صفحات

تلاش کریں

2-بچپن

مہندی رنگے ہاتھ:

ایلی بڑا ہوتا جا رہا تھا۔ گردوپیش کے حالات کو سمجھے بغیر ان سے متاءثر ہو رہا تھا۔ پلنگ پر بیٹھی ہوءی صفیہ اس کی توجہ کا مرکز بنتی جا رہی تھی۔ وہ صفیہ جس کے مہندی رچے ہاتھ ہر وقت حرکت میں رہتے تھے۔ جس کے ہاتھوں کی میلی زرد انگوٹھیاں گھومتی تھیں۔ جس کی مہین ململ کی قمیض ہر وقت ابھری رہتی تھی۔ وہ صفیہ۔۔۔۔جس کے حکم کو بجا لانے کے لیے اس کی ماں ہر وقت کمر بستہ رہتی تھی۔ جس نے ماں کو بچوں سے چھین لیا تھا جس نے اس کے باپ کو اپنے جادو کے زور سے ٹین کے سپاہی میں تبدیل کر رکھا تھا۔ وہ صفیہ، وہ اس صفیہ سے ڈرتا تھا اس کے خونیں ہاتھوں سے ڈرتا تھا۔ اس کے بالوں کے جونڈے سے ڈرتا تھا۔ اس کی مہین قمیض سے ڈرتا تھا۔ چوری چوری اس کی طرف دیکھتا تھا اس کی بے نام طاقت کو محسوس کرتا۔ جسم کے بال کھڑے ہو جاتے۔ کانوں کی لویں گرم ہو جاتیں۔ تنفس تیز ہو جاتا پھر اس کی روح کی گہراءیوں میں ایک طوفان اٹھتا۔ صفیہ کے خون سے بھیگے ہوءے ہاتھ اس کی طرف لپکتے۔ زرد میلی انگوٹھیاں گھومتیں۔ اس کا سر چکرانے لگتا طبیعیت مالش کرنے لگتی اور وہ دیوانہ وار بھاگتا۔ دور صفیہ کے کمرے سے دور،ا ن تمام چیزوں سے جنہیں صفیہ کے خون آلود ہاتھوں نے چھوا ہو۔
صفیہ کو معلوم تھا کہ ایلی مہندی والے ہاتھوں سے چڑتا ہے اور انگوٹھیوں سے گھن کھاتا ہے۔ اس لیے وہ جان بوجھ کر ہر کھانے کی چیز کو ہاتھ لگا دیتی تھی اور اسے آواز دیتی، ایلی یہ لو مٹھاءی۔۔۔۔ اور پھر مٹھاءی کو اپنے ہاتھوں سے اچھی طرح مسل کر اسے دیتی۔ ایلی اسے یوں پکڑتا جیسے وہ مٹھاءی نہ ہو بلکہ چوہا ہو اور پھر اپنے کمرے میں آکر غصہ سے کھولتا۔ بڑا بد دماغ ہو گیا ہے تو، صفیہ اسے ڈانٹتی۔ کیا ہے مہندی رنگے ہاتھ کو۔ یہ دیکھ ایسے اچھے لگتے ہیں۔ مہندی لگے ہاتھ۔ دیکھ تو۔ وہ اس کے منہ پر ہاتھ مل دیتی اور ایلی آو آو کرتا بھاگتا اس کی ناک میں مہندی کی بو بس جاتی۔ میٹھی میٹھی ننگے پنڈے کی بو، اس کی آنکھوں میں خون اتر آتا گردوپیش میں انجانی پچکاریاں چلتیں۔ برہنہ صورتیں چاروں طرف سے یورش کرتیں۔ آخ تھو۔ آخ تھو۔
صفیہ نے ایک دن ایلی کو ستانے کا فیصلہ کر لیا۔ جب وہ سو رہا تھا تو اس کے ایک ہاتھ پر مہندی مل کر اسے باندھ دیا۔ ہاجرہ نے منتیں کیں۔ نہ صفیہ اسے کچھ نہ کہ۔ صفیہ بولی۔ مہندی ملنے سے کیا ہوتا ہے۔ خوامخواہ کا پاکھنڈ مچا رکھا ہے اس لڑکے نے۔ دیکھوں کیا کرے گا۔ اپنا ہاتھ ہی کاٹ کر پھینک دے گا کیا؟ یہ سن کر ہاجرہ خاموش ہوگءی۔ وہ بیچاری خود مجبور تھی۔ جب اگلے روز ایلی جاگا اپنا مہندی رنگا ہاتھ دیکھ کر اس نے سر پیٹ لیا۔ جسم کے بند بند سے میٹھی میٹھی بو آرہی تھی۔ نگال میں ہر چیز سرخ دکھاءی دے رہی تھی۔ اس روز اسے محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ ننگا ہو۔ جیسے اس کا جسم غلاظت میں لتھڑا ہوا۔ باہر صحن میں سفید ململ کی باریک کرتی پہنے صفیہ کھڑی بال بناتے ہوءے مسکرا رہی تھی۔ نہ جانے ایلی کو کیا ہوا۔ اس کی نظر میں وہ سفید کرتی سرخ دکھاءی دینے لگی۔ سرخ، خونیں سرخ۔ جیسے وہ قمیض مہندی سے رنگی ہو۔ وہ بھاگا۔ لپکا اور آن کی آن میں صفیہ کی کرتی پر پل پڑا۔ اس کے ناخون سفید ململ میں دھنس گءے۔ قمیض کی دھجیان صحن میں اڑنے لگیں۔ مجھے بڑا ہو لینے دے۔ مجھے دسویں پاس کرلینے دے پھر۔ پھر۔ وہ دیوانہ وار چلا رہا تھا۔ نہ جانے بڑے ہوجانے کو اس ننگے پنڈے کی بو اور مہین قمیض سے کیا تعلق تھا نہ جانے دسویں پاس کرلینے کو اس سرخ رنگ سے کیا تعلق تھا۔ مگر وہ اپنی دھن میں سوچے سمجھے بغیر چیختا چلاتا رہا ململ کی دھجیوں کو بکھیرتا رہا۔ اس کا منہ سرخ ہو رہا تھا۔ آنکھیں گویا ابل کر باہر نکل آءی تھیں۔ جسم کانپ رہا تھا۔ ہاں۔ وہ چلایا۔ بڑا ہو جاوں پھر۔ اس کے حلق میں آواز سوکھ گءی۔
صفیہ حیران کھڑی تھی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کرے۔ پھر ایلی بھاگ گیا۔ گھر سے باہر۔ دیوان خانے سے باہر۔ سکول میں جا کر چھپ گیا۔ اس نے محسوس کیا جیسے وہ جرم کا مرتکب ہو چکا ہو۔ جیسے وہ اپنے اس فعل کی وجہ سے ننگا ہو گیا ہو۔
ہوں تم یہاں ہو۔ سارے دن کی تلاش کے بعد علی احمد نے اسے ڈھونڈ نکالا۔ چلو گھر چلو۔ اور وہ گھر کی طرف چل پڑے۔ گھر پہنچ کر علی احمد نے اس کے کپڑے اتروا دیے۔ قمیض پاءجامہ جوتے اور اسے گھر سے باہر نکال کر اندر سے دروازے کی کنڈی چڑھادی۔
گلی ویران پڑی تھی لیکن ایلی محسوس کر رہا تھا کہ جیسے لوگ کھڑکیوں کے پیچھے سے چھپ کر اسے دیکھ رہے تھے۔ منڈیروں کے پیچھے کھڑے ہنس رہے تھے۔ منڈیر پر بیٹھا کوا شور مچا رہا تھا۔ قہقہے لگا رہا تھا۔ پھر دفعتا گلی کے نانک چندی اینٹوں کے فرش پر پاوں کی چاپ گونجی۔ کوءی آرہا تھا اسے یوں لگا۔ جیسے کسی نے اس کے سر پر ہتھوڑا دے مارا ہو۔ ہتھوڑے کی ضربیں قریب تر ہوءی جا رہی تھیں۔ ایلی دیوار میں منہ دے کر کھڑا ہو گای۔ چھپانے کے لیے اس نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیا۔ مہندی کی بو کا ریلا آیا۔ تڑپ کر وہ نالی میں گر پڑا،جیسے ناگ نے ڈس لیا ہو۔ بے بسی میں اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
نہ جانے کتنا عرصہ ایلی نے اپنا باءیاں ہاتھ بغل میں چھپاءے رکھا۔ وہ ایک ہاتھ سے روٹی کھاتا تھا۔ ایک ہاتھ سے منہ دھوتا اور سارے کام اسی ایک ہاتھ سے کرتا تھا۔ جب کبھی مجبوری کی وجہ سےوہ مہندی لگا ہاتھ بغل سے نکالتا تو اسے محسوس ہوتاجیسے ابا نے کپڑے اتروا کر اسے گلی میں نکال رکھا ہو۔ جہاں وہ نالی میں منہ دے کر رو رہا ہو۔

انوکھا باپ:

اس زمانے میں وہ رہتک میں رہتے تھے جہاں اس کے ابا ملازم تھے۔ روہتک ایک چھوٹا سا شہر تھا۔ گلیاں ویران تھیں۔ دکانوں میں سرخ گوشت کے بڑے بڑے ٹکڑے لٹکے رہتے تھے اور مضبوط بانہوں والے پست قد قصاءی کلہاڑیوں سے ان کے ٹکڑوں کو کاٹنے میں مصروف رہتے تھے۔ موٹی موٹی عورتیں یوں کچر کچر باتیں کرتیں جیسے چارہ کاٹنے کی مشینیں چل رہی ہوں۔ پھر علی احمد سیر کے لیے دلی گءے تو ایلی کو بھی ساتھ لے گءے۔ دلی کو دیکھ کر ایلی دنگ رہ گیا۔ اتنا بڑا شہر دیکھنے کا اسے پہلے کبھی اتفاق نہ ہوا تھا بازاروں کی بھیڑ، دوکانوں کی قطاریں۔ خوانچے والوں کا شور اور تانگوں اور گاڑیوں کا تسلسل دیکھ ک راس کے دل میں نءی بیداریوں نے کروٹ لی۔ دلی میں ماموں حشمت علی کا گھر جہاں وہ ٹھہرے تھے، بذات خود ایلی کے لیے اچھنبے کی چیز تھی۔ وہاں کی ہر بات نرالی تھی۔ ہر طریقہ انوکھا تھا۔ اس سے پہلے کسی کے گھر رہنے کا ایلی کو اتفاق نہ ہوا تھا۔ اس لیے اپنے گھر کے علاوہ وہ کسی گھریلو ماحول سے پورے طور پر واقف نہتھا۔ حشمت علی ابا ہونے کے باوجود ہمیشہ سر جھکا کر چلتے تھے۔ دفتر سے واپسی پر علیحدہ کمرے میں ٹین کے سپاہی کا کھیل کی بجاءے اپنے بچوں کے درمیان بیٹھ جاتے۔ ایلی کے لیے یہ ایک اچھنبے کی بات تھی۔ اچھا باپ تھا وہ باپ نہ ہوا ساتھی ہو گیا۔ ایلی سمجھتا تھا کہ باپ وہ ہوتا ہے جو بچوں سے ہمیشہ دور رہے۔ جس کی تیوری چڑھی رہے۔ جس کے انداز میں ایک شان برتری ہو۔ جو دو انگلیوں میں گوشت کا ٹکڑا اٹھا کر بیٹے کو آواز دے۔ ایلی
حشمت علی کے چھوٹے بیٹے جمیل کو دیکھ کر ایلی کو اس کی جرات پر حیرانی ہوتی تھی۔ باپ سے ذرا بھی نہیں ڈرتا تھا۔بات بات پر ماں سے لپٹ جاتا تھا۔ اس کے باوجود اس کے ابا اس کے کپڑے اتروا کر اسے گلی میں نہیں نکالتے تھے۔ جمیل کتنا نڈر اور آزاد تھا۔ وہ دلی کے بازاروں میں اکیلا گھومتا پھرتا تھا۔ ہجوم کو چیرتا ہوا نکل جاتا۔
چلو ایلی۔ جمیل نےاسے کہا۔ چلو ہم تمہیں سوہن حلوا کھلاءیں گے۔ یہ دیکھو۔ اس نے مٹھی کھولی ۔ یہ دیکھو۔ اٹھنی۔۔۔۔۔۔۔ایلی حیران رہ گیا۔ اٹھنی کا حلوہ۔ اٹھنی ایلی کے نزدیک بہت بڑی رقم کا حلوہ۔ لیکن جمیل کواٹھنی مل کیسے گءی؟ آو۔ جمیل نے کہا! ہم تم کو دکھاءیں۔ اٹھنی کا حلوہ بھی لیں گے۔ پھر بھی یہ ہماری رہے گی۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اٹھنی کا حلوہ خریدو۔ اٹھنی پھر بھی ہاتھ سے نہ جاءے۔ ضرور جمیل مذاق کر رہا ہے۔ ایلی چپ چاپ جمیل کے ساتھ ہو لیا۔ سنو اٹھنی بچانے کا طریقہ یہ ہے کہ ایسی دوکان پر چلو جہاں بھیڑ لگی ہو۔ ہاں بھیڑ میں سودا خوب رہتا ہے۔ جمیل اسے سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا اور ایلی حیران ہو رہا تھا۔ ایسی باتیں اسے کبھی نہ سوجھی تھیں۔
جمیل سے مل کر ایلی کو کءی ایک باتوں کا پتہ چلا۔ عجیب و غریب باتوں کا۔ مثلا یہ کہ اس کے بڑے بھاءی صفدر کو تھیٹر کی ایک پارسی لڑکی سے عشق تھا۔ پارسی لڑکی۔ ایلی کا جی چاہتا تھا کہ وہ تھیٹر جا کر دیکھے کہ پارسی لڑکی کیسی ہوتی ہے اور اس سے عشق کیسے لگتا ہے، لیکن جلد ہی وہ ہمایوں کے مقبرے اور قطب صاحب کی لاٹھ پر جا پہنچےاور وہ ان عالیشان عمارتوں میں کھو گیا۔ پھر رہتک میں واپس آنے کے بعد اسے پارسی لڑکی کا خیال آیا اور وہ چوری چوری خواہش کرنے لگا کہ کبھی وہ بھی پارسی لڑکی کو دیکھے لیکن رہتک میں تو ہر طرف پوربی عورتیں تھیں جو پتھر کوٹنے میں لگی رہتی تھیں اور یا موٹی عورتیں جو کچر کچر باتیں کرتی رہتیں۔

اجمل کے بال:

پھر رہتک میں اس کا پھوپھی زاد بھاءی اجمل آگیا۔ اجمل کا قد لمبا رنگ نکھرا اور جسم بھرا ہوا تھا۔ اس کے بال کس قدر ملاءم اور لمبے تھے۔ کپڑے بھی تو بہت خوبصورت پہنتا تھا۔ ایلی اجمل کو غور سے دیکھتا رہتا حتٰی کہ اسے پارسی لڑکی بھی بھول گءی۔ اس کا دل چاہتا تھا کہ وہ بھی اجمل کی طرح اونچا لمبا ہو جاءے۔ اس کا جسم بھی اسی طرح نکھر جاءے اور بال اجمل کے بال تو ایلی کی نظر میں بے حد خوبصورت تھے۔ وہ اجمل کو چلتےپھرتے اٹھتے بیٹھتے غور سے دیکھتا اور اجمل سا بننے کی کوشش کرتا۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ اجمل اسے دوست سمجھے جیسے دلی میں جمیل اسے دوست سمجھتا تھا اور وہ دونوں رہتک کے بازار میں اکٹھے حلوہ خریدنے جاءیں، لیکن اجمل نے کبھی ایلی کو اہمیت نہ دی تھی۔ سکول میں وہ برے لڑکوں کے ساتھ رہا کرتا تھا اور بیچارے ایلی کو اس کے پیچھے پیچھے دوڑنا پڑتا۔ نہ جانے وہ لڑکوں سے مل کر کیا کیا باتیں کیا کرتا تھا۔ جب ایلی ان کی باتیں سننے کے لیے قریب جاتا تو وہ باتیں کرنا بند کردیتے یا سرگوشیاں شروع کر نے لگتے۔ بڑی مشکل سے ہی بورڈنگ کے لڑکے ایلی کی دعوت کیا کرتے تھے۔ کھانے کے بعد وہ گھنٹون بیٹھ کر گپیں ہانکا کرتے۔ گھر میں اجمل کا رویہ عجیب سا رہتا تھا۔ جیسے گھر والوں سے کوءی تعلق ہی نہ ہو اور صفیہ، صفیہ تو اس کے نزدیک اس مکان میں رہتی ہی نہ تھی۔ چاہے وہ مہندی رنگے ہاتھ چلاتی یا اپنی میلی انگوٹھیاں گھماتی اجمل کو کچھ خبر ہی نہ ہوتی وہ بال بنا کر چپکے سے باہر نکل جاتا پھر صفیہ غصہ میں چلاتی، ہاجرہ یہ کی اہے۔ تمہیں برتن صاف کرنے بھی نہیں آتے اور یہ دیکھو شلغم تو تم نے بالکل ہی جلا دیے ہیں۔ پھر وہ نیا جوڑا پہنتی، خوشبو لگاتی اور علی احمد کے انتظار میں بیٹھ جاتی۔ علی احمد کے آنے پر ٹین کا سپاہی حرکت میں نہ آتا بلکہ اس کی جگہ کٹ پتلیوں کا کھیل شروع ہو جاتا۔ ایک منتیں کرتی دوسری منہ چڑاتی ایک سیٹیاں بجا کر برماتی دوسری ناک چڑھاتی۔ ایک ہنسی ہنسے جاتی، دوسری گھورتی اور پھر جب دروازہ کھلتا تو شامکوٹ کا قلعہ یوں طمطراق سے قاءم ہوتا جیسے وہ ناقابل تسخیر ہو۔ پھر صبح اٹھتے ہی علی احمد چلاتے۔ اجمل ادھر آو۔ یہ کیا واہیات عادت ہے تم سارا دن بننے سنورنے میں گزار دیتے ہو اور شام محفلوں میں بسر کرتے ہو اور تمہارے یہ بال کتنے واہیات ہیں جیسے عورتوں کے ہوتے ہیں۔ ہٹ جاو۔ میری نظروں سے دور ہوجاو۔
پھر ایک رات کٹ پتلیوں کا تماشہ شدت اختیار کر گیا۔ شام کوٹ کے قلعے سے طبل جنگ بجنے لگا اور ٹین کے سپاہی نے گھبرا کر ہتھیار ڈال دیے اور بند کمرے پر موت کی سی خاموشی طار ہو گءی۔ اگلی صبح جونہی علی احمد بیدار ہوءے تو گھر پر ایک مصیبت ٹوٹ پڑی۔ یہ چیز یہاں کیوں رکھی گءی ہے؟ وہ وہاں کیوں گیا ہے؟ ایلی حیران تھا کہ اس بند کمرے کے سپاہی کو کیا ہوا کہ اپنی سرزمین چھوڑ کر گھر کے ویرانے میں گھومنا شروع کر دیا۔ لیکن جلد حیرت مصیبت میں بدل گءی۔ جب علی احمد نے للکار کر کہا۔ تم پڑھتے کیوں نہیں ہر وقت کھیلتا رہتا ہے۔ لنڈور۔ ادھر آو۔ اور آخر کار تان اجمل پر آٹوٹی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ حجام بلوا کر اجمل اور ایلی دونوں کے بال کٹوا دیے گءے اور علی احمد فاتحانہ قہقہہ لگا کر اپنے کمرے میں داخل ہوگءے۔ اس رات ایلی رضاءی میں منہ ڈھانپ کر روتا رہا کہ ابا ہاءے اجمل کے بال ہاءے اجمل کے بال۔
اس کے بعد علی احمد نے اجمل کے باہر جانے اور شامیں باہر بسر کرنے پر نکتہ چینی شروع کردی۔ حتٰی کہ ایک روز اجمل دیر سے گھر آیا تو انہوں نے اجمل کے منہ پر تھپڑ جما دیا۔ بڑا بنتا ہے تو۔ اور اجمل رونے لگا۔ اندر صفیہ مسکرا رہی تھی۔ مسکراءے جا رہی تھی۔ وہ ہاتھ کی انگوٹھیاں گھما رہی تھی اور رضاءی میں منہ ڈال کر ایلی جہ جانے کیوں اپنے آپ سے کہ رہا تھا۔ میں بڑا ہو لوں۔ میں دسویں پاس کر لوں۔
اگلے روز اجمل مدرسے سے واپس نہ آیا شام کو ایک آدمی رقعہ لایا۔ لکھا تھا، میں گھر جا رہا ہوں۔ میرا انتظار نہ کریں۔ اجمل کے جانے کے بعد ایلی اکیلا رہ گیا۔ اگر انہی دنوں ابا کا تبادلہ دوراہے نہ ہو جاتا تو ایلی کے لیے وقت کاٹنا مشکل ہو جاتا۔ بہر حال وہ رہتک چھوڑ کر دوراہے چلے گءے۔
اس نءے شہر میں ان کے مکان کے سامنے ایک گندہ نالہ بہتا تھا جس کے ارد گرد بچے کھیلا کرتے تھے۔ ایلی کے لیے یہ نالہ ایک بہت بڑی نعمت تھی جہاں کھیل کر وہ ابا کی بے حسی اور صفیہ کے غلیظ ہاتھوں کو بھول سکتا تھا۔

خانم:

ایک روز جب وہ گندے نالے کے قریب کھیل رہا تھا تو اس کے ابا باہر نکلے۔ ایلی انہیں دیکھ کر سہم گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔علی احمد رک گءے چاروں طرف دیکھا اور پھر ایلی کو اشارہ کرکے بلایا۔ وہ ڈر گیا نہ جانے ابا اسے کیوں بلا رہے تھے۔ اس سے پہلے تو انہوں نے اسے یوں کبھی بلایا نہ تھا یاتو وہ خاموشی سے پاس سے گزر جایا کرتے تھے اور یا اسے دیکھ کر کہتے۔ تو یہاں کھیل رہا ہے۔ دوڑ گھر جا نالاءق سارا دن کھیلتا رہتا ہے۔ اور ایلی چپکے سے دوڑ کر گھر جا چھپتا۔ اس روز ان کے بلانے پر ایلی ڈرتا ہوا پاس آیا۔ اس کا خیال تھا کہ پاس بلا کر ابا گھوریں گے اور اسے گھر جانے کو کہیں گے۔ لیکن ایلی قریب آیا تو وہ بولے۔ ادھر آ۔ ہمارے ساتھ۔ اسے اپنی آنکھوں اور کانوں پر اعتبار نہ آتا تھا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ ضرور کوءی غلطی ہو گءی ہے شاید اس نے ان کا اشارہ غلط سمجھا ہو لیکن پھر وہ چپ چاپ آگے آگے کیوں چل پڑے تھے۔ پھر اسے خیال آیا کہ شاید وہ گھر کے لیے کوءی چیز خرید کر دینے کے لیے ساتھ لے جا رہے تھے۔ بہرحال ساری بات عجیب سی تھی۔ ایلی ان کے پیچھے خاموشی سے چلنے لگا بازار آیا اور ختم بھی ہو گیا لیکن خاموش چلتے گءے۔
بازار کے اختتام پر علی احمد ایک گلی میں گھوم گءے اور دیر تک پر پیچ گلیوں میں چلتے رہے۔ حتٰی کہ گلیاں بھی ختم ہوگءیں اور وہ شہر کے باہر کالی سڑک پر جا پہنچے۔ سڑک کے دوسرے سرے پر وہ اس مختصر آبادی میں جا داخل ہوءے جو ریل کے پل کے پار تھی اور از سر نو گلیوں میں جا گھسے جہاں چھوٹے چھوٹے گھروندے بنے ہوءے تھے۔ بالاخر وہ ایک دروازے پر رکے جہاں علی احمد نے دروازے پر دستک دی کچھ دیر کے بعد دروازے کی درز سے ایک موٹی سی اتنی بڑی کالی آنکھ دکھاءی دی۔ خانم۔ علی احمد نے آہستہ سے کہا۔ اندر سے گویا چاندی کی گھنٹیاں بجنے کی آواز سناءی دی۔ دروازہ کھلا اور ایک سرخ وہ سفید چہرہ طلوع ہو کر چاروں طرف چھا گیا۔
خانم کو دیکھ کر ایلی کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ چوڑے گورے چٹے چہرے پر دو موٹی موٹی کالی آنکھیں مسکا رہی تھیں۔ آو بیٹھو۔ اس نے چارپاءی کھینچ کر کہا بیٹھ جاو۔ علی احمد نے ایلی کو حکم دیا اور وہ خود بے تکلف چارپاءی پر لیٹ گءے۔ حقہ بھرنا ذرا خانم۔ علی احمد نے یوں کہا جیسے وہ ان کا اپنا گھر ہو۔ خانم نے جلدی سے چلم میں دو کوءلے ڈالے اور پھر علی احمد کے پاس بیٹھ کر بے تکلف باتیں کرنے لگی۔ جلد ہی وہ دونوں ایلی کے وجود سے بے خبر ہو کر ایک دوسرے میں کھو گءے۔ ایلی حیران تھا کہ خانم کون ہے اور اس کا منہ اتنا چوڑا اور سرخ و سفید کیوں ہے اور اس کی آنکھیں اتنی شوخ کیوں ہیں اور رعب بھرے چہرے کے باوجود اس قدر مسکراتی کیوں ہے۔ اور اس کی طرف دیکھ کر مسکرانے کو جی کیوں چاہتا ہے۔ وہ اس بات پر حیران تھا کہ ابا وہاں لیٹ کر یوں حقہ پی رہے ہیں جیسے وہ ان کا اپنا گھر ہو اور خانم یوں ان کے پاس بیٹھی تھی جیسے صفیہ گھر میں ان کے پاس بیٹھا کرتی تھی۔ صفیہ اور خانم کا کوءی مقابلہ بھی تو نہ تھا اگرچہ صفیہ کا رنگ بھی کافی سفید تھا۔ اس کے چہرے سے بھی رعب برستا تھا۔ لیکن صفیہ کے ماتھ پر تو ہر وقت شکن پڑی رہتی تھی۔ اس کے برعکس خانم مسکراءے جا رہی تھی۔ وہ ایلی کو دیکھ کر ویسے ہی مسکراتی تھی۔ جیسے علی احمد کو دیکھ کر جیسے ان دونوں میں کوءی فرق ہی نہ ہو۔ صفیہ تو صرف علی احمد کی طرف دیکھ کر ہی مسکراتی تھی۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ خانم کے ہاتھ مہندی سے رنگے نہ تھے۔ کتنے صاف ستھرے ہاتھ تھے اور انگلیوں میں انگوٹھیاں بھی تو نہ تھیں۔
وہ باتیں کرنے میں مشغول تھے کہ اندر کوءی بچہ رونے لگا۔ بچے کی آواز سن کر ایلی گھبرا گیا نہ جانے کہاں سے ایک شخص میلی چادر میں لپٹا ہوا آموجود ہوا۔ دیکھ تو سراب رو رہا ہے۔ خانم بولی اور پھر علی احمد سے باتوں میں مشغول ہو گءی اور وہ چادر میں لپٹا ہوا عورت نما شخص اندر جا کر بچے کو تھپکنے لگا۔ نہ جانے وہ شخص کون تھا۔ نوکر تو نہیں معلوم ہوتا تھا وہ۔۔۔۔۔۔خانم کا خاوند بھی نہیں ہو سکتا تھا۔ پھر کون تھا وہ۔ ایلی کے لیے وہ مکان ایک راز محسوس ہونے لگا وہ بے تکلف مسکرانے والی عورت۔ وہ عورت نما مرد اور وہ روتا ہوا بچہ۔
اچھا تو یہ لڑکا ہے۔ خانم نے اپنے ہاتھ سے ایلی کے منہ کو تھپکتے ہوءے کہا۔ اس کی اس تھپک میں کتنا پیار تھا۔ ایلی کے جسم میں ایک جھر جھری سی ناچنے لگی۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ خانم کا ہاتھ اسے تھپکتا رہے اور وہ بڑی بری کالی آنکھیں ویسے ہی مسکاتی رہیں اور اس کے سامنے وہ بڑا سا سرخ و سپید چہرہ یونہی معلق رہے اور وہ ابا کے ساتھ ہمیشہ وہیں اس مٹی کے گھروندے میں رہے اور اور۔۔۔۔۔۔
اس کے بعد گندے نالے کے پاس کھیلتے ہوءے وہ چوری چوری دعاءیں مانگتا کہ ابا گھر سے نکل کر اسے اشارہ کریں۔ ایلی ادھر آو ہمارے ساتھ چلو وہ اسی طرح خانم کے گھر جاءے اور اس دروازے سے خانم کی سیاہ آنکھ انہیں دیکھے اور بالآخر اس کے ہاتھ اسے تھپکے۔ کبھی کبھی اس کی خواہش پوری ہو جاتی۔ ابا گھر سے باہر نکل کر اسے انگلی کے اشارے سے بلاتے اور پھر کہتے۔ اس مکان میں جہاں تم اس روز گءے تھے۔ تمہیں یاد ہے نا وہاں جاو اور خانم کو یہ دے آو۔ اور وہ چپکے سے ایک گھٹڑی سی اس کی بغل میں تھما دیتے۔ کسی سے کہنا نہیں سمجھے۔ وہ زیر لب کہتے اور ایلی خانم کے گھر کی طرف اڑ لیتا اور پھر خانم کا ہاتھ اس کے منہ کو تھپکتا اور کے ہونٹ سہلاتا وہ مٹی کا گھروندہ اس کی آنکھوں تلے کانپتا اور اس کے دل میں کچھ کچھ نہ جانے کیا ہوتا۔
پھر ایک روز خانم ان کے اپنے گھر آگءی۔ ایلی نے اسے دیکھا اور حیران رہ گیا۔ خانم نے رازدارانہ نگاہ ایلی پر ڈالی۔ اندر سے ابا بھاگے بھاگے باہر آءے۔ صفیہ یہ استانی ہیں۔ اسلامیہ سکول کی بڑی استانی تم سے ملنے آءی ہیں بیٹھ جاو۔ استانی صاحبہ۔ ایلی ان کے لیے کچھ لاو نا بھءی۔ اتنی دور سے آءی ہیں۔ کتنی دور ہے آپ کا سکول، ہاں آٹھ کوس مجھے یاد آگیا اور نام کیا ہے۔ سلاماں والی نہیں نہیں۔ سیل آباد ٹھیک۔ اور علی احمد کو دیکھ کر خانم نے اتنا بڑا گھونگھٹ نکال لیا اور ان کی طرف پیٹھ کر کے بیٹھ گءی۔ پھر وہ ایلی کی طرف دیکھ کر رازدارانہ انداز سے مسکرانے لگی۔ لیکن وہ ابا سے پردہ کیوں کر رہی تھی؟ اس نے گھونگھٹ کیوں نکال رکھا تھا کیا وہ استانی تھی؟ لیکن وہ تو وہیں رہتی تھی۔ شہر میں، پھر ابا کیوں کہ رہے تھے وہ سیل آباد سے آءی ہے ایلی کی سمجھ میں خاک بھی نہ آیا۔ مگر وہ محسوس کر رہا تھا کہ خانم اسے عجیب سی نگاہوں سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ جیسے اسے بلا رہی ہو جیسے ہاتھ کی بجاءے نگاہوں سے اسے تھپک رہی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سلا رہی ہو۔
نہیں۔۔نہیں۔ علی احمد کہ رہے تھے۔ اگر آپ کو میرا یہاں آنا ناگوار ہے تو میں باہر چلا جاتا ہوں۔ ہاں ہاں اچھا تو آپ کے سکول میں کتنی لڑکیاں تعلیم پاتی ہیں؟ آپ کے سکول کا بڑا چرچہ ہے۔ خانم مسکراءے جا رہی تھی۔ صفیہ گھور گھور کر اس کی طرف دیکھ رہی تھی اور ہاجرہ اندر سبز رنگ کی بوتلیں کھولنے میں مصروف تھی تاکہ سیل آباد کی استانی کی تواضع کی جا سکے۔

تین بچے

اس روز ایلی کو عجیب سا احساس ہو رہا تھا۔ جیسے وہ تین بچے عجیب و غریب کھیل کھیل رہے ہوں۔ علی احمد، خانم اور ایلی۔ ابا تو یوں سنجیدگی سے باتیں کیے جا رہے تھے۔ جیسے وہ علی احمد ہی نہ ہوں۔ مگر ان کی آنکھوں کی چمک ان کے بہروپ کی چغلی کھا رہی تھی اور خانم یوں لپٹی ہوءی بیٹھی تھی، جیسے واقعی ہی علی احمد اس کے لیے بیگانہ شخص ہوں۔ لیکن وہ ہر بار ایلی کی طرف دیکھ کر یوں آنکھ چمکاتی کہ اسے اس انوکھے کھیل کا لطف آجاتا اور اس کا جی چاہتا کہ وہ کھیل ہمیشہ کے لیے جاری رہے۔ اور خانم اس کی طرف دیکھ کر مسکاتی رہے ایلی کا جی چاہتا تھا کہ وہ قہقہہ مار کر ہنس دے۔
پھر جلد ہی چند ایک ماہ کے اندر اس استانی کا راز کھل گیا جو سیل آباد کے سکول میں پڑھاتی تھی اور علی احمد سے گھونگھٹ نکالنے میں احتیاط سے کام لیتی تھی اور صفیہ کا منہ غصے سے لال ہو گیا اور اس کی آواز سارے محلے میں گونجنے لگی۔ حالات بگڑتے دیکھ کر علی احمد تو گھر سے باہر چلے گءے اور جان بوجھ کر دیر سے آءے۔ حقیقت یہ تھی کہ روز بروز علی احمد کی طبیعت صفیہ سے ہٹتی جار رہی تھی اور صفیہ کو خود اس کا احساس ہوتا جا رہا تھا کہ اس کا اثر ختم ہو چکا ہے۔ اپنے اثر کو قاءم رکھنے کے لیے اس نے از سر نو اپنے ہاتھوں پر مہندی لگاءی۔ باریک ریشمیں قمیض پہنی، سیاہ کناری والے دوپٹے اوڑھے لیکن ان کوششوں کے باوجود اس کا رنگ زرد پڑتا گیا اس کی آواز مرجھا گءی۔ یہ محسوس کر کے صفیہ نے نءے پہلو سے اپنی اہمیت کا احساس اخذ کرنے کی کوششیں کیں۔ علی احمد نہ سہی ہاجرہ تو ہے جس پر وہ حکومت کر سکتی تھی۔
علی احمد مزاج کے بہت شگفتہ واقع ہوءے تھے۔ وہ صفیہ کے غصے کو دیکھ کر چوری چوری مسکراتے اور پھر سنجیدگی سے ان بگڑے حالات پر بات کرنے کی بجاءے جھٹ ٹین کا سپاہی بن جاتے۔ اس پر صفیہ چڑ جاتی اور بے بسی اور غصہ سے ہاتھ چلاتی لیکن ٹین کا سپاہی ہنسے جاتا لڑے جاتا حتٰی کہ صفیہ کا غصہ ختم ہوجاتا اور وہ مسکرانے لگتی اور ٹین کا سپاہی فاتحانہ طور پر قہقہہ لگاتا اور سب ٹھیک ہوجاتا۔ لیکن اس کے باوجود ب سب ٹھیک نہ ہوتا تھا۔ صفیہ کے دل کی پھانس نہ نکلتی تھی اور اس کا رنگ روز بروز زرد ہوتا جا رہا تھا۔ خانم روز آموجود ہوتی اس کی موجودگی سے صفیہ کا رنگ اور پھیکہ پڑ جاتا اور گھر میں خانم کے قہقہے گونجتے اور اس کی کالی آنکھیں مسکاتیں اور علی احمد دبی دبی خوشی سے بے تاب ہو کر جھومتے اور چلاتے۔ ایلی اب تم ذرا سراب کو کھلاو باہر جا کر کھلاو اسے۔ اسے باجا سناو۔ اور ایلی بڑی مسرت سے سراب کو اٹھا لیتا اور خانم کے چھیڑ دینے والے ہاتھ ایلی کے منہ کو تھپکتے اور اس کا جسم زمین پر نہ ٹکتے اور وہ محسوس کرتا جیسے وہ ہوا میں اڑا جا رہا ہو۔ خانم کی نگاہیں علی احمد کو جھنجھناتیں اور علی احمد فرط ۔۔۔۔۔سے یا نہ جانے کیوں صحن میں ادھر ادھر گھومنے لگتے اور صفیہ بے زار ہو کر پلنگ پر جا بیٹھتی اور منہ دیوار کی طرف موڑ لیتی۔
خانم کے آنے سے صفیہ ایلی سے اور بھی چڑنے لگی تھی۔ ہوں تو تو ابا کے پیغام لے کر جاتا ہے۔ شرم نہیں آتی۔ اور شرم آنے کی بجاءے ایلی کی ایڑیاں اونچی ہوجاتیں اور اس کی چھاتی تن جاتی اور وہ ابا سے گہرے تعلقات رکھنے کے خیال سے فخر محسوس کرتا۔
ابا اب تقریبا ہر روز کھانا کھاتے ہوءے اسے آواز دیتے۔ ایلی۔ اور پھر وہ دو انگلیوں میں لٹکتا ہوا گوشت کا ٹکڑا اس کے ہاتھ میں تھما دیتے۔ اب وہ مرے ہوءے چوہے کی طرح نہ پکڑتا تھا بلکہ یوں لٹکاءے ہوءے چلا جاتا جیسے وہ کوءی تمغہ ہو اور پھر روٹی پر رکھ کر اسے یوں کھاتا کہ فرحت دیکھ لے تو جل کر راکھ ہو جاءے۔
صفیہ اب عام طور پر چپ چاپ اکیلی پڑی رہتی تھی اور تنہاءی میں کھانستی رہتی تھی۔ ادھر علی احمد کے کمرے میں خانم کے قہقہے گونجتے۔ سراب کو بہلانے کے لیے ایلی گراموفون پر پرانے ریکارڈ لگاتا اور خانم کی سریلی آواز کے ساتھ ساتھ موسیقی کا ساز چھڑ جاتا ادھر باورچی خانے میں ہاجرہ خانم کے لیے چاءے بنانے میں مصروف رہتی۔ پھر دفعتا علی احمد چلاتے۔ ایلی سراب کو باہر لے جاو۔ وہاں بہل جاءے گا۔ سراب کو اٹھا کر ایلی باہر نکل آتا اندر خانم کی سریلی سروں پر ٹین کا سپاہی رزمیہ انداز سے رقص کرتا اور ایلی کا جی چاہتا کہ وہ چھپ چھپ کر اس رقص کو دیکھے۔
بیچارے صفیہ کا بیشتر وقت اب تنہاءی میں گزرتا تھا۔ اکیلے بیٹھے بیٹھے خاموشی سے اکتا کر یا تو وہ ہاجرہ کو کوستی رہتی یا کھانستی رہتی۔
ہاجرہ نے ایک بار ایلی کو بتایا تھا کہ صفیہ بیمار ہے اور اسے سل کا عارضہ ہو گیا ہے مگر ایلی کو اس پر اعتبار نہ آتا تھا۔ صفیہ بیماری یا کسی دوسری وجہ سے عاجز آجاءے ایلی اس کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ تھا۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ صفیہ کو کوءی عارضہ ہو جاءے۔ اونہوں۔ یہ تو محض تنہاءی کی وجہ سے تھا ابا جو باہر رہتے تھے اور پھر خانم جو آجاتی تھی وہاں۔
خانم آتی تو گھر میں ایک شور مچ جاتا۔ خانم کتنا شور مچاتی تھی۔ اس کا ایلی کو مسکا کر دیکھنا نگاہ سے ایلی کا منہ سہلانا اور اس کے منہ کو جھنجھنے کی طرح بجانا۔ اب ایلی کو معلوم ہو چکا تھا کہ خانم استانی نہ تھی یہ جان کر اسے بہت دکھ ہوا تھا اگر وہ استانی ہوتی تو خوب رہتا۔ وہ دل ہی دل میں سوچتا تھا نہ جانے استانی کیسی ہوتی ہوگی وہ تو فر فر انگریزی بولتی ہوگی اور پھر اونچی ایڑی کی جوتی پہن کر ٹپ ٹپ چلتی ہوگی بالکل جیسے بازاروں میں میمیں چلتی ہیں۔

استانی:

پھر ایک روز علی احمد دورے پر جانے لگے تو انہوں نے ایلی کو پاس بلایا۔ چلو ایلی۔ وہ بولے تمہیں ساتھ لے چلتے ہیں۔ ایلی گھبرا گیا نہ جانے علی احمد اسے کہاں لے جاءیں گے۔ ہاجرہ نے یہ بات تعجب سے سنی اور صفیہ نے ناک چڑھاءی۔۔۔۔۔۔۔نہیں نہیں گھبرانے کی کیا بات ہے۔ علی احمد بولے۔ وہاں سکول کی استانی ایلی کا خیال رکھے گی۔ استانی۔۔۔۔۔ایلی اٹھ کر بیٹھ گیا۔
جب وہ ابا کے ساتھ تانگے میں بیٹھا تو خانم کا ہاتھ لگے بغیر ہی اس کے گال جھنجھنے کی طرح بج رہے تھے اور دل دھک دھک کر رہا تھا۔ استانی۔ استانی اس محلے کی چکی خوشی سے چیخ رہی تھی۔ تانگہ میں بیٹھے ہوءے وہ چاروں طرف غور سے دیکھ رہا تھا۔ لیکن اسے کچھ دکھاءی نہ دے رہا تھا وہ کھیت وہ سڑک وہ پیڑ سب دھندلاءے ہوءے تھے دور افق پر۔۔۔۔ٹیلوں کے پیچھے سے ایک حیسنہ جھانک رہی تھی۔ جب وہ منزل پر پہنچے تو انہیں ایک صاف ستھرے کمرے میں بٹھا دیا گیا اور پھر ان کی تواضع کے لیے دودھ کی ایک بھری ہوءی گاگر آگءی۔ اتنا سارا دودھ اور سکول میں اس کے اپنے مدرسے میں تو دودھ دیکھنے میں نہیں آیا تھا کبھی البتہ خوانچے والے مدرسے کے باہر پاپڑ اور پکوڑے بیچا کرتے تھے دودھ تو نہیں بیچتے تھے وہ شاید زنانہ مدرسوں میں دودھ بکتا ہو۔ بہر صورت وہ حیران تھا دو اونچے لمبے گلاس رکھ کر نوکر چلا گیا۔ پلنگ پر علی احمد تکیہ لگاءے حقہ پی رہے تھے۔ جیسے وہ خانم کے گھر پیا کرتے تھے۔ ایلی نے ان کی طرف دیکھا اور اسے محسوس ہوا کہ کچھ ہونے والا ہے۔
سلام و علیکم۔ عورت کی آواز سن کر ایلی چونکا۔ اس نے مڑ کر دیکھا تو پیچھے لٹکے ہوءے پردے سے ایک حناءی ہاتھ نکل آیا۔ بچے کو اندر بھیج دیجیءے۔ کہیے اچھے تو ہیں آپ؟ ۔۔۔۔۔شکر ہے۔ ایلی۔ علی احمد بولے۔ اندر جاو۔ استانی جی بلا رہی ہیں تمہیں۔ ایلی ہچکچاتا رہا لیکن علی احمد کی نگاہوں میں سنجیدگی کی جھلک تھی۔ آو نا بیٹا۔ اندر سے آواز آءی اور ایلی جھجھکتا ہوا اندر چلا گیا۔ ارے استانی کی طرف دیکھ کر وہ بھونچکا رہ گیا۔ اس کا رنگ کالا تھا۔ جسم بھدا اور منہ پر بیزاری چھاءی ہوءی تھی۔
ایلی کے تخیل میں تو استانی نہ جانے کیا تھی۔ وہ سمجھتا تھا کہ استانی خانم سے کہیں زیادہ خوبصورت اور رنگین ہوگی اس کی آنکھوں میں شرارت چمک رہی ہوگی اور مژگاں اشاروں سے لدی ہوءی ہوں گی اور اس کے ہاتھ خانم کے ہاتھوں سے زیادہ بے تکلف ہوں گے جو اسے جھنجھناءیں گے۔ اس استانی کے چہرہ پر تو نحوست چھاءی ہوءی تھی۔ اس کی حرکات بے حد بھدی تھیں اور پھر شلوار کی جگہ چادر باندھ رکھی تھی۔ عورت اور چادر۔ لاحول ولا قوہ۔ ایلی کے دل میں نفرت کھولنے لگی۔ یہ کیسی استانی کے ہاں لے آءے تھے۔ ابا شاید وہ غلطی سے وہاں آگءے ہوں۔ لیکن اس معاملے میں ابا غلطی نہیں کر سکتے تھے اور اب بھی وہ چارپاءی پر مطمءن اور متوقع انداز سے لیٹے ہوءے تھے۔ ایلی حیران تھا۔
استانی کی نگاہیں علی احمد پر ٹکی ہوءی تھیں۔ جیسے انہیں جانچ رہی ہوں تول رہی ہوں۔ تو یہ تھیں استانی، ہیڈ معلمہ، یہ لو مٹھاءی۔ اس نے ایلی کے سامنے مٹھاءی کی تھالی رکھ دی اور خود پھر سے پردے کے پیچھے آکھڑی ہوءی وہ پھر علی احمد سے باتیں کرنے لگی۔ شمیم تو ان دنوں کشمیر میں ہے وہ وہیں رہتی ہے کیوں نہ رہے لڑکی کے کھانے پینے کے دن ہیں اور پھر وہ تو کشمیر کے میووں پر پلی ہوءی ہے۔ یہ سرخ چہرہ اللہ جھوٹ نہ بلواءے کوءی جوانی آءی ہے لڑکی پر! آنکھیں پھٹتی ہیں دیکھ کر اور پھر اوپر سے دسویں پاس۔
اچھا دسویں بھی کر لی؟ علی احمد نے قہقہہ مار کر پوچھا۔
پچھلے سال جو کی تھی میں نے بتایا تو تھا۔
اچھا؟ علی احمد بولے۔ لیکن تم بھی تو آج تک باتیں ہی کرتی رہی ہو کبھی ملوایا تو نہیں شمیم سے۔
ہے بچی ہے ابھی۔ استانی نے ذرا تنک کر جواب دیا۔ عمر ہی کیا ہے اس کی افسروں کے سامنے کہاں آتی ہے۔
بیگماں ادھر دیکھو۔ علی احمد بولے۔ ہم کیا غیر ہیں؟
نہیں غیر تو نہیں۔ وہ بولی۔ پھر بھی جب تک بات طے نہ ہو جاءے۔ بھءی واہ۔ وہ ہنسنے لگے۔ کیا کوءی کس باقی ہے۔ بات طے ہی سمجھو۔ نہ جانے وہ کس کی باتیں کر رہے تھے۔ شمیم کون تھی وہ کشمیر میں کیوں پل رہی تھی۔ اس کی طرف دیکھ کر آنکھیں کیوں پھٹتی تھیں اور وہ بات کیا تھی جسے طے سمجھا جا رہا تھا۔ ایلی ان کی باتوں سے اکتا گیا اور مٹھاءی کی طرف متوجہ ہو گیا۔ استانی سے تو مٹھاءی ہی کہیں اچھی تھی۔
دورے سے واپسی پر علی احمد نے گھر میں داخل ہونے سے پہلے کہا۔ دیکھو ایلی گھر میں کوءی بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس نے باپ کی طرف دیکھا اور بات سمجھے بغیر ہی اثبات میں سر ہلا دیا۔ پھر وہ سوچتا رہا کہ نہ کرنے کی بات ہی کون سی تھی۔ کوءی بھی تو نہیں وہ تو وہاں دودھ پینے کے علاوہ مٹھاءی کھاتا رہا تھا اور وہ شمیم کی باتیں کرتے رہے تھے اور پردہ ہوا سے اڑتا رہا تھا۔ ہاءیں! دفعتا اسے خیال آیا۔ استانی نے تو شلوار کی جگہ چادر باندھی ہوءی تھی۔ جیسے جاٹ باندھتے ہیں رنگدار چادر، ساڑھی نہیں، رنگدار چادر اور قمیص، آخر استانی نے چادر کیوں باندھی ہوءی تھی۔ شاید ابا کا بات نہ کرنے سے یہی مطلب ہوگا کہ گھر والوں کو پتہ نہ چلے کہ استانیاں شلوار پہننے کی بجاءے چادر باندھتی ہیں۔ لیکن وہ شمیم کون تھی۔ جو کشمیر کے پھلوں پر پل رہی تھی اور جس پر ٹوٹ کر جوانی آرہی تھی۔ شاید علی احمد شمیم کی بات کو چھپانا چاہتے تھے۔ اسے کچھ سمجھ میں نہ آرہا تھا۔ بہرحال اس پر استانی کی حقیقت تو کھل چکی تھی۔ استانی سے مایوس ہو کر وہ ایک بار پھر خانم کی طرف متوجہ ہو گیا لیکن جلد ہی خانم کا قرب بھی اس سے چھین لیا گیا اور علی احمد نے کسی وجہ سے انہیں علی پور بھیجنے کا فیصلہ کر لیا۔ اور ہاجرہ فرحت اور ایلی علی پور آگئے۔

چوگان اور پیڑے:

پہلی بار محلہ میں آکر اس نے واضح طور پر محسوس کیا کہ محلے والے اسے علی احمد کا وارث سمجھتے ہیں اور اس کی ماں کو نوکر نہیں سمجھتے اور پلنگ پر بیٹھنے والی صفیہ کو گھر کی مالکہ نہیں مانتے۔ تم آگءے بیٹا۔ چچی جان نے اسے دیکھ کر پیار سے سر پر ہاتھ پھیرا۔ اچھا ہوا تم آگءے۔ تمہیں کیا ضرورت ہے کہ جگہ جگہ علی احمد کے ساتھ جوتے چٹخاو۔ تم اپنے گھر میں رہو۔ یہ گھر تمہارا ہی ہے۔ جو تم ہو وہ کوءی دوسرا نہیں ہو سکتا اور وہ صفیہ کالے منہ والی چڑیل اسے کون جانتا ہے اچھا کھیلو بیٹا کھیلو۔
بوڑھی جاناں چلائی، خدا کا شکر ہے۔ میرا بیٹا ایلی آیا ہے۔ جانے دو علی احمد کو دردر کی خاک چھاننے تم کیا اس کے نوکر ہو جو اس کی چاکری کرتے پھرتے ہو۔ تم اللہ کے فضل سے اس گھر کا چاند ہو۔
آگئی تو ہاجرہ۔ برکتے بولی۔ سو بار آو تمہارا اپنا گھر ہے بیٹی۔ علی احمد کا کیا ہے اس کے سر پر تو عورتوں کو بھوت سوار ہے۔ بس عورتیں ہوں۔ اللہ ماری رنگ رنگیلی۔ ان کے نخرے ٹسے اور چھیڑ چھاڑ ہو اور میاں پریوں کے درمیان اندر بن کے بیٹھےرہیں دفع کر علی احمد کو۔ ہاجرہ کی آنکھوں میں آنسو ڈبڈبا آءے۔ نہ بیٹی تو اپنا آپ کیوں ہلکان کرتی ہے۔ تیری بلا سے جو تو ہے وہ اور کون ہو سکتی ہے۔ محلہ والوں کی نگاہ میں۔ آپ جھک مار مار کر تھک جاءے گا۔ اللہ کرے یہ تیرا ایلی جیے زندگی دراز ہو۔
کئی ایک روز تو محلہ والیوں کا تانتا بندھاجا رہا اور ہاجرہ بات بات پر آنسو بہاتی رہی اور محلے والیاں اسے دلاسہ دیتی رہیں ایلی حیران تھا کہ اماں بات بات پررو کیوں دیتی ہے۔ رونے کی تو کوءی بات نہ تھی نہ جانےپھر وہ کیوں روءے جا رہی تھی۔ شاید اس لیے کہ وہ صفیہ سے جدا ہو گئی تھی۔ مگر محلے میں پہنچ کر تو اس کا انداز ہی بدل گیا تھا۔ جیسے وہ صفیہ سے بیزار ہو۔ جیسے وہ خوشی سے اس کی خدمت نہ کرتی ہو مگر باہر جا کر تو وہ صفیہ صفیہ کرتے نہ تھکتی تھی۔ ایلی کو کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا۔
نیچے احاطے میں محلے کی بوڑھیاں چرخے رکھے باتوں میں مشغول تھیں۔ سب انہیں کی باتیں کر رہی تھیں۔ علی احمد کے قصے۔ ہاجرہ کی مظلومیت۔ چاروں طرف لوگ ہاجرہ فرحت اور ایلی سے ہمدردی جتا رہے تھے اور ہاجرہ کی نیکی اور خدمت گزاری کا تذکرہ کر رہے تھے اور ہاجرہ ڈھلکتے ہوءے آنسووں کے باوجود پھولی نہیں سما رہی تھی۔ آنسووں کے علاوہ اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک تھی۔ ایلی نے اس چمک کو پہلے کبھی اس کی آنکھوں میں نہ دیکھا تھا۔
گھر میں صرف دادی اماں خاموش تھیں وہ ایلی کی طرف دیکھتی مسکراتی اور پھر تلخ انداز سے کہتی۔ ایلی اب تو سارا دن آوارہ گردی ہی کرتا رہےگا کیا۔ اور ایلی کو محسوس ہوتا جیسے وہ گھورنے کی بجاءے پیار کر رہی ہو۔ ادھر آ۔ وہ چلاتی اور ایلی دبکنے کی بجاءے اس کے کندھوں پر جا سوار ہوتا اور پھر بڑھیا ہنستی۔ تو تو میرے کندھے توڑ دے گا۔ ہٹ اب مجھے نماز پڑھنی ہے۔ دفع ہو۔ اور ایلی اس کے کاندھوں سے اور بھی چمٹ جاتا۔
ہاجرہ کو روتا دیکھ کر دادی ماں ہاتھ چلا کر کہتی۔ تو تو پاگل ہے لڑکی خوامخواہ جان کھپا رہی ہے۔ علی احمد کا کیا ہے۔ ہوجائے گا ٹھیک آپ ہی مرد ایسے ہی ہوتے ہیں۔
کئی ایک دن تو یونہی رونے دھونے کا سلسلہ جاری رہا پھر ایلی اکتا کر باہر نکل گیا اور چوگان میں کھیلنے لگا۔ آہستہ آہستہ وہ محلے کے لڑکوں سے واقف ہوتا گیا اور دھیرے دھیرے اس کی جھجھک ختم کم ہوتی گءی۔ جمیل سے مل کر وہ بے حد خوش ہوا اسے دلی کی یاد آگءی جہاں وہ پارسی لڑکی رہتی تھی اور اٹھنی دیے بغیر انہوں نے حلوہ خریدا تھا۔ جمیل نے اسے دیکھ کر کہا۔ آو ایلی چلو پیڑے کھاءیں۔ پیڑے۔ ایلی کے منہ میں پانی بھر آیا۔ لیکن کیسے۔ تمہارے پاس اٹھنی ہے کیا؟ نہیں جمیل بولا۔ روپے۔ بہت سے روپے آو دکھاوں تمہیں۔ جمیل نے لکڑی کی چوکی اٹھاءی اور اس کے پاوں تلے دو رپے پڑے تھے۔ ایلی حیران رہ گیا ان کے گھر میں تو ایسی کوءی چوکی نہیں تھی، جس کے پاوں تلے روپے ملتے ہوں۔ چوکی تلے روپے، اس نے حیرانی سے جمیل کی طرف دیکھا۔ ہاں۔ جمیل نے لا پرواءی سے کہا۔
اماں کے ہیں۔ میں نے اٹھا کر چوکی تلے چھپا دیے تھے۔
اتنے پیڑے ایلی نے کبھی زندگی بھر نہ دیکھے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے چار ایک تو بڑے شوق سے کھاءے۔ پھر وہ اکتا گیا اس کا دل بیٹھنے لگا۔ وہ محسوس کرنے لگا کہ اس نے گناہ کیا ہے جرم کیا ہے۔ اتنے پیڑے خریدنا جرم نہیں تو اور کیا ہے۔ اس نے شدت سے محسوس کیا کہ چاند حلواءی کو معلوم تھا کہ وہ روپے اس نے چوکی تلے سے نکالے ہیں۔ وہ مسکرا رہا تھا۔ خاموش مگر چالاک مسکراہٹ اور ایلی جھینپ رہا تھا۔ نہیں۔ نہیں میں نہیں۔ میرے پاس تو ایک پیسہ بھی نہیں ہے۔
پیڑے کھانے کے بعد ایلی پر مجرمانہ خاموشی طاری ہو گءی اور وہ واپس چلے آءے۔ ٹھک ٹھک ٹھک، ایلی نے گھبرا کر پیچھے دیکھا۔ ہاءیں وہ گھبرا گیا۔ رضا لکڑی ٹیکتا اور لنگڑی ٹانگ گھماتا ہوا آرہا تھا۔ اس نے انہیں للکارا۔ کہاں سے آءے ہو تم۔ بک نہیں بے جمیل ہنسنے لگا۔ ایلی کا دل دھک دھک کر رہا تھا ضرور اس لنگڑے کو جمیل کی ماں نے بھیجا ہوگا۔ بے۔ رضا چلایا۔ اکیلے اکیلے پیڑے کھاتا ہے تو اور اسے کھلاتا ہے۔ ہوں۔ یہ پیڑے اکیلے ہضم نہیں ہوں گے۔ بتا دوں میں
جب وہ دونوں بڑی ڈیوڑھی کے پاس پہنچے تو جمیل کو دیکھ کر سب چلانے لگے۔ کیوں بھءی پیڑا۔ ایلی کا رنگ فق ہو گیا اس کے منہ سے بات نہ نکلتی تھی اور وہ سب شور مچاءے جا رہے تھے۔ رضا، ضیاء، بالا اور پھر کان پر ہاتھ رکھ کر چلایا۔ بازار بکیندی برفی۔ آہا بھاءی واہ وا۔ رضا نے لنگڑی ٹانگ کھا کر داد دینی شروع کی اور ان سب کی توجہ پیڑوں سے ہٹ کر بالے کے گانے کی طرف مبذول ہو گءی اور ایلی چپکے سے وہاں سے سرک آیا اور دادی اماں کی رضاءی میں چھپ کر پڑ رہا۔
چار ایک دن تو اس کے لیے گھر سے باہر نکلنا مشکل ہو گیا۔ لیکن چھپے رہا بھی تو ممکن نہ تھا۔ اس لیے اسے بہار نکلنا ہی پڑا اور اسے معلوم ہوا کہ رضا، ضیا، بالا اور ارجمند سبھی جمیل سے پیڑے کھاتے ہیں اور جمیل روز چوکی سرکا کر روپے نکال لاتا ہے۔ اور وہ سب اس راز سے واقف ہیں یہ جان کر اس کے دل سے وہ بوجھ اتر گیا اور وہ لڑکوں میں شامل ہو کر کھیلنے لگا۔

انکر اینڈی ماباؤں:

پھر اسے مدرسے میں داخل کر دیا گیا۔ مگر اس کا سکول محلے کے باقی لڑکوں کے سکول سے بہت دور تھا۔ محلے کے قریبی سکول والوں نے ایلی کو داخل کرنے سے انکار کر دیا ایک تو وہ پڑھاءی میں کمزور تھا دوسرے اس مدرسے میں جگہ نہ تھی۔ لیکن داخل ہونے کے بعد اسے اطمینان سا ہوگیا کیونکہ جلد ہی اسے معلوم ہو گیا کہ اس اسکول میں محلے کے چند ایک لڑکے تعلیم پا رہے تھے ان لڑکوں میں ارجمند سب سے زیادہ تیز تھا۔ ارجمند ڈاکٹر ذاکر کا بیٹا تھا وہ سب مل کر پانچ بھاءی تھے۔ سب اونچے لمبے دبلے پتلے بچپنا کا زیادہ تر زمانہ پانی پت میں بسر کر کے وہ پہلی بار علی پور آءے تھے۔ ان کے والد اب بھی پانی پت میں ڈاکٹر تھے۔ جہاں ڈسپنسری میں انہوں نے اپنی عمر کا زیادہ تر حصہ بسر کیا تھا۔
ارجمند بے حد لمبا تھا حالانکہ وہ ایلی کے ساتھ نویں جماعت کا طالب علم تھا۔ اس کے قدوقامت اور برتاو سے ایسا معلوم ہوتا تھا۔ جیسے وہ عرصہ دراز سے فارغ التحصیل ہو چکا ہو۔ پانی پت میں رہنے کی وجہ سے ارجمند فر فر اردو بولتا تھا۔ جہاں کوئی اجنبی آیا اس نے چار ایک خوبصورت فقرے چلا دیے۔
آیئے تشریف لائیے۔ فرمائیے۔ خاکسار کیا خدمت کر سکتا ہے۔ اور ادھر وہ گیا ادھر اناپ شناپ بولنا شروع کر دیا۔ ویسے تو ارجمند کو سیکنڑوں چیزیں یاد تھیں۔ اینکر اینڈی ماباوں۔ کیلے ریو، ریو پیتے ریور پریم سندیس، پریم ٹونا اور نہ جانے کیا کیا لیکن ایلی کو اس کی اینکر اینڈی ماباوں بہت پسند تھی۔ دیکھو ایلی۔ ارجمند چلاتا۔ انکر ایندی ماباوں کے لیے ریوریو پیٹے ریوریو، کیا سمجھے۔ اور ایلی حیران ہو کر اس کی طرف دیکھتا۔ ہم سمجھاتے ہیں مطلب ہے لڑکی پھنسانا کیا مشکل ہے کچھ مشکل نہیں۔ مصیبت یہ ہے کہ یہاں محلے داری ہے۔ اگر ڈسپنسری ہو تو یوں پھنستی ہے جیسے چٹکی بجتی ہے اور پھر ڈسپنسری پانی پت میں ہو تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو کیا بات ہے۔ آءی پھنسی، آءی پھنسی۔ خیر کچھ پروا نہیں۔ یہ دیکھو یہ ریشمیں رومال کا ہونا بے حد ضروری ہے۔ اسے کہتے ہیں۔ کیلے ریوریو۔ سمجھے کیا سمجھے۔ صرف ہونا ہی نہیں، طریقہ استعمال بھی جاننا چاہیے۔ ہاں۔ اور وہ رومال ہلا کر کہتا۔ لہٰذا ہم بتاءیں گے یہ دیکھو۔ اسے تھامنے کی مشق کرو پہلے یوں نہیں بلکہ یوں ہاتھ میں مرے ہوءے چوہے کی طرح نہ پڑا رہے بلکہ ہر چند منٹ کے بعد جنبش آءے۔ اب منہ پونچھو گرد جھاڑو۔ ذرا احتیاط سے جنبش کی خوبصورتی ہی میں سارا جادو ہے۔ کیا سمجھے۔ لیکن ٹھہرو یہ کیلے ریوریو ہی کافی نہیں۔ اس پر سینٹ یعنی خوشبو کا چھڑکنا لازمی ہے۔ یہ دیکھو شیشی چار آنے کی یہ شیشی، بیسیوں لڑکیوں کو پھنسانے کے لیے کافی ہے ہاں تو اس رومال سے گالوں کو سہلاو۔ بالوں کو جھاڑو گردن پر لٹکا لو۔ ہاتھ میں رکھو۔ لڑکی دور کھڑی ہے تو منہ پر جھٹکا دے کر یعنی سلام عرض کرتا ہوں اور یوں ہلایا تو اس کا مطلب ہے کہ اب آو بھی نا جان من اور یوں چھاتی پر پھینک لیا تو مطلب ہے ظالم سینے سے لگ جا اس کے استعمال کے لءی انداز ہیں۔ لیکن فی الحال یہی کافی ہے۔اس کے بعد یہ دیکھو۔ اس نے جیب سے ایک بانسری نکالی اور نچلا ہونٹ لٹکا کر اس میں پھونکیں مارنے لگا۔ یہ ہے پریم سندیس کہیں اندر بند کمرے میں بیٹھی ہے تو یہ چیز اسے منڈیر پر لے آءے گی اور آخر چیز یہ ہے پریم ٹونا۔ دیکھا۔ اس نے ایک چھوٹی سی کتاب جیب سے نکالی۔ اس میں سب کچھ لکھا ہے محبت کے خطوط، غزلیں، گیت ہر موقع کے لیے۔ مثلا یہ دیکھو۔ اور وہ گانے لگا۔ جب سے تم پر ہوا ہوں شیدا ناءٹ سلیپنگ چھوڑ دیا۔ بڑی لاجواب چیز ہے۔ سنتے ہی لڑکی ہنسی اور ہنسی تو سمجھو پھنسی اور یہ سب کچھ کیا ہے انکر اینڈی ماباوں۔
ایلی اس کی باتیں غور سے سن رہا تھا اور بے حد کمتر محسوس کر رہا تھا اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ لڑکی پھنسانے کا کیا مقصد ہے۔ آخر اتنے بڑے انکر اینڈی ماباوں کا کچھ تو مقصد ہوگا لڑکیاں نہیں۔ اسے تو مٹیار عورتیں اچھی لگتی تھیں۔ لڑکیاں خاصی لگتی تھیں۔ لیکن کوءی خاص اچھی نہ لگتی تھیں اور اچھی لگتی بھی تو بھی انہیں پھنسانے کا کیا مطلب۔ اچھی لگتی تھیں۔ نہیں اچھی لگتی تھیں تو نہیں اچھی لگتی تھیں۔ لیکن وہ ریشمی رومال اور بانسری اور پریم ٹونا پریم سندیس وہ سب کس لیے تھے۔ خانم کی بات تو اور تھی۔ وہ تو بہت اچھی تھی اور کا ہاتھ سے ایلی کو تھپکنا۔ منہ سہلانا۔ کتنا اچھا لگتا تھا۔ لیکن چھوٹی چھوٹی لڑکیاں۔ وہ تو شرم سے آنکھیں جھکا لیتی تھیں۔ دور سے دیکھ دیکھ کر مسکراتی تھیں خوامخواہ ہنسے جاتی تھیں۔ بےکار بے مصرف۔ اگر ارجمند کو لڑکیاں اچھی لگتی تھیں تو ٹھیک تھا۔ لیکن وہ سب گورکھ دھندہ۔ انکر اینڈی ماباوں کیا تھا۔ فضول ہو نہ ہو۔ ارجمند جانتا ہی کیا تھا۔ نہ تو اس نے خانم کو دیکھا تھا اور نہ کسی اور کو پانی پت کے ہسپتال میں مریضوں کے ساتھ رہنے سے کیا ہوتا ہے۔

ہکوری ڈکوڑی:

ایک روز ارجمند دوڑا دوڑا ایلی کے گھر آیا۔ اسے ادھر ادھر آو بھاگ کے آو بھاگ کے آو۔ آو ورنہ پچھتاو گے۔ ساری عمر پچھتاو گے۔ وہ ایلی کو اپنے گھر کی طرف گھسیٹنے لگا۔ تم بھی کیا یاد کرو گے کہ دوست نے ہکوری ڈکور نہیں دکھایا۔ چلے آو آج گھر میں کوءی نہیں ہے۔ وہ سب پیر جی کے یہاں گءے ہیں۔ آداب و نیاز کے لیے اور ہم رہ گءے ہیں یہاں ناز و انداز کے لیے۔
گھر پہنچ کر اس نے ایلی کو بند کھڑکی میں دھکیل کر کہا۔ اب یہاں بیٹھ جاو۔ چپ شور نہ مچانا کھڑکی کی ان درزوں سے دیکھو ہکوری ڈکور۔ اور وہ دونوں اکڑوں بیٹھ کر بند کھڑکیوں کی درزوں میں سے دیکھنے لگے۔ ایل کو کچھ بھی نظر نہ آتا تھا۔ مگر ارجمند برابر چلاءے جا رہا تھا۔ وہ سامنے بالکونی دکھاءی دیتی ہے نا۔ بس اسی میں کھیل ہوتا ہے ہکوری ڈکوری کا۔ سمجھے۔ آیا نظر۔۔۔نہیں ابھی نہیں انتظار کرو ابھی آئے گا۔
سامنے سبز رنگ کا جنگلہ صاف دکھاءی دے رہا تھا۔ اس کے اندر دو دروازے ایک کمرے میں کھلتے تھے۔ جنگلے سے نیچے محلے کا بازار تھا۔ سامنے دوکان پر عماد حلواءی دودھ کی کڑاہی صاف کر رہا تھا۔ ساتھ ہی حکیم صاحب مریضوں کے انتظار میں بیٹھے داڑھی سہلا رہے تھے۔ آہا۔ ارجمند نے چٹکی بجائی۔ وہ رہا۔ ایلی نے شوق سے جنگلے کی طرف دیکھا۔ جنگلے کے پچھلے کمرے میں ایک دھندلی سی شکل دکھاءی دی۔ ابھی ادھر آءیں گے سرکار۔ کچے دھاگے سے بندھی کھینچی چلی آئے گی سرکار مری۔
زن سے ایلی کے جسم میں بجلی سی دوڑ گئی۔ اس کے سر میں بھن بھن سا ہونے لگا جیسے دفعتا سر مکھیوں کے چھتے میں بدل گیا ہو۔ دل گھڑی کی طرح بجنے لگا۔ جنگلے کے پچھلے دروازے میں ایک عورت کھڑی تھی۔ اس نے جسم پر ایک تولیہ لپیٹ رکھا تھا۔ ایک طرف گلابی جسم پر سیاہ بال لٹک رہے تھے جنہیں وہ بنانے میں مصروف تھی۔ دو بازو بھرے بھرے سفید بازو۔ ایلی نے محسوس کیا جیسے اس کے ہاتھ بال بنانے کے بہانے اس کا منہ سہلا رہے ہوں۔ چھن چھن چھن جھنجھنا بجنے لگا ارجمند نہ جانے کیا کیا کہے جا رہا تھا۔
دفعتا بالوں کو جنبش ہوءی اور۔ اور۔ ایک بڑا سا چہرہ دکھاءی دینے لگا۔ چوڑا۔ چٹا سفید، دو مخروطی بانہیں لتکنے لگیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اونہوں۔ ارجمند چلایا۔ یہ تو دوسرا ایڈیشن ہے یہ نہیں بڑا والا ایڈیشن نہیں بالکل نہیں ہمیں تو چھوٹا والا ایڈیشن چاہیے چھوٹا والا چلو ایلی یہ سب غلط ہے۔ یہ ہکوری ڈکوری نہیں۔ یہ تو ہکورا ڈکورا ہے۔ چلو۔
ایلی کا جی نہ چاہتا تھا کہ وہاں سے ہٹے مگر ارجمند نے اس کا بازو کھینچ لیا اور اسے باہر لے گیا۔ سب غسل فرماتی ہیں۔ سب چھوٹا بڑا ساءز پھر غسل فرمانے کے بعد اس کمرے میں ضرور آتی ہیں۔ تولیہ لپیٹے، کچے دھاگے کا معجزہ ہے۔ بڑی چیز ہے کچا دھاگہ۔ لیکن یہ گھر کس کا ہے؟ ایلی نے پوچھا کیونکہ وہ گھر محلے سے باہر تھا اور ایلی کو معلوم نہ تھا کہ وہاں کون رہتا ہے۔ کسی کا بھی ہو۔ ارجمند نے کہا۔ ہمیں تو آم کھانے سے مطلب ہے پیڑ سے نہیں اور آم بھی وہ جو آم ہوں حلوہ کدو نہیں۔ سمجھے ہمارے پاس آو گے تو یونہی عیش کرائیں گے۔

ہم جولی ٹولی:

محلے میں ہر عمر کے لڑکے تھے اور عمرکے مطابق وہ ایک دوسرے سے ملتے جلتے تھے مثلا ایک تو جلیل یوسف اور رفیق کی ٹولی تھی جو عمر میں اس سے بڑے تھے۔ جلیل اس کی خالہ زاد بہن کا بیٹا تھا۔ رفیق اس کا ماموں زاداور لطیف خالہ زاد بھاءی۔ والد کی طرف سے اس کا قریبی رشتہ دار کوءی نہ تھا اور ہوتا بھی تو کیا تھا۔ علی احمد پرانے رشتہ داروں کو خوش رکھنے کی نسبت نءے رشتے پیدا کرنے کو ترجیح دیتے تھے۔
رفیق جمیل کا بڑا بھاءی تھا۔ لیکن وہ جمیل سے قطعی طور پر مختلف تھا۔ نہ تو اسے چوکی تلے روپے رکھنے کا شوق تھا نہ حلواءی سے پیڑے کھانے کا اور نہ ہی بھیڑ والی دوکان سے اٹھنی کاسودا خریدنے کا جمیل کی طرح نہ تو وہ شوخ تھا اور نہ دبلا پتلا۔ اس کے انداز میں ایک خاص قسم کا رکھ رکھاو تھا۔ جسم فربہی پر ماءل تھا۔طبیعت میں خاموشی اور مٹھاس نمایاں تھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ بے حد ملنسار تھا۔ ہمیشہ کوشش کرتا کہ لوگوں کے کام آءے۔ رفیق مزاج کا رنگین تھا۔ لیکن یہ رنگ ہلکا ہلکا تھا، مدھم مدھم سا، کبھی شوخی سے چمکا نہ تھا۔ نہ ہی اس کی طبیعت میں جرآت تھی کہ آگے بڑھ کر کچھ کہ سکے اس کے برعکس وہ ذہنی طور پر محسوس کءے جاتا اور اظہار کرنے کے وقت پیچھے ہٹ کر جھجک جاتا اس کے باوجود اس کے پاس انکر اینڈی ماباوں کا سب سامان مہیا رہتا تھا۔ جیب میں ایک آنے والی غزلوں کی کتاب ہاتھ میں خوشبودار ریشمی رومال اور آنکھوں میں چوری چوری دیکھنے اور جھجکنے والی آنکھیں۔
جلیل اس کے برعکس شان قلندری کا قاءل تھا۔ آنکھوں میں رندانہ جھلک تھی۔ انداز میں والہانہ پن تھا اور یوسف بیچارہ تو ان معاملات سے قطعی ناواقف تھا۔ سپاہیوں کے سکول ماسٹر کا بیٹا ہونے کی حیثیت سے وہ کءی ایک سال فوجی پلٹنوں میں رہا تھا اور نتیجتا بھاگنا، دوڑنا، کودنا، ہالٹ اور کوءک مارچ کے کھیلوں کو دنیا کی سب سے بڑی لذت سمجھتا تھا۔ اس کی طبیعت ڈر سے خالی تھی اور وہ کسی عظیم الشان کارنامے کا متلاشی تھا۔ رفیق کی طبیعت میں بھی کسی کارنامے کی جھلک تھی۔ لیکن اس کی خواہش سے ریشمی ملبوسات عطریات اور حناءی ہاتھوں کی بو آتی تھی۔ یہ تینوں لڑکے ایلی کے قریبی رشتہ دار تھے اور ایلی کا زیادہ وقت انہی کے پاس کٹتا تھا۔ لیکن وہ تینوں عمر میں ایلی سے بڑے تھے اور ایلی سے چھپ چھپ باتیں کرتے تھے۔ رفیق اور جلیل آپس میں رازدارانہ طور پر کچھ طے کرتے یوسف ایسی باتوں سے اکتا کر دیوار پر چڑھنے میں مصروف ہوجاتا اور ایلی ایک طرف کھڑا شدت سے محسوس کرتا کہ کاش وہ بھی ان کی باتوں میں شامل ہوتا۔
ارجمند کے گھر سے فارغ ہوکر ایلی رفیق اور جلیل کے یہاں چلا جاتا جہاں رفیق کے دوست اکٹھے ہوا کرتے تھے۔ جلیل کا گھر محلے میں نہ تھا۔ یہ بہت خوبی تھی۔ کیونکہ وہاں وہ محلے والوں کی نگاہوں سے دور جو چاہے کر سکتے تھے گھر میں جلیل کو ایک علیحدہ کمرہ ملا ہوا تھا۔ اس کمرے کی ایک کھڑکی گلی میں کھلتی تھی جس میں بوڑھی عورتیں چوکیوں پر بیٹھی رہتی تھیں۔ جب وہ وہاں سے سرکتیں تو جلیل اور رفیق چوری چوری باہر جھانکنے لگتے اور ان کا ریشمی رومال کھڑکی سے باہر لہرانے لگتا۔ جسے دیکھ کر ایک ایک لڑکی جھاڑو دینے کے بہانے باہر گلی میں نکل آتی اور باآواز بلند کسی چچی یا خالہ سے باتیں کرتے ہوءے خوامخواہ مسکراءے جاتی اور پھر دہلیز پر جھاڑو دیتے دیتے وہ آدھی سے زیادہ گلی صاف کردیتی۔ اس وقت جلیل کھڑکی میں بیٹھ کر عجیب سی آنکھوں سے مسکراتا اور رفیق بےتابانہ اٹھ بیٹھتا اور عالم اضطراب میں غزلوں کی کتاب سے کچھ گنگنانے لگتا۔
نہ جانے وہ لڑکی گلی میں جھاڑو کیوں دیا کرتی تھی اور باآواز بلند باتیں کیوں کیا کرتی تھی۔ اس کی آواز میں لوچ کیوں پیدا ہو جاتا تھا۔ اس کے انداز میں اس قدر شوخی کیوں تھی اور جلیل اس وقت ایسی آنکھیں کیوں بنا لیا کرتا تھا۔ جس میں بیک وقت مسکراہٹ بھی ہوتی اور وحشت بھی اور اس وقت رفیق کی آنکھوں میں بوندا باندی سی کیوں ہوا کرتی تھی؟
یہ تو ظاہر تھا کہ وہ سب کھیل لڑکی سے متعلق تھا مگر اس کا مقصد کیا تھا یہ باتیں ایلی کے لیے حیران کن ہونے کے باوجود بے حد دلچسپ تھیں۔ رفیق اور جلیل میں یہ عیب تھا کہ وہ ایلی کو بات سمجھانے کی بجاءے اس سے بات چھپانے کی کوشش کیا کرتے۔ اس لیے ایلی ان کے ہاں بیٹھا بیٹھا اکتا جاتا اور ان کو چھوڑ کر ارجمند کی طرف بھاگتا۔
ارجمند اسے دیکھ کر چلاتا۔ ایلی ایلی۔ چلو ایلی۔ بڑی ڈیوڑھی میں چلیں۔ اور وہ اپنا تمام تر انکر اینڈی ماباوں اٹھا کر ڈیوڑھی میں چلے جاتے جہاں چور راستہ بنا ہوا تھا لوگ آتے جاتے رہتے۔ارجمند وہاں کھڑے ہو کر بانسری بجاتا اور آتی جاتی لڑکی کی طرف دیکھ کر مسکراتا۔ مذاق کرتا اور وہ جھینپ کر مسکرا کر چلی جاتی۔ لاجواب چیز ہے ایلی۔ مگر ابھی نہیں کچھ سال کے بعد دیکھنا۔ وہ دیکھو ٹاٹ کے پیچھے۔ ارے تم تو اندھوں کی طرح کھڑے رہتے ہو۔ اور ایلی کا دل دھک دھک کرنے لگتا اگر کسی نے دیکھ لیا تو محلے کا بڑا بوڑھا ادھر سے گزرتا تو ایلی یوں کسی اڑتی ہوءی چڑیا کو دیکھنے لگ جاتا جیسے وہاں کھڑے ہونے کا مقصد صرف چڑیا دیکھنا ہو۔ ارجمند آنکھیں بند کر کے بانسری بجانے لگتا۔ محلے کے لوگ انہیں گھورتے۔ ارے لڑکو یہاں کیا کر رہے ہو۔ خوامخواہ راستہ نہ روکو۔ جاو اپنا کام کرو۔ یہ سن کر ایلی کو پسینہ آجاتا اور ارجمند چپکے سے جواب دیتا۔ اچھا صاحب ابھی چلے جاتے ہیں۔ ذرا انتظار کر رہے ہیں بھاءی صاحب کا۔ ارجمند کو بات ٹالنے میں کمال حاصل تھا۔
جلیل اور رفیق کے علاوہ محلے میں ایک اور ٹولی بھی تھی۔ اجمل، صفدر، اکرم، دین محمد اور غلام بخش کی۔۔۔۔۔یہ ٹولی محلے کے جوانوں کی تھی۔ وہ جلیل اور رفیق سے بھی الگ تھلگ رہتے تھے۔ جوانوں کے مشاغل تخلیءے میں ترتیب دیے جاتے تھے۔ وہ منظر عام پرکوءی ایسی حرکت سرزد نہ کرتے تھے جس پر محلے والیوں کو ان پر نکتہ چینی کا موقع ملے چونکہ محلے والیوں کو ان سے چڑ تھی۔ وہ چھوٹے بچوں کو پیار کرتیں لیکن جوں جوں وہ بڑا ہوتا جاتا توں توں وہ ان کی نظروں میں کھٹکتا۔ حتٰی کہ جوان ہو کر وہ مشکوک ہو جاتا اور اس کے ہر فعل پر محلے والیاں چونک کر دیکھتیں اور چہ مگویاں شروع کر تیں۔ اس ٹولی کا کوءی فرد جب باہرچوگان میں نکلتا تو محلے والیوں کی نگاہیں اس پر مرکوز ہو جاتیں جیسے وہ کوءی خطرناک ارادہ رکھتا ہو۔ محلے میں جوان ہونا جرم سمجھا جاتا تھااور جوانوں کو اس کا پورا احساس تھا۔ لیکن وہ مجبور تھے ان کا احتجاج دبا دبا رہتا اور ان کی بیشتر قوتیں بزرگوں کے خلاف احتجاج اور سازش کرنے میں صرف ہو جاتیں۔
اجمل دسویں جماعت پاس کر کے اب کالج میں پڑھتا تھا اور کبھی کبھی چھٹی پر محلے میں آجاتا تھا۔ اکرم، ارجمند کا بڑا بھاءی تھا اور وہ اتنا لمبا تھا کہ بڑی ڈیوڑھی کے علاوہ کسی دروازے سے جھکے بغیر گزر نہ سکتا تھا۔ وہ شملے میں نوکر تھا اور کبھی کبھار چھٹی لے کر محلے میں آیا کرتا تھا۔ دین محمد کی علی پور میں دکان تھی اور وہ دبلا پتلا ہونے کے باوجود بڑا معزز بنا پھرتا۔
صفدر کو دیکھ کر تو ایلی بڑا مایوس ہوا تھا کیا یہ وہی صفدر تھا جو دلی میں پارسی لڑکی سے محبت کیا کرتا تھا اور صبح شام پارسی تھیٹر میں رہا کرتا تھا۔ وہ تو بالکل سیدھا سادا نوجوان تھا۔ جس میں ذرا بھی پارسی جھلک نہ تھی۔ بہرحال اس میں ایک خوبی ضروری تھی۔ جب وہ کوءی تھیٹر کی دھن گنگناتا تو اس کی آنکھوں میں عجب بوندا باندی سی ہوتی گلابی گلابی بوندوں کی پھوار پڑتی۔ اس کی چوڑی کلاءی پر نیلے رنگ میں نہ جانے کیا کھدا تھا، جسے وہ اکثر دیکھتا اور پھر کسی خیال میں کھو جاتا۔ اس کی طبیعت بہت رنگین تھی۔ رفیق کی طرح دبی دبی رنگین نہیں بلکہ چھلکتی ہوءی رنگینی ابلتا ہوا جوش لیکن جسمانی طور پر اس پر جمود طاری رہتا تھا۔ جیسے وہ تھک ہار کر بیٹھ گیا ہو۔ غلام بخش کی آنکھیں اکثر چھتوں تلے کچھ ڈھونڈنے میں مصروف رہتی اور اس کی چھاتی تنی رہتی۔
کبھی کبھار محلے کی ان تینوں ٹولیوں کا میل بھی ہو جایا کرتا۔ سب سے بری ٹولی یعنی محلے کے جوان محلے کے نوجوانوں کو بلاتے چلو بھءی آج کرکٹ کا کھیل رہے گا۔ محلے کے نوجوان محلے کے لڑکوں کو مطلع کردیتے۔ کھیل کی خبر سن کر لڑکوں کی باچھیں کھل جاتیں اور وہ گیند بلا لے کر اور وکٹیں اٹھا کر قصبے سے باہر تالاب والے میدان کو چل پڑتے۔ پھر جب وہ میدان میں وکٹیں گاڑ کر سنٹر ناپ کر تیار ہوتے تو محلے کے جوان وہاں آپہنچتے ان کے آتے ہی نوجوانوں کی حکومت کا دور ختم ہو جاتا۔ رفیق اپنا خوشبو دار ریشمی رومال چپکے سے گردن سے ہٹا کر جیب میں ڈال لیتا اور ارجمند اپنا شوخ انداز ترک کر کے مودبانہ کھڑا ہوجاتا۔ صفدر اور اکرم آکر ایک نظر میدان پر ڈالتے۔ صفدر ہاتھ میں گیند اٹھاتا اور قمیض کی آستینیں چڑھاتے ہوءے ایک بار بازو پر کھدے ہوءے حروف کی طرف دیکھ کر سر جھٹکتا اور تھیٹر کی دھن گنگنانے لگتا۔ حافظ خدا تمھارا۔ اس وقت ایلی کی آنکھوں سے وہ میدان اوجھل ہو جاتا اور تھیٹرکے منظر پر ایک پارسی لڑکی آکھڑی ہوتی۔ اے دلربا میں ہوں فدا۔ صفدر کے مضبوط بازو اس کی جانب بڑھتے اور وہ جھینپتی۔
ایلی تم ادھر جاو سٹاپ کے پاس۔ ایلی چونک پڑتا۔ سنا تم نے۔ اکرم گردن جھکاءے چلاتا اور غلام بخش خاموش ہنسی ہنسنے لگتا۔ ایلی کو اس وقت معلوم ہوتا کہ وہ میدان میں کھڑا ہے۔ تھیٹر میں نہیں اور کھیل شروع ہونے والا ہے۔
آصفی لڑکے کرکٹ کھیلنے کے بہت شوقین تھے لڑکے تو محلے ہی میں گیند اور تختی سے کھیل لیاکرتے تھے۔ مگر جوان اور نوجوان صرف میدان میں جا کر گیند بیٹ سے کھیلتے تھے۔ صفدر گیند پھینکنے کا بے حد شوقین تھا اکرم لمبا ہونے کی وجہ سے بہت زور سے ہٹ لگاتا تھا اور غلام بخش صرف گیند روکنے کا مشاق تھا۔ اکثر میچ بھی ہوجاتے تھے۔ جس میں ایلی کا کام صرف کھلاڑیوں کی چیزوں کی رکھوالی کرنا ہوتا تھا۔ بہرحال اسے میچ میں شامل ہونے سے بڑی دلچپسی تھی۔

بالا:

ان دلچسپیوں کے علاوہ محلے میں ایک اور دلچسپی بھی تھی اور وہ بالا تھا جو بذات خود ایک ٹولی تھا۔ اپنے آپ میں اس قدر گم رہتا کہ اسے کسی کے ساتھ مل بیٹھنے کی خواہش ہی محسوس نہ ہوتی تھی۔ بالا ایلی کا ہم عمر تھا اور اس مکان میں رہتا تھا جو ایلی کے مکان کے عین سامنے واقع تھا۔ صبح سویرے ہی بالا اٹھ کر اپنے بہت بڑے تخت پوش پر چیزیں سجانا شروع کر دیتا۔ یہ گراموفون ہے یہ ریکارڈ ہیں۔ یہ منہ سے بجانے والا ہارمونیم ہے اور یہ تاش کی گڈیاں ایک دو تین۔
تخت پوش پر چیزیں سجانے کے بعد وہ ان کے درمیان بیٹھ جاتا اور پھر چیزوں کو بنانے سنوارنے اور ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر رکھنے میں مصروف ہو جاتا۔ یہ نیلم ہیں اور یہ زمرد، وہ اس دبیا میں ہونے چاہیں۔ وہ آپ ہی آپ گنگناتا رہتا۔ یہ ہاءیں۔ آج اس کا رنگ مدھم کیوں پڑ گیا۔ ہاں آج بدھ ہےء نا، بدھ، تت تت تت بدھ کو پکھراج کا رنگ زرد پڑ جاتا ہے اور لعل کا نکھرتا ہے۔ لعل کہاں ہے۔ آو بھاءی ایلی ہے۔ آجاو بھاءی ایلی یہاں میرے سر آنکھوں پر۔ ہی ہی ہی میں دیکھ رہا تھا کہ لعل کہاں ہے۔ پکھراج یوں چمک رہا ہوگا جیسے پالش کر رکھا ہو۔ یہ قیمتی پتھر حساب کے مطابق چمکتے اور پھیکے پڑتے ہیں۔ ہاں تو لعل کہاں ہے۔ ہی ہی ہی اٹھا کے لے جاتے ہیں۔ بڑا تنگ کرتے ہیں۔ بیچارے بڑے اچھے ہیں۔ ہی ہی ہی ابھی مجھے ڈیوڑھی میں ملا تھا ایک کہنے لگا۔ نیچے کنوءیں کے پاس ایک دیگ نیلم اور پکھراج کی بھری ہے۔ وہ تو سب کو پتہ ہے سبھی جانتے ہیں اور وہ روز ان دیگوں کو ادھر ادھر کرتے رہتے ہیں۔ رات بھر آوازیں آتی رہتی ہیں وہ انہیں ادھر ادھر کرنے میں ساری رات، ساری رات چھن چھن ہوتا رہتا ہے۔ قہقہے مارتے ہیں روتے ہیں چلاتے ہیں اچھا تاش کھیلو گے آو بھلا تمھیں جانکی باءی کا ریکارڈ سناءیں۔ بیاں موری مروڑی، ہی ہی بڑا ہی اچھا ہے۔ ہائیں یہ گردا، گرد پڑ جاءے تو ریکارڈ خراب ہو جاتےہیں۔ تت تت تت، ہی ہی لو سنو۔
ایلی بالے کو دیکھ کر حیران ہوتا تھا۔ اسے یہ چیزیں دیتا کون تھا۔ وہ کون تھے جو اس کے گھر میں رہا کرتے تھے اور اسے تنگ کرتے تھے اور اسے بالکل تنگ نہ کرتے تھے اور کنوءیں والے کمرے کے نیچے کیا بدا ہوا تھا اور وہ دیگیں کس کی تھیں۔
سارے محلے میں مشہور تھا کہ بالے کا گھر آسیب زدہ ہے اس لیے کہ ماءی عمدہ نے وہاں چلہ کاٹا تھا۔ اور جب وہ آخری رات اکیلی وہاں بیٹھی ہوئی تھی تو دو کٹے ہوئے بازو اس کے سامنے آگرے تھے اور پھر سارے کا سارا دھڑ دھم سے آگرا اور سر کھڑا ہو گیا اور پھر وہ بھاگی۔ ڈر کر بھاگی اور لوگوں کے دروازے کھٹکھٹانے لگی۔ اس کے پیچھے سے قہقہوں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ لوگوں نے ڈر کے مارے دروازے بند کر لیے۔ پھر عمدہ کی چیخیں سنائی دیں اور پھر خاموشی چھا گئی اور صبح عمدہ بے ہوش پڑی ملی اور اس کےگرد گندگی کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔
آصفی محلے میں کئی ایک مکانات اور مقامات کے متعلق ایسی ہی باتیں مشہور تھیں۔ چچی عظمت کے چوبارے کی کھڑکی آپ ہی آپ کھل جاتی تھی اور اس میں سے بے موسم کے میوے گرتے تھے۔ شیخاں کی حویلی کی سب سے اوپر والی منزل سے رات بھر آوازیں آتی تھیں۔ حسن دین کی ڈیوڑھی میں کوئی بزرگ رہتا تھا وہاں ہر جمعرات کو دیا جلایا جاتا تھا۔ ایلی کے گھر کا چوبارہ بھی آسیب زدہ تھا اور رحمت بی بی کے کوٹھے پر تو لوگوں نے آگ جلتی دیکھی تھی۔ محلے میں عمدہ کے علاوہ کئی اور لوگوں نے بھی وظائف پڑھے تھے اور وہ چلہ پورا کرنے میں کامیاب نہ ہوئے تھے۔

محلہ والیاں:

اس کے باوجود بچے آزادانہ ہر جگہ کھیلتے تھے اور محلے کی بوڑھی عورتیں انہیں گھورتی تھیں۔ کھیل کود کا وقت ہونا چاہیءے۔ ہر وقت اللہ مارا گیند بلا اور پھر ہروقت چیخ پکار اور اس پلید گیند کے چھینٹے ان لڑکوں کو تو اللہ ہی سمجھے۔ دیکھو تو کیا حال بنا رکھا ہے۔ دوسری کھڑکی سے جھانکتی۔ ٹھیک ہے بہن کیا زمانہ آیا ہے۔ بڑے بات کریں تو یہ منہ چڑاتے ہیں۔ تیسری بولتی۔ اب تو زمانہ ہی بدل گیا ہے نہ بڑے کا خوف نہ بوڑھے کا لحاظ۔ بچے انہیں دیکھ کر بھاگ جاتے اور وہ وہاں کھڑی گھنٹوں نءے زمانے پر لیکچر دیتی رہیتیں اور چھپے ہوءے لڑکے ان کا منہ چڑاتے۔ ہوں بڑی آئی ہیں!
محلے کی بوڑھیاں محلے کے نوجوانوں، بچوں اور بوڑھوں پر آکاش بیل کی طرح چھائی ہوئی تھیں حتٰی کہ محلے کے تمام مرد بھی ان سے دبتے تھے۔

بوڑھی چڑیل:

لڑکے سب سے زیادہ ایلی کی دادی سے ڈرتے تھے کیونکہ وہ ہر بات پر انہیں ڈانٹتی تھی۔ ایک بار بات شروع کرتی تو پھر مسلسل لیکچر دیے جاتی۔ حتٰی کہ اس کے منہ سے کف جاری ہو جاتے۔ اس کی آواز سن کر سب بھاگ لیتے تھے اور پھر کسی تنگ گلی میں چھپ کر اس کا منہ چڑاتے۔ نوجوان اسے چڑیل سمجھتے تھے۔ جوانوں میں صفدر کو تو اس کے نام سے وحشت ہوتی تھی۔ مجھ سے تو بیر ہے اس بڑھیا کو خوامخواہ ہر بات میں میرا نام گھسیٹ لیتی ہے۔
ایلی کی دادی کو محلے کے لڑکوں سے سب سے بڑی شکایت یہ تھی کہ وہ اس کی دیوار کے ساتھ گیند کھیلتے تھے۔ جس سے دیوار کمزور ہوءی جا رہی تھی۔ اس پر صفدر کو اتنا غصہ آتا تھا کہ وہ گھر بیٹھ کر بڑے اہتمام اور محنت سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔پوٹاش کا ایک اتنا بڑا پٹاخہ تیار کرتا تاکہ تہوار کے دن دادی اماں کی دیوار پر مارے۔ پٹاخہ چھوٹتے ہی زناٹے کی آواز آتی اور دادی اماں کھڑکی میں جا کھڑی ہوتی۔ اے ہے جوانوں کے سر پرتو بھوت سوار ہے۔ خون چڑھا ہوا ہے۔ یہ تو محلے کو تباہ کر کے رہیں گے۔
دادی اماں کو چیختے سن کر صفدر کو عجیب سی روحانی مسرت حاصل ہوتی وہ اطمینان سے گانے لگتا۔ اے دلربا میں ہو جدا۔ ان تمام باتوں کے باوجود ایلی کو یقین نہ آیا کہ دادی اماں سخت مزاج ہیں حالانکہ جب بھی وہ گھر جاتا تو دادی دور سے اسے دیکھ کر برس پڑتی۔ بس تو اب کہیں کا نہ رہا۔ ان محلے کے لڑکوں میں کھیل کر تو بھی بگڑ گیا۔ لیکن ایلی اس کی جھڑکیوں کی پروا نہ کرتا اور اس کے کندھوں پر سوار ہو جاتا تو وہ اور تنگ آکر کہتی۔ کتنی دیر سے بیٹھی انتظار کر رہی ہوں کہ تو آءے تو مچھلی کھاءے۔ صبح سے تیرے لیے پکا کر بیٹھی تیری راہ تک رہی ہوں۔ یہ کہ کر وہ کڑاہی کا ڈھکنا اٹھاتی۔ کڑاہی چھوٹی چھوٹی مچھلیوں سے بھری ہوتی۔ ایلی کو چھوٹی مچھلیاں کھانے کا بہت شوق تھا۔ وہ کڑاہی اٹھا کر بھاگ جاتا اور دادی پھر اسے کوسنے دینے لگتی اور چور چوری منہ پر پلہ لے کر مسکاتی، بڑا شیطان ہو گیا ہے نکما کہیں کا۔
دادی اماں کے ساتھ ایلی کی پھوپھی زاد بہن سیدہ رہا کرتی تھی، جو ہر وقت دادی کے پاس بیتھی رہتی اور دادی اماں کے کام کیا کرتی تھی۔ سیدہ کو دیکھ کر ایلی حیران ہوتا کہ وہ نوجوان ہونے کے باوجود دادی اماں کی طرح سر لٹکاءے بیٹھی رہتی ہے۔ شادی ہوجانے کے باوجود اپنے میاں کے پاس کیوں نہیں رہتی اور اس کی شکل اتنی غم آلود کیوں ہے اور اس کے میاں کہاں رہتے ہیں اور وہ وہاں آتے کیوں نہیں؟
سیدہ کو دیکھ کر ایلی سوچ میں پڑ جاتا۔ لیکن اسے سیدہ سے یہ باتیں پوچھنے کی کبھی جرات نہ ہوتی تھی۔ ادھر اونچے چوبارے میں سیدہ کی بہن نیاز اپنے تینوں بچوں کے ساتھ رہتی۔ اس کی حالت سیدہ سے بھی بدتر تھی۔ یا تو وہ چپ چاپ پڑی رہتی اور یا اٹھتی تو نماز پڑھنے کھڑی ہو جاتی۔ محلے کی بہت سی عورتیں اسی طرح رہتی تھیں جیسے پیپ سے بھرے پھوڑے ہوں جیسے ان کے دل دکھتے دکھتے پھوڑے بن چکے ہوں۔ اس کی اپنی ماں تو ان سب سے مختلف تھی۔ وہ دن بھر بیسیوں ہی کام کیا کرتی تھی۔ کبھی کپڑے سیتی کبھی گوٹا لگاتی۔ کبھی بچوں کے لیے گڑیا بنانے لگتی۔ کبھی کسی دولہا کے لیے عروسی پگڑی تیار کرتی اور ایلی کو پتنگ اڑا کر بھی تو وہی دیتی تھی۔ ایلی کو پتنگ اڑانا نہیں آتا تھا۔ ہاجرہ اسے خود پتنگ بنا کر دیا کرتی تھی۔ اس کی کتابوں پر خود ہی جلد چڑھایا کرتی تھی۔ ہاجرہ کو دنیا بھر کے سب کام کرنے آتے تھے نہ جانے اس نے اتنے سارے کام کہاں سے سیکھ رکھے تھے۔

طوفانا:

ابھی وہ محلے کی زندگی سے پورے طور پر محظوظ نہ ہونے پایا تھا کہ ایک روز علی احمد اور صفیہ آگءے۔ دادی اماں انہیں دیکھ کر چلاءی۔ علی احمد تو۔ ہاں۔ انہوں نے لاپرواہی سے کہا۔ یہ بیمار ہے۔ ہاجرہ نے دونوں ہاتھ سینے پر رکھ لیے۔ اللہ خیر کرے۔ کون بیمار ہے۔ کہیں صفیہ تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صفیہ کے آنے پر سارا محلہ ان کے گھر جمع ہو گیا۔
اے کیا ہوا صفیہ کو؟
لو خوامخواہ۔ اچھی بھلی تو ہے صفیہ۔
کیوں صفیہ کیا بات ہے۔ کون سی تکلیف ہو گئی تجھے؟
صفیہ کا رنگ زرد ہو چکا تھا اور وہ پلنگ پر پڑی کھانستی رہتی تھی۔
آرام آجائے گا۔ تو خوامخواہ فکر کرتی ہے۔
ایلی نے صفیہ کو دیکھا۔ اس کے ہاتھ کی مہندی بالکل اڑ چکی تھی۔ انگوٹھیاں اور بھی میلی ہو گءی تھیں۔ مگر اس کا جسم ویسے کا ویسا تھا۔ ماتھے پر شکن اسی طرح پڑی تھی۔ ایلی کو یقین نہ آتا تھا کہ وہ بیمار ہے۔ وہ اس کے قریب جاتے ہوءے ڈرتا تھا کہ کہیں ایک دم سے اس پر جھپٹ نہ پڑے۔۔۔۔اگر وہ بیمار تھی تو اسکی تیوری کیوں چڑھی۔ بیمار تو نہیں گھورا کرتے۔ نہیں نہیں صفیہ بیمار نہیں اس نے اپنے دل میں فیصلہ کر لیا۔
اس کے باوجود صفیہ بیمار تھی اور لوگ روزانہ اس کی عیادت کے لیے ان کے گھر آیا کرتے تھے۔ وہ چپ چاپ چارپاءی پر پڑی رہتی اور چھت کی طرف دیکھتی رہتی۔ اے ہے تو کس فکر میں پڑی ہے۔ لڑکی۔ محلے والیاں اسے پیار سے گھورتیں۔ انشاءاللہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ذرا پرہیز کا خیال رکھ اور بس۔!
لیکن ان باتوں کے باوجود صفیہ کا چھت کو گھورنا نہ گیا۔ سارا دن وہ چھت کو گھورتی رہتی اور ہاجرہ اس کی چارپاءی کے گرد یوں گھومتی رہتی۔ جیسے ہاجرہ شہنشاہ بابر ہو اور صفیہ اس کا بیمار بیٹا ہمایوں۔
پھر شام کے وقت جب گرمی بڑھ جاتی تو ہاجرہ صفیہ کو سہارا دیتی اور وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوءی اسے اسے کوٹھے پر لے جاتی تاکہ کھلی ہوا میں سو سکے۔ ایک رات جب وہ سب کوٹھے پر سو رہے تھے تو آندھی چلنے لگی۔ بوندا باندی ہونے گلی۔ ہاجرہ کا خیال تھا کہ جلد ہی آندھی تھم جاءے گی۔ اس لیے وہ صفیہ کو اٹھا کر برساتی میں لے گءی تاکہ اسے نیچے گرمی میں تکلیف نہ ہو۔ یہ آندھی ایک عام آندھی تھی۔ آندھیاں اکثر آیا کرتی تھیں۔ چند ایک منٹ کے لیے تیز ہوا چلتی بادل گرجتا چھینٹے پڑتے اور پھر مطلع صاف ہو جاتا۔ علی احمد سیدہ اور دادی اماں کے نیچے چلے جانے کے بعد وہ آندھی طوفانی صورت اختیار کر گءی۔ ہاجرہ گھبرا گءی۔ ہاجرہ کے لیے دو چھوٹے چھوٹے بچوں کی مدد سے صفیہ کو نیچے لے جانا مشکل تھا۔ طوفان اور بھی تیز ہوتا گیا۔ ہوا مکانوں اور دکانوں سے ٹکرا ٹکرا کر یوں چیخنے لگی، جیسے جنگل میں شیر دھاڑتا ہے۔ آسمان پر سیاہ رنگ کی گھٹا چھا گءی۔ بجلی کی کڑک سے کان پھٹے جا رہے تھے۔ ایلی اور فرحت جاگ پڑے۔ وہ دونوں ڈر کر رونے لگے۔ اماں، اماں، اماں۔ ادھر مریضہ کراہ رہی تھی۔ برساتی میں دو کھلے محراب تھے، جب پر پٹ نہیں لگے ہوءے تھے۔ ان محرابوں میں ہوا چھنگھاڑ رہی تھی۔ ہاجرہ نے چلا چلا کر علی احمد، دادی اماں اور سیدہ کو آوازیں دیں، لیکن طوفان کی شدت کے ساتھ مریضہ کی حالت بگڑتی جارہی تھی۔ہاجرہ گھبراہٹ میں ادھر ادھر دیکھتی رہی۔ مریضہ کراہ رہی تھی۔ بچے رو رہے تھے۔ ہوا سے محفوظ رکھنے کے لیے اس نے چارپاءی مریضہ کے گرد کھڑی کردیں اور ایلی اور فرحت سے کہا کہ انہیں تھامے رکھیں مگر ہوا کے جھونکوں نے چارپایوں کو اٹھا کر پھینک دیا۔ دونوں بچے چارپاءیوں کے ساتھ دیوار سے ٹکراءے۔ بچے ڈر کر چیخیں مارنے لگے۔ پھر دفعتا ان کی نگاہ مریضہ پر جا پڑی۔ مریضہ دیوانوں کی طرح سر چلا رہی تھی۔ اس کا سر اور آنکھیں گھڑی کے پنڈولم کی طرح ہل رہی تھیں۔ آنکھیں پتھراءی جا رہی تھیں۔ دم اکھڑ رہا تھا۔ ہاجرہ گھبرا گءی۔روتے ہوءے بچے سہم گءے۔ بادوباراں کے اس طوفان کی نسبت وہ طوفان جومریضہ کے سینے اور آنکھوں میں چلتا ہوا محسوس ہوتا تھا، کہیں زیادہ بھیانک تھا۔ ان کی توجہ بیرونی طوفان سے ہٹ کر صفیہ کی طرف مبذول ہوگءی۔ میں جاتی ہوں۔ میں کسی کو بلاتی ہوں۔ ہاجرہ گھبرا کر چلاءی۔ صفیہ کا سر انکار میں اور بھی شدت سے ہلنے لگا۔ پھر ایک ساعت کے لیے صفیہ کا سر تھم گیا۔ اس کی آنکھوں کی وہ بھیانک مردنی کم ہوگءی۔ اس نے ہونٹوں پر زبان پھیری۔ صفیہ نے ہاجرہ کا ہاتھ تھام لیا۔ میں میں نے تیری قدر نہ کی۔ اس کی نگاہ میں بے بسی کی ایک عجیب جھلک تھی۔ چند ساعت کے لیے اس نےاپنی نگاہیں ہاجرہ پر جمائے رکھیں پھر اس کی آنکھ سے ایک موٹا سا آنسو ڈھلک آیا اور گال سے پھسل کر بالوں میں کھو گیا۔ پھر اس کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی اور بازو گر کر لٹکنے لگا اور سر ہمیشہ کے لیے ساکت ہو گیا۔ “ اماں “ ایلی نے چیخ ماری۔ ہاجرہ نے سر پیٹ لیا “ صفیہ، صفیہ۔“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک فقیر:

طوفان تھم چکا تھا۔ نیچے بڑے کمرے میں پلنگ پر صفیہ کی لاش پڑی تھی اور اس کے گرد محلہ والیاں بیٹھی باتوں میں مشغول تھیں۔ صفیہ کا جسم چادر سے ڈھکا ہوا تھا۔ لیکن اس کا جونڈہ صاف دکھائی دے رہا تھا۔ ایلی نے دو ایک بار صفیہ کی طرف دیکھا، اسے ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ موت کا بہانہ کر کے پڑی ہو۔ جیسے ابھی جاگ اٹھے گی۔ کہے گی “ ایلی بازار سے دودھ لا دو۔ ہاجرہ تو میری بیماری کا بہانہ کر کے آرام سے بیٹھی ہے۔ چل اٹھ برتن صاف کر چل اٹھ۔“ لاش میں جنبش ہوئی۔ ایلی کا دل ڈوب گیا۔ صفیہ کا جونڈہ کھل کر لٹکنے لگا۔ محلہ والیوں نے با آواز بلند کلمہ پڑھنا شروع کر دیا۔ ایلی چیخ مار کر بھاگا۔ “ دادی اماں، دادی اماں - “ دادی نے اسے تھام لیا۔ “ تو کیوں بیٹھا ہے۔ یہاں ادھر آ میں تجھے سلا دوں۔“ دادی اماں نے اسے بازو سے کھنچتے ہوئے کہا۔
صفیہ کی موت پر ہاجرہ کئی دن تک روتی رہی۔ رہ رہ کر صفیہ کا وہ فقرہ یاد آتا تھا۔ “ میں نے تمہاری قدر نہ کی۔“ اس وقت اس کی آنکھوں میں فخر بھری چمک لہراتی اور گالوں پر آنسو بہنے لگتے۔ برسوں کی خدمت گزاری اور عشق کے بدلے اسے ایک فقرہ ملا تھا۔ “ میں نے تمہاری قدر نہ کی۔“ ہاجرہ اس فقرے کو تمغے کی طرح سینے پر لگائی پھرتی تھی۔ اس ایک فقرے کی وجہ سے برتری میں بدل گیا تھا۔ وہ اس ایک فقرے کی خاطر ایک بار پھر عمر بھر کسی خدمت گزاری میں بسر کر سکتی تھی۔
صفیہ کی موت سے علی احمد کے گھر روزمرہ میں کوئی خاص فرق نہ آیا۔ ایلی اسی طرح ارجمند سے انکر اینڈی ماباؤں کی تفصیلات سمجھتا رہا۔ اگرچہ عملی طور پر ان تفصیلات کا کوئی نتیجہ ظاہر نہ ہوا۔ کبھی کبھار کھڑکی کی درز سے وہ ہکوری ڈکوری کے مختلف سائز دیکھتا رہا۔ محلے کے جوانوں کے ساتھ کرکٹ کے میدان میں جاتا رہا۔ جلیل اور رفیق کے ساتھ قاضی دروازے کے پاس اس تنگ گلی میں جھاڑو دینے والی کی شوخیوں کو بغور دیکھتا اور دادا اماں کے ساتھ لپٹ کر سوتا رہا۔
ہاجرہ اسی طرح سارا دن باورچی خانے میں برتن مانجھتی۔ کھانا پکاتی اور علی احمد کی چلمیں بھرتی رہی اور فرحت حسبِ معمول گھر کے کام کرنے کے علاوہ سہیلیوں کے گھروں کے چکر لگاتی رہتی اور دادی اماں اسی طرح گھٹنوں میں سر دیئے چولہے کے پاس بیٹھی رہی اور اس کے پاس سیدہ خاموشی سے تنکوں سے زمین کریدتی رہی اور علی احمد وہ پھٹی ہوئی میلی دھوتی باندھے ڈیسک کے رجسٹر میں لکھتے رہے اور محلے کی چمگادڑیں رات کو احاطے پر چیخ چیخ کر منڈلاتی رہیں۔ بچے کھیلتے رہے۔ بوڑھیاں انہیں گھورتی رہیں اور محلے کے بوڑھے نماز ادا کرنے کے بعد کھانستے ہوئے سر لٹکائے گھروں کے دروازے کھٹکھٹاتے رہے اور صفدر دادی اماں کی دیوار پر پھینکنے کے لیے منچھل پوٹاش کے پٹاخے تیار کرتے ہوئے گنگناتا رہا۔ “ حافظ خدا تمہارا۔ اے دلربا ہوں میں فدا۔“

سارہ صبورہ:

پھر ایک دن علی احمد کے یہاں مہمان آ گئے۔
“ ہاں یہی مکان تو ہے۔“
“ تم آگے چلی جاؤ۔ گھبرانے کی کیا بات ہے۔ اے ہے تمہارا اپنا محلہ ہے۔“ چاچی حاجاں کی آواز آئی۔
“ کون آیا ہے۔ چاچی؟ ماں جیواں بولی۔
“ اپنے علی احمد کے مہمان آئے ہیں۔“
“ کون مہمان آئے ہیں۔ چاچی کن کے گھر آئے ہیں؟“
“ مہمان آئے ہیں۔“ دادی اماں نے سر اٹھا کر دیکھا۔ “ دیکھ تو لڑکی کون مہمان آئے ہیں۔ شام کوٹ سے تو نہیں آئے۔“
“ کون آیا ہے؟“ علی احمد قلم ڈیسک پر رکھتے ہوئے بولے اور پھر حسبِ عادت جلدی سے قمیض پہننے لگے۔ ہاجرہ باورچی خانے سے نکل کر چپ چاپ دروازے میں آ کھڑی ہوئی۔ اس کی آنکھیں ابھی سے پرتم ہر رہی تھیں کہ شاید مہمانوں کے آتے ہی صفیہ کی موت پر اظہار افسوس کرنا پڑے۔ شاید وہ آئے ہی اسی غرض سے ہوں۔ ایلی سہم کر کھڑا ہو گیا۔ فرحت اپنا ڈوپٹہ سنمبھالنے لگی۔ سب سیڑھیوں کی طرف دیکھ رہے تھے۔ سیڑھیوں سے ہلکے ہلکے قہقہوں کی آوازیں سنائی دیں۔ کوئی ہنس رہی تھی۔ جیسے سکول کی لڑکیاں ہنستی ہیں۔ ایک کہہ رہی تھی۔ “ تم چلو آپا۔ چلو بھی نا۔“ دوسری بولی “ تو خوامخواہ جھینپتی ہے۔“ پھر کوئی سریلی آواز میں ہنس پڑی جیسے گھنٹیاں بج رہی ہوں۔
“ اے ہے کون ہے؟“ دادی اماں بولی۔ “ آ جاؤ نا اوپر۔“
“ سلام کہتی ہوں۔“ وہ دونوں دروازے میں آ کھڑی ہوئیں۔ “ فرحت کہاں ہے؟“
“ ہائے “ فرحت چلائی۔ “ یہ تو سارہ صبورہ ہیں۔“ اور بھاگ کر ان سے لپٹ گئی۔ “ کون ہیں۔ دادی اماں؟“ احاطے سے عورتوں نے پوچھنا شروع کر دیا۔
“ کون آیا ہے؟“
“ لڑکیاں ہیں۔“ دادی کھڑکی میں جا کھڑی ہوئی۔ “ اپنی فرحت سے ملنے آئی ہیں۔“
“ اپنی بچیاں ہیں، اللہ عمر دراز کرئے۔“
“ بڑی دور سے آئی ہیں۔ خیر سے۔“
“ ہاں چاچی سہیلیاں جو ہوئیں۔“
“ اچھا کیا جو ملنے آ گئیں۔“
“ کیا نام ہیں لڑکیوں کے؟“
چند ایک ساعت میں محلہ بھر میں یہ خبر پہنچ چکی تھی۔ جیسے تالاب میں پتھر پھینکتے ہی چھوٹی چھوٹی لہریں چاروں طرف پھیل جاتی ہیں۔
دیر تک محلے میں وہ لہریں ناچتی ہریں پھر سکون طاری ہو گیا۔ لیکن علی احمد کے گھر میں ایک دبا دبا طوفان اُبھر رہا تھا۔ ادھر بڑے کمرے میں ہاجرہ، فرحت، سارہ، صبورہ بیٹھی باتیں کر رہی تھیں۔ کمرے سے ہلکے لطیف قہقہے سنائی دے رہے تھے۔ ایسے رنگین قہقہے جو محلے کے کسی گھر سے کبھی سنائی نہ دیئے تھے۔ باہر دادی اماں چولہے پر گھٹنوں میں سر دیئے بیٹھی تھی اور اس کے پاس سیدہ سر ہاتھوں میں تھامے تیل سے بھری کڑاہی کو حسرت ناک نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔ اندر علی احمد قمیص پہنے بار بار چور نگاہوں سے جھانکتے اور پھر حقے کی کش لینا شروع کر دیتے اور کھانستے۔ پھر وہ ایک دم اضطراب سے آواز دیتے۔ “ ایلی کی ماں حقہ بھر دو۔“ پھر قلم اٹھا کر لکھنے کی کوشش کرتے اور پھر کھانسنے لگتے۔ “ ایلی کی ماں کون آئی ہیں؟ لڑکیاں ہیں؟ اچھا تو دوراہے سے آئی ہیں۔ دوراہے میں یہ لوگ رہتے کہاں ہیں؟ پھاٹک والے محلے میں۔ اچھا وہ جو سبز کھڑکیوں والا مکان تھا وہاں ------ ہوں تو اپنے قاضی اظہر حسین کی بیٹیاں ہیں۔ لو تم نے پہلے کیوں نہ بتایا۔ وہ تو بالکل اپنے ہی ہیں۔ ہی ہی ہی۔ جب ہم دورائے دورے پر جایا کرتے تھے تو قاضی اظہر ہی کے گھر رہا کرتے تھے۔ بڑے اچھے تعلقات تھے قاضی جی سے ہی ہی ہی ہی۔“ ان کی باتوں کے دوران دادی اماں ان کی قمیض کو گھور گھور کر دیکھتی اور موہوم آہیں بھرتی۔ ایلی بھی ان کی قمیض کر طرف دیکھ رہا تھا۔ کسی کے آنے پر وہ قمیص ضرور پہنا کرتے تھے۔ مگر جلد ہی مطمئن ہو کر اتار بھی دیتے تھے اور پھر اپنے کام میں لگ جایا کرتے تھے۔ لیکن نہ جانے سارہ صبورہ کے آنے پر انہوں نے قمیض اتاری کیوں نہ تھی۔ پھر کچھ دیر کے بعد وہ چلم اٹھائے خود باہر چولہے کی طرف آ رہے تھے۔ وہ تو چلم بھرنے کے لیے ایلی یا کسی اور کو آواز دیا کرتے تھے۔
“ ہی ہی ہی۔“ وہ ہنسنے لگے اور با آواز بلند بولے “ اپنے قاضی اظہر کی بیٹیاں ہیں۔ ایک مرتبہ ہم قاضی صاحب سے ملنے گئے۔ ہی ہی ہی ہی۔“ یہ کہتے ہوئے وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور اس کمرے کی طرف چل دیئے جس میں لڑکیاں بیٹھی تھیں۔ “ قاضی صاحب بڑے تپاک سے ملے۔ وہ سبز کھڑکیوں والا مکان تھا نا پھاٹک محلے میں۔“ وہ اندر گھس گئے۔ “ اچھا تو تم بڑی لڑکی ہو ان کی۔ ہی ہی ہی۔ سارہ ہو۔ تم فرحت کی ہم جماعت ہو۔ اور یہ صبورہ ہے۔ ہی ہی ہی۔“
باہر چولہے کے پاس دادی اماں چمٹے سے زمیں کرید رہی تھی۔ اس کا ہاتھ کانپ رہا تھا۔ سیدہ کی آنکھوں میں چمک لہرا رہی تھی اور وہ حسرت ناک نگاہوں سے تیل کی کڑاہی کو گھورنے کی بجائے غور سے اس تنکے کا جائزہ لے رہی تھی جو چولہے کے ساتھ چمٹا ہوا تھا۔ وہ آہستہ آہستہ کان سے دوپٹہ سرکائے جا رہی تھی۔
“ ہی ہی ہی۔ آؤ نا۔ ادھر۔ اس طرف۔ اس کمرے میں، اچھا قاضی صاحب کا اب کیا حال ہے؟ ایلی بھئی بھاگ کر جا اور لے آ کچھ بوتلیں اور کچھ ------ ادھر آؤ نا سارہ ------ انہیں لے آؤ ایلی کی ماں ------ ہی ہی ہی۔ بہت ہی بھلے آدمی تھے ان کے ابا۔ ہمارے دوست تھے۔ ہی ہی ہی۔“
ہاجرہ مسکرا رہی تھی۔ مگر اس کی مسکراہٹ میں بلا کا اضطراب تھا اور فرحت کے ماتھے پر بل پڑ رہے تھے۔ علی احمد کی مسلسل ہی ہی ہی کی آواز آ رہی تھی۔ دادی کا ہاتھ کانپے چلا جا رہا تھا۔ اور سیدہ کا کان بالکل ننگا ہو چکا تھا۔
شام کو ارجمند نے آواز دی ------ “ آیا “ ایلی چلایا۔ لیکن نہ جانے کیوں ارجمند ایلی کا انتظار کرنے کے بجائے چپ چاپ اوپر آ گیا۔ حالانکہ وہ عام طور پر ایلی کے گھر آنے سے گریز کیا کرتا تھا۔ “ دادی اماں سلام۔ ایلی گھر ہے کیا؟“ اس نے چوری چوری دالان کی طرف دیکھا جہاں سارہ اور صبورہ بیٹھی تھیں اور پھر دروازے سے باہر اس مقام پر کھڑا ہو گیا جہاں دالان میں بیٹھی ہوئی لڑکیاں اسے اچھی طرح دیکھ سکتی تھیں۔ اس نے جیب سے ریشمیں رومال نکالا اور اسے گردن پر پھیرنے لگا پھر وہ ایک انداز سے کھڑا ہو گیا۔ “بیٹھ جا۔“ دادی اماں بولی “ نہیں دادی اماں میں ٹھیک ہوں۔“ ارجمند نے چوری چوری کمرے میں جھانکھتے ہوئے کہا اور پھر آواز نکالے بغیر کوئی شعر گنگنانے لگا۔ ایلی سامنے حیران کھڑا تھا۔ کیونکہ ارجمند جان بوجھ کر اس کی طرف دیکھنے سے گریز کر رہا تھا۔ کچھ دیر تو ایلی دیکھتا رہا پھر چپکے سے اس کے قریب آ کھڑا ہوا۔ اسے یوں قریب دیکھ کر ارجمند بولا، “ ایلی وہ کتاب تمہارے پاس ہے نا؟“
“ کونسی کیسی کتاب؟“ ایلی نے پوچھا۔
“ بھئی وہی۔“ وہ با آواز بلند بولا۔“ جو ماسٹر صاحب کل پڑھا رہے تھے۔ کیا نام ہے اس کا۔“ وہ پھر دبی دبی آواز میں ایلی سے کہنے لگا۔ واہ واہ کیا چیزیں ہیں۔ کیا ہکوری ڈکوری ہیں۔ ہاں بھئی تو وہ کتاب ہے جس میں سے آج سوال کرنے ہیں۔“ پھر وہ دادی اماں کو سنانے کے لیے چلایا۔ “ بڑا والا نہیں چھوٹا والا ایڈیشن وہ گلابی گلابی سی۔“ اس نے اندر دالان کی طرف اشارہ کیا۔ “ کیا چیز ہے واہ۔“ ------ ایلی کی کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ دادی اماں ارجمند کو گھور رہی تھی۔ اس کے ریشمیں رومال کو گھور رہی تھی۔ دفعتاً اس نے دادی اماں کی کڑی نگاہوں کو محسوس کیا۔ “ اچھا۔“ وہ بولا “ ذرا ہمارے گھر آؤ نا ایلی۔ وہ چھوٹی گلابی گلابی۔ چھوٹا والا ایڈیشن۔ آؤ گے نا۔“ اس نے اندر دالان کی طرف دیکھا۔ “ میں انتظار کروں گا۔ ہائے کیا چیز ہے۔“ اور وہ چلا گیا۔
ارجمند کے جانے کے بعد رفیق آ گیا۔ اس کی نگاہیں یوں مطمئن تھیں، جیسے کچھ خبر ہی نہ ہو۔ “ پھوپھی کہاں ہے؟“ اس نے زیرِ لب کہا “ شاید ادھر ہو۔“ وہ اپنے آپ ہی بولا اور دالان میں داخل ہو گیا۔ پھر وہ ٹھٹھکا “ اوہ۔ مجھے تو پتہ ہی نہ تھا۔“ اس نے گویا دیوار سے مخاطب ہو کر معذرت کی اور واپس جانے لگا۔ “ رفیق ہے۔“ ہاجرہ نے آواز دی۔ وہ رک گیا۔ ایک سرسری مگر بھیگی نظر سارہ اور صبورہ پر ڈالی، ایک ہلکی سی آہ بھری۔“ وہ کہا تھا نا پھوپھی نے سودا لانا ہے۔ تو میں آ گیا۔ خیر خیر۔“ اس کی آنکھوں میں گلابی چھینٹے اڑ رہے تھے۔

ہائے اللہ:

ہی ہی ہی۔ اندر علی احمد ہنس رہے تھے۔ “ وہ بات بتانا تو میں بھول ہی گیا۔“ کہتے ہوئے وہ چلم اٹھائے چلے آئے اور چولہے کے قریب جانے کی بجائے سیدھے دالان میں گھس گئے۔ “ ہی ہی ہی جب ہم سب قاضی صاحب کے مکان پر گئے تھے۔ ہی ہی ہی ادھر آؤ نا سارہ صبورہ تمہیں بات سنائیں۔ اس کمرے میں آؤ‌ نا۔ تم شرماتی کیوں ہو۔ یہ تمہارا اپنا ہی گھر ہے۔ ہی ہی ہی۔ قاضی صاحب کے گھر کو تو ہم اپنا ہی گھر سمجھا کرتے تھے۔ تم کیوں شرماتی ہو۔ آ جاؤ، آ جاؤ۔“
وہ کھڑے ہنسے جا رہے تھے۔ دادی اماں کا ہاتھ کانپ رہا تھا۔ سیدہ کا دوپٹہ کان سے گرتا جا رہا تھا۔
“بھئی فرحت یہ تمہارے کہنے کے بغیر نہیں آئیں گی۔ ٹھیک تو ہے۔ بھئی یہ آراب طور طریقے کیسے چھوڑیں۔ جب تک میزبان خود نہ کہے کیسے آئیں اور بھئ فرحت تو ان کی میزبان ٹھہری۔ کیوں فرحت یہی بات ہے نا ہی ہی ہی۔ آخر بڑے گھرانے کی لڑکیاں ہیں۔ بہت بڑا گھرانا ہے ان کا۔ کون نہیں جانتا ان کے گھرانے کو دوراہے میں۔ اچھا تو فرحت تم انہیں ساتھ لے آؤ۔ ادھر ہی ہی۔“ وہ اپنے کمرے کی طرف چل دیئے۔
رات پڑ چکی تھی۔ لیکن ہاجرہ ابھی باورچی خانے میں بیٹھی انتظار کر رہی تھی کہ علی احمد کھانا کھا لیں تو وہ فارغ ہو۔ صبورہ فرحت کے ساتھ گپیں مارنے میں مشغول تھی۔ دادی اماں جائے نماز پر بیٹھی تھی۔ سیدہ بستر میں لیٹی ہوئی تھی۔ ایلی دادی اماں کی چارپائی پر اوندھا پڑا نہ جانے کیا سوچ رہا تھا۔ علی احمد اپنے کمرے میں سارہ کو وہ قصہ سنا رہے تھے، جب وہ قاضی صاحب سے پہلی مرتبہ ملے تھے۔
“ ہی ہی ہی اور قاضی صاحب نے سمجھا۔ یہاں قریب ہو کر سنو نا۔ انہوں نے سمجھا کہ ہی ہی ہی اندھیرے میں نہ جانے کون ہے۔ ہی ہی ہی۔ ہاتھ چلانے شروع کر دیئے یوں۔ یوں ہی ہی ہی۔“ ہلکی سی باریک ہنسی کی آواز سنائی دی۔ “ ہی ہی ہی “ علی احمد بے تحاشا ہنسے چلے جا رہے تھے۔ ان کے کمرے میں نہ جانے کیا گڈ مڈ ہو رہا تھا۔ جیسے واقعی قاضی صاحب پکڑ دھکڑ کر رہے ہوں۔ ہنسی کی ہلکی آواز آئی پھر بند ہو گئی۔ “ ہی ہی ہی “ بھاری آواز بھی بند ہو گئی۔ کچھ دیر خاموشی طاری رہی۔ پھر دفعتاً ہائے اللہ کی آواز آئی اور پھر علی احمد کے کمرے پر موت کی سی خاموشی چھا گئی۔
جائے نماز پر بیٹھے ہوئے دعا مانگتے مانگتے دادی اماں کے ہاتھ لرزے جیسے دفعتاً اسے تشنج کا عارضہ ہو گیا ہو پھر وہ دھپ سے سجدے میں گر گئی۔ سیدہ نے آہ بھر کر رضائی منہ پر لے لی۔ مشین پر کپڑا سیتے سیتے ہاجرہ کا ہاتھ کانپا اور دستہ مشین کی چرخی سے باہر نکل آیا اور ہاجرہ پھٹی بھٹی نگاہوں سے صبورہ اور فرحت کی طرف دیکھنے لگی۔ فرحت نے ماں کی طرف دیکھا۔ اس کا رنگ زرد پڑ گیا۔ لیکن صبورہ اسی طرح خوشی سے چلاتی رہی ہنستی رہی پھر دفعتاً اس نے محسوس کیا۔ جیسے کچھ ہو گیا ہو اور وہ خاموش ہو گئی۔
ایلی نے سر اٹھایا۔ چاروں طرف گھبرا کر دیکھا۔ نہ جانے کیا ہو گیا تھا۔ جیسے بہت کچھ ہو گیا تھا۔ اس کے دل پر ایک بوجھ سا پڑ گیا۔

کچھ بھی تو نہیں:

چواؤں - ٹھک علی احمد کے کمرے کا دروازہ بند ہو گیا۔ تمام گھر پر بھیانک سکوت طاری تھا۔ موت کا سکوت، موت، ایلی کانپ گیا۔ اس کی نگاہوں کے سامنے صفیہ آ گئی۔ جیسے وہ اس روز چارپائی پر پڑی دم توڑ رہی تھی۔ ایلی نے محسوس کیا کہ علی احمد کے ساتھ سارہ کمرے میں اسی طرح سر پٹک رہی تھی۔ ادھر سے ادھر۔ ادھر سے ادھر۔ آنکھیں پتھرائے جا رہی تھیں۔ ڈر کی وجہ سے اس کی چیخ نکل گئی۔ دادی اماں اچک کر اس کے پاس آ گئی۔ “ کیا ہے دادی اماں۔“ وہ زیر لب گنگنایا۔“ کچھ نہیں ایلی۔“ دادی اماں نے کہا “ کچھ بھی تو نہیں۔ سو جاؤ۔“ اور وہ اسے کانپتے ہوئے ہاتھ سے تھپکنے لگی۔
اگلے روز جب ایلی بیدار ہوا تو اس نے محسوس کیا کہ گھر پر وہی بھیانک خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ اس صبح وہ تمام دنیا کے خلاف غصہ محسوس کر رہا تھا۔ وہ کمرہ غلاظت سے بھرا تھا۔ وہ گھر وہ محلہ وہ شہر سب گندگی سے بھرے تھے۔ اس نے محسوس کیا کہ محلے والے سبھی اندھے تھے۔ اندھے اور اپاہج۔ ایلی کا جی چاہتا تھا کہ وہ گھر وہ محلہ وہ شہر چھوڑ کر کہیں چلا جائے جہاں غلاظت نہ ہو جہاں گندگی نہ ہو جہاں بھیانک خاموشی نہ چھائی ہو۔ اس کی نگاہ دادی اماں پر جا پڑی جو چپ چاپ گھٹنوں میں سر دیئے بیٹھی تھی۔
اس نے پہلی مرتبہ دادی اماں پر غصہ محسوس کیا۔ کیا وہ گھٹنوں میں سر دیئے اور سجدے کرنے کے علاوہ اور کچھ نہ کر سکتی تھی۔ ویسے محلے کے لڑکوں کے خلاف تو اس کی زبان قینچی کی طرح چلتی تھی۔ جب صفدر اس کے مکان کی دیوار پر پٹاخہ چلاتا تو اس وقت وہ کیوں چیختی تھی۔ “ اے ہے مکان کی دیواریں ہل گئی ہیں۔“ اب کیا مکان کی دیواریں نہیں ہل رہی تھیں۔ پھر وہ یوں چپ کیوں بیٹھی تھی اور فرحت کے پاس بیٹھی ہوئی وہ بھیگی بلی سارہ جھکی جھکی نگاہوں سے گھر والوں کو ٹٹول رہی تھی۔ اور صبورہ یوں چپ چاپ بیٹھی تھی جیسے کچھ کھو گیا ہو۔ ایلی نے پہلی مرتبہ سارہ کی طرف نگاہ بھر کر دیکھا۔ بھیگی بلی کیسی چور نگاہوں سے دیکھتی تھی۔ اسے واضح طور پر معلوم نہ تھا کہ وہ اسے بری کیوں لگ رہی ہے۔ لیکن وہ اسے بری لگ رہی تھی۔
ادھر سے ابا کے حقے کی گڑگڑاہٹ سنکر اس نے منہ بنایا۔ بڑے علی احمد بنے پھرتے ہیں۔ ہی ہی ہی۔ فضول دانت نکالتے رہنا۔ باہر دادی اماں بیٹھی بار بار دالان کی طرف دیکھ کر آہیں بھر رہی تھی۔ اور سیدہ چپ چاپ بیٹھی آلو چھیل رہی تھی۔ ہاجرہ تو خیر برتن دھونے کے سوا کچھ کر ہی نہ سکتی تھی۔ ایلی دل ہی دل میں بل کھاتا رہا۔ اگرچہ اسے معلوم نہ تھا کہ وہ کیوں بل کھا رہا ہے۔
پھر گھر میں یہ دستور ہو گیا۔ علی احمد سارا دن اپنے کمرے میں بیٹھے رہتے۔ اگرچہ دن میں چار ایک مرتبہ خود حقے کی چلم اٹھا کر دالان کی طرف چلے آتے۔ حالانکہ انہوں نے کبھی خود چلم نہ بھری تھی اور پھر ہاجرہ کے کمرے میں جھانکتے۔ “ ہی ہی ہی کیا ہو رہا ہے بھئی۔“
“سارہ صبورہ گپیں چل رہی ہیں۔ خوب خوب۔ صبورہ کو گپیں بڑی پسند ہیں۔“
دن میں دو ایک بار ارجمند آ جاتا۔ “ ایلی ایلی بھئی وہ سوال چھٹی مشق کا پندرواں سوال وہ کیسے ہو گا۔ اپن سے تو نہیں ہوتا۔ بھئی واہ آج تو صندلی پیراہن زیبِ تن ہے۔ یہ آج معلوم ہوا کہ چاہ غب غب صندلی پیراہن پر کیا بہار دیتا ہے۔“
رفیق آ کر پوچھتا “ پھوپھی آج مچھلی بہت سستی بک رہی ہے۔ کیا خریدو گی؟“ اور چھپ چھپ کر اندر جھانکتا آہیں بھرتا۔
رات پڑتی تو علی احمد آتے۔ “ ہی ہی ہی صبورہ سو گئی کیا ابھی نہیں سوئی ------ یہی عمر تو ہے گپیں ہانکنے کی ہی ہی ہی ہی اور سارہ۔ سارہ تو دیر تک جاگنے کی عادی ہے۔ کیوں سارا۔ اچھا بھئی۔“
یہ کہہ کر وہ باہر نکل آتے۔ اور پھر دالان سے آواز دیتے۔ “ فرحت کی ماں صبورہ سو جائے تو مجھے آج کا حساب لکھوا دینا۔ اور۔ اور۔“ اور وہ عجیب سے ہنسنے لگتے۔
اس پر ہاجرہ کہتی “ ہائے لڑکیو اتنی دیر ہو گئی ہے اب سو جاؤ۔“ اور فرحت فوراً لیٹ کر کہتی۔ “ بھئی ہم تو اب سوتے ہیں۔ نیند آ گئی۔ آؤ صبورہ تم بھی سو جاؤ۔“ اور وہ زبردستی صبورہ کو لٹا لیتی اور پھر آنکھیں بند کر کے یوں پڑ جاتی جیسے نہ جانے کب کی سوئی ہوئی ہو۔
سارہ چپ چاپ اپنی چارپائی پر چلی جاتی مگر وہ لیٹتی نہ تھی۔ ایک طرف چپ چاپ بیٹھ رہتی۔ اس پر ہاجرہ محسوس کرتی۔ جیسے کمرے میں گھٹن پھیل رہی ہو اور وہ کھسیانی ہنسی ہنس کر کوئی بات چھیڑنے کی کوشش کرتی مگر سارہ چپ چاپ بیٹھی رہتی۔
پھر جب صبورہ سو جاتی تو علی احمد کی آواز آتی “ فرحت کی ماں آج کا حساب تو لکھوا دو آ کر۔ صبورہ سو گئی ہے نا۔“
علی احمد کی آواز سن کر دادی اماں کا سر ہلنے لگتا اور وہ رکوع کے بغیر ہی سجدے میں گر جاتی۔ ادھر سارہ کنکھیوں سے ہاجرہ کی طرف دیکھتی۔ ہاجرہ اٹھ بیٹھتی اور سارہ چپ چاپ اس کے پیچھے چل پڑتی۔ جب وہ صحن سے گزرتیں تو سیدہ اپنا منہ رضائی میں لپیٹ لیتی۔ ایلی گھبرا کر اٹھ بیٹھتا لیکن دادی اماں نماز پڑھتے ہوئے ہاتھ بڑھا کر اسے تھپکنے لگتی۔ پھر کچھ دیر کے بعد ہاجرہ ان کے کمرے میں جھانکتی۔ “ سو گیا؟“ ایلی کو جاگتے دیکھ کر گھبرا کر بات بدل لیتی اور ہاجرہ کے جانے کے بعد گھر پر ہنگامہ خیز سکوت چھا جاتا۔
پھر ایک رات جب صبورہ اور فرحت حسبِ معمول باتیں کرتے کرتے لیٹ گئی تھیں اور سارہ دوپٹہ اوڑھے یوں صبورہ کی چارپائی کو کونے پر بیٹھی تھی جیسے اسے ابھی اٹھ کر کہیں جانا ہو اور ہاجرہ منتظر کھڑی تھی کہ کب آواز پڑے اور وہ سارہ کو راستہ دکھا کر اپنے فرض سے فارغ ہو جائے کہ دفعتاً علی احمد کی آواز سنائی دی۔ جیسے وہ بالکل ہی بدلی ہوئی ہو۔ “ صبورہ جاگ رہی ہے۔“ انہوں نے سرتال میں کہا۔
صبورہ ! ہاجرہ کے ہونٹ ہلے۔ اس نے حیرت سے چھوٹی سی بچی کی طرف دیکھا۔ جس نے ابھی عنفوانِ شباب میں قدم رکھا ہی تھا۔
صبورہ ! سیدہ کی آنکھیں یوں کھلی کی کھلی رہ گئیں جیسے دفعتاً بینائی سے محروم ہو گئی ہو۔
دادی نے صبورہ کا نام سنا تو اس نے پہلی ہی رکعت میں سلام پھیر دیا۔
“ کس نے بلایا ہے مجھے؟“ صبورہ اٹھ بیٹھی “ مجھے بلایا ہے مجھے؟ چچا نے بلایا ہے۔“ اس کی آنکھوں میں عجیب سی چمک لہرائی “ مجھے بلایا ہے۔ مجھے۔“ اور وہ شور مچاتی چلاتی ہوئی بولی “ آ تو رہی ہوں میں۔“ اور پھر آپ ہی آپ علی احمد کے کمرے کی طرف چل پڑی۔ یہ دیکھ کر سارہ بیٹھی بیٹھی چارپائی پر ڈھیر ہو گئی۔ جیسے کوئی گٹھڑی گر کر اوندھی سی ہو گئی ہو اور فرحت نے منہ موڑ کر اوپر کمبل لے لیا اور ہاجرہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھتی رہی۔
چراؤں ٹھک دروازہ بند ہو گیا۔ گھر پر سناٹا چھا گیا۔ ایلی نے دانت پیس کر رضائی پر گھونسہ مارا۔ اس روز دادی اماں اسے تھپکنا بھول گئی۔ اس نے یہ بھی نہ کہا “ سو جا ایلی۔ کچھ بھی نہیں۔ کچھ بھی تو نہیں۔“

لو لیٹر:

اگلے روز ایلی ارجمند کے گھر بیٹھا تھا اور ارجمند اسے سمجھا رہا تھا “ بڑی والی کو نہیں چھوٹی والی کو۔ وہ جو گلابی گلابی سی ہے۔“ “ اچھا“ ایلی نے سمجھے بغیر کچھ کہنے کی غرض سے کہا۔ ارجمند نے زیر لب کہا “ سب بڑی والیاں بے کار ہوتی ہیں۔ ان سے عشق نہیں ہو سکتا۔ اور اس لیے انہیں لو لیٹر نہیں لکھا جا سکتا اور اگر لکھو بھی تو بیکار ہے۔ پوچھو کیوں؟ اس لیے کہ ان کا دل دھک دھک نہیں کر سکتا اور دل دھک دھک نہ کرئے تو پھر عشق کیونکر ہو سکتا ہے۔ سمجھے کیا سمجھے۔ تو جان من لو لیٹر چھوٹی والی کو لکھا جائے ہکوری ڈکوری کو۔“
“ لو لیٹر۔“ ایلی نے ہونٹوں پر زبان پھیری۔
“ ہاں۔“ ارجمند چلایا۔ “ بالکل موزوں ہے عمر اس کی لولیٹر کے لیے اور اگر ہم نے لو لیٹر نہ لکھا تو وہ خفا ہوجائے گی کہ لو لیٹر بھی نہ لکھا مجھے بڑے عاشق بنے پھرتے تھے اور اس کا دل دکھے گا۔ سمجھے۔“
لیکن ایلی گھبرا رہا تھا۔ “ اگر اس نے علی احمد سے کہہ دیا تو۔“ “انہوں“ ارجمند بولا “ تم انہیں نہیں جانتے۔“ ارجمند اسے سمجھانے لگا “ انکر اینڈی ماباؤں لو لیٹر کے سہارے جیتی ہیں۔ جب تک لو لیٹر نہ پڑھ لیں طبیعت کو چین نہیں پڑتا۔ تازہ موصول نہ ہو تو پرانے پڑھ پڑھ کر وقت کاٹتی ہیں۔ ان کے ٹرنک لو لیٹروں سے بھرے ہوتے ہیں اور چاہے کوئی لکھ دے انہیں۔ پڑھتی ضرور ہیں اور پھر کیا مجال جو کسی کو بتائیں۔ انہوں بالکل نہیں بتاتیں۔“
“ بالکل نہیں۔“
“ انہیں کیا ضرورت ہے۔“
“ تو پھر۔“ ایلی نے پوچھا۔
“ پھر کیا۔ پھر پھر، اڑ اور ایک لو لیٹر۔“ ارجمند بولا۔
“ اچھا۔“ ایلی نے تھوک نگلنے کی بیکار کوشش کی۔ “ کس چیز سے لکھیں۔ میں بتاؤں آنسوؤں سے لکھیں۔“
“ مگر آنسو آئیں گے کہاں سے۔ ہم تو بھئی ہنسنے کے قائل ہیں۔ رونے کے نہیں۔ البتہ خون سے لکھنا آسان رہے گا۔“
“ وہ کیسے؟“
“ پن چھبو لیں گے کیا؟“
“ تکلیف نہ ہو گی کیا؟“
“ واہ اس میں‌ کیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے لڑکیاں خون پسند نہیں کرتیں۔ اس لیے سیاہی سے لکھ دو۔“
“ اچھا لیکن لکھیں کیا؟“ ایلی نے پوچھا “ یہ مسئلہ تو چٹکی بجانے میں حل ہو جائے گا ہاں۔“
ارجمند نے کہا “ یہ اتنے پریم شاستر پڑے ہیں۔ ان میں سے چن لو۔“ ارجمند نے کشمیری بازار کی چھپی ہوئی چار ورقی کتابوں کا ایلی کے سامنے ڈھیر لگا دیا۔
سارا دن وہ خط کا مضمون چھانٹتے رہے۔ آخر شام کے چار بجے کے قریب خط مکمل ہو گیا۔ اس میں زیادہ تر شعر لکھے ہوئے تھے۔ “ مائی ڈیرئی لکھوں، میری جان لکھوں یا دلربا لکھوں۔ اے جانِ من میں تم کو القاب کیا لکھوں۔“ یہ شعر تو القاب کی حثیت رکھتا تھا۔ نفسِ مضمون کا شعر یہ تھا “ اس حسن ترے کی بیوٹی نے مرے جینٹل ہارٹ کو توڑ دیا۔ جب سے تم پر ہوا ہوں شیدا نائٹ سلیپنگ چھوڑ دیا۔“ اس شعر کے چناؤ میں بڑی لے دے ہوئی تھی مگر ارجمند نے صاف اعلان کر دیا تھا کہ اگر یہ شعر نہ لکھا گیا تو لیٹر ادھورا رہ جائے گا۔ کیونکہ سکول کی لڑکیاں صرف انہی شعروں کو پسند کرتی ہیں۔ جن میں انگریزی کی چاشنی ہو ورنہ وہ اپنا لو لیٹر کسی سہیلی کو بھی نہیں دکھا سکتیں کہ وہ یہ نہ سمجھ لے کہ اسے کسی گنوار نے لو لیٹر لکھا ہے۔
ارجمند کی بات معقول تھی اور نہ بھی ہوتی تو بھی ایلی لکھنے پر مجبور تھا کیونکہ اسے تو لو لیٹر کے متعلق علم ہی نہ تھا۔ وہ یہ نہ جانتا تھا کہ لو لیٹر لکھنے سے ہو گا کیا۔ شام تک لو لیٹر تو مکمل ہو گیا لیکن اسے صبورہ تک پہنچانا بڑا مشکل مرحلہ تھا۔ ایلی کا دل دھڑک رہا تھا۔ اس کی قمیض کی وہ جیب جلتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔ جس میں اس نے لو لیٹر رکھا ہوا تھا۔ ارجمند نے کہا تھا “ اس کی جیب میں ڈال دینا اور جیب میں نہ ڈال سکو تو اسے دور سے دکھانا۔ دیکھ کر وہ بے قرار ہو جائے گی اور خود ہی منت کر کے مانگ لے گی۔“
دوسری تجویز ایلی کے لیے قطعی طور پر ناقابل قبول تھی۔ دکھانا بڑی جرات کا کام تھا۔ البتہ چوری چوری اس کی جیب میں رکھنا شاید ممکن ہو۔ لیکن دقت یہ تھی کہ اس کی قمیض میں جیب نہ تھی۔ عجیب قمیض پہنتی تھی۔ وہ اس نے پہلی مرتبہ دیکھا کہ اس کی قمیض شروع سے لیکر آخر تک انوکھی تھی۔ جابجا چنٹین پڑی ہوئی تھیں۔ کہیں کھلی کہیں تنگ کہیں کچھ کہیں کچھ ایسی قمیض تو محلہ بھر میں کسی کی نہ تھی۔
پھر جب دونوں بہنیں بیٹھی باتیں کر رہی تھیں تو دفعتاً اسے لو لیٹر کا خیال آیا اور پسینہ آ گیا۔ دل دھڑکنے لگا لیکن ہمت کر کے اس نے وہ رقعہ اس کے جوتے میں ڈال دیا۔ جلدی میں اسے یہ بھی معلوم نہ ہو سکا کہ وہ جوتا کس کا تھا۔ سارہ کا یا صبورہ کا۔
اگلے دن وہ علی احمد کے روبرو سر لٹکائے کھڑا تھا۔ “بول“ وہ کہہ رہے تھے “ سچ سچ بتا دے۔“ اور سارہ ان کے قریب کھڑی مسکرا رہی تھی “ بتا “ وہ گرج رہے تھے “ ہوں تو تمہیں نے شرارت کی ہے شرم نہیں آتی۔“
“ شرم نہیں آتی شرم نہیں آتی۔“ چاروں طرف سے آوازیں آ رہی تھیں۔ غصے بھری آوازیں۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ وہ دیوانہ وار چلانے لگے۔ شرم نہیں آتی اور علی احمد کے سامنے تن کر کھڑا ہو جائے شرم نہیں آتی۔ ہی ہی ہی ہی اور باہر نکل جائے اس مکان سے دور۔ اس شہر سے دور۔
“ دفع ہو جاؤ ہماری نظروں سے دور ہو جاؤ۔“ علی احمد گرجے اور ایلی چپ چاپ آ کر چارپائی پر پڑ گیا۔
تمام گھر میں چاروں طرف شور مچا ہوا تھا۔
ہی ہی ہی ہی۔ شرم نہیں آتی۔
قاضی صاحب تو سمجھ لو ہمارے بھائی تھے۔ ذرا قریب ہو جاؤ نا۔ شرم نہیں آتی۔
شرم نہیں آتی۔ شرم نہیں آتی۔ محلے کے کوئے چلا رہے تھے۔
چراؤں، ٹھک، علی احمد کا دروازہ بند ہوتے ہوئے کراہ رہا تھا۔ شرم نہیں آتی۔
غصے میں بھنا کر ایلی نے سر اٹھایا۔ اس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔ منہ سوجھا ہوا تھا۔ کنپٹیاں تھرک رہی تھیں۔ “ شرم نہیں آتی۔“ وہ باآوازِ بلند چلایا لیکن گھیں گھیں کے علاوہ اس کے منہ سے کچھ نہ نکل سکا۔ بے بسی اور لاچاری کی وجہ سے اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔