صفحات

تلاش کریں

3-بیداریاں

بام آباد

چھٹی ختم ہونے پر علی احمد کا تبادلہ بام آباد ہو گیا۔ لیکن علی احمد تن تنہا بام آباد جانے کے لیے تیار نہ تھے۔
علی احمد تنہائی سے ڈرتے تھے۔ شاید وہ اپنے آپ سے خائف تھے۔ وہ کمرے میں اکیلے سو نہ سکتے تھے۔ اگر سوتے میں ان کے کمرے سے لوگ چپ چاپ نکل آتے تو جونہی آخری آدمی باہر نکلتا، وہ گھبرا کر جاگ اٹھتے۔ اسی وجہ سے ان کا کسی کمرے یا مکان میں اکیلے رہنا ممکن نہ تھا۔ تنہائی کے علاوہ خاموشی بھی ان پر گراں گزرتی تھی۔ رات کے وقت اگر ان کی آنکھ کھل جاتی تو وہ اسی چھائی ہوئی خاموشی سے ڈر کر اپنے آپ سے باتیں کرنے لگتے تاکہ اپنی آواز کا سہارا لیں یا وہ اپنی بیوی کو پکارتے اور یا حقہ بھر کر اس کی گڑ گڑ سے تسکین حاصل کرنے کی کوشش کرتے۔
لہذا بام آباد تنہا جانا کیسے ممکن تھا۔ ایلی کی ماں ان کے ساتھ جانے کی خواہشمند نہ تھی۔ وہ جانتی تھی کہ اسے ساتھ لے جانے سے علی احمد کا مقصد صرف یہی تھا کہ اپنا کمرہ آباد رکھنے کے لیے گھر میں ایک عورت کی موجودگی کا بہانہ قائم ہے۔
اس روز علی احمد دادی اماں کے پاس چپ چاپ بیٹھے تھے۔ دادی اماں کہہ رہی تھیں “ اے ہے۔ لڑکی اگر تو ساتھ چلی جائے تو کم از کم علی احمد کو روٹی کی تکلیف تو نہ ہوگی۔ “ اور دروازے سے لگی ہاجرہ رو رہی تھی۔ اس کے آنسو ٹپ ٹپ گر رہے تھے۔
“ اللہ رکھے تیرے بال بچے ہیں۔ تو ہی تو اس گھر کی مالکہ ہے۔ تو ساتھ جائے گی تو ہی گھر بسے گا نا۔“
“ نہ میں نہیں بنتی مالکہ اس گھر کی۔“ ہاجرہ نے ہچکی لے کر کہا۔ “ بہت چاکری کر دیکھی ہے۔“
دادی بولی۔ “ آخر تو نہ جائے گی تو گزارہ کیسے ہو گا۔“ ہاجرہ نے کہا۔ “ میرے بغیر انہیں کسی چیز کی کمی ہے کیا۔“
“ چل چھوڑ اب۔“ دادی اماں بولی۔
پھر نہ جانے کیسے چند ہی منٹوں میں محلہ والیاں آ پہنچیں جیسے انہوں نے پہلے ہی سے پروگرام بنا رکھا ہو۔
“ اے ہے کیوں نہ جائے گی تو۔“ چاچی حاجاں ہاتھ چلا کر بولی “ اللہ رکھے تو اس گھر کی مالک ہے۔“
“ لو یہ سنو۔“ ماں جیواں نے ہاجرہ کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ “ اللہ عمر دراز کرئے تیرے بچوں کی۔ تو نہ جائے گی اپنے گھر تو ہو گا کیا۔“
“ تو ان آنے جانے والیوں کی کیا پرواہ کرتی ہے۔ آتی ہیں تو آ جائیں۔ آئیں گی اور چلی جائیں گی۔ ان کل موہنیوں کا کیا ہے جی۔ گھر تو تیرا ہی ہے نا۔ اپنے لیے نہیں تو ان بچوں کے لیے تجھے ضرور جانا چاہیے۔“
محلے کی بوڑھیاں ہاجرہ کے گرد چیلوں کی طرح منڈلانے لگیں۔ ان کی چیخیں سن کر ایلی نے محسوس کیا کہ بام پور میں طوفان آیا ہی چاہتا ہے۔ پہلے تو ہاجرہ نے جلی کٹی سنانے کی کوشش کی پھر اس نے ہچکیوں سے احتجاج کیا اور بالاخر خاموش ہو گئی اور اس کی خاموشی پر ایک ہنگامہ بپا ہو گیا۔
“ ہاجرہ جائے گی، ہاجرہ جائے گی۔“
“ اے ہے کیوں نہ جائے اپنے گھر۔“
“ ہی ہی ہی۔“ علی احمد ہنسنے لگے “ تو سامان باندھ دو نا اس کا۔“ اور سامان باندھا جانے لگا اور دو روز میں وہ سب بام آباد جا پہنچے۔
بام آباد ایک نیا شہر تھا۔ لیکن جب ایلی نے اسے دیکھا تو اس میں کوئی ایسا نیا پن دکھائی نہ دیا۔ ایلی کا خیال تھا کہ نیا شہر بھی ویسا ہی ہو گا جیسے نیا گھر ہوتا ہے لیکن اسے پہلی بار معلوم ہوا کہ نیا شہر نئے گھر سے قطعی مختلف ہوتا ہے۔
بام آباد ایک ویرانہ تھا۔ وسیع ویرانہ۔ اس کی سڑکیں بے تحاشہ چوڑی تھیں کہ سڑک پار کرنا مشکل ہو جاتا۔ پختہ سڑکیں تو در حقیقت بہت چھوٹی تھیں مگر ان کے ارد گرد بہت ساری زمین خالی پڑی ہوئی تھی۔ بازاروں کو دونوں طرف دکانوں کی جگہ جھونپڑیاں بنی ہوئی تھیں۔ جن میں عجیب سی دکانیں لگی ہوئی تھیں۔ سڑک کے درمیاں دو چوک آتے تھے۔ وہ چوک اتنے وسیع تھے کہ ایک طرف سے دوسری طرف چلتے چلتے ایلی تھک جایا کرتا۔ علی پور کا آصفی محلہ اس ایک چوک میں سما سکتا تھا۔ سڑک ختم ہوتے ہی ویرانہ شروع ہو جاتا پھر ہسپتال کی عمارت آتی جس پر ہر وقت موت کا سا سکوت طاری رہتا۔ دائیں طرف ہائی سکول کی عمارت تھی۔ ایک بہت بڑی پختہ اور خوبصورت عمارت شکل و صورت میں وہ انگریزی کے حرف ای (E) سے ملتی تھی۔ بڑی عمارت سے ہٹ کر کچے کمروں کی ایک لمبی قطار تھی اور اس سے مغرب کی طرف ایک مربع بلڈنگ تھی جس کے سامنے بہت بڑا پھاٹک لگا ہوا تھا۔ یہ سکول کا بورڈنگ ہاؤس تھا۔
سکول کے ارد گرد وسیع میدان تھے۔ جن میں ریت اڑتی تھی۔ ریت میں کہیں کہیں جھاڑیاں اگی ہوئی تھیں۔ سکول سے پرے یہاں وہاں کھجور کے درخت لگے ہوئے تھے اور سڑک پر اونٹوں کے قافلے آتے جاتے رہتے تھے۔
سکول سے بہت دور شہر کے دوسرے سرے پر علی احمد کا مکان ایک گلی میں واقع تھا۔ اس مکان میں چار کمرے تھے۔ ایک بہت بڑا صحن جس میں ایک کونے پر خاردار درخت لگا تھا۔ مکان کے ایک طرف کئی ایک غریب کنبے آباد تھے۔ وہیں ایک کوٹھڑی میں مائی رفیقاں اور اس کا بیٹا گاماں رہتے تھے۔ دوسرے طرف ایک گھوڑا ڈاکٹر رہتے تھے۔ جن کا رنگ بے حد کالا تھا مگر جن کی پیشانی محراب دار تھی۔ ڈاکٹر کا بیٹا فرید بھرپور جوان تھا۔ اس کا منہ کتنا چوڑا تھا اور اس کا جسم کس قدر پھیلا پھیلا سا تھا۔ ڈاکٹر کے گھر میں دو جوان لڑکیاں تھیں۔ زاہدہ اور عابدہ، جو ہر وقت نمازیں پڑھنے میں لگی رہتی تھیں۔ ان کی آنکھیں موٹی موٹی تھیں۔ لیکن وہ اس قدر کالی کیوں تھیں۔ ان کی آوازیں یوں سنائی دیتی تھیں جیسے گھنٹیاں بج رہی ہوں۔ وہ دونوں فرحت کی سہیلیاں بن گئیں۔ اس بات پر ایلی کو بڑا غصہ آیا۔ اسے فرحت کی سہیلیوں سے بے حد چڑ ہو گئی تھی۔ فرحت کی سہیلیوں کا خیال آتے ہیں اس کی نگاہوں تلے سارہ اور صبورہ آ جاتیں اور پھر آواز آتی “ سارہ سو گئی ہے کیا“ اور پھر چراؤں ٹھک دروازہ بند ہو جاتا۔ “ ہونہہ، سہیلیاں۔“ ایلی کے دل میں غصے کی ایک لہر اٹھتی اور وہ ہوا میں ایک گھونسہ چلا دیتا۔
زاہدہ اور عابدہ نے صحن کی درمیانی دیوار سے ایک اینٹ نکال رکھی تھی تاکہ آپس میں باتیں کر سکیں اور علی احمد آتے جاتے دزدیدہ اور حسرت بھری نگاہوں سے اس سوراخ کر طرف دیکھا کرتے اور ہاجرہ علی احمد کی نگاہوں کو دیکھ کر اپنا سینہ تھام لیا کرتی، ہائے اللہ اب کیا ہو گا اور ایلی محسوس کرتا کہ اب وہ سوراخ بڑا ہو جائے گا۔ بڑھتے بڑھتے دروازہ بن جائے گا اور پھر ایک دن آواز آئے گی۔ زاہدہ سو گئی کیا اور عابدہ چپکے سے دروازے سے نکل کر گھر میں آ جائے گی اور پھر علی احمد کے کمرے میں گھس جائے گی۔ پھر دروازہ بند ہو جائے گا اور پھر - پھر - لیکن غصے سے اس کا منہ اس قدر سرخ ہو جاتا کہ “ پھر “ کے متعلق اسے کوئی دلچسپی نہ رہتی۔

رفیقاں

بام آباد میں سب سے پہلی عورت جو ان کے گھر آئی رفیقاں تھی۔ “ بی بی کوئی کم ہووے تاں دسونا“ اس کے انداز میں بے بسی کی جھلک نمایاں تھی۔ لیکن نہ جانے کیوں ایلی نے محسوس کیا کہ اس کی جھکی جھکی آنکھیں نہ دیکھنے والی نظر آنے کے باوجود دیکھتی تھیں۔
ہاجرہ پہلے ہی روز رفیقاں کی دکھ بھری کہانی سن رہی تھی اور اس کا پلو بھیگا ہوا تھا۔ ایلی نے ایک نظر دونوں کو دیکھا اور پھر غصے سے بے تاب ہو کر باہر چلا گیا۔
رفیقاں روز ان کے یہاں آنے لگی۔ اس کے ساتھ اس کا چھوٹا بیٹا گاماں بھی ہوتا تھا۔ وہ آ کر گھر کے کام کاج میں ہاجرہ کا ہاتھ بٹاتی اور اس دوران علی احمد خلاف معمول خود چلم اٹھائے باورچی خانے میں آ جایا کرتے۔
“ اوہ۔ رفیقاں ہے۔ کیا حال ہے رفیقاں۔ اچھی تو ہے تُو۔ بڑی دیر کے بعد دیکھا ہے تجھے۔“ اور رفیقاں مسکراہٹ بھینچنے کو کوشش کرتی اور نظریں جھکا لیتی اور علی احمد اپنے آپ باتیں کرتے کرتے تھک جاتے اور پھر اپنے کمرے میں چلے جاتے اور وہاں پہنچ کر آواز دیتے “ رفیقاں ذرا آنا تو۔“ اس پر ہاجرہ کی تیوری چڑھ جاتی اور رفیقاں مسکرا کر سر جھکا لیتی جیسے وہ سب سمجھتی ہو اور چپ چاپ بیٹھی کام کیئے جاتی۔
لیکن ایلی کو محسوس ہوتا جیسے اس کی خاموشی میں ہاں کی جھلک ہو جیسے اس کا جی چاہتا ہو کہ اٹھ کر علی احمد کے کمرے میں چلی جائے اور پوچھے آپ نے بلایا ہے جی لیکن وہ بیٹھے رہنے پر مجبور تھی۔ بی بی کیا کہے گی اور بی بی بات بات پر کچھ نہ کچھ کہا کرتی تھی۔ آواز پڑنے پر وہ زیرِ لب کہتی “ اونہوں۔ ان تلوں میں تیل نہیں رفیقاں ایسی نہیں۔ سب عورتیں ایک سی نہیں ہوتیں کہ بلاوے کی منتظر ہوں۔“ یہ سن کر رفیقاں مسکرائے جاتی اور ایلی مبہم طور پر محسوس کرتا جیسے رفیقاں کا جی کچھ اور چاہتا ہے اور وہ کچھ اور کر رہی ہے اور ایلی کی نگاہ میں رفیقاں کی مسکراہٹ دو دھاری چھری کی طرح محسوس ہوتی تھی اور وہ رفیقاں سے نفرت کرتا اور یہ نفرت روز بروز شدید تر ہوتی جاتی تھی۔
لیکن ہاجرہ رفیقاں کے گُن گاتی تھی۔ بات بات پر رفیقاں کی تعریف، رفیقاں کی شرافت اور نیکی کی گھر میں دھوم مچی ہوئی تھی۔ شاید اسی دھوم کی وجہ سے رفیقاں قطعی طور پر مجبور ہو گئی تھی کہ علی احمد کی آواز سننے کے باوجود اور ان کی متبسم آنکھوں کے اشارے کے باوجود چپ چاپ بیٹھی رہے۔ اسکے باوجود جب وہ علی احمد کے کمرے کے دروازے کے قریب سے گزرتی تو اس کی گردن تن جاتی۔ گھگھرا یوں کھلتا اور بند ہوتا کہ عجیب سےدائرے بنتے چلے جاتے اور ایلی محسوس کرتا جیسے اس کا جی چاہتا ہو کہ رک جائے اور چوری چوری مسکرانے کی بجائے قہقہہ مار کر ہنس دے۔ کیوں بلایا ہے مجھے۔ کس نے بلایا ہے مجھے، مگر وہ چلے جاتی چلے جاتی۔ ایلی سمجھتا تھا کہ ہاجرہ کی توقعات نے اس کا وہاں رکنا ناممکن کر دیا اور ہاجرہ کے ان محبت بھرے جذبات سے جو اس نے رفیقاں سے وابستہ کر رکھے تھے۔ صفیہ کی بُو آتی تھی اور ایلی کو محسوس ہوتا تھا جیسے رفیقاں صفیہ کی جانشین ہو ------ ایلی کو اس بات پر اور بھی غصہ آتا تھا۔
علی احمد کا گھر ایک عجیب گھر تھا۔ اس میں دو طاقتیں برسرِ پیکار تھیں۔ علی احمد اور ہاجرہ ہر نوواردہ کو دیکھ کر دونوں طاقتیں اسے اپنی اپنی طرف کھینچتیں۔ علی احمد کے کمرے کا کھلا دروازہ اسے اپنی طرف بلاتا اور باورچی خانے کی محراب اسے اپنی طرف کھینچتی۔ علی احمد کے دروازے سے قہقہوں کی آواز سنائی دیتی اور باورچی خانے سے دبی دبی آہوں کی۔ وہ کمرہ اور باورچی خانہ دونوں ہی مظلوم تھے۔ کمرہ ہی ہی کرنے پر مجبور تھا اور باورچی خانہ آہیں بھرنے پر۔ فطرت ان دونوں کی مجبوریوں پر مسکراتی تھی۔ جیسے وہ ان دونوں کے راز سے واقف ہو اور ان دونوں کی کشمکش سے دور ایلی اور فرحت ایک ویرانے میں اکیلے زندگی کے دن کاٹ رہے تھے۔ تن تنہا۔
ہر نوواردہ کے پاؤں کی آہٹ سن کر دونوں بھائی بہنوں کے کان کھڑے ہو جاتے۔ اب کیا ہو گا۔ وہ اشتیاق بھری نگاہوں سے اسے دیکھنے لگتے۔ نوواردہ کمرے اور باورچی خانے کے درمیاں لٹک جاتی۔ اس کی سمجھ میں نہ آتا کہ کیا کرے۔ بالاخر یا تو وہ باورچی خانے میں جا پہنچتی اور یا علی احمد کے کمرے میں رک جاتی اور پھر مکان سے یا تو قہقہوں کی گونج سنائی دیتی اور یا آہوں کی۔ ہر صورت میں مکان پر اداسی چھا جاتی۔ جس میں دبی دبی چیخوں کی گھٹی گھٹی آوازیں سنائی دیتیں اور ایلی ڈر کر چلاتا۔ آپا اتنی اداس کیوں ہے۔ اور فرحت آہ بھر کر کہتی “ اب تو سوئے گا بھی کہ نہیں۔“
صفیہ کی موت کے بعد بھی گھر میں ہاجرہ کی حثییت ایک نوکرانی کی سی تھی۔ وہ دن بھر باورچی خانے میں برتن مانجھتی۔ آہیں بھرتی اور آنے جانے والیوں کے پاس بیٹھ کر آنسو بہاتی رہتی۔ “ ایلی کی ماں “ کمرے سے آواز آتی۔ وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھتی “ جی آئی “ اور پھر درواشے کے باہر چوکھٹ سے لگ کر پوچھتی۔ “ جی کیا ہے؟“ جیسے کوئی فقیر بھیک مانگنے کے لیے کھڑا ہو۔ ہاجرہ فطری اور ازلی طور پر بھکارن تھی۔ ڈر، خوف، ہراس اور احساس کمتری اس کی گھٹی میں پڑے تھے جو اس نے وراثت میں ایلی کو بخش دیئے تھے۔

بند کمرا

پھر علی احمد کے دفتر میں کلرکوں کی بھرتی کے لیے امتحانات شروع ہو گئے اور علی احمد کے گھر میں سفارشات کا سلسلہ جاری ہو گیا۔ وہ پہلا موقع تھا جب کہ ایلی کو احساس ہوا کہ امتحانات اس قسم کے نتائج بھی پیدا کر سکتے ہیں۔
ڈیوڑھی میں غریب سائلوں کی منتیں سنائی دیتیں اور پھر کھجوروں سے بھری ہوئی ٹوکری اندر آ جاتی اور پھر علی احمد کو خود باہر جا کر ٹوکری بھیجنے والے کو ڈانٹنا پڑتا۔ پھر منتوں کی آوازیں بلند ہوتیں اور پھر ٹوکری دوبارہ گھر میں آ پہنچتی۔
ان دنوں سفارشوں کا تانتا بندھا تھا۔ شاید اس لیے کہ بام پور غریبوں کا شہر تھا۔ یا شاید اس لیے کہ علی احمد کے ٹین کے سپاہی کے متعلق لوگ جان چکے تھے۔
علی احمد اپنے کمرے سے باہر سائلوں کی طرف دیکھتے اور پھر یوں کام میں لگ جاتے، جیسے دیکھا ہی نہ ہو۔ ادھر ہاجرہ ان مہمانوں کو منہ نہ لگاتی اور بات کیے بغیر اپنے کام میں مشغول رہتی۔ پھر ایلی چوری چوری جھانکتا۔ اس کو توجہ لوگوں کی نسبت اس ٹوکری پر پڑتی جو ان کے ساتھ ہوتی۔ علی احمد کی توجہ ٹوکری کی بجائے اس شخص پر پڑتی جو سفارش کے لیے آتا تھا۔ چار ایک بار دیکھنے اور جانچنے کے بعد وہ باہر نکلتے اور غصے میں چلاتے “ ہاں بھئی کیا کام ہے۔ میں کچھ نہیں کر سکتا۔ میں قطعی طور پر مجبور ہوں۔“ یہ کہہ کر وہ اندر چلے جاتے اور از سر نو کام میں مشغول ہو جاتے۔
اکثر بار سفارشی براہ راست علی احمد کے کمرے میں جا پہنچتا اور ابتدائی جھاڑ جھپاڑ کے بعد ہی ہی ہی ہی ان کا قہقہ گونجتا اور ایلی کو معلوم ہو جاتا کہ ٹین کا سپاہی بیدار ہو چکا ہے اور ابھی وہ رزم گاہ میں اتر آئے گا اور پھر ------ پھر گھر پر موت کا سناٹا چھا جائے گا اور اس سناٹے میں رنگین مگر دبی دبی ہنسی کی آواز ابھرے گی۔ پھر دفعتاً سب ٹھیک ہو جائے گا اور نتائج خوشگوار ہوں گے۔ جیسے دکھی شہزادی کی کہانی میں مشکلات لڑائیوں اور امتحانات کے بعد سب ٹھیک ہو جاتا ہے۔ اور اس کے بعد سب ہمیشہ خوش و خرم رہتے سہتے ہیں۔
اس سے پہلے ایلی کو مبہم سا احساس تھا کہ سب قصور علی احمد کا ہے اور وہ سوچا کرتا نہ جانے وہ ایسا کیوں کرتے ہیں۔ کیوں دروازہ کھلتا ہے اور پھر بند ہو جاتا ہے۔ کیوں ٹین کا سپاہی ہنس ہنس کر لڑتا ہے اگرچہ اسے خوب معلوم تھا کہ علی احمد کے کمرے میں جو کچھ ظہور پذیر ہوتا ہے۔ جسے قہقہوں اور بھیانک سناٹے سے تعلق ہے۔ گناہ ہے لیکن اسے یہ معلوم نہ تھا کہ وہاں ہوتا کیا ہے۔ بلکہ اس کے دل میں دبی دبی آرزو تھی کہ کبھی وہ اتفاقاً وہاں چلا جائے اور اتفاقاً اس کی نظر پڑ جائے اور پھر اسے غصہ آنا شروع ہو جاتا۔ نہ جانے اپنی بے بسی پر یا اس عمل پر جو اس کے خیال میں وہاں ظہور پذیر ہوتا تھا۔
اب ایلی کو مبہم سا احساس ہونے لگا کہ علی احمد بیچارے مجبور تھے۔ ان کی نگاہوں سے ان کی مجبوری واضح ہوتی تھی۔ ان کی ہی ہی ہی ہی میں ان کی مجبوری صاف سنائی دیتی تھی۔ وہ کیوں اور کیسے مجبور تھے اسے معلوم نہ ہوا۔ بہرحال وہ مجبور تھے۔ قصور انکا تھا جو اپنے عزیزوں کو ساتھ لاتی تھیں۔

کور اور آسا

کور بھی پہلی مرتبہ بھائی کی سفارش کرنے آئی تھی۔ اس کے ساتھ اس کی ماں تھی۔ خود آسا تھا جسے دفتر میں کلرک بننے کا بے حد شوق تھا۔ تینوں کا قافلہ چپ چاپ اندر آ گھسا۔ آگے آگے ماں تھی۔ درمیان میں کور تھی اور پیچھے آسا۔ ماں کے کپڑے میل سے بھرے ہوئے تھے۔ اس کا جسم لٹا ہوا تھا۔ نگاہ حرص آلود تھی۔ اسے دیکھ کر انتہائی غلاظت کا احساس ہوتا تھا۔ کور سیاہ فام گوشت تھا۔ کور سیاہ فام گوشت کا ایک گول مٹول لوتھڑا تھی۔ جس پر بھڑکیلے کپڑے ٹنگے ہوئے تھے۔ جو اس لوتھڑے کو اور بھی بدنما بنا رہے تھے۔ اس کا قد ٹھنگنا تھا۔ سر چھوٹا اور گول جس میں چھوٹی چھوٹی آنکھیں رینگتیں اور سفید دانت رضامندی کی چمک سے روشن تھے۔
آسا ایک اونچا لمبا لڑکا تھا۔ اس کا چہرہ ذہنی چمک سے کورا تھا۔ اس کی آنکھوں میں حماقت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اور اس کے انداز سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ وہ کو کے پیچھے پیچھے چلنے کا عادی ہے۔
یہ قافلہ چپکے سے مکان میں داخل ہوا اور علی احمد کے متعلق ابتدائی معلومات حاصل کرنے کے بعد باہر صحن میں اسی مقام پر خیمہ زن ہو گیا۔ جہاں سے اندر کام میں منہمک علی احمد پورے طور پر دکھائی دیتے تھے۔ علی احمد نے باہر دیکھا۔ کور کے دانت چمکے۔ انہوں نے جلد ہی سر جھکا کر لکھنا شروع کر دیا۔ کور اپنے گھگھرے اور چولی کو ٹھیک کر کے علی احمد کی طرف منہ موڑ کر بیٹھ گئی۔ بڑھیا نے اس کی طرف پیٹھ کر لی۔ آسا آسمان کی طرف اڑتی ہوئی چیلوں کو بغور معائنہ کرنے لگا۔ کور کے دانت پھر چمکے۔ اس نے ایک بھرپور انگڑائی لی۔ علی احمد کے ہاتھ سے قلم چھوٹ کر رجسٹر پر جا گرا۔ “ کون ہے؟“ وہ بولے۔ جواب میں دانت چمکے اور بغیر کسی تمہید کے کور اٹھ کر علی احمد کے کمرے میں جا داخل ہوئی۔ اس پر بڑھیا اس خاردار درخت کو دیکھنے میں مصروف ہو گئی۔ جو صحن میں پھیلا ہوا تھا اور آسا تنکے سے زمیں پر بیل بوٹے بنانے لگا۔
اس روز علی احمد کے کمرے سے ٹین کے سپاہی کی ہی ہی ہی سنائی دینے کی بجائے ربڑ کی گڑیا کی چیں چیں سنائی دے رہی تھی۔ اور ایلی حیران تھا اور فرحت یوں خلا میں گھور رہی تھی جیسے کچھ بھی نہ ہو۔
دفعتاً دروازہ کھلا اور کور ہنستی ہوئی نکلی۔ “ ماں۔ ماں آسا فیل تو نہیں۔ آسا تو پاس ہے۔ نہ جانے کس نے اس سے کہہ دیا ہے کہ تو فیل ہے خواہ مخواہ وہ تو پاس ہے۔ میں نے خود نتیجہ دیکھا ہے۔ تو نے کہا نہیں تھا۔“ اس نے آسا کو مخاطب کر کے کہا۔
“ یہ تو پاگل ہے۔“ آسا کی ماں بولی۔
آسا پاگلوں کی طرح ہنسا اور پھر خاموش ہو گیا۔ کور کے دانت چمکے۔ علی احمد سر کھجانے لگے۔ “ آؤں گی۔ ضرور آؤں گی۔ بابو جی۔“ وہ بولی “ چل ماں“ اور مڑ مڑ کر دانت چمکاتی ہوئی سیاہ گھگھرے کو ٹانگوں پر لپیٹتی ہوئی چل پڑی۔ اب آسا سب سے آگے تھا، پیچھے اس کی ماں اور سب سے پیچھے کور تھی۔
انہیں جاتے دیکھ کر ایلی باہر نکلا۔ مضطربانہ گھر میں گھومنے لگا۔ باورچی خانے میں داخل ہوا تو دفعتاً سرگوشیوں کی آوازیں بند ہو گئیں۔ ہاجرہ چولہے کے پاس بیٹھی تھی۔ اس سے ذرا پرے رفیقاں گھگھرے پر بوٹیاں بنا رہی تھی۔
ظاہر تھا کہ وہ دونوں کور کے متعلق باتیں کر رہی تھیں۔ لیکن کیوں ایلی کے آنے پر وہ دفعتاً چپ کیوں ہو جایا کرتی تھیں۔ یوں سر سے سر جوڑ کر دبی دبی آواز میں پہروں باتیں کرتے رہنا اور رفیقاں کے ہونٹوں پر وہ دبی دبی مسکراہٹ جیسے وہ اپنے آپ کو دھوکہ دے رہی ہو، جیسے وہ ہاجرہ کو فریب دے رہی ہو۔ اماں اسے اس قدر اچھا کیوں سمجھتی تھیں اور وہ چلتے وقت جان بوجھ کر اس طرح قدم کیوں اٹھاتی تھی کہ اس کے گھگھرے میں دائرے پڑیں اور علی احمد کے کمرے کے پاس سے گزرتے ہوئے اس کی گردن مورنی کی طرح تن کیوں جاتی تھی۔ ایلی کو ان سب باتوں کی وجہ سے رفیقاں سے نفرت تھی۔
شدید نفرت ایسی نفرت جو اسے کور سے بھی نہ تھی۔

نوکرانی کے ہاں بچہ

چند ہی دنوں بعد ان کے یہاں ایک عجیب سا واقعہ ہوا۔ ایک روز وہ گلی میں کھیلنے کے بعد جب گھر میں داخل ہوا اور اپنے کمرے کی طرف بڑھا تو فرحت نے اسے روک دیا۔
“ اونہوں اندر نہ جانا۔“
وہ اس بات پر حیران رہ گیا “ کیوں اندر کیا ہے۔“
“ اماں بیمار ہیں۔“ فرحت نے کہا۔
“ تو کیا ہوا۔“ ایلی نے کہا۔ وہ تو ان کا اپنا کمرہ تھا۔ علی احمد کا کمرہ تو نہ تھا جس میں جانے سے ہمیشہ گھبرایا کرتا تھا اور داخل ہونے سے پہلے ان جانے میں کھانستا اور پھر نگاہیں جھکا کر داخل ہوتا جیسے کوئی جرم یا گناہ ہو مگر یہ تو ان کا اپنا کمرہ تھا۔ پھر فرحت کا اسے روکنے سے کیا مطلب تھا۔ اگر اماں بیمار تھیں تو کیا تھا۔ بیماری کی وجہ سے کمرے میں جانے کی ممانعت تو نہیں ہو سکتی۔ اماں دفعتاً میم تو نہیں بن گئی تھیں کہ بیماری میں‌ لوگوں سے ملنا چھوڑ دیا تھا۔ یہ سب فرحت اپنی طرف سے کہہ رہی تھی۔ ایلی نے سوچ کر سینہ تان لیا۔ “ نہیں نہیں میں جاؤں گا۔“ وہ بولا۔
عین اس وقت رفیقاں دوڑتی ہوئی باہر نکلی “ تمہیں مبارک ہو۔ تمہارے ہاں ایک ننھا بھائی ہوا ہے۔“ بھائی ہوا ہے۔ اس کی سمجھ میں میں نہ آیا۔ بھائی کیسے ہو سکتا تھا۔ رفیقاں کا مطلب کیا تھا۔ اماں کے یہاں بیٹا لیکن یہ کیسے ممکن تھا۔ اماں تو اس گھر کی نوکرانی تھی۔ نوکرانی کے گھر بیٹا۔ اماں تو علی احمد کے کمرے میں کبھی نہ گئی تھی۔ اماں کو تو کبھی آواز پڑتی تھی۔ ہاجرہ سو گئی کیا۔ اماں تو ایسی نہ تھی۔ پھر اماں کے ہاں بیٹا نہیں نہیں یہ نہیں ہو سکتا۔ یہ گناہ تھا، بے عزتی تھی۔ نوکرانی کی بے عزتی۔ اماں نے تو کسی کلرک کو بھرتی نہ کرانا تھا۔ پھر یقیناً رفیقاں بکتی تھی۔ وہ دوڑ کر اندر گیا اور ننھے منے بچے کو دیکھ کر شرم سے زمین میں گڑ کے رہ گیا۔ پھر وہ باہر آ بیٹھا اور محسوس کرنے لگا۔ جیسے وہ آسا ہو۔ جیسے علی احمد نے اس کی ماں کو بھی کھلونا بنایا ہو۔ اس خیال پر اس کے دل کو ایک دھچکا لگا۔
وہ صحن میں خاردار درخت کے نیچے بیٹھ گیا۔ چاروں طرف ویرانی چھائی ہوئی تھی۔ دور تک کچی اینٹوں کی منڈیروں کا ڈھیر لگا ہوا تھا اور اس سے پرے ریت کے ٹیلے اداس کھڑے تھے۔ آسا۔ آسا درخت پر بیٹھا ہوا کوا چلایا۔ اس نے غصہ میں ایک پتھر اٹھا کر اس کی طرف پھینک دیا۔
ہاجرہ کے کمرے میں‌ شور مچا ہوا تھا۔ محلے والیاں اونچی آواز میں چلا رہی تھیں۔ “ بہن تمہیں مبارک ہو۔“
وہ ہاجرہ کو مبارک باد کیوں دے رہی تھیں۔ لوگ کیوں ہاجرہ کے کمرے میں جمع ہوتے جا رہے تھے۔ کیوں؟ لوگوں کو تو چاہیے تھا کہ اس سے نفرت کریں جو نوکرانی ہونے کے باوجود گود میں بچہ لیے پڑی تھی۔ لیکن اماں کو بھی احساس نہ تھا۔ کس بے شرمی سے مسکرا رہی تھی۔ اسے شرم نہ آتی تھی۔ مگر اماں تو ایسی نہ تھی۔
ایلی شرم سے پانی پانی ہوا جا رہا تھا۔ اب وہ لوگوں کو کیسے منہ دکھائے گا۔ اب وہ اپنی ماں کے سامنے کیسے جائے گا اور فرحت ------ فرحت کو اس بات کا کتنا دکھ ہو گا۔ مگر فرحت تو خوشی سے پھولے نہ سما رہی تھی۔ کیا فرحت کو یہ بات گوارا تھی۔ کیا اس حادثہ پر اسے دکھ نہ ہوا تھا۔ ادھر ابا اپنے کمرے میں آقاؤں کی طرح اطمینان سے بیٹھے لکھ رہے تھے۔ جیسے انہیں نوکرانی اور اس کے نوزائیدہ بچے کی خبر ہی نہ ہو۔
بچے کی مبارکباد کے لیے مختلف قسم کے لوگ آتے تھے۔ کچھ تو ہاجرہ کی کوٹھری میں جا کر گھس جاتے اور کچھ علی احمد کے کمرے سے آگے نہ جا سکتے۔ کور ان لوگوں میں پیش پیش تھی۔ “ بابو جی مبارخ ہو۔“ وہ دور سے چلاتی ہوئی آئی اور پھر علی احمد کے کمرے میں داخل ہو کر یوں مطمئن ہو گئی۔ جیسے علی احمد ہی زچہ اور بچہ ہوں۔
علی احمد کا کمرہ کور کے لیے مخصوص ہوا جا رہا تھا۔ ہر دوسرے تیسرے دن وہ دانت چمکاتی گھگھرا جھلاتی آ موجود ہوتی۔ “ کہو بابو جی کیا حال چال ہے۔ ننھا کیسا ہے۔“ اس کے سفید دانت سیاہ رنگ میں چمکتے۔ “ آ گئی تو۔“ علی احمد اس کی طرف دیکھ کر مسکراتے۔
“اچھا تو ابھی یقین نہیں آیا۔“ وہ پنکھے کی رسی ہاتھ میں پکڑ کر چابک کی طرح جھلاتے ہوئے چلاتی۔
یہ دیکھ کر ٹین کا سپاہی جوش میں آ جاتا۔ “ اچھا یہ جرات۔“
پھر کمرے میں اودھم مچ جاتا اور ایلی غصے میں مٹھیاں بھینچتا۔ “ کتنی مکروہ آواز ہے کور کی، انداز کس قدر ننگا ہے۔ ننگا اور غلیظ“ اسے کور سے نفرت تھی اور وہ آسا کو دیکھ کر غصے میں کھولنے لگتا تھا۔ کیونکہ وہ محسوس کرتا جیسے خود آسا ہو اور کلرکی کا امتحان پاس کرنے کے لیے ہاجرہ کو لے کر آیا ہو۔
ایلی بڑی محنت سے اپنی توجہ کسی اور طرف مبذول کرنے کی کوشش کرتا مگر ان کی آوازیں اس کے کانوں پر ہتھوڑوں کی طرح پڑتیں۔ پھر دفعتاً علی احمد کے کمرے کا دروازہ کھلتا اور علی احمد کی آواز سنائی دیتی “ ایلی، ایلی۔“

دھرم بھرشٹ

اس وقت ایلی کا علی احمد کے کمرے میں جانا کس قدر دشوار اور پُراذیت ہوا کرتا اور وہ دروازے پر جا کر رک جاتا۔ اندر جانے کی ہمت نہ پڑتی۔ پھر وہ انتظار کرتا کہ ایک بار پھر آواز پڑے تو اندر جائے۔ باہر چلچلاتی دھوپ میں اسے کافی دیر تک کھڑا رہنا پڑتا۔ اندر ربڑ کی گڑیا نہ جانے کیا کیا تماشے کرتی۔ ان تماشوں میں وہ دونوں بھول جاتے کہ انہوں نے ایلی کو آواز دی تھی۔
“ ایلی “ دوسری مرتبہ آواز پڑنے پر وہ ڈرتا ڈرتا اندر داخل ہوتا۔ اکثر دونوں ایک دوسرے سے یوں باتوں میں مشغول ہوتے، ایک دوسرے میں اس حد تک کھوئے ہوتے کہ دیر تک قریب کھڑے ایلی کی طرف ان کی توجہ مبذول نہ ہوتی۔ پھر علی احمد چونک کر کہتے “ اوہ تو آ گیا ایلی۔ وہ میز پر بوتل پڑی ہے۔ اس میں پانی لے آ۔ کور کو پیاس لگی ہے۔“ ایلی غصے سے تنگ منہ والی بوتل کو دیکھتا ------ گردن مروڑ کر اسے اٹھا لیتا۔
“ ایلی۔“ کور چلاتی “ کنوئیں سے لانا۔“
ایلی کے تن بدن میں آگ لگ جاتی۔ کنوئیں سے لانا۔ بڑی آئی دھرم والی۔ چاہے خود روز بھرشٹ ہوتی رہے۔ پر دھرم بھرشٹ نہ ہو۔ اس گھر کا پانی نہ پئے گی۔ مٹکے کا پانی نہ پیئے گی۔ دھرم بھڑشٹ ہوتا ہے۔ لیکن بند کمرے میں خون چوسنے سے دھرم بھرشٹ نہیں ہوتا۔ مسلمان سے کشتی لڑنے سے دھرم بھرشٹ نہیں ہوتا۔ ہتھیلی پر دو روپے رکھوانے سے دھرم بھڑشٹ نہں ہوتا۔ بڑی دھرم والی بنی پھرتی ہے۔ کنوئیں سے لانا، غصے میں وہ بل کھاتا۔ لیکن بل کھانے کے علاوہ وہ کر ہی کیا سکتا تھا۔ چلچلاتی دھوپ میں چلتا ہوا، غصے کی آگ میں کھولتا ہوا وہ کنوئیں پر پہنچتا، راستے میں وہ بار بار دانت پیس پیس کر بوتل کی گردن مروڑتا۔ جیسے وہ کور ہو، بوتل کی گردن مروڑنے سے اس کی ایک گونہ تسلی ہو جاتی تھی۔
بام آباد میں کنوئیں نہیں تھے۔ جن میں ڈول ڈال کر پانی نکالا جا سکتا۔ وہاں سب کنوئیں رہٹ والے تھے۔ چلچلاتی دھوپ میں ایلی کو تن تنہا رہٹ کو بیل کی طرح کھینچنا پڑتا۔ اول تو اس کے چلانے سے رہٹ کا چکر ہلتا بھی نہ تھا۔ دم لینے کے بعد وہ پھر سے رہٹ کو دھکیلتا اور پھر تھک کر رک جاتا تاکہ تازہ دم ہو کر اسے چلا سکے اور جب چلتے پانی کا اتنا بڑا دھارا بوتل پر گرتا تو بوتل گر کر اوندھی جاتی۔ اس نے کئی بار علی احمد سے کہا تھا کہ کنوئیں پر بوتل نہیں بھرتی لیکن کور نے شیشے کی بوتل کے علاوہ کسی اور برتن میں پانی پینے سے انکار کر دیا تھا۔ شیشے کی بوتل میں پانی پینے سے دھرم بھرشٹ نہ ہوتا تھا اور علی احمد کے گھر میں کور کے نزدیک اور کوئی برتن نہ تھا جس میں دھرم بھڑشٹ کیے بغیر پانی پیا جا سکتا ہو۔ علی احمد بیچارے کر بھی کیا سکتے تھے۔ وہ کور کی بات سن کر ہنس دیتے اور کور انہیں ہنستا دیکھ کر کمرے میں لگے ہوئے پنکھے کی رسی معنی خیز انداز سے گھماتی جس پر علی احمد اور بھی ہنسنے لگتے اور بات شروع ہوئے بغیر ہی ختم ہو جاتی۔
علی احمد رسی کا سگنل دیکھتے ہی ٹین کے سپاہی میں بدل کر ربڑ کی گڑیا پر وار کرنا شروع کر دیتے۔ جیسے کہ ایک سپاہی کا فرض ہوتا ہے اور ایلی بوتل ہاتھ میں‌ اٹھائے کھڑے کا کھڑا رہ جاتا اور اس کی رہٹ اور بوتل کی داستان علی احمد اور کور کے قہقہوں میں دب کر رہ جاتی۔
ایک روز کنوئیں سے پانی لاتے ہوئے اسے ایک خوفناک خیال آیا۔ اس کا دل دھک سے رہ گیا۔ اس نے چاروں طرف دیکھا۔ دوپہر کی کڑکتی دھوپ میں بام آباد کا وہ ریتلا میدان ویران پڑا تھا۔ دور تک گلیوں میں کوئی نہ تھا۔ اس نے بوتل کی طرف دیکھا۔ ایک بار پھر چاروں طرف نگاہ دوڑائی۔ مطمئن ہونے کے بعد ایلی نے منہ میں تھوک بھرا اور پھر دھڑکتے ہوئے بوتل میں تھوک دیا۔
اس روز پانی لاتے ہوئے وہ بے حد مسرور تھا۔ جیسے اس نے اپنے دشمن کو ہمیشہ کے لیے زیر کر لیا ہو۔ جیسے اس کا انتقام پایہ تکمیل تک پہنچ چکا ہو۔ پھر دفعتاً اسے ایک اور خیال آیا۔ وہ رک گیا اور بوتل زمین پر رکھ کر سوچنے لگا۔ اس کا دل دھک دھک بج رہا تھا۔ منہ سرخ ہو رہا تھا اور بدن پر چیونٹیاں رینگ رہی تھیں۔ لیکن وہ ڈر گیا۔ اس میں اس قدر جرات نہ تھی۔ اس کے علاوہ اس کھلے میدان میں کوئی جگہ نہ تھی۔ جہاں وہ اپنے خیال کو عملی جامہ پہنا سکتا۔ لیکن ڈیوڑھی میں‌ پہنچ کر دفعتاً اس نے محسوس کیا کہ وہاں اسے کوئی بھی نہ دیکھ سکتا تھا۔ کوئی نہیں۔ خوشی سے اس کا چہرہ تمتما اٹھا۔ وہ خوش تھا۔ اس کا انتقام ادھورا نہ رہے گا۔ اس نے بوتل ایک کونے میں رکھ دی۔ دروازے کی کنڈی چڑھا دی اور پھر ------ بوتل میں پانی کی سطح ابھر رہی تھی۔
اس روز کور کو بوتل سے پانی پیتا دیکھ کر اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ خوشی اس کے دل میں یوں چھلک رہی تھی، جیسے سوڈے کی بوتل میں جھاگ اچھلتی ہے۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ فرحت اور ہاجرہ دونوں کو اپنی مسرت میں شریک کر لے۔ محلے کے ہر دروازے کو جا کر کھٹکھٹائے ور انہیں اپنا راز بتائے اور پھر ان کو اپنے ساتھ علی احمد کے کمرے میں لے آئے تاکہ وہاں وہ سب کور کو بوتل سے پانی پیتے دیکھیں۔
اماں کو بتانا بیکار تھا۔ اماں تو نصیحتیں کرنے کے سوا کچھ جانتی ہی نہ تھی۔ ایلی کوئی بات بھی کرتا، وہ جواب میں نصیحت فرما دیتی، کہا کرتی تھی کوئی برا کرتا ہے تو کرنے دو لیکن تم اس کے ساتھ برائی نہ کرو۔ اس پر ایلی محسوس کرتا۔ جیسے اماں عیسائی ہو جو ایک گال پر تھپڑ کھا کر دوسرا پیش کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ ہونہہ اماں تو خوامخواہ بنتی تھیں۔ اس کے علاوہ جب سے اس کے یہاں بچہ ہوا تھا، ایلی کی اس کے متعلق رائے بدل چکی تھی۔ اس لیے وہ خاموش رہا۔ اس نے بوتل کے پانی کا راز کسی کو نہ بتایا۔ البتہ اس روز کے بعد اسے بوتل بھرنے کی کوفت سے نجات مل گئی۔
اس سے پہلے وہ کور کی آمد کی خبر سن کر گھبرا جایا کرتا تھا۔ اب اسے بوتل بھرنے کے لیے جانا پڑے گا۔ چلچلاتی دھوپ میں کنوئیں کا بھاری چکر دھکیلنا پڑے گا۔ لیکن اب جونہی وہ گھر میں داخل ہوتی، ایلی کا جی چاہتا کہ وہ جلدی پانی مانگے اور ایلی بوتل میں نفرت کا زہر بھر کر لا دے۔ اب اسے کنوئیں کا چکر چلانے اور بوتل بھرنے میں کوفت کی بجائے مسرت ہوتی اور پھر جب چوگان میں بیٹھ کر وہ منہ میں تھوک اکٹھا کرتا تو اس کا چہرہ خوشی سے لال ہو جاتا، پھر ڈیوڑھی کی طرف بھاگتا اور بالآخر بوتل اٹھائے خوشی خوشی علی احمد کے کمرے کی طرف چل پڑتا۔ اس خوشی میں یہ قطعی طور پر بھول جاتا کہ علی احمد کے کمرے میں کھانس کر داخل ہونا چاہیے اور وہاں جانے سے پہلے سر جھکا لینا چاہیے۔

انوکھے جذبات

اس زمانے میں وہ محبت کے اولین جذبات سے واقف ہو رہا تھا۔ اس کے دل میں نئے انوکھے جذبات ابھر رہے تھے۔ اسے بلا وجہ سکول کے دو ایک لڑکے اچھے لگنے لگے تھے۔ حالانکہ اچھا لگنے کی کوئی وجہ معلوم نہ ہوتی۔ پھر بھی وہ اسے اچھے لگتے تھے۔ مثلاً اس کے ہم جماعتوں میں ایشور لال، پرکاش اور گھنشام تھے۔ مثلاً اسے گھنشام کا چپ چاپ کھڑا ہونا۔ وہ ایک عجیب انداز سے کھڑا ہوتا تھا۔اس کی ایک ٹانگ سیدھی ہوتی، دوسری یوں خمیدہ رہتی جیسے ازلی طور پر اس میں سیدھا ہونے کی صلاحیت ہی نہ ہو۔ ہونٹ یوں آپس میں چٹکی سی بنائے رہتے جیسے ابھی کوئی بات کرنے والے ہوں، مگر ہونٹوں پر آئی ہوئی وہ بات ہونٹوں میں دبی رہتی۔
پھر وہ پرکاش تھا۔ پرکاش کا پھولا پھولا چہرہ اور اس کے رخسار پر وہ سیاہ تل اسے بڑا اچھا معلوم ہوتا تھا اور ایشور لال کا وہ قہقہہ۔ اس کا بے تکلف انداز۔ اس کا لمبا سا منہ اور میلے دانت اسے بڑے اچھے لگتے تھے۔ ایلی صبح شام ایشور لال کے ساتھ رہتا تھا اور شوق سے اس کی باتیں سنتا رہتا۔ حالانکہ ایشور لال کے دانت بڑے بھدے اور زرد تھے اور اس کے منہ سے بُو آتی تھی مگر وہ بُو کتنی اچھی لگتی تھی۔ اسے ایشور لال کا بولے جانا بولے جانا، اونچی آواز میں شور مچانا، اس کی پھٹی پھٹی آواز سنکر ایلی محسوس کرتا جیسے اس پر ہپناٹزم کر دیا گیا ہو۔ وہ کیفیت کس قدر پُر لذت محسوس ہوتی تھی۔
روز شام کے وقت ایلی اس طرف نکل جاتا جس طرف گھنشام کا گھر تھا اور گھنٹوں گلیوں اور بازاروں میں اس امید پر آوارہ پھرتا کہ گھنشام کسی کام کے لیے باہر نکلے اور پھر۔ پھر اسے دیکھ کر رک جائے۔ کھڑا ہو جائے اسی طرح جس طرح سکول کے برآمدے میں کھڑا رہتا ہے۔ ایک ٹانگ سیدھی اور دوسری میں خم، پھر وہ دونوں پاؤں ملا لیتا اور پنجوں کے بل کھڑا ہو کر ایڑیاں اٹھا لیتا اور پھر پنجوں پر جھولنے لگتا۔ ایلی کو یوں لگتا جیسے کوئی ننھا سا فرشتہ فضا میں تیر رہا ہو۔ اس کے ہونٹ کلی سے بنے رہتے تھے۔ نہ جانے ہونٹ کیوں کلی سے بن جاتے تھے۔ جیسے اس نے کوئی بڑی شگفتہ بات سنی ہو یا کہنے والا ہو۔
بیٹھے بٹھائے ایلی کے دل میں اضطراب سا پیدا ہو جاتا۔ اس کا جی چاہتا کہ وہ ایشور لال کی باتیں سنے یا گھنشام کے سامنے کھڑا ہو اور فضا میں کوئی پیارا سا فرشتہ جھول رہا ہو یا پرکاش کا گول چہرہ اس کی نگاہوں میں سما جاتا اور وہ بے تاب ہو کر اٹھ بیٹھتا اور باہر گلی میں جا کر ٹہلنے لگتا۔ لیکن گلی میں ٹہلنا بھی تو مشکل ہوا جا رہا تھا۔ وہاں ٹہلتا تو پڑوس والے گھر سے زاہدہ اور عابدہ کی آوازیں کان میں پڑتیں۔ کس قدر سریلی آوازیں تھیں۔ دل میں تیر کی طرح چبھ جاتی تھیں اور پھر اندر جا کر ڈولنے لگتیں جیسے دل میں کوئی فرشتہ پنجوں کے بل کھڑا جھول رہا ہو۔ آوازوں میں کیسا جادو تھا۔ کیوں؟ شکلیں تو بالکل سیدھی سادی تھیں۔ رنگ بھی کالا تھا اور ان میں کچھ بھی تو جاذب نظر نہ تھا، لیکن آوازیں ایلی کو بیتاب کر دیتی تھیں۔ تیکھی سریلی اور لوچدار آوازیں۔
پھر دفعتاً اسے خیال آتا کہ قریب ہی وہ چٹی سفید نرس میز کے مقابل کھڑی آپ ہی آپ شرما رہی ہو گی، جیسے اس کی عادت تھی۔ مسکراتے ہوئے اس کے گالوں میں گڑھے پر جاتے تھے۔ لیکن وہ مسکراتی کیوں تھی۔ مسکرانے کی کوئی وجہ بھی تو معلوم نہ ہوتی تھی۔ زرد رنگ کے مرہموں کے مرتبانوں اور کڑوی دوائیوں کی بوتلوں کے درمیان کھڑے ہو کر مسکرانا۔ ایلی کے لیے یہ عقدہ ناقابلِ حل تھا۔ پھر اس کی چال۔ کس پھبن سے چلتی تھی۔ مسکراتی تو جیسے چراغ روشن ہو جایا کرتے۔ مگر وہ ایلی کو دیکھ کر قطعاً نہ مسکراتی تھی۔
ہاں اس روز جس روز اماں نے اسے بلایا تھا۔ جب ان کے گھر ننھا ہوا تھا اس روز ------ علی احمد بار بار نرس سے باتیں کرتے رہے تھے۔ نرس مسکراتی تھی اور منہ موڑ لیتی تھی پھر منہ موڑ کر مسکراتی تھی اور علی احمد گھوم پھر کر اس کے سامنے آ کھڑے ہوتے تھے۔
زاہدہ اور عابدہ کے خیال سے بچنے کی کوشش میں ایلی نرس کے خیال میں کھو جاتا مگر ڈسپنسری کی کھڑکی تک جانے کی اس میں ہمت نہ پڑتی۔ پھر اس کے خیالات کا رخ زاہدہ کے بھائی فرید کی طرف منعطف ہو جاتا۔ کتنا شوق تھا اسے نرس کو دیکھنے کا۔ فرید بھر پور جوان تھا۔ اس کا جسم کتنا بڑا تھا۔ موٹے موٹے ہاتھ، پھولی پھولی پنڈلیاں اور بھرے بھرے بازو۔ وہ نرس کے لیے ہر وقت مضطرب رہتا تھا۔ “ ایلی “ وہ اسے گلی میں دیکھ کر رک جاتا۔ “ ایلی ذرا جانا تو ہسپتال کی کھڑکی سے جھانکنا ہے یا چلی گئی۔ خدا کے لیے ابھی جاؤ۔ یار ہم تو مر گئے، تباہ ہو گئے۔ اس کے لیے۔“ اور پھر وہ مضطربانہ گلی میں گھومنے لگتا۔ بار بار جسم کھجاتا اور ڈسپنسری کی کھڑکی سے نرس اس کی طرف دیکھ کر مسکرا کر منہ موڑ لیتی اور اپنے کام میں لگ جاتی جیسے کچھ خبر ہی نہ ہو کہ باہر کون کھڑا ہے۔
نرس مسکراتی کیوں تھی۔ مسکرانے کے بعد منہ موڑ لیتی تھی۔ ایلی کی سمجھ میں نہ آتا تھا۔ پھر وہ ہسپتال کی طرف جاتا۔ کھڑکی میں سے دھڑکتے دل سے جھانکتا۔ کتنی سفید تھی وہ چٹی سفید، ایلی کو گورا رنگ بے حد پسند تھا۔ لیکن نرس اس کی طرف دیکھتی بھی نہ تھی۔ مسکراتی بھی تو اسے محسوس ہوتا جیسے وہ مسکراہٹ بالکل روکھی پھیکی ہو۔ نہ جانے ایلی کے روبرو نرس وہ مسکراہٹ کیوں نہ مسکراتی تھی جو وہ فرید کے سامنے مسکرایا کرتی تھی اور ایلی کو دیکھ کر وہ منہ بھی تو نہ موڑتی تھی۔ اس پر ایلی کو بے حد دکھ ہوتا۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ کسی کونے میں جا کر رو دے، چیخیں مار مار کر روئے۔ مگر رونا بھی تو نہ آتا تھا اسے۔
اس روکھی مسکراہٹ والی نرس سے مایوس ہو کر وہ از سرِنو گھنشام کے خیال کی طرف متوجہ ہو جاتا اور ہسپتال کی کھڑکی کو چھوڑ کر بازار کی طرف چل پڑتا۔ شاید گھنشام کہیں بازار میں کھڑا ہو، شاید ایشور لال گلی میں کھیل رہا ہو، یا شاید پرکاش ---------------------
ایلی کے دل میں انوکھی بیداریاں پیدا ہو رہی تھیں۔ جوں جوں اس کے دل میں نئی آرزوئیں تشکیل پائے جاتیں توں توں اس کے دل میں علی احمد کے کمرے سے نفرت بڑھتی جاتی اور اس کمرے میں جانے والیوں کے خلاف بغض شدید تر ہوتا جاتا اور اماں اور رفیقاں کے متعلق شبہات تقویت پکڑتے جاتے۔
اماں تو اب ننھے میں کھو چکی تھیں۔ صبح و شام، دن رات وہ ننھے کی دیکھ بھال میں وقت بسر کرتی اور باقیماندہ وقت باورچی خانے میں گزارتی۔ فرحت بھی ہر وقت ننھے کو کھلانے میں لگی رہتی تھی۔ رفیقاں اسے کھلاتی تو نہ تھی، مگر بڑے شوق سے دیکھتی۔ آتے ہی سیدھی ننھے کی طرف جا کر اس کے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر کہتی “ یہ ننھا بال ہے۔ یہ مینڈھا سائیں ہے۔“ اور پھر باورچی خانے میں بیٹھ کر گھگھرے پر دھاگے سے بوٹیاں بنانے میں مصروف ہو جاتی۔
علی احمد اب بھی سارا دن حساب کتاب لکھنے میں وقت صرف کرتے تھے اور کور بھی مہینے میں صرف چار ایک مرتبہ آتی تھی۔ اب تو ایلی کو کور میں چنداں دلچسپی نہیں رہی تھی۔ وہ اس کی بوتل میں تھوکنے سے بھی اکتا چکا تھا۔ جب کبھی علی احمد اس سے پانی لانے کو کہتے تو وہ چپکے سے بوتل اٹھا کر باہر نکل آتا اور پھر گھڑے سے پانی بھر لیتا۔ پھر کچھ دیر گلی میں کھیلنے کے بعد بوتل اٹھا کر ابا کے کمرے کی طرف چل پڑتا اور کور سمجھتی کہ وہ پانی کنوئیں کا ہے۔ کور کو پانی کے بارے میں سوچنے کی فرصت ہی کہاں تھی۔ وہ تو بند کمرے میں ربڑ کی گڑیا کی طرح چیں چیں کرتی اور جاتے وقت دو روپوں کے لیے علی احمد سے جھگڑا کرنے میں مصروف ہو جاتی۔ علی احمد کا بھی کور سے دل بھر چکا تھا کیونکہ اب وہ اس کے آنے پر بھی کام میں لگے رہتے تھے اور اس کے جانے سے پہلے ہی پھر سے لکھنے میں مصروف ہو جاتے۔ نہ جانے ان دنوں وہ کسے چٹھیاں لکھ رہے تھے۔ ہر دوسرے تیسرے دن وہ ایک چٹھی لکھ کر ایلی کو دیتے “ لو بھئی اسے لیٹر بکس میں ڈال آؤ۔“
پہلی مرتبہ جب ایلی نے لفافے کا پتہ پڑھا تو وہ حیران رہ گیا۔ استانی کے نام چٹھی اور وہ بھی شامکوٹ والی۔ کیا وہی جس نے شلوار کی جگہ چادر لپیٹ رکھی تھی؟ وہ تو شاید اس بات کو اہمیت نہ دیتا لیکن گلی میں فرید نے اسے پکڑ لیا “ ہوں استانی کو خط لکھا جا رہا ہے۔ کون ہے یہ استانی۔ دال میں‌ کچھ کالا ہے دوست۔“ اس وقت ایلی نے بھی محسوس کیا کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ لیکن اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ دال کون تھی اور کالا کون تھا۔ استانی تو دال نہیں ہو سکتی تھی۔ پھر فرید نے اس کا ہاتھ تھام لیا اور عجیب سے نگاہوں سے اسے دیکھنے لگا۔ “ ایلی “ اس نے معنی خیز نگاہوں سے اسے دیکھا۔ ایلی کے جسم میں جھنجھناہٹ دوڑ گئی۔ “ ایلی “ فرید نے اس پر بھرپور نگاہ ڈالی۔ ایلی کی ایڑیاں ہوا میں معلق ہو گئیں اور وہ فضا میں جھولنے لگا جیسے وہ کوئی ننھا فرشتہ ہو۔ وہ محسوس کرنے لگا جیسے وہ خود گھنشام ہو اور کوئی ایلی اس کی طرف دیکھ رہا ہو۔ اس کے جسم میں چیونٹیاںسی دوڑنے لگیں۔
اس روز ایلی دیر تک آئینے کے سامنے کھڑا رہا۔ لیکن وہاں ایک بھدے کالے اور بھونڈے لڑکے کے سوا کچھ نہ تھا پھر اس نے باہر جا کر صابن سے منہ دھویا شاید وہ پہلا دن تھا۔ جب اس نے اس شدت سے محسوس کیا تھا کہ وہ بد صورت ہے۔
اس کی سمجھ میں کچھ نہ آتا تھا کہ فرید ایسی نگاہوں سے کیوں دیکھتا تھا۔ نہ جانے وہ ایسی آنکھیں کیونکر بنا لیا کرتا تھا اور پھر اس کا “ایلی“ کہہ کر خاموش ہو جانا۔ جیسے اس کی آواز حلق میں خشک ہو گئی ہو۔ لیکن اس کے اپنے جسم پر چیونٹیاں سی کیوں رینگنے لگتی تھیں۔وہ چیونٹیاں گدگدی کیوں کرتی تھیں۔ جس سے دل میں کچھ کچھ ہوتا تھا۔ عجیب سا احساس تھا وہ، ان جانے میں ایلی کو فرید سے ڈر لگنا شروع ہو گیا اور اس نے فرید کے گھر کی طرف جانا چھوڑ دیا۔ لیکن کیوں۔ وہ یہ نہ جان سکا۔ اس کے باوجود جب کبھی وہ کپڑے بدلتا یا نیا جوڑا پہنتا۔ تو اسے کوئی نہ کوئی ضروری کام پڑ جاتا اور مجبوراً اسے گلی میں اس سمت کو جانا پڑتا۔ جہاں فرید کا گھر تھا۔ جاتے ہوئے اس کا دل دھک دھک کرنے لگتا۔ ہر آہٹ پر اس کے دل پر عجیب سا دباؤ محسوس ہوتا۔ جیسے کسی نے اسے پکڑ لیا ہو۔ “ایلی“ اسے خوا مخواہ آوازیں سنائی دیتیں اور پھر جسم پر چیونٹیاں رینگنے لگتیں۔ گلی میں فرید نہ ملتا تو وہ اطمینان کا سانس لیتا لیکن دل میں دبی دبی سی خلش کانٹے کی طرح لگی رہتی اور بالاخر مایوس ہو کر گھنشام کے گھر کی طرف چل پڑتا۔ شاید گھنشام بازار میں کھڑا ہو۔ اس کی نگاہ تلے گھنشام آ کھڑا ہوتا۔ جس کے پاس ہی فرید کھڑا ہنس رہا ہوتا فرید اور گھنشام۔ اب اس کے ذہن میں لازم و ملزوم ہوئے جا رہے تھے۔ روز بروز بے تاب ہوا جا رہا تھا۔ بات بات پر اس کا دل دھڑکتا ایک اضطراب چاروں طرف دے اس پر یورش کر دیتا اور اس اضطراب کے تعاقب میں وہ آوارہ پھرتا۔ گلی میں میدان میں بازاروں میں اور گھر میں بھی وہ مختصر سا گھر دفعتاً اس قدر وسیع کیوں ہو گیا تھا اور علی احمد کا کمرہ روز بروز سکڑ کر چھوٹا کیوں ہوتا چلا جا رہا تھا۔ خود علی احمد بھی تو اب اس کی نگاہوں میں اتنے عظیم نہ رہے تھے۔ اب وہ انہیں اور ان کے کمرے کو آسانی سے نظر انداز کر سکتا تھا۔

کشمیر کا سیب

ان دنوں علی احمد مضطرب رہنے لگے تھے۔ لکھتے لکھتے وہ قلم رکھ کر باہر آ جاتے اور کسی ٹوٹی ہوئی چارپائی پر ہاتھوں میں سر تھام کر لیٹ جاتے۔ دیر تک چپ چاپ لیٹے حقہ پیتے رہتے پھر دفعتاً جوش میں اٹھ بیٹھتے اور کسی نہ کسی بہانے کشمیر کی بات شروع کر دیتے۔ “اجی کیا بات ہے کشمیر کی۔ اللہ تعالٰی نے زمین پر جنت کا نمونہ اتار رکھا ہے۔ رہنے کا مزہ ہے تو کشمیر میں۔“ وہ کسی کو مخاطب کئے بغیر کہتے “ سرو قد درخت ٹھنڈی نہریں پھل بے اندازہ۔ پھل کھاؤ، چشموں کا ٹھنڈا پانی پیو،
اجی وہاں کے رہنے والے حسین نہیں ہوں گے تو کون ہو گا۔“ یہ محسوس کر کے کہ ان کی بات کوئی نہیں سن رہا علی احمد کبھی نہ گھبراتے تھے۔ “ جنہوں نے صبح شام سیب کھائے ہوں ان کی شکل سیب سی نہ ہو گی تو پھر کیسی ہو گی۔ سیدھی بات ہے کیوں رفیقاں جو سیب کھا کر پلے گا وہ بڑا ہو کر سیب بن جائے گا۔ ہی ہی ہی۔ کیا کہتی ہے۔“ اندر باورچی خانے میں رفیقاں چپ چاپ بیٹھی مسکراتی۔“ کیا بات ہے کشمیر کی۔ واہ واہ کسی شاعر نے کہا ہے۔
اگر فردوس بر روئے زمین است
ہمیں است وہمیں است وہمیں است​
ایلی یہاں آؤ۔ ادھر تمھیں اس شعر کا مطلب آتا ہے کیا؟ “ وہ شعر پھر سے دہراتے اور ایلی کی خاموشی پر کہتے “ آؤ تمھیں اس کا مطلب سمجھائیں لیکن پہلے یہ بتاؤ کہ کشمیر ہے کہاں۔۔۔۔۔۔ وہ تو ٹھیک ہے یہ بتاؤ کہ وہاں گرمی کیوں نہیں پڑتی اور وہاں چشمے کیوں پھوٹتے ہیں۔ شاباس ٹھیک پہاڑ تو ہے لیکن پہاڑ پر رہنے والے۔ رفیقاں تم جانتی ہو پہاڑ پر رہنے والوں کے چہرے سیب کی طرح کیوں ہوتے ہیں۔ ایلی کی ماں تم نے دیکھا ہے کسی کو جو برسوں کشمیر میں رہا ہو۔ سبحان اللہ کیا رنگ روپ ہوتا ہے۔ میمیں بیچاری کیا مقابلہ کریں گی۔ انگریز تو بدصورت ہوتے ہیں۔ ان کے منہ پر تو نحوست برستی ہے۔ لیکن کشمیر والے۔ واہ واہ سبحان اللہ۔“
گھر میں کسی کو سمجھ میں نہ آتا تھا کہ علی احمد بام آباد کے ویرانے میں بیٹھے بیٹھے دفعتاً کشمیر کیسے جا پہنچے۔ ہاجرہ نے یہ عالم دیکھا تو ایک دن چپکے سے رفیقاں کے کان میں بولی۔ “کوئی بات ہے ضرور کوئی بات ہے میں جھوٹ نہیں کہتی۔ میری بات یاد رکھو۔ اگر بات نہ نکلی تو میرا ذمہ اور بات نکلنے میں دیر بھی نہیں لگے گی ہاں۔ میں تو تیور پہچانتی ہوں ان کے۔
رفیقاں ہونٹ پر انگلی رکھ کر حیرانی سے ہاجرہ کی طرف دیکھتی “اچھا۔ لو میں بیچاری کیا جانوں۔“
بڑی بیچاری تو دیکھو۔ ایلی گھورتا۔
پھر دفعتاً ننھا بیمار پڑ گیا اور سب کی توجہ ننھے کی طرف مبذول ہو گئی۔ ہاجرہ رفیقاں اور فرحت ہاجرہ کے پاس بیٹھی رہتیں۔ ایلی کو دن میں دو تین بار ڈسپنسری جانا پڑتا۔ وہ نرس تک پہنچ تو جاتا لیکن اس سے براہ راست بات کرنا اس کے لئے مشکل ہو جاتا۔ کئی بار وہ بات کرنے کے لئے فرید کو ساتھ لے جاتا اور نرس فرید کی طرف دیکھے بغیر جھینپتی۔
نرس کی آمد پر علی احمد قمیض پہن لیتے اور ننھے کی چارپائی کے قریب آ کھڑے ہوتے۔ “ ہی ہی ہی ہی۔“ وہ نرس سے اپنی بات شروع کر دیتے۔
نرس کے جانے کے بعد علی احمد ان سب کو تسلی دیتے۔
“گھبراؤ نہیں ٹھیک ہو جائے گا۔ بالکل ٹھیک ہو جائے گا سیب کھلاؤ اسے سیب۔۔۔۔۔ لیکن سیب کشمیر کا ہو۔ کلو کا نہ ہو۔ ایلی بھاگ کر ایک سیب لے آؤ۔ وہ دو آنے جیب سے نکال کر کہتے۔ بس سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ایلی کی ماں گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ مگر ایلی کلو کا نہ لانا تھوڑا سا رس نکال کر بچے کو دو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ وہ کہتے ہیں نا انگریز۔ این ایپل اے ڈے۔کیپس دی ڈاکٹر اوے‘ کیا سمجھے ایلی۔ اچھا تم آؤ گے تو تمھیں سمجھا دیں گے۔“
رفیقاں آتی تو علی احمد اسے روک لیتے “رفیقاں ٹھہر تو سہی۔ تو تو بام آباد کا سکندر اعظم معلوم ہوتی ہے۔ آندھی کی طرح آتی ہے، بگولے کی طرح چلی جاتی ہے۔ اس طرح بھاگنےدوڑنے سے فائدہ اور پھر بام آباد میں یہ کوئی جگہ ہے کیا بالکل فضول بے کار، یہاں تو اچھا خاصا آدمی بیمار پڑ جاتا ہے۔ اب دیکھو اندر ننھا بیمار پڑا ہے۔ میری اپنی صحت تباہ ہو چکی ہے۔ تم بھی تو زرد پڑ رہی ہوں۔ کیوں“ رفیقاں آنکھیں جھکائے مسکرائے جاتی۔ اچھا تو سکندر اعظم اب کی گرمیوں میں ہم تمھیں کشمیر لے چلیں گے۔ تم بھی اور ننھا بھی وہاں جا کر یوں سرخ ہو جاؤ گے۔ جیسے جیسے۔۔۔۔۔۔“
کور کی آمد پر وہ قہقہہ مار کر صحن سے اٹھ بیٹھتے “ آئیے مہاراج لو بھئی یہ راجپوتانے کے شدح سا ہنسی بھی آ گئی۔ تم چاہے جا کر ساری عمر کشمیر رہو کچھ فرق پڑے گا۔“ اور کور یہ بات سن کر پنکھے کی رسی کی چابک بنا لیتی اور اسے گھمانے لگتی۔ علی احمد ہنسنے لگتے۔
ادھر کور اور علی احمد کے درمیان ہنگامہ شروع ہوتا ادھر ساتھ والے کمرے میں ننھے کی حالت بد سے بد تر ہوئی جاتی۔ ننھے پر ہاجرہ کا سر جھکا ہوتا۔ گالوں پر آنسو رواں ہوتے اور چارپائی کے پاس رفیقاں چپ چاپ کھڑی ہوتی۔ اس پر ایلی نرس کو بلانے کے لیے بھاگتا۔
نرس کو گھر آتا دیکھ کر ٹین کا سپاہی چونکتا اور اپنی رزم گاہ کو چھوڑ کر نکل آتا پھر دفعتاً یہ محسوس کر کے کہ اس نے قمیض نہیں پہنی ہوئی علی احمد لپک کر اندر داخل ہوتے اور قمیض پہن کر نرس کے روبرو آ کھڑے ہوتے۔
“ کیوں کیا بات ہے؟“ وہ کہتے “ خیریت تو ہے کیا بچے کی طبیعت کچھ خراب ہو گئی ہے کہ آپ تشریف لائی ہیں۔ آپ کے آنے پر ہر شخص کا دل دھک سے رہ جاتا ہے۔ نرس۔“ وہ مسکراتے۔
دفعتاً انہیں خیال آتا۔ کہتے “اگر آپ برا نہ مانیں نرس تو پوچھوں کیا آپ کشمیر کی رہنے والی ہیں۔ معلوم تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ ہی ہی ہی ہی۔“
ان کی باتیں سن کر ہاجرہ اندر ننھے کو گود میں لئے بیٹھی آنسو بہائے جاتی اور رفیقاں اسے سمجھاتی تسلی دیتی۔ ایلی کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ ہاجرہ روتی کیوں تھی۔ وہ کیاں توقع کرتی تھی کہ علی احمد اس کے بچے میں دلچسپی لیں۔
دلچسپی تو وہ لیتے تھے۔ اکثر آ کر دیکھتے بھی “گھبراؤ نہیں۔“ مسکرا کر کہتے “ٹھیک ہو جائے گا۔ گرمیوں میں اسے کشمیر لے چلیں گے۔“ لیکن ہاجرہ چاہتی تھی کہ نوکرانی کے بچے کی بیماری کی وجہ سے آقا اپنی زندگی حرام کر لیں۔ نرس سے باتیں نہ کریں۔ کور سے کشتی نہ لڑیں۔ یہ سوچ کر ایلی کو آقا پر نہیں بلکہ نوکرانی پر غصہ آتا تھا۔
پھر ایک روز علی احمد کو ایک ضروری خط موصول ہوا۔ خط پڑھتے ہی وہ اٹھ بیٹھے اور جلدی سے تیاری کرنے لگے۔ پھر وہ ہاجرہ کے کمرے کے دروازہ پر آ کھڑے ہوئے۔ ہاجرہ اور سب عورتیں بچے کے اوپر جھکی ہوئی تھیں۔
“کیا حال ہے؟“ وہ بولے۔ “ واہ تم تو ویسے ہی گھبرا جاتی ہو فضول۔ آخر بیماری جاتے جاتے ہی جائے گی۔ گھبرانے کی کوئی بات نہیں بچے بیمار ہوا ہی کرتے ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں۔ اچھا تو میں دو دن کے لیے سرکاری کام پر جا رہا ہوں۔ گھبرانا نہیں دو روز کے بعد آ جاؤں گا ہاں ہاں ۔۔۔۔ ایلی، ایلی یہ لو۔ “ انہوں نے چند پیسے اس کے ہاتھ میں تھما دیئے “خرچ کر لینا۔ اچھا بھائی میں جاتا ہوں۔“
ننھے کی حالت خراب ہوتی چلی جا رہی تھی۔ سانس اکھڑ رہا تھا۔ منہ سوج رہا تھا۔ ہاجرہ کی آنکھوں سے آنسو گر رہے تھے۔ رفیقاں کے ہونٹوں پر وہی مبہم سی شرارت آمیز ہنسی تھی۔
فرحت چپ چاپ بیٹھی ابا کو جاتے ہوئے حیرانی سے دیکھ رہی تھی اور علی احمد بڑے اطمینان سے انہیں الوادع کہتے ہوئے تسلی دے رہے تھے “ کوئی بات نہیں میں جلد آ جاؤں گا سب ٹھیک ہو جائے گا۔“
آٹھ دن کے بعد علی احمد لوٹے۔ گھر میں داخل ہوتے ہی چلاّنے لگے۔ “ ایلی کی ماں تمھیں مبارک ہو۔ اب تم تنہا نہ رہو گی۔ تمھارا ایک ساتھی گھر میں آ جائے گا۔
“ہائیں تم اس قدر خاموش کیوں ہو۔“ انہوں نے گھر پر چھائی ہوئی خاموشی کو محسوس کر کے کہا اور پھر جیسے یک دم کچھ یاد آ جانے پر پر بولے۔
“ہاں ننھے کا کیا حال ہے؟“
ہاجرہ کے منہ سے ایک دبی ہوئی چیخ سن کر وہ گھبرا گئے۔
“ اوہ۔ تم نے مجھے بتایا ہی نہیں مجھے تار دے دیا ہوتا کوئی آدمی بھیج دیا ہوتا۔ تت تت تت۔ کتنا پیارا بچہ تھا۔ بے حد افسوس ہے۔“ انہو نے آہ بھری۔ “مگر اللہ کے کاموں میں کس کو دخل ہو سکتا ہے۔ صبر کے سوا چارہ نہیں اس طرح رونے سے کیا ہوتا ہے۔ رونا دھونا بے کار بے کار ہے۔ بالکل بیمار قسمت میں یونہی لکھا تھا۔ “قسمت! ہاجرہ نے ماتھے پر زور سے ہاتھ مارا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
اس شام علی احمد صحن میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے “وہ اپنی استانی شام کوٹ کی ہے نا۔ تم جانتی ہو نا۔ نہیں جانتی۔ ہاں ایلی جانتا ہے‘ کیوں ایلی جب تم میرے ساتھ دورے پر گئے تھے اور اس نے تمھیں مٹھائی کھلائی تھی یاد ہے نا۔ اس کی لڑکی ہے۔ سولہ سال کی عمر ہو گی۔ کشمیر میں پرورش پائی ہے۔ رنگ انار سا ہے۔ آخر کیوں نہ ہو۔ جس نے اناج کی جگہ پھلوں میں پرورش پائی ہو۔ اس کا رنگ انار سا کیوں نہ ہو گا۔ ساری بات طے ہو گئی ہے۔ تاریخ مقرر ہو چکی ہے۔ میں نے سوچا تھا۔ ایلی کی ماں اتنے بڑے گھر میں اکیلی رہتی ہے۔ کوئی تو ساتھی ہونا چاہیے۔ لو بس اب تیار ہو جاؤ۔ ایلی کی ماں۔ ہم سب علی پور جا رہے ہیں۔ ایلی کی دادی نے بلایا ہے۔ سارا انتظام تمھیں کرنا ہو گا ایلی کی ماں۔ تمھارے سوا گھر میں اور کون ہے۔ ہی ہی ہی۔“ وہ ہنسنے لگے۔
ہاجرہ کی آنکھیں بالکل ہی پتھرا گئیں۔ رفیقاں مسکرانے لگی اور ایلی علی پور جانے کی خوش میں ناچنے لگا۔ ایلی کو بھائی کی موت پر چنداں غم نہ ہوا تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ اچھا ہی ہوا کہ نوکرانی کے گناہ کا نشام مٹ گیا۔ اب اسے کوئی یاد دلانے والا نہ تھا کہ وہ آسا ہے۔
علی پور جانے کی خبر سن کر ایلی کی توجہ اپنے ساتھیوں کی طرف مبذول ہو گئی اور وہ یوں بہل گیا جیسے کوئی بچہ کھلونا ملنے پر بہل جاتا ہے۔ نویں جماعت کا امتحان ختم ہو چکا تھا۔ اس لئے علی پور جانے کی خبر اس کے لئے بے حد خوش کن تھی۔

شہ بالا

علی پور پہنچتے ہی محلے والوں نے ایلی پر سوالوں کی بوچھاڑ کر ڈالی۔
“کیوں ایلی کیا بات کی شادی پر آئے ہو۔ کیا کہتا ہے“
“ایلی شہ بالا بنے گا اپنے ابا کا ہے نا“۔۔۔۔۔۔۔“ کیوں میاں تمھاری نظر میں بھی کوئی کشمیر کا سیب ہے۔ ابھی سے چناؤ کر لو میاں پھر پچھتاؤ گے۔“
“اے ہے ایلی بیٹے سے مذاق کیوں کرتے ہو۔ وہ کیوں بنے شہ بالا کسی کا۔ اس کے تو دولہا بننے کے دن آ رہے ہیں۔ بھئی اسے دق نہ کرو۔“
“کیوں بھئی اماں کو ڈولی میں بٹھا کر کب لائے گا۔ ایلی۔“
ایلی کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا جواب دے۔ ویسے وہ کوشش تو کرتا تھا کہ کوئی چمکیلی بات کرے لیکن نہ جانے کیوں اسے اس بات پر شرم محسوس ہونے لگتی اور اس کی آواز گلے میں خشک ہو کر رہ جاتی۔ اس پر عورتیں اسے چھیڑتیں۔
“لے لڑکے کی آنکھوں میں آنسو چھلکنے لگے۔“
“اے ہے اس کے گلے میں تو آواز خشک ہو گئی۔“
“نہ بیٹے ایلی برا نہ مان۔ اس کا کیا علی احمد تو ہے ہی ایسا۔“
“عورتوں کے بغیر اس کا وقت کٹنا مشکل ہے۔ مگر بیٹا چاہے کوئی آئے کوئی جائے گھر کا مالک تو ہی ہے۔ اور گھر کی مالکہ تیری ماں ہاجرہ۔“
“ان آنے جانے والیوں کو کون پوچھتا ہے ماں۔“
ادھر علی احمد کے گرد لوگوں نے حلقہ باندھ رکھا تھا۔ “کیوں علی احمد نہ رہ سکا تو نئی شادی کئے بغیر شرم نہیں آتی علی احمد۔ یہ کیا تیرے دولہا بننے کا وقت ہے۔ گھر بیٹی جوان ہو چکی ہے۔ لڑکا دسویں پاس کر چکا ہے۔“ “علی احمد کوئی کشمیر کا سیب ہمیں بھی لا دو۔“
لیکن علی احمد کے حلق میں آواز خشک نہ ہوتی تھی نہ ان کا چہرہ زرد پڑتا اور نہ ہی ان کی زبان لڑکھڑاتی اور وہ سب کو کوئی جواب دے کر خاموش کر دیتے۔ داروغہ سے کہتے بھائی داروغہ کشمیر کے سیب لانے کی چیزیں نہیں۔ بھئی وہ تو ڈال سے توڑ کر کھانے کی چیز ہے۔ ہمت ہے تو بڑھاؤ۔“
جانوں مائی سے کہتے “لو مائی اللہ نہ کرے میں کیوں رہوں شادی کے بغیر مرد ہوں میں مرد اور وہ بھی تیرا بیٹا۔“
پھر جیواں آ کر چلاّتی۔ علی احمد تیرے تع بال سفید ہو گئے۔“
“ہاں ماں“۔ وہ جواب دیتے “دل سفید نہیں ہوا۔ ابھی ایمان کی روشنی سے منور ہے اور اللہ رسول کی سنت کا لحاظ ہے۔“
“اے ہے۔ علی احمد۔“ جیواں ہنس کر دو ہتڑ مارتی “ تو تو بھانڈ ہی رہے گا۔ ساری عمر۔“ اور علی احمد ہنستے اور جیواں چلاّتی اور ان کا گھر قہقہوں سے گونجنے لگتا۔ اس وقت ایلی کو علی احمد سے عقیدت سی محسوس ہونے لگی۔ ان کی باتیں سن کر وہ ان کے تمام قصور بخش دیتا۔ اس کا جی چاہتا کہ وہ بھی علی احمد کی طرح باتیں کر سکے لیکن بات کرتے وقت اس کی زبان اٹک جاتی تھی۔ گلہ بیٹھ جاتا۔ دل کو کچھ کچھ ہونے لگتا تھا اور اس کا جی چاہتا تھا کہ بھاگ جائے دور جہاں کوئی نہ ہو۔ کوئی نہ ہو۔
علی پور پہنچ کر پہلے تو ہاجرہ بہت روئی تھی رو رو کر اس نے برا حال کر لیا۔ وہ ننھے کی باتیں کرتے ہوئے آنسو بہاتی رہتی۔ “اور پھر ایسا سمجھدار اور متحمل مزاج۔ رونا تو جانتا ہی نہ تھا وہ ہائے اتنی تکیلف وہ بیماری لگی اسے کہ توبہ پے۔ زہر باد کوئی معمولی بیماری نہیں بہن۔ لیکن اس بچہ نے اف تک نہ کی۔ رویا ہی نہیں۔ بس حیران نگاہوں سے چاروں طرف دیکھتا رہا کہ میں کہاں آ گیا جہاں میری کسی کو قدر نہیں۔ جہاں کسی کو میرے دکھ کی خبر نہیں۔“
ہاجرہ کے آنسو سر نو ٹپکنے لگتے اور وہ کچھ دیر کے لئے خاموش ہو جاتی۔ “بیماری میں بھی اس کا مسکرانا نہ گیا۔ یوں مسکرانا نہ گیا۔ یوں مسکراتا۔ جیسے سیانے لوگ مسکراتے ہیں۔ میں روتی تھی اور وہ مسکراتا تھا۔ بیماری نے اسے ذرا بھی مہلت نہ دی۔“ ہاجرہ وہ رو رو کر بچے کی باتیں کرتی رہتی اور پلو سے آنسو پونچھتی رہتی۔
ہاجرہ بار بار علی احمد کے بے حسی کا قصہ بیان کرتی رہی۔ “ انہیں اپنے شغل سے کام۔ کوئی مرے یا جئے ان کی بلا سے۔
انہیں تو کشمیری سیب کا عشق لگا تھا۔ کہتے تھے۔ کشمیری پھلوں پر پلی ہے۔ دسویں پاس ہے۔ انگریزی فرفر بولتی ہے۔ اچھا ہے بہن ہم بھی اس سے اٹھنا بیٹھنا۔ چلنا پھرنا۔ بات کرنا سیکھیں گے۔ مجھے تو خوشی ہے بہن کہ گھر میں میم آئے گی۔ سچ کہتی ہوں۔ میرا خدا شاہد ہے۔ بہن مجھے کلمے کی قسم مجھے کوئی دکھ نہیں۔ بس یہی دکھ ہے۔ کہ ننھا تڑپ تڑپ کر مر رہا تھا اور میاں کو کشمیری سیب کی دھن لگی تھی۔ دو پیسے کی دوا تک نہ منگوائی۔ نرس دیکھنے آتی تھی تو اس سے ٹھٹھے کئے جاتے تھے توبہ ہے۔ گھر میں کوئی دم توڑ رہا ہو اور لوگ اپنی حرص و ہوس میں کھوئے ہوئے ہوں۔ کیا زمانہ آیا ہے۔ مجھے سوکن کا دکھ تو نہیں۔ اس ننھے پھول سے بچے کا دکھ ہے۔“ اور وہ از سر نو رونےلگتی۔ اس وقت ایلی کو محسوس ہوتا کہ ہاجرہ بچے کا نام لے کر نی جانے کس دکھ کی وجہ سے رو رہی ہے۔ سوکن کا دکھ نہ تھا تو وہ اتنی قسمیں کیوں کھاتی تھی۔ کلمہ کیوں پڑھتی تھی۔
پہلے تو ہاجرہ ننھے کے لئے روتی رہی اور علی احمد کی بے وفائی کا گلہ کر کے آنسو بہاتی رہی پھر دفعتاً اس نے محسوس کیا کہ لوگ یہ نہ سمجھ رہے ہوں کہ وہ سوکن کی آمد کی وجہ سے رو رہی ہے اور بیٹے کے بہانے اپنے لٹے ہوئے سہاگ پر آنسو بہا رہی ہے۔ ہاجرہ سب کچھ برداشت کر سکتی تھی۔
یہ نہیں کہ لوگ اس کی قوت برداشت کا مذاق اڑائیں۔ اس پر خاوند پسندی کا جرم عائد کریں۔ اس لئے وہ خاموش ہو گئی اور اٹھ کر علی احمد کے بیاہ کی تیاری میں لگ گئی اور یوں شوق سے انتظامات کرنے لگی، جیسے خاوند کی بجائے اس کے بیٹے کی شادی ہو رہی تھی۔ انتظامات پر وہ بات بات پر اعتراض کرتی “نہیں نہیں یہ تو کچھ بھی نہیں۔ میں دولہن کو یہ پہننے نہ دوں گی۔ دولہن کیا کہے گی۔ سسرال والے کیا سمجھیں گے۔ اور یہ زیور تو اب پرانا ہو گیا ہے۔ دولہن کے لئے نئی طرز کی چیز ہونی چاہیے۔“
اماں کے اس انہماک اور شوق کو دیکھ کر ایلی حیران ہوتا تھا۔ لوگ حیران ہوتے تھے اور حیرانی کا اظہار بھی کرتے تھے۔ “ہاجرہ تم کیوں جان مار رہی ہو۔ لو خواہ مخواہ۔ چھوڑو کرنے دو آپ ہی اسے۔ تمھیں کیا پڑی ہے۔ ایسا بھی نہیں ہونا چاہیئے انسان کو۔“
یہ سن کر ہاجرہ کی آنکھ میں چمک سی لہراتی۔ “اے ہے بہن اس میں کیا ہے۔ سوکن آئی ہے تو بے شک آئے۔ اپنے اپنے نصیب ہیں۔ جو اللہ نے نصیب میں لکھ دیا بسم اللہ۔“
اس پر لوگ اس کی طرف عجیب نگاہوں سے دیکھتے۔ حیرانی شکوک میں بدل جاتی اور وہ سوچتے ضرور اس میں کوئی بھید ہے۔ ایلی بھی ان شکوک کو شدت سے محسوس کرتا اور اسے ماں پر غصّہ آتا لیکن اس کی سمجھ میں نہ آتا لیکن اس کی سمجھ میں نہ آتا کہ وہ غصہ کیوں محسوس کر رہا ہے اور اس کے اپنے دل میں شکوک کیوں پیدا ہوتے ہیں۔ اس گھر کی تمام تر باتیں ہی عجیب تھیں۔ صرف ایک دادی اماں تھیں جو گھر کی الجھنوں سے دور بیٹھ کر مسکراتی رہتی تھیں۔
ایلی کو صرف دادی اماں پر بھروسہ تھا جو کسی بات میں دخل نہ دیتی تھی اور کھری کھری سنا دیتی تھی۔ “ علی احمد رسی جل گئی پر بل نہ گیا۔“ اس نے علی احمد کی شادی کے متعلق صف یہی ایک جملہ کہا تھا اور پھر خاموش ہو کر جائے نماز پر جا بیٹھی۔
گھر کے باقی تمام لوگ عجیب تھے۔ ابا اپنی دھن میں کھوئے ہوئے تھے۔ اماں یوں مکّے کی حاجن بنی ہوئی تھیں۔ جیسے وہ انسان نہیں بلکہ فرشتہ ہو۔ صرف دو پروں کی کسر تھی اور سیدہ۔ کیسی چپ چاپ بیٹھی رہتی تھی۔ جیسے منہ میں زبان نہ ہو۔ مسکراتی بھی تو ہونٹوں کے کونوں سے کہ کسی کو پتہ نہ چلے۔
گھر کی ان الجھنوں سے اکتا کر ایلی باہر نکل جاتا اور محلے کے لڑکوں کو بلا کر سب کچھ بھول جاتا یا تو وہ ارجمند کے چوبارے میں جا کر کھڑکی کی درز سے ہکوراڈ کورا دیکھتا رہتا یا محلے کے کنوئیں کے پاس کھڑے ہو کر انکراینڈی ماباؤں کو آزماتا یا جمیل کے ساتھ جا کر تنگ گلی میں پیڑے کھاتا یا رضا کی دوکان پر بیٹھ کر اس کی اناپ شناب باتوں پر ہنستا یا بالا کے ہاں جا کر گراموفون سنتا اور یا محلے کے سب لڑکوں کو اکھٹا کر کے میدان میں گیند بیٹ کھیلنے میں مصروف ہو جاتا۔ ان مصروفیتوں میں دن بیت جاتا اور شام پڑ جاتی اور پھر دادی اماں کی آواز محلے میں گونجتی۔ “ایلی اب تو آئے گا کہ نہیں سارا دن لنڈوروں کی طرح پھرتا ہے۔ آ اب رات ہو گئی۔ ایلی۔“ پھر وہ چپکے سے دبے پاؤں سیڑھیاں چڑھتا اور دادی اماں اسے دیکھ کر غصّے سے چیختی اور وہ بے خوف آگے بڑھ کر اس کے کندھوں پر چڑھ جاتا اور وہ ہنس پڑتی اور پھر وہ دونوں ایک چارپائی پر سو جاتے اور دادی اماں اسے تھپکتی۔ “سو جا اب لنڈور کہیں کا۔“ اس وقت ابا لیمپ کی روشنی میں مہاجنوں کی طرح حساب ملانے میں مصروف ہوتے۔ دو اور تین پانچ، آٹھ۔ تیرہ یہ ہوئے دو سو تیرہ اور ہاجرہ چیزیں دیکھتے ہوئے بڑبڑاتی “لو یہ قمیض کا کپڑا تو بالکل بے کار ہے۔ دولہن کیا کہے گی۔“ اور علی احمد چلاتے “تو تو پاگل ہو گئی ہے۔ اٹھارہ روپے گز کا ہے۔ اس سے بہتر کیا ہو سکتا ہے۔ دو سو تیرہ اور چھ سو چھبیس یہ ہوئے کل۔۔۔۔۔“

دلہن

دولہن کی آمد پر محلے میں ایک شور مچ گیا۔ چاروں طرف سے عورتوں نے علی احمد کے گھر کی طرف یورش کر دی۔
“ آؤ بہن دولہن کو دیکھ آئیں،“
“ دولہن آ گئی کیا؟“
“ابھی آئی ہے ابھی۔“
“ہائے میرا ڈوپٹہ کہاں ہے؟“
“کہتے ہیں کشمیر میں پلی ہے؟“
“سنا ہے وہ تو انگریزی فرفر بولتی ہے۔“ اور وہ دوپٹے سنبھال کر علی احمد کے گھر کی طرف چل پڑتیں۔
دولہن کی آمد کی خبر سن کر ایلی نے جھرجھری لی۔ اس کے بدن میں بجلی سی دوڑ گئی اور وہ چپ چاپ کھڑے کا کھڑا رہ گیا نہ جانے کیوں وہ گھر جانے سے ڈرتا تھا۔
“اے ہے تو یہاں کھڑا ہے۔ ایلی۔“ وہ اسے سہما ہوا کھڑا دیکھ کر بولیں۔“ اور تمھارے گھر میں اللہ کے فضل سے نئی دولہن آئی ہے۔“
دوسری بولی بہن اللی کے فضل سے کیوں کہو۔ یوں کہو کہ علی احمد کے شوق کی وجہ سے۔“
پہلی بولی: “اب جو آگئی ہے تو اس پر اللہ کا فضل ہو۔ خوشیاں دیکھے۔“
ایلی حیرانی سے اس کی باتیں سنتا تھا۔ عجیب باتیں تھیں ان کی۔ وہ علی احمد پر غصے سے بل کھاتیں اور ساتھ ہی ان کی رنگیں مزاجی کی وجہ سے ان کی جانب کھنچی جاتیں۔ ہاجرہ سے ہمدردی کا اظہار کرتیں اور ساتھ ہی اسے مورد الزام بھی سمجھتیں۔ کتنی عجیب بات تھی۔
دولہن کو دیکھنے سارا محّلہ علی احمد کے گھر اکھٹا ہو رہا تھا مگر ایلی محسوس کرتا تھا جیسے اسے گھر نہیں جانا چاہیے۔ اس میں گھر جانے کی ہمت نہ پڑتی تھی، لیکن اسے گھر جانا ہی پڑا اور وہ چپکے سے ایک کونے میں جا کھڑا ہوا۔ بڑے کمرے میں عورتوں کے ہجوم کے درمیان پلنگ پر ایک سرخ رنگ کی گٹھڑی سی لپٹی پڑی تھی دو حنا مالیدہ ہاتھ لٹک رہے تھے۔ کتنی رنگدار مہندی تھی۔
نہ جانے مونگیا قمیض کی وجہ سے وہ اور بھی سرخ دکھائی دے رہی تھ یا شاید اس لئے کہ ہاتھ بہت سفید تھے۔ ایلی نے نفرت بھری جھری جھری محسوس کی اور منہ موڑ لیا۔
ادھر عورتوں نے اسے دیکھ کر شور مچایا “ایلی یہاں آ۔ اپنی امی کو سلام کر آ کر۔“
“سلام جی۔“ اس نے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر کہا اور پھر سر جھکا کر کھڑا ہو گیا۔
اے ہے لڑکا سلام کہتا ہے۔ اسے پیار تو کر لے دولہن۔“
“اللہ رکھے تیرا بیٹا ہے۔“
“پلا پلایا بیٹا مل گیا تجھے یہ بھی کسی کسی کے نصیب میں ہوتا ہے۔“
مونگیا چادر تلے سے حنائی ہاتھ ایلی کی طرف بڑھا۔ اس نے سر جھکا دیا اور منہ موڑ کر سانس بند کر کے کھڑا ہو گیا تاکہ اسے حنا کا رنگ دکھائی نہ دے۔ بو نہ آئے۔ سر تھپکنے کے بعد وہ حنائی ہاتھ اس کے منہ پر آ ٹکا۔ مہندی کی بو کا ایک طوفان امڈ آیا۔ اس کی آنکھوں میں سرخ ڈورے ڈور گئے۔ نہ جانے اس بو میں کیا تھا۔ ایلی کے جسم کا بند بند ٹوٹنے لگتا تھا۔ تار تار بجنے لگتا۔ گھبرا کر اس نے اپنا آپ چھڑا لیا اور صحن کی طرف بھاگا۔
“شرماتا ہے۔“ ماں جیواں چلائی۔ “بڑا شرمیلا لڑکا ہے۔“
دوسری بولی “ایسا اچھا بیٹھا ملا ہے تجھے۔“
ایلی کی دادی اماں کے تخت تک پہنچ چکا تھا۔ اس کا دل مالش کر رہا تھا۔ سر گھوم رہا تھا اندر وہ سب ہنس رہی تھیں۔
“دیکھ آیا اماں کو۔“ دادی اماں نے کہا “بیٹھ جا۔“ دیر تک وہ خاموش بیٹھے رہے۔
“میں نے تیرے لئے کچھ رکھا ہوا ہے۔ وہاں مٹی کی ہنڈیا میں۔“ دادی اماں اس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی۔
دوسرے کمرے میں علی احمد مضطربانہ طور پر ٹہل رہے تھے، بار بار وہ باہر نکلتے “مائی جیواں تجھ پر تو پھر سے جوانی آ رہی ہے۔ ہلدی کا برتن کھاتی ہے کیا؟“
“شرم کر علی احمد۔“ مائی جیواں ہنستی۔ “شرم کر“ لیکن اس کے انداز سے ظاہر ہوتا جیسے وہ اس کی بے شرمی پر بے حد مسرور ہو۔
چاچی حاجاں چلاتی “لے آ گیا تیرا کشمیر کا سیب۔ تجھے مبارک ہو علی احمد۔“
“کیوں چاچی؟“ وہ جواب میں پوچھتے “خسارے کا سودا تو نہیں کیا ہم نے۔“
وہ مسکرا کر کہتی “علی احمد پہلے تو ہمیشہ مٹی پر گرا کرتا تھا۔ اب کی بار تو جیت گیا ہے۔“
“پسند ہے تمھیں چاچی؟“
“اچھی ہے۔ اپنی لڑکیوں کی طرح ہی ہے۔ بیچاری، ناک نقشہ برا نہیں رنگ سفید ہے۔
آنکھیں کالی تو ہیں پر ذرا کھلی کھلی ہیں۔ بہرحال ناک نقشہ برا نہیں۔“
“تیرے ناک نقشے کی طرح ہے کیا۔“ علی احمد نے مسکرا کر پوچھا۔
“چل دفعہ ہو منہ کالا۔“
“کیوں چاچی میں کیا بات کہتا ہوں۔“ چاچی ہنسے جا رہی تھی۔
کھانے سے فارغ ہو کر ایلی پھر دولہن کے کمرے میں جا داخل ہوا اور چوری چوری اسے دیکھنے لگا۔ سفید جسم سے چارپائی بھری ہوئی تھی۔ اسے سفید رنگ بہت پیارا لگتا تھا اور ان جانے میں وہ بھرے جسم کو دیکھ کر بہت خوش ہوا کرتا تھا۔ عورتیں ایک ایک کر کے چلی گئیں۔ پھر وہ دولہن کے پاس جا بیٹھا۔ دفعتاً دوپٹے میں حرکت ہوئی اور ایک بڑا سا سفید منہ ننگا ہو گیا اور وہ چوری چوری اس کی طرف دیکھنے لگا۔
“ہائیں۔“ اسے ایسا محسوس ہوا جیسے کسی نے اس کی امیدوں کے عالی شان محل کو پاؤں کی ٹھوکر سے چور چور کر دیا ہو۔ دولہن کی آنکھوں میں فرق تھا اور اس کا چہرہ خالی ورق کی طرح سراسر کورا تھا، ایلی نے محسوس کیا جیسے اسے دھوکا دیا گیا ہو۔ جیسے اس کی توقعات کو ٹھکرایا گیا ہو اسے جان بوجھ کر غلط فہمی میں مبتلا رکھنے سے علی احمد کا کوئی خاص مقصد ہو گا۔غصے سے اس کی کنپٹیاں بجنے لگتیں اور وہ بھاگا۔ دور دولہن سے دور اس جیتے جاگتے دھوکے سے دور باہر صحن میں پہنچ کر اس کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔ کئی دن تو اس صدمہ کی وجہ سے وہ سخت اداس رہا پھر اس نے اپنے آپ کو محلے کی زندگی میں کھو دیا تاکہ گھر کے واقعات کو دل سے بھلا کر اپنی خوشی کو محفوظ کر سکے۔

نماز کمیٹی

اس زمانے میں علی پور میں خلافت تحریک کے تحت نماز کمیٹیوں کا دور دورہ تھا۔ مسلمانوں میں اسلام کے متعلق بڑا جوش تھا ہر محلے میں نماز کمیٹیاں قائم ہو رہی تھیں۔ نوجوان لڑکے علی الصبح منہ اندھیرے جاگ پڑتے اور سردی میں ٹھٹھرتے ہوئے ایک دوسرے کو جگاتے۔ پھر جلوس کی شکل میں شہر کا چکر لگاتے۔
محلے محلے پھرتے اور گاگا کر لوگوں کو جگاتے۔ نماز پڑھنے کی تلقین کرتے۔ لڑکوں کو نماز پڑھنے سے اس قدر دلچسپی نہ تھی۔ البتہ اکھٹے ہو کر گاتے ہوئے جگہ جگہ جانا۔ مجاہدانہ انداز سے گھومنا اور مجاہدانہ شان سے للکار للکار کر گانا یا غازی مصطفٰے پاشا کمال کی شان میں قصیدے پڑھنا اور امان اللہ خان کے گن گانا اور علی برادران کو سراہنا۔۔۔۔۔ ایلی کو یہ شغل بے حد پسند آیا۔
کیوں نہ پسند آتا محلے کے جوان اس بات میں شان امتیاز سمجھتے تھے۔ جب وہ باہر نکلتے تو ان کا انداز عجیب ہوتا جیسے ہیرو ہوں۔ جیسے مصطفٰے پاشا کا گیت گانے والے خود مصطفٰے کمال ہوں۔ جنہوں نے زمانے کی نگاہوں سے بچنے کے لیے بھیس بدل رکھا ہو۔ اس شغل میں سبھی شریک ہوتے تھے۔ رفیق، اعظم، غلام علی، ضیاء اور صفدر لیکن صفدر اور غلام علی کی حیثیت صرف منتظمان کی سی تھی۔ وہ صبح جاگتے لال نینوں کا انتظام کرتے۔ انہیں جلاتے پھر نعتوں کی کاپیاں نکال کر گیتوں کی دھنیں قائم کرتے اور بالاخر چھوٹے لڑکوں کو گانے کا کام سونپ کر خود سگریٹ سلگا کر جلوس کے ساتھ چل پڑتے۔
بڑے لڑکوں میں صرف اعظم تھا جو انتظامات کرنے کے علاوہ گانے میں بھی پیش پیش ہوتا تھا۔ ایلی اعظم کو دیکھ کر فخر سے پھولے نہ سماتا۔ اس کالے، گانے کا انداز، گردن اٹھا کر چلنے کی عادت اور گاتے ہوئے ادھر ادھر دیکھنے کا انداز ایلی کو بے حد جاذب معلوم ہوتے تھے۔ اس کے گلے میں یا کندھوں پر ایک شان بے نیازی سے رومال پڑا ہوتا تھا۔ جس پر کمبل بڑی شان سے لٹکتا اور پھر گاتے ہوئے اس کی گردن کا زاویہ کس قدر خوب صورت معلوم ہوتا تھا۔ ایلی کا جی چاہتا کہ وہ بھی اعظم کی طرح بے نیازی سے چلے اور شان استغنٰی سے گائے اور اس کا کمبل بھی ویسے ہی لٹکے۔ لیکن سردی کی وجہ سے وہ کمبل میں ٹھٹھرتا ہوا چلتا اور گاتے ہوئے اس کی گردن پھول جاتی اور آواز چیختی اور کنپٹیاں درد کرنے لگتیں۔ ایلی کی آواز تو بہت بلند تھی لیکن اس کے گانے میں مٹھاس نہ تھی۔ عام طور پر وہ آواز بہت اونچی نکالتا اور ابتدا ہی میں ایسی سر قائم کر لیتا جسے نبھانا مشکل ہو جاتا۔ پھر وہ سب اصرار کر کے اسے گانے والوں کے گروپ کا سردار بنا دیتے۔ یہ بہت بڑا امتیاز تھا۔ اسی امتیاز کی وجہ سے وہ بہت سویرے جاگ اٹھتا اور باہر نکل جاتا کہ نماز کمیٹی کے لئے لیٹ نہ ہو جائے۔
علی پور میں جب وہ جلوس کی صورت میں چلتے تو بند کھڑکیاں کھل جاتیں۔ چھتوں سے خمار آلود چہرے جھانکتے، منڈیروں سے انگڑائی لیتے ہوئے بازو دکھائی دیتے، بڑے لڑکے سگریٹ کا کش لے لے کر کھڑکیوں منذیروں اور چقوں کی طرف دیکھ دیکھ کر مسکراتے اور ساتھ ہی ٹولی کو ہدایات دیتے رہتے۔ دریچوں سے مہین آوازیں سنائی دیتیں۔ “ آ کر دیکھو تو نماز کمیٹی والے ہیں۔ دیکھ تو۔“

مسجد کے زیر سایہ

دوپہر کے وقت وہ ارجمند کے یہاں چلا جاتا اور وہ دونوں “ انکراینڈی ماباؤں“ کے تمام سامان سے لیس ہو کر کنوئیں کے قریب جا کھڑے ہوتے اور ہر آتی جاتی لڑکی پر انکراینڈی چلاتے۔ ارجمند ریشیں رومال لہراتا۔ اس کے ہونٹ بانسری پر رکھے ہوتے لیکن بانسری بجانے کی بجائے وہ کچھ اور ہی ظاہر کرتے اور وہ دبی زبان سے کہتا “اف! غضب ہے۔ قیامت ہے۔ اب لڑکپن چھوڑ دے شباب آنے کو ہے۔“
ان دونوں کو وہاں کھڑا دیکھ کر کنوئیں کے پاس والے مکان سے برتن بجنے کی آوازیں آنا شروع ہو جاتیں پھر کوئی قہقہہ مار کر ہنستی اور با آواز بلند کسی کو پکارتی “ عائشاں آئے گی بھی یا نہیں۔ ہی ہی ہی ہی۔“ اس کے قہقے سن کر ایلی کو علی احمد کا کمرہ یاد آ جاتا اور وہ سوچنے لگتا “ کیا ہر مکان میں علی احمد کا کمرہ ہوتا ہے‘ کیا ہر بند دروازے کے پیچھے ٹین کے سپاہی چھپے ہوتے ہیں۔“
پھر دفعتاً ٹاٹ کا پردہ ہلتا اور ایک بھرے جسم کی لڑکی سامنے آ کھڑی ہوتی۔ ارجمند کا رومال ہلتا بانسری منتیں کرتی۔ آنکھیں چمک چمک کر دیکھتیں۔ بازو بغل گیر ہونے کے اشارہ کرتے۔
اس وقت ایلی کے ماتھے پر پسینہ آ جاتا۔ آنکھیں جھک جاتیں۔ دل دھک دھک کرنے لگتا۔ کوئی آ نکلتا تو وہ اس انداز سے ادھر ادھر دیکھنے لگتا۔ جیسے کسی اور کام میں مصروف ہو۔ جیسے اسے ارجمند سے کوئی تعلق نہ ہو۔ جیسے وہ راہ چلتے چلتے رک گیا ہو۔ اور ٹاٹ کے پردے سے مسکراتی ہوئی نوجوان لڑکی کی موجودگی کا اسے قطعی علم نہ ہو جیسے وہ انکر اینڈی ماباؤں کے عمل سے قطعی ناواقف ہو۔
ادھر ارجمند کا ریشمیں رومال اس کی گردن پر آ گرتا بانسری کا زاویہ بدل اور وہ یوں آسمان کی طرف دیکھنے لگتا۔ جیسے اللہ سے لو لگا کر اس کی حمد و ثناء میں کوئی دھن بجا رہا ہو۔
اس کے باوجود آتے جاتے شکوک بھری نگاہوں سے انہیں دیکھتے اور پھر مسکرا کر آگے نکل جاتے۔
ان کے جانے کے بعد ٹاٹ کے پردے کی اوٹ سے چھپی ہوئی لڑکی کا بازو یا آنکھ پھر سے باہر نکل آتی اور ارجمند کا رومال پھر سے لہرانے لگتا۔ ایلی کا دل پھر سے دھڑکنے لگتا اور اس کی پیشانی پھر سے پسینے سے بھیگ جاتی۔ اس خطرناک کھیل میں وہ زیادہ دیر مشغول نہ رہ سکتے تھے۔ اس لئے کہ آتے جاتے لوگ انہیں وہاں اس طور پر کھڑے دیکھ کر گھورتے تھے۔ شاید خطرناک ہونے ہی کی وجہ سے یہ کھیل ان کے لئے بے حد دلچسپ تھا۔ حالانکہ ایلی کو کبھی اتنی مہلت نہ ملی تھی کہ وہ ٹاٹ سے جھانکتے ہوئے چہرے کو نظر بھر کر دیکھ سکے وہ صرف یہی جانتا تھا کہ وہ بڑا سا چہرہ سفید سفید ہے اور وہ بانہیں مخلمیں گوشت سے لبالب بھری ہیں اور وہ آنکھیں بے حد کالی اور شوخ ہیں۔
پھر دونوں کنوئیں کو چھوڑ کر پرانی حویلی کے میدان میں آ کھڑے ہوتے۔ اس میدان میں کسی زمانے میں ایک حویلی تھی، جو اب مہندم ہو چکی تھی۔ مشرق کی طرف چند ایک پختہ مکانات تھے۔ شمال کی سمت میں ایک گلی نکل گئی تھی، جس میں دور تک کچے مکانات بنے ہوئے تھے۔ یہ گلی آصفی محلے سے تعلق نہ رکھتی تھی۔ کہا جاتا تھا کہ پرانے زمانے میں آصفیوں کا کام کاج کرنے والے کمیں، یہ گلی انہیں کی تھی اگرچہ اب ان کی مجلسی حیثیت آصفیوں سے کسی صورت کم نہ تھی۔
پرانی حویلی کے میدان کے پرے مشرق میں شیخوں کے چند ایک مکانات تھے۔ کنوئیں کے پاس ایک مکان میں سید آ کر آباد ہو گئے تھے۔ اور اس کے قریب چند کشمیری آ بسے تھے۔ اب آصفی محلہ صرف مغربی حصہ تک محدود تھا۔ وہ پختہ وسیع میدان جسے منڈی کہتے تھے، اس کا مرکزی حصہ تھا۔ آصفی لڑکے عام طور پر اس مرکزی حصے میں کھیلنے سے گھبرایا کرتے تھے۔ کیونکہ وہاں کھیلنے سے انہیں محلے کی عورتوں کی نگاہوں تلے رہنا پڑتا تھا اور وہ بات بات پر اعتراض کرتیں۔ “اے نالی کا گند اچھالتے ہوئے تمھیں شرم نہیں آتی۔ سارا دن ناپاک چھینٹے اڑاتے رہتے ہو، چھوڑو اس گندے کھیل کو۔“ گلی میں کھیلنے پر وہ چلاتیں۔ “کسی کا سر پھوڑ کر اطمینان کا سانس لو گے تم یہ کیا شریفوں کا کھیل ہے۔“ منڈی میں انکراینڈی ماباؤں کا کھیل تو بالکل بیکار تھا۔ وہاں تو ریشمی رومال تک لہرایا نہ جا سکتا تھا۔ بانسری بجانا تو الگے چیز تھی۔ اگر وہاں ریشمی رومال لہرایا بھی جا سکتا تو بھی اس کا کوئی فائدہ نہ ہوتا کیونکہ منڈی کے گرد رہنے والی لڑکیاں کھڑکیوں میں نہیں آ سکتی تھیں۔ یا تو ان میں اس قدر جرات نہ تھی اور یا شاید حس ہی نہ ہو وہ دبے پاؤں چلتیں جیسے پاؤں کی آہٹ ان کی دشمن ہو۔
نیچی نگاہوں سے دیکھتیں۔ بند ہونٹوں سے مسکراتیں اور یوں آہستہ بولتیں جیسے وہ لڑکیاں نہیں بلکہ چلتے پھرتے سائے ہوں اور پھر منڈی میں ہر آہٹ پر بوڑھیوں کے کام کھڑے ہو جاتے۔
“کون ہے۔ اے ہے شریفوں کے بیٹے بھی اب بانسریاں بجانے لگے۔ میراثی بن گئے۔ کیا توبہ ہے کیا زمانہ آیا ہے۔“
“ریشمی رومال لہراتے ہوئے شرم نہیں آتی کیا۔“ چاروں طرف سے بوڑھیاں کھڑکیوں میں آ جمع ہوتیں۔“ یہ ذرا دیکھنا ماں برکتے۔ چاچی حاجاں ذرا آؤ تو۔“
سارے محلے میں انکراینڈی ماباؤں کے لئے صرف دو مناسب مقامات تھے ایک تو کنوئیں کے پاس مسجد کے قریب جہاں بڑی ڈیوڑھی تھی اور دوسرے پرانی حویلی کے میدان میں بڑی لالٹین کے نیچے---------

کپ اور کیپ

جب وہ دونوں لالٹین کے نیچے کھڑے ہوتے اور ارجمند بانسری کی سروں کو چھیڑتا تو دفعتاً عصمت اللہ کے مکان کی کھڑکی کی چق کو حرکت ہوتی جسے دیکھ کر ارجمند زیر لب کہتا “وہ مارا دیکھا۔ جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے۔“ پھر وہ حق کی طرف کر آنکھیں چمکاتا اور ایلی سے مخاطب ہو کر کہتا “دیکھا ادھر بین بجی ادھر سانپ ناچنے لگا۔ اسے کہتے ہیں انکراینڈی ماباؤں۔“
ارجمند کی باتیں سن کر ایلی فخر محسوس کرتا کیونکہ ارجمند کی فتح اس کی اپنی فتح تھی۔ لیکن اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ سانپ کون ہے۔ کہاں ہے اور اس کے ناچنے کا مطلب کیا ہے۔ چق کی طرف تو وہ بھی دیکھتا تھا۔ مگر اتنی دور سے چق کے پیچھے اسے کچھ دکھائی نہ دیتا تھا پھر وہ دوسری جانب دیکھنے لگتا شاید سانپ ادھر ناچ رہا ہو۔
اسے یوں کھوئے ہوئے دیکھ کر ارجمند چلاتا “نہیں یار۔ کیپ کیپ سمجھے کیپ کھڑکی میں آ بیٹھی ہے وہ ہلی چق، وہ اب دیکھا۔ اف یار کس غضب کی چیز ہے بس سمجھ لو بالکل تیار ہے۔ ذرا سی کسر ہے ایک آنچ کی اگر ہماری ڈسپنسری یہاں علی پور میں ہوتی اور کیپ کسی روز دوا لینے آ نکلتی تو سب ٹھیک ہو جاتا۔ معاملہ صاف ہو جاتا۔ لیکن اب یہاں ڈسپنسری جو نہیں کیا کیا جائے۔“
ایلی محسوس کرتا کہ انکراینڈی ماباؤں میں ایک ڈسپنسری کا ہونا اشد ضروری ہوتا ہے۔ لیکن سوچنے پر اس کی سمجھ میں نہ آتا کہ ڈسپنسری اس سلسلے میں کیا مدد کر سکتی ہے۔ ڈسپنسریاں تو علی پور میں بھی تھیں۔ جہاں لمبی میزیں بچھی ہوئی تھیں۔ میزوں پر روئی کے پھاہے پڑے ہوتے اور کمپاؤنڈر قینچی لئے کھڑا رہتا۔ پھر بڑی بڑی بوتلیں اور وہ عجیب سی بو جسے سونگھنے سے انسان خواہ مخواہ محسوس کرنے لگتا ہے کہ وہ بیمار ہے اور وہ ڈاکٹر جس کے ماتھے پر شکنیں پڑی رہتیں۔ ہاتھوں میں ربڑ کی ٹوٹیاں لگتیں۔ جو نہایت خشک آواز میں باتیں کرتا تھا۔ اور مریضوں کی بات یوں بے پروائی سے سنتا تھا۔ جیسے سن ہی رہا ہو۔ ایسی جگہ کے ہونے سے بھلا کیا فائدہ ہو سکتا تھا اور فائدے سے ارجمند کا مطلب کیا تھا۔
“کیپ کیپ۔“ ارجمند کی آواز سن کر ایلی پھر چوکنا اور کھڑکی کی طرف دیکھتا کھڑکی میں ایک زرد رو لڑکی کا چہرہ دیکھ کر اس کا دل دھڑکنے لگتا اور وہ نگاہیں پھیر لیتا پھر ارجمند کا رومال ہلتا اور اس کے بالوں اور گالوں سے مس کرتا ہوا چھاتی پر آ گرتا اور ارجمند اسے یوں گلے لگا لیتا جیسے کوئی جاندار چیز ہو۔ یہ دیکھ کر کیپ مسکراتی اور لوچدار آواز سے پڑوسن کو بلاتی۔ “ سکینہ ‘ سکینہ۔ “
وہ دونوں اسے کیپ کہا کرتے تھے۔ یہ نام ارجمند نے تجویز کیا تھا تاکہ سننے والوں کو معلوم نہ ہو کہ وہ کس کے متعلق باتیں کر رہے ہیں۔ ایلی جب چوگان میں لڑکوں کے ساتھ کھڑا ہوتا تو ارجمند اس کے پاس آ کر بہانے سے اپنے سر پر ہاتھ رکھ لیتا۔ جس سے ایلی کو معلوم ہو جاتا کہ کیپ کے متعلق کوئی ہے یا کیپ کھڑکی میں کھڑی ہے یا وہ چوگان کی طرف آ رہی ہے یا اس کے سکول سے آنے کا وقت ہو چکا ہے۔
اگر کسی خاص مصروفیت کی وجہ سے ایلی ارجمند کا اشارہ نہ سمجھتا تو ارجمند ٹوپی کے متعلق کوئی بات کر دیتا۔ ایلی ہم نے ایک کیپ خریدی ہے آؤ دکھائیں۔ غضب کی چیز ہے۔ ایسا خوب صورت رنگ ہے کہ تمھیں کیا بتائیں۔ واہ واہ دیکھو اور پھڑک جاؤ۔“
اس پر ایلی کی سمجھ میں آ جاتا کہ کوئی بات ہے اور پھر ایلی کسی بہانے کھیل چھوڑ کر ارجمند کے ساتھ چل پڑتا اور وہ دونوں پرانی حویلی کے میدان جا کھڑے ہوتے اور کیپ کھڑکی میں آ کر سکینہ کو آوازیں دیتی اور با آواز بلند ہنستی یا انگریزی پڑھتی یا ویسے ہی کھڑکی میں کھڑی ہو کر سکینہ سے باتیں کرنے لگتی۔
“کل چھٹی ہے نا۔ پرسوں کا وقت بدل جائے گا۔ پرسوں سے نو بجے لگے گا سکول------------- اور ڈھائی بجے ختم ہو گا۔“
اس پر ارجمند چلاتا “ نوٹڈ نوٹڈ‘ “ اور پھر زیرِ لب گنگناتا “ڈارلنگ مابدولت تین بجے ڈیوڑھی پر ڈیوٹی دیا کریں گے تاکہ حضور کا باقاعدہ استقبال کیا جائے جو حضور کے شایان شان ہو۔“ اتنے میں کیپ کے گھر سے ایک چھوٹی سی لڑکی مسکراتی ہوئی نکل آتی۔
ارجمند چلاتا “کپ کپ‘ مدھ بھری پیالی۔“
وہ خوامخواہ شرماتی اور مسکاتی اور ان کے پاس سے گزر جاتی۔
“مدھ بھری پیالی۔“ ارجمند با آواز بلند کہتا “ چند سال کے بعد کیا غضب ہو گا۔ کیا قیامت ٹوٹے گی۔ کیا فتنہ بیدار ہو گا۔ اف پیالی پیالہ بن جائے گی۔ پتی پھول بن جائے گی۔ پتی پھول بن جائے گی کلی کھل کر چمن ہو جائے گی کیا سمجھے ایلی۔“
ایلی حیرت سے ارجمند کی طرف دیکھتا۔ ارجمند کی باتیں کس قدر دلفریب تھیں۔ اسے کیسے اچھے فقرے یاد تھے اور وہ اردو کس بے تکلفی سے بولتا تھا۔ “کاش“ ایلی سوچتا “ میں بھی پانی پت جاتا اور وہاں سے خوب صورت زبان سیکھ آتا اور پھر میں بھی ایسے جملے بول سکتا۔“ لیکن ایلی تو سیدھی سادھی بات کرتے ہوئے بھی جھینپ جاتا تھا پاگلوں کی طرح وہ کپ کی طرف دیکھ تو سکتا تھا لیکن بات نہ کر سکتا تھا اور وہ پیالی تھی بھی تو بے حد خوب صورت۔ کس قدر سفید رنگ تھا اور اس پر سرخی جھلکتی تھی۔ ایلی اسے دیکھ کر دم بخود رہ جایا کرتا تھا مگر وہ پیالی بہت ہی چھوٹی تھی اور اس کی سیاہ اور شفاف آنکھیں خوب صورت ہونے کے باوجود ان نگاہوں سے خالی تھیں۔ جو بڑی لڑکیوں کی آنکھوں سے چھلکتی تھیں نہ جانے ان میں کس چیز کی کمی تھی کپ میں مدھ تو بھری تھی اور وہ جھلکتی بھی تھی مگر وہ مدھ اس سے کس قدر مختلف تھی جو کیپ سے چھلکا کرتی تھی۔ حالانکہ کیپ رعنائی اور حسن میں کپ کے مقابلے میں ہیج تھی۔
جب کپ لجائی ہوئی ان کے پاس سے گزرتی تو ارجمند ہنس کے کہتا “جان من کیا دو سال کے بعد ہمیں یاد رکھو گی بھلا نہ دینا خاکسار کو۔“
کپ کھلکھلا کر ہنس پڑتی اور ایلی کا دل گویا کھل کر پھول بن جاتا۔
ارجمند کہتا “چلو بھئی اب ہکوری ڈکوری کی باری ہے۔ دعا کرو سائز بڑا نہ ہو۔“ پھر وہ ارجمند کے گھر بند کھڑکیوں کی درزوں سے جھانکتے رہتے۔ لیکن عام طور پر ان کا شوق پورا نہ ہوتا اور سامنے کا دالان ویران رہتا۔ اگر کبھی کوئی عورت غسل کرنے آتی بھی تو ایلی کی آنکھیں آپ ہی بند ہو جاتیں اور وہ محسوس کرتا جیسے وہ جرم کر رہا ہو لیکن اس وقت اس کا دل دحڑکتا نسیں تھرکتیں اور سانس مشکل سے آتا۔ یہ کیفیت تکلیف دہ ہونے کے ساتھ ساتھ پر لذت بھی تھی ایلی کی تمام تر دلچسپی اس کیفیت سے وابستہ تھی۔ اس منظر سے نہیں وہ منظر صرف اس لئے ضروری تھا کہ اس کی موجودگی سے ایلی کو یہ کیفیت حاصل ہوتی تھی۔

نسا نذیراں

ہکوری ڈکوری سے فارغ ہو کر ایلی جمیل کے یہاں چلا جاتا اور وہ دونوں مل کر روپے گنتے جو جمیل نے ماں کی صندوقچی سے چرائے ہوتے ایک دو تین چار---------- پھر وہ مل کر منصوبے بناتے۔ منصوبے بناتے وقت سامنے چوبارے میں ایک لڑکی آ جاتی انہیں دیکھ کر لڑکی کو نہ جانے کیا ہو جاتا۔ وہ اٹھ بیٹھتی چار ایک قدم چلتی پھر لوٹ آتی پھر کھڑکی میں کھڑی ہو کر انگڑائیاں لیتی پھر سرہانہ اٹھا کر اسے سینے سے لگاتی۔ گود میں بٹھاتی پھر وہ ناچنا شروع کر دیتی۔ ناچ ختم ہونے پر وہ پھر سے انگڑائیاں لینا شروع کر دیتی۔ از سر نو کھڑکی میں آ جاتی۔ دوپٹہ اتار کر پھینک دیتی۔ بالوں کو لپیٹ لیتی پھر انہیں کھول دیتی۔ پھر ڈوپٹہ اوڑھ لیتی اور از سر نو ناچنے لگتی۔ ایلی نے کئی مرتبہ اسے دیکھا تھا۔ لیکن اس نے جمیل سے بات نہ کی تھی۔ نہ ہی اسے خیال آیا تھا کہ وہاں انکراینڈی ماباؤں کا کھیل کھیلا جا سکتا ہے۔ کیونکہ اس کے نزدیک وہ کھیل تو ارجمند کی موجودگی کا محتاج نہ تھا۔ جمیل کو ایسی باتوں سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ فی الحال وہ تو ماں کی گٹھڑی میں سے روپے چرانے اور دوستوں کو پیڑے کھلانے کے دلچسپ مشغلے میں کھویا ہوا تھا۔
لیکن ایک روز جمیل نے اس سیماب صفت لڑکی کو دیکھ لیا اور دیر تک اسے دیکھتا رہا۔ یہ نیا کھیل اسے بہت پسند آیا اور وہ دونوں شدت سے اس جوان لڑکی کی طرف دیکھنے لگے جو دور اپنے چوبارے میں نہ جانے کیا کھیل کھیل رہی تھی۔ کیسا ناچ ناچ رہی تھی۔ پھر اس کا یہ معمول بن گیا اور ایلی کے لئے جمیل کے چوبارے میں انکراینڈی ماباؤں کا ایک نیا باب کھل گیا۔ انکراینڈی کے اس باب میں ایک عجیب و غریب خصوصیت تھی نہ تو اس میں ریشمی رومال ہلانا پڑتا تھا اور نہ بانسری بجانے کی ضرورت تھی۔ نہ پریم پتروں کی کتاب کھولنی پڑتی تھی۔ بس وہ صرف کھڑکی کھول کر اس میں بیٹھ جاتے باقی سب کچھ وہ لڑکی خود کیا کرتی تھی۔ جب ایلی اکتا جاتا تو وہ گھر چلا آتا۔
جب وہ گھر کی سیڑھیوں کے قریب پہنچتا تو نذیراں اسے دیکھ کر کسی بہانے اپنا کام چھوڑ کر ان کی ڈیوڑھی میں آ جاتی “کہاں سے آئے ہو؟“ وہ اس کے قریب آ کر مسکراتے ہوئے پوچھتی اور اس قدر قریب آ جاتی کہ اس کے جسم کی بو ایلی کی ناک پر یورش کر دیتی اور نذیراں کا سانس اس کے منہ سے ٹکراتا ہوا محسوس ہوتا اور نذیراں ٹکٹکی باندھ کر اس کی طرف دیکھتی اور اس کی بانہیں ایلی کی طرف بڑھتیں اور گھبرا کر ایلی پیچھے ہٹ جاتا۔ 
“کہاں سے آئے ہو؟“ وہ اس کی طرف بڑھنے لگتی۔
“یہیں۔ یہیں۔ ذرا باہر گیا تھا۔“ وہ کنی کترا کر سیڑھیوں کی طرف بڑھتا اور بھاگ کر اوپر چڑھ جاتا۔ اسے یوں اوپر چڑھتے ہوئے دیکھ کر دادی اماں پوچھتیں۔
“کیا ہے تمھیں ایلی۔ یوں بھاگ کر کیوں چڑھتے ہو سیڑھیاں جیسے کوئی پیچھا کر رہا ہو۔“
ایلی ڈر کر پیچھے دیکھتا کہیں وہ پیچھے تو نہیں آ رہی۔؟
“کیا ہے ان سیڑھیوں میں؟“ وہ پھر پوچھتیں۔
“کچھ نہیں دادی اماں کچھ نہیں۔“
نذیراں کو دیکھ کر اسے کبھی خیال نہ آیا تھا کہ وہ اس کے ساتھ انکراینڈی ماباؤں کا کھیل کھیل سکتا ہے اور ڈسپنسری کے بغیر ہی کامیابی حاصل کر سکتا ہے نہ اسے ریشمی رومال کی ضرورت ہے اور نہ شعروں کی کتاب کی۔ لیکن اس کے ذہن میں کامیابی کی نہ تو آرزو تھی اور نہ یہ شعور تھا کہ کامیابی کا مطلب کیا ہے اسے وہ لڑکیاں بے حد پیاری لگتی تھیں جو دور کسی کھڑکی سے جھانکتیں اور مسکراہٹ بھری نگاہ چھلکا کر کھڑکی بند کر لیتیں۔ اسے وہ لڑکیاں پسند تھیں۔ جن کے چہروں پر اداسی چھائی ہوتی۔ ایسی لڑکیاں جن کی صورت روئی روئی ہوتی جو ہائے اللہ کہہ کر بھاگ جاتیں وہ نہیں جو آگے بڑھ کر اسے گھیر لیتیں اور پوچھتیں کہاں سے آئے ہو۔

مکلاوا

ایک دن جب وہ حسب معمول نذیراں سے خوف زدہ ہو کر سیڑھیاں چڑھ رہا تھا تو ابا نے اسے آواز دی۔ “ایلی“ وہ گھبرا گیا نہ جانے ابا نے کیوں بلایا تھا کہیں وہ سیڑھیوں کی بات سے واقف تو نہ تھے۔
ایلی ڈرت ڈرتے قریب گیا “آج تم شمیم کے ساتھ شام کوٹ جا رہے ہو سمجھتے جاؤ تیاری کر لو۔“ علی احمد نے کہا۔ خوشی سے ایلی کی باچھیں کھل گئیں۔ وہ ایک نئی جگہ جائے گا۔

شام کوٹ:

شام کوٹ کے نام سے وہ اچھی طرح واقف تھا۔ چونکہ صفیہ کوٹ کی رہنے والی تھی اگرچہ اسے وہاں جانے کا کبھی موقع نہ ملا تھا۔ اسی روز وہ شام کوٹ کو روانہ ہو گیا۔ شام کوٹ کے نئے محلے میں اپنی نئی ماں کا گھر دیکھ کر اسے بے حد مایوسی ہوئی ایک ڈیوڑھی کے پیچھے ایک چھوٹا سا تنگ و تاریک صحن تھا جس کے پیچھے فو کوٹھڑیاں تھیں۔ ڈیوڑھی میں ایک بوڑھی عورت چادر باندھے بیٹھی تھی۔ چادر میں وہ کس قدر بھدی لگ رہی تھی۔ اس کا بیٹھنے کا انداز بھی تو عیجیب تھا۔ جیسے وہ عورت ہی نہ ہو بلکہ کوئی بے حس گنوار مرد بیٹھا ہو۔
ایلی کو دیکھ کر وہ اٹھ بیٹھی۔ “خیر سے بسم اللہ“ اور وہ اس کے منہ پر ہاتھ پھیرنے لگی۔ “بیٹھ جا۔ سنا علی احمد کا کیا حال ہے۔ آپ کیوں نہیں آیا وہ۔ بہت بننے لگا ہے اب پہلے تو یہ بات نہ تھی۔ دو سال میری منتیں کرتا رہا۔ میری دہلیز پر بیٹھا رہا۔ میری بیٹی کشمیر میں پلی ہے ہاں بڑی ناز ک ہے وہ۔ اسے کوئی دکھ نہ ہو۔ ورنہ وہ مجھے اچھی طرح جانتا ہے۔ میں نے بھی ساری عمر سرکاری نوکری کی ہے۔ عمر بھر استانی کا کام کیا ہے۔ تم آئے ہی تھے نا۔ ہمارے سکول میں یاد ہے نا تمھیں۔“
دفعتاً ایلی کو یاد آیا۔ ہوں! یہ تو وہی استانی تھی۔ جو اس روز پردے کے پیچھے کھڑی علی سے باتیں کر رہی تھی۔ ایلی نے گھن سی محسوس کی۔ کیا سبھی استانیاں اسی قسم کی ہوتی ہیں۔ کیا ان میں ذرا بھی جھجک نہیں ہوتی۔ کیا وہ مردوں کی طرح چادریں باندھتی ہیں۔
“لڑکے ذرا حقہ تو بھرنا۔“ استانی نے کسی کو آواز دی اور پھر اپنی تقریر جاری کر دی۔ “میں نے پورے پندرہ سال ملازمت کی ہے اللہ نہ کرے کوئی ضرورت نہ تھی۔ نوکری کرنے کا بس شوق تھا پڑھانے کا شوق۔“
اس کے لہجے سے ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے اس نے محکمہ تعلیم کی بجائے پولیس کی نوکری کی ہو۔ علی احمد کی بات کرتے ہوئے اس کے انداز سے معلوم ہوتا تھا جیسے وہ اس سے کما حقہ واقف ہو۔ جیسے علی احمد کے متعلق بات کرتے ہوئے اسے تکلفات کی ضرورت نہ ہو۔ اس کے باوجود یا شاید اسی لئے اس کی گفتگو میں نفرت کی جھلک تھی۔ بات بات پر وہ اپنے گھرانے کی عظمت کا ذکر چھیڑ دیتی اپنی بڑائی جتاتی اور بلاخر اپنی بیٹی کی نزاکت طبع کی طرف اشارہ کر کے ایلی کو متنبہ کرتی کہ اس کی بیٹی کو احتیاط سے گھر میں رکھیں۔ پھر اس نے اپنے بیٹے کو آواز دی۔ “قاسم“ اور ایک جوان لڑکا باہر آگیا۔ “یہ تیرا ماموں ہے۔“ وہ بولی۔ ایلی نے ماموں کو سلام کیا لیکن وہ حیران تھا کہ جس قدر استانی کا چہرہ اور انداز نسائیت سے خالی تھا، اس قدر قاسم کا مردانہ پن سے محروم تھا۔

دو ناگ

اس گھر میں سب سے زیادہ قابل قبول شخصیت اس کی نئی امی شمیم کی ہی تھی۔ شمیم میں نہ تو استانی کی سی بیباکی تھی اور نہ قاسم کی سی مجہولیت۔ البتہ ایلی کو ایک تکلیف ضرور تھی۔ جب بھی شمیم اس کے پاس آتی تو اس کی چادر سے دو حنا مالیدہ ہاتھ نکل آتے۔ جن کی سفیدہ کی وجہ سے حنائی سرخی اور بھی شوخ دکھائی دیتی اور حنا کی سرخی کی وجہ سے ہاتھوں کی سفیدی اور بھی دودھیا۔ ان ہاتھوں کو دیکھ کر ان جانے میں وہ محسوس کرتا جیسے کوئی جرم ہو، گناہ کر رہا ہو۔ شمیم محبت جتانے کے لئے اپنے حنا مالیدہ ہاتھ اس کی طرف بڑھاتی اور ایلی انہیں اپنی جانب بڑھتا ہوا دیکھ کر گھبرا کر سہم جاتا اور دور ہٹنے کی شدید کوشش کرتا مگر بلآخر وہ دو حنائی ناگ اسے اپنی لپیٹ میں لے لیتے۔ حنا کی بو سے اس کے ذہن میں ایک طوفان سا اٹھتا۔ گردو پیش دھندلا جاتے اور پھر----------- شرم سے اس کا سر جھک جاتا وہ اپنی نگاہ میں ننگا ہو جاتا۔ ننگا اور شرمسار۔
اس طرح اس کی زندگی میں ہاتھوں کی اہمیت بڑھتی گئی۔ ماں کی اہمیت بڑھتی گئی اور اس کے ذہن میں حنائی رنگ کا جنسی زندگی سے تعلق استوار ہوتا گیا۔ ان کے گھر میں جو دعوت آتی تھی۔ اسے براہ راست یا باپ سے تعلق ہوتا تھا اگر وہ ان کے بندے کمرے میں جا پہنچتی تو بھی اور اگر وہ اس کی زد سے بچنے کی کوشش کرتی تو بھی۔ بہر صورت ہر عورت جو اس مکان میں آتی تھی اسے علی احمد سے تعلق ہوتا اثباتی یا منفی تعلق۔
لیکن اس زمانے میں اسے اثبات نفی کا شعور نہ تھا۔ اس کے دل میں یہ جذبہ پیدا ہو جاتا کہ بند کمرے کے طلسم کو توڑ کر ٹین کے سپاہی کے چنگل میں پھنسی ہوئی عورت کو نجات دلائے لیکن اس خیال کے ساتھ ہی خواہ مخواہ چند ایک خیالی تصاویر اس کے ذہن میں اتر آتیں اور وہ لاحول پڑھنے سے مخلصی نہ ہوتی۔ پھر وہ اس خیال کو بھولنے کو بھولنے کی کوشش میں لگ جاتا۔ لیکن ٹین کے سپاہی سے مخلصی پانے والی حسین ماں جسے چھوڑ کر وہ بھاگ رہا ہوتا اپنی گود سے حنائی ہاتھ نکال کر اشارے کرتی۔ “ایلی۔ ایلی ٹھہرو مجھے ساتھ لے جاؤ۔ ایلی“ ----------------- اور حنائی ہاتھ اس کی طرف بڑھتے چلے آتے۔
شمیم کے حنائی ہاتھوں سے ڈر کر وہ قاسم کے پاس جا بیٹھتا گرچہ اسے قاسم قطعی طور پر پسند نہ تھا۔ پھر بھی اسے سکون و اطمینان تو میسر ہو جاتا تھا نہ جانے قاسم میں کیا تھا۔ اس کے جسم پر بال نہ تھے اور یہ بات ایلی کو ناگوار تھی۔ اس کا صاف سنہرا جسم دیکھنے سے کتراتا تھا لیکن قاسم قمیض پہنے بغیر بیٹھا رہتا۔ اب وہ قاسم کو قمیض پہننے پر کیسے مجبور کر سکتا تھا پھر اس کی ماں استانی بھی تو بند کو ڈھانپنے کے متعلق محتاط نہ تھی اس کی قمیض کے بٹن اکثر کھلے رہتے تھے۔ جس میں لٹا ہوا پائمال جسم کسی بند کمرے اور ٹین کے سپاہی کی غمازی کرتا تھا۔
بڑھیا کے جسم کی طرف دیکھ کر اسے کراہیت محسوس ہوتی۔ اس کی حنا مالیدہ ہاتھوں کو دیکھ کر اسے غصہ آتا۔ اسے حنا سے ہاتھ رنگنے کا کیا حق تھا۔ اسے ان بوتلوں کو لٹکانے کیا حق تھا۔ شدید نفرت سے گھبرا کر وہ اندر کمرے میں جا گھستا جہاں وہ لڑکی شاد چپ چاپ بیٹھی کام میں مشغول ہوتی۔ شاد‘ عجیب نام تھا اس کا لیکن اس کا رنگ زرد کیوں رہتا تھا۔ حالانکہ چلنے پھرنے اور کام کرنے میں وہ بے انتہا تیز تھی۔ کس پھرتی سے کام کرتی تھی وہ ----------سارے گھر میں صرف شاد ہی ایسی لڑکی تھی۔ جسے دیکھ کر اسے گھبراہٹ نہ ہوتی تھی۔ اس کی کئی ایک وجوہات تھیں۔ ایک تو وہ پتلے دبلے جسم کی لڑکی تھی۔ دوسرے اس کا رنگ سفید نہ تھا اور تیسرے اس کے ہاتھ حنا مالیدہ نہ تھے۔ حنا مالیدہ ہاتھ اس کے لئے صرف اس صورت میں پریشان کن ہوا کرتے تھے، جب ان کا رنگ گورا ہو اور دیکھنے میں وہ گدگدے محسوس ہوں۔
چند دن شام کوٹ رہنے والے کے بعد وہ مکلاوا لے کر واپس علی پور پہنچ گیا اور چند ہی دنوں کے بعد علی احمد اپنے حنائی ناگ لے کر واپس نوکری پر چلے گئے اور ایلی علی پور میں اکیلا رہ گیا۔
اس بات پر اسے بے حد مسرت ہوئی۔ اس نے محسوس کیا کہ وہ آزاد ہے۔ اسے علی احمد نے بند کمرے، ٹین کے سپاہی اور حنائی ناگوں سے نجات مل گئی ہے اور وہ مجرم نہیں ہے۔ اس نے کوئی گناہ نہیں کیا۔
لیکن اس کے باوجود محلے میں کوئی نہ کوئی واقعہ ضرور ہو جاتا، جس سے اس کے دل میں ان ہاتھوں کی یاد تازہ ہو جاتی۔ اس کے دل میں پھر لذت اور گناہ کا احساس ابھرتا،

چوزے اور گدھ

حنائی ہاتھوں کے سحر سے بچنے کے لیے وہ گھر سے باہر نکلتا اور گھومتا پھرتا۔ ارجمند، جمیل یا سعیدہ کے گھر پہنچ جاتے۔
سعیدہ ایلی کی خالہ زاد بہن تھی۔ حسن دین کی بیوی ہونے کے باوجود وہ حسن دین سے کس قدر مختلف تھی۔ حسن دین محکمہ ڈاک میں ملازم تھے اور اکثر علی پور سے باہر رہا کرتے تھے۔ لیکن اگر علی پور میں ہوتے تو بھی ایسے محسوس ہوتا۔ جیسے وہ باہر ہوں۔ ان کی موجودگی اور غیرموجودگی میں چنداں فرق نہ تھا۔ اول تو وہ بات کرنے کے قائل ہی نہ تھے اور کرنے کی کوشش بھی کرتے تو وہ مکمل نہ ہو سکتی بلکہ ادھوری رہ جاتی۔
گھر میں داخل ہوتے ہی وہ ایک نظر سعیدہ کی طرف ڈالتے اور پھر مسکرا دیتے۔ یہی ان کی سب سے بڑی بات ہوتی جسے صرف سعیدہ سمجھتی تھی۔ اس مسکراہٹ میں ان کا احساس کمتری ادھوری کوشش اور سعیدہ سے قلبی تعلق سبھی کچھ واضح ہو جاتا پھر وہ اپنی حاضری کے باوجود گویا مکان سے ناپید ہو جاتے اور سعیدہ اس مسکراہٹ سے اخذ شدہ احساس برتری میں پھولے نہ سماتی۔
سعیدہ کے مکان میں ہر وقت بھیڑ لگی رہتی تھی۔ اسے بھیڑ رکھنے سے بے حد دلچسپی تھی۔ وہ اپنی کھڑکی سے آتے جاتے کو آواز دیتی۔ “رفیق کہاں جا رہا ہے تو۔“ فرحت تو آج آئی نہیں ادھر۔“ “زبیدہ لو تم کہاں جا رہی ہو -------- بازی نہیں لگے گی کیا“ “آؤ نا ایلی آج تو پارٹی کا بندوبست ہونا چاہیے۔“
سعیدہ، زبیدہ اور آصفہ تینوں سگی بہنیں تھیں۔ زبیدہ رحم علی سے بیاہی جا چکی تھی اور آصفہ مولانا عبداللہ سے ویسے تو تینوں بہنیں مزاج کی رنگین واقع ہوئی تھیں۔ مگر سعیدہ میں بہت زیادہ مجلسی عنصر تھا۔ اس کا گھر بھی محلے کے مرکزی مقام پر تھا۔ اور ادھر ادھر سے لوگوں کو بلا کر اپنے گھر میں اکٹھا کر لیا کرتی اور پھر وہاں تاش کی بازی شروع ہو جاتی۔ چور سپاہی یا بھابی دیور کا کھیل چلتا۔ چور سے باقاعدہ ایک اکنی بطور جرمانہ وصول کی جاتی اور پھر یہ اکنیاں اکٹھی کر کے کچھ منگایا جاتا یا پکایا جاتا اور بلاخر سب لوگ مل کر کھاتے پیتے۔ اس شغل کے دوران سعیدہ کا گھر قہقہوں سے گونجتا۔ ایک دوسرے سے مذاق کئے جاتے۔ فقرے کسے جاتے۔
ویسے سعیدہ کے گھر میں تو روز ہی ہنگامہ رہتا تھا۔ لیکن کبھی کبھار وہ خصوصی طور پر مولوو شریف کا اہتمام کیا کرتی تھی۔ فرش پر سفید چادریں بچھائی جاتیں۔ گلاب چھڑکا جاتا۔ کھانے کو الائچیاں اور پان مہیا کئے جاتے۔ شام کو عورتیں اکٹھی ہو کر نعتیں پڑھتیں اور مرد دور کسی جگہ بیٹھ کر سنتے یا قریب ہی کسی مقام پر چھپ کر دیکھتے۔
گانے کے علاوہ سعیدہ کو ناچنے کا بھی بے حد شوق تھا۔ اکثر وہ چند ایک قریبی بہنوں اور بھائیوں کو بلا کر گانے کی محفل جما لیتی اور پھر سر پر طلے دار ٹوپی پہن کر ڈھولک لے ساتھ ناچتی اور اپنے حنائی ہاتھوں کو عجیب انداز سے لہراتی اور ایلی محسوس کرتا جیسے وہ کوئی جادوگرنی ہو اور حنائی ہاتھ کوئی جیتا جاگتا طلسم ہوں اس وقت اس کی نگاہ میں گردو پیش دھندلانے لگتے اور وہ چپکے سے وہاں اٹھ کر اپنے گھر دادی اماں کے پاس پناہ لینے کے لئے آ جاتا۔
دادی اماں اسے تھپک کر سلاتی “کچھ بھی تو نہیں ایلی۔ کچھ بھی نہیں سو جا اب۔“ لیکن دادی اماں کی تسلیوں کے باوجود یا شاید ان تسلیوں کی وجہ سے وہ محسوس کرتا کہ کچھ ہے۔ نہ جانے کہاں کچھ نہ کچھ ہے ضرور ہے جو اسے پریشان کر رہا ہے۔ اس کے دل کے نچلے پردوں میں لہریں لے رہا ہے۔ طوفان بپا کر رہا ہے۔ لیکن دادی اسے تھپکے جاتی۔ “سو جا۔ کچھ بھی تو نہیں۔ سو جا۔“ اور بلاخر وہ سو جاتا اور پھر نہ جانے کیا ہوتا۔ اس کے سامنے حنائی ناگ لپکتے اور ایک بھاری بھر کم جسم ناچتا ناچتا اس کی طرف بڑھتا اور پھر دھڑام سے اس کی چھاتی پر آ گرتا اور اس کا دم رک جاتا اور وہ چیخ مار کر بھاگ اٹھتا۔ دادی اماں اٹھ بیٹھتیں۔ “کیا ہے تجھے ایلی۔ ڈر گیا ہے کیا۔ نہ جانے سارا دن کہاں کہاں کھیلتا ہے۔ کس کس مقام پر بیٹھتا ہے تو۔ تجھے جو کہا ہے میں نے کسی مقام پر نہ جایا کر۔ رات کو ڈرنا ہی ہوا اس وجہ سے ‘اب سو جا۔‘ دادی اماں کو کیا معلوم تھا کہ وہ عمر کے کیسے سخت مقام پر آ پہنچا ہے۔
صبح سویرے ایلی پھر باہر نکل جاتا اور محلے کی زندگی کی گہما گہمی میں کھو جاتا بوڑھی عورتیں اس کی طرف اپنے جھلی دار پنجے بڑھاتیں۔ “ایلی ہے جیتا رہ بیٹے۔ خدا عمر دراز کرے۔ تیری ماں کا کلیجہ ٹھنڈہ رہےمیں کہتی ہوں۔“ وہ راز دارانہ طور پر ایلی پر جھک جاتیں۔ “اللہ رکھے جائیداد کا وارث تو ہی ہے۔ تو ہی گھر کا مالک ہے اور یہ جو آتی جاتی ہیں۔ کلمو نہیاں یہ سب چڑیلیں ہیں۔ سب دفعان ہو جائیں گی۔ انشاءاللہ تو ہی گھر کا مالک بنے گا۔ کھیلنے جا رہا ہے۔ تو جا بچے جا۔ دوگھڑی کھیلنا اچھا ہی ہوتا ہے۔“ عورتوں سے بچ کر وہ محلے کے کسی بوڑھے کے ہتے چڑھ جاتا۔
“میاں ایلی کہاں ہیں وہ تیرے ابا آج کل۔ نیا بیاہ کرنے کی تو نہیں سوچ رہا۔ وہ دماغ پھر گیا ہے اس کا لیکن بھئی ایک خوبی ضرور ہے۔ اس میں محلے میں کبھی ایسی بات نہیں کی۔ خیر اپنے اعمال کا ہر کوئی خود ذمہدار ہوتا ہے۔ لیکن یاد رکھ۔ اپنے ابا کے نقش قدم پر نہ چلنا۔ سمجھے۔ بڑا اچھا لڑکا ہے۔
لیکن اب محلے کے لڑکوں کے ساتھ مل کر تو بھی بگڑتا جا رہا ہے۔ اچھا جا کھیل جا۔“
ارجمند ایلی کو دیکھ کر ریشمیں رومال لہراتا “ارے یار بس تم تو سوئے ہی رہتے ہو۔ ابھی ابھی کیپ اور کپ سکول جا رہی تھیں۔ کیا بتاؤں آج کیا ٹھاٹھ تھے۔ غضب ہو گیا۔ سرخ قمیض جیسے خون سے رنگی ہو۔“ دفعتاً پاؤں کی آہٹ سن کر وہ چونکتا۔ “آخا“ وہ بات کاٹ کر کہتا “ارے وہ دیکھو تو میاں پہلوان بھی آ گئے وہ دیکھو کنوئیں کے پاس۔“
وہ دیکھا سلام کا جواب دیا جا رہا ہے۔ کیا سمجھے یہ ماتھے سے مکھی نہیں اڑائی جا رہی ۔ اس وقت مکھی کہاں۔ کیوں ایلی ہے نا اور ذرا ہکورا ڈکورا تو دیکھو جب تک اس کلاک پر ماؤس نہیں چڑھے گا۔ یہ ٹن ٹن ہی کرتی رہے گی۔“ اور پھر وہ ننھے چوزوں کی طرح سر جوڑ کر کیپ کپ کی باتیں کرنے میں دیر تک مصروف رہتے۔
ارجمند سے ملنے کے بعد وہ رفیق اور جلیل کے یہاں چلا جاتا۔ رفیق تو زیادہ وقت سودا خریدنے میں مصروف رہتا تھا۔ اس کا معمول تھا کہ صبح سویرے اٹھ کر چچی پھوپھا اور خالہ کے گھر جا کر پوچھتا۔ “خالہ جی کوئی چیز منگوانی ہو تو بتا دیجئے۔“ “چچی بازار سے کچھ منگوانا ہے کیا۔“ پھوپھا جی میں بازار جا رہا ہوں۔ دیر تک وہ بازار جانے کا ڈھنڈورہ پیٹتا رہتا ساتھ ہی اس کی آنکھوں سے گلابی پھواڑ اڑتی رہتی اور نگاہیں چوری چوری گردوپیش کا جائزہ لیتی رہتیں پھر وہ سودے اکھٹے کر کے اپنا ریشمی رومال جیب میں ڈال اور غزلوں کی کاپی تھام کر بازار چلا جاتا جب سودا سلف سے فارغ ہوتا تو وہ جلیل کی طرف جا پہنچتا اور پھر وہ تنگ گلی کی لڑکی اپنے گھر کی دہلیز اور گلی میں جھاڑو دیتی اور چلا چلا کر باتیں کرتی اور رفیق کی آنکھوں میں بوندا باندی ہوتی اور جلیل وحشت بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھ دیکھ کر مسکراتا اور لڑکی مسکرائے جاتی اور ایلی محسوس کرتا جیسے وہ کوئی دلچسپ سازش کر رہے ہوں۔
پھر یوسف آ نکلتا یوسف کے آںے پر نقشہ ہی بدل جاتا کیونکہ یوسف لڑکیوں کے وجود سے بے نیاز تھا وہ ان مسکاتے ہوئے جھانکتے ہوئے لجاتے ہوئے چٹے سفید چہروں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھتا تھا۔ اس کے آتے یئ تمسخرانہ حرکات کا طوفان امڈ آتا۔ جلیل اور رفیق اسے بناتے اور وہ جان بوجھ کر بنتا، جیسے کارٹون میں جان پڑ گئی ہو۔ ایلی محسوس کرتا۔ جیسے یوسف کو نبانےسے جلیل کا مقصد صرف اس لڑکی کو محفوظ کرنا ہوتا تھا جو نہ جانے کیوں گلی کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک جھاڑو دینے پر تلی رہتی تھی۔
دوپہر کے وقت جلیل اور ایلی محلے میں لوٹ آتے۔ اس وقت محلے کی بوڑھی عورتیں چوگان میں بیٹھ کر کوئی نہ کوئی کام کیا کرتی تھیں۔ کوئی ازار بند بنتی۔ کوئی تاگے کے گولے بناتی۔ چوگان سے گزرتے ہوئے رفیق کی گردن جھک جاتی۔ اس کی آنکھوں کی بوندا باندی ختم ہو جاتی۔ اس کے ہونٹوں کا گیت ختم ہو جاتا اور اس کے چہرے پاس جا بیٹھتا صفدر کی گردن تو ہمیشہ اکڑی رہتی تھی۔ اس کی آنکھوں میں ہر وقت عجیب سی سرخی پھیلی رہتی اس کے بازو عجیب انداز سے لٹکتے رہتے اور ہونٹوں پر تبسم گیت سماں طاری رہتا۔ وہ مضطربانہ طور پر ادھر ادھر ٹہلتا ادھر ادھر دیکھتا اور پھر تھیٹر کے گیت کا کوئی بول ان جانے میں اس کے منہ سے نکل جاتا “حافظ خدا تمھارا۔“ اس وقت ایسا محسوس ہوتا جیسے وہ کسی سے رخصت ہو رہا ہو۔ اس پر ایلی کی نگاہوں تلے ایک پار سی حسینہ آ کھڑی ہوتی اور اس کا دل دھک دھک کرنے لگتا۔ ایلی کا جی چاہتا تھا کہ وہ صفدر سے پوچھے کہ وہ پارسی لڑکی گایا کرتی تھی اور صفدر کی آنکھیں سرخ کیوں رہا کرتی تھیں اس کے بازو لہرایا کیوں کرتے تھے کگر ایلی کو صفدر سے بات کرنے کی جرات نہ ہوا کرتی تھی۔ کیونکہ صفدر محلے کے بڑے لڑکوں میں سے تھا اور چھوٹے لڑکے بڑے لڑکوں سے ایسی باتیں نہیں کیا کرتے تھے۔ اگرچہ صفدر کے انداز میں وہ معزز پن نہ تھا جو عام طور پر بڑے لڑکوں میں پایا جاتا تھا۔ بلکہ اس کے برعکس صفدر میں بے باکی تھی۔ خلوص تھا پھر بھی ایلی کو یہ باتیں پوچھنے کی جرات نہ ہوتی تھی۔
صفدر کی اس بے باکی کی وجہ سے محلّہ والیاں اسے بہت برا سمجھتی تھیں اور دادی اماں تو صفدر کا نام سنتے ہی غصے سے چلانے لگتی۔ “بدمعاش کہیں کا شرابی۔ دفع کر اسے۔ نام نہ لے۔ مردود کہیں کا۔“ اور صفدر بھی دادی اماں کے نام سے چڑتا تھا۔ “مردود بڑھیا۔ کھڑکی میں گدھ کی طرح بیٹھی رہتی ہے مرتی بھی نہیں۔“ اور منچھل پوٹاش کا پٹاخہ بناتے وقت اس کی آنکھوں میں یوں مسرت لہراتی جیسے بڑھیا کو وہ اس پٹاخے تلے تڑپتے ہوئے دیکھ رہا ہو اور دیوار پر پٹاخہ یوں مارتا کہ ایلی محسوس کرتا۔ جیسے دیوار کی بجائے بڑھیا کے سینے پر پھینک رہا ہو۔
آصفی محلے کی زندگی محلے کی تنگ و تاریک گلیوں، کوٹھڑیوں اور نانک چندی اینٹوں کی رینگتی ہوئی اونچی دیواروں سے گھرے ہوئے احاطے میں مخصوص انداز سے دھڑکتی تھی۔
محلے کی بوڑھیاں صبح سویرے ہی بیدار ہو جاتیں اور کھڑکیوں میں چوکیوں پر گدھوں کی طرح آ بیٹھتیں۔ جوان لڑکیاں کوٹھڑیوں کی گھٹی گھٹی فضا میں تاریک دالانوں میں برتن مانجھنے آٹا گوندھنے اور سر کا پلو سنبھالنے میں شدت سے مصرف رہتیں۔
اس تاریک اور گھٹی گھٹی فضا کی وجہ سے ان کے رنگ زرد تھے۔ چہروں پر مردنی چھائی ہوئی تھی اور انداز سے بے حسی ٹپکتی تھی۔ اگر کبھی کبھار ان کے چہرے پر جوانی کی چمک لہراتی بھی تو وہ کونے کی طرف منہ موڑ کر اپنا آپ سنبھال لیتیں اور پھر آٹا گوندھنے میں یا برتن مانجھنے میں مصروف ہو جاتیں۔
آصفی محلے میں صرف چند ایک مخصوص قسم کی آوازیں گونجا کرتی تھیں۔ محلے کی بوڑھیوں کی آوازیں گونجا کرتی تھیں۔ محلے کی بوڑھیوں کی آوازیں ان کے چرخوں کی گھمر گھمر، تاریک دالانوں میں برتنوں کی کھنک، چوگان میں بچوں کا دبا دبا شور محلے کی مسجد سے تکبیریں مردوں کی کھنکھاریں اور دبے پاؤں چلنے کی آوازیں۔ بند ہوتے ہوئے نانک چندی دروازوں کی چراؤں ٹھک چمگادڑوں کی چیخیں جو شام کو چوگان پر منڈلایا کرتیں اور پھر ضیعفوں کے خراٹے۔
ان جملہ آوازوں میں صرف ایک آواز ایسی تھی جو محلے کی نفسیت سے مختلف تھی۔ وہ بالا کا گراموفون تھا۔ جو کبھی کبھار بالا کے آسیب زدہ کمرے میں گانے کی کوشش کیا کرتا تھا اگرچہ اس ماحول میں اس کی آواز گھٹ کر رہ جایا کرتی تھی۔
جب پہلی مرتبہ بالا کے گراموفون پر جانکی بائی الہ آبادی کے گیت کی آواز محلے میں سنائی دی تو محلے کے گدھیں جھپٹ کر کھڑکیوں میں آ گئیں۔
“میں پوچھتی ہوں یہ کون چلا رہا ہے۔“
“نہ جانے کہاں سے آواز آ رہی ہے۔“
“اے ہے یہ تو عورت ہے کوئی۔“
“لو چاچی وہ تو بالا نے لگایا ہے کوئی رکاٹ۔ اے ہے محلے میں باجے بجانا۔“
“توبہ ہے ماں آج تک تو یہ بات سننے میں آئی نہیں تھی۔“
“میں کہتی ہوں اس لڑکی کا دماغ چل گیا ہے۔“
“لڑکے کا کیوں بہن۔ قصور تو داڑھی والے کا ہے۔ جس نے اسے باجا خرید کے دیا۔“
اس روز محلے کی گدھیں در تک سر اٹھا کر پر پھڑپھڑاتی رہیں۔ لیکن بالا سے کچھ کہنا ممکن بھی ہوتا؟ بڑی سے بڑی جھاڑ جھپٹ سن کر بالا ہنس دینے کا عادی تھا۔
“ہی ہی ہی ہی۔ چاچی سنا تم نے یہ توؤں والا باجا ہے۔ ہی ہی ہی ہی۔ اچھا ہے نا۔ پورے دو سو میں لیا ہے اور یہ ریکارڈ جانکی بائی الہ آباد والی کا ہے۔ بڑا اچھا گاتی ہے۔ ماں جی ہی ہی ہی۔
سنو تو ابھی اپنا نام بولے گی میں ہوں جانکی‘ بائی الہ آباد والی۔ ہاں۔“
بالا کی بات پر بوڑھیوں کے ہونٹوں پر ہنسی آ جاتی۔ اے چھوڑ چاچی۔ اس لڑکے پر تو آسیب کا سایہ ہے ساری رات جنوں کی محفل لگی رہتی ہے اس کے تخت پر۔
“ہاں ماں اس کے بس کی بات بھی ہو۔ انگلیاں تو سونگھو اس کی پلاؤ کی خوشبو آتی ہے ہاں۔“
بالا کی جگہ اگر اور گراموفون خریدتا تو شاید اسے بجانے کی کبھی اجازت نہ ملتی۔ لیکن بالا کون روکتا۔ آسیب زدہ کو محلے میں خصوصی درجہ حاصل تھا۔

بیاہ

بالا کے گراموفون کے علاوہ کبھی کبھار بیاہ شادی کے موقعوں پر محلے کی فضا میں تبدیلی واقع ہوتی، لیکن اس میں بھی آوازوں کی نوعیت نہ بدلتی تھی۔ ڈھولک تو بجتی تھی اور ڈھولک کی ضرب میں جوان لڑکی کی مضطرب انگلیوں کی تڑپ بھی گونجتی لیکن گانے زیادہ تر بوڑھیاں ہی گاتیں اور ان کی دھنیں اس قسم کی ہقتیں۔ وہ گانے معلوم ہی نہ تھے۔ انہیں سن کر محسوس ہوتا جیسے بہت سی چمگادڑیں بھیانک آواز میں چیخ رہی ہوں۔ جیسے کسی کی موت پر کوئی بین کر رہا ہو۔ دھیمی آواز میں لمبے سر گونجتے اور محلے کی فضا کو اور بھی تاریک کر دیتے۔
اگر کوئی نوجوان لڑکی کوئی گیت گانے کی کوشش کرتی تو اس کی آواز اس قدر بیگانی سنائی دیتی تھی کہ وہ جلد ہی شرما کر یا گھبرا کر اس ناکام کوشش کو چھوڑ دیتی اور بوڑھیاں اپنہ عظمت کو از سر نو محسوس کر کے پھر سے کمبی اداس سروں میں رونے لگتیں۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود شادی کے موقع پر کچھ نہ کچھ تبدیلی ضرور وقوع پذیر ہوتی۔ نانک چندی دیواروں کی سیاہی گھل کر صاف ہو جاتی۔ کھڑکیوں میں سرخ دوپٹے لہراتے اور علی پور کا بینڈ باجا کچی حویلی میں نغمے بجاتا۔ اس روز محلے کے لڑکے بوڑھی گدھوں کے منحوس سائے کو اپنے سروں پر محسوس نہ کرتے۔ گیس کی روشنی میں لڑکوں کے ریشمیں رومال لہراتے۔ سیاہ بودے چمکتے۔ جیبوں سے پریم سندیس۔ کتابیں باہر نکل آتیں لڑکوں کی نگاہیں کھڑکیوں کے اردگرد ناکام منڈلاتیں لیکن یہ سب باتیں بیکار تھیں۔ کیونکہ محلے کی لڑکیوں کی مجال نہ تھی کہ وہ کھڑکیوں یا دروازوں میں آ کھڑی ہوں۔
لڑکے کچھ دینے لینے کچھ کہنے کے بہانے بیاہ والے گھر میں جا داخل ہوتے۔ تاریک ڈیوڑھیوں میں چھپ کر انتظار کرتے بھیڑ میں راستہ بنانے اندھیرے میں چٹکیاں بھرنے کی کوشش کرتے۔ اس افراتفری میں چوڑیاں کھنکتیں۔ مہندی والے ہاتھ کپڑوں میں لپٹ جاتے۔ جسم سمٹتے “ ہائے میں مر گئی۔“ کی نحیف آوازیں سنائی دیتیں “لین ان معمولی مگر دلچسپ باتوں کے سوا کچھ بھی نہ ہوتا۔
بیاہ شادی کے موقع پر ایلی کے لئے گھر جانا مشکل ہو جاتا تھا۔ جب وہ اپنی اندھیری ڈیوڑھی میں پہنچتا تو ایک دھندلی سی شکل ڈیوڑھی کے کسی کونے سے نکل آتی۔ گھبرا کر وہ رک جاتا اور دھندلی شکل گھوم کر اس کا رستہ روک لیتی۔
“کون ہے؟“ وہ چلاتا۔
بھدی سی ہنسی سنائی دیتی۔ “ڈر گئے۔“ نذیراں کی آواز آتی اور وہ مڑ کر ڈیوڑھی سے باہر نکل جاتا اور ارجمند کو ڈھونڈ نکالتا۔
“ہیلو ایلی ہے۔“ ارجمند چلاتا “سراسر بے معنی ہے۔ ایلی۔ برات والے گھر جانا بے معنی ہے۔ بیکار ہے بالکل بیکار میں نے چٹکی بھری تو ظالم کہنے لگی۔ کہوں چاچی سے۔ ہاتھ جوڑ کر جان چھڑائی پھر مسکرانے سے بھی باز نہیں آتیں۔ اگر واقعی مکے سے حج کر کے آئی ہیں یہ لڑکیاں تو پھر دیکھ کر مسکراتی کیوں ہیں اور مسکراہٹ بھی خالص ڈسپنسری والی اور چٹکی بھرو تو چاچی سے کہہ دوں گی۔ لاحول ولا قوۃ۔ چلو کپ اور کیپ کی طرف چلیں۔ محلے سے بات بنتی ہے۔ آج بانسری پر ایک دھن سیکھ کر آیا ہوں۔ واہ کیا دھن ہے۔ بس سمجھ لو کچا دھاگا ہے جس سے سرکار بندھی آئے گی۔ آؤ سناؤں تمھیں۔“
نہ جانے کیوں ایلی نے نذیراں کی بات کبھی ارجمند سے نہ کی تھی۔ بلکہ وہ ڈرتا تھا کہ ارجمند کو نذیراں کی بات کا پتہ نہ چل جائے۔ تاکہ وہ رنگین انکراینڈی ماباؤں کا کھیل حقیقت کا روپ نہ دھارے ایلی کو ہلتی ہوئی چقوں سے دلچسپی تھی۔ مسکراتی ہوئی آنکھوں سے دلچسپی تھی۔ معنی خیز انداز سے حرکت کرتے ہاتھوں کو دیکھنے کا شوق تھا۔ لیکن عورت یا لڑکیوں کا قرب اس کے لئے سوہان روح تھا۔ اور نہ ڈر تھا کہ نذیراں کی بات سن کر ارجمند کی توجہ اس طرف منعطف ہو گئی تو وہ رنگینی ختم ہو جائے گی۔ اور نہ جانے کیا شروع ہو جائے۔ اس کے ذہن میں قرب کا مفہوم تاریکی تھا۔ پراسرار خوفناک تاریکی۔
ایلی کے گھر میں تیاریاں ہونے لگیں۔ نہ جانے کیا ہونے والا تھا۔ بات سمجھ میں نہ آتی تھی۔ لیکن کچھ ہونے والا ضرور تھا۔ اسی لیے تو علی احمد چھٹی لے کر علی پور آگئے تھے اور دادی اماں کو پاس بٹھا کر اس سے پوچھ پوچھ کر نہ جانے رجسٹر میں کیا لکھ رہے تھے اور ہاجرہ کوٹھڑی میں کھڑی رو رہی تھی۔ نہ جانے اسے کیا ہوا تھا وہ یوں رونے کی عادی نہ تھی۔
علی احمد نے تو کبھی دادی اماں سے بات نہ کی تھی۔ ماں بیٹے اس مکان میں اجنبیوں کی طرح زندگی بسر کیا کرتے تھے۔ دادی اماں سارا دن سیدہ کے قریب اکڑوں بیٹھی رہا کرتی تھی اور علی احمد اندر بیٹھ کر حقہ پیا کرتے تھے اور رجسٹروں میں لکھنے میں مصروف رہتے تھے۔ دونروں کی آپس میں کبھی بات نہ ہوتی تھی۔ ایلی اکثر حیران ہوا کرتا کہ یہ کیسے ماں بیٹے ہیں ایک دوسرے سے بات بھی نہیں کرتے۔ اگر کوئی دادی اماں سے علی احمد کی شکایت کرتا تو وہ اطمینان سے جواب دیتیں۔ “ علی احمد کی تو عادت ہی ایسی ہے۔ “ اور مسکرا دیتیں جیسے اظہار ناراضگی کے باوجود انہیں علی احمد کی وہ بات پسند ہو اور علی احمد کبھی دادی اماں کو بلاتے بھی تو پوچھتے ۔ “ بھئی وہ فلاں کام کرنا ہے کیا کیا رسمیں ادا کرنی ہوں گی۔ “ اس کے سوا انہوں نے کبھی دادی اماں کو نہ بلایا تھا۔
اندر دادی اماں کپڑوں اور زیور کی بات کر رہی تھی نہ جانے کس کے کپڑوں اور زیور کی بات ہورہی تھی لیکن اماں ان کی بات سن سن کر رو کیوں رہی تھی۔ کپڑے اور زیور کی بات پر رونے کا کیا مطلب ۔۔ پھر اتفاق سے سعیدہ آ گئی اور اماں پھوٹ پڑیں۔
“ لو لڑکی کی قسمت ہی پھوٹ گئی میں تو جانتی ہی تھی وہ اپنے رشتہ داروں کے گھر میری بچی پھینک دے گا۔ سو وہی ہوا میری بچی فیروز کے بیٹے اجمل کے پلے باندھ رہے ہیں۔ ہائے میری تو قسمت ہی پھوٹ گئی۔ “
اجمل ایلی کی پھوپھی کا لڑکا تھا وہی اجمل جو روہتک میں چند ایک ماہ کے لیے ان کے ہاں ٹھہرا تھا جسے علی احمد نے بال بنانے اور بن ٹھن کر رہنے پر مار کر نکال دیا تھا۔ ایلی کو جبھی سے اجمل سے ہمدردی تھی۔ اس کی شکل و صورت بھی ایلی کو بہت بھاتی تھی اور پھر اس کا لڑکوں سے میل جول اور باہمی ربط بھی ایلی کو بے حد پسند تھا اور اب تو وہ بہت بڑا ہو چکا تھا اور وہ ایک سال ایران میں نوکری کرنے کے بعد لوٹا تھا۔ نہ جانے اماں کو اجمل کیوں ناپسند تھا نہ جانے اماں کیوں روتی تھیں۔ آخر اجمل میں کیا برائی تھی ۔ اماں کا مسلسل روئے جانا ایلی کے لیے باعث حیرانی تھا! اماں بھی تو عجیب باتیں کیا کرتی تھیں۔ ایک طرف تو اس بات پر اس قدر ناخوش تھی اور دوسری طرف انتظامات میں مشغول تھی۔ جیسے بہت دلچسپی لے رہو ہو ، فرحت کے کپڑے سیتی دولہا کی چیزیں بھی تیار کرتی جاتی۔ علی احمد کے احکامات بھی دوڑ دوڑ کر سنتی اور ساتھ ساتھ آنسو بھی چھلکائے جاتی۔ عجب عادت تھی اماں کی پھر ہر آتی جاتی سے شکایت بھی کرتی جاتی کہ فرحت کا بیاہ زبردستی کیا جارہا ہے۔
ادھر فرحت کو بھی احساس نہ تھا کہ اس کی شادی ہو رہی ہے۔ فرحت کی عمر کچھ زیادہ نہ تھی اس نے آٹھویں جماعت مدرسے میں تعلیم پائی تھی علی احمد نے دفعتا اعلان کر دیا تھا کہ اسے سکول جانے کی اجازت نہیں بچیوں کے لے اتنے ھی تعلیم کافی ہے۔اس پر فرحت پھوٹ پھوٹ کر روئی تھی اور حاجرہ اس کے ساتھ مل کر آنسو بہاے تھے۔
مگر علی احمد کا حکم اٹل تھا ان دونوں کے آنسو کام نہ آئے اور فرحت کی تعلیم کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔آٹ سال سکول مے پڑھنے کے باوجود پرحت ابھی بچی حی تو تھی وہ اکثر محلے کے چوگان مٰٰٰی جا کر ککلی کلیر دی ناچتی رحتی۔ساتھ ساتھ کچھ گنگناتی اور محلے کے بزرگ اس کی ترف دیکھ کر مسکراتے۔“فرحتو گھومنی۔“اور بوڑھیاں مسکرا کر کہتیں فرحت تو فرحتو ہی رہی۔“ ایلی نے کبھی محسوس نا کیا تھا کے فارحت بڑی ہو گئی ہے اسے بھی وہ فرحتو ہی دکھائی تھی۔اس میں عورت کا نام و نشان تک نہ تھا۔
پھر وہ دن آپہنچا جب ان کے گھر کے سامنے باجے بجنے لگے اور گھر میں مہمان آ جمع ھوے اور حاجرہ کام کاج میں اس قدر مصروف ھو گی کے آنسو بہانا بھی بھول گی اور مہلے کے لڑکوں میں بہانے بہانے ان کے گھر آنا شروع کر دیا اور برتن بجنے لگے۔حنای ہاتھ ریشمی دوپاٹوں میں سے باہر نکلنے چھپنے لگے اور گھر میں ایک ہنگاما برپا ہو گیا اور بلا آّّّّّٰٰخر فرھت کو ڈولی میں بٹھا دیا گیا اور ایلی اور حاجرہ دولی کے ساتھ ایک نے گھر میں چلے گے۔ے نیا گھر اجمل کا گھر تھا۔چونکے اجمل کی ماں مدت سے فوت ہو چکی تھی۔اور بہنیں سب اپنے اپنے گھر اور بچوں والی تھیں یس لیے فرحت کی خدمت کرنے کے لیے کود ہاجرہ کو اجمل کے ہاں جانا پڑا۔
اجمل کا گھر ایلی کے گھر کے پاس ہی تھا- چوگان کے شمال کی طرف ایک چھتی گلی جسے گلیارہ کہتے تھے سے گزر کر ایک اندھیری ڈیوڑھی کو پار کر کے اس گھر کی سیڑھیاں آتی تھیں لیکن اس اندھیری ڈیوڑھی کو پار کرنا آسان نہ تھا- کیوں کہ دوپہر کی کڑکتی دھوپ میں بھی اس ڈیوڑھی میں گھٹا ٹوپ اندھیرا چھایا رہتا تھا- اس گھر کے ایک طرف ایلی کے ماموں حشمت علی رہتے تھے اور دوسری طرف اس کی خالہ کا کنبہ آباد تھا- یہ تینوں گھر دراصل ایک ہی بڑی حویلی کے حصے تھے جسے کسی زمانے میں آصفی بزرگوں نے تعمیر کیا تھا- اگر چوراہے سے دیکھا جائے تو یہ نیا گھر علی احمد کے مکان سے ملحق تھا- درمیان میں صرف ایک چھت پڑتی تھی- اس لیے ایلی عام طور پر ملحقہ کوٹھے سے گزر کر دیوار پھاند کر نئے گھر چلا جایا کرتا تھا تاکہ اس اندھیری ڈیوڑھی سے نہ گزرنا پڑے -
اجمل کے والد کسی زمانے میں انکم ٹیکس کے دفتر میں افسر تھے اب بھی ان کے بشرے اور انداز سے تحکمانہ جاہ و جلال کے آٰٰٰٰٰثار ہویدا تھے ان کے چہرے پے حکومت اور صحت کی سرخی جھلکتی تھی-اگرچہ انہیں عہدہ چھوڑے کئی سال گزر چکے تھے- کہا جاتا تھا کہ انہیں ایک طوائف جانکی سے محبت تھی- جس کے عشق میں انہوں نے سبھی کچھ کھو دیا تھا اور نوکری سے فارغ ہو کر جانکی کے یہاں جا مقیم ہوئے تھے- اجمل کی والدہ بھی عرصہ دراز سے لقمہ اجل ہو چکی تھیں- اجمل کی تین بہنیں بقید حیات تھیں۔ سیدہ ، رابعہ اور انور ، سیدہ نہ جانے کس سے بیاہی ہوئی تھی مگر دادی کے پاس رہتی تھی۔ رابعہ ایلی کے خالہ زاد بھائی پرویز کی بیوی تھی اور انور کی شادی ہمدانی سے ہو چکی تھی جو کسی دور دراز مقام پر کسی مدرسے میں اتالیق تھے۔ ان حالات میں اجمل کا گھر ویران پڑا تھا۔ اس کے بیاہ پر اس کے والد آئے۔ بہنیں بھی اکھٹی ہوئیں لیکن جلد ہی وہ سب اپنے اپنے گھر لوٹ گئے اور اجمل کے گھر میں صرف فرحت ہاجرہ اور ایلی رہ گے تھے۔اس لے الی نے محسوس نا کیا کے وہ گھر بیگانہ ہے۔اکثر وہ والد کے ساتھ وہیں رہتا۔ رابعہ سے باتیں کرتا یا پڑوس میں رفیق کے گھر چلا جاتا یا دوسری طرف پرویز کے والد محسن علی کے پاس جا بیٹھتا۔ “آو ایلی آو۔“ محسن اسے دیکھ کر چلاے ۔“کہو علی احمد کیسے ہئں۔کوئی نئی شادی کرنے کی تو نہیں سوچ رہے۔“ اور وہ ھنسنے لگتے۔
ایلی کو محسن علی بے حد پسند تھے ان کی باتوں سے سچائی اور خلوص ٹپکتا تھا۔بزرگ ہونے کے باوجود ان میں تصنع نام کو نہ تھا۔ محسن علی کے مکان سے ملحق دالان میں پہلی مرتبہ اس کی ملاقات شریف سے ہوئی تھی۔

شریف

شریف ایک پتلا دبلا کمزور اور اداس شخص تھا۔ وہ چپ چاپ چارپائی پر بیٹھ کر حقہ پینے کا عادی تھا۔ دیوار سے سر لگائے کمبل اوڑھے وہ حقہ پینے میں مصروف رہتا۔ اس کی آنکھیں نہ جانے کہاں لگی رہتی تھیں جیسے کہیں لگی ہوں اور وہ خلا کو حسرت بھری نگاہوں سے گھورتا رہتا۔ کچھ دیر کے بعد ایک موہوم سی آہ بھر کر ایک نگاہ غلط انداز سے گرد و پیش کی طرف دیکھتا اور پھر اپنی دنیائے خیال میں لوٹ جاتا۔ اس کا سر دیوار پر ٹک جاتا اور نگاہیں اسی طرح خلا کو گھورنے لگتیں۔
“آؤ ایلی۔ “ شریف نے اسے سرسری طور پر بلایا۔ “بیٹھ جاؤ۔“ ایک نظر اس نے ایلی کی طرف دیکھا اس کی نگاہ میں عجیب سی چمک تھی جو آن کی آن میں لہرا کر غائب ہو جاتی تھی۔ اس ایک ہی چمک میں سب کچھ تھا۔ خلوص ، محبت ، سادگی ۔ ناکامی ، وہ چمک کبھی کبھی عیاں ہوتی تھی جیسے ابر آلود رات کو کبھی کبھار چاند ایک ساعت کے لیے مسکرا کر منہ چھپا لیتا ہے۔ وہ ایک چمک نہ جانے ایلی سے کیا کہہ گئی ۔ جیسے ہمیشہ کے لیے محبت کا پیمان کر گئی ۔ ایلی بیٹھ گیا۔ شریف بیگانہ ہونے کے باجود بیگانہ محسوس نہ ہوتا تھا۔ ایسے محسوس ہورہا تھا اسے جیسے وہ شریف سے مدتوں سے واقف ہو۔ جیسے وہ دونوں پرانے دوست ہوں۔
“ایلی۔“ شریف نے آہ بھری “کیا وہ ڈائن ابھی تک جیتی ہے بتا۔“ اس کے ہونٹوں پر زہر خند تھا۔
“ ڈائن “ ایلی نے حیرانی سے دہرایا “ہاں وہ بڑھیا۔ تمہاری دادی۔ “ شریف نے کہا۔ ایلی کو یہ بات سخت ناگوار گزری۔
“کیا وہ ڈائن کبھی نہ مرے گی ۔ کیا وہ اسی طرح دوسروں کی زندگی تباہ کرتی رہے گی“۔
شریف کے چہرے سے حسرت و بربادی ٹپکتی تھی۔ ایلی کے دل میں شریف کے لیے جذبہ ہمدردی ابھی آیا۔ اس نے ان جانے میں میں محسوس کیا کہ شریف مظلوم تھا۔ اس پر ظلم توڑے گئے تھے۔ نہ جانے لوگ دادی اماں کو ڈائن کیوں کہا کرتے تھے نہ جانے صفدر اس کے سینے میں پٹاخے کیوں پھینکا کرتا تھا اور محلے کے تمام لڑکے اس سے خائف کیوں تھے۔ یہ تو ایک حقیقت تھی کہ وہ بچوں کا شور سن کر کھڑکی میں آ بیٹھتی اور انہیں جھاڑ جھپاڑ کیا کرتی تھی ۔ لیکن صرف اس بات پر اسے ڈائن کہتا تو روا نہ تھا وہ اس کے کردار کے دوسرے پہلو سے کیوں واقف نہ تھے۔ انہیں اس کی بناوٹی تیوری کے نیچے دبی دبی مسکراہٹ کیوں نہ دکھائی دیتی تھی۔ ایلی کے لیے وہ بوڑھی ڈائن گھر کے پھیلے ہوئے صحرا میں واحد نخلستان تھی۔ محبت کا چھوٹا سا ڈھکا چھپا چشمہ جو شور مچا کر اپنے وجود کے اعلان کرنے کا عادی نہ تھا بلکہ چپ چاپ بے آواز بہے جاتا تھا۔
“نہیں ۔ نہیں وہ نہیں مرے گی۔“ شریف نے یاس بھری نگاہ ایلی پر ڈالی۔ “ ابھی اسے نہ جانے کن کن کے درمیان دیوار بننا ہے۔ “ شریف کی باتوں سے ظاہر تھا جیسے شریف کی زندگی تباہ کرنے میں دادی اماں کا ہاتھ ہو مگر اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ شریف کی زندگی کس اعتبار سے برباد ہوچکی تھی اس نے صرف یہ محسوس کیا کہ شریف اس چینی کی پیالی کی مانند تھا ، جس میں بال آچکا ہو۔
پہلی ہی نشست میں ایلی شریف کا دوست بن گیا۔ اس نے محسوس کیا کہ وہ شریف کا راز دان ہے اگرچہ اسے شریف کے راز کے متعلق کچھ معلوم نہ تھا۔
شریف سعیدہ کا دیور تھا اور جب کبھی علی پور آتا تو وہ سعیدہ کے یہاں ٹھہرتا کھیل و تفریح کی اس محفل میں جو اکثر سعیدہ کے یہاں لگتی تھی۔ شریف کی موجودگی عجیب سی لگتی جیسے طربیہ راگ میں بے برجت سر لگا ہو۔ ایک بات بہرطور واضح تھی کہ شریف عشق کا مارا ہوا تھا۔ ایلی کو عشق کے مفہوم سے پوری طور واقفیت نہ تھی۔
عشق بھی عجب چیز ہے ۔ ایلی سوچتا جو شریف کی آنکھوں سے حزن و ملال بن کر جھلکتا ہے ۔ صفدر کی آنکھوں سے رنگ کے چھینٹے بن کر اڑتا ہے اور ارجمند کی آنکھوں میں شرارت بن کر کوندتا ہے۔ آخر یہ چیز کیا ہے؟
پھر احاطے کی بند کھڑکی سے دادی اماں کی آواز گونجتی ۔ “اے ہے آج تم نے یہ کیا محفل لگا رکھی ہے۔ “ اور شریف سرد آہ بھر کر کہتا “ وہ گدھ بولی ۔ چلا رہی ہے۔ اسے زندگی بھری آوازیں اچھی نہیں لگتیں اسے ویرانہ پسند ہے۔ “ اس پر ہاجرہ خود کھڑکی کھول کر کہتی “ سعیدہ نے آج مولود شریف کروایا ہے۔ “ یہ سن کر دادی اماں بڑبڑاتی ہوئی چلی جاتی۔ پھر سب کے اصرار پر سعیدہ ٹوپی پہن لیتی اور گانے لگتی۔ مدینے میں مورے سیاں بالا ہے رے۔ نہ جانے اس نے یہ بول کہاں سے سن رکھے تھے ۔ ایلی کو اس کا گانا بہت اچھا لگتا تھا۔ وہ چپ چاپ بیٹھ کر بغور سننے میں منہمک رہتا مگر بار بار اس کی توجہ شریف کی طرف منعطف ہوجاتی جو چارپائی پر بیٹھا حقہ تھامے بار بار آہیں بھرتا کروٹیں بدلتا اور محروم نگاہوں سے چھت کی طرف دیکھے جاتا۔

بکھری ہوئی کہانی

نئے گھر میں آنے سے ایلی کا دائرہ ملاقات وسیع ہوگیا تھا اس لحاظ سے وہ نیا گھر اس کے لیے باعث فرحت ثابت ہوا تھا۔ وہاں اسے بہت سے لوگوں سے ملنے کے مواقع میسر آتے رہتے تھے۔ سعیدہ اور شریف سے تو وہ روزانہ ہی ملتا تھا۔ اسے شریف کے متعلق عجیب و غریب تفصیلات کا علم ہوتا جارہا تھا۔ اکھڑے اکھڑے واقعات بکھری بکھری تفصیلات ۔ محلے کی عورتیں بھی تو شریف کے متعلق دبی دبی آواز میں باتیں کیا کرتی تھیں۔ اگرچہ شریف میں وہ خصوصی دلچسپی نہیں لیتی تھیں پھر بھی کبھی کبھار کوئی نہ کوئی بات منہ سے نکل ہی جاتی۔ سانپ تو گزر چکا تھا لیکن لکیر ابھی باقی تھی اور محلہ والوں کو سانپ کی نسبت لکیر سے زیادہ دلچسپی تھی۔ جب ایلی کسی کے منہ سے شریف کے متعلق کوئی بات سنتا تو اس کے کان کھڑے ہوجاتے اور وہ اس بات کو احتیاط سے اپنے ذہن میں محفوظ کر لیا کرتا اور پھر جب وہ رات کے وقت بستر پر لیٹتا تو سنی ہوئی باتوں کے ٹکڑے جوڑنے میں مصروف ہوجاتا۔
سعیدہ آہ بھر کر بولی “شریف نے تو جان بوجھ کر اپنی زندگی تباہ کر رکھی ہے۔ جوانی کو روگ لگا رکھا ہے۔ ایسا بھی کیا کہ کوئی اپنا آپ تباہ کرے۔ لو خالہ بھلا اس بڑھیا سے توقع کی جا سکتی تھی کہ وہ ہماری تکلیف کا احساس کرے وہ تو بلکہ ہماری بربادی میں خوش ہے۔ اسے تو موقع ہاتھ آیا تھا اور اب کان پھڑوا کر میاں رانجھا بنا بیٹھا ہے۔ ہر وقت اپنی ہیر کے خیال میں غرق رہتا ہے اور کھیڑے ہیر کو کب سے لے بھی گئے بات ختم ہوچکی۔ لیکن اس نے اپنی زندگی تباہ کر رکھی ہے۔ اسے کون سمجھائے۔ “
رابعہ بولی “ ویسے نام کا شریف ہے لیکن کرتوت تو دیکھو ۔ خواہ مخواہ اس بھولی بھالی لڑکی کو بھرما لیا۔ بیچاری معصوم کو کیا پتہ تھا کہ یہ چال صرف اسنے بدنام کرنے کے لیے چلی جا رہی ہے۔ بیچاری کو کیا پتہ تھا کہ اس کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکا لگانے کے لیے یہ کھیل کھیلا جارہا ہے۔ توبہ ہے ہم تو کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہے۔ وہ تو دادی اماں نے بچا لیا ورنہ جانے کیا ہوتا۔ “
چچی کہنے لگی ۔ “ بہن آہستہ بات کر۔ یہاں تو عشق لگا ہوا ہے۔ اس شریفے کو دیکھا ہے تم نے یہ تو پاگل ہو رہا ہے اس کے عشق میں۔ اس لڑکی نے پاگل کردیا ہے۔ سامنے کھڑی ہو ہو کے۔ دیوانی ہورہی تھی وہ تو نہ کسی کی شرم نہ لحاظ اور اب اب یہ لڑکا کسی کا گھر بسائے گا کیا اونہوں توبہ ہے بہن دیکھ لو اپنی بیوی کو رلا رلا کے مار دیا۔ بیچاری کی خبر تک نہ پوچھی۔ اب اسے کون دے گا اپنی لڑکی ۔ اسے تو انوری کی دھن لگی ہے۔ سارا دن آہیں بھرتا رہتا ہے اور آنکھیں موند کر پڑا رہتا ہے اسے تو انوری کھا گئی اے ہے کیسا جوان نکلا تھا۔ پر اب تو دیکھا ہی ہے نہ تو نے۔ “
دادی اماں نے ایلی کو پاس بٹھا لیا “ اے ہے ایلی اب تو ادھر آتا ہی نہیں ایسا ہی جی لگ گیا ہے تیرا اس گھر میں۔ اللہ رکھے یہ تیرا اپنا گھر ہے۔ لوگ اپنے ہی گھر میں رہتے اچھے لگتے ہیں۔ ایلی تو ادھر نہ جایا کر۔ شریف کی بری صحبت میں نہ بیٹھا کر سنا تو نے۔ چھوڑ اس کلموہے کو۔ مرتا بھی نہیں ۔ وہ تو دشمن ہے ہمارا ۔ دشمن نے ہماری عزت کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ 
شریف نے آہ بھر کر کہا “ لاہور جاؤگے ایلی ۔ “ اس نے چھت کی طرف دیکھ کر ایک لمبی آہ بھری۔ “ اس شہر میں رہو گے تم جہاں وہ رہتی ہے۔ آہ اس کے قریب رہو گے۔ اس سے ملنے جایا کرو گے کتنے خوش نصیب ہو تم۔ انہوں نے اسے زبردستی ہمدانی سے بیاہ دیا۔ زبردستی اسے ڈولی میں ڈال دیا۔ روتی چیختی چلاتی ہوئی کو ڈولی میں ڈال دیا۔ ایلی ان ڈائنوں نے اسے جیتے جی مار دیا۔ لیکن پھر بھی وہ میری ہے اس کی منور روشنی میرے ہی مخصوص ہے ۔ کتنی وفا ہے اس میں ، کتنی پاکیزگی ہے۔ تم وہاں رہو گے جہاں وہ رہتی ہے۔ کتنے خوش نصیب ہو تم۔ “ اس نے لمبی آہ بھری اور آنکھیں موند لیں۔
محلے میں شریف کی داستان کے ٹکڑے جا بجا بکھرے تھے اور ایلی انہیں جوڑنے میں مصروف تھا۔ نہ جانے انوری کون تھی۔ جس سے شریف کو عشق تھا نہ جانے وہ حسینہ کون تھی۔
جس نے خاندان کے ننگ و ناموس کو تباہ کر دیا تھا۔ بہرحال اسے شریف سے ہمدردی تھی۔ وہ چاہتا تھا کہ شریف اسے اپنا قصہ سنائے مگر شریف کے سامنے اس خواہش کا اظہار کرنے کی ہمت نہ پڑتی تھی۔ بہرحال شریف کی آنکھوں کی چمک اور اس کا دکھی انداز اسے بے حد پیارے معلوم ہوتے تھے۔
ظاہر تھا کہ شریف اپنے گزشتہ ناکام عشق کی محرومی میں ابھی تک ڈوبا ہوا تھا اس نے شادی بھی کی تھی مگر اس کی بیوی شریف کے گھر کے ویرانے میں رہ کر تپ دق کا شکار ہو کر مر گئی تھی یہ کوائف تو ایلی کو معلوم تھے مگر ان کی جزئیات سے کیا ہوتا ہے اسے تو کل سے دلچسپی تھی۔
ہر وقت حقے کی نلی منہ میں دبائے شریف دیوار سے ٹیک لگائے چھت کو گھورتا رہتا اور ساتھ ساتھ موہوم آہیں بھرتا اس کی آنکھیں ایک عجیب و غریب خمار سے چھلکتیں اور اس کے منہ سے رال گرتی رہتی۔ “آؤ ایلی آؤ بیٹھ جاؤ۔ “ وہ ایلی کی طرف دیکھ کر اسی محروم انداز سے کہتا اور پھر ایلی کی موجودگی سے بے نیاز ہو کر اسی طرح دیوار سے ٹیک لگا کر چھت کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے میں کھو جاتا۔ ایلی بیٹھے بیٹھے کسی نامعلوم جذبہ کی شدت سے بھیگ جاتا۔ وہ محسوس کرتا جیسے وہ کمرہ شریف کے خلوص سے بھرا ہوا ہو۔ جیسے کمرے کی دیواریں احساس احترام سے کھڑی ہو گئی ہوں۔ جیسے کھڑکیاں منہ کھولے حیرت سے اس کی طرف دیکھ رہی ہوں۔
شریف کی آمد سے ایلی کو انکراینڈی ماباؤں سے خاص دلچسپی نہ رہی تھی وہ محسوس کرنے لگا تھا کہ زندگی کی سب سے بڑی عظمت عشق ہے ۔ پاکیزہ عشق۔ محروم عشق اور چلتی لڑکیاں دیکھنا تو بچوں کا کھیل ہے۔ اگرچہ اسے معلوم نہ تھا کہ عشق کا مطلب کیا ہے۔ مرد عورت سے کیوں محبت کرتا ہے مگر نہ جانے کیسے اب وہ محسوس کرنے لگا تھا کہ عشق سے بڑھ کر اور کوئی چیز قابل حصول نہیں۔ اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ وہ کس سے عشق کرے۔ کیسے عشق کرے لیکن ان دنوں اس کی سب سے بڑی تمنا یہی تھی کہ وہ کسی سے عشق شروع کردے اور پھر ناکام ہو کر شریف کی سی جاذبیت پیدا کرلے اور دیوار سے ٹیک لگا کر چھت کو گھورنے میں زندگی صرف کردے۔ اسے شریف کی زندگی کا یہ پہلو بے حد پیارا لگتا تھا لیکن اس سے ہٹ کر شریف کی باقی ماندہ شخصیت سے اسے گھن آتی تھی۔ مثلا شریف کا ڈھیلا ڈھالا پن۔ اس کی چال ڈھال اسے قطعی پسند نہ تھی اور اس کے منہ سے رال سی ٹپکتی دیکھ کر تو وہ کراہت سے منہ موڑ لیتا تھا۔ اس کے لیے شریف کی تین خصوصیات بے حد پیاری تھیں۔ شریف کی محبت بھری نگاہیں ، غمناک نگاہیں جن میں ایک مٹھاس اور محرومیت بھرا نشہ رواں دواں رہتا تھا۔ شریف کا بے پناہ خلوص اور شریف کی دوست نوازی۔
حاجی شریف کی رخصت ختم ہوگئی اور وہ واپس اپنی نوکری پر چلا گیا۔ شریف کے جانے کے بعد ایلی کئی ایک دن اکھڑا اکھڑا رہا۔ ارجمند کے اصرار کے باوجود کیپ اور کپ کی طرف متوجہ نہ ہوا نہ ہی اس نے انکر اینڈی ماباؤں کے کھیل میں حصہ لیا۔ اسے صرف ایک دھن لگی تھی کہ وہ کسی سے باقاعدہ عشق کرے کسی سے عہد و پیمان کرے اور پھر اسے نبھانے کے لیے زندگی وقف کردے لیکن کوئی بھی تو نہ تھی جو اس سے عہد و پیمان کرنے پر مائل نظر آتی ہو کوئی اسے خاطر میں نہ لاتی تھی ۔ بڑی عورتیں اسے قابل التفات نہ سمجھتی تھیں اور چھوٹی لڑکیوں میں اسے خود کوئی دلچسپی نہ تھی۔ بہرحال کچھ دیر کے بعد ہی شریف کا وہ اثر معدوم ہوگیا اور ایلی پھر سے ارجمند کے ساتھ کھیل میں حصہ لینے لگا لیکن یہ شمولیت محض ایک فریب تھا ایک دکھاوا تھا دراصل ایلی کی عشق کرنے کی خواہش سمٹ کر اس کے دل کی گہرائیوں میں بیٹھ گئی تھی۔

میٹریکولیشن

پھر دسویں کے امتحانات قریب آگئے اور ایلی کی توجہ اس طرف مبذول ہو گئی اور وہ پھر بام آباد کیلئے عازم سفر ہو گئے۔ بام آباد پہنچ کر آہستہ آہستہ شریف اس کے ذہن سے خارج ہو گیا۔ بام آباد میں اب وہ اکیلے نہ تھے۔ ان کے ساتھ شمیم تھی۔ اس کے حنا مالیدہ ہاتھ۔ فیروزی چادر اور چٹے سفید چوڑے چہرے سے سارا گھر بھرا ہوا تھا کبھی کبھار اس کے حنا مالیدہ ہاتھوں کو دیکھ کر ایلی محسوس کرتا جیسے صفیہ پھر سے جی اٹھی ہو۔ اس خیال پر وہ تڑپ کر اٹھ بیٹھا۔ شمیم کے خوابیدہ چہرے کو دیکھ کر۔ اس کی نیم مردہ آنکھوں کو دیکھ کر جن میں عجیب سی بے ربطی تھی، ایلی مایوس ہوجاتا “ نہیں یہ صفیہ تو نہیں۔ اس میں وہ بات ہی نہیں۔“ اس احساس کو شدت سے محسوس کرکے ایلی کی نگاہ میں شمیم کے ہاتھوں کا رنگ اڑ جاتا اور اسے محسوس ہوتا جیسے وہ ہاتھ سفید نہیں بلکہ پیلے ہیں اور وہ پیلا پن رنگ کی وجہ سے نہیں بلکہ بے جان ہونے کی وجہ سے ہے۔ اس کے بعد اس کے لیے گھر میں رہنا مشکل ہو جاتا اور وہ باہر گھنشام اور ایشور لال کی طرف نکل جاتا اور پڑھنے کے بہانے ان دونوں کو دیکھ دیکھ کر آہیں بھرتا رہتا اور یہ محسوس کرنے کی کوشش کرتا کہ اسے ان سے عشق ہے ، عشق پیارا ۔ دن وہ ایشور لال یا گھنشام کے پاس گزارتا اور پھر شام کو کتابیں اٹھا کر گھر کی طرف چل پڑتا۔
گھر کے قریب پہنچتے ہی وہ رک جاتا۔ کہیں علی احمد نہ دیکھ لیں کہیں وہ نہ پوچھ لیں کہ تم نے آج کیا پڑھا ، علی احمد کا ڈر اس کے دل پر بوجھ بن جاتا۔ حالانکہ گھر میں علی احمد نے اسے کبھی کچھ نہ کہا تھا۔ کبھی چلم بھرنے کے لیے اسے بلاتے یا بازار سے سودا لانا ہو تو اسے آواز دیتے اور یا کبھی مہربان ہوتے تو دونوں انگلیوں میں گوشت کا ٹکڑا یا کوئی اور کھانے کی چیز پکڑ کر چلاتے “ ایلی یہ لے ۔ ایلی۔ “ اس کے علاوہ کبھی ایلی کی طلبی نہ ہوئی تھی اور نہ ہی انہوں نے محسوس کیا تھا کہ وہاں ان کے قریب چند ایک گز کے فاصلے پر ایک لڑکا ایلی بھی رہتا تھا۔
شمیم کے آنے کے بعد چند ایک دن کے لیے تو علی احمد کے کمرے میں شمیم شمیم کی آوازیں گونجتی رہیں اور شمیم کی آواز مدہم سرگوشیاں کرتی رہی۔ پھر وہ سرگوشیاں معدوم ہوتی گئیں اور بالاخر ایلی کو اس کمرے سے سسکیاں سنائی دینے لگیں اور شمیم کا انداز محرومیت کا غماز ہوتا گیا۔ اس کی آنکھوں کی چمک ماند پڑتی گئی اور علی احمد کی کھنکھار میں درشتی کا انداز واضح ہوتا گیا۔ جلد ہی کور پھر سے آ موجودہ ہوئی اور بند کمرے کے پیچھے اس کے دانت چمکنے لگے۔ “بابو جی کے مزاج ٹھیک ہونے والے ہیں۔ “ وہ پنکھے کی رسی گھما کر کہتی اور شمیم باورچی خانے میں حیران نگاہوں سے ادھر ادھر دیکھتی جیسے کہیں کھو گئی ہو۔ جیسے اس کی سمجھ میں نہ آرہا ہو کہ کیا ہو رہا ہے۔ اس پر دوسرے کمرے میں ہاجرہ کے ساتھ بیٹھی ہوئی رفیقاں مسکراتی اور اپنا بدن سکیڑ کر ہاجرہ سے کہتی “ ہائے اب کیا ہوگا۔ “ اور ایلی غصے سے کھولتا اور اس کا جی چاہتا کہ چلا چلا کر کہے “اب میں دسویں جماعت میں ہوں۔ اب میں بڑا ہو گیا ہوں۔ اب میں دیکھوں گا کہ یہاں کون آتی ہے۔“
“ایلی کور کے لیے پانی لاؤ۔ ایلی “ علی احمد کی کھنکھار سن کر اس پر سکتے کا عالم چھا جاتا۔ جسم پر سوئیاں سی جلنے لگتیں اور وہ اٹھ کر کھڑا ہو جاتا۔۔۔۔۔۔۔“ آیا جی۔ “ اس وقت وہ یہ حقیقت بھول جاتا کہ وہ دسویں میں ہے اور گھر میں عورتوں کا آنا جانا برداشت نہیں کر سکتا اور وہ بوتل اٹھا کر باہر نکل جاتا۔
کنوئیں کے پاس پہنچ کر اس کے حواس درست ہوتے۔ دھندلکا دور ہوجاتا اور شمیم کے حنا مالیدہ ہاتھ فضا میں لٹکتے دکھائی دیتے اور اس کی آنکھوں کا فرق اس قدر نمایاں ہو جاتا کہ وہ چونک پڑتا اور محسوس کرتا۔ جیسے وہ ایلی کی مدد مانگ رہی ہو۔ جیسے وہ ایلی کی پناہ لے رہی ہو۔ اس خیال پر وہ کنویں پر بوتل رکھ کر سیدھا کھڑا ہو جاتا۔ “ میں دسویں جماعت میں ہوں۔ میں اب بچہ نہیں میں دیکھوں گا اس گھر کو کون ناپاک کرتا ہے۔ “ پاؤں کی ٹھوکر سے وہ بوتل کو گرا دیتا جو کنویں کی منڈیر پر لڑھک لڑھک کر نیچے جا گرتی “ مجھے دسویں پاس کرنا ہے۔ مجھے ضرور دسویں پاس کرنا چاہیے۔ ورنہ یہ گھر کبھی پاک صاف نہ ہوسکے گا۔ مجھے دسویں پاس کرنا ہی ہوگا۔ “
اگر ایلی کو گھر کی ناپاکی کا خیال نہ ہوتا اگر شمیم کے حنا مالیدہ ہاتھ اس کے سامنے فضا میں محرومیت سے نہ لٹکتے اگر کور کے سفید دانتوں اسے شدید نفرت نہ ہوتی تو شاید ایلی کبھی دسویں پاس کرنے میں کامیاب نہ ہوتا۔ سکول میں وہ ایک نالائق لڑکا تھا نہ تو اسے پڑھنے کا شوق تھا نہ وہ ذہین تھا جماعت کے لڑکے اس کی باتوں پر ہنسا کرتے تھے اور استاد اس کی نالائقی پر قہقہے لگایا کرتے تھے۔
جوں جوں امتحان قریب آتا گیا ، شمیم کی نگاہیں اور بھی محروم ہوتی گئیں۔ کور کے دانت اور بھی چمکیلے ہوتے گئے۔ علی احمد کی کھنکھار میں اور بھی درشتی پیدا ہوتی گئی اور ایلی کا عزم اور بھی تقویت حاصل کرتا گیا۔ اب وہ رات کو چپکے سے کتاب لے کر بیٹھ جاتا اور چوری چوری اسے یاد کرتا رہتا۔ علی احمد کی الماری میں بہت سی کتابیں تھیں۔ گرائمر یوسیج، پریپوزینشنز ، ہر چیز پر علیحدہ کتاب تھی اور وہ باری باری انہیں الماری میں سے نکالتا اور چوری چوری پڑھتا۔
اس کے باوجود وہ امتحان کا نتیجہ سن کر حیران رہ گیا اسے یقین نہ آتا تھا کہ وہ پاس ہو چکا ہے۔ یہ کیسے ہوسکتا تھا۔ اس نے پرچے بھی تو اچھے نہ کیے تھے لیکن زیادہ تعجب کن بات یہ تھی کہ دسویں جماعت پاس کرنے کے باوجود وہ ہی ایلی تھا جیسے پہلے تھا۔ اس میں ذرا بھی تو فرق نہ آیا تھا کوئی تبدیلی نہ ہوئی تھی۔ علی احمد کی کھنکھار سن کر اس کا حلق ویسے ہی سوکھ جاتا تھا اور جسم پر ویسے ہی چیونٹیاں رینگنے لگتی تھیں اور جی ہاں کہہ کر وہ اسی طرح بوتل اٹھا کر کنویں کی طرف چل پڑتا تھا۔ اس کی آنکھوں تلے شمیم کے حنا مالیدہ ہاتھ اسی طرح بے بسی سے لٹکتے تھے۔ اس کے سوا وہ کیا کرسکتا تھا کہ کور کی بوتل کو ٹھوکر مار کر گرا دے اور کور کی بوتل میں تھوک دے۔
دسویں پاس کرنے کے بعد وہ علی پور آگیا اور پھر دادی اماں کے پاس رہنے لگا۔ دادی اماں کے پاس رہنے میں کس قدر آرام تھا ۔ اسے نماز پڑھتے اور تسبیح کے دانے پھیرتے دیکھ کر اس کے دل میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی۔ دادی اماں کا گھر کس قدر پاکیزہ تھا۔
دادی اماں کے گھر کی پاکیزگی پر مسرور ہونے کے باوجود وہ ارجمند سے انکر اینڈی ماباوں میں مصروف ہوجاتا اور جب وہ کنویں کے پاس جا کر ریشمی رومال ہلاتے اور بانسری بجاتے تو کیپ کی کھڑکی کی چق میں ہلکی سی لرزش پیدا ہوجاتی۔ ایک آنکھ ابھرتی مگر ایلی کو نہ جانے کیوں کیپ سے چنداں دلچسپی نہ تھی۔ اس کے ذہن میں تو حنائی ہاتھ رقصاں تھے۔ اگرچہ حنا کا رنگ دیکھ کر اور اس کی بو محسوس کرکے اس کی طبیعت مالش کرنے لگتی تھی اور جسم کا بند بند لرز جاتا تھا۔ پھر بھی نہ جانے کیوں اس کے ذہن میں حنائی ہاتھ لٹکتے تھے۔ اس کی جانب بڑھتے ۔ وہ گھبرا کر سمٹتا اور پھر ایک جھرجھری اسے جھنجھورتی ایک ہوائی سی چل پڑتی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے کیوں۔ اس کا دل چوری چوری خواہش کرتا کہ وہ ہاتھ اسے تھپک تھپک کر سلادیں اور ایک بھرا ہوا جسم اس پر جھک جائے۔
اس کا جی چاہتا تھا کہ کیپ کی بجائے کوئی بڑے سے جسم اور گدے جیسے گول گول رنگین ہاتھوں والی اس چق کے پیچھے کھڑی ہو اور وہ محسوس کرے کہ ایلی اس کی طرف دیکھ رہا ہے لیکن بھرے جسم والیں تو اسے خاطر ہی میں نہ لاتی تھیں نہ جانے کیا سوچتی رہتی تھیں وہ ویلی ۔ چوری چوری ان کی طرف دیکھتا اور پھر گھبرا کر ان کے ہاتھوں کی طرف دیکھتا اور بالاخر ان کے پاؤں کو گھورتا لیکن انہیں احساس ہی نہ ہوتا کہ کوئی دیکھ رہا ہے کن نظروں سے دیکھ رہا ہے انہیں کام کاج سے اتنی فرصت ہی نہ ہوتی کہ ایلی کی نگاہوں یا اس کی موجودگی کو محسوس کریں۔ ایلی چاہتا تھا کہ وہ اس کی موجودگی کو محسوس کریں۔ ایلی چاہتا تھا کہ وہ اس کی نگاہوں کو محسوس کرکے لے جائیں۔ اپنا آپ سمیٹیں۔

ہاکی سٹک

اسے چپ دیکھ کر دادی اماں چلائی۔ “ ایلی کیا ہے تجھے یوں گم سم بیٹھ رہتا ہے تو نہ جانے کیا ہو گیا ہے تجھے یا تو سارا دن اللہ مارے لڑکوں کے ساتھ لگا رہتا ہے یا گھر میں آکر یوں گم سم بیٹھ رہتا ہے ۔ “ ایلی یہ سن کر دادی اماں سے لپٹ جاتا۔ انہیں دیکھ کر سر گھٹنوں میں دے کر مسکراتا اور دادی جیختی ۔ “اے ہے اب تجھ سے لڑائی کون لڑے توبہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ کتنا بڑا ہو گیا ہے تو ۔۔۔۔۔۔ ابھی کل اتنا سا تھا اور آج دیکھو ۔۔۔ شرم تو نہیں آتی۔ تجھے بوڑھی جان کی ہڈیاں توڑے ہوئے۔ جا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کھیل جا کے اس تو کھیلنا ہی اچھا۔ “
دادی اماں کو چھوڑ کر وہ سیدھا رضا کی دوکان پر محلے کے اونچے بازار میں تھی میلے سے دروازوں کے پاس دھندلی دیواروں کے درمیان کئی ایک گتے کے ڈبے رکھے ہوئے تھے ، جن میں مختلف اشیاء پڑی تھیں۔ ایک میں ربڑ کے گیند تھے، ایک میں بچوں کے چوسنے کی مٹھائی۔ ایک میں لڑکیوں کے بالوں کے لیے پنیں اور کلپ تھے۔ دو ایک گتوں پر چمکدار بٹن لگے ہوئے تھے۔ ایک گتے پر لوہے کی چیونٹیاں چمٹی ہوئی تھیں۔ ایک کونے میں مٹی اور ربڑ کے چند کھلونے رکھے ہوئے تھے ۔ ان ڈبوں کے پاس رضا بورئیے پر بیٹھا رہتا تھا۔ جس کے قریب ہی اس کا پکڑ کر چلنے والا سونٹا پڑا ہوتا تھا اور سونٹے کے پاس اس کا مضحکہ خیز جوتا۔ اس جوتے کو دیکھ کر خواہ مخواہ ہنسی آجاتی کیونکہ اس کا ایک پاؤں تو عام جوتے کے سائز کا تھا اور دوسرا ٹیڑھا اور بچگانہ ۔ رضا کی ٹانگوں کو دیکھ کر ایک سماعت کے لیے ہر نوارد چونکتا۔ اسے محسوس ہوتا جیسے اپنی ٹانگ کے پاس اس نے لکڑی کی ایک مڑی ہوئی کھونٹی ڈال رکھی ہو۔ لوگوں کو اپنی ٹانگ کی طرف گھورتے ہوئے دیکھ کر وہ چلاتا۔ “ میری طرف دیکھئے بابو جی۔ میری طرف۔ یہ کھونٹی بکاؤ نہیں۔ “ اور پھر منہ پکا کر لیتا یا ہنس کر کہتا “ پسند ہے یہ تو ایک تم کو بھی لادوں۔ “ رضا اپنی لنگڑی ٹانگ پر شرمندگی محسوس کرنے کے بجائے فخر محسوس کرتا “ یار “ وہ دوستوں کے درمیان کھونٹے کے سہارے کھڑا ہو کر لنگڑی ٹانگ کو گھما کر کہتا “ اللہ میاں نے مجھے تو ایک ہاکی دے رکھی ہے کیا سمجھا ہے تم نے اسے کسی سے لڑتے وقت رضا کو اپنے حریف کو پچھاڑتے ہوئے دیکھ کر ایلی محسوس کرتا جیسے لنگڑا ہونا خصوصی نعمت ہو۔ رضا یوں حریف سے چمٹ جاتا۔ جیسے جزیرے کا بڈھا پیر تسمہ پا ہو اور پھر اسے مڑی ہوئی کھونٹی سے واقعی یوں کام لیتا گویا وہ ہاکی سٹک ہو۔
لیکن رضا طبعا لڑنے سے گریز کرتا تھا ہر بات کو مذاق میں اڑا دینے کی قابلیت گویا اس نے ورثے میں پائی تھی اور پھر اس کی باتیں سن سن کر محلے کے لڑکے ہنس ہنس کر پاگل ہوجایا کرتے تھے۔
ایلی رضا کے پاس جاتا تو وہ اٹھ بیٹھتا “ آؤ ایلی آؤ ۔ میاں بیٹھو “ دکان کے اندر ایک بوریا بچھا دیتا۔ “ تاش کھیلیں۔ سیر کروگے تو چلتے ہیں دکان بند کرکے چلتے ہیں۔ چلو۔“
“نہیں۔ نہیں ۔ “ ایلی چلاتا “ میں تو ویسے ہی آیا تھا بیٹھنے کے لیے۔ “
“ اچھا تو ٹھیک ہے۔ “ اور وہ دونوں بیٹھ جاتے انہیں پاس بیٹھ کر باتیں کرنے کی بھی ضرورت محسوس نہ ہوتی تھی۔ چپ چاپ دونوں بیٹھے رہتے اور رضا حسب معمول ساتھ والے حکیم تمباکو فروش اور بیڑی فروش پر پھبتیاں کستا رہتا اور ایلی ہنستا رہتا۔ پھر جمیل ادھر نکلتا۔
“ اے بھائی جمیل ۔ جمیل ۔ کہاں جا رہے ہو۔ “ رضا چلاتا۔ “ کچھ مٹھائی فنڈ ہے نا آج چلو ہم بھی چلتے ہیں۔ ایلی بھی بیٹھا ہے ۔ میاں اندر دکان میں ہے۔ “
مٹھائی فنڈ کا نام سن کر جمیل غصے سے گھونسہ گھماتا۔ “ لنگڑے دوسری ٹانگ کی خیریت نہیں چاہیے۔ “ جمیل اندر داخل ہوتا۔
پھر وہ تاش کی بازی شروع کردیتے اور دیر تک تاش کھیلتے رہتے۔ حتی کہ کوئی آ کر ایلی کو خبردار کر دیتا کہ دادی اماں کھڑکی میں بیٹھی ہر آتے جاتے سے اس کے متعلق پوچھ رہی ہے اور محلے کے تمام لڑکوں کو گالیاں دے رہی ہے۔ پھر ایلی چپ چاپ اٹھ کر گھر کی طرف چل پڑتا۔
راستے میں کنویں کے قریب یا لالٹین کے پاس ارجمند اسے دیکھ کر چلاتا۔
“ارے یار غضب ہو گیا۔ ایلی آج تو وہ ہمارے گھر آگئی۔ ظالم نے نیلا سوٹ پہن رکھا تھا۔ نیلا سوٹ اور سفید رنگ ۔ توبہ ہے۔ “
“ میں ذرا گھر جارہا ہوں۔ “ ایلی جواب دیتا۔
“پاگل ہو۔“ ارجمند چلاتا “آج ۔۔۔۔۔۔۔۔اور گھر وہی بات ہوئی آج ہی گھر میں بوریا نہ ہوا۔ بھئی آج خاص دن ہے۔ آج نہیں جا سکتے تم تمہیں پتہ نہیں اس کی سہیلی آئی ہوئی ہے۔ وہ دیکھو وہ ۔۔۔۔۔۔ سبحان اللہ کیا سہیلی ہے۔ کمبخت ۔ اندر کا اکھاڑا بنا ہوا ہے۔ یہ گھر آج آیا۔ وہ دیکھو چاند سا مکھڑا نکل آیا۔ ذرا چق اٹھا کر میری جان ۔ منہ دھوئے بغیر کیا پھبن ہے “ جلم کریں توری اکھیاں۔
نہ جانے کیوں ایلی محسوس کرنے لگا تھا کہ ارجمند محض گڑیوں کو کھیل کھیل رہا ہے۔ بے جان گڑیاں جو لجاتیں جھنپتیں ، ظاہر ہوتیں اور چھپ جاتیں اورپھر کھلکھلا کر ہنستیں اور چلا چلا کر باتیں کرتیں۔ اس وقت ایلی کی نگاہوں تلے دو بھرے بھرے بازو لٹکتے ۔ مخروطی بانہوں کی جاذبیت فضا پر چھا جاتی۔ اور بھرے بھرے جسم میں خاموش بجلیاں سی رواں دواں ہوتیں۔
یوں محلے میں صبح سے شام ہو جاتی اور رات کو بستر پر پڑے پڑے وہ سوچتا۔ کس سے وشق کروں ۔ کس سے۔