صفحات

تلاش کریں

تلخیاں (ازساحرؔ لدھیانوی)


تنگ آ چکے ہیں کشمکش زندگی سے ہم
ٹھکرا نہ دیں جہاں کو کہیں بے دلی سے ہم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رد عمل

چند کلیاں نشاط کی چن کر
مدتوں محوِ یاس رہتا ہوں
تیرا ملنا خوشی کی بات سہی
تجھ سے مل کر اداس رہتا ہوں

۔۔۔۔۔۔۔۔


ایک منظر

افق کے دریچے سے کرنوں نے جھانکا
فضا تن گئی راستے مسکرائے

سمٹنے لگی نرم کہرے کی چادر!
جواں شاخساروں نے گھونگھٹ اٹھائے

پرندوں کی آواز سے کھیت چونکے
پراسرار لَے میں رہٹ گنگنائے

حسیں شبنم آلود پگڈنڈیوں سے
لپٹنے لگے سبز پیڑوں کے سائے

وہ دور ایک ٹیلے پہ آنچل سا جھلکا
تصور میں لاکھوں دیئے جھلملائے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ایک واقعہ

اندھیاری رات کے آنگن میں یہ صبح کے قدموں کی آہٹ
یہ بھیگی بھیگی سرد ہوا یہ ہلکی ہلکی دھندلاہٹ

گاڑی میں ہوں تنہا محو سفر اور نیند نہیں ہے آنکھوں میں
بھولے بسرے ارمانوں کے خوابوں کی زمیں ہے آنکھوں میں

اگلے دن ہاتھ ہلاتے ہیں پچھلی پیتیں یاد آتی ہیں
گم گشتہ خوشیاں آنکھوں میں آنسو بن کر لہراتی ہیں

سینے کے ویراں گوشوں میں ایک ٹھیس سی کروٹ لیتی ہے
ناکام امنگیں روتی ہیں، امید سہارے دیتی ہے

وہ راہیں ذہن میں گھومتی ہیں جن راہوں سے آج آیا ہوں
کتنی امید سے پہنچا تھا، کتنی مایوسی لایا ہوں!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


یکسوئی

عہدِ گم گشتہ کی تصویر دکھاتی کیوں ہو؟
ایک آوارۂ منزل کو ستاتی کیوں ہو؟

وہ حسیں عہد جو شرمندۂ ایفا نہ ہوا
اس حسیں عہد کا مفہوم جتاتی کیوں ہو

زندگی شعلۂ بے باک بنا لو اپنی!
خود کو خاکسترِ خاموش بناتی کیوں ہو

میں تصوّف کے مراحل کا نہیں ہوں قائل
میری تصویر پہ تم پھول چڑھاتی کیوں ہو؟

کون کہتا ہے کہ آہیں ہیں مصائب کا علاج
جان کو اپنی عبث روگ لگاتی کیوں ہو؟

ایک سرکش سے محبت کی تمنّا رکھ کر
خود کو آئین کے پھندوں میں پھنساتی کیوں ہو

میں سمجھتا ہوں تقدّس کو تمدّن کا فریب!
تم رسومات کو ایمان بناتی کیوں ہو؟

جب تمہیں مجھ سے زیادہ ہے زمانے کا خیال
پھر مری یاد میں یوں اشک بہاتی کیوں ہو؟

تم میں ہمّت ہے تو دنیا سے بغاوت کر دو
ورنہ ماں باپ جہاں کہتے ہیں شادی کر لو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



غزل

محبت ترک کی میں نے گریباں سی لیا میں نے
زمانے اب تو خوش ہو زہر یہ بھی پی لیا میں نے

ابھی زندہ ہوں لیکن سوچتا رہتا ہوں خلوت میں
کہ اب تک کس تمنا کے سہارے جی لیا میں نے

انہیں اپنا نہیں سکتا، مگر اتنا بھی کیا کم ہے
کہ کچھ مدت حسیں خوابوں میں کھو کر جی لیا میں نے

بس اب تو دامنِ دل چھوڑ دو بیکار امیدو!
بہت دکھ سہہ لیے میں نے بہت دن جی لیا میں نے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


شاہکار

مصور میں ترا شہکار واپس کرنے آیا ہوں



اب ان رنگین رخساروں میں تھوڑی زردیاں بھر دے
حجاب آلود نظروں میں ذرا بے باکیاں بھر دے

لبوں کی بھیگی بھیگی سلوٹوں کو مضمحل کر دے
نمایاں رنگِ پیشانی پہ عکس سوزِ دل کر دے

تبسم آفریں چہرے میں کچھ سنجیدہ پن بھر دے
جواں سینے کی مخروطی اٹھانیں سرنگوں کر دے

گھنے بالوں کو کم کر دے مگر رخشندگی دے دے
نظر سے تمکنت لے کر مذاقِ عاجزی دے دے

مگر ہاں بنچ کے بدلے اسے صوفے پہ بٹھلا دے
یہاں میری بجائے اک چمکتی کار دکھلا دے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔




نذرِ کالج

لدھیانہ گورنمنٹ کالج 1943ء


اے سرزمینِ پاک کے یارانِ نیک نام
با صد خلوص شاعرِ آوارہ کا سلام

اے وادئ جمیل میرے دل کی دھڑکنیں
آداب کہہ رہی ہیں تری بارگاہ میں!

تو آج بھی ہے میرے لیے جنتِ خیال
ہیں تجھ میں دفن میری جوانی کے چار سال

کمھلائے ہیں یہاں پہ مری زندگی کے پھول
ان راستوں میں دفن ہیں میری خوشی کے پھول

تیری نوازشوں کو بھلایا نہ جائے گا
ماضی کا نقش دل سے مٹایا نہ جائے گا

تیری نشاط خیز فضائے جواں کی خیر
گلہائے رنگ و بو کے حسیں کارواں کی خیر

دورِ خزاں میں‌بھی تری کلیاں کھلی رہیں
تا حشر یہ حسین فضائیں بسی رہیں!

ہم ایک خار تھے جو چمن سے نکل گئے
ننگِ وطن تھے حدِ وطن سے نکل گئے

گائے ہیں اس فضا میں وفاؤں کے راگ بھی
نغماتِ آتشیں سے بکھیری ہے آگ بھی!

سرکش بنے ہیں گیت بغاوت کے گائے ہیں
برسوں نئے نظام کے نقشے بنائے ہیں

نغمہ نشاطِ روح کا گایا ہے بارہا
گیتوں میں‌آنسوؤں کو چھپایا ہے بارہا

معصومیوں کے جرم میں بدنام ہم ہوئے
تیرے طفیل موردِ الزام بھی ہوئے

اس سر زمیں پہ آج ہم اک بار ہی سہی
دنیا ہمارے نام سے بیزار ہی سہی

لیکن ہم ان فضاؤں کے پالے ہوئے تو ہیں
گریاں نہیں‌تو یاں سے نکالے ہوئے تو ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


غزل

دیکھا تو تھا یوں ‌ہی کسی غفلت شعار نے
دیوانہ کر دیا دلِ بے اختیار نے

اے آرزو کے دھندلے خرابو؟ جواب دو
پھر کس کی یاد آئی تھی مجھ کو پکارنے

تجھ کو خبر نہیں، مگر اک سادہ لوح کو
برباد کر دیا ترے دو دن کے پیار نے

میں اور تم سے ترکِ محبت کی آرزو
دیوانہ کر دیا ہے غمِ روزگار نے

اب اے دلِ تباہ ترا کیا خیال ہے
ہم تو چلے تھے کاکلِ گیتی سنوارنے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



معذوری

خلوت و جلوت میں تم مجھ سے ملی ہو بارہا
تم نے کیا دیکھا نہیں، میں مسکرا سکتا نہیں

میں‌کہ مایوسی مری فطرت میں داخل ہو چکی
جبر بھی خود پر کروں‌تو گنگنا سکتا نہیں

مجھ میں کیا دیکھا کہ تم الفت کا دم بھرنے لگیں
میں تو خود اپنے بھی کوئی کام آ سکتا نہیں

روح افزا ہیں جنونِ عشق کے نغمے مگر
اب میں ان گائے ہوئے گیتوں کو گا سکتا نہیں

میں نے دیکھا ہے شکستِ سازِ الفت کا سماں
اب کسی تحریک پر بربط اٹھا سکتا نہیں

دل تمہاری شدتِ احساس سے واقف تو ہے
اپنے احساسات سے دامن چھڑا سکتا نہیں

تم مری ہو کر بھی بیگانہ ہی پاؤ گی مجھے
میں تمہارا ہو کے بھی تم میں سما سکتا نہیں

گائے ہیں میں نے خلوصِ دل سے بھی الفت کے گیت
اب ریا کاری سے بھی چاہوں تو گا سکتا نہیں

کس طرح تم کو بنا لوں میں‌شریکِ زندگی
میں‌تو اپنی زندگی کا بار اٹھا سکتا نہیں

یاس کی تاریکیوں میں‌ ڈوب جانے دو مجھے
اب میں‌شمعِ ‌آرزو کی لو بڑھا سکتا نہیں



۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔





پھر نہ کیجے مری گستاخ نگاہی کا گلہ
دیکھئیے آپ نے پھر پیار سے دیکھا مجھ کو




خانہ آبادی

ایک دوست کی شادی پر

ترانے گونج اٹھے ہیں فضا میں شادیانوں کے
ہوا ہے عطر آگیں ذرّہ ذرّہ مسکراتا ہے

مگر دور ایک افسردہ مکاں میں سرد بستر پر
کوئی دل ہے کہ ہر آہٹ پہ یوں ہی چونک جاتا ہے

مری آنکھوں میں آنسو آ گئے نادیدہ آنکھوں کے
مرے دل میں کوئی غمگین نغمہ سرسراتا ہے

یہ رسمِ انقطاعِ عہدِ الفت، یہ حیاتِ نو
محبت رو رہی ہے اور تمدن مسکراتا ہے

یہ شادی خانہ آبادی ہو میرے محترم بھائی
مبارک کہہ نہیں سکتا مرا دل کانپ جاتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



سرزمینِ یاس


جینے سے دل بیزار ہے
ہر سانس اک آزار ہے

کتنی حزیں‌ ہے زندگی
اندوہ گیں‌ ہے زندگی

وہ بزمِ احبابِ وطن
وہ ہم نوایانِ سخن

آتے ہیں جس دم یاد اب
کرتے ہیں دل ناشاد اب

گزری ہوئی رنگینیاں
کھوئی ہوئی دلچسپیاں

پہروں رلاتی ہیں مجھے
اکثر ستاتی ہیں مجھے

وہ زمزمے وہ چہچہے
وہ روح افزا قہقہے

جب دل کو موت آتی ہے
یوں‌ بے حسی چھائی نہ تھی

کالج کی رنگیں وادیاں
وہ دلنشیں ‌آبادیاں

وہ نازنینانِ وطن
زہرہ جبینانِ وطن

جن میں‌سے اک رنگیں قبا
آتش نفس، آتش نوا

کر کے محبت آشنا
رنگِ عقیدت آشنا

میرے دلِ‌ ناکام کو
خوں گشتۂ آلام کو

داغِ جدائی دے گئی
ساری خدائی لے گئی

اُن ساعتوں کی یاد میں
اُن راحتوں کی یاد میں

مغموم سا رہتا ہوں میں
غم کی کسک سہتا ہوں ‌میں

سنتا ہوں جب احباب سے
قصّے غمِ ایّام کے

بیتاب ہو جاتا ہوں میں
آہوں میں کھو جاتا ہوں میں

پھر وہ عزیز و اقربا
جو توڑ کر عہدِ وفا

احباب سے منہ موڑ کر
دنیا سے رشتہ جوڑ کر

حدِ افق سے اس طرف
رنگِ شفق سے اُس طرف

اک وادئ خاموش کی
اک عالمِ بے ہوش کی

گہرائیوں میں‌ سو گئے
تاریکیوں میں ‌کھو گئے

ان کا تصور ناگہاں
لیتا ہے دل میں‌ چٹکیاں

اور خوں رلاتا ہے مجھے
بے کل بناتا ہے مجھے

وہ گاؤں کی ہمجولیاں
مفلوک دہقاں‌ زادیاں

جو دستِ فرطِ یاس سے
اور یورشِ‌افلاس سے

عصمت لٹا کر رہ گئیں
خود کو گنوا کر رہ گئیں

غمگیں‌جوانی بن گئیں
رسوا کہانی بن گئیں

اُن سے کبھی گلیوں میں ‌اب
ہوتا ہوں میں‌دو چار جب

نظریں‌ جھکا لیتا ہوں میں
خود کو چھپا لیتا ہوں‌میں

کتنی حزیں ہے زندگی
اندوہ گیں ہے زندگی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


غزل

خود داریوں کے خون کو ارزاں نہ کر سکے
ہم اپنے جوہروں کو نمایاں نہ کر سکے

ہو کر خرابِ مے ترے غم تو بھلا دیئے
لیکن غمِ حیات کا درماں نہ کر سکے

ٹوٹا طلسمِ عہد محبّت کچھ اس طرح
پھر آرزو کی شمع فروزاں نہ کر سکے

ہر شے قریب آ کے کشش اپنی کھو گئی
وہ بھی علاجِ شوق گریزاں نہ کر سکے

کس درجہ دل شکن تھے محبت کے حادثے
ہم زندگی میں پھر کوئی ارماں نہ کر سکے

مایوسیوں نے چھین لیے دل کے ولولے
وہ بھی نشاطِ روح کا ساماں نہ کر سکے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



شکست

اپنے سینے سے لگائے ہوئے امید کی لاش
مدتوں زیست کو ناشاد کیا ہے میں نے

تو نے تو ایک ہی صدمے سے کیا تھا دوچار
دل کو ہر طرح سے برباد کیا ہے میں نے

جب بھی راہوں میں ‌نظر آئے حریری ملبوس
سرد آہوں میں تجھے یاد کیا ہے میں نے

اور اب جب کہ مری روح کی پہنائی میں
ایک سنسان سی مغموم گھٹا چھائی ہے

تو دمکتے ہوئے عارض کی شعاعیں لے کر
گل شدہ شمعیں جلانے کو چلی آئی ہے

میری محبوب، یہ ہنگامۂ تجدید وفا
میری افسردہ جوانی کے لیے راس نہیں

میں نے جو پھول چنے تھے ترے قدموں کے لیے
ان کا دھندلا سا تصور بھی میرے پاس نہیں

ایک یخ بستہ اُداسی ہے دل و جاں پہ محیط
اب مری روح میں باقی ہے نہ امید نہ جوش

رہ گیا دب کے گراں بار سلاسل کے تلے
میری درماندہ جوانی کی امنگوں کا خروش

ریگ زاروں میں بگولوں کے سوا کچھ بھی نہیں
سایۂ ابرِ گریزاں سے مجھے کیا لینا

بجھ چکے ہیں مرے سینے میں محبت کے کنول
اب ترے حسنِ پشیماں سے مجھے کیا لینا

تیرے عارض پہ یہ ڈھلکے ہوئے سیمیں آنسو
میری افسردگیِ غم کا مداوا تو نہیں

تیری محبوب نگاہوں کا پیامِ تجدید
اک تلافی ہی سہی۔۔۔۔میری تمنا تو نہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



غزل

تنگ آ چکے ہیں کشمکشِ زندگی سے ہم
ٹھکرا نہ دیں جہاں کو کہیں‌ بے دلی سے ہم

مایوسیِ مآلِ محبت نہ پوچھئے
اپنوں سے پیش آئے ہیں ‌بیگانگی سے ہم

لو آج ہم نے توڑ دیا رشتۂ امید
لو اب کبھی گلہ نہ کریں گے کسی سے ہم

ابھریں گے ایک بار ابھی دل کے ولولے
گو دب گئے ہیں بارِ غمِ زندگی سے ہم

گر زندگی میں مل گئے پھر اتفاق سے
پوچھیں گے اپنا حال تری بے بسی سے ہم

اللہ رے فریبِ مشیت کہ آج تک
دنیا کے ظلم سہتے رہے خامشی سے ہم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



کسی کو اداس دیکھ کر

تمہیں اداس سا پاتا ہوں میں کئی دن سے
نہ جانے کون سے صدمے اٹھا رہی ہو تم
وہ شوخیاں وہ تبسم وہ قہقہے نہ رہے
ہر ایک چیز کو حسرت سے دیکھتی ہو تم
چھپا چھپا کے خموشی میں اپنی بے چینی
خود اپنے راز کی تشہیر بن گئی ہو تم

میری امید اگر مٹ گئی تو مٹنے دو
امید کیا ہے بس اک پیش و پس ہے کچھ بھی نہیں
میری حیات کی غمگینیوں کا غم نہ کرو
غمِ حیات غم یک نفس ہے کچھ بھی نہیں
تم اپنے حسن کی رعنائیوں پہ رحم کرو
وفا فریب ہے، طول ہوس ہے کچھ بھی نہیں

مجھے تمہارے تغافل سے کیوں شکایت ہو؟
مری فنا مرے احساس کا تقاضا ہے
میں‌ جانتا ہوں کہ دنیا کا خوف ہے تم کو
مجھے خبر ہے یہ دنیا عجیب دنیا ہے
یہاں حیات کے پردے میں موت پلتی ہے
شکستِ ساز کی آواز روحِ نغمہ ہے

مجھے تمہاری جدائی کا کوئی رنج نہیں
مرے خیال کی دنیا میں‌میرے پاس ہو تم
یہ تم نے ٹھیک کہا ہے تمہیں ملا نہ کروں
مگر مجھے یہ بتا دو کہ کیوں اداس ہو تم
خفا نہ ہونا مری جرأت تخاطب پر؟
تمہیں‌خبر ہے مری زندگی کی آس ہو تم

مرا تو کچھ بھی نہیں ہے میں رو کے جی لوں گا
مگر خدا کے لیے تم اسیرِ‌غم نہ رہو
ہوا ہی کیا جو زمانے نے تم کو چھین لیا
یہاں پہ کون ہوا ہے کسی کا، سوچو تو
مجھے قسم ہے مری دکھ بھری جوانی کی
میں خوش ہوں میری محبت کے پھول ٹھکرا دو

میں اپنی روح کی ہر اک خوشی مٹا لوں گا
مگر تمہاری مسرت مٹا نہیں سکتا
میں‌ خود کو موت کے ہاتھوں میں‌سونپ سکتا ہوں
مگر یہ بارِ مصائب اٹھا نہیں سکتا
تمہارے غم کے سوا اور بھی تو غم ہیں مجھے
نجات جن سے میں اک لحظہ پا نہیں ‌سکتا

یہ اونچے اونچے مکانوں کی ڈیوڑھیوں کے تلے
ہر ایک گام پہ بھوکے بھکاریوں کی صدا
ہر ایک گھر میں ہے افلاس اور بھوک کا شور
ہر ایک سمت یہ انسانیت کی آہ و بکا
یہ کارخانوں میں لوہے کا شور و غل جس میں
ہے دفن لاکھوں غریبوں کی روح کا نغمہ

یہ شاہراہوں پہ رنگین ساڑھیوں کی جھلک
یہ جھونپڑوں میں‌غریبوں کے بے کفن لاشے
یہ مال روڈ پہ کاروں کی ریل پیل کا شور
یہ پٹڑیوں پہ غریبوں کے زرد رو بچے

گلی گلی میں یہ بکتے ہوئے جواں چہرے
حسین آنکھوں میں افسردگی سی چھائی ہوئی
یہ جنگ اور یہ میرے وطن کے شوخ جواں
خریدی جاتی ہے اٹھتی جوانیاں جن کی
یہ بات بات پہ قانون و ضابطے کی گرفت
یہ ذلّتیں، یہ غلامی یہ دورِ مجبوری

یہ غم بہت ہیں مری زندگی مٹانے کو
اداس رہ کے مرے دل کو اور رنج نہ دو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


غزل

ہوس نصیب نظر کو کہیں قرار نہیں
میں منتظر ہوں مگر تیرا انتظار نہیں
ہمیں سے رنگِ گلستاں ہمیں سے رنگِ بہار
ہمیں کو نظمِ گلستاں پہ اختیار نہیں
ابھی نہ چھیڑ محبت کے گیت اے مطرب
ابھی حیات کا ماحول خوشگوار نہیں
تمہارے عہدِ وفا کو میں عہد کیا سمجھوں
مجھے خود اپنی محبت پہ اعتبار نہیں
نہ جانے کتنے گلے اس میں مضطرب ہیں ندیم
وہ ایک دل جو کسی کا گلہ گزار نہیں
گریز کا نہیں‌ قائل حیات سے لیکن
جو سچ کہوں‌کہ مجھے موت ناگوار نہیں

یہ کس مقام پہ پہنچا دیا زمانے نے
کہ اب حیات پہ ترا بھی اختیار نہیں



مرے گیت

مرے سرکش ترانے سن کے دنیا یہ سمجھتی ہے
کہ شاید میرے دل کو عشق کے نغموں سے نفرت ہے
مجھے ہنگامۂ جنگ و جدل میں کیف ملتا ہے
مری فطرت کو خوں ریزی کے افسانے سے رغبت ہے
مری دنیا میں کچھ وقعت نہیں ہے رقص و نغمہ کی
مرا محبوب نغمہ شورِ آہنگِ بغاوت ہے

مگر اے کاش دیکھیں وہ مری پر سوز راتوں کو
میں جب تاروں پہ نظریں گاڑ کر آنسو بہاتا ہوں
تصور بن کے بھولی وارداتیں یاد آتی ہیں
تو سوز و درد کی شدت سے پہروں تلملاتا ہوں
کوئی خوابوں میں‌ خوابیدہ امنگوں کو جگاتی ہے
تو اپنی زندگی کو موت کے پہلو میں پاتا ہوں

میں شاعر ہوں مجھے فطرت کے نظاروں سے الفت ہے
مرا دل دشمنِ نغمہ سرائی ہو نہیں سکتا
مجھے انسانیت کا درد بھی بخشا ہے قدرت نے
مرا مقصد فقط شعلہ نوائی ہو نہیں‌سکتا
جواں ہوں میں جوانی لغزشوں کا ایک طوفاں ‌ہے
مری باتوں میں رنگِ پارسائی ہو نہیں سکتا

مرے سرکش ترانوں کی حقیقت ہے تو اتنی ہے
کہ جب بھی دیکھتا ہوں بھوک کے مارے کسانوں کو
غریبوں ‌مفلسوں کو بے کسوں بے سہاروں کو
سسکتی نازنینوں کو، تڑپتے نوجوانوں کو
حکومت کے تشدد کو امارت کے تکبر کو
کسی کے چیتھڑوں کو اور شہنشاہی خزانوں کو

تو دل تابِ نشاطِ بزمِ عشرت لا نہیں‌سکتا
میں‌چاہوں بھی خواب آور ترانے گا نہیں سکتا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


اشعار

ہر چند مری قوتِ گفتار ہے محبوس
خاموش مگر طبع خود آرا نہیں ہوتی

معمورۂ احساس میں ہے حشر سا برپا
انسان کی تذلیل گوارا نہیں ہوتی

نالاں ہوں میں بیداریِ احساس کے ہاتھوں
دنیا مرے افکار کی دنیا نہیں ہوتی

بیگانہ صفت جادۂ منزل سے گزر جا
ہر چیز سزاوارِ نظارہ نہیں ہوتی

فطرت کی مشیت بھی بڑی چیز ہے لیکن
فطرت کبھی بے بس کا سہارا نہیں ہوتی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


سوچتا ہوں


سوچتا ہوں‌کہ محبت سے کنارا کر لوں
دل کو بیگانۂ ترغیب و تمنا کر لوں

سوچتا ہوں‌کہ محبت ہے جنونِ رسوا
چند بے کار سے بے ہودہ خیالوں کا ہجوم

ایک آزاد کو پابند بنانے کی ہوس
ایک بیگانے کو اپنانے کی سعئ موہوم

سوچتا ہوں کہ محبت سے سرور و مستی
اس کی تنویر سے روشن ہے فضائے ہستی

سوچتا ہوں کہ محبت ہے بشر کی فطرت
اس کا مٹ جانا مٹا دینا بہت مشکل ہے

سوچتا ہوں کہ محبت سے ہے تابندہ حیات
اور یہ شمع بجھا دینا بہت مشکل ہے

سوچتا ہوں کہ محبت پہ کڑی شرطیں ہیں
اس تمدن میں مسرت پہ بڑی شرطیں ہیں

سوچتا ہوں کہ محبت ہے اک افسردہ سی لاش
چادرِ عزت و ناموس میں کفنائی ہوئی

دورِ سرمایہ کی روندی ہوئی رسوا ہستی
درگہِ مذہب و اخلاق سے ٹھکرائی ہوئی

سوچتا ہوں کہ بشر اور محبت کا جنوں
ایسے بوسیدہ تمدن میں ہے اک کار زبوں

سوچتا ہوں کہ محبت نہ بچے گی زندہ
پیش ازاں وقت کہ سڑ جائے یہ گلتی ہوئی لاش

یہی بہتر ہے کہ بیگانۂ الفت ہو کر
اپنے سینے میں‌کروں جذبۂ نفرت کی تلاش

سوچتا ہوں کہ محبت سے کنارا کر لوں
دل کو بیگانۂ ترغیب و تمنا کر لوں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



ناکامی

میں نے ہر چند غمِ عشق کو کھونا چاہا
غمِ الفت غمِ دنیا میں سمونا چاہا

وہی افسانے مری سمت رواں ہیں اب تک
وہی شعلے مرے سینے میں نہاں ہیں اب تک

وہی بے سود خلش ہے مرے سینے میں ہنوز
وہی بیکار تمنائیں جواں ہیں‌اب تک

وہی گیسو مری راتوں پہ ہیں بکھرے بکھرے
وہی آنکھیں مری جانب نگراں ہیں اب تک

کثرتِ غم بھی مرے غم کا مداوا نہ ہوئی!
میرے بے چین خیالوں کو سکون مل نہ سکا

دل نے دنیا کے ہر اک درد کو اپنا تو لیا
مضمحل روح کو اندازِ جنوں مل نہ سکا

میری تخئیل کا شیرازۂ برہم ہے وہی
میرے بجھتے ہوئے احساس کا عالم ہے وہی

وہی بے جان ارادے وہی بے رنگ سوال
وہی بے روح کشاکش وہی بے چین خیال

آہ اس کشمکشِ صبح و مسا کا انجام
میں بھی ناکام مری سعی عمل بھی ناکام

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مجھے سوچنے دے


میری ناکام محبت کی کہانی مت چھیڑ
اپنی مایوس امنگوں کا فسانہ نہ سنا
زندگی تلخ سہی ، زہر سہی، سم ہی سہی
دردو آزار سہی، جبر سہی، غم ہی سہی
لیکن اس درد و غم و جبر کی وسعت کو تو دیکھ
ظلم کی چھاؤں میں دم توڑتی خلقت کو تو دیکھ
اپنی مایوس امنگوں کا فسانہ نہ سنا
میری ناکام محبت کی کہانی مت چھیڑ
جلسہ گاہوں میں یہ دہشت زدہ سہمے انبوہ
رہ گزاروں پہ فلاکت زدہ لوگوں کا گروہ
بھوک اور پیاس سے پژمردہ سیہ فام زمیں
تیرہ و تار مکاں، مفلس و بیمار مکیں
نوعِ انساں میں یہ سرمایہ و محنت کا تضاد
امن و تہذیب کے پرچم تلے قوموں کا فساد
ہر طرف آتش و آہن کا یہ سیلابِ عظیم
نت نئے طرز پہ ہوتی ہوئی دنیا تقسیم
لہلہاتے ہوئے کھیتوں پہ جوانی کا سماں
اور دہقان کے چھپر میں نہ بتی نہ دھواں
یہ فلک بوس ملیں دلکش و سیمیں بازار
یہ غلاظت پہ جھپٹتے ہوئے بھوکے نادار
دور ساحل پہ وہ شفاف مکانوں کی قطار
سرسراتے ہوئے پردوں میں سمٹتے گلزار
درو دیوار پہ انوار کا سیلابِ رواں
جیسے اک شاعرِ مدہوش کے خوابوں کا جہاں
یہ سبھی کیوں ہے یہ کیا ہے مجھے کچھ سوچنے دے
کون انساں کا خدا ہے مجھے کچھ سوچنے دے
اپنی مایوس امنگوں کا فسانہ نہ سنا
میری ناکام محبت کی کہانی مت چھیڑ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


اشعار


عقائد وہم ہیں، مذہب خیال خام ہے ساقی
ازل سے ذہنِ انساں بستۂ اوہام ہے ساقی

حقیقت آشنائی اصل میں گم کردہ راہی ہے
عروسِ آگہی پروردۂ ابہام ہے ساقی

مبارک ہو ضعیفی کو خرد کا فلسفہ رانی؟
جوانی بے نیاز عبرتِ انجام ہے ساقی

ہوس ہو گی اسیرِ حلقۂ نیک و بد عالم
محبت ماورائے فکرِ ننگ و نام ہے ساقی

ابھی تک راستے کے پیچ و خم سے دل دھڑکتا ہے
مرا ذوق طلب شاید ابھی تک خام ہے ساقی

وہاں بھیجا گیا ہوں چاک کرنے پردۂ شب کو
جہاں ہر صبح کے دامن پہ عکس شام ہے ساقی

مرے ساغر میں مے ہے اور ترے ہاتھوں میں بربط ہے
وطن کی سر زمیں میں بھوک سے کہرام ہے ساقی

زمانہ برسرِ پیکار ہے پر ہول شعلوں سے
ترے لب پر ابھی تک نغمۂ خیام ہے ساقی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



صبحِ نو روز

پھوٹ پڑیں مشرق سے کرنیں
حال بنا ماضی کا فسانہ
گونجا مستقبل کا ترانہ
بھیجے ہیں احباب نے تحفے
اٹے پڑے ہیں میز کے کونے
دلہن بنی ہوئی ہیں راہیں
جشن مناؤ سالِ نو کے

نکلی ہے بنگلے کے در سے
اک مفلس دہقان کی بیٹی
افسردہ مرجھائی ہوئی سی
جسم کے دکھتے جوڑ دباتی
آنچل سے سینے کو چھپاتی
مٹھی میں اک نوٹ دبائے
جشن مناؤ سالِ نو کے

بھوکے، زرد گداگر بچے
کار کے پیچھے بھاگ رہے ہیں
وقت سے پہلے جاگ اُٹھے ہیں
پیپ بھری آنکھیں سہلاتے
سر کے پھوڑوں کو کھجلاتے
وہ دیکھو کچھ اور بھی نکلے
جشن مناؤ سالِ نو کے

………………….



گریز


مرا جنونِ وفا ہے زوال آمادہ
شکست ہو گیا تیرا فسونِ زیبائی
ان آرزوؤں پہ چھائی ہے گردِ مایوسی
جنہوں نے تیرے تبسم میں پرورش پائی
فریبِ شوق کے رنگیں طلسم ٹوٹ گئے
حقیقتوں نے حوادث سے پھر جلا پائی
سکون و خواب کے پردے سرکتے جاتے ہیں
دل و دماغ میں وحشت کی کارفرمائی
وہ تارے جن میں محبت کا نورِ تاباں تھا
وہ تارے ڈوب گئے لے کے رنگ و رعنائی
سلا گئی تھیں جنھیں تیر ملتفت نظریں
وہ درد جاگ اُٹھے پھر سے لے کے انگڑائی
عجیب عالمِ افسردگی ہے رو بہ فروغ
نہ اب نظر کو تقاضا نہ دل تمنائی
تری نظر، ترے گیسو، تری جبیں ، ترے لب
مری اداس طبعیت ہے سب سے اکتائی
میں زندگی کے حقائق سے بھاگ آیا تھا
کہ مجھ کو خود میں چھپا لے تری فسوں زائی
مگر یہاں بھی تعاقب کیا حقائق نے
یہاں بھی مل نہ سکی جنتِ شکیبائی
ہر ایک ہاتھ میں لے کر ہزار آئینے
حیات بند دریچوں سے بھی گزر آئی
مرے ہر ایک طرف ایک شور گونج اٹھا
اور اس میں ڈوب گئی عشرتوں کی شہنائی
کہاں تلک کوئی زندہ حقیقتوں سے بچے
کہاں تلک کرے چھپ چھپ کے نغمہ پیرائی
وہ دیکھ سامنے کے پر شکوہ ایواں سے
کسی کرائے کی لڑکی کی چیخ ٹکرائی
وہ پھر سماج نے دو پیار کرنے والوں کو
سزا کے طور پر بخشی طویل تنہائی
پھر ایک تیرہ و تاریک جھونپڑی کے تلے
سسکتے بچے پہ بیوہ کی آنکھ بھر آئی
وہ پھر بکی کسی مجبور کی جواں بیٹی!
وہ پھر جھکا کسی در پر غرورِ برنائی
وہ پھر کسانوں کے مجمع پہ گن مشینوں سے
حقوق یافتہ طبقے نے آگ برسائی
سکوتِ حلقۂ زنداں سے ایک گونج اُٹھی
اور اس کے ساتھ مرے ساتھیوں کی یاد آئی
نہیں نہیں مجھے یوں ملتفت نظر سے نہ دیکھ
نہیں نہیں مجھے اب تابِ نغمہ پیرائی
مرا جنونِ وفا ہے زوال آمادہ
شکست ہو گیا تیرا فسونِ زیبائی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



کچھ باتیں

دیس کے ادبار کی باتیں کریں
اجنبی سرکار کی باتیں کریں

اگلی دنیا کے فسانے چھوڑ کر
اس جہنم زار کی باتیں کریں

ہو چکے اوصاف پردے کے بیاں
شاہدِ بازار کی باتیں کریں

دہر کے حالات کی باتیں کریں
اس مسلسل رات کی باتیں کریں

من و سلویٰ کا زمانہ جا چکا
بھوک اور آفات کی باتیں کریں

آؤ پرکھیں دین کے اوہام کو
علمِ موجودات کی باتیں کریں

جابرو مجبور کی باتیں کریں
اس کہن دستور کی باتیں کریں

تاجِ شاہی کے قصیدے ہو چکے
فاقہ کش جمہور کی باتیں کریں

گرنے والے قصر کی توصیف کیا
تیشۂ مزدور کی باتیں کریں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


چکلے


یہ کوچے یہ نیلام گھر دلکشی کے
یہ لٹتے ہوئے کارواں زندگی کے
کہاں ہیں کہاں ہیں محافظ خودی کے
ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں؟

یہ پر پیج گلیاں یہ بے خواب بازار
یہ گمنام راہی یہ سِکّوں کی جھنکار
یہ عصمت کے سودے یہ سودوں پہ تکرار
ثنا خوانِ تقدیس مشرق کہاں ہیں؟

تعفّن سے پر نیم روشن یہ گلیاں
یہ مسلی ہوئی ادھ کھلی زرد کلیاں
یہ بکتی ہوئی کھوکھلی رنگ رلیاں
ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں؟

وہ اجلے دریچوں میں پائل کی چھن چھن
تنفس کی الجھن پہ طبلے کی دھن دھن
یہ بے روح کمروں میں کھانسی کی ٹھن ٹھن
ثنا خوان تقدیسِ مشرق کہاں ہیں؟

یہ گونجے ہوئے قہقہے راستوں پر
یہ چاروں طرف بھیڑ سی کھڑکیوں پر
یہ آواز کھنچتے ہوئے آنچلوں پر
ثنا خوانِ تقدیس مشرق کہاں ہیں؟

یہ پھولوں کے گجرے یہ پیکوں کے چھینٹے
یہ بے باک نظریں یہ گستاخ فقرے
یہ ڈھلکے بدن اور یہ مدقوق چہرے
ثنا خوانِ تقدیس مشرق کہاں ہیں؟

یہ بھوکی نگاہیں حسینوں کی جانب
یہ بڑھتے ہوئے ہاتھ سینوں کی جانب
لپکتے ہوئے پاؤں زینوں کی جانب
ثنا خوان تقدیس مشرق کہاں ہیں

یہاں پیر بھی آ چکے ہیں جواں بھی
تنو مند بیٹے بھی، ابا میاں بھی
یہ بیوی بھی ہے اور بہن بھی ہے ماں بھی
ثنا خوان تقدیسِ مشرق کہاں ہیں؟

مدد چاہتی ہے یہ حوّا کی بیٹی
یشودھا کی ہم جنس رادھا کی بیٹی
پیمبر کی امت، زلیخا کی بیٹی
ثنا خوانِ تقدیس مشرق کہاں ہیں؟

بلاؤ خدایانِ دیں کو بلاؤ
یہ کوچے، یہ گلیاں، یہ منظر دکھاؤ
ثنا خوانِ تقدیس مشرق کو لاؤ
ثنا خوانِ تقدیس مشرق کہاں ہیں؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


طرحِ نو


سعیِ بقائے شوکتِ اسکندری کی خیر
ماحولِ خشت بار میں شیشہ گری کی خیر

بیزار ہے کنشت و کلیسا سے اک جہاں
سوداگرانِ دین کی سوداگری کی خیر

فاقہ کشوں کے خون میں ہے جوشِ انتقام
سرمایہ کے فریب جہاں پروری کی خیر

طبقاتِ مبتذل میں ہے تنظیم کی نمود
شاہنشہوں کے ضابطۂ خود سری کی خیر

احساس بڑھ رہا ہے حقوقِ حیات کا
پیدائشی حقوقِ ستم پروری کی خیر

ابلیس خندہ زن ہے مذاہب کی لاش پر
پیغمبرانِ دہر کی پیغمبری کی خیر

صحنِ جہاں میں رقص کناں ہیں تباہیاں
آقائے ہست و بود کی صنعت گری کی خیر

شعلے لپک رہے ہیں جہنم کی گود سے
باغِ جناں میں جلوۂ حورو پری کی خیر

انساں اُلٹ رہا ہے رخِ زیست کا نقاب
مذہب کے اہتمام فسوں پروری کی خیر

الحاد کر رہا ہے مرتب جہانِ نو
دیرو حرم کے حیلۂ غارت گری کی خیر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


تاج محل

تاج تیرے لیے اک مظہرِ الفت ہی سہی
تجھ کو اس وادئ رنگیں سے عقیدت ہی سہی

میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے
بزم شاہی میں غریبوں کا گزر کیا معنی؟
ثبت جس راہ میں ہوں سطوتِ شاہی کے نشاں
اس پہ الفت بھری روحوں کا سفر کیا معنی؟

میری محبوب پس پردۂ تشہیرِ وفا
تو نے سطوت کے نشانوں کو تو دیکھا ہوتا
مردہ شاہوں کے مقابر سے بہلنے والی
اپنے تاریک مکانوں کو تو دیکھا ہوتا

ان گنت لوگوں نے دنیا میں محبت کی ہے
کون کہتا ہے کہ صادق نہ تھے جذبے ان کے
لیکن ان کے لیے تشہیر کا سامان نہیں
کیونکہ وہ لوگ بھی اپنی ہی طرح مفلس تھے

یہ عمارات و مقابر یہ فصیلیں یہ حصار
مطلق الحکم شہنشاہوں کی عظمت کے ستوں
سینۂ دہر کے ناسور میں کہنہ ناسور
جذب ہے ان میں ترے اور مرے اجداد کا خوں

میری محبوب! انہیں بھی تو محبت ہو گی!
جن کی صناعی نے بخشی ہے اسے شکلِ جمیل
ان کے پیاروں کے مقابر رہے بے نام و نمود
آج تک ان پہ جلائی نہ کسی نے قندیل

یہ چمن زار یہ جمنا کا کنارہ، یہ محل
یہ منقش درو دیوار یہ محراب یہ طاق
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق


میری محبوب! کہیں اور ملا کر مجھ سے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


طلوعِ اشتراکیت


جشن بپا ہے کٹیاؤں میں، اونچے ایواں کانپ رہے ہیں
مزدوروں کے بگڑے تیور دیکھ کے سلطاں کانپ رہے ہیں
جاگے ہیں افلاس کے مارے، اُٹھے ہیں بے بس دکھیارے
سینوں میں طوفاں کا تلاطم ، آنکھوں میں بجلی کے شرارے
چوک چوک پر گلی گلی میں سرخ پھریرے لہراتے ہیں
مظلوموں کے باغی لشکر سیل صفت اُمڈے آتے ہیں
شاہی درباروں کے در سے فوجی پہرے ختم ہوئے ہیں
ذاتی جاگیروں کے حق اور مہمل دعوے ختم ہوئے ہیں
شور مچا ہے بازاروں میں، ٹوٹ گئے در زندانوں کے
واپس مانگ رہی ہے دنیا غصب شدہ حق انسانوں کے
رسوا بازاری خاتونیں حقِ نسائی مانگ رہی ہیں
صدیوں کی خاموش زبانیں سحر نوائی مانگ رہی ہیں
روندی کچلی آوازوں کے شور سے دھرتی گونج اٹھی ہے
دنیا کے انیائے نگر میں حق کی پہلی گونج اُٹھی ہے
جمع ہوئے ہیں چوراہوں پر آ کے بھوکے اور گداگر
ایک لپکتی آندھی بن کر ایک بھبکتا شعلہ ہو کر
کاندھوں پر سنگین کدالیں ہونٹوں پر بے باک ترانے
دہقانوں کے دل نکلے ہیں اپنی بگڑی آپ بنانے
آج پرانی تدبیروں سے آگ کے شعلے تھم نہ سکیں گے
اُبھرے جذبے دب نہ سکیں گے اکھڑے پرچم جم نہ سکیں گے
راج محل کے دربانوں سے یہ سرکش طوفاں نہ رکے گا
چند کرائے کے تنکوں سے سیلِ بے پایاں نہ رکے گا
کانپ رہے ہیں ظالم سلطاں ٹوٹ گئے دل جبّاروں کے
بھاگ رہے ہیں ظلِ الٰہی منہ اترے ہیں غدّاروں کے
ایک نیا سورج چمکا ہے، ایک انوکھی ضو باری ہے
ختم ہوئی افراد کی شاہی، اب جمہور کی سالاری ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



اجنبی محافظ

اجنبی دیس کے مضبوط گرانڈیل جواں
اونچے ہوٹل کے درِ خاص پہ استادہ ہیں
اور نیچے مرے مجبور وطن کی گلیاں
جن میں آوارہ پھرا کرتے ہیں بھوکوں کے ہجوم
زرد چہروں پہ نقاہت کی نمود
خون میں سینکڑوں سالوں کی غلامی کا جمود
علم کے نور سے عاری۔۔۔۔۔محروم
فلکِ ہند کے افسردہ ۔۔۔۔نجوم
جن کی تخئیل کے پر
چھو نہیں سکتے ہیں اس اونچی پہاڑی کا سرا
جس پہ ہوٹل کے دریچوں میں کھڑے ہیں تن کر
اجنبی دیس کے مضبوط گرانڈیل جواں
منہ میں سگریٹ لیے ہاتھوں میں برانڈی کا گلاس
جیب میں نقرئی سکوں کی کھنک
بھوکے دہقانوں کے ماتھے کا عرق
رات کو جس کے عوض بکتا ہے
کسی افلاس کی ماری کا تقدس ۔۔۔۔یعنی
کسی دوشیزۂ مجبور کی عصمت کا غرور
محفلِ عیش کے گونجے ہوئے ایوانوں میں
اونچے ہوٹل کے شبستانوں میں
قہقہے مارتے ہنستے ہوئے استادہ ہیں
اجنبی دیس کے مضبوط گرانڈیل جواں
اسی ہوٹل کے قریب
بھوکے مجبور غلاموں کے گروہ
ٹکٹکی باندھ کے تکتے ہوئے اوپر کی طرف
منتظر بیٹھے ہیں اس ساعتِ نایاب کے جب
بوٹ کی نوک سے نیچے پھینکے
اجنبی دیس کے بے فکر جوانوں کا گروہ
کوئی سِکّہ، کوئی سگریٹ، کوئی کیک
یا ڈبل روٹی کے جھوٹے ٹکڑے
چھینا جھپٹی کے مناظر کا مزہ لینے کو
پالتو کتوں کے احساس پہ ہنس دینے کو
بھوکے مجبور غلاموں کا گروہ
ٹکٹکی باندھ کے تکتا ہوا استادہ ہے
کاش یہ بے حس و بے وقعت و بیدل انساں
روم کے ظلم کی زندہ تصویر
اپنا ماحول بدل دینے کے قابل ہوتے
ڈیڑھ سو سال کے پابند سلاسل کتے
اپنے آقاؤں سے لے سکتے خراجِ قوت
کاش یہ اپنے لیے آپ صف آراء ہوتے
اپنی تکلیف کا خود آپ مداوا ہوتے
ان کی دل میں ابھی باقی رہتا
قومی غیرت کا وجود
ان کی سنگین و سیہ سینوں میں
گل نہ ہوتی ابھی احساس کی شمع
اور پورب سے اُمڈتے ہوئے خطرے کے لیے
یہ کرائے کے محافظ نہ منگانے پڑتے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


بلاوا

دیکھو دور افق کی ضو سے جھانک رہا ہے سرخ سویرا
جاگو اے مزدور کسانو!
اُٹھو اے مظلوم انسانو!
دھرتی کے ان داتا تم ہو
جگ کے پران ودھاتا تم ہو
دھنیوں کی خوشحالی تم ہو
کھیتوں کی ہریالی تم ہو
اونچے محل بنائے تم نے
شاہی تخت سجائے تم نے
ہیرے لعل نکالے تم نے
نیزے بھالے ڈھالے تم نے
ہر بگیا کے مالی تم ہو
اس سنسار کے والی تم ہو
وقت ہے دھرتی کو اپنا لو
آگے بڑھو ہتھیار سنبھالو
اٹھو اے مظلوم انسانو
جاگو اے مزدور کسانو
دیکھو دھرتی کانپ رہی ہے
گرد پھریرا ڈھانپ رہی ہے
کشٹ کی جوالا پھوٹ پڑی ہے
وقت ہے تھوڑا جنگ کڑی ہے
پھیل رہے ہیں کال کے گھیرے
تھامو اپنے سرخ پھریرے
تم ہو جگ جنتا کے سینک
پاپ کے ناشک ستیہ کے رکھشک
بھوک کے عادی ظلم کے پالے
کالی کٹیاؤں کے اجالے
کیا روکے گی تم کو شاہی
تم ہو بہادر سرخ سپاہی
جاگو اے مزدور کسانو
اٹھو اے مظلوم انسانو

دیکھو دور افق کی ضو سے جھانک رہا ہے سرخ سویرا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



شہزادے 



ذہن میں عظمتِ اجداد کے قصے لے کر
اپنے تاریک گھروندوں کے خلا میں کھو جاؤ
مرمریں خوابوں کی پریوں سے لپٹ کر سو جاؤ
ابر پاروں پہ چلو، چاند ستاروں میں اڑو
یہی اجداد سے ورثہ میں ملا ہے تم کو
دور مغرب کی فضاؤں میں دہکتی ہوئی آگ
اہلِ سرمایہ کی آویزش باہم نہ سہی
جنگِ سرمایہ و محنت ہی سہی
دور مغرب میں ہے۔۔۔مشرق کی فضا میں تو نہیں
تم کو مغرب کے بکھیڑوں سے بھلا کیا لینا؟
تیرگی ختم ہوئی سرخ شعاعیں پھیلیں
دور مغرب کی فضاؤں میں ترانے گونجے
فتح جمہور کے ، انصاف کے، آزادی کے
ساحل شرق پہ گیسوں کا دھواں چھانے لگا
آگ برسانے لگے اجنبی توپوں کے دہن
خواب گاہوں کی چھتیں گرنے لگیں
اپنے بستر سے اُٹھو
نئے آقاؤں کی تعظیم کرو
اور ۔۔۔۔پھر اپنے گھروندوں کے خلا میں کھو جاؤ
تم بہت دیر۔۔۔۔۔بہت دیر تلک سوئے رہے 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



شعاعِ فردا

تیرہ و تار فضاؤں میں ستم خوردہ بشر
اور کچھ دیر اجالے کے لیے ترسے گا
اور کچھ دیر اٹھے گا دل گیتی سے دھواں
اور کچھ دیر فضاؤں سے لہو برسے گا

اور پھر احمریں ہونٹوں کے تبسم کی طرح
رات کے چاک سے پھوٹے گی شعاعوں کی لکیر
اور جمہور کے بیدار تعاون کے طفیل
ختم ہو جائے گی انساں کے لہو کی تقطیر

اور کچھ دیر بھٹک لے مرے درماندہ ندیم
اور کچھ دن ابھی زہراب کے ساغر پی لے
نور افساں چلی آتی ہے عروسِ فردا
حال تاریک و سم افشاں سہی لیکن جی لے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


بنگال

جہانِ کہنہ کے مفلوج فلسفہ دانو!
نظامِ نو کے تقاضے سوال کرتے ہیں
یہ شاہراہیں اسی واسطے بنی تھیں کیا؟
کہ ان پہ دیس کی جنتا سسک سسک کے مرے
زمیں نے کیا اسی کارن اناج اگلا تھا
کہ نسل آدم و حوا بلک بلک کے مرے
مِلیں اسی لیے ریشم کے ڈھیر بنتی ہیں
کہ دختران وطن تار تار کو ترسیں
چمن کو اس لیے مالی نے خون سے سینچا
کہ اس کی اپنی نگاہیں بہار کو ترسیں
زمیں کی قوتِ تخلیق کے خداوندو!
مِلوں کے منتظمو! سلطنت کے فرزندو
پچاس لاکھ فسردہ گلے سڑے ڈھانچے
نظام زر کے خلاف احتجاج کرتے ہیں
خموش ہونٹوں سے دم توڑتی نگاہوں سے
بشر بشر کے خلاف احتجاج کرتے ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔




فن کار



میں نے جو گیت ترے پیار کی خاطر لکھے
آج ان گیتوں کو بازار میں لے آیا ہوں

آج دکّان پہ نیلام اٹھے گا اُن کا
تو نے جن گیتوں پہ رکھی تھی محبت کی اساس
آج چاندی کے ترازو میں تلے گی ہر چیز
میرے افکار، مری شاعری ، میرا احساس

جو تری ذات سے منسوب تھے ان گیتوں کو
مفلسی جنس بنانے پہ اتر آئی ہے
بھوک تیرے رخِ رنگیں کے فسانوں کے عوض
چند اشیائے ضرورت کی تمنائی ہے


دیکھ اس عرصہ گہِ محنت و سرمایہ میں
میرے نغمے بھی مرے پاس نہیں رہ سکتے
تیرے جلوے کسی زر دار کی میراث سہی
تیرے خاکے بھی مرے پاس نہیں رہ سکتے

آج ان گیتوں کو بازار میں لے آیا ہوں
میں نے جو گیت ترے پیار کی خاطر لکھے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



کبھی کبھی


کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے

کہ زندگی تری زلفوں کی نرم چھاؤں میں
گزرنے پاتی تو شاداب ہو بھی سکتی تھی
یہ تیرگی جو مری زیست کا مقدر ہے
تری نظر کی شعاعوں میں کھو بھی سکتی تھی

عجب نہ تھا کہ میں بے گانۂ الم ہو کر
ترے جمال کی رعنائیوں میں کھو رہتا
ترا گداز بدن، تیری نیم باز آنکھیں
انہیں حسین فسانوں میں محو ہو رہتا

پکارتیں مجھے جب تلخیاں زمانے کی
ترے لبوں سے حلاوت کے گھونٹ پی لیتا
حیات چیختی پھرتی برہنہ سر اور میں
گھنیری زلفوں کے سائے میں چھپ کے جی لیتا

مگر یہ ہو نہ سکا اور اب یہ عالم ہے
کہ تو نہیں ترا غم، تری جستجو بھی نہیں
گزر رہی ہے کچھ اس طرح زندگی جیسے
اسے کسی کے سہارے کی آرزو بھی نہیں

زمانے بھر کے دکھوں کو لگا چکا ہوں گلے
گزر رہا ہوں کچھ انجانی رہ گزاروں سے
مہیب سائے مری سمت بڑھتے آتے ہیں
حیات و موت کے پرہول خارزاروں میں

نہ کوئی جادۂ منزل نہ روشنی کا سراغ
بھٹک رہی ہے خلاؤں میں زندگی میری
انہی خلاؤں میں رہ جاؤں گا کبھی کھو کر
میں جانتا ہوں مری ہم نفس مگر یونہی

کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


فرار


اپنے ماضی کے تصور سے ہراساں ہوں میں
اپنے گزرے ہوئے ایام سے نفرت ہے مجھے
اپنی بے کار تمناؤں پہ شرمندہ ہوں
اپنی بے سود امیدوں پہ ندامت ہے مجھے

میرے ماضی کو اندھیروں میں دبا رہنے دو
مرا ماضی مری ذلت کے سوا کچھ بھی نہیں
میری امیدوں کا حاصل مری کاوش کا صلہ
ایک بے نام اذیّت کے سوا کچھ بھی نہیں

کتنی بے کار امیدوں کا سہارا لے کر
میں نے ایوان سجائے تھے کسی کی خاطر
کتنی بے ربط تمناؤں کے مبہم سائے
اپنے خوابوں میں بسائے تھے کسی کی خاطر

مجھ سے اب میری محبت کے فسانے نہ کہو
مجھ کو کہنے دو کہ میں نے انہیں چاہا ہی نہیں
اور وہ مست نگاہیں جو مجھے بھول گئیں
میں نے ان مست نگاہوں کو سراہا ہی نہیں

مجھ کو کہنے دو کہ میں آج بھی جی سکتا ہوں
عشق ناکام سہی، زندگی ناکام نہیں
ان کو اپنانے کی خواہش انہیں پانے کی طلب
شوقِ بے کار سہی، سعئ غم انجام نہیں

وہی گیسو، وہی نظریں ، وہی عارض، وہی جسم
میں جو چاہوں تو مجھے اور بھی مل سکتے ہیں
وہ کنول جن کو کبھی ان کے لیے کھلنا تھا
ان کی نظروں سے بہت دور بھی کھل سکتے ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


کل اور آج

کل بھی بوندیں برسی تھیں
کل بھی بادل چھائے تھے
۔۔۔اور کوی نے سوچا تھا

بادل یہ آکاش کے سپنے ان زلفوں کے سائے ہیں
دوش ہوا پر میخانے ہی میخانے گھر آئے ہیں
رت بدلے گی پھول کھلیں گے جھونکے مدھ برسائیں گے
اُجلے اُجلے کھیتوں میں رنگین آنچل لہرائیں گے
چرواہے بنسی کی دھن سے گیت فضا میں بوئیں گے
آموں کے جھنڈوں کے نیچے پردیسی دل کھوئیں گے
پینگ بڑھاتی گوری کے ماتھے سے کوندے لپکیں گے
جوہڑ کے ٹھہرے پانی میں تارے آنکھیں جھپکیں گے
الجھی الجھی راہوں میں وہ آنچل تھامے آئیں گے
دھرتی، پھول ، آکاش ، ستارے سپنا سا بن جائیں گے

کل بھی بوندیں برسی تھیں
کل بھی بادل چھائے تھے
اور کوی نے سوچا تھا

2

آج بھی بوندیں برسیں گی
آج بھی بادل چھائے ہیں
۔۔۔اور کوی اس سوچ میں ہے

بستی پر بادل چھائے ہیں پر یہ بستی کس کی ہے
دھرتی پر امرت برسے گا لیکن دھرتی کس کی ہے
ہل جوتے گی کھیتوں میں الہڑ ٹولی دہقانوں کی
دھرتی سے پھوٹے گی محنت فاقہ کش انسانوں کی
فصلیں کاٹ کے محنت کش غلّے کے ڈھیر لگائیں گے
جاگیروں کے مالک آ کر سب پونجی لے جائیں گے
بوڑھے دہقانوں کے گھر ، بنیے کی قرقی آئے گی
اور قرضے کے سود میں کوئی گوری بیچی جائے گی
آج بھی جنتا بھوکی ہے کل بھی جنتا ترسی تھی
آج بھی رم جھم برکھا ہو گی کل بھی بارش برسی تھی

آج بھی بادل چھائے ہیں
آج بھی بوندیں برسیں گی
۔۔۔۔اور کوی اس سوچ میں ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



ہراس

تیرے ہونٹوں پہ تبسم کی وہ ہلکی سی لکیر
میرے تخئیل میں رہ رہ کے جھلک اٹھتی ہے
یوں اچانک ترے عارض کا خیال آتا ہے
جیسے ظلمت میں کوئی شمع بھڑک اٹھتی ہے

تیرے پیراہنِ رنگیں کی جنوں خیز مہک
خواب بن بن کے مرے ذہن میں لہراتی ہے
رات کی سرد خموشی میں ہر اک جھونکے سے
ترے انفاس، ترے جسم کی آنچ آتی ہے

میں سلگتے ہوئے رازوں کو عیاں تو کر دوں
لیکن ان رازوں کی تشہیر سے جی ڈرتا ہے
رات کے خواب اجالے میں بیاں تو کر دوں
ان حسیں خوابوں کی تعبیر سے جی ڈرتا ہے

تیری سانسوں کی تھکن، تیری نگاہوں کا سکوت
درحقیقت کوئی رنگین شرارت ہی نہ ہو
میں جسے پیار کا انداز سمجھ بیٹھا ہوں
وہ تبسم، وہ تکلم تری عادت ہی نہ ہو

سوچتا ہوں کہ تجھے مل کے میں جس سوچ میں ہوں
پہلے اس سوچ کا مقسوم سمجھ لوں تو کہوں
میں ترے شہر میں انجان ہوں پردیسی ہوں
تیرے الطاف کا مفہوم سمجھ لوں تو کہوں

کہیں ایسا نہ ہو پاؤں مرے تھرّا جائیں
اور تری مرمریں بانہوں کا سہارا نہ ملے
اشک بہتے رہیں خاموش سیہ راتوں میں
اور ترے ریشمی آنچل کا کنارا نہ ملے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



اسی دو راہے پر



اب نہ اُن اونچے مکانوں میں قدم رکھوں گا
میں نے اک بار یہ پہلے بھی قسم کھائی تھی
اپنی نادار محبت کی شکستوں کے طفیل
زندگی پہلے بھی شرمائی تھی جھنجلائی تھی

اور یہ عہد کیا تھا کہ بہ ایں حال تباہ
اب کبھی پیار بھرے گیت نہیں گاؤں گا
کسی چلمن نے پکارا بھی تو بڑھ جاؤں گا
کوئی دروازہ کھلا بھی تو پلٹ آؤں گا

پھر ترے کانپتے ہونٹوں کی فسوں کار ہنسی
جال بننے لگی، بنتی رہی، بنتی ہی رہی
میں کھنچا تجھ سے ، مگر تو مری راہوں کے لیے
پھول چنتی رہی، چنتی رہی، چنتی ہی رہی

برف برسائی مرے ذہن و تصور نے مگر
دل میں اک شعلۂ بے نام سا لہرا ہی گیا
تیری چپ چاپ نگاہوں کو سلگتے پا کر
میری بیزار طبیعت کو بھی پیار آ ہی گیا

اپنی بدلی ہوئی نظروں کے تقاضے نہ چھپا
میں اس انداز کا مفہوم سمجھ سکتا ہوں
تیرے زر کار دریچوں کی بلندی کی قسم
اپنے اقدام کا مقسوم سمجھ سکتا ہوں

اب نہ اُن اونچے مکانوں میں قدم رکھوں گا
میں نے اک بار یہ پہلے بھی قسم کھائی تھی
اسی سرمایہ و افلاس کے دو راہے پر
زندگی پہلے بھی شرمائی تھی جھنجھلائی تھی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ایک تصویرِ رنگ

میں نے جس وقت تجھے پہلے پہل دیکھا تھا
تو جوانی کا کوئی خواب نظر آئی تھی
حسن کا نغمۂ جاوید ہوئی تھی معلوم
عشق کا جذبۂ بے تاب نظر آئی تھی

اے طرب زار جوانی کی پریشاں تتلی
تو بھی اک بوئے گرفتار ہے معلوم نہ تھا
تیرے جلوؤں میں بہاریں نظر آتی تھیں مجھے
تو ستم خوردۂ ادبار ہے معلوم نہ تھا

تیرے نازک سے پروں پر یہ زر و سیم کا بوجھ
تیری پرواز کو آزار نہ ہونے دے گا
تو نے راحت کی تمنا میں جو غم پالا ہے
وہ تری روح کو آباد نہ ہونے دے گا

تو نے سرمائے کی چھاؤں میں پنپنے کے لیے
اپنے، دل اپنی محبت کا لہو بیچا ہے
دن کی تزئینِ فسردہ کا اثاثہ لے کر
شوخ راتوں کی مسرت کا لہو بیچا ہے

زخم خوردہ ہیں تخیل کی اڑانیں تیری
تیرے گیتوں میں تری روح کے غم پلتے ہیں
سرمگیں آنکھوں میں یوں حسرتیں لَو دیتی ہیں
جیسے ویران مزاروں پہ دیے جلتے ہیں

اس سے کیا فائدہ ؟ رنگین لبادوں کے تلے
روح جلتی رہے، گھلتی رہے، پژمردہ رہے
ہونٹ ہنستے ہوں دکھاوے کے تبسم کے لیے
دل غمِ زیست سے بوجھل رہے ، آزردہ رہے

دل کی تسکین بھی ہے آسائشِ ہستی کی دلیل
زندگی صرف زر و سیم کا پیمانہ نہیں
زیست احساس بھی ہے، شوق بھی ہے، درد بھی ہے
صرف انفاس کی ترتیب کا افسانہ نہیں

عمر بھر رینگے رہنے سے کہیں بہتر ہے
ایک لمحہ جو تری روح میں وسعت بھر دے
ایک لمحہ جو ترے گیت کو شوخی دے دے
ایک لمحہ جو تیری لَے میں مسرت بھر دے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



ایک شام

قمقموں کی زہر اگلتی روشنی
سنگ دل پر ہول دیواروں کے سائے
آہنی بت، دیو پیکر اجنبی
چیختی چنگھاڑتی خونیں سرائے
روح الجھی جا رہی ہے کیا کروں
چار جانب ارتعاشِ رنگ و نور
چار جانب اجنبی بانہوں کے جال
چار جانب خوں فشاں پرچم بلند
میں، مری غیرت، مرا دستِ سوال
زندگی شرما رہی ہے کیا کروں
گار گاہِ زیست کے ہر موڑ پر
روح چنگیزی برافگندہ نقاب
تھام اے صبح جہانِ نو کی ضوء
جاگ اے مستقبلِ انساں کے خواب
آس ڈوبی جا رہی ہے کیا کروں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



احساسِ کامراں

افقِ روس سے پھوٹی ہے نئی صبح کی ضو
شب کا تاریک جگر چاک ہوا جاتا ہے
تیرگی جتنا سنبھلنے کے لیے رکتی ہے
سرخ سیل اور بھی بے باک ہوا جاتا ہے

سامراج اپنے وسیلوں پہ بھروسہ نہ کرے
کہنہ زنجیروں کی جھنکاریں نہیں رہ سکتیں
جذبۂ نصرتِ جمہور کی بڑھتی رو میں
ملک اور قوم کی دیواریں نہیں رہ سکتیں

سنگ و آہن کی چٹانیں ہیں عوامی جذبے
موت کے رینگتے سایوں سے کہو ہٹ جائیں
کروٹیں لے کے مچلنے کو ہے سیلِ انوار
تیرہ و تار گھٹاؤں سے کہو چھٹ جائیں

سالہا سال کے بے چین شراروں کا خروش
اک نئی زیست کا در باز کیا چاہتا ہے
عزمِ آزادیِ انساں، پہ ہزاروں جبروت
اک نئے دور کا آغاز کیا چاہتا ہے

برتر اقوام کے مغرور خداؤں سے کہو
آخری بار ذرا اپنا ترانہ دہرائیں
اور پھر اپنی سیاست پہ پشیماں ہو کر
اپنے ناکام ارادوں کا کفن لے آئیں

سرخ طوفان کی موجوں کو جکڑنے کے لیے
کوئی زنجیرِ گراں کام نہیں آ سکتی
رقص کرتی ہوئی کرنوں کے تلاطم کی قسم
عرصۂ دہر پہ اب شام نہیں چھا سکتی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



میرے گیت تمہارے ہیں


اب تک میرے گیتوں میں امید بھی تھی پسپائی بھی
موت کے قدموں کی آہٹ بھی جیون کی انگڑائی بھی
مستقبل کی کرنیں بھی تھیں حال کی بوجھل ظلمت بھی
طوفانوں کا شور بھی تھا اور خوابوں کی شہنائی بھی

آج سے میں اپنے گیتوں میں آتش پارے بھر دوں گا
مدھم، لچکیلی تانوں میں جیوٹ دھارے بھر دوں گا
جیون کے اندھیارے پتھ پر مشعل لے کر نکلوں گا
دھرتی کے پھیلے آنچل میں سرخ ستارے بھر دوں گا

آج سے اے مزدور کسانو! میرے گیت تمہارے ہیں
فاقہ کش انسانو! میرے جوگ بہاگ تمہارے ہیں
جب تک تم بھوکے ننگے ہو، یہ نغمے خاموش نہ ہونگے
جب تک بے آلام ہو تم یہ نغمے راحت کوش نہ ہونگے

مجھ کو اس کا رنج نہیں ہے لوگ مجھے فنکار نہ مانیں
فکر و فن کے تاجر میرے شعروں کو اشعار نہ مانیں
میرا فن میری امیدیں ، آج سے تم کو ارپن ہیں!
آج سے میرے گیت تمہارے دکھ اور سکھ کا درپن ہیں

تم سے قوت لے کر اب میں تم کو رہ دکھلاؤں گا
تم پرچم لہرانا ساتھی میں بربط پر گاؤں گا
آج سے میرے فن کا مقصد زنجیریں پگھلانا ہے
آج سے میں شبنم کے بدلے انگارے برساؤں گا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اپنی تباہی کا مجھے کوئی غم نہیں
تم نے کسی کے ساتھ محبت نبھا تو دی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


میں نہیں تو کیا؟

مرے لیے یہ تکلف، یہ دکھ ،یہ حسرت کیوں
مری نگاہِ طلب، آخری نگاہ نہ تھی
حیات زارِ جہاں کی طویل راہوں میں
ہزار دیدۂ حیراں فسوں بکھیریں گے
ہزار چشم تمنا بنے گی دستِ سوال
نکل کے خلوتِ غم سے نظر اُٹھاؤ تو

وہی شفق ہے، وہی ضو ہے، میں نہیں تو کیا؟

مرے بغیر بھی تم کامیابِ عشرت تھیں
مرے بغیر بھی آباد تھے نشاط کدے
مرے بغیر بھی تم نے دیے جلائے ہیں
مرے بغیر بھی دیکھا ہے ظلمتوں کا نزول
مرے نہ ہونے سے امید کا زیاں کیوں ہو
بڑھی چلو مئے عشرت کا جام چھلکاتی
تمہاری سیج، تمہارے بدن کے پھولوں پر

اسی بہار کا پرتو ہے، میں نہیں تو کیا؟

مرے لیے یہ اداسی، یہ سوگ کیوں آخر
ملیح چہرے پہ گردِ فسردگی کیسی
بہارِ غازہ سے عارض کو تازگی بخشو
علیل آنکھوں میں کاجل لگاؤ رنگ بھرو
سیاہ جوڑے میں کلیوں کی کہکشاں گوندھو
ہزار ہانپتے سینے ہزار کانپتے لب
تمہاری چشمِ توجّہ کے منتظر ہیں ابھی
جلو میں نغمہ و رنگ و بہارو نور لیے

حیات گرمِ تگ و دو ہے، میں نہیں تو کیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


خود کشی سے پہلے

اُف یہ بے درد سیاہی یہ ہوا کے جھونکے
کس کو معلوم ہے اس شب کی سحر ہو کہ نہ ہو
اک نظر تیرے دریچے کی طرف دیکھ تو لوں
ڈوبتی آنکھوں میں پھر تابِ نظر ہو کہ نہ ہو

ابھی روشن ہیں ترے گرم شبستاں کے دیے
نیلگوں پردوں سے چھنتی ہیں شعاعیں اب تک
اجنبی بانہوں کے حلقے میں لچکتی ہوں گی
تیرے مہکے ہوئے بالوں کی ردائیں اب تک

سرد ہوتی ہوئی بتی کے دھوئیں کے ہمراہ
ہاتھ پھیلائے بڑھے آتے ہیں بوجھل سائے
کون پونچھے مری آنکھوں کے سلگتے آنسو
کون الجھے ہوئے بالوں کی گرہ سلجھائے

آہ یہ غارِ ہلاکت، یہ دیے کا مجلس
عمر اپنی انہی تاریک مکانوں میں کٹی
زندگی فطرت بے حسن کی پرانی تقصیر
اک حقیقت تھی مگر چند فسانوں میں کٹی

کتنی آسائشیں ہنستی رہیں ایوانوں میں
کتنے در میری جوانی پہ سدا بند رہے
کتنے ہاتھوں نے بنا اطلس و کمخواب مگر
میرے ملبوس کی تقدیر میں پیوند رہے

ظلم سہتے ہوئے انسانوں کے اس مقتل میں
کوئی فردا کے تصور سے کہاں تک بہلے
عمر بھر رینگتے رہنے کی سزا ہے جینا
ایک دو دن کی اذیت ہو تو کوئی سہہ لے

وہی ظلمت ہے فضاؤں پہ ابھی تک طاری
جانے کب ختم ہو انساں کے لہو کی تقطیر
جانے کب نکھرے سیہ پوش فضا کا جوبن
جانے کب جاگے ستم خوردہ بشر کی تقدیر

ابھی روشن ہیں ترے گرم شبستاں کے دیے
آج میں موت کے غاروں میں اتر جاؤں گا
اور دم توڑتی بتی کے دھوئیں کے ہمراہ
سرحدِ مرگِ مسلسل سے گزر جاؤں گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



پھر وہی کنجِ قفس

چند لمحوں کے لیے شور اٹھا ڈوب گیا
کہنہ زنجیرِ غلامی کی گرہ کٹ نہ سکی
پھر وہی سیلِ بلا، وہی دامِ امواج
ناخداؤں میں سفینے کی جگہ بٹ نہ سکی

ٹوٹتے دیکھ کے دیرینہ تعطل کا فسوں
نبضِ امیدِ وطن ابھری، مگر ڈوب گئی
پیشواؤں کی نگاہوں میں تذبذب پاکر
ٹوٹتی رات کے سائے میں سحر ڈوب گئی

میرے محبوب وطن! تیرے مقدر کے خدا
دستِ اغیار میں قسمت کے عناں چھوڑ گئے
اپنی یک طرفہ سیاست کے تقاضوں کے طفیل
ایک بار اور تجھے نوحہ کناں چھوڑ گئے

پھر وہی گوشۂ زنداں ہے ، وہی تاریکی
پھر وہی کہنہ سلاسل، وہی خونیں جھنکار
پھر وہی بھوک سے انساں کی ستیزہ کاری
پھر وہی ماؤں کے نوحے، وہی بچوں کی پکار
تیرے رہبر تجھے مرنے کے لیے چھوڑ چلے
ارضِ بنگال! انھیں ڈوبتی سانسوں کی پکار

بول! چٹگاؤں کی مظلوم خموشی کچھ بول
بول اے پیپ سے رستے ہوئے سینوں کی بہار
بھوک اور قحط کے طوفان بڑھے آتے ہیں
بول اے عصمت و عفت کے جنازوں کی قطار

روک ان ٹوٹتے قدموں کو انھیں پوچھ ذرا
پوچھ اے بھوک سے دم توڑتے ڈھانچوں کی قطار

زندگی جبر کے سانچوں میں ڈھلے گی کب تک
ان فضاؤں میں ابھی موت پلے گی کب تک

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


اشعار

نفس کے لوچ میں رم ہی نہیں کچھ اور بھی ہے
حیات، ساغر سم ہی نہیں کچھ اور بھی ہے

تری نگاہ مرے غم کی پاسدار سہی
مری نگاہ میں غم ہی نہیں کچھ اور بھی ہے

مری ندیم! محبت کی رفعتوں سے نہ گر
بلند بامِ حرم ہی نہیں کچھ اور بھی ہے

یہ اجتناب ہے عکسِ شعورِ محبوبی
یہ احتیاطِ ستم ہی نہیں کچھ اور بھی ہے

ادھر بھی ایک اچٹتی نظر کہ دنیا میں
فروغِ محفلِ جم ہی نہیں کچھ اور بھی ہے

نئے جہان بسائے ہیں فکرِ آدم نے
اب اس زمیں پہ ارم ہی نہیں کچھ اور بھی ہے

مرے شعور کو آوارہ کر دیا جس نے
وہ مرگِ شادی و غم ہی نہیں، کچھ اور بھی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



نور جہاں کے مزار پر



پہلوئے شاہ میں دخترِ جمہور کی قبر
کتنے گم گشتہ فسانوں کا پتہ دیتی ہے
کتنے خوں ریز حقائق سے اٹھاتی ہے نقاب
کتنی کچلی ہوئی جانوں کا پتہ دیتی ہے

کیسے مغرور شہنشاہوں کی تسکیں کے لیے
سالہا سال حسیناؤں کے بازار لگے
کیسے بہکی ہوئی نظروں کے تعیش کے لیے
سرخ محلوں میں جواں جسموں کے انبار لگے

کیسے ہر شاخ سے منہ بند مہکتی کلیاں
نوچ لی جاتی تھیں تزئین حرم کی خاطر
اور مرجھا کے بھی آزاد نہ ہو سکتی تھیں
ظل سبحان کی الفت کے بھرم کی خاطر

کیسے اک فرد کے ہونٹوں کی ذرا سی جنبش
سرد کر سکتی تھی بے لوث وفاؤں کے چراغ
لوٹ سکتی تھی دمکتے ہوئے ہاتھوں کا سہاگ
توڑ سکتی تھی مئے عشق سے لبریز ایاغ

سہمی سہمی سی فضاؤں میں یہ ویراں مرقد
اتنا خاموش ہے فریاد کناں ہو جیسے
سرد شاخوں میں ہوا چیخ رہی ہے ایسے
روحِ تقدیس و وفا مرثیہ خواں ہو جیسے

تو مری جان! مجھے حیرت و حسرت سے نہ دیکھ
ہم میں کوئی بھی جہاں نور و جہاں گیر نہیں
تو مجھے چھوڑ کے ٹھکرا کے بھی جا سکتی ہے
تیرے ہاتھوں میں مرے ہاتھ ہیں زنجیر نہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


جاگیر


پھر اُسی وادیِ شاداب میں لوٹ آیا ہوں
جس میں پنہاں مرے خوابوں کی طرب گاہیں ہیں
میرے احباب کے سامانِ تعیش کے لیے
شوخ سینے ہیں، جواں جسم حسیں‌بانہیں ہیں

سبز کھیتوں میں یہ دہکی ہوئی دوشیزائیں
ان کی شریانوں میں کس کس کا لہو جاری ہے
کس میں جرأت ہے کہ اس راز کی تشہیر کرے
سب کے لب پر مری ہیبت کا فسوں طاری ہے

ہائے وہ گرم و دل آویز ابلتے سینے
جن سے ہم سطوتِ آبا کا صلہ لیتے ہیں
جانے ان مرمریں جسموں کو یہ مریل دہقاں
کیسے ان تیرہ گھروندوں میں جنم دیتے ہیں

یہ لہکتے ہوئے پودے، یہ دمکتے ہوئے کھیت
پہلے اجداد کی جاگیر تھے اب میرے ہیں
یہ چراگاہ، یہ ریوڑ، یہ مویشی یہ کساں
سب کے سب میرے ہیں، سب میرے ہیں، سب میرے ہیں

ان کی محنت بھی مری، حاصل محنت بھی مرا
ان کے بازو بھی مرے قوتِ‌ بازو بھی مری
میں‌خداوند ہوں اُس وسعتِ بے پایاں کا
موجِ عارض بھی مری نکہتِ گیسو بھی مری

میں ان اجداد کا بیٹا ہوں جنہوں نے پیہم
اجنبی قوم کے سائے کی حمایت کی ہے
عذر کی ساعتِ ناپاک سے لے کر اب تک
ہر کڑے وقت میں سرکار کی خدمت کی ہے

خاک پر رینگنے والے یہ فسردہ ڈھانچے
ان کی نظریں کبھی تلوار بنی ہیں نہ بنیں
ان کی غیرت پہ ہر اک ہاتھ جھپٹ سکتا ہے
ان کے ابرو کی کمانیں نہ تنی ہیں نہ تنیں

ہائے یہ شام، یہ جھرنے ، یہ شفق کی لالی
ہیں ان آسودہ فضاؤں میں‌ ذرا جھوم نہ لوں
وہ دبے پاؤں ادھر کون چلی جاتی ہے
بڑھ کے اس شوخ کے ترشے ہوئے لب چوم نہ لوں



مادام



آپ بے وجہ پریشاں سی کیوں ہیں مادام
لوگ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے
میرے احباب نے تہذیب نہ سیکھی ہو گی
میرے ماحول میں انسان نہ رہتے ہوں گے

نورِ سرمایہ سے ہے روئے تمدن کی جلا
ہم جہاں ہیں وہاں تہذیب نہیں پل سکتی
مفلسی حسِ لطافت کو مٹا دیتی ہے
بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں‌ڈھل سکتی

لوگ کہتے ہیں تو لوگوں کو تعجب کیسا
سچ تو کہتے ہیں کہ ناداروں کی عزت کیسی
لوگ کہتے ہیں، مگر آپ ابھی تک چپ ہیں
آپ بھی کہیئے، غریبوں کی شرافت کیسی

نیک مادام! بہت جلد وہ دور آئے گا
جب ہمیں زیست کے ادوار پرکھنے ہوں‌گے
اپنی ذلت کی قسم، آپ کی عظمت کی قسم
ہم کو تعظیم کے معیار پرکھنے ہوں گے

ہم نے ہر دور میں‌تذلیل سہی ہے لیکن
ہم نے ہر دور کے چہرے کو ضیا بخشی ہے
ہم نے ہر دور میں‌ محنت کے ستم جھیلے ہیں
ہم نے ہر دور کے ہاتھوں کو حنا بخشی ہے

لیکن اس تلخ مباحث سے بھلا کیا حاصل
لوگ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے
میرے احباب نے تہذیب نہ سیکھی ہو گی
میں‌ جہاں ہوں وہاں انسان نہ رہتے ہوں گے

وجہِ بے رنگیِ گلزار کہوں یا نہ کہوں!!
کون ہے کتنا گنہگار کہوں یا نہ کہوں!!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مفاہمت

نشیبِ ارض پہ ذروں کو مشتعل پا کر
بلندیوں پہ سفید و سیاہ مل ہی گئے
جو یادگار تھے باہم ستیزہ کاری کی
بہ فیضِ وقت وہ دامن کے چاک سل ہی گئے

جہاد ختم ہوا دور آتشی آیا!
سنبھل کے بیٹھ گئے محملوں میں دیوانے
ہجوم تشنہ لباں کی نگاہ اوجھل
چھلک رہے ہیں شراب ہوس کے پیمانے

یہ جشن، جشنِ مسرت نہیں تماشا ہے
نئے لباس میں نکلا ہے رہزنی کا جلوس
ہزار شمع اخوت بجھا کے چمکے ہیں
یہ تیرگی کے ابھارے ہوئے حسیں فانوس
یہ شاخِ نور جسے ظلمتوں نے سینچا ہے
اگر پھلی تو شراروں کے پھول لائے گی
یہ پھل سکی تو نئی فصلِ گل کے آنے تک
ضمیرِ ارض میں اک زہر چھوڑ جائے گی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



آج


ساتھیو! میں نے برسوں تمہارے لیے
چاند، تاروں،بہاروں کے سپنے بنے

حسن اور عشق کے گیت گاتا رہا
آرزوؤں کے ایواں سجاتا رہا
میں تمہارا مغنی تمہارے لیے
جب بھی آیا نئے گیت گاتا رہا

آج لیکن مرے دامنِ چاک میں
گردِ راہِ سفر کے سوا کچھ نہیں
میرے بربط کے سینے میں نغموں کا دم گھٹ گیا
تانیں چیخوں کے انبار میں ‌دب گئیں
اور گیتوں کے سر ہچکیاں بن گئے
میں تمہارا مغنی ہوں، نغمہ نہیں ہوں
اور نغمے کی تخلیق کا سازو ساماں
ساتھیو! آج تم نے بھسم کر دیا ہے
اور میں اپنا ٹوٹا ہوا ساز تھامے
سرد لاشوں کے انبار کو تک رہا ہوں

میرے چاروں طرف موت کی وحشتیں ناچتی ہیں
اور انساں کی حیوانیت جاگ اٹھی ہے
بربریت کے خوں خوار عفریت
اپنے ناپاک جبڑوں کو کھولے
خون پی پی کے غرا رہے ہیں

بچھے ماؤں کی گودوں میں سہمے ہوئے ہیں
عصمتیں سر برہنہ پریشان ہیں
ہر طرف شورِ آہ و بکا ہے
اور میں اس تباہی کے طوفاں میں
آگ اور خوں کے ہیجان میں
سرنگوں‌اور شکستہ مکانوں کے ملبے سے پر راستوں پر
اپنے نغموں کی جھولی پسارے
دربدر پھر رہا ہوں!
مجھ کو امن اور تہذیب کی بھیک دو
میری گیتوں کی لے، میرا سر ، میری نے
میرے مجروح ہونٹوں کو پھر سونپ دو
ساتھیو! میں نے برسوں تمہارے لیے
انقلاب اور بغاوت کے نغمے الاپے
اجنبی راج کے ظلم کی چھاؤں میں
سرفروشی کے خوابیدہ جذبے ابھارے
اور اس صبح کی راہ دیکھی!
جس میں‌اس ملک کی روح آزاد ہو
آج زنجیر محکومیت کٹ چکی ہے
اور اس ملک کے بحر و بر بام و در
اجنبی قوم کے ظلمت افشاں پھریرے کی منحوس چھاؤں سے آزاد ہیں
کھیت سونا اگلنے کو بے چین ہیں
وادیاں لہلہانے کو بے تاب ہیں
کوہساروں کے سینے میں ہیجان ہے
سنگ اور خشت بے خواب و بیدار ہیں
ان کی آنکھوں میں‌تعمر کے خواب ہیں
ان کے خوابوں‌کو تکمیل کا روپ دو
ملک کی وادیاں، گھاٹیاں، کھیتیاں
عورتیں ‌بچیاں
ہاتھ پھیلائے خیرات کی منتظر ہیں
ان کو امن اور تہذیب کی بھیک دو
ماؤں کو ان کے ہونٹوں کی شادابیاں
ننھے بچوں کو ان کی خوشی بخش دو
مجھ کو میرا ہنر میری لے بخش دو
آج ساری فضا ہے بھکاری
اور میں اس بھکاری فضا میں
اپنے نغموں کی جھولی پسارے
دربدر پھر رہا ہوں
مجھ کو پھر میرا کھویا ہوا ساز دو
میں تمہارا مغنی تمہارے لیے
جب بھی آیا نئے گیت لاتا رہوں گا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


غزل

طرب زاروں پہ کیا بیتی صنم خانوں پہ کیا گزری
دلِ زندہ! تیرے مرحوم ارمانوں پہ کیا گزری

زمیں نے خون اگلا آسماں نے آگ برسائی
جب انسانوں کے دل بدلے تو انسانوں پہ کیا گزری

ہمیں یہ فکر اُن کی انجمن کس حال میں‌ ہو گی
انھیں یہ غم کہ اُن سے چھُٹ کے دیوانوں پہ کیا گزری

میرا الحاد تو خیر ایک لعنت تھا سو ہے اب تک
مگر اس عالمِ وحشت میں ایمانوں‌ پہ کیا گزری

یہ منظر کون سا منظر ہے پہچانا نہیں‌ جاتا
سیہ خانوں سے کچھ پوچھو شبستانوں پہ کیا گزری

چلو وہ کفر کے گھر سے سلامت آ گئے لیکن
خدا کی مملکت میں‌ سوختہ جانوں پہ کیا گزری

۔۔۔۔۔۔۔۔۔



نیا سفر ہے پرانے چراغ گل کر دو



فریبِ جنتِ فردا کے جال ٹوٹ گئے
حیات اپنی امیدوں پہ شرمسار سی ہے
چمن میں جشن و درودِ بہار ہو بھی چکا
مگر نگاہِ گل و لالہ سوگوار سی ہے

فضا میں گرم بگولوں کا رقص جاری ہے
افق پہ خون کی مینا چھک رہی ہے ابھی
کہاں کا مہرِ منور کہاں کی تنویریں
کہ بام و در پہ سیاہی جھلک رہی ہے ابھی

فضائیں سوچ رہی ہیں کہ ابنِ آدم نے
خرد گنوا کے جنوں آزما کے کیا پایا
وہی شکستِ تمنا وہی غمِ ایام!
نگارِ زیست نے سب کچھ لٹا کے کیا پایا

بھٹک کے رہ گئیں نظریں خلا کی وسعت میں
حریمِ شاہدِ رعنا کا کچھ پتہ نہ ملا
طویل راہ گزر ختم ہو گئی لیکن
ہنوز اپنی مسافت کا منتہا نہ ملا

سفر نصیب رفیقو! قدم بڑھائے چلو
پرانے راہنما لوٹ کر نہ دیکھیں گے
طلوعِ صبح سے تاروں کی موت ہوتی ہے
شبوں کے راج دلارے ادھر نہ دیکھیں گے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


شکستِ زنداں

چینی شاعر یانگ سو کے نام جس نے چیانک کائی شیک کے جیل میں لکھا تھا بیس سال قید کاغذ کے ایک پرزے پر لکھے ہوۓ چند الفاظ کی بنا پر ہو سکتا ہے کہ میں بیس سال تک سورج کی شکل نہ دیکھ سکوں، لیکن کیا تمہارا فرسودہ نظام جو لمحہ بہ لمحہ بجلی کی سی تیزی کے ساتھ اپنی موت کی طرف بڑھ رہا ہے۔ بیس سال تک زندہ رہ سکے گا


خبر نہیں کہ بلا خانۂ سلاسل میں
تیری حیاتِ ستم آشنا پہ کیا گزری
خبر نہیں کہ نگارِ سحر کی حسرت میں
تمام رات چراغِ وفا پہ کیا گزری

مگر وہ دیکھ فضا میں غبار سا اُٹھا
وہ تیرے سرخ جوانوں کے رہوار آئے
نظر اٹھا کہ وہ تیرے وطن کے محنت کش
گلے سے کہنہ غلامی کا طوق اتار آئے

افق پہ صبح بہاراں کی آمد آمد ہے
فضا میں سرخ پھریروں کے پھول کھلتے ہیں
زمین خندہ بلب ہے شفیق ماں کی طرح
کہ اس کی گود میں بچھڑے رفیق ملتے ہیں!

شکستِ مجلس و زنداں کا وقت آ پہنچا
وہ تیرے خواب حقیقت میں ڈھال آئے ہیں
نظر اُٹھا کہ ترے دیس کی فضاؤں پر
نئی بہار نئی جنتوں کے سائے ہیں

دریدہ تن ہے وہ قحبائے سیم و زر جس کو
بہت سنبھال کے لائے تھے شاطرانِ کہن
رباب چھیڑ غزل خواں ہو رقص فرما ہو
کہ جشنِ نصرت محنت ہے جشنِ نصرتِ فن

میں تجھ سے دور سہی لیکن اے رفیق مرے
تری وفا کو مری جہدِ مستقل کا سلام
ترے وطن کو تری ارضِ با حمیت کو
دھڑکتے کھولتے ہندوستاں کے دل کا سلام

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



لہو نذر دے رہی حیات



مرے جہاں میں سمن زار ڈھونڈنے والے
یہاں بہار نہیں آتشیں بگولے ہیں

دھنک کے رنگ نہیں سرمئی فضاؤں میں
افق سے تابہ اُفق پھانسیوں کے جھولے ہیں
پھر ایک منزلِ خونبار کی طرف ہیں رواں
وہ رہنما جو کئی بار راہ بھولے ہیں

بلند دعویٰ جمہوریت کے پردے میں
فروغِ مجلسِ زنداں ہیں تازیانے ہیں
بنامِ امن ہیں جنگ و جدل کے منصوبے
یہ شورِ عدل، تفاوت کے کارخانے ہیں

دلوں پہ خوف کے پہرے لبوں پہ قفل سکوت
سروں پہ گرم سلاخوں کے شامیانے ہیں

مگر ہٹے ہیں کہیں جبر اور تشدد سے
وہ فلسفے کہ جلا دے گئے دماغوں کو
کوئی سپاہِ ستم پیشہ چور کر نہ سکی
بشر کی جاگی ہوئی روح کے ایاغوں کو
قدم قدم پہ لہو نذر دے رہی ہے حیات
سپاہیوں سے الجھتے ہوئے چراغوں کو

رواں ہے قافلۂ ارتقائے انسانی
نظامِ آتش و آہن کا دل ہلائے ہوئے
بغاوتوں کے دہل بج رہے ہیں چار طرف
نکل رہے ہیں جواں مشعلیں جلائے ہوئے
تمام ارضِ جہاں کھولتا سمندر ہے
تمام کوہ و بیاباں میں تلملائے ہوئے

مری صدا کو دبانا تو خیر ممکن ہے
مگر حیات کی للکار، کون روکے گا؟
فصیلِ آتش و آہن بہت بلند سہی
بدلتے وقت کی رفتار کون روکے گا؟
نئے خیال کی پرواز روکنے والے
نئے عوام کی تلوار کون روکے گا؟

پناہ لیتا ہے جن مجلسوں میں تیرہ نظام
وہیں سے صبح کے لشکر نکلنے والے ہیں
ابھر رہے ہیں فضاؤں میں احمریں پرچم
کنارے مشرق و مغرب کے ملنے والے ہیں
ہزار برق گرے، لاکھ آندھیاں اٹھیں
وہ پھول کھل کے رہیں گے جو کھلنے والے ہیں


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


غزل


جب کبھی ان کی توجہ میں کمی پائی گئی
از سرِ نو داستانِ شوق دہرائی گئی

بک گئے جب تیرے لب پھر تجھ کو کیا شکوہ اگر
زندگانی بادہ و ساغر سے بہلائی گئی

اے غمِ دنیا! تجھے کیا علم تیرے واسطے
کن بہانوں سے طبعیت راہ پر لائی گئی

ہم کریں ترکِ وفا اچھا چلو یوں ہی سہی
اور اگر ترکِ وفا سے بھی نہ رسوائی گئی

کیسے کیسے چشم و عارض گردِ غم سے بجھ گئے
کیسے کیسے پیکروں کی شانِ  زیبائی گئی

دل کی دھڑکن میں توازن آ چلا ہے خیر ہو
میری نظریں بجھ گئیں یا تیری رعنائی گئی

اُن کا غم ، اُن کا تصور ان کے شکوے اب کہاں
اب تو یہ باتیں بھی اے دل ہو گئیں آئی گئیں

جرأت انساں پہ گو تادیب کے پہرے رہے
فطرتِ انساں کو کب زنجیر پہنائی گئی

عرصۂ ہستی میں اب تیشہ زنوں کا دور ہے
رسمِ چنگیزی اُٹھی، توقیر دارائی گئی!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


آوازِ آدم

دبے گی کب تلک آوازِ آدم ہم بھی دیکھیں گے
رکیں گے کب تلک جذبات برہم ہم بھی دیکھیں گے
چلو یونہی سہی یہ جورِ پیہم ہم بھی دیکھیں گے

در زنداں سے دیکھیں یا عروجِ دار سے دیکھیں
تمہیں رسوا سرِ بازارِ عالم ہم بھی دیکھیں گے
ذرا دم لو مآلِ شوکتِ جم، ہم بھی دیکھیں گے

یہ زعمِ قوتِ فولاد و آہن دیکھ لو تم بھی
بہ فیض جذبۂ ایمان محکم ہم بھی دیکھیں گے
جبینِ کج کلاہی خاک پر خم، ہم بھی دیکھیں گے

مکافاتِ عمل، تاریخ انساں کی روایت ہے
کرو گے کب تلک ناوک فراہم، ہم بھی دیکھیں گے
کہاں تک ہے تمہارے ظلم میں دم ہم بھی دیکھیں گے

یہ ہنگامِ وداع شب ہے، اے ظلمت کے فرزندو
سحر کے دوش پر گلنار پرچم ہم بھی دیکھیں گے
تمہیں بھی دیکھنا ہو گا یہ عالم ہم بھی دیکھیں گے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔




متاعِ غیر


میرے خوابوں کے جھروکوں کو سجانے والی
تیرے خوابوں میں کہیں میرا گزر ہے کہ نہیں
پوچھ کر اپنی نگاہوں سے بتا دے مجھ کو
میری راتوں کے مقدر میں سحر ہے کہ نہیں

چار دن کی یہ رفاقت جو رفاقت بھی نہیں
عمر بھر کے لیے آزار ہوئی جاتی ہے
زندگی یوں تو ہمیشہ سے پریشان سی تھی
اب تو ہر سانس گراں بار ہوئی جاتی ہے

میری اجڑی ہوئی نیندوں کے شبستانوں میں
تو کسی خواب کے پیکر کی طرح آئی ہے
کبھی اپنی سی، کبھی غیر نظر آئی ہے
کبھی اخلاص کی مورت کبھی ہرجائی ہے

پیار پر بس تو نہیں ہے مرا لیکن پھر بھی
تو بتا دے کہ تجھے پیار کروں یا نہ کروں
تو نے خود اپنے تبسم سے جگایا ہے جنہیں
ان تمناؤں کا اظہار کروں یا نہ کروں

تو کسی اور کے دامن کی کلی ہے لیکن
میری راتیں تری خوشبو سے بسی رہتی ہیں
تو کہیں بھی ہو ترے پھول سے عارض کی قسم
تیری پلکیں مری آنکھوں پہ جھکی رہتی ہیں

تیرے ہاتھوں کی حرارت، ترے سانسوں کی مہک
تیرتی رہتی ہے احساس کی پہنائی میں
ڈھونڈھتی رہتی ہیں تخئیل کی بانہیں تجھ کو
سرد راتوں کی سلگتی ہوئی تنہائی میں

تیرا اندازِ کرم ایک حقیقت ہے مگر
یہ حقیقت بھی حقیقت میں فسانہ ہی نہ ہو
تیری مانوس نگاہوں کا یہ محتاط پیام
دل کے خوں کرنے کا ایک اور بہانہ ہی نہ ہو

کون جانے میرے امروز کا فردا کیا ہے
قربتیں بڑھ کے پشیمان بھی ہو جاتی ہیں
دل کے دامن سے لپٹتی ہوئی رنگیں نظریں
دیکھتے دیکھتے انجان بھی ہو جاتی ہیں

میری درماندہ جوانی کی تمناؤں کے
مضمحل خواب کی تعبیر بتا دے مجھ کو
تیرے دامن میں گلستاں بھی ہیں ویرانے بھی
میرا حاصل مری تقدیر بتا دے مجھ کو


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



بشرطِ استواری

خونِ جمہور میں بھیگے ہوئے پرچم لے کر
مجھ سے افراد کی شاہی نے وفا مانگی ہے
صبح کے نور پہ تعزیر لگانے کے لیے
شب کی سنگین سیاہی نے وفا مانگی ہے
اور یہ چاہا ہے کہ میں قافلۂ آدم کو
ٹوکنے والی نگاہوں کا مددگار بنوں!
جس تصور سے چراغاں ہے سر جادۂ زیست
اس تصور کی ہزیمت کا گنہگار بنوں!
ظلم پروردہ قوانین کے ایوانوں سے
بیڑیاں تکتی ہیں زنجیر صدا دیتی ہے
طاقِ تادیب سے انصاب کے بت گھورتے ہیں
مسندِ عدل سے شمشیر صدا دیتی ہے
لیکن اے عظمتِ انساں کے سنہرے خوابو
میں کسی تاج کی سطوت کا پرستار نہیں
میرے افکار کا عنوانِ ارادت تم ہو
میں تمہارا ہوں لٹیروں کا وفادار نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



غزل

ہر قدم مرحلۂ دار و صلیب آج بھی ہے
جو کبھی تھا وہی انساں کا نصیب آج بھی ہے

جگمگاتے ہیں افق پر یہ ستارے لیکن
راستہ منزل ہستی کا مہیب آج بھی ہے

سر مقتل جنہیں جانا تھا وہ جا بھی پہنچے
سر منبر کوئی محتاط خطیب آج بھی ہے

اہل دانش نے جسے امرِ مسلم مانا
اہلِ دل کے لیے وہ بات عجیب آج بھی ہے

یہ تری یاد ہے یا میری اذیت کوشی
ایک نشتر سا رگِ جاں کے قریب آج بھی ہے

کون جانے یہ تیرا شاعرِ آشفتہ مزاج
کتنے مغرور خداؤں کا رقیب آج بھی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


انتظار
چاند مدھم ہے آسماں چپ ہے
نیند کی گود میں جہاں چپ ہے

دور وادی میں دودھیا بادل
جھک کے پربت کو پیار کرتے ہیں
دل میں ناکام حسرتیں لے کر
ہم ترا انتظار کرتے ہیں

ان بہاروں کے سائے میں آ جا
پھر محبت جواں رہے نہ رہے
زندگی تیرے نا مرادوں پر!
کل تلک مہرباں رہے نہ رہے

روز کی طرح آج بھی تارے
صبح کی گرد میں نہ کھو جائیں
آ ترے غم میں جاگتی آنکھیں
کم سے کم ایک رات سو جائیں

چاند مدھم ہے آسماں چپ ہے
نیند کی گود میں جہاں چپ ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔




تیری آواز


رات سنسان تھی بوجھل تھیں فضا کی سانسیں
روح پر چھائے تھے بے نام غموں کے سائے
دلِ کو یہ ضد تھی کہ تو آئے تسلی دینے
میری کوشش تھی کہ کمبخت کو نیند آ جائے

دیر تک آنکھوں میں چبھتی رہی تاروں کی چمک
دیر تک ذہن سلگتا رہا تنہائی میں
اپنے ٹھکرائے ہوئے دوست کی پرسش کے لیے
تو نہ آئی مگر اس رات کی پہنائی میں

یوں اچانک تری آواز کہیں سے آئی
جیسے پربت کا جگر چیر کے جھرنا پھوٹے
یا زمینوں کی محبت میں تڑپ کر ناگاہ
آسمانوں سے کوئی شوخ ستارہ ٹوٹے

شہد سا گھل گیا تلخابۂ تنہائی میں
رنگ سا پھیل گیا دل کے سیہ خانے میں
دیر تک یوں تری مستانہ صدائیں گونجیں
جس طرح پھول چٹکنے لگیں ویرانے میں

تو بہت دور کسی انجمنِ ناز میں تھی
پھر بھی محسوس کیا میں نے کہ تو آئی ہے
اور نغموں میں چھپا کر مرے کھوئے ہوئے خواب
میری روٹھی ہوئی نیندوں کو منا لائی ہے

رات کی سطح پر اُبھرے ترے چہرے کے نقوش
وہی چپ چاپ سی آنکھیں وہی سادہ سی نظر
وہی ڈھلکا ہوا آنچل وہی رفتار کا خم
وہی رہ رہ کے لچکتا ہوا نازک پیکر

تو مرے پاس نہ تھی پھر بھی سحر ہونے تک
تیرا ہر سانس مرے جسم کو چھو کر گزرا!
قطرہ قطرہ ترے دیدار کی شبنم ٹپکی
لمحہ لمحہ تری خوشبو سے معطر گزرا!

اب یہی ہے تجھے منظور تو اے جانِ قرار
میں تری راہ نہ دیکھوں گا سیہ راتوں میں
ڈھونڈ لیں گی مری ترسی ہوئی نظریں تجھ کو
نغمہ و شعر کی امڈی ہوئی برساتوں میں

اب ترا پیار ستائے گا تو میری ہستی!
تیری مستی بھری آواز میں ڈھل جائے گی
اور یہ روح جو تیرے لیے بے چین سی ہے
گیت بن کر ترے ہونٹوں پہ مچل جائے گی

تیرے نغمات ترے حسن کی ٹھنڈک لے کر
میرے تپتے ہوئے ماحول میں آ جائیں گے
چند گھڑیوں کے لیے ہوں کہ ہمیشہ کے لیے
مری جاگی ہوئی راتوں کو سلا جائیں گے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


غزل

بھڑکا رہے ہیں آگ لبِ نغمہ گر سے ہم
خاموش کیا رہیں گے زمانے کے ڈر سے ہم

کچھ اور بڑھ گئے جو اندھیرے تو کیا ہوا
مایوس تو نہیں ہیں طلوعِ سحر سے ہم

لے دے کے اپنے پاس فقط اک نظر تو ہے
کیوں دیکھوں زندگی کو کسی کی نظر سے ہم

مانا کہ اس زمیں کو نہ گلزار کر سکے
کچھ خار کم تو کر گئے گزرے جدھر سے ہم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


خوبصورت موڑ

چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں

نہ میں تم سے کوئ امید رکھوں دلنوازی کی
نہ تم میری طرف دیکھو غلط انداز نظروں سے
نہ میرے دل کی دھڑکن لڑکھڑائے میری باتوں سے
نہ ظاہر ہو تمہاری کشمکش کا راز نظروں سے

تمہیں بھی کوئی الجھن روکتی ہے پیشقدمی سے
مجھے بھی لوگ کہتے ہیں کہ یہ جلوے پرائے ہیں
مرے ہمراہ بھی رسوائیاں ہیں میرے ماضی کی
تمہارے ساتھ بھی گزری ہوئی راتوں کے سائے ہیں

تعارف روگ ہو جائے تو اس کا بھولنا بہتر
تعلق بوجھ بن جائے تو اس کا توڑنا اچھا
وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن
اُسے اک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا

چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



غزل

اس طرف سے گزرے تھے قافلے بہاروں کے
آج تک سلگتے ہیں زخم رہگزاروں کے

خلوتوں کے شیدائی خلوتوں میں کھلتے ہیں
ہم سے پوچھ کر دیکھو، راز پردہ داروں کے

گیسوؤں کی چھاؤں میں، دل نواز چہرے ہیں
یا حسیں دھندلکوں میں، پھول ہیں بہاروں کے

پہلے ہنس کے ملتے ہیں، پھر نظر چراتے ہیں
آشنا صفت ہیں لوگ، اجنبی دیاروں کے

ہم نے صرف چاہا ہے ہم نے چھو کے دیکھے ہیں
پیرہن گھٹاؤں کے، جسم برق پاروں کے

شغلِ مے پرستی گو، جشن نامرادی تھا
یوں بھی کٹ گئے کچھ دن تیرے سوگواروں کے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



مرے عہد کے حسینو


وہ ستارے جن کی خاطر کئی بےقرار صدیاں
مری تیرہ بخت دنیا میں ستارہ وار جاگیں
کبھی رفعتوں پہ لپکیں، کبھی وسعتوں سے الجھیں
کبھی سوگوار سوئیں، کبھی نغمہ بار جاگیں

وہ بلند بام تارے وہ فلک مقام تارے
وہ نشان دے کے اپنا رہے بے نشاں ہمیشہ
وہ حسیں، وہ نور زادے، وہ خلاء کے شاہزادے
جو ہماری قسمتوں پر رہے حکمراں ہمیشہ

جنہیں مضمحل دلوں نے ابدی پناہ جانا
تھکے ہارے قافلوں نے جنہیں خضرِ راہ جانا
جنہیں کم سنوں نے چاہا کہ لپک کے پیار کر لیں
جنہیں مہ وشوں نے مانگا کہ گلے کا ہار کر لیں
جنہیں عاشقوں نے چاہا کہ فلک سے توڑ لائیں

کسی راہ میں بچھائیں، کسی سیج پر سجائیں
جنہیں بت گروں نے چاہا کہ صنم بنا کے پوجیں
یہ جو دُور کے حسیں ہیں انہیں پاس لا کے پوجیں
جنہیں مطربوں نے چاہا کہ صداؤں میں پرو لیں
جنہیں شاعروں نے چاہا کہ خیال میں سمو لیں

جو ہزار کوششوں پر بھی شمار میں نہ آئے
کہیں خاک بے بضاعت کے دیار میں نہ آئے
جو ہماری دسترس سے رہے دور دور اب تک
ہمیں دیکھتے رہے ہیں جو بصد غرور اب تک

مرے عہد کے حسینو! وہ نظر نواز تارے
مرا دورِ عشق پرور تمہیں نذر دے رہا ہے
وہ جنوں جو آب و آتش کو اسیر کر چکا تھا!
وہ خلا کی وسعتوں سے بھی خراج لے رہا ہے

مرے ساتھ رہنے والو! مرے بعد آنے والو
میرے دور کا یہ تحفہ تمہیں سازگار آئے
کبھی تم خلا سے گزرو کسی سیم تن کی خاطر
کبھی تم کو دل میں رکھ کر کوئی گلعذار آئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


یہ کس کا لہو ہے

(جہازیوں کی بغاوت 1946ء)

اے رہبرِ ملک و قوم ذرا
آنکھیں تو اٹھا نظریں تو ملا
کچھ ہم بھی سنیں، ہم کو بھی بتا
یہ کس کا لہو ہے کون مرا

دھرتی کی سلگتی چھاتی کے بے چین شرارے پوچھتے ہیں
تم لوگ جنہیں اپنا نہ سکے وہ خون کے دھارے پوچھتے ہیں
سڑکوں کی زباں چلاتی ہے، ساگر کے کنارے پوچھتے ہیں

یہ کس کا لہو ہے کون مرا
اے رہبرِ ملک و قوم بتا
یہ کس کا لہو ہے کون مرا

وہ کون سا جذبہ تھا جس سے فرسودہ نظامِ زیست ملا
جھلسے ہوئے ویراں گلشن میں اک آس امید کا پھول کھلا
جنتا کا لہو فوجوں سے ملا، فوجوں کا خوں جنتا سے ملا

اے رہبر ملک و قوم بتا
یہ کس کا لہو ہے کون مرا
اے رہبر ملک و قوم بتا

کیا قوم وطن کی جے گا گر مرتے ہوئے راہی غنڈے تھے
جو دیس کا پرچم لے کے اٹھے وہ شوخ سپاہی غنڈے تھے
جو بار غلامی سہہ نہ سکے، وہ مجرم شاہی غنڈے تھے

یہ کس کا لہو ہے کون مرا
اے رہبرِ ملک و قوم بتا!
یہ کس کا لہو ہے کون مرا

اے عزمِ فنا دینے والو! پیغام بقا دینے والو!
اب آگ سے کیوں کتراتے ہو؟ شعلوں کو ہو دینے والو
طوفان سے اب ڈرتے کیوں ہو؟ موجوں کی صدا دینے والو!

کیا بھول گئے اپنا نعرہ
اے رہبرِ ملک و قوم بتا!
یہ کس کا لہو ہے کون مرا

سمجھوتے کی امید سہی، سرکار کے وعدے ٹھیک سہی
ہاں مشقِ ستم افسانہ سہی، ہاں پیار کے وعدے ٹھیک سہی
اپنوں کے کلیجے مت چھیدو اغیار کے وعدے ٹھیک سہی

جمہور سے یوں دامن نہ چھڑا
اے رہبرِ مل و قوم بتا
یہ کس کا لہو ہے کون مرا

ہم ٹھان چکے ہیں اب جی میں ہر ظالم سے ٹکرائیں گے
تم سمجھوتے کی آس رکھو، ہم آگے بڑھتے جائیں گے
ہر منزل آزادی کی قسم، ہر منزل پہ دہرائیں گے

یہ کس کا لہو ہے کون مرا
اے رہبرِ ملک و قوم بتا!
یہ کس کا لہو ہے کون مرا!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



پرچھائیاں

جوان رات کے سینے پہ دودھیا آنچل
مچل رہا ہے کسی خوابِ مرمریں کی طرح
حسین پھول، حسیں پتیاں، حسیں شاخیں
لچک رہی ہیں کسی جسمِ نازنیں کی طرح
فضا میں گھل سے گئے ہیں افق کے نرم خطوط
زمیں حسیں ہے خوابوں کی سر زمیں کی طرح
تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں
کبھی گمان کی صورت کبھی یقیں کی طرح
وہ پیڑ جن کے تلے ہم پناہ لیتے تھے
کھڑے ہیں آج بھی ساکت کسی امیں کی طرح

انہی کے سائے میں پھر آج دو دھڑکتے دل
خموش ہونٹوں سے کچھ کہنے سننے آئے ہیں
نہ جانے کتنی کشاکش سے کتنی کاوش سے
یہ سوتے جاگتے لمحے چرا کے لائے ہیں
یہی فضا تھی، یہی رت، یہی زمانہ تھا
یہیں سے ہم نے محبت کی ابتدا کی تھی
دھڑکتے دل سے، لرزتی ہوئی نگاہوں سے
حضورِ غیب میں ننھی سی التجا کی تھی
کہ آرزو کے کنول کھل کے پھول ہو جائیں
دل و نظر کی دعائیں قبول ہو جائیں

تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں
تم آ رہی ہو زمانے کی آنکھ سے بچ کر
نظر جھکائے ہوئے اور بدن چرائے ہوئے
خود اپنے قدموں کی آہٹ سے جھینپتی ڈرتی
خود اپنے سائے کی جنبش سے خوف کھائے ہوئے

تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں
رواں ہے چھوٹی سی کشتی ہواؤں کے رخ پر
ندی کے ساز پہ ملاح گیت گاتا ہے
تمہارا جسم ہر اک لہر کے جھکولے سے
مری کھلی ہوئی باہوں میں جھول جاتا ہے

تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں
میں پھول ٹانک رہا ہوں تمہارے جوڑے میں
تمہاری آنکھ مسرت سے جھکتی جاتی ہے
نہ جانے آج میں کیا بات کہنے والا ہوں
زبان خشک ہے آواز رکتی جاتی ہے

تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں
مرے گلے میں تمہاری گداز باہیں ہیں
تمہارے ہونٹوں پہ میرے لبوں کے سائے ہیں
مجھے یقیں ہے کہ ہم اب کبھی نہ بچھڑیں گے
تمہیں گمان کہ ہم مل کے بھی پرائے ہیں

تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں
مرے پلنگ پہ بکھری ہوئی کتابوں کو
ادائے عجز و کرم سے اٹھا رہی ہو تم
سہاگ رات جو ڈھولک پہ گائے جاتے ہیں
دبے سروں میں وہی گیت گا رہی ہو تم

تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں
وہ لمحے کتنے دلکش تھے وہ گھڑیاں کتنی پیاری تھیں
وہ سہرے کتنے نازک تھے وہ لڑیاں کتنی پیاری تھیں
بستی کی ہر اک شاداب گلی خوابوں کا جزیرہ تھی گویا
ہر موجِ نفس، ہر موجِ صبا، نغموں کا ذخیرہ تھی گویا

ناگاہ مہکتے کھیتوں سے ٹاپوں کی صدائیں آنے لگیں
بارود کی بوجھل بو لے کر پچھم سے ہوائیں آنے لگیں
تعمیر کے روشن چہرے پر تخریب کا بادل پھیل گیا
ہر گاؤں میں وحشت ناچ اٹھی، ہر شہر میں جنگل پھیل گیا

مغرب کے مہذب ملکوں سے کچھ خاکی وردی پوش آئے
اٹھلائے ہوئے مغرور آئے، لہرائے ہوئے مدہوش آئے
خاموش زمیں کے سینے میں خیموں کی طنابیں گڑنے لگیں
مکھن سی ملائم راہوں پر، بوٹوں کی خراشیں پڑنے لگیں
فوجوں کے بھیانک بینڈ تلے، چرخوں کی صدائیں ڈوب گئیں
جیپوں کی سلگتی دھول تلے، پھولوں کی قبائیں ڈوب گئیں
انسان کی قیمت گرنے لگی اجناس کے بھاؤ چڑھنے لگے
چوپال کی رونق گھٹنے لگی، بھرتی کے دفاتر بڑھنے لگے
بستی کے سجیلے شوخ جواں بن بن کے سپاہی جانے لگے
جس راہ سے کم ہی لوٹ سکے، اس راہ پہ راہی جانے لگے
اُن جانے والے دستوں میں ، غیرت بھی گئی، برنائی بھی
ماؤں کے جواں بیٹے بھی گئے، بہنوں کے چہیتے بھائی بھی
بستی پہ اداسی چھانے لگی، میلوں کی بہاریں ختم ہوئیں
آموں کی لچکتی شاخوں سے جھولوں کی قطاریں ختم ہوئیں
دھول اڑنے لگی بازاروں میں، بھوک اگنے لگی کھلیانوں میں
ہر چیز دکانوں سے اُٹھ کر، روپوش ہوئی تہہ خانوں میں
بدحال گھروں کی بدحالی، بڑھتے بڑھتے جنجال بنی
مہنگائی بڑھ کر کال بنی، ساری بستی کنگال بنی
چرواہیاں رستہ بھول گئیں، پنہاریاں پنگھٹ چھوڑ گئیں
کتنی ہی کنواری ابلائیں، ماں باپ کی چوکھٹ چھوڑ گئیں
افلاس زدہ دہقانوں کے، ہل بیل بکے کھلیان بکے
جینے کی تمنا کے ہاتھوں ،جینے کے سب سامان بکے
کچھ بھی نہ رہا جب بکنے کو، جسموں کی تجارت ہونے لگی
خلوت میں بھی ممنوع تھی وہ جلوت میں جسارت ہونے لگی

تصورات کی پرچھائیں اُبھرتی ہیں
تم آ رہی ہو سرِ شام بال بکھرائے
ہزار گونہ ملامت کا بار اٹھائے ہوئے
ہوس پرست نگاہوں کی چیرہ دستی سے
بدن کی جھینپتی عریانیاں چھپائے ہوئے

تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں
میں شہر جا کے ہر اک در پہ جھانک آیا ہوں
کسی جگہ میری محنت کا مول مل نہ سکا
ستمگروں کے سیاسی قمار خانے میں
الم نصیب فراست کا مول مل نہ سکا

تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں
تمہارے گھر میں قیامت کا شور برپا ہے
محاذِ جنگ سے ہرکارہ تار لایا ہے
کہ جس کا ذکر تمہیں زندگی سے پیارا تھا
وہ بھائی نرغۂ دشمن میں کام آیا ہے

تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں
ہر ایک گام پہ بدنامیوں کا جمگھٹ ہے
ہر ایک موڑ پر رسوائیوں کے میلے ہیں
نہ دوستی، نہ تکلف، نہ دلبری، نہ خلوص
کسی کا کوئی نہیں آج سب اکیلے ہیں

تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں
وہ رہگزر جو مرے دل کی طرح سونی ہے
نہ جانے تم کو کہاں لے کے جانے والی ہے
تمہیں خرید رہے ہیں ضمیر کے قاتل
اُفق پہ خونِ تمنائے دل کی لالی ہے

تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں
سورج کے لہو میں لتھڑی ہوئی وہ شام ہے اب تک یاد مجھے
چاہت کے سنہرے خوابوں کا انجام ہے اب تک یاد مجھے

اس شام مجھے معلوم ہوا کھیتوں کی طرح اس دنیا میں
سہمی ہوئی دوشیزاؤں کی مسکان بھی بیچی جاتی ہے

اس شام مجھے معلوم ہوا اس کارگہِ زر داری میں
دو بھولی بھالی روحوں کی پہچان بھی بیچی جاتی ہے

اُس شام مجھے معلوم ہوا جب باپ کی کھیتی چھن جائے
ممتا کے سنہرے خوابوں کی انمول نشانی بکتی ہے

اُس شام مجھے معلوم ہوا، جب بھائی جنگ میں کام آئیں
سرمائے کے قحبہ خانے میں بہنوں کی جوانی بکتی ہے

سورج کے لہو میں لتھڑی ہوئی وہ شام ہے اب تک یاد مجھے
چاہت کے سنہرے خوابوں کا انجام ہے اب تک یاد مجھے

تم آج ہزاروں میل یہاں سے دور کہیں تنہائی میں
یا بزمِ طرب آرائی میں
میرے سپنے بنتی ہو گی بیٹھی آغوش پرائی میں
اور سینے میں غم لے کر دن رات مشقت کرتا ہوں
جینے کی خاطر مرتا ہوں
اپنے فن کو رسوا کر کے اغیار کا دامن بھرتا ہوں
مجبور ہوں میں، مجبور ہو تم، مجبور یہ دنیا ساری ہے
تن کا دکھ من پر بھاری ہے
اس دور میں جینے کی قیمت یا دار و رسن یا خواری ہے
میں دار و رسن تک جا نہ سکا تم جہد کی حد تک آ نہ سکیں
چاہا تو مگر اپنا نہ سکیں
ہم تو دو ایسی روحیں ہیں جو منزلِ تسکیں پا نہ سکیں
جینے کو جیے جاتے ہیں مگر سانسوں میں چتائیں جلتی ہیں
خاموش وفائیں جلتی ہیں
سنگین حقائق زاروں میں، خوابوں کی ردائیں جلتی ہیں
اور آج جب ان پیڑوں کے تلے پھر دو سائے لہراتے ہیں
پھر دو دل ملنے آئے ہیں
پھر موت کی آندھی اٹھی ہے پھر جنگ کے بادل چھائے ہیں
میں سوچ رہا ہوں ان کا بھی اپنی ہی طرح انجام نہ ہو
ان کا بھی جنون ناکام نہ ہو
ان کے بھی مقدر میں لکھی، اک خون سے لتھڑی شام نہ ہو
سورج کے لہو میں لتھڑی ہوئی وہ شام ہے اب تک یاد مجھے
چاہت کے سنہرے خوابوں کا انجام ہے اب تک یاد مجھے

ہمارا پیار حوادث کی تاب لا نہ سکا
مگر انہیں تو مرادوں کی رات مل جائے
ہمیں تو کشمکشِ مرگِ بے اماں ہی ملی
انہیں تو جھومتی گاتی حیات مل جائے
بہت دنوں سے ہے یہ مشغلہ سیاست کا
کہ جب جوان ہوں بچے تو قتل ہو جائیں
بہت دنوں سے یہ ہے خبط حکمرانوں کا
کہ دور دور کے ملکوں میں قحط بو جائیں
بہت دنوں سے جوانی کے خواب ویراں ہیں
بہت دنوں سے محبت پناہ ڈھونڈتی ہے
بہت دنوں سے ستم دیدہ شاہراہوں میں
نگارِ زیست کی عصمت پناہ ڈھونڈتی ہے
چلو کہ آج سبھی پائمال روحوں سے
کہیں کہ اپنے ہر اک زخم کو زباں کر لیں
ہمارا راز ہمارا نہیں، سبھی کا ہے
چلو کہ سارے زمانے کو راز داں کر لیں
چلو کہ چل کے سیاسی مقامروں سے کہیں
کہ ہم کو جنگ و جدل کے چلن سے نفرت ہے
جسے لہو کے سوا کوئی رنگ راس نہ آئے
ہمیں حیات کے اُس پیرہن سے نفرت ہے
کہو کہ اب کوئی قاتل اگر ادھر آیا
تو ہر قدم پہ زمیں تنگ ہوتی جائے گی
ہر ایک موج ِ ہوا رخ بدل کے جھپٹے گی
ہر ایک شاخ رگِ سنگ ہوتی جائے گی
اٹھو کہ آج ہر اک جنگ جو سے یہ کہیں دیں
کہ ہم کو کام کی خاطر کلوں کی حاجت ہے
ہمیں کسی کی زمیں چھیننے کا شوق نہیں
ہمیں تو اپنی زمیں پر ہلوں کی حاجت ہے
کہو کہ اب کوئی تاجر ادھر کا رخ نہ کرے
اب اس جگہ کوئی کنواری نہ بیچی جائے گی
یہ کھیت جاگ پڑے، اُٹھ کھڑی ہوئیں فصلیں
اب اس جگہ کوئی کیاری نہ بیچی جائے گی
یہ سرزمین ہے گوتم کی اور نانک کی
اس ارض پاک پہ وحشی نہ چل سکیں گے کبھی
ہمارا خون امانت ہے نسلِ نو کے لیے
ہمارے خون پہ لشکر نہ پل سکیں گے کبھی
کہو کہ آج بھی ہم سب اگر خموش رہے
تو اس دمکتے ہوئے خاکداں کی خیر نہیں
جنوں کی ڈھالی ہوئی ایٹمی بلاؤں سے
زمیں کی خیر نہیں، آسماں کی خیر نہیں
گذشتہ جنگ میں گھر ہی جلے مگر اس بار
عجب نہیں کہ یہ تنہائیاں بھی جل جائیں
گزشتہ جنگ میں پیکر جلے مگر اس بار
عجب نہیں کہ یہ پرچھائیاں بھی جل جائیں
تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔