صفحات

تلاش کریں

19-پاکستان

مہینے کی چھٹی گزارنے کے بعد گویا اس کے دل کی گہرائیوں سے ایک نیا آدمی ابھر آیا تھا۔۔ایک ایسا آدمی جسے اپنے ماضی سے نہ لاگ تھا نہ لگاؤ جو اپنی گزشتہ زندگی پر نہ تو شرم محسوس کرتا تھا اور نہ بیتے ہوئے واقعات کو ذہن میں دہرانے کا شوق رکھتا تھا‘ اسے اپنے گزشتہ افعال پر پیشمانی نہ تھی نہ ہی وہ اس پر فخر کرتا تھا۔۔جو بیت چکا تھا۔۔وہ اپنے گزشتہ عشق کو حماقت نہیں سمجھتا تھا۔۔اسے اب بھی عشق کی عظمت کا اعتراف تھا۔۔وہ حماقتوں کہ اہمیت کا معترف تھا۔۔وہ جانتا تھا کہ ان حماقتوں نے اس کی زندگی میں رنگ پیدا کیا ہے۔۔وہ حماقتیں فطری تھیں انسانیت بخش تھیں۔۔وہ انہیں دہرانے کا بھی شوقین نہ تھا۔۔اس کی گزشتہ زندگی اس کے مستقبل پر سایہ نہیں ڈال رہی تھیں۔۔

یہ محض حسن اتفاق تھا ک گزشتہ زندگی کے پھوڑے اور پھنسیوں نے اس کی طبعیت شخصیت کردار‘ خیالات‘ محسوسات پر کوئی داغ نہ چھوڑا تھا۔۔اسے اس حسن اتفاق کا شدت سے احساس تھا۔۔یہ بھی ممکن تھا کہ وہ اپنی گزشتہ زندگی سے عشق لگا کر بیٹھ جاتا اور شریف کی طرح باقی زندگی آہیں بھرنے اور چھت کی طرف حسرت بھری نگاہوں سے دیکھنے میں بسر کر دیتا۔۔یا اپنی گزشتہ زندگی کو قابل نفرین قرار دے کر من نہ کر دم شما حذر بکنیہ کا پرچارک بن جاتا۔۔


اسے یہ بھی احساس تھا کہ یہ زاویہ نگاہ اس کہ اپنی کوششوں کا نتیجہ نہیں اس لیے اس نے التزاماً کچھ بھی نہ کیا تھا۔۔اسے احساس تھا کہ گزشتہ زندگی سے اخذ کیے گئے لاگ یا لگاؤ سے بچے رہنا ایک بہت بڑی نعمت ہے لیکن اسے علم نہیں تھا کہ یہ نعمت کس کی دین ہے۔۔


محسوسات کے لحاظ سے وہ ابھی تک بچہ تھا۔۔ذہنی طور پر اس کی پختگی اور بڑھ گئی تھی۔۔جذباتی پہلو کے لحاظ سے زندگی نے اسے کچھ نہ سکھایا تھا۔۔ذہنی لحاظ سے ہر تجربہ ہر مشاہدہ اس کے فکر میں ایک نئی کلی بن کر رہ جاتا تھا۔۔اور اس کی شخصیت پر اثر انداز ہوتا تھا۔۔

زندگی کے بہاؤ کی منجدھار گزر چکی تھی۔۔اب وہ پایاب پانی میں چل رہا تھا۔۔لیکن پایاب پانی میں پہنچ کر الیاس آصفی نے دفتعاً محسوس کیا کہ وہ آزاد ہے۔۔قطعی طور پر آزاد۔۔اپنی انا کی بندشوں سے آزاد اس کی آنکھوں سے ذاتیات کے چشمے اتر گئے تھے۔۔اب وہ دنیا کو دیکھ سکتا تھا۔۔

دنیا بے حد وسیع تھی۔۔مگر وہ بلا کی وسعت اداسی پیدا نہیں کر رہی تھی۔۔اس میں ایک عجیب سی عظمت تھی۔۔اس نے پہلی مرتبہ دوسروں کو دیکھا۔۔اس کے روبرو سینکڑوں ایلی تھے جو جذبات کے بھنور میں ڈبکیاں کھا رہے تھے۔۔وہ انہیں قابل نفرین نہیں سمجھتا تھا۔۔ان کا مذاق نہیں اڑاتا تھا۔۔اسے ان سے ہمدردی تھی اس کے دل میں ان کی عزت تھی۔۔

ایلی میلے سے واپس آرہا تھا۔۔لیکن جو میلے کو جا رہے تھے ان کو خندہ زن نہ تھا۔۔وہ سمجھنے لگا تھا کہ بھرپور شوق سے میلے کو جانا بھی ضروری ہے۔۔اور بے لاگ لگاؤ وہاں سے لوٹنا بھی ضروری ہے۔۔

اس کے خیال میں محبت ایک عظیم تجربہ تھا۔۔اور اس عظیم تجربے کے چار ضروری دور تھے۔۔پہلا یہ کہ شدت سے محبت کرے دوسرے اسے محبت میں مظیم کامیابی حاصل ہو یعی تخت پر بیٹھے اور مور چھل کرائے۔۔تیسرے یہ کہ محبت اس کی تذلیل کرے اور دھکا دے کر تخت سے نیچے پھینک دے ذلت اور رسوائی چاروں طرف سے اسے گھیر لیں اور چوتھا یہ کہ وہ عشق کامیابی تذلیل اور رسوائی سب سے بے نیاز ہو جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بے لاگ بے لگاؤ۔۔

اس کا یہ نظریہ جسمانی عشق کے متعلق تھا افلاطونی یا روحانی عشق کے تخیل سے وہ واقف ہی نہ تھا۔۔افلاطونی عشق تو محض ایک قصہ تھا۔۔البتہ روحانی عشق کے وجود سے وہ منکر نہ تھا۔۔لیکن اسے کبھی سمجھ میں نہ آیا کہ روحانی عشق کا مطلب کیا ہے۔۔ایک انسان کس طرح اللہ سے محبت کر سکتا ہے۔۔اس نے کئی مرتبہ مرشد کا نام سنا تھا۔۔لیکن بیعت اور مرشد کے متعلق ابھی تک اس کے وہی خیالات تھے جن کا کسی زمانے میں دلی کی جامع مسجد میں اس نے حاجی صاحب کے روبرو اظہار کیا تھا۔۔


گروپتن




قاضی پور سے ایلی کا تبادلہ ہو چکا تھا۔۔اور اب وہ گروپتن میں مقیم تھا۔۔گروپتن ایک چھوٹا سا خوبصورت سا قصبہ تھا۔۔اس میں دو ایک کشادہ سڑکیں تھیں جن پر بنگلے اور کاٹیج بنے ہوئے تھے دو ایک تنگ و تاریک بازار تھے شہر کے باہر چند ایک صاف ستھری آبادیاں تھیں کچھ حصہ گھٹا گھٹا سا تھا جیسے پرانے شہروں میں ہوتا ہے۔۔گردوپتن میں طرز کہن اور طرز جدید دونوں پہلو موجود تھے۔۔

بازاروں میں بھیڑ تھی سول لائنز نما علاقے میں خوبصورت ویرانی تھی۔۔ایلی کو ویرانی پسند تھی۔۔اور اس کا مکان بھیڑ اور ویرانی بھرے علاقوں کے سنگم پر تھا۔۔گھر میں عالی تھی اور عالی کی ماں ہاجرہ۔۔اب ایلی اکیلا نہیں رہ سکتا تھا اس لیے کہ عالی سے الگ رہنا تکلیف دہ تھا۔۔چونکہ اس نے اپنی ساری محبت عالی پر مرکوز کر دی تھی۔۔اس محبت میں ہسٹیریا کا عنصر نہ تھا۔۔پھر بھی اس کی تمام تو توجہ عالی پر مرکوز تھی غالباً گزری ہوئی تلخی کو بھلانے کے لیے اس نے عالی کا سہارا لے لیا تھا۔۔

عالی ایک بھدا سا لڑکا تھا۔۔اس کے نقوش موٹے تھے۔۔چہرے پر بے حسی چھائی ہوئی تھی۔۔حرکات خاصی حد تک بے ربط تھیں۔۔اس کے خدوخال میں قطعی طور پر شہزاد کی جھلک نہ تھی۔۔

ہاجرہ کا ایلی کے پاس رہنا نا گزیر تھا۔۔چونکہ چار سال کے بچے کو پاس رکھنا ایلی کے لیے ممکن نہ تھا۔۔وہ اکیلا نہ تو اس کی دیکھ بھال کر سکتا تھا۔۔اور نہ اسے گھر میں اکیلا چھوڑ کر خود نوکری کے فرائض ادا کر سکتا تھا۔۔

ایلی نے پھر سے مطالعہ شروع کر دیا تھا۔۔زندگی میں پہلی مرتبہ بلاواسطہ کتاب اٹھائی تھی اس سے پہلے اس نے کئی مرتبہ شدت سے مطالعہ کیا تھا۔۔لیکن اس کی حثیت محض فرار کی سی تھی۔۔تلخ واقعات کو بھولنے کے لیے اس نے کئی بار کتاب کا سہارا لیا تھا۔۔لیکن اب پہلی مرتبہ اس نے کتاب کے لیے مشبت شدت سے محسوس کی تھی۔۔

سارا دن یا تو وہ پڑھتا یا عالی سے کھیلتا رہتا اور پھر اس کا جی چاہتا کہ شام کو کسی طرف نکل جائے اور پھر کسی غلام کے پاس جا بیٹھے۔۔اور ستار کی لرزشیںاسے چاروں طرف سے گھیر لیں اور وہ ان میں ڈوب جائے۔۔


یلی کے کردار کی شدت اگرچہ بہت کم ہو چکی تھی پھر بھی وہ مٹھاس بھرے تاثرات کا محتاج تھا ایسے تاثرات جو اس کی شخصیت کے کونوں کو تراش کر ہموار کر دیں۔۔بچی کچھی تلخیوں کو سمیٹ لیں۔۔اس کے نزدیک موسیقی سے بڑھ کر کوئی چیز نہ تھی۔۔جو اسے سکون سے ہم آہنگ کر سکتی تھی۔۔اس کا جی چاہتا تھا کہ اپنی شخصیت میں لے پیدا کرے۔۔پھر دفتعاً اسے خیال آیا کیوں نہ میں طبلہ بجانا سیکھوں۔۔

اس نے اس سلسلے میں تحقیق کی۔۔لیکن ہر جگہ سے اسے ایک ہی جواب ملا۔۔سارے گروپتن میں صرف ایک ہی فرد تھا جو طبلہ بجانے اور رنگینی محفل کے لیے مشہور تھا۔۔اور غالباً اسی وجہ سے سب لوگ اسے رنگی کہتے تھے۔۔

رنگی کسی سرکاری دفتر میں انسپکٹر تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! ایلی کو یقین نہ آتا تھا کہ کوئی انسپکٹر طبلے میں دلچسپی لے سکتا ہے۔۔اس لیے اس نے انسپکٹر سے ملنے کا خیال کی ترک کر دیا۔۔اسے ایک بڑے عہدے دار سے راہ و ربط پیدا کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس ہوتی تھی۔۔

گروپتن میں جو مکان انہیں ملا اس کے پڑوس میں ایک ادھیڑ عمر کی عورت اور دو لڑکیاں رہتی تھیں وہ وقت بے وقت ان کے گھر آ جاتی تھیں۔۔اور بے حجابانہ ایلی کی طرف دیکھ کر پراسرار طور پر مسکراتی رہتیں۔۔

ایلی نے پہلے تو ان سے دور رہنے کی کوشش کی۔۔وہ گھر میں داخل ہوتی تو وہ کمرے میں گھس جاتا۔۔وہ کسی نہ کسی بہانے کمرے میں پہنچ جاتیں تو وہ باہر صحن کی طرف بھاگتا۔۔ایک روز جب وہ صحن کی طرف جانے لگا تو بڑی لڑکی اس کا راستہ روک کر کھڑی ہو گئی۔۔اور بامعنی انداز میں مسکرانے لگی۔۔ایلی کو اس کی مسکراہٹ بہت بری معلوم ہوئی۔۔اب وہ ان جھمیلوں میں نہیں پڑنا چاہتا تھا۔۔اسے عورت میں وہ خصوصی دلچسپی نہ رہی تھی جو کسی زمانے میں محسوس کیا کرتا تھا۔۔۔۔جوانی میں وہ عورت سے ڈرتا تھا۔۔اس لیے اس کی طرف بری طرف کھنچا چاہتا تھا۔۔ڈر اور دلچسپی۔۔عورت اس کے دل میں یہ دو جذبات پیدا کرتی تھی۔۔نتیجہ یہ تھا کہ عورت کو اس نے بے حد اہمیت بکش رکھی تھی۔۔

پھر عورت کے بارے میں اس کے خیالات تلخی سے بھر گئے۔۔وہ بے وفا تھی‘ اس پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔۔ وہ مردوں کو کھلونا بنا کر ان سے کھیلتی تھی۔۔وہ ایک سنہرا جال تھی۔۔لیکن اس کے باوجود اس کا سحر عظیم تھا۔۔


اب وہ محسوس کرنے لگا تھا کہ عورت ایک کمزور اور بے بس مخلوق ہے۔۔اور اس کی جاذبیت میں گہرائی نہیں۔۔اس کی شخصیت عظمت سے خالی ہے۔۔قدرت کی طرف سے وہ تسخیر پر مجبور ہے۔۔

شاید اسی وجہ سے ان دو لڑکیوں سے قطعاً دلچسپی پیدا نہ ہوئی بلکہ اس نے سوچا کہ وہ اس کی آزادی میں مخل ہو رہی تھیں۔۔اس لیے اس نے کوشش کر کے اپنا مکان بدل لیا۔۔اور وہ شہر کے کونے پر ایک چھوٹے سے مکان میں منتقل ہو گئے۔۔




رنگی

پہلے روز ہی رات کے وقت اس کے کان کھڑے ہوئے کوئی شخص طبلہ بجا رہا تھا۔۔پھر کسی نے گانا شروع کر دیا۔۔اسے غلام یاد آ گیا۔۔

اگلے روز شام کے وقت پھر ایلی نے طبلے کی آواز سنی۔۔وہ چپکے سے گھر سے باہر نکل گیا۔۔قریب ہی پڑوس میں ایک بیٹھک سے طبلہ کی آواز آ رہی تھی۔۔اس نے دور کھڑے ہو کر بیٹھک کی طرف دیکھا۔۔

ایک خوش پوش نوجوان سوٹ پہنے بو لگائے فرش پر بیٹھا طبلہ بجا رہا تھا۔۔اس کا لباس‘ خوبصورت تھا۔۔انداز سے معلوم ہوتا تھا جیسے کوئی آرسٹو کریٹ ہو۔۔لیکن اس کے باوجود اس کے چہرے پر بلا کی جاذبیت تھی اس کی شخصیت سے مٹھاس کے چھینٹے اڑ رہے تھے۔۔

ایلی قریب چلا گیا۔۔

‘‘آئیے آئیے۔۔‘‘ وہ مسکرایا ‘‘بیٹھئے۔۔‘‘

‘‘نہیں نہیں۔۔‘‘ایلی بولا۔۔‘‘آپ شغل جاری رکھیے میں یہیں سے سنوں گا۔۔‘‘

‘‘آئیے بیٹھیے نا۔۔‘‘ وہ بولا‘‘ آ بھی جائیے۔۔‘‘وہ پھر مسکرایا۔۔اس کی مسکراہٹ بے حد دلنواز تھی

‘‘اب آ بھی جائیے۔۔‘‘

ایلی اندر داخل ہو گیا۔۔

دیر تک وہ طبلہ بجاتا رہا۔۔ایلی سنتا رہا۔۔


پھر اس نے طبلہ ایک طرف رکھ دیا۔۔اور بولا‘‘ لیجئے میں ذرا سستا لوں۔۔اجازت ہے نا؟‘‘

وہ یوں ہنس ہنس کر بات کر رہا تھا جیسے عرصہ دراز سے اسے جانتا ہو۔۔

‘‘آپ کو اس میں دلچسپی ہے کیا ؟‘‘اس نے طبلے کی طرف اشارہ کیا۔۔

‘‘سننے کا شوق ہے۔۔‘‘ایلی نے جواب دیا۔۔

‘‘یہ تو کان کا رس ہے۔۔‘‘وہ مسکرایا۔۔‘‘جس کے کان میں رس ہے اس کی روح میں مٹھاس ہے۔۔

‘‘جی ہاں۔۔‘‘ایلی نے جواب دیا۔۔‘‘کان میں رس نہیں لیکن روح میں مٹھاس پیدا کرنے کی آرزو ہے‘‘۔۔

‘‘سب رنگ رس کا کھیل ہے۔۔‘‘وہ بولا۔۔

‘‘آپ کی تعریف ؟‘‘ ایلی نے پوچھا۔۔

‘‘مجھے رنگی کہتے ہیں۔۔‘‘

‘‘رنگی۔؟‘‘

‘‘ہاں طنزاً کہتے ہیں۔۔‘‘وہ بولا بے رنگ ہوں نا اس لیے۔۔‘‘

‘‘بے رنگ ہیں آپ۔۔‘‘ایلی نے کہا۔۔‘‘ایسا اچھا طبلہ بجاتے ہیں۔۔‘‘

‘‘اونہوں۔۔‘‘وہ بولا۔۔‘‘زندگی صرف کر دی لیکن سمجھیے کھو دی۔۔بات پیدا نہیں ہوئی۔۔‘‘

‘‘نہیں ہوئی۔۔‘‘

‘‘بالکل نہیں ہوئی۔۔‘‘وہ بولا‘‘ رس پیدا نہیں ہوا۔۔صرف ڈب ڈب کرنا سیکھ لیا ہے۔۔صرف فارم روح نہیں شور ہے دھڑکنیں نہیں۔۔‘‘

ایلی حیرانی سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔اس قدر رنگین شخصیت۔۔اس کی ہر بات میں رنگ تھا رس تھا۔۔انداز بیان میں‘چھوٹی چھوٹی حرکات میں۔۔نگاہ میں‘ تکلم میں‘ گردوپتن کے صحرا میں وہ پہلا نخلستان تھا۔۔

رنگی پھر سے طبلہ بجانے میں مصروف ہو چکا تھا۔۔طبلہ بجاتے ہوئے اس کی بیٹھک بھی عجیب تھی چھاتی نکلی ہوئی۔۔سر اٹھا ہوا۔۔کتنا وقار تھا اس بیٹھک میں ایلی اس کی طرف غور سے دیکھ رہا تھا۔۔

دفتعاً وہ مسکرایا۔۔‘‘تکلیف نہ ہو تو ذرا آگے سے ہٹ جائیے۔۔ذرا ادھر کو۔۔‘‘انہیں تکلیف ہوتی ہے اس لیے کہتا ہوں۔۔‘‘رنگی پھر مسکرایا۔۔


‘‘کسے تکلیف ہوتی ہے ؟‘‘ ایلی نے پوچھا۔۔

‘‘شریمتی کو۔۔۔‘‘ وہ مسکرایا۔۔

شریمتی وہ حیران تھا۔۔لیکن مزید بات پوچھنے کی اسے ہمت نہیں ہوئی۔۔

کچھ دیر رنگی اسی طرح بیٹھا رہا۔۔پھر آپ ہی آپ مسکرا کر بولا۔۔‘‘شب بخیر شب بخیر جائیے۔۔

آرام فرمائیے۔۔‘‘ اس کا رؤئے خطاب ایلی کی طرف نہیں تھا۔۔




شریمتی

‘‘ارے۔۔‘‘ایلی حیران تھا کہ وہ کس سے بات کر رہا ہے اس نے دروازے کے باہر دو ایک بار دیکھا تھا۔۔لیکن باہر گھٹا ٹوپ اندھیرا تھا۔۔

‘‘معاف کیجئے گا صاحب۔۔‘‘ رنگی ایلی سے مخاطب ہوا۔۔‘‘شریمتی آ جاتی ہیں تو مجھے انہیں اٹنڈ کرنا پڑتا ہے۔۔اکثر آتی ہیں۔۔مطالبہ یہ ہے کہ دروازے کے سامنے بیٹھو۔۔روشنی منہ پر پڑے۔۔دروازے میں کسی کو کھڑا نہ ہونے دو ہم تو احکامات کے پابند ہیں۔۔‘‘

‘‘کون ہے وہ ؟‘‘ ایلی نے پوچھا۔۔

‘‘ہے۔۔‘‘وہ مسکرایا۔۔‘‘اپنے مہربانوں میں سے ایک ہے۔۔اپنی زندگی ان مہربانوں کی نگاہ کرم کے سہارے بیت رہی ہے۔۔‘‘

رنگی سے مل کر ایلی ساری رات بیٹھ کر یہ سوچتا رہا۔۔رنگی میں کس قدر جاذبیت تھی۔۔کتنا رنگین کردار تھا۔۔ایلی نے پہلے روز ہی محسوس کیا گویا وہ رنگی کے بے حد قریب ہو بہت قریب۔۔

اس کے بعد اس کا معمول ہو گیا کہ مدرسہ سے آ کر ایک پیالہ چائے پیٹ میں انڈیل کر وہ رنگی کے پاس جا بیٹھتا۔۔رنگی کی شخصیت سے رنگ کے چھینٹے اڑتے اور بھیگ بھیگ جاتا۔۔

‘‘ایلی صاحب۔۔‘‘تیسرے ہی روز رنگی نے مسکرا کر کہا۔۔‘‘آپ شریمتی کے چانسز تباہ کرنے پر کیوں تلے ہوئے ہیں۔۔دروازے سے ہٹ جائیے نا۔۔انہیں دیکھ کر اپنا شوق پورا کرنے دئجیے۔۔‘‘

ایلی نے مڑ کر دروازے سے دیکھا۔۔

دور سے ایک بڑی سی کوٹھی کو چار دیواری پر ایک رنگ دار گٹھا سا رکھا ہوا تھا۔۔‘‘اونہوں


یہ فاؤل ہے۔۔‘‘رنگی بولا۔۔‘‘ادھر اعلانیہ دیکھنا فاؤل ہے۔۔ہاں اندر بیٹھ کر چھپ کر شوق سے دیکھئے۔۔میرے سارے دوست دیکھتے ہیں مطلب یہ کہ شریمتی یہ سمجھیں کہ ان کے بارے میں کوئی کچھ نہیں جانتا۔۔حالانکہ میرے سبھی دوست جانتے ہیں اور شریمتی جانتی ہے کہ وہ جانتے ہیں۔۔اور چھپ چھپ کر اسے دیکھتے ہیں لیکن وہ اپنے آپ کو دھوکا دینا چاہتی ہیں کہ اس راز کو صرف ہم دونوں جانتے ہیں وہ خود اور میں۔۔کیا پیار دھوکا ہے۔۔کیا ساری شریمتاں ہی پیارے دھوکے ہیں۔۔جی چاہتا ہے کہ ان پیارے دھوکوں کا ایک جمگھٹا لگا رہے اور میں اس میں ڈوبا رہوں۔۔‘‘ایلی نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔۔

‘‘ہاں یہ ٹھیک ہے۔۔‘‘وہ ایلی کی طرف دیکھے بغیر بولا۔۔‘‘میں انہیں دیکھوں آپ مجھے دیکھیں۔۔‘‘

کچھ دیر تک وہ دیکھتا رہا پھر مسکرا کر بولا۔۔‘‘لیجئے‘‘ شریمتی چلی گئیں غالباً پِتا جی آ گئے۔۔‘‘

‘‘وہ کون ہیں ان کے پِتا جی ؟‘‘

رنگی نے جھرجھری لی۔۔‘‘پِتا جی وہ ہیں جو چاہیں تو مجھے تین سال کے لیے اندر کر دیں۔۔‘‘

‘‘یعنی۔۔‘‘ایلی نے حیرت سے پوچھا۔۔

‘‘مجسٹریٹ ہیں غالباً اور روز دعائیں مانگتے ہیں کہ میں کبھی ان کے پنجے میں پھنس جاؤں۔۔‘‘

‘‘ارے۔۔‘‘وہ چلایا۔۔‘‘ میں آپ سے باتیں کرنے میں وقت گنوا رہا ہوں اور ادھر وہ انتظار کر رہے ہیں۔۔‘‘ وہ دوڑ کر باہر نکلا اور بیٹھک سے باہر کھڑا ہو کر دوسری سمت دیکھنے لگا۔۔

ایلی جوں کا توں بیٹھا رہا۔۔

کچھ دیر کے بعد رنگی داخل ہوا وہ مسکرا رہا تھا۔۔

‘‘یہ کون تھے؟‘‘

‘‘اپنے ایک مہربان دوست ہیں۔۔اپنی زندگی میں اور ہے ہی کیا۔۔انسپکٹری کی بک بک۔۔‘‘وہ ہنسنے لگا۔۔

‘‘انسپکٹری؟‘‘ایلی نے رنگی کی طرف دیکھا۔۔

‘‘نوکری اور کیا۔۔‘‘وہ بولا۔۔

‘‘تو کیا آپ انسپکٹر ہیں؟‘‘






‘‘ہاں۔۔‘‘بڑی ذلیل چیز ہے یہ انسپکٹری۔۔دم گھٹتا ہے۔۔‘‘

تو یہ وہی انسپکٹر تھے جنہیں ایلی ملنے سے ہچکچاتا تھا۔۔

‘‘جی چاہتا ہے۔۔‘‘رنگی بولا ‘‘کہ آج ہی استعفٰی دے دوں‘ پر گزارہ گزر کیسے ہو گا۔۔دال روٹی سے بھی جواب مل جائے گا۔۔مجبور ہوں۔۔‘‘

رنگی کی شخصیت میں رنگ اور رس کے علاوہ عجیب تضاد تھے۔۔طبعاً وہ ایک محبوب تھا۔۔

لیکن اس کے باوجود اس میں عشق کرنے کے لیے بے پناہ تڑپ تھی۔۔عشق میں وہ ایک بھنوار تھا جو پھول پھول بیٹھ کر رس چوستا ہے۔۔اس کے علاوہ اس میں واضح نسائیت کی جھلک تھی۔۔لیکن جسم مردانہ خصوصیات کا حامل تھا۔۔اس کی حرکات و سکنات میں ایک عظیم مرد کی جھلک تھی۔۔کردار میں بھی مردانہ رنگ تھا۔۔تیسری بات یہ تھی کہ وہ پیدائشی ارسٹوکریٹ تھا مگر اس کے خیالات اور جذبات میں عوام سے بے پناہ ہمدردی تھی اور وہ خود کو ہمیشہ عوام میں سمجھتا تھا۔۔اور آخری بات یہ تھی کہ اسے اپنی بیوی سے محبت تھی۔۔بہرحال زندگی کی بے پناہ شخصیت نے ایلی کو جذب کر لیا اور گہرے دوست بن گئے۔۔


رضی

پھر ایک روز رضی آگیا۔۔

رضی رنگی کا دوست تھا لیکن اس میں کوئی خصوصیت نہ تھی۔۔

رضی ادھیڑ عمر کا آدمی تھا۔۔بدن فربہی مائل تھا۔۔چہرے پر اکتاہٹ برس رہی تھی۔۔بال سفید ہو رہے تھے۔۔اس کی طرف دیکھ کر محسوس ہوتا تھا۔۔جیسے وہ اپنی زندگی بیت چکا ہو اور اب کنارے پر بیٹھ کر نظارہ کر رہا ہو۔۔گزشتہ زندگی کی جھلک اس کی آنکھوں سے‌صاف ظاہر تھی۔۔

رضی کی آنکھیں بھری بھری تھیں جیسے نا جانے کیا کیا جذب کر چکی ہوں۔۔ان میں ایک دنیا آباد تھی۔۔ایک شوخ و شنگ دنیا‘جیسے ان آنکھوں سے کبھی رنگ کے پچکاریوں کے فوارے بہے ہوں جیسے وہ کبھی سرخ چیونٹیوں کے مسکن رہی ہوں۔۔وہ بلاٹنگ پیپر اب بھی بھرے ہوئے تھے لیکن اب تو نہ ان میں تلخی تھی نہ شدت۔۔مٹھاس کی پھلجڑی چل رہی تھی۔۔مسکراہٹ اس مٹھاس کو ہوا دیتی تھی۔۔

‘‘ان سے ملیے یہ میرے نئے دوست ایلی ہیں‘نام تو الیاس آصفی ہے۔۔لیکن مجھے ایلی پسند ہے۔۔ایلی‘رضی اور رنگی کیا تگڑی ہے۔۔‘‘


‘‘یہ وہ رضی ہیں۔۔‘‘ رنگی ایلی سے کہنے لگا ‘‘جو اس مردے میں جان ڈالتے ہیں۔۔‘‘ اس نے طبلے کی طرف اشارہ کر کے کہا۔۔‘‘ہاں تو رضی‌صاحب آج کچھ ہو جائے۔۔‘‘رنگی نے اپنی ستار رضی کی طرف بڑھا دی ‘‘ آج تو رضی ایمان سے آگ لگا دو۔۔آگ آگ۔۔چاروں طرف شعلے اٹھیں۔۔اپنے مہربان بھی کیا یاد کریں گے۔۔انہیں بھی پتہ چلے کہ تڑپ کسے کہتے ہیں۔۔‘‘

رضی مسکرایا۔۔اور کچھ کہے بغیر اس نے ستار بجانی شروع کر دی۔۔رنگی نے طبلہ اٹھایا۔۔

رضی گانے لگا۔۔اے ری عالی پیابن۔۔‘‘

اس کی آواز بیٹھی ہوئی تھی۔۔اکتاہٹ بھری اداسی پھیل رہی تھی۔۔وسعتیں اور بڑھ رہی تھیں۔۔خلا قریب تر آرہا تھا۔۔خاموش ویران خلا۔۔

‘‘اے ری عالی پیابن۔۔‘‘

ایک روز جب رضی اور ایلی اکیلے تھے تو شریمتی آ گئیں۔۔

‘‘آپ بھی درشن کر لیں۔۔‘‘ایلی نے رضی سے کہا۔۔

رضی مسکرا دیا۔۔اس کی مسکراہٹ میں عجیب سی بے نیازی تھی۔۔

‘‘آپ کو دلچسپی نہیں۔۔‘‘ایلی نے پوچھا۔۔

‘‘بہت‘ بے حد۔۔‘‘رضی مسکرایا۔۔

‘‘تو پھر ؟‘‘

‘‘تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب نہیں۔۔‘‘وہ بولا۔۔‘‘پہلے راہ چلتی سے تھی۔۔چاہے راہ چلتی ہو۔۔یا منڈیر پر کھڑی ہو۔۔کہیں ہو۔۔کیسی ہو۔۔‘‘

‘‘کیسی ہو۔۔‘‘ ایلی نے دہرایا۔۔

‘‘ہاں۔۔‘‘رضی نے کہا۔۔‘‘ہر عورت حسین ہوتی ہے۔۔ہر عورت۔۔‘‘

‘‘کیا واقعی۔۔‘‘

‘‘ہاں۔۔‘‘رضی بولا ‘‘لیکن اب تو سب بیٹیاں بن گئیں ہیں۔۔کوئی عورت رہی ہی نہیں۔۔‘‘

‘‘کیوں۔۔‘‘ ایلی نے پوچھا۔۔

‘‘بھرا میلا دیکھ لیا۔۔بس ہم بھرا میلا چھوڑنے کے قائل ہیں۔۔‘‘رضی مسکرایا۔۔

‘‘کوئی تلخی رکاوٹ بن گئی کیا ؟‘‘ ایلی نے پوچھا۔۔


‘‘نہیں۔۔‘‘رضی نے جواب دیا۔۔‘‘الٹا اب تو مٹھاس ہی مٹھاس ہے۔۔‘‘اس نے ایک مٹھاس بھری مسکراہٹ چمکائی۔۔

‘‘رنگی تو مصروف کار ہے۔۔۔‘‘ایلی نے کہا۔۔

‘‘اچھا ہے۔۔‘‘رضی بولا۔۔‘‘جو مصروف ہے‘ وہ مصروف ہے۔۔‘‘

‘‘نصحیت کرنے کو جی نہیں چاہتا کیا؟‘‘ ایلی نے پوچھا۔۔

رضی پھر ہنسا۔۔‘‘لوگوں نے ہمیں بہت کی تھیں۔۔‘‘

‘‘کیا۔۔‘‘

‘‘پھر۔۔‘‘

‘‘وہ اپنا وقت ضائع کرتے تھے۔۔ہم نہیں کرتے تھے کیوں کریں۔۔یہ سب بھگوان کی لیلا ہے۔۔‘‘

رضی مسکرایا اور پھر چھوٹی آواز میں گانے لگا۔۔

‘‘گردھر کی مرلیا باجے رے۔۔۔۔۔۔۔۔مدھوبن میں رادھکاں ناچے رے۔۔‘‘

‘‘گردھر کی مرلیا باجے رے۔۔‘‘

ایلی کے لیے یہ ایک نیا نظریہ تھا۔۔کتنا رنگین تھا۔۔کتنا پیارا تھا۔۔

ساری رات وہ سوچتا رہا۔۔اور گردھر کی مرلیا۔۔باجتی رہی۔۔مرلیا کے بول فضا میں گونج رہے تھے۔۔اس کی تلخیاں ان سروں میں دھوئی جا رہی تھیں۔۔شہزاد کے ماتھے کی بندیا چمک رہی تھی۔۔وہ اسے دیکھ رہا تھا جیسے وہ بھی گردھر کی ایک رادھکاں ہو۔۔اس کے دل میں نہ محبت تھی نہ نفرت۔۔




انشاء اللہ




ایک روز جب ایلی چپ چاپ اداس بیٹھا تھا تو ہاجرہ بولی۔۔‘‘ایلی۔۔‘‘

‘‘کیوں اماں !‘‘ اس نے اماں کی طرف دیکھا۔۔

‘‘تجھے چھٹی مل سکتی ہے۔۔کیا؟‘‘

‘‘کیوں نہیں۔۔‘‘

تو چار دن کی چھٹی لے لے۔۔‘‘وہ بولی۔۔


‘‘کیوں اماں۔۔‘‘

‘‘سنا ہے دلی سے حاجی صاحب آئے ہوئے ہیں۔۔چل کے انہیں ملیں۔۔‘‘

ایلی علی پور جانے کا خواہشمند نہ تھا کیونکہ جب بھی وہ وہاں جاتا تو محلے والیاں اس پر انگلیاں اٹھاتیں کہتیں اے ایلی دیکھ لیا نا تو نے ان باتوں کا انجام بس آخر دھول ہی اڑاتی ہے۔۔

بوڑھے اسے دیکھ کر تیوری چڑھا لیتے تھے۔۔نوجوان سرگوشیاں کرتے۔۔

لیکن حاجی صاحب کا نام سن کر وہ تیار ہو گیا اور وہ چار روز کے لیے علی پور چلے گئے۔۔حاجی صاحب ایلی کو دیکھ کر مسکرائے۔۔‘‘آئیے الیاس صاحب۔۔‘‘وہ بولے۔۔‘‘بسم اللہ۔۔خیریت تو ہے۔۔ویسے تو اچھے ہیں آپ ؟‘‘

‘‘جی شکریہ ۔۔‘‘ وہ بولا۔۔

‘‘کہیے وہ طوفان گزر گیا نا۔۔‘‘

‘‘جی۔۔‘‘ایلی نے کہا۔۔

‘‘جب طوفانوں کو چلنا ہوتا ہے چل کر رہتے ہیں۔۔‘‘وہ بولے۔۔

‘‘جی ہاں۔۔‘‘

‘‘اللہ تعالٰی نے آپ پر کرم کیا۔۔‘‘وہ بولے۔۔‘‘آپ بھیگے نہیں۔۔‘‘

ایلی کی سمجھ میں نہ آیا۔۔وہ خاموش رہا۔۔

‘‘ہر چیز کا وقت مقرر ہوتا ہے۔۔‘‘حاجی صاحب مسکرائے۔۔

‘‘کیوں ہمشیرہ صاحبہ۔۔‘‘وہ ہاجرہ سے مخاطب ہوئے۔۔‘‘وقت سے پہلے کچھ نہیں ہو سکتا۔۔‘‘

‘‘جی۔۔‘‘ہاجرہ بولی۔۔‘‘اب تو وقت آ گیا نا۔۔‘‘

انشا اللہ آئے گا۔۔‘‘وہ بولے۔۔

آئے گا ؟‘‘ ہاجرہ نے دہرایا۔۔

‘‘زیادہ دیر نہیں۔۔‘‘وہ بولے۔۔‘‘دھوپ نکلنے سے پہلے بادلوں کو صاف کرنا ہوتا ہے۔۔محفل لگنے سے پہلے صفائی ہوتی ہے۔۔فرش بچھایا جاتا ہے۔۔گھبرائیے نہیں ہمشیرہ صاحبہ اللہ کے فضل سے اچھا ہو گا۔۔‘‘

‘‘ابھی تو وہی حال ہے۔۔‘‘وہ زیر لب بولی۔۔‘‘ ایک قدم نہیں اٹھایا۔۔‘‘

‘‘ہوں۔۔‘‘ وہ مسکرائے۔۔‘‘کوئی چل کر آتے ہیں۔۔کوئی تلاش کرنے کے بعد پہنچتے ہیں۔۔کسی کو اٹھا کر لایا جاتا ہے۔۔


‘‘سبحان اللہ۔۔‘‘وہ مسکرائے۔۔

‘‘شادی کا نام نہیں لیتا۔۔‘‘وہ زیر لب بولی۔۔

‘‘وقت کی بات ہے۔۔‘‘

‘‘کوئی لڑکی بھی ملے۔۔‘‘ہاجرہ نے کہا۔۔

‘‘پہلے ہی خیال رکھا ہوتا تو آج بات کی شکل ہی اور ہوتی۔۔‘‘حاجی صاحب مسکرائے۔۔

ایلی ان کی باتیں غور سے سن رہا تھا۔۔لیکن اسے سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔۔

حاجی صاحب کی باتیں بے حد سادہ تھیں اس کے باوجود وہ انہیں سمجھ نہیں سکتا تھا۔۔ہاجرہ مسکرا رہی تھی ظاہر تھا کہ سمجھ رہی تھی۔۔لیکن عجیب بات تھی کہ ہاجرہ تو سمجھ لے اور وہ نہ سمجھ سکے۔۔

اس روز ایلی نے پہلی مرتبہ محسوس کیا کہ ایسی باتیں بھی ہیں جنہیں سمجھنے کے لیے ذہن کے علاوہ کسی اور قابلیت کی ضرورت ہے۔۔مگر وہ قابلیت کیا تھی اس کے پاس ایسا کوئی جواب نہ تھا۔۔

بہرحال ایک بات تو مسلم تھی کہ حاجی صاحب کی ہر بات میں خلوص تھا۔۔وہ پیر نہیں تھے۔۔صحیح مرشد تھے یا نہیں اس کے بارے میں وہ کچھ نہ کہہ سکتا تھا لیکن ان میں انسانیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔۔

حاجی صاحب دراصل اپنے کسی مرید کی سفارش کے لیے علی پور آئے تھے۔۔وہ مرید خود دلی جا کر انہیں ساتھ لایا تھا۔۔وہ آصفی محلے کا فرد نہ تھا اور حاجی صاحب اس کے گھر ٹھہرے تھے۔۔

دو ایک مرتبہ وہ آصفی محلے میں آئے تھے تا کہ لوگوں سے مل سکیں۔۔آصفیوں کی مسلسل منتوں کے باوجود انہوں نے اس کے پاس ٹھہرنے سے صاف انکار دیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ اندریں حالات ان کا وہاں رہنا مناسب نہیں۔۔

حاجی صاحب کے اس مرید نے اپنے مکان میں ایک کمرہ ان کے لیے خالی کرا دیا تھا۔۔کہ وہ وہاں اطمینان سے رہ سکیں۔۔

ان دنوں رمضان شریف کے دن تھے حاجی صاحب سے ملنے کے لیے رفیق اور یوسف بھی آئے ہوئے تھے۔۔۔


یوسف نے اتنی لمبی داڑھی رکھی ہوئی تھی۔۔رفیق پکا نمازی تھا۔۔دونوں رزے رکھتے تھے۔۔لیکن ایلی نے کبھی روزہ نہ رکھا تھا۔۔صبح آٹھ دس بجے کے قریب دونوں حاجی صاحب کی طرف چلے جاتے اور سارا دن ان کے ساتھ باتیں کرتے رہتے۔۔پھر تین چار بجے کے قریب وہاں سے گھر آجاتے۔۔

ایلی رفیق اور یوسف کی باتیں سن کر حیران ہوتا تھا۔۔یوں باتیں کرتے اور مسلئے مسائل پوچھتے جیسے کوئی بڑے مولانا ہوں۔۔

ان کی باتیں سن کر ایلی کو وہ دن یاد آجاتے جب وہ تینوں مل کر جلیل کی طرف جایا کرتے تھے۔۔اور جلیل مست آنکھیں بنا کر اس لڑکی کی طرف دیکھا کرتا تھا۔۔جو اپنے گھر کی ڈیوڑھی میں جھاڑو دیتے ہوئے باہر گلی میں نکل آتی اور ساری گلی میں جھاڑو دینے لگتی۔۔اس وقت بار بار کھڑکی سے باہر جھانکتا اور اس کے منہ سے ‘‘سی سی۔۔‘‘ کی آواز آتی۔۔جیسے اسے بہت کچھ برداشت کرنا پڑ رہا ہو۔۔باہر صحن میں یوسف کلا بازیاں لگاتا اور بندروں کی طرح ناچتا۔۔

اب وہ دونوں معزز سے بنے بیٹھے تھے اور شرع کے مسائل پر سنجیدگی سے بحث کر رہے تھے۔۔ان کے علاوہ جلیل تو بالکل ہی نمازوں اور وظائف میں کھو گیا تھا۔۔نہ جانے لوگ کیسے بدل جاتے ہیں۔۔ایلی سوچتا۔۔

ایلی محسوس کرتا تھا ذہنی طور پر وہ وہی ایلی ہے جو اس زمانے میں تھا۔۔اس کے خیالات بالکل وہی تھے۔۔ان کی بنیاد اور تانے بنے میں کوئی فرق نہ آیا تھا۔۔اس کے خیالات کی لکیریں کچھ اور پھیل گئی تھیں لیکن ان کے پھیلاؤ کی سمت وہی تھی۔۔رخ وہی تھا۔۔

ایلی کا بھی جی چاہتا تھا کہ وہ حاجی صاحب کی دنیا کی ایک جھلک دیکھے۔۔اسے سمجھنے کی کوشش کرے لیکن جانے بغیر وہ آمین کہنے کے لیے تیار نہ تھا۔۔وہ حاجی صاحب کی عزت کرنے لگا تھا۔۔کیونکہ ان میں خلوص تھا اور وہ ناصح نہ تھے‘ بلند تر ہستی نہ تھے۔۔مرشد نہ تھے۔۔مسند پر نہیں بیٹھے تھے بلکہ ان سب کے قریب بہت قریب۔۔حتٰی کہ ایلی محسوس کرتا تھا کہ وہ اس کے قریب تھے حالانکہ وہ خود ان سے بہت دور تھا۔۔کوسوں دور۔۔ان میں انسانیت تھی۔۔برابری کا احساس تھا۔۔اور ان کے دل میں ہر شخص کے لیے ہمدردی تھی۔۔


بڑا انسان




ایک روز ایلی جب ان کے پاس اکیلا بیٹھا تھا۔۔وہ مسکراتے ہوئے بولے۔۔‘‘الیاس صاحب اب کی بار آپ نے ہم سے کچھ پوچھا نہیں۔۔‘‘

‘‘جی۔۔‘‘ایلی نے ان کی طرف دیکھا۔۔

‘‘دلی میں تو آپ نے ہم سے بڑی باتیں پوچھی تھیں۔۔‘‘

‘‘جی۔۔‘‘وہ ہنسنے لگا۔۔

‘‘وہ مرہم کی بات یاد ہے آپ کو ؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔۔

‘‘جی ہاں۔۔‘‘ وہ بولا۔۔‘‘وہ زمانے گئے مرہم کی بات پوچھنے والے۔۔

‘‘ہاں۔۔‘‘وہ بولے۔۔‘‘ یہ زمانہ بھی گزر جائے گا۔۔‘‘

‘‘جی۔۔‘‘ وہ بولا۔۔

‘‘انشا اللہ بہتر زمانہ آئے گا۔۔‘‘

‘‘جی۔۔‘‘اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کہے۔۔

‘‘وہ پریشانی تو نہیں رہی نا۔۔‘‘

‘‘جی نہیں۔۔‘‘وہ بولا۔۔‘‘پیشمانی بھی نہیں۔۔‘‘

وہ مسکرائے۔۔‘‘پشیمانی بھی لگاؤ کی دلیل ہوتی ہے۔۔‘‘

ایلی نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا۔۔نفسیات کا وہ باریک نقطہ ایک سادہ آدمی سے سن کر اسے حیرت ہوئی۔۔

‘‘تو آپ آزاد ہو گئے۔۔‘‘حاجی صاحب بولے۔۔

‘‘جی آوارہ ہوں۔۔‘‘

‘‘آوارگی۔۔‘‘وہ بولے ‘‘کبھی منزل کی طرف بھی لے جاتی ہے۔۔‘‘

‘‘جی ہاں۔۔‘‘وہ بولے۔۔‘‘لیکن کوئی منزل ہو بھی۔۔

‘‘کبھی منزل خود راہی کے سامنے آ جاتی ہے۔۔‘‘انہوں نے کہا۔۔‘‘یہاں سبھی راہی ہیں۔۔

کسی کو منزل کا شعور ہے کسی کو نہیں ویسے راہی سبھی ہیں۔۔‘‘

‘‘منزل کو کرنا کیا ہے۔۔‘‘ایلی نے کہا۔۔

‘‘سبحان اللہ۔۔اچھا خیال ہے۔۔وہ بولے

ایلی نے پھر حیرت سے ان کی طرف دیکھا۔۔عجیب مرد ہے اس کی بات رد بھی کرو تو بھی سبحان اللہ کہتا ہے۔۔


‘‘انشا اللہ وہ دن بھی آئے گا۔۔‘‘حاجی صاحب بولے۔۔

‘‘کون سا دن ؟‘‘ ایلی نے پوچھا۔۔

‘‘آئے گا ضرور آئے گا۔۔‘‘وہ بولے‘‘ ہم تو شاید نہ ہوں گے۔۔‘‘وہ مسکرائے۔۔

اسی شام چار بجے کے قریب جب حاجی صاحب لیٹے ہوئے تھے اور رفیق یوسف اور ایلی آپس میں باتیں کر رہے تھے تو نہ جانے کس بات پر انہوں نے حاجی‌ صاحب کی رائے پوچھنے کے لیے انہیں پکارا۔۔

حاجی‌ صاحب چپ چاپ پڑے رہے۔۔انہوں نے کوئی جواب نہ دیا۔۔

‘‘سو گئے ہیں۔۔‘‘رفیق نے کہا۔۔

‘‘ارے یہ ان کے دانت تو دیکھو۔۔ایلی نے کہا۔۔

وہ سب حاجی صاحب ہر جھک گئے۔۔حاجی صاحب کے دانت یوں نکلے ہوئے تھے جیسے مقفل ہو گئے ہوں۔۔

‘‘ارے۔۔‘‘ایلی چلایا ‘‘ یہ تو بے ہوش پڑے ہیں۔۔‘‘

رفیق نے انہیں جھنجھوڑا لیکن وہ جوں کے توں پڑے رہے۔۔

وہ سب گھبرا گئے۔۔

رفیق نے ان کے منہ پر پانی کی چھینٹے دئیے۔۔

حاجی صاحب کے جسم میں ہلکی سی جنبش ہوئی لیکن وہ پھر بے ہوش ہو گئے۔۔رفیق ڈاکٹر کی طرف بھاگا۔۔

ڈاکٹر نے آ کر ٹونٹیاں لگائی اور پھر ایک بوتل سنگھائی۔۔

حاجی صاحب نے آنکھیں کھول دیں۔۔

جب وہ ان کے منہ میں دوا انڈیلنے لگے تو حاجی صاحب نے آنکھوں سے اشارہ کیا۔۔کہ انہیں کچھ نہ دیا جائے۔۔غالباً وہ روزہ توڑنے کے حق میں نہ تھے۔۔ڈاکٹر نے کہا۔۔‘‘مریض کو بے حد نقاہٹ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویسے گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔۔‘‘ڈاکٹر کے آنے پر کئی ایک محلے دار بیٹھک میں آگئے اور مریض کی صحت کے متعلق پوچھنے لگے۔۔وہ مرید جس کے حاجی صاحب مہمان تھے کارخانے میں کام پر گیا ہوا تھا۔۔اس کے گھر سے ایک بوڑھی عورت آکر حاجی صاحب کو دیکھتی رہی پھر رفیق سے کہنے لگی۔۔‘‘بے ہوش نہ ہو تو بے چارہ کیا کرے۔۔‘‘


‘‘کیوں اماں۔۔‘‘یوسف نے پوچھا۔۔‘‘بات کیا ہے۔۔‘‘

‘‘اے تین دن سے یہاں پڑا ہے یہ اور نہ سحری نہ افطاری۔۔‘‘

‘‘کیا مطلب۔۔‘‘ایلی نے پوچھا۔۔‘‘

‘‘گھر والا تو کام پر رہتا ہے اسے کیا خبر کہ مہمان کی کیا حالت ہے۔۔‘‘بڑھیا نے کہا۔۔‘‘اور گھر والی کہتی ہے۔۔میں تو نہ بھیجوں گی کھانا۔۔میں کیا نوکر ہوں کہ اس کے دوستوں کی خدمت کرتی پھروں۔۔‘‘

‘‘کیوں۔۔‘‘رفیق نے پوچھا۔۔

‘‘بس ضد اور کیا۔۔‘‘بڑی بد مزاج ہے۔۔‘‘

ایلی یہ سن کر حیران رہ گیا چار روز سے وہ روز وہاں سارا سارا دن گزارتے تھے لیکن حاجی صاحب نے ان سے نہیں کہا تھا کہ وہ روزے اور انطاری کے بغیر روزے رکھ رہے ہیں۔۔اور پھر یہ بھی تھا کہ وہ اپنے کام سے وہاں نہیں آئے تھے بلکہ مرید کی سفارش کرنے آئے تھے جس کی بیوی انہیں بھوکا مار رہی تھی۔۔

اس روز وہ تینوں افطار کے وقت وہیں رہے۔۔رفیق اور یوسف افطار کے لیے کچھ پھل لے آئے اور انہوں نے حاجی صاحب کی منتیں کیں کہ وہ آصفی محلے میں جا کر ٹھہریں مگر انہوں نے انکار کر دیا بولے ‘‘ یہ ٹھیک نہیں جن کے ہاں میں مہمان ہوں وہ برا مانیں گے ان کا دل دکھے گا۔۔‘‘ ایلی اس بڑھے کو حیرت سے دیکھ رہا تھا۔۔یقیناً وہ بڑا انسان تھا۔۔




پوئٹ

جب ایلی گروپتن واپس پہنچا اور رنگی سے ملا تو اس نے دیکھا کہ ایک نوجوان لڑکا اس کے پاس بیٹھا ہے۔۔

‘‘یہ مانی ہے۔۔‘‘رنگی بولا۔۔‘‘ویسے میرا بھتیجا ہے لیکن ہر بات میں مجھ سے چار قدم آگے ہے۔۔‘‘ وہ مسکرایا۔۔

مانی ایک خوبصورت نوجوان تھا۔۔اس کا رنگ رنگی کی نسبت گورا تھا خدوخال ستواں تھے جسم موزوں تھا۔۔بال گھنگھریالے تھے اور طبیعت میں لاابالی پن اور ساتھ ہی محبوبانہ بے نیازی تھی وہ نہایت اطمینان سے بیٹھا پکا راگ گنگنا رہا تھا۔۔


‘آپ سے مل کر مسرت ہوئی۔۔‘‘ اور پھر اس کی موجودگی سے بے نیاز ہو کر گیت گنگنانے اور شریمتی کو دیکھنے میں مصروف ہو گیا۔۔

‘‘آپ کالج میں ہیں۔۔‘‘ ایلی نے پوچھا۔۔

‘‘جی نہیں۔۔‘‘وہ بولا‘‘ اب تو نوکری کرتے کرتے بوڑھا ہو گیا۔۔‘‘

‘‘کیا ملازمت کرتے ہیں؟‘‘

‘‘جی ہاں۔۔‘‘وہ بولا۔۔

‘‘نوکری کیا ہے۔۔‘‘

‘‘پوئٹ ہوں۔۔‘‘اس نے بے پرواہی سے کہا۔۔

‘‘پوئٹ۔۔‘‘ ایلی نے حیرت سے دہرایا۔۔‘‘نظمیں لکھتے ہیں کیا؟‘‘

‘‘نظمیں لکھتا ہوں ڈرامے سٹیج کرتا ہوں۔۔شو کا اہتمام کرتا ہوں سبھی کچھ۔۔‘‘اس نے بے پرواہی سے ہاتھ پھیلاتے ہوئے کہا۔۔

‘‘لاجواب نوکری ہوئی نا۔۔‘‘ایلی نے کہا۔۔

‘‘بے کار۔۔‘‘وہ بولا۔۔‘‘بیگم آنکھوں میں آنکھیں ڈالتی ہے۔۔لڑکیاں مسکاتی ہیں صاحب گھورتا ہے۔۔کسی روز جان سے مار دے گا۔۔‘‘

‘‘تم تو روتے ہی رہتے ہو۔۔‘‘ رنگی مسکرایا۔۔

‘‘رونق سے کون منکر ہے۔۔‘‘مانی بولا۔۔‘‘رونق کا تو میں بھی قائل ہوں۔۔‘‘

‘‘تو پھر۔۔‘‘ایلی نے پوچھا۔۔

‘‘جان کا روگ نہ بنیں تو۔۔‘‘مانی نے کہا۔۔

‘‘نہ بناؤ۔۔رنگی بولا۔۔

کون بناتا ہے‘ زبردستی بنتی ہیں۔۔‘‘مانی نے بے نیازی سے کہا۔۔

اتنے میں شریمتی آ گئی۔۔رنگی دروازے کے سامنے بیٹھ گیا۔۔‘‘لو بھئی۔۔‘‘ وہ بولا۔۔‘‘اب تو خاموش ہو جاؤ۔۔شریمتی پہلے ایکٹ کا پہلا سین شروع ہو گیا۔۔‘‘

‘‘یار۔۔‘‘ مانی بولا۔۔‘‘ یہ تو کچھ بھی نہیں۔۔‘‘

‘‘تمہیں کیا پتا یہ ظالم تو جے جے ہے۔۔‘‘رنگی نے جواب دیا۔۔


‘‘جے جے تو نہیں خالی ونتی ہے۔۔‘‘مائی نے کہا۔۔‘‘ البتہ جو دوسری والی پتلی ادھر رہتی ہے۔۔وہ ہے کچھ کچھ۔۔‘‘

‘‘وہ وہ تو شہزادی ہے شہزادی۔۔‘‘رنگی نے کہا۔۔

شہزادی تو نہیں خیر۔۔‘‘مانی بولا۔۔‘‘خاصی ہے۔۔‘‘

‘‘شہزادے کو جو بھی میسر ہو وہ شہزادی ہوتی ہے۔۔‘‘رنگی مسکرایا۔۔

شہزادہ تو جھک مارتا رہتا ہے۔۔‘‘مانی ہنسا اور پھر دھوپ میں بیٹھ کر گیت گنگنانے لگا۔۔

ایلی اس کی باتیں حیرانی سے سن رہا تھا۔۔عجیب لوگ تھے۔۔ذہنی چمک تھی۔۔رنگینی تھی اور جوانی بھی۔۔

ایلی ہمشیہ ان شخیصوں کو پسند کرتا تھا جن میں ذہنی چمک ہو جو رسمی خول سے‌ آزاد ہوں۔۔لیکن حال میں وہ سوچنے لگا تھا کہ صرف ذہنی چمک ہی کافی نہیں۔۔وہ حاجی صاحب تھے ان کی شخصیت میں اس قدر ہی جاذبیت کیوں تھی۔۔پھر وہ غلام تھا۔۔ڈیرہ والا غلام۔۔آخر وہ کون سی بات تھی جو ان میں جاذبیت پیدا کر رہی تھی۔۔ان میں ذہنی چمک قطعی طور پر مفقود تھی۔۔رنگین باتیں یا رنگ کی پچکاریاں نہیں تھیں۔۔پھر وہ شخصیتیں دوسرے کو کیوں لے لیتیں تھیں۔۔وہ جاذبیت اس ذہنی چمک کی جاذبیت سے کہیں زیادہ پر اثر تھی بے شک ذہنی چمک میں اٹھان تھی۔۔پھیلاؤ نہیں تھا۔۔وسعت نہیں تھی۔۔

کبھی کبھی وہ محسوس کرتا کہ رضی میں بھی پھیلاؤ ہے‘ وسعت ہے۔۔اگر مانی اور رنگی کی باتوں میں رنگینی تھی تو رضی اور غلام کی خاموشی رنگیں تھی۔۔رنگی میں گرفت تھی رضی میں پیار بھری گود تھی۔۔مانی چاند کی طرح ہر رنگ میں چمکتا تھا۔۔کبھی ہلال بن جاتا کبھی چاند لیکن رضی مسلسل سورج تھا جس میں سے ہر وقت شعائیں نکلتی تھیں اور گرماتی تھیں۔۔

مانی اور رنگی کی گفتگو صرف لڑکیوں تک ہی محدود نہیں رہتی تھی کبھی وہ راک و دیا پر بحث چھیڑ لیتے اور مختلف راگوں کے تاثرات پر گرمجوشی سے باتیں کرتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سیاست میں ان کی دلچسپی محض اخباروں کی حد تک تھی۔۔ایلی خود سیاست میں کورا تھا اسے سیاسی مسائل میں قطعی طور پر لگاؤ نہ تھا۔۔


نگہت




گروپتن میں ایلی کا مرکز رنگی کی بیٹھک تھی۔۔مدرسے سے فارغ ہو کر وہ سیدھا گھر جاتا اور چند ایک منٹ رسمی طور پر وہاں ٹھہر کر عالی کو اٹھا کر رنگی کی بیٹھک میں پہنچ جاتا۔۔

عالی کے ذہن میں ایک خوف طاری رہتا تھا۔۔

پہلے ایک روز ناگاہ ابو گھر چھوڑ گیا تھا اور وہ اپنی امی کے ساتھ اکیلا رہ گیا تھا۔۔وہ حیران تھا کہ ابو کہاں گیا اس کے بعد اس کی امی نہ جانے کہاں چلی گئی تھی۔۔اور ابو نہ جانے کہاں سے آ گیا تھا۔۔اور اسے اٹھا کر نہ جانے کہاں لے آیا تھا۔۔اسے امی اور ابو کا یہ بکیھڑا سمجھ میں نہ آیا تھا۔۔

جب بھی ایلی گھر سے باہر نکلتا تھا تو عالی گھبرا جاتا۔۔اسے یہ ڈر لاحق ہو جاتا کہ شاید وہ لوٹ کر نہ آئے اب تو گھر میں امی بھی نہ تھی۔۔ابو چلا جائے گا تو کیا ہو گا۔۔گھر میں ہاجرہ تو تھی لیکن عالی کو ہاجرہ سے کوئی دلچسپی نہ تھی ہاجرہ کا ہونا یا نہ ہونا برابر تھا۔۔

عالی کا یہ خوف ایلی کے لیے بہت بڑی مشکل تھی وہ باہر نہ جا سکتا تھا۔۔سکول جانے میں اسے بے حد دقت ہوتی تھی۔۔عالی رونے لگتا۔۔اور ایلی کے دل پر ایک ٹھیس سی لگتی۔۔لیکن وہ مجبور تھا۔۔دو ایک مرتبہ ایلی نے اسے سکول لے جانے کی کوشش کی تھی۔۔ایک بار وہ ساتھ چلا بھی گیا لیکن وہ وہاں اداس پریشان حال رہا۔۔اس بھیڑ میں ابو کا ہونا نہ ہونے کے برابر تھا۔۔

سکول سے آنے کے بعد بہرحال ایلی اسے ہر وقت ساتھ رکھتا تھا۔۔اور رنگی کی بیٹھک میں تو ہمیشہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ رہتے تھے۔۔اس پر رنگی ہنستا۔۔‘‘یہ باپ اور بیٹا بھی عجیب ہیں۔۔جہاں ایک ہو گا‘ دوسرا بھی قریب ہی ہو گا کہیں۔۔ایلی اور عالی کیا جوڑی ہے۔۔‘‘

وہ دونوں بیٹھ کر ستار سنتے۔۔رضی گانا سنتے اور مانی اور رنگی کی محبتوں اور یارانوں کے قصے سنتے حتٰی کہ رات کے دس گیارہ بج جاتے۔۔پھر وہ گھر لوٹتے تو ہاجرہ چپ چاپ بیٹھی ہوتی۔۔ایلی کو ہاجرہ پر ترس آتا تھا۔۔وہ بیچاری بڑھاپے میں پھر سے قید میں پڑ گئی تھی۔۔

ایک روز ہاجرہ نے ڈرتے ڈرتے بات چھیڑی بولی۔۔‘‘ایلی زندگی کس طرح بسر ہو گی۔۔‘‘

‘‘کیا بات ہے اماں ؟‘‘

‘‘دیکھو نا۔۔‘‘وہ بولی۔۔‘‘ آخر میں ساری عمر تو تمہارے ساتھ نہیں رہ سکتی۔۔‘‘

‘‘تو پھر ؟ ‘‘

‘‘تم شادی کر لو بیٹا‘ ورنہ یہ لڑکا کس طرح پلے گا۔۔‘‘

‘‘تو کر دو۔۔‘‘ایلی نے بے پرواہی سے کہا۔۔‘‘





ہاجرہ کا خیال تھا کہ ایلی شادی کے نام پر بدک جائے گا۔۔شاید وہ ساری عمر دوسری شادی کے لیے تیار نہ ہوگا۔۔ایلی کے منہ سے یہ بات سن کر وہ حیران رہ گئی۔۔

تو تمہیں کوئی اعتراض نہیں نا۔۔‘‘اس نے پوچھا۔۔

‘‘ہو جائے تو بھی اعتراض نہیں۔۔نہ ہو تو بھی نہیں۔۔‘‘

‘‘تو کہاں کرو گے ؟‘‘

‘‘کہیں بھی۔۔‘‘ وہ بولا۔۔

‘‘تو کہیں سے خود ہی تلاش کر لونا۔۔‘‘

‘‘نہ اماں۔۔‘‘ وہ بولا۔۔‘‘ یہ جھنجٹ مجھ سے نہ ہو گا۔۔‘‘

‘‘تو تمہاری پسند کیسی ہو گی ؟‘‘

‘‘ کوئی بھی ہو منظور کر لو گے ؟‘‘

‘‘ہاں۔۔‘‘وہ بولا۔۔‘‘ صرف ایک بات ہے۔۔‘‘

‘‘وہ کیا ؟‘‘

‘‘جس روز اس نے عالی سے بدسلوکی کی میں اسے گھر سے نکال دوں گا۔۔‘‘

‘‘ہاجرہ ہنس پڑی۔۔‘‘ اے تم اپنے دوست سے کیوں نہیں کہتے۔۔‘‘

‘‘کس سے۔۔‘‘ وہ بولا۔۔

‘‘اس رنگی سے۔۔‘‘

‘‘میں تو نہ کہوں گا۔۔‘‘

‘‘تو پھر میں کہوں۔۔‘‘ہاجرہ نے کہا۔۔

‘‘کہہ دیکھو۔۔‘‘

‘‘یہ تو اچھے لوگ دکھتے ہیں۔۔‘‘

‘‘ہاں اچھے ہیں۔۔‘‘

‘‘شاید کوئی اچھا رشتی ڈھونڈ دیں۔۔‘‘

‘‘شاید۔۔‘‘وہ بولا۔۔اور پھر عالی کو اٹھا کر رنگی کی طرف چلا گیا۔۔ ایلی کا رنگی کی بیوی سے ملنے کا اتفاق یہ ہوا کہ اسی روز جب چائے کا وقت ہوا تو غیر از معمول بیٹھک میں چائے پینے کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بجائے رنگی اسے گھر کے اندر زنانے میں لے گیا۔۔اور بیوی نگہت سے اس کا تعارف کرا دیا۔۔نگہت کو دیکھ کر ایلی گھبرا گیا۔۔
نگہت خوبصورت تھی اس میں ایک عجیب سا وقار تھا۔۔نگاہ بے نیازی سے لبریز تھی۔۔ہونٹوں میں رنگی کی جھلک تھی۔۔ٹھوڑی میں دبی ہوئی انبساط تھی۔۔جوانی تھی۔۔بے تکلفی تھی۔۔
ایلی اس کی خوبصورتی کو دیکھ کر حیران نہیں ہوا تھا۔۔بلکہ نگہت میں رنگی اور رضی کی امیزش دیکھ کر اسے حیرت ہوئی۔۔اس میں وہی برداشت تھی جو رضی اور غلام میں تھی وہی مٹھاس تھی اور اس کے باوجود نسائیت کی تمام تر رنگینی اور شوخی بھی تھی۔۔یہ متضاد خصوصیات ایک جگہ کیسے اکھٹی ہو سکتی ہیں وہ حیران تھا۔۔
نگہت کو دیکھ کر ایلی کو رنگی کی شریمتیوں پر غصہ آنے لگا۔۔رنگی کیوں جھک مار رہا تھا۔۔کیوں پھول پھول اڑ رہا تھا۔۔جب کہ اس کے اپنے گھر میں بہار آئی ہوئی تھی۔۔بلکہ ایک روز اس نے رنگی سے یہ بات اشارتاً یہ بات کہہ بھی دی۔۔رنگی کا چہرہ خوشی سے تمتا اٹھا۔۔وہ بولا۔۔‘‘دیکھا نا نگہت واقعی میری زندگی کی بہار ہے۔۔اس کے بغیر دنیا سونی ہے جبھی تو مجھے اس سے اس قدر عشق ہے والہانہ عشق۔۔‘‘
ایلی کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ دیکھ کر رنگی چلایا۔۔‘‘تمہیں یقین نہیں آیا کیا۔۔نگہت میری روح کی روشنی ہے جسم کی بات چھوڑو۔۔‘‘
‘‘اور یہ جو فن فیریاں ہیں تمہاری۔۔‘‘ایلی نے پوچھا۔۔
‘‘اجی ان کی کیا حثیت ہے۔۔‘‘ رنگی نے کہا۔۔‘‘ اگر نگہت کو زکام ہو جائے اور اگر تمام فن فئیریوں کا بھرتا بنا کر کھلانے سے اس کا زکام دور ہو سکتا ہو تو میں ذرا تامل نہ کروں۔۔‘‘
رنگی بڑی سنجیدگی سے کہہ رہا تھا‘ لیکن ایلی کو سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کس طرح متضاد باتیں کیے جا رہا تھا عین اس وقت مانی نے شور مچا دیا۔۔‘‘بھئی ادھر کی بھی خبر لو۔۔جب سے بیچاری دھوپ میں کھڑی ہے۔۔تمہارے لیے۔۔‘‘
‘‘تتلی ہے کیا ؟‘‘ رنگی اچھل کر بولا۔۔
‘‘ہاں ہاں۔۔‘‘مانی چلا کر بولا۔۔
رنگی نے دو چھلانگیں ماریں اور بیٹھک سے باہر نکل گیا۔۔
‘‘کیا نگہت برا نہیں مانتی۔۔‘‘ ایلی نے مانی سے پوچھا۔۔‘‘
‘‘بہت۔۔‘‘ مانی بولا۔۔‘‘کڑھتی ہے۔۔لیکن بھئی گلاب کے ساتھ کانٹے تو ہوں گے۔۔‘‘
‘‘وہ بھی تو نگہت ہے۔۔‘‘ایلی نے کہا۔۔
‘‘ہاں۔۔‘‘وہ بے پروائی سے بولا۔۔‘‘نگہت کی کیا بات ہے۔۔وہ ہم سب کی محبوبہ ہے۔۔جگت محبوبہ ہے۔۔ہم سب اسے پیار کرتے ہیں۔۔تم بھی کرو گے۔۔اسے بغیر پیار کرنے کے کوئی رہ نہیں سکتا۔۔وہ میری محبوبہ ہے سہیلی ہے۔۔۔راز دان ہے۔۔اور وہ میری ماں ہے ماں۔۔آؤ ہم چل کے اس سے عشق لڑائیں۔۔‘‘مانی اندر جا کر نگہت کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا۔۔‘‘مامی۔۔‘‘وہ بولا۔۔‘‘ہم تو تباہ ہو گئے۔۔‘‘
‘‘کیوں۔۔‘‘وہ بولی۔۔
‘‘بس برباد ہو گئے۔۔‘‘
وہ مسکرائی۔۔‘‘
‘‘کوئی خاطر میں نہیں لاتی۔۔‘‘
‘‘تت تت۔۔‘‘ اس نے مذاق سے منہ بنایا۔۔
اچھی مامی کسی ایسی لڑکی کا پتہ دو کہ مزا آ جائے۔۔بے حد خوبصورت ہو۔۔رنگیلی ہو۔۔ طرحدار ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘تمہاری طرح۔۔‘‘ پھر وہ دفتعاً چلایا۔۔
‘‘یہ ہمارا ایلی ہے اس کی بات بنا دو کہیں۔۔‘‘
‘‘کیسی بات ؟ ‘‘
‘‘اسے اچھی سی بیوی دلا دو۔۔‘‘
‘‘اچھا۔۔‘‘
‘‘بس یہ کام کر دو۔۔ساتھی تلاش کر دینا۔۔بیوی نہیں۔۔‘‘مانی نے کہا۔۔
‘‘بیوی کیوں نہیں ؟‘‘
‘‘بیوی بڑی بدی شے ہوتی ہے۔۔‘‘وہ بولا۔۔
‘‘پھر لوگ کیوں کرتے ہیں ؟‘‘
‘‘الو کے پٹھے ہیں۔۔‘‘وہ بولا۔۔
‘‘اور تم۔۔‘‘
“ میں بھی ہوں۔ الو کا پٹھا۔“
“کیوں ہو؟“ وہ ہنسی
“ماں بات نے بنا دیا بس۔“
“نہ بنتے۔“
“زبردستی بنا دیا۔ اب کہیں ایلی کو الو کا پٹھا نہ بنا دینا۔ خیال رکھنا۔“
“ہے۔“ رنگی چلاتا ہوا اندر داخل ہوا۔“ میری پیاری کو دق نہ کرو۔“
نگہت رنگی کی طرف دیکھ کر مسکرائی۔
“بس تمھارے بغیر میرا دل نکلتا ہے۔“ رنگی نے پیار سے نگہت کی طرف دیکھا۔ “ہم تو بس تمہارے بغیر یتیم ہو جاتے ہیں۔“
“اچھا۔“ وہ مسکرائی اور وہ ایک دوسرے میں کھو گئے۔


پاک بابا

ایک صبح ہاجرہ بولی آج میں نے خواب میں پاگ بابا کی زیارت کی۔
“پاگ بابا؟“ ایلی نے تعجب سے پوچھا۔
“ہاں-“ وہ بولی۔ “انہوں نے مجھے بہت ڈانٹا۔“
“کیوں؟“
“دیر سے ان سے ملنے کا ارادہ کر رہی ہوں۔“
“تو پھر۔“
“جانا ہی نہیں ہوا۔“
“کیوں۔“
“بس جھنجھٹوں میں پڑ رہی۔“
“ہوں۔“ ایلی بولا۔
“حاجی صاحب کیا پاگ بابا کی زیارت کر آؤں۔“ میں نے حاجی صاحب سے پوچھا تھا۔
“تو وہ کیا کہنے لگے۔“
کہنے لگے “اللہ کے بندوں کی خدمت میں حاضری دینا اچھا ہوتا ہے۔“ میں نے پوچھا تو ہو آؤں کبھی کہنے لگے ہاں ہاں کیا حرج ہے۔“
“تو پھر ہو آؤ کہاں ہیں وہ۔“ ایلی نے کیا۔
“لو اکیلی کیسے جاؤں۔“
“تو کسی کو ساتھ لے جاؤ۔“
“تم کیوں نہیں چلتے۔“ اس نے پوچھا۔
“میں جا کر کیا کروں گا۔“
“حرج بھی کیا ہے۔ تم بھی کر لینا۔“ ہاجرہ بولی۔
“کیا فائدہ۔“
“وہ ہنسی۔“ لو، اللہ کے بندوں سے ملنے کا بہت فائدہ ہوتا ہے۔“
“وہ کیا ہوتا ہے؟“
“تقدیریں بدل جاتیں ہیں۔“
“اب تقدیریں بدل کر کیا کرنا ہے۔“ ایلی نے جواب دیا۔
وہ ہنسنے لگی۔ بولی۔“ابھی تو ساری زندگی پڑی ہے تیری۔“
“ماں تو میری زندگی کی بات چھوڑ۔“ ایلی نے کہا۔
“کیسی باتیں کرتا ہے۔“ وہ بولی۔ “ چلی اپنے لیے سہی۔ میری خاطر چل۔“
“کیا کروں گا وہاں جا کر،“
“تو چل تو سہی۔“

پاگ بابا امرتسر علی سڑک پر ایک درخت کے نیچے بیٹھا تھا۔ اس کے سر پر ایک بہت بڑی پگڑی تھی۔ ایسے معلوم ہوتا تھا جیسے وہ پگڑی باندھی ہوئی نہ ہو بلکی گٹھا سا بنا کر سر پر رکھ لی گئی ہو۔ اس کے جسم پر ایک لمبا سا چغہ لٹکتا تھا۔

ایک درخت کے نیچے ایک چھوٹا سا بستر، ایک مٹی کا پیالہ۔ ایک لوٹا۔ اور ایک تھالی پڑی تھی۔ یہ بابا کا جملہ سامان تھا۔ اسے کبھی کسی نے بیٹھے نہ دیکھا تھا۔ ہمیشہ سڑک پر ادھر ست ادھر، ادھر سے ادھر گھومتا رہتا۔ چھاتی ابھری رہتی، گردن اٹھی رہتی۔ اسے دیکھ کر ایسے معلوم ہوتا تھا۔ جیسے نپولین جہاز کے تختے پر گردو پیش کا جائزہ لے رہا ہو۔
پھر وہ نماز پڑھنے میں مصروف ہو جاتا۔ لیکن نماز پڑھنے کے لیے وہ سڑک سے ہٹ کر قریب ہی کھیتوں میں چلا جاتا تھا، نماز سے فارغ ہوتے ہیں وہ واپس سڑک پر آ جاتا۔ بابا کو کبھی کسے نے سوتے، اٹھتے یا کھاتے پیتے نہ دیکھا تھا۔
اللہ سے بیاہ


ریتی پور کے گاؤں میں ایک روز جب لوگ مسجد میں گئے تو بابا وہاں بیٹھا نماز پڑھ رہا تھا اور اس کا مختصر سا سامان جس میں ایک چھوٹا سا بستر بھی شامل تھا۔ حجرے میں رکھا ہوا تھا۔ گاؤں والوں نے سمجھا کہ مسافر ہے۔ شاید سستانے کے لیے وہاں رک گیا ہے۔ دو ایک روز تو لوگ اسے ساگ روٹی بھیجتے رہے۔ تیسرے روز ریتی کا نمبردار غصے میں آ گیا کہنے لگا۔ “ دیکھ بابا یہ مسجد ہے۔ اللہ کا گھر ہے۔ ہوٹل یا سرائے نہیں ہے۔ تو اب اپنا راستہ لے۔ یہاں ڈیری جمانا غلط ہے۔“ چوتھے روز وہ پھر مسجد میں گیا۔ تو بابا جوں کا توں بیٹھا تھا۔

نمبردار کو طیش آ گیا۔ اس نے بابے کا سامان اٹھا کر باہر پھینک دیا۔ اور دھکے دے کر مسجد سے باہر نکال دیا۔

بابے نے اپنی پگڑی سر پر رکھی سامان اٹھایا۔ اور ریتی پور کی مسجد سے دس پندرہ قدم کے فاصلے پر جا کر سڑک پر بیٹھ گیا۔

اسی شام نمبردار کی بھینس بیمار پڑے بغیر مر گئی۔ سارا گاؤں حیران تھا کہ بھینس کو کیا ہوا۔ کچھ لوگ کہنے لگے “ تم نے بابا کے ساتھ بدسلوکی کی تھی۔ یہ اس کا نتیجہ ہے۔“

نمبردار غصے میں چلانے لگا۔ “ میں نے کیا برا کیا تھا۔ کیا شریعت کے خلاف بات کی تھی۔ سیدھی بات ہے میاں کہ مسجد اللہ کا گھر ہے۔ وہاں جا کر نماز پڑھو۔ میلاد کرو۔ عبادت کرو اور اگر کوئی مسافر ہو تو بے شک دو دن کے لیے وہاں ٹھکانہ بھی کر لے۔ پر یہ کیا ہوا کہ اسے گھر بنا کر بیٹھ جائے۔“ نمبردار نے بھینس کی موت کو بابا کی بدعا کا نتیجہ سمجھنے سے صاف انکار کر دیا۔

اگلے روز جب وہ حویلی میں تو ایک اور بھینس مری پڑی تھی۔ “ارے“ وہ سر تھام کر بیٹھ گیا۔ آٹھ روز میں جب اس کی تینوں بھینسیں بے وجہ مر گئیں تو وہ گھبرا گیا اور اس نے گاؤں میں کھڑے ہو کر لوگوں کی منتیں کیں۔ “میں تباہ ہو گیا۔“ یہ کیا مصیبت آ پڑی ہے مجھ پر، خدا کے لیے میری مدد کرو۔ ضرور یہ اس بابا کی بدعا ہے۔ مجھ سے بھول ہو گئی۔ میری توبہ ہے، میں اس کے پاؤں پڑنے کے لیے تیار ہوں مجھے اس سے معافی لے دو، ورنہ تباہ ہو جاؤں گا۔“
وہ سب مل کر بابا کے پاس گئے۔ لیکن بابا چپ چاپ نے نیازی سے سڑک پر ٹہلتا رہا جیسے اسے ان لوگوں سے کوئی واسطہ ہی نہیں ہو۔ دیر تک وہ چیختے چلاتے رہے لیکن بابا اپنی ہی دھن میں ادھر سے ادھر، ادھر سے ادھر سڑک ناپنے میں مصروف رہا۔

اسی شام وہ پھر بابا کے پاس گئے۔ انہوں نے منتیں کیں۔ کہ وہ پھر مسجد میں آ بیٹھے۔ وہ اسے گاؤں میں ایک مکان دینے کے لیے تیار تھے۔ اس کی خدمت کرنے کے لیے بے تاب تھے بشرطیکہ وہ گاؤں والوں کو معاف کردے ---------- لیکن بابا نے ان کی طرف دھیان نہ دیا۔

پھر اگلے روز انہوں نے گاؤں کے وارے میں بیٹھ کر مشورہ کیا۔ ہر کسی نے اپنی اپنی تجویز پیش کی۔ لیکن دولے چمار کی بات سب کو پسند آئی۔ اور انہوں نے اس پر عمل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ ایک آدمی سڑک پر جا بیٹھا کہ بابا پر نگاہ رکے۔ گاؤں کے دس ایک آدمی وضو کر کے انتظار میں بیٹھ رہے۔ جب بابا نماز پڑھنے کے لیے کھیت میں اور نیت باندھ کر کھڑا ہو گیا۔ وہ سب بھاگے اور بابا کے پیچھے قطار بنا کر نماز پڑھنے لگے۔

جب بابا نماز پڑھ کر فارغ ہوا اور اس نے پیچھے دیکھا کہ گاؤں والے اس کے پیچھے نماز پڑھ رہے ہیں تو وہ چلانے لگا۔ “جاؤ جاؤ۔ اٹھو میرے پیچھے مت بیٹھو۔ تم نے اللہ سے بیاہ نہیں کیا۔“

گاؤں والوں میں سے ایک بولا۔ “ہم تمہارے پیچھے نماز پڑھنا نہ چھوڑیں گے۔ جب تک تم ہمیں معاف نہ کرو۔“

“مت پڑھو، مت پڑھو۔“ بابا چلایا۔ “تم نے اللہ کے ساتھ بیاہ نہیں کیا۔“
“تو کہہ دو گاؤں والوں کو معاف کیا۔“ وہ بولے۔
“اللہ معاف کرے گا۔“ وہ بولا۔ “جاؤ جاؤ۔“
“اللہ نہیں کرے گا۔ جب تک تم نہ کرو۔“ گاؤں والوں نے کہا۔
“جاؤ جاؤ۔“ بابا بولا۔ “میں کون ہوں۔ میں کچھ نہیں میں کچھ نہیں۔جاؤ۔“
“چاہے تم کچھ نہیں۔“ گاؤں والوں نے کہا۔ “جب تک تم یہ نہ کہو گے کہ جاؤ معاف کیا ہم نہیں جائیں گے۔“
“بابا اٹھ بیٹھا۔ وہ کھیتوں میں گھومنے لگا۔“ پگلے پگلے تنگ کرتے ہیں۔ تنگ کرتے ہیں۔“ گاؤں والے وہیں بیٹھے رہے۔
“جاؤ۔ جاؤ۔“ بابا بار بار ان کے قریب آ کر چلاتا۔






کہو معاف کیا۔“ وہ جواب دیتے۔ بابا پھر گھومنے لگتا۔ “ میں کون ہوں میں کوں ہوں۔ اللہ معاف کرنے والا ہے۔“

دیر تک وہ یوں ہی چلاتا رہا۔ پھر بولا۔ “جاؤ معاف کیا جاؤ جاؤ۔ اللہ سے بیاہ کر لو۔ سب اللہ سے بیاہ کر لو جاؤ۔“

اس کے بعد انہوں نے کئی بار کوشش کی کہ بابا گاؤں میں آ رہے لیکن بابا نے ان کی بات نہ سنی اور وہیں سڑک پر گھومتا رہا۔




بابا کی یہ بات جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ ارد گرد کے علاقے کے لوگ بابا کے پاس آنے لگے۔ لیکن جلد ہی ان سب کو معلوم ہو گیا کہ بابا نہ بیٹھے گا نہ بات کرے گا۔ لٰہذا لوگوں نے آ آ کر بابا کو سلام کرنا شروع کر دیا۔ بات کرنی ممکن نہ تھی مگر وہ سلام تو کر سکتے تھے اور رسم اس قدر عام ہو گئی کہ سڑک پر چلتی ہو بسیں، لارہاں اور موٹریں بابا کے ڈیرے کے پاس آ کر رک جاتیں ڈرائیور انجن بند کر دیتے اور پھر از سر نو گاڑی سٹارٹ کر کے چل پڑتے یہ ان کی سلامی تھی۔




براتیں رک جاتیں۔ بینڈ انگریزی نیشنل انتھم بجاتے اور سلام کے بعد خاموشی سے پھر چل پڑتے راہگیر رک جاتے۔ سلام کرت اور پھر چل پڑتے۔

اور بابا اتنی بڑی پاگ سر پر رکھے سڑک پر ادھر سے ادھر، ادھر سے ادھر چکر لگاتا رہتا۔ اس کی چھاتی ابھری ہوتی۔ گردن تنی ہوتی۔ سر اوپر کی طرف اٹھا ہوتا۔ اور وہ ادھر ادھر یوں دیکھتا جیسے جہاز کا کپتان ہو۔ حالات کا جائزہ لے رہا ہو اور جہاز کو کھینچ کر پار لے جانے کے متعلق ملاحوں کو احکامات صادر کر رہا ہو۔“







میں کیا کروں




جب ہاجرہ اور ایلی وہاں پہنچے تو بابا کھیت میں بیٹھا نماز پڑھنے میں مصروف تھا۔ ہاجرہ چپکے سے بابا کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگی۔ ایلی عالی کو اٹھائے قریب ہی بیٹھ کر تنکے سے زمین کریدنے لگا۔

نماز سے فارغ ہو کر بابا نے مڑ کر دیکھا۔ “تم نے اللہ سے بیاہ کیا ہے؟ وہ چلایا۔

“کیا ہے بابا جی۔“ ہاجرہ نے جواب دیا۔









“اچھا کیا۔“ وہ بولو۔ “اچھا کیا-“

“بابا جی یہ میرا بیٹا ہے۔“ وہ ایلی کی طرف اشارہ کر کے بولی۔ “ادھر آ ایلی۔ ادھر آ۔ بابا کے سامنے۔“

ایلی اپنی جگہ چپ چاپ بیٹھا رہا۔

بابا نے ایلی کی طرف دیکھا۔ غور سے اس کی طرف دیکھتا رہا۔

“تمھارا بیٹا ہے۔“ دفعتاً وہ بولا۔

“جی بابا۔“ ہاجرہ بولی۔

“تمھارا بیٹا ہے۔ تو پھر میں کیا کروں۔

“دعا کریں آپ۔“ وہ بولی۔

“میں کون ہوں۔“ وہ چلایا۔ “ میں کون ہوں کہ دعا کروں۔“

“آپ اللہ والے ہیں۔“ ہاجرہ بولی۔

“اللہ اپنے کام آپ جانے۔ وہ سب جانتا ہے اللہ اپنے کام آپ کرے وہ سب کرتا ہے میں کون ہوں۔“

“آپ اللہ والے ہیں“ ہاجرہ نے پھر دہرایا۔

“سبھی اللہ کے ہیں۔ میں بھی ہوں پھر میں کیا کروں۔“ پھر وہ اٹھ بیٹھا اور وہیں کھیت میں چکر کاٹنے لگا۔

“وہ سب کرتا ہے وہی کرتا ہے کون کرتا ہے پھر کون کرتا ہے۔ وہی جانے۔ اسی کے کام ہیں وہی جانے۔ میں کیا کروں۔“ دیر تک وہ میں کیا کروں کی رٹ لگاتے ان کے سر پر منڈلاتا رہا۔

پھر وہ ایلی کے سامنے آ کھڑا ہوا۔

“کیا نہیں کیا؟------------ ۔“ بابا چلایا۔ “کیا نہیں کیا؟ جب تم نے ڈیرہ میں ڈیرا لگایا تو حضرت شاہ غور نے تم پر ترس کھایا اور تم کو حفاظت میں لیا تھا، نہیں لیا تھا؟“

ایلی نے ڈیرہ کا نام بابا کے منہ سے سن کر حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔

“کیا نہیں کیا اس نے۔“ بابا چلایا۔ “وہ چکر کاٹنے لگا۔ واپسی پر وہ پھر ایلی کے روبرو کھڑا ہو گیا۔








اور تم کو وقت پہ وہاں سے نکال دیا۔ اور تمھیں چٹے کٹڑے میں جگہ دی۔ نہیں دی کیا؟“

چٹا کٹڑا۔ ایلی کو امرتسر یاد آ گیا۔

“اور پھر تمھارا منہ کالا کر دیا۔ اور تم چلتے پھرتے رہے اور لوگ چلتے پھرتے رہے۔ اور تم ان کو دیکھتے رہے اور وہ تمھیں دیکھتے رہے۔ پر انہوں نے تمھیں نہ دیکھا۔“

کیا نہیں کیا؟ کیا نہیں کیا؟پھر وہ دیوانہ وار چکر کاٹتا رہا۔ کہتے ہیں نہیں کیا۔ نہیں یا تو نہیں کیا کروں۔ چلو نہیں کیا۔ پھر تم کون ہو کہنے والے نہیں کیا۔ سب کچھ کیا سب کچھ کیا۔ کیا نہیں کیا۔ پھر وہ ایلی کے روبرو آ کر کھڑا ہوا۔“ کیا نہیں گیا۔“ وہ چلایا۔ “پھر تمھیں داتا کے قدموں میں جگہ دی۔ نہیں دی کیا؟“ وہ بولا۔ “بولو۔ دی۔ دی۔ وہ دینے والا ہے۔ ہم کون ہیں۔ ہم کون ہیں وہی سب کچھ ہے۔ سب کچھ دینے والا۔ اس کے سوا کوئی نہیں ہے۔“

بابا پھر ایلی کے روبرو آ کھڑا ہوا پھر بولا۔ “جھنڈے شاہ نے تمھاری حفاظت کی۔ تم پر ترس کھایا۔ تمھیں بچایا۔ رحمت ہو گی اللہ کی بس اسی کی رحمت یہی چیز ہے۔ ہم کیا ہیں۔ ہم کیا ہیں کہتے ہیں کیا نہیں کیا پگلے پگلے۔“ وہ پھر چکر کاٹنے لگا۔







بڈھا اور لمبا










“اور اور۔“ وہ رکا۔ “ اس نے تمھارا ناواں لکھ لیا۔ نہیں لکھا؟ تم نے نہیں لکھوایا۔ تم نے کہا کہ تم اس سے بیاہ نہ کرو گے۔ نہ کرو نہ کرو۔ پھر کیا ہے؟ اس کا کیا؟ وہ تو اپنی رحمت سے بلاتا ہے۔نہ جاؤ۔ نہ جاؤ پھر کیا ہے؟ اس پر بھی تمھارا ناواں لکھ لیا۔ لکھ لیا۔“

وہ پھر چکر کاٹنے لگا۔“خود اندھے ہیں خود اندھے۔ اور کہتے ہیں۔ کچھ نہیں کیا۔ پھر میں کیا کروں۔ کیا کروں ہیں۔“




وہ پھر آ کھڑا ہوا۔ “اس بڈھے نے سب کچھ بتایا نہیں بتایا کچھ بولا۔ اس نے تمھارا ناواں لکھا ہے وقت وقت کی بات ہے۔ وقت پر ہوتا ہے وقت پر نہیں ہوتا۔ اس بڈھے نے کہا وقت آئے گا۔ تم نے پرواہ نہ کی۔ اندھے ہیں اندھے اندھے ہی اندھے۔“ وہ پھر چکر لگانے لگا۔




ایلی حیرت سے اس بڈھے کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اس کے سامنے حاجی صاحب کھڑے تھے۔ ہاجرہ سہمی ہوئی بیٹھی تھی۔ سامنے سڑک پر لوگ کھڑے حیرت ست دیکھ رہے تھے۔ بابا نے کبھی کسی کو پاس نہ بٹھایا تھا۔ وہ ہاجرہ عالی اور ایلی کی طرف دیکھ رہے تھے۔ عالی انگلیوں سے لکیریں کھینچ رہا تھا۔





بابا پھر آ گیا۔ “پھر میں کیا کروں۔ میں کر سکتا ہوں۔ تم وہاں جاؤ نہ جاؤ۔ جہاں تمھارا ناواں ہے۔ دور بہت دور۔ رومی ٹوپی والا بڈھا بیٹھا ہے۔ وہ تم ایسوں سے نپٹ لے گا۔ کنویں کے پاس۔ مسجد کے پاس ندی کے پاس۔ وہ بڈھا بڑا جبردست ہے۔ اور اس کا بالکا وہ لمبا ہی لمبا اور اونچے قد والا دونوں بیٹھے ہیں جہاں تم نے پہنچنا ہے۔ جاؤ۔ جاؤ۔ وہ چلایا۔ “ میں کیا کروں۔ جاؤ جہاں تم نے جانا ہے۔ ان سے ہو کر پھر تم نے وہاں پہنچنا ہے۔ جہاں تمھارا ناواں لکھا ہے یہیں ہے ہو کر جانا ہے۔“ اس نے سڑک کی طرف اشارہ کیا۔ “جاؤ جاتے کیوں نہیں جاؤ۔ میں کیا کروں۔ میں کیا کروں۔“

دفعتاً بابا کو غصہ آ گیا۔ “جاؤ جاؤ جاتے کیوں نہیں۔ جاؤ۔“ اس نے ہاجرہ اور ایلی کو دھمکایا۔

“اس کو بھی لے جاؤ۔“ اس نے عالی کی طرف دیکھا۔ “اس کو جو گل گیا تھا۔ پیٹ میں گل گیا تھا۔ اسے بھی لے جاؤ۔ جاؤ۔ جاؤ وہ غصے میں چلایا۔

“نہیں جاتے، نہ جاؤ نہ جاؤ۔ تم جانو بڈھا جانے میں کیا کروں، میں کیا کروں۔“ یہ کہتا ہوا بابا سڑک کی طرف چل پڑا۔




وہ تینوں چپ چاپ بیٹھے رہے۔ ہاجرہ کے چہرے پر عجز اور انکسار کے تودے لگے ہوئے تھے عالی ایلی کا منہ تک رہا تھا۔ اور ایلی خاموش بیٹھا تھا چاروں طرف سے دھندلکا اس پر یورش کر رہا تھا۔

دھندلکے میں کھڑی شہزاد مسکرا رہی تھی۔“جاؤ۔“ وہ کہہ رہی تھی۔ “رکاوٹ تو دور ہو گئی۔“ حاجی صاحب کا سر ہل رہا تھا۔ “آئے گا وقت ضرور آئے گا۔“ وہ مدھم آواز میں گنگنا رہے تھے۔ ان کی آنکھیں یوں چمک رہی تھیں جیسے انہوں نے اسی سرے کی سلائی لگا رکھی ہو۔




غلام مسکرا رہا تھا۔ اللہ ہی اللہ۔ اللہ ہی اللہ اس کی ستار سر دھن رہی تھی۔

“اے ری عالی پیا بن۔“ رضی کی آنکھوں سے مٹھاس بھرے چھینٹے اڑ رہے تھے۔ پیا پیا کوئل چیختی ہوئی اڑے جا رہی تھی۔

اس دھند لکے میں ایک بڈھا میلی سی رومی ٹوپی پہنے فضا میں گھور رہا تھا۔ اس کے قریب ایک اونچا لمبا دبلا پتلا انسان چپ چاپ بیٹھا تھا۔



1184

کنواں ایڑیاں اٹھائے ان کی طرف جھانک رہا تھا۔ ٹوٹی ہوئی مسجد کے مینار گم صم کھڑے دیکھ رہے تھے چھوٹے چھوٹے درخت باادب کھڑے تھے۔
جب ایلی گروپتن پہنچا تو وہ دھندلکا بدستور قائم تھا۔
اس کے بعد ایلی کے احساسات میں نہ جانے کیا ہوا۔ جب بھی وہ رضی مانی اور رنگی کے پاس بیٹھا ہوتا اور رضی کوئی نہ کوئی راگ چھیڑتا۔ “گہری رے اے ندیا۔“
تو اس کے روبرو ایک وسیع میدان پھیل جاتا۔ گہری ندی کے قریب ایک کنواں ابھر آتا اور پھر پاس ہی ایک مسجد سفید چادر اوڑھے آ بیٹھتی اور ایک مختصر سی چار دیواری کے اندر سفید ٹائیلوں پر رومی ٹوپی اوڑھے ایک بڈھا اپنے ہی دھیان میں مگن بیٹھا ہوتا۔ پاس ہی دراز قد با ادب کھڑا ہوتا۔
“پون چلت پرویّا۔“ رضی گویا آہیں بھرتا۔ “وہی دنیا۔“ وہ چادر میں لپٹی ہوئی مسجد اپنا آپ سمیٹتی۔ دور ہوا سیٹیاں بجاتی۔ وسعتیں اور پھیل جاتیں۔ کائنات انگڑائی لیتی پتے سرگوشیاں کرتے درخت جھکتے ندی اور گہری ہو جاتی۔
ایلی رضی رنگی اور مانی کے درمیان بیٹھ کر بھی اسی منظر میں کھویا رہتا۔
“لو شریمتی آ گئیں۔“ رنگی مسکرایا۔
ایلی کی نگاہ تلے ایک نیلی رومی ٹوپی ابھری۔
“کیا بوٹا سا قد تھا۔“ مانی تتلی کو دیکھ کر مسکرایا۔
ایک بوٹا ایلی کی نگاہوں میں ابھرتا۔ اور پھر دراز قد ایلی کی طرف دیکھتا۔ اور پھر پاگ بابا چیختا۔ “جاؤ۔ چلے جاؤ تم جانو اور وہ جانیں۔ میں کون کون ہوں۔“
اور حاجی صاحب کا سر جھولتا۔ “اللہ کا کرم ہے جس پر ہو جائے۔“
پاگ بابا نے نہ جانے ایلی کو کیا کر دیا تھا۔
لیکن ایلی کا ذہن جوں کا توں تھا۔ وہ ایک مضبوط قلعے کی طرح اس کے گرد حصار کیے ہوئے تھا۔ یہ ٹھیک ہے۔ بابا نے اس کے ماضی کے متعلق اتنی ساری باتیں بتا دی تھیں۔ ضرور بابا میں کوئی طاقت کام کر رہی تھی۔ لیکن ایلی سوچتا اس شعبدہ بازی سے مجھ سا سمجھدار آدمی کیسے متاثر ہو سکتا ہے۔ شعبدہ بازی ایلی کو حیران کن ضرور کرتی تھی اسے شعبدہ بازی سے چنداں دلچسپی نہ تھی۔ معجزات یا اس قسم کی غیر مرئی طاقت اس کے لئے حیران کن ضرور تھی۔ لیکن وہ اس کے ایمان کو استوار نہ کرتی تھی۔ نہ ہی اس کے دل میں خدایا مذہب کے لیے جذبہ پیدا کرتی۔ اور نہ ہی وہ ایسے لوگوں کو اللہ والے تسلیم کرنے پر تیار تھا جن سے ایسی طاقتوں کا ظہور ہوتا۔
غالباً اس کی وجہ یہ تھی کہ اگرچہ وہ بے حد ڈرپوک تھا لیکن اللہ پر اس کا ایمان ڈر کی بنیاد پر قائم نہ تھا۔
اللہ کا تخیل جو اس کے دل میں قائم ہوا تھا وہ جیم جیمز کی فلکیات ہالڈین ہکسلے کے “سائنس کیا عجز“ سے متعلق مضامین برڑنڈرسل کے فزکس سنتایانا کے جذبات کاؤنٹ کربمیین کے مشاہدات اور ایچ۔ جی ولز کی سائنس فکشن کتابوں سے اخذ کیا گیا تھا۔
ڈر کی بجائے اس کا دل اللہ تعالٰی کی عظمت کے جذبات سے معمور تھا اسے اللہ کے بندوں کی طاقتوں کے متعلق کچھ علم نہ تھا۔ اور ہوتا بھی تو اسے ان سے کوئی سروکار نہ تھا۔چونکہ اسے اللہ کی طلب نہ تھی احترام تھا فقط احترام۔ ویسے وہ اللہ کی محبت سے کورا تھا۔ اللہ سے محبت کا سوال ہی نہ پیدا نہ ہوتا تھا۔ اللہ سے محبت صرف اسی صورت میں پیدا ہو سکتی ہے۔ جب وہ اپنی مرلی اٹھا کر نیچے اتر آئیں۔ اسے بجائیں اور کائنات مادھوبن میں رادھکاں کی طرح ناچے اور ان کی مرلی کے سحر تلے بوٹے اگ آئیں پھول کھل جائیں اور کوئل چلائے پیو پیو۔

ہندوئیت اور عیسائیت کے مطابق اللہ کی محبت کا تخیل اس کے لیے قابل قبول تھا۔ اسلام کے مطابق تو صرف اللہ ہو اللہ ہو تھا۔ عظمت عظمت عظمت عظمت۔ محبت کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا تھا۔ اور اس بے پناہ عظمت کا اسے کچھ کچھ احساس تھا۔ جو اس نے مغربی علماء کی تحریروں سے اخذ کیا تھا۔ اسلام سے نہیں۔
لٰہذا معجزات کو خاطر میں لانا یا اللہ کے ان بندوں کے سامنے جھکنا بے کار تھا۔ ایلی کی ذہنی دنیا بے حد مستحکم اور محفوظ تھی۔
لیکن اس کی جذباتی دنیا ذہنی خیالات سے دور اپنے ہی رنگ میں بستی تھی۔
شاید اسی لیے اسےٹھمریوں سے محبت تھی چونکہ ٹھمریوں کے زیر اثر مرلی اٹھائے لکٹ لگائے نیچے اتر آئے۔ اور پنگھٹ پر اسے گھیر لیتے۔ اس کی ذہنی چوڑیاں ٹوٹ جاتیں۔ اس کے فلسفے کی گاگر پھوٹ جاتی اور وہ اس ٹوٹ پھوٹ سے بے نیاز ہو کر رادھکاں بن کر ناچتا۔
لیکن یہ رومی ٹوپی والا بڈھا اور دراز قد کون تھے۔ جو اس کی پرائیوٹ زندگی میں خواہ مخواہ گھسے چلے آ رہے تھے۔ لاحول ولا قوۃ عجیب بات تھی کہ وہ لاحول پڑھنا بھول جاتا۔ اس کا دل احترام سے بھر جاتا۔ اور پھر نہ جانے کون مرلی چھیڑ دیتا اور کائنات ناچنے لگتی۔خاموش عزم


پھر ایلی ہاجرہ اور عالی چند ایک روز کی رخصت پر علی پور چلے گئے۔
علی پور ایلی کے لیے ایک ویرانہ تھا۔ نہ وہاں اس کا دوست تھا۔ نہ کوئی دلچسپی شہزاد کے چوبارے کو دیکھ کر اسے ہلکی سی اداسی محسوس ہوتی تھی۔ اور بس۔ محلے والوں کے دلوں میں ابھی تک اس وقت کی یاد باقی تھی۔ اگرچہ محلے والیاں اسے ہنس کر بلاتی تھیں لیکن جلد ہی کسی کے منہ سے زمانہ ماضی کی کوئی بات نصیحت کے رنگ میں نکل جاتی۔
گھر میں علی احمد اسی طمطراق سے رہتے تھے۔ وہ بات بات پر گھر والوں کی روجہ اپنی طعف منعظف کرتے اور راجو یا شمیم کو طعنے دیتے رہتے۔
شمیم کی دونوں بیٹیاں جوان ہو چکی تھیں۔ بڑی دسویں جماعت پاس کر چکی تھی۔ اور اب کسی مدرسے میں معلمہ تھی۔ چھوٹی لڑکی کی شادی ہو چکی تھی۔
راجو کا بیٹا شیر علی لاہور میں اپنی بیوی کے پاس رہتا تھا۔ نصیر کالج میں تعلیم پاتا تھا۔ اس کے علاوہ علی احمد کے دو بیٹے اور تھے۔ وزیر اور کبیر وہ دونوں مدرسے میں پڑھتے تھے۔ جب سے علی احمد نے پنشن پائی تھی ان کی زندگی میں خاصی تبدیلی واقعی ہو گئی تھی۔ وہ سارا دن گھر بیٹھے رہتے اور اپنے رجسٹروں میں کچھ لکھتے رہتے۔ نصیر وزیر اور کبیر سے ان کا رویہ قطعی طور پر مختلف تھا۔ چونکہ اب وہ بوڑے ہو چکے تھے اور باپ کی بجائے دادا بن گئے تھے لٰہذا وہ ہر وقت اپنے بیٹوں کو اپنے پاس بٹھائے رکھتے اور انہیں اپنے خیالات کے انجیکشن لگاتے رہتے۔
ایلی علی پور پہنچا تو علی احمد نے حسب معمول بڑے تپاک سے اس کا استقبال کیا۔ ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے۔ پھر وہ گروپتن کے متعلق پوچھنے لگے۔
“کیوں بھئی۔“ تمھارا جی لگ گیا وہاں۔ بڑا اچھا مدرسہ ہے۔ خوبصورت شہر ہے۔“پھر معروف صاحب کی بات چل نکلی بولے “دراصل تم کیرئیر کے لحاظ سے خاصے بدقسمت واقع ہوئے ہو۔ ورنہ محکمہ تعلیم کے سبھی افسر اپنے دوست ہیں اگر تمھارے خلاف شکایات نہ ہوتیں تو نہ جانے ان کی مدد سے تم کہاں سے کہاں پہنچ جاتے۔“
اپنے اثرورسوخ پر ناز کرنے کی علی احمد کی پرانی عادت تھی۔ وہ خود بڑے عہدے پر نہ پہنچ سکے تھے۔اور اپنی تمام تر زندگی میں کوئی مقام حاصل نہ کر سکے تھے۔ اس لیے عادی طور پر وہ اپنی اہمیت ان دوستوں سے اخذ کرتے تھے۔ جنہیں کوئی نہ کوئی مرتبہ حاصل تھا۔ ایلی ان کی اس عادت سے پورے طور پر واقف تھا لیکن اس میں اس قدر فراخدلی نہ تھی کہ ان کی اس چھوٹی سی کمزوری کو برداشت کرتا۔

ان کے منہ سے اپنے دوستوں کی عظمت کا تذکرہ سن کر وہ جل کٹ جاتا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ علی احمد کا کوئی دوست نہیں۔ لوگ صرف ان کی بذلہ سنجی کی وجہ سے ان سے ملتے اور گپیں ہانکتے تھے۔ دراصل وہ علی احمد کے لیے کچھ کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ اس کی وجہ علی احمد کی اپنی طبیعت تھی۔ چونکہ وہ بڑے آدمیوں کو ہوا دینے کے قائل تھے۔ ان کا ادب لحاظ ملحوظ خاطر رکھتے۔ وہ کسی بڑے آدمی سے برابری کے احساس سے نہیں مل سکتے تھے۔
بہرصورت ایلی میں اس قدر وسعت قلب نہ تھی کہ علی احمد کی اس چھوٹی سی خوشی میں ان کا ساتھ دیتا۔
“دیکھئے اباجان۔“ وہ بولو۔ “آپکے دوست آج تک میرے لیے کچھ نہ کر سکے چھوڑئیے اس بات کو۔“
اس پر علی احمد کو غصہ آ گیا۔ غصہ تو آنا ہی تھا۔ چونکہ ان کا اپنا بیٹا ان کی تمام تر اہمیت کو یوں یک قلم رد کر رہا تھا۔
“اگر معروف صاحب ڈائریکٹر نہ ہوں۔“ وہ جلال میں کہنے لگے۔ “یا تم میرے بیٹے نہ ہو تو تم ایک روز بھی اپنی نوکری پر قائم نہیں رہ سکتے۔“
“آپ کا مطلب یہ ہے نا کہ انہوں نے آپ کی وجہ سے میرے خلاف شکایات پر کوئی ایکشن نہیں لیا۔“ ایلی نے کہا۔
“بالکل۔“ وہ بولے۔
“یہ میں تسلیم کرتا ہوں اور شکر گزار ہوں۔“ ایلی نے کہا۔ “لیکن ان کی امداد مثبت قسم کی نہیں۔“
“کیا مطلب۔“ علی احمد بولے۔
“انہوں نے مجھے کچھ نہیں دیا۔ صرف نوکری پر بحال رکھا ہے۔“ ایلی نے جواب دیا۔
“اجی میاں۔“ علی احمد چلائے۔ “اگر وہ نہ ہوں تو تم ایک دن کے لیے بھی نوکری نہیں کر سکتے۔“ایلی کو غصہ آ گیا بولا۔ “یعنی آپ یہ سمجھتے ہیں کہ مجھ میں اتنی قابلیت ہی نہیں کہ ادنٰی سی نوکری بھی کر سکوں۔“ وہ ہنسے۔ “میاں تم اپنی قابلیت کے زور پر ادنٰی سے ادنٰی نوکری بھی نہیں کر سکتے صرف میری وجہ سے تم اتنے بڑے عہدے پر فائز ہو یہ سنا تم نے نصیر کی ماں کیا کہا ہے۔ ہم نے۔ کیا کہتی ہے۔ کیا غلط کہا ہے۔ ہی ہی ہی ہی۔“ وہ ہنسے۔ “یہ ایلی کیا نوکری کرے گا۔ اپنے بل پوتے پر۔ وہ ہم ہی تھے جو بغیر کسی مدد کے کسی واسطے کے اتنے سال نوکری کی اور عزت سے کی۔ کیا کہتی ہے۔“
ایلی کے دل میں ایک عزم بیدار ہو رہا تھا۔
جوں جوں وقت گزرتا گیا وہ خاموش عزم تقویت پکڑتا گیا۔ ایلی کی تمام تر انا گویا احتجاج میں اٹھ کھڑی ہوئی تھی وہ ایک مظلوم حبشی کی طرح تن گئی تھی۔ حبشی کی آنکھیں اپنے خانوں سے باہر نکل آئی تھیں۔ گویا سو جا ہوا تھا۔ بازو تنے ہوئے تھے۔ توڑ دو توڑ دو۔ یہ زنجیر توڑ دو۔ اس کے جسم کے بند بند سے نعرے بلند ہو رہے تھے۔
ایلی نے اب تک اپنی اہمیت شہزاد سے اخذ کی تھی۔ اسے وہ محبوبہ حاصل تھی جس کے لیے آصفی محلے کے تمام افراد چشم براہ تھے۔ لیکن اب اس کی موت کے بعد ایلی کے لیے کوئی ایسی بات نہ تھی جس پر وہ اپنی اہمیت کو استوار کر سکتا تھا۔ علی احمد کی اس سرسری بات نے ایلی کی توجہ کو اس بات کی طرف منعطف کر دیا تھا۔ اسے اپنی قابلیت پر بڑا ناز تھا۔ وہ جملہ اساتذہ کو کمتر سمجھتا تھا۔ اس کی دیرینہ خواہش تھی۔ کہ اساتذہ کے جھرمٹ سے نکل جائے۔ ان کی زندگی کھوکھلی تھی۔ ان کی شخصیتیں بناوٹی اور رسمی تھیں۔ انہوں نے اخلاقیات کا خول پہن رکھا تھا۔ ان کا علم کتابی تھا۔ نڈر، فکر کی ان میں صلاحیت نہ تھی۔
ایلی کا ارادہ پختہ ہوتا گیا۔ کہ وہ محکمہ تعلیم کو چھوڑ دے گا۔ جہاں اعلٰی افسر علی احمد کے دوست تھے۔ وہ اپنا راستہ خود پیدا کرے گا۔


رام گوپال

چند ایک روز کے بعد ایلی لاہور چلا گیا۔
لاہور میں اس نے محمود سے بات کی۔ “یار کوئی نوکری تلاش کرنے آیا ہوں۔ میری مدد کرو۔“ وہ بولا۔ “میں سکول کی نوکری نہیں کروں گا۔““ نوکری تلاش کرنے آئے ہو۔“ محمود بولا۔ “تو مہربانی کر کے تلاش کرو۔ میں بھی اس محکمے سے اکتا گیا ہوں۔“
محمود نے بات مذاق میں ٹال دی۔ اب ایلی کو سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کہاں جائے کس طرح کوشش کرے۔ اتفاق اے اس کی توجہ میز پر پڑے ایک اخبار کی طرف منعطف ہو گئی۔ اس نے ورق گردانی شروع کر دی۔ وہ چونک پڑا۔ اخبار میں لکھا تھا ایک نئے محکمے کے لیے چند آسامیاں پر کرنے کے لیے گریجویٹوں کی ضرورت ہے۔
“یہ دیکھو۔“ اس نے محمود سے کہا۔ “تم تو کہتے تھے نوکری ڈھونڈنے سے ملتی نہیں۔“
محمود ہنسا۔ “خالی تو بیسیوں ہوتی ہیں روزانہ لیکن ملتی نہیں۔“
“میں عرضی دوں گا۔“ وہ بولا۔
“دینے کا کیا مطلب ہے۔“ محمود چلایا۔ “انہوں نے تو لکھا ہے کہ عرضی لے کر خود آ جاؤ۔
وہاں سینکڑوں سفارشی ہوں گے۔ تمھیں کون پوچھتا ہے۔“
ایلی نے عرضی لکھی اور اسے لے کر خود اس محکمے میں جا پہنچا۔
محکمہ کا ڈائریکٹر ایک نوجوان ہندو تھا۔ اس نے ایلی کا بغیر جائزہ لیا۔ “ہوں۔“ وہ بولا۔
“تو آپ الیاس آصفی ہیں؟“
“جی۔“ ایلی نے کہا۔
“اور آپ محکمہ تعلیم میں ہیں“
“جی ہاں۔“
“کتنی نوکری کر چکے ہیں آپ محکمہ تعلیم میں۔“
“پندرہ سال۔“
“پندرہ سال کافی لمبا عرصہ ہے۔“
“جی۔“ وہ بولا۔
“لیکن آپ اس نوکری کو چھوڑنا کیوں چاہتے ہیں؟“
ایک ساعت کے لیے ایلی نے سوچا اور پھر فیصلہ کر دیا کہ وہ اسے سچی بات بتائے گا۔ وہ بولا۔
“جناب محکمہ تعلیم میں میرے والد کا اثر و رسوخ ہے۔“
“یہ تو اور بھی اچھا ہے۔“ وہ بولا۔“جی۔“ ایلی نے کہا۔
“تو آپ وہ محکمہ چھوڑنا کیوں چاہتے ہیں؟“
“میں ایسے محکمے میں نوکری نہیں کرنا چاہتا۔ جہاں بلاواسطہ اپنے بل بوتے پر ترقی حاصل نہ کر سکوں۔“
“کیوں۔“ ڈائریکٹر سوچ میں پڑ گیا۔ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔
“کیا آپ کو معلوم ہے۔“ ڈائریکٹر نے کہا۔ “کہ یہ آسامی جس کے لیے آپ نے درخواست دی ہے مستقل نہیں۔“
“جی۔“ وہ بولا۔
“اس میں پنشن نہیں۔“
“جی۔“ وہ بولا۔
“آپ کی پندرہ سال کی نوکری بےکار جائے گی۔“
“مجھے معلوم ہے۔“ایلی نے کہا۔
“معاف کیجئے گا۔“ وہ بولا۔
“میں آپ کو یہ آسامی دے کر آپ کا نقصان نہیں کرنا چاہتا۔
“معاف کیجئے گا۔“ایلی نے کہا۔
“میرا فائدہ اور نقصان میں بہتر سمجھتا ہوں۔“
“اچھا۔“ڈائریکٹر نے کہا۔ “آپ امتحان میں شامل ہو جائیے۔“
“امتحان۔“ ایلی نے دوہرایا۔
“ہاں۔“ وہ بولا۔
“ہم انٹرویو لیں گے۔ اگر آپ پاس ہو گئے تو میں آپ کا کیس رکمنڈ کر دوں گا۔“
انٹرویو کے بعد ڈائریکٹر نے ایلی کو بلایا۔ اور ایک ٹائپ شدہ کاغذ اس کے ہاتھ میں تھما دیا۔
“یہ آفر ہے۔“ وہ بولے۔ “اگر آپ کو ڈیڑھ سو روپے ماہوار تنخواہ منظور ہے۔ تو آپ مجھ سے بات کر سکتے ہیں۔ لیکن تب جب آپ یہاں جائن کرنے کے لیے آئیں۔“
“آپ نے مجھ پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔ میں بے حد شکر گزار ہوں۔“ ایلی نے جذبہ کی شدت سے اٹک اٹک کر کہا۔“میں نے آپ پر کوئی احسان نہیں کیا۔“ ڈائریکٹر نے کہا۔
“میں تو سمجھتا ہوں۔“ ایلی نے کچھ کہنا چاہا۔
“آپ غلط سمجھتے ہیں۔“
“اتنے میں ایک چپراسی کچھ کاغذات لے کر آ گیا۔
“ذرا ٹھہرئیے۔“ڈائریکٹر نے ایلی سے کہا۔
“تشریف رکھیے۔ ایک منٹ۔“
کاغذات پر دستخط کر کے وہ ایلی کی طرف متوجہ ہوا۔
“میں نے آپ پر احسان نہیں کیا۔“ وہ بولا۔ “ان بچوں پر احسان کیا ہے جنہیں آپ پڑھاتے ہیں۔“ ایلی نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھا۔
“آپ بچوں کو پڑھانے کے لیے بے حد ناموزوں ہیں۔“ وہ بولا۔ ایلی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ کہ کیا کہے۔
“یہ درست ہے۔“ وہ بولا۔ “ کہ آپ ان میں فکر کی صلاحیت پیدا کرتے ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ آپ ان میں تحقیق کی سپرٹ بیدار کرتے ہیں۔“
“جی میں ---------- “ وہ گھبرا کر بولا -----------
“سن لیجئے۔ ڈائریکٹر نے کہا۔
ایلی خاموش ہو گیا۔
“لیکن آپ کی تعلیم ان کے لئے سم قاتل ثابت ہوتی ہے۔ اور تمام دنیا حریف بن کر ان کے سامنے آ کھڑی ہوتی ہے۔“ وہ رک گیا۔
پھر مسکرا کر بولا۔ “آپ کی تعلیم کی وجہ سے میری زندگی میں بہت مشکلات پیدا ہوئیں۔
بلکہ میری بیشتر مشکلات کی وجہ آپ ہیں آپ۔“
ایلی نے تعجب سے اس کی طرف دیکھا اور گھبرا کر کھڑا ہو گیا۔
ڈائریکٹر بھی کھڑا ہو گیا۔ اس نے ایلی کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ میرا نام رام گوپال ہے۔ میں آپ کا شاگرد ہوں۔
ڈائریکٹر نے تپاک سے ایلی سے ہاتھ ملایا۔
ایلی کی زبان گنگ ہو چکی تھی۔“یہ بھی صحیح ہے۔“ رام گوپال بولا۔ “میں نے آپ سے پایا بھی بہت کچھ ہے۔ بہت کچھ۔ خداحافظ۔“
ایلی کے استعفٰی پر اک شور مچ گیا۔ لالہ جی نے جوان کے ہیڈماسٹر تھے اپنا سر پیٹ لیا۔ وہ ایلی کو بار بار سمجھاتے کہ پندرہ برس کی نوکری کو یوں ٹھوکر مار کر چلے جانا عقل مندی نہیں۔ اساتذہ بھی حیران تھے۔ علی احمد نے سنا تو فوراً ایک خط لکھا۔ “برخودار ایسی حماقت نہ کرنا ورنہ زندگی بھر پچھتاؤ گے۔ تمھیں مسٹر معروف سا افسر اعلٰی کہیں نہیں ملے گا۔ اس محکمے کو نہ چھوڑو چونکہ محکمہ تعلیم کا وزیر بھی میرا پرانا لنگوٹیا ہے۔ ایسی آسانیاں کہیں دستیاب نہ ہوں گی۔“
لیکن ایلی نے اپنا فیصلہ نہ بدلا۔
صرف رضی رنگی اور مانی تھے۔ جنہوں نے اس کی ہمت بندھائی۔
رضی نے کہا۔“بھئی دانہ پانی کی بات ہے۔“
رنگی بولا۔ “یار میں بھی اس محکمے کو چھوڑنا چاہتا ہوں۔ لیکن آج تک بات نہیں بنی۔ وہاں جاؤ گے تو میرے لیے بھی کوشش کرنا۔“
“بڑا اچھا کیا تم نے۔“مانی بولا۔ “شاباش اپنا راستہ خود بناؤ۔ چاہے ناکامی ہی کیوں نہ ہو۔“
لاہور میں ایلی کی زندگی یکسر بدل گئی محکمہ بدلنے کی وجہ سے ماضی کی تمام تلخیاں گویا اس کے نامہ اعمال سے دھل گئیں۔ محکمہ تعلیم میں اس کے افسران اور رفقائےکار کسی نہ کسی حد تک اس کے گزشتہ کارناموں سے واقف تھے۔ اس کی ہر بات کا مفہوم اس کی گزشتہ زندگی کے تار پود کے حوالے سے اخذ کیا جاتا تھا۔ اس کے خیالات اور جذبات بلاواسطہ کوئی حیثیت نہ رکھتے تھے۔
اس محکمے میں وہ ماضی کے حوالے سے قطعی آزاد ہو گیا۔ اس کے علاوہ یہاں اس کے ہمکار رسمی خیالات اور دکھلاوے کے تقدس سے بے نیاز تھے اگرچہ وہ نڈر ہو کر سوچ نہ سکتے تھے لیکن نڈر خیالات کے خلاف ان میں بغض نہ تھا۔ محکمہ تعلیم کو چھوڑ کر ایلی نے محسوس کیا جیسے وہ کیچڑ بھرے جوہڑ سے نکل کر دریا میں آ پہنچا تھا۔ وہاں روانی تھی وسعت تھی اور جمود نام کو نہ تھا۔
نئے محکمے میں آ کر چند ہی روز اس نے محسوس کیا جیسے وہ پرانا ایلی نہ تھا۔ جیسے بیتی ہوئی زندگی محض ایک خواب ہو۔
“میں نے کہا نا تھا۔“ شہزاد آ کر مسکراتی۔ تمھاری زندگی پھر سے شروع ہو گی۔“لاہور پہنچ کر اس نے پہلی مرتبہ شہزاد کو یاد کیا۔شہزاد کی یاد اب اس کے ذہن میں گزشتہ تلخیوں سے بے تعلق تھی۔ جب بھی شہزاد کی یاد آتی تو وہ اسے مسکراتے ہوئے دیکھتا۔ اور اس کے دل میں عجیب سی خوشی پیدا ہوتی۔
لاہور میں اس کا ماموں زاد بھائی رفیق تھا۔ پھر فرحت بھی وہیں تھی۔ چونکہ اس کا خاوند اجمل لاہور کے ایک دفتر میں تبدیل ہو چکا تھا۔ اور حکومت کی وساطت سے انہیں مادھومحلہ میں ایک مکان مل گیا تھا۔ جہاں وہ رہتے تھے۔ ایلی فرحت کے پاس ٹھہرا تھا۔ اور ایک بار پھر اسے بھرے گھر میں رہنے کا موقعہ ملا تھا۔ فرحت نے ایک بڑا سا کمرہ ایلی عالی اور ہاجرہ کے لئے مخصوص کر دیا تھا۔
ہاجرہ سے جب فرحت نے سنا کہ رنگی اور مانی ایلی کی شادی کے لئے کوئی رشتہ ڈھونڈ رہے ہیں تو اسے بہت خوشی ہوئی۔ فرحت کو ایلی کی زندگی سے بے حد دلچسپی تھی۔ لیکن اس نے ایلی اور شہزاد کے تعلقات کے کبھی اچھے نگاہ سے نہ دیکھا تھا۔
ابھی ایلی کو لاہور آئے چند ایک روز ہی ہوئے تھے کہ مانی اور رنگی لاہور آ گئے۔ رنگی کے لئے لاہور ایک عظیم نعمت تھی۔ وہ وہاں آ کر بے حد خوش ہوتا تھا۔ اس لئے کہ خوبصورت ماحول اس کے نزدیک سب سے بڑی نعمت تھی۔ لاہور میں لباس تھا جوانی تھی۔ رنگ تھا۔ شوخی تھی۔ اور رنگی کے لئے یہی بہشت تھا۔
دور روز وہ اکھٹے سڑکوں پر گھومتے رہے۔ راگ ودیا کی باتیں کرتے رہے۔ پتلی اور شریمتی کے قصے دہراتے رہے۔ جب رنگی اور مانی جانے لگے تو دفعتاً رنگی بولا “ایلی تمھارے لئے ایک ایسی بیوی تلاش کی ہے۔ جس کا جواب نہیں۔ وہ تمام خصوصیات اس میں ہیں جن کی تمھیں اشد ضرورت ہے شکل و صورت سے تو تم بے نیاز ہو۔ باقی رہی طبیعت تو جناب ایسی نیک لڑکی ہمارے قصبے میں تو ہے نہیں کوئی۔ اور اس کا باپ ایک لاجواب مرد ہے۔ اس قدر شدت کی انفرادیت شاید ہی کسی میں ہو۔ جو منہ سے کہہ دیا پتھر کی لکیر سمجھ لو۔ اور دیانتداری کی تو حد نہیں کوئی۔ بات کا پکا قول کا پورا اور رسمیات سے بیگانہ بالکل بیگانہ۔ وہ لوگ آ کر تمھیں دیکھ لیں گے جیسے عام طریقہ ہے اور یہ بھی محض رسم ہے چونکہ لڑکی نگہت کی بچپن کی سہیلی ہے وہ اسے ذاتی طور پر جانتی ہے۔ بہرحال بات پکی سمجھو۔
“دیکھو بھائی۔“ ایلی نے کہا۔ “چاہے جو جی چاہے کرو میرے مرضی کے متعلق کوئی بات چھپا کر نہ رکھنا ایسا نہ ہو کہ بعد میں کہیں ہم سے دھوکا کیا گیا۔““یہ بات تم ہم پر چھوڑ دو۔“ مانی بولا۔
“نہیں یار یہ غلط ہے۔“ ایلی نے کہا۔
“تم ہمارے رشتہ داروں اور برادری والوں کو نہیں جانتے۔“ مانی نے کہا۔ “بے حد غلیظ لوگ ہیں۔ پشت در پشت دوکانداری کرتے ہیں۔ ان کا نقطہ نظر روپیہ تک محدود ہے جس کے پاس روپیہ ہے وہ بڑا آدمی ہے۔ سب لکیر کے فقیر ہیں۔ ہر بات قابل قبول ہے جس میں سے رسم کی بو آتی ہو۔ نئی بات الحاد ہے۔ نیا چین قابل تف ہے۔“مانی شدت میں نہ جانے کیا کہتا گیا۔ رنگی مسکرا رہا تھا۔
ایلی سوچ رہا تھا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ کہ جس قصبے نے رنگی نگہت اور مانی جیسے کردار کئے ہوں۔ وہ قصبہ ازلی طور پر رنگ سے خالی ہو یا زندگی سے محروم ہو ضرور مانی بڑھا کر بات کر رہا تھا۔ چونکہ مانی میں تو توازن مفقود تھا۔ اس میں جذبہ تھا۔ خلوص تھا خود پسندی کی دبی دبی جھلک تھی اور بے پناہ جرات تھی۔
شادی کے متعلق ایلی اب سوچنے سمجھنے اور پرکھنے کا قائل نہ رہا تھا۔ زندگی میں بہت سی باتیں جو اس نے سوچ سمجھ کر کی تھیں ان کا انجام اچھا نہ ہوا تھا۔ عورت کے متعلق تو اسے یقین ہو چکا تھا کہ وہ چاند کی طرح اک مخصوص پہلو آپ کے سامنے پیش کرتی ہے۔ اور عورت میں کئی ایک پہلو ہیں۔ متبسم پہلو۔ متذبذب پہلو “مجھے کیا“۔ اور وہ پہلو جس کے تحت شہزاد نے اس شرابی کے متعلق کہا تھا۔“ نہیں میں اسے معاف نہیں کروں گی۔ میرے سامنے بلک بلک کر گھسٹ گھسٹ کر مرے۔“
عورت کو پرکھنا ایلی کے خیال کے مطابق ناممکن تھا۔ عورت میں یہ صلاحیت تھی کہ سال ہا سال اپنا ایک ممخصوص پہلو پیش کرے وہ سالہا سال تبسم پہلو پیش کر سکتی تھی کیسے ہی حالات کیوں نہ ہوں کتنی ہی مشکلات کیوں نہ ہوں۔ لیکن اگر ضرورت محسوس کرے تو متبسم ہی دکھائی دے گی۔ اور جب وہ سمجھے کہ اب ضرورت نہیں رہی تو حالات کے تقاضے سے بے نیاز ہو کر گھورنا شروع کر دے گی۔ یا بے پروائی اور بے نیازی کا جامہ اوڑھ لے گی۔ اس لئے عورت کو جانچنے کا سوال ہی نہیں ہوتا تھا ایلی سمجھنے لگا تھا شادی ایک جوا ہے۔ چاہے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر کھیلو یا آنکھیں بند کر کے اس نے آنکھیں بند کر لی تھیں۔ اس نے یہ خواہش محسوس نہ کی تھی کہ ہونے والی بیوی کو ایک نگاہ دیکھ لے یا ہاجرہ کو بھیج کر اس کے ذریعے معلومات حاصل کرے۔نامن پور

نامن پور ایک پرانا قصبہ تھا۔ جو لاہور سے تقریباً تین میل کے فاصلے پر واقعی تھا نامن پور مغلوں کے زمانے میں آباد ہوا تھا۔ قصبے پر مغلوں کی مہر ثبت تھی قصبے کے گرد چھوٹی اینٹ کی بنی ہوئی چار دیواری تھی۔ جس میں آٹھ دروازے کھلتے تھے۔ چار دیواری کے اندر تنگ و تاریک گلیوں اور چھوٹے چھوٹے گلی نما بازاروں کا جال بچھا ہوا تھا۔ ان تنگ گلیوں کے ارد گرد اونچی اونچی عمارتیں تھیں حویلیاں تھیں۔ ادھر ککے زیوں کا احاطہ تھا ادھر سیدوں کا پرلی طرف دیوانوں کا۔
قصبے کے شمال مغرب میں ہندؤں کا سیٹھ کنبہ آباد تھا۔ جن کی وجہ سے نامن پور مشہور تھا سیٹھوں کا یہ کنبہ نامن پور کا قدیم ترین کنبہ تھا۔ نامن پور کے گردونواح کے کھیت انہیں کی ملکیت تھے۔ سیٹھ حیسن تھے، متحمل مزاج تھے اور دولت کی حفاظت کرنا جانتے تھے۔ سیٹھوں کے بعد نامن پور کے نو مسلم مشہور تھے وہ سب ویش تھے جو بعد میں مسلمان ہو گئے۔ان کا پیشہ تجارت تھا۔ اور وہ قدیم زمانہ سے دوکانداری کرتے آئے تھے۔ ان ویشوں کی کئی ایک گوتیں نامن پور میں آباد تھیں مثلاً کاپر تھے نار وج تھے چالیہ تھے۔ نامن پور اور اس کے جوار کے قصبوں اور شہروں میں اس کی دوکانیں تھیں۔ جہاں وہ چھوٹے چھوٹے کاروبار کرتے۔ ان میں چند ایک لوگ ہندوستان کے دور و دراز کے شہروں میں جا کر پنجاب کی مصنوعات بیچتے تھے۔ چند ایک ماہ شہروں کے چکر لگاتے اور پھر نامن پور میں لوٹ آتے تاکہ اگلے چکر کے لئے اشیاء فراہم کریں۔
ان میں سے گنتی کے لوگ تعلیم یافتہ تھے۔ جنہوں نے کاروبار چھوڑ کر ملازمت اختیار کر لی تھی ان کی تعداد بہت کم تھی۔
چالیہ گوش کے ویشیوں کا سب سے بڑا گھرانا آصف کا تھا۔ غیر تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود آصف صاحب فکر تھے۔ اس کے فکر میں انفرادیت تھی۔ اور یہ انفرادیت صرف فکر کی حد تک محدود نہ تھی۔ وہ سوچتے تھے اور اسے فوراً عمال میں لانے کے قائل تھے۔ فکر کی اس عادت کی وجہ سے انہوں نے زندگی میں چند ایک اصول مرتب کئے تھے جن پر شدت سے پابند ہونے کے باوجود وہ اس بات کا احساس رکھتے تھے کہ زندگی اصول سے زیادہ اہم ہے۔نامن پور میں لوگ آصف کی عزت کرتے تھے اور ان پر اعتماد رکھتے تھے۔ ہندو اپنی امانتیں آصف کے سپرد کر دیتے دیش اپنے جھگڑوں کے تصفیہ کے لئے آصف کو پنج بنانے پر خوشی محسوس کرتے لیکن آصف کے اپنے گھر میں ان کے خیالات کا مذاق اڑایا جاتا تھا۔ ان کی بیوی کو اس کی رائے مشورے یا فیصلے پر قطعی اعتماد نہ تھا۔ گھر میں ہر بات پر انھیں جھاڑ جھپٹ ہوتی تھی۔ جسے وہ سر جھکا کر سننے کے عادی ہو چکے تھے لیکن اس کے باوجود وہ اپنے خیال اور رائے پر قائم رہتے اور وہی کرتے تھے جو ان کے خیال میں درست ہوتا۔
آصف نے زیادہ تر زندگی جنوبی ہندوستان کے ایک شہر میں گزاری تھی۔ جہاں ان کا ایک اعلٰی قسم کا ہوٹل تھا۔ جس میں بڑے بڑے اہل کار اور یورپین آ کر ٹھہرتے تھے۔ شاید اسی وجہ سے وہ دوسروں کی بات غور سے سننے کے عادی ہو چکے تھے ان کی طبیعت میں اخلاق تھا تحمل تھا۔ اگرچہ اس کے ساتھ ہی وہ وہم کی بیماری میں مبتلا تھے۔ جو کافی شدت اختیار کر چکی تھی۔
تین بیٹوں کے علاوہ آصف کی ایک بیٹی بھی تھی۔ جس کا نام بلند بخت تھا۔ بلند بخت نے چند ایک جماعتوں تک مدرسہ میں تعلیم پائی تھی اور آصف نے اسے مدرسہ سے اٹھا لیا تھا چونکہ دستور کے مطابق نامن پور کے لوگ بچیوں کو زیادہ پڑھانے کے قائل نہ تھے۔ آصف خود تو تعلیم کے حق میں تھے ممکن ہے ان کی بیگم زبردستی بلند بخت کو مکتب سے اٹھا لیا ہو۔
بلند بخت ابھی عنفوان شباب میں ہی تھی کہ اسے ایک قریب رشتہ دار کے بیٹے سے منسوب کر دیا گیا۔ اور جلد ہی بڑی دھوم دھام سے شادی ہو گئی۔
لڑکے نے دولہا بننے سے پہلے بار بار اپنے والدیں کو کہلوایا تھا کہ اس کی شادی نہ کی جائے چونکہ وہ شادی کے قابل نہیں۔ لیکن والدین نے اس کی بات کو درخور اعتنانہ سمجھا۔ شاید وہ سمجھتے رہے کہ لڑکا ویسے ہی ہچکچاتا ہے اس کے ذہن پر عورت کا ڈر حاوی ہے۔ آہستہ آہستہ مانوس ہو جائے گا۔ یا شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ اس سامان کو یکھ کر جو آصف جہیز کے مشتاق تھے لڑکا چاہے قابل ہو یا نہ ہو۔ سامان پر قبضہ جمانے کے تو وہ قابل ہے۔ لٰہذا انہوں نے لڑکے کی بات نہ سنی۔
بلند بخت شب عروسی میں دولہا کا انتظار کرتی رہی۔ دولہا کے والدین اسے ڈھونڈتے رہے۔آخر بات نکل گئی کہ دولہا غائب ہے۔ بلند بخت نے سنا تو اسے ایک دھچکا لگا۔ اس کی حیات منجمند ہو گئی۔ نسائی تقاضوں کے راستے مسدود ہو گئے۔ نسیں ایک زبردست ہیجان سے ٹکرائیں اور حسیات کا وہ فیوز ہمیشہ کے لئے اڑ گیا۔ جو اس کی نسائی زندگی میں تحریک پیدا کر سکتا تھا۔
اگلے روز اس کے والدین بلند بخت کو اپنے گھر لے گئے۔
پہلے تو موہوم سی امید باقی تھی۔ کہ شاید دولہا کسی روز گھر واپس آ جائے پھر جوں جوں وقت گزرتا گیا مایوسی گہری ہوتی گئی۔ حتٰی کہ سات سال گزر گئے۔
ویش لوگوں میں طلاق کا سوال پیدا ہی نہ ہوتا تھا۔ ان کے نزدیک طلاق کا لفظ گالی کے مترادف تھا۔ وہ اسے منہ پر لانے والا برادری میں ہمیشہ کے لئے اپنی عزت کھو دیتا تھا۔ لٰہذا بلند بخت کی دوسری شادی کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔
بلند بخت نگہت کی سہیلی تھی اور نگہت رنگی اور مانی کے ساتھ رہنے کی وجہ سے یا شاید فطری طور پر نامن پور کی عورتوں سے ہٹ کر تھی۔ ہاجرہ کی بات سن کر اسے فوراً بلند بخت کا خیال آیا تھا۔ رنگی نے اس بات میں اس کی ہاں میں ہاں ملائی تھی۔ اور مانی عملی طور پر اس سلسلے میں کوشش کرنے کے لئے بےتاب ہو گیا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے مل کر برادری میں بات چلا دی۔ اور کچھ حیرت کچھ تعجب اور عورتوں کے ناک بھوں چڑھانے کے بعد بلند بخت کو طلاق ہو گئی۔ ایک مختصر سی رسم کے بعد بلند بخت کا ایلی سے عقد ہو گیا۔ اور وہ ایلی کے گھر آ گئی۔ اور ایلی نے دیکھا کہ اس کے گھر ایک لاش پڑی ہے اور زندگی بھر اسے ایک لاش اٹھائے پھرنا ہے۔ بلند بخت کو دیکھ کر ایلی کو ایک دھچکا لگا۔
اگرچہ وہ اس بات پر مصر تھا کہ کسی نوجوان سے اس کی شادی نہ کی جائے۔ بظاہر وہ یہ بھی چاہتا تھا کہ اس کی بیوی حسین نہ ہو۔ رنگین نہ ہو۔ اس وقت اس کی عمر چالیس سال کے لگ بھگ تھی۔ شدت بھری زندگی بسر کرنے کے بعد وہ تھک چکا تھا۔ اکتایا ہوا تھا۔ اس کی سب سے بڑی خواہش سکون و اطمینان تھا۔ اس کے علاوہ اسے یقین تھا کہ وہ عالی کے لئے شادی کر رہا ہے۔ اگر اس کے گھر میں حسین و جمیل بیوی آ گئی تو ممکن ہے وہ اپنی بیوی میں اس حد تک کھو جائے کہ قریب ہی عالی بے توجہی کی گود میں پڑا بلکتا رہے اور اسے خبر بھی نہ ہو کہ وہ بلک رہا ہے۔ رو رہا ہے۔ پریشان حال ہے۔
ان سب باتوں کے باوجود بلند بخت کو دیکھ کر ایلی کو ایک دھچکا لگا۔لیکن جلد ہی اس نے جواز پیدا کر لئے شاید یہی مناسب تھا کہ بلند بخت اس کی بیوی بنے۔ جیون ساتھی نہ بنے۔ ورنہ عالی تنہا رہا جاتا۔ اس نے اپنے آپ کو تسلی دینے کی کوشش کی کہ ضرور اس میں قدرت کا ہاتھ ہے۔
وقت یہ تھی کہ بلند بخت اس گزشتہ سانحہ کی وجہ سے بالکل ہی مایوس ہو چکی تھی۔
بلند بخت کے خیالات بے حد پاکیزہ تھے لیکن یہ پاکیزگی رسم و رواج کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھی۔ اس کے شانوں پر سر نہیں بلکہ ایک پھوڑا تھا جس میں مسلسل درد ہوتا رہتا تھا۔ اس کی سب سے بڑی خوشی یہ تھی کہ خاوند اس سے دور رہے بلند بخت کی آمد پر ایلی نے ایک مکان کرائے پر لے لیا اور ایلی اور عالی فرحت کا گھر چھوڑ کر اپنے گھر میں منتقل ہو گئے۔


مشملات



ایلی کو سیاست سے قطعی طور پر دلچسپی نہ تھی۔ اخبار تو وہ پڑھتا تھا لیکن سیاسی خبروں کے متعلق اسے دلچسپی نہ تھی۔ صرف سرخیاں پڑھ کر مطمئن ہو جاتا۔
جب ہندوستان کی آزادی کی آواز بلند ہوئی تو ایلی کو بے حد خوشی ہوئی تھی وہ چاہتا تھا کہ اس کا ملک آزاد ہو جائے۔ اور کوئی بیرونی طاقت اس ملک پر مسلط نہ رہے۔ ایلی کے دل میں ان مجاہدوں کے لئے احترام تھا جو آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے۔ وہ ہندوستان کے لیڈروں پر ناز کرتا تھا۔ مثلاً مہاتما گاندھی پنڈت جواہر لال نہرو اور محمد علی جناح۔ اس کے باوجود اس نے کبھی کسی سیاسی مجلس میں حصہ نہ لیا تھا۔ اور نہ ہی ان محبوب لیڈروں کو کبھی دیکھا تھا۔ حالانکہ اس زمانے میں سیاسی بیداری بڑھ چکی تھی۔ اور لوگوں کے دلوں میں سیاسی جذبہ یوں لہریں لے رہا تھا کہ ذاتی مسائل بھی پس پشت پڑ چکے تھے۔
پاکستان کے قیام کا سوال ان دنوں پیش پیش تھا۔ پنجاب میں مسلم لیگ کی دھوم مچی ہویہ تھی یوپی کے مسلمان پاکستان کے لئے سر دھڑ کی بازی لگائے بیٹھے تھے علی گڑھ یونیورسٹی میں علم و ادب کی جگہ سیاسیاست کا ابال آیا ہوا تھا۔
لیکن ایلی اس جھگڑے سے بالکل بے گانہ تھا۔ وہ پاکستان کے حق میں نہ تھا۔ وہ پاکستان کے خلاف بھی نہ تھا۔ اس نے کبھی اس مسئلے کو اہمیت ہی نہ دی تھی۔ وہ چاہتا تھا کہ ہندوستان کو آزادی مل جائے۔ اور لوگوں کی اور ملک کی اس میں بہتری ہے تو پاکستان کا قیام عمل میں آ جائے۔ بہرحال وہ ہر اس بات کا طرفدار تھا۔ جو عوام اور ملک کی بہتری کے لئے تھی۔ لیکن وہ یقین سے نہیں کہہ سکتا تھا۔ کہ ملک کی بہتری کس بات میں ہے۔پنجاب کے مسلمان پاکستان کے حق میں تھے اس وجہ سے کبھی کبھار اس کے دل میں بھی پاکستان کے لئے جذبہ پیدا ہوتا۔ لیکن وہ جذبہ محض وقتی ہوتا۔ یا کبھی کبھار بیٹھے بیٹھائے اس کے روبرو دھرم سالہ کا سکول ابھرتا۔ چھٹی جماعت کا لڑکا رام لال اس کے سامنے آ کھڑا ہوتا۔ “رام لال مجھے ایک گلاس پانی لا دو۔“ ایلی کہتا۔! رام لال کی گردن جھک جاتی اور وہ چپ چاپ جوں کا توں کھڑا رہتا۔ “رام لال۔“ ایلی چلاتا۔ “تم سے کیا کہہ رہا ہوں۔“ “جی میرا دھرم بھر شٹ ہو جائے گا۔“ رام لال جواب دیتا۔ “بے وقوف لڑکے۔“ایلی ہنستا۔ “اگر تم میرے ہاتھ کا پانی پیو تو دھرم بھر شٹ ہو گانا۔ اگر تم مجھے پانی لا دو تو تمھارا دھرم کیسے بھرشٹ ہو سکتا ہے۔“ رام لال اسی طرح گردن جھکائے کہتا۔ “جی میرا دھرم بھرشٹ ہو جائے گا۔“
پھر اس کے روبرو دھرم سلا کا پڑوسی آ کھڑا ہوتا۔ “جی میرا نام رام دین ہے۔“
“رام دین؟“
“جی میں بھگوان کی دیا سے مشلمان ہوں۔“
“مشلمان۔“
“جی جی۔“
پھر ایلی کی نگاہ میں رام دین کی کٹیا ابرتی۔ وہ چونکا۔ وہ پوتر گوبر کا ڈھیر کارنس پر دھری ہوئی مورتیاں۔
“جی میں مشلمان ہوں۔“ رام دین چلاتا۔ اور پھر تمام ہندوستان کے مسلمان اس کے سامنے قطار باندھ کر کھڑے ہو کر چلاتے۔“جی میں بھگوان علی ہوں۔ جی میں کرشن اللہ ہوں۔ جی میں غلام گرد ہوں۔ ہم مشلمان ہیں۔“ وہ چلاتے۔ “پاکستان زندہ باد پاکستان زندہ باد۔“ اس کے دل میں کوئی نعرے لگاتا۔ لیکن جلد ہی ایلی چونکتا۔“ نہیں نہیں“ وہ چلاتا۔ اگر رام لال اس قدر تنگ خیال واقعی ہوئے ہیں۔ کہ کسی کو پانی پلانے سے ان کا دھرم بھر شٹ ہو جاتا ہے۔ یا وہ اپنے درمیان رہنے والے اکے دکے مسلمان کو رام دین بنا دیتے ہیں۔ تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہندوؤں کے خلاف ایسے بغض پال کر میں بھی رام لال بن جاؤں۔ نہیں نہیں وہ چلاتا۔ ان باتوں پر ہندوؤں کے خلاف تعصب پال لینا اچھا نہیں۔اگرچہ اسلام کے اصولوں کا وہ مداح تھا اور فلسفہ مذہب کے مطابق اسلام کی عظمت کا قائل تھا۔ لیکن یہ احساس محض ذہنی تھا۔ جس کا عکس اس کے جذبات پر نہیں پڑتا تھا۔
ایک روز جب وہ لاہور کی مال روڈ پر گھوم رہا تھا تو دفعتاً ایک شور بلند ہوا۔ وہ رک گیا۔ مال روڈ پر ٹہلنے والے سبھی لوگ چونک پڑے۔ ہندو اور سکھوں کا یک جم غفیر مال روڈ کی طرف بڑھ رہا تھا۔ ان کے ہاتھوں میں ننگی تلواریں تھیں جنہیں وہ لہرا رہے تھے۔ عورتیں سر پیٹ رہی تھیں۔ بین کر رہی تھیں۔ وہ سب اسمبلی چیمبر کی طرف بھاگ رہے تھے اور پاکستان مردہ باد کے نعرے لگا رہے تھے۔
اس جلوس میں ایک شدت تھی اشتعال تھا۔ ایک وحژت تھی جس میں تشدد کی واضح دھمکی تھی لوگ حیرت سے اس دوڑتے ہوئے تشدد بھرے مجمع کو دیکھ رہے تھے۔ پھر دیکھنے والوں کے دلوں میں ایک خوف ابھرا اور وہ اپنے اپنے گھر کی طرف بھاگے۔ ایلی چپ چاپ کھڑا دیکھتا رہا۔
“اجی صاحب میری بیٹی تو ہندؤں کے محلے میں رہتی ہے۔“ کوئی اس کے قریب کہہ رہا تھا۔
“یہ تو بھس میں چنگاری ڈالنے والی بات ہے۔“
“ظاہر ہے کہ سمجھے بوجھے پلان کے مطابق ہو رہا ہے۔“
“نہ جانے کس وقت خون کی ندیاں چل نکلیں۔“
“بھئی میں جا کر بیٹی کی خبر لیتا ہوں۔ حالات نازک ہیں۔“
حالات نازک ہیں۔ حالات نازک ہیں۔ ایلی کے سر پر ہتھوڑے سے چل رہے تھے دفعتاً اسے فرحت کا خیال آیا۔ ارے فرحت بھی تو مادھو پورہ میں رہتی ہے۔ جہاں ہندوؤں کا گڑھ ہے۔ وہ بے سوچے سمجھے مادھو پورہ کی طرف بھاگا۔
مادھو پورہ کے بڑے بازار میں لوگ یہاں وہاں گروہوں میں کھڑے تھے ان کے تیور اچھے نہ تھے۔
پیشانیوں سے تشدد بھرے ارادے ظاہر ہو رہے تھے پر آتے جاتے کو مخدوش اور مشکوک نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ ایلی آنکھ بچا کر کر چوبارے پر چڑھ گیا۔
“چلو فرحت۔“! وہ بولا “ یہاں ٹھہرنا ٹھیک نہیں چلو میرے گھر چلو۔“
ابھی وہ تیار ہی نہ ہوئے تھے کہ نیچے بازار میں شور مچ گیا۔ پکڑ لو۔ پکڑ لو۔ جانے نہ پائے۔انہوں نے کھڑکی سے جھانک کر دیکھا۔ بازار میں ایک تانگہ کھڑا تھا زمین پر تانگے والی کی لاش تڑپ رہی تھی۔۔پاس ہی ایک ہندو بڑھیا چلا رہی تھی۔ اے تمھیں بھگوان کا ڈر نہیں کیا بیچارا مجھے بچا بچا کر لایا تھا۔ کہتا تھا ماں جی میں لے جاتا ہوں چاہے میری جان پر تم پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے گا۔ ہائے جالمو یہ کیا کیا تم نے۔“ وہ رو وہی تھی بین کر رہی تھی۔
فرحت گھبرا گئی اجمل باہر دورہ پتر گیا ہوا تھا۔ گھر میں صرف عورتیں اور بچیاں تھیں۔ اکیلا ایلی انہیں سنبھال نہیں سکتا تھا۔ ایلی کا اپنا دل بیٹھا جا رہا تھا۔ نہ جانے انہیں جانا چاہیے یا نہیں ممکن ہے وہ وہیں گھر میں محفوظ ہوں۔ لیکن شام پڑ چکی تھی۔ اور پھر رات کے وقت نہ جانے کیا ہو۔ اسے اسی وقت ایک فیصلہ کرنا تھا۔
عین اس وقت دروازہ بجا۔
ایلی گھبرا گیا۔ شاید وہ آ گئے۔ شاید انہوں نے ہلہ بول دیا ہے۔
“کون ہے؟“ اس نے دروازہ کھولے بغیر پوچھا۔
“میں ہوں مانی۔ کھولو جلدی۔“
“مانی---------“ ایلی مانی کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔
جلوس کو دیکھ کر مجھے فوراً بہن فرحت کا خیال آیا مانی اندر داخل ہو کر چلانے لگا۔
“چلو چلو۔“ وہ چلایا۔ “آ جاؤ آ جاؤ۔ سب آ جاؤ ڈرو نہیں۔“
“لیکن ایلی بولا۔ “ باہر وہ سب کھڑے ہیں۔ اگر---------“
مانی سن کر چلایا۔ “ان کی ایسی تیسی۔ لالے وہ کیا بگاڑیں گے ہمارا۔ چلو ہمشیرہ------ ۔“
“لیکن ٹھہرو وہ سونٹا دے دو مجھے۔ بس ٹھیک ہے چار پانچ کو مارے بغیر تو نہیں مروں گا میں۔ جب تک تم انہیں نکال کر لے جانا۔ آ جاؤ آ جاؤ۔“ وہ خوشی میں چلایا۔ وہ سب چل پڑے۔
چوک میں ہندؤں کے جتھوں نے ان برقعہ پوش عورتوں کی طرف دیکھا۔
مانی نے لٹھ لہرائی اور نعرہ لگایا۔
وہ آپس میں کھسر پھسر کرنے لگا۔
مانی لٹھ لہرائے جا رہا تھا۔ “جاؤ چلتے جاؤ۔“ وہ ایلی کی ہمت بڑھا رہا تھا۔
ایک نوجوان ان کی طرف بڑھا۔مانی نے ایک چنگاڑ ماری۔ “مولا علی۔“ اور لاٹھی گھمانے لگا۔
وہ گھبرا کر پرے سرک گئے۔
“جلدی چلو جلدی چلو۔“ ایلی عورتوں کو ہانک رہا تھا۔
“آ جاؤ آ جاؤ۔“ ایک بوڑھا تانگے والا چلایا “ آجاؤ۔“ اس نے برقعہ پوش عورتوں کی طرف دیکھ کر کہا۔
“اللہ اپنا فضل کرے۔“ وہ بھول چکا تھا کہ وہ مسلمان ہے اور ہندو محلے میں کھڑا چلا رہا ہے۔
پھر وہ سب تانگے میں سوار تھے۔ اور تانگہ بھاگ رہا تھا۔
“اجی صاحب۔“ خون کے فوارے چھوٹ رہے ہیں۔ آگ لگ گئی ہے شہر میں۔ اللہ اپنا فضل کرے انہوں نے سوئے شیروں کو جگایا ہے۔ ہمیں للکارا ہے انہوں نے اچھا نہیں کیا۔ اللہ فضل کرے۔ اللہ فضل کرے۔“



پاکستان زندہ باد



اس جلوس کے بعد شہر میں ایک طوفان آ گیا۔ چھرا گھونپنے کی واداتیں شروع ہو گئیں۔ محلوں میں جانا خطرناک ہو گیا۔ حتٰی کہ سڑکوں پر چلنا بھی خطرہ سے خالی نہیں تھا۔ ایک روز جب ایلی شام کے وقت گھر آ رہا تھا تو مزنگ کے نوجوان چھوکروں نے اسے روک لیا۔
“ابے او۔“ ایک نے للکار کر کہا۔
ایلی نے ان کی للکار کی پرواہ نہ کی۔
“پکڑ لو۔ پکڑ لو۔“ وہ چلائے۔ انھوں نے اس کی سائیکل روک لی۔
ایلی کو غصہ آ گیا۔ غالباً اس لئے کہ وہ مسلمان تھا اور مسلمان محلے میں پکڑا گیا تھا۔
“اسے کون ہے تو“ ایک لڑکے نے چلا کر کہا۔
“تجھے اس سے کیا۔“ ایلی نے جواب دیا۔
“میں کہتا ہوں یہ ہندو ہے۔“ ایک بولا۔
“پھر تجھے کیا تکلیف ہے۔“ ایلی چلایا۔
“پکڑ لو پکڑ لو۔“ وہ سب اس کی طرف بڑھے۔
“بڑے مجاہد بنے پھرتے ہو۔“ ایلی چلانے لگا۔ “اللہ اور محمد کی خدمت کر رہے ہو نا۔“
“ابے مسلمان ہے یہ۔“ ایک بولا۔
“نہیں نہیں بچنے کے لیے اللہ کا نام لیتا ہے۔“ دوسرا بولا۔
“کلمہ پڑھ“ ایک چلانے لگا۔
“اللہ کا نام نہ لیتا تو اب تک ڈھیر ہوتا۔ میرا ہاتھ رک گیا۔“ ایک غنڈہ بولا۔
ایلی نے دیکھا کہ اس کے ہاتھ میں کمانی دار چاقو ہے۔
اس روز ایلی نے محسوس کیا کہ وہ مسلمان تھا۔ سیاسی خیالات کا سوال نہ تھا۔ مسلم لیگی اور کانگرسی کا سوال نہ تھا۔ یہ سوال نہ تھا کہ آیا کہ آیا وہ اسلام سےواقف ہے۔ آیا وہ شریعت کا پابند ہے یہ سوال نہ تھا کہ آیا رام دین سا مسلمان ہے یا محمد علی سا۔ سوال صرف یہ تھا کہ وہ مسلمان ہے یا ہندو۔ اس روز جب مادھو پورہ سے باہر نکلے تھے تو ہندؤں کے گرؤں کے گروہوں نے بھی یہ نہ سوچا تھا کہ آیا وہ نیشنل نقطہ نظر کے حامل تھے۔ یا مسلم لیگی۔ آیا وہ پاکستان کے حق میں تھے یا پاکستان کے قیام کے خلاف تھے۔ ان کی نگاہ میں وہ صرف مسلمان تھے۔ تانگے والے کے پیٹ میں چھرا گھونپتے وقت بھی ہندو بڑھیا کے چلانے کے باوجود انہیں یہ احساس نہ ہوا تھا کہ تانگے والا ہندو ماتا جی کو مسلمان غنڈوں سے بچا بچا کر مادھو پورہ میں لایا تھا۔ اور اس نے ماتا جی کو یقین دلایا تھا کہ ماتا جی کو بچانے کے لئے اپنی جان تک دے دے گا۔ چاہے وہ ماتا جی کو بچا کر لایا تھا۔ چاہے ہندؤں کی خدمت کی تھی ---------- لیکن مسلمان تھا اس لئے انہوں نے اس کے پیٹ میں چھرا جھونک دیا تھا۔
ایلی نے محسوس کیا کہ وہ مسلمان ہی نہیں وہ بذات خود پاکستان ہے۔ چاہے وہ پاکستان کے حق میں تھا۔ یا خلاف چاہے وہ اسلام سے بیگانہ تھا چاہے وہ مذہبی تعصب سے بے نیاز تھا۔ وہ مذات خود پاکستان تھا۔ اس کے دل میں کوئی چلا رہا تھا پاکستان زندہ باد۔



با ادب


ایلی کے تمام تر خیالات درہم برہم ہو رہے تھے۔ اس کا ذہن گویا از سر نو ترتیب پا رہا تھا۔ پرانے خیالات کی اینٹیں اکھڑی جا رہی تھیں۔ نئی اینٹیں نہ جانے کہاں سے آ گئی تھیں اور اس کے ذہن میں آپ ہی آپ لگی جا رہی تھی۔

اسی روز شام کو دفتر سے آتے ہوئے وہ ان جانے میں انارکلی کی طرف گھوم گیا۔ حالانکہ اسے ادھر کوئی کام نہ تھا۔ اور اس دنوں بےکار گھومنے کا سوال پیدا نہ ہوتا تھا چونکہ شہر میں چھرابازی کی وارداتیں بڑھتی جا رہی تھیں۔ اور ادھر ادھر گھومنا خطرے سے خالی نہ تھا۔
کچھ دیر وہ انارکلی میں گھومتا رہا پھر سرکلر روڈ کی طرف چل پڑا اور آخر کار اس نے دیکھا کہ وہ داتا صاحب کے مزار کے باہر کھڑا ہے۔
داتا کے مزار پر وہ کئی مرتبہ گیا تھا چند ایک بار وہ مزار کے اندر بھی داخل ہوا تھا لیکن جب وہ اندر جاتا تو اس کی توجہ ان عورتوں کی طرف منعطف ہو جاتی جو بن سنور کر داتا کے دربار میں حاضر ہوتی تھیں۔ اور وہاں پہنچ کر اپنی نمائش کرنے کے خیال سے ادھر ادھر گھوما کرتی تھیں ہیرا منڈی کی طوائفیں ان دنوں داتا کی بڑی متوالی تھیں۔ کیوں نہ ہوتیں۔ وہاں جانے سے ان کا حلقہ اسباب وسیع تر ہوتا تھا۔
یہ درست ہے کہ ایلی عورتوں کو دیکھنے کی غرض سے وہاں کبھی نہ گیا تھا۔ لیکن وہاں پہنچ کر اس نے عورتوں کے سوال پھر وہاں ملنگ تھے جو طوائف کی طرح اپنی نمائش کرنے میں مصروف رہتے تھے مزار کی جالی کے گرد کھڑے لوگوں کو ہاتھ اٹھائے دیکھ کر ایلی کے ہونٹ نفرت سے بٹوہ بن جاتے ضعیف الاعتقاد لوگ۔!
اس روز داتا صاحب کے مزار کے باہر اس کے خیالات کا رنگ کچھ اور ہی تھا۔
پاگ بابا سامنے محراب کے نیچے کھڑا تھا۔ “کیا نہیں کیا۔ کیا نہیں کیا۔“ وہ چلا رہا تھا۔“ سب کچھ کیا سب کچھ کیا۔ کیا نہیں کیا۔ اور تمھیں داتا کے قدموں میں لا کھڑا کیا۔ کیا نہیں کیا کس جگہ تمھاری حفاظت نہیں کی۔ مادھو پورہ سے کس نے نکالا۔ مزنگ میں کس نے بچایا۔ وہی بچانے والا ہے وہی سب کچھ کرتا ہے۔ میں کیا ہوں۔ میں کیا ہوں --------- وہی کرنے والا ہے۔“
ایلی محسوس کر رہا تھا جیسے وہ خود نہیں آیا ہو بلکہ اسے بلایا گیا ہو اور اندر داتا اس کا انتظار کر رہے ہوں۔ وہ سر جھکائے جا رہا تھا۔ دل دھک دھک کر رہا تھا۔ اس وقت وہ یہ محسوس کر رہا تھا کہ وہ مجرم ہے یا گنہگار ہے۔ وہ محسوس کر رہا تھا کہ وہ خوش نصیب ہے اور اسے شاہ کے حضور میں کھڑے ہونے کا موقع ملا اس کا سر جھک گیا۔ آنکھیں بند کر لیں۔ نگاہوں تلے رومی ٹوپی والا کھڑا تھا جس کے ساتھ دراز قد تھا دونوں داتا سے اس کی سفارش کر رہے تھے۔اسے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ کہ داتا صاحب سے کیا کہے۔ دفعتاً حاجی صاحب آ گئے ان کا سر روئی کے گالے کی طرح ہل رہا تھا۔ “وقت آئے گا وقت آئے گا۔“
وہ دبی دبی زبان سے کہہ رہے تھے۔
“تمھاری نئی زندگی شروع ہو گی “شہزاد مسکرا رہی تھی۔ “نیا جیون۔“
“وہی کرنے والا ہے وہی کرنے والا ہے۔“ پاگ بابا چلا رہا تھا پھر ایلی کی نگاہوں تلے ایک کنواں ابھر آیا۔ اس کے قریب ہی سفید چادر اوڑھے ایک مسجد چپ چاپ آ بیٹھی۔ پھر ایک چار دیواری ابھری تھی اور اس چار دیواری کے اندر ایک قمقمہ روشن ہو گیا۔
داتا مسکرا رہے تھے۔


پریتماں


جب وہ واپس آ رہا تھا تو راستے میں ناظم کو دیکھ کر وہ حیران رہ گیا۔ ناظم اسے دیکھ کر یوں کھل گیا ہے۔ جیسے مٹھاس کی وجہ سے خربوزہ پھوٹ جاتا ہے۔ “میں تمھارے دفتر سے آیا ہوں۔“ وہ بولا۔ صبح سے تمھیں ڈھونڈ رہا ہوں۔ صبح سے۔“
“تم یہاں کیسے“ ایلی نے پوچھا۔
“میرا تبادلہ ہو گیا ہے یہاں۔“ وہ بولا۔ “بڑے دفتر ہیں۔“
“اچھا۔“
“اب میرے ساتھ چلو۔“ وہ بولا۔
“ارے کہاں؟“
“بس آ جاؤ۔ آ جاؤ شاید وہ مل جائے۔“ ناظم بولا۔
“کون مل جائے؟“
“بھئی وہ تمھارا انتظار کر رہی ہے۔“
“کون انتظار کر رہی ہے۔“
“تم آؤ تو۔“ وہ بولا۔


“پھر بھی۔“ ایلی نے اس کی منت سماجت کی۔ “میں تمھارے ساتھ چلوں گا۔ لیکن کچھ بتاؤ تو



سہی۔"
"بھئی وہ آندھرے فلم کمپنی کا مالک ہے۔"
"ارے اسے مجھ سے کیا کام؟"
"میں نے کہا تھا اس معاملے میں میں کوئی مدد نہیں کر سکتا۔البتہ میرا ایک دوست ہے ایلی۔"
"تو اس نے کہا مجھے اس سے ملا دو۔"
ایلی حیران تھا ناظم کیسی باتیں کر رہا ہے۔
"اب اس سے بات کر لو چل کر۔" ناظم مسکرایا۔
"لیکن کس سلسلے میں۔" ایلی نے چڑ کر کہا۔
"بھئی اسے اپنی فلم کے لئے ایک آئیڈیا چاہئے۔" وہ بولا
"آئیڈیا۔" ایلی کا ذہن اس وقت بالکل خالی تھا۔
ناظم زبردستی اسے بریگینزا ہوٹل میں لے گیا۔جہاں پریتماں ٹھہری ہوئی تھی۔ انہوں نے اندر اپنا کارڈ بھیجا اور انتظار کرنے لگے۔
کچھ دیر کے بعد پریتماں نے انہیں اندر بلا لیا۔
وہ ایک بنی سنوری ہوئی مٹیار عورت تھی۔ جیسے چینی کی گڑیا ہو۔ ان کے روبرو بیٹھے ہوئےوہ فلمی ادارے کی مالکہ کم دکھائی دیتی تھی۔عورت زیادہ ایلی کی طرف دیکھ کر اس کے ہونٹوں پر ہلکا سا تبسم لہرایا۔ جس میں طنز کی جھلک تھی۔
آپ الیاس آصفی ہیں؟" اس نے پوچھا۔
"جی ہاں۔" ایلی نے جواب دیا۔
"کیا آپ کو فلم سے دلچسپی ہے؟" اس نے پوچھا۔
"دیکھتا ہوں۔" وہ بولا۔" صرف۔"
"فلم سازی سے واقفیت ہے کیا؟" وہ بولی۔
"جی نہیں۔"
"فلمی کہانی لکھی ہے کبھی؟"
"جی نہیں۔"
"ناظم صاحب آپ کی بڑی تعریف کرتے ہیں۔" پریتماں طنزیہ انداز میں مسکرائی۔
"ان کا حسن ظن ہے۔"
ناظم نے غصے بھری نگاہ ڈالی۔

آئیڈیا
""مجھے ایک آئیڈیا کی تلاش ہے۔" پریتماں بولی۔
"جی۔" وہ بولا۔
"ممکن ہے آپ میری مدد کر سکیں۔"
"اس وقت شاید یہ ممکن نہ ہو۔" ایلی نے جواب دیا۔
"کیوں۔" وہ بولی۔
" اس کی ایک وجہ ہے۔"
"اچھا۔" وہ بولی۔ " گزشتہ دو برس سے میں چار ایک اصحاب سے ملی ہوں لیکن بات نہیں بنی۔"
"کیا وہ لوگ آپ سے ملے تھے۔" ایلی نے پوچھا۔
"ہاں ہاں وہ مجھ سے ملے تھے۔"
"اور وہ آپ کو آئیڈیا نہیں سے سکے؟"
"بالکل نہیں دے سکے۔"
"وجہ ظاہر ہے۔" ایلی نے کہا۔
"کیا مطلب۔" وہ بولی۔ " میں سمجھتی نہیں۔"
"دیکھئے شریمتی۔" ایلی نے کہا۔ " آپ موجود ہوں تو کوئی دوسرا آئیڈیا نہیں آتا۔"
پریتماں کے چہرے پر رنگ پھیل گئے۔ ایک چمک لہرائی۔ "کیا مطلب؟" وہ بولی۔
"مطلب یہ۔" ایلی نے کہا کہ " آپ مرکز بن جاتی ہیں۔"
"عجیب بات کی ہے آپ نے۔" وہ مسکرائی اور پہلی مرتبہ طنز و تحقیر کے بغیر اس کی طرف دیکھا۔
"دراصل۔" وہ بولی۔ " مجھے اپنے نئے فلم کے لئے ایک آئیڈیا چاہئے۔"

"کس قسم کا آئیڈیا۔"
"میں مرد اور عورت کی زندگی کا کمپیریزن کرنا چاہتی ہوں۔"
"آپ کا مطلب ہے موازنہ۔" ناظم نے کہا۔
"ہاں ہاں۔" وہ بولی۔۔۔۔۔۔۔۔ "موازنہ۔"
"تو کیجئے۔" ایلی نے کہا۔ "آئیڈیا تو آپ کے پاس موجود ہے ۔آئیڈیا تو آپ ہی کا ہوا۔"
اس نے پھر ایلی کی طرف دیکھا بولی۔ " لیکن کس طریق سے اسے پیش کیا جائے؟"
"اس میں تو کوئی مشکل نہیں۔" ایلی نے کہا۔
"مثلاً۔" وہ بولی۔
"مثلاً۔" ایک ساعت کے لئے اس نے توقف کیا۔ " دنیا میں تبدیلی جنس کے واقعات تو ہوتے ہی رہتے ہیں۔ ایک لڑکی کے خیالات اور جذبات پیش کیجئے۔پھر لڑکی کی جنس تبدیل کر دیجئے اور بحثیت مرد اس کے خیالات اور جذبات پیش کیجئے۔"
"واہ واہ اکسیلنٹ۔" وہ اچھل پڑی۔ " واہ آصفی صاحب۔"
ناظم نے فخریہ انداز سے ایلی کی طرف دیکھا۔
"ایک صورت اور بھی ہے۔" ایلی بولا۔
"کہئے۔" وہ پھر سے بیٹھ گئی۔
ایک ڈاکٹر تبدیلی جنس کا راز پا لیتا ہے۔پھر وہ باری باری عورت اور مرد بن کر جیتا ہے۔تفریحاً۔۔۔۔۔۔۔۔ اس طرح موازنہ بہتر ہوگا۔"
"بہت خوب۔" وہ بولی۔
"پھر اسے ایک مشکل میں ڈال دیجئے۔ اور اسے فیصلہ کرنا پڑے کہ آیا اسے ہمیشہ کے لئے عورت بن کر جینا ہے یامرد۔"
"اکسیلنٹ۔" وہ مسکرائی۔
اس کے بعد دیر تک وہ بیٹھے چائے پیتے رہے۔
چائے کے دوران میں پریتماں نے اپنے بیگ میں سے ایک فارم نکالا۔ اس کے نیچے دستخط کئے اور ایلی کے ہاتھ میں تھما دیا۔
"یہ آفر ہے۔" وہ بولی۔ " جب بھی آپ چاہیں میرے سٹوڈیو میں آ جائیں۔ فی الحال میں آپ کو پانچ سو روپے ماہوار دے سکتی ہوں۔"
ناظم خوشی سے جھوم اٹھا۔
میری رائے مانئیے تو یہ آفر منظور کر لیجئے۔" پریتماں نے کہا۔ " آپ کی آمد کا کرایہ میرے ذمے رہا۔" اس نے سو سو کے پانچ نوٹ بٹوے میں سے نکال کر اس کے سامنے رکھ دیئے۔
"جب بھی آپ کا جی چاہے آ جائیے۔" وہ نہایت دلنواز انداز سے مسکرائی۔
"ہم آپ کا انتظار کریں گے۔"
پریتماں کی آفر نے ایلی کی زندگی میں ہلچل پیدا کر دی۔ اسے یہ خیال بھی نہ تھا کہ فلم میں کام کرنے کا موقعہ ملے گا۔پانچ سو۔ اسے یقین نہیں آتا تھا۔ وہ محسوس کر رہا تھا کہ وہ ملاقات محض ایک خواب تھی۔ ابھی اسکی آنکھ کھلے گی اور وہ دیکھے گا کہ وہ کاغذ جو پریتماں نے اسے دیا تھاایک سادہ ورق ہے۔
ناظم اسے اکسا رہا تھا:
"تمہیں جانا چاہئے۔ فوراً چلے جانا چاہئیے۔ بمبئی کے سٹوڈیو میں کام کرنے کا چانس ہاتھ سے گنوانا عقلمندی نہیں۔"
مانی اس کے ساتھ جانے پر تیار تھا۔ وہ یونٹ کی نوکری سے استعفٰی دے چکا تھا چونکہ اسے افسر اعلٰی کی بیگم اور بیٹیوں سے وحشت ہونے لگی تھی۔
مانی نے ایک سکیم مرتب کر لی تھی۔ ایک ناشر سے معاملہ طے کرایا تھا۔کہ بمبئی جا کر وہ اعلٰی پیمانہ پر ایک فلمی رسالہ جاری کرے گا۔
بلند بخت اس آّفر اور اس کے نتائج سے متعلق بے پروا تھی۔اسے احساس نہ تھا کہ ایسی آفر کا مطلب کیا ہے؟
ہاجرہ خوش تھی:" ہاں ہاں چلے جاؤ۔ سنا ہے بمبئی بہت بڑا شہر ہے۔ اگر کام چل نکلا تو بڑی تنخواہ پاؤ گے۔"
ایلی تیار ہو گیا۔
اس نے بلند بخت کو نامن پور بھیج دیا۔ہاجرہ اور عالی کو علی پور چھوڑا۔ ان دنوں تقسیم کی بات زبان زد خلق تھی۔ پنجاب کے مسلمانوں کو خطرہ تھا کہ کہیں لاہور ہندوستان کا حصہ نہ بن جائےکیونکہ علی پور ضلع گورداسپور میں واقع تھا اور گورداسپور میں مسلمانوں کی اکثریت تھی اس

لئے علی پور ایک محفوظ مقام تھا۔ہاجرہ اور عالی کو علی پور چھوڑنے کے بعد وہ واپس لاہور پہنچا اور اپنی اسامی سے استعفٰے دے کر مانی کو ساتھ لیکر بمبئی روانہ ہو گیا۔

بمبئی
بمبئی کو دیکھ کر ایلی کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔اتنا بڑا خوبصورت شہر اس نے کبھی نہ دیکھا تھا۔چند روز وہ بے وقوفوں کی طرح سر اٹھا اٹھا کر ان سربفلک عارتوں کو دیکھتا رہا۔عمارتوں کی عظمت سمندر کی وسعت اور بھیڑ کے تسلسل کو دیکھ کر اس کی اپنی حیثیت ختم ہو چکی تھی۔وہ اپنے آپ کو بے حد حقیر سمجھ رہا تھا۔پریتماں کو آئیڈیا دینے سے جو اس میں خوداعتمادی اور فخر پیدا ہوئے تھے،بمبئی پہنچ کر صابون کے بلبلوں کی طرح اڑ گئے تھے۔
دوسرے روز شام کے وقت جب وہ میرین ڈرائیو کے قریب ایک باغیچہ میں بنچ پر بیٹھا ہوا تھا تو دفعتاً اس نے محسوس کیا جیسے اس کے روبرو حاجی صاحب کھڑےتھے۔ ان کا سر ہل رہا تھا۔آنکھیں روشن تھیں اور ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔
"یہی بنچ تھا وہ۔" وہ بولے۔
"بنچ۔" ایلی نے دہرایا۔
"اسی بنچ پر بیٹھے تھے ہم۔" وہ مسکرائے۔
ایلی کو یاد آگیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ " ہاں جب سرمہ لگا کر وہ گھر سے نکلے تھے تو۔۔۔۔۔۔" ان دنوں وہ بمبئی ہی میں مقیم تھے۔
یہ کہہ کر حاجی صاحب اس کے قریب آ بیٹھے۔ انہوں نے مسکرا کر ایک راہ گیر حسینہ کی طرف دیکھا۔ وہ حسینہ اس کے قریب آ بیٹھی۔ وہ دیوانہ وار حاجی صاحب کی طرف دیکھ رہی تھی۔
پھر ایک اور طرحدار عورت وہاں آ بیٹھی۔پھر ایک میم آ گئی۔ وہ تینوں حاجی صاحب کی طرف یوں دیکھ رہی تھیں۔جیسے اپنا آپ ان کی بھینٹ چڑھا رہی ہوں۔
پھر وہ اٹھ بیٹھے اور ایلی کے روبرو آکھڑے ہوئے:
"بیکار ہے۔" وہ بولے۔ "بے کار۔ سب بے کار ہے۔"
انہوں نے نفرت سے عورتوں کی طرف دیکھا اور چل پڑے۔ایلی چونکا۔ اس نے گردوپیش پر نگاہ دوڑائی۔
"بے کار ہے۔ کھلونے۔" حاجی صاحب نے اس کے کان میں سرگوشی کی۔
ایلی نے پھر ان خوبصورت عمارتوں کی طرف دیکھا۔ اس کی نگاہ تلے گتے کے رنگدار ڈبے نیچے اوپر سجا کر رکھے ہوئے تھے۔سڑک پر چلتی ہوئی خوبصورت عورتیں گویا کپڑے کی دوکانوں کی شوونڈوز سے بھاگی ہوئی پتلیاں تھیں۔
اس نے سمندر کی طرف نگاہ دوڑائی۔
سمندر نے بڑھ کر اسے چاروں طرف سے گھیر لیا۔
سامنے مغرب میں افق پر ایک رومی ٹوپی ابھر رہی تھی۔
اس روز جب وہ رات کو اپنی جائے قیام پر پہنچا تو وہ سوچ رہا تھا۔ حاجی صاحب کے خیال نے آ کر اس کے نقطہ نظر میں تبدیلی پیدا کر دی تھی۔عجیب بات تھی۔ اس عظیم الشان شہر کو اور ان خوبصورت عورتوں کو بدل دیا تھا۔ یہ کیا جادو ہے۔ وہ سوچ رہا تھا کہ کیا نقطہ نظر انسان کے اپنے بس کی بات نہیں۔یا ایک عام سا آدمی اتنی طاقت رکھتا ہے کہ وہ کسی کے زاویہ نظر کو بدل کر رکھ دے۔ زندگی بھر تنکے تنکے چن کر جو آشیاں بنایا تھا اسے ایک نگاہ سے تاراج کر دے۔یہ کیسی طاقت تھی۔ ایلی سوچ رہا تھا۔
حاجی صاحب نے اپنا کاروبار جس کی شاخیں کلکتہ، بمبئی اور دلی میں تھیں یک قلم چھوڑ دیا تھا۔آخر کیوں۔کیا یہ ان کا اپنا فیصلہ تھا یا ایسے ہی کسی مرد خدا نے ان کا زاویہ نظر بدل دیا تھا۔
ایلی کو اس سوال کا جواب نہ سوجھتا تھا۔ شاید ان عالموں کے اس کا جواب تھا ہی نہیں جن کے علم و فکر پر اس نے اپنے ذہنی نظریوں کی بنیاد استوار کی تھی۔برٹرنڈرسل کھڑا سوچ رہا تھا۔
دفعتاً وہ مسکرایا:
"بچہ روتا ہے۔" وہ بولا۔" تو اس کی توجہ کسی اور طرف کر دو۔ وہ خاموش ہو جائے گا۔"
راستووسکی مسکرا رہا تھا: ہم سبھی بچے ہیں۔"
راستووسکی کہہ رہا تھا:"اگر انسان میں بچے کا عنصر نہ ہو تو وہ عفریت بن کر رہ جائے"
ایلی سوچ رہا تھا کہ کیا وہ سبھی بچے تھے۔ کیا نقطہ نظر اور زاویہ نگاہ قدرت کی دین تھی۔ کیا زاویہ نگاہ میں معمولی تبدیلی اتنا عظیم فرق پیدا کر سکتی تھی۔ اس کے روبرو پاگ بابا کھڑا چلا رہا تھا:
"میں کون ہوں۔کوئی بھی نہیں۔کوئی بھی نہیں۔"

ایلی کے دل میں عجیب و غریب خیالات تھے۔ کسی وقت تو اس کی وحشت اس حد تک بڑھ جاتی کہ وہ خود کو کافکا کا بیٹا مارفیس سمجھنے لگتا۔پھر وہ سوچ میں پڑ جاتا۔کیا میں پاگل ہو رہا ہوں۔اس خیال پر وہ بالکل گھبرا جاتا۔
بمبئی میں ایلی کے دھندلے میں صرف مانی دھوپ کی ایک شعاع تھی۔مانی میں زندگی تھی۔چمک تھی۔جوش تھا۔شوق تھا۔ اس کے نقطئہ نظر میں صحت تھی۔بے پروائی تھی۔
وہ بمبئی کوشوق سے دیکھ رہا تھا۔ اسکی نگاہ میں خوبصورت عمارتیں گتے کے ڈبے نہ تھیں۔حیسن عورتیں درزیوں کے ماڈل نہ تھے۔ اس کی نگاہ میں عورتیں عورتیں تھیں اور اس قدر حیسن بھی نہ تھیں کہ انہیں دیکھ کر وہ اپنی حیثیت کھو دیتا۔حیسن عورتیں۔۔۔۔۔۔۔خوب تھیں۔اچھی خاصی تھیں۔۔۔۔۔۔۔ اس قابل تھیں کہ ان سے دل بہلایا جائے۔
مانی جوان تھا۔ اس کی طبیعت میں بلا کی رنگینی تھی۔ وہ اپنی حیثیت کو کمتر نہیں سمجھتا تھا اور عملی طور پر کچھ کرنے کو بے تاب تھا۔اس میں جھجک نہ تھا۔ ایلی کبھی جوانی سے واقف نہ ہوا تھا۔احساس کمتری کا مارا ہوا۔زندگی کی راہ پر تھکا ہارا ہوا۔گزشتہ تلخیوں کی وجہ سے اس کی طبیعت ڈر اور گھبراہٹوں سے اٹی پڑی تھی۔ اس کے جذبات اور ذہن میں قطعی طور پر ہم آہنگی نہ تھی۔
مانی اور ایلی کو بمبئی میں رہنے کے لئے ایک ایسی جگہ ملی جہاں شاعر اور مصنف رہتے تھے۔ ایلی کی زندگی میں یہ پہلا موقعہ تھا کہ اسے ادیبوں کے ساتھ رہنا پڑا تھا۔ وہ عجیب لوگ تھے۔بات کرنے سے پہلے سوچتے نہ تھے۔بات کرنے کے بعد بھی انہوں نے کبھی نہ سوچا تھا۔ کہ اس بات کا کیا اثر ہوا ہے۔ وہ اثر یا رد عمل سے بے نیاز تھے۔ انہیں یہ خیال نہ تھا کہ دوسرا کیا کہے گا۔کیا سوچے گا۔آیا اسے بات بری لگے گی۔وہ دوسروں کے احساسات سے بےگانہ تھے۔ دل کی بات کو چھپانے کے قائل نہ تھے۔وہ خود شعوری سے بےگانہ تھے۔ایلی نے محسوس کیا کہ وہ زندگی سے ہم آہنگ ہیں۔ ان میں بہاؤ ہے۔رکاوٹ نہیں۔ لیکن اس کے باوجود وہ محسوس کرتا تھا۔کہ وہ خود پسند ہیں۔ اپنی اہمیت کے چراغ جلانے کے شوقین ہیں اور دنیا کو اپنے مقابلے میں ہیچ سمجھتے ہیں۔
ان دنوں بمبئی میں ہندو مسلم فسادات جوبن پر تھے۔چھرا گھونپنے کی وارداتیں عام تھیں۔ اس کے علاوہ آتشزدگی کی وارداتیں بھی ہوتی تھیں۔مسلمان اور ہندو علاقوں میں اعلانیہ وارداتیں ہوتی تھیں لیکن کبھی کبھی سول لائنز کے علاقے میں بھی کوئی واردات ہو جاتی اور کچھ دیر کے لئے وہ علاقہ ویران دکھائی دیتا۔ پھر جلد ہی لوگ اسے بھول جاتے اور پھر سے آمدورفت شروع ہو جاتی۔
ایلی خوف کے مارے کبھی ہندو علاقوں میں نہیں گیا تھا۔ سول لائنز میں گھومتے ہوئے بھی اس پر خوف مسلط رہتا۔لیکن مانی بے نیاز تھا۔ اس نے چلتے ہوئے کبھی اپنے اردگرد نہ دیکھا تھا۔ وہ اپنی ہی دھن میں چلے جاتا۔چلتے ہوئے کوئی گیت گنگناتا رہتا۔ ایلی کو اس کی بے پروائی پر غصہ آجاتا اور وہ ہر وقت مانی سے بحث کرتا۔اسے گھورتا۔
ابھی انہیں بمبئی پہنچے دو ماہ ہی گزرے تھے کہ پریتماں کے نگارخانے کے دروازے پر چار ایک وارداتیں ہو گئیں۔ غنڈوں نے دھمکیاں دینا شروع کر دیں۔ کہ وہ نگار خانے کو آگ لگا دیں گے چونکہ پریتماں کا خاوند مسلمان تھا۔نتیجہ یہ ہوا ہے نگار خانہ بند کر دیا گیا۔
اس کے بعد مانی اور ایلی کی تمام تر توجہ فلمی پرچے پر مبذول ہو گئی۔ جو وہ شائع کرنے کا منصوبہ لیکر آئے تھے۔ مانی انٹرویوز میں مصروف تھا چونکہ وہ بے دھڑک ہر علاقے میں جا سکتا تھا اور لوگوں سے مل سکتا تھا۔ اس سلسلے میں ایلی کا خوف سدراہ تھا۔
یونہی چھ مہینے گزر گئے۔

ریڈیو پاکستان
اگست سنتالیس میں مانی کے پبلشر نے انہیں بلا بھیجا تاکہ وہ چند امور کا تصفیہ کر جائیں۔ اس بلاوے پر ایلی مسرور تھا چونکہ اس کا جی چاہتا تھا کہ عالی سے ملے۔ اسے خیال تھا کہ عالی اس کی غیر حاضری پر متعجب ہوگا۔سوچتا تھا کہ پہلے ابو چلا گیا۔پھر امی چلی گئی اور ابو آگیا۔ اور اب دونوں نہ جانے کیوں اسے چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ مانی انٹرویوز کے چکرمیں ایسا پھنسا تھا کہ اس کا جی نہیں چاہتا تھا کہ وہ لاہور جائے۔اسے فلمی زندگی سے بے حد دلچسپی تھی۔فلمی ستاروں ،ناقدوں اور فلمسازوں سے مل جل کر اس نے اپنی ایک حیثیت پیدا کر لی تھی۔ اس لئے مانی ایلی کے ساتھ لاہور جانے پر رضامند نہ تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ ایلی لاہور جاکر بات چیت طے

کر لے۔جب تک وہ خود بمبئی میں کام جاری رکھے۔نتیجہ یہ ہوا کہ ایلی لاہور آگیا۔
ابھی ایلی نے لاہور میں قدم رکھا ہی تھا کہ لاہور اور امرتسر کے درمیان آمدورفت کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔گاڑیوں کی آمدورفت ختم ہو گئی۔بسوں کا چلنا موقوف ہو گیا۔
ایلی نے اس خبر کو سن کر خصوصی پریشانی محسوس نہ کی۔ہاجرہ عالی فرحت اور علی احمد کے کنبے کے تمام افراد علی پور میں محفوظ تھے اور علی پور محفوظ ترین مقام تھا البتہ لاہور کے متعلق مسلمان پریشان تھے اور ریڈ کلف ایوارڈ کا بے تابی سے انتظار کر رہے تھے۔
لاہور شہر میں ویرانی چھائی ہوئی تھی۔سڑکیں خالی پڑی ہوئی تھی۔ لوگ اپنے اپنے گھروں میں چھپے بیٹھے تھے۔ رات کے وقت گولیاں چلنے کی آوازیں سنائی دیتیں اور پھر موت کی سی خاموشی چھا جاتی۔پھر کسی مجمع کا شوروغل بلند ہوتا۔لوگ چنگھاڑتے چلاتے چیختے اور پھر خاموشی چھا جاتی۔صبح سڑکوں کو یہاں وہاں لاشیں دکھائی دیتیں۔ انہیں دیکھ کر اپنے قدم راہ گیر اور تیز کر دیتے تھے۔سپاہی واردات کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر منہ موڑ لیتے جیسے انہیں علم ہی نہ ہو کہ کیا ہو رہا ہے۔
مسلمانوں کی بے تابی بڑھ رہی تھی۔بڑھتی جا رہی تھی کہ 14 اگست کا دن قریب آرہا تھا۔ اس روز پاکستان کا قیام عمل میں آنے والا تھا اور ایوارڈ کا اعلان ہونے والا تھا۔
اس شام شہر پر مکمل خاموشی چھائی ہوئی تھی۔بازار سنسان پڑے تھے۔ سڑکیں ویران تھیں۔لوگ گھروں میں سہمے ہوئے بیٹھے تھے۔بازاروں میں مسلح فوج ہاتھوں میں مشین گنیں لئے گھوم رہی تھی۔سڑکوں پر فوجی ٹرک کھڑے تھے۔
ایلی ریڈیو کھول کر بیٹھا تھا۔
گھڑی نے بارہ بجا دئیے۔ایلی کا دل دھک سے رہ گیا۔بارہ بجے اعلان ہونے والا تھا۔
آج وہ محسوس کر رہا تھا۔جیسے وہ اعلان اس کی زندگی کا اہم ترین واقعہ ہو۔جیسے آج اس کی قسمت کا فیصلہ ہونے والا ہو۔وہ یہ بھول چکا تھا کہ وہ مذہبی تعصب سے بلند و بالا ہے۔ وہ یہ بھول چکا تھا کہ قیام پاکستان سے بے گانہ ہے۔وہ ہندوستان اور عوام کی بہتری کے فلسفے کو فراموش کر چکا تھا۔وہ محسوس کر رہا تھا کہ وہ بذات خود پاکستان ہے اور اس روز حدود طے ہونے والی تھیں۔وہ محسوس کر رہا تھا جیسے وہ ایک بادشاہ ہو اور پاکستان کے قیام کا اعلان دراصل اس کی رسم تاجپوشی کا اعلان تھا۔ اس روز اسے معلوم ہونا تھا کہ اس کی قلمرو کہاں سے کہاں تک ہو گی۔لیکن وہ خوش نہ تھا۔ایک ان جانی اداسی اور پریشانی اس پر مسلط تھی جیسے اسے یقین نہ ہو کہ اس کی قلمرو اسے مل جائے گی۔ وہ مضطرب تھا۔بے حد مضطرب۔
دفعتاً حاجی صاحب اس کے روبرو آ کھڑے ہوئے۔ ان کی گردن ہل رہی تھی۔
"وقت آئے گا۔" وہ مسکرائے۔ "انشاءاللہ۔" وہ بولے۔
پاگ بابا چلانے لگا: وہی کرنے والا ہے۔وہی کرتا ہے۔اسی کا کام ہے۔وہی جانے۔ میں کون ہوں۔میں تو کچھ بھی نہیں۔"
پھر ایک رومی ٹوپی ابھر رہی تھی۔ابھر رہی تھی۔ اس کے پیچھے کنواں گڑگڑا رہا تھا۔سفید چادر میں لپیٹی ہوئی مسجد سجدے میں پڑی تھی۔
رومی ٹوپی والے نے مڑ کر دیکھا۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل رہی تھی۔ اس پر پھیلتی ہوئی مسکراہٹ کو دیکھ کر دراز قد نے آنکھیں بند کر لیں۔
"الحمدللہ۔ الحمدللہ۔" مدھم سی سرگوشی ابھری۔
ریڈیو نے مہرسکوت توڑ دی۔
طبل بجنے لگا۔
جیسے دور بہت دور ایک دل دھڑک رہا ہو۔
وہ مدھم دھڑکن قریب آ رہی تھی۔اور قریب۔اور قریب۔
"ہم ریڈیو پاکستان سے بول رہے ہیں۔"
اعلان ایلی کے بند بند میں گونجا۔
پھر دھڑکن بن کر اس کے دل کی گہرائیوں میں اتر گیا۔ ا سکا سر بھن سے اڑ گیا۔ جیسے کسی نے بارود کو آگ دکھا دی ہو۔
پھر اس کے بدن پر چیونٹے رینگ رہے تھے۔چیونٹے ہی چیونٹے۔
پھر کسی نے ا سکے سر پر تاج رکھ دیا۔
"پاکستان زندہ باد۔" کوئی چلایا۔
ا سکے روبرو دنیا بھر کے مسلمان قطاروں میں کھڑے تھے اور ہر مسلمان کے سر پر تاج تھا۔

عالی عالی
اگلے روز جب اسے معلوم ہوا کہ ضلع گرداسپور ہندوستان میں شامل ہو گیا ہے۔تو اس کا دل دھک سے رہ گیا۔
اسے یقین نہ آتا تھا":یہ کیسے ہو سکتا ہے؟"وہ آپ ہی آپ چلا رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔"نہیں نہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا۔کیسے ہو سکتا ہے یہ؟"
پھر وہ باہر نکل گیا۔نیچے بازار میں دوکانوں پہ کھڑے لوگ گورداسپور،گورداسپور چلا رہے تھے۔
نکڑ پر حلوائی دودھ کے کڑاہے میں چمچہ ہلاتے ہوآپ ہی آپ گنگنا رہا تھا: " پر بھائی جی۔۔۔۔۔۔۔ گورداسپور کا کیا ہوگا؟"۔
پھر وہ بھاگ رہا تھا۔بھاگے جا رہا تھا۔
"بھوں بھوں۔" کار چیخ رہی تھی۔وہ رک گیا۔
"کیوں جی۔" ڈرائیور نے سر نکالا۔ "گورداسپور کا کیا بنا۔"
"کیا بنا۔" ایلی نے دہرایا۔
"وہاں میرے بچے ہیں۔" ڈرائیور نے ایک عجیب سی نگاہ سے اسکی طرف دیکھا۔
کار چل پڑی۔ اس کے پیچھے عالی بیٹھا تھا۔"ابو۔ابو۔" وہ ہاتھ اٹھائے رو رہا تھا۔"ابو۔ابو۔" پھر بہت سے لوگ اس کے گرد آ کھڑے ہوئے۔
"کون ہے تو بابو۔" وہ چلائے۔ وہ غنڈے تھے۔
ایلی نے چونک کر ان کی طرف دیکھا۔
"کہاں جا رہا ہے تو؟" وہ اسے گھورنے لگے۔
"علی پور۔" وہ بولا۔" وہاں میرا بچہ ہے۔میری ماں ہے۔میرے سبھی ہیں۔"
وہ پیچھے ہٹ گئے۔
"پیدل جائے گا۔" ایک لڑکا چلایا۔
"اے ہٹ جا۔" کسی نے تڑاخ سے لڑکے کے منہ پر تھپڑ مارا۔"جانے دے۔" غنڈا چلایا۔
ریلوے سٹیشن ویران پڑا تھا،چند ایک لوگ پلیٹ فارم پر بیٹھے اونگ رہے تھے۔دیر تک وہاں گھومتا رہا۔گھومتا رہا۔
پھر دفعتاً اسے خیال آیا۔"بابو جی بابو جی۔" وہ وردی والے بابو کو دیکھ کر بولا۔"بابو جی بابو جی۔امرتسر کو گاڑی جائے گی کیا؟"
بابو رک گیا۔اور چونکے ہوئے انداز سے بولا:گاڑی؟"
"جی۔" ایلی نے کہا۔ "امرتسر گاڑی جائے گی کیا؟"
"اوہ۔" بابو چانک کر بولا۔"مطلب ہے گاڑی۔"
"جی ہاں۔" ایلی بولا۔"امرتسر کو۔"
اس نے نفی میں سر ہلایا۔"گاڑی نہیں جائے گی۔"
"نہیں جائے گی؟"
بابو نے سرہلا دیا۔ اس کی آنکھیں پرنم تھیں۔
دو روز وہ ریلوے سٹیشن اور بسوں کے اڈوں پر گھومتا رہا۔بسوں والے اس کے سوال کا جواب نہیں دیتے تھے۔کوئی بھی اس کے سوال کا جواب نہیں دیتا تھا۔
"میں تمہیں کرایہ دوں گا۔جو مانگو گے دوں گا۔" وہ چلاتا۔
وہ اس کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھتے اور سر ہلا دیتے۔
بسوں کے اڈے سے وہ پھر سٹیشن پر جا پہنچا۔
حتٰی کے ایک روز گاڑی آ گئی۔
"یہ گاڑی امرتسر جائے گی۔" وہ چلایا۔
"بابو نے غور سے اس کی طرف دیکھا۔"یہ امرتسر سے آئی ہے"۔
"کیا یہ واپس جائے گی" وہ چلایا۔
بابو نے خاموشی سے اس کی طرف دیکھا۔" جا کر دیکھ لو۔"
ایلی گاڑی کی طرف بھاگا۔شاید گارڈ اسے بتا سکے۔
وہ ڈبے کی طرف لپکا۔
ڈبے میں چاروں طرف خون کے چھینٹے لگے ہوئے تھے۔سرخ گٹھڑیاں ادھر ادھر پڑی تھیں۔

ایلی کی چیخ نکل گئی۔
"یہ گاڑی امرتسر سے آئی ہے۔ یہ گاڑی امرتسر سے آئی ہے۔" چاروں طرف شور مچ گیا۔
پھر وہ بھاگ رہا تھا۔بھاگا جا رہا تھا۔
پھر اسے معلوم ہوا کہ علی پور ٹرک لے جانے کے لئے اسے دفتر سے پرمٹ حاصل کرنا ہے۔
جب وہ پرمٹ دفتر پہنچا تو وہاں بہت بھیڑ تھی ۔لوگ دیوانہ وار دفتر کے گرد گھرم رہے تھے۔
سارا دن وہ وہاں گھومتا رہا لیکن کسی نے اس کی بات نہ سنی۔جب دفتر بند ہو گیا تو وہ ایک بابو کے سامنے چلانے لگا:
"پرمٹ لینا ہے؟" بابو نے پوچھا۔
"جی۔"
"کہاں کا؟"
"جی علی پور کا۔"
"ہوں۔ ٹرک ہے تمہارے پاس۔"
"جی نہیں۔" وہ بولا۔
بابو قہقہہ مار کر ہنسا۔"تو پرمٹ کس کا لو گے؟"
"لیکن۔۔۔۔۔۔۔" ایلی بولا۔
"بھائی صاحب۔" بابو کہنے لگا۔ "پہلے ایک ٹرک حاصل کرو جو ادھر جانے کو تیار ہو۔ پھر یہاں آکر پرمٹ لو۔ اور علی پور لے جاو۔ایسے غم نہ کھاؤ۔علی پور ابھی تک محفوظ ہے۔"
پھر کئی ایک دن وہ ٹرکوں کے پیچھے گھومتا رہا۔ادھر جانے کے لئے کوئی ٹرک رضامند نہ ہوتا تھا۔
"بھائی صاحب۔ امرتسر کی طرف جانے میں جان کا خطرہ ہے۔ سالے ٹرک کو آگ لگا دتے ہیں وہاں امرتسر میں تو خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں۔"
آخر اسے ایک ٹرک مل گیا۔
"دیکھو بابو۔" ٹرک والا بولا۔" جتنے دن کھڑا ہے سو روپیہ فی روز ہوگا اور جس روز پرمٹ مل گیا دوسو جانے کا اور دو سو آنے کا یعنی چار سو لگے گا۔"
ایلی نے محسوس کیا کہ پرمٹ حاصل کرنے سے پہلے اسے روپیہ کا انتظام کرنا ہے۔لاہور میں اس کے گرد وحشت ناک مناظر تھے۔مکانات جل رہے تھے۔سڑکوں پر خون کے چھینٹے پڑے ہوئے تھے۔لوگ گٹھڑیاں اٹھائے ہوئے آ رہے تھے۔عورتیں چیخ رہی تھیں۔ امرتسر سے آئے ہوئے لوگ اشتعال بھرے نعرے لگا رہے تھے لیکن وہ ان مناظر سے بےگانہ تھا۔اس کی آنکھوں تلے عالی دونوں ہاتھ اٹھائے رو رہا تھا۔ہاجرہ کے چہرے کی جھریوں پر آنسووں کے قطرے بہہ رہے تھے۔
صبح سویرے وہ پرمٹ کے دفتر میں جا پہنچا۔سارا دن وہاں دھکے کھاتا اور پھر جب دفتر بند ہو جاتا تو ٹرک والے کے لئے سو روپیہ اکٹھا کرنے کی دوڑ دھوپ میں لگ جاتا۔
چھ دن گزر گئے۔وہ ٹرک والے کو چھ سو روپیہ ادا کر چکا تھا۔اب اس پر مایوسی اور ناامیدی چھا چکی تھی۔پرمٹ دفتر میں وہ ایک کونے میں بیٹھا تھا۔
اس کے دل میں کوئی رو رو کر تھکا ہوا بچہ بلک رہا تھا۔

ہولڈ اپ
پھر کسی نے اس کے شانے ہر ہاتھ رکھ دیا۔
اس نے سر اٹھا کر دیکھا۔سامنے شیر علی کھڑا تھا۔
"آپ یہاں۔" وہ بولا۔
اس نے شیر علی کو پہچان لیا۔ "تم یہاں؟" اس نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔
"میں یہاں ملازم ہوں۔" وہ بولا۔
"اور وہ سب۔ وہ ۔۔۔۔۔۔۔ " ایلی نے پوچھا۔
"وہ سب علی پور ہیں۔" شیر علی بولا۔
"پرمٹ نہیں ملا۔" ایلی نے مایوسی بھرے انداز سے کہا۔
"مجھے ایک ٹرک مل گیا ہے۔" شیر علی بولا۔ "آج ہی محکمہ والوں نے دیا ہے۔"
"مل گیا ہے۔" ایلی چلایا۔اسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔
"ہاں مل گیا ہے۔صرف ایک بندوق والا سپاہی اور ایک ڈرائیور۔"
"اوہ۔۔۔۔۔۔۔۔ " ایلی اٹھ بیٹھا۔
اسی روز وہ فوجی ٹرک میں بیٹھے علی پور جا رہے تھے۔
ٹرک کے پردے بند تھے۔ڈرائیور گاڑی چلاتے ہوئے زیر لب قرآن کی آیات پڑھ رہا تھا۔سپاہی نے بندوق کی نالی پردے سے باہر نکال رکھی تھی۔اور وہ سڑک کا جائزہ لے رہا تھا۔
شیر علی چپ چاپ ڈرائیور کے پاس بیٹھا تھا۔ ایلی ٹرک کے اندر پچھلی سیٹ پر گٹھڑی بناہوا تھا۔اس کا دل دھک دھک کر رہا تھا۔
"اللہ اپنا فضل کرے۔" ڈرائیور چلایا۔ "بسم اللہ۔" اس نے ایکسیلیٹر کھولتے ہوئے کہا۔
ہم امرتسر میں داخل ہو رہے ہیں۔ذرا دھیان سے کوئی باہر نہ جھانکے پردے کے پیچھے نہ بیٹھو۔گولی سے بچاؤ نہ ہو گا۔"
"روکنا نہیں۔" سپاہی بولا۔ "چاہے کچھ بھی ہو۔"
"روکنا۔" ڈرائیور بولا۔ "ہم چالیس کی سپیڈ پر چلیں گے۔چاہے کوئی بھی سامنے ہو۔"
"اللہ مالک ہے۔" سپاہی بولا۔
ٹرک جھول رہا تھا۔ ربڑ کے گیند کی طرح اچھل رہا تھا۔
دور بہت سے لوگ چلا رہے تھے۔نعرے مار رہے تھے۔لمبی سنسنی خیز چیخیں سنائی دے رہی تھیں۔
وہ چپ چاپ بیٹھے تھے۔ وقت رینگ رہا تھا۔
دفعتاً سپاہی چلایا۔ "وہ دیکھو۔ ریل کی پٹڑی کے دونوں طرف سکھوں کے جتھے ہیں۔"
"وہ دیکھو۔" وہ پھر چلایا۔ " وہ درختوں اور جھاڑیوں کے پیچھے چھپے ہوئے ہیں۔"
"اندھے ہو گئے ہیں اندھے۔" ڈرائیور بولا۔ "یہ سکھ۔"
"سر پر خون سوار ہے۔" سپاہی نے کہا۔
"لیکن ریل کی پٹڑی پر کیوں۔سڑک پر کیوں نہیں۔" شیر علی نے پوچھا۔
"ضرور کوئی بات ہے۔" سپاہی نے کہا۔
پھر سپاہی اور ڈرائیور آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ شیر علی اور ایلی خاموش بیٹھے تھے۔
"لو چار میل رہ گیا علی پور۔" ڈرائیور بولا۔
"چار میل۔" سپاہی بولا۔ " ذرا روکو۔" وہ چلایا"روکو۔"
"پاگل ہو گئے ہو۔"ڈرائیور بولا۔
سپاہی نے بندوق کی نالی ڈرائیور کی طرف پھیر دی۔ " میں کہتا ہوں۔روکو۔سنا نہیں تم نے۔"
اس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔آواز تھرا رہی تھی۔ "روکو۔" گاڑی رک گئی۔سپاہی نے بندوق اٹھائی اور باہر چھلانگ لگاتے ہوئے بولا۔ "میرا انتظار کرو۔میں ابھی آیا۔جانا نہیں۔" اور وہ بھاگتا ہوا درختوں میں غائب ہو گیا۔
ڈرائیور نے بے بسی سے ایلی اور شیر علی کی طرف دیکھا۔دونوں خاموش بیٹھے تھے۔ایلی کے ذہن میں وہی خلا کھول رہا تھا۔وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔عالی کی چیخیں مدھم پڑ چکی تھیں۔اس کی شکل دھندلا گئی تھی۔ہر چیز پر دھندلکا چھائے جا رہا تھا۔
"یہ تو سمجھو ہولڈ آپ ہو گیا۔" ڈرائیور بولا۔
انہیں سمجھ نہیں آرہا تھا کہ سپاہی انہیں چھوڑ کر کیوں چلا گیا تھا۔کہاں چلا گیا تھا۔کہیں وہ سکھوں کے ساتھ تونہیں مل گیا تھا۔ ان کو یوں بے یارومددگار چھوڑ کر چلے جانا۔ایسی جگہ جہاں چاروں طرف دشمن تھے۔
"چلو لے چلو۔" شیر علی نے ڈرائیور سے کہا۔ "اب تو علی پور قریب ہے۔"
"اونہوں۔" ڈرائیور بولا۔ "اس کو یہیں چھوڑ جائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ مسلمان ہے بھئی۔کیسے چھوڑ جائیں۔"
سامنے ایک ویران گاؤں تھا۔گاؤں کے دو ایک مکان جلے ہوئے تھے۔ ان میں سے دھواں اٹھ رہا تھا۔
اس کے اردگرد کچھ سائے سے حرکت کر رہے تھے۔دفعتاً ڈرائیور اٹھا۔ اس نے لوہے کی دو بڑی بڑی سلاخیں اٹھائیں۔
"یہ لو۔" وہ بولا۔ ایک سلاخ ایلی کے ہاتھ میں تھما دی۔ "یہ لو یہ۔" اس نے ایک کونے کی طرف اشارہ کیا۔ "اسے پردے سے باہر نکال رکھو۔"
پھر اس نے دوسری سلاخ شیر علی کے ہاتھ میں تھما دی۔ " وہ سمجھیں گے کہ بندوق کی نالیاں باہر نکلی ہوئی ہیں۔مطلب یہ ہے کہ انہیں پتہ نہ چلے کہ ہم نہتے ہیں۔"
"جو اللہ کو منظور ہو گا وہی ہو گا۔" اس نے ٹرک کی جالی مضبوطی سے ہاتھ میں پکڑ لی۔ "انشاءاللہ دو چار کو مار کر مریں گے۔"

دیر تک وہ بیٹھے رہے۔صدیاں بیت گئیں۔
"وہ آ رہے ہیں۔ خبردار۔" ڈرائیور کی آواز سنائی دی۔ "خاموش۔"
سامنے چار سکھ ہاتھوں میں لٹھ اٹھائے ہوئے ان کی طرف بڑھ رہے تھے۔ ٹرک کے قریب آکر وہ رک گئے۔
"قریب آئیں تو گولی مار دو۔" ڈرائیور چلایا۔گولی مار دو سارجنٹ۔" وہ چلایا۔ "ایلی نے لوہے کی سلاخ کو اور باہر نکال دیا۔
"سارجنٹ۔" ڈرائیور چیخنے لگا۔سنتے ہو سارجنٹ۔"
یہ سن کر سکھ بھاگ گئے۔
ڈرائیور ہنسنے لگا۔ "بزدل بھڑوے۔" وہ بولا۔ " ڈر گئے۔"
ایلی کی پیشانی پسینہ میں شرابور تھی۔
دفعتاً دور سے سپاہی کی آواز سنائی دی۔ "آگیا گرایاں آگیا۔اللہ اکبر۔" اس نے نعرہ مارا۔وہ بندوق اٹھائے بھاگا آرہا تھا۔"اللہ ہواکبر۔" اس کا نعرہ دور تک گونج رہا تھا۔ "چلو چلو۔ سٹارٹ کرو۔" وہ قریب آکر بولا۔ "وہ میرا پیچھا کر رہے ہیں۔"
ٹرک چل پڑا۔
"کیا بات تھی؟" ڈرائیور نے پوچھا۔
"گیا تھا رپورٹ کرنے۔"
"کہاں گیا تھا۔"
"بانڈری فورس کا ہیڈکوارٹر ہے یہاں۔وہاں گیا تھا۔"
"کہاں ہے ہیڈکوارٹر۔"
"یہاں سے تین میل دور۔" سپاہی نے کہا۔ "وہ سامنے اس جھنڈ سے پرے۔"
"کیوں گئے تھے۔"
"میں نے سوچا۔ یہ سکھ جو ریل کی لائن پر کھڑے ہیں۔ضرور رفیوجیوں کی گاڑی آنے والی ہے تو میں نے سوچا مسلمانوں کی ساری گاڑی کٹ جائے گی۔"
"تو پھر۔" ڈرائیور نے پوچھا۔
"پھر مجھے پتا تھا کہ یہاں بانڈی فورس فرنٹیر فورس کی ہے۔ سب مسلمان ہیں اس لئے میں نے کہا۔ مہاجر گاڑی کو اللہ کے حکم سے بچاؤں گا۔فورس کا صاحب انگریز تھا۔میں نے سیلوٹ مارا۔میں نے کہا حضور ریل کی پٹڑی پر رفیوجی گاڑی کو سکھوں کے جتھے روک کر مسلمانوں کو قتل کر رہے ہیں۔"
"گاڑی تو ابھی آئی ہی نہیں۔" ایلی بولا۔
"تمہیں کیا معلوم بابو۔" سپاہی بولا۔ " ایسا نہ کہتا تو وہ سپاہی کیسے بھیجتا جو یہ کہتا گاڑی آنے والی ہے تو کون سنتا میری بات۔"
"تو پھر؟" ڈرائیور نے پوچھا۔
"صاحب ابھی سوچ رہا تھا کہ جوانوں نے سن لیا اور وہ حکم ملنے سے پہلے ہی رفلیں لے کر بھاگے، وہ سب آ رہے ہیں سکھوں کے جتھے بھاگ رہے ہیں۔ اللہ نے چاہا تو گاڑی بچ جائے گی۔"
"انشاءاللہ۔" ڈرائیور بولا۔
"اگر ہم پر یہاں حملہ ہوجاتا۔" شیر علی نے پوچھا۔
"یہاں تو صرف تین مرتے۔" سپاہی بولا۔ "وہاں تو سینکڑوں کی بات تھی۔"
"اللہ مالک ہے۔" ڈرائیور بولا۔
ایلی نے حیرانی سے سپاہی کی طرف دیکھا۔ " اور اگر تمہیں گولی مار دیتے تو؟" اس نے پوچھا۔
"ایک نہ ایک دن مرنا ہی ہے بابو۔مار دیتے۔" وہ مسکرایا۔ "اپنا کیا ہے۔ایک نہ ایک دن گولی سے ہی مرنا ہے۔پر وہ مسلمان رفیوجی کی گاڑی۔۔۔۔۔۔۔۔" وہ رک گیا۔
ایلی کی نگاہ سے گویا ایک پردہ سا ہٹ گیا۔
عالی پیچھے ہٹ گیا۔
اس کی جگہ بیسیوں چھوٹے چھوٹے بچے اس کے سامنے آکھڑے ہوئے۔انہوں نے ہاتھ اٹھائے ہوئے تھا ابوابو۔بیسیوں آوازیں بلند ہوئیں۔ سینکڑوں بوڑھی عورتیں اس کی طرف امید بھری نگاہ سے دیکھ رہی تھیں۔

جاؤ جاؤ
انہوں نے محلے پر آخری نگاہ ڈالی۔
وہ آصفی محلے کو ہمیشہ کے لئے چھوڑ رہے تھے۔
محلہ ویران پڑا تھا۔کھڑکیاں بند تھیں۔دیواریں چپ چاپ ایستادہ تھیں۔
محلے کا میدان خالی پڑا تھا۔کچھ لوگ جا چکے تھے۔کچھ اداس کھڑے جانے والوں کو دیکھ رہے تھے۔محلے والوں کی زبانیں گویا تالو سے چمٹ گئی تھیں۔ ان کی قوت گویائی آنکھوں میں ڈوب رہی تھی۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے علی احمد کے گھرانے کو جاتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔
ایلی نے آخری نگاہ ڈالی۔اوپر چوبارے پر شہزاد کھڑی تھی۔پھر وہ سب ٹرک میں بیٹھے ہوئے تھے۔ علی احمد چپ چاپ سر کو ہاتھوں میں تھامے ہوئے نہ جانے کدھر دیکھ رہے تھے۔
ہاجرہ کا چہرہ بھیانک ہو رہا تھا۔عالی حیرانی سے ادھر ادھر دیکھ رہا تھا۔شمیم اور اس کی بیٹیاں چپ چاپ بیٹھی تھیں۔صرف راجو کے چہرے پر ہمت اور امید کی جھلک تھی۔نصیر دانتوں میں تنکا چلا رہا تھا۔رابعہ ہاتھ مل رہی تھی۔فرحت کی ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ اس کے بچے سہمے ہوئے بیٹھے تھے۔
ٹرک چلے جا رہا تھا۔
ریل کی سڑک کے دونوں رویہ فوجی بندوقیں لئے کھڑے تھے۔
دفعتاً سپاہی چلایا" "اللہ اکبر"
سب سپاہی کی طرف دیکھنے لگے۔
"رفیوجی گاڑی۔رفیوجی گاڑی۔" وہ بچوں کی طرح تالیاں بجا رہا تھا۔
انہوں نے پردہ اٹھا کر دیکھا۔
سامنے ریل کی پٹڑی پر مسلمانوں کی پہلی رفیوجی گاڑی آرہی تھی۔ اس کے ساتھ لوگ یوں چمٹے ہوئے تھے جیسے گڑ پر چیونٹیاں۔ وہ آہستہ آہستہ چل رہی تھی۔جیسے اس عظیم بوجھ تلے ہونک رہی ہو۔
"اور گرایاں۔" سپاہی چلانے لگا۔ "آج اگست کا آخری دن ہے۔"
ڈرائیور نے سپاہی کی طرف تعجب سے دیکھا۔پھر وہ بولا:
کل مسلمان بانڈری فورس یہاں سے چلی جائے گی۔"
"چلی جائے گی۔" علی احمد بولے۔
"اور اور۔" ڈرائیور بولا۔ " چلی جائے گی تو۔۔۔۔۔۔"
"سکھ دھاندلی مچا دیں گے۔" سپاہی نے جواب دیا۔
"اور علی پور کا کیا بنے گا؟"
"وہ تو بانڈری والوں کی وجہ سے بچا ہوا تھا۔" سپاہی بولا۔
"گردپتن تو صاف ہوگیا۔" ڈرائیور نے کہا۔
ایلی نے جھرجھری لی۔
ایک بھیانک خاموشی چھا گئی۔
"ارے بھائی۔" ڈرائیور نے ایک چیخ سی ماری۔
سبھی ڈرائیور کی طرف دیکھنے لگے۔
ٹرک رک گیا۔
وہ سب سہم گئے۔شاید حملہ ہوگیا۔شاید ٹرک خراب ہو گیا۔
سپاہی نے علی کا نعرہ مارا اور بندوق اٹھائے باہر چھلانگ لگا دی۔
وہ پردے ہٹا کر دیکھنے لگے۔
سڑک پر یہاں وہاں لاشیں پڑی تھیں۔ چاروں طرف خون کے چھینٹے اڑے ہوئے تھے اور ان کے درمیان پاگ بابا چھاتی نکالے گردن اٹھائے بے پروائی اور بے نیازی سے ادھر سے ادھراور ادھر سے ادھر یوں ٹہل رہا تھا جیسے جہاز کا کپتان اردگرد کا جائزہ لے رہا ہو اور جہاز کے ملاحوں کو احکامات جاری کر رہا ہو۔
"بابا۔۔۔۔۔۔۔۔" ڈرائیور چلایا۔
سپاہی بابا کو دیکھ کر بھونچا رہ گیا۔
"بابا۔" ڈرائیور پھر چلایا۔
بابا دور نہ جانے کہاں دیکھ رہا تھا۔
"آو باؤ چلیں۔" سپاہی چلایا۔ "پاکستان چلیں۔"
بابا نے سپاہی کی طرف دیکھا۔"چلیں۔" وہ بولا۔ "سب نے چلے جانا ہے۔ سب نے۔ہاں تو جاؤ۔جانا ہے تو جاؤ۔ جس نے جانا ہے جائے۔"
"تم آ جاؤ بابا۔" ڈرائیور چلایا۔

بابا اپنی ہی دھن میں چلا رہا تھا: "جانا ہے توجاؤ۔چلے جاؤ۔میں کیا کروں۔میں کیا کروں۔وہی کرنے والا ہے۔وہی کرتا ہے۔وہی مارتا ہےوہی زندہ کرتا ہے۔"
"لیکن بابا۔" سپاہی چلایا۔ "وہ تمہیں مار دیں گے۔"
"مار دیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" بابا کے ہونٹوں ہر ہنسی آ گئی۔ " وہ کہاں ہیں۔کہاں ہیں وہ کہاں ہیں وہ۔ کوئی بھی تو نہیں صرف وہی ہے۔ صرف وہی۔یہاں وہاں ہر جگہ ہر جگہ اور کون ہے؟"
"اسے زبردستی اٹھا لو۔" ڈرائیور چیخنے لگا۔ "اٹھا لو۔ٹرک میں ڈال دو۔"
بابا نے ایک غضب ناک نگاہ سپاہی پر ڈالی۔
"مت کرو۔مت کرو۔" ہاجرہ بولی۔ "بابا کو کچھ نہ کہو۔"
بابا نے ایلی کی طرف دیکھا۔ایلی نے جھک کر سلام کیا۔

حضور حضور
بابا نے غور سے اس کی طرف دیکھا اور ٹرک کے قریب آکھڑا ہوا:
"بولو کیا نہیں کیا۔کیا نہیں کیا۔" وہ چلایا۔ "سب کچھ کیا سب کچھ کیا۔کہاں کہاں حفاظت نہیں کی۔کہاں کہاں خیال نہیں رکھا۔کیا نہیں کیا۔کیا نہیں کیا۔ بولو بتاؤ۔"
"وقت آگیا ہے۔وقت آگیا ہے۔" وہ پھر بولنے لگا۔ "جاؤ جاؤ۔تم جاتے کیوں نہیں۔وقت آگیا ہے۔دور دور۔جاؤ جاؤ۔ مسجد کے پاس کنویں کے پاس دونوں بیٹھے ہیں۔اللہ نے معاملہ اس کے ہاتھ میں دے دیا وہ جس کے ہاتھ میں چاہے دیدے۔میں کیا کروں۔میں کیا کروں۔وہ جانے اور وہ جانے۔وہ دینے والا وہ لینے والا۔جاؤ جاؤ۔"
ڈرائیور نے ٹرک سٹارٹ کر دیا۔سپاہی پھدک کر اوپر چڑھ گیا۔
"آجاؤ بابا۔" سپاہی آخری بار چلایا۔
بابا نے قریب ہی سے ایک لاٹھی اٹھائی اور دوسری طرف منہ پھیر کر اسے لہرانے لگا۔ "ہٹ جاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہٹ جاؤ۔" وہ پھر لاٹھی پھینک کر ہنسنے لگا۔ "مجھے کیا ہے مجھے کیا ہے۔ کرنے والے تم ہو۔ تم جانو۔ میں کیا کروں۔ میں کیا کروں" وہ چلا رہا تھا۔
ٹرک روانہ ہو چکا تھا۔
دفعتاً ایلی کے روبرو حاجی صاحب آکھڑے ہوئے۔ " وقت آئے گا۔ وقت آئے گا۔ وہ مسکرائے۔ "الحنمدللہ۔ اللہ اچھا کرے گا۔وقت آئے گا۔
شہزاد کھڑکی سے چلا کر بولی" میں رکاوٹ تھی۔میں دور ہوگئی۔میں دور ہوگئی۔
دلی کا عالم مولوی ہنس رہا تھا۔ "سب اس کا پرتو ہے۔ سب اس کی شعبدہ بازی ہے۔ وہ بڑا شعبدہ باز ہے۔سب اسکی کا کھیل ہے۔وہ بڑا کھلاڑی ہے۔" وہ ہنسنے لگا۔
"خبردار۔" ڈرائیور چلایا۔ "امرتسر آگیا ہے۔کوئی باہر نہ جھانکے۔کوئی آواز نہ نکالے۔"
"اللہ مالک ہے۔" سپاہی بولا۔
ایلی چونک پڑا۔
اس نے سامنے شیشے سے جھانک کر دیکھا۔
سامنے چوک میں ایک فوجی کھڑا تھا۔
"اگر اس نے روکا۔" سپاہی بولا۔ " تو رکنا نہیں۔"
"جو اللہ کرے۔" ڈرائیور نے ٹرک تیز کر دیا۔
چوک میں کھڑے فوجی نے رکنے کا اشارہ کر دیا۔
"جاؤ جاؤ۔" دور سے پاگ بابا کی آواز سنائی دی۔
"تڑاخ۔۔۔۔۔۔۔" ایک آواز سی سنائی دی۔
چوک میں کھڑا فوجی ڈھیر ہو کر گر پڑا۔
ایلی نے دھڑکتے ہوئے دل سے سامنے دیکھا۔
"جاؤ جاؤ۔چوک میں۔" پاگ بابا چلا رہا تھا۔" سڑکوں سے نہیں۔کھیتوں سے۔کھیتوں سے۔"
ڈرائیور نے ٹرک سڑک سے اتار کر کھیتوں میں ڈال دیا۔
"نیا جیون۔نیا جیون۔" کھڑکی میں شہزاد گنگنا رہی تھی۔
"آنے دو۔" رومی ٹوپی والا کھیتوں میں ہاتھ دیے کھڑا تھا۔
"راستے کی رکاوٹ تو میں تھی۔"شہزاد
"آنے دو۔آنے دو۔"دراز قد اشارے کر رہا تھا۔
ٹرک دوڑ رہا تھا۔دوڑ رہا تھا۔
"آجاؤ۔جاؤ۔" پہیوں کی آواز چاروں طرف گونج رہی تھی۔
"حضور حضور۔" ہارن خوشی سے چیخ رہا تھا۔
"پاکستان۔ پاکستان۔" ایلی کا دل دھک دھک کر رہا تھا۔