صفحات

تلاش کریں

17- بھگوڑے

 

بھگوڑے

علی پورپہنچتے ہی ایلی نے شورمچادیا۔کبھی وہ فرحت کوآوازیں دیتاکبھی رابعہ کوتاکہ اس کی آمدکے متعلق شہزادکوعلم ہوجائے لیکن شہزادرابعہ کے چوبارے کوچھوڑکراپنے چوبارے میں جاچکی تھی ۔اس لئے اس نے ایلی کی آوازنہ سنی۔پھروہ اندھیری گلی کے راستے فرحت کی طرف چلاگیا۔






ایلی نے بہانہ بنایا۔کہنے لگا۔’’میرے افسرنے سرکاری کام سے امرتسربھیجاتھامیں نے کہادوروزکے لئے علی پوربھی ہوآؤں۔‘‘






وہ باتیں کررہے تھے کہ ملحقہ مکان سے شوراٹھا۔کوئی چیخ کررورہاتھا۔






’’کون ہے؟‘‘ایلی نے پوچھا۔






’’اے ہے۔صفدرہے۔‘‘ہاجرہ بولی۔






’’روتاکیوں ہے؟‘‘






’’کبھی روتاہے کبھی ہنستاہے کبھی سردیوارسے دے مارتاہے۔‘‘فرحت بولی۔






’’کیوں؟‘‘اس نے پوچھا۔






’’اب میں تمہیں کیابتاؤں۔‘‘






’’کوئی پردے کی بات ہے کیا؟‘‘






’’ہونہہ پردے کی۔۔‘‘فرحت چلائی۔






’’توپھربتانے میں کیاحرج ہے۔‘‘






بس دیااب بجھنے ہی کوہے۔






’’کیامطلب؟‘‘






’’ڈاکٹروں نے جواب دے دیاہے۔اللہ ماری سپرٹ پی پی کرپیپھڑاجل گیاہے۔‘‘






فرحت نے کہا۔






’’بس آج نہیں توکل۔۔‘‘ہاجرہ کی ہچکی نکل گئی۔

’’توکیوں روتی ہے اماں۔‘‘فرحت نے غصے سے کہا۔’’اے ہے۔‘‘وہ روتے ہوئے بولی۔’’میرے بھائی کابیٹاہے آخر۔‘‘’’اچھاتومیں چلتاہوں۔‘‘ایلی نے کہا۔






’’اے ہے کھاناتوکھالے۔‘‘فرحت نے کہا۔’’میراجی نہیں چاہتا۔‘‘ایلی نے کہا۔پاؤں کی چاپ سن کرایلی نے دروازے کی طرف دیکھا۔دوروازے میں شہزادکھڑی تھی۔اس کے چہرے سے اداسی اورتفکرٹپک رہے تھے۔’’کون شہزادہے۔‘‘فرحت بولی۔‘‘پہلے توناچتی ناچتی دھماچوکڑی مچاتی آیاکرتی تھی اوراب بلی کی طرح دبے پاؤں آتی ہے۔‘‘’’وقت وقت کی بات ہے ‘‘شہزادنے جواب دیا۔’’یہ ایلی کب آیا؟‘‘






’’ابھی آیاہوں۔‘‘ایلی نے روکھے اندازسے کہا۔’’مجھے توڈرلگتاہے۔‘‘شہزادنے کہا۔






’’تجھے اورڈر۔‘‘فرحت نے کہا۔’’وہ ڈرکے زمانے گزرگئے کیا؟‘‘شہزادنے آہ بھری۔’’بیت گئے۔‘‘وہ بولی۔’’کس بات کاڈرتجھے۔‘‘ہاجرہ نے پوچھا۔






’’پڑوس سے خیرکی آوازیں نہیں اٹھ رہیں ۔‘‘وہ بولی۔’’ہاں وہ توہے نہ جانے کس وقت۔‘‘۔۔فرحت رک گئی۔’’توایلی کولے جاتواپنی طرف۔‘‘ہاجرہ نے کہاہاجرہ کی اس با ت پروہ سب چونک پڑے۔فرحت نے حیرت سے ہاجرہ کی طرف دیکھا۔






’’اورجوکسی کوپتہ چل گیاتو۔۔‘‘فرحت بولی۔’’توبھی کمال کرتی ہے اماں۔‘‘






’’ہم کسی کوبتائیں گے توپتہ چلے گانا۔‘‘ہاجرہ نے کہا۔






فرحت غصے سے لال ہوگئی۔۔۔’’واہ اماں واہ۔‘‘۔۔۔






’’ویسے بھی تواس نے جاناہی ہے نا۔‘‘ہاجرہ چلائی۔’’ان دونوں کوآج تک توکوئی روک نہ سکا۔اب فضول غصہ چڑھانے سے فائدہ۔‘‘






ایلی اٹھ بیٹھا۔’’چلو شہزاد۔‘‘وہ بولا۔‘‘میں چلوں گا۔تمہارے ساتھ۔‘‘






شہزادنے حیرت سے ایلی کی طرف دیکھااورچپ چاپ اس کے آگے آگے چل پڑی۔






اب کیاہے






جب وہ چوبارے میں پہنچے توشہزادکے تینوں بچے سورہے تھے۔اس کی تین بڑی لڑکیاں صبیحہ نفیسہ اورریحانہ توپہلے ہی گروپتن کے سکول میں داخل تھیں چونکہ علی پورمیں لڑکیوں کاہائی سکول نہ تھا۔اس لئے شہزادنے گروپتن بھیج دیاتھاجوعلی پورسے بیس میل کے فاصلے پرتھااورجہاں وہ بورڈنگ میں رہتی تھیں۔دولڑکے اورایک لڑکی اورمیں بیدی اورنازاس کے ساتھ رہتے تھے۔وہ تینوں عمرمیں بہت چھوٹے تھے۔لہٰذاشام ہی سے سوگئے تھے۔اس کی ملازمہ جانوان دنوں اپنی بیٹی سے ملنے کے لئے لاہورگئی ہوئی تھی۔’’کھاناکھالو۔‘‘شہزادنے کہا۔’’میراجی نہیں چاہتا۔ایک پیالہ چائے کاپلادوالبتہ۔‘‘ایلی نے جواب دیا۔وہ چولہے پربیٹھ کرچائے بنانے لگی۔






ایلی اس کے پاس بیٹھ گیا۔دیرتک دونوں خاموش بیٹھے رہے۔’’ہاجرہ نے بڑی جرات کی ہے آج‘‘شہزادنے کہا۔’’اورتم نے بھی۔اب کیاہے۔‘‘اورپھرمدھم آوازمیں گنگنانے لگا۔






’’اب جوکچھ گزرناہے جان پرگزرجائے۔‘‘






وہ پھرخاموش ہوگئے۔






ایلی سوچ رہاتھا۔شہزادبات کیوں نہیں کرتی۔ویسے بلابھیجاہے۔لیکن خاموش ہے۔’’خط مل گیاتھا۔‘‘شہزادنے پوچھا۔’’ہاں‘‘وہ بولا۔






’’مجھ سے ملنے آئے ہو۔‘‘






’’ہاں‘‘اس نے جواب دیا۔’’مجھے پتہ تھاتم آؤگے۔‘‘وہ بولی۔






’’اچھا؟‘‘اس نے طنزاًکہا۔






’’نہ بھی آتے۔‘‘وہ بولی۔’’تومجھے گلہ نہ ہوتا۔






’’اوہ۔‘‘۔۔۔وہ پھرخاموش ہوگئے۔






’’کہاں جارہی ہو۔‘‘ایلی نے پوچھا۔






’’معلوم نہیں۔‘‘






’’پھربھی۔‘‘






’’شایدعیسائی ہوجاؤں۔‘‘






’’اس سے کیاہوگا۔‘‘






’’مزدوری کرسکوں گی۔‘‘






’’مجھے ساتھ لے چلو‘‘ایلی نے کہا۔






’’اونہوں۔‘‘وہ بولی۔






’’کیوں۔‘‘






’’بس نہیں کہہ جودیا۔۔۔‘‘وہ خاموش ہوگئے۔






’’ایک بات پوچھوں۔‘‘ایلی نے کہا۔






’’پوچھ۔‘‘






’’کیوں جارہی ہو۔‘‘






’’اب اس گھرمیں رہناناممکن ہوچکاہے۔‘‘






’’کیوں۔‘‘






’’بے عزتی کی زندگی سے بھیک مانگ لینااچھاہے۔‘‘






’’شریف آیاتھاکیا؟‘‘






’’ہاں۔‘‘






’’کب آیاتھا۔‘‘






’’جس روزتمہیں خط لکھاتھااسی روزگیاتھاوہ۔‘‘






’’کچھ کہتاتھا۔‘‘






’’کچھ کہتاتھا۔‘‘






’’بہت کچھ ۔‘‘






’’کیا؟‘‘






’’چھوڑاس بات کو۔۔۔‘‘وہ پھرخاموش ہوگئے۔






’’ادھرکادروازہ بندہے کیا؟‘‘ایلی نے پوچھا۔






’’کدھرکا۔‘‘






’’فرحت کی طرف کا۔‘‘






’’نہیں تو۔‘‘






’’کرآؤ۔‘‘






’’کیافرق پڑتاہے؟‘‘وہ مسکرائی۔






’’اگرفرحت آجائے تو۔‘‘






’’اگرہم کچھ کرنے لگ جائیں تو۔‘‘






’’توکیاہے۔۔۔‘‘وہ پھرخاموش ہوگئے۔






دیرتک وہ خاموش بیٹھے رہے۔شہزادنے چائے تیارکردی۔






’’میزپررکھ دوں۔‘‘وہ بولی۔






’’یہیں رہنے دوں۔‘‘وہ بولی۔






’’یہیں رہنے دو۔‘‘ایلی نے جواب دیا۔






’’بناؤں۔‘‘






’’ہاں ۔تم پیوگی۔‘‘






’’پیوں گی۔‘‘،






’’شہزاد۔‘‘وہ بولا۔’’کیاتم زندگی سے اکتاگئی ہو۔‘‘






’’نہیں تو۔‘‘وہ بولی۔’’ابھی کہاں۔‘‘






’’اب تووہ تڑپ نہیں رہی۔‘‘






’’اونہوں‘‘وہ بولی۔‘‘تڑپ توہے۔‘‘






’’توپھراداس کیوں ہو۔‘‘






’’اداس نہیں ۔‘‘وہ بولی۔






’’پھر‘‘






’’ڈری ہوئی ہوں۔‘‘






’’کس سے ۔‘‘






’’اس شرابی پڑوسی سے۔‘‘






’’صفدرسے۔‘‘






’’ہاں۔روزمیرادروازہ کھٹکھٹاتاہے کہتاہے مجھے معاف کردوتومروں گا۔ورنہ نہیں۔‘‘






’’توکردونامعاف ۔‘‘ایلی نے کہا۔






’’دل نہیں مانتا۔‘‘






’’اتنی سخت گیرتونہیں تو۔‘‘






’’عورت ہوں۔‘‘وہ بولی۔






’’اوہ۔۔۔‘‘اوروہ پھرخاموش ہوگئے۔






دفعتاً شہزادبولی۔’’تووہاں کیوں کھڑی ہے یہاں آجا۔‘‘






ایلی حیران تھاکس سے بات کررہی ہے۔






فرحت مسکراتی ہوئی دروازے سے نکل کراندرآگئی۔’’میں نے کہادیکھوں توکیاکررہے ہیں۔‘‘وہ بولی۔






’’یہاں بیٹھ کردیکھونا۔‘‘شہزادبولی۔’’چھپ کردیکھنے سے کیافائدہ۔‘‘






’’میں توحیران ہوں۔‘‘فرحت بولی۔’’تم دونوں ہی عجیب ہو۔‘‘






’’کیوں ۔‘‘شہزادنے پوچھا۔






’’یوں بیٹھے ہو۔جیسے صدیوں سے ایک ہی گھرمیں اکٹھے رہتے ہو۔‘‘






’’وہ توہے۔‘‘شہزادبولی۔’’صدیوں سے اکٹھے رہتے ہیں ہم۔کیوں ایلی۔‘‘






’’ہاں۔‘‘ایلی نے کہا’’صدیوں سے۔‘‘






’’اورمیں سمجھتی تھی۔‘‘فرحت ہنسی۔






’’توجوجی چاہے سمجھ تیراکیاہے۔‘‘شہزادبولی۔






اکیلی یادونوں






فرحت چندایک منٹ ٹھہری اورپھربہانہ بناکرچلی گئی۔






اس کے جانے کے بعدوہ اسی طرح چپ چاپ بیٹھے رہے۔






’’دیکھوشہزاد۔‘‘ایلی اٹھ بیٹھا۔’’اگرتم نے جاناہی ہے توچلواکٹھے چلتے ہیں۔‘‘






’’بڑی بدنامی ہوگی۔‘‘






’’پھرکیاہوا۔‘‘






’’تم برداشت نہ کرسکوگے۔‘‘






’’میری بات چھوڑو۔‘‘وہ بولا’’میں مردہوں۔سبھی کچھ برداشت کرلوں گا۔تم عورت ہو۔میری تنخواہ بہت قلیل ہے ۔تم غربت برداشت نہ کرسکوگی۔تم غربت سے واقف نہیں شہزاد‘اوراگرتم بچے چھوڑجاؤگی توتم ان کی جدائی برداشت نہ کرسکوگی۔‘‘






وہ خاموش رہی۔






’’بولونا۔‘‘ایلی نے اسے جھنجھوڑا۔






’’میں تمہیں ساتھ لے جانے کے لئے تیارنہیں۔‘‘وہ بولی۔






’’کیایہ تمہارا آخری فیصلہ ہے۔‘‘






’’ہاں۔ ‘‘وہ بولی۔






’’ایک بات کہوں۔‘‘ایلی نے پوچھا۔






’’کہو۔‘‘






’’چلواس کافیصلہ نہ تم نہ میں کرتاہوں۔‘‘






’’توپھر۔‘‘






’’دیکھیں قدرت کوکیامنظورہے۔‘‘ایلی نے کہا۔






’’وہ کیسے؟‘‘






’’آؤپرچیاں ڈال لیں۔ایک پرلکھیں دونوں دوسری پراکیلی تم ایک پرچی اٹھالو۔اگراکیلی نکلاتومیں چپکے سے چلاجاؤں گااوراگردونوں نکلاتوتم چپکے سے میری ساتھ چل پڑنا۔






وہ خاموش ہوگئی۔






’’بولومنظورہے۔‘‘ایلی نے پوچھا۔






وہ اسی طرح خاموش بیٹھی رہی۔






دیرکے بعداس نے آہ بھری۔چلوساری عمرجواکھیلاہے تواب کی باربھی سہی۔‘‘شہزادبولی۔






’’تومنظورہوانا۔‘‘ایلی نے کہا






’’لیکن میری ایک شرط ہوگی۔‘‘وہ بولی۔






’’کیا؟‘‘






’’وعدہ کرکہ اگراکیلی کی پرچی نکل آئی توتم شادی کرلوگے۔میرے جانے کے فوراًبعداورپھرزندگی بھرمجھ سے نہیں ملوگے۔‘‘






’’یہ کیسے ہوسکتاہے۔‘‘ایلی نے کہا۔






’’میر ی خاطرہمیشہ سب کچھ ہوتاآیاہے۔‘‘وہ بولی۔’’یہ بھی ہوگا۔جوبھی چاہوں گی ہوکے رہے گا۔‘‘وہ مسکرادی۔






’’کیامطلب؟‘‘






’’میں ابھی جیتی ہوں۔‘‘وہ بولی’’مجھے مردہ نہ سمجھو۔مجھ میں ابھی کس بل ہے۔‘‘اس کی آنکھوں میں چمک لہرائی۔






’’میری خاطرتم یہ بھی کروگے۔دیکھ لینا۔‘‘






’’اورنہ کروں تو۔‘‘






’’تومیراآخری فیصلہ تم سن ہی چکے ہو۔‘‘






’’یعنی جوانہیں کھیلوگی۔‘‘






’’اونہوں۔‘‘شہزادنے نفی میں سرہلایا۔






’’اچھا۔۔۔‘‘ایلی بولا۔’’مجھے منظورہے۔‘‘






’’وعدہ۔‘‘






’’تمہاری قسم۔‘‘






’’مجھے تم پریقین ہے۔‘‘






’’لیکن دونوں نکلاتومیری بھی ایک شرط ہوگی۔تمہیں وعدہ کرناہوگا۔‘‘ایلی نے کہا۔






’’کیا؟‘‘






’’اگربچوں کوساتھ لے جاؤگی توغربت برداشت کرنی پڑے گی اوراگربچوں کوساتھ نہ لے جاؤگی توان کاغم نہ کھانا۔ورنہ تمہاری زندگی تلخ ہوجائے گی۔‘‘






’’ہوں۔‘‘وہ سوچنے لگی۔






’’میں بتاؤں۔‘‘ایلی بولا۔






’’کیا۔‘‘






’’تم لڑکیوں سے سچی بات کہہ دینااورپوچھ لینا۔انہیں یہ بھی بتادیناکہ بھوکوں مرناپڑے گا۔‘‘






’’ٹھیک ہے۔‘‘وہ بولی۔






’’توپرچیاں لکھ دو۔‘‘






وہ اٹھی۔ٹرنک سے کاپی کاورق پھاڑا۔پنسل لی اورلکھنے بیٹھ گئی۔






دفعتاً نہ جانے اسے کیاہوا۔اس کی آنکھوں میں آنسوبھرآئے اورہاتھ کانپنے لگا۔اس نے پنسل میزپررکھ دی اوردونوں ہاتھوں میں سرتھام کررونے لگی۔






’’شہزاد۔شہزاد۔‘‘ایلی نے اسے جھنجھوڑالیکن وہ جوں کی توں پتھرکی طرح بیٹھی رہی۔






میں نہیں مروں گا






۔۔عین اس وقت ملحقہ کمرے سے شورسنائی دیا۔






’’نہیں نہیں۔میں نہیں مروں گا۔نہیں مروں گا۔‘‘صفدرچلارہاتھاوہ کمرے میں ادھرسے ادھراورادھرسے ادھرپھررہاتھا۔






’’نہیں نہیں نہیں نہیں۔‘‘وہ چلائے جارہاتھا۔






شہزادنے سراٹھایااورغورسے سننے لگی۔






’’ننھی کے اباننھی کے ابا۔‘‘صفدرکی بیوی اس کی منتیں کررہی تھی۔’’خداکے لئے ان چھوٹے چھوٹے بچوں کے لئے ۔‘‘






’’چلی جاؤچلی جاؤ۔‘‘وہ چلانے لگا۔






’’ان بچوں پررحم کرو۔میں تمہارے پاؤں پڑتی ہوں۔‘‘وہ رورہی تھی۔






’’چلی جاؤ‘چلی جاؤ۔مجھ پرکسی نے رحم نہیں کیا۔میں کسی پررحم نہیں کروں گا۔‘‘






’’اپنے آپ پررحم کرو۔یہ زہرنہ پیئو۔‘‘اس کی بیوی بولی۔






’’ہٹ جاؤ‘ہٹ جاؤ۔دفعہ ہوجاؤ۔‘‘وہ چیخ رہاتھا۔






’’خداکے لئے خداکے لئے۔‘‘وہ کراہ رہی تھی۔






پھرملحقہ کمرے پرخاموشی چھاگئی۔۔۔وہ دونوں دیرتک خاموش بیٹھے رہے۔






’’شہزاد۔‘‘ایلی بولا۔’’کیاسوچ رہی ہو؟‘‘






’’کچھ بھی نہیں۔‘‘






’’میری طرف دیکھو۔‘‘






شہزادنے سراٹھایا۔اس کی گالوں پرآنسوڈھلک رہے تھے۔






ایلی سوچ رہاتھا۔نہ جانے صفدرکے متعلق کونسی بات تھی۔جوشہزادچھپارہی تھی۔






وہ توطبعاً بے نیازتھی۔کسی بات کودرخوراعتنانہیں سمجھتی تھی۔پھرکیابات تھی۔جس کی وجہ سے اس کے آنسونہیں رکتے تھے۔ایلی کوکچھ سمجھ میں نہیں آرہاتھا۔






’’شہزاد۔‘‘وہ بولا۔’’آخربات توہے کوئی۔‘‘






’’کچھ بھی نہیں۔‘‘وہ بولی۔






اچھاتویہ پرچیاں تولکھو۔






’’لکھتی ہوں۔‘‘وہ بولی اورویسے ہی بت بنی بیٹھی رہی۔






ملحقہ کمرے میں بالکل خاموشی تھی۔صرف لمبے لمبے سانس لینے کی آوازآرہی تھی۔






۔۔۔دیرتک وہ پھرخاموش بیٹھے رہے۔






ملحقہ کمرے سے ٹک ٹک کی آوازآرہی تھی۔کوئی دیواربجارہاتھا۔شہزادکے کان کھڑے ہوگئے۔






’’دیواربجارہاہے کیا۔‘‘ایلی نے پوچھا۔






’’شہزادنے اثبات میں سرہلایا۔






’’کون ہے۔‘‘اس نے پوچھا۔






شہزادنے پھراثبات میں سرہلایا۔






ایلی بجھ گیا۔لیکن صفدردیوارکیوں بجارہاہے ۔یہ اسے سمجھ میں نہ آیا۔






’’مجھے معاف کردو۔مجھے معاف کردو۔‘‘صفدرکی مدھم آوازسنائی دی۔






شہزادخاموش بیٹھی رہی۔






’’وہی ہے کیا۔‘‘ایلی نے پوچھا






شہزادنے اثبات میں سرہلایا۔






’’توکہہ دومعاف کردیا۔‘‘ایلی نے کہا۔






شہزادنے براسامنہ بنایا’’دل نہیں مانتا۔‘‘وہ بولی۔






’’توجھوٹ موٹ کہہ دو۔‘‘ایلی نے کہا۔






’’جب تک میں نہیں مروں گا۔‘‘صفدرباآوازبلندچیخنے لگا۔حتیٰ کہ اسے کھانسی کادورہ پڑگیااور’’کہہ کیوں نہیں دیتی۔‘‘ایلی نے پوچھا۔






’’ساری عمرجان کنی کے عذاب میں مبتلارہے ۔‘‘شہزادبولی۔






ایلی نے حیرت سے شہزادکی طرف دیکھا۔یہ شہزادبول رہی تھی۔نہیں نہیں۔وہ تواتنی سخت دل نہ تھی۔پھرکون بول رہی تھی۔ایلی کے لئے شہزادکی شخصیت کایہ پہلونیاتھا۔جس سے وہ آج تک واقف نہ ہواتھا۔






کچھ دیرملحقہ کمرے پرخاموشی چھائی رہی۔پھردیوارپرپھرسے ٹک ٹک ہونے لگی۔






’’کہہ کیوں نہیں دیتی۔‘‘ایلی بولا۔






شہزادخاموش بیٹھی رہی۔






’’میری خاطرکہہ دو۔‘‘ایلی نے منت کی۔






’’جی نہیں مانتا۔‘‘وہ بولی۔






’’کہ دیتی ہوں۔صرف ہونٹوں سے۔‘‘






’’توکہہ دو۔‘‘






شہزادنے ٹرنک سے تالہ اٹھایااوراسے دیوارپرمارنے لگی۔ٹھک ٹھک ٹھک پھروہ رک گئی۔






صفدرنے پھردیواربجائی۔






شہزادنے پھرتالہ دیوارپرمارا۔ٹھک ٹھک ٹھک






دفعتاً صفدرچلایایہ تم ہو۔تم ہو۔بولو۔‘‘






’’ہاں‘‘وہ باآوازبلندبولی۔’’میں نے معاف کیا۔‘‘






ملحقہ کمرے سے نعروں کی آوازیں آنے لگیں۔کوئی چیخ رہاتھا‘ناچ رہاتھا۔قہقہے ماررہاتھا۔کھانسی پھرچھڑگئی۔پھروہی قے کرنے کی آوازاورپھرخاموشی چھاگئی۔






دیرتک وہ دونوں خاموش بیٹھے رہے۔






’’اب پرچی لکھونا۔‘‘ایلی نے کہا۔






’’ہاں پرچی۔‘‘شہزادگویاخواب سے بیدارہوئی۔






پرچیاں لکھتے وقت اس کاہاتھ کانپ رہاتھا۔آنکھیں آنسوؤں سے بھری تھیں ۔اس نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے کاغذکے ان دونوں پرزوں کوتہہ کیااوربولی۔’’اب اٹھاؤ۔‘‘






’’میں نہیں۔‘‘ایلی بولا۔’’تم اٹھا۔‘‘ایلی نے پرچیوں کومٹھی میں لے کرہلایا۔






شہزادنے ایک پرچی اٹھائی۔’’کھولو۔‘‘وہ بولی۔






’’نہیں تم خودکھولو۔‘‘ا س سے کہا۔






شہزادنے اسے کھولا۔’’دونوں‘‘دیکھ کروہ مسکرائی ۔لیکن اس کی آنکھوں میں آنسوتھے۔






عین اس وقت ملحقہ کمرے میں صفدرکی بیوی کے بین شروع ہوگئے۔






ایلی چونکا۔’’کیامرگیا؟‘‘وہ بولا۔






’’ہاں۔‘‘شہزادنے جواب دیا۔’’جان چھٹی۔‘‘۔۔۔لیکن اس کی آنکھوں سے ابھی تک آنسورواں تھے۔






ایلی کوسمجھ نہیں آرہاتھا۔کہ وہ آنسوغم کے تھے یاخوشی کے۔






’’تم اب جاؤ۔‘‘شہزادبولی۔’’مرگ پرسارے محلے والے اکٹھے ہوں گے۔‘‘






’’اچھا۔‘‘ایلی نے کہا۔’’کل میں چلاجاؤں گا۔انتظام کرنے کے لئے۔انتظام کرکے واپس آؤں گا۔تم تیاررہنا۔‘‘






شہزادنے اثبات میں سرہلایا۔’’دیرنہ لگانا۔‘‘وہ بولی۔






’’نہیں۔‘‘ایلی بولا‘جلدآؤں گا۔‘‘وہ دبے پاؤں فرحت کے گھرکی طرف چل پڑا۔






وکیل میم






لاہورپہنچ کرایلی سوچنے لگاکہ اسے کیاتیاری کرنی ہے۔اسے قانون سے چنداں واقفیت نہ تھی اورنہ ہی اسے کسی لڑکی کوبھگاکرلے جانے کاتجربہ تھا۔شہزادنے کئی باراسے بتایاتھاکہ شریف کے ساتھ اگرایسی واردات ہوجائے توقانونی طورپرکوئی اقدام نہیں کرے گا۔میدان میں آکرلڑنے کی بجائے شایدوہ خودمعدوم ہوجائے گا۔






بہرحال اگراس نے کوئی اقدام کیاتواسے معلوم ہوناچاہیئے کہ قانونی طورپروہ کس طورزدمیں آتاہے۔ایلی نے کورٹ روڈپردوچکرلگائے اوروکلاء کے بورڈپڑھنے لگا۔لیکن اس میں اس قدرہمت نہ پڑتی تھی کہ کسی وکیل کے پاس جائے۔






اپنی کوٹھی کے باغیچے میں ایک معمروکیل کوبیٹھے دیکھ کراس نے اندرداخل ہونے کی شدیدکوشش کی لیکن اس کے قدم رک گئے عین اس وقت وکیل کامنشی آگیا۔






’’کیوں مہاراج۔‘‘وہ بولا۔‘‘آپ لالہ جی سے ملیں گے۔‘‘






’’ہاں۔‘‘ایلی نے مشکل سے کہا۔






’’توآؤناوہ سامنے بیٹھے ہیں۔‘‘






ایلی کومجبوراًلالہ جی کے پاس جاناپڑا۔‘‘آداب عرض۔‘‘وہ بولا۔






’’نمستے۔‘‘وکیل نے جواب دیااورکتاب ایک طرف رکھ دی۔’’ہوں کیابات ہے۔‘‘






’’مجھے آپ سے مشورہ کرناہے۔‘‘






’’ہوں۔‘‘وہ حقے کاکش لے کربولے۔






’’اغواکاکیس ہے۔‘‘ایلی نے بصدمشکل کہا۔پھروہ گھبراگیا۔’’میرامطلب ہے۔ایوپمنٹ کا۔یعنی۔‘‘وہ رک گیا۔اس کاگلاسوکھ گیاتھا۔






’’کیاکیس ہے۔‘‘وہ بولے۔






’’اگرایلوپمنٹ کی جائے۔تو اس میں قانونی زدکیاکیاہوسکتی ہے۔‘‘






’’یہ توکوائف پرمنحصرہے۔‘‘لالہ جی بولے۔






’’میرامطلب ہے۔‘‘ایلی بصدمشکل کہا۔’’کیاکوائف ہونے چاہیں؟‘‘






’’یعنی کیامطلب ہے؟‘‘






’’مطلب ہے یعنی۔۔۔‘‘






’’دیکھونوجوان۔‘‘لالہ جی نے بولے۔’’کیاارتکاب جرم ہوچکاہے؟‘‘






’’جی نہیں۔‘‘وہ بولا۔






لالہ جی قہقہہ مارکرہنسنے لگے۔






’’کیاتم اس کے ہیروہوگے۔‘‘لالہ جی نے پوچھا۔






’’جی۔‘‘ایلی نے اثبات میں سرہلایا۔






’’لڑکی کی عمرکیاہے؟‘‘وہ بولے۔






’’عمر۔۔۔‘‘ایلی کے گلے میں کچھ پھنس گیا۔’’معلوم نہیں۔‘‘وہ بولا۔






’پھربھی اندازاً‘‘






’’اس کے چھ بچے ہیں۔‘‘






لالہ جی کے آنکھیں ابل آئیں۔’’نوجوان وہ بولے تمہیں کسی ڈاکٹرسے ملناچاہیئے وکیل سے نہیں۔‘‘






لالہ جی کی کوٹھی سے نکل کرایلی نے اطمینان کاسانس لیا’’کچھ پروانہیں۔‘‘اس نے اپنے آپ کوتسلی دی۔’’جوہوگادیکھاجائے گا۔‘‘اورلالہ جی سے ملنے کی کوفت مٹانے کے لئے وہ سینماہال میں جاگھسا۔






سینماسے نکل کرجب وہ انارکلی میں جارہاتھاتومحمودکودیکھ کرٹھٹھکا۔’’ارے تم؟‘‘






’’میں یہیں ہوں۔‘‘محمودبولا۔






’’یہاں تبدیلی ہوگئی ہے کیا۔‘‘






’’نہیں چھٹی پرہوں۔‘‘محمود نے کہا’’لمبی چھٹی پر۔‘‘






’’کیوں؟‘‘






’’یہاں کالج میں داخل ہوگیاہوں۔بی اے کررہاہوں۔‘‘






’’ارے ۔اورزد۔‘‘






محمودہنسا۔’’پرایادھن۔‘‘وہ بولا۔






’’کس کا؟‘‘






’’اسی کا۔‘‘






’’اسی کس کا۔‘‘






’’میری میم کا۔‘‘






’’ارے ۔کیاوہ تمہاری بن گئی ہے۔‘‘






’’شایدنہ بنتی لیکن مسٹرفلپ نے اس روزحملہ کرکے اسے اٹھاکرمیری گودمیں ڈال دیا۔‘‘






’’وہ کس طرح۔‘‘ایلی نے پوچھا۔






’’بھئی عورت ہے۔ضدمیں آگئی۔بولی یوں ہے توچلویونہی سہی۔‘‘






’’تووہ میم کہاں ہے آج کل ۔‘‘ایلی نے پوچھا۔






’‘میرے پاس ہے۔‘‘






’’کہاں؟‘‘






’’مکان کرائے پرلے رکھاہے ۔چلوگھرچلیں۔تمہیں اپناگھردکھاؤں۔‘‘






گھرجاکرایلی نے محمودکواپنی مشکل سے آگاہ کیا۔محمودسٹپٹاگیا۔’’ارے چھ بچوں کی ماں کواغواکررہے ہو۔بلکہ وہ تمہیں اغواکررہی ہے۔یاراگرخاوندنے قانونی چارہ جوئی کی تواندرہوجاؤگے۔‘‘






’’پھرکیاہے۔‘‘ایلی بولا۔’’مجھے ڈراؤنہیں۔مشورہ نہ دو۔امدادکرو۔‘‘






’’جتنی مددکہوگے کروں گا۔بشرطیکہ میں قانون کی زدمیں نہ آؤں۔‘‘محمودہنسنے لگا۔






’’چھ بچوں کی ماں ہے وہ کیا۔‘‘میم نے مسکراکرپوچھا۔






’’جی ہاں۔‘‘ایلی نے جواب دیا۔






’’تمہارارومینس ہے۔‘‘اس نے پوچھا۔






’’سولہ سال سے۔‘‘ایلی نے جوا ب دیا۔






’’سولہ سال‘‘اس کی آنکھوں میں چمک لہرائی۔






’’حرام زادی۔‘‘محمودغصے میں چلایا۔‘‘’’اس کی آنکھ کی چمک دیکھو۔‘‘






’’تم توخواہ مخواہ بگڑتے ہو۔‘‘میم نے یوں لاڈسے کہاجیسے بچی ہو۔






’’ابھی رومینس کی لت نہیں گئی کیا۔‘‘محمودنے اسے پکڑکرگرالیااوراوندھاکرکے اس کے چوتڑوں پریوں مکے مارنے لگا۔جیسے سکول کی بچی کوسرزنش کررہاہو۔






’’ہائے مری ہائے مری۔‘‘میم چلارہی تھی۔






’’میرے دوست پرللچائی نظریں ڈالتی ہے تو۔‘‘محمودغرارہاتھا۔






ایلی حیران تھا۔اس کے ذہن میں میم کاتخیل کچھ اورتھا۔یہ عجیب میم تھی اورمحمودعجیب آدمی تھا۔جومیم کامحتاج ہونے کے باوجوداسے یوں پیٹ رہاتھا۔جیسے وہ اس کی ہاؤس میڈہو۔بہرحال محمودسے کوائف طے کرنے کے بعدوہ ڈیرہ آگیا۔






تیرہ لفظ






ڈیرہ پہنچ کربھی اس کے کانوں میں محمودکامشورہ گونج رہاتھا۔محمودنے کہاتھا۔’’ایک بات یادرکھو۔اپنی ڈیوٹی پرحاضررہنا۔روپوش نہ ہوجاناورنہ مارے جاؤگے۔‘‘






ایلی نے ڈیرہ پہنچ کراس کے توسط سے ایک مکان کرایہ پرلے لیا۔تاکہ شہزادکووہاں رکھ سکے اس انتظام کے باوجودوہ سخت گھبرایاہواتھا۔






پہلے روزجب وہ غلام کے گھرگیا۔توغلام اسے دیکھ کربولا۔






’’کیوں خیریت توہے۔‘‘






’’بالکل ‘‘ایلی نے جواب دیا۔






’’معلوم نہیں ہوتی۔‘‘غلا م نے کہا۔






نہ جانے کیابات تھی۔ہرکوئی اس سے یہی سوال پوچھتاتھا۔کیاواقعی اس کے چہرے پرپریشانی اورتفکرکے آثاراس حدتک نمایاں تھے۔






’’الیاس بھائی۔‘‘غلام بولا’’اپنے آپ سے لڑوگے توبندبندچغلی کھائے گا۔‘‘






’’میں کیااپنے آپ سے لڑرہاہوں۔‘‘






’’ظاہرہے۔‘‘وہ بولاپھرغلام نے پیارسے ایلی کاہاتھ تھام لیااوربولا’’بھائی ایک بات کہتاہوں۔جوبھی کرناہے کرڈالو۔سوچونہیں ورنہ سوچ کاآراچلتاہے۔بری طرح چلتاہے۔‘‘






ایلی کئی بارچاہتاتھاکہ غلام سے ساری بات کہہ دے‘لیکن اس کی زبان گنگ ہوجاتی تھی۔






ہمت نہ پڑتی تھی۔اس روزبھی اس نے بات کرناچاہی لیکن ہمت نہ پڑی اوروہاں سے چلاآیا۔پھرجب وہ چپ چاپ اپنے کمرے میں بیٹھاتھاتونورانی خلاف معمول ایلی کے کمرے میں آگیا۔






’’الیاس صاحب۔‘‘وہ بولا’’معاف کیجئے میں نے دیکھاہے کہ آپ سخت پریشان ہیں۔‘‘






ایلی نے محسوس کیاکہ اسے جھٹلانابے کارہے۔’’ہاں ہوں۔‘‘وہ بولا۔






’’میں کوئی مددکرسکتاہوںکیا؟‘‘






’’نہیں ۔‘‘ایلی نے کہا۔






’’توپھر؟‘‘






’’بات یہ ہے نورانی صاحب کہ میں مستقبل کے متعلق پریشان ہوں۔‘‘ایلی نے جواب دیا۔






’’تومیں آپ کی مددکرسکتاہوں۔‘‘نورانی بولا’’ضرورکرسکتاہوں۔‘‘






’‘وہ کیسے ۔‘‘ایلی نے پوچھا۔






’’میں علم جعفرسے واقف ہوں۔‘‘نورانی نے کہا’’کیاآپ اپناسوال مجھے بتاسکتے ہیں۔‘‘






’’نہیں ۔‘‘ایلی نے کہا’’وہ ایک رازہے۔‘‘






’’اچھا۔‘‘نورانی بولا’’توآپ نہ بتائیے۔میری ہدایات پرعمل کیجئے ۔‘‘






’’وہ کیسے ؟‘‘






’’اپناسوال تیرہ الفاظ میں لکھ دیجئے۔‘‘نورانی کہنے لگا’’شرط یہ ہے الفاظ تیرہ ہوں نہ کم نہ زیادہ مثلاً میں بی ۔اے کے امتحان میں پاس ہوجاؤں گا۔جوامسال ہوگا۔دیکھئے اس سوال میں تیرہ الفاظ ہیں اوراس کامتن معانی کے لحاظ سے مکمل ہے۔‘‘






اس کے بعدنورانی نے ایلی کوایک لمباچوڑاعمل بتایا۔ان الفاظ کوابجدکے ہندسوں میں بدلناتھااوراسی طرح تیرہ مرتبہ بدلناتھااورپھران کامجموعہ نکالناتھا۔نورانی بیٹھ گیااوراس عجیب وغریب عمل میں ایلی کی مددکرنے لگا۔جب مجموعہ نکال چکاتونورانی بولا۔’’اب ذراٹھہرئیے۔میں باہرجاکرستاروں کی پوزیشن دیکھ لوں۔‘‘






ایساہی ایک جملہ آپ لکھیں جس میں پورامفہوم موجودہو۔مجھے بے شک نہ بتائیں۔






ایلی نے تیرہ لفظوں کاجملہ لکھا۔






کیایہ اغوامیرے اورشہزادکے لئے باعث خوشی یاپریشانی ہوگا۔






نورانی باہر نکل گیااوروہاں کھڑاگویاعجیب عجیب منترپڑھتارہا۔مشتری،اسد،زہرہ،سرطان اورنہ جانے کیاکیانام لیتارہا۔






پھروہ اندرآگیا۔’’ستاروں کے لحاظ سے۔‘‘وہ بولا’’آپ اس مجموعے میں ۲۱۵جمع کرلیجئے۔‘‘






’’جی‘‘ایلی نے جمع کرکے کہا۔






’’اب آپ ازسرنوانہیں حروف میں بدل لیجئے۔‘‘






ایلی نے ایسی ہی کیااوروہ حیران رہ گیا۔اس سامنے تیرہ الفاظ کاایک مکمل جملہ بناہواتھا۔






’’یہ فعل آپ کے اورلواحقین کے لئے باعث ذلت ورسوائی ہو۔‘‘






’’کیامیں جواب دیکھ سکتاہوں۔‘‘نورانی نے کہا۔






ایلی نے وہ چٹ جس پرجواب لکھاتھا۔نورانی کی طرف بڑھادی۔اس کارنگ زردہورہاتھا۔چہرے پرہوائیاں اڑرہی تھی۔






’’مجھے افسوس ہے۔‘‘نورانی بولا۔






’’مجھے بھی ہے۔‘‘ایلی نے کہا’’لیکن میرافیصلہ بدل نہیں سکتا۔‘‘






’’الیاس صاحب۔‘‘نورانی بولا’’میں دوست ہوں ناصح نہیں البتہ اگرکبھی میری مدد کی ضرورت پڑجائے توآپ مجھ پربھروسہ کرسکتے ہیں۔‘‘یہ کہہ کرنورانی باہرنکل گیا۔






’’یہ ہوکے رہے گا۔ہوکے رہے گا۔اللہ اچھاکریں گے۔‘‘حاجی صاحب کی گردن روئی کے گالے کی طرح لرزرہی تھی۔






’’اپنے آپ سے نہ لڑو۔‘‘غلام مسکرارہاتھا۔’’جوکرناہے کرڈالو۔کرڈالو۔‘‘






’’تم قیدہوجاؤ گے۔‘‘محمودچلارہاتھا۔






’’تمہیں ڈاکٹرسے مشورہ کرناچاہئے۔‘‘لالہ جی اسے گھوررہے تھے۔






دھمکی






آٹھ روزکے بعدایلی لاہورسٹیشن پربے تابی سے ان کاانتظارکررہاتھا۔






شہزادکی لڑکیوں نے اعلان کردیاتھاکہ وہ ہرحالت میں ماں کاساتھ دیں گی۔انہیں غربت اوربھوک کی تکلیف کاتصورہی نہ تھا۔






شہزادکی تینوں بڑی لڑکیاں ہنسوڑتھیں۔وہ ہربات پرہنستی تھیں۔ہنسے چلی جاتی تھیں۔بات بات پران کی مسرت میں یوں ابال آتاتھا۔جیسے سوڈے میں نمک کی چٹکی ڈال دی ہو۔






سب سے بڑی صبیحہ تھی۔اس کاچہرہ بے حدمعصوم تھا۔طبیعت میں بلا کی سادگی تھی۔لیکن ذہنی چمک نہ تھی۔نفیسہ اس سے چھوٹی تھی اس کارنگ سانولاتھا۔وہ بے حدتیزاورذہین تھی۔لیکن بات بات پرہننے میں وہ نفیسہ کی ساتھی تھی۔تیسری جسمانی طورپربھی صبیحہ اورنفیسہ کی طرح رنگین نہ تھی۔اسے مزاح پیداکرنانہیں آتاتھا۔البتہ بہنوں کی دیکھادیکھی اس نے بھی بات بات پرہنسناسیکھ لیاتھا۔طے شدہ انتظامات کے مطابق شہزادنے علی پورسے گروپتن لڑکیوں سے ملنے جاناتھااورپھرگورپتن سے محمودنے انہیں لاہورلے آناتھا۔جہاں سے ایلی انہیں ڈیرہ لے جارہاتھا۔ڈیرہ میں ایلی نے خفیہ طورایک الگ مکان ان کی رہائش کے لئے کرایہ پرلے رکھاتھا۔






ایلی سخت گھبرایاہواتھا۔مگرجب وہ لاہورپہنچے اورایلی انہیں لے کرڈیرہ کی گاڑی میں بیٹھ گیاتوشہزادکی لڑکیوں کی مسلسل ہنسی نے اس کافکردورکردیا۔






خطرے کاذکرکیاتووہ ہنس پڑی۔وہ بولی۔ہماراکوئی کیابگاڑے گا۔جہاں جی چاہے گارہیں گے جہاں نہیں جی چاہے گانہیں رہیں گے۔اب مزیدبے عزتی برداشت نہ ہوئی توچلی آئی۔لڑکیاں اپنی مرضی سے آئی ہیں۔واپس لیناچاہے تولے لے۔‘‘






’’لیکن اگراس نے چارہ جوئی کی تو۔‘‘ایلی نے پوچھا۔






’’پڑاکرے میں بھری کچہری میں جواب دوں گی اسے تم کیوں غم کھاتے ہو۔‘‘وہ بولی۔






انہیں ڈیرہ میں رہتے ہوئے دس روزہوگئے۔لیکن کوئی ایساواقعہ نہ ہوجوباعث فکرہوتا۔گیارہویں دن محلے کے ایک بزرگ سکول میں آگئے اورہیڈماسٹرکے کے توسط سے ایلی سے ملے۔ایلی کویہ خیال بھی پیدانہ ہواکہ وہ شہزادکے سلسلے میں آئے ہیں۔ایلی انہیں اپنے گھرلے گیا۔جب انہوں نے گھرکوغورسے دیکھناشروع کیاتوایلی کوماتھکاٹھنکا۔کچھ دیر کے بعدانہوں نے ایلی سے بات کی ۔






بولے۔’’بھئی بات یہ ہے کہ مجھے شریف سے یہاں بھیجاہے۔‘‘






’’شریف نے؟‘‘






’’ہاں۔‘‘وہ بولے ۔شایدتمہیں علم ہوگاکہ شہزاداپنے تمام بچے لے کرچلی گئی ہے۔‘‘






’’چلی گئی ہے؟‘‘ایلی نے مصنوعی تعجب سے کہا۔






’’یہاں ہم صرف اس لئے آئے ہیںکہ تم سے کہیں کہ تم شہزادکی مددکرناورنہ خواہ مخواہ دقتیں بڑھ جائیں گی۔چونکہ شریف کہتاہے کہ وہ اس بارے میں سخت کاروائی کرے گا۔‘‘






وہ بزرگ ایلی کودھمکی دے کرچلے گئے۔






جب وہ شہزادکے پاس گیااوراس نے یہ قصہ بیان کیاتووہ ہنس پڑی۔’’اونہہ‘‘وہ بولی’’سخت کاروائی کرنے والے دھمکیاں نہیں دیتے کرگزرتے ہیں۔‘‘






بہرحال اس بزرگ کے آنے کایہ نتیجہ ہواکہ ایلی نے فیصلہ کرلیاکہ و ہ ڈیرہ نہیں رہیں گے اوراگلے روزہی وہ ایک ماہ کی چھٹی لے کرجملہ لوگوں کوساتھ لے کرامرتسرچلاگیا۔






طوفان






ادھرشریف چھٹی لے کرعلی پورآگیا۔جب اس نے دیکھاکہ اس کے بنے بنائے گھرمیں دھول اڑگئی ہے۔اس کی بیوی اوربچے تمام اسے چھوڑکرجاچکے ہیں۔تواس میں ایک عجیب تبدیلی واقع ہوئی۔وہ شریف جس نے کبھی محلے میں سرنہ اٹھایاتھا۔جسے کسی نے اونچی آوازسے بات کرتے ہوئے نہ سناتھا۔جس کی آوازتک کبھی محلے میں نہ گونجی تھی وہ شریف احاطے کے میدان میں آکھڑاہوا۔اس کی آنکھیں سرخ ہورہی تھیں۔منہ سے کف جاری تھا۔وہ چلارہاتھا۔محلے والوں کے احساس خودداری کوللکاررہاتھا۔لوگوں کوغصہ دلارہاتھا۔اپنی لٹی ہوئی دنیاکاواسطہ دے کرانہیں علی احمدکے گھرانے کے خلاف ابھاررہاتھا۔






شریف کی آوازسن کرمحلے کی عورتیں کھڑکیوں میں آگئیں انہوں نے ہاتھ چلاچلاکرشریف کی شرافت کوسراہا۔جوظلم اس پرہواتھا۔اس میں رنگ بھرکرشہزادکے قصے بیان کئے اورشریف کومزیدابھارا۔اس محلے کے مرداکٹھے ہوگئے۔






’’ان کاحقہ پانی بند کردو۔‘‘کسی نے نعرہ بلندکیا۔






’’بندکردوبندکردو۔‘‘وہ نعرہ چاروں طرف گونجا۔






عورتوں نے علی احمد کے خاندان کے جملہ لوگوں پرلعنتیں بھیجناشروع کردیں۔مردوں نے لٹھ اٹھاکرلہرائے نوجوانوں نے قسمیں کھائیں۔






’’محلے سے نکل جاؤ۔‘‘وہ چلائے ’’نکل جاؤ۔‘‘






گھرمیں ہاجرہ فرحت سیدہ سب سہمی بیٹھی تھیں۔ان کے دروازے پرپتھروں کی بارش ہورہی تھی۔ان کے خلاف آوازے بلندہورہے تھی۔لیکن علی احمداطمینان سے گھرمیں بیٹھے روزکاحساب کتاب لکھنے میں مصروف تھے۔جیسے کوئی بات ہی نہ ہو۔






’’میں کہتی ہوں یہ ایلی ہی کاکام ہے۔‘‘ایک بولی۔






’’جوجویہاں ہوتارہاہے اسے دیکھ کرہماری توآنکھیں پک گئی تھیں۔گندمچارکھاتھااس اللہ کی بندی نے ۔‘‘






اعلانیہ ملتے تھے وہ کیوں ماں۔‘‘






’’بالکل لیکن خاوندنے آنکھیں موندرکھیں تھیں۔ہم کس منہ سے بات کرتے۔‘‘






’’اے سچ پوچھوتوشریف کی شرافت نے جلتی پرتیل ڈالا۔ورنہ انہیں اتنی جرات نہ ہوتی کبھی۔‘‘






’’وہ کہتے ہیں ناکہ گرباکشتن روج اول۔‘‘






محلے کے اس طوفان نے خوفناک صورت اختیارکرلی۔علی احمداورہاجرہ سے متعلقہ پرانی دشمنیاں جاگ اٹھیں۔لوگ پرانے انتقام لینے پرآمادہ ہوگئے اورشریف کوخوفناک مشورے دینے لگے۔






نیتجہ یہ ہواکہ شریف نے شہزادکی بجائے نابالغ لڑکیوں کے اغواکامقدمہ دائرکردیا۔پھرنہ جانے انہیں کہاں سے خبرمل گئی کہ ایلی امرتسرمیں چھپاہواہے۔وہ سب لاٹھیاں اٹھاکرامرتسرآگئے ۔






ایلی جونہی امرتسرپہنچاتونہ جانے کیاہوا۔اس چہرے پرپھنسیاں نکل آئیں اورپھرسب پھٹ گئیں۔ان میں سے پانی رسنے لکا۔ایلی کوکسی اچھے ڈاکٹرکاپتہ نہ تھا۔چونکہ امرتسرکاوہ علامہ جس میں انہیں مکان ملاتھا۔بالکل نیاتھا۔جس سے ایلی واقف نہ تھا۔لہٰذااس نے گھرسے دورجانامناسب نہ سمجھاان کے گھرکے قریب ہی ایک جراح کے دوکان تھی وہ جراح کی پاس چلاگیا۔






’’یہ کیانکلاہے مجھے۔‘‘اس نے جراح سے کہا۔






’’یہ اگزیماہے۔‘‘جراح نے کہا’’میرے پاس کاخاص علاج ہے۔‘‘جراح نے پرانے کپڑے کابڑاساٹکڑاجلایااورجلے ہوئے کپڑے کوان سوراخوں میں بھردیا۔جوایلی کے منہ پرپھنسیوں کے پھوٹنے کی وجہ سے پیداہوگئے تھے۔ایلی نے آئینہ دیکھا۔اس کی ہنسی نکل گی۔ایسے معلوم ہوتاتھا۔جیسے سرکس کاکارٹون ہو۔






وہ دوکان سے باہر نکلنے لگاتواس نے دیکھاکہ محلے کہ سات آٹھ افرادہاتھوں میں لاٹھیاں لئے آرہے ہیں۔






ایک ساعت کے لئے وہ ٹھٹھکاپھرپتھربن کرکھڑاہوگیا۔






قریب آکروہ رک گئے پھرساتھ والے دوکان دارسے کہنے لگے’’شیخ عثمان صاحب آپ نے ہمارے محلے کاکوئی شخص تونہیں دیکھا؟‘‘






’’نہیں تو۔‘‘عثمان نے جواب دیا۔پھروہ آگے کی طرف چل پڑے۔






ایلی نے پہلی مرتبہ محسوس کیاکہ محلے والے اسے تلاش کررہے تھے۔اگراس کامنہ نہ پھٹایااس پرجلی ہوئی دھجیاں نہ لگی ہوتیں تونہ جانے کیاہوتا۔






ایلی گھرپہنچاتوگھرکانقشہ ہی اورتھا۔وہ سب تاش کی گڈی سامنے رکھے بیٹھے ہوئے تھے۔نفیسہ ناچ رہی تھی۔ صبیحہ اورریحانہ ہنس ہنس کردوہری ہوتی جارہی تھیں۔اویس چلاچلاکرنہ جانے کیااعلان کررہاتھا۔نازتالیاں پیٹ رہی تھی۔اوربیدی چپ چاپ کھڑادیکھ رہاتھا۔‘‘






’’اواللہ کے بندومجاہدو۔کچھ خبرہے۔محلے والوں کے جتھے امرتسر کاچپہ چپہ چھان رہے ہیں۔ہمیں تلاش کررہے ہیں۔وہ ہاتھوں میں لاٹھیاں اٹھائے ہوئے ہیں۔‘‘






’’کرنے دوتلاش ۔‘‘شہزادبولی۔’’ڈھونڈبھی لیاتوکریں گے کیا۔‘‘






’’مجھے ملے تھے۔ابھی۔‘‘ایلی نے کہا۔






دفعتاً ان کی نگاہ ایلی کے چہرے پرمنعطف ہوگئی وہ سب قہقہہ مارکرہنسنے لگے۔’’یہ کیاحلیہ بنایاہے چچاجان۔‘‘






’’یہ حلیہ نہ بناہوتاتووہ گھسیٹ کرلے گئے ہوتے۔‘‘ایلی بولا۔






لیکن وہ سب موقعہ کی نزاکت کوسمجھنے سے منکرتھے انہوں نے ایک اورقہقہہ بلندکیاایلی محسوس کرنے لگاجیسے وہ کسی زندہ ناچ اورگاناکمپنی کاجوکرہو۔






صحرا میں نخلستان






اگلے روزبارہ بجے کے قریب دروازہ بجا۔






’’یااللہ یہ کون ہے۔‘‘ایلی کادل ڈو ب گیا۔






’’الیاس صاحب۔‘‘کسی نے آوازدی۔






ایلی گھبراگیا۔






شہزاداٹھ بیٹھی۔’’میں دیکھتی ہوں کون ہے۔‘‘






’’نہ نہ نہ‘‘اس نے شہزادکوروکامگروہ جاچکی تھی۔کچھ دیروہ دروازے میں کھڑی باتیں کرتی رہی پھرآکرکہنے لگی’’کوئی ڈیرہ کاٹیچرہے کہاہے میرانام شیخ ہے تم سے ملنے آیاہے۔






’’لیکن اسے ہمارے گھرکاعلم کیسے ہوا۔‘‘






’’یہ نہیں مجھے معلوم۔‘‘وہ بولی۔






ایلی ڈرتاڈرتاباہرنکلا۔






’’السلام علیکم۔‘‘شیخ اسے دیکھ کرچلایا۔’’بھئی بات یہ ہے کہ میں نے کل تمہیں دیکھاتھاپہلے تومجھے یقین نہ آیاکہ یہ تم ہو۔پھرآج میں نے تمہیں پہچان لیا۔اس لئے ملنے چلاآیا۔‘‘






’’لیکن تم یہاں کہا۔‘‘ایلی نے پوچھا۔






’’بھئی یہ ساتھ والامکان میراہے۔’’میں امرتسرکارہنے والاہوں ناآٹھ روزسے چھٹی پرہوں۔‘‘






’’شیخ صاحب کیاکسی اورکو بھی علم ہے کہ میں یہاں رہتاہوں۔‘‘






’’بالکل نہیں۔‘‘وہ بولا۔’’گھبراؤنہیں۔میں معاملے کی اہمیت کوسمجھتاہوں۔‘‘






’’کیامطلب ؟‘‘






’’بھئی تمہارے متعلق خبراخباروں میں چھپ چکی ہے۔‘‘






’’اخباروں میں؟‘‘






’’ہاں۔‘‘وہ بولا’’اورتم پرنابالغ لڑکیوں کے اغواکامقدمہ دائرہوچکاہے۔‘‘






ایلی سخت گھبراگیا۔






’’اچھاہواتم یہاں آگئے ہو۔‘‘شیخ نے کہا’’یہ میرااپنامحلہ ہے انشاء اللہ تمہیں کوئی زک نہیں پہنچے گی۔میرے سگے بھائی وکیل ہیں۔چلوان سے مشورہ کرلو۔‘‘






شیخ ریحان ڈیرہ کے مدرسے میں ایلی کے ہم کارتھے۔وہ ایک خاموش مزاج شخص تھے اورمدرسے میں اکثرایلی سے ملاکرتے تھے۔چپ چاپ ایلی کی باتیں سناکرتے تھے۔اس سے زیادہ انہیں کبھی ایک دوسرے سے سابقہ نہیں پڑاتھا۔






پہلے دوایک دن توایلی شیخ پرشکر کرتارہا۔شایدیہ شخص ہمدردبن کرہمارابھیدلے رہاہے۔






شایدشریف کاجاسوس ہوشاید۔لیکن دودن کے بعداس کے شکوک رفع ہوگئے اورشک ان کے لئے صحرامیں نخلستان بن گیا۔






شیخ کے بھائی نے ایلی کومشورہ دیاکہ شہزادکچہری میں جاکرحلفیہ بیان درج کروادے کہ وہ اپنی مرضی سے گھر سے آئی ہے اوراس کی بچیاں جن کی وہ جائزولی ہے اس کے ساتھ رہتی ہیں۔






کچہری کانام سن کرایلی کی روح فناہوگئی۔شہزادہنس پڑی۔’’تو اس میں کیامشکل ہے۔‘‘وہ بولی۔’’لوکھلی میںسردینے والے کیادھمکیوں سے ڈرتے ہیں۔‘‘اگلے روزہی شہزادنے شیخ کے گھرسے ایک برقعہ منگوالیااوردونوں تانگے میں بیٹھ کرچل پڑے۔وہ اپنابرقعہ نہیں پہنناچاہتی تھی تاکہ محلے والے اسے پہچان نہ لیں کچہری سے کچھ فاصلہ پرایک پرانامقبرہ تھا۔شہزادنے وہاں تانگہ روکااورایلی کواتاردیا۔بولی’’جب تک میں نہ لوٹوں یہاںسے نہ ہلنا۔‘‘اورخودکچہری کی طرف چل پڑی۔






مقبرے کے اندرایک سپاہی نے اسے للکارا’’اے ‘‘وہ بولا’’ادھرآؤ۔‘‘






’’جی۔‘‘ایلی پاس جاکربولا۔






’’بھگوڑے ہوتم۔‘‘






’’جی۔‘‘ایلی نے گھبراکرسچ کہہ دیا۔






’’تم اس عورت کوبھگاکرلائے ہوناجوابھی ٹانگے سے تمہیں اتارکرگئی ہے۔‘‘






’’جی ہاں۔‘‘وہ بولا






سپاہی نے قہقہہ مارا۔بولا’’تم جھوٹ بولتے ہومعلوم ہوتاہے تم نے اسے اغوانہیں کیا۔بلکہ وہ تمہیں اغواکرکے لائی ہے۔‘‘






’’جی ہاں۔‘‘ایلی نے جواب دیا۔’’ہمیشہ عورت ہی اغواکرکے لاتی ہے۔لیکن مجرم مردکوگرداناجاتاہے اورسزامردکوملتی ہے۔‘‘






سپاہی نے پھرقہقہہ لگایا’’سچ کہتے ہومیاں۔‘‘






وہ سپاہی ایلی کادوست بن گیا۔






’’وہ اکیلی کچہری گئی ہے نا۔بڑی جرات ہے اس میں۔‘‘سپاہی نے کہا۔






’’ان سب مین بڑی جرات ہوتی ہے۔‘‘وہ بولا۔






وہ دونوں بیٹھ کرباتیں کرنے لگے۔






شہزادنے کچہری میں حلفیہ بیان درج کرایا۔لیکن جب وہ باہر نکلی توآصفی محلے کے ایک جتھے نے اسے گھیرنے کی کوشش کی ۔شہزادیہ دیکھ کرپھرسے مجسٹریٹ کے کمرے میں داخل ہوگئی ۔کہنے لگی۔






’’مجھے دشمنوں سے خطرہ ہے۔میری حفاظت کاانتظام کردیجئے۔‘‘مجسٹریٹ نے دوسپاہی ساتھ کردیئے۔مقبرے پرجاکروہ تانگے سے اترگئی۔






محلے والے اس کاپیچھاکررہے تھے وہ مقبرے میں آگئے۔سپاہی نے باہرجاکران کاراستہ روک لیا۔’’کسے ڈھونڈرہے ہو۔‘‘وہ بولا۔






’’یہاں ایک عورت اتری تھی۔‘‘انہوں نے جوا ب دیا۔






’’وہ توادھرگئی ہے۔‘‘سپاہی نے سڑک کی دوسری طرف اشارہ کیااوروہ ادھرچلے گئے۔






’’آؤتمہیں گھرچھوڑآؤں۔‘‘سپاہی بولا’’یہاں بیٹھناٹھیک نہیں۔‘‘






’’ہم خودچلے جائیں گے۔‘‘شہزادنے کہا۔






’’توتوچلی جائے گی۔لیکن یہ’’سپاہی نے ایلی کی طرف اشارہ کیا۔’’جسے تو ساتھ لائی ہے۔‘‘






’’ایسوں کوہی ساتھ لایاکرتے ہیں۔‘‘وہ بولی۔






ارم پورہ






سپاہی نے قہقہہ لگایا۔’’بھئی واہ کیاجوڑی ہے ۔‘‘وہ قہقہہ مارکرہنسنے لگا۔






مہینہ بھروہ امرتسرمیں رہے۔ایلی باہر نکلتاتواس کے منہ پردھجیوں کی سیاہ راکھ تھپی ہوتی اوراس نے اپنے گردایک کمبل لپیٹاہوتا۔بازاروں میں گھومتے ہوئے کئی باراس نے محلے والوں کے گروہ دیکھے تھے اورڈرکی وجہ سے اس کادل اچھل کرگلے میں آاٹکاتھا۔چارایک باروہ کچہری بھی گئے تھے لیکن حسب دستورایلی کوشہزادنے مقبرے میں چھپادیاتھا۔






جب ایلی گھرآتاتوگویانقشہ ہی بدل جاتا۔وہ پہنچ کروہ محسوس کرتاجیسے وہ پکنک پرآئے ہوں اوران کی زندگی میں خطرے یامشکل کاسوال ہی پیدانہ ہوتاہو۔






سارادن وہ بیٹھ کرتاش کھیلتے اورجوہارتااسے چوربناتے۔اس کے لئے انوکھی سزائیں تجویزکرتے اورپھرقہقہے لگاتے۔لڑکیاں ناچ ناچ کرچلتیںبات بات پرہنستیں۔مل کرگیت گنگناتیں۔بچے تالیاں بجاتے وہ سب قطعی طورپراس خطرے سے بے نیازتھے جوان کے سرپرمنڈلارہاتھاادھرشریف کے ساتھیوں نے ساراامرتسرچھان مارا۔لیکن انہیں ایلی اورشہزادکے چھپنے کی جگہ کاعلم نہ ہوکا۔شیخ نے ہر ممکن طریق سے ان کی مددکی۔ان کے بھائی نے انہیں قانونی مشورے دیئے۔نیتجہ یہ ہواکہ شریف کاغصہ ٹھنڈاہوگیااورپھرسے اس پرقنوطیت چھاگئی جواس کی طبیعت کابنیادی جزوتھی اورایک روزوہ چپکے سے روپوش ہوگیا۔اس پرمحلے والے بگڑگئے۔انہیں یہ شکایت تھی کہ جب خودشریف میدان چھوڑکربھاگ کیاہے توہم کیوں اس کی خاطردنیابھر کی دشمنی مول لیں۔اس لئے وہ بھی میدان چھوڑکرچلے گئے۔






محلے والوں نے ڈیرہ اخباروں میں جوجو خبریں ایلی کے متعلق چھپوائی تھیں۔انہیں دیکھ کروہ بیچاراخودڈرگیاتھا۔سکول کوبدنامی سے بچانے کے لئے اس نے کوشش کرکے ایلی کاتبادلہ کرادیا۔نتیجہ یہ ہواکہ اس لمبی رخصت کے دوران ایلی ڈیرہ سے ارم پورہ تبدیل ہوگیا۔یہ تبادلہ ایلی کے لئے نعمت غیرمترقبہ تھی۔






ارم پورہ بنیادی طورپرلاہورکے قریب ایک قصبہ تھا۔لیکن لاہورشہرکے پھیلاؤکے وجہ سے اب وہ لاہورکی بستی کی حیثیت اختیارکرچکاتھا۔اگروہ ڈیرہ ہی میں مقیم رہتے توایلی اپنے مکان کوخفیہ نہ رکھ سکتاتھا۔لیکن لاہورمیں اپنے مکان کی جائے وقوع کوصیغہ رازمیں رکھناکچھ مشکل نہ تھا۔






اسی وجہ سے ایک ماہ کی رخصت کے بعدایلی نوکری پرحاضرہوگیا۔اس نے ایسی جگہ مکان کرایہ پرلیاجولاہو رکی ایک اوربستی تھی اورارم پورہ کی متضادسمت میں واقع تھی۔






اگرچہ طوفان گزرچکاتھاپھربھی لکیرابھی تازہ تھی ۔ایلی ڈرتاتھاکہ نہ جانے کب طوفان پھرسے چلنے لگے۔اس لئے وہ بے حدمحتاط تھا۔اس کی یہ اختیاط ادارک کی وجہ سے نہیں بلکہ ڈرکی وجہ سے تھی۔وہ بنیادی طور پر بے حدبزدل واقع ہواتھا۔






وہ سب مقدمات جو شریف نے ان کے خلاف دائرکررکھے تھے۔عدم پیروی کی وجہ سے داخل دفترہوچکے تھے۔لیکن محکمے میں ایلی کی بے حدبدنامی ہوئی تھی۔حتیٰ کہ افسراعلیٰ معروف صاحب نے ایلی کے والدکوخط لکھ کرمتنبہ کردیاتھاکہ ان حالات کے تحت وہ ایلی کی امدادکرنے سے قاصرہیں۔






جب وہ پہلے روزارم پورہ کے مدرسے میں حاضرہواتوہیڈماسٹرنے اسے چارج دینے سے انکارکردیا۔بولے’’ہم نے آپ کاکیس ڈائرکٹربہادرکوبھیج دیاہے۔جب تک وہ کوئی فیصلہ نہ کریں ہم آپ کوچارج نہیں دے سکتے۔‘‘






چارایک روزکے بعدہیڈماسٹرنے ایلی کوبتایاکہ مسٹرمعروف نے اسے انٹرویوکے لئے بلایاہے لہٰذااسے بڑے دفترمیں جاناچاہیے۔






معروف اورراغب






مسٹرمعروف سے ایلی کاوہ دوسراانٹرویوتھا۔چندایک سال قبل جاورامیں وہ انکوائری کرنے آئے تھے اورایلی اورمسٹرمعروف کی بات چیت ہوئی تھی۔آج پھروہ مسٹرمعروف کے روبروحاضرتھا۔






مسٹرمعروف نے ایک ساعت کے لئے بڑی سنجیدگی سے اسے گھورا۔نہ جانے کیوں لیکن ایلی مسٹرمعروف کودیکھ کرمحسوس کرتاتھاجیسے اس کے روبروایک خوش مذاق رنگیلی عورت بیٹھی ہو۔اس کے دل میں ذرہ بھر خوف پیدانہیں ہوتاتھا۔






’’کیایہ سچ ہے کہ آپ کے خلاف اخباروں میں خبریں نکلی ہیں۔‘‘معروف بولے۔






’’جی مجھے نہیں علم ۔‘‘






’’کیاآپ نے گذشتہ دنوں اخبارنہیں دیکھے۔‘‘






’’جی نہیں۔‘‘






’’کیوں۔‘‘






’’جی میں چھٹی پرتھا۔‘‘






’’آپ نے کس لئے چھٹی لی تھی؟‘‘






’’جی تفریح کے لئے۔‘‘






’’توآپ نے کیسے تفریح کی؟‘‘






’’گھربیٹھارہا۔منہ ہاتھ نہیں دھویا۔کوئی کام نہیں کیا۔تاش کھیلتارہا۔‘‘






’’ہوں۔‘‘وہ بولے’’تاش کاکون ساکھیل کھیلتے رہے؟‘‘






’’جی چورسپاہی۔‘‘






ان کے ہونٹوں پرایک مسکراہٹ جھلکی۔لیکن انہوں نے ضبط سے کام لیا۔






’’آپ کومعلوم ہوناچاہیے کہ آپ پراغواکاالزام ہے۔‘‘






’’جی مجھے معلوم نہیں۔‘‘وہ بولا۔






’’ہم جوآپ کوبتارہے ہیں۔‘‘وہ غصے میں بولے۔






’’کسی عدالت نے مجھے نہیں بتایا۔بہرحال۔‘‘






’’توآپ کوئی سمن نہیں ملا۔‘‘






’’جی نہیں۔‘‘






’’آپ کچہری میں حاضرنہیں ہوئے۔‘‘






’’جی نہیں۔‘‘ایلی نے کہا۔،






’’تووہ خبریں کیوں چھپیں۔‘‘






’’جی مجھے معلوم نہیں۔‘‘






’’آپ کوعلم ہوناچاہیے الیاس صاحب کہ اس خاتون کے شوہر نے مجھے سب باتیں لکھی ہیں۔‘‘






’’ممکن ہے۔‘‘وہ بولا‘‘مجھے اس کاعلم نہیں۔‘‘






’’کیاآپ نے اس کی بیوی کواغواکیاہے۔وہ غصے سے بولے۔






’’جی نہیں۔‘‘ایلی نے کہا۔






’’آپ میرے روبروجھوٹ بول رہے ہیں۔‘‘






’’جی نہیں۔‘‘ایلی نے کہا۔






’’توپھرکوائف کیاہیں؟سچ سچ بتائیے ورنہ میں سخت کاروائی کروں گا۔‘‘






’’جی حقیت یہ ہے کہ اس کی بیوی نے مجھے اغواکیاہے۔‘‘






معروف صاحب کی ہنسی نکل گئی۔






’’آپ عجیب آدمی ہیں۔‘‘وہ بولے






’’جی نہیں۔‘‘ایلی نے کہا۔’’میں ایک عام آدمی ہوں۔






’’لیکن آپ ابھی کہہ رہے تھے۔‘‘معروف صاحب پھرسنجیدہ ہوگئے۔’’کہ آپ چھٹیوں میں تاش کھیلتے رہے ۔‘‘






’’سچ عرض کیاہے میں نے۔‘‘






’’کس سے تاش کھیلتے رہے۔‘‘






’’جی ان سے جنہوں نے مجھے اغواکیاہے۔‘‘






’’وہ کون کون ہیں۔‘‘






’’جی چھ بچے اوران کی ماں۔‘‘






’’توکیایہ سچ ہے کہ وہ چھ بچوں کی ماں ہے۔‘‘






’’جی ہاں۔‘‘






’’آپ عجیب بے وقوف ہیں۔اگراغواہی کرناتھاتوکسی لڑکی کوکرتے خواہ مخواہ آپ نے اتنے بڑی کنبے کابوجھ اٹھالیا۔‘‘






’’جی کوئی لڑکی مجھے اغواء کرنے کوتیارنہ تھی۔سوائے اس چھ بچوں کی ماں کے ۔‘‘






’’شٹ اپ۔‘‘معروف نیم غصے مذاق سے بولے۔’’جاکرچارج لیجئے اوریادرکھئے۔اگرپھرآپ کی رپورٹ آئی توآپ کوسپنڈکردوں گا۔‘‘






معروف کے بعدارم پورے کے ہیڈماسٹرراغب صاحب نے اسے اپنے دفترمیں بلالیا۔راغب صاحب ایک دبلے پتلے جلے کٹے آدمی تھے۔ان کاچہرہ لمباتھامگرکتابی نہیں تھا۔آنکھیں اندرکودھنسی ہوئی تھیں ناک یوں ابھری ہوئی تھی جیسے سمندرسے مونگے کی چٹان






جھانک رہی ہو۔ایلی نے ایک نظرانہیں دیکھا۔وہ معروف سے برعکس قسم کی شخصیت تھے۔






’’آصفی صاحب۔‘‘وہ بولے’’اگرچہ معروف صاحب نے آپ کواجازت دے دی ہے۔لیکن میں نہیں چاہتاکہ آپ میرے سکول میں کام کریں۔‘‘






’’معروف صاحب نے مجھے اجازت نہیں دی۔‘‘ایلی نے جواب دیا۔






’’کیامطلب ؟‘‘وہ بولے۔






’’معروف صاحب نے فرمایاہے کہ راغب صاحب کی مرضی کے بغیرہم کچھ نہیں کریں گے۔‘‘






’’لیکن۔۔۔لیکن‘‘۔وہ رک گئے۔’’اچھامجھے اس کاعلم نہ تھا۔‘‘






’’معروف صاحب نے صاف کہہ دیاتھا۔‘‘ایلی نے کہا’’میں اجازت دینے والاکون ہوں کام راغب صاحب نے لیناہے۔‘‘






’’خوب خوب۔‘‘وہ خوشی سے چلائے’’توہمارافیصلہ یہ ہے کہ آپ اس مدرسہ میں کام نہیں کریں گے۔‘‘






’’جیسے بھی آپ مناسب سمجھیں۔‘‘ایلی نے کہا۔






’’دیکھئے ناہم بدنام آدمی کواپنے سکول میں نہیں رکھ سکتے۔ہم اپناڈسپلن خراب نہیں کریں گے۔‘‘






’’جیسے آپ کی مرضی لیکن راغب صاحب بدنام آدمی ڈسپلن خراب نہیں کرسکتا۔‘‘






’’آپ کامطلب ؟‘‘






’’مطلب یہ ہے کہ شرارت وہ لوگ کرتے ہیںجن پرشبہ نہ کیاجاسکے۔یاجن کااعمال نامہ صاف ہواوران پرحرف نہ آسکے۔بدنام آدمی تواپناجائزتحفظ بھی نہیں کرسکتا۔وہ توکانچ کے گلاس کی طرح ہوتاہے۔ذراضرب لگی اورٹوٹ گیا۔‘‘






’’کیاآپ مجھے عقل سکھانے آئے ہیں۔‘‘






’’جی نہیں۔‘‘وہ بولا’’مجھ میں توخودعقل نہیں میں کیاعقل سکھاؤں گاکسی کو۔‘‘






’’کیامطلب۔‘‘وہ چلائے۔






’’جی عقل ہوتی توکیاچھ بچوں کی والدہ کواغواکرلاتا۔‘‘






’’توکیایہ سچ ہے؟‘‘وہ بولے۔






’’ہاں جی اوریہی میری بے وقوفی کی دلیل ہے۔‘‘






راغب صاحب بوکھلاگئے۔






اگلے روزراغب نے معروف صاحب سے احکامات کی وضاحت کی درخواست کرتے ہوئے ٹیلی فون پرانہیں بتایاکہ الیاس آصفی کے بیان کے مطابق انہیں اس بات کاحق دیاگیاتھاکہ اس امرکافیصلہ کریں کہ آیاارم پورہ کے سکول میں الیاس کام کرتے ہیں یانہیں۔






معروف فوراً بھانپ گئے کہ وہ بات جوانہیں کہنی چاہیے تھی۔ ایلی نے ازخودراغب سے کہہ دی ہے۔اس بات پروہ بے حدمسرورہوئے اوربولے۔’’یہ ٹھیک ہے راغب لیکن ہمارامشورہ ہے کہ آپ الیاس کواپنے پاس رکھنے پررضامندی دے دیںوہ ایک قابل شخص ہے۔






آپ کوکام سے تعلق ہے ناعورتوں کے اغواسے تونہیں۔‘‘






نتیجہ یہ ہواکے ایلی نے ارم پورہ میں کام شروع کردیا۔






جھوٹ سچ






ایلی نے زندگی میں نئی بات سیکھی تھی۔وہ سچ کے ذریعے جھوٹ بولتاتھا۔اس نے تجربہ کے زوراس حقیت کوپالیاتھاکہ سچی بات کہہ دی جائے توسننے والاحیران رہ جاتاہے۔اس کے دل میں نفرت کی بجائی دلچسپی اورہمدردی پیداہوتی ہے اورکبھی کبھاراحترام بھی۔اس کے علاوہ کہنے والے کے دل بوجھ نہیں رہتا۔اوربات کہہ دی جائے تووہ پھوڑانہیں بنتی۔اس میں پیپ نہیں پڑتی۔اکثراوقات توایساہوتاکہ سچی بات کواعلانیہ تسلیم کرلیاجائے تولوگ سمجھتے ہیں کہ مذاق کررہاہے انہیں یقین ہی نہیں آتا۔شایدایلی نے یہ انوکھاطریقہ شہزادسے سیکھاہو۔






بہرصورت جب اساتذہ اس سے ملے تواخباری خبروں کی بات چھڑگئی۔ایک صاحب اخلاقاًبولے۔’’اجی ان اخباروالوں کاکیاہے۔جوجی چاہتاہے اناپ شناپ لکھ دیتے ہیں۔سچ تھوڑے ہی لکھتے ہیں۔’’کیوں الیاس صاحب۔‘‘






’’اپناتجربہ تومختلف ہے۔‘‘ایلی نے کہا۔






’’کیامطلب ؟‘‘ایک اورصاحب بولے۔






’’مطلب یہ ہے کہ میرے متعلق آج تک صرف ایک خبرچھاپی ہے انہوںنے اوروہ سولہ


















آنے سچی ہے۔‘‘






’’ارے ۔‘‘وہ چلائے ’’کیاواقعی؟‘‘






’’توکیاجوخبریں آپ کے متعلق چھپی تھیں وہ درست ہیں۔‘‘ایک صاحب نے پوچھا۔






’’بالکل۔‘‘ایلی نے جواب دیا۔






وہ حیرت سے ایلی کی طرف دیکھ رہے تھے انہیں سمجھ نہیں آتاتھاکہ اب کیاکہیں دوایک مسکرارہے تھے۔دو ایک تحسین بھری نگاہیں سے ایلی کی طرف دیکھ رہے تھے۔






’’توآپ نے چھ بچوں کی ماں کواغواکرلیا۔‘‘ایک نے پوچھا۔






’’جی نہیں۔‘‘وہ بولا۔






’’ہائیں۔ابھی توآپ کہہ رہے تھے۔۔‘‘






’’خبرتوسچی ہے مگراندازبیان میں کچھ غلطی رہ گئی ہے۔‘‘ایلی نے کہا۔






’’کیا؟‘‘






’’یہ کہ چھ بچوں کی ماں نے مجھے اغواکرلیاہے۔‘‘ایلی نے جواب دیا۔






’’ہی ہی ہی ہی۔۔۔‘‘ایک قہقہہ بلندہوا۔






ایلی اچھی طرح جانتاتھاکہ اگرکسی بات پرلوگ قہقہہ مارکرہنس لیں توبات اپنی سنگینی کھودیتی ہے۔اس لئے اس نے اس موضوی پرایک لیکچردیناشروع کردیاکہنے لگا’’بھائیومردوں کی قوم پرعورتوں کی قوم ہمیشہ ظلم کرتی آئی ہے۔وہ ہمیشہ مردوں کواغواکرتی رہیں اورنام بدنام ہوتاہے۔مردکومجرم گرداناجاتارہا۔مردجیل جارہامرد‘قیدکاٹتارہامرد۔معلوم ہوتاہے۔تعزیرات ہندکی اغواء کی دفعہ لکھتے وقت مصنف کی بیوی بھی پاس بیٹھی تھی۔اس ظالم نے ساری دفعہ ہی غلط لکھوادی۔‘‘






مرداورعورت کی بات کرتے وقت ایلی یوں محسوس کیاکرتاتھا۔جیسے بطخ خشکی سے اترکرپانی میں جاپہنچی ہو۔






پہلے روزہی جملہ اساتذہ کوایلی سے ہمدردی پیداہوگئی۔اوروہ اس کے دوست بن گئے۔جب بھی تفریح کی گھنٹی بجتی اورایلی کے لے کرکسی مقام پرجابیٹھتے اوراسے چھیڑکراس کی باتیں سنتے۔لڑکے دوردورسے اسے دیکھتے اورمسکراتے اورہیڈماسٹراسے معروف آدمی سمجھ کراس سے اخلاق سے پیش آتے۔






آٹھ بچے






سکول میں ہیروبن کرگھومنے کے بعدوہ سائیکل اٹھاکرچوروں کی طرح گھرکی طرف چل پڑتا۔جان بوجھ کرلمبے راستے سے گھرجاتاتاکہ کوئی یہ نہ سمجھ لے کروہ رہتاکہاں اورکوئی اس کے گھرکاپتہ پوچھتاتوصاف کہہ دیتا’’بھائی گھرکاپتہ نہ پوچھواورکوئی خدمت بتاؤجواغواکرتے ہیں وہ گھرکاپتہ صیغہ رازمیں رکھتے ہیں۔‘‘






گھرپہنچتاتوگھرکے ہنگامے میں کھوجاتا۔






گھرمیں وہ آٹھ بچے تھے۔کبھی کسی نے محسوس نہیں کیاتھاکہ گھرمیں کوئی بڑابھی ہے۔بڑاگھرمیں کوئی تھاہی نہیں۔وہ مان کیابڑی بن سکتی ہے۔جوچھ بچے ساتھ لے کرگھرسے بھاگ آئی ہو۔وہ مردکیابڑابن سکتاہے ۔جوچھ بچوں کی ماں کواغواکرلایاہو۔ان حالات میں جوتھوڑی بہت بزرگی اوربڑائی شہزاداورایلی میں تھی ۔وہ بھی خارج ہوچکی تھی۔کس منہ سے وہ عقل و ادراک اخلاق یاسنجیدگی کاڈھونگ رچاتے اورپھران بچیوں کے روبروجوجوان تھیں۔صبیحہ تیرہ سال کی تھی۔نفیسہ بارہ کی اورریحانہ نوسال کی البتہ ایک بات ضرورتھی۔شہزاداورایلی نے کبھی بڑائی ہاتھ سے جانے پرافسوس نہ کیاتھا۔






اگرشہزادکبھی کبھارلڑکیوں کے شورسے تنگ آجاتی اورچلاکرکہتی’’اے لڑکیوسنتی ہو۔‘‘






’’امی۔‘‘نفیسہ ہنستی’’ذرازروسے بولوکچھ سنائی بھی دے۔‘‘






’’کانوں میں تیل ڈال ہواہے کیا؟‘‘






’’تیل تونہیں۔‘‘صبیحہ کہتی۔’’کانوں پرصرف بال ڈالے ہوئے ہیں۔‘‘






’’تمہارادماغ خراب ہوگیاہے۔‘‘






’’دل تواچھاہے ناامی۔‘‘وہ قہقہہ مارکرہنستیں۔






پھروہ سب جھرمٹ ڈال کرامی کے گردآکھڑی ہوتیں اورناچتیں گاتیں ہنستیں۔ایلی کہتا۔






’’شورنہ مچاؤ۔اگرکسی کوہمارے گھرکاپتہ چل گیاتو۔‘‘






’’توکیا۔‘‘وہ جواب دیتیں۔’’یہی ناکہ وہ چٹھی لکھ دے گاہمیں اورچٹھی رساں چٹھی لے آئے گااورہم پڑھ لیں گے۔‘‘






’’اوراگرکسی نے آکرتمہیں چوٹی سے پکڑلیاتو۔‘‘ایلی چلاتا۔






’’توچوٹی کاٹ ڈالیں گے۔‘‘وہ قہقہہ مارکرہنس پڑتیں۔






ان کی زندگی میں ایک مشکل تھی۔جوروزبروزبڑھتی جارہی تھیں۔






ایلی کی تنخواہ صرف سنتالیس روپے تھی۔ایلی اس زمانے میں جوان ہواتھا۔جب پہلی عالمی جنگ کے اثرات رونماہوئے تھے اوردنیامیں مالی بحران کادوردورہ تھا۔بنیادی طورپرایک ٹرینڈگریجویٹ کاگریڈاسی روپے سے شروع ہوتاتھا۔لیکن مالی بحران کی وجہ سے گورنمنٹ کے ملازمین کی تنخواہوں میں تخفیف کردی گئی تھی اوراسی (۸۰)کی جگہ اب پینسٹھ روپے کاگریڈ مقررکردیاگیاتھا۔لیکن پینسٹھ روپے کے گریڈ پرملازم رکھاجائے اورپینسٹھ روپے ایم اے بی ٹی کودیئے جائے۔اس لئے ایلی کی تنخواہ پینتالیس روپے سے شروع ہوئی تھی۔اوراب وہ سنتالیس روپے پارہاتھا۔سنتالیس روپے اتنے بڑے کنبے کے لئے بے حدناکافی تھے۔خصوصاًایک ایساکنبہ جومالی مشکلات کے تصورسے ہی بیگانہ تھا۔






ان کے پاس جوآثاثہ تھاوہ ختم ہوچکاتھااوراب وہ شدت سے مالی مشکلات کومحسوس کرنے لگے تھے۔اس امرکوصرف ایلی ہی محسوس کرتاتھا۔لڑکیاںاس بات سے بے نیازواقع ہوئی تھیں۔روایتی ملکہ کی طرح سوچتی تھیں کہ غریبوں کواگرکھانے کوروٹی نہیں ملتی تووہ کیک پیسٹری کیوں نہیں کھاتے۔






بہرحال یہ امرمسلمہ تھاکہ اگرمالی مشکلات کااحساس ان کے گھرمیں صدردروازہ سے داخل نہ ہواتھا۔توعقبی دروازے سے ضرورداخل ہورہاتھا۔لاشعوری طورپرجانے بغیران کی زندگی میں ان جانی تلخی بڑھنے لگی تھی۔






’’ڈول ہان‘‘






لاہورمیں صرف ایک آدمی تھا۔جو ان کے مکان سے واقف تھا۔وہ تھامحمودکبھی کبھارمحمودآنکلتااورایلی کومیم کی باتیں سناتااورکالج کے قصے بیان کرتا۔محمودسترھواں لے پالک ہونے کے باوجودگھرمیں یوں رہتاتھا۔جیسے الف لیلیٰ میں شہزادیوں کے جھرمٹ میں سلطان رہتے ۔ان کے تالی بجانے پرحبشی جلادہاتھ میں تلواراٹھائے حاضرہوجاتا۔لیکن کبھی کبھارایلی کوشک پڑتاکہ محمودمیں بھی ایک ایلی چھپاہواہے۔جومامتابھری گودمیں لیٹنے کے لئے بلکتاہے۔جسے یہ آرزوہے کوئی اس کی دیکھ بھال کرے۔اس کی ناک پونچھے منہ دھوئے اورپھرپیارسے جھڑک کر






سکول بھیج دے ایلی جذباتی طورپرڈراہوابچہ تھااورذہنی طورپرایک نڈرمفکر۔






ایک روزوہ سب بیٹھے تھے تومحمودآگیا۔اس کے ساتھ ساری میں لپٹی ہوئی ایک گوری چٹی عورت تھی۔جسے اس نے اندربھجوادیا۔






’’ارے یہ کون ہے۔‘‘ایلی نے پوچھا۔






’’یہ بھی ہے۔‘‘محمودبولا۔






’’کوئی نئی پھنسی ہے؟‘‘






پھنستی ہی رہتی ہیں۔اب ایک کام کرو۔‘‘محمودبولا۔






’’کیا؟‘‘






’’ایک مولوی بلوادو۔‘‘






’’بھئی نکاح پڑھواناہے۔‘‘






’’اوروہ میم کیاہوئی؟‘‘






ایلی ادھرادھربھاگ دوڑکرایک مولوی لے آیا۔






مولوی صاحب پہلے تومحمودکوکلمے پڑھاتے رہے۔پھرجب ایجاب وقبول کاوقت آیا۔تومولوی صاحب نے کہا۔’’کیاآپ کومحمودولداحمدسکنہ رام پورکی زوجیت میں آناقبول ہے؟‘‘






وہ خاتون بولی’’ہام کومنجوڑہے۔‘‘






اس پرلڑکیاں ہنسنے لگیں۔






ایلی نے حیرت سے خاتون کی طرف دیکھا۔’’ارے آپ تومیم ہیں۔‘‘وہ بولا






میم نے کہا’’ہام’’ڈول ہان‘‘ہے میم ناہیں۔‘‘






مولوی کی جانے کے بعدایلی کے گھرمیں ہنگامہ مچ گیا۔لڑکیاں میم کے سہاگ گانے لگیں۔اسے چھیڑنے لگیں۔میم ہنسے جارہی تھی۔محمودمسکرارہاتھا۔شہزادکی آنکھوں میں مسرت کی پھوہارپڑرہی تھی۔






محموداورمیم کے نکاح کے چندروزبعدمحمودبھاگابھاگاایلی کے پاس آیا۔’’ایلی۔‘‘وہ بولا’’وہ وہ نہیں آئی!‘‘






’’کون نہیں آئی۔‘‘ایلی نے پوچھا۔






’’آج ویک انڈہے۔‘‘وہ بولا’’ہرویک انڈپروہ آیاکرتی ہے۔بلاناغہ لیکن اب کی بارنہیںآئی۔‘‘






ایلی نے قہقہہ لگا’’تم پاگل ہو۔‘‘وہ بولا’’خواہ مخواہ پریشان ہورہے ہوجیسے وہ بچی ہو۔‘‘






’’تم نہیں جاتنے ۔‘‘وہ ہنسنے لگا۔’’واقعی وہ بچی ہے۔‘‘






’’بچی ہے۔‘‘ایلی ہنسا۔






’’ہاں۔‘‘محمودنے کہایہ سب بچیاں ہوتی ہیں۔ان کی عمرنہ دیکھوشکل نہ دیکھوصورت نہ دیکھو۔یہ سب بچیاں ہوتی ہیں اورجبھی تک ٹھیک رہتی ہیں جب تک ان پربچی حاوی رہے۔‘‘






’’لیکن گھبرانے کیابات ہے۔‘‘ایلی بولا’’گھبرانے کی بات تونہیں۔‘‘محمودنے کہا’’وہ آئی جونہیں۔‘‘






’’مجھے سمجھ نہیں آئی بات۔‘‘






ڈارٹگنیں






’’مجھے بھی نہیں آئی نا!‘‘محمودنے کہا’’میرادل کہہ رہاہے کہ معاملہ گڑبڑہے۔‘‘






دوروزمحمودمیم کاانتظارکرتارہالیکن وہ نہ آئی۔وہ پھرنئے شہرچلاگیا۔وہاںجاکراپناآپ ظاہرکئے بغیراس نے حالات کاجائزہ لیامعلوم ہواکہ وہاں موجودنہیں۔اس پروہ گھبراگیا۔مزیدپوچھ گچھ پراسے معلوم ہواکہ ایک صاحب اسے ساتھ لے گئے ہیں۔اس کے علاوہ اسے کچھ علم نہ ہوسکا۔






لاہورواپس آکروہ سیدھاایلی کے پاس آیا۔’’غضب ہوگیا۔‘‘وہ بولا۔’’وہ نئی شہرمیں بھی نہیں ہے۔کہتے ہیں کوئی گوراصاحب اسے آکرلے گیاہے۔‘‘






’’کیازبردستی لے گیاہے۔‘‘ایلی نے پوچھا۔






’’بھئی ۔‘‘وہ بولا’’اسے کوئی زبردستی لے جائے تواس کے لئے اس سے بڑھ کررومینس کوئی نہ ہوسکتا۔یہ سبھی ایسی ہوتی ہیں۔پہلے روتی ہیں۔چیختی ہیں چلاتی ہیں پھرغم سے نڈھال ہوکرلے جانے والے سے چمٹ جاتی ہیں۔اللہ اللہ خیرسلا۔‘‘






’’کس کی بات کررہے ہو۔‘‘ایلی نے پوچھا۔






محمودخاموش رہا۔’’کیامیموں کی بات کررہے ہو۔‘‘ایلی نے پوچھا۔






’’اونہوں‘‘وہ بولاعورت ہمیشہ عورت رہتی ہے۔چاہے وہ میم ہودیسی ہویاحبشن ہو۔






کوئی فرق نہیںپڑتا۔‘‘






محمودکی بات صحیح نکلی چندہی دنوں کے بعداسے ایک خط موصول ہواجس میں درج تھا۔






’’مجھے اچھی سے معلوم ہے کہ تم غنڈوں کے ایک گروہ سے تعلق رکھتے ہواورتم نے ایک برٹش نیشنل خاتون کوعرصہ درازسے اغواکررکھاہی اورتم نے اسے زبردستی مسلمان کرنے کی قبیح کوشش کی ہے اوردھوکے سے اس کے ساتھ عقدکیاہے۔حالانہ تعزیرات ہندکے تحت کوئی ہندوستانی کسی برٹش نیشنل خاتون سے شادی نہیں کرسکتا۔جب تک خاص اجازت نامہ حاصل نہ کرے لہٰذاتم اورتمہارے دوست دھوکہ دہی اوراغواء کے مرتکب ہوئے ہواورمیں تمہارے خلاف قانونی چارہ جوئی سے گریزنہیں کروں گااوراگرتم اس خاتون سے دوبارہ ملنے کی سعی کی تواپنے اختیارات کوکام میں لاکرمیں تمہیں کیفرکردارتک پہنچاؤں گا۔






خط کے نیچے لمبے چوڑے دستخط کئے ہوئے تھے۔نیچے لکھاتھاکمشنربیجاپور






’’ارے۔‘‘ایلی چلایا۔’’یہ کوئی کمشنرہے۔‘‘






’’یہی تومصیبت ہے۔‘‘محمودبولا’’وہ اسے اغواکرکے لے گیاہے۔اس کی مدت سے آرزوتھی کہ کوئی اسے زبردستی اغواکرکے لے جائے پھرجب تم ان سب کولے آئے اوراس نے یہ قصہ سناتوگویاجلتی پرتیل پڑگیاوہ بھڑک اٹھی۔اس کی یہ خواہش اوربھی مچلی اوراب‘اب یہ ڈارٹگنیںنہ جانے اسے کہاں سے مل گیاہے۔‘‘






محمودسخت گھبرایاہواتھا۔






محمودکے کہنے پرایلی بیجاپورگیا۔۔تاکہ وہاں سے کوائف حاصل کرے۔پہلے تووہ شہرکاجائزہ لینے میں مصروف رہا۔پھراس نے کمشنرکی کوٹھی کاپتہ لگایااوروہاں پہنچ کرباہرانتظارکرتارہاکہ کب کمشنردفترجائے توکوٹھی کے کسی نوکرسے ملے آخرکمشنرکی کارکوٹھی سے باہرنکلی۔کچھ دیرکے انتظارکے بعدوہ کوٹھی کے آؤٹ ہاؤس کی طرف گیااورچوکیدارسے ملا۔چوکیدارایک بوڑھامسلمان تھا۔ایک دیکھ کرایلی کی امیدبندھ گئی۔اس نے چوکیدارکوپانچ روپے تھمادیئے۔’’بابایہ صاحب کس قسم کاآدمی ہے؟‘‘






’’توبہ ہے‘‘بابانے جواب دیا۔’’یہ صاحب توسمجھ کرلوآفت ہے آفت ۔‘‘






’’کیاسخت مزاج ہے ۔‘‘






’’اونہوں بابایہ توبدہے بد۔سارادن بیٹھ کرشراب پیتاہے۔سارادن۔‘‘






’’کیاعمرہوگی؟‘‘






’’بوڑھاہے۔لیکن سخت زانی ہے اورشرابی بھی۔‘‘






’’ایک بات بتاؤں بابا۔‘‘ایلی نے کہااورپھرقدرے توقف کے بعداس نے چوکیدارسے کہا۔






’’تمہاراصاحب ایک مسلمان عورت کوبھگالایاہے۔نئے شہرسے۔‘‘






’’نہ بابو۔‘‘وہ بولا’’یہاںایسی دیسی عورت کبھی نہیں آئی یہاں تومیمیں آتی ہیں۔جواب بوڑھی ادھیڑسبھی آتی ہیں۔‘‘






’’لیکن بابا۔‘‘ایلی نے کہا’’وہ ہے تومیم مگرمسلمان میم ہے۔‘‘






’’باباقہقہہ مارکرہنسا۔‘‘






’’سچ کہتاہوں بابا۔‘‘ایلی نے کہا۔






’’نہ بھئی۔‘‘وہ بولا’’میم مسلمان نہیں ہوتی۔ان میموں کااسلام سے کیاواسطہ۔‘‘






ایلی نے باباکوسمجھانے کی کوشش کی لیکن اس کے ذہن میں میم کامسلمان ہوناممکن ہی نہ تھا۔اس لئے ایلی کی تجویزناکام ہوگئی۔






’’اچھا۔‘‘وہ بولا’’باباایک کام توکرومجھے اس میم کے سامنے لے چلو۔جواس وقت صاحب کے گھرمیں ہے۔‘‘






’’اونہوں۔‘‘بابانے جواب دیا۔‘‘گھرمیں جانے کی کسی کواجازت نہیں۔‘‘






’’توچلوباہرسے ہی جھانکوں گا۔‘‘






باباکویہ بات بھی منظورنہ تھی۔بولا’’نہ بابووہ دیکھ لے یااسے پتہ چل جائے توکھاجائے گا۔






’’ایساسخت ہے ہو۔‘‘






بہرحال ایلی نے کوٹھی کے باہر دوایک چکرلگائے کوٹھی چاروں طرف سے بندتھی۔اس نے کھڑکیوں کے شیشوں سے جھانکنے کی کوشش کی لیکن اندردبیزپردے لٹک رہے تھے۔






ابھی وہ وہیں کھڑاتھاکہ خانساماں کالڑکاآگیا۔






وہ ایلی کوگھورنے لگا۔






ایلی نے اس سے پوچھا’’کوٹھی میں کوئی ہے کیا؟‘‘






’’نہیں بابو۔‘‘وہ بولا’’صاحب اکیلے ہی رہتے ہیں۔‘‘






’’کوئی مہمان عورت تونہین آئی ہوئی؟‘‘






’’نہیں۔وہ بولا۔






’’جھوٹ نہ بولو۔‘‘ایلی نے کہا۔’’مجھے معلوم ہے۔‘‘






’’ہاں۔‘‘لڑکے نے اقبال کرتے ہوئے اشارہ کیا۔’’پروہ بندہے۔‘‘






’’بندہے۔‘‘ایلی بولا۔






’’ہاں۔‘‘لڑنے نے ڈرتے ہوئے ادھرادھردیکھ کرکہا’’صاحب تالہ لگاکرجاتاہے۔‘‘






ابھی وہ بات ہی کررہے تھے کہ ایک موٹرکے آنے کی آوازسنائی دی۔وہ سب بھاگ کرآؤٹ ہاؤس کی طرف چلے گئے۔تاکہ صاحب انہیں دیکھ نہ لے۔ایلی نے دورسے چھپ کردیکھا۔ڈارٹگنیں ادھیڑعمرختم کرچکاتھا۔اس کاجسم بھداتھا۔چہرے پرشراب نوشی کے واضح آثارتھے اور اس کے ساتھ ہی جابرانہ رحجانات مترشح ہورہے تھے ۔اس کی شکل وصورت ان فلمی غنڈوں کی سی تھی۔جوہیروئین کواٹھاکرلے آتے ہیںاوراسے قلعہ کے زیرین کمرے مین مقفل کردیتے ہیں۔






محمودنے جب یہ سناتواس نے سرپیٹ لیا۔’’بس سمجھ لوقصہ ختم ہوگیااسے تودیرسے یہ خواہش تھی کہ کوئی ظالم قسم کاجابرآدمی اسے پکڑکرلے جائے اورکسی قلعہ میں بندکردے۔‘‘






محمودکی بات سچ ثابت ہوئی۔میم نے اسے ملنے کی کوئی کوشش نہ کی۔ممکن ہے اسے کوشش کرنے کاموقعہ ہی نہ ملاہو۔وہ لمبی رخصت پررہی اس لئے نئے شہرواپس نہ آئی۔بلکہ وہیں سے ڈارٹگنیں نے اپنے قلم سے درخواست بھیج دی جس میں تحریرتھاکہ مسزفلپ (سابقہ)کوریٹائرکردیاجائے اورجورقوم اسے واجب الاداہیں ان کی تفیصل بھیج دی جائے۔






مسٹرڈراٹگنیں خودبنشن پارہاتھا۔نیتجہ یہ ہواکہ ایک ماہ کے اندراندروہ دونوں ہندوستان چھوڑکرساؤتھ افریقہ چلے گئے اورسترہواں لے پالک لاہورمیںبے بس بیٹھاحالات کامنہ تکتارہا۔






لذت مظلومیت






شایداس لئے کہ وہ اسم باسمےٰ تھایاویسے ہی شریف ایک مظلوم شخص تھا۔اس نے فطرتاً






یاعادتاً اپنی تمام تراہمیت کاانحصاراپنی مظلومیت پراستوارکررکھاتھا۔پہلے وہ انورکے عشق میں سرشارتھا۔اس حدتک سرشارکہ شہزادسی رنگیلی بیوی کے ہوتے ہوئے بھی مظلومیت کی لذت میں کھویارہا۔یہ کہناکہ اسے شہزادسے محبت نہ تھی غلط ہوگا۔اسے واقعی شہزادسے محبت تھی۔اسے شہزادپرنازتھا۔وہ اس کی رنگینی سے کماحقہ‘واقف تھا۔وہ شہزادکے لئے سبھی کچھ کرنے کوتیارتھا۔لیکن مظلومیت کے احساس کوردنہ کرسکتاتھایہ احساس اس کی گھٹی میں پڑاہواتھا۔سال ہاسال کے عشق نے اسے اوربھی اجاگرکردیاتھا۔اب وہ تقریباً اپنی مظلومیت اورنام عشق کاپرچارکرتاتھا۔اسے خیال نہ آیاتھاکہ ایک نگین بیوی کی موجودگی میں کسی اورعورت کے عشق میں آہیں بھرنااچھے نتائج پیدانہیں کرتا۔






شریف کویقین تھاکہ خودشہزاداس کے عشق میں گرفتارہے۔چونکہ اسے تھیلی کے مینڈک کی بات نہ بھولی تھی۔






بہرصورت انورکے عشق کی ناکامی تواس کے لئے ایک رنگین غم تھا۔چونکہ ازلی طورپرشریف ایک سچااورخالص عاشق نہ تھا۔بلکہ ایک سچے عاشق کی طرح ہجرپسندواقع ہواتھا۔انورسے محروم ہوجانے پراسے صدمہ توضرورہوا۔۔۔۔مگروہ صدمہ ایسے ہی تھاجیسے بطخ کے لئے پانی کاطوفان ہوتاہے۔






شہزاداوربچوں کااپنی مرضی سے شریف کے گھرسے نکل آناشریف کے لئے ایک شدیدصدمہ تھا۔ایک ایساصدمہ جس میں رنگینی کاعنصرنہ تھا۔الٹااس میں خفت اوررسوائی تھی۔ایسی رسوائی جوعشق کی رسوائی سے قطعی طورپرمختلف ہوتی ہے۔لہٰذااس پرہسٹیریاکادورہ پڑگیاتھا۔اوراس دورے کے تحت وہ اپنے آپ سے باہرنکل آیاتھا۔اورمحلے میں آکراس نے غیرازمعمول آگ لگادی تھی۔






کچھ دیرکے بعدجب ہسٹیریاکی شدت مدھم پڑگئی تواس نے محسوس کیاکہ اس رویے سے تورسوائی اوربھی بڑھ رہی تھی۔اس کی بنیادی انانے اسے للکارااوروہ چپ چاپ علی پورسے روانہ ہوگیااوراپنی نوکری پرحاضرہوگیا۔






اس صدمہ کی شدت کے ختم ہونے پرشریف نے محسوس کیاکہ وہ میٹھامیٹھادردجوباقی رہ گیاتھا۔اس کے لئے باعث تسکین ہے۔ایک غم خورکوگویاہمیشہ کے لئے غم کی ایک دولت گراں مایہ مل گئی تھی۔






اس دولت کوپاکروہ اپنے پرانے کوئے میں گھس گیااوراس نے اپنی طبعی قنوطیت کالبادہ اوڑھ لیا۔






غم خورکے لئے سب سے بڑی ضرورت ایک ساتھی کی ہوتی ہے جس سے اظہارغم کیاجاسکے اوراپنی محرومیت اورزمانے کے مظالم کارونارویاجاسکے اس لئے شریف نے فیصلہ کرلیاکہ وہ اپنی پرانی زندگی کویکسربھول جائے گااورایک نیاورق الٹے گا۔یہ نیاورق ایک نئی شادی اورنئی بیوی تھی۔لیکن ایسی بات اپنے منہ سے کہہ دینایاشعوری طورپراس پرسوچناایک غم خورکے لئے ممکن نہ تھا۔لہٰذا اس نے جلدہی ایسے حالات پیداکرلئے کہ اس کی ہمشیرہ نے یہی تجویزبھائی کے سامنے پیش کردی اس پروہ حیرت سے بہن کامنہ تکنے لگا’’یہ تم کیاکہہ رہی ہوحمیدی۔‘‘ اس نے ملامت سے بہن کی طرف دیکھااورمجبورہوکربہن کی بات مان لی شادی کے روزوہ بہت رویاجیسے اسے اپنی طبیعت کے خلاف کسی بات پرمجبورکردیاگیاہو۔نتیجہ یہ ہواکہ حمیدی نے نیازمرحومہ کی بڑی بیٹی رشیدہ بانوسے شریف کابیاہ کردیا۔رشیدہ کے لواحقین کویہ ڈرتھاکہ کہیں شریف کی بیوی شہزاداپنے چھ بالکوں کو لے کرپھرسے شریف کے گھرنہ آدھمکے اس لئے انہوں نے صاف کہہ دیاکہ شہزادکوطلاق دے دوتومناسب ہے۔شریف اعلانیہ شہزادکوطلاق دینے کے حق میں نہ تھا۔وہ چاہتاکہ شہزادقانونی طورپرآزادنہ ہوسکے۔اس لئے اس نے چوری چوری طلاق نامے پردستخط کردیئے اوراس بات کومخفی رکھا۔






شریف کے گھرایک نئی بیوی آگئی۔جس کے سامنے وہ صبح وشام اپنی مظلومیت کاقصہ بیان کرسکتاتھا۔آہیں بھرسکتاتھا۔چھت کوٹکٹکی باندھ کردیکھ سکتاتھاگویامینڈک کوپھرکیچڑبھراکنارہ مل گیااورپھرسے اپنے آشیاں میں آبیٹھا۔






محض اتفاق سے اس خفیہ طلاق کی خبرایلی اورشہزادتک پہنچ گئی۔اس روزوہ یوں محسوس کررہے تھے۔جیسے انہوں نے ایک دوسرے کوپہلی مرتبہ دیکھاہو۔جیسے وہ ازسرنوعشق میں گرفتارہوگئے ہوں۔اگرچہ جہاں تک ظاہرکاتعلق تھا۔وہ دونوں سمجھتے تھے کہ یہ قانوی نقطہ ایک بے معنی بات ہے۔وہ دونوں توعرصہ درازسے ایک دوسرے کے ہوچکے تھے۔اس کے باوجودوہ بے حدخوش تھے اورساتھ ہی اس خوشی کوتسلیم کرنے کے لئے تیارنہ تھے۔






جب وہ دونوں ایک بوڑھے مولوی کے سامنے بیٹھے توایلی کادل دھک دھک کررہاتھا۔۔۔شہزادپھرسے مونگیاگٹھڑی بنی بیٹھی تھی۔پھرجب وہ گھرواپس پہنچے تولڑکیوں نے ان کے گردجھرمٹ لگالیا۔نفیسہ ناچنے لگی۔صبیحہ گارہی تھی۔وہ سب مل کرانہیں چھیڑرہے تھے۔تنگ کررہے تھے۔ان سے مذاق کررہے تھے۔






اس واقعہ کو ایک سال گزرگیا۔اب وہ قطعی طورپرآزادتھے۔اب انہیں چھپ کررہنے کی ضرورت نہ رہی تھی۔سکول میں لوگ بھول چکے تھے ایلی کے متعلق اخبارات میں خبریں چھپی تھیں۔مسٹرمعروف کویہ امریادنہ رہاتھاکہ اس کے خلاف خطوط موصول ہوتے رہے تھے۔محلے والوں کے دلوں میں ان کے لئے نفرت نہ رہی تھی ایک دوشریف کے رشتہ دارتھے جوایلی کانام سن کرتیوری چڑھاتے یانفرت سے منہ پھیرلیتے باقی لوگوں کوان کے ساتھ کوئی عنادنہ رہاتھا۔






دو ابن الوقت






پھرایک روزان کے ہاں علی احمدآگئے۔شہزادکے آنے کے بعدیہ پہلاموقعہ تھاکہ علی احمدان کے ہاں آئے تھے۔آتے ہی انہوں نے شورمچادیا۔کیوں بھئی شہزادکوئی حقہ وقہ بھروکوئی چائے وائے پلاؤ۔مہمان آئے ہیں۔ایلی اورشہزادعلی احمدکودیکھ کربے حدخوش ہوئے۔’’میں نے کہا۔‘‘وہ بولے۔’’جب توہم سے آنکھ بھی نہیں ملاتی تھی۔اب بولو۔‘‘شہزادہنسنے لگی۔’’اب ہنستی ہے ۔جب دیکھ کرتیوری چڑھاتی تھی۔‘‘






’’جب کی بات جب کے ساتھ۔‘‘وہ وبولی ۔’’اب کی اب کے ساتھ۔‘‘






’’تو تم اب الوقت ہو۔‘‘علی نے قہقہہ لگایا’’کہ جب اوراب کاخیال رکھتی ہو۔‘‘






’’آپ بھی توہیں ابن وقت۔‘‘وہ چلانے لگی۔






’’وہ کس طرح۔‘‘علی احمد نے پوچھا۔






’’جب آپ کی نگاہ اورہوتی تھی اب اورہے۔‘‘






’’ہی ہی ہی ہی۔‘‘وہ ہنسے۔’’تو تم نگاہ کوپہچانتی ہو۔ہی ہی ہی ہی۔لیکن ہمارے کمال کی بھی داددونابھئی موقعہ اورمحل سمجھتے ہیں کیاکہتی ہے۔‘‘






پھروہ لڑکیوں کی طرف متوجہ ہوگئے۔’’توتم نگاہ کوپہچانتی ہو۔ہی ہی ہی ہی۔لیکن ہمارے کمال کی بھی داددونابھئی موقعہ اورمحل سمجھتے ہیں کیاکہتی ہے۔‘‘






پھروہ لڑکیوں کی طرف متوجہ ہوگئے۔’’بائی بائی۔‘‘وہ چلانے لگے۔’’یہ توسب جوان ہوگئی ہیں۔عورت نے دنیامیں دھاندلی مچارکھی ہے۔‘‘






’’وہ کیسے؟‘‘شہزادبولی۔






’’آج دیکھوتوبچی ہوتی ہے کل دیکھوتوجوان اورپرسوں دیکھوتوماں بن کربیٹھی ہوتی ہے۔عورت ذات توہاتھ پرسرسوں ہے ادھررکھی ادھراگی۔کیاکہتاہے ۔اب توبھائی اپناآپ بھول جاؤاوران کافکرکروکیوں شہزادلیکن شہزادکہاں اپناآپ بھولتی ہے۔اب بھی آئینہ کے سامنے کھڑی ہوجاؤتو۔۔۔کیوں۔ہی ہی ہی ہی۔‘‘وہ قہقہہ ماکرہنسنے لگے۔






’’میں نے کہا۔‘‘شہزادبولی۔’’اب توآپ پنشن پاچکے ہیں۔‘‘






’’ہاں ہاں۔‘‘وہ بولے۔






’’اورمحلے ہی میں رہتے ہیں۔‘‘






’’لواورکہاں رہناہے ہم نے ۔‘‘






’’تومحلے میں جوہنگامہ ہواتھااس کی وجہ سے آپ بڑے پریشان ہوئے ہوں گے۔‘‘وہ قہقہہ مارکرہنسے’’ہاں۔‘‘وہ بولے۔’’بڑافسادمچاتھامحلے میں۔آگ لگ گئی تھی۔لیکن شورزیادہ تھااورفسادکم‘ہمیں بڑی بڑی دھمکیاں دیں۔میدان میں کھڑے ہوہوکرہمیں للکارا۔لیکن ان باتوں سے کیاہوتاہے ہمارے لئے کوئی نئی بات نہیں۔‘‘وہ قہقہہ مارکرہنسے۔’’ہم نے بھی ایسی چال چلی کہ سب کوالوبنادیا۔ہی ہی ہی ہی۔‘‘






’’وہ کیسے؟‘‘شہزادنے پوچھا۔






’’جب وہ ہمارے پاس آئے محلے کے معززلوگ۔کہنے لگے کہ بتائیے اس معاملے میں آپ ایلی کاساتھ دیں کے محلے والوں کا‘تومیں نے کہا:۔






’’بھئی محلے والے توشریف کاساتھ دے رہے ہیںنا؟ہاں ہاں وہ بولے چونکہ شریف شرافت اورسچائی پرہے‘بالکل درست ہم مانتے ہیں کہ شریف بے حدشریف ہے اورایلی نے اس سے زیادتی کی ہے بلکہ ظلم کیاہے‘اس پروہ بولے توپھرآپ شریف کاساتھ دیں گے۔بالکل‘میں نے کہا۔دل وجان سے۔اس حدتک شریف کاساتھ دینے کے لئے تیارہوں کہوتوایلی کوعاق کردوں اوراس کی والدہ کوطلاق دے دوں۔لیکن میری ایک شرط ہے۔’’کیاہے؟‘‘وہ پوچھنے لگے۔






’’شرط یہ ہے کہ شریف سب کے روبروقسم کھاکرکہے کہ میں پورے عزم اوراستحکام سے اس معاملے کی پیروی کروں گا۔‘‘میں نے کہا۔’’دیکھوناشریف ایک سادھوقسم کاآدمی ہے اسے دنیاسے لگاؤ نہیںکسی سے دشمنی اس کے دل میں نہیں۔اس کاکیاہے کل اس جھگڑے کوچھوڑچھاڑکرچلاجائے اوراعلان کردے کہ میں نے سب کومعاف کیاتوپھرہماراکیاہوگا۔دیکھونابزرگو‘میں نے کہا۔’’ہم دنیادارلوگ ہیں ایسانہ ہوناکہ ہم شریف کاساتھ دیں لیکن شریف ہماراساتھ نہ دے اورہم اپنے عزیزوں سے بھی محروم ہوجائیں۔‘‘علی احمدقہقہہ مارکرہنسے۔






’’نتیجہ یہ ہوا۔‘‘علی احمدبولے۔’’کہ ان میں پھوٹ پڑگئی۔کچھ لوگوں نے یہی اعتراض پکڑلیااورپھرہواوہی ایک روزشریف چپکے سے محلہ چھوڑکرچلاگیا۔ہی ہی ہی ہی۔اس روزہم نے محلے والوں سے کہا دیکھاہم نے کہاتھا۔ہمیں اس بات کاڈرتھا۔پھرتووہ سب شریف کے خلاف ہوگئے۔‘‘علی احمدہنسنے لگے۔






علی احمدکے آنے کے بعدگویاعزیزوں کاتانتابندھ گیا۔ہاجرہ کئی مرتبہ ایلی اورشہزادسے ملنے آئیں۔فرحت نے بھی دوباران سے ملاقات کی ۔پھرمحلے کے لوگ بلاتکلف آنے جانے لگے۔






دوطوفان






ایک روزجب ایلی ارم پورہ میں اپنے فرائض سے فارغ ہوکرگھرپہنچاتواس نے دیکھاکہ لڑکیاں چپ چاپ بیٹھی ہیں اورگھرپراداسی چھائی ہوئی ہے۔






’’شہزادکہاں ہے۔‘‘اس نے پوچھا۔’’امی کوہسپتال لے گئے ہیں۔وہ بیمارہوگئی تھیں۔‘‘نفیسہ بولی۔






’’کون لے گئے ہیں؟‘‘اس نے پوچھا۔






’’پڑوسیوں نے انہیں ہسپتال پہنچادیاہے۔‘‘






ایلی ہسپتال پہنچاتواسے معلوم ہواکہ معاملہ نازک ہے اورشہزادکی زندگی خطرے میں ہے اس کے پیٹ کابچہ مرچکاہے اورمردہ بچے کازھراس کے جسم میں سرایت کرچکاہے۔






وہ رات خوفناک رات تھی۔سردیوں کے دن تھے۔بارش اورہواکاطوفان چل رہاتھا۔ہسپتال کے چوکیدارکے پاس ایلی کمبل میں لپٹاہوابیٹھاتھا۔نرس کی اطلاع کے مطابق اندرشہزادآپریشن ٹیبل پرپڑی تھی۔اورڈاکٹرسوچ رہے تھے کہ آیاوہ آپریشن کی تکلیف برداشت کرسکے گی یانہیں۔






ایلی آگ کے پاس بیٹھاتھا۔اس کے ذہین میں بیرونی طوفان سے زیادہ شدیدطوفان چل رہاتھا۔کیایہی اسے قصے کاانجام تھا۔سالہاسال کی تگ ودوکے بعدجب کہ وہ جیون ساتھی بن چلے تھے کیاقدرت کویہی منظورتھاکہ وہ پھرجداہوجائیں۔اگرشہزادکوکچھ ہوگیاتوبچوں کاکیاہوگا؟وہ سوچ رہاتھا۔






بیتے ہوئے لمحات اس کے سامنے پردہ فلم کی طرح آرہے تھے۔جب وہ شہزادکوپہلی دفعہ بیاہ کرلائے تھے اورملحقہ ڈبے میں مونگیاگٹھڑی بنی ہوئی تھی۔حنامالیدہ ہاتھ گٹھڑی سے نکلے تھے۔یہ ہے ایلی۔کسی نے کہااوردوناگ اس کے سرپرمنڈلانے لگے تھے۔






پھرجب وہ کہانی سنارہی تھی اورایلی نے محسوس کیاتھاکہ اس کے انگوٹھے پرایک رنگین بوجھ ساپڑگیاتھااوراس کاسربھن سے اڑگیاتھاجیسے کسی نے ہوائی کوآگ دی ہواوران جانے میں اس نے حنامالیدہ ہاتھ تھام لئے تھے اورنہ جانے جذبے کی شدت میں کیاکہہ دیاتھا۔’’تم ایلی ہو۔۔۔‘‘شہزادنے حیرت سے اس کی طرف دیکھاتھا۔






پھربندبیٹھک میں اپنے مردانہ پن کی دھاک جمانے کے لئے وہ سکندرکی طرح حملہ آورتھااورپھرپورس کی طرح منہ میں گھاس لئے اس کے قدموں میں پڑاہواتھا۔






پھروہ بے نیازورزن اس کے روبروبیٹھی تھی۔جوقریب ہوکراس سے دورہوجاتی تھی اوردورہوتی توگویااس کے گودمیں آبیٹھتی ۔وہ اجنبی عورت کی طرح اس کے روبروکھڑی تھی۔وہ صفدرسے ہنس ہنس کرباتیں کررہی تھی اورایلی کی طرف حقارت سے دیکھ کرکہہ رہی تھی ’’تم!‘‘اس تم میں کتنی دھارتھی۔اس کادل ٹکڑے ٹکڑے ہوگیاتھا۔






پھروہ چلارہاتھا۔’’تم رذیل کمینی عورت ہو۔آج پھرمیرے روبروآتے ہوئے تمہیں شرم نہیں آتی کیا؟‘‘اوروہ اس کے قدموں میں گرکرکہہ رہی تھی’’ہاں۔۔ہوں۔‘‘پھرصفدرچلارہاتھا۔’’میں نہیں مروں گامیں نہیں مروں گا۔۔۔مجھے معاف کردو۔مجھے معاف کردو۔۔۔‘‘اوراب شہزادآپریشن ٹیبل پرپڑی ایلی سے کہہ رہی تھی۔’’مجھے معلوم تھا۔میں تم سے پہلے مروں گی۔ہمیشہ سے مجھے اس کاعلم تھا۔میرادل گواہی دیتاتھا۔مجھے کوئی غم نہیں صرف میری بچیاں۔‘‘اس نے آخری ہچکی لی۔۔۔ایلی گھبراکرچونک پڑا۔چوکیدارجاچکاتھا۔آسمان پرہلکی ہلکی سفیدی چھائی ہوئی تھی۔طوفان تھم چکاتھا۔نرس اسے جھنجھوڑرہی تھی۔’’آپریشن کامیاب رہا۔تمہیں مبارک ہو۔‘‘ایلی کویقین نہیں آتاتھا۔اس کے دل میں کوئی خوشی پیدانہ ہوئی اوروہ اسی طرح دیوانہ وار بیٹھارہا۔اسے سمجھ نہیں آرہاتھاکہ کہاں جائے۔کیاکرے۔






پھرہسپتال کابھنگی اس کے روبروکھڑاتھا۔مردہ بچے کی لاش لے جاؤ۔‘‘وہ کہہ رہاتھا۔






لاش!ایلی سوچنے لگا۔لاش کوکہاں لے جاؤں۔کیاکروں۔لاش!!






بھنگی اسے جھنجھوڑرہاتھا۔’’ابھی لے جاؤ۔‘‘وہ کہہ رہاتھا۔’’اسی وقت ۔اٹھانے والاہے






کوئی۔‘‘ایلی حیرت سے اس کامنہ دیکھ رہاتھا۔






بوندبوند






شہزادہسپتال سے واپس آئی توایلی اسے دیکھ کرگھبراگیا۔یہ وہ شہزادنہیں تھی۔جس سے وہ واقف تھا۔یہ کوئی اورہی شہزادتھی۔اس کاجسم ہڈیوں کاڈھانچہ تھا۔گال بری طرح پچک گئے۔ہڈیاں ابھرآئی تھیں۔ماتھے کاتل گویاگل ہوگیاتھا۔اس میں وہ روشنی نہ رہی تھی۔جیسے کسی نے دیپ بجھاکراس کی گذشتہ روشنی کی یادتازہ رکھنے کے لئے اسے ان طاقوں پررکھ دیاہو۔آنکھوں میں چمک باقی تھی۔لیکن اس چمک میں مایوسی کادھندلکاشامل ہوگیاتھا۔ناک ابھرآئی تھی۔ہونٹ گویابھنچ گئے تھے۔دانت نکل آئے تھے۔






اسے ڈسچارج کرتے ہوئے ڈاکٹرنے کہااسے اچھی غذاکی ضرورت ہے اچھی غذااورکیلشیم لیکن جب وہ گھرپہنچی تھی توان کے ہاں کچھ آٹااورتھوڑی سی دال کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ان کی غربت روزبروزبڑھتی جارہی تھی۔سرپرقرض کاطومارکھڑاہوگیاتھاجسے اداکرنے کی کوئی صورت نہ تھی۔لیکن اس سے بڑی مشکل یہ تھی کہ قرض حاصل کرنے کے مزیدامکانات بالکل ختم ہوچکے تھے۔






لاہورمیں ایلی کے ماموں زادبھائیوں رفیق جمیل اورخلیق نے اس کی بے حدامدادکی تھی۔جمیل ابھی تک خان پورمیں تھا۔رفیق لاہوررہتاتھاچونکہ اس کی تبدیلی ہیڈآفس میں ہوچکی تھی ۔خلیق اب ڈاکٹربن چکاتھااوراکثرلاہورآیاکرتاتھا۔ان کے علاوہ اس کے خالہ زادبھائی یوسف نے ان کی ساتھ بہت ہمدردی کی تھی۔لیکن انہیں توآئے دن امدادکی ضرورت رہتی تھی۔کبھی کبھارکی بات ہوتی توبھی وقت گزرجاتا۔روزکی حاجت مندی کاکیاعلاج ہوسکتاتھا۔






دوسری مشکل یہ تھی کہ دولڑکیاں اب جوان ہوچکی تھیں۔ان میں شہزادکی سی رنگینی تونہ تھی۔لیکن پھربھی وہ شہزادکی بیٹیاںتھیںاوراسی گھرمیں پل کرجوان ہوئی تھیں۔لہٰذاان کی طبائع میں وہ گھٹاگھٹاپن نہ تھا۔محلے کی تمام عورتیں ان کے سحرسے مخدوش تھیں۔وہ نہیں چاہتی تھیں کہ ان کے شوہریابھائی یابیٹے شہزادکے گھرجائیں اوران سے ملیں۔اس لئے یہ سب لوگ چوری چھپے وہاں آتے تھے۔






ان کے آتے ہی فرش بچھادیاجاتااورپھرسب مل کرتاش یاچوپٹ کھیلنے بیٹھ جاتے اورکھیل میں وہ سب ہنستے چیختے چلاتے قہقہے لگاتے۔گیت گنگناتے اورشورمچاتے۔ایک دھماچوکڑی لگی رہتی۔لیکن اس کے جاتے ہی مالی دقتوں کااحساس بیدارہوتااورشہزادایک طرف لیٹ کرسوچتی اورآہیں بھرتی۔






لڑکیاں طبعاً ہنسنے پرمجبورتھیں یاان کاعنفوان شباب انہیں مسکرانے پرمجبورکرتاتھا۔اس لئے وہ ہنستی رہتی تھیں۔لیکن اس کے دل کی گہرائیوں میں بھی پچھتاوے کی بونداباندی شروع ہوچکی تھی۔غالباً وہ اس احساس کااظہارصرف ماں کے ساتھ کیاکرتی تھیں۔جس کی وجہ سے وہ مغموم اورافسردہ رہنے لگی تھی۔شہزادکوذاتی طورپرکوئی غم نہ تھانہ وہ پچھتانے کی قائل تھی غالباً اسے بیٹیوں کے غم نے اندرسے کھوکھلاکردیاتھا۔






ایلی نے آنے سے پہلے باربارشہزادسے کہاتھاکہ مالی مشکلات ہوں گی۔اس لئے سوچ لوکیاتم انہیں برداشت کرسکوگی۔لیکن ان دنوں شہزاداس کے اس سوال کواہمیت نہ دیتی تھی۔ایلی کواس بات پرغصہ آتاتھاکہ اب وہ کیوںاکیلی پری رہتی ہے کیوں آہیں بھرتی ہے۔کیوں غم کھاتی ہے۔






شہزادکواپنی بڑی لڑکیوں کی تعلیم کابھی غم تھا۔جب وہ گروپتن سے آئی تھیں۔تودونوں نویں جماعت میں تعلیم پارہی تھیں۔ان کے دوسال پہلے ہی ضائع ہوچکے تھے۔پہلے سال توانہیں کسی سکول میں داخل کرنے کاسوال ہی پیدانہ ہوتاتھا۔دوسرے سال میں انہیں نے کئی بارکوشش کی تھی کہ گروپتن سے ان کے سرٹیفکیٹ دستیاب ہوجائیں۔لیکن شریف نے ہیڈمسٹرس کولکھ کردے دیاتھاکہ جب تک وہ خودان کے سرٹیفکیٹ طلب نہ کرے۔سرٹیفکیٹ جاری نہ کئے جائیں۔لہٰذاان کادوسراسال بھی ضائع ہوگیاتھااورشہزادکوڈرتھاکہیں تیسراسال بھی ضائع نہ ہوجائے۔بوندبوندغم اس کی روح میں سرایت کررہاتھا۔






دوپاگل






پھرایلی کاتبادلہ شاہ وال ہوگیااوروہ سب شاہ وال چلے گئے!






شاہ وال ایک بڑاقصبہ تھاجولاہورسے تیس چالیس میل کے فاصلہ پرواقع تھا۔ابھی دوشاہ وال پہنچے ہی تھے کہ شہزادپھربیمارپڑگئی۔اسے خون جاری ہوگیا۔لیڈی ڈاکٹرنے جواب دے دیا۔بولی۔’’اس لاہورہسپتال میں لے جائیے۔لاہورہسپتال کے ڈاکٹروں نے معائنہ کرنے کے بعدفیصلہ کہ مریضہ کااندرونی جسم مردہ بچے کے زہرکی وجہ سے گل گیاہے۔آپریشن ہوگا۔






کیاآپریشن کے بعدمریضہ یقینی طورپرٹھیک ہوجائے گی۔‘‘ایلی نے پوچھا۔






’’یقین سے نہیں کہاجاسکتا۔‘‘ڈاکٹربولا۔زیادہ امیدنہیں۔‘‘






’’اوہ۔‘‘ایلی سوچ میں پڑگیا۔






جب وہ شہزادسے ملاتوبولی’’میں آپریشن نہیں کراؤں گی۔‘‘






’’کیوں۔‘‘اس نے پوچھا۔






’’بے کارہے۔‘‘ وہ بولی۔






’’بے کارکیوں۔‘‘






’’وہ کہتے ہیں سڑاندپچھلی جھلی تک پہنچ چکی ہے اورخون بندنہیں ہوگا۔‘‘






’’توپھر۔‘‘






’’مجھے لڑکیوں کے پاس لے چلو۔‘‘






’’اچھا۔‘‘ایلی نے سرجھکالیا۔






جب شہزادلیڈی ڈاکٹرسے ہسپتال چھوڑنے کی اجازت طلب کرنے گئی توڈاکٹرنے صاف انکارکردیا۔’’بے وقوف مت بنو۔‘‘وہ بولی۔’’اگرتم ہسپتال چھوڑکرچلی گئی توزیادہ سے زیادہ پندرہ روزجیئوگی۔






’’اوراگرمیں ہسپتال میں رہوں تو۔‘‘






’’توتو۔۔۔شاید۔‘‘






شہزادنے اپنے کپڑوں کی گٹھڑی اٹھالی۔ڈاکٹرگھبراگئی۔’’نہیں نہیں۔‘‘وہ بولی۔






’’مجھے کون روک سکتاہے۔‘‘شہزادنے کہااورباہر نکل آئی۔ڈاکٹراس کے پیچھے پیچھے تھی۔ڈاکٹرنے ایلی کودیکھ کرشورمچادیا۔’’اے مسٹر۔یہ تمہاری مسزدیوانی ہوگئی ہے۔جان بوجھ کرخودکشی کررہی ہے۔اے مسٹر۔‘‘






ایلی رک گِا۔’’یہ عورت پاگل ہے۔‘‘ڈاکٹرچلائی۔






’’ہم دونوں پاگل ہیں۔‘‘وہ بولا






’’ارے ۔‘‘ڈاکٹربولی۔’’تم پڑھے لکھے نظرآتے ہو۔‘‘






’’ہاں۔‘ایلی نے کہا’’میں پڑھالکھاپاگل ہوں۔‘‘






’’ارے ۔‘‘وہ گھبراکرپیچھے ہٹ گئی۔دونوں پاگل باہر نکل آئے۔شہزادنے ایلی کاہاتھ تھام لیا۔بولی۔’’ایلی ۔‘‘






’’جان من ۔‘‘وہ بولا۔






’’پندرہ دن ہیں۔‘‘اس کی آنکھ میں مسرت کی چمک تھی۔






’’ہاں۔‘‘






’’پندرہ دن ہم اکٹھے رہیں گے۔‘‘






’’ہاں۔‘‘






’’پندرہ دن بہت ہوتے ہیں۔‘‘






’’ہاں ہاں۔‘‘وہ بولا۔






’’تم نے کہیں باہرتونہیں جانا۔‘‘






’’نہیں جاؤں گا۔‘‘






’’ہم اکٹھے بیٹھ رہیں گے۔‘‘






’’بالکل ۔‘‘






’’اورپھرہم بیٹھ کرسب باتیں دہرائیں گے۔‘‘






’’ہاں۔‘‘






’’جب میں نے تمہیں پہلی مرتبہ دیکھاتھا۔‘‘






پن۔درہ۔دن






اپنی ہی دھن میں پاگل پیدل چلے جارہے تھے۔






’’بابوجی تانگہ چاہیئے۔‘‘تانگے والے نے قریب آکرپوچھا۔






’’تانگے پرچلوگی۔‘‘ایلی نے پوچھا۔






’’کیاکرتاہے۔‘‘ وہ بولی۔






’’چلتے ہوئے تمہیں تکلیف ہوگی۔‘‘وہ بولا۔






’’تکلیف ‘‘۔۔وہ ہنسی ۔’’اب کیاہے۔‘‘






’’ہاں۔‘‘وہ بولا۔’’اب کیاہے۔‘‘






’’ایلی ۔‘‘وہ بولی۔






’’جی۔‘‘






’’ایک بات کہوں۔‘‘






’’کہو۔‘‘






’’مانوگے؟‘‘






’’مانوں گا۔‘‘






’’شروع سے ہی مجھے معلوم تھا۔‘‘






’’کیا؟‘‘






’’کہ میں پہلے مروں گی۔‘‘






’’واقعی؟‘‘






’’ہاں۔جب بھی تم میرے پاس آیاکرتے تھے توکوئی میرے کان میں کہتا۔تم پہلے مروں گی۔‘‘






’’اچھا۔‘‘






’’ہاں۔‘‘






’’کون کہتاتھا؟‘‘






’’معلوم نہیں۔لیکن مجھے معلوم تھاوہ سچ کہتاہے۔‘‘






’’بس اتناہی کہتاتھا؟‘‘






’’نہیں۔‘‘وہ بولی۔






’’تو؟‘‘






’’ایک بات اورکہتاتھا۔‘‘






’’وہ کیا؟‘‘






’’کہتاتھا۔۔نہیں بتاؤں گی۔‘‘اس کی آنکھوں میں آنسوبھرآئے۔






’’نہ بتاؤ۔‘‘وہ بولا۔’’لیکن تم روتی کیوں ہو۔‘‘






’’ہاں روتی ہوں۔‘‘وہ بولی۔






’’اچھاجیسے تمہاراجی چاہے۔‘‘






’’اس لئے نہیں روتی کہ پندرہ دن اورہیں۔‘‘






’’توکس لئے؟‘‘






’’وہ دوسری بات کہتاتھا۔اس پر نہ جانے کیوں اس کی دوسری بات سن کرمیںہمیشہ روتی رہی چھپ چھپ کرروتی رہی۔‘‘!






’’کیاکہتاوہ ایسی کیابات ہے؟‘‘






’’کہتاتھا۔۔بتادوں؟‘‘






’’تمہاری مرضی۔‘‘






’’کہتاتھا۔تمہارے مرنے کے بعداس کی زندگی شروع ہوگی۔‘‘






’’کس کی زندگی؟‘‘






’’تمہاری۔‘‘






’’زندگی ختم ہوجائے گی یاشروع ہوجائے گی۔‘‘






’’شروع ہوگی۔‘‘وہ بولی۔






’’اس میں رونے کی کیابات ہے؟‘‘






’’مجھے محسوس ہوتاتھا۔جیسے میں تمہارے راستے کی رکاوٹ ہوں۔‘‘






’’وہ کیسے؟‘‘






’’اورتمہاری زندگی شروع نہیں ہوسکتی جب تک رکاوٹ دورنہ ہو۔‘‘






’’بے وقوف تم رکاوٹ نہیں زندگی ہو۔تم چلی گئی توسب کچھ ختم ہوجائے گا۔‘‘






’’سچ۔‘‘وہ بولی۔






’’تمہاری قسم۔‘‘






وہ مسکرائی۔’’بس مجھے ایک غم ہے ۔میری بچیاں۔‘‘اس کی آنکھوں میں آنسوآگئے پھروہ گاڑی میں بیٹھے ہوئے شاہ وال جارہے تھے۔انجن ہونک رہاتھا۔






’’پن۔درہ۔دن۔۔۔۔پن۔درہ۔دن۔‘‘






دفعتاً ایلی کی توجہ سامنے بیٹھے ہوئے مسافروں کی طرف منعطف ہوگئی۔






’’پندرہ ‘‘’’دن ‘‘ایک چلارہاتھا۔’’صرف پندرہ دن۔‘‘






ایلی نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔کیاوہ ان کے رازسے وقف تھا۔






’’کیوںبھائی‘‘۔وہ ایلی کومخاطب کرکے کہنے لگا۔’’لوتم ہی بتاؤپندرہ دن بھی کوئی حیثیت رکھتے ہیں۔‘‘اس نے چٹکی بجائی۔’’یوں گئے ہے نا۔‘‘وہ قہقہہ مارکرہنسنے لگااورپھراپنے ساتھیوں کومخاطب کرکے بولا۔’’ہم نے بس وہی ڈاکٹردیکھاہے۔دوسال میری بیوی میوہسپتال میں پڑی رہی۔دوسال آخرانہوں نے جواب دے دیااورمیں اسے دوراہے لے گیااوراس اللہ کے بندے نے پندرہ روزمیں ایساکردیاکہ وہ اپنے پاؤں چل کرگھرآئی اوراللہ اس کابھلاکرے۔آج ہم ہنسی خوشی زندگی بسرکررہے ہیں۔‘‘






’’کون ہے وہ ڈاکٹر؟‘‘ایلی نے پوچھا۔






’’دوراہے کاہومیوپیتھ ہے جی۔‘‘






’’کیانام ہے؟‘‘ایلی نے پوچھا۔






ڈاکٹرہاشم






’’بھئی واہ۔‘‘وہ بولا۔’’تم ڈاکٹرہاشم کونہیں جانتے۔‘‘






’’جی ڈاکٹرہاشم کوکون نہیں جانتا۔‘‘اس کاساتھ بولا۔






اگلے روزہی ایلی دوراہے میں ڈاکٹرہاشم کے معمل میں بیٹھاتھا۔






ڈاکٹرہاشم کامعمل ایک وسیع وعریض صحن پرمشتمل تھا۔جس کے ایک طرف دوتنگ کمروں میں ادویات رکھی تھیں اوردوکمپاؤنڈربیٹھے تھے۔دوسری طرف ایک برآمدہ تھا۔جس کے پیچھے دووسیع کمروں میں کتابیں پڑی تھیں۔تیسری طرف ایک دروازے کے پیچھے ڈاکٹرکامکان تھا۔صحن میں ایک درخت کے نیچے ایک تخت پڑاتھا۔جس پرایک پراناساتکیہ لگاتھا۔نیچے ایک سادہ ساگدابچھاہواتھاایک چھوٹے سے ڈسک پرایک پراناقلمدان پڑاتھا۔یہ ڈیسک تخت پرلگاہواتھا۔اوراس کے پاس ہی کاغذکی پرچیاں سی پڑی تھیں۔تخت کے ایک طرف بوسیدہ کالاکمبل ڈھیر ہورہاتھا۔






صحن میں کوئی کرسی نہ تھی۔کتابوں والے کمرے میں بیٹھنے کے لئے فرش کے علاوہ کوئی کرسی یاکاؤچ نہ تھا۔صحن میں لوگ ادھرادھرزمین پرچوکیاں رکھے بیٹھے ہوئے تھے۔وہ سب ایک دوسرے سے باتیں کرنے میں مصروف تھے۔اوریوں شورمچارہے تھے۔جیسے وہ ڈاکٹرکامعمل نہیں بلکہ سٹہ منڈی ہو۔ڈاکٹرابھی زنان خانے سے باہرنہیں نکلاتھا۔






دفعتاً زنان خانے کادروازہ کھلا۔ایک لڑکاایک حقہ اٹھائے باہرنکلا۔اسے دیکھ کرسب خاموش ہوگئے۔اس کے پیچھے پیچھے ایک دیوانہ ساآدمی یوں لڑھکتاہواآرہاتھا۔جیسے کسی نے اسے دھکادے کرمتحرک کردیاہو۔اس نے ایک لمباچغہ رکھاتھا۔نیچے سیاہ جرابیں تھیںایک پھٹی ہوئی گرگابی۔






اس کے بال پریشان تھے۔چہرہ گویاسوجاہواتھا۔آنکھیں چندھیائی ہوئی تھیں۔تخت کے قریب پہنچ کروہ رکااس نے بڑھ کرکمبل اٹھالیااوراسے اپنے گردلپیٹ کرتخت پرڈھیرہوگیا۔






مجمع پرخاموشی طاری تھی۔






ایک ساعت کے بعداس نے سراٹھایااورمجمع پراچٹتی نگاہ ڈالی۔اس کی نگاہ ایک آدمی پررکی۔’’ہوں۔‘‘وہ بولا۔’’تم۔‘‘






’’جی۔‘‘وہ شخص بولا۔






’’تمہاری بیوی مرگئی ہے کیا؟‘‘ڈاکٹرنے پوچھا۔






’’جی نہیں۔‘‘وہ شخص بولا۔






’’تواس کابراحال ہے کیا۔‘‘






’’جی نہیں۔‘‘الٹاوہ روصحت ہے۔‘‘






’’توپھرتم کیوں آئے ہو۔‘‘ڈاکٹرنے اسے ڈانٹا۔






’’جی دوالینے ۔‘‘






’’کیسی دوا۔‘‘






’’جی دوائی۔‘‘وہ گھبراگیا۔






’’جب وہ روصحت ہے تودوائی کامطلب۔دوائیاں لینے کاشوق ہے کیا۔‘‘ڈاکٹرنے کہا۔






’’جی نہیں۔‘‘وہ بولا۔’’میں نے سمجھاکہ مزیددوائی۔۔۔‘‘






’’بے وقوف۔‘‘ڈاکٹربولا۔’’میں نے سمجھاکہ تم میں سمجھنے کی صلاحیت ہے۔‘‘






’’جی نہیں۔‘‘ وہ بولا۔






’’توپھرمت سمجھو۔‘‘






’’جی بہت اچھا۔‘‘






’’جاؤمزے کرو۔اب کسی دوائی کی ضرورت نہیں۔‘‘وہ شخص سرجھکائے چل پڑا۔






’’ہوں تم۔‘‘ڈاکٹرکی نگاہ ایک اورشخص پرپڑی۔’’تم۔‘‘وہ بولا۔






’’جی۔‘‘اس شخص نے جواب دیا۔’’میرانام ماجدہے۔‘‘






ڈاکٹرنے قہقہہ لگایانام کومیں کیاکروں۔تمہیں تپ دق ہے نا۔‘‘






’’جی ہاں۔‘‘وہ بولا۔






’’توجاؤتمہارے لئے میرے پاس کوئی دوانہیں جاؤ۔‘‘






’’لیکن ڈاکٹرصاحب۔‘‘وہ بولا۔’’میں کہاں جاؤں؟‘‘






’’تم اللہ کے پاس جاؤ۔‘‘ڈاکٹرنے جواب دیا۔‘‘وہاں سکھی رہوگے۔‘‘جاؤجاؤجاؤ۔‘‘






وہ شخص مایوس ہوکرچل پڑا۔






’’ہوں۔‘‘ڈاکٹرنے ایلی کی طرف دیکھا۔






’’جی میں۔‘‘ایلی بولا۔’’میں شاہ وال سے آیاہوں۔‘‘






’’توکیامجھ پراحسان کیاہے۔‘‘ڈاکٹربولا’’میاں لوگ حیدرآبادسے آتے ہیں۔‘‘وہ رک گیا۔






’’میسورسے آتے ہیں۔تم شاہ وال سے آگئے توکیاہوا۔‘‘اس نے دوبارہ کہا۔






ایلی گھبراگیا۔’’جی آپ بجافرماتے ہیں۔‘‘وہ بولا۔






’’کیافائدہ ہواشاہ وال سے آنے کاکیافائدہ ہوا۔بے وقوف۔‘‘ڈاکٹراسے گھورتارہا۔






ایلی کوغصہ آرہاتھا۔






’’لوبھائی اس شخص کی طرف دیکھا۔‘‘ڈاکٹرنے جملہ لوگوں کومخاطب کرکے کہا۔’’یہ شاہ وال سے آیاہے لیکن بے وقوف مریض کوساتھ نہیں لایا۔‘‘






’’ارے۔‘‘ایلی حیرت سے ڈاکٹرکی طرف دیکھنے لگا۔






’’میاں۔‘‘ڈاکٹرکہنے لگا۔‘‘اگرتم مریض کوساتھ نہین لائے توکیامیرامنہ دیکھنے آئے ہو۔‘‘






’’جی ہاں۔‘‘وہ بولا۔






ڈاکٹرقہقہہ مارکرہنس ۔بولا۔’’اچھادیکھو۔‘‘






عین اس وقت ایک معززہندوداخل ہوااوردروازے میں ہی ہاتھ جوڑکربولا۔’’نمستے ڈاکٹرصاحب۔‘‘ڈاکٹرصاحب کی توجہ قوواردکی طرف منعطف ہوگئی۔






’’یہ لالہ جی دوراہے کے تحصیلدارہیں۔‘‘قریب سے ہی آوازیں آئیں۔






لالہ جی قریب آگئے۔وہ ایک معززاورشریف آدمی نظرآتے تھے اوراندازمیں بلاکاتحمل تھا۔جب وہ قریب آئے توڈاکٹرنے بغوران کی طرف دیکھا۔






’’لالہ جی۔‘‘ڈاکٹربولا۔’’مہربانی کرکے تشریف لے جائیں۔‘‘






تحصیلدارنے ڈاکٹرکی طرف دیکھا۔






’’تشریف لے جائیں۔’’ڈاکٹرنے دہرایا۔’’پھرسے داخل ہوں اورالسلام علیکم کہیں۔‘‘






تحصیلدارکھڑے ہوکرڈاکٹرکی طرف دیکھنے لگے۔






’’جب تک آپ ایسانہیں کریں گے۔‘‘ڈاکٹرنے کہا۔’’میں آپ کودوانہیں دوں گا۔‘‘






’’لیکن ڈاکٹرصاحب۔‘‘تحصیلدارنے کہا۔’’میں نے داخل ہوتے وقت ہاتھ باندھ کرآپ کونمستے کی ہے۔‘‘






’’مجھے معلوم ہے۔‘‘ڈاکٹرنے کہا۔






’’نمستے کرنے کیابرائی ہے؟‘‘تحصیلدارنے پوچھا۔






’’کوئی نہیں۔‘‘






’’الٹااس میں توبے حدعجزہے۔‘‘






’’جی۔‘‘ڈاکٹرنے کہا۔’’آپ بالکل بجافرمارہے ہیں۔اس میں بہت عجز ہے۔لیکن ازراہ کرم واپس جائیے اورپھرداخل ہوکرالسلام علیکم کہیے تاکہ میں آپ کودوائی دوں۔‘‘






اس پرتحصیلدارصاحب مسکرائے اوراحاطے سے باہر نکل گئے۔پھرداخل ہوتے ہوئے بولے۔‘‘






’’السلام علیکم ۔‘‘






’’وعلیکم اسلام۔‘‘ڈاکٹرنے کہا۔’’فرمائیے کس کے لئے دوائی لیناہے آپ نے ۔‘‘






’’گھروالی کے لئے ۔‘‘وہ بولے۔






’’اپنی گھروالی کواپنی طرح تحمل پسندبنائیے نا۔‘‘ڈاکٹربولا۔’’وہ اپنی طبیعت کی تلخی کی وجہ سے بیماررہتی ہے۔‘‘






’’یہ میرے بس کاروگ نہیں۔‘‘تحصیلدارنے شرمندگی محسوس کرتے ہوتے کہا۔’’آپ ان کی بیماری کی تفصیلات سن لیجئے۔‘‘






’’نہیں۔‘‘ڈاکٹرنے کہا۔’’پہلے ہمیں ایسی دوائی دنیاہوگی۔جس سے ان کی طبیعت بدل جائے۔‘‘






’’دوائی سے طبیعت بد ل جائے ۔‘‘تحصیلدارنے کہا۔






ڈاکٹرنے قلم نیچے رکھ دیاآپ دوائی کوکیاسمجھتے ہیں لالہ جی۔‘‘اس نے پوچھا۔






شایدآپ سمجھتے ہیں کہ دوائی صرف پیٹ کادرددورکرتی ہے۔کھانسی کوروکتی ہے۔اسہال کوبندکرتی ہے۔‘‘






’’جی ڈاکٹرصاحب۔‘‘وہ






’’آپ غلط سمجھے ہیں اوریہ ایک خوراک دینے کے بعد۔‘‘ڈاکٹرنے پرچی پرلکھتے ہوئے کہا۔‘‘آپ کوسمجھ میں آئے گاکہ دوائی کیاچیزہے۔‘‘


’’مجھے اجازت ہے کہ ایک بات پوچھوں۔‘‘ایلی بولا۔


ڈاکٹرنے مڑکرایلی بات پوچھوں۔‘‘


’’لالہ جی بھی تومریض کوساتھ نہیں لائے۔‘‘وہ بولا۔


’’توپھر۔‘‘ڈاکٹرنے پوچھا۔


’’توپھر۔انہیں کیوں دوائی دے رہے ہیں آپ؟‘‘


ڈاکٹرہنسنے لگا۔’’اس کاجواب تمہیں اس وقت دیں گے جب تم مریض کوساتھ لاؤگے اب مہربانی کرکے چلے جاؤ۔’’ڈاکٹرنے اسے ڈانٹااورچپ چاپ صحن سے باہر نکل آیا۔


کمبل کی گٹھڑی


شاہ وال کوواپس جاتے ہوئے ایلی سوچ رہاتھا۔ایساتوڈاکٹرتواس نے کبھی نہ دیکھاتھا۔نہ ہی ہومیوپیتھی سے اسے کبھی سابقہ پڑاتھا۔علاج بالمثل کے تصورسے ہی وہ بیگانہ تھا۔عجیب ڈاکٹرتھا۔کبھی سمجھ میں نہیں آتاتھاکہ اسے کیسے معلوم تھاکہ وہ مریضہ کواپنے ہمراہ نہیں لایا۔شکل وصورت کی بھی بات نہ تھی۔چونکہ دیکھنے میں تووہ ہمیشہ ہی مریض دکھائی دیتاتھا۔بہرحال عجیب ڈاکٹرتھاوہ۔ایلی کے دل میں بے وجہ یقین پیداہواجارہاتھا۔کہ شہزادصحت مندہوجائے گی۔


جب اس نے شہزادسے بات کی تووہ ہنس پڑی۔


’’اب یہ چودہ دن بھی ضائع کروگے۔‘‘وہ بولی۔’’ایک دن ضائع کرآئے ہو۔‘‘


اکٹھے جائیں گے ایک ہی ڈبے میں بیٹھیں گے۔ایلی نے کہا۔’’پھرکیسے دن ضائع ہوگا۔۔۔تم سمجھ لیناکہ سیرکرنے جارہے ہیں۔‘‘


’’اورڈاکٹرکودینے کے لئے روپیہ کہاں سے آئے گا۔‘‘


’’اللہ مالک ہے۔‘‘وہ بولا۔’’کچھ ہوہی جائے گا۔‘‘


شہزادتیارہوگئی۔ایلی نے سوچاکہ رات کوسفرٹھیک نہیں۔سارادن سفرکریں تاکہ شہزادکوتکلیف نہ ہو۔اسے یہ علم نہ تھاکہ ڈاکٹرہاشم شام کے وقت بھی معمل میں آتے ہیں یانہیں۔


لیکن سوال یہ تھاکہ وہ رات کہاں گزاریں گے۔چلوسٹیشن پرمسافرخانے میں بیٹھ رہیں گے اس نے سوچااوروہ اسی روزدوراہے کوروانہ ہوگئے۔


شام کوتین بجے کے قریب وہ دوراہے پہنچے۔ایلی شہزادکولے سیدھامعمل میں پہنچا۔معمل کادروازہ کھلاتھا۔لیکن اندرکوئی نہ تھا۔نہ کوئی مریض نہ کمپاؤنڈراس نے شہزادکوباہرصحن میں بٹھادیااورخودادھرادھرجھانکنے لگا۔


کتابوں والے کمرے میں کمبل کی ایک گٹھڑی سی پڑی ہوئی تھی۔ایلی مایوس ہوکرصحن میں آگیا۔اورچپ چاپ تخت پربیٹھ گیا۔دیرتک وہ چپ چاپ بیٹھے رہے۔


کمبل کی گٹھڑی کوحرکت ہوئی۔


’’ارے۔‘‘ایلی چونکااورپھراندرچلاگیا۔


ڈاکٹرکمبل اوڑھے گٹھڑی بناپڑاتھا۔


ایلی ڈررہاتھاکہ کہیں بگڑنہ جائے۔


’’کون ہے؟‘‘ڈاکٹربولا۔


’’جی میں ہوں۔‘‘ایلی بولا۔


’’میں کون؟‘‘


’’میں شاہ وال سے مریضہ کولایاہوں۔‘‘


’’اچھا۔‘‘وہ بولے۔’’تم شاہ وال والے ہوکیا؟‘‘


’’جی۔‘‘


ڈاکٹرنے کمبل سے ہاتھ نکالا۔اس کاسراورمنہ کمبل ہی میں لپٹے رہے۔’’نبض دکھاؤ۔‘‘وہ تحکمانہ لہجے میں بولا۔’’ادھرآؤمریضہ۔‘‘


ایلی نے شہزادکوگھسیٹ کرپاس بٹھادیاڈاکٹرنے اس کی نبض ٹٹولی۔


’’ہوں۔‘‘ڈاکٹربولااورنبض تھامے بیٹھارہا۔


’’دوسراہاتھ۔‘‘وہ بولا۔


شہزادنے دوسراہاتھ تھمادیا۔


دیرتک ڈاکٹرنبض تھامے جوں کاتوں بیٹھارہا۔


’’جسم سے خون جاری ہے نا۔‘‘وہ بولا۔


’’جی۔‘‘ایلی نے کہا۔


’’اندرگل گیاہے۔‘‘


’’جی ہسپتال والوں نے یہی کہاتھا۔‘‘


’’ٹھیک کہاتھا۔‘‘وہ بولا۔


’’انہوں نے کہاتھاپندرہ روزاورجئے گی۔ڈایافرام کوگھن لگ گیاہے۔‘‘ایلی نے کہا۔’’ڈایافرام کوگھن لگ چکاہے۔‘‘ڈاکٹرنے کہا۔’’لیکن یہ کہنے والے وہ کون ہیں کہ پندرہ روزجئے گی۔وہ کیاخداہیں؟‘‘ڈاکٹرنے غصے میں کہا۔


ایلی خاموش بیٹھارہا۔


’’بولو۔‘‘وہ ڈانٹنے لگا۔’’بولونا۔وہ کون ہیں۔صحت اورموت اللہ کے ہاتھ میں ہے پھروہ کون ہیں؟‘‘


’’جی۔۔۔‘‘ایلی نے کہا۔


‘’تم مسلمان ہو؟‘‘ڈاکٹرنے پوچھا۔


’’جی۔‘‘ایلی نے جواب دیا۔


’’اچھے مسلمان ہوتم۔‘‘ڈاکٹرنے ایلی کوڈانٹااوردفعتاً اپنامنہ کمبل سے باہر نکال کراس کی طرف دیکھا۔ایلی ڈرگیا۔ڈاکٹرکی آنکھیں انگارہ سی چمک رہی تھیں۔


’’مسلمان ہوتے ہوئے تم نے ان کے منہ پرتھپڑنہ مارا۔کیسے مسلمان ہوتم۔‘‘


ایلی سرجھکائے بیٹھارہا۔


ڈاکٹرنے کمبل پرے پھینک دیااورکچھ کہے بغیرباہر نکل گیا۔


ایلی کوسمجھ میں نہیں آرہاتھاکہ کیاکرے آیاوہیں بیٹھارہے یاباہرچلاجائے۔


نہ جانے ڈاکٹرکیوں باہر گیاتھا۔


وہ دونوں چپ چاپ بیٹھے رہے۔


’’لو۔‘‘ڈاکٹراندرداخل ہوا۔


’’ارے۔‘‘ایلی چونکا۔


’‘منہ کھولو۔‘‘وہ بولا۔


ایلی نے منہ کھول دیا۔


’’بے وقوف۔‘‘ڈاکٹرچلایا۔’’مریض وہ ہے یاتم۔‘‘


ڈاکٹرہاتھ میںایک پڑیااٹھائے کھڑاتھا۔


شہزادنے منہ کھول دیا۔ڈاکٹرنے پڑیااس کے منہ میں انڈیل دی۔’’جاؤ۔‘‘وہ بولااورپھرہاتھ جھٹکتے ہوئے کہا۔


’’جاؤ۔‘‘چلتے جاؤ اوراچھے ہوتے جاؤ۔‘‘


ایلی حیرانی سے اس کامنہ تک رہاتھا۔


’’آپ کی فیس۔‘‘اس نے ڈرتے ڈرتے دس کانوٹ نکالا۔


’’فیس۔۔۔‘‘وہ بولا۔’’تم میری فیس دے سکتے ہوکیا؟‘‘


’’جی نہیں۔‘‘ایلی بولا۔’‘دوائی کی قیمت۔‘‘


’’دوآنے۔‘‘ڈاکٹربولا۔’’دوآنے۔‘‘


ایلی نے گھبراکردوآنے نکالے۔


’’رکھ دو۔‘‘وہ بولا۔’’رکھ دو۔‘‘


ایلی نے دونی رکھ دی۔


’’گھرکے لئے دوا۔‘‘ایلی نے کہا۔


’’نہیں ۔‘‘وہ بولا۔’’جاؤ۔یہی کافی ہے۔‘‘


’’کوئی پرہیز۔‘‘ایلی نے پوچھا۔


ڈاکٹرہنسا۔’’بے وقوف کھانے کومیسرنہیں آتااورپوچھتے ہیں پرہیز۔جاؤ۔‘‘وہ چلایا۔


’’ٹھہرو۔‘‘ڈاکٹرنے انہیں جاتے ہوئے دیکھ کرکہا۔’’پندرہ روزکے لئے تم اس کے خاوندنہیں ہواوریہ تمہاری بیوی نہیں سمجھے۔


’’جی۔‘‘ایلی بولا۔


’‘سہولویں دن کوئی بندش نہیں۔‘‘


ایلی اورشہزادباہرنکلے تووہ حیرانی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے۔


’’یہ ڈاکٹرہے کیا۔‘‘شہزادنے پوچھا۔


’’ہاں ڈاکٹرہاشم۔‘‘


’’مجھے توپاگل دکھتاہے۔‘‘وہ بولی۔


’’مجھے بھی۔‘‘ایلی نے کہا۔’’لیکن سمجھ لواللہ نے فرشتہ بھیج دیاہے۔‘‘


’’مجھے توڈھونگی معلوم ہوتاہے۔‘‘شہزادنے کہا۔


’’نہیں خالی پاگل۔پگلاپن اورقابلیت ایک ساتھ ملتے ہیں۔‘‘


’’قابل آدمیوں کی شکل ایسی ہوتی ہے کیا۔‘‘شہزادنے براسامنہ بنایا۔شاہ وال پہنچ کرپندرہ دن شہزاداورایلی نے گن گن کرکاٹے۔


ہنی مون


سولہویں دن ایلی نے پوچھا۔’’شہزادکیاخون اب بھی جاری ہے؟‘‘


وہ مسکرائی ۔’’نہیں تو۔‘‘وہ بولی۔’’کب سے ختم ہوگیا۔‘‘


’’تم نے مجھے بتایانہیں۔‘‘


’’میں نے کہا۔شایدپھرجاری ہوجائے ۔‘‘


’’تونہیں ہوانا۔‘‘


’’اونہوں۔‘‘وہ بولی۔


’’تووہ دوائی کام کرگئی نا۔‘‘


’’پتہ نہیں۔‘‘وہ ہنسی۔


’’ایک بات کہوں۔‘‘ایلی نے اسے تھپکتے ہوئے کہا۔


’’کہو۔‘‘


’’مانوگی؟‘‘


’’کہوتو۔‘‘


’’نہیں۔‘‘وہ بولا۔’’پہلے کہومانوگی۔‘‘


’’مانوں گی۔‘‘وہ پیارسے بولی۔


’’آج ہماراہنی مون ہے۔‘‘وہ بولا۔


شہزادنے مسکراکرآنکھیں نیچی کرلیں۔


’’آج ہم پرانے زمانے کی یادمنائیں گے۔‘‘


’’کیسی یاد۔‘‘


’’جب تم مونگیہ گٹھڑی تھیں۔تب کی یاد۔‘‘


وہ مسکرائی۔


’’اب کہاں۔‘‘وہ بولی۔’’اب وہ بات کہاں؟‘‘


’’اب بھی ہے۔‘‘اس نے کہا۔


’’کیسے؟‘‘


’’میرے لئے ہے۔‘‘اس نے ہاتھ بڑھایا۔


شہزادنے پیارسے اس کاہاتھ پکڑلیا۔


’’یادہے وہ زمانہ۔‘‘وہ بولا۔


’’ہوں۔‘‘شہزادہنسی۔’’بھول سکتاہے کیا۔‘‘


ایلی نے زیرلب کہا۔’’آج میں آؤں گا۔‘‘


شہزادنے اس کی طرف تعجب سے دیکھا۔


ایلی نے پھرسرگوشی کی۔’’کھڑکی کھلی رکھنا۔‘‘


شہزادبامعنی اندازسے مسکرائی اوراثبات میں سرہلادیا۔


ایلی باہرنکل گیاشام کووہ ادھرادھرٹہلتارہا۔حتیٰ کہ نوبج گئے۔پھروہ سنیمامیں جابیٹھا۔جب وہ فلم دیکھ کرنکلاتوساڑھے گیارہ بجے تھے۔وہ چپ چاپ گھرکی طرف چل پڑا۔شاہ وال کی گلیاں ویران پڑی تھیں۔کتے بھونک رہے تھے۔ایلی کادل دھک دھک کررہاتھا۔وہ بڑی احتیاط سے دبے پاؤں چل رہاتھا۔گھرکے پاس جاکروہ رک گیااس نے چاروں طرف دیکھا۔پھرجست بھرکروہ کھڑکی کے پاس آپہنچا۔پٹ کوآہستہ سے دبایا۔پٹ کھل گیا۔دبے پاؤں وہ اندرداخل ہوگیا۔چارپائی پرشہزادسبزچادراوڑھے مشین سامنے رکھے کام کررہی تھی۔


ایلی نے اسے دیکھ کرہونٹوں پرانگلی رکھ لی۔’’چپ۔‘‘وہ بولا۔


شہزادمسکرائی


’’چائے پلاؤگی۔‘‘


اس نے اثبات میں سرہلادیا۔


ساری رات وہ ہاتھ میں ہاتھ دئیے بیٹھے چائے پیتے رہے۔جب بھی کوئی کھٹکاہوتاوہ دونوں خاموش ہوجاتے۔


’’کون ہے۔‘‘وہ زیرلب کہتا۔


’’میں دیکھتی۔‘‘وہ گنکناتی اورپھرباہرنکل جاتی اورکچھ دیرکے بعدپھراس کے پاس آبیٹھتی۔


یونہی صبح ہوگئی اورایلی اسے الواع کہہ کرکھڑکی سے باہرنکل گیااورپھرصدردروازے سے گھرمیں داخل ہوکراپنے بسترپرپڑکرسوگیا۔


سراب


شاہ وال ایک بہت بڑاقصبہ تھا۔وہاں کامدرسہ بھی کافی بڑاتھااگرچہ عمارت پرانی تھی۔لیکن عمارت کے ساتھ وسیع وعریض میدان تھے۔سکول کے قریب ہی بورڈنگ کی عمارت تھی۔جس میں شاہ وال کے گردونواح کے دیہات کے لڑکے رہتے تھے۔بورڈنگ کے سپرنٹنڈنٹ کاکواٹربورڈنگ کی عمارت کے اوپردوسری منزل پرتھا۔


سکول کاہیڈماسٹرکانام سراب تھا۔اس کاقدچھوٹاتھا۔جسم گول مٹول رنگ گورااورچہرہ فٹ بال کی طرح تھا۔جس میں اس قدرہوابھری ہوئی معلوم ہوتی تھی کہ سراب کی آنکھیں دکھائی ہی نہ دیتی تھیں۔کبھی طلوع ہوتیں بھی توجیسے وہ لکیریں ہوں اورپھروہ جلدہی غروب ہوجاتیں چونکہ سراب کوبات بات پرہنسنے کی عادت تھی۔جب وہ ہنستاتوگوشت کاایک طوفان چہرے پرچلتا۔بڑھتاسمٹتا۔آنکھیں کشتیوں کی طرح لہروں میں ڈوب جاتیں۔لیکن جب کبھی وہ سنجیدہ ہوتایاجان بوجھ کرغصے میں آجاتاتودوبھوری دھاریاں ابھرتیں حتیٰ کہ وہ کٹاریں بن جاتیں۔ان میں دھارپیداہوجاتی اوروہ بری طرح سے کاٹنے لگتیں۔ایلی سراب کومل کربے حدخوش تھا۔اس نے اپنی زندگی کاایک بڑاحصہ اساتذہ کے درمیان گزاراتھااوراس نے محسوس کیاتھا۔کہ اساتذہ زیادہ تررسمی یاکتابی زندگی بسرکرتے تھے۔وسعت نظرسے قطعی طورپربیگانہ تھے۔چونکہ ان کامطالعہ محدودتھا۔شایداس لئے کہ وہ زیادہ ترزندگی بچوں میں بسرکرتے تھے۔ان کی شخصیت رسمی خیالات وجذبات اورحرکات کامجموعہ تھی۔وہ سب ایک ہی دائرے میں گھومتے تھے اوراپنے خیالات علم اورنظریات کوناجائزطورپربے حداہمیت دیتے تھے۔ہاتھی دانت کی طرح انہوں نے اخلاقی معیارپال رکھتے تھے۔


ایلی اساتذہ سے اکتاچکاتھا۔ان میں نہ توذہنی چمک تھی نہ وسعت قلب اورنہ ہی وہ رنگینی جذبات سے واقف تھے۔لیکن ہیڈماسٹرتوبالکل ہی ایلی کے لئے ناقابل قبول تھے۔وہ اساتذہ سے بھی یوں پیش آتے ۔جیسے وہ بچے ہوں۔مدرسے میں وہ ایک جزیرے کی طرح الگ تھلگ رہتے اوریااساتذہ کے قریب آتے یہ توقع رکھتے کہ وہ ان کی ہربات کوسراہیں۔ان کے ہرخیال پرواہ واہ کریں۔


سراب میں خوستائی کی واضح جھلک توتھی۔لیکن ان کی طبیعت میں رنگینی کاعنصرمفقودنہ ہواتھا۔جسے وہ بڑی محنت سے چھپائے پھرتے تھے۔اسی وجہ سے بڑو ں کی نسبت وہ بچوں سے قریب ترتھے۔ان کے گھرمیں نوجوان طلباء کی بھیڑلگی رہتی تھی۔وہ انہیں پڑھاتے تھے۔چھیڑتے تھے گھورتے تھے اورپیارکرتے تھے۔


نہ جانے کیوں ایلی نے پہلے روزمحسوس کیاگویاوہ ہیڈماسٹرنہیں۔جیسے کسی میم نے زبردستی سوٹ پہن رکھاہویاکوئی دلہن شرم وحیاکوبالائے طاق رکھ کرمردانہ لباس میں باہرنکل آئی ہو۔


ان کی بیگم ایک معززخاندان کی خاتون تھیں۔نہ جانے کیوں یہ وہم اس کے گلے کاہارہورہاتھاکہ ان کامکان پاک صاف نہیں۔لہٰذاوہ بہت سے طالب علموں کواکٹھاکرکے گھرکی صفائی میں لگی رہتی تھی۔فرش دھلواتی۔دیواریں جھاڑتی۔دروازوں کے تختوں کوپانی سے دھوتی حتیٰ کہ دروازے کی زنجیروں کوپاک کرنے لئے ان پرصابون ملتی۔


گھرکے اندرزنانے میں وہ ہروقت صفائی میں مصروف رہتی تھی۔


باہرمردانے میں سراب نوجوان طلباء کے جھرمٹ مین راجہ اندربنے بیٹھے رہتے۔لیکن اس اندرمیں راجہ کی نسبت رانی کی زیادہ جھلک تھی۔


سراب کودیکھتے ہی لاشعوری طورپرایلی نے فیصلہ کرلیاتھاکہ ان سے کسی قسم کاتعلق روانہ رکھے گا۔


مثلاً سراب اس سے پوچھتے۔’’آصفی صاحب آج آپ لیٹ کیوں آئے ہیں۔‘‘


’’جی آج کی بات تونہیں۔‘‘ایلی جواب دیتا۔’’میں توروزلیٹ آتاہوں۔‘‘


’’کیوں لیٹ آتے ہیں آپ۔‘‘وہ پوچھتے۔


’’جی میں نے بہت کوشش کی ہے کہ اس نکتے کاحل کروں۔لیکن۔۔۔‘‘


’’کیاآپ کااخلاقی فرض نہیں کہ آپ وقت پرسکول آئیں۔‘‘وہ بصدمشکل اپنے آپ پرسنجیدگی طاری کرکے کہتے۔


’’اخلاقی فرض تونہیں سراب صاحب۔‘‘


’’کیوں۔‘‘


’’نوکرہوں لہٰذا۔وقت پرآناچاہیئے۔‘‘


’’تویہ فرض ہوانا۔‘‘


’’جی اخلاق فرض تونہیں نا۔دیکھئے سراب صاحب۔آپ میرے افسرہیں اورمیں آپ کاماتحت ہوں۔‘‘ایلی کہتا۔’’میرافرض یہ ہے کہ آپ کوخوش رکھوں۔اوربس ۔‘‘


سراب کے گال سرخ ہوجاتے۔چہرے پرگوشت کی لہریں چلنے لگتیں اورآنکھیں غروب ہوجاتیں۔


’’بہرصورت آپ وقت پرآیاکریں۔‘‘وہ کہتے۔


’’بہت اچھاصاحب۔‘‘


اگلے روزایلی پھرلیٹ آتا۔


سراب نے سوچاکہ ایلی کوشرمندہ کرنے کاایک ہی طریقہ ہے۔انہوں نے خودوقت پرآناشرو ع کردیا۔آتے ہی وہ ایلی کوتلاش اورپھراس کی جماعت میں جاکرخودپڑھاناشروع کردیتے۔ان کاخیال تھاکہ ایلی دوایک روزصورت حالات کاجائزہ لے گاتوشرمندگی محسوس کرے گا۔ایلی نے یہ دیکھ کرکہ سراب صاحب اس کی جماعت کوپڑھارہے ہیں۔پہلے پریڈمیں آناہی بندکردیا۔اس پرسراب صاحب بہت سٹ پٹائے اوراساتذہ کی میٹنگ میں انہوں نے اس بات کاتذکرہ کیابولے۔’’شرمندہ ہونے کی بجائے آصفی صاحب نے پہلے پریڈمیںآناہی چھوڑدیاہے۔


ایلی نے کہا۔’’جناب عالی دراصل با ت یہ ہے کہ چونکہ آپ مجھ سے بہترپڑھاتے ہیں۔لہٰذامیراجی نہیں چاہتاکہ اپنی جماعت کوآپ کے درس سے محروم کروں۔‘‘


سراب صاحب کوجلدہی پتہ چل گیاتھاکہ الیاس کابرتاؤباقی اساتذہ سے ہٹ کرہے۔اوروہ دل ہی دل میں اس پرخوش تھے۔


ایک روزایلی سے سراب نے پوچھا۔’’آصفی صاحب آپ کارویہ باقی اساتذہ کاسانہیں۔کیاوجہ ہے؟‘‘


’’وجہ یہ ہے۔‘‘وہ بولاکہ آپ کارویہ باقی ہیڈماسٹروں کاسانہیں۔‘‘


وہ مسکرائے ’’کیافرق ہے؟‘‘وہ بولے۔


’’وہ فرق جوسوکھے اورہرے بھرے درخت میں ہوتاہے۔‘‘


چندایک روزتوایلی باتوں کی مددسے اپنے قدم جماتارہا۔پھرجب اس کی خوداعتمادی بڑھ گئی توایک روزجب وہ اکیلے تھے۔ایلی نے نہ جانے کس بات کے جواب میں اپنے دل کی بات ازراہ مذاق کہہ دی۔کہنے لگا۔’’سراب صاحب کسی وقت تومیں ایسے محسوس کرتاہوں جیسے آپ دلہن ہوں۔‘‘دفعتاً سراب صاحب میں چھپی ہوئی عورت تمام احتیاط اورضبط کوتوڑپھوڑکرباہرنکل آئی۔اس نے نوچ کراپنے کپڑے پھاڑدیئے اوربرہنہ ایلی کے روبروآکھڑی ہوئی۔


سراب کے چہرے پرسرخی جھلکی۔وہ سرخی نہیں جودوران خون تیزہونے پرجھلکتی ہے۔بلکہ وہ سرخی جودلہن کاگھونگھت اٹھنے پرظاہرہوتی ہے۔ایلی حیران رہ گیا۔اسے اس برہنگی کاخیال نہ تھا۔توقع نہ تھی۔وہ گھبراکرچلاآیا۔اس بعدسراب اورایلی کے درمیان ایک حجاب سادیواربن کرحائل ہوگیا۔جیسے وہ دونوں کسی رازسے واقف ہوں۔


کپوراورریاض


مدرسے میں سراب کے علاوہ دوشخص پیش پیش تھے۔ایک توسکول کے دفترکاکلر ک تھا۔اس کانام ریاض


تھا۔اس کاجسم فربہی کی طرف مائل تھا۔رنگ کالاتھااورطبیعت میں حکمرانی کی بوکے علاوہ اخلاق،نیکی اورسچائی کی طلب کاجنون تھا۔


دوسراشخص کپورتھا۔کپورسینٹیرانگلش ٹیچر تھا۔اس کاقددرمیانہ تھا۔طبیعت میں بلاکاعجزاورمٹھاس تھی۔کپوراپنے لئے نہیں بلکہ دوسروں کے لئے جیتاتھا۔وہ دوسروں کے لئے جیتاتھا۔وہ ہروقت کسی نہ کسی کی جائزیاناجائزامدادپرکمربستہ رہتاتھا۔صبح سویرے گھرسے نکلتااورپھررات گئے گھرلوٹتااورسارادن کسی نہ کسی حاجت مندکے کام میں مصروف رہتا۔کوئی اسے کچہری لے جاتاتاکہ مقدمے میں اس کی امدادکرے۔کوئی اسے اپنی بیٹی کی شادی کے جملہ انتظامات سونپ دیتا۔کوئی کہتابھائی کپور۔تھوڑاساقرض چاہئے۔کہیں سے انتظام کردو۔کوئی اسے ٹیوشن کے لئے فرمائش کرتااوراگرکوئی کام نہ ہوتاتوکپورگھرگھرلوگوں سے ملتا’’کوئی سیوابتائیے صاحب۔‘‘وہ کہتا’’میں آپ کاسیوک ہوں۔‘‘ایلی کے لئے ریاض اورکپوردونوں نعمت غیرمترقیہ تھے۔وہ دونون ایلی کے کاموں میں مصروف رہتے تھے۔کپوراسے ادھارسودالادیتاتھا۔ریاض لڑکیوں کوسرٹیفکیٹ کے بغیرگرلزسکول میں داخل کرنے کے لئے تگ ودوکررہاتھا۔پھرکپورنے ان کی فیس معاف کرانے کاذمہ لے لیااورریاض ان کے لئے کتابیں حاصل کرنے کی کوشش کرنے لگا۔


اسی طرح وہ دونوں ہرممکن طریقے سے اس کی مددکرتے رہے۔سراب کوایلی کے حالات سے بے حدہمدردی تھی۔لیکن سراب کی ہمدردی کوعمل سے کوئی تعلق نہ تھا۔ایلی کی جملہ مشکلات مالی نوعیت کی تھیں تنخواہ میں اس کاگزارانہیں ہوتاتھا۔اس لئے اس پرقرض کاطومارلگاجارہاتھا۔اس کے قرض خواہ ادائیگی کے لئے تقاضہ کرتے اورایلی دوڑکرکپورکوبنیئے کی طرف بھیجتاتاکہ اسے کچھ دیراورانتظارکرنے پرراضی کرے۔اگلے روزکپڑے والاآجاتااورایلی ریاض کی طرف دوڑتا۔


کپوراللہ واسطے کام کرنے کاقائل تھا۔مگرریاض طبیعت کاسخت تھاوہ کام توکرتاتھامگرساتھ لکچربھی پلاتااوراس با ت کامطالبہ کرتاکہ ایلی اس کی عظمت اورنیکی کااقرارکرے۔اس کے علاوہ وہ ایلی پرخوش نہ تھا۔اس کاکہناتھاکہ آخریوں کب تک گزاراہوگا۔اس کاکوئی عملی تدارک کرناچائیے۔ریاض اورکپورچاہتے تھے کہ ایلی ٹیوشن کرے اوراس طرح اپنی آمدنی میں اضافہ کرے۔لیکن ایلی ٹیوشن کاقائل نہ تھا۔اس کی زندگی نظم سے خالی تھی۔وہ بلاناغہ مقررہ وقت پرحاضرہوکرکام کرنے کی اہلیت نہ رکھتاتھا۔اس کی یہ وجہ تھی کہ ایلی محنت سے گریزکرتاتھااورریاض کویہ بات پسندنہ تھی۔


کپوراورریاض کے علاوہ شاہ وال سکول میں ایک اورشخص بھی تھاجوجونئیرٹیچرتھا۔اس کانام ثناء اللہ تھا۔ثناء اللہ میں کوئی ایسی خصوصیت نہ تھی۔جوایلی کے لئے جاذب توجہ ہوتی۔اس کاجسم موٹاتھا۔منہ سوجاسوجاساطبیعت میں شوخی اوررنگینی کاعنصرنام کونہ تھا۔وہ سرسے پاؤں تک ایک معززآدمی تھا۔البتہ اسے افسروں کے خلاف شکایت کرنے کی عادت تھی۔کسی کواکیلادیکھ پاتاتواسے پکڑکرزیرلب افسروں کی شکایات کادفترکھول لیتازندگی میں وہ اس کی واحددلچسپی تھی۔ثناء اللہ کی ایلی سے راہ ورسم صرف اس لئے ہوگئی کہ ان دونوں کے مکانات ایک ہی محلے میںواقع تھے۔ایلی سکول سے واپس آتاتوثناء اللہ آنکلتا۔


’’یہ سراب بڑاحرامی ہے۔‘‘وہ ادھرادھردیکھ کرزیرلب کہتا۔’’اس کے کارنامے سنوگے۔بھائی صاحب تودنگ رہ جاؤگے۔بس اندرکااکھاڑہ بنارکھاہے اس سے مدرسے کے بچوں کے اخلاق تباہ ہورہے ہیں۔


تعلیم تومحض بہانہ ہے۔‘‘


’’ایلی صاحب کپورکوزیادہ منہ نہ لگاؤ۔اوپرسے دھرماتمابناہواہے۔ویسے اندرسے کٹرہندوہے اوربے انتہامتصب۔آپ کوعلم نہیں۔آپ توصرف ظاہرپرجاتے ہیں۔یہ لالے بڑے چالاک ہوتے اوریہ جوسیواسمتی شروع کررکھی ۔۔۔۔اس نے یہ محض دکھلاواہے۔‘‘


’’یہ جوموٹاریاض ہے نا۔مدرسے کاساراپیسہ کھاگیاہے۔لیکن ہے اس قدرچالاک کہ کسی کوپتہ نہیں چلنے دیا۔ایک روزبھانڈاپھوٹے گاتوپتہ چلے گا۔اس کے ساتھ اٹھنابیٹھناٹھیک نہیں ورنہ جب بات نکلے گی توساتھ دھرلئے جاؤگے۔‘‘


ایلی کوثناء اللہ سے قطعہ کوئی دلچسپی نہ تھی۔نہ ہی وہ اس کی باتوں کوغورسے سناکرتاتھا۔لیکن اس میں اتنی جرات نہ تھی کہ ثناء اللہ سے اپناپیچھاچھڑاتا۔اس کے برعکس وہ اس کی باتیں سن کرمجبوری سے تعجب بھری آوازیں کہتا۔’’اچھاتویہ بات ہے۔‘‘


یا۔’’کیاواقعی۔‘‘یا’’ارے ایسامعلوم تونہیں ہوتا۔‘‘


شاہ وال پہنچ کرزندگی میں پہلی مرتبہ ایلی محسوس کرنے لگاتھاکہ سبھی اساتذہ اس کے رازسے واقف تھے۔وہ جانتے تھے کہ وہ چھ بچوں کی ماں کوبھگالے آیاہے اوروہ اس بات پرشرم محسوس کرنے لگاتھا۔


ایلی کے لئے سب سے بڑی دقت یہ تھی کہ لڑکیاں جوان ہورہی تھیں۔ان کے قہقہے گھرسے باہرنشرہونے لگے تھے۔ان کی آوازیں سن کرراہ گیررک جاتے تھے۔اورکہتے اچھایہ ہے آصفی صاحب کاگھرجب وہ سکول جاتی تھیں توراستے میں لوگ خصوصاً نوجوان لڑکے ایک دوسرے کوکہنی مارتے۔مسکراتے اورکوئی عاشقانہ گیت گنگناتے ہوئے بامعنی نگاہوں سے ان کی طرف دیکھتے۔


ان باتوں کودیکھ کراس کے دل میں شبہات کاایک طوفان پیداہورہاتھا۔ایلی ان لڑکیوں کی معصومیت سے واقف نہ تھا۔اسے یہ علم نہ تھاکہ ہرلڑکی اپناآپ نشرکرنے پرفطری طورپرمجبورہے۔اسے اس کاشعورنہ تھاکہ لڑکیوں کی مسکراہٹیں کسی ٹھوس مقصدکے شعورسے خالی ہوتی ہیں۔ان کے قہقہے لوگوں کی توجہ جذب کرنے کے لئے ہوتے ہیں۔لیکن کسی خاص شخص کولبھانے کے لئے نہیں ہوتے۔وہ اس امرسے ناواقف تھاکہ عنفوان شباب میں لڑکی کسی حسین بھری نگاہ کوردنہیں کرسکتی۔حالانکہ اس سے اس کاکوئی خاص مقصدنہیں ہوتا۔


ان وجوہات کی بناپرایلی کومعصوم لڑکیوں سے شکایات پیداہوتی جارہی تھیں اوریہ شکایات تعصب کی صورت اختیارکررہی تھیں۔


اقتصادی مشکلات کی وجہ سے شہزادمیں ایک اداسی اوراحساس محرومیت پیداہورہاتھا۔اس کی وہ رنگینی ختم ہوچکی تھی۔اس کی طبعی شوخی اب محض روایت سی معلوم ہوتی تھی۔اگرچہ اس کی صحت پہلے کی نسبت بہتر ہوگئی تھی۔لیکن اس مین وہی تلخی پیداہوئی جارہی تھی۔جوایک ایسی عورت میں پیداہوجاتی ہے جو کبھی بہت خوبصورت رہی ہواورجسے احساس ہوکہ وہ اپناحسن کھوچکی ہے۔شہزادکوایلی کے خلاف کوئی شکایت نہ تھی۔اسے اب بھی ایلی سے وہی لگاؤتھا۔لیکن اس کے اظہارکے موقعے معدوم ہوتے جارہے تھے۔وہ جب بھی کوئی بات شروع کرتے تونہ جانے کیسے وہ بات کسی نہ کسی اقتصادی مشکل پرآختم ہوتی اوربات کی رنگینی تلخی میں بد ل جاتی۔


کبھی کبھارلاہورسے محمودآجاتا۔میم کے چلے جانے کے بعدوہ تنہارہ گیاتھا۔لیکن اس کی شخصیت میں بلاکی جاذبیت تھی۔میم کے جانے کااس پراثرضرورہواتھا۔لیکن وہ اس قدرگہرانہ تھا۔کہ اس کی شخصیت کی بنیادوں کوہلادیتا۔ایلی کی دانست میں محمودازلی طورپرایک لڑھکتاہواپتھرتھا۔جسے ہرلڑکھن نئی چمک عطاکرتی ہے۔


دوراہے سے واپس آئے ابھی انہیں دومہینے ہی ہوئے تھے کہ ایلی کومعلوم ہواکہ شہزادامیدسے ہے۔لیکن شہزادکوشبہات تھے۔یہ کیسے ہوسکتاہے وہ کہہ رہی تھی۔لاہورہسپتال والوں نے صاف کہہ دیاتھاکہ بچے کااب سوال ہی پیدانہیں ہوتااوراگرہوابھی توماں کے لئے خطرے کاباعث ہوگا۔لیکن امیدکی تمام علامات واضح تھیں۔


’’نہ جانے کیاہے۔‘‘شہزادنے کہا۔’’یہ علامات شایدکسی آنے والی بیماری کاپیش خیمہ ہوں۔‘‘


ادھریاپاگل خانہ


’’تم توخواہ مخواہ شک کرتی ہو۔‘‘ایلی نے کہا۔


’’میری طبیعت توشکی نہیں۔‘‘وہ بولی ۔’’شکی توتم ہو۔‘‘


’’پھرمجھے شک کیوں نہیں پڑتا۔‘‘ایلی نے پوچھا۔


’’مجھے کیامعلوم۔‘‘شہزادبولی۔


’’میں بتاؤں۔‘‘ایلی نے کہا’’چلوایک بارپھردوراہے جاکرہاشم سے ملیں۔


ہاشم کانام سنتے ہی وہ گھبراگئی۔’’نہ میں نہیں جاتی۔‘‘


’’کیوں۔‘‘


’’وہ تودیوانہ ہے۔‘‘


’’پڑاہوہمیں اس سے مطلب۔‘‘


شہزاددوراہے جانے کے لئے تیارنہ ہوئی تووہ اسے ایک لیڈی ڈاکٹرکے پاس لے گیا۔


لیڈی ڈاکٹرنے شہزادکامعائنہ کیااورپھرمسکرانے لگی۔’’تمہیں بچہ ہونے والاہے ظاہرہے کہ تم امیدسے ہو۔۔لیکن تمہاری صحت اچھی نہیں تمہیں خوارک کی ضرورت ہے۔‘‘


اب بھی شہزادکویقین نہیں آتاتھا۔


چھ مہینے کے بعدوہ بیمارپڑگئی اورصاحب فراش ہوگی۔ایلی گھبراگیااوراس کی منتیں کرنے لگاکہ ایک مرتبہ دوراہے چلے ۔پہلے تووہ انکارکرتی رہی لیکن جب تکلیف بہت بڑھ گئی تووہ راضی ہوگئی اوروہ دونوں دوراہے جانے کے لئے تیارہوگئے۔


اس مرتبہ بھی وہ صبح کی گاڑی سے روانہ ہوکرشام کوتین بجے کے قریب دوراہے پہنچے۔


ہاشم کامعمل خالی پڑاتھا۔ڈاکٹرہاشم اسی طرح کمبل میں لپٹاہوابیٹھاتھا۔


ایلی نے اپنی آمدکااعلان نہ کیا۔بلکہ شہزادکوسمجھادیاکہ تم چپکے سے اپناہاتھ بڑھادیناتاکہ ڈاکٹرنبض دیکھ لے۔ایلی ڈرتاتھاکہ کہیں ڈاکٹراپنے طبعی جنون کی وجہ سے اسے دیکھنے سے انکارنہ کردے۔


’’کون ہے۔‘‘ڈاکٹرنے آوازسن کرپوچھا۔


’’مریضہ۔‘‘وہ بولی۔


’’اس وقت نہیں۔‘‘وہ بولا۔’’صبح آنا۔‘‘


’’بہت دورسے آئی ہوں۔‘‘شہزادنے کہا۔ایلی خاموش بیٹھارہا۔


’’کتنی دورسے ۔‘‘


’’شاہ وال سے ۔‘‘وہ بولی۔’’آج ہی واپس بھی جاناہے۔‘‘


’’ہوں۔‘‘وہ بولا۔’’تودکھاؤنبض۔‘‘ڈاکٹرنے اپناہاتھ کمبل سے باہرنکالااورشہزادکی نبض دیکھنے لگا۔ دفعتاً وہ چونکا۔’’اوہ۔‘‘وہ بولا۔‘‘معاملہ توخراب ہے۔بہت خراب ہے۔‘‘


شہزادخاموش بیٹھی رہی۔


’’بچہ توگل گیاہے۔‘‘وہ بولا۔’’اوراگرتم بروقت نہ آتے تو۔۔۔۔‘‘


’’آپ نے پہلے بھی دوائی دی تھی۔‘‘ایلی بولا۔


’’کب؟‘‘


’’چھ مہینے ہوئے۔‘‘وہ بولا۔’’آپ نے کہاتھاجسم اندرسے گل گیاہے۔‘‘


’’دی ہوگی دی ہوگی۔‘‘ڈاکٹرچلایا۔’’لیکن معاملہ پھربگڑاہواہے۔‘‘اس نے کمبل سے سرنکالا۔’’یہاں روزمریض آتے ہیں۔‘‘وہ چلایا۔’’سینکڑوں آتے ہیں۔ہمیں کیایادرہتاہے۔کہ کس کوکیادوائی دی تھی۔یہ دیکھو۔‘‘ڈاکٹرنے اس قالین کاکونہ اٹھایاجس پروہ بیٹھاتھا۔اس نیچے خطوط کاایک ڈھیرلگاتھا۔’’دیکھو۔‘‘وہ بولا۔’’یہ سب مریضوںکے خط ہیں۔ان سب کوکون جواب لکھے۔خواہ مخواہ خط لکھتے چلے جاتے ہیں۔‘‘وہ خاموش ہوگیا۔


’’میاں۔‘‘وہ پھربولا۔’’ہم کیاخداہیں۔صحت اورموت اللہ کے ہاتھ میں ہے جسے صحت دینی مطلوب ہوتی ہے۔ہمارے ہاتھ سے صحیح دوالکھوادیتے ہیں۔ورنہ یونہی اناپ شناپ دوائی مل جاتی ہے۔سب اللہ کی شعبدہ بازی ہے کون حکیم ہے اورکون ڈاکٹرسب ڈھونگ ہے۔ڈھونگ ‘‘وہ خاموش ہوگیا۔


’’تم کیاکام کرتے ہو۔‘‘اس نے ایلی سے پوچھا۔


’’جی میں بچے پڑھاتاہوں۔‘‘وہ بولا۔


’’تم بچے پڑھاتے ہو۔‘‘اس نے ایلی کوگھورتے ہوئے پوچھا۔


’’جی۔‘‘ایلی نے کہا۔


’’تم اس کام کی اہلیت نہیں رکھتے۔‘‘


’’جی۔‘‘ایلی نے کہا۔


’’اورتم یہ کام کروگے بھی نہیں۔‘‘


’’جی۔۔۔؟‘‘


’’چھوڑجاؤگے۔‘‘ڈاکٹرنے پھرسے اپنامنہ کمبل سے ڈھانپ لیااوراپنی بات جاری رکھی۔


’’تمہاری زندگی میں گڑبڑہے۔‘‘وہ بولا۔’’ذرانبض دکھاؤ۔’’اس نے ایلی سے کہااوراپناہاتھ کمبل سے نکال کرایلی کی نبض دیکھنے لگا۔دیرتک نبض ہاتھ میں پکڑکربیٹھارہا۔،


’’سب کچھ غلط ہے۔‘‘وہ بولا۔’’سرے سے سب کچھ غلط ۔دل ودماغ اعضاء سب غلط ہیں۔سب الٹ پلٹ ہورہاہے۔سوداکی طرف مائل ہو۔صفراحدتک پہنچ چکاہے۔پاگل ہوجاؤگے۔‘‘وہ بولا’’یقینا‘‘ہوجاؤگے۔بچاؤکی صرف ایک صورت ہے۔‘‘اس نے صرف ایک اگرادھرنہ پہنچے تومینٹل ہسپتال میں پہنچ جاؤگے۔اوروہیں مروگے۔‘‘


’’ادھرکدھر۔‘‘ایلی نے پوچھا۔


’‘وہ بھی ایک سمت ہے۔ایک ایسی سمت جس سے تم واقف نہیںہو۔‘‘ڈاکٹرنے جواب دیا۔تمہارے پیٹ میں جوبچہ ہے جوگل چکاہے۔انشاء اللہ وہ ٹھیک ہوجائے گا۔یہ بچہ معمولی بچہ نہیں۔بہت کچھ لے کرآئے گابہت کچھ عالی ظرف ہوگا۔فنکارہوگاسبحان اللہ۔‘‘


وہ دفعتاًاٹھ بیٹھا۔’’آؤتمہیں پڑیادیں۔‘‘وہ بولا۔’’آؤ۔‘‘


’’ہاشم سے فارغ ہوکروہ چپ چاپ سٹیشن پربیٹھے رہے۔شہزاداپنے ہی خیالات میں کھوئی ہوئی تھی۔


’’کیاسوچ رہی ہو۔‘‘وہ شہزادسے پوچھنے لگا۔


’’کچھ بھی نہیں۔‘‘وہ بولی۔


ڈاکٹرکی باتوں پردھیان نہ دوایلی نے کہا۔’’وہ صرف ڈاکٹرہی نہیں۔دیوانہ بھی ہے۔بہت بڑافلسفی بھی ہے۔روحانیات سے بھی شغف رکھتاہے۔عجیب آدمی ہے۔شایدتم سوچ رہی ہوکہ واقعی ہم دونوں اکی دوسرے سے اگ ہوجائیں گے۔‘‘


’’وہ تومیں دیرسے جانتی ہوں۔‘‘شہزادبولی۔


’’کیا؟‘‘


یہی کہ تم اکیلے رہ جاؤگے اورمیں چلی جاؤںگی۔لیکن ایلی ایک بات ہے۔‘‘


’’کیا؟‘‘


شہزادنے اس کاہاتھ تھام لیا’’میرے جانے سے پہلے کہیں مجھے چھوڑنہ جانا۔‘‘


’’پاگل ہوگئی ہو۔‘‘وہ بولا۔


’’بس مجھے یہی ایک فکرہے۔‘‘شہزادکی آنکھوں میں آنسوآگئے۔


’’تمہیں مجھ پربھروسہ نہیںکیا؟‘‘


’’ہے۔‘‘وہ بولی۔’’لیکن پتہ نہیں کیوں یہ خیال باربارمیرے دل میں اٹھتاہے۔‘‘


وہ قہقہہ مارکرہنس پڑا۔


جب وہ شاہ وال پہنچے توشہزادکی طبیعت پہلے کی نسبت بہتر تھی۔پھرروزبروزاس کی طبیعت بہتر ہوتی گئی۔حتیٰ کہ وہ صحت یاب ہوگی۔


صحت ہونے کے بعدبھی وہ اداس رہتی تھی۔کئی باربیٹھے بیٹھے جب اس کی نگاہ بڑی لڑکیوں پرپڑتی تواس کی آنکھوں میںآنسوآجاتے۔دراصل اسے لڑکیوں کاغم کھائے جارہاتھا۔اس کاخیال تھاکہ ان لڑکیوں کے لئے کوئی رشتہ نہیں ملے گا۔چونکہ وہ اس کی بیٹیاں تھیں۔کوئی عزیزیارشتہ داران سے شادی کرنے کے لئے تیارنہ ہوگا۔شہزادنے اپنے خیال کے متعلق ایلی سے بھی کئی باربات کی تھی لیکن ایلی اس کی بات پرہنس دیتاتھا۔’’ابھی سے کیوں فکرکرتی ہو۔‘‘وہ کہتا۔


’’میرے پاس زیادہ وقت بھی ہو۔‘‘شہزادجواب دیتی۔


اس پرایلی چڑجاتا۔’’کیاواقعی تم یہ خیال دل میں لیے بیٹھی ہوکہ تمہارے پاس زیادہ وقت نہیںہے۔‘‘


’’کیاتمہیں ابھی تک یقین نہیںآیا۔‘‘شہزادپوچھتی۔


’’پاگل ہو‘‘وہ چلاتا۔’’خواہ مخواہ کے فکرلگائے بیٹھی ہو۔‘‘اسے واقعی اس بات پرغصہ آجاتاتھا۔لیکن اس کے غصے نے کبھی لڑائی کی صورت اختیارنہ کی تھی۔


بھارت سیتم


ایک روزثناء اللہ اپنی بیوی کوان کے ہاں لے آیا۔اس کی بیوی بڑی لڑکی صبیحہ کودیکھتے ہی چلانے لگی۔ ’’ہائے کتنی پیاری بیٹی ہے۔تمہاری۔آمیں واری جاؤں۔آمیں تجھے پیارکروں۔‘‘اس نے صبیحہ کواپنے پاس بیٹھالیااوراسے پیارکرنے لگی۔


صبیحہ حیران تھی وہ زیرلب ہنسے جارہی تھی۔اسے سمجھ نہیں آرہاتھاکہ ایک بیگانہ عورت اس پراس قدرمفتون کیوں ہوئی جارہی ہے۔شہزادکوبھی حیرت ہورہی تھی۔


اگلے روزبھانڈاپھوٹ گیا۔ثناء اللہ اپنے چھوٹے بھائی کاپیغام لے کرآگیا۔


’’صبیحہ کوتوہم نے اپنی بیٹی بنالیاہے۔‘‘وہ بولا۔’’میری بیوی تواسے دیکھ کراپنادل دے چکی ہے۔کل سے اسی کی باتیں کرتی ہے۔بات با ت پراسی کاتذکرہ اگرآپ ہم غریبوں کاپیغام منظورکرلیں توبہت کرم نوازی ہوگی۔‘‘


چندروزکے بعدثناء اللہ نے اپنے دونوں بھائیوں کوشاہ وال بلالیاتاکہ وہ ایلی سے مل سکیں۔


اس کابڑابھائی ذکاؤاللہ شکل و صورت اوربات چیت سے خالص فنکاردکھائی دیتاتھا۔اس کے بال گیسوؤں کی طرح لمبے تھے۔چہرے سے خوشی مذاقی اورذہنی چمک واضح تھی۔گفتگونہایت پراخلاق اورآوازرسیلی تھی۔ثناء اللہ کے بیان کے مطابق وہ سیکرٹریٹ میں ایک اعلیٰ عہدے پرفائزتھا۔


چھوٹابھائی ضیاء ابھی نوجوا ن ہی تھا۔اس نے ایف ۔اے تک تعلیم پائی تھی اورآنکھوں میں نسوانی چمک تھی۔


شہزاداورایلی ان سے مل کربے حدخوش ہوئے۔


’’لو۔‘‘ایلی نے کہا۔’’تمہارایہ غم بھی دورہوگیا۔صبیحہ کواچھارشتہ مل گیا۔‘‘


’’اونہوں۔‘‘شہزادبولی۔’’میں خوش نہیں ہوں۔ایف اے سے کیاہوتاہے آج کل لڑکاپوری طرح تعلیم یافتہ نہیں اورجب تک اسے مناسب ملازمت نہ مل جائے میں یہ کام نہیں کروں گی۔‘‘


بہرصورت اس بات چیت کایہ نیتجہ ہواکہ صبیحہ اورضیاء نام زدہوگئے۔


نامزدگی سے پہلے ایلی ایلی ایک روزثناء اللہ کومدرسے میںایک طرف لے گیااورکہنے لگا۔’’بھئی پیشتراس کے کہ اس امرکافیصلہ ہومیں یہ ضروری سمجھتاہوں کہ تمہیں اپنے حالات سے آگاہ کردوں تاکہ ایسانہ ہوکہ کل تمہیں ان تفصیلات کاعلم ہوتم ہم سے گلہ کروکہ ہم نے تمہیں دھوکے میں رکھا۔‘‘یہ کہہ کرایلی نے ایلی نے اپنی زندگی کے متعلق اہم باتیں اسے بتادیں۔


ثناء اللہ غورسے اس کی باتیں سنتارہااورپھرمسکراکربولا۔’’ہمیں سب علم ہے۔آپ نے کوئی نئی بات نہیں سنائی۔‘‘


’’توکیا۔‘‘ایلی نے پوچھا۔’’آپ نے یہ سب جانتے ہوئے پیغام دیاتھا۔‘‘


’’ہاں۔‘‘وہ بولا۔’’ذکاء زندگی بھربیرونی ممالک میں گھوماہے۔وہ ان باتوں کودرخوراعتنانہیں سمجھتااورچونکہ ضیاء اے کے زیراثرہے اس لئے اس کانقطہ نظربھی رسمی نہیں ہے۔‘‘


دوایک ماہ کے بعدایک روزشہزاداورایلی کواکٹھے لاہورجانے کااتفاق ہواوہاں پہنچ کرشہزادنے کہا۔’’اب جویہاں آئے ہیں توذکاء اورضیاء سے مل کرجاناچاہئے۔انہیں علم ہوگاکہ ہم لاہورآئے تھے اورملے بغیرچلے گئے تووہ برامانیں گے۔‘‘


یہ سوچ کروہ دونوں انارکلی گئے وہاں سے انہوں نے پھل وغیرہ خریدااورپھرمال روڈکی طرف چل پڑے ۔انہیں صرف یہ معلوم تھاکہ ضیاء اورذکاء اکٹھے نمبر113کی کوٹھی میں رہتے ہیں۔دیرتک وہ مال روڈپرگھومتے پھرے۔لیکن انہیں113نمبرکی کوٹھی کاپتہ نہیں چلا۔آخرایلی ایک دوکان پرگیا۔پان فروش سے پوچھا۔’’بھائی 113کابنگلہ کدھرہے۔‘‘


نمبر113پنواڑی سوچ میں پڑگیا۔اس نے قریب کھڑے ایک اورآدمی کوآوازدی۔’’کیوں بھاجی۔‘‘وہ بولا۔بھلانمبر113کی کوٹھی کون سی ہوئی۔‘‘


’’113۔‘‘وہ بھی سوچ میں پڑگیا۔اس پردوچارآدمی اورآگئے۔


’’بھائی صاحب کچھ اتاپتہ دیجئے خالی نمبرسے توکام نہیں چلے گا۔‘‘ایک آدمی نے کہا۔


’’بھئی ان کانام ذکاء اللہ ہے یہاں سیکرٹریٹ میں اعلیٰ عہدے پرفائزہیں۔‘‘ایلی نے جواب دیا۔


’‘ہوں۔‘‘وہ سوچ میں پڑگئے۔


’’کتنے بھائی ہیں۔‘‘ایک نے پوچھا۔


’’دوبھائی ہیں۔‘‘ایلی نے جواب دیا۔


’’ارے۔‘‘ایک چلایا۔‘‘وہ ناچے تونہیں کیا۔‘‘


اس پران سب نے غورسے ایلی اورشہزادکاجائزہ لیا۔


’’ارے نہیں۔‘‘ایک بولا۔’’وہ کیسے ہوسکتے ہیں۔بھئی انہیں ملنے تومیمیں آتی ہیں۔‘‘


’’ناچے۔‘‘ایلی سن کرمسکرایا۔’’ناچے کاکیامطلب۔‘‘ا س نے دل ہی دل میں سوچا۔


’’معلو م نہیںجی۔‘‘ایک شخص بولا۔’’آپ ان پچھلے بنگلوں میں دیکھیں۔شایدوہیں ہوں۔‘‘


ایلی ان بنگلوں کی طرف چل پڑا۔شہزادتانگے میں بیٹھی رہی۔


سامنے بنگلے سے موسیقی کی آوازیں آرہی تھیں۔بنگلے کے گول کمرے پربورڈآویزاں تھا۔’’بھارت سیتم۔‘‘گول کمرے میں سازسنگیت کاریکارڈچل رہاتھا۔کس قدرصاف آوازتھی۔کیسااچھاباجہ تھا۔ایلی نے قریب جاکراندرجھانکا۔کمرے میںایک جوان حسین وجمیل لڑکی ناچ رہی تھی۔


’’ارے ۔‘‘وہ گھبراگیا۔’’کس قدرخوبصورت لڑکی ہے۔انگریزتونہیں۔ہندوستانی معلوم ہوتی ہے۔‘‘ایک ساعت کے لئے وہ کھڑادیکھتارہا۔


دفعتاً اس کمرے سے ایک نوجوان باہرنکلا۔’’ارے ۔‘‘وہ ضیاء تھا۔


شریمتی گن گلی


’’آخاہ ضیاء ہے۔‘‘ایلی چلایا۔’’یارہمیں نمبر113ملتاہی نہیں تھا۔دیرسے تلاش کررہے ہیں۔‘‘


ایلی نے یوں محسوس کیاجیسے ضیاء چپ چاپ کھڑااس کے منہ کی طرف دیکھ رہاہو۔ایک ساعت کے بعدضیاء بولا۔


’’اس بلاک کے پچھواڑے میں ہے ۔ہماراگھر۔‘‘


ایلی اورضیاء شہزادکوساتھ لے آئے اورضیاء انہیں اس بلاک کے پچھواڑے کے طرف لے گیا۔گول کمرے کے قریب پہنچ کرایلی نے دیکھاکہ موسیقی بالکل بندہوچکی ہے اورکمرے میں کوئی بھی نہیں۔


ذکاانہیں بہت تپاک سے ملا۔’’آپ نے آنے کی اطلاع کیوں نہ دی۔‘‘وہ بولا۔


’’ویسے ہی آئے تھے۔‘‘شہزادبولی۔’’توہم نے کہاآپ کومل لیں۔‘‘


’’پھربھی اطلاع دینامناسب ہوتاہے۔۔۔خواہ مخواہ آپ کوکوفت ہوئی۔‘‘ذکاء نے دفعتاًبات بدلی۔


چندمنٹ کے بعدایلی اورشہزادنے اجازت طلب کی ۔’’گاڑی چلنے میں ایک گھنٹہ رہ گیاہے۔‘‘ایلی نے کہا۔


ضیاء اورذکاء انہیں تانگے تک چھوڑنے آئے۔


جب وہ اکیلے رہ گئے توشہزادبولی۔’’ان کے گھرتوکوئی بھی عورت نہیں۔‘‘


’’ذکاء کی بیوی تومرچکی ہے۔‘‘ایلی نے کہا۔


’’مجھے ہربات یادہی نہ تھی۔میراخیال تھاکہ کوئی عورت ہوگی گھرمیں۔‘‘شہزادبولی۔


ابھی ان کاتانگہ سڑک پرپہنچاہی تھاکہ ایلی تانگے والے سے بولے۔’’بھئی ذراٹھہرنامیں ذراسگریٹ لے آؤں۔‘‘


اوروہ اسی دکان پرسگریٹ خریدنے چلاگیا۔جہاں سے انہوں نے پتہ پوچھاتھا۔


پنواڑی نے مسکراکراس کی طرف دیکھااوربڑے بامعنی اندازسے کہنے لگا۔’’کیوں بھاجی مل گئے تمہیں وہ لوگ۔‘‘


’’جی۔‘‘ایلی نے جواب دیا۔’’مل گئے۔‘‘


’’میں نے توپہلے ہی کہاتھابھاجی۔‘‘وہ بولا۔’’کہ وہی ہوں گے۔‘‘


’‘نہیں۔‘‘ایلی بولا۔’’وہ توپچھلے بلاک میں رہتے ہیں۔‘‘


’’اجی وہی ہیں ناجوابھی آپ کوتانگے تک چھوڑنے آئے تھے۔‘‘پنواڑی بولا۔’’دوبھائی ہیں اورایک بہن بہت اچھاناچتی ہے وہ بھائی خودسکھاتاہے اسے ساری عمرمدارس میں رہاہے ناوہیں سے سیکھ کرآیاہے۔‘‘


بھارت سیتم !ایلی کے روبروگول کمرے کابورڈآگیا۔


’’آج ہی شوہے بھاجی ۔‘‘پنواڑی بولا۔’’اپنے کیپٹل میں ہوگا۔ہم بھی جارہے ہیں۔دیکھنے کے لئے۔‘‘


ایلی نے محسوس کیاجیسے کسی نے اس کے منہ پرتھپڑماردیاہو۔


جب شہزادکوایلی نے پنواڑی کی بات بتائی تووہ پنجے جھاڑکراس کے پیچھے پڑگئی۔


’’لوگوں کاکیاہے۔‘‘وہ بولی’’خواہ مخواہ بہتان لگاتے ہیں۔اگران کی بہن ہوتی توکیاوہ ہمارے سامنے نہ آتی۔اتنی دیرہم بیٹھے رہے ان کے گھراورگھرکی صورت ہی سے ظاہر تھاکہ کوئی عورت نہیں رہتی وہاں۔‘‘


اس پرایلی کووہ لڑکی یادآگئی جوگول کمرے میں ناچ رہی تھی۔


’’کیاوہی ان کی ہمشیرہ تھی۔کتنی خوبصورت تھی وہ۔‘‘ایلی سوچنے لگا۔


’’توپھرآج کی رات ہم یہی رہ جاتے ہیں۔‘‘ایلی نے شہزادسے کہا۔


’’کیوں۔‘‘وہ بولی۔


’’وہ کہتاہے آج شام کوان کاشوہے اوران کی بہن ناچے گی۔چلوآج دونوں شودیکھیں گے۔‘‘


شہزاداس کے لئے تیارنہ تھی۔لیکن اس کے بغیرانہیں حقیقت کاپتہ نہیں چل سکتاتھا۔لہٰذاوہ مجبوری میںایلی کی بات مان گئی۔


شام کوجب وہ کیپٹل میں پہنچے تواشتہارمیں لکھاتھا۔بھارت سیتم کاشاہکارشریمتی گن گلی پیش کریںگی۔


شہزادچلانے لگی۔’’ناچ دیکھنے کااپناجی چاہتاتھااس لئے بہانہ بناکرلاہوررک گئے۔


ایلی خودحیران تھا۔شریمتی گن گلی پڑھ کروہ خودسوچ بچارمیں کھوگیاتھا۔


کھیل شروع ہوا۔وہی حسین وجمیل لڑکی جسے ایلی نے گول کمرے میں دیکھاتھا۔سٹیج پرآگئی۔اس نے ناظرین کودونوں ہاتھ جوڑکرسلام کیاپھریورپین فیشن کے مطابق جھکی اورپھرتتلی کی طرح محورقص ہوگئی۔اس کی حرکات میں لے تھی۔اعضاہ میں بلاکی چمک تھی اورچہرہ مسکراہٹوں سے بھرپورتھا۔ایلی بھول گیاکہ وہ کیوں شوردیکھنے آئے تھے اورانہیں کس بات کاپتہ چلاناتھا۔


شریمتی نے تین سولوناچ پیش کئے۔چوتھے ناچ میں اس کے ہمراہ ایک نوجوان تھا۔نوجوان کودیکھ کرشہزادٹھٹھکی ۔‘‘یہ تومجھے ضیاء معلوم ہوتاہے۔‘‘وہ بولی۔


’’ضیائ؟‘‘ایلی چونکااسے یادہی نہ رہاتھاکہ ضیاء کون تھا۔۔۔‘‘اوہ ضیائ‘‘کچھ دیرکے بعدایلی بولا۔‘‘نہیں نہیں۔کہاںضیاء کہاں یہ لڑکا۔یہ کوئی مدراسی معلوم ہوتاہے۔‘‘


چوتھے ناچ کے بعدانٹرول ہوگیااورذکاء بنفس نفیس سٹیج پرآکرناظرین کاشکریہ اداکرنے لگا۔شہزادنے ایلی کی طرف دیکھا۔غصے سے اس کامنہ سرخ ہورہاتھا۔


اگلے روزشاہ وال آتے ہوئے شہزادگاڑی میں بیٹھی ہوئی رورہی تھی۔


’’آخررونے کامطلب۔‘‘ایلی بولا۔


’’کچھ نہیں۔‘‘وہ کہنے لگی۔


’’ناچناتوایک فن سمجھاجاتاہے۔‘‘ایلی نے کہا۔’’یہ ناچ کوئی طائفہ ناچ تونہیں ہے نا۔پھرتم کیوں دل براکرتی ہو۔‘‘


’’نہیں ایلی ۔‘‘وہ بولی۔’’وہ میری صبیحہ کونچائیں گے۔اس کے شوکریں گے۔‘‘


’’توکیاہوا۔‘‘ایلی نے کہا۔’’یہ توبھارت نیتم ہے بھارت نیتم توفن ہے۔عیب تونہیں۔‘‘


’’لیکن لوگ کیاکہیں گے ۔‘‘وہ بولی۔


’’تم تولوگوں کی پرواہ نہیں کیاکرتی تھی۔‘‘ایلی نے کہا۔


’’اپنے لئے نہیں کرتی تھی نا۔‘‘وہ بولی’’لڑکیوں کے متعلق پرواہ کرنی ہی پڑتی ہے۔‘‘


’’توکیاانہیں جواب دے دوگی۔منگنی توڑدوگی۔‘‘ایلی نے پوچھا۔


’’ہائے توکیاناچوں کودے دوں اپنی بچی ۔‘‘شہزادنے جواب دیا۔


لاہورسے آنے کے بعدشہزادپرمایوسی چھاگئی۔ایک توصبیحہ کی بنی بنائی بات ٹوٹ گئی تھی دوسرے وہ بچے سے تھے۔نتیجہ یہ ہواکہ اس کے دل کی تہوں میں بیٹھاہواغم چڑچڑاہٹ اورغصے میں بدل گیا۔بات بات پراس کاغصہ جوش میں آجاتااورپھربھوکی شیرنی کی طرح کچھارمیں بیٹھ کرغراتی رہتی۔ایلی اس کی اس تبدیلی پرسیخ پاہوجاتاہے۔


وہ دن ان کے لئے نہایت تلخ تھے۔وہ گھرجہاں ہروقت دھماچوکڑی مچی رہتی تھی۔تاش اورچوپٹ کی بازی لگی رہتی تھی جہاں لڑکیاں ناچتی تھیں۔بچے قہقہہ لگاتے تھے وہ گھرویرانے میںبد ل چکاتھا۔حالانکہ ان کی مالی مشکلات کسی حدتک کم ہوگئی تھیں۔چونکہ ریاض اورکپورکی کوششوں کی وجہ سے ایلی کوبورڈنگ کاسپرنٹنڈنٹ بنادیاگیااوراب وہ کرایہ کے مکان کوچھوڑکرسرکاری کوارٹرمیں مقیم ہوگئے تھے اس طرح اسے کچھ مالی امدادحاصل ہوگئی تھی۔ایک تواسے مکان کاکرایہ نہیں دیناپڑتاتھااوردوسرے ایک قلیل رقم الاؤنس کے طورپرملنے لگی تھی۔


ناظم


انہی دونوں ڈائریکٹرتعلیم نے ان کے سکول میں ایک جونیرکلرک کی آسامی منظورکردی تھی اورایک نیاکلرک اس آسامی پرمامورہوکروہاں پہنچ گیاتھا۔


وہ ایک نوجوان بی اے تھا۔اس کانام ناظم تھا۔اگرچہ دیکھنے میںنہ توبی اے نظرآتاتھااورنہ ہی نظم سے کوئی تعلق معلوم ہوتاتھا۔چونکہ ناظم شادی شدہ نہ تھا اورشاہ وال میں نوواردتھااس لئے اسے بورڈنگ میں قیام کرنے کی وجہ سے ایلی اوروہ روزانہ ملاکرتے تھے۔


پہلے روزجب ایلی نے ناظم کی طرف دیکھاتواسے کچھ بھی سمجھ میں نہ آیا۔اگرچہ ناظم نے سوٹ پہن رکھاتھالیکن اس کاسوٹ گویاسوٹ معلوم ہی نہیں ہوتاتھا۔اس کی شخصیت سوٹ اوربی اے دونوں سے بے نیازتھی۔ناظم اے بی کورس کاگریجویٹ تھا۔جب ایلی کواس تفیصل کاعلم ہواتووہ اوربھی حیران ہوااس کے علاوہ جب اسے یہ علم ہواکہ ناظم ریاضی پڑھانے میں بڑی دسترس رکھتاہے توایلی بالکل ہی کھوگیا۔شخصیت کوسمجھنے کے متعلق ایلی کواپنے اندازوں پربڑانازتھااس کاخیال تھا۔کہ وہ شخصیت اورکردارکوسمجھنے کی صلاحیت رکھتاہے لیکن ناظم کو دیکھ کراسے کچھ سمجھ نہیں آیاتھاکہ وہ کیاشے ہے۔


ناظم کے چہرے سے ذہانت کے آثارمترشح نہیں ہوتے تھے۔اس کے خدوخال عام سے ہونے کے باوجودیہ احساس دیتے کہ ان کوسمجھناآسان نہیں۔اس کی آنکھوں میں ہلکاسافرق تھا۔اس قدرہلکاکہ کسی وقت دکھائی نہ دیتااورنہ محسوس ہوتالیکن کسی وقت وہ اس قدرشدت سے واضح ہوتاجیسے ڈھول بجابجاکراپنے وجود کااحساس دلارہاہو۔


ناظم سے چارایک مرتبہ ملنے کے بعدایلی نے محسو س کیاکہ وہ اکی مجموعہ اضدادتھا۔مثلاً اس کے چہرے پرذہانت کافقدان تھا۔اس کے باوجودوہ اکثرذہانت بھری بات کرتااورایلی حیرانی سے اس کی طرف دیکھتا۔ناظم کے اندازسے ظاہرتھاکہ وہ مجلسی آدمی نہیں اورسوسائٹی سے دوررہناپسندکرتاہے۔لیکن چندہی دونوں میں ایلی نے دیکھاکہ بورڈنگ کے تمام لڑکے اس کے گردجھرمٹ کئے بیٹھے ہیں تمام لڑکے تھوڑے ہی عرصے میں ناظم کے مداح ہوگئے تھے۔اوراس کے علم وقابلیت کے متعلق سارے سکول میں دھوم مچ گئی تھی۔اس کے علاوہ ناظم کے چہرے پرہٹودوررہوقسم کی علامات ہروقت موجودرہتی تھی جولوگوں سے میل جول پیداکرنے میں رکاوٹ بنی رہتیں۔اس میں ایک واضح جھجک تھی۔لیکن درحقیقت اس کادل جذبات کی شدت سے بھراہواتھا۔اسے دیکھ کرشک پڑتاکہ وہ جذبات سے خالی ہے اورحسیات سے کوراہے لیکن درحقیقت جذبات اورخصوصاً شدت اس کے کردارکے بنیادی پہلو تھے۔


بی اے ہونے اورسوٹ پہننے کے باوجودناظم کی طبیعت امرتسرکے ’’بھاجی۔‘‘قسم کی تھی۔جوبہترین دوست اوربدترین دشمن ہوتے ہیں جودکھلاوے سے دوربھاگتے ہیں اورکسی کارعب برداشت کرنے کے لئے تیارنہیں ہوتے۔


ناظم اورایلی کی دوستی روزبروزبڑھتی گئی اس کی تمام ترذمہ داری ناظم پرعائدہوتی تھی۔ہرروزشام کے وقت وہ ایلی کوآوازدیتا۔’’آصفی صاحب۔‘‘اورپھراسے ساتھ لے کرباہرنکل جاتا۔ایلی سیروتفریح کامشتاق نہ تھا۔اس لئے وہ شامیں گھرپرہی بسرکرنے کاعادی تھا۔عام طورپروہ اپناوقت مطالعہ میں بسرکرتا۔ناظم زبردستی اسے باہر لے جاتااوروہ دیرتک گھومتے رہتے۔ایلی کی ناظم میں دلچسپی محض کتابی قسم کی تھی۔وہ اس کی شخصیت کے متعلق معلومات حاصل کرناچاہتاتھا۔اسے ایسی عجیب وغریب شخصیت سے کبھی سابقہ نہ پڑاتھا۔


ناظم کوبازارمیں کھانے پینے کی بہت عادت تھی۔مثلاًوہ سوڈاپینے کھڑاہوتاتوسوڈے کی چھ بوتلیں پی جاتاکباب کھاناشروع کرتاتودودرجن کباب کھاجاتاپہلے روزہی جب اس نے دودرجن کباب کھائے اوراس کے اوپرتین میٹھی بوتلیں پیں توایلی گھبراکربولا۔’’کیاہواہے تمہیں ناظم صاحب۔‘‘


’’یار۔‘‘اس نے کہا۔’’بہت دکھ لگاہواہے آج۔‘‘


’’مجھے توبہت لگتی ہے اتنی لگتی ہے کہ جی چاہتاہے کہ دنیابھرکی چیزیں پیٹ میں جھونک دوں۔اندرایک خلاء پیداہوجاتاہے جوبھرتاہی نہیں’’ناظم نے جواب دیا۔


’’کیاواقعی ؟‘‘


’’ایمان سے ۔‘‘


’’عجیب بات ہے۔‘‘


’’عجیب کہاں۔‘‘وہ بولایہ تومیرادستورہے بچپن سے ہی ایساہے۔‘‘


’’آج کیاغم ہے تمہیں۔‘‘ایلی نے پوچھا۔


’’میرادوست بیمارہے۔‘‘ناظم بولا۔


’’دوست بیمارہے؟کون سادوست؟‘‘


’’آج ہی خط آیاہے ساری دنیااندھیرہورہیہے۔‘‘ناظم بولا۔


’’ارے بس اتنی سی بات پرغم ہے تمہیں۔‘‘


’’اتنی سی بات۔‘‘اتناناظم نے غصے سے ایلی کی طرف دیکھا۔’’دوست کی بیماری سے بڑھ کراورکیابات ہوسکتی ہے۔کیادکھ ہوسکتاہے۔‘‘


ایلی حیران تھا۔لیکن وہ خاموش رہا۔ناظم کی آنکھوں کافرق نمایاں ہوتاجارہاتھااورتجربے کی بناپرایلی کوعلم ہوچکاتھاکہ اس کی آنکھوں کازاویہ جذبات کی شدت کی وجہ سے بدلتاہے۔ایسی صورت میں ناظم سے عقل کی بات کہنااچھے اثرات پیدانہیں کرسکتا۔بہرحال ناظم کے آنے سے ایلی کے دوستوں کی تعدادمیں اضافہ ہوگیاتھا۔


نصیراورشیر


پھران کے گھرنصیراورشیرعلی آگئے۔


شیراورنصیرایلی کے بھائی تھے وہ دونوں راجوکے بطن سے تھے۔فرق صرف یہ تھاکہ شیرعلی راجوکے پہلے خاوندسے تھااورجب وہ علی احمدکے گھرآئی تھی تواس کی گودمیںتھا۔اورنصیرعلی احمد سے تھا۔


نصیراس زمانے کی پیداوارتھا۔جب علی احمدبڑھاپے کے اولین دورمیں قدم رکھ چکے تھے۔اس لئے علی احمدنے غیرازمعمولی محبت سے پالاتھا۔اگرچہ یہ محبت خصوصی محبت تھی۔جس میں علی احمدیت کی جھلک تھی۔لیکن اس کے باوجودنصیرکی جسمانیت یاشخصیت پھل پھول نہ سکی تھی۔جسمانی طورپرکمزورتھااوراکثربیماررہتاتھا۔طبیعت کے لحاظ سے وہ جذباتی کمزوراورنیکی کی طرف مائل تھا۔وہ بڑوں کاادب کیاکرتاتھا۔ماں باپ کااحترام کرتاتھااورایلی سے بہت متاثرتھا۔


نصیرکے برعکس شیرعلی جسمانی طورپرمضبوط تھا۔اس کے جسم کے ساخت ہی اس بات کوواضح کرتی تھی کہ وہ آصفیوں میں سے نہیں اورعلی احمدکے خاندان سے ہٹ کرہے وہ طبعاً خاموش تھا۔لیکن اسے دیکھ کرمحسوس ہوتاتھا۔جیسے وہ دل کی بات چھپاکررکھتاتھااوراس کی آرزوتھی کہ بڑاآدمی بنے۔شیرعلی میں جنسی پہلو کی شدت تھی اوراس شدت میں پراسرارئیت کاعنصرتھا۔


دسویں پاس کرنے کے بعدشیرعلی دوراہے میں ایک ٹیکنیکل کورس کرنے کے لئے چلاگیاتھااورایک سال کی ٹریننگ حاصل کرنے کے بعدواپس آیاتھا۔


جب وہ واپس آیاتواس کاقدبہت بڑھ گیا۔یوں دکھائی دیتاتھا۔جیسے جوان ہونے سے پہلے ہی جوان ہوگیاہو۔وہ گھرکی کسی بات میں باآوازبلندداخل نہیں دیتاتھا۔شایداس کی یہ وجہ ہوکہ گھرمیں اس کی پوزیشن ایسی نہ تھی ۔جیسے ایلی یانصیرکی تھی شایدطبعاً وہ بات کہہ دینے کی صلاحیت سے بے گانہ تھا۔لیکن ایلی محسوس کرتاتھاکہ اس کے دل کی تہوں میںان کہی باتوں کاطومارلگاہے۔ایلی کواس کی شخصیت کایہ پہلو پسندنہ تھا۔


دوراہے سے ٹریننگ حاصل کرنے کے بعدعلی پورآتے ہی شیرعلی کوایلی کی پرانی منگیترثمرہ کی چھوٹی بہن عاصمہ سے محبت ہوگئی تھی۔وہ ایک دوسرے کوخفیہ خط لکھاکرتے تھے اورلب بام کھڑے ہوکرایک دوسرے کودیکھتے اوراشارے کیاکرتے تھے۔لیکن شیرعلی نے اس کے متعلق کبھی کسی سے بات نہ کی تھی۔


شیرعلی کومحلف والے ہمیشہ بیگانہ سمجھتے تھے۔چونکہ وہ آصفیوں میں سے نہ تھا۔حالانکہ محلے میں بیشترلوگ ایسے تھے۔جنہیں آصفی خاندان سے دورکاتعلق بھی نہ تھا۔کیونکہ بہت سے لوگ باہر سے آکروہاں مقیم ہوگئے تھے۔لیکن انہوں نے اپنے متعلق کبھی صحیح جائزہ نہ لیاتھا۔


شیرعلی کے رومان کی بات نکلی توعاصمہ کی والدہ غصے سے بھوت بن گئی۔اسے پہلے ہی علی احمدکے خاندان کے خلاف شکایت تھی۔چونکہ ایلی نے اعلانیہ اس کی بڑی بیٹی ثمرہ سے شادی کرنے سے انکارکردیاتھا۔حالانکہ وہ دونوں منسوب تھے اوران کی منگنی بڑی دھوم دھام سے ہوئی تھی۔


اب جب اسے علم ہواکہ شیرعلی جان بوجھ کرعاصمہ کوورغلارہاہے۔تووہ سمجھی کہ شیرعلی کامقصدصرف اس کے گھرانے کوبدنام کرناہے۔


ایلی کواس بات کاپتہ چلاتووہ راجوسے بات کرنے کے بعدخودعاصمہ کی والدہ زبیدہ سے ملااوراس نے کوشش کی کہ زبیدہ شیرعلی اورعاصمہ کی شادی پررضامندہوجائے اس پرزبیدہ کواوربھی غصہ آیا۔ایلی کی اتنی ہمت کہ وہ شیرعلی کاپیغام لے کرآئے جب کہ اس نے ثمرہ کے سلسلے میں اس سے اس حدتک بدسلوکی کی تھی کہ آخروہ ثمرہ کونورعلی سے بیاہنے پرمجبورہوگئی تھی۔حالانکہ ثمرہ اورنورعلی میں بیس پچیس سال کافرق تھا اورنورعلی کی پہلی شادی سے ایک بیٹی تھی جس کی عمرثمرہ سے کم نہ تھی۔


نصیراورشیرعلی بہت دیرکے بعدایلی سے ملے تھے۔کیونکہ شہزاداورایلی توبن باسیوں کی سی زندگی بسر کررہے تھے اورمحلے میں نہیں جاسکتے تھے۔نصیربڑی محبت سے ایلی کوملاشیرعلی اپنی طبیعت کے مطابق خاموش تھا


اگرچہ اس کے اندازمیں رسمی ادب اوراخلاق بدرجہ اتم موجودتھے ۔وہ دونوں دوایک روزشال وا ل رہے اورپھرواپس علی پورچلے گئے۔


ان کے جانے کے چندروزبعدایک دن صبح سویرے ہی لڑکیوں نے ایلی کوجگایا۔’’امی کی طبیعت اچھی نہیں۔انہوں نے کہا۔ایلی شہزادکی طرف گیا۔شہزادنے اٹھنے کی کوشش کی اوردھڑام سے گرکربے ہوش ہوگئی۔۔۔ایلی گھبراگیا۔اوراٹھ کرڈاکٹرکی طرف بھاگا۔لڑکیاں سہم گئیں۔


جب وہ ڈاکٹرکولے کرآیاتودیکھاکہ شہزادچارپائی پرپڑی کراہ رہی ہے اور اس کے پاس چارپائی پرایک بچہ چپ چاپ پڑاہے۔لڑکیوں کے پاس ان کی پڑوسن بیٹھی مسکرارہی تھی۔


ایلی نے غورسے بچے کی طرف دیکھا۔


اس کے سامنے ڈاکٹرہاشم آکھڑاہوا۔’’یہ بچہ۔‘‘وہ بولا۔’’بہت کچھ لائے گا۔بہت کچھ‘عالی ظرف عالی۔عالی۔عالی۔‘‘ایلی کے کانوں میں ہاشم کی آوازگونج رہی تھی۔


’’عالی۔‘‘!ایلی نے بچے کی طرف دیکھا۔


’’اورتم لڑکی۔‘‘ہاشم نے شہزادکی طرف دیکھا۔’’تم چلی جاؤگی۔‘‘


’’ہاں مجھے معلوم ہے۔‘‘شہزادنے نگاہیں جھکالیں۔


ایلی باہر جنگلے میں نکل گیااورکھڑکی سے سٹیشن کی طرف دیکھنے لگا۔سٹیشن پرایک گاڑی کھڑی تھی۔پلیٹ فارم پرلوگ ادھرادھرچل رہے تھے اس کے باوجودایسے دکھائی دے رہاتھا۔جیسے تمام دنیاپرجمودطاری ہو۔جیسے لوگ نیندمیں چل رہے ہوں۔


عالی کی آمدکے بعدایلی کے گھرمیں ایک نئی دل چسپی پیداہوگئی۔شہزادکی بدمزاجی دورہوگئی۔لڑکیاں عالی میں کھوگئیں۔سارادن وہ اسے کھلاتیں۔اٹھائے پھرتیں۔عالی کے آنے سے گھرمیںایک بارپھرزندگی پیداہوگئی۔


ایک مرتبہ شہزاداورایلی کولاہورجاناپڑا۔


محموداورنقلیہ


جب وہ لاہورسے لوٹے توشاہ وال میں محمودان کی آمدکاانتظارکررہاتھا۔


ان دونوں محمودبی اے کرچکاتھا۔اب وہ لاہور میں محکمہ تعلیم کے ہیڈآفس میں سپرنٹنڈنٹ تھا۔ایلی محمودسے مل کرہمیشہ خوش ہوتاتھا۔وہ پرانے ساتھی تھے اورجب بھی آپس میں ملتے تھے علم وادب کے علاوہ نفسیات پربحث کرتے یاپرانی باتوں کودہرادہراکرہنساکرتے۔


شام کے وقت محموداورایلی دونوں سیرکے لئے باہر نکل گئے۔تومحمودنے بات چھیڑدی۔کہنے لگا۔’’ایلی یارتم ان لڑکیوں کی شادی کیوںنہیں کردیتے۔وہ اس گھرمیں خوش نہیںہیں۔‘‘


شادی کی بات توخیرٹھیک تھی۔لیکن یہ سن کروہ گھرمیں خوش نہیں ایلی چونکا۔


’’خوش نہیں ہیں۔‘‘ایلی نے محمودکی طرف دیکھا۔’’تم کیسے کہہ سکتے ہوکہ وہ خوش نہیں۔‘‘


محموداپنے پراسراراندازسے مسکرایا۔عورتوں کے معاملے میں اس کی شخصیت میں ایک عجیب سی پراسراریت تھی۔وہ بات کھل کرنہیں کرتاتھا۔


’’انہوں نے مجھے خودبتایاہے۔‘‘وہ بولا۔


’’خودبتایاہے۔‘‘ایلی نے اس کی طرف دیکھا۔


’’ہاں۔‘‘وہ شرمانے ہوئے بولا۔’’جب میں ک






’’خودبتایاہے۔‘‘ایلی نے اس کی طرف دیکھا۔


’’ہاں۔‘‘وہ شرمانے ہوئے بولا۔’’جب میں کل یہاں پہنچااورمجھے معلوم ہواکہ تم گھرپرنہیں ہوتوتمہاری غیرحاضری میں میں نے تمہارے ہاں ٹھہرنامناسب نہ سمجھا۔لیکن۔‘‘۔۔۔وہ رک گیا۔


پھروہ خودہی بولا۔’’انہوں نے خودمجھے ٹھہرنے پرمجبورکیا۔میرامطلب ہے۔‘‘وہ مسکرایا۔’’نوفاؤل پلے آفسٹ اورپھررات کونفیسہ میرے پاس آگئی اوردیرتک بیٹھی رہی۔روتی رہی۔‘‘روتی رہی۔‘‘ایلی سے پھرحیرت سے اس کی طرف دیکھا۔


’’لڑکیاں سمجھتی ہیں کہ انکی زندگی تباہ ہوچکی ہے۔اوران کامستقبل تاریک ہے اوروہ چاہتی ہیں کہ ان جلد انکی شادیاں ہوجائیں تاکہ وہ اپنے اپنے گھرچلی جائیں۔‘‘محمودنے کہا۔


’’لیکن شہزاداورمیں۔۔۔۔‘‘ایلی نے کچھ کہناچاہا۔


’’اونہوں۔‘‘محمودبولا۔’’تم دونوں لڑکیوں کے صرف ایک پہلو سے واقف ہو۔تم سمجھتے ہوکہ انکی زندگی کاظاہری پہلوہی حقیقت ہے۔‘‘


’’توکیاان کی زندگی کااورپہلوبھی ہے۔‘‘ایلی نے حیرانی سے پوچھا۔


’’ہاں۔‘‘محمودبولا۔’’اوراسی پہلوکے تحت وہ میرے پاس آئی تھیں۔صبیحہ اندردروازے میں کھڑی رہی اورنفیسہ میرے پاس آبیٹھی اوروہ دونوں باتیں کرتی رہیں۔‘‘


’’تمہیں معلوم ہے ۔‘‘ایلی نے ’’صبیحہ کے لئے رشتہ آیاتھا۔‘‘


’’ہاں وہ ناچے ۔‘‘وہ بولا۔’’مجھے انہوں نے سب بتایاتھا۔‘‘


’’توپھرمیں کیاکروں۔‘‘ایلی نے پوچھا۔


’’نفیسہ کانکاح کردو۔‘‘محمودبولا۔


’’لیکن کس سے۔‘‘ایلی نے پوچھا۔


محمودمسکرایا۔۔۔‘‘تمہااربوجھ ہلکاہوجائے گا۔میں اس کاتمام خرچہ برداشت کروںگااورجب تک وہ چاہے گی اسے تعلیم دلاؤں گا۔اسے تعلیم حاصل کرنے کابہت شوق ہے۔‘‘


’’تم۔۔۔‘‘ایلی نے محمودکی طرف دیکھا۔


’’ہاں۔‘‘وہ بولا۔’’میں!مجھ پرتم بھروسہ کرسکتے ہو۔‘‘


’’لیکن لیکن۔‘‘ایلی بولا۔’’کیاوہ رضامندہوجائے گی۔‘‘


’’کون۔‘‘محمودنے پوچھا۔


’’نفیسہ اورکون۔‘‘ایلی نے جواب دیا۔


’’نفیسہ رضامندہے۔‘محمودنے کہا۔’’بلکہ وہ خودچاہتی ہے اورمیں اسی کے کہنے پرتم سے بات کررہاہوں۔‘‘


ایلی کودھچکاسالگا۔اسے محمودکے خلاف شکایت نہ تھی اسے لڑکیوں پرحیرت تھی ’’دیکھومحمود۔‘‘وہ بولا۔’’مجھے کوئی اعتراض نہیں بشرطیکہ نفیسہ اس بات کی خواہاں ہواوراگروہ خواہاں ہے توشہزادکومیں منالوں گا۔‘‘


محمودکے جانے کے بعدایلی نفیسہ کوایک طرف لے گیا۔


’’نفیسہ ۔‘‘اس نے بات شروع کی ۔’’نفیسہ ایک بات بتاؤمجھے۔‘‘


نفیسہ نے پراسرارنگاہ سے اس کی طرف دیکھا۔


’’شرمانے کی کوئی بات نہیں۔‘‘وہ بولا۔’’جو بھی تمہاری صحیح رائے ہومجھے بتادوچونکہ میں تمہاری رائے کے بغیرتمہاری رضامندکے بغیرکچھ نہ کروں گا۔‘‘


نفیسہ نے آنکھیں جھکالیں۔


’’کیاتم چاہتی وہ کہ تمہاری شادی کردی جائے۔‘‘


وہ چپ چاپ بت بنی کھڑی رہی۔


’’اگرتمہاری شادی محمودسے کردی جائے توتمہیں اعتراض تونہ ہوگا۔‘‘ایلی نے پوچھا۔


نفیسہ جوں کی توں چپ چاپ کھڑی رہی۔


’’جواب دونا۔‘‘وہ بولا۔


وہ خاموش رہی۔


’’اچھا۔‘‘وہ بولا’’اگرتم نے جواب نہ دیاتومیں سمجھوں گاکہ تم رضامندہو۔


وہ جوں کی توں خاموش کھڑ ی رہی۔


’’اچھا۔‘‘ایلی نے کہا۔’’توفکرنہ کرومیں کوشش کروں گاکہ تمہاری شادی محمودسے ہوجائے۔فکرنہ کرومیں تمہاراساتھ دوں گا۔‘‘


اس شام وہ بغورنفیسہ کی حرکات وسکنات کودیکھتارہااوراس نے محسوس کیاکہ نفیسہ خوش تھی۔


اسی رات جب ایلی نے شہزادسے بات کی تووہ بگڑگئی بولی۔’’کیاہرنتھوخیراکے لئے میری ہی لڑکیاں رہ گئی ہیں۔‘‘ایلی نے التزماًاسے حالات سے آگاہ نہ کیاتاکہ نفیسہ کی شکایت کاپہلونہ نکلے۔


ایلی کومحموداورنفیسہ کی شادی سے قطعی کوئی دلچسپی نہ تھی۔وہ اس سلسلے میں صرف اس لئے کوشش کرہاتھاکہ نفیسہ چاہتی تھی کہ وہ محمودکی ہوجائے۔ایلی نے شہزادکوسمجھایابجھایااوررضامندکرلیا۔


نتیجہ یہ ہواکہ ایک روزمحمودکانفیسہ سے نکاح ہوگیا۔


محمودایلی کے گھرمیں دس روزنفیسہ کے ساتھ رہاپھراس نے نفیسہ کوزنانے بورڈنگ ہاؤس میں داخل کرادیاچونکہ نفیسہ کامطالبہ تھاکہ اسے بورڈنگ میں داخل کرادیاجائے تاکہ وہ بورڈنگ میں محنت کرسکے اوردسویں پاس کرلے۔


جب دسویں کاامتحان ہوچکاتومحمودنفیسہ کولینے کے لئے آگیااس نے لاہورکالج میں داخل کرانے کے جملہ انتظام کررکھے تھے۔


جب ایلی نفیسہ کوبورڈنگ سے لینے گیاتونفیسہ نے آنے سے انکارکردیا۔پھرسکول کی استانیاں اکٹھی ہوگئیں اوروہ ایلی کوبرابھلاکہنے لگیں۔ان کی باتوں سے مترشح ہوتاتھاکہ وہ سمجھتی تھیں کہ نفیسہ کی شادی زبردستی کی گئی تھی۔


ایلی حیران تھا۔اسے کچھ سمجھ نہ آرہاتھا۔غصے کی وجہ سے اس کاذہین شل ہوچکاتھا۔اس نے شورمچادیاحتیٰ کہ سکول کی عزت کے خیال سے انہیں نفیسہ کوباہربھیجناہی پڑاایلی نے اس کابازوتھام لیااوراسے سمجھانے لگا۔’’یہ کیاحماقت ہے نفیسہ!تمہاری شادی ہوچکی ہے تم دس روزاکٹھے رہ چکے ہواوراب۔۔لیکن یہ شادی توتمہاری رضامندی سے کی گئی تھی۔‘‘نفیسہ نے چلتے چلتے زورسے جھٹکامارااورہاتھ چھڑاکربورڈنگ کی طرف بھاگی۔


طلاق


جب وہ گھرپہنچاتوشہزادیوں کھڑی تھی۔جیسے شیرنی کچھارمیں کھڑی ہووہ غصے سے کانپ رہی تھی۔‘‘اگراپنابھلاچاہتے ہو’’وہ بولا‘‘توابھی میری بیٹی کوطلاق دلواؤ۔ورنہ۔‘‘


’’توکیاتم بھی۔۔۔‘‘وہ شہزادکی طرف حیرانی سے دیکھنالگا۔


’’تم نے میری بچی کوایک بدمعاش کے ہاتھ بیچاہے۔‘‘شہزادبولی۔


’’یہ تم کیاکہہ رہی ہو۔‘‘ایلی نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھا۔


’’ہاں میں کہہ رہی ہوں۔‘‘شہزادبولی۔


’’تم نے اپنی بیٹی سے پوچھاہے کیا۔‘‘


’’میں سب جانتی ہوں۔‘‘وہ بولی۔


شہزادکے عقب میں صبیحہ اورریحانہ کھڑی مسکرارہی تھیں۔


فرش پرعالی بیٹھاگنگنارہاتھا۔’’ابو ‘ابو۔‘‘


شہزادگھرسے باہرنکل گئی۔وہ بورڈنگ کی طرف جارہی تھی۔


’’غصہ میں نہ آؤ۔‘‘محمودایلی کے پاس آکھڑاہوا۔


’’تم جاؤمحمود۔‘‘وہ بولا۔تمہارایہاں رہناٹھیک نہیں ۔نہ جانے یہاں کیاہونے والاہے تم چلے جاؤ۔‘‘


’’کیوں۔‘‘ وہ بولا۔


’’بات بڑھ جائے گی۔‘‘ایلی نے کہا۔’’بہت بڑھ جائے گی اگرتم یہیں رہے تو۔‘‘


’’ہوںیہ توٹھیک ہے۔‘‘محمودنے لپک کراپناسوٹ کیس اٹھالیا۔


’’میں تمہیں اطلاع دوں گا۔‘‘ایلی نے کہا۔محمودچپ چاپ گھرسے نکل گیا۔


ایلی صحن میں دیوانہ وارگھوم رہاتھا۔وہ شہزادکے انتظارمیں بیٹھاتھا۔اسے سمجھ میں نہیں آرہاتھاکہ آخروہ سب یک لخت بدل کیوںگئے تھے۔آخرکیاوجہ تھی۔وہ محسوس کررہاتھا۔جیسے وہ سب کچھ جو ہورہاتھا۔ایک سوچے سمجھے پلان کے مطابق ہورہاتھا۔لیکن کیوں؟وہ سوچ رہاتھا۔اس کامقصدکیاتھا؟اسے کچھ سمجھ نہیں آرہاتھا۔


رات کے بارہ بج چکے تھے۔


باہر محلہ سنسان پڑاتھا۔


دورکتے بھونک رہے تھے۔


کمرے میں لڑکیاں کاناپھوسی کررہی تھیں۔


پلنگڑی پرعالی بیٹھابیٹھاسوگیاتھا۔اس کامنہ ایلی کی طرف تھا۔


دفعتاً شہزادداخل ہوئی۔اس کے ساتھ نفیسہ تھی اورسکول کی ایک ادھیڑعمرکی استانی۔


ایلی انہیں چپ چاپ دیکھتارہا۔


شہزادخاموش تھی۔نفیسہ آتے ہی لڑکیوں کے کمرے میں داخل ہوگئی۔انہوںنے اندرسے کنڈی لگالی۔


استانی بولی۔’’بہتریہی ہے کہ آپ لڑکی کافیصلہ کرادیں۔‘‘اس کاروئے سخن ایلی کی طرف تھا۔


’’آپ سمجھتی ہیں کہ لڑکی کی شادی زبردستی کی گئی ہے۔‘‘ایلی نے پوچھا۔


’’لڑکی یہی کہتی ہے۔‘‘وہ بولی۔


’’اوروہ ٹھیک کہتی ہے۔‘‘شہزادبولی۔’’لڑکی کودھوکے سے پھانس لیاگیاہے۔‘‘


’’لڑکی کومیرے سامنے بلاکرپوچھ لیجئے۔‘‘ایلی نے استانی سے کہا۔


’’وہ سامنے نہیں آئے گی۔‘‘شہزاددونوں ہاتھ کمرپررکھ کے سامنے کھڑی ہوگئی۔


’’کیوں۔‘‘ایلی نے پوچھا۔


’’بس نہیں آئے گی۔‘‘وہ غرائی۔


’’کیاآپ کومجھ پراعتمادنہیں۔‘‘ایلی نے استانی سے کہا۔’’میں نے یہ رشتہ لڑکی کی منشاکے مطابق کیاہے۔بلکہ اس کے اشارے پرکیاہے۔کیاآپ کومجھ پراعتمادنہیں۔‘‘


’’بالکل غلط ہے۔‘‘شہزادبولی۔‘‘’’بالکل غلط۔یہ شادی ایک سازش تھی۔بہتریہی ہوگاکہ فوراً اسے طلاق دلادی جائے۔‘‘


’’ورنہ۔۔۔‘‘ایلی بولا۔


’’ورنہ میں طوفان کھڑاکردوں گی۔‘‘شہزادچلائی۔


’’ہوں۔‘‘ایلی بولا۔’’طلاق مل جائے گی لیکن ہماراآپس میں کوئی سمبندھ نہیں رہے گا۔


تمہیں منظورہے۔‘‘


اس نے پوچھا۔


’’منظورہے۔‘‘شہزادنے جواب دیا۔


ایلی اندرچلاگیا۔اس نے سوٹ کیس میں اپنے کپڑے بندکئے اورپھرسوٹ کیس اٹھاکرباہر نکل آیا’’آیئے۔‘‘وہ استانی سے کہنے لگا۔’’میں آپ کوبورڈنگ تک چھوڑآؤں۔‘‘


شہزادنے ایک مرتبہ حیرت سے ایلی کی طرف دیکھا۔شایدوہ سمجھتی تھی کہ ایلی خالی دھمکی دے رہاہے۔


’’طلاق تمہیں مل جائے گی۔‘‘ایلی نے دہرایا۔‘‘خرچ بھی ملتارہے گا۔حسب توفیق۔‘‘


’’لیکن آپ جائیں گے کہاں۔اس وقت۔‘‘استانی نے پوچھا۔


’’میں ایسے گھرمیں نہیں رہ سکتاجہاں اپنی مرضی سے شادی کرنے کے باوجوددن دن کے بعدبلاوجہ طلاق مانگی جائے۔‘‘ایلی نے جواب دیا۔


شہزاددونوں بازوکولہوں پررکھ کرصحن میں کھڑی ہوکرایلی کوگھورنے لگی۔


’’ایسانہ کیجئے۔‘‘استانی نے کہا۔


’’توکیایہاں رہ کربے عزتی کی زندگی بسرکروں۔‘‘وہ بولا۔


’’اب توعزت والے بن بیٹھے ہو۔‘‘شہزادچلائی۔


’’لڑنابیکاہے۔‘‘وہ بولا۔’’صرف ایک بات پوچھتاہوں کیاتم طلاق مانگتی ہو۔تم چاہتی ہوکہ نفیسہ طلاق لے لے۔‘‘


’’چاہتی۔‘‘وہ غرائی۔’‘میں دیکھوں گی کہ کیسے نہیں ہوتی طلاق‘‘’’اس کی کیاوجہ ہے۔‘‘ایلی نے پوچھا۔


’’تمہیں اس سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘وہ غرائی۔


’’اچھا۔‘‘و ہ بولا۔’’مجھے کوئی تعلق نہیں توخداحافظ۔‘‘ایلی باہرنکل گیا۔


’’ابو۔ابو۔‘‘عالی سوتے سوتے جاگ پڑا۔۔۔’’ابو۔‘‘وہ رورہاتھا۔ایلی بھاگ رہاتھااسے ڈرتھاکہ کہیں عالی چیخیں سن کروہ واپس جانے پرمجبورنہ ہوجائے۔ابوابو دورایک چکی ہونک رہی تھی۔


ابو۔ابوریل نہ جانے کدھرجارہی تھی۔وہ ہاتھوں میں سردبائے چپ چاپ ڈبے میں بیٹھاتھا۔