صفحات

تلاش کریں

18-انجام



کہاں جاؤں

ایلی چپ چاپ گاڑی میں بیٹھا اندھرے کو گھور رہا تھا اس کا زہن خلا میں تبدیل ہو چکا تھا اسے کچھ بھی یاد نہ رہا
شہزاد کو اللہ حافظ کہنے کے بعد وہ اسٹیشن کی طرف چل پڑا تھا آدھی رات کا وقت تھا وہ اس وقت وہاں کے علاوہ کہاں جا سکتا تھا پھر جانے کب گاڑی آئی اور وہ بنا ٹکٹ کے اس میں بت بنا بیٹھا رہا
اس کے کندھے پر وزن محسوس ہوا اس نے دیکھا وردی والا بابو ٹکٹ کا پوچھ رہا تھا
ایلی نے تعجب سے پوچھا ٹکٹ اس وقت اسے احساس ہوا وہ تو گاڑی میں بیٹھا ہے وہ اپنی جیب ٹٹولنے لگا پھر اسے یاد آیا اس کے پاس کوئی ٹکٹ نہیں ہے
میرے پاس تو ٹکٹ نہیں ہے
تمہیں کہاں جانا ہے
ایلی نے پوچھا یہ گاڑی کہاں جاۓ گی
اس بابو نے حیران ہو کر پوچھا تمہیں پتہ نہیں کہاں جا رہے ہو
ایلی نے کہا مجھے کہیں نہیں جانا
وہاں آس پاس مسافر ہنسنے لگے
تو پھر گاڑی پر سوار کیوں ہو
پتہ نہیں
کرایہ نکالو اس بابو نے کاپی کھولی
ایلی نے جیب میں دیکھا اس کے پاس سات روپے آٹھ آنے تھے
میرے پاس صرف یہ ہیں
اس بابو نے پوچھا کیا ہے تمہیں
کچھ نہیں
وہ بندہ ایلی کے پاس بیٹھ کر بولا تم عادی بے ٹکٹے نظر نہیں آتے
جی نہیں بس طبعیت کچھ ٹھیک نہیں
اچھا تم اگے اسٹیشن پر اتر جانا
جی ٹھیک ہے
اگے اسٹیشن پر بابو نے اسے جھنجھوڑا اتر جاؤ اب
ایلی سوٹ کیس اٹھا کر پلیٹ فارم پر اتر گیا
اس بابو نے پوچھا اب کہاں جاؤ گے
پتہ نہیں
تم واپس شاہوال کیوں نہیں جاتے
وہ وہی بینچ پر بیٹھ گیا گاڑی چلی گئی
کافی دیر وہی بیٹھا رہا پھر بچے کے رونے کی آواز پر چونکا اس کے زہن میں حرکت سی ہوئی
ابو ابو عالی اس کی طرف ہاتھ اٹھاے رو رہا تھا
پھر ایک شکل ابھری تم نے میری بیٹی کو بیچا ہے
وہ کھبرا کر اٹھا سامنے چاۓ والے کے پاس چاۓ پیتے سوچ رہا تھا کہاں جاؤں
سامنے گاڑی آتی دیکھ کر اس کے زہن میں راجواڑہ نام آیا ساتھ ہی ڈاکٹر کی یاد آئی الیاس صاحب کبھی ہمارے پاس راجواڑہ آؤ وہ مسکرایا
اسے یاد آیا اس کا موموں زاد راجواڑے کے ہسپتال میں نوکر تھا اس نے راجواڑے کا ٹکٹ لیا اور گاڑی میں جا بیٹھا

بوندا باندی

ایلی کو دیکھ کر خلیق حیران رہ گیا ارے الیاس بھائی مجھے آپ کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی مجھے خیال نہیں نہ تھا کہ آپ ایسے اچانک ویسے سب خیریت تو ہے
ایلی نے سر ہلاتے ہوۓ ہاں کیا
ایلی نے سوچ لیا کہ اسے اپنے آنے کی وجہ نہیں بتاے گا اسے اعتماد تھا کہ وہ اس سے کبھی بدظن نہیں ہو سکتا مگر پھر بھی نہ جانے کیوں اسے سے چھپا رہا تھا کہ وہ شہزاد سے قطع تعلق کر کے آیا ہے
خلیق کو شک تھا کہ کوئی بات ہے جو یہ بتانا نہیں چا رہا وہ اسکا دل بھلانے کے لیے ادھر اُدھر کی باتیں کرنے لگا
ایلی کو بس یہ ڈر تھا خلیق اس کی آمد کی خبر کسی کو نہ دے اگر اس نے کسی کو خبر دی تو مشکلات پیدا ہو جائیں گی وہ جانتا تھا شہزاد اسے منانے نہیں آۓ گی اس نے کسی کو خط نہ لکھا تاکہ کسی کو خبر نہ ہو کہ وہ راجواڑے میں ہے اس نے اپنی چٹھی کی عرضی سراب کے نام بھجی کہ اس کی تنخواہ شہزاد کو دے دی جاۓ یہ عرضی اس نے آئی ایم ایس میں پوسٹ کی
خلیق ہر وقت ایلی کے ساتھ رہتا ہسپتال جاتا اسے ساتھ لے جاتا مریض کو دیکھنے جاتا تب بھی اسے ساتھ رکھتا کیونکہ وہ اس کے ساتھ رہ کر جان چکا تھا کہ زہنی طور پر نارمل نہیں ہے اسے اکیلا چھوڑنا خطرے سے خالی نہیں ہے

رجپال سنگھ

راجپاں سنگھ ایک قومی سکھ تھا وہ راجواڑے کی ایک بستی میں رہتا تھا
ایک دن ایلی اور خلیق کواٹر سے باہر میدان میں بیٹھے تھے رجپال سنگھ آیا لڑکڑاتے ہوے پھر سنھبل کر بیٹھا اس کی سانس اکھڑی تھی ہوائیاں اڑی ہوئی تھی
ڈاکٹر نے اس کی نبض پکڑ کر پوچھا تم بیمار ہو
اچھا بھلا تو ہوں ڈاکٹور
پھر کیا بات ہے
ڈاکٹرور میری جندگی کا کچھ بھروسہ نہیں
وہ تو کسی کی بھی زندگی کا نہیں ہے پھر
نہیں یہ اور بات ہے مجھے کہیں نہ کہیں ایک ناکنی کاٹ کر چھوڑے گی
ناگنی؟
ہاں میں گلتی سے اک روج اس کی نر کو مار دیا تھا مجھے دوسری نہیں دیکھی تھی ورنہ جب دو ایک ساتھ ہوں نہیں مارنا چاہیے پھر دوسرا بدلہ لے کر چھوڑتا ایک کو مارو تو کوئی بات نہاہی
تو پھر اب؟
اب کیا میں ایک کو مارا تو دیکھا درخت کی اوٹھ میں دوسرا بھی مجھے اسے دیکھتے ہی پسنہ آنے لگا
اب میں لاٹھی بنا باہر نہیں جاتا کبھی بے خبر ہو کر نہیں سوتا دن کے سمے تو کوئی بات نہیں ناگن چالاک ہے اپنے بھی باجو میں جورر ہے
آج وہ میرے ساتھ ساتھ آ رہی تھی یہ آج بچ کے نکل آیا بہت بات ہے ورنہ آج کوئی صورت نہیں تھی بچنے کی وہ لمبے سانس لینے لگا
تو میں کیا مدد کر سکتا ہوں ؟
مجھے سرمے کی دو سلائیاں دے دیو
سلائیاں سرمے کی ؟؟
ہاں وہ کمپنی والے دیتے سرمہ سانپ کے کاٹنے کا
ایلی نے پوچھا سانپ کے کاٹنے کا سرمہ
ہاں بابو وہ سرمہ کی سلائی جس کو سانپ یا جریلا کیڑا کاٹ لے وہ ڈالے آنکھوں میں تو سارا جہر بھسم ہو جاتا
ایلی نے خلیق سے پوچھا کیا یہ سچ ہے۔؟
پتہ نہیں۔۔
ارے ڈاکٹور بلکل سچ ہے
تو تم خود کمیٹی والوں سے کیوں نہیں مانگ لیتے
وہ سب کو نہیں دیتے ڈاکتور مانگے تو شاید دے دیں
اچھا میں ان سے کہوں گا تم کل پتہ کرنا

نند کیرا

ایلی کو ہاجرہ کا واقع یاد آ گیا یہ ان دنوں کی بات تھی جب ایلی علی پور شارٹ ہینڈ کی تعلم کر رہا تھا
ان دنوں وہ زیادہ وقت شہزاد کے چوبارے میں گزارتا تھا
ایک دن ہاجرہ نیچے اتر گئی اور بہت دیر وہاں رکھی چیزیں ٹھیک ٹھاک کر رہی تھی وہ ہر چوتھے دن کرتی تھی
ہاجرہ وہاں سے سیدھی شہزاد کے پاس آئی اسے نہ جانے کیا کام تھا وہ کھڑی باتیں کر رہی تھی کہ اچانک اسے اپنی شلوار میں حرکت محسوس ہوئی اس نے زور سے چیخ ماری اور دھڑم سے زمیں پر گر پڑی
ایلی اور شہزاد اس کی طرف بھاگے چیغ سے رابعہ اور جانو بھی بھاگی آئی
دیکھ کر حیران رہ گئی ہاجرہ کا چہرہ نیلا پڑ چکا تھا جیسے نیلی سیاہی
سب محلے والے آ گئے کیا ہوا بہن
پتہ نہیں ایک چیخ مار کر گر پڑی ہے
یہ تو نیلی پڑ گئ کہیں سانپ تو نہیں ڈسا
شہزاد نے کہا پتہ نہیں ہم نے تو نہیں دیکھا
فرحت روتے ہوۓ بولی ابھی تو آئی تھی تہہ خانے سے
کچھ ڈاکٹر کی طرف بھاگے ایک نے اس کا سر اٹھا کر گود میں رکھا
تھوڑی دیر میں ڈاکٹر آ گیا دور سے دیکھ کر بولا کیا ہوا اسے
پتہ نہیں چیخ مار کر گری اور ایسے نیلی پڑ گئ
بہت زیلا سانپ معلوم ہوتا ہے کسی نے دیکھا تھا
سب نے کہا نہیں
اس کی ٹانگ ننگی کرو
اس نے ہاجرہ کے پنچے اوپر کیے ایک ٹانگ پر پھوڑے کی طرح ابھرا ہوا تھا ڈاکٹر نے فورا چاقو کی مدد سے وہ پھوڑا سا کاٹا جو کیلے کی طرح جلد کٹ گیا ڈاکٹر کھبرا کر پیچھے ہوا
وہ چیخا ہٹ جاؤ کوئی مریض کے جسم کو نہ چھوۓ وہ اس عورت سے مخاطب ہوا جو ہاجرہ کا سر گود میں رکھے بیٹھی تھی اٹھو ورنہ تمہیں بھی زہر چڑھ جاے گا
ڈاکٹر نے کہا اسے فورا دفنا دو ورنہ کچھ دیر میں اس کا جسم پھٹ جاے گا جہاں جہاں چھنٹے پڑیں گے وہاں زہر پہنچے گا لے جاؤ اسے سب چلی جاؤ یہاں کوئی نہ ٹھہرے
ڈاکٹر کے کہنے پر سب بھاگ گئے بس شہزاد ایلی رابعہ اور جانو بچ گئے انہیں سمجھ نہیں آرہی تھی اس کا کیا کریں
عین اسی وقت ایک سپیرا سیڈھیاں چڑھتا اوپر آیا
کس کو کاٹا کیڑے نے
ایلی سوچ رہا تھا یہ کیا کرے گا
سپیرے کی نظر ہاجرہ پر پڑی وہ مسکرایا اپنی بچی نیچے اتار کر بولا آج تو نند کیڑے کے درشن ہو گئے ہٹ جاؤ سب
سب پیچھے ہوے
اس نے کہا کوئی سوٹا دو
دودھ گھی اور کالی مرچ کا بندوبست کرو
یہاں کوئی نہ رہے گرو چاہے گا تو دودھ کو دودھ پانی کا پانی ہو جاۓ گا
سپیرے نے چوبارے سے سب کو نکال کر نہ جانے کیا جنتر منتر پڑھنے لگا ہاتھ میں سوٹی تھی سامنے دودھ کا بھرا برتن وہ بار بار سوٹی سے ہاجرہ کو چھوتا پھر دودھ میں ڈالتا تو ایک آواز آتی جیسے لوہے کو گرم کر کے پانی میں ڈالنے سے آواز پیدا ہوتی ہے کوئی دو گھنٹے وہ جنتر منتر پڑھتا رہا پھر ایک چیخ سنائی دی جیسے ہاجرہ نے بے ہوش ہوتے ماری تھی سب آواز سن کر کھڑکیوں میں آ گئے ہاجرہ اب کچھ حرکت کر رہی تھی
سپیرا چلایا گرو کی دیا سے نند کیڑے کا بھوشن مل گیا دودھ کا کٹورہ سیاہ ہو چکا تھا چھڑی بھی اگے سے جیسے جھلی ہو

ناگ دیوی

چار گھنٹے پر ہاجرہ کو ہوش آیا اسے اٹھا کر چارپائی پر ڈالا گیا
سپیرے نے اپنی گھڑلی سنھبالی اور ایک ڈبیہ نکالی ڈاکٹر جو پھوڑا کاٹ کر پھنک گیا تھا اسے لکڑی کی مدد سے ڈبیا میں ڈالا
ایلی نے سپیرے سے کہا تمہاری کیا سیوا کریں
تم کیا کر سکتے ہو
شہزاد نے پانچ دس دس ک نوٹ اسپیرے کی طرف برھاۓ
لڑکی تمہیں تو بڑھیا کا جیون ملا مگر مجھے گرو کی دیا سے ساری جیون شکتی مل گئ
شہزاد کی طرف سپرے نے دیکھا اس کی نظر اس کے ماتھے کےتل پر پڑی تو بولا تو خود ایک ناگ دیوی ہے یہ لیں کیا یاد کرے گی اس نے ایک ڈبی سے کالی مرچیں نکال کر اس کے ہاتھ پر رکھی اس کھا لو
شہزاد کو اس کے گندھے ہاتھوں سے گہن آ رہی تھی اس نے ایک دو منہ میں رکھی باقی جیسے سپیرا گیا تو پھینک دی
ہاجرہ کو ایک ہفتہ دودھ گھی دینے کا بول گیا تھا
ہاجرہ سے سب پوچھنے لگے ہوا کیا تھا اس نے کہا میرے سر پر ضرب لگی میں چیخ سے بےہوش اور جب ہوش آیا تب بھی لگا سر پر کسی نے ضرب لگائی پھر ایسے وہ صحت مند ہو گئ مگر بہت وقت اسے کوئی کیڑہ کاٹتا مر جاتا خود
پھر ایک دن کالی مرچوں کا راز کھل گیا سپیرے نے جو شہزاد کو مرچیں دی تھی اس نے دو چار چبا کر پھینک دی تھی ایک روز ایسا ہوا کہ شہزاد کو بھیڑ نے انگلی پر جاٹ لیا سے درد ہوا تو انگلی منہ میں ڈال لی جیسے ہی نکلالی تو حیران رہ گئی اس میں زرا بھی درد نہ تھا نہ سوجن ہوئی
ایک دن ریحانہ کو بھی بھیڑ نے کاٹ لیا شہزاد نے آزمانے کے لیے اسے اپنا لہب لگا دیا تو اسے بھی فورا درد سے نجات ملی اب شہزاد کو پکا یقین ہوا کہ وہی مرچوں کا اثر ہے اب اسے پچھتاوا ہوا کہ اس نے ساری کیوں نہ کھائی پھینک کیوں دی تھی
ایلی کو وہ سب واقعات یاد آتے رہے وہ مزید سوچ میں تھا۔۔
دیکھتی ہوں تم کیسے طلاق دلواتے نہیں یہ شہزاد اس شہزاد سے بہت مختلف تھی
شاید وہ رنگیلی محبوبہ تھی بیوی بننے کی اس میں صلاحیت نہ تھی ایلی سوچ رہا تھا اس روز وہ پہلی بار شہزاد کے متعلق سوچ رہا تھا ورنہ جب سے رجوارے میں آیا تھا اس نے شہزاد کے متعلق جب خیال آتا دکھ دیتا تو وہ اس کو نکال دیتا تھا
اس رات اس کا دل چاہا پھوٹ پھوٹ کر روۓ مگر وہا خلیق کی موجودگی سے آنسو میں روتا رہا بہر حال جو جنون اس پر طاری تھا وہ ٹوٹ گیا

مادہ کا انتظام

اگلے دن ناشتے کے بعد دونوں کمپنی کے سیکٹری کی طرف چلے گئے جن کا نام حافظ عبدالمجید تھا کچھ دیر بات کے بعد خلیق مطلب کی بات پر آگیا حافظ صاحب کیا آپ کے پاس سانپ کے کاٹنے والا سرمہ ہے
حافظ صاحب نے سر ہلاتے کہاں ہاں ہے
ویسے حیرت ہے سرمہ لگانے سے سانپ کا زہر ختم ہو جاۓ
ابے صاحب ساری دنیا ہی عجیب ہے حکیم محمود کی طرف سے حکومت کو خط مصول ہوا جس میں تھا کہ اس کے پاس ایسا سرمہ ہے جس کے لگانے سے سانپ بچھو اور کو زہریلا کیڑا کاٹ لے اس کے لگانے سے اثر نہیں ہو گا اگر پہے سے ہو چکا تو بھی لگانے سے زائل ہو جاتا ہے میری خواہش ہے یہ سکولوں کالجوں ہسپتالوں میں رکھا جاۓ
میں سمجھا حکیم اپنا کاروبار چلانا چاہتا ہے
بھلا آنکھون میں سرمہ لگانے کا کیا مقصد
خلیق ہنسا جی بالکل ٹھیک
تو ہم نے دو شیشاں منگوا لی مگر جوں کی توں پڑی رہی
ایک رات بیگم صاحبہ اٹھی تو انہیں سانپ نے کاٹ لیا ناک تیل لفایا اس سے بھی کچھ نہیں ہوا پھر مجھے سرمہ یاد آیا کہ چلو اسے آج آزما لیا جاۓ میں نے انکی آنکھوں میں سرمے کی ایک سلائی لگائی وہ حیرت انگیز طور پر اٹھ بیٹھی اس کے بعد ہم نے منادی کروا دی جس کے بعد کہیں لوگوں کو اس سے فائدہ ہوا جہیں اٹھا کر لایا جاتا چل کر جاتے دیکھا
تو کیا اب بھی آپ کے پاس وہ سرمہ ہے ؟
ختم ہو گیا شاید کوئی ایک عاد سلائی نکل ہی آۓ
اس کے بعد ہم نے اس حکیم ممود کو بہت خط لکھے خط واپس آ جاتے کہ یہاں کوئی حکیم نہیں اس نام کا ہم نے کافی تقید کی مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا کہ کیا چکر تھا یہ سب
خلیق نے پھر راجپال کا قصہ چھیڑ دیا
ہاں وہ آیا تھا مگر دوائی پہلے دے دینا ہمارے اصول کے خلاف ہے ہاں اسے ناگن ڈس لے یہاں آۓ تو ایک سلائی نکل ہی آۓ گی
کوئی چار دن بعد راجواڑے کے بازار میں شور ہوا
راجپال آ ریا ہے جب وہ بستی میں پہنچا اس کا منہ سوجھ چکا تھا اس کی آنکھیں لال تھی نہ جانے کب سے بھاگ رہا تھا کہ ایک دوکان سے کچا گھی پینے سے اسے ہمت ملی پھر سے دوڑ لگا دی عین بازار کے بیچ اس کی آنکھوں کے اگے اندھیرا چھا گیا وہ گر پڑا
حافظ صاحب عین موقعےپر پہنچ کر اسے سلائی لگائی وہ تڑپا پھر اٹھ کر وحشانہ نعرہ لگایا واہ۔۔گرو۔۔
خلیق نے محسوس کیا ایلی کا جمود ٹوٹا اب وہ بہتر ہے و اس نے بات چھڑ دی شکر ہے آپ پہلے سے بہتر ہو میں تو ڈر ہی گیا تھا ویسے بات کیا تھا
میں ڈاکٹر ہوں مجھے بتانے میں کوئی حرج نہیں

رسوائی

ایلی کی ساری بات سن کر اسے لگا اس کا یہ انجام نہیں ہونا چاہیے تھا خلیق کی آنکھیں نم ہو گئ مگر زبان سے کچھ نییں کہا
خلیق آنسو ضبط کرتے بولا میں کیا اب کہہ سکتا ہوں
آپ اپنے معمالات بہتر جانتے ہیں
پندرہ دن راجواڑے میں گزار کر ایلی رات کی گاڑی سے شانہوال روانہ ہو گیا
وہاں پہنچ کر وہ کپور کے پاس حالات جاننے کے لیے گیا اور کسی کے پاس جا نہیں سکتا تھا ریاض سے وہ گھبراتا تھا
بوڑنگ میں نہ گیا کہ لڑکے پہچان کر باتیں کریں گے
کپور اسے دیکھ کر کچھ گھبرا سا گیا
الیاس بھائی آپ یہاں چلیں کہیں باہر چل کر بات کرتے ہیں وہ اسے اسٹیش لے آیا اور پھر ایلی پر برس پڑا
تم نے یہاں سے جانے کی بہت بڑی غلطی کی تو نے میدان خالی چھوڑا تمہاری بیوی نے تمہارے خلاف وہ زہر اگلا اب سب تمہارے خلاف ہو گئے
سب کی ہمدردی اس کے ساتھ ہے پولیس نے بھی حکم دیا تمہیں حراست میں لے لیا جاے
سب کو یہی پتہ ہے تم نے بیٹی کا سودا کیا ہے ماں کی مرضی کے خلاف اس کی شادی کی ہے پھر تم بھاگ گئے سب کا یقین پکا ہو گیا ہے
ایلی نے کپور سے پوچھا تمہیں بھی یہی لگتا ہیے
میری چھوڑو میرا کیا ہے
ایلی نے کہا میں تمہیں ساری حقیقت بتاتا ہوں
اب کیا فائدہ پہلے یہ کرتے اب سب تمہیں گناہ گار سمجھتے ہیں گھر گھر تمہاری رسوائی ہے
ایلی بولا حد ہے
پھر بھی تم تاریخ پر تو یہاں آؤگے نا۔۔
ایلی نے حیرانی سے پوچھا کیسی تاریخ
تمہارے خلاف مقدمہ جو درج ہوا ہے
اوو اچھا۔۔
خبر دار ہو کر آنا جب بھی آؤ کسی نہ کسی بہانے سے حوالات میں بند کر دیں گے ہم چاہتے ہوۓ بھی کھلم کھلا تماری مدد نہیں کر سکیں گے
ایلی نے ایسا محسوس کیا جیسے وہ راجپال ہو اسے مادہ نے ڈس لیا ہو
میں بہت روکا کہ مقدمہ نہ ہو پھر میں لاہور چلا گیا تمہارا تبادلہ کروا دیا
ایلی نے پوچھا کہاں پر؟
قاضی پور لاہور کے قریب ہی
میں یہاں اب چارج کیسے دوں گا؟
اس کی ضرورت نہیں ہم سب سنھبال لیں گے اس نے جیب سے لفافہ دیا یہ لو یہ خط اس میں لکھا ہے تمہیں یہاں سے فارغ کر دیا گیا ہے
بہتر یہی ہے قاضی پور جا کر ڈیوٹی سنھبالو چھپے رہے تو معاملہ اور خراب ہو گا
کپور سے جدا ہو کر اس نے محسوس کیا وہ بالکل تہنا رہ گیا ہے کوئی نہیں جو اس کا ساتھ دے وہ فکر میں ڈوب گیا
وہ قاضی پور کی گاڑی میں بیٹھ کر ہزار سوالات کے ساتھ جا رہا تھا

کوڑھی

قاضی پور جا کر وہ ہیڈ ماسٹر کے پاس گیا اس نے وہ خط انکے سامنے پیش کر دیا
مدرسے میں حاضری دینے سے پہلے وہ کو حالات سے اگاہ کرنا چاہتا ہوں
پھر اس نے ساری کہانی مختصر کر کے بتائی
انصاری صاحب سوچ میں پڑ گئے ظاہری بات ہے وہ ایلی کے لیے ہمدردی نہیں محسوس کر رہے تھے
آصفی صاحب بولے میں اس معاملے میں تمہاری مدد کر سکتا ہوں
آپ بس یہ کر دیں مجھے کچھ دیر کے لیے برداشت کر کیں
کیا مطلب؟
مجھے اپنے سکول رہنے دیں
وہ ہنس کر بولے شوق سے کریں مگر ایسی ویسی حرکت سے مجھے بہت وحشت ہوتی ہے
قاضی پور میں ایلی کی کوئی حثیت نہ رہی اپنے اردگرد استاتذہ کی بھیڑ لگانے کے بجاۓ وہ دور دور رہتا
کلاس میں بھی کوئی خاص چمکیلی باتیں نہ کرتا پڑھانے میں بھی کوئی خاص توجہ نہ تھی
اسے شاہنوال سے خبریں مل رہی تھی سمجھ نہیں آ رہی تھی اتنا بڑا محاز اس کے خلاف کیوں ہو گیا آخر شہزاد کا کیا مقصد تھا وہ اچھی طرح جانتی تھی نفیسہ کی شادی زاتیات پر نہیں تھی وہ یہ بھی جانتی تھی میں اسے بیچا نہیں تھا اس کا کیا مقصد مجھے رسوا کرنا یا ڈرا دھمکا کر اپنے تابع کرنا چاہتی ہے قاضی پور کا یہ دور ایلی کا بد ترین دور تھا قید کا ڈر اسے خود سے نفرت سی ہونے لگی اسے یقین تھا سب اس سے نفرت کرنے لگے ہیں
اس کے دوست احباب سب اس کے خلاف تھے
جو مکان اسے قاضی پور میں ملاتھا بہت وسیع تھا اس اس میں وحشت ہونے لگی اس کا سامان چس ایک سوٹ کیس پر مشتمل تھا اس کے پاس کوئی بستر پارپائی نہ تھی قسمت سے گرمی کے دن تھے ورنہ نہ جانے کیا ہوتا
دو بار اسے شاہنوال سے سمن آ چکے تھے مگر مدرسے کی مہربانی سے اب تک تعمیل نہ ہوئی تھی مگر اسے تھا کہ ایک دن اسے وہان جانا ہی ہے
تیسرا سمن آیا تو اس کو ایک اور نئی مصیبت اس نے اٹھا اس کے ہاتھوں پر ایگزیما کے چھالے نکلے تھے اسے ہی چہرے پر بھی جو پھٹ کر خراب ہو رہے اسی حالت میں وہ شاہنوال روانہ ہوا اس کے ہاتھ پر پیٹیاں تھی

ٹکٹ بابو

ٹکٹ اس کی جیب میں تھا مگر ہاتھ بےکار تھے نکال نہیں پا رہا تھا اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آۓ
بے ٹکٹا ہے کیا؟
نہیں جی ہے ٹکٹ
تو دیکھاؤ نا
اس نے اشارہ کیا اس جیب میں ہے
اس نے ایلی کی جیب سے ٹکٹ نکاتے پوچھا کیا ہوا ہے ہاتھوں کو
جی ایگزیما
ان جانے بھائی
آس پاس کے لوگ سن کر اسے دور ہوۓ جیسے پتہ نہیںں کیا ہے شاہنوال کا اسٹیشن ویران ہی تھا چند لوگ ہی وہاں تھے
وہ اتر کر کچری کے رستے پر چل پڑا وہاں بیٹھ کر اپنے نام پکارے جانے کے انتظار میں تھا مگر کوئی آواز نہ آئی
ایک پولیس والا اسے گھور رہا تھا ایلی سمٹ گیا
جو دیہاتی اس کے ساتھ تھے سب جا چکے تھے اب وہ وہاں اکیلا تھا
اس نے پولیس والے سے پوچھا شہزاد بنام الیاس کی کب بھاری آۓ گی
تم کون ہو؟
میں الیاس ہوں
وہ ہنسا اپنی باری پر حاضر نہیں ہوتے اور پوچھتے ہیں
مگر مجھے تو آواز نہیں پڑی
تمہارے تو ورنٹ بھی آ چکے ہیں
ایک اور پولیس والا آیا کون ہو تم
میں الیاس آصفی
صاحب زرا یہاں آئیے ایک انسپکٹر نہ جانے کہاں سے آیا
انسپکٹر نے ایلی کو پاس بلوایا
اس نے اندر کچھ باتیں کی پھر بولا اسے حوالات میں بند کر دو
ایلی نے پوچھا کس لیے
وجہ بعد میں بتائیں گے
میں نے کیا جرم کیا
وہ ابھی پتہ چل جاے گا
تمہارے ورنٹ ہیں پانچ ہزار کی زمانت کرواؤ نہیں تو اندر جاؤ
تمہارا ضامن کہاں ہے
ایلی نے بے بسی سے چاروں طرف دیکھا
پولیس والے جیسے اسے لے جانے لگے ایک اور اے ایس آئی ڈاخل ہوا ایلی کو دیکھ کر بولا الیاس صاحب آپ یہاں
ایلی نے اسے غور سے دیکھا وہ اسے جانتا تھا
آفیسر نے کہا اسے لے جاؤ
اس اے آئی ایس نے کہا میں اس کا ضامن ہوں
انہوں نے حیرت سے اسے دیکھا
ایلی خود بھی حیران تھا
آپ اس معاملے میں نہ آئیں مجید صاحب
اے ای ایس نے پیٹی کھول کر میز پر رکھ دی یہ لیں نوکری
اب تو ضمانت ہو جاۓ گی نا
ایلی حیرت سے مجید کو دیکھ رہا تھا
اتنے میں ایک خوش شکل آدمی داخل ہوا سب کھڑے ہو گئے
آئیے الیاس صاحب مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے وہ ایلی کا ہاتھ پکڑ کر باہر لے گیا
باہر تانگے کو اشارہ کر کے ایلی کے ساتھ اس میں بیٹھ گیا
کچھ دیر بعد تانگہ روکا تو بنچ پر ایک نقاب پوش عورت بیٹھی تھی خوش شکل آدمی نے اسے اشارہ کیا وہ بھی آ کر ایلی کے ساتھ تانگے میں بیٹھ گئ تانگہ چل پڑا
ایلی حیران تھا کیا ہو رہا ہے مجید کون تھا خوش شکل شخص کون ہے اور اب یہ نقاب پوش کون ہے عجیب واقع ہو رہا تھا

آٹا اور گھن

جب عہ تانگہ شہزاد کے گھر کے پاس روکا ایلی چونکا ارے وہ تو نقاب میں شہزاد تھی وہ خوش شکل آدمی اس کا پڑوسی انسپکٹر تھا وہ ایلی کو گھر لے گیا ۔شہزاد نے برقعہ اتارا اس کے چہرے سے غصہ ٹپک رہا تھا اس نے دونوں ہاتھ کمر پر رکھے اور ایلی کے رو برو کھڑی ہو گئی
انسپکٹر نے مسکرا کر شہزاد کو دیکھا اور اسے خاموش رہنے کو کہا
الیاس صاحب آپ ان لوگوں سے سمجھوتہ کر لیں ورنہ تنائج بہت برے ہوں گے
ایلی چپ بیٹھا رہا
آپ کا ان لوگوں کو گھر سے نکال کر بے یارو مدد گار چھوڑ جانا قبیع فعل ہے
ایلی پہلی بار بولا بے یارو مدد گار تو میں ہوں
جو لوگ ایسی حرکت کرتے ہیں ان کے اپنے بھی انکے خلاف ہو جاتے ہیں اس لیے مخلص مشورہ دے رہا ہوں کہ ان سے سمجھوتہ کر لو
میرا تو ان سے کوئی جھگڑا نہیں ہے
تو پھر آپ انہیں چھوڑ کیوں گئے تھے
یہ طلاق کا مطالبہ چھوڑ دے اور لڑکی گھر بسا لے میں آ جاؤں گا واپس
تمہیں لڑکی کو طلاق دینی ہو گی تم نے میرے ساتھ دھوکہ کیا ہے شہزاد غرائی تم نے ایک بد معاش سے میری بیٹی کا سودا کیا ہے
ایلی بولا یہ جھوٹ ہے
وہ شخص بولا چلو جھوٹ ہی سہی مگر قانوں آپ کے حق میں نہیں ہے
نہ ہو۔۔
آپ کو سزا ہو جاۓ گی
ہو جاۓ۔۔
آپ کی زندگی تباہ ہو جاۓ گی
مجھے نہیں پرواہ
شہزاد بولی بہت ڈھٹ ہو
وہ شخص نصیب شہزاد سے بولا آپ چپ رہیں
آپ سوچ لیں الیاس صاحب
جی میں نے سوچ لیا
دیکھیں آپ تعلیم یافتہ شریف آدمی لگتے ہیں آپ کو چاہیے سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں
آج ایلی نڈر ہو کر بولنے لگا میں نے اب تک جو کیا وہ ایک عزت ڈار خاوند کی شایان شان ہے
شہزاد چلائی با عزت خاوند۔۔۔۔
ایلی نے کہا میں ان سے ناراض نہیں انہیں ہمیشہ خرچ دوں گا ہر طرح سے مدد بھی کروں گا مگر اب ان کے ساتھ نہیں رہوں گا جب تک یہ نکاح کا احترام نہیں کریں گے
اگر آج لڑکی اپنے خاوند کے پاس چلی جاۓ میں کل خود گھر آ جاؤں گا
نصیب سوچ میں پڑ گیا
باقی قید کی اب مجھے کوئی پرواہ ںہیں ایلی اٹھ کر چل پڑا
الیاس صاحب۔۔۔۔۔الیاس صاحب نصیب نے آوازیں لگائی مگر وہ گھر سے نکل چکا تھا
شہزاد اندر چلا رہی تھی دیکھتی ہوں کیسے نہیں طلاق دیتا
محلے کے لوگ کھڑکیوں سے انہیں دیکھ رہے تھے
وہ سینہ تان کر آج چل رہ تھا بھول چکا تھا اس کے ہاتھون پر منہ پر کیا ہوا ہے
محلے کے سکول کے باہر ناظم کھڑا تھا
ارے تم ۔۔یہاں ایلی نے چلایا
اس کا چہرہ سرخ ہو گیا آنکھوں میں نمایاں فرق محسوس ہو رہا تھا ہاتھ میں ہاکی اٹھا رہی تھی
ایلی کو اس نے گالی نکالی
تم اکیلے نہیں ہو میں تمہارے ساتھ ہوں دیکھتا ہوں کیا کرتے ہیں یہ تمہارے ساتھ انکی ایسی کی تیسی
تمہیں اکیلا سمجھ رکھا ہے ہم یار ہیں تمہارے
میں صبع سے تمہارا پیچھا کر رہا تھا جب تم کچری میں گئے تب سے اب تک سب کچھ دیکھ رہا تھا
یار وہ مجید کون تھا اس نے تو حد ہی کر دی
ناظم ہنسا وہ میرا یار ہے میں نے ہی بھجا تھا ورنہ انہون نے اندر کرنے کی اسکیم کر لی تھی
ایلی نے حیرت سے اسے دیکھا
دیکھ کیا رہے ہو ہم یاروں کے یار ہیں ریاض کپور اور سرابکی طرح پیچھے نہیں ہٹنے والے مجھے بھی مشورہ دے رہے تھے اگے نہ بڑھ ورنہ آٹے کے ساتھ گھن پس جاۓ گا یاں میں گھن ہوں
بچے سکول کے بھیڑ لگا دی استاتذہ جھانک رہے تھے سراب کا چہرہ سمٹ رہا تھا کپور سر کچا رہا تھا شرمندگی سے ریاض بھی سوچ میں گم کھڑا تھا

ابو ابو

شہزاد اپنی بچیوں کو لے کر لاہور آ گئی اس کی والدہ نے اسے مجبور کیا کہ وہ شاہنوال چھوڑ کر لاہور چلی جاے اس کے چلے جانے اسے آفسروں نے ایلی کی مخالفت چھوڑ دی
ایلی کو معلوم ہوا شہزاد نے محمود سے مل کر نفیسہ کو چھوڑوا یا ہے ایلی کو بہت تجب ہوا کیونکہ محمود نے اسے کافی خط لکھے تھے جب میں اسے مشورہ دیا تھا کہ اسکی خاطر کوئی جھگڑا نہ بناے اس حالات میں اسے نفیسہ کو چھوڑنے میں کوئی اعتراض نہ تھا مگر جب اس نے سنا نفیسہ کا نکاح شیر علی سے ہو گیا اس کے پاوں سے زمین نکل گی اس کا مطلب یہ سب کیا شیر علی کا تھا اس کے اپنے بھائی نے شہزاد کو ابھارا اس بات پر ابھارا تھا
ایلی کو سن کر بہت دکھ ہوا اس کا زندگی سے دل اچاٹ ہو گیا اسے لگنے لگا وہ کسی صحرا میں تن تنہا لگا سوکھا درخت ہے جس کے چاروں طرف ریت اور ویرانی
مگر کبھی اس ویرانے سے آواز آتی ابو ابو وہ اسے حسرت سے دیکھتا
ایلی کا دل چاہتا کہ چوری سے شہزاد کے گھر جاۓ اور عالی سے ملے اور بتاۓکہ تم جانتے ہو میں بے قصور ہوں بے گناہ ہوں انہوں نے مجھ سے دھوکہ کیا جھبی تو تم مجھے بولاتے ہو ابو ابو کرتے ہو میرا نام کوئی نہیں لیتا صرف تم ہو عالی

آخری بار

وہ ایک مرتبہ چوری چھپے لاہور بھی گیا وہ اس مکان کے باہر انتظار کرنے لگا پھر ایک گول مٹول بچہ نکلا ایلی نے بھاگ کر اسے ایک لفافہ تھاما دیا اور میٹھائی بھی عالی پہلے سہم گیا پھر میٹھائی دیکھ کر خوش ہوا
ایلی اس سے بات کیے بناوہاں سے بھاگ نکلا
ایک بار ایلی جب لفافہ اٹھاۓ کھڑا تھا تو شہزاد عالی کو اٹھاۓ کھانستی ہوئی سامنے کھڑی ہوئی وہ شہزاد کو دیکھ کر گھبرا گیا
لے لو عالی اپنے ابو سے لفافہ لے آؤ وہ اسے حیرانی سے دیکھ رہا تھا
ایلی لفافہ پکڑا کر واپس مڑ کر جانے لگا
آؤ چاۓ پی لو
ایلی جوں کا توں کھڑا رہا
آؤ نہ اب کیا ضد ہے اب تو کھیل ہی ختم ہے
ایلی چپ چاپ اسے کے پیچھے چل پڑا
ایلی کو نہ جانے کیا ہوا وہ شہزاد کے کندھے پر سر رکھ کر رونے لگا شہزاد اسے تھپتپانے لگی
ایلی نے اس کا ہاتھ تھاما ہاتھ کیا تھا جیسے مردے کا ہو ہڈیوں کا ڈنچا بار بار کھانس رہی تھی
اب کیا رونا ہے
کیوں وہ چلایا
اب کہانی ختم ہو گئی ہے
ٹی بی ہے مجھے اس نے مسکرانے کی کوشش کی
ایلی نے پوچھا دوائی لے رہی ہو؟
دوائی وہ ہنسی اب تو بس چند دن ہیں
ایلی کے دل پر چھری چلی ہو جیسے
ایلی نے بات بدلی لڑکیاں کہاں ہیں
ادھر ہی ہیں نفیسہ کی طرف وہ کھانستے ہوۓ بولی
تم اکیلی ہو یہاں
وہ ہوں بھی تو میں اکیلی ہی ہوں اب اکیلے پن کے سوا کیا ہے
ایلی نے اسے پکارا شہزاد۔۔۔۔
ہاں ۔۔۔وہ کھانسنے لگی
تم نے ایسا کیوں کیا کیوں؟
چھوڑو اب وہ سب جو ہونا تھا ہو گیا
چلو میں تمہیں دوارہے لے چلو شاید تم ٹھیک ہو جاؤ
نہیں بے کار ہے
ایلی سن کر کانپ گیا
پھر سے ضد کرتی ہو
ارے چھوڑو نہ یہ باتیں اتنے عرصے بعد ملے ہو کوئی اور بات کرو نا
صرف ایک ہی بات ہے میرے پاس
وہ کیا؟
یہی کہ آج بھی تم میرے لیے وہی شہزاد ہو وہی سبز گٹھڑی
سچ اس نے ایلی کا ہاتھ تھاما
ہاں بالکل سچ
میرا خیال تھا کہ وہ بول نہیں پائی کھانسنے لگی
کیا خیال تھا
کہ تم بدل گئے ہو گے
نہیں تمہارے ساتھ میں کبھی نہیں بدل سکتا
سچ اس نے ایلی کا ہاتھ دبا تو پھر اتنا عرصہ ضد کیوں کی
وہ اور بات تھی میرے دل نے گوارہ نہیں کیا مگر میرے دل میں کبھی تمہارے لیے غصہ یا نفرت نہیں ہوئی
مگر تم بدلی ہوئی نظر آتی ہو
وہ بولی چھوڑو اس بات کو
کچھ دیر دونوں چپ رہے
کیا کرتی ہو آج کل؟
کرنا کیا ہے پڑی رہتی ہوں سارا دن
ڈاکٹر نے اٹھے بیٹھنے سے منع کیا ہے
پھر باہر کیوں آئی تھی
دل چا رہا تھا آخری بار مل لوں
دعائیں مانگتی تھی ایک بار تم آؤ
میں تو آتا رہتا تھا
مجھے پتہ نہیں چلتاتھاوہ پھر سے کھانسنے لگی
عالی لفافہ دیتا تو پتہ چلتا تب تک تم جا چکے ہوتے
پھر اب کے بار کیسے پتہ چلا
پتہ نہیں سوئی تھی جیسے کسی نے جھنجھوڑا
کس نے؟
پتہ نہیں کسی نے کان میں کہا مل لو
ایلی سوچ میں پڑ گیا
تو بس میں عالی کو اٹھا کر باہر آ گئی
تم سے تو چلا بھی نہی جاتا
ہاں نہیں بلا جاتا وہ ملنا تھا تو اٹھ گئی
ایلی نے اس کے ہاتھ اپنے کالوں سے لگا لیا اور چپ بیٹھ گیا
تو تم مجھے بھولی نہیں آج تک
نہیں۔۔‘‘وہ بولی۔۔
‘‘ان دنوں تو بہت غصہ تھا۔۔‘‘
‘‘تھا۔۔لیکن یہ بھلا مجھے بھولنے دیتا ہے۔۔‘‘
‘‘کون ؟‘‘
‘‘یہ عالی۔۔‘‘وہ کھانستے ہوئے بولی
‘‘عالی؟ ‘‘
‘‘ہاں سارا دن بیٹھا ابو ابو کرتا رہتا ہے۔۔‘‘
‘‘مجھے دیکھ کر سہم جاتا ہے۔۔‘‘
‘‘پتہ نہیں۔۔گھر میں ابو ابو کرتا ہے۔۔‘‘
‘‘ہوں۔۔‘‘وہ بولا۔۔
پھر کھانسنے لگی اور پھر خون تھوکا۔۔
ساری رات دونوں بیٹھے باتیں کرتے رہے۔۔صبح کے قریب ایلی کی آنکھ لگ گئی۔۔جب وہ بیدار ہوا تو صبح کے سات بجے تھے۔۔
‘‘شہزاد۔۔‘‘ وہ بولا۔۔
جاگ پڑے۔۔‘‘شہزاد بے بسی سے مسکرائی۔۔
‘‘تم نہیں سوئی کیا؟‘‘ اس نے پوچھا۔۔
‘‘اب تو دیر ہو گئی۔۔‘‘
‘‘یعنی۔۔‘‘ اس نے پوچھا۔۔
‘‘دیر سے سونا چھوٹ گیا۔۔‘‘وہ کھانسنے لگی۔۔
‘‘کیوں ؟ ‘‘
‘‘نیند نہیں آتی۔۔‘‘
‘‘ساری رات بیٹھی رہتی ہو۔۔‘‘
‘‘ہاں۔۔‘‘
‘‘وقت نہیں گزرتا۔۔‘‘
‘‘باتیں یاد آتی ہیں۔۔‘‘
‘‘کونسی؟ ‘‘
‘‘ایک ایک۔۔‘‘اسے پھر کھانسی کا دورہ پڑ گیا۔۔
‘‘اچھا۔۔‘‘وہ بولا۔۔‘‘میں آ جاؤں گا۔۔‘‘
‘‘کہاں ۔۔‘‘ اس نے پوچھا۔۔
‘‘تمہارے پاس۔۔‘‘
‘‘سچ۔۔‘‘
‘‘ہاں۔۔‘‘ایلی نے کہا۔۔‘‘آج جا کر چھٹی لے آؤں ایک مہینے کی۔۔‘‘
‘‘ایک مہینے کی ؟‘‘ اس نے پوچھا۔۔
‘‘ہاں۔۔اکھٹے رہیں گے۔۔‘‘
‘‘اچھا۔۔‘‘اس نے ایلی کا ہاتھ دبایا۔۔کب تک مل جائی گی؟‘‘
‘‘ہفتے کے اندر۔۔‘‘
‘‘ہفتہ۔۔‘‘اس نے برا سا منہ بنایا۔۔اسے پھر کھانسی چھڑ گئی۔۔
‘‘کیوں ؟‘‘ایلی نے پوچھا۔۔
‘‘ہفتہ نہیں۔۔‘‘وہ بولی۔۔‘‘جلدی۔۔‘‘
اچھا۔۔میں کوشش کروں گا۔۔اب جاتا ہوں۔۔‘‘
‘‘اچھا۔۔‘‘شہزاد نے بیٹھنے کی کوشش کی۔۔‘‘اگر جانے سے پہلے کوٹھے پر چھوڑ آؤ۔۔‘‘
‘‘کیا مطلب۔۔‘‘ایلی نے کہا۔۔
‘‘میں سیڑھیاں نہیں چڑھ سکتی۔۔دھوپ میں پڑھی رہوں تو آرام رہتا ہے۔۔‘‘
‘‘اٹھا کر لے چلوں۔۔‘‘
‘‘ہاں۔۔‘‘ وہ بولی اور کھانسنے لگی۔۔
ایلی نے اسے دونوں بازؤں سے اٹھا کر اپنے سینے سے لپٹا لیا۔۔وہ یوں اس کی چھاتی سے چمٹی ہوئی تھی جیسے کوئی بچہ ماں کی چھاتی سے چمٹا ہو۔۔
‘‘آؤں گا۔۔‘‘وہ بولا۔۔‘‘ تو روز تمہیں کوٹھے پر لے جایا کروں گا۔۔‘‘
‘‘ہاں۔۔دھوپ میں مجھے آرام رہتا ہے۔۔‘‘وہ بولی۔۔
‘‘اکھٹے دھوپ میں بیٹھا کریں گے۔۔‘‘
‘‘ہاں۔۔‘‘وہ بولی۔۔‘‘پر جلدی آنا۔۔‘‘
ایلی اسے چارپائی پر لٹانے لگا تو شہزاد کا سر پلنگ کے پائے سے ٹکرا گیا۔۔
‘‘اوہ۔۔‘‘وہ بولا۔۔‘‘تمہیں چوٹ آئی ہے۔۔‘‘
‘‘اچھا ہوا۔۔‘‘وہ بولی۔۔
ظاہر تھا کہ شہزاد کو بے حد چوٹ لگی ہے۔۔
‘‘مجھ سے غلطی ہوئی۔۔‘‘ایلی نے کہا۔۔
‘‘اچھا ہوا۔۔‘‘تمہارے ہاتھوں چوٹ آنی ہی تھی مجھے۔۔‘‘
‘‘کیوں۔۔‘‘
‘‘بس۔۔اچھا ہی ہوا۔۔‘‘وہ کھانسنے لگی۔۔
وہ دیر تک اس کا سر ہاتھوں سے ملتا رہا اور پیار سے اسے دباتا رہا۔۔وہ بڑی محبت سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔
‘‘اچھا میں اب جاتا ہوں۔۔‘‘وہ بولا۔۔
شہزاد نے چپ چاپ اسے دیکھا اس کی‌آنکھوں میں آنسو تھے۔۔
قاضی پور پہنچ کر وہ سیدھا سکول پہنچا۔۔

دھندلکا

اس روز اس نے محسوس کیا کہ قاضی پور کی عمارت بہت بڑی اور خوبصورت تھی اور ملحقہ پارک بڑے سلیقے سے بنایا گیا تھا اور گراؤنڈ میں سفیدے کے درخت بہت خوبصورت لگتے تھے۔۔
سکول میں آدھی چھٹی ہو چکی تھی۔۔اساتذہ حسب معمولی باغیچہ میں بیٹھے تھے۔۔پہلی مرتبہ وہ اساتذہ کے پاس جا کھڑا ہوا۔۔
‘‘آئیے آئیے الیاس صاحب ‘‘ ایک شخص نے بڑی گرمجوشی سے اس کا استقبال کیا۔۔
‘‘آپ تو الگ تھلگ رہتے ہیں۔۔‘‘دوسرے صاحب بولے۔۔
‘‘کبھی صورت ہی نہیں دکھائی۔۔‘‘تیسرے صاحب بولے۔۔
آپ جیسی صورت ہو تو مجھے بھی دکھانے میں کوئی ہچکچاہٹ نہ ہو۔۔‘‘ایلی نے کہا۔۔
انہوں نے حیرت سےاس کی طرف دیکھا اور مسکرانے لگے۔۔
‘‘وہ صاحب۔۔‘‘ایک صاحب کہنے لگے۔۔آپ تو بولنے لگے۔۔‘‘
‘‘میرا قصور نہیں۔۔‘‘ایلی نے کہا۔۔موسم ہی ایسا ہے۔۔‘‘
‘‘تو آپ دیدرکاک ہیں۔۔‘‘دوسرے صاحب نے کہا۔۔
اس پر ایک قہقہ پڑا۔۔
اس روز وہ دیر تک اساتذہ سے باتیں کرتا رہا۔۔
شام کو وہ ہیڈ ماسٹر صاحب سے ملا اور چھٹی کی درخواست پیش کر دی۔۔
‘‘دیکھئے الیاس صاحب۔۔‘‘انصاری بولے۔۔‘‘میں ایک ماہ کی چھٹی تو منظور نہیں کر سکتا۔۔ہاں سفارش کر کے لاہور بھجوا دیتا ہوں۔۔منظور ہو جائے تو آپ شوق سے چھٹی پر چلے جائیے۔۔‘‘
‘‘کب تک منظور ہو جائے گی۔۔‘‘اس نے پوچھا۔۔
‘‘ایک ہفتہ لگے گا۔۔‘‘وہ بولے۔۔‘‘کم از کم۔۔‘‘
‘‘بہت خوب۔۔‘‘
جب وہ گھر پہنچا تو اس نے محسوس کیا کہ اسے چند چیزیں خرید کر گھر میں رکھنی چاہیں۔۔یہ خواہش ایلی نے اس شدت سے محسوس کی اور اسی وقت بازار چلا گیا تا کہ پتا لگائے
کہ آیا اسے چند ایک چیزیں کرایہ پر مل سکتی ہیں۔۔دیر تک وہ بڑے بازار میں گھومتا رہا۔۔
‘‘کیا فرنیچر کرایہ پر دیتے ہیں۔۔‘‘ اس نے پوچھا۔۔
‘‘ہاں ہاں۔۔کیوں نہیں۔۔‘‘لڑکے کے والد نے کہا۔۔‘‘آپ فرمائیے آپ کو کیا چاہیے۔۔‘‘
رات کو وہ دیر تک وہ مکان میں فرنیچر کی چند چیزیں سجاتا رہا اور پھر سو گیا۔۔اس روز اس کی دنیا ہی بدلی ہوئی تھی۔۔
ایلی کے بدلے ہوئے رویے کو دیکھ کر سبھی حیران تھے۔۔
جماعت میں وقت کاٹنے کی بجائے اس نے پڑھانا شروع کر دیا تھا۔۔نویں جماعت کے لڑکے تو اس کے دو ایک سبق دیکھ کر بہت خوش ہوئے تھے۔۔
اساتذہ بھی اب اس میں دلچسپی لینے لگے حتٰی کہ انصاری صاحب نے بھی اس تبدیلی کو محسوس کیا تھا۔۔انہوں نے ایلی کو بلا کر اس سے بات بھی کی تھی۔۔بولے :
‘‘الیاس صاحب۔۔کیا یہ ممکن ہے کہ آپ اپنی لمبی چھٹی کو ملتوی کر دیں۔۔‘‘
ایلی نے گھبرا کر ان کی طرف دیکھا۔۔
‘‘دیکھئے نا۔۔‘‘انصاری بولے۔۔‘‘امتحانات بالکل قریب ہیں۔۔اگر آپ چھٹی پر چلے گئے تو نتیجہ پر برا اثر پڑے گا۔۔‘‘
‘‘جی۔۔‘‘ایلی نے کہا۔۔‘‘لیکن مجبوری ہے۔۔‘‘
‘‘آخر آپ کس لیے چھٹی لے رہے ہیں۔۔‘‘
‘‘جی میری بیوی بیمار ہے۔۔‘‘
‘‘آپ انہیں یہاں کیوں نہیں لے آتے۔۔‘‘انصاری نے کہا۔۔
‘‘جی وہ بہت بیمار ہے۔۔‘‘
‘‘اگر میں موٹر کا انتظام کر دوں تو۔۔‘‘
‘‘شاید۔۔‘‘ایلی نے کہا۔۔‘‘شاید یہ ممکن ہو۔۔‘‘
‘‘آپ کوشش کریں گے۔۔‘‘
‘‘جی۔۔‘‘وہ بولا۔۔‘‘کروں گا۔۔اگر ممکن ہوا تو۔۔‘‘
ابھی وہ ہیڈ ماسٹر سے بات کر رہا تھا کہ ڈاکیا آ گیا۔۔اس نے ایک لفافہ سا اٹھایا ہوا تھا۔۔
‘‘جی۔۔‘‘وہ بولا۔۔‘‘الیاس آصفی۔۔‘‘
الیاس نے وہ خط ہاتھ میں تھام لیا اور بدستور ہیڈ ماسٹر صاحب سے باتیں کرتا رہا۔۔‘انصاری صاحب میرے حالات میرے بس میں نہیں۔۔کچھ ایسی الجھنیں ہیں۔۔میں کوشش ضرور کروں گا۔۔لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
‘‘ارے بھائی۔۔‘‘انصاری بولے۔۔‘‘اس تار کو پڑھ لو پہلے۔۔‘‘
‘‘تار۔۔‘‘ایلی نے ہاتھ کے لفافے کی طرف دیکھا۔۔
اس نے جلدی سے تار کھولا۔۔
‘‘کیوں۔۔خیریت تو ہے؟ ‘‘ ہیڈ ماسٹر نے پوچھا۔۔
‘‘جی۔۔‘‘ایلی چونکا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ پھر کھو چکا تھا۔۔اس نے تار ہیڈ ماسٹر کے ہاتھ میں تھما دی۔۔لکھا تھا۔۔
‘‘شہزاد کل رات فوت ہو گئی۔۔جنازہ کل صبح نو بجے ہو گا۔۔‘‘
سامنے گھڑی گیارہ بجا رہی تھی۔۔
گردوپیش پر دھندلکا چھا چکا تھا۔۔
انصاری کے ہونٹ ہل رہے تھے۔۔
باغیچے میں ایک بڑے سے پلنگ پر ایک لاش پڑی تھی۔۔
پاس ہی ایک بچہ ہاتھ اٹھا کر چلا رہا تھا۔۔‘‘ابو۔۔ابو۔۔‘‘پھر وہ بھاگ رہا تھا۔۔بھاگے چلا جا رہا تھا۔۔
‘‘اب کیا ہے۔۔اب کیا ہے۔۔‘‘لاش منہ سے چادر اٹھا کر کہہ رہی تھی راستے کی رکاوٹ۔۔ریل ہونک رہی تھی۔۔انجن چیخیں مار مار کر رو رہا تھا۔۔
تانگے والے چلا رہے تھے۔۔
پھر بہت سے لوگ دروازے اور کھڑکیوں میں کھڑے اسے گھور رہے تھے۔۔
‘‘وہ آ گیا۔۔وہ آ گیا۔۔‘‘
‘‘ہٹ جاؤ۔۔ہٹ جاؤ۔۔‘‘
‘‘اب آیا تو کیا آیا۔۔‘‘
‘‘یہ ہو کے رہے گا۔۔‘‘حاجی صاحب مسکرا رہے تھے۔۔
‘‘تم آگئے۔۔‘‘شہزاد اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔۔

محفلین

‘‘ابو۔۔ابو۔۔‘‘دو ننھے منھے ہاتھ اس کی طرف بڑھے۔۔
ایلی نے ایک بچے کو سینے سے چمٹا لیا۔۔
پھر وہ جا رہا تھا۔۔نہ جانے کہاں جا رہا تھا۔۔
چاروں طرف قبریں پھیلی ہوئی تھیں۔۔
ایک بڑی سی قبر سامنے آ گئی۔۔اس پر تازہ پھول پڑے ہوئے تھے۔۔
وہ قبر پھیلنے لگی۔۔پھیلتی گئی۔۔حتٰی کہ سارا قبرستان اس کی اوٹ میں آ گیا۔۔
پھر وہ ابھرنے لگی۔۔ابھرتی گئی زمین سے آسمان تک پھیل گئی۔۔
‘‘تم آ گئے۔۔‘‘ایک جانی پہچانی آواز آئی۔۔
پھر ایک سیلاب امنڈ آیا۔۔پانی ہی پانی۔۔وہ قبر اس پانی میں بہہ گئی پھر وہ بچوں۔۔
پھر وہ بچوں کی طرح بلبلا کر چیخیں مار رہا تھا۔۔اس سیلاب میں ڈوب رہا تھا۔۔
دفتعاً اس کی نگاہ اس بچے پر پڑی جو اس کے سینے سے چمٹا ہوا تھا۔۔‘‘ابو۔۔۔ابو۔۔‘‘
وہ اٹھ بیٹھا جیسے دفتعاً اسے سہارا مل گیا ہو۔۔جیسے زندگی میں پھر سے مفہوم پیدا ہو گیا ہو۔۔
‘‘عالی عالی ‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسے کوئی جھنجھوڑ رہا تھا۔۔
اسے عالی کو اس سیلاب سے بچانا تھا۔۔
پھر وہ بھاگ رہا تھا۔۔دیوانہ وار بھاگ رہا تھا۔۔
‘‘ابو۔۔۔ابو۔۔‘‘ریل گاڑی چیخ رہی تھی۔۔‘‘ابو۔۔ابو۔۔‘‘
سامنے شہزاد کھڑی مسکرا رہی تھی۔۔