صفحات

تلاش کریں

15-بن باسی


خانپور جاتے ہوئے ایلی کے دل میں غم بوند بوند گِر رہا تھا لیکن دراصل اس غم کی حیثیت ثانوی تھی۔اسے شہزاد سے جدائی کا غم نہ تھا۔شہزاد کی محبت کھو دینے کا صدمہ نہ تھا بلکہ احساسِ ندامت اور شکست کی وجہ سے اُس کا دل چور چور تھا۔
ایلی جذبہء عشق اور احساسِ غم سے بیگانہ تھا۔اگر وہ عشق یا غم سے محروم نہ ہوتا تو یہ واقعہ اس کے کردار میں ایسی گہرائی پیدا کرتا جو اپنی نوعیت میں تعمیری ہوتی۔اُس کے برعکس وہ محسوس کررہا تھا کہ دیوتا پتھر کے ٹکڑے کی طرح ٹھکرا دیا گیا۔اور اب وہ دیوتا نہیں محض ایک پتھر ہے جو لوگوں کی ٹھوکروں میں پڑا ہے۔آج تک اُس کی تمام تر اہمیت کا انحصار شہزاد کی توجہ کا مرکز ہونے کی وجہ سےتھا ------ اب وہ کسی کی توجہ کا مرکز نہ تھا۔
گاڑی فرّاٹے بھرتی ہوئی جا رہی تھی۔گاڑی کی چھکا چھک کی آواز اُسے یوں سُنائی دے رہی تھی جیسے شہزاد اور صفدر قہقہے مار کر ہنس رہے ہوں۔سبھی اس پر ہنس رہے تھے۔
آخر ایک نہ ایک دن جانا ہی پڑتا ہے۔“ ماں نتّھی مسکرا رہی تھی۔ایسے اعمال کا یہی نتیجہ ہوتا ہے۔“ چچا صمد چلّا رہا تھا۔
بہن اُس کے چوبارے میں تو کھڑکیاں ہی کھڑکیاں ہیں ۔بارہ دری ہے۔“
جارہا ہے تو میں کیا کروں۔؟ شہزاد ہنس رہی تھی۔
حافظ خدا تمہارا ۔“ صفدر قہقہے مار رہا تھا۔
اور جب وہ خانپور پہنچے گا تو علی احمد ہنسیں گے۔
لو بھئی نصیر احمد کی ماں۔“ ایلی آ گیا۔آخر آ ہی گیا۔ہی ہی ہی ہی بھئی بڑی ہمت سے کام کیا ہے ایلی نے سنتی ہو نصیر کی ماں۔کارنامہ دکھایا ہے ہی ہی ہی ہی۔وہاں سے چلے آنا کوئی آسان بات تھی کیا ؟ -------------- اونہوں۔ لیکن تمہیں کیا معلوم تم کیا جانو۔“
اُن کی آنکھ میں چمک لہرائے گی اور پھر وہ جھک کر راجو کے کان میں کہیں گے:۔
تمہیں کیا پتہ مرد کی مجبوریاں۔تم خود مجبوری ہو ہی ہی ہی۔“
ایلی کو خانپور جانے سے ڈر آتا تھا۔علی احمد کے روبرو جانے سے ڈر آتا تھا۔اگرچہ علی احمد نے واضح الفاظ میں ایلی کو کبھی شہزاد کا طعنہ نہیں دیا تھا۔لیکن ان کی ہنسی میں وہ ہمیشہ دھار محسوس کرتا تھا۔اُن کی خصوصی ہنسی ایلی کے لئے کند چھری کی حیثیت رکھتی تھی۔شائد اسی وجہ سے راستے میں وہ ایک روز کے لئے لاہور رک گیا۔
پنکچر۔
لاہور ٹھہرنے کے لئے کوئی جگہ نہ تھی اس لئے وہ سیدھا دہلی مسلم ہوٹل چلا گیا اور کمرے میں سامان رکھ کر وہ چارپائی پر ڈھیر ہوگیا۔
وہ محسوس کر رہا تھا جیسے پہلی مرتبہ گھر سے باہر نکلا ہو جیسے پہلی مرتبہ ایک بچّہ انگلی کا سہارا لئے بغیر چلنے کی کوشش کر رہا ہو۔
اگلے روز وہ لاہور میں گھومتا رہا یوں جیسے ایک بیگانہ شہر ہو۔
سنٹرل ٹریننگ کالج ویران پڑا تھا۔ایسے محسوس ہورہا تھا جیسے ایک اجنبی مقام پر ہو۔اسے یقین نہیں آتا تھا کہ ابھی چند روز پہلے وہ اسی بورڈنگ میں رہتا تھا۔وہ چھ لڑکیاں وہ شام۔جی۔کے لاجونتی سب اُس کے ذہن میں دھندلا چکے تھے جیسے انہیں کبھی خواب میں دیکھا ہو۔
شام کے وقت جب وہ انارکلی میں گھوم رہا تھا تو دفعتاً کسی نے آکر اُس کے شانے پر ہاتھ رکھ دیا۔
ارے تم۔“؟کوئی چلّایا۔
شام۔“ ایلی کی چیخ نکل گئی ۔تم یہاں ہو؟“
ہم اب کہیں جانے کے قابل نہیں رہے۔بس اب تو یہیں اپنا مقبرہ بنے گا۔“ شام مسکرا رہا تھا۔
کیوں۔“؟
بس سگ ناقہ لیلیٰ ۔“ شام ہنسا۔وہ میرے لئے یہیں رک جائے تو پھر میں کہیں جا سکتا ہوں کیا۔“؟
رک گئی ہے؟“ ایلی بولا۔
ہاں ۔اُس نے یہاں نوکری کر لی ہے۔“
اور تم۔‘؟
میں نے لاء کالج جوائن کر لیا ہے۔کالج کا تو بہانہ ہی ہے۔شام نے آنکھ ماری۔“ مطلب ہے جہاں فیڈنگ وہاں گلیکسو بےبی۔“
شام کو ایلی اپنے نئے بورڈنگ میں لے گیا۔لیکن کمرے میں پہنچتے ہی جب اُس نے روشنی میں ایلی کی طرف دیکھا تو چلّانے لگا۔“
ارے تم۔تمہیں کیا ہوا؟“
مجھے۔“ ایلی نے جھوٹ موٹ دہرایا۔“ کیوں مجھے کیا ہے؟“
دایہ سے پیٹ چھپاتے ہو۔“ شام چلّیا۔
تمہیں کیا دکھائی دیتا ہے؟“ ایلی نے پوچھا۔
شام کی آنکھ میں چمک لہرائی۔
بتاؤں؟“ وہ بولا۔
ہاں بتاؤ۔“
ٹھس س س س س۔“ وہ چلّایا۔پنکچر۔“
پنکچر۔“ ایلی نے بناوٹی حیرت سے دہرایا۔
وہ پنکچر ہوا ہے کہ ساری ہوا نکل گئی ہے --------- کیوں اب بولتے نہیں۔“ شام چلّایا۔
بولو نا۔“
سچ کہتے ہو۔“ ایلی کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
ارے۔“ شام اُس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر گھبرا گیا۔
سب ختم ہو گیا۔“ ایلی بولا۔وہ تخت و تاج و شہنشاہی سب۔صرف میں باقی رہ گیا ہوں۔اور شائد میں بھی ختم ہو جاؤں۔“
زہر ------- شام نے بات کو مذاق میں ٹالنے کے لئے کہا۔ابھی تک میرے ٹرنک میں پڑی ہے اور الیاس،بھگوان کی سوگند بس ساری عمر ٹرنک میں‌ پڑی رہے گی۔نہ مجھ میں کھانے کی ہمت ہوئی نہ تم میں ہوگی۔“ وہ ہنسنے لگا۔
نہیں شام۔“ ایلی بولا۔ساری زندگی چوپٹ ہوگئی ۔بساط ہی الٹ گئی۔اب جینا بےکار ہے۔
اس کے باوجود جئے جاؤ گے بیٹا۔آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔زندگی پٹ سے چِت ہو جائے گی۔بساط پھر قائم ہو جائے گی۔غم نہ کھاؤ۔“
غم تو اب لگ گیا ہے۔“ ایلی بولا۔
ایک بات پوچھوں۔؟ شام نے کہا۔
ایلی نے اثبات میں اشارہ کیا۔
اُس نے بےوفائی کی ،بس یہی بات ہے نا؟“
ہاں۔“ ایلی بولا۔پہلے تخت پر بٹھایا۔پھر مورچھل کرتی رہی اور پھر دھکّا دے کر وہاں سے گرا دیا۔“
بس تم سمجھ لو رشی منی بن گئے تمہارا کلیان ہوگیا۔“
کیوں۔“؟
جس نے کامیابی دیکھی ۔تخت پر بٹھایا گیا۔مورچھل کروایا۔وہ مکمل نہیں ہوتا جب تک اسے عروج پر سے گرایا نہ جائے۔سمجھ لو تمہارا کلیان ہوگیا۔آؤ تمہیں بیئر پلاؤں۔“وہ چلّانے لگا ۔لاجواب چیز ہے پنکچر لگ جائے گا۔پھر سے تخت پر بٹھا دے گی،مورچھل کرے گی۔آؤ یار،اب اپنا آپ سنبھالو۔“شام کہنے لگا۔جوتیاں کھانا تو اپنا پرانا پیشہ ہے۔تم تو یوں شکل بنائے ہوئے ہو جیسے پہلی بار جوتا کھایا ہو۔ہمت کرو۔“
مجھے نصیحتیں کرتا ہے بے سالے۔“ ایلی جلال میں آ گیا۔




کر لینے دو۔کر لینے دو۔شام چلّایا۔“ تمہارا کیا بگڑتا ہے۔میری نصیحتوں سے تم نے کونسا اثر لیا ہے۔لیکن اپنی بات بن رہی ہے۔کر لینے دو نصیحتیں مجھے ۔“
کیوں؟۔“ ایلی نے پوچھا۔
یار ایلی۔“ شام بولا۔ساری عمر بیت گئی ہے ہمیشہ مجھے ہی پنکچر ہوتا رہا۔ہمیشہ لوگ مجھے ہی نصیحتیں کرتے رہے ۔ بھگوان جانے یہ پہلا موقع ہے جب میں تمہیں نصیحت کر سکتا ہوں۔دل چھوٹا نہ کرو۔“
بائے بائے۔“ ہوٹل میں پہنچ کر شام چلّایا۔“ چار بوتل۔اچھی سی لانا۔وہ ہنسا۔تیز سی جو تخت پر بٹھائے اور مورچھل کرے۔
خانپور پہنچتے ہی سب سے پہلے اسے جمیل مل گیا۔جب ایلی پلیٹ فارم پر قلی ڈھونڈ رہا تھا تو اس نے دیکھا کہ بریک کے قریب جمیل کھڑا ہے۔
ارے تم۔“ وہ حیرت سے جمیل کی طرف دیکھنے لگا۔
جمیل مسکرا رہا تھا۔
میں تو یہیں ملازم ہوں، ابھی ٹھہرو اکٹھے چلیں گے ۔“
خانپور کے اس صحرائے اعظم میں جمیل ایلی کے لئے واحد نخلستان تھا۔اگرچہ ایلی کو جمیل سے حجاب سا محسوس ہو رہا تھا۔چونکہ جمیل صفدر کا چھوٹا بھائی تھا اس لئے وہ جمیل پر ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا کہ اُس کی زندگی میں‌کیا المیہ واقع ہوا ہے۔
آج تک ایلی نے شہزاد کو راز بنائے رکھا تھا۔اُس نے شہزاد کے متعلق اپنے کسی دوست سے بات نہ کی تھی۔لیکن اب اس عظیم شکست کے بعد اُس کا جی چاہتا تھا کہ وہ ہر کسی کو رو رو کر اپنی کتھا سنائے اور راہ چلتوں کو بتائے کہ اس نے ایلی سے کیا سلوک کیا ہے ۔ہر ملنے والے کو خبردار کرے کہ کبھی کسی عورت پر بھروسہ نہ کرے کبھی اس کی محبت پر اپنی خوشی کا انحصار نہ رکھنا۔لیکن یہ بات جمیل سے نہیں‌ کر سکتا تھا۔صفدر کے چھوٹے بھائی سے یہ بات کرنا یہ اُسے گوارا نہ تھا۔
محفل۔
علی احمد کے گھر میں کئی ایک تبدیلیاں ہو چکی تھیں۔
مثلاً اُن کی تیسری بیوی شمیم جو کشمیر کے سیب کھا کھا کر پلی تھی۔اور علی احمد کے گزشتہ بیان کے مطابق بذاتِ خود ایک سیب تھی اب قطعی طور پر اپنی شخصیت کھو چکی تھی۔کشمیر کا یہ سیب اب گل سڑ گیا تھا۔صرف یہی نہین وہ اس حد تک اعترافِ شکست کر چکی تھی کہ اب اُس میں یہ احساس ہی نہیں رہا تھا کہ وہ عورت ہے۔غالباً نا اُمیدی اور مایوسی کی شدّت کی وجہ سے اُس نے اپنا آپ مسخ کرلیا تھا۔ازخود۔
علی احمد کی چوتھی بیوی راجو، جو کسی زمانے میں دوراہے کی رانی تھی اب چار دیواری سے گھرے ہوئے گھر کی خاتون بن کر رہ گئی تھی۔
نہ تو اُس کی نگاہوں میں شوخی تھی نہ انداز میں نمائش اور نہ چال میں مٹک جو نگاہوں کو دعوت دیتی ہے۔اُس کی یہ تبدیلی حیرت انگیز تھی۔لیکن اُس سے زیادہ حیران کن بات یہ تھی کہ ٹین کا سپاہی ابھی تک اُس قلعے کی تسخیر میں جوں کا توں منہمک تھا۔اُس کے علاوہ علی احمد کے گھر میں اب استانیوں کی آمد و رفت اب قطعی طور پر ختم ہوچکی تھی۔ممکن ہے علی احمد نے خود ہی اس رسم کو توڑ دیا ہو یا شائد اس کی وجہ راجو کا رویّہ ہو۔بہرحال علی احمد کا گھر اب ایک گھر تھا۔گھر میں علی احمد تھے ۔شمیم اور اُس کی دو بیٹیاں۔ناظمہ اور انجم، اور راجو کے دو بیٹے شیر علی جو اُس کے پہلے شوہر سے تھا اور نصیر جو علی احمد سے تھا۔
وہاں پہنچ کر دو ایک روز تو ایلی کھویا کھویا رہا۔پھر محض اتفاق سے اُس کی توجہ کتاب پر مرکوز ہوگئی اور وہ شہزاد کو بھولنے کے لئے ------- اپنے کھوئے ہوئے تخت و تاج کو بھولنے کے لئے کتاب میں کھو گیا۔
سارا دن وہ کتابیں پڑھنے میں مصروف رہتا اور جب مطالعہ سے اکتا جاتا یا جب سادی اور شہزاد کتاب کے صفحات سے جھانک کر مسکراتیں ،اشارہ کرتیں تو وہ کتاب پھینک کر جمیل کی طرف چلا جاتا۔اور جمیل فارغ ہوتا تو وہ اسے اپنے دوستوں کی محفل میں لے جاتا جہاں وہ تاش کھیلتے،گپیں ہانکتے اور حالاتِ حاضرہ پر بحث کرتے۔
جمیل کے ساتھی تو بہت تھے لیکن ان میں‌صرف دو ایسے تھے جنہوں نے ایلی کو اپنی طرف متوجہ کیا۔نقی اور راز۔
نقی ادھیڑ عمر کا دبلا پتلا آدمی تھا، اُس کا چہرہ پچکا ہوا تھا،جسم مخنی تھا ۔آنکھیں اندر دھنسی ہوئی تھیں۔ناک اس حد تک ابھری ہوئی تھی کہ سوائے ناک کے کچھ دکھائی نہ دیتا تھا۔لیکن اُس کی باتیں بے حد دلچسپ تھیں۔اُن میں رنگینی یا مزاح کی جھلک نہ تھی۔اس کے برعکس اُن میں گہرائی ہوتی اور نقی کو یہ احساس نہ ہوتا کہ وہ کوئی اچھنبھے کی بات کر رہا ہے یا اس کی شخصیت میں انوکھا پن ہے۔وہ یوں بات کرتا جیسے عام سی بات کر رہا ہو۔اور جب لوگ اُس کی بات پر چونکتے تو وہ گہری سوچ میں پڑ جاتا۔
ہاں یار۔“ وہ سنجیدگی سے کہتا۔مجھے احساس نہ تھا کہ میں اتنی با معنی بات کر رہا ہوں ۔میں تو ویسے ہی بن سوچے سمجھے برسبیل تذکرہ کچھ کہنے کے لئے بات کر رہا تھا۔“
مثلاً اگر وہ دفعتاً خاموش ہوجاتا تو جمیل پوچھتا۔
کیوں نقی ! تم کس سوچ میں پڑے ہو ؟۔“
نقی چونکتا۔کیا میں واقعی سوچ میں پڑا تھا۔“
ہاں ہاں ۔“ راز چٹکی بجا کر گنگناتا۔کس سوچ میں بیٹھا ہوں آخر مجھے کیا کرنا۔“
اس پر نقی چیختا ۔یار اس کا اگلا مصرعہ کیا ہے۔؟“
راز اپنے آپ پر کیفیت طاری کر کے ،آنکھوں میں مستی پیدا کرکے دوسرا مصرع گاتا۔
دلبر کا کہا کرنا یا دل کا کہا کرنا۔“
انہوں۔ نقی چلّاتا ۔بات نہیں بنی۔کش مکش کا سوال ہی پیدا نہیں‌ ہوتا۔بھئی دلبر کا کہا کرنا ۔اور کیا ؟“








تم نے یہ تو بتایا ہی نہیں‌ کہ کیا سوچ رہے تھے۔“ جمیل اُسے چھیڑتا۔
ٹھہرو۔نقی چیختا۔ ایک سیکنڈ -------- ہاں ٹھیک ٹھیک میں‌سوچ رہا تھا واقعی ۔ٹھیک سوچ رہا تھا کہ کیا واقعی مجھ میں‌اس قدر ضبط ہے کہ دو دن بیوی کو پیٹے بغیر رہ سکوں۔نقی اس قدر معصومیت سے کہتا جیسے بیوی کو پیٹنا خاوند کے لئے نارمل بات ہو بلکہ اس کا فرض ہو۔
یا راہ چلتے ہوئے دفعتاً نقی رک جاتا۔یار ! عجیب بات ہے۔وہ گویا اپنے آپ سے مخاطب ہو کر کہتا۔ہے نا عجیب بات۔“
کیا بات ہے۔؟“ ایلی پوچھتا۔
یار حد ہوگئی۔نقی سر جھکائے ہوئے سنجیدگی سے کہتا۔یہ جو نانک شاہی اینٹوں کی بنی ہوئی حویلی ہے نا یہ سامنے میں محسوس کرتا ہوں کہ میں اس حویلی سے پورے طور پر واقف ہوں اور اس کا ایک ایک کمرہ اور دالان جانتا ہوں۔حالانکہ میں کبھی اس کے اندر داخل نہیں ہوا۔بلکہ اس سے پہلے میں نے اسے باہر سے بھی کبھی نہیں دیکھا۔اس راستے سے کبھی آیا ہی نہیں میں۔ ہے نا عجیب بات۔“ یہ کہہ کر نقی آنکھیں بند کر لیتا اور پھر کہتا۔داخل ہوتے ہی ڈیوڑھی ہے۔دو دروازے ہیں۔بایاں دروازہ ایک کمرے میں کھلتا ہے ۔اس سے ملحقہ ایک دالان ہے۔دالان میں ہرن کے سینگ دیوار پر لگے ہوئے ہیں۔“
ارے ۔ راز چلّاتا ۔اب ختم بھی کرو گے یہ رام کہانی۔ جانتے ہو تم حویلی کو تو پھر کیا ہوا؟“ چھوڑ اب ۔“
نہیں یار۔ وہ چلّاتا۔ایسا کیوں ہے۔وہ ضدّی بچّے کی طرح اڑ جاتا۔








اس پر جمیل قہقہہ مارتا ۔ بتاؤ یار کوئی اسے کہ ایسا کیوں ہے ورنہ یہ اڑ کر یہیں کھڑا رہے گا عمر بھر۔“








ارے یار چھوڑو اب اس قصّے کو۔راز چلّاتا۔سنو تمہیں‌ شعر سناؤں ۔اور وہ اپنے مخصوص انداز سے گنگنانے لگتا۔








تلخ گھونٹ۔








٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪








نقی کے مشاغل بے حد دلچسپ تھے۔وہ حقّہ پیتا تھا۔چائے کا شوقین تھا۔بحث میں بڑے شوق سے حصّہ لیتا تھا۔شطرنج اور تاش کھیلتا تھا۔شعر کہتا تھا اور فرصت کے اوقات میں کپڑے پر سوئی تاگے سے رنگین چڑیاں کاڑھتا تھا اور ہر رات بیگم کو پیٹتا تھا۔








راز کو گانے کا شوق تھا۔جب وہ گاتا تو اس کی آنکھوں میں عجب مستی چھلکتی۔برج کھیلنے کا شوقین تھا بشرطیکہ سٹیکس سے کھیلا جائے اور شوق کے باوجود ہارنے لگتا تو دفعتاً یا تو اُسے کام یاد آ جاتا اور یا ویسے ہی کھیلنا چھوڑ دیتا۔اُس کی باتیں رنگین ہوتی تھیں ۔اپنے والد صاحب کے متعلق قصّے سنانے کا خبط تھا جو بنگال کی طرف کسی علاقے میں بڑے عہدے پر معمور تھے۔








جمیل ایک خاموش لڑکا تھا لیکن اس کا دل جذبات اور ذہن خیالات سے بھرا ہوا تھا۔وہ چاہتا تھا کہ اپنے جذبات اور خیالات کا اظہار کرے ۔لیکن جہاں تک بات کرنے کا تعلق تھا اُس پر ایک حجاب مسلّط تھا۔اس حجاب کی وجہ سے اس کی طبعی جولانی گھٹ کر رہ گئی تھی۔غالباً اس کی وجہ احساسِ کمتری کی شدّت تھی۔وہ ملنسار تھا لیکن اس کی یہ عادت گونگے پن کی وجہ سے اذیت میں بدل چکی تھی۔پھر ایک روز اسے اتفاق سے اس اذیت سے نکلنے کا ایک راستہ مل گیا اور اُسے علم ہو گیا کہ شراب کے چند گھونٹ پینے سے وہ اپنے گونگے پن کو دور کر سکتا ہے اور سوسائٹی میں ایسے ہی چہک سکتا ہے جیسے راز چہکا کرتا تھا ۔غالباً اس سے پہلے اسے یہ معلوم نہ تھا کہ اس کا دل اور ذہن جذبات و خیالات سے بھرے ہیں ۔اس روز اسے اپنے خیالات و جذبات اپنی زبان سے سن کر حیرت ہوئی اور اسے یقین ہوگیا کہ اس نے چھپے ہوئے خزانے کی کنجی پالی ہے۔








نقی کو شراب سے خاص دلچسپی نہ تھی چونکہ اُس کی شخصیت ہی میں مستی کا عنصر تھا ۔راز کے لئے شراب محض ایک پھلجھڑی کی حیثیت رکھتی تھی جس سے کھیلنا اسے پسند تھا لیکن اس پھلجھڑی کی حیثیت محض تفریحی تھی۔وہ اپنے شخصیت کے اظہار کے لئے اس کا محتاج نہیں تھا ۔ایلی کے لئے شراب کا اثر خاصہ تکلیف دہ ہوتا تھا پی کر اُسے وہ دن یاد آ جاتا جب وہ اور منصر ہوٹل میں بیٹھے تھے۔جب منصر نے چلّا کر کہا تھا۔“ بیرا دو بڑے۔“








اور ایلی کو یہ فکر دامن گیر ہو گیا تھا کہ شراب پلانے سے منصر کا مقصد صرف یہ ہے کہ ترنگ میں آکر ایلی سادی کے اس رومان کا راز کہہ دے اور ایلی نے عزم کرلیا تھا کہ چاہے وہ نشے میں دھت کیوں نہ ہو جائے وہ منصر کو حقیقتِ حال سے آگاہ نہیں کرے گا اور یہ سوچ کر وہ پتھر بن گیا تھا۔اس کے بعد جب کبھی اسے شراب پینے پر مجبور کیا جاتا تو اس پر وہی کیفیت طاری ہو جاتی۔وہ محسوس کرتا جیسے اس کے ساتھی منصر ہوں اور اس کا راز پا لینے کے لئے زبردستی پلا رہے ہوں۔


























ایلی نے ذہنی طور پر اپنے آپ کو کئی بار سمجھایا تھا کہ یہ خیال غلط ہے وہاں کوئی منصر نہیں۔پینے سے مقصد صرف تفریح ہے لیکن سب بےکار ۔گلاس ہونٹوں سے لگاتے ہی خواہ مخواہ وہی کیفیت طاری ہوجاتی۔شائد اُسے ڈر تھا کہ کہیں شہزاد کی بات نہ چھیڑ دے۔بہرحال شراب ہمیشہ کے لئے اُس پر حرام ہو چکی تھی۔اُس کے لئے وہ گھونٹ تلخ بن جاتا۔جس کے بعد اس پر جمود طاری ہوجاتا۔جسم منوں بوجھل ہو جاتا۔سر چکراتا۔








ایلی کے لئے جمیل، نقی اور راز کی محفلیں یوں تھیں جیسے کسی طوفان زدہ ڈولتی ہوئی کشتی کے لئے کنارہ ہو۔وہ چاہتا تھا کہ ہر وقت اسی محفل میں بیٹھا رہے لیکن جب وہ وہاں پہنچتا تو نہ جانے کس اصول کے تحت اسے اپنی گزشتہ تباہی پھر سے یاد آجاتی اور وہ محفل میں بیٹھ کر پھر سے اپنے آپ میں کھو جاتا۔کنارے پر پہنچ کر پھر سے طوفان بیتنا شروع کر دیتا۔








ایلی نے اپنا راز جمیل سے نہ کہا لیکن جمیل کے طرزِ عمل سے معلوم ہوتا تھا جیسے وہ سب جانتا ہو سمجھتا ہو اور اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ تھا کہ خود جمیل نے کبھی شہزاد کی بات نہ کی چھیڑی تھی۔جمیل نے ایلی کو کبھی نہ جتایا تھا کہ وہ دکھی ہے ۔شائد اس لئے کہ اسے مزید دکھ نہ ہو۔جمیل نے ایلی کی آمد پر اس کی کیفیت بھانپ کر خاموش ،بے لاگ ہمدردی کی گود پھیلا دی تھی اور شائد اس گود نے ایلی کو تباہ ہونے سے بچا لیا تھا۔








ایلی کی آمد پر جمیل کی تمام توجہ ایلی پر مرکوز ہو گئی۔وہ اس کی چھوٹی چھوٹی ضروریات کا خیال رکھتا تھا۔اپنی گونگی مٹھاس سے اس کی تلخی اور اضطراب کو دور کرتا اور ہر وقت اس کے ساتھ رہتا۔اس پر جمیل کی بیوی جو طبعاً خاوند کو جذب کرلینے کی قائل تھی۔بگڑ گئی۔نتیجہ یہ ہوا کہ جمیل کے گھر میں مشکلات پیدا ہوگئیں۔








گھر میں اُسے کتابوں میں منہمک دیکھ کر علی احمد ہنستے۔








دیکھو نا نصیر کی ماں ! ہمارا ایلی بھی عجیب شئے ہے ۔جب پڑھنے کے دن تھے تب سنیما دیکھتا رہا اور اب جب پڑھنے کے دن ختم ہو چکے ہیں تو کتابوں کا کیڑا بنا ہوا ہے۔ہی ہی ہی ہی۔“ وہ ہنسے --------- کیوں ایلی۔؟ “








اب اللہ رکھے جوان ہو گیا ہے ۔“ راجو کہتی۔اب اس کی شادی کی فکر کیجئے نا۔“








یہ کسی کی شادی کی فکر کیوں کرنے لگے۔“ شمیم بولتی۔یہ تو اپنی ہی تانک جھانک میں لگے رہتے ہیں۔“








لو نصیر کی ماں۔“ وہ ہنستے۔اسی کے لئے تانک جھانک کرتا ہوں ۔تم سمجھتی ہو اپنے لئے کرتا ہوں۔لاحول ولا قوۃ ۔“ وہ چلّاتے۔








وہیں کیوں نہیں کر دیتے جہاں وہ چاہتا ہے۔“ راجو بولتی۔








وہاں کیسے کر سکتے ہیں۔“ علی احمد جواب دیتے۔








کیوں نہیں کر سکتے۔؟“








وہ لوگ تو بہت بڑے ہیں اس لئے۔“








پھر کیا ہوا؟۔“ شمیم بولتی۔








میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی۔“ راجو ہنستی۔








بھئی تمہارے ہی بھلے کی سوچتا ہوں ۔“ علی احمد منہ پکا کر لیتے۔








ہمارے بھلے کی ،وہ کیسے؟۔“








بھئی۔“ علی احمد جواب دیتے ۔اگر وہاں ایلی کا بیاہ کردوں تو کیا وہ تمہاری قدر کریں گے نصیر کی ماں ! تمہیں دیکھ کر ناک بھوں چڑھائیں گے۔کہیں گے یہ کیا چیز ہے نہ شکل نہ صورت نہ منہ نہ ماتھا نہ تہذیب نہ تعلیم۔یہ کیا چیز ہے۔ہی ہی ہی ہی۔وہ ہنستے۔لو بھئی شمیم تم ہی








انصاف کرو۔ میرا کیا ہے۔ اپنا گزارہ تو ہو جائے گا۔ چند جماعتیں بھی پڑھی ہیں۔ اچھی بری بات بھی کر لیتا ہوں لیکن نصیر کی ماں کا کیا ہو گا۔ ہی ہی ہی ہی۔ اب نہیں بولتی۔ ہو گئی بولتی بند۔“ ان کا قہقہہ گانجتا۔


“ آپ سے کون سر کھپائے۔“‌ راجو جواب دیتی اور پھر اٹھ کر اندر چلی جاتی۔ اس پر علی احمد بھی اپنی میلی دھوتی سنبھلتے ہوئے اس کے پیچھے چل پڑتے۔








“ اب دے نا جواب۔ کیوں نصیر کی ماں۔“








“ نہ میں نہیں دیتی۔“








“ کیسے نہیں دے گی۔ ہی ہی ہی ہی۔“ وہ ہنستے۔








“ چھوڑو بھئی۔“ اند راجو تنک کر نخرے سے کہتی۔








“ حافظ قرآن ہوتی تو چھوڑ بھی دیتے لیکن تو کیا سمجھے گی اس لطیف اشارے کو۔ ذات کی ہوئی رنگڑ، پلی دولت پور میں۔ ہی ہی ہی ہی۔“








دفعتاً شمیم اور اس کی دونوں بچیاں نعمہ اور انجم محسوس کرتیں کہ ٹین کا سپاہی نمودار ہو رہا ہے اور وہ گھبرا کر کھسک جاتیں اور اندر اپنے کمرے میں جا پناہ لیتیں اور ایلی کو سمجھ میں نہ آتا کہ کیا کرے۔ اور وہ اٹھ کر جمیل کر طرف چل پڑتا۔








دیپال پور








چار ایک ماہ کے بعد ایلی کی تعیناتی دیپالپور ہو گئی۔








دیپالپور ایک وسیع صحرا تھا جس میں یہاں وہاں دور دور مکانات بنے ہوئے تھے۔ اس وسیع صحرا کو دیکھ کر ایلی نے محسوس کیا کہ جیسے بطخ تالاب میں آ پہنچی ہو۔ ایلی ذہنی طور پر خود ایک ویرانہ تھا۔ دیوانہ ویرانے میں مل گیا۔ اسے ریت کے اس پھیلاؤ کو دیکھ کر سکون سا محسوس ہوا۔ جیسے وہ اپنے گھر آ گیا ہو۔ وہاں پہنچ کر ایلی نے جانا کہ خانپور میں محفل جما کر اپنے آپ کو بہلانے کی کوشش غلطی تھی۔ اس کی زندگی میں دو رخی پیدا ہو رہی تھے۔ وہ دل کے ویرانے کو بھولنے کے لیے نخلستانوں کا متلاشی تھا۔ دیپالپور پہنچ کر اس نے شدت سے محسوس کیا کہ اپنی اصلیت کو بھولنے کی کوشش سے سکون حاصل نہیں ہوتا بلکہ اپنی اصلیت میں ڈوب جانے سے حاصل ہوتا ہے۔ اسے تسلیم کر لینے میں راحت ہے جھٹلانے میں نہیں۔








دیپالپور میں اس کا ساتھی کوئی نہ تھا۔ کوئی دوست نہ تھا۔ اس لیے وہ اکیلا ریت کے تودوں کی طرف نکل جاتا اور پھر کسی ٹیلہ نما تودے کے سائے میں بیٹھ کر ماضی کی یاد میں کھو جاتا۔








ان دنوں وہ سادی کو بھول چکا تھا۔اس کے صبح و شام شہزاد کے خیال سے پر تھے۔ شہزاد اس کی زندگی پر یوں مسلط و محیط تھی کہ کسی اور کی گنجائش نہ رہی تھی۔ سادی کا خیال ------ ایک مسرت بھرا جام تھا۔ جس میں رنگ تھا لطافت تھی۔ اس کے برعکس شہزاد کے خیال میں تلخی تھی دکھ تھا اور اسی لیے شدت تھی۔ شہزاد نے اسے بے عزت کر کے اپنی محفل سے نکال دیا تھا۔ اس کے احساس خودی پر کاری زخم لگایا تھا۔ جسے یاد کر کے وہ تڑپتا تھا اور اس تڑپن، گھاؤ اور شدت کی وجہ سے شہزاد کا خیال اس کے دل میں گھر کر چکا تھا۔ ایلی دراصل ایک غم خور نوجوان تھا اور اس کا ایمان تھا کہ عشق کو محرومی اور غم سے تعلق ہے ------ اس کے برعکس مسرت اور خوشی محض تفریح یا عیاشی کا نام ہے۔ شہزاد سے ایلی کی محبت اب عشق میں بدل چکی تھی۔ اس لیے آہیں بھرنا، ریت کے تودوں تلے بیٹھ کر رونا، کروٹیں لینا اس کا محبوب مشغلہ بن چکا تھا۔








اس کے علاوہ شہزاد کا خیال آتے ہی اسے اپنے رقیب کا خیال آ جاتا۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے قریب بیٹھے ہوں گے۔ نگاہوں میں نگاہیں ڈالے، ہاتھ میں ہاتھ دیئے وہ ہنس رہے ہوں گے۔ اشاروں میں باتیں کر رہے ہوں گے، عہد و پیمان ------ اب وہ مل رہے ہوں گے۔ قریب اور قریب۔








ایلی کے دل پر ایک چوٹ لگتی۔ وہ گھائل ہو کر تڑپتا۔ اس تڑپنے میں اسے لذت محسوس ہوتی یا شاید دل ہی دل میں وہ انتقام لینے کی آرزو کو پال پوس رہا ہو۔








دیپالپور میں ‌پہلی مرتبہ اسے بچوں کو پڑھانے کا موقعہ ملا۔ لیکن دقت یہ تھی کہ وہاں کے بچے قطعی طور پر بچے نہ تھے۔ پہلی مرتبہ جب وہ جماعت میں داخل ہوا تو انہیں دیکھ کر حیران رہ گیا۔ لیکن جلد ہی وہ اپنے آپ میں کھو گیا۔ اسے اتنی فرصت نہ تھی کہ دوسروں کے متعلق سوچے۔








اس کے ہم کار اساتذہ سب کے سب گویا ایک سانچے میں ڈھلے تھے۔ ان کی چال ڈھال، بول چال میں ایک رسمی اور مصنوعی وقار تھا۔ ان کی حرکات بھدی اور بے جان تھیں۔ اور ان کے خیالات ایک ہی سمت میں چلتے تھے۔ ایلی نے شدت سے محسوس کیا کہ وہ سب کولہو کے بیل تھے۔








محمود








سارے مدرسے میں صرف ایک شخص تھا جس کا انداز مختلف تھا۔ اس کا نام محمود تھا اور وہ سکول کا کلرک تھا۔ شاید اس فرق کی وجہ یہ تھی کہ وہ استاد نہ تھا۔ تو کیا اساتذہ کا وہ رویہ اور انداز بچوں کو پڑھانے کے مشغلے کی قیمت تھی جو وہ ادا کر رہے تھے۔ ایلی گہری سوچ میں ڈوب گیا۔








اس کے علاوہ محمود کی عمر بہت چھوٹی تھی۔ وہ عنفوان شباب میں تھا۔ اگرچہ اس کی شادی ہو چکی تھی اور ایک بچی بھی تھی۔ محمود کا قد چھوٹا تھا اور اس کا جسم گھٹا ہوا تھا۔ بال گھنے اور بھور کالے تھے۔ رنگ میلا میلا سا تھا۔ بھنوئیں گھنی تھیں۔ پیشانی سے شدت کا اظہار ہوتا تھا۔ ہونٹوں میں شرارت دبی ہوئی تھی۔ اس کی آنکھوں میں غصہ جھلکتا اور بھوؤں سے شوخی اور الحاد ٹپکتا اور ایسے محسوس ہوتا جیسے وہ رومی ٹوپی جو وہ پہنتا تھا اور نمازیں جو وہ باقاعدہ پڑھتا تھا محض جھوٹ تھیں۔








محمود کے کردار کا سب سے بڑا جزو جذبہ اور اس کی شدت تھی۔ یہ جذبہ گھڑی کے پنڈولم کی طرح مذہب اور عورت کے درمیان گردش کرتا تھا ------ اس کے علاوہ اس میں بے پناہ ذہانت تھی۔








محمود سے مراسم پیدا ہونے کی وجہ محض یہ تھی کہ ایلی کو جو مکان رہنے کے لیے ملا وہ محمود کے مکان کے بالکل قریب تھا۔ ابتدا میں محمود کے لیے کوئی جاذبیت محسوس نہ کی تھی۔ غالباً نہ ہی ایلی اسے متاثر کر سکا تھا۔ چند ایک مرتبہ ان کی ملاقات ہوئی۔ پھر محمود نے آنا جانا شروع کر دیا۔ محمود کو صرف دو چیزوں سے دلچسپی تھی۔ ایک تو ایلی کی کتابوں سے اور دوسرے اس کے مکان کے جغرافیے سے۔ چونکہ اس کے چوبارے سے محلے کے بیشتر مکانات دکھائی دیتے تھے۔ محمود کو عورتیں دیکھنے کا شوق تھا اور عورتوں کے لیے اس کی شخصیت میں ایک انوکھی جاذبیت تھی۔ محمود کو دیکھ کر وہ چڑ جاتیں۔ انہیں یوں غصہ آنے لگتا جیسے انہیں چھیڑ دیا گیا ہو۔ پھر نہ جانے کس اصول کے تحت وہ غصہ دفعتاً روپ بدل لیتا اور عورت محمود کو ملنے کے لیے بڑی بے باکی سے باہر نکل آتی۔








ایلی کو محمود کی اس خصوصیت کو نہ تو علم تھا اور نہ اس سے کوئی دلچسپی تھی۔ ان کے میل ملاپ کی تمام تر وجہ انگریزی زبان تھی۔ اگرچہ وہ فقط میٹریکولیٹ تھا لیکن نہایت اچھی انگریزی لکھتا تھا اور ایلی کو یہ جان کر حیرت ہوئی کہ محمود کنسائز آکسفورڈ ڈکشنری کو دو مرتبہ یوں پڑھ چکا تھا جیسے ناول پڑھتے ہیں۔








چند ماہ دیپالپور رہنے کے بعد ایلی کو دھرم سالہ بھیج دیا گیا جہاں صحرا کی جگہ پہاڑوں نے لے لی اور تودوں کے نیچے بیٹھنے کی بجائے وہ چیل اور دیوارون تلے بیٹھ کر آہیں بھرنے میں مصروف ہو گیا۔








دھرم سالہ سکول میں وہ اکیلا مسلمان ٹیچر تھا۔ چونکہ فارسی کا مولوی چند ایک ماہ ملازمت کرنے کے بعد لمبی رخصت لے کر وہاں سے چلا گیا تھا۔ وہاں پہلی مرتبہ اسے احساس ہوا کہ وہ مسلمان ہے۔ اس سے پہلے ایلی نے کبھی مذہب کے نقطہ نظر سے زندگی کو نہ دیکھا تھا۔بلکہ جہاں تک مذہب کا تعلق تھا وہ اس سے قطعی طور پر کورا تھا۔ اگرچہ دسویں جماعت میں اس نے کئی ایک روزے رکھے تھے اور زندگی بھر وہ عید کی نماز پڑھنے جاتا رہا تھا۔








صرف علم کی ہی بات نہیں جذبے کے لحاظ سے بھی وہ مسلمان نہ تھا۔ پہلی مرتبہ جب منصر نے اس کے روبرو اپنے اسلامی جذبے کی وضاحت کی تھی تو اسے بات سمجھ میں نہ آئی تھی اگرچہ بات کی رنگینی سے متاثر ہوا تھا۔








اس روز وہ دونوں سفید منزل میں بیٹھے ہوئے تھے۔ منصر نے جذبہ اسلام کی بات کی تو ایلی کی ہنسی نکل گئی۔ چونکہ منصر میں کوئی بات بھی اسلامی رنگ کی نہ تھی۔ وہ شراب پیتا تھا۔ نماز نہیں پڑھتا تھا۔ روزے نہیں رکھتا تھا اور عاشق مزاج تھا۔








ایلی نے طنزاً منصر سے کہا۔








“ اچھا تو آپ مسلمان ہیں؟“








“ بالکل۔“ منصر نے جوش میں آ کر بولا۔ “ الحمد للہ کہ میں مسلمان ہوں۔“








“ سمجھ میں نہیں آتا۔“ ایلی نے پوچھا۔ “ آپ کیسے مسلمان ہیں۔“








“ ٹھہریئے۔“ منصر نے ایک سیکنڈ کے لیے سوچ میں‌پڑ گیا۔ پھر بولا۔ “ دیکھیئے اگر اس وقت چھت پھٹ جائے اور جبرائیل اتریں اور آ کر مجھ سے کہیں۔ مجھے باری تعالٰے نے بھیجا ہے۔ فرمایا ہے کہ انصار منصر کو ہمارا سلام پہنچا دو اور کہو کہ اسلام جھوٹا مذہب ہے اور عیسائیت سچی ہے۔ تو میں جبرائیل سے کہوں گا کہ باری تعالٰے کو میرا سلام دو اور کہو حضور کا ارشادِ گرامی موصول ہوا۔ آپ کا حکم سر آنکھوں پر لیکن انصار منصر مسلمان ہے اور مسلمان ہی رہے گا۔“








ایلی اس نقطہ نظر سے قطعی ناواقف تھا۔ صرف ناواقف ہی نہیں اس لیے اس میں ایسے جذباتی نقطہء نظر کو سمجھنے کی اہلیت ہی نہ تھی۔ خصوصاً مذہب کے بارے میں۔ اس کے برعکس جذباتی طور پر وہ مسلمان ہونے پر شرمندگی محسوس کیا کرتا تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ مذہبی نقطہء نظر کا قائل ہونا ذہنی وسعت کے فقدان کا اظہار کرنے کے مترادف ہے۔ اسی وجہ سے وہ نمائشی طور پر مذہب سے بے تعلقی اور بےزاری کا اظہار کرنے کا دلدادہ تھا۔ اور کفروالحاد کی بات کرنے میں دلچسپی لیا کرتا تھا۔








رام دین








دھرم سالہ میں پہلی مرتبہ ایلی کو احساس ہوا کہ وہ مسلمان ہے۔








اس روز وہ حسبِ معمول پڑھا رہا تھا۔ پڑھاتے ہوئے اس نے پیاس محسوس کی۔








“ دین محمد۔“ وہ چلایا۔ چونکہ اس کی جماعت میں صرف ایک مسلمان لڑکا تھا جو اسے پانی لا کر دیا کرتا تھا۔








اس روز دین محمد حاضر نہ تھا۔








“ رام لال۔“ وہ بولا۔ “ مجھے ایک گلاس پانی لا دو۔“








رام لال جوں کا توں اپنے ڈسک پر کھڑا رہا۔








“ تم جاتے نہیں۔“ ایلی نے پوچھا۔








“ جی ماشٹر جی۔ میں ہندو ہوں۔“








“ تو کیا ہوا؟“ ایلی ہنسنے لگا۔








“ جی میں بھرشٹ ہو جاؤں گا۔“








ایلی قہقہہ مار کر ہنس پڑا۔ “ دیکھو رام لال۔“ وہ اسے سمجھانے لگا۔ “ اگر تم میرے ہاتھ کا پانی پیو گے تو بے شک بھرشٹ ہو جاؤ گے۔ لیکن اگر تم مجھے پانی لا دو تو اس میں بھرشٹ ہونے کی کیا بات ہے؟“








اس پر بھی رام لال جوں کا توں کھڑا رہا۔








“ جاؤ نا۔“ ایلی کو غصہ آ گیا۔








“ جی میں بھرشٹ ہو جاؤں گا۔“ وہ بولا۔








“ اچھا تم جاؤ۔ مکند۔“








مکند بھی چپ چاپ کھڑا ہو گیا۔








ایلی کے دل کو ٹھیس لگی۔ اس نے جماعت کی طرف دیکھا۔ سبھی لڑکے سر لٹکائے بیٹھے تھے۔








ایلی کی نگاہوں سے گویا پردہ ہٹ گیا۔








“ میں مسلمان ہوں۔“ نہ جانے کون اس کے دل میں چیخ رہا تھا۔








“ الحمد للہ کہ میں مسلمان ہوں۔“ آواز بلند ہوتی جا رہی تھی۔ وہ جماعت سے باہر نکل گیا۔








اگلے روز ابھی وہ رام دین کے بھنور میں ڈبکیاں کھا رہا تھا کہ ڈاکیا آ گیا اور اس نے ایک لفافہ ایلی کے ہاتھ میں تھما دیا۔ لفافے پر غیر مانوس خط میں اس کا پتہ لکھا ہوا تھا۔ نہ جانے کس کا خط ہے۔ پتے بھی تو کئی ایک لکھے ہوئے تھے۔ علی پور کا پتہ، خانپور کا پتہ اور دھرم سالہ کا۔ جابجا مہریں لگی ہوئی تھیں۔








اس نے لفافہ کھولا۔ ایک چھوٹے سے کاغذ پر سرخی میں ایک شعر لکھا ہوا تھا۔














وابستہ میری یاد سے کچھ تلخیاں بھی تھیں


اچھا کیا کہ مجھ کو فراموش کر دیا​














اسے کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ پھر دفعتاً اسے خیال آیا اور اس نے لفافے کی مہریں پڑھنے کی کوشش کی۔ لفافے کی پشت پر صاف طور پر مہر لگی ہوئی تھی۔ گروکل سٹیٹ۔








“ ارے۔“ اس کا دل ڈوب گیا۔ وہ خط کو سامنے رکھ کر بیٹھ گیا۔








عجیب سی سیاہی تھی۔ نہ وہ سرخ تھی نہ ------ شعر کے نیچے ایک دھبہ سا پڑا تھا۔ دفعتاً اسے خیال آیا اوہ ۔ خون ۔ پھر اسے معلوم نہیں۔








وہ دھندلکا۔ وہ خلا۔








وہ بھول گیا کہ وہ رام دین ہے۔ کمرے کی کارنس پر سادی کی مورتی رقص کرنے لگی۔ وہ رقص مسرت بھری حرکات سے عاری تھا۔ اس کے بال کھلے تھے۔ سیاہ لباس زیب تن تھا۔ نگاہوں میں حزن و ملال تھا۔ نرت میں اداسی اور غم کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔








اس کے بعد ایلی کا خیال سادی پر مرکوز ہو گیا۔ شہزاد کی صورت دھندلی پڑتی گئی۔ صفدر کے قہقہے بےمعنی ہوتے گئے۔








“ ٹھیک ہے۔ اگر وہ صفدر کو چاہتی ہو تو ٹھیک ہے بلکہ اور بھی اچھا ہوا۔ جان چھوٹی سو لاکھوں پائے۔“








سامنے سادی کھڑی مسکرا رہی تھی۔ دھرم سالہ کے سرسبز پہاڑوں پر دوڑ رہی تھی۔ اسے بلا رہی تھی۔ ایلی نے سونٹا اٹھا لیا۔ کندھے پر بیگ ڈال لیا اور باہر نکل گیا۔








اسی طرح اس نے دو ماہ بسر کر دیئے۔ وہاں وہ صرف دہ ماہ کے لیے بھیجا گیا تھا۔ دو ماہ وہ پہاڑوں کی خاک چھانتا رہا۔ سادی کے ساتھ وادیوں اور چوٹیوں پر گھومتا رہا۔








وہ اسے کہتا۔“ نہیں نہیں سادی۔ میں نے تمہیں فراموش نہیں کیا۔ کیسے فراموش کر سکتا ہوں لیکن کیا کروں۔ میرے بس کی بات نہیں۔ کاش کہ تم والد صاحب کی رضامندی کی شرط نہ لگاتیں۔“








اور سادی جواب میں کہتی۔ “ میرا بس بھی تو نہیں چلتا۔ میں کیا کروں۔“








اور پھر وہ دونوں بانہہ میں بانہہ ڈال کر چل پڑتے جیسے اس مجبوری کو بھولنے کی کوشش میں‌سرگراں ہوں۔








ہیڈ ماسٹر








دھرم سالہ کے بعد اس کی تعیناتی جاورا میں ہو گئی اور وہ جاورا چلا گیا۔ جاورا لائلپور کے قریب ایک قصبہ ہے۔ وہاں کا مدرسہ نہایت فراخ اور خوبصورت تھا اور اس کے ساتھ بہت فراخ گراؤنڈ اور باغ اور پارک ملحق ہے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ ایک کالج ہو۔








جب پہلے روز اس نے سکول کا بینڈ دیکھا جس میں‌ گیارہ بیگ پائپ بینیں بج رہی تھیں تو ایلی پر نشہ سا طاری ہو گیا۔








سب سے حیران کن چیز جا جاورا سکول میں‌ نظر آئی، سکول کا ہیڈ ماسٹر تھا۔ اس نے کئی ایک سکولوں کے ہیڈ ماسٹر دیکھے تھے۔ وہ سب گویا ایک سانچے میں ڈھلے ہوئے تھے۔ ان کے چہروں پر رسمی وقار اس قدر چھایا رہتا تھا، جیسے دور کا سفر کرنے کے بعد جوتے پر غبار کی تہ جم جاتی ہے۔ غبار کی اس دبیز تہہ کی وجہ سے ان کے چہرے بے حس اور مردہ نظر آتے تھے۔ ان کی گردنیں گویا مکلف ہوتیں جو بڑے تکلف سے حرکت کرتیں۔ آنکھیں نہ تو ہمدردی نہ انبساط کی چمک سے واقف ہوتیں۔ وہ دیکھتی نہیں تھیں بلکہ کریدتی تھیں۔ نکتہ چینی کرتیں۔ وہ سب پھونک پھونک کر قدم رکھتے تھے۔ ایک مخصوص انداز سے کھانستے۔ ایلی انہیں دیکھ کر لرز جاتا تھا۔ جھوٹے وقار کے حصول کے لیے وہ کتنی بڑی قیمت ادا کر رہے تھے۔ انہوں نے اپنے آپ پر زندگی حرام کر رکھی تھی۔ اور وہ سب علم کی دولت سے کورے تھے چونکہ ان میں طلب علم نہ تھی۔ طلب کیسے ہوتی جبکہ انہیں کامل یقین تھا کہ وہ جانتے ہیں۔ اس کے دلوں میں یہ شبہ کبھی پیدا نہیں ہوا تھا کہ وہ جو جانتے ہیں شاید غلط ہو۔ شاید اس میں ترمیم کی ضرورت ہو۔ وقت کے تقاضے کے مطابق ردوبدل کی ضرورت ہو۔ انہیں دیکھ کر ایلی کے دل پر خوف مسلط ہر جاتا تھا۔ کہ ایک روز وہ بھی ہیڈ ماسٹر بن جائے گا۔ ہاتھ میں چھڑی تھام لے گا۔ آنکھوں سے دیکھنا چھوڑ کر گھورنا شروع کر دے گا اور بچوں کے دل میں ویسی ہی نفرت و حقارت پیدا کرئے گا۔








جاورا سکول کا ہیڈ ماسٹر قطعی طور پر مختلف تھا اور یہ امر ایلی کے لیے باعث تعجب اور مسرت تھا۔ اس کا نام شیخ مسعود تھا۔ وہ چالیس کے لگ بھگ ہو گا۔ جسم گٹھا ہوا۔ کلین شیو۔ آنکھوں میں جستجو اور چمک اور انداز میں ہیڈ ماسٹریٹ نام کو نہ تھی۔








“ آئیے آصفی صاحب۔“ وہ ایلی کو دیکھ کر چلایا۔ “ تو آپ ہیں ہمارے نئے ٹیچر۔ اگر آپ تعیناتی کا خط نہ دیتے مجھے کچھ دیر اور تو میں کہنے ہی والا تھا کہ آپ کون سی جماعت میں داخلہ چاہتے ہیں۔“ اس نے بھرپور قہقہہ لگایا۔ “ اب آپ ہی بتائیے آصفی صاحب۔ اگر سکول میں ایسے اساتذہ آ جائیں تو کس قدر مشکل ہو جاتی ہے۔ کیسے پتہ چلے کہ استاد کون ہے اور سٹوڈنٹ کون؟ خیر خیر مگر ایک بات ہے۔ آپس کی بات ہے میں کسی سے کہوں گا نہیں۔ یہ بتائیے کہ جماعت کو سنبھال بھی لیں گے۔“ شیخ مسعود نے پھر قہقہہ لگایا اور پھر ایلی کی گھبراہٹ کو سمجھ کر فوراً بات بدلی۔ “ چلئے وہ تو بعد میں‌ دیکھا جائے گا۔ پہلے کھانا کیوں نہ کھا لیں۔ کہتے ہیں پہلے طعام پھر کلام۔ آئیے گھر سے میرا کھانا آیا ہوا ہے اور وہ مقدار میں اتنا ہوتا ہے کہ دو شخص پیٹ بھر کر کھا لیں پھر بھی بچ جاتا ہے۔“








شیخ مسعود باتیں کرتے ہوئے آگے آگے جا رہے تھے۔ ایلی ان کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔








“ لیکن ایک بات ہے۔“ وہ ڈھکے ہوئے دسترخوان کے قریب جا کر کہنے لگا۔ “شرط لگاؤ۔ اگر میری بیوی نے آج دال کے علاوہ کچھ بھیجا ہو۔ خدا کی قسم۔ بیگم ولی اللہ سے کم نہیں۔ جب مہمان آنا ہو سو فیصدی دال پکاتی ہے۔“








یہ کہہ کر شیخ نے دستر خوان ہٹا دیا اور برتن کو دیکھ کر بے تحاشہ قہقہہ لگایا۔








“ لو دیکھ لو آصفی صاحب۔ میں نے کہا نہ تھا۔ ہی ہی ہی ہی۔“ وہ قہقہے پر قہقہہ مارنے لگے۔








شیخ مسعود ایک عجیب شخصیت کا مالک تھا۔ اس کی طبیعت بیک وقت رسمی اور غیر رسمی تھی۔ کبھی وہ اعلٰی قسم کا سوٹ پہنے مدرسے میں آ جاتا اور انگریزی بولنا شروع کر دیتا۔ کبھی کمبل لپیٹے آ وارد ہوتا اور دہقانوں کی طرح باتیں کرتا۔ اسے کام کرنے کا جنون تھا اور وہ اکیلے بیٹھنے سے بے حد خائف تھا جیسے اسے خود سے ڈر لگتا ہو۔ دفتر میں بھی اکیلا نہ بیٹھتا تھا بلکہ اساتذہ کو بلا کر اپنے گرد ایک بھیڑ لگا لیتا اور پھر ان سے بے تکلف دوستانہ باتیں کرتا۔ ان کے روبرو گالیاں دیتا۔ قہقہے لگاتا، گالی دینا اس کی عادت تھی۔ یقین سے نہیں کہا جا سکتا تھا کہ وہ غصے میں گالی دے رہا ہے، بے تکلفی کے اظہار کے لیے یا ویسے ہی عادت پوری کرنے کے لیے۔ نہ جانے کس اصول کے تحت قہقہے مارتے مارتے دفعتاً وہ غصے میں آ جاتا اور پھر منظر ہی بدل جاتا۔ عام طور سے وہ بے تکلف گفتگو کے دوران میں اپنی طبیعت کی ستم ظریفی کے متعلق باتیں کرنے کا عادی تھا۔








“ میں وہ ------ شخص ہوں۔“ وہ گالی دے کر کہتا۔ “ جو گرگٹ کی طرح ادلتا بدلتا رہتا ہے۔ خدا کی قسم۔ آج تک اپنی طبیعت کا جنتر منتر سمجھ میں نہیں آیا۔ ہنسوں تو یقین نہ کیجئے کہ ہنس رہا ہوں۔ اور غصہ۔ غصہ تو اس حد تک آتا ہے مجھے اور اس قدر آناً فاناً کہ کچھ پتہ نہیں چلتا۔ ایک بندوق خریدی تھی کہ چور چکار سے محفوظ رہوں لیکن اسے کھول کر اس کے کل پرزے الگ الگ صندوقوں میں بند کر رکھے ہیں کہ جب تک انہیں اکٹھا کر کے جوڑوں تب تک شاید غصہ اتر جائے اور نہ بھی اترے تو بیگم دہائی مچا سکے۔“








اس کی باتیں بے جوڑ ہوتی تھیں۔ بیٹھے بٹھائے اسے کوئی نہ کوئی خیال آ جاتا اور وہ فوراً اٹھ بیٹھتا اور اس خیال کے مطابق عمل شروع کر دیتا۔








اس عجیب و غریب طبیعت کے باوجود ایلی کو شیخ مسعود بے حد پسند آیا لیکن دقت یہ تھی کہ شیخ مسعود ایلی کو کسی وقت اکیلا نہ رہنے دیتا تھا۔ سکول بند ہوتا تھا تو وہ اسے بلا لیتا۔








“ چلو آصفی صاحب۔ تمہیں شہر دکھا لاؤں۔ بڑے بڑے دلچسپ لوگ ہیں یہاں۔“








وہ دونوں شہر کی طرف چل پڑتے۔ راسے میں شیخ گپیں ہانکتا جاتا اور ہر آتے جاتے سے ملتا اور بے تکلفی سے باتیں کرتا۔








“ ارے۔“ چلتے چلتے وہ چونکتا۔ “ آج بدھ ہے ناں۔ آج تو مجھے چک بیس جانا تھا۔ ہے تانگے والے۔“ وہ شور مچا دیتا اور پھر زبردستی ایلی کو تانگے میں سوار کر کے وہ چک بیس کو چلے جاتے۔ شام کو جب وہ لوٹتے تو وہ زبردستی ایلی کو پکڑ لیتا۔








“ اب کھانا کھائے بغیر نہیں جانے دوں گا۔“








کھانا کھانے کے بعد وہ کوئی قصہ چھیڑ لیتا اور ایلی سوچتا کہ کب بات ختم ہو اور وہ اجازت حاصل کرئے۔








طبعی طور پر ایلی ایک تنہا شخص تھا۔ اس کی نشو و نما کے لیے تنہائی بے حد ضروری تھی جیسے پودوں کے لیے کھاد ضروری ہوتی ہے۔ سوسائٹی میں بیٹھ تو جاتا تھا اور بات بھی کر لیتا تھا لیکن اسے سوسائٹی میں بیٹھ کر سکون یا خوشی حاصل نہ ہوتی تھی۔ اس کے برعکس اس پر ایک اضطراب چھائے رہتا۔








اس کے علاوہ سادی اس کی منتظر رہتی تھی کہ کب اسے تنہائی حاصل ہو اور وہ دونوں بیٹھ کر باتیں کریں۔








صرف اس وجہ سے ایلی چند ایک روز ہی میں شیخ مسعود کی مصاحبت سے اکتا گیا لیکن اس میں اتنی جرات نہ تھی کہ زبردستی اپنے آپ کو الگ کر سکے۔ بہانے تو وہ بناتا تھا یا چوری چوری سرک جانے کی کوشش کرتا۔ سب کوششیں بیکار ہو جاتیں چونکہ شیخ مسعود اسے ڈھونڈ نکالتا اور پھر شیخ سے پیچھا چھڑانا مشکل ہو جاتا۔








ساتھی








جاورا میں ایلی نے صرف چند ایک ساتھی بنائے اور وہ سب متفقہ طور پر شیخ کے متعلق اچھی رائے نہیں رکھتے تھے۔ سکول کے اساتذہ بھی جہاں تک ممکن تھا اس سے دور رہنے کی کوشش میں رہتے تھے۔ ایلی کو سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ آخر لوگ اس کے خلاف کیوں تھے۔ حالانکہ شیخ کی شخصیت کے کئی ایک روشن پہلو تھے۔ ممکن ہے دو ایک تاریک بھی ہوں۔ تاریک پہلو کس میں نہیں ہوتے۔








جاورا میں سکول کے قریب ہی ایلی اور افضل نے مل کر ایک مکان لے رکھا تھا اور کام کاج کے لیے ایک نوکر رکھ لیا تھا۔ افضل ڈاکخانے کا ایک کلرک تھا۔ وہ ایک دبلا پتلا قد آور نوجوان تھا۔ مسلسل فکر کی وجہ سے اس کا چہرہ لمبا ہو چکا تھا۔ منہ پر جھریاں پڑ گئی تھیں لیکن آنکھوں میں غم یا پریشانی کی بجائے شرارت کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ یہ تضاد کئی بار ایلی کو چونکا دیتا۔








افضل نکما اور چپ چاپ بیٹھنے کا عادی نہ تھا۔ جب وہ بیٹھا ہوتا تو اضطراب کی وجہ سے اس کا پاؤں یا ٹانگ مسلسل حرکت کرتا جیسے مضطرب ہو۔ چہرے پر سوچ بچار اور فکر کے آثار چھائے رہتے اور وہ کوئی شعر گنگناتا رہتا۔ اسے اچھے شعروں سے والہانہ عشق تھا اور اسے سینکڑوں اچھے شعر یاد تھے۔








ایلی اسے پوچھتا۔








“ یار یہ کیا ماجرہ ہے؟ پیشانی سے تم فکر کرتے ہو۔ ٹانگیں اضطراب میں جلترنگ بجاتی ہیں۔ ہونٹوں پر گیت رہتا ہے اور آنکھیں نت نئی شرارت سے چمکتی ہیں۔ یہ سب کیا ہے؟“








افضل مسکرا دیتا۔ “ بس دیکھ لو۔ جو موجود ہے حاضر ہے اور جو حاضر ہے اس میں حجت کیسی؟“








پھر ان کا پڑوسی شبیر تھا۔ شبیر سکول میں عربی اور فارسی پڑھانے اور چھوٹی سے داڑھی رکھنے کے باوجود مولوی دکھائی نہیں دیتا تھا۔ اس کے خوبصورت چہرے پر محبوبیت کی جھلک نمایاں تھی۔ نگاہوں میں شوخی تھی۔








اسے دیکھ کر محسوس ہوتا تھا جیسے وہ فرانس یا اٹلی کا باشندہ ہو۔ شبیر کی زندگی بیوی کے مرکز کے گرد گھومتی تھی بلکہ یوں کہیے کہ اسے مجبور کر دیا گیا تھا کہ وہ اس مرکز کے گرد گھومے۔ ممکن ہے اسے بھی اس مرکز سے کچھ لگاؤ ہو لیکن بظاہر ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ ایک بچہ ہو اور گھر والی اس کی دیکھ بھال کرنا اپنا فرض سمجھتی ہو۔ وقت پر اسےکھانا کھلاتی۔ وقت پر بستر پر لٹا کر سونے پر مجبور کر دیتی۔ مناسب لوگوں سے ملنے کی اجازت دیتی اور وہ بھی فقط مناسب وقت کے لیے۔ صرف ایسی جگہ جانے کی اجازت دیتی جہاں اسکے اخلاق پر برا اثر نہ پڑے۔








ایلی کو پہلے پہل اس کا احساس اس روز ہوا جب وہ شبیر سے ملنے اس کے گھر گیا۔ وہ دونوں بیٹھک میں بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ پھر دفعتاً اندر سے کسی نے چلا کر شبیر کو پکارا۔








“ کون ہے؟“ ایلی نے پوچھا۔








“ بیگم بلا رہی ہے۔“ شبیر نے مسکرا کر جواب دیا۔








“ تو جا سن آؤ اس کی بات۔“








“ پھر سہی۔“ وہ بولا۔ “ ہاں تو کیا کہہ رہا تھا میں۔“ وہ پھر باتوں میں مصروف ہو گئے۔








“ دھڑدڑ ررڑرڑڑام۔۔۔۔“ قریب ہی ایک دھماکہ ہوا۔“








“ارے۔“ ایلی ڈر کر اچھلا۔ “ یہ کیا تھا؟“








شبیر کا منہ زرد ہو رہا تھا۔








“ کچھ نہیں۔“ وہ زیر لب بولا۔ “ بیگم نے پتھر کی سل دروازے پر دے ماری ہے۔“








“ ارے۔“ ایلی چلایا۔ “ تم تو ایسے بات کر رہے ہو جیسے روزمرہ کی بات ہو۔“








“ ہاں۔“ ------ شبیر نے اثبات میں اشارہ کیا۔ “ ہے۔“








“ بیگم ہے یا پہلوان ہے۔“ ایلی نے پوچھا۔








“ دھڑم ------ “ دروازے پر پھر سل پڑی۔








ایلی اٹھ بیٹھا۔ “ میں جاتا ہوں۔“ وہ بولا۔ “ میرے شانوں پر تو صرف ایک ہی سر ہے یار۔“








اس کے بعد ایلی نے دیکھا کہ جب بھی شبیر ان کے ہاں آتا تو یوں دبے پاؤں داخل ہوتا جیسے چور ہو۔ ذرا سی آہٹ پر گھبرا جاتا۔








پھر ایک روز تو بالکل ہی بھانڈا پھوٹ گیا۔








ابھی شبیر کو آئے چند ہی منٹ ہوئے تھے کہ گلی کا ایک لڑکا آیا۔








“ شبیر صاحب کو گھر بلاتے ہیں۔“ وہ بولا۔








ایلی جواب میں کچھ کہنے ہی والا تھا کہ شبیر پھدک کر کونے میں جا چھپا اور اشارے سے ایلی کو کہنے کہنے لگا کہ کہدو شبیر یہاں نہیں آیا۔ لڑکے کے جانے کے بعد وہ کوٹھےپر چڑھ گیا اور دیوار پھلانگ کر ڈرائنگ ماسٹر کے گھر چلا گیا جس کے مکان کا دروازہ پرلی گلی میں کھلتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اس کی بیوی چق کے پیچھے کھری ایلی کے مکان کی طرف دیکھ رہی ہے۔ اس لیے دوسرے گلی سے گھوم کر گھر چلا گیا تاکہ بیگم یہ سمجھے کہ کسی اور جانب سے آیا ہے۔ اس روز ایلی کو اندازہ ہوا کہ وہ فرانسیسی مولوی واقعی سکول کا بچہ ہو جو گھر سے چوری چوری آوارہ گردی کرنے کا عادی ہے۔








پھر ان کا پڑوسی ڈرائنگ ماسٹر جو طبعاً لاہور کا بھاء ماجھا تھا۔








اور وہ انگلش ماسٹر احمد تھا جو کلاس میں اونگھنے کا عادی تھا۔








اور جب محفل میں کوئی دلچسپ بات ہو رہی ہوتی تو اس کے دوران سو جایا کرتا تھا اور آخرش اثر چودھری تھا۔








چودھری کی بوٹی بوٹی تھرکتی تھی۔ اس کی بات میں دھار تھی اور نگاہوں کی مسکراہٹ قینچی کی طرح کاٹ دیتی تھی۔ سیدھی بات میں الجھاؤ ڈالنا، دوسروں کو بنانا اور سنجیدہ ترین مسئلے کو ہنسی میں ٹال دینا اس کے بائیں ہاتھ کا کرتب تھا۔








ایلی کے یہ ساتھی اس کا شیخ کے ساتھ زیادہ میل ملاپ رکھنے کے حق میں نہ تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ شیخ مسعود قابل اعتماد آدمی نہیں۔ ایلی سمجھتا تھا کہ شیخ کے متعلق ان کے اندازے درست نہ تھے۔ اس کے علاوہ ان سب کی خواہش تھی کہ مل بیٹھیں۔ گپیں ہانکیں۔ تاش کھیلیں یا گھومیں پھریں۔ شاید اس لیے وہ ایلی کا شیخ سے زیادہ میل جول رکھنے کے خلاف تھے۔








جاورا سکول میں آتے ہی ایلی کی حیثیت شیخ کے مصاحب کی طرح ہو گئی۔ وہ اس کا مشیر نہ بن سکتا تھا چونکہ شیخ اپنی مرضی کا مالک تھا اور کسی کے مشورے پر عمل کرنے کے لیے تیار نہ تھا۔ اسے کسی پر اعتماد نہ تھا۔ اس کے علاوہ ایلی اپنے احساس کمتری کی وجہ سے کسی کا مشیر نہ بن سکتا تھا۔








سکول سے فارغ ہو کر شیخ ایلی کو اپنے گھر لے جاتا۔ کھانا کھا کر وہ ایلی سے کہتا۔








“ دو ایک خط لکھ لیں تو کیا حرج ہے۔“








اور پھر اٹھ کر کمرے کی کھڑکیاں اور دروازے بند کرنا شروع کر دیتا۔ ساتھ ہی قہقہہ مار کر ہنستہ۔








“ بھئی آصفی! معلوم ہے میں دروازے کیوں بند کر رہا ہوں۔ جونہی مجھے خط لکھنے کا خیال آیا تو ساتھ ہی بے سوچے سمجھے میں نے دروازے بند کرنے شروع کر دیئے تاکہ خط لکھواؤں تو کوئی سن نہ لے۔“ وہ قہقہہ مار کر ہنسنے لگتا۔








“ تو کیا کانفی ڈنشل خط لکھوانے ہیں۔“ ایلی نے پوچھا۔








“ نہیں تو۔“ وہ ہنسنے لگا۔ “ عام سرکاری خط ہیں لیکن میرے لیے ہر خط کانفی ڈنشل ہے۔ میری طبیعت ہی ایسی ہے۔ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ساری دنیا میری دشمن ہے۔ سب میرا بھید جاننے کی کوشش میں لگے ہیں۔ رات کو جب میں کمرے میں سوتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ کدھر سے مجھ پر وار کیا جا سکتا ہے۔ کھڑکیاں کھول کر نہیں سوتا چاہے کتنی گرمی ہو۔ چونکہ مجھے خیال آتا ہے کہ کوئی کھڑکی سے پستول چلائے گا خود بھاگ جائے گا۔“ شیخ مسعود ہنسنے لگا۔ “ میری طبیعت ہی ایسی ہے۔“








اس قسم کی باتیں سن کر ایلی کو شیخ پر ترس آتا اور ساتھ ہی ڈر بھی۔ اس حد تک شکی اور بداعتماد شخص پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ وہ سوچتا۔








پھر ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس کی وجہ سے ایلی کی طبیعت میں‌ شیخ کے لیے نفرت پیدا ہو گئی اور شیخ ایلی پر شک کرنے لگا اور جاورا میں ایلی کی زندگی کا دھارا کسی اور رخ پر بہنے لگا۔








پاگل مولوی








نہ جانے ایک روز بیٹھے بٹھائے شیخ کو کیا سوجی۔ ایلی سے کہنے لگا۔








“ آصفی۔ آؤ تمہیں تماشہ دکھائیں۔“








شیخ اسے دفتر میں لے گیا۔ پھر اس نے مولوی رحمت اللہ عربی ماسٹر کو بلا بھیجا۔ پہلے تو عربی ماسٹر سے اس نے چند ایک سوالات کیئے پھر جوش میں آ کر انہیں ڈانٹنے لگا۔ پھر نہ جانے کیا ہوا۔ جیسے پٹاخے کو آگ دکھا دی گئی ہو ------ شیخ مسعود نے انہیں گالیاں دینا شروع کر دیں۔ غلیظ ننگی گالیاں۔








اس پر عربی ماسٹر کا رنگ فق ہو گیا۔ انہوں نے بولنے کی کوشش کی لیکن زبان سے مہمل آوازوں کے سوا کچھ نہ نکل سکا۔ ظاہر تھا کہ شدت و غصہ اور بے بسی کی وجہ سے مولوی صاحب کی حالت غیر ہوتی جا رہی تھی۔ جوں جوں ان کی حالت غیر ہوتی توں توں شیخ کا جوش بڑھتا۔








آخر مولوی صاحب کے لیے حالات ناقابلِ برداشت ہو گئے۔ ناقابلِ برداشت تو پہلے ہی تھے لیکن مولوی صاحب کو یہ خیال نہ آیا کہ مزید بے عزتی سے بچنے کے لیے وہ کمرے سے باہر چلے جائیں۔ یہ خیال آتے ہی وہ دروازے کی طرف بڑھے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ دروازے کے باہر اساتذہ اور طلبہ کی بھیڑ لگی ہے تو انہیں مزید بے عزتی کا احساس ہوا اور اس قدر صدمہ ہوا کہ بے ہوش ہو کر گر پڑے۔








مولوی رحمت اللہ جاورا کے ایک معزز شخص تھے۔ صوم و صلٰوۃ کے پابند تھے۔ اکثر جمعہ کے روز جامع مسجد میں خطبہ پڑھتے۔ کم گو تھے اور مدرسے کا کام بڑی محنت سے کرتے تھے۔








جب انہیں ہوش آیا تو انہوں نے غصے میں ڈویژنل انسپکٹر کر ایک پرائیویٹ خط لکھ دیا جس میں انہوں نے اس واقعہ اور شیخ کی زیادتی کا قصہ تفصیل سے بیان کر دیا۔








اس واقعہ پر ایلی بھی بھونچکا رہ گیا۔ کیا یہ تماشہ تھا؟ کیا یہ بات شیخ کے لیے مذاق کی حیثیت رکھتی تھی؟ وہ گہری سوچ میں پڑ گیا۔








اسے سوچ بچار میں کھوئے دیکھ کر شیخ بھی تاڑ گیا کہ ضرور مولوی کے واقعہ نے اس پر گہرا اثر کیا ہے۔ یہ محسوس کر کے شیخ نے ایلی کی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے مولوی صاحب کا تذکرہ شروع کر دیا۔








“ یہ مولوی لوگ بھی عجیب لوگ ہیں۔ “ وہ بولا۔ “ انسان اتنا بھی مسئلے مسائل میں نہ کھو جائے کہ اسے یہ تمیز ہی نہ رہے کہ اس کے گھر میں کیا ہو رہا ہے۔ مولوی خود تو بے حد شریف اور بے زبان ہے لیکن اس کی بیوی اس کی شرافت اور بے زبانی کا خاطر خواہ فائدہ حاصل کرتی ہے۔“ شیخ نے قہقہہ مارا۔ “ ادھیڑ عمر کی عورت خود کیا فائدہ حاصل کرئے گی لیکن اس کی بیٹیاں جو ------“ شیخ نے ایلی کو آنکھ ماری اور پھر قہقہہ مار کر ہنسنے لگا۔








ایلی کو اس کی ہنسی بری لگی لیکن اس میں اس قدر جرات نہ تھی کہ اعلانیہ احتجاج کرتا۔ بہرحال اس شام ایلی گھٹا گھٹا رہا اور شیخ ہر ممکن طریقے سے دلچسپ اور مزاحیہ باتیں سنا کر اسے خوش کرنے کی کوشش کرتا رہا۔








جب ایلی بھر پہنچا تو وہاں تمام ساتھی بیٹھے اس کا انتظار کر رہے تھے۔ وہ سب غصے میں تھے۔ ایلی پر وہ یوں برس پڑے جیسے مولوی کی بےعزتی اسی کی وجہ سے ہوئی ہو۔ افضل غصے سے کانپ رہا تھا۔ شبیرکا رنگ زرد ہو رہا تھا اور اس روز وہ بھول گیا کہ اس کی بیوی دیکھ رہی تھی کہ وہ ایلی کے مکان میں بیٹھا ہے۔ سمیع شیخ کو گالیاں دے رہا تھا۔ احمد سر جھکائے بیٹھا تھا اور چودہری مسکرا مسکرا کر کہہ رہا تھا۔ “ میں نے تو پہلے ہی کہا تھا کہ یہ تمام شرارت الیاس آصفی کی ہے۔“








پانچ چھ روز کے بعد ڈویژنل انسپکٹر سے دو خط موصول ہوئے۔ ایک تو شیخ کے نام تھا جس میں لکھا تھا کہ جواب دے کہ اس نے ایسا سلوک مولوی سے کیوں روا رکھا اور دوسرا خط ہیڈ ماسٹر کے توسط سے مولوی صاحب کے نام تھا جس میں ان سے اس امر کی جواب طلبی کی گئی تھی کہ انہوں نے براہ راست انسپکٹر کو خط کیوں لکھا۔








شیخ نے اپنے نام کے خط کے متعلق تو کسی سے تذکرہ نہ کیا لیکن مولوی صاحب کے خط کی اس قدر تشہیر کی کہ بچے بچے کو علم ہو گیا کہ انسپکٹر نے الٹا مولوی صاحب کو ڈانٹا ہے۔








اس روز رات کو شیخ ایلی کو اپنے گھر لے گیا۔ کہنے لگا۔








“ بھئی آصفی۔ میں سمجھتا ہوں مولوی صاحب سے زیادتی ہوئی ہے۔ ایک تو اس روز میں نے انہیں بلا وجہ برا بھلا کہا حالانکہ وہ محض ایک مذاق تھا۔ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا اور اب انسپکٹر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔














نے اس سے جواب طلبی کی ہے۔ بے چارہ پٹ جائے گا۔“








ایلی کو موقع مل گیا۔ بولا “ ہاں آپ نے واقعی مولوی صاحب سے زیادتی کی تھی۔“








“ تو اب کس طرح اس کا تدارک کریں۔“ شیخ نے اس سے ہنس کر پوچھا۔








“ کریں تو بہتر ہے۔“ ایلی نے کہا۔








“ تو میں معافی مانگ لوں۔“ شیخ چلایا۔








ایلی نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔








“ ہاں میں معافی مانگنے کے لیے تیار ہوں۔ بشرطیکہ وہ کاغذ پر اپنے ہاتھ سے لکھ دے کہ میں نے صدق دل سے معاف کر دیا۔“








شیخ کی یہ بات سن کر ایلی کے دل میں پھر سے اس کے لیے احترام پیدا ہو گیا۔








اس کے بعد مسلسل دو روز سارا سٹاف مولوی صاحب کی منتیں کرنے میں لگا رہا کہ شیخ کو معاف کر دیں اور تحریر لکھ کر دیدیں۔ مولوی صاحب اس پر آمادہ نہ تھے لیکن آخر کار انہوں نے مولوی صاحب کو مجبور کر دیا اور انہوں نے یہ تحریر لکھ دی کہ اگرچہ شیخ کا طرز عمل ناروا تھا تاہم ان کا راضی نامہ ہو گیا ہے اور انہوں نے شیخ کو معاف کر دیا ہے۔








یہ تحریر حاصل کرنے کے بعد شیخ نے سکول بند ہونے پر مولوی صاحب کو اپنے کمرے میں بلا لیا جب کہ سب اساتذہ اور طلبہ جا چکے تھے اور پھر سے انہیں لاتعداد فحش گالیاں دیں اور جان بوجھ کر ایسے سخت کلمات کہے کہ وہ پھر غصے میں آ کر انسپکٹر سے شکایت کریں۔ شیخ کا یہ اقدام سوچے سمجھے پلان کے مطابق تھا۔ بلکہ ایک چپڑاسی کو آگ لگانے کے لیے ان کے گھر بھیجا۔ چپڑاسی نے مولوی صاحب کو بتایا کہ انسپکٹر نے شیخ کی جواب طلبی کی ہے۔ مقصد یہ تھا کہ مولوی صاحب شیخ کے خلاف شکایت کا ایک اور خط لکھیں۔ جب اسے اچھی طرح معلوم ہو گیا کہ مولوی صاحب نے دوسرا خط لکھ دیا ہے تو شیخ نے انسپکٹر کو اپنی طرف سے خط لکھا جس کا نفسِ مضمون یہ تھا :








“ مولوی رحمت اللہ میرے باپ کی جگہ ہیں ان کی عزت کرتا ہوں۔


عرصہ چھ ماہ کا ہوا کہ وہ اونٹ سے سر کے بل گر پڑے تھے۔ ان کے


سر پر چوٹ آئی تھی جب سے ان کا ذہن کا توازن ٹھیک نہیں۔ کبھی کبھی


بے وجہ ناراض ہو جاتے ہیں اور پھر خود ہی مجھے معاف کر دیتے ہیں۔


غالباً وہ جاورا میں رہنا نہیں چاہتے۔ اس کی وجہ خانگی امور ہیں۔ بہرحال


میں نہیں چاہتا کہ ان کی بہتری میں حائل ہوں۔ مولوی صاحب کا معافی نامہ


ارسال خدمت ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ انہوں نے مجھے معاف کر دیا۔


اگرچہ میں نے کوئی گستاخی نہیں کی تھی۔ سہواً کوئی بات منہ سے نکل گئی


ہو جسے غلط فہمی کی وجہ سے انہوں نے برا مان لیا ہو تو مجھے علم نہیں۔“








ایم معروف ولایت سے بیرسٹری کی ڈگری لے کر نئے نئے ہندوستان میں آئے تھے اور آتے ہی کالج میں پروفیسر ہو گئے تھے۔ پھر چند ماہ کے بعد محکمہ میں ڈویژنل انسپکٹر کے عہدے پر فائز ہوئے تھے۔ وہ ایسے ہتھکنڈوں سے واقف نہ تھے اور چونکہ طبعی طور پر کسی کا بُرا نہیں چاہتے تھے، لٰہذا شیخ مسعود کے اس خط سے جو مولوی رحمت اللہ کے دوسرے شکایتی خط کے ساتھ موصول ہوا تھا انہیں یقین ہو گیا کہ واقعی مولوی صاحب کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں۔ انہوں نے مولوی صاحب کے لیے بے انتہا ہمدردی محسوس کی۔ اپنے ڈپٹیوں کو بلا کر انہیں ساری بات سمجھائی کہ وہ دورے پر جائیں تو کوئی مناسب مقام تلاش کریں جہاں مولوی صاحب کو تبدیل کیا جائے۔








نتیجہ یہ ہوا کہ جہاں بھی ڈپٹی یا معروف جاتے کمال ہمدردی سے کہتے :








“ ہمارے ایک عربی مولوی ہیں جو بڑے معزز اور شریف آدمی ہیں البتہ ذرا ذہنی توازن ٹھیک نہیں ان کا۔ اگر آپ انہیں اپنے سکول میں لے لیں تو کیا اچھا ہو۔“








افسران کی اس بے پناہ ہمدردی کا نتیجہ یہ ہوا کہ مولوی صاحب کی دیوانگی پر مہر ثبت ہو گئی اور ڈویژن کے کونے کونے میں مولوی صاحب کے دماغی عارضے کا پرچار ہو گیا۔ ادھر شیخ مسعود نے اسے ہوا دی۔








مولوی صاحب کی بیگم کے کانوں تک بات پہنچی تو اس نے سر پیٹ لیا۔ کہنے لگی۔ “ میں تو پہلے ہی کہتی تھی کہ وہ باؤلا ہے کوئی مانتا ہی نہ تھا۔“








یہ بات ان کی بیوی کے حق میں تھی۔ چونکہ وہ مولوی صاحب سے الگ آزادی میں رہنا چاہتی تھی۔ اسے بہانہ مل گیا۔ ایک روز دفعتاً اس نے شور مچا دیا جب مولوی صاحب وظیفہ پڑھنے میں مصروف تھے۔ لوگ اکٹھے ہو گئے۔ اس پر بیگم نے پینتر بدلا۔ “ دہائی خدا کی اب لوگوں کو دکھانے کے لیے جائے نماز پر جا بیٹھا ہے۔“








یہ تو بہرصورت تمہید تھی۔ بیگم نے محلے کے چار بزرگوں کو بٹھا کر کہا کہ میں تو ہرگز اس دیوانے کے ساتھ نہ رہوں گی۔ اور یہ فیصلہ کرا لیا کہ وہ لائلپور رہے اور مولوی صاحب انہیں باقاعدہ خرچ بھیجتے رہیں۔ اس فیصلے کے بعد وہ بچوں کو لے کر چلی گئی اور مولوی صاحب تن تنہا رہ گئے۔








حالات کو یوں بدلتے دیکھ کر مولوی صاحب بھونچکے رہ گئے۔ انہیں سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ بیٹھے بٹھائے چاروں طرف آگ سی کیوں لگ گئی ہے۔ کیوں لوگ انہیں پاگل سمجھنے لگے ہیں۔ حیرت اور گھبراہٹ سے ان کی شکل و صورت میں دیوانگی کی جھلک پیدا ہو گئی۔








شیخ مسعود واحد آدمی تھا جو حالات کے رخ کو سمجھ رہا تھا۔ مولوی صاحب کا ذکر آ جاتا تو وہ قہقہے لگاتا اور خوش ہوتا جیسے کسان اپنی بوئی ہوئی فصل کاٹتے وقت خوشی سے پھولا نہیں سماتا۔ شیخ اپنی کارکردگی پر اس قدر خوش ہوا کہ اس نے اپنی اس صناعی میں مزید بیل بوٹے کاڑھنے کا فیصلہ کر لیا۔








اس نے اپنے ایک سکھ شاگرد سوبھا سنگھ کو جو سکھوں کے ایک چک میں مڈل سکول کا ہیڈ ماسٹر بن چکا تھا اس بات پر آمادہ کر لیا کہ وہ مولوی صاحب کو اپنے سکول میں لے لینے کی پیش کس کر دے اور بعد میں ذرا ان کے مزاج صاف کرنے کا انتظام کرئے۔








انسپکٹر صاحب کو بھلا بات کی حقیقت سمجھنے کی کیا ضرورت تھی۔ وہ تو صرف نظم و نسق چلانے پر مامور تھے۔ انہوں نے سکھ ہیڈ ماسٹر کے اس اقدام کی تعریف کی اور مولوی رحمت اللہ وہاں تبدیل کر دیئے گئے۔ ہیڈ ماسٹر سوبھا سنگھ کے توسط سے مولانا کو چک میں کوٹھری مل گئی۔ اور وہ وہاں کسمپرسی کے عالم میں جا پڑے۔ سوبھا سنگھ نے پہلے ہی چک میں مشہور کر دیا تھا کہ ان کے دماغ میں کچھ فتور ہے۔








ایک روز مولانا نے جوش اسلام میں آ کر با آواز بلند اذان فرما دی۔ سوبھا سنگھ کا اشارہ تو پہلے ہی موجود تھا۔ لوگ مولوی صاحب پر پل پڑے۔ انہوں نے پیٹ پیٹ کر انہیں ادھ موا کر دیا اور کوٹھری سے ان کا سامان نکال کر باہر پھنکوا دیا۔ سامان کیا تھا۔ ایک بستر، ایک لوٹا، ایک جائے نماز اور ایک تسبیح۔ اللہ اللہ خیر سلا۔ چک سے دیس نکالا ملنے کے بعد مولوی صاحب نے عالم مجبوری میں علاقے کی اس واحد مسجد میں قیام کیا جو وہاں سے چار میل دور برسرراہ مسافروں کے نماز پڑھنے کے لیے بنائی تھی اور جو چار مربع فٹ اینٹوں کے چبوترے پر مشتمل تھی۔ اس علاقے میں صرف وہی پناہ گاہ انہیں مل سکی۔ انہوں نے اپنا سامان وہاں رکھ دیا اور خود اللہ کی یاد میں بیٹھ گئے۔ پھر ایک روز سوبھا سنگھ کے اشارے پر کوئی ان کا بستر اٹھا کر لے گیا۔ جب وہ سکول سے واپس آئے تو بستر کا کچھ پتہ نہ تھا۔ رات کو سردی کی وجہ سے وہ اکڑ گئے اور اگلے روز سکول میں لڑکے ان کے گرد جمگھٹا کئے انہیں چھیڑ رہے تھے۔








“ پاگل پاگل۔“








پھر معلوم نہیں کہ انہیں کیا ہوا۔ زمین نگل گئی یا آسمان نے ڈھانپ لیا۔


سازشی








مولوی صاحب کے اس المیہ پر ایلی ششدر رہ گیا۔ ملازمت کی دنیا سے متعلق یہ پہلی جھلک تھی جو اس نے دیکھی تھی۔ ملازمت میں سازش کا پہلا تجربہ تھا۔ آج تک وہ زندگی کو گویا کنارے پر بیٹھ کر دیکھتا رہا تھا۔ اس کے روبرو سنٹرل ماڈل سکول کی ٹیچر کھڑا چھڑی ہلا رہا تھا۔








“ بھول جاؤ۔ جو کچھ تم نے پڑھا ہے سب بھول جاؤ۔ کتابوں کی دنیا کو فراموش کر دو۔“ وہ چھڑی آگے بڑھا رہا تھا۔ “ یہ لو اسے استعمال کرنے میں دریغ کیا تو پٹ جاؤ گے۔“








دوسری طرف شیخ مسعود قہقہ مار کر ہنس رہا تھا۔








“ دیکھا۔ کیسا تماشہ دکھایا تمہیں۔ بیوقوف کہیں کا۔ میری شکایت کرتا ہے۔ میری۔ بکری کا بچہ جنگلی سؤر سے کھیلنا چاہتا ہے۔ بے وقوف دیوانہ۔“








ایک طرف مولوی خود کھڑا تھا۔ اس کا چہرہ بھیانک ہو رہا تھا۔ آنکھیں کھینچ گئی تھیں۔ ہونٹ سوجے ہوئے تھے۔ “ یا اللہ۔ “ وہ بڑبڑا رہا تھا۔ “ یا اللہ یہ کیا ہو رہا ہے؟“








“ یا اللہ۔“ ایلی دانت پیس کر بولا۔ “ یہ تیری دنیا ہے کیا۔“








اللہ تعالٰی کے خلاف اسے ایک اور شکایت پیدا ہو گئی۔ اس زمانے میں وہ اس مشہور شعر کا قائل تھا۔ انسان پر ایک اور ظلم - اللہ تعالٰی کی ایک اور توہین۔








“ سؤر --- سؤر ---- جنگلی سؤر۔“ ایلی کے کانوں میں‌ آوازیں آ رہی تھیں۔ گھر میں اس کے تمام ساتھی غصے سے بھرے بیٹھے تھے۔“








“ اب ہمارے ہاتھ سے بچ کر نہ جائے۔“ افضل کی ٹانگ ہل رہی تھی۔ آنکھیں شرارت سے چمک رہی تھیں۔








“ وہ چال چلو۔“ چودہری مسکرا رہا تھا۔ “ کہ زندگی بھر شیخ کو معلوم نہ ہو کہ کون چال چل گیا۔ بس چاروں شانے چت گرا ہو۔“








اس رات دیر تک ایلی کے مکان پر کانفرنس ہوتی رہی۔ طے پایا کہ فوری اقدام کیا جائے مگر شیخ کو علم نہ ہو کہ وار کدھر سے ہو رہا ہے ورنہ اگر وہ خبردار ہو گیا تو حملہ کرئے گا اور اس میں حملہ کرنے کی عظیم صلاحیت ہے۔ جاورے کے تمام لوگ مل کر بھی اعلانیہ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے۔








حملے کی تمامتر تفصیلات کو طے کرنا ایلی کے ذمے کر دیا گیا۔








اس کے بعد ایلی اور افضل کا گھر سازش کے اڈے میں بدل گیا۔ افضل کی آنکھوں میں پھلجھڑیاں چلنے لگیں جیسے بطخ تالاب میں آ پہنچی ہو۔ چودہری کے گال ابھر کر گلابی ہو گئے۔ احمد کے خوابیدہ خدوخال میں ہلکی سی بیداری پیدا ہو گئی۔ شبیر میں خارجی دنیا میں اس حد تک دلچسپی پیدا ہوئی کہ وہ بیوی کو بھول گیا۔ اس مسلسل گھر سے باہر وقت گزارنے لگا۔








ایلی کا مکان چونکہ گلی کی نکڑ پہ واقع تھا اس لیے اسمبلی ہال بن گیا۔ وہاں بحث مباحثے ہونے لگے۔ قرار دادیں پیش ہونے لگیں۔ پلان بننے لگے۔ تفصیلات طے ہونے لگیں۔ ایک روز جب وہ سرگرم بحث تھے تو دروازہ بجا اور شبیر داخل ہوا۔








“ کچھ ہوش بھی ہے۔“ وہ بولا۔








“ اب ہم ہوش و حواس کی دنیا سے نکل آئے ہیں۔“ افضل نے جواب دیا۔








“ بس اب تو ایک دھن سوار ہے۔“ چودہری نے اپنی رندانہ آنکھوں کو گھماتے ہوئے کہا۔








“ اونہوں۔ یہ غلط بات ہے۔“ شبیر بولا۔ “ اگر بات نکل گئی تو سازش دھری کی دھری رہ جائے گی۔ دنگل شروع ہو جائے گا۔“








“ نہ بھئی۔“ جمال بولا۔ “ ہم تو سازش کے قائل ہیں، دنگل کے نہیں۔“








“ دنگل تو ان پڑھ اور غیر مہذب آدمیوں کا کام ہے۔“








“ ہے نا۔“ شبیر نے رازدارانہ طور پر کہا۔ “ تو تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ سازشیوں کا یہ گروہ ابھی خام ہے۔“








اس بات پر افضل بگڑ گیا۔








“ ہماری توہین کرتے ہو؟“ وہ بولا۔ “ ہم جو پیدائشی کیا خاندانی طور پر مانے ہوئے سازشی ہیں۔“








“ تو خاندانی سازشی کو معلوم ہونا چاہیے ابھی آدھ گھنٹہ ہوا۔ آپ کے دروازے پر خود شیخ مسعود کھڑا تھا اور وہ یہاں پورے پانچ منٹ کھڑا رہا۔“








“ ارے۔“ سب کے منہ سے چیخ نکل گئی اور پھر محفل پر سناٹا چھا گیا۔








“ ابھی تو شیخ پر وار نہیں ہوا اور وہ مطمئن ہے اس کے باوجود وہ اس قدر شکی مزاج واقع ہوا ہے کہ فضا کو سونگھنے سے نہیں چوکتا۔ جب وار ہو جائے گا پھر تو وہ ساری ساری رات بستی کے چکر کاٹے گا جیسے مسلمان بادشاہ بھیس بدل کر رعایا کا حال جاننے کے لیے گھوما کرتے تھے۔“








“ بھئی یہ تو ٹھیک ہے۔“ افضل بولا۔








“ اور اس گھر میں جو بات ہوتی ہے وہ آدھی گلی تک سنائی دیتی ہے۔“








اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ چندہ کر کے ایک پرانا ہارمونیم خریدا گیا۔ چند ایک تاش کی گڈیاں منگوائی گئیں۔ جب بھی بحث کا آغاز ہوتا تو ایک آدمی ہارمونیم بجانے پر تعینات کیا جاتا۔ تاکہ باجے کے شور میں بات سنائی نہ دے اور سازشی ہر وقت تاش کے پتے تھامے رہتے تاکہ کوئی آ جائے تو سمجھے تاش کھیلنے کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں۔ اس کے بعد کہیں سے ایک پرانا ٹائپ رائٹر حاصل کیا گیا اور شیخ کے خلاف گمنام چٹھیوں کا ایک سلسلہ شروع کر دیا گیا۔








ان چٹھیوں کا انداز انوکھا تھا اور ایلی نے التزاماً انہیں ایسی شکل دی کہ وہ عام گمنام چٹھیوں سے ہٹ کر ہوں تا کہ افسرانِ بالا انہیں دلچسپی سے پڑھیں۔ دوسری بات یہ تھی کہ وہ نہایت مختصر ہوتیں۔ زبان میں دفتری انداز مفقود ہوتا۔ کوشش کی جاتی ان میں مزاح کا رنگ غالب رہے، مظلومیت اور شکایت کا عنصر نہ ہو۔








ڈویژنل انسپکٹر کو روز ایک چٹھی لکھی جاتی جس کا مستقل عنوان جاورا بلیٹن تھا۔ مستقل عنوان کے نیچے ایک ذیلی عنوان ہوتا۔ اس کے نیچے سیریل نمبر اور نیچے نفسِ مضمون۔








مثلاً








فلاں سال میں 1200 روپیہ بہار ریلیف فنڈ اکٹھا کیا گیا۔ چار صد روپیہ سرکاری بنک میں جمع کرایا گیا۔








باقی آٹھ سو روپیہ کیا ہوا؟








باقی آٹھ سو روپیہ کیا ہوا؟


الٹا چور








ان انوکھے خطوط کی وجہ سے ڈویژنل دفتر میں ایک شور سا مچ گیا۔ پرانے افسران حیران تھے کہ یہ گمنام خط کیسے ہیں؟ ایسے گمنام خط تو کبھی موصول نہیں ہوئے تھے۔ مسٹر معروف انہیں پڑھ کر محظوظ ہو رہے تھے۔ غالباً انہیں اس بات پر خوشی ہو رہی تھی کہ اپنے ملک میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو ایسے رنگین قسم کے شکایتی خط لکھنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔








شیخ مسعود کو جب علم ہوا تو اس کے پاؤں تلے سے زمین نگل گئی۔ یا اللہ یہ کیسے گمنام خط ہیں؟ اور ان کا جواب کس طرح دیا جا سکتا ہے؟ اور لکھنے والا کون ہے؟ اور یہ انداز اسے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا لیکن شیخ کا رنگ زرد پڑ گیا۔ اس کی آنکھیں گویا خانوں سے باہر نکل آئیں۔ پھر جب اسے معلوم ہوا کہ خطوط کا یہ سلسلہ لامتناہی ہے تو اس پر ایک وحشت اور دیوانگی طاری ہو گئی۔








اس نے ایلی کو اپنے کمرے میں بلایا اور چاروں طرف کے دروازے بند کر کے کہنے لگا۔








“ کیوں بھئی آصفی صاحب۔ آج کل کچھ دور رہتے ہیں۔ کیا وجہ ہے۔ مجھ سے ناراضگی ہے کیا؟“








ایلی نے ایک ساعت کے لیے سوچا کہ اسے کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ بہرصورت ایلی طبعی طور پر رسمی رویے کا حامی نہ تھا لٰہذا اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ عام سازشی نہی بنے گا اور یہ نہ کہے گا ------ “ اچھا۔ یہ بات ہے۔“ یا “ آخر بات کیا ہے۔“








“ بالکل۔“ ایلی نے جواب دیا۔ “ میں آپ سے سخت ناراض ہوں اور جان بوجھ کر آپ سے دور دور رہتا ہوں۔








شیخ بھونچکا سا رہ گیا۔ “ کیا وجہ ہے؟“ اس نے کہا۔








“ وجہ آپ کو معلوم ہے۔ “ یہ کہتے ہوئے ایلی نے محسوس کیا جیسے وہ الٹا چور ہو۔








“ شیخ اور گھبرایا۔ “ مجھے معلوم نہیں۔ میں نہیں سمجھا۔“ وہ بولا۔








“ آپ سمجھتے نہیں جانتے ہیں لیکن کسی سے کہتے نہیں۔“ ایلی نے جواب دیا۔ اور شیخ کو مزید پریشانی سے بچانے کے لیے اس نے بات کی وضاحت کی۔ “ دیکھئے شیخ صاحب۔ “ وہ بولا۔ “ گزشتہ دو تین روز سے آپ پریشان ہیں۔ آپ کا چہرہ، آپ کی چال ڈھال، آپ کی باتیں پکار پکار کر کہہ رہی ہیں کہ کوئی اہم واقعہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے آپ گھبرائے ہوئے ہیں اور سوچ بچار میں پڑے ہیں۔ صرف آپ کی زبان خاموش ہے باقی تمام اعضا چلا چلا کر وہ راز کہہ رہے ہیں لیکن آپ سمجھتے ہیں کہ وہ راز آپ نے دل میں چھپا رکھا ہے۔“ ایلی ہنسنے لگا۔








شیخ کا رنگ فق ہو گیا۔ اس نے پہلی مرتبہ حیرت سے ایلی کر طرف دیکھا۔ “ کیا واقعی؟“ وہ بولا۔ “ تو کیا آپ اسی لیے مجھ سے ناراض ہیں۔“








“ ناراض اس لیے ہوں۔“ ایلی نے کہا، “ کہ آپ کو مجھ پر اعتماد نیہں اور آپ مجھے بات نہیں بتا رہے۔“








شیخ نے قہقہ لگایا۔








“ اب ہنسیے نہیں شیخ صاحب۔“ ایلی جال میں آ کر بولا۔ “ ایسا راز رکھنے کا فائدہ جس کا آپ کے جسم کا بند بند اعلان کر رہا ہے۔“








“ تو کیا تمہیں معلوم ہے رہ راز؟“








“ اونہوں۔“ ایلی بولا۔ “ مجھے صرف یہ معلوم ہے کہ آپ کوئی اہم بات چھپا رہے ہیں جسے آپ بہت اہم سمجھتے ہیں۔ اگرچہ مجھے اسے جاننے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ صرف اسے بتائیے جس پر آپ کو اعتماد ہے۔“








“ اعتماد تو مجھے کسی پر بھی نہیں۔“ شیخ ہنسنے لگا۔








“ تو نہ بتائیے۔ لیکن پھر یہ بھی ضروری ہے کہ آپ ضبط سے کام لیں اور یہ بھی ظاہر نہ ہونے دیں کہ کوئی چیز اندر ہی اندر آپ کو کھائے جا رہی ہے۔“








شیخ کھسیانہ ہو گیا۔








ایلی ڈرتا تھا کہ کہیں شیخ اسے اس امر میں رازداں نہ بنا لے۔ اس حد تک دوہرا رول ادا کرنے کی اس میں ہمت نہ تھی۔ بہرحال اس کی باتیں سنکر شیخ اور بھی گھبرا گیا اور ایلی کو شیخ سے دور رہنے کا جواز مل گیا۔








مسلسل ایک ماہ کی جواب طلبیوں پر شیخ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ اسے شک تو ہر استاد پر تھا لیکن اسے یہ ثبوت نہ مل سکا کہ کون اس کے خلاف خط لکھ رہا ہے اور شکایت کی نوعیت اس قسم کی تھی کہ ان کا جواب اس سے بن نہ آتا تھا۔ اس کے پرانے ہتھکنڈے سب فیل ہو چکے تھے۔








شاید اسی وجہ سے اس نے ایک نیا طریقہ کار آزمانے کا فیصلہ کر لیا۔ پھر ایک خصوصی سٹاف میٹنگ بلائی اور اساتذہ کو جمع کر کے سب کے سامنے اس نے وہ راز افشا کر دیا۔








“ حضرات۔“ وہ بولا۔ “ یہ میٹنگ میں نے اس لیے منعقد کی ہے کہ میں آپ سے برادرانہ مشورہ کرنا چاہتا ہوں۔ بات یہ ہے کہ کوئی شخص میرے خلاف مسلسل شکایات لکھ کر بھیج رہا ہے۔ اس معاملے کو چلتے ہوئے دو ماہ ہو چکے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ جس صاحب کو مجھ سے شکایت ہے اور یہ مہم چلا رہا ہے وہ میرے روبرو آ جائے اور میں حلف اٹھا کر کہتا ہوں کہ میں اس کے خلاف کوئی کاروائی نہ کروں گا۔ بلکہ میں اس سے سمجھوتہ کرنے کو تیار ہوں اور اس کی جائز شکایات دور کرنے کے لیے کوشش کروں گا۔“








شیخ یہ کہہ کر رک گیا۔ تمام اساتذہ سر جھکائے چپ چاپ بیٹھے رہے۔ دیر تک وہ انہیں نگاہوں سے کریدتا رہا۔








ایلی اٹھ بیٹھا۔








“ میں دو ایک باتیں پوچھنا چاہتا ہوں۔“ وہ بولا۔








“ پوچھئے آصفی صاحب۔“








“ یہ بتائیے کہ شکایات کی نوعیت کیا ہے؟“








ایک ساعت کے لیے شیخ سوچ میں پڑ گیا۔ پھر حسبِ عادت بات ٹالنے کے لیے اس نے کہا۔ “ بس معمولی قسم کی شکایات۔ ادھر ادھر کی۔“








“ لیکن حضور۔“ چودہری کھڑا ہو کر کہنے لگا۔ “ ایسی گمنام شکایات کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔ کرنے دیجیئے۔ خود ہی تھک کر رک جائے گا۔“








“ آپ کو کسی پر شک ہے۔“ ایلی نے پوچھا۔








“ شک تو مجھے آصفی صاحب آپ پر بھی ہے۔“ وہ ہنسنے لگا۔








سارا سٹاف قہقہ مار کر ہنس پڑا۔








“ یہ خط۔“ شیخ نے وضاحت کی۔ “ جدید انگریزی میں لکھے جاتے ہیں اور جدید ترین ٹیچر اس سکول میں صرف آپ ہیں۔ اور انسپکٹر صاحب نے مجھے لکھا ہے کہ ان لوگوں کے نام لکھ بھیجوں جن پر مجھے شک ہے۔“








“ ہاں ہاں ضرور لکھیے میرا نام۔“ ایلی نے جواب دیا۔








“ تو پھر اقبال کرو نا کہ تمہیں مجھ سے شکایات ہیں۔“ شیخ ہنسنے لگا۔








“ ہاں۔ مجھے آپ سے دو شکایات ہیں۔“ ایلی نے جواب دیا۔ “ پہلی شکایت یہ کہ آپ نے دو ماہ تک ہم سے یہ بات چھپائے رکھی ورنہ شاید حالات اس حد تک نہ بگڑتے اور دوسرے شکایت یہ کہ آپ ہم سب سے تو مطالبہ کرنے ہیں کہ ہم آپ پر اعتماد کریں لیکن آپ کو ہم سے کسی شخص پر اعتماد نہیں۔“








سارا سٹاف حیرت سے ایلی کی طرف دیکھنے لگا۔








مسٹر معروف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔








عین اسی وقت تار والا ڈاکیہ داخل ہوا۔ اسے دیکھ کر شیخ از سرِ نو گھبرا گیا۔








“ کیوں؟“ وہ بولا۔ “ کوئی تار ہے کیا میرے واسطے؟“








“ نہیں جی۔“ وہ بولا۔ “ الیاس آصفی کے نام کا ہے۔“ اس نے ایک تار ایلی کر طرف بڑھا دیا۔








ایلی نے تار کھول کر پڑھا۔








“ کیوں خیریت تو ہے؟“ شیخ نے پوچھا۔








“ جی ہاں بالکل۔“ ایلی نے جواب دیا۔ “ والد صاحب نے مجھے خانپور بلایا ہے۔“








“ خیر سے بلایا ہے کیا؟“








“ لکھا ہے مسٹر معروف تم سے ملنا چاہتے ہیں۔“








“ مسٹر معروف تم سے ملنا چاہتے ہیں۔ لیکن کیوں؟“








“ مجھے نہیں علم۔“ ایلی نے جواب دیا۔ “ وہ والد صاحب کو اچھی طرح سے جانتے ہیں۔ شاید میری تعیناتی کی بات ہو کوئی۔“








ایلی خانپور پہنچا تو گھر میں سب لوگ اطمینان سے بیٹھے ہوئے تھے۔ اس کا خیال تھا نہ جانے کتنی اہم بات ہو جس کے لیے مجھے بلایا ہے۔ شاید مسٹر معروف کو شک پڑ گیا ہو کہ وہ جاورا بلیٹن کا ایڈیٹر ہے یا کسی نے بھید کھول دیا ہو۔ ممکن ہے شیخ مسعود نے خود شکایت کی ہو۔ بہرصورت بات اہم تھی لیکن وہاں جا کر اس نے محسوس کیا جیسے کوئی بات ہی نہ ہو۔








“ اچھا ایلی آیا ہے۔“ علی احمد نے اس کی آمد کی خبر سن کر کہا۔ “ بہت اچھا کیا جو آ گئے۔ یہ ایلی تو نصیر کی ماں گویا جاورے کا بن کر رہ گیا۔“








“ معروف صاحب کی کیا بات ہے؟“ ایلی نے دبی زبان سے پوچھا۔








“ بھئی مجھے تو معلوم نہیں۔ تم تو جانتے ہو اپنے ان سے تعلقات ہیں۔ سبھی افسر عزت کرتے ہیں۔ دوستانہ سلوک سمجھ لو۔ یہ ان کی محبت ہے ورنہ ------- خیر خیر تو وہاں چائے پارٹی پر بیٹھے تھے۔ اتفاق سے جاورے کی بات چل پڑی تو میں نے ڈپٹی کمشنر سے کہا ہمارا ارادہ ہے وہاں جانے کا۔ اپنا لڑکا ہے نا وہاں۔ اس بات پر مسٹر معروف چونکے۔ اچھا تو الیاس وہاں ہے آج کل، ------ اپ ہی نے تو تعیناتی کی تھی، میں نے جواب دیا۔ اس پر وہ بولے۔ “ تو اسے بلا لو دو ایک دن کے لیے اور جب وہ یہاں آئے تو ذرا میری کوٹھی پر بھجوا دینا۔ ہی ہی ہی ہی۔“ علی احمد ہنسنے لگے۔ “ وہ تمہیں اچھی طرح جانتے ہیں۔ سبھی افست تمہیں جانتے ہیں۔ کبھی بلکہ اکثر باتوں میں تمہارا تذکرہ آ جاتا ہے نا اس لیے۔ دوست جو ہوئے اپنے۔ کیوں نصیر کی ماں۔ تو کیا دیکھ رہی ہے یوں۔ جیسے سمجھنے کی کوشش کر رہی ہو بات کو۔ میں بتاؤں بالکل بیکار ہے۔ سمجھ کا خانہ ہی جو نہ ہو تو پھر کوشش بیکار ہے۔ ہی ہی ہی ہی۔ کیو شمیم۔ کیا یہ غلط ہے۔ ہی ہی ہی ہی۔“








“ اچھا بھئی ایلی آج شام کو تم معروف صاحب سے ضرور مل لینا۔ ان کی کوٹھی سے واقف ہو نا۔ دانیا کی دوکان کے بائیں ہاتھ صدر میں۔ تم شام کو آٹھ بجے پہنچ جانا ورنہ وہ کلب ولب چلے جاتے ہیں۔ بیرے کو بلا کر کہنا میں آصفی صاحب کا بیٹا ہوں۔ وہ مجھے جانتا ہے جب جاؤ بڑی خاطر مدارت کرتا ہے۔ جہلمیہ ہے ناں۔ یہ جہلمیئے بڑے مہمان نواز ہوتے ہیں اور معروف صاحب کو یاد دلانا کہ تم آصفی صاحب کے بیٹے ہو ورنہ شاید انہیں یاد نہ رہے۔ ہی ہی ہی ہی۔“ وہ ہنسنے لگے۔ “ یہ نہ ہو کہ تمہیں واپس لوٹا دیں۔ ہی ہی ہی ہی ہاں بھئی تم جیسے ماتحت تو ان کے سینکڑوں ہیں۔ بیچارے ملنے کو ترستے ہیں لیکن رسائی نہیں ہوتی۔ اور تم، تمہیں تو خود تار دے کر بلوایا ہے انہوں نے۔“








“ آصفی صاحب سے دوستانہ جو ہوا۔“ نصیر کی ماں نے طنزاً کہا۔








علی احمد ہنسنے لگے۔








“ لو اب چمگادڑوں نے بھی بات کرنا سیکھ لیا۔ ہی ہی ہی ہی۔ سن رہی ہو شمیم۔ چیونٹیوں کے بھی پر نکل آئے۔ کہتی ہے میں پرندہ ہوں۔ ہی ہی ہی ہی ------ “








مسٹر معروف ایک خوبصورت، رنگین مزاج، خاموش اور نسائیت سے بھرے ہوئے نوجوان تھے۔ وہ عام انسپکٹروں سے قطعی طور پر محتلف تھے اور ان کا انداز بالکل انوکھا تھا۔ غالباً اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ براہ راست اس عہدے پر فائز ہوئے تھے۔ ویسے عام طور پر محکمہ تعلیم کے افسر بتدریج ترقی کرنے کے بعد ڈویژنل انسپکٹر بنا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ غالباً وہ پہلے ڈویژنل انسپکٹر تھے جو ولایت سے ڈگری حاصل کر کے آئے تھے۔ پرانے افسروں کا طرزِ عمل تحصیل دار اور پٹواری کے بین بین ہوا کرتا تھا۔ وہ دیکھنے کی بجائے گھورتے، بات کرنے کی بجائے ڈانٹتے اور اساتذہ سے دور رہتے تھے۔ اس کے برعکس معروف نہایت اخلاق سے ملتے، یوں باتیں کرتے جیسے وہ افسر ہی نہیں اور ڈانٹنے کے فن سے تو وہ بالکل ناواقف تھے۔








ایلی معروف سے مل کر حیران رہ گیا۔ معروف نے اسے پاس بٹھا لیا۔ سگریٹ پیش کیا اور پھر یوں باتوں میں مصروف ہو گئے جیسے ایلی کو ٹیبل ٹاک کے لیے بلایا ہوِ








پھر دفعتاً انہوں نے موضوع بدلا اور جاورا کے متعلق پوچھنے لگے۔ کیا وہ اچھی جگہ ہے؟ موسم کیسا ہے؟ لوگ کیسے ہی؟ سکول کیسا ہے؟ آپ کا دل لگ گیا کیا؟








پہلے تو ایلی بے پروائی سے ان کے سوالات کے جواب دیتا رہا پھر دفعتاً اسے خیال آیا کہ شاید جاورا بلیٹن کا بھید پانے کے لیے اس سے حالات پوچھ رہے تھے۔ اس پر ایلی سوچ میں پڑ گیا۔ اور اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ شیخ کے خلاف کوئی بات نہ کرئے گا۔








“ ہاں تو الیاس صاحب۔ آپ کے سکول میں تو پارٹی بندی نہیں ہو گی کوئی؟“ معروف نے پوچھا۔








“ میں نے تو نہیں دیکھی۔“ وہ بولا








“ ہیڈ ماسٹر تو وہاں کے بہت قابل اور کارکن آدمی ہیں۔“








“ جی ہاں۔“ ایلی نے کہا۔ “ اور بے حد دلچسپ ہیں۔“








معروف صاحب نے طرح طرح سے ایلی کو بات کرنے پر اکسایا لیکن اس نے انہیں سرسری جواب دے کر ٹال دیا۔








آخر انہوں نے واضح بات کی۔








“ دیکھو الیاس، میں نے تمہیں صرف اس لیے بلایا ہے کہ جاورا سکول میں سخت گڑبڑ ہے۔ معلوم ہوتا ہے کچھ لوگ ہیڈ ماسٹر کے خلاف سازش کر رہے ہیں اور چونکہ میرا اصول ہے کہ ایسے سازشیوں کو سخت سزا دیتا ہوں اس لیے تم خاص طور پر خیال رکھو۔ ایسے لوگوں سے مت ملو۔ بلکہ اگر پتہ چلے تو ہمیں بتاؤ کہ وہ کون ہیں۔ میں نہیں چاہتا کہ میرے ایک دوست کا لڑکا ایسے کیس میں الجھے۔ گڈ نائٹ۔“








معروف صاحب نے اٹھ کر اس سے مصافحہ کیا اور ایلی گھر چلا آیا۔








اگلے روز معروف نے غالباً علی احمد سے بات کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سارا دن وہ اسے نصیحتیں کرتے رہے۔








“ دیکھو نا ایلی۔ ایسے لوگ ملازمت میں کبھی فائدے میں نہیں رہے جو اس قسم کی سازشوں میں حصہ لیتے ہیں۔ ہمیشہ اپنے افسر سے بنا کر رکھنی چاہیے ------ چاہے دوسروں سے اس کا سلوک کیسا بھی ہو ہمیں اس سے کیا۔ تم ہمیشہ ہیڈ ماسٹر کا ساتھ دینا اور بلکہ اگر تمہارا کوئی جاننے والا اس سازش میں شریک ہو تو اسے بھی خبردار کر دینا۔ اس کا بھلا کر دینا۔ چونکہ معروف صاحب بہت سخت ایکشن لیں گے۔ یہ تو ان کی مہربانی ہے کہ تمہیں خود بلا کر بات سمجھا دی ہے۔ تم میرے بیٹے ہو اس لیے۔ ورنہ تمہاری کیا حیثیت ہے۔ ایک معمولی ٹیچر۔ ایسے سینکڑوں ٹیچر مارے مارے پھرتے ہیں۔ کون پوچھتا ہے جی۔ اور ڈگریاں، ان کی قیمت کیا ہے آج کل ------ اگر تم میرے بیٹے نہ ہوتے تو کیا تمہیں نوکری مل جاتی۔ اجی توبہ کرو۔ کون پوچھتا ہے۔ ہی ہی ہی ہی۔ کیوں نصیر کی ماں۔“








گاڑی میں بیٹھے ہوئے ایلی سوچ رہا تھا کہ مسٹر معروف کا مجھے بلانے سے یہ مقصد تھا کہ جاورا کے حالات سے واقفیت حاصل کرئے۔ اونہوں۔ معروف کو صحیح حالات جاننےکی خواہش نہیں۔ اسے اس بات سے دلچسپی نہیں کہ نظم و نسق کی خرابیوں کو دور کیا جائے۔ انہیں تو صرف یہ فکر دامن گیر ہے کہ کسی جائز یا ناجائز طریقے سے نظم و نسق قائم کیا جائے، قائم رکھا جائے۔ جبھی انہوں نے مجھے بلوایا تھا تا کہ میری معرفت ان لوگوں کو ڈرا دیا جائے کہ ایس سازشوں کا نتیجہ اچھا نہیں ہوتا اور سازشیوں کو انسپکٹر صاحب سخت سزا دینے کے قائل ہیں۔








جاوار پہنچ کر ایلی نے ساری بات کا رنگ ہی بدل دیا۔ سازشیوں کی محفل میں اس نے ایسی باتیں کیں جن سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ مسٹر معروف انصاف کرنے کے قائل تھے لیکن وہ ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتے تھے جو جرات سے شکایت نہیں کر سکتے اور شیخ صاحب کے پاس جا کر اس نے انہیں بتایا کہ معروف آپ کے بڑے مداح ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ آپ ان لوگوں سے سمجھوتا کر لیں جنہیں آپ سے شکایت ہے تاکہ جاورا سکول کی مزید بدنامی نہ ہو۔








اس ملاقات کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب ایلی واپس جاورا پہنچا تو جاورا سکول کی سازش اور تقویت پکڑ گئی۔ وہ لوگ جو تفریحاً سازشیوں کا ساتھ دے رہے تھے اس میں نمایاں حصہ لینے لگے۔ بلیٹن کے لیے تازہ مواد دستیاب ہونے لگا۔ اور شیخ مسعود اس کا مقابلہ کرنے کی امید کھو بیٹھے اور انتہائی خطرناک اقدام کو عمل میں لانے کی سوچنے لگے۔ اس سلسلے میں انہوں نے ڈپٹی کمشنر، سپیشل پولیس، سی آئی ڈی اور سول پولیس سے خط و کتابت شروع کر دی۔ اپنے پرانے ہتھکنڈوں کے مطابق وہ اس بات کے قائل تھے کہ دشمن پر سخت وار کرنا چاہیے تاکہ وہ اپنے بچاؤ کو کوشش میں لگ جائے اور مزید وار نہ کر سکے۔


ضدی عورت








پھر ایک عجیب واقعہ ہوا۔ ایک روز جب وہ سب مل کر ایک نئی سکیم پر بحث کر رہے تھے تو شبیر کا بھانجا جاوہ داخل ہوا۔ اس کی عمر نو سال کی ہو گی۔








“ کیوں کیا بات ہے؟“ شبیر اسے دیکھ کر چلایا۔ “ کیا مجھے بلایا ہے؟“








“ جی نہیں خاں صاحب۔“ وہ بولا۔








“ تو پھر؟“








“ پیغام دیا ہے۔“








“اچھا۔“ شبیر بولا۔ “ تو ٹھہرو میں ابھی سنتا ہوں۔“








“ جی ------ “ جاوہ نے کہا۔ “ انہوں نے کہا ہے کہ سب کے سامنے دینا پیغام، سب کے سامنے۔“








“ اچھا تو دے۔“ افضل چلایا۔








“ جی انہوں نے کہا ہے کہ جا کر کہدو اگر خان صاحب اس گھر میں پھر داخل ہوئے تو میں شیخ کے گھر جا کر ساری بات بتا دوں گی۔“








“ کیا کہا؟“ سب کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے۔








“ جی یہی کہا تھا۔“








“ کس نے کہا تھا؟“ ایلی نے پوچھا۔








“ شبیر کی بیگم نے اور کس نے۔“ افضل بولا۔








“ ویسے ہی رعب ڈالتی ہے اور کیا۔“








“ اونہوں۔“ شبیر بولا۔ “ یہ نہ کہو تم اس سے واقف نہیں۔ وہ کر گزرے گی۔ وہ بڑی ضدی عورت ہے۔“








“ تو پھر نہ آیا کرو یہاں۔“ افضل بولا۔








“ اسے تم سب سے نفرت ہے۔“ شبیر بولا۔ “ وہ اس مکان کو بہت برا سمجھتی ہے۔ کوئی تعجب نہیں کہ وہ شیخ کے گھر جا کر اسے صورتِ حال سے مطلع کر دے۔“








“ تو پھر کیا کیا جائے۔“ احمد نے جھجھکتے ہوئے پوچھا۔








“ کرنا کیا ہے۔“ چودھری نے کہا۔ “ آخر ایک نہ ایک دن تو بات نکلے گی۔“








شبیر کی بیوی کے رخ کو بدلنا آسان کام نہ تھا۔ اسے راز فاش کرنے سے باز رکھنے کی صرف ایک صورت تھی کہ شبیر کو وہاں آنے سے منع کر دیا جائے۔ لیکن شبیر نے اعلان کر دیا۔ “ میں مجبور ہوں۔ چاہے لاکھ کوشش کروں میں تم سے ملنے سے باز نہ رہ سکوں گا۔“








“ تو پھر اپنی بیوی کا ذمہ لو کہ وہ ایسی واہیات حرکت نہ کرئے گی۔“ افضل نے کہا۔








“ نہ بھائی۔“ وہ بولا۔ “ یہ میرے بس کا روگ نہیں۔“








اس نئے جھمیلے کی وجہ سے نکڑ والے مکان کا نقشہ ہی بدل گیا۔ وہ سب گہری سوچ میں پڑ گئے۔








شبیر کی بیوی کو ہر اس مکان سے نفرت تھی۔ جس میں کوئی عورت نہیں رہتی تھی۔ اس کے خیال کے مطابق صرف وہی مرد معزز ہو سکتا تھا جس کے گھر ایک اپنی بیاہتا بیوی ہو اور چونکہ افضل اور ایلی کے گھر میں کوئی عورت نہ تھی۔ لٰہذا ساری دینا کے گناہ اس مکان میں ہوتے تھے۔ وہاں تاش کھیلا جاتا تھا۔ واہیات گفتگو ہوتی تھی۔ شراب پی جاتی تھی۔ جوا کھیلا جاتا تھا۔ رنڈیاں آتی تھیں۔








ان حالات میں اس مکان اور اس کے مکینوں کے خیالات کو بدلنا قطعی طور پر ممکن نہ تھا۔








“ بھئی کچھ تو کرنا ہی پڑے گا۔“ افضل بولا۔








“ اچھا۔“ ایلی نے کہا۔ “ میں کوشش کروں گا۔“ لیکن اس کے باوجود اسے سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کس طرح کوشش کرئے۔








ساری رات وہ سوچتا رہا۔ پھر دفعتاً اسے دعوت کا خیال آ گیا جو شبیر نے انہیں کھلائی تھی۔














اس دعوت کے کوائف بھی انوکھے تھے۔








کریلے








ایک مرتبہ انہوں نے شبیر کو مجبور کیا کہ وہ انہیں دعوت کھلائے۔ پہلے تو شبیر انہیں ٹالتا رہا لیکن آخر اس نے محسوس کیا کہ دعوت کھلائے بغیر چارہ نہیں۔ اس نے ایک دن مقرر کر دیا۔ مقررہ دن وہ سب تیار بیٹھے رہے کہ کب بلاوا آئے۔ آکر شبیر آیا اور کہنے لگا۔ “ لو بھئی ابھی کھانا آتا ہے۔“








“ آتا ہے کیا مطلب؟“ افضل نے کہا “ کیا ہم تمہارے گھر نہ جائیں گے؟“








“ نہیں یار۔“ وہ بولا “ وہاں جا کر کھانے کا کیا مزہ۔ یہیں بھجوا دیتا ہوں میں۔ تم میری بیوی کی عادت سے واقف نہین۔ کوئی ایسی ویسی بات ہو گئی تو سارا مزہ کرکرا ہو جائے گا۔“








اس کے بعد انہوں نے دیکھا کہ شبیر کا بھانجا جاوہ ہاتھ میں ٹرے اٹھائے ان کے گھر کی طرف آ رہا ہے۔ لیکن ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب انہوں نے دیکھا کہ ان کے ہاں آنے کی بجائے وہ سیدھا آگے نکل گیا۔








انہوں نے جاوہ کو آوازیں دیں، شور مچایا مگر وہ چپ چاپ سیدھا نکل گیا۔








“ بیگم کی سہیلی کے ہاں کھانا پہنچانے گیا ہے۔“ شبیر بولا۔ “ ابھی واپس آ کر ہمارا کھانا لے آئے گا۔ گھبراؤ نہیں۔“ کچھ دیر کے بعد جاوہ وہی بھرا ہوا ٹرے اٹھائے واپس آ گیا۔ اسے دیکھ کر شبیر بولا۔








“ اچھا تو کیا وہ لوگ گھر نہیں ملے؟ اچھا تو انہیں پھر دے آنا۔ یہ ہمیں دے دو۔“ شبیر نے کچھ اس انداز سے بات کی کہ افضل اور ایلی کو سمجھ میں‌ نہ آیا۔








دراصل بات یہ تھی کہ شبیر کی بیوی ایلی اور افضل سے مشٹنڈوں کا کھانا پکانے کے لیے تیار نہ تھی۔ اس لیئے شبیر نے یہ بہانہ بنایا تھا کہ مسجد میں دو ولی اللہ ٹھہرے ہوئے ہیں۔ ان کی دعوت کرنا ہے۔ بیگم اس کی چال میں آ گئی اور اس نے کھانا تیار کر دیا۔ جب جاوہ کھانا لے کر مسجد کی طرف روانہ ہوا تو وہ حسبِ عادت دروازے میں کھڑی دیکھ رہی تھی کہ نکڑ والے مکان پر تو نہیں رکتا اور شبیر کی ہدایات کے مطابق جاوہ سیدھا نکل گیا تھا اور موڑ مڑنے کے بعد کچھ دیر وہاں انتظار کرتا رہا تا کہ بیگم شبیر مطمئن ہو کر اپنے کام کاج میں لگ جائے اور وہ کھانا لے کر لوٹ آئے۔








بہرحال ایلی اور افضل کو اس بھید کا علم نہ تھا۔ ان کا خیال تھا کہ شبیر نے منتیں کر کے بیوی کو دعوت پکانے پر تیار کر لیا ہے۔








اس رات اسے خیال آیا کہ بیگم شبیر کو راضی کرنے کا صرف ایک طریقہ ہے۔ اگلے روز ایلی نے گھر کا دروازہ جا کھٹکھٹایا۔








“ کیوں بھئی “ ایلی نے پوچھا۔ “ شبیر کہاں ہے؟“








“ وہ تو ابھی سکول سے نہیں آئے۔“ جاوہ بولا۔








ایلی نے بلند آواز چلا کر کہا۔ “ لیکن شبیر تو آج سکول آیا ہی نہیں تھا۔“ اس کا مقصد یہ تھا کہ بیگم بات سن کر چونک جائے۔








“ گھر سے تو سکول ہی گئے تھے۔“ جاوہ نے کہا۔








“ میں نے کہا جاوہ۔“ ایلی بڑے رازدارانہ انداز بولا۔ “ تمہارے گھر جب بھی کریلے پکیں تو یار تھوڑے سے مجھے دینا۔ اتنے اچھے کریلے تمہارے ہاں بنتے ہیں کہ جواب نہیں۔ یار مجھے کریلے بہت پسند ہیں۔“








جاوہ چپ چاپ کھڑا تھا۔








ایلی نے آواز اور آہستہ کر لی اور بولا۔ “ چاہے چرا کر کھلاؤ لیکن صرف ایک بار کھلا دو۔ صرف ایک مرتبہ تمہارے گھر کے پکے ہوئے کریلے کھائے ہیں۔ اس روز جب شبیر نے ہماری دعوت کی تھی۔ کھلاؤ گے یار؟“ اس نے کہا۔ “ گھر نہ بتانا۔ چوری چوری کھلا دینا۔ ضرور۔“








ایلی کو اچھی طرح علم تھا کہ شبیر کی بیگم بڑے غور سے اس کی ہر بات سن رہی ہے۔ اس لیے اس نے جاوہ کی بہت منتیں کریں پھر چلا آیا۔








گھر آ کر اس نے افضل کو کہا۔ “ بھئی پتھر تو پھینک آیا ہوں اب پتہ نہیں کیسی لہریں اٹھیں۔ یا تو کشتی ڈوب گئی اور یا کنارے جا لگی۔“








“ کیسا پتھر پھینکا ہے؟“ افضل نے پوچھا۔








“ بس سمجھ لو پتھر تھا۔ اب تو لہریں دیکھو۔








رات کو شبیر آیا تو اس نے آتے ہی شور مچا دیا۔ “ یار یہ کیا سحر کر دیا تم نے الیاس۔ حد ہو گئی۔“








“ کیوں کیا بات ہے؟“ افضل نے پوچھا۔








“ بات؟“ وہ بولا “ بات کہاں تو معجزہ ہو چکا ہے۔“








“ معجزہ۔“ افضل نے دہرایا۔ “ کچھ پلے بھی پڑے یار۔“








“ بات بتانے سے پہلے میں تمہیں پچھلا قصہ سنا دوں۔“ شبیر نے کہا۔ “ جب پہلی مرتبہ تم نے مجھ سے دعوت کھلانے کی بات کی تھی تو میں نے اپنی بیوی سے اس کا تذکرہ نہیں ‌کیا تھا۔ وہ تمہارے لیے دعوت پکائے یہ تو ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ اس لیے میں‌ نے اسے کہا تھا کہ مسجد میں دو مولوی ٹھہرے ہوئے ہیں ان کی دعوت کرنی ہے۔“








“ ارے۔“ افضل چلایا۔








“ اچھا۔“ ایلی بولا۔ “ جبھی چاوہ پہلے خوان لے کر آگے چلا گیا تھا۔“








“ بھئی بیگم تو تمہارا نام تک سننے کے لیے تیار نہیں۔ لیکن آج۔ معلوم ہے آج کیا مطالبہ کیا ہے اس نے؟“








“ کیا؟“ افضل بولا۔








“ کہ کل تمام سامان خرید کر لاؤ۔ میں ان کی دعوت کروں گی۔“








“ کس کی؟“ افضل چلایا۔








“ بھئی تمہاری اور کس کی۔“ شبیر ہنسنے لگا۔ مجھے تو اپنے کانوں پر یقین نہیں آتا تھا۔ نہ جانے آصفی نے وہاں جا کر کیا کیا ہے۔ نقشہ ہی بدل گیا گھر کا۔“








‘ لیکن یہ ہوا کیسے؟ ساری بات بتاؤ یار۔“ افضل بولا۔








“ گھر لوٹا تو پہلے تو جواب طلبی ہوئی کہ بتاؤ آج سکول کیوں نہیں گئے تھے اور گئے کہاں تھے۔ پھر دوسری جواب طلبی ہوئی۔ کہنے لگی اس روز مجھے دھوکہ دیا تھا نا۔ دعوت دوستوں کی کی تھی اور بہانہ مولوی صاحب کا بنایا تھا۔ بیگم کو یہ شکایت ہے۔“ وہ ہنستے ہوئے بولا۔ “ اگر دوستوں کی دعوت کرنی تھی تو مجھے بتایا ہوتا تا کہ میں دل لگا کر پکاتی۔ میں نے تو ویسے ہی بے پروائی سے کھانا پکایا تھا۔ حیرت ہے یار۔“








“ تو تیر نشانے پر بیٹھا۔“ ایلی ہنسنے لگا۔








“ سبحان اللہ کیا تیر ہے اور کیا تیر انداز ہے۔“ شبیر نے کہا۔ “ ایسی بات کر دکھائی ہے تم نے جو میری دانست میں ممکن ہی نہ تھی۔“








“ چلو “ ایلی بولا۔ “ شیخ سے جا کر شکایت کرنے کا خطرہ تو ٹل گیا۔“








“ ارے۔“ شبیر چلایا۔ “ تو کیا اس لیے یہ تیر چلایا ہے۔“








“ اور کیا دعوت کھانے کے لیے؟“ ایلی ہنسنے لگا۔








میم








“ میں تو دعوت کھانے کے لیے ہی آیا ہوں۔ “ محمود داخل ہو کر بولا۔








“ ارے تم؟“ ایلی اسے دیکھ کر چلایا۔ “ تم یہاں کہاں؟“








“ دیکھ لو۔“ وہ بولا۔ “ ڈھونڈ ہی نکالا تمہیں۔“








“ لیکن اس وقت کون سی گاڑی سے آئے ہو۔“ ایلی نے پوچھا۔








“ گاڑی کا تو وقت نہیں۔“ افضل بولا۔








“ میں موٹر سے آیا ہوں۔“ محمود مسکرانے لگا۔








“ بس سے اس وقت؟“








“ تو کیا کار سے آئے ہو۔“ ایلی نے طنزاّ کہا۔








“ ہاں ہاں کار سے بیٹھ کر سب کتھا سناؤں گا۔“








“ اچھا تو بیٹھ جاؤ۔“ ایلی نے کہا۔ “ پہلے ہماری بھجن منڈی کی کتھا سن لو پھر تمہاری کتھا بھی سن لیں گے۔ چلو بھئی۔“ ایلی چلایا۔ “ پہلے کام پھر کلام۔“








اس پر اس کے ساتھی دو حصوں میں بٹ گئے۔ دو ایک طرف بیٹھ کر ہارمونیم بجانے لگے۔ چار تاش کھیلنے میں مصروف ہو گئے۔ کھیلنا تو کیا تھا وہ یوں شور مچانے لگے جیسے تاش کھیل رہے ہوں۔ ایلی نے اٹھ کر اپلوں کے ڈھیر تلے سے ٹائپ مشین نکالی اور ٹائپ کرنے لگا۔








“ ارے۔“ محمود حیرت سے چلایا۔ “‌یہ کیسی کتھا ہے۔“








“ یہ سازش ہے۔“ ایلی نے جواب دیا۔








“ سازش۔“ محمود کی آنکھوں میں چمک لہرائی۔








اب کی بار محمود آیا تو اس کا حدوداربعہ بدلہ ہوا تھا۔ وہ رومی ٹوپی اور شلوار غائب تھیں۔ شلوار کی جگہ پتلون نے لے لی تھی اور سر ننگا تھا۔








جب وہ دونوں اکیلے ہوئے تو انہوں نے بات چھیڑی۔








“ کہاں ہو تم آج کل۔“ ایلی نے پوچھا۔








“ یہی تو مجھے معلوم نہیں۔“ محمود نے کہا۔








“ آخر کہیں تو ہو گے۔“








“ یہ تو ٹھیک ہے۔“








“ کیا دیپالپور ہو؟“








“ نہیں تو۔“ وہ بولا۔ “ مجھے تبدیل کر دیا ہے۔“








“ کہاں؟ “








“ لائلپور۔“








“ لائل پور میں تو کوئی گورنمنٹ سکول نہیں۔“








“ کوئی نہیں۔“ وہ مسکرایا۔








“ تو پھر؟“








“ میں نے ویلفیئر کے محکمہ میں نوکری کر لی ہے۔ لیکن۔“








“ یار میں یہاں کام نہیں کرنا چاہتا۔“ محمود نے جملہ ختم کیا۔








“ کیوں؟ “








“ اس محکمے میں عورتیں ہی عورتیں ہیں۔“








“ اس میں کیا دقت ہے۔“








“ جس افسر کے ساتھ میں ہوں وہ تو ہر بات میں جذباتی پہلو مدِ نظر رکھتی ہے۔ پھول دیکھ لے تو یوں خوشی سے ناچتی ہے جیسے نہ جانے کیا دیکھ لیا ہو۔ کوئی نوکر آ کر اپنا دکھڑا رو دے تو آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔ ہر بات میں ذاتی زاویہ ہر معاملے میں پرسنل ویو، نہ بھئی ان کے ساتھ میرا گزارہ نہیں۔“








“ تم بھی جذباتی پہلو اختیار کر لو۔“








“ عورت کے ساتھ میں تو صرف ایک ہی پہلو اختیار کر سکتا ہوں۔“ وہ ہنسنے لگا۔








“ تو کر لو۔“ ایلی نے کہا۔








“ نوکری ہاتھ سے جائے گی۔“








“ جانے لگے تو سامنے جا کر رہ دینا۔ وہ بھی رو پڑے گی، بات ختم ہو جائے گی۔“








“ سچ۔“ محمود کی آنکھوں میں عجیب چمک لہرائی۔








“ تم خود ہی کہتے ہو۔ نوکر رو کر کتھا سنائے تو اس کے آنسو نکل آتے ہیں۔“








“ لیکن جذباتی پہلو اختیار کیسے کیا جائے۔“ اس نے پوچھا۔








“ یہ تو آسان ہے۔“ ایلی نے کہا۔ “ نئے کپڑے پہنے تو شوق بھری نگاہوں سے دیکھو اور کہو یہ تو بڑا پیارا لگتا ہے۔“








“ یہ تو میں کرتے کرتے تھک گیا۔“ وہ بولا۔ “ خوش تو ہو جاتی ہے مگر میری طرف نگاہ بھر کر نہیں دیکھتی۔“








“ خوب صورت ہے؟“








“ ایسی خوبصورت تو نہیں، لیکن میم ہے۔“








“ میم۔“ ایلی اچھل کر بیٹھ گیا۔








“ اور جو دیسی ہوتی تو کیا تم سے ہی پوچھتا آ کر۔“








“ کار میں‌ کیسے آئے تھے؟“








“ اسی کی کار ہے۔“ وہ بولا۔








“ ارے تو کیا اس نے اپنی کار دے دی تمہیں یہاں آنے کے لیے؟“








“ خود پہنچانے آئی تھی۔“ وہ ہنسا۔








“ خود --------- ؟“








ایک ساعت کے لیے خاموشی چھائی رہی۔








“ اور اب وہ کہاں ہے؟“ ایلی نے پوچھا۔








“ واپس چلی گئی۔“








“ واپس کہاں؟“








“ لائل پور۔“








“ تو کیا وہ تمہاری شوفر ہے اور تم پوچھ رہے ہو کہ کیا کروں بھئی واہ۔“ ایلی ہنسا۔ “ جو آتا ہے ہمیں بےوقوف بناتا ہے۔“








“ یقین کرو۔“ محمود بولا۔ “ میں خود بےوقوف بنا ہوا ہوں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔“








“ کیا نہیں آتا سمجھ میں؟“ ایلی نے پوچھا۔








“ کچھ بھی تو نہین آتا۔“ وہ بولا۔ “ کسی وقت میری ہر بات مانتی ہے۔ کسی وقت بات نہیں سنتی۔ کسی وقت بات بات پر ضد کرتی ہے۔ جیسے ہر بات میری خواہش کے خلاف کرنے کی قسم کھائے بیٹھی ہو۔ کسی وقت ایسا ہوتا ہے۔ جیسے مجھ سے بہت قریب آ گئی ہو اور پھر ایک ساعت میں یوں دور چلی جاتی ہے جیسے کوئی واسطہ ہی نہ ہو۔ نہیں یار۔“ وہ چلایا۔ “ میں تذبذب سے اکتا چکا ہوں۔ اگر میں اس زنانہ محکمے میں کام کرتا رہا تو کسی روز موقوف ہو جاؤں گا۔“








محمود کے آنے پر ایلی مسلسل دو روز اس کے پاس بیٹھا رہا۔ وہ دونوں کتابوں کی باتیں کرتے رہے۔ آکسفورڈ ڈکشنری کے محاورں پر بحث کرتے رہے، عورت کی نفسیات کے مختلف پہلوؤں پر بات کرتے رہے۔








پھر محمود نے سوشل ورکروں کی بات چھیڑ دی۔ “ یار ایلی یہ دنیا ہی نرالی ہے۔“ وہ بولا۔ “ یہ قوم جسے عورت کہتے ہیں۔ عجیب قوم ہے۔ قہقہون میں روتی ہے۔ آنسوؤں میں ہنستی ہے۔ نہ کہہ کر پچھتاتی ہے، ہاں کہتے ہوئے جھجکتی ہے۔ میں آج کل الف لیلٰی کی دنیا میں جی رہا ہوں ------ وہاں خواجہ سرا ہیں، جنات ہیں۔“








ایلی حیرت سے اس کی باتیں سنتا رہا۔ حتٰی کہ دروازے سے پوم پوم کی آواز آئی۔








“ ارے یہ کیا ہے؟“ ایلی چلایا۔








محمود کا رنگ فق ہو گیا۔








“ کار کا ہارن معلوم ہوتا ہے۔“ ایلی نے کہا۔








“ ہاں ۔ “








“ کیا وہ خود لینے تو نہیں آ گئی؟“








“ ایسا ہی معلوم ہوتا ہے۔“








“ اس نے کہا تھا کہ میں آؤں گی۔“








“ نہیں تو۔“ وہ بولا۔ “ اس نے کہا تھا زیادہ سے زیادہ ایک روز رہنا پھر چلے آنا اور آج دو روز ہو چکے ہیں۔“








“ تو یقیناّ وہی ہے۔“ ایلی نے کہا۔








محمود اٹھ کر باہر چلا گیا اور چند ساعت میں آ کر مسکراتے ہوئے بولا۔ “ یار وہی ہے۔ کہتی ہے چونکہ تم وعدے کے مطابق کل نہیں پہنچے تو میں لینے آئیے ہوں۔“








“ ارے۔“ ایلی چلایا۔ “ اچھا افسر ملا ہے تمہیں۔“








محمود نے اپنی چیزیں سوٹ کیس میں رکھنی شروع کر دیں اور کہنے لگا۔ “ یار مجھے اس محکمے سے بچاؤ۔ مجھ اپنا انجام اچھا معلوم نہین ہوتا۔“








ایلی حیران تھا کہ ایسے سازگار حالات کے باوجود محموس وہاں سے تبدلہ کرانا چاہتا تھا۔ کتنی حیران کن بات تھی۔ اور پھر محمود جو طبعی طور پر لیڈیز مین واقع ہوا تھا۔ جو عورتوں سے دور یوں محسوس کرتا تھا جیسے کسی آبی جانور کو صحرا میں پھینک دیا گیا ہو۔ زندگی کس قدر عجیب تھی۔








صلح اور جنگ








محمود کے جانے کے بعد ایلی سکول گیا تو شیخ کے تیور بالکل بدلے ہوئے تھے۔








“ کہیے آصفی صاحب۔“ شیخ اسے دیکھ کر بولا۔ “ بڑے مصروف معلوم ہوتے ہیں آپ آج کل۔“








“ ایلی نے محسوس کیا کہ شیخ کی بات طنز بھری تھی۔ “ جی ہاں۔“ وہ بولا








‘ عجیب مصروفیت ہے کہ آدھی رات تک گھر باجے بجتے ہیں۔“








“ وہ تو بجیں گے۔“ ایلی نے کہا۔








“ خوشیاں منائی جا رہی ہیں۔“








“ جی ہاں۔“ ایلی نے کہا۔








“ سچ ہے۔“ شیخ بولا۔ “ دشمن پر وار ہو رہے ہوں تو خوشی تو ہوتی ہے۔“








“ نہ جانے کیوں ایلی شیخ کی اس بات پر بگڑ گیا۔ “ اگر آپ اس بات پر مصر ہیں کہ میں آپ کو دشمن سمجھتا ہوں تو چلیئے یوں ہی سہی۔“








شیخ نے قہقہہ لگایا۔








“ شیخ صاحب آپ کے قہقہے نہ گئے۔








“ کوشش تو بہت کی لوگوں نے۔“ شیخ ہنستے ہوئے بولا۔








“ جی۔ “ ایلی بولا۔ “ مجھے یہی حیرت ہے۔“








“ اچھا ذرا آیئے تو سہی۔“ شیخ نے رویہ بدلا۔








لیکن نہ جانے کیوں ایلی کو غصہ آ گیا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ کسی بہانے شیخ سے ناراض ہو جائے تاکہ اس دو رخی سے نجات حاصل ہو جس میں وہ پھنسا ہوا تھا۔ اس دو رخی پر اسے اپنے آپ سے نفرت محسوس ہوتی تھی۔








“ نہیں شیخ صاحب“ وہ بولا۔ “ اس وقت فرصت نہیں۔“








ایلی کے اس رویے کی وجہ سے شیخ ایلی کے ساتھیوں کو بلواتا اور ان سے کہتا بھئی میری اور آصفی کی صلح کرا دو اور وہ سب مل کر ایلی کو مجبور کر دیتے پھر یہ قافلہ شیخ کے گھر جا پہنچتا۔








وہاں پہنچ کر ایلی صاف صاف بھری محفل میں کہتا۔ “ مجھے شیخ صاحب کے خلاف کوئی شکایت نہیں، صرف اس بات کا رنج ہے کہ وہ مجھ پر شک کرتے ہیں اور پھر ان میں اتنی جرات نہیں کہ صاف صاف منہ پر کہہ دیں۔ نہیں صاف صاف نہیں کہتے بلکہ عورتوں کے طرح طعنے دیتے ہیں“ اس پر شیخ قسمیں کھاتا کہ مجھے آصفی پر شک نہیں۔








شیخ کی یہ بات سنتے ہے چودھری شور مچا دیتا۔ “ چلو بھئی صلح ہو گئی۔ اب کوئی جھگڑا نہین رہا۔ اب آصفی شیخ صاحب سے بغل گیر ہو جائے۔ اٹھو آصفی۔“ افضل اس کی ہاں میں ہاں ملاتا۔ شبیر آہستہ آہستہ سے چلاتا۔ “ اور مٹھائی۔“ “ وہ تو ہو گی ضرور ہو گی۔“ چودھری چیختا۔








پھر وہ سب بیٹھ کر مٹھائی کھاتے اور قہقہے لگاتے ہوئے ایلی کے گھر کی طرف چل پڑتے۔ وہاں جا کر باجے بجنے شروع ہو جاتے۔ تاش کی بازی لگ جاتی اور اپلوں کے انبار تلے سے ٹائپ کی مشین نکل آتی اور چودھری قہقہہ مار کر کہتا۔ “ لو بھئی آصفی آٹھ دن کے بعد شیخ سے پھر بگڑ جانا۔ یار تمہارا کیا بگڑے گا ہمیں مٹھائی مل جائے گی۔ کیا حرج ہے۔“ شبیر قہقہہ لگاتا۔ “ ضرور ضرور۔“ احمد تالی بجاتا۔








“ بگڑ جائے گا، بگڑ جائے گا۔“ افضل سنجیدگی سے کہتا۔ “ میرا ذمہ رہا۔ لیکن تم صلح کرانے میں دیر نہ لگانا۔“








چودھری چلاتا۔ “ اس کا ذمہ میں لیتا ہوں۔“








ان کے لیے یہ ایک نیا شغل تھا۔ جیسے یہ لڑائی اور صلح کا ڈرامہ ڈرامہ در ڈرامہ کی حثیت رکھتا ہو۔ ان کے نزدیک ان نئی بات نے سازش کو صلح اور جنگ کے ایک دلچسپ کھیل میں تبدیل کر دیا تھا۔








پھر وہ بیگم شبیر تھی۔ ان سب نے اس کے پکوانوں کی تعریفیں کر کے اسے بالکل رام کر لیا تھا۔ ہر مہینے وہ ان کو دعوت دیتی اور وہ اس کے گھر جا کھانا کھاتے اور کھانے کے دوران بڑے اہتمام سے اس کے پکانے کی تعریفیں کرتے۔ ان کی تعریفیں سن سن کر شبیر زیر لب کہتا “ ارے کمبختو، اب بس کرو کیوں میرا دیوالہ نکالنے پر ادھار کھائے بیٹھے ہو۔ ابے او خبیثو کیوں اس نیک بخت کو دھوکہ دے رہے ہو۔ کیوں میرا گھر اجاڑ رہے ہو۔“ لیکن دل ہی دل میں وہ بھی خوش تھا۔ کیونکہ اب بیگم اس پر پابندیاں عائد نہیں کرتی تھی۔








تت تت - بیچارا








بیگم شبیر کی اس تبدیلی کی وجہ صرف کریلے نہیں تھے۔ ایلی نے بہت جلد محسوس کر لیا تھا کہ خالی کریلے دیرپا ثابت نہیں ہو سکتے۔ جب تک کہ ان بنیادی باتوں کے متعلق کوئی بات نہ چھیڑی جائے جن کے بنا پر بیگم شبیر کو ان کے خلاف شکایت تھی۔








ایلی ابھی زندگی کی دہلیز پر کھڑا تھا۔ اسے معلوم نہ تھا کہ زندگی کا تار و پود کیا ہے۔ وہ صرف چند ایک تھیوریوں سے واقف تھا۔ جو اس نے کتابوں میں پڑھی تھیں۔ اور اسے شوق تھا کہ تھیوریوں کو کام میں لائے اور دیکھے کہ زندگی میں وہ کیا اثر پیدا کرتی ہیں۔ اس نے ان چند نظریات کو آزما دیکھا تھا اور اسے خاصی کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ اس لیے ان خیالات کو مزید آزمانے میں اسے راحت ہوتی تھی۔








ایک روز اس نے بڑی سنجیدگی سے شبیر کو کہا تھا۔ “ شبیر میرا ایک پیغام بیگم تک پہنچا دو۔“








شبیر گھبرا گیا۔ “ نہیں یار چھوڑو اس بات کو اس نیک بخت کو زیادہ دق نہ کرو۔ کہیں وہ بالکل ہی بگڑ نہ جائے۔“








“ نہیں یار۔“ وہ بولا۔ “ یہ خالی کریلے دیر تک نہ چلیں گے۔“








منتیں کر کے اس نے شبیر کو منا لیا تھا اور شبیر نے ایلی کی ہدایات کے مطابق اپنی بیگم کو پیغام دے دیا تھا۔








“ میں نے کہا۔“ شبیر نے بیگم سے کہا۔ “ ایک کام کر دو تو بڑی مہربانی ہو گی۔ ثواب کا کام ہے۔“








“ کیا ہے؟“ وہ بولی۔








“ یہ جو الیاس ہے نا۔ اس کی خواہش ہے کہ کسی اچھی لڑکی سے اس کی شادی ہو جائے۔“








تو پھر کرتا کیوں نہیں۔“ بیگم غصے میں چلائی۔








“ کسی اچھے رشتے کی تلاش ہے اسے۔ اچھی لڑکی ملے تو کرئے۔“








“ تو کہے نا اپنے ماں باپ سے۔“ وہ بولی۔ “ میں نے تو سنا ہے کہ ماں باپ کا کہا نہیں مانتا وہ۔“








“ یہ ٹھیک ہے۔“ شبیر بولا۔








“ جو ماں باپ کا کہا نہیں مانتا وہ کیا انسان ہے۔“ وہ غصے سے بولی۔








“ نہیں تم نہیں سمجھتی بیگم۔ وہ بولا۔ “ اسے ماں باپ کے چناؤ پر اعتماد نہیں۔“








“ ہئے ماں باپ کے چناؤ پر اعتماد نہیں۔“ بیگم چڑ گئی۔








“ دیکھو نا۔“ وہ بولا۔ “ اس کی چار مائیں ہیں۔“








“ چار مائیں۔“ وہ چلائی۔








“ ہاں۔“ شبیر نے کہا۔ “ والد اپنی دھن میں لگے ہیں۔ والدہ کی کوئی مانتا نہیں۔“








“ تت تت تت۔“ بیگم پسیج گئیں۔ “ بیچارہ“








“ کل بھری محفل میں کہہ رہا تھا ------ “ شبیر رک گیا۔ “ لیکن چھوڑو اس بات کو۔“








“ کہو تو کیا کہہ رہا تھا۔“ وہ مصر ہو گئی۔








“ چلو چھوڑو۔“ شبیر نے کہا۔








“ چھوڑو کیوں۔“








“ تم برا مانو گی۔“








“ نہیں میں نہیں مانتی برا۔“








“ سچ؟ “








“ کہہ جو دیا۔“








“ کہہ رہا تھا میں نے آج تک کوئی ایسی عورت نہیں دیکھی جو اچھی لڑکی کا چناؤ کر سکتی ہو۔ صرف ایک بیگم شبیر ہے۔“ وہ ہنسنے لگا۔








“ ویسے ہی اناپ شناپ بکتے رہتے ہیں یہ۔“ وہ بولی۔








“ نہیں نہیں وہ بڑی سنجیدگی سے کہہ رہا تھا۔“








“ اچھا ------“ وہ بولی۔ “ تو کیا میں نے یہاں شادی کی ایجنسی کھول رکھی ہے۔ میں کیا کروں۔“








“ نہیں نہیں۔“ وہ بولا۔ “ مقصد یہ ہے کہ الیاس چاہتا ہے کہ اگر کوئی رشتہ ملے تو تم جا کر لڑکی کو دیکھ لو۔“








“ آخر کس قسم کی لڑکی چاہیے اسے۔“ بیگم نے پوچھا۔ “ ہے بیچارہ۔“








“ بس ایک ہی شرط ہے اس کی۔“








“ کیا؟“








“ کہ لڑکی مغرب زدہ نہ ہو۔“








“ کیا سچ۔“ وہ حیران رہ گئی۔








“ اچھا ------ میں تو سمجھتی تھی ------ “








شبیر قہقہہ مار کر ہنسا۔ “ مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ تمہاری بیگم کی کوئی چھوٹی بہن ہے۔ جس کی شادی نہ ہوئی ہو۔“








شبیر اور ایلی کو اچھی طرح سے علم تھا کہ بیگم شبیر کی کوئی چھوٹی بہن نہیں اور اصولی طور پر بیاہ شادی کے جھمیلے میں پڑنے کی قائل نہیں۔ اس لیے انہوں نے یہ پیغام اسے بھیجا تھا تاکہ بات بھی پہنچ جائے اور اس کے نتائج بھی پیدا نہ ہوں۔ اس پیغام کا یہ نتیجہ ہوا۔ کہ بیگم شبیر الیاس کو بیچارہ کہنے لگی۔ ------ اور ایلی مطمئن ہو گیا۔ چونکہ وہ جانتا تھا کہ جسے چند بار بیچارہ کہہ دیا جائے اس کے خلاف غصہ نہیں رہتا۔


چلچلاتی ہڈیاں








محمود کے جانے کے بعد ایلی کو ایک خط موصول ہوا۔ جمیل نے ایلی کو خان پور بلایا تھا کہ کوئی ضروری معاملہ ہے۔








خان پور پہنچ کر وہ سیدھا جمیل سے ملا۔








“ کیوں خیر ہے؟“ اس نے پوچھا۔














جمیل حسبِ عادت مسکرا دیا۔ “ گھبراہٹ کی کوئی بات نہیں۔ نقی نے کہا تھا بلا لو۔“








“ کیوں “








“ وہ آج کل بہت پریشان ہے۔ یار اس کا کچھ کرو۔ اس نے اپنی زندگی بہت تلخ کر رکھی ہے۔ روز بیوی کو پیٹتا ہے۔ روز رات کو ان کے گھر ہنگامہ بپا ہوتا ہے۔ محلے والے اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ راہ گیر کھڑے ہو جاتے ہیں۔“








“ اچھا تو کیا اس لیے بلایا ہے مجھے؟“








“ نہیں وہ تو کوئی اور معاملہ ہے۔“ جمیل نے کہا۔








“ مجھے نہیں معلوم۔ نقی خود بتائے گا۔ لیکن نقی کے گھر کے جھگڑے کے بارے میں کچھ سوچو یار ہم سب بڑے پریشان ہیں۔“








شام کے وقت جب وہ نقی کے ہاں پہنچے تو وہ اردگرد اوزار رکھے جوتے کا تلا سی رہا تھا۔








“ ارے تم یہ کیا کر رہے ہو۔“ ایلی نے پوچھا۔








“ جوتا سینا سیکھ رہا ہوں۔“ نقی نے جواب دیا۔








“ اور وہ چڑیاں کیا ہوئیں جو تم کپڑے پر کاڑھا کرتے تھے۔“








“ اڑ گئیں۔“ وہ بولا۔








“ لیکن کوئی اور ہابی منتخب کرتے۔“ ایلی نے کہا۔








“ یہ ہابی تو نہیں۔ “ نقی نے اپنی تھوتھنی اوپر اٹھائی۔ “ ایک روز سوچ رہا تھا کہ آخر ہر نیا جوتا جو میں خریدتا ہوں، میرے پاؤں کو کاٹتا کیوں ہے۔ یہ بات میں عرصہ دراز سے سوچتا تھا۔ یعنی مطلب ہے کہ ذہن میں تھی یہ بات تو مجھے خیال آیا کہ یہ موچی لوگ سٹینڈرڈ سائز کے جوتے بناتے ہیں۔ یعنی اوسط سائز کے اور جس کے پاؤں اوسط سائز سے ہٹ کر ہوں انہیں جوتے کاٹتے ہیں۔ لٰہذا میں نے سوچا کہ اپنے پاؤں کے مطابق جوتا سینا چاہیے۔ یہ بات دیر سے میرے ذہن میں تھی۔ اب کی بار نہ جانے کیسے عمل میں آ گئی۔ وہ یوں ہوا کہ ایک روز میری جیب میں بیس روپے تھے اور میں اتفاقاّ اس بازار میں جا نکلا جہاں موچیوں کے اوزار بکتے ہیں تو میں نے اوزار خریدے۔ پھر جوتا سینے میں کیا دیر لگتی ہے۔ یہ جو ہمارے مکان سے باہر موچی بیٹھتا ہے۔ اس سے ٹانکا لگانا سیکھ لیا۔ اللہ اللہ خیر سلا۔ اب سوچتا ہوں کہ آخر چینی موچی کا کمال کیا ہے۔ یہی نا کہ وہ خوبصورت شکل کا جوتا نہیں بناتے بلکہ ایسا جوتا بناتے ہیں جو پاؤں میں فٹ بیٹھے۔“








“ سنا ہے تم نے بیگم کو پیٹنے کا شغل بیز کر دیا ہے۔“ ایلی نے بات بدلی۔








“ ہاں یار۔“ نقی بولا۔ “ میں نے بھی سنا ہے۔ کل رات کو میں جو اپنی بیٹھک سے باہر نکل کر ایک بند دوکان پر جا بیٹھا۔ ویسے ہی جا بیٹھا۔ میں نے سوچا چلو آتے جاتے لوگوں کا تماشہ دیکھو تو دو محلے والے آ کھڑے ہوئے وہاں۔ انہوں نے یا تو مجھے دیکھا نہیں اور یا پہچانا نہیں۔ اندھیرا ہو چکا تھا۔ وہ آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ ایک کہہ رہا تھا۔ اس نقی بابو نے جو ساتھ والے گھر میں رہتا ہے نے بڑا اودھم مچا رکھا ہے۔ محلے میں روز لڑائی روز لڑائی مجھے اس کی بات تو بری نہ لگی۔“








نقی نے کہا “ لیکن جو جواب دوسرے نے دیا اسے سن کر کباب ہو گیا میں۔“








“ دوسرے نے کیا کہا؟“ ایلی نے پوچھا۔








کہنے لگا “ چھوڑو جی کس کی بات کرتے ہو۔ وہ تو مستی پر آئی ہوئی کتیا ہے۔ کتیا۔“ وہ ہنسا۔








“ کتا بھی نہیں کتیا۔ اور پھر سچے تو بیگم سے لڑنے کو کتیا سے کیا تعلق۔ بڑی گہری بات کہدی سالے نے۔ سمجھ میں نہیں آئی۔“








“ تو پھر اسے کیوں پیٹتے ہو۔“ ایلی نے پوچھا۔








“ اگر اس نقطے کا مجھے علم ہوتا تو ------ “








“ تو کیا بے خبری میں پیٹتے ہو۔“








“ ہاں یار اب جو تم نے کہا تو مجھے خیال آیا کہ واقعی بے خبری میں یہ عمل ہوتا ہے۔ مثلاّ اس نے کوئی واہیات بات کی اور مجھے غصہ آیا۔ یہاں تک تو شعور ہوتا ہے۔ پھر جو جوش آتا ہے تو میں‌ پیٹ رہا ہوتا ہوں اور وہ چیخ رہی ہوتی ہے۔“








“ تو اپنے آپ کو قابو میں رکھو۔“








“ یار تم سے پڑھے لکھے ایسی بات کریں، حیرت ہے۔ تم سمجھتے ہو میری انا گھوڑا ہے اور میں سوار ہوں۔ اس کے برعکس مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے میری انا سوار ہے اور میں گھوڑا ہوں۔ میں اسے قابو میں کیسے رکھوں۔ ہاں یار۔“ دفعتاّ اسے یاد آیا۔ “ جس بات کے لیے میں نے تمہیں بلایا ہے تو تو سنو۔ میں تو عجیب مصیبت میں مبتلا ہوں۔ سمجھ لو باؤلا ہو رہا ہوں۔ عجب بات ہے یار تم یہ بیگم کے قصے کو کیوں لے بیٹھے۔ یہ تو پرانا روگ ہے۔ نہ جانے میرا یا بیگم کا یا دونوں کا۔ شاید اس معاملے میں میں ہی مظلوم ہوں۔ خیر خیر اس قصے کو چھوڑو۔ میں سمجھتا ہوں۔ پٹنے کے لیے اس کی ہڈیاں چلچلاتی رہتی ہیں۔“








“ چائے تو کہہ دو۔“ جمیل نے کہا۔








“ وہ تو میں نے پہلے ہی کہہ دیا ہے۔“ نقی بولا۔ “ کہا تو چائے بنانے کو ہے۔ پتہ نہیں شاید شربت بنا دے یا ستو گھول دے۔“ وہ ہنسنے لگا۔ “ پتہ ہے کل کیا ہوا۔ حقہ جو بھرا اس نے تو میں حیران یا اللہ یہ کیا بھرا ہے چلم میں۔ کہنے لگی تمباکو ہے۔“








“ چلم الٹا کر دیکھا تو گدھی نے چائے کی پتی ڈال رکھی تھی چلم میں۔“ وہ ہنسنے لگی۔ “ پھر لوگ کہتے ہیں میں پیٹتا ہوں اسے۔“








“ ہاں تو وہ بات سنا رہے تھے تم۔“ جمیل نے کہا۔








“ یہ کیا خرافات ہیں۔ “ نقی نے کہا۔ “ بھئی یہ زندگی ہے۔ شکر کرو کہ ہم تمہیں اتنی اہمیت دیتے ہیں۔ اور جب بھی کوئی خاص واقعہ پیش آتا ہے تو تمہیں سناتے ہیں۔“








“ لیکن اتنی دور سے بلانا یہ کیا زیادتی نہیں؟“








“ میں نے تو نہیں بلایا۔“ نقی بولا۔ “ میں نے تو جمیل سے کہا تھا کہ میں جاورے ہو آؤں۔ چونکہ میں چاہتا تھا کہ تمہارا مشورہ لوں۔ بات ہی کچھ ایسی تھی۔ میں گھبرا گیا اور جاورے جانے کے لیے تیار ہو گیا۔ پھر جمیل نے کہا کہ تم وہاں نہ جاؤ۔ اسے یہاں بلا لو۔“








“ ہاں “ جمیل بولا۔ “ میں نے سوچا ہمیں بھی مل جائے گا۔ اپنے بھی دو دن خوشی سے گزر جائیں گے۔“








تو ------ یہاں








“ ہاں تو بات الٹی سی ہے۔“ نقی نے قصہ بیان کرنا شروع کیا۔








“ پہلے میں تمہیں یہ بتا دوں۔“ وہ بولا۔ “ کہ میں یہاں چکلے میں کبھی نہیں گیا۔ نہ ہی مجھے وہاں جانے سے کوئی دلچسپی ہے۔ سمجھ لو میرے دماغ میں یہ خانہ سرے سے خالی ہے۔ مجھے یہ بھی علم نہ تھا کہ چکلا کہاں واقع ہے۔ شاید کہیں کسی جگہ اس کے جائے وقوع کے متعلق سنا ہو۔ ضرور سنا ہو گا۔ لیکن مجھے شعوری طور پر علم نہ تھا کہ وہ کہاں واقع ہے۔“








“ ایک روز۔“ وہ بولا۔ “ مجھے جلدی تھی۔ ایک دوست سے ملنے کے لیے چندو محلے کی طرف جا رہا تھا۔ کابلی دروازے پہنچا تو میں نے چکلے کی گلی کی طرف دیکھ کر سوچا کہ رادھا چوک سے گھوم کر کیوں جاؤں۔ اسی گلی سے کیوں نہ نکل جاؤں۔ ضرور یہ گلی آگے کہیں نہ کہیں نکل جائے گی۔ بند گلی تو معلوم نہیں پڑتی۔ اس طرح پہلی مرتبہ میں چکلے کی گلی میں داخل ہوا۔ اب اپنی ہی دھن میں چلا جا رہا ہوں، کچھ سوچ رہا تھا۔ نہ جانے کس سوچ میں پڑا تھا۔ میں نے مڑ کر دیکھا ہی نہیں۔ شام کا وقت تھا۔ ابھی بتیاں جل رہی تھیں۔ اس وقت زیادہ بھیڑ نہیں تھی۔ بھیڑ تو رات کے وقت ہوتی ہے۔ آدھی گلی تو میں نے ایسے ہی انجانے میں عبور کر لی۔ اب جو سر اٹھا کر دیکھتا ہوں تو سامنے ایک کھڑکی میں بیٹھی ہے۔ میں گھبرایا۔ ادھر دیکھتا ہوں تو ایک دروازے میں کھڑی ہے۔ ایک ادھر چوکی پر بیٹھی ہے۔ اس وقت مجھے احساس ہوا کہ میں چکلے سے گزر رہا ہوں۔ طبیعت مکدر تو ہوئی لیکن میں نے سوچا اب آ جو گیا ہوں تو نکل ہی جاؤں۔








“ ابھی چند قدم آگے گیا تھا کہ دفعتاّ میری نگاہ اس پر پڑی۔ وہ چوبارے کے جنگلے میں بیٹھی تھی۔ اسے دیکھ کر میں خواہ مخواہ رک گیا۔ عجیب انداز سے بیٹھی تھی۔ نہ تو وہ راہگیروں کو دیکھ رہی تھی اور نہ اپنا آپ دکھا رہی تھی۔“ نقی مسکرایا۔ “ اسے خبر ہی نہ تھی کہ وہ بیٹھی ہے یا کھڑی ہے یا کہاں بیٹھی ہے۔ باورچی خانے میں بیٹھی ہے یا پلیٹ فارم پر یا چکلے میں۔ دونوں ہاتھوں کا پیالہ بنا کر اس میں ٹھوڑی رکھی ہوئی تھی اور خود کھوئی ہوئی تھی۔ انداز ایسا تھا جیسے روئی روئی ہو۔ بال کھلے تھے پریشان حال کپڑے بے پرواہی سے پہنے ہوئی۔ بس صرف ہونٹوں پر لپ سٹک لگی تھی۔ اللہ اللہ خیر سلا۔








“ اسے دیکھ کر مجھے صرف یہ خیال آیا کہ یہ یہاں کیوں بیٹھی ہے۔ چند ایک ساعت تو میں اسے دیکھتا رہا۔ پھر میں سوچا چلو چھوڑو مجھے کیا لینا دینا ہے۔ بیٹھی ہے تو بیٹھی رہے اپنا کیا لیتی ہے۔ میں چل پڑا لیکن یہ سوال میرے دل میں کانٹا سا لگا رہا کہ یہ یہاں کیوں بیٹھی ہے۔ دو قدم چلا پھر رک گیا۔ مجھے غصہ محسوس ہونے لگا۔ آخر یہ کیوں یہاں بیٹھی ہے۔ پھر رک گیا۔ پھر اپنے آپ کو سمجھانے لگا۔ لیکن غصہ بڑھتا ہی گیا۔ حتٰی کہ میں مجبور ہو گیا۔ جی میں آیا کہ جا کر پوچھوں تو اس میں حرج کیا ہے۔“








“ میں واپس آیا۔ لیکن جب اس کے چوبارے کی سیڑھیاں چڑھنے لگا تو خیال آیا کہ آخر اوپر جا کر کہوں گا کیا۔ لاحول ولاقوۃ۔ کیا فضول خیال ہے۔ اگر اس نے کہہ دیا کہ بیٹھی ہوں تجھے کیا۔ تو کیا جواب دوں گا۔ اس خیال پر میں آگے چل پڑا۔ لیکن آگے قدم اٹھانا مشکل ہو رہا تھا۔ ہر قدم کے بعد رک جاتا۔ غصہ دم بدم بڑھتا جا رہا تھا۔ بہر صورت اتنی بار رکا میں کہ میں نے سوچا آگے جانا بیکار ہے اور پھر اس قدر غصے میں آ چکا تھا کہ کوئی اور بات ذہن میں نہ رہی تھی۔ لٰہذا میں نے ایک تانگہ لیا اور تانگے والے سے کہا کہ مجھے گھر لے چل۔ گھر پہنچ تو گیا لیکن وہاں بھی رہ رہ کر مجھے یہ خیال آتا کہ وہ وہاں کیوں بیٹھی ہے اور وہ غصہ جو مجھے آ رہا تھا وہ میں نے سب بیوی پر نکالا۔ پیٹ پیٹ کر اس کا پلستر نکال دیا۔ میرے اپنے ہاتھ دکھنے لگے۔ پھر تھک ہار کر سو گیا۔“








“ اگلے روز پھر وہی چکر۔ دفتر گیا تو وہاں کام کرتے کرتے رک جاتا اور وہی خیال آتا کہ وہ وہاں کیوں بیٹھی ہے۔ ہزار سمجھایا لیکن بے کار۔ اب میں دفتر میں خواہ مخواہ لوگوں سے الجھ رہا ہوں۔ بےکار باتوں پر لڑ رہا ہوں حتٰی کہ صاحب سے جا کر الجھ پڑا۔“








“ پھر میں نے سوچا یہ تو بری بات ہے۔ گھر چلو ورنہ گڑ بڑ کر بیٹھوں گا تو میں طبیعت خراب ہونے کا بہانہ بنا کر گھر چلا آیا۔ راستے میں اپنی حماقت پر سوچتا آیا۔ چلتا رہا چلتا رہا اور سوچتا رہا۔“








“ اب جو آنکھ اٹھا کر دیکھتا ہوں تو اس کے چوبارے کے نیچے کھڑا ہوں۔ یعنی گھر کو پیچھے چھوڑ کر ایک میل آگے نکل گیا اور مجھے علم ہی نہ ہوا کہ آگے نکل آیا ہوں یا کہاں جا رہا ہوں یا راستہ غیر مانوس ہے۔“








“ چوبارے میں کوئی بھی نہ تھا۔ میرا مطلب ہے جنگلے میں کوئی نہ تھا۔ اس وقت کون ہوتا۔ بھلا دوپہر کو دو بجے کون طائفہ باہر بیٹھتی ہے۔“








“ وہاں جو ہوش آیا تو اپنے آپ پر غصہ آیا کہ یہ میں کہاں آ گیا ہوں اور اس قدر شدت سے غصہ آیا اپنے آپ پر کہ اب اپنے دل کی بات ماننے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔ لٰہذا اب مجھے اوپر چڑھنے سے کون روک سکتا تھا۔ اوپر چوبارے میں وہ میلے کچیلے کپڑوں میں چارپائی پر بیٹھی تھی۔ میں نے اوپر جاتے ہی اس سے لڑنا شروع کر دیا۔ وہی بات ہوئی نا۔“ نقی بولا۔ “ نہ جان نہ پہچان بڑی خالہ سلام۔ میں نے کہا۔ تو یہاں کیوں بیٹھی ہے؟ اور تیرا یہاں بیٹھنے سے کیا مقصد ہے؟ اور تو کیا طائفہ ہے؟ پھر تیرا یہاں کیا کام؟“








“ پہلے تو حیرت سے میری طرف دیکھتی رہی پھر ہنسنے لگی۔ سمجھتی ہو گی کوئی پاگل ہے۔ پھر اس کے حواری آ گئے۔ انہوں نے آ کر مجھ سے الجھنا شروع کر دیا اور غصے سے میرا دماغ اور بھی چل گیا اور میں اتنا اودھم مچایا اور ان سے اتنی مار کھائی کہ کیا بتاؤں۔ پھر لوگوں نے مجھے چھڑایا اور تانگے میں ڈال کر گھر بھجوا دیا۔“








“ اگلے روز پھر وہی جنون۔ میری زندگی گویا حرام ہو گئی۔ بس یہی دھن جی میں سمائی تھی کہ وہاں جاؤں اور جا کر اس سے لڑوں۔ چار ایک روز تو میں نے زبردستی اپنے آپ کو روکے رکھا پھر مجھے خیال آیا کہ یہ بھوت ایسے نہیں اترے گا۔ سمجھانا بجھانا فضول ہے۔ لٰہذا میں نے سوچ سوچ کر یہ فیصلہ کیا کہ وہاں جاؤں، اسے بک کروں۔ منہ مانگے دام دوں اور پھر لڑنے کی بجائے اس سے باتیں کروں۔ شاید اس اقدام سے دل کی بھڑاس نکل جائے تو صاحب۔“ نقی نے قصہ بیان کرتے ہوئے کہا۔ “ اس روز میں ‌نے نہا دھو کر اچھا لباس پہنا اور بن سنور کر رات کو وہاں جا پہنچا۔“








“ اس کے حواریوں نے جب دیکھا کہ رات رہنا چاہتا ہوں اور میرا دنگا فساد کا ارادہ نہیں تو انہوں نے مزاحمت نہ کی۔ البتہ حرامیوں نے مجھ سے بہت پیسے مانگے۔ ظاہر تھا کہ مجھے ٹھگ رہے ہیں۔ خیر میں نے کہا جو مانگو گے دوں گا۔“








“ تو جناب۔“ نقی بولا۔ “ میں وہاں ٹھہر گیا۔ لیکن ایمانداری کی بات ہے کہ میں اس کے ہاں ٹھہرنے کا ارادہ نہ رکھتا تھا۔ یعنی میں صرف باتیں کرنا چاہتا تھا اور بس ٹھہرنا تو محض بہانہ تھا۔ خیر۔“








نقی اور بانو








“ جب ہم اکیلے رہ گئے تو عجیب بات ہوئی۔ اب میں چپ چاپ کرسی پر بیٹھا سگریٹ پی رہا ہوں اور وہ کن انکھیوں سے میری جانب دیکھ دیکھ کر مسکرا رہی ہے۔ آخر میں نے بات شروع کی۔ میں نے کہا۔ “ بتا نا مجھے تو یہاں کیوں بیٹھی ہے۔“








“ وہ بولی۔ تو اس بات کو چھوڑ۔ تجھے اپنے کام سے واسطہ۔ میں نے کہا۔ میں تو آیا ہی اس لیے ہوں کہ تجھ سے پوچھوں کہ آخر بات کیا ہے؟ تو یہاں کی نہیں۔ نہ تو یہاں کی دکھتی ہے۔ نہ تیری کوئی حرکت ایسی ہے جو ظاہر کرئے کہ تو یہاں کی ہے، بلکہ تجھے دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے مجھے جیسے کوئی مچھلی ریت پر پڑی ہے۔ تو تو یہاں دم توڑ رہی ہے۔“








“ پھر میں نے اس سے محبت بھرے انداز سے بات کرنی شروع کی کیونکہ ویسے تو وہ میرے سوال کا جواب نہ دیتی تھی۔ میں نے کہا۔ دیکھ بانو، چونکہ مجھے پتہ چل گیا تھا کہ اس کا نام بانو ہے، یہاں اس بازار میں وہ بیٹھی ہیں جو جسم ہی جسم ہوں اور تو تو جسم ہے ہی نہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے تو بغیر جسم کے ہو۔ یہ روئی روئی آنکھیں یہ کھوئی کھوئی نگاہ جیسے کوئی راستہ بھول گیا ہو اور رو رو کر تھک گیا ہو۔“








“ وہ مجھ سے بار بار کہتی رہی تو چھوڑ اس قصے کو لیکن میں نے اپنی رٹ نہ چھوڑی پھر وہ پوچھنے لگی۔ “ تو کون ہے۔“ میں نے اسے اپنا نام اور کام بتایا۔ اپنے گھر کا پتہ دیا۔ پھر وہ پوچھنے لگی۔ “ تو مجھے حق میں لے گا۔“ اس پر میری ہنسی نکل گئی۔








“ میں نے کہا۔ تو غلط سمجھ رہی ہے۔ مجھے تیری ہوس نہیں۔ مجھے عورتوں سے کچھ دلچسپی نہیں اور نہ ہی میں تیری محبت کا مارا ہوا ہوں۔ میں تو صرف یہ پوچھتا ہوں کہ تو یہاں کیسے آ گئی۔ یہ تیری جگہ نہیں۔“








“ قصہ کوتاہ۔“ نقی بولا۔ “ پھر وہ میرے پاس آ بیٹھی اور گھل مل کر باتیں کرنے لگی۔ روتی رہی۔ کہنے لگی میرے نصیب۔ پھر میں نے بحث چھیڑ لی اور پھر مجھے غصہ آنے لگا اور جب اس نے دونوں بانہیں میری گردن میں ڈال کر ہونٹ میری طرف بڑھائے اور بولی۔ اب چھوڑو بھی نا۔ تو غصے میں میں نے اسے یہ تھپڑ مار دیا۔ وہ لڑکھڑا کر گری اور اس نے شور مچا دیا اور پیشتر اس کے کہ حواری آ پہنچتے میں بھاگ آیا۔ اسے ملے مجھے دس دن ہو چکے ہیں۔ اب یہ حالت ہے کہ چاہے میں پورب کو جاؤں یا پچھم کو مجھے اس وقت ہوش آتا ہے جب میں اس کے چوبارے تلے جا پہنچتا ہوں اور ہوش آتا ہے تو وہاں سے بھاگتا ہوں۔ سارے چکلے میں‌ چرچا ہو رہا ہے۔ لوگ گردن اٹھا اٹھا کر مجھے دیکھتے ہیں۔ انگلیاں اٹھا اٹھا کر میری طرف اشارے کرتے ہیں۔ طائفوں کے بھڑوے مجھے دیکھ کر ہنستے ہیں۔ رنڈیاں میرا مذاق اڑاتی ہیں۔ اور وہ بانو، وہ تو مجھے دیکھ کر یوں ساکت ہو جاتی ہے جیسے پتھر ہو گئی ہو۔ اس نے ہنسنا مسکرانا چھوڑ دیا ہے۔ اب تو وہ ڈر کے مارے باہر بھی نہیں جھانکھتی۔ عجب تماشہ ہے۔“ وہ ہنسنے لگا۔








پھر دفعتہّ اسے خیال آیا “ یار وہ چائے تو مدت سے بنی ہوئی ہو گی۔ میں لایا ہی نہیں۔“ وہ اندر چلا گیا اور چند ساعت کے بعد چائے کا ٹرے اٹھائے ہوئے آیا۔ آتے ہی اس نے چائے بنانا شروع کی۔








“ ہاں “ وہ چائے بناتا ہوا بولا۔ “ تو تمہاری نفسیات کیا کہتی ہے۔ الیاس آصفی۔ یہ سب گڑ بڑ گوٹالہ کیا ہے۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے مجھ سے۔ یار ایسی عجیب و غریب باتیں کیوں ہوتی ہیں۔ کوئی بات بھی تو سیدھی نہیں ہوتی۔ ہر بات الٹی، ہر واقعہ پیچیدہ، اب بتاؤ میں کیا کروں؟“








“ ارے۔“ وہ چائے کی طرف دیکھ کر چلایا۔ “ یہ کیا چیز ہے؟“








چائے کا رنگ ہلکا پیازی تھا۔ جیسے چائے نہیں بلکہ پشاوری قہوہ ہو۔








“ لو “ وہ بولا۔ “ پھر اس نے گڑ بڑ کر دی۔ نہ جانے قہوہ بنا دیا ہے یا کیا، حد ہو گئی۔“ نقی نے چائے دانی اٹھائی اور اندر چلا گیا۔








پہلے تو مکان سے اس کے چلانے کی آوازیں آتی رہیں۔ پھر دفعتاّ چیخ و پکار شروع ہو گئی۔ وہ دھاڑ رہا تھا اور نہ جانے کس چیز سے بیگم کو زدکوب کر رہا تھا اور وہ چیخ رہی تھی چلا رہی تھی۔








“ اور ارے اور پیٹ اور پیٹ۔“ وہ روتے ہوئے کہہ رہی تھی۔








“ میں تیری ہڈیاں توڑ دوں گا۔“








“ تو توڑ دے۔ ایک بار میں قصہ ختم کر دے۔“








“ وہ قصہ ختم کروں گا کہ دنیا دیکھے گی۔“








پڑوسی چاروں طرف سے اکٹھے ہو گئے۔








“ اب چھوڑ بھی کہ مار کر ہی دم لے گا۔“ ایک نے کہا۔








“ اے کیا قیامت اٹھا رکھی ہے تم نے۔“ دوسرا بولا۔








“ اے نقی صاحب اے نقی صاحب۔“








دو ایک محلے والے بیٹھک میں آ گئے۔ “ کیوں صاحب یہ کیا آئے دن کے فساد سے ہمارا ناک میں دم آ گیا بھائی صاحب۔“








ایلی اور جمیل خاموش بیٹھے تھے۔








اندر جھگڑا بڑھتا ہی جا رہا تھا۔








اس پر محلے والے گھر کے اندر داخل ہو گئے۔ لوگوں نے نقی کو پکڑ لیا لیکن وہ ویسے ہی چیخے جا رہا تھا۔ “ اندھیر خدا کا حقے میں تو چائے ڈالتی ہے تو چائے بناتی ہے تو پان کا زردہ ڈال دیتی ہے۔“ وہ چیخ رہا تھا۔








“ چلو چلیں۔“ جمیل نے ایلی سے کہا۔








“ لیکن یہ گڑبڑ۔“ ایلی نے پوچھا۔








“ یہ تو یوں ہی رہے گی۔“ جمیل بولا۔ “ کوئی مدد نہیں کر سکتا، کوئی دخل نہیں دے سکتا۔“








“ لیکن۔“ ایلی بولا۔








“ بے کار ہے۔ نقی کا بھید کسی نے نہیں پایا۔“








“ کیا واقعی۔“








وہ دونوں بیٹھک سے باہر نکل آئے۔








باہر بازار میں چراغ جل رہے تھے۔ سورج غروب ہو چکا تھا۔ آسمان پر گلابی بادل تیر رہے تھے۔








بیٹھک کے پاس ہی ایک عورت کو دیکھ کر وہ رک گئے۔








وہ ان کے قریب آ گئی۔ “ یہ نیا محلہ ہے نا؟“ اس نے پوچھا۔








“ جی “ جمیل نے جواب دیا۔








“ مجھے نقی صاحب کے گھر جانا ہے۔“ وہ بولی۔ “ مکان نمبر 303 آپ کو معلوم ہے کیا؟“








“ نقی صاحب کے ہاں۔“ جمیل نے حیرانی سے پوچھا۔








“ جی وہ دبلے پتلے صاحب ہیں۔ ڈسٹرکٹ بورڈ میں ملازم ہیں۔“








“ آپ کون ہیں؟“ جمیل نے پوچھا۔








“ میں ------ “ وہ رک گئی۔








“ ان کی رشتہ دار ہیں کیا؟“ جمیل نے پوچھا۔








“ نہیں۔“ وہ بولی “ میں ان کی جان پہچان ہوں۔ مجھے ان سے ضروری ملنا ہے۔“








“ آپ کا نام بانو ہے نا۔“ ایلی نے کہا۔








حیرت سے اس کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔








“ بانو ------ “ جمیل نے حیرانی سے عورت کی طرف دیکھا۔








“ جی ہاں۔“ وہ بولی۔








“ ارے تم کہاں جا رہے ہو۔“ نقی نے بیٹھک سے سر نکال کر انہیں آواز دی۔“








“ یہ لیجیئے نقی آ گیا۔“ ایلی نے کہا۔








بانو کو یوں اپنے گھر کے دروازے پر دیکھ کر نقی کی آنکھیں ابل آئیں۔ ایک ساعت کے لیے وہ جھجکا پھر وہ دیوانہ وار آگے بڑھا۔ بانو سمٹ کر رک گئی۔ خوف سے اس کی آنکھیں پتھرا گئیں۔ لیکن جسم کے بند بند میں سپردگی موجیں مار رہی تھی۔ باہر بازار میں چراغ جل رہے تھے۔ گلابی بادل منڈلا رہے تھے۔ ہوا رک کر سرگوشیاں کر رہی تھی۔ نقی بانو کی طرف یوں بڑھ رہا تھا جیسے وہ ایک خوفناک موج ہو۔ بانو ڈوب جانے کی منتظر تھی۔ “ چلو “ جمیل نے ایلی کو کہنی ماری اور وہ چپ چاپ چل پڑئے۔








انکوائری








جب ایلی واپس جاورا پہنچا تو وہاں شور مچا ہوا تھا۔ اس کے تمام ساتھی گھر پر جمع تھے۔








“ ارے “ افضل چلایا۔ “ ایلی آ گیا۔“








ایلی آ گیا، ایلی آ گیا۔ چاروں طرف شور مچ گیا۔








“ بڑے موقعے پر آئے ہو ورنہ تمہیں تار دینے والے تھے۔“ چودھری بولا۔








“ آخر بات کیا ہے۔“ ایلی نے پوچھا۔








“ پٹاخہ چل گیا۔“ افضل نے شور مچایا۔








“ اور شیخ کی بات بتاؤ نا۔ اسہال جاری ہیں بری حالت ہے۔“ شبیر نے کہا۔








“ صاف بات کرو یار۔ اسے پریشان کیوں کر رہے ہو۔“ افضل بولا۔








“ جو پودا بویا تھا۔ اسے سمجھ لو پھل لگا ہے۔“








“ یار انکوائری ہو رہی ہے۔“








انکوائری کی بات سن کر ایلی ساکت رہ گیا۔








“ ہاں ہاں۔“ شبیر بولا۔ “ خود مسٹر معروف انکوائری کے لیے آ رہے ہیں۔“








“ خود۔ “








“ ہاں ہاں “








“ کب؟“








“ کل صبح۔“








اگلے روز سکول پر سناٹا چھایا ہوا تھا۔ مسٹر معروف شیخ صاحب کے دفتر میں بیٹھے تھے۔ باہر اساتذہ کے دل دھڑک رہے تھے اور وہ انتقاماّ لڑکوں کو گھور گھور کر اپنے دل کی بھڑاس نکال رہے تھے۔ سازشیوں کے رنگ زرد ہو رہے تھے۔ ان کے انداز میں گھبراہٹ تھی۔ لیکن ہونٹ بھنچے ہوئے تھے۔ چپڑاسی مؤدبانہ سٹولوں پر بیٹھے تھے۔ ڈرل ماسٹر خصوصی طور پر کھرج میں احکامات نافذ کر رہا تھا اور ایلی سوچ میں کھویا ہوا تھا۔ اسے بار بار افضل کی بات یاد آ رہی تھی۔ اس نے ایلی سے کہا تھا۔ “ تمہارے ساتھیوں میں جرات نہیں۔ نہ یہ بات کر سکیں گے نہ سامنے آ سکیں گے۔ اب سوچ لو۔ آیا سامنے آنا ہے یا نہیں۔ دونوں پہلو ہیں۔ اگر تم سامنے نہ آئے تو ممکن ہے سارا کیا کرایا بے کار جائے اور اگر سامنے آ گئے تو شاید زور میں آ جاؤ اور فائدہ کچھ بھی نہ ہو۔“ ایلی سوچ رہا تھا۔








طبعی طور پر وہ سامنے آ جانے کا قائل تھا۔ وہ صرف اس پہلو پر غور کر رہا تھا کہ میرے سامنے آ جانے سے باقی ساتھیوں کو نقصان نہ پہنچے۔








سکول کے بچوں کو چھٹی دینے کے بعد مسٹر معروف نے اساتذہ کی میٹنگ بلائی۔ ہال کمرے میں وہ سب خاموش بیٹھے تھے۔ مسٹر معروف شیخ صاحب سے باتیں کر رہے تھے۔ اساتذہ بیٹھے انتظار کر رہے تھے۔ مسٹر معروف کا شیخ سے برتاؤ ایسا تھا جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ شیخ مسعود کی ہر بات کو اہمیت دیتے ہیں۔ ان کے ہر مشورے پر عمل کرنے کے لیے بیتاب ہیں۔ باتوں کے دوران میں وہ نیچی نگاہ سے اساتذہ کے رد عمل کا جائزہ لے رہے تھے یا شاید یہ دیکھ رہے تھے کہ جو اثر وہ پیدا کرنا چاہتے تھے کیا وہ پیدا ہو رہا ہے۔








شیخ صاحب نہایت مؤدبانہ بیٹھے تھے۔ لیکن ان کے چہرے سے فکر کے آثار مترشح تھے۔ ان کا رنگ زرد ہو رہا تھا۔ آنکھوں سے جھجک اور گھبراہٹ کا اظہار ہو رہا تھا۔








دفعتاّ معروف صاحب نے اساتذہ کو خطاب کرنا شروع کیا۔








“ اساتذہ کرام۔“ وہ بولے “ میں آپ کے سکول میں انکوائری کے لیے آیا ہوں۔“








“کوائف یہ ہیں کہ تقریباّ ایک سال سے جاورا سے گمنام شکایتی خط موصول ہو رہے ہیں۔ ان خطوط کا انداز انوکھا ہے۔ روز ایک خط بھیجا جاتا ہے۔ جس میں صرف ایک شکایت درج ہوتی ہے۔ وہ بھی نہایت اختصار سے۔ گمنام خط لکھنے والا یقیناّ کوئی ذہین آدمی ہے اور یہ بات بھی قابل ستائش ہے کہ یہ شکایت کسی خاص آدمی کے خلاف نہیں ہوتی۔ بہرحال ظاہر ہے کہ آپ میں سے کوئی ایک یا چند لوگ مل کر یہ خطوط بھیج رہے ہیں۔ میں صرف آج اس لیے آیا ہوں کہ اس کے متعلق انکوائری کروں۔ انکوائری جبھی ہو سکتی ہے جب مدعی اور مدعا الیہ دونوں موجود ہوں۔ مدعی شکایت پیش کرئے۔ مدعا الیہ ان کا جواب دے اور میں انسپکٹر کی حثیت سے دونوں پارٹیوں کے دلائل سن کر اس کا فیصلہ کروں۔ لٰہذا میں آپ کی خدمت میں ایک درخواست کروں گا کہ جو بھی مدعی ہے وہ اپنا آپ ظاہر کرے۔“








مسٹر معروف خاموش ہو گئے۔ کمرے پر سکوت طاری تھا۔ تما اساتذہ سر جھکائے بیٹھے تھے۔








مسٹر معروف نے چند منٹ انتظار کیا۔ وہ اساتذہ کو جانچتے رہے لیکن پھر مزید وضاحت کے لیے کہنے لگے۔








“ دیکھئے۔“ وہ بولے۔ “ یہ بات تو میں تسلیم کرنے کے لیے قطعی طور پر تیار نہیں کہ سٹاف کے علاوہ کوئی اور شخص ایک سال سے مسلسل اس سکول کی شکایت بھیج رہا ہے۔ کیا یہ درست نہیں۔“ انہوں نے پوچھا۔ اساتذہ خاموش بیٹھے رہے۔








مدعی اور مدعا الیہ








“ تو آپ کی خاموشی سے ظاہر ہے کہ آپ کو میرے خیال سے اتفاق ہے۔“ مسٹر معروف مسکرا کر کہنے لگے۔ “ لٰہذا اگر آپ میں ہی وہ صاحب موجود ہیں۔ جو ایسے خط لکھ رہے ہیں۔ تو وہ مجھ سے بات کریں اور اگر آپ میں سے کوئی شخص اس خطوط کو اپنانے کے لیے تیار نہیں ہے تو سمجھ لیجئے کہ انکوائری ختم ہو گئی۔ کیونکہ اگر آپ میں سے کسی شخص کو کوئی شکایت ہی نہیں تو انکوائری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔“








ایلی اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ اسے دیکھ کر شیخ کا چہرہ بھیانک ہو گیا۔ لیکن مسٹر معروف نے اسے چنداں اہمیت نہ دی۔








“ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں الیاس صاحب۔“ معروف نے پوچھا۔








“ میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں۔“ ایلی نے کہا۔ “ کیا گمنام خط لکھنے والے نے انکوائری کا مطالبہ کیا ہے۔“








مسٹر معروف کچھ دیر خاموش رہے پھر بولے۔ “ میرے خیال میں نہیں۔“








“ تو آپ خود ہی انکوائری کے لیے تشریف لائے ہیں۔ لٰہذا مدعی کے ہونے نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔“ ایلی نے کہا۔








“ ہوں۔“ مسٹر معروف مسکرائے۔ “ کیا آپ چاہتے ہیں کہ انکوائری ہو۔“








“ مجھے اس سے کوئی دلچسپی نہیں۔“








مسٹر معروف نے تمام اساتذہ کو مخاطب کر کے کہا۔ “ کیا آپ میں سے کوئی صاحب چاہتے ہیں کہ انکوائری ہو۔“








سب لوگ خاموش بیٹھے رہے۔








“ میری ایک گزارش اور ہے۔“ ایلی نے کہا۔








“ کہو۔“ معروف بولے۔








“ ابھی آپ نے فرمایا ہے کہ شکایات کسی فرد کے خلاف نہیں۔ مطلب یہ ہوا کہ مدعا الیہ بھی کوئی نہیں ہے تو پھر مدعی کے نہ ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے۔“








کچھ دیر مسٹر معروف خاموش بیٹھے رہے۔ پھر بولے۔ “ الیاس صاحب معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو اس کیس سے خاصی دلچسپی ہے۔“








“ جی “ ایلی نے کہا اور اس کا دل بری طرح دھڑکنا شروع ہو گیا۔








“ کیا دلچسپی ہے؟“ معروف بولے۔








“ مجھ خطوں کی نوعیت کا علم ہے۔“








“ وہ کیسے ؟“








“ وہ ایسے کہ وہ خط میں نے لکھے ہیں۔“ ایلی نے گھبرا کر کہا اور اس کا سر زمین سے یوں اڑ گیا جیسے ہوائی کو آگ دی گئی ہو۔








مسٹر معروف نے حیرت سے ایلی کی طرف دیکھا۔








اساتذہ کرام نے گردنیں اٹھا لیں۔ ہال کمرے میں سرگوشیاں گونجنے لگیں۔ چودھری کی آنکھ چمکی۔ شبیر نے آہیں بھرنا شروع کر دیا۔ احمد اور ڈرائینگ ماسٹر مسکرا رہے تھے۔








“ تو آپ مدعی ہیں۔“ مسٹر معروف بولے۔








“ جی نہیں۔“ ایلی نے کہا۔ “ مجھے ذاتی طور پر کوئی تکلیف نہیں۔“








“ دیکھئے الیاس صاحب۔“ مسٹر معروف نے پینترا بدلا۔ “ میں یہاں انصاف کرنے نہیں آیا۔ میرا فرض یہ ہے کہ آئین اور قوانین کے مطابق نظم و نسق بحال رکھوں۔ سمجھے۔“








“ جی۔“ الیاس نے کہا۔ “‌میں اپ سے انصاف نہیں مانگ رہا۔ شکایات شیخ مسعود کے خلاف نہیں۔ یہ خطوط آپ کو صرف اس لیے لکھے گئے کہ ایسے افعال کا ارتکاب کیا جا رہا ہے کہ آپ کے نظم و نسق کی توہین ہو رہی ہے۔ آپ ہی مدعی ہیں آپ ہی مدعا الیہ ہیں۔“








“ تو آپ ان شکایات کی حقیقت کو ثابت کرنے کے لیے تیار نہیں۔“








“ اس کی ضرورت نہیں۔“ ایلی نے کہا۔








“ تو مجھے کیسے علم ہو کہ جو آپ نے لکھا ہے وہ درست ہے یا نہیں۔“








“ شکایت کے ساتھ متعلقہ ریکارڈ کا حوالہ دیا ہے۔ آپ ریکارڈ دیکھیں۔ گواہوں کی کیا ضرورت ہے؟“








مسٹر معروف بولے۔ “ لیکن میرے پاس اتنا وقت نہیں کہ ریکارڈ دیکھوں۔“








“ تو نہ دیکھیئے۔ آپ جانیں آپ کا نظم و نسق جانے۔“








مسٹر معروف نے ایک قہقہہ مارا۔ “ آپ بڑی دلچسپ باتیں کرتے ہیں مسٹر آصفی۔ میں آپ کی ذہانت کی داد دیتا ہوں۔ لیکن اس سپرٹ سے آپ نوکری نہیں کر سکیں گے۔“








انکوائری کے بعد فضا پر گویا ایک اداسی اور ویرانی چھا گئی۔ وہ اداسی جو کامیابی اور جدوجہد کے بعد چھا جاتی ہے۔ کیا یہ تھی وہ انکوائری جس کے لیے انہوں نے زندگی کا ایک سال حرام کر دیا تھا۔ ایک سال محنت کی تھی۔ سوچ بچار کی تھی۔ پلان بنائے تھے۔ آکر اس تگ و دو کا مقصد کیا تھا۔ ایلی سوچ رہا تھا۔








مولوی، مولوی، منڈیر پر بیٹھا ہوا کوا چلایا۔ مولوی، مولوی۔








اس کے روبرو پاگل مولوی آ کھڑا ہوا۔ وہ سڑک پر بنی ہوئی مسجد پر کھڑا تھا۔ سن رہے ہیں آپ۔ “ ایلی چلایا۔ “ سن رہے ہیں آپ۔ آپ کو ستانے والا آج خود مصیبت میں گرفتار ہے۔“ “ ہوں، ہوں۔“ مولوی نے مڑ کر ایلی کی طرف دیکھا۔








اس کا چہرہ خالی تھا۔ خوشی اور غم سے بے نیاز۔ “ ہوں، ہوں‘ اس نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھا “ بیکار ہے بے کار۔“ ایلی کے دل سے آوازیں آنے لگیں۔ “ تم ایک دکھی کا دکھ دور نہیں کر سکے۔ تم اسے مسرت نہ دے سکے۔ الٹا تم نے ایک اور آدمی کو دکھی بنا دیا۔“








ایلی کے روبرو شیخ آ کھڑا ہوا۔ وہ کھسیانی ہنسی ہنس رہا تھا۔ “ میں صرف اس لیے پٹ گیا“ وہ بولا۔ “ کہ تم نے دوست بن کر مجھ پر وار کیا۔“








ادھر مسٹر معروف مسکرا رہے تھے۔ “ الیاس زندگی سے انصاف کی توقع رکھو گے تو سدا دکھی رہو گے۔ سرکاری ملازمت میں انصاف نہیں ہوتا۔ صرف ایڈمنسٹریشن ہوتی ہے اور ایڈمنسٹریشن کے پاٹ تلے ظالم مظلوم دونوں پستے ہیں۔“








ایلی کے ساتھی خاموشی سے بیٹھے تھے۔ ہارمونیم ایک طرف پڑا تھا۔ تاش کے پتے صحن میں اڑ رہے تھے۔








“ کچھ مزہ نہیں آیا ایلی۔“ افضل کہہ رہا تھا۔








“ ہاں یار کچھ بھی تو نہیں ہوا۔“ شبیر آہیں بھر رہا تھا۔








احمد سر جھکائے بیٹھا گہری سوچ میں پڑا تھا۔








ڈرائینگ ماسٹر کہہ رہا تھا۔ “ اب اس انکوائری کا نتیجہ کیا نکلے گا۔“








پوم پوم








عین اس وقت باہر سے پوم پوم کی آواز آئی اور پھر محمود ہنستا ہوا اندر آ گیا۔








“ چلو۔“ وہ بولا۔ “ جلدی کرو۔ جلدی۔ ابھی واپس آ جانا۔“








“ کہاں جانا ہے۔“ ایلی نے پوچھا۔








“ یہاں باہر تک۔ چلو نا۔ یار۔ باہر کار کھڑی ہے۔“ وہ بولا۔








“ کار۔“ ایلی نے دہرایا۔








“ ہاں ہاں۔“ محمود بولا۔ “ تم سے چند ایک ضروری باتیں کرنی ہیں۔“








“ اچھا۔“ ایلی بولا اور وہ دونوں باہر چلے گئے۔








دروازے کے باہر میدان میں کار کھڑی تھی۔








“ بیٹھ جاؤ، بیٹھ جاؤ۔“ محمود بولا۔ “ بھئی بیٹھ کر باتیں کریں گے۔ بڑی ضروری باتیں ہیں۔“








محمود نے اسے گاڑی میں دھکیل دیا اور جونہی وہ کار میں داخل ہوا گاڑی چل پڑی۔








اگلی سیٹ پر ڈرائیور کے ساتھ میم کو بیٹھے دیکھ کر ایلی چلایا۔ “ ارے یہ تو میم ہے۔“


“ تو پھر کیا ہوا۔“ محمود ہنسا۔ “ تمہیں کیا کہتی ہے۔“ اس نے زیر لب کہا۔








“ لیکن تم تو کہتے تھے باتیں کریں گے۔“








“ باتیں ہی تو کریں گے۔“








“ اس کے ہوتے ہوئے۔“ ایلی نے پوچھا۔








“ باتیں کرنا جرم تو نہیں۔“








“ لیکن یار۔“ ایلی بولا۔








“ میڈم یہ میرا دوست کہہ رہا ۔“ محمود نے میم کو مخاطب کر کے کہا۔ “ کہ آپ کی موجودگی میں بات نہیں ہو سکتی۔“








وہ مڑ کر دیکھے بغیر پنجابی میں کہنے لگی۔ “ ہام پنجابی نہیں سمجھتا۔“








“ معاف کیجیئے۔“ محمود بولا۔ “ ہمیں شک ہے کہ آپ سمجھتی ہیں۔“








“ شکی مجاج اچھا نہیں ہوتا۔“ وہ پنجابی میں بولی۔








“ لیکن آپ تو پنجابی بول رہی ہیں۔“ ایلی نے کہا۔








“ خالی بولتا ہے سمجھتا نہیں۔“ وہ بولی۔








ایلی قہقہہ مار کر ہنسا۔ اس نے محسوس کیا کہ کار میں تین بچے بیٹھے ہوئے تھے۔ میم ویم کوئی نہ تھی۔ اس لیے وہ چلا چلا کر باتیں کرنے لگا۔








“ میرا تار ملا تھا۔“ محمود نے پوچھا۔








“ کیسا تار؟“ ایلی نے کہا۔








“ جو میں نے تمہیں دیا تھا کہ میں آ رہا ہوں تیار رہنا۔“ محمود نے کہا۔








“ نہیں تو۔“ ایلی نے جواب دیا۔








“ اچھا تو تمہیں پہلے سے علم نہ تھا کہ میں آ رہا ہوں۔“








“ نہیں تو۔“ ایلی نے جواب دیا۔








“ تعجب کی بات ہے۔“ اس نے کہا اور پھر وہ ادھر ادھر کی باتوں میں مصروف ہو گئے۔ حتٰی کہ ایلی کو یہ خیال بھی نہ رہا کہ موٹر میں کوئی اور بھی موجود ہے یا موٹر مسلسل چلے جا رہی ہے۔








دوکانوں کو دیکھ کر دفعتاّ ایلی کو خیال آیا کہ اس کے پاس سگریٹ ختم ہو چکے تھے۔








“ ذرا روکیئے میں سگرٹ خرید لوں۔“








کار سے باہر نکل کر وہ حیران رہ گیا۔ “ ارے۔“ وہ چلایا۔ “ یہ کونسی جگہ ہے؟“








غالباّ وہ سمجھ رہا تھا کہ کار جاورا کے چکر کاٹ رہی ہے۔








“ کونسی جگہ ہے۔“ محمود نے ہنس کر پوچھا۔








“ یہ تو لاہور معلوم ہوتا ہے۔“








“ اور کیا پشاور ہو۔“ محمود نے کہا۔








“ کیوں پریشان کر رہے ہو اپنے دوست کو۔“ مسز فلپ نے کہا۔ “ یہ تو جاورا کا بازار ہے۔“








“ لیکن میں واپس کیسے جاؤں گا۔“ ایلی نے پوچھا۔








“ رات کی گاڑی سے چلے جانا۔ صبح پہنچ جاؤ گے۔“ محمود نے کہا۔








“ یا بیماری کی عرضی دے دینا۔“ مسز فلپ نے کہا۔ “ آخر میڈیکل سرٹیفکیٹ کس مرض کی دوا ہے۔“ وہ ہنسنے لگی۔








“ یہ ٹھیک ہے۔“ محمود چلایا۔ “ تم ہمارے ساتھ ہی چلو۔“








“ کہاں۔“ ایلی نے پوچھا۔








“ نیا شہر۔“ محمود نے جواب دیا۔








“ لیکن تم تو لائل پور ہو نا۔“ ایلی نے پوچھا۔








“ اونہوں۔“ محمود بولا۔ “ دفتر تبدیل ہو کر نیا شہر میں چلا گیا ہے۔“








“ اب غصہ میں آنے کا کیا فائدہ۔“ مسز فلپ نے کہا۔








“ محترمہ۔“ وہ بولا۔ “ اس شخص نے مجھ سے دھوکہ کیا ہے۔“








“ کوئی نئی بات ہے۔“ وہ مسکرائی۔








“ یہ تو ٹھیک ہے۔“ ایلی نے کہا۔








“ تو چھوڑو۔“ وہ بولی۔








اور موٹر چل پڑی۔ رات لاہور رکنے کے بعد اگلے روز وہ تینوں نیا شہر جا پہنچے۔














مسز فلپ








مسز فلپ ادھیڑ عمر کی عورت تھی۔ لیکن وہ یوں چلتی پھرتی اٹھتی تھی۔ جیسے ابھی ابھی جوان ہوئی ہو اور اسے اس انوکھی زندگی سے جو اس کے گرد پھیلی ہوئی تھی، والہانہ عشق تھا۔ وہ مسرت بھری حیرت سے ہر چیز کی طرف دیکھتی جیسے اس نے پہلی مرتبہ اسے دیکھا ہو۔ بچوں کی طرح تالیاں بجاتی اور پھر چاہتی کہ کسی اور کو دکھائے۔ اس تازہ مسرت میں کسی اور کو اپنا شریک بنائے۔ اس کے لیے زندگی سکون اور اطمینان نہیں بلکہ مسلسل حرکت مسلسل مسرت اور مسلسل تگ و دو تھی۔ غالباّ اسی وجہ سے وہ زندگی کی خوشیوں میں پندرہ افراد کو شریک کر چکی تھی اور اب مسٹر فلپ اس کا سولہواں خاوند تھا یا شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اس قدر ذہانت اور چمک کی مالک تھی کہ کوئی اس کا ساتھ نہیں دے سکتا تھا۔ اس کے ہمراہ چلتے تو تھے لیکن بہت جلد تھک کر پیچھے رہ جاتے۔ پھر وہ محسوس کرنے لگتی کہ وہ اکیلی ہے، تنہا ہے۔ اس بات پر اسے غصہ آنےلگتا۔ اس وقت اس کی خواہش ہوتی کہ کوئی اس سے محبت کرئے یا لڑے، بحث کرئے، ہاتھا پائی سے بھی گریز نہ کرئے۔ اسے جمود سے نفرت تھی۔ سکون ایک بھیانک چیز دکھائی دیتی تھی۔ اسے ہر بات گوارا تھی۔ سکون سے نکل کر پھر سے متحرک کر دے چاہے وہ حرکت کس قدر شدید اور خطرناک کیوں نہ ہو بلکہ ہو تو اور بھی اچھا۔ مسز فلپ کے لیے واحد خطرہ سکون تھا۔








اس کا نیا خاوند مسٹر فلپ ایک نہایت خوبصورت نوجوان تھا۔ لیکن خوبصورتی کے علاوہ اس میں کوئی بات نہ تھی۔ جو مسٹر فلپ کی شخصیت کو جذب پر سکتی۔ درحقیقت مسز فلپ سے شادی کرنے سے مسٹر فلپ کا مقصد ہی کچھ اور تھا۔








مسٹر فلپ ایک فیکٹری میں ملازم تھا اور اس کی ملازمت اس نوعیت کی تھی کہ تنخواہ میں گزارہ ممکن نہ تھا۔ وہ ہمیشہ حاجت مند رہتا۔ یہ حاجت مندی مسز فلپ کی اپنے خاوند سے دلچسپی میں گویا سونے پر سہاگے کا کام دیتی تھی۔ تنخواہ ملتے ہی مسز فلپ ایک معقول رقم بذریعہ تار مسٹر فلپ کو منی آرڈر کر دیتی۔ پھر مسز فلپ کے خطوں کا تانتا بند جاتا۔ “ فلپ ڈارلنگ تمہیں مزید روپے کی ضرورت ہو تو مجھے لکھو فوراّ اطلاع دو۔ نہیں ڈارلنگ گھٹیا سگریٹ نہ پینا۔ اگر بورے وال میں اعلٰی سگریٹ دستیاب نہ ہوتے ہوں تو مجھے لکھو تاکہ میں نیا شہر سے پیٹی بھیج دوں۔“








مسز فلپ میں مامتا کا ایک طوفان دبا پڑا تھا۔ چونکہ سولہ شادیوں کے باوجود اس کا کوئی بچہ نہ تھا۔ اور وہ مسٹر فلپ کا یوں خیال رکھتی تھی جیسے اس کا اکلوتا بیٹا ہو۔ مسٹر فلپ اس کی اس کمزوری سے واقف تھا اور دل کھول کر اس کے مامتا بھرے جذبات کو حرکت میں لانے اور ان میں شدت پیدا کرنے کی مسلسل کوشش کیا کرتا تھا۔ دقت یہ تھی کہ وہ بہت دور دراز مقام پر نوکری کرتا تھا اور مسز فلپ کو خالی خطوط پر گزارا کرنا پڑتا تھا۔ شاید اسے خاوند کی جسمانی موجودگی کی ضرورت محسوس نہ ہوتی ہو مگر مسلسل تنہائی اسے کھائے جا رہی تھی۔








جب کبھی مسز فلپ کو اپنی تنہائی کا شدت سے احساس ہوتا تو اسے غصہ آ جاتا۔ اس وقت اس کا جی چاہتا کہ کوئی ایسا ساتھی ہو جس پر وہ اپنا غصہ اتار سکے۔ یہ کیا زندگی ہوئی کہ لڑنے والا بھی کوئی نہ ہو۔ پیار کرنے والا نہیں نہ سہی۔ لڑنے والا بھی ہو تو۔ اس وقت وہ بغیر وجہ اپنے ماتحتوں سے لڑنے کی شدت سے کوشش کرتی مگر اس کے ماتحت نہ جانے کس مٹی سے بنے ہوئے تھے۔ جواب میں سر جھکا کر اس کے روبرو کھڑے ہو جاتے۔ “ یس میڈم ساری میڈم۔“ اس بات پر میڈم کو اور غصہ آتا اور آنکھیں دکھاتی منہ بناتی اور فرفر انگریزی بولتی جسے سن کر ان کے رہے سہے اوسان خطا ہو جاتے۔ اس پر مسز فلپ مایوس ہو کر کمرے میں جا کر رہ دیتی۔ رونے سے دل کی بھڑاس نہ نکلتی تو مسٹر فلپ کو ایک لمبا خط لکھنا شروع کر دیتی۔


مسز فلپ کے دفتر والے سمجھتے تھے کہ میڈم کی بات سمجھ میں نہیں آتی۔ کبھی ہنستی ہے، ہنسے جاتی ہے، کبھی بغیر وجہ گرجنا شروع کر دیتی ہے۔ خواہ مخواہ الجھتی ہے۔ منہ کو آتی ہے اور پھر بیٹھ کرآنسوبہانے لگتی ہے۔نہ جانے کیسی افسرہے گھڑی میں کچھ گھڑی میں کچھ ابھی معطل کرنے کی دھمکی دے رہی تھی اب چپڑاسی کے ہاتھ بادام بھیج دیئے کہ پشاورسے آئے ہیں تم بھی کھالو۔’’محمودنے جب نئی آسامیوں کااشتہاردیکھاتوتفریحاً ایک عرضی دے دی تھی۔اس وقت اسے علم نہ تھاکہ ویلفیئر کے محکمہ میں زیادہ ترکارکن عورتیں اورمحکمہ کاچیف بھی عورت ہے۔عورتوں کے متعلق محمودکارویہ عجیب تھا۔اگرچہ وہ عاشق قسم کافردنہ تھاپھربھی اسے عورتوں سے بے حددلچسپی تھی۔ایسی دلچسپی جوایک نارمل مردعورت سے محسوس کرتاہے۔لیکن ساتھ ہی اسے عورت سے ڈرلگتاتھا۔وہ ان سے گھبراتاتھا۔ساتھ ہی انہیں اپنی طرف متوجہ کرنے کی شدیدکوشش کرتا۔یہ ظاہرنہ ہونے دیتاکہ توجہ جذب کرنے کی کوشش کررہاہے یاانہیں غیرازمعمول اہمیت دے رہاہے بلکہ اس کے برعکس وہ بے پروائی کالبادہ اوڑھے رکھتااورماتھے پریوں تیوری جمالیتاجیسے نسوانی سحرسے مستثنےٰ ہو۔پھرموقعہ ملنے پرایک شدت بھری نگاہ ڈالتا۔آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرمسکراتا۔گلیڈآئی چمکاتااورپھرتیوری چڑھاکریوں منہ موڑلیتاجیسے جانتاہی نہ ہو۔
میڈم اورمحمود:۔
جب وہ نیانیااس محکمے میں گیاتوعورتیں ہی عورتیں دیکھ کرگھبراگیا۔لیکن اس گھبراہٹ کے ساتھ ہی دلچسپی بھی محسوس کی ۔بہرحال اس نوکری میں سب سے بڑی دقت یہ تھی کہ اسے محمکہ کی چیف یعنی میڈم سے کام کرناپڑتاتھا۔میڈم کودیکھتے ہی محمودنے تیوری چڑھائی اوریوں کام میں محوہوگیا۔جیسے اسے عورت اورمردکی تمیزہی نہ ہو۔لیکن ویلفیئرکی کئی کارکن بڑی بانکی تھی۔کئی ایک شوخ تھیں۔ایسے حالات میں بھلاہروقت پیشانی پرتیوری چڑھائے رکھاکیسے ممکن ہوسکتاتھا۔لہٰذاجب میڈم کی توجہ ادھرہوتی تووہ کارکن پرآنکھ چمکاتااورپھرکام میں مصروف ہوجاتا۔
آنکھ چمکاکردفعتاً پھرسے پتھرہوجانے کے فن میں محمودکاجواب نہیں تھا۔لیکن دقت یہ تھی۔کارکنیں بالکل ہی نوجوان تھیں۔وہ اس کی نگاہ کی متحمل نہ ہوسکتی تھیں۔پگھل کرموم ہوجاتیں اورموم سے چھینٹے اڑتے اورمیڈم پرجاپڑتے۔اس پرمیڈم کوغصہ آجاتا۔
میڈم کواس بات پرغصہ آتاکہ ابھی یہ لڑکی مناسب طریقے سے باتیں کررہی تھی اب منہ بنانے لگی لفظوں کورولنے لگی۔ آنکھیں چمکانے لگی۔رکنے لگی۔گال تمتاگئے یہ گیاگڑبڑہے۔وہ یہ سمجھنے لگی کہ لڑکیاں محمودکے روبروآکردھک جاتی ہیں۔اسے پتہ نہ تھاکہ محموداپنے ماتھے کی شکن آتارسکتاہے۔دو ایک بارمیڈم نے اعلانیہ محمودسے اس تبدیلی کی بات کردی جواس کی موجودگی میںلڑکیوں میں ظاہرہوتی تھی۔اس پر محمودگھبراگیااوراسے غصہ آگیااوراس کارویہ میڈم سے اوربھی سخت ہوگیا۔
ایک روزجب میڈم نے کہا۔’’تم نے دیکھاکلرک جب اس لڑکی نے تمہیں دیکھاتواسکے ہاتھ میں پن شیک کرنے لگا۔حتیٰ کہ خط بدل گیا۔‘‘
میڈم کی ایسی بات پر محمودکوغصہ آتاتھا۔’’توپھرتمہیں کیا۔‘‘وہ دل میں کہاکرتا۔اس روزتواسے بہت ہی غصہ آیا۔
وہ ابھی غصے میں بھرابیٹھاتھاکہ مالی پھول لے آیا۔میڈم نے پھول دیکھ کرگویاخوشی سے چیخ ماری۔‘‘یہ دیکھاتم نے کلرک۔‘‘وہ چلائی’’کتنے خوبصورت پھول ہیں یہ دیکھوتو۔‘‘
محمودنے منہ موڑلیا۔’’نہیں میںنہیں دیکھتا۔‘‘اس کے منہ سے نکل گیا۔
میڈم نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔
کسی ماتحت نے کبھی ایسانہیں کیاتھا۔شایداسے غلطی لگی ہو۔شایدکلرک نے غلطی سے بات کردی ہو۔یہ کیسے ہوسکتاہے ایک ادنیٰ ماتحت مجھ سے لڑنے کی کوشش کرے۔
’’تمہیں دیکھناپڑے گا۔‘‘وہ شدیدجوش میں بولی۔
’’یہ میرے فرائض میں سے نہیں ہے۔‘‘محمودنے گھورکرمیڈم کی طرف دیکھا۔
میدم کامنہ سرخ ہوگیا۔شایدخوشی سے پھروہ غصے میں چلانے لگی۔یاشایدلڑائی کے اس نئے امکان پرخوشی سے چیخ رہی ہو۔
’’یہ کوئی بات کرنے کاطریقہ نہیں ہے کلرک۔‘‘ وہ بولی۔
’’میڈم یادرکھئے کہ میرا نام کلرک نہیں محمودہے۔‘‘محمودنے کہااورپھرخراماں خراماں چل پڑا۔جیسے شاہ کاپارٹ اداکرنے کے بعدایکٹربڑے رعب سے سٹیج سے باہرچلاجاتاہے۔میڈم حیرت سے اس کی طرف دیکھتی رہی۔
اگلے روزجب محموددفترآیاتووہ جان بوجھ کراپنے کمرے میں جابیٹھا۔ورنہ عام طورپراس کادستورتھاکہ آتے ہی پہلے میڈم سے ملتاکام کاج کے متعلق پوچھتااورپھرکام میں مصروف ہوجاتا۔
کچھ دیرکے بعدمالی آیا۔’’میم صاحب بلاتی ہیں۔‘‘
’’اچھامحمودنے کہا۔‘‘کام سے فرصت ہوگئی توآؤںگا۔‘‘
مالی کوگئے ابھی دیرنہ ہوئی تھی کہ میڈم خودآگئی۔وہ بولی’’مجھے پھول نہیں دکھانے۔بلکہ خط کاجواب لکھواناہے۔‘‘
’’ہوں۔‘‘محمودنے سرہلایااوراپنی سیٹ پربیٹھارہا۔
اس روزمیڈم بے حد خوش تھی وہ باربارمحمودکے کمرے میں آتی اوراسے کوئی نہ کوئی بات سمجھاکریابتاکرچلی جاتی اورکچھ دیرکے بعدپھرلوٹ آتی۔محمودکوسمجھ میں نہیں آرہاتھاکہ اس کارویہ کیوں بدلاہواہے۔اس نے کلرک کی جگہ مسٹرمحمودکہہ کرپکارناکیوں شروع کردیاہے۔
شایدوہ یہ سمجھتاتھاکہ میڈم اس کی امدادکے بغیرکام نہیں چلاسکتی تھی۔چونکہ دفترکے دوسرے کلرک قابلیت اورذہانت سے خالی تھے اورروزمرہ کے معمولی کام کے علاوہ کچھ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے تھے۔محمودکواپنی قابلیت پراعتمادتھااوریہ اعتمادمزیدمشکلات کاباعث تھا۔
ایک روزمیڈم محمودکالکھاہواخط پڑھ کربولی۔‘‘ٹھیک ہے لیکن منتاژکے لفظ کے ہجے ٹھیک کرلو۔‘‘
’’ہوں۔‘‘محمودبولااوراس نے میڈم کے سامنے وہ خط لفافے میں بندکرکے ڈسپیچرکودے دیا۔‘‘اسے ابھی ڈسپیچ کردو۔‘‘ وہ بولا۔
محمودبڑے اطمینان سے خط کی نقل اٹھائی پھرآکسفورڈڈکشنری لے کروہ نقل اورڈکشنری میڈم کی طرف بڑھا دی۔
اس بات پر میڈم سیخ پاہوگئی۔’’میں نے کہاتھاتم ہجے دیکھ لو۔‘‘
’’میں تووثوق سے جانتاہوں کہ ہجے ٹھیک ہیں۔‘‘محمودبولامیڈم اپنی تسلی کرلیں۔
محمودکے اس کے اس قسم کے طرزعمل سے میڈم چونکی اوراسے محسوس ہوتاکہ وہ ایک مردسے بات کررہی ہے کلرک سے ہیں۔غالباً اسے اپنے خاوندیادآجاتااورپھرشایداس خیال پرکہ کلرک کومردوں کاسابرتاؤکرنے کاحق ہے یاشایداس لئے کہ اس کاخاونداتنی دورکیوں رہتاہے وہ غصے سے بھوت بن جاتی۔بہرصورت میڈم اورمحمودکے درمیان عجیب چپقلش شروع ہوگئی۔غالباً محمودکی خواہش تھی کہ کسی وجہ سے میڈم ناراض ہوکراسے واپس اپنے محکمے میں بھیج دے۔اس لئے اس نے جان بوجھ کر میڈم کی باتوں کوردکرناشروع کردیااسے قطعی طورپرعلم نہ تھاکہ ایسی باتیں کرکے وہ میڈم کو احساس دلارہاہے کہ وہ کلرک نہیں مردہے اورمیڈم چیف کے علاوہ عورت بھی ہے۔
اس کے بعدمحمودنے مسزفلپ کے نجی معاملات میں دخل دیناشروع کردیا۔یہی تووہ چاہتی تھی کہ کوئی اس کے معاملات میں دلچسپی لے اس سے جھگڑے مشورے دے تاکہ اسے ایک ساتھی کی موجودگی کااحساس ہو۔
اگرچہ مسزفلپ تنخواہ ملتے ہی ایک معقول رقم مسٹرفلپ کوبھیج دیاکرتی تھی۔لیکن جلدہی فلپ کی زیادتی کاتذکرہ ہوتااورعام ضروریات مثلاً سگریٹ وسکی کافی کی کمی شکایت ہوتی ۔ مسز فلپ پھرکچھ روپیہ بھیج دیتی۔لیکن جلدہی پھرایساخط موصول ہوتا۔پھرروپیہ بھیجنے کے علاوہ صبح شام مسٹرفلپ کی پریشانیوں کی باتیں کرتی رہتی تھی۔اس نے کبھی ان مطالبات کابرانہ ماناتھا۔بلکہ اکثروہ اس قدرروپیہ ارسال کردیتی کہ خوداپنی ضروریات میں تخفیف کرنی پڑتی اورایسابھی ہوتاتھاکہ اسے خودکھانے پینے کے لئے قرض لیناپڑتاتھا۔
سترھواں لے پالک
ایک روزجب وہ مسٹرلے پالک کودوسری قسط ارسال کررہی تھی تومحمودنے کہا۔
’’میڈم یہ آپ کیاکررہی ہیں۔آپ نقدروپیہ بھیج دیتی ہیںاورمسٹرفلپ اسے ادھرادھرخرچ کردیتے ہیں اورسگرٹ اس کی تمام ضروریات ویسی کی ویسی پوری ہوئے بغیررہ جاتی ہیں۔‘‘
’’تومیں کیاکرو۔‘‘میڈم چلائی۔
سیدھی بات ہے۔‘‘محمودبالا۔‘‘روپیہ کی جگہ سگرٹ وسکی چائے کافی وغیرہ بھیجئے تاکہ ضروریات پوری ہوجائیں۔
’’سچ ‘‘۔وہ چلائی اوربچوں کی طرح خوشی سے تالیاں پیلنے لگی۔’’یہ بات تومجھے سوجھی ہی نہیں۔‘‘
’’جبھی توسمجھارہاہوں۔‘‘ وہ ہنسا۔
’’سچ۔‘‘وہ سنجیدگی سے بولی۔‘‘تمہارے بغیر۔۔۔‘‘وہ دفعتاً رک گئی۔اس روزغالباً پہلی مرتبہ واضح طورپراس حقیقت کااظہارکرتے کرتے اس نے خودکوروک لیا۔محمودپھربھی بات کوپانہ سکااورمسزفلپ اس حقیقت کوواضح طورپرپانے کے بعدشدت سے اسے نظراندازکرنے اوربھول جانے کی کوشش میں کھوگئی۔جب ایلی ان کے ساتھ نیاشہرپہنچاتوان دونوں کی کچھ ایسی کیفیت تھی۔وہ پانہ سکاتھاوہ پاچکی تھی۔لیکن نظراندازکرنیکی کوشش میں شدت سے مصروف تھی ادھرمسٹرفلپ نقدروپیہ کی جگہ اشیاکی پیٹی موصول کرکے حیران رہ گیاتھا۔ایسی بات توکبھی نہ ہوئی تھی۔اس کی پیاری بیوی توہمیشہ اسے نقدروپیہ بھیجاکرتی تھی اورمنی آرڈرسے نہیں بلکہ تارکے ذریعے اورآج غیرازمعمول سگرٹ کے ڈبوں اوروسکی کی بوتلوں کی پیٹی اس کے روبروپڑی تھی۔خیراشیاتوکچھ بری نہ تھی لیکن وہ اس افراط سے بھیج گئی تھی کہ مہینہ بھرمطالبہ کرنے کی گنجائش نہ رہی تھی۔اورنقدروپیہ وصول کرنے کی کوئی امیدنہ تھی۔
یہ دیکھ کروہ چڑگیا۔نہ جانے میری بیوی کوکون ایسے گربتارہاہے ورنہ وہ توصرف محسوس کرناجانتی ہے۔سوچنانہیں۔
مسٹرفلپ نے اس بھیدکوجاننے کے لئے اپنے ذرائع استعمال کرنے شروع کردیئے اورغالباً گھرکے کسی نوکرنے مسٹرفلپ کوصورت حالات سے واقف کردیا۔
ایلی کے نیاشہرپہنچنے پرمیڈم کویادآیاکہ ویلفیئرکے طالب علموں کے پرچے جواس کے پاس دیکھنے کے لئے آئے ہوئے تھے۔انہیں چیک کرکے واپس کرنے کی تاریخ سرپرآن پہنچی تھی۔اس لئے اس نے محمودکوبلایااوراس نئی مشکل کاتذکرہ کیا۔
محمودنے کہا۔’’میڈم اس میں کیامشکل ہے ۔اگرہم چارشخص بیٹھ جائیں توایک رات میںبارہ سوپرچے ختم کردیں گے۔میں ہوں ایلی ہے۔آپ ہیں اس کے علاوہ آپ کی ڈپٹی ناظمہ ہے۔‘‘
میڈم کویہ تجویزپسندآئی اورایک رات وہ چاروں میڈم کی کوٹھی کے بڑے کمرے میں بٹیھ گئے۔ تاکہ پرچے دیکھ کرصبح سویرے انہیں واپس بھجوادیں اوراس اہم فرض سے سبکدوش ہوجائیں۔
ادھرمسٹرفلپ کوجب معلوم ہواکہ میڈ م کاایک کلرک اسے ایسے ویسے مشورے دے رہاہے تواس نے سوچاکہ اس مصبیت کوکسی طرح شروع شروع میں ہی ٹالناچاہیے ورنہ اگرمسزفلپ اسی راستے پرچل نکلی ۔توپھراس کازاؤیہ نگاہ بدلنامشکل ہوجائے گا۔اس لئے صورت حالات کوجانچنے کے لئے اس نے آٹھ یوم کی رخصت لی۔اوراطلاع دیئے بغیرنئے شہرآگیا۔دن بھرسٹیشن پرویٹنگ روم میں بیٹھارہا۔جب رات پڑی توچھپ کرگھرآیا۔آکراس نوکرسے ملاجس نے اطلاع بہم پہنچائی تھی۔نوکرہنس کربولا۔’’صاحب وہ تو اس وقت بھی اندرکمرے میں بیٹھے ہیں۔دومردہیں ایک عورت اورمیڈم ہے۔‘‘
یہ سن کر مسٹرفلپ کی آنکھوں میں خون اترآیا۔اس نے سب نوکروں کواکٹھاکیا۔ایک پلان مرتب کیا۔جس کے مطابق ایک نوکرنے بجلی کامین سوئچ بندکردیااورباقی سب نے اس کمرے پریلغاربول دی جس میں ایلی محمودمیڈم اورناظمہ پرچے دیکھنے میں مصروف تھے۔
بجلی بندہوتے ہی کمرے میں ایک ہنگامہ مچ گیا۔محمودنے ایک چنگھاڑسی ماری۔میڈم چلانے لگی ناظمہ چیخ رہی تھی۔ایلی حیران تھاکہ ماجرا کیاہے ایک جوتااس کے سرپرپڑا ۔ ارے وہ اٹھ بیٹھا۔
کمرے میں عجیب وغریب آوازیں آرہی تھیں ۔وہ ڈرگیا۔
کمرے کی ایک کھڑی مکمل کھلی تھی۔محمودنے باہرچھلانگ لگادی اورپھرچیخنے لگا۔’’ایلی ایلی۔‘‘
محمودکی آوازسن کر ایلی کادل بیٹھ گیااس نے خطرے کوشدت سے محسوس کیااوروہ کھڑکی طرف بھاگا۔اس وقت رات کے دوبجے تھے۔محموداورایلی چپ چاپ ویران گلی میںدوڑرہے تھے۔
’’لیکن بات کیاتھی۔‘‘ایلی پوچھ رہاتھا۔
’’خاموش۔‘‘محمودکارویہ اسے اوربھی ڈرارہاتھا۔
اپنے مکان کے قریب پہنچ کر محمودرک گیا۔بولا۔’’گھرجانے میں خطرہ ہے۔‘‘
’’لیکن کیوں۔‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’شایدوہ پولیس لے کر ہمارے گھرآئیں۔‘‘
’’لیکن کون ۔‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’وہی۔‘‘محمودبولا۔‘‘جووہاں میڈم کے گھرآئے تھے۔‘‘
’’وہ کون تھے؟‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’معلوم نہیں۔۔لیکن مجھے خطرے کی بوآتی ہے۔دشمن وارکرنے سے نہیں چوکے گا۔‘‘
’’توپھر۔‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’ہمیں گھرنہیں جاناچاہیے۔‘‘
’’لیکن اس وقت گلیوں میں آوارگردی کرنابھی توٹھیک نہیں۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘وہ چلایا۔’’چلوریلوے سٹیشن کے مسافرخانے میں بیٹھیں۔‘‘
صبح سویرے ہی محمودنے ایلی کوکہنی ماری۔‘‘اب دن چڑھنے کوہے۔’’وہ بولا۔’’اب یہاں بیٹھناٹھیک نہیں۔‘‘
’’توپھرجائیں کہاں۔‘‘
’’باہردور۔کسی ویرانے میں۔‘‘محمودبولا۔’’جب تک ہمیں صورت حال کاعلم نہ ہوہماراپایاجاناٹھیک نہیں۔‘‘وہ دونوں نیاشہرکی مشہورندی کرن کی طرف چل پڑے اورٹیلوں میں جاچھپے۔
ادھرمیڈم کوجب معلوم ہواکہ یہ حرکت اس کے خاوندنے کی تھی اوراسے شک تھاکہ میڈم اورمحمودکے درمیان ناجائزتعلقات ہیںتووہ ضدمیں آگئی اورایک جملے سے اس نے اپنے شوہرکرخاموش کردیا’’ناجائزتعلقات کوجائزبھی بنایاجاسکتاہے۔مسٹرفلپ مجھے روکنے والے تم کون ہو۔‘‘
پھرمسٹرفلپ اس کے قدموں میں گرکررورہاتھا۔اظہارمحبت کررہاتھااورمیڈم یوں پتھربنی بیٹھی تھی جیسے وہ ماں جو۔۔۔۔اپنااکلوتابیٹاسپردخاک کرنے کے بعدقبرستان سے لوٹی ہو۔غالباً وہ اپنے سترہواں لے پالک کے متعلق سوچ رہی تھی اوراس کاسترہواں لے پاک اس موہوم خطرے سے بے خبرسہماہوابیٹھاتھا۔
پہلی ٹھوکر:۔
ایلی واپس جاوراپہنچاتوسکو ل پر سکوت طاری تھا۔اساتذہ اداس تھے اورایلی کے ساتھی گھٹنوں میں سردیئے بیٹھے تھے۔جلدہی اسے معلوم ہوگیاکہ شیخ مسعوداوروہ خودتبدیل کردیئے ہیں اورجاوراکے تمام اساتذہ کووارننگ کاایک خط موصول ہواہے۔جس میں مسٹرمعروف نے اعلان کیاہے کہ اگرجاوراسکول میں مزیدکسی قسم کی گڑبڑہوئی توزبردست ایکش لیاجائے گا۔
جب وہ گھرپہنچاتوافضل خاموش بیٹھاتھا۔’’تم آگئے۔‘‘وہ بولا۔
’’ہوں۔‘‘ایلی نے کہا۔
’’کہاں رہے اتنے دن۔‘‘
’’پھنس گیا۔‘‘
’’ہوں۔‘‘وہ خاموش بیٹھاحسب عادت پاؤں ہلاتارہا۔
’’ایلی ۔‘‘وہ بولا۔
’’جی۔‘‘
’’تمہیں معلوم ہوا۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’تمہاری تبدیلی ہوگئی ہے۔‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’توتم جاؤگے؟‘‘
’’جاناہی پڑے گا۔‘‘
’’ہوں۔۔۔تم چلے جاؤگے تومیں کیاکروں گا۔‘‘افضل کی آوازکانپ رہی تھی۔
’’اگرہمیں معلوم ہوتا۔‘‘شبیربولا۔’’تویہ کام ہی نہ کرتے۔‘‘
’’پتہ ہے۔‘‘احمدنے کہا’’شیخ کی ترقی رک گئی ہے۔‘‘
’’اس سے ہمیں کیافائدہ۔‘‘افضل نے کہا۔’’پتہ ہے مولوی کاکیاحشرہوا۔‘‘
’’کیا؟‘‘شبیرنے پوچھا۔
’’پاگل خانے میں ہے۔‘‘
’’کیاواقعی۔‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’سچ ۔ایک آدمی خودمل کرآیاہے اسے ہوش کھوبیٹھاہے۔ہماری محنت بالکل اکارت گئی۔نہ مولوی کوبچاسکے نہ شیخ کوتوڑسکے پتہ ہے مسٹرمعروف نے کیاکہاتھا۔‘‘شبیرنے پوچھا۔
’’کب۔‘‘
’’تمہارے جانے کے بعدایک دن پھرآئے تھے۔‘‘سب اساتذہ کواکٹھاکرکے وعظ فرمایاتھا۔
’’کیاکہاتھا۔‘‘
’’کہنے لگے۔سب ہیڈماسٹرایسے ہی ملیں گے۔تم خودہیڈماسٹربنوگے توایسے ہی ہوجاؤگے۔‘‘
’’سچ کہتاہے۔‘‘افضل بولا۔
’’اللہ بچائے۔‘‘ایلی نے کہا۔
اوروہ سب گہری سوچ میں پڑگئے۔
دروازہ بجاتووہ چونکے۔
’’میںاندرآسکتاہوں۔‘‘کسی نے باہرسے پکارا۔
’’آجاؤمیاں۔‘‘افضل بولا۔’’یہاں ۔‘‘
کسی نے نوواردکی طرف نہ دیکھا۔
’’یہ شیخ مسعودبڑاحرامی ہے۔‘‘افضل بولا۔’’اس کاہم کچھ نہ بگاڑسکے۔‘‘
’’یہ تو غلط ہے۔‘‘نوواردنے کہا۔
’’انہوںنے نوواردکی طرف دیکھا۔سامنے خودشیخ مسعودکھڑامسکرارہاتھا۔
’’انہوںنے میری وہ پٹائی کی ہے۔‘‘وہ قہقہہ مارکرہنسا۔’’جوآج تک کوئی نہ کرسکاتھا۔میں تمہاری عظمت کااعتراف کرنے آیاہوں۔‘‘
’’نہیں شیخ صاحب۔‘‘افضل نے کہا۔’’جوتم نے مولوی کے ساتھ کیاہم اس کاانتقام نہیں لے سکے۔‘‘
’’اچھاتم مولوی کاانتقام لے رہے تھے اورمیں سوچ رہاتھایااللہ آخرآصفی کامیرے خلاف ہوجاناکس وجہ سے ہے میںنے توآج تک آصفی کے خلاف کچھ نہیں کیاالٹامجھے آصفی سے اک لگاساہے۔کیوں آصفی صاحب کیایہ سچ ہے کہ تم مولوی کاانتقام لے رہے تھے۔‘‘سچ ہے۔‘‘ ایلی بولا۔
’’ہاں۔‘‘شیخ نے سرجھکالیا۔’’مولوی سے مذاق میں زیادتی ہوگئی۔‘‘
’’بہرحال میں چاہتاہوں کہ ہم دوستوں کی طرح جداہوں۔‘‘اس نے ہاتھ بڑھایا۔
آج سے تم میرے دوست ہو۔ہمیشہ ہی تھے۔میرے دل میں تمہارے خلاف غصہ بہت تھا۔لیکن اس کے ساتھ میں تمہاری قابلیت کابھی معترف ہوں۔‘‘شیخ کی آوازجذبے سے کانپ رہی تھی اس کی آنکھیں نم ناک تھیں۔
’’میں حرامی ہی سہی لیکن ایسے آدمی کی دوستی اچھی ہوتی ہے۔‘‘ہاتھ ملاتے ہوئے وہ کہنے لگا۔‘‘زندگی میں میری یہ پہلی ٹھوکرہے۔‘‘
’’ٹھوکرتولگی ہی نہیں۔‘‘افضل مسکراکربولا۔
’’لگی ہے۔‘‘شیخ نے جواب دیا۔
’’صرف ترقی ہی بندہوئی ہے نا۔‘‘افضل نے کہا۔
’’ٹھوکردل پرلگتی ہے تنخواہ پرنہیں۔اچھاخداحافظ۔‘‘
بیراگن:۔
جاوراچھوڑے کے بعدایلی کادل پھرسے اچٹ ہوگیا۔محبت کے متعلق اس کے احساسات میں تلخی پیداہوچکی تھی۔اب زندگی میں پہلی مرتبہ اسے دوسرے پہلو کی تلخی کااحساس ہواتھا۔وہ گہری سوچ میں پڑگیاتھا۔کیایہ زندگی ہے۔کیازندگی میں انصاف کودل نہیں۔کیااللہ میاں بھی مسٹرمعروف کی طرح خالی ایڈمسٹریشن کررہے ہیں۔کیاوہ بھی ایک ہیڈماسٹرہیں۔
سکول کی فضاسے وہ بے زارہوچکاتھا۔یہ ادارے جہاں ملک کی آئندہ نسلوں کی تشکیل ہورہی تھی۔اساتذہ اورہیڈماسٹرکی عجیب وغریب ذہنیتوں کی وجہ سے تعفن سے بھرے ہوئے تھے۔اساتذہ کے اندازمیں خودپرستی جابریت اورجھوٹے وقارکی جھلک تھی اوران پربے بسی کاکلف لگاہواتھا۔ان کے خیالات میں وسعت کافقدان تھا۔گھریلومعاملات کے الجھاؤکاعکس ان کی شخصیتوں میں جھلکتاتھا۔وہ علم کی ظاہری شکل پر مرکوزتھے۔مفہوم ان کی نگاہ سے اوجھل تھا۔ایلی کی نگاہ میںوہ سب کیڑے تھے۔رینگنے والے کیڑے،سینٹرل ماڈل سکول کے کلاس انچارج کیطرح وہ چھری کے سہارے چل رہے تھے۔ان کاایمان تھاکہ چھڑی ہاتھ میں ہوتوسب مشکلات دورہوجاتی ہیں۔
اورایلی کوسب بڑاڈرتھاکہ ایک روزوہ بھی ویساہی ہوجائے گا۔وہ بھی خلاصوںمیں لکھی ہوئی تاویلوں کوعلم سمجھنے لگے گا۔بچوں کے ذہن پرآہنی پابندیاں ڈالنے کواخلاق سے تعبیرکرے گااورپھروہ بھی ہیڈماسٹربن جائے گا۔۔اس خیال پر اس کادل دھک سے رہ جاتا
’’نہیں نہیںایسانہیں ہوگا۔ایسانہیں ہوسکتا۔‘‘
جاوراکی سازش سے ایک فائدہ ضرورہواتھا۔اس کے ذہن سے شہزادکی بے وفائی کی تلخی دورہوچکی تھی۔اگرچہ کانٹاویسے ہی لگاتھالیکن اب وہ دورمیٹھے دردکی حیثیت اختیارکرچکاتھا۔
شہزادکی بے وفائی نے ایلی کے جذے کوکم نہیں کیاتھاالٹااسے قائم کردیاتھا۔تقویت بخش دی تھی۔طبعی طورپرایلی بے وفامحبوب سے محبت کرنے والاشخص تھا۔اس کے نزدیک محبت فرحت بخش جذبہ نہ تھا۔بلکہ فرحت بخش جذبات تواس کی نگاہ میں عیش پرستی کے مظہرتھے اورمحبوب پرشک وشبہ کرنے کی عادت جواس نے پال رکھی تھی اسی وجہ سے تھی۔اگرمحبوب بے وفائی نہ کرے تواس کی محبوبیت کی حیثیت قائم رکھنے کے لئے ضروری تھاکہ اس پر موہوم بے وفائی تھوپ دی جائے اورخیالی رقیب قائم کرکے محبت کے جذبہ کوحقیقی بنالیاجائے۔
جب سے وہ شہزادکے گھرسے نکلاتھا۔ایلی کے ذہن میں شہزادکی محبوبیت کوچارچاندلگ گئے تھے۔اب وہ بے وفاحسینہ ایلی کے تخیل میں رقیب سے ہنستی کھیلتی نظرآتی تھی اور ایلی کی طرف دیکھ کرنفرت بھراقہقہہ لگاتی’’تم۔‘‘اس کے ہونٹ تحقیرسے بٹواسابن جاتے اوراس کاقہقہہ گونجتا۔اس پرایلی محسوس کرتاکہ واقعی اسے شہزادسے محبت ہے اوراس کی محبت کوعیش پرستی سے دورکاواسطہ بھی نہیں۔
اب وہ ایک سچے عاشق کی طرح اس امیدپرجی رہاتھاکہ ایک روزشہزادکی آنکھیں کھلیں گی اوروہ محسوس کرے گی کہ واقعی ایلی اس کاسچاعاشق تھااوررقیب توصرف مطلب پرستی کے لئے اس کاساتھ بناہواتھا۔پھروہ عفوکی طلب گارہوگی اورآکراس کے قدموں پرگرپڑے گی۔مگروہ سوچتا۔میں اسے قدموں میں گرنے نہیں دوں گا۔اس نے مجھے ذلیل کیاتھالیکن میں اسے ذلیل نہ ہونے دوں گا۔قدموں پرگرناتومیراکام ہے۔میں قدموں پرگرپڑوں گااوراس کاہاتھ بڑ ھ کر مجھے تھپکے گااوراس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ جائے گی اوروہ رک رک کرکہے گی۔مجھے معاف کردوایلی مجھے معلوم نہ تھااس وقت اس کے منہ پرہاتھ رکھ دوں گااورپھر۔۔۔۔‘‘
لیکن پھرکاکیاسوال۔جس مقصدکے لئے وہ جی رہاتھا۔وہ توپوراہوچکاہوگا۔پھراس کازندہ رہنے کابھلا کیافائدہ۔پھراس کے قدموں میں پڑے پڑے اس کی روح قفس عنصری سے پروازکرجائے گی اوریہ دیکھ کرشہزادکی چیخیں نکل جائیں گی اوروہ بیراگن ہوجائے اورگلی گلی اک تارے پرگاتی پھرے گی۔
اے ری میں توپریم دیوانی میرادردنہ جانے کو
ساوی کے نقوش ایلی کے دل سے معدوم ہوتے جارہے تھے ۔غالباً اس لئے کہ اس کاچہرہ ہمیشہ متبسم دکھائی دیتا۔اس کاجذبہ ہمیشہ جواں نظرآتا۔اس کاخیال ہمیشہ ایلی کے دل میں زندگی اوررنگینی کاتصورپیش کرتا۔ساوی کے خیال کے ساتھ آتش رقابت کی جلن محسوس نہ ہوتی تھی۔اسے ساوی کی محبت پرکبھی شک پیدانہیں ہواتھا۔اس نے کبھی کسی رقیب کے وجودکے امکان کے متعلق نہ سوچاتھا۔کوئی خیالی رقیب پیدانہ کیاتھا۔شایداس کی ضرورت نہ محسوس کی تھی۔ساوی کاخیال ایلی کے لئے زندگی اوررنگینی کے سوااورکچھ نہ تھاوہ اکثرسوچتا اگروہ ساوی سے منسلک ہوجاتا۔اگررکاوٹیں نہ ہوتیں اگرابایوں قطعی طورپرانکارنہ کرتے اگران کے انکارکے باوجودوہ آگے قدم بڑھاسکتا۔اگرساوی یہ اعلان نہ کرتی کہ وہ اس سلسلے میں مجبورہے۔اگراس کے اندازمیں قطعیت نہ ہوتی۔اگروہ اتنی دورگروکل ریاست کومراجعت نہ کرجاتے۔ایسی ریاست جس کاوجودایلی کے لئے اس قدرموہوم تھا۔جیسے وہ الف لیلیٰ کاشہرہو۔توایلی ساوی سے شادی کرکے کتنی اچھی زندگی بسرکرسکتا۔لیکن شایدیہ خیال اسے صرف اس لئے آتاکہ وہ ساوی سے شادی کرکے شہزادسے انتقام لے سکتاتھا۔
جاوراسے تبدیل ہوکرجب وہ چک بالاپہنچاتوچندہی دنوں کے بعداسے جمیل کاایک تارملا۔جس میں لکھاتھاگروکل ریاست سے ایک خط موصول ہواہے یہاں آؤتوملے گا۔
جمالواورچنگاری۔
جب وہ خان پورپہنچاتوعلی احمدپنجے جھاڑکراس پر جھپٹ پڑے۔
’’بھئی ایلی نے توحدکردی۔‘‘وہ بولے۔‘‘مسٹرمعروف کہہ رہے تھے کہ انکوائری میں وہ باتیں کیں آپ کے فرزندنے کہ کیابتاؤں اس کوتووکیل ہوناچاہیے تھا۔ہی ہی ہی ہی۔‘‘وہ ہنسے۔’’مسٹرمعروف نے ایلی کی بڑی تعریف کی اورنصیرکی ماں پتہ ہے کیاکہنے لگتے۔آخرکیوں نہ ہوکس باپ کابیٹاہے۔ہی ہی ہی ۔ساری تان مجھ پرتوڑدی۔لیکن ایک بات ہے نصیرکی ماں کہتے تھے دستورکے مطابق ایلی کوسپنڈکردیناچاہیے تھا۔‘‘
’’وہ کیاہوتاہے۔‘‘راجونے پوچھا۔
’’ہی ہی ہی ہی۔‘‘وہ ہنسے۔’’تمہیں کیامعلوم کہ کیاہوتاہے۔مطلب یہ ہے کہ نوکری سے چھٹی۔‘‘
’’ہے۔‘‘وہ چلائی۔
’’ہاں۔‘‘علی احمدبولے۔’’لیکن ہمارابیٹاہے نا۔سمجھی۔کیاسمجھی؟‘‘
ایلی کواس پرغصہ آگیا۔
’’یعنی آپ کامطلب ہے کہ آپ کی وجہ سے نوکری پرقائم ہوں۔‘‘ایلی نے دبی زبان سے کہا۔
’’بالکل۔‘‘وہ بولے۔’’ورنہ ایک دن بھی نوکری نہیں کرسکتے تم۔‘‘علی احمدجلال میں آگئے۔
’’یعنی مجھ میں ذاتی طورپرقابلیت نہیں کہ نوکری پرفائزرہ سکوں۔‘‘
’’لو۔‘‘راجوبولی۔‘‘ابھی توآپ کہہ رہے تھے کہ معروف ایلی کی تعریف کررہے تھے۔‘‘
’’ہی ہی ہی ہی۔‘‘وہ ہنسے۔’’تمہیں کیاپتہ۔قابلیت کئی قسم کی ہوتی ہے۔یہ قابلیت جوایلی میں ہے ۔نوکرشاہی کی قابلیت نہیں۔یہ تواپنے ہی چلانے کی قابلیت ہے۔نہ یہ تیل دیکھ سکتاہے۔نہ تیل کی دکھایہ توپڑول میں چلتی ماچس پھینک سکتاہے۔ہی ہی ہی ہی۔‘‘وہ ہنسنے لگے۔
پھرانہوںنے ایلی کونصحیت کرناشروع کردیں۔
’’دیکھوایلی۔نوکری میں ہمیشہ اپنے امی جیٹیٹ افسرکاساتھ دیناچاہیے۔سمجھے چاہے وہ اچھاہویابراغلطی کررہاہویاظلم۔تمہیں اس سے کیااوریادرکھوتم پرکوئی ظلم نہیں کرے گا۔کیسے کرے گاکیااسے معلوم نہیں کہ تم کس کے بیٹے ہواورہمارے معروف سے کتنے تعلقات ہیں۔یہ لوگ آنکھوں کے اندھے ہوتے ہربات کی خبررکھتے ہیں اوردیکھونااگراپنے افسرکے خلاف کوئی کاروائی کرنی ہوتو۔‘‘وہ بولے۔’’توخودکچھ نہیں کیاکرتے بلکہ دوسروں کواکسادیا۔وہ سناہے ناتم نے نصیرکی ماں تم سے کیاچھپاہے ہی ہی ہی ہی۔ذراایلی کوسمجھادویہ گربڑاآرام دہ رہتاہے۔‘‘
اباکی باتوں سے اکتاکرایلی جمیل کی طرف چل پڑا۔راستے میں نقی کے مکان پررک گیا۔دروازہ کھٹکھٹایا۔
’‘نقی صاحب کہاں ہیں؟‘‘اس نے نوکر سے پوچھا۔
’’جی وہ توشکارپرگئے ہیں۔‘‘نوکرنے کہا۔
’’شکارپر؟‘‘
’’جی ہاں۔‘‘وہ بولا۔
’’کسی خاص تقریب پرگئے ہیں کیا؟‘‘
’’جی نہیں۔‘‘وہ بولا۔’’وہ تواکثرشکارپرجاتے ہیں۔‘‘
’’ارے۔وہ توجوتے سیاکرتے تھے۔‘‘
’’جی بابوجی۔‘‘نوکرہنسا۔’’پہلے جوتے سیاکرتے تھے آج کل شکارکھیلتے ہیں۔‘‘
’’ارے۔‘‘ایلی ہنس پڑا۔’’پہلے چڑیاں کاڑھتے تھے۔پھرجوتے سینے لگے اوراب شکار۔‘‘
مالٹامٹھا:۔
ایلی کودیکھ کرجمیل کی باچھیں کھل گئیں۔
’’یارتم آگئے۔‘‘وہ بولا۔’’بڑااچھاکیاتم نے دوچارروزرونق رہے گی۔مزاآجائے گا۔‘‘
’’اوروہ خط؟کیاصرف مجھے بلانے کابہانہ تھا؟‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’نہیں نہیں۔‘‘وہ بولا۔’’تمہاری قسم۔تم سے جھوٹ نہیں۔تم سے جھوٹ نہیں بولا۔آج تک کوئی چالاکی نہیں کی۔‘‘
ایلی نے غورسے اس کی طرف دیکھا۔’’پئے ہوئے ہوکیا؟‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’بھئی واہ۔‘‘وہ ہنسا۔’’یہ کیاچھپانے کی بات ہے۔بڑی بہادری کی تم نے کہ بوجھ لیا۔اے بھائی جب خاموشی سے تمہاری بات سنوں توسمجھ لوکہ خالی ہوں اورجب بات کروں توسمجھ لوکہ قائم ہوں۔‘‘
’’نشہ وشہ نہیں ہوتااونہوں۔زبان سے رنگ اترجاتاہے۔بس اتناصرف اتنا۔‘‘وہ خاموش ہوگیا۔
’’تم سمجھتے ہو۔‘‘جمیل بولاکہ صرف تمہیں ہی سوجھتی ہیں۔یہ غلط ہے شایدمجھے تم سے بھی زیادہ سوجھتی ہیں تم سے بھی زیادہ انوکھی۔لیکن جب تک مالٹامٹھاکاادھیااندرنہ ہوزبان گنگ رہتی ہے۔سال کو وہ زنگ لگاہواہے کہ اترتانہیں۔تم پی کرآپے میں نہیں رہتے پی کراپنے آپ میں آجاتاہوں۔بس اتنافرق ہے۔‘‘
’’بکونہیں۔‘‘ایلی بولا۔
’’لو۔‘‘جمیل چلایا۔’’ہم بات کریں توبکونہیں۔بھئی واہ اورتم خودباتیں کروتوPurewisdom تمہاری بات عقل کانچوڑہماری بکواس اچھاانصاف ہے۔‘‘
’’اچھاوہ خط نکالو۔‘‘ایلی نے کہا۔
’’خدا کی قسم۔‘‘جمیل بولا۔کیاخط ہے۔واہ واہ اگرمجھے کوئی ایک محبت بھراخط لکھ دیتی توکبھی بوتل کامحتاج نہ ہوتاعمربھرلیکن کسی حرام زادی نے نہیں لکھااورنتیجہ یہ ہے۔جب تک ندرمالٹا مٹھانہ جائے بات نہیں بنتی۔‘‘
’’تمہاری بیوی نہیں منع کرتی تمہیں۔‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’پہلے پہل جب نئی نئی آئی تھی توکیاکرتی تھی۔اب نہیں خداکی قسم اب تواکساتی ہے۔‘‘
’’وہ کیوں؟‘‘
’’کبھی توبہ کرلوں تومصیبت پڑجاتی ہے اسے پھروہ بہانے بہانے مجھے اکساتی ہے کہ توبہ توڑدوں۔‘‘
’’لیکن کیوں؟‘‘ایلی نے پوچھا۔
وہ ہنسنے لگا۔’’اسے معلوم ہوگیاہے کہ یہ ناؤپانی بغیرنہیں چلے گی۔‘‘
’’تمہاری ناؤواقعی اس پانی کے بغیرنہیں چلتی ۔‘‘ایلی نے کہا۔
’’اونہوں۔‘‘جمیل ہنسنے لگا۔’’میری ناؤکوکون پوچھتاہے چاہے چلے نہ چلے۔‘‘
’’توپھر۔‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’بھئی اس کی ناؤنہیں چلتی عجب چکرہے نا۔مالٹامٹھامیں پیوں اورناؤاس کی چلے۔‘‘وہ قہقہہ مارکرہنسنے لگا۔
’’لیکن وہ خط تودکھاؤ۔‘‘ایلی نے کہا۔
’’وہ خط دکھانے والانہیں۔‘‘جمیل بولا۔’’تعویزبناکرگلے میں ڈالنے کی قابل ہے۔میں نے ایساخط کبھی نہیں دیکھا۔تم بڑے خوش قسمت ہوخداکی قسم بڑے خوش قسمت ہواگرمجھ سے کوئی اس کادسواں حصہ پیارکرتاتومیں نہ جانے کیاہوجاتا۔خداکی قسم اورپھروہ توعالم ہے۔عالم اور سب بڑی بات یہ ہے کہ پائے کاعالم ہونے کے باوجوداس میں لڑکی بے حدنمایاں ہے ورنہ پڑھ لکھ کریہ آج کل کی چھوکریاں نسائیت کھودیتی ہیں۔سچ کہناٹھیک کہتاہوں یانہیں اورپھریہ خط اس نے تمہیں نہیں لکھا۔‘‘
’’توپھرکس کولکھاہے؟‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’اپنی بھابھی کو۔‘‘
’’کون سی بھابی؟‘‘
’’اس کاکوئی بھائی ہے۔‘‘وہ بولا۔’’انصرنام ہے یانصیرمجھے معلوم نہیں۔معلوم ہوتاہے اس کانیانیابیاہ ہواہے ۔اس کی بیوی کوخط لکھاہے۔‘‘۔۔’’توپھریہاں کیسے آگیاوہ خط۔‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’وہ شعرسناہے تم نے ۔۔شراب سیخ پہ ڈالی کباب شیشے میں۔‘‘جمیل گانے لگا۔
’’تویہ کسی کے آنے کااعجازہے۔‘‘ایلی نے کہا۔
جمیل ہنسنے لگا۔’’خط اسے لکھاہے ۔لیکن اس بیچاری کے نام صرف سرنامہ ہے باقی سارے خط میں تمہارا تذکر ہ ہے اورتمہارے خیال سے اس قدربھری بیٹھی تھی کہ لفافے پرپتہ بھی تمہاراہی لکھ دیا۔واہ واہ ۔لگن ہوتوایسی ہو۔‘‘وہ ہنسنے لگا۔
ایلی نے وہ خط پڑھا تواس کادل ڈوب گیا۔ساوی کے جذبہ کی شدت مجسم ہوکراس کے روبرو آکھڑی ہوئی۔اس کے اندازبیان میں اس قدرجذبہ اس قدرلطافت اوررنگینی تھی کہ وہ تڑپ گیا۔اس نے بھی ساوی کے دکھ کومحسوس نہیں کیاتھا۔اس کے لاشعورمیںساوی اورغم دومتضادچیزیں تھیں۔
لیکن ساوی کاخط پڑھ کرایلی پرگویادکھ کاایک پہاڑآگرا۔اس کاجی چاہتاتھاکہ کپڑے پھاڑکرباہرنکل جائے اورپھرجوگی بن کر پہاڑی پرجابیٹھے۔
دوایک دن تووہ پڑاآہیں بھرتارہاپھرشدت جذبہ سے مجبورہوکرعلی احمدکے سامنے جاکھڑا اوراس نے ساوی کاتذکرہ پھرسے چھیڑدیا۔علی احمدپہلے تواس کے تیوردیکھ کرگھبراگئے۔لیکن جلدہی انہوںنے پینترابدلااوراپنی عادت کے مطابق ہنسناشروع کردیا۔’’نصیرکی ماں یہ سن تم نے ہی ہی ہی ہی۔‘‘اوراس ہی ہی ہی ہی میں بات دب کررہ گئی۔