صفحات

تلاش کریں

16-تجوید


کیڑااورکویا:۔

ایلی کے بن باس کوچارسال گزرچکے تھے۔
یہ چارسال اس نے مسلسل مطالعہ میں صرف کیے تھے۔جس کی وجہ سے اس کے خیالات میں خاصی پختگی پیداہوچکی تھی مطالعہ سے حاصل کئے ہوئے کئی ایک نظریات کووہ عملی زندگی میں آزماچکاتھا۔اب اس میں خوداعتمادی پیداہورہی تھی۔اگرچہ بنیادی طورپراس کے کرداراورشخصیت کی دیواریں اسی احساس کمتری پرکھڑی تھیں،لیکن اب اس کے برتاؤ سے اس کے برتاؤسے اس حقیقت کااظہارنہیں ہوتا۔اب وہ گونگانہ رہاتھا۔بلکہ اس کی گفتگومیں ایک جاذبیت پیداہوچکی تھی۔
اس کے دوست اورساتھی اس کی باتیں سنتے اورسردھنتے تھے۔اس کی وجہ یہ تھی کہ ایلی نے التزاماً زندگی کے متعلق ایک انوکھانکتہ نظراستوارکررکھاتھا۔جورسمی زاویوں سے ہٹ کرتھا۔
دراصل اس کاانٹلکچول سلف ایک کولے کی حیثیت رکھتاتھا۔جس کے تلے اس کی جذباتی اناکیڑے کی طرح چھپی ہوئی تھی۔مطالعہ نظریات اورپختگی خیالات کواس کے جذباتی تاروبودپرکچھ اثرنہ ہواتھا۔جذباتی طورپروہ ایک بچہ تھا۔وہ بچہ مارکھاکرروتے روتے سوگیاتھا۔ایلی کویہ خوف دامن گیررہتاتھاکہ بچہ پھرنہ جاگ پڑے۔اس ڈرتھاکہ وہ جاگ پڑے گا۔اورپھرسے بسورناشروع کردے گا۔اس بات کامطالبہ کرے گا۔کہ ماں اسے تھپکے مامتاسے اس کی وابستگی جوں کی توں قائم تھی۔اس کے گردوپیش کئی ایک نوجوان لڑکیاں تھیں جوپردوں سے جھانکتی تھیں قہقہے لگاکرآوازنشرکرتی تھیں۔شرماکرچھپ کرڈھونڈنے کی دعوت دیتی تھیں۔ان میں دلفریبی تھی حسن رعنائی تھی۔لیکن مامتانہ تھی۔وہ جگاتی تھیں تھپک کرسلاتی نہ تھیں ان کی سپردگی تھی۔لیکن گردنیں اٹھانے کی صلاحیت نہ تھی۔اس لئے وہ ایلی کواپنی طرف متوجہ نہ کرسکیں اورمامتابھری تھپکی کی عدم موجودگی میں ایلی اپنے محنت سے پیداکئے ہوئے انٹلکچول کوئے میں سوتارہا۔وہ ڈرتاتھاکہ کہیں بچہ جاگ نہ پڑے اسے آرزو تھی کہ وہ جاگ اٹھے۔ڈھکی چھپی آرزواورممتابھرے ہاتھ اسے تھپکیں تھپکتے اٹھاکرممتابھری گودمیں ڈال لیں۔
اسی ڈرکے مارے چارسال وہ علی پورنہ گیاتھا۔اسے ڈرتھاکہ کہیں سویاہوابچہ پھرسے نہ جاگ پڑے وہ کویاجواس نے بڑی محنت سے بنایاتھا۔ٹوٹ نہ جائے اورلوگ اس حقیقت سے واقف نہ ہوجائیں کہ وہ وہی پراناکیڑاہے۔پلپلا۔رینگتاہواکیڑا۔
اس کے باوجودجب کبھی علی پورسے کوئی آتا۔وہاں سے خبرآتی توایلی کے کان کھڑے ہوجاتے۔بظاہربے پروائی دکھاتے ہوئے بڑی توجہ سے علی پورکی باتیں سنتااورپھرتنہائی میں بیٹھ کر بڑے انہماک سے خبروں کے ٹوٹے ہوئے ٹکڑے جوڑتااورپھراندازے سے لگاتاکہ شہزادکاکیاحال ہے اورصفدراورشہزادکے تعلق کے متعلق محلے والوں کاکیاخیال ہے کیاشریف حالات سے بے خبرہے۔کیاشہزادشریف کے ساتھ نہیں جاتی۔
شروع شروع میں محلے سے جوخبریں آتی تھیں ان میں شہزاداورصفدرکابہت چرچاتھا۔کہاجاتاتھاکہ دونوں کاایک دوسرے کے بغیر،دم نکلتاہے وہ کھڑکی میں کھڑی ہوکرآوازیں دیتی رہتی ہے۔وہ منڈیرسے جھانکتاہے۔’’چچی سودامنگواؤگی۔آج توکریلے پکاؤاورجوزیورتم نے بنوایاتھا۔‘‘کھڑکی میں کھڑارہتاہے دونوں ہنس ہنس کرباتیں کرتے ہیں۔وہیں کھڑے دوپہرسے شام ہوجاتی ہے۔نہ جانے ان کی باتیںختم کیوں نہیں ہوتیں رات کوگراموفون کوسرہانے بیٹھ کرگیت سنتے ہیں۔آدھی رات بیت جاتی ہے۔لیکن وہ اللہ کے بندے نہیں تھکتے۔
پھرآہستہ آہستہ باتیں رگ بدلتی گئیں۔صفدرکے شراب کے نشے میں دھت رہنے کی باتیں چل نکلی توبہ ہے۔ہروقت بوتل منہ سے لگائے رہتاہے۔اورکیوں نہ ہو۔شہزادکامال ہے کیوں نہ لٹائے مفت کی توکہتے ہیں قاضی بھی نہیں چھوڑتااورصفدرتوبچپنے کاشرابی ہے پی کرونگاکرتاہے۔بیوی کوپیٹتاہے۔ چیخ چیخ کرشعرگاتاہے۔




اگرچہ ایلی کویقین تھاکہ اسے ان باتوں سے قطعی دلچسپی نہیں اسے قطعی طورپرپروانہیں کہ شہزادکھڑکی میں کھڑی رہتی ہے یابازارمیں صفدرنمازیں پڑھتاہے یاشراب کے نشے میں دھت رہتاہے۔ان باتوں سے کیافرق پڑتاہے۔لیکن یہ باتیں بڑی اہمیت کی رکھتی تھیں۔صفدر کے شراب پی کرچلانے کی بات سن کر اسے بے حدخوشی ہوتی تھی۔ایسی خوشی جس کااعتراف وہ اپنے آپ سے بھی نہیں کرتاتھاایک پرائیویٹ خفیہ خوشی۔اب شہزادکوسمجھ آئیگی۔اب وہ جانے گی کہ سچے اورجھوٹے عشق میں کیافرق ہوتاہے۔




ان چاربرس میں علی پورکے کئی ایک موقعے طے تھے لیکن ایلی نے جان بوجھ کرعلی پورجانے سے احترازکیاوہ علی پورسے ڈرتاتھا۔وہ شہزادکی آوازسننے سے ڈرتاتھاوہ آوازجومحلے میں گونجتی تھی جس کے سرے محلے والیوں سے قطعی طورپرمختلف تھے۔جس میں لے تھی زیروبم تھا۔وہ عجیب سی جھنجلاہٹ تھی۔جو سیدھی دل پراثرکرتی اورپھرنس نس میں دھنکی بجتی۔




ہرسال جب سکول گرمی کی چھٹیوں کی وجہ سے ڈیرھ ماہ کے لئے بندہوجاتاتوایلی مشکل میں پڑجاتاچھٹیاں گزارنے کے لیے جب وہ خان پورجاتاتوکوئی نہ کوئی علی پورکی بات چھیڑدیتا۔مثلاً علی احمدکہتے۔




’’نصیرکی ماں کتنی خوشی کی بات ہے کہ ایلی چھٹیاں ہمارے پاس بسرکرتاہے۔‘‘




’’بے چارہ اپنی ماں سے ملنے سے بھی گیا۔‘‘راجودبی زبان سے کہتی۔




’’اس کانام زندگی ہے نصیرکی ماں۔‘علی احمدچلاتے’’کبھی دھوپ کبھی چھاؤں۔‘‘




’’میںنے کہا۔‘‘راجواسے دیکھ کربولی’’ایلی آیاہے۔‘‘




’’لیکن۔۔۔‘‘راجوکہتے کہتے رک گئی۔




’’لیکن کیا۔‘‘علی چلانے لگے۔




راجو کی آوازمدھم پڑگئی۔‘‘ہم توعلی پورجارہے ہیں۔‘‘




’’توپھر۔۔تومطلب کی بات کر۔‘‘




’’مطلب یہ‘‘اس کی آوازاورمدھم پڑگئی۔’’وہ کہاں رہے گاچھٹیوں میں۔‘‘




’’ہی ہی ہی ہی۔‘‘علی احمدہنسے۔نصیرکی ماں توبھی ہمیشہ باؤنڈری لگاتی ہے۔اسے بھی ساتھ لے چلوآخرایک دن جاناہی پڑے گا۔آج نہیں توکل سہی۔کل نہیں پرسوں۔بکرے کی ماں کب تک خیرمنائے گی۔ ہی ہی ہی ہی وہ ہنسنے لگے۔‘‘




جب وہ علی پورپہنچے تومحلے کااحاطہ محلے والیوں کی آوازوں سے گونجنے لگاوہ سب علی احمدکوچھیڑنے لگیں۔




قافلہ:۔




دفعتاً ایلی کوخیال آیا۔وہ گھبراگیااس نے محسوس کیاکہ احاطے کے میدان میں کھڑے رہناخطرے سے خالی نہیں۔اس نے چندلمبے لمبے ڈگ بھرے اورڈیوڑھی میں جاکررک گیا۔اس کادل ابھی تک دھڑک رہاتھا۔باہرچیلیں چیخ رہی تھیں۔کوئے کائیں کائیں کررہے تھے اور ان میں علی احمدکے قہقہوں کی آوازصاف سنائی دے رہی تھی۔




’’کون؟‘علی احمد آیاہے؟‘‘




دفعتاً ایک مختلف نوعیت کی آوازسنائی دی۔انوکھی۔سریلی۔پنچم آواز۔ایلی کودل ڈوب گیا۔جسم میں لہریں سی چلنے لگین۔




’’ہئے یہ توساراقافلہ ہے کسی کوچھوڑتونہیں آئے پیچھے۔‘‘




’’توگھبراؤنہیں۔‘‘علی احمدبولے۔’’سبھی ساتھ ہیں۔سبھی۔‘‘علی احمدنے قہقہہ لگایا۔’’تواپنی بات سناشہزادسناہے تو نے اپنے میاں کوعاق کردیاہے۔‘‘




’’وہ کیسے۔‘‘




’’لوگ کہتے ہیں کہ تونے اسے ریٹائرکردیاہے۔‘‘




’’عمرعمرکی بات ہوتی ہے‘وہ ہنسی۔‘‘




’’عمرتوڈیوٹی کی ہے۔کیوں چاچی۔جھوٹ کہتاہوں کیا؟ ہی ہی ہی ہی۔‘‘




’’اب کیارہاہے پیچھے۔‘‘پنچم گونجی۔




’’نگاہیں کھاگئیں تجھے۔‘‘علی احمد نے قہقہہ لگایا۔




’’نگاہوں کی بھینٹ جوچڑھادیااپنے آپ کو۔‘‘ماں مدھم آوازمیں بولی۔




’’ہی ہی ہی ہی۔‘‘علی احمدکاقہقہہ ایلی کے بندبندمیں ناچنے لگا۔ایلی نے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں۔




محلے میں کئی ایک تبدیلیاں ہوچکی تھیں۔عورتوں نے احاطے کے میدان میں بیٹھ کرچرخا کاتناآزاربندبنناترک کردیاتھا۔سرجھکاکرچلنے والے بڈھے تعدادمیں کم رہ گئے تھے۔محلے کے نوجوانوں کی وہ حالت نہ رہ تھی۔اب وہ چھاتی نکال کرچلنے لگے تھے ۔نوجوان لڑکیاں بوڑھیوں کی موجودگی میں سینہ ابھارکرکھڑی ہوجاتیں۔نظربچاکرمسکراتیں۔بال جھٹکتیں۔بچے بڑوں کاکہانہ مانتے ضدکرتے بڑوں کومنہ پرجواب دیتے محلے کی بوڑھیاں بالکل ویسی ہی تھیں جیسے کہ پہلے ہواکرتی تھیں ان میں قطعی طورپرکوئی تبدیلی واقع نہ ہوئی تھی۔البتہ ان کی تعداد میں اضافہ ہوگیاتھا۔بہت سی ادھیڑعمرکی عورتیں ان کی صف میں شامل ہوگئی تھیں۔




ایک نئی چیزجومحلے میںزندگی میں داخل ہوئی تھی۔گراموفون باجہ تھاپہلے تومحلے میں صرف ایک باجاہواکرتاتھا۔جوبالاکرے کمرے میں یوں بجاکرتاتھاجیسے مکھیاں بھن بھنارہی ہوں بالاکے پاس چندایک پرانے ریکارڈتھے۔جن کی آوازاس کے کمرے میں گھٹ کررہ جاتی تھی جوچلتے چلتے میرانام جانکی بائی الہ آبادوالی کہہ کرختم ہوجاتے تھے۔جنہیںسن کر بوڑھیاں ہاتھ چلا چلا کرچلاتیں۔’’آے ہے یہ باؤلاکیاتوے سے گھساتارہتاہے ہروقت کی ٹیں ٹیں نہ شرم نہ حیا۔‘‘لیکن بالاتوباؤلاتھا۔اس سے جھگڑنے کاسوال ہی پیدانہیں ہوتاتھا۔آسیب زدہ لوگوں سے بھلاکیاجھگڑااس لیے بالاباجہ محلے میں سکیاں لیتارہتاتھا۔بوڑھیاں چلملاتی رہتیں۔بالاہی ہی ہی کرکے سنتارہتا۔




اب محلے میں کئی ایک باجے آگئے تھے ان پر ایسے ریکارڈچلتے جوہنہاتے نہیں بلکہ گاتے تھے اورگانے کے بول دوردورتک صاف سنائی دیتے تھے روزرات کے وقت کوئی نہ کوئی باجابجنے لگتااوردیرتک گیتوں کی آوازیں محلے میں گونجتیں اکثرایساہوتاکہ دوباجوں کی آپس میں شرط باندھی جاتی اوروہ باری باری ریکارڈبجاتے مقابلے کے شوق کی وجہ سے باجے والے نئے نئے ریکارڈخریدتے تاکہ حریفوں سے بازی لے جائیں۔




محلے والیوں نے انکے باجے کے خلاف ضروراحتجاج کیاہوگا۔ظاہرتھاکہ ان کی آوازمیں اب وہ اثرنہ رہاتھا۔بولتیں تووہ اب تھیں۔انہیں توبولنے سے دلچسپی تھی اثرپیداکرنے سے نہیں محلے کے جوان اب ان باتوں کودرخوداعتنانہیں سمجھتے تھے۔بولتی ہیں توپڑی بولیں آپ ہی تھک جائیں گی۔بہرحال ابھی تک ان میں اتنی جرات پیدانہ ہوئی تھی کہ بوڑھیوں کی بات کاٹیں یاان کی بات کاجواب دیں۔




بکھری کہانی:۔




اتنی دیرکے بعدایلی سے مل کرمحلے والیاں بے حدخوش ہوئیں گویاانہوںنے اس کے پرانے گناہ سب کے سب معاف کردیئے تھے۔




’’اے ایلی ہے۔‘‘وہ اسے دیکھ کرچلاتیں۔اے اتنی دیرکے بعددیکھاہے تجھے۔جی نہیں چاہتاتھاتیراوطن آنے ۔اے تونے توحدکردی۔محلہ چھوڑاتوبالکل ہی چھوڑدیاپہلے توباہرجانے کانام نہ لیتاتھا۔پھرجوچھوڑاتوبالکل ہی چھوڑدیا۔‘‘




پھروہ ایلی کے قریب ترہوجاتیں۔’’اچھاہی کیاتونے جواس دلدل سے نکل گیامردوں کاکیاکام کہ دلدل میں پھنسے بیٹھے رہیں مردتوچلتے پھرتے گھوڑے ہوتے ہیں۔‘‘




’’اے کوئی جگہ ہوتی توتوجان کی بازی لگاتا۔وہ توبارہ دری ہے بارہ دری ایک آیاایک گیااچھاہواتیری جان چھوٹی۔‘‘




اے میںنے کہا ایلی کچھ معلوم ہے تمہیں اس اللہ مارے شرابی نے کیاکیابیچ کرکھایااسے۔ سمجھ لونچوڑلیا۔اچھاہوااسے بھی سمجھ آئی کی کیاکیاہوتاہے۔لیکن اسے کیاسمجھ آئے گی۔وہ تو کہتی ہے لوٹ لووہ خودلٹنے کے لیے بے قرارہے خاوندسے بگاڑہوچکاہے۔لیکن وہ توبدھو ہے بدھو۔ورنہ عورت کی کیامجال ہے کہ خاوندکاکہانہ مانے۔اس بے چارے نے ہزارمنتیں کیں کہ چل میرے ساتھ چل لیکن اس اللہ کی بندی پرکوئی اثرنہ ہوا۔




’’اے ہے۔اب تولڑکیاں جوان ہوچکی ہیں۔پھربھی یہ اپنی ہٹ سے بازنہیں آتی۔ادھروہ کالے منہ والاشرابی روزپی کی بیوی کوپیٹتاہے پھرڈھیٹ کہیں کااسے آوازیں دیتاہے چیختاہے چلاتاہے منتیں کرتاہے جب کھڑکی نہیں کھلتی توپھرسے بیوی کوپیٹنے لگتاہے ۔توبہ ہے اتنے بے شرم ہوگئے ہیں۔کہ توبہ ہے نہ کسی کی شرم نہ لحاظ۔‘‘




ایلی ان کی باتیں سن سن کر ان ٹکڑوں کوجوڑتارہابہرحال وہ خوش تھا۔ہنگامہ ہوااچھاہوااسے سمجھ میں آگیا۔اسے معلوم ہوگیاکہ سچاعشق کسے کہتے ہیں۔




خوشی کے باوجودایسی باتیں سن کر اس کے دل پرٹھیس لگتی۔اس نے اپناآپ تباہ کرلیاعزت وناموس گنوادیا۔اپنی جوانی بربادکردی۔




ہاجرہ نے ایلی کوگلے سے لگالیا۔اس کے آنسوٹپ ٹپ گرنے لگے۔’’ہے ایلی توتوہم سے ملنے سے بھی گیاپہلے ہمارے پاس رہ کرہمارانہ تھا۔اب ساتھ ہم کوبھی چھوڑدیا۔تیراجی نہیں چاہتاتھاعلی پورآنے کواس سے تووہی دوراچھاتھا۔تمہیں دیکھ تولیتے تھے۔اب تودیکھنے سے بھی گئے۔‘‘




ہاجرہ روئے جارہی تھی۔اس کے پیچھے فرحت چپ چاپ کھڑی تھی۔ایلی کوسمجھ میں نہیں آرہاتھاکہ کیاکہے۔




’’چل ادھرفرحت کی طرف۔‘‘ہاجرہ بولی۔’’توکیاادھرعلی احمدکے گھررہے گا۔اکیلاہی۔نہ بیٹاچل ہمارے ساتھ رہ جیسے ہمیشہ رہا کرتاتھا۔‘‘




فرحت کی طرف جاکررہنا۔۔۔گویاپھرسے منجدھارمیں کودنے کے مترادف تھا۔وہاں شہزادتھی ۔صرف ایک چھت اورایک زینہ حائل تھاایلی ادھرجانے کے لئے تیارنہ تھا۔اس لیے چپ چاپ کھڑارہا۔




’’توبھی حدکرتی ہے اماں۔‘‘فرحت بولی۔’’اگرایلی کاجی ادھررہنے کوچاہتاہے۔توتواسے کیوں مجبورکرتی ہے۔ادھرلے جاکرخواہ مخواہ پھرسے مصیبت سرپرکھڑی کرنی ہے کیا۔مشکل سے جان چھٹی ہے پہلے ہی۔‘‘




’’اچھا‘‘ہاجرہ بولی۔جس طرح توخوش رہے ۔جیسے تیری مرضی۔‘‘




ایلی کویقین تھاکہ شہزادعلی احمدکے گھرآنے کی جرات نہ کرے گی اوراگرآئی بھی تواتنے لوگوں کی موجودگِ میں وہ اس کاسامناکرسکتاہے اسے توصرف ایک بات کاڈرتھاکہ کہیں وہ اکیلے میں ایلی کے روبروآکھڑی ہوپھراسے خیال آتاکہ آخروہ کیوں آئیں گی۔اس کی آمدکاخطرہ دراصل محض خوشی فہمی ہے۔آخراسے آنے کی ضرورت ہی کیاہے۔




چارایک دن کے بعدایک روزعلی احمداورگھر کے جملہ لوگ علی احمدکے کسی دوست کے ہاں جانے کے لیے تیارہوگئے انہیں صرف چندایک گھنٹے کیلئے باہررہناتھا۔ایلی نے اس بات کو چنداں اہمیت نہ دی۔اس لیے وہ کتاب اٹھاکرایک الگ کمرے میں جابیٹھااورمطالعے میں مصروف ہوگیا۔




وہ چونکا۔کون ہے؟‘‘




گٹھڑی سے دبی ہوئی سسکیوں کی آوازآرہی تھی۔ایلی گھبراگیا۔




اس نے چوٹی کواٹھایا۔۔۔ماتھے پرتل دیکھ کراس کادل ڈوب گیااس نے چوٹی کوچھوڑدیادھم سے گٹھڑی پھرسے گرگئی۔سسکیوں کی آوازاوربلندہوگئی۔




اس کا جی چاہتاتھاکہ ٹھوکرمارکراس ریشمی گٹھڑی کوپرے ہٹادے اورپھرخراماں خراماں کمرے سے باہرنکل جائے جیسے ہیروسٹیج سے نکلتاہے۔اس کاجی چاہتاتھاکہ ریشمی گٹھڑی کواٹھاکرسینے سے لگالے۔




اس کاجی چاہتاتھاگٹھڑی پرڈھیرہوجائے۔اسے بانہوں میں سمیٹ لے اوردبی آوازسے کہے۔’’قدموں پرگرناتمہاراکام نہیںدیوی۔تم کیاکررہی ہو۔‘‘




اس کاجی چاہتاتھاکہ کچھ نہ کہے۔بیٹھارہے۔’’کیااپنے شرابی محبوب سے اکتاگئیں۔کیادل بہلاوے کے لیے کوئی اورنہیں ملتا۔‘‘




’’مجھے معاف کردو۔‘‘وہ اس کے قدموں میں گری ہوئی تھی۔اس سے زیادہ اس کی عظمت کااعتراف کس طرح ہوسکتاتھا۔اس سے عظیم ترلمحہ اس کی زندگی میں کیاہوسکتاتھا۔وہ خوش تھااس کی تذلیل پرخوش تھا۔اس کے اعتراف شکست پرخوش تھا۔وہاں وہ چاہتاتھاکہ یوں ہی بیٹھارہے ۔دیوتابن کربیٹھارہے اوراس کے قدموں پروہ سرنگوں رہے۔




تمام دنیاپرسناٹاچھایاہواتھا۔کائنات گویارک گئی تھی۔روئے زمین پرکوئی اورنہ تھا۔صرف دیوتا اورپشیمان پجاری کائنات کی تخلیق کامقصدپوراہورہاتھا۔صرف وہ دونوں باقی رہ گئے تھے۔یاپھرایک خلاتھا۔وسعتوں کوگھیرے میں لہے ایک عظیم ترخلاء۔




صدیوں خاموشی طاری صرف ہچکیاں ۔لمبی ۔دبی ۔دبی ہچکیاں پھرکپڑوں کی گٹھڑی میں حرکت ہوئی حرکت ہوئی۔پیشانی کاسیاہ تل ابھرا۔




’’میں میں۔۔۔تم۔‘‘آبدیدہ ہچکی نے اس کی بات کاٹ دی۔




’’تم ہو؟‘‘ایلی نے نفرت بھرے انداز سے کہابناوٹی نفرت۔




’’ہاں۔۔۔میں۔‘‘




’’تم۔‘‘ایلی کی نگاہ کندچھری کی طرح پڑی۔




’’ہاں میں۔‘‘چورچورہوکرتمہارے قدموں میں آگری ہوں۔‘‘




’’جوشرابی کے ہاتھ کاگلاس بنے۔۔۔‘‘




’’تم مجھے شرابی کے ہاتھ دے گئے تھے نا۔‘‘




’’میں دے گیاتھا؟‘‘نفرت سے اس نے ہونٹ بھ













’’میں دے گیاتھا؟‘‘نفرت سے اس نے ہونٹ بھیچ لیے۔




’’تم نہ جاتے تو۔۔‘‘




’’اب کیارکھاہے؟‘‘وہ بولا۔




’’سچ ہے۔‘‘وہ اٹھ بیٹھی۔اس نے معافی بھرے اندازسے چہرے سے بال ہٹائے اوراپنامنہ ننگاکرکے بولی۔’’اب کیادھراہے۔‘‘




وہ اسے دیکھ کرچونکا۔‘اس کے روبروہ شہزادنہ تھی۔ایک لٹاچہرہ۔ویران آنکھیں۔ہڈیوں بھرے گال،داغ دارجلد،بجھادیپ،وہ اسے دیکھ کربھونچکارہ گیا۔جیسے کسی نے اس کے سینے پرگھونساماردیاہو۔اس کادل ڈوب گیا۔




’’ہاں۔‘‘وہ بولی’’اب کیارکھاہے۔ویرانی،تباہی لئے ہوئے کوکون منہ لگاتاہے۔چورچورہوجائے توکون ٹکڑے چنتاہے۔‘‘وہ خاموش کھڑی رہ گئی ۔




کمرے کی فضاگویامنوں بوجھل ہوگئی۔




ایک اداس بھاری خاموشی چھاگئی۔




دورکوئی کراہ رہاتھا۔رورہاتھا۔سسکیاں لے رہاتھا۔




’’مجھے معلوم تھا۔‘‘وہ بولی’’اب تم بھی منہ نہ لگاؤگے۔اب رکھاہی کیاہے۔‘‘اس نے سسکی زدہ قہقہہ لگایا۔




’’توپھر‘‘وہ بولا۔




’’پھر۔۔ہونہہ۔۔۔‘‘




’’آخرپھرمجھ پرنوازش کیوں کی گئی؟‘‘




’’تو پرمیں کیانوازش کروں گی؟‘‘




’’توکیایہ نئی چال ہے؟‘‘




’’چال‘‘وہ قہقہہ مارکرہنسی۔اس ہنسی میں دھارتھی۔ایسی دھارجسکارخ اس کی اپنی طرف تھا۔




’’گناہ بخشوانے آئی تھی۔کیا؟‘‘




’’جبھی خدابن کربیٹھ گئے ہوتم۔‘‘




ایلی بھونچکارہ گیااسے کوئی جواب نہ سوجھا۔




’’تم نے اپنے آپ کو کیاسمجھتے ہو۔‘‘




’’ہونہہ‘‘نفرت سے اس کی ناک دھاربن گئی ۔’’تم ۔۔مجھے سمجھتے کیاتم۔تم مجھے کیاسمجھوگے،تم میں اتنی وسعت ہی نہیں کہ دوسرے کوسمجھ سکو۔دوسرے کودیکھ سکو۔سمجھناتواوربات ہے۔‘‘




’’جی‘‘وہ غصے میں بولا’’میں تمہیں نہیں سمجھ سکا۔نہیں سمجھ سکتا۔‘‘




’’خودپرست شخص کسی کونہیں سمجھ سکتا۔‘‘




’’جی میں خودپرست ہوں۔‘‘




’’تمہاری خودپرستی نے ہم سب کوتباہ کردیا۔




’’اس شرابی کوبھی۔۔۔‘‘اس کی آوازمیں تمسخرتھا۔




’’ہاں اس نالی کے کیڑے کوبھی۔‘‘




’’نالی کاکیڑا؟‘‘




’’ہاں۔اس کامقصدمجھے لوٹناتھا۔اس نے مجھے دل بھرکرلوٹا۔اورمیں جان بوجھ کرلٹتی رہی ۔مجھ میں اب بھی اپناآپ لٹانے کی جرات ہے۔‘‘




’’اوہ۔۔۔‘‘




’’تمہاری طرح نہیں کہ مجھے اکیلی چھوڑکرچلے گئے۔‘‘




’’میں چلاگیا؟‘‘




’’تمہیں مجھ پراعتمادنہ تھا۔تم کسی پراعتمادنہیں کرسکتے تم میں اتنی وسعت نہیں۔تم شک کے زورپرپیارکرتے ہو۔محبت کرنانہیں جانتے۔آح تم بھی میرامذاق اڑارہے ہو۔گری ہوئی کوپاؤ ں میں روندرہے ہومیں صرف تمہارے سامنے گری ہوں۔کسی اورکے سامنے نہیں۔اتنی گری ہوئی بھی نہ سمجھومجھے۔‘‘




شہزادکی آنکھیں آنسوؤں س لبریزتھیں۔اس نے دونوں بازوسینے پرتہہ کیے ہوئے تھے اوروہ یوں کھڑی تھی جیسی جلتے ہوئے جہازمیں کوئی کیسابیانکاکھڑاہو۔




دیرتک وہ یوں ہی کھڑی ٹکٹکی باندھ کر ایلی کی طرف دیکھتی رہی۔اس کی نگاہ تلے ایلی ایک انجانی گھبراہٹ محسوس کررہاتھا۔اسے لٹاپٹادیکھ کروہ محسوس کررہاتھا۔کہ اسے وہ اکیلانہیں چھوڑسکتاجیسے اس کاساتھ دینااس پر فرض ہوچکاہو۔




سکھ میں چاہے وہ اس کاساتھی نہ بنتالیکن دکھ میں وہ اسے چھوڑنہیں سکتا۔اب شہزادکے پاس رہاکیاتھا۔جوانی ڈھل گئی تھی۔جوبن ختم ہوچکاتھا۔ایلی کاجی چاہتاتھاکہ اٹھ کراس کے قدمو ں پرگرجائے اورروروکراس سے معافی مانگ لے لیکن اس میں اتنی جرات نہ تھی۔




دفعتاً وہ آگے بڑھی۔اس نے دونوں ہاتھوں سے ایلی کاسرتھام لیا’’لیکن تم یوں چوہے کی طرح کیوں دبکے بیٹھے ہو۔کیوں منہ چھپائے پھرتے ہو۔کبھی علی پورنہیں آئے۔اوراب آئے تو سامنے کیوں نہیں آتے۔مجھ سے دلچسپی نہیں تونہ سہی مجھے اس کی ضرورت نہیں لیکن مجھ سے نفرت ہی سہی اعلانیہ نفرت کروتھوک،میرے منہ پرتھوکو۔ٹھوکرمارکرمجھے باہرنکال دو۔‘‘اس نے دونوں ہاتھوں سے ایلی کامنہ اپنی طرف موڑلیا۔




ایلی نے یوں محسوس کیاجیسے پٹاخے کوآگ دکھادی گئی ہو۔بھن سے اس کاسرہوائی کی طرح چل گیااس نے ان جانے میں اٹھ کرشہزادکودونوں بانہوں میں تھام لیااورپھردیوانگی بھرے جوش سے اس ریشمی گٹھڑی کوسمیٹ کراپنی گودمیں ڈال لیا۔پھروہ نہ جانے غصے میں جوش یانفرت کی شدت کی وجہ سے چیخنے لگا۔




’’تم کمینی ہو۔حرام زادی ہو۔فاحشہ ہو۔تمہیں دوسروں کو تباہ کرنے میں دلچسپی ہے تم انسانوں سے کھیلتی ہو۔تم حرام خورہو۔‘‘




’’ہاں ہوں۔‘‘وہ بولی’’کرلومیراکیاکرتے ہو۔‘‘اورپھرگٹھڑی سی بن کرپڑ گئی۔




ایلی لے اس گٹھڑی کی طرف دیکھا۔جواس کی گودمیں پڑی تھی۔پھردفعتاً اس کے ذہن میں گاڑی کی کوک سنائی دی۔گاڑی اونچے اونچے ٹیلوں کے درمیان چھکاچھک چلی جارہی تھی۔ایک ڈبے میں مونگیارنگ کی گٹھڑی پڑی جھول رہی تھی۔




’’ارے یارغضب ہوگیا۔تباہی بربادی ،لٹ گئے۔بربادہوگئے۔‘‘ارجمندچلارہاتھا۔پھرگٹھڑی کے پٹ کھلے اوردوحنائی ناگ باہر نکلے۔




سارے عالم پرسناٹاچھایاہواتھا۔ایلی نے گودمیں پڑی ہوئی گٹھڑی کی طرف دیکھا۔’’یہ میں نے کیاکردیاپھرسے اپنے آپ کوبدرومیں پھینک دیا۔یہ میں نے کیاکردیا’’غصے سے اس کامنہ سرخ ہوگیا۔‘‘کرلومیراکیاکرسکتے ہو۔کرلومیراکیاکرسکتے ہو۔‘‘کوئی اس کامنہ چڑارہی تھی۔غصے سے ایلی کے تن بدن میں آگ لگ گئی اوروہ اس ریشمی گٹھڑی پرپل پڑا۔




لفافہ:۔




اگلے روزجب وہ جنگلے میں بیٹھاپڑھ رہاتھاتونیچے زینے سے شوربلندہوا ۔’’راجوشمیم۔ کوئی ہے بھی اس گھر میں کہ کانوں میں تیل ڈالے بیٹھے ہو۔‘‘




ایلی شہزادکی آوازسن کر چونکا۔وہ توعلی احمدکے گھرکبھی نہ آئی تھی۔کبھی آتی بھی توسال میں ایک مرتبہ۔لیکن اس طرح گھروالوں کوآوازیں دے رہی تھی جیسے روزکی آنے والی ہو۔




اورپھر اس کی آوازاسی طرح گھنٹی کی طرح بج رہی تھی جیسے ٹن جوں کاتوں قائم ہو۔بات کااندازبھی وہی تھا۔جیسے ہمیشہ ہواکرتاتھا۔




’’ہی ہی ہی ہی‘‘علی احمدہنستے ہوئے آگئے بڑھے’’لو‘‘وہ بولے’’ہماری قسمت مفت میں جاگ اٹھی‘‘




’’کس نے جگادی آپ کی قسمت ‘‘راجو نے پوچھا۔




’’دیکھ لوشہزادآئی ہمارے گھر۔‘‘




’’اب توآئے گی ہی۔‘‘




’’کیوں ‘‘علی احمدبولے۔




’’اب سودابک گیا۔‘‘شہزادچلائی ’’اب خطرہ کیسا۔‘‘




’’ابھی توگودام بھرے ہیں۔‘‘علی احمد بولے۔’’کیوں نصیرکی ماں ٹھیک ہے نا۔‘‘




’’تم آپس میں ہی فیصلہ کرولو۔‘‘راجوہنسنے لگی۔




’’جبھی تومیں آئی ہوں‘‘شہزادنے کہا۔’’میں نے کہاآج روبروفیصلہ ہوجائے۔‘‘




’’توآؤبیٹھو۔ہمارے پاس توکبھی بیٹھی ہی نہیں۔بس کھڑکیوں پرچیل کی طرح منڈلاتی رہتی ہو۔




کبھی ہمیں بھی موقعہ دیاہوتا۔ہی ہی ہی ہی‘‘علی احمدہنسنے لگے۔




’’جسے سدھ بدھ ہی نہ ہواسے کیاموقعہ دینا‘‘وہ ہنسی۔




’’اب آئے گی بھی اندریاان کی باتوں میں الجھی رہوگی۔‘‘اندرسے راجوبولی۔




’’آتی ہوں۔یہاں توصرف باتیں ہی باتیں ہیں۔‘‘




علی احمدہنسنے لگے۔‘‘بھئی بڑی تیزہے یہ شہزادو۔‘‘




’’ابھی کیادیکھاہے۔‘‘وہ اندرجانے کی بجائے سیدھی ایلی کی طرف آتے ہوئے بولی اوربے پروائی سے برسبیل تذکرہ ایلی سے مخاطب ہوکرکہنے لگی’’توکیایہ پڑھنے کی جگہ ہے۔اوریہ وقت پڑھنے کاہے۔میرایہ خط توڈال آؤذراڈاک میں۔‘‘شہزادنے ایک لفافہ اس کی طرف بڑھادیا۔پھرجیسی کوئی بات ہی نہ ہو۔علی احمد سے بولی۔’’اے ہے مہمان آئے ہیں کچھ تواضع کرو۔کچھ منگواؤشہزادآئی ہے۔‘‘




ان کی گھبراہٹ دیکھ کرشہزادمسکرائی پھرمڑکرایلی سے کہنے لگی’’یہ خط تمہارے لئے ہے کہیں ڈاک میں ڈالاتومیں پٹ جاؤں گی۔‘‘




ایلی نے دیکھاتولفافے پرشریف کاپتہ لکھاہواتھا۔




لفافہ کھولاتواندرمختصرطورپرلکھاتھا۔’’مجھ سے آج ہی ملومیںنے تم سے بہت باتیں کرنی ہیں وہ بیٹھک جواحاطے میں کھلتی ہے۔اس کی تیسری کھڑکی اندرسے کھلی ہوگی کھڑکی میں اندرٹارچ پڑی ہوگی۔اٹھالینا۔بارہ بجے سے پہلے نہ آنا۔‘‘




رابعہ کے چوبارے کے نیچے کی بیٹھک جس کی کھڑکیاں احاطے کے میدان میں کھلتی تھیں سال ہاسال سے بندپڑی تھیں۔اس میں گھرکاکاٹھ کبارڈھیڑکیاہواتھا۔رابعہ اورشہزادکے مکان کاصدردروازہ چھتی گلی میں کھلتاتھاجیسے گلیارہ کہتے تھے۔لیکن یہ ڈیوڑھی مشترکہ تھی۔یہاں سے چارایک مکانات کوراستے جاتے تھے۔اس لیے صدردروازے کوچوری چھپے شہزادکے گھرجانے کے لیے استعمال نہیں کیاجاسکتاتھا۔میدان میں کھلنے والی بیٹھک کی کھڑکیاں ان کے گھرمیں داخل ہونے کابراہ راست ذریعہ تھاوہ بھی صرف اس لیے ممکن العمل تھاکہ رابعہ ان دونوں باہرگئی ہوئی تھی۔اورشہزادنہ جانے کس وجہ سے اپنے چوبارے میں آگئی تھی شایداس کی وجہ صفدرہو۔جس کامکان شہزادکے چوبارے سے عین ملحق تھا۔




اس رات وہ جنگل میں لیٹاہواسوچ رہاتھا۔گھرکے زیادہ ترلوگ اوپرچھت پرسوئے تھے۔باہر صحن میں زینے کے پاس ہاجرہ کی چارپائی تھی۔جس کے پاس ہی وہ جائے نماز پربیٹھی نہ جانے کیاپڑ رہی تھی۔انہی دونوں ہاجرہ نے دلی کے ایک بزرگ جنہیں حاجی صاحب کہتے تھے کی بیعت کی تھی اورنمازوں اوروظائف میں مصروف رہتی تھی۔




نیچے احاطے کے میدان میں چاندنی چٹکی ہوئی تھی۔ایلی نے پہلی مرتبہ محسوس کیاکہ چاندنی خطرناک نتائج بھی پیداکرسکتی ہے محلے میں چاروں طرف سے آوازیں آرہی تھیں۔برتن بج رہے تھے چارپائیاں گھسیٹی جارہی تھیں۔۔۔دروازوں کے پٹ بندہورہے تھے۔




آہستہ آہستہ محلے پرخاموشی طاری ہوئے جارہی تھی۔خاموشی کے وقفے لمبے ہوتے جارہے تھے پھرمحلے کی مسجدسے نمازی وظائف سے فارغ ہوکرگھروں کولوٹ رہے تھے۔قدموں کی مدہم آوازیں آرہی تھیںٹپ ٹپ قدموں کی چاپ آہستہ آہستہ معدوم ہوجاتی تھی۔کوئی دروازہ چراؤں کرکے کھلتااورٹھک سے بندہوجاتا۔پھرخاموشی چھاجاتی۔چندسماعت کے بعدپھرٹپ ٹپ قدموں کی آوازآتی آہستہ آہستہ مدھم ہوتی جاتی اورپھرچراؤں ٹھک کے بعدخاموشی کاایک اوروقفہ شروع ہوجاتا۔




ماجھا:۔




احاطے کے میدان کے عین درمیان میں کنوئیں کومنڈیرکے قریب ماجھاڈھیرہورہی تھی۔ماجھاایک مستانی تھی۔جوسارادن نہ جانے کہاں کہاں گھومتی پھرتی اورشام کے وقت محلے کے احاطے میں آجاتی اورکنوئیںکی منڈیرکے قریب رات بسرکرتی تھی۔




ماجھاکواپنی سدھ بدھ نہ تھی۔اس کی عمرکچھ زیادہ نہ تھی۔لیکن جسم پھولاہواتھا۔غالباً اس کے جسم میں حسیات مفقودہوچکی تھی۔اگرکوئی ماجھاکے جسم پرچٹکی بھرتاتوماجھاکوقطعی طورپراحساس نہ ہوتاوہ آپ ہی آپ بیٹھی قہقہہ مارکرہنسنے لگتی یاپھوٹ پھوٹ کرروتی یاچیخیں مارتی رہتی۔اس کے جسم پرایک لمباچغہ پڑارہتاتھا۔سراورجسم میں جوئیں چلتی تھیں اوررات کوجاگتے میں بیٹھے بیٹھے اس کاپیشاب اورپاخانہ خطاہوجاتاتھا۔




کوئی نہیں جانتاتھاکہ ماجھاکون ہے،کہاں سے آئی ہے کس کی بیٹی ہے اوراس کی یہ حالت کیوں ہوگئی ہے؟




کوئی کہتاکہ وہ امیرکبیرگھرانے سے ہے اورکشتۂ محبت ہے۔محبت کی شدت کی وجہ سے دیوانی ہوگئی ہے کوئی کہتاکہ نوجوانی میں غنڈوں نے اس سے زیادتی اوراس عف مآب لڑکی کواس قدرصدمہ ہواکہ وہ ہمیشہ کی لیے ہوش کھوبیٹھی۔




رات کے وقت محلے کے کتے اسے چاٹتے رہتے تھے پھرنہ جانے کون کتااسے چاٹ گیاکہ













966-995(کاپی کرنا ہے)




صفحہ 996 سے 1025 تک













“ اور اصل چیز کنی میں باندھ کر رکھی ہوئی ہے۔“ احمد ہنسا۔













“ اونہوں۔“ وہ بولی۔ “ اصلی چیز خاک میں مل چکی ہے۔“













“ خاک میں مل کر ہی تو سونا بنتا ہے۔“ ایلی نے ایک اور نمائشی فقرہ چست کیا۔













“ بنتا ہو گا۔ ہم تو مٹی بن کر رہ گئے۔“













“ اے تو بیٹھی کیا کر رہی ہے پیلی۔ “ اس کی ماں نے غصے سے ادھر دیکھا۔ “ اٹھ اب تیار ہو۔“













“ بیٹھ لینے دے ماں۔“ وہ بولی۔ “ بیٹھ لینے دے کچھ دیر اور۔ ساری عمر تیار ہی ہونا ہے نا۔“













پیلی کے انداز کو دیکھ کر ایلی نے محسوس کیا جیسے مولانا پیلی کا بھیس بناکر بیٹھے ہوں۔ یہ بائی حقیقت سے کس قدر قریب ہے۔ ویسے دیکھنے میں کس قدر دور۔ یہ حقیقت کیا چیز تھی۔ اسے یہ سمجھ میں نہیں آتا تھا لیکن اس کے باوجود وہ اسی شدت سے محسوس کرتا تھا۔ حقیقت ایلی کے لیے وہ مقام تھا جہاں سے ہر چیز اپنی تمامتر عریانی میں پورے طور پر دکھائی دیتی ہے۔













دیر تک وہ دونوں پیلی کے پاس بیٹھے رہے۔ احمد کو نہ جانے کیا سوجھی۔ وہ نیچے جا کر بہت سے چلغوزے لے آیا اور وہ تینوں بچوں کی طرح چلغوزے کھاتے رہے۔ احمد نے بہت سے چلغوزوں کے مغز نکال کر پیلی کو پیش کیئے۔













“ اونہوں۔“ اس نے مسکرا کر کہا۔ “ خود توڑ کر کھانے میں مزہ ہے احمد۔ مغز نہ دو مجھے چلغوزے کھانے کا سارا رومان ختم ہو جاتا ہے۔“













“ آپ کو رومان سے دلچسپی ہے کیا۔“ ایلی نے پوچھا۔













“ ہے۔“ وہ بولی۔ “ لیکن ہمارے لیے رومان کچھ اور چیز ہے۔ یہ رومان نہیں۔ اس کی حقیقت ہم پر اس حد تک آشکار ہو چکی ہے کہ کسی گنتی شمار میں ہی نہیں رہا۔“













“ ہمیں بھی پتہ چلے۔“ ایلی بولا۔













“ اونہوں۔“ وہ مسکرائی “ چل بھی جائے تو بھی نہ چلے گا۔ آپ کی دنیا اور ہے اور ہماری اور۔ آپ دیکھتے ہیں اور ہم پر دکھنا لازم ہے۔ رہا دیکھنا تو میں دیکھ دیکھ کر اکتا گئی ہوں۔ پھر بھی دکھنا پڑتا ہے۔ آنکھیں بند کر لوں پھر بھی دکھتا ہے۔“













اس کی بات سن کر ایلی خاموش ہو گیا۔ اسے کوئی بات نہ سوجھ رہی تھی۔













“ وہ دھن کیسے ہے۔“ احمد نے کہا۔ “ مکھ موڑ موڑ مسکات جات۔“













اور وہ گانے لگی۔ دفعتاً اس کے چہرے کا عالم ہی بدل گیا۔ پہلے اس پر بےپروائی کی دبیز تہ چڑھی ہوئی تھی۔ جمال اور بے نیازی جس میں تصنع نہ تھا لیکن جونہی اس نے آہستہ آواز میں گانا شروع کیا، بے نیازی ختم ہو گئی۔ ایک مبہم تڑپ ایک دلفریبی جیسے دفعتاً محبوبیت کی وہ کیفیت ختم ہو گئی ہو۔ جو خود بخود بلا جدوجہد بغیر خواہش اور کوشش کے چھائے ہوئے تھی۔ اب وہ محبوبیت پیدا کرنے کی سعی کر رہی تھی۔ دونوں کیفیات میں کتنا فرق تھا۔ پہلے وہ خدا بنی بیٹھی تھی۔ بے نیاز لاشعوری محبت سے سرشار۔ اب نہ جانے کیا بن گئی تھی۔ کیا واقعی خواہش بذات خود محبوبیت کی کاٹ تھی۔













مہارانی​






















علی پور آتے ہوئے راستے میں ایلی دلی کے تاثرات میں سرشار رہا لیکن علی پور پہنچ کر جب وہ پہلے روز شہزاد سے ملا تو وہ تاثرات سب کے سب یوں کافور ہو گئے جیسے صبح کی دھند سورج کی شعاعوں سے صابون کے بلبلوں کی طرح اڑ جاتی ہے۔













“ ہمارے مرشد ہی کسی کے مرید بن آئے تو اب ہمارا کیا ہو گا۔“ شہزاد نے کہا۔ “ ہماری تو کوئی حیثیت ہی نہ رہی نا۔“ وہ ہنسنے لگی۔













“ تم تو مہارانی ہو۔“ وہ بولا “ اور مہارانی مہارانی ہی ہوتی ہے۔“













“ جب مہاراج ہی بھکشو ہو جائیں تو مہارانی کہاں رہی۔“













“ جسے تم سا خزانہ ملا ہو وہ بھلا بھکشو کیوں بنے۔ بھکشو تو وہ بنتا ہے جس کے ہاتھ پلے کچھ نہ ہو۔













“ ہاں تو پھر حاجی صاحب نے کیا کہا۔ مجھے سب بتاؤ نا۔“ شہزاد اس کے قریب تر ہو گئی۔













“ حاجی صاحب نے کہا، اس کا مرشد بہت زبردست ہے۔ اس کو سنبھالنا اپنے بس کا روگ نہیں۔“













“ سچ “













“ تمہاری قسم۔ وہ دبلا پتلا حاجی چاہے کچھ بھی ہے لیکن صاحبِ نظر ضرور ہے۔“













“ وہ کیا ہوتا ہے۔ صاحبِ نظر۔“













“ اس نے مجھے دیکھ کر تمہاری طاقتوں کا اندازہ لگا لیا۔ مجھ میں تمہارا پرتو دیکھ لیا۔“













ایلی کا جی چاہتا تھا کہ وہ شہزاد کو سب کچھ بتا دے۔ وہ پیغام جو حاجی صاحب نے اماں کو دیا تھا ------ “ ہو کے رہے گا۔ ہو کے رہے گا۔“ ایلی کے دل میں کوئی چلا رہا تھا۔ “ ہو کے رہے گا۔“ اس کی زبان پر بار بار آتا تھا لیکن نہ جانے کیوں وہ نہیں چاہتا تھا کہ شہزاد کو اس راز سے آگاہ کرئے۔ شاید اسے یہ خوف دامن گیر تھا کہ شہزاد اسے رد کر دے گی۔ جیسے وہ ہمیشہ کیا کرتی تھی۔ بہر صورت اس نے بات پھر سے چھیڑی۔ بولا۔













“ شہزاد ایک بات کہوں۔“













“ کہو۔“ وہ بولی۔













“ اس طرح کیسے زندگی بسر ہو گی۔“













“ کس طرح۔“ اس نے پوچھا۔













“ اس طرح چھپ چھپ کر ملنے سے انجام کیا ہو گا۔“













“ انجام تو ہو چکا۔“ وہ بولی۔ “ میں نے تمہیں کھو کر پا لیا۔“













“ لیکن میں نے تو تمہیں نہیں پایا۔“













“ تم نے کھویا ہی نہیں تھا۔ پھر پانے کا کیا سوال۔“













“ نہیں شہزاد، ہماری زندگی ایک ڈھونگ ہے۔ ایک مسلسل جھوٹ، فریب، ہم دوسروں کو دھوکہ نہیں دے رہے، خود کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ خود فریب کھا رہے ہیں۔“













“ فریب ہی سہی۔“ وہ بولی۔ “ مجھے یہ فریب کھانے ہی دو۔ اتنی زندگی بیت گئی ہے۔ اب باقی رہا کیا ہے۔“













“ نہیں شہزاد۔“ وہ بولا۔ “ چلو کہیں چلے جائیں۔ اب بھی وقت ہے۔“













“ میری طرف دیکھو۔“ وہ بولی۔













ایلی نے اس کی طرف دیکھا۔ “ کیا ہے؟“













“ دیکھا۔“ وہ بولی، “ کیا اب بھی یقین نہیں۔ میں چھ بچوں کی ماں ہوں۔ چھ بچوں کی۔“













“ تو پھر؟“













“ اپنی زندگی تو میں نے تباہ کر لی۔ اب تمہاری زندگی تباہ کیسے کروں۔“













“ اس طرح تو بہت آباد ہے۔“ وہ بولا۔













“ تم شادی کر لو ایلی۔“













“ یہ تم کہہ رہی ہو۔“













“ ہاں۔“ وہ بولی۔ “ میں یہ بخوشی برداشت کر لوں گی۔“













“ تو پھر بات کیا بنی۔“













“ بس تم مجھ سے الگ نہ ہونا۔ میرے لیے یہی بہت ہے۔“













“ نہیں شہزاد۔“ وہ بولا۔ “ یہ ہو کے رہے گا۔“













“ کیا ہو کے رہے گا۔“













“ ہم ایک دوسرے کے ہو کے رہیں گے۔“













“ وہ تو ہم ہیں ہی۔“ وہ بولی۔













“ اعلانیہ ہو کے رہیں گے۔“













وہ قہقہہ مار کے ہنسنے لگی۔ “ اعلانیہ ہی تو ہیں۔ سبھی جانتے ہیں۔ خود شریف جانتا ہے۔“













“ شریف جانتا ہے۔“ ایلی نے دہرایا۔













“ ہاں۔ وہ صفدر کے متعلق مجھے طعنے دیتا تھا تو میں نے صاف صاف کہہ دیا۔ میں نے کہا طعنہ دینا ہے مجھے تو ایلی کا دو۔ اس شرابی اور کمینے کا نہ دو۔ میں نے اسے بتا دیا کہ میں تمہاری ہو چکی ہوں۔ صاف بتا دیا۔“













“ اور وہ؟“













“ وہ سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔“ وہ بولی۔ “ کوئی بات نہیں کی۔ مجھے خود معلوم نہیں ایلی کہ میں کس لیے تمہاری ہو گئی۔ تمہارے پاس دھن نہیں، دولت نہیں، خوبصورتی نہیں۔“













“ خوبصورت تو میں ہوں۔“ وہ ہنسنے لگا۔













“ آئینہ دکھاؤں۔ نہ تم بچے ہو نہ جوان ہو۔ نہ جانے کیا ہو تم۔ مجھے جسمانی ہوس نہیں تم سے۔ کچھ بھی نہیں پھر بھی میں تمہاری ہو چکی ہوں۔ پتہ نہیں کیوں۔ حالانکہ تمہیں مجھ پر اعتبار نہیں۔ کبھی نہیں ہوا۔ تم ہمیشہ شک کی نظر سے دیکھتے رہے۔ پھر بھی۔“ اس کی ہچکی نکل گئی۔













ایلی نے شدت سے محسوس کیا جیسے شہزاد پیلی بائی ہو۔ جس نے کہا تھا “ سب ہمیں دیکھتے ہیں لیکن دیکھتا کوئی بھی نہیں“ شہزاد کو محلے کے سب جوان بوڑھے دیکھتے تھے۔ لیکن شاید اسے کوئی نہ دیکھ سکا تھا۔ وہ بھی پیلی بائی کی طرح ہر وقت دو جگہ موجود رہتی تھی۔ قریب ہو کر دور رہتی۔ دور ہوتے ہوئے اس قدر قریب آ جاتی۔ اس کی دو رخی کو ایلی نہیں سمجھ سکا تھا۔ وہ ایلی کے لیے ایک معمہ تھی۔ اس میں ماجھا پیلی بائی دیوی مہارانی اور نہ جانے کون کون براجمان تھیں۔













چھٹیاں ختم ہونے پر جب وہ آخری مرتبہ شہزاد سے ملا تو اس نے پھر سے تذکرہ چھیڑا۔













“ چلو شہزاد۔ کہیں چلے جائیں۔“













لیکن شہزاد نے اس کی بات نہ سنی۔ “ اب کہاں جانا ہے۔“ وہ بولی پھر اس نے بات کا موضوع بدل دیا۔




بنو گورا بنو​






















ایلی کا تبادلہ ڈیرہ میں ہو چکا تھا۔ اس کے اس تبادلہ پر سب حیران تھے۔ رام پور سے جلد مخلصی پا لینا حیرانی کی بات تھی۔ رام پور دوردراز مقام پر آباد تھا۔ دریائے سندھ کے اس پار جہاں جاتے جاتے دو دن لگ جاتے تھے۔ اگرچہ جگہ نہایت اچھی تھی اور وہاں کا ہیڈ ماسٹر تو دیوتا خصلت کا ایک ہندو تھا۔ اس کے علاوہ رام پور کا سکول بے حد خوبصورت تھا۔ اس کے ساتھ ملحقہ زمین بہت وسیع و عریض تھی جس پر باقاعدہ کھیتی باڑی کی جاتی اور اس کی آمدنی اس قدر ہوتی تھی کہ سکول میں غربا کے بچے مفت تعلیم حاصل کرتے تھے۔ بلکہ ان کی کتابیں اور کپڑے بھی اسی فنڈ سے دیئے جاتے تھے۔ اور بورڈنگ میں جا کھانا پکتا تھا وہ بھی اسی فنڈ سے پکایا جاتا تھا۔ نتیجہ یہ تھا کہ اس سکول میں تعلیم حاصل کرنے والوں کو ایک تو تعلیم، دوسرے کھانا کپڑے اور کتابوں پر کوئی خرچ نہ اٹھتا تھا۔ بلکہ اس کے علاوہ کئی ایک اور ضروریات کے لیے امداد ملتی تھی۔ ان سب باتوں کے باوجود اساتذہ وہاں جانے سے گھبراتے تھے۔ اس کی وجہ رام پور کی دوری تھی۔













جب ایلی رام پور سے بدل کر ڈیرہ آیا تو چار دن کے بعد جمیل آ دھمکا۔ جمیل ڈیرہ کے سٹیشن پر ملازمت کر چکا تھا۔ اور شہر کے بیشتر لوگ اس سے واقف تھے۔ جمیل نے آتے ہی شور مچا دیا۔













“ تو ایلی صاحب ڈیرہ میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ کاش کہ میں بھی ڈیرہ میں ہوتا۔ مگر کچھ پرواہ نہیں۔ خانپور سے کچھ زیادہ دور نہیں۔“













ایلی ہنسنے لگا۔ “ یہ تو الٹا اچھا ہے۔“













“ سب معلوم ہو جائے گا۔“ جمیل چلانے لگا۔ “ وہ اچھا ہو گا وہ اچھا ہو گا۔ برخوردار کہ سمجھ میں آ جائے گا تم کو۔ بڑا رانی خان بنا پھرتا ہے۔ عزت والا گنا جاتا ہے۔ اور ہم، ہم کو لوگ رذیل سمجھتے ہیں۔ حالانکہ تو ہم سب کا پیرو مرشد ہے۔ لیکن ایسا فریب دے رکھا ہے لوگوں کو کہ وہ تجھے باعزت سمجھے ہیں۔ اچھا بیٹا۔ تو بھی کیا یاد کرئے گا۔“













ایلی نے حیرت سے جمیل کی طرف دیکھا۔ جمیل نے تو اس سے کبھی ایسی باتیں نہ کی تھیں۔













“ ارے۔“ دفعتاً اسے خیال آیا۔ “گونگے کو زبان ملی ہے۔ یار نے پی رکھی ہے۔“













“ ہاں پی رکھی ہے۔“ جمیل بولا۔ “ پھر تمہیں کیا تکلیف ہے سالے۔ لوگوں کو کیا تکلیف ہے۔ ہم جو جی چاہے کریں۔ کوئی ہے سالہ جو پوچھنے کی جرات رکھتا ہو۔“













شام کو سیر کے بہانے جمیل اسے شہر لے گیا۔ ایلی چونکہ نوراد تھا۔ وہ شہر سے واقف نہ تھا۔ لٰہذا جمیل کے ساتھ ساتھ چلے گیا۔













“ ارے۔“ دفعتاً “ ایلی چونکا۔ شہر کے لڑکے اسے معنی خیز نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ ہنس رہے تھے۔ کہہ رہے تھے۔ “ ارے دیکھ وہ ماشٹر جی جا رہے ہیں۔“ ایک ساعت کے لیے وہ چونکا۔ پھر اپنی بے نیازی کی وجہ سے سب بھول گیا۔ دفعتاً اس نے دیکھا کہ وہ چکلے میں کھڑا ہے۔













“ ارے۔“ وہ چلایا۔ “ یہ کہاں لے آئے ہو مجھے۔“













“ ابھی دیکھ تو۔“ جمیل بولا۔ “ آج ڈیرے کے بچے بچے کو پتہ چل جائے گا کہ تو شرابی اور رنڈی باز ہے اور کل وہ سکول میں تیرا مذاق اڑائیں گے۔ ہی ہی ہی ہی۔“ وہ ہنسنے لگا۔













پھر جمیل اسے باری باری ہر چوبارے پر لے گیا اور بڑے اہتمام سے اس نے بائیوں سے اس کا تعارف کرایا۔













“ یہ الیاس آصفی ہے۔ میرا بھائی ہے۔ اور یہاں گورنمنٹ سکول میں ماسٹر ہے۔“













وہ سب کی سب جمیل کے ڈیرے سے تبادلے پر افسوس کا اظہار کرتیں تو وہ چلا کر کہتا۔ “ یہ ایلی جو یہاں ہے۔ بس سمجھ لو میں یہاں ہوں۔ میری جگہ یہ حاضری دیا کرئے گا۔ کوئی کام ہو سیدھی سکول چلی جانا اور الیاس آصفی کا پوچھ لینا۔“













ایلی سخت گھبراہٹ محسوس کر رہا تھا مگر جمیل کے سامنے بے بس تھا۔













آخر کار جمیل ایلی کو لے کر ایک چوبارے میں جا پہنچا۔













“ یہ گھر میرا خاص گھر ہے۔“ وہ بولا۔













“ ان کے مجھ سے پرانے مراسم ہیں۔ آؤ تمہیں ملاؤں۔ ہاں بھئی حساب سے کھڑی ہو جاؤ۔ یہ ہے سب سے بڑی بنو، اور یہ ہے منجھلی گوری اور یہ چھوٹی بنو۔ بیٹھ جاؤ۔ اب سب بیٹھ جاؤ۔“













وہ تینوں بیٹھ گئیں۔













اتنے میں باہر سے کسی نے آواز دی اور خوش پوش پٹھان داخل ہوئے۔













“ ارے بھئی۔“













جمیل انہیں دیکھ کر چلایا۔ “ گاہک خواہ مخواہ منہ اٹھائے چلے آ رہے ہیں۔“













نوواردوں نے تینوں بہنوں کی طرف دیکھا۔













بنو اٹھی اور ان کے قریب جا کر کہنے لگی۔ “ آپ کچھ دیر بعد آ جائیں۔ ان کے جانے کے بعد۔“ اس نے دروازہ بند کر دیا اور واپس اپنی جگہ آ بیٹھی۔













“ ہاں تو۔“ جمیل بولا “ ان کی صفات سنو۔ یہ بنو تو مرہم ہے۔ ایسی مرہم جو ہر قسم کی جلن دور کرتی ہے۔ پھوڑا ہو پھنسی ہو۔ غم و تفکر ہو۔ عشق ہو۔ روپے پیسے کا نقصان ہو جائے۔ پریشانی ہو، کچھ ہو، اس کے پاس آ جاؤ۔ ایسا پھاہا رکھے گی سب غم دور۔ کیوں بنو۔“













ایلی نے بنو کی طرف دیکھا۔ اسے محسوس ہوا جیسے وہ خود دکھ بھری بوتل ہو۔ اس کے ہونٹ بھنچے ہوئے تھے۔ آنکھیں نمناک تھیں۔













“ اور یہ دیکھو گوری، یہ گوری نہیں گورا ہے۔ تم نے بھی گورے دیکھے ہیں۔ بس یہ سمجھ لو کہ یہ اس مکتی فوج کا گورا ہے۔ اس کی آنکھیں دیکھو، بِلی ایسی ہیں اور یہ ہر وقت مسکاتی ہے ہر وقت۔ بارش ہو دھوپ ہو گرمی ہو سردی ہو۔ اس بوتل سے ہمیشہ چھینٹے اڑتے ہیں۔ یہ تمہیں بہلا سکتی ہے۔ بچہ بن کر تم سے کھیلے گی۔ ہنسے گی، ہنسائے گی۔ دکھ دور نہیں کر سکتی لیکن ہنسا سکتی ہے۔ کھلا سکتی ہے۔ ہے تو گورے کی طرح حرامی مگر ساتھی بننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ کچھ دیر کی ساتھی۔













“ اور یہ بنو۔“ اس نے چھوٹی کی طرف دیکھ کر کہا “ بس دیکھ لو اسے۔ یہ تو خالص پٹاخہ ہے۔ ان چلا پٹاخہ۔ نہ کوئی اسے چلا سکتا ہے نہ کوئی اس سے کھیل سکتا ہے۔ اگر اضطراب پیدا کرنا ہو۔ اگر دیوانگی حاصل کرنی ہو۔ اگر اطمینان کھونا ہو۔ اگر طوفان کے ہچکولے دیکھنے ہوں تو اس سے آ ملو۔ یہ ایک ہنگامہ ہے۔ بارود ہے منچھل پوٹاش ہے۔“













“ اور ایلی یہ میرا اپنا گھر ہے۔ یہاں میں نے دو سال گزارے ہیں دو سال۔ اور اب یہ تمہارا بھر ہے۔ سمجھے اور اگر تم نے یہاں باقاعدہ حاضری نہ دی تو مجھ سے برا کوئی نہ ہو گا۔“













اگلے روز جب ایلی سکول گیا تو اس کی طرف انگلیاں اٹھ رہی تھیں۔ لڑکے اسے دیکھ کر مسکرا رہے تھے اور وہ سوچ رہا تھا کہ وہ کس طرح ان لڑکوں کو کنٹرول کرئے گا۔ کس طرح ان کے سامنے استاد کی حیثیت سے کھڑا ہو گا۔ لیکن اس معاملے میں اسے اپنے آپ پر اعتماد تھا۔ اس نے کبھی رسمی استاد کی طرح بچوں سے سلوک نہ کیا تھا۔ اس نے کبھی رسمی طور پر سبق نہ پڑھایا تھا۔ اس کی باتیں سنکر لڑکے تعجب سے اس کی طرف دیکھتے جیسے انہیں اپنے کانوں پر یقین نہ آ رہا ہو۔ پھر آہستہ آہستہ مسکرانا شروع کرتے اور بالاخر اس کے دوست بن جاتے۔ خاص طور پر وہ شیطان لڑکے جنہیں کنٹرول کرنا مشکل سمجھا جاتا تھا۔













نویں جماعت میں داخل ہو کر اس نے پہلے ہی سبق میں چکلے کے موضوع پر اظہار خیال شروع کر دیا تاکہ بچوں کے دل کی بات پھوڑا نہ بن جائے۔













ڈیرہ میں وہ واحد شخصیت تھی جس نے ایلی کو متاثر کیا، غلام کی تھی۔ اس کا نام غلام علی تھا لیکن سبھی اسے غلام کہتے تھے بلکہ وہ خود اس بات پر مصر ہوتا کہ اسے غلام کہا جائے۔ وہ کہا کرتا۔













“ بھئی گھر والوں نے مجھ پر زیادتی کی ہے علی کی غلامی کا اعزاز بخش دیا۔ اس اعزاز کا میں اہل نہیں۔ اتنی عظیم شخصیت کی غلامی ------ نہ بھئی میں تو اللہ کے ہر بندے کا غلام ہوں۔ آپ کا، ان کا، سب کا۔“













غلام کا رنگ گورا تھا۔ جسم بھرا بھرا اور خدوخال میں جاذبیت تھی۔ اس کی آنکھیں بے حد پراثر تھیں۔ ان کا رنگ شربتی تھا۔ نکھرا نکھرا اور ان میں شرارت یوں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی کہ اس معزز چہرے پر ان آنکھوں کو دیکھ کر حیرت ہوتی تھی۔ ان میں ہر وقت سوڈے کی بوتلیں کھلتی نظر آتی تھیں۔ ایک عجیب سی پھوار پڑتی اور دیکھنے والوں کو اثر سے بھگو دیتی۔













غلام کی آنکھوں کو دیکھ کر محسوس ہوتا کہ ابھی وہ نظر بھر کر راہ چلتی ہوئی خاتون کو دیکھے گا تو وہ مسحور ہو کر اس کے پیچھے چل پڑے گی۔ ساری دنیا سے بے نیاز ہو کر اس کے قدموں میں آ گرے گی لیکن غلام عورت کو دیکھ کر نگاہیں جھکا لیتا تھا اور التزاماً اس کوشش میں لگا رہتا تھا کہ کہیں وہ نگاہ بھر کر کسی عورت کو دیکھ نہ لے۔ ایلی نے اس کی آنکھوں کو دیکھ کر محسوس کیا جیسے اس نے دلی والے حاجی صاحپ کی بنائی ہوئی مرہم کی دو سلائیاں آنکھوں میں لگا رکھی ہوں۔




غلام​






















غلام سے ایلی کی ملاقات الطاف اور اسد کی وساطت سے ہوئی تھی۔













الطاف ان لوگوں میں سے تھا جو ہر نووارد سے تعلقات پیدا کرنے کے خواہاں ہوتے ہیں۔ اور بلا تکلف اسے کھانے کی دعوت دینے کے مشتاق۔













الطاف کی دعوت اس کے چھوٹے بھائی ارشد نے دی۔ ارشد نویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ وہ تین بھائی تھے۔ الطاف، اسد اور ارشد۔ اسد سکول سے تحصیل علم کر چکا تھا اور اب لاہور کالج میں تعلیم پاتا تھا۔ ارشد کی بات سن کر ایلی نے اسے ٹال دیا۔ کہنے لگا۔













“ بھئی۔ ہم تمہارے بڑے بھائی سے واقف نہیں۔ ان سے جا کر کہنا کہ ناواقفوں کا کھانا کھلانا اچھا نہیں ہوتا۔“













شام کو الطاف خود آ گیا۔













“ السلام علیکم۔“ وہ بولا۔ “ میرا نام الطاف ہے۔ میں ارشد کا بڑا بھائی ہوں۔ لیجیئے اب تو ہماری واقفیت ہو گئی۔ اب چلیے گھر۔ کھانا ٹھنڈا ہو جائے گا۔“













الطاف کی معصومیت اور سادگی سے ایلی بے حد متاثر ہوا۔













اسی روز کھانے پر جب الطاف کو معلوم ہوا کہ ایلی کو راگ سے دلچسپی ہے تو وہ بولا چلیے آپ کو اپنے ایک دوست سے ملاؤں۔ اسے موسیقی سے دلچسپی ہے۔“













یہ کہہ کر اس نے اپنے منجھلے بھائی اسد کو اشارہ کیا اور وہ گوندھے ہوئے آٹے کا گولا اچھالتا ہوا ان کے ساتھ چل پڑا۔ جتنا ہی الطاف سادہ طبیعت تھا اتنا ہی اسد بھڑکیلا تھا۔













وہ یوں بات کرتا تھا جیسے ابھی ابھی ولایت سے تحصیل علم کر کے آیا ہو۔ بہرحال اسد کی نسبت ایلی کو اس آٹے کے گولے میں زیادہ دلچسپی تھی۔ ایک انگلینڈ ریٹرنڈ خوبصورت جوان جس نے ایک اچھا سوٹ زیب تن کر رکھا تھا وہ آٹے کے گولے سے کیوں کھیل رہا تھا۔ اور یوں برسر عام۔













جب وہ غلام کے گھر پہنچے تو ایک بچے نے دروازہ کھولا۔ اور بیٹھک کی طرف اشارہ کر کے چلا گیا۔ بیٹھک میں میز پر چند ایک کتابیں پڑی ہوئی تھیں۔ دو کرسیاں رکھی تھیں۔ ایک طرف بستر لگا ہوا تھا۔ دوسری طرف فرش بچھا ہوا تھا اور فرش کے ایک کونے پر جائے نماز پر غلام نماز پڑھنے میں مصروف تھا۔ جائے نماز کے ساتھ ہی ایک ستار رکھی ہوئی تھی۔













وہ سب چپ چاپ بیٹھ گئے۔ الطاف نے ایک رسالہ اٹھا لیا اور اسے دیکھنے لگا۔ اسد نے کونے سے ایک گٹھڑی اٹھائی۔ اسے کھولا تو اس میں سے طبلے کی جوڑی نکل آئی۔ پھر اس نے آٹے کے گولے کو جو وہ ساتھ لایا تھا، توڑ کر اس پر لگانا شروع کر دیا۔ ایلی حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ ہوں تو یہ آٹے کا گولا طبلے پر لگایا جاتا ہے۔













غلام نے سلام پھیرا اور پھر کسی سے بات کیے بغیر سلام علیکم کیے بغیر ستار اٹھا لی اور اسے بجانے لگا۔ اس کے ساتھ ہی مدھم لے میں اسد نے طبلہ بجانا شروع کر دیا۔













وہ خاموش بیٹھے تھے۔ ستار گویا کراہ رہی تھی۔ اور طبلے کی تھاپ دل میں اترتی جا رہی تھی۔ ایلی یہ بھول گیا کہ وہ کہاں بیٹھا ہے۔ کون ہے اور اسے کیا کرنا ہے۔ کوئی دس منٹ کے بعد دفعتاً دھن دھن کی آواز آئی اور ساز ختم ہو گیا۔ غلام مودبانہ اٹھ بیٹھا۔













“ معاف کیجیئے۔“ وہ ایلی سے مخاطب ہو کر بولا، “ میں نماز میں مصروف تھا۔ آپ کو انتظار کی زحمت کرنی پڑی۔“













“ لیکن آپ تو ستار بجا رہے تھے۔“ ایلی بولا۔













“ نہیں تو۔“ غلام بولا۔ “ میں تو نماز کے بعد دعا مانگ رہا تھا۔“













“ دعا مانگ رہے تھے۔“ ایلی نے دوہرایا۔













“ جی۔“ غلام نے کہا۔ “ دعا زبان سے نہیں مانگی جا سکتی۔ دل کے تاروں کی لرزشوں سے مانگی جاتی ہے۔“













“ اور یہ ستار غلام کا دل ہے۔“ اسد نے ہنس کر کہا۔













“ بس یہی ہے۔“ غلام بولا۔ “ میری ساری کائنات یہ ستا ہے۔ اسی سے نماز پڑھتا ہوں، اسی سے دعا مانگتا ہوں۔ یہی بھگتی ہے، یہی نروان ہے۔“













سوڈے کی دو بوتلیں کھلیں۔ رنگ پچکاری کی پھوار پڑی۔ پنگھٹ جھول کر پاس آ گیا۔ گوپیوں کی قطاریں رقص کرنے لگیں۔ دور کنہیا کی مرلی کی مدھم سریں گونج رہی تھیں۔ ایک ساعت کے لیے ایلی بھونچکا رہ گیا۔













ارے۔ یہ کیا چیز ہے۔ یہ نمازیں یہ دعائیں یہ لرزشیں اور یہ نگاہ۔ بس ایک ساعت میں نہ جانے کیا کر دیا۔ ایلی غلام کا غلام بن گیا۔ اس کے بعد ایلی کا دستور ہو گیا۔سکول سے فارغ ہونے کے بعد رات کا کھانا کھا کر وہ غلام کے پاس جا بیٹھتا۔ غلام جائے نماز پر ستار بجاتا۔ ایلی اپنا سر گھٹنوں میں دیئے بیٹھا رہتا۔ اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرتے۔ بے مقصد آنسو۔ غم کے نہیں وافر جذبات کے آنسو۔ حتٰی کہ عشاء کی نماز کا وقت ہو جاتا۔ اور غلام اٹھ کر نماز پڑھنے لگتا اور ایلی گھر چلا آتا۔




کرم نوازی​






















چند ہی دنوں میں ایلی غلام کا بے تکلف دوست بن گیا۔ بلکہ ایلی کو غلام سے محبت سی ہو گئی۔ غلام کی طبیعت میں بلا کی رنگینی تھی لیکن نہ جانے اس رنگینی کے دھارے کا رخ کدھر کو مڑ گیا تھا۔ اس رنگ پچکاری نے روپ بدل لیا تھا۔ ا سکے علاوہ اس کی طبیعت میں بلا کی سادگی تھی۔ سادگی اور عجز اور بے نیازی ایلی محسوس کرتا تھا جیسے غلام، وہسکی کی ایک ایسی بوتل تھا جس میں سے شراب انڈیل کر آبِ زم زم بھر دیا گیا تھا۔













ایک روز ایلی نے بے تکلفی سے پوچھا “ غلام، تم غلام کیوں ہو؟“













غلام نے جواب دیا۔ “ میں لوگوں کا غلام بننا چاہتا ہوں۔ لیکن نہیں بن سکا۔ اپنا غلام نہیں بننا چاہتا لیکن ہوں اور ------ “













“ پھر غلام کیوں کہلواتے ہو۔“













“ اس لیے کہ میں غلام ہوں۔ اپنے مرشد کا غلام ہوں۔“













“ تو کیا تمہارا کوئی مرشد بھی ہے۔“













“ ہاں ہے۔“













“ میں تو تمہیں مرشد بنانا چاہتا تھا۔“ ایلی نے کہا۔













“ تو بنا لو۔ چاہے کسی کو بناؤ۔ مجھے بناؤ یا میرے حضرت صاحب کو بناؤ یا کسی کو پتھر کو بنا لو یا کسی بائی کو بنا لو لیکن بناؤ ضرور۔ بے مرشد جینا تو بالکل ایسے ہی جیسے بے پتوار کی ناؤ۔“













“ جسے چاہوں بنا لوں۔“ ایلی نے پوچھا۔













“ ہاں۔ کوئی فرق نہیں پڑتا۔ نشہ اندر سے نکلتا ہے اپنے اندر سے جتنا گڑ تمہارے اندر ہے اتنا میٹھا ہو گا۔ ہر صورت میں ہو جائے گا۔“













“ کیا تم میں گڑ ہے۔“ ایلی نے پوچھا۔













“ تھا۔“ وہ بولا، “ بہت تھا۔ بے انداز تھا لیکن میں نے تو سارا بیر بہوٹیوں کو کھلا دیا۔“













“ ہوں۔“ ایلی ہنسا۔“ تو تمہاری زندگی میں بیر بہوٹیاں تھیں۔“













“ تھیں۔“ وہ بولا۔ “ بھائی صاحب۔ بیر بہوٹیوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ میری زندگی کی داستان بے حد مختصر ہے۔ عورت، شراب اور راگ۔ اللہ اللہ خیر سلا۔ جس کی طرف آنکھ بھر کر دیکھ لیتا تھا۔ وہ آپ ہی چلی آتی تھی۔ یوں چلی آتی تھی جیسے ہپناٹزم کے زیر اثر ہو۔ اور پھر اپنی عادت تھی کہ ہر راہگیر کو آنکھ بھر کر دیکھتا تھا۔ حتٰی کہ ان کا کیو لگ جاتا تھا۔“ وہ ہنسنے لگا۔ “ میں نے تو اپنا سارا گڑ ان بیر بہوٹیوں کو کھلا دیا۔ اگر دو ایک سال پہلے مرشد مل جاتے تو آج تک بہت بڑا ولی بنا ہوتا تمہاری قسم۔“













“ اور اب؟“ ایلی نے پوچھا۔













“ اب تو کچھ ذرے رہ گئے تھے۔ سارا ہی لٹا بیٹھا تھا۔ شکر ہے اللہ کا اگر اس کا کرم نہ ہوتا تو ------ نہ جانے کیا ہوتا۔“













“ غلام۔“ ایلی نے پوچھا۔ “ تم نے مرشد کی جستجو کی تھی کیا؟“













“ اونہوں۔“ وہ بولا۔ “ مجھے تو شعور بھی نہ تھا کہ مرشد کسے کہتے ہیں۔ کبھی اس زاویہ نگاہ سے دیکھا ہی نہ تھا۔ خیال بھی پیدا نہ ہوا تھا۔“













“ تو پھر کیسے مل گیا؟“ ایلی نے پوچھا۔













“ بس اللہ نے دے دیا۔ بیٹھے بٹھائے دے دیا۔ کرم نوازی کر دی۔“













“ آخر کس طرح۔“ ایلی نے پوچھا۔













“ یہ بھی اک راز ہے۔“ وہ بولا۔ “ اسے راز ہی رہنے دو۔ تم اسے سن کر کیا کرو گے۔“













“ مجھے تو اللہ پر اعتماد ہی نہیں۔“ ایلی نے کہا۔













“ ہاں ہاں۔“ اس نے ایک بھر پور نگاہ ایلی پر ڈالی۔ “ تمہیں اعتماد نہیں ہے۔ اسے تو ہے۔“ اس نے ستار اٹھا لی اور بجانے لگا۔













ایلی نے کچھ کہنا چاہا تو غلام نے ہاتھ کے اشارے سے چپ کرا دیا۔













“ باتیں کرنے سے کچھ نہیں ملتا۔“ وہ بولا “ سنو۔ سن سن کر کان بھر لو۔ پھر یہ بوند بوند دل میں ٹپکے گا اور ایک روز دل کی ناؤ جو ریت میں پھنسی ہوئی ہے ان بوندوں کے پانی میں بہہ نکلے گی۔ سنو۔“ اور وہ مدھم آواز میں گانے لگا۔




میں چوہڑی سرکار دی ہاں میں چوہڑی​




نورانی​































ڈیرہ میں ‌ایلی کی زندگی کا مرکز غلام بن گیا۔ غلام کی ستار نے نہ جانے ایلی پر کیا جادو کر دیا۔ اس کی تاروں کی لرزشوں نے ایلی کے دل میں ایک خلا پیدا کر دیا۔ اس سے پہلے جب بھی اس کے دل میں جذبہ پیدا ہوتا تھا تو وہ فوراً شہزاد پر مرکوز ہو جاتا تھا اور وہ شہزاد کے تصور میں کھو کر رہ جاتا۔ لیکن غلام کی ستار نے گویا اسے شہزاد سے بے نیاز کر دیا۔ اب اس کے دل میں جذبہ پیدا ہوتا تھا لیکن وہ شہزاد پر مرکوز نہ ہوتا۔ اس کا کوئی بھی مرکز نہ ہوتا تھا۔ ایک لامتناہی بے مرکز جذبہ جیسے دفعتاً اس کے دل کا سوتا سمندر بن گیا ہو۔ ایک بے نام غم بے کنار بحر۔ اس کے لیے یہ کیفیت بالکل انوکھی تھی۔













پھر ایک روز نورانی آ گیا۔













ایلی وہاں ایک سالم مکان میں رہتا تھا۔ اس مکان میں دو کمرے ایک باورچی خانہ ایک غسل خانہ ایک برآمدہ اور ایک صحن تھا۔ ان کے علاوہ ایک الگ سی بیٹھک تھی۔ ایلی کا سامان اس حد تک مختصر تھا کو گویا تھا ہی نہیں۔ ساری چیزیں سمٹ کر ایک کمرے میں سما گئی تھیں۔ اور باقی سب کمرے خالی پڑے تھے۔













ایک روز دروازہ بجا اور ایک سیاہ فام کا آدمی اندر داخل ہوا۔













“ معاف کیجیئے گا۔“ وہ بولا۔ “ میرا نام نورانی ہے اور میں محکمہ تعلیم میں اسسٹنٹ انسپکٹر ہوں۔ میرا تبادلہ یہاں ہو گیا ہے لیکن ابھی مکان کا بندوبست نہیں ہوا۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں چند روز کے لیے اپ کی بیٹھک میں ٹھہر جاؤں۔ میں آپ کو کرایہ ادا کروں گا۔ اور جب بھی آپ چاہیں گے بیٹھک خالی کر دوں گا۔













ایلی نے غور سے اس لمبے تڑنگے آدمی کی طرف دیکھا۔ اس کا رنگ سیاہ تھا۔ چہرے پر عجیب سی کرختگی تھی۔ ماتھے پر تیوری چڑھی تھی۔ آنکھوں میں عجیب سے خوفناک کشش تھی اور نام نورانی۔ سبحان اللہ کیا نورانیت ہے۔ ایلی نے سوچا۔













“ بہت اچھا۔“ ایلی نے کہا “ مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ فی الحال ------ “













“ شکریہ“ نورانی نے کہا اور بے تکلفی سے اپنا سوٹ کیس اور بستر اٹھا کر بیٹھک میں گھس گیا۔













نورانی خاموش طبع آدمی تھا۔ سارا دن یا تو چپ چاپ بیٹھا کام میں مصروف رہتا اور یا باہر دورے پر چلا جاتا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایلی کے لیے اس کی موجودگی نہ ہونے کے برابر رہی۔ وہ آپس میں کبھی کبھار بار کرتے تھے۔













“ کہیے نورانی صاحب۔“ ایلی اس کے پاس جا کھڑا ہوتا۔













“ بس دیکھ لیجئے۔“ وہ جواب دیتا اور بدستور کام میں مصروف رہتا۔













“ آپ تو ہر وقت مصروف رہتے ہیں۔“













“ مصروف رہنا اچھا ہوتا ہے۔“ وہ جواب دیتا۔













نورانی کے منہ پر کبھی تبسم نہ آیا تھا۔ قہقہہ مار کر ہنسنہ تو گویا اس کی سرشت کے منافی تھا۔ ایک اور تعجب خیز بات تھی کہ نورانی دودھ بہت پیتا تھا۔ ہر وقت اس کی میز پر دودھ سے بھرا ہوا گلاس پڑا رہتا۔ کام کرتے کرتے وہ گلاش اٹھاتا۔ دو چار گھونٹ پی کر پھر رکھ دیتا۔ حیرت کی بات تھی کہ اتنا دودھ پینے کے باجود نورانی کے چہرے پر دودھ کا نام و نشان تک نہ تھا۔ چہرے کی کرختگی اور تناؤ بڑھتا ہی جاتا تھا۔ اور ماتھے کی تیوری یوں دکھائی دیتی تھی جیسے لوہے میں میخ کی مدد سے لکیر کھود دی گئی ہو۔













ایک روز غلام آ گیا۔ اس وقت ایلی نورانی کے پاس کھڑا تھا۔ ایلی نے غلام کا نورانی سے تعارف کرا دیا۔




پیشاب کا مٹکہ​































اسی شام جب غلام علی اور ایلی اکٹھے بیٹھے تھے تو نورانی کی بات چل پڑی۔













“ عجیب بات ہے۔“ ایلی نے کہا، “ یہ شخص اتنا دودھ پیتا ہے لیکن اس کے چہرے پر اتنی کرختگی ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔“













“ اونہوں۔“ غلام نے جواب دیا۔ “ بھئی وہ تو لوہے کا آدمی ہے۔“













“ لوہے کا آدمی۔“ ایلی نے دوہرایا۔













“ ہاں ہاں۔“ غلام بولا۔ “ ضرور وہ کئی چیز استعمال کرتا ہے۔ سنکھیا یا کچلا۔ اس لیے اس کا جسم لوہے کی خصوصیات کا حامل ہے۔“













“ سنکھیا۔“ ایلی نے پوچھا۔













“ ہاں ہاں۔“













“ وہ تو زہر ہوتا ہے۔“













“ تو پھر۔“













“ پھر کیا۔“ غلام بولا۔ “ تمہارے چہرے پر بھی تو کرختگی ہے۔“













“ میں تو سنکھیا نہیں کھاتا۔“













“ یہ تمہارے خیالات کی وجہ سے ہے۔“ وہ بولا۔ “ تمہاری شخصیت میں مٹھاس نہیں تلخی ہے ------ جذبات میں رنگ نہیں شدت ہے۔ تمہارا صفرا سودا کی شکل اختیار کر چکا ہے۔“













“ ارے۔“ ایلی چلایا۔ “ تم طب جانتے ہو۔“













“ جانتا ہوں۔“













“ واقعی۔“













“ ہاں۔ طب ہمارے خاندان میں صدیوں سے چلا آتا ہے۔ میں بھی سنکھیا استعمال کیا کرتا تھا۔“













“ کیوں۔“













“ تمام تماش بین کرتے ہیں۔“













“ لیکن تمہارے چہرے پر تو دودھ ہی دودھ ہے۔“













“ یہ میرے سرکار قبلہ کی کرم نوازی ہے۔ ان کی دین ہے۔“













ایلی کے لیے سرکار قبلہ اور کرم نوازی ایک بہت بڑی رکاوٹ تھی۔ وہ ہر موضوع پر بات کر سکتا تھا۔ لیکن سرکار قبلہ اور کرم نوازی پر پہنچ کر گویا اس کے پر جلتے اور پھر وہ ایک بے بس کیڑے کی طرح رینگتا۔ اس پر احساس کمتری کا منوں بوچھ پڑ جاتا۔ اسے سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کس طرح اس مشکل سے مخلصی حاصل کرئے۔ اس کا ذہن سرکار قبلہ کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ تھا۔ لیکن مشکل یہ تھی کہ وہ اسے رد بھی نہیں کر سکتا تھا۔ اس کے سامنے حاجی صاحب آ کھڑے ہوتے۔ ان کا سر روئی کے گالے کی طرح ہلتا۔ ان کی روشن آنکھیں چمکتیں “ وقت آئے گا۔“ وہ مسکرا کر کہتے۔













پھر عربی مولوی کی کرخت آواز گونجتی۔













“ اس شعبدہ باز قادر مطلق کے تماشوں کی حد ہے کوئی۔ دم مارنے کی گنجائش بھی ہو۔“ وہ قہقہہ مار کر ہنسے۔













ایک روز بیٹھے بیٹھائے ایلی نے غلام سے حاجی صاحب کا تذکرہ چھیڑ دیا اور شہزاد کی بات چھوڑ کر باقی سب کہانی سنا دی۔













غلام مسکراتا رہا۔













جب ایلی بات ختم کر چکا تو وہ مسکرا کر کہنے لگا۔ “ ہاں وقت آئے گا۔ تمہارے ماتھے پر لکیر ظاہر کرتی ہے کہ تمہیں سرکار قبلہ ملیں گے۔ ضرور ملیں گے۔ میں نے پہلے ہی دن دیکھ لیا تھا۔ آؤ اب ان آنے والے حضور کا ذکر کریں۔“













اس نے ستار اٹھا لی اور مدھم آواز میں گانے لگا۔













“ اب ہو نہ آئے کن دھو تین برمائے۔ اب ہو نہ آئے۔“













اس روز پہلی مرتبہ ایلی کے دل میں آرزو پیدا ہوئی کہ کوئی سرکار قبلہ اس کی زندگی کو بھی منور کر دیتا۔













چونکہ ایلی کو ان ٹھمریوں کے بولوں سے بے حد دلچسپی تھی جو غلام گایا کرتا تھا۔ ایک دن اس نے غلام سے کہا کہ یہ گیتوں والی کاپی مجھے دے دو میں نقل کر کے لوٹا دوں گا۔













“ کاپی۔“ غلام بولا۔ “ لیکن یہ تو میرے سرکار قبلہ کی کاپی ہے۔“













“ اس میں تو گیت لکھے ہوئے ہیں۔“













“ اس میں‌ گیت ہیں، مناجاتیں ہیں، قوالیاں ہیں یہ سب قوالیاں گیت اور راگ سرکار قبلہ کے ہیں۔ میں چاہے کچھ بھی گاؤں روئے سخن ان کی طرف رہتا ہے۔ اس برات کے دولہا وہی ہیں۔ صرف وہ اور بس باقی ہوس۔“ غلام نے دلدوز نعرہ لگایا۔













بہر حال ایلی نے وہ کاپی غلام سے لے لی اور گھر چلا آیا۔ اس وقت رات کے دس بجے تھے۔ سردیوں کے دن تھے۔ اس لیے اس وقت گیت نقل کرنا مشکل تھا۔ اس نے سوچا کل نقل کر لوں گا۔ اور شام کو کاپی لوٹا دوں گا۔ کیوں غلام نے تاکید کی تھی کہ گیت نقل کر کے جلد کاپی لوٹا دے۔













رات کے دو بجے کے قریب دروازہ بجا۔ ایلی جاگ پڑا۔ اس وقت کون ہو سکتا ہے۔ اس نے سوچا۔ نہ جانے کون ہے۔ شاید پڑوس کے دروازے پر ہو۔













دروازہ پھر بجا۔ شاید نورانی کا دوست ہو کوئی۔ یہ سوچ کر وہ خاموش پڑا رہا۔













پھر دروازہ کھلنے کی آواز آئی کوئی باتیں کر رہا تھا۔ پھر پاؤں کی چاپ سنائی دی اور نورانی اور غلام اس کے سرہانے آ کھڑے ہوئے۔













“ ارے تم ہو۔“ ایلی چلایا۔













“ ہاں۔“ غلام مسکرایا۔













“ حیرت ہے۔“













“ مجھے وہ کاپی دے دو۔“













“ کاپی۔ کیا کاپی لینے آئے ہو۔“













“ ہاں۔“













“ اس وقت۔“













“ ہاں۔“













“ کیوں۔“













“ بھئی۔ وہ مجھے سونے نہیں دیتے۔ فرماتے ہیں کہ ہماری کاپی اس پیشاب کے مٹکے میں کیوں پھینک آئے ہو۔“













“ ارے۔“ ایلی کا دل ڈوب گیا۔ “ تو کیا میں پیشاب کا مٹکا ہوں۔“













“ مجھے کیا معلوم۔“ غلام نے کہا۔ “ وہ بہتر جانتے ہیں۔“













غلام تو کاپی لے کر چلا گیا۔ لیکن ایلی کو رات بھر نیند نہ آئی۔ جب بھی وہ آنکھ بند کرتا تو اس کے روبرو ایک بڑا سا مٹکا آ جاتا اور اس میں سے بدبو آتی۔ اور اس کا دماغ پھٹنے لگتا۔ وہ دل ہی دل میں شرمندگی محسوس کر رہا تھا اور طنزاً حاجی صاحب سے کہہ رہا تھا۔ “ آپ تو کہتے تھے وقت آئے گا لیکن اب یہ پیشاب کا مٹکا۔“













ایلی کو عرصہ دراز سے مسلسل بول کی شکایت تھی۔ اس رات شرمندگی کی وجہ سے ساری رات وہ پیشاب کرتا رہا۔




سلسل البول​































ایلی کی یہ سلسل البول کی شکایت بھی ایک عجیب قصہ تھا۔













جس زمانے میں وہ کالج پڑھا کرتا تھا تو اس کی نور احمد سے بری دوستی تھی۔ نور احمد ان کا دور کا رشتہ دار تھا اور لاہور پولیس میں نوکر تھا۔ جب کبھی میس فیس کی عدم ادائیگی کی وجہ سے ایلی کی حاضری بند ہو جاتی اور اسے بورڈنگ میں کھانے سے جواب مل جاتا تو نور احمد اسے اپنے ساتھ لے جاتا۔ اور اپنے گھر میں اپنے ہاتھوں سے کھانا پکا کر اسے کھلاتا۔ نور احمد کی شادی ہوئی لیکن اس کی بیوی مر چکی تھی اور وہ عرصہ سے اکیلا رہتا تھا۔













نور احمد کو ایلی سے برادرانہ قسم کی محبت تھی اور ایلی کو نور احمد سے بڑی عقیدت تھی کیونکہ غیر تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود نور احمد بہت سیانا تھا اور اسے لاہور کا بے پناہ تجربہ تھا۔













ایک مرتبہ نور احمد کو نہ جانے کیا تکلیف ہو گئی اور وہ چھٹی لے کر علی پور آ گیا۔ اس زمانے میں ایلی کو گرمی کی چھٹیاں ہو چکی تھیں اور وہ علی پور ہی میں تھا۔ نور احمد آتے ہی ایلی سے ملا۔ کہنے لگا۔













“ بھئی ذرا باہر چلنا ہے۔“













“ لیکن کہاں۔“ ایلی نے پوچھا۔













“ ذرا باہر جانا ہے۔“ اس نے جواب دیا۔













طبعی طور پر نور احمد کھل کر بات کرنے کا عادی نہ تھا۔ وہ ہر بات کو راز رکھتا اور صرف اسی بات کا اظہار کرتا جسے وہ ضروری سمجھتا۔













شہر سے باہر جا کر وہ پرانے مقبروں میں گھومتے رہے اور نور احمد ان مقبروں کی ٹوٹی ہوئی دیواروں سے چونا اکھیڑتا رہا۔













“ یہ کس لیے ہے۔“ ایلی نے پوچھا۔













“ یہ بھی ہے۔“ نور احمد نے جواب دیا۔













“ لیکن کس لیے اکٹھا کر رہے ہو۔“













“ کام آئے گا۔“













“ کس کام۔“













“ دورئی کے طور پر۔“













“ یہ دوائی بنانی ہے۔“













“ ہاں۔ ہاں۔“













“ کس کے لیے۔“













“ اپنے لیے۔“













“ بیمار ہو۔“













“ ہاں “













“ کیا بیماری ہے۔“













“ سوزاک ہو گیا ہے۔“













“ ارے۔“ ایلی اچھلا۔













نور احمد نے یوں سرسری بات کی تھی جیسے کوئی بات نہ ہو۔ جیسے سوزاک نہ ہوا، سر درد ہو گئی۔ یہ نور احمد کی عادت تھی۔













گھر پہنچ کر نور احمد نے ایک کورا گھڑا لیا۔ وہ پرانا چونا دھو کر اس میں ڈال دیا اور پھر اسے پانی سے بھر دیا۔ گرمیوں کے دن تھے۔ وہ دونوں سارا دن اکٹھے بیٹھے گپیں ہانکتے رہتے اور نور احمد ہر دس منٹ کے بعد ایک گلاس مٹکے سے بھرتا اور غٹ غٹ پی جاتا۔ ایلی نے پیاس محسوس کی۔ نور احمد بولا۔













“ یہی پانی پیو نا۔“ تمہارے لیے بھی بہت فائدہ مند ہو گا۔ جگر کی گرمی اٹھائے گا۔“













اس کے بعد ہر دس منٹ بعد دونوں اکٹھے پیشاب کرتے اور پھر ایک ایک گلاس پانی پی کر پھر سے بیٹھ جاتے۔ دس پندرہ دن کے بعد ایلی نے محسوس کیا کہ اسے سلسل البول کی شکایت ہو گئی ہے لیکن اس نے چنداں اہمیت نہ دی۔ دو ایک سال گزر گئے۔













اس کے بعد ایلی نے محسوس کیا اسے سلسل بول کی بیماری ہو چکی ہے۔













فرضی کتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔













ان دنوں اس کا خالہ زاد بھائی جو میڈیکل کالج میں تعلیم پانے کے بعد ولایت میں ایم ڈی کی ڈگری حاصل کرنے چلا گیا۔ واپس وطن لوٹا، اس کے ساتھ اس کی آئرش بیوی بھی تھی۔ ایلی نے ڈاکٹر آصفی کو خط لکھا جس میں اس نے اپنی تکلیف کے متعلق فکر مندی کا اظہار کیا۔ ڈاکٹر نے اسے لاہور بلا لیا۔













جب ایلی لاہور پہنچا تو ڈاکٹر نے اسے کہا،













“ دیکھو بھائی جو علاج کرانا ہے تو آٹھ روز میرے پاس رہو۔ یہاں تمہیں صرف ایک تکلیف ہو گی۔ ہم لوگ رات کا کھانا پونے آٹھ بجے کھاتے ہیں اور پھر آٹھ بجے لیٹ کر سو جاتے ہیں۔ یہ بندش تم پر تھی رہے گی۔“













ڈاکٹر نے رات کے آٹھ بجے ایلی کو ایک کمرے میں بند کر دیا جس کے ساتھ اٹیچڈ باتھ نہ تھا۔













“ لیکن میں پیشاب کہاں کروں۔“ ایلی نے پوچھا۔













“ تمہارے کمرے میں دو کھڑکیاں ہیں۔“ ڈاکٹر نے جواب دیا۔ “ باہر باغیچہ ہے۔ جب چاہو باہر نکل کر پیشاب کر لو۔ لیکن ------ “ ڈاکٹر رک گیا۔ “ ذرا احتیاط سے باہر باغیچہ میں جانا۔“













“ کیوں۔“ ایلی نے پوچھا۔













“ رات کو کتا کھلا ہوتا ہے۔“ یہ کہہ کر وہ باہر نکل گئے۔













ایلی روز ڈاکٹر سے کہتا کہ وہ اس کا معائنہ کریں لیکن ڈاکٹر صاحب کسی نہ کسی بہانے ٹال دیتے۔ آٹھویں روز ایلی کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ اس نے اپنا سامان باندھا اور علی پور جانے کی تیاری کر لی۔ جب ڈاکٹر نے سنا کہ وہ خفا ہر کر جا رہا ہے تو اس نے جلدی سے کاپی اٹھائی اور میز لگا کر بیٹھ گیا۔













“ ہاں بھئی ایلی۔“ وہ بولا۔ “ جانے سے پہلے ہسٹری تو بتا جاؤ۔“













ایلی کا غصہ اس حد تک پہنچا ہوا تھا کہ وہ ڈاکٹر آصفی سے علاج کرانے پر رضامند ہی نہ تھا۔ لیکن اس کی آئرش بیوی نے آ کر ایسی ایسی باتیں کیں کہ وہ کیس ہسٹری دینے پر مجبور ہو گیا۔













“ ہاں بھئی ایلی“ ڈاکٹر نے کہا۔ “ تمہیں دن میں کتنی مرتبہ پیشاب آتا ہے۔“













“ میں نے کبھی گنا نہیں۔“













“ پھر بھی اندازاً۔“













“ یہی آٹھ دس بار۔“













“ اور پیاس کی کیا حالت ہے۔“













“ بار بار پانی پیتا ہوں۔“













“ کے بار۔“













“ بس ایک چکر ہے۔ ادھر گلاس پانی کا پیا ادھر پیشاب کیا۔ دونوں عمل ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔“













“ سردیوں میں زیادہ آتا ہے یا گرمیوں میں۔“













دونوں موسموں میں ایک سا۔“













“ اچھا تو یہ بتاؤ کہ دن کون سے وقت زیادہ پیشاب کرتے ہو۔“













“ کیا مطلب۔“













“ صبح کے وقت زیادہ یا شام کے وقت۔“













“ سونے سے پہلے۔“













“ شام کو یا رات کو۔“













“ لیٹ جانے کے بعد۔ چاہے جس وقت لیٹ جاؤں۔ جب تک نیند نہیں آتی تب تک۔“













“ اچھا تو اب ان گزشتہ آٹھ دنوں کے کوائف لکھوا دو مجھے۔“













“ جی “













“ کل رات لیٹنے کے بعد سونے تک کے مرتبہ پیشاب کیا۔“













ایلی سوچ میں پڑ گیا۔













“ اندازاً “













“ کل تو نہیں کیا۔“













“ ہوں۔ اچھا پرسوں۔“













“ پرسوں بھی نہیں۔“













“ ایک بار بھی نہیں۔“













“ سارا دن تو کرتا رہا تھا۔“













“ دن کی بات چھوڑو۔ بستر پر لیٹنے اور سونے کے درمیان کے وقفے کے وقفے کی بات کرو ------ اچھا اترسوں۔“













“ نہیں۔“













ڈاکٹر آصفی نے قہقہہ لگایا۔ بولا۔ “ دیکھو ایلی میں نے تمہیں آٹھ دن انڈر آبزرویشن رکھا ہے اور گزشہ آٹھ روز تم نے سوتے وقت پیشاب نہیں کیا حالانکہ یہ وہ وقت ہے جب کہ تمہیں تمہارے بیان کے مطابق بہت زیادہ پیشاب آتا ہے۔ اگر تمہاری اس بیماری کو ایک خیالی کتے کا ڈر روک سکتا ہے تو بتاؤ یہ بیماری جسمانی ہوئی یا ذہنی۔ میری جان۔ تمہیں کوئی بیماری نہیں۔“













ڈاکٹر آصفی کا قہقہہ دیر تک گونجتا رہا۔ حتٰی کہ علی پور جاتے ہوئے گاڑی کی چھکا چھک میں بھی وہ ڈاکٹر کے قہقہے کی آواز سنتا رہا۔













آج پھر وہ ڈاکٹر کی آواز سن رہا تھا۔ “ ہی ہی ہی ہی۔ ایلی بھئی تمہارا علاج تو سہل ہے۔ غسل خانے میں ایک کتا باندھ لو ہی ہی ہی ہی۔“













پیشاب کا مٹکا۔ پیشاب کا مٹکا۔













“ پیو۔ پیو۔“ نور احمد چونے کے گھڑے سے پانی نکال کر اسے دے رہا تھا۔ “ یہ تمہارے جگر کی گرمی اٹھا لے گا۔“













اگلے روز صبح سویرے ایلی کے سر پر ایک دھن سوار تھی۔ صرف ایک دھن۔




پِس پاٹ چور​






















اس روز وہ سکول بھی نہ گیا۔ بلکہ سیدھا ہسپتال پہنچا۔ انچارج ڈاکٹر محمد علی اس کا اچھی طرح سے واقف تھا۔ وہاں اس نے ایلی کی تمام کیس ہسٹری بڑے غور سے سنی۔ پیشاب ٹسٹ کیا اور پھر بولا۔













“ الیاس صاحب ہمارے ہاں کیمیکل امتحان کا سامان تو ہے لیکن مائیکرو سکوپک ٹسٹ کا انتظام نہیں لٰہذا آپ علاج کرانا چاہتے ہیں تو لاہور چلے جائیں۔ وہاں کے سول سرجن میرے دوست ہیں۔ ان کے نام خط دیتا ہوں۔ آپ ان سے جا ملیں۔ وہاں مائیکرو سکوپک ٹسٹ کا انتظام ہو جائے گا۔“













ڈاکٹر محمد علی کا خط دیکھ کر سول سرجن اسے بڑی گرمجوشی سے ملا۔













“ کیا آپ پیشاب ساتھ لائے۔“ اس نے پوچھا۔













“ میں تو ڈیرہ سے آیا ہوں۔“













“ وہ ٹھیک ہے۔“ وہ بولا۔ “ یہ تو کیس ہی محتلف ہے۔ فریکوئنسی آف یورن کی شکایت ہے نا۔“ انہوں نے ایک اسسٹنٹ کو بلایا۔ بھئی انہیں پِس پاٹ دے دو اور غسلخانہ دکھا دو۔ لیجیئے صاحب اپ پیشاب لے آئیے۔ “ انہوں نے گھڑی دیکھی۔ “گیارہ بجے ہیں۔ ابھی بہت وقت ہے۔ آپ شام تک ڈیرہ واپس پہنچ سکتے گے۔“













سول سرجن کے اسسٹنٹ نے اسے پِس پاٹ پکڑا دیا۔ وہ غسل خانے میں جا بیٹھا۔ بارہ بچ گئے لیکن اسے پیشاب نہ آیا۔ جیسے پیشاب کا سلسلہ ہی موقوف ہو چکا ہو۔ ایک بجے اس کی پریشانی بڑھنے لگی۔ دو بج گئے، چار بج گئے۔













باہر ڈاکٹر چلا رہا تھا۔ ارے بھئی وہ فریکوئنسی آف یورن کا مریض کیا ہوا۔“













“ کچھ پتہ نہیں صاحب۔“













“ کیا اسے ابھی تک پیشاب نہیں آیا۔ مسخرہ تو نہیں کوئی۔“













“ کہیں پِس پاٹ چرا کر نہ لے گیا ہو۔“ کمپاؤنڈر نے کہا۔













“ ارے بھئی دیکھنا۔“ ڈاکٹر قہقہہ مار کر بولا۔













ایلی نے چپ چاپ خالی پِس پاٹ زمین پر رکھا اور غسل خانے کے پچھلے دروازے سے باہر نکل کر بھاگا۔ گاڑی ڈیرہ کو جا رہی تھی۔ وہ شور مچا رہی تھی۔ پیشاب کا مٹکا۔“













ڈاکٹر آصفی قہقہہ مار رہا تھا۔ “ کتا پال کتا۔“













“ میری کاپی دے دو کاپی ------ “ غلام چلا رہا تھا۔













“ مسخرا۔ مسخرا۔“ سول سرجن ہنس رہا تھا۔













“ نہیں، نہیں۔ پِس پاٹ چور۔“ کمپاؤنڈر ہنس رہا تھا۔













ایلی کی اس ذہنی پریشانی کا کوئی علاج نہ تھا۔ صرف ایک چیز تھی جو اس کی پریشانیوں اور خفتوں کو جذب کر سکتی تھی۔ جذب کر لیتی تھی۔ اور وہ غلام کی ستار تھی۔













وہی غلام جس کے آقا ایلی کو پیشاب کا مٹکا سمجھتے تھے لیکن ایلی کے لیے غلام اور اس کے آقا سے دور رہنا ممکن نہ تھا اس لیے سٹیشن سے سیدھا غلام کے گھر پہنچا۔ دروازہ کھٹکھٹایا۔













“ کون ہے۔“ غلام کی آواز آئی۔













“ پیشاب کا مٹکا۔“ ایلی نے خفت مٹانے کے لیے کہا۔













“ آیا ابھی آیا ------ بسم اللہ بسم اللہ۔“ وہ دروازہ کھولتے ہوئے بولا۔ “ اتنے دن کہاں رہے۔“













“ میاں تمہارا ہمارا ساتھ۔ تم پوتر، ہم پلید، تم نگ پچکاری، ہم پیشاب کے مٹکے۔“













غلام نے قہقہہ لگایا۔ “ تم تو بڑے خوش قسمت ہو بھائی جو صرف پیشاب کے مٹکے ہو۔ پتہ ہے مجھے کیا خطاب ملا ہے۔“













“ کیا؟“













غلام مسکرایا۔ “ فرمایا۔ تم تو زانی نفس ہو۔“













“ کیا واقعی۔“













“ تماری قسم۔“













اس ایک جملہ نے ایلی کو اس قدر تسکین دی۔ اس قدر تسکین دی جو دنیا بھر کے ڈاکٹر نے دے سکتے تھے۔ اور اس کی زندگی میں جو یہ نئے تلخی پیدا ہوئی تھی ختم ہو گئی۔ اس کے بعد کے اثرات ستار کی تاروں کی لرزشوں نے صابون کے بلبلوں کی طرح اڑا دیئے اور وہ اس کراہتی ہوئی ستار کے پہلو میں بیٹھ گیا جیسے تار کو کھنچنے والی کیل ہو جو ستار کے بازؤ پر لگی ہوئی تھیں۔






















انوکھا غم​













ایک روز شام کے وقت ایلی بیٹھک کے باہر سڑک کے کنارے چلا گیا۔ اس نے دیکھا نورانی وہاں بیٹھا کام کر رہا ہے۔ بیٹھک کے باہر سڑک کے کنارے چبوترہ تھا جس پر بعد دوپہر دھوپ آ جاتی تھی۔ نورانی اس چبوترے پر بیٹھ کر کام کیا کرتا تھا۔ لیکن اس کے بیٹھنے کا انداز نرالا تھا۔ وہ سڑک کی طرف پیٹھ کر لیتا، میز دیوار کے ساتھ لگا لیتا۔













ڈیرہ میں وہ سڑک خاص طور پر مشہور تھی۔ چونکہ شام کے وقت ہندو خواتین پنڈ تانیاں سیٹھانیاں اور لالانیاں اس سڑک پر سیر کرتی تھیں۔ شوقین مزاج لوگوں نے اس سڑک کو پنگھٹ کا نام دے رکھا تھا۔













ایلی خود کئی بار شام کے وقت بیٹھک سے باہر چبوترے پر کھڑا ہو جایا کرتا تھا۔ ہندو خواتین جو ادھر سے گزرتی تھیں عام طور پر خوبصورت ہوتی تھیں۔ لیکن سب سے بڑی بات یہ تھی ان کے چہروں پر شرم و حیا کی سرخی جھلکتی تھی۔ آنکھیں ہمیشہ جھکی جھکی رہتیں اور چھپنے کے لیے کونے تلاش کرتیں اور جسم اپنا اعلان کرنے کی بجائے سمٹا سمٹا رہتا۔ ایلی کو انہیں دیکھ کر یوں محسوس ہوتا تھا جیسے عصمت و عفت اور شرم و حیا کی پہاڑیوں پر ننھے ننھے چشمے ابل رہے ہوں۔













لیکن نورانی کا رویہ عجب تھا۔ وہ سڑک سے منہ موڑ کر کیوں بیٹھ رہتا تھا۔ اسے اپنی بدصورتی کا احساس تھا۔ کیا واقعی؟“













ایک روز ایلی نے طنزاً نورانی سے کہا۔ “ نورانی صاحب۔ آپ سڑک کی طرف منہ کر کے کیوں نہیں بیٹھتے۔ کیا آپ کو ڈر ہے کہ کوئی راہ چلتی آپ کو دیکھ کر آپ کی محبت میں اسیر نہ ہو جائے۔“













نورانی نے کام سے سر اٹھائے بغیر جواب دیا۔ “ کیا فائدہ۔“













“ کیا مطلب۔“













“ یہاں سے بچیاں گزرتی ہیں۔ خواہ مخواہ کسی کو الجھن میں ڈال دوں تو۔“













ایلی کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ “ کیا واقعی اس خیال سے آپ سڑک کی طرف پیٹھ کر کے بیٹھتے ہیں۔“













“ ہاں یہ ڈر ہے۔“ وہ بولا۔













“ ارے۔“ ایلی چلا اٹھا۔ “ کیا آپ خود کو حسین سمجھتے ہیں۔“













“ نہیں ایسی بات نہیں۔“













“ تو پھر۔“













“ الیاس صاحب کشش اور چیز ہے۔ حسن اور۔“













“ تو کیا آپ میں کشش ہے۔“













“ بالکل ہے۔“













“ ہمیں تو نہیں محسوس ہوتی۔“













“ آپ عورت نہیں ہیں اس لیے۔“













“ ارے۔“













نورانی اٹھ بیٹھا۔ ایلی کے قریب آ کر کہنے لگا۔ “ الیاس صاحب اگر میں کسی عورت کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھ لوں۔ نگاہیں چار ہو جائیں تو وہ میری تلاش میں آپ کا دروازہ نہ کھٹکھٹائے تو میرا ذمہ۔“













“ تو شرط رہی۔“ ایلی چلایا۔













“ نہ بھئی۔ شرط نہ لگاؤ۔“ نورانی کرسی پر بیٹھ کر بولا۔













“ ڈرتے ہیں آپ۔“













“ ہاں۔“ وہ بولا۔ “ خواہ مخواہ آپ ہار جائیں گے۔“













“ ارے۔“ ایلی چلایا۔ “ اس قدر ذعم ہے۔“













“ اس سے بھی زیادہ۔“ نورانی نے کہا۔













“ تو شرط رہی۔“













“ اچھا۔“ وہ بولا۔ “ اگر آپ مصر ہیں تو۔“













“ منظور ہے۔“ ایلی بولا۔













“ لیکن اس میں دو چار شرائط ہوں گی۔ عورت میں خود منتخب کروں گا۔“ ایلی نے کہا۔













“ منظور۔“ وہ بولا۔













“ اگر آپ کوئی شرط عائد کرنا چاہیں تو۔“ ایلی نے پوچھا۔













“ ہاں۔“ نورانی نے کہا۔ “ پہلی شرط یہ ہے میرا نام اور پتہ نہ بتانا ورنہ بدنامی ہو گی۔“













“ ٹھیک ہے۔“













دوسری بات یہ کہ مجھے مناسب موقع دیا جائے کہ میں عورت کو اچھی طرح دیکھ لوں۔“













“ ٹھیک۔“













“ تیسری بات یہ ہے۔ شرط نہیں منت ہے۔“













“ کیا۔“













“ کسی معصوم بچی کو نہ منتخب کرنا۔ اس کی زندگی تباہ ہو جائے گی۔“













ایلی نورانی کے یقین کامل پر حیران تھا۔













دو دن ایلی سوچتا رہا۔ اس مسئلے پر نہ وہ غلام سے بات کر سکتا تھا نہ اسد سے اور نہ کسی اور سے ------ چونکہ اس نے نورانی سے وعدہ کیا تھا کہ اس شرط کے بارے میں کسی سے ذکر نہیں کرے گا۔ ان کے مکان کے گرد لڑکیاں تو بہت رہتی تھیں۔ اور وہ چلا چلا کر اپنی موجودگی پا پیغام ان تک پہنچاتی رہتی تھیں۔ سڑک پر آنے جانے والی ہندو خواتین بھی تھیں لیکن ایلی نے سوچا ایسی عورت کا انتخاب کیا جائے جو اس قدر جہاندیدہ ہو کہ اسے فریفتہ کرنا آسان کام نہ ہو۔













“ ------ بنو۔“ دفعتاً اسے خیال آیا اور وہ اچھل پڑا۔ طائفہ بھلا کب کسی کی بنتی ہے۔ اسے کسی کا ہو جانے کا چاؤ بھی نہیں ہوتا اور پھر بنو تو واقعی پٹاخہ ہے۔













بہروپیئے​































اگلے روز رات کے نو بجے کے قریب نورانی اور ایلی گھر سے نکلے۔ دونوں نے کالے کمبل اوڑھ رکھے تھے تا کہ کوئی انہیں پہچان نہ لے۔ سروں پر پگڑیاں باندھ رکھی تھیں۔ ایلی آگے آگے جا رہا تھا۔ نورانی اس کے پیچھے پیچھے تھا۔













جب وہ چکلے میں پہنچے تو نورانی رک گیا۔













“ اچھا تو طوائف کا انتخاب کیا ہے آپ نے۔“













“ یہ شرط تو نہ تھی کہ یہاں کی نہ ہو۔“ ایلی نے کہا۔













“ مشکل کام دیا ہے آپ نے۔“ نورانی بولا۔ “ لیکن کچھ پرواہ نہیں۔ چلیئے۔“













بنو کے گھر جا کر ایلی نے کمبل اور پگڑی اتاری اور بے تکلفی سے باتیں کرنے لگا۔













“ آیئے۔“ وہ بولا۔ “ آپ کو اپنے ایک دوست سے ملاؤں۔ یہ آج ہی دلی سے آئے ہیں۔ صرف ایک روز کے لیے ٹھہریں گے یہاں ڈیرے میں۔“













“ آپ کی تعریف۔“ بنو بولی۔













ایلی نے جھٹ جواب دیا۔ “ عظمت خان۔“













‘ بڑا ٹھاٹھ دار نام ہے۔“ گورا ہنسی۔













“ خود بھی تو ٹھاٹھ دار ہیں۔“ ایلی نے کہا۔













“ فی الحال تو پگڑی اور کمبل ہی دکھائی دیتے ہیں۔“ گورا ہنسی۔













“ اور یہ پتہ نہیں چلتا کہ کمبل کہاں ختم ہوا اور عظمت خاں کہاں شروع ہوئے۔“ بنو نے کہا۔













“ یہی تو کمال ہے۔“ ایلی بولا۔













“ خود گونگے ہیں شاید۔“ گورا بولی۔













“ ہاں۔“ ایلی نے کہا۔ “ بولنا نہیں جانتے۔ دیکھنا جانتے ہیں۔ تاجر ہیں نا اس لیے۔“













“ تاجر ہیں۔“ بنو نے کہا۔













“ ہاں۔ موٹروں کا کاروبار ہے۔“













وہ سب دیر تک گپیں ہانکتے رہے۔ لیکن نورانی اسی طرح گھٹا گھٹا گم صم بیٹھا رہا۔ پھر اس نے ایلی کو کہنی ماری۔













“ کونسی ہے۔“













“ یہ ہے۔“ ایلی نے اعلانیہ بنو کا ہاتھ پکڑ کر نورانی کے ہاتھ میں تھما دیا۔













بنو نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھا۔ نورانی نے بلا تکلف بنو کا بازو کھینچ کر اسے اٹھا لیا اور گھسیٹتا ہوا ملحقہ کمرے میں لے گیا۔ بنو اور گورا حیرانی سے ان کی طرف دیکھ رہی تھیں۔













“ گھبراؤ نہیں۔“ ایلی بولا۔ “ ابھی آ جائیں گے۔ کوئی ایسی ویسی بات نہیں۔“













“ ایسی ویسی بات ہو بھی تو کیا ہوا۔“ بنو بولی۔













“ ہمیں بھی لے چلے کوئی۔“ گورا ہنسی۔













“ تمہیں نہیں البتہ۔“ ایلی نے بنو کا ہاتھ پکڑ لیا اور دوسرے کمرے کی طرف چلا پڑا۔













بنو چیخ رہی تھی۔ “ یہ کیا مذاق ہے۔“













کمرے میں پہنچ کر ایلی نے کہا۔ “ مذاق نہیں۔ جمیل نے کہا تھا کہ تم دکھ جذب کر لیتی ہو۔ کہا تھا نا۔ میں دکھی ہوں۔ بنو، میرا کچھ کرو۔“













وہ ہنسنے لگی۔













“ گورا نہ بنو۔“ وہ بولا۔ “ ہنسی سے دکھ دور نہیں ہوتا۔“













“ تو پھر۔“ وہ بولی۔













“ مجھے کیا پتہ دیکھ کیسے دور ہوتا ہے۔“













“ مجھے بھی تو پتہ نہیں۔“ وہ بولی۔













“ اچھا تمہاری مرضی۔“ وہ بولا اور اس نے بنو کے ہاتھ میں بیس روپے تھما دیئے۔













“ یہ کیسے ہیں؟“ اس نے پوچھا۔













“ سردیوں کے دن ہیں۔ ریوڑیاں اور مونگ پھلی کھا لینا۔“













“ فضول۔“ وہ غصے سے چلائی۔













“ شانت شانت۔“ ایلی نے کہا۔ “ تم تو نروان دینے والی ہو۔ سیخ پا کیوں ہوتی ہو۔“













“ دینے والی ہوں۔ لینے والی نہیں۔“













“ تو دے دو۔“ وہ اس کی طرف بڑھا۔













ایک ساعت کے لیے وہ ٹھٹکی۔













ایلی نے اس کے سامنے ہاتھ پھیلا دیا۔ “ اس پر رکھ دو۔“













“ کیا؟“













“ جو تمہارے پاس ہے دینے کو۔“













وہ ہنسی۔ “ آپ عجیب باتیں کرتے ہیں۔“













“ ان باتوں میں نہ پھنس جانا۔ اونچے بول اندر سے ڈھول والا معاملہ ہے۔“













“ آؤ نا بھئی اب۔“ نورانی نے اسے آواز دی۔













“ کیوں۔ ہو گئے فارغ۔“













“ لا حول ولا قوۃ “ وہ غصے سے پھنکارا۔













“ اور میرا مطلب تھا۔“ ایلی نے معذرت کی۔













“ بس گھورتے ہی رہے۔“ بنو چلائی۔













ایلی نے غور سے بنو کی طرف دیکھا۔ اس پر نورانی کی نگاہ کا کوئی اثر نہ تھا۔ “ مار لیا میدان ۔۔۔۔۔“ اس نے سوچا۔













اگلے روز نورانی دورے پر چلا گیا۔ اور دو ہی دن میں ایلی بالکل بھول گیا کہ اس نے شرط بدھی تھی۔ اور بنو کو تختہ مشق بنایا تھا۔ وہ پھر سے غلام کی ستار کے پاس جا بیٹھا اور جے جے ونتی اور کیدارے میں کھو گیا۔




پیاں پڑوں گی پلنگھا نہ چڑھوں گی پیاں پڑوں گی​

















































غروب و طلوع​













چند روز بعد ایک روز جب ایلی نویں جماعت کو تاریخ جغرافیہ پڑھا رہا تھا تو چپراسی آیا۔ “ جی۔ لالہ جی بلاتے ہیں۔“ وہ بولا۔













“ لالہ جی۔“ ایلی نے لاپرواہی سے دہرایا۔













لالہ جی ان کے ہیڈ ماسٹر تھے۔ وہ عمر میں پچپن کے قریب تھے اور طبیعت کے لحاظ سے ستر سال کے ہوں گے۔ انہیں معلوم تھا کہ ایک سال کے اندر اندر وہ پنشن پانے والے ہیں لٰہذا انہوں نے پہلے ہی پنشن کی مشق شروع کر دی تھی۔ سارا دن باہر دھوپ میں یا اندر کمرے میں بیٹھ رہتے۔ نہ کسی استاد سے بگڑتے نہ کسی کو منہ لگاتے۔ البتہ جب بھی بن آتی لوگوں کو مدد کرتے تھے۔













ایلی دفتر میں داخل ہوا تو بنو کو لالہ جی کے روبرو کرسی پر بیٹھے دیکھ کر گھبرا گیا۔ لیکن جلد ہی اس نے خود کو سنبھالا۔













“ جی لالہ جی۔“ وہ بولا۔













“ یہ آپ کے مہمان ہیں۔“ لالہ جی نے بنو کی طرف اشارہ کر کے کہا۔ پھر بنو سے کہنے لگے۔ “ آپ ذرا دفتر سے باہر باغیچے میں چلیئے یہ ابھی آتے ہیں۔“













بنو اٹھ کر کمرے سے باہر نکل گئی۔













لالہ جی نے نگاہیں جھکا لیں اور بولے۔ “ الیاس صاحب، مجھے آپ سے یہ توقع نہ تھی ------ دیکھیئے نا عورت کا سکول میں آنا ------ بچوں پر کیا اثر پڑے گا۔ آپ نے بلانا ہی تھا تو گھر بلایا ہوتا۔“













“ لالہ جی “ ایلی نے جواب دیا۔ “ اگر میں بلاتا تو گھر ہی بلاتا۔ اس کا یہاں سکول میں آنا ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ نہ تو میں نے اسے بلایا ہے، نہ میں اسے جانتا ہوں۔“













لالہ جی نے آنکھ اٹھا کر غور سے ایلی کی طرف دیکھا اور بولے۔ “ اچھا تو دیکھیئے کہ بات کیا ہے۔“













ایلی باغیچے میں پہنچا تو بنو اس پر یوں جھپٹی جیسے چیل گوشت پر جھپٹتی ہے۔













“ نہ جانے۔“ وہ بولی۔ “ بنو کو کیا ہو گیا ہے۔ وہ تو اسی روز سے تمہارے دوست کی مالا جپتی ہے کہتی ہے ------ اسے بلواؤ۔“













“ ارے۔“ ایلی چلایا۔ “ کیا واقعی۔“













“ نہ جانے کیا کر دیا ہے اس نے میری بنو پر۔“ بنو کی آواز گلوگیر تھی۔













وہ توعام ساآدمی تھا۔جادوگرنہ تھا۔




’’پتہ نہیں۔کیاہواہے۔بے چاری بیمارہے۔آپ آئیں ناآج ضرورآئیں ضرور۔‘‘




’’آؤں گا۔‘‘ایلی بولا۔لیکن حیرت کی وجہ سے اس کادماغ شل ہوچکاتھا۔’’یہ کیسے ہوسکتاہے۔آخرکیوں۔نہیں نہیں۔یہ نہیں ہوسکتا۔اورپھرنورانی ۔لاحول ولاقوۃ۔‘‘




سکول سے فارغ ہوکروہ گھرپہنچا۔دروازے پرایک خط پڑاتھا۔اس نے بے خبری میں وہ خط اٹھالیااوربیٹھک کی طرف چلاگیا۔بیٹھک مقفل تھی۔




’’ہوں۔ توابھی تک دورے سے نہیں آیا۔لیکن آخربات کیاہے۔نورانی نے کیاکیاہوگا۔شایدٹوناکیاہو۔شایدتعویزلے گیاہو۔نگاہ میں اتنااثرنہیں ہوسکتا۔‘‘




اس نے بے خبری میں لفافہ چاک کیااورخط پڑھنے بغیرٹہلنے لگا۔سنکھیاکایہ اثرتونہیں ہوسکتا۔




’’نہیں نہیں‘‘وہ چلایا۔’’یہ کیسے ہوسکتاہے۔‘‘




دفعتاً اس کی نگاہ خط پرپڑی ۔صرف ایک جملہ لکھاہواتھا۔




’’میں جارہی ہوں ہمیشہ کے لئے جارہی ہوں۔مجھ سے مل جاؤ اللہ کے واسطے ۔‘‘’’شہزاد‘‘اس کی پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔




نوارنی‘بنو‘بنو‘گورا‘غلام اوراس کاستارسب غروب ہوگئے۔ان کی جگہ ایک چہرہ طلوع ہوگیا۔منورچہرہ‘ماتھے پربڑاساتل‘غمناک آنکھیںاداس صورت۔




’’میں جارہی ہوں۔‘‘وہ بولی۔




’’لیکن ۔۔۔۔لیکن۔۔۔۔ایلی کوکچھ سمجھ میں نہ آرہاتھا۔




گاڑی فراٹے بھرتی ہوئی علی پورجارہی تھی۔