علی پور علی پور۔۔۔۔۔۔۔ اس کے کان میں آوازیں پڑیں۔
ایلی چونکا۔۔۔۔۔۔۔گاڑی ایک دھچکے سے رک گئی۔
ایلی نے محسوس کیا جیسے وہ نام مانوس سا ہو۔ جیسے وہاں اسے کچھ کرنا ہو۔ اس نے سامنے دیکھا ہاجرہ سوٹ کیس اٹھانے کی کوشش میں مصروف تھی۔ وہ سامان اٹھانے لگا باہر پلیٹ فارم پر دھندلکے کا ایک پھیلاؤ تھا۔ اس پھیلاؤ میں گویا لوگ تیر رہے تھے۔ وردی والا بابو ہاتھ میں جھنڈی اٹھائے گھور رہا تھا۔ سر پر بسترے اٹھائے وہ ایک سرخ پوش بہاؤ کو چیرتے ہوئے جا رہے تھے۔
دفعتاً ایک چہرہ ان کی طرف بڑھا۔ قریب اور قریب اس چہرے پر عجیب سی مسکراہٹ تھی۔
“تم ہو بہن۔“ چچا عماد کہہ رہا تھا۔ “تم کہاں گئے ہوئے تھے۔ محلے میں تمھاری ڈھونڈ مچی ہوئی تھی۔ ہر جگہ پوچھ گچھ ہو رہی تھی۔ جلدی پہنچو جلدی ورنہ وہ چلے گئے تو پھر کیا فائدہ میں ذرا موجو والی جا رہا ہوں۔“ یہ کہہ کر اس نے ایک ڈبکی لگائی اور دھندلکے میں گم ہو گیا۔
ڈھونڈ مچی ہے۔ ہاجری بڑبڑانے لگی۔ ڈھونڈ کیوں مچی ہے۔ کیوں مچی ہے ڈھونڈ مچی ہے۔ ڈھونڈ مچی ہے۔۔۔۔۔۔۔ یکے کے پہیے چیخ رہے تھے۔
جب وہ بازار میں پہنچے تو دور سے حکیم نے انہیں دیکھا اور پھر اشارہ کرنے لگا۔ بہت سے لوگ جھک جھک کر مڑ مڑ کر ان کی طرف دیکھ رہے تھے۔ دودھ والے کی دوکان پر لوگ ان کے متعلق باتیں کر رہے تھے۔
ایلی محسوس کر رہا تھا جیسے وہ راجہ پورس ہو۔ اور منہ میں گھاس لئے سکندر کر روبرو اعتراف شکست کرنے جا رہا ہو۔ “مجھ سے ایسا سلوک کرو جیسا بادشاہ شکست خوردہ غلاموں سے کرتے ہیں۔“
وہ محسوس کر رہا تھا کہ ان سب کو اس کی شکست کا علم تھا۔ وہ اس کے منہ کے گھاس کو دیکھ رہے تھے۔ وہ اس کی شکست پر خوش تھے۔ لیکن وہ سکندر کون تھا جس کے روبرو پیش ہونے ایلی جا رہا تھا۔ نہ جانے کون تھا۔ بہرحال وہ سکندر تھا وہ فاتح تھا وہ اس کا منتظر تھا۔
چوگان میں انہیں ماں دیکھ کر رک گئی اس نے ہونٹوں پر انگلی رکھ لی۔
“ہے تم ہاجرہ۔“ وہ چلائی “ جوجی کی ماں لو یہ آ گئے۔“
“کون آ گئے۔“ ایک کھڑکی سے سر نکال کر بولی۔
“کیا کہا ماں“ دوسری چلائی۔
“ہے ہاجرہ تم ہو کیا۔“
“اب کیا ماں بیٹا نیا گل کھلا کر آئے ہیں۔“
“میں کہتی ہوں بہن پرانے بندھنوں کا بھی خیال کر لیا کرو۔ کب تک آگے دوڑ اور پچھلے چوڑ پر عمل کرو گی۔“
“تو تو ہاجرہ لڑکے کے پیچھے دیوانی ہو گئی۔“
ہاجرہ حیرت سے ان کی طرف دیکھ رہی تھی۔ ان کی تعداد ہر ساعت بڑھتی جا رہی تھی کوئی گلی سے نکل کر رک جاتی کوئی کھڑکی سے سر نکالتی۔ کوئی چھت سے جھانکتی چند ساعت تو ایلی کھڑا حیرت سے ان کی طرف دیکھتا رہا پھر وہ بھاگا اندھا دھند بھاگا۔ اس نے محسوس کیا جیسے قبرستان میں ڈائنوں نے اسے گھیر لیا ہو۔
“ہئے تم“ رابعہ نے ایلی کو دیکھ کر سینہ تھام لیا۔ اس کی آنکھیں اہل آئیں اور وہ حیرت سے بت بنی دیکھتی رہی۔
ایلی ڈر گیا۔۔۔۔۔۔نہ جانے کیا بات۔
“لوتم آگئے“ ۔۔۔۔۔۔۔ جانو اسے دیکھ کر ٹھٹھکی اور اس نے چیخ سی ماری شہزاد کے ہاتھ سے پیالی گر پڑی اور فرش پر ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہو گئی۔ اس کے قریب ہی صفدر کھڑا حیرت سے دیکھ رہا تھا
چند قدم پرے بیگم اسے گھور رہی تھی۔ وہ محسوس کر رہا تھا جیسے مر جانے کے بعد وہ بدروح کی شکل میں واپس آیا ہو اور وہ سب ڈر اور حیرت سے اس کی طرف دیکھ رہے ہوں۔
دیر تک بات کئے بغیر وہ اس کی طرف دیکھتے رہے اتنی دیر میں ہاجرہ بھی آ پہنچی۔ سب سے پہلے رابعہ بولی۔ “ہے ایک گھنٹہ پہلے آ جاتے تو۔۔۔۔۔“
“اتنے دن تمھاری ڈھونڈ پڑی رہی۔“
“انتظار میں راہ تکتے رہے۔“
“ہے کتنا ظلم کیا تم نے۔“
“اتنی دیر لگا دی تم نے۔“
“آخر ملتان میں کیوں رکے رہے۔“
وہ سب باری باری بول رہے تھے۔ ایلی کو ان کی باتیں سمجھ میں نہیں آ رہی تھیں۔ نہ جانے وہ کس بات پر اظہار افسوس کرر ہے تھے۔
پھر رابعہ نے طلسم توڑا۔“ ہے اتنی پیاری ہے وہ کہ کیا بتاؤں۔ اتنی رونق لگا رکھی تھی اس نے وہ تو یوں گھل مل گئی جیسے ہم میں سے ہو اتنی اچھی طبیعت مزاج نہیں بو نہیں خوش طبیعت۔ ہنس مکھ۔ تم تو اتنے خوش قسمت ہو‘ وہ ایلی کی طرف دیکھ کر بولی۔
“یہ تو سکندر کا نصیب لے کر آیا ہے۔“ شہزاد بولی۔
“ہے اب جلدی کرو جلدی، نیک کام میں دیر نہ کرو۔“
“لو وہ اپنے منہ سے کہتی تھی۔ کہتی تھی میں تو تمھاری ہو گئی اب تم بنا لو بات بنے۔“
ایلی نے غور سے بیگم کی طرف دیکھا۔
“ادھر کیا دیکھتا ہے“ شہزاد بولی۔ اماں اور کیا کہے گی۔“ وہ ہنسی۔
“اور بہن اتنی خوب صورت اور پھر اتنی اچھی۔“
“یہ تو ساری مر مٹی میں اس پر“ شہزاد ہنسی۔
“کوئی ایسی بات کرو جو میرے پلے بھی پڑے۔“ ہاجرہ بولی۔ “وہ کس کی بات کر رہی ہو۔“
“اے وہ آئے تھے۔“ جانو نے کہا۔
“کون آئے تھے۔؟“
“آئے ہے وہی لاہور والے کیا نام ہے اس لڑکی کا۔“
“اے سادی اور کون۔“ رابعہ بولی۔
“سادی - - - - - -“ ایلی کا دل ڈوب گیا۔
“سادی“ ہاجرہ نے زیرلب کہا۔ “کہاں آئے تھے۔“
“یہاں یہاں علی پور میں۔ شہزاد کے گھر پورے دو دن رہے۔“ رابعہ چلائی۔
“تمھارا انتظار کرتے رہے۔“ جانو بولی۔
“وہ اس کی بہن اور اس کی خالہ۔ تینوں۔“
“یہاں آئے تھے؟ ہاجرہ نے حیرت سے پوچھا۔
“ہاں ہاں یہاں یہاں یہاں دو دن یہاں رہے وہ۔ اتنی پیاری ہے وہ سادی اتنی رنگین اور اس قدر پیار کرنے والی اور پھر خوبصورت کوئی جواب ہے اس کا“ رابعہ نے ڈرامائی انداز میں کہا۔
نمناک دھندلکا
ایلی کا دل دھک سے رہ گیا۔ آنکھیں دھندلا گئیں۔ پانی ہی پانی پانی ہی پانی چاروں طرف پانی اور اس پر ٹنگا ہو
پھیکا اداس آسمان قریب ہی کوئی چیخ کر بولا “گاڑی آگے نہیں جائے گی- - - - - - -“
ایلی دیوانہ وار بھاگا - - - - - - فرحت کے کمرے میں پہنچ کر وہ دھم سے چارپائی پر گر پڑا۔ اس نے اپنا منہ تکیہ میں ڈبو دیا - - - - - پانی ہی پانی - - - - - - تکیہ بھیگ گیا۔ اس نے سر اٹھایا کمرہ - - - - - - - - نمناک دھند لکے سے بھرا ہوا تھا۔ دور ہاجرہ سہمی ہوئی کھڑی اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔
وہ دھند لکا کئی ایک روز جوں کا توں رہا۔
مایوسی بڑھتی گئی - - - - - - - پھر مایوسی کے اس تاریک آسمان پر دفعتاً فویا امید کا ایک تارا ٹوٹا۔ ایک ساعت کے لئے روشنی کی کرن جھلملائی۔
نہیں نہیں سادی ضرور کچھ کرے گی وہ گھر والوں پر اثر ڈال سکتی ہے اس کی والدہ اس کا ساتھ دے گی۔ اور پھر ساتھ دے گی۔ اور پھر سارے کیرا موزوز غصے میں غرانے کے بعد رو پڑیں گے منصر جوش میں بہن کی اس دیدہ دلیری پر اسے مارنے کے لیے ہاتھ اٹھائے گا اور پھر اسی ہاتھ سے اپنے آپ کو پیٹنے لگے گا اور بالآخر وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑے گا اور جوش محبت سے سادی بغلگیر ہو جائے گا۔
اور پھر جب وہ ایلی سے ملے گا تو کہے گا۔ “ایلی صاحب اتفاق سے - - - - - - “
لیکن جلد ہی ٹوٹتے تارے کے وہ روشن ذرات بکھر گئے روشنی بجھ گئی اور وہی تاریکی چھا گئی۔
“نہیں نہیں اس معاملے میں میں مجبور ہوں۔ میں ان سے وعدہ کر چکی ہوں کہ اس بارے میں ضد نہیں کروں گی۔“ سادی چلاتی۔ “خاندانی عزت“ وہ طنز سے ہنسی “ان کی مجبوریاں بھی آخر تسلیم کرنی پڑتی ہیں۔ ہاں اس معاملے میں مجبور ہوں۔“ یہ کہتے ہوئے وہ دور ہٹے چلی جاتی اور دور اور دور حتٰی کہ - - - - - - جوں جوں وہ دور ہوتی جاتی تاریکی چاروں طرف سے یورش کرتی۔
مظفر آباد سے آنے کے بعد دس پندرہ روز کے لئے تو ایلی بے حد پریشان رہا اس کے دل میں کئی مرتبہ خیال پیدا ہوا کہ سادی کو ساری بات لکھ دے تاکہ وہ حالات سے واقف رہے لیکن پھر اسے خیال آتا کہ یہ بات خط میں لکھنے والی نہیں۔ بلکہ زبانی کرنے والی ہے لٰہذا وہ سوچتا رہا کہ کیسے بات کرے ملنے کی کوئی صورت بھی تو نہ تھی۔
آخر اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ شاید صورت پیدا ہو جائے آخر کوئی نہ کوئی صورت تو پیدا ہو گی ہی۔ لیکن اس کا لاہور جانا ضروری تھا۔ علی پور میں بیٹھے تو صورت پیدا نہیں ہو سکتی وہ سادی کے خط کے انتظار میں تھا۔ خط سے حالات کا کچھ تو علم ہو گا۔ وہ علی پور کیسے آئے تھے۔ کیا چوری آئے تھے یا سب کو علم تھا یا ممکن ہے صرف اماں سے بات کی ہو اور پھر علی پور آنے کے بعد ان کے تاثرات کیا تھے لیکن سادی کا کوئی خط موصول نہ ہو رہا تھا۔ ہر روز ایلی امید لگا کر بیٹھ رہتا۔ ڈاکیہ کی آمد کے وقت ہر آہٹ پر اس کے کان بجتے لیکن سادی کا خط موصول نہ ہوا۔ اب مزید انتظار کرنا ممکن نہ تھا۔ لٰہذا اس نے لاہور جانے کا فیصلہ کر لیا۔
گاڑی میں وہ مختلف قسم کے منصوبے بناتا رہا۔
لاہور پہنچتے ہی ایسے وقت سفید منزل جاؤں جبکہ گھر کوئی نہ ہو۔ منصر دفتر گیا ہوا ہو۔ انور کالج میں ہو ممکن ہے کوئی صورت نکل آئے لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی صورت نہ نکلے۔ ممکن ہے امان آیا ہوا ہو۔
فرض کیجئے گھر کوئی نہ ہو پھر بھی والدہ تو ہوں گی۔ اور اب شاید وہ سادی کو اس کے سامنے بلانا پنسد نہ کریں۔ بلا بھی لیں تو وہ ان کے سامنے یہ بات کیسے کہے گا۔ بات کی نوعیت ایسی ہے کہ کسی کے روبرو نہیں ہو سکتی۔
باجی کے روبرو بھی نہیں تو پھر - - - - - - - اگر وہ ایک مرتبہ سفید منزل میں چلا گیا تو پھر سب کو معلوم ہو جائے گا کہ وہ لاہور آیا ہوا ہے۔ اس کے بعد سادی سے خفیہ ملاقات کی صورت نہ رہے گی اور اگر سفید منزل نہ جائے تو پھر سادی کو کیسے معلوم ہو گا کہ وہ لاہور آیا ہوا ہے - - - - - - نہیں نہیں یہ نا ممکن ہے۔ سادی کو خفیہ پیغام بھیجنا ممکن نہیں۔
ایلی اسی ادھیڑ بن میں مصروف تھا کہ گاڑی لاہور کے سٹیشن میں داخل ہو گئی ایلی گاڑی سے اترا۔
ہوٹل میں سامان رکھ کر وہ سیدھا سفید منزل پہنچا۔ صدر دروازہ بند تھا۔ اس نے دستک دی۔ کوئی جواب نہ ملا۔ اس نے پھر دستک دی۔
جب ایلی نے تیسری مرتبہ دستک دی تو بوڑھا سقہ جو گلی سے گزر رہا تھا ہنس کر بولو “میاں دستک تو دے رہے ہو پر درواجے پر تو تالا پڑا ہے۔“
“تالا - - - - - - ا“ ایلی نے حریت سے دہرایا - - - - - - دروازے پر واقعی تالا پڑا تھا۔
“لیکن“ وہ چلایا “یہ لوگ کہاں ہیں۔“
“میاں کہیں گئے ہوں گے۔“ سقہ نے کہا۔
دیر تک ایلی وہیں کھڑا رہا کہ کسی سے پوچھے لیکن کوئی ادھر سے نہ گزرا۔ ساتھ والے گھر کا دروازہ کھٹکھٹا کر پوچھنے کی اس میں جرات نہ تھی - - - - - - -
شام کو وہ منصر کے دفتر میں پہنچا لیکن وہاں بھی تالا لگا ہوا تھا۔ “ارے“ وہ حیرانی سے چلایا “یہاں بھی تالا“ سامنے دوکان پر جا کر اس نے پنواڑی سے پوچھا۔
“کیوں بھئی یہ دفتر نہیں کھلے گا آج۔؟“
“یہ دفتر“ پنواڑی بولو۔“ “یہ دفتر تو بند ہو گیا بابو جی۔“
“بند ہو گیا۔“
“جی آتھ روج ہوئے بند ہوئے اسے۔“
“کیا کسی اور جگہ چلا گیا۔“
“یہ تو مالم نہیں بابو۔“
دوکاندار کی بات سن کر ایلی نے محسوس کیا جیسے اس کے روبرو ایک آہنی دیوار آ کھڑی ہو۔ ہوٹل میں پہنچ کر ساری رات وہ سوچتا رہا۔ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کس سے دریافت کرے منصر کے دوستوں سے واقف نہ تھا۔ اگرچہ اسے معلوم تھا کہ موتی دروازے کے ایک محلے میں ان کے رشتہ دار رہتے تھے جہاں رانا کی شادی پر وہ گیا تھا۔ اسے وہ راستہ اچھی طرح یاد تھا۔ لیکن آخر وہاں جا کر وہ کس کا دروازہ کھٹکھٹائے کس سے پوچھے اور اگر انہوں نے پوچھا میاں تم کون ہو تو وہ کیا جواب دے گا۔
پھر دفعتاً اسے خیال آیا - - - - - - - ڈاکٹر‘ وہی ڈاکٹر جس نے دوپٹے کی چوری کے موقع پر اسے تسلی دی تھی۔ “مجھے سب معلوم ہے گھبراؤ نہیں۔“
صبح سویرے ہی ڈاکٹر کے مکان پر جا پیہنچا۔
“معاف کیجئے۔“ وہ بولا “آپ کو تکلیف دی۔“
ڈاکٹر اسے دیکھ کر ہنسنے لگا “کیوں پھر دوپٹہ چرانے کا ارادہ ہے۔“
“جی نہیں“ ایلی مسکرایا۔
“لیکن اب تو دوپٹہ چرانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ وہ لوگ تو چلے گئے۔“
چلے گئے۔“ ایلی نے حیرت سے پوچھا “کیوں؟“
“انہوں نے یہ مکان بیچ دیا۔ منصر صاحب نے دفتر میں استعفٰے دے دیا اور وہ ہمیشہ کے لئے یہاں سے چلے گئے ہیں - - - - -“ہمیشہ کے لئے۔؟“ ایلی نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے ڈاکٹر کی طرف دیکھا۔
“منصر صاحب کے والد کسی ریاست میں اونچے عہدے پر فائز ہیں۔“ ڈاکٹر نے مسکراتے ہوئے کہا “اس لئے غالباً انہوں نے سب کو وہیں بلا لیا ہے۔“
“لیکن - - - - - - “ ایلی نے کچھ کہنا چاہا۔
ڈاکٹر نے اسے تھپکنا شروع کر دیا “میرے نوجوان دوست زندگی میں ایسے واقعات اکثر ہوتے رہتے ہیں۔ شروع شروع میں انسان دکھ محسوس کرتا ہے یہ عمر ہی ایسی ہے پھر آہستہ آہستہ - - - - - - -“ وہ مسکرایا “سب ٹھیک ہو جائے گا وقت لاجواب مرہم ہے۔ چائے پئیں گے آپ۔“
“شکریہ۔“ ایلی گنگنایا اور گردن لٹکا کر چل پڑا۔ اسے یہ احساس بھی نہ تھا کہ وہ ڈاکٹر صاحب سے سلام علیکن کئے بغیر شکریہ ادا کئے بغیر چل پڑا تھا۔ اس کے روبرو ایک خوفناک دھندلکا پھیلا ہوا تھا تمام راستے مسدود ہو چکے تھے۔ مناظر اپنا مفہوم کھو چکے تھے آوازیں محض شوروغل میں تبدیلی ہو چکی تھیں۔ لاہور ملبے کا ایک ڈھیر دکھائی دے رہا تھا اس کے رو برو ناؤ گھر تھا۔ لیکن ناؤ گھر گویا ریت میں دھنسا ہوا تھا۔ ریت ریت ریت۔ نمناک دھندلکا اور ریت!! - - - - -
والد صاحب
سادی کے یوں اطلاع دئیے بغیر چلے جانے پر ایلی غم نہیں بلکہ حیرت محسوس کر رہا تھا کم از کم اسے اطلاع تو دی ہوتی۔ سادی کو اس کے گھر کے لوگ جانے پر مجبور نہیں کر سکتے تھے۔ ممکن ہے گھر والوں نے چالاکی سے اسے بہلا پھسلا کر رضامند کر لیا ہو اور وہ دھوکے میں آ گئی ہو شاید منصر نے جان بوجھ کر نوکری سے استعفٰی دے دیا ہوتا کہ ان کے لاہور میں رہنے کا جواز نہ رہے اور یہ سب کچھ اس لئے کیا گیا ہو کہ ایلی سے سادی کا جذباتی تعلق ٹوٹ جائے۔ نہ بھی ٹوٹے تو اس میں شدت نہ رہے۔ دوری اور وقت مل کر اس کی توجہ کو کسی اور طرف منعطف کرنے میں ممد ثابت ہوں۔
جب اسے یہ خیال آتا تو دکھ محسوس ہوتا۔ دراصل ایلی کو منصر سے محبت ہو چکی تھی۔ منصر اس کا آئیڈیل بن چکا تھا۔ اور منصر کی حیثیت سے ایلی کے ذہن میں اگر سادی سے زیادہ نہ تھی تو کسی صورت میں اس سے کم بھی نہ تھی۔
منصر کا وہ حسن اس کا بانکپن رنگینٹی طبع اس کی خودداری اور اس کے علاوہ منصر کی شخصیت سے خلوص بھری محبت کی شعاعیں سی نکلتی ہوئی محسوس ہوتی تھیں ایسی شعاعیں جو دکھتی نہیں بلکہ محسوس ہوتی ہیں۔ جیسے بلا کی سردی میں کوئی انجانی انگیٹھی کے پاس جا بیٹھا ہو۔
ایلی کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ تھی کہ وہ در پردہ منصر سے محبت رچا بیٹھا تھا حالانکہ سادی نے کئی بار خطوں کے ذریعے اور زبانی اسے خبردار کیا تھا۔ “دیکھنا یہ نہ بھولنا کہ یہ سب لوگ صرف میری وجہ سے - - - - - آپ سے التفات محسوس کرتے ہیں۔ صرف میری وجہ سے ورنہ ان کا بس چلے تو - - - - - -“ سادی کی تنبیہ کے باوجود ایلی منصر کا ہو چکا تھا۔ وہ منصر کی ہدایات پر عمل تو نہیں کرتا تھا لیکن ان کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسے تکلیف محسوس ہوتی تھی۔
“نہیں نہیں“ وہ آپ ہی چلایا “منصر ایسا نہیں کر سکتا۔ منصر اسے دھوکا نہیں دے گا۔ ضرور کوئی مجبوری پیش آ گئی ہو گی کہ انہیں لاہور کو خیرباد کہنا پڑا ورنہ منصر - - - - - - اگر قطع تعلق ہی مقصود ہوتا تو وہ اعلانیہ کہہ دیتا۔ “ایلی صاحب اگر آپ سادی کے راستے سے ہٹ جائیں تو میں بے حد ممنون ہوں گا۔ پھر ایسی چال چلنے کا فائدہ۔ نہیں نہیں منصر ایسا نہیں کر سکتا۔“
کئی روز ایلی اس سلسلے پر سنجیدگی سے سوچتا رہا مگر زیادہ سوچنے سے بات اور بھی پیچیدہ ہوگئی۔ حتیٰ کہ وہ اُلجھ کر رہ گیا۔
پھر سادی کا خط موصول ہوا۔ لکھا ہوا تھا ’’بھائی جان کی وجہ سے میں مجبور ہوگئی ___ بھائی جان کے لیی اس کے سوا اور چارہ کار نہ تھا کہ لاہور چھوڑ کر یہاں ریاست گروکل میں آجائیں۔ مجھے بھائی جان سے محبت ہے۔ آپ جلتے ہیں تو پڑے جلئے۔ میں بھائی جان کے لیے سب کچھ قربان کردینے کے لیی تیار ہوں چاہے میری جان ہی کیوں نہ جائے۔
لیکن گھبرائیے نہیں ہمارے یہاں آنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ آپ اپنے والد صاحب سے بات کرکے ان کے ہاتھ پیغام بھیجنے میں سستی نہ کریں۔ چوںکہ میرے والد صاحب بڑے رکھ رکھاؤ کے دلدادہ ہیں اور ابا کے سامنے اپنی دال نہیں گلتی لہٰذا یہ کام تو آپ کو کرنا ہی ہوگا۔‘‘
’’یہاں کب آئیں گے آپ کی منتظر رہوںگی۔ منتظر ہوں۔‘‘
سادی کا خط پڑھ کر ایلی کو خوشی کی بجائے الٹا غم ہوا اور وہ بالکل ہی مایوس ہوگیا۔
’’والد صاحب‘‘وہ زیرِلب بولا۔ ’’بڑے رکھ رکھاؤ کے دلدادہ ہیں۔ والد ___اونہہ‘‘اس کا جی چاہتا تھا کہ قہقہہ مار کر ہنس پڑے اور دیوانہ وار چلائے ’’والد صاحب ہاہاہاہا۔‘‘
’’والد صاحب۔ والد صاحب بڑے رکھ رکھاؤ کے دلدادہ ہیں۔ ہاہاہا۔‘‘
’’والد صاحب۔ والد صاحب کے سامنے ہماری دال نہیں گلتی۔ ہی ہی ہی۔‘‘
’’والد صاحب سے کون بات کرے اور کی بھی جائے تو کسی احسن طریق سے کی جائے۔ والد صاحب کی رضا مندی ضروری ہے۔ انہیں خود پیغام لانا چاہئے۔‘‘
’’نہیں مجھے یہ رشتہ منظور نہیں ___میں چاہتا ہوں کہ بچوں کا رشتہ ایسے گھرانوں میں ہو جہاں میری حیثیت ہو۔ میری عزت ہو۔ میری آؤ بھگت ہو۔ میری عزت ___ ہاہاہاہا ___والد صاحب۔‘‘
ایلی کا جی چاہتا تھا کہ دیوانہ وار باہر نکل جائے اور لوگوں کو اپنا پیغام سنائے۔ ’’تمہارے یہاں والد صاحب ہیں کوئی۔ ان سے بچو۔ والد صاحب سے بچ کر رہو۔ ان سے دور رہ۔ وہ ایک جیتی جاگتی لعنت ہیں۔ بد قسمتی ہیں۔ ان کا رکھ رکھاؤ جھوٹ ہے۔ ان کی خاندانی عظمت فریب ہے۔ والد صاحب ایک بہروپیہ ہیں جو فریبت سے گھر کی گدی پر آبیٹھتے ہیں۔ والدہ محترمہ نے اگر انہیں سر چڑھا رکھا ہے تو کسی ذاتی غرض کی وجہ سے ___والدہ محترمہ نے اپنی آسانی کے لیی انہیں بُت بنا رکھا ہے توڑ دو اِن بتوں کو توڑ دو۔‘‘
بچپن ہی سے ایلی کو اپنے باپ سے بیر تھا۔ اسے علی احمد کو دیکھتے ہی غصہ آجاتا تھا۔ باپ کی وجہ سے ہی وہ والدین کی محبت سے محروم رہا تھا۔ باپ کی وجہ سے وہ نوکرانی کا بیٹا تھا۔ باپ کی وجہ سے اسے سستی اور کمینی عورتوں کے لیی چلچلاتی دھوپ میں بوتل میں رہٹ سے پانی بھرنا پڑا تھا۔ باپ کی وجہ سے محلے والیاں کہا کرتی تھیں ’’بہن آخر بیٹا کس کا ہے اپنے باپ کے قدموں پر چلے گا نا اور کیا وہ بھی گودی میں پلا تھا یہ بھی گودی میں پل رہا ہے۔‘‘
اور والد صاحب ہی کی وجہ سے آج ایلی کے ہاتھ سے سکون اور اطمینان سے زندگی بسر کرنے کا موقعہ ہمیشہ کے لیی جا رہا تھا۔ اگر سادی چھن گئی۔ اگر اس کی پناہ گاہ ہاتھ سے جاتی رہی تو___تو ‘‘ ایلی نے دانت بھینچ لیے تو ___تو میں گندی بد رؤ میں چھلانگ لگا دوںگا۔ میں اپنا آپ کتوں کو کھِلا دوںگا۔ میں اپنے تعفن کو چاروں طرف پھیلا دوںگا۔ میں بھی گود میں پلوںگا۔ میرے کمرے میںبھی ٹین کا سپائی برسرِ پیکار رہے گا۔ ___والد صاحب زندہ پائندہ باد۔
برہنہ نگاہ
پھر ایلی کو جو ہوش آیا تو اس کے سامنے ہاجرہ اور فرحت سہمی ہوئی کھڑی تھیں۔
’’کیوں ایلی‘‘ ہاجرہ کہہ رہی تھی ’’خیر تو ہے۔‘‘
’’خیر ___ ‘‘ وہ بولا۔ ’’کیوں؟‘‘
’’تیری چیخیں تو سارے محلے میں سنائی دے رہی تھیں بیٹا۔‘‘
’’چیخیں___ ‘‘ اس نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا۔
’’نہ بیٹا‘‘ ہاجرہ قریب آکر بولی خود کو اختیار میں رکھا کرتے ہیں۔ اللہ کرے گا کوئی نہ کوئی صورت نکل ہی آئے گی۔‘‘
’’وہ تو خیر نہ جانے کب نکلے گی لیکن جو صورت نکلی رہی ہے اُسے تو دیکھو ذرا۔‘‘ شہزاد داخل ہوکر بولی۔
’’کیا نکلی ہوئی ہے۔‘‘ ہاجرہ نے پوچھا۔
’’یہ‘‘ شہزاد نے بڑھ کر ایلی کی ٹھوڑی کو دونوں ہاتھوں میں پکڑ لیا۔
’’اب تو تُو بھی نہیں آتی‘‘ فرحت بولی۔ ’’آج نہ جانے کتنی دیر کے بعد شکل دکھائی ہے۔‘‘
’’میری شکل ___ ‘‘ وہ ہنسی ’’میری شکل دیکھ کر پہلے تم کب خوش ہوا کرتی تھیں صرف ایک ایلی تھا اور اُسے اپنی سدھ بدھ نہیں رہی___کیوں ایلی‘‘ وہ چلائی۔
’’اپنی سدھ بدھ پہلے کب تھی‘‘ ایلی نے اُسے چھیڑا۔
’’اچھا‘‘ اس نے مُنہ پکا کرکے جواب دیا ’’میں سمجھی پہلے تھی۔‘‘
’’اگر سمجھ لیتی تو بات نہ بگڑتی‘‘ ایلی نے کہا۔
’’تت تت___تم نے ہی سمجھا دیا ہوتا‘‘ وہ ہنسی۔ ’’ چل تجھے چائے پلاؤں۔ یہاں اکیلا بیٹھا رہتا ہے فضول۔ چل۔‘‘ شہزاد نے اسے پکڑلیا۔
ایک ساعت کے لیی ایلی نے شدت محسوس کیا کہ سب کے روبرو شہزاد کو اپنے بازوؤں میں جکڑ لے اور اس کا بند بند چومنا شروع کردے اور پھر چلّا کرکہے۔ ’’چل۔ اگر یہی ہے تو یہی سہی۔‘‘ اس نے شہزاد پر ایک برہنہ نگاہ ڈالی اور وہ اس کی طرف بڑھا۔
شہزاد بھانپ گئی اور پھدک کر پیچھے ہٹی اور پھر بھاگی۔ ’’آؤ ناپھر‘‘ وہ چلاّئی ’’جلدی آؤ۔‘‘ ایلی بھاگا۔
اس وقت نہ جانے ایلی کو کیا ہوگیا تھا۔ اس وقت گویا وہ اپنے آپ میں نہ تھا۔ جیسے کوئی اور روح اس کے جسم میں حلول کرگئی تھی۔ وہ بھول چکا تھا کہ ہاجرہ اور فرحت کھڑی دیکھ رہی ہیں۔ وہ بھول چکا تھا کہ شہزاد شریف کی بیاہتا بیوی ہے۔ وہ بھول چکا تھا کہ اسے سادی سے محبت ہے۔ وہ اپنا آپ بھول چکا تھا۔ اس وقت اسے کسی فرد یا اصول کا لحاظ نہ تھا۔ وہ ننگا تھا۔ شرم و حیاء سے قطعی طور پر بے گانہ۔ اسے صرف ایک خواہش تھی کہ اعلانیہ اپنے کو کنوئیں میں پھینک دے اور پھر بھینس کی غلاظت میں لت پت ہوجائے۔ اس کا شدت سے جی چاہتا تھا کہ سب کے روبرو اپنی تذلیل کرے۔ سب کے رو برو کسی کی تذلیل کرے۔
شہزاد نے مڑ کر ایلی کی طرف دیکھا۔ اس کا چہرہ خوف سے بھیانک ہو رہا تھا یا شاید ایلی کی وہ خواہش شہزاد پر بھی اثر کرچکی تھی اور اس کا چہرہ ڈر نہیں بلکہ کسی اور جذبے سے بھیانک ہو رہا تھا یا ممکن ہے دونوں ہی باتیں درست ہوں اورایلی کے قرب سے خائف تھی۔ اور اس کی آرزو کر رہی تھی۔
اگر اس وقت سیڑھیوں میں ایلی کا پاؤں نہ پھسلتا اور وہ دھڑام سے نہ گرتا تو اس کی زندگی میں واقعات کا دھارا کسی اور رُخ پر چل پڑتا۔ حالات نئی کروٹ لیتے لیکن گرتے ہی اس کی توجہ چوٹ کی طرف مبذول ہوگئی اور اس کو یہ بھی معلوم نہ ہوا کہ شہزاد اس پر جُھکی ہوئی ہے اور اسے اسی برہنہ نگاہ سے دیکھ رہی ہے۔
کچھ دیر بعد ایلی چارپائی پر پڑا ہوا تھا۔ دفعتاً اُسے خیال آیا کہ اس وقت اُسے کیا ہوگیا تھا۔ نہ جانے کیا ہوگیا تھا۔ عجیب سی وحشت تھی۔ عجیب۔ اس وقت اسے ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے شہزاد شہد کا چھتہ ہو اور وہ خود ریچھ۔ کتنے خطرناک عزائم لیی وہ اس کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اور شہزاد نے جب مڑ کر اس کی طرف دیکھا تو اس کی نگاہ میں کس قدر خوف تھا___لیکن اس خوف میں لذت کی جھلک تھی وحشت بھری لذت اور پھر وہ نگاہ جو شہزاد نے اس پر ڈالی تھی جب وہ گر پڑا تھا۔ کیا شہزاد خواہش کے مجذوبانہ اظہار کو پسند کرتی تھی لیکن وہ تخلئے میں بھی خواہش کے اظہار سے گھبراتی تھی وہ تو آرزو کی ہلکی پھوار کی دلدادہ تھی۔ موسلادھار بوچھاڑ کو وہ کیسے پسند کرسکتی تھی۔ لیکن اس وقت ___ایلی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔
کیا سبھی عورتیں ایسی ہوتی ہیں۔ آرزو کے ہلکے سے اظہار کو ناپسند کرتی ہیں۔ بُرا مانتی ہیں، لیکن مجنونانہ وحشت بھری خواہش کے اعلانیہ اظہار کے روبرو انکار رکھ رکھاؤ احتیاط ضبط سب پاش پاش ہوجاتے ہیں اور ان کی نگاہ میں فخر بھری انبساط جھلکتی ہے اور ایک ساعت کے لیی وہ تمام دنیا اور پابندیوں سے آزاد ہوجاتی ہیں۔
ایلی نے کئی ایک مرتبہ دیکھا تھا کہ وہ شہزاد جو خواہش کے عملی اظہار سے ڈرتی تھی اور تخلئے میں بھی اس سے بچنے کی کوشش کیا کرتی وحشت بھرے اعلانیہ اظہار پر اس میں ایک عجیب کیفیت پیدا ہوجاتی جیسے سانپ کو دیکھ کر چوہیا مبہوت ہوکر بے حس ہوجاتی ہے اور پھر اس عالم میں شہزاد کو بھول جاتا کہ وہ شریف کی بیوی ہے چاربچیوں کی ماں ہے اور ___گویا سبھی کچھ بھول جاتا تھا اور وہ بے پروا بے خوف ہوکر میدان میں آکھڑی ہوتی۔ دعوت دیتی کہ وہ وحشت طوفان بن کر چلے لیکن ایسے مواقع پر ایلی گھبرا جاتا تھا۔ اور قدم پیچھے ہٹا لیتا تھا۔ یہ دیکھ کر شہزاد کے انداز میں ہلکی سے تحقیر جھلکتی جیسے کہہ رہی ہو بس۔ اتنی ہی جرأت کا اظہار کیا تھا۔ مثلاً جب اس نے ضد سے سادی کا سلگایا ہوا سگرٹ حاصل کیا تھا۔ دوپٹہ چھینا تھا اور اس رات جب وہ بھاگنے کے بعد سفید منزل میں لوٹ آیا تھا۔ سادی کتنی عظیم شخصیت تھی اس کی وہ بے نیازی وہ ہنسی وہ رنگینی ___ایلی نے آہ بھری نہ جانے کیوں رات کے اندھیرے میں تنِ تنہا سادی کے اس قدر قریب ہونے کے باوجود اس نے کبھی خواہش محسوس نہ کی تھی۔ وحشت اور مجذوبانہ اظہار کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا سادی کے متعلق سوچتا تو ایلی کا دل بیٹھ جاتا۔ اُسے دکھ ہوتا اور اس کی توجہ پھر والد صاحب کی طرف مبذول ہوجاتی۔ اس پر ایک اور قسم کا جنون سوار ہوجاتا ___اور پھر وہ چاہتا کہ کسی اور طرف توجہ مبذول کرے اور یوں اپنے آپ کو محفوظ کرلے۔ لیکن اس کی توجہ مبذول نہ ہوتی اور وہی دیوانہ پن اس پر مسلط ہوجاتا۔ اور اس کا جی چاہتا۔ کہ ساری دنیا سے انتقام لے۔ اپنے آپ کو تباہ کردے۔ کسی اندھے کنویں میں چھلانگ لگا دے اور بھینس کی طرح غلاظت میں لت پت ہو جائے ___ اس وقت شہزاد مڑکر ایلی کی طرف دیکھتی اس کی آنکھوں میں وحشت بھرا خوف جھلکتا جو دفعتاً وحشت سے بھری لذت میں بدل جاتا___اور وہ گرے ہوئے ایلی کی طرف بڑھتی___اس کے کپڑے تار تار ہوجاتے۔ دھجیاں ہوا میں اڑتیں۔ شہزاد کے بلّوری جسم سے گلابی شعاعیں نکلتیں اور قریب اور قریب۔ اور قریب پھر نشے اور رنگ کی ایک بوچھاڑ پڑتی اور وہ لت پت ہوجاتا۔
جب وہ چلنے پھرنے کے قابل ہوا تو ایک روز سوچے سمجھے بغیر وہ ہاجرہ سے کہنے لگا۔
’’اماں میں امرتسر جاؤںگا۔‘‘
’’امرتسر ___ ‘‘ ہاجرہ حیرت سے اس کی طرف دیکھنے لگی۔ ’’امرتسر کون ہے‘‘ وہ بولی ’’کس کے پاس جاؤگے۔‘‘
’’مجھے معلوم ہوا ہے کہ وہاں ایک نوکری ہے۔‘‘
’’نوکری‘‘ ہاجرہ نے سینہ تھام لیا اس کی باچھیں کھِل گئیں۔‘‘ ہے تجھے نوکری مل جائے تو کتنا اچھا ہو۔ تیرا خیال بٹ جائے۔ شغل میں لگ جائے اور ہمیں چار پیسے مل جائیں۔ اتنا قرض ہوگیا ہے سر پر۔‘‘
’’نوکری‘‘ فرحت مسکرائی۔’’نوکری گھر بیٹھے تو نہیں ملتی انسان تلاش کرتا ہے جوتے چٹخاتا ہے تو کہیں ملتی ہے لیکن یہ تو اور باتوں میں کھویا بیٹھا ہے۔‘‘
’’اب تو چھوڑ اس بات کو‘‘ ہاجرہ بولی ’’اللہ کرے امرتسر میں نوکری مل جائے۔‘‘
’’لیکن دور ملے تو اچھا ہے‘‘۔ فرحت نے کہا ’’امرتسر سے تو روز ہی آجائے گا۔ یہ نوکری مل بھی گئی تو چلے گی نہیں۔‘‘
ایلی نے امرتسر جانے کی تجویز نہ سوچی تھی۔ اسے خیال بھی نہ تھا کہ وہ امرتسر جائے گا اور نوکری کی بات تو ایلی نے ویسے ہی چلا دی تھی۔ ساری بات ہی عجیب تھی۔ اسے ابھی تک معلوم نہ تھا کہ امرتسر جاکر کرے گا کیا۔ کہاں ٹھہرے گا۔ کدھر جائے گا۔ بات اس کے مُنہ سے یوں ہی نکل گئی تھی جیسے میز پر پڑا پستول آپ ہی آپ چل جائے اور حیرت کی بات تھی کہ اسے اس بات پر تعجب محسوس نہیں ہو رہا تھا۔ آخر امرتسر کیوں۔ جانا ہی تھا تو لاہور جاتا۔ لیکن لاہور اب ایلی کے لیی خوش کن جگہ نہ رہی تھی۔ لاہور سے بڑی خوشگوار یادیں وابستہ تھیں۔ جو اس کے لیی باعثِ تکلیف تھیں۔
امرتسر پہنچ کر بھی اسے شعوری طور پر احساس نہ ہوا کہ وہ وہاں کیوں آیا ہے۔ بہر صورت وہ مطمئن انداز سے آوارہ گھومتا رہا۔ ہال بازار میں چار ایک چکر کاٹنے کے بعد وہ کمپنی باغ میں جابیٹھا۔ دیر تک وہ بیٹھا لوگوں کو دیکھتا رہا پھر آموں والی کوٹھی کی طرف چلا گیا۔
آموں والی کوٹھی ویران پڑی تھی۔ دیواریں بوسیدہ ہوچکی تھیں دو ایک کمروں کی چھتیں بیٹھی ہوئی تھیں۔ صحن میں گھاس پھوس اُگی ہوئی تھی۔
سڑک کے کنارے وہ ایک ٹوٹے ہوئے پُل پر بیٹھ گیا۔ پرانی یادیں ایک ایک کرکے اس کے ذہن میں تازہ ہو رہی تھیں۔
رسوئی میں رسوئیہ اور چھوکرے چل پھر رہے تھے۔ رسوئیہ کھیر پکانے میں مصروف تھا۔ دودھ کی گاگریں قطار میں پڑی تھیں۔ سکھ لڑکے کیس سکھا رہے تھے۔ بنگالی بابو سپرنٹنڈنٹ کے کمرے سے مچھلی تلنے کی بو آ رہی تھی___دفعتاً آصف آگیا۔ وہ اُسے دیکھ کر مسکرانے لگا ’’تم یہاں بیٹھے ہو‘‘ وہ زیرِلب گنگنایا، ’’نور آئے گا___نور___نور کا نام سنتے ہی گویا شبھ لگن سے بہار آگئی۔ آموں پر بور آگیا۔ کوئل کو کہنے لگی۔
ایلی اٹھ بیٹھا۔
آصف جاچکا تھا۔ نور کا کچھ پتہ نہ تھا۔ آموں والی کوٹھی پر وحشت برس رہی تھی۔ گھبرا کر وہ چل پڑا۔
گھومتے گھومتے شام کے وقت وہ کٹٹرا رنگین میں جاپہنچا۔ بیٹھکوں میں بجلی کے ہنڈے جل رہے تھے۔ جنگلوں میںزرق برق ملبوسات چمک رہے تھے۔ روغنی چہروں پر وہی مسکراہٹ وہی رنگ وہی دعوت۔ چوباروں میں سارنگیاں التجائیں کر رہی تھیں۔ طبلے سر پیٹ رہے تھے۔ پان کی دکانوں پر ویسے ہی جھرمٹ لگے ہوئے تھے۔ لوگوں کی نگاہیں چوباروں پر جمی ہوئی تھیں۔
شادی
دفعتاً دھڑر ڑاڑام___کی آواز سنائی دی۔ کٹٹرا رنگین میں سب لوگ چونکے۔ اس چوبارے کے زینے سے جس کے نیچے ایلی کھڑا تھا ایک بڑا سا گیند لڑھکتا ہوا گرا اور سڑک کے درمیان ڈھیر ہوگیا۔ پھر جو ایلی نے غور سے دیکھا تو گیند گویا پھٹ گیا اور اس میں سے ٹانگیں اور بازو نکل کر سڑک پر بکھر گئے۔
یہ دیکھ کر کٹڑے میں ایک قہقہہ بلند ہوا۔
’’ہاہاہاہا___ ‘‘ سبھی لوگ ہنس رہے تھے کوئی امداد کے لیی آگے نہ بڑھا۔
’’ارے‘‘ ایک بولا ’’بھئی اب کی بار تو بڑا صبر کیا سائیں نے۔ دس بارہ دن کے بعد جوش آیا ہے۔‘‘
’’بیچارہ کیا کرے رہا بھی نہیں جاتا بن دیکھے شادی کو۔‘‘
’’میاں عشق ہے مجاک نہیں ہے۔‘‘
’’ہاں بھئی عشق میں تو ہڈیاں ٹوٹتی ہیں سو تڑوا رہاہے۔‘‘
’’اور وہ شادی اسے مالم ہی نہیں۔‘‘
’’کیسے ہو میاں اس کے دروجے پر تو لکھ پتیوں کی اے لمبی کاریں کھڑی رہیں ہیں۔‘‘
’’کیا نام پایا ہے بھئی اس شادی نے۔ ہر کوئی مرتا ہے اس پر کٹڑے کی رانی ہے رانی ابھی سمجھو کل ہی نتھ کھلوائی تھی اس نے اور آج۔‘‘
شادی___ایلی کے ذہن میں ایک کرن چمکی۔ ’’شادی‘‘___اس نے محسوس کیا جیسے وہ شادی کو جانتا ہو۔
ایک اتنی بڑی نتھ والی مریل سی مگر اونچی لمبی زرد لڑکی اس کے روبرو آکھڑی ہوئی ’’سنبھالو اپنی بنو کو‘‘ وہ بولی ___ اس نے تیم کی گٹھڑی اس کی طرف دھکیلی۔ ریشمی ملبوسات کے اوپر ایک یہاں سے وہاں تک لمبی چوٹی لٹک رہی تھی ’’چھوڑ بھی شادی تیم نے چڑ کر کہا۔‘‘
’’کسائیں‘‘___ایلی نے سائیں کی طرف دیکھتے ہوئے زیرِ لب کہا۔ اس نے محسوس کیا جیسے وہ خود بھی ایک سائیں ہو سائیں۔ اب بصد مشکل اپنا آپ سمیٹ رہا تھا۔ اس کی ناک اور ٹانگ سے خون بہہ رہا تھا مگر اس کی نگاہیں شادی کے چوبارے پر لگی ہوئی تھیں۔ پھر وہ گھسیٹتا ہوا شادی کے چوبارے کے زینے کی طرف بڑھا اور زینے کے ساتھ بازار میں تختے پر سر رکھ کر بیٹھ گیا۔ دفعتاً ایلی کو خیال آیا۔ کیا شادی عورت نہیں کیا وہ محض طائفہ ہے کہ اسے سائیں کی حالت پر ترس نہیں آتا۔ کیا کٹڑے کی وہ تمام حسین و جمیل پتلیاں سب طوائف ہیں ___’’ نہیں نہیں یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ وہ عورتیں ہیں۔ ان سب میں کہیں نہ کہیں عورت چھپی بیٹھی ہے۔ وہ لاکھ پتی جن کی موٹریں چوباروں تلے کھڑی ہیں اور وہ تماشبین جو کٹڑے میں آتے ہیں وہ تو طائفہ کے پاس آتے ہیں۔ گھر کی عورتیں چھوڑ کر آتے ہیں۔ عورت سے فرار ہوکر آتے ہیں ___ہوں جبھی طائفہ عورت کو چھپا لیتی ہے اور طوائفہ کا روپ دھار لیتی ہے لیکن ان کی اپنی تسکین تو اس چھپی ہوئی عورت میں مضمر ہے۔
دفعتاً ایلی کے دل میں ایک شدید خواہش پیدا ہوئی کہ وہ جاکر شادی سے ملے اس سے پوچھے کہ تمہاری عورت کہاں ہے اور تمہیں اپنی اصلیت کو تیاگنے میں کتنی تکلیف ہوتی ہے اور تم کتنی دکھی ہو اور تمہاری زندگی اتنا بڑا المیہ ہے تو پھر تم طائفہ کیوں ہو___؟
اور اگر اس نے ایلی کو سائیں کی طرح سیڑھیوں سے لڑھکا دیا تو___اگر وہ چھپی ہوئی عورت کو بیدار کرنے میں کامیاب نہ ہوا تو اونہوں ایلی مسکرا دیا۔ اس نے اگر اس کو چنداں اہمیت نہ دی جیسے یہ اگر بعید از قیاس ہو جیسے ایسا ہو ہی نہ سکتا ہو۔ میں کیا اس کا عاشق ہوں جو مجھے سیڑھیوں سے لڑھکا دے گی___لیکن شاید اتنے سارے لکھ پتی تماش بینوں کے رو برو وہ ایسا کرنے پر مجبور ہو۔ اونہوں ___بے کار ہے جھمگٹ میں ملاقات کیسی ___وہ چل پڑا لیکن پنواڑی ہنسنے لگا اور پھر ایلی کی طرف متوجہ ہوکر بولا ’’اے بابوجی اگر جو کسی کو مخل نہ آئے تو پھر دس سے کیا سلوخ کیا جائے۔‘‘ ایلی مسکرادیا۔
’’اسے سمجھاریا ہوں کہ بھائی میرے دوررج سے شادی کی طبیعت اچھی نہیں اس لیی یہ پانسو پچپن کے سگرٹ کے ڈبے آج نہیں بکیںگے۔ ہی ہی ہی ہی۔‘‘ وہ ہنسا۔
’’طبیعت خراب ہے۔‘‘ایلی نے کہا
’’یہی تو میں کہہ ریا تھا بابوجی۔‘‘
’’اجی نہیں بابوجی بڑی ضد والی ہے۔ طبیعت اچھی نہ ہو تو گاہک سے نہیں ملتی۔‘‘
یہ سن کر ایلی کو سوجھی پھر وہ اُس چوبارے کے سامنے کھڑا تھا۔ جہاں پہلے تیم اور نیم رہتی تھی اور اب خالی پڑا تھا۔ دیر تک وہ اُسے غور سے دیکھتا رہا۔ پھر جو اس نے دیکھا تو اس کے سامنے ایک اور ہی چوبارہ تھا۔ سامنے الماس کھڑی ہنس رہی تھی۔ ’’آجاؤ‘‘ وہ بولی ’’تم تو میرے ہم نام ہو الیاس اور الماس میں کیا فرق ہے۔ میں الماس ہوں بائی نہیں چند روز الماس بن کر جی لوں پھر تو‘‘۔ وہ آہ بھر بولی ’’بائی بن کر جانا ہی پڑے گا کیوں حئی‘‘۔ وہ آغا کے بھائی سے پوچھنے لگی ’’جانا ہی پڑے گا نا ___ میرے ایسے نصیب کہاں کہ ہمیشہ کے لیے الماس بن کر تیرے قدموں میں پڑی رہوں۔ ‘‘
دفعتاً الماس کا چہرہ بدل گیا اور ایک اتنی بڑی نتھ والی لڑکی اس کی جگہ آکھڑی ہوئی۔ اس نے آہ بھری۔ ’’شادی بن کر جینا میرے نصیب کہاں۔ تم دیکھتے کیا ہو۔‘‘ وہ بولی ’’شادی گھر پر ہی ہے۔ بائی کی طبیعت اچھی نہیں ___ ‘‘
پھر وہ شادی کے چوبارے کی سیڑھیاں چڑھ رہا تھا جیسے واقعی شادی نے اُسے بلایا ہو۔ کمرے میں ایک موٹے سے میراثی کو دیکھ کر وہ گھبرا کر رک گیا۔
پیغامِ بر
’’کون ہے‘‘ میراثی نے فرعوں بن کر پوچھا۔ ایلی چپکے سے دبکا کھڑا رہا۔ پھر میراثی اٹھ کر زینے کی طرف آیا۔ ’’کون ہے‘‘۔ وہ چلّایا۔
’’میں ہوں۔‘‘
’’میں کون؟‘‘
ایلی خاموش رہا۔ میراثی نے غور سے اس کی طرف دیکھا۔
ایلی کا جی چاہا کہ دوڑ کر واپس زینے سے اُتر جائے لیکن اب واپسی کی بھی ہمت نہ تھی۔
’’مجھے‘‘ وہ بولا ’’مجھے شادی کو پیغام ___ میں پیغام لایا ہوں۔‘‘
’’کون ہے‘‘ اندر سے بڑھیا کی آواز آئی۔
میراثی چل پڑا ایلی چپکے سے اس کے پیچھے پیچھے ہولیا۔ اس کا دل دھک دھک دھک کر رہا تھا۔ کمرے کے دروازے پر پہنچ کر میراثی رک گیا۔
شادی پلنگ پر لیٹی ہوئی تھی ___’’آجاؤ‘‘ وہ تھکی ہوئی آواز میں بولی۔ میراثی چلا گیا۔ ابھی ایلی بات کرنے کے لیی مُنہ سنوار رہا تھا کہ بڑھیا آگئی۔
’’کہاں سے آئے ہو۔‘‘ وہ تحکمانہ انداز میں بولی
’’ریاست سے آیا ہوں۔‘‘ ایلی نے جواب دیا۔
’’ریاست سے۔‘‘ بڑھیا چلّائی۔
ایلی نے سر ہلا دیا۔
’’کسی نے بھیجا ہے کیا۔‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’کس نے۔‘‘
’’پیغام لایا ہوں۔‘‘
’’کس کا۔ ‘‘
’’اے بیٹھ کر ذرا دم تو لینے دو اسے‘‘ شادی نے کہا ’’تم جاؤ اماں۔‘‘
بڑھیا دو ایک ساعت کے لیی کھڑی رہی پھر میراثی کے بلانے پر چلی گئی۔
’’بیٹھ جا‘‘ شادی نے کہا۔
پائینتی کے قریب بڑے صوفے میں ایلی بیٹھ گیا۔
اس کے روبرو ایک مٹیار حسین عورت لیٹی ہوئی تھی۔ چہرے پر تھکاوٹ کے آثار تھے۔ بال بکھرے ہوئے تھے۔ قمیص ڈھیلی تھی۔ آنکھیں خمار آلود تھیں۔
’’نہیں نہیں یہ وہ شادی نہیں۔‘‘ ایلی نے سوچا ’’وہ نتھ والی شادی چار سال میں وہ سے یہ ہوجائے___نہیں نہیں یہ کوئی اور شادی ہے۔‘‘
’’پیغام لائے ہو‘‘ شادی نے ایلی کی طرف دیکھے بغیر پوچھا۔
’’نہیں‘‘ ایلی نے جواب دیا۔
’’اور تم تو کہتے تھے پیغام لایا ہوں۔‘‘
’’جھوٹ بول رہا تھا۔‘‘
’’ہائیں‘‘ اس نے آنکھیں گھمائیں۔ ’’سچ۔‘‘
ایلی نے اثبات میں سر ہلادیا۔
’’جھوٹ کیوں بولا۔‘‘
’’نہ بولتا تو مجھے آنے نہ دیتے۔‘‘
کیا آنا اتنا ہی ضروری تھا۔‘‘
’’اس سے بھی زیادہ۔‘‘
’’اوہ ___اچھا‘‘ وہ قریب تر ہوگئی۔
ایلی نے انگلی ہونٹوں پر رکھ کر باہر کی طرف اشارہ کیا
دو بچے
شادی نے آنکھوں سے اثبات کا اظہار کیا۔ اس وقت بائی یوں مسکرا رہی تھی جیسے دو بچے اکٹھے مل کر شرارت سوچ رہے ہوں۔
’’چار سال پہلے‘‘ ایلی نے کہا ’’تُو مجھ سے ملی تھی۔‘‘
’’سچ۔‘‘
’’ہاں اتنی بڑی نتھ تھی تیرے ناک میں___دبلی پتلی تھی تو۔‘‘
’’اور ملی کیوں تھی۔‘‘
’’تو نے ایک ریشمی گٹھڑی مجھے دی تھی۔‘‘
’’گٹھڑی‘‘۔
’’ہاں‘‘۔
’’میں نے تو کبھی کپڑے نہیںبیچے۔‘‘ وہ ہنسی
’’گٹھڑی بزازی کی نہیں تھی۔ اس پر اتنی لمبی چوٹی تھی۔ اور تو نے وہ گٹھڑی میری طرف دھکیلی تھی اور تیرے ساتھ بہت سی لڑکیاں بھی تھیں۔ اس چوبارے کی نچلی منزل میں چاروں طرف دالان تھے اور صحن کے درمیان میری سائیکل تھی۔‘‘
’’ہائے اللہ‘‘ وہ چونکی ’’اچھا وہ تسلیم کے گھر۔ مجھے یاد آیا۔‘‘
’’تم وہی شادی ہو کیا۔‘‘
’’ہاں‘‘۔
’’جھوٹ‘‘۔
’’کیوں‘‘۔
’’نہیں ___کہاں وہ زردرو سی لڑکی اور کہاں تم۔‘‘ ایلی نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔
’’کیوں کیا ہے مجھے‘‘ وہ نخرے سے بولی۔
’’پتہ نہیں‘‘ ایلی نے کہا۔ ’’لیکن کٹڑے میں لوگ کہہ رہے تھے سارا شہر پاگل ہو رہا ہے۔ تمہارے پیچھے۔
’’ہونہہ‘‘ اس نے ہونٹ بٹوہ بنائے۔ ’’سب اپنے مطلب کے سیانے ہیں کوئی بھی پاگل نہیں ہوتا۔‘‘
’’یہی دیکھنے تو میں آیا تھا۔ میں نے کہا مں ھی ایک نظر دیکھ آؤں۔‘‘
’’توپھر کیا دیکھا۔‘‘
ایلی نے اثبات میں اشارہ کیا۔ ’’سب کچھ دیکھا۔‘‘
شادی نے چتون سے پوچھا ’’کیا۔‘‘
’’پاگل ہوجاتا ہے۔‘‘
’’کون‘‘۔
’’دیکھنے والا۔‘‘
وہ ہنسی ___ ‘‘ جھوٹ! کوئی نہیں ہوتا۔‘‘
’’جوبائی کے پاس آتے ہیں وہ نہیں آتے۔ جو شادی کے پاس آتے ہیں وہ ہوجاتے ہیں۔‘‘
’’تم ہوگئے ہو۔‘‘ وہ ہنسی
’’ہوگیا ہوں‘‘ اس نے سنجیدگی سے کہا۔ اور پھر اُٹھ بیٹھا۔
’’بیٹھو‘‘ وہ بولی۔
ایلی نے نفی میں سر ہلا دیا۔
’’کیوں‘‘۔
’’زیادہ پاگل ہونے کا فائدہ؟‘’
وہ ہنسی۔ ’’تمہاری باتیں الٹی ہیں۔‘‘
’’الٹی نہیں سچی۔‘‘
’’کیسے؟‘‘
’’تم سے کون سچیباتیں کرتا ہے یہاں کوئی نہیں۔‘‘
’’یہ سچ ہے‘‘ وہ بولی
’’سبھی سچ تھیں۔‘‘
’’اے ہے میں نے تمہاری توضع نہیں کی۔‘‘
’’لو‘‘ وہ بولا۔ ’’شادی سے ملادیا اس سے بڑھ کر اور کیا تواضع ہوسکتی ہے۔‘‘
’’وہ چل پڑا۔ اچھل کر شادی نے سلیپر پہن لئے اور ساتھ چل پڑی۔
’’ترا نام کیا ہے؟‘‘
’’ایلی‘‘۔
وہ ہنسی ’’کیا نام ہے۔ کوئی سمجھے تیلی ہو۔‘‘
’’ٹھیک سمجھے‘‘ وہ بولا۔ ’’میں تیلی ہوں تو عِطر ہے۔‘‘
’’شادی نے گویا اس کی بات نہ سنی۔
’’پھر آؤگے۔‘‘ اس نے پوچھا۔
’’کون آنے دے گا۔‘‘
’’ریاست کے مہا راجہ کا پیغام لے آنا۔’’ وہ ہنسی۔
’’اچھا مہا رانی‘‘ ایلی نے جھک کر سلام کیا۔
جب وہ نیچے کٹٹرے میں اترا تو لوگ اوپر کی طرف دیکھ رہے تھے اس نے اوپر دیکھا جنگلے میں شادی کھڑی مسکرا رہی تھی۔ دہلیز پر سائیں کے کھلے ہونٹوں سے لعاب ٹپک رہا تھا۔
تاریک عزم
کٹٹرہ رنگین میں سے گزرتے ہوئے ایلی غور سے ہر بائی کی طرف دیکھ رہا تھا جو چو بارے کے جنگلوں چھت کی شہ نشینوں ،اور جدید طرز کے مکانات کی بالکونیوں میںبیٹھی ہوئی تھیں۔ ان کے بنے سنورے خدوخال اور سنگار کی طرف غور سے دیکھ رہا تھا ہر بائی میں اسے شادی دکھائی دے رہی تھی۔ دبکی ہوئی چھپی ہوئی عورت محروم دکھی عورت جس قدربائی اپنی نمائش کرتی اسی قدر وہ دبکی رہتی ہے جس قدربنی سنوری دکھائی دیتی ہے اسی قدر پریشان حال ہوتی ہے وہ سوچ رہا تھا۔
کٹٹرے سے نکل کر دفعتاً اسے خیال آ یا اب مجھے کیا کرنا ہے ۔ وہ چونک پڑا۔سوچنے لگا۔ آ خر میں یہاں آ یاہی کیوں تھا۔۔۔ویسے ہی سیر کے لیے۔کیاشادی سے ملنے۔۔۔یہ کیسے ہوسکتاہے ۔مجھے توشادی کا علم بھی نہ تھا۔ پھر۔۔۔اسے کوئی جواب نہ سوجھا۔ اس نے اپنا قدم اور تیز کردیا۔
’’ارے رے رے ‘‘ایک راہ گیر اس کی طرف جھپٹا اس نے ایلی کو بازووں میں تھام لیا۔ ًارے بابو کیا بدرو میں گروگے ۔‘‘
’’اس وقت وہ بدرو کے عین کنارے پر کھڑا تھا۔
ً ’’بدرومیں گروگے ! بدرومیں گروگے!! چاروں طرف سے آوازیں آنے لگیں۔
’’غلاظت میں لت پت ہونے کاشوق ہے کیا۔‘‘ کوئی ہنسا۔
’’کنویں میں گروگے ۔‘‘ کوئی چلائی۔
’’آجا ؤآ جاؤ۔ میں یہاں ہوں ‘‘ آ رام باغ کے ایک چوبارے سے ایک بد شکل کسبی نے کھڑکی سے سر نکال کر اُسے آ وازدی۔
’’ہی ہی ہی ہی ۔‘‘ چیچک کے داغوں بھر اہوس سے پھولا ہوا چہرا س کے روبرو آگیا۔‘‘ یہ کیالت پت ہوگا، لت پت ہونا تومردوںکاکام ہے ۔‘‘
’’آجاؤ آجاؤ۔ اس کی بات نہ سنو ۔‘‘ ایک نے کہا۔
چاروں طرف سے آوازیں آ رہی تھیں آرام باغ چوباروں میں بیٹھی ہر کسبی اس کی طرف دیکھ کر مسکرارہی تھی۔
وہ رک گیا۔اور مردانہ شان سے دانت بھینج کربولا۔
’’ ہاں میں لت پت ہوں گا۔کیوںمیری مرضی۔۔۔مجھے کون روک سکتا ہے ۔ اگر پاکیزگی کی طرف جانے کے لیے روکاوٹیں کھڑی کردی گئی ہیں تومیں کنوئیں میںکودوںگا۔ لت پت ہوں گا۔ لت پت ہوںگا۔ لت پت ہوں گا۔‘‘ وہ اعلانیہ کسبیوں کی طرف دیکھنے لگا
’’کیا کہا بابو۔‘‘ ایک مزدور رک گیا۔’’ کیا ہوگے تم۔‘‘
’’ میں ’’ایلی چونکا۔
’’کہہ جورہے ہو کچھ‘‘مزدور بولا میں سمجھا شاید مجھ سے کہہ رہے تھے۔‘‘
’’تم سے نہیں کہہ رہا ‘‘ ایلی نے جواب دیا۔ اور وہ دونوں کھڑے ہوکر سامنے کی کھڑکی میں کھڑی پٹھانی کی طرف دیکھنے لگے۔
’’دیکھ بابو ‘‘مزدور قریب تر ہوگیا۔’’ یہ جو پٹھانی ہے نایہ سامنے چوبارے والی ہے توپٹاخہ وہ طریقے آ تے ہیں کہ بس سمجھ لو آنکھیں روشن ہو جائیں پر اسے بیماری ہے۔‘‘
’’بیماری‘‘ایلی نے حیرت سے دہرایا۔
مزدورنے آنکھ ماری’’وہی بیماری‘‘وہ بولا’’جوہواکرتی ہے ۔‘‘
کچھ دیر توایلی گھور گھور کر اعلانیہ کسبیوں کو جانچتارہا۔ پھر دفعتاً اسے شرم محسوس ہونے لگی۔
کسبیوں کی باتیں بھدی اور ننگی تھیں اور وہ محسوس کر رہا تھاجیسے چوکیوں پر خالی جسم کے ڈھیر لگے تھے پلپلاتے جسم جونکیں۔ بڑی بڑی جونکیں۔اس کاوہ مردانہ عزم ختم ہوگیانگاہیں ج٘ھک گئیں۔ دل دھک دھک کرنے لگا۔۔۔پھر جواس نے دیکھا تووہ آرام باغ سے دور نکل آیا تھا۔
پھر دفعتاً ایک عظیم شور سنائی دیا۔ دور دورپیچھے بہت پیچھے وہ چیخ رہی تھیں چلّا رہی تھیں۔
’’دیکھا نابھاگ گیا۔‘‘
’’ہاتھ پلے کچھ ہوتا تو___!!‘‘
’’یہ مرد کاکام ہے ___!!‘‘
’’بند کمرے ہی میں جائے گا ___ ‘‘
گبھراکر ایلی پل پر بیٹھ گیا۔ لوگ آجارہے تھے۔ہر کوئی اس کی طرف دیکھ کرمسکرارہاتھا۔ ہم جانتے ہیں کی سی مسکراہٹ، کوئی بات نہیں کی سی ہنسی ۔ بیچاراکہتی ہوئی نگاہیں۔ اس نے محسوس کیا جیسے آرام باغ والیوں نے انہیں سب کچھ بتا دیا ہو۔سب کچھ۔
مظلوم حبشی
کئی ایک بار وہ آرام باغ میں اِدھر سے اُدھرتک اوراُدھر سے اِدھر تک آیا گیا۔ کئی مرتبہ اس نے شدیدکوشش کی کہ کسی چوبارے کے زینے پر چڑھا جائے لیکن عین قریب پہنچ کر نہ جانے کیا ہوجاتا۔ وہ محسوس کرتا جیسے سبھی اس کی طرف دیکھ رہے ہوں دوکان دار راہ گیر۔ تماش بین اور کسبیاں۔ یہ محسوس کرکے وہ گھر آجاتااور آگے چلنا شروع کردیتا۔
اس نے کئی مرتبہ ان میں سے ایک کا چنا ؤ کیا۔کئی مرتبہ ’’ اچھا یہ ٹھیک ہے یہ والی واپسی پر آؤںگا تو سیدھا اوپرچڑھ جاؤںگا‘‘ لیکن جب وہ واپس آتا تووقت پر زینہ پہچان نہ پاتا اور پھر آگے نکل جاتا اور پھرجب وہ آگے نکل جاتا تواسے خیال آتا ’’نہیں یہ تواچھی نہیں۔ اس کی نگاہیں توبے باک ہیں ننگی نگا ہیں، دیکھو تو کیسے چھاتیاں ہلاکر آگے کو بڑھاتی ہیں ۔لاحول ولا قوۃ۔‘‘
ایلی تھک کر چورہوگیا۔ لیکن ابھی تک وہ آرام باغ میں گھوم رہاتھا۔ دوکانیں بند ہوچکی تھیں۔ پنواڑیوں کے گرد ہجوم اکٹھا ہورہا تھالوگ اوپر دیکھ رہے تھے اشارے کررہے تھے انگلیوں سے دام چکا رہے تھے کسبیاں مسکرارہی تھیں بآ واز بلند گالیاں دے رہی تھیں۔
ایلی کے دل میں نفرت کاایک طوفان پیدا ہوچکا تھا۔ ساڑھے گیارہ بج چکے تھے کسی چوبارے پر چڑھنے کا سوچ ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔ چونکہ پنواڑی کی دوکان پر کھڑے تماش بینوں سے آنکھ بچا کر اوپر چڑھنا تقریباً ناممکن تھا۔وہ سب ایک دوسرے پر آ وازے کس رہے تھے پھبتیاں اڑارہے تھے۔ اس کے باوجود ایلی وہیں ایک تاریک کونے میں کھڑا تھا۔ وہ اس گھات میں تھاکہ کب کوئی دروازہ دکھائی دے جو لوگوں کی نگاہوں سے دور ہو اوٹ میں ہو اور وہ آ نکھیں بند کر کے کانوں میں انگلیاں ٹھونس کر سیڑھیاں چڑھ جائے اسکا عزم اور بھی مضبوط ہوا جارہا تھا اس عزم کی وجہ حصول لذت نہ تھی ۔وہ خواہش کی شدت سے بیقرار نہ تھا۔ بلکہ ان حالات میں لذت اور عیش کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس وقت ایلی خوف اور نفرت کے ملے جلے جذبات کے جنگل میں بری طرح پھنسا تھا ان کسبیوں کی طر ف دیکھ دیکھ کر اس نے نفرت سے کئی بار جھر جھری لی تھی اور اب وہ نفرت اسقدر ہوچکی تھی کہ اسے کوڑے ماررہی تھی۔ اور مظلوم حبشی کی طرح کوڑے کھاکر وہ خود کو مشتعل کئے جارہا تھا۔
وہ کسبیاں درحقیقت اس وقت ایلی کی نگاہ میں وہ رنڈیاں نہ تھیں بلکہ اس کورٹ کی تھیں بلکہ اس ہائی کورٹ کی جج تھیں جہاں وہ آخری اپیل پیش کرنے جارہا تھا۔
’’مجھ میں لت پت ہونے کی ہمت ہے ۔‘‘
اس وقت وہ یوں محسوس کر رہا تھا جیسے میں نے دار وپی رکھی ہو۔ اس کا سر گھوم رہاتھا۔ اس کی نگاہوں میں ستارے ٹکرارہے تھے غلیظ جسموں سے گندگی کی بوچھاڑیں اڑرہی تھیں کٹے ہو ئے سر ڈھیر ہوئے جارہے تھے خون ۔بہتا ہوا خون۔ بازوا ٹھے ہوئے تھے۔ ہاتھ ٹٹول رہے تھے۔ ہتھنیوں کی سونڈیں اس کی طرف بڑھ رہی تھیں تاکہ اُسے گرفت میں لے لیں۔
پھر دفعتاً ایک چیخ سی سنا ئی دی کسی کٹے ہوئے دھڑکی چیخ ۔تمام فضاسرخ ہوگئی۔ وہ کونے سے یوں باہر نکل آیا جیسے اُسے کوئی بھی نہ دیکھ رہا ہو جیسے کسی کے دیکھنے یاد نہ دیکھنے سے کوئی فرق نہ پڑ تاہو۔زینہ چڑھتے ہوئے اس نے نیچے شور وغل کی آواز سنی۔ وہ رک گیا اور اس نے دونوں ہاتھ اوپر اٹھائے اورنعرہ لگایا۔ ’’ لت پت زندہ باد ‘‘۔
ایلی کی نگاہ اوپر کی طرف اٹھی اوپر دروازے پر بھدا بد نما چہرہ اس کی طرف گھوررہاتھا چاروں طرف سے چیچک کے داغوں کی بوچھاڑ پڑ رہی تھی۔
پھر وہ بدنما بھدابد نما چہرہ پھیلنے لگا۔ گویا چیچک کے داغوں کا بھرا تھال کسی نے انڈ یل دیا ہو پسینے اور گوشت کی مکر وہ بو۔ سرکٹ کر نہ جانے کہا ں گرگیا لاش۔ ٹھنڈے گوشت کی عظیم بد نمالاش۔
مظلوم حبشی نے کوڑوں کی ایک بوچھاڑ محسوس کی___بوکا ایک ریلا آیا۔ جوش اور غصے میں اس نے آنکھیں بند کر کے چھلانگ لگادی ۔ تعفن کی وجہ سے اس کاسر پھٹا جارہاتھا۔ چھینٹے اُڑ رہے تھے۔ اور پھر ایک___
زن___
اور پھروہ ننگے فقیر کی طرح کیچڑ میں لت پت تھا۔ شرم سے اس کی گردن لٹک گئی تھی۔ اسے اپنے آپ سے گھن آرہی تھی۔
گوشت کا بدنما سمندر لپٹ رہاتھا ایک کر یہہ منظر چہرہ ابھر رہا تھا۔ بدنما دانت۔ رینگتی ہوئی منحوس آ نکھیں۔
پھر کوئی اسے تسلی دے رہا تھا۔’’ اپنا گھر ہو اپنی عورت ہو۔ اپنی بوتل ہو اپنا گلاس ہو۔ یہ چیز چسکیاں بھرنے کی ہے۔ غٹا غٹ کی نہیں۔‘‘
’’یہ محبت کاکھیل ہے ۔ سودے کا نہیں۔ محبت کا۔‘‘
’’پہلے پہل ایسا ہوتاہے۔ پھر ٹھیک ہو جاتا ہے۔‘‘
ایلی کو اپنے آپ سے بو آ رہی تھی ۔ اس کمرے سے وحشت ہو رہی تھی۔ اس میں اتنی ہمت نہ تھی کہ سر اٹھا کر دیکھتا کہ کون اسے تسلیاں دے رہا ہے ۔ اس کی باتیں سننے کی اسے فرصت نہ تھی جسپکیاں بھر نا ۔ٹیک ٹیک کر چلنا یہ سب اس کے لئے بے معنی تھا۔ ایلی یوں محسوس کر رہاتھا جیسے گندم کادانہ کھانے کے بعد وہ ننگاہو۔ احساس گناہ اور احساس پستی چاروں طرف سے یورش کر رہے تھے۔
اپنی بوتل اپنا جام
پھر وہ سٹیشن کی طرف بھاگ رہا تھا۔ ڈیڑھ بجے جانے والی گاڑی کے لیے بے تاب تھا۔
گاڑی میں لاشیں پڑی تھیں۔ ان کے اوپر چادریں پڑی تھیں۔ مگر نیچے وہ سب ننگی تھیں۔ بڑے بڑے ڈھکے ہوئے تھال جن میں سے چیچک کے داغ نکل کر چاروں طرف ڈھیر ہونے کے لیے بے تاب تھے۔ وہ لیٹ گیا۔ جیسے خود ایک لاش ہو۔ کٹے سر کی لاش، تعفن اور بدبو سے بھری گلی سڑی لاش۔
جب وہ محلے میں پہنچا تو تین بجے تھے۔ فرحت کی ڈیوڑھی بند تھی۔ وہ وہاں بیٹھ گیا۔ تھک کر بیٹھ گیا۔
شاید شہزاد کا دروازہ کھلا ہو۔ اسے دو ایک مرتبہ خیال آیا۔ لیکن وہ شہزاد کی طرف جانا نہیں چاہتا تھا۔ وہ محسوس کر رہا تھا کہ اس سے بو آ رہی ہے اور وہ اب اس قابل نہیں کہ شہزاد کی طرف جائے۔ ایک کراہتے ہوئے مظلوم حبشی کا قصر شاہی میں ملکہ کے روبرو جانے سے کیا مطلب۔
دیر تک وہ وہاں بیٹھا رہا۔ پھر اس نے سوچا۔ دیکھوں تو سہی ----- چاہے اندر نہ جاؤں، پر دیکھوں تو سہی۔ وہ اٹھ بیٹھا۔
شہزاد کا دروازہ بند تھا۔ اس انے آہستہ سے اسے آزمایا شاید کھل جائے۔
“ کون ہے؟“ اندر سے رابعہ کی آواز آئی۔ وہ خاموش رہا۔
“ کون؟“ رابعہ پھر چلائی۔
“ میں ہوں ایلی “
“ تو ہے ایلی۔ “ وہ بولی “ ٹھہر ذرا۔“
دروازہ کھل گیا۔ وہ چپکے سے اوپر چڑھ گیا۔ چوبارے کے سامنے صحن میں صرف دو چارپائیاں بچھی ہوئی تھیں۔ ایک پر بچیاں پڑی تھیں، دوسری پر شہزاد تھی۔ وہ بے خبر سو رہی تھی۔ ایلی نے چاروں طرف دیکھا۔ لیکن بیگم کی چارپائی کہیں دکھائی نہ دی۔ پھر وہ چوبارے کے اندر گیا۔ دوسرے چوبارے میں، اور بالاخر چھت پر چڑھ گیا لیکن بیگم کا کہیں نشان نہ تھا۔
واپس آ کر وہ شہزاد کے قریب کھڑا ہو گیا۔ وہ یوں پڑی تھی جیسے جھوٹ موٹ آنکھیں موند رکھی ہوں اور ویسے جاگتی ہو۔ اس کی پیشانی کا تل چمک رہا تھا۔ بازو چھاتی پر رکھے ہوئے تھے۔ قمیض کے بٹن کھلے تھے۔ کتنا روشن جسم تھا۔ جیسے پھولوں سے بنا ہو۔ عجیب سی باس آ رہی تھی۔
“ یہ تو محبت کا کھیل ہے “ ------- کوئی آہستہ سے بولی۔
“ اپنی بوتل ہو اپنا گلاس ہو۔“
شہزاد کا جسم یوں دکھائی دے رہا تھا -------- جیسے بوتل ہو۔
جام بھرنے کے لیے بوتل الٹی ہوئی تھی۔
“ غٹ غٹ نہیں۔“ کسی نے اس کے کان میں کہا “ یہ تو چسکیاں لینے کی چیز ہے۔“
شہزاد نے کروٹ لی اور ہاتھ سینے سے اٹھائے۔
ایلی کی نگاہ کھلے بٹنوں پر پڑی ------ حیرت اور خوشی سے اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔
ایلی بھول گیا کہ اس سے تعفن بھر بو آتی تھی۔ وہ بھول گیا کہ اس کے جسم سے چیچک کے داغ ابھی چمٹے ہوئے تھے۔ وہ قریب تر ہو کر بیٹھ گیا۔
“ اونہوں “ کسی نے اس کے کان میں کہا “ لاٹھی تو ٹیک ٹیک کر رکھنے کے لیے ہوتی ہے۔“
ایلی نے آنکھیں بند کر لیں اور ٹیک ٹیک کر لاٹھی رکھنے لگا۔ قریب اور قریب اور قریب ------ خوشبو کا ایک ریلا آیا۔ نرم نرم لمس ------ ایک جھرجھری۔
بازو اٹھے اور اس کے گرد حمائل ہو گئے۔
مبلغ علم
اگلے روز ابھی وہ سویا ہوا تھا کہ علی احمد کا خط موصول ہوا جس میں انہوں نے لکھا ہوا تھا کہ چونکہ ملازمت ملنا مشکل ہو رہا ہے۔ اور گورنمنٹ نئے آدمی بھرتی کرنے کی بجائے تخفیف کی اسکیمیں بنا رہی ہے۔ لہذا ایلی کو چاہیے کہ وقت ضائع نہ کرئے اور سنٹرل ٹریننگ کالج میں داخلہ لینے کی کوشش کرئے تاکہ اسے ٹیکنیکل تعلیم حاصل ہو جائے اور ملازمت ملنے میں آسانیاں پیدا ہوں۔
سٹینو گرافی کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایلی کے دل میں بڑی امیدیں تھیں۔ اس زمانے میں سٹینو گرافر بہت کم یاب تھے اور پھر بی اے سٹینو گرافر کا ملنا تو قطعی طور پر مشکل تھا۔ ایلی کا خیال تھا کہ اسے ملازمت مل جائے گی۔
ایلی نے کئی ایک محکموں میں درخواستیں دے رکھی تھیں۔ دو ایک جگہ سے اسے انٹرویو کا خط بھی آیا تھا مگر یہ خط اسے انٹرویو کے دن کے بعد موصول ہوئے تھے۔ ظاہر ہے کہ دفتر والوں نے اسے محروم رکھنے کے لیے وہ خط دیر سے حوالہ ڈاک کئے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ مسلمان تھا۔ اور دفتروں پر ہندووں کا راج تھا۔ یا شاید دفتر والے اپنے آدمیوں کے لئے مواقع پیدا کرنا چاہتے تھے۔ ایک جگہ وہ وقت پر انٹرویو میں پہنچ گیا تھا۔ لیکن جب وہ پولیس کا سب انسپکٹر انہیں ڈکٹیشن دے رہا تھا تو ایلی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کس زبان میں بول رہا ہے۔ اس کی زبان انگریزی، پشتو اور پنجابی کا مرکب معلوم ہو رہی تھی۔ لہذا اس نے کورا پرچہ رکھ دیا تھا اور پھر خود ایک ٹین کے سینما ہاؤس میں جا کر تماشہ دیکھنے لگا۔ محکمہ ریل کے ایک انٹرویو میں اسے ایک لڑکی سے مقابلہ کرنا پڑا تھا۔
یہ بڑے صاحب کی آرام کرسی کے ایک بازو پر بیٹھی ہوئی تھی۔ اور بڑا صاحب ہنس کر ایلی سے پوچھ رہا تھا “ تم اس سے مقابلہ کر سکو گے۔“ ایلی نے جواب دیا تھا صاحب خطوط کی گولائیوں میں تو نہیں البتہ سپیڈ میں کوشش کروں گا اور بڑے صاحب نے قہقہہ لگا کر لڑکی سے کہا تھا۔ “ سنا تم نے کیا کہہ رہا ہے یہ۔“ اور وہ مسکرا دی تھی اور پھر اس نے ایلی پر ایک پیار بھری نگاہ ڈالی تھی ایسی نگاہ کہ ایلی کا دل چاہا کہ وہ ہاتھ جوڑ کر صاحب سے کہہ دے “ حضور میں چاہتا ہوں کہ مجھے اس مقابلے میں امیدوار تصور نہ کیا جائے۔“ اس کا نام روزی تھا۔ اور اس کے کپڑوں سے وہائیٹ روز کی خوشبو آ رہی تھی۔ پھر صاحب قہقہہ مار کو ہنسے تھے۔ “ہمیں تم پسند آئے ہو کیا نام ہے تمہارا۔ اگر اب کوئی جگہ خالی ہوئی تو ہم تمہیں بلائیں گے۔ اپنا پتہ دفتر میں چھوڑ جانا۔“ پھر وہ روزی سے کہہ رہے تھے “ مس روزی اب اس سے ہاتھ تو ملا لو۔“ اور ایلی یوں باہر نکلا تھا۔ جیسے اسے نوکری کے لیے چن لیا گیا ہو۔ اس روز وہ اتنا خوش تھا کہ غم غلط کرنے کے لیے اس ٹین کے سینما ہاؤس جانے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی تھی۔
اتنی بار کوشش کے باوجود وہ کامیاب نہ ہو سکا تھا۔ اب تو ایلی واقعی مایوس ہوا جا رہا تھا ۔ اگرچہ نوکری پر جانے کی اس میں قطعی طور پر کوئی خواہش نہ تھی ------ ہاں اگر سادی ہوتی ------ اگر ابا انکار نہ کرتے، اگر منصر سے تعلق قائم رہتا تو۔
لیکن اب ------ خصوصاّ جب اسے اپنی بوتل اور اپنے جام سے واقفیت ہو چکی تھی۔ جب وہ چسکیاں لینا سیکھ رہا تھا۔ جب وہ لاٹھی ٹیک ٹیک کر چلنے سے واقف ہو رہا تھا اب نوکری کی کیا ضرورت تھی۔ لیکن اماں اور بہن شدت سے مصر تھیں کہ وہ داخلہ لے لے۔اور شہزاد ہنس ہنس کر کہہ رہی تھی۔ “ دو گھنٹے کا تو فاصلہ ہے۔ صرف دو گھنٹے کا خواہ مخواہ کیوں رونی شکل بنا رکھی ہے تم نہ آ سکو گے تو میں جو ہوں۔ میرے پاؤں مہندی لگی ہے کیا۔ اب تو ہاتھوں کی بھی اُڑ گئی۔ جب تجھے ہی اچھے نہیں لگتے تو پھر کیوں رنگوں میں اپنے ہاتھ۔“
“ سنٹرل ٹریننگ کالن میں جب وہ ایڈمشن بورڈ کے سامنے پیش ہوا تو اس کے کوائف پڑھ کر سب ہنسنے لگے۔
“ ہاں تو آپ کا نام الیاس آصفی ہے۔“
“ جی “ ایلی نے جواب دیا۔
“ اور کیا ہم جان سکتے ہیں کہ آپ یہاں کیوں داخلہ لینا چاہتے ہیں۔“
“ میں استاد بننا چاہتا ہوں۔“ وہ بولا۔
“ آخر کیوں۔“
“ یہ ایک نوبل پروفیشن ہے۔“ ایلی نے جواب دیا۔
“ یہ آپ نے کب جانا کہ ٹیچنگ نوبل پروفیشن ہے۔“
“ جی جی ------ “ وہ رک گیا۔ یہ تو میں اچھی طرح جانتا ہوں۔ دیر سے میرا مطلب ہے میرے تمام بزرگ درس و تدریس میں ------ “
“ استاد بننے کی خواہش کب سے آپ نے محسوس کی۔“ ایک اور صاحب نے وضاحت کی۔
“ یہ تو میری پرانی خواہش ہے۔“ ایلی نے کہا۔
“ تو پھر آپ نے پچھلے سال سٹینو گرافی کیو سیکھی۔“
“ جی - جی - میرا مطلب ہے۔“ ایلی کھسیانہ ہو کر رہ گیا۔
“ نوجوان۔“ ایک اور صاحب بولے “ آپ سٹینو گرافر ہیں، بی-اے ہیں، آپ کو معقول نوکری مل سکتی ہے۔ لہذا یہاں داخلہ لینا بےکار ہے۔“
ایک اور صاحب بولے۔ ایسے کیسسز پر غور کرنا غلطی ہو گی۔ اس نوجوان نے بی-اے اکنامکس اور فلسفہ میں کیا ہے اور یہ دونوں مضامین سکول کے مضامین نہیں۔ یہاں ٹریننگ میں آپ کون سے مضامین لیں گے۔“ وہ ایلی سے مخاطب ہو کر بولا۔
“ جی میں سائنس لے سکتا ہوں۔ میں نے دسویں سائنس ڈرائینگ میں پاس کی تھی۔“ ایلی نے جواب دیا۔
“ جنٹلمین “ کونے میں بیٹھا ہو انگریز پروفیسر بولا۔ “ تمہارا سائنس کا مبلغ علم۔“ اس نے چٹکی بھری اور کہا۔ “ سمجھ لو اس سے بھی کم ہے۔“
ایلی کو علم نہ تھا کہ وہ آرم سٹرانگ تھا اور سائنسی تحقیق میں بین الاقوامی حثیت رکھتا تھا۔
“ حضور “ ایلی چلایا “ میرے والد اور دادا عمر بھر پڑھانے کا کام --------- “
“ پڑھانا تم نے ہے۔“ بورڈ کے صدر نے کہا “ تمہارے والد نے نہیں۔“
ایلی کچھ کہنے کے لیے سوچ رہا تھا کہ صدر بولا۔ “ یو مے گو، نکسٹ ون۔“
بیٹن لشٹ
تمام امیدواروں کو کالج کے ہوسٹل میں رہنے کی اجازت تھی۔ وہ تعداد میں بہت زیادہ تھے۔ اس روز ہوسٹل میں شور مچا ہوا تھا۔ بہت سے امیدوار جنہیں داخل کرنے سے انکار کر دیا گیا تھا۔ اپنا سامان باندھنے میں مصروف تھے۔ ایلی بھی اپنا بستر باندھ رہا تھا کہ ڈارمیٹری کا نوکر گاما ادھر سے گزرا۔
“ ارے گامے “ وہ چلایا “ یار آخری مرتبہ کی چائے تو پلا دے۔ سٹرانگ ہو۔“
ایلی کے انداز گفتگو میں صاحبیت کا عنصر نہ تھا۔ عام طور پر امیدوار نوکروں سے یوں بات کیا کرتے تھے جیسے کوئی گورا کالا میں سے بات کر رہا ہو۔ وہ سب بی-اے، ایم-اے اور چونکہ نئے تھے، لہذا انہیں اپنی عظمت کو شدت سے احساس تھا۔
ایلی میں نہ جانے کیوں یہ بات کبھی پیدا نہ ہو سکی تھی۔ اس لئے نوکر یا ایسے ہی دوسرے ان پڑھ لوگ عام طور پر ایلی سے خوش رہا کرتے تھے۔
“ آخری مرتبہ کیوں بابو جی۔“ گاما نے پوچھا۔
“ ارے یار گامے ہمیں تو چھٹی مل گئی۔“
“ نہ بابو جی مجاک نہ کرو۔“ وہ بولا۔
“ ارے ٹھیک کہہ رہا ہوں بیوقوف اپنا تو پتہ کٹ گیا۔“ ایلی چلایا۔
“ میں نے کہا بابو جی۔“ وہ جھجھکتے ہوئے بولا۔
“ کیا ہے ؟“
“ جو میں ایسی ترکیب لڑا دوں کہ بات بن جائے تو۔“
“ بیوقوف “ ایلی ہنسا۔ “ ابے ہمارے والد صاحب نے چار سفارشیں پہنچائی تھیں۔ ایک نہیں پوری چار، سب بیکار گئیں۔ تو کیسی ترکیب لڑائے گا۔“
“ اگر جو میری بات مانو تو سمجھ لو بات پکی ہے۔“ گاما نے دانت نکالے۔
“ کیا “ ایلی ہنسا۔
“ بس یہاں سے جاؤ نہیں، بیٹھے رہو۔ آرام سے بیٹھے رہو بابو جی۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔“
“ یعنی خواہ مخواہ بیٹھا رہوں۔ لوگ کیا کہیں گے۔“
“ کوئی کچھ نہیں کہے گا۔ کسی کو معلوم ہی نہیں ہو گا۔ گامے نے کہا۔
“ اور اگر سپرنٹنڈنٹ نے پوچھا۔“
“ تو کہیے گا بیٹن لشٹ پر ہوں۔“
“ بے ٹن لشٹ؟“ ایلی نے حیرت سے پوچھا۔
“ وہ کیا کہتے ہیں اسے جن کا پھیسلہ ابھی نہیں ہوا۔۔“ گامے نے وضاحت کی۔
“ اچھا۔“ ایلی ہنسا۔ “ویٹنگ لست۔“
“ جی “ گاما نے دانت نکالے۔ “ بات پکی سمجھو بابو جی۔ مجھ پر اقین کرو۔“
“ کتنے دن رہنا پڑے گا یہاں۔“
“ بس یہی آٹھ روج۔“
اس روز تو ایلی رک گیا لیکن اگلے روز اسے خیال آیا کہ ایک جاہل نوکر کی بات یوں اس جگہ آٹھ روز پڑے رہنا اونہوں۔ اس نے پھر سامان باندھنا شروع کر دیا۔ لیکن گامے کے اصرار پر پھر رک گیا۔ پھر اسے خیال آیا چلو جانے کی جلدی کیا ہے۔ بیٹن لشٹ نہ سہی آٹھ روز سینما ہی دیکھو۔
روز باقاعدہ وہ کالج میں جاتا۔ بی ٹی کی کلاس میں تو بہت کم لڑکے تھے لیکن ایس-اے-وی میں گویا گھمسان کا رن پڑا رہتا تھا۔ اس لیے وہ ایس-اے-وی میں جا گھستا۔ اور پچھلی سیٹوں پر بیٹھ کر شریر لڑکوں کے ساتھ بینچ بجاتا ------ بوٹ زمین پر گھساتا اور منہ بند کر کے گلے سے شی شی کی آوازیں پیدا کرتا۔
وہاں اس نے پہلی مرتبہ محسوس کیا کہ کلاس میں گھبراہٹ محسوس نہیں ہوتی تھی ------ وہ گھبراہٹ جو بی-اے تک محسوس کرتا رہا تھا۔ وہ پرانا احساسِ کمتری شدت کھو بیٹھا تھا۔ یا شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ بیٹن لشٹ پر ہونے کی وجہ سے وہ اسے محض تفریح سمجھ رہا تھا۔
کلاس میں جب ہنگامہ ہوتا تو پروفیسر غصے میں آ کر حاضری کا رجسٹر منگوا لیتا اور پھر ان لڑکوں سے پوچھتا جن کے نام رجسٹر میں درج نہیں تھے کہ وہ جماعت میں کیوں بیٹھے ہیں۔ اس پر باری باری لڑکے اٹھ کر اپنی شان نزول کی وجہ تسمیہ بتاتے۔
“ صاحب میرے کیس کا ابھی فیصلہ نہیں ہوا۔“
“ میرا کیس ابھی زیر غور ہے۔“
“ جی میرا نام تو چنا جا چکا ہے۔ ابھی رجسٹر میں اندراج نہیں ہوا۔“
پہلی مرتبہ جب ایلی سے پوچھا گیا اس نے جواب میں کہا۔ “ جناب میں بیٹن لشٹ پر ہوں۔“
“ بیٹن لشٹ۔“ پروفیسر نے دہرایا لڑکوں نے قہقہہ لگایا۔
“ تمہیں کس نے بتایا کہ تم ویٹنگ لسٹ پر ہو۔“ پروفیسر نے پوچھا۔
“ جناب مجھے گامے نے بتایا ہے۔“ ایلی نے سنجیدگی سے جواب دیا۔
“ گاما ------ “ پروفیسر بھگت سنگھ گھبرا گیا۔ “ گاما کون۔“
“ ہمارا باورچی۔“
اس پر جماعت کے لڑکے قہقہہ مار کر ہنسے۔ ڈسکیں بجنے لگیں۔ سیٹیوں کی آوازیں بلند ہوئیں اور پروفیسر بھگت سنگھ غصے سے احتجاجاّ کمرے سے باہر نکل گئے۔ ان کے جانے کے بعد سبھی شور مچا رہے تھے۔ “ ارے وہ بیٹن لشٹ کون سا ہے۔“ وہ سب محبت اور احترام بھری نگاہوں سے ایلی کی طرف دیکھ رہے تھے۔ اور ایلی نے پہلی مرتبہ محسوس کیا کہ کلاس میں نگاہوں کا مرکز بننے میں کتنی لذت ہے۔
لیکن یہ سب کچھ محض تصنع تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں ایلی کا وہ حجاب اٹھ گیا تھا لیکن بنیادی طور پر وہ ابھی تک وہی ایلی تھا۔ احساسِ کمتری کا مارا ہوا، ڈر اور خوف کے جذبات کا شکار ایلی۔
آٹھ روز کے بعد کالج پندرہ دن کے لیے بند ہو گیا۔ پھر دفعتاّ ایلی کو خیال آیا کہ وہ تو ابھی تک بیٹن لشٹ پر ہی تھا۔ اسے اپنے آپ پر غصہ آ رہا تھا کہ ایک نوکر کے کہنے پر وہ اپنے آپ کو احمق بنائے ہوئے تھا۔
“ صرف ایک روج کے لیے بابو جی۔“ گاما اس کی منتیں کر رہا تھا۔ “جب کالج پھر کھلے تو صرف ایک روج کے لیے یہاں آ جائیں صرف ایک روج کے لیے۔ جہاں اتنے روج گجارے ہیں صرف ایک روج اور۔ اگر آتے ہی بات نہ بنی تو سجا چاہیں دیں پر جو بن گئی تو ٹھونک بجا کر انعام لوں گا۔“
“ لیکن یہ ہو گا کیسے۔“ ایلی نے پوچھا۔
“ بس یہ نہ پوچھئے۔“ گامے نے جواب دیا۔
پایا کھویا
علی پور پہنچنے کے بعد دوسرے چوتھے روز شہزاد نے ایلی کا ہاتھ پکڑ لیا۔ اسے پلنگ پر بٹھا دیا اور خود پاس کھڑی ہو کر سنجیدگی سے کہنے لگی۔
“ایلی یہ تمہیں کیا ہو گیا۔“
“ کیا ہو گیا ہے۔“ اس نے حیرت سے دہرایا۔
“ یہ تم کیا کر رہے ہو؟“
“ کیا کر رہا ہوں ------ بیٹھا ہوں۔“ ایلی نے جواب دیا۔
“ بات کو مذاق میں نہ ٹالو۔“ وہ بولی۔ “ جب سے تم امرتسر سے آئے ہو تمہارا انداز ہی بدل گیا ہے۔ نگاہ بدل گئی ہے ------ تم نے مجھے کیا سمجھا ہے ایلی ------ “
شہزاد کی آواز جذبات سے کانپ رہی تھی۔
“ میں سمجھتی تھی تمہیں مجھ سے محبت ہے۔“ اس کی آنکھیں نمناک ہو گئیں۔ “ چلو محبت نہ سہی۔ مجھ سے محبت کون کرتا ہے۔ اور۔ اور میرے پاس اب ہے ہی کیا جو میرے ساتھ محبت کی جائے۔ لیکن لیکن پھر بھی میرا خیال تھا کہ تمہارے دل میں میری عزت ضرور ہے۔ لیکن۔“ شہزاد کی ہچکی نکل گئی۔
“ آخر بات کیا ہے۔“ ایلی نے گھبرا کر پوچھا۔
“ بات “ وہ غصے میں بولی۔ “ تم تو مجھ سے یوں سلوک کرنے لگے ہو جیسے میں بازار میں بیٹھی ہوں۔ جیسے۔“ ------ وہ رک گئی۔ “ بازار میں بیٹھی ہوئی بھی یہ برداشت نہ کر سکے گی۔“
“ راہ چلتے ہوئے چھڑتے ہو۔ انگلیاں کھبوتے ہو۔ ہاتھا پائی کرتے ہو۔ سب کے سامنے اعلانیہ ------ “ وہ رک گئی۔
ایلی کو سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا جواب دے۔ “ میرا خیال تھا کہ تم میں جرات ہے۔“ اس نے سوچ کر کہا۔
“ جرات۔“ وہ ہنسی۔ “ جرات کی بات کر رہے ہو۔ مجھ میں وہ جرات ہے کہ تم سب منہ میں انگلیاں ڈال لو۔ جرات چھوٹی اور گری ہوئی باتوں میں نہیں ہوتی۔ تم نے ہمارا تعلق چھوٹی اور گری ہوئی بات بنا دیا ہے۔ کیا ہوس کے لیے جرات پیدا کروں۔“
اس کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے۔
“ روتی کیوں ہو۔“ ایلی کچھ کہنے کے لیے بولا۔
“ روؤں نہ تو کیا کروں۔“ وہ بولی “ میں سمجھی تھی کچھ پایا ہے اب معلوم ہوا کہ کھویا ہے۔ ------ پایا نہیں۔“
“ تم سمجھتے ہو میں تمہاری طرف اس لیے بڑھی تھی کہ مجھے ہوس پوری کرنے کا شوق تھا یا جسم کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کی ہوس تھی ------ الٹا میں نے تو ہوس پوری کرنے کے ذریعے سب توڑ دیئے۔ میں نے اپنے خاوند سے تعلق توڑ لیا۔ میں نے اس سے بات کرنی چھوڑ دی۔ منہ لگانا چھوڑ دیا۔ اور تم سمجھتے ہو کہ میں ہوس پوری کرنے کے لیے تمہاری طرف بڑھی تھی۔“ وہ رک گئی۔ کمرے میں گہری خاموشی چھا گئی۔ ایلی چپ چاپ بیٹھا تھا۔
“ میں بھی احمق ہوں ------“ وہ بولی۔ “ جو یہ سمجھ بیٹھی کہ میں تمہاری نگاہ میں بہت کچھ ہوں۔ مجھے کسی کی نگاہ میں بہت کچھ ہونے کی ہوس تھی۔ میں نے سمجھا مجھے دو جہاں کی امارت مل گئی۔ میں نے لوگوں کی نگاہ میں ذلیل ہونا گوارا کیا، میں نے لوگوں کے طعنے سننا گوارا کیا۔ میں نے اپنی ماں کی زبان سے وہ وہ لفظ سنے جو کوئی سن کر برداشت نہین کر سکتا۔ میں نے تمہاری ماں بہن کے ننگے طعنے سنے اور ہنستی رہی۔ میں نے تمہارے طعنے سنے۔ تم یہ سمجھتے رہے اور سمجھتے ہو کہ میں ہر آتے جاتے کو مسکرا مسکرا کر اپنے دام میں پھنساتی ہوں۔ تا کہ اپنی آگ کو ٹھنڈا کر سکوں۔ میں نے تمہارا جلاپا بھی برداشت کیا اور یہ سب کس لیے۔ کیا صلہ مجھے۔ کہ اب تم مجھے ------ تم ------ اپنی ہوس کا شکار بنا رہے ہو۔ تماری نگاہ میں میری کوئی وقعت نہیں۔ تمہارے لیے میں ایک دل بہلاوا ہوں۔ ہوس پوری کرنے کا ذریعہ ہوں۔“
وہ رونے لگی۔
ایلی چپ چاپ بیٹھا تھا۔
“ یہ میری اپنی بدقسمتی ہے۔ خاوند ملا جو پہلے ہی کسی کی محبت میں پاگل تھا۔ اس نے میری طرف دیکھا ہی نہیں۔ جب بھی وہ میرے پاس آیا تو اس کی نگاہ میں میں نہیں انور ہوتی تھی۔ گویا وہ اور انور اکٹھے ہوتے تھے۔ وہ اور انور۔“ وہ یوں ہنسی جیسے چینی کا پیالہ تڑختا ہے۔ “ اور میں میں تو کہیں تھی ہی نہیں۔ اکیلی ساتھی کے بغیر۔ انور سے ملانے کے لیے مجھے استعمال کیا جاتا تھا۔ اور اب تم ہو ------ تم سادی کو بھولنے کے لیے تم ------ مجھے استعمال کر رہے ہو۔“ یہ کہہ کر وہ مڑی اور کمرے سے باہر نکل گئی۔ ایلی چپ چاپ بیٹھا سوچتا رہا۔
اس کے ذہن میں ایک خلا پھیل رہا تھا۔ ایک دھندلکا۔
شہزاد سچ کہتی تھی۔ امرتسر سے واپسی کے بعد ایلی کا گویا نقطہ نظر ہی بدل گیا تھا۔ اس کے لیے شہزاد اب ایک خوبصورت عورت تھی۔ وہ اس کی طرف یوں دیکھتا تھا جیسے بچہ مٹھائی کی ٹوکری کی طرف دیکھتا ہے۔ ایلی کی نگاہ میں شہزاد کے ماتھے کی بندی معدوم ہو چکی تھی۔ اس کی دیوی نما آنکھیں ایلی کی نگاہ سے گویا اوجھل ہو گئی تھیں۔ ان کی بجائے شہزاد کے جسم کی گولائیاں ابھر آئی تھیں۔ اس کے کولھے مٹکنے لگے تھے۔ اس کی کمر ریشمی جھولے کی طرح جھولنے لگی تھی۔ اس کی سڈول پنڈلیاں برہنہ ہو گئی تھیں۔ اس کی نگاہ میں شہزاد دیوی نہیں رہی تھی۔ شہزاد کو دیکھ کر اب اس کی جبیں میں سجدے بیتاب نہ ہوتے تھے۔
لیکن ایلی اس واضح تبدیلی سے بے خبر تھا۔ اور اس سے بے خبر رہنے کے لیے اس نے کئی ایک جواز اور دلائل پیدا کر رکھے تھے۔
ایلی خود ہوس کار نہ تھا۔ اور ہوس کاری سے اس قدر بیگانہ تھا کہ محبت کا بہانہ بنائے بغیر وہ ہوس کاری کا کھیل نہیں کھیل سکتا تھا۔ اس کی ہوس کاری درحقیقت جذبہ کمتری سے بچنے کا ذریعہ تھی۔ شہزاد پر بھوکی نگاہیں ڈال کر وہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ وہ مرد ہے اور اس قابل ہے کہ کسی سے محبت کر سے۔ در حقیقت وہ اپنی اہلیت کا سرٹیفیکیٹ پیش کر رہا تھا۔
یا شاید اس کی وجہ سادی سے محرومی ہو۔
ماتھے کا تل
ایلی وہاں بیٹھا رہا حتٰی کہ سائے ڈھل گئے۔ شام پڑ گئی۔ پھر دیئے جل گئے اور لوگ چارپائیاں بچھا کر لیٹ گئے لیکن وہ جوں کا توں بیٹھا رہا۔
پھر رابعہ نے آ کر شور مچا دیا۔ “ یہ کیوں بیٹھا ہے۔ اٹھ باہر آ۔ یہاں کیا کر رہا ہے تُو۔“
ایلی کو خاموش دیکھ کر اس نے شہزاد کو آوازیں دیں۔ “ دیکھ تو اسے کیا ہے۔ یہ کیوں سادھو بنا بیٹھا ہے۔“ “ کیا ہے۔“ شہزاد اکتائی ہوئی آواز میں بولی۔
نو بجے کے قریب بیگم آ کر بولی۔ “ یہ بدھ مہاراج یہاں آلتی پالتی مارے بیٹھے ہیں۔“
پھر ہاجرہ اور فرحت آ گئیں ------ وہ دونوں چیختی چلاتی رہیں۔ لیکن ایلی جوں کا توں بیٹھا رہا۔ گیارہ بجے کے قریب شہزاد آئی۔
“ اب کیوں مجھے ذلیل کر رہے ہو۔“ اس نے کہا۔ “ خدا کے لیے مجھے معاف کر دو۔ نہ جانے غصے میں میں کیا کیا بک گئی ہوں۔“
“ نہیں تم نے تو کچھ نہیں کہا۔ “ ایلی نے جواب دیا۔ تو پھر تم اس طرح کیوں بیٹھے ہو۔“ وہ بولی۔
“ کس طرح بیٹھوں۔“
“ جس طرح روز بیٹھتے ہو۔ ہنسو کھیلو۔“
“ کیسے کھیلوں، کیسے ہنسوں، کب تک ڈھیٹ بن کر ہنستا رہوں۔“
“ چلو اب اٹھ بیٹھو۔“ شہزاد نے پیار سے اپنا ہاتھ اس کے کندھوں پر رکھ دیا۔
“ شہزاد“ وہ بولا
‘ جی “
“ میری ایک بات مانو گی۔“
“ کیا “
“ چلو کہیں چلے جائیں۔“
“ چلے جائیں۔“
“ ہاں کہیں بھاگ جائیں۔“
“ پاگل ہو گئے ہو۔“ وہ ہنسی۔ “ میرے ساتھ بھاگ کر اپنی زندگی تباہ کرو گے کیا۔“
“ ویسے بھی تو تباہی ہے۔“ وہ بولا۔
“ایسی باتیں نہیں کیا کرتے۔“ وہ اس کے قریب تر ہو گئی۔
“ مجھ سے اب برداشت نہیں ہوتا۔ میں پاگل ہوا جا رہا ہوں۔“
“ ایسی باتیں نہ کرو۔“ وہ بولی۔ “ مجھے اکساؤ نہیں۔ اگر ایک مرتبہ میں نے پر تول لیے تو ایک ایسا طوفان بن جاؤں گی کہ تمہیں، اپنے آپ کو اور ان سب کو تیاہ کر دوں گی۔ مجھے نہ اکساؤ ایلی۔ اس حجاب کو نہ توڑو۔ اس طوفان کو رکا رہنے دو۔ بس میرے لیے یہی بہت ہے کہ تم میرے پاس ہو۔ تمہیں پا لیا تو زندگی۔ تمہیں کھو کر میری موت ہے۔ اور جو میں تمہارے ساتھ چلی جاؤں تو میں تمہیں پاؤں نہیں۔ کھو دوں گی۔“
“ مجھے اپنا ہاتھ دے دو۔“ ایلی نے شہزاد سے کہا۔
“ میرا بس چلے تو میں اسے کاٹ کر تمہیں دے دوں۔“ وہ اپنا ہاتھ بڑھاتے ہوئے بولی۔
ایلی نے شہزاد کا ہاتھ تھام لیا۔
“ ہونہہ۔“ بیگم اندر آ کر ہنسی۔ “ یہاں تو کچھ اور ہی ہو رہا ہے۔“ وہ غصے سے بولی۔
شہزاد نے بیگم کو دیکھ کر ہاتھ چھڑانے کی کوشش نہ کی۔ بلکہ دوسرا ہاتھ بھی ایلی کو دے دیا۔
“ توبہ بے حیائی کی کوئی حد ہوتی ہے۔“ بیگم بولی۔
“ نہیں اماں۔“ شہزاد نے ہنس کر کہا۔ “ بے حیائی کی حد نہیں ہوتی حیا کی ہوتی ہے۔“
“ توبہ ہے لڑکی۔“ وہ چلائی۔ “ تو نے یہ گھر رنڈی کا چوبارہ بنا رکھا ہے۔“
“ ہی ہی ------ چوبارہ۔“ وہ ہنسی۔
“ شرم نہیں آتی“ بیگم بولتی بکتی ہوئی باہر نکل گئی۔
اس کے جاتے ہی شہزاد کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔
“ تمہیں پانے کے لیے ایلی مجھے نہ جانے کیا کیا دینا پڑے گا۔ لیکن میں سب کچھ دے دوں گی۔ سب کچھ۔ خوشی سے لیکن تم میرے ساتھ ایسا سلوک نہ کرو۔ سب مجھے رنڈی سمجھتے ہیں۔ پڑے سمجھیں۔ لیکن تم مجھے رنڈی نہ سمجھو۔ اس کی ہچکی نکل گئی۔
ایلی کی نگاہ میں اس کے جسم ------ کی گولائیاں سمٹ کر معدوم ہو گئیں ------ شہزاد کا چہرہ پھر سے طلوع ہو گیا۔ دیوی لوٹ آئی۔ اس کے ماتھے کا تل روشن ہو گیا۔
اس روز شہزاد کی باتوں نے ایلی کو چونکا دیا۔ وہ ایک گہری سوچ میں پڑ گیا۔
علی پور میں پندرہ روز اس نے سوچنے میں گزار دیئے۔ کیا مجھے سادی سے محبت ہے یا شہزاد سے۔ اس روز جب میں پہلی مرتبہ شہزاد کا حنا مالیدہ ہاتھ تھاما تھا کیا اس لیے تھاما تھا کہ مجھے اس سے محبت ہو چکی تھی یا اس لیے کہ وہ ایک بانکی عورت تھی جسے آسانی سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ کیا مجھے سادی سے محبت ہے۔ کیا میں نے محسوس کرنے کے بعد اس سے محبت جتائی تھی۔ کیا یہ غلط ہے کہ کال کلوٹا کی خفت مٹانے کے لیے میں نے اس جیتنے کی کوشش کی تھی۔ اور اپنی انا کو تسکین دینے کے خیال سے اسے جیت لیا تھا۔ تو کیا مجھے سادی اور شہزاد دونوں سے محبت نہیں۔ تم سے بھی تو مجھے محبت نہ تھی۔ میں نے اپنے باپ سے انتقام لینے کے لیے اس سے محبت رچائی تھی۔ تو محبت کیا ہے۔ کیا مجھے کسی سے بھی محبت نہیں تھی۔ اسے کچھ سمجھ میں نہ آ رہا تھا۔
اس کے باوجود ایلی کے دل میں شہزاد کا احترام تھا۔ اس کی آرزو تھی۔ لیکن سادی کے لیے اس کے دل میں ایک جذبہ تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ اسے پا لے اور پھر اس کے ساتھ ہی اس کے دل میں چھپی ہوئی آرزو تھی کہ وہ شہزاد کے سحر سے نکل کر نارمل زندگی بسر کرئے۔ ساری بات ہی ایک الجھاؤ تھی۔ اور اس الجھاؤ سے نکلنا ناممکن تھا۔ سوچ سوچ کر وہ تھک گیا اور پھر اس نے اپنے آپ کو حالات کے رحم و کرم پر پھینک دیا چلو کہیں تو کنارے لگوں گا۔
لیکن اسے معلوم نہ تھا کہ افق سے پرے ایک طوفان اکٹھا ہو رہا ہے۔
ایس - اے - وی
پندرہ روز کی چھٹی گزارنے کے بعد واپس ٹریننگ کالج لاہور جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ ایک معمولی سے نوکر کی بات کا یقین کر لینا کتنی مضحکہ خیز بات تھی۔ اگر اس روز شہزاد ایلی سے بات نہ کرتی، اگر وہ ایلی سے احتجاج نہ کرتی۔ اگر ایلی کی نگاہ میں شہزاد کا جسم چھائے رہتا اور اس کا ماتھے کا تل طلوع نہ ہوتا اور وہ سوچ میں نہ کھو جاتا تو وہ غالباّ لاہور نہ جاتا۔ اور اس کی زندگی کا دھارا کسی اور طرف بہتا۔ لیکن اس ایک چھوٹی سی تفصیل نے حالات کا رخ بدل دیا۔
ایلی کو گامے کی بات کا چنداں یقین نہ تھا۔ وہ صرف اس خیال سے لاہور جا رہا تھا کہ چلو چند روز کے لیے سینما دیکھیں گے۔ شاید کسی نوکری کا پتہ چل جائے۔ شاید سادی کے متعلق کوئی خبر ملے۔ نہیں تو سیر ہی سہی۔
جب وہ روانہ ہونے لگا تو شہزاد آ گئی۔
“ تم اس قدر خاموش کیوں ہو“ وہ بولی۔ “میں کیا کروں، اگر تمہارا ہاتھ نہ روکوں تو میں اپنی نگاہ میں آپ گر جاتی ہوں اور روک دوں تو مجھے دکھ ہوتا ہے چونکہ تم برف کی طرح جم جاتے ہو۔ کیا کروں میں۔“
وہ ہنس پڑا۔ “ جو جی چاہے کرو۔ تمہارے بس میں ہوں۔“
شہزاد کی آنکھوں میں محبت بھری چمک لہرائی۔ “ میں آؤں گی“ وہ بولی۔ “ میں خود تم سے ملنے آؤں گی۔ میں لاہور آؤں گی۔“
“ تم “ وہ بولا “ لاہور آؤ گی۔“
“ تم سے ملنے کے لیے میں سات سمندر پار جا سکتی ہوں۔ یہ تو لاہور ہے۔“
لاہور بورڈنگ پہنچتے ہی گاما دوڑا ایلی کے پاس آیا۔ “ آ گئے بابو جی بڑا اچھا کیا۔ میرا انعام ساتھ لائے ہیں نا۔“
ایلی نے حیرت سے گامے کی طرف دیکھا۔ کیا واقعی اسے اپنی بات پر اس قدر یقین تھا۔ بہرحال اسے سمجھ میں نہ آ رہا تھا کہ یہ معجزہ کیسے رونما ہو گا۔
اگلے روز جب ایلی کلاس میں پہنچا تو ایک نہیں چھ لڑکے غیر حاضر تھے۔ وہ لڑکے جن کو چن لیا گیا تھا اور جن کے نام رجسٹر میں درج تھے۔ دفعتاّ ایلی کی نگاہ سے گویا پردہ ہٹ گیا۔
گاما ہنسنے لگا۔ “ بابو جی ہر بار ایسا ہوتا ہے۔ کسی کو نوکری مل جاتی ہے۔ کوئی کسی اور لین میں چلا جاتا ہے۔ کوئی ویسے ہی نہیں آتا۔ ہر سال دس ایک بابو چھٹیوں کے بعد نہیں لوٹتے۔ بس پھر جو موجود ہو اس کا نام رجسٹر پر آ جاتا ہے۔ ہاں بابو جی تو ڈائٹری ملاحظہ ہو گا۔ نہ جانے کتنے اس میں کٹ جائیں گے۔“
چوتھے روز ہی ایلی نے جماعت میں شور مچا دیا۔ جی میرا نام آپ بولتے ہی نہیں۔ میں بیٹن لشٹ والا ہوں۔ میرا نام رجسٹر میں نہ ہو گا تو حاضریاں کیسے پوری ہوں گی۔“ ایلی کا نام رجسٹر میں درج کر لیا گیا۔
سنٹرل ٹریننگ کالج کی عمارت بھاٹی دروازے کے قریب ایک وسیع چوگان میں واقع تھی۔ ایک طرف کالج کی عمارت تھی جس کے شرقی اور غربی پہلو میں بڑے بڑے لان تھے۔ شمال میں بورڈنگ کی عمارت ایک وسیع دائرے میں بنی ہوئی تھی۔ صدر دروازے کے ارد گرد دو رویہ کمرے تھے جن کے اوپر چوبارے بنے ہوئے تھے۔ اوپر کی منزل میں بورڈنگ کے سپرنٹنڈنٹ لالہ جی مقیم تھے۔ نچلے کمروں میں ملاقات کا کمرہ۔ کومن روم اور دیگر کمرے تھے۔ ان کمروں سے گزرنے کے بعد بورڈنگ کا وسیع صحن تھا جس میں لان بنے ہوئے تھے، ایک باغیچہ تھا۔ لان کے اختتام پر ایک اونچی دیوار تھی جس میں سات دروازے کھلتے تھے۔ نیز دروازے کے اندر داخل ہوتے ہی ایک بہت لمبا صحن، جس کے ساتھ ساتھ ایک برآمدہ اور ایک بہت لمبا کمرہ تھا۔ یہ لمبا کمرہ ڈارمیٹری کہلاتا تھا۔ اسی ساخت کی کل چھ ڈارمیٹریاں تھی۔ ہر ڈارمیٹری میں 25 لڑکوں کے رہائش کی جگہ تھی۔ ساتویں ڈارمیٹری میں کچن، نوکروں کے رہنے کی جگہ اور ڈائینگ ہال تھے۔
چند ایک ڈارمیٹریوں میں ہر سیٹ کے بعد ایک چھوٹی سے پارٹیشن لگی تھی۔ یہ ڈارمیٹریاں بی ٹی کے طلباء کے لیے مخصوص تھیں۔ پارٹیشن کے بغیر جتنی ڈارمیٹریاں تھیں وہ سب ایس اے وی کے طلباء کے لیے مخصوص تھیں۔ بورڈنگ میں داخل ہونے کے لیے صدر دروازے کے علاوہ کوئی راستہ نہ تھا۔ ڈارمیٹریوں کے گرد اونچی دیواریں بنائی گئی تھیں۔ باہر کھلنے والی کھڑکیوں پر لوہے کی مضبوط جالی لگی ہوئی تھی۔
یہ بورڈنگ دوسرے کالجوں کے عام بورڈنگ کی طرح نہیں تھا۔ یہاں بہت سی قیود اور پابندیاں تھیں۔ باہر کا مہمان بورڈنگ میں داخل نہیں ہو سکتا تھا۔ مہمان کو ملنے کے لیے لڑکے کو باہر ملاقاتی کمرے میں جانا پڑتا۔ رات کو دس بجے صدر دروازہ بند کر دیا جاتا۔ اس کے بعد کسی کو اندر آنے کی اجازت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جا کر رجسٹر میں حاضری لگاتے اور غیر حاضر طلباء کی رپورٹ کی جاتی اور عادی طور پر غیر حاضر رہنے والے کو کالج سے نکال دیا جاتا۔ ایلی کو وہاں آٹھ مہینے گزارنے تھے۔
اسی روز نہ جانے کیوں وہ چلتے چلتے ملاقاتی کمرے میں رک گیا۔ اچھا خاصا کمرہ ہے۔ اس نے سوچا۔ وہ صوفے پر بیٹھ گیا اور پھر سوچتے سوچتے نہ جانے کہاں جا پہنچا۔ اگر منصر ملنے آئے تو وہ یہاں آئے گا اور پھر ------ “
“ ارے تم۔ “ جی کے اندر جھانکتے ہوئے چلایا۔
ایلی چونکا۔
“ تم یہاں ------ کس سے ملنے آئے ہو۔ کیا مجھ سے؟“
“ تم جی کے تم یہاں۔“ ایلی نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔
“ میں تم سے پوچھ رہا ہوں۔ تمہیں کیسے معلوم ہو گیا کہ میں یہاں ہوں۔“
“ تم یہاں ہو۔“ ایلی نے تعجب سے بولا۔
“ تم کس سے ملنے آئے ہو۔“
“ کسی سے بھی نہیں۔“
“ تو پھر۔“
“ بھائی میں یہاں ہوں۔“
“ یہاں تو ہو لیکن کس طرح آئے ہو۔“ جی کے بولا۔
“ بھائی میں اسی کالج میں ہوں۔“
“ کیا کہا۔“
“ کیا تم بھی یہاں داخل ہوئے ہو۔“
“ بالکل ------ لیکن یار یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ اتنے دن سے ہم دونوں یہاں ہیں اور ایک دوسرے کو دیکھا تک نہیں۔“
“ تم تو بی ٹی میں ہو گے۔“
“ ہاں ہاں “
“ میں تو ایس اے وی میں ہوں۔“
“ پھر بھی رہتے تو اسی بورڈنگ میں ہو نا۔“
جی کے نے ایلی کا ہاتھ پکڑ لیا اور کھینچتا ہوا اسے ملاقاتی کمرے سے باہر لے گیا۔ وہ ناچ رہا تھا۔ چیخ رہا تھا، تالیاں بجا رہا تھا۔ “ یار یہ تو بہت اچھا ہوا۔ بہت اچھے بہت اچھے، دونوں اکٹھے رہیں گے۔ ادھر آؤ ادھر۔“ وہ اسے ڈیوڑھی سے ملحقہ ایک کمرے کی طرف لے گیا۔
“ یہ کدھر لیے جا رہے ہو۔“ ایلی نے پوچھا۔
ایک چھوٹے سے کمرے میں پہنچ کر اس نے ایلی کو کرسی میں بٹھا دیا۔ “ اب آرام سے بات کرو۔ وہ چائے پلاؤں گا تمہیں کہ ناؤ گھر بھول جاؤ گے۔“
“ لیکن یہ کمرہ کس کا ہے۔“ ایلی نے پوچھا۔
“ میرا اپنا کمرہ ہے۔“ پال نے چھاتی ٹھونک کر کہا۔
“ لیکن یہاں تو ڈارمٹریوں میں رہتے ہیں سب۔“
“ پڑے رہیں۔ میں تو ان خچر پاتری اصطبلوں میں نہیں رہ سکا۔ اور اب تم بھی یہیں رہو گے۔“
“ کیا مطلب؟“
“ مطلب یہ کہ ابھی اپنا سامان یہاں منگوا لو۔ ویسے تو چار سیٹوں کے لیے ہے۔ لیکن ہم اسے ڈبل سیٹر بنا لیں گے۔
“ لیکن سپرنٹنڈنٹ۔“
“ لالہ جی۔“ وہ چلایا “ لالہ جی میری ہر بات مانتے ہیں۔ ان کا فکر نہ کرو۔“
ایلی کا سامان اسی روز جی-کے کے کمرے میں آ گیا اور وہ دونوں وہاں اکٹھے رہنے لگے۔
چھ لڑکیاں
سنٹرل ٹریننگ کالج میں زندگی ایک محور کے گرد گھومتی تھی۔ اور یہ محور چھ لڑکیاں تھیں۔ یہ لڑکیاں بی ٹی کلاس کی طلباء تھیں۔ دن بھر کالج کے وقت بی ٹی کے طلباء شدت سے محسوس کرتے کہ وہ کلاس میں بیٹھی ہیں۔ ان کے منہ سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ سن رہی ہیں۔ ان کی ایک ایک حرکت کو نوٹ کر رہی ہیں۔ صرف لڑکے ہی نہیں بیشتر پروفیسر بھی ان کی موجودگی کا شدید احساس رکھتے تھے۔
ایس اے وی کے طلباء کو یہ احساس ہوتا کہ ساتھ والے کمرے میں لڑکیاں ہیں، ایک نہیں چھ۔ اور ان کے اپنے کمرے میں کوئی بھی نہیں۔ اور ابھی جب وہ حساب کا پیریڈ ختم کر کے برآمدے سے گزر کر جخرافیہ پڑھنے کے لیے جائیں گے تو راستے میں گزرتے ہوئے انہیں دیکھیں گے۔ وہ نیچی نگاہ کیئے بیٹھی ہوں گی۔ یوں کام میں منہمک ہوں گی جیسے کچھ خبر ہی نہ ہو مگر اس کے باوجود انہیں سب خبر ہو گی۔ ہر لڑکا یہ سوچتا کہ وہ اس کی چال دیکھیں گی۔ یہ دیکھیں گی کہ اس نے کیسے کپڑے پہن رکھے ہیں، ٹائی کس رنگ کی ہے۔ بال کیسے بناتا ہے۔ اور اس کا انداز کس قدر رومانٹک ہے۔ کالج سے فارغ ہو کر جب وہ بورڈنگ میں آتے تو آپس میں ان کے متعلق بحثیں کرتے۔
“ بھئی مس رومو بڑی چالاک ہے۔ بن دیکھے بات تاڑ جاتی ہے۔“
“ یار آج مس مینا کے حد کر دی۔ دفعتاّ ایسی نگاہ ڈالی کہ اپنے ہوش گم ہو گئے۔“
“ آج مس رادھا شام کے ساتھ ٹک شاپ میں گئی تھی۔“
“ اور وہ دیکھا تھا تم نے مس مینا نے کیسے کپڑے پہن رکھے تھے۔ یار بڑا کلر سنس ہے اسے۔“
وہ لڑکیاں چنداں خوب صورت نہ تھیں۔ نہ ہی ان میں زندگی کی خصوصی چمک تھی۔ وہ سب سنجیدہ اور خاموش تھیں۔ اس کے باوجود ان کی توجہ کا مرکز ہونا۔ وجہ فقط یہ تھی کہ اس زمانے میں کسی کالج میں مخلوط تعلیم رائج نہ تھی۔ سنٹرل ٹریننگ کالج واحد لالج تھا جس میں لڑکیاں لڑکوں کے ساتھ تعلیم پاتی تھیں۔ اسی وجہ سے گورنمنٹ اور مشن کالج کے طلباء بھی بہانے بہانے سنٹرل ٹریننگ کالج آیا کرتے تھے تاکہ ایک نظر انہیں دیکھ سکیں اور اگر ممکن ہو تو ------ شاید کوئی راستہ نکل آئے۔
بی ٹی کے پانچ چھ لڑکے تو ہر وقت ان کے گلے کا ہار بنے رہتے تھے۔ وہ جیب میں زائد پنسل اور قلم رکھتے اس بات کے منتظر رہتے کہ کب ان میں سے کسی کے قلم کی سیاہی ختم ہو یا پنسل کا سکہ ٹوٹ جائے تا کہ انہیں پنسل یا قلم پیش کر سکیں۔
وہ بڑی محنت سے کلاس کے لیکچروں کے لوٹ لکھتے اور بورڈنگ آ کر بنا سنوار کر انہیں نقل کرتے کہ شاید لڑکیوں کو نوٹ پڑھنے کی ضرورت محسوس ہو۔ جیب میں زائد رومال اٹھائے پھرتے، نہ جانے کب کوئی لڑکی لان میں بیٹھنا چاہے تاکہ وہ فوراّ رومال گھاس پر بچھا دیں۔ ان لڑکوں کو کوٹ بردار کہا جاتا تھا چونکہ وہ لڑکیوں کے کوٹ اٹھائے پھرتے تھے۔ اکثر لڑکے طنز سے انہیں وکٹ بردار کہا کرتے تھے لیکن حقیقت یہ تھی کہ کوٹ برداری ایک بڑا اعزاز سمجھا جاتا تھا۔ اگر کوئی لڑکی کسی کو اپنا کوٹ اٹھانے کے لیے دے دیتی تو وہ لڑکا پھولے نہ سماتا اور اس بات پر فخر کرتا۔ دوسرے لڑکے اس کا مذاق اڑاتے، درپردہ اسے تحسین بھری نظروں سے دیکھتے۔
ایلی کے لیے یہ محور قطعی طور پر دلچسپی سے خالی تھا۔ ان چھ میں نہ تو کوئی سادی تھی اور نہ شہزاد۔ اور پھر وہ تھیں بھی کیا، ایک دو تو والدہ قسم کی تھیں، ایک دو وہ چیزیں بن چکی تھیں جو کتابیں جمع عینک جمع دبلا پن جمع جلی کٹی نگاہ جمی نسوانیت کا فقدان کا مجموعہ ہوتی ہیں۔ دو ایک البتہ قبول صورت تھیں مطلب ہے اچھی خاصی، وہ خاموش رہتی تھیں۔ ہنستی نہ تھیں کہ کوئی ان کی ہنسی کو التفات نہ سمجھ لے۔ آنکھیں نہ مٹکاتی تھیں کہ کوئی ان کی چتون کی جنبش کو اشارہ نہ سمجھ لے، کھل کر بات نہیں کرتی تھیں کہ کوئی بات منہ سے نکل نہ جائے۔
ایلی کے کانوں میں ابھی تک سادی کی باتیں گونجتی تھیں۔ اس کی نگاہوں میں شہزاد کے ماتھے کا تل شنگرف کی طرح چمک رہا تھا۔ لیکن اس کے باوجود ایلی کے لیے وہ چھ لڑکیاں جاذبِ نظر تھیں۔ جماعت میں بیٹھے ہوئے وہ یہ آرزو کرتا کہ جلدی پیریڈ ختم ہو اور وہ برآمدے سے گزرے۔
موٹی موٹی کتابیں
سنٹرل ٹریننگ کالج میں داخل ہوتے ہی ایلی پنجاب پبلک لائبریری کا ممبر بن گیا تھا جہاں سے اسے بیک وقت آٹھ کتابیں مستعار مل سکتی تھیں اور وہ ہر ہفتے موٹی موٹی ضحیم کتابیں چن کر لایا کرتا تھا۔ ایلی نے کتابوں سے از سرنو دلچسپی پیدا کر لی تھی۔ اور اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ لڑکے لڑکیوں سے کتابوں کی باتیں کیا کرتے تھے۔
“ آپ نے فلاں کتاب پڑھی ہے کیا۔“
“ فلاں مصنف نے تعلیم کے متعلق ایک انوکھی تھیوری پیش کی ہے۔“
“ نفسیات میں دلچسپی ہو تو فلاں مصنف کا مطالعہ کرو۔“
ایلی کالج کے اوقات میں کتابیں لانے کا خاص پروگرام بنایا کرتا تھا۔ اگرچہ اسے کافی لمبا چکر کاٹنا پڑتا لیکن لائبریری سے آتے ہوئے وہ ایسا راستہ اختیار کرتا کہ واپسی پر اسے کالج کے برآمدے سے گزرنا پڑے اور وہ کتابوں کے اس انبار کو یوں اٹھائے برآمدے سے گزرتا جیسے اسے خبر ہی نہ ہو کہ وہاں بی ٹی کلاس میں لڑکیاں بیٹھی ہیں اور وہ اس کی طرف حیرت سے دیکھ رہی ہیں۔ جب وہ کتابیں اٹھائے ہرئے ہوتا اس وقت اس کے لیے ضروری ہو جاتا کہ وہ لڑکیوں کی طرف قطعی طور پر نہ دیکھے لیکن وہ اس انداز سے اٹھاتا کہ ان کی پشتیں واضح طور پر دکھائی دیں۔
جاہ کی صحبت کی بدولت ایلی چند ایک مشہور مصنفوں کی کچھ کتابیں پڑھ چکا تھا۔ اس مطالعہ کی ابتداء برٹرنڈ رسل سے ہوئی تھی۔ اس کے بعد اس نے بکسلے ہالڈین شاپن ہار سنتایانا کی چند ایک کتابیں پڑھی تھیں۔ پھر انصار منصر سے متاثر ہو کر اس نے داستو وسکی اور انگریزی نظموں کا مطالعہ کیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود اسے مطالعہ سے براہ راست خاص دلچسپی نہ تھی۔ جب کبھی سادی کی یاد اسے ستاتی تو وہ اپنی توجہ منعطف کرنے کے لیے نطشے یا برگستاں کو کوئی کتاب پڑھنے کی کوشش کرتا یا جب کبھی شہزاد کے رویے سے وہ محسوس کرتا کہ وہ کسی دوسرے کی طرف متوجہ ہو رہی ہے تو وہ احتجاجاّ کتاب لے کر بیٹھ جاتا اور بصد مشکل اس کے چار ایک صفحات پڑھتا لیکن پھر اسے نفسِ مضمون سے دلچسپی محسوس ہونے لگتی اور اس طرح اس کا مطالعہ منفی حثیت چھوڑ کر اثباتی حثیت اختیار کر لیتا۔ بہرحال مطالعہ اس کے لیے محض فرار تھا۔
سنٹرل ٹریننگ کالج میں بھی اسے زیادہ تر دلچسپی کتابیں لانے اور ان کی نمائش کرنے سے تھی۔ کتابیں جو وہ لاتا تھا، تمام فلسفے سے متعلق ہوتی تھی یا فزیکس کے ایسے مسائل کے متعلق جن میں فلسفے کا رنگ حاوی تھا۔ ناول پڑھنے سے اسے چنداں دلچسپی نہ تھی۔ چونکہ ناول میں عشق و محبت کی داستانیں ہوتی تھیں اور پڑھتے ہوئے اسے شہزاد کا کمرہ یاد آ جاتا، سادی کے مکان کی وہ سیڑھیاں جہاں وہ رات کے اندھیرے میں ملا کرتے تھے اس طرح مطالعے کا مقصد فوت ہو جاتا۔ اس سنجیدہ قسم کے مطالعے سے اس کے جذبات کی چھلکن تو دور نہ ہو سکتی البتہ اس کے چہرے پر عجیب قسم کی کرختگی سی پیدا ہو گئی۔ جیسے زیادہ اُبلے ہوئے انڈے پر ہوتی ہے۔ اس کا چہرہ لمبوترا ہوا جا رہا تھا ٹھوڑی نکلتی آ رہی تھی۔ اور پیشانی پر گہری تیوری قائم ہوئی جا رہی تھی۔
شاید ایلی ان نمائشی کتابوں کو کبھی نہ پڑھتا لیکن جی کے کے طعنوں نے اسے مجبور کر دیا۔ ان طعنوں سے مخلصی پانے کے لیے چاروناچار اسے ہر روز کتابیں کھول کر بیٹھنا پڑتا۔جی کے
جی کے کے ایک نہیں بلکہ دو مزاج تھے۔ وہ بیک وقت بے حد خوش مزاج اور بہت دکھی آدمی تھا۔ اس دو مزاجوں کی کھینچا تانی جی کے کی زندگی کا حاصل تھی۔ جب وہ چپ ہوتا تو بالکل ہی چپ ہو جاتا۔ اس کی طوطا نما خمدار ناک کی دیوار پر بدمزاجی کا ڈھیر لگ جاتا۔ اس کی چھوٹی چھوٹی آنکھوں میں دکھ کے انبار لگنا شروع ہو جاتے۔ جب وہ بات کرنے کے موڈ میں ہوتا تو وہ باتیں کیئے جاتا۔ شور مچاتا، مذاق کرتا، شوخ باتیں کرتا۔ اس وقت اس کی کیفیت یوں ہوتی جیسے سوڈے کی بوتل کھل گئی ہو۔ چھینٹے اڑتے بلبلے اٹھتے اور سب کو بھگو دیتے۔ یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ جی کے کا اصلی مزاج کونسا تھا اور نقلی کونسا۔
بہر صورت ایلی کے نزدیک جی کے کی سب سے بڑی خصوصیت اس کی انا پسندی تھی۔ وہ اپنے خیالات کو درست سمجھتا تھا اپنی بات کو حق تصور کرتا، اپنے جذبات کو خارجی حالات کا مناسب ردِ عمل سمجھتا تھا۔
جی کے ازلی طور پر آقا طبیعت کا مالک تھا۔ اس کا برتاؤ محبت رعونت کرختگی خود اعتمادی اور ذہانت کا مجموعہ تھا۔ وہ اپنے حلقے کا از خود سردار بن جاتا اور پھر سردار مان لیا جاتا۔ اس بات پر ایلی کو بے حد غصہ آتا تھا۔ ایلی میں سردار بننے کی نہ تو ہوس تھی اور نہ اہلیت۔ وہ طبعاّ کسی کے پیچھے چلنے پر مجبور تھا لیکن جب پیچھے چلتا تو محسوس کرتا کہ اسے پیچھے چلنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ اور یہ زیادتی ہے۔ لٰہذا اسے غصہ آنا شروع ہو جاتا۔ دراصل ذہنی طور پر ایلی میںشدت کی انفرادیت موجود تھی۔ ذہنی طور پر ایلی مضبوط تھا لیکن طبعی طور پر بے حد کمزور اور بودا تھا اس لیے جی کے کی انا پرستی سے بے حد نالاں تھا۔
مثلاّ ایلی کی کتابوں کو دیکھ کر جی کے طنزاّ چلاتا۔
“ ارے یہ کتابیں پڑھے گا کون۔“
“ کچھ نہ کچھ تو دیکھ لوں گا۔“ ایلی جواب دیتا۔
“ کیوں ان میں تصویریں ہیں کیا۔“ جی کے کی طنز شدت اختیار کر لیتی۔
“ نہیں تو۔“
“ تو پھر دیکھنے کا کیا مطلب؟“
“ مطلب ہے کچھ نہ کچھ پڑھوں گا۔“
“ یہ فرائیڈ، واٹسن، ایلس، جیم جینز ورڈز ورتھ، انہیں پڑھو گے تو تم، لیکن سمجھے گا کون؟“
“ تم جو ہو، تمہاری مدد سے کچھ پتہ چل ہی جائے گا۔“ ایلی طنزاّ کہتا۔
“ اونہوں، بھئی ہم تو حساب دان ہیں۔ حساب کا کوئی مسئلہ لے آؤ ------ لیکن یہ فلسفہ اور نفسیات اور جنسیات یہ اپنے بس کا روگ نہیں۔“
جی کے کی ان باتوں کی وجہ سے ایلی کو لازماّ ہر روز کسی ایک کتاب کو کھول کر بیٹھنا پڑتا ------ پھر وہ بھول جاتا کہ اسے صرف کتاب کھول کر بیٹھنا ہے پڑھنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ پڑھنے کی جگہ وہ سادی کی خوش گپیوں کے متعلق سوچ سکتا ہے، شہزاد کے حسین جسم کا تصور کر سکتا ہے، پہلوئے حور میں لنگور کے واقعہ پر غور کر سکتا ہے لیکن اس واقعہ پر غور کرنا تو ایلی کے لیے بے حد تکلیف دہ تھا۔ اب تو یہ صورت پیدا ہوئی جا رہی تھی کہ سادی کا خیال آتا تو اسے ٹھیس لگتی اور وہ شدت سے محسوس کرتا کہ سادی ہمیشہ کے لیے چلی گئی۔ نہ جانے کہاں چلی گئی۔ اگر وہ رہتی وہیں لاہور میں رہتی تو والد صاحب کا انکار بھی بے معنی ہو کر رہ جاتا۔ کوئی نہ کوئی صورت نکل ہی آتی۔
جی کے کو کالج کی ان چھ لڑکیوں سے قطعی کوئی دلچسپی نہ تھی۔
“ لاحول ولا قوۃ “ وہ چلاتا۔
“ یہ لڑکیاں سب کے اعصاب پر سوار ہیں۔ اور پھر لڑکیاں کہاں، وہ تو بیشتر عورتیں ہیں، والدہ قسم کی عورتیں۔ کیوں ایلی کیا تمہیں والدہ قسم کی عورت سے دلچسپی ہو سکتی ہے۔“
جی کے کا سوال سن کر ایلی کا دل دھک سے رہ جاتا۔ اس کے روبرو صفیہ آ کھڑی ہوتی اور اپنے حنا مالیدہ ہاتھ اس کی طرف بڑھاتی۔ خاتم گورے گدے ہاتھوں سے اس کے گال سہلاتی۔ ایلی کو والدہ قسم کی عورت سے دلچسپی نہیں بلکہ عشق تھا۔ عورت درحقیقت اس کے ذہن میں بھرے بھرے جسم کی ایک گود تھی جس کے پہلوؤں پر بازو اور ہاتھ لٹکتے تھے، جو سہلانے اور تھپکنے کے لیے بےقرار تھے لیکن ایلی نے کھلے طور پر اس شدید جذبے کو کبھی اپنایا نہ تھا۔
“ لاحول ولا قوۃ“ وہ گویا شدت جذبات کا اظہار کرتا۔ “ نہ جانے کیوں یہ سب پاگل ہو رہے ہیں۔ کیوں پاگل ہو رہے ہیں۔ بتاؤ نا۔ بول۔“ جی کے ترنگ میں آ جاتا “ جواب دو۔“
“ یہ تو اپنی اپنی پسند ہے۔“ ایلی کو جی کے پر غصہ آنے لگتا۔
“ کیا مطلب“ وہ چلاتا “ نوجوان والدہ قسم کی عورتوں کو پسند کریں۔ عجیب بات نہیں کیا۔“
“ نوجوان نہ کریں تو کیا بوڑھے کریں گے۔“ ایلی جواب دیتا۔
“ تم بھی بیوقوف ہو۔“ جی کے جوش میں آ جاتا۔
“ ہم دونوں ہی بیوقوف ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ تمہیں اپنی حماقتوں کا احساس نہیں۔“
“ بالکل غلط۔“ وہ چلاتا “ تم ہو گے، ہم تو نہیں۔ ہم تو دانش ور ہیں۔ دراصل یہ فرائیڈ پڑھ پڑھ کر تم اپنے آپ کو تباہ کر رہے ہو۔ تم سے بات کرنا بے کار ہے۔ تم نہیں سمجھ سکتے۔“
جی کے اٹھ کر اپنے کام میں مصروف ہو جاتا۔ وہ خاموش رہ جاتا۔ اس کی ناک پر بدمزاجی کے ڈھیر لگ جاتے، آنکھوں سے دکھ جھانکتا۔ مظلومیت کی پھوار پڑتی۔
جی کے کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی تھی کہ وہ اپنے آپ کو بے حد مظلوم سمجھتا تھا۔ اسے یہ خیال تھا کہ وہ قربانی کا بکرا ہے۔ دوسروں کے مفاد کے لیے وہ اپنے خیالات یا مفاد کی قربانی نہیں دیتا تھا سمجھتا تھا کہ دے رہا ہے۔ لٰہذا وہ اپنے آپ کو مظلوم سمجھتا تھا۔ ایلی ------ اس قسم کے خیالات سے اسے مستفیذ کرتا تھا لیکن اس کے باوجود ایلی سمجھتا تھا کہ وہ خیالات غلط ہیں۔ ایک دوست کا اسے یوں جھٹلانا ------ اور پھر دوست بھی ایسا جس کے لیے اس نے کیا نہ کیا ہو۔
چپ ہو جانے سے پہلے جی کے ایلی کی طرف ایک نگاہ ڈالتا بالکل وہی “ واؤ ٹو بروٹس “ والی نگاہ۔ اور پھر سیزر کی طرح آرام کرسی میں گر جاتا اور ایلی کے متوقع خنجر کے وار کا انتظار کرتا ------ پھر اسے غصہ آتا کہ متوقع واس میں تاخیر کیوں کی جا رہی ہے۔ تاخیر کا مقصد یہ ہے کہ جی کے کرب میں اضافہ کیا جائے۔
ایلی کو یہ سب باتیں دکھائی نہیں دیتی تھیں۔ اسے صرف جی کے کی پھولی ہوئی ناک نظر آتی تھی جس پر بدمزاجی کے انبار لگے ہوتے۔
پھر ان کے دوستوں میں سے کوئی آ جاتا۔ مثلاّ بابا، شام، پریم، رائے یا جان۔
“ ارے تم دونوں اندر بیٹھے ہو۔“ شام چلاتا “ ہائیں یہ الیاس اتنی موٹی کتاب پڑھ رہا ہے۔“
“ یہاں تو بڑی بڑی کتابیں پڑھی جاتی ہیں اس کمرے میں۔“ جی کے بڑے رعب سے جواب دیتا۔
“ کیا ہے یہ ۔“ شام پوچھتا۔
“ تمہاری سمجھ میں نہیں آئے گی، پوچھنے کا فائدہ۔“
ایلی کو اس بات پر اور غصہ آتا۔ لو، ابھی ان موٹی کتابوں پر تمسخر کر رہا تھا اور اب ان پر فخر کا اظہار کر رہا ہے۔ اور وہ بھی ایسے انداز میں جیسے وہ کتابیں اس کی اپنی ہوں اور اس نے ایلی کو پڑھنے کے لیے مستعار دی ہوں اور ساتھ ہی نفس مضمون کو سمجھنے میں ایلی کی امداد کا بیڑہ اٹھائے ہوئے ہو۔
جی کے اکثر ایلی پر بھی فخر کا اظہار کیا کرتا تھا۔ لیکن اس اظہار پر ایلی کی عظمت کا عنصر نہ ہوتا بلکہ ایلی کی عظمت کا پہلو نکلتا۔ مثلاّ دوسروں کے روبرو وہ ایلی کی دوستی پر فخر کا اظہار کرتا تو ایسے محسوس ہوتا جیسے کہہ رہا ہو۔ دیکھا ہم وہ ہیں جس کے ایسے دوست ہیں۔بابا
لڑکیوں کے متعلق کئی ایک مختلف زاویہ نظر رائج تھے۔ بابا کا نقطہ نظر بہت دلچسپ تھا۔ بابا کا نام آئزک تھا۔ اس کی عمر چالیس برس تھی، چہرہ ڈھلک چکا تھا۔ جسم میں بیل کی سی بے حسی تھی۔ صرف آنکھوں میں شرارت چمکتی اور وہ بھی مخصوص اوقات پر۔ اس کے کل نو بچے تھے۔ بہت سی بیٹیاں اور تھوڑے سے بیٹے۔ اسے یاد نہیں تھا کہ وہ کب سے بچے پڑھانے کا کام کر رہا ہے۔ پوچھو تو کہتا “ بس سمجھ لو جب سے آدم نے پھل کھایا ہے تبھی سے پڑھانے کی نوکری کر رہا ہوں۔ شاید اس سے بھی پہلے سے۔ اور اب سالوں نے مجھے ریفریشر کورس کے لیے یہاں بھیج دیا ہے۔“
اس عمر کے باوجود بابا بنیادی طور پر محبوب واقع ہوا تھا۔ لڑکیوں کی بات چھڑ جاتی تو ہنس کر کہتا۔ “ یہ تم کون سی لڑکیوں کی بات کر رہے ہو۔ سارا دن سبھی لڑکیوں کا رونا روتے ہیں۔ ہم نے تو کوئی لڑکی نہیں دیکھی یہاں۔“
“ بابا “ ایلی چلایا “ ایک نہیں چھ ہیں چھ ۔“
“ ہوں گی بھائی۔“ وہ بے پروائی سے کہتا “ لیکن ہم نہیں مانتے۔ اگر وہ لڑکیاں ہیں تو بھائی خود بخود ہمارے پاس کھنچی چلی آئیں گی۔ آج تک تو ایسا کبھی نہیں ہوا اور خود بخود ہماری طرف نہ کھنچی چلی آئے۔“
“ دیکھا تو کرتی ہیں تمہاری طرف۔“ ایلی نے اسے چھیڑا۔
“ بابا۔“ جی کے چیختا۔ “ وہ تو والدہ قسم کی ہیں تمہارے جوڑ کی ہیں۔“
“ ابے تجھے کیا پتہ۔“ بابا ہنستا۔ تو دو اور دو چار کے سوا کیا جانتا ہے۔ جو والدہ قسم کی ہوتی ہیں۔ وہ تو الٹا اپنی گود ہری رکھنے کے لیے لمڈے تلاش کرتی ہیں۔ ہاں اگر لڑکی ہو تو وہ البتہ۔“ وہ اپنے منہ پر ہاتھ پھیر کر کہتا “ مرد ڈھونڈے گی۔ دیکھ لینا ایک نہ ایک دن ہمارے پہلو میں پہنچ کر رہے گی۔ اگر ان میں کوئی لڑکی ہے تو۔ اور اگر نہیں تو ہٹاؤ سب کی سب تمہیں بخشیں۔“ وہ شام سے کہتا “ ہم گود میں بیٹھنے کے قابل نہیں بٹھانے کے ہیں۔“
بابا کی شخصیت میں ایک عجیب سی مٹھاس تھی۔ اس کے انداز میں جذباتی گرمی منعکس ہوتی تھی۔ ایک عجیب سا نگھ ۔ اس سے چاہے بات کرو نہ کرو ایسے محسوس ہوتا جیسے وہ تمہارے پاس بیٹھا ہو۔ تمہارے دکھ درد میں برابر کا حصہ دار ہو۔ اول تو وہ بحث کرنے کا عادی ہی نہیں تھا اور اگر کبھی دوسرے کو جھٹلاتا بھی تو دوسرا محسوس کرتا کہ درحقیقت دل ہی دل میں وہ اس کا ہم خیال ہے۔ ویسے ازراہ مذاق اختلافِ رائے کا اظہار کر رہا ہے۔
شام
شام گویا ناچتی ہوئی سورج کی ایک کرن تھی۔ جہاں بھی وہ پہنچ جاتا وہ جگہ انبساط کے دودھیا اجالے سے منور ہو جاتی۔ سنجیدہ سے سنجیدہ بحث کے دوران میں شام آ جاتا تو بحث خوش گوار گفتگو میں بدل جاتی۔ دلائل رنگین اشارات کا انداز اختیار کر لیتے۔
شام ایم-ایس-سی کر چکا تھا اور اب بی-ٹی میں اس لیے داخل ہوا تھا کہ اس زمانے میں نوکری ملنی بے حد مشکل تھی۔ لیکن اس کے رویے سے کبھی ظاہر نہیں ہوا تھا کہ وہ ایم-ایس-سی ہے۔ اس سے پوچھتے “ یار تم ایم-ایس-سی ہو۔“ تو وہ ہنس کر کہتا “ ایم-ایس-سی ہوتا تو اب اے بی سی میں کیوں داخلہ لیتا۔“
لڑکیوں کی بات چھڑ جاتی تو وہ ہنس کر چلاتا۔ “ یار ہم تو فیل ہو گئے۔ کوئی اپنی طرف تو دیکھتی ہی نہیں۔ حالانکہ قسم ہے پرماتما کی منہ پر روز کریم مل کر آتا ہوں۔ شیو کے بعد اسٹرجنٹ لگاتا ہوں۔ بال بڑی احتیاط سے بناتا ہوں۔ کلاس میں جان بوجھ کر چمکدار باتیں کرتا ہوں۔ ذہانت اور رنگینی سے بھرے ہوئے جتنے جملے یاد ہیں ان کا بروقت برمحل استعمال کرتا ہوں لیکن سب بے کار، وہ دیکھتی ہی نہیں اپنی طرف۔“
“ کونسی نہیں دیکھتی۔“ جی کے پوچھتا۔
“ کوئی سی ہے دیکھ لے بھائی اس میں کیا ہے۔ بھوکے کیک پیسٹری نہیں مانگا کرتے اور میاں وہ انگریز نے کہا ہے نا بھئی کیا خوب کہا ہے۔ “ بیگرز آر ناٹ چوزرز “ منگتے کس منہ سے چناؤ کریں۔“
“ ابے فکر نہ کر“ بابا چلاتا “ خود آ جائیں گی ایک نہ ایک روز۔“
“ فی الحال خط ہی بھیج دیں۔“ شام چلاتا۔
“ جو خط آ گیا تو مصیبت پڑ جائے گی۔“ جی کے شور مچاتا۔ “ پرماتما کے لیے مصیبت پڑ جائے۔ جلدی پڑ جائے۔“ شام کہتا۔ “ اس خیریت ہی خیریت سے تو ہم تنگ آ گئے۔ ڈر ہے کسی روز زہر نہ کھا لوں۔“
“ زہر خریدنے جاؤ گے تو مجھے بتا دینا۔“ ایلی کہتا۔
“ تو لو بتائے دیتے ہیں۔“ شام ہنستا۔
“ کیا مطلب جا رہے ہو خریدنے۔“ ایلی پوچھتا۔
“ نہیں خرید چکے ہیں۔“
“ کونسی والی ہے۔“
“ پوٹاشیم سائنیڈ۔ لیبارٹری سے اُڑائی ہے بڑی مشکل سے۔ جس روز موڈ خراب ہو ٹرنک کھول کر کپڑے تک نہیں بدلتا۔“
“ کیوں “
“ ڈرتا ہوں کہیں کھا نہ لوں۔“ شام مسکرا کر کہتا لیکن اس کی مسکراہٹ میں سنجیدگی چھلکتی۔
“ وہ کیسے ؟“
“ وہیں کپڑوں کے ساتھ ٹرنک میں رکھی ہے نا اس لیے ٹرنک نہیں کھولتا۔
“ لڑکیوں کو معلوم ہے کہ تمہارے ارادے خطرناک ہیں۔“ جی کے ہنستا۔
“ ارے یار اتنے دوست ہیں، لیکن کوئی نہیں بتاتا انہیں۔ آجکل سچا دوست کہاں ملتا ہے۔“
“ تو میں بتا دوں۔“ بابا کہتا
“ لو سن لو نیکی اور پوچھ پوچھ۔“ شام چلاتا۔
“ کس کو بتاؤں؟“
“ باری باری سب کو بتا دو۔ ممکن ہے کسی کا دل پسیج جائے۔“ شام سنجیدگی سے کہتا۔
شام کی باتوں سے یہ محسوس نہ ہوتا تھا کہ وہ دکھاوے کی بات کر رہا ہے۔ یا رنگین گفتگو کی نمائش کر رہا ہے۔ اس کے انداز میں ایک عجیب قسم کی عجز اور خلوص تھا جو ایلی کو بے حد پیارا لگتا تھا۔
ایلی کو پڑھتے دیکھ کر شام جی کے کی طرح طنز نہیں کرتا تھا اس کے برعکس وہ حیرت سے دیکھتا اور کہتا۔
“ یار تم تو اتنی بڑی بڑی کتابیں پڑھتے جا رہے ہو اور یار لوگ اس پاکٹ بک میں کھوئے ہوئے ہیں۔“
“ کون سی پاکٹ بک۔“ ایلی پوچھتا۔
“ وہی لڑکیاں اور کون۔“
“ کون سی لڑکی۔“
“ کوئی سی۔ آج ایک نے رحم کھا کر اٹھانے کے لیے کوٹ دے دیا مجھے جب سے نشہ سا طاری ہے ------ طبیعت اتنی خوش ہے کہ جو مانگو گے ملے گا۔ جو کہو منظور۔ کہو تو ٹک شاپ سے کیک کھلا دوں۔“ وہ اپنی جیب ٹٹولتا۔ “ لو - پورا سوا روپیہ ہے کھا لو جو کھانا ہے آج ورنہ پچھتاؤ گے۔ ایسے سنہرے مواقع روز نہیں ملتے۔“
والدہ قسم کی لڑکیوں کے متعلق جی کے شام سے پوچھتا۔ “ یار تمہیں ان سے گھن نہیں آتی۔“
شام منہ بنا کر جواب دیتا۔ “ بے حد “ اس کے انداز سے سخت نفرت کا اظہار ہوتا۔ “ نفرت تو آتی ہے اور جب وہ لڑکیوں کی طرح چونچلے کرتی ہیں تو جی چاہتا ہے کہ منہ پر تھپڑ دوں۔“ شام جوش میں آ کر تھپڑ چلاتا۔
“ ہوں ------ یہ “
“ ہے نا ۔ “ جی کے کہتا۔
“ بالکل “ شام جواب دیتا۔ “ میرا تو اور بھی جی چاہتا ہے۔“
“ کیا؟“
“ یہ تھپڑ دوں۔“ شام پھر بازو ہوا میں زور سے گھماتا۔ “ پھر دفعتاّ اپنی اس حرکت پر اس قدر ندامت محسوس کروں کہ اس کے قدموں میں گر جاؤں اور پھر وہ مجھے اٹھا کر گود میں اٹھا لے اور پھر لوری دے کر سلا دے۔ یار مجھے زندگی میں کبھی کسی نے لوری دے کر نہیں سلایا۔ ماتا جی تو بالپن میں ہی چھوڑ کر چلی گئیں تھیں۔
شام کا بات کرنے کا انداز کچھ ایسا تھا کہ اس کی بات پر نکتہ چینی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ وہ سچ کہہ دیتا تھا۔ حالانکہ سچ کی نوعیت اس قسم کی ہوتی تھی کہ اسے کہہ دینے میں بے حد جرات کی ضرورت ہوتی۔ ایلی بھی چاہتا تھا کہ وہ سچی بات کہہ دے لیکن اس میں کبھی جرات پیدا نہ ہوئی۔ وہ ڈرتا تھا کہ لوگ کیا سمجھیں گے۔ وہ ڈرتا تھا کہ لوگ اسے اخلاق سے گرا ہوا سمجھیں گے۔ لیکن شام جب بھی اس قسم کی بات کرتا تو اس طرح سے اسے ادا کرتا جیسے اس میں ڈرنے یا لوگوں کے دلوں میں نفرت احتجاج یا کچھ اور پیدا ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ایلی چاہتا تھا کہ وہ شام کر طرح باتیں کر سکے۔ سچی باتیں جن میں رنگینی اس قدر غالب ہوتی ہے کہ لوگوں کے دلوں میں کوئی اور ردعمل پیدا نہیں ہونے دیتیں۔ لیکن ایلی کی یہ خواہش خالی خواہش ہی رہی اور اس میں اتنی جرات نہ پیدا ہو سکی کہ اس پر عمل کر سکے۔
رائے
شام کے علاوہ اور لڑکے بھی تھے مثلاّ جان تھا۔ لیکن وہ تو گونگا تھا۔ بات سن کر ہنس دینے کے علاوہ اس نے کبھی کچھ نہیں کیا تھا۔ وہ ان سب میں بیٹھ جاتا بیٹھا رہتا۔ ان کی باتیں سنتا رہتا اور مسکراتا رہتا۔ اس نے کبھی اپنی رائے کا اظہار نہیں کیا تھا۔
پھر رائے تھا ایک جذباتی لڑکا۔ کئی ایک باتوں میں وہ جمال سے بہت ملتا جلتا تھا۔ مثلاّ اپنی محبتوں اور محبوبوں کی باتیں سنانے کے لیے اسے ایک رازداں کی ضرورت تھی۔ ضروری نہ تھا کہ رازداں قابلِ اعتماد ہو یا اچھا مشورہ دے سکے یا کچھ اور۔ جہاں تک رائے کا تعلق تھا رازداں کے چناؤ کی چنداں ضرورت نہ تھی۔ چونکہ اسے صرف ایک ایسے فرد کی ظرورت تھی جو اس کی باتیں سنتا رہے۔ ٹوکے نہیں، ایسا مشورہ نہ دے جو اسے قابل قبول نہ ہو۔ جب وہ حماقت کرنے پر تلا بیٹھا ہو تو عقل کی بات بتا کر اسے روکنے کی کوشش نہ کرئے بلکہ حماقتوں میں اسے شہہ دے۔ اس لڑکی کو جسے وہ حسین سمجھتا تھا عام لڑکی نہ سمجھے بلکہ اسے اہمیت دے اور اس میں وہ خوبیاں دیکھے جو بظاہر بالکل دکھائی نہیں دیتی ہوں۔ غرضیکہ اسے ایک سامع رازداں کی ضرورت تھی۔ اور اس رول کے لیے ایلی بے حد موزوں تھا۔ اس لیے رائے اسے اپنے تازہ ترین کارنامے سناتا رہتا تھا۔
ایلی نے کبھی غور سے رائے کی بات نہیں سنی تھی۔ اگرچہ وہ اس انداز سے سنتا تھا جیسے واقعی بڑے غور اور انہماک سے سن رہا ہو۔
بہرحال رائے کے قصے ایلی نے کبھی نہ سنے تھے۔ اس کے باوجود اسے ان کے متعلق چند ایک باتوں کا دھندلا احساس تھا مثلاّ رائے کی ایک محبوبہ گاؤں مین رہتی تھی اور وہ اسے ملنے کے لیے شدت سے بےقرار تھی۔ اور ہر پندرھویں روز اسے گاؤں بلا بھیجتی اور اگرچہ اس کے والدین کو اس کا رائے سے ملنا قطعی طور پر ناگوار تھا تاہم وہ رائے کے الفاظ سے اس قدر بولڈ تھی کہ اسے اپنے گھر ٹھہراتی اور پھر رات کے اندھیرے میں چپکے سے ملتی۔ اس پر بوڑھی ماں شدت غم سے پہلو بدلتی۔ باپ احتجاج کے طور پر بار بار کھانستا لیکن وہ بڑی بولڈ لڑکی تھی اور اس کی اس بولڈنس کی وجہ سے رائے کو اس سے والہانہ محبت تھی۔ رائے کی دوسری محبوبہ شہر میں رہتی تھی۔ مشن سکول میں استانی تھی اور اتنی قبول صورت اور اڈوانسڈ تھی کہ سبھی کرسچین نوجوان
جو گرد و نواح میں رہتے تھے اس پر ہزار جان سے عاشق تھے اسے راہ چلتے چھیڑتے تھے لیکن رائے کے سوا اسے کوئی پسند نہ تھا چونکہ اسے رائے سے محبت تھی۔
رائے کی اپنی تیسری محبوبہ لاہور ہی میں تھی۔ وہ بے حد معصوم اور خوبصورت تھی۔ اتنی معصوم تھی کہ ان دنوں ایک بدمعاش لڑکے نے اسے قابو کر رکھا تھا۔ اور وہ بیچاری ان جانے سیدھی راہ سے بھٹک گئی تھی بہر صورت رائے جانتا تھا کہ وہ دن دور نہیں جب وہ سمجھ جائے گی کہ وہ بدمعاش نوجوان محض اپنا مطلب پورا کر رہا ہے اور پھر وہ ایک نئے شوق اور تازہ عزم سے رائے کی طرف لوٹے گی اور ان کا رومان پھر سے تازہ ہو جائے گا۔ ان دنوں رائے کی سب سے بڑی خواہش یہ نہ تھی کہ گاؤں والی محبوبہ اسے بلائے یا شہر والی محبوبہ کو نوجوان تنگ کرنا چھوڑ دیں یا لاہور والی محبوبہ کی آنکھیں کھل جائیں۔
ان دنوں تو اس کی صرف یہ خواہش تھی کہ کالج کی ان چھ لڑکیوں میں سے کسی ایک کے ساتھ اس کا رومان چل پڑے اور اسے ہر ماہ دو بار اتنی دور گاؤں تک کا سفر نہ کرنا پڑے۔
اس سلسلے میں وہ اکثر ایلی سے مشورہ طلب کیا کرتا تھا۔
یار ایلی کوئی ایسی تجویز بتاؤ کہ اپنی بات بن جائے۔
اور اگر ایلی جواب دیتا۔ لو۔ اس میں کیا ہے جا کر کسی کا ہاتھ پکڑ لو۔
اور اس نے تھپڑ مار دیا تو۔
تھپڑ مار دیا تو سمجھو بات پکی ہو گئی۔ ایلی کہتا۔ ایکسپرٹس کا یہی فیصلہ ہے۔
کیسے؟
سیدھی بات ہے اگر ہاتھ چھوڑ دیا تو سمجھو بات ٹوٹ گئی۔ پکڑے رکھا تو تعلقات قائم ہو گئے اور اگر جرات کرکے اسی وقت آغوش میں لے لو تو ہمیشہ کے لیے اس کے دل میں دماغ پر مسلط ہو جاؤ گے۔
یہ تو ٹھیک ہے۔ رائے جواب دیتا۔ لیکن کبھی یار اکیلے میں کوئی ملے تو بات بنے۔ اسی کوشش میں لگا تھا کہ کبھی اکیلے میں کوئی مل جائے۔
ویسے ایلی کو کئی مرتبہ وہ اکیلے میں ملتی تھیں لیکن ایلی نے کبھی ہاتھ تھامنے کی کوشش نہ کی تھی۔ ہاتھ تھامنا چھوڑ کر۔۔۔۔اس وقت اسے نہ جانے کیا ہو جاتا تھا۔ دور سے کوئی اکیلی چلی آتی دکھائی دیتی تو ایلی کا دل دھک سے رہ جاتا جیسے لڑکی نہیں جگا ڈاکو آرہا ہو۔ اس کا جی چاہتا کہ کوئی لڑکا آجائے تاکہ اسے حوصلہ ہو۔ اس کا جی چاہتا کہ مڑ کر بھاگ لے۔ نہیں نہیں وہ سوچتا یہ ٹھیک نہیں ہے کیا کہے گی وہ۔ مجھے تو یوں ہی گزر جانا چاہیئے جیسے کوئی بات ہی نہ ہو۔ آخر بات کیا ہے ایک لڑکی گزر رہی ہے ناں اور کیا اور لڑکی بھی وہ جو مجھے قطعی پسند نہیں۔ پھر گبھراہٹ کیسی۔ وہ گردن اٹھا کر یوں چلنے لگتا جیسے کوئی بات ہی نہ ہو۔ لیکن جب وہ لڑکی کے قریب پہنچتا تو اس کی گردن جھک جاتی۔ نگاہیں کونے تلاش کرنے لگتیں اور دل بیٹھ جاتا پسینے چھوٹ جاتے۔
لیکن ایلی کی بات چھوڑیئے اسے تو ان چھ لڑکیوں میں چنداں دلچسپی نہ تھی اور ایسی لڑکیوں سے رومان کیسے قائم کیا جا سکتا ہے بھلا۔ جنہیں انسان جب جی چاہے جا کر مل سکے۔ ان حالات میں محبت کا پیدا ہونا ایلی کی دانست میں ناممکن تھا۔
ایلی کی دانست میں محبت کے لیے ضروری تھا کہ بندشیں ہوں قیود ہوں۔ پردے اور دیواریں حائل ہوں۔ برقعہ ہو گھونگھٹ ہو۔ نگاہ ترچھی۔ مسکراہٹ زیرلبی ہو۔ دور سے اشارے ہوں۔ ماتھے پر مکھی اڑانے کے بہانے سلام کیا جائے لو لیٹر لکھے جائیں۔ اور یہ کیا ہوا ہیلو مس بینا کہئے مزاج کیسے ہیں۔ لاحول ولا قوۃ۔
لڑکیوں کے بارے میں ایلی کو شام کا طرز عمل بے حد پسند تھا۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ کسی روز کسی لڑکی سے اکیلے میں ملے اور کہے جسٹ اے منٹ مس یہ تو بتائیے کہ بھلا آپ کو دیکھ کر دل میں کچھ کچھ کیوں ہونے لگتا ہے۔ گردن کیوں لٹک جاتی ہے۔ نگاہیں کونے کیوں تلاش کرتی ہے۔۔۔۔اور اگر وہ جواب میں تھپڑ مار دے تو اس کا ہاتھ پکڑنے کی بجائے جھٹ جیب سے ٹنکچر اور روئی نکالے اور کہے اب ایک تکلیف اور کیجئے ذرا چوٹ پر ٹنکچر لگا دیجئے مجھے جگہ دکھتی نہیں۔
اسفند
شام میں دلچسپی کی ایک وجہ اور بھی تھی دونوں کو اسفند یار سے بغض تھا۔ اسفند نہایت خلیق محبتی ملنسار اور ذہین لڑکا تھا۔ وہ کسی مڈل سکول کا ہیڈ ماسٹر تھا اور ریفریشر کورس کے لئے بی ٹی کلاس میں داخل ہوا تھا۔ وہ راہ چلتے لڑکے کو روک لیتا۔ کہاں جا رہے ہو بھئی کہئے وقت کیسے گزرتا ہے۔ اور اس کے قریب تر ہو جاتا اور قریب حتٰی کہ آپ محسوس کرتے کہ ابھی وہ آپ سے بغل گیر ہو کر آپ کا منہ چوم لے گا۔ اور اس طرح ہمیشہ کے لئے آپ کا دوست بن جائے گا۔
وہ السلام علیکم کہ کر جی کے کے کمرے میں آپہنچتا۔ بھائی تم ملتے ہی نہیں کئی مرتبہ آچکا ہوں نہ جانے کہاں گم رہتے ہو تم دونوں۔ یار وہ ایک مشکل آن پڑی تھی۔ میں نے کہا کسی حسابی سے جا کر پوچھ لوں اپنے کو تو حساب سے کوئی دلچسپی نہیں۔ یہاں اے بی کورس والے صرف تم ہو نا۔
شام کی ڈار میٹری میں جا کر وہ شام سے پوچھتا۔ بھئی وہ ٹیچنگ آف کمسٹری نہیں ملتی۔ کوئی اتہ پتہ یار بتاؤ کچھ ہم بھی پڑھ لیں پڑھنے کو جی نہیں چاہتا۔ ایک زمانے کے بعد پھر پڑھنے کے چکر میں پڑ پڑھ گئے اب تو عادت بنتے بنتے بنے گی۔
اسفند ہر ایک سے ملتا تھا۔ بڑے پیار سے ملتا تھا۔ پیار کا اظہار کرتا تھا۔ اپنی ذہنی کم مائیگی کا اظہار بھی کرتا تھا محبت بھری نظریں بھی ڈالتا۔ قریب تر ہو کر اپنا بازو آپ کے شانے پر رکھ دیتا یا آپ کا بازو اپنی بغل میں ڈال لیتا۔ اس کے باوجود نہ جانے کس اصول کے تحت اسے لوگ بور سمجھتے تھے بور کا لفظ تو خیر اس زمانے میں رائج نہ تھا لیکن لڑکے اس سے کنی کتراتے تھے۔ اس کی مٹھاس کثیف سی محسوس ہوتی اس کا قرب کھلتا ایسے محسوس ہوتا جیسے ایک نرم نرم لیس دار چیز آپ سے چمٹی جا رہی ہو۔
نہ جانے قدرت کے کس قانون کے تحت اسفند کے آتے ہی دفعتا یاد آیا کہ آپ کو ضروری کام سے کہیں جانا ہے۔ اسے دیکھ کر آپ اپنا پروگرام بدل دیتے کسی اور سمت کی طرف جانے کا فیصلہ کر لیتے۔
شاید اس کی وجہ لڑکیاں ہوں؟
اسفند سب سے بڑا کوٹ بردار تھا۔ وہ ہروقت لڑکیوں کے جھرمٹ میں رہتا ہر وقت ان کا طواف کرتا۔ چاہے وہ واضح طور پر اس امر کا اظہار کرتیں۔ موڈ آف ہے آپ جایئے۔ چاہے ان کا ساتھ منہ موڑ لیتا یا پوچھ لیتا۔ کیوں اسفند صاحب آپ لائبریری کو جارہے ہیں نا۔ لیکن اسفند اپنی جگہ سے نہ ہلتا اور ہزار طنز کے باوجود اس کے ہونٹوں پر وہ لیسدار مسکراہٹ چپکی رہتی۔ اس کی طبعی مٹھاس جوں کی توں قائم رہتی اخلاق بدستور خوش گوار رہتا اس کی باتیں جاری اور ساری رہتیں حالانکہ باقی لوگ وضاحت سے اس امر کا اظہار کر چکے ہوتے کہ محفل میں گنجائش نہیں لیکن اسفند کا رویہ یہ ظاہر کرتا کہ وہ اپنے پیارے دوستوں کو چھوڑ کر نہیں جا سکتا وہ بے وفا نہیں۔ چاہے اس کا اپنا حرج ہی کیوں نہ وہ آداب محفل کو نظر انداز کرنے کو تیار نہیں۔
اگر کوئی لڑکا لڑکیوں کو آئس کریم کھانے کی دعوت دیتا تو اکثر وہ ساتھ یہ بھی کہہ دیتا کہ اسفند تو آئس کریم کھاتا ہی نہیں۔
مگر اسفند فورا بولتا کھاتا تو نہیں لیکن تمہارے جیسا پیارا دوست کہے تو انکار نہیں کروں گا۔
دعوت سے زبردستی چمٹے رہنے کی خصوصیت چھوڑیئے اس سلسلے میں تو اسفند اس حد تک فراغ دل تھا کہ خود لوگوں کو دعوت دیتا۔ ٹک شاپ میں میزبان بن کر سب کو کھلاتا اور پھر چپکے سے ٹک شاپ والے سے کہہ دیتا۔
میاں یہ بل شام یا موہن ادا کرے گا۔ ویسے کسی دوسرے کی دعوت میں بھی اسفند کا رویہ کچھ ایسا ہوتا اور وہ انہماک اور شوق سے لوگوں کو کھلاتا تاکہ ہر کسی کے دل میں احساس پیدا ہو جائے کہ دعوت اسفند کی طرف سے تھی۔
ان ہی باتوں کی وجہ سے لوگ اسفند سے گھبراتے تھے لیکن ان باتوں کی وجہ سے تو صرف ان لڑکوں کو گھبرانا چاہیئے تھا جو لڑکیوں کے حلقے میں رہتے تھے۔ وہ لڑکے جنہیں لڑکیوں کے حلقے سے دور کا تعلق بھی نہ تھا انہیں گھبرانے کی کیا ضرورت تھی۔ لیکن اسفند کے متعلق ان کے جذبات بھی اسی قسم کے تھے اور یہ وبا اس قدر عام ہو چکی تھی کہ ایک روز ہنگامہ ہوگیا۔ ہوسٹل کے صدر دروازے سے باہر برگد کے درخت کے نیچے وسیع میدان میں شور شرابے کی آوازیں سنی گئیں۔ تمام لڑکے بورڈنگ سے باہر نکل آئے ادھر کالج سے بھی لڑکے آ موجود ہوئے برگد کے نیچے دو لڑکے آپس میں لڑ رہے تھے۔ لڑائی نے ہاتھا پائی کی صورت اختیار نہ کی تھی۔ دونوں بڑے غصے سے چیخ رہے تھے۔
ابے جا بے تیری حیثیت کیا ہے کل کا لونڈا ہے۔ تو ہمارا کیا مقابلہ کرے گا۔ میں وہ کمینہ ہوں، وہ کمینہ ہوں کہ۔۔۔۔
ابے ہٹ بے بڑا آیا ہے کہیں سے۔ میرے روبرو تیری دال نہیں گل سکتی۔ تو میری کمینگی سے واقف نہیں شکل و صورت تو دیکھ اپنی بھگوان کی سوگند جیسے چھپکلی ہو۔
ابے جا۔ ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ۔
اس طرح دیر تک وہ چلاتے رہے۔
بات کیا ہے بات کیا ہے۔ لڑکوں نے چاروں طرف شور مچا دیا۔
بورڈنگ اور کالج میں ایک ہنگامہ ہوگیا۔ لڑکے بھاگے بھاگے آ پہنچے۔
چاروں طرف خبر مشہور ہو گئی کہ برگد تلے جھگڑا ہو رہا ہے۔ ایک لڑکا کہتا ہے میں کمینہ ہوں دوسرا کہتا ہے کہ تیری کیا حیثیت ہے اپنے سامنے۔ میں بہت بڑا کمینہ ہوں۔ عجیب جھگڑا تھا۔ لٰہذا سب برگد کے درخت کی طرف بھاگے حتٰی کہ پروفیسر اور چھ لڑکیاں بھی آ پہنچیں۔
دونوں لڑکے بڑی شدت سے چلا رہے تھے منہ سے کف جاری تھا آستینیں ٹنگی ہوئی تھیں جیسے ابھی ہاتھا پائی کی نوبت آجائے گی۔
میں کہتا ہوں میں کمینہ ہوں میں۔ ایک چیخ رہا تھا۔
ابے جا۔ دوسرا کہ رہا تھا۔ تو کیا ہے تیری اوقات کیا ہے۔
جب سے لڑکوں نے جھگڑے کا انداز دیکھا تو چاروں طرف سناٹا چھا گیا۔ لڑکے فورا تاڑ گئے کہ یہ جھگڑا نہیں کچھ اور ہے نہ جانے مداری کے پٹارے سے کیسا سانپ نکلے گا۔
دیر تک چخ چخ جاری رہی۔ حتٰی کہ سب لڑکیاں آپہنچیں پروفیسر بھگت سنگھ بھی آگئے۔ لالہ جی تو دور سے تماشہ دیکھتے رہے لیکن پروفیسر بھگت سنگھ بڑے سادہ لوح اور مخلص تھے وہ گھبرا گئے انہوں نے بچاؤ کرانے کی کوششیں کیں۔
عین اسی وقت دونوں لڑکوں نے جھگڑے کا نقطہ عروج پیدا کر دیا۔
ایک بولا۔ ابے کمینگی میں میں تیرا باپ ہوں۔
بے جا۔ دوسرا چلایا۔ گلیکسو بےبی تو دیکھو۔ جمعہ جمعہ آٹھ دن کی پیدائش ہے اور آیا ہے ہم سے مقابلہ کرنے ابے میں تیرے باپ کا باپ ہوں وہ کمینہ ہوں میں۔
میں خالی کمینہ نہیں ذلیل بھی ہوں۔
کس قدر ذلیل ہو تم۔ دوسرے نے غصے سے پوچھا۔ میں۔ پہلا بولا۔ میں پروفیسر بھگت سنگھ کا جوٹھا کھا سکتا ہوں۔
ابے بس۔ دوسرا چلایا۔ ابے میں کتےکا جھوٹا کھا سکتا ہوں۔
پہلا بولا۔ میں اسفند کا جوٹھا کھا سکتا ہوں۔
دوسرا خاموش ہوگیا۔ بھئی میں اسفند کا جوٹھا نہیں کھا سکتا۔ میں ہار گیا ہار گیا۔
چاروں طرف قہقہوں کا شور اٹھا۔
دو لڑکوں نے بڑھ کر پہلے لڑکے کو شانوں پر اٹھا لیا۔ اور اسے لے بھاگے جیت گیا!!!! جیت گیا!!! جیت گیا!!! وہ چلا رہے تھے اس سے بڑی ذلت نہیں ہو سکتی زندہ باد شام زندہ باد شام۔
ارے۔ ایلی حیرت سے چلایا۔ یہ تو شام ہے۔
ادھر اسفند کھڑا مسکرا رہا تھا جیسے کوئی بات ہی نہ ہو جیسے شام نے اس کا نام ہی نہ لیا ہو۔ اور لیا بھی ہو تو محض مذاق اور تفریح کے طور پر لیا ہو۔
لیکن بھگت سنگھ چلاتے جا رہے تھے۔ نالائقوں نے میرا نام خوامخواہ لے دیا ارے میں تو گرو کا پیارا ہوں۔ مجھے کیوں گھسیٹتے ہو اپنے جھگڑوں میں۔
پھر شام چپکے سے ایلی کے کان میں کہہ رہا تھا۔ وہ پچھاڑا ہے آج کہ سالا کبھی اٹھ نہ سکے گا۔ اور اسفند یوں دیکھ رہا تھا جیسے پوچھ رہا ہو۔ کسے بھائی؟۔
اس روز رات کو بورڈنگ میں بہت ہنگامہ ہوا۔ ہر ڈار میٹری میں لڑکے اس ڈرامے کو دہرا رہے تھے جو اس شام برگد کے درخت تلے شام نے کھیلا تھا۔ میں کمینہ ہوں۔ ایک ڈار میٹری سے آواز آتی۔ ابے تیری کیا ہمت ہے جو ہمارے ہوتے ہوئے یہ دعوٰی کرے۔ دوسری ڈار میٹری سے کوئی چلاتا۔ ابے جا بے۔ تیسری ڈار میٹری سے شور بلند ہوتا۔ اوپر چوبارے میں کھڑے لالہ جی مسکرا رہے تھے۔ میں کہتاہوں بھئی۔ وہ کہہ رہے تھے۔ اس بات کا تو فیصلہ شام کو ہو چکا اب کوئی اور دعوےٰ کرو۔
ڈائیننگ ہال میں کومن روم میں لان میں ہر جگہ لڑکے باتیں کر رہے تھے۔
یار شام نے وہ مار دی ہے وہ مار دی ہے اسفند کو کہ چاروں شانے چت گریا ہے۔
ارے لڑکیوں کو دیکھا تھا مارے ہنسی کے پیٹ میں بل پڑ رہے تھے۔
اب اسفند کا لڑکیوں پر جادو نہیں چلے گا۔
اونہوں۔ اندر شام کہہ رہا تھا۔ یار اپنی ساری محنت بیکار گئی۔ اسفند پر تو کوئی اثر ہی نہ ہوا مجھے سے پوچھ رہا تھا یار یہ گڑ بڑ کس بات پر تھی اپنی سمجھ میں نہیں آیا کچھ۔ اب بتاؤ ایسے آدمی سے کوئی کیا کرے۔
ارے نہیں یار بنتا ہے۔ ایک نے جواب دیا۔
ہاں اندر سے تو چکنا چور ہو گیا ہے۔
نہ چکنا چور نہیں ۔“ دوسرا بولا۔بھئی وہ تو مٹی کا پہلوان ہے ادھر گرایا اُدھر اُٹھ کر کھڑا ہو گیا۔
بھگوان جانے ٹھیک کہتے ہو۔شام ہنسنے لگا۔مٹی کے پہلوان کو کون گرا سکتا ہے۔چلو آج سے ہم نے اُسے بخش دیا۔معاف کردیا۔
شام کے اس اعلان پر ہوسٹل کے سب لڑکے تلملا اُٹھے۔چاروں طرف شور مچ گیا۔
ارے یار سُنا تم نے اتنی بڑی فتح حاصل کرنے کے بعد شام اسفند سے ہار گیا۔
نہیں یار اسفند نہیں ہار سکتا۔
جاکر پوچھ لو۔“
لڑکے شام کے پاس آئے لڑکوں کو اس کا بہت غم تھا اسفند کو پچھاڑنے کے لئے شام اُن کا واحد پہلوان تھا۔اگر اُس نے بھی میدان چھوڑ دیا تو ہوگا کیا۔یہ خیال اُن کے لئے سوہانِ روح ہو رہا تھا۔سبھی چاہتے تھے کہ اسفند کے ساتھ جنگ جاری رہے اگرچہ کسی کو بھی علم نہ تھا کہ وہ اسفند کے خلاف کیوں تھے۔اسفند نے کبھی کسی لڑکے کو شکایت کا موقع نہیں دیا تھا اُس کے باوجود اسفند ایک ایسا پلپلا کیڑا تھا کہ ہر لڑکے کا جی چاہتا تھا کہ پاؤں سے مسل دے۔
جی ۔کے کی ناک پر ڈھیر لگے ہوئے تھے ۔لہٰذا وہ چلّا رہا تھا ۔یہ سب کیا ہے کیا ہے یہ دکھلاوا اور کیا۔مقصد یہ ہے کہ لڑکیوں پر اثر ڈالا جائے۔
ایلی خاموش بیٹھا اُس کی طرف دیکھ رہا تھا۔
خالی۔“ ایگزیبیشن خالی کیوں غلط ہے۔“ اس نے ایلی کو مخاطب کرکے پوچھا۔
ٹھیک ہے۔“ ایلی نے جواب دیا۔
بڑا بدمعاش ہے یہ شام۔لڑکیوں کے دل میں اپنی جگہ بنا رہا ہے۔
عین اس وقت گاما نوکر داخل ہوا۔
کیوں گامے کیا بات ہے۔“ جی۔ کے نے پوچھا۔
اندر مہاراج۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
جی ۔ جی۔“ وہ۔“ گاما بولا۔شام بابو نے حلوہ بھیجا ہے کہتے ہیں گاؤں سے آیا ہے۔
حلوہ دکھاؤ نا۔ارے یہ تو گاجر کا ہے۔جی۔ کے پلیٹ کو دیکھ کر چلاّیا حلوے کو دیکھ کر اُس کی ناک سُکڑ کر اپنی جگہ آ گئی۔اچھا۔“ وہ بولا۔“ شام بابو سے کہو ہم نے تمہاری سب خطائیں معاف کردیں۔“
کیا کردیں۔“ گاما پوچھنے لگا۔
لڑکیوں کو خوش کرنے کے لئے جو تماشا کھیلا ہے ۔شام نے۔“ جی۔ کے نے وضاحت کی۔
اجی جو تماشا پچھلے سال ہوا تھا اُس کا تو جواب نہیں۔“
ہائیں۔“ جی۔ کے نے حیرت سے گامے کی طرف دیکھا۔
اونہوں ۔“ گاما مسکرا کر بولا۔جی یہ تو کچھ بھی نہیں۔جی پچھلے سال ایک بابو تھے ایس بی میں انہوں نے تو حد کردی تھی۔سات کی سات لڑکیوں کو ساتھ لئے پھرتے تھے بس سمجھ لو اندر مہاراج تھے وہ اپنے وقت کے ------------------
ساتھ لئے پھرتے تھے سات کی سات ۔“ ایلی نے حیرت سے دہرایا۔
جی۔“ گاما بولا ۔ کالج والوں نے دھمکیاں دیں لالہ جی نے کہا نکال دیں گے بورڈنگ سے پرنسپل نے لکھ کر بھیج دیا کہ کالج سے نام کاٹ دو پر اُس پٹھے نے جرا پرواہ نہ کی۔اور خدا جھوٹ نہ بلوائے بابو جی۔ہر روج رات کے وقت وہ یہاں آ جاتی تھیں۔سب لڑکیاں بورڈنگ کے باہر والے لان میں اور بابو جی دیوار پھلانگ کر باہر نکل جاتے تھے لان میں۔پھر وہ آدھی آدھی رات تک وہاں گھومتے رہتے تھے۔سب کو معلوم ہوتا تھا کہ وہ کالج کے لان میں گھوم رہے ہیں لالہ جی کو بھی پتہ ہوتا پھر جب وہ دیوار پھلانگ کر واپس آتے تو لالہ جی پوچھتے چوٹ تو نہیں لگی اور وہ ہنس کر جواب دیتے لالہ جی میری الماری میں ٹینچر رکھی ہوئی ہے۔لگالوں گا تو ٹھیک ہو جائے گی یہ حالت تھی ۔گاما ہنسنے لگا۔
گاما باتیں کر رہا تھا تو ام کے داخل ہوا ۔
ارے تم۔“ جی۔ کے چلایا۔تم کہاں۔ اور تم بورڈنگ کے اندر کیسے آ گئے۔؟؟؟؟؟
ام کے ہنسنے لگا۔دیکھ لو۔ وہ بولا پھر گامے کو دیکھ کر اس سے مخاطب ہوا۔
کیوں بھئی گامے کیا حال چال ہے۔“
گامے کی آنکھوں میں عجیب سا تبسّم جھلک رہا تھا۔اچھا ہوں بابو جی بڑی مہربانی ہے۔اور بابو جی بڑی عمر ہے آپ کی ابھی آپ ہی کی بات کر رہا تھا۔“
آپ ہی کی بات۔“ جی ۔کے نے حیرت سے گامے کی طرف دیکھا۔
جی ہاں۔گاما بولا۔ تم وہ رستم زمان ہو۔
دیکھ لو۔ ام کے ہنسنے لگا۔
بلکل بکواس جھوٹ۔“ جی۔کے بولا۔تمہیں تو بات کرنے کا ڈھنگ نہیں آتا تھا۔“
اب بھی نہیں آتا۔“ وہ بولا۔
تو پھر۔“
صرف بانہہ پکڑنے کا ڈھنگ آتا ہے۔ام کے ہنسنے لگا۔
اکٹھی سات بانہیں۔“ ایلی نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔
نہیں۔“ ام کے بولا۔ میں تو ایک ہی پکڑتا تھا باقی چھ میری بانہہ پکڑتی تھیں۔اور قہقہہ مار کر ہنسنے لگا۔
اچھا تو یہ آپ کے بھی دوست ہیں۔“ لالہ جی کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولے اور پھر ام کے سے مخاطب ہو کر کہنے لگے ۔کہو بھئی آج کل کہاں ہو۔کیا ابھی قصور ہی میں ہو۔“
جی ہاں۔“ اس نے جواب دیا۔لیکن وہ مجھے سسپنڈ کرنے والے ہیں۔
کیوں وہاں بھی کیا لڑکیوں کا قصّہ ہے۔لالہ جی ہنسے۔“
نہیں لالہ جی۔“
تو پھر کیوں۔“
ویسے ہی جلتے ہیں۔“ ام کے ہنسنے لگا۔شہر میں تو ہوں گی نا لڑکیاں۔“ جی۔ کے نے لالہ جی سے کہا۔
شہر میں تو وہ وہ چیز ہے کہ لالہ جی کیا بتاؤں،طوفان بپا ہے۔
کیا رات یہیں رہنے کا ارادہ ہے۔“ لالہ جی نے پوچھا۔
نہیں لالہ جی۔“ ام کے بولا۔البتہ جی چاہتا ہے کہ پھر سے کالج میں داخل ہو جاؤں۔“
تو ہو جاؤ۔“ لالہ جی بولے۔
کر لیں گے آپ۔“ ام کے ہنسنے لگا۔
لالہ جی کے جانے کے بعد کچھ دیر وہ باتیں کرتے رہے پھر ام کے تیار ہوگیا۔
اچھا یار میں چلتا ہوں۔مجھے ایک ضروری کام ہے پھر آؤں گا۔اب تو آتا ہی رہوں گا۔“
پھر ایلی سے مخاطب ہو کر کہنے لگا۔“ چلو یار ذرا کچھ دیر میرے ساتھ چلو پھر واپس آ جانا۔“
زنانہ ہوسٹل۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
دیر تک ایم کے اور ایلی لاہور کی ویران سڑکوں پر چلتے رہے ۔ایک دو مرتبہ ایلی نے کہا مجھے اب جانے دو یار۔لیکن ام کے نے بس تھوڑی دیر اور کہہ کر اسے مطمئن کردیا۔پھر وہ لڑکیوں کی باتوں میں مصروف ہوگئے ۔اور ایلی کو خیال ہی نہ رہا کہ اُسے واپس جانا ہے اور نامانوس علاقے میں وہ اتنی دور نکل آیا ہے کہ واپس بورڈنگ میں پہنچنا مشکل ہوجائے گا۔ام کے اسے ٹریننگ کالج میں لڑکیوں سے متعلق کارنامے سنا رہا تھا۔
ایک وسیع کوٹھی کے سامنے ام کے رک گیا ۔کوٹھی کے چاروں طرف قد آدم دیوار بنی ہوئی تھی۔اور سڑک کی جانب ایک بہت بڑا دروازہ تھا۔
ایک بات مانو گے۔“ اُس نے ایلی سے کہا۔اگر تم صرف 15 منٹ یہاں میرا انتظار کرو تو میں اپنے دوست سے مل کر واپس آ جاؤں گا پھر ہم اکھٹے واپس جائیں گے تم بورڈنگ چلے جانا اور میں بھاٹی دروازے چلا جاؤں گا۔
اس وقت آدھی رات ہوچکی تھی ایلی اس ویران جگہ انتظار کرنے کے لئے تیار نہ تھا لیکن اُسے واپسی کے راستے کا بھی تو علم نہ تھا۔اس لئے مجبوری میں اُس نے ام کے کی بات مان لی۔اور بڑے دروازے کے قریب ایک پتھر پر بیٹھ گیا۔
دیر تک ایلی وہاں بیٹھا رہا پھر وہ گھبرا کر ٹہلنے لگا۔ام کے کو گئے تقریباً آدھ گھنٹہ ہوچکا تھا۔دور کسی گھڑی نے ساڑھے بارہ بجائے ۔اُسے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے ٹہلتے ٹہلتے تھک کر وہ بیٹھ گیا۔
دفعتاً مکان کے اندر شور اُٹھا ۔لوگ دوڑ رہے تھے۔کون ہے ؟ کیا ہے ؟
دو ایک عورتیں چیخ رہی تھیں ۔ایلی وہ آوازیں سُن کر چونکا۔پھر اُس نے سمجھا شائد کوئی بات ہو، ہوگی کوئی بات۔پھر قریب ہی لوگ چل پھر رہے تھے ٹھک ٹک ٹک جیسے کوئی اونچی ایڑیاں فرش پر مار رہا ہو۔
پھر دھڑام سے صدر دروازہ کُھل گیا۔کچھ لوگ لالٹین اُٹھائے باہر نکل آئے۔ایلی بیٹھے بیٹھے چپ چاپ اُن کی طرف دیکھ رہا تھا۔نہ جانے کون ہیں یہ لوگ۔وہ سوچ رہا تھا۔
ایک نوجوان ہاتھ میں لٹھ سنبھالے دوسرے میں لالٹین پکڑے اُس کے قریب آ گیا اُس کے پیچھے دو مرد تھے اور ایک ادھیڑ عمر کی میم تھی ۔
کون ہو تم۔“ اُس نے درشت لہجے میں پوچھا۔
میں ہوں۔“ ایلی نے جواب دیا۔
یہاں کیوں بیٹھے ہو۔“
تھک گیا تھا بیٹھ گیا۔“ ایلی نے بے پروائی سے کہا۔
اس پر میم آگے بڑھی اور انگریزی میں پوچھنے لگی۔
زنانہ بورڈنگ ہاؤس کے سامنے بیٹھنے کا مطلب۔“
زنانہ بورڈنگ ہاؤس ۔“ ایلی نے حیرت سے اُس کی طرف دیکھا ۔مجھے یہ معلوم نہ تھا۔ایلی اُٹھ بیٹھا۔آئی ۔ایم ۔سوری۔“
لیکن تم ہو کون۔“ وہ بولی۔
زنانہ بورڈنگ کا نام سُن کر ایلی کو خیال آیا کہ ضرور ام کے نے کوئی شرارت کی ہوگی۔اس خیال پر وہ محتاط ہوگیا۔دیکھیئے محترمہ۔“ وہ بولا۔ میں راہ گیر ہوں بھاٹی دروازے جانا ہے تھک گیا۔تو ذرا سستانے بیٹھ گیا مجھے علم نہ تھا کہ یہ زنانہ بورڈنگ ہاؤس ہے۔
کیا کرتے ہو۔“ وہ بولی۔
پردیسی ہوں۔کام سے لاہور آیا ہوں۔“
ہوں۔“ وہ غور سے ایلی کی طرف دیکھنے لگی ---------- پھر اُس کا رویہ بدل گیا۔ بولی۔تم نے ادھر سے کوئی آدمی گزرتے دیکھا ہوئے نہیں دیکھا ہے کیا۔“
نہیں تو۔“ وہ بولا۔ کیوں کیا بات ہے۔“
یہاں چوری کی وارداتیں ہو رہی ہیں آج کل۔“ وہ بولی۔
اچھا۔“ ایلی نے کہا۔“ تو مجھے چلے جانا چاہیئے یہاں سے۔“
ٹھہرو۔“ لالٹین والا جوان چلاّیا۔
نہیں نہیں جانے دو شریف آدمی ہے۔“ میم نے کہا۔اور ایلی چپ چاپ چلتا رہا۔
ابھی چند ہی قدم چلا ہوگا کہ اندھیرے سے ایک سایہ اُس کی طرف لپکا۔وہ گھبرا کر رکا۔
ڈر گئے کیا۔“ ام کے کی آواز آئی۔
ارے تم ہو۔“
ہاں میں ہوں۔“
کسی سہیلی سے ملنے آئے تھے کیا۔“
ارے یار۔“ وہ بولا۔مصیبت یہ ہوئی کہ دیوار پھلانگتے ہوئے کسی چوکیدار نے دیکھ لیا۔“
تو کیا دیوار پھلانگ کر اندر گئے تھے۔“
اور تو کیا صدر دروازے سے جاتا۔بیٹا زنانہ بورڈنگ ہے اندر جانے دیتا ہے کوئی۔“
کسی روز مار کر بھرکس نکال دیں گے تمہارا۔“ ایلی نے کہا۔
یار کیا کروں۔“ ام کے ہنسنے لگا۔اس ظالم سے ملے بغیر رہا بھی نہیں جاتا۔جانِ من ان لڑکیوں کے دل میں عزت اور محبت پیدا کرنی ہو تو دلیری دکھانی پڑتی ہے سیکھ لو گُر یہ ہم سے۔“
ایلی کے روبرو سادی آ کھڑی ہوئی ۔ نہ “ وہ بولی۔ یوں نہیں ملے گا ڈوپٹہ لینا ہے تو خود آکر سر سے اُتار کر لے جاؤ ۔پھر مانوں گی آپ کی ہمت۔
پھر ایک سبز رنگ کی گھٹڑی لڑھک کر اس کے پاؤں میں آ گری اور سادی مسکرا کر کہنے لگی۔گھونگٹ کے پٹ کھول رہے تو ملیں گے رام۔“
نہ جانے ام کے کیا کہہ رہا تھا۔ غالباً وہ زنانے بورڈنگ میں داخل ہونے کا قصّہ یا تفصیل سُنا رہا تھا۔وہ اسے بتا رہا تھا کہ اس کی سہیلی کس قدر حسین ہے اور کتنی رنگین۔لیکن ایلی کے روبرو ایک اور حسین رنگین تصویر کھڑی تھی۔وہ اُس سے باتیں کر رہی تھی۔“ میں یہاں ہوں اس نگری میں ۔اگر ہمت ہے تو یہاں آ جاؤ ۔ آ جاؤ نا۔ آ بھی جاؤ آ جاؤ گے تو سب کچھ مل جائے گا ۔سب کچھ لیکن تم کیوں آنے لگے ۔نہ جانے تمہیں کس کی لگن لگی ہے تمہارے لئے تو میں محض تفریح تھی۔“
دوسری طرف شہزاد کھڑی اُس کی طرف حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔
چلو تفریح ہی سہی ۔“ وہ آہ بھر کر کہہ رہی تھی ۔“ تمہارے لئے باعثِ تفریح ہوں نا۔یہ بھی میری خوش قسمتی ہے اور میں تمہیں دے ہی کیا سکتی ہوں۔میرے پاس ہے ہی کیا جو دوں۔“
اگلے روز سارا دن ایلی اسی خیال میں کھویا رہا اُسے بار بار زنانہ بورڈنگ کا خیال آتا اور پھر اس کی نگاہوں تلے سادی کی سفید منزل آ جاتی اور وہ اُس کے پیچھے بھاگتا اور دو بہنیں چیختیں ۔“ آ گئے !! آ گئے !! ----------- ۔“ سارا دن وہ اسی خیال میں کھویا رہا شام کے وقت چپ چاپ کالج کے لان کے ایک اندھیرے کونے میں جا بیٹھا اس کا جی نہیں چاہتا تھا کہ کسی سے ملے یا جی کے کے پاس بیٹھے۔
زرد دوپٹہ۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
لان میں بیٹھے بیٹھے دفعتاً اسے احساس ہوا کہ قریب ہی کوئی ٹھنڈی آہ بھر رہا ہے وہ چونکا سامنے پیڑ کے پیچھے کوئی بیٹھا تھا۔شائد کوئی لڑکی ہو۔وہ گھبرا گیا۔لیکن اس نے اُٹھ کر جانا مناسب نہ سمجھا۔پھر کچھ دیر کے بعد پودے کے پیچھے کسی نے ماچس جلا کر سگرٹ سلگایا۔ارے شام کو پہچان کر وہ چلاّیا۔
تم ہو شام ۔“ وہ بولا شام اُسے دیکھ کر گھبرا گیا۔
شام آہیں کیوں بھر رہے تھے ؟“ ایلی نے پوچھا۔
اب عمر بھر آہیں ہی بھروں گا اور کیا۔“
لیکن کیوں۔“
یار کیا بتاؤں ۔“ شام بولا۔مسخروں نے میری منگنی ایک ایسی لڑکی کے ساتھ کر دی ہے جو زرد دوپٹہ اوڑھتی ہے۔“
تو کیا ہوا۔“؟
اپنی تو زندگی ہی تباہ ہو گئی۔“
کیوں۔؟ کیا وہ خوبصورت نہیں۔؟
جو سر پر زرد دوپٹہ اوڑھ سکتی ہو وہ کیا خوبصورت ہو سکتی ہے۔تمہیں نہیں معلوم الیاس۔“ شام دفعتاً سنجیدہ ہوگیا۔میں ایسی لڑکی سے محبت نہیں کر سکتا جو زرد دوپٹہ اوڑھتی ہو۔“ وہ بے حد سنجیدہ تھا۔شام اور یوں سنجیدہ ہو یہ بات ایلی کے لئے حیران کُن تھی۔
لیکن تمہاری منگنی کب ہوئی؟“ ایلی نے پوچھا۔
آج۔ابھی ابھی وہاں سے آ رہا ہوں۔چلو یار چلیں۔کہیں چلیں کسی ایسی جگہ جہاں جا کر کھو جائیں سب بھول جائیں۔“
ایلی چپ چاپ اس کے ساتھ ہو لیا۔کچھ دیر تو وہ خاموشی سے چلتے رہے پھر شام سے ضبط نہ ہو سکا اور وہ باتیں کرنے لگا۔دراصل وہ اپنی دل کی بھڑاس نکالنا چاہتا تھا وہ چاہتا تھا کہ سب کچھ کہہ دے سب کچھ اور اپنے دل کو ہلکا کرلے۔اس کے اندازِ بیان میں دکھ تھا اس کے تبسم میں بلا کی طنز تھی۔
مجھے کسی سے محبت کرنی پڑے گی۔ہاں۔ابھی فوراً ورنہ زندگی کیسے کٹے گی۔لیکن مجھ سے محبت کرنے والا کوئی بھی تو نہیں ماتا جی بچپنے میں چلی گئیں ۔کوئی بڑی بہن ہوتی تو شائد بات بن جاتی میری کوئی بہن نہیں اور پِتا جی -------- لیکن کبھی پِتا نے بھی محبت کی ہے۔اونہوں۔آج تک مجھ سے کسی نے محبت نہیں کی اور اب انہوں نے میرا ناطہ ایسی لڑکی سے جوڑ دیا ہے جو زرد دوپٹہ اوڑھتی ہے۔مجھ سے زیادہ دکھی کون ہوگا۔“وہ باتیں کئے گیا اور ایلی چپ چاپ سنتا رہا۔
ارے۔“ انہوں نے تعجب سے اس گلی کی طرف دیکھا جس کی طرف لوگ بھاگے جا رہے تھے ان کے گلے میں ہار تھے۔ہونٹوں پر تبسم اور انداز میں عجب جوش و خروش تھا۔
یہاں کیا شادی ہے؟“ شام نے پوچھا۔
معلوم نہیں۔“ ایلی نے جواب دیا۔
مسلمانوں کی معلوم ہوتی ہے۔“
شائد۔“
مائی اور بیٹا۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
چلو یار چلیں ہم بھی شادی میں شریک ہوجائیں۔دیکھیں تو بن بلائے مہمان بننے میں کیا مزا ہے۔“گلی میں داخل ہوتے ہی شام نے حیرت سے چیخ سی ماری۔ارے“ وہ بولا۔یہ تو چکلا ہے۔سب بیسوائیں بیٹھی ہیں۔“ پہلی مرتبہ شام کی ہنسی میں دکھ کا عنصر نہ تھا۔“ آؤ یار آؤ۔“ وہ بچوں کی طرح چلایا۔دیکھیں تو یہ نظارہ بھی تو شادی سے کم نہیں۔“
گلی میں جگہ جگہ کھلے دروازوں اور کھڑکیوں میں بیسوائیں بیٹھی تھیں۔ہر بیسوا کے سامنے لوگ کھڑے اس کی طرف گرسنہ نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔کچھ ویسے ہی گھور رہے تھے۔کچھ انہیں چھیڑ رہے تھے۔
پہلے ہی کھلے دروازے پر شام رک گیا۔کچھ دیر تو وہ اُسے جانچتا رہا پھروہ بھول گیا کہ کہاں کھڑا ہے اور اس کی منگیتر کس رنگ کا دوپٹہ پہنتی ہے اور وہ کالج کا طالب علم ہے ۔وہ ایسے خصوصی رنگ میں چہکنے لگا۔
کیوں جی۔“ وہ بیسوا سے مخاطب ہوکر بولا۔کوئی ہے مال وال۔“
بیسوا نے گھور کر اُس کی طرف دیکھا اور پھر مسکرا دی۔دروازے کے سامنے کھڑے لوگوں نے شام کی طرف دیکھا۔ان کی نگاہوں میں حیرت جھلکی کوٹ پتلون میں مسکراتا ہوا نوجوان لڑکا اس گلی میں شائد کبھی نہ دیکھا گیا تھا چونکہ وہ جگہ مزدوروں اور جاٹوں کے لئے مخصوص تھی اور سب بیسوائیں نچلے درجے کی تھیں۔
ہے کوئی مال وال۔“ شام نے اپنا سوال دہرایا۔
بیسوا پھر مسکرائی اور اپنی چتون سے اشارہ کیا ۔جیسے کہہ رہی ہو بہت ہے آ جاؤ۔
تو ذرا دکھاؤ نا ہمیں۔“ شام مسکرایا۔
اس پر لوگ ہنسنے لگے۔
کچھ ہو تو دکھائے ۔“ ایک نے قہقہہ مارا۔
سب لٹا ہوا ہے ۔“ دوسرا بولا۔
نہیں نہیں ضرور کچھ چھپا کر رکھا ہوگا۔“ شام بولا۔“ کیوں ---------- مہارانی ہے نا یہ بات۔“
بیسوا نے اپنی آنکھیں شام کی آنکھوں میں ڈال دیں۔
اندر صندوق میں ہوگا۔“ ایک بولا۔ یہاں تو نہیں ۔“
اونہوں۔“ دوسرے نے کہا۔صندوقچی تو لٹ گئی۔“
بیسوا نے غصّے بھری نگاہ سے لوگوں کی طرف دیکھا اور دروازہ بند کر لیا لوگوں نے قہقہہ لگایا اور دوسرے دروازے کی طرف چل پڑے۔
شام کی باتوں پر ایلی خواہ مخواہ شرمندگی محسوس کر رہا تھا۔ایسی بے تکلف باتیں کرنا اور پھر ایسی جگہ جہاں پائے جانا بھی باعثِ شرم تھا ۔نہ جانے شام کو کیا ہوگیا ہے۔
چلو چلیں۔“ اس نے شام سے کہا۔“ یہ جگہ ٹھیک نہیں ۔“
جائیں گے کہاں۔“ وہ بولا۔دیکھو تو کتنی رونق ہے ۔ایسی جگہ کہاں ملے گی ہمیں واہ۔“
دوسرے دروازے پر جا کر وہ چلایا۔“ اونہوں دیوی یہ کیا قمیض پہن رکھی ہے ۔سبز رنگ کی چھی چھی۔ سرخ قمیض پہنو تو ہمیں جوش بھی آئے۔“
بیسوا نے اُس کی طرف دیکھا۔“ خالی باتیں ہی بناؤ گے یا آؤ گے بھی۔“
کیوں نہیں آئیں گے۔“ وہ چلایا۔“ آئیں گے ضرور آئیں گے۔“
تو پھر آ جاؤ۔“ وہ نہایت قبیح انداز سے ننگے اشارے کرنے لگی۔
آگئی جوش میں بھئی۔“ ایک بولا۔
خود جوش میں آنے کا فائدہ ہمیں جوش دلائے تو بات ہے۔“ شام چلایا۔
لوگ ہنسنے لگے ۔“ بھئی بات تو ٹھیک ہے۔“ ایک نے کہا۔
بیسوا نے نہایت بے حیائی سے اپنی قمیض اتار دی اور لپک کر سرخ قمیض کھونٹی سے اتار کر پہننے لگی۔اس کی میلی انگیا دیکھ کر سب چلانے لگے۔
ذرا آہستہ ذرا آہستہ اتنی جلدی اچھی نہیں ہوتی۔“ شام نے کہا۔
سرخ قمیض پہن کر وہ شام سے مخاطب ہوکر بولی۔“ آ اب مرد کا بچّہ ہے تو۔“
میں تو مرد ہوں۔“ وہ بولا۔بچّہ نہیں ہوں۔“
اس پر لوگ ہنسے۔
تو پھر آ نا۔“ وہ بولی۔
آئیں گے آئیں گے۔کل آئیں گے۔“ یہ کہہ کر وہ آگے چل پڑا۔
اس طرح وہ ہر جگہ رک کر باتیں کرتا رہا۔ایلی کو اس پر غصّہ آ رہا تھا۔فضول ایسی باتیں کرنا۔نہ جانے شام کو کیا ہوگیا ہے اور پھر ایسی غلیظ جگہ اور وہ عورتیں لاحول ولا قوۃ وہ کیا عورتیں تھیں۔
دفعتاً شام کی نگاہ ایک اندھیری کوٹھڑی پر پڑی جہاں کوئی بتّی روشن نہ تھی۔اور دروازے کے باہر ایک بڑھیا بیٹھی حقّہ پی رہی تھی۔
ارے۔“ وہ چلایا۔“ یہ دادی اماں یہاں کس اُمید پر بیٹھی ہے۔آؤ الیاس آؤ۔“
اس کے قریب جا کر شام کہنے لگا۔“ مائی تم یہاں کس لئے بیٹھی ہو؟“
وہ خاموش بیٹھی حقّہ پیتی رہی۔
کیا تم بھی بیٹھی ہو۔“ شام نے اپنا سوال پھر دہرایا۔
دکھتا نہیں۔“ وہ بولی۔
کیا تمہارے پاس بھی کوئی آتا ہے مائی۔“ شام نے پوچھا۔
بیٹا اتنا ہی ترس آتا ہے تو تم خود کیوں نہیں آ جاتے ۔“ وہ نہایت بے شرمی سے کہنے لگی۔شرم کے مارے ایلی ڈوب گیا۔پھر وہ بھاگ پڑا۔
ارے ٹھہرو تو۔میں نے کہا ٹھہرو نا۔“ شام چلا رہا تھا۔لیکن ایلی بھاگے جا رہا تھا۔پیچھے پیچھے شام آ رہا تھا۔اور گلی کے سب تماش بین ان کی طرف دیکھ رہے تھے۔
ٹھہراؤ۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
ٹریننگ کالج کی زندگی کے پہلے دور میں ایک مسلسل کش مکش تھی اضطراب تھا ہر کوئی پر جوش تھا۔پر امید تھا۔کوشاں تھا۔لیکن چھ ایک ماہ کے بعد لڑکیوں کی زندگی نے دوسرا رخ پلٹ لیا۔بیشتر لڑکے جو لڑکیوں پر اثر ڈالنے کے لئے بے تاب تھے۔مایوس ہوگئے۔اور ان کی توجّہ کسی اور طرف منعطف ہو گئی۔
ادھر لڑکیوں نے اپنا اپنا حلقہ اور اپنا اپنا مرکز متعین کر لیا۔اس طرح زندگی میں ایک ٹھہراؤ پیدا ہوگیا۔جیسے گدلے پانی کا بھرا گلاس کچھ دیر کے بعد نتھر کر صاف ہوجاتاہے گردوغبار سب بیٹھ جاتا ہے۔
لڑکیوں کی وہ پُر شور محفلیں ختم ہو چکی تھیں ۔اب ہر لڑکی نے امتحان کی تیاری کے لئے ایک مخصوص کونہ مقرر کر لیا تھامثلاً مس رومواسی اس بینچ پر بیٹھا کرتی جو لان کے شمالی کونے میں جھاڑیوں کے نیچے رکھا ہوا تھا۔مس رادہا نے سائنس روم کے عقب میں بنی ہوئی گیلری اپنے لئے مخصوص کر رکھی تھی۔جہاں سے ادھر اُدھر جانے کا کوئی راستہ نہ تھا۔کالج کے لان میں پڑے ہوئے بینچ سب غائب ہو چکے تھے اور مخصوص مقامات پر رکھ دیئے گئے تھے۔
ظاہر ہے کہ امتحان کی تیاری اکیلے میں تو نہیں ہوسکتی ایک ساتھی کا ہونا ضروری ہوتا ہے اور ایک سے زیادہ ساتھی ہوں تو بھیڑ لگ جاتی ہے اور پوری توجّہ سے کام نہیں ہوتا۔۔غالباً اسی وجہ سے لڑکیاں تقریباً تقریباً عنقا ہو چکی تھیں۔عام طور پر وہ دکھائی نہیں دیتی تھیں۔البتہ کوئی خاص لیکچر ہوتا تو وہ اپنے اپنے ڈربوں سے نکل آتیں اور لیکچر ختم ہونے کے بعد پھر وہیں لوٹ جاتیں۔
رائے نے پھر سے گاؤں جانا شروع کر دیا تھا۔اور ہر بار گاؤں سے واپس آنے کے بعد ایلی کو اُس لڑکی کے قصے سناتا جو اتنی بولڈ تھی کہ حد نہیں اور جس کی بولڈنیس کی وجہ سے اس کے پیرنٹس نے احتجاجاً کھانسنا اور تیوری چڑھانا چھوڑ دیا تھا۔
بابا کی تمام تر توجہ بورڈنگ کے پچھواڑے کے ایک مکان پر مرکوز ہوچکی تھی اور وہ روز ایلی کو بتایا کرتا تھا کہ لاجونتی بیچاری سارا سارا دن دھوپ میں کھڑی رہتی ہے۔پاگل لڑکی اس طرح وہ اپنی صحت خراب کرے گی۔لیکن بابا کے سمجھانے کے باوجود لاجونتی اپنے مکان کی کھڑکی میں کھڑی ہوکر بابا کو دیکھنے پر مجبور تھی۔
لاجونتی۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
لاجونتی کا قصّہ بھی عجیب تھا۔سب سے پہلے لاجونتی کو شام نے دیکھا تھا۔
شام دوڑا دوڑا ایلی کے پاس آیا ۔“ لو بھئی۔“ وہ چلانے لگا۔اپنا تو جیون سپھل ہوگیا۔“
وہ کیسے۔“ ایلی نے پوچھا۔
اپنا بھی ایک گاہک پیدا ہوگیا۔“
کیوں کیا کالج والیوں میں سے کوئی مہربان ہوگئی۔“
اونہوں۔ وہ سب سخت مٹی سے بنی ہیں۔یار ان پر اثر ہی نہیں ہوتا۔انہیں وہ وہ باتیں سناتی ہیں کہ ذرا شرم ہوتی تو میرے پریم میں ڈوب جاتیں۔اور صرف باتیں ہی نہیں تماشے دکھائے ہیں کرتب دکھائے ہیں مسخرا بن کر رانیوں کو محظوظ کیا ہے اور پھر کلاس میں وہ وہ بریلینٹ باتیں کی ہیں۔اپنی لیاقت کی دھاک بٹھا دی ہے۔اتنا اثر ڈالا ہے کہ کوئی حد نہیں۔“
تو کیا ان سب باتوں کا اثر نہیں ہوا۔“ ایلی نے پوچھا۔
اثر تو ہوتا ہے۔ہنساتا ہوں تو ہنستی ہیں۔اتنا ہنستی ہیں اتنا ہنستی ہیں کہ پیٹ میں بل پڑ جاتے ہیں۔چمکدار بات کرتا ہوں تو اتنی بڑی بڑی آنکھیں کھول کر دیکھتی ہیں جب لیاقت کی دھاک جماتا ہوں تو مڑ مڑ کر دیکھتی ہیں۔“
تو پھر۔“ ایلی نے پوچھا۔
بس چند ایک منٹ تو بھیگی رہتی ہیں پھر پر خشک ہوجاتے ہیں تو سالی پُھر سے اُڑ جاتی ہیں اور پھر جیسے جانتی ہی نہ ہوں۔“
تو پھر یہ نیا گاہک کون ہے۔“ ایلی نے پوچھا۔
پتہ نہیں یار کون ہے۔کوئی سکول کی دکھتی ہے۔ہماری ڈار میٹری کے پچھواڑے میں ان کا مکان ہے۔ایک روز میں نے ویسے چھیڑخانی کے لئے دو ایک اشارے کر دیئے تھے اب سالی کھڑکی میں یوں جمی رہتی ہے جیسے سریش لگا کر جوڑ دیا ہو کسی نے اپنے لئے جتی ستی ہو رہی ہے۔“
ٹھیک ہے۔“ ایلی بولا۔تمہیں بھی لٹکنے کے لئے ایک کھونٹی ہی چاہیئے۔“
وہ تو ٹھیک ہے۔“ شام ہنسا۔لیکن وہ تو خود لٹک رہی ہے۔“
یہ تو بلکہ اور بھی اچھا ہے۔“ ایلی نے کہا۔پکا پکایا مل گیا۔“
اونہوں۔ وہ بولا۔ یار لوگوں کو تو مار کر کھانے کی لت پڑی ہے۔“ عجیب بات ہےنا۔“ وہ بولا۔اگر وہ لٹک جائے تو اپنی طبعیت نہیں جمتی اور اگر وہ پرواہ نہ کرے تو ہم خود لٹک جاتے ہیں۔“
ایلی ہنسنے لگا۔
ایک بات اور ہے۔“ شام بولا۔
وہ کیا؟“
لاجونتی کی عمر بہت چھوٹی ہے۔“
اس میں کیا برا ہے۔جتنی چھوٹی عمر ہوگی۔اتنا جذبہ بے لوث ہوگا۔
اونہوں۔ہمیں تو مٹیار چاہیئے جو ہمیں لوریاں دے دے کر سلائے لپٹ لپٹ کر جگائے اپنے بازوؤں میں سنبھالے۔“
اسی شام وہ دونوں بورڈنگ سے نکل کر اس مکان کی طرف سیر کے لئے نکل گئے جہاں لاجونتی کا گھر تھا تاکہ قریب سے لاجونتی کو دیکھ سکیں۔
لاجونتی چودہ سال کی لڑکی تھی۔اس کا رنگ سانولا تھا لیکن نقوش جاذبِ نظر تھے نگاہوں میں عجیب دیوانگی سی تھی اور انداز سے ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے محبت کی دنیا کے طور طریقے سے ابھی ناواقف ہو جیسے کوئی دہلیز پر کھڑا ہو اور زندگی کے ایوان میں داخل ہونے کے لئے بے تاب ہو۔
واپسی پر ایلی کو سوجھی۔یار ایک بات کہوں بڑا مزا رہے گا جو تم مان جاؤ تو۔“
اس روز ایلی نے مل کر سازش کی کہ کسی طرح بابا کو یہ غلط فہمی دے دی جائے کہ لاجونتی اسے دیکھنے کے لئے کھڑکی میں کھڑی ہوتی ہے۔چونکہ بابا جس ڈار میٹری میں رہتا تھا وہاں سے بھی لاجونتی کا مکان صاف دکھائی دیتا تھا۔
اس مذاق کی وجہ یہ تھی کہ ایلی بابا کی باتیں سن کر تنگ آ چکا تھا۔بابا یوں بات کیا کرتا جیسے ہر جوان لڑکی اس پر رینجھی ہوئی ہو۔اسے یہ خیال کبھی نہیں آیا تھا کہ وہ بوڑھا ہو چکا ہے۔منہ پر جھریاں پڑی ہوئی ہیں اور جوان لڑکیاں بھلا بابا سے کیسے محبت کر سکتی ہیں۔
چند ہی روز میں ایلی نے بابا کو یقین دلا دیا تھا۔کہ لاجونتی اس پر دل و جان سے فدا ہوچکی ہے اور اُس کے لئے ہر وقت کھڑکی میں کھڑی رہتی ہے۔
اس کے بعد بابا روز ایلی کو لاجونتی کے قصّے سنایا کرتا تھا۔اور ایلی سمجھتا کہ بابا نے ایک الف لیلےٰ کی دنیا بسا رکھی ہے۔جسکا حقائق سے کوئی تعلق نہیں اس لئے وہ بابا کے قصّے یوں سُنا کرتا تھا جیسے طوطا مینا کی کہانیاں ہوں اُس نے انہیں کبھی اہمیت نہ دی تھی۔دل ہی دل میں وہ بابا کی حماقت پر ہنسا کرتا تھا پھر ایک روز رات کے نو بجے کے قریب بابا ایلی کے پاس آیا۔اُس وقت وہ خوب بن ٹھن کر آیا تھا۔
ارے۔“ ایلی نے کہا۔ آج تو دولہا بنے ہوئے ہو۔“
ہاں یار۔آج وہاں جانا ہے نا۔اس لئے میں نے کہا ذرا اچھے کپڑے پہن لوں۔“
کہاں جانا ہے؟“
بھئی وہیں۔“ بابا بولا۔اُس نے اشارہ کرکے کہا۔
وہاں کہاں؟“
لاجونتی نے بلایا ہے۔“ بابا نے اُس کے کان میں کہا۔
ارے -------------- ایلی کو بھولی ہوئی لاجونتی یاد آگئی۔اُس نے بلوایا ہے۔“
ہاں۔“ وہ بولا۔بیچاری کتنے دنوں سے بُلا رہی ہے۔کہتی ہے گھر والے کہیں گئے ہوئے ہیں ۔گھر میں وہ اکیلی ہے۔“
ارے ۔“ ایلی سمجھ رہا تھا بابا ویسے ہی گپ چلا رہا ہے۔شائد لاجونتی اُسے بلا رہی ہو۔
ذرا میرے ساتھ چلو گے ۔“ بابا نے کہا۔وہاں تک۔“
کیوں۔“؟
ایسے معاملے میں ساتھی ہو تو اچھا رہتا ہے۔صرف مکان تک چلنا پھر چلے آنا۔“بابا نے کہا۔
کب۔“ ایلی نے حیرت سے پوچھا۔
ابھی اور کب۔“
ابھی --------------- ! “ ایلی نے حیرانی سے بابا کی طرف یوں دیکھا --------- جیسے وہ پاگل ہو گیا ہو وہ دونوں چل پڑے ایلی سمجھ رہا تھا کہ شائد بابا کا دماغ چل گیا ہے۔وہ چپ چاپ چلتے چلے گئے۔ایلی دل ہی دل میں بابا کی سادہ لوحی پر ہنس رہا تھا۔
لاجونتی کے مکان کے نیچے دونوں رک گئے ۔بابا بے کھڑے ہو کر سگرٹ سلگانا شروع کردیا بابا بے ایک ایک دو ماچسیں جلائیں اور اُنہیں بجھا دیا تاکہ اُنہیں وہاں رکنے کا بہانہ ملے ۔جب اُس نے چوتھی ماچس جلائی تو آہستہ سے مکان کا دروازہ کُھلا۔ہاتھ میں لالٹین اُٹھائے لاجونتی دروازے میں کھڑی تھی۔اچھا بھئی۔“ کہہ کر بابا اندر داخل ہوگیا ----اور ایلی حیرت سے پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھتا رہ گیا۔
ونڈر لینڈز۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
وہاں سے واپس آتے ہی ایلی شام کی طرف گیا۔وہ شام کو لاجونتی اور بابا کی ملاقات کا قصّہ سنانے کے لئے بےقرار ہورہا تھا ۔ڈارمیٹری میں شام اُسے دکھائی نہ دیا تو اس نے گوبند اور پریم سے پوچھا کہ شام کہاں ہے۔
یہیں تو تھا ابھی۔“ وہ بولے۔شائد کسی اور ڈارمیٹری میں بیٹھا گپیں ہانک رہا ہو۔“ ایلی دیر تک ڈارمیٹریوں میں گھومتا رہا۔جب وہ باہر آنے لگا تو راستے میں لالہ جی مل گئے۔
کسے تلاش کر رہے ہو۔“ وہ بولے۔
شام کو ڈھونڈ رہا ہوں۔“ ایلی نے کہا۔کہیں چھٹّی پر تو نہیں گیا۔“
نہیں وہ تو حاضر ہے۔“ وہ بولے۔داس کہہ رہا تھا کہ اس کی طبعیت خراب ہے اور وہ سو گیا ہے۔“
اوہ۔“ ایلی بولا۔طبعیت خراب ہے۔“
لالہ جی کے جانے کے بعد وہ پھر سے شام کی ڈارمیٹری میں داخل ہوا۔
شام کہاں ہے۔“ اس نے داس سے پوچھا۔
اس کی طبعیت اچھی نہیں ۔“ داس نے جواب دیا۔سو گیا ہے۔“
ایلی شام کی سیٹ کی طرف جانے لگا تو داس نے اس کی بانہہ پکڑ لی ۔نہیں یار۔“ وہ منت سے بولا۔“ اُسے نہ جگاؤ۔مشکل سے آنکھ لگی ہے۔“
ایلی باہر نکل آیا لیکن باہر آتے ہی اُس نے محسوس کیا جیسے کوئی بات ہو۔کہیں شام نے کچھ کھا تو نہیں لیا۔شائد زرد دوپٹے والی منگیتر کی وجہ سے وہ رک گیا۔اور پھر سے دبے پاؤں شام کی طرف چل پڑا۔اب کی بار وہ اس کی سمت سے داخل نہ ہوا جدھر داس کی سیٹ تھی بلکہ پرلی طرف سے داخل ہوکر دبے پاؤں شام کی سیٹ کی طرف چلا آیا--------
چارپائی کے قریب پہنچ کر وہ رک گیا۔واقعی یہ تو سو رہا ہے۔اُس نے سوچا۔خواہ مخواہ تنگ کرنے کا فائدہ۔نہیں میں نہیں جگاتا اسے۔وہ چارپائی کے قریب تر ہوگیا۔پھر اس نے جانے کس خیال پر سرہانے کی طرف سے چادر کا پلّو اُٹھایا۔ارے وہ بھونچکا رہ گیا۔بستر میں شام نہیں تھا۔چارپائی پر چادر تلے اوور کوٹ اور جانے کیا کیا یوں رکھا ہوا تھا جیسے کوئی سویا ہوا ہو۔
جب ایلی اپنے کمرے میں پہنچا اس وقت تقریباً بارہ کا وقت تھا۔ان دنوں جی۔کے اور ایلی اپنے کمرے کو چھوڑ کر بورڈنگ کے ہسپتال کے ان ڈور وارڈ میں رہتے تھے۔
ایک روز فٹ بال کھیلتے ہوئے جی۔کے گر پڑا تھا اور اس کی شن بون ٹوٹ گئی تھی۔اور ڈاکٹر نے اس کی ٹانگ کو پلستر کر دیا تھا۔چونکہ بورڈنگ اور کالج کے تمام لڑکوں سے جی۔کے کے مراسم تھے لہٰذا ان کے کمرے میں اکثر بھیڑ لگی رہتی تھی لڑکے اس کی عیادت کو آتے تھے ہر وقت کوئی نہ کوئی جی۔کے کے پاس بیٹھا رہتا تھا اس بات کو محسوس کرکے لالہ جی نے خود انہیں کہا تھا کہ وہ ان ڈور وارڈ میں چلے جائیں تو ان کے لئے آسانی رہے گی۔
ان ڈور وارڈ بورڈنگ کے ساتھ ملحق تھا لیکن وہ بورڈنگ سے الگ سمجھا جاتا تھا۔اور وارڈ میں رہنے والے ان تمام پابندیوں سے مبرّا تھے جو بورڈنگ میں رہنے والوں پر عائد تھیں۔مثلاً بورڈنگ میں دس بجے باقاعدہ حاضری لگتی تھی اور پھر باہر کے دروازے مقفل کردیئے جاتے تھے اور لالہ جی کی اجازت کے بغیر کوئی شخص نہ تو باہر جاسکتا تھا اور نہ اندر داخل ہوسکتا تھا۔اس کے علاوہ بورڈنگ میں مہمانوں کو آنے کی اجازت نہ تھی۔ان ڈور وارڈ میں یہ پابندیاں نہ تھیں۔وارڈ کا ایک دروازہ باہر کھلتا تھا۔اس لئے وہ باہر جانے یا اندر آنے کے لئے قطعی طور پر آزاد تھے ۔اور باہر کے مہمان بے روک ٹوک ان کے پاس آ سکتے تھے۔
یہ وارڈ ایک فراخ ہال کمرہ تھا جس میں متعدد کھڑکیاں اور دروازے تھے اسکی ساخت ڈارمیٹریوں سے مختلف تھی۔دراصل یہ ایک نیا وِنگ تھا جو حال ہی میں بنایا گیا تھا۔اور چونکہ ابھی باقی انتظامات مکمل نہ ہوئے تھے اس لئے نہ تو وہاں کوئی نرس تھی نہ ڈاکٹر صرف چار ایک خالی بیڈ پڑے ہوئے تھے۔لہٰذا جی۔کے اور ایلی نے اپنا تمام سامان کتابیں صندوق چارپائیاں میز کرسیاں وہاں منتقل کردی تھیں۔
چونکہ جی۔کے ڈیڑھ ماہ سے صاحبِ فراش تھا اس لئے کالج اور بورڈنگ کے لڑکے اکثر تفریح کے لئے وہاں آجایا کرتے ۔سارا سارا دن وہاں تاش کھیلا جاتا کیرم چلتا۔شطرنج کی بازیاں کھیلی جاتیں۔اس طرح وہ کمرہ کومن روم کی حیثیت اختیار کر گیا تھا ایک ایسا کومن روم جہاں ہر وقت دھماچوکڑی رہتی۔اور جہاں شور مچانا اور دنگا فساد کرنا قابلِ اعتراض نہیں سمجھا جاتا تھا۔
وارڈ میں منتقل ہونے کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا تھا کہ ایلی کو ہر وقت بورڈنگ میں داخل ہونے یا وہاں سے باہر جانے کی اجازت مل چکی تھی۔دروازے پر بیٹھا ہوا چوکیدار اُسے دیکھ کر آپ ہی آپ اٹھتا اور پھر بن پوچھے آہنی دروازہ کھول دیتا۔شام کی ڈارمیٹری سے نکل کر جب وہ باہر آیا تو چوکیدار نے حسبِ معمول دروازہ کھول دیا اس وقت گیارہ بجے تھے جب وہ کمرے میں داخل ہوا تو بتّی جل رہی تھی اور جی۔کے اکڑوں بیٹھا کچھ لکھ رہا تھا۔اُس کے سامنے لکھنے کا پیڈ پڑا تھا اور قلم ہاتھ میں تھا۔
وہ چپ چاپ اپنے بستر کی طرف بڑھا ۔بستر جھاڑتے ہوئے اس نے جی۔کے سے پوچھا۔
کیا لکھ رہے ہو؟“
جی۔کے نے کوئی جواب نہ دیا۔
میں کیا پوچھ رہا ہوں۔“ ایلی نے کہا۔
دفعتاً اس کی نگاہ پیڈ پر پڑی عنوان کو دیکھ کر وہ بھونچکا رہ گیا۔لکھا تھا میری پیاری سفینہ۔
سفینہ۔ارے سفینہ کون تھی اور پھر پیاری جی۔کے اور پیاری۔یہ کیسے ہوسکتا ہے ایلی جی۔کے کے سب قریبی رشتہ داروں کو جانتا تھا اسے جی۔کے کی ہمشیرہ والدہ کے نام معلوم تھے۔لیکن یہ سفینہ کون تھی ۔کیا جی ۔کے بھی کسی کی محبت میں گرفتار تھا۔نہیں نہیں یہ کیسے ہوسکتا ہے اسے لڑکیوں سے محبت کرنے کے شغل سے سخت نفرت تھی وہ محبت کا مذاق اڑایا کرتا تھا اور اسے ہوس سے تعبیر کرتا تھا۔صراطِ مستقیم پر چلنے والا شخص کسی کو میری پیاری سفینہ لکھے ایک حساب دان۔ایک اصولی آدمی۔نہیں یہ نہیں ہوسکتا شائد یہ خط کسی عزیز کو لکھا ہو۔ایلی نے پیڈ اُٹھا لیا اور باہر نکل گیا تاکہ چھپ کے خط پڑھ سکے۔
واقعی وہ ایک محبت بھرا خط تھا۔جی ۔کے اور یہ جذبات ! ایلی حیرت سے اس سوئی ہوئی گٹھڑی کی طرف دیکھ رہا تھا۔اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا سمجھے کیا جی۔کے کی وہ شخصیت جس سے ایلی واقف تھا محض ایک بہروپ تھی۔
ایلی کو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ابھی اسے انسانی کردار کے تضاد کا شعور نہ تھا۔اس نے پیڈ کو رکھ دیا اور سوچ بچار میں کھو گیا۔دفعتاً اس نے محسوس کیا کہ کمرے میں اس کا دم گُھٹ رہا ہے۔پھر وہ چپکے سے باہر نکل گیا۔
باہر برگد کے درخت کے نیچے سادی کھڑی ہنس رہی تھی۔آؤ مہاراج جی آیاں نوں۔“ وہ مسکرانے لگی ایلی نے ماچس کی ڈبیہ ہاتھ میں تھام رکھی تھی۔سگرٹ ہونٹوں میں دبا رکھا تھا جسے سلگانا وہ بھول گیا تھا۔
سادی نے اس ان سلگے سگرٹ کی طرف دیکھا۔سگرٹ خود لگائیں گے مہاراج یا میں لگا دوں۔“ وہ مسکرائی ایلی چونکا اس کو وہ رات یاد آگئی جب وہ سفید منزل کی سیڑھیوں میں ضد کئے بیٹھا تھا کہ سادی خود سگرٹ سلگا کر دے۔
توبہ ہے۔“ سادی بولی۔کوئی ایسا ضدی بھی نہ ہو۔“
ایلی نے سگرٹ سلگایا اور پھر کالج کی طرف چل پڑا۔
کالج کی عمارت چاندنی میں چمک رہی تھی ۔عمارت کی چھت پر شہزاد کھڑی تھی۔ارے وہ گھبرا کر رکا واقعی کالج کی چھت پر کوئی تھا۔نہ جانے کون ہے۔کوئی ہوگا اس نے سوچا۔شائد چوکیدار ہو۔وہ گھبرا گیا کالج کا چوکیدار بہت سخت آدمی تھا۔وہ پرنسپل کو رپورٹ کرنے سے نہ چوکتا تھا۔اسی وجہ سے لڑکے رات کے وقت ادھر آنے سے ڈرتے تھے۔
ایلی نے اپنا رخ بدل لیا۔وہ مغربی سمت کو چل پڑا جس طرف کالج کا لان تھا۔اس وقت سارا لان چاندنی میں جگمگا رہا تھا۔ایلی کا جی چاہتا تھا کہ کسی بنچ پر بیٹھ کر اس پھیلی ہوئی چاندنی کو دیکھے جو اسے سادی اور شہزاد کی یاد دلا رہی تھی لیکن لان میں جانا خطرناک تھا۔اوپر سے چوکیدار نے دیکھ لیا تو۔لان میں کوئی بنچ بھی تو نہ تھا۔تمام بنچ لڑکوں نے لان سے اٹھا کر اس سے ملحقہ باغ میں رکھ دیئے تھے جہاں بڑی بڑی جھاڑیاں تھیں۔ایلی ان جھاڑیوں کی طرف چل پڑا۔
دفعتاً وہ رکا۔ان جھاڑیوں سے آوازیں آ رہی تھیں۔وہ محتاط ہو گیا اور ایک پودے کے نیچے چھپ گیا۔
بھگوان کی سوگند میں زہر کھا لوں گا۔“ کوئی چلا رہا تھا۔میرے پاس ہے۔میرے ٹرنک میں پڑی ہے سچ کہہ رہا ہوں۔صبح آؤ گی تو دکھا دوں گا۔“
زہر -------------- ٹرنک -------------- ارے ۔“ ایلی نے شام کی آواز پہچان لی۔
شام یہاں ---------- اور یہ ساتھ کون ہے۔ایلی چپکے سے بیٹھ گیا تاکہ کسی کو نظر نہ آئے کچھ دیر خاموشی طاری رہی۔پھر آواز آئی --------- بس اس قصّے کا یہی انجام ہوگا ---------- اور۔۔۔۔۔“
آواز یوں دفعتاً بند ہوگئی جیسے کسی نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیاہو۔
ایسی باتیں مت کیجیئے۔“ کوئی بولی۔
تو کیسی باتیں کروں۔“
پیار کی باتیں۔“
اس پیار نے اپنا دیوالیہ نکال دیا ہے۔“
کیوں۔: وہ بولی۔
شام ہنسا۔بس صبح شام مر رہے ہیں۔پڑھنے کی فرصت کسے ہے۔اور بھگوان جانے امتحان میں بطخ کا انڈا ملے گا مرغی کا نہیں۔“
ایلی ہنسنے لگا واقعی شام ہے اس نے سوچا۔
وہ ہنسی۔
لیکن کچھ پرواہ نہیں۔“ شام نے کہا۔چاہے شتر مرغ کا ملے پر اگر تم نے ایسی بے پروائی کی تو پھر ----------“
اونہوں۔“ وہ بولی۔ پھر وہی بات۔“
بھگوان جانے میں جھوٹ ----------“
اس کی بات ادھوری رہ گئی باغیچے میں خاموشی چھا گئی پراسرار خاموشی ایلی نے محسوس کیا کہ اسے وہاں سے چلے جانا چاہیئے وہ اُٹھ بیٹھا اور دبے پاؤں باہر نکل آیا پھر وہ اپنے کمرے کی طرف چل پڑا کمرے میں پہنچ کر اس نے بجلی بجھادی اس کے دل میں ایک عجیب طوفان مچا ہوا تھا۔اس نے پہلی مرتبہ محسوس کیا کہ وہ سب اپنی اپنی دھن میں کھوئے ہوئے تھے۔ہر کوئی اپنی ڈفلی بجا رہا تھا۔اپنی مرلی کی دُھن پر ناچ رہا تھا۔وہ ایک دوسرے سے اس قدر قریب تھے ۔لیکن اتنی دور ---------- بہت دور ایک کو دوسرے کی خبر نہ تھی ایک کو دوسرے سے کوئی سروکار نہ تھا۔وہ رات ایلی کے لئے گویا الف لیلےٰ کی ایک رات تھی غالباً اس نے پہلی مرتبہ محسوس کیا کہ وہ اس ونڈر لینڈ میں ایلس کی حیثیت رکھتا ہے اور ایلس بذاتِ خود ایک ونڈر لینڈ تھی۔
پہلا سبق۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
امتحان کے قریب آنے پر لڑکوں کے پریکٹیکل لیسنز شروع ہو گئے اور اسباق کی تیاری میں مصروف ہوگئے پھر انہیں پریکٹیکل کے لئے مختلف سکولوں کی جماعتیں مل گئیں جہاں انہیں بچوں کو ایک مہینے کے لئے عملی طور پر پڑھانا تھا۔
بی ٹی اور ایس ڈی کے طلبہ کی ڈیوٹیاں مختلف سکولوں میں لگ گئیں۔کسی کو ولی دروازے کے مدرسے میں متعین کردیا گیا کسی کو بھاٹی دروازے اور کوئی شیرانوالے بھیج دیا گیا۔ان تعیناتیوں کی وجہ سے کالج کی زندگی کا شیرازہ بکھر کر رہ گیا۔کالج لان کی جھاڑیوں میں رکھی ہوئی تمام بنچیں ویران ہوگئیں۔جماعتوں کے کمرے خالی دکھائی دینے لگے ۔بورڈنگ میں آنے جانے اور ملنے ملانے کے اوقات اور بورڈنگ کے معمولات بلکل بدل کر رہ گئے۔
خوش قسمتی سے ایلی کی ڈیوٹی سنٹرل ماڈل سکول میں لگ گئی جو اُن کے ہوسٹل کے متصل واقع تھا۔اس بات پر اسے بے حد خوشی تھی۔اس کے علاوہ سنٹرل ماڈل سکول لاہور کے تمام سکولوں میں ایک معیاری سکول مانا جاتا تھا۔وہاں کے اساتذہ جدید طریقہء تعلیم سے واقف تھے اور بچّے بہت ذہین سمجھے جاتے تھے۔
پہلی مرتبہ جب ایلی سنٹرل ماڈل سکول کی جماعت میں داخل ہوا تو کلاس ٹیچر نے اُس کی طرف گھور کر دیکھا لڑکے ایک دوسرے کو کہنی مار کر ہنسنے لگے۔
کلاس ٹیچر ایک بھاری اور بھدّے جسم کا شخص تھا۔اس کے ماتھے پر دائمی شکن تھا جیسے پیشانی میں کھود دیا گیا ہو۔آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔چہرے پر بے حسی کا دبیز پردہ پڑا تھا۔اور ہونٹ موٹے تھے۔اُس کے ہاتھ میں چھڑی تھی جسے وہ بار بار میز پر بجاتا تھا۔
میں سنٹرل ٹریننگ کالج سے آیا ہوں۔“ ایلی نے کہا۔میرا نام الیاس ہے۔“
ہوں۔“ کلاس ٹیچر نے اُسے گھورتے ہوئے کہا اور ویسے ہی بیٹھا رہا۔پیچھے لڑکوں کی ہنسی کی آوازیں آ رہی تھیں۔
ایلی نے ایک بار پھر ملتجیانہ نگاہ سے کلاس ٹیچر کی طرف دیکھا لیکن وہ جوں کا توں بیٹھا اسے گھورتا رہا۔
تو مجھے کب سے کام شروع کرنا ہے۔“ ایلی نے پوچھا۔
ہوں۔“ کلاس ٹیچر کی تیوری اور گہری ہوگئی۔
لڑکے قہقہہ مار کر ہنس پڑے۔
اس پر کلاس ٹیچر کی توجہ لڑکوں کی طرف مبذول ہوگئی۔اس نے چھڑی اٹھا کر زور سے میز پر ماری۔اور پھر اُٹھ بیٹھا۔
یہ کیا بدتمیزی ہے۔“ وہ غرّایا۔
کیا اسے اپنی تمیزداری کے متعلق کچھ علم ہے۔“ ایلی نے سوچا۔
ادھر آؤ حیدر۔“ وہ غرّایا۔نیچے اترو۔
ایلی نے محسوس کیا جیسے وہ بھی اس جماعت کا ایک لڑکا ہو اور کلاس ماسٹر نے وحید کی طرح اسے بھی نیچے بلا رکھا ہو اور اب وحید کے بعد اس کی باری ہو۔گھبرا کر وہ کمرے سے باہر نکل آیا اور برآمدے میں کھڑا ہوگیا۔
کچھ دیر بعد کلاس ٹیچر باہر نکلا۔
ہوں۔“ وہ ایلی کو ڈانٹتے ہوئے بولا۔تو تمہیں ملی ہے یہ جماعت۔“
جی۔“ ایلی نے جواب دیا۔
اور ایک ماہ میں تم اس کا ستیاناس کردوگے؟“
ایلی محسوس کر رہا تھا کہ اب وہ کہے گا۔نکالو ہاتھ۔“
دیکھو۔“ کلاس ٹیچر نے اسے پھر ڈانٹا۔کیا تمہیں علم ہے کہ ایک ماہ کے بعد مجھے تمہاری رپورٹ دینا ہوگی۔“
جی۔“ ایلی بولا۔
اور اگر میں نے گندی رپورٹ دی تو تم فیل کردئیے جاؤ گے۔“
جی۔“
اگر مجھ سے اچھی رپورٹ لینی ہے۔“ وہ بولا۔تو وعدہ کرو۔“
اس کے انداز میں اس قدر واضح دھونس تھی کہ ایلی جھٹ بول اُٹھا۔جی کرتا ہوں۔کرتا ہوں۔“
وعدہ کرو کہ جو جدید طریقے تعلیم کے تم نے سیکھے ہیں وہ میری جماعت پر نہیں برتو گے۔انہیں آج سے بھول جاؤ گے۔وہ محض ہاتھی کے دانت ہیں۔“
ایلی کا منہ کُھلا کا کُھلا رہ گیا۔
یہ ڈنڈا ہے۔“ کلاس ٹیچر چھڑی ہلاتے ہوئے بولا۔اس کا استعمال فراخدلی سے کرنا ہوگا۔“
جی ہاں ۔جی ہاں۔ایلی چلایا۔
سبق رٹوا کر یاد کرانا ہوگا چاہے سمجھیں یا نہ سمجھیں۔“
جی۔“
ہمیں نتیجہ دکھانا ہے پڑھانا نہیں۔“
جی اچھا۔“
تو تم وعدہ کرتے ہو۔“
جی کرتا ہوں۔“
تو جاؤ پڑھاؤ۔“ اس نے ڈرامائی انداز سے جماعت کی طرف اشارہ کیا۔
بہت اچھا۔“ کہہ کر ایلی چل پڑا۔
ٹھہرو۔“ وہ بولا ------- تم ڈنڈا تو بھول گئے۔“
اوہ۔“
کلاس ٹیچر نے چھڑی ایلی کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کئی بار پھر اسے ڈانٹا۔
خبردار جو اسے بھولے۔ورنہ تمہاری رپورٹ --------------
ایلی کانپتے ہوئے جماعت میں داخل ہوگیا۔
لڑکے کھڑے ہوگئے۔
سٹ ڈاؤن۔“ ایلی نے کہا اور پیشانی سے پسینہ پونچھنے لگا۔
لڑکے جوں کے توں کھڑے رہے۔
سٹ ڈاؤن ۔“ اس نے دہرایا۔
وہ ہنسنے لگے۔
بیٹھ کر ہنسو۔“ ایلی بولا۔
انہوں نے ایلی کو منہ چڑانا شروع کردیا۔جماعت سے عجیب و غریب قسم کی آوازیں پیدا ہونے لگیں اس کونے میں گھڑی چل رہی تھی ٹک ٹک ٹک ٹک ۔ادھر چکّی آٹا پیس رہی تھی گھمر۔گھمر۔گھمر۔گھمر ۔پرلی طرف موٹر سٹارٹ ہورہی تھی۔دور الّو بول رہا تھا۔کہیں مرغا اذان دے رہا تھا۔بلیاں لڑ رہی تھیں۔
ایلی حیرت سے لڑکوں کی طرف دیکھ رہا تھا۔
دیر تک وہ اُن کی طرف دیکھتا رہا۔
پھر کلاس ٹیچر نے دروازے سے جھانکا۔
دفعتاً کمرے پر بھیانک خاموشی طاری ہوگئی۔
تم ڈنڈے کو پھر بھول گئے۔“ ماسٹر نے ایلی کو ڈانٹا۔“ اور تم نے وعدہ کیا تھا۔کیا تھا یا نہیں؟“
ایلی نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
تم اچھی رپورٹ کے قابل نہیں ہو۔“ وہ بولا۔
پھر کلاس ٹیچر جس سرعت سے آیا تھا اسی سرعت سے چلا گیا۔
جماعت میں پھر سے آوازیں گونجنے لگیں۔
فول۔ فول۔“ کوئی چلا رہا تھا اگرچہ سب کے ہونٹ بند تھے۔
سلی سلی۔ٹون --------- میاؤں دھپ ۔دھڑاڑاڑدم۔“
ایلی سر تھام کر کرسی میں بیٹھ گیا۔
وہ ۔ وہ ۔ وہ ۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
جوں جوں امتحان قریب آتا جا رہا تھا کالج پر اداسی کا ایک دبیز پردہ پڑتا جا رہا تھا۔لڑکوں کی وہ خوش گپیاں ختم ہوتی جارہی تھیں۔لڑکیوں کے چہروں سے مسکراہٹیں مفقود ہوتی جا رہی تھیں۔پروفیسروں کا رویہ حیرت انگیز طور پر بدل چکا تھا۔اب وہ کالج کے لڑکوں سے یوں سلوک کرنے لگے تھے جیسے وہ طالب علم نہیں بلکہ ہم کار ہوں۔
کونوں میں پڑے ہوئے بنچوں سے رنگین قہقہے سنائی دینے بند ہوگئے تھے۔وہاں یا تو خاموشی چھائی رہتی اور یا کبھی کبھار ہچکیوں کی آوازیں سنائی دیتیں۔وہاں سے لڑکیاں باہر نکلتیں تو ایسے معلوم ہوتا جیسے روئی روئی ہوں۔
شام کی رنگین باتیں بلکل ختم ہو چکی تھیں۔اس کی گھنی بھنویں اور بھی بوجھل ہوگئی تھیں۔
کیا ہو گیا ہے تمہیں۔“ ایلی شام سے پوچھتا۔تم وہ شام دکھائی نہیں دیتے۔“
وہ شام ہوں تو دکھائی دوں۔“ وہ جواب دیتا۔
تو وہ شام کیا ہوا ؟“
شام ختم۔ اب تو رات پڑ چکی ہے۔جدائی کی رات۔“
ارے اتنے ہی مر چکے ہو تم اس مرہٹن رادھا پر۔“ ایلی نے بھانڈا پھوڑ دیا۔شائد تم سمجھ رہے ہو مجھے معلوم نہیں وہ چلایا۔مجھے معلوم ہے۔“
شام نے مسکرانے کی کوشش کی۔
تمہیں ہی کیا ۔“ وہ بولا۔سب کو معلوم ہے۔“ سب جانتے ہیں حتٰی کہ ہماری لیبارٹری کا بھنگی بھی جانتا ہے۔صرف ہم دو ہیں۔رادھا اور میں جو ابھی تک اپنے آپ کو فریب دئیے جا رہے ہیں کہ کوئی نہیں جانتا۔“
ایک بات پوچھوں۔“ ایلی نے کہا۔
پوچھو۔“ شام بولا۔
رادھا میں وہ کون سی خوبی ہے ۔جو تمہیں پسند آ گئی ہے۔“
وہ قہقہہ مار کر ہنسنے لگا۔اور پھر اپنی مست آنکھیں ایلی کی آنکھوں میں ڈال کر کہنے لگا۔
صرف ایک۔ اور اس ایک خوبی پر ساری دنیا قربان کی جاسکتی ہے۔“
وہ کیا ؟“
وہ مجھ سے محبت کرتی ہے۔عورت میں بس یہی ایک خوبی ہوتی ہے جس پر مرد مرتا ہے۔تم تو نفسیات پڑھتے ہو۔تمہیں تو جاننا چاہیئے۔باقی جو ناک نقشے اور رنگ کی بات ہے۔سب باتیں ہیں منہ زبانی باتیں۔“
کیا واقعی وہ محبت کرتی ہے تم سے ۔سچّی محبت۔“
" سچّی محبت کا تو اپنے کو پتہ نہیں کچھ البتہ پیار کرتی ہے۔جیسے ماں بچّے کو کیا کرتی ہے۔اس عمر میں ماتا مل گئی اور مجھے کیا چاہیئے۔“
" تو کیا ماتا کی تلاش تھی تمہیں۔“
سبھی کو ہوتی ہے۔کیا تمہیں نہیں !“ وہ ہنسنے لگا۔" یار یہ فلسفہ چھوڑو ۔مجھے تو یہ غم کھائے جا رہا ہے اب میں کیا کروں گا۔ہم کیسے دن گزارا کریں گے۔پرماتما کرے ہم دونوں فیل ہو جائیں۔“
شام کی باتیں عجیب تھیں۔اس کی شخصیت میں عجب مٹھاس تھی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ تمام باتیں بلا تامّل کہہ سکتا تھا جو ایلی کے دل میں بھی تھیں لیکن وہ انہیں زبان پر لانے یا اپنے آپ سے اظہار کرنے سے ہچکچاتا تھا۔ڈرتا تھا غالباً اسی وجہ سے ایلی کا شام سے محبت تھی۔
اس روز شام کی بات سُن کر ایلی نے محسوس کیا جیسے اُس نے ایلی کے دل کا راز فاش کردیا ہو۔جیسے وہ ایلی کے اس راز سے کما حقہ، واقف ہو اور اس بات کو اچھی طرح جانتا ہو کہ ایلی کو شہزاد سے کیوں محبت تھی۔اور وہ ایلی کا راز فاش کر رہا تھا۔رادھا کا تو محض بہانا تھا۔
ایلی کو پسینہ آگیا اُس کی زبان بند ہوگئی اس کے بعد نہ جانے شام کیا کہہ رہا تھا۔شائد سرسری جسم کی تعریف کر رہا تھا۔یا اس کے جسم کے خم و پیچ کی بات کررہا تھا۔ایلی کے روبرو اُس وقت شہزاد کھڑی تھی۔اُس کی آنکھیں نمناک تھیں۔کہہ رہی تھی۔
" میںنے اس سودے میں کچھ پایا نہیں کھویا ہے۔ایلی میں نے اپنا آپ کھو دیا ہے۔سبھی جانتے ہیں کہ میں اپنے آپ سے گئی ہوں۔ایک تم ہو جس نے آج تک اس بات کو نہیں پایا“
جی۔کے کی ٹانگ ٹھیک ہوچکی تھی۔لیکن وہ ابھی تک اُسی کمرے میں مقیم تھے ۔اب آخری ایّام میں کمرہ بدلنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔بیماری کے ایّام میں جی۔کے کی جذباتی کیفیت کچھ عجیب سی تھی۔
جس روز سے ایلی نے اُس کا محبت نامہ پڑھا تھا جی۔کے کے متعلق ایلی کا نقطہء نظر ہی بدل گیا تھا پہلے اس کا خیال تھا کہ جی۔کے جذبات سے قطعی طور پر عاری ہے ۔دوستوں سے تو وہ اکثر مبہم طور پر اظہارِ محبت کیا کرتا تھا لیکن ایلی کے اندازے کے مطابق وہ لڑکیوں سے محبت کرنے کا اہل نہ تھا چونکہ بنیادی طور پر وہ خود پسند شخص تھا ۔اور جو اس حد تک خود پسند ہو ایلی کے خیال کے مطابق وہ کسی کا نہیں ہو سکتا تھا۔لیکن خط پڑھنے کے بعد ایلی کے مفروضات کا محل دھڑام سے گِر چکا تھا۔اسے کچھ سمجھ میں نہیں آیا تھا بہرحال اب وہ محسوس کرنے لگا تھا کہ جی۔کے کے ادلتے بدلتے موڈ درحقیقت اس راز کی وجہ سے تھے جسے وہ یوں سینے سے لگائے بیٹھا تھا۔نہ جانے وہ کون لڑکی تھی۔نہ جانے وہ کہاں رہتی تھی۔نہ جانے وہ دونوں کبھی ملتے بھی تھے یا نہیں۔البتہ ایک بات اُس خط سے واضح تھی کہ جی۔کے اپنی محبوبہ کے سامنے سرنگوں ہونے کا قائل نہ تھا۔اُس کے انداز میں سپردگی نہ تھی لیکن اُس کے باوجود جی۔کے کے جذبات کی شدّت دیوانہ کن تھی۔
جس روز وہ ایک دوسرے سے جدا ہونے والے تھے۔ایلی کے منہ سے بات نکل گئی۔
" جی۔کے “ وہ بولا "مجھے معلوم نہ تھا کہ تمہاری زندگی میں دکھ کا عنصر اس حد تک حاوی ہے میں سمجھتا رہا کہ تمہارا رویّہ بدمزاجی کا شاہد ہے۔“
اس پر جی۔کے کی ناک یوں تن گئی جیسے کسی نے تلوار نکال لی ہولیکن وہ خاموش رہا۔
" پہلے مجھے تمہاری محبت کا علم نہ تھا۔“ ایلی نے کہا۔" لیکن اب میں جانتا ہوں کہ تم دکھی ہو۔“
" نہیں نہیں “ جی۔کے سنجیدگی سے بولا۔میرے دکھ کو چھوڑو۔مجھے تو صرف یہ دکھ ہے کہ وہ دکھی ہے۔اس کے دکھ کا کوئی اندازہ نہیں کرسکتا اور ------------ اور ----------- “
جی۔کے کی آنکھوں میں آنسو آ گئے ------------
"اُس کے لئے محرومی کے سوا کچھ نہیں کچھ نہیں۔مجھ سے اُس کا دکھ دیکھا نہیں جاتا“
اُس وقت وہ سامان باندھ رہے تھے۔
" کب سے دکھی ہے ۔“ ایلی نے پوچھا۔
" اوّل سے “ وہ بولا۔
" ازل سے ! “
" ہاں ۔ازل سے “ جی۔کے نے بڑے دکھ سے کہا۔صدیاں گزر گئیں ۔صدیاں۔اب تو اس بیچاری کی ہڈیاں بھی گل سڑ گئی ہیں۔ایک ڈھانچہ رہ گیا ہے اور وہ صرف اسی لئے جی رہی ہے۔صرف ایک آرزو، ایک امید کی زور پر۔“ جی۔کے کے منہ سے ایک سسکی سی نکل گئی اور وہ غسل خانے کی طرف دوڑا غالباً وہ یہ نہیں چاہتا تھا کہ کوئی اُسے اس عالم میں دیکھے۔
ایلی حیرت سے اُس کو بھاگتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔زندگی کس قدر عجیب ہے۔کردار کتنے عجیب تھے اور اس کے سوچے ہوئے خیالات اور پڑھی ہوئی باتیں اور سمجھے ہوئے اصول کس قدر غلط تھے۔
باہر میدان میں برگد کے پتّے جھڑ رہے تھے۔زمین خشک پتّوں سے بھری ہوئی تھی ۔درخت کے تلے سامان رکھے اسفند ٹہل رہا تھا۔اُس کے چہرے پر وہی ملائمت تھی۔سامنے برآمدے میں کلاس ٹیچر چھڑی سنبھالے کھڑا تھا۔
ایلی نے محسوس کیا جیسے وہ سب بےبس اپاہج ہوں۔نہ جانے وہ کون تھی جس نے کلاس ٹیچر کے ماتھے پر تیوری کندہ کردی تھی جس نے اسفند کو پلپلاہٹ بخش دی تھی نہ جانے وہ کون تھی جس نے کے۔جی کے ناک کو دھار دیدی تھی ۔دور کوئی چکّی ہونک رہی تھی۔وہ وہ وہ !
سیس نویا۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
گاڑی میں بیٹھے ہوئے ایلی ایک انجانی خوشی محسوس کررہا تھا۔عرصہ دراز کے بعد وہ شہزاد کے پاس جا رہا تھا۔وہ شہزاد جو علی پور میں صرف اُس کے لئے بیٹھی تھی کہ اُسے ایلی کے آنے کا انتظار تھا۔ایلی کو بار بار شام کی بات یاد آرہی تھی ۔عورت میں صرف ایک خوبی ہوتی ہے صرف ایک کہ وہ تم سے محبت کرتی ہے ۔اِس ایک خوبی کے لئے مرد اُسے چاہتا ہے۔
ہاں ۔ شام سچ کہتا تھا۔عورت میں صرف ایک خوبی ہوتی ہے۔لیکن شہزاد میں تو بیسیوں خوبیاں ہیں۔وہ اتنی دیر سے ایلی کا انتظار کر رہی ہے۔اُس سے محبت کر رہی ہے۔بے لاگ محبت جس میں ہوس کا عنصر نہیں اور اُس نے اِس محبت کے لئے سب کچھ کھو دیا ہے۔کچھ پانے کی اُمید نہیں۔اُس میں حسن ہے رنگینی ہے جرّات ہے۔کتنی جرّات ہے اس میں ۔ایلی کے لئے وہ ساری دنیا کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہے لوگوں کی جلی کٹی باتیں سننے کے لئے تیار ہے۔ایلی کے دل میں شہزاد کے لئے نئے جذبات اُبھر رہے تھے۔وہ شہزاد کے جذبات کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔
کھڑکی سے باہر ہرے بھرے کھیت دوڑ رہے تھے۔دور پہاڑوں کی چوٹیاں دکھائی دے رہی تھیں اور اُس کے اوپر نیلا آسمان۔پھر اسے وہ دن یاد آگیا جب براتیوں کی حیثیت سے شہزاد کو لارہے تھے۔جب شہزاد زنانے ڈبّے میں سبز گھٹڑی بنی بیٹھی تھی اور محلّے کے لڑکے باری باری زنانے ڈبّے کی طرف جاتے تھے اور بہانے بہانے اُس سے بات کرنے کی کوشش کرتے تھے اور دعائیں مانگتے تھے کہ اس سبز گھٹڑی کے پٹ کھل جائیں اور وہ ایک جھلک دیکھیں صرف ایک جھلک ---------------------- اُس روز بھی گاڑی سرسبز میدانوں میں بھاگ رہی تھی اور دور پہاڑوں کی چوٹیاں دکھائی دے رہی تھیں جن پر نیلا آسمان تنا ہوا تھا۔
اُس سفر کو بیتے ہوئے آج بارہ برس ہوچکے تھے۔بارہ برس۔اب شہزاد چار بچّوں کی ماں تھی مگر اُس کے انداز کی رنگینی میں ذرا فرق نہ آیا تھا۔اُس کا چہرہ ویسے ہی جاذبِ نظر تھا ۔اُس کے ماتھے کا تِل ویسے ہی روشن تھا۔اُس کا جسم ویسے ہی خم و پیچ سے بھرپور تھا۔آنکھیں اسی طرح مدھ بھری تھیں۔ڈولتی تھیں۔ایلی کو شہزاد کا قرب حاصل ہوئے دس سال ہوچکے تھے۔دس سال سے شہزاد نے اُسے آنکھوں پر بٹھا رکھا تھا۔اور صرف یہی نہیں دس سال سے اُس نے اسے اعلانیہ اپنا رکھا تھا۔اب تو بات اتنی پرانی ہوچکی تھی کہ لوگوں نے اسے تسلیم کرلیا تھا اور وہ تھک کر خاموش ہوگئے تھے۔
لیکن ایلی مسلسل دس سال سے شہزاد سے شاکی رہا تھا ۔اُسے شکوہ تھا کہ شہزاد اُس کے قریب نہیں آتی۔اُس سے دور رہتی ہے۔اس سے صرف کھیلنا مقصود ہے جیسے ایلی کھلونا ہو۔ایلی کا خیال تھا کہ شہزاد کو صرف ایلی کے اُس جذبہ کو قائم رکھنے کا شوق ہے جو اُس کے دل میں شہزاد کے لئے موجزن تھا اُسے بذاتِ خود ایلی سے کوئی دلچسپی نہیں۔ایلی سوچ رہا تھا۔ہاں واقعی اُس نے شہزاد کی محبت کی قدر نہیں کی بلکہ اُسے کبھی تسلیم تک نہیں کیا۔اور وہ ہمیشہ اس بات کے لئے کوشاں رہا کہ اُس سے جسمانی قرب پیدا کرے۔
پھر سادی کے آنے کے بعد ایلی نے دفعتاً محسوس کیا تھا کہ شہزاد اس کی محبت میں اس کی زندگی میں ایک رکاوٹ ہے اور اسی وجہ سے اُس کی زندگی نارمل نہیں رہی ۔نہیں رہ سکتی۔سادی سے میل ملاپ کے بعد اس نے شدّت سے محسوس کیا تھا کہ ایک شادی شدہ عورت سے محبت کرنا عظیم بدقسمتی ہے۔
لیکن ایلی سوچنے لگا کہ اس میں شہزاد کا کیا قصور کہ وہ شادی شدہ تھی۔شہزاد نے تو اس کا ہاتھ نہیں تھاما تھا۔خود ایلی نے اُس کا ہاتھ تھاما تھا اور ہاتھ تھامتے ہوئے تو اُس کو احساس نہ تھا کہ اُسے شہزاد سے محبت ہے اُس وقت تو محض ہوس کی وجہ سے اُس نے ہاتھ تھاما تھا ۔مانا کہ اُس کا کوئی مقصد نہ تھا ۔صرف ایک حسین عورت کا قرب ۔اور وہ قرب اُسے حاصل ہوگیا تھا۔اب وہ صرف اس لئے دکھی تھا کہ وہ شہزاد کو اعلانیہ اپنانا چاہتا تھا۔یہ تو ایک ناممکن خواہش تھی اور چونکہ پوری نہ ہو سکتی تھی لہٰذا اسنے آتشِ رقابت میں جلنا شروع کردیا تھا۔وہ شہزاد کے نقاب کے ابھرے ہوئے تاروں کو گنا کرتا تھا۔
ایلی کو ان باتوں پر ازسرِ نو ندامت ہو رہی تھی ۔وہ محسوس کررہا تھا کہ اُس نے شہزاد کی قدر نہیں کی۔اُس کی محبت کی قدر نہیں کی۔اُس کی قربانی اور جرّات کی قدر نہیں کی۔
" نہیں نہیں۔اب میں ایسا نہیں کروں گا۔وہ دیوی ہے دیوی۔اور میرا کام ہے اُسے منانا۔اُس کے سیس نوانا۔“
ہاں ہاں ۔ اب میں اُس کے پاس پہنچ لوں اب کی بار ---------------
محلّے کا میدان ویران پڑا تھا ۔غالباً محلّے کے لڑکے دوسری طرف کھیل رہے تھے عورتیں غالباً گرمی کی وجہ سے اپنے اپنے مکانات کی چھتوں پر جا چڑھی تھیں۔اُس وقت غالباً 9 بجے ہونگے۔ لیکن گرمیوں میں رات کے 9 بجے تک تو میدان میں چہل پہل رہا کرتی تھی۔
ایلی نے اوپر کھڑکیوں کی طرف نگاہ ڈالی ۔رابعہ کی کھڑکی بند تھی۔اوپر کے چوبارے کی کھڑکی کُھلی تھی۔لیکن وہاں کوئی نہیں تھا۔جب وہ چھتی گلی میں داخل ہوا تو مائی نتّھی کی آواز سُن کر ڈر گیا۔اُس کا خیال تھا کہ وہاں کوئی نہیں۔مائی نتّھی اتنی لاغر اور نحیف تھی کہ چھتی گلی کے دروازے کے ساتھ لگی ہوئی وہ ایلی کو دکھائی نہ دی تھی۔
" کون ہے ؟“ ماں نتّھی نے پوچھا۔
" میں ہوں۔“ ایلی نے اُسے پہچانے بغیر جواب دیا۔
" میں کون۔“ اُس نے پوچھا۔
" ایلی۔“ وہ بولا۔" سلام کہتا ہوں۔“
" ہئے اپنا ایلی ہے۔“ اللہ تجھے خوش رکھے۔تیرا گھر آباد ہو۔اب کی بار تو بڑی دیر سے آیا ہے تو خیر تو ہے نا۔“
" ہاں ہاں۔“
" اے اچھا کیا دیر سے آیا تو۔یہاں روز آکر کرنا کیا ہے تونے۔لڑکے اپنے کام پر ہی اچھے لگتے ہیں۔اچھا ہوا جو دیر سے آیا تو۔جان چھٹی تیری۔اس دلدل میں پھنس کر تونے کیا لینا تھا۔خواہ مخواہ۔اُس کے تو لچھن ہی ایسے ہیں۔“
" ایلی اُس کی بات سُن کر چونکا۔نہ جانے کیا کہہ رہی تھی۔ایلی نے اُس کی بےمعنی باتوں سے مخلصی پانے کے لئے بات کا رخ بدلا۔
" تو تو خیریت سے ہے نا ماں۔“
" اللہ تیرا بھلا کرے بیٹا میرا----------“
" اچھا تو کل ملوں گا ماں۔“ یہ کہہ کر وہ چل دیا۔
لیکن وہ رہ رہ کر اس کی بات یاد آرہی تھی کس کے لچھن کی بات کر رہی تھی وہ اور دیر سے آنے کا کون سا فائدہ جتا رہی تھی ۔اُسے کچھ سمجھ میں نہ آیا۔
آگئے مہاراج۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
رابعہ کا چوبارہ مقفل تھا۔شہزاد کو حیرت میں ڈالنے کے لئے وہ دبے پاؤں اوپر چڑھنے لگا---------- اوپر پہنچ کر وہ رک گیا اور چوبارے کا جائزہ لینے لگا۔اندر شہزاد چوکی پر بیٹھی تھی۔اُس کے قریب ہی صفدر اکڑوں بیٹھا تھا۔صفدر نے اپنی آنکھیں شہزاد پر گاڑ رکھی تھی۔اُس کے چہرے پر عجیب سا تبسّم تھا۔
ایلی یہ منظر دیکھ کر گھبرا گیا۔اُس نے محسوس کیا جیسے زینہ بیٹھتا جا رہا ہو اور وہ گِرا جا رہا ہو۔اُس نے بصد مشکل اپنے آپ کو سنبھالا اور پھر آخری سیڑھی پر چڑھ کر روشنی میں آ کھڑا ہوا۔
ایلی کو دیکھ کر صفدر گھبرا گیا اور فوراً سرک کر پیچھے ہوگیا۔ایک ساعت کے لئے شہزاد کی آنکھوں میں تذبذب لہرایا --------------- پھر وہ سنبھل کر بولی۔
" آگئے مہاراج ۔“ اُس کی آواز میں خوشی کا عنصر نہ تھا۔
" جی ۔ آگئے۔“ وہ بولا غالباً اُس کی آواز میں دھار تھی۔
" تو آجاؤ۔“ وہ ہنسی۔
کتنی خشک تھی وہ ہنسی ۔!
ایلی سوٹ کیس اُٹھائے فرحت کے گھر کی طرف نکل گیا۔
فرحت اور امّاں سے باتیں کرتے ہوئے وہ مسلسل شہزاد کے چوبارے کی طرف دیکھتا رہا کہ وہ کب آ کر اُسے لے جائے۔“
" چل تجھے کریلے کھلاؤں۔لو کب سے ادھر چائے بنی پڑی ہے چلو چائے تو پی لو پہلے۔“
لیکن اس روز شہزاد فرحت کی طرف نہ آئی ۔البتہ اُس کے آنے کے چند منٹ بعد صفدر جھومتا ہوا آیا اور رسمی طور پر ایلی کی مزاج پُرسی کرتا ہوا اپنے مکان کی طرف چلا گیا۔
یہ ایک غیر معمولی بات تھی۔اور پھر اُس کا یوں شہزاد کے اس قدر قریب بیٹھنا اور آنکھوں میں وہ تبسّم اور پھر ایلی کو دیکھ کر گھبرا کر پیچھے ہٹنا--------------یہ سب باتیں بڑی عجیب تھیں۔پھر شہزاد کا وہ روکھا لہجہ اور خشک رویہ۔یہ سب کیا تھا۔ایلی سوچ رہا تھا۔نہ جانے اس کا کیا مطلب ہے۔
اُس کی نگاہوں تلے ماں نتھی آ گئی۔" اے اچھا کیا جو تو دیر سے آیا۔“ اچھا کیا تیری جان چھٹی اُس کے تو لچھن ہی ایسے ہیں۔“
دفعتاً ماں نتھی کی بے ربط باتیں معانی سے بھر گئیں۔اُن میں مفہوم پیدا ہوگیا۔خطرناک،ڈراؤنا مفہوم ۔ایلی بری طرح لڑکھڑا رہا تھا۔وہ محسوس کر رہا تھا جیسے زلزلہ آگیا ہو۔درودیوار گھوم رہے تھے جھول رہے تھے۔چاروں طرف سے اندھیرا یورش کر رہا تھا۔وہ دیوانہ وار اُٹھا۔اُس کا جی چاہتا تھا کے شہزاد کے چوبارے میں جا گھسے اور باآواز بلند کہے۔
" اچھا کیا جو میں دیر سے علی پور آیا۔میری جان چھوٹ گئی۔“
اور پھر وہ واپس آکر آرام سے سو جائے۔
رت آئے رت جائے۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
ساری رات وہ کانٹوں پر پڑا رہا۔اُس کے ذہن میں عجیب و غریب منظر آ رہے تھے۔
اب وہ کھڑکیوں میں کھڑے ایک دوسرے سے باتیں کر رہے ہیں۔اُن کے مکانات کی کھڑکیاں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی تھیں ناں۔صفدر نے اپنی آنکھیں شہزاد کی آنکھوں میں ڈال رکھی ہیں۔وہ مسکرا رہا ہے۔شہزاد اُسے اشارے کر رہی ہے۔ابھی نہیں ذرا ٹھہر جاؤ۔بچّے جاگ رہے ہیں۔
پھر اُسے خیال آتا کہ اب وہ چپ چاپ کھڑکی سے پھلانگ کر شہزاد کے چوبارے میں آرہا ہے اب وہ دبے پاؤں اُس کی چارپائی کی طرف بڑھ رہا ہے۔اب اُس نے شہزاد کو جگایا۔شہزاد نے آنکھیں کھول دیں اور اور --------------- اس خیال پر ایلی تڑپ اُٹھتا۔آگ کا ایک شعلہ نہ جانے کہاں سے اُٹھتا اور اُس کے تن بدن کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا۔
ایلی دیوانہ وار اُٹھتا ۔جی چاہتا کہ دیوانہ وار شہزاد کے چوبارے کی طرف اٹھ بھاگے اور اُن دونوں کے سرہانے کھڑا ہو جائے اور جب شہزاد اُس کی طرف دیکھے تو اس کے منہ پر تھوک دے اور واپس آجائے۔دو ایک مرتبہ یہ دیوانگی اس شدّت سے مسلّط ہوئی کہ وہ واقعی اُدھر جانے کے لئے تیار ہوگیا ۔پھر اُسے خیال آیا اگر وہ اکھٹے نہ ہوئے تو۔اگر شہزاد اکیلی ہوئی تو۔یہ ڈر اُس کے لئے سوہانِ روح ہوگیا اور وہ دعائیں مانگنے لگا۔یا اللہ وہ اکھٹّے ہوں۔وہ کھڑکی پھلانگ کر آچکا ہو۔
صبح سویرے حسبِ معمول شہزاد آگئی مگر اُس کے انداز میں نہ وہ شوخی تھی نہ رنگینی ۔اس نے ایک نظر ایلی پر ڈالی اور پھر فرحت سے مخاطب ہوکر نہ جانے کیا کہنے لگی۔اندر سے ہاجرہ نکلی۔
" اے ہے۔“ وہ بولی۔" ایلی آیا ہوا ہے ۔تجھے معلوم نہیں کیا۔تو کل رات بھی نہیں آئی۔“
" اب اسے آنے کی فرصت کہاں ۔“ فرحت نے طنزا ً کہا ۔" وہ دن گئے امّاں۔رت رت کی بات ہے۔“
"یہ بھی ٹھیک ہے۔“ شہزاد ہنسی۔" دن تو بدلتے ہی رہتے ہیں۔دنیا کا یہی دستور ہے میں نے کہا چلو میں بھی چار روز کے لئے خوشی منالوں تو کیا حرج ہے ------------ “
" توبہ ہے تم سے کون بات کرے۔“ فرحت بولی۔
" اے ہے ایلی سے بات نہ کرے گی ۔تو ناراض ہے کیا ؟“ ہاجرہ نے پوچھا۔
" ناراض تو نہیں۔“ وہ بولی۔" لیکن ڈر آتا ہے۔“
" کیوں۔؟“
" مزاج چڑھے ہوئے ہیں کوئی بے ادبی ہوگئی تو پٹ جاؤں گی۔“شہزاد نے کہا۔
" تجھے بھی کوئی پیٹ سکتا ہے کیا؟“ فرحت نے طنزاً پوچھا۔
" میں ہی تو پٹتی ہوں“۔وہ بولی۔" وہی پٹتے ہیں نا جنہوں نے کشتی دریا میں ڈال رکھی ہو۔تم کنارے پر بیٹھنے والیاں کیا جانو۔“
" تو پھر کیوں ڈال رکھی ہے سمندر میں۔“ فرحت بولی۔
" تھپیڑوں کا مزہ آتا ہے۔“ شہزاد ہنسنے لگی۔
" تو پھر روتی کیوں ہو؟“
" رو رہی ہوں کیا ؟“ وہ قہقہہ مار کر ہنسی۔
" تم خواہ مخواہ جھگڑتی ہو۔“ ہاجرہ بولی۔" چھوڑو اب۔“
" آ چائے پی لے۔“ فرحت نے شہزاد سے کہا۔
" پلا دے۔“ شہزاد نے جواب دیا۔" ہمارے ہاں کوئی پینے نہ آئے تو پھر ہمیں ہی پینے کے لئے آنا ہوگا۔کیوں مہاراج۔“ وہ ایلی کی طرف مخاطب ہوئی۔" ہم درشن کرنے کے لئے آئے ہیں۔“
ایلی کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے۔
" دکشنا دو نا۔“ فرحت ہنسنے لگی۔
" دیں گے۔“ شہزاد بولی۔" دیوتا بات تو کریں۔“
" یہ دیوتا پتھر کا نہیں بنا۔“
" ہم کب کہتے ہیں۔“ وہ ہنسی۔
" کہتی نہیں سمجھتی ہو۔“ ایلی نے روکھے انداز سے جواب دیا۔
"اونہوں۔“ شہزاد بولی۔" ابھی نہیں۔ابھی مہاراج غصّے میں ہیں۔ابھی دال نہیں گلے گی۔“
" ہاں ہاں۔“ ایلی بولا۔" ابھی چولہے پر چڑھائے رکھو۔“
" ایلی سے جیتے تو جانیں۔“ فرحت بولی۔" ہمیں کو لاجواب کرنا آتا ہے تمہیں۔“
" گرو مہاراج سے کیسے جیتوں۔“وہ بولی۔
عین اُس وقت جانو آ گئی۔
" ہئے ایلی آیا ہے۔کب آیا تو۔اب کی بار تو تیری شکل ہی نہیں دیکھی۔“ پھر وہ شہزاد سے مخاطب ہوکر کہنے لگی۔" وہ آیا ہے۔تیرا صفدر ادھر بیٹھا انتظار کر رہا ہے۔کہتا ہے سنار کے ہاں جا رہا ہوں۔بندے ٹھیک کرانے ہیں تو دیدے۔“
" ہئے میں تو بھول ہی گئی۔“ شہزاد چلائی۔" میں ذرا بتا آؤں اُسے۔“ اور پھر ایلی کی طرف دیکھے بغیر ہی بھاگ گئی۔
ایلی نے محسوس کیا جیسے صفدر کی آمد کی بات سنتے ہی شہزاد کا رنگ ہی بدل گیا ہو۔نہ جانے یہ ایلی کا وہم تھا یا حقیقت پر مبنی تھا کہ صفدر کی خبر سن کر شہزاد کی آنکھوں میں وہی مسکراہٹ لہرائی تھی جو کبھی اس کی آمد پر لہرایا کرتی تھی۔
چائے پینے کے بعد ایلی باہر جانے کے لئے تیار ہوگیا۔
کہاں جائے گا تو۔“ ہاجرہ نے پوچھا۔
باہر جا رہا ہوں لوگوں سے ملنے کے لئے۔“
لوگوں سے ملنے کے لئے۔“ فرحت نے معنی خیز انداز سے کہا۔آج لوگوں کا ملنا یاد آگیا تجھے۔“
میں نے کہا۔ہاجرہ بولی۔تو کیا شہزاد سے ناراض ہو۔؟“
نہیں تو“ وہ بولا۔
تو ادھر گیا کیوں نہیں۔“
جاؤں گا۔“
اماں“ فرحت بولی۔تو بھی حد کرتی ہے خواہ مخواہ۔“
نہیں بیٹی۔ ہاجرہ بولی۔نہ کسی سے اتنا میٹھا ہونا چاہیئے اور نہ اتنا کڑوا۔جا کر مل لے اُس سے ورنہ لوگ کیا کہیں گے۔“
مجھے لوگوں کی پرواہ نہیں اماں۔“ایلی بولا۔
دیکھو نا ایلی۔“ فرحت بولی ۔اب تو تعلیم سے فارغ ہوگیا ہے اب تجھے یہاں نہیں رہنا چاہیئے۔پھر اُسی جھنجھٹ میں پھنس جائے گا۔اب تو تجھے کسی نہ کسی نوکری پر چلے جانا چاہیئے۔
ابھی تو نتیجہ نہیں نکلا۔ابھی سے نوکری کہاں ملے گی۔ایلی اُسے گھورنے لگا۔
ابّا نے ہمیں لکھا ہے کہ فوراً اُسے بھیج دو۔نتیجہ نکلنے سے پہلے ہی نوکری مل سکتی ہے۔فرحت نے جواب دیا۔“
ہاں بیٹا۔ہاجرہ بولی۔اب تو وقت ضائع نہ کرنا۔اتنے سال ضائع کر چکا ہے اس طرح تو تیری زندگی کبھی نہیں سنورے گی۔تباہ رہے گی ساتھ ہماری بھی۔
ایلی خاموش ہوگیا۔
تو کیا میری بات مان لے گا۔ہاجرہ نے پوچھا ،دیکھ میں اک تیری امید کے آسرے پر جی رہی ہوں۔ہاجرہ کی آنکھ میں آنسو ڈبڈبا آئے۔
چلا جاؤں گا اماں، ایلی نے کہا۔
دو ایک دن میں نا۔“ فرحت بولی۔
ہاں ! وہ بولا۔دو ایک دن میں۔“
اور اگر شہزاد سے صلح ہو گئی پھر بھی۔فرحت نے چمک کر کہا۔
اے ہے تو چھوڑو۔خواہ مخواہ ایسی بات کرتی ہے۔ہاجرہ بولی،اور دیکھ شہزاد سے ہنستے ہنستے جدا ہونا غصّے میں نہیں۔کیا فائدہ ہے۔“؟
اُس بےچاری نے تیرا کیا بگاڑا ہے۔الٹا اس نے تو ہم سے بہت ہی اچھا سلوک کیا ہے۔ہاجرہ نے کہا۔“
ہوں ۔“ ایلی بولا اور چل پڑا۔
اجنبی عورت۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
سیڑھیوں کے قریب پہنچ کر دفعتاً اُس نے باہر جانے کا ارادہ بدل دیا اور شہزاد کے گھر کی طرف چل پڑا وہ سوچ رہا تھا شائد یہ میرا وہم ہے ناحق اُس پر شک کر رہا ہوں۔شائد کوئی بات ہی نہ ہو۔
اسے وہ دن یاد آگیا۔جب سنٹر ٹریننگ کالج میں جانےسے پہلے وہ رابعہ کے چوبارے میں شہزاد سے ملا تھا ۔شہزاد اُس کے روبرو آ کھڑی ہویئ۔
تم سمجھتے ہو۔“ اُس نے کہا۔کہ میں تمہاری طرف اس لئے بڑھی تھی کہ مجھے ہوس پوری کرنا تھی ۔الٹا میں نے تو ہوس پوری کرنے کے سب راستے بند کر دیئے ہیں۔میں نے اپنے خاوند سے بگاڑ کر لیا۔میں اُس کے ساتھ نہیں جاتی۔یہاں میں کس لئے بیٹھی ہوں۔کس لئے کس اُمید پر۔
ایلی گھبرا گیا۔اُسے کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا۔یقینناً اُس کا وہم تھا۔ناحق اُس پر شک کر رہا تھا ۔جب وہ شہزاد کے کمرے میں پہنچا تو وہ چپ چاپ بیٹھی مشین پر کام کر رہی تھی۔
یہ دیکھ کون آیا ہے۔“ جانو چلّائی۔
شہزاد چپ چاپ کام کئے گئی۔
میں نے کہا ایلی آیا ہے۔جانو بولی۔
آیا ہے تو ٹھیک ہے۔“ وہ بولی۔میں کیا جانتی نہیں کہ آیا ہے۔
ایلی کو دھچکا سا لگا۔
چائے نہیں پلائے گی کیا۔“ ایلی نے دل کڑا کر کے کہا۔
کیوں نہیں۔“ وہ ویسے ہی کام میں مصروف بولی۔جا جانو چائے لے آ۔لگا دے اُس میز پر۔
یہ انتہا تھی۔ایلی کا جی چاہا کہ اُٹھ کر چلا جائے لیکن وہ ضبط کئے بیٹھا رہا۔جانو چائے لانے کے لئے نیچے چلی گئی تو اُس نے شہزاد پر نگاہیں گاڑ دیں لیکن وہ اس قدر مصروف تھی کہ اُس نے آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھا۔
یہ صفدر یہاں کب سے آتا ہے۔“ ایلی نے پوچھا۔
جب میں بلاتی ہوں آتا ہے۔“ اُس نے روکھے انداز سے جواب دیا۔
دن میں کئے بار بلاتی ہو۔“
جتنی بار دل چاہے۔“ وہ بولی۔
بہت دل چاہتا ہے تمہارا۔“ ایلی نے نفرت سے پوچھا۔
اپنا اپنا دل ہے۔“ وہ بولی۔مجھ پر کون بندش ڈال سکتا ہے۔“
ایلی حیرت سے اُس کی طرف دیکھ رہا تھا۔کیا یہ وہی شہزاد تھی جو ابھی ابھی فرحت کے پاس بیٹھے ہوئے اُسے دیوتا کہہ رہی تھی۔
شہزاد کیا تمہیں معلوم ہے۔“ ایلی نے کہا۔کہ وہ ایک اوباش آدمی ہے۔شرابی ہے اور اُسے کسی کی عزّت کا خیال نہیں۔“
جس کی عزّت ہو وہ سوچے یہ باتیں۔مجھے ان سے کیا۔اُس نے جلے کٹے انداز سے جواب دیا۔
ایلی اُٹھ بیٹھا اور شہزاد کی طرف بڑھنے لگا۔
نہ مہربانی کرو۔“ وہ ہاتھ جوڑ کر طنزاً بولی۔مجھے آرام سے جینے بھی دو گے یا نہیں۔
لیکن تم نہیں سمجھتی۔“ وہ چلّایا۔
میں سمجھنا نہیں چاہتی ۔مجھے کوئی نہ سمجھائے۔
تو کیا یہ تمہارا آخری فیصلہ ہے۔“ایلی نے پوچھا۔
مجھ سے یہ سوال پوچھنے کا کسی کو حق نہیں۔“ وہ اُٹھ کر کھڑی ہو گئی۔اُس کی آنکھوں سے نفرت کے شرارے نکل رہے تھے۔
شہزاد یہ تم کہہ رہی ہو۔“ وہ چلّایا ۔
وہ خاموش رہی۔
میں کیا پوچھ رہا ہوں۔“؟
میں کیا مجرم ہوں کہ جواب دیتی پھروں۔“
وہ چپ چاپ پھر سے کرسی پر بیٹھ گیا اور وہ مشین چلانے لگی۔دیر تک وہ دونوں چپ چاپ بیٹھے رہے۔
کچھ دیر بعد جانو کی نیچے سے آواز آئی۔
یہ آگیا صفدر۔“ وہ بولی۔
اچھا میں آئی۔“ یہ کہہ کر وہ قلانچیں بھرتی ہوئی سیڑھیاں اُترنے لگیں۔
ایلی چپ چاپ اُٹھا اور نہ جانے کدھر کو چل پڑا۔اُس کے حواس معطل ہو چکے تھے۔اُسے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔دماغ میں ایک بھیانک خلا پھیل رہا تھا۔اس وقت نہ اسے غم تھا نہ غصّہ۔اُس کا ذہن ایک سادہ ورق میں تبدیل ہوچکا تھا۔اس کے ارد گرد چاروں طرف لامحدود وسعتیں پھیل گئی تھیں۔اور ان میں ایلی گویا کھو گیا تھا۔وہ بوجھل اور بھیانک خلا یوں جھول رہا تھا جیسے سمندر ہو۔اُس میں لہریں اُٹھ رہی تھیں اور ایلی کی ناؤ جھول رہی تھی۔بہہ رہی تھی۔بہے جا رہی تھی۔نہ بادبان تھے نہ چپّو ۔نہ کوئی راستہ نہ منزل۔
سارا دن نہ جانے وہ کہاں کہاں مارا پھرتا رہا۔محلّے والے اُسے دیکھ کر رک جاتے۔
ایلی ہے۔کب آیا تو ۔ارے۔“وہ چلاتے ۔یہ تجھے کیا ہوا ہے۔اپنی شکل کی طرف تو دیکھ۔بیمار ہے کیا۔“؟
پہلے تو اُس نے یہ بات سن کر تعجب کا اظہار کیا ۔پھر اُس نے کہنا شروع کردیا۔ہاں بیمار ہوں۔“
کیا بیماری ہے۔؟ وہ پوچھتے۔
بخار آتا رہا ہے۔“وہ جواب دیتا۔
لوگوں کو ایسے سوال کرتے دیکھ کر اُس نے اپنا پروگرام بدل دیا۔اُس کا ارادہ تھا کسی کے پاس جا بیٹھے لوگوں سے ملے۔رضا تو امرتسر جا چکا تھا۔چلو ہمدم کی طرف ہی سہی یا بھا اور جاہ کے گھر چلا جائے۔لیکن یہ محسوس کرکے کہ اُس کا چہرہ ضبط کے باوجود بھیانک دکھائی دے رہا ہے۔وہ باہر قبرستان کی طرف چلا گیا اور نہ جانے کہاں کہاں مارا پھرتا رہا۔
وہ سوچ رہا تھا میں کیا کروں؟کیا کروں میں ؟
شہزاد وہ شہزاد نہیں تھی۔کہاں وہ ہنستی کھیلتی مسکراتی ہوئی شہزاد اور کہاں یہ عورت۔ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے وہ ایک اجنبی عورت ہو جسے ایلی نے پہلے کبھی نہ دیکھا ہو۔ہنستی تو وہ تھی مگر اس کی وہ ہنسی کسی اور کے لئے مخصوص ہو چکی تھی اور پھر صفدر کے لئے۔ایلی کے دل میں ٹیس سی اُٹھتی۔اگر شہزاد ویسے ہی ٹھکرا دیتی تو اُسے تکلیف نہ ہوتی۔کسی ایسے کے لئے ٹھکراتی جو کسی حیثیت کا مالک ہوتا ۔جس کی کوئی شخصیت ہوتی۔کچھ بھی ہوتا لیکن صفدر ایک خود غرض شرابی۔یہ سوچ کر اُس کا دل ڈوب جاتا۔
اس وقت اُس کی نگاہوں کے سامنے صفدر ابھرتا۔اُس کی انکھوں میں تحقیر بھری مسکراہٹ جھلکتی اور وہ ایلی کی طرف دیکھتا۔
میں نے تو کہا تھا بانٹ کر کھائیں کتنی منتیں کی تھیں کہ ہمیں بھی اس دہلیز پر بیٹھنے کی اجازت دو۔“ وہ قہقہہ لگاتا۔لیکن تم کب سنتے تھے۔“ ----------- پھر وہ ایڑیاں اُٹھا کر گانے لگتا۔حافظ خدا تمہارا۔“ --------- اور یوں اشارے کرتا جیسے کہہ رہا ہو۔اب چھٹی کرو بھائی۔“ ----------- پھر وہ شہزاد کی طرف متوجہ ہوتا اور دوسرا مصرعہ اُسے مخاطب کرکے کہتا ۔“ اے دلربا،ہوں میں فدا۔“
گھر پہنچ کر ایلی کو سمجھ میں نہ آیا کہ کیا کرے۔بہرحال ایک بات واضح تھی اُس کا علی پور میں رہنا ناممکن ہو چکا تھا۔اُسے جانا ہی ہوگا۔اس کے بغیر چارہ نہ تھا۔لیکن وہ چاہتا تھا کہ یوں نہ جائے۔شائد کسی روز شہزاد کہے۔تم خود مجھے چھوڑ کر چلے گئے تھے۔وہ سبھی کچھ برداشت کر سکتا تھا لیکن یہ الزام برداشت نہیں کرسکتا تھا کہ اُس نے شہزاد سے بےوفائی کی۔
وہ چاہتا تھا کہ جانے سے پہلے ثابت کردے کہ شہزاد بے وفائی کر رہی ہے لیکن اس کے پاس کوئی ثبوت نہ تھا ۔بات تو واضح تھی ۔شہزاد کی ہر حرکت سے ظاہر ہوتا تھا کہ اُسکی تمام تر توجہ صفدر پر مرکوز ہو چکی ہے اور اب وہ ایلی کو محض ایک رکاوٹ سمجھ رہی ہے ۔لیکن وہ چاہتا تھا کہ ڈرامائی انداز سے اُس وقت اُن کے سر پر جا کھڑا ہو جب وہ ایک دوسرے سے محبت کا اظہار کر رہے ہوں تاکہ وہ شہزاد کی بے وفائی اور اپنی مظلومیت کی دھاک بٹھا دے اور پھر ایک سچے عاشق کی طرح ان کے راستے سے ہٹ جائے اور باقی ساری زندگی اُس بےوفا محبوبہ کی یاد میں رو رو کر بسر کردے۔
رات تک وہ فیصلہ کر چکا تھا۔
رَت جگا۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
فیصلہ کرنے کے بعد وہ مطمئن ہوگیا۔اُسے یقین تھا کہ رات کے وقت وہ دونوں ضرور ملتے ہونگے صفدر اپنی کھڑکی سے پھلانگ کر شہزاد کے چوبارے میں آ جاتا ہوگا۔شہزاد اکیلی ہی تو تھی۔اُس کی ماں بیگم کہیں گئی ہوئی تھی۔جانو گھر کا کام ختم کرنے کے بعد اپنے گھر چلی جایا کرتی تھی۔صرف شہزاد اور اُس کی چار بچیاں چوبارہ میں رہ جاتی تھیں۔پھر رکاوٹ کونسی تھی۔وہ ضرور ملتے ہونگے ضرور۔
بارہ بجے تک وہ چپ چاپ پڑا رہا ۔اس نے بہانا بنایا جیسے سو رہا ہو۔پھر وہ چپ چاپ اٹھا اور دبے پاؤں شہزاد کے چوبارے کی طرف چل پڑا ۔وہ اس دروازے میں جا کھڑا ہوا جو شہزاد کے کوٹھے پر کھلتا تھا اور حالات کا جائزہ لینے لگا۔شہزاد کی بچیاں باہر صحن میں سوئی ہوئی تھیں اور وہ خود اندر کھڑکی میں کھڑی غالباً صفدر سے باتیں کر رہی تھی ۔اُسے یوں مصروف دیکھ کر وہ دبے پاؤں اندر داخل ہوا اور رابعہ کے خالی چوبارے میں جا کر چھپ گیا۔
وہاں کھڑا ہوکر وہ شہزاد کی طرف دیکھتا رہا۔وہ ہنس ہنس کر باتیں کر رہی تھی ۔اُسے اُن کی گفتگو کے متعلق کچھ علم نہ ہوسکا چونکہ وہ اُن سے کافی دور تھا لیکن اُن کے قہقہے ایلی کو سنائی دے رہے تھے ۔وہ کتنی خوش نظر آ رہی تھی۔
پھر دفعتاً اُس نے ہنسنا موقوف کردیا اور وہ زیرِ لب باتیں کرنے لگے۔ضرور وہ ملنے کی تفصیلات طے کر رہے تھے۔
تقریباً آدھ گھنٹے بعد شہزاد چلّائی ۔
ہئے۔آدھی رات ہوچکی ہے اب مجھے نیند آتی ہے۔“ یہ کہہ کر اُس نے آخری قہقہہ لگایا اور پھر باہر چارپائی پر آکر لیٹ گئی۔
دیر تک ایلی وہاں کھڑا رہا۔پھر وہ بیٹھ گیا۔
محلے پر سکوت طاری تھا ۔تمام آوازیں بند ہوچکی تھیں البتہ احاطہ میں چمگاڈڑیں چیخ رہی تھیں جو اس سکوت کو اور بھی بھیانک بنا رہی تھیں۔احاطے میں گھٹا ٹوپ اندھیرا تھا۔شہزاد کے کوٹھے پر بھی خاصا اندھیرا تھا ۔اندر چوبارے میں ایک چھوٹا سا دیا جل رہا تھا جس کی مدّھم روشنی صحن کے ایک حصّے پر پڑ رہی تھی۔
اگر صفدر نے آنا تھا تو شہزاد نے دیا کیوں جلا رکھا تھا ۔وہ سوچنے لگا -------- شائد اس لئے کہ کھڑکی پھلانگ کر آنے میں اسے دقت نہ ہو ۔وہ کھڑکی پر نگاہیں جمائے سوچتا رہا ۔مسجد کی گھڑی نے دو بجا دیئے اور وہ چونکا۔دو بج گئے۔
پھر وہ دبے پاؤں نکلا اور شہزاد کے سرہانے آ کھڑا ہوا۔وہ بازو سر تلے رکھے بے خبر سو رہی تھی جیسے کہ اُس کی عادت ھی۔ایلی کا دل چاہا کہ اُسے جگا دے اور پھر اُس کے پاؤں پر سر رکھ کر رو دے لیکن اُسے شہزاد کے قہقہے یاد آگئے۔اُسے اچھی طرح معلوم تھا کہ ایلی دکھی ہے ۔دکھی نہ سہی چلو ناراض ہی سہی اور وہ جان بوجھ کر صفدر کے ساتھ قہقہے لگا رہی تھی۔اور پھر جب وہ اس وقت اس کے پاس آیا تھا تو کس بے اعتنائی سے اُس نے کہا تھا جانو اِسے چائے پلا دے۔جیسے کسی بھکاری کو بھیک دی جاتی ہے۔
چند منٹ وہاں رک کر وہ شہزاد کے چوبارے میں داخل ہوگیا۔
وہاں وہ صندوقوں کے پیچھے چھپ کر بیٹھ گیا اور سوچنے لگا۔بہت رات بیت چکی اب تو شائد صفدر نہیں آئے گا۔اسے اس بات پر دکھ ہو رہا تھا اس وقت اس کی سب سے بڑی خوشی اس بات پر منحصر تھی کہ صفدر کھڑکی پھلانگ کر آجائے۔آکر شہزاد کو جگائے اور شہزاد اُس کے گلے میں باہیں ڈال دے پھر ایلی چپکے سے باہر نکلے اور اُن کے روبرو آکر کہے۔
آداب عرض ہے محترمہ۔“
اور پھر چپ چاپ اپنے گھر آجائے اور اگلے روز صبح سویرے ہی ہمیشہ کے لئے علی پور کو خیر باد کہہ دے گھڑی نے تین بجا دئیے ۔اب اُسے یقین ہو گیا کہ اُس کی آرزو پوری نہ ہوسکے گی ۔شائد وہ اس لئے نہیں مل رہے تھے کہ ایلی وہیں تھا اور شہزاد کو ڈر تھا کہ کہیں بھانڈا پھوٹ جائے ------- پھر وہ اعلانیہ قہقہے کیوں مارتی تھی --------- ایلی کو سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔
بہر صورت کوئی ثبوت تو ہونا چاہیئے ۔شائد شہزاد کے ٹرنک میں صفدر کے محبت نامے ہوں۔صفدر نے ضرور خط لکھے ہوں گے۔جیسے وہ خود شہزاد کو لکھا کرتا تھا۔
اُس نے شہزاد کا صندوق کھول کر اُس کی ہر چیز باہر نکال کر دیکھی لیکن اس میں کوئی خط نہ تھا البتہ اُس میںکئی ایک ایسی بیکار چیزیں پڑی تھیں جو کسی زمانے میں ایلی نے اُسے دی تھیں مثلاً ایلی نے ایک مرتبہ شہزاد کو ایک کھلونا دیا تھا ۔سیاہ لکڑی کو بنا ہوا ایک جاپانی کبڑا ۔اور ایلی نے یہ کُبڑا دیتے ہوئے اُس سے کہا تھا۔
جانتی ہو یہ کون ہے۔؟ یہ تمہارے میاں ہیں ۔“ دیکھ لو پہچان لو ۔“
اور شہزاد نے قہقہہ لگایا تھا۔
پھر وہ تسبیح تھی جو اندھیرے میں روشن دکھائی دیتی تھی۔اُس کے علاوہ ٹرنک میں شہزاد نے اپنی پرانی پھٹی ہوئی دو بنیانیں سنبھال کر رکھی ہوئی تھیں۔
جب بھی ایلی شہزاد سے ملتا تو وہ تقاضا کیا کرتا کہ شہزاد اُسے اپنی پرانی میلی بنیان دے دے ۔ایلی کو شہزاد کے جسم کی بو سے بہت محبت تھی۔وہ اُس کی پہنی ہوئی میلی بنیان پہن کر بے حد مسرت محسوس کیا کرتا تھا کہتا تھا یہ بنیان پہن کر میں محسوس کرتا ہوں جیسے تم مجھ سے بغل گیر ہو ۔اسی لیئے شہزاد اپنی پرانی بنیانیں سنبھال کر رکھا کرتی تھی کہ ایلی آئے تو اُسے تحفتاً دے۔
ایلی ان سب چیزوں کو غورسے دیکھ رہا تھا۔اُسے ان چیزوں کو دیکھ کر دکھ ہورہا تھا۔
مایوس ہوکر اُس نے صندوق بند کردیا۔
دفعتاً اُس کی نگاہ لیٹر پیڈ پر پڑی ۔ہائیں۔اُس نے سوچا،لیٹر پیڈ۔شہزاد نے تو کبھی لیٹر پیڈ استعمال نہیں کیا۔جب بھی اُسے خط لکھنا ہوتا تھا تو وہ اپنی بچیوں کی اسکول کی کاپی سے ورق پھاڑ لیا کرتی تھی۔پھر یہ پیڈ۔
اس نے پیڈ کو اُٹھا لیا۔اچھا خاصا خوبصورت پیڈ تھا۔ابھی نیا ہی تو تھا۔صرف چند ایک ورق ہی پھاڑے گئے تھے۔
ارے ------------- وہ پیڈ اُٹھا کر دیئے کے پاس جا بیٹھا۔اوپر کے ورق پر الفاظ کھدے ہوئے نظر آرہے تھے جیسے کسی نے پینسل سے کسی ورق پر کچھ لکھا ہو اور نچلے ورق پر دباؤ کی وجہ سے نشانات پڑ گئے ہون۔
اُس نے پیڈ کا اوپر کا ورق پھاڑ لیا اور اُسے دیکھنے لگا لیکن روشنی کافی نہیں تھی اس لئے وہ کچھ پڑھ نہ سکا بہرحال الفاظ واضح طور پر موجود تھے۔
اُس نے وہ کاغذ اُٹھایا اور دبے پاؤں چپ چاپ گھر واپس آگیا۔
حافظ خدا۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
گھر آ کر بھی وہ سو نہ سکا۔وہ چاہتا تھا کہ جلد صبح ہو اور وہ کاغذ روشنی میں پڑھ سکے۔پیڈ کے اس کاغذ پر سرنامے کی جگہ واضح طور پر صفدر لکھا ہوا تھا اور اختتام پر شہزاد۔ایلی نے ہر ممکن طریقے سے کوشش کی کے اسے نفس مضمون کے متعلق کچھ علم ہو جائے لیکن وہ نقوش بے حد مدّھم تھے اور ان سے کوئی اندازہ نہ لگ سکتا تھا۔
سارا دن وہ اس خط کو پڑھنے کی ترکیبیں سوچتا رہا ۔اُس نے خورد بین مہیا کی۔آئینہ استعمال کیا۔اس کاغذ کی فوٹو لی اور آخرش اس پر سیاہی ملی تاکہ دباؤ سے بنے ہوئے الفاظ کی سفیدی واضح ہوجائے لیکن اُس کی کوئی ترکیب کامیاب نہ ہوئی۔
اُس پر دفعتاً اسے غصّہ آ گیا میں بھی کمینہ ہوں وہ سوچنے لگا۔جو ثبوت مہیا کر رہا ہوں کیا شہزاد کی ہر حرکت ایک واضح ثبوت نہیں ہے۔کیا اُس کا برتاؤ واضح ثبوت نہیں ہے۔تو پھر ثبوت کیوں۔یہ سوچ کر اُس نے اماں کو بلایا۔
اماں۔“ وہ بولا۔اماں۔ میں خان پور جا رہا ہوں۔
اچھا۔“ ہاجرہ کی باچھیں کِھل گئیں۔کب؟
آج رات کی گاڑی سے۔“
آج۔وہ گھبرا گئی۔اے ہئے دو چار دن تو رہ لے۔“
اماں تم بھی حد کرتی ہو۔اگر وہ خوشی سے جاتا ہے تو روکو نہیں۔فرحت بولی۔
تو خوشی سے جا رہا ہے ایلی؟ ہاجرہ نے پوچھا۔
تو کیا مجبوری سے جا رہا ہوں۔ایلی نے جواب دیا۔
تو شہزاد سے ناراض ہوکر تو نہیں جا رہا؟“ ہاجرہ بولی۔
واہ اماں۔“ فرحت چلّائی۔
ہئے کوئی بری بات کر رہی ہوں کیا ؟“ ہاجرہ نے معصوم انداز سے کہا۔
تو بھی بڑی بھولی ہے اماں۔
مجھے نہیں آتیں ٹیڑھی باتیں۔“ ہاجرہ نے کہا۔ہئے کسی سے ناراض ہوکر کیوں جدا ہو کوئی۔“
تو پھر ان دونوں کو منادے۔“ فرحت ہنسنے لگی۔
ہاں ہاں۔ہاجرہ بولی۔اس میں کیا ہرج ہے۔
تو اس کی باتیں نہ سن ماں۔“ ایلی نے کہا۔
مجھے نہیں سمجھ میں آتیں یہ باتیں ۔میرا دل تو صاف ہے۔ہاجرہ بولہ۔“
کچھ زیادہ ہی صاف ہے ماں۔“ فرحت ہنسی۔
چل میرے ساتھ شہزاد کی طرف۔“ ماں نے فرحت کی بات پر غور کئے بغیر کہا۔
نہیں اماں چھوڑ اس بات کو۔“ ایلی گھبرا کر بولا۔
ایلی رخصت ہونے لگا تو جانو نے شور مچا دیا۔
کچھ خبر ہے یا اپنی ہی دھن میں غرق رہو گی۔“وہ شہزاد سے کہنے لگی جو اس وقت صفدر سے باتوں میں مصروف تھی۔
کیا ہے۔“؟ شہزاد بولی۔
ایلی خان پور جا رہا ہے۔“
شہزاد نے قہقہہ لگایا۔تو پھر۔“؟
اے میں کہتی ہوں واقعی وہ جا رہا ہے۔“جانو چلّائی ۔
شہزاد پھر ہنسی۔تو کیا کروں۔“؟وہ بولی۔کیا گھوڑا گاڑی جوت کر لاؤں۔“
ہئے کیا باتیں کر رہی ہے تو۔ابھی کل تو ------- ۔“ جانو رک گئی۔
بہت منا دیکھا میں نے۔“ شہزاد نے کہا۔اب نہیں ۔“
ایلی نے سنا۔اس کے دل پر کسی نے گویا جلتی ہوئی میخ گاڑ دی۔
محلے کے چوگان میں محلے والیوں نے ایلی کو روک لیا۔
کون جا رہا ہے ماں۔؟ ایک کھڑکی میں آ کھڑی ہوئی۔
اپنا ایلی ہے۔“ ماں نے کہا۔
جا رہا ہے۔علی پور چھوڑ کر جا رہا ہے۔“ دوسری بولی۔
ہئے شہزاد کی کھڑکی خالی ہے۔“ ایک نے طعنہ دیا۔
وہ اُدھر دوسری کھڑکی میں کھڑی ہے نا۔اس لئے۔“
ہئے کتنی کھڑکیاں کھلتی ہیں اُس کے چوبارے میں۔“
بارہ دری ہے ماں۔“ وہ قہقہہ مار کر ہنس پڑی۔
ایک دن جانا ہی پڑتا ہے بیٹا۔“ ماں بولی۔چلو اچھا ہی ہوا تو بھی کام کاج پر لگے گا۔“
ایلی کا سر جھک گیا۔اسے ایسا محسوس ہوا جیسے اُن سب نے گوبر کی ٹوکری اُس کے سر پر گِرا دی ہو۔شرمساری اور ذلّت سے لت پت وہ چل پڑا ۔اُس کے قدم بوجھل ہو رہے تھے۔گردن کا منکا گویا ٹوٹ گیا تھا۔سامنے ایک خلا تھا۔ایک دھندلکا تاریکی جو منہ کھولے بیٹھی تھی۔دور صفدر کا گراموفون چلّا رہا تھا۔
حافظ خدا تمہارا۔اے دلربا ہوں میں فدا۔