئے کہا۔
علیزہ اپنا بیگ اٹھا کر صالحہ کے پیچھے پیچھے ہی باہر نکل آئی۔ باہر پارکنگ تک آتے ہوئے وہ مکمل طور پر ذہنی طور پر ماؤف تھی۔ صالحہ کے منہ سے نکلے ہوئے جملے اس کے ذہن میں گونج رہے تھے اور اسے ان پر یقین نہیں آرہا تھا۔ اسے یاد نہیں اس نے گاڑی کس طرح پارکنگ سے نکالی تھی۔ سگنل پر گاڑی روکے وہ اس وقت ہوش میں آئی، جب کسی نے اس کی کھڑکی کے شیشے پر بڑے زور سے ہاتھ مارا، وہ یکدم چونک کر جیسے اپنے اردگرد کے ماحول میں واپس آگئی۔ وہ ایک آدمی تھا جو اب خشمگیں نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا اور اس کے پیچھے بری طرح بجنے والے ہارن کا شور تھا۔ اس نے گڑبڑا کر گاڑی آگے بڑھا دی۔ سٹیرنگ بار بار اس کے ہاتھ سے نکل رہا تھا۔ اسے یکدم خوف محسوس ہوا کہ گاڑی کہیں نہ کہیں ٹکرا جائے گی۔ سپیڈ ہلکی کرتے ہوئے اس نے مین روڈ سے ایک ذیلی سڑک پر گاڑی موڑ دی اور پھر اسے سڑک کے کنارے روک دیا۔
”کیا یہ لوگ میرے بارے میں اتنی بڑی بات کہہ سکتے ہیں؟” اس نے جیسے اپنے آپ سے پوچھا ”کیا یہ لوگ مجھے اس طرح سیکنڈ لائز کر سکتے ہیں؟” وہ اب بھی جیسے بے یقینی کا شکار تھی۔ ”کیا خود کو بچانے کے لیے یہ اس طرح میری قربانی دے سکتے ہیں۔”
”کیا مجھے اس طرح۔۔۔” اس نے اپنے اردگرد بے تحاشا گھٹن محسوس کی۔
”کیا عمر بھی اس طرح کر سکتا ہے؟” اسے اپنا سوال ایک مذاق لگا ”میں نے کس کو سب کچھ بتایا۔ جسٹس نیاز کو؟”
سارے پردے یکدم اٹھنے لگے تھے..
”یا پھر میں تو ان سے بات بھی نہیں کر سکی ہوں گی۔ کیا اسی لیے وہ میرے منہ سے پورا واقعہ سن کر بھی اسی طرح پرسکون تھے۔ مجھے اس وقت یہ ردعمل مصنوعی کیوں نہیں لگا۔” وہ اب اس واقعے اور اس کے بعد جسٹس نیاز کے ساتھ ہونے والی اپنی پوری گفتگو کو یاد کرنے کی کوشش کرتی رہی۔ ”یہ لوگ پہلے ہی پورا انتظام کر چکے تھے کہ میرا رابطہ جسٹس نیاز سے نہ ہو اسی لیے عمر نے اتنی بے خوفی سے مجھے جسٹس نیاز سے بات کرنے کے لیے کہہ دیا کیونکہ وہ۔۔۔” علیزہ نے ہونٹ بھینچ لیے۔
”اور گھر پر وہ حملہ …میرے خدا…وہ بھی جعلی تھا…صرف مجھے خوفزدہ کرنے کے لیے…مجھے دھوکہ دینے کے لیے اسی لیے وہ لوگ اندر نہیں آئے۔ اسی لیے یہ دونوں وہاں پہنچ گئے تھے اور کس کس کو پتا تھا یہ سب کچھ…کیا نانو کو بھی؟”
غم و غصے سے اس کی حالت بری ہو رہی تھی۔
”اور میں …میں عمر کو کیا سمجھ رہی تھی۔ اپنا نجات دہندہ…اور وہ حقیقت کیا تھی…بلکہ یہ سب ہی کیا تھا؟” وہ ونڈ سکرین سے نظر آنے والی سڑک کو گھو ر رہی تھی۔
”اور مجھے…مجھے کبھی ان پر شک تک نہیں ہوا کہ یہ میرے ساتھ کوئی گیم کررہے ہیں۔ اس قدر اندھا اعتماد۔۔۔”اس کی آنکھوں میں اب نمی اترنے لگی۔
”واقعی…واقعی دنیا میں کوئی مجھ جتنا احمق نہیں ہو سکتا۔ بلکہ میرے علاوہ دنیا میں کوئی احمق ہے ہی نہیں۔” اس نے بڑبڑاتے ہوئے اپنی آنکھیں صاف کیں اور گاڑی کو سٹارٹ کرنے لگی ”اور اب یہ ایک بار پھر جنید کے ذریعے مجھے استعمال کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اب نہیں…اور نہیں…تم بھاڑ میں جاؤ عمر…! میں واقعی چاہتی ہوں کہ تمہیں پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا جائے اور صرف تمہیں نہیں باری باری سب کو۔۔۔”
گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے اس کی آنکھیں ایک بار پھر دھندلا رہی تھیں۔
شام کو چھ بجے وہ اپنے گھر میں داخل ہوئی اور اندر داخل ہوتے ہی اس نے پورچ میں جنید کی گاڑی دیکھ لی۔ بے اختیار اس کا دل چاہا وہ وہیں سے واپس پلٹ جائے، اس وقت اس موڈ کے ساتھ وہ اس کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی۔
وہ لاؤنج میں نانو کے ساتھ موجود تھا اور چائے پینے میں مصروف تھا، جب وہ لاؤنج میں داخل ہوئی ۔ رسمی سی علیک سلیک کرنے کے بعد وہ جنید کی مصالحانہ مسکراہٹ کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے اپنے کمرے میں چلی گئی۔
”مجھے لگتا ہے…اس کا موڈ ابھی بھی آف ہے۔” جنید نے اسے لاؤنج سے نکلتے دیکھ کر کہا۔
”موڈ تو اس کا صبح سے ہی ایسا ہے ٹھہرو میں اسے بلا کر لاتی ہوں۔” نانو نے چائے کا کپ رکھتے ہوئے کہا۔
”آپ بیٹھیں۔ میں خود دیکھ لیتا ہوں۔۔۔” جنید اپنی جگہ سے اٹھ گیا۔
وہ جس وقت دروازے پر دستک دے کر اندر آیا، وہ اپنے گھٹنوں کے گرد بازو لپیٹے بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھی۔ اسے جنید کے اس طرح اپنے پیچھے آ جانے کی توقع نہیں تھی مگر جب اس نے اسے اندر آتے دیکھا تو صرف سر جھٹک کر رہ گئی۔
”میں بیٹھ جاؤں؟” جنید نے اندر آتے ہی اس کے چہرے کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
”ضرور۔۔۔”
جنید کرسی کھینچ کر بیڈ سے کچھ فاصلے پر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر کمرہ میں خاموشی رہی، شاید وہ بات شروع کرنے کے لیے کچھ لفظ ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا تھا، پھر جیسے وہ اس میں ناکام ہو گیا۔ ایک گہری سانس لیتے ہوئے اس نے کہا۔
”اب یہ تو تمہیں پتا چل ہی گیا ہوگا کہ میں یہاں کیوں آیا ہوں۔” علیزہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا ، جنید نے اس کی سوالیہ نظروں کو دیکھتے ہوئے کہا ”میں معذرت کرنے آیا تھا۔”
”کس لیے؟”
”کل کچھ اچھا نہیں کیا میں نے…عام طور پر ایسا کرتا تو نہیں مگر۔۔۔” وہ سوچ سوچ کر بولتے ہوئے جیسے افسوس کا اظہار کر رہا تھا۔
”اس کی ضرورت نہیں ہے۔” علیزہ نے کہا۔
”اچھا۔۔۔” جنید نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔ ”میرا خیال تھا، اس کی ضرورت ہو گی۔ آفٹر آل۔ تم مجھ سے ناراض تھیں۔”
”میں ناراض تھی…؟میرا خیال ہے آپ ناراض تھے۔” علیزہ نے اس کی بات کے جواب میں کہا۔
”میں ناراض تھا؟ سچ بتاؤں۔۔۔” وہ بات کرتے کرتے رکا ”میں واقعی کچھ ناراض تھا مگر وہ عارضی طور پر۔ میں نے بعد میں گھر جا کر سوچا، تب مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا اور اب میں یہاں ہوں۔” اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے چند لمحوں کے لیے علیزہ کی کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا کہہ رہا تھا۔ ایک بار پھر اس کے ذہن میں کچھ دیر پہلے صالحہ کے ساتھ ہونے والی گفتگو گونجنے لگی تھی۔
جنید نے اپنی بات کے ختم ہونے پر بھی اسے اپنی طرف خاموشی سے دیکھتے پایا۔
”تم کچھ کہو گی نہیں؟” اس نے علیزہ سے کہا وہ پھر بھی اسے اسی طرح دیکھتی رہی اور تب ہی جنید کو احساس ہوا کہ وہ اس وقت غائب دماغ تھی اور شاید اسے دیکھتے ہوئے بھی کہیں اور تھی۔
”علیزہ…!” اس نے بلند آواز میں اسے پکارا وہ یکدم ہڑبڑا کر چونکی۔
”کیا…؟”
”تم میری بات سن رہی ہو؟”
”میں…ہاں…میں نے آپ سے کہا ہے کہ معذرت کی ضرورت نہیں۔”
”نہیں۔ تم مجھے یہ بتا رہی تھیں کہ تم نہیں میں تم سے ناراض تھا۔” جنید نے اسے یاد دلایا۔ علیزہ نے آنکھیں بند کر لیں۔
”تمہاری طبیعت ٹھیک ہے؟”
”بالکل ٹھیک ہے…آپ چائے پئیں گے؟” وہ یکدم بیڈ سے اترنے لگی۔
جنید نے نرمی سے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
”میں چائے پی چکا ہوں۔ جس وقت تم آئیں، میں چائے ہی پی رہا تھا۔ تم پریشان ہو؟” اس نے نرمی سے پوچھا۔
علیزہ نے سر نہیں اٹھایا، وہ اس کے ہاتھ میں موجود اپنے ہاتھ کو دیکھتی رہی۔
”علیزہ!” جنید نے ایک بار پھر اسے مخاطب کیا۔
”آپ کو کبھی زندگی بری لگی ہے؟” اس نے یکدم سر اٹھا کر جنید سے پوچھا، وہ حیران ہو کر اس کا منہ دیکھنے لگا۔
”میں کیا جواب دوں تمہاری اس بات کا؟” وہ نہ سمجھنے والے انداز میں بے چارگی سے ہنسا۔
”کبھی زندگی بری نہیں لگی؟” علیزہ نے ایک بار پھر اسی لہجے میں پوچھا۔
”تمہیں لگی ہے؟” جنید نے اس کے سوال کا جواب دینے کے بجائے اس سے پوچھا۔
”مجھے تو ہر وقت لگتی ہے اور آج تو بہت ہی بری لگ رہی ہے۔” وہ بڑبڑائی۔
”میری وجہ سے؟” جنید یکدم سنجیدہ ہو گیا۔
”نہیں، آپ کی وجہ سے نہیں، اپنی وجہ سے۔ دوسروں کی وجہ سے تو۔۔۔” اس نے اپنی بات ادھوری چھوڑ دی۔
”تم…تمہیں کوئی بات پریشان کر رہی ہے؟” جنید نے اسے دوبارہ پوچھا۔
”آپ نے مجھے فون نہیں کیا؟” علیزہ نے یکدم موضوع بدل دیا۔ جنید نے ایک گہرا سانس لیا۔
”تمہیں یہ بات پریشان کر رہی تھی…اس وجہ سے اتنی ڈسٹرب ہو؟” جنید نے قدرے حیران ہو کر کہا۔
”ہاں میں انتظار کرتی رہی تھی آپ کی فون کال کا۔۔۔”
”اتنی سی بات کو اتنا سیریس لے رہی تھیں تم…میں تو پریشان ہو گیا تھا۔” جنید نے جیسے سکون کا سانس لیا ”بلکہ میں تو تمہارا چہرہ دیکھ کر ڈر گیا تھا۔ مجھے نہیں پتا تھا کہ فون نہ کرنے پر تم…میں نے تو اس لیے فون نہیں کیا تھا کہ تمہارا موڈ آف تھا، کچھ میں بھی ناراض تھا۔ میں نے سوچا۔ آخر کیا بات کروں گا میں فون پر، آج صبح بھی میرا موڈ ایسا ہی تھا۔” وہ اب وضاحتیں دے رہا تھا ”میں نے دو تین بار چاہا کہ تمہیں کال کر لوں مگر بس پھر…تم نے بھی تو مجھے کال نہیں کیا بلکہ میرا خیال ہے کہ اگر میں یہاں نہ آتا تو تم خود تو کبھی مجھے کال نہ کرتیں۔” وہ اب شکایت کر رہا تھا۔
”آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں؟”
”ایسے ہی میرا خیال ہے؟”
”آپ کا خیال غلط ہے، اگر آپ مجھے کال نہیں کرتے تو میں خود آپ کو کال کر لیتی… میں Egoist (اناپرست) نہیں ہوں اور میں رائی کا پہاڑ نہیں بناتی۔”
”مگر کل تو بڑے دھڑلے سے تم نے کہا تھا کہ میں چاہوں تو تمہاری فیملی سے رشتہ ختم کر لوں۔” جنید نے مسکراتے ہوئے اسے جتایا۔
”آپ کو اس بات پر غصہ آیا تھا؟”
”یہ غصہ دلانے والی بات تھی۔” جنید نے اپنے لفظوں پر زور دیتے ہوئے کہا۔
”آپ نے بھی ایک غصہ دلانے والی بات کی تھی۔” علیزہ نے اسے یاد دلایا۔
”وہ صالحہ والی بات…فار گیٹ اباؤٹ اٹ…میں نے کل تم سے جھگڑے کے بعد یہ طے کیا تھا کہ آئندہ کم از کم میں تمہارے ایسے کسی کام میں دخل اندازی نہیں کروں گا۔” جنید نے اس کا ہاتھ چھوڑتے ہوئے کہا۔ ”وہ واقعی احمقانہ بات تھی۔ مجھے بعد میں احساس ہوا کہ میرا واقعی اس معاملے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں بنتا۔ نہ میرا نہ تمہارا…یہ صالحہ کا مسئلہ ہے۔ بہتر ہے وہ خود ہی اسے نپٹائے۔”
جنید لاپروائی سے کہتا گیا۔ علیزہ نے غیر محسوس طور پر اپنے کندھوں سے جیسے کوئی بوجھ ہٹتا محسوس کیا۔
”بہرحال ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں کو تم اپنے اعصاب پر سوار مت کیا کرو۔ ویسے بھی ابھی تو ہم دونوں کے درمیان خاصے جھگڑے باقی ہیں۔” وہ خوشگوار لہجے میں مسکراتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
”حالانکہ تم سے جھگڑنا کوئی زیادہ مناسب بات نہیں ہے اور نہ ہی کوئی بہت خوشگوار قسم کا تجربہ ثابت ہوا ہے میرے لیے۔ میں خود بھی کل را ت اور آج سارا دن خاصا ڈسٹرب رہا ہوں لیکن کبھی کبھی روٹین سے ہٹ کر بھی کوئی کام کرنا چاہیے…کرنا چاہیے نا…؟” وہ اب بڑی سنجیدگی سے اس کی رائے مانگ رہا تھا۔
علیزہ کو کوئی جواب نہیں سوجھا۔ اس نے کندھے اچکا دیئے۔
”باہر چلتے ہیں کھانا کھاتے ہیں، کسی مارکیٹ میں پھرتے ہیں۔ کچھ ونڈو شاپنگ کرتے ہیں۔ اچھا پروگرام ہے؟” وہ کرسی سے کھڑا ہوتے ہوئے بولا۔
وہ چند منٹوں میں اسے اس کے ڈپریشن سے باہر لے آیا تھا۔ وہ کوشش کے باوجود کچھ دیر پہلے کی کیفیات کو محسوس نہیں کر پا رہی تھی۔
”میں کپڑے چینج کر لوں؟” وہ بھی بیڈ سے اٹھ گئی۔
”چھوڑیے جناب ! تکلف نہ کریں…آپ اس طرح زیادہ اچھی لگ رہی ہیں۔” جنید نے اسے روک دیا۔
”اچھا بال بنا لوں۔” اسے تامل ہوا۔
”ضرورت نہیں، بال ٹھیک ہیں۔”
”مجھے منہ تو دھو لینے دیں۔”
”ہاں یہ آپ ضرور کر سکتی ہیں لیکن ساٹھ سیکنڈ سے زیادہ کا وقت نہیں لگنا چاہیے اس میں۔” وہ اپنی گھڑی دیکھتے ہوئے بولا۔
علیزہ کو چہرہ دھوتے واقعتا صرف ایک منٹ لگا۔ برق رفتاری سے چہرے پر پانی کے چھپاکے مارتی، وہ ایک منٹ میں واش روم سے باہر تھی۔
جنید نے اسے باہر آتے دیکھ کر اس کا بیگ اٹھا لیا۔ ”بس اب آپ آ جائیں۔ خاصا انتظار کیا میں نے آپ کا!”
علیزہ نے حیرانی سے اس کا چہرہ دیکھا۔” خاصا انتظار؟” وہ بے اختیار مسکرایا۔
رات دس بجے تک وہ دونوں باہر رہے پھر وہ اسے گھر چھوڑنے آیا۔ پورچ میں گاڑی روک کر اس کے اترنے سے پہلے جنید نے کہا۔ ”تم جانتی ہو کسی بھی تعلق کو کیا چیز مضبوط بناتی ہے؟” وہ اس کے سوال پر اس کا منہ دیکھنے لگی، وہ اب بے حد سنجیدہ نظر آرہا تھا۔ کچھ دیر پہلے کے جنید سے بالکل برعکس۔
Sharing” کہ جو چیز پریشان کن بن جائے اسے اس شخص کے ساتھ شیئر کر لیا جائے جس سے آپ کو تھوڑی بہت محبت ہو یا تھوڑا بہت انس ہو یا جو تھوڑا بہت اچھا لگتا ہو۔” وہ مدھم مگر مستحکم آواز میں کہہ رہا تھا۔
”میں تمہیں مجبور نہیں کر سکتا کہ تم ہر بات مجھ سے شیئر کرو۔ شاید کوئی بھی ہر بات دوسرے سے شیئر نہیں کرتا مگر جو بات تم مجھ سے یا کسی دوسرے سے شیئر نہیں کر سکتیں، اسے اپنے ذہن سے نکال دو۔ تمہیں اگر کسی چیز سے تکلیف ہو گی تو مجھے بھی ہو گی۔ اس لیے کسی بھی چیز کو اپنے لیے رستا ہوا ناسور مت بناؤ ، تمہاری زندگی بے کار ہے نہ تمہارے پاس اتنا فالتو وقت ہے کہ تم اسے رونے دھونے میں ضائع کر سکو۔”
وہ دم بخود اسے دیکھتی رہی۔
”مجھے…میرے گھر کو…میری فیملی کو علیزہ سکندر کی بہت ضرورت ہے۔ تم ہمارا حصہ ہو اور تم کو یہ بات ہر وقت یاد ہونی چاہیے۔” وہ بالکل ساکت تھی۔
”تو جو چیز بھی تمہیں آج پریشان کر رہی ہے، اسے اپنے ذہن سے نکال دو۔ کھانا تم کھا چکی ہو۔ اپنے بیڈ روم میں جاؤ۔ صبح کے لیے کپڑے نکال لو، ٹی وی دیکھ لو کچھ دیر یا پھر کوئی کتاب پڑھو۔ آفس کا کوئی کام ہو تو وہ کرو اور اس کے بعد اطمینان سے سو جاؤ۔ بغیر روئے دھوئے ۔ خدا حافظ۔”
وہ اپنی بات کے اختتام پر مسکرایا، وہ مسکرا نہیں سکی۔ گاڑی کا دروازہ کھول کر وہ نیچے اتر آئی۔ لاؤنج کا دروازہ کھولتے ہوئے اس نے پلٹ کر اسے دیکھا، وہ اس کی طرف متوجہ نہیں تھا بلکہ گاڑی ریورس کر رہا تھا۔ اسے جنید کی ذہانت میں کبھی بھی کوئی شبہ نہیں رہا تھا لیکن آج…
”تو وہ جانتا تھا کہ اس سے ہونے والا جھگڑا نہیں کوئی اور بات مجھے پریشان کر رہی تھی اور ۔۔۔” اس نے اندر جاتے ہوئے سوچا۔ کسی معمول کی طرح وہ اپنے کمرے میں گئی اور لاشعوری طور پر جنید کی ہدایات پر عمل کرتی چلی گئی۔ ایک گھنٹہ کے بعد غنودگی کے عالم میں اس نے سوچا۔۔۔”اور میرا خیال تھا میں آج رات سو نہیں پاؤں گی۔”
اگلے روز وہ بڑے ہشاش بشاش موڈ میں ناشتے کی میز پر آئی، نانو کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے وہ ناشتہ کر رہی تھی جب اس نے اخبار بھی دیکھنا شروع کر دیا۔ ایک صفحے پر نظر دوڑاتے ہی وہ یکدم ٹھٹھک گئی۔ صالحہ پرویز کا ایک اور آرٹیکل اس کے سامنے تھا۔ موضوع اس بار بھی عمر جہانگیر ہی تھا مگر ڈسکس کی جانے والی چیز چند ہفتے پہلے ہونے والا ایک پولیس مقابلہ تھا جس میں ایک بدنام زمانہ اشتہاری مجرم کو مارا گیا تھا۔
صالحہ نے اپنے آرٹیکل میں ثبوت کے ساتھ ثابت کیا تھا کہ وہ پولیس مقابلہ جعلی تھا۔ وہ مجرم دس دن پولیس کی حراست میں رہا تھا اور پولیس نے تشدد کے ذریعے اس سے خاصی لمبی چوڑی معلومات بھی حاصل کی تھیں جن کی مدد سے انہوں نے چند اور ملزمان کو بھی اسی طرح پکڑا تھا اس کے آرٹیکل میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی چند تنظیموں کے عہدے داران کی طرف سے عمر جہانگیر کے اقدامات کی مذمت اور اس کے خلاف کارروائی کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا۔ ”مجرم بھی بنیادی انسانی حقوق رکھتے ہیں” کے عنوان سے لکھا گیا آرٹیکل بہت موثر انداز میں لکھا گیا تھا۔
علیزہ نے اخبار رکھ دیا۔ اس کی بھوک یکدم غائب ہو گئی۔ صالحہ نے اس بار اس سے ذکر نہیں کیا تھا کہ وہ عمر جہانگیر پر ایک اور آرٹیکل لکھ رہی ہے یا وہ آرٹیکل آج ہی چھپنے والا تھا۔ علیزہ کے لیے وہ آرٹیکل یقیناً ایک شاکنگ سرپرائز کے طور پر آیا تھا۔
”تم نے ناشتہ کیوں چھوڑ دیا؟” نانو نے اسے کھڑے ہوتے ہوئے دیکھ کر کہا۔
”بس مجھے اتنی ہی بھوک تھی۔” اس نے بے دلی سے کہا۔
”کم از کم چائے تو پی لو۔” نانو نے ایک بار پھر اصرار کیا۔
”دل نہیں چاہ رہا۔” وہ اپنا بیگ اٹھا کر لاؤنج سے نکل آئی۔
آفس میں داخل ہوتے ہی صالحہ سے اس کا سامنا ہو گیا۔ وہ بھی اسی وقت آفس آرہی تھی، علیزہ نے اس سے آرٹیکل کے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔ وہ جانتی تھی، صالحہ خود ہی اسے آرٹیکل کے بارے میں بتا دے گی اور ایسا ہی ہوا، وہ علیزہ کے ساتھ ہی اس کے آفس میں آگئی اور اندر آتے ہی اس نے کہا۔
”تم نے میرا آج کا آرٹیکل پڑھا؟”
”ہاں صبح ناشتہ کرتے ہوئے میں نے دیکھا تھا۔۔۔” علیزہ نے سرسری سے انداز میں کہا۔
”کیسا لگا تمہیں؟”
”اچھا تھا…اس کے بارے میں بھی تمہیں معلومات زین العابدین نے ہی فراہم کی ہیں؟”
”تو اور کون مجھے یہ ساری معلومات دے سکتا ہے۔ کسی دوسرے بندے کے پاس معلومات کا یہ ڈھیر ہو سکتا ہے؟” صالحہ نے تحسین آمیز انداز میں کہا۔ اس سے پہلے کہ علیزہ اسے کوئی جواب دیتی۔ فون کی گھنٹی بجنے لگی۔ اس نے ریسیور اٹھا لیا۔
”مس صالحہ پرویز آپ کے کمرے میں ہیں؟” آپریٹر پوچھ رہا تھا۔
”ہاں۔۔۔” علیزہ نے صالحہ پر ایک نظر ڈالتے ہوئے کہا۔
”ان کی کال ہے۔”
”یہیں ڈائریکٹ کر دو…وہ میرے کمرے میں ہی بات کر لیں گی۔ فون کس کا ہے؟” اس نے آپریٹر کو ہدایت دیتے ہوئے سرسری سے انداز میں پوچھا۔
”عمر جہانگیر صاحب کا۔۔۔” آپریٹر نے اس کا عہدہ بتایا۔
”وہ کس سے بات کرنا چاہتے ہیں؟” علیزہ نے کچھ دم بخود ہو کر آپریٹر سے پوچھا۔
”مس صالحہ پرویز سے۔۔۔”
علیزہ نے مزید کچھ کہے بغیر ریسیور صالحہ کی طرف بڑھا دیا۔
”کس کا فون ہے؟” صالحہ نے قدرے لاپروائی سے اس سے ریسیور لیا۔
”عمر جہانگیر کا۔”
صالحہ چونک گئی۔ ”عمر جہانگیر کا…؟ مجھ سے بات کرنا چاہتا ہے وہ؟”
علیزہ نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
صالحہ نے ریسیور پکڑ کر فون کا اسپیکر آن کیا اور ریسیور کو دوبارہ کریڈل پر رکھ دیا۔ اس کے ساتھ ہونے والی گفتگو اب دونوں سن سکتی تھیں۔
کچھ دیر بعد وہ لائن پر تھا، عمر جہانگیر نے کسی تمہید یا ادب آداب کو بلائے طاق رکھتے ہوئے اس سے کہا۔
”میں کون بات کر رہا ہوں۔ یہ تو آپریٹر نے آپ کو بتا ہی دیا ہو گا، فون میں نے آپ کو اس لیے کیا ہے تاکہ یہ جان سکوں کہ جو بکواس آپ شائع کر رہی ہیں، وہ کس لیے کر رہی ہیں؟” اس کا لہجہ سرد اور کرخت تھا۔
”آپ کس بکواس کی بات کررہے ہیں۔ میں تو روز بہت سی بکواس لکھتی اور شائع کراتی ہوں۔” صالحہ نے لاپروا انداز میں کہا۔
”میں اس Gutter Stuffکی بات کر رہا ہوں جو آپ میرے بارے میں لکھ رہی ہیں۔” اس نے پہلے سے زیادہ تندوتیز آواز میں صالحہ سے کہا۔
”مجھے افسوس ہو رہا ہے کہ آپ سچ کو gutter stuffقرار دے رہے ہیں۔ ” صالحہ نے کہا۔
”آپ اپنے سچ کو اپنے پاس رکھیں اور دوسروں کے بارے میں زبان کھولنے یا قلم اٹھانے سے پہلے دس بار سوچ لیں۔”
”میں جرنلسٹ ہوں، میرا کام ہی سچ لکھنا ہے، اب اگر سچ لکھنے سے کسی کو تکلیف ہوتی ہے تو میں کیا کر سکتی ہوں۔”
”آپ جیسے تھرڈ کلاس یلو جرنلزم کرنے والے جرنلسٹ اور ان کے سچ کو میں بہت اچھی طرح جانتا ہوں اور آپ کے ڈھونگوں اور فریبوں سے بھی واقف ہوں۔ کم از کم میرے سامنے یہ پارسائی اور سچائی کا چولہ پہننے کی ضرورت نہیں ہے؟”
صالحہ کا چہرہ سرخ ہو گیا۔
”آپ کو اگر میرے کسی آرٹیکل پر اعتراض ہے تو مجھے اس کی پروا نہیں ہے۔ میں وہی لکھوں گی جو میں چاہوں گی۔” اس بار صالحہ نے بھی تندوتیز لہجے میں کہا۔
”میں آپ کو اور آپ کے اخبار کو کورٹ میں لے کر جاؤں گا۔”
”کورٹ کھلے ہیں، جب آپ کا دل چاہے لے جائیں، کیا یہی اطلاع دینے کے لیے آپ نے مجھے فون کیا ہے؟”
صالحہ نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
”نہیں، میں نے آپ کو یہ اطلاع دینے کے لئے فون نہیں کیا۔ ایسے کاموں کے لئے اطلاع کی ضرورت نہیں ہوتی۔” وہ اسی طرح کرخت لہجے میں بولتا گیا۔
”میں فون کر کے صرف یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ آپ حماقت کی کون سی سیڑھی پر تشریف فرما ہیں۔ اور یہ بھی چاہتا تھا کہ آپ اپنے قابل احترام انفارمر کو یہ اطلاع دے دیں کہ ایسی حرکتوں سے وہ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔”
”کس کی بات کر رہے ہیں آپ؟”
”زین العابدین کی بات کر رہا ہوں …وہی آپ کا ذریعہ معلومات بنا ہوا ہے نا؟” علیزہ کو صالحہ کے چہرے پر بے تحاشا حیرت نظر آئی۔
”زین العابدین نے مجھے کوئی معلومات نہیں پہنچائیں۔”
”یہ بات آپ کورٹ میں کھڑے ہو کر بتائیے گا …وہاں ضرورت پڑے گی آپ کے اس بیان حلفی کی۔” وہ ترش لہجے میں کہہ رہا تھا۔
”میں آپ کی ایسی دھمکیوں سے خوفزدہ نہیں ہونے والی۔” صالحہ نے قدرے اکھڑ لہجے میں کہا۔
”دھمکیاں کون دے رہا ہے آپ کو …اتنا وقت کس کے پاس ہے میڈم …میں آپ کو اپنے لیگل رائٹس کے بارے میں بتا رہا ہوں۔” اس نے دوسری طرف سے طنزیہ انداز میں کہا۔
”اور آپ کو کسی چیز سے ڈرنے کی ضرورت ہی کیا ہے …آپ اپنے ڈیسک پر بیٹھ کر Gossip mongering (الزام تراشی) کریں اور اگلے دن اخبار میں چھپوا دیں …اللہ اللہ خیر صلا …کسی کی جان جائے یا عزت آپ کو اس سے کیا۔”
”میں کوئی Gossip mongering نہیں کرتی۔ جو بات اپنے آرٹیکلز میں کہتی ہوں۔ اس کا ثبوت ہوتا ہے میرے پاس …کریڈبیلیٹی رکھتی ہوں …خواب میں آنے والی چیزوں کو نہیں لکھ دیتی …آپ کو مزید ثبوت چاہئیں تو آپ یہاں اخبار کے دفتر تشریف لائیں …یا پھر کورٹ میں تو آپ جا ہی رہے ہیں …کورٹ میں پیش کر دوں گی سارے ثبوت۔”
عمر دوسری طرف اس کی بات پر مزید مشتعل ہوا تھا۔
”تم اور تم جیسے جرنلٹس اور ان کی کریڈیبلیٹی …تم لوگ ہیڈ لائن مافیا ہوتے ہو …ساری زندگی تم لوگ ایک چھوٹی سی خبر کو مرچ مسالہ لگانے میں گزار دیتے ہو …شاید ہر رات تم لوگ یہی خواب دیکھتے ہوئے سوتے ہو کہ اگلے دن تمہاری دی ہوئی کوئی خبر یا آرٹیکل ملک میں طوفان اٹھا دے گا۔ راتوں رات شہرت مل جانے کی خواہش میں تم لوگ جھوٹ کے پلندے اکھٹے کرتے رہتے ہو …اور پھر انہیں ٹھوس ثبوت کا ٹیگ پہنا دیتے ہو۔”
صالحہ نے اس کی بات کاٹ دی۔ ”اور تم لوگ کیا کرتے ہو …لوگوں کو گھروں سے اٹھا اٹھا کر جعلی پولیس مقابلوں میں مارتے ہو …رشوت کا پیسہ اکٹھا کرتے ہو، اس پر عیش کرتے ہو۔”
دوسری طرف سے عمر کے ہنسنے کی آواز آئی۔ ”عیش …؟ کون سا عیش …آپ جیسے لوگوں سے گالیاں کھانا عیش ہے۔”
”میں آپ سے ۔۔۔”
دوسری طرف سے عمر نے اس کی بات کاٹ دی۔ ”میرے بارے میں اب اخبار میں کچھ اور شائع نہیں ہونا چاہئے …ورنہ آپ کو اور آپ کے اخبار کو اس کی خاصی بڑی قیمت چکانا پڑے گی۔”
اس سے پہلے کہ صالحہ کچھ کہتی دوسری طرف سے لائن منقطع کر دی گئی۔ صالحہ نے برہمی سے میز پر ہاتھ مارا۔
”تم اس شخص کا انداز دیکھو …کون کہے گا کہ یہ سول سرونٹ ہے …اور یہ لوگ نکلتے ہیں عوام کو نظم و ضبط سکھانے …مائی فٹ۔” اس نے غصے کے عالم میں میز پر ایک بار پھر ہاتھ مارا۔ ”اب تم دیکھنا میں اس کے ساتھ کرتی کیا ہوں …اس کی ساری گفتگو کو اخبار میں شائع نہ کیا تو پھر کہنا بلکہ اس کال کی ایک ریکارڈنگ ہوم آفس کو بھی بھجواؤں گی …عمر جہانگیر اپنے آپ کو آخر سمجھتا کیا ہے۔”
علیزہ چپ چاپ صالحہ کو مشتعل ہوتے دیکھتی رہی۔
”اس کا فائدہ کیا ہو گا؟” علیزہ نے کچھ دیر صالحہ کو جھجک کر چپ ہوتے ہوئے دیکھ کر کہا۔
”کس کا فائدہ کیا ہو گا؟” صالحہ نے یک دم رک کر اس سے پوچھا۔
”عمر اور اپنی گفتگو کو اخبار میں شائع کرنے کا؟”
”میں عمر جہانگیر کو بتانا چاہتی ہوں کہ میں اس سے خوف زدہ نہیں ہوئی۔” علیزہ نے اس کی بات کاٹ دی۔
”یہ جان کر عمر جہانگیر کی صحت پر کیا فرق پڑے گا کہ تم اس سے خوف زدہ نہیں ہوئیں۔”
”اگلی بار وہ مجھے فون کرنے کی جرأت تو نہیں کرے گا۔”
”تمہارا خیال ہے یہ گفتگو شائع ہونے سے وہ ڈر جائے گا؟” علیزہ نے مذاق اڑانے والے انداز میں کہا۔
”ڈر جائے گا؟ وہ ڈر گیا ہے۔ ورنہ مجھے فون کبھی نہ کرتا۔” صالحہ نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا۔ ”اور وہ بھی یہاں آفس میں۔”
علیزہ نے ایک گہرا سانس لے کر اسے دیکھا، اس کا دل چاہا وہ صالحہ سے کہے کہ عمر جہانگیر ایسی چھوٹی موٹی باتوں پر خوف زدہ ہونے والا شخص نہیں ہے۔ اس کی پشت پر موجود لوگ اتنے طاقتور ہیں کہ وہ ایسے چھوٹے موٹے اسکینڈلز پر پریشان ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ ایسے اسکینڈلز اس کے کیرئیر پر اثر انداز نہیں ہو سکتے۔
”صالحہ! تم آخر عمر جہانگیر کے بارے میں بار بار آرٹیکلز کیوں لکھ رہی ہو؟” علیزہ نے کچھ دیر بعد کہا صالحہ نے حیرت سے اسے دیکھا۔
”یہ تم مجھ سے پوچھ رہی ہو کہ میں اس کے بارے میں کیوں لکھ رہی ہوں۔” صالحہ کو جیسے اس کی بات پر یقین نہیں آیا۔ ”کیا تم نہیں جانتیں کہ میں اس کے بارے میں کیوں لکھ رہی ہوں؟” علیزہ اس کی بات کے جواب میں کچھ دیر کچھ نہیں بول سکی۔
”میں چاہتی ہوں، عمر جہانگیر کو اس کے کرتوتوں کی سزا ملے۔” وہ اسی طرح بغیر لحاظ کئے بول رہی تھی۔ ”میں چاہتی ہوں …اس کی فیملی رسوا ہو ۔۔۔” وہ بغیر رکے بولتی جا رہی تھی۔ ”میں چاہتی ہوں لوگوں کو ان کے اصلی چہروں کی شناخت ہو سکے۔” صالحہ کے لہجے میں نفرت جھلک رہی تھی۔ علیزہ پلکیں جھپکائے بغیر اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔
”ایک بات پوچھوں تم سے؟” کچھ دیر کے بعد اس نے بڑے پر سکون انداز میں صالحہ سے کہا۔
”اگر عمر جہانگیر نے تمہارے انکل کے بیٹے کو نہ مارا ہوتا تو کیا پھر بھی تم اس کے خلاف اسی طرح لکھتیں؟”
صالحہ بے حس و حرکت ہو گئی، علیزہ اس کے چہرے پر نظریں جمائے جواب کی منتظر رہی۔
”تم کیا کہنا چاہ رہی ہو؟” چند لمحوں کی خاموشی کے بعد اس نے اپنا گلا صاف کرتے ہوئے کہا۔
”میں یہ پوچھ رہی ہوں کہ اگر عمر جہانگیر سے تمہاری ذاتی پر خاش نہ ہوتی تو کیا تم پھر بھی اس کے بارے میں اسی طرح آرٹیکلز پر آرٹیکلز لکھتیں؟” علیزہ کا لہجہ اب بھی بہت پر سکون تھا۔
”مجھے تمہارے سوال پر حیرت ہو رہی ہے علیزہ ! کیا تم یہ سمجھ رہی ہو کہ میں صرف ذاتی دشمنی کی وجہ سے عمر جہانگیر کے خلاف لکھ رہی ہوں؟” صالحہ کے چہرے پر اب ناراضی جھلک رہی تھی۔
”کیا ایسا نہیں ہے؟” علیزہ نے کچھ بے نیازی برتتے ہوئے کہا۔
”نہیں …ایسا نہیں ہے۔” صالحہ نے اپنے لفظوں پر زور دیتے ہوئے کہا۔
”حیرت ہے۔” علیزہ نے عجیب سی مسکراہٹ کے ساتھ اسے دیکھا۔ ”میرا خیال تھا کہ تم صرف ذاتی چپقلش کی وجہ سے اس کے خلاف لکھ رہی ہو؟”
”یہ خیال کیوں آیا تمہیں؟”
”تم نے خود مجھے اپنے انکل، ان کے بیٹے اور دوستوں کا واقعہ سنایا تھا۔ اب وہ قصہ سننے کے بعد میں اور کس نتیجے پر پہنچ سکتی تھی۔”
”میں نے تمہیں وہ واقعہ اس لئے نہیں سنایا تھا کہ تم یہ سمجھ لو کہ میں صرف اپنی دشمنی کی خاطر اس شخص کو بد نام کر رہی ہوں۔ اس کے خلاف جو کچھ بھی میں لکھ رہی ہوں وہ ۔۔۔” علیزہ نے صالحہ کی بات کاٹ دی۔
”ہاں میں جانتی ہوں کہ اس کے بارے میں تم جو کچھ بھی لکھ رہی ہو، وہ سب سچ ہے۔ سو فی صد نہ سہی۔ نوے فی صد سہی۔ تم اس کے خلاف سچ ہی شائع کرا رہی ہو۔ مگر کیوں، ایسے سچ تو ہر بیورو کریٹ کے ساتھ منسلک ہیں،پھر عمر جہانگیر ہی کیوں؟ تم کسی اور کے بارے میں بھی تو لکھو۔”
”میں نے رضی محمود کا ذکر بھی کیا ہے اپنے پہلے آرٹیکل میں، کیا تم اسے بھول گئی؟” صالحہ نے اسے یاد دلایا۔
”’صرف ایک آرٹیکل میں، باقیوں میں کیوں نہیں …کیا رضی نے اور کوئی غلط کام نہیں کیا؟” وہ سنجیدگی سے بولتی گئی۔
”تم اس کی حمایت کیوں کر رہی ہو؟”
”حمایت نہیں کر رہی ہوں، میں بھی تمہاری طرح سچ ہی بول رہی ہوں۔ وہی جو محسوس کر رہی ہوں۔”
”اگر بات بیورو کریٹس اور بیورو کریسی کی ہی کرنی ہے تو پھر سب کی کرنی چاہیے۔ ہر برائی کو سامنے لانا چاہیے۔ ہر برے شخص پر تنقید کرنی چاہئے۔” وہ پر سکون لہجے میں نہ چاہتے ہوئے بھی عمر جہانگیر کی وکالت کر رہی تھی۔
”مجھے تمہاری نیت پر کوئی شبہ نہیں ہے۔ تم یقیناً بیورو کریسی کی برائیوں کے خلاف ہی لکھنا چاہ رہی ہو گی۔ اس کرپٹ سسٹم اور اسے چلانے والوں کو ہی بے نقاب کرنا چاہتی ہو گی۔ تو پھر باقیوں کے بارے میں بھی لکھو۔” علیزہ نے اپنے سامنے پڑا ہوا اخبار اس کی طرف میز پر کھسکا دیا۔
”یہ خبر پڑھو …ایک غریب پھل فروش کو چند پولیس والوں نے پکوڑنے تلنے والے کی کڑھائی میں پھینک کر جلا دیا۔ پھل فروش نے ہاسپٹل میں اپنے نزعی بیان میں بتایا ہے کہ پولیس والے اس سے پھل لینے کے بعد قیمت دئیے بغیر جا رہے تھے جب اس نے انہیں روکنے کی کوشش کی تو انہوں نے اسے پیٹنا شروع کر دیا اور پاس موجود تیل سے بھری کڑھائی میں دھکیل دیا۔” وہ بغیر رکے کہہ رہی تھی۔ ”کل اس پھل فروش کی موت ہو گئی اور پولیس کا کہنا ہے کہ انہیں اطلاع ملی تھی کہ وہ پھل فروش ہیروئن کا کاروبار کرتا تھا اور اس دن وہ تفتیش کے لئے اس کے پاس گئے اور انہوں نے اس کی تلاشی لینے پر اس کے پاس سے بڑی مقدار میں ہیروئن اور چرس بر آمد کر لی۔ پھل فروش نے گرفتاری اور اس الزام سے بچنے کے لئے خود کشی کی کوشش کی اور کڑاہی میں گر گیا۔ پولیس نے اس کے خلاف منشیات فروشی اور خود کشی کا مقدمہ درج کر لیا ہے۔ کوئی عقل کا اندھا بھی اس خبر اور واقعے میں موجود جھوٹ اور سچ کو جانچ سکتا ہے۔ کیا اس پھل فروش کے قتل کے الزام میں پورے اسٹیشن کے عملے پر مقدمہ نہیں چلنا چاہئے۔
ایس پی، ڈی ایس پی، اور ایس ایچ او کے خلاف نہیں لکھا جانا چاہئے۔ جو سب آنکھیں بند کئے سو رہے ہیں۔ اس بارے میں بھی لکھو، اس ایس پی اور ایس ایچ او کے بارے میں بھی صالحہ پرویز کو آرٹیکلز لکھنے چائیں، تا کہ اس شخص کے لواحقین کو بھی ویسا ہی انصاف مل سکے جیسا انصاف تم اپنے انکل کے بیٹے کے لئے چاہتی ہو۔ مگر ۔۔۔” علیزہ ایک لمحہ کے لئے رکی۔
”مگر اس پھل فروش کی کسی بھتیجی کا نام صالحہ پرویز تو نہیں ہو گا جو اس کے بارے میں آرٹیکلز لکھے یا انصاف مانگنے کی جرات کرے۔ تیسری دنیا کے تیسرے درجے کا شہری۔”
”علیزہ! تم کیا کہنا چاہ رہی ہو؟” صالحہ کا لہجہ اس بار بدلا ہوا تھا۔
”میں یہ کہنا چاہ رہی ہوں صالحہ کہ تم اور میں قلم کی جس حرمت کی بات کرتے ہیں، وہ صرف اب ایک کتابی بات ہے۔ ہم سچ لکھتے ہیں جب اس میں ہمارا اپنا مفاد وابستہ ہو۔ ہم جھوٹ کو بے نقاب تب کرتے ہیں جب ہمیں اس سے کچھ فائدہ ہونے کی توقع ہو۔”
”تم غلط کہہ رہی ہو علیزہ۔”
”نہیں، میں غلط نہیں کہہ رہی ہوں، ہم لوگ دوسروں میں جس پروفیشنلزم کے نہ ہونے کا رونا روتے رہتے ہیں۔ وہ ہم میں بھی نہیں ہے۔” علیزہ اسی طرح ٹھنڈے لہجے میں کہتی جا رہی تھی۔ ”کتنے جرنلٹس واقعی پروفیشنل ہیں۔ تم انہیں انگلیوں کی پوروں پر گن سکتی ہو، اور کم از کم میں تمہیں پروفیشنل جرنلٹس میں نہیں گردان سکتی۔ چاہے تم اس بات کو کتنا ہی برا کیوں نہ سمجھو۔” علیزہ نے صاف گوئی سے کہا، صالحہ کچھ نہیں بول سکی۔
”ہم سب ایک Rotten system (متعفن نظام) کی پیداوار ہیں اور اسی میں رہ رہے ہیں۔ دوسروں پر انگلی اٹھانے سے پہلے اپنا گریبان اور دامن دیکھنا بہت ضروری ہے۔ اپنے کپڑوں پر دھبے لے کر دوسروں کے داغ دکھانا حماقت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے اور تم یہی کرنے کی کوشش کر رہی ہو۔” علیزہ خاموش ہو گئی۔
”میں پروفیشنل نہیں ہوں۔ تم پروفیشنل ہو؟” علیزہ نے سر اٹھا کر صالحہ کو دیکھا، وہ بڑی عجیب سی مسکراہٹ کے ساتھ اسے دیکھ رہی تھی۔ ”بقول تمہارے میں عمر جہانگیر سے ذاتی پر خاش رکھتی ہوں اس لئے اس کے خلاف لکھ رہی ہوں اور تمہارے نزدیک یہ پروفیشنلزم نہیں ہے۔” صالحہ نے استہزائیہ انداز میں کہا۔
”تو کیا یہ پروفیشنلزم ہے کہ تم عمر جہانگیر کو بچانے کی صرف اس لئے کوشش کر رہی ہو کیونکہ اس سے تمہاری رشتہ داری ہے۔” صالحہ نے بڑے چبھتے ہوئے انداز میں جیسے انکشاف کیا۔ علیزہ چونکے بغیر مسکرائی۔
”مجھے حیرت نہیں ہوئی کہ تم میرے اور عمر جہانگیر کے رشتے کے بارے میں جانتی ہو، ہاں میں اب تک حیران تھی کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ تم اس رشتے کے بارے میں نہ جانتی ہو جب کہ تمہارا انفارمر زین العابدین ہے اور وہ لوگوں کے خاندانوں کو کھنگال ڈالنے کا ماہر ہے۔” علیزہ جیسے محظوظ ہو رہی تھی۔
”ہاں، تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔ یہ بھی پروفیشنلزم نہیں ہے اور میں نے اپنے آپ کو پروفیشنل گردانا بھی نہیں ۔ مگر تمہارا یہ الزام بالکل غلط ہے کہ میں عمر جہانگیر کو بچانے کی کوشش کر رہی ہوں، میں ایسی کوئی کوشش نہیں کر رہی۔” اس کی آواز اب بھی اسی طرح پر سکون تھی۔ ”میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ اس کے ساتھ دوسروں کو بھی کٹہرے میں لا کر کھڑا کیا جائے۔ صرف ایک عمر جہانگیر کو ہی کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ صرف اس کے خلاف ہی یہ Defamation campaign (ہتک آمیز مہم) کیوں چلائی جا رہی ہے۔ گڑے مردے ہی اکھاڑنے ہیں تو سب کے اکھاڑے جائیں اور پھر اس وقت تم مجھے ان لوگوں کی فہرست میں شامل نہیں پاؤ گی جو کسی کو بچانے کے لئے بولیں یا لکھیں گے۔”
”تم چاہتی ہو کسی کو سزا نہیں ملی تو تمہارے کزن کو بھی نہ ملے۔” صالحہ نے طنزیہ انداز میں کہا۔ ”مگر میں کہتی ہوں کہ کہیں نہ کہیں سے تو ابتدا ہونی چاہیے۔ عمر جہانگیر سے ہی سہی، اس کو سزا ملے تو شاید کسی دوسرے کو عبرت ہو۔” صالحہ نے سرد مہری سے کہا۔
”ان ساری پریکٹسز کا آغاز عمر نے نہیں کیا تھا۔ ان کے بارے میں کیا خیال ہے جنہوں نے یہ سب شروع کیا۔” وہ نہ چاہتے ہوئے بھی خود کو عمر کا دفاع کرنے پر مجبور پا رہی تھی۔
”تم صرف یہ چاہتی ہو کہ عمر کو کچھ نہ ہوتا کہ تمہاری فیملی کے بارے میں کچھ بھی اخباروں میں نہ آئے۔”
صالحہ نے عجیب سے انداز میں مسکراتے ہوئے کہا۔
”نہیں، میں چاہتی ہوں سب کی فیملیز کے بارے میں لکھا جائے۔ سچ مچ …سب کچھ …میری تمہاری، سب کی فیملیز کے بارے میں۔ کیونکہ میں اپنی فیملی کے بارے میں رشک یا فخر جیسے کسی جذبے میں مبتلا نہیں ہوں۔” علیزہ نے اس کے طنز کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔ صالحہ اس کی بات پر مشتعل ہو گئی۔
”میری فیملی نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ جس کے بارے میں اخباروں میں کچھ شائع ہو۔”
”کتنی عجیب بات ہے جب کہ تمہاری فیملی کے بھی بہت سے لوگ بیورو کریسی میں اور جوڈیشری میں ہیں۔ کیا یہ معجزہ نہیں ہے کہ وہ بالکل پاک باز ہیں۔ کوئی بری بات انہیں چھو کر نہیں گزری۔ کوئی کرپشن کوئی اسکینڈل ان کے دامن پر کہیں کسی قسم کا کوئی دھبہ نہیں ہے۔ کیا کوئی اس بات پر یقین کرے گا صالحہ؟” علیزہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”میری طرح آخر تم بھی یہ تسلیم کیوں نہیں کر لیتیں کہ تمہاری فیملی کے افراد سے بھی بہت سی غلطیاں ہوتی رہی ہوں گی بلکہ اب بھی ہو رہی ہوں گی۔”
”میں ایسی کوئی بات تسلیم نہیں کر سکتی۔ اگر تمہاری فیملی کے بارے میں الزامات سامنے آ گئے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تم سب کی فیملیز کو ہی اسی فہرست میں لا کھڑا کرو۔ کم از کم میں اپنی فیملی کو اس فہرست میں شامل نہیں کر سکتی جہاں تمہاری فیملی کا نام درج ہے۔” صالحہ نے کندھے اچکاتے ہوئے سرد مہری سے کہا۔
”تم مجھ پر متعصب ہونے کے الزامات لگا لو …یا پھر مجھے اَن پروفیشنل ہونے کے طعنے دے لو …مگر اس سے حقیقت نہیں بدلے گی۔ میں عمر جہانگیر کے بارے میں جو کچھ لکھ رہی ہوں، وہ سچ ہے اور یہ ضروری ہے کہ اسے اس کے کئے کی سزا دی جائے۔” صالحہ نے اسی رفتار سے بولتے ہوئے کہا ”اب تم اسے ہمدردی کا نام دو یا رشتہ داری کا، بہر حال میں چاہتی ہوں کہ میرے کزن کے ساتھ ہونے والی بے انصافی کا ازالہ کیا جائے گا۔”
”تو پھر یہ قلم سے ہونے والا کوئی جہاد تو نہیں ہے جس کے بارے میں تم اور میں بلند بانگ دعوے کرتے پھرتے ہیں۔ یہ صرف اپنے اپنے مفاد کی جنگ ہے۔ کیوں میں غلط کہہ رہی ہوں۔” علیزہ اب بھی اسی طرح پر سکون تھی۔
”اپنے لئے انصاف طلب کرنا مفاد پرستی کیسے ہو گیا؟” صالحہ نے اس کی بات پر چبھتے ہوئے انداز میں کہا۔
”صرف اپنے لئے انصاف طلب کرنا مفاد پرستی ہی ہے، اسے کوئی اور نام نہیں دیا جا سکتا۔”
”ٹھیک ہے پھر تم اسے مفاد پرستی کا نام دے لو۔ ہاں، میں چاہتی ہوں کہ عمر جہانگیر کو سزا ملے کیونکہ اس کو سزا ملنی چاہئے اور اگر میری اس خواہش کی وجہ اپنی فیملی کے ساتھ اس کی طرف سے کی جانے والی کوئی زیادتی ہے تو بھی میں حق پر ہوں۔” صالحہ نے دو ٹوک انداز میں کہا ”میں انسان ہوں، فرشتہ نہیں ہوں۔”

”اور اگر یہی بات عمر جہانگیر کہے یا پھر رضی محمود تو …؟” صالحہ چند لمحوں تک کچھ نہیں کہہ سکی۔
”اگر وہ بھی یہی کہیں کہ انہوں نے بھی اسی خود غرضی کا مظاہرہ کیا تھا ۔جس خود غرضی کا مظاہرہ ہم سب اپنی اپنی استطاعت میں کرتے رہے ہیں تو…؟”
”تم ایک غلط۔۔۔” علیزہ نے اس کی ناراضی سے کہی جانے والی بات کو کاٹ دیا۔
”نہیں صالحہ… تم میری بات سنو…میں عمر جہانگیر کو بچانا نہیں چاہتی ہوں مگر اس کے باوجود میں جانتی ہوں اسے کچھ بھی نہیں ہوگا مگر میں پروفیشنل اخلاقیات کی بات کر رہی ہوں جو ہمیں سکھائی جاتی ہیں۔ جرنلزم ایسا جرنلزم جو ہر قسم کے تعصب سے پاک ہو۔ ہر ذاتی پسند یا ناپسند سے ماورا ہو۔”
علیزہ مایوسی کے عالم میں کہہ رہی تھی۔ ”ہم بیورو کریسی کو پروفیشنلزم سکھانے کی باتیں کرتے ہیں۔ ہم ان پر تنقید کرتے ہیں۔ رائی کا پہاڑ بناتے ہیں یا یہ کہہ لو کہ چائے کی پیالی میں طوفان اٹھا دیتے ہیں اور خود ہم کیا ہیں۔ ہم بھی اخلاقیات کے ہر معیار سے اسی طرح گرے ہوئے ہیں جس طرح وہ لوگ۔۔۔” وہ بول رہی تھی۔
”ہم پسند یا ناپسند کی بنیاد پر لوگوں کی عزتیں اچھالتے ہیں۔”
”علیزہ تم۔۔۔” صالحہ نے ناراضی کے عالم میں کچھ کہنے کی کوشش کی۔ علیزہ نے اس کی بات کاٹ دی۔
”میں صرف تمہاری بات نہیں کر رہی ہوں۔ میں ایک عام سی بات کر رہی ہوں۔ تم یہ سب کچھ کرنے والی واحد نہیں ہو۔ ہم تعلقات کی بنیاد پر خبریں شائع کر دیتے ہیں۔ ہم روپیہ اور پرمٹ لے کر لوگوں کی تعریفیں شائع کر دیتے ہیں۔ ہمیں خریدنا کیا مشکل کام ہے۔” وہ افسردگی سے مسکرائی۔
”میں سوچتی تھی کہ شاید یہ ایک پروفیشن ایسا ہے جہاں ایمانداری سے سب کچھ ہوتا ہے مگر اب میں جانتی ہوں کہ یہاں بھی ایمانداری کا تناسب اتنا ہی ہے جتنا سوسائٹی کے کسی دوسرے حصے میں۔۔۔” اس نے سر جھٹکا ”ہم اپنے آرٹیکلر اور ایڈیٹوریلز میں لوگوں کو اخلاقیات سکھاتے پھرتے ہیں۔ انہیں تہذیب، شائستگی جیسی باتوں پر لیکچر دیتے ہیں۔ بہتان اور الزام تراشی پر ملامت کرتے ہیں۔ گرتی ہوئی اخلاقی اقدار کا رونا روتے ہیں اور پھر ہم ایکٹرز سے لے کر سیاست دانوں اور اب عام آدمیوں کی بھی عزتیں اچھالتے پھرتے ہیں اور پھر ہم اسے نام دیتے ہیں انفارمیشن کا اور دعویٰ کرتے ہیں کہ عوام کو سب پتا ہونا چاہیے ۔ ہم ہر خبر کو مرچ مسالہ لگا کر اخبار کی سرکولیشن بڑھانے کے لیے فرنٹ پیج پر لگا دیتے ہیں۔ فلاں نے فلاں کے ساتھ گھر سے بھاگ کر کورٹ میں شادی کر لی۔ فرنٹ پیج نیوز اگلا پورا ہفتہ ہم اسے ہی کور کرتے رہتے ہیں۔ کسی جگہ سات آدمی قتل ہو گئے ہم ساتوں کی کٹی ہوئی گردنیں فرنٹ پیج پر شائع کر دیں گے، ہم نے آج تک معاشرے میں کون سا انقلاب برپا کر دیا ہے۔ ہم جن ایکٹرسز کے لباس اور کردار پر تبصرے اور تنقید کرتے ہیں ان ہی ہیروئنوں کی ان ہی ملبوسات میں تصویریں شائع کرتے ہیں اور ہم دوسروں میں قول و فعل کا تضاد ڈھونڈتے ہیں۔” وہ ہنسی۔
”ہم جن سیاستدانوں پر کیچڑ اچھالتے پھرتے ہیں انہیں کی حمایت ، ان ہی کی تعریفیں شائع کر تے ہیں۔ فخر سے لکھتے ہیں کہ فلاں نے ہمیں چائے پر بلایا، فلاں ساتھ دورے پر لے گیا۔ فلاں نے اپنے بیٹے کی شادی پر بلایا۔ ہم ان کے ساتھ تصویریں بھی کھنچواتے ہیں اور پھر ان تصویروں کو فریم کروا کر اپنی دیواروں پر بھی لٹکاتے ہیں۔” وہ ایک لمحہ کے لیے رکی ۔ ”ہم بیورو کریسی پر انگلیاں اٹھاتے ہیں۔ ان کے ہر کام پر اعتراض کرتے ہیں اور اپنے تمام غلط کاموں کے لیے ان کے پاس بھی جاتے ہیں۔ اگر عمر جہانگیر نے تمہارے کزن کے ساتھ یہ سب کچھ نہ کیا ہوتا تو کیا تمہیں کبھی یاد آتا کہ وہ کس شہر میں کیا کارنامے کر رہا ہے، کبھی نہیں ہمارے لیے پریشانی کھڑی ہو تو ہمیں ان پر اعتراض ہوتا ہے۔ ہمارے سارے کام کسی رکاوٹ کے بغیر ہو جائیں تو ہم ان کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں۔ ہم ریاست کا چوتھا ستون۔۔۔”
وہ ایک بار پھر ہنسی…اس بار صالحہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ اس کے چہرے کے تاثرات اب پہلے سے زیادہ بگڑے ہوئے تھے۔
”تمہاری اس ساری گفتگو کے باوجود میں عمر جہانگیر کے ساتھ ہونے والی اپنی گفتگو کو اخبار میں شائع کروں گی۔” اس نے علیزہ کو دوٹوک انداز میں بتایا۔
”ضرور کرو… میں تمہیں نہیں روکوں گی۔” علیزہ نے مسکراتے ہوئے کہا، چند لمحے تک صالحہ اس کا چہرہ دیکھتی رہی پھر کمرے سے باہر نکل گئی۔
علیزہ کے چہرے پر پہلی بار پریشانی کے آثار نظر آئے۔
اگلے دن صبح ناشتہ کرتے ہوئے اس نے کچھ بے دلی سے اخبار کھولا۔ اسے توقع تھی کہ اخبار میں صالحہ اور عمر کے درمیان ہونے والی گفتگو کی تفصیلات ہوں گی۔ عمر کے لیے ایک اور نئی مصیبت، وہ جانتی تھی عمر اس گفتگو کی تردید نہیں کر سکے گا، کیونکہ صالحہ کے پاس آفس کے ایکسچینج میں موجود آپریٹر کی ریکارڈ شدہ گفتگو ہو گی اور اس بات کا اندازہ عمر کو بھی ہونا چاہیے تھا، اسے ویسے بھی عمر کی حماقت پر حیرت ہو رہی تھی کہ اس نے اس طرح فون کرکے صالحہ کو دھمکانے کی کوشش کی۔ وہ جس قدر محتاط فطرت رکھتا تھا اس سے اس قسم کی غلطی کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی مگر وہ غلطی کر چکا تھا اور علیزہ جانتی تھی یہ غلطی عمر کو خاصی مہنگی پڑے گی۔ خاص طور پر اس صورت میں اگر صالحہ نے پریس کانفرنس میں وہ گفتگو صحافیوں کو سنانے کا فیصلہ کر لیا تو۔
مگر اخبار دیکھ کر اسے حیرت ہوئی تھی۔ صالحہ کی کوئی تحریر اس میں شامل نہیں تھی نہ صرف یہ کہ اس کی تحریر نہیں تھی بلکہ اخبار میں کہیں بھی صالحہ اور عمر کے درمیان ہونے والی گفتگو کے حوالے سے کوئی نیوز آئٹم بھی نہیں تھا۔
علیزہ نے اخبار کی ایک ایک خبر دیکھ لی…مگر وہاں عمر کے حوالے سے کچھ بھی موجود نہیں تھا کچھ دیر بے یقینی سے وہ اخبار کو دیکھتی رہی پھر اس نے اسے رکھ دیا۔ اب اسے آفس جانے کی بے چینی تھی۔ وہ جاننا چاہتی تھی کہ صالحہ نے عمر کے ساتھ ہونے والی اپنی گفتگو کو شائع کیوں نہیں کی۔ کیا اس پر علیزہ کی باتوں کا اثر ہو گیا تھا یا پھر…یا پھر کوئی اور وجہ تھی۔
اس دن آفس جا کر اسے پتا چلا کہ صالحہ آفس نہیں آئی۔
”صالحہ آفس کیوں نہیں آئی؟” علیزہ نے اپنے ساتھ کام کرنے والی ایک سب ایڈیٹر سے پوچھا۔
”وہ چند دن کی چھٹی پر چلی گئی ہے۔” نغمانہ نے اسے بتایا۔
علیزہ نے حیرت سے اسے دیکھا۔” چند دن کی چھٹی پر…؟” کل تک تو اس کا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ اب اچانک اسے چھٹی کی کیا ضرورت آن پڑی؟”
”یہ تو مجھے نہیں پتا ، مجھے تو خود آج صبح ہی پتا چلا ہے کہ وہ چھٹی پر چلی گئی ہے۔ وہ بھی تب جب مجھے اس کا کام سونپا گیا ہے۔” نغمانہ نے لاپروائی سے کہا۔ ”تم فون کرکے پوچھ لو اس سے کہ اچانک اسے چھٹی کی کیا ضرورت آن پڑی۔”
علیزہ کو ہچکچاہٹ ہوئی اگر اس کے اور صالحہ کے درمیان کل والی گفتگو نہ ہوئی ہوتی تو وہ یقیناً اسے کال کرنے میں تامل نہ کرتی مگر اب اس کے لیے صالحہ کو فون کرنا مشکل ہو رہا تھا۔
”تم کیا سوچنے لگیں؟” نغمانہ نے اسے سوچ میں ڈوبا دیکھ کر پوچھا۔
”نہیں کچھ نہیں…بس ایسے ہی۔” علیزہ نے کہا کچھ دیر بعد ایک خیال آنے پر اس نے نغمانہ سے پوچھا۔
”کیا صالحہ نے کوئی آرٹیکل لکھا ہے۔ کوئی نیا آرٹیکل؟” نغمانہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔
”تم کب کی بات کر رہی ہو؟”
”کل کی…یا آج۔۔۔”
”نہیں، اس نے کوئی نیا آرٹیکل نہیں دیا۔ ہو سکتا ہے گھر سے کچھ بھجوا دے یا پھر چھٹیوں کے بعد کچھ لکھ لائے مگر فی الحال اس کا کوئی آرٹیکل میرے پاس نہیں ہے۔”
”اچھا۔۔۔”علیزہ کچھ اور الجھی۔
”کیا اس نے تم سے کسی آرٹیکل کی بات کی تھی؟” نغمانہ نے اچانک اس سے پوچھا۔
”نہیں ایسے کسی خاص آرٹیکل کی بات تو نہیں کی۔ میں ویسے ہی پوچھ رہی تھی کہ شاید چھٹی پر جاتے ہوئے وہ کوئی نئی چیز دے کر گئی ہو۔”
کچھ دیر نغمانہ کے پاس رہنے کے بعد وہ واپس اپنے کیبن میں آگئی۔ اپنے کیبن میں آنے کے بعد اس نے فون اٹھا کر آفس کے آپریٹر سے بات کی۔ ”ذکا…صالحہ نے کل آپ سے کسی کے ساتھ ہونے والی گفتگو کی ریکارڈنگ لی ہے؟” اسے لگا دوسری طرف ذکا جواب دیتے ہوئے کچھ تامل کر رہا ہے۔
آپ کس کی گفتگو کی بات کر رہی ہیں؟” کچھ دیر کی خاموشی کے بعد ذکا نے اس سے پوچھا۔
”کل میرے آفس میں آپ نے صالحہ کی عمر جہانگیر کے ساتھ بات کروائی تھی۔ میں اس کی ریکارڈنگ کی بات کر رہی ہوں۔” علیزہ نے اسے یاد دلایا۔
”نہیں، وہ میں نے صالحہ کو نہیں دی… آپ جانتی ہیں، چیف ایڈیٹر کو بتائے بغیر اور ان سے اجازت لیے بغیر ایسی کوئی ریکارڈنگ کسی کو نہیں دی جاتی۔” کل صالحہ نے مجھ سے وہ ریکارڈنگ مانگی تھی مگر جب میں نے تیمور صاحب سے بات کی تو انہوں نے وہ ریکارڈنگ دینے سے منع کر دیا۔” ذکا نے چیف ایڈیٹر کا نام لیتے ہوئے کہا۔ علیزہ کچھ پرسکون ہو گئی۔
”تو وہ ریکارڈنگ آپ کے پاس ہے؟” اس نے ذکا سے پوچھا۔
”نہیں۔ وہ میرے پاس بھی نہیں ہے۔”
”آپ کے پاس نہیں ہے تو پھر کس کے پاس ہے؟” علیزہ نے حیرانی سے پوچھا۔
”وہ تیمور صاحب نے اپنے پاس منگوا لی تھی۔ شاید سننے کے لیے؟” ذکا نے اپنا خیال ظاہر کیا۔
”پھر بعد میں انہوں نے مجھے بلا کر کہا کہ میں اس کو ضائع کر دوں۔”
”آپ نے ضائع کر دی؟”
”جی۔۔۔”
”اچھا ٹھیک ہے۔ میں بس یہی جاننا چاہتی تھی۔” اس نے ریسیور رکھ دیا اور کچھ دیر پر سوچ انداز میں فون کو دیکھتی رہی۔
یکدم تیمور صاحب کے دل میں عمر جہانگیر کے لیے اس قدر ہمدردی کہاں سے اُمڈ پڑی تھی کہ انہوں نے اس ٹیپ کو ضائع کر دیا جس میں موجود مواد کے شائع ہونے سے عمر کی پوزیشن اور خراب ہوتی وہ الجھ رہی تھی۔
”جب کہ ابھی چند دن سے تو وہ صالحہ کو اس کے آرٹیکلز پر داد دے رہے تھے اور پھر زین العابدین ، کیا اس نے صالحہ سے کوئی رابطہ نہیں کیا یا صالحہ نے اس سے کوئی رابطہ نہیں کیا؟” وہ اس معمے کو حل کرنے کی کوششوں میں مصروف تھی۔
اب کم از کم اسے صالحہ پرویز کے چھٹی پر جانے کی وجہ سمجھ میں آگئی تھی۔ وہ یقیناً احتجاجاً چھٹی پر گئی تھی جب اسے تیمور صاحب سے اس گفتگو کو شائع کرنے کی اجازت نہیں ملی ہو گی تو…اس نے یقیناً یہی بہتر سمجھا ہو گا کہ وہ اپنی ناراضی کا اظہار کرے مگر کیا عمر نے چیف ایڈیٹر سے بھی بات کی تھی؟ اس کے ذہن میں اچانک ایک خیال آیا۔
”یقیناً کی ہو گی ورنہ انہوں نے صالحہ کو وہ گفتگو شائع کرنے سے منع کرنے اور اس ٹیپ کو ضائع کرنے کا فیصلہ کیوں کیا اور اب وہ کل کیا کریں گے ۔ کیا اخبار میں معذرت شائع کریں گے۔ صالحہ پرویز کی طرف سے اور اخبار کی طرف سے یا پھر۔۔۔”
وہ اب عمر کی حکمت عملی کے بارے میں اندازے لگانے کی کوشش میں مصروف تھی۔
اگلے دن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تھا جیسا وہ توقع کر رہی تھی۔ اس کے اخبار میں عمر کے بارے میں اس دن بھی کوئی چیز نہیں تھی۔ ہر طرف یکدم ایک خاموشی چھا گئی تھی۔ آفس میں بھی کچھ نئی خبریں تھیں جن کو ڈسکس کیا جا رہا تھا اور علیزہ کے تجسس میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ یہ تجسس ہی تھا جو اسے زہرہ جبار کے پاس لے گیا تھا وہ ان کے انڈر کام کرتی تھی۔
”میں آپ سے پرسوں کے حوالے سے کچھ پوچھنا چاہتی ہوں۔” اس نے کچھ رسمی سی باتوں کے بعد ان سے اپنے مطلوبہ موضوع پر گفتگو شروع کر دی۔۔
”پرسوں کے بارے میں؟”
”ہاں صالحہ کے حوالے سے۔” علیزہ نے کہا۔
”پرسوں صالحہ سے میری بات ہو رہی تھی۔ وہ ایک اور آرٹیکل لکھنا چاہ رہی تھی عمر جہانگیر کے بارے میں” اس نے بات شروع کی۔ ”دراصل اس دن عمر جہانگیر نے فون کیا تھا یہاں صالحہ کو…میرے آفس میں ہی بات ہوئی تھی دونوں کی بلکہ کچھ جھگڑا بھی ہوا تھا اور فون پر بات ختم کرنے کے بعد صالحہ نے مجھ سے کہا تھا کہ وہ عمر کے بارے میں ایک اور آرٹیکل لکھے گی بلکہ اس کی تمام گفتگو شائع کر دے گی مگر پھر وہ چھٹی پر چلی گئی اور میرا کوشش کے باوجود اس سے رابطہ نہیں ہو سکا۔” علیزہ نے جھوٹ بولا۔
”پھر کل مجھے پتا چلا کہ تیمور صاحب نے صالحہ کو وہ آرٹیکل لکھنے سے منع کر دیا ہے اور وہ گفتگو کی ریکارڈنگ بھی ضائع کروا دی۔” اس نے سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھتے ہوئے کہا۔
”ہاں…اوپر سے کچھ پریشر تھا۔” زہرہ جبار نے اس کو گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
”کیسا پریشر…؟” علیزہ نے پوچھا۔
”تمہیں پتا ہونا چاہیے علیزہ کیسا پریشر ہو سکتا ہے۔ تم آخر اس خاندان کی ایک فرد ہو۔” وہ عجیب سے انداز میں مسکرا کر بولیں۔
علیزہ چند لمحے کچھ نہیں بول سکی۔ اسے توقع نہیں تھی کہ وہ بھی یہ بات جانتی ہو گی۔ ”یقیناً صالحہ نے یہ بات۔۔۔” اس کی سوچ کا تسلسل ٹوٹ گیا۔
”میں تو صالحہ سے یہ جان کر حیران رہ گئی کہ تم عمر جہانگیر کی کزن ہو، میرے تو وہم و گمان میں بھی یہ نہیں تھا، اور مجھے حیرت اس بات پر بھی تھی کہ تم اور صالحہ اتنی اچھی فرینڈز ہو اور صالحہ پھر بھی تمہاری فیملی کے بارے میں لکھ رہی ہے اور تم نے کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔” زہرہ جبار اب کہہ رہی تھیں۔
”یہ تو مجھے صالحہ نے بتایا کہ وہ خود بھی چند دن پہلے تک یہ بات نہیں جانتی تھی۔ تم نے اس سے بھی کبھی اس بات کا ذکر ہی نہیں کیا۔”
”یہ ضروری تو نہیں تھا کہ میں ایسا کرتی۔”
”ہاں ٹھیک ہے ضروری تو نہیں تھا مگر پھر بھی…چلو کوئی بات نہیں، اب تو ویسے بھی سب کچھ ختم ہو گیا ہے۔” زہرہ جبار نے اس کی بات کے جواب میں قدرے لاپروائی سے کہا۔
”میں یہی جاننا چاہ رہی ہوں کہ سب کچھ کیسے ختم ہو گیا ہے۔ کل تک تو۔۔۔” زہرہ جبار نے اس کی بات کاٹ دی۔
”یہ تو میں نہیں جانتی۔ تیمور صاحب نے اتنی تفصیل نہیں بتائی مگر پرسوں کافی کالز آئی تھیں ان کے پاس، کافی اوپر سے اور وہ قدرے پریشان تھے۔ پھر انہوں نے صالحہ کو بلوا کر اس سے بات کی۔”
”مگر وہ کیوں پریشان تھے۔ خود گورنمنٹ نے بھی تو انکوائری کا اعلان کیا تھا۔ عمر کے خلاف۔”
”ہاں گورنمنٹ نے اعلان کیا تھا مگر اعلان کرنے میں اور انکوائری کرنے میں فرق ہوتا ہے۔ صالحہ تو پرسوں بہت غصہ میں تھی۔ غصہ میں ہی چھٹی لے کر گئی ہے۔” انہوں نے اسے ایک اور اطلاع دی۔ ”تمہارے اور صالحہ کے درمیان تو آپس میں کوئی بات نہیں ہوئی؟”
”کیسی بات؟”
”کوئی جھگڑا…؟”
”نہیں، مجھ سے اس کا کوئی جھگڑا کیوں ہوگا۔ ہم ابھی بھی دوست ہیں۔” اس نے جھوٹ بولتے ہوئے کہا۔
”مجھے صرف تجسس ہو رہا تھا۔ اس لیے میں نے یہ سب کچھ آپ سے پوچھا۔” علیزہ نے وضاحت کی۔ ”مگر مجھے حیرانی ہو رہی ہے۔”
”کس بات پر؟”
”تیمور صاحب اتنی آسانی سے تو پریشرائز نہیں ہوتے ، بلکہ ہمارے اخبار کی کریڈ یبیلٹی اسی بات پر بیس کرتی ہے کہ ہم ہر قسم کے پریشر کو فیس کرنا جانتے ہیں اور کبھی بھی پریشر کے آگے سرنڈر نہیں کرتے پھر اب اتنے چھوٹے سے ایشو پر۔۔۔”زہرہ جبار نے کندھے اچکائے۔
”ہاں مجھے بھی حیرت ہے مگر…ظاہر ہے…پیچھے کوئی نہ کوئی بات تو ہو گی۔ کوئی ایسی بات ہو گی کہ تیمور صاحب نے اس سارے معاملے کو ختم کرنا بہتر سمجھا۔۔۔”
”اور میں نے یہ بھی سنا ہے کہ زین العابدین بھی اسی اسائنمنٹ پر کام کر رہا ہے۔ تیمور صاحب اسے کیسے روکیں گے؟ وہ تو کمپرومائز نہیں کرتا۔”
”تم سے کس نے کہا کہ زین العابدین اس اسائنمنٹ پر کام کر رہا ہے؟” زہرہ جبار نے کچھ چونک کر کہا۔
”صالحہ سے پتا چلا ہے مجھے۔” علیزہ نے صالحہ کا حوالہ دیا۔
”میرے پاس ایسی کوئی اطلاع نہیں ہے اور زین العابدین۔۔۔” زہرہ جبار کچھ سوچ میں پڑ گئیں۔ ”وہ کبھی بھی پہلے سے اپنی اسائنمنٹس کے بارے میں کچھ نہیں بتاتا، پھر صالحہ…جو بھی ہو، یہ زین العابدین اور تیمور صاحب کا مسئلہ ہے۔ وہ خود ہی اسے ورک آؤٹ کر لیں گے۔” انہوں نے سر جھٹکتے ہوئے کہا علیزہ وہاں سے باہر آگئی۔
اگلا دن بہت دھماکہ خیز ثابت ہوا۔ وہ دوپہر کے وقت آفس میں کام کر رہی تھی جب نغمانہ یکدم اس کے کیبن میں داخل ہوئی۔
”مائی گاڈ علیزہ ! تمہیں پتا ہے، صالحہ کے ساتھ کیا ہوا ہے؟” اس نے کیبن میں داخل ہوتے ہی کہا۔
”نہیں…کیا ہوا ہے؟” علیزہ اس کے سوال سے زیادہ اس کے تاثرات دیکھ کر خوفزدہ ہوئی۔
”اس کی گاڑی پر کسی نے فائرنگ کی ہے۔ آج صبح جب وہ آفس آرہی تھی تو۔۔۔”
”مائی گاڈ…تمہیں کس نے بتایا؟ وہ ٹھیک تو ہے؟” علیزہ یکدم پریشان ہو گئی۔
”صالحہ نے خود فون کیا تھا ابھی کچھ دیر پہلے آفس میں…اسی نے بتایا ہے۔”
”اس کا مطلب ہے، صالحہ ٹھیک ہے۔” علیزہ نے سکون کا سانس لیا۔
”ہاں…وہ بہت لکی تھی جو بچ گئی۔” نغمانہ نے کرسی کھینچتے ہوئے کہا ”ان لوگوں نے اس وقت اس کی گاڑی پر فائرنگ کی جب وہ ابھی اپنے گھر سے نکلی تھی۔ فائرنگ کی آواز سنتے ہی اس کے گھر کا گارڈ بھی باہر نکل آیا اور اس نے بھی فائرنگ کی جس کی وجہ سے وہ لوگ بھاگ گئے مگر صالحہ تو بہت زیادہ اپ سیٹ ہے۔ اس نے تیمور صاحب سے بھی بات کی ہے اور کل وہ پریس کانفرنس کر رہی ہے۔”
”وہ جانتی ہے کہ فائرنگ کس نے کی ہے؟”
”سب جانتے ہیں، وہ جن کے خلاف آج کل لکھ رہی ہے، ظاہر ہے ان لوگوں نے ہی۔” نغمانہ بات کرتے کرتے رک گئی۔
”تم عمر جہانگیر کا نام لینا چاہتی ہو۔” علیزہ نے اس کی بات مکمل کرتے ہوئے کہا۔
”ہاں…میں جانتی ہوں، تمہیں یہ بات بری لگے گی مگر عمر جہانگیر کے علاوہ یہ کام اور کوئی نہیں کر سکتا۔ کم از کم آفس میں سب یہی کہہ رہے ہیں اور خود صالحہ کا بھی یہی کہنا ہے عمر جہانگیر نے اس کی چھٹی کے دوران اسے گھر بھی فون کرکے دھمکایا تھا۔”
علیزہ کچھ بے دم ہو گئی۔ اسے یکدم ڈپریشن ہونے لگا تھا۔ آخر عمر جہانگیر کیوں اس طرح کی حرکات میں انوالو ہوتا ہے۔ نغمانہ کچھ اور بھی کہہ رہی تھی۔ مگر علیزہ کو اب کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔
عمر کے لیے ایسی کوئی حرکت کرنا ناممکن تھا مگر وہ پھر بھی یہ توقع نہیں رکھتی تھی کہ وہ کسی عورت پر بھی ایسا حملہ کروا سکتا ہے اور وہ بھی تب جب وہ اخبار پر اتنا پریشر ڈال چکا تھا کہ اب اس کے خلاف کچھ بھی شائع نہیں ہو رہا تھا۔ اسے عمر سے گھن آئی…اسے اپنے خاندان سے گھن آئی۔
شام کو وہ صالحہ سے ملنے اس کے گھر گئی، ملازم نے اسے ڈرائنگ روم میں بٹھایا، کچھ دیر کے انتظار کے بعد وہ واپس آیا۔
”بی بی سو رہی ہیں۔” ملازم نے اسے اطلاع دی۔ علیزہ کچھ دیر اس کا چہرہ دیکھتی رہی پھر اٹھ کھڑی ہوئی۔ ہاتھ میں پکڑا پھولوں کا بوکے اس نے ملازم کی طرف بڑھا دیا۔
”یہ میری طرف سے اسے دے دیں اور اسے بتا دیں کہ علیزہ سکندر اس سے ملنے آئی تھی۔ میں اسے کال کروں گی۔”
”ٹھیک ہے، میں ان کو آپ کا پیغام دے دوں گا۔” ملازم نے سر ہلاتے ہوئے بوکے اس کے ہاتھ سے لے لیا۔ علیزہ نے دو گھنٹے کے بعد گھر سے اسے فون کیا مگر ملازم نے فون پر اس کا نام پوچھنے کے بعد اس سے کہا ”بی بی ابھی بھی سو رہی ہیں۔”
”آپ نے انہیں میرا پیغام دیا؟”
”جی…وہ کھانا کھانے کے بعد دوبارہ اپنے کمرے میں چلی گئی ہیں اور انہوں نے کہا ہے کہ کوئی انہیں ڈسٹرب نہ کرے۔” ملازم نے اسے صالحہ کا پیغام دیا۔
علیزہ نے فون بند کرکے صالحہ کے موبائل پر اسے کال کی۔ کال ریسیو نہیں کی گئی۔ وہ صاف طور پر اسے نظر انداز کر رہی تھی۔ اس سے بات نہیں کرنا چاہتی تھی۔
علیزہ اس کی کیفیات کو سمجھ سکتی تھی۔ وہ یقیناً اس وقت عمر جہانگیر کے خاندان کے ہر فرد کو اپنا دشمن سمجھ رہی ہو گی اور چند دن پہلے علیزہ کے ساتھ ہونے والی گفتگو سے اس نے یہی اخذ کیا ہو گا کہ علیزہ بھی عمر جہانگیر اور اس کے ہر اقدام کی مکمل حمایت کرتی ہے۔
اگلے دن کے اخبارات نے اس خبر کو فرنٹ پیج نیوز بنایا تھا۔ عمر جہانگیر پر اور کیچڑ اچھالا گیا تھا۔ اس کے حوالے سے اگلی پچھلی بہت سی خبروں کو اخبار میں لگایا گیا تھا اور اس بار صرف ان کا اخبار ہی یہ سب شائع نہیں کر رہا تھا بلکہ ہر اخبار اس کے بارے میں اسی طرح کی خبریں لگا رہا تھا۔
تیسرے دن کے اخبارات عمر کے بارے میں کچھ اور خبریں لے کر آئے تھے۔ صالحہ پرویز کی پریس کانفرنس کو نمایاں کوریج دی گئی تھی جب کہ عمر جہانگیر کی تردید کو ایک سنگل کالمی خبر بنا کر پچھلے صفحے کے ایک کونے میں لگایا گیا تھا۔ اے پی این ایس کی طرف سے اس حملے کی مذمت اور عمر جہانگیر کا برطرفی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
”آج شام کو لاہور کے سارے صحافی پریس کلب سے گورنر ہاؤس تک احتجاجی واک کر رہے ہیں۔ عمر جہانگیر کی معطلی اور اس کے خلاف اس قاتلانہ حملہ کی انکوائری کے لیے۔ ہمارے اخبار کے سارے لوگ بھی جار ہے ہیں۔ علیزہ تم چلو گی؟”
نغمانہ نے تیسرے دن اسے صبح آفس آتے ہی بتایا۔ علیزہ کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ اسے کیا جواب دے۔
”کوئی زبردستی نہیں ہے، اگر تم اس واک کو جوائن نہیں کرنا چاہتیں تو کوئی بات نہیں۔۔۔” نغمانہ نے اس کے چہرے کے تاثرات دیکھتے ہوئے کہا۔
”میں تمہاری فیلنگز سمجھ سکتی ہوں۔۔۔” اس نے جیسے علیزہ سے ہمدردی کی۔
”میں نے ابھی کچھ طے نہیں کیا، ہو سکتا ہے میں شام کو وہاں آجاؤں۔” علیزہ نے اس سے نظریں چراتے ہوئے کہا۔
وہ شام کو نہ چاہتے ہوئے بھی اس احتجاجی واک میں شرکت کرنے کے لیے چلی گئی۔ اگلے دن آفس میں کولیگز کی چبھتی اور سوالیہ نظروں سے بچنے کے لیے یہی بہتر تھا۔
اسے دیکھ کر وہاں سب کو حیرت ہوئی تھی شاید کوئی بھی وہاں اس کی اس طرح آمد کی توقع نہیں کر رہا تھا۔ باقی لوگوں کے ساتھ ساتھ خود صالحہ پرویز بھی خاصی حیران نظر آئی۔ فائرنگ والے واقعہ کے بعد اس دن پہلی بار ان دونوں کا آمنا سامنا ہوا تھا علیزہ اس کی طرف بڑھ آئی۔
”ہیلو صالحہ…تم کیسی ہو؟” اس نے صالحہ سے پوچھا۔
”میں ٹھیک ہوں۔”
”میں تم سے کونٹیکٹ کرنے کی کوشش کرتی رہی ہوں مگر…شاید تم بہت مصروف تھیں۔” اس نے صالحہ سے کہا۔
”نہیں، میں مصروف نہیں اپ سیٹ تھی۔”
”میں سمجھ سکتی ہوں…اور میں اسی حوالے سے تم سے بات کرنا چاہ رہی تھی، مجھے بہت افسوس ہوا ہے اس واقعہ پر۔”
”شکریہ…میں جانتی ہوں، اور اس بوکے کے لیے بھی شکریہ جو تم نے مجھے بھجوایا۔” صالحہ نے پہلی بار مسکراتے ہوئے کہا۔
”اس کی ضرورت نہیں تھی۔” علیزہ نے اس کاکندھا تھپتھپایا۔
”ویسے مجھے توقع نہیں تھی کہ تم آج یہاں آؤ گی۔” کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اچانک صالحہ نے اس سے کہا۔
”لیکن میں آگئی۔ کم از کم اس سے یہ تو ثابت ہو گیا کہ میں اپنی فیملی کے ہر غلط قدم کی حمایت نہیں کرتی ہوں۔”
”ہاں، کم ازکم اب میں یہ ضرور جان گئی ہوں۔” صالحہ نے ایک گرم جوش مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ پھر وہ دونوں دوسری باتوں میں مصروف ہو گئیں۔
واک میں صحافیوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی تھی اور ان سب نے پوسٹرز پکڑے ہوئے تھے جن پر عمر جہانگیر کے خلاف بہت سے نعرے درج تھے۔ نغمانہ نے ایک پوسٹر علیزہ کو بھی پکڑا دیا۔
علیزہ نے زندگی میں پہلی بار پوسٹر پکڑ کر سڑک پر اس طرح کسی واک میں حصہ لیا تھا اور وہ خاصی خفت کا شکار ہو رہی تھی مگر وہاں موجود باقی سب صحافیوں کے لیے یہ سب عام سی بات تھی بہت سی واکس میں سے ایک بلکہ احتجاجی واک سے زیادہ ان کے لیے یہ گپ شپ کرنے کا ایک موقع تھا۔ پریس کلب سے گورنر ہاؤس جا کر کچھ سینئر صحافیوں نے گورنر ہاؤس کے ایک اہلکار کو ایک یادداشت بھی پیش کی تھی اور پھر گورنر کے پرسنل سیکرٹری سے بھی ان صحافیوں کی ملاقات کروائی گئی۔
ان صحافیوں کی واپسی پر ان کے چہروں پر خاصا اطمینان تھا۔
”گورنر صاحب نے یقین دلایا ہے کہ وہ زیر اعلیٰ سے بات کرکے کل عمر جہانگیر کو معطل کر دیں گے۔”
صحافیوں میں سے ایک نے بلند آواز میں وہاں کھڑے دوسرے صحافی کو بتایا تھا۔ کچھ دیر کی مزید گپ شپ کے بعد تمام صحافی وہاں سے جانے لگے۔ علیزہ بھی وہاں سے واپس گھر آگئی۔
رات آٹھ بجے جب وہ گھر واپس آئی تو جنید اس کا منتظر تھا، وہ اور نانو دونوں لاؤنج میں بیٹھے باتوں میں مصروف تھے۔
”میں نے تمہیں بہت دفعہ رنگ کیا۔ تم کہاں تھیں۔ تم نے موبائل کیوں آف کیا ہوا تھا؟” جنید نے اسے دیکھتے ہی کہا۔
”بس ایسے ہی آف کر دیا تھا۔ کچھ فرینڈز کے ساتھ فورٹریس چلی گئی تھی میں۔” علیزہ نے صوفہ پر بیٹھتے ہوئے جھوٹ بولا۔
”مگر کم از کم موبائل کو تو آف نہ کیا کرو اور خاص طور پر شام کے وقت۔ وہ بھی اتنے لمبے عرصے کے لیے۔ میں تمہیں ٹریس ہی نہیں کر پا رہا تھا۔”
”مگر آپ کے ساتھ تو آج میرا کوئی پروگرام طے نہیں ہوا تھا ورنہ میں جاتی ہی نا۔۔۔” علیزہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”ہاں، پروگرام تو کوئی نہیں تھا۔ میں ویسے ہی آگیا…یہاں کالونی میں کسی کام سے آیا تھا سوچا کہ تم سے اور نانو سے ملتا چلوں۔” جنید نے اپنے آنے کی وجہ بتائی۔
”اب تم کپڑے چینج کر لو تو میں کھانا لگواؤں۔” نانو نے اسے اطمینان سے بیٹھے دیکھ کر کہا۔ وہ اپنا بیگ اٹھا کر اپنے کمرے میں آگئی۔
اگلے دن صبح ناشتہ کی میز پر آتے ہی اسے نانو کا موڈ آف ہونے کا احسا س ہوا اور اخبار ہاتھ میں لیتے ہی اسے اس کی وجہ پتا چل گئی تھی۔ پہلے ہی صفحے میں چند دوسرے صحافیوں کے ساتھ اس کی اپنی تصویر موجود تھی اور نیچے اس تصویر کے ساتھ صحافیوں کی اس احتجاجی ریلی کم واک کی تفصیلات چھپی ہوئی تھیں۔
علیزہ کو یوں لگا جیسے کسی نے اسے چوری کرتے ہوئے پکڑ لیا ہو۔ اسے توقع نہیں تھی کہ اس کی کوئی تصویر بنائی جائے گی اور پھر اسے اخبار میں اتنی نمایاں جگہ لگا دیا جائے گا۔ اس نے کن اکھیوں سے نانو کو دیکھا۔ وہ بالکل خاموشی سے ناشتہ کرنے میں مصروف تھیں۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ ان کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے ان سے کیا بات کرے۔ پھر ناشتہ شروع کرتے ہوئے اس نے اس وقت ان سے کوئی بات نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
بہتر تھا کہ وہ آفس سے واپس آکر ہی ان سے بات کرتی۔ کیونکہ تب تک ان کا غصہ کسی حد تک کم ہو گیا ہوتا۔ عمر کے بارے میں پچھلے کچھ عرصے سے شائع ہونے والی خبروں سے وہ پہلے ہی بہت پریشان تھیں اور اب اسے بھی اس مہم کا حصہ دیکھ کر یقیناً انہیں شاک پہنچا تھا۔
ناشتہ خاموشی سے کرنے کے بعد وہ آفس چلی آئی مگر آفس آنے کے بعد وہ لاشعوری طور پر جنید کی کال کا انتظار کر رہی تھی۔ وہ جانتی تھی اس وقت تک وہ بھی اخبار دیکھ چکا ہوگا اور دیکھنا چاہتی تھی کہ اس تصویر پر اس کا ردعمل کیا ہوگا۔ خاص طور پر یہ جان کر کہ اس نے جنید سے اپنی کل شام کی مصروفیت کے بارے میں جھوٹ بولا تھا۔
وہ اکثر اسے اسی وقت فون کرتا تھا مگر اس روز اس کا فون نہیں آیا۔ گیارہ بجے کے قریب علیزہ نے کچھ ہمت کرتے ہوئے اس کے موبائل پر اسے فون کیا۔ دوسری طرف سے کال ریسیو کر لی گئی۔
”ہیلو جنید! میں علیزہ ہوں۔”
”میں جانتا ہوں۔” جنید نے اس کی بات کے جواب میں بڑے سپاٹ سے انداز میں کہا۔
”میں آپ کے فون کا انتظار کر رہی تھی۔” علیزہ کی سمجھ میں نہیں آیا، وہ اس کے علاوہ اس سے کیا کہے۔
”یہ بڑی حیران کن بات ہے کہ آپ میرے فون کا انتظار کر رہی تھیں۔” علیزہ اس کے لہجے میں ناراضی تلاش کرنے لگی۔ ”میرا تو خیال تھا کہ آپ خاصی Self reliant (خودمختار )ہیں۔ دوسروں کے انتظار جیسی حماقت نہیں کر سکتیں۔ بہرحال آپ کی بہت مہربانی کہ آپ میرے فون کا انتظار کر رہی تھیں۔”
وہ پہلی بار اس بات سے آگاہ ہوئی تھی کہ جنید طنزیہ گفتگو بھی کر سکتا ہے۔ ”میں مصروف تھا اس لیے فون نہیں کیا۔”
کچھ دیر دونوں طرف خاموشی رہی پھر علیزہ نے ہی ہمت کرتے ہوئے پوچھا ”آپ نے اخبار دیکھا؟”
”روز دیکھتا ہوں؟” اس کا لہجہ اب بھی بے تاثر تھا۔
”آج کا اخبار دیکھا؟”
”شاید تم یہ پوچھنا چاہ رہی ہو کہ میں نے تمہاری تصویر دیکھی؟” اس نے اتنے ڈائریکٹ انداز میں کہا کہ وہ کچھ نہیں بول سکی۔
”ہاں، دیکھی ہے میں نے…بہت اچھی آئی ہے۔” شرمندگی سے علیزہ کا چہرہ سرخ ہو گیا۔
”یقیناً فورٹریس میں بنوائی ہو گی تم نے…اپنی فرینڈز کے ساتھ۔” وہ اب بھی کچھ نہیں بول سکی۔
”صحیح کہہ رہا ہوں نا؟” وہ اب بڑے نارمل سے لہجے میں اس سے پوچھ رہا تھا۔
”جنید! میں آپ کو بتا دینا چاہتی۔۔۔” جنید نے اس کی بات کاٹ دی۔
”میں نے کوئی اعتراض نہیں کیا، کیا میں نے کیا ہے؟”
”آپ نے نہیں کیا مگر۔۔۔”جنید نے ایک بار پھر اس کی بات کاٹ دی۔
”اور میں نے کوئی وضاحت بھی نہیں مانگی…کیا مانگی ہے؟”
”نہیں مگر میں پھر بھی معذرت کرنا چاہ رہی ہوں۔”
”کس چیز کے لیے؟”
”غلط بیانی کے لیے۔”
”معذرت چاہتا ہوں مگر اس کو جھوٹ کہتے ہیں جسے آپ غلط بیانی کہہ رہی ہیں۔” وہ کچھ دیر خاموش رہی۔
”ٹھیک ہے، آپ اسے جھوٹ کہہ لیں۔ میں اپنے جھوٹ کے لیے آپ سے ایکسکیوز کرنا چاہتی ہوں۔”
”فائدہ؟” علیزہ کی سمجھ میں نہیں آیا وہ اس کی بات کا کیا جواب دے۔
”مجھے افسوس ہے کہ میں نے آپ سے جھوٹ بولا، مجھے نہیں بولنا چاہیے تھا۔ مجھے آپ کو بتا دینا چاہیے تھا۔” علیزہ نے کچھ دیر کے بعد اس کے سوال کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔
”تمہیں اس چیز پر افسوس ہے کہ تم نے مجھ سے جھوٹ بولا مگر تمہیں اس چیز پر افسوس نہیں ہے کہ تم ایک احمقانہ کام کے لیے وہاں گئی تھیں۔” جنید نے تلخی سے کہا۔
”جنید! میں آپ کو یہ سب کچھ نہیں سمجھا سکتی۔” اس نے کچھ بے بسی سے کہا۔
”تم مجھے یہ سب کچھ صرف اس لیے نہیں سمجھا سکتیں کیونکہ یہ بہت Illogical(غیر منطقی) ہے ایسا کچھ جس کا کوئی سرپیر ہی نہیں ہے۔”
”میرے پاس اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ صالحہ میری کولیگ اور دوست ہے۔”
”عمر جہانگیر تمہارا فرسٹ کزن ہے۔” جنید نے اسی طرح کہا۔
”مگر صالحہ کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔”
”عمر جہانگیر کے ساتھ بھی زیادتی ہو رہی ہے۔” جنید نے ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے کہا۔
”عمر جہانگیر اس سب کا خود ذمہ دارہے۔”
”صالحہ بھی اس کی خود ذمہ دار ہے۔”
”ہم غیر متعلق لوگوں کی وجہ سے آپس میں بحث کیوں کر رہے ہیں؟” علیزہ نے کچھ چڑتے ہوئے کہا۔
”جب غیر متعلق لوگوں کے لیے سڑک پر پوسٹر پکڑ کر کھڑی ہوگی تو پھر بحث تو ہو گی۔ اگر آج کوئی عمر جہانگیر کے لیے ایسی ہی کوئی واک کنڈکٹ کرے تو تم جاؤ گی وہاں؟” علیزہ خاموش رہی۔ جنید تلخی سے ہنسا۔
”نہیں جاؤ گی…میں نے تم سے پہلے کبھی کہا تھا…رشتے دیانت داری مانگتے ہیں اور تم یہ حقیقت تسلیم کرو یا نہ کرو مگر عمر جہانگیر تمہارا فرسٹ کزن ہے۔” جنید نے دوٹوک لہجے میں کہا۔
”میں اپنے گھر والوں کو اس تصویر کی کیا Justification(وضاحت) دے سکتا ہوں کہ میری منگیتر اپنے ہی خاندان والوں کے خلاف پوسٹر پکڑ کر سڑک پر کھڑی ہے؟” علیزہ اپنے ہونٹ کاٹنے لگی۔
”میں نے آپ کو بتایا ہے، میں بہت خوشی سے وہاں نہیں گئی تھی۔ مجھے مجبوراً وہاں جانا پڑا۔”
”نہیں۔ میں یہ وضاحت قبول نہیں کر سکتا…کوئی مجبوراً کچھ بھی نہیں کرتا جب تک کہ اپنی مرضی کسی نہ کسی حد تک اس میں شامل نہ ہو۔” جنید نے اسی طرح ترشی سے کہا۔
”میں آپ سے ایکسکیوز کر تو رہی ہوں۔”
”مجھے تمہاری ایکسکیوز کی ضرورت نہیں ہے علیزہ! جس چیز پر تمہیں شرمندگی محسوس نہیں ہو رہی اس کے لیے ایکسکیوز مت کرو۔” جنید نے دوٹوک انداز میں کہا۔
”تو پھر میں اور کیا کروں، آپ کو بتا تو چکی ہوں کہ۔۔۔”
جنید نے اس کی بات کاٹ دی۔
”میں اس موضوع پر تم سے پھر کبھی بات کروں گا۔” اس کے لہجے کی خفگی اسی طرح برقرار تھی ”اور رات کو میں تمہیں کھانے پر نہیں لے جا سکوں گا کیونکہ مجھے کچھ کام ہے۔” اس نے کل بنایا ہوا پروگرام کینسل کرتے ہوئے کہا۔
”خدا حافظ۔۔۔” اس کے جواب کا انتظار کیے بغیر جنید نے فون بند کر دیا۔
علیزہ نے مایوسی سے اپنے موبائل کو دیکھا ”آخر دوسرے میرا پوائنٹ آف ویو کیوں نہیں سمجھتے۔ عمر جہانگیر کو اتنا سپورٹ کیوں کرتے ہیں۔ تب بھی جب وہ غلط ہو۔” اس نے موبائل میز پر رکھتے ہوئے سوچا۔
شام کو وہ واپس گھر آئی تو نانو کا غصہ اسی طرح برقرار تھا۔ علیزہ کے ڈپریشن میں کچھ اور اضافہ ہو گیا۔
”میں توقع بھی نہیں کر سکتی تھی کہ تم اس طرح مجھ سے جھوٹ بولو گی۔” انہوں نے رات کو کھانے کی میز پر بولنا شروع کر دیا۔
”تم بہت خود سر ہو گئی ہو علیزہ !” علیزہ نے خاموشی سے کھانا کھاتے کھاتے چمچہ اپنی پلیٹ میں پٹخ دیا۔
”میں نے ایسا کیا کر دیا ہے جس پر آپ سب اسی طرح مجھے ملزم ٹھہرا رہے ہیں۔” اس کی آنکھوں میں آنسو آنے لگے۔
”ہماری فیملی کی حیثیت یہ رہ گئی ہے کہ تم سڑکوں پر پوسٹر پکڑ کر کھڑی ہو۔۔۔” اور وہ بھی اپنی ہی فیملی کے ایک فرد کے خلاف۔” نانو بری طرح مشتعل تھیں اس کے آنسوؤں نے بھی ان کو متاثر نہیں کیا۔ ”تم اب بچی نہیں ہو علیزہ کہ اس طرح کی حماقتیں کرتی پھرو اور میں تمہیں کور کروں۔ انگیجڈ ہو۔ اپنی فیملی کا نہیں تو اپنے ان لاز کا ہی خیال کیا کرو، کیا سوچتے ہوں گے یہ تصویر دیکھ کر وہ تمہارے بارے میں اور ہمارے بارے میں اور خاص طور پر جنید، وہ کیا سوچتا ہوگا تمہارے بارے میں جس سے تم نے کل بڑے دھڑلے سے جھوٹ بولا تھا کہ تم اپنی فرینڈ کے ساتھ فورٹریس گئی تھیں۔”
”کچھ بھی نہیں سوچتا…وہ اور اس کے گھر والے ، بس آپ کو ہی زیادہ فکر ہے کیونکہ یہ عمر کا مسئلہ ہے اور عمر کے خلاف تو آپ کبھی بھی سچ نہیں سن سکتیں۔”
”بد تمیزی مت کرو علیزہ۔” نانو نے اسے ڈانٹا۔
”اس میں بد تمیزی والی کیا بات ہے، عمر نے کیوں صالحہ پر حملہ کروایا تھا؟ اب اگر کروایا ہے تو بھگتے۔”
عمر نے صالحہ پر کوئی حملہ نہیں کروایا۔ وہ اس کی تردید کر چکا ہے۔”
”آپ کیا بات کرتی ہیں نانو…وہ تردید نہیں کرے گا تو اور کیا کرے گا۔ کیا یہ کہے گا کہ ہاں میں نے ہی حملہ کروایا ہے۔”
”مگر اس سارے معاملے سے تمہارا کیا تعلق ہے۔ تم کیوں انوالو ہو رہی ہو اس میں۔ عمر جانے یا صالحہ…تم خواہ مخواہ۔۔۔” علیزہ نے نانو کی بات کاٹ دی۔
”میں کیا انوالو ہو رہی ہوں۔ ایک واک اٹینڈ کر لی، تو آپ سب مجھے اس طرح ملامت کرتے ہیں، آپ نے کبھی عمر کو اس طرح ڈانٹا ہے جس طرح مجھے ڈانٹ رہی ہیں جب کہ میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا اور عمر بہت سارے غلط کام کرتا ہے۔”
”صحیح کام…کون سا صحیح کام…یہ سڑکوں پر کھڑے ہونا، یہ تربیت کی ہے میں نے تمہاری کہ تم اس طرح سڑکوں پر خوار ہوتی پھرو۔ شرم آنی چاہیے۔ آج تک ہمارے خاندان کی کسی عورت نے ایسے کام نہیں کیے جیسے تم کر رہی ہو۔ لوئر مڈل کلاس والی ذہنیت ہوتی جا رہی ہے تمہاری اور کل کو سکندر فون کرکے تمہارے بارے میں پوچھے تو کیا کہوں اس سے میں کہ یہ سب میری تربیت کا نتیجہ ہے۔” وہ بولتی جا رہی تھیں۔ علیزہ نے کچھ کہنے کے بجائے غصہ میں کھانا چھوڑ دیا اور اپنے کمرے میں آگئی۔
اگلے دن وہ آفس میں کام کر رہی تھی جب دوپہر کے قریب اسے پتا چلا کہ صوبائی حکومت نے صحافیوں کے احتجاج کی وجہ سے عمر کو معطل کر دیا تھا اور اس کے خلاف انکوائری کا حکم بھی دیا تھا۔
آفس میں یہ خبر خاصی دلچسپی اور جوش و خروش کے ساتھ سنی گئی تھی۔ خاص طور پر صالحہ خاصی خوش تھی اور علیزہ کو یہ خبر بھی اسی نے سنائی تھی۔ علیزہ نے اسے بجھی ہوئی مسکراہٹ کے ساتھ مبارکباد دی مگر اس خبر کو سنتے ہی اسے یہ احساس ہونا شروع ہو گیا تھا کہ وہ خوش نہیں تھی۔ شاید وہ یہ توقع ہی نہیں کر رہی تھی کہ عمر کو بالآخر معطل کر دیا جائے گا، اسے یہی توقع تھی کہ اس کے خاندان کے دوسرے لوگوں کی طرح عمر بھی بچ جائے گا مگر اب یہ خبر…
”عمر کے ساتھ ٹھیک ہوا، ایسا ہی ہونا چاہیے تھا اس کے ساتھ، جو کچھ اس نے کیا۔ اس کی سزا تو اسے ملنی چاہیے تھی۔” وہ آفس میں سارا وقت اپنی افسردگی کو دور کرنے کے لیے خود سے کہتی رہی مگر اس کے ڈپریشن میں اور اضافہ ہو گیا۔
جنید نے اس دن بھی اسے فون نہیں کیا تھا اور وہ جانتی تھی اگلے دن اخبارات میں اس کی معطلی کی خبر سن کر اس کی ناراضی میں اور اضافہ ہوگا نہ صرف اس کی ناراضی میں بلکہ نانو کے غصے میں بھی جو عمر کی معطلی کا ذمہ دار بھی اسے ہی سمجھیں گی۔
اس کا اندازہ ٹھیک تھا، اگلے دن اخبارات میں عمر کی معطلی کی خبر پڑھنے کے بعد نانو کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تھا۔ علیزہ ناشتہ کرتے ہوئے بڑی خاموشی سے ان کی تندوتیز گفتگو سنتی رہی۔ اس کے پاس اس کے علاوہ دوسرا اور کوئی راستہ نہیں تھا۔
”تم کو اندازہ ہے عمر کی معطلی سے اس کا کیریئر کس بری طرح متاثر ہو گا۔ میں پہلے ہی تمہاری اس تصویر کی وجہ سے ایاز اور جہانگیر کی بہت سی باتیں سن چکی ہوں، اپنے خاندان کے خلاف اس قسم کی ریلیز اور واکس میں حصہ لے کر تمہیں کیا مل گیا۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی اپنے ہی خاندان کے خلاف اس طرح کی حرکتیں کرے۔” انہوں نے اشتعال کے عالم میں بولتے ہوئے کہا۔
”ایاز تو اس قدر ناراض ہو رہا تھا جس کی کوئی حد نہیں۔ وہ خود تم سے بات کرنا چاہ رہا تھا مگر میں نے سمجھا بجھا کر اس کا غصہ ٹھنڈا کیا۔ تمہارے لیے ان سب نے کیا کیا نہیں کیا علیزہ اور تم ہو کہ خود اپنے ہی خاندان کو رسوا کرنے پر تلی ہو۔”
”نانو! یہ سب میں نے نہیں، عمر نے۔۔۔” علیزہ نے پہلی بار اپنے دفاع میں کچھ کہنے کی کوشش کی۔
”نام مت لو عمر کا…کچھ نہیں کیا اس نے ، جو بھی کیا ہے تم نے کیا ہے۔ صالحہ، صالحہ… کیا ہے یہ صالحہ…کیوں ہمارے خاندان کے پیچھے پڑ گئی ہے اور تم …تم اس لڑکی کو اپنا دوست کہہ کہہ کر گھر لاتی رہیں۔” نانو سے غصے میں اپنی بات مکمل کرنا مشکل ہو رہا تھا۔
علیزہ نے خاموش رہنا ہی بہتر سمجھا۔ وہ جانتی تھی، اس کی کہی ہوئی کوئی بات بھی اس وقت نانو کی سمجھ میں نہیں آئے گی۔
اپنی معطلی کے دو دن کے بعد عمر لاہور میں تھا اور اس نے ایک پریس کانفرنس میں اپنے خلاف تمام الزامات کو بے بنیاد اور جھوٹا قرار دیا تھا۔ اس نے یہ بھی کہا تھا کہ اس کے خلاف یہ تمام الزامات لگانے والوں کے سیاسی مفادات ہیں۔ اس نے خاص طور پر اپنے علاقے کے کچھ سیاسی گھرانوں کو اس تمام مسئلہ کی جڑ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ لوگ اس کی ٹرانسفر کروا کر اپنی مرضی کے شخص کو وہاں لانا چاہتے ہیں اور اس میں ناکامی کے بعد انہوں نے صالحہ پرویز کو اس کے خلاف استعمال کرنا شروع کر دیا۔
آفس میں شام تک اس کی پریس کانفرنس ہی ڈسکس ہوتی رہی۔ سب کے لیے یہ بات حیران کن تھی کہ عمر جہانگیر نے اس طرح دھڑلے سے ان سیاسی گھرانوں کا نام لیا تھا جو صوبائی اور مرکزی حکومت کا حصہ تھے۔ سب کو یقین تھا کہ اس نے اپنے تابوت میں آخری کیل ٹھونک لی تھی۔
”اب یہ شخص نہیں بچ سکے گا…پہلے تو شاید یہ بچ جاتا مگر اب ان سیاسی گھرانوں کو اس طرح دھڑلے سے انوالو کرنے کے بعد پیچھے سے اسے بچانے والا کوئی نہیں رہے گا۔” حسین نے لنچ آور کے دوران کہا وہ ان دو رپورٹرز میں سے ایک تھا جو اس پریس کانفرنس کو کور کرنے گئے تھے۔
”مجھے تو احمق لگا ہے یہ شخص…ایک تو اس طرح پریس کانفرنس کرنا حماقت تھی۔ اس پر مزید ڈسپلنری ایکشن ہو سکتا ہے اس کے خلاف اور دوسرے اس سٹیج پر اس طرح سیاست دانوں کو انوالو کرنا، وہ بھی وہ جو حکومت میں ہیں اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔” دوسرے رپورٹر نواز نے تبصرہ کیا۔
”مگر مجھے اس شخص کے اطمینا ن اور سکون نے حیران کیا۔ لگتا ہی نہیں تھا کہ وہ اپنی معطلی سے پریشان ہے اورپھر جس طرح وہ سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے دوٹوک انداز میں ہر بات سے انکار کر رہا تھا۔ میں تو اس سے خاصا متاثرہوا۔
مس علیزہ! آپ کا یہ کزن ہے ٹیلنٹڈ۔۔۔”حسین نے اپنی کرسی کو تھوڑا سا گھماتے ہوئے علیزہ سے کہا۔
سب کی طرح حسین کی بات پر اس نے بھی کچھ مسکرانے کی کوشش کی۔
”مگر بعض دفعہ ضرورت سے زیادہ سمارٹ ہونا ہی بندے کو مروا دیتا ہے، اوور سمارٹ ہونا۔۔۔” نواز نے لقمہ دیتے ہوئے کہا۔
”میں تو اس وقت خاصا حیران ہوا، جب اس نے ان سیاسی گھرانوں کا باقاعدہ نام لیتے ہوئے اس سارے معاملے میں انوالو کیا۔ کوئی دوسرا بیورو کریٹ تو ایسا کر ہی نہیں سکتا اور وہ بھی تب جب وہ معطل بیٹھا ہو۔ اب دیکھتے ہیں کل کے دوسرے اخبارات اس پر کیسی خبریں لگاتے ہیں۔ ” نواز نے چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے اپنی بات کو ختم کیا۔ علیزہ نے اس شام کو ایک بار پھر جنید سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی۔ اسے ناکامی ہوئی۔ موبائل پر اس کی کال ریسیو نہیں کی گئی تھی۔ اس نے دوبارہ اس کے گھر فون کیا۔ فون فری نے اٹھایا تھا رسمی علیک سلیک کے بعد اس نے جنید کے بارے میں پوچھا۔
”جنید بھائی ابھی گھر نہیں آئے۔” فری نے اسے اطلاع دی۔
”آفس میں ہیں؟” علیزہ نے پوچھا۔
”یہ تو مجھے نہیں پتا…ہو سکتا ہے، آفس میں ہی ہوں۔” فری نے لاعلمی کا اظہار کیا۔
”مگر آفس تو بند نہیں ہو جاتا اس وقت ؟”
”ہاں ، ہو تو جاتا ہے، مگر بعض دفعہ اگر کام زیادہ ہو تو نہیں بھی ہوتا۔ ویسے بابا تو گھر آگئے ہیں، اس کا مطلب ہے کام زیادہ نہیں ہے۔” فری نے اسے اطلاع دی۔
”آپ ان کے موبائل پر رنگ کیوں نہیں کرتیں؟” فری کو اچانک خیال آیا۔
”میں نے موبائل پر کال کی ہے مگر اس نے کال ریسیو نہیں کی۔ ” علیزہ نے اسے بتایا۔
”اچھا، آپ ایک منٹ ہولڈ کریں، میں بابا سے پوچھ کر آتی ہوں کہ کیا وہ آفس میں ہیں۔” فری نے اسے ہولڈ کرواتے ہوئے کہا۔ چند منٹ کے بعد وہ دوبارہ لائن پر آگئی۔
”بابا کہہ رہے ہیں کہ وہ آفس میں نہیں ہیں۔ بابا سے کچھ دیر پہلے چلے گئے تھے۔” فری نے اسے اطلاع دی۔
”آپ یا تو ان کے موبائل پر دوبارہ کال کریں یا پھر کچھ انتظار کریں، وہ گھر آتے ہیں تو میں انہیں آپ کی کال کے بارے میں بتا دوں گی۔”
”میں کچھ دیر بعد دوبارہ کال کروں گی۔”
”چلیں ایسا کر لیں…ویسے وہ آنے ہی والے ہوں گے۔” فری نے کہا۔ علیزہ نے خدا حافظ کہہ کر فون رکھ دیا۔
پچھلے چند دنوں سے جنید سے اس کا کوئی رابطہ نہیں ہو ا تھا۔ وہ جیسے گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہو گیا تھا اور اس کی اس خاموشی نے علیزہ کو پریشان کرنا شروع کر دیا۔ آج وہ جنید سے اس معاملے پر ایک بار پھر بات کرنا چاہتی تھی۔
رات گیارہ بجے کے قریب اس نے جنید کو ایک بار پھر فون کیا۔ فون اس بار بھی فری نے ریسیو کیا تھا۔ علیزہ کی آواز سنتے ہی اس نے کہا۔
”بھائی تو کافی دیر ہوئی، گھر آگئے تھے اور میں نے انہیں آپ کی کال کا بھی بتایا تھا بلکہ آپ کو فون کرنے کا کہا تھا کیا انہوں نے آپ کو فون نہیں کیا؟”
”نہیں…تم میری ان سے بات کروا دو۔” علیزہ نے اس سے کہا۔
”اچھا آپ ہولڈ کریں۔”فری نے ریسیو ر رکھتے ہوئے کہا۔ علیزہ انتظار کرنے لگی۔ اس بار فری کی واپسی ایک لمبے انتظار کے بعد ہوئی تھی۔
”میں نے انہیں آپ کے فون کا بتایا ہے مگر حیرت کی بات ہے کہ وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ میں آپ سے کہہ دوں کہ وہ سو گئے ہیں۔” فری نے ریسیور اٹھاتے ہی بڑی صاف گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا۔
”آپ لوگوں کے درمیان کوئی جھگڑا تو نہیں ہو گیا؟” اس بار فری نے قدرے تشویش سے پوچھا۔ ”حالانکہ آپ دونوں جس مزاج کے ہیں۔ ایسے کسی واقعے کی توقع تو نہیں کی جا سکتی۔”
”آپ ایسا کریں کہ ایک بار پھر ہولڈ کریں۔ میں ان سے جا کر کہتی ہوں کہ آپ نے مجھے انہیں جگانے کے لیے کہا ہے۔” علیزہ نے اسے منع کرنا چاہا مگر دوسری طرف سے ریسور رکھ دیا گیا۔ اس بار ایک لمبے انتظار کے بعد اسے ریسیور پر جنید کی آواز سنائی دی۔
”تمہیں کوئی کام تھا؟” رسمی علیک سلیک کے بعد جنید نے بہت سرد لہجے میں اس سے پوچھا۔
”جنید ! کیا یہ ضروری ہے کہ مجھے کوئی کام ہو تو ہی میں آپ کو فون کروں۔”
”ہاں، بہتر یہی ہے۔” علیزہ کو اس کے لہجے اور انداز پر تکلیف ہوئی ۔
”میں ویسے ہی آپ سے بات کرنا چاہتی تھی۔ کافی دن سے ہماری بات نہیں ہوئی اس لیے۔”
”تو اس کے لیے مجھے جگانے کی ضرورت تو نہیں تھی۔ تم صبح مجھے فون کر سکتی تھیں۔”
”میں نے آپ کو جگایا نہیں ہے، فری نے مجھ سے کہا تھا کہ آپ سو نہیں رہے ہیں۔” دوسری طرف وہ کچھ دیر خاموش رہا۔
”ٹھیک ہے، پہلے نہیں سو رہا تھا اب سونا چاہ رہا ہوں گا۔ تم بات کرنا چاہتی تھیں۔ بات ہو گئی۔ اب میں فون بند کر رہا ہوں۔”
”کیا آپ کی ناراضی کبھی ختم ہو گی؟”
”میں تم سے ناراض نہیں ہوں۔ اس کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ ناراض اس شخص سے ہوتے ہیں جسے آپ کی پروا ہو، تم سے ناراض ہو کر تو۔” وہ کچھ کہتے کہتے رک گیا۔
”میں سونے کے لیے جا رہا ہوں، تم دوبارہ فون مت کرنا،” اس نے اس بار اپنی بات ادھوری چھوڑ کر فون بند کر دیا۔
علیزہ کو بے اختیار جھنجھلاہٹ ہوئی۔ اس کا دل چاہا وہ فون توڑ دے… ”ہر ایک نے عمر کے بجائے مجھے کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے۔ عمر کے بجائے مجھے معذرتیں کرنی پڑ رہی ہیں، مجھے وضاحتیں دینی پڑ رہی ہیں اور یہ جنید ایسا تو نہیں تھا پھر اسے کیا ہو گیا ہے، ایک چھوٹی سی بات کو کیوں اس طرح رائی کا پہاڑ بنا رہا ہے۔ کیا صرف عمر جہانگیر کی وجہ سے یہ مجھ سے اس طرح ناراض ہو گیا ہے۔ صرف عمر کی وجہ سے جس سے اس کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے جس سے یہ کبھی ایک بار سے زیادہ ملا تک نہیں۔ کیا صرف اس شخص کے لیے مجھے اس طرح اگنور کر رہا ہے۔” وہ جوں جوں سوچ رہی تھی اس کی جھنجھلاہٹ بڑھتی جا رہی تھی۔
”کیا اسے میری پروا نہیں ہے؟ ذرہ برابر بھی کہ اس کے اس طرح کے رویے سے میں کتنی ڈسٹرب ہو رہی ہوں اور یہ عمر جہانگیر کب تک یہ شخص آسیب کی طرح میری زندگی پر منڈلاتا رہے گا۔” وہ ساری رات کھولتی رہی۔

باب: 48


اگلے دن وہ شام کو شہلا کے ساتھ کے ایف سی گئی جب ایک لمبے عرصے کے بعد اس نے عمر کو وہاں دیکھا۔ علیزہ اور اس کی ٹیبل کے درمیان کافی فاصلہ تھا اور یہ صرف ایک اتفاق ہی تھا کہ علیزہ اور شہلا کی اپنے ٹیبل کی طرف بڑھتے ہوئے اس پر نظر پڑ گئی، کے ایف سی میں اس وقت خاصا رش تھا اور شاید یہ رش ہی تھا جس کی وجہ سے عمر انہیں نہیں دیکھ سکا۔ وہ ایک ٹیبل پر بیٹھا کھانا کھانے میں مصروف تھا مگر اس کی ٹیبل پر ایک اور فرد بھی موجود تھا۔
یقیناً اس کے ساتھ کوئی اور بھی تھا۔
شہلا نے عمر کو نہیں دیکھا اور علیزہ نے عمر کی وہاں موجودگی کے بارے میں اسے بتایا بھی نہیں، وہ دونوں کھانا کھاتے ہوئے باتیں کرتی رہیں مگر وقتاً فوقتاً علیزہ کی نظریں اس ٹیبل کی طرف جاتی رہیں جہاں پر عمر بیٹھا تھا۔
شہلا کے ساتھ کھانا کھاتے ہوئے اس نے سو فٹ ڈرنک کاایک گھونٹ پیا اور پھر اسے جیسے اچھو سا لگا۔
”کیا ہوا علیزہ؟” شہلا نے دیکھا جو اپنے منہ کو صاف کرتے ہوئے کچھ ہکا بکا سی عمر کے ٹیبل پر بیٹھے ہوئے دوسرے شخص کو دیکھ رہی تھی۔
وہ جنید ابراہیم تھا۔
وہ پلکیں جھپکائے بغیر جنید کو عمر کے سامنے بیٹھے دیکھتی رہی، اس کی بھوک اڑ گئی تھی۔ وہ دونوں کھانا کھاتے ہوئے ایک دوسرے سے باتوں میں مصروف تھے۔
”تمہیں کیا ہوا کھا کیوں نہیں رہیں تم؟” شہلا نے اسے متوجہ کیا مگر اس نے شہلا کی بات پر دھیان نہیں دیا وہ ابھی بھی ان ہی دونوں کو دیکھ رہی تھی۔ شہلا نے اس کے تاثرات کو نوٹ کیا اور گردن موڑ کر اس سمت دیکھا جہاں وہ دیکھ رہی تھی۔ چند لمحوں کی جستجو کے بعد اس کی نظر عمر اور جنید پر پڑ گئی۔
”عمر جنید کے ساتھ کیا کر رہا ہے؟ ” شہلا نے بے اختیار گردن سیدھی کرتے ہوئے حیرانی سے کہا۔
”میری زندگی تباہ کرنے کی کوشش۔” علیزہ نے ان دونوں سے نظریں ہٹائے بغیر تلخی سے شہلا سے کہا۔ شہلا کچھ نہیں سمجھی۔ اس نے ایک بار پھر گردن موڑ کر عمر اور جنید کو دیکھا۔
”کیا یہ ایک دوسرے کو جانتے ہیں؟” شہلا نے کچھ تجسس آمیز انداز میں پوچھا۔
”اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ یہ ایک دوسرے کو جانتے ہیں یا نہیں۔ عمر ضرورت کے وقت گدھے کو بھی باپ بنا لینے والا آدمی ہے اور اس وقت گدھا جنید ہے۔ عمر سے زیادہ اچھی طرح کوئی کسی کو استعمال کرنے کا فن نہیں جانتا، بادشاہ ہے وہ اس کام میں۔” اس نے کوک کا گھونٹ لے کر اپنا اشتعال کم کرنے کی کوشش کی۔
”آج کل اسے جنید کی ضرورت ہے تو جنید حاضر ہے۔”
”کیوں جنید کی کیا ضرورت ہے اسے؟ اس سے کیا تعلق ہے اس کا؟” شہلا نے ٹشو سے منہ پونچھتے ہوئے کہا۔
”جنید کے ذریعے مجھے پریشرائز کیا جا سکتا ہے نا۔ جنید کے ذریعے مجھ سے ساری معلومات اور خبریں لی جا سکتی ہیں صالحہ کے بارے میں اور اس کے Source of information(ذرائع) کے بارے میں۔” اس نے بے دلی سے برگر اٹھایا۔
”جنید کو استعمال کرنا عمر جیسے آدمی کے لیے کیا مشکل ہے۔ میں بھی حیران تھی کہ جنید آخر اس سارے معاملے میں اتنی دلچسپی کیوں لے رہا ہے۔ اسے آخر میرے ایک عدد کزن کے ساتھ کیوں ہمدردی ہو رہی ہے۔ کزن بھی وہ جسے وہ ٹھیک سے جانتا بھی نہیں۔”
علیزہ نے ایک بار پھر ان دونوں پر نظر ڈالی۔
”میرا اندازہ کتنا غلط تھا، میں سوچ رہی تھی شاید عباس نے جنید کو پریشرائز کیا ہوگا کیونکہ جنید کی ایک بہن کے ساتھ اس کی دوستی تھی مگر میں تو احمق تھی۔ مجھے پتا ہونا چاہیے تھا کہ عمر اتنا گرا ہوا شخص ہے کہ وہ خود بھی اس معاملے میں جنید سے بات کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرے گا۔ ” اس کا چہرہ بری طرح سرخ ہو رہا تھا۔
”میں اب سوچتی ہوں شہلا! میں بہت خوش قسمت تھی جو اس شخص نے مجھے ریجیکٹ کر دیا ورنہ میں اس جیسے خود غرض اور گھٹیا آدمی کے ساتھ زندگی کیسے گزار سکتی تھی۔”
”ریلیکس اتنے غصے میں آنے کی ضرورت نہیں ہے، ہم یہاں انجوائے کرنے آئے ہیں۔ مزید ٹینشن لینے تو نہیں۔” شہلا نے اسے ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔
”تم جانتی ہو اس شخص کی وجہ سے پہلی بار جنید کے ساتھ میرا جھگڑا ہوا ہے۔” وہ اب بات کرتے ہوئے تقریباً روہانسی ہو گئی۔ ”اس کی وجہ سے وہ مجھ سے ناراض ہو گیا ہے مگر اس کو تو ذرہ برابر بھی اس بات کی پروا نہیں ہو گی۔”
”مگر اس معاملے میں اب تم کیا کر سکتی ہو، جنید تم سے پوچھ کر تو ہر کام نہیں کرے گا۔ ” شہلا نے کہا
”ہاں مجھ سے پوچھ کر ہر کام نہیں کرے گا مگر میں چاہتی ہوں جنید عمر سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہ رکھے، وہ کبھی اس سے نہ ملے۔ ” اس نے ایک بار پھر ان کی طرف دیکھا ”اور تم دیکھو، جنید نے ایک بار بھی مجھے یہ نہیں بتایا کہ عمر مسلسل اس سے رابطے میں ہے۔” اس نے تلخی سے کہا۔
”ایک بار بھی اس نے مجھ پر یہ ظاہر نہیں کیا کہ وہ یہ سب کچھ عمر کے کہنے پر کر رہا ہے۔ میں نے جب اس سے عباس کا ذکر کیا بھی تو اس نے مجھے نہیں بتایا کہ وہ یہ سب کچھ عباس کے نہیں خود عمر کے کہنے پر کر رہا ہے اور جنید…جنید کبھی بھی مجھ سے کوئی بات نہیں چھپاتا تھا مگر عمر…صرف اس کی وجہ سے یہ سب کچھ ہو رہا ہے یقیناً اس نے جنید سے کہا ہوگا کہ وہ مجھے اس سے ہونے والی گفتگو کے بارے میں نہ بتائے۔” وہ اب کڑی سے کڑی جوڑ رہی تھی۔
”تمہیں ایک مشورہ دوں علیزہ؟” شہلا نے اچانک اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”کیا؟” علیزہ نے چونک کر اسے دیکھا۔
”تم ان سب باتوں کو جانے دو۔” شہلا نے کہا۔
” کن باتوں کو جانے دوں؟”
”ان دونوں کے میل میلاپ کو۔ ” شہلا نے سنجیدگی سے کہا۔ ”تمہارے اعتراض کرنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ تو کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ تم اعتراض کرو ہی نہ۔”
”کیوں اعتراض نہ کروں…عمر کو اس کے ساتھ رابطہ کرنے کا کیا حق پہنچتا ہے، جنید کو استعمال کرنے کا کیا حق پہنچتا ہے۔ اس کو شرم آنی چاہیے۔” علیزہ نے غصے کے عالم میں اپنی گردن ہلاتے ہوئے کہا۔
”اگر جنید نے تم سے صاف صاف یہ کہہ دیا کہ عمر اس سے یوں ہی ملا تھا۔ تو…؟” شہلا نے دوٹوک انداز میں کہا ”اور ہو سکتا ہے وہ دونوں آج یہاں اتفاقاً ہی مل گئے ہوں۔”
”اتفاقاً…تم ان دونوں کو دیکھو جس طرح یہ لوگ ہنس ہنس کر آپس میں باتیں کر رہے ہیں، کیا یہ ہو سکتا ہے کہ اتفاقاً ہی ملے ہوں۔ جنید کبھی پہلی ملاقات میں کسی کے ساتھ اتنی بے تکلفی کا مظاہرہ نہیں کرتا اور نہ ہی عمر۔۔۔” اس نے شہلا کی بات کو یکسر رد کر دیا۔ ”یہ دونوں آج اتفاقاً نہیں ملے ہیں۔ میں اتنی بے وقوف تو نہیں ہوں کہ اتفاقی ملاقات کو جج نہ کر سکوں۔”
”ملنے دو…دفع کرو دونوں کو۔” شہلا نے اس بار کچھ الجھے ہوئے انداز میں کہا۔ علیزہ نے اس کے لہجے پر غور نہیں کیا۔
”کیوں ملنے دوں ان دونوں کو…میں نہیں چاہتی جنید اس جیسے آدمی سے ملے۔ میں نہیں چاہتی جنید اس جیسے آدمی کے ہاتھوں استعمال ہو۔”
شہلا نے گردن موڑ کر ایک بار پھر ان دونوں کو دیکھا مگر اس بار اس کے چہرے پر سنجیدگی تھی۔ وہ جیسے کسی سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی کچھ دیر ان دونوں کو دیکھتے رہنے کے بعد اس نے کہا۔
”یہ سارا قصہ تو اب ویسے بھی ختم ہو ہی گیا ہے۔ عمر کو معطل کیا جا چکا ہے اور اس کے خلاف انکوائری ہو رہی ہے۔ اب وہ اور کیا جنید کو استعمال کرے گا۔ تم اگر جنید کو منع نہ بھی کرو تب بھی میں نہیں سمجھتی کہ وہ زیادہ عرصے جنید سے ملتا رہے گا۔ آخر اب اور کیا لینا ہے اسے جنید سے یا تم سے The cat is already out of the bag (بلی اب تھیلے سے باہر آچکی ہے) وہ کچھ سوچتے ہوئے بولی۔
”ویسے بھی تم اتنی Dominating (حاوی) نہیں ہو کہ جنید کو کسی بات پر مجبور کر سکو۔ یہ بھی سوچو کہ اگر تم اس کی بات ماننے سے صاف صاف انکار کر سکتی ہو تو کیا وہ تمہاری بات مانے گا۔ وہ تم سے یہ نہیں کہے گا کہ اب تم کیوں اس کو اپنی مرضی پر چلانے کی، اس کے فیصلوں کو بدلنے کی کوشش کررہی ہو۔” شہلا نے جیسے تنبیہ کرنے والے انداز میں اس سے کہا۔
”میں اس کو اپنی مرضی پر چلانے کی کوشش نہیں کر رہی اور نہ ہی آئندہ کبھی کروں گی اور dominate کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا مگر میں عمر کو پسند نہیں کرتی۔ اسے اس بات کا پتا ہونا چاہیے اور اسے میری پسند یا ناپسند کا احترام کرنا چاہیے۔” اس بار علیزہ کا انداز کچھ مدافعانہ تھا۔
”یہ تو وہ پہلے ہی جان چکا ہوگا کہ تم عمر کو ناپسند کرتی ہو۔ میرا خیال ہے یہ بات تو اس کے لیے کوئی راز نہیں ہو گی مگر اب اگر وہ اس سے ملتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اسے ناپسند نہیں پسند کرتا ہے۔ پھر اگر اس نے تم سے یہ کہا کہ تمہیں بھی اس کی پسند اور ناپسند کا احترام کرنا چاہیے تو؟”
علیزہ اسے گھورنے لگی۔ ”تم عمر کو جانتے ہوئے بھی اس طرح کی بات کہہ رہی ہو؟”
”ہاں عمر… میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جس کو جنید ناپسند کرے۔ تم عمر کو کیوں ناپسند کرتی ہو۔ اس کی وجوہات بھی دوسری ہیں، صرف صالحہ والا معاملہ تو اس کی وجہ نہیں ہے۔” شہلا نے اطمینان سے برگر کھاتے ہوئے کہا۔ علیزہ کچھ لمحوں کے لیے کچھ نہیں بول سکی۔
”پھر میں عمر سے بات کروں گی۔ میں اس سے کہوں گی کہ وہ جنید سے ملنا چھوڑ دے۔” علیزہ نے ایک بار پھر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا۔
”آخر تم دفع کیوں نہیں کرتیں اس سارے معاملے کو، وہ اس سے ملتا ہے ملنے دو۔ ضروری نہیں ہے کہ ان کے ملنے کی وجہ وہی ہے جو تم سمجھ رہی ہو۔” اس بار شہلا نے قدرے چڑ کر کہا۔ ”ہو سکتا ہے وہ کسی اور وجہ سے آپس میں ملتے ہو۔”
”میں چاہتی ہوں یہ جنید سے ایسے ویسے کیسے بھی نہ ملے۔ میں چاہتی ہوں جنید اس کی شکل تک نہ دیکھے۔” علیزہ بری طرح مشتعل ہو گئی۔
”تم بہت بدل گئی ہو علیزہ۔” شہلا نے یکدم اس سے کہا۔
”کیا مطلب؟” علیزہ نے اسے ناراضی سے دیکھا۔
”پانچ سال پہلے تم کیسی تھیں اور اب کیسی ہو؟ اتنا غصہ اور ضد تو کبھی نہیں کیا کرتی تھیں تم…پھر اب کیا ہو گیا ہے؟”
علیزہ نے جواب دینے کے بجائے اپنے سامنے پڑا ہوا برگر کھانا شروع کر دیا۔
”کتنی جلدی غصہ آ جاتا ہے تمہیں…اور پچھلے ایک سال سے تو تم…آخر ہو کیا رہا ہے تمہیں؟” شہلا اب جیسے اسے ڈانٹ رہی تھی۔
”کچھ نہیں ہو رہا مجھے، میں ایسی ہی تھی ہمیشہ سے۔” اسے شہلا کی بات پر اور غصہ آیا ”کیا ہونا ہے مجھے پچھلے ایک سال میں۔ میں بہت خوش ہوں اور میں آخر خوش کیوں نہیں ہوں گی۔ جنید جیسے آدمی کا ساتھ کسی بھی لڑکی کے لیے خوشی کا باعث ہو سکتا ہے اور ملک کے سب سے بڑے اخباروں میں سے ایک کے لیے کام کر رہی ہوں۔ لوگ میرا نام پہچانتے ہیں اور تم کہہ رہی ہو کہ میں غصہ کرتی ہوں۔ کیوں کروں گی میں غصہ، میں اپنی کامیابیوں کو انجوائے کر رہی ہوں۔” اس نے اپنا برگر پلیٹ میں پٹخ دیا۔ ”چاہے تمہیں یا اور کسی کو اس کا یقین آئے یا نہ آئے مگر یہ سچ ہے کہ میں بہت خوش ہوں اور میں اپنی زندگی سے بہت مطمئن ہوں اور میں اپنی کامیابیوں پر فخر کرتی ہوں بس یا اور کچھ ۔۔۔”
”میں نے یہ سب کچھ تو نہیں پوچھا تھا۔” شہلا نے مدھم آواز میں کہا۔ ”میں نے تو صرف یہ پوچھا تھا کہ اتنی غصیلی کیوں ہو گئی ہو تم، اتنی جلدی غصہ کیوں آتا ہے تمہیں۔ ضد کیوں کرنے لگی ہو اتنی؟ میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ تم مجھے اپنی کامیابیوں اور فتوحات کی داستان سنانی شروع کر دو۔
”تم کیا چاہتی ہو شہلا! میں اسی طرح ڈفر اور ڈل رہتی، جس طرح پانچ سال پہلے تھی۔ آنکھوں پر پٹی اور منہ پر ٹیپ لگا کر پھرتی جس طرح دس سال پہلے پھرتی تھی، فار گاڈ سیک میں بے وقوف نہیں رہی ہوں۔ عقل اور سمجھ آ گئی ہے مجھ میں…عمر جیسے لوگوں کی انجوائے منٹ کا سامان نہیں بن سکتی میں، نہ کوئی اب مجھے استعمال کر سکتا ہے اور تو کچھ نہیں بدلا۔۔۔” اس نے تلخی سے کہا۔
شہلا نے جواب میں کچھ کہنے کے بجائے صرف اس کو ایک بار غور سے دیکھا۔
”اس طرح مت دیکھو مجھے۔ میں اب بھی تمہیں کوئی داستان امیر حمزہ نہیں سنا رہی ہوں۔” علیزہ نے برگر کی ٹرے اپنے آگے سے خفگی کے عالم میں ہٹا دی۔
”اچھا نہیں دیکھتی تمہیں بیٹھ کر کھانا تو کھاؤ۔” شہلا نے اٹھتے دیکھ کر کہا ”کم از کم اب اس طرح منہ اٹھا کر یہاں سے مت جاؤ۔”
”نہیں اب مجھے یہاں نہیں رکنا، میں نے جتنا کھانا تھا کھا لیا…تم کھانا چاہو تو کھاؤ، میں باہر گاڑی میں تمہارا انتظار کر لوں گی۔” اس نے اکھڑے ہوئے انداز میں اپنا بیگ اٹھاتے ہوئے کہا۔
”فار گاڈ سیک علیزہ…!مجھے تمہارے ساتھ یہاں آنا ہی نہیں چاہیے تھا۔” شہلا نے اپنی ٹرے اٹھاتے ہوئے کہا۔
”آئندہ مت آنا۔” علیزہ نے اپنا موبائل اٹھاتے ہوئے اس پر ایک نمبر ڈائل کرنا شروع کر دیا۔
”اب کسے کال کر رہی ہو؟” شہلا نے ٹھٹھکتے ہوئے کہا۔
علیزہ نے جواب نہیں دیا، وہ کھڑے کھڑے دور عمر اور جنید کو دیکھتے ہوئے نمبر ڈائل کرتی رہی۔
جنید نے موبائل کی بیپ پر اپنا موبائل اٹھا کر کالر کا نمبر دیکھا اور پھر موبائل آف کر دیا۔
”کس کی کال ہے؟” عمر نے بات کرتے کرتے رک کر اس سے پوچھا۔
”ایسے ہی ایک دوست کی۔۔۔” اس نے عمر کو ٹال دیا۔
”تم کیا کہہ رہے تھے؟” اس نے عمر کو بات جاری رکھنے کے لیے کہا۔
علیزہ نے موبائل کان سے ہٹا لیا۔
اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا تھا۔
”کیا ہوا؟” شہلا نے پوچھا۔ علیزہ نے جواب دینے کے بجائے عمر کو اور جنید کو دیکھا۔
”جنید کو کال کی ہے؟” شہلا کو اچانک خیال آیا۔
”ہاں اور اس نے کال ریسیو نہیں کی۔ جب تک یہ شخص اس کے ساتھ ہے۔۔۔” اس نے بات ادھوری چھوڑ کر اپنے ہونٹ بھینچ لیے۔
”اچھا چلو…ہم جا رہے تھے یہاں سے۔” شہلا نے اسے دھکیلتے ہوئے کہا۔ اس نے ایک ہاتھ میں اپنی ٹرے پکڑی ہوئی تھی، علیزہ اس کے ساتھ چلنے لگی مگر ساتھ چلتے ہوئے اب وہ ایک بار پھر موبائل پر کوئی نمبر ڈائل کر رہی تھی۔
”علیزہ ! بار بار نمبر ڈائل مت کرو۔ موبائل کو بیگ میں ڈالو۔ جنید ابھی بات کرنا نہیں چاہ رہا ہوگا کیونکہ وہ کھانے میں مصروف ہے اور پھر عمر کے سامنے وہ تم سے بات نہیں کرنا چاہ رہا ہوگا۔”
عمر نے حیرانی سے اپنے موبائل پر نمودار ہونے والا نمبر دیکھا اور پھر جنید کو۔
”کیا ہوا؟” جنید نے اس کے چہرے کے تاثرات دیکھتے ہوئے کہا۔
”علیزہ کال کر رہی ہے۔” عمر نے کال ریسیو کرتے ہوئے کہا مگر اس کے ہیلو کہتے ہی دوسری طرف سے موبائل بند ہو گیا۔
”بات نہیں کی تم نے؟” جنید نے اس سے پوچھا۔
”نہیں بند کر دیا اس نے۔” عمر نے کچھ الجھے ہوئے انداز میں کہا۔
”اس کی کال پر اتنے حیران کیوں ہو رہے ہو تم؟” جنید نے کہا۔
”کیونکہ بہت عرصہ بعد اس نے آج اچانک موبائل پر مجھے کال کی ہے۔” عمر اب بھی الجھا ہوا تھا۔ جنید یکدم کھانا کھاتے کھاتے رک گیا۔
”تمہیں کیا ہوا؟” عمر نے حیرانی سے اسے دیکھا۔
”ابھی تھوڑی دیر پہلے اس نے مجھے بھی کال کی تھی۔”
”وہ کال جو تم کسی دوست کی کہہ رہے تھے؟”
”ہاں…اب میں سوچ رہا ہوں کہ اگر وہ تمہیں موبائل پر کال نہیں کرتی تو اس طرح آج اچانک اس نے ہم دونوں کو باری باری کال کیوں کی ہے؟”
”میں جانتا ہوں اس نے کیوں بار بار ہم دونوں کو کال کی ہے۔” عمر نے اچانک اپنی ٹرے پیچھے کھسکاتے ہوئے کہا۔
”کیونکہ وہ اسی ہال میں کہیں موجود ہے اور اس نے ہم دونوں کو دیکھ لیا ہے۔” عمر نے ادھر ادھر نظریں دوڑائیں۔
”اب رش اتنا ہے کہ اس طرح بیٹھے بٹھائے تو کچھ بھی نظر نہیں آئے گا۔ کھڑے ہو کر دیکھنا چاہیے۔” عمر اپنی کرسی کھسکا کر اٹھ کھڑا ہوا اور چاروں طرف نظریں دوڑانے لگا جبکہ جنید نے ایسی کوئی زحمت نہیں کی۔ وہ اطمینان سے اسی طرح بیٹھے ہوئے ایک بریسٹ پیس کو ساس کے ساتھ کھاتا رہا۔ عمر چند منٹوں کے بعد کندھے اچکاتے ہوئے اپنی کرسی پر بیٹھ گیا۔
”مجھے ہال میں تو کہیں نظر نہیں آئی۔ حالانکہ میرے اندازے کے مطابق اسے یہیں کہیں ہونا چاہیے تھا۔”
”اگر کال کی وجہ ہم دونوں کا اکٹھے دیکھ لینا ہے تو تمہارا کیا خیال ہے کہ وہ یوں آرام سے ہمیں کال کرتی پھرے گی۔” جنید نے سو فٹ ڈرنک کا سپ لیتے ہوئے اطمینان بھرے انداز میں کہا۔ ”وہ تو ہمیں دیکھتے ہی یہاں موجود ہوتی اور مجھے بازو سے پکڑ کر اس ٹیبل سے لے جاتی۔”
عمر اس کی بات پر مسکرایا۔ ”نہیں میرا خیال ہے، وہ پہلے مجھے دو تین تھپڑ لگاتی اور اس کے بعد تمہارا بازو پکڑ کر تمہیں یہاں سے لے جاتی۔” اس بار جنید اس کی بات پر مسکرایا اور ٹشو سے اپنا منہ صاف کرنے لگا۔
”اس کے باوجود میرا خیال ہے وہ یہیں کہیں ہے۔” عمر اب سو فٹ ڈرنک کے سپ لیتے ہوئے اپنے اطراف میں نظریں دوڑاتا ہوا کہہ رہا تھا۔
”اگر تمہارا اندازہ ٹھیک ہے تو مجھ سے اس کی شکایتوں میں ایک اور شکایت کا اضافہ ہو گیا ہے اور آج رات کو وہ ایک بار پھر مجھے فون کرے گی اور مجھ سے تمہارے ساتھ ہونے والی میری ملاقات کے بارے میں پوچھے گی۔ اس کا مطلب ہے مجھے پہلے ہی خاصا خبردار ہو جانا چاہیے۔” جنید نے اطمینان سے کہا۔
”اور اچھا ہی ہوا مجھے یہ پتا چل گیا ورنہ میں پھر اس بارے میں اس سے جھوٹ بولتا۔”
اس نے کندھے اچکاتے ہوئے عمر سے کہا۔ عمر نے اس کی بات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا، وہ سوفٹ ڈرنک کے سپ لیتے ہوئے اب کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔
شہلا نے علیزہ سے فون چھین کر آف کر دیا اور اس کے بیگ میں ڈال دیا وہ اب کے ایف سی کی سیڑھیوں سے اتر رہی تھیں۔
”عمر کو فون کرنے کی کیا تُک بنتی ہے۔ اسے فون کرکے تم کیا کہو گی؟” اس نے علیزہ کو سرزنش کرنے والے انداز میں کہا۔
”جوبھی دل میں آئے گا میں کہوں گی۔”
”اور اس نے سب کچھ جنید کو بتا دیا تو؟”
”کیا بتائے گا وہ جنید کو؟”
”اس کے پاس بتانے کے لیے خاصا کچھ ہے۔” شہلا نے رک کر اسے دیکھا۔
”مثلاً کیا ہے اس کے پاس؟”
”وہ جنید کو اپنے لیے تمہاری ناپسندیدگی کی وجہ بتا دے گا۔”
”جنید پہلے ہی جانتا ہے کہ میں اسے کیوں ناپسند کرتی ہوں۔” علیزہ اس کی بات سے متاثر ہوئے بغیر بولی۔
”نہیں جنید نہیں جانتا…اگر جانتا ہوتا تو۔۔۔”
شہلا نے بات ادھوری چھوڑ دی، وہ دونوں اب پارکنگ میں اپنی گاڑی کے پاس پہنچ چکی تھیں۔
”جنید اچھی طرح جانتا ہے، میں سب کچھ بتا چکی ہوں اسے۔”
”کیا بتا چکی ہو؟” شہلا نے درشتی سے گاڑی کے پاس رکتے ہوئے کہا۔
”میں عمر کو اس کی حرکتوں کی وجہ سے پسند نہیں کرتی۔” علیزہ نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا۔
”اس کے باوجود تم اس سے شادی کرنا چاہتی تھیں، یہ پتا ہے جنید کو؟”
علیزہ جواب میں کچھ نہیں بول سکی۔
”تمہاری ناپسندیدگی کی اصل وجہ یہ ہے کہ اس نے تم سے شادی نہیں کی۔”
”ایسا نہیں ہے۔” علیزہ نے کمزور آواز میں کہا۔
”ایسا ہی ہے علیزہ! چاہے تم اسے مانو یا نہ مانو اور اگر تمہاری حرکتوں کی وجہ سے عمر نے جنید کو یہ بات بتا دی تو نتائج کا اندازہ تم کر سکتی ہو۔ ” شہلا نے گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا۔
”کیامطلب ہے تمہاری اس بات کا۔” علیزہ نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔
”یہ مطلب ہے کہ تم اپنے دماغ کو استعمال کیا کرو اور کوئی بھی کام کرنے سے پہلے اس کے بارے میں دوبار سوچا کرو۔۔۔” شہلا نے اس بار تیز آواز میں کہا۔
”کیا بتا دے گا وہ اسے، میرے بارے میں ؟ کون سی قابل اعتراض بات ہے جو…” شہلا نے اس کی بات کاٹ دی۔
”قابل اعتراض ہونے کا فیصلہ تم نہیں جنید کرے گا اور اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ عمر اسے کس طرح ساری بات بتاتا ہے۔”
علیزہ کچھ دیر اسے دیکھتی رہی پھر سر جھٹک کر گاڑی کا دروازہ کھول کر اندر بیٹھ گئی۔ اس کے ہونٹ بھینچے ہوئے تھے۔
”اب چلیں یہاں سے؟” شہلا نے اس کے چہرے کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
”تم کو ایک بات بتاؤں۔” علیزہ نے یکدم گردن موڑ کر شہلا سے کہا۔
”عمر ایک انتہائی کمینہ اور گھٹیا آدمی ہے، وہ بے حد خودغرض شخص ہے، اس کی نظر میں کسی چیز کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔” وہ بات کرتے کرتے لمحہ کے لیے رکی ”مگر اس نے آج تک میری کوئی بات کسی سے نہیں کہی۔ مجھے اس سے یہ خوف کبھی محسوس نہیں ہوا کہ وہ میرا کوئی راز کسی تیسرے آدمی کو بتا دے گا۔ اس نے میرے ساتھ ایسا کبھی کیا ہی نہیں اور تمہیں ایک اور بات بتاؤں۔۔۔”
وہ ایک لحظہ کے لیے پھر رکی۔ ”وہ اگر جنید کو یہ بات بتا دے گا تو جنید پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔ تم جس بات سے مجھے ڈرا رہی ہو مجھے اس سے اس لیے خوف محسوس نہیں ہوتا کیونکہ میں جانتی ہوں جنید مجھے اتنی معمولی سی بات پر کبھی نہیں چھوڑے گا۔”
شہلا اس کی بات کے جواب میں کچھ نہیں کہہ سکی۔ علیزہ اب ونڈ سکرین سے باہر نظر آنے والی کے ایف سی کی عمارت کو دیکھ رہی تھی۔
رات کو جنید نے اسے فون کیا تھا مگر علیزہ نے فون پر اس سے بات نہیں کی، وہ شاید اس کال پر بہت خوش ہوتی اگر وہ چند گھنٹے پہلے ان دونوں کو وہاں بیٹھے اور پھر جنید کے اس کی کال کو اس طرح نظر انداز کرتے نہ دیکھ چکی ہوتی۔
”آپ اس سے کہہ دیں کہ میں اس سے بات نہیں کرنا چاہتی۔ میں مصروف ہوں جب فرصت ملے گی تو اس سے بات کر لوں گی۔” اس نے بڑی بے رخی کے ساتھ اپنے کمرے میں پیغام لے کر آنے والے ملازم سے کہا۔ ملازم نے حیرانی سے اسے دیکھا اور واپس آگیا۔
جنید کی اگلی کال اس کے موبائل پر آئی تھی۔ اس نے موبائل پر اس کا نمبر دیکھ کر موبائل آف کر دیا، جنید نے اس کے بعد کال نہیں کی۔
اگلے روز صبح جنید نے اس وقت کال کی جب وہ ناشتہ کر رہی تھی۔ اس نے ایک بار پھر موبائل آف کر دیا۔ جنید نے دوبارہ گھر کے فون پر کال کی۔ اس بار فون نانو نے اٹھایا۔ سلام دعا کے بعد انہوں نے کہا۔
”علیزہ ناشتہ کر رہی ہے، میں اسے بلواتی ہوں۔”
پھر انہوں نے ماؤتھ پیس پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسے آواز دی۔ وہ کچھ دیر کانٹا ہاتھ میں پکڑے کچھ سوچتی رہی پھر کانٹے کو پلیٹ میں پٹخ کر فون کی طرف آگئی، نانو سے فون لیتے ہی اس نے کسی سلام دعا کے بغیر چھوٹتے ہی کہا۔
”میں آفس کے لیے نکل رہی ہوں، آج آفس میں بہت کام ہے مجھے …اور مجھے وہاں جلدی پہنچنا ہے۔ اس لیے بہتر ہے آج آپ مجھے فون نہ کریں ،میں رات کو بھی دیر سے گھر واپس آؤں گی اور آتے ہی سو جاؤں گی۔ کوشش کروں گی کہ کل آپ سے کچھ بات کروں۔”
”نہیں اس کی ضرورت نہیں ہے، کل میں بہت مصروف ہوں گا اور میں تمہیں بالکل بھی ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتا جب تمہیں فرصت ملے تب بات ہو جائے گی۔”
دوسری طرف سے فون رکھ دیا گیا۔ جنید کی آواز میں کوئی گرم جوشی نہیں تھی، وہ جان گئی تھی کہ جنید کو اس کی بات بری لگی ہے مگر اس وقت اسے اس پر اتنا غصہ آ رہا تھا کہ اسے اس بات کی کوئی پروا نہیں تھی۔
”ہر بار اسے میں ہی فون کروں۔ ہر بار اسے میں ہی مناؤں …اور یہ ، یہ ہر بات مجھ سے چھپاتا رہا یہاں تک کہ عمر سے میل جول بھی ۔ عمر کے سامنے اس نے مجھ سے بات تک کرنا پسند نہیں کیا۔ فون بند کر دیا۔ یہ اہمیت ہے اس کی نظر میں میری۔”
وہ بری طرح کھولتی رہی۔ جنید پر اسے پہلے کبھی اتنا غصہ نہیں آیا تھا۔ اس کا خیال تھا جنید جیسے مزاج اور عادات والے شخص پر اسے غصہ آ ہی نہیں سکتا یا کم از کم اس طرح کا غصہ نہیں، جیسا غصہ وہ اس وقت اپنے اندر محسوس کر رہی تھی۔
جنید نے اگلے دن اسے فون نہیں کیا۔ رات کو جب وہ یہ طے کر رہی تھی کہ وہ بھی آئندہ اسے اس وقت تک فون نہیں کرے گی جب تک وہ خود اسے فون نہیں کر لیتا تو اچانک جنید نے اسے موبائل پر کال کر لیا۔ اس کا لہجہ اتنا پرسکون اور خوشگوار تھا کہ علیزہ کو جیسے حیرانی کا ایک جھٹکا لگا۔
”تو جناب…کیا ہو رہا ہے؟” رسمی سلام دعا کے بعد اس نے علیزہ سے پوچھا۔ کچھ دیر کے لیے وہ سمجھ ہی نہیں پائی کہ وہ کیا جواب دے۔ وہاں دوسری طرف لگ ہی نہیں رہا تھا کہ ان کے درمیان کوئی ناراضی ہوئی تھی۔
”کچھ نہیں، میں سونا چاہ رہی تھی۔” اس نے کچھ دیر سوچتے رہنے کے بعد کہا
”تم نے اتنے دن سے مجھ سے بات نہیں کی۔ تمہیں محسوس نہیں ہوا۔ اب تم سونے جا رہی ہو۔” جنید نے جیسے افسوس کا اظہار کیا۔ ”مجھ سے ناراض ہو کر نیند آ جاتی ہے تمہیں؟”
”ہاں بالکل آ جاتی ہے۔”
دوسری طرف وہ ہنسا۔ ”شکر ہے تم نے یہ نہیں کہا…بلکہ پہلے سے زیادہ اچھی آتی ہے۔”
”نہیں پہلے ہی کی طرح آتی ہے۔”
”یعنی میری ناراضی نے تمہارے معمولات پر کوئی اثر نہیں ڈالا؟”
”اگر آپ میری ناراضی سے متاثر نہیں ہوئے تو میں کیوں متاثر ہوں گی۔”
”یہ کس نے کہا ہے کہ میں تمہاری ناراضی سے متاثر نہیں ہوا۔ کھانا پینا چھوڑا ہوا ہے میں نے۔” دوسری طرف سے بظاہر سنجیدگی سے کہا گیا۔ علیزہ کو غصہ آیا۔
”گھر سے نکلنا تک بند کر دیا ہے، اس کے علاوہ اور کیا اثرات ہوتے ہیں؟”
”آپ نے مذاق اڑانے کے لیے فون کیا ہے؟”
”ارے…کس کا مذاق اڑا رہا ہوں میں؟”
”انسان اگر کھانا وغیرہ کھا لے، باہر بھی آتا جاتا رہے مگر دوسروں کو دھوکا دینے کی کوشش نہ کرے تو باہمی تعلقات کے لیے یہ بہتر نہیں ہے۔”
”یہ تم میرے بارے میں کہہ رہی ہو؟” اس بار جنید نے سنجیدگی سے کہا۔
”آپ اپنے بارے میں بھی سمجھ سکتے ہیں۔”
”علیزہ! کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ ہم پچھلے کچھ دنوں کے واقعات کو Skip (چھوڑ) کرکے ایک دوسرے سے بات کریں؟” اس نے سنجیدگی سے کہا۔
”کیوں…؟”
”یہ ہم دونوں کے تعلقات کے لیے زیادہ بہتر رہے گا۔”
”کون سے تعلقات جنید…؟” اس نے اس بار بے صبری سے کہا۔ ”مجھے لگتا ہے کہ ہمارے درمیان اتنے لوگ ہیں کہ براہ راست والا تو کوئی تعلق شاید ہے ہی نہیں۔ آپ نے اتنے لوگوں کو اس رشتے میں فریق بنا لیا ہے کہ مجھے تو لگتا ہے ہماری کوئی پرائیویسی بھی نہیں ہے۔”
جنید نے اس کی بات کاٹ دی۔ ”تم عمر کی بات کر رہی ہو۔ میں جانتا ہوں۔”
”یقیناً جانتے ہوں گے، آپ نہیں جانیں گے تو کون جانے گا۔” علیزہ نے اس بار ناراضی سے کہا۔ ”آپ کی تو یہ اعلیٰ ظرفی ہے کہ آپ مان رہے ہیں کہ میں عمر کی بات کر رہی ہوں اور آپ یہ بات جانتے ہیں ورنہ آپ پہلے کی طرح صاف انکار کر دیتے اور یہ کہتے کہ عمر سے کبھی آپ کی کوئی بات ہی نہیں ہوئی تو میں کیا کر سکتی تھی۔”
”کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ ہم عمر کی بات نہ کریں۔” جنید کا لہجہ یکدم خشک ہو گیا۔
”اس کی بات میں نے نہیں آپ نے شروع کی۔ اسے اپنے اور میرے درمیان آپ لے کر آئے تھے پھر اب اس کی بات کرنے سے کیوں ہچکچا رہے ہیں آپ؟”
”میں ہچکچا نہیں رہا ہوں۔ میں بس عمر کی بات نہیں کرنا چاہتا۔”
”آپ اس کے ساتھ کے ایف سی جا سکتے ہیں۔” علیزہ نے اپنی بات جاری رکھی۔ ”آپ مجھے دھوکے میں رکھ سکتے ہیں۔ آپ اس کے معطل ہونے پر مجھ سے بات کرنا بند کر سکتے ہیں مگر آپ اس کے بارے میں مجھ سے بات نہیں کر سکتے۔ آپ مجھے بے وقوف سمجھ رہے ہیں یا بے وقوف بنا رہے ہیں۔”
”تمہیں اس وقت غصہ آ رہا ہے اور غصہ میں بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔” جنید نے تحمل سے کہا۔
”جنید! مجھے غصہ نہیں آنا چاہیے۔ آپ کی غلط بیانی پر بھی مجھے غصہ نہیں آنا چاہیے۔” وہ جنید کی بات پر اور ناراض ہوئی۔
”آپ نے عمر کی وجہ سے اتنے دنوں سے مجھ سے بات کرنا چھوڑا ہوا ہے اور آپ کو لگتا ہے غصہ میں، میں ہوں۔”
”اگر میں نے بات کرنا چھوڑا ہوا تھا تو فون بھی تو میں نے کیا ہے۔” جنید نے کہا۔
”آپ نے کتنی بار فون کیا ہے، بس کل اور آج…اور…اس سے پہلے جو میں آپ کو فون کرتی رہی وہ۔۔۔”
”ہم بچوں کی طرح فضول باتوں پر لڑرہے ہیں۔ ہمیں علم ہونا چاہیے کہ ہم میچور ہیں۔ ٹین ایجر نہیں ہیں۔” علیزہ کو اس کے میچور لفظ استعمال کرنے پر بے اختیار غصہ آ گیا۔
”نہیں میں میچور نہیں ہوں، اور میں واقعی بچوں کی طرح لڑ رہی ہوں کیا یہ بہتر نہیں کہ ہم بات کرنا ختم کر دیں۔”
”علیزہ ! کیا میں ایکسکیوز کروں تم سے…؟ او کے آئی ایم سوری۔”
علیزہ کے اشتعال میں اور اضافہ ہو گیا۔ ”کیا میں نے آپ سے کہا ہے کہ آپ ایکسکیوزکریں۔ بات بھی کی ہے میں نے اس کے بارے میں، پھر آپ کیوں ایکسکیوز کررہے ہیں۔ مجھے وہ لوگ اچھے نہیں لگتے جو اس طرح خواہ مخواہ ایکسکیوز کرتے پھریں۔”
یعنی تمہیں میں اچھا نہیں لگتا؟”
”اب آپ پھر بات کو غلط رخ دے رہے ہیں۔” وہ گڑبڑائی۔
”ٹھیک ہے میں اب بات کو صحیح رخ دیتا ہوں ، تم کل کھانا کھانے چلو گی میرے ساتھ؟” جنید نے کہا۔
”نہیں۔۔۔” اس نے سوچے سمجھے بغیر کہا۔
”کے ایف سی لے کر جاؤں گا تمہیں…وہیں جہاں عمر کے ساتھ گیا تھا اور جہاں تم ہمیں دیکھنے کے بعد بھاگ گئی تھیں۔”
جنید نے اس بار شوخ لہجے میں کہا۔
”میں کہیں نہیں بھاگی تھی۔ کس نے کہا ہے کہ میں بھاگ گئی تھی؟” وہ چڑ کر بولی۔
”عمر نے بتایا ہے، اسے خاصا اندازہ ہے تمہارے ٹمپرامنٹ کا۔”
علیزہ کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ ”آپ عمر کو ہی دوبارہ وہاں لے جائیں، مجھے لے جانے کی ضرورت نہیں ہے۔”
”میں مذاق کر رہا تھا علیزہ سب، تمہارے سینس آف ہیومر کو کیا ہو گیا ہے۔ کیا اب مجھے تم کو یہ بھی بتانا پڑے گا کہ میں مذاق کر رہا ہوں۔”
”آپ مجھے کچھ بھی نہ بتائیں۔”
”اچھا تم ہمارے گھر کب آرہی ہو۔ بہت دن سے نہیں آئیں؟”
وہ کچھ دیر چپ رہی۔ ”میں آؤں گی، ابھی کچھ مصروف ہوں۔”
”علیزہ! مجھے تمہیں کچھ باتیں بتانا ہیں۔ میں چاہتا ہوں کسی دن تم میرے لیے کچھ زیادہ وقت نکالو اور اپنے غصے کو کچھ دیر کے لیے بھول جاؤ۔” جنید نے بڑی رسانیت کے ساتھ کہا۔
”کیسی باتیں؟”
”یہ میں تمہیں ابھی نہیں بتا سکتا۔ آمنے سامنے بات کرنا زیادہ بہتر رہے گا۔ اس وقت کم از کم تم فون بند کرکے گفتگو بند نہیں کر سکو گی۔”
”آپ اس بارے میں پریشان نہ ہوں، میں ابھی بھی فون بند نہیں کروں گی…آپ مطمئن ہو کر بات کر سکتے ہیں۔ ” علیزہ کو کچھ تجسس ہوا۔
”نہیں فی الحال میں تم سے یہ باتیں نہیں کر سکتا کیونکہ میں نہیں چاہتا تمہارے غصے میں مزید اضافہ ہو۔”
”نہیں میرے غصے میں اضافہ نہیں ہوگا، آپ بتا دیں۔” اس نے اصرار کیا دوسری طرف کچھ دیر خاموشی رہی۔
”ابھی مجھ میں اتنی ہمت نہیں ہے نہ ہی میں نے لفظوں کا انتخاب کیا ہے۔ کچھ دنوں کے بعد میں اس قابل ہو جاؤں گا کہ یہ دونوں کام کر سکوں۔”
اسے اندازہ نہیں ہو سکا۔ وہ اس بار بات کرتے ہوئے سنجیدہ تھا یا پہلے کی طرح مذاق کر رہا تھا مگر اس بار علیزہ نے اپنی بات پر اصرار نہیں کیا۔
”تمہارا موڈ ٹھیک ہو گیا ہے نا؟” جنید نے اس کی خاموشی پر کہا۔
”ہاں۔۔۔”علیزہ نے مختصراً جواب دیا۔
”گڈ۔” جنید نے دوسرے طرف سے جیسے اسے سراہا۔ ”ویسے آٹھ دس سال پہلے تمہیں کبھی غصہ نہیں آتا تھا۔”
علیزہ کو شہلا کی بات یاد آئی، وہ کہہ رہا تھا۔
”آٹھ دس سال پہلے تو تمہیں غصہ نہیں آتا تھا۔” علیزہ نے حیرانی سے اس کی بات سنی، جنید نے خدا حافظ کہہ کر فون بند کر دیا۔ فون رکھتے ہوئے وہ بری طرح الجھی ہوئی تھی۔
”آٹھ دس سال پہلے…جنید آٹھ دس سال پہلے کے بارے میں کیسے کچھ جان سکتا ہے۔”
علیزہ نے جنید کے گھر کے گیٹ پر ہارن بجایا، چوکیدار دروازہ کھولنے لگا وہ اس وقت اتفاقاً ہی ادھر آ گئی تھی۔ شام کے پانچ بج رہے تھے اور شہلا کے گھر سے نکلنے کے بعد اس نے اچانک ہی گاڑی کو جنید کے گھر کی طرف موڑ لیا۔ وہ کافی دن سے انکی طرف نہیں گئی تھی اور آج اسے کچھ فرصت تھی۔
چوکیدار نے گیٹ کھول دیا مگر وہ اپنی گاڑی اندر نہیں لے جا سکی۔ اس کی نظریں اندر پورچ میں کھڑی ایک گاڑی پر جم گئی تھیں۔ چند لمحوں تک اسے یقین ہی نہیں آیا تھا کہ وہ عمر جہانگیر کی ذاتی گاڑی کو وہاں دیکھ رہی تھی مگر پھر اس کے اندر غصے کی ایک لہر سی اٹھی۔ سرخ چہرے کے ساتھ ایک جھٹکے سے وہ گاڑی اندر لے گئی، عمر کی گاڑی کے بالکل پیچھے اس نے اپنی گاڑی کو کھڑا کر دیا ۔ وہ ابھی اپنی گاڑی سے نکل رہی تھی جب اس نے عمر کو لاؤنج کا دروازہ کھول کر باہر نکلتے دیکھا۔ اس کی نظر علیزہ پر پڑی اور ایک لمحہ کے لیے وہ ٹھٹھک گیا مگر اس کے بعد اس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ نمودار ہوئی اور اس مسکراہٹ نے علیزہ کو اور مشتعل کیا تھا۔ اسے یوں محسوس ہوا تھا جیسے عمر اس کا منہ چڑا رہا ہو۔ منگنی کی رات کے بعد ان دونوں کی اب ملاقات ہو رہی تھی اور جن حالات میں ہو رہی تھی وہ کم از کم علیزہ کے لیے قابل قبول نہیں تھے۔
”ہیلو علیزہ !” عمر نے اس کے قریب آ کر کہا۔
علیزہ نے اسے سرد مہر ی سے دیکھا۔ ”تم یہاں کیا کررہے ہو؟” کسی لگی لپٹی کے بغیر اس نے عمر سے پوچھا۔
عمر کو شاید اس سے اس طرح کے سوال کی توقع نہیں تھی۔
”میں…میں ویسے ہی آیا ہوں یہاں۔” عمر نے جیسے سنبھلتے ہوئے کہا۔
”وہی پوچھ رہی ہوں…تم یہاں ویسے بھی کیوں آئے ہو؟” علیزہ کا خون کھول رہا تھا۔ چند ہفتے پہلے صالحہ کا انکشاف ایک بار پھر اس کے کانوں میں گونج رہا تھا۔
”کیا ہوا علیزہ! اتنی روڈ کیوں ہو رہی ہوں؟” عمر نے جیسے اس کے اشتعال کو کم کرنے کی کوشش کی۔
”میں تم سے یہ پوچھ رہی ہوں کہ تم ”میرے” گھر میں کیا کر رہے ہو؟” علیزہ نے ”میرے” پر زور دیتے ہوئے کہا اور عمر چند لمحوں کے لیے کچھ نہیں بولا یا شاید بول نہیں سکا پلکیں جھپکا ئے بغیر وہ علیزہ کے چہرے کو دیکھتا رہا جو بری طرح سرخ ہو رہا تھا۔
”تم یہاں کیوں؟ اس کا جواب دے سکتے ہو؟ نہیں، کوئی جواب نہیں ہے نا تمہارے پاس؟” وہ اب استہزائیہ انداز میں کہہ رہی تھی۔ ”دوسروں کی زندگی برباد کرنے کے لیے ہر جگہ منہ اٹھا کر پہنچ جاتے ہو؟” اس کے ہونٹ اور آواز بری طرح لرز رہی تھی۔
”علیزہ !” عمر اس کی بات پر دم بخودرہ گیا۔
”تم سے عمر! تم سے برداشت ہی نہیں ہوتا کہ میں ایک اچھی پرسکون زندگی گزار سکوں۔”
”پتہ نہیں کیوں برباد کرنا چاہتے ہو تم مجھے۔ پتا نہیں میں نے کیا بگاڑا ہے تمہارا۔”
”علیزہ! تمہیں کوئی غلط فہمی ہو رہی ہے۔” عمر نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”مجھے غلط فہمی ہو رہی ہے…مجھے؟ ایسا ہے تو تم یہاں کیوں آئے ہو…؟” اس نے بمشکل خود کو چلانے سے روکا۔
”میں یہاں۔۔۔” عمر نے کچھ کہنے کی کوشش کی مگر علیزہ نے اس کی بات کاٹ دی۔” یہ میرا گھر ہے عمر…! کم از کم یہ وہ جگہ ہے جہاں سے میں تمہیں دھکے دے کر نکلوا سکتی ہوں۔” وہ اب گیٹ کی طرف اشارہ کر رہی تھی۔ ”یہ نانو کا گھر نہیں ہے جسے میں تمہارے ساتھ شیئر کرنے پر مجبور تھی۔ جہاں تم اپنا حق جتا سکتے تھے۔”
”میں یہاں کوئی حق جتانے نہیں آیا۔” عمر نے اس کی بات کاٹ دی ”اور میں نے کبھی گرینی کے گھر پر بھی کوئی حق نہیں جتایا۔” اس کی آواز پرسکون تھی۔ ”تم مجھ پر کم از کم یہ الزام عائد نہیں کر سکتیں۔ میں بہت اچھی طرح جانتا ہوں کہ یہ گھر تمہارا ہے اور تم مجھے یہاں سے دھکے دے کر نکلوا سکتی ہو۔”
وہ عجیب سے انداز میں مسکرایا۔
”مگر اس کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ میں اس کے بغیر ہی یہاں سے چلا جاتا ہوں، ابھی اتنی تہذیب تو باقی ہے مجھ میں کہ میرے ساتھ کسی کو زبردستی نہ کرنا پڑے۔” وہ مدھم آواز میں بولا۔
”تم میں جتنی تہذیب ہے میں جانتی ہوں۔” علیزہ نے تلخ لہجے میں کہا۔ ”بلکہ مجھ سے زیادہ یہ بات تو کوئی جان بھی نہیں سکتا۔” عمر نے غور سے اس کا چہرہ دیکھا اور پھر مڑنے لگا۔
”تم دوبارہ کبھی اس گھر میں مت آنا۔”
عمر مڑتے مڑتے رک گیا۔
”کبھی بھی نہیں۔ عمر جہانگیر نام کے کسی شخص کو میں نہیں جانتی اور نہ ہی میں جاننا چاہتی ہوں۔”
عمر کے چہرے پر ایک سایہ سا گزرا۔ ”ٹھیک ہے…اور کچھ؟” اس نے بہت سکون سے علیزہ سے پوچھا۔
”اب تم یہاں سے چلے جاؤ۔” علیزہ نے اکھڑ انداز میں کہا۔ وہ واپس مڑ گیا علیزہ وہاں نہیں رکی۔ وہ لمبے قدموں کے ساتھ لاؤنج کا دروازہ کھول کر اندر چلی آئی۔
جنید کی امی نے بڑی خوش دلی کے ساتھ اس کا استقبال کیا۔
”ابھی تمہارا کزن آیا ہوا تھا۔” انہوں نے بڑے سرسری انداز میں کہا۔
”ہاں میں ملی ہوں باہر پورچ میں۔” علیزہ نے مسکرانے کی کوشش کی۔
”تمہارا چہرہ کیوں سرخ ہو رہا ہے؟” انہوں نے اچانک چونک کر علیزہ کو دیکھا۔
”کچھ نہیں بس ایسے ہی۔۔۔” علیزہ نے بہانہ بنایا۔ ”آپ عمر کے بارے میں بات کر رہی تھیں۔” علیزہ نے بات کا موضوع بدلا۔
”وہ کس لیے یہاں آیا تھا؟” علیزہ نے ان سے پوچھا۔
”وہ بس ویسے۔۔۔” جنید کی امی روانی سے کچھ کہتے کہتے رک گئیں۔ ”یہ تو اس نے مجھے نہیں بتایا شاید جنید سے ملنے آیا ہوگا۔” جنید کی امی نے کہا۔
”ویسے اچھا ہے…کیوں علیزہ؟” جنید کی امی نے اس کی رائے لی۔
”عباس بھائی بھی آتے رہے ہوں گے پچھلے دنوں؟” علیزہ نے ان کے سوال کو گول کرتے ہوئے پوچھا۔
”عباس…کون؟” جنید کی امی کچھ الجھیں علیزہ نے حیرانی سے انہیں دیکھا۔
”جنید کے دوست ہیں…وہ بھی میرے کزن ہیں انکل ایاز کے بیٹے۔”
”ہاں…ہاں یاد آیا…بس میرے ذہن سے ہی نکل گیا۔” جنید کی امی نے کچھ گڑبڑا کر کہا۔ ”عباس تو یہاں نہیں آیا۔”
”اچھا…پھر میرا خیال ہے انہوں نے جنید سے فون پر رابطہ کیا ہوگا؟” علیزہ نے اپنا خیال ظاہر کیا۔
”ہاں ہو سکتا ہے جنید اور اس کا فون پر رابطہ ہو۔ بہرحال وہ یہاں تو نہیں آیا۔” جنید کی امی نے کہا۔
”اور یہ عمر…کیا آج پہلی بار آیا ہے؟” علیزہ نے ایک خیال آنے پر ان سے پوچھا۔
”عمر…؟” وہ ایک بار پھر کچھ کہتے کہتے رکیں۔۔۔”ہاں پہلی بار آیا ہے۔”
”کیا تمہیں اس کا آنا اچھا نہیں لگا؟” اس بار علیزہ ان کے سوال پر گڑبڑا گئی۔
”نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں ہے۔ مجھے اس کا یہاں آنا برا کیوں لگے گا؟”
”مجھے لگا کہ تمہیں برا لگا ہے۔”
”نہیں برا نہیں مجھے کچھ عجیب لگا ہے۔ عمر دراصل کہیں جاتا نہیں اس لیے۔” علیزہ نے وضاحت کرنے کی کوشش کی۔
”مگر۔۔۔” وہ ایک بار پھر کچھ کہتے کہتے رکیں اور انہوں نے علیزہ کو غور سے دیکھا۔ علیزہ کو یوں لگا جیسے ایک بار پھر وہ کچھ کہتے کہتے رکی ہیں۔
”تمہاری بہت تعریف کر رہا تھا۔”
انہوں نے چند لمحوں کی خاموشی کے بعد کہا۔ علیزہ نے جواباً کچھ نہیں کہا وہ صرف بات کرتے ہوئے انہیں دیکھتی رہی۔
”جنید کہہ رہا تھا کہ تم اسے زیادہ پسند نہیں کرتیں۔” انہوں نے یکدم اس سے کہا وہ چند لمحے کچھ نہیں کہہ سکی اسے توقع نہیں تھی کہ جنید اپنی امی سے ایسی کوئی بات کہہ دے گا اور خود جنید نے یہ اندازہ کیسے لگایا کہ میں عمر کو ناپسند کرتی ہوں۔ صرف پچھلے چند واقعات کی وجہ سے۔” وہ سوچنے لگی۔
”تم کیا سوچ رہی ہو علیزہ؟” جنید کی امی نے یکدم اس سے پوچھا۔
”نہیں کچھ بھی نہیں۔۔۔” اس نے یکدم چونک کر کہا۔
”میں نے تم سے کچھ پوچھا تھا؟” جنید کی امی نے جیسے اسے یاد دلایا۔
”میں اسے ناپسند نہیں کرتی۔ پتا نہیں جنید کو ایسا کیوں لگا۔ بس میری اس کے ساتھ انڈر سٹینڈنگ نہیں ہے مگر اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا کیونکہ ہماری ملاقات ہی بہت کم ہوتی ہے۔” وہ بے اختیار کہتی گئی۔ ”شاید زیادہ ملاقات کا موقع ملتا تو…میں انہیں پسند کرتی اور شاید وہ بھی…مگر جب اتنے عرصے ملاقات کا موقع نہ ملے تو پھر یہ چیزیں اتنی اہم نہیں رہتیں۔” اس نے مسکراتے ہوئے انہیں مطمئن کرنے کی کوشش کی اور اسے لگا کہ شاید وہ ہو بھی گئی تھیں۔
”ہاں میں بھی سوچ رہی تھی کہ آخر تم عمر کو ناپسند کیوں کرو گی…وہ تو اتنا۔۔۔”
اس سے پہلے کہ وہ اپنی بات مکمل کر پاتیں فون کی گھنٹی بجنے لگی۔ جنید کی امی چونک کر فون کی طرف متوجہ ہو گئیں۔ علیزہ نے گفتگو کا سلسلہ اس طرح ٹوٹنے پر خدا کا شکر ادا کیا۔
”میں دیکھوں کس کا فون ہے۔” وہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئیں۔
”میں فری کے پاس جا رہی ہوں…اپنے کمرے میں ہی ہے نا؟”
علیزہ نے بھی اٹھتے ہوئے کہا۔ وہ نہیں چاہتی تھی فون پر بات کرنے کے بعد وہ ایک بار پھر اس کے پاس آئیں اور موضوع گفتگو پھر عمر جہانگیر ہی ہو۔
”ہاں اپنے کمرے میں ہی ہے۔” انہوں نے کہا۔ ”ٹھیک ہے میں اس کے پاس جا رہی ہوں۔” علیزہ لاؤنج سے نکل گئی۔
وہ تقریباً ایک گھنٹہ وہاں رہی اور اس کے بعد واپس گھر آگئی مگر گھر آکر اسے پھر کوفت ہوئی تھی، عمر کی گاڑی اب وہاں کھڑی تھی۔ اسے توقع نہیں تھی کہ وہ عمر یہاں موجود ہو گا ورنہ وہ ابھی کچھ اور وقت وہاں گزارتی۔
لاؤنج میں داخل ہوتے ہی اس نے نانو اور عمر کو وہاں بیٹھے دیکھ لیا تھا۔ اس نے دوسری نظر ان پر نہیں ڈالی سلام دعا کیے بغیر وہ سیدھی وہاں سے گزرتی ہوئی اپنے کمرے میں چلی آئی اسے توقع تھی عمر کچھ دیر وہاں بیٹھنے کے بعد وہاں سے چلا جائے گا مگر ایسا نہیں ہوا تھا۔
وہ ابھی کپڑے بدل کر باتھ روم سے نکلی تھی جب اس نے دروازے پر دستک کی آواز سنی۔
”دروازہ کھلا ہے” اس نے اپنے بالوں کو ہیئر بینڈ میں جکڑتے ہوئے کہا۔ اگلے ہی لمحے دروازہ کھلا اور عمر اندر آگیا۔ وہ کچھ دیر شاکڈسی اسے دیکھتی رہی ایک ڈیڑھ گھنٹہ پہلے ہونے والے جھگڑے کے بعد اسے توقع نہیں تھی کہ وہ ابھی فوراً ہی دوبارہ اس طرح اس کے سامنے آ جائے گا۔
تم مجھے دیکھ کر حیران ہو رہی ہو؟” وہ جیسے اس کے تاثرات بھانپ گیا تھا۔
”نہیں میں نے تمہارے بارے میں حیران ہونا چھوڑ دیا ہے۔ میں تم سے کبھی بھی کسی بھی چیز کی توقع کر سکتی ہوں۔” علیزہ نے ترشی سے کہا۔
وہ دروازے سے چند قدم آگے بڑھ آیا۔ ”میں بیٹھ سکتا ہوں؟”
”ہاں بالکل جہاں چاہو…بیٹھو…اس گھر پر تمہارا حق ہے یہاں میں تمہیں اس طرح Treat نہیں کر سکتی جیسے میں نے جنید کے گھر پر کیا تھا اور یہ بات تم اچھی طرح جانتے ہو۔ پھر اس طرح فارمل کیوں ہو رہے ہوں۔ یوں جیسے تم بڑے مہذب ہو۔ جیسے ہر کام تم مجھ سے پوچھ کر کرتے ہو۔” وہ تلخی سے ہنس کر بولی۔
”ہم کچھ دیر بیٹھ کر بات کر سکتے ہیں؟” وہ کوئی ردعمل ظاہر کیے بغیر بولا۔
”نہیں میں اب تمہارے ساتھ کوئی بات کرنا نہیں چاہتی۔” علیزہ نے دوٹوک انداز میں کہا۔
”میں وجہ جان سکتا ہوں؟”
”نہیں یہ جاننا ضروری نہیں ہے۔” علیزہ نے اکھڑ انداز میں کہا۔
”مجھے ضرورت ہے۔” عمر نے اپنے لفظوں پر زور دیتے ہوئے کہا۔
”تم کسی دن آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنا چہرہ دیکھنا۔ پھر تمہیں وجہ جاننے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔”
”میں آج یہاں آئینے میں اپنا چہرہ ہی دیکھنے آیا ہوں۔ تم مجھے میرا…بقول تمہارے…اصلی چہرہ دکھاؤ۔”
”یہاں تم کیا ثابت کرنے آئے ہو؟”
”مجھے تم پر کچھ بھی ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے علیزہ !”
”Then just get out of my room” (تب آپ میرے کمرے سے تشریف لے جائیں) ”نہیں فی الحال میں یہاں سے جاؤں گا نہیں۔” عمر نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔
”میں تم سے صرف تمہارے غصے اور ناراضی کی وجہ جاننا چاہتا ہوں۔ تمہیں مجھ سے آخر کیا شکایت ہے؟” وہ کمرے کے وسط میں کھڑا کہتا گیا۔ ”آخر میں نے ایسا کیا کر دیا ہے کہ تم مجھ کو اس طرح ناپسند کرنے لگی ہو؟”
”ناپسند؟عمر…! میں تمہاری شکل تک دیکھنا نہیں چاہتی، مجھے نفرت ہے تم سے۔” وہ بلند آواز میں بولی۔
”اسی لیے آیا ہوں یہاں پر ، کیوں نفرت ہے، یہی جاننا چاہتا ہوں۔” وہ اسی طرح پرسکون انداز میں کہتا رہا۔
”میں یہ سب کچھ جنید کے گھر بھی پوچھ سکتا تھا مگر میں وہاں کوئی سین کری ایٹ کرنا نہیں چاہتا تھا مگر جو کچھ تم نے وہاں مجھ سے کہا مجھے یقین نہیں آیا۔ میں تمہارا گھر برباد کرنا چاہوں گا۔ میں؟” عمر نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ ”میں تمہیں پرسکون اور خوشگوار زندگی گزارتے نہیں دیکھ سکتا۔ مجھے سکون ملتا ہے تمہیں تکلیف پہنچا کر۔ مجھے یقین نہیں آتا۔ علیزہ کہ یہ سب تم نے میرے بارے میں کہا ہے۔”
عمر نے مایوسی سے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
”میں تمہیں…وضاحتیں دینا نہیں چاہتی۔” علیزہ نے بپھر کر کہا۔
”میں تم سے کوئی وضاحت مانگنے نہیں آیا۔ صرف پوچھنے آیا ہوں کہ تمہیں مجھ سے کیا شکایت ہے۔ تم مجھے بتاؤ تاکہ میں ایکسکیوز کر سکوں۔”
علیزہ کو اپنا خون کھولتا ہوا محسوس ہوا۔ ”تمہیں پتا ہے عمر! تم کس قدر جھوٹے، منافق اور کمینے انسان ہو۔” وہ ہونٹ بھینچے اس کا سرخ ہوتا ہوا چہرہ دیکھتا رہا۔ ”تم میں ذرہ برابر بھی انسانیت نہیں ہے۔” وہ بلند اور تیز آواز میں کہتی رہی۔
”اپنے آپ کو بچانے کے لیے تم کس حد تک گر سکتے ہو میں اس کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔ لوگوں کے پیچھے بھکاریوں کی طرح پھر رہے ہو تم اپنے آپ کو بچانے کے لیے۔”
وہ اس وقت آپے سے بالکل باہر ہو رہی تھی۔ اسے بالکل پتا نہیں تھا کہ اسے کیا کہنا چاہیے اور کیا نہیں۔
”میں بیٹھ جاتا ہوں…تم آرام سے جتنی گالیاں دینا چاہتی ہو…دو…جتنا برا بھلا کہنا چاہتی ہو، کہو” وہ صوفے کی طرف بڑھ گیا۔ علیزہ کو اس کے پرسکون لہجے نے اور مشتعل کیا۔
”تم ایک ہارڈ کور کریمنل ہو۔ بس تم نے یونیفارم پہنا ہوا ہے۔ جس دن یہ اتر جائے گا اس دن تم بھی اسی طرح کسی پولیس مقابلے میں مارے جاؤ گے جس طرح تم دوسرے لوگوں کو مارتے ہو۔”
”میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھاعلیزہ! تمہیں اتنا غصہ بھی آ سکتا ہے اور تم اس طرح چلا سکتی ہو۔”
”تم میں اور انکل جہانگیر میں کیا کیافرق رہ گیا
”ہاں میں بھول گیا تھا۔ یہاں تو میں سگریٹ پینے نہیں…گالیاں کھانے آیا ہوں۔” وہ مسکرایا۔
”تم…تم کسی سے گالیاں کھا سکتے ہو۔ اپنی مظلومیت کا ڈرامہ کیوں کر رہے ہوں؟” علیزہ کو اس کے جملے پر اور غصہ آیا۔
”میں مظلومیت کا کوئی ڈرامہ نہیں کر رہا ہوں۔” عمر کے لہجے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔” مجھے کسی ڈرامے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔”
”ہاں یہی تو میں تمہیں کہہ رہی ہوں کہ خود کو اتنا مظلوم اور بے بس ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں ہے تمہیں۔”
وہ غرائی، عمر سنجیدگی سے اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔
”جھوٹ…جھوٹ…جھوٹ…فریب، دھوکا عمر جہانگیر تم اس کے سوا اور کیا ہو؟” اس کا سکون اس وقت علیزہ کے لیے جلتی پر تیل کا کام کر رہا تھا۔
”میرے دل میں تمہارے لیے ذرہ برابر بھی عزت موجود نہیں ہے…ذرہ برابر بھی…شرم آتی ہے مجھے۔ جب لوگوں کو یہ پتا چلتا ہے کہ تم میرے کزن ہو۔ تمہارے حوالے سے تعارف پر تکلیف ہوتی ہے مجھے۔ اسی طرح کی تکلیف جتنی دس سال پہلے تمہیں اپنے باپ کے تعارف پر ہوتی تھی۔”
عمر کے چہرے کا رنگ بدلنے لگا۔
”یاد ہے نا کیا کہا کرتے تھے تم؟” وہ غرائی۔
”یاد ہے۔” عمر نے سرد آواز میں کہا۔
”ہاں یاد کیوں نہیں ہوگا تمہیں…وہی سب کچھ سامنے رکھ کر تو سٹینڈرڈ اور پیرامیٹرز سیٹ کیے ہوں گے تم نے اپنے لیے۔” وہ تلخی سے بولی۔ ”مجھے جھوٹ کا یہ معیار حاصل کرنا ہے۔ انسانیت کے اس نچلے درجے تک گرنا ہے۔ سفاکی کی اس سیڑھی پر کھڑا ہونا ہے۔ لوگوں کی زندگی کی تباہی کی یہ سٹیج حاصل کرنی ہے۔ خود غرضی اور بے ضمیری کی اس اونچی منزل پر جا کھڑا ہونا ہے۔”
اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا، عمر ہونٹ بھینچے اسے خاموشی سے دیکھتا جا رہا تھا۔
”سارے سٹینڈرڈ تو تم نے وہیں سے سیٹ کیے ہیں۔ اپنے باپ کی ریپوٹیشن کو روتے تھے تم ، اپنی ریپوٹیشن کے بارے میں جا کر پوچھو کسی سے۔ لوگ تمہارے بارے میں کیا کہتے ہیں۔”
عمر نے پلکیں تک نہیں جھپکائیں۔ وہ بالکل ساکت تھا۔ علیزہ کو اس پر ترس نہیں آیا۔ اس نے زندگی میں یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ وہ کبھی عمر جہانگیر سے اس طرح بات کرے گی۔ کبھی عمر جہانگیر سے اس طرح بات کر سکتی ہے۔
کمرے کے وسط میں کھڑے اب وہ سرخ چہرے کے ساتھ خاموشی سے اسے گھور رہی تھی۔
”کوئی جواب ہے تمہارے پاس میری باتوں کا یا نہیں…؟” وہ چند لمحے خاموش رہنے کے بعد بلند آواز میں چلائی۔
”اس سے پہلے کہ عمر کچھ کہتا کمرے کا دروازہ کھول کر نانو اندر آگئیں۔
”کیا ہو رہا ہے یہاں علیزہ…! تم دونوں آپس میں جھگڑ رہے ہو۔ باہر تک آواز آرہی ہے تمہاری۔”
انہوں نے ان دونوں کو ایک نظر دیکھنے کے بعد کہا۔ اس سے پہلے کہ علیزہ کوئی جواب دیتی عمر اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا اور نانو کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے اس نے نرمی سے انہیں باہر کی جانب دھکیلا۔
”نہیں ہم میں کوئی جھگڑا نہیں ہو رہا، ہم کچھ باتیں ڈسکس کر رہے ہیں ۔ گرینی پلیز! آپ باہر چلی جائیں، ہم ابھی بات ختم کرکے باہر آ جائیں گے۔”
نانو نے کچھ کہنے کی کوشش کی ”مگر عمر۔۔۔”
”پلیز گرینی! میں ریکویسٹ کرتا ہوں۔”
عمر نے انہیں اپنی بات مکمل نہیں کرنے دی، وہ بالآخر ہتھیار ڈالتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئیں۔
عمر ایک بار پھر صوفہ پر جا کر بیٹھ گیا۔
”میرے پاس ہر بات کا جواب ہے مگر بہتر ہے کہ پہلے تم جو کچھ کہنا چاہتی ہو کہہ لو…میں بعد میں بات کروں گا۔”
”مجھے اور کچھ نہیں کہنا، میں کہہ چکی ہوں سب کچھ۔” وہ غرائی۔ وہ صوفہ پر کچھ آگے کو جھک گیا۔
”ٹھیک ہے۔ سب سے پہلے، جھوٹ کی بات کر لیتے ہیں۔ میں نے تم سے کیا جھوٹ بولا ہے۔”
”میں تمہارے کون کون سے اور کتنے جھوٹ گنواؤں۔”
”جتنے یاد ہیں اتنے گنوا دو۔”
”اس گھر پر جسٹس نیاز نے حملہ کروایا تھا؟ مجھ پر اور نانو پر…مجھے وہ لوگ اغوا کرنا چاہتے تھے ہے نا…یہ سب تو سچ ہی ہوگا۔ اب بولو…اب کیوں نہیں بولتے، جسٹس نیاز نے حملہ کروایا تھا نا اس گھر پر؟”
”نہیں۔۔۔” عمر کے چہرے پر اب بھی سکون تھا، علیزہ کو اس کے جواب نے مزید مشتعل کیا۔
”جسٹس نیاز نے نہیں کروایا، بڑی حیرت کی بات ہے۔ تم نے تو مجھ سے یہی کہا تھا کہ جسٹس نیاز نے حملہ کروایا ہے کہا تھانا؟”
”ہاں کہا تھا۔”
”اور یہ جھوٹ نہیں ہے۔ کسی بھی طرح اسے جھوٹ نہیں کہا جا سکتا ۔”
”یہ جھوٹ تھا مگر مجھے اس جھوٹ پر کوئی شرمندگی نہیں ہے۔”
”تمہیں شرمندگی ہو بھی نہیں سکتی۔ شرمندہ ہونے کے لیے باضمیر ہونا ضروری ہے اور یہ چیز تو تمہارے پاس کبھی تھی ہی نہیں۔” عمر نے اس کے طنزیہ جملے کو نظر انداز کر دیا۔
”جسٹس نیاز والے معاملے میں تم سے جھوٹ بولا گیا ، مگر میں اکیلا نہیں تھا اس جھوٹ میں ہر ایک نے تم سے جھوٹ بولا کیونکہ تم کسی کی بات ماننے پر تیار ہی نہیں تھیں۔”
”ہر ایک سے تمہاری مراد عباس اور تم ہو؟”
”گرینی بھی۔” علیزہ کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔
”اس حملے کے بارے میں وہ پہلے سے جانتی تھیں؟” اسے اپنی آواز کسی کھائی سے آتی ہوئی محسوس ہوئی۔
”ہاں۔۔۔”
”چوکیدار کا زخمی ہونا بھی ایک ڈرامہ ہوگا۔ وہ بھی کہیں چھٹیاں گزار کر آگیا ہوگا۔”
عمر نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ”میرے rape کا جھوٹ کس نے گھڑا، یقیناً تم نے۔”
”نہیں یہ میں نے نہیں کہا ۔ مجھے اس کے بارے میں بعد میں عباس سے پتا چلا تھا اور میں نے اس پر عباس۔۔۔” علیزہ نے ہاتھ اٹھا کر بات کاٹ دی۔
”تم…کو بعد میں پتا چلا…تم کو…یہ بھی ایک اور جھوٹ ہوگا۔ ہر معاملے میں تم لوگ اکٹھے ہوتے ہو۔ ہر بات کی خبر رکھتے ہو اور تمہیں اس کے بارے میں بعد میں پتا چلا میں یقین نہیں کر سکتی۔”
”مت کرو…مگر یہ سچ ہے کہ مجھے اس بات کے بارے میں بعد میں پتا چلا۔ اگر پہلے پتا چلتا تو میں کبھی بھی انہیں ایسی بات کہنے نہ دیتا۔ میں اتنا گرا ہوا نہیں ہوں۔” عمر اب صوفہ سے کھڑا ہو گیا تھا۔
”میری جگہ اگر تمہاری اپنی بہن ہوتی…یا…یا جو ڈتھ ہوتی تو اس کے بارے میں ایسی بات برداشت کر سکتے تھے تم…مجھ سے تو خیر تمہارا رشتہ ہی کوئی نہیں ہے۔”
”تم میرے لیے کسی بھی شخص اور کسی بھی رشتہ سے زیادہ اہم ہو۔”
”نہیں ، میں نہیں ہوں…ایسی باتوں سے اب بے وقوف نہیں بن سکتی عمر جہانگیر۔ اب میچور ہو گئی ہوں میں” اس نے طنزیہ انداز میں کہا۔
”جہاں تک صالحہ کا تعلق ہے تو میں نے صالحہ پر کوئی حملہ نہیں کروایا۔ ایسا کام کوئی بے وقوف ہی کر سکتا ہے اور میں کم از کم بے وقوف تو نہیں ہوں۔” اس نے قدرے جتانے والے انداز میں کہا۔
”میں اس وقت آفس میں تھی جب تم نے اسے فون کیا تھا۔” علیزہ نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا ”اور میں نے خود فون پر سنا تھا…تم اسے دھمکا رہے تھے۔”
”دن میں، میں اگر دس لوگوں کو دھمکاؤں گا تو کیا دس لوگوں پر حملہ کرواؤں گا۔” عمر نے چیلنج کرنے والے انداز میں کہا۔
”میں دوسرے لوگوں کے بارے میں نہیں جانتی مگر صالحہ کا تمہارے علاوہ اور کوئی دشمن نہیں ہے۔” علیزہ نے دو بدو کہا۔
”صالحہ خود اپنی سب سے بڑی دشمن ہے۔”
”کیوں وہ تمہارے بارے میں سچ لکھتی ہے اس لیے۔”
”سچ…کیا سچ؟” وہ تلخی سے ہنسا۔
”مجرموں کے بھی انسانی حقوق ہوتے ہیں۔” اس نے صالحہ پرویز کے آرٹیکل کا عنوان کچھ تنفر سے پڑھا۔
”ہاں مجرموں کے بھی کچھ انسانی حقوق ہوتے ہیں، وہ کتے بلیاں نہیں ہوتے کہ کہیں بھی کیسے بھی پکڑ کر انہیں مار دو۔ اگر تم لوگوں نے یہی سب کچھ کرنا ہے تو عدالتیں بند کر دو۔ لوگوں کو پکڑو کھڑے کھڑے شوٹ کرو اور بس… یہ دیکھو بھی مت کہ کس نے کیا کیا ہے؟”
”جن مجرموں کو پکڑ کر ہم پولیس مقابلوں میں مارتے ہیں ان کے کوئی انسانی حقوق نہیں ہوتے کیونکہ وہ انسان نہیں ہوتے۔” عمر نے نفرت بھرے لہجے میں کہا۔
”اس طرح کے مجرم جن چاروں کو۔۔۔” عمر نے اس کی بات کاٹ دی۔
”ان چاروں کو چھوڑ دو۔ وہ ایک علیحدہ کیس تھا۔ باقیوں کی بات کرو، ہر بار بے گناہوں کو نہیں مارا جاتا۔ چودہ چودہ قتل کیے ہوتے ہیں ان لوگوں نے جنہیں پولیس مقابلوں میں مارا جاتا ہے۔” وہ اب تیز آواز میں کہہ رہا تھا”اور تم لوگ ان کے حقوق کی بات کرتے ہو۔”
”پولیس کا کام مجرموں کو پکڑنا ہوتا ہے، انہیں سزائیں دینا نہیں۔ کورٹس ہیں اس کام کے لیے۔” وہ اس کے لہجے سے متاثر ہوئے بغیر بولی۔
”کورٹس…کون سے کورٹس۔۔۔” وہ تنفر سے ہنسا ”کورٹس کہتے ہیں ثبوت لائیں، گواہ پیش کریں، چودہ افراد کو قتل کر دینے والے شخص کے خلاف کون گواہی دینے کے لیے کھڑا ہوگا جس ملک میں ریوالور کی گولی بلیک میں سات روپے کی اور ایک لائف سیونگ ٹیبلٹ سو روپے میں ملتی ہو، وہاں کون اٹھ کر یہ کہے گا کہ ہاں یہ وہ آدمی ہے جس کو میں نے سڑک پر چار لوگوں کو قتل کرتے دیکھا۔”
وہ تنفر سے اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔
”جہاں لوگ بدلہ لینے کے لیے انتظار کرتے ہیں کہ کوئی اپنی پیشی بھگتانے کورٹ میں آئے تو اسے وہاں مارا جائے، کیونکہ کورٹ میں مارنا سب سے زیادہ محفوظ ہے۔ وہاں تم Rule of law اور کورٹس کی Supremacy (برتری ) کی بات کرتی ہو۔” وہ مسلسل بول رہا تھا۔
”جہاں Lowercourts کے سینکڑوں ججز میں سے نہ بکنے والے ججز کو آدمی انگلی پر گن سکتا ہو اور جہاں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کا جج بننے کے لیے قابلیت کے بجائے سیاسی بیک گراؤنڈ اور اپروچ معیار ہو۔ جہاں ایک وزیراعظم یہ کہے کہ اس کی خواہش تھی کہ اس کی پارٹی کے ایک وفادار جیالے کو سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بنا دیا جائے اور دوسرے وزیراعظم کی پارٹی کے لوگ سپریم کورٹ پر حملہ کر دیں اور سپریم کورٹ توہین عدالت کا فیصلہ کرنے میں تین سال لگا دے وہاں کورٹس مجرموں کو سزا دلائیں گے۔”
وہ ایک بار پھر ہنسا۔
”جن لوگوں کو پکڑنے میں پولیس کے کئی کئی سال لگ جاتے ہیں اور لاکھوں روپیہ خرچ ہو جاتا ہے…انہیں پکڑنے کے بعد ان کے خلاف ایک گواہ نہیں ملتا۔” اس نے سرخ چہرے کے ساتھ ہاتھ کے اشارے سے کہا۔
”لوگ اتنے خوفزدہ ہوتے ہیں کہ وہ اپنے قریبی عزیزوں کے قتل پر گواہ نہیں بنتے۔ جج پوچھتا ہے کوئی گواہ ہے۔ وکیل استغاثہ کہتا ہے نہیں۔ وکیل صفائی کہتا ہے ضمانت پر رہا کر دیں جناب! میرے موکل کو پولیس نے جان بوجھ کر گرفتار کیا ہے۔ جج پانچ ہزار کے ضمانت کے مچلکے پر اسے رہا کر دیتا ہے۔ ہمارا پورا ڈیپارٹمنٹ منہ دیکھتا رہ جاتا ہے۔ یہ ہے اس ملک کا نظام عدل۔
وہ پلکیں جھپکائے بغیر ناگواری سے اسے دیکھ رہی تھی۔
”اور عدالت کو چھوڑو ان سے پہلے ہی بڑے بڑے سیاست دانوں کی سفارش آنا شروع ہو جاتی ہیں، ان کے لیے کیونکہ یہ لوگ ان کے پالے ہوئے ہوتے ہیں۔ ایک قتل یہ اپنے لیے کرتے ہیں تو دس ان کے لیے۔ وزیراعلیٰ یا گورنر فون کرکے کہے کہ فلاں آدمی جو آپ نے پکڑا ہے اسے چھوڑ دیں تو ہم اسے اس کے بارے میں مقدمات کی تفصیل کیسے بتا سکتے ہیں۔ تو کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ ایسے آدمیوں کو پکڑنے کے بعد مار دیا جائے، اس سے پہلے کہ ان کے لیے کوئی سفارش آئے یا عدالت انہیں رہا کرے اور وہ دوبارہ پولیس کا ناک میں دم کریں اور عمر جہانگیر ایسا کرنے والا واحد آدمی نہیں ہے کسی ایک ایسے ایس پی کا نام بتا دو جس کے ضلع میں ایسے جھوٹے پولیس مقابلے نہیں ہوتے۔ ہم مجبور ہیں یہ سب کرنے کے لیے۔ ایک پولیس مقابلے کے بعد لاء اینڈ آرڈر بالکل ٹھیک ہو جاتا ہے۔ کم از کم کچھ عرصے کے لیے۔ کبھی آج تک کسی ایک ایس پی کو سزا ملی ہے اس کے ضلعوں میں ہونے والے کسی ایک بھی پولیس مقابلے کے لیے۔” اس نے چیلنج کرنے والے انداز میں کہا۔
”نہیں…اور نہ ہی آئندہ کبھی ملے گی کیونکہ وہ جو اوپر بیٹھے ہوتے ہیں نا…آئی جی…اور چیف سیکرٹری انہیں بھی سب پتا ہوتا ہے کہ یہ پولیس مقابلے کیوں ہوتے ہیں اور ہم یہ کرنے پر کیوں مجبور ہیں پھر صرف عمر جہانگیر کو اس طرح تنقید کا نشانہ کیوں بنایا جا رہا ہے۔ صرف مجھ پر الزامات کیوں لگائے جا رہے ہیں۔”
اس کی آواز میں اب غصہ تھا۔
”کرپشن…؟ کون کرپشن نہیں کرتا، ہاں میں نے اور رضی محمود نے وہ زمین بیچ دی تھی تو پھر کیا ہوا…یہاں سب ایسا ہی کرتے ہیں۔ جرنلسٹس کو موقع ملے تو وہ بھی ایسا ہی کریں گے۔ کیا وہ لفافے نہیں لیتے سیاست دانوں سے ، کسی جرنلسٹ کا نام بتاؤ میں تمہیں اس کا کچا چٹھا بتا دیتا ہوں۔
کس کا کتنا ریٹ ہے۔ کون کس وزیر کے ساتھ دورے پر جانے کے لیے کیا کیا پاپڑ بیل رہا ہے۔ کون کس سے پلاٹ الاٹ کروا رہا ہے اور میں نہ بھی کہوں تم جرنلسٹس کے کالم پڑھ لو…تمہیں پتا چل جائے گا کس کے منہ میں کس کی زبان ہے اور کس کی قیمت کتنی ہے۔ پھر اگر ان جیسے لوگ ہمیں گریبان سے پکڑنے کی کوشش کریں تو۔۔۔”
وہ اپنی بات ادھوری چھوڑ کر ہنسا۔
”پھر بھی میں تمہیں بتا رہا ہوں کہ میں نے صالحہ پر فائرنگ نہیں کروائی۔ وہ میرے لیے اتنا خطرہ نہیں تھی۔ تمہاری دوست ہوتی یا نہ ہوتی مجھے اس پر فائرنگ کروانے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ میں ایسا کام کیوں کرواؤں گا کہ سیدھا شک مجھ پر جائے۔” اس بار اس کی آواز نرم تھی۔
”پھر تمہارے علاوہ اور کون کر سکتا ہے یہ سب کچھ؟”
”وہ خود کروا سکتی ہے۔ یہ سب کچھ پری پلانڈ ہو سکتا ہے۔ میرا کوئی دشمن کروا سکتا ہے۔” عمر نے لاپرواہی سے کہا۔
”وہ خود اپنے آپ پر فائرنگ کروائے گی؟” علیزہ نے بے یقینی سے کہا۔
ہاں کیوں نہیں اس میں کون سے پہاڑ سر کرنے پڑتے ہیں۔ کرائے کا کوئی آدمی چاہیے ہدایات کے ساتھ…اور بس…اور وہ تو ہے بھی جسٹس نیاز کے خاندان سے۔”
علیزہ نے اسے غور سے دیکھا۔
”اور جہاں تک خود کو بچانے کے لیے بھکاریوں کی طرح ہر ایک کے آگے پیچھے پھرنے کا تعلق ہے تو میں ایسا کچھ بھی نہیں کر رہا۔” وہ ہنسا ”یہ معطلی میرے لیے بہت اچھی ثابت ہوئی ہے…کیسے ، یہ تمہیں اگلے چند ہفتوں میں پتا چل جائے گا۔ جہاں تک انکوائری کا تعلق ہے انکوائری کمیٹی میں تین لوگ ہیں۔” وہ اب جیسے خود اپنی گفتگو سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ ایک پاپا کے بیچ میٹ ہیں انکل اسحاق دوسرے اے ایچ قریشی ہیں۔ ان کا بیٹا شیراز میرا بیچ میٹ ہے۔ تیسرے فاروق ذوالفقار ہیں۔ ان کے ساتھ کل لاہور جم خانہ میں ٹینس کی پریکٹس کی تھی میں نے۔ میرے بیک ہینڈ سے وہ بہت متاثر ہوئے اور ان کے فور ہینڈ سے میں۔” اس نے ٹینس کے دو شاٹس کا نام لیتے ہوئے کہا۔
”سروس دونوں کی اچھی نہیں تھی۔ کل دو گھنٹے کے لیے مزید کھیلیں گے شاید بہتر ہو جائے۔” وہ مذاق اڑانے والے انداز میں مسکرایا۔
”اور تم سمجھ رہی ہو کہ میں لوگوں کے پیچھے پھر رہا ہوں کہ مجھے بچا لیں…میں یہاں بس چند ہفتے کی چھٹیاں گزارنے آیا ہوں۔” وہ ایک بار پھر سنجیدہ ہو گیا۔
”جنید…یا…تم…یا صالحہ مجھے کیا فائدہ پہنچا سکتے ہو۔” اس نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا ”اور تمہیں جنید کے ذریعے میں کیوں پریشرائز کراؤں گا۔”
علیزہ کو یکدم تھکن محسوس ہونے لگی۔ واپس پلٹ کر وہ اپنے بیڈ پر بیٹھ گئی۔ وہ ہمیشہ کی طرح ہر حل، ہر جواب اپنی مٹھی میں لیے پھر رہا تھا، وہ باتوں میں دلیلوں میں اس سے کبھی نہیں جیتی تھی۔ وہ آج بھی اس سے نہیں جیت سکی تھی۔
”بس ایک بات میری سمجھ میں نہیں آئی کہ میں تمہاری زندگی کیسے برباد کر رہا ہوں؟” اس نے اس بار کچھ الجھے ہوئے انداز میں کہا۔
”اور تمہارا یہی جملہ مجھے وہاں سے یہاں لایا ہے۔ کسی اور شخص کے کسی جملے سے مجھے اتنی تکلیف نہیں پہنچ سکتی جتنی تمہاری اس بات سے ہوئی ہے۔ میں تمہیں خوش نہیں دیکھ سکتا…میں…؟ علیزہ! میں تمہیں خوش دیکھنا نہیں چاہوں گا…؟ میں چاہوں گا کہ تمہاری زندگی برباد ہو…تمہیں پتا ہے، تم نے مجھ سے کیا کہا ہے؟”
علیزہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔
”تمہاری وجہ سے جنید میرے ساتھ جھگڑا کر رہا ہے۔ تمہارے لیے وہ مجھ سے ناراض ہو گیا ہے۔ جب تک تم سے اس کا میل جول نہیں تھا ہم لوگوں میں کوئی تلخی نہیں تھی مگر اب جب تم اس سے ملنے لگے ہو…تو…تمہارے کہنے پر وہ۔۔۔”
عمر نے اس کی بات کاٹ دی۔ ”میرے کہنے پر وہ کچھ نہیں کر رہا۔ وہ میرے کہنے پر کچھ کر بھی نہیں سکتا۔” عمر نے سختی سے کہا ۔ ”وہ کوئی ننھا بچہ نہیں ہے اور پھر میں تم لوگوں کے تعلقات کیوں خراب کروانا چاہوں گا۔” مجھے اس سے کیا فائدہ ہوگا؟”
”Why don’t you just get of our life” (تم ہماری زندگی سے نکل کیوں نہیں جاتے) وہ یکدم چلائی۔
عمر بات کرتے کرتے رک گیا۔ ”میں تمہاری زندگی سے پہلے ہی نکل چکا ہوں۔”
”نہیں تم نہیں نکلے ہو، اگر نکل گئے ہو تو پھر جنید کا پیچھا کیوں نہیں چھوڑ دیتے۔”
”اگر جنید سے ملنا چھوڑ دوں تو کیا مجھ سے تمہاری ناراضی ختم ہو جائے گی؟” عمر نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ اس سے پوچھا۔
”میری ناراضی کی پروا مت کرو عمر! جو کچھ تم میرے ساتھ کر چکے ہو، اس کے بعد کیا تمہیں یہ سوال زیب دیتا ہے؟”
”ہم دونوں بہت اچھے دوست رہ سکتے ہیں علیزہ…! ہم کبھی بہت اچھے دوست تھے۔۔۔” اس نے اس بار قدرے مدھم آواز میں کہا۔
”نہیں ہم دونوں کبھی بھی دوست نہیں تھے۔ ہم دونوں آئندہ بھی کبھی دوست نہیں رہ سکتے۔” علیزہ نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔
”تم مجھے اپنے اور جنید کے درمیان کبھی نہیں پاؤ گی۔ میں اس سے دوبارہ نہیں ملوں گا۔ کیا اس کے بعد تم میرے لیے اپنا دل صاف کر سکتی ہو؟”
”نہیں۔۔۔”
عمر کے چہرے کا رنگ تبدیل ہو گیا، وہ کچھ دیر کچھ بھی کہے بغیر اسے دیکھتا رہا پھر مسکرا دیا۔
”میرے لیے تم ایک بہت خاص دوست ہو۔ تم مجھے کیا سمجھتی ہو کیا نہیں، میں اس کے بارے میں کچھ نہیں کر سکتا مگر کم از کم میرے لیے تم ہمیشہ ہی خاص رہو گی اور اگر کبھی پوری دنیا بھی تمہارے خلاف ہو جائے تو تم یہ یاد رکھنا، عمر جہانگیر ہمیشہ تمہاری طرف کھڑا رہے گا۔ چاہے تم غلط ہو یا صحیح ہو، میں ہمیشہ تمہیں سپورٹ کروں گا علیزہ! میں وہ آخری شخص بھی نہیں ہوں گا جو کبھی تمہیں تباہ کرنا چاہے گا۔ تم زندگی تباہ کرنے کی بات کرتی ہو، میں تو تم پر ایک خراش برداشت نہیں کر سکتا۔” علیزہ اس کے علاوہ کمرے کی ہر چیز کو دیکھتی رہی۔
”میں تمہاری یہ پینٹنگ لے جاؤں۔” کچھ دیر بعد اس نے کہا۔ علیزہ نے بے اختیار اسے دیکھا۔ وہ اب دیوار پر لگی ہوئی ایک پینٹنگ کو دیکھ رہا تھا، علیزہ کچھ دیر اسے دیکھتی رہی پھر کچھ کہے بغیر دیوار کی طرف گئی اور اس پینٹنگ کو اتار دیا۔ عمر سے نظریں ملائے بغیر اس نے وہ پینٹنگ اس کی طرف بڑھا دی۔
”میں تمہارا شکریہ ادا نہیں کروں گا۔” اس نے عمر کو کہتے سنا۔
”مجھے اس کی ضرورت بھی نہیں ہے۔” اس کی بات کے جواب میں وہ اس کی بیڈ سائیڈ ٹیبل کی طرف گیا۔ علیزہ نے اسے اپنی جیکٹ کی جیب میں ہاتھ ڈال کر ایک کیس برآمد کرتے اور اسے بیڈ سائیڈ ٹیبل پر رکھتے دیکھا۔
”یہ تمہارے لیے ہے، میں تمہاری برتھ ڈے پر دینا چاہتا تھا مگر نہیں دے سکا۔”
وہ اب دونوں ہاتھوں میں اس پینٹنگ کو پکڑ کر دیکھ رہا تھا۔
”او کے میں چلتا ہوں، اب۔۔۔”
وہ یکدم واپس مڑ گیا۔ علیزہ نے اسے کمرے سے باہر جاتے دیکھا کچھ دیر تک وہ خالی الذہنی کے عالم میں بیٹھی رہی پھر وہ اٹھ کر بیڈ سائیڈ ٹیبل کی طرف آگئی۔ کیس آہستگی سے اٹھا کر اس نے اسے کھول دیا۔ اندر سونے اور ہیروں سے مرصع ایک خوبصورت بریسلیٹ تھا۔ وہ ہونٹ بھینچے اس تحفے کو دیکھتی رہی۔ اس سے پہلے عمر نے کبھی بھی اسے سونے کی کوئی چیز نہیں دی تھی۔ پھر اب…جب…اس نے بہت آہستگی سے ایک بار اس بریسلیٹ کو چھوا اور کیس کو بند کر دیا۔ باہر عمر کی گاڑی کے سٹارٹ ہونے کی آواز آرہی تھی، وہ کھڑکی کی طرف بڑھ آئی۔ بند کھڑکیوں سے اس نے عمر کی گاڑی کو گیٹ سے باہر نکلتے دیکھا۔
وہ اس شخص کو کبھی بھی نہیں سمجھ سکتی تھی۔ وہ اس شخص کو کبھی سمجھنا چاہتی بھی نہیں تھی۔

باب: 49

”آرمی مانیٹرنگ کمیٹی… اب یہ کیا بکواس ہے؟” عمر جہانگیر نے ہاتھ میں پکڑی ہوئی فائل کو میز پر تقریباً پٹختے ہوئے کہا۔
فوجی حکومت کو اقتدار سنبھالے چند ہفتے ہو گئے تھے اور آرمی مانیٹرنگ کمیٹیوں کا شوروغوغا ہر جگہ سنائی دے رہا تھا پولیس کے اعلیٰ حکام کے اندر ان مجوزہ کمیٹیز کے خلاف بہت زیادہ غصہ اور احتجاج پایا جاتا تھا مگر کھلے عام اس پر کوئی بھی تنقید کرنے سے خوفزدہ تھا۔ ہر ایک جانتا تھا ایسی کسی تجویز کی مخالفت کم سے کم ٹرانسفر اور زیادہ سے زیادہ معطلی کی موجب بن جائے گی اس لیے ہر ایک آرمی مانیٹرنگ کمیٹیز کو ناپسند کرنے کے باوجود ان کے خلاف کوئی احتجاج نہیں کر رہا تھا۔
فوجی حکومت کا خیال تھا کہ آرمی کو براہ راست سویلین معاملات میں ملوث کرنے سے وہ اس کرپشن پر قابو پا لے گی جو پورے نظام کی جڑیں کھوکھلی کر رہی تھی اور ایک بار اس نظام کی خرابی رک جاتی تو شاید لوگوں کا اعتماد بھی بحال ہو جاتا مگر دوسرے بہت سے محکموں کی طرح پولیس کو بھی ان کمیٹیز کے قیام پر اعتراض تھا۔ اگرچہ وہ ان کمیٹیز کے خلاف بات کرتے ہوئے اپنے اختیارات میں کمی اور اپنے معاملات میں مداخلت کا حوالہ دے رہے تھے مگر جو حقیقی خدشات ان کے ذہنوں میں تھے وہ کرپشن کی ان لمبی کڑیوں والی زنجیر کو بچانا تھا جس کے منظر عام پر آنے سے بہت سے نامی گرامی لوگوں کے لیے بھی اپنی عزت بچا لینا بہت مشکل ہو جاتا جو آفیسرز ہاتھ کی صفائی دکھانے میں ماہر تھے انہیں یہ خوف تھا کہ ان کا پچھلا کرپشن کا کوئی معاملہ پکڑا نہ بھی گیا تب بھی آئندہ کے لیے کرپشن کے دروازے بند ہو جائیں گے اور یہ ان کے اور ان کے خاندانوں کے لیے 440 وولٹ کے شاک کی طرح تھا۔
دوسری طرف آرمی مانیٹرنگ کمیٹیز کے ذریعے پہلی بار فوج کو انتظامیہ کے ان اختیارات اور معاملات میں دخل اندازی کا موقع مل رہا تھا۔ جہاں وہ پہلے خاصی بے بس رہی تھی۔ فصل کاٹنے اور بدلے چکانے کا موسم آ چکا تھا، وہ انتظامیہ جو پہلے فوج کو گھاس نہیں ڈالتی تھی، اب ان کی زیر نگرانی کام کرنے پر مجبور تھی اور ان کی چپقلش شروع ہو چکی تھی۔
عمر جہانگیر بھی پولیس سروس کے دوسرے تمام آفیسر کی طرح ان کمیٹیز کو ناپسند کرنے اور ان پر تنقید کرنے والوں میں پیش پیش تھا۔
اس دن بھی صوبائی دارالحکومت میں پولیس آفیسرز کا ایک اجلاس ہو رہا تھا جس میں آرمی اور حکومت کے لتے لیے جا رہے تھے۔ ایک دن پہلے صوبائی گورنر ان ہی پولیس آفیسرز سے اپنے خطاب کے دوران پولیس کی ناقص کارکردگی اور کرپشن پر انہیں کھری کھری سنا چکے تھے۔ انہوں نے اپنی پینتالیس منٹ کی فی البدیہی تقریر میں ایک بار بھی پولیس کو کسی کام کے لیے نہیں سراہا تھا اور اس چیز نے ان آفیسرز کے غصے کو کچھ اور ہوا دی تھی۔
”گورنر چوبیس گھنٹے لاء اینڈ آرڈر کی بات کرتے رہتے ہیں۔ انہیں پتا ہے لاء اینڈ آرڈر ہوتا کیا ہے؟”
اس روز آفیسرز میں سے ایک نے گورنر کی تقریر پر بات کرتے ہوئے کہا۔
”ان کا تعلق آرمی سے ہے، رات کو سوئے صبح انہیں پتا چلا کہ وہ گورنر بن گئے ہیں اور پھر انہیں اچانک یاد آگیا کہ صوبہ میں ایک پولیس فورس بھی ہے جسے برا بھلا کہیں گے تو اگلے دن اخبار کے پہلے صفحے پر ہیڈ لائن بن جائے گی۔ لوگوں میں گورنر کی نیک نامی بڑھے گی۔ اپنے نمبر بنانے کے علاوہ اور کر کیا رہے ہیں وہ۔” ایک اور پولیس آفیسر نے تبصرہ کیا۔
” ان کا کام صرف ایک ہے باری باری اخبار نویسوں اور کالم نویسوں کو اپنے ساتھ مختلف علاقوں کے ذاتی دوروں پر لے جانا اور پھر واپسی پر ان کالم نویسوں کے تعریفوں سے بھرپور کالم پڑھنا۔ لوگ سمجھتے ہوں گے کیا گورنر پایا ہے، خلفاء راشدین کا زمانہ لوٹ آیا ہے کہ گورنر ہر وقت گشت پر رہنے لگا ہے۔ انہیں یہ پتا نہیں ہے کہ گورنر بھی ایک سیاست دان کی طرح کنویسنگ کر رہا ہے، اپنے لیے نہیں اپنے اوپر کے باسز کے لیے۔”
ایک فہمائشی قہقہہ لگایا گیا شاید عمر وہاں واحد تھا جو سنجیدہ رہا تھا۔
”ان کا خیال ہے اس طرح چوبیس گھنٹے ہمارے سر پر سوار رہ کر وہ ہمیں نکیل ڈال دیں گے۔ ہمیں اپنے اشاروں پر چلا لیں گے۔” ایک اور تند مزاج آفیسر نے کہا۔ ”اور یہ جو نوٹیفکیشن جاری ہوا ہے کہ ان کمیٹیز کے ساتھ مکمل تعاون کیا جائے۔ آخر کیوں مکمل تعاون کیا جائے۔ سول سروس میں ہم اس لیے آئے تھے کہ ہم بالآخر ان کیپٹن اور میجر کے رینک کے آفیسرز کو اپنے تعاون کی یقین دہانیاں کرواتے پھریں۔” عمر ایک بار پھر بولا۔
”پہلے ہی فیلڈ میں ان سروس آرمی آفیسر کو ڈیپوٹیشن پر بھجوا رہے ہیں، جو پہلے ریٹائر ہو چکے ہیں۔ انہیں دھڑا دھڑ کانٹریکٹس کے ذریعے ہر جگہ لا بٹھایا ہے۔ آرمی والوں کو سول سروس میں لیا جا رہا ہے۔ پھر بھی کبھی انہیں چین نہیں ہے۔ وہ چاہتے ہیں جو تھوڑی بہت پاورز دوسرے محکموں کے لوگوں کے پاس رہ گئی ہیں، انہیں بھی چھین لیا جائے۔
ایک اور آفیسر نے کہا۔
”نہیں یہ کام وہ نہیں کریں گے ۔ براہ راست ہماری سیٹوں پر آکر نہیں بیٹھیں گے۔ یہ تو گالیاں کھانے والی جگہ ہے یہاں آکر وہ عوام سے گالیاں کیوں کھائیں، وہ بس ہمیں اپنی مٹھی میں رکھنا چاہتے ہیں، عوام بھی خوش کہ بھئی بڑی محنت کر رہی ہے آرمی، پولیس کی کارکردگی بہتر کرنے کے لیے۔” اس بار عمر نے کہا ”اور اوپر سے ہمارا محکمہ منہ اٹھائے سوچے سمجھے بغیر دھڑا دھڑ نوٹیفکیشنز اور سرکلرز جاری کر رہا ہے۔ فرمانبرداری اور تابعداری کے لیے سبق پڑھا رہا ہے ہمیں۔” عمر کو اپنے محکمے کے افسران بالا پر اعتراض ہوا۔
”ان کی مجبوری ہے وہ کیا کریں، اگر یہ نہ کریں تو…کون حکومت سے مخاصمت مول لینا چاہے گا اور وہ بھی اپنی جاب اور اپنے کیریئر کو داؤ پر لگا کر، سب سے بہتر طریقہ اپنی جان بچانے کا یہی ہے کہ سر جھکاؤ اوپر والوں کی ہاں میں ہاں ملاؤ اور اپنی جان بچاؤ مائٹ ازرائٹ اور اس وقت یہ مائٹ کس کے پاس ہے سب ہی جانتے ہیں۔”
ایک قدرے جونیئر افسر نے کہا۔
”اور یہ مقابلہ کرتے ہیں ہمارے ساتھ اور نصیحتوں کے ٹوکرے لے کر آ جاتے ہیں۔ جتنا کام پولیس کا ایک سپاہی کرتا ہے اتنا فوج کے ایک جوان کو کرنا پڑے تو انہیں پتا چلے بارہ، بارہ گھنٹے کی ڈیوٹی دینے کے بعد بھی انہیں ملتا کیا ہے نہ بیوی بچوں کو کوئی سہولتیں ہوتی ہیں نہ خود اسے اور جو عام لوگوں کی بے عزتی برداشت کرنی پڑتی ہے وہ الگ اور یہ جنہیں بچوں کی تعلیم سے لے کر ان کے علاج تک کی سہولتیں دستیاب ہوتی ہیں اور گھر کے راشن تک پر رعایت ملتی ہے ، یہ ہر قدم پر اپنا اور ان کا مقابلہ کرنے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہ بھی ذرا اسی چار پانچ ہزار میں ان تمام سہولتوں کے بغیر دھکے کھاتے ہوئے عوام کی خدمت کریں تو پھر میں مانوں کہ ہاں بھئی بڑا جذبہ اور ڈسپلن ہے ان میں…واقعی حب الوطنی پائی جاتی ہے۔”
ایک اور آفیسر نے تنفر بھرے انداز میں کہا۔
”بہرحال یہ بات طے ہے کہ کم از کم میں اپنے کاموں میں انہیں مداخلت کے لیے کھلی چھٹی نہیں دو ں گا مجھے انہیں سر پر نہیں چڑھانا۔” عمر نے جیسے حتمی انداز میں کہا۔
”اب اس کی وجہ سے سروس ریکارڈ خراب ہوتا ہے تو ہو جائے۔ گلے میں رسی باندھ کر کم از کم میں کسی کے سامنے میں میں میں نہیں کر سکتا۔ اگر یہی کام کرنا ہوتا تو پھر اس سروس میں آنے کے بجائے کہیں اور بیٹھا ہوتا۔”
عمر نے جیسے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا۔ وہاں بیٹھے ہوئے دوسرے کسی آفیسر نے اس کی بات کے جواب میں کچھ نہیں کہا تھا مگر ان کے چہروں کے تاثرات واضح طور پر یہ بتا رہے تھے کہ وہ سب ہی آئندہ آنے والے دنوں میں تقریباً اسی قسم کی حکمت عملی اپنانے والے تھے جو عمر نے اپنانے کا اعلان کیا تھا۔
”میرا نام میجر لطیف ہے میرے اور میری ٹیم کے بارے میں آپ کے پاس نوٹیفکیشن اور تفصیلات تو پہلے ہی پہنچ گئی ہوں گی۔”
عمر جہانگیر خاموشی سے بے تاثر چہرے کے ساتھ میز کے دوسری طرف بیٹھے ہوئے خاکی یونیفارم میں ملبوس اپنی ہی عمر کے اس میجر پر نظریں جمائے بیٹھا رہا جو بڑے میکانکی انداز میں چند فائلز سامنے ٹیبل پر رکھے پچھلے پانچ منٹ سے مسلسل بول رہا تھا وہ کچھ دیر پہلے دو دوسرے فوجیوں کے ساتھ اس کے آفس پہنچا تھا اور خاکی یونیفارم میں ملبوس ان تین افراد کے وہاں پہنچنے پر اس کے عملے میں جو ہڑبونگ مچی تھی اس نے عمر جہانگیر کی ناگواری میں اضافہ کر دیا تھا۔
وہ تینوں آج پہلی بار وہاں آئے تھے اور اگرچہ وہاں آنے سے پہلے عمر جہانگیر کو ان کے بارے میں مطلع کیا گیا تھا اور اس نے اپنے ماتحت عملے کو بھی آرمی مانیٹرنگ ٹیم کی آمد کے بارے میں بتا دیا تھا اور یقیناً اس کا عملہ بہت محتاط ہو گیا تھا۔ انہوں نے اپنا ریکارڈ وغیرہ بھی درست کرنے کی کوشش کی تھی مگر اس کے باوجود ان تینوں کے وہاں آنے پر عمر جہانگیر نے ان کی حواس باختگی دیکھ لی تھی۔ وہ لاشعوری طور پر خوفزدہ تھے۔
اب وہ میجر اس کے آفس میں اس کے سامنے بیٹھا اسے آئندہ آنے والے دنوں میں اپنے لائحہ عمل کے بارے میں مطلع کر رہا تھا، وہ یقیناً خاصا ہوم ورک کرکے آیا تھا اور عمر کے لیے یہ کوئی نئی یا انوکھی بات نہیں تھی۔ ان لوگوں کا انٹیلی جنس کا نظام اتنا فعال اور موثر تھا کہ چند گھنٹوں کے اندر وہ اپنی مطلوبہ معلومات حاصل کر سکتے تھے اسی لیے وہ تقریباً اس کے زیر اہتمام آنے والے ہر پولیس سٹیشن کے بارے میں بنیادی معلومات رکھنے کے علاوہ ان کی کارکردگی کے بارے میں بھی خاصا علم رکھتا تھا۔
اپنے لب و لہجے سے وہ کوئی بہت زیادہ دوستانہ مزاج کا حامل نہیں لگتا تھا اور یہ شاید آرمی میں ہونے کی وجہ سے تھا یا پھر اس ذمہ داری کی وجہ سے جو اسے سونپی گئی تھی وہ کسی لگی لپٹی کے بغیر بات کر رہا تھا اور عمر جہانگیر کے چہرے پر وقتاً فوقتاً اس کے تبصروں پر ابھرنے والے ناگواری کے تاثرات کو مکمل طور پر نظر انداز کیے ہوئے تھا۔
خاصے لوازمات کے ساتھ سرو کی جانے والی اس چائے نے بھی اس کے اس انداز میں کوئی خاص تبدیلی نہیں کی جو عمر جہانگیر کے ماتحت عملے نے خاصی عاجزی اور مستعدی کے ساتھ انہیں سروکی تھی۔ اپنے سامنے پڑی فائلز کو باری باری کھولے وہ تنبیہی انداز میں عمر جہانگیر کو اپنے اختیارات اور ذمہ داریوں کے ساتھ ان چیزوں سے آگاہ کرتا گیا جو اسے آئندہ آنے والے دنوں میں انجام دینی تھیں۔ عمر جہانگیر چائے پیتے ہوئے کسی قسم کے تبصرے کے بغیر بڑی خاموشی سے اس کی گفتگو سنتا گیا۔ جب اس لمبی چوڑی گفتگو کا اختتام ہوا تو عمر جہانگیر نے بڑے دوستانہ انداز میں اپنی بات کا آغاز کیا(وہ پہلی ہی ملاقات میں اختلافات کا آغاز نہیں کرنا چاہتا تھا)
”آپ لوگوں کو میری طرف سے پورا تعاون حاصل رہے گا نہ صرف میری طرف سے بلکہ میرے عملے کی طرف سے بھی اور آپ کے اس نگرانی کے کام سے مجھے خاصی مدد ملے گی بلکہ خاصی آسانی ہو جائے گی کہ مجھے اپنے عملے کی کارکردگی کا پتا چلتا رہے گا اور میں ان کی خامیوں سے آگاہ ہوتا رہوں گا۔”
عمر نے بڑے اطمینان سے کہتے ہوئے سامنے بیٹھے میجر کے چہرے پر نظر دوڑائی جو اس کے آخری چند جملوں پر اپنی کرسی پر پہلو بدل کر رہ گیا تھا۔
”اور۔۔۔” اس سے پہلے کہ عمر اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کچھ اور کہتا، اس میجر نے اس کی بات کاٹ دی۔
”کچھ تھوڑی سی غلط فہمی ہے جو ہونی تو نہیں چاہیے تھی کیونکہ میں نے آپ کو خاصی لمبی بریفنگ دی ہے مگر پھر بھی آپ کو ہو گئی ہے۔ ہم آپ سمیت آپ کے عملے کو مانیٹر کرنے آئے ہیں، آپ کو assist (معاونت) کرنے نہیں۔”
کھردرے لہجے میں کہے گئے اس جملے نے چند لمحوں کے لیے عمر کو خاموش کر دیا، وہ جانتا تھا اس وقت اس کے چہرے پر کئی رنگ آ کر گزرے ہوں گے۔
”اس لیے یہ غلط فہمی دور ہو جانی چاہیے کہ میری ٹیم یہاں آپ کی مدد کے لیے بھیجی گئی ہے آپ کی مدد کے لیے آپ کا اپنا عملہ کافی ہے آپ ان ہی پر اس معاملے میں انحصار کریں تو بہتر ہے۔”
اس میجر کے ترکش میں ابھی خاصے تیر باقی تھے۔
”ہم لوگ صرف یہ چاہتے ہیں کہ آپ لوگوں کی ورکنگ فیئر اور بہتر ہو اور یہ اس شہر کے پولیس کے سربراہ کے طور پر آپ کی ذمہ داری ہے۔ ہم صرف یہ دیکھیں گے کہ آپ اور آپ کا عملہ اس ذمہ داری کو کس طریقے سے پورا کر رہا ہے۔”
وہ میجر شاید محمود و ایاز کو ایک ہی صف میں کھڑا کر دینے کے مقولے پر عمل کرنے میں یقین رکھتا تھا یا پھر گربہ کشتن روز اول پر عمل پیرا تھا۔ کمرے میں موجود اپنے ماتحت پولیس آفیسرز کے سامنے عمر جہانگیر نے اپنی ہتک محسوس کی کچھ دیر پہلے کا دوستانہ رویہ اختیار کرنے کا فیصلہ اس نے چند سیکنڈز میں بدل دیا تھا۔
میں جس طرح کام کر رہا ہوں اسی طرح کرتا رہوں گا،
آرمی مانیٹرنگ ٹیم کی مانیٹرنگ سے اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی کیونکہ میں بہت اچھے طریقے سے کام کر رہا ہوں اتنے ہی اچھے طریقے سے جتنے اچھے طریقے سے ممکن ہے کیونکہ میں اپنا کام سیکھ کر یہاں آیا ہوں اور اس سارے نظام کو آپ سے بہتر جانتا ہوں اور جہاں تک عملے کی کارکردگی کا تعلق ہے تو وہ بھی بہتر ہے مگر اس سے زیادہ بہتری بھی ہو سکتی ہے کیونکہ بہتری کی گنجائش تو ہر جگہ ہوتی ہے بالکل اسی طرح جس طرح آرمی میں۔”
اس میجر کے چہرے پر ایک رنگ آ کر گزر گیا۔
”اور اس بہتری کے لیے میں خاصی کوشش کر رہا ہوں کیونکہ ہم لوگوں کو سرو کرنے کے لیے اس شعبے میں آئے ہیں بلکہ اسی طرح جس طرح آپ لوگ سرو کررہے ہیں۔”
اس بار اس میجر نے اپنی کرسی پر ایک بار پھر پہلو بدلا۔
”اب دیکھتے ہیں اس معاملے میں ہم اور آپ ”مل” کر کیا کر سکتے ہیں۔”
عمر نے ”مل” پر زور دیتے ہوئے کہا۔ سامنے بیٹھے ہوئے میجر نے ایک بار پھر پہلو بدلا، یقیناً اس نے عمر کے بارے میں اپنی رائے بدلنی شروع کردی تھی۔
”آپ سے اب آئندہ ملاقات تو رہا ہی کرے گی تو تفصیل سے باقی معاملات پر گفتگو ہو گی۔ آج کے لیے تو میرا خیال ہے اتنا ہی کافی ہے، آپ میرے پولیس سٹیشن کا راؤنڈ لینا چاہیں تو میں اے ایس پی او کو ہدایات دے دیتا ہوں وہ آپ کو ریکارڈ سمیت باقی چیزوں سے آگاہ کر دے گا اور آپ گھوم پھر کر بھی دیکھ سکتے ہیں۔ پھر اس کے بعد اگلی ملاقات میں تفصیل سے بات کریں گے۔”
عمر جہانگیر نے اپنے انداز سے انہیں یہ جتا دیا تھا کہ اب انہیں وہاں سے چلے جانا چاہیے کیونکہ میٹنگ بہت لمبی ہو گئی تھی جملے کو یہیں ختم کرنے پر اس نے اکتفا نہیں کیا بلکہ انٹر کام کا ریسیور اٹھا کر پولیس سٹیشن کے وزٹ کے بارے میں ہدایات بھی دینے لگا۔
میجر لطیف اپنی جگہ سے کھڑا ہو گیا اسے کھڑا ہوتے دیکھ کر اس کے ساتھ موجود دوسرے فوجی بھی کھڑے ہو گئے عمر نے انٹرکام کا ریسیور رکھ دیا اور خود بھی کھڑا ہو گیا۔ اس نے ایک مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ اپنی جگہ پر کھڑے کھڑے ٹیبل کے دوسری طرف موجود میجر کی طرف ہاتھ بڑھا دیا۔ میجر لطیف نے تکلفاً یا شاید رسماً اس کے بڑھے ہوئے ہاتھ کو تھامتے ہوئے مصافحہ کیا۔ ”آپ سے آئندہ آنے والے دنوں میں خاصی ملاقاتیں ہوتی رہیں گی۔”
عمر جہانگیر نے اس کے لہجے سے اندازہ لگا لیا تھا کہ یہ صرف رسمی جملہ نہیں تھا، وہ یقیناً اسے وارننگ دے رہا تھا۔
”ضرور کیوں نہیں اگر ان ملاقاتوں سے اس سسٹم میں کوئی بہتری ہو سکتی ہے تو ہم ضرور ملا کریں گے۔”
عمر نے اسی مصنوعی مسکراہٹ کو کچھ مزید گہرا کرتے ہوئے کہا۔ میجر لطیف نے اس کی بات کے جواب میں کچھ نہیں کہا اس نے صرف میز پر پڑی ہوئی فائلز اٹھائیں اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ آفس سے نکل گیا۔
عمر نے کمرے میں موجود ڈی ایس پی بدر جاوید کو اس کے نکلتے ہی درشتی سے کہا۔
”مجھے اس میجر اور اس کمیٹی کے تمام لوگوں کے بارے میں مکمل انفارمیشن چاہیے۔ ہر قسم کی انفارمیشن ، فیملی بیک گراؤنڈ سے لے کر ہر پوسٹنگ تک مکمل تفصیلات کے ساتھ۔”
بدر جاوید نے اس کی بات پر سر ہلاتے ہوئے کہا۔
”او کے سر…!”
”سارے پولیس سٹیشنز سے کہو اپنا ریکارڈ اپ ڈیٹ کریں۔ کسی قسم کی کوئی کوتاہی نہیں ہونی چاہیے نہ ہی میں برداشت کروں گا۔”
”This man is going to give us a very tough time”
اس نے میجر لطیف کے بارے میں تبصرہ کیا۔
”یہ گڑے مردے اکھاڑنے اور بال کی کھال اتارنے والا آدمی ہے اور خاصا بغض پالنے والی ٹائپ میں سے ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ تم لوگوں کی وجہ سے میں اس کے سامنے شرمندگی کا شکار ہوں۔”
عمر جہانگیر نے اسے تنبیہ کرتے ہوئے کہا۔
”کوئی کوتاہی نہیں ہو گی سر۔” بدر جاوید نے ایک بار پھر یقین دلایا۔
”ٹھیک ہے تم جاؤ۔” اس نے انٹرکام اٹھاتے ہوئے ہاتھ کے اشارے سے اسے جانے کا اشارہ کیا۔
”ظفر تم اندر آؤ۔”
اس نے اپنے پی اے کو انٹرکام پر اندر آنے کی ہدایت دی اور پھر انٹرکام کا ریسیور رکھ کر اس رپورٹ کے بارے میں سوچنے لگا جو میجر لطیف سے ہونے والی اس پہلی ملاقات کے بارے میں تیار کروانے والا تھا، وہ جانتا تھا اپنے آفس میں پہنچ کر میجر لطیف بھی اسی جوش و خروش سے اس میٹنگ کے بارے میں رپورٹ تیار کرنے کا سوچ رہا ہوگا۔
”جنید کے گھر والے کل کھانے پر آرہے ہیں۔ ” شام کی چائے پر نانو نے علیزہ کو بتایا۔
علیزہ نے معمول کے انداز میں انہیں دیکھا، جنید کے گھر والوں کا ان کے یہاں کھانے پر آنا کوئی نئی بات نہیں تھی۔ نانو اکثر انہیں اپنے یہاں مدعو کرتی رہتی تھیں اور خود جنید کی امی بھی ان دونوں کو اپنے یہاں کھانے پر بلاتی رہتی تھیں اس لیے علیزہ نے کسی خاص ردعمل کا اظہار کیے بغیر چائے پیتے ہوئے سر ہلا دیا۔
”شادی کی تاریخ طے کرنا چاہ رہی ہیں وہ…اسی سلسلے میں آرہے ہیں۔” نانو نے اپنی بات مکمل کی۔
وہ چائے پیتے پیتے رک گئی۔ ”شادی کی تاریخ؟” اس نے تعجب سے کہا۔
نانو کو اس کی حیرت پر حیرت ہوئی۔ ”ایک سال گزر چکا ہے علیزہ! وہ لوگ منگنی کے ایک سال بعد ہی شادی کرنا چاہتے تھے۔”
نانو نے جیسے اسے کچھ یاد دلایا۔ علیزہ نے ہاتھ میں پکڑا ہوا کپ میز پر رکھ دیا۔
”مگر جنید نے تو مجھ سے اس سلسلے میں کوئی بات نہیں کی۔”
”اس نے ضروری نہیں سمجھا ہوگا یہ کوئی غیر معمولی بات تو نہیں ہے۔” نانو نے قدرے بے نیازی سے چائے کا ایک کپ بناتے ہوئے کہا۔
”پھر بھی اسے مجھ سے بات تو کرنا چاہیے تھی یا پھر فری ہی کچھ بتا دیتی۔ میں پچھلے ہفتے ہی تو ان کے گھر پر تھی اور پھر ابھی پرسوں میری اس سے بات ہوئی ہے۔” علیزہ نے جیسے خود کلامی کی۔
”اب کل کھانے پر آرہے ہیں تو تم خود ہی اس سے پوچھ لینا کہ کیوں اس نے تمہیں نہیں بتایا لیکن مارچ میں وہ شادی کرنا چاہ رہے ہیں، اس کے بارے میں تو میں نے تمہیں چند ماہ پہلے بتایا تھا۔” نانو کو اچانک یاد آیا۔
علیزہ نے کچھ کہے بغیر چائے کا کپ اٹھا لیا۔ ”اچھا ہی ہے، جتنی جلدی میں اس ذمہ داری سے بھی فارغ ہو جاؤں اتنا ہی اچھا ہے۔” نانو نے بڑبڑاتے ہوئے کہا۔
”کیا شادی چند ماہ آگے نہیں ہو سکتی؟” علیزہ نے اچانک کہا۔
”چند ماہ آگے مگر کیوں؟” نانو نے کچھ چونک کر پوچھا۔ وہ کچھ جواب نہیں دے سکی۔
”چند ماہ آگے کس لیے؟” نانو نے ایک بار پھر اپنی بات دہرائی۔
”بس ایسے ہی۔۔۔”اس سے کوئی جواب نہیں بن پایا۔
”کوئی مناسب بات تو نہیں ہو گی یہ۔ وہ لوگ شادی آگے کرنے کی وجہ جاننا چاہیں گے۔”
”آپ کہہ دیں کہ ابھی ہم تیاری کر رہے ہیں۔” علیزہ کی بات پر نانو مسکرائیں۔
”جنید کی امی جانتی ہیں کہ ہماری تیاری مکمل ہو چکی ہے۔”
”وہ کیسے جانتی ہیں؟”
”مجھ سے ہر دوسرے تیسرے دن رابطہ ہوتا رہتا ہے ان کا، میں خود انہیں بتاتی رہتی ہوں۔” نانو نے کہا۔
”آپ بھی نانو…بس۔۔۔” علیزہ سے کوئی جواب نہیں بن پڑا۔
”کوئی دوسرا بہانا بھی تو کر سکتی ہیں۔” علیزہ نے چند لمحوں کی خاموشی کے بعد کہا۔
”ابھی مجھے ثمینہ اور سکندر سے بات کرنی ہے۔ دیکھنا ہے کہ ثمینہ کب باہر سے آ سکتی ہے پھر سکندر کی مصروفیات کا دیکھنا ہے۔ ڈیٹ تو اس کے بعد ہی طے کی جائے گی، نانو نے کہا۔
”اور اگر ممی نہیں آ سکیں یا انہوں نے ڈیٹ آگے کرنے کو کہا تو…؟” علیزہ کو اچانک خیال آیا۔
”نہیں ثمینہ ایسا کچھ نہیں کہے گی۔ میں اس سے پوچھ کر ہی اس کی سہولت کے مطابق تاریخ طے کروں گی اور اس کے نہ آنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کیا وہ اپنی بیٹی کی شادی پر نہیں آئے گی۔” نانو نے اس کے قیاس کو مکمل طور پر رد کرتے ہوئے کہا۔
”پھر بھی نانو…بہتر ہوتا اگر آپ چند ماہ اور انتظار کر لیتیں۔”
”آخر کس لیے؟”
”بس ویسے ہی، جنید کو تھوڑا اور جان لیتی میں۔ ” اس نے چائے کا سپ لیتے ہوئے کہا۔
”میں تو سمجھتی ہوں کہ تم جنید کو اچھی طرح جان چکی ہو۔ ایک سال کافی ہوتا ہے کسی کو جاننے اور پرکھنے کے لیے اور جنید اس طرح کا لڑکا تو نہیں کہ اس کے بارے میں اتنا زیادہ محتاط ہونا پڑے۔” نانو نے قدرے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
”میرا خیال تھا تمہاری اس کے ساتھ خاصی اچھی انڈر سٹینڈنگ ہو چکی ہے۔”
”ہاں وہ اچھا ہے مگر انڈر سٹینڈنگ۔۔۔” وہ بات کرتے کرتے رک گئی۔
”انڈر سٹینڈنگ کیا؟’ ‘ نانو نے کچھ نہ سمجھنے والے انداز میں کہا۔
”بعض دفعہ مجھے لگتا ہے اس کے ساتھ میری کوئی انڈر سٹینڈنگ نہیں ہے۔” علیزہ نے قدرے الجھے ہوئے انداز میں چائے کا کپ رکھتے ہوئے کہا۔
”یہ کیا بات ہوئی؟” نانو بھی الجھ گئیں۔
”تم نے پہلے کبھی جنید کے بارے میں اس طرح کی بات نہیں کی۔ تم تو ہمیشہ اس کی تعریف ہی کرتی رہی ہو۔”
”ہاں میں نے آپ سے کبھی اس کے بارے میں اس طرح کی بات نہیں کی اور میں اس کی تعریف ہی کرتی رہی ہوں۔” اس نے ان ہی کے انداز میں کہا۔
”اور تمہیں اس کی فیملی بھی بہت پسند ہے۔”
”ہاں مجھے اس کی فیملی بھی پسند ہے۔”
”بلکہ میرا تو خیال تھا کہ تم مینٹلی پہلے ہی ان کے ہاں ایڈجسٹ کر چکی ہو۔”
”ہاں میں مینٹلی پہلے ہی ان کے ہاں ایڈجسٹ کر چکی ہوں۔” اس نے کسی روبوٹ کی طرح میکانکی انداز میں یکے بعد دیگرے ان کے تمام جملے ان کے پیچھے دہراتے ہوئے کہا۔
”تو پھر آخر پرابلم کیا ہے؟” نانو نے قدرے اکتائے ہوئے انداز میں کہا۔
”پتا نہیں پرابلم کیا ہے مگر میں بعض دفعہ جنید کو سمجھ نہیں پاتی۔” اس نے کچھ بے بسی سے کہا۔
”مثلاً کیا سمجھ نہیں پاتیں تم اس کے بارے میں؟” نانو نے سنجیدگی سے اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے کہا۔
”میں نہیں جانتی کہ اپنی فیلنگز کا اظہار کیسے کروں۔ مجھے یہ بتانا مشکل لگ رہا ہے کہ اس کے رویے کی کیا بات میری سمجھ میں نہیں آتی۔ بس بعض دفعہ اس کا پوائنٹ آف ویو میرے پوائنٹ آف ویو سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔” نانو نے ایک گہرا سانس لیا۔
”یہ اتنی اہم بات تو نہیں ہے نقطہ نظر میں فرق ہونا، تمہارے نانا اور مجھ میں بھی تقریباً ہر بات پر اختلاف رائے موجود تھا مگر اس کے برعکس ہم نے پچاس سال کا عرصہ اکٹھا گزارا اور خاصی ہنسی خوشی گزارا۔” انہوں نے بڑے ہلکے پھلکے انداز میں کہا۔
”آپ دونوں کی شادی کسی کورٹ شپ کے بغیر ہوئی تھی۔ ایک سیدھی سادی ارینج میرج…ورنہ شاید ایک دوسرے کی نیچر کو اتنا مختلف دیکھ کر آپ دونوں بھی شادی نہ کرتے مگر میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں پہلے ہی اس کے بارے میں جان چکی ہوں جب کہ آپ دونوں کو بعد میں ایک دوسرے کے بارے میں پتا چلا۔” علیزہ نے قدرے سنجیدگی سے کہا۔
”ہاں بعد میں یہ سب پتا چلا مگر پہلے بھی پتا چلتا تو بھی کچھ زیادہ فرق نہ پڑتا۔ میں اور وہ پھر بھی ایک دوسرے کے ساتھ ہی شادی کرنا پسند کرتے۔” نانو نے خاصی قطعیت سے کہا۔
”He was a nice man to live with”
علیزہ نے ایک گہرا سانس لیا۔
”اور جنید کے بارے میں بھی میری رائے اتنی ہی اچھی ہے جتنی تمہارے نانا کے بارے میں بلکہ کئی اعتبار سے وہ تمہارے نانا سے بہتر ہے۔” نانو نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔
”مثلاً؟”
”مثلاً… غصے کے معاملے میں…وہ Short tempered(غصیل) نہیں ہے۔”
”ہاں…Short temperedنہیں ہے مگر غصہ بہرحال اسے آتا ہے۔” علیزہ نے انہیں بتایا۔
”نارمل بات ہے، کسے نہیں آتا، مسئلہ صرف تب ہوتا ہے جب بات بے بات آتا ہو۔” نانو نے لاپروائی سے اس کی بات کے جواب میں کہا۔
”بہت خیال رکھنے والا آدمی ہے۔”
علیزہ خاموش رہی۔
”خوش مزاج ہے…فضول بحث نہیں کرتا اور چھوٹے موٹے اختلافات کو نظر انداز کر دیتا ہے۔تمہارے نانا میں یہ چاروں خصوصیات نہیں تھیں۔”
نانو نے یکدم مسکراتے ہوئے کہا۔
”وہ Short tempered تھے اور مجھے اس کا اندازہ بہت شروع میں ہی ہو گیا تھا۔ خوش مزاجی بھی ان کے مزاج کا حصہ نہیں تھی۔ وہ خاصے کم گو تھے۔ صرف ضرورت کے وقت ہی بولنا پسند کرتے تھے اور اگر ان کے مزاج میں کچھ شگفتگی آئی تھی تو جاب سے ریٹائر ہونے کے بعد…اپنے بڑھاپے میں۔
اور چھوٹی موٹی باتوں کو نظر اندازا نہوں نے کبھی کیا ہی نہیں۔ بہت محتاط رہنا پڑتا تھا ان سے بات کرتے ہوئے ورنہ وہ چھوٹی سی بات پر بھڑک اٹھتے تھے اور پھر خاصے عرصے تک وہ چھوٹی سی بات ان کے ذہن میں اٹکی رہتی تھی اور بحث کے وہ کس حد تک شوقین تھے یہ تو تم بھی اچھی طرح جانتی ہو۔” نانو نے اپنا کپ میز پر رکھتے ہوئے کہا۔
”نہ صرف بحث کرنے کے شوقین تھے بلکہ معمولی باتوں پر بحث کرنے کے شوقین تھے اور اپنی بات پر اڑ جانے والوں میں سے تھے۔ دوسرا چاہے انسائیکلوپیڈیا سامنے رکھ کر بات کرتا۔ وہ میں نہ مانوں کے مصداق ہی چلتے۔ مجال ہے کہ کسی دوسرے کی بات کو کوئی اہمیت دے دیتے اور اس کے باوجود میں نے ان کے ساتھ بڑی اچھی زندگی گزاری ہے۔ انہیں یا مجھے دونوں کو کبھی کوئی پچھتاوا نہیں ہوا کہ ہم دونوں کی شادی کیوں ہو گئی یا…ہم نے کبھی یہ بھی نہیں سوچا کہ ہماری کہیں اور شادی ہوئی ہوتی تو بہتر ہوتا۔ پھر تمہیں اتنے خدشات کیوں ہیں جنید کے بارے میں۔” نانو اچانک سنجیدہ ہو گئیں۔
”آپ جنید کو اتنا زیادہ کیسے جاننے لگی ہیں؟” علیزہ نے اچانک ان سے پوچھا۔
”شروع سے ہی جانتی ہوں۔” نانو نے بے ساختہ کہا۔
”شروع سے ہی جانتی ہیں؟” علیزہ نے کچھ چونک کر انہیں دیکھا مگر آپ کی بات چیت تو جنید اور اس کے خاندان سے اس پر پوزل کے آنے کے بعد ہوئی ہے۔”
”ہاں میرا مطلب ہے کہ ایک سال سے جب سے وہ یہاں آنے لگا ہے۔ شروع سے ہی وہ بڑی سلجھی ہوئی عادتوں کا مالک ہے۔” نانو نے جلدی سے تصحیح کی۔
”ایک سال میں اس نے یہاں چند گھنٹوں سے زیادہ وقت نہیں گزارا اور چند گھنٹے کیا کسی آدمی کے بارے میں حتمی رائے قائم کرنے کے لیے کافی ہوتے ہیں؟” اس نے سنجیدگی سے نانو سے پوچھا۔
”ہر آدمی کے بارے میں نہیں مگر کچھ لوگوں کے بارے میں حتمی رائے قائم کرنے کے لیے تو چند منٹ بھی کافی ہوتے ہیں۔” نانو نے اسی کے انداز میں کہا۔
”میں نے یہ نہیں کہا کہ جنید برا ہے۔ میں صرف یہ کہہ رہی ہوں میں اسے سمجھ نہیں پاتی۔” علیزہ نے مدافعانہ انداز میں کہا۔
”بعض دفعہ تو مجھے تمہیں سمجھنے میں بھی دشواری ہوتی ہے اور بعض دفعہ تم بھی مجھے سمجھ نہیں پاتی ہو گی۔” نانو نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ ”اس کے باوجود ہم دونوں کی آپس میں خاصی انڈر سٹینڈنگ ہے یا پھر تم یہ سمجھتی ہو کہ تمہاری میرے ساتھ بھی انڈر سٹینڈنگ نہیں ہے۔”
علیزہ ان کی بات پر صرف مسکرائی۔ اس نے کچھ کہا نہیں ورنہ وہ کہنا چاہتی تھی کہ ہاں وہ ان کے ساتھ بھی بات کرتے ہوئے اکثر انہیں اپنی بات اپنا نقطہ نظر سمجھانے میں ناکام رہتی ہے۔
”چند ماہ اس کے ساتھ اور گزارنے کے بعد اگر تمہیں یہ احساس ہونا شروع ہو گیا کہ وہ تمہارے لیے موزوں نہیں ہے تو پھر کیا کرو گی؟” نانو نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔
”خاص طور پر اس صورت میں جب تم اس کے لیے اپنے دل میں ایک نرم گوشتہ بھی پیدا کر چکی ہو۔ کیا منگنی توڑ دو گی اور کیا یہ فیصلہ اس وقت زیادہ مشکل نہیں ہوگا؟”
نانو نے جیسے ایک آپشن اس کے سامنے حل کرنے کے لیے رکھتے ہوئے کہا۔
”لمبی کورٹ شپ میں ایسے مسائل تو ہوتے ہی ہیں۔ جنید مجھے بتا رہا تھا پچھلے چند ماہ میں تم دونوں کے درمیان کچھ اختلافات ہوتے آرہے ہیں۔”
علیزہ نے چونک کر انہیں دیکھا۔ اسے توقع نہیں تھی کہ جنید اس طرح کی بات نانو سے کر سکتا تھا۔
”اس نے کیا بتایا ہے آپ کو؟”
”کچھ زیادہ نہیں، بس وہ یہ کہہ رہا تھا کہ تم اس سے قدرے ناراض رہنے لگی ہو۔”
”اس نے آپ کو یہ نہیں بتایا کہ میں ناراض کیوں رہنے لگی ہوں؟” علیزہ نے کچھ ناگواری سے پوچھا۔
”ہاں وہ کہہ رہا تھا کہ تم کو اس نے عمر کے حوالے سے خبریں شائع کرنے سے منع کیا تھا اس پر تم۔۔۔” علیزہ نے ان کی بات کاٹ دی۔
”حالانکہ عمر کے خلاف کوئی بھی خبر میں نے شائع نہیں کی تھی۔”
”تمہاری دوست صالحہ نے شائع کی تھی۔ تم نے اس کو منع بھی تو نہیں کیا۔” نانو نے کچھ شاکی نظروں سے اسے دیکھا۔
”میں اسے منع کیوں کرتی۔ آپ اس بارے میں میرے پوائنٹ آف ویو کو اچھی طرح جانتی ہیں۔” علیزہ نے کہا۔
”جو بھی تھا مگر مجھے جنید کی بات بالکل بھی Unreasonable (نامعقول) نہیں لگی۔ اس کی جگہ کوئی اور بھی ہوتا تو تمہیں اسی طرح سمجھاتا، سڑکوں پر پوسٹر اور بینر لے کر کھڑے ہونے کے لیے اور بہت سے لوگ ہوتے ہیں ہماری فیملیز کی عورتوں کو ایسے کاموں میں شریک نہیں ہونا چاہیے اور پھر اپنے ہی خاندان کے ایک فرد کے خلاف…پھر اگر اس پر اس نے کسی ردعمل کا اظہار کیا تو وہ یہ کرنے میں بالکل Justified(حق بجانب) تھا۔ کم از کم یہ ایسی بات نہیں تھی جس پر تم ناراض ہوتی پھرتیں۔” نانو نے دوٹوک انداز میں کہا۔
”اس کی آکورڈ پوزیشن کا اندازہ کرنا چاہیے تھا تمہیں، اس کی فیملی کیا سوچتی تمہارے بارے میں اور صرف کلوز فیملی ممبرز ہی نہیں دوست احباب کو بھی خاصی وضاحتیں دینی پڑی ہوں گی اسے لوگوں کے سامنے اور اس پر تمہاری ناراضی۔” نانو نے اسے بولنے کا موقع دیئے بغیر کہا۔ ”پھر اگر ان باتوں پر کوئی اختلاف رائے ہوتا ہے تو ٹھیک ہی ہوتا ہے۔ اگر یہ وہ بات ہے جس پر تم اس کے رویے کو سمجھ نہیں سکتیں تو بہتر ہے تم خود اپنے رویے پر ایک بار نظر ثانی کرو۔ ہو سکتا ہے تم اس کے اس رویے کو سمجھ سکو۔
تمہیں اگر یہ لگتا ہے کہ اسے تم سے زیادہ تمہاری فیملی ممبرز کی پروا ہے اور ان کی عزت کی فکر رہتی ہے تو تمہیں تو خوش ہونا چاہیے۔ کم از کم اس معاملے میں اس کا رویہ نامناسب نہیں ہے۔” نانو نے بڑی صاف گوئی سے کہا۔
”اور آپ یہ کہہ رہی ہیں کہ اس نے آپ کو زیادہ باتیں نہیں بتائیں۔ مگر میرا خیال ہے کہ وہ آپ کو سب کچھ خاصی تفصیل سے بتاتا رہا ہے۔” علیزہ نے ان کی بات کے جواب میں کہا۔
”تمہیں یہ بات بھی بری لگی ہے؟” نانو نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”کیا نہیں لگنی چاہیے؟” اس نے جواباً سوال کیا۔
”نہیں لگنی چاہیے کیونکہ اس نے سب کچھ میرے استفسار پر بتایا تھا۔ میں جاننا چاہ رہی تھی کہ آخر تم اس سے اکھڑی اکھڑی کیوں رہنے لگی ہو۔”
نانو نے اس کی بات کے جواب میں جیسے کچھ وضاحت کرتے ہوئے کہا۔
”اور پھر یقیناً آپ نے اس ساری صورت حال کا حل شادی کی صورت میں نکالا ہوگا۔”
”نہیں یہ حل میں نے پیش نہیں کیا۔ میں نے صرف تجویز دی تھی اسے کہ بہتر ہے تم دونوں اب شادی کر لو۔ اس نے اپنے گھر والوں سے بات کی…ان کی بھی یہی خواہش تھی اس لیے۔”
علیزہ نے ان کی بات کاٹ دی۔ ”آپ بھی نانو بعض دفعہ حد کر دیتی ہیں۔” اس کے لہجے میں خفگی تھی۔
”تو کیا مجھے یہ انتظار کرنا چاہیے کہ کب تم لوگوں کے اختلافات اور بڑھیں اور تلخیوں اور کشیدگی کے بعد رشتہ ختم ہونے کی نوبت آن پہنچے۔”
”ایسا کبھی نہیں ہونا تھا۔”
”کیوں تم یہ کس طرح کہہ سکتی ہو؟”
”بس کہہ سکتی ہوں۔” اس نے ٹیبل پر پڑا ہوا اپنا موبائل اٹھاتے ہوئے کہا۔
”پھر وہ لوگ کل آرہے ہیں تو میں انہیں تاریخ دے دوں گی۔” نانو نے جیسے اسے خبردار کرتے ہوئے کہا۔
”دے دیں۔ آپ کی اتنی لمبی چوڑی پلاننگ اور سکیمنگ کو میں برباد نہیں کروں گی۔” علیزہ نے کچھ ہلکے پھلکے انداز میں کہا۔
نانو اس کی بات پر مسکرا دیں۔
”تم شہلا کو بھی کل بلوا لینا۔”
”بلوا لوں گی، وہ ویسے بھی یہاں کا چکر لگانے کا سوچ رہی ہے۔” اس نے لاؤنج سے نکلنے سے پہلے کہا۔
”بہتر ہے کہ کل تم آفس نہ جاؤ۔ گھر پر ہی رہو۔’ ‘ نانو نے اسے کہا۔
”نہیں کل آفس تو مجھے جانا ہے مگر میں وہاں سے جلدی آ جاؤں گی۔”
”جلدی…کس وقت…؟”
”دوپہر کو لنچ کے بعد آ جاؤں گی بلکہ شاید لنچ آور کے دوران ہی۔” اس نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
”ہاں ٹھیک ہے۔ یہ بہتر رہے گا۔” نانو نے کچھ مطمئن ہوتے ہوئے کہا۔
اگلے روز شام کو جنید کے گھر والے ان کے ہاں آئے تھے۔ نانو، ثمینہ اور سکندر سے پہلے ہی فون پر بات کر چکی تھیں دونوں نے انہیں اگلے ماہ کی کوئی بھی تاریخ طے کر دینے کا کہا تھا۔ دونوں فیملیز نے کھانے کے بعد باہمی مشورے سے تاریخ طے کر لی۔
جنید اپنے گھر والوں کے ساتھ نہیں آیا تھا۔ رات بارہ بجے کے بعد جب اس کے گھر والے واپس گئے تو اس کے کچھ دیر بعد اس نے علیزہ کو فون کیا۔ اسی وقت سونے کے لیے اپنے کمرے میں گئی تھی۔
”میں صرف مبارکباد دینے کے لیے کال کر رہا ہوں۔” رسمی سلام و دعا کے بعد اس نے علیزہ سے کہا۔ اس کا لہجہ خاصا خوشگوار تھا۔
”تھینکس مگر تین دن پہلے جب ہم لوگ ملے تھے تو آپ کو مجھے بتانا چاہیے تھا۔” علیزہ نے کہا۔
”کس چیز کے بارے میں؟” جنید نے قدرے بے نیازی سے کہا۔
”یہی کہ آپ کے گھر والے تاریخ طے کرنے کے لیے ہمارے گھر آنے والے ہیں۔”
”میں نے سوچا تمہیں سرپرائز دوں۔”
”میں سوچ رہی تھی آپ کہیں گے کہ آپ کو اس کے بارے میں کچھ خبر ہی نہیں تھی۔”
وہ دوسری طرف ہنسنے لگا ”نہیں…میں کوئی لڑکی نہیں ہوں کہ اسے آخری لمحوں تک کچھ پتا ہی نہ ہو اور نہ ہی یہ کوئی فلم ہے۔ ظاہر ہے میری شادی کی تاریخ مجھ سے پوچھے بغیر کیسے طے کی جا سکتی ہے۔”
”ہاں آپ سے پوچھے بغیر کیسے طے کی جا سکتی ہے۔ وہ تو صرف مجھ سے پوچھے بغیر طے کی جا سکتی ہے۔” علیزہ نے شکوہ کیا۔
”یار! بتا تو رہا ہوں ، تمہارے لیے سرپرائز تھا۔ اچھا سرپرائز نہیں تھا کیا؟” وہ اسی طرح شگفتگی سے بولتا رہا۔
”بہار کے موسم میں شاید میں واحد آدمی ہوں گا جو اتنی خوشی خوشی اپنی رضامندی کے ساتھ آزادی کے بجائے غلامی قبول کروں گا۔ تمہیں تو میرے اس جذبے کو سراہنا چاہیے۔” اس بار اس کے لہجے میں مصنوعی سنجیدگی تھی۔ How very magnanimous(کتنا باحوصلہ ہوں) غلامی قبول کروں گا۔”
”کیسی غلامی؟”
”نہیں شاید قید کہتے ہیں اسے…ہے نا؟” جنید نے فوراً اپنے جملے میں تصحیح کرتے ہوئے کہا۔
”جی نہیں قید بھی نہیں کہتے۔”
”اچھا تو پھر کیا کہتے ہیں؟”
”میرا خیال ہے اسے بس شادی ہی کہتے ہیں۔”
”واقعی؟” اس بار دوسری طرف سے کچھ مزید حیرانی کا اظہار کیا گیا۔
”جی واقعی۔۔۔” وہ اس کے انداز پر مسکرائی۔
”اس میں قید یا غلامی والی کوئی بات نہیں ہوتی؟” سنجیدگی سے تصدیق کی گئی۔
”نہیں کم از کم مردوں کے لیے ایسی کوئی بات نہیں ہوتی۔ اگر ایسا کچھ ہو بھی تو خواتین کے لیے ہوتا ہے۔” علیزہ نے جتانے والے انداز میں کہا۔
”اچھا…! مگر میرے دوستوں کا تجربہ تو اس کے برعکس ہے۔” وہ ابھی بھی اسی موڈ میں بظاہر بڑی سنجیدگی کے ساتھ گفتگو کر رہا تھا۔
”معجزات بھی ہوتے ہیں مگر زیادہ تر نہیں، آپ کے دوستوں کے ساتھ کوئی معجزہ ہوا ہوگا۔” علیزہ اس کی گفتگو سے محظوظ ہو رہی تھی۔
”ہو سکتا ہے میرے معاملے میں بھی ایسا کوئی معجزہ ہو جائے؟” دوسری طرف سے اپنے خدشے کا اظہار کیا گیا۔
”ایسے معجزوں کے لیے خواتین میں کچھ کشف اور کرامات کا ہونا ضرور ہے اور میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ میں ان دونوں چیزوں سے عاری ہوں۔”
”آپ سے یہ جان کر خاصی ہمت بندھی ہے میری، خاصا حوصلہ ہوا ہے مجھے یعنی میری آزادی پر کوئی حرف نہیں آئے گا۔”
”نہیں آپ تسلی رکھیں، آپ کی آزادی پر کوئی حرف نہیں آئے گا۔ آپ ایسے حضرت ہیں بھی نہیں جو اپنی آزادی پر کوئی حرف برداشت کر لیں۔”
علیزہ نے اسے تسلی دی دوسری طرف سے وہ بے اختیار ہنسا۔
”I am very timid. ” (میں تو بہت بزدل لوگوں میں سے ہوں)
”اگر آپ ”اپنے” لیے timid (بزدل ) استعمال کررہے ہیں تو یقیناً ڈکشنری میں Timid کا مطلب بدل چکا ہوگا۔” وہ اس کی بات پر ایک بار پھر ہنسا۔
”میرے بارے میں تم کچھ ضرورت سے زیادہ نہیں جان گئیں؟”
”نہیں ضرورت کے مطابق ہی جانا ہے آپ کو۔”
”تھوڑی سی رومانٹک گفتگو اب لازم نہیں ہو گئی ہم پر؟ ” وہ اس کے جواب سے محظوظ ہوتے ہوئے بولا۔
”میرا خیال ہے ابھی تک ساری گفتگو رومانٹک ہی ہوئی ہے۔”
”نہیں…نہیں…میں کچھ اظہار محبت اور وعدوں وغیرہ کی بات کر رہا ہوں…چاند تارے توڑنے ٹائپ والی باتیں۔”
علیزہ ہنس پڑی ”نہیں اس کی ضرورت نہیں ہے۔ ان چیزوں کو توڑنے کے بغیر بھی آپ کے بارے میں میری رائے خاصی اچھی ہے۔”
”یہ سن کر خاصی خوشی ہوئی ہے مجھے ورنہ میرا خیال تھا کہ پچھلے چند ماہ میں ہونے والے واقعات کے بعد میرے بارے میں تمہاری رائے کا گراف خاصا نیچے چلا گیا ہوگا۔” وہ اب اسے چھیڑ رہا تھا۔
”ہونا تو چاہیے تھا مگر بہرحال ہوا نہیں۔”
”تب مجھے خود کو خوش نصیب سمجھنا چاہیے۔”
”یہ آپ پر منحصر ہے۔” اس نے کہا وہ اب اپنی سینڈل کے اسٹیرپس کھولتے ہوئے اپنے بیڈ پر بیٹھ رہی تھی۔
”یار! تمہیں بھی تو خوش قسمت سمجھنا چاہیے مجھے۔”
”اچھا ٹھیک ہے، آپ بڑے خوش قسمت ہیں۔ اب آپ یقیناً یہ کہیں گے کہ میں بھی خود کو خوش قسمت سمجھوں۔”
جنید نے بے اختیار قہقہہ لگایا۔
”آج تمہاری ہر Sense (حس) بڑی شارپ ہے۔ میرے کہے بغیر ہی اگلا جملہ بوجھ رہی ہو، کمال کی انڈر سٹینڈنگ ہے ہماری۔”
وہ اس کے آخری جملے پر مسکرائی، جنید واقعی آج بڑے موڈ میں تھا۔
”اگر آپ کے ساتھ رہنا ہے تو senses کو شارپ کرنا ہی پڑے گا۔ ورنہ خاصی مشکل ہو جائے گی۔”
”کس کو…؟ مجھے یا تمہیں؟”
”مجھے…آپ کو تو خاصی آسانی ہو جائے گی۔” علیزہ نے تکیہ کو گود میں لیتے ہوئے کہا۔
) You are pretty intelligent تم بہت ذہین ہو)
جنید نے مسکراتے ہوئے اس کی بات کے جواب میں کہا۔
”آپ Pretty کے بعد کوما لگا کر یہ بات کہہ رہے ہیں؟” جنید اس کی بات پر بے اختیار محظوظ ہوا۔
”نہیں فل سٹاپ لگا کر کہہ رہا ہوں You are pretty ”اس بار علیزہ اس کی بات پر ہنسی۔
”اور Intelligent؟” اس نے ہنسی روکتے ہوئے پوچھا۔
”فی الحال اس کو delete کر دیتے ہیں۔ بات Pretty تک ہی رکھتے ہیں اس سے ماحول خاصا خوشگوار ہو گیا ہے۔” جنید کا اشارہ اس کی ہنسی کی طرف تھا۔
”تعریف کے لیے شکریہ ادا تو نہ کروں نا؟”
”بالکل نہیں آپ کی تعریف کرکے میں اپنا فرض ادا کر رہا ہوں۔ فرض کی ادائیگی پر کیسا شکریہ ” جنید اب اسے تنگ کر رہا تھا۔
”اچھا تو صرف فرض کی ادائیگی کے لیے تعریف کررہے ہیں دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر نہیں کر رہے۔” علیزہ مصنوعی سنجیدگی سے بولی۔
”دل تو already (پہلے ہی) آپ کے پاس ہے۔ میں تو اس وقت دماغ کو استعمال کرتے ہوئے تعریف کر رہا ہوں۔
sane, sensible thing (دانا اور سمجھ دار)
علیزہ نے بے اختیار ایک گہرا سانس لیا۔
اس کی برجستگی آج واقعی لاجواب کر دینے والی تھی۔
It means that I am going to marry a heartless person ( اس کا مطلب ہے کہ ایسے شخص سے شادی کر رہی ہوں جس کا دل ہی نہیں ہے)
On the contrary I’m going to marry a girl with two hearts (اس کے بر عکس میں جس لڑکی سے شادی کر رہا ہوں اس کے دو دل ہیں)
جنید نے اتنی ہی بے ساختگی سے کہا۔
”میڈیکل سائنس میں دو دلوں والے انسان کو کیا کہا جاتا ہے۔” علیزہ نے بڑے سنجیدہ لہجے میں کہا۔
”میڈیکل سائنس کا تو مجھے پتا نہیں مگر غالب اسے ”محبوب” کہتے ہیں۔”
علیزہ بے اختیار کھکھلائی، جنید کے منہ سے غالب کا حوالہ اسے بے حد دلچسپ لگا تھا۔
”میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ آپ بھی زندگی میں کبھی غالب کی بات کریں گے۔ اقبال کا ذکر کب فرمائیں گے؟”
”اقبال کا ذکر مشکل ہی ہے، وہ خودی کی بات کرتے ہیں اور محبت ہو جانے کے بعد خودی کہاں باقی رہتی ہے۔اس لئے اقبال کا ذکر اب باقی ساری زندگی مشکل ہی ہے۔ بس غالب ہی ٹھیک ہیں۔”
”وہی غالب جو کہتے ہیں کہ عشق نے نکما کر دیا؟”
”غالب تو یہ بھی فرماتے ہیں”
بلائے جان ہے غالب اس کی ہر بات
عبارت کیا، اشارت کیا، ادا کیا
”میرے سر کے اوپر سے گزر گیا ہے آپ کا یہ شعر۔” علیزہ نے جیسے ہتھیار ڈالتے ہوئے کہا۔
”یہ میرا نہیں غالب کا شعر ہے اس لئے اگر آپ کے سر کے اوپر سے گزر گیا تو کوئی بات نہیں، میں اعتراض تب کرتا اگر میرا شعر آپ کے سر کے اوپر سے گزر جاتا۔”
”آپ کا اپنا شعر ہوتا تو وہ بھی میرے سر کے اوپر سے ہی گزرتا۔ لٹریچر اور خاص طور پر شعر و شاعری کے معاملے میں کچھ زیادہ اچھا ذوق نہیں رکھتی۔”
”آپ فکر نہ کریں جناب، میرے ساتھ رہیں گی تو ٹھیک ہو جائیں گی۔”
”ٹھیک ہو جاؤں گی یا آپ ٹھیک کر دیں گے؟”
”دونوں میں کوئی فرق ہے؟”
”بہت ۔۔۔”
”میں ٹھیک نہیں کروں گا آپ خود ہی ٹھیک ہو جائیں گی۔”
”ابھی ٹھیک نہیں ہوں؟”
”نہیں ٹھیک ہیں مگر بعد میں کچھ زیادہ ٹھیک ہو جائیں گی یا پھر میں ٹھیک ہو جاؤں گا۔” اس نے ایک گہری سانس لیتے ہوئے کہا۔
”صرف ٹھیک؟ زیادہ ٹھیک نہیں ہوں گے آپ؟”
اس بار وہ اس کی بات پر بے اختیار ہنسا۔ ”چلیں …زیادہ ٹھیک ہو جاؤں گا۔ آپ کی طرح غالب کے شعر میرے بھی سر کے اوپر سے گزرنے لگیں گے۔”
”آپ بڑے عجیب آدمی ہیں جنید!”
”یہ تعریف ہے یا تنقید؟” اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
”دونوں ہی نہیں ہیں، بس تبصرہ ہے۔” علیزہ نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
”پھر ٹھیک ہے۔ مگر آپ جب میرے گھر آ کر میرے ساتھ رہیں گی تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ آپ کی یہ رائے بہت غلط اور بے موقع تھی۔ میں بڑا سیدھا سادھا آدمی ہوں۔” اس بار وہ بھی سنجیدہ ہو گیا۔
”آپ سے ایک بات پوچھنا چاہ رہی تھی میں؟”
”جی فرمائیں؟”
”کیا نیوز پیپر سے ریزائن کر دوں میں؟”
”اس کا فیصلہ تم خود کر سکتی ہو مجھ سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے۔” جنید نے بڑی سہولت سے کہا۔
”مگر میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا۔”
”یہ اتنا مشکل فیصلہ تو نہیں ہے۔”
”میرے لئے ہے۔”
”تم جو چاہتی ہو وہ کرو۔”
”مجھے یہ بھی نہیں پتا کہ میں کیا چاہتی ہوں، میں ڈبل مائنڈڈ ہو رہی ہوں اس لئے آپ سے پوچھ رہی ہوں کیا یہ ضروری ہے کہ میں ریزائن کر دوں؟”
”نہیں ضروری نہیں ہے۔”
”آپ کے گھر والوں کو اس پر کوئی اعتراض ہو گا؟”
”نہیں گھر والوں کو تو نہیں ہو گا مگر مجھے ہو سکتا ہے۔”
”آپ کو کیوں ہو گا؟”
”کیا تمہیں یقین ہے کہ تم گھر اور آفس کو اکٹھا Manage کر سکتی ہو؟” اس بار جنید واقعی سنجیدہ تھا۔
”پتا نہیں اسی لئے تو میں کنفیوز ہو رہی ہوں۔”
”تم کو اندازہ تو ہو گا؟”
”کوئی اندازہ نہیں ہے، پہلے مجھ پر گھر کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے، صرف جاب ہی ہے۔”
”میرے گھر آ کر بھی تو تمہیں کوئی کام تو نہیں کرنا پڑے گا مگر پھر بھی بہت سی دوسری چیزیں ہوتی ہیں۔” جنید بات کرتے کرتے رکا۔
”تم جاب نہیں چھوڑنا چاہتیں؟”
”جاب …؟ میں چھوڑنا چاہتی ہوں مگر ابھی نہیں۔”
”علیزہ! میں کوئی کنزرویٹو آدمی نہیں ہوں اگر تم میں کوئی ٹیلنٹ ہے تو میں اسے ضائع کرنا نہیں چاہوں گا …مگر جس فیلڈ میں تم ہو یہ قدرے عجیب ہے تم اکثر فنکشنز کور کرنے جاتی ہو۔ فنکشنز کہاں ہوں، کب ہوں، تم گھر کب پہنچو …یہ سب کچھ خاصا complicated ہوتا ہے۔”
”ہاں میں جانتی ہوں اور اسی لئے ڈبل مائنڈڈ ہوں، مگر صرف میں صرف کھانے پینے، شاپنگ کرنے اور سونے والی زندگی گزارنا نہیں چاہتی۔ سوسائٹی میں کچھ تو کنٹری بیوشن ہونا چاہئے میرا۔”
”تم فری لانسنگ کر سکتی ہو۔” جنید نے تجویز پیش کی۔
”فری لانسنگ؟” وہ سوچ میں پڑ گئی۔
”تمہارے لئے یہ خاصا آسان رہے گا۔” جنید نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔
”میں نے اس کے بارے میں سوچا نہیں۔”
”تو سوچ لو …بلکہ تم ایسا کرو …ریزائن کرنے کے بجائے چھٹی لے لو کچھ عرصہ کے بعد تم اپنی روٹین اور زندگی کو دیکھ لینا اور پھر فیصلہ کرنا زیادہ آسان ہو جائے گا تمہارے لئے۔ بعد میں ہم دونوں زیادہ بہتر طریقے سے اس کے بارے میں کچھ طے کر لیں گے، یہ بھی دیکھ لیں گے کہ تمہارے لئے اور alternatives کیا ہیں۔ بلکہ تم دیکھنا کہ امی تھوڑا بہت سوشل ورک کر رہی ہیں اس میں تم کس طرح مدد کر سکتی ہو۔ تمہارا تو سبجیکٹ بھی سوشیالوجی ہی رہا ہے۔ ضروری تو نہیں ہے کہ صرف جرنلزم کے ذریعے ہی سوسائٹی میں کوئی کنٹری بیوشن کی جائے۔”
وہ اس کی بات غور سے سنتی رہی۔
”ہاں یہ ضروری نہیں ہے۔”
”پھر اور بہت سارے کام ہیں جو تم کر سکتی ہو مگر یہ ضروری نہیں کہ نائن ٹو فائیو والا کام کیا جائے اور پھر روز ہی کیا جاۓ۔

باب: 50

علیزہ جنید کے ساتھ اس وقت ہوٹل میں بیٹھی تھی، وہ دونوں وہاں کھانا کھانے کے لیے آئے تھے۔ جنید نے اسے کچھ شاپنگ بھی کروائی تھی شاپنگ سے واپسی پر وہ اس ہوٹل میں چلے آئے۔
”یہ شادی سے پہلے ہمارا آخری کھانا ہے۔” ویٹر کو آرڈر دینے کے بعد جنید نے علیزہ سے کہا۔
”اگلی بار تو ہم ایسی کسی جگہ پر شادی کے بعد ہی بیٹھے ہوں گے۔”
”کوئی آخری خواہش ہے تمہاری…کوئی ایسا کام جو تم آج کرنا چاہو۔۔۔” جنید نے گہرا سانس لیا۔
علیزہ کو اس کی سنجیدگی پر ہنسی آگئی۔ ”آپ کس طرح کی باتیں کر رہے ہیں جنید…آخری خواہش سے کیا مطلب ہے آپ کا؟”
”کوئی ایس چیز جو ہم یا تم آج کر سکتی ہو مگر تین ہفتے بعد نہ کر سکو، میرا مطلب ہے شادی کے بعد۔”
”میرے ذہن میں تو ایسی کوئی چیز نہیں آ رہی جو میں اب کر سکتی ہوں اور شادی کے بعد نہیں کر سکتی۔” علیزہ نے لاپروائی سے کہا۔
”یار سوچو…ذہن پر زور ڈالو۔ کچھ نہ کچھ تو ایسا ہوگا جو ہم آج کر سکتے ہیں مگر شادی کے بعد نہیں کر سکیں گے۔ اب تین ہفتے تک تو میں تم سے مل نہیں سکوں گا اس لیے اگر تمہاری کوئی خواہش ادھوری رہ گئی تو پھر مجھے مت کہنا۔”
”میں نے ذہن پر بہت زور دیا ہے مگر میری سمجھ میں نہیں آ رہا بس یہ ہے کہ شادی تک آپ سے دوبارہ ملاقات نہیں ہو گی اور تو کچھ بھی ایسا نہیں ہے جو چھٹ جائے اور جہاں تک آپ سے ملاقات کی بات ہے تو شادی کے بعد آپ سے ملاقات تو روز ہی ہوتی رہے گی۔ پھر اور کیا ہے۔” علیزہ نے کہا
”ہاں واقعی اور ایسا ہے ہی کیا جو چھٹ جائے گا یعنی تمہاری کوئی ایسی خواہش نہیں ہے جو ادھوری رہ جائے گی؟”
”نہیں میری ایسی کوئی خواہش نہیں ہے جو ادھوری رہ جائے گی۔”
”پھر بھی یار! اگر کچھ منوانا ہو تو آج منوا لو، میں بہت اچھے موڈ میں ہوں، شاید بعد میں تمہاری فرمائش اس طرح نہ پوری کروں جس طرح اب کرنے پر تیار ہوں۔” جنید نے فراخ دلی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
”میں نے آپ سے کبھی بھی کوئی فرمائش نہیں کی یہ آپ کو یاد رکھنا چاہیے۔” علیزہ نے اسے جتایا۔
”یعنی میں خود ہی تمہارا اتنا خیال رکھتا ہوں کہ تمہیں فرمائش کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ تم یہی کہنا چاہ رہی ہو نا؟” جنید نے مصنوعی سنجیدگی سے کہا۔
”نہیں میں یہ کہنا چاہ رہی ہوں کہ میں فرمائشوں پر کچھ زیادہ یقین نہیں رکھتی، خاصی قناعت پسندی ہے مجھ میں۔”
”اسی لیے تو تمہیں میں نے آفر کی ہے۔”
علیزہ نے اس کے مسکراتے چہرے کو غور سے دیکھا۔
”اگر آپ اتنا اصرار کر رہے ہیں کسی فرمائش کے لیے تو آپ میری ایک خواہش پوری کر دیں۔” اس نے چند لمحے کچھ سوچتے رہنے کے بعد یکدم سنجیدگی سے کہا۔
”بالکل ضرور کیوں نہیں۔” جنید نے کچھ دلچسپی کے ساتھ ٹیبل پر اپنی کہنیاں ٹکاتے ہوئے کہا۔
”عمر سے دوبارہ کبھی مت ملیں۔”
جنید کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہو گئی۔ وہ ایک بار پھر سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ ”یہ کیا بات ہوئی؟”
”آپ نے خود ہی کوئی فرمائش کرنے کے لیے کہا تھا۔” علیزہ نے اسے یاد دلایا۔
”مگر یہ تو خاصی نامناسب سی فرمائش ہے۔” جنید یکدم سنجیدہ ہو گیا۔
”نہیں کوئی اتنی نامناسب نہیں ہے۔” علیزہ نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔ ”میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ آپ پہلے کی طرح اب بھی عمر سے کوئی رابطہ نہ رکھیں۔ اس سے ملنے سے احتراز کریں اس میں نامناسب بات کیا ہے؟”
”میں اس سے بہت زیادہ تو نہیں ملتا ہوں۔”
”میں چاہتی ہوں آپ اس سے نہ ملیں نہ کم نہ زیادہ۔ سرے سے ہی نہ ملیں۔”
”کیوں؟”
”کیونکہ میں اسے پسند نہیں کرتی۔” اس نے بڑی صاف گوئی سے کہا۔
”تم اسے پسند کیوں نہیں کرتیں؟”
”آپ جانتے ہیں۔”
جنید نے اس کی بات پر قدرے ناگواری سے سر جھٹکا ”صرف ایک واقعہ کی بنا پر کسی کے بارے میں اس طرح کی حتمی رائے بنا لینا اور کسی کو ناپسند کرنے لگنا کچھ سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے…بہت illogical (غیر منطقی) اور Unreasonable (نامناسب) قسم کی بات ہے۔”
”ایک یا دو واقعات کی بات نہیں ہے۔ بہت ساری وجوہات ہیں اس کے لیے میری ناپسندیدگی کی۔” علیزہ نے سنجیدگی سے کہا۔
”تم ذرا روشنی ڈالنا پسند کرو گی، ان بہت ساری وجوہات میں سے چند ایک پر۔”
”اگر میں نے یہ کام شروع کیا تو ہم لوگ خاصا وقت ضائع کریں گے۔” علیزہ نے بات کو گول کرتے ہوئے کہا۔
”کیا یہ مناسب نہیں ہے کہ تم عمر کو اس کے پروفیشن سے ہٹ کر صرف ایک فیملی ممبر کے طور پر دیکھو۔ اس کے پروفیشن کے حوالے سے اسے جج نہ کرو۔” جنید نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔
”اس کے باوجود اس کے لیے میری ناپسندیدگی اسی طرح قائم رہے گی۔” علیزہ نے دوٹوک انداز میں کہا۔ ”اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ میں اسے اس کے پروفیشن کے حوالے سے جج کروں یا نہ کروں۔”
”مجھے حیرت ہوتی ہے اس نے ہمیشہ تمہاری تعریف کی ہے اور تم اس کے بارے میں اتنی نیگیٹو سوچ رکھتی ہو۔”
”وہ بھی مجھے ناپسند کرتا ہے۔” علیزہ نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا۔
نہیں کم از کم میں تمہاری اس بات پر یقین نہیں کر سکتا۔” جنید نے قطعیت سے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
”اتنے سالوں میں میں نے ایک بار بھی عمر کے منہ سے تمہارے خلاف کبھی کچھ نہیں سنا۔ وہ ہمیشہ تمہارے بارے میں بہت فکر مند رہا ہے۔ اس نے ہمیشہ تمہاری تعریف کی ہے۔”
جنید روانی سے کہتا جا رہا تھا، علیزہ بے حس و حرکت پلکیں جھپکائے بغیر اسے دیکھ رہی تھی۔
”ہو سکتا ہے تم دونوں کے درمیان کچھ غلط فہمی ہو جسے دور ہو جانا چاہیے اور مجھے غلط فہمی کے سوا یہ کچھ اور لگتا بھی نہیں، جب تم اپنے کسی اور کزن پر اس کے کیریئر یا پروفیشن کے حوالے سے تنقید نہیں کرتیں یا اسے ناپسند نہیں کرتیں تو پھر آخر عمر ہی کیوں، کیا یہ اس کے ساتھ زیادتی نہیں ہے۔”
جنید بات کرتے کرتے رک گیا۔ علیزہ کے چہرے کے تاثرات بہت عجیب تھے۔
”کیا ہوا؟ کیا میں نے کچھ غلط کہا؟” جنید نے اس سے پوچھا۔
”کتنے سالوں سے جانتے ہیں آپ عمر کو؟” اس نے سرد آواز میں جنید سے کہا وہ اسے دیکھنے لگا۔
”کتنے سالوں سے؟”
”ہاں کتنے سالوں سے؟ آپ نے کہا…آپ نے ”اتنے سالوں” سے کبھی عمر کے منہ سے میرے بارے میں کچھ برا نہیں سنا، تو آپ اور عمر ایک دوسرے کو کب سے جانتے ہیں؟”
جنید نے مسکرانے کی کوشش کی ”نہیں میں نے تو یہ نہیں کہا۔”
”آپ نے یہی کہا ہے۔” اس نے اپنے لفظوں پر زور دیتے ہوئے کہا۔
اس سے پہلے کہ جنید کچھ کہتا ویٹر ٹیبل پر کھانا سرو کرنے لگا۔ علیزہ کی بھوک ختم ہو چکی تھی۔ کیا آج پھر کوئی اینٹی کلائمکس ہونے والا تھا، چند منٹ کے بعد ویٹر کھانا لگا کر چلا گیا۔
”چند دن پہلے بھی آپ نے فون پر مجھ سے یہی کہا تھا کہ سات آٹھ سال پہلے تو مجھے غصہ نہیں آتا تھا، میں نے سوچا کہ آپ نے بے دھیانی میں ایسا کہا ہے مگر ایسا تو نہیں ہے۔ آپ مجھے کب سے اور کتنا جانتے ہیں۔”
”علیزہ چھوڑو یار! ہم دونوں کیا فضول باتیں لے کر بیٹھے ہیں۔ کھانا کھاتے ہیں۔” جنید نے موضوع بدلنے کی کوشش کی۔
”میں یہاں سے اٹھ کر چلی جاؤں گی، اگر آپ نے میری بات کا جواب نہیں دیا۔ عمر کو آپ کب سے جانتے ہیں؟” اس بار اس کی آواز میں واضح طور پر ناراضی تھی۔
جنید یکدم سنجیدہ ہو گیا، کچھ دیر وہ ایک دوسرے کے چہرے دیکھتے رہے پھر جنید نے ایک گہرا سانس لے کر جیسے ہتھیار ڈال دیئے۔
”پندرہ سال سے۔۔۔” وہ دم بخود رہ گئی۔
اس وسیع عریض ڈائننگ ہال میں اسے اپنا سانس گھٹتا ہوا محسوس ہونے لگا۔ اپنے ہاتھ کی کپکپاہٹ کو چھپانے اور خود کو جیسے سہارا دینے کے لیے اس نے اپنے ہاتھوں کو ٹیبل پر رکھ دیا۔ وہ اس کے بالمقابل اپنی کرسی پر بیٹھا اسے دیکھ رہا تھا، وہ آدمی جس کے بارے میں اسے یقین تھا کہ وہ عمر کے برعکس اس سے ہمیشہ مخلص رہا ہے وہ آدمی جس کے بارے میں اسے خوش فہمی تھی کہ وہ کبھی اسے کسی چیز کے بارے میں دھوکے میں نہیں رکھے گا۔
جنید اب بات کرتے کرتے کچھ دیر کے لیے رک گیا تھا، شاید وہ بات جاری رکھنے کے لیے کچھ مناسب لفظوں کی تلاش میں تھا۔
علیزہ فق رنگت کے ساتھ اس کے چہرے پر نظریں جمائے بیٹھی تھی۔ دم بخود اور ساکت۔
”ہم لوگ فلیٹ میٹس تھے۔ ہمارے ڈیپارٹمنٹس الگ تھے مگر ہم لوگوں کی دوستی پر اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔ یونیورسٹی کے بعد بھی کچھ عرصہ ہم اکٹھے ہی رہے پھر عمر لندن چلا گیا۔ میں واپس پاکستان آ گیا۔ میں نے اپنے بابا کی فرم کو جوائن کر لیا مگر ہم دونوں ہمیشہ رابطے میں تھے۔” جنید نے رک کر اپنے گلاس میں پانی ڈالا۔ وہ کہہ رہا تھا۔
”بہت گہری قسم کی دوستی ہے ہماری…عمر جب بھی پاکستان آتا تھا میرے یہاں بھی آتا تھا۔ بعد میں سول سروس میں آنے کے بعد یہ تعلق کچھ اور گہرا ہو گیا۔ جتنا عرصہ وہ پاکستان میں رہا بڑی باقاعدگی سے ہمارے یہاں آتا رہا۔ بعض دفعہ وہ ہمارے گھر ٹھہرتا بھی رہا ہے۔ پندرہ سال بہت لمبا عرصہ ہوتا ہے، یہ کوئی پندرہ دن نہیں ہوتے کہ انسان ایک دوسرے کو جان نہ سکے۔ میں عمر کو بہت اچھی طرح جانتا ہوں، بہت ہی اچھی طرح اسی لیے جب تم اس پر تنقید کرتی تھیں تو میں۔۔۔” جنید نے پانی کا گھونٹ بھرا۔
”میں کبھی یقین نہیں کر سکتا کہ عمر اس طرح کا ہے جس طرح کا تم اسے بتاتی ہو۔ اگر ساری دنیا بھی میرے سامنے جمع ہو کر ایک وقت میں وہی باتیں کہے جو تم کہتی ہو، تب بھی میں یقین نہیں کروں گا۔” اس کے لہجے اور انداز میں قطعیت تھی۔
”وہ میرا بہترین دوست ہے اور میں اسے کسی بھی دوسرے شخص سے زیادہ اچھی طرح جانتا ہوں۔” وہ خالی خالی نظروں سے اس کا چہرہ دیکھے گئی۔
جنید ابراہیم کا چہرہ، اپنے منگیتر کا چہرہ، عمر جہانگیر کے بہترین دوست کا چہرہ۔
جنید نے اپنی بات جاری رکھی۔ ”صرف میں ہی نہیں میرے گھر والوں کے لیے بھی وہ کوئی اجنبی شخص نہیں ہے۔ وہ ہماری فیملی کا ایک فرد ہے، یہ سمجھ لو کہ میری امی کا تیسرا بیٹا ہے وہ۔ اگر وہ آئے نہ تب بھی فون پر میرے گھر والوں سے اس کا رابطہ رہتا ہے۔ میرے پیرنٹس سے خاص طور پر میری چھوٹی بہن سے…فری سے۔۔۔”
”تو آپ عباس کے دوست نہیں ہیں؟” اس نے ایک لمبی خاموشی کو توڑتے ہوئے کہا۔
”نہیں۔۔۔” جنید نے نفی میں سر ہلایا۔ ”عمر کے توسط سے میں تمہیں اور تمہاری فیملی کے اور بہت سے لوگوں کو جانتا ہوں اور ان میں عباس بھی شامل ہے مگر عبا س سے میری کوئی دوستی نہیں ہے۔ صرف جان پہچان ہے۔” جنید نے کہا۔
”اور مجھے…مجھے آپ کب سے جانتے ہیں؟” اس نے کھوئے ہوئے انداز میں کہا۔
جنید کے چہرے پر ایک مسکراہٹ ابھری۔” بہت سال ہو گئے ہیں۔ یہ کہنا بہتر ہے کہ بہت سالوں سے …پہلی بار میں تب تم سے ملا تھا جب عمر سول سروس کے امتحان کے لیے پاکستان میں تھا۔ عمر کے ساتھ میں تمہارے گھر آیا تھا۔ تم اس وقت کہیں جا رہی تھیں اور ہم لوگ لاؤنج میں بیٹھے ہوئے تھے۔ عمر نے ہم دونوں کا تعارف کروایا تھا پھر دو تین بار میں نے فون کیا تھا عمر کے لیے اور تم نے فون ریسیو کیا تھا۔
علیزہ کو یاد آیا کہ جنید سے پہلی بار بھوربن میں ملاقات کے دوران اسے بار بار یوں لگتا تھا جیسے وہ اسے پہلے بھی کہیں دیکھ چکی ہے مگر کوشش کے باوجود وہ یہ یاد کرنے میں ناکام رہی تھی کہ اس نے اسے کہاں دیکھا تھا، بعد میں اس نے اپنے اس خیال کو جھٹک دیا تھا۔
”اس کا مطلب ہے نانو بھی آپ کو بہت عرصہ سے جانتی ہوں گی؟”
”ہاں تب ہی سے، جب میں عمر کے ساتھ دوچار بار ان کے ہاں آیا۔ بعد میں بھی ان سے بات وغیرہ تو ہوتی تھی مگر ملاقات کا سلسلہ قدرے محدود ہی رہا کیونکہ میں کچھ اور تعلیم کے لیے ایک بار پھر باہر چلا گیا تھا۔” جنید بڑے آرام سے بتاتا گیا۔
”عمر سے میں نے تمہارا بہت ذکر سنا تھا۔ تم ان چند لوگوں میں سے ہو…جن کا نام ہمیشہ اس کی زبان پر رہا ہے۔ تمہارے لیے کسی زمانے میں بہت پریشان بھی رہتا تھا اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ تم دونوں کی کسی زمانے میں آپس میں بہت اچھی دوستی تھی۔”
وہ گم صم اس کی باتیں سن رہی تھی۔
”پھر عمر کے کیریئر کی وجہ سے تمہارے اور اس کے درمیان کچھ غلط فہمیاں پیدا ہو گئیں اور تم اسے برا سمجھنے لگیں۔ مگر عمر کی رائے تمہارے بارے میں ہمیشہ اچھی رہی، میں نے اسے کبھی تمہارے بارے میں کچھ بھی برا کہتے ہوئے نہیں سنا۔ کبھی بھی نہیں…تمہاری ہمیشہ تعریف کرتا ہے وہ۔” جنید دھیمے لہجے میں کہتا جا رہا تھا۔
”مجھ سے شادی کرنے کے لیے کس نے کہا تھا آپ کو؟عمر نے؟”
اپنے ہونٹ بھنچتے ہوئے اس نے جنید کی بات کو ان سنی کرکے پوچھا۔ جنید اس کی بات کے جواب میں خاموشی سے اسے دیکھتا رہا وہ کچھ نہ کہتا، تب بھی وہ اس سوال کا جواب جان چکی تھی۔ شکست خوردہ انداز میں اس نے اپنے سامنے پڑا ہوا پانی کا گلاس اٹھا لیا۔
”کئی سال پہلے اس نے مجھ سے ایک بار ایسی بات کی تھی۔” جنید کا لہجہ اب پہلے سے بھی زیادہ دھیما تھا، شاید وہ علیزہ کے تاثرات سے اس کی دلی کیفیت جان رہا تھا۔
اس وقت میں شادی کے بارے میں سیریس نہیں تھا بلکہ اس وقت میں نے اس بارے میں کچھ سوچا ہی نہیں تھا کیونکہ میں اپنی تعلیم مکمل کرنا چاہ رہا تھا اور یہ بات میں نے اس کو بتا دی تھی مگر وہ بضد تھا کہ جب بھی شادی کروں اس کے خاندان میں کروں، تم سے کروں…وہ چاہتاتھا کہ میں اس کے خاندان کا ایک حصہ بن جاؤں، مجھے اس وقت اس کی بات پر ہنسی آتی تھی کیونکہ میرا خیال تھا کہ وہ جتنا تمہارا ذکر کرتا تھا شاید وہ خود تم میں انٹرسٹڈ تھا مگر بعد میں میرا یہ خیال غلط ثابت ہوا۔”
ہاتھ میں پکڑے ہوئے گلاس پر علیزہ کی گرفت کچھ اور سخت ہو گئی۔
”میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے دوبارہ باہر چلا گیا مگر عمر بار بار مجھے یہ یاد دلاتا رہا کہ واپس آکر مجھے تم سے شادی کرنی ہے۔” جنید نے ایک بار پھر کہنا شروع کیا۔ ”واپس آ کر بھی وہ مجھ سے یہی کہتا رہا کہ میں اپنی شادی کے بارے میں بالکل پریشان نہ ہوں کیونکہ وہ بہت عرصہ پہلے ہی یہ طے کر چکا ہے کہ مجھے کس کے ساتھ شادی کرنی ہے۔ پھر آخر کار جب کچھ سیٹ ہو جانے کے بعد میں نے شادی کا فیصلہ کیا تو اس نے مجھ سے کہا کہ میں تم سے ایک بار مل لوں، اس نے یہ بھی کہا کہ میں یہ ظاہر نہ کروں کہ میں عمر کا دوست ہوں کیونکہ اس کا خیال تھا کہ اس صورت میں تم کبھی مجھ سے شادی پر تیار نہیں ہوگی۔ اس لیے عباس کے گھر والوں کی مدد لینی پڑی۔” وہ ایک بار پھر بات کرتے کرتے رکا۔
”بھوربن میں عباس کی ممی تمہیں مجھ سے ملوانے کے لیے ہی لے کر آئی تھیں۔ وہ خود ذاتی طور پر مجھ سے صرف ایک بار ہی ملی تھیں اور میری فیملی کو بھی نہیں جانتی تھیں مگر عمر نے ان سے کہا کہ وہ تمہیں لے کر بھوربن جائیں اور مجھ سے ملوا دیں۔”
وہ خالی الذہنی کے عالم میں اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔
”میری اور عمر کی دوستی اس نوعیت کی ہے کہ میں اس کی بات نہیں ٹال سکتا۔ وہ تمہارے بجائے مجھے کسی اور لڑکی سے بھی شادی کا کہتا تو میں تب بھی تیار ہو جاتا۔ تمہاری تو خیر بات ہی دوسری تھی۔ تمہارے بارے میں تو وہ کئی سالوں سے میری برین واشنگ کرتا آرہا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ بھوربن میں تم سے اتنے سالوں بعد دوبارہ ملنے پر مجھے تمہارے لیے کوئی اجنبیت محسوس نہیں ہوئی۔ مجھے یونہی لگا جیسے میں بہت سالوں سے تم سے ملتا رہا ہوں۔”
جنید رکا۔
”تم نے مجھے پہچانا نہیں، حالانکہ مجھے اس کا خدشہ تھا مگر عمر کو یقین تھا کہ تم مجھے نہیں پہچان سکو گی۔ تمہارے بارے میں اس کے اندازے ہمیشہ صحیح ثابت ہوتے ہیں۔ میرے گھر والوں نے بھی میرے کہنے پر تم پر یہ ظاہر نہیں کیا کہ وہ عمر کو جانتے ہیں یا عمر ہمارے ہاں آتا جاتا ہے۔ میں نے تمہاری اور عمر کی آپس میں غلط فہمی کے بارے میں انہیں بھی بتا دیا ہے مگر یہ سب ہمیشہ ایسا نہیں رہ سکتا تھا۔ کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی طرح تمہیں یہ بات ضرور پتا چل جاتی کہ میں اور عمر آپس میں دوست رہے تھے اور پھر تم۔۔۔” جنید بات کرتے کرتے رک گیا۔
”شناسائی، پسندیدگی، محبت…ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ میرے لیے عمر کا ایک اور احسان…بس اور کیا تھا جنید ابراہیم۔۔۔” علیزہ نے اپنے سامنے بیٹھے ہوئے شخص کو دیکھتے ہوئے بے یقینی سے سوچا ”اور میں پچھلے ایک سال سے اس گمان اور خوش فہمی میں مبتلا تھی کہ یہ شخص مجھ کو دیکھ کر…مجھ سے مل کر میری محبت میں گرفتار ہو گیا ہے اور میں نے اپنے وجود کو خوش فہمیوں اور سرابوں کی کتنی لمبی زنجیر میں جکڑ لیا تھا۔ کیا دنیا میں واقعی محبت نام کی کوئی چیز ہوتی ہے اور یہ شخص عمر کا یار غار جنید ابراہیم …جو مجھے یہ بتا رہا ہے کہ یہ عمر کے کہنے پر کسی سے بھی شادی کر سکتا تھا۔ یہ میری محبت میں اپنے دل کے کہنے پر کہاں مبتلا ہو سکتا تھا۔” وہ ماؤف ذہن کے ساتھ اسے دیکھے جا رہی تھی ۔ تھکن کا ایک عجیب احساس اس کے اندر سرایت کرتا جا رہا تھا ، کچھ دیر پہلے کی خوشی اور طمانیت جیسے بھک سے اڑ گئی تھی۔ جنید اس سے پھر کچھ کہہ رہا تھا۔
”میں جانتا ہوں ، یہ سب کچھ سن کر تمہیں بہت غصہ آ رہا ہوگا۔ مگر۔۔۔” جنید کہہ رہا تھا۔
”غصہ…؟” علیزہ نے اپنی کیفیات کو جانچا نہیں اسے غصہ نہیں آرہا تھا۔ شاید آج پہلی بار اس طرح کے انکشافات سن کر اسے غصہ نہیں آیا تھا۔ نہ عمر جہانگیر پر، نہ جنید ابراہیم پر، نہ اپنے آپ پر اور وہ یہ بات جنید ابراہیم کو بتانا چاہ رہی تھی کہ اسے جنید پر غصہ نہیں آرہا تھا۔ مگر یکدم ہی اسے احساس ہو رہا تھا کہ لفظوں کو چننا اور جوڑ کر ادا کرنا اس کے لیے بہت مشکل ہو گیا تھا ۔ لفظ اپنی وقعت اور اپنی آواز بھی کھو گئے تھے۔
”میں تمہیں اس سب کے بارے میں کبھی بھی دھوکے میں نہ رکھتا، جلد یا بدیر میں تمہیں یہ سب کچھ بتا دیتا۔” وہ کہہ رہا تھا۔
”جلد یا بدیر؟” وہ پھر سوچنے لگی۔ ”کتنی جلدی اور کتنی دیر سے۔ اگر آج میں اصرار نہ کرتی تو کیا یہ مجھے سب کچھ بتا دیتا۔” اس نے جنید کو دیکھتے ہوئے سوچا۔ ”اور اگر مجھے یہ سب کچھ شادی کے بعد پتا چلتا تو…تو میں کیا کر سکتی تھی؟”
”حالانکہ عمر یہ چاہتا تھا کہ تمہیں یہ سب کچھ کبھی نہ بتایا جائے لیکن میں یہ نہیں کر سکتا۔ تمہیں نہ بتانے کا مطلب ہے کہ عمر میرے گھر نہ آ سکے گا۔ نہ ہی میں اس سے اس طرح کھلے عام مل سکوں گا جس طرح اب ملتا ہوں اور میں اس سے اپنی دوستی کسی طرح ختم نہیں کر سکتا۔ کسی قیمت پر نہیں۔” وہ قطعیت سے کہہ رہا تھا۔ ”اسی لیے یہ چاہتا ہوں کہ تم اس کے بارے میں ہر غلط فہمی دور کر لو۔ عمر ایک بہت اچھا انسان ہے اور وہ ہمیشہ میرا بہترین دوست رہے گا۔ میں تمہارے کہنے پر یا کسی کے بھی کہنے پر اسے نہیں چھوڑوں گا۔”
علیزہ نے دوسری کرسی پر پڑا اپنا بیگ اٹھا لیا اور وہ اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔ جنید حیران رہ گیا۔ ”تم کہاں جا رہی ہو؟”
علیزہ نے جواب دینے کے بجائے قدم بڑھا دیئے۔
”علیزہ…علیزہ! جنید کچھ پریشان ہوتے ہوئے خود بھی اٹھ کھڑا ہوا مگر علیزہ نے مڑ کر اسے نہیں دیکھا۔ جنید نے اپنے والٹ میں سے کچھ نوٹ نکال کر میز پر رکھ دیئے اور خود بھی علیزہ کے پیچھے آ گیا۔ وہ اب دروازہ کھول کر سیڑھیاں اتر رہی تھی۔
”علیزہ! علیزہ…!جنید ایک بار پھر سے آوازیں دینے لگا۔ اس نے مڑے بغیر سیڑھیاں اترنا جاری رکھا وہ تیزی سے سیڑھیاں اترتے ہوئے اس کے سامنے آگیا۔
”کیا ہوا؟ تم اس طرح باہر کیوں نکل آئی ہو؟”
علیزہ رک گئی ۔ وہ اس کے بالکل سامنے کھڑا تھا، وہ آگے نہیں جا سکتی تھی۔
”کیا ہوا ہے تمہیں؟” اس نے پریشانی سے پوچھا۔
”اس طرح کھانا چھوڑ کر کیوں آگئی ہو؟”
”میں گھر جانا چاہتی ہوں…ابھی…اسی وقت۔۔۔” اس نے سُتے ہوئے لہجے میں کہا۔
”ہمیں گھر ہی جانا تھا مگر اس طرح کھانا چھوڑ کر۔۔۔”
”آپ کھانا کھائیں…آپ کیوں کھانا چھوڑ کر آگئے ہیں؟ میں چلی جاؤں گی۔” اس نے جنید کے دائیں طرف سے نکلنے کی کوشش کی۔
”میں خود یہاں کھانا کھانے نہیں آیا تھا علیزہ! تمہارے ساتھ کھانا کھانے آیا تھا۔”
جنید نے افسوس سے کہا۔ وہ اب اس کے ساتھ چل رہا تھا۔ علیزہ خاموشی سے چلتی رہی۔
”ٹھیک ہے میں تمہیں گھر ڈراپ کر دیتا ہوں۔” جنید نے بالآخر ہتھیار ڈال دیئے۔
علیزہ نے اپنے قدم روک دیئے۔ جنید اب پارکنگ کی طرف جا رہا تھا وہ وہیں کھڑی رہی۔ کچھ دیر کے بعد وہ گاڑی اس کے قریب لے آیا۔ اس نے فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھول دیا، وہ خاموشی سے اندر بیٹھ گئی۔
”میں جانتا ہوں تم مجھ سے ناراض ہو مگر میں نے ہر بات کی وضاحت کی ہے۔”
جنید یقیناً اب پریشان تھا اسی لیے اس نے گاڑی کو مین روڈ پر لاتے ہی ایک بار پھر اپنی صفائی پیش کرنے کی کوشش کی۔ وہ اس کی طرف دیکھے بغیر ونڈ سکرین سے باہر دیکھتی رہی۔
”علیزہ…! میری طرف سے کسی غلط فہمی کو دل میں جگہ مت دو۔”
علیزہ کی خاموشی جنید کی پریشانی میں اضافہ کر رہی تھی۔
”میں نے کچھ ہفتے پہلے بھی ایک دن تم سے یہ کہا تھا کہ میں تمہیں کچھ بتانا چاہتا ہوں۔ میں یہی بات ہیں بتانا چاہتا تھا۔” وہ کہہ رہا تھا ”بلکہ میں عمر سے اپنی دوستی کو سرے سے چھپانا چاہتا ہی نہیں تھا۔ یہ اس کا اصرار تھا جس پر مجھے ایسا کرنا پڑا مگر اس میں تمہیں تو کوئی نقصان نہیں پہنچا نہ میری طرف سے نہ عمر کی طرف سے اور ہمیں ایسا کیوں کرنا پڑا…میں تمہیں بتا چکا ہوں۔”
جنید کا لہجہ قدرے بے ربط ہو رہا تھا۔ علیزہ اب بھی ونڈ سکرین سے باہر دیکھتی رہی۔
جنید قدرے بے چارگی کے عالم میں خاموش ہو گیا۔ ”میں پھر بھی ایکسکیوز کرتا ہوں۔ ہو سکتا ہے تمہیں یہ سب کچھ بہت برا لگا ہو یا اس سے کوئی تکلیف پہنچی ہو تو۔۔۔” وہ چپ ہو گیا۔ شاید اس کے پاس کرنے کے لیے کوئی اور بات باقی نہیں رہی تھی۔
علیزہ کے گھر کے گیٹ پر اس نے ہارن بجا کر چوکیدار کو متوجہ کیا مگر گاڑی گیٹ پر رکتے ہی علیزہ دروازہ کھولنے لگی۔
”علیزہ! میں گاڑی اندر لے کر جا رہا ہوں۔” جنید نے کہا۔
”نہیں آپ یہیں سے چلے جائیں، اندر آنے کی ضرورت نہیں ہے۔” علیزہ نے سرد آواز میں اس سے کہا۔ جنید کا چہرہ خفت سے سرخ ہوا۔ چوکیدار اب گیٹ کھول رہا تھا۔
”تم اپنے شاپرز اٹھا لو۔”
جنید نے پچھلی سیٹ پر رکھے ہوئے شاپرز کی طرف اشارہ کیا مگر اس سے پہلے کہ وہ انہیں اٹھا کر اس کی طرف بڑھاتا، وہ گاڑی کا دروازہ کھول کر اتر گئی۔ جنید نے اسے آواز دی مگر اس نے پیچھے مڑے بغیر گیٹ عبور کر لیا۔
کچھ جھنجھلاتے ہوئے جنید گاڑی کو آہستہ آہستہ اندر لے آیا۔ علیزہ کا رویہ۔ اس کے لیے بہت ناقابل یقین تھا۔ اگر اس کے وہم و گمان میں بھی یہ ہوتا کہ وہ اس طرح کے ردعمل کا اظہار کر سکتی ہے تو وہ کبھی اس کے سامنے اس طرح کے انکشافات نہ کرتا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ تھوڑا بہت ناراض ہو گی مگر وہ اسے سمجھا بجھا کر اس کی یہ ناراضی دور کر لے گا۔ مگر اس سے یہ توقع نہیں تھی کہ وہ اس طرح بالکل چپ سادھ لے گی۔
علیزہ اپنے پیچھے اس کی گاڑی کے اندر آنے کی آواز سن رہی تھی مگر اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ لاؤنج کا دروازہ کھول کر وہ اندر داخل ہو گئی۔ نانو لاؤنج میں ہی بیٹھی تھیں۔ انہوں نے علیزہ کو مسکراتے ہوئے دیکھا۔
”تم بہت جلد آگئیں میں سوچ رہی تھی قدرے دیر سے آؤ گی۔”
انہوں نے اسے دیکھتے ہوئے حیرت سے کہا۔ علیزہ نے ان کی بات کے جواب میں کچھ نہیں کہا۔ ایک نظر انہیں دیکھنے کے بعد وہ رکے بغیر لاؤنج سے گزر گئی۔ نانو نے حیرت سے اسے جاتے دیکھا۔ وہ اس کے چہرے کے تاثرات سے کچھ بھی اندازہ نہیں کر سکی تھیں۔
علیزہ وہاں رکے بغیر سیدھا اپنے کمرے میں چلی آئی۔ اپنے کمرے میں داخل ہوتے ہی اس نے اپنے بیگ کو اپنے بستر پر اچھال دیا اور خود دیوار کے ساتھ پڑے صوفہ کی طرف بڑھ گئی۔ اپنے جوتے اتار کر دونوں پیر صوفہ کے اوپر رکھتے ہوئے کشن گود میں لے کر بیٹھ گئی۔ وہ اپنی کیفیات خود بھی سمجھنے سے قاصر تھی۔ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ آج خلاف معمول اسے رونا نہیں آرہا تھا۔
”جنید ابراہیم۔۔۔” اس نے زیر لب اس کا نام دہرایا۔ اس نے کچھ دیر پہلے اس کے ہونٹوں سے نکلنے والے تمام جملوں کو یاد کرنے کی کوشش کی۔ اس کا شاک ابھی ختم نہیں ہوا تھا۔ وہ اندازہ نہیں کر پا رہی تھی کہ اسے غم زیادہ ہوا تھا یا پھر غصہ اور ان دونوں چیزوں کا تعلق کس سے تھا جنید سے…؟عمر سے…؟ نانو سے… یا پھر ان تینوں سے؟
دروازے پر دستک دے کر نانو اندر آ گئی تھیں۔ ان کے ہاتھ میں شاپرز تھے یقیناً جنید وہ شاپرز انہیں دے گیا تھا۔
”تم یہ ساری چیزیں اس کی گاڑی میں کیوں چھوڑ آئیں؟” نانو نے تنبیہی انداز میں کہا۔
”اور موڈ کیوں خراب ہے تمہارا؟” انہوں نے شاپرز بیڈ پر رکھتے ہوئے کہا۔
”پھر کوئی جھگڑا ہو گیا ہے تم دونوں میں؟” وہ اب اس سے پوچھ رہی تھیں۔
ان کے لہجے میں تشویش کا عنصر نمایاں تھا۔ ”جنید بھی کچھ پریشان نظر آرہا تھا۔ میرے روکنے کے باوجود رکا نہیں۔ اوپر سے تمہارے منہ پر بھی بارہ بجے ہوئے ہیں، آخر ہوا کیا ہے؟”
علیزہ ان کو مکمل طور پر نظر انداز کیے اپنے دانتوں سے انگلیوں کے ناخن کترتی رہی۔
”تم کچھ بتاؤ گی یا اسی طرح بیٹھی رہو گی منہ بند کرکے؟” اس بار نانو نے اسے جھڑکتے ہوئے کہا۔ علیزہ نے اس بار بھی ان کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ ”شادی سے پہلے اس طرح جھگڑ رہے ہو تم دونوں تو بعد میں کیا ہوگا؟ میں اسی لیے لمبی کورٹ شپ کے حق میں نہیں تھی اور علیزہ ! کم از کم تم سے تو میں اس طرح کی حماقت کی توقع بھی نہیں کر سکتی تھی۔”
علیزہ نے اس بار بھی کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ اب بھی خاموشی سے پہلے کی طرح اپنے ناخنوں کوکترتی رہی۔
”کیا تم قسم کھا کر بیٹھی ہو کہ تم بالکل گونگی ہو جاؤ گی اور کچھ بولو گی ہی نہیں ۔ آخر کچھ کہو تو؟” نانو کے صبر کا پیمانہ اب لبریز ہو نے لگا۔
”نانو ! آپ اس وقت مجھے اکیلا چھوڑ دیں۔ میں آپ سے صبح بات کروں گی۔” ایک لمبی خاموشی کے بعد اس نے نانو سے کہا۔
”مگر آخر تمہیں ہوا کیا ہے؟” نانو نے کچھ تشویش آمیز انداز میں کہا۔
”جو بھی ہوا ہے میں اس کے بارے میں صبح آپ سے بات کروں گی۔ اس وقت آپ مجھے اکیلا چھوڑ دیں۔”
علیزہ نے اسی انداز میں کہا۔ نانو کچھ دیر کچھ نہ سمجھنے والے انداز میں اسے دیکھتی رہیں پھر انہوں نے پوچھا۔ ”کھانا کھا لیا ہے تم نے؟”
”سب کچھ کھا چکی ہوں، آپ پریشان نہ ہوں۔” علیزہ نے اکھڑ لہجے میں کہا۔
نانو کچھ دیر اسی طرح کھڑی اسے دیکھتی رہیں پھر کچھ کہے بغیر اس کے کمرے سے باہر نکل گئیں۔ علیزہ اپنے بیڈ پر پڑے ہوئے ان شاپرز کو گھورنے لگی جن میں موجود چیزوں کو کچھ دیر پہلے اس نے بڑے شوق سے جنید کے ساتھ خریدا تھا۔ اس وقت اسے ان تمام چیزوں سے نفرت محسوس ہو رہی تھی۔
اسے سب کچھ ناقابل یقین لگ رہا تھا۔ ”آخر یہ کیسے ہوا کہ مجھے کبھی بھی جنید ابراہیم پر شبہ نہیں ہوا۔ کبھی بھی یہ خیال نہیں آیا کہ عباس کے بجائے وہ خود بھی عمر کا دوست ہو سکتا تھا۔ تب بھی نہیں جب وہ اتنے زور و شور سے عمر کی حمایت کرنے میں مصروف تھا، مجھے سوچنا چاہیے تھا کہ یہ صرف معمولی سی شناسائی تو نہیں ہو سکتی جو جنید کو اس طرح مجھ سے ناراض کرنے کا سبب بن رہی ہے۔ صرف عباس کے کہنے پر یا عباس کے لیے تو وہ عمر کے لیے اس طرح کی فیلنگز کا اظہار نہیں کر سکتا تھا۔
اور پھر اس دن وہاں کے ایف سی میں ان دونوں کو اکٹھے دیکھ کر بھی میں نے یہ سوچنے کی کوشش نہیں کی کہ یہ دوستی دیرینہ بھی ہو سکتی تھی۔ ان دونوں کے درمیان نظر آنے والی بے تکلفی کے باوجود میں نے یہی سوچا کہ یہ تعلقات ابھی حال ہی میں استوار ہوئے ہیں اور وہ بھی عمر کی کوشش سے…عمر کو جنید کے گھر دیکھ کر بھی مجھے اس پر کوئی شبہ نہیں ہوا۔ آخر کیوں؟ کیا واقعی میں اس حد تک بے وقوف ہوں کہ کوئی بھی جب دل چاہے مجھے بے وقوف بنا سکتا ہے اور وہ بھی اس حد تک…وہ غم و غصہ کے عالم میں سوچ رہی تھی اور…آخر عمر جہانگیر چاہتا کیا ہے، کیا کرنا چاہتا ہے؟ اپنے بہترین دوست کو میرے گلے میں کیوں باندھ رہا ہے اور وہ بھی اسے اس بات سے بے خبر رکھ کر کہ میں عمر جہانگیر سے محبت کرتی رہی ہوں اور اس سے شادی کی خواہش مند تھی اور مجھے اس بات سے بے خبر رکھ کر کہ جنید سے اس کے تعلقات اس نوعیت کے تھے۔ وہ آخر یہ کیوں چاہتا ہے کہ میں اس سے شادی کر لوں۔ اس سے عمر جہانگیر کو کیا ملے گا اور باقی سب لوگ نانو، عباس، عباس کی ممی آخر ان سب نے میرے ساتھ اتنا بڑا دھوکا کیوں کیا۔ کیا انہیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ میں کبھی یہ سب جان جاؤں گی اور پھر… پھر میں ان کے بارے میں کیا سوچوں گی۔”
اسے اپنے سر میں شدید درد محسوس ہو رہا تھا ، اتنے بہترین طریقے سے اسے ٹریپ کیا گیا تھا کہ آج اگر جنید خود اسے سب کچھ نہ بتا دیتا تو اسے کبھی بھی ان سب پر شک نہ ہوتا ، نہ وہ اصلیت جان سکتی۔
علیزہ کو اب بھی یاد نہیں آرہا تھا کہ اس نے عمر کے ساتھ آج سے کئی سال پہلے جنید کو دیکھا تھا۔ ان دنوں سرسری طور پر اس نے کئی بار عمر کے بہت سے دوستوں کو دیکھا تھا اور ان میں سے جنید کو پہچاننا اور یاد رکھنا ناممکن کام تھا، جب تک کہ خاص طور پر وہ ان دونوں کو آپس میں متعارف نہ کرواتا اور ایسا نہیں ہوا تھا۔ وہ اگر اس سے ملی بھی تھی تو سرسری انداز میں مگر جہاں تک جنید کے فون کالز ریسیو کرنے کا تعلق تھا اسے وہ یاد آگئی تھیں۔ عمر جنید کو جین کہا کرتا تھا اور کئی بار فون کرنے پر وہ عمر تک جین کے پیغام بھی پہنچایا کرتی تھی۔ عمر کے منہ سے اس نے بہت دفعہ جین کا ذکر بھی سنا تھا۔ جوڈی کے بعد یہ دوسرا نام تھا جس کا عمر خاصا ذکر کرتا تھا مگر اس کے باوجود اس نے کبھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ جین کا اصلی نام کیا ہے۔ اس کے نزدیک یہ بات کبھی اتنی اہمیت کی حامل رہی ہی نہیں تھی۔
اور اب وہ ماؤف ہوتے ہوئے ذہن کے ساتھ ان دونوں کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ جنید ابراہیم ،عمر جہانگیر اپنے بہترین دوست کے ساتھ باندھنا کیوں چاہتا ہے عمر مجھے…دونوں کو دھوکا دیتے ہوئے۔ مجھے بھی جنید کو بھی۔

باب: 51

”سر! میجر لطیف کور کمانڈر کا بیٹا ہے۔” بابر جاوید اگلے دن عمر جہانگیر کو میجر لطیف کے کوائف سے آگاہ کر رہا تھا۔ عمر نے بے اختیار ایک گہرا سانس لیا۔
”دو ماہ پہلے پروموشن ہوئی ہے اس کی۔” بابر جاوید نے مزید بتایا۔ وہ پچھلے پندرہ منٹ سے عمر جہانگیر کو اس کی ہدایات کے مطابق میجر لطیف کے بارے میں بتا رہا تھا اور عمر کی تشویش میں اضافہ ہو رہا تھا۔ مضبوط فیملی بیک گراؤنڈ کا مطلب اس کے لیے پریشانی کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔ میجر لطیف کے طور طریقوں سے یہ اندازہ تو اسے پہلے ہی ہو چکا تھا کہ وہ کسی سیدھے سادے عام سے گھرانے کا سپوت نہیں تھا…اس کی گردن کے سیرے میں اسی طرح کے خم تھے۔ جس طرح کے عمر جہانگیر میں تھے اسی لیے عمر جہانگیر نے اس کے طور طریقوں سے یہ اندازہ لگا لیا تھا اور یقیناً عمر جہانگیر کے بارے میں یہ اندازہ میجر لطیف بھی لگا چکا تھا۔ ایسے خاندانوں سے تعلق رکھنے والے لوگ ایک دوسرے کو بڑی آسانی سے پہچان جاتے ہیں مگر اس کے باوجود کسی موہوم سی امید پر عمر نے میجر لطیف کے بیک گراؤنڈ کے بارے میں جاننے کی کوشش کی تھی۔
مگر جو تفصیلات بابر جاوید لایا تھا، وہ خاصی حوصلہ شکن تھیں۔ اس کا پورا بائیو ڈیٹا آرمی سے شروع ہو کر آرمی پر ہی ختم ہو جاتا تھا۔
Babar we have to be very careful
(ہمیں بہت محتاط رہنا چاہیے)
عمر نے اس کی تمام باتیں سننے کے بعد کہا۔ ” فی الحال ہمارے پاس اس آدمی کے خلاف کچھ نہیں ہے جس کو ہم استعمال کر سکیں، اس لیے بہتر یہی ہے کہ ہم قدرے محتاط ہو جائیں۔ میں نہیں چاہتا اسے آتے ہی میرے اوپر کوئی edge حاصل ہو جائے۔ عمر نے بابر کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا۔
”سر میں نے پہلے ہی تمام پولیس سٹیشن کے انچارجز کو وارن کر دیا ہے، خود ریکارڈ چیک کرنا شروع کر دیا ہے میں نے۔ پولیس پٹرولنگ کو بھی دیکھ رہا ہوں۔ انشاء اللہ تعالیٰ آپ کو کوئی شکایت نہیں ہو گی۔” بابر جاوید نے عمر کو یقین دلاتے ہوئے کہا۔
”مجھے تو کوئی شکایت ہو یا نہ ہو، میں یہ چاہتا ہوں کہ آرمی مانیٹرنگ ٹیم تک میری کوئی شکایت نہ پہنچے۔” عمر نے اس کی بات کے جواب میں کہا۔ ”اور ان سب لوگوں کو بتا دو کہ مجھ تک ان کی کرپشن کا کوئی معاملہ نہیں آنا چاہیے۔ اگر مجھ تک اس طرح کا کوئی معاملہ آیا تو میں کچھ دیکھے یا سنے بغیر Suspend (معطل) کر دوں گا اور اس معاملے میں کوئی وضاحت قبول نہیں کروں گا۔” عمر نے بابر جاوید کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا۔
”خود تم بھی اپنے ”کھانے پینے” کا سلسلہ کچھ دیر کے لیے موقوف کر دو…تمہارا بینک بیلنس خاصی اچھی حالت میں ہے۔ ابھی کافی لمبا عرصہ تم اس میں مزید اضافے کے بغیر وقت گزار سکتے ہو۔”
عمر جہانگیر اب خود بابر جاوید کی بات کرنے لگا ، جس کے چہرے پر ایک کھسیانی مسکراہٹ نمودار ہو گئی تھی۔
”یس سر!” اس نے اسی انداز میں اپنی خفت کم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
”خالی یس سر نہیں میں واقعی تمہیں بتا رہا ہوں۔ اس بارے میں تمہیں بھی نہیں بخشوں گا۔ پہلے تو تمہارے بارے میں جتنی شکایتیں آتی رہی ہیں، انہیں نظر انداز کرتا رہا ہوں مگر اس بار میرے لیے یہ ممکن نہیں ہوگا، یہ میں تمہیں صاف صاف بتا رہا ہوں۔”
عمر جہانگیر کا لہجہ بابر جاوید کو خلاف معمول سنجیدہ لگا تھا مگر وہ جانتا تھا کہ آج کل وہ جس قسم کی مصیبت میں پھنسے ہوئے تھے اس میں یہ احتیاطی اقدامات عمر جہانگیر کی مجبوری تھے، اس کے علاوہ اس کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔ شاید آرمی مانیٹرنگ کمیٹی کی موجودگی کے بغیر عمر جہانگیر اس قسم کی کوئی ہدایات دیتا اور ان پر عمل کروانے کی کوشش کرتا تو اس کا پورا ماتحت عملہ اس کے خلاف ایک طوفان کھڑا کر دیتا، عمر جہانگیر کو اس سے پہلے اپنی پوسٹنگز میں کچھ اس طرح کے تلخ تجربات ہو چکے تھے، جب اس نے اپنے ماتحت عملے پر کچھ سختی کرنے کی کوشش کی اور اس کا نتیجہ اس کے لیے اچھا نہیں نکلا تھا۔ خود اس کا اپنا پی اے اس کے ممکنہ اقدامات کے بارے میں تمام اطلاعات اس سے نیچے عملے کو پہنچاتا رہا تھا۔ اس کے علاقے کے Political big wigs کو اس کے تمام فیصلوں اور اس کی ممکنہ نقل و حرکت کے بارے میں تمام اطلاعات ہوتی تھیں۔ نتیجہ اس کے ہر ریڈ کی ناکامی کی صورت میں نکلتا تھا۔ صورت حال کچھ اس طرح کی بن چکی تھی کہ اس کے شہر کی پوری پولیس ایک ڈی ایس پی کی قیادت میں ایک طرف تھی اور وہ اکیلا ایک طرف تھا۔ بظاہر ڈی ایس پی اور باقی تمام پولیس اس کے احکامات پر مستعدی سے عمل کرتے تھے مگر اندرون خانہ اس کے احکامات کی افادیت کو زائل کرنے کے لیے وہ اس کے احکامات آنے سے پہلے ہی سرگرم عمل ہو چکے ہوتے تھے۔ مقامی اخبارات، پولیس کے سربراہ اور اس کے ”ایڈونیچرز” کی مضحکہ خیز کہانیوں سے بھرا ہوتا جس میں سچائی کم اور مرچ مسالا زیادہ ہوتا تھا، ابتدائی دو ماہ میں انہوں نے عمر جہانگیر کو زچ کر دیا تھا۔ اس وقت عباس حیدر اس کے کام آیا تھا وہ سروس میں اس سے پانچ سال سینئر اور تمام داؤ پیچ سے اچھی طرح واقف تھا۔
”سروس میں تمہارے بہترین ساتھی تمہارا ڈرائیور، تمہارے گارڈ، تمہارا پی اے اور تمہارا آپریٹر ہوتے ہیں اور کسی بھی پولیس سٹیشن کا ایس ایچ او تمہارے ڈی ایس پی اور اے ایس پی نہیں۔”
عمر عباس نے اسے گُر سکھانے شروع کیے تھے۔
تم سے ایک دو درجے نیچے کے افسر جو خود بھی سول سروس کے ذریعے سے آئے ہیں، وہ کبھی تمہارے وفادار ساتھی نہیں ہو سکتے۔ نہ ہی انہیں ایسا سمجھنے کی کوشش کرنا۔ ان کے ساتھ گپ شپ کرو، گالف کھیلو…جم جاؤ…کھاؤ پیو…مگر یہ کبھی مت سوچو کہ وہ تمہارے کام میں تمہاری مدد کریں گے۔”
وہ دلچسپی سے عباس کی ہدایات سنتا رہا۔
”پولیس سروس میں ہم کہتے ہیں کہ اگر کسی ضلع کے ایس پی کی کارکردگی شاندار ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس کے ڈی ایس پی اور اے ایس پی ڈفر اور نااہل ہیں اور جس ضلع کا ایس پی اپنے کام میں اچھا نہیں ہے اس کا مطلب ہے کہ وہاں اصلی باس ڈی ایس پی یا اے ایس پی ہوگا۔ اور وہ ایس پی سے زیادہ اہل آدمی ہوتا ہے۔ یہ Definition ذہن میں رکھتے ہوئے یہ بات ذہن نشین کر لو کہ وہ دونوں تمہیں کبھی بھی کہیں بھی سیٹ نہیں ہونے دیں گے۔ تم انہیں ایک حکم دو گے آگے پہنچانے کے لیے، وہ اس میں معمولی سی تبدیلی کریں گے۔ بظاہر وہ تبدیلی بڑی پازیٹو لگے گی مگر اس سے وہ حکم تمہارے گلے میں چھچھوندر کی طرح اٹک جائے گا اور وہ بری الذمہ رہیں گے۔”
”ایس پی صاحب کا حکم تھا جی یہ۔۔۔” یہ ان کا گھسا پٹا جواب ہوگا۔ اس لیے کام اگر تمہیں کروانا ہے تو سیدھا ایس ایچ او کے ذریعے کراؤ ان کو بائی پاس کرتے ہوئے۔ البتہ وہ والے احکامات تم ان ہی کے ذریعے نچلے عملے تک پہنچاؤ جو ماتحت عملے کے لیے کسی نہ کسی حوالے سے تکلیف دہ ہوں اور جس پر شور مچنا ہو، نچلے عملے کو اگر ڈانٹ ڈپٹ بھی کروانی ہے تو اے ایس پی کے ذریعے کراؤ۔ تم ایسے الو کے پٹھے ثابت ہوئے ہو۔ ” عباس نے بے تکلفی سے اسے جھڑکا ” کہ تم نے آتے ہی شاہد حمید جیسے نکمے آدمی کو اس قابل کر دیا ہے کہ وہ پورا ڈیپارٹمنٹ لے کر ایک طرف کھڑا ہو گیا ہے۔” عباس نے اس کے اے ایس پی کا نام لیتے ہوئے کہا۔ ”ہم لوگ اس دن ہیڈ کوارٹر میں بیٹھے تمہارا ذکر کر رہے تھے اور ہنس رہے تھے تم پہ سب لوگ …جو بندہ شاہد حمید جیسے نکمے آدمی کو نکیل نہیں ڈال سکتا وہ، آگے چل کر کیا کرے گا۔ دو چار اور بڑے شہروں میں تمہاری پوسٹنگز ہو گئیں تو تمہارے ما تحت تو مل کر تمہیں ویسے ہی بلیک لسٹ کروا دیں گے۔ ایسے ایسے چلتے پرزے تمہارے جونیر آفیسرز کے طور پر آئیں گے کہ تمہارے ہوش ٹھکانے آ جائیں گے۔ اپنے علاقے میں ایک آدمی نہیں ہے جس کے ساتھ تم نے بنا کر رکھی ہو۔ نہ اپنے عملے کے ساتھ …نہ وہاں کے سیاسی یا صنعتی گھرانوں کے ساتھ …تم پتا نہیں کون سی سولو فلائٹ کر رہے ہو۔”
”میرا مسئلہ میرے شہر کا پریس ہے۔ اس طرح کی بے ہودہ خبریں لگاتے ہیں وہ میرے بارے میں کہ میں …اور آگے سے وہ خبریں نیشنل پریس پک کر لیتا ہے۔”
”تمہارا مسئلہ تم خود ہو۔” عباس نے اس کی بات کاٹی۔ ”ایک لوکل اخبار کی کیا حیثیت ہوتی ہے۔ ایس پی کے بارے میں کچھ غلط چھاپتے ہوئے جان نکلتی ہے ان کی۔ تمہارے بارے میں اگر اتنے دھڑلے سے اور اتنی بے خوفی سے خبریں چھپ رہی ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ انہیں کسی کی پشت پناہی حاصل ہے اور وہ بھی خود تمہارے محکمے میں سے کسی نے کی اور تمہارے ڈی ایس پی کے علاوہ یہ کام اور کون کر سکتا ہو گا۔” اور خود تم نے حد کر دی ہے۔ ڈی آئی جی اس دن بری طرح ہنس رہے تھے۔ کہہ رہے تھے کہ انہوں نے اپنی پوری سروس میں اتنے ریڈز کولیڈ نہیں کیا جتنے تمہارے کزن نے آتے ہی دو ماہ میں کئے ہیں۔ اڑتالیس ریڈ اور ہر ریڈ فیک …دو ماہ میں اڑتالیس ریڈ …خود سوچو عمر ! کوئی اپنی عقل استعمال کرو کون کہہ رہا ہے تمہیں اس طرح اتنا کام کرنے کو اور وہ بھی اپنا مذاق بنوانے کے لئے۔ جب تمہارا ہر ریڈ بے سود ثابت ہوتا ہے۔ اس پر پریس مذاق نہ اڑائے تو اور کیا کہے۔”
”مگر عباس ! میرے شہر کا لا اینڈ آرڈر بھی تو بہت خراب ہے۔ ” عمر نے کمزور لہجے میں اپنا دفاع کیا۔
”مجھے یہ بتاؤ کہ لا اینڈ آرڈر پاکستان کے کس شہر کا صحیح ہے۔” عباس اس کی دلیل سے متاثر ہوئے بغیر بولا۔
”اور مان لیا کہ ریڈ کرنا پڑ ہی جاتا ہے تو ہر ریڈ کی قیادت خود کرنے کی کیا تک بنتی ہے۔ تم ہر کولیس بننے کی کوشش کیوں کر رہے ہو ہر ریڈ میں خود موجود، یہ ضروری نہیں کہ اس طرح منہ اٹھا کر خود نکل پڑو …ویسے ان ریڈز کے لئے تمہیں Tips کہاں سے ملی تھیں؟”
عباس نے بات کرتے کرتے پوچھا۔
”کچھ تو پولیس انفارمرز کے ذریعے اور کچھ میرے پرسنل نمبر پر کرینک کالز آئی تھیں۔” عمر نے اسے بتایا۔ عباس نے لا پروائی سے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
”ہاں میں پہلے ہی توقع کر رہا تھا، ان کرنیک کالرز کو لوکیٹ کیوں نہیں کیا؟”
”کوشش کی تھی مگر آپریٹر نے کہا کہ پی سی او سے کالز کی گئی ہیں۔” عمر نے بتایا ”تو پی سی او اس کرہ ارض سے باہر تو کہیں واقع نہیں ہیں۔ انہیں لوکیٹ کرواتے، اس علاقے کے پولیس سٹیشن کے انچارج سے کہتے کہ اپنے انفارمز کے ذریعے اس انفارمیشن کی تصدیق کرنے …تم منہ اٹھا کر پولیس پارٹی لے کر ریڈ کرنے پہنچ گئے۔”
عمر اس بار کچھ بھی نہ بولا وہ کچھ خفت آمیز انداز میں مسکراتا رہا۔

”یاد رکھو …تمہارا آپریٹر، تمہارا پی اے، تمہارا ڈرائیور، تمہارے گارڈز اور کسی ایک پولیس اسٹیشن کا کوئی ایک تیز قسم کا ایس ایچ او، چلتا پرزہ ٹائپ کا یہ تمہارے بہترین ہتھیار ہیں اور اس وقت تمہارے پاس ان میں سے ایک بھی ہتھیار نہیں ہے۔ جتنی کرینک کالز تمہارے پاس آئی ہیں، تمہارے آپریٹر کو ان سب کا کچا چٹھا پتا ہو گا۔ تمہارے پی اے کو پتا ہو گا اس سب کا۔” عباس ایک بار پھر سنجیدہ ہو گیا۔ ”نہ صرف یہ بلکہ مال کمانے اور بنانے کے جتنے مواقع تمہارے پاس آنے ہیں، وہ ان ہی آدمیوں کے ذریعے آنے ہیں۔ تمہارا ڈی ایس پی اور اے ایس پی کوئی ڈیل یا کوئی آفر نہیں لے کر آئے گا تمہارے پاس، یہی چار پانچ لوگ لے کر آئیں گے۔ اس لئے ان کے ساتھ قدرے خاص سلوک کرو۔ Let them befriend you. (ان سے دوستی کرو) عباس نے کہا۔
عمر نے اس کی بات پر بے اختیار نخوت آمیز انداز میں اپنے کندھے جھٹکے۔ be friend me کانسٹیبل سب انسپکٹر، کلرک ٹائپ کے لوگوں کو میں اپنے دوستوں کی فہرست میں شامل کر لوں امپاسبل۔ ان ٹکے ٹکے کے لوگوں کو میں اپنے سر پر بٹھا لوں۔” اس نے قطعیت سے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔
”پہلے بھی تو وہ تمہارے سر پر ہی بیٹھے ہوئے ہیں۔” عباس نے چبھتے ہوئے انداز میں کہا۔
”ان جیسے جھوٹے اور کرپٹ لوگوں کو میں سلام کرتا پھروں۔” عمر جہانگیر کے لہجے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
”اوئے تیرا کیا جاتا ہے۔ اگر وہ جھوٹ بولتے ہیں یا فراڈ کرتے ہیں۔ تجھے کیا ہے ” عباس نے اسے بری طرح جھڑکتے ہوئے کہا۔
”نہیں آخر کیوں؟ میں ایسے لوگوں کو کیوں منہ لگاؤں، صرف ان سے خوفزدہ ہو کر۔” عمر اب بھی اس کی باتوں سے متاثر نہیں ہوا تھا۔
”اگر آپ انہیں منہ نہیں لگائیں گے تو پھر یہ آپ کے پیروں کی ایسی رسی بن جائیں گے کہ آپ کو اپنی جگہ سے ہلنے نہیں دیں گے۔” عباس نے اس بار اسے پچکارتے ہوئے کہا۔
”مجھے اگر ثبوت مل گئے کہ ان لوگوں نے جان بوجھ کر مجھ تک غلط انفارمیشن پہنچائی ہے تو میں اب سب کو معطل کر دوں گا۔”
”اس سے کیا فرق پڑے گا۔ ان کی جگہ جو دوسرے لوگ آئیں گے۔ وہ بھی آپ کے ساتھ یہی سلوک کریں گے۔” عباس نے لا پروائی سے کہا۔”جب تک آپ اپنا طریقہ کار نہیں بدلیں گے، آپ کے ساتھ یہی ہوتا رہے گا۔”
”یہ لوگ اتنے طاقتور نہیں ہیں، جتنا تم انہیں میرے سامنے بنا کر پیش کر رہے ہو۔” عمر نے عباس کی بات کے جواب میں کہا۔
”آپ ایک مقابلے کا امتحان پاس کر کے آئے ہیں عمر جہانگیر صاحب …یہ لوگ کیا کیا چیزیں ”پاس” کر کے آئے ہیں آپ کو اس کا اندازہ ہی نہیں ہے۔” عباس نے طنزیہ لہجے میں اس سے کہا۔ ”صرف تعلیم نہیں ہے ان کے پاس …اس طرح کی تعلیم جسے آپ اور میں تعلیم سمجھتے ہیں …مگر انہیں ہر وہ ہتھکنڈہ آتا ہے جس سے اس سوسائٹی میں ان کی Survival (بقا) ممکن ہوتی ہے۔” عباس نے ایک سگریٹ سلگاتے ہوئے کہا۔ ”تمہیں پتا ہے یہ ڈرائیور، گارڈ، پی اے، ٹائپ کے تمام لوگ سیاسی سفارشوں پر بھرتی ہوئے ہوتے ہیں، اور جو لوگ ان کو اس محکمے میں بھرتی کرواتے ہیں وہ صرف ان کی دعائیں لینے کے لئے تو یہ کام نہیں کرتے۔”
اس نے سگریٹ کا پیکٹ عمر کے سامنے کھسکاتے ہوئے کہا۔ عمر نے خاموشی سے اس پر نظریں جمائے ہوئے اس پیکٹ کو اٹھا کر اس میں سے ایک سگریٹ نکال لیا۔ عباس اب لائٹر کے ساتھ اپنے ٹیبل سے کچھ آگے جھکتے ہوئے عمر کے سگریٹ کو سلگا رہا تھا۔
”یہ ان سیاسی لیڈرز کے گرگے ہوتے ہیں، نمک حلالی کرتے ہیں ان کے ساتھ …یہ ہم لوگوں اور سیاست دانوں کے درمیانی پل کا کام کرتے ہیں اور کسی بھی پل کو کبھی بیکار سمجھ کر توڑنا نہیں چاہیے۔” عباس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔ ”تم ان میں کسی ایک کو معطل کر کے دیکھو کہاں کہاں سے سفارشیں تمہارے پاس آئیں گی تم خود حیران ہو جاؤ گے۔” عباس نے سگریٹ کا ایک کش لیتے ہوئے کہا۔
”مثلاً میرے ڈرائیور کا ایک بیٹا ڈی سی کے دفتر میں جونئیر کلرک ہے۔ اس کا ایک بھائی سیکرٹریٹ میں چوکیدار ہے۔ ایک اور بھائی گورنر ہاؤس میں مالی ہے اور ایک اور بھائی آئی جی صاحب کی گاڑی کا ڈرائیور ہے اس سے زیادہ با رسوخ خاندان کوئی ہو سکتا ہے۔”
عباس نے آخری جملہ ایک قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔ ”مجھے بڑا محتاط رہنا پڑتا ہے اس کے سامنے …کیونکہ ہر بات وہ ہر جگہ پہنچا دیتا ہے۔ اسی طرح مجھے اس کے ذریعے وہاں کی تمام باتوں کا پتہ چلتا رہتا ہے …حتیٰ کہ آئی جی صاحب نے جب اپنی دوسری بیوی کو طلاق دینی تھی تو ان کی بیوی سے پہلے مجھے پتا چل چکا تھا۔”
اس بار عمر اس کی بات پر مسکرایا۔
”دراصل عمر ! یہ لوگ وہ طوطے ہیں جن کے قبضے میں ہماری جان ہوتی ہے۔ انہیں ہمارے بارے میں سب کچھ پتا ہوتا ہے یا یہ سب کچھ پتا چلا لیتے ہیں۔ با خبر آدمی بہت نقصان دہ ہوتا ہے اس صورت میں اگر وہ آپ کا دشمن بھی ہو۔”
اس سے پہلے کہ عباس مزید کچھ کہتا عباس کا پی اے اندر آ گیا تھا۔
”مدثر صاحب سے ملوایا ہے تمہیں میں نے؟” اس سے پہلے کہ اس کا پی اے کچھ کہتا عباس نے عمر سے پوچھا عمر نے نفی میں سر ہلایا۔ وہ اس دن پہلی بار عباس کے آفس گیا تھا۔
”مدثر صاحب ! یہ میرے کزن ہیں عمر جہانگیر اور عمر ! یہ مدثر صاحب ہیں، بہت ہی کمال کے آدمی ہیں، میں نے تو آفس کا سارا کام ان سے سیکھا ہے۔”

عباس نے بڑی خوش دلی کے ساتھ اس ادھیڑ عمر آدمی کی تعریف کرتے ہوئے کہا۔
”ان چند لوگوں میں سے ایک ہیں یہ جنہیں رولز اور ریگولیشنز زبانی یاد ہیں۔” عمر نے کچھ حیرانی سے عباس کو دیکھا جو اپنے پی اے کی ایک فائل پر کچھ سائن کر رہا تھا اور پی اے کے چہرے پر کچھ فخریہ مسکراہٹ تھی، عمر نے دھیمے لہجے میں انگلش میں اس سے کچھ کہنا چاہا۔
اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہتا عباس نے برق رفتاری سے اس کی بات کاٹی اوربڑی بے تکلفی سے کہا۔ ”بھئی ! یہ ہیں ہی بڑے قابل آدمی، ایسے بندے کی تعریف تو کرنی ہی پڑتی ہے۔ میں نے بتایا نا تمہیں کہ میں نے تو سارا آفس ورک ان ہی سے سیکھا ہے۔”
اس بار عمر نے کچھ مسکرا کر اس شخص کو دیکھا۔
”سر ! ایسے ہی تعریف کر رہے ہیں۔ میں کس قابل ہوں …عباس صاحب تو خود بڑے ذہین آدمی ہیں۔”
اس بار اس کے پی اے نے کچھ عاجزانہ سے انداز میں کہا۔
”میں آپ کے آنے سے پہلے عمر سے آپ کے بارے میں بات کر رہا تھا۔ میں اس کو بتا رہا تھا کہ پی اے اچھا مل جائے تو آدھا کام آسان ہو جاتا ہے۔”
عمر حیرانی سے عباس کو دیکھتا رہا عباس اس کے تاثرات پر غور کئے بغیر اپنے پی اے سے بات کرتا رہا۔ وہ اب اسے کوئی اور ہدایت دے رہا تھا، کچھ دیر بعد جیسے ہی اس کے پی اے نے کمرے سے باہر قدم رکھا۔ عباس نے بڑے اطمینان سے عمر سے کہا۔
”اب تم دیکھو، اس حرامزادے نے میرے ساتھ کیا کیا تھا؟” عباس نے انگلی سے دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ عمر اس کے جملے پر ہکا بکا رہ گیا ”اس کمینے نے میرے کمرے میں ایسا سسٹم لگایا تھا جس سے کمرے کی باتیں سنی جا سکیں …جب میں نے یہاں چارج لیا۔”
”مگر تم تو اس کی تعریف کر رہے تھے۔” عمر نے کچھ سنبھلتے ہوئے کہا۔
”تو تمہارا مطلب ہے، یہ گالیاں میں اس کے سامنے دوں اسے۔” عباس نے عجیب سے انداز میں مسکراتے ہوئے کہا۔
”اسی لئے تم اس کے سامنے انگلش میں مجھ سے ساری تفصیل پوچھنے لگے تھے۔ عقل کا استعمال کیا کرو عمر …! ان لوگوں کو بڑی اچھی طرح پتا ہوتا ہے کہ صاحب لوگ انگلش اس وقت بولتے ہیں جب وہ کوئی بات ان سے چھپانا چاہتے ہیں یا اس بات کے الٹ کوئی بات کہہ رہے ہوں جو ان کے سامنے کی جا رہی ہو۔ اس لئے انگلش ان کے سامنے کبھی مت بولو۔ بہتر ہے پنجابی میں بات کرو …دیکھو کس طرح کام آسان ہوتے ہیں۔” عباس خود ہی محظوظ ہوتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
”تمہییں کیسے پتا چلا کہ اس نے کمرہ Bug کروایا ہوا ہے؟” عمر نے پوچھا۔
”وہ میرا بیج میٹ نہیں تھا اسجد خاکوانی …اس نے مجھے اس آدمی کے بارے میں خاصا بریف کیا تھا۔ پہلے وہی تھا میری پوسٹ پر …میں نے پہلے دن آتے ہی کمرہ چیک کروایا اور پتا ہے کس سے کروایا۔ پرائیویٹ طور پر ایک آدمی کو بلوا کر۔”
عباس بات کرتے کرتے ہنسا۔
”ورنہ اپنے محکمے کے کسی آدمی کو بلوا کر یہ کام کرواتا تو اس نے کہنا تھا کہ کمرہ Bugged نہیں ہے۔ پھر میں نے ”مدثر صاحب” کو بلوایا اور انہیں صاف صاف بتایا کہ مجھ پر یہ ہتھکنڈے استعمال نہ کریں …میرے کمرے میں دوبارہ کوئی چیز آئی تو میں آپ کے علاوہ کسی اور کو نہیں پکڑوں گا۔ ان حضرت نے بڑی قسمیں کھائیں کہ انہیں کچھ پتا نہیں ہے وغیرہ وغیرہ مگر اس کے بعد دوبارہ میرا کمرہ Bug نہیں کیا گیا۔ کئی دفعہ میں اچانک چیکنگ کرواتا رہتا ہوں۔”
عباس کہتے کہتے ایش ٹرے میں سگریٹ پھینکتے ہوئے بولا۔
”اور تمہیں پتا ہے خود میں نے ان لوگوں کے ساتھ کیا کیا ہے۔ میں نے ان سب کے کمرے Bug کروائے ہوئے ہیں۔” عمر نے اس کی بات پر بے اختیار قہقہہ لگایا۔
”تو بھی بڑا چلتا پرزہ ہے عباس۔”
”ضروری تھا یار …! تم گھر آنا میں تمہیں ان لوگوں کی گفتگو سناؤں گا۔ جو گالیاں یہ مجھے دیتے ہیں انہیں سن کر تمہاری طبیعت صاف ہو جائے گی۔” عباس نے ہنس کر کہا۔
”تم تو کہہ رہے تھے بڑا قابل آدمی ہے۔”
”اس کی قابلیت میں کوئی شبہ نہیں ہے مجھے، بیس سال کی سروس ہے اس کی …کسی رول کے بارے میں بات کر لو …اسے سب پتا ہے۔ کسی دفعہ کی بات کر لو …خود تم حیران ہو جاؤ گے یوں لگے گا جیسے کسی وکیل سے بات کر رہے ہو …حسن ترمذی کا نام سنا ہے؟” اس نے بات کرتے کرتے اس سے پوچھا۔
”ہاں بالکل سنا ہے۔ بڑا ایماندار قسم کا آفیسر ہے۔” عمر کو یاد آیا۔
”ہاں بے حد آؤٹ اسٹینڈنگ قسم کا آدمی تھا۔ ایک سال میری اس پوسٹ پر بھی کام کیا ہے۔ روتے ہوئے نکلا تھا اس آفس سے …اس بندے نے یہاں ما تحت لوگوں کے ساتھ مل کر تگنی کا ناچ نچا دیا تھا اسے، حالانکہ دیکھنے میں تمہیں کتنا مسکین اور مودب لگا ہو گا۔ مگر ترمذی یہاں سے اپنا سروس ریکارڈ خراب کروا کر نکلا تھا ان اسکینڈلز میں پھنسا وہ جن کا اس نے خواب میں بھی نہیں سوچا ہو گا اور میں بہر حال حسن ترمذی تو نہیں ہوں کہ اس جیسے دو کوڑی کے پی اے کے ہاتھوں خوار ہوتا۔” عباس اب اسے تفصیل بتا رہا تھا۔
”اس لئے تمہیں کہہ رہا ہوں کہ ان لوگوں کے ساتھ بنا کر رکھو۔ یہ نہیں کہہ رہا کہ اعتبار کرو یا آستین کا سانپ بنا لو مگر انہیں اسی طرح استعمال کرو جس طرح یہ لوگ ہمارے نام کو استعمال کرتے ہیں۔” عباس اسے سمجھا رہا تھا ”میں کتنا بھی اچھا کیوں نہ ہوں اگر یہ لوگ دوسروں سے کہیں گے کہ میں اچھا نہیں ہوں تو سب مجھے برا ہی سمجھیں گے اور میں کتنا ہی برا کیوں نہ ہوں اگر یہ لوگ سب سے کہیں گے کہ میں اچھا ہوں تو سب مجھے اچھا ہی سمجھیں گے۔ اس آدمی کے ذریعے اس سال میں نے دو کروڑ روپے کمائے ہیں۔ اس نے خود کتنا کمایا ہے مجھے نہیں پتا مگر بہر حال مجھے دو کروڑ روپے کا منافع ہوا ہے اور ریپوٹیشن میری یہی ہے کہ میں بڑا اچھا آفیسر ہوں۔” وہ مزے سے کہتا جا رہا تھا۔ عباس نے واقعی عمر کو اپنے ما تحت عملے کے ساتھ نپٹنے کے سارے گر سکھا دئیے تھے۔ اپنی پہلی پوسٹنگ پر باقی کے ڈھائی سال عمر نے بڑے اطمینان کے ساتھ گزارے تھے اور دوسری پوسٹنگ تک وہ اپنے فن میں کچھ اور طاق ہو گیا تھا۔ اسی فن کو وہ یہاں بھی استعمال کر رہا تھا خود کرپشن پر براہ راست عملے کو ڈانٹ ڈپٹ کے بجائے وہ موقع ملنے پر بابر جاوید کو استعمال کر رہا تھا اپنے ضلع میں اس کا نام واقعی اس کے ما تحت عملے کے لئے ایک ہوا بن گیا تھا مگر عباس کی ہدایات کے مطابق اس کے اپنے ڈرائیور، پی اے، گارڈز اور شہر کے دو سب سے بد نام زمانہ ایس ایچ اوز کے ساتھ تعلقات بہت اچھے تھے۔ اس نے جسٹس نیاز کے بیٹے اور اس کے دوستوں کے قتل کے سلسلے میں عباس کے عملے کی مہارت اور وفاداری دیکھی تھی۔ اوپر سے لے کر نیچے تک ہر ایک نے عباس کو ہر طرح سے بچایا تھا اور اسے پہلی بار ما تحت عملے کی وفاداری کی اہمیت کا احساس ہوا تھا۔
اگلے دن صبح وہ کچھ دیر سے ناشتے کے لئے آئی تھی۔
”جنید نے صبح دو تین بار فون کیا تھا۔” نانو نے اسے دیکھتے ہی اطلاع دی۔
وہ کوئی رد عمل ظاہر کئے بغیر ناشتہ کے لئے ڈائننگ ٹیبل پر جا بیٹھی۔ مرید بابا اسے دیکھ کر ناشتہ لگانے لگے۔
”تمہیں یاد ہے نا آج رات ثمینہ آ رہی ہے؟” نانو نے ایک بار پھر اسے مخاطب کیا۔
”جی ۔۔۔” اس نے مختصر جواب دیا۔
”تم میرے ساتھ ائیر پورٹ اسے ریسیو کرنے چلو گی؟” نانو نے اس سے کہا وہ لاؤنج کے ایک صوفہ پر بیٹھی ہوئی تھیں، جب کہ علیزہ ان سے قدرے فاصلے پر ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھی ہوئی تھی اس لئے نانو کو قدرے بلند آواز میں بات کرنی پڑ رہی تھی۔
”چلی جاؤں گی۔” علیزہ نے پھر اسی انداز میں جواب دیا۔ علیزہ نے ناشتہ شروع کر دیا نانو کچھ دیر دور بیٹھے ہوئی اسے دیکھتی رہیں پھر اٹھ کر اس کے قریب چلی آئیں، ایک کرسی کھینچ کر اس کے قریب بیٹھتے ہوئے انہوں نے پوچھا۔
”کیا ہوا تھا رات کو تمہارے اور جنید کے درمیان؟”
سلائس کھاتے ہوئے ایک لمحے کے لئے علیزہ کا ہاتھ رکا مگر پھر اس نے سنی ان سنی کرتے ہوئے سلائس کھانا جاری رکھا۔
”تم لوگوں کا جھگڑا ہوا تھا؟” نانو کچھ دیر اس کے جواب کا انتظار کرتی رہیں پھر پوچھا۔
علیزہ نے اس بار بھی کچھ نہیں کہا وہ اسی طرح سر جھکائے سلائس کھاتی رہی۔
”جھگڑا تم کرتی ہو اور تمہاری وجہ سے پریشانی مجھے اٹھانی پڑتی ہے۔” اس بار نانو نے بے صبری سے کہا۔ ”اب کس بات پر جھگڑا ہوا تھا؟” علیزہ نے اس بار بھی کوئی جواب نہیں دیا۔
”علیزہ ! اب یہ بچپنا چھوڑ دو …بیس دن رہ گئے ہیں تمہاری شادی میں اور تم اب بھی بچوں کی طرح اس سے لڑنے میں مصروف ہو۔ وہ کیا سوچتا ہو گا تمہارے بارے میں اور ہماری فیملی کے بارے میں؟” نانو نے اسے جھڑکتے ہوئے کہا۔
سلائس پر اس کی گرفت کچھ سخت ہوئی مگر اس نے سر پھر بھی نہیں اٹھایا۔ وہ بد ستور سلائس کھاتی رہی۔
”تم میری بات سن رہی ہو؟” اس بار نانو کی خفگی میں کچھ اضافہ ہوا۔ ”میں تم سے مخاطب ہوں۔”
”میں سب سن رہی ہوں نانو!” اس نے بالآخر سر اٹھا کر کہا۔
نانو کو اس کے چہرے کے تاثرات بہت عجیب سے لگے۔
”تمہاری طبیعت ٹھیک ہے؟” انہوں نے تشویش سے پوچھا۔
”جی ۔۔۔” وہ ایک بار پھر سلائس کھانے لگی۔
”جنید کا فون ریسیو کر لینا …بلکہ بہتر ہے کہ تم خود اس کو کال کر لو …اس نے کہا تو نہیں مگر تم کال کرو گی تو اسے اچھا لگے گا۔” انہیں اچانک پھر جنید کا خیال آیا۔
”جی ! ” اس نے چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے کہا۔
”شہلا کب آ رہی ہے۔ آج کچھ کپڑے لینے کے لئے مارکیٹ جانا تھا تم لوگوں کو۔” نانو نے کچھ مطمئن ہو کر اٹھتے ہوئے کہا۔
”وہ آج نہیں آ رہی۔”
”کیوں؟”
”وہ کچھ مصروف ہے اس لئے۔”
”تم اکیلی چلی جاتیں۔”
”نہیں میں اکیلے نہیں جانا چاہتی۔”
”چلو ٹھیک ہے، آج ثمینہ آ جائے گی تو کل وہ بھی تمہارے ساتھ چلی جائے گی۔” نانو کو اچانک خیال آیا۔
علیزہ نے اس بار کچھ نہیں کہا۔ اس نے چائے کا کپ اٹھایا ہی تھا جب فون کی گھنٹی بجنے لگی۔
”جنید کا فون ہو گا۔ تم اٹھا لو۔” نانو نے لاؤنج سے نکلتے ہوئے کہا۔
چائے کا کپ وہیں رکھ کر وہ فون کی طرف بڑھ آئی۔ دوسری طرف جنید ہی تھا۔ رسمی سلام دعا کے بعد جنید نے اس سے کہا۔
”میں صبح سے تین بار فون کر چکا ہوں۔”
”ہاں نانو نے مجھے بتایا تھا” علیزہ نے سر سری سے انداز میں کہا، وہ کچھ دیر تک خاموش رہا۔
”تمہارا موڈ اب کیسا ہے؟”
”ٹھیک ہے۔”
”ناراضی ختم ہو گئی ہے؟”
”ہاں۔”
”مجھے توقع تھی کہ تمہارا غصہ جلد ختم ہو جائے گا اور تم میرا پوائنٹ آف ویو سمجھ جاؤ گی۔” جنید نے بے اختیار اطمینان بھرا سانس لیتے ہوئے کہا۔
وہ خاموش رہی۔
”میں تو ساری رات بہت ٹینس رہا ہوں، تمہاری ناراضی کی وجہ سے۔”
وہ پھر خاموش رہی۔
”تم کچھ بات نہیں کر رہیں؟” جنید کو اچانک محسوس ہوا۔
”کیا بات کروں؟”
”کچھ بھی …کیا میرا بتانا ضروری ہے؟”
”میرے ذہن میں کوئی بھی بات نہیں ہے فی الحال ۔۔۔” اس نے کہا۔
”اچھا میں تمہیں رات کو فون کروں گا۔” جنید نے کہا ”اس وقت میں گاڑی میں ہوں۔”
”نہیں رات کو فون نہ کریں …ممی آ رہی ہیں۔ ہم لوگ مصروف ہوں گے۔” علیزہ نے کہا۔
”ارے ہاں مجھے خیال ہی نہیں رہا …رات کو تم خاصی مصروف رہو گی۔ کتنے بجے کی فلائٹ سے آ رہی ہیں؟”
”نو بجے کی فلائٹ سے۔”
”ٹھیک ہے پھر کل بات ہو گی تم سے۔” جنید نے خدا حافظ کہتے ہوئے فون بند کر دیا وہ یک دم بہت پر سکون ہو گیا تھا ورنہ پچھلی رات سے وہ مسلسل علیزہ کے رویے کے بارے میں سوچ سوچ کر پریشان ہو رہا تھا۔
آفس میں کام کرتے رہنے کے بعد شام کو وہ گھر چلا گیا اور رات کو جلد ہی سو گیا۔
”میجر لطیف بات کرنا چاہتے ہیں آپ سے۔” آپریٹر کے جملے پر عمر کے ماتھے پر کچھ بل آ گئے۔ اس ہفتے کے دوران میجر لطیف کی طرف سے ملنے والی یہ چھٹی کال تھی۔
”بات کرائیں۔” اس نے ہونٹ بھینچتے ہوئے کہا۔ یہ آدمی واقعی اس کا ناک میں دم کر رہا تھا۔ رسمی سلام دعا کے بعد وہ سیدھا کام کی بات پر آ گیا ایک پولیس اسٹیشن کا حدود و اربعہ بتاتے ہوئے اس نے عمر سے کہا۔
”اس پولیس اسٹیشن کے بارے میں ایک شہری کی طرف سے شکایت آئی ہے ہمارے پاس۔”
”جی فرمائیے۔ کیا شکایت آئی ہے آپ کے پاس؟”
”اس پولیس اسٹیشن کے انچارج نے اس شخص کے بیٹے کو چوری کے جھوٹے الزام میں پچھلے چھ ماہ سے بند کیا ہوا ہے۔” میجر لطیف نے تیز لہجے میں کہا۔
عمر بڑے تحمل سے اس کی بات سننے لگا۔
”اس شخص نے یہ بھی شکایت کی ہے کہ پولیس نے ایف آئی آر درج کئے بغیر اس آدمی کو گرفتار کیا ہے۔”
”آپ اس شخص کا نام بتا دیں، جس کی بات کر رہے ہیں۔” عمر نے سامنے ٹیبل پر پڑا پین اٹھاتے ہوئے نوٹ پیڈ اپنی طرف کھسکایا۔ میجر لطیف نے دوسری طرف سے اس شخص کے کوائف نوٹ کروائے۔ عمر نے اپنے سامنے پڑے نوٹ پیڈ پر اس آدمی کے کوائف تیز رفتاری سے لکھے۔
”میں چیک کرتا ہوں کہ اس شخص کی شکایت ٹھیک ہے یا نہیں۔” عمر نے اس آدمی کے کوائف نوٹ کرنے کے بعد کہا۔
”اس کی ضرورت نہیں ہے میں پہلے ہی چیک کر چکا ہوں، اس شخص کی شکایت بالکل درست ہے۔” دوسری طرف سے میجر لطیف نے کہا۔ عمر کے ہونٹ بھینچ گئے۔
”اس شخص کے بیٹے کو واقعی ایف آئی آر درج کئے بغیر غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا گیا ہے۔” میجر لطیف دوسری طرف سے کہہ رہا تھا۔ ”وہ پچھلے چھ ماہ سے وہ اس پولیس اسٹیشن کے انچارج کی تحویل میں تھا۔”
”آپ نے جہاں یہ چیک کرنے کی زحمت کی۔ وہاں اسے چھڑوانے کی زحمت بھی کر لیتے۔” عمر نے کچھ طنزیہ انداز میں اس سے کہا۔
”جی یہ زحمت بھی کر چکا ہوں میں۔ چھڑا چکا ہوں اب سے کچھ گھنٹے پہلے۔” میجر لطیف نے بھی دوسری طرف سے اسی طنزیہ انداز میں کہا۔
”تو پھر جب آپ نے دونوں کام خود ہی کر لئے، تو مجھ سے رابطے کی زحمت کس لئے کی آپ نے؟” عمر نے اسی انداز میں بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔
”یقیناً آپ کا بہت قیمتی وقت ضائع ہوا ہو گا میری اس کال سے۔ مگر میں نے ضروری سمجھا کہ آپ کو اطلاع دے دوں کہ آپ کے انڈر پولیس اسٹیشنز میں کیا ہو رہا ہے۔ پھر ان بے ضابطگیوں کی اطلاع اگر اسی طرح اوپر گئی تو آپ کو اور آپ کے ما تحتوں کو خاصی تکلیف ہو گی۔” میجر لطیف نے بھی اپنا طنزیہ انداز برقرار رکھا۔
”بڑی مہربانی آپ کی …اس اطلاع کے لئے۔” عمر نے مختصراً کہا۔
”اپنے ما تحتوں کا تو مجھے پتا نہیں مگر مجھے آپ کی ان رپورٹس سے کوئی تکلیف یا زحمت نہیں ہو گی۔ آپ ان رپورٹس کا سلسلہ جاری رکھیں۔” عمر نے سنجیدگی سے کہا۔
”اس ہفتے میرے پاس آنے والی یہ اٹھارویں شکایت ہے اور ہر بار مجھے اس پر خود ہی ایکشن لینا پڑا ہے۔” میجرلطیف نے کچھ جتانے والے انداز میں کہا۔
”میجر صاحب ! آپ نے اپنا کام کافی بڑھا نہیں لیا۔ اصولی طور پر آپ کو یہ تمام شکایات مجھ تک ریفر کر دینی چاہیے تھیں۔ میں خود اس سے نمٹ لیتا، آپ کو خوامخواہ اس طرح کی زحمت نہ کرنی پڑتی۔” عمر نے میجر لطیف سے کہا۔
”زحمت والی تو کوئی بات نہیں۔ آپ اور آپ کے ما تحت اتنے Efficient ہوتے تو ہمیں یہاں آنا ہی کیوں پڑتا۔ آپ کو تو میں اس سب سے صرف اس لئے انفارم کر رہا ہوں تا کہ آپ اپنے ماتحتوں پر چیک رکھیں اور کبھی کبھار تکلفاً اپنے دفتر کے علاوہ کہیں ادھر ادھر بھی چکر لگا لیا کریں۔” اس بار میجر لطیف کا لہجہ پہلے سے زیادہ طنزیہ تھا۔
”ہماری زحمت کا آپ کو اتنا خیال ہو تو آپ اپنے ما تحتوں کو خود نکیل ڈال کر رکھیں۔”
”میجر صاحب آپ اگر منہ اٹھا کر میری حدود کے آخری پولیس اسٹیشنز کا طواف کرتے پھریں گے تو پھر کوئی الٰہ دین کا جن ہی ہو گا جو آپ کی زحمت میں کمی کر سکے گا۔” عمر کے لہجے میں بھی اس بار پہلے سے زیادہ تندی و تیزی تھی۔
”ہر شکایت آپ دیہاتیوں کی لے کر آ رہے ہیں۔ شہر کے اندر کے پولیس اسٹیشنز کی بات کریں۔ وہاں کی ورکنگ بھی دیکھیں۔”
”کیوں شہر سے باہر کے پولیس اسٹیشنز آپ کے انڈر نہیں آتے یا پھر دیہاتیوں کو آپ نے پاکستان کے شہریوں کی فہرست سے نکال دیا ہے۔” میجر لطیف نے بڑے کٹیلے انداز میں کہا۔
”میں نے آپ کو فون آپ کے طنز سننے کے لئے نہیں کیا۔ آپ کو یہ بتانے کے لئے کیا ہے کہ آپ کے عملے کے بارے میں ہمارے پاس بے تحاشا شکایات آ رہی ہیں۔ آپ ان کا سد باب کرنے کے لئے کچھ کریں ورنہ ۔۔۔” عمر نے اسے اپنی بات مکمل کرنے نہیں دی۔
”ٹھیک ہے میں چیک کر لوں گا آپ کی انفارمیشن کے لئے آپ کا شکریہ۔” عمر نے فون بند کر دیا۔
میجر لطیف اس کو واقعی ناکوں چنے چبوا رہا تھا اس نے آتے ہی شہر کے نواحی علاقوں میں قائم پولیس اسٹیشنز کو دیکھنا شروع کر دیا تھا جب کہ عمر کا خیال تھا کہ وہ شہر کے اندر کے پولیس اسٹیشنز کو دیکھے گا اور نواحی علاقوں کو سرے سے نظر انداز کر دے گا۔ یہی وجہ تھی کہ اس کی ہدایات پر شہر کے اندر کے تمام اسٹیشنز پر خاص چیک رکھا گیا تھا اس کے ما تحتوں نے نہ صرف اپنا ریکارڈ اپ ریٹ کیا تھا بلکہ باقی تمام معاملات میں بھی ان کا رویہ بہت محتاط ہو گیا تھا۔ ایف آئی آر درج کرنے کے سلسلے میں بھی ان کی کارکردگی بہت بہتر ہو گئی تھی۔
میجر لطیف کو اندازہ تھا کہ عمر کہاں سے کام شروع کرے گا۔ اس نے اس کی توقعات کے بر عکس سب سے پہلے ان پولیس اسٹیشنز کو دیکھنا شروع کیا تھا جو نواحی علاقے میں تھے اور اس کے حسب توقع وہاں بے شمار بے قاعدگیاں اور بے ضابطگیاں تھیں۔ چند ہفتوں میں ہی اس کے پاس شکایات کی بھر مار ہو گئی تھی اور میجر لطیف ان شکایات پر دھڑا دھڑ اپنی رپورٹس بنا کر بھجوا رہا تھا۔
عمر جہانگیر ان ہفتوں کے دوران تین بار ہیڈ کوارٹر جا چکا تھا، جہاں ان رپورٹس پر اس کی اور اس کے ما تحت عملے کی کارکردگی زیر بحث آئی تھی۔ تیسری بار وہ ہیڈ کوارٹر جاتے ہوئے خاصا مشتعل تھا اور اس کا یہ اشتعال اس وقت بھی کم نہیں ہوا تھا جب وہ آئی جی کے سامنے پیش ہوا تھا۔
”جب تک یہ آدمی میرے سر پر بیٹھا رہے گا۔ مجھے اسی طرح بار بار یہاں آنا پڑے گا۔ یہ آدمی میرے خلاف ذاتی مخاصمت …رکھتا ہے۔” اس نے آئی جی سے کہا تھا۔
”میں کچھ بھی کر لوں، یہ پھر بھی اسی طرح کی شکایتوں کا ڈھیر یہاں پہنچاتا رہے گا۔ میں اس معاملے میں کچھ بھی نہیں کر سکتا۔”
”جسٹ کول ڈاؤن عمر ! میں تمہارا مسئلہ سمجھتا ہوں اور تمہاری پوزیشن بھی۔ مگر میں اس سلسلے میں مجبور ہوں۔ کام تمہیں میجر لطیف کے ساتھ ہی کرنا ہے اور اپنی کارکردگی بھی بہتر بنانی ہے۔”
انہوں نے بڑے نرم لہجے میں اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔ وہ عمر جہانگیر کے فیملی بیک گراؤنڈ سے اچھی طرح واقف تھے اور وہ ملک کی اس طاقتور ترین فیملی کے پس منظر کو بھی جانتے تھے اور وہ عمر جہانگیر کو ایک معمولی جونئیر آفیسر کے طور پر ٹریٹ نہیں کر سکتے تھے۔
“Sir Im already doing my optimum best”
عمر جہانگیر نے اپنے لفظوں پر زور دیتے ہوئے کہا۔ ”اگر ایک آدمی یہ طے کئے بیٹھا ہے کہ اس نے میرے خلاف کوئی پازیٹو رپورٹ بھجوانی ہی نہیں ہے تو میں کیا کر سکتا ہوں۔” عمر نے کہا۔
”میں نے آپ کے تمام اعتراضات نوٹ کئے۔ میں انہیں فارورڈ بھی کر دوں گا۔ مگر میں بتا دوں وہ میجر لطیف کو نہیں بدلیں گے نہ ہی وہ یہ بات ماننے کو تیار ہوں گے کہ وہ اپنا کام ٹھیک ہی نہیں کر رہا یا جان بوجھ کر تمہیں تنگ کر رہا ہے۔ تم جانتے ہو وہ کور کمانڈر کا بیٹا ہے۔”
آئی جی نے بہت صاف اور واضح لفظوں میں اس سے کہا۔
”کور کمانڈر کا بیٹا ہے تو اس کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ وہ کوئی غلط کام نہیں کر سکتا۔” عمر نے احتجاج کرتے ہوئے کہا۔
”فی الحال اس کا یہی مطلب ہے۔” آئی جی نے ہاتھ اٹھاتے ہوئے کہا۔
”میں اس سے زیادہ بہتر کام نہیں کر سکتا۔ میں جتنا کر سکتا ہوں کر رہا ہوں۔” عمر نے کہا۔
”تم اپنے اور میرے لئے مسئلے کھڑے کرنے کی کوشش نہ کرو، میری پہلے ہی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ میں کس کس کا دفاع کروں، کوئی دن ایسا نہیں جا رہا جب مجھے تم لوگوں میں سے، کسی نہ کسی کو یہاں بلا کر تنبیہہ نہ کرنا پڑ رہی ہو اور بعض دفعہ تو تم لوگوں کی وجہ سے خود مجھے بڑی شرمندگی ہوئی ہے۔”
آئی جی شاید اس دن خاصے پریشان تھے اس لئے وہ عمر جہانگیر کے سامنے اپنے دکھڑے رونے لگے۔ عمر ہونٹ بھینچتے ان کی باتیں سنتا رہا۔
”اب مجھے بتاؤ میں کیا کروں تمہارے لئے؟” کافی دیر بعد آئی جی دوبارہ اس کے مسئلے پر آ گئے۔ ”ٹرانسفر کروا دوں تمہاری؟”
”آپ اس کی ٹرانسفر کروا دیں۔”
”میں یہ نہیں کر سکتا۔”
”تو پھر میری ٹرانسفر کیوں؟ وہ تو پہلے ہی چاہتا ہے یہ تو ہتھیار ڈال کر بھاگ جانے والی بات ہوئی۔” عمر کے اشتعال میں کچھ اور اضافہ ہوا۔
”مگر تمہاری جان تو چھوٹ جائے گی اس سے۔” آئی جی نے تصویر کا روشن پہلو اسے دکھانے کی کوشش کی۔
”ویسے بھی یہاں تمہاری پوسٹنگ کا دورانیہ تو کچھ اور ماہ کے بعد پورا ہو ہی جائے گا تب بھی تو تمہیں کہیں اور جانا ہی ہے۔”
تب کی اور بات ہے۔ وہ تو ایک معمول کا حصہ ہے مگر اب اس طرح تو کہیں نہیں جانا۔” عمر نے صاف انکار کرتے ہوئے کہا۔ ”آپ میری ٹرانسفر کرنا کہاں چاہتے ہیں، بڑے شہروں میں تو کہیں بھی جگہ نہیں ہے اور مجھے کسی چھوٹے شہر میں نہیں جانا۔” عمر نے کہا۔
”فیڈرل گورنمنٹ میں بھجوا دوں؟” آئی جی نے فوراً کہا۔
”سر مجھے کسی دوسرے صوبے میں نہیں جانا …مجھے پنجاب میں ہی کام کرنا ہے۔ فیڈرل گورنمنٹ نے مجھے کسی چھوٹے صوبے میں بھجوا دیا تو میری ساری سروس خراب ہو جائے گی۔ مجھے یہیں رہنے دیں۔ جب چند ماہ بعد میری ٹرانسفر ہو گی تب دیکھا جائے گا مگر فی الحال میں اپنا علاقہ چھوڑنا نہیں چاہتا۔” عمر نے آئی جی سے کہا۔
”جب چند ماہ کی بات رہ گئی ہے تو کچھ اور محتاط ہوجاؤ اور اس سے کو آپریٹ کرو، تا کہ کم از کم وہ اوپر رپورٹس بھجوانی تو بند کرے …اور اس کے کہنے پر چھوٹے موٹے ما تحتوں کو معطل کرتے رہو کم از کم یہ تو ظاہر ہو کہ تم ایکشن لے رہے ہو۔” آئی جی نے اس کو اپنے قیمتی مشوروں سے نوازتے ہوئے کہا۔
”سر ! میں پہلے ہی دس ما تحتوں کو معطل کر چکا ہوں اگرمیجر لطیف کے مشوروں پر کام کروں گا تو پھر اگلے ماہ تک میرے ساتھ کام کرنے والے تمام لوگ معطل ہو چکے ہوں گے۔ اس پر پھر آپ کو شکایت ہو گی۔” عمر کے پاس ہر بات کا گھڑا گھڑایا جواب موجود تھا آئی جی نے ایک طویل گہرا سانس لیا۔
”ٹھیک ہے تم جاؤ اور میں ایک بار پھر تم سے کہہ رہا ہوں کہ محتاط رہو۔”
اس بار عمر جہانگیر نے ان کی بات کے جواب میں کچھ نہیں کہا وہ انہیں خدا حافظ کہتے ہوئے وہاں سے نکل گیا۔ کیونکہ اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ آئی جی اب اس ساری بحث سے تنگ آ چکے تھے۔ عمر کو ان کی پریشانی کا بھی اندازہ تھا، وہ بھی بری طرح پھنسے ہوئے تھے۔ اگر ایک طرف آرمی تھی تو دوسری طرف عمر جہانگیر کا خاندان …وہ دونوں میں سے کسی کے ساتھ بھی بگاڑ نہیں چاہتے تھے اور نہ ہی بگاڑ سکتے تھے۔ کیونکہ عمر جہانگیر کا خاندان معمولی سی بات پر بھی ہنگامہ اور طوفان اٹھا دینے میں کمال مہارت رکھتا تھا۔
عمر جہانگیر اچھی طرح جانتا تھا کہ ٹرانسفر سے وہ واقعی میجر لطیف سے چھٹکارا پا لیتا مگر خود اس کے اپنے سروس ریکارڈ کے لئے یہ بہتر نہیں ہوتا اس کے باوجود اس دن آئی جی کے آفس سے آنے کے بعد اس نے بڑے ٹھنڈے دماغ سے اس سارے معاملے پر غور و خوض کیا تھا کہ وہ اپنی جاب میں اپنی دلچسپی کھو رہا تھا اس کے ہاتھ اب بندھ چکے تھے۔
اگلی صبح جنید حسب معمول نو بجے کے قریب ناشتے کے لئے آیا تھا۔
”بابا نظر نہیں آ رہے؟” اس نے کرسی پر بیٹھتے ہی اپنی امی سے پوچھا۔
”وہ آج کچھ دیر سے آفس جائیں گے اس لئے ابھی نہیں اٹھے۔” اس کی امی نے بتایا، وہ اب اسے ناشتہ سرو کر رہی تھیں۔
”علیزہ کی امی آ گئی ہیں؟” انہوں نے جنید کو چائے سرو کرتے ہوئے پوچھا۔
”پتا نہیں رات نو بجے فلائٹ تھی۔ میری اس کے بعد اس سے بات نہیں ہوئی۔ آ گئی ہوں گی۔” جنید نے اخبار کھولتے ہوئے کہا۔
”میں آج ان کی طرف جانے کا سوچ رہی ہوں۔” اس کی امی نے کہا۔
”ہاں ضرور جائیں ۔۔۔” جنید نے خوش دلی سے کہا۔
”مگر پہلے میں فون پر ان سے بات کر لوں تا کہ ان کی کوئی اور مصروفیت نہ ہو آج کے دن کے لئے۔” اس کی امی نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا۔
جنید ان کی بات پر سر ہلاتے ہوئے اخبار دیکھتا رہا۔ فرنٹ پیج پر سرخیاں پڑھنے کے بعد اس نے اخبار کا پچھلا صفحہ دیکھا اور اس پر ایک سر سری سی نظر دوڑائی۔ صفحے کے نیچے ایک نوٹس پر نظر ڈالتے ہی اس کے ہاتھ میں پکڑا ہوا چائے کا کپ چھوٹتے چھوٹتے بچا تھا۔
”کیا ہوا جنید؟” اس کی امی نے کچھ چونک کر اسے دیکھا، جنید کا رنگ فق تھا وہ اخبار کے نچلے حصے میں موجود ایک خبر پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔
عمر نے فون اٹھایا، دوسری طرف سے آپریٹر اسے کسی کرنل حمید کے آن لائن ہونے کی اطلاع دے رہا تھا۔ عمر کے ماتھے پر چند بل نمودار ہوئے یہ نام اس کے لئے آشنا نہیں تھا۔
”بات کرواؤ۔” اس نے آپریٹر کو لائن ملانے کے لئے کہا۔
کچھ دیر بعد …دوسری طرف سے …کسی سلام دعا کے بغیر اکھڑ لہجے میں کہہ رہا تھا۔
”ایس پی عمر جہانگیر بات کر رہا ہے؟” عمر کے ماتھے کے بلوں میں کچھ اور اضافہ ہو گیا۔ ”بول رہا ہوں۔”
”میرا نام کرنل حمید ہے، میں تم سے پوچھتا ہوں کہ تم کس طرح اس شہر کو چلا رہے ہو۔” اپنا تعارف کروانے کے بعد اب کرنل حمید کے لہجے میں بہت تندی و تیزی آ گئی۔ ”پولیس کے بھیس میں تم غنڈوں کا گینگ چلا رہے ہو …جو کسی کو بھی اٹھا کر پولیس اسٹیشن میں بند کر دیتے ہیں۔”
عمر کا چہرہ سرخ ہو گیا۔
”اتنی لمبی بات کرنے کے بجائے تم صرف یہ بتاؤ کہ تمہارا پرابلم کیا ہے؟” عمر نے اس کی بات کاٹ کر۔ تمام ادب آداب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اسے تم کہہ کر مخاطب کیا۔ ”میرے پاس اس طرح کی باتیں سننے کے لئے وقت نہیں ہے۔”
”حالانکہ تمہارے پاس وقت ہی وقت ہونا چاہیے۔ کام تو تمہارے لئے تمہارے گرُگے کر ہی دیتے ہیں۔”
کرنل حمید کو اس کے اکھڑ لہجے نے کچھ اور مشتعل کیا، شاید اسے توقع تھی کہ عمر اس کے سامنے کچھ مدافعانہ یا معذرت خواہانہ انداز اختیار کرے گا۔
”میں نے تم سے کہا ہے کہ تم لمبی تقریروں کے بجائے صرف کام کی بات کرو ورنہ میں فون بند کر رہا ہوں۔”
”تمہارے آدمیوں نے میرے بیٹے کو پکڑ لیا ہے، میں دس منٹ میں اپنے بیٹے کو اپنے گھر میں دیکھنا چاہتا ہوں۔
”کیوں پکڑا ہے؟” عمر نے سرد لہجے میں کہا۔
”تم لوگوں نے اس پر یہ الزام لگایا ہے کہ وہ گاڑی چلا رہا تھا اور اس نے ایک آدمی کو زخمی کیا ہے۔ حالانکہ نہ تو وہ گاڑی چلا رہا تھا نہ ہی اس نے کسی آدمی کو زخمی کیا ہے میں ڈائریکٹ آرمی مانیٹرنگ کمیٹی کے پاس جا سکتا تھا مگر میں تمہیں ایک موقع دیتے ہوئے فون کر رہا ہوں کہ تم اسے چھوڑ دو۔”
”کہاں ہے وہ؟” کرنل حمید نے اسے اس پولیس اسٹیشن کا نام بتایا۔
”نام کیا ہے اس کا ؟”
”ارمغان۔”
”عمر؟”
”پندرہ سال۔”
عمر وہاں بیٹھے بیٹھے بھی بتا سکتا تھا کہ کیا ہوا ہو گا۔ اس کم عمر بچے نے گاڑی چلاتے ہوئے کسی کو زخمی کیا ہو گا اور اب کرنل حمید اس بات سے ہی انکاری تھا کہ اس نے ایسا کیا تھا۔
”گاڑی کون چلا رہا تھا؟”
”میرا ڈرائیور۔”
”وہ بھی پولیس اسٹیشن میں ہے؟”
”نہیں اسے کسی نے نہیں پکڑا صرف میرے بیٹے کو پکڑ لیا حالانکہ وہ ڈرائیونگ سیٹ پر نہیں تھا۔”
”میں چیک کرتا ہوں۔”
”میں نے تمہیں چیک کرانے کے لئے فون نہیں کیا …میں اسے دس منٹ کے اندر اپنے گھر پر دیکھنا چاہتا ہوں۔”
”میرے پاس کوئی الٰہ دین کا چراغ نہیں ہے کہ میں دس منٹ کے اندر اسے تمہارے گھر پہنچا دوں۔” عمر نے تند و تیز لہجے میں کہا۔” اسے پکڑا گیا تو یقیناً اس نے کچھ نہ کچھ تو غلط کیا ہو گا۔ میں صرف یہ دیکھوں گا کہ اس نے کیا کیا ہے، اگر اس نے کچھ نہیں کیا تو وہ تمہارے گھر آ جائے گا لیکن اگر اس نے کچھ کیا ہے تو پھر تمہارا باپ بھی آ کر اسے نہیں چھڑا سکے گا۔” عمر نے اسے چیلنج کرنے والے انداز میں کہا۔
”میرے باپ کو اسے چھڑوانے کی زحمت نہیں کرنی پڑے گی، میں تمہارے باپ کے ذریعے اسے چھڑوالوں گا۔” کرنل حمید نے اس بار تقریباً چلاتے ہوئے کہا۔
”ٹھیک ہے، تم میرے باپ کے ذریعے اسے چھڑوا کر دکھاؤ۔” عمر نے اس کا جواب سنے بغیر فون بند کر دیا اور پھر آپریٹر سے اس پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او سے بات کروانے کے لئے کہا …جہاں کرنل حمید کا بیٹا بند تھا۔
”سر ! بات کریں۔” آپریٹر نے کچھ دیر بعد فون پر اس سے کہا۔
”آج تم نے بارہ بجے کے قریب کسی کرنل حمید کے بیٹے ارمغان کو پکڑا ہے۔”
عمر نے انسپکٹر عاطف سے پوچھا، وہ اسے ذاتی طور پر جانتا تھا اور اس بات سے واقف تھا کہ وہ عام پولیس والوں کے بر عکس بہت ایماندار تھا۔ وہ ایک سال سے اس پولیس اسٹیشن میں کام کر رہا تھا اور صرف اسی کا پولیس اسٹیشن وہ واحد پولیس اسٹیشن تھا جس کے بارے میں عمر کو سب سے کم شکایات ملتی تھیں۔ اسی لئے اسے کرنل حمید سے بات کرتے ہوئے بھی یقین تھا کہ اگر وہ انسپکٹر عاطف کے پولیس اسٹیشن پر ہے تو اس کا واقعی یہ مطلب تھا کہ اس نے کچھ غلط کیا تھا۔تھا

باب: 52

اخبار دیکھتے ہوئے عمر کے ماتھے پر بل پڑ گئے، اخبار کے صفحے پر نظریں جمائے ہوئے اس نے انٹر کام کا ریسیور اٹھایا۔
”لاہور اس نمبر پر کال ملاؤ۔”
اس نے اپنے آپریٹر کو نانو کا نمبر دیتے ہوئے کہا۔ ریسیور وہیں رکھتے ہوئے اس کے چہرے پر الجھن تھی۔
”آخر گرینی نے اس شادی کو ملتوی کیوں کیا ہے؟ کیا پرابلم ہے۔” وہ ایک بار پھر اخبار دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھا۔ وہ ابھی کچھ دیر پہلے ہی آفس پہنچا تھا اور اخبارات پر سر سری سی نظر ڈالتے ہوئے اس نوٹس پر اس کی نظر پڑ گئی۔ یکے بعد دیگرے اس نے چاروں اخبارات کو دیکھ لیا۔ چاروں میں ہی وہ نوٹس موجود تھا۔ اس کا پچھلے کئی دنوں سے نانو کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہوا تھا۔ خود جنید کے ساتھ بھی اس کا رابطہ ہوئے کچھ دن گزر گئے تھے۔
فون کی بیل بجی، عمر نے فون اٹھا لیا۔
”سر ! بات کریں” آپریٹر نے کال ملاتے ہوئے کہا۔
چند لمحوں کے بعد دوسری طرف سے نانو کی آواز سنائی دی تھی۔ ”ہیلو ۔۔۔”
”ہیلو گرینی …میں عمر بول رہا ہوں۔” عمر نے کہا۔
”ہاں عمر …کیسے ہو تم؟” نانو کی آواز میں کچھ حیرت تھی۔
”میں بھی ٹھیک ہوں …تم لاہور میں ہو؟”
”نہیں لاہور میں نہیں ہوں۔”
”تو پھر اتنی صبح صبح کیسے کال کر لیا؟” نانو نے بالآخر اپنی حیرت کا اظہار کر ہی دیا۔
”میں ابھی ابھی آفس آیا تھا اور اخبار دیکھ رہا تھا۔ اخبار میں آپ کا نوٹس دیکھ کر آپ کو فون کیا ہے۔”
”اخبار میں آپ کا نوٹس پڑھا ہے۔”
”میرا نوٹس ۔۔۔” وہ ششدر رہ گئیں۔ “کیسا نوٹس؟”
”آپ نے اخبار میں کوئی نوٹس نہیں دیا؟” اب حیران ہونے کی باری عمر کی تھی۔
”نہیں میں نے تو کوئی نوٹس نہیں دیا۔ تم کس نوٹس کی بات کر رہے ہو؟”
عمر ان کے جواب پر الجھ گیا۔ گرینی سارے بڑے نیوز پیپرز میں آپ کے نام سے ایک نوٹس ہے۔ علیزہ کی شادی کے التوا کے بارے میں ۔۔۔”
”تم کیسی فضول باتیں کر رہے ہو۔”
”گرینی ! میں کوئی فضول بات نہیں کر رہا۔ نوٹس دیکھ کر آپ سے بات کر رہا ہوں۔ اس میں لکھا ہوا ہے کہ علیزہ کی 25 مارچ کو ہونے والی شادی آپ نے کچھ نا گزیر وجوہات کی بنا پر ملتوی کر دی ہے ۔۔۔” عمر نے نوٹس پر ایک نظر ڈال کر اخبار ٹیبل پر پھینک دیا۔
”میرے خدا …تم کیا کہہ رہے ہو …میں کیوں اس کی شادی کینسل کروں گی۔” نانو کی آواز سے ان کی پریشانی کا اندازہ ہو رہا تھا۔ ”کون سے اخبار میں ہے یہ نوٹس؟”
”چاروں بڑے نیوز پیپرز میں …میں نے چاروں نیوز پیپرز منگوا کر دیکھے ہیں۔ آپ نے اب تک اخبار نہیں دیکھا؟”
”نہیں میں نے اخبار نہیں دیکھا …میں تو ابھی تمہارے فون پر ہی اٹھی ہوں۔” نانو نے کہا۔
”ثمینہ امریکہ سے آئی تھی رات کو …ہم لوگ دیر سے سوئے۔ اسی لئے صبح جلدی نہیں اٹھی۔”
”پھر آپ اخبار منگوائیں۔” عمر نے انہیں ہدایت کی۔
”تم ہولڈ کرو ذرا ۔۔۔” انہوں نے کہتے ہوئے فون رکھ دیا۔ اپنے کمرے سے نکل کر وہ باہر لاؤنج میں گئیں۔ ملازم صفائی کرنے میں مصروف تھا نانو نے متلاشی نظروں سے لاؤنج میں ادھر ادھر دیکھا اور پھر سینٹر ٹیبل پر پڑے ہوئے اخبار کو اٹھا لیا۔ اضطراب کے عالم میں پہلا صفحہ پلٹتے ہی وہ نوٹس ان کی نظروں کے سامنے آ گیا تھا۔ وہ جیسے دھک سے رہ گئی تھیں۔ تیز قدموں کے ساتھ چلتی ہوئی وہ واپس اپنے کمرے میں آئیں اور انہوں نے ریسیور اٹھا لیا۔
”ہاں عمر میں نے وہ نوٹس دیکھ لیا ہے مگر میں نے وہ نوٹس نہیں دیا۔” انہوں نے پریشانی کے عالم میں کہا۔
”تو پھر کس نے دیا ہے؟”
”میں کیا کہہ سکتی ہوں۔ علیزہ کی شادی کے لئے تو ثمینہ بھی کل پاکستان آ گئی ہے تو کیا اب ہم اس طرح کے نوٹس دیں گے۔” انہوں نے تیزی سے کہا۔ ”کسی نے ہمارے ساتھ شرارت کی ہے۔” انہوں نے ایک نظر اس نوٹس پر ڈالتے ہوئے غصے اور پریشانی سے کہا۔
عمر سنجیدگی سے ان کی بات سنتا رہا۔ ”نہیں گرینی ! یہ شرارت نہیں ہو سکتی …کوئی اخبار بھی اتنا غیر ذمہ دار نہیں ہو سکتا کہ کسی تصدیق کے بغیر نوٹس شائع کر دے۔ کہیں یہ نوٹس علیزہ نے تو شائع نہیں کروایا۔” اسے اچانک خیال آیا۔
”علیزہ نے …؟ نہیں، علیزہ کیوں کروائے گی۔” نانو نے کہا۔
”وہ اس وقت کہاں ہے؟” عمر نے پوچھا۔ ”وہ سو رہی ہے۔ میں نے تمہیں بتایا تھا نا کہ رات کو ہم سب لوگ دیر سے سوئے ہیں میں اسے جگا کر اس نوٹس کے بارے میں پوچھتی ہوں۔” انہوں نے کہا۔
”نہیں آپ فی الحال اسے مت جگائیں۔ میں چند منٹوں میں آپ کو دوبارہ فون کر کے بتاتا ہوں کہ یہ نوٹس کس نے شائع کروایا ہے۔”
عمر نے ان سے کہا اور پھر فون بند کر دیا۔ فون بند کرتے ہی اس نے اپنے پی اے کو اندر بلایا۔
”خالد ! یہ ایک نوٹس شائع ہوا ہے ان تینوں چاروں اخباروں میں …تم ان میں سے کسی اخبار کے آفس میں فون کر کے پتا کرو کہ یہ نوٹس کس نے شائع کرنے کے لئے دیا تھا۔ ان لوگوں نے یقیناً اس کے شناختی کارڈ کا نمبر یا اس کی فوٹو کاپی بھی لی ہو گی۔ تم ذرا مجھے یہ پتا کروا دو …اور دس منٹ کے اندر اندر۔” اس نے اپنے پی اے کو یہ ہدایات دیں، وہ اخبار لے کر باہر نکل گیا۔
عمر کچھ الجھن کے عالم میں اپنی کرسی کو گھماتا رہا۔ ٹھیک دس منٹ کے بعد پی اے دوبارہ اندر داخل ہوا۔
”سر ! یہ ایک خاتون نے دیا تھا۔ ان کا نام علیزہ سکندر ہے۔”
عمر نے اس کی بات کاٹ دی۔ ”بس ٹھیک ہے اب تم جاؤ۔” وہ اب دوبارہ فون اٹھا رہا تھا اور اس بار اس کے چہرے پر پہلے سے زیادہ تشویش تھی، آپریٹر نے چند منٹوں میں ایک بار پھر کال ملا دی۔ نانو اس کی کال کی منتظر تھیں۔
”ہاں عمر !” انہوں نے اس کی آواز سنتے ہی کہا۔
”کچھ پتا چلا؟”
”گرینی ! یہ علیزہ سکندر کی طرف سے دیا گیا ہے۔”
نانو کچھ نہیں بول سکیں۔ ”علیزہ کی طرف سے؟” چند لمحوں کے بعد انہوں نے بے یقینی سے کہا۔
”اس نے آپ سے ایسی کوئی بات کی تھی؟”
”نہیں …اس نے مجھ سے ایسا کچھ بھی نہیں کہا۔ وہ تو شادی کی تیاریوں میں مصروف تھی۔”
”جنید کے ساتھ اس کا کوئی جھگڑا تو نہیں ہوا؟”
”ہاں …دونوں کے درمیان کوئی جھگڑا تو ہوا ہے۔”
وہ چونک گیا۔ ”کب؟”
”پرسوں۔”
”پرسوں …وہ اس کے ساتھ شاپنگ کے لئے گئی ہوئی تھی۔ پھر رات کو واپس آئی تو بہت چپ چپ تھی۔ جنید سے مجھے پتا چلا کہ وہ اس سے ناراض تھی۔” نانو نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا۔
”مگر کل تو وہ جھگڑا ختم ہو گیا تھا۔ اس نے جنید کو فون کیا تھا۔ دونوں کے درمیان بات ہوئی تھی،” نانو اب الجھ رہی تھیں۔
”آپ نے جنید سے یا علیزہ سے جھگڑے کی وجہ پوچھی؟”
”میں نے جنید سے تو نہیں پوچھی مگر علیزہ سے پوچھی تھی لیکن اس نے مجھے کچھ نہیں بتایا۔” نانو نے کہا۔
”میں اسے جگا کر پوچھتی ہوں کہ یہ کیا حرکت ہے آخر اس نے یہ کیوں طے کر لیا ہے کہ اس نے ہمیشہ مجھے پریشان ہی کرتے رہنا ہے۔” نانو کو اب اس پر غصہ آنے لگا تھا۔
”گرینی ! آپ اسے اٹھائیں ضرور مگر جھڑکنے کے بجائے اسے سمجھانے کی کوشش کریں، بلکہ پھوپھو سے کہیں کہ وہ اسے سمجھائیں …زیادہ برا بھلا مت کہیں۔” عمر نے ان سے کہا۔
”جتنا مجھے اس لڑکی نے پریشان کیا ہے، کسی نے نہیں کیا۔ اسے اندازہ ہی نہیں کہ اس کی اس بچگانہ حرکت کے کتنے برے نتائج نکل سکتے ہیں۔ جنید کی فیملی کیا سوچے گی ہمارے بارے میں …اور خود علیزہ کے بارے میں۔” نانو کو تشویش ہو رہی تھی۔
”اب تک یقیناً وہ بھی اس نوٹس کو دیکھ چکے ہوں گے۔ تم خود سوچو کہ میں ان کا سامنا کیسے کروں گی۔”
”آپ جنید کی فیملی کے بارے میں پریشان نہ ہوں …میں انہیں ابھی فون کرتا ہوں،میں انہیں سمجھا لوں گا۔ ان کی طرف سے آپ کو کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔ وہ بہت اچھے لوگ ہیں۔” عمر نے نانو کی پریشانی کم کرنے کی کوشش کی۔
”لیکن ابھی جو کالوں کا تانتا بندھ جائے گا پورے خاندان کی طرف سے تو اس کا میں کیا کروں گی؟”
”آپ صرف یہ کہہ دیں کہ شادی ایک ماہ آگے کر دی گئی ہے۔ اگلی ڈیٹ کے بارے میں انہیں بعد میں بتا دیا جائے گا۔” عمر نے انہیں مشورہ دیتے ہوئے کہا۔
”اور وہ وجہ پوچھیں گے تو؟”
”گرینی ! کوئی بھی وجہ بتا دیں۔ لوگوں کے پاس اتنی فرصت نہیں ہوتی کہ وہ تصدیق کرتے پھریں۔” عمر نے قدرے جھنجھلا کر کہا۔
”اور جو ایاز اور میرے دوسرے بیٹے فون کر کے پوچھیں گے ان سے میں کیا کہوں …ان سے تو میں جھوٹ نہیں بول سکتی۔”
”پہلے آپ علیزہ کو جگا کر اس سے بات کریں۔ پھر یہ سوچیں کہ آپ کو کس سے کیا کہنا ہے؟” عمر نے کہا۔
”میں اب جنید کو فون کر رہا ہوں …تا کہ اسے بھی کچھ تسلی دے سکوں اگر اس نے یا اس کے گھر والوں نے یہ خبر پڑھ لی ہے تو وہ بھی بہت پریشان ہوں گے اس وقت۔”
عمر نے بات ختم کرتے ہوئے خدا حافظ کہا اور پھر فون رکھ دیا۔
جنید گیراج سے گاڑی نکالنے کے بعد اندر آیا تھا، جب اس نے اپنے موبائل کی بیپ سنی۔ دوسری طرف عمر تھا جنید کو اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ بھی نوٹس پڑھ چکا ہو گا۔ رسمی علیک سلیک کے بعد جنید نے چھوٹتے ہی اس سے پوچھا۔ ”نانو نے شادی کو ملتوی کیوں کیا ہے؟” وہ عمر اور علیزہ کی طرح انہیں نانو ہی کہتا تھا۔
”گرینی نے ایسا نہیں کیا۔”
”تو پھر کس نے کیا ہے؟” جنید نے حیران ہو کر پوچھا۔
”علیزہ نے۔”
جنید کچھ بول نہیں سکا عمر کو اس پر یکدم اس طرح چھا جانے والی خاموشی کچھ عجیب لگی۔
”اس نے ایسا کیوں کیا ہے؟” جنید نے کچھ دیر بعد مدھم آواز میں کہا۔
”یہی تو میں تم سے جاننا چاہتا ہوں۔”
”میں تمہیں کیا بتا سکتا ہوں، تم اس سے پوچھو۔”
”میں تم سے پوچھنا چاہتا ہوں…تم دونوں کا کوئی جھگڑا ہوا تھا؟” عمر نے براہ راست موضوع پر آتے ہوئے کہا۔
”عمر ! میرا اس سے کوئی جھگڑا نہیں ہوا۔ صرف پرسوں میں نے اسے یہ بات بتا دی تھی کہ تم میرے بہت پرانے دوست ہو۔”
”کیا؟” عمر بے اختیار چلایا۔
”ہاں میں نے اسے یہ بات بتا دی۔”
”اور کیا بتایا ہے تم نے اسے؟”
”میں نے اس کے دل سے تمہارے خلاف غلط فہمیاں نکالنے کی کوشش کی، وہ تمہیں اپنا دشمن سمجھ رہی تھی۔ میں نے اس سے یہ کہا کہ میری اور اس کی شادی طے کروانے میں بھی تمہارا ہاتھ ہے اور اگر تم اس کے دشمن ہوتے تو تم ایسا کیوں کرتے۔”
”تم دنیا کے سب سے احمق انسان ہو۔” عمر نے غصے کے عالم میں اس کی بات کاٹی۔
”تمہیں اس طرح کی فضول باتیں کرنے کی کیا ضرورت تھی؟”
”فضول باتیں؟ یہ کوئی فضول بات تو نہیں ہے۔ میں نے اسے تھوڑے سے حقائق بتانے کی کوشش کی تھی۔” جنید نے کہنا چاہا۔
”تم اپنے حقائق اپنے پاس رکھا کرو…جب تم سے میں نے کہا تھا کہ تم اس سے میرے بارے میں کبھی کوئی بات مت کرنا تو پھر تمہارا دماغ کیوں خراب ہو گیا تھا۔”
”عمر! ساری عمر یہ جھوٹ نہیں چل سکتا تھا، اسے شادی کے بعد بھی تو پتا چلنا ہی تھا۔”
”بعد کی بات اور تھی…اور ضروری نہیں ہے کہ بعد میں بھی اسے بتایا جاتا اور ہو سکتا ہے کچھ عرصے بعد اس کی ناراضی ختم ہو جاتی۔” عمر نے ناراضی کے عالم میں اس سے کہا۔
”مجھے اندازہ نہیں تھا کہ وہ اس قدر ناراض ہو سکتی ہے۔” جنید نے شکست خوردہ انداز میں کہا۔
” مجھے تھا اسی لیے میں نے تمہیں منع کیا تھا مگر تمہیں تو کوئی پروا نہیں ہوتی کہ میں کیا کہہ رہا ہوں۔”
”بہرحال اب تو میں کچھ نہیں کر سکتا۔ جو کچھ ہو چکا ہے، وہ ہو چکا ہے۔” جنید نے کہا۔
”تمہارے گھر میں پتا چل گیا ہے اس نوٹس کے بارے میں؟”
”ظاہر ہے…امی نے صبح اخبار میں پڑھا تھا۔”
”کیاری ایکشن ہے ان کا؟”
”بہت پریشان ہیں۔ انہوں نے بابا کو بھی بتا دیا ہے، ہم لوگ ابھی نانو کی طرف ہی جا رہے ہیں۔” جنید نے اس سے کہا ”اور میں نے انہیں ابھی تک اس نوٹس کی وجہ نہیں بتائی۔ وہ یہی سمجھ رہے ہیں کہ مجھے اس نوٹس کی وجہ کا کچھ پتا نہیں اور نہ ہی میرا اور علیزہ کا کوئی اختلاف ہوا ہے۔”
”جنید! تم ان سے کہو کہ ابھی وہ گرینی کی طرف نہ جائیں۔” عمر نے کہا۔ ”میں نے ابھی تھوڑی دیر پہلے گرینی سے بات کی ہے۔ علیزہ اس وقت سو رہی تھی۔ میں نے ان سے کہا تھا کہ وہ پہلے علیزہ کی امی سے بات کریں اور پھر علیزہ سے بات کریں اگر ابھی تم لوگ وہاں چلے گئے تو معاملہ زیادہ بگڑے گا۔ تم ان سے کہو، وہ ابھی وہاں نہ جائیں۔”
”لیکن میں انہیں کیا کہہ کر روکوں۔ تمہارا ریفرنس دے کر روکوں؟”
”ہاں تم کہہ دینا کہ تمہاری مجھ سے بات ہوئی ہے۔ میں گرینی سے کہتا ہوں کہ وہ خود آنٹی کو فون کریں لیکن ابھی کچھ دیر کے بعد…فوری طور پر نہیں۔” عمر نے اسے ہدایت دی۔
”ٹھیک ہے میں امی سے بات کرتا ہوں۔” جنید نے اسے کہا۔ پہلے کی نسبت وہ اب کچھ مطمئن نظر آ رہا تھا۔
”بس میں پھر ابھی کچھ دیر بعد تمہیں رنگ کروں گا۔ اگر اس نوٹس کی وجہ سے کوئی کالز تمہارے گھر آئیں تو تم آنٹی سے کہو کہ وہ یہی کہیں کہ شادی اگلے مہینے تک ملتوی کر دی گئی ہے۔ کوئی بھی وجوہات ہو سکتی ہیں۔” اس نے فون بند کرتے کرتے کہا۔
”اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے…سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا، اس نے غصے میں آکر یہ قدم اٹھا لیا ہے۔ تھوڑا سمجھائیں گے تو اس کا غصہ ختم ہو جائے گا۔” وہ اب علیزہ کا دفاع کر رہا تھا۔
”اور پھر اس میں زیادہ قصور خود تمہارا ہے جب تمہیں ایک بار میں نے منع کیا تھا تو پھر تمہیں اس طرح کی بات کرنی ہی نہیں چاہیے تھی۔ نہ تم ایسی بات کرتے نہ وہ غصے میں آکر اس طرح کی حرکت کرتی۔ بہرحال میں تم سے کانٹیکٹ میں ہوں۔ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔”
اس نے خدا حافظ کہہ کر فون بند کر دیا۔ جنید کو تسلی دینے کے باوجود خود وہ زیادہ مطمئن نہیں تھا۔ یہ ایسی صورت حال تھی جس کا اس نے کبھی تصور نہیں کیا تھا۔ اسے سب سے زیادہ شرمندگی جنید اور اس کی فیملی سے محسوس ہو رہی تھی۔ کم ازکم ان کا ایسا کوئی قصور نہیں تھا کہ وہ اس طرح کی پریشانی کا سامنا کرتے۔ جنید کی فیملی کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ جنید عمر کے کہنے پر علیزہ سے شادی کر رہا تھا۔ ان کا یہی خیال تھا کہ جنید کو وہ پسند آگئی تھی اس لیے وہ اس سے شادی کرنا چاہ رہا تھا۔ ورنہ شاید اس وقت عمر کی پوزیشن زیادہ خراب ہوتی مگر وہ جنید کے سامنے خفت محسوس کر رہا تھا۔
کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے ہونٹ بھینچے وہ بہت دیر تک اس ساری صورتحال کے بارے میں سوچتا رہا، آخر وہ جنید کو کس طرح اس پریشانی سے نکال سکتا تھا۔ جس کا شکار وہ درحقیقت عمر کی وجہ سے ہوا تھا۔
”آپ کو بیگم صاحبہ بلا رہی ہیں۔” دستک کی آواز پر علیزہ نے دروازہ کھولا۔ ملازم کھڑا تھا۔
”تم جاؤ میں آرہی ہوں۔” اس نے مڑ کر وال کلاک پر ایک نظر ڈالی، آج اسے اٹھنے میں واقعی دیر ہو گئی تھی۔
پندرہ منٹ بعد جب وہ لاؤنج میں آئی تو اس نے نانو اور ممی کو وہاں بیٹھے دیکھا، وہ بے حد متفکر نظر آرہی تھیں۔ ایک لمحہ کے لیے علیزہ کی ان سے نظریں ملیں پھر وہ ڈائننگ ٹیبل کی طرف بڑھ گئی جہاں ناشتہ لگا ہوا تھا۔ ممی اخبار اٹھا کر اس کی طرف آگئیں۔
”یہ کیا حرکت ہے علیزہ؟”
”کون سی حرکت؟” اس نے ڈبل روٹی پر جیم لگاتے ہوئے کہا۔ وہ اس وقت تک ان دونوں کی وہاں موجودگی اور ان کے چہروں پر نظر آنے والی تشویش کی وجہ جان چکی تھی۔
”یہ نوٹس…جو تم نے شائع کروایا ہے۔” ثمینہ اخبار اس کے سامنے ٹیبل پر رکھتے ہوئے خود بھی ایک کرسی کھینچ کر بیٹھ گئیں۔ علیزہ نے نوٹس پڑھنے کے بجائے اخبار کو ہاتھ سے ایک طرف کر دیا اور سلائس پر جیم لگانا جاری رکھا۔
”اپنی شادی کینسل کر دی ہے تم نے؟” ثمینہ نے اس بار قدرے تیز آواز میں کہا۔
”اور تمہاری اتنی جرأت کیسے ہوئی کہ تم میرا نام استعمال کرکے اس طرح کے نوٹس دو۔ اپنے نام سے دیتیں یہ نوٹس۔۔۔” اس بار نانو بھی غصے کے عالم میں اٹھ کر ڈائننگ ٹیبل کے پاس آگئیں۔
علیزہ پر ان کے غصے کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ ”میں اپنے نام سے یہ نوٹس دے سکتی تھی مگر اس پر آپ کو یہ اعتراض ہوتا کہ میں اتنی دیدہ دلیر ہو گئی ہوں کہ اپنے نام سے ایسے نوٹس دیتی پھر رہی ہوں۔” اس نے اطمینان سے سلائس کھاتے ہوئے کہا۔
”آخر تم نے اس طرح کی حرکت کیوں کی ہے؟” ثمینہ نے اس بار کچھ بے چارگی سے کہا۔
”صرف اس لیے کیونکہ میں اس شخص سے شادی نہیں کرنا چاہتی۔”
”یہ سب تمہیں اب یاد آیا ہے جب شادی میں دو ہفتے رہ گئے ہیں۔ پہلے بتانا چاہیے تھا تمہیں کہ تم اس شخص سے شادی نہیں کرنا چاہتیں۔” نانو نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ ”اور یہ شادی تم سے پوچھ کر طے کی گئی تھی…تمہارے سر پر تھوپا تو نہیں گیا تھا جنید کو…رشتہ طے ہونے سے پہلے ملتی رہی ہو تم…جب مطمئن ہو گئیں تب یہ رشتہ طے کیا گیا بلکہ میں نے تم سے اس وقت بھی یہ کہا تھا کہ اگر تمہیں کوئی اور پسند ہے تو مجھے بتا دو۔ ہم تمہاری شادی وہاں طے کر دیں گے۔ اس وقت تمہیں جنید پر کوئی اعتراض نہیں تھا اور اب تم کہہ رہی ہو کہ تم اس سے شادی نہیں کرنا چاہتیں؟” نانو رکے بغیر بولتی رہیں۔
”آخر تم نے یہ کیوں طے کر لیا ہے کہ تم ہمیشہ مجھے اور دوسروں کو پریشان کرتی رہو گی؟”
”میں کسی کو پریشان نہیں کر رہی۔ شادی میرا ذاتی معاملہ ہے، اس کے بارے میں فیصلہ کرنے کا مکمل حق ہے۔” اس بار علیزہ نے ہلکی سی ترشی کے ساتھ کہا۔
”اس حق کو اس طرح استعمال کرنا تھا تمہیں۔”
”ممی مجھے بات کرنے دیں اس سے۔” اس بار ثمینہ نے نانو کو روکا۔ ”تمہیں اندازہ ہے کہ تمہاری اس حرکت سے ہمارے اور جنید کے گھر والوں پر کس طرح کا اثر ہوگا۔” ثمینہ نے تلخی سے کہا۔
”لوگ کس طرح کی باتیں کریں گے۔۔۔” علیزہ نے ہاتھ اٹھا کر انہیں بات کرنے سے روکا۔ ”اوہ کم آن ممی…ہم کسی مڈل کلاس فیملی سے تعلق نہیں رکھتے کہ میری اس حرکت سے ہم کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔” اس نے ناگواری سے کہا۔
”ہماری فیملی میں اتنی چھوٹی چھوٹی چیزوں کو کوئی مائنڈ نہیں کرتا۔ کیا نہیں ہو جاتا ہمارے طبقے میں اور آپ ایک معمولی بات پر اس طرح مجھے ملامت کرنے بیٹھ گئی ہیں۔” اس نے اب اپنا سلائس پلیٹ میں رکھ دیا۔
”ویسے بھی تو اتنی طلاقیں ہوتی رہتی ہیں اگر میں نے صرف منگنی توڑ دی ہے تو اس میں کون سی بڑی بات ہو گئی ۔ ”علیزہ! منگنی توڑنے کا بھی ایک وقت، ایک طریقہ ہوتا ہے…جس طرح تم۔۔۔”
علیزہ نے ایک بار پھر ثمینہ کی بات کاٹ دی ”میں آپ سے کہتی کہ میری منگنی توڑ دیں تو آپ توڑ دیتے؟ بالکل نہیں آپ اس وقت بھی یہی سب کچھ کہہ رہے ہوتے۔”
”آخر تمہیں ایک دم کس چیز نے مجبور کیا ہے کہ تم اتنا بڑا قدم اٹھا رہی ہو۔۔۔” اس بار نانو نے کہا۔
”کوئی نہ کوئی وجہ تو ہو گی۔ میں احمق تو ہوں نہیں کہ صرف ایڈونچر کے لیے ایسی حرکت کروں۔”
”وہی وجہ پوچھ رہی ہوں۔”
”نانو! آپ وجہ ہیں۔” نانو اس کی بات پر ہکا بکا ہو گئیں۔
”میں وجہ ہوں؟” انہوں نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔
”ہاں آپ وجہ ہیں…جنہوں نے ہمیشہ مجھے پانچ سال کی بچی کے علاوہ اور کچھ سمجھا ہی نہیں” علیزہ نے تلخی سے کہا۔
”تم۔۔۔” علیزہ نے ان کی بات کاٹ دی۔
”آپ نے عادت بنا لی ہے کہ مجھ سے ہر بات میں جھوٹ بولیں گی۔ ہر معاملے میں مجھے اندھیرے میں رکھیں گی…شاید آپ کا خیال ہے کہ میں اس قابل ہی نہیں ہوں کہ حقیقت سے مجھے آگاہ کر دیا جائے۔”
”تم کس قسم کی باتیں کر رہی ہو؟” نانو نے اس بار گڑبڑاتے ہوئے کہا۔
”میں ٹھیک کہہ رہی ہوں۔ اگر صبر کا کوئی پیمانہ ہے تو میرا پیمانہ اب لبریز ہو چکا ہے۔ میں یہ چاہتی ہوں کہ کم از کم اب آپ لوگ مجھے اپنے طریقے سے زندگی گزارنے دیں۔ اپنی انگلیوں پرکٹھ پتلی کی طرح باندھ کر مجھے نچانے کی کوشش مت کریں۔”
”علیزہ! تم آخر کہنا کیا چاہتی ہو؟”
”میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ آپ نے مجھ سے یہ بات کیوں چھپائی کہ جنید عمر کا دوست ہے؟” نانو دم بخودرہ گئیں۔
”اور عمر نے آپ سے میری اور اس کی شادی کروانے کے لیے کہا ہے۔ جب آپ جانتی تھیں کہ میں عمر کو کس حد تک ناپسند کرتی ہوں تو پھر آپ نے مجھے جنید کے معاملے میں دھوکے میں کیوں رکھا۔”
اس کی ناراضی میں اب اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔
”میں اس آدمی کی شکل تک دیکھنا نہیں چاہتی اور آپ مجھے اس کے بیسٹ فرینڈ کے پلے باندھ رہی ہیں…اور وہ بھی مجھ سے پوچھے بغیر۔” وہ رکے بغیر کہتی گئی۔ ”آپ ہمیشہ یہ ظاہر کرتی رہیں کہ جنید اور اس کی فیملی کو آپ پہلے کبھی جانتی ہی نہیں تھیں جبکہ آپ ان سے اچھی طرح واقف تھیں۔ میں سوچتی تھی کہ جنید کتنی جلدی آپ سے اتنا بے تکلف ہو گیا ہے۔ حالانکہ یہ بے تکلفی تو کئی سالوں کی تھی۔”
”علیزہ ! تمہیں یہ سب کچھ کس نے بتایا ہے؟ یقیناً کسی نے تمہیں گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔” نانو نے کچھ دیر بعد اس شاک سے سنبھلتے ہوئے کہنے کی کوشش کی۔
”مجھے یہ سب کچھ خود جنید نے بتایا ہے…اس نے مجھے گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اب بھی اس کے بارے میں کچھ کہنا چاہیں تو کہہ دیں۔ ہو سکتا ہے مجھے ہی ہمیشہ کی طرح کوئی غلط فہمی ہوئی ہو۔”
”عمر نے مجھے جنید سے تمہاری شادی کے لیے مجبور نہیں کیا تھا۔” نانو نے مدافعانہ انداز میں کہنا شروع کیا انہیں اندازہ تھا کہ علیزہ اب ان کی ہر بات کو شبہ کی نظر سے دیکھے گی۔ ”اس نے صرف مجھ سے یہ کہا تھا کہ میں تمہیں جنید سے ملواؤں…اگر تم لوگوں کے درمیان کچھ انڈر سٹینڈنگ ہوئی تو پھر اس رشتہ کو طے کیا جا سکے مگر مجبور نہیں کیا۔” نانو بولتی رہیں۔ ”جنید ہر لحاظ سے ایک اچھا لڑکا تھا۔ نہ صرف وہ خود بلکہ اس کی فیملی بھی…میں واقعی اسے بہت سالوں سے جانتی تھی اس لیے میں عمر کو انکار نہیں کر سکی…تم پر یہ بات ظاہر نہیں کی گئی تھی مگر شادی کے سلسلہ میں تم پر کوئی دباؤ نہیں ڈالا گیا۔ تم سے یہ نہیں کہا گیا کہ تم صرف جنید سے ہی شادی کرو…اور کسی کے ساتھ نہیں کر سکتیں۔ میں نے انتخاب کا حق تمہیں دیا تھا اور تم نے خود جنید کے حق میں فیصلہ کیا تھا۔”
”مگر میں یہ نہیں جانتی تھی کہ وہ عمر کا انتخاب ہے۔” علیزہ نے کہا۔
اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔”
”فرق پڑتا ہے…آپ کو نہیں پڑتا…مگر مجھے فرق پڑتا ہے اور آپ نے اس ایک سال کے عرصے میں ایک بار بھی مجھے یہ بتانے کی کوشش نہیں کی کہ۔۔۔”
نانو نے اس کی بات کاٹ دی۔ ”تمہیں بتانے سے کیا ہوتا۔ تم اس وقت بھی یہی کرتیں جو تم اب کر رہی ہو۔”
”ہاں میں اس وقت بھی یہی کرتی جو میں اب کر رہی ہوں۔” علیزہ نے غصے سے کہا۔ ”آخر میں ایک ایسے آدمی سے شادی کیوں کروں جو مجھ سے کسی دوسرے کے کہنے پر شادی کر رہا ہے…آپ کو یہ پتا ہے کہ وہ مجھ سے صرف عمر کے کہنے پر شادی کر رہا ہے۔”
”علیزہ! ایسی بات نہیں ہے…کوئی کسی کے کہنے پر کسی سے شادی نہیں کرتا۔” اس بار ثمینہ نے ایک لمبی خاموشی کے بعد مداخلت کی۔
”اس نے مجھے خود یہ بتایا ہے کہ وہ مجھ سے عمر کے کہنے پر شادی کر رہا ہے اور عمر کے کہنے پر وہ مجھ سے ہی نہیں کسی سے بھی شادی کر سکتا تھا۔”
”اس نے ویسے ہی کہہ دیا ہوگا…جنید جیسا لڑکا اس طرح کسی کے کہنے پر کہیں بھی شادی کرنے والوں میں سے نہیں…تمہیں تو اب تک اس کی نیچر کا پتا چل جانا چاہیے۔”
”مجھے ہر چیز کا پتا چل چکا ہے…میں نے اسی لیے یہ فیصلہ کیا ہے…مجھے عمر کے کسی دوست سے شادی نہیں کرنی۔”
”مگر اس میں عمر کا قصور ہے۔ جنید کا تو کوئی قصور نہیں ہے۔”
”کیوں قصور نہیں ہے…وہ بھی برابر کا قصوروار ہے، اس نے بھی مجھ سے جھوٹ بولا تھا۔”
”اور اس کے گھر والے…انہوں نے کیا کیا ہے؟”
”مجھے اس کے گھر والوں کی پرواہ نہیں ہے۔” علیزہ نے دھڑلے سے کہا۔
”شرم آنی چاہیے تمہیں۔ تم اس کے گھر اتنا آتی جاتی رہی ہو اور اب تم کہہ رہی ہو کہ تمہیں ان کی پروا نہیں ہے۔” نانو نے اسے جھڑکا۔
”تم اور کسی کا نہیں تو میرا ہی احساس کر لو…میں اپنے شوہر کو کیا منہ دکھاؤں گی…وہ ایک ہفتے تک یہاں آرہے ہیں…اور تم۔۔۔”
علیزہ نے ثمینہ کی بات کاٹ دی۔ ”ممی! آپ کے شوہر آپ کا مسئلہ ہیں…مجھے پروا نہیں ہے کہ وہ آپ کے یا میرے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ جہاں تک ان کے پاکستان آنے کا تعلق ہے۔ آپ انہیں فون پر آنے سے منع کر دیں۔ انہیں بتا دیں کہ شادی کینسل ہو گئی ہے۔” علیزہ نے دوٹوک انداز میں کہا۔
”اور وجہ…وجہ کیا بتاؤں میں انہیں؟” ثمینہ نے سلگتے ہوئے کہا۔
”جو مرضی بتا دیں۔”
”علیزہ…علیزہ…! آخر کیا ہو گیا ہے تمہیں…تم اتنی ضدی تو کبھی بھی نہیں تھیں۔” اس بار نانو نے بے چارگی سے کہا۔
”ہاں میں نہیں تھی…مگر اب ہو گئی ہوں۔” اس نے سر جھٹکتے ہوئے کہا۔
”ابھی تمہارے انکلز کے فون آنے لگیں گے ۔ میں کس کس کو کیا کہوں گی…ایاز کا تمہیں پتا ہے وہ۔۔۔” نانو نے کچھ کہنے کی کوشش کی۔
”مجھے ایاز انکل یا کسی بھی دوسرے انکل کی کوئی پروا نہیں ہے۔ یہ میری زندگی ہے، جو چاہوں اس کے ساتھ کروں۔” وہ ڈائننگ ٹیبل سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
ثمینہ نے اسے روکنے کی کوشش کی۔ ”تم ایک بار اپنے فیصلے پر پھر سوچو…تم بہت بڑی غلطی کر رہی ہو۔”
”مجھے پتا ہے…مگر میں پھر بھی یہ غلطی کرنا چاہتی ہوں۔” وہ دوٹوک انداز میں کہتے ہوئے ڈائننگ ٹیبل چھوڑ کر چلی گئی۔
”ممی! آپ نے اس کی کیسی تربیت کی ہے؟” ثمینہ نے اس کے اٹھتے ہی اپنی ماں سے کہا۔
”تم میری پریشانی میں اپنے الزامات سے اضافہ مت کرو۔ اس کی تربیت صرف میرا فرض نہیں تھا۔ اتنے سالوں میں تمہیں بھی کبھی اس کی تھوڑی بہت خبر لے لینی چاہیے تھی۔ اس کے باپ کی طرح تم بھی ہر ذمہ داری مجھ پر چھوڑ کر بیٹھ گئیں۔” نانو نے تلخی سے کہا۔
”ممی ! آپ کا خیال ہے کہ میں نے اس کا خیال نہیں رکھا۔ اتنی باقاعدگی سے میں فون پر اس سے رابطے میں رہی…کئی بار میں نے چھٹیوں میں اسے اپنے پاس رکھا۔ ہر ماہ میں باقاعدگی سے اس کے لیے پیسے بھجواتی رہی اور آپ کہہ رہی ہیں کہ میں نے ہر ذمہ داری آپ پر چھوڑ دی۔”
”یہ سارے کام تو سکندر بھی کرتا رہا۔ پھر تو وہ بھی اتنا ہی اچھا باپ ہوا جتنی اچھی تم ماں ہو۔”
”ممی پلیز! مجھ پر طنز مت کریں۔” ثمینہ نے سکندر کے نام پر انہیں ٹوکا۔
”تو پھر تم مجھے کیوں مورد الزام ٹھہرا رہی ہو؟”
”میں کسی کو الزام نہیں دے رہی۔ میں صرف اس کا رویہ دیکھ کر پریشان ہو گئی ہوں۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ وہ اس طرح ضدی ہو گئی ہے…پہلے تو۔۔۔”
”مجھے خود بھی نہیں پتا کہ وہ پچھلے پانچ چھ سالوں میں کیوں اس طرح کی ہو گئی ہے…یہ ضد اس میں پہلے نہیں تھی…نہ ہی اتنی خود سر تھی یہ مگر بس…جب سے معاذ کا انتقال ہوا یہ تو بالکل بدل گئی۔ معاذ تھے تو پھر بھی اور بات تھی…انہیں اس کو ہینڈ ل کرنا آتا تھا…ان کے بعد تو مجھے بہت دقت ہونے لگی…یہ اپنے خاندان پر اس قدر تنقید کرتی ہے۔ شاید یہ اخبار میں کام کرنے کی وجہ سے بھی ہوا ہے۔ پتا نہیں کون کون سی بکواس ہے جو اس تک پہنچتی رہتی ہے۔” نانو نے سر پکڑتے ہوئے کہا۔
”اور اب جو یہ نیا شوشہ چھوڑا ہے۔”
”ممی مجھے یہ بتائیں کہ یہ بات نہیں مانے گی تو کیا ہوگا…کتنی بدنامی ہو گی ساری فیملی میں میری۔۔۔” ثمینہ اب روہانسی ہونے لگیں۔
”میں عمر سے بات کرتی ہوں…وہ یہاں آئے۔” نانو اپنی کرسی سے اٹھنے لگیں۔
”وہ کس لیے آئے؟” ثمینہ حیران ہوئی۔
”وہ آکر اس سے بات کرے۔ سمجھائے اسے۔”
”عمر کی بات سنے گی یہ؟” ثمینہ نے بے یقینی سے کہا۔ ”عمر کی وجہ سے ہی تو اس نے یہ سب کیا ہے…آپ کے سامنے کہا ہے اس نے کہ وہ عمر کی شکل تک دیکھنے پر تیار نہیں ہے اور آپ کہہ رہی ہیں کہ عمر کو بلائیں گی وہ بات کرے گا اس سے۔”
”بس وہی بات کر سکتا ہے…وہی سمجھا سکتا ہے اسے۔۔۔” نانو نے فون کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔
”ممی! عمر کو اتنا ناپسند کیوں کرتی ہے یہ…کئی سال پہلے تو اس کی زبان پر عمر کے علاوہ اور کسی کا نام ہی نہیں ہوتا تھا…آپ خود کہتی تھیں کہ عمر سے اس کی بڑی دوستی تھی…پھر آخر ہوا کیا؟”
نانو نے مڑ کر ثمینہ کو دیکھا۔ ”علیزہ عمر سے شادی کرنا چاہتی تھی۔”
”کیا؟” ثمینہ ہکا بکا رہ گئیں۔ ”آپ تو ابھی کہہ رہی تھیں کہ اسے کوئی پسند نہیں تھا۔”
”عمر کے علاوہ اور کوئی پسند نہیں تھا۔” نانو نے فون کا ریسیو اٹھائے ہوئے ثمینہ کے جملے کی تصحیح کی۔ ثمینہ بے تابی سے اٹھ کر ان کے پاس آ گئیں۔
” تو ممی! پھر آپ نے عمر سے اس کی شادی کیوں کروانے کی کوشش نہیں کی؟”
”میں نے بہت کوشش کی تھی…میں نے عمر سے بات کی تھی…اس نے انکار کر دیا۔”
”کیوں؟” ثمینہ بے اختیار چلائیں۔
”وہ اپنے بہترین دوست سے اس کی شادی کروا سکتا ہے۔ خود کیوں نہیں کر سکتا…آپ ہی تو کہتی رہیں۔ وہ علیزہ کا بہت خیال رکھتا ہے۔”
نانو کی آنکھوں میں نمی جھلکنے لگی۔ ”صرف خیال نہیں رکھتا…وہ اس سے محبت کرتا ہے۔” انہوں نے مدھم آواز میں کہا۔
”پھر…ممی پھر انکار کیوں کیا اس نے ؟”
”اس نے کہا کہ میں فیملی مین نہیں ہوں۔ میں اچھا دوست بن سکتا ہوں، مگر اچھا شوہر یا اچھا باپ مجھے بننا نہیں آتا…میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے اس کی زندگی خراب ہو۔ میرے جیسے ٹمپرامنٹ کے آدمی کے ساتھ وہ نہیں رہ سکے گی۔ دو نامکمل انسان مل کر ایک مکمل زندگی نہیں گزار سکتے نہ کوئی پرفیکٹ فیملی بنا سکتے ہیں اور میں علیزہ یا عمر جیسے کوئی اور بچے نہیں چاہتا۔ وہ زندگی میں بہت کچھ deserve کرتی ہے…اچھا شوہر، محبت کرنے والا خاندان، بچے، سکون…بہت کچھ…اور یہ سب کچھ جنید اس کو دے سکتا ہے میں نہیں…کیونکہ میری طرح جنید کی شخصیتParadoxes کے بلاکس سے مل کر نہیں بنی…میں نے اس سے کہا تھا وہ تم سے محبت کرتی ہے۔ اس نے کہا آج کرتی ہے کل نہیں کرے گی، میرے ساتھ کچھ سال گزارنے کے بعد وہ اسی تنہائی کا شکار ہو جائے گی جس تنہائی کا شکار وہ آپ کے گھر میں ہے۔ میں جس فیلڈ میں ہوں اس میں تو میں اسے وقت تک نہیں دے سکوں گا…اور پھر میری جاب میں مجھے بہت سے ایسے کام کرنے ہوتے ہیں جو اسے ناپسند ہیں…میں نہیں چاہتا وقت گزرنے کے ساتھ وہ اور میں اپنے اس رشتے یا تعلق پر پچھتائیں…میں نے اسے بہت سمجھایا تھا میں نے اس سے کہا تھا جہاں محبت ہو وہاں کمپرومائز ہو جاتا ہے۔ اس نے کہا کہ میں صرف محبت چاہتا ہوں کمپرومائز نہیں۔ میں نے ہر رشتے میں کمپرومائز دیکھا ہے مگر میں اپنے اور علیزہ کے رشتے میں کمپرومائز نہیں دیکھ سکوں گا…اور میں جانتا ہوں میں اس سے شادی کروں گا تو یہی سب کچھ ہوگا۔
میں کسی دوسری عورت کے ساتھ اگر کمپرومائز کی زندگی بھی گزاروں گا تو مجھے وہ تکلیف نہیں ہوگی، جو مجھے علیزہ کے ساتھ ایسی زندگی گزار کر ہو گی…کسی دوسری عورت کی تکلیف دیکھ کر مجھے کوئی احساس جرم نہیں ہو گا…مگر علیزہ میری وجہ سے اگر اسے کوئی تکلیف پہنچے گی تو میں خود کو معاف نہیں کر سکوں گا…پچھتاوے کے ساتھ جینا مجھ جیسے آدمی کے لیے بہت مشکل ہے گرینی۔۔۔” اس نے مجھ سے کہا تھا۔” میں اسے اور کیا سمجھاتی کیا کہتی…پھر میں نے علیزہ سے وہی کہا جو وہ کہلوانا چاہتا تھا۔ میں نے اس سے کہہ دیا کہ عمر اس سے محبت نہیں کرتا اس کے نزدیک وہ صرف ایک دوست ایک کزن ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔”
نانو افسردگی کے عالم میں کہہ رہی تھیں۔
”علیزہ کو اس کی باتوں سے شاک لگا تھا۔ شاید اسے لاشعوری طور پر یہ یقین تھا کہ عمر بھی اس سے محبت کرتا تھا مگر…بس پھر ان دونوں کے درمیان پہلے جیسی کوئی بات نہیں رہی…کچھ واقعات بھی ایسے ہی ہوئے کہ عمر سے اس کی ناراضی بڑھتی گئی۔”
”پھر آپ کو کبھی بھی جنید کے ساتھ اس کی شادی کی کوشش نہیں کرنی چاہیے تھی۔ کبھی بھی نہیں۔ علیزہ کو جب بھی یہ پتا چلتا کہ جنید عمر کا دوست ہے وہ تو اسی طرح مشتعل ہوتی…ممی! آخر آپ نے اس کی فیلنگز کو سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کی۔” ثمینہ نے احتجاجی انداز میں کہا۔
”مجھے اس کے لیے جنید سے موزوں کوئی اور لگا ہی نہیں…خود علیزہ کو بھی وہ بہت اچھا لگا تھا اور پچھلے ایک سال میں ان دونوں کے درمیان چند ایک اختلافات کے باوجود بہت زیادہ انڈر سٹینڈنگ ڈویلپ ہو گئی تھی…علیزہ اس کے گھر آتی جاتی رہی ہے وہ ان لوگوں کے ساتھ ذہنی طور پر ایڈجسٹ ہو چکی تھی نہ صرف یہ بلکہ میں نے محسوس کیا ہے کہ وہ ان کے ساتھ بہت خوش رہتی ہے…میں نے اس کی خوشی اور سکون کے لیے ہی سب کچھ کیا ہے…وہ لوگ ہم سے بہت اچھے اور بہتر ہیں…ان کا ماحول بہت اچھا ہے۔ علیزہ کو ضرورت تھی ایسے لوگوں کی…کہیں اور شادی کرنے کی کوشش کرتی تو میرے پاس کیا آپشن ہوتے…ہر لڑکا جنید جیسی نیچر اور عادتوں کا مالک نہیں ہوتا۔ مجھے یقین تھا کہ وہ جتنا کیئرنگ ہے، علیزہ اس کے ساتھ بہت خوش رہے گی…صرف اس لیے میں نے جنید کو دوسرے لوگوں پر ترجیح دی۔”
ثمینہ نے اس بار کچھ نہیں کہا، وہ الجھی ہوئی صوفہ کی طرف بڑھ گئیں۔ نانو عمر کو کال کرنے لگیں۔
”ممی !” ثمینہ نے یکدم انہیں مخاطب کیا۔ نانو نے گردن موڑ کر انہیں دیکھا۔
”کیا آپ ایک بار پھر عمر سے بات نہیں کر سکتیں؟” ثمینہ نے کچھ عجیب سے لہجے میں ان سے کہا۔
”میں اسی سے بات کرنے کے لیے اسے فون کر رہی ہوں۔” نانو نے کہا۔ وہ ایک بار پھر نمبر ڈائل کرنے لگیں۔
”ممی میں اس معاملے کی بات نہیں کر رہی۔”
”تو پھر؟” نانو ایک بار پھر فون کرتے کرتے رک گئیں۔
”کیا آپ عمر سے ایک بار پھر علیزہ کی شادی کی بات نہیں کر سکتیں؟”
”تم کیا کہہ رہی ہو ثمینہ؟”
”ممی ! آپ ایک بار پھر عمر سے بات کریں…اسے یہاں بلائیں۔ اس بار میں بھی اس سے بات کروں گی، ہو سکتا ہے مان جائے۔ اگر علیزہ اس سے محبت کرتی تھی…اب نہیں کرتی…اب وہ جنید سے محبت کرتی ہے۔”
”نہیں وہ جنید سے محبت نہیں کرتی۔ اگر اسے جنید سے محبت ہوتی تو وہ کبھی بھی اس طرح شادی نہ کرنے کا فیصلہ نہ کرتی…وہ یہ فیصلہ کر ہی نہ سکتی…اسے اب بھی عمر سے محبت ہے اور یہ بات آپ اور عمر بھی اچھی طرح جانتے ہیں، پھر کیوں اس کی زندگی کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔” ثمینہ نے کہا۔
”اور جنید…اس کا کیا ہوگا…اگر ایسا ممکن ہو بھی جائے تو اس کا کیا ہو گا تم اس کی تکلیف کا اندازہ کر سکتی ہو؟”
”ممی! مجھے اس کی تکلیف کی کوئی پروا اور کوئی دلچسپی نہیں ہے مجھے صرف اپنی بیٹی کی پروا ہے…مجھے جنید سے ہمدردی ہے مگر…اگر علیزہ اس کے ساتھ خوش نہیں رہ سکتی تو بہتر ہے وہ اس کے ساتھ نہ رہے۔” ثمینہ نے قدرے خود غرضی اور شاید صاف گوئی سے کہا۔
”وہ دونوں ایک ساتھ بہت خوش رہیں گے ثمینہ۔”
”نہیں وہ دونوں ایک ساتھ خوش نہیں رہیں گے اگر آپ عمر سے بات نہیں کریں گی تو میں خود عمر سے بات کروں گی…اور اگر عمر میری بات پر رضا مند نہیں ہوا تو پھر میں جہانگیر سے بات کروں گی یا پھر میں ایاز بھائی سے بات کروں گی۔” ثمینہ نے دوٹوک انداز میں کہا۔
علیزہ جس وقت اپنے کمرے میں واپس آئی اس نے موبائل کو بجتے سنا۔ بیڈ کے پاس آکر اس نے موبائل کو اٹھا کر اس پر آنے والا نمبر دیکھا۔ وہ عمر جہانگیر کا نمبر تھا۔ اس نے بے اختیار اپنے ہونٹ بھینچ لیے۔ کچھ دیر تک وہ ہاتھ میں پکڑے موبائل کو دیکھتی رہی پھر اس نے اسے آن کر دیا۔
”ہیلو علیزہ…کیسی ہو تم؟” دوسری طرف عمر کی آواز سنائی دی تھی۔
”بہت اچھی ہوں۔۔۔” علیزہ نے بڑی لاپروائی سے کہا۔ اسے خلاف معمول عمر کی آواز سن کر غصہ نہیں آیا تھا بلکہ یہ سوچ کر ایک عجیب سا اطمینان محسوس ہوا تھا کہ اب وہ پریشان ہوگا۔
”تم نے ایسا کیوں کیا ہے؟” وہ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد بولا۔
”بس ایسے ہی…دل چاہ رہا تھا کسی ایڈونچر کے لیے…تمہیں تو اچھی طرح پتا ہے کہ میں کتنی میچور ہوں۔”
”علیزہ ! میں مذاق نہیں کر رہا ہوں۔”
”مگر میں تو کر رہی ہوں۔”
”تمہیں اپنے اس فیصلے کی سنگینی کا احساس ہے؟” عمر نے اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔
”بہت اچھی طرح۔” اس کے لہجے کا اطمینان عمر کو ڈسٹرب کر رہا تھا۔
”عمر جہانگیر ! میں تمہارے کسی ”Pet” (پالتو) کے ساتھ شادی کبھی نہیں کروں گی۔”
عمر کچھ بول نہیں سکا۔
”تمہیں مجھ پر اتنے احسان کرنے کا شوق کیوں ہے؟”
”علیزہ! میں نے تم پر کوئی احسان نہیں کیا۔”
”تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر تمہارا بیسٹ فرینڈ مجھ سے شادی نہیں کرے گا تو دنیا میں کوئی بھی نہیں کرے گا؟”
”وہ صرف میرا بیسٹ فرینڈ نہیں ہے، وہ ایک بہترین انسان بھی ہے۔” عمر نے سنجیدگی سے کہا۔
”بہترین انسان؟ یا دھوکے باز انسان…؟ تمہارا ہر دوست تمہاری ہی طرح جھوٹا اور فراڈ ہوتا ہے اور ہونا بھی چاہیے ۔” علیزہ نے اس بار قدرے تلخی سے کہا۔
”تم مجھے یہ بتا سکتی ہو کہ تمہارا غصہ کب ختم ہوگا تاکہ میں تم سے اس وقت بات کر سکوں۔” عمر نے اس کی بات کے جواب میں بڑے تحمل سے کہا۔
”مجھے اب کوئی غصہ نہیں ہے۔ میرا غصہ ختم ہو چکا ہے۔ میں اس وقت بہت پرسکون ہوں۔ تمہیں اندازہ نہیں ہو رہا؟”
”جنید کے ساتھ اس طرح کرکے تمہیں بہت خوشی محسوس ہو رہی ہے؟”
”تمہارے دوست کے ساتھ ایسا کرکے مجھے بہت خوشی محسوس ہو رہی ہے۔”
”علیزہ! وہ اب صرف میرا دوست نہیں ہے۔ تمہارا بھی کچھ تعلق ہے اس سے۔”
”تعلق تھا…اب نہیں ہے۔” اس نے قطعیت سے کہا۔
”اور یہ چیز میں نے تم سے سیکھی ہے۔ چٹکی بجاتے ہوئے ہر رشتے، ہر تعلق کو ختم کر دینا۔” وہ فون بند کر چکی تھی۔

”امی! ابھی آپ لوگ علیزہ کے گھر نہ جائیں۔”
عمر سے فون پر بات کرنے کے بعد جنید نے اندر آکر اپنی امی سے کہا۔
”کیوں؟” انہوں نے چونک کر پوچھا۔
”عمر نے ابھی مجھے فون کیا ہے۔”
”پھر؟”
”وہ چاہتا ہے کہ آپ لوگ ابھی وہاں نہ جائیں اس نے گرینی سے بات کی ہے۔ وہ ابھی کچھ دیر تک آپ کو کال کریں گی۔”
”مگر انہوں نے اس طرح اچانک شادی ملتوی کیوں کی ہے؟” عمر کے بابا نے پوچھا۔
”یہ تو میں نہیں جانتا۔”
”تم نے عمر سے نہیں پوچھا کہ شادی کیوں ملتوی کی گئی ہے؟”
”عمر کو پتا نہیں ہے۔”
”کیوں…؟” تم کہہ رہے ہو اس نے مسز معاذ سے ابھی کچھ دیر پہلے بات کی ہے۔” جنید چند لمحوں کے لیے کچھ نہیں بول سکا۔ پھر اس نے کچھ ہکلاتے ہوئے کہا۔
”ہاں…میں…اس نے پوچھا تو ہوگا مگر شاید گرینی نے اسے نہیں بتایا۔”
ابراہیم صاحب کچھ دیر خاموشی سے اسے دیکھتے رہے۔ ”کب فون کریں گی مسز معاذ؟”
”وہ کہہ رہا تھا…کچھ دیر بعد۔” جنید نے موضوع بدلے جانے پر خدا کا شکر ادا کیا۔
”عمر یہاں لاہور میں ہے؟”
”نہیں بابا! وہ یہاں نہیں ہے۔”
”تو پھر صرف فون پر وہ مسز معاذ سے کیا بات کر سکتا ہے۔ یہ بہتر ہوتا کہ اگر ہم خود وہاں جا کر ان سے بات کر لیتے۔”
”بابا! عمر نے منع کیا ہے تو ضرور کوئی بات ہو گی۔ بہتر ہے ہم ابھی نہ جائیں…ہو سکتا ہے انہیں واقعی کوئی پرابلم پیش آگئی ہو۔”
”ہم لوگ اس پرابلم کے بارے میں ہی تو جاننا چاہتے ہیں…ہو سکتا ہے ہم اس سلسلے میں ان کی مدد کر سکیں۔”
”پھر بھی بابا! گرینی ابھی کچھ دیر میں فون تو کریں گی ہی…آپ ان سے فون پر بات کر سکتے ہیں…وہاں جانا اتنا ضروری تو نہیں ہے۔۔۔” جنید نے انہیں قائل کرنے کی کوشش کی۔
”اگر وہ کال کرنے والی ہیں تو بہتر ہے کہ ہم گھر پر ہی رہ کر ان کی کال کا انتظار کریں۔” اس بار امی نے مداخلت کی۔”اگر بات یہاں ہو جاتی ہے تو زیادہ بہتر ہے۔”
انہوں نے جواب میں کچھ کہنے کے بجائے جنید کی طرف دیکھا۔ ”میں حیران ہوں جنید کہ اس طرح اچانک انہوں نے نوٹس کیوں شائع کروایا ہے…اگر واقعی کوئی سیریس مسئلہ نہیں ہے تو کم از کم مجھے ان کی یہ حرکت اچھی نہیں لگی۔ ہم سے پوچھے بغیر یا ہمیں بتائے بغیر انہیں اس طرح کا کوئی نوٹس نہیں دینا چاہیے تھا۔ معاذ حیدر جیسے خاندان سے میں اس طرح کی چیزوں کی توقع نہیں رکھتا تھا…مجھے بہت مایوسی ہوئی ہے۔”
جنید نے ان کی بات کے جواب میں کچھ نہیں کہا۔ وہ صرف خاموشی سے انہیں دیکھتا رہا۔ وہ اندازہ کر سکتا تھا کہ اس نوٹس سے انہیں کس طرح کی پریشانی ہو گی۔
”وہ لوگ اتنے غیر ذمہ دار نہیں ہیں…یقیناً کوئی ایسا مسئلہ ہوگا جس کے بارے میں وہ ہمیں نہیں بتا سکے ورنہ وہ اس طرح کبھی نہ کرتے…ہم تو پھر لڑکے والے ہیں…وہ تو لڑکی والے ہیں، انہیں یقیناً ہم سے زیادہ ان باتوں کا خیال ہوگا۔” جنید کی امی نے ابراہیم صاحب کی بات کے جواب میں کہا۔
”یہ تو ابھی تھوڑی دیر میں پتا چل جائے گا۔” وہ کہتے ہوئے جنید کی طرف متوجہ ہوئے۔
”تم چاہو تو آفس چلے جاؤ۔”
”نہیں ۔ آفس جا کر کیا کرے گا، وہاں بھی پریشان رہے گا…مسز معاذ کا فون آتا ہے اور سارا معاملہ سلجھ جائے تو پھر چلا جائے گا۔” جنید کی امی نے مداخلت کی۔
”میں اپنے کمرے میں جا رہا ہوں اگر ان کا فون آئے تو آپ مجھے بتا دیجئے گا۔” جنید نے واپس مڑتے ہوئے کہا۔
”جنید!” وہ دروازہ کھول رہا تھا جب ابراہیم نے اسے پکارا۔
وہ واپس مڑا ”جی بابا؟”
”کیا واقعی تم نہیں جانتے کہ یہ نوٹس ان لوگوں نے کیوں چھپوایا؟” ابراہیم بہت زیادہ سنجیدہ نظر آرہے تھے۔
”بابا! میں واقعی نہیں جانتا کہ یہ نوٹس انہوں نے کیوں چھپوایا ہے…ورنہ میں آپ سے کیوں چھپاتا۔” جنید کو اس طرح روانی سے جھوٹ بولنے پر بے تحاشا شرمندگی ہو رہی تھی مگر اس وقت اس کے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا۔
”ٹھیک ہے جاؤ۔” ابراہیم صاحب نے ایک گہری سانس لیتے ہوئے کہا۔
جنید نے کمرے سے باہر نکل کر سکون کا سانس لیا۔ اب وہ دعا کر رہا تھا کہ اس کا جھوٹ افشا نہ ہو۔
”ممی! اگر آپ مجھے سمجھانے آئی ہیں تو پلیز یہ کوشش نہ کریں۔” علیزہ نے ثمینہ کو اپنے کمرے میں داخل ہوتے دیکھ کر کہا۔ ”میں پہلے ہی آپ کی خاصی نصیحتیں سن چکی ہوں۔”
اس کا اشارہ کچھ دیر پہلے لاؤنج میں ہونے والی گفتگو کی طرف تھا۔ وہ اس وقت اپنے بیڈ کی پشت کے ساتھ ٹیک لگائے ایک میگزین کھولے بیٹھی تھی۔
ثمینہ اس کے پاس آکر بیٹھ گئیں ”نہیں۔ میں تمہیں سمجھانے نہیں آئی۔ تم جنید سے شادی نہیں کرنا چاہتیں تو نہ کرو۔”
علیزہ نے کچھ حیرانی سے ان کے چہرے کو دیکھا۔
”اگر تم اسے پسند نہیں کرتیں تو اس سے تمہاری شادی نہیں ہونی چاہیے۔” انہوں نے سکون سے کہا علیزہ خاموشی سے انہیں دیکھتی رہی۔
”میں تمہاری ماں ہوں علیزہ ! مجھ سے زیادہ کسی کو تم سے محبت نہیں ہو سکتی۔” علیزہ اب بھی خاموش رہی۔
”لگتا ہے تمہیں میری بات کا یقین نہیں آیا؟” انہوں نے اس کا چہرہ دیکھا۔
”میں نے ایسا کچھ نہیں کہا۔” علیزہ نے ایک گہری سانس لی۔
”میں نے ابھی ممی سے بات کی تو مجھے پتا چلا۔”
”کس بارے میں؟”
”انہوں نے مجھے بتایا ہے کہ تم عمر سے شادی کرنا چاہتی تھیں مگر عمر اس شادی پر رضامند نہیں ہوا۔ ” علیزہ سن ہو گئی۔ اسے توقع نہیں تھی کہ نانو اس طرح اس بات کے بارے میں ثمینہ کو آگاہ کر دیں گی۔
”وہ میری زندگی کی سب سے بڑی حماقت تھی۔” وہ خود کلامی کے انداز میں بولی۔
”کیوں؟”
”اگر مجھے انسانوں کی ذرا بھی پرکھ ہوتی تو میں کم از کم عمر جیسے انسان کے ساتھ شادی کی کبھی خواہش نہ کرتی۔”
”میں ایسا نہیں سمجھتی علیزہ…میں جانتی ہوں۔ تم عمر سے محبت کرتی ہو۔” ثمینہ نے سر ہلاتے ہوئے کہا ”ایسی دلچسپیاں اور پسندیدگیاں کبھی نہیں بدلتیں۔”
”میں اس سے محبت کرتی تھی۔” اس نے ”تھی” پر زور دیتے ہوئے کہا۔ ”وہ شخص اس قابل ہی نہیں ہے کہ اس سے محبت کی جائے…وہ دنیا کے بدترین لوگوں میں سے ایک ہے۔”
ثمینہ نے خاموش ہو کر اسے غور سے دیکھا۔
”مگر میں یہ چاہتی ہوں کہ عمر سے تمہاری شادی کے بارے میں بات کروں۔” ثمینہ نے مستحکم انداز میں کہا۔ علیزہ کو ان کی بات پر کرنٹ لگا۔ اس کے ہاتھ سے میگزین چھوٹ گیا۔
”آپ مجھے دوبارہ بے عزت کرنا چاہتی ہیں۔ میرے لیے ایک دفعہ اس تذلیل اور تکلیف سے گزرنا کافی ہے…بار بار نہیں۔”
”علیزہ تم۔۔۔” ثمینہ نے کچھ کہنے کی کوشش کی علیزہ نے ان کی بات کاٹ دی۔
”ممی ! میں اس شخص سے اتنی نفرت کرتی ہوں کہ آپ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتیں…میں نے صرف اس کی وجہ سے جنید کو چھوڑ دیا ہے…اور آپ چاہتی ہیں کہ میں خود اس سے شادی کر لوں…کبھی نہیں۔”
”کیوں …؟ تم اسے اتنا ناپسند کیوں کرتی ہو…اگر وہ پہلے تمہارے لیے اچھا تھا تو اب برا کیسے ہو گیا…اگر پہلے تم ممی کو اس سے اپنے پرپوزل کے لیے بات کرنے پر مجبور کر سکتی تھیں تو اب کیا ہو گیا ہے کہ میں اس سے اس معاملے پر دوبارہ بات نہیں کر سکتی۔” ثمینہ نے اس بار کچھ بلند آواز میں کہا۔
”میں آپ کو بتا چکی ہوں…اب سب کچھ تبدیل ہو چکا ہے۔ میں قطعاً کسی صورت عمر سے شادی کرنا نہیں چاہتی…مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔”
”تمہیں عمر کی ضرورت نہیں ہے۔ تمہیں جنید کی ضرورت نہیں ہے…تو پھر تمہیں آخر ضرورت کس کی ہے؟” اس بار ثمینہ نے کچھ غصے سے کہا۔
”مجھے کسی کی بھی ضرورت نہیں ہے…میں ہر چیز کے بغیر ہی بہت خوش ہوں۔”
ثمینہ اس کی بات پر ٹھٹھک گئیں۔ ”تمہارا اشارہ میری طرف ہے؟”
”میرا اشارہ ہر ایک کی طرف ہے

باب: 53

”تم آخر کرنا کیا چاہتے ہو عمر؟ ” ایاز حیدر فون پر درشت لہجے میں کہہ رہے تھے۔ ”آخر کتنی بار مجھ تک تمہاری شکایات آئیں گی۔ اب تو مجھے بھی شرمندگی ہوتی ہے جب میں تمہارے سینئرز سے تمہارے بارے میں بات کرتا ہوں۔ ہر بار میں ان سے کہتا ہوں کہ میں تمہیں سمجھا دوں گا…اور ہر بار تم حماقت کی حد کر دیتے ہو۔” عمر خاموشی سے ان کی بات سن رہا تھا۔
ایاز حیدر نے ابھی کچھ دیر پہلے اس کو آفس میں فون کیا تھا اور وہ اسے جھڑک رہے تھے۔ معاملہ پھر کرنل حمید والا ہی تھا۔ عمر کے بارے میں ایک بار پھر اوپر شکایت کی گئی تھی اور آئی جی نے ایک بار پھر ایاز حیدر سے بات کی تھی۔ اس بار وہ بے حد ناراض تھے اور انہوں نے ایاز حیدر کو بتا دیا تھا کہ وہ اب زیادہ عرصے تک عمر کی حمایت نہیں کر سکیں گے۔ وہ عمر کی ٹرانسفر کرنا چاہتے تھے کیونکہ ان کے پاس عمر کی ٹرانسفر کے احکامات آئے تھے۔ انہوں نے اس معاملے میں ایک بار پھر عمر سے بات کرنے کے بجائے ایاز حیدر سے بات کرنا ضروری سمجھا اور اب ایاز حیدر اس سے بات کررہے تھے۔
”انکل! وہ شخص اس قدر بدتمیز تھا کہ۔۔۔” عمر نے کچھ کہنے کی کوشش کی، ایاز حیدر نے غصے کے عالم میں اس کی بات کاٹی۔
”وہ شخص بدتمیز تھا تو تم بڑے تمیز والے ہو۔ تم اس سے بھی بدتر ہو۔ وہ تو صرف بدتمیز تھا۔ تم تو ڈفر اور ڈل بھی ہو۔”
”اگر آپ اس سے بات کرتے تو میری طرح آپ کو بھی غصہ آتا۔”
”آتا ضرور آتا…مگر میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ مجھے کب، کہاں، کس کے سامنے اپنا غصہ دکھانا ہے اور کس سے غصہ چھپانا ہے۔ تمہاری طرح ہر آدمی کے ساتھ جھگڑا میں افورڈ نہیں کر سکتا۔”
”جو بھی ہو انکل…! میں کسی کے باپ کا ملازم نہیں ہوں کہ کوئی مجھ پر چلائے اور وہ بھی ایسا شخص جس کو میں جانتا تک نہیں۔”
”تو برداشت نہ کرنے کا نتیجہ دیکھ لیا ہے تم نے…ٹرانسفر کے آرڈرز آنے والے ہیں تمہارے۔”
”آنے دیں، میں چارج نہیں چھوڑوں گا۔” عمر کو طیش آ گیا۔
”ٹرانسفر آرڈر کے بجائے تم اپنے لیے Suspension orders (معطلی) چاہتے ہو یا پھر termination۔”
”جو مرضی ہو جائے ، میں اس طرح چارج نہیں چھوڑوں گا۔”
”تم آخر چاہتے کیا ہو عمر…کیوں کسی کے ساتھ بنا کر رکھنا نہیں آتا تمہیں۔ کسی نہ کسی کو تم نے اپنے پیچھے لگایا ہوتا ہے۔ پہلے پریس والا تماشا تھا۔ اب فوج کے ساتھ جھگڑا مول لے رہے ہو۔ پتا ہونا چاہیے تمہیں کہ آج کل ہر کام کتنی احتیاط سے کرنا چاہیے ورنہ تم خود تو ڈوبو گے، ساتھ ہمیں بھی ڈبوؤ گے۔”
”میں جتنی احتیاط کر سکتا تھا کر چکا ہوں مگر ان لوگوں کو اپنے علاوہ کوئی اچھا اور پاک صاف لگتا ہی نہیں۔ ہم بھی آفیسر ہیں، کوئی کھیل تماشے کے لیے نہیں بیٹھے ہوئے۔ کام کررہے ہوتے ہیں، ان کا جب دل چاہتا ہے منہ اٹھا کر میرے آفس میں آ جاتے ہیں۔ مجھ پر چلاتے ہیں۔ اگر وہ کرنل ہے تو اسے بھی میرے رینک کا لحاظ ہونا چاہیے۔” عمر شدید غصے میں تھا۔
”اسے پتا ہونا چاہیے کہ مجھ سے کس طرح بات کرنی چاہیے ۔ وہ کسی پولیس کانسٹیبل سے بات کر رہا تھا کہ اس طرح اس پر چلاتا اور وہ بھی اس صورت میں جب غلطی اس کی اپنی تھی اس کا بیٹا ملزم نہیں تھا بلکہ مجرم تھا۔”
”تمہیں معمولی باتوں پر اتنا مشتعل ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔”
”انکل ! مشتعل ہونے کی بات نہیں ہے۔ میں نے کس طرح اس کے بیٹے کی رہائی کے بعد وہاں مشتعل ہجوم کو کنٹرول کیا ہے۔ آپ یہاں موجود ہوتے تو آپ کو اندازہ ہوتا ہجوم کے اشتعال کا، وہ لوگ پولیس سٹیشن کو آگ لگا دینا چاہتے تھے اور بالکل صحیح کرنا چاہتے تھے۔ ان کی جگہ میں بھی ہوتا تو یہی کرتا۔ ایک بچہ شراب پی کر گاڑی کا ایکسیڈنٹ کرکے ایک آدمی کو مار دیتا ہے اور اس شخص کے لواحقین کی آنکھوں کے سامنے ایک فون آنے پر اس بچے کو کسی پوچھ گچھ کے بغیر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ واقعی صرف یہاں ہی ہو سکتا ہے، اس کے باوجود میں نے اس ہجوم کے پاس خود جا کر ان سے مذاکرات کیے۔ پتا نہیں کتنے جھوٹ بول کر ان کا غصہ ٹھنڈا کیا اور اس آدمی کی لاش کو دفنانے پر مجبور کیا ورنہ وہ لوگ اسے گورنر ہاؤس کے باہر لا کر رکھ دینا چاہتے تھے۔ اس کے باوجود آپ مجھے بتا رہے ہیں کہ میرے ٹرانسفر کے آرڈر آگئے ہیں۔”
”اچھا ، میں نے تمہاری تقریریں سننے کے لیے تمہیں فون نہیں کیا، میں صرف یہ بتا دینا چاہتا ہوں تمہیں کہ تم کرنل حمید سے مصالحت کرو۔ اپنے اس مسئلے کو خوش اسلوبی کے ساتھ حل کرو۔” ایاز حیدر نے ایک بار پھر اسے ٹوکتے ہوئے کہا۔
”کمال کرتے ہیں آپ بھی۔” عمر کو ان کی بات پر جیسے پتنگے لگ گئے۔
”مصالحت اسے مجھ سے کرنی چاہیے یا مجھے اس کے ساتھ۔ اگر اس سارے معاملے میں کسی نے بدتمیزی کی ہے تو وہ میں نہیں کرنل حمید ہے اور آپ کہہ رہے ہیں کہ میں اس کے ساتھ مصالحت کروں۔”
اچھا فرض کرو کہ کرنل حمید نے ہی تمہارے ساتھ بد تمیزی کی ہے …پھر اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔”
”کیوں فرق نہیں پڑتا …یہ اس کی غلطی ہے وہ اسے ٹھیک کرے۔ ۔ وہ معذرت کرے۔”
”اور وہ ایسا کبھی نہیں کرے گا کیونکہ اس کو ایسا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔”
”تو میں بھی ایسا کبھی نہیں کروں گا کیونکہ مجھے بھی ایسا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔”
”تم مجھے مجبور کر رہے ہو عمر کہ میں آئی جی سے کہوں کہ تمہیں ٹرانسفر آرڈر نہیں بلکہ سیدھا Termination لیٹر بھجوائیں۔ بلکہ تمہارے خلاف کوئی انکوائری کروائیں تم اس قابل نہیں ہو کہ تمہاری مدد کی جائے۔ میں تمہیں سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں اور تم اپنی بکواس میں مصروف ہو۔”
ایاز حیدر اس کے جواب پر یک دم بھڑک اٹھے۔ عمر نے اس بار کچھ کہنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ خاموش رہا۔
”تم پورے خاندان میں واحد ہو۔ جس کے لئے مجھے اتنی بار اس طرح کی وضاحتیں اور معذرتیں کرنی پڑ رہی ہیں۔ ورنہ ہر کوئی بڑی آسانی سے ہر طرح کے سیٹ اپ میں ایڈجسٹ ہو جاتاہے۔ صرف تم ہو جسے کبھی کسی سے شکایات شروع ہو جاتی ہیں اور کبھی کسی سے۔” وہ اب بلند آواز میں دھاڑ رہے تھے۔
”آخر کب تک میں تمہاری پشت پناہی کرتا رہوں گا۔ کب تک تمہیں بچاتا رہوں گا۔ تمہیں نہ صورت حال کی سنگینی کا احساس ہوتا ہے نہ اپنی اور فیملی کی عزت کا۔ تمہیں پروا تک نہیں ہے کہ میں تمہارے لئے اپنا کتنا وقت ضائع کر کے تمہیں فون کر رہا ہوں تو پھر مجھے کیا ضرورت ہے تمہیں عقل دینے کی۔ جاؤ ڈوبو۔ مائی فٹ ۔۔۔”
انہوں نے دوسری طرف سے بڑے غصے کے ساتھ فون پٹخا۔ عمر بہت دیر تک ریسیور ہاتھ میں لئے بیٹھا رہا۔ ایاز حیدر کے اس طرح مشتعل ہونے سے اسے اس بات کا اندازہ تو اچھی طرح ہو گیا تھا کہ اس بار معاملہ خاصا خراب ہے۔ ورنہ ایاز حیدر اس سے اس طرح بات نہ کرتے۔ وہ واقعی پوری فیملی کے لئے گاڈ فادر کی طرح تھے۔ ہر معاملے میں وہ اپنے خاندان کے مفادات کے تحفظ کے لئے کسی حد تک بھی جا سکتے تھے اور کم از کم یہ ایسی چیز نہیں تھی جس نے انہیں کبھی پریشان کیا ہو جس کی وجہ سے وہ کبھی احساس ندامت کا شکار ہوئے ہوں اور اب اگر وہ عمر کے معاملے پر اس طرح جھنجھلا رہے تھے تو یقیناً اس بار انہیں عمر کا دفاع کرنے میں واقعی کچھ دقت کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔
عمر جہانگیر کم از کم اتنا زیرک ضرور تھا کہ اسے اس بات کا اندازہ ہو جاتا اور وہ اتنا احمق یا جذباتی بھی نہیں تھا کہ اپنی جاب کو اس طرح جذبات میں آ کر گنوا دیتا۔ فون کا ریسیور رکھ کر وہ کچھ دیر تک اس سارے معاملے کے بارے میں سوچتا رہا۔ ایاز حیدر کا اس کی پشت سے ہاتھ اٹھا لینا اس کے لئے واقعی خاصا مہنگا ثابت ہو سکتا تھا۔ مگر انہیں اس وقت فوری طور پر دوبارہ فون کرنے کا کوئی فائدہ نہ ہوتا۔ وہ غصے میں دوبارہ اس سے بات کرنا پسند نہ کرتے۔ مگر اس کے لئے ضروری ہو گیا تھا کہ وہ ایک بار ان سے اس سارے معاملے پر گفتگو کرتا۔
اس نے ایک گھنٹے کے بعد انہیں فون کیا۔ ان کے پی اے نے چند منٹوں کے بعد ایاز حیدر سے اس کا رابطہ کروا دیا تھا۔
”جی عمر جہانگیر صاحب ! آپ نے کیوں زحمت فرمائی ہے یہ کال کرنے کی؟” ایاز حیدر نے اس کی آواز سنتے ہی طنزاً کہا تھا مگر اس کے باوجود عمر جانتا تھا کہ وہ اس وقت غصے میں نہیں تھے۔ ان کے کال ریسیو کر لینے کا مطلب یہی تھا۔
”انکل ! آپ کیا چاہتے ہیں، میں کیا کروں؟” عمر نے بڑی سنجیدگی سے کسی تمہید کے بغیر ان سے پوچھا۔
”میں چاہتا ہوں کہ تم کرنل حمید سے ملو …اس سے معذرت کرو، پھر سارا معاملہ ٹھیک ہو جائے گا۔”
”اور اگر اس نے مجھ سے ملنے سے انکار کر دیا تو؟”
”نہیں کرے گا …میں اس پر بھی کچھ پریشر ڈلواؤں گا۔ تم بہر حال اس سے ملاقات تو کرو۔”
”ٹھیک ہے، میں اس سے مصالحت کی کوشش کرتا ہوں۔ پھر میں آپ کو بتاتا ہوں کہ کیا ہوا؟”
”مجھے اس کے بارے میں جلدی انفارم کرنا اور ہاں یہ علیزہ کے سسرال والوں نے شادی کی تاریخ کو آگے کرنے کی خواہش کا اظہار کیوں کیا ہے، تمہارا تو رابطہ ہو گا ان کے ساتھ؟”
ایاز حیدر نے …موضوع بدلتے ہوئے کہا۔ عمر یک دم محتاط ہو گیا۔
”میں نیوز پیپر میں نوٹس پڑھ کر حیران رہ گیا۔ میں نے تو ممی سے کہا ہے کہ انہیں اس طرح نوٹس دینے سے پہلے مجھ سے بات کر لینی چاہیے تھی” وہ عمر کو بتا رہے تھے۔
”جنید کے گھر والوں کو پہلے ہی شادی کی تاریخ سوچ سمجھ کر رکھنی چاہیے تھی۔ بعد میں اس طرح تبدیلی تو بہت نامناسب بات ہے۔”
”آپ کی گرینی سے بات ہوئی ہے؟”
”ہاں بڑی لمبی بات ہوئی ہے۔ میں پریشان ہو گیا تھا نوٹس دیکھ کر…پھر انہوں نے ہی مجھے بتایا کہ جنید کے گھر والوں نے شادی کے التوا کی درخواست کی تھی۔ تمہیں پتا ہے اس بات کا؟”
”ہاں میری جنید سے بات ہوئی تھی۔” عمر نے گول مول انداز میں کہا۔
”پھر…؟” ایاز حیدر تقریباً تفصیلات جاننا چاہ رہے تھے۔
”یکدم ہی بس کچھ پرابلمز آگئی تھیں۔ اس کی بہن کو کچھ ہفتوں کے لیے سنگاپور جانا تھا۔ خود اس کے ایک دو پروجیکٹس کی ڈیٹس کا مسئلہ ہونے لگا۔ اس کے کچھ دوسرے رشتہ دار بھی ان دنوں باہر سے نہیں آ سکتے تھے۔ اسی لیے انہوں نے بہتر سمجھا کہ ایک ماہ کے لیے شادی آگے کر دی جائے۔”
عمر نے یکے بعد دیگرے جھوٹ پر جھوٹ بولتے ہوئے کہا۔ نانو نے یقیناً علیزہ کو بچانے کے لیے اس نوٹس کو جنید کے گھر والوں کے سر تھوپ دیا تھا۔ یہ خوش قسمتی ہی تھی کہ ایاز حیدر نے سیدھا جنید کے گھر فون کرکے اس کے والدین سے بات نہیں کی تھی۔ ورنہ اس جھوٹ کا انکشاف ہو جاتا۔ وہ شاید عمر کے معاملے میں الجھے ہونے کی وجہ سے اس طرف اتنا دھیان نہیں دے پائے تھے۔
”جنید نے مجھ سے یہ سب کچھ ڈسکس کیا تھا بلکہ اس نے پوچھا تھا کہ اگر شادی کو آگے کر دیا جائے تو ہماری فیملی کو کوئی اعتراض تو نہیں ہوگا میں نے گرینی سے بات کی تھی۔ پھر یہی طے ہوا کہ شادی آگے کر دی جائے۔”
”اچھا مگر ممی نے تو مجھ سے کہا ہے کہ انہوں نے اچانک ہی درخواست کی تھی۔ یہ تو انہوں نے نہیں بتایا کہ تم نے ان سے اس سلسلے میں بات کی تھی۔” ایاز حیدر نے کہا۔
”گرینی کے ذہن میں نہیں رہا ہوگا اور جہاں تک ریکویسٹ کی بات ہے تو وہ انہوں نے اچانک ہی کی تھی۔ ورنہ پہلے تو وہ بھی تیاریوں میں ہی مصروف تھے۔” عمر نے گول مول بات کی۔
”میں آج فون کروں گا ابراہیم کو، اس معاملے پر اگر تھوڑی بہت بات ہو جائے تو اچھا ہے۔”
”انکل ابراہیم تو کوئٹہ گئے ہوئے ہیں۔” عمر نے بڑی رسانیت سے کہا۔
”کل رات میں جنید سے بات کر رہا تھا تو اس نے مجھے بتایا تھا۔ وہاں کسی بینک کی بلڈنگ کا پراجیکٹ ہے جنید بھی دو چار دن تک وہیں جا رہا ہے۔ آپ آنٹی فرحانہ سے بات کر لیں۔” عمر نے آخری جملہ ادا کرتے ہوئے رسک لیا تھا۔
”نہیں، ان سے کیا بات کروں گا۔ ابراہیم کو آنے دو پھر ان ہی سے بات کروں گا۔” حسب توقع ایاز حیدر نے کہا۔
”اچھا پھر تم مجھے کرنل حمید سے اپنی ملاقات کے بارے میں جلد انفارم کرو۔” رسمی الوداعی کلمات کے ساتھ انہوں نے فون رکھ دیا۔
عمر کچھ دیر گہری سوچ میں گم رہا۔ پھر اس نے اپنے پی اے کو کرنل حمید سے کانٹیکٹ کروانے کا کہا۔
وہ ایک فائل چیک کر رہا تھا جب پی اے نے اسے فون پر اطلاع دی۔
”سر! کرنل حمید کاآپریٹر کہہ رہا ہے کہ آپ کو ان سے کیا بات کرنی ہے؟”
”اس سے کہو کہ میں ان سے بات کرنا چاہتا ہوں۔”
”سر! میں نے یہی کہا تھا مگر وہ پوچھ رہا تھا کہ آپ کیا بات کرنا چاہتے ہیں۔ پہلے وہ بات بتائیں۔”
”اس سے کہو کہ میں اس کو بات نہیں بتا سکتا۔ وہ کرنل حمید سے میری بات کروائے۔” عمر نے کچھ سختی سے اسے ہدایت دی۔
کچھ دیر بعد فون کی گھنٹی ایک بار پھر بجی ”سر! وہ کہہ رہا ہے کہ جب تک آپ بات نہیں بتائیں گے وہ کرنل حمید سے آپ کا رابطہ نہیں کروا سکتا۔” عمر کو اندازہ ہو گیا کہ کرنل حمید اسے آپریٹر کے ذریعہ زچ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
”اس سے کہو کہ صاحب کرنل حمید سے کوئی ذاتی بات کرنا چاہتے ہیں۔” عمر نے اپنے غصے کو ضبط کرتے ہوئے کہا۔
کچھ دیر کے بعد پی اے نے ایک بار پھر اس سے رابطہ کیا۔
”سر! وہ کہہ رہا ہے کہ کرنل حمید دفتر میں ذاتی باتیں نہیں کرتے۔”
”تو پھر اس سے کہو کہ وہ ان کے گھر کا نمبر دے دے۔” پی اے نے کچھ دیر بعد اس سے کہا۔
”سر ! وہ کہہ رہا ہے کہ صاحب کا گھر کا نمبر ہرایرے غیرے کے لیے نہیں ہوتا۔” اس بار پی اے نے کچھ جھجکتے ہوئے تک کرنل حمید کے پی اے کے الفاظ پہنچائے تھے۔
”بات کراؤ میری اس آپریٹر سے۔” اس بار عمر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔
”یس سر! ” پی اے نے مستعدی سے کہا۔
چند منٹوں کے بعد عمر نے دوسری طرف کسی کی آواز سنی۔
”ایس پی سٹی عمر جہانگیر بات کر رہا ہوں۔ کرنل حمید سے بات کراؤ۔” عمر نے کھردرے لہجے میں کرنل حمید کے پی اے سے کہا۔
”سر! وہ ابھی کچھ دیر پہلے آفس سے نکل گئے ہیں۔” اس بار کرنل حمید کے آپریٹر کا لہجہ مودب تھا شاید یہ عمر کے عہدے سے زیادہ اس کے لہجے کا اثر تھا۔
”کب واپس آئیں گے؟” عمر نے اسی انداز میں پوچھا۔
”سر! یہ نہیں پتا، وہ ٹیم کے ساتھ گئے ہیں۔”
”میں کل صبح ان سے ملنا چاہتا ہوں۔”
”سر! آپ یہ بتا دیں کہ آپ کس سلسلے میں ان سے ملنا چاہتے ہیں۔”
عمر نے اس کو بات مکمل نہیں کرنے دی۔
”یہ جاننا تمہارا پرابلم نہیں ہے۔ میں ایس پی ہوں، کسی بھی سلسلے میں ان سے بات کر سکتا ہوں۔” اس بار عمر کا لہجہ اتنا کھردرا اور تحکمانہ تھا کہ پی اے نے کچھ ہکلاتے ہوئے کہا۔
”تو سر! پھر آپ اپائنمنٹ لے لیں۔”
”اپائنمنٹ میرا پی اے طے کرے گا تمہارے ساتھ، میں نہیں۔”
عمر نے کہتے ہوئے فون بند کر دیا اور پھر اپنے پی اے کو کرنل حمید کے آپریٹر کے ساتھ بات کرنے کے لیے کہا۔ کچھ دیر بعد پی اے نے اسے اگلے دن کی اپائنمنٹ کی تفصیل بتا دی تھی۔
”بے وقوفی کی باتیں مت کیا کرو علیزہ! کیا تم نے طے کر رکھا ہے کہ۔۔۔”
علیزہ نے غصے کے عالم میں شہلا کی بات کاٹ دی۔ ”تم میرے سامنے نانو کے جملے مت دہراؤ…میں تنگ آ چکی ہوں اس طرح کے جملے سن سن کر۔”
شہلا ابھی کچھ دیر پہلے ہی علیزہ کے پاس آئی تھی۔ اس نے بھی اخبار میں وہ نوٹس پڑھ لیا تھا، وہ کوشش کے باوجود فون پر علیزہ سے رابطہ نہیں کر سکی۔ پھر وہ کچھ پریشانی کے عالم میں خود اس کے گھر چلی آئی تھی اور اب وہ علیزہ کو سمجھانے کی کوشش میں مصروف تھی۔
”یہ سب کچھ اتنا آسان نہیں ہوتا جتنا تم نے سمجھ لیا ہے۔” شہلا اس کے غصے سے متاثر ہوئے بغیر بولی۔ ”آخر اس سارے معاملے میں جنید اور اس کی فیملی کا کیا قصور ہے بلکہ عمر کا بھی کیا قصور ہے۔ اس نے ایسا کون سا غلط کام کر دیا ہے جس پر تم اس طرح ناراض ہو رہی ہو۔”
”تمہارے خیال میں یہ غلط کام ہی نہیں ہے؟ تمہارے نزدیک تو پھر کوئی بھی غلط کام نہیں ہوگا۔”
”عمر نے کیا کیا؟ اس نے تمہیں جنید سے ملوایا ، تم نے خود اس کو پسند کیا…اور پھر تمہاری ہی مرضی کے مطابق اس سے تمہاری شادی ہو رہی تھی۔”
”عمر سے کس نے کہا تھا کہ وہ مجھے جنید سے ملوائے، میرے ساتھ اتنی ہمدردی کرنے کی کیا ضرورت تھی اسے؟ غلط بیانی کرکے اس نے میرے ساتھ دھوکہ کیا۔ کیا میرے اور اس کے درمیان اتنے اچھے تعلقات تھے کہ وہ اپنے بیسٹ فرینڈ کو میرے لیے اس طرح پیش کرتا اور وہ بھی ایسا دوست جو صرف اس کے کہنے پر مجھے اپنے گلے میں لٹکا رہا تھا۔”
”علیزہ! تم کمال کرتی ہو۔ جنید تمہیں کیوں گلے میں لٹکائے گا۔ تمہاری طرح اسے بھی ایک لڑکی سے ملوایا گیا۔ اسے تم پسند آئیں اس لیے وہ تم سے شادی کر رہا تھا۔ کورٹ شپ اور کسے کہتے ہیں۔ ہماری فیملیز میں اسی طرح لڑکے لڑکی کو آپس میں ملوایا جاتا ہے۔ ملوانے والا کون ہے اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اہم چیز تو یہ ہے کہ جس سے ملوایا جا رہا ہے وہ کیسا ہے اور کم از کم میں یہ بات پورے یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ عمر نے تمہیں کسی غلط آدمی سے نہیں ملوایا۔ تمہارے نزدیک عمر کا دوست ہونے کے علاوہ اس میں کوئی خرابی نہیں ہے اور یہ ایسی خرابی ہے جو تمہارے علاوہ کسی دوسرے کو نظر نہیں آئے گی۔”
”ہر چیز اس طرح نہیں ہے جس طرح تم میرے سامنے پیش کرنے کی کوشش کررہی ہو۔ عمر نے جنید کو پریشرائز کیا ہے مجھ سے شادی کرنے کے لیے۔”
”یہ ناممکن ہے جنید۔۔۔”
”اس نے مجھ سے خود کہا ہے کہ اس کی عمر سے اتنی گہری دوستی ہے کہ عمر اسے میرے بجائے کسی اور سے بھی شادی کا کہتا تو وہ اسی سے شادی کر لیتا۔” علیزہ نے شہلا کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”جنید اس طرح کا آدمی لگتا ہے تمہیں کہ وہ آنکھیں بند کرکے عمر کے کہنے پر کسی کے بھی گلے میں شادی کا ہار ڈال دیتا یا اس کی فیملی اس طرح کی نظر آتی ہے تمہیں کہ وہ کسی بھی لڑکی کو آسانی سے قبول کر لیتے۔۔۔” شہلا نے اس کی بات کے جواب میں کہا۔
”جنید جتنا میچور اور سوبر آدمی ہے وہ کسی بھی لڑکی سے شادی نہیں کر سکتا تھا۔ چاہے یہ بات وہ اپنے منہ سے کہے تب بھی۔ اسے اگر یہ احساس ہو جاتا کہ تم اس کی فیملی کے ساتھ ایڈجسٹ نہیں ہو سکتیں یا تمہارے ساتھ اس کی انڈر سٹینڈنگ نہیں ہو سکے گی تو وہ کبھی بھی تم سے شادی نہ کرتا۔ عمر کے کہنے پر بھی وہ اپنی فیملی کو نظر انداز نہیں کر سکتا ہے۔آخر تم اس بات کو محسوس کیوں نہیں کرتیں۔”
”میں کچھ بھی محسوس کرنا نہیں چاہتی۔ میں اس سب سے باہر نکل چکی ہوں اور میں بہت خوش ہوں۔”
”ہر بے وقوف آدمی تمہاری طرح ہی سوچتا ہے۔ مصیبت میں قدم رکھ کر یہ سمجھتا ہے کہ وہ مصیبت سے نکل چکا ہے۔ آخر تم خطرہ دیکھ کر کبوتر کی طرح کب تک آنکھیں بند کرتی رہو گی۔” شہلا نے کچھ چڑ کر کہا۔ ”ہر کام سوچے سمجھے بغیر کرتی ہو تم۔ نانو کو کتنے لوگوں کے سامنے جھوٹ بولنا اور وضاحتیں کرنی پڑیں گی۔ یہ سوچا ہے تم نے؟”
”میں کیوں سوچوں؟نانو سوچیں اس کے بارے میں آخر انہوں نے بھی تو مجھے ہر چیز کے بارے میں اندھیرے میں رکھا تھا۔”
شہلا کچھ بے بسی کے عالم میں اسے دیکھنے لگی۔ ”تمہیں واقعی کوئی افسوس، کوئی دکھ نہیں ہو رہا۔ اس رشتے کو ختم کرکے۔”
”نہیں ۔ مجھے کچھ محسوس نہیں ہو رہا۔”
”ایک سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے اس کے ساتھ تمہاری انگیجمنٹ کو۔ کیا اتنا آسان ہے تمہارے لیے اسے بھلانا۔” علیزہ کچھ دیر خاموشی سے اسے دیکھتی رہی۔
”اگر میں عمر کو بھلا سکتی ہوں تو جنید…اس کو بھلانا کیا مشکل ہے۔ عمر سے زیادہ لمبی ایسوسی ایشن تو کسی کے ساتھ نہیں ہو سکتی تھی میری۔” اس نے کچھ دیر کے بعد کہا۔
”کہنے میں اور کرنے میں بہت فرق ہوتا ہے علیزہ!” شہلا نے عجیب سے انداز میں کہا۔ علیزہ نے دل ہی دل میں اعتراف کیا۔ واقعی کہنے اور کرنے میں بہت فرق ہوتا ہے۔
”اتنے عرصے سے تم جنید کے گھر آ جا رہی ہو۔ کیا تمہیں اپنی وجہ سے ہونے والی ان کی پریشانی کا بھی کوئی احساس نہیں ہو رہا۔”
وہ ساری گفتگو میں پہلی بار الجھ کر خاموش رہی اسے اگر اس سارے معاملے میں کسی سے شرمندگی تھی تو وہ جنید کے گھر والے ہی تھے اور کم از کم وہ ان کے حوالے سے وہ اپنے آپ کو مطمئن نہیں کر پا رہی تھی۔
”میرے پاس ان کے لیے معذرت کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔” اس نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد کہا۔
”وہ واقعی یہ سب کچھ deserve نہیں کرتے جو میں کر رہی ہوں مگر میرے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔”
”دوسرا راستہ؟ علیزہ! تمہارے پاس فی الحال ہر راستہ موجود ہے۔ تم اگر اپنے فیصلے پر ایک بار نظرثانی کرو تو سب کچھ ٹھیک ہو سکتا ہے۔ دوسروں کے ساتھ ساتھ تم اپنے معاملے کو بھی سلجھا لو گی۔”
”میں کسی معاملے کو سلجھانا نہیں چاہتی۔” اس نے صاف گوئی سے کہا۔ ”ہر چیز پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچ چکی ہے۔”
”یا پہنچائی جا چکی ہے؟” شہلا نے کچھ دیر دیکھتے ہوئے کہا۔
”تم یہی سمجھ لو۔”
”زندگی میں کوئی پوائنٹ آف نو ریٹرن نہیں ہوتا۔ ہر بار اور ہر جگہ سے واپس آیا جا سکتا ہے اگر تھوڑی سی عقلمندی اور دور اندیشی کامظاہرہ کیا جائے تو۔”
”اور یہ دونوں خصوصیات میرے اندر نہیں ہیں۔ یہ تو تم اچھی طرح جانتی ہو۔” اس نے تیز لہجے میں کہا۔
”آخر تم اتنی ضد کیوں کر رہی ہو علیزہ۔” علیزہ نے ایک بار پھر اس کی بات کاٹی۔
”اب پھر میرے سامنے تقریر مت کرنا کہ میں پہلے تو ایسی نہیں تھی …اب کیوں ہو گئی ہوں وغیرہ۔”
”مجھے یہ کہنے کی ضرورت نہیں۔ تم خود ہی یہ سب جانتی ہو۔”
”ہاں، میں جانتی ہوں اور مجھے اپنی ہٹ دھرمی سے کوئی پریشانی نہیں ہے …یہ عادت دیر سے سیکھی ہے مگر میرے لئے یہ بہت فائدہ مند ہے …دیر آید درست آید کے مصداق۔” علیزہ نے سنجیدگی سے کہا۔
شہلا تقریباً تین گھنٹے اس کے ساتھ سر کھپا کر اگلے دن پھر آنے کا کہہ کر چلی گئی تھی۔
عمر دس منٹ کی اپائنمنٹ کا سن کر خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا۔
اس نے پولیس سروس صرف اس Absolute power (مکمل اختیارات) کے لئے جوائن کی تھی جو کسی پولیس آفیسر کے پاس ہوتی تھی …اسے اب یوں لگنے لگا تھا جیسے اس کے پر کاٹ کر آزادی دی گئی ہے …ہر گزرتا دن اس احساس کو بڑھاتا جا رہا تھا اور وہ یہ احساس رکھنے والا واحد آفیسر نہیں تھا …اسے اگر بے جا مداخلت بری لگ رہی تھی تو دوسرے آفیسرز کو کرپشن ختم کرنے کے لئے آرمی کا چیک تنگ کر رہا تھا …یہ ملک و قوم کی خدمت نہیں تھی جس کے لئے سول سروس میں آتے تھے یہ دو سے چار اور چار سے آٹھ بنانے کا فارمولا تھا۔ جس کو سیکھنے کے لئے لوگ اس میدان میں کودتے تھے یا پھر کچھ کو وہ Authority اس طرف کھینچ لاتی تھی جو کسی بھی آفیسر کے پاس موجود ہوتی تھی اور آرمی، بیوروکریسی سے یہی دونوں چیزیں کھینچنے کی کوشش کر رہی تھی۔
عمر کے ساتھ بھی یہی ہو رہا تھا۔ اب بعض دفعہ اسے فارن سروس سے پولیس سروس میں آنے کے فیصلے پر افسوس ہوتا اور بعض دفعہ سول سروس میں سرے سے آنے پر اگر دوسروں کے ہاتھوں کٹھ پتلیاں بن کر ہی ناچنا تھا تو پھر تو پوری دنیا پڑی تھی …کہیں بھی جا سکتا تھا …کہیں بھی کیرئیر بنا سکتا تھا …آخر پاکستان ہی کیوں …وہ اکثر سوچتا اور اپنے فرینڈز اور کولیگز سے ڈسکس کرتا رہتا …اس ڈسکشن میں حصہ لینے والا وہ واحد نہیں تھا وہاں ہر دوسرے بندے کے پاس یہی مسائل تھے۔ پاور شیئرنگ آرمی اور بیورو کریسی دونوں کے لئے جیسے گالی کی حیثیت اختیار کر گیا تھا۔
آرمی کے بعد اگر ملک میں کوئی دوسرا آرگنائزڈ اسٹرکچر تھا تو وہ بیورو کریسی کا ہی تھا اور دونوں ایک دوسرے کے حربوں، ہتھکنڈوں اور چالوں سے بخوبی واقف تھے، یہی وجہ تھی کہ دونوں میں سے کوئی بھی دوسرے کو مات دینے میں ناکام رہتا تھا۔ دوسرے کے پاس پہلے ہی ہر چیز کا توڑ موجود ہوتا تھا …دونوں طرف بہترین دماغ اور بد ترین سازشی موجود تھے …دونوں طرف بہترین خوشامدی اور بہترین درباری موجود تھے اور دونوں طرف ذہین ترین احمقوں کی بھی بڑی تعداد تھی۔ اس بار پہلی بار آرمی نے سول سیٹ اپ پر کاری ضرب لگائی تھی اور پہلی بار بیورو کریسی کو واقعی اپنی پاور خطرے میں محسوس ہونے لگی تھی۔ کچھ نے محاذ آرائی کا رستہ اختیار کیا تھا کچھ نے بغیر کسی حجت کے ہتھیار ڈال دیئے تھے۔ عمر پہلی ٹائپ میں شامل تھا اور دوسری ٹائپ میں شامل ہونے کی تمام کوششوں کے با وجود اس میں کامیاب نہیں ہو پا رہا تھا۔
وہ اگلے دن ساڑھے دس ہونے والی اپائنٹمنٹ سے پانچ منٹ پہلے ہی کرنل حمید کے آفس پہنچ گیا۔ یہ ایک حفاظتی قدم تھا جو تاخیر کی صورت میں کرنل حمید کی طرف اپائنٹمنٹ کینسل نہ ہونے سے بچنے کے لیے اٹھایا گیا تھا۔
کرنل حمید اسے آفس میں نہیں ملا۔ اس کا پیغام ملا۔ اس نے عمر کی اپائنٹمنٹ کینسل کروا دی تھی کیونکہ بقول پی اے ”صاحب کہہ رہے ہیں کہ وہ بہت مصروف ہیں۔”
”یہ تمہارے صاحب کو پہلے پتا ہونا چاہیے تھا۔” عمر نے ناراضی کے عالم میں پی اے سے کہا۔ ”اگر انہوں نے اپائنٹمنٹ طے کی تھی تو انہیں ملنا چاہیے تھا۔”
”اپائنٹمنٹ تو سر میں نے طے کی تھی کرنل صاحب نے تو نہیں کی تھی، وہ بھی آپ نے زبردستی اپائنٹمنٹ طے کروائی تھی۔”
پی اے اب بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ تیزی سے کہہ رہا تھا شاید اسے عمر کے لئے کرنل حمید سے خاص ہدایات ملی تھیں عمر کو اس کے سامنے بے پناہ ہتک کا احساس ہوا۔
”وہ آپ کے لئے پیغام دے کر گئے ہیں کہ آپ چاہیں تو فون پر اپنی بات کہہ سکتے ہیں۔” پی اے نے اس سے کہا۔
عمر اس کے پیغام کے جواب میں کچھ بھی کہنے کے بجائے وہاں سے نکل آیا۔
اپنے آفس واپس آنے کے بعد اس نے ایاز حیدر کو فون کیا اور انہیں اس تمام معاملے کی تفصیلات بتا دیں۔
”میں نے آپ کو پہلے ہی بتا دیا تھاکہ یہ آدمی مصالحت نہیں چاہتا۔” اس نے تفصیلات بتانے کے بعد کہا۔ ”یہ آدمی صرف میری بے عزتی کرنا چاہتا ہے۔ صرف مجھے اپنے سامنے جھکانا چاہتا ہے اور کچھ بھی نہیں۔” وہ تقریباً پھٹ پڑا۔
”اور اب تو میں دوبارہ کبھی اس کی شکل تک دیکھنے نہیں جاؤں گا۔” ایاز حیدر کچھ دیر خاموشی سے اسے بولتا سنتے رہے پھر انہوں نے کہا۔
”عمر ! میں چاہتا ہوں تم چند ماہ کی چھٹی پر چلے جاؤ۔”
”کیا مطلب؟” وہ یک دم ٹھٹھک گیا۔
”ہاں، تم چند ماہ کی چھٹی پر چلے جاؤ، نہ تم یہاں رہو گے نہ یہ مسئلے پیدا ہوں گے۔”
”مگر میں کیوں چھٹی پر چلا جاؤں، اس سے میرا کیرئیر ۔۔۔”
ایاز حیدر نے اس کی بات کاٹی ”کیرئیر کی تم فکر مت کرو۔ میں ہوں اس کو دیکھنے کے لئے، تم بس چند ماہ کی چھٹی پر چلے جاؤ۔”
”میں اس طرح اپنی جاب چھوڑ کر جانا نہیں چاہتا، آپ …۔۔۔”
”تم نہیں جاؤ گے تو پھر تمہیں بھیج دیا جائے گا۔”
”آپ نے کہا تھا میری ٹرانسفر کر رہے ہیں۔” عمر نے انہیں یاد دلایا۔
”ہاں کر رہے ہیں۔ تمہاری خدمات وفاقی حکومت کو واپس کر رہے ہیں اور وہاں سے تم بھیجے جاؤ گے بلوچستان، کوئٹہ تم کو نہیں ملے گا، اور کون سا اور کیسا شہر مل سکتا ہے۔ اس کا اندازہ تمہیں اچھی طرح ہو گا۔”
عمر کا دل ڈوب گیا۔ وہ بلوچستان یا سرحد بھجوائے جانے کا مطلب اچھی طرح سمجھتا تھا۔
”پھر کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ تم چھٹی پر چلے جاؤ …کم از کم چھٹی کے بعد تم کسی بہتر پوسٹنگ کی امید تو رکھ سکتے ہو۔”
”انکل ! میں دو چار ماہ کی چھٹی نہیں چاہتا۔” عمر یک دم سنجیدہ ہو گیا
”مجھے دو سال کی چھٹی چاہیے …ایکس پاکستان لیو۔”
”کس لئے؟”
”بس میں واقعی اس سب سے تنگ آ چکا ہوں۔ اگر چھٹی پر ہی جانا ہے تو لمبی چھٹی پر کیوں نہیں۔”
”تم کرنا کیا چاہتے ہو اتنی لمبی چھٹی کا؟”

”میں کچھ عرصے سے سوچ رہا تھا کہ واپس جا کر اپنی اسٹڈیز کو دوبارہ شروع کروں، ایم بی اے کر لوں۔”
”اس کا کیا فائدہ ہو گا۔ دو سال ضائع ہوں گے تمہارے۔” ایاز حیدر نے اسے بتایا۔
”ہونے دیں۔ ابھی بھی تو مجھے یونہی لگتا ہے جیسے میں وقت ضائع کر رہا ہوں۔” عمر نے تلخی سے کہا۔
”میں اس طرح اپنی tenure پوری ہونے سے پہلے کہیں نہیں جانا چاہتا تھا۔ مگر اب اگر یہ مجھے زبردستی ٹرانسفر کر ہی دینا چاہتے ہیں تو بہتر ہے میں لمبی چھٹی پر چلا جاؤں۔”
”تم اب ایک بار پھر جذباتی ہو کر سوچ رہے ہو۔ جاب میں اونچ نیچ ہوتی رہتی ہے۔” ایاز حیدر نے اس بار بہت نرم لہجے میں اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
”میری جاب میں صرف نیچ ہے۔ اونچ ابھی تک مجھے نظر نہیں آئی۔” عمر نے تلخی سے ہنس کر کہا۔
”فارن سروس میں بھی تم اسی طرح منہ اٹھا کر بھاگ گئے تھے۔”
”انکل ! آپ جانتے ہیں، میں فارن سروس میں کس کی وجہ سے بھاگا تھا۔ پاپا کی وجہ سے۔ ورنہ میں وہاں بڑا خوش تھا۔” عمر نے ان کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”اور یہاں پر تم آرمی کی وجہ سے بھاگ رہے ہو۔” ایاز حیدر نے اپنی بات جاری رکھی۔
”ہر جگہ تم کسی نہ کسی وجہ سے بھاگتے رہو گے تو کام کیسے چلے گا کیرئیر ایسے نہیں بنتا بیٹا۔ بڑے جھٹکے سہنے پڑتے ہیں۔”
”میں نہیں سہہ سکتا اور کم از کم اب تو نہیں، فی الحال تو ہر لحاظ سے میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔”
”تم اتنی جلد بازی میں فیصلہ نہ کرو، اچھی طرح اس بارے میں سوچ لو۔” ایاز حیدر نے کہا۔
”انکل! میں بہت اچھی طرح اس کے بارے میں سوچ چکا ہوں، میں نے آپ کو بتایا ہے، میں پچھلے کچھ عرصے سے صرف اسی کے بارے میں ہی سوچتا آ رہا ہوں۔ آپ پلیز، اس سلسلے میں میری مدد کریں۔” اس نے قطعیت سے کہا۔
”جب ایم بی اے کر لو گے، اس کے بعد پھر کیا کرو گے؟”
”پتا نہیں، ابھی تو میں صرف یہاں سے جانا چاہتا ہوں۔”
”میں جہانگیر سے اس سلسلے میں بات کروں گا۔ تم ابھی سارے معاملے کے بارے میں ایک بارپھر سوچو۔” انہوں نے اسے پھر سمجھانے کی کوشش کی۔
”آپ مجھے چھٹی دلوا سکتے ہیں یا نہیں؟ ” عمر نے ان کی بات کے جواب میں سوال کیا۔
”دیکھو عمر! فی الحال تو تمہارے لئے صرف دو چار ماہ کی چھٹی پر جانا بہتر ہے۔ اس کے بعد کچھ عرصہ گزر جانے کے بعد تم اپنی چھٹی بڑھوا لینا۔ کیونکہ ابھی فوری طور پر تم پر کوئی بھی اتنی مہربانی نہیں کرے گا کہ فوراً تمہیں دو سال کی چھٹی دے دے۔ تمہاری حرکتوں کی وجہ سے تمہارا سروس ریکارڈ خاصا خراب ہو چکا ہے۔ اس لیے پہلے میں تمہاری چار ماہ کی چھٹی منظور کرواتا ہوں بعد میں اسے دیکھیں گے۔” ایاز حیدر نے اسے دوٹوک الفاظ میں کہا۔
”ٹھیک ہے آپ فی الحال مجھے چار ماہ کی چھٹی پر بھجوا دیں۔” عمران کی بات مان گیا۔
”میں فوری طور پر اپنی چھٹی کی منظوری چاہتا ہوں۔”
”آئی جی تم سے اتنا ناخوش ہے کہ وہ بڑی خوشی سے تمہیں چھٹی پر بھجوائے گا۔ تم کو اس بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔” ایاز حیدر نے ہلکے پھلکے انداز میں کہا۔
”بلکہ وہ تم سے اتنا بیزار ہے کہ اس کا بس چلے تو وہ تمہاری اس چھٹی کو کبھی ختم نہیں ہونے دے۔”
”وہ خود کون سا بڑا اچھا آدمی ہے، تاریخ میں اس سے زیادہ نکما اور بزدل آئی جی آج تک اپائنٹ نہیں ہوا۔” عمر نے بڑی بے باکی سے تبصرہ کیا۔
کچھ احتیاط کرو…اگر تمہاری لائن انڈر آبزرویشن ہوئی تو ایسے تبصروں کے بعد تمہارا کیا حشر ہوگا۔ تمہیں یاد رکھنا چاہیے۔”
”اگر وہ آپ کا دوست نہ ہوتا تو میں یہ جملہ اس کے منہ پر اس کے آفس میں کہہ کر آتا۔ میں اس سے خوفزدہ نہیں ہوں۔” عمر نے بے خوفی سے کہا۔
”تم کتنے بہادر ہو، میں اچھی طرح جانتا ہوں۔ فی الحال فون بند کر رہا ہوں۔ کال خاصی لمبی ہو گئی ہے۔ تم اب اپنا سامان پیک کرنا شروع کروا دو، میں چند دنوں تک تمہاری چھٹی کے بارے میں آرڈر تم تک بھجوا دوں گا۔”
ایاز حیدر نے فون بند کرتے ہوئے کہا۔ فون کا ریسیور رکھ کر عمر نے بے اختیار سر کو جھٹکا۔ اپنی کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر وہ بہت دیر تک اپنی کنپٹیوں کو مسلتا رہا۔
”جنید کے پیرنٹس آئے ہیں۔ تم سے ملنا چاہتے ہیں۔” ثمینہ نے اس کے کمرے میں آکر اسے اطلاع دی۔
”میں ان سے ملنا نہیں چاہتی۔ آپ معذرت کر لیں، کوئی ایکسکیوز دے دیں۔” علیزہ نے ہاتھ میں پکڑی ہوئی کتاب بند کرتے ہوئے کہا۔
”ان سے یہی کہہ دیتی ہوں کہ تم ان سے ملنا نہیں چاہتیں۔”
ثمینہ نے واپس مڑتے ہوئے کہا علیزہ خاموش رہی۔ اس سارے معاملے میں وہ اگر کسی سے واقعی شرمندہ تھی تو وہ جنید کی فیملی اور خاص طور پر اس کے والدین ہی تھے۔ اس نے ثمینہ سے کچھ نہیں کہا وہ کمرے سے نکل گئیں۔
علیزہ نے کتاب کو ایک طرف رکھ دیا۔ وہ پہلے بھی کچھ پڑھ نہیں پا رہی تھی اور اب اس کا جی کچھ اور اچاٹ ہو گیا تھا۔ بیڈ سے اٹھ کر وہ اسٹیریو کی طرف گئی اور اس نے کیسٹ لگا لیا۔ کچھ دیر وہ کمرے میں ٹہلتی ہوئی میوزک سنتی رہی پھر یکدم اس نے اسٹیریو کو بھی آف کر دیا۔
صرف دو دن پہلے سب کچھ نارمل تھا سب کچھ اور اب سب کچھ ایک خواب لگ رہا تھا۔ وہ اب ایک عجیب سے اضطراب کا شکار ہو رہی تھی۔ بار بار وہ اپنے ذہن سے جنید، اس کے گھر والوں اور اس کے گھر کو جھٹکنے کی کوشش کر رہی تھی اور بری طرح ناکام ہو رہی تھی۔
کمرے کے دروازے پر ایک بار پھر دستک ہوئی۔
”یس کم ان!” اس نے رک کر دروازے کی طرف دیکھا۔ دروازہ کھول کر اندر داخل ہونے والی نانو اور جنید کی امی تھیں۔ علیزہ کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ اسے توقع نہیں تھی کہ جنید کی امی نانو کے ساتھ یوں اچانک کمرے میں آ جائیں گی۔ اس سے بہتر تھا وہ ان سے ملنے کے لیے خود باہر چلی جاتی۔
”علیزہ! مسز ابراہیم تم سے ملنا چاہ رہی تھیں۔ میں انہیں یہاں لے آئی۔” نانو نے اعلان کرنے والے انداز میں کہا۔
”آپ بیٹھیں مسز ابراہیم! میں چائے یہیں بھجوا دیتی ہوں۔ آپ علیزہ کے ساتھ چائے پئیں۔”
نانو نے اس کے کچھ کہنے سے پہلے جنید کی امی سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا اور کمرے کا دروازہ بند کرکے باہر نکل گئیں۔
”آپ بیٹھیں پلیز!” علیزہ نے قدرے ہکلاتے ہوئے جنید کی امی سے کہا۔ اسے اندازہ تھا اس وقت اس کے چہرے پر کتنے رنگ آرہے ہوں گے۔ وہ صوفہ پر بیٹھ گئیں۔
”تم بھی بیٹھو۔” جنید کی امی نے صوفہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ وہ کچھ جھجکتی ہوئی ان کے پاس آکر بیٹھ گئی۔
”جنید نے مجھے سب کچھ بتا دیا ہے۔” انہوں نے چند لمحے خاموش رہنے کے بعد کہا۔ علیزہ انہیں دیکھنے لگی۔”عمر کو ہمارے گھر آتے ہوئے بہت عرصہ ہو گیا ہے۔ جنید اور اس کی دوستی بہت پرانی ہے۔ پرانی دوستیوں میں بہت زیادہ جذبات اور احساسات انوالو ہو جاتے ہیں۔ اٹیچ منٹ بہت گہری ہو جاتی ہے اور عمر تو ہمارے لیے ہمارے گھر کے ایک فرد جیسا ہے۔ میں نہیں جانتی کہ تم اسے کیوں اتنا ناپسند کرتی ہو، یقیناً تمہارے پاس بھی اسے ناپسند کرنے کی کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہو گی بالکل اسی طرح جس طرح ہمارے پاس اسے پسند کرنے کی وجوہات ہیں، مگر عمر کو تمہارے اور جنید کے درمیان مسئلہ نہیں بننا چاہیے۔”
وہ چند لمحوں کے لیے رکیں۔
جنید تم سے محبت کرتا ہے اور یہ محبت عمر کی وجہ سے نہیں ہے۔ علیزہ تم ابھی ہمارے گھر نہیں آئی ہو، لیکن تم پچھلے ایک سال سے ہمارے گھر میں ہمارے ساتھ ہو۔ ہم سب کو بہت عادت ہو گئی ہے تمہاری یہ شادی نہ ہونے سے صرف جنید متاثر نہیں ہوگا ہم سب متاثر ہوں گے اور تم بھی متاثر ہو گی۔ تمہیں جنید سے ناراضی کا حق ہے لیکن اس ناراضی میں کم از کم تمہیں تو جنید جیسی کوئی احمقانہ حرکت یا قدم نہیں اٹھانا چاہیے۔” وہ اسے سمجھا رہی تھیں۔ ”ہم سب نے ہی تم سے عمر کے بارے میں چھپایا مگر یہ اس لیے نہیں تھا کہ ہم تمہیں دھوکہ دینا چاہتے تھے، یہ صرف اس لیے تھا کیونکہ ہم لوگ تمہیں تکلیف نہیں دینا چاہتے تھے۔ عمر تو جنید کا صرف دوست ہے مگر تم تو ہماری فیملی کا حصہ بن جاؤ گی۔ ہمارے لیے کس کی اہمیت زیادہ ہے تم اندازہ کر سکتی ہو، جنید کے لیے کس کی اہمیت زیادہ ہے یہ بھی تم جان سکتی ہو، تمہیں اگر یہ ناپسند ہے کہ عمر ہمارے گھر آئے تو میں عمر کو منع کر دوں گی۔ وہ گھر نہیں آئے گا مگر جہاں تک جنید اور عمر کی دوستی کا تعلق ہے اس کو رہنے دو۔ علیزہ! ان کے اس تعلق سے تمہاری اور جنید کی زندگی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ میں تمہیں اس بات کی گارنٹی دیتی ہوں مگر اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں پر اس طرح رشتوں کو ختم کرنا کم از کم میں تم سے اس کی توقع نہیں کرتی ۔ علیزہ! ہم سب بہت پریشان ہیں نہ صرف ہم بلکہ جنید بھی۔ میں چاہتی ہوں کچھ بھی ختم نہ ہو سب کچھ ویسا ہی رہے۔ جنید میرے ساتھ آیا ہوا ہے اور تم سے معذرت کرنے کے لیے تیار ہے۔”
علیزہ بالکل لاجواب تھی۔ وہ جنید کے گھر والوں کا سامنا کرتی کجا یہ کہ ان سے بات کرتی مگر جنید کی امی اس طرح اچانک اس کے پاس آگئی تھیں کہ وہ اپنی مدافعت کے لیے ان سے کچھ بھی نہیں کہہ پائی تھی۔
”ہماری زندگی ہمیشہ سے بڑی smooth (ہموار) رہی ہے، ہم نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ اس طرح اچانک ہماری زندگی میں کوئی کرائسس آئے گا۔”
وہ ایک بار پھر کہنے لگیں۔ علیزہ کے اعصاب کا بوجھ بڑھتا جا رہا تھا، وہاں بیٹھے ایک دم اسے اپنی ہر دلیل بے کار اور اپنا اقدام بچکانہ لگنے لگا تھا۔
”اس لیے ہم تو سمجھ ہی نہیں پا رہے کہ ہم کیا کریں، ابھی بہت زیادہ لوگوں کو پتہ نہیں چلا مگر…کچھ دنوں میں…نہیں علیزہ! ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ تمہاری میری فیملی کے ساتھ اتنی وابستگی تو ہے کہ تم ہماری فیلنگز کو سمجھ سکو، اس شرمندگی اور بے عزتی کا اندازہ کر سکو جس کا سامنا میری فیملی کو کرنا پڑے گا اور صرف میری نہیں تمہاری فیملی کو بھی، میں حیران ہوں کہ اتنی چھوٹی سی بات پر تم نے اتنا بڑا فیصلہ کیسے کر لیا۔ کیا تم نے اس کے نتائج کے بارے میں سوچا تھا۔”
علیزہ ان کے احساسات اور ذہنی کیفیات کو سمجھ رہی تھی، وہ یقیناً بہت زیادہ پریشان تھیں۔ علیزہ کے پاس اس کی کسی بات کا کوئی جواب نہیں تھا۔ وہ خاموش بیٹھی رہی جنید کی امی بہت دیر تک اسے سمجھاتی رہی تھیں اور شاید اس کی یہ مسلسل خاموشی انہیں حوصلہ افزا لگی تھی، وہ بہت دیر کے بعد اگلے دن دوبارہ آنے کا کہہ کر رخصت ہو ئیں۔

جنید کی امی کو اگر اس کی خاموشی، اس کا ہتھیار ڈال دینا لگا تھا تو واقعی ایسا ہی تھا۔ جن باتوں پر اسے پہلے سوچنا چاہیے تھا، وہ ان کے بارے میں اب سوچ رہی تھی۔ اشتعال اور جلد بازی میں کیے ہوئے فیصلے کے مضمرات اب پہلی بار اس کے سامنے آرہے تھے۔ یہ یقیناً جنید کی امی کی گفتگو کا نتیجہ نہیں تھا، اگرچہ ان کی گفتگو نے اس کی کنفیوژن اور پچھتاوے میں اضافہ کیا تھا مگر وہ اس پچھتاوے کا موجب نہیں تھیں۔ اسے ہر ایک سے اسی ردعمل کی توقع تھی مگر اسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ خود اس قدر شرمندگی اور ندامت محسوس کرے گی، اگر دوسروں کو میری پروا نہیں ہے تو مجھے بھی دوسروں کی پروا نہیں ہونی چاہیے۔” اس نے وہ نوٹس شائع کروانے سے پہلے سوچا تھا لیکن اب اسے احساس ہو رہا تھا کہ دوسروں کی پروا کرنے کے لیے مجبور ہے۔ کم از کم وہ ہر شخص کو ناراض کرکے خوش رہنے والے لوگوں میں شامل ہونے کی صلاحیت یا اہلیت نہیں رکھتی تھی اور جنید کیا واقعی، اس کے لیے کوئی احساسات رکھتی تھی…؟ اس شخص کے لیے جسے وہ چند ہفتوں میں اپنے ہم سفر کے طور پر دیکھ رہی تھی جس کے ساتھ وہ پچھلے ایک سال سے منسوب تھی جس کے ساتھ وہ مستقبل کو پلان کرتی پھر رہی تھی۔
وہ بار بار خود کو یہ یقین دلانے کی کوشش کر رہی تھی کہ جنید کو اس سے محبت نہیں ہے۔ اس سے شادی صرف عمر کی خواہش کا احترام تھا لیکن اب اسے احساس ہو رہا تھا کہ دوسری طرف جو کچھ بھی تھا، کم از کم اس کے لیے جنید کوئی عام شخص نہیں رہا تھا، وہ اسے بار بار یاد آرہا تھا بہت آہستہ آہستہ اس کا غصہ اور اشتعال ختم ہو رہے تھے۔
اگلے دو تین دن جنید کے گھر والے آتے رہے، جنید بار بار فون کرتا رہا۔ نانو اسے سمجھاتی رہیں، ثمینہ اپنی مجبوریاں اسے بتاتی رہیں، سکندر نے کراچی سے لاہور آکر اس سارے معاملے پر اس سے بات کی۔
اس نے چوتھے دن ہتھیار ڈال دیئے۔ اس نے اعتراف کیا تھا وہ پریشر کے سامنے نہیں ٹک سکتی تھی۔ وہ مضبوط نہیں تھی، اگر وہ ایسی کوشش کر بھی لیتی تو بھی کیا وہ جنید اور اس کی فیملی کے بغیر رہ سکتی تھی۔ وہ نہیں رہ سکتی تھی…وہ انہیں بھول نہیں سکتی تھی۔ وہ انہیں کاٹ کر اپنی زندگی سے الگ نہیں کر سکتی تھی۔
نانو نے اس کے فیصلے پر سکون کا سانس لیا تھا، اس کے اس فیصلے سے سب سے زیادہ مسائل کا سامنا انہیں ہی کرنا پڑتا تھا، وہ خوش تھیں کہ وہ بچ گئیں۔
”میں نہیں جانتا۔ میں تمہارا شکریہ کیسے ادا کروں؟” جنید نے فون پر اس سے کہا تھا۔
”اس کی ضرورت نہیں ہے۔” علیزہ نے جواباً کہا۔
”تم میرے لیے بہت اہم ہو۔”
”میں جانتی ہوں۔” اس نے مختصراً کہا۔
”Last few days were a nightmare I’m happy I’m out of it”
(پچھلے چند دن ایک بھیانک خواب کی طرح تھے، میں خوش ہوں کہمیں اس سے نکل آیا)
وہ اس کے لہجہ سے اس کے سکون اور اطمینان کا اندازہ کر سکتی تھی۔
”جنید! آپ نے ایک حقیقت مجھے بتا دی، ایک مجھے آپ کو بتانی ہے۔ کیا ہم کل مل سکتے ہیں؟” علیزہ نے کہا۔
”کل…کل نہیں، کل میں مصروف ہوں گا۔” جنید کو یاد تھا کل عمر لاہور آرہا تھا اور اسے عمر کے ساتھ ہونا تھا۔
”پرسوں ملتے ہیں۔” ”ٹھیک ہے، پرسوں ملتے ہیں۔”
عمر اور جنید ریسٹورنٹ میں بیٹھے ڈنر کررہے تھے۔
”پھر شادی کی نئی ڈیٹ کب طے ہو رہی ہے؟” عمر نے کانٹے سے مچھلی کے ایک ٹکڑے کو منہ میں ڈالتے ہوئے کہا۔
”پرسوں بابا جا رہے ہیں امی کے ساتھ۔” اس نے سلاد کا ایک ٹکڑا اٹھاتے ہوئے جواب دیا۔
”ہو سکتا ہے۔ پرانی والی ڈیٹ ہی دوبارہ رکھ دیں۔ ابھی بھی دس دن تو ہیں ایک نوٹس اور دینا پڑے گا۔” جنید نے کہا۔
”نہیں یار! ڈیٹ چینج کرو۔ اس طرح تو ہم لوگ بڑے مشکوک ہو جائیں گے کہ پتہ نہیں پہلے کیوں شادی کینسل کر رہے تھے اور اب کیوں دوبارہ اس ڈیٹ پر کررہے ہیں۔ لوگ یہی سمجھیں گے کہ لڑکی نے کوئی مسئلہ کھڑا کیا ہے۔” عمر ہلکے پھلکے انداز میں بولا۔
”تو مسئلہ کھڑا تو لڑکی نے ہی کیا تھا۔” جنید نے کہا۔
”نہیں جو بھی تھا۔ ہم لڑکی والے ہیں، ہماری پوزیشن خراب ہو گی۔” عمر نے اس کے جملے کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔
”اس سارے معاملے میں لڑکی والوں کا رول تو ہمارا ہی رہا ہے۔ تم لوگوں کو کیا پریشانی ہوئی ہے، سب کچھ تو ہمیں ہی کرنا پڑا ہے۔ منت سماجت صفائیاں وضاحتیں اور کیا کیا کچھ۔”
عمر نے مچھلی کھاتے کھاتے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔
”you deserved it”
تمہارے ساتھ یہی ہونا تھا کیونکہ کیا دھرا تو تمہارا ہی تھا۔” اس نے سنجیدگی سے جنید سے کہا۔
”میں نے تمہیں منع کیا تھا کہ اس کو میرے۔۔۔” جنید نے اس کی بات کاٹ دی۔
”تم چور ہو، ڈاکو ہو کیا ہو کہ میں تمہارے ساتھ اپنے تعلق کو اس سے چھپاتا۔”’
”میں پولیس والا ہوں اور وہ مجھے ان دونوں سے زیادہ برا سمجھتی ہے۔” عمر ہنستے ہوئے دوبارہ اپنی پلیٹ کی طرف متوجہ ہوا۔
”اگر کسی شخص سے محبت ہو تو اس سے وابستہ ہر چیزسے محبت ہو جاتی ہے۔”
عمر نے کھانا کھاتے ہوئے بے اختیار قہقہہ لگایا۔ جنید اس کے قہقہے پر کچھ جھینپ گیا۔
”اس سے زیادہ گھسا پٹا جملہ تم اس موقع پر نہیں بول سکتے تھے۔ یہ کہاں سے پڑھ لیا ہے تم نے جس سے محبت ہو، اس سے وابستہ ہر چیز سے محبت ہو جاتی ہے۔” وہ اب بھی اس کے فقرے پر محظوظ ہو رہا تھا۔
”میں نے پڑھا نہیں ، میں نے سنا ہے۔”
”تو آپ نے غلط سنا ہے جنید ابراہیم صاحب! ایسا تو غاروں کے زمانے کا انسان بھی نہیں کرتا ہوگا اور آپ بیٹھے ہیں ایک جدید دور میں۔”
”زمانہ بدلا ہے…تعلق، احساسات اور جذبات تو نہیں بدلے۔”
”یہ بھی تمہاری ذاتی رائے ہے، مشینی دور کے انسان کے جذبات بھی بدل چکے ہیں۔”
”جو بھی ہے، اس کو مجھ سے وابستہ لوگوں کی پروا کرنی چاہیے اور تم مجھ سے وابستہ ہو۔”
”اوہ بھئی کیوں کرنی چاہیے کیا تم ایسا کرتے ہو؟” جنید نے ایک بار پھر اس کی بات کاٹی۔
”میں ان تمام لوگوں سے محبت کرتا ہوں جن سے وہ کرتی ہے۔”
”اچھا؟ تو پھر تمہیں ان تمام لوگوں سے نفرت بھی ہونی چاہیے، جن سے وہ کرتی ہے۔”
جنید لاجواب ہو گیا۔ عمر ایک بار پھر اطمینان سے مچھلی کھانے میں مصروف تھا۔
”آسمان اپنی جگہ چھوڑ دے گا، زمین اپنی جگہ سے ہٹ جائے گی مگر مجھے یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ تم علیزہ کے خلاف کچھ کہو گے اور اس کے خلاف میری حمایت کرنا تو ویسے ہی ایک خواب ہے۔”
جنید نے اپنی پلیٹ میں پڑا ہوا چمچ اٹھاتے ہوئے کہا۔ عمر اس کی بات پر مسکرایا۔
”درست…تم یہ کوشش کر کیوں رہے ہو، تمہیں پتہ ہونا چاہیے کہ ہماری فیملی کا سلوگن ہے We are always right اور اپنی فیملی کے ایک ممبر کے خلاف اس طرح ریسٹورنٹ میں بیٹھ کر میں باتیں کروں، سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔”
جنید نے کچھ نہیں کہا۔ اس نے صرف ایک گہرا سانس لے کر اپنی پلیٹ میں کچھ ساس اور ڈالی، عمر مسکرانے لگا۔
”تمہاری یہ کزن۔۔۔” جنید نے کچھ کہنا چاہا عمر نے بھنویں اچکاتے ہوئے اس کی بات کاٹی۔
”اس بات سے تمہارا کیا مطلب ہے”میری کزن”

باب:54

TEN
9:10am
عمر نے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑے ہو کر بالوں میں برش کیا اس نے کل رات کو بال کٹوائے تھے۔ پولس فورس میں آنے سے پہلے تک وہ سال میں کئی بار ہیر سٹائل تبدیل کرنے کا شوقین تھا۔ دس سال پہلے سول سروس جوائن کرنے کے بعد اگرچہ یہ شوق کچھ کم ہو گیا مگر ختم نہیں ہوا۔ سول سروس میں وہ جس حد تک ہیر کٹ کے بارے میں آزاد روی کا مظاہرہ کر سکتا تھا اس نے کیا مگر پولیس سروس میں آکر یہ شوق یکدم ختم ہو گیا۔ وہ پچھلے کئی سالوں سے معمولی سی تبدیلیوں کے ساتھ کریوکٹ کو ہی اپنائے ہوئے تھا۔
کل رات بھی اس نے بالوں کو اسی انداز میں ترشوایا تھا، دو چار بار بالوں میں برش کرنے کے بعد اس نے برش ڈریسنگ ٹیبل پر رکھ دیا اور پرفیوم اٹھا کر اپنے اوپرسپرے کرنے لگا۔ سپرے کرتے ہوئے اپنی گردن پر نظر آنے والے چند سرخ نشانات نے اس کی توجہ اپنی طرف مبذول کرلی۔
پرفیوم ڈریسنگ ٹیبل پر رکھتے ہوئے اس نے گردن اوپر کرکے اپنے کالر کو کچھ کھولتے ہوئے ان نشانات کو دیکھا۔ کل شام کو گالف کھیلتے ہوئے اسے اس جگہ پر اچانک جلن اور خارش ہوئی تھی یقیناً کسی کیڑے نے اسے کاٹا تھا رات کی نسبت وہ اب کچھ معدوم ہونے لگے تھے۔ اس نے کچھ مطمئن ہوتے ہوئے اپنے کالر کو ایک بار پھر درست کیا پھر پلٹ کر اپنے بیڈ کی طرف گیا اور بیڈ سائیڈ ٹیبل پر پڑی ہوئی رسٹ واچ اٹھا کر اپنی کلائی پر باندھنے لگا۔ رسٹ واچ باندھنے کے بعد اس نے بیڈ سائیڈ ٹیبل پر پڑا ہوا اپنا موبائل سگریٹ کیس اور لائٹر اٹھایا۔
ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے آکر اس نے ان چیزوں کو ٹیبل پر رکھا اور سٹینڈ پر لٹکی کیپ اتار کر پہننے لگا۔ کیپ پہن کر اس نے ایک آخری نظر آئینے میں اپنے اوپر ڈالی پھر مطمئن ہوتے ہوئے اس نے ایک بار پھر موبائل، سگریٹ کیس اور لائٹر کو اٹھا لیا پھر جیسے اسے کچھ یاد آیا وہ واپس سائیڈ ٹیبل کی طرف گیا۔ اس بار اس نے دراز کھول کر اس کے اندر موجود والٹ نکالا اور اسے اپنی جیب میں ڈال لیا۔ اس کے بعد اس کی نظر اس کتاب پر پڑی جسے وہ رات کو سونے سے پہلے پڑھ رہا تھا۔ کتاب کو اس نے اوندھا کرکے کھلی حالت میں بیڈ سائیڈ ٹیبل پر رکھا ہوا تھا۔
اسے حیرت ہوئی، وہ عام طور پر کتابیں کبھی بھی اس طرح نہیں رکھتا تھا۔ پھر اسے یاد آیا رات کو وہ یہ کتاب پڑھ رہا تھا جب جوڈتھ کی کال آئی تھی۔ اس نے فون پر اس سے بات کرتے کرتے کچھ بے دھیانی کے عالم میں کتاب کو بک مارک رکھ کر بند کرنے کے بجائے اسی طرح سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا۔ وہ جوڈتھ سے بات ختم کرنے کے بعد دوبارہ اس کتاب کو پڑھنا چاہ رہا تھا مگر جوڈتھ سے اس کی بات بہت لمبی ہو گئی اور اس نے جس وقت فون بند کیا۔ اس وقت عمر کو نیند آنے لگی تھی۔ وہ کتاب کی طرف متوجہ ہوئے بغیر ہی سو گیا تھا۔
اس نے کتاب اٹھائی اور سائیڈ ٹیبل پر رکھا ہوا بک مارک اٹھا کر اس کے اندر رکھا پھر اسے بند کر دیا۔ کتاب کو واپس سائیڈ ٹیبل پر رکھنے کے بجائے وہ کتابوں کے اس شیلف کی طرف بڑھ گیا اس نے کتاب کو اس شیلف میں رکھ دیا۔ اگلے کچھ دن اسے اتنے کام کرنے تھے کہ اسے توقع نہیں تھی کہ وہ اس کتاب کو پڑھنے کے لیے اب وقت نکال سکے گا۔ کچھ دنوں تک اپنے کام نمٹانے کے بعد اسے اپنا سامان پیک کروانا تھا اور پھر اسے لاہور بھجوا دینا تھا اور اس کے بعد اسے لاہور سے امریکہ جانے کی تیاریوں میں مصروف ہو جانا تھا۔
اس کتاب کو وہ اب شاید امریکہ جا کر ہی پڑھنے کی فرصت نکال پاتا۔ وہ بھی اس صورت میں اگر وہ اس کے ذہن میں رہتی اور وہ اسے امریکہ ساتھ لے جاتا ورنہ اگلے کچھ سالوں تک وہ کتابیں گرینی کی انیکس میں ہی پڑی رہنی تھیں۔ وہ امریکہ جانے سے پہلے اپنے سامان کو ایک بار پھر وہیں رکھوانا چاہتا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا اس نے جوڈتھ کو رات کو اپنی امریکہ واپسی کے بارے میں بتا دیا تھا۔ وہ بے اختیار چلائی تھی۔
”تو بالآخر تم واپس آرہے ہو؟”
”ہاں بالآخر۔” عمر اس کے جوش و خروش پر مسکرایا۔
”کب تک رہو گے یہاں؟”
”اس مہینے کے آخر تک۔” کمرے کے دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے اسے رات کو جوڈتھ ہونے والی اپنی گفتگو یاد آنے لگی۔
Nine
9:20am
اسے اپنے کمرے سے نمودار ہوتے دیکھ کر ملازم تیزی سے اس کے کمرے کی طرف چلا آیا۔ عمر کے پاس آکر اس نے مؤدب انداز میں اسے سلام کیا عمر نے گردن کو ہلکا سا خم دیتے ہوئے اس کے سلام کا جواب دیا اور پھر سیدھا ڈائننگ ٹیبل کی طرف بڑھ گیا جبکہ ملازم میکانکی انداز میں اس کے بیڈ روم کی طرف چلا گیا۔
یہ روزانہ کا معمول تھا عمر کو اپنے کمرے سے باہر آتا دیکھتے ہی ملاز م اس کے بیڈ روم میں چلا جاتا اور پھر وہاں پڑا ہوا عمر کا بریف کیس اور اسٹک اٹھا کر اس کی گاڑی میں جا کر رکھ آتا۔
عمر عام طور پر نو بجے تک گھر سے نکل جاتا تھا مگر آج وہ قدرے لیٹ تھا۔ ڈائننگ ٹیبل کے پاس کھڑے دوسرے ملازم نے بھی اسے دیکھ کر سلام کیا اور پھر اس کے لیے کرسی کھینچنے لگا۔ ناشتہ پہلے ہی ڈائننگ ٹیبل پر موجود تھا۔ عمر نے اپنے ہاتھ میں پکڑی چیزیں ٹیبل پر رکھیں اور پھر کرسی پر بیٹھنے کے بعد اپنی کیپ بھی اتار کر ٹیبل پر رکھ دی۔
ملازم جان چکا تھا، وہ آج ناشتہ کرنے میں کچھ وقت لگائے گا۔ عام طور پر وہ جب بھی کیپ نہیں اتارتا تھا وہ زیادہ سے زیادہ ایک سلائس چائے کے ایک کپ کے ساتھ کھاتا اور پانچ منٹ کے اندر ناشتہ کی ٹیبل سے اٹھ جاتا اور جب وہ اپنی کیپ اتار دیتا، اس دن وہ ناشتے میں کسی نہ کسی چیز کی فرمائش ضرور کرتا اور اکثر پندرہ بیس منٹ لگا دیتا۔
”سر! آفس سے فون آیا ہے۔” ملازم نے اس کے لیے چائے انڈیلتے ہوئے اسے اطلاع دینا ضروری سمجھا۔
”کس لیے؟” عمر نے بھنویں اچکاتے ہوئے پوچھا۔
”آپ کے بارے میں پوچھ رہے تھے، میں نے انہیں بتا دیا کہ آپ آج کچھ دیر سے آئیں گے۔” ملازم نے کہا۔
”کوئی ایمرجنسی تو نہیں تھی؟”
”نہیں سر! وہ ایسے ہی روٹین میں اپ کے بارے میں پوچھ رہے تھے۔” عمر نے چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے سر ہلایا۔
”آج آملیٹ بنواؤ، فرائیڈ ایگ نہیں لوں گا۔” عمر نے ٹیبل پر ایک نظر ڈالتے ہوئے کہا۔
”جی سر۔” ملازم مستعدی سے ڈائننگ روم سے نکل گیا۔
عمر اس وقت چائے کا دوسرا کپ پی رہا تھا جب ملازم آملیٹ کی پلیٹ لیے ڈائننگ روم میں داخل ہوا۔
”شکل تو خاصی اچھی لگ رہی ہے غفور!” عمر نے پلیٹ میں موجود مشروم والے آملیٹ پر ایک نظر ڈالتے ہوئے مسکرا کر کہا۔
”انشاء اللہ تعالیٰ آپ کو ذائقہ بھی اچھا لگے گا سر۔” ملازم نے اس کے تبصرے کے جواب میں کہا اور سلائس والی پلیٹ اس کی طرف بڑھائی۔
”نہیں سلائس نہیں لوں گا۔ صرف آملیٹ ہی کھاؤں گا۔”
عمر نے اسے روک دیا۔ وہ اب چھری کانٹے کی مدد سے آملیٹ کے ٹکڑے کرنے میں مصروف تھا۔
”رات کو کیک کسٹرڈ اچھا بنا تھا۔ اگر ہے تو لے آؤ۔” اس نے مزید ہدایت دی۔
”جی سر۔” ملازم ایک بار پھر وہاں سے چلا گیا۔
جب وہ پیالہ لے کر وہاں آیا تو عمر آملیٹ کھانے میں مصروف تھا۔
”یہ واقعی ذائقے میں بھی اچھا ہے غفور! تمہارے کھانے دن بہ دن اچھے ہوتے جارہے ہیں۔”
عمر نے اسے دیکھ کر کچھ بے تکلفی سے کہا۔ غفور کا چہرہ اپنی تعریف پر چمکنے لگا تھا۔ عمر تعریف میں کبھی کنجوسی نہیں کرتا تھا۔ اس نے اب تک جتنے آفیسرز کے لیے کام کیا تھا اس میں اسے سب سے زیادہ عمر جہانگیر ہی پسند آیا تھا۔ وہ اگرچہ دوسرے آفیسر کی طرح ہی ریزرو رہتا تھا مگر وہ تعریف کرتے ہوئے ، کوئی تکلف نہیں برتتا تھا۔ وہ ویسے بھی خاصے کھلے دل اور جیب کا مالک تھا۔ اکثر اوقات اسے اور دوسرے ملازمین کو کچھ نہ کچھ دیتا رہتا تھا، ملازمین کی چھوٹی موٹی سفارشیں بھی مان لیتا تھا، یہ سب چیزیں بہت سے دوسرے آفیسرز میں بھی تھیں مگر غفور کو وہ اس لیے پسند تھا کیونکہ وہ غصے میں بھی ان کی تذلیل کرنے کا عادی نہیں تھا۔ وہ غلطی کرنے پر جھڑکنے میں تامل نہیں کرتا تھا مگر یہ ڈانٹ ڈپٹ ایسی نہیں ہوتی تھی کہ ان لوگوں کو تذلیل کا احساس ہوتا۔
”سر! رات کے لیے کیا بناؤں؟” غفور نے اس سے پوچھا۔
”جو چاہے بنا لو ، اب تو چند دن مہمان ہیں تمہارے تم جو چاہو کھلاؤ مگر رات کو تو شاید میں کھانے پر نہ آ سکوں۔ بہت دیر سے آؤں گا اور کھانا کھا…مگر عین ممکن ہے کہ آ ہی نہ سکوں مجھے کہیں ادھر ادھر جانا پڑے۔” عمر نے واش بیسن کی طرف جاتے ہوئے کہا۔
”کوئی بات نہیں سر…میں پھر بھی کھانا بنا لوں گا۔ ہو سکتا ہے آپ آ ہی جائیں۔”
غور نے اس کے پیچھے لپکتے ہوئے کہا۔ وہ اب واش بیسن میں کلی کر رہا تھا۔ غفور کی بات کے جواب میں کچھ بھی کہنے کے بجائے وہ خاموش رہا،غفور اب ٹاول سٹینڈ سے ٹاول اتار کر اسے دے رہا تھا۔ عمر ہاتھ خشک کرنے کے بعد دوبارہ ٹیبل کی طرف چلا گیا اور کیپ اٹھا کر پہننے لگا۔ غفور نے مستعدی سے موبائل ، سگریٹ کیس اور لائٹر ٹیبل سے اٹھا کر عمر کی طرف بڑھا دیا۔ عمران چیزوں کو ہاتھ میں لیتے ہوئے بیرونی دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ غفور اس سے پہلے دروازے پر پہنچ چکا تھا۔ دروازے کے پاس موجود قد آدم آئینے کے پاس پہنچ کر عمر ایک بار رکا اور اس نے اپنی کیپ پر نظر ڈالی پھر مطمئن ہو کر اس نے دروازے سے باہر قدم رکھ دیا جسے غفور اب کھول چکا تھا۔
”خدا حافظ سر۔” عمر نے اپنی پشت پرروز کی طرح غفور کی آواز سنی۔
Eight
9:30am
گاڑی کے پاس کھڑے گارڈز نے عمر کو دیکھ کر سیلوٹ کیا، ڈرائیور اب تک فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھول چکا تھا۔ عمر نے اپنے ہاتھ میں پکڑی چیزیں ڈیش بورڈ پر رکھیں اور خود اندر بیٹھ گیا۔ ڈرائیور نے اس کے اندر بیٹھنے کے بعد دروازہ بند کر دیا۔ دونوں گارڈز بھی جیپ کی پچھلی نشست پر بیٹھ گئے۔ دور گیٹ پر موجود گارڈ اب گیٹ کھول رہا تھا۔ وہ عمر کو باہر نکلتے اور گاڑی میں بیٹھتے دیکھ چکا تھا۔ ڈرائیور اب اپنی سیٹ پر بیٹھ کر گاڑی سٹارٹ کرنے لگا۔
گیٹ پر موجود گارڈز بہت مستعدی کے عالم میں کھڑے تھے۔ عمر کی گاڑی پاس سے گزرنے پر انہوں نے عمر کو سیلوٹ کیا عمر نے گلوز کمپارٹمنٹ کھول کر اندر موجود اپنے سن گلاسز نکالے اور انہیں آنکھوں پر چڑھا لیا۔ گیٹ کے باہر موجود پولیس کی ایک اور موبائل نے عمر کی گاڑی کے باہر آنے کے بعد اس کے پیچھے بھاگنا شروع کر دیا۔ وہ عمر کی گاڑی کو escort (حفاظت ) کر رہی تھی۔
سڑک پر اس وقت خاصی ٹریفک تھی۔ عمر نے اپنی گھڑی پر ایک نظر ڈالی، وہ جانتا تھا دس منٹ کے اندر وہ اپنے آفس میں ہوگا۔ اس کے گھر سے اس کے آفس کا فاصلہ صرف دس منٹ کا تھا۔
وہ تنقیدی نظروں سے سڑک پر چلنے والی ٹریفک کو دیکھتا رہا۔ اکثر گاڑیوں کے ڈرائیور اس کے لیے راستے چھوڑ رہے تھے۔ اسے سڑک پر بجتے ہوئے ہارن کی آواز سے بے حد کوفت ہوتی تھی اور اس وقت سڑک پر بے تحاشا ہارن بج رہے تھے، اس کی اپنی گاڑی کا ڈرائیور چاہتے ہوئے بھی ہارن نہیں بجا رہا تھا۔ عمر جہانگیر کی موجودگی میں کم از کم وہ یہ جرأت نہیں کر سکتا تھا۔ اسے آج بھی اچھی طرح یاد تھا جب تقریباً دو سال پہلے عمر نے وہاں جوائننگ لی تھی۔ اس کے ساتھ پہلے ہی سفر میں اس نے حسب عادت سڑک پر آتے ہی ہارن دیا تھا۔ عمر نے اسے گھور کر دیکھا تھا۔
”دوبارہ ہارن مت دینا۔ کم از کم جب تک میری گاڑی ڈرائیو کر رہے ہو، یہ بھول جانا کہ گاڑی میں ہارن نام کی کوئی چیز ہے یا تو گاڑی اتنی تیز اور اچھی چلاؤ کہ ہر طرح کی ٹریفک سے نکل جاؤ یا پھر انتظار کرو پولیس کی گاڑی دیکھ کر لوگ خود ہی کچھ دیر میں راستہ صاف کر دیں گے اور اگر یہ دونوں چیزیں نہیں ہوتیں تو انتظار کرو کبھی نہ کبھی تو راستہ ملے گا مگر یہ ہارن دوبارہ استعمال نہیں ہونا چاہیے، ورنہ میں تمہیں اور ہارن دونوں کو گاڑی سے نکال کر پھینک دوں گا۔”
ڈرائیور نے اس کے بعد واقعی کبھی ہارن کا استعمال نہیں کیا تھا۔ پتہ نہیں کیوں اسے یہ یقین تھا کہ عمر واقعی ایسا ہی کرے گا، وہ دوسری بار اسے وارننگ نہیں دے گا۔
اپنے آفس کے راستے میں آنے والے واحد چوک پر کھڑے ٹریفک کانسٹیبل نے عمر کی گاڑی پاس سے گزرنے پر اسے سیلوٹ کیا۔
”جبار! آج میری کار کو سروس کے لیے جانا۔”
عمر نے اچانک ڈرائیور کو مخاطب کیا۔ وہ اپنی ذاتی گاڑی کی بات کر رہا تھا۔
”ٹھیک ہے سر کس وقت؟” ڈرائیور نے مستعدی سے کہا۔
”میں کچہری میں جب ایک دو گھنٹوں کے لیے جاؤں گا، اس وقت تم گاڑی لے جانا مگر زیادہ سے زیادہ دو گھنٹوں میں تمہیں واپس ہونا چاہیے۔ اگر گاڑی کا کوئی لمبا چوڑا کام نکل آیا تو پھر تم اسے وہیں چھوڑ دینا اور خود آ جانا کیونکہ آج مجھے خاصی جگہوں پر جانا ہے۔” عمر نے اسے مزید ہدایات دیں۔
”ٹھیک ہے سر میں دو گھنٹوں سے پہلے ہی واپس آجاؤں گا۔”
”درزی سے میرے کپڑے لے آئے؟” عمر کو اچانک یاد آیا۔ اس نے چند دن پہلے دو شلوار قمیص سلوانے کے لیے بھجوائے تھے۔
”یس سر وہ تو میں کل شام کو لے آیا تھا۔ ابھی گاڑی میں ہی پیچھے پڑے ہیں۔ مجھے یاد نہیں رہا گھر میں دینا میں کچھ ایمرجنسی میں کل شام کو جلدی چلا گیا تھا۔” ڈرائیور نے قدرے معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔
”ہاں کیسی ہے تمہاری بیوی اب؟” عمر کو اس کی ایمرجنسی کی بات سن کر یاد آیا۔
”اب تو بہتر ہے سر ہڈی تو بچ گئی مگر چوٹ خاصی آئی ہے۔ مجھے تو کل بڑی بھاگ دوڑ کرنی پڑی اس کے لیے۔”
”ہاسپٹل میں ہے؟”
”نہیں سر! گھر لے آیا تھا میں رات کو…ہاسپٹل میں رکھنے کی ضرورت نہیں تھی۔”
”یہ کون سی بیوی ہے پہلی یا دوسری؟” عمر جانتا تھا جبار کی دو بیویاں تھیں، دوسری شادی اس نے چھ ماہ پہلے ہی کی تھی۔
”سر! دوسری والی۔ ” جبار نے جواب دیا۔
”ہاں مجھے پہلے ہی اندازہ تھا۔ یہ دوسری بیوی ہی ہو سکتی تھی جس کے لیے تم اس طرح بھاگے بھاگے جا سکتے تھے۔”
عمر نے تبصرہ کیا۔ بیک ویومرر میں اس نے پیچھے بیٹھے ہوئے گارڈز کو آپس میں معنی خیز مسکراہٹوں کا تبادلہ کرتے دیکھا۔ جبار عمر کی بات پر کچھ جھینپ گیا۔
”نہیں ایسی بات نہیں ہے سر جی…میں تو پہلی کا بھی بہت خیال رکھتا ہوں۔” جبار نے عمر کے تبصرے کے جواب میں کہا۔
”یہ قابل یقین بات تو نہیں ہے مگر چلو یقین کر لیتا ہوں۔” عمر نے قدرے شگفتگی سے کہا۔
وہ اب ایک بار پھر سڑک پر نظر آنے والی ٹریفک کی طرف متوجہ ہو چکا تھا۔ گاڑی اب اس کے آفس کے قریب ہو گئی تھی۔ چند منٹوں کے بعد گاڑی اس کے دفتر کے کمپاؤنڈ میں داخل ہو رہی تھی۔ آفس کے اندر اور باہر اس کے عملے میں روٹین کی ہلچل نظر آنے لگی۔
Seven
9:40am
عمر آفس میں پہنچ کر معمول کے کاموں میں مصروف ہو گیا۔ اس کا پی اے اس کے سامنے ٹیبل کے دوسرے طرف کھڑا تھا۔
” سر ڈی سی صاحب کی کال آئی تھی ، آپ کے آنے سے چند منٹ پہلے، انہوں نے کہا ہے کہ آپ آفس آئیں تو ان سے بات کروا دوں۔”
”کوئی ایمرجنسی ہے؟”
”نہیں سر! میرا خیال ہے۔ کوئی ایمرجنسی نہیں ہے۔ وہ شاید کسی معاملے میں آپ سے بات کرنا چاہتے ہوں گے۔ میں نے ان کے پی اے سے اس بارے میں پوچھا تھا مگر خود اسے بھی کوئی اندازہ نہیں تھا مگر اس نے یہ ضرور بتایا کہ کوئی ایمرجنسی نہیں ہے۔” پی اے نے اپنی رائے ظاہر کی۔
”کوئی اور کال آئی؟”
”نو سر…بس ان ہی کی کال تھی۔”
”میں ان سے کچھ دیر بعد بات کروں گا۔ تم فی الحال ڈکٹیشن کے لیے بیٹھ جاؤ۔” عمر نے اس سے کہا۔
”یس سر۔” پی اے مستعدی سے بیٹھ گیا۔ وہ اس فائل کو دیکھتے ہوئے اسے ڈکٹیشن دینے لگا۔ یکے بعد دیگرے اس نے ٹیبل پر پڑی ہوئی دو تین اور فائلز کو بھی دیکھا اور ان کے بارے میں بھی اسے ڈکٹیشن دی۔ وہ ساتھ ساتھ کچھ اور فائلز پر نوٹ لکھنے میں بھی مصروف تھا۔
تقریباً ایک گھنٹہ کے بعد وہ آخری ڈکٹیشن دے کر ایک گہری سانس لیتا ہوا خاموش ہو گیا۔
”یہ بس اب میری آخری ڈکٹیشن ہے۔ کل میں شاید آفس نہ آؤں اور اگر آیا بھی تو زیادہ دیر کے لیے نہیں آؤں گا۔” عمر نے اس سے کہا۔
”میرا خیال ہے دو تین دن تک سعود ہمدانی یہاں پہنچ ہی جائیں گے، ابھی اپنے کچھ کام نپٹا رہے ہیں ورنہ شاید اب تک پہنچ ہی گئے ہوتے۔” اس نے آنے والے ایس پی کا نام لیا۔
”اب میں مزید کوئی فائلز نہیں دیکھوں گا۔ سعود ہمدانی ہی آکر دیکھیں گے۔ خاص طور پر ان کیسز کی فائلز…انہیں اچھی طرح سٹڈی کی ضرورت ہے اس لیے میں انہیں چھوڑ رہا ہوں اب ان دو تین دنوں میں میرے کچھ وزٹس ارینج کر دو۔”
عمر نے کچھ جگہوں کے نام لیتے ہوئے کہا۔ پی اے اپنی نوٹ بک میں نوٹس لیتے ہوئے ”یس سر” کی تکرار کرتا گیا۔
Six
10:50am
میز پر پڑا فون اچانک بجنے لگا۔ عمر نے گفتگو کا سلسلہ منقطع کرتے ہوئے ریسیور اٹھا لیا۔
”سر! ڈی سی صاحب کی کال ہے۔” آپریٹر نے اسے بتایا۔
”بات کرواؤ۔” عمر نے سامنے وال کلاک پر نظر ڈالتے ہوئے کہا۔
”ٹھیک ہے، اب تم جاؤ۔” اس نے ریسیور کان سے لگائے ہوئے پی اے سے کہا۔ وہ کمرے سے نکل گیا۔ چند لمحوں کے بعد عمر کو ریسیور میں سید سلطان شاہ کی آواز سنائی دی۔
”میں ابھی کچھ دیر پہلے ہی آفس آیا ہوں۔ آپ کو کال کرنے ہی والا تھا۔” عمر نے رسمی سلام دعا کے بعد قدرے معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔
”کوئی بات نہیں اب تو میں نے کر ہی لی ہے۔” سید سلطان نے دوستانہ انداز میں کہا۔
”آج رات کو کیا کررہے ہو؟”
”رات کو…کچھ خاص نہیں شاید پھر آفس میں ہی ہوں گا…یا پھر کہیں پٹرولنگ پر۔”
”تو بس ٹھیک ہے پھر تم رات کا کھانا ہمارے ساتھ کھاؤ۔” سید سلطان نے طے کیا۔
”تمہاری آنٹی مجھے پہلے ہی کئی دن سے کہہ رہی ہیں کہ تمہیں کھانے پر انوائیٹ کروں۔ آج تم پھر ہماری طرف آ جاؤ۔ جانے سے پہلے ہمارے ساتھ ڈنر کر لو۔” سید سلطان نے بے تکلفی سے کہا۔
”I’m honoured آپ حکم کریں میں حاضر ہو جاؤں گا۔” عمر نے مسکراتے ہوئے کہا۔ سید سلطان جہانگیر معاذ کے دوستوں میں سے تھے اور چند ماہ پہلے ہی عمر کے شہر میں ان کی پوسٹنگ ہوئی تھی۔
”خیر حکم والی تو کوئی بات نہیں ہے۔ حکم تمہارے باپ کو دیتا ہوں۔ تم باپ کی طرح ڈھیٹ نہیں ہو، میں جانتا ہوں ویسے ہی آجاؤ گے۔”
سید سلطان نے برجستگی سے کہا، عمران کے جملے پر ہنسا۔
”میں آپ کے انویٹیشن کا پہلے ہی انتظار کر رہا تھا۔ چاہتا تھا کہ جانے سے پہلے آنٹی کے ہاتھ کا کھانا ایک بار کھا لوں۔” سید سلطان نے اس کی بات کاٹی۔
”یہ تمہارے اپنے کرتوت ہیں جن کی وجہ سے تم ایک دو بار سے زیادہ ہماری طرف نہیں آئے۔ اب تم کس قدر فارمل ہو کر اپنی حسرتوں کا اظہار کررہے ہو۔جانے سے پہلے آنٹی کے ہاتھ کا کھانا ایک بار کھا لوں۔ ایک بار کیوں دس بار کھاؤ۔ ”وہ اب اسے اپنے مشہور زمانہ انداز میں جھڑک رہے تھے۔
”جی…جی مجھے پتہ ہے۔ میری اپنی کوتاہی ہے۔” عمر نے فوراً کہا۔
”کوئی خاص ڈش بنوانی ہو تو بتا دو…میں تمہاری آنٹی سے کہہ دوں گا۔” سید سلطان نے آفر کی۔
”آنٹی کی ہر ڈش خاص ہوتی ہے۔ میں سب کچھ خوشی سے کھاؤں گا۔”
”ٹھیک ہے، پھر آٹھ بجے ہونا چاہیے تمہیں ہماری طرف۔” سید سلطان نے اسے ہدایت دیتے ہوئے فون بند کر دیا۔
Five
11:00am
عمر نے سگریٹ کیس سے ایک سگریٹ نکال کر سلگایا۔ وہ اس وقت اپنے آفس میں بالکل اکیلا تھا۔ سگریٹ کے کش لگاتے ہوئے وہ ان مقامی اخبارات پر ایک نظر ڈالنے لگا جو اس کی میز پر پڑے تھے۔ اس کے عملے نے اہم یا پولیس سے متعلقہ خبروں کو ہائی لائٹ کیا ہوا تھا۔ اس وجہ سے اسے تمام اخبارات کا تفصیلی مطالعہ کرنا نہیں پڑتا تھا۔ وہ بڑے قومی اخبارات کامطالعہ آفس میں صبح آتے ہی کیا کرتا تھا جبکہ لوکل اخبارات کی باری دوپہر کے قریب آتی تھی۔
اس وقت بھی ان اخبارات کو دیکھتے ہوئے اسے اپنے بارے میں چند سرخیاں نظر آئیں اس کے پوسٹ آؤٹ ہونے کے حوالے سے چند خبریں لگائی گئی تھیں اور پھر ایک مقامی کالم نویس نے اس کی پوسٹنگ کے دوران اس کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے اس کی شان میں زمین و آسمان کے قلابے بھی ملائے تھے۔ وہ مسکراتے ہوئے کالم کو پڑھتا رہا۔ وہ کالم نویس ہر جانے والے افسر کی تعریف میں اس وقت تک زمین آسمان ایک کیے رکھتا تھا جب تک کہ نیا افسر نہ پہنچ جاتا اور نئے افسر کی آمد کے ساتھ ہی وہ کالم نویس پچھلے افسر کی برائیوں کی تفصیلات اور آنے والے کے قصیدے اکٹھے ہی پڑھنا شروع کر دیتا۔
اس وقت بھی اس کالم کو پڑھتے ہوئے اسے اس شخص کے جھوٹ اور چاپلوسی کی انتہا پر حیرانی ہو رہی تھی۔ اس نے وہ کام بھی اس کے کھاتے ہی ڈالنے کی کوشش کی تھی، جو اس نے وہاں اس شہر میں تو کیا کسی دوسرے شہر کی پوسٹنگ میں بھی کبھی نہیں کیے تھے۔ وہ کالم نویس قصیدہ خوانی میں کمال مہارت رکھتا تھا یا پھر وہ کالم بھی اس کے عملے میں سے کسی کی کاوش تھی۔ صاحب کو جاتے جاتے خوش کرنے کی ایک کوشش۔
وہ کچھ محظوظ ہو کر سگریٹ کے کش لگاتے ہوئے وہ کالم پڑھتا رہا۔
کالم پڑھنے کے بعد اس نے دوسری خبروں پر نظریں دوڑانا شروع کر دیں۔ ایک خبر بار کی طرف سے اس کے اعزاز میں الوداعی دعوت کی تھی۔ ایک اور دعوت چیمبر آف کامرس کی طرف سے دی جا رہی تھی۔ اسے وکیلوں اور کاروباری افراد سے جتنی چڑ تھی کسی اور سے نہیں تھی مگر پولیس سروس میں اسے سب سے زیادہ سابقہ ان ہی دو طبقات سے پڑتا تھا۔
دس منٹ میں ان اخبارات کا جائزہ لینے کے بعد اس نے انہیں واپس ٹیبل پر رکھ دیا۔ اپنے چپڑاسی کو بلوا کر اس نے گاڑی تیارکروانے کے لیے کہا۔ اسے اب کچہری جانا تھا۔
اپنے آفس سے نکل کر وہ باہر جانے کے بجائے پولیس سٹیشن کا راؤنڈ لینے لگا۔ ہمیشہ کی طرح اسے اس دن بھی بہت سی چیزوں کی طرف اپنے عملے کی توجہ مبذول کروانی پڑی کچھ کے یونیفارم کی حالت اتنی ہی خستہ تھی جتنی ہمیشہ ہوتی تھی۔
دس منٹ میں اس نے اپنا راؤنڈ مکمل کیا اور باہر کمپاؤنڈ میں نکل آیا۔ اس کے گاڑی میں سوار ہونے کے بعد ایک بار پھر گارڈز اور ڈرائیور نے اپنی نشست سنبھال لی تھی اس کے آفس سے کچہری تک کا فاصلہ پندرہ منٹ میں طے ہوتا تھا۔
Four
11:35am
کچہری میں موجود اپنے آفس میں پہنچ کر اس نے وہاں موجود کاموں کو نپٹانا شروع کر دیا۔ ملاقاتیوں کی ایک لمبی لائن تھی جسے وہاں بھگتانا تھا اور ہر ایک کا مسئلہ ایک سے بڑھ کر ایک تھا۔ پولیس سروس میں آکر اس کی پنجابی میں جتنی روانی آئی تھی، وہ پہلے کبھی نہیں آ سکتی تھی۔ فارن سروس کا جہاں اور جہاں تھا، پولیس سروس کی دنیا اور دنیا تھی۔ مقامی زبان سے ناواقفیت بڑے سے بڑے افسر کو بھی بعض دفعہ بری طرح ڈبویا کرتی تھی۔ عمر نے پولیس سروس میں آنے کے بعد بہت جلدی اس زبان کا اس طرح کا استعمال سیکھ لیا تھا جس طرح کے استعمال کی ضرورت تھی باقی کی فصاحت و بلاغت اس کے ماتحت عملے نے اسے سکھا دی تھی۔
وہاں اس سے ملنے والوں میں زیادہ تعداد دیہاتیوں یا عام شہریوں کی تھی۔ وہ وہاں بیٹھنے کے اوقات میں ہمیشہ بڑی تیزی اور مستعدی سے ملاقاتیوں کو بھگتایا کرتا تھا۔ اس کے باوجود وہ جب وہاں سے اٹھتا۔ آفس کے باہر کوریڈور میں موجود ملاقاتیوں کی تعداداتنی ہی ہوتی۔
آج بھی وہ اسی پھرتی اور مستعدی سے درخواستوں پر احکامات جاری کر رہا تھا۔
Three
12:40pm
اس کے موبائل کی بیپ بج رہی تھی سامنے بیٹھے ہوئے ملاقاتی سے بات کرتے کرتے اس نے میز پر پڑا ہوا موبائل ہاتھ میں لے کر کالر کا نمبر دیکھا۔ وہ جنید تھا۔ اس نے کال ریسیو کی۔
”ہیلو جنید کیسے ہو؟” اس نے جنید کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
”فائن۔” دوسری طرف سے جنید نے مختصر جواب دیا۔ عمر کو حیرت ہو رہی تھی۔ جنید عام طور پر دن کے اوقات میں اسے آفس میں فون نہیں کرتا تھا اور وہ بھی کام کے دوران ۔ وہ رات کو اسے فون کیا کرتا تھا یا پھر شام کو۔
”اس وقت کیسے کال کر لیا تم نے؟” عمر پوچھے بغیر نہیں رہ سکا۔
”تم لاہور کب آرہے ہو؟” جنید نے اس کے سوال کا جواب دیئے بغیر کہا۔
”بس دو تین دن میں ، کیوں کوئی پرابلم تو نہیں ہے؟” عمر کو اچانک تشویش ہوئی۔
”نہیں کوئی پرابلم نہیں ہے، میں تم سے کچھ بات کرنا چاہتا ہوں۔” دوسری طرف سے اس نے کہا۔


”پھر تم رات کو مجھے کال کر لو یا پھر میں تمہیں کال کر لیتا ہوں۔”
”نہیں میں فون پر بات نہیں کرنا چاہتا۔” اس بار جنید کے انداز نے اسے کچھ چونکایا۔
”پھر؟”
”آمنے سامنے بات کرنا چاہتا ہوں۔”
”خیر تو ہے۔”
”ہاں خیر ہی ہے۔”
”کس چیز کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہو؟”
”بہت ساری چیزیں…یہ جب تم لاہور پہنچو گے تب ہی بتاؤں گا۔”
”اتنا پراسرار بننے کی کیا ضرورت ہے۔ صاف صاف بات کرو یار۔”
”تم لاہور پہنچ جاؤ پھر کافی صاف صاف باتیں ہوں گی۔” عمر ایک لحظہ کے لیے خاموش رہا۔
”علیزہ ٹھیک ہے؟” اس نے پتہ نہیں کیا جاننے کی کوشش کی۔
”ہاں بالکل ٹھیک ہے۔”
”شادی کی تیاریاں کیسی چل رہی ہیں؟”
”وہ بھی ٹھیک چل رہی ہیں۔”
عمر کو کچھ اطمینان ہوا۔ کم از کم اس بار علیزہ اور اس کے درمیان کوئی گڑبڑ نہیں تھی، ہو سکتا تھا کوئی اور معاملہ ہو۔
”میں دو تین دن تک فارغ ہو کر لاہور آجاؤں گا۔ پھر اطمینان سے تم سے بات چیت ہو گی۔” عمر نے اس سے کہا۔
”میں صرف تمہاری واپسی کے بارے میں ہی جاننا چاہتا تھا۔”
”اچھا پھر میں کروں گا تمہیں رات کو کال۔ کچھ گپ شپ رہے گی ابھی آفس میں ہوں۔” عمر نے خدا حافظ کہتے ہوئے فون بند کر دیا۔
Two
1:20pm
”میں چائے پینے آیا ہوں آپ کے ساتھ۔” سامنے کرسی پر بیٹھے ہوئے سیشن جج رضوان قریشی نے عمر سے کہا۔ وہ ابھی کچھ دیر پہلے ہی اس کے کمرے میں آیا تھا۔ اس کا آفس عمر کے آفس سے کچھ فاصلے پر تھا اور وہ وقتاً فوقتاً عمر کے دفتر میں آتا جاتا رہتا۔ دونوں چائے اکثر ساتھ ہی پیتے۔
عمر نے اس کی بات کے جواب میں کچھ کہنے کے بجائے گھنٹی بجا کر اردلی کو بلوایا اور چائے لانے کے لیے کہا۔
”چلیں آج آخری بار آپ کو چائے پلوا دیتے ہیں۔ اس کے بعد تو پھر موقع نہیں آئے گا۔” عمر نے اردلی کے جانے کے بعد رضوان قریشی سے کہا۔
”کیوں ابھی تو آپ چند دن اور ہیں یہاں۔”
”ہاں مگر یہاں کچہری میں آج میرا آخری دن ہے۔ پرسوں سعود ہمدانی چارج لے رہے ہیں۔ کل میں یہاں نہیں آؤں گا۔ کچھ courtsey calls میں مصروف رہوں گا۔” عمر نے تفصیل بتائی۔
”بہت اچھا وقت گزرا عمر جہانگیر صاحب آپ کے ساتھ…اچھی گپ شپ ہو جاتی تھی۔”
”ہاں مگر دس پندرہ منٹ کی۔۔۔” عمر نے مسکرا کر کہا۔
”چلیں دس پندرہ منٹ ہی سہی مگر اچھا ٹائم گزرتا تھا۔” رضوان قریشی بھی مسکرایا۔
”اس میں کوئی شک نہیں۔” عمر نے سر ہلاتے ہوئے ٹیبل پر پڑی ہوئی چیزوں کو سمیٹنا شروع کر دیا۔
”لاہور جانے سے پہلے میری طرف ایک چکر لگائیں ، کھانا کھاتے ہیں اکٹھے۔” رضوان قریشی نے آفر کی۔
”ضرور کیوں نہیں مگر کھانا کھانا ذرا مشکل ہے، ان دو تین دن کے لئے خاصی کمٹمنٹس ہو چکی ہیں میری مگر جو کچھ آفیشل فیرویل اور ڈنرز ہو رہے ہیں، اس میں تو آپ بھی انوائیٹڈ ہوں گے، اکٹھا کھانے کا موقع تو وہاں بھی مل جائے گا۔” عمر جہانگیر نے کہا۔
”آفیشل ڈنر میں اور گھر پر ہونے والی دعوت میں بڑا فرق ہوتا ہے۔”
”پھر کبھی سہی رضوان صاحب! بعد میں ملاقات تو رہے گی آپ سے۔” عمر نے کہا۔
”کہاں میل ملاقات رہے گی…آپ تو فوری چھٹی پر بیرون ملک جا رہے ہیں۔” رضوان قریشی نے یاد دہانی کروائی۔
”ہاں مگر پاکستا ن آتا جاتا رہوں گا اور پھر دوبارہ جوائن تو کرنا ہی ہے۔”
”تب کیا پتہ ہم کہاں ہوں…آپ کہاں ہوں۔”
”جہاں بھی ہوں گا میں آپ سے رابطہ رکھوں گا۔” عمر نے کہا۔
اگلے پندرہ منٹ اس نے رضوان قریشی کے ساتھ چائے اور سگریٹ پیتے ہوئے گزارے۔ پھر رضوان قریشی بڑی گرم جوشی کے ساتھ اس سے مل کر آفس سے نکل گیا۔
اس کے جانے کے بعد عمر نے اگلے پندرہ منٹ وہاں موجود عملے کے ساتھ الوداعی بات چیت کی۔ اپنے آفس میں موجود اپنی چیزوں کو وہ پہلے ہی اپنی گاڑی میں بھجوا چکا تھا۔
One
1:50pm
کچہری میں موجود اپنے آفس سے نکل کر وہ دوبارہ اپنی گاڑی میں آ بیٹھا۔ جبار گاڑی چلاتے ہوئے دوبارہ اسے مین روڈ پر لے آیا۔ عمر نے ایک بار پھر سن گلاسز لگا لیے تھے۔
”کار سروس کروا لی ہے میری؟” عمر نے جبار سے پوچھا۔
”جی سر…میں کروا کر گھر چھوڑ کر آیا ہوں۔”
”کسی خرابی وغیرہ کے بارے میں کہا تو نہیں مکینک نے؟”
”نہیں سر…گاڑی بالکل ٹھیک ہے، اس نے چیک کی تھی اچھی طرح۔”
عمر سر ہلاتے ہوئے باہر دیکھنے لگا پھر اچانک ایک خیال آنے پر اس نے کہا۔
”راستے میں سے سگریٹ کا پیکٹ لینا ہے۔”
”جی سر۔” ڈرائیور نے کہا۔ چند منٹوں کے بعد اس نے راستے میں نظر آنے والی ایک مارکیٹ کے سامنے پارکنگ میں گاڑی روک دی اور کچھ کہے بغیر گاڑی سے اتر گیا۔ وہ عمر کے لیے اکثر اسی مارکیٹ کی ایک شاپ سے سگریٹ خریدا کرتا تھا۔
وہ تین منٹ میں سگریٹ خرید کر واپس آگیا۔ عمر نے سگریٹ کا پیکٹ اس سے لیتے ہوئے سگریٹ کو کیس میں رکھنے کے بجائے پیکٹ میں سے ایک سگریٹ نکالا اور پیکٹ کو ڈیش بورڈ پر رکھ دیا۔ ڈرائیور تب تک گاڑی سٹارٹ کرکے اسے ریورس کرتے ہوئے پارکنگ سے نکال رہا تھا۔ پولیس موبائل باہر سڑک پر ہی کھڑی تھی۔ ڈرائیور گاڑی ایک بار پھر مین روڈ پر لے آیا۔
عمر نے لائٹر سے ایک ہاتھ میں اوٹ بناتے ہوئے ہونٹوں میں دبا ہوا سگریٹ سلگایا اور پھر لائٹر کو دوبارہ ڈیش بورڈ پر رکھ دیا۔ کھڑکی کے شیشے کو اس نے کچھ اور نیچے کر دیا تاکہ دھواں آسانی سے باہر جاتا رہے، وہ اب اپنے باقی دن کی مصروفیات کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ گاڑی تیزی سے سڑک پر رواں دواں تھی۔ دائیں طرف سے ایک موٹر سائیکل نے عمر کی گاڑی کو اوورٹیک کیا۔ موٹرسائیکل پر موجود دو آدمیوں میں سے پیچھے بیٹھے ہوئے شخص نے اپنے جسم کے گرد چادر لپیٹی ہوئی تھی۔ عمر کی گاڑی میں موجود گارڈز ہاتھ میں پکڑے ہتھیار لے کر یکدم چوکنا ہوتے ہوئے اوورٹیک کرتے ہوئے اس موٹرسائیکل کو دیکھنے لگے۔
سگریٹ پیتے ہوئے عمر نے بھی ونڈ سکرین سے آگے نکلتی ہوئی اس موٹرسائیکل کو اچٹتی نظروں سے دیکھا۔ موٹرسائیکل پر بیٹھے داڑھی والے نوجوان لڑکوں میں سے کسی نے عمر کی گاڑی کی طرف نہیں دیکھا تیزی سے موٹرسائیکل چلاتے ہوئے وہ دونوں آپس میں باتوں میں مصروف تھے اور اسی تیز رفتاری کے ساتھ موٹرسائیکل چلاتے ہوئے وہ عمر کی گاڑی سے بہت آگے نکلتے ہوئے آنے والی ایک دوسری سڑک پر مڑ گئے۔
پیچھے بیٹھے ہوئے گارڈز یکدم مطمئن ہو گئے۔ عمر نے سگریٹ کی راکھ کو جھٹکا اور سگریٹ کا ایک اور کش لگایا گاڑی کی سپیڈ اب آہستہ ہو رہی تھی۔ انہیں بھی اسی سڑک پر مڑنا تھا جس سڑک پر وہ موٹرسائیکل گئی تھی۔
اس سڑک پر مڑتے ہی وہ موٹرسائیکل رک گئی۔ پیچھے بیٹھے ہوئے لڑکے نے بڑی پھرتی کے ساتھ اپنی چادر کے اندر سے ایک اسٹین گن نکالی اور اس کے ٹریگر پر ہاتھ رکھتے ہوئے وہ بالکل خاموشی سے موٹرسائیکل پر یوں بیٹھ گیا جیسے اسے کسی کا انتظار ہو۔ اس سڑک پر ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی۔ چند راہگیروں اور اکا دکا موٹرسائیکل اور گاڑی والوں نے انہیں دیکھا مگر صرف تجسس بھری نظروں سے دیکھ کر گزر گئے۔
اسٹین گن پکڑے ہوئے لڑکے کے ہاتھ میں بندھی ہوئی گھڑی نے اچانک سگنل دینا شروع کر دیا۔
”آگیا۔” اس کے منہ سے نکلا، کسی نے یقیناً موڑ پر پہنچنے والی عمر کی گاڑی کے بارے میں انہیں اطلاع دی تھی۔ موٹرسائیکل چلانے والا موٹرسائیکل کے ہینڈلز پر ہاتھ رکھے ہوئے مستعد ہو گیا۔ اسٹین گن اوپر ہو گئی۔ عمر کی گاڑی کا بونٹ نظر آیا۔ گاڑی مڑ رہی تھی۔ اس نوجوان نے ہونٹ بھنیچتے ہوئے ٹریگر دبا دیا۔ پہلا برسٹ ٹائرز پر پڑا تھا۔ گاڑی کو یکدم بریک لگے اور اس سے پہلے کہ گاڑی کا ڈرائیور یا گارڈز صورت حال کو سمجھ کر کچھ کر سکتے دوسرے برسٹ نے ونڈ سکرین کو چھلنی کر دیا۔ پولیس کی پیچھے آنے والی موبائل نے اچانک سائرن بجانا شروع کر دیا۔ موٹرسائیکل ایک فراٹے کے ساتھ اس سڑک پر بھاگنے لگی۔ وہ نوجوان اسٹین گن اپنی چادر کے اندر کر چکا تھا۔ جب تک موبائل موڑ مڑ کر عمر کی گاڑی کراس کرتے ہوئے آگے آئی اس سڑک پر سے موٹرسائیکل غائب ہو چکی تھی۔
Zero
2:00pm
فضا میں تڑتڑاہٹ کی آواز کے ساتھ ہی جبار چلایا۔
”حملہ سر۔” اس کا پاؤں بریک پر تھا۔ وہ آگے کچھ نہیں کہہ سکا۔ وہ دو طرف سے گولیوں کی زد میں آیا تھا۔ ڈرائیور سیٹ کی کھڑکی اور ونڈ سکرین سے…اچانک لگنے والے بریک کے جھٹکے سے عمر یکدم جھک گیا۔ اس کا سر ڈیش بورڈ کے پاس تھا۔ جب اس نے جبار کی چیخیں سنیں اور ونڈ سکرین کی کرچیوں کو اڑتے دیکھا۔ ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں اس نے پہلے اپنے کندھے اور پھر اپنی گردن میں لوہے کی گرم سلاخیں سی گھستی محسوس کیں۔ وہ بے اختیار چلایا تھا پھر یکے بعد دیگرے اس نے کچھ اور سلاخوں کو اپنی گردن ، کندھے اور کندھے کی پشت میں دھنستے محسوس کیا۔ کتنی؟ وہ نہیں بتا سکتا تھا۔ پھر فضا میں یکدم خاموشی چھا گئی۔ اس کا سر ڈیش بورڈ پر ٹکا ہوا تھا۔ گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بھی کوئی کراہ رہا تھا۔ درد کی شدت…چند سیکنڈز کے لیے کھلی نظروں سے اس نے ڈیش بورڈ سے سر ٹکائے ٹکائے اپنی آنکھوں میں اترتی دھند کو جھٹکنے کی کوشش کرتے ہوئے نیچے دیکھا۔ اس کے گھٹنے کے قریب خاکی ٹراؤزز خون سے بھیگ رہی تھی اس کی گردن کے اطراف اور عقب سے نکلنے والا خون ایک دھار کی صورت میں اس کی گردن کے نیچے والے حصے سے بہہ رہا تھا۔ اس نے سائرن کی آواز سنی۔ اس نے سانس لینے کی کوشش کی وہ جانتا تھا۔ پولیس موبائل ابھی اس کے پاس ہو گی وہ جانتا تھا وہ اگلے چند منٹوں میں ہاسپٹل لے جایا جائے گا، اس کے ذہن میں بہت سارے خیالات گڈمڈ ہو رہے تھے۔ چہرے آوازیں…ماضی…حال…چیزیں…لوگ…وہ سانس لینے میں کامیاب نہیں ہو پا رہا تھا۔ وہ چیخ یا کراہ بھی نہیں سکتا تھا۔ اس کے احساسات مکمل طور پر مفلوج نہیں ہوئے تھے اس نے دیکھا اس کے ہاتھ میں دبا سگریٹ خون کے اس تالاب میں گرا ہوا تھا جو اس کے پیروں کے پاس پائیدان میں جمع ہو گیا تھا مگر وہ ابھی سلگ رہا تھا ۔ اس میں سے اٹھتا ہوا دھواں عجیب سے انداز میں اوپر اٹھ رہا تھا۔ چند سیکنڈ میں اس نے سگریٹ کے شعلے کو مکمل طور پر بجھتے دیکھا پھر دھواں بند ہو گیا۔
اس کی آنکھوں سے پانی نکل رہا تھا اور اس کی ناک سے خون وہ اپنے سر کو سیدھا کرنا چاہتا تھا کوئی اس کا دروازہ کھول رہا تھا کوئی اس کے قریب بلند آواز میں بول رہا تھا۔
اس نے علیزہ کے چہرے کو اپنے ذہن کی سکرین پر ابھرتے دیکھا۔ بے اختیار اس نے سانس لینے کی کوشش کی پھر اس نے اس کے ساتھ جنید کو دیکھا وہ سانس نہیں لے سکا۔ اسے اپنا دایاں بازو کسی کے دونوں ہاتھوں کی گرفت میں محسوس ہوا۔ کوئی اس کے دائیں کندھے پر ماتھا ٹکائے رو رہا تھا۔ وہ ان آنکھوں سے بہنے والے آنسوؤں کی نمی کو شرٹ کے اندر اپنے بازو پر محسوس کر رہا تھا۔
”مجھ سے یہ مت کہو کہ تم مجھ سے محبت نہیں کرتے، تمہیں پتہ ہے اس سے کتنی تکلیف ہوتی ہے مجھے۔”
اس نے اپنے بائیں کندھے پر کسی کے ہاتھ کی گرفت محسوس کی، کوئی اسے سیدھا کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس نے اپنے دائیں کندھے کو کسی کی گرفت سے آزاد ہوتے پایا۔ ایک گہری تاریکی نے اس کو اپنے حصار میں لے لیا۔
ڈوبتے ہوئے ذہن کے ساتھ جو آخری احساس تھا، وہ کسی کے اسے گاڑی سے نکالنے کی کوشش کا تھا۔ اس کے ذہن میں ابھرنے والا آخری خیال اس کی ممی کا تھا۔

باب:55

علیزہ بی بی آپ ہاسپیٹل چلی جاہیں وہ گاڑی پورچ میں کھڑی کر کے ابھی نیچے اتر ہی رہی تھی جب مرید بابا نے اسے کہا ۔
ہاسپیٹل کس لئے ؟اس نے حیرانی سے اسے دیکھا ۔
عباس صاحب کا فون آیا تھا انہوں نے کہا ہے ،مرید باب نے بتایا ۔
عباس کا لیکن کیوں؟ اسے اس بار تشویش ہوئی .
بس آپ وہاں چلی جاہیں انہوں نے کہا ہے۔
نانو اور ممی کہاں ہیں؟ علیزہ پریشان ہو گئی
وہ لوگ شاپنگ کے لیے گئی ہیں ،۔ عباس صاحب بھی ان کا پوچھ رہے تھے پھر انہوں نے کہا کہ انہیں بھی پیغام دی دیں اور آپ کو بھی ۔انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ آپ اپنا موبائل آن کریں اور ان سے رابطہ کریں ۔مرید بابا نے کہا ،
کون سا ہاسپیٹل؟ علیزہ نے گاڑی میں دوبارہ بیٹھتے ہوئے کہا ۔
سروسز ہاسپیٹل مرید بابا نے بتایا۔
آپ نے ان سے پوچھا سب کچھ ٹھیک ہے نا ؟ جی میں نے پوچھا تھا انہوں نے بتایا ایکسیڈینٹ ہوا ہے ۔
ایکسیڈینٹ کس کا ؟
عمر صاحب کا مرید بابا نے بتایا
اس کے دل کی ایک دھڑکن مس ہوئی۔
عمر کا وہ ٹھیک تو ہے ،؟
آپ ان سے بات کر لیں انہوں نے جلدی فون بند کر دیا تھا ۔
مرید بابا نے کہا ۔
علیزہ نے ڈرائیونگ سیٹ پے بیٹھتے ہوئے بیگ سے موبائل نکالا اور اسے آن کرتے ہوئے عباس کے موبائل پر کال کی ۔
کاہن مصروف تھی پریشانی کے عالم میں اس نے اپنی گاڑی باہر نکال لی ۔
راستے میں اس نے ایک بار پھر عباس کو کال ملائی کال اب بھی مصروف تھی ،دوسری بار کال کے بعد موبائل رکھ رہی تھی کہ دوسری طرف سے کال آنے لگی اب کی بار عباس کی کال آرہی تھی۔
ہیلو عباس بھائی عمر کو کیا ہوا ہے کال ریسیو کرتے ہی علیزہ نے پریشانی سے پوچھا دوسری طرف چند لمحے کی خاموشی چھا گئی ۔
پھر عباس نے کہا ۔تم کہاں ہو ؟ میں سروسز ہاسپیٹل آرہی ہوں بس راستے میں ہوں ،،..... عمر کو کیا ہوا ہے ؟
کچھ نہیں بس چھوٹا سا ایکسیڈینٹ ہوا ہے ۔اب ٹھیک ہے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے تم آرام سے ڈرائیور کرو ۔اپنی گاڑی میں آ رہی ہو ?
ہاں۔۔
اور گرینی کہاں ہیں؟
وہ میرے ساتھ نہیں ہیں شاپنگ کے لیے ممی کے ساتھ گئی ہیں ۔
ٹھیک ہے تم آ جاؤ وہ اب اسے اس گیٹ کا بتا رہے تھے جہاں سے اسے آنا تھا،.
میں سیکیورٹی والوں کو تمہارا نمبر دے دیتا ہوں وہ تمہیں روکیں گے نہیں
عباس نے کہہ کر فون رکھ دیا اس نے بے اختیار سکون کا سانس لیا۔
اس کا مطلب ہے کہ عمر ٹھیک ہے۔
لیکن پھر اس نے سوچا پتا نہیں اسے کتنی چوٹیں آئیں ہوں گی ۔
اور میں نے یہ بھی تو نہیں پوچھا کہ وہ زخمی کیسے ہوا ہے اسے خیال آیا۔عباس کو دوبارہ فون کرنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ وہ سروسز کے باہر پہنچ چکی تھی۔
اور وہاں ہاسپیٹل کی چار دیواری میں جگہ جگہ پولیس کی گاڑیاں اور اہل کار تھے۔
اسے یہ چیز غیر معمولی نہیں لگی تھی ۔کسی حادثے میں پولیس کے اعلی افسر کے زخمی ہونے پر وہاں پولیس کا ہونا ضروری تھا اور پھر وہ جانتی تھی وہاں سیکیورٹی کی ضرورت تھی۔
وہ متعلقہ گیٹ سے اندر چلی گئی وہاں پولینڈ کی تعداد باہر سے بھی زیادہ تھی۔وہ گاڑی پارک کرنے لگی جب اس کے موبایل پر کال آنے لگی ،.
گاڑی سے باہر نکلتے وقت اس نے کال ریسیو کی ۔
وہاں دوسری طرف صالحہ تھی
گیٹ سی اندر آتے ہوئے اس کی نظر سائرن بجاتی پولیس کی گاڑیوں اور ایمبولینس پر پڑی جو اسی گیٹ سے ہاسپیٹل کے اندر داخل ہو رہی تھیں ۔
ہیلو علیزہ دوسری طرف سے صالحہ کی آواز آئی ،؟
ہیلو۔۔۔
گاڑی لاک کرتی وقت اس کی نظر ایمبولینس پر ہی تھی جو اس کے پاس آ کر رکی تھی۔
اس کے اردگرد پولیس کے اہلکاروں کا ہجوم تھا وہ اندازہ کر سکتی تھی کہ اس کے اندر عمر ہو گا وہ مظطرب سی ہو گئی۔
دوسری طرف صالحہ کی آواز سنائی دی آئ ایم سوری،...
سوری کس لئے ؟
وہ صالحہ کی بات پر کچھ حیران ہوئی تھی ۔اس کی نظر اب بھی ایمبولینس کے پچھلے کھلے دروازے پر تھی جو اب پورا کھل چکا تھا ۔
عمر جہانگیر کی ڈیتھ کے لئے دوسری طرف سے صالحہ کی آواز سنائی دی۔
موبائل اس کی ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گر گیا
اس کی نظر ایمبولینس سی نکلتے سٹیچر پر تھی جس میں سفید چادر پے لپٹی ڈیتھ باڈی تھی جس پر جگہ جگہ خون نظر آرہا تھا۔
فوٹوگرافر کے فلیش ....
سٹیچر کے ساتھ چلتا عباس...
اس کے باقی کزنز....
اس نے ایک قدم آگے بڑھایا ۔۔دوسرا ۔۔تیسرا۔۔۔اور پھر اس نے خود کو بھاگتے پایا ۔۔
وہ ہجوم کو کاٹتے ہوئے آگے آہی ایک پولیس والے نے اسے روکنا چاہا اسنے اسے دھکا دیا اس کے ایک کزن نے اسے آسے آتے دیکھا اور پھر کسی نے اسے روکنے کی کوشش نہیں کی۔
وہ بھاگتی ہوئی سٹیچر کے قریب آئی ۔عباس نے اسے آتے دیکھا تو سٹیچر سے اپنا ہاتھ ہٹا لیا اور اس کے نزدیک تیزی سے آیا اس کے گرد اپنے بازو پھیلاتے ہوئے اسے ایک طرف کیا سٹیچر کی رفتار میں کوئی کمی نہیں آئی تھی ۔
وہ اس کے اتنے نزدیک سے گزرا کے وہ اسے ہاتھ بڑھا کے چھو سکتی تھی سفید چادر پر جس جگہ سب سے زیادہ خون تھا وہ اس کا سر اور چہرہ ہی ہو سکتا تھا ۔
لیکن وہ ہاتھ بھی نا بڑھا پائی ۔
وہ یقین ہی نہیں کر سکتی تھی کہ اس سٹیچر پر اس سفید چادر پر خون میں لپٹا وجود عمر کا ہے
عمر جہانگیر کا۔۔۔۔۔
اس کی نظروں تو آپریشن تھیٹرز تک جاتے سٹیچر کا تعاقب کیا پھر اس نے گردن موڑ کر پہلی بار عباس کو دیکھا ۔
عمر ۔۔اس نے کچھ کہنے کی کوشش کی تھی مگر آواز نہیں نکلی پس ہونٹوں نے زرا سی جمبش کی تھی۔
عباس نے شکست خور سر ہلایا ۔وہ بے یقینی سے اس کا ستا ہوا چہرہ دیکھنے لگی ۔
ایک فوٹوگرافر نے دونوں کی تصویر بنائی فلیش کی چمک ہوتے ہوئے اس نے عباس کو غضب ناک ہوتے دیکھا ۔
اس باسٹرڈ سے کیمرہ کے کر دھکے دے کر یہاں سے نکالو وہ اب کسی سے کہہ رہا تھا ۔
علیزہ نے چند پولیس اہلکاروں کو اس فوٹوگرافر کی طرف بڑھتے دیکھا ۔
عباس کو غلط فہمی ہوئی ہو گی یہ عمر نہیں ہو گا کوئی اور ہو گا ۔
ماوف ذہن کے ساتھ اس نے آپریشن تھیٹر کے بند دروازے کی طرف دیکھا ۔اس نے عباس کے کندھے کو اپنے بازو سے ہٹانے کی کوشش کی ۔وہ عمر کو اس کے موبائل پر رنگ کرنا چاہتی تھی۔
اسے یاد آیا اس کے پاس نا اس کا بیگ تھا نا فون گاڑی کی چابی تک نہ تھی۔
علیزہ اس کمرے میں چلی جاؤ ،،تانیہ وہاں ہے میں کچھ دیر میں آتا ہوں ۔
عباس اسے ایک طرف لے جانے کی کوشش کرنے لگا ۔
مجھے موبائل دیں ؟ مجھے بات کرنی ہے ،
وہ اب کسی دوسرے کے ریڈار میں تھی ۔
ان کا ایک اور کزن خضر علی اب وہاں تھا ۔اور اب عباس کچھ کہہ رہا تھا ۔
علیزہ کے لیے ان کی باتیں سمجھنا مشکل ہو رہا تھا۔
ان کے ساتھ چلتے ہوئے اب علیزہ ایک کمریے میں داخل ہو رہی تھی ۔وہاں ثانیہ تھی اور اس کے فیملی کی چند اور عورتیں تھی ۔
پلیز مجھے فون دیں اس نے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا ۔کس کو کال کرنی ہے ؟عباس نے پوچھا ۔
عمر کو۔۔۔۔
عباس نے ثانیہ کو اشارہ کیا take care of her اسے سنبھالو ۔
ثانیہ نے اسے بازو سے پکڑ کر ایک طرف لے جانے کے کوشش کی ۔
علیزہ نے درشتنی سے اپنا ہاتھ چھڑایا ۔
میں آپ سے فون مانگ رہی ہوں اور آپ مجھے اپنا موبائل نہیں دے رہے ۔اب کی با ر علیزہ نے بلند آواز سے کہا ۔عباس نے ایک نظر باہر کھڑے ہجوم پر ڈالی ۔
خضر تم چلو میں آتا ہوں اور پھر آہستگی سے دروازے کو بند کیا ۔
مجھے فون دیں میں اسے فون کرنا چاہتی ہوں ۔علیزہ ایک بار پھر سے غرائی۔
جسے تم فون کرنا چاہتی ہو وہ اب نہیں ہے علیزہ پلیز تم ۔۔
علیزہ نے اس کی بات کاٹی ۔
میری بات کروا دیں ان سے پلیز آپ لوگوں کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے اسے کچھ نہیں ہوا ۔عمر کو کچھ نہیں ہو سکتا ۔
اب کی بار اس کی آواز میں بے چارگی تھی ۔
اس کے گرد اتنی سیکیورٹی ہوتی ہے اسے کیسے کچھ ہو سکتا ہے عمر کو کچھ نہیں ہو سکتا آ پ لوگوں کو ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے ۔۔۔
عباس بھائی وہ بے ربط جملے بول رہی تھی ۔
کیا کہہ رہی تھی وہ نہیں جانتی تھی کیا کہنا چاہتی تھی وہ یہ بھی نہیں جانتی تھی ۔
عباس کے چہرے کی تھکن اور شکستی اس کے خوف میں اضافی کر رہی تھی مگر خوف؟
کیا خوف تھا اسے ؟ بے یقینی؟ کیسی بے یقینی؟
عباس نے اس بار کچھ نہیں کہا وہ ایک ٹیبل کی طرف بڑھ گیا ۔اب کی بار علیزہ کی نظر اس کے ہاتھ پر پڑی ۔
اس کے ہاتھ میں سیلڈ پیکٹ تھا جسے وہ اب کھول رہا تھا اور اس میں موجود چیزیں آہستگی سے ٹیبل پر رکھ رہا تھا ۔
وہ عما کا موبائل ،گلاسز،سگریٹ کیس ،لائٹر ،گھڑی ،والٹ اور چند دوسری چیزیں تھیں ۔
وہ کچھ چیزوں کو پہچانتی تھی کچھ کو نہیں ۔
کچھ بھی کہے سنے بغیر وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے میز کے پاس آ کر کھڑی ہوئی ۔
میز پر پڑی کچھ چیزیں خون آلود تھیں ،وہ انہیں پکڑنے کی ہمت نہ کر سکی بس اپنے ہاتھ میز پر رکھے یک ٹک انہیں دیکھنے لگی۔
وہ سب چیزیں کبھی اس شخص کی زندگی کا ایک حصہ تھیں ۔جسے وہ اپنے وجود کا ایک حصہ سمجھتی تھی ۔
ان سب چیزوں پر اس شخص کے ہاتھوں کا لمس تھا جسے کبھی اس نے سب سے زیادہ چاہا تھا ۔
عمر جہانگیر اب ختم ہو چکا تھا ۔سامنے پڑا موبائل اب کبھی عمر کے ساتھ اس کا رابطہ نہیں کروا سکتا تھا ۔
اس نے وہیں بیٹھ کر ٹیبل پر اپنا سر ٹکا لیا ور مٹھیاں بھینچ کر روتی گئی ۔
میں نے کبھی اس سے یہ نہیں کہا تھا وہ اس طرح چلا جائے ۔وہ بے اختیار روتی چلی گئی ۔بچوں کی طرح جنونی انداز میں ۔
اس لمحے اس پر پہلی بار انکشاف ہوا تھا کہ اسے عمر سے کبھی نفرت نہیں ہوئی تھی ۔اسے اس سے نفرت ہو ہی نہیں سکتی تھی۔صرف ایک دھوکہ اور فریب تھا جو وہ اپنے آپ کو دے رئی تھی صرف اس خواہش اور امید پر کے شاہد کبھی اسے عمر سے نفرت ہو جائے ۔۔
کبھی ۔۔کبھی۔۔کبھی ۔۔۔شاید کبھی
تم کرسٹی کے مرنے پر اتنا روئی ہو تو میرے مرنے پر کتنا روں گی؟عمر نے بڑی سنجیدگی سے اس سے پوچھا ۔
آ پ کس طرح کی باتیں کر رہے ہیں اس نے برا مان کر کہا ۔
پوچھ رہا ہوں اپنی معلومات کے لیے عمر مسکرایا۔۔
علیزہ کرسٹی کے مرنے پر چار دن سے وقفے وقفے سے رو رہی تھی اور وہ دو فون پر کرسٹی کی وفات کا سن کر تعزیت کے لیے اسلام آباد سے آ یا تھا۔۔
وہ اس قدر رنجیدہ اور وقفے وقفے سے رو رئی تھی کہ عمر جو صرف ایک دن کے لیے آ یا تھا اس کی حالت دیکھ کر چار دن یہاں رکا ۔۔
چوتھے دن جب وہ ڈرائیور کے ساتھ ائیرپورٹ پر اسے چھوڑنے کا رہی تھی تو اس نے اس سے پوچھا تھا۔۔
اس طرح کی باتیں نہ کریں علیزہ کو ایک بار پھر کرسٹی یاد آ ئی۔مجھے پتا ہے آ پ کو کچھ نہیں ہو سکتا۔۔
کیوں ؟ عمر حیران ہو کر اسے دیکھے گیا۔۔
بس مجھے پتا ہے۔۔۔ اور پھر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی ۔۔۔۔
تم میرے لیے رونا نہیں چاہتی ہو اس لیے ایسے کہہ رہی ہو ۔علیزہ کی اآنکھوں میں ایک بار پھر آ نسوں آنے لگے ۔۔
اوکے ۔۔اوکے سوری ۔۔۔
مگر کرسٹی بہت لکی ہے جس کے لئے تم اتنا روئی ۔وہ سوری کرتے کرتے بھی باز نہیں آیا۔۔۔۔۔
ثانیہ نے اسے کندھوں سے پکڑ کر اسے سیدھا کرنے کی کوشش کی عباس اب ہونٹ بھینچے ان سب چیزوں کو دوبارہ پیکٹ میں ڈالنے لگا ۔۔۔
جسٹ ریلیکس علیزہ رونے سے وہ واپس تو نہیں آ جائے گا نا ۔ثانیہ نے اس کے کندھے کو دباتے ہوئے کہا ۔۔
میرے رونے سے تو آ جاتا تھا ۔۔۔
مجھے اس کے پاس جانا ہے میں اس کے پاس رہنا چاہتی ہوں۔۔۔۔
اس کا پوسٹ مارٹم ہو رہا ہے علیزہ میں کچھ دیر تک تمہیں اس کے پاس لے جاؤ گا عباس نے اس کے کندھے کو تھپکتے ہوئے کہا ۔۔۔
وہ بے بسی سے روتی گئی بہت سالوں بعد وہ ایسے سب کے سامنے رو رہی تھی ۔۔۔
آ نسوں کو روکنے کی ارادی اور غیر ارادی کوشش کئے بغیر ۔۔۔
تم کبھی میچور نہیں ہو سکتی علیزہ تم کبھی میچور نہیں ہو سکتی اس حالت میں بیٹھے ہوئے اسے پہلی بار عمر کی ہر بات کا یقین آ رہا تھا۔۔
وہ ٹھیک کہتا تھا وہ جزباتی تھی اور امیچور تھی ۔۔۔وہ عمر کے کسی حصے میں ان دونوں خامیوں سے نجات نہیں پا سکتی تھی ۔۔صرف عمر تھا جو اسے جانتا تھا اور اچھے سے جانتا تھا ۔۔۔
عباس اب کمرے سے باہر جا رہا تھا ۔عباس کے یونیفارم نے ایک بار پھر اسے عمر کی یاد دلا دی تھی ۔۔
کیا کچھ نہ تھا جو اسے اس کی یاد نہ دلاتا ۔۔۔وہ گھٹنوں میں سر دے کر روتی گئی ۔۔۔۔۔۔
تو یہ ہوتی ہے زندگی
اور یہ محبت
ایک وقت میں ایک ہی چیز ختم ہوتی ہے، دونوں نہیں اور اس وقت اس کے دل میں عمر کے لیے کوئی شکایت، کوئی گلہ، کوئی شکوہ نہیں تھا اور اب زندگی میں کبھی ہو بھی نہیں سکتا تھا۔
”فائرنگ کی تھی کسی نے۔ گاڑی میں اس کا ایک گارڈ اور ڈرائیور بھی مارا گیا۔ عباس کو اس ایکسیڈنٹ کی دس منٹ بعد ہی اطلاع مل گئی تھی۔ وہ بہت اپ سیٹ تھا۔ یہاں سے خود ہیلی کاپٹر میں گیا تھا اس کی باڈی لانے کے لیے، میں کوشش کرتی رہی کہ تم لوگوں کو کسی طرح ٹریس آؤٹ کر لوں مگر نہیں کر سکی۔ خود عبا س نے بھی بہت کوشش کی۔”
تانیہ دھیمی آواز میں ساتھ والی کرسی پر بیٹھی کہہ رہی تھی۔ علیزہ کے لیے یہ سب اطلاعات بے معنی تھیں۔
”وہ چند دنوں میں امریکہ جانے والا تھا ایکس پاکستان لیو پر اور یہ سب کچھ ہو گیا۔” علیزہ نے یکدم سر اٹھا کر دھندلائی ہوئی آنکھوں سے اس کو دیکھا۔
”تمہیں لگتا ہے، میں چلا جاؤں گا تو تمہارے اور جنید کے درمیان سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا؟ اگر ایسا ہے تو میں واقعی دوبارہ کبھی تم دونوں کے درمیان نہیں آؤں گا۔ میں جنید سے دوبارہ کبھی نہیں ملوں گا۔”
”تم کچھ پوچھنا چاہتی ہو؟” تانیہ نے اسے مخاطب کیا، علیزہ نے نفی میں سر ہلا دیا۔ اس کے گلے میں آنسوؤں کا پھندا سا لگ گیا تھا۔
”تم ہارڈ کور کریمنل ہو۔ بس فرق یہ ہے کہ تم نے یونیفارم پہنا ہوا ہے جس دن یہ یونیفارم اتر جائے گا ، اس دن تم بھی اسی طرح مارے جاؤ گے جس طرح تم دوسرے لوگوں کو مارتے ہو۔”
علیزہ نے شکست خوردگی کے عالم میں سر جھکا لیا۔
اس نے زندگی میں خود کو اس سے زیادہ شکستہ اور قابل رحم کبھی محسوس نہیں کیا تھا۔
”وہ کتنی تکلیف سے گزرا ہو گا۔ کتنا درد برداشت کرنا پڑا ہوگا اسے۔” وہ ایک بار پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
”کون کہتا ہے کہ کسی شخص سے ایک بار محبت ہونے کے بعد اس سے نفرت ہو سکتی ہے۔ جو کہتا ہے وہ دنیا کا سب سے بڑا جھوٹا ہے۔
cycle of replacement میں صرف محبت کی replacement نہیں ہوتی۔ خود کو فریب دینے کے باوجود ہم جانتے ہیں کہ ہمارے وجود میں خون کی گردش کی طرح بسنے والا نام کس کا ہوتا ہے۔ ہم کبھی بھی اسے اپنے وجود سے نکال کر باہر نہیں پھینک سکتے۔ تہ در تہہ اس کے اوپر دوسری محبتوں کا ڈھیر لگائے جاتے ہیں، کہتے جاتے ہیں۔ اب ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔ اب ہم اس سے محبت کرتے ہیں لیکن جو زیادہ دور ہوتا جاتا ہے وہ زیادہ قریب آتا جاتا ہے اور وہ ہمارے دل اور دماغ کے اس حصے میں جا پہنچتا ہے کہ کبھی اس کو وہاں سے نکالنا پڑے تو پھر اس کے بعد ہم نارمل زندگی گزارنے کے قابل ہی نہیں رہتے۔
وہ اس کی محبت میں اٹھارہ سال کی عمر میں گرفتار ہوئی تھی۔ وہ واحد شخص تھا جس سے وہ ہر بات کر لیتی تھی، بہت ساری وہ باتیں بھی جو وہ کبھی شہلا اور نانو سے بھی نہیں کر سکتی تھی۔
وہ واحد شخص تھا جو اس کے نخرے برداشت کرتا تھا۔ ناز اٹھاتا تھا۔ اس نے عمر جہانگیر کے علاوہ کسی سے اتنی ضد نہیں کی تھی۔ کسی کو اتنا تنگ نہیں کیا تھا۔ اس نے عمر جہانگیر کے علاوہ کسی کو برا بھلا بھی نہیں کہا تھا۔ کسی سے بدتمیزی بھی نہیں کی تھی۔ کسی پر چیخی چلائی بھی نہیں تھی۔
وہ واحد شخص تھا جو اس کی ہر غلطی اپنے کندھوں پر لینے کے لیے تیار رہتا تھا۔ جو اسے محفوظ رکھنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا تھا اور وہ یہ سب کچھ جانتی تھی۔
اور اب جب وہ اپنی زندگی کا سفر ختم کرکے دنیا سے جا چکا تھا تو وہ اندھوں کی طرح ہاتھ پھیلائے کھڑی رہ گئی تھی۔ کوئی دوسرا شخص اس کے لیے عمر جہانگیر نہیں بن سکتا تھا۔
دونوں ہاتھ سر پر رکھے وہ بچوں کی طرح رو رہی تھی، بالکل اسی طرح جس طرح وہ اٹھارہ سال کی عمر میں ایک بار عمر کے سامنے پارک میں روئی تھی اور پھر اس کے بعد اس کے سامنے کئی بار روئی تھی۔ کیا کچھ تھا جو آج اسے یاد نہیں آ رہا تھا۔ اسے پہلی بار لگ رہا تھا جیسے سب کچھ ختم ہو گیا ۔ سب کچھ…کہیں بھی، کچھ بھی باقی نہیں رہا تھا۔
کیا تھا اگر وہ اس سے محبت نہیں کرتا تھا۔ پھر بھی اس کا ہونا ہی کتنا کافی تھا اس کے لیے۔
کچھ فاصلے پر موجود ایک کمرے میں عمر جہانگیر کے جسم کو کاٹنے والے سارے نشتر اسے اپنے وجود پر چلتے محسوس ہو رہے تھے۔ وہ اسے اپنی زندگی میں بہت سی تکلیف دہ چیزوں سے بچایا کرتا تھا اور وہاں بیٹھے علیزہ سکندر کی خواہش اتنی تھی وہ اس سب کے بدلے عمر جہانگیر کو صرف ایک چیز سے بچا لے…موت سے…
رپورٹرز نے صوبائی وزیر کو گھیرا ہوا تھا۔ جو کچھ دیر پہلے ہاسپٹل پہنچے تھے۔
”آپ کا کیا خیال ہے سر! اس قتل کے پیچھے کس کا ہاتھ ہو سکتا ہے؟’ ‘ ایک رپورٹر نے ان سے سوال کیا۔
”دیکھیں، اس بارے میں فوری طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ پولیس نے انوسٹی گیشن کا آغاز کر دیا ہے امید ہے جلد ہی اس افسوس ناک حادثے کے مجرموں کو پکڑ لیا جائے گا۔” انہوں نے اپنے پاس کھڑے آئی جی پنجاب کو دیکھتے ہوئے کہا جو مودبانہ انداز میں سر ہلانے لگے۔
”کیا پولیس کو اس معاملے میں کوئی لیڈ ملی ہے؟” ایک اور سوال ہوا۔
”اس بارے میں آئی جی صاحب آپ کو زیادہ اچھی طرح بتا سکتے ہیں مگر میں نہیں سمجھتا کہ وہ ابھی فوری طور پر آپ کو کوئی بریکنگ نیوز دے سکتے ہیں۔ پھر بھی بہتر ہے یہ سوال آپ ان ہی سے کریں۔” انہوں نے آئی جی صاحب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
”عمر جہانگیر ہمارے ایک بہت قابل آفیسر تھے۔” آئی جی نے اشارہ پاتے ہی اپنے بیان کا آغاز کیا۔
”ان کے ساتھ ہونے والا حادثہ دراصل ہمارے پورے ڈیپارٹمنٹ کے لیے ایک بہت بڑا نقصان ہے۔ جیسا کہ آپ کو منسٹر صاحب نے بتایا۔ پولیس نے اپنی انوسٹی گیشن کا آغاز کر دیا ہے۔ ہم حالات کا جائزہ لینے اور شواہد کی مدد سے اڑتالیس گھنٹوں کے اندر مجرموں کو پکڑنے کی کوشش کریں گے اور ہمیں پوری امید ہے کہ ہم اس کوشش میں کامیاب بھی ہو جائیں گے۔”
ایک رپورٹر نے آئی جی کی بات کو کاٹا ”سر یہ جو آپ اڑتالیس گھنٹے کی بات کررہے ہیں۔ آج تک کون سی پولیس اڑتالیس گھنٹوں میں مجرم پکڑنے میں کامیاب ہوئی ہے؟” آئی جی کے ماتھے کے بل کچھ گہرے ہوگئے۔
”اگر پولیس اڑتالیس گھنٹوں میں مجرم پکڑنے میں کامیاب ہوتی تو آج ہم اور آپ یہاں کھڑے ہو کر یہ گفتگو نہ کررہے ہوتے۔ پچھلے ایک سال میں جب سے آپ آئی جی پنجاب بنے ہیں۔ سات مختلف رینکس کے آفیسر کو مارا گیا ہے اور پولیس اس سلسلے کو روکنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔”
اس بار آئی جی نے قدرے ترشی سے اس غیرملکی براڈ کاسٹنگ کے ادارے سے وابستہ تیز طرار قسم کے پاکستانی صحافی کی بات کو کاٹ دیا۔
”پولیس نے ایک کے علاوہ تمام واقعات میں ملوث مجرموں کو پکڑ لیا ہے۔”
”اگر آپ واقعی مجرموں کو گرفتار کر چکے ہوتے تو آج آپ کا ایک اور آفیسر اس طرح مارا جاتا۔” اس رپورٹر نے بھی اتنی ہی تندی و تیزی سے کہا۔
صوبائی وزیر نے بروقت مداخلت کی۔ ”دیکھیں، یہ کچھ زیادہ ہی سخت قسم کا تبصرہ ہے جو آپ کررہے ہیں۔ آئی جی صاحب نے جب سے اپنی tenure شروع کی ہے، پنجاب میں لاء اینڈ آرڈر کی صورت حال بہت بہتر ہو گئی ہے۔”
”سر! آپ نہیں سمجھتے کہ اتنے سینئر آفیسر کے قتل کے موقع پر لاء اینڈ آرڈر کی بہتر صورت حال کی تعریف کچھ مذاق لگتا ہے؟” صوبائی وزیر چند لمحے کچھ نہیں بول سکے۔
”وہ…دیکھیں…وہ…اگر…آپ پورے ملک میں دیکھیں…تو…میں اس کے لحاظ سے صورت حال میں بہتری کی بات کر رہا ہوں۔” صوبائی وزیر بے اختیار بوکھلائے۔
”باقی تینوں صوبوں میں کبھی بھی اس طرح دھڑا دھڑ آفیسرز قتل نہیں ہوئے۔ خاص طور پر ایک سال میں۔ آخر پنجاب میں ہی ایسا کیوں ہور ہا ہے۔”
صوبائی وزیر کے ساتھ ساتھ آئی جی پنجاب کا دل چاہا کہ وہ اس رپورٹر کی بتیسی کے ساتھ ساتھ اس کی زبان نکال کر بھی اس کے ہاتھ میں رکھ دیں مگر ہارورڈ سے پڑھا ہوا وہ صحافی ایک وفاقی وزیر کا بیٹا تھا۔ وہ اس کی بکواس اور سوال سننے پر مجبور تھے۔
”آپ پنجاب کی آبادی بھی تو دیکھیں۔” وزیر کے منہ سے بے اختیار نکلا۔
”آبادی سے آفیسرز کے قتل کا کیا تعلق ہے؟”
”میں لاء اینڈآرڈر کی صورت حال کے حوالے سے آبادی کا ذکر کر رہا ہوں۔” وزیر صاحب نے قدرے تحمل مزاجی کا ثبوت دیا۔ ”باقی صوبوں میں کم آبادی کی وجہ سے اتنے مسائل کا سامنا پولیس کو نہیں کرنا پڑتا جتنا پنجاب میں کرنا پڑتا ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم حالات کو اور بہتر کرنے کی کوشش کریں گے۔”
”آپ کا ایک ایس پی جو کسی شہر میں بادشاہ کے برابر ہوتا ہے وہ دن دیہاڑے اپنے گارڈ اور ڈرائیور کے ساتھ شہر کے بیچ میں قتل ہو جائے تو عام لوگ اپنی حفاظت کے لیے کس کی طرف دیکھیں۔” اس رپورٹر نے چیونگم چباتے ہوئے کہا۔
”پولیس اگر اپنے ایک آفیسر کو نہیں بچا سکتی تو وہ ایک عام آدمی کو کتنی سکیورٹی دے سکتی ہے۔”
”دیکھیں، جس شہر میں وہ تعینات تھے ، وہ پنجاب کے حساس علاقوں میں شمار کیا جاتا ہے اور عمر جہانگیر کے بارے میں محکمے کو کچھ ایسی خبریں ملی تھیں کہ ان کی جان کو خطرہ تھا۔ انہیں دھمکی آمیز فون کالز بھی کی جاتی رہی تھیں۔ پھر ہم اس پورے معاملے میں دہشت گردی کے عنصر کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دے سکتے۔ بہت سارے فیکٹرز ہیں جو ایسے حادثات کا سبب بن جاتے ہیں مگر ہم پوری کوشش کررہے ہیں کہ ایسے حادثات دوبارہ نہ ہوں۔ تھوڑی دیر میں پولیس آفیسرز کی ایک ہائی لیول کی میٹنگ ہو رہی ہے۔ کل وزیر داخلہ آرہے ہیں، وہ بھی ایک میٹنگ کررہے ہیں۔ ” اس بار آئی جی نے منسٹر سے اجازت لیتے ہوئے کہا اور رپورٹرز نے مزید کوئی سوال نہیں کیا تو آئی جی کی جان میں جان آئی۔
”سر! آپ نے دہشت گردی کا ذکر کیا ہے۔ کیا آپ کا اشارہ مذہبی دہشت گردی کی طرف ہے لاء اینڈ آرڈر کی صورت حال کو خراب کرنے کے لیے یہ کسی غیرملکی ایجنسی کا کام ہے؟” ایک دوسرے رپورٹر نے نکتہ اٹھایا۔
”میں نے آپ کو بتایا نا…اس مرحلے پر ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا ، جیسے ہی ہم اس معاملے میں کچھ پروگریس کرتے ہیں پریس کانفرنس کے ذریعے آپ لوگوں کو پولیس کی تمام کارروائی کے بارے میں آگاہ کر دیں گے۔” آئی جی نے کہا۔
”عمر جہانگیر کافی متنازعہ شخصیت تھے ۔ پچھلے کچھ سالوں میں کئی حوالوں سے وہ اخبارات میں آتے رہے۔ کہیں یہ کسی ذاتی دشمنی کا نتیجہ تو نہیں ہے؟” ایک دوسرے رپورٹر نے کہا۔
”ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔” آئی جی نے اس بار اکتائے ہوئے لہجے میں کہا۔
”سر! کیا اس قتل سے آئندہ آنے والی پولیس ریفارمز پر کچھ اثر پڑے گا؟” اس بار ایک دوسرے رپورٹر نے پوچھا۔
”کیسا اثر؟”
”کیا آپ کو نہیں لگتا کہ پولیس کے اختیارات میں کمی اور رول میں تبدیلی کرکے آپ پولیس آفیسر کو مزید vulnerable بنا دیں گے۔”
”اس کے برعکس میں سمجھتا ہوں کہ اس نئے سسٹم سے پولیس اور عوام کے درمیان ایک بہتر ورکنگ ریلیشن شپ پیدا ہوگا اور اس طرح کے حادثات کا سدباب بھی ہو سکے گا۔ ”لاء اینڈ آرڈر” کی صورت حال بھی اور بہتر ہو گی۔” صوبائی وزیر نے اپنے پسندیدہ جملے کی ایک بار پھر گردان کی۔
”یعنی ایس پی جب ڈی پی او اور ڈی سی جب ڈی سی او کہلانے لگیں گے تو پھر وہ اس طرح کھلے عام سڑکوں پر نہیں مارے جائیں گے۔”
”شیراز صاحب! آج آپ کو ہوا کیا ہے۔ کس طرح کے سوال کررہے ہیں آپ بار بار؟” بالآخر صوبائی وزیر چڑ کر بول ہی اٹھے۔
”شیراز صاحب نے سول سروس کے ایگزام میں دوسری پوزیشن لی ہے اور چند ہفتوں میں اکیڈمی جوائن کررہے ہیں۔” ایک دوسرے رپورٹر نے لقمہ دیا۔
پھر تو میں امید کرتا ہوں کہ آپ پولیس سروس میں ہی آئیں گے تاکہ وہ بہتری جو ہم نہیں لا سکے آپ لائیں اور ہم بھی آپ کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھائیں۔” اس بار آئی جی نے اپنے چہرے پر ایک زبردستی کی مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا۔
”ویسے بھی پولیس کے محکمے کو ضرورت ہے آپ جیسے آفیسرز کی۔ آپ سب کا بہت بہت شکریہ۔۔۔” صوبائی وزیر نے آئی جی کے جواب میں کچھ اضافہ کیا اور اگلے کسی سوال سے پہلے اپنی گاڑی کی طرف جانے لگا۔
”میں الو کا پٹھا ہوں۔ میں جاؤں گا پولیس سروس میں۔” شیراز صدیقی بڑبڑایا۔
ہر چیز بہت تیز رفتاری سے ہوئی، دوسرے دن شام کے قریب عمر جہانگیر کی تدفین کر دی گئی۔ جہانگیر معاذ دوپہر کے قریب پاکستان پہنچ گئے تھے۔ زرا مسعود پاکستان نہیں آ سکیں۔ وہ ایک آپریشن کے لیے ہاسپٹل میں ایڈمٹ تھیں اور ان کے شوہر نے بیماری اور آپریشن کے مدنظر انہیں اطلاع دینے سے معذرت کر لی تھی۔
معاذ حیدر جیسے خاندان کے لیے عمر جہانگیر کا قتل ایک بہت بڑا صدمہ تھا، یہ تصور کرنا بھی ان کے لیے مشکل تھا کہ ان کے اپنے خاندان کے کسی فرد کو بھی اس طرح دن دیہاڑے قتل کیا جا سکتا ہے۔
عمر کے قاتلوں کے بارے میں فوری طور پر کچھ پتا نہیں چلا۔ وہ کون تھے؟ انہوں نے عمر کو کیوں قتل کیا؟ اور ایسے بہت سے سوالات کا کوئی جواب کہیں نہیں تھا۔ شاید آنے والا وقت بھی ان سوالات کا جواب نہیں دے سکتا تھا۔
معاذ حیدر کا پورا خاندان اگلے کئی دن تک ان کے گھر پر جمع ہوتا رہا۔ موضوع گفتگو ہر ایک کے لیے عمر ہی رہا۔ علیزہ ان سب کو عمر کے بارے میں باتیں کرتے سنتی رہی۔
وہ ڈسکس کرتے تھے، کس طرح انہوں نے عمر کو بہت سی چیزوں کے بارے میں سمجھانے اور آگاہ کرنے کی کوشش کی تھی، کس طرح عمران تما م باتوں کو اگنور کرتا رہا، کس طرح اس کی لاپروائی اسے مختلف مواقع پر نقصان پہنچاتی رہی۔
اور ہر بحث کا نتیجہ ایک ہی نکلا کہ عمر کے ساتھ ہونے والے اس حادثے میں عمر کی اپنی غلطیاں بھی معاون تھیں۔ اسے بے ضرر بن کر سسٹم کا حصہ بننا نہیں آیا تھا، وہ ایک پاپولر آفیسر بھی نہیں تھا۔


علیزہ جانتی تھی، ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں تھا جسے عمر سے ہمدردی نہیں تھی، جو عمر کے ساتھ ہونے والے واقعے پر رنجیدہ نہیں تھا مگر اس سب کے باوجودوہ facts اور figures (حقائق) کی بات کرتے تھے کیونکہ وہ سب پریکٹیکل لوگ تھے، حقیقت پسند جو کسی بھی چیز کو رشتوں اور جذباتی تعلق کے حوالے سے نہیں لے سکتے تھے۔
وہ سب عمر کواتنے بے تاثر اور غیر جذباتی انداز میں ڈسکس کر سکتے تھے مگر علیزہ نہیں کر سکتی تھی۔ وہ جانتی تھی، وہ کوئی ایماندار آفیسر نہیں تھا۔ وہ بہت سے غلط کاموں میں ملوث رہا تھا، بہت سے لوگوں کو اس نے بہت تکلیف بھی دی تھی اور بہت سے لوگوں کے لیے مسلسل پریشانی کا باعث بھی بنا رہا تھا۔ کوئی بھی اس کی موت کو ”جوبو یا وہ کاٹا” قرار دے سکتا تھا۔ کوئی بھی یہ کہہ سکتا تھا کہ عمر جہانگیر اسی سلوک کا مستحق تھا مگر وہ ایسا نہیں کہہ سکتی تھی۔
اس کی زندگی میں وہ اس پر بے تحاشا تنقید کرنے لگی تھی۔ اسے عمر جہانگیر کے کاموں پر اعتراض ہونے لگا تھا مگر اس کی موت کے بعد اسے یہ احساس ہوا کہ وہ اچھا آدمی نہیں تھا۔ اچھا آفیسر بھی نہیں تھا، دوسروں کے لیے مگر اس کے لیے وہ ہمیشہ اچھا ہی رہا تھا اور وہ عمر جہانگیر کو دوسروں کی عینک سے نہیں دیکھ سکتی تھی۔ وہ دوسروں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی بنیاد پر اس سے نفرت نہیں کر سکتی تھی۔ یہ نہیں کہہ سکتی تھی کہ اس کے ساتھ جو ہوا ٹھیک ہوا۔
عمر کی موت کے ایک ہفتے کے بعد اس نے اخبار سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ وہ جانتی تھی کہ وہ اب اس سسٹم کے بارے میں کبھی کچھ نہیں لکھ سکے گی۔ وہ کس منہ سے ان تمام چیزوں کے لیے دوسروں پر تنقید کر سکتی تھی جن کے لیے اس نے عمر جہانگیر کو معاف کر دیا تھا جن کے لیے وہ عمر جہانگیر کو بخشنے پر تیار تھی۔ اپنی فیملی کے اس فرد کو جس کے ساتھ اس کا جذباتی تعلق تھا۔
اسے نہیں پتا تھا کہ جہانگیر معاذ عمر کی موت سے کس حد تک متاثر ہوئے تھے، اس کے خاندان کے دوسرے مردوں کی طرح وہ بھی اپنے احساسات چھپانے اور چہرہ بے تاثر رکھنے میں ماہر تھے، یہ وہ خصوصیت تھی جو معاذ حیدر جیسے بڑے خاندانوں کے لوگوں کے ساتھ ساری عمر چلتی تھی۔
علیزہ نے نمرہ کی موت پر جہانگیر معاذ کو پریشان دیکھا تھا مگر عمر کی موت پر وہ بے حد خاموش تھے، ان کے اور عمر کے درمیان کبھی بھی خوشگوار تعلقات نہیں رہے۔ وہ جانتی تھی، پچھلے چند سالوں سے ان دونوں کے درمیان بول چال تک بند تھی مگر خود وہ بھی پچھلے ڈیڑھ سال سے عمر کے ساتھ ناروا سلوک کر رہی تھی۔ اس کے باوجود اس کی موت نے اسے بری طرح توڑ پھوڑ دیا تھا۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ جہانگیر معاذ کے اندر کتنی توڑ پھوڑ ہوئی ہے۔ آخر وہ ان کا بڑا بیٹا تھا۔
عمر کے حادثے کی وجہ سے اس کی شادی پس منظر میں چلی گئی تھی ۔ ثمینہ نے پاکستان میں اپنا قیام بڑھا دیا تھا مگر انہوں نے جنید کی فیملی سے یا جنید کی فیملی نے ان سے اس معاملے میں فی الحال کوئی بات نہیں کی تھی۔
عمر کے دسویں کے بعد آہستہ آہستہ سب نے واپس جانا شروع کر دیا۔ ہر ایک اپنی اپنی زندگی کی طرف دوبارہ لوٹ رہا تھا۔ جہانگیر معاذ بھی بارھویں دن اپنی فیملی کے ساتھ واپس امریکہ چلے گئے تھے۔

باب: 56

”آپ چائے پئیں گے؟” علیزہ نے جنید سے پوچھا۔ ان دونوں کے درمیان تقریباً دو ہفتے کے بعد ملاقات ہو رہی تھی۔ وہ ہاسپٹل سے گھر تک، ہر جگہ موجود رہا تھا اور دسویں تک ہر روز اپنے گھر والوں کے ساتھ ان کے گھر آتا رہا تھا مگر اس کے اور علیزہ کے درمیان براہ راست کوئی بات نہیں ہوئی۔ حادثے کے بعد آج پہلی بار وہ علیزہ سے مل رہا تھا اور اس کی فیملی اس کے ساتھ نہیں تھی، وہ جس وقت آیا تھا، اس وقت تانیہ واپس گھر جا رہی تھی اور علیزہ اس کے ساتھ پورچ میں کھڑی تھی، جب گیٹ سے جنید کی گاڑی اندر داخل ہوئی تھی۔ اس نے گاڑی تانیہ کی گاڑی کے پاس لا کر کھڑی کر دی۔ کچھ دیر اس کے اور تانیہ کے درمیان رسمی بات چیت ہوئی پھر تانیہ اپنی گاڑی میں بیٹھ کر چلی گئی۔
”آیئے اندر آ جائیں۔” یہ پہلا جملہ تھا جو بہت دنوں کے بعد ان دونوں کے درمیان بولا گیا تھا۔
”نہیں، باہر لان میں بیٹھتے ہیں۔” جنید نے کہا اور وہ خاموشی سے لان کی طرف بڑھ گئی۔
اور اب وہ پچھلے دس منٹ سے لان کی کرسیوں پر چپ چاپ بیٹھے تھے، علیزہ نے اس گہری خاموشی کو توڑنے کے لیے اس سے پوچھا۔
”آپ چائے پئیں گے؟”
”نہیں، میں یہاں آنے سے پہلے چائے پی کر آیا ہوں۔” جنید نے جواباً کہا اور پھر کچھ توقف کے بعد پوچھا۔ ”جوڈتھ نے فون کیا تھا تمہیں؟”
”جوڈتھ نے…؟نہیں…نانو سے اس کی دوبار بات ہوئی ہے۔” علیزہ نے بتایا۔
”وہ تم سے بات کرنا چاہتی تھی۔”
”ہاں، نانو نے مجھے بتایا مگر یہ ایک اتفاق ہی ہے کہ اس سے دونوں بار میری بات نہیں ہو سکی۔”
”وہ ہفتے کی رات کو پاکستان آرہی ہے۔” جنید نے بتایا۔ علیزہ خاموشی سے اسے دیکھتی رہی، وہ کہہ رہا تھا۔
”وہ یہاں ٹھہرنا چاہتی ہے۔” وہ جانتی تھی جنید کا اشارہ کس طرف ہے۔
”میں نے اسے اپنے گھر رہنے کے لیے کہا ہے مگر اس کی خواہش ہے یہاں ٹھہرنے کی۔”
”آپ ان سے یہاں آنے کے لیے کہہ دیں، مجھے اور نانو کو انہیں ریسیو کرکے خوشی ہو گی۔” اس نے مدھم آواز میں کہا۔ وہ جانتی تھی جوڈتھ پاکستان کیوں آ رہی تھی۔
”انہوں نے آپ کو فلائٹ کی ٹائمنگز کے بارے میں بتایا ہے؟”
”اسے ایئر پورٹ سے میں ریسیو کر لوں گا۔” جنید نے کہا علیزہ خاموش رہی۔
”وہ یہاں ہماری شادی تک رُکے گی۔” علیزہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا، وہ اسی کو دیکھ رہا تھا۔ ایک عجیب سی خاموشی ان دونوں کے درمیان در آئی تھی۔
”چند دنوں تک امی اور بابا تم لوگوں سے اس سلسلے میں بات کرنے آئیں گے۔” اس نے آہستہ سے کہا۔
”انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ میں اس سلسلے میں تم سے بات کروں تاکہ تم نانو کو اور اپنی ممی کو بتا سکو۔” علیزہ نے اس کے چہرے سے نظر ہٹا لی۔
”میں چاہتا ہوں، شادی سادگی سے ہو۔ میں زیادہ دھوم دھڑکا نہیں چاہتا۔” وہ دھیمی آواز میں بول رہا تھا۔
اس نے جس دن جنید کو اپنے اور عمر کے بارے میں بتایا تھا، اس سے اگلے دن عمر کے ساتھ وہ حادثہ پیش آگیا تھا۔ اس نے جنید سے کہا تھا کہ وہ اسے یہ سب کچھ اس لیے بتا رہی ہے کہ تاکہ حقائق سے آگاہ ہو کر وہ آسانی سے یہ فیصلہ کر سکے کہ اسے ابھی بھی علیزہ سے شادی کرنی ہے یا نہیں۔
پچھلے پندرہ دنوں میں جنید سے اس کی کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔ وہ جنید کی کیفیات اور تاثرات کے بارے میں نہیں جانتی تھی مگر وہ یہ ضرور جانتی تھی کہ جنید کے سامنے ایک بار پھر عمر کے لیے اس کے جذبات اور احساسات عیاں ہو گئے تھے۔
اس نے بڑے وثوق سے عمر کے قتل سے ایک دن پہلے ہوٹل میں بیٹھ کر جنید سے کہا تھا کہ وہ عمر سے محبت کرتی تھی مگر اب نہیں کرتی۔ اس کے اور عمر کے درمیان اب سب کچھ ختم ہو چکا ہے۔ وہ اب عمر کی اصلیت جان چکی ہے اور اس کی اصلیت جان لینے کے بعد وہ عمر جیسے دھوکہ باز اور خود غرض انسان کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔
وہ جانتی تھی، پچھلے پندرہ دن میں عمر کی موت پر اس کے ردعمل نے جنید پر یہ حقیقت آ شکار کر دی ہو گی کہ وہ اب بھی عمر سے محبت کرتی ہے۔ وہ اتنا بے وقوف نہیں تھا کہ یہ اندازہ نہ کر پاتا ۔ وہ اپنے چہرے کو کبھی بے تاثر رکھنے میں کامیاب نہیں ہو پائی تھی۔ خوشی اور غم ہر تاثر اس کے چہرے سے جھلکتا تھا اور زندگی میں پہلی بار اسے اپنے چہرے کی اس خوبی پر کوئی شرمندگی نہیں ہوئی، کوئی غصہ نہیں آیا تھا۔
اس نے ان پندرہ دنوں میں ہر بار جنید کا سامنا ہونے پر کبھی یہ ظاہر ہونے کی کوشش نہیں کی تھی کہ وہ عمر کی موت سے متاثر نہیں ہوئی کیونکہ وہ اس کے ساتھ اپنا جذباتی تعلق ختم کر چکی تھی۔ وہ اپنی زندگی اور ذات کے گرد چڑھائے گئے ان خولوں سے تنگ آ گئی تھی جنہیں سنبھالتے سنبھالتے وہ پچھلے کئی سالوں سے ہلکان تھی اور شاید وہ لاشعوری طور پر جنید کے سامنے یہ اعتراف بھی کر لینا چاہتی تھی کہ وہ کبھی عمر سے نفرت نہیں کر سکتی۔ اس کی موت اس کی تمام ناراضیوں اور غصے کو ختم کر گئی تھی۔
اور ان پندرہ دنوں کے بعد واحد چیز جس کا وہ سامنا کرنے کے لیے تیار نہیں تھی اور جس کی وہ توقع نہیں کر رہی تھی، وہ جنید کی طرف سے شادی کے بارے میں دوبارہ بات تھی۔ وہ اس وقت شادی کے بارے میں بالواسطہ طریقے سے بات کرتے ہوئے یقیناً یہ جتا رہا تھا کہ وہ سب کچھ جاننے کے باوجود اس رشتہ کو قائم رکھنا چاہتا ہے۔
”کیوں؟” وہ اس وقت اس ایک سوال کے علاوہ اور کچھ پوچھنا نہیں چاہتی تھی۔
”سب کچھ جاننے کے بعد بھی آپ کیوں اس رشتہ کو قائم رکھنا چاہتے ہیں؟” اس نے جنید کے خاموش ہو جانے کے بعد سوال کیا۔ وہ اس کے عقب میں ایستادہ درختوں پر بیٹھے پرندوں پر نظریں جمائے ہوئے تھا ۔علیزہ کو لگا جیسے اس نے اس کی بات نہیں سنی ہو، اس نے ایک بار پھر اپنا سوال دہرایا۔ اس بار جنید نے درختوں سے نظر ہٹا کر اسے دیکھا۔
”پتا نہیں۔” اس نے ایک گہرا سانس لیا۔
”شاید اس لیے کہ میں تمہارے ساتھ بہت زیادہ انوالو ہو چکا ہوں یا پھر شاید اس لیے کہ میں عمر کی فیملی سے اپنا تعلق ختم نہیں کرنا چاہتا۔ بہت کچھ تو پہلے ہی ختم ہو چکا ہے، جو باقی رہ سکتا ہے۔ میں اسے بچانے کی کوشش کر رہا ہوں۔” وہ بڑے ہموار لہجے میں کہہ رہا تھا۔
”یا پھر شاید اس لیے کہ یہ عمر کی خواہش تھی؟” اس نے جنید کے چہرے پر نظریں جما کر کہا۔ جنید نے اس کی بات کی تردید کی نہ اعتراف۔ وہ ایک بار پھر ان درختوں پر بیٹھے پرندوں کی طرف متوجہ ہو چکا تھا۔
”میں نے پہلی بار عمر سے تمہارا ذکر تب سنا جب وہ سول سروس کا امتحان دینے آیا تھا۔ وہ کچھ دنوں کے لیے ہمارے گھر ٹھہرا تھا۔” علیزہ نے جنید کو جیسے بڑبڑاتے دیکھا۔ وہ ابھی بھی ان ہی پرندوں کو دیکھ رہا تھا۔
علیزہ کو یاد تھا، وہ اس کی ناراضی کی وجہ سے گھر چھوڑ کر کسی دوست کے ہاں شفٹ ہو گیا تھا مگر وہ اس دوست کے بارے میں نہیں جانتی تھی۔
”پھر کچھ دنوں بعد اس نے کہا کہ وہ واپس گرینی کے پاس جا رہا ہے، میں ناراض ہو گیا۔ تب اس نے مجھ سے معذرت کی اور مجھے تمہارے بارے میں بتایا کہ کس طرح تم اس کے وہاں آ جانے پر خود کو غیر محفوظ محسوس کر رہی ہو اور پھر تم لوگوں کے درمیان دوستی ہو گئی تھی۔ میں نے عمر کی ان باتوں کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔ میں سمجھتا تھا۔ وہ اس لیے زیادہ ہمدردی محسوس کر رہا ہے کیونکہ وہ خود بھی ایک بروکن فیملی سے تعلق رکھتا تھا۔” علیزہ اسے دیکھتی رہی۔
”پھر اس کی باتوں میں اکثر تمہارا ذکر ہونے لگا۔ میں نے تب بھی غور نہیں کیا۔ تمہاری اور اس کی عمر میں بہت فرق تھا۔ تم ایک ٹین ایجر تھیں جبکہ عمر بہت میچور تھا۔ میرا خیال تھا وہ تمہارے ساتھ ایک ہی گھر میں رہ رہا ہے اور پھر تم سے ہمدردی بھی کرتا ہے، اس لیے غیر محسوس طور پر تم اس کے قریب آنے لگی ہو۔ میں نے تب بھی یہ اندازہ لگانے کی کوشش نہیں کی کہ تمہارے لیے اس کے دل میں کس طرح فیلنگز ڈویلپ ہو رہی ہیں۔” جنید نے اب علیزہ کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”میں تب بھی یہی سمجھتا رہا کہ اس کی سب سے زیادہ دوستی جوڈی کے ساتھ ہی ہے اور اگر کبھی اس نے شادی کی تو وہ اس سے ہی کرے گا۔ وہ دونوں ہم عمر تھے اور بہت لمبے عرصے سے ایک دوسرے کے ساتھ تھے۔ ان دونوں کی بہت اچھی انڈر سٹینڈنگ بھی تھی۔ میری جگہ کوئی بھی ہوتا تو وہ یہی سمجھتا۔”
آپ نے ٹھیک سمجھا۔” علیزہ نے دھیمی آواز میں پہلی بار اس کی گفتگو میں مداخلت کی۔ ”وہ جوڈتھ سے ہی محبت کرتا تھا۔ وہ اسی سے شادی کرنا چاہتا تھا۔”
”میں سمجھتا تھا۔” جنید نے اس کی بات سن کر بھی اپنی بات جاری رکھی۔ ”میں عمر کے بہت قریب ہوں، اس کے بارے میں سب کچھ جانتا ہوں، اسے بہت اچھی طرح سمجھتا ہوں۔ ایسا نہیں تھا۔” جنید عجیب سے انداز میں مسکرایا۔
”یہ صرف میری خوش فہمی تھی، میں یا اس کا کوئی بھی دوست اس کے اندر تک نہیں جھانک سکا۔ اس نے ہمیں اس کا موقع ہی نہیں دیا۔ ہم اسے صرف اتنا ہی جان سکے، جتنا وہ چاہتا تھا۔” وہ ٹھیک کہہ رہا تھا۔ علیزہ کو اس بارے میں کوئی شبہ نہیں تھا۔
”بعد میں اس نے مجھ سے کہا کہ میں تم سے شادی کر لوں۔ وہ تب فارن سروس میں اپنی پہلی پوسٹنگ پر جا رہا تھا اور میں لندن میں آرکیٹیکچر کی مزید تعلیم کے لیے۔ تم اس وقت گریجویشن کر رہی تھیں۔” علیزہ کو یاد آیا کہ یہ وہ وقت تھا جب اسے مکمل طور پر یہ یقین ہو چکا تھا کہ صرف وہی نہیں، عمر بھی اس سے محبت کرتا ہے۔ جب وہ یہ سمجھنے لگی تھی کہ بہت جلدی وہ اسے پرپوز کر دے گا اور وہ اس وقت کیا سوچ رہا تھا۔” جنید کو دیکھتے ہوئے اس کی آنکھوں میں نمی امڈنے لگی۔
”میرا اس وقت شادی کا کوئی ارادہ نہیں تھا اور عمر کو بھی اس بارے میں کوئی جلدی نہیں تھی ”تم اپنی تعلیم ختم کرو، پاکستان آؤ، پھر تم سے اس بارے میں مزید بات کروں گا لیکن یہ بات طے ہے کہ تمہاری شادی علیزہ کے ساتھ ہی ہو گی۔” وہ مجھ سے کہتا تھا۔
”اگر وہ مجھے اچھی لگی تو، اس کے ساتھ میری انڈر سٹینڈنگ ہو سکی تو۔” میں ہر بار اس سے کہتا اور وہ مجھے یقین دلاتا۔
”علیزہ اور تمہیں اچھی نہ لگے۔ gem of a person ، جنید gem of a person جب بیس، تیس سال تم اس کے ساتھ گزار لو گے تو پھر تم میرے احسان مند ہو گے کہ میں نے دنیا کی سب سے بہترین لڑکی کے ساتھ تمہاری شادی کروا دی۔” مجھے آہستہ آہستہ یہ محسوس ہونے لگا کہ میں عمر کو انکار نہیں کر سکتا۔ وہ اپنی بات منوا لیا کرتا تھا۔ کچھ سالوں کے بعد جب گھر میں میری شادی کا ذکر ہونے لگا تو عمر نے مجھے تم سے ملوایا مگر یہ کہہ کر میں تم کو عمر سے اپنی دوستی کے بارے میں نہ بتاؤں۔ مجھے تب بھی کوئی تجسس نہیں ہوا۔ اگر اس پورے دورانیے میں مجھے ایک بار بھی یہ خیال آ جاتا کہ وہ خود تم میں انٹرسٹڈ ہے تو میں…میں کسی قیمت پر بھی تم سے شادی کرنے کا نہ سوچتا، یا تم مجھے بتا دیتیں، تو تب بھی میں اس سارے معاملے کے بارے میں عمر سے بات کرتا۔
تمہارا انکشاف میرے لیے میری زندگی کا سب سے بڑا صدمہ تھا اور اس شاک سے باہر آنے میں مجھے کئی سال لگیں گے۔”

”عمر مجھ میں کبھی بھی انٹرسٹڈ نہیں تھا، میں نے آپ کو بتایا تھا، وہ سب میری خوش فہمی تھی۔” علیزہ نے جیسے خود کلامی کی۔
”جو بھی تھا۔ مگر میں یہ ضرور جانتا ہوں کہ یہ سب کچھ بہت تکلیف دہ تھا۔” جنید خاموش ہو گیا۔ علیزہ نے اس کی آنکھوں میں پانی تیرتے ہوئے دیکھا۔
”مجھے ابھی بھی یہ یقین نہیں آتا کہ وہ…وہ زندہ نہیں ہے۔ زندگی میں پہلی بار دو ہفتے گزر گئے ہیں اور میں اس سے رابطہ نہیں کر سکا، مل نہیں سکا، نہ اس نے مجھ سے رابطہ کیا، ورنہ ہم لوگ کسی نہ کسی طرح سے ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں رہتے تھے۔ چاہے ملک میں ہوتے یا بیرون ملک۔” وہ اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔
”میں نے عمر سے بڑھ کر genuine (کھرا) آدمی زندگی میں نہیں دیکھا۔ ہم دونوں کے درمیان بہت سے اختلافات ہوتے تھے۔ وہ بہت تسلط پسند تھا۔ میں ایسا نہیں تھا مگر اس کے باوجود ہمارے درمیان تمام اختلافات ختم کرنے میں پہل وہی کیا کرتا تھا۔ ”چھوڑو، کوئی اور بات کرتے ہیں۔” وہ خود جھگڑا شروع کرتا پھر یکدم موضوع بدل دیتا اور میں واقعی موضوع بدل دیتا۔ مجھے اب بھی یہ ہی لگ رہا ہے کہ اس نے ایسا ہی کیا ہے۔
اس کی موت سے کچھ دیر پہلے اس سے میری بات ہوئی تھی۔ میں تمہارے سلسلے میں اس سے تفصیلی بات کرنا چاہتا تھا۔” وہ دم سادھے جنید کو دیکھتی رہی۔
”وہ شاید جان گیا تھا کہ میں تمہارے سلسلے میں اس سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ اس نے مجھ سے کہا کہ وہ مجھے رات کو فون کرے گا اور وہ رات اب کبھی نہیں آئے گی۔ وہ ہمیشہ یہی کیا کرتا تھا، جو بات نہیں بتانا چاہتا تھا وہ نہیں بتاتا تھا۔ ” جنید کے لہجے میں شکست خورد گی تھی۔
”میں اب کسی معاملے کی تحقیق نہیں کرنا چاہتا۔ میں بس اس ایک رشتے کو قائم رکھنا چاہتا ہوں جو اس کی خواہش تھی مگر میں صرف اس کی خواہش کے احترام میں ایسا نہیں کر رہا ہوں، میں یہ اپنے لیے کر رہا ہوں، اپنی فیملی کے لیے کر رہا ہوں، تمہارے لیے کر رہا ہوں، تمہاری فیملی کے لیے کر رہا ہوں، کسی پچھتاوے کے بغیر، کسی بوجھ کے بغیر میں چاہتا ہوں ہم تمام پرانی باتوں کو بھلا دیں، زخموں کو کریدنے کی کوشش نہ کریں۔
زندگی کو آج سے شروع کریں، کچھ وقت لگے گا مگر پھر سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ اس نے چند دن پہلے لاہور میں مجھ سے کہا تھا کہ میں تمہارا بہت خیال رکھوں اور ایسا کبھی نہیں ہوا کہ میں نے عمر کی بات نہ مانی ہو۔ میں کسی طرح سے بھی تمہیں چھوڑ نہیں سکتا۔”
علیزہ نے اسے اس جملے کے بعد کرسی سے اٹھتے اور لان سے نکلتے دیکھا۔ وہ اپنی آنکھوں کو مسلنے لگی۔
وہ اور جنید ایک ہی شخص کی محبت میں گرفتار تھے، صرف نوعیت مختلف تھی، تعلق کی گہرائی میں کوئی فرق نہیں تھا۔
لان میں چھائے سکوت کو پرندوں کی چہچہاہٹ توڑ رہی تھی۔ بہت دور، جنید گاڑی کو ریورس کرتے ہوئے ڈرائیو وے سے نکال رہا تھا۔ اس نے ایک سال کے دوران پہلی بار جنید کی باتوں میں بے ربطی محسوس کی تھی۔ وہ بہت ہمواری اور روانی سے بات کیا کرتا تھا۔ آج پہلی بار اس کی گفتگو میں دونوں چیزیں مفقود تھیں۔ وہ خود اس سے کچھ بھی کہنے کے قابل نہیں تھی۔ آخر جنید ابراہیم سے کیا بات کی جا سکتی تھی،تعزیت کی جاتی، افسوس کیا جاتا، کون کس سے کرتا۔ عمر کی موت نے دونوں کو ایک ہی طرح متاثر کیا تھا۔
عمر بالکل غلط کہتا تھا کہ اس کی موت سے کسی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا، اس کی موت نے بہت سی زندگیوں کو وقتی طور پر ابنارمل کر دیا تھا، ان میں سے ایک زندگی اس کی تھی، دوسری جنید کی اور تیسری…؟ درد کی ایک لہر اس کے اندر سے گزری۔
”تیسری جوڈتھ کی۔” اس نے سوچا۔
پورچ میں جلنے والی لائٹ کی روشنی میں اس نے جوڈتھ کو جنید کی گاڑی سے اترتے دیکھا۔ وہ ٹی شرٹ اور ٹراوزرز میں ملبوس تھی۔ نانو اس سے آگے تھیں اور اب جوڈتھ سے مل رہی تھیں۔ جنید ملازم کی مدد سے گاڑی سے اس کا سامان اتروا رہا تھا۔ علیزہ ، نانو سے چند قدم پیچھے کھڑی اسے دیکھتی رہی۔
زندگی میں پہلی بار جوڈتھ کو دیکھ کر امر بیل
اسے کوئی غصہ، کوئی حسد محسوس نہیں ہوا۔ جوڈتھ، نانو سے ملنے کے بعد اس کی طرف بڑھ رہی تھی پھر وہ اس کے مقابل آکر کھڑی ہو گئی۔ علیزہ نے ایک قدم آگے بڑھایا اور جوڈتھ کے کندھوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے اس کے گال کو نرمی سے چوم لیا۔ جوڈتھ نے جواباً اسے اپنے ساتھ لپٹا لیا۔ دونوں کے درمیان کسی لفظ کا تبادلہ نہیں ہوا تھا۔ جوڈتھ کے انداز میں بہت گرم جوشی تھی، والہانہ پن تھا، بے اختیاری تھی اور کیا تھا۔ وہ جان نہیں سکی مگر جب وہ اس سے الگ ہوئی تو اس نے جوڈتھ کی آنکھوں میں آنسو دیکھے۔ علیزہ نے اس سے نظریں چرا لیں۔ اس کا ہاتھ تھام کر اس نے ثمینہ سے اس کو متعارف کروایا۔
”یہ میری ممی ہیں، جوڈتھ ! ” جوڈتھ ثمینہ سے ہاتھ ملانے لگی۔
جنید تب تک ملازم کے ہاتھ جوڈتھ کا سامان اندر بھجوا چکا تھا اور خود بھی لاؤنج میں چلا گیا تھا۔
”آپ کپڑے چینج کر لیں، میں کھانا لگواتی ہوں۔” علیزہ نے جوڈتھ کے ساتھ اندر جاتے ہوئے کہا۔
”نہیں، میں کھانا نہیں کھاؤں گی، فلائٹ کے دوران کھا چکی ہوں۔ میں اس وقت صرف سونا چاہتی ہوں۔” جوڈتھ نے قدرے معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔
”جیسے آپ چاہیں۔” علیزہ نے سر ہلا دیا۔ اسے اندازہ تھا کہ اس وقت واقعی بہت دیر ہو چکی تھی۔ جنید لاؤنج کے درمیان کھڑا تھا۔
”جوڈی! اب صبح ملاقات ہو گی۔” اس نے جوڈتھ سے کہا اور اس کے بعد ثمینہ کے ساتھ باتیں کرتا ہوا باہر نکل گیا۔
جوڈتھ چند منٹ نانو کے ساتھ لاؤنج میں کھڑی باتیں کرتی رہی پھر نانو نے علیزہ کو اس کے کمرے میں لے جانے کے لیے کہا۔ علیزہ اسے لے کر اس کمرے میں چلی آئی جہاں عمر ٹھہرا کرتا تھا، اس سے پہلے جوڈتھ کبھی عمر کے کمرے میں نہیں ٹھہری تھی۔ اسے ہمیشہ فرسٹ فلور پر ٹھہرایا جاتا، اس بار علیزہ نے اسے عمر کے کمرے میں ٹھہرایا تھا۔
وہ علیزہ کے ساتھ اس کمرے میں داخل ہونے کے بعد آگے نہیں بڑھی۔ وہیں کھڑی رہی۔ علیزہ نے آگے بڑھ کر کھڑکیوں کے پردے برابر کر دیئے۔ پھر اس نے پلٹ کر دیکھا۔ جوڈتھ اب بھی وہیں کھڑی تھی۔ یوں جیسے وہ وہاں اس کمرے میں کسی کی موجودگی کو محسوس کرنے کی کوشش کر رہی ہو۔ علیزہ جانتی تھی وہ کس کے وجود کا احساس کرنا چاہتی تھی وہ عمر کا کمرہ تھا اور جوڈتھ بھی یہ بات جانتی تھی۔
”آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہو تو مجھے بتا دیں۔ پانی میں نے رکھوا دیا ہے۔ فریج میں کچھ کھانے کی چیزیں بھی ہیں پھر بھی اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو۔۔۔” علیزہ اس کے پاس چلی آئی۔
”نہیں۔ کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔” جوڈتھ نے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
”اوکے۔ پھر آپ آرام کریں۔ گڈ نائٹ۔” وہ دروازے کی طرف بڑھی، لیکن اچانک ہی جوڈتھ نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
”میرے پاس رہو علیزے! میں آج رات یہاں سو نہیں سکوں گی۔” وہ اس کا چہرہ دیکھے بغیر بھی جانتی تھی کہ جوڈتھ کی آواز بھرا رہی ہے۔ اس کی آنکھیں اب پانی سے بھر رہی ہوں گی اور وہ اسی ایک لمحہ سے خوفزدہ تھی۔
اسے علیزے عمر کہا کرتا تھا۔ جوڈتھ کے منہ سے یہ لفظ سن کر کسی نے اس کا دل مٹھی میں بھینچا۔ اب کوئی بھی اسے اس نام سے پکار سکتا تھا بس وہ ایک شخص نہیں پکار سکتا تھا جس کا نام عمر جہانگیر تھا۔ اس نے گردن موڑ کر جوڈتھ کی طرف دیکھتے ہوئے مسکرانے کی کوشش کی۔ جوڈتھ جواب میں نہیں مسکرائی۔ وہ بس آگے بڑھ کر اس کے گلے لگ گئی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
”اس کی تکلیف میری تکلیف سے بہت زیادہ ہے۔ اس نے اس آدمی کو کھویا ہے جو اس کا تھا۔ جسے وہ حاصل کرنے ہی والی تھی۔ میں نے اس شخص کو کھویا ہے جو کبھی میرا نہیں تھا نہ کبھی ہو سکتا تھا۔” جوڈتھ کی پشت پر اپنے بازو پھیلاتے ہوئے اس نے گیلی آنکھوں کے ساتھ سوچا۔
”میں آپ کے پاس ہی ہوں۔ آپ مجھ سے بات کر سکتی ہیں۔” اس نے سرگوشی کے انداز میں کہا۔
اس رات وہ دونوں جاگتی رہیں۔ عجیب تعلق تھا جو اس نے جوڈتھ کے ساتھ محسوس کیا تھا۔ جوڈتھ عمر کے بارے میں بتاتی رہی۔ وہ پہلی بار عمر سے کس طرح ملی۔ کہاں ملی، ان کی دوستی کیسے ہوئی، یہ دوستی کس طرح گہری ہو تی گئی۔” علیزہ چپ چاپ اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔
اگر کوئی سوال وہ جوڈتھ سے کرنا چاہتی تھی تو وہ صرف یہ تھا۔
”عمر کو اس سے محبت کب ہوئی تھی؟ کیسے ہوئی تھی؟” اور وہ جانتی تھی وہ اس سے کبھی یہ سوال نہیں کر سکتی تھی۔ وہ اپنے دل کو ایک بار پھر کسی نشتر سے کٹتا ہوا محسوس نہیں کرنا چاہتی تھی۔
اس کے پاس جوڈتھ کو بتانے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ کوئی راز…کوئی بات…کچھ بھی نہیں جوڈتھ سب کچھ جانتی تھی۔
عمر کے جہانگیر سے تعلقات کیسے تھے۔
عمر کے زارا کے ساتھ تعلقات کیسے تھے۔
عمران دونوں کی علیحدگی سے کتنا ڈسٹرب ہوا تھا۔
اسے کیا چیزیں خوش کرتی تھیں۔
کیا پریشان کرتی تھیں۔
سب کچھ، وہ سب کچھ جانتی تھی۔ وہ جوڈتھ کا چہرہ دیکھنے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں کر سکتی تھی۔
فجر کی اذان کے بعد وہ اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔
”مجھے عمر سے صرف ایک شکایت تھی۔”
اس نے جوڈتھ کو کہتے سنا۔ وہ بیڈ پر پاؤں اوپر کیے بیٹھی ہوئی تھی۔ علیزہ جاتے جاتے رک گئی۔ جوڈتھ کی آنکھیں متورم تھیں۔ وہ اس وقت جیسے کسی ٹرانس میں آئی ہوئی تھی۔
”اس نے میرا خیال رکھا…اس نے میری پروا کی۔ اس نے میری خواہشات کا احترام کیا۔ اس نے میرے ساتھ ہر چیز شیئر کی۔ بس اس نے مجھ سے محبت نہیں کی۔”
علیزہ نے مڑ کر اسے دیکھا۔ جوڈتھ اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
”محبت…اس نے تم سے کی۔” وہ اب تھکے ہوئے انداز میں مسکرا رہی تھی۔
”تمہاری منگنی والی رات میں اسلام آباد میں تھی۔ اس نے مجھے رات دو بجے فون کیا۔ وہ بہت زیادہ ڈپریس تھا مجھے بہت حیرانی ہوئی۔ کم از کم اس رات اسے ڈپریس نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اس رات تمہاری اور جنید کی منگنی تھی۔ اسے بہت خوش ہونا چاہیے تھا۔ میں نے اس سے یہ کہہ دیا۔ وہ بہت دیر خاموش رہا۔ اتنی دیر کہ مجھے لگا، فون ڈس کنکٹ ہو گیا ہے۔ پھر اس نے مجھ سے کہا۔
”میں نے آج اس کو بہت رُلایا ہے۔ بہت زیادہ ، میں نے آج اس کو بہت جھڑکا ہے، وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتی ہے، وہ جنید کے ساتھ منگنی توڑنا چاہتی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ وہ میرے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔ میں نے آج اسے بہت جھڑکا ہے۔ اسے بہت رُلایا ہے لیکن میں اس کے پاس سے اٹھ کر آیا ہوں تو مجھے لگ رہا ہے۔ میں تو اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکوں گا۔ مجھے تو اس سے بہت محبت ہے۔ میں کیسے اسے جنید کے ساتھ دیکھ سکوں گا۔ مجھ سے بہت بڑی غلطی ہو گئی ہے۔”
اس نے، اس رات میرے پیروں کے نیچے سے زمین کھینچ لی تھی۔ میں تو تب تک یہی سمجھتی رہی تھی کہ وہ مجھ سے محبت کرتا ہے لیکن وہ…میں اگلے دن لاہور چلی آئی۔ میں نے اس سے کہا۔
تم علیزہ کی بات مان لو، اگر تم اس سے محبت کرتے ہو تو اس سے شادی کر لو۔” اس نے انکار کر دیا۔ اس نے کہا کہ وہ پچھلی رات شراب پی رہا تھا، شاید شراب کے نشے میں اس نے کوئی فضول بات کی ہوگی ورنہ ایسی کوئی بات نہیں ہے مگر میں جان گئی تھی۔ وہ مجھ سے محبت نہیں کرتا تھا یا شاید ویسی محبت نہیں کرتا تھا جیسی تم سے کرتا تھا۔”
علیزہ چپ چاپ اسے دیکھتی رہی۔ زرد چہرے کے ساتھ، پھر اس نے مڑ کر کمرے پر ایک نظر ڈالی۔
وہ وہیں کہیں تھا۔ اس کی راکنگ چیئر اسی طرح جھولتی محسوس ہوئی تھی جیسے وہ جھلایا کرتا تھا، ہر چیز پر جیسے اس کا لمس موجود تھا، ہر طرف جیسے اس کی آواز گونج رہی تھی۔ وہی دھیما ٹھہرا، گہرا لہجہ، وہی پرسکون، دل کے کہیں اندر تک اُتر جانے والی آواز… ”علیزے!” اور پھر وہی کھلکھلاتے ہوئے بے اختیار قہقہے۔ اس کمرے میں سب کچھ زندہ تھا۔ واہمہ عکس بن گیا تھا اور عکس حقیقت بن کر اس کے اردگرد پھرنے لگا تھا۔
اس نے مڑ کر ڈریسنگ ٹیبل کو دیکھا۔ جوڈتھ شاید اس سے کچھ کہہ رہی تھی۔
وہ ڈریسنگ ٹیبل کے آئینے کے سامنے چلی آئی۔ ایک سایہ اس کے ذہن میں لہرایا، ڈریسنگ ٹیبل کے آئینے میں یکدم کوئی نظر آنے لگا۔ اسے اپنی گردن پر، بالوں پر ایک پھوار سی پڑتی ہوئی محسوس ہوئی۔
”میں علیزہ کو joy دوں گا۔ پھر eternity۔”
اس نے مڑ کر جوڈتھ کو دیکھا۔ اس کے ہونٹ کپکپا رہے تھے۔
وہ کچھ دیر جوڈتھ کو دیکھتی رہی۔ پھر لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ کمرے کا دروازہ کھول کر باہر چلی گئی۔
ختم شد