صفحات

تلاش کریں

13-سادی

بہتا تنکا

سفید منزل سے آنے کے بعد ایلی محسوس کر رہا تھا جیسے وہ لکڑی کا ایک چھوٹا سا ٹکرا ہو جو جہاز کے پاش پاش ہو جانے کے بعد طوفان میں بہتا ہوا ایک ویران ساحل پر آ لگا ہو۔۔
لاہور کی وہ ہما ہمی گویا معدوم ہو چکی تھی۔۔عمارتوں کو وہ پھیلاؤ سمٹ کر بے معنی حقیر ڈھیر بن گیا تھا۔۔جسے چاروں طرف سے پھیلے نیلے آسمان نے گھیر لیا تھا سڑکوں پر دھول اڑتی تھی۔۔مکانات گڈ مڈ ہو رہے تھے۔۔جیسے دفتعاً زندگی سے حرکت مفقود ہو گئی ہو اور چادر پر ایک ساکن تصویر رہ گئی ہو۔۔۔
سارا دن وہ نیم چھتی میں بیٹھ کر اونگھتا شام کو سوچتا کیا کروں کدھر جاؤں۔۔
اس کی اس تواریخی واپسی کے بعد صرف ایک دن کے لیے ناؤ گھر میں ہنگامہ سا ہوا تھا۔۔نہ جانے کیسے لیکن بھا جاہ اور پال کو اس رات کے ہنگامے کا علم ہو چکا تھا۔۔ممکن ہے بخشی بخاری نے بات کہہ دی ہو یا خون بلغم کے لیب کے اس ڈاکٹر نے انہیں قصہ سنا دیا ہو جو سفید منزل کے قریب ہی رہتا تھا۔۔یا شاید بھا نے ہنگامہ سن کر خود جا کر تحقیق کی ہو بہرحال اس روز وہ تینوں دیر تک بیٹھے باتیں کرتے رہے تھے۔۔
بڑا ہنگامہ ہوا۔۔‘‘بھا نے کہا‘‘ سارے محلے والے جانتے ہیں۔۔‘‘
‘ہوں۔۔‘‘جاہ نے منہ بنایا۔۔
‘‘جبھی کل رات ہم سے بغل گیر ہو رہا تھا۔۔‘‘پال بولا۔۔
‘‘ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘بھا بولا۔۔‘‘میں نے بھی کہا بارہ بجے کون سی گاڑی جاتی ہے۔۔‘‘
‘مجھے یہ معلوم نہ تھا کہ ایلی چھپا رستم ہے‘‘جاہ نے کہا‘‘انسان کو سمجھنا کتنا مشکل ہے۔۔ایک طرف تو وہ پایاب کنارہ اور دوسری طرف یہ عمق‘‘ وہ فلسفیانہ انداز میں مسکرایا۔۔اس کی مسکراہٹ میں تحقیر کی جھلک تھی۔۔
‘‘پال ہنسنے لگا‘‘ بھئی عشق و محبت کے دن ہیں۔۔‘‘
‘‘ہم پر تو نہ آئے یہ دن‘‘ جاہ نے کہا ایک ذرا سی راہ و رسم ہوئی تھی۔۔لیکن یار یہ کام اپنے بس کا نہیں۔۔کون سارا وقت ضائع کرے۔۔‘‘وہ ہنسنے لگا۔۔
لیکن کیا واقعی وہ جا رہے تھے؟‘‘ پال نے پوچھا۔۔
‘‘ہاں ہاں‘‘ بھا نے کہا۔۔
حیرت ہے۔۔‘‘ایلی پر کوئی اس قدر مفتون ہو جائے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘وہ ہنسنے لگا‘‘ ہاں بھئی ہوئی ہم پر ہوتی تو کوئی بات بھی تھی۔۔اور پھر اس کا گھرانہ۔۔۔ کوئی معمولی گھرانہ نہیں۔۔‘‘
انصار منصر۔۔‘‘پال نے پوچھا وہ کون ہے۔۔‘‘
‘امیر تو خیر نہیں مگر بڑا مہذب متمدن گھرانا ہے اور منصر کی قابلیت کا بڑا چرچا ہے اصلیت کا تو علم نہیں مجھے شاید واقعی قابل ہو۔۔ویسے اونچے ہوٹلوں میں بیٹھنے والا آدمی ہے۔۔‘‘
پھر تو بڑا آدمی ہوا۔۔‘‘پال تمسخر سے بولا جاہ ہنسا۔۔باقی اللہ جانے۔۔‘‘
‘ایلی سے پوچھیں تو ہی‘‘ بھا نے کہا۔۔‘‘
‘فضول‘‘ جاہ بولا جس بات کو اس نے خود ہم سے جان بوجھ کر راز میں رکھا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر لوگوں کے پرائیویٹ معاملات میں دخل دینا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
جمال نے پہلے روز تزکرہ چھیڑا تھا۔۔
‘‘یار مجھے خواہ مخواہ پٹوا دیا۔۔‘‘وہ بولا‘‘ میں چیختا چلاتا رہا کہ میں نہیں ہوں لیکن انہوں نے میری ایک نہ سنی۔۔اور پھر اندر لے جا کر پھر سے پٹائی شروع کر دی پھر دھونس جمانے لگے میں نے ہزار بار کہا کہ حضور میں نہیں ہوں۔۔آپ گلط آدمی کو پکڑ لائے ہیں لیکن وہ میری بات ہی نہیں سنتے تھے وہ تو شکر ہے تم واپس آ گئے اور تمہاری آواز سن کر میں نے شور مچا دیا وہ ہے وہ الیاس۔۔اگر تم نہ آتے تو نہ جانے کیا ہوتا۔۔
یہ قصہ سنانے کے بعد وہ الیاس سے پوچھتا رہا کہ اس کے ساتھ سفید منزل والوں نے کیا سلوک کیا۔۔ایلی نے مختصر سی بات بتا کر قصہ ختم کر دیا۔۔
دن تو ایلی چپ چاپ اس وسیع ویرانے کو حیرت سے گھورتا رہا جو اس کے اردگرد پھیلا ہوا تھا۔۔تیسرے روز اس دھندلکے میں روشنی کی ایک کرن دکھائی دی ڈاک سے ایلی کے نام منصر کا ایک خط موصول ہوا جس میں لکھا تھا کہ از راہ کرم مجھے شام کے وقت میرے دفتر میں ملیئے۔۔نیچے دفتر کا مفصل پتہ تحریر تھا۔۔
خط موصول ہونے کے بعد ایلی کے گردو پیش پھر سے استوار ہو گئے چیزیں پھر سے اپنے آصلی روپ میں اجاگر ہو گئیں۔۔آسمان سمٹا شہر پھیل گیا۔۔نہ جانے کیوں بلایا ہے ایلی نے سوچا شاید کیس پولیس کے حوالے کرنے کا ارادہ ہو۔۔یا شاید پھر سے تحقیق کرنی ہو۔۔چاہے کچھ بھی ہو۔۔چاہے اس ملاقات کی نوعیت ضرر رساں ہو۔۔پھر بھی ملاقات تو ہو گی۔۔چاہے منفی ہی سہی ایک تعلق تو ااستوار ہو گا۔۔اور پھر منصر کا قرب اس کے گدے سے ہاتھ پاؤں اس کے ہونٹوں کا خم۔۔اس کا ذہانت بھرا حسیں چہرا۔۔۔۔۔ایلی بے حد خوش تھا۔۔۔

انصار منصر

شام کے وقت جب وہ دفتر پہنچا تو منصر نے اس کی آمد کو خاص اہمیت نہ دی۔۔
‘‘بیٹھئے۔۔‘‘وہ بولا ذرا میں کام ختم کر لوں۔۔سگریٹ پیجئے۔۔اس نے پیکٹ ایلی کی طرف بڑھا دیا اور یوں کام میں منہک ہو گیا جیسے اسے خصوصی طور پر بلایا ہی نہ گیا ہو۔۔
دیر تک ایلی وہاں بیٹھا رہا وہ حیرت اور احترام بھری نظروں سے منصر کو دیکھتا رہا۔۔پھر منصر اٹھا۔۔
آپ کو زیادہ دیر کے لیے انتظار تو نہیں کرنا پڑا ؟ ‘‘منصر نے اس کے قریب آ کر بڑے اخلاق سے کہا ایلی اس کے رویے پر حیران تھا۔۔
‘‘آئیے‘‘ منصر نے کہا‘‘ اب چلیں۔۔‘‘
لیکن‘‘ ایلی نے کہا آپ نے مجھے بلایا تھا۔۔‘‘
‘‘ہاں ہاں ‘‘منصر بولا چلیے نا گھومیں پھریں گے۔۔
ایلی نے حیرت سے منصر کی طرف دیکھا۔۔
کسی جگہ بیٹھ کر بات کریں گے۔۔‘‘منصر نے پینترا بدلا۔‘‘
منصر نے ایلی کو اپنے موٹر سائیکل کے پیچھے سوار کر لیا اور وہ دونوں چل پڑے۔۔
سٹفلز ہوٹل میں پہنچ کر منصر نے سرسری طور پر کہا۔۔
میں نے سوچا آج شام اکھٹی بسر کریں۔۔آپ تو سارا دن مطالعہ کرتے ہوئے تھک جاتے ہوں گے شام کو ذرا سی تفریح ہی سہی۔۔‘‘
ایلی سوچ رہا تھا کہ کہاں وہ باہر نکال دو اس بدمعاش کو۔۔اور کہاں یہ شام اکھٹی بسر کرنے کی تجویز اور حیرت کی بات یہ تھی کہ دو گھنٹے اکھٹے رہنے کے بعد منصر نے اشارتاً بھی کسی ایسی بات کا ذکر نہ کیا تھا جو گزشتہ واقعہ سے متعلق ہو۔۔وہ نہایت بے تکلفی اور گرم جوشی سے ایلی سے باتیں کر رہا تھا۔۔جیسے دونوں بہت پرانے دوست ہوں۔۔
انصار منصر کی شخصیت کو دیکھ کر ایلی بھونچکا رہ گیا۔۔وہ ایک خوبصورت اور پیارا جوان تھا۔۔اس کا لباس سادا ہونے کے باوجود نفیس تھا۔۔جس میں رنگوں کا حسین امتزاج تھا۔۔اس کی حرکات میں لے تھی۔۔باتوں میں مزاح کی جھلک تھی۔۔مزاج رنگین تھا اور شعر و سخن ادب اور آرٹ سے لگاؤ تھا اور اس کی علمی معلومات بہت وسیع تھیں۔۔
منصر نے جب ایلی کو ناؤ گھر کے دروازے پر موٹر سائیکل سے اتارا تو وہ کہنے لگا اگر اعتراض نہ ہو۔۔میرا مطلب ہے اگر آپ کا کوئی پروگرام نہ ہو اور تعلیم کا حرج نہ ہو تو کل شام کو دفتر آ جائیے گا۔۔‘‘
اس کے بعد ایلی کا معمول ہو گیا کہ سارا دن وہ کتاب کے سامنے رکھ کر شام کے خواب دیکھتا اور شام کو منصر کے دفتر میں پہنچ جاتا اور پھر جب منصر کام سے فارغ ہوتا تو وہ اس کے موٹر سائیکل پر یوں بٹھاتا جیسے شاہی تخت پر بیٹھا ہو۔۔شاہ کا جلوس سڑکوں پر گھومتا۔۔لوگ حیرت سے اس کی طرف دیکھتے اور ادب سے صف آرا ہو جاتے کتو بیرے تعظیم کے لیے کھڑے ہو جاتے ورنش بجا لاتے۔۔جب وہ سٹفلز ہوٹل میں پہنچتے تو بیرے تعظیم کے لیے کھڑے ہو جاتے۔۔
اگرچہ منصر کی عادت تھی کہ وہ عالمانہ باتیں کرنے سے احتراز کرتا تھا پھر بھی کوئی نہ کوئی بات چلتے چلتے منصر کے منہ سے نکل جاتی جسے ایلی یوں حفظ کر لیتا جیسے وہ قران کی آیت ہو۔۔عالمانہ بات چھوڑئیے منصر کوئی بھی ایسی بات کرنے سے احتراز کرتا تھا۔۔جس سے اس کی برتری ثابت ہو۔۔یا جو ایلی کو احساس کمتری دلائے۔۔عجیب بات تھی یہ کہ منصر نے کبھی ایلی کو
اس حقیقت کا احساس نہ دلایا گیا تھا کہ وہ سادی کا بھائی ہے یا اسے اس گھرانے سے کوئی تعلق ہے جہاں ایلی پر چوری کا الزام لگایا گیا تھا۔۔منصر نے اس دوران میں التزاماً اپنے گھر کے متعق صرف ایک بات کی تھی اور وہ بھی سرسری طور پر کہنے لگا۔۔
الیاس صاحب آپ سفید منزل کی طرف کبھی نہ جائیے گا۔۔ورنہ بڑی قباحتیں اور پیچیدیاں پیدا ہو جائیں گی اور ممکن ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘وہ دک گیا اور پھر معنی خیز مسکراہٹ سے کہنے لگا ‘‘مجھے یقین ہے کہ آپ ایسی حماقت نہیں کریں گے لہذا جملہ مکمل کرنے کی کیا ضرورت ہے۔۔۔‘‘ اس کے علاوہ ایک لوگ انجانے میں منصر کے منہ سے گھر کی بات نکل گئی تھی جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ سادی بیمار ہے اور کسی سپیشلسٹ کے زیر علاج ہے۔۔اس پر ایلی چونکا تھا۔۔اس کا جی چاہتا تھا کہ منصر سے پوچھے کہ اسے کیا تکلیف ہے اور اب کیا حال ہے۔۔لیکن منصر نے موضوع بدل دیا تھا اور ایلی میں پوچھنے کی جرات نہ ہوئی تھی پھر کچھ دیر بعد وہ منصر میں اس حد تک جذب ہو کر رہ گیا تھا کہ وہ یہ بھول چکا تھا کہ سادی بیمار ہے۔۔
پھر شام گزارنے کے بعد رات کے گیارہ بجے جب منصر نے اسے اپنے موٹر سائیکل سے اتارا تھا تو ناؤ گھر کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے دفتعاً ایلی کو یاد آیا تھا کہ سادی بیمار ہے۔۔وہ تڑپ کر مڑا تھا کہ منصر سے پوچھے لیکن منصر جا چکا تھا۔۔چند ایک روز کے بعد منصر نے خود ناؤ گھر میں آنا شروع کر دیا تھا۔۔وہ کبھی اوپر نہ آیا تھا۔۔شام کے وقت وہ ناؤ گھر کے نیچے ہارن بجاتا اور ایلی فوراً نیچے اتر آتا۔۔روز موٹر سائیکل کو ناؤ گھر آتے دیکھ کر بھا جاہ اور پال حیرانی سے ایلی کو طرف دیکھتے تھے اور جمال تو اسے دیکھ کر یوں کھل جاتا جیسے خربوزہ مٹھاس کی وجہ سے پھٹ جاتا ہے۔۔
‘‘یار ایلی تم کمال ہو۔۔‘‘وہ چلاتا ‘‘ یار تم تو منزل تک پہنچ کر رہے۔۔اب کیا ہے اب تو سب رام ہو گئے ہیں۔۔۔کیوں۔۔‘
لیکن ایلی کو نہ جانے کیا ہوا تھا کہ وہ جمال سے اجتناب کرنے لگا تھا۔۔اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ جمال کے روبرو ایلی احساس جرم محسوس کرتا تھا۔۔جیسے اس نے جمال کے سفید رنگ اور سنہرے بالوں کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کیا ہو جیسے اس نے شکار کرنے کے لئے سنہری دانا پھینکا ہو ۔۔اسی وجہ سے وہ اس سے زیادہ بات نہ کرتا بلکہ کوشش کرتا کہ اس کی بات کاٹ دے۔۔
نیم چھتی سے نیچے تو ایلی جاتا ہی نہ تھا۔۔اگر کبھی جاتا بھی تو وہ کوشش کرتا کہ جاہ سے دوچار نہ ہو۔۔لیکن کبھی کھبار بات جاہ تک پہنچ ہی جاتی اور وہ منہ بنا کر کہتا۔۔
‘‘ہاں بھئی آج کل ایلی صاحب اونچی ہواؤں میں اڑتے ہیں۔۔ہم رینگنے والے لوگ ان کی نگاہوں میں کہاں سماتے ہیں۔۔‘‘
اور یہ ایک حقیقت تھی جب سے ایلی منصر سے واقف ہوا تھا اس کے دل میں جاہ کے لئے وہ جذبہ احترام نہ رہا تھا۔۔وہ محسوس کرنے لگا جیسے وہ کتابی دنیا میں محصور ہو وہ اس رنگینی سے بےگانہ ہو جو زندگی کی جان ہو اس کی شحصیت میں کتابی علم کے علاوہ اور کچھ بھی نہ تھا۔۔
کبھی کھبار جب وہ منصر کے پاس ہوتا تو اسے خیال آتا کہ اگر میں بی- اے نہ کر سکا تو کیا ہوگا یہ لوگ کیا سمجھیں گے شاید وہ ایک انڈر گریجویٹ کو در خور اعتنا نہ سمجھیں۔۔اس روز گھر آ کر سنجیدگی سے کتابیں کھول کر بیٹھ گیا۔۔لیکن کتاب کے صفحات سے سادی جھانکتی۔۔‘‘میں بیمار ہوں۔۔‘‘منصر ہنستا‘‘آپ مجھ سے بات کریں الیاس صاحب۔۔براہ راست اس سے بات نہ کرنے کا آپ نے وعدہ کیا ہے۔۔‘‘سادی چلاتی۔۔اونہوں۔۔ان کا آپ سے تعلق صرف میری وجہ سے ہے ان کی مہربانیاں میری وجہ سے ہیں۔۔ان میں نہ کھو جائیے گا۔۔یہ صرف آپ کی توجہ کو جذب کرنا چاہتے ہیں تا کہ مرکز ٹوٹ جائے۔۔‘‘
ایلی کتاب بند کر دیتا۔۔پھر اسے محسوس ہوتا کہ زینے میں شہزاد کھڑی حرماں بھری نگاہوں سے اس کی طرف دیکھ رہی ہے۔۔وہ مڑتا۔۔ شہزاد آنکھیں جھکا لیتی اور زیر لب کہتی ‘‘نہیں میں نے کچھ نہیں کہا‘‘ اور پھر سیڑھیاں اترنا شروع کر دیتی۔۔

امتحان

ایک روز جب منصر اور ایلی ہوٹل میں بیٹھے تھے تو منصر نے غیر از معمول بیرے کو آرڈر دیتے ہوئے کہا ‘‘دو چھوٹا‘‘ ایلی چونکا۔۔دو چھوٹا اسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آتا تھا۔۔اس سے پہلے تو منصر نے کھبی دو کا آرڈر نہ دیا تھا۔۔شاید بے خبری میں۔۔۔۔لیکن منصر تو بے خبری میں بھی ہوشمندی کا مظاہرہ کرتا تھا۔۔اس میں عقل اور جذبے کی عجیب سی آمیزش تھی۔۔اس میں شک نہیں کہ جذبہ حاوی رہتا تھا لیکن اظہار کرنا منصر کے نزدیک سستا پن تھا۔۔اس کا وقار اس کی اجازت نہ دیتا تھا۔۔
بیرے نے دونوں چھوٹے میز پر رکھ دیئے۔۔منصر نے سگریٹ پھینکتے ہوئے تعجب سے میز کی طرف دیکھا۔۔
ارے کیا میں نے دو منگا لیے اچھا‘‘ وہ ہنسنے لگا ‘‘تو لیجئے‘‘۔۔پھر دفتعاً اس نے بات بدلی۔۔
چلو کیا ہے آپ کوئی مولانا تو ہے نہیں‘ آئیے میرے ساتھ شامل ہو جائیے۔۔‘‘
‘‘میں نے آج تک۔۔۔۔۔۔۔‘‘ ایلی نے معذرت کے لئے منہ کھولا۔۔
‘‘اوہ‘‘ وہ اک انداز محبوبیت سے بولا‘‘خدارا اب مسائل بیان کرنے نہ شروع کر دینا۔۔‘‘
‘‘لیکن۔۔۔۔۔۔۔‘‘ایلی نے پھر کوشش کی۔۔
‘‘آخر یہ لیکن ایک نہ ایک دن تو ٹوٹے گا ہی۔۔چلیئے آج ہی سہی۔۔‘‘مجھے معلوم ہے کہ آپ نے کھبی۔۔۔۔۔۔۔ہاں ہاں اب کیا پردہ ہے۔۔‘‘
اب کیا پردہ ہے۔۔اب کیا پردہ ہے سڑک پر موٹر بھونکنے لگی۔۔اب کیا پردہ ہے ہوٹل کے سازندے نے وائلن پر دہرایا۔۔ہاہاہاہا۔۔پاس بیٹھا ہوا ایک موٹا سکھ ہنسنے لگا ‘‘۔۔سب پردے ہٹا دیتی ہے۔۔کیا چیز ہے۔۔‘‘
دفتعاً ایلی کو خیال آیا کہ شاید منصر سوچی سمجھی سکیم کے مطابق اسے پلا رہا ہے۔۔پلانا چاہتا ہے تا کہ۔۔۔۔۔۔۔اس کا دل ڈوب گیا۔۔شاید وہ ایلی سے سادی کے متعلق تفصیلات جاننے کا خواہش مند ہے۔۔وہ ڈرتا تھا کہ اگر اس نے انکار پر اصرار کیا تو منصر سمجھے گا کہ وہ اپنا راز محفوظ کرنے کے لیے انکار کر رہا ہے اس سے ثابت ہو گا کہ راز کا وجود ہے۔۔ایلی نے اپنا آپ پتھر بنانے کی شدید کوشش کی۔۔اس نے اپنے تمام تر عزم کو للکارا کوئی بات زبان پر نہ آئے کوئی ایسی بات جس سے سادی پر حرف آئے۔۔سادی کی عزت کا سوال ہے۔۔پردہ جوں کا توں قائم رہے گا۔۔یہ دو گھونٹ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے بگاڑ سکتے۔۔ایلی نے چھوٹا اٹھا لیا۔۔اس کا ہاتھ ذرا نہ کانپا۔۔
اور وہ اسے یوں غٹ غٹ پی گیا جیسے چھوٹا نہیں بلکہ شربت کا گلاس ہو۔۔ایک ساعت کے لیے منصر نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا پھر دفتعاً مڑ کر چلایا بیرا دو چھوٹا اور۔۔‘‘
چار چھوٹے نگلنے کے بعد ایلی نے محسوس کیا کہ اس کے اندر آگ لگی ہے۔۔باہر ہوٹل پر ایک سرخ دھندلکا چھائے جا رہا تھا۔۔اور وہ پورے عزم سے اپنے آپ کو پتھر بنانے میں مصروف تھا۔۔
‘‘آپ کا امتحان کب ہو رہا ہے ؟ ‘‘منصر نے پوچھا۔۔
ایلی کا جی چاہا کہہ دے کہ امتحان تو ہو رہا ہے ممتحن سامنے بیٹھا ہے۔۔
پندرہ روز کے بعد ہو گا‘‘ وہ بولا‘‘ مشن کالج میں سنٹر بنا ہے۔۔‘‘
اس کے بعد منصر نے کئی ایک بار کہا کوئی بات کیجئے الیاس صاحب۔۔کچھ کہیئے۔۔
پھر اس نے خود کہنا شروع کر دیا۔۔‘‘آپ نے وہ شعر سنا ہے؟‘‘
نہ پوچھ حال میں وہ چوب خشک صحرا ہوں
لگا کے آگ جسے کارواں روانہ ہوا
کچھ دیر تک وہ اسے گنگناتا رہا۔۔پھر بولا‘‘ مجھے شعر بے حد پسند ہیں۔۔اور میں محسوس کرتا جیسے مجھ میں سینکڑوں اشعار بے تاب ہوں اگرچہ میں آج تک اپنے خیال کو شعر کا عملی جامہ نہ پہنا سکا۔۔ایک عظیم کیفیت کو چند الفاظ میں کہہ دینا بڑی بات ہے۔۔ہم تو بہت سارے الفاظ میں بھی نہیں کہہ سکتے۔۔آپ کو کون سا شعر پسند ہے ؟ ‘‘ اس نے پوچھا۔۔
ایلی کو اس وقت کوئی شعر یاد نہ آرہا تھا۔۔
پھر دفتعاً منصر نے بات کا رخ بدلا۔۔‘‘ہاں تو الیاس صاحب ذرا اس واقعے کی تفصیلات تو بتائیے جو ہماری ملاقات کا موجب ہوا۔۔میں صرف اس لیے پوچھ رہا ہوں۔۔‘‘وہ بولا‘‘ کیونکہ میرے دل میں بے لاگ استفسار پیدا ہوا ہے کسی خاص مقصد کے تحت نہیں پوچھ رہا اور نہ ہی آپ کے بتانے پر کسی قسم کے نتائج پیدا ہوں گے۔۔‘‘
ایلی نے شدت سے پتھر بننے کی کوشش کی وہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔۔‘‘دراصل بات وہی تھی جو میں نے آپ کو بتا دی تھی۔۔‘‘ایلی نے کہا‘‘ میں نے کوئی تفصیل چھپائی نہیں۔۔‘‘
‘‘ہوں‘‘ منصر نے کہا۔۔‘‘پھر بھی۔۔‘‘
‘‘آپ پوچھیئے کون سی خصوصی تفصیل۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
‘‘کیا ادھر سے ابتدا ہوئی تھی؟ ‘‘منصر نے کہا‘‘یا آپ کی طرف سے۔۔‘‘
‘‘ادھر سے نہیں‘‘ ایلی نے کہا۔۔
‘‘تو آپ نے ہی تحریک شروع کی تھی۔۔‘‘
‘‘ہاں۔۔‘‘
‘‘اور ادھر سے کیا ردعمل ہوا۔۔‘‘
‘‘اظہار نفرت۔۔‘‘ایلی نے کہا۔۔
منصر ہنسنے لگا۔۔‘‘آپ کسر نفسی سے کام لے رہے ہیں۔۔‘‘
‘‘مجھے کال کلوٹے کا خطاب دیا گیا۔۔‘‘
ہوں۔۔‘‘ تو کیا آخری واقعہ کے متعلق وہ تجویز آپ ہی کی تھی؟‘‘
‘‘ہاں ‘‘
‘‘اس سے آپ کا مقصد کیا تھا۔۔‘‘
‘‘جذبہ اور کیا۔۔‘‘میں نے سوچا نہیں۔۔‘‘ایلی نے جواب دیا۔۔
‘‘آپ نے یہ نہ سوچا کہ کسی کی زندگی تباہ ہو جائے گی۔۔‘‘
‘‘نہیں ایلی نے کہا۔۔‘‘
‘‘اور آپ کی تجویز منظور کیسے کر لی گئی ؟‘‘
میں نے خودکشی کی دھمکی دی تھی۔۔شاید اس لئے۔۔‘‘
منصر قہقہ مار کر ہنسا۔۔
‘‘اور وہ زیور۔۔کیا آپ کے کہنے پر لایا گیا تھا۔۔‘‘
‘‘نہیں۔۔بلکہ اگر وہ اٹیچی نہ ہوتا تو ہم جا چلے ہوتے۔۔‘‘
‘‘کیسے۔۔‘‘
‘‘میں نے اسے ساتھ لے جانے سے انکار کر دیا تھا۔۔‘‘
‘‘پھر آپ موقعے سے بھاگ کیوں گئے تھے ؟ ‘‘
‘‘مجھے میرے دو دوست زبردستی گھسیٹ کر لے گئے تھے۔۔‘‘
‘‘ہوں۔۔‘‘وہ قہقہ مار کر ہنسا آپ بھی خوب ہیں الیاس صاحب۔۔‘‘
‘‘کچھ دیر بعد اس نے پوچھا اگر آپ لوگ چلے جاتے تو کیا کرتے۔۔‘‘
‘‘شادی۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ایلی نے کہا۔۔
‘‘ہوں۔۔‘‘منصر نے ایک بھرپور نگاہ ایلی پر ڈالی۔۔
آپ کو امداد دینے والا کوئی تھا۔۔میرا مطلب ہے جہاں سے امداد کی توقع لگائی جا سکے۔۔‘‘
‘‘نہیں ایلی نے کہا۔۔‘‘
‘‘آپ کے والدین زندہ ہیں۔۔‘‘
‘‘جی۔۔‘‘
‘‘تو ظاہر ہے وہ آپ کی مدد کریں گے۔۔‘‘
‘‘اونہوں۔۔‘‘ایلی نے جواب دیا۔۔
‘‘کیوں۔۔منصر نے پوچھا۔۔
‘‘والد صاحب کی تین بیویاں ہیں۔۔‘‘
‘‘ہوں۔۔اور آپ کی اپنی والدہ۔۔‘‘
‘‘وہ ان کی پہلی بیوی ہیں۔۔‘‘ایلی نے جواب دیا۔۔
‘‘ایلی اٹھ بیٹھا اس کا ضبط ختم ہو چکا تھا ہوٹل کا وہ کمرہ لٹو کی طرح گھوم رہا تھا۔۔میز ایک دوسرے سے ٹکرا رہے تھے۔۔وہ محسوس کر رہا تھا کہ اب وہ کسی نالی میں گر کر بے ہوش ہو جائے گا۔۔
منصر بار بار اسے کہہ رہا تھا ک کچھ کھائے نا لیکن تلے ہوئے آلوؤں کے علاوہ کچھ کھانے کو جی نہیں چاہتا تھا۔۔
‘‘بیٹھئے نا ‘‘منصر نے کہا۔۔
‘‘میری طبیعت ٹھیک نہیں۔۔ایلی نے جواب دیا۔۔
‘‘چلیئے میں آپ کو ٹھیک کر دوں۔۔‘‘منصر نے ایلی کو سائیکل پر بٹھا لیا۔۔ایلی نے مضبوطی سے منصر کو پکڑ لیا۔۔اور پھر ایلی کو اس وقت ہوش آیا جب سائیکل رک چکا تھا۔۔اس نے سمجھا ناؤ گھر آ گیا وہ بھونکچا رہ گیا۔۔شاید نشے کی وجہ سے اسے ناؤ گھر کا چھوٹا سا دروازہ پھاٹک دکھائی دے رہا تھا۔۔
‘‘آئیے۔۔‘‘منصر نے آ کر اپنا ہاتھ اس کے شانے پر رکھ دیا۔۔
ارے۔۔‘‘حیرت سے اس نے منصر کی طرف دیکھا۔۔وہ دونوں سفید منزل میں داخل ہو رہے تھے۔۔
‘‘ایک بات کہوں۔۔‘‘منصر نے ہنس کر ایلی سے کہا۔۔‘‘پہلے تو ہم نے آپ کی بات تسلیم کر لی تھی لیکن اگر اب آپ کہیں کہ آج آپ کا پینے کا پہلا موقع تھا۔۔‘‘تو وہ رک گیا۔۔‘‘ بات قابل قبول نہیں۔۔‘‘
‘‘بیٹھئے منصر نے کہا۔۔ایلی نے کمرے کی طرف دیکھا یہ وہی کمرہ تھا جہاں وہ چند روز پہلے چور کی حیثیت سے داخل ہوا تھا۔۔اور آج۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن آج تو اسے اپنی حثیت کا علم نہ تھا۔۔وہ محسوس کر رہا تھا کہ واقعات پراسرار طور پر رخ بدل رہے تھے نہ جانے کیا ہونے والا ہے نہ جانے کیا ہو گا۔۔ایلی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔۔منصر نے کئی بار اسے تاکیدا ً کہا تھا۔۔‘‘الیاس
صاحب آپ کا ہمارے گھر جانا یا کسی قسم کا کوئی رابطہ پیدا کرنا ہمارے لیے تکلیف کا باعث ہوگا اور اب جب کہ ہمارے دوستانہ مراسم ہو چکے ہیں اگر آپ نے چوری چھپے کوئی بات کی یا کوئی بات مجھ سے چھپائی تو مجھے دکھ ہوگا"۔
"آپ شاید یہ سوچ رہے ہیں کہ یہاں آپ کو کیوں لایا گیا ہے۔ مجھے دفعتاً خیال آیا کہ اس حالت میں آپ کو اپنے لاج میں نہیں جانا چاہیئے۔ ابھی ٹھیک ہو جائیں گے۔ آپ لیجئے سگرٹ پیجئے۔ اوہ میں ہمیشہ بھول جاتا ہوں کہ آپ سگرٹ نہیں پیتے۔ لیکن اس میں میرا قصور نہیں کیونکہ اس عمر میں کم و بیش لوگ سگرٹ پینا شروع کر دیتے ہیں۔"
سائیکل پر ہوا کھانے کے بعد ایلی کی حالت اور بھی خراب ہو چکی تھی۔ اس کے تمام جسم میں شعلے بھڑک رہے تھے ۔ منہ سخت کڑوا ہو رہا تھا طبیعت مالش کر رہی تھی۔
"آپ کچھ دیر کے لئے یہاں آرام کیجئے۔ لیٹ جائیے۔" لیکن ایلی اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کر رہا تھا۔
"میں ابھی آیا" کہہ کر منصر چلا گیا اور ایلی کمرے میں اکیلا رہ گیا۔
پھر دفعتاً اس کی طبیعت گھبرائی وہ باہر بھاگا۔ سامنے اس زینے کا دروازہ تھا جہاں وہ پہلے کئی ایک بار آچکا تھا لپک کر کنڈی کھولی اور اندر پہنچتے ہی شدت سے قے کرنا شروع کر دیا۔
قے کے بعد اس کی طبعیت ہلکی ہو گئی۔ اس نے اس کمرے کی طرف حسرت بھری نظر ڈالی۔ فرش پر ابھی تک سگرٹوں کے ٹکڑے پڑے ہوئے تھے۔ سیڑھیوں پر ایک ماچس پڑی تھی۔ اسے ان ملاقاتوں کا خیال آگیا۔ یہاں وہ بیٹھ جایا کرتا تھا اور کوئی کہا کرتی تھی "آپ بیٹھ کیوں گئے۔ا ٹھئے نا۔"
"آئیے نا۔" اس کی پشت پر منصر کھڑا تھا۔ "یہاں کھڑے کیا کر رہے ہیں۔ آپ۔"
اسی روز باتوں باتوں میں منصر نے پردے کا موضوع چھیڑ دیا۔ "پردے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے۔"
"میں سمجھا نہیں۔" ایلی نے کہا۔ "میرا مطلب ہے۔" منصر نے کہا "جہاں تک اس گھرانے کا تعلق ہے آپ کی حیثیت ایک اجنبی کی ہے ایک بیگانے کی۔ لہٰذا کوئی وجہ نہیں کہ آپ سے خصوصی سلوک کیا جائے۔"
ایلی کو منصر کی بات سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔
منصر کہنے لگا۔ "اگر ہمارے لوگ آپ نے سامنے آئیں تو تخصیص کیوں کی جائے کیوں نہ وہ منظر عام پر آئیں سب کے سامنے۔"
"میں نہیں سمجھا۔" ایلی نے جواب دیا۔
"دقت تو یہ ہے کہ میں خود بھی نہیں سمجھ رہا۔" منصر چلایا۔ "اگرچہ سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ یہ مسئلہ اس قدر ٹیڑھا ہے کہ۔۔۔ اور میں نے آج تک اس مسئلے پر غور نہیں کیا تھا۔ لیکن اب۔۔۔ "وہ خاموش ہو گیا۔ اس کے چہرے سے ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ کسی کشمکش میں گرفتار ہے۔
"جی" ایلی نے کہا۔
"جی کیا۔" وہ بولا۔ "کیا سمجھے آپ۔"
"کچھ بھی نہیں۔" ایلی نے کہا۔ منصر نے ایک قہقہہ لگایا۔
"تعجب کی بات ہے۔" وہ بولا۔ "ہم دونوں اس قدر قریب ہیں بہت قریب اتنے قریب کہ آپ کو اندازہ نہیں ہوسکتا اور پھر ہم دونوں بیک وقت اس قدر بیگانہ ہیں اس قدر دور کہ۔۔۔" منصر رک گیا۔ "سگرٹ پیجئے۔ اوہ۔۔۔ سگرٹ تو آپ پیتے ہی نہیں۔۔۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا۔۔۔ کیا کہہ رہا تھا میں۔۔۔" وہ ہنسنے لگا۔ "ہاں۔۔۔ آپ نے واستووسکی کا ناول برادرز کیراموزوز پڑھا ہے؟"
"جی نہیں۔" ایلی نے کہا۔ " میں نے صرف ایڈیٹ اور کرائم اینڈ پنشمنٹ پڑھے ہیں۔"
"ضرور پڑھئے۔" وہ بولا۔۔۔۔ "اسے پڑھے بغیر آپ ہم کو نہیں سمجھ پائیں گے۔"
"آپ کی کتنی ہمشیریں ہیں؟" منصور نے دفعتاً بات بدلی۔
"ایک" ایلی نے کہا۔
"بڑی ہیں یا چھوٹی۔"
"بڑی۔"
"تو آپ نہیں سمجھ سکتے کہ چھوٹی بہن کا مفہوم کیا ہے۔ "منصر نے جوش اور جذبے سے کہا۔
ایلی نے سوچا کہ شاید منصر نشے میں باتیں کیے جا رہا ہے۔ لیکن خصوصی طور پر آج کیوں؟وہ یہ نہ سمجھ سکا "مجھے اپنی ہمشیرگان سے بے حد محبت ہے۔" منصر بولا۔ " آپ اندازہ نہیں کر سکتے ہیں۔ بہرحال پردے کا میں تو قائل نہیں ہوں میرا مطلب رسمی پردے سے ہے۔ پردے کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے۔" اس نے ایلی سے پوچھا۔
"میں تو رسمی پردے کو فضول سمجھتا ہوں۔"
"ہاں۔" دفعتاً منصر نے پھر بات کا رخ بدلا۔ "آپ کو ٹینس سے دلچسپی ہے؟"
"جی ہاں کچھ کچھ ہوسٹل میں کھیلا کرتا تھا۔"
"آپ کو معلوم ہے کہ پنجاب ٹینس چیمپئن شپ کا فائنل ہو رہا ہے۔"
"جی نہیں۔"
"تو آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ کل شام کے چار بجے لارنس باغ کی گراؤنڈ میں یہ میچ ہوگا اور آپ ہمارے ساتھ وہاں جا رہے ہیں۔ آپ چار بجے از خود پہنچ جائیے گا۔ وہاں ملاقات ہوگی۔"
منصر کی اس روز کی باتیں ایلی کو قطعی طور پر سمجھ میں نہ آئیں۔ نہ جانے وہ رنگیلا راجہ کیا کچھ کہہ رہا تھا شاید گپ ہانک رہا ہو۔ لیکن ان کہی بات کرنے میں منصر کو کمال حاصل تھا اور اس حقیقت سے ایلی واقف تھا۔ پھر بھی اس روز کی باتیں تو نہ کہی تھیں نہ ان کہی۔

منظر عام

اگلے روز جب ایلی ٹینس کے میدان میں پہنچا تو اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی منصر کے ہمراہ سادی باجی اور ایک معمر خاتون تھیں وہ تینوں بے نقاب تھیں۔ ایلی انہیں دیکھ کر گھبرا گیا۔
"آئیے آئیے" منصر چلایا۔ ؔیہ ہیں الیاس صاحب" اس نے خاتون کو مخاطب کرکے کہا "اور آپ والدہ صاحبہ ہیں۔ اور انہیں" اس نے سادی اور باجی کی طرف دیکھ کر کہا "انہیں تو آپ جانتے ہیں۔" ایلی نے جھک کر والدہ کو سلام کیا۔
ایلی نے شدید خواہش کے باوجود سادی اور باجی کی طرف نہ دیکھا اس میں ہمت نہ پڑی۔ اسے منصر کے الفاظ یاد آرہے تھے۔ اس نے کہا تھا نا کہ پھر تخصیص کیوں کی جائے۔ منصر نے سادی اور باجی کو منظر عام پر لانے سے گریز نہ کیا تھا۔ ایلی نے حیرت بھرے احترام سے منصر کی طرف دیکھا۔ کس قدر پروقار تھا وہ چھوٹا سا خوبصورت آدمی۔
کھیل کے دوران میں ایلی نے دو ایک بار چوری چوری سادی کی طرف دیکھا۔ اس کے ہونٹوں پر ایسی مسکراہٹ کھیل رہی تھی جیسے وہ سادی نہیں بلکہ سکندر ہو جو دریائے جہلم کے کنارے کھڑا ہو۔
کھیل کے وقفے میں والدہ کے اشارے پر منصر نے بیرے کو آواز دی لیکن اس کی آواز کسی نے نہ سنی اور وہ اٹھ کر چلا گیا۔
والدہ نے مسکرا کر ایلی کی طرف دیکھا۔
"آپ کے مزاج اچھے ہیں۔" ایلی نے کچھ کہنے کے لئے کہا۔
وہ مسکرائیں اور پھر کہنے لگیں۔ "کبھی مجھ سے ملو نا، مجھے تم سے باتیں کرنا ہے۔"
"جی" ایلی نے جواب دیا۔
"گھر پرآئیے۔ کوئی بارہ بجے کے قریب۔" والدہ نے کہا۔
"بہت اچھا۔" ایلی نے جھکی جھکی نگاہوں سے جواب دیا۔
"گھڑی دے دیجئے انہیں"سادی چمک کر بولی۔
"جی۔" ایلی نے سادی کی طرف دیکھے بغیر کہا۔ "کہیں دو بجے نہ آجائیں۔" وہ بولی۔
"ضرور آنا بیٹا" والدہ نے یوں جواب دیا جیسے اس کی بات سنی ہی نہ ہو۔
"جی۔۔۔"
اور۔۔۔
"میں انتظار کروں گی۔" والدہ بولیں اور۔۔۔ پھر منصر کی آمد پر وہ دفعتاً چپ ہو گئیں۔
منصر آکر کرسی پر بیٹھ گیا۔
والدہ صاحبہ کا وہ۔۔۔"اور۔۔۔" ایلی کے سامنے آکھڑا ہوا اور اس پر مسلط ہو گیا۔ اس کے عقب میں گہری پرمعنی خاموشی تھی۔ مفہوم سے لبریز خاموشی کیا وہ اشارہ اور کنایہ کی عظمت سے اس حد تک واقف تھے۔ ایلی حیرت سے اس معزز خاتون کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اس کا سن پچاس کے لگ بھگ ہوگا اس کے چہرے پر وقار کی نسبت محبت کے نقوش زیادہ پھیلے ہوئے تھے۔ اس کی مسکراہٹ میں ایک حسرت زدہ مٹھاس تھی۔
اگلے روز دوپہرکے وقت جب ایلی سفید منزل میں داخل ہوا تو وہ "اور" وضاحت سے اس کے روبرو اگیا۔ والدہ پہلے ہی سے اوپر جنگلے میں اس کا انتظار کر رہی تھیں۔ ایلی کو دیکھتے ہی والدہ نے اسے رکنے کا اشارہ کیا۔ کچھ دیر تک وہ دستک دیئے بغیر دروازے پر کھڑآ رہا پھر دروازہ کھلا۔ جب وہ اندر داخل ہوا تو دروازہ بند کرلیا گیا۔ نچلی منزل ویران پڑی تھی۔
رسمی باتوں کے بعد والدہ نے کہا۔ "مجھے اپنی بچیوں سے بڑی محبت ہے۔ بڑی محبت۔" اس کی آنکھیں آبدیدہ ہو گئیں۔ کیا کروں مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ اور چھوٹی تو بڑی ہی لاڈلی ہے۔ بڑی ہی۔" اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
"تم بڑے اچھے ہو۔" دفعتاً والدہ نے موضوع بدلا "تم سے مل کر مجھے بڑی خوشی ہوئی۔۔۔"
"مجھے تم سے اتنی ہی محبت ہے جتنی" وہ رک گئی۔
"آپ کی بڑی نوازش ہے۔" ایلی نے کہا۔
"مجھے باتیں نہیں کرنا آتیں بیٹا۔" وہ بولی۔
"جی" ایلی نے اس رسمی جملے پر شرمندگی سی محسوس کی۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ اس معمر خاتون کو یوں آغوش میں لے لے جیسے وہ ایک ننھی سی بچی ہو مگر اس کی ہمت نہ پڑی ابھی وہ باتیں ہی کر رہے تھے کہ کمرے کا دروازہ آہستہ سے بجا۔
"آؤ نا ادھر اس کمرے میں آجاؤ۔ اس بغلی کمرے میں آئیے اگر امان کو پتہ چلا کہ تم اس گھر میں آئے ہو۔ توقیامت آجائے گی۔"
"امان؟" ایلی نے دہرایا۔
"ہاں۔ وہ ہمارا عزیز ہے اللہ رکھے بڑی کا منگیتر ہے۔ چھوٹی کی منگنی ابھی نہیں ہوئی امان بڑا جوشیلا ہے۔ پتہ نہیں کیا کردے۔۔۔ آؤ ادھر آجاؤ۔"
جب وہ بغلی دروازے میں داخل ہوا تو قریب ہی ہنسی کی آوازیں سنائی دیں۔ وہ دونوں سادی اور باجی بیٹھی کانا پھوسی کر رہی تھیں۔
"بیٹھ جاؤ بیٹا۔ اب تم سے کیا پردہ ہے۔ بیٹھ جاؤ"
ایلی سر جھکا کر ادب سے بیٹھ گیا۔
سادی نے باجی کے کان میں کہا۔ "دوپٹہ لا دو انہیں باجی۔" اور اس نے جان بوجھ کر ایسی آواز میں کہا کہ ایلی سن لے۔
ایلی خاموش بیٹھارہا اور والدہ سے رسمی باتیں کرنے کی کوشش میں لگا رہا۔
"دیکھو تو۔" سادی پھر بولی "جیسے منہ میں زبان نہ ہو۔"
"اب میں کیا کہوں۔" ایلی نے والدہ کو مخاطب کرکے کہا۔
"کیا کہا تم نے میں سمجھی نہیں۔" وہ بولیں۔
"میں نے عرض کیا کہ۔۔۔" ایلی رک گیا۔
"جملہ مکمل کر دو باجی۔" سادی پھر بولی۔
"جملہ نہیں" وہ بولا۔ "۔۔۔۔کہانی۔"
"وہ کیا میں تھوڑا ہی کروں گی۔" سادی قہقہہ مار کر ہنسی۔
"نہ جانے تم کیا کہہ رہے ہو۔" والدہ بولیں۔ یہ کہہ کر وہ اٹھ بیٹھیں "میں ذرا دیکھوں تو امان تو نہیں آیا۔" یہ کہہ کر وہ باہر نکل گئی۔
"یہ کس مشکل میں ڈال دیا مجھے نہ جی۔" وہ چمک کر بولا۔
"اٹیچی نہ اٹھانے کی سزا بھی تو ملنی چاہیے باجی انہوں نے ضد کرکے سب کچھ کھو دیا۔"
"کھویا تو نہیں پا لیا ہے۔" ایلی نے کہا۔
"اونہوں پا لیا ہے۔" وہ بولی۔ "بڑی ہمت والے تو دیکھو یہ تو مابدولت کی محنت کا نتیجہ ہے۔"
"جی" ایلی نے کہا "مابدولت تو غش کھا کر گرنا جانتے ہیں۔"
وہ قہقہہ مار کر ہنسی "غش نہ کھاتے تو بات نہ بنتی۔"
"میں نے سنا تھا تم بیمار تھیں سادی۔"
"اپنی تو وہی بات ہے کہ فراق یار میں گھل گھل کے بن گئے ہاتھی۔" وہ ہنسے لگی۔
"جھوٹ۔" باجی نے کہا۔
"خاموش باجی۔" سادی اٹھ بیٹھی۔
"دراصل۔۔۔" باجی نے بات کرنے کی کوشش کی۔
"ایک لفظ منہ سے نکالنے کی اجازت نہیں۔" سادی نے کہا "ور کل" وہ ایلی سے مخاطب ہوئی۔
"یوں ٹینس بال پر نگاہیں جما کر بیٹھے رہے جیسے حافظ حلوے پر جمائے رہتے ہیں۔"
ایک گھنٹہ برباد کر دیا۔ کیوں جی۔ ہم سے بات بھی نہ کی۔"
"تم سے باتیں کرنے کا مزا تو چکھ لیا۔"
"ابھی سے گھبرا گئے۔ اور ہم تو حضور سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں وہ کیا ہوں گی۔" سادی چمک کر بولی۔
"ایک کال کلوٹے سے۔۔۔" ایلی رک گیا۔
"خاموش۔۔۔" سادی نے ایلی کو ڈانٹا۔ "ہائے باجی یہ تو ساری عمر معاف نہ کریں گے مجھے" وہ ہنسنے لگی۔
"اور وہ سنہری بال خوامخواہ پٹ گیا بیچارا۔"
"ہئے واقعی۔" باجی بولی۔
"دونوں طرف پٹ گیا۔" ایلی نے کہا۔
"کچھ کہتے تھے وہ۔" سادی نے پوچھا۔
"کہتا تھا یار یہ لڑکیاں بھی کیا ہوتی ہیں کبھی کچھ کبھی کچھ سمجھ میں ہیں نہیں آتین۔"
"آپ انہیں ساتھ کیوں لائے تھے جی۔ ساتھ لا کر پٹوا دیا۔" سادی نے پوچھا۔
"خود ضد کرکے آیا تھا۔" ایلی نے کہا۔
"مجھے حیرانی ہے۔" سادی ہنسی "انہوں نے انہیں کیوں پکڑ لیا۔ آپ کوکیوں نہ پکڑا۔"
"اس میں حیرانی کی کیا بات ہے۔" ایلی بولا۔
"کیوں ۔" باجی نے پوچھا۔
سنہری رنگ والی گوری کے ساتھ گلفام ہی ہونا چاہئے تھا نا۔"
"بس اب ان سے بات بھی نہ کرو باجی۔" سادی غصے میں اٹھ بیٹھی۔
"مجھے دیر ہوگئی۔" والدہ نے داخل ہوتے ہوئے کہا "لیکن امان نہیں ہے چلو فکر تو دور ہوا۔"

کیراموزوز

اس کے بعد ایلی کے شب و روز میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوگیا۔ دوسرے یا تیسرے دن اسے گھر بلایا جاتا۔و ہ چاروں چھوٹے کمرے میں بیٹھ جاتے سادی زیرلب بات چھیڑتی۔ ایلی والدہ سے باتیں کرتا لیکن روئے سخن سادی کی طرف ہوتا۔ وہ دونوں ہنستی۔ چھیڑتیں اور ایلی کے جواب پر والدہ حیرانی سے کہتی "میں نہیں سمجھی۔"
پھر والدہ امان کو دیکھنے کے لئے باہر چلی جاتیں اور وہ اکیلے رہ جاتے اور پھر وہ بچوں کی طرح لڑتے جھگڑتے حتیٰ کہ ہاتھا پائی کی نوبت آجاتی اور والدہ واپس آجاتی اور ان کا وہ شور شرابا پھر سے دب کر اشارات کی شکل اختیار کر لیتا۔
شام کو ایلی منصر کے دفتر جا پہنچتا اور پھر لاہور کی سڑکوں پر شاہ کی سواری نکلتی اور لوگ بصد ادب و احترام دو رویہ کھڑے ہو کر کورنش بجا لاتے اور پھر ہوٹل میں وہ اس عظیم شخصیت کے روبرو ادب و احترام کے جذبات لیے بیٹھ جاتا اور حیرت سے اس کی طرف دیکھے جاتا۔ اسے منصر سے محبت ہو چکی تھی۔ والہانہ محبت۔
پھر ایک روز جب وہ چاروں چھوٹے کمرے میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے تو دروازے پر کسی نے لٹھ دے ماری۔
"دروازہ کھولو۔" کوئی راکشش چنگھاڑا۔
والدہ صاحبہ نے آواز سنی چہرا زرد پڑ گیا۔ "ہے" وہ ہاتھ ملنے لگیں "اب کیا ہوگا۔ امان کو پتہ چل گیا۔"
"کون ہے۔" اماں نے پوچھا۔
"میں ہوں اماں" وہ چیخنے لگا "دروازہ کھولو۔"
"اے ہے۔" اماں بولیں۔"اس وقت کیا ہے ہم کمرے میں بیٹھی باتیں کر رہی ہیں۔"
"مجھے معلوم ہے۔" وہ چلایا "کہ کمرے میں کیا ہو رہا ہے۔ میں جانتا ہوں۔ دروازہ کھولو۔" اس نے دروازے پر مکے مارنے شروع کر دئیے۔ کھول دو ورنہ میں اسے توڑ دوں گا۔"
"کھولتی ہوں" اماں بولیں۔"ذرا ٹھہر تو ۔"
"ابھی کھولو ابھی۔ میں اس کی گردن مروڑ دوں گا۔" وہ چلایا۔
"کس کی گردن مروڑو گے"ماں نے ہنس کر کہا۔
"مجھے معلوم ہے کس کی گردن مروڑنا ہے مجھے" وہ غرایا۔
"ان لڑکیوں نے بگاڑا کیا ہے تمہارا۔"
"بعد میں انہیں بھی دیکھ لوں گا میں۔"
"ایسی دھمکی ہے تو نہیں کھولتے ہم۔ توڑ دو دروازے کو" ماں بولی۔
"اچھا" اس نے دانت پیسے "کہاں ہے میری بندوق۔" وہ دیوانہ وار سیڑھیاں چڑھنے لگا۔
"یا اللہ یا اللہ۔۔۔" اماں گھبرا کر دعائیں مانگنے لگی۔
"میں جاتا ہوں" ایلی نے کہا۔
"وہ گولی چلا دے گا چلا دے گا" اماں نے کہا۔
"دیکھوں گی میں کیسے چلائیں گے" سادی جوش میں آگئی اس نے ایلی کا ہاتھ تھام لیا۔
"مجھے جانے دو سادی۔" ایلی نے کہا۔
"نہیں میں ساتھ جاؤں گی۔ میں آپ کو گھر چھوڑ کر آؤں گی۔" غصے میں سادی کی آنکھوں سے انگارے جھڑ رہے تھے۔
"سادی۔" ماں کی آنکھیں گویا ابل کر باہر نکل آئیں۔
"پہلے مجھ گولی مارنا پڑے گی انہیں! چلئے۔" وہ ایلی سے بولی۔
"سادی یہ تمہاری عزت کا سوال ہے مجھے جانے دو۔" ایلی نے کہا۔
اماں سادی کے پاؤں پڑ گئی۔
ایلی بھاگا خوش قسمتی سے صدر دروازے کا ایک پٹ کھلا تھا۔ دروازے میں پہنچ کر وہ رک گیا۔ دیوار کے ساتھ لگ گیا تاکہ اوپر سے اسے کوئی دیکھ نہ سکے کافی دیر وہ کھڑا رہا۔ پھر جب شور سے معلوم ہوا کہ امان زینہ اتر رہا ہے تو ایلی چپکے سے پڑوس کے مکان کی ڈیوڑھی میں داخل ہو کر کونے میں دبک گیا۔ پھر امان گلی میں چلا رہا تھا۔ "کہاں ہے وہ کہاں ہے۔"
ایک اونچے لمبے تنومند مرد کو ہاتھ میں بندوق لیے دیکھ کر گلی کے تمام لوگ کھڑکیوں میں آگئے۔ وہ اسے حیرت سے دیکھ رہے تھے۔
عین اسی وقت کوئی اس ڈیوڑھی میں داخل ہوا جہاں ایلی چھپا ہوا تھا۔ بیشتر اس کے کہ وہ ایلی کو دیکھتا ایلی کونے سے نکل آیا اور معصومانہ انداز میں پوچھنے لگا "جی یہ مولوی محمد علی کا گھ رہے۔"
"محمد علی کون محمد علی۔" نووارد نے مشکوک نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا۔
"جو اسلامیہ کالج میں پروفیسر ہیں۔" اس نے کہا۔
"نہیں" نووارد بولا۔ "یہ ان کا مکان نہیں۔"
تکلیف معاف کہہ کر وہ باہر نکلا اور گلی میں اس سمت کو چل پڑا جو ناؤ گھر سے بر عکس جاتی تھی لارنس باغ میں پہنچ کر ایک پلاٹ میں وہ ڈھیر ہو کر گر پڑا۔
ایلی کو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ آخر امان کون تھا۔ اس سے ان کی والدہ کیوں خائف تھی وہ کس کی گردن مروڑنے کی بات کر رہا تھا۔ پھر وہ چیخ کیوں رہا تھا۔ بھلا بندوق کی کیا ضرورت تھی اور یوں گلا پھاڑ پھاڑ کر چلانے اور محلے والوں کو اکٹھا کرنے میں کیا مصلحت تھی۔ اسے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ اس کے روبرو منصر کھڑا مسکرا رہا تھا "الیاس صاحب آپ نے واستو وسکی کی برادرز کیراموزووز نہیں پڑھی۔۔۔(Brothers Karamozoves) ضرور پڑھئے۔

ایک اور

۔۔۔شام کے قریب نیم چھتی میں لیٹے ہوئے ایلی کو یاد آگیا کہ اسے منصر سے ملنے جانا ہے۔ چونکہ خصوصی طور پر منصر نے طے کر رکھا تھا۔ کہ اس روز وہ دفتر میں ملیں گے۔ لیکن ہمت نہ پڑی۔ اس نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن اٹھنا محال تھا۔ چلو نہ سہی اس نے سوچا کوئی بہانہ بنا دوں گا۔ اور پھر وہ لیٹ گیا۔
دفعتاً اسے پھر خیال آیا۔ نہ گیا تو منصر سمجھے گا کہ کوئی خصوصی بات ہے۔ اور دوپہرکا واقعہ اس کی نظر میں حقیقت کا روپ اختیار کر لے گا اور وہ سمجھے گا کہ واقعی ایلی سفید منزل گیا تھا۔
"نہیں نہیں" وہ اٹھ بیٹھا۔ "یہ نہیں ہوسکتا۔ نہیں ہو سکتا۔ منصر پر یہ ظاہر نہ ہونے پائے کہ میں وہاں جاتا ہوں۔"
شام کے وقت جب وہ منصر کے دفتر پہنچا تو منصر کے طبعی اخلاق کے باوجود اس کے انداز سے تلخی کا اظہار ہو رہا تھا۔
"میں فارغ ہو لوں تو ابھی چلتے ہیں۔" منصر نے حسب معمول کہا۔
"آج پریشان معلوم ہوتا ہے۔ شاید دوپہر کے واقعہ کے متعلق کبیدہ خاطر ہے۔ ضرور مجھ سے استفسار ہوگا۔ نہیں میں کبھی تسلیم نہیں کروں گا۔" ایلی سوچ رہا تھا۔ "اس میں اماں کی عزت کا سوال ہے۔ اماں کتنی قابل تعظیم ہے۔ لیکن امان نے اماں کا بھی خیال نہیں کیا نہ جانے کون ہے
وہ امان" پھر وہ منصر کی طرف دیکھنے لگا۔ منصر اپنے کام میں مصروف تھا۔ وہی حسین اور پر ذہانت چہرا۔ وہی شان استغنٰے وہی وقار۔ لیکن ان سب پر پژمردگی کا پردہ پڑا ہوا تھا۔ اس کی مسکراہٹ میں جاذبیت کے باوجود شکستگی کی جھلک تھی جیسے پیمانے میں بال آگیا ہو۔
ایلی نے شدت سے محسوس کیا کہ منصر دکھی ہے۔ اگرچہ وہ اپنے دکھ کو چھپانے کی کوشش میں شدت سے مصروف تھا۔
"پریشان سے دکھتے ہیں آپ" اس نےمنصر سے کہا۔
وہ چونکا "ہاں" اس نے ہنسنے کی کوشش کی"آج ایسا کام آن پڑا ہے کہ۔۔۔"
"تو دفتری پریشانی ہے۔" ایلی نے کہا۔
"اور کیا ہو سکتا ہے۔" وہ بولا۔
لیکن ایلی نے محسوس کیا کہ وہ بات ٹال رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کے احساس وقار پر ضرب پڑی ہے ورنہ دفتری معاملات کو اتنی اہمیت کون دیتا ہے اور پھر منصر۔۔۔ ضرور یہ دوپہر کے واقعہ کا اثر ہے۔ ایلی نے محسوس کیا کہ تمام تر ذمہ داری ایلی پر عائد ہوتی ہے۔ وہی ان کی پریشانی اور دکھ کا باعث ہے۔ احساس گناہ سے اس کی نس نس بھیگ گئی۔
جب وہ ہوٹل میں بیٹھے ہوئے تھے تو دفعتاً منصر نے کہا کیا اتفاق سے آج آپ ہماری گلی سے تو نہیں گزرے تھے۔"
ایلی چونکا۔ اور سوچنے لگا۔ منصر کا سوال اس کی خوش اخلاقی پر دلیل تھا۔
"میرا مطلب ہے ۔" منصر نے کہا "شاید آپ ادھر سے گزرے ہوں۔"
ایلی کا جی چاہتا تھا کہ چلا چلا کر کہے نہیں نہیں یہ بہتان ہے دروغ بیانی ہے۔ لیکن منصر کے دکھ بھرے چہرے کو دیکھ کر نہ جانے اسے کیا ہوا اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
"تو آپ ادھر گئے تھے؟"
"جی۔"
"گھر گئے تے۔"
"جی ہاں۔"
وہ سوچ میں پڑ گیا۔
"خود سے گئے تھے" اس نے سر اٹھا کر پوچھا۔
"جی ہاں۔"
"یہ کیسے ہو سکتاہے۔" وہ بولا "آپ مذاق کر رہے ہیں یا۔۔۔"
"خود سے گیا تھا۔"
"بیرا" وہ چلایا "ایک بڑا۔۔۔ بیرا۔۔۔ جلدی ایک بڑا۔"

تعارف

اس روز واپسی پر منصر ایلی کو اپنے گھر لے گیا۔ اسے کمرے میں بٹھا کر اس نے آوازیں دینا شروع کر دیا۔ امان صاحب ہوں تو انہیں ذرا نیچے بھیجئے ابھی۔"
امان ایک اونچا لمبا جاٹ نما شخص تھا۔ انداز میں وہ بات نہیں تھی۔ جو منصر اور سادی میں بدرجہ اتم نظر آتی تھی۔ "آئیے آپ کو اپنے نئے دوست سے ملواؤں۔" منصر نے کہا "یہ ہیں الیاس صاحب۔"
امان چونکا لیکن جلدی اس نے اپنے آپ پر قابو پالیا۔
"آپ میرے عزیز ہیں۔" منصر نے امان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ "بھائی ہی سمجھ لیجئے بس فرق صرف اتنا ہے کہ یہ زمیندار ہیں اور میں مزدور۔"
امان نے کوئی استفسار نہ کیابلکہ چپ چاپ بیٹھ کر ایلی کو بغور اور بے تکلف دیکھنا شروع کر دیا۔ غالباً وہ ایلی کو جانچ رہا تھا۔ ایلی کو یقین نہ آ رہا تھا کہ یہ وہی شخص ہے جو دوپہر کو شیر کی طرح دھاڑ رہا تھا اور پھر بندوق لے کر اس کے پیچھے بھاگا تھا۔
"امان صاحب کا گاؤں یہاں سے کچھ زیادہ دور نہیں اگر آپ کبھی ان کے ہمراہ گاؤں جائیں تو آپ کو معلوم ہو کہ زمیندار کس شے کا نام ہے۔" منصر ہنسنے لگا۔ "اگر یہ جلال میں ہوں تو میز پر پڑا ہوا گلاس جلترنگ کی طرح بجنے لگتا ہے۔ اور ہاں۔" منصر نے کہا۔" آپ میرے دوسرے بھائیوں سے ملے ہی نہیں۔ ان سے بھی تعارف ہو ہی جائے تو اچھا ہے۔ آج اتفاق سے آپ یہاں آئے ہیں تو ان سے بھی مل لیجئے۔ امان صاحب آپ اوپر جائیں تو انور اور محمد علی کو بھیج دیں شکریہ۔"
امان اٹھ بیٹھا اور جواب دیئے بغیر جلا گیا۔
انور ایک شوخ نوجوان تھا جس کی آنکھیں بے حد جاذب تھیں اس کے خدو خال بہت موزوں تھے۔ ان دنوں وہ کالج میں پڑھتا تھا۔ محمد علی کی آنکھیں دکھنے والی تھیں اور انور کی طرح
دیکھنے والی نہیں۔ اس کے چہرے پر خوابوں کا دبیز پردہ پڑا تھا۔ اسے دیکھ کر محسوس ہوتا تھا جیسے وہ خوابوں کی بستی سے باہر نکل کر حقائق کی دنیا کو دیکھنے سے گھبراتا ہو۔ وہ وائلن کا ریسا تھا اور اس کے انداز میں برہا کے گیت کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے تھے۔
"باقی رہا رانا۔" منصر کے متعارف کرانے کے بعد کہ "وہ یہاں نہیں ہے لہٰذا اس وقت اس سے ملاقات کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔"
"آپ شاید سوچ رہے ہیں کہ یہ تعارف کیوں کرائے جا رہے ہیں آپ سے۔ آپ سے یہ الفاظ خود ہی کہہ دوں تو کیا حرج ہے کہ ہم نے آپ کو اپنا لیا ہے الیاس صاحب۔"
"ذرہ نوازی ہے" ایلی نے کہا۔
"نہیں اس میں ذرہ نوازی کی کوئی بات نہیں عام حالات میں شاید آپ کو درخوار اعتنا نہ سمجھا جاتا۔ حالات کا تقاضا ہے کہ آپ کو اپنا لیا جائے اور اگر اپنا لیا جائے یعنی اگر اپنانا ہی ہے تو کیوں نہ فراغ دلی کو کام میں لایا جائے۔" وہ خاموش ہو گیا۔
"والدہ صاحبہ مجھ سے زیادہ سمجھدار ہیں۔" کچھ دیر کے بعد اس نے پھر سے بات شروع کی۔ "اور یہ حقیقت ہے کہ ہم سب ان کے تابع فرمان ہیں۔" وہ ہنسنے لگا۔
"دیکھیے" وہ پھر جوش میں بولا۔ "اس سے یہ اندازہ نہ لگا لیجئےگا کہ یہ ایک وعدہ ہے کسی قسم کا واضح یا مبہم وعدہ اس سلسلے میں کرنے کا میں مجاز نہیں ہوں کیونکہ اس معاملے میں میری کوئی حیثیت نہیں۔ البتہ یہ ہمارے خلوص کا نشان ضرور ہے۔"
"ہم سب مخلصانہ کوشش کریں گے کیونکہ آخری فیصلہ والد صاحب نے کرنا ہے جو اس وقت یہاں نہیں اور جنہیں ابھی تک حالات سے مطلع نہیں کیا گیا۔ نہ جانے انہیں کب مطلع کیا جا سکے گا۔ چونکہ دانشمندی کا تقاضا ہے کہ یہ بات والد صاحب کی خدمت میں کسی احسن انداز سے پیش کی جائے۔ خیر۔ اب آپ سفید منزل میں آسکتے ہیں لیکن مناسب ہوگا کہ آپ یہاں اس وقت تشریف لایا کریں جب میں یہاں موجود ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ اس چھوٹی سی تفصیل کو اہمیت دیں گے۔"
اس روز ایلی ناؤ گھر پہنچا تو اس کی خیالات بے حد پریشان تھے۔

راست گو

اس روز کے واقعات کس قدر عجیب تھے۔ سفید منزل کے تمام افراد کس قدر انوکھے اور دلچسپ تھے اور ان کے کرداروں میں کس قدر تنوع تھا۔ خاموش غم زدہ باجی۔ زندگی اور رنگینی سے بھرپور سادی! محبت اور خلوص بھری والدہ رنگ اور وقار سے پر منصر اور سادہ اور پرجوش امان، ذہنی طور پر وہ سب ایک دوسرے سے دور تھے لیکن جذباتی طور پر وہ ایک ہاتھ کی انگلیوں کے مصداق تھے۔
مسلسل دو روز تک ایلی ان بیتے واقعات کو ذہن میں دہراتا رہا۔ گذشتہ چند ایک ہفتوں میں کیا کیا واقعات بیت گئے تھے۔ اسے یقین نہیں پڑتا تھا کہ وہ واقعات اس پر بیتے ہیں اسے محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ ایلی نہ ہو بلکہ کوئی اور ہو۔ وہ اپنی شخصیت کا دورخا پن شدت سے محسوس کرنے لگا تھا۔
تیسرے روز سے ڈاک سے سادی کا خط موصول ہوا جس میں سادی نے اس کی راست گوئی کا مذاق اڑایا تھا۔
لکھا تھا:۔
میرے راست گو! میں بناتی ہوں آپ بگاڑتے ہیں میں چنتی ہوں آپ بکھیرتے ہیں۔۔ میں سیتی رہوں آپ کاٹنے میں مصروف رہئے دیکھئے کہیں آپ پر جھوٹ بولنے کا فرد جرم نہ لگ جائے۔ چاہے کچھ بھی ہو آپ اپنی راست گوئی قائم رکھئے۔
توبہ اس روز آپ کی راست گوئی کی وجہ سے کتنا ہنگامہ برپا ہوا۔ اتنا ہنگامہ ہوا کہ امان صاحب کی بندوق بھی بھول گئی۔ ایک راستہ نکالا تھا وہ بھی آپ نے مسدود کر دیا۔ کئی بار کہہ چکی ہوں کہ انہیں آپ سے براہ راست کوئی لگاؤ نہیں۔ ان کا بس چلے تو نہ جانے کیا ہو جائے۔ یہ لگاؤ محض میری وجہ سے ہے لیکن آپ ہیں کہ راستے سے لگن لگا رہے ہیں اور منزل کو بھولے جا رہے ہیں۔ اس طرح آپ کھو جائیں گے اور میری کوششیں بے اثر ہو جائیں گی۔
مگر آپ ایسا نہیں کریں گے۔ کہہ جو دیا نہیں کریں گے خدا کے لئے ایسا نہ کیجئے۔"
سادی کا خط پڑھ کر ایلی کو بے حد افسوس ہوا۔ ظاہر تھا کہ اب سادی سے ملاقات نہ ہوگی ادھر منصر بھی دو ایک روز کے لئے باہر چلا گیا تھا لہٰذا اس سے ملاقات کی صورت بھی نہ رہی تھی۔
ایلی نے کتابوں کی طرف توجہ منذول کی لیکن اس کا دل مطالعہ سے اچاٹ ہو چکا تھا۔ لہٰذا
امتحان کی تیاری کرنے کا سوال پیدا نہ ہوتا تھا۔ سارا دن وہ نیم چھتی میں کتاب اٹھائے پڑا رہتا۔ سوچتا اور پھر تھک کر پڑ جاتا۔ وقت اس کے لئے گویا تھم گیا تھا۔ کسی چیز میں دلچسپی باقی نہ رہی تھی۔ ناؤ گھر پھیل کر جہاز بن گیا تھا۔ اور وہ جہاز کسی نامعلوم سمت میں بہہ رہا تھا۔ بے مقصد بے مصرف

منزل اور راہی

امتحان ختم ہونے کے بعد وہ سب اپنے گھر جانے کے لئے تیاری کر رہے تھے جاہ بھا پال اور جمال جاہ کے لئے کہیں سے آنے کے میں قطعی طور پر دلچسپی نہ تھی البتہ بھا پال اور جمال تینوں خوش تھے۔ وہ ہمیشہ کے لئے ناؤ گھر چھوڑ رہے تھے۔
ایلی سوچتا رہا اور آخر اس نے فیصلہ کر لیا کہ علی پور جانے سے پہلے وہ سفید منزل جائے گا تاکہ منصر سے آخری ملاقات کرسکے۔ دل ہی دل میں وہ یہ چاہتا تھا کہ جب وہاں پہنچے تو منصر موجود نہ ہو اورسادی اسے جنگلے سے دیکھ لے اور وہ دونوں اس چھوٹے کمرے میں جا بیٹھیں اور سادی اس کی راست گوئی کا مذاق اڑائے۔ "لیجئے باجی آگئے ہمارے راست گو۔ جھوٹ صرف ہم سے بولتے ہیں۔ دوسروں سے نہیں۔ کیوں جی ٹھیک ہے نا۔"
لیکن جب وہ امتحان سے فارغ ہو کر سفید منزل میں گیا تو وہاں انور اور محمد علی کے سوا کوئی نہ تھا۔ انور نے اسے بتایا کہ وہ سب ہسپتال گئے ہوئے ہیں۔ لیکن کوشش کے باوجود وہ یہ نہ معلوم کر سکا کہ آخر وہ ہسپتال کیوں گئے تھے۔
اسی روز امتحان کے بعد منصر اسے ملا تھا۔ امتحان کے دوران میں منصر اسے تقریباً روز ملتا رہا تھا۔ پہلے روز جب ایلی پرچہ دے کر ہال سے نکلا تھا تو اس نے دیکھا تھا کہ سامنے منصر اپنے موٹر سائیکل پر آرہا ہے۔ اور منصر نے حسب عادت کہا تھا۔ "کیا عجیب اتفاق ہے میں ابھی لنچ کھا کر آرہا تھا۔ آئیے آئیے چلئے آپ کو لے چلوں پر چہ کیسا ہوا۔" اس کے بعد ان کا معمول ہو گیا تھا کہ عین اسی وقت منصر لنچ کھا کرادھر سے واپس آتا جب ایلی کے پرچے ختم ہونے کا وقت ہوتا اور سرسری طور پر اس سے پوچھتا کہئے پرچہ کیسا ہوا۔ اس روز بھی وہ اس سے ملا تھا اور سرسری باتوں کے بعد اس نے کہا تھا۔ "تو آج آپ جا رہے ہیں اور ناؤ گھر کے دروازے پر اسے موٹر سائیکل سے اتار کر کہا تھا کہ اچھا الیاس صاحب خدا حافظ۔ خط تو آپ لکھا ہی کریں گے میرا مطلب ہے جب کوئی ضروری بات ہو اور آپ تو لاہور آتے ہی رہتے ہوں گے علی پور قریب ہی تو ہے انشا اللہ جلد ملاقات ہوگی"۔
اس روز منصر نے تو ہسپتال کی بات نہ کی تھی۔
ایلی محروم واپس اگیا۔ اس کا جی تو نہیں چاہتا تھا کہ سامان باندھے یا جانے کی تیاری کرے لیکن سب تیاریوں میں مصروف تھے اور وہ لاج چھوڑ رہے تھے ناچار اسے بھی تیاری میں مصروف ہونا پڑا۔ لیکن اس کی تمام توجہ گلی کی طرف لگی ہوئی تھی۔ نہ جانے وہ لوگ کب ہسپتال سے واپس آ جائیں لیکن گاڑی کا وقت ہو گیا اور گلی میں سے کوئی موٹر یا تانگہ نہ گزرا۔ ناچار وہ جاہ اور بھا کے ساتھ تانگے میں سوار ہو گیا۔ اس نے ناؤ گھر اور سفید منزل پر آخری حسرت بھری نگاہ ڈالی اس وقت ایلی نے محسوس کیا جیسے وہ منزل کو چھوڑ کر راہی بن رہا ہو۔ منزل اس کے سامنے تھے۔ لیکن وہ متضاد راستے پر جانے پر مجبور تھا۔ کالی سڑک دوڑ رہی تھی۔ دوڑے جا رہی تھی گھوڑے کے سم یوں بج رہے تھے جیسے کوئی چھاتی پیٹ رہا ہو۔ ریل گاڑی کے پہیے اس پر ہنس رہے تھے۔ اس کا مذاق اڑا رہے تھے۔ لاہور سمٹ رہا تھا نیلا آسمان چاروں طرف سے یورش کر رہا تھا چھائے جا رہا تھا مسلط ہوا جا رہا تھا۔

بیگم

علی پور پہنچ کر وہ بلا سوچے سمجھے سیدھا محلے کی طرف چل پڑا۔ اس کا ذہن ایک خلا میں تبدیل ہوچکا تھا۔ اسے قطعی طور پر احساس نہ تھا کہ وہ کہاں جا رہا ہے۔ کیوں جا رہا ہے یا علی پور کے گلی کوچوں میں جا رہا ہے۔ اسے راستے میں کوئی نہ ملا۔ کچی حویلی سنسان پڑی تھی۔ لالٹین مدھم لو سے جل رہی تھی۔ میدان میں اندھیرا تھا علی احمد کے مکان کے دروازے بند تھے چند ایک کھڑکیوں میں دھندلی روشنیاں جھلملا رہی تھیں۔ وہ سر جھکائے چل رہا تھا۔
جب وہ شہزاد کے چوبارے میں پہنچا تو اسے کھلا دیکھ کر وہ چونکا اسے یاد آگیا کہ وہ تو باہر گئی ہوئی تھی۔ یہ دروازے کیسے کھلے ہیں اور میں ادھر کیسے آگیا۔
سامنے چارپائی پر شہزاد بیٹھی تھی۔ قریب ہی ایک نومولود بچہ لیٹا ہوا تھا۔ شہزاد نے اس کی طرف دیکھا اور وہ یوں حیران بیٹھی رہ گئی جیسے پتھر کی بنی ہوئی ہو۔ جانو چلانے لگی۔
"لو یہ تو ایلی آیا ہے۔"
"کون آیا ہے۔" قریب ہی سے ایک ان جانی باوقار آواز سنائی دی۔ اور پھر بیگم اس کے سامنے آکھڑی ہوئی۔
"ہئے۔" شہزاد بولی۔ "ایلی کے لئے چائے بناؤ جانو منہ کیا دیکھ رہی ہو۔ اتنی دیر کے بعد آیا ہے چلو آیا تو ہے"۔
وہ مسکرائی "اب بھی نہ آتا تو اس کا کیا بگاڑ لیتے۔ اب تو جا کہاں رہا ہے۔" وہ براہ راست ایلی سے مخاطب ہوئی۔ "ادھر کون ہے وہ تو سبھی کابل گئے ہوئے ہیں"۔
ایلی نے بیگم کی طرف دیکھا۔ بیگم بڑے رعب سے اسے گھور رہی تھی۔
"بیگم کو نہیں پہچانا تو نے ایلی۔"
بیگم۔ اسے وہ نام جانا پہچانا معلوم ہو رہا تھا۔
"اب یہ کیوں پہچانے گا۔" بیگم نے کہا "اب تو جوان ہو گیا ہے۔"
"جوان" شہزاد ہنسی۔ "شکل تو دیکھو جوان کی جیسے راستہ کھو کر ادھر آ نکلا ہو۔"
"راستہ کھو کر ادھر آ نکلا ہو۔" کسی نے اس کے کان میں دہرایا۔ اس کی نگاہوں میں سفید منزل آکھڑی ہوئی۔ راستہ اور چیز ہے منزل اور! سادی مسکرائی۔ منزل! منزل!! منزل!!! مسجد پر چمگادڑ چیخی۔ "چلو راستہ بھول کر ہی سہی۔" شہزاد ہنسی۔ "اب بیٹھ بھی جا۔"
وہ بیٹھ گیا۔
"مجھ سے نہیں تو اماں سے ہی بات کر کوئی۔" شہزاد پھر ہنسی۔
"اماں۔۔۔" دفعتاً اسے یاد آیا۔ ہاں بیگم شہزاد کی ماں تھی۔ پھر اس کی نگاہوں میں وہ دن پھر گئے جب محلہ گوکل کا بن بنا ہوا تھا۔ سانوری کی نیم وا آنکھیں ڈول رہی تھیں۔ اس کے ڈھلکے ہوئے شانے پر اس کی ترچھی نگاہ اور مرچیلی مسکراہٹ نیچے ارجمند چلایا تھا۔ "ہئے ہئے کیا شے ہیں یہ گوکل کے کنہیا جب سے آئے ہیں۔ سارا محلہ پنگھٹ بن گیا ہے۔ ہئے ہئے اب میں کیا کروں۔"
پھر تھیٹر کی سٹیج پر رٹیک اپنا سونٹا لہرا رہا تھا۔ اس کی نگاہیں سامنے گیلری پر لگی ہوئی تھیں جہاں سانوری تخت پر جلوہ افروز تھی اور گلدم اور گلخیرو آہستہ آہستہ چلا رہے تھے۔ ابے دیکھ کر بے لیکن تینوں ہی گیلری کی طرف دیکھ رہے تھے۔
شہزاد کے والد غلام علی بانکے رنگیلے شخص تھے۔ عورت ان کی واحد کمزوری تھی لیکن علی احمد کی طرح وہ عورتوں کو گھ رلانے کے عادی نہ تھے۔ وہ اس نکتہ کو خوب سمجھتے تھے کہ عورت کو بیوی بنا لینے سے شوق کی تسکین نہیں ہوتی۔ وہ عورت کو محسوس کرتے اور اس کے حصول کی کوشش کرتے۔ ان کے نزدیک حصول وقتی ملاپ کے مترادف تھا اور اسے دوام بخشنے کی چنداں ضرورت نہ تھی۔ طبعاً وہ ایک بھنورا تھے۔ کلی کلی کا رس چوسنا ان کا شغل تھا۔ لیکن گھر میں پھولوں کے تختے لگانا انہیں پسند نہ تھا۔ گھر میں صرف ایک پھول تھا۔۔۔۔ بیگم۔ چونکہ غلام علی گھر کے معاملات میں دخل دینے کے قائل نہ تھے گھر پر بیگم کی حکومت تھی۔
یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ آیا بیگم طبعاً حاکم تھی یا برسوں کی حکومت کے بعد اس میں حکمرانی کا عنصر پیدا ہو گیا تھا۔ بہرحال گھر کے معاملات میں وہ دخل اندازی گوارا نہیں کرتی تھی۔ اور چاہتی تھی بلکہ اسے اپنا حق سمجتھی تھی کہ کوئی بات اس کی رضامندی کے بغیر واقعہ نہ ہو۔ وہ نوکروں، کام کرنے والوں اور حتٰی کہ محلے والوں پر حکم چلاتی تھی۔ دراصل اسے کسی محلے میں رہنے کا کبھی اتفاق نہ ہوا تھا چونکہ اس کا خاوند محکمہ ریل میں سٹیشن ماسٹر تھا اس لئے ساری عمر بیگم نے ریلوے سٹیشنوں کے کوارٹروں میں بسر کی تھی۔ جہاں ارد گرد قلی خوانچے والے کارندے اور بابو لوگ رہتے تھے جو سب غلام علی کے ماتحت کام کرتے تھے۔ لہٰذا بیگم ان سب کو اور ان کے متعلقین کو براہ راست اپنے ماتحت سمجھتی تھی۔ اس تفصیل کی وجہ سے اس کے انداز میں حکومت جابریت اور نور جہانیت کے سے عناصر پیدا ہو چکے تھے۔
بیگم کو خاوند کی کمزوری کا علم تھا۔ اسے صرف ایک دکھ تھا کہ خاوند اس کے حکم سے کیوں باہر تھا۔ اس بات پر اکثر گھر میں فساد ہوتا تھا لیکن غلام علی اپنی رنگیلی اور شوخ باتوں کے بل بوتے پر ٹال دیا کرتے۔
اس کے علاوہ چونکہ غلام علی کا جادو صرف ان عورتوں پر چلتا جن کی کوئی سماجی حیثیت نہ ہوتی تھی۔ اس لیے بیگم ان کی خوش فعلیوں پر حقارت کا اظہار کرتیں اور خاوند کی ہر ایسی خوش فعلی پر بیگم کی اپنی حیثیت اور بھی بڑھ جاتی۔
البتہ گھر کے ایک معاملے پر گھر میں غلام علی کی حکومت تھی۔ وہ مقوی اور لذیذ غذا کھانے کے عادی تھے چونکہ ان کا خیال تھا کہ ایسے شوق کو پورا کرنے کے لئے غذا بے حد اہم چیز ہے۔ لہٰذا گھر میں کھانے سے متعلقہ کوئی بات ان کی رضامندی اور خواہش کے بغیر عمل میں نہ آسکتی تھی۔ وہ بڑے اہتمام سے خصوصی غذائیں حاصل کرتے خصوصی اہتمام سے انہیں تیار کرواتے
اس کے علاوہ چونکہ غلام علی کا جادو صرف ان عورتوں پر چلتا جن کی کوئی سماجی حیثیت نہ ہوتی تھی۔ اس لیے بیگم ان کی خوش فعلیوں پر حقارت کا اظہار کرتیں اور خاوند کی ہر ایسی خوش فعلی پر بیگم کی اپنی حیثیت اور بھی بڑھ جاتی۔
پہلا نوالہ منہ میں رکھنے کے بعد یا تو غلام علی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ جھلکتی۔۔۔۔ اس پر سب کے دل قائم ہو جاتے ہاتھ رواں ہو جاتے اور چہروں پر مسرت بھرا فخر پھیل جاتا۔ اور اگر غلام علی کے چہرے پر مسکراہٹ نہ آتی تو برتن دھم سے دیوار سے ٹکراتے "یہ کیا ہے لے جاؤ" اور پھر گھر میں سناٹا چھا جاتا۔
غلام علی کے شوق کو بیگم روک نہ سکی اس نے پیار محبت سے سمجھایا۔ ٹسوے بہائے دھمکیاں دی گئی ایک عورتیں جنہوں نے غلام علی کے شوق کو پورا کیا تھا انہیں پیٹآ بھی لیکن بات جوں کی توں قائم رہی۔ لہٰذا یہ بات بیگم کو گوارا کرنی ہی پڑی بہرحال بیگم بھی ہٹ کی پوری تھی۔ اور اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ غلام علی عورت کے بغیر خوش نہیں رہ سکتا اور اکثر ایسے مواقعی آتے تھے جب غلام علی کو یاد آتا کہ بیگم بھی عورت ہے اور اس وقت بیگم خاوند سے تنگ بخشی کے ذریعے انتقام لیتی۔ حیوان تڑپتا اور بیگم کو اس کا تڑپنا دیکھ کر لذت حاصل ہوتی وہ دہاڑتا چیختا چلاتا اور پھر باہر نکل جاتا اور دیوانہ وار عورت کو تلاش کرتا۔
ایک مرتبہ جب وہ ان حالات میں باہر نکلے تو پلیٹ فارم پر گاڑی کھڑی تھی۔ اور ڈبے سے ایک ایسی خاتون نکل رہی تھی جو خود کسی ایسے شخص کی تلاش میں تھی جس سے وہ بہت سارا روپیہ بٹور سکتی ہو۔ وہ فیشن ایبل لباس میں ملبوس تھی ہاتھ میں ہینڈ بیگ اور ماتھے تھے انداز سے معلوم ہوتا تھا جیسے کچھ کہا تو فر فر انگریزی بولنے لگے گی۔ غلام علی بھانپنے میں بڑے تیز تھے فوراً تاڑ گئے کہ حالات سازگار ہیں اگرچہ پہلے کبھی اس نوعیت کی عورت سے سابقہ نہیں پڑا تھا پھر بھی آخر عورت ہی تھی۔
ان کا مقصد تو محض ملاپ تھا۔ لہٰذا وہ اس کے پیچھے پیچھے چل پڑے اور چلتے چلاتے دونوں ڈائننگ روم میں پہنچ گئے۔
خاتون بڑی ہوشیار تھی اس کا مقصد ملاپ نہ تھا۔ حصول زر کی خواہش بھی وقتی نہ تھی وہ دوام کی قائل تھی چونکہ ضرورت وقتی چیز نہیں۔ لہٰذا اس نے تنک بخشی کو کام میں لا کر غلام علی کی آگ میں تیل ڈال کر اسے بھڑکا دیا۔
بیگم کو جب علم ہوا تو وہ چیخی چلائی لیکن بیگم کو یہ علم نہ ہوا کہ غلام علی کے اس نئے تعلق میں دوام کا خطرہ ہے لہٰذا وہ چیخ چلا کر خاموش ہو گئی۔
ادھر خاتون نے غلام علی کو پورے طور پر ہاتھ میں لے کر اسے صاف الفاظ میں کہہ دیا کہ اس نے یہ تعلق صرف اس لیے گوارا کیا ہے کہ اسے پہلی ہی نظر میں غلام علی سے محبت ہو گئی تھی محبت کا لفظ سن کر غلام علی سکتے میں رہ گئے۔ آج تک کسی عورت نے ان سے محبت کا اظہار نہ کیا تھا۔ اور ان کی بیوی تو بے رحمی کا انسپکٹر تھی۔ لہٰذا وہ خاتون کے سحر میں آگئے۔ اور خاتون کے تحفظ سے متعلقہ تمام شرائط کو تسلیم کر کے انہوں نے خفیہ طور پر اس سے نکاح کر لیا۔ خاتون نے تحفظ کے طور پر بیگم کو طلاق دینے کا مطالبہ بھی کر دیا۔
جب بیگم کو معلوم ہوا تو وہ سناٹے میں آگئی۔ اسے یقین نہ آتا تھا۔ وہ سمجتھی تھی یہ محض دھمکی ہے یا ایک نا خوش کن خواب۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اسے معزول کر دیا جئے اور اس عمر میں تخت سے اتار دیا جائے جب کہ وہ چار جوان بچوں کی ماں تھی جن میں دو شادی شدہ تھے لیکن جب طلاق نامہ اس کے ہاتھ میں تھمایا گیا تو اس کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔
اور اب وہ ہمیشہ کے لئے اپنی بیٹی شہزاد کے پاس آگئی تھی۔
بیگم نے ایلی کو گھورتے ہوئے کہا۔ "یہ یہاں ٹھہرے گا کہاں۔"
شہزاد ہنسنے لگی۔ "آخر اپنے ہی گھر ٹھہرتا ہے نا انسان۔"
بیگم نے حیرت سے شہزاد کی طرف دیکھا۔
ایلی نے محسوس کیا کہ ابھی بیگم اٹھ کر ایلی کے کان پکڑا دے گی۔
بیگم کے اس رویے کے بعد شہزاد نے اپنی تمام تر توجہ ایلی کی طرف مبذول کردی۔ وہ اٹھی میز کو جھاڑا نیا میز پوش نکالا اور پھر خود میز لا کر ایلی کےسامنے رکھا۔
"لو اب چائے لو جانو۔" وہ بولی۔
"میں یہ کام کیے دیتی ہوں۔" بیگم بولی۔ "تم کیوں خوامخواہ تمہاری طبیعت جو اچھی نہیں۔ "
"اس کام کے لیے اچھی ہے۔" شہزاد جان بوجھ کر بیگم کو چڑا رہی تھی۔
"مجھے تو سمجھ میں نہیں آتی تمہاری باتیں۔" بیگم نے بصد تحمل کہا۔
"آجائے گی سمجھ۔" شہزاد بولی۔۔۔ "آؤ نا ایلی اب تو چائے بھی پیئے گا یا نہیں"۔
"ہوں۔۔۔" ایلی بولا اس نے ان دونوں کی باتیں سنی ہی نہ تھیں۔ نہ جانے وہ کہاں کھویا ہوا تھا۔ شہزاد ہنسی "اچھا تو یہ بات ہے اب یہاں پہنچ کر بھی کھوئے ہوئے ہو۔"
چند ہی روز میں بیگم اور ایلی ایک دوسرے سے بہت قریب ہو گئے ایلی نے محسوس کیا کہ وہ پر رعب اور طمطراق بھری بیگم دراصل ایک ٹوٹی ہوئی گڑیا ہے۔ اپنے گھر کی باتیں یاد کرتے ہوئے یا غلام علی کا کوئی قصہ سناتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں انہیں روکنے کی کوشش میں ضبط ٹوٹ جاتا ہے پھر بچوں کی طرح بلک بلک کر روتی ہے۔
شہزاد کے گھر میں بیگم کی باتیں سننے والا کوئی نہ تھا۔ شہزاد کی دو بچیاں کھیل کود میں لگی رہتیں تیسری بچی ابھی صرف دو ایک ماہ کی تھی۔ ان کے علاوہ جانو تھی جو ہر وقت گھر کے کام میں لگی رہتی تھی محلے والیوں کے روبرو ایسی باتیں کرنا بیگم کے وقار کے منافی تھا۔
شہزاد کی شادی کے بعد علی پور میں بیگم صرف دو تین مرتبہ آئی تھی۔ محلے پر وہ پھبتیاں اڑایا کرتی۔ ناک بھوں چڑھاتی "یہ تمہارے کیا طریقے ہیں۔ اور یہ یہاں کے لوگ کیسے ہیں" اس کے انداز میں نفرت کی جھلک نمایاں ہوتی۔ "لو بہن تمہارے خاوند کیسے ہیں ہئے میرے گھر میں کیا مجال ہے جو نمک ذرا زیادہ ہو یا کم ہو اگر گوشت زیادہ گل گیا ہے یا ذرا کم گلا ہے تو بھی ہم میں یہ جرأت نہیں ہوتی کہ اس اللہ کے بندے کے سامنے رکھیں۔ بس سمجھ لو زلزلہ آجاتا ہے برتن دھم سے دیوار سے ٹکرا کر ٹکڑے ہو جاتے ہیں اور پھر ان کی آواز گونجتی ہے شوکت کی ماں یہ کیا ہے لاحول ولا قوۃ۔۔۔ توبہ ہے بہن" خاوند کی بات سناتے ہوئے بیگم پر کیفیت طاری ہو جاتی تھی۔
بات بات پر اپنے گھر کی بات کرنا گھر میں اشیا کی افراط کا تذکرہ کرنا اور پھر اپنے خاوند کے غصے اور دبدبے کا اظہار کرنا بیگم کی عادت تھی اور صرف یہی نہیں غالباً وہ سمجھتی تھی کہ دوسروں کے لئے حقارت اور تضحیک کا اظہار نہ ہو تو اپنے گھر کی بات سنائی ہی نہیں جا سکتی۔ اب بھلا بیگم کس منہ سے ان محلے والیوں کو اپنی تضحیک کا قصہ سناتی کس طرح بتاتی کہ اس کی حکومت چھن چکی ہے۔ وہ معزول ہو چکی ہے۔ فی الحال یہ بات تو گھر کے چند ایک افراد کے درمیان سربستہ راز تھی اور محلے والیوں کے سامنے بیگم اسی انداز میں بات کرتی تھی جیسے اس کا گھر قائم ہو اور اس کے میاں بدستور اس کے میاں ہوں۔
لہٰذا بیگم کے لئے محلے والیوں سے بات کرنا ممکن نہ تھا۔ شہزاد سے ابت کرتی تو وہ قہقہہ مار کر ہنستی "اماں پھر کیا ہوا۔ اسے بھی مزے کر لینے دو چند ایک سال نئے فیشن کی بیوی ملی ہے ابا کو" وہ ہنستی۔
"ہائے لڑکی۔" بیگم حیرت سے شہزاد کی طرف دیکھتی۔
شہزاد پھر قہقہہ لگاتی "اماں جو ہوا اب چھوڑو یہ قصہ تمہارے بال بچے ہیں۔ اتنے گھر تمہارے اپنے ہیں جس کے پاس جی چاہے رہ لو جو چاہے کھاؤ پیو۔ پھر رونا کس بات کا۔ اور پھر اماں تمہاری عمر اب بھی پینتالیس سال کے قریب ہوگی اس عمر میں خاوند سے جدائی ہو بھی جائے تو کیا فرق پڑتا ہے"۔
دو ایک دن میں بیگم نے محسوس کر لیا کہ ایلی وہاں صرف اس لیے موجود تھا کہ سارا دن اس کی باتیں سنے اور اظہار ہمدردی کرے۔ اس میں شک نہیں کہ ایلی کو بیگم سے بے حد ہمدردی تھی لیکن دقت یہ تھی کہ جب بیگم اسے کوئی قصہ سناتی تو سنتے سنتے کسی لفظ یا اشارے کی وجہ سے ایلی کا خیال نہ جانے کہاں جا پہنچتا اور وہ بیگم اور جانو کے پاس بیٹھ کر خالی سر ہلاتا رہتا۔
پھر بیگم کی آپ بیتیوں کے بعد ایک دور اور آیا اور بیگم اور ایلی مل کر عجیب و غریب مصروفیات میں کھو گئے۔ بیگم ایلی کو اشارہ کرتی کہ چلو میں آئی۔ وہ رابعہ کے خالی چوبارے میں جا بیٹھتا کچھ دیر کے بعد بیگم آ جاتی وہ سیارہ روئی سی تھیلے سے نکال کر کہتی۔ "اس نے کہا ہے اس روئی کی ساتھ بتیاں بنا لو۔ کورے برتن میں موم کی پتلی بنا کر رکھ دو پھر اس بتی کو آگ لگا کر اس برتن میں ڈال دو لیکن اس طریق سے ڈالو کہ بتی بجھے نہیں۔ اور جب تک برتن سے دھواں نکلتا رہے ایک ٹانگ پر کھڑی ہو کر "آئی بلا کو ٹال تو" پڑھتی رہو۔
"یہ عامل سمجھدار بھی دکھتا ہے یا نہی" ایلی پوچھتا۔
"بڑا سیانا ہے۔" بیگم جواب دیتی "ہزاروں کے گھر آباد کر دیئے اس نے۔"
"پھر تو بہت اچھا ہے۔" ایلی کہتا۔
"بس ایک ہی مشکل ہے"
"وہ کیا؟"
"میں ایک ٹانگ پر کسیے کھڑی ہو سکوں گی اتنی دیر کے لئے۔"
"لو اس میں کیا ہے ہاتھ سے کرسی کو تھامے رکھنا۔"
"ہاں۔" وہ مسکراتی۔ "یہ تھیک ہے۔"
"کہو تو میں سہارا دیئے رہوں۔" ایلی اس سے ہمدردی جتاتا۔
وہ غصے سے ایلی کی طرف دیکھتی۔ بیگم کو ہر ایسی بات بری لگتی تھی جس سے قرب کا احساس
ہو یا بے تکلفی کا اظہار ہو۔ اس کی دانست میں بے تکلفی جنسی تعلق کی دلیل تھی۔ اور جنسی تعلق کے لیے بیگم کے دل میں نفرت کے جذبات قائم ہو چکے تھے۔
بیگم عامل کے دیئے ہوئے تعویذ لے آتی اور وہ دونوں بیٹھ کر انہیں پانی میں گھولتے رہتے۔
ان عملیات کے بعد وہ ان کے نتائج کا انتظار کرتے۔ ایلی کو تو خیر ان عملیات پر کوئی اعتبار نہ تھا۔ وہ جادو سحر یا اس قسم کی دوسری چیزوں کے اثر سے قطعی طور پر منکر تھا۔ البتہ بیگم کی تسلی کے لیے وہ کہا کرتا تھا۔ "ہاں ان چیزوں کا اثر ہوتا ہے۔" لیکن شہزاد تو بے باکانہ ان باتوں کا مذاق اڑایا کرتی۔
دوپہر کے وقت دروازہ بجتا تو وہ جانو سے کہتی۔ "جا میرا منہ کیا دیکھ رہی ہے نیچے ڈاکیہ رجسٹری لایا ہے۔"
"رجسٹری۔" جانو حیرت سے پوچھتی۔
"کیا مطلب۔" ایلی دریافت کرتا۔
پھر وہ نہایت سنجیدگی سے جواب دیتی۔ "اماں کا عمل جو ختم ہو گیا ہے اب ابا کی طرف سے اطلاع تو آئے گی ہی کہ وہ قصہ ختم ہو گیا ہے اب گھر آجاو کیوں اماں۔"
یا جب بیگم اور ایلی بتی جلانے میں مصروف ہوتے تو وہ نہایت سنجیدگی سے پوچھتی۔ "اماں یہ موم کی پتلی تم ہو یا ہماری سوتیلی۔" اس طرح وہ اکثر مذاق ہی مذاق میں ماں کے ان عملیات کا مضحکہ اڑایا کرتی۔ اکثر اس کی باتیں ذومعنی ہوتیں اور ایلی انہیں سن کر چونکتا۔
مثلاً پہلے روز ہی اس نے بیگم سے کہا تھا۔ "اماں چھوڑو ان عملیات کو بھلا بتیاں جلانے سے کیا ہوتا ہے، اگر یہ عمل اثر کرتے تو میں تعویز کے زور پر کسی کو اپنا نہ بنا لیتی۔" شہزاد نے ایلی کی طرف د یکھا۔ اس وقت اس کے ماتھے کا تل بے حد شوخ ہو رہا تھا اور اس کی آنکھوں میں مایوسی اور حسرت بھری تمنا کی تھی۔
شہزاد کو بیگم کے ان عملیات اور اس کے قصے کہانیوں کے خلاف سخت شکایات تھیں چونکہ ان مصروفیات کی وجہ سے ایلی اس سے دور ہو گیا تھا۔ شہزاد کو ایلی کے قرب میں چنداں دلچسپی نہ تھی بلکہ وہ عام طور پر گھبرا جاتی تھی لیکن اس کے دل کی خواہش تھی کہ ایلی کے دل میں شہزاد کی آرزو کم نہ ہو جائے۔ وہ اسے ملنے کی آرزو رچائے بیٹھا رہے۔ تنہائی کے لمحات کی آرزو کرے عملی طور پر کوشش کرکے تنہائی میں اس سے ملے اس کے لٹکتے بازو کو اسی طرح تھامے جیسے ڈوبتے کے لیے تنکا ہو۔ اس کے پاؤں کو اپنی نگاہوں میں گھیرے رکھے۔ دور بیٹھ کر دیوانہ وار اس کی طر ف دیکھتا رہے۔
۔۔۔ لیکن اب کی بار جب سے ایلی علی پور آیا تھا وہ ان سب باتوں سے یوں بے نیاز ہو چکا تھا جیسے وہ ایلی ہی نہ ہو۔ الٹا وہ چھوٹے سے چھوٹے موقعہ پر بیگم کو ساتھ لے کر رابعہ کے چوبارے میں جا بیٹھتا اور بیگم کی باتوں میں مصروف ہو جاتا۔ یہ دیکھ کر شہزاد بار بار بہانےبہانے سے چوبارے میں آتی ایلی کے قریب تر آ کھڑی ہوتی چوری چوری اس کا منہ سہلاتی۔ چٹکیاں بھرتی اور باتوں ہی باتوں میں بہت کچھ کہہ جاتی۔

فلیگ سٹیشن

ایلی کی بظاہر بے نیازی نے شہزاد کے شوق کو بھڑکا دیا تھا۔ یہ شہزاد کی پرانی عادت تھی۔ اس کے پیچھے پیچھے پھر تو وہ آگے کی سمت بھاگتی تھی اس سے دور ہٹو تو وہ تعاقب کرتی تھی حتٰی کہ دور ہٹنے والا اس کے پیچھے پیچھے چل پڑتا اور پھر وہ دفعتاً بے نیاز ہو جاتی۔
ایک روز جب بیگم کسی عامل کے پاس گئی ہوئی تھی۔ جانو نیچے باورچی خانےمیں مصروف تھی اور ایلی چپ چاپ چوبارے میں بیٹھا ہوا تھا۔ تو شہزاد نے چپکے سے آکر اس کی آنکھیں بند کرلیں اس سے پہلے ایسے حالات میں وہ جھنجھنے کی طرح بجنے لگتا اس کی نس نس میں گویا بھڑوں کا چھتہ بھنبھنانے لگتا تھا اور وہ دیوانہ وار اس کے ہاتھوں کو چومنا شروع کر دیتا تھا لیکن اس روز وہ چپ چاپ بیٹھا رہا۔ اور پھر کہنے لگا۔
"شہزاد ہے۔"
اس پر شہزاد ہنسی ہاتھ اٹھا کر کہنے لگی۔ "چلو آخر ایک نہ ایک دن جانے والے نے جانا ہی تھا۔"
"کیا مطلب؟" وہ بولا۔
"میں پہلے ہی جانتی تھی۔" وہ ہنسی۔ اس کی ہنسی میں شکست کی آواز تھی۔
"کیا؟" ایلی نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا۔
"جانتی تھی کہ اپنی حیثیت تو فلیگ سٹیشن کے برابر ہے۔ یہ گاڑی جو رکی ہے چند روز ٹھہرے گی۔"
"تم تو ریلوے بابو کی طرح بات کر رہی ہو۔" ایلی نے کہا۔
"بابو کے گھر والی جو ہائی۔" وہ ہنسی۔
ایلی ہنسنے لگا۔ "تمہیں یاد ہے پچھلی مرتبہ میں کن حالات میں میں یہاں سے رخصت ہوا تھا۔"
"یاد ہے۔" وہ بولی۔ "لیکن یہ بھی معلوم ہے کہ یہ سب اس کی وجہ سے نہیں ہے۔"
"یہ کیا ہے۔"
"جو کچھ بھی ہے۔"
"اس کی وجہ سنو گی۔" ایلی نے شرارت سے اس کی طرف دیکھا۔
"سن لوں گی لیکن۔۔۔"
"لیکن کیا۔"
"لیکن کو چھوڑو تم سناؤ۔"
"تم نوازنا جانتی ہو شہزاد جسے تم نے نوازا سمجھ لو وہ خود سے گیا۔"
"اچھا۔"
"لیکن تمہارا کھیل کر کھلونے کو پھینک دینا بڑا اذیت نام ہے۔"
"مطلب ہے کہ میں نے پھینک دیا ہے۔"
"یہ تو وقتی پھینکنا تھا۔ وقتی پھینکنا اس قدر خوفناک تو۔۔۔"
"اس ڈر کے مارے تم چلے گئے تھے۔"
"اس غصے کے مارے کہ تمہارا ایک حصہ الگ تھلگ رہتا ہے بے پروا بے نیاز۔ اور وہ حصہ کسی وقت بھی تم پر مسلط ہو سکتا ہے۔"
"تو اس ایک حصے کو سزا دے رہے ہو۔" وہ ہنسی۔
"اس بے پروا بے نیاز کو کون سزا دے سکتا ہے سزا تو صرف اسے دی جا سکتی ہے جو پروا کرتا ہو جسے لگن ہو لگاؤ ہو۔"
"تو مطلب یہ ہے کہ ایک حصے کے قصور پر دوسرے کو سزا مل رہی ہے۔" وہ ہنسنے لگی۔
"بہرحال۔" وہ بولی "گاڑی فلیگ سٹیشن سے نکل گئی۔" پھر اس نے از خود اپنا بازو اس کے ہاتھ میں تھما دیا۔
"مجھے کوئی شکایت نہیں۔" وہ ہنسنے لگی۔ "ہونی ہو کر رہتی ہے۔ " لیکن وہ بولی۔ "یہ سب باتیں جو تم سنا رہے ہو محض باتیں ہیں۔۔۔" وہ سنجیدہ ہو کر بولی۔ "ایک روز میں نے تمہیں ایک کہانی سنائی تھی معلوم ہوتا ہے وہ کہانی اب ختم ہو رہی ہے"۔ اس نے آہ بھری۔ "اور یہ کہانیاں جو تم مجھے سنا رہے ہو محض قصے ہیں سنانے کے قصے تم ناراض اس لیے ہوتے تھے کہ تم مجھ پر شک کرتے تھے تم سمجھتے تھے کہ میں ہر کسی سے آنکھ لڑاتی پھرتی ہوں۔ اس روز تم اسی لیے چلے گئے۔ لیکن یہ تمہاری آج کی نگاہ نہ تو اس شک کی وجہ سے ہے اور نہ غصے کی وجہ سے۔ یہ تو۔۔۔" وہ رک گئی۔
"یہ تو کیا؟"
"یہ تو گاڑی فلیگ سٹیشن سے نکل گئی اور بس"۔ وہ مسکرائی۔
"کیا مطلب" ایلی نے تڑپ کر شہزاد کی طرف دیکھا۔
شہزاد کے گالوں پر دو آنسو بہہ رہے تھے۔ "اچھا کیا۔" وہ بولی۔ "بہت اچھا ہوا یہاں دھرا ہی کیا تھا۔ جو تمہاری بھینٹ کیا جاتا۔ مجھے اگر معلوم ہوتا کہ زندگی میں تم سے ملنا ہوگا تو میں تمہاری بھینٹ کرنے کے لئے اپنا سب کچھ امانت رکھتی۔"اس نے آنسو پونچجھے اور دفعتاً کہنے لگی۔ "میرا ہاتھ تو تھام لو کم از کم چلو دھوکہ ہی سہی۔ اب میں خود کو دھوکہ دے کر بھی دیکھ رہی ہوں۔ اس میں مدد کرو۔"
شہزاد نے ایک عجیب سی نگاہ ایلی پر ڈالی۔ ایلی نے ایک زبردست دھچکا سا محسوس کیا وہ گر رہا تھا گرا جا رہا تھا۔
ایلی کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ تھی کہ اس پر ہمیشہ شدید خوف غالب رہتا تھا کہ اسے بے وفا نہ سمجھا جائے۔

ہوس یا محبت

علی احمد کے گھر میں پرورش پانے کی وجہ سے چند ایک باتیں اس کے دل میں گھر کر گئی تھیں اور اس قدر جڑ پکڑ چکی تھیں کہ انہیں دل سے نکالنا نا ممکن ہو چکا تھا۔ وہ ان باتوں پر اس حد تک یقین رکھتا تھا کہ وہ اس کی شخصیت کا بنیادی جزو بن چکی تھیں۔ یہ باتیں تجربے دلیل عقل یا شعور سے اخذ نہیں کی گئی تھیں۔ بلکہ اس کے دل کے گہرے ترین جذبات ان کا منبع تھے۔
ایلی سمجھتا تھا کہ محبت صرف ایک محبوب سے ہو سکتی ہے اور مقصود شادی نہ ہو تو وہ محبت نہیں ہوتی۔ اس کے ذہن میں کسی سے محبت لگا کر بے وفائی کرنا شدید ترین گناہ تھا اس کا ایمان تھا کہ ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ عورت کو مکمل آزادی ہونی چاہیے اس سے ایسا سلوک روا نہیں رکھنا چاہئے جس میں امتیاز کا عنصر ہو اسے بھیڑ بکری یا غلام نہیں سمجھنا چاہیے۔
یہ سب خیالات اس نے علی احمد، حاجرہ اور اپنی زندگی سے اخذ کیے تھے۔
اس نے اپنے باپ کی جنسی بے راہ روی کی وجہ سے بہت دکھ سہا تھا۔ اپنی والدہ کی مظلومیت کی وجہ سے اس کا بچپن تباہ حالی میں گزرا تھا۔ اور سب سے بڑھ کر وہ اس محبت سے محروم رہا تھا جس کے بغیر بچے کی شخصیت پھل پھول نہیں سکتی۔
وہ سوچ رہا تھا کہ اگر اسے شہزاد سے محبت ہے تو پھر سادی سے کیا ہے اسے سادی سے تنہائی میں ملنے کے کئی ایک مواقع ملے تھے۔ گھنٹوں وہ اس کے پاس کھڑا رہا تھا لیکن اس نے کبھی کوئی خصوصی خواہش محسوس نہ کی تھی اسے سادی سے مل کر ایک انجانی سی خوشی ہوتی تھی اس کا خط پڑھ کر وہ مسرت کی ایک رو محسوس کرتا تھا۔
اگر اسے سادی سے محبت ہے تو پھر شہزاد سے کیا تھا۔ کیا اس روز جب وہ کہانی سنا رہی تھی۔ اور ایلی نے اس کے ہاتھ تھام لیے تھے اس کا ارادہ ہوس کاری پر مبنی تھا۔ اس وقت اس کی نس نس میں دھنکی سی کیوں بجی تھی جب وہ شہزاد کا ہاتھ پکڑتا تھا تو اس کے جسم میں چیونٹیاں سی کیوں چلنے لگتی تھی کیوں اس کا جی چاہتا تھا کہ اس کے قریب تر ہو جائے اور قریب اور قریب!! کیا یہ ہوس تھی کیا جسمانی قرب کی خواہش ہوس ہوتی ہے۔
لیکن محبت میں آرزو تو ضرور ہوتی ہے۔ قرب کی آرزو نہ ہوتو کیا ہو سکتی ہے۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔
یہ درست تھا کہ سادی کے ساتھ اس نے جسمانی قرب کی خواہش محسوس نہ کی تھی۔سادی کی موجودگی میں ایک لطیف سا نشہ اس کی نس نس پر چھا جاتا تھا۔ لیکن شہزاد کے لیے وہ تنہائی کی آرزو کرتا تھا اور تنہائی میسر ہوتی تو اس کا جی چاہتا کہ اس کے قریب تر ہو جائے۔ اگر شہزاد ایسے موقعے پر بے پروا نہ ہو جایا کرتی تو نہ جانے اس قرب کا کیا نتیجہ نکلتا۔ بہرحال وہ نتیجہ اسے قطعی طور پر گوارا نہ تھا۔ جو اس روز بند بیٹھک میں ہوا تھا اس کی ایلی نے آرزو نہ کی تھی بلکہ اس نے وہ قدم صرف اس لیے اٹھایا تھا کہ اس کو یقین تھا کہ اگر عورت سے منہ زبانی محبت کی جائے تو اکتا جاتی ہے۔
بہرحال جہاں تک اس کے اپنے جذبات کا تعلق تھا وہ دل کی گہرائیوں میں سادی کی محبت کو بہتر سمجھتا تھا چونکہ اس میں گناہ کا عنصر شامل نہ تھا سادی کسی کی بیاہتا بیوی نہ تھی اس کے علاوہ اسے شہزاد پر اعتماد نہ تھا نہ جانے کیوں وہ سمجھتا تھا محلے کے تمام نوجوان اس کے عشق میں گرفتار تھے اور شہزاد فطرتاً محبت بھری نگاہوں کے سحر سے خود کو محفوظ کرنے کی خواہشمند نہ تھی۔ چاہے وہ نگاہیں کسی کی بھی ہوں۔
شہزاد کا حسن اس کے دل میں احساس رقابت پیدا کرتا تھا اور وہ سمجھتا تھا کہ ساری دنیا اس کی رقیب ہے او روہ شہزاد کے نقاب کے ابھرے تاروں کو گنتا رہتا لیکن شاید یہی محبت کا ثبوت ہو۔ بہرحال یہ احساس اس قدر اذیت دہ تھا کہ وہ چاہتا تھا کہ اس سے نجات حاصل کر لے۔
وہ چوری چوری دعائیں مانگتا تھا کہ سادی کی بات میں مشکلات حائل نہ ہوں سادی اس کی ہو جائے اور اس کی زندگی سے وہ خوف، رقابت اور احساس گناہ خارج ہو جائے جو شہزاد کی محبت سے وابستہ تھا لیکن اس میں اس قدر جرأت نہ تھی اعلانیہ اس آرزو کو اپنا لے کیونکہ وہ ڈرتا تھا کہ اسے یہ بات تسلیم کرنی پڑے گی کہ وہ شہزاد سے بے وفائی کر رہا ہے اور یہ بات اسے کسی صورت میں گوارا نہ تھی۔
جب سے ایلی لاہور سے آیا تھا اس نے شہزاد کی طرف خصوصی توجہ نہ دی تھی۔ اس نے اس کا لٹکتا ہوا بازو پکڑنے کی کوشش نہ کی تھی۔ اس نے غور نہ کیا تھا کہ اس کے ماتھے کا تل کب سیاہ پڑ گیا اور کب سرخی مائل۔ اس نے شہزاد کے جسم کی خوشبو کو اس شدت سے محسوس نہ کیا تھا۔ اپنی اس تبدیلی، اس بے رخی کا جواز یہ پیدا کیا تھا کہ وہ شہزاد سے ناراض ہے چونکہ پچھلی مرتبہ جب وہ علی پور آیا تھا تو شہزاد نے اس سے بے پروائی کا سلوک کیا تھا۔
بہرحال اندورنی طور پر وہ ایک شدید کشمکش میں مبتلا تھا اس میں اس قدر جرأت نہ تھی کہ شعوری طور پر فیصلہ کرتا کہ آیا اسے سادی سے محبت تھی یا شہزاد سے یا بیک وقت دونوں سے۔

دیوتا

اگر شہزاد ایک عام عورت ہوتی تو وہ ایلی کو یوں بے پروا دیکھ کر بے زار ہو جاتی شہزاد کے لیے ایلی بدنامی کے ٹیکے کے سوا اور کیا تھا۔ ایلی کی وجہ سے محلے والیاں اسے طعنے دیا کرتی تھی۔ ہاجرہ اور فرحت سمجھتی تھیں کہ شہزاد نے جادو کے زور پر ایلی کو طوطا بنا کر اپنی انگلی پر بٹھا رکھا ہے۔ حتٰی کہ اس کا خاوند اس سے بدظن ہوا جا رہا تھا۔ اس کی اپنی والدہ شکوک سے بھری ہوئی تھی لیکن مجبور تھی۔ شہزاد کے تیور دیکھ کر خاموش ہو رہتی بذات خود ایلی ہر روز شہزاد سے ایک نیا جھگڑا کھڑا کر لیتا تھا تم نے فلاں کی طرف کیوں دیکھا تھا۔ تم میرےپاس بیٹھنے سے گریز کیوں کرتی ہو۔ سارا دن ایلی کے سامنے چڑھاوے چڑھتے رہتے۔ نئی نئی چیزیں پکا کر اس کے سامنے رکھی جاتیں جیسے گھر میں دیوتا بٹھا رکھا ہو۔
شہزاد کا صرف ایک مطالبہ تھا کہ وہ دیوتا سامنے بیٹھا رہے۔ نہ تو اس کے آگے بھکشا کے لیے ہاتھ پھیلائے اور نہ ہی اٹھ کر کہیں جائے لیکن اس کی پریم مرلیا مدھر گیت بجاتی رہے۔ دراصل شہزاد فطری طور پر "ان لنگی" عورت تھی۔ اسے جسم سے لاگ تھی اسے اپنے گرد محبت کا ہالہ قائم رکھنے کا جنون تھا وہ پنگھٹ کی پیاری تھی لیکن گگری بھرنے سے اسے بیر تھا۔ اور جسمانی قرب کو صرف اسی صورت میں برداشت کرنے کے لیے تیار تھی جب پریم کے دیپ کو جلتا رکھنے کے لیے اس میں تیل ڈالنا از بس ضروری ہو جائے۔
ایلی کی بے پروائی کو محسوس کرکے شہزاد یوں تڑپنے لگی جیسے مچھلی جل بنا تڑپتی ہے۔ پریت کا دیپ بجھتا جا رہا تھا۔ اس کی آنکھوں، ہاتھوں، ہونٹوں، اور انگ انگ سے تیل کی بوندیں ٹپک رہی تھیں۔ دیوتا کو منانے کے لیے ناری اپنی بھینٹ لیے کھڑی تھی۔
ایلی کو ابھی تک یہ علم نہ تھا کہ عشق میں ازلی طور پر خودکشی کا عنصر ہوتا ہے۔ عشق بذات خود عاشق کو محبوب کے وصال سے محروم کر دیتا ہے۔ اسے علم نہ تھا کہ محبت محبوب کا حصہ ہے عاشق کا نہیں اور اگر کسی کی محبت حاصل کرنا مقصود ہے تو اسے محبوب بننے کی کوشش کرنی چاہیے نہ کہ عاشق۔ اور بے نیازی محبوب کی بنیادی خصوصیت ہے۔ اسے یہ احساس نہ تھا کہ سادی کے خیال میں کھو کر وہ شہزاد کا محبوب بن گیا ہے اور ناری کی تمام قوتیں اس بات پر تل گئی تھیں کہ ایلی کی محبت کا دیب جلا کر اسے وہی پرانی حیثیت بخش دی جائے اور پھر شہزاد شہزاد بن کر وہی پرانا بے نیازی کا روپ دھار لے اور پھولدار دوپٹہ لے کر تتلی سی ادھر ادھر اڑتی پھرے۔
یہ محض اتفاق کی بات تھی بیگم اسی وقت علی پور آئی تھی جب شہزاد اور ایلی نے اپنے رول بدل لیے تھے۔ اور ایلی کی حیثیت محبوب کی بن چکی تھی۔
اگر وہ پہلے آٹی تو وہ سمجھتی کہ ایلی شہزاد کی طرف ہاتھ بڑھا رہا ہے اور شہزاد اسے دھتکارتی نہیں لیکن وہ دیکھ رہی تھی کہ شہزاد ہاتھ پھیلا رہی ہے اور ایلی دیوتا سامنے بےنیاز بیٹھا ہے۔ لہٰذا اس نے محسوس کیا کہ شہزاد غلام علی ہے اور ایلی ایک نیچ عورت جو خریدی جا سکتی ہو نتیجہ یہ ہوا کہ بیگم کے دل میں شہزاد کے لیے وہی جذبات پیدا ہو گئے جو غلام علی سے وابستہ تھے۔ نفرت اور حقارت کا یہ طوفان چونکہ چل نہ سکتا تھا لہٰذا اس کے دل کی تاریک گہرائیوں میں اکٹھا ہوا گیا۔ اور اس کے اکٹھا ہونے کی وجہ سے شہزاد اور ایلی کا مستقبل تاریک ہوتا گیا۔
سب سے پہلے بیگم نے اس کا اظہار جانو کے سامنے کیا۔
جانو نے اپنی تمام تر زندگی تیاگ کے تحت بسر کی تھی۔ وہ جوانی میں خوش شکل تھی اور جوانی ہی میں اس کا خاوند مر چکا تھا اور اس نے اپنی تمام تر زندگی لوگوں کے کام کاج کرنے اور اپنی عصمت کے تحفظ میں بسر کی تھی۔ بیگم کی بات سن کر وہ آتش فشاں پھٹ گیا۔
"اے ہے۔" جانو بولی "بیگم یہاں تو آئے دن یہی ہوتا ہے اب رانی سے کون کہے کہ اپنا آپ سنبھال۔"
"آخر بیٹی کس کی ہے۔" بیگم کے دل میں غلام علی بسا ہوا تھا۔
"بیٹی تو تمہاری ہی ہے۔" جانو بولی۔
"ہائے میری ہوتی تو یہ چلن نہ ہوتے۔"
"اور وہ شریف میاں بدھو۔" جانو بولی۔ "وہ سب کچھ دیکھ کر بھی ٹس سے مس نہیں ہوتا ویسے نام کو خاوند ہے۔"
"ہوں خاوند۔" بیگم نے کہا "اس محلے کے خاوند تو نہ جانے کس مٹی سے بنے ہوئے ہیں خاوندوں والی بات ہی نہیں۔" بیگم کے نزدیک خاوند تو صرف ایک ایسا خاوند تھا جو خاوند کہلانے کا مستحق تھا۔ اس نے بیگم کو گھر سے نکال کر ازلی محبوب کی حیثیت اختیار کر لی تھی۔
بیگم اور جانو کی یہ دبی دبی باتیں ابھریں اور پھر اس پراسرار اصول کے ماتحت باہر نکل گئیں
جسے آج تک کوئی نہیں سمجھ سکا۔
محلے والے جو ایلی اور شہزاد کے قصے پر اظہارِ خیال کرتے کرتے اکتا گئے تھے ، ایک بار پھر جوش میں آ گئے اور تازہ دم ہو کر اس پٹی ہوئی لکیر کو پیٹنے لگے۔
ایلی یہ حالت دیکھ کر اور بھی گھبرا گیا۔

محبت نامہ

ایک روز جب وہ سب چوبارے میں بیٹھے تھے۔ ایلی آلتی پالتی مارے دیوتا بنا بیٹھا تھا۔ شہزاد کے ہاتھوں میں پوجا کے پھول تھے اور وہ بنفسِ نفیس آرتی بنی ہوئی تھی۔
بیگم کے دل سے شعلے نکل رہے تھے جانو کے ہونٹوں پر تحقیر تھی تو دروازہ بجا۔
”جا دیکھ جا کر‘‘۔ شہزاد جانو سے مخاطب ہوئی۔ ” نیچے ڈاکیہ کب سے محبت نامہ لیے کھڑا ہے۔‘‘ وہ حسب معمول مسکرائی۔
”محبت نامہ‘‘ بیگم نے حیرت سے پوچھا۔
” ہاں ہاں وہ کہتے ہیں جادو برحق ہے‘‘
دوسری مرتبہ دروازہ بجا تو جانو نیچے اتر گئی۔
شہزاد ہنسنے لگی۔ ” اماں اگر آج بھی محبت نامہ موصول نہ ہوا تو پھر چھوڑ دو ان تعویذ گنڈوں کو۔‘‘
” کیسے چھوڑوں‘‘ بیگم بولی۔ ”جس کا راج پاٹ لٹ گیا۔‘‘ وہ رک گئی اس کی آنکھیں ڈبڈبا چکی تھیں۔
شہزاد پھر ہنسی۔ ”تو اماں راج پاٹ کے لئے روتی ہو نا۔۔۔ میں سمجھتی پتی بھگتی کے لئے روتی رہی ہو۔‘‘
” جس پر بیتے وہی جانے ہے۔‘‘ بیگم نے کہا۔
” مجھ پر بیتے تو میں سمجھوں۔ خس کم جہاں پاک۔‘‘ شہزاد نے معنی خیز نگاہ ایلی پر ڈالی۔
” تیری نظر میں کوئی ہوگا۔‘‘ بیگم نے ایلی پر جلی کٹی نگاہ ڈالی۔
شہزاد نے قہقہہ لگایا۔ ” ہاں ہے۔ وہ بولی۔ نہ بھی ہوتا جب بھی یہی سمجھتی۔‘‘
جانو آئی تو اس کے ہاتھ میں خط تھا۔
”دیکھا نا میں نے کہا نہ تھا۔“ شہزاد بولی۔
”تمہارا ہی محبت نامہ ہوگا۔“ بیگم بولی۔
”مجھے کون لکھتا ہے جی اور پھر محبت نامہ۔“ وہ قہقہہ مار کر ہنسی ”محبت نامے“ میں زیادہ سے زیادہ یہ لکھا ہوتا ہے کہ روٹی کی تلکیف ہے۔ ان کا تو صرف روٹی کا مطالبہ ہے کھائی اور آنکھیں موند لیں۔ انھیں محبت سے کیا واسطہ!“
”یہ تو میرا ہے۔“ ایلی نے کہا
”شاید غلطی سے تمہارا نام لکھ دیا ہو۔ کھولو تو۔“ شہزاد بولی
ایلی نے اسے کھولا تو بھونچکا رہ گیا وہ سادی کا خط تھا۔
جانو چلاتی ہے ”یہ کیا خط ہے یہ تو اخبار معلوم ہوتا ہے۔“
”اور کیا محبت کی بات مختصر ہوتی ہے کیا“ شہزاد بولی۔
ایلی کا رنگ فق ہو گیا۔
”اور جس کے نام آیا ہو اس سے پوچھو وہ تو پیاسا ہی رہ جاتا ہے“ شہزاد مسکرائی۔
ایلی نے محسوس کیا جیسے شہزاد سادی کے تمام قصے سے واقف ہو۔
”یہ تو کالج کے متعلق ہے“ ایلی کہنے لگا۔
”جبھی خط نہیں دفتر ہے۔“ جانو بولی۔
ایلی خط اٹھا کر ایک طرف چلا گیا۔
سادی کا خط پڑھ کر ایلی ایک مرتبہ پھر اسی فضا میں پہنچ گیا۔ اس نے محسوس کیا جیسے وہ زینے والے کمرے میں کھڑا ہو اور سادی مسکرا رہی ہو مسکرائے جا رہی ہو سارے خط میں محبت کا تو کہیں نام ہی نہ تھا۔ وہ خود ہنستی تھی اور ایلی کو گدگداتی تھی۔ اور بہانے بہانے لگاؤ کی بات سمجھاتی تھی۔
ایلی نے وہ خط کئی ایک مرتبہ پڑھا۔ وہ قطعی طور پر بھول گیا کہ وہ علی پور میں ہے اور دیوتا سامنے آلتی پالتی مارے بیٹھا ہے سامنے آرتی۔۔۔۔۔ پڑی ہے پوجا کے پھول بکھرے ہوئے ہیں۔ بیگم میں غصے بھرا طوفان اٹھ رہا ہے محلے میں لوگ ہونٹوں پر انگلیاں رکھے بیٹھے ہیں۔
اس روز پہلی مرتبہ وہ باہر نکل گیا۔
محلے سے وہ جلدی جلدی نکل گیا تا کہ کوئی بات نہ چھیڑے پھر کھیتوں میں پہنچ کر وہ کوٹلی کی طرف چلا گیا۔
اس کے سامنے سادی کھڑی مسکرا رہی تھی۔ ”خط کا جواب کیوں دیں گے آپ“ وہ کہہ رہی تھی ”ان پیسوں کا بالائی کا برف کھائیے نہیں تو پتلون رفو کرا لیجئے“ وہ اپنے لکھے ہوئے جملے دہرا رہی تھی۔
دوسری طرف منصر کھڑا کہہ رہا تھا ”وعدہ کیجئے کہ آپ ان لوگوں سے براہ راست رابطہ پیدا نہ کریں گے۔“ تیسری طرف امان بندوق اٹھائے اس کی جانب آرہا تھا۔ اماں ہاتھ مل رہی تھی۔ ”ہئے اب کیا ہوگا؟“
سادی کے خط میں وہ باتیں امید افزا تھیں۔ اس نے لکھا تھا کہ جلد ہی کوئی صاحب علی پور آئیں گے تاکہ ایلی اور آصفی خاندان کے متعلق تحقیقی کریں۔ کرتے پھریں تحقیقی ہمیں کیا۔ دوسرے اس نے خط میں پتہ لکھا تھا اور مطالبہ کیا تھا کہ جواب ضرور دیا جائے۔ اور اس پتہ پر دیا جائے اور اس کی راس گوئی کا مضحکہ اڑایا تھا۔ جس سے ظاہر تھا کہ معاملہ کو راز رکھنا ضروری ہے۔
دیر تک ایلی بیٹھ کر اس کے خط کو ذہن میں دہراتا رہا پھر وہ اس کا جواب سوچنے میں منہمک ہوگیا۔ واپسی پر ایلی کو خیال آیا کہ کیوں نہ رضا سے مل لوں۔ وہ اپنی بے اعتنائی پر شرمندگی محسوس کر رہا تھا۔ رضا کی دوکان بند تھی اس لئے وہ اس کے گھر چلا گیا۔ ایلی کو گھر کے دروازے پر دیکھ کر رضا کی حیرت کی انتہا نہ رہی۔
”تم یہاں!“ وہ چلایا۔ ”یار بڑے خوش نصیب ہو جو گھر آگئے ورنہ آج ہی میں نے بڑا خطرناک فیصلہ کیا تھا۔“
”کیا؟“ ایلی نے پوچھا۔
”اب بتانے کا کیا فائدہ۔ تم آ گئے ہو تو چلو معاف کردیا۔“ وہ ہنسنے لگا۔ ”آؤ بیٹھو اندر آجاؤ تمہیں ایک خبر سناؤں۔“
”کیا“ ایلی نے پوچھا۔
”شادی ہو رہی ہے۔“
”کس کی“
”اپنی اور کس کی۔“
”تمہاری“ ایلی نے حیرت سے اس کی لنگڑی ٹانگ کی طرف دیکھا۔
”بھئی شادی کو لنگڑے پن سے کیا تعلق“ رضا نے قہقہہ مار کر کہا۔ ”بلکہ لنگڑے کی پکڑ تو مشہور ہے۔“
” تعجب کی بات ہے۔“ ایلی بولا۔
”بھئی اپنا اللہ مالک ہے آج تک بھی روزی پہنچتی رہی ہے اب مستقل صورت پیدا ہو جائے گی۔“
اس کے بعد ایلی کا معمول ہو گیا کہ وہ روز کسی نہ کسی وقت رضا سے ملنے چلا جاتا۔ اور وہ دونوں یا تو دکان میں بیٹھے رہتے یا شیخ ہمدم کے ہاں چلے جاتے۔
شیخ ہمدم اسے دیکھ کر شور مچا دیتا۔
”لو بھی اب تو چھوڑو بھاؤ تاؤ ہمارے مہمان آئے ہیں، اب تو سودا ہو گیا ساڑھے دس آنے پر بس۔۔۔ ہاں تو الیاس صاحب آئے ہیں آئیے کیا پیو گے بھئی ہم سے بھی کچھ کھا پی لیا کرو حلال کا مال کھاؤ گے تو موٹے ہو جاؤ گے چلو ایک شطرنج کی بازی رہے او لڑکے دینا ہمیں شطرنج۔“
ہمدم کے ساتھ شطرنج کھیلتے ہوئے ایلی سب کچھ بھول جاتا کہ وہ دیوتا بنا بیٹھا ہے۔ سامنے شہزاد آرتی کے پھول اٹھائے کھڑی ہے اور محلے والے اس دیوتا کو شیطان سمجھتے ہیں۔ اور لاہور سے لوگ آرہے ہیں اور اسے علی احمد کو اس بات پر رضامند کرنا ہے کہ باقاعدہ طور پر پیغام لے کر جائے اور منصر سے ملے۔
ایلی بڑا ہو گیا تھا۔ لہٰذا کچی حویلی یا محلے کے میدان میں کھڑا ہونا یا کھیلنا اس کے لئے مشکل ہو گیا تھا۔ کچی حویلی اور میدان میں نئی پود نے جگہ لے لی تھی۔ اب یہ ممکن نہ رہا تھا چونکہ یہ محلے کی روایات کے منافی تھا۔
ایلی کے تمام ساتھی اپنے اپنے کام پر چلے گئے تھے۔ رفیق ، یوسف اور جمیل اب ملازم تھے اور مختلف مقامات پر متعین تھے ۔ محلے میں صرف رضا کا بھائی ضیاء تھا۔ رفیق کا بھائی صفدر اور چند ایک اور لڑکے تھے جن سے ایلی کے زیادہ تعلقات نہ تھے البتہ صفدر اب بھی اپنی بیٹھک میں ادویات کوٹنے چھاننے میں مصروف رہتا تھا اس نے تنگ آ کر اشتہاری حکیم کا کام شروع کر رکھا تھا۔
صفدر ایلی کو دیکھ کر مسکراتا۔ اس کی مسکراہٹ سے ظاہر ہوتا تھا جیسے وہ ایلی کے راز سے واقف ہو۔ ایلی کو دیکھ کر وہ اسے پکڑ لیتا۔ ”آؤ بھائی ہمارے پاس بھی بیٹھ جایا کروگھڑی دو گھڑی ہنم بھی تو تمہارے چرنوں میں رہتے ہیں۔“ ایلی اسے دیکھ کر گھبرا جاتا تھا۔ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ صفدر ہمیشہ ایسے انداز سے بات کرتا کہ ایلی کو شہزاد کی یاد آجاتیاور اسے محسوس ہوتا جیسے صفدر جان بوجھ کر شہزاد کی بات چھیڑنا چاہتا ہے جیسے وہ ایلی کو زبردستی اس بات پر مجبور کر رہا ہو کہ ایلی اسے رازداں بنا لے اور رازداں بننے کے بعد وہ دونوں مل کر شہزاد سے محبت کریں۔

اے ہے

ایک روز جانو ہانپتی ہوئی آئے اور سیدھی ایلی کے روبرو آ کھڑی ہوئی اور پھر ہونٹوں پر انگلی رکھ کر حیرت سے ایلی کی طرف دیکھنے لگی۔ ایلی اپنے ہی خیال میں مگن بیٹھا رہا۔ اس پر شہزاد ہنسنے لگی۔ ”کب تک کھڑی رہے گی تو وہاں۔ اسے تو اپنی بھی خبر نہیں کچھ۔“
”تو کیوں پتلی بنی کھڑی ہے؟“
”اے ہے میں تو حیران ہوں۔“ جانو نے کہا۔
”آخر بات کیا ہے؟“ بیگم نے پوچھا۔
”ہئے وہاں تو مبارکیں مل رہی ہیں۔“
”کسے مبارک مل رہی ہے؟“
”ہئے انھوں نے تو مجھے پکڑ لیا۔ تھانیدار کے گھر گئی تھی۔ یہی جو بری دیوڑھی کے باہر رہتا ہے۔ انھوں نے پکڑ لیا۔ مجھے کہنے لگیں۔ بڑا گھر تاکا ہے تم نے۔ اور اب تو سمجھ لو بات پکی ہو گئی۔ ہمارے گھر آئے تھے نا پوچھ گچھ کرنے۔ کیا پڑی تھی جانو جو اندر کی باتیں کرتے۔ ہم بات چھپا گئے۔ اب سمجھ لو معاملہ چل نکلا۔“
”تو کھل کے بات کرے گی یا نہیں؟“ بیگم نے اسے ڈانٹا۔
”صاف بات تو کر رہی ہوں۔“ جانو بولی۔
”خاک صاف ہے۔ اپنی تو سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔“ بیگم بولی۔
”ایلی۔۔۔“ بیگم بولی، ”وہ تو پہلے ہی سے نامزد ہو چکا ہے۔“
”اے ہے پتہ نہیں ان لڑکوں کا کیا اعتبار۔ وہ تو بڑی بڑی مبارکیں دیتے تھے کہتے تھے وہ لوگ اچھے ہیں گھرانا اچھا ہے اور لڑکی کا بھائی جو آیا تھا وہ تو مشہور آدمی ہے۔ یہی کہتے تھے بھئی۔۔۔ اب تو بھی کچھ بولے گا۔“ جانو نے ایلی کو جھنجھوڑ کر کہا۔
”اونہوں۔“ بیگم بولی، ”یہ مجنوں کہاں بولے گا۔ “
”تو کیا وہ لیلےٰ کا خط تھا جو اس روز آیا تھا“ شہزاد مسکرائی۔
”ہئے وہ اخبار؟“ جانو نے کہا۔
”چلو یہ بھی اچھا ہوا۔“ شہزاد بولی، ”اس کا گھر بھی بس گیا۔“
”بسے گا تو جانیں گے۔“ بیگم نے کہا۔ اس کا چہرہ غصے سے لال ہو رہا تھا۔

نخلستان

چار ایک دن کے بعد جب ایلی اکیلا بیٹھا ہوا تھا تو شہزاد چپکے سے دبے پاؤں اُوپر آ گئی اور ایلی سے کہنے لگی۔ ”آخر مجھے سے بھاگنے کی کیا ضرورت ہے، تم کیوں خواہ مخواہ بھاگتے پھرتے ہو؟“
ایلی ہنسنے لگا۔ ”خطرناک لوگوں سے دور رہنا ہی اچھا ہوتا ہے۔“ اس نے بات ٹالنے کے لئے کہا۔
”کب سے ہوئی ہوں خطرناک؟“ وہ بولی۔
”شروع سے ہی تھی۔ مجھے احساس اب ہوا ہے۔“
”ایلی“ وہ بولی ”بات مذاق میں نہ ٹالو۔“
”ایمان سے مجھے تو سن کر بے حد خوشی ہوئی ہے۔ بے حد۔ تمہیں ایک ساتھی مل گیا۔ مجھے بے حد خوشی ہے ایلی۔“ وہ سنجیدہ ہو گئی۔ ”مجھے صرف یہ افسوس ہے کہ تم نے مجھے غلط کیوں سمجھا۔“ اس کی آنکھیں پُرنم ہو گئیں، ماتھے کا تل سرخ پڑ گیا۔ ”مجھے تم سے کوئی غرض نہیں ایلی۔ کوئی مقصد نہیں۔ میں راستے میں دیوار نہیں بننا چاہتی۔ میں تو بری طرح پھنسی ہوئی ہوں۔ ورنہ مجھے میں اتنی جرات ہے کہ سب کا چھوڑ کر تمہارے ساتھ چل پڑوں۔ لیکن ایلی میرے پاس تمہیں دینے کے لئے اب کیا دھرا ہے۔ کچھ بھی نہیں۔ میں اس قابل نہیں کہ تمہاری زندگی کو روشن کر سکوں۔“ وہ خوموش ہو گئی۔ اور ایلی کے پاس کھڑی ہو کر اس کے پاؤں سے کھیلنے لگی۔
”مجھ سے ڈرو نہیں گھبراؤ نہیں میں تمہاری وہی شہزاد ہوں مجھے سے کیا پردہ رکھو گے لیکن تمہیں مجھ پر اعتماد بھی ہو۔ تم یہ سمجھتے ہو کہ میں ہر راہگیر سے آنکھیں لڑانے کی شوقین ہوں۔۔۔ تم سمجھتے ہو جس طرح تم نے میرے ہاتھ پکڑے تھے اسی طرح ہر کوئی میرے ہاتھ پکڑ لیتا ہے اور میں چپ رہتی ہوں۔۔۔“
ہچکی کی آواز سن کر ایلی نے تڑپ کر پیچھے دیکھا۔ لیکن شہزاد نے منہ موڑ لیا تھا۔ کچھ دیر تک وہ خاموش رہی پھر بولی۔ ”یہ ٹھیک ہے کہ تم میری زندگی میں نخلستان ہو۔ اس صحرا میں صرف ایک نخلستان ہے۔“
جب میں نے تمہیں پہلی بار دیکھا تھا تو ہنس پڑی تھی جب سانوری نے بتایا اسے تم سے محبت سے میں نے مزاق اڑایا مگر پھر نہ جانے تم نے باتیں کر کے کیا جادو کر دیا میں پوری طرح گھیر گئی شہزاد نے لمبی آہ بھری
میں بیٹھی سوچا کرتی تھی مجھے کیا ہو گیا میرا گھر ہے بچے ہیں خاوند ہےجو میری ہر بات ماننے کو تیار ہے میں نے بہت سوچا مگر میں ہار گئی ایلی !
اس کی ہچکی نکل گئی مجھے ایسے لگتا  ہےتم ہو تو سب کچھ ہے یوہی بیٹھے رہو میری بات مت کاٹنا 
پتہ ہے میں ان سے بگاڑ بیٹھی ہوں نفرت سی ہو گئ جیسے وہ میرا میاں ہی نہ ہو،نفرت
سیڑھیوں سے جانو نے سر نکال کر بولی تم یہاں ہو میں تمہیں ڈھونڈ رہی تھی
شہزاد نے سرد مہری سے کہا جانو تم جاؤ
کیوں؟
بس کہہ دیا ناں۔۔
مگر تم یہاں کر کیا رہی ہو؟
میں ایلی سے بات کر رہی ہوں
خدا کا خوف کرو تمہاری ماں نے دیکھ لیا تو
اگر وہ بھی آۓ تو اسے روک لینا کہ میں ایلی سے بات کر رہی ہوں
جانو نے سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا ہاۓ تمہارا تو جواب نہیں
تم میرا ہاتھ تھماتے تھے ایلی میں جھٹک دیتی تھی مجھے کسی کی پرواہ نہیں تھی نہ ڈر بس خود کی نظروں سے گرنا نہیں چاہتی تھی اور تم سمجھتے رہے میں لا پروا بے حس ہوں اس کی ہچکی نکل گئی
ایلی دیوانہ وار اٹھ بیٹھا شہزاد نے اسے روکا شہزاد کی باتیں ناقابل برداشت ہو رہی تھی وہ اس کی طرف بڑھا عین اسی وقت بیگم نے جھنکا تمہاری ضروری باتیں ختم ہوئی اس کے لہجے میں طنز تھا
تمارے دخل دینے سے کیا ختم ہو جائیں گی شہزاد نے دو ٹوک کہا
تم تو گھر تباہ کرنے پر تلی ہو
ماں تم فکر کیوں کر رہی ہو گھر والے جانے گھر جانے
بیگم کی آنکھیں جھلک پڑی جانتی ہوں یہ گھر میرا نہیں ہے
شہزاد نے ایلی سے کہا آؤ ایلی نیچے چل کر چاۓ پیتے ہیں
ایلی بیگم کے ساتھ بیٹھ گیا اس کی ہمت نہیں تھی بیگم کو چھوڑ کر جانے کی
دیر تک وہ بیگم کو بہلاتا رہا
تسلی دیتا رہا
اور بیگ ٹپ ٹپ انس بہاتی رہی

گھر میں کوئی نہیں۔۔

امتحان کا نتجہ آنے سے کچھ دن پہلے ایلی لاہور روانہ ہو گیا۔ اسے پتہ تھا وہ پاس نہیں ہو سکتا کیونکہ سب کی طرح وہ پڑھنا تو چاہتا تھا مگر کتاب سے کوئی نہ کوئی لفظ ایسا آ جاتا کہ اس کی سوچ کا رخ بدل جاتا وہ نہیں پڑھ پاتا تھا اس لیے اسے یقین تھا وہ پاس نہیں ہو گا لاہور جانے کا مقصد سفید منزل کے افراد سے ملنا تھا
اپنا سامان ایک ہوٹل میں رکھ کر وہ سیدھا سفید منزل پہنچا اور سیڑھیاں چڑھتا دوسری منزل پر پہنچ کر دروازہ کھٹکھٹایا دروازہ کھولا تو سامنے سادی کھڑی تھی
اس نے چیخ ماری باجی ۔۔۔باجی ۔۔۔۔
کیا ہے؟
ادھر آؤ جلدی سے وہ ہنس رہی تھی
ایلی شور چیخیں سن کر نیچے اتر آیا صدر دروازے پر
وہ سلاخوں سے نیچے جانکنے لگی
بھاگ گیا کیا
سادی ہنس کر بولی میدان کا مرد ہے منہ نہ چھپا لیجیے دوپٹہ پھنکوں شرما لیجے ارے ڈریں نہیں بندوق والے چلے گے وہ دونوں ہنس رہی تھی قریب کیوں نہیں آتے پتلون پیچھے سے رفو کی ہوئی ہے اس لیے
ایلی جوں کا توں کھڑا رہا پھر سیڑھی سے اترنے کی آواز پر ایلی چونکا سادی دوپٹے کی پگڑی باندھ کر فوجی بوٹ پہنے بھاری آواز میں کہا کوئی ہے وہ بولی گھر میں کوئی نہیں

اتنی سی چوری۔۔۔

ایلی کھڑا تھا جاجی کا چہرہ سلاخوں سے نظر آ رہا تھا آپ کس سے ملیں گے
آپ سے وہ ایلی کی طرف بڑھا ایلی نے ساری کو دیکھا تو اس کے پیچھے بھاگا ساری ہنستے ہوۓ بھاگ رہی تھی ایلی اس کی پگڑی اتانا چاہتا تھا دونوں بھاگتے دروازے تک آۓ باجی نے کہا بس کرو
ایلی نے کہا ساری دوپٹہ مجھے دے دو ساری نے کہا کیوں تم نے پگڑی باندھنی ہے
نہیں رومال بناوں گا
ارے یہ کوئی رومال کی دکان نہیں شریفوں کا گھر ہے وہ ہنسی
ایلی نے کہا وہ سلگا سگریٹ یاد ہے ناں
ایلی اس سے دوپٹہ لینے اگے بڑھا وہ بھاگنے لگی سفید منزل میں شور مچا ہوا تھا کچھ دیر میں ایلی نے ساری کو پکڑ لیا
ساری نے چیخ مارتے ہوۓ دوپٹہ اپنے گرد لپیٹ لیا
ایلی نے دوپٹہ کھنچنے کی کوشش کی ساری نے اس کے ہاتھ پر کاٹا اس کے بال بکھرے ہوۓ سے ایلی دوپٹہ لے کر بھاگا جب صحن پہنچا ایک بوڑھی عورت اسے حیرت سے دیکھ رہی تھی پھر اس عورت نے شور مچا دیا چور چور
ایلی گھبرا کر اندر کی طرف بھاگا
ساری اور باجی پوچھنے لگی کون چور کہاں ہے دادی اماں مگر بوڈھی مسلسل چلاتی رہی پھر صحن میں دو چار مرد آۓ کیا بات ہے کیاہوا
ایلی کا دل ڈوب گیا اب وہ باہر نہیں نکل سکتا
سادی بھاگی بھاگی آئی ایلی کو گھسٹ کر زینے میں دھکیل دیا کچھ دیر وہ وہاں بیٹھا باہر سے آواز آئی یہاں تو کوئی چور نہیں ہے ساری کی آواز تھی میں بھائی کے کپڑے پہن کر باجی کو ڈرا رہی تھی
اے لڑکی میں پاگل ہوں کیا میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا
ایلی دروازے کے پیچھے چھپ گیا ایک مرد نے جھانک کر دیکھا ایلی کا دل ڈوب گیا مگر اس نے وہی سے کہہ دیا یہاں تو کوئی نہیں یہ کہہ کر وہ ایلی کی طرف مڑا کیوں صاحب کونے میں ہے کوئی ایلی نے گھبرا کر اسے دیکھا اس کی مسکراہٹ معنی خیز دوستانہ تھی یہاں بھی کوئی نہیں گھر والوں کو شک پڑا ایلی نے کہا جی ہاں
اس نے ایلی کے کندھے کو تھپتھپایا میں سب جانتا ہوں سامنے والے گھر رہتا ہوں یہ کہہ کر وہ سفید منزل کے دروازے سے باہر نکل گیا ایلی بھی اس کے ساتھ اس کے گھر آیے چاۓ پی کر جانا اس گھر پر تختی لگی تھی ڈاکٹر اسماعیل
وہ ڈاکٹر اسماعیل تھا ایلی کی پتلون کےجیب سے نکلا ہوا دوپٹہ دیکھ کر بولا یہ چوری کر کے لاۓ ہو ڈاکٹر ہنسا
ایلی مسکرا کر جی
اس نے پوچھا یہ ہے کیا
روپٹہ ہے
ڈاکٹر ہنسا اس کی چوری کو تو تقسیم بھی نہیں کیا جا سکتا حصہ مانگنا بے کار ہے
ایلی ہنس کر رخصت ہو گیا
شاہ کی سواری ۔۔
سفید منزل میں اب کوئی دیکھائی نہیں دے رہا تھا
دو روز ایلی ہوٹل میں چھپ کر رہا تیسرے روز نتیجے کا علان ہونا تھا ایلی نے ٹائم ٹیبل دیکھا اور گاڑی کے وقت اسٹیشن پہنچا اور وہاں دوسرے ہوٹل میں جا کر کمرہ لیا تا کہ ثبوت کے طور پر سند پیش کی جا سکے ضرورت پڑھنے پر وہ اب مطمئن تھا نیلے گنبد میں اس نے چاۓ پی اور باہر نکلا تو منصر موٹر سائیکل پر آ رہا تھا اس نے اسے آواز دی وہ رک گیا ارے آپ یہاں کب سے ہو
دوپہر کی گاڑی سے پہنچا ہوں ابھی آپ کی طرف ہی جانے والا تھا
کچھ وقت رکنے کا ارادہ ہے کیا
نتیجہ سننے آیا ہوں
آپ کا نتیجہ ہے
جی ہاں
تمہارا رول نمبر کیا تھا ایلی نے اسے بتایا اس نے کہا آ پا پاس ہی ہیں وہ حیرت سے بولا جن حالات میں آپ نے امتحان دیا تھا وہ ہنستے ہوے اس کے باوجود پاس ہو وہ ایلی کو لے کر لاہور بازار کی طرف گیا ایک جگہ روک کر بولا میں سگریٹ لے لوں اس کے جاتے ہی ایم وہاں آ گیا ارے تم کب آۓ؟
نتیجہ سننے آیا تھا
ارے تمہیں معلوم نہیں ہوا تھا مجھے لگا آٹھ دن پہلے تمہیں پتہ چل گیا ہو گا
ایلی نے پوچھا وہ کیسے
یار میرا بھائی یونیورسٹی میں ہے منصر نے اسے تمہارا رول نمبر لکھوایا تھا کہ نتیجہ آ جاۓ تو اطلاع کرنا بھائی نے بتایا تھا کہ آٹھ روز قبل انہوں نے منصر کو اطلاع کر دی تھی
ایلی نے حیرانی سے کہا منصر نے تمہیں اطلاع نہیں دی
نہیں تو۔۔۔
تو پھر پوچھنے کا فائدہ ایم چلایا

اتفاق سے۔۔۔

ایم سے رخصت ہو کر موٹر سائکل پر سوار ہوا سوچ میں گم منصر کی تمام باتیں اس کے سامنے آ رہی تھی اس کا جی چا رہا تھا منصر کے گلے میں بازو حمائل کر دے آپ پریشان ہیں میں پرسوں آپ کے ہاں گیا تھا دادی ٹھیک کہہ رہی تھی وہ میں ہی تھا
سفید منزل پہنچ کر منصر نے اسے اپنے کمرے میں بیٹھایا
الیاس صاحب آپ یہ کتاب دیکھیں میں ابھی آیا وہ اوپر چلا گیا
ایلی کے دل میں منصر کےلیے پیار کے جزبات تھے اس آج تک ایسے شخص سے واستہ نہیں پڑا تھا جس کا اظہار اس قدد انوکھا
اتنے میں منصر نے آتے ہی کہا ماں کہہ رہی ہیں آج تم کھانا یہی کھاؤ گے یہ رسمی دعوت نہیں ہے چار لقمے کھانے والے کے لیے کوئی تیاری بھی کیا کرے اب آپ بتا دیں آپ چاول کھاؤ گے یا روٹی میں تو چاول شوق سے کھاتا ہوں مگر دونوں چیزیں تیار ہیں
ایلی نے کہا میں روٹی
ٹھیک ہے اس نے اوپر کی طرف منہ کر کے آواز لگائی بھئی الیاس صاحب روٹی کھائیں گے میں تو چاولوں کے ہوتے کچھ نہیں کھاتا
اماں کی آواز آئی کھانا بھجوا دوں
منصر نے بلند آواز کہا اماں بھجوا دیں
کھانا آیا ہاتھ دھو کر دیکھا تو اتفاق سے آج پلاؤ ایلی اپنے الفاظ بدلنے کی ہمت نہیں کر سکتا تھا
اتفاق سے آج پلاؤ ہے ایلی سن کر مسکرایا

نمک بھری روٹی۔۔۔

ایلی نے پہلا نوالا کیا تو منہ کھلے کا کھلا رہ گیا روٹی میں نمک کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا
منصر نے اسے دیکھ کر پوچھا کیا ہوا
کچھ نہیں زرا گرم ہے
ایلیکو فوری معلوم ہو گیا یہ سادی کی شرارت ہے وہ نہیں چاہتا تھا منصر کو علم ہو مگر اتنا نمک کھانا آسان نہ تھا مگر وہ ایسے کھاتا رہا جیسے کوئی بات نہ ہو
ارے آپ ایسے کھا رہے ہیں جیسے کھانے میں نمک چکھ رہے ہو میں تو پلاؤ کے معاملے میں غالب جیسا وہ کہتے تھے آم ہوں اور زیادہ اور میں پلاؤ ہو تو زیادہ
منصر نے ایلی سے کہا مجھ سے اٹھا نہیں جا رہا یہ ساتھ والے کمرے میں نمک دانی لے آئیے ایلی اٹھ کر گیا یہاں تو نہیں ہے اگے پیچھے دیکھیں
نہیں ملی تو آ جائیں
ایلی واپس آیا تو منصر بے تحاشا مسکراۓ جا رہا تھا پھر ہاتھ کی ٹھوکر سے روٹی پر پانی گرا دیا اور بولا افف کھاتے مجھے ہوش کہاں ہوتی ابھی اور روٹی منگوا لیتا ہوں اس نے آواز لگائی اور روٹی بھیج دیجیے ایلی کے کان میں بولا اتفاق سے
دونوں نے کھانا کھایا
ایلی رخصت ہونے لگا تو منصر نے پوچھا کب جا رہے ہو
کل ایلی نےجواب دیا
جانے سے پہلے ملیں گے ؟
جی ضرور
ایک بات بھول گیا آپ کے علی پور سے آیا ہوں اتفاق سے جانا ہوا سوچا آپ کے محلے سے ہوتا چلوں اب مزید اتفاق کہ یہاں میں ٹھہرا تھا
ایلی نے سر سری سے کہا اچھا آپ علی پور گئے تھے
بس چند گھنٹوں کے کے لیے
اور باقی والدہ صاحبہ راضی ہیں والد کو ہم کر کے بتا دیں گے پھر آپ رسمی طور پر والدہ کو بھیج دینا
ایلی نے کہا جی اور اس کے اندر خوشی کی لہر روڑی
کل شاید اماں ملنا پسند کریں وہ بول کر اللہ حافظ کہنے لگا
اب کچھ الٹا نہ کر دینا
یہ میرا دوستانہ مشورہ ہے

کبوتر یا کوا

اگلے دن ایلی سفید منزل پہنچا اماں اس کے انتظار میں تھی وہ جان کر اس وقت آیا جب منصر آفس ہو اماں بہت محبت سے ملی تم جانتے ہو بیٹا مجھے اپنی بچی سے کتنی محبت ہے وہ گھر کی لاڈلی بھی ہے اگر اسے کوئی تکیلف ہوئی میں جیتے جی مر جاؤں گی میرا دل ڈوب سا جاتا ہے یہ سوچ کر رہی
عین اسی وقت آواز آئی اماں ویسے ہی پریشان ہو رہی جو بیتے گا ہم دنوں پر بیتے گا ساری سامنے آ کر ہنسنے لگی
کیوں الیاس صاحب اماں اسے دیکھ کر گھبرا گئ
ایلی صاحب بڑے چالاک ہیں پانی پھینک دیا تھا روٹی ہر اماں کل جو باجی نے روٹی بنائی تھی نمک بہت ڈال کر بنائی تھی
اچھا تو تم اسے تنگ کرتی ہو
کیوں نہ کریں یہ بس آپ کے سامنے بھگی بلی بنے رہتے ہیں
اوپر سے باجی چلائی اماں میں نے نہیں سادی نے خود ڈالا تھا نمک سادی سن کر ہنستے بولا آپ ویسے بھی نہیں کھاتے نمک ڈال دوں تو کیا حرج ہے آپ شرماتے بہت ہیں
دیکھ لیں اس وقت بھی شرما رہے ہیں
کیوں اس کے پیچھے پڑی ہو اماں نے بولا
اماں علی پور میں سنا ہے گھر کبوتروں کے ڈربے جیسے ہیں اور مجھے ڈربے میں رہنے والے کبوتر بہت پسند ہیں
اماں نے نے کہا فصول باتیں نہ کیا کر
میں نے کون سا الیاس صاحب کو کبوتر کہا ویسے ان کی خصلیت کوے جیسی ہے چھین کر کھاتے ہی ویسے نہیں سادی ہنس رہی تھی
باجی نے کہا میں آ سکتی ہوں ایلی نے کہا آپ آ سکتی ہیں مگر سادی کو یہاں نہیں ہونا چاہیے
سادی بولی کیوں مجھے کیوں نہیں آنا چاہیے
اماں سے پوچھ لو
سارے فساد کی جڑ آپ کو اب کیسے خاموش بیٹھے ہو
ایلی نے دبی آواز میں کہا کوے بولا نہیں کرتے یہ کام مینا کا ہوتا ہے
سادی اوپر گئی تو ایلی بھی اجازت لے کر چلا گیا

دل کی بات۔۔۔

ایلی جب علی پور پہنچا تو ہاجرہ اور فرحت واپس آ چکی تھی ان کی آمد سے گھر میں عورتیں آ جا رہی تھی دونوں افغانستان کی ایسے باتیں کر رہی تھی جیسے انگلینڈ سے ہو کر آئی ہوں ان کے واپس آنے کے بعد ایلی کا شہزاد کے پاس جانے کا کوئی جواز نہ تھا
کوئی چار دن بعد ہاجرہ فرحت ایلی کے گرد آ کھڑی ہوئی
ہاجرہ بولی ایلی ایک بات پوچھوں سچ بتاو گے
کیا۔۔۔؟ ایلی نے پوچھا
جانو کہہ رہی تھی کچھ لوگ تمہارے بارے میں تحقیق کرنے آۓ تھے
ایلی کی زبان سے سادی کے خاندان کا سن کر ہاجرہ اور فرحت کے خوشی سے ہاتھ پاؤں پھول گئے کیا سچ میں تم چاہیتے ہو وہاں تمہاری بات طے ہو جاۓ
انہیں یقین نہیں تھا ایلی شہزاد کے چنگل سے آزاد ہو سکتا ہے وہ دونوں شہزاد کو غلط سمجھتی تھی کہ اس نے ایلی پر جان بوجھ کر جادو کیا ہے وہ سمجھتی تھی ایلی کو اپنا بنانے کا شہزاد کا کوئی خاص مقصد ہے انکا خیالتھا شہزاد کو دیکھ کر محلے کے مرد اپنے ہوش کھو دیتے ہیں
فرحت نے سب سے پہلے اس بات کا تزکرہ شہزاد سے کیا غالبا اس کا مقصد شہزاد کو دکھ پہنچنا تھا یہ جتیا کہ ایلی اب اس کے سحر سے آزاد ہو چکا ہے
سنا ہے یہاں ایلی کے لیے کچھ لوگ آے تھے شہزاد نے لا پروائی سے کہا ہاں آۓ تھے جانو نے بتایا تھا کیا سچ میں
شہزاد نے کہا مجھ سے کیا پوچھ رہی ہیں ایلی سے جا کر پوچھیں
فرحت نے کہا ایلی دل کی بات کب بتاتا ہے
شہزاد ہنس کر بولی تو کیا مجھے دل کی بات بتاۓ گا
ہم تو یہی سمجھتے ہیں تمہیں بتاۓ گا
شہزد ہنس کر بولی اگر ایلی کو مجھ سے لگاؤ ہے تو پوچھنے کی ضرورت نہیں اگر نہیں تو کیوں بتاۓ گا
ایلی کمرے میں کتاب پڑھ رہا تھا وہ بولی کیوں ایلی فرحت نے ہاتھ جوڑ دیے اسے کچھ مت بتانا
بتاتی نہیں پوچھو گی ایلی کیوں وہ لاہور والی کیسی ہے
کیا مطلب ایلی نے پوچھا
جس کے عزیز یہاں آۓ تھے کیسی ہے وہ؟
بہت خوبصورت ایلی نے کہا
مجھ سے بھی زیادہ وہ فرحت کی طرف دیکھ کر بولی
ایلی نے کہا کوئی مقابلہ نہیں
وہ کافی اونچے لوگ ہیں
اونچے ہیں تو یہاں ہمیں کیسے خاطر میں لانے لگے
شہزاد بولی ایلی نے محنت کی ہے اس کا پھل ملے گا کیوں ایلی
میری محنت کو کون دیکھے گا اس نے شہزاد کی طرف دیکھ کر کہا
اس بار ایلی پاس ہو گیا منصر نے نتیجے کا تار پر اسے اگاہ کر دیا لاہور جانے کا اسے موقع نہ ملا
اس دوارن ہاجرہ فرحت سادی کی فیملی سے جا کر مل چکی تھی ہاجرہ بہت خوش تھی کہ بہت اچھے لوگ ہیں ایلی سے کہا امیر ہوتے ہوے سادہ سے ہیں مل کر یہی لگا بات بن جاۓ گی بس لڑکی کے ابا مان جاۓ تو پھر بتائیں گے
اور اگر ایلی کے ابا نہ مانے تو کیا ہو گا
ہاجرہ نے سادی کی والدہ سے اپنے سارے حالات بتا دیے جیسے کہ اس کی عادت تھی
ہم غریب لوگ ہیں مگر سادی ہماری سر انکھوں پر رہے گی ہم چونچلے نہیں کرتے خدمت گزاری کر سکتے ہیں
جب وہ دونوں لاہور سے آئی تو شہزاد اور بیگم نے ان کے گلے میں ہار ڈالے اماں تم کیا ساتھ چلو گی شہزاد نے پوچھا
ہاں میں کیوں نہ چلوں
شہزاد نے کہا پیچھے گھر کون رہے گا
جس کا گھر ہے وہی جانے میں زمہدار تھوڑا ہوں
اماں تیرا وہاں کیا کام
میرے دو کام ہیں سانوری کب سے بولا رہی ہے اس سے ملنا ہے جب وہ لوگ تانگے میں سوار ہوۓ تو ایلی نے بیگم کو دیکھا وہ غصے میں ہیں مگر ایلی کو خیال نہ آیا اس کے نتائج کیا ہوں گے
رانا میں منصر کی سی عادتیں نہ تھی مگر پہلی بار ہی ایلی مل کر جان گیا وہ بہت ملںن سار شخص ہے
اچھا تو آپ ہیں ایلی میں سمجھا کوئی تیلی قسم کی چیز ہوگی
آپ تو بڑے معقول آدمی ہیں
ایلی نے کہا معقول ہونا چاہیے
اور جناب کو معلوم ہونا چاہیے کہ میں دولہا میاں ہوں جس کے دم قدم سے یہ رونق ہو رہی ہے۔“ وہ ہنسنے لگا۔
وہ ایک بھرپور جسم کا آدمی تھا۔ پر رعب چہرا کسرتی جسم لیکن اس کے چہرے پر وہ بات نہ تھی جو منصر کی خصوصیت تھی۔
شادی کی وجہ سے سفید منزل میں یوں معلوم ہوتا تھا جیسے گھمسان کا رن پڑا ہو۔ ہر کوئی مصروف تھا سب بیک وقت بات کر رتے تھے۔ جسے شاید کوئی نہ سنتا تھا۔ اور اس کے علاوہ بھانت بھانت کے لوگ آ جارہے تھے وہ شاید غالباً اس کے رشتے دار تھی۔ ایلی حیران تھا کہ یکدم اتنے رشتے دار کہاں سے آ گئے۔ ایلی کو یہ تو معلوم تھا کہ وہ مکان کرائے کا نہیں بلکہ ان کا اپنا ہے۔ لیکن اسے اس بات کا علم نہ تھا کہ منصر کہاں کے رہنے والے تھے اگر وہ لاہور کے رہنے والے تھے تو پھر گھر میں سبھی لوگ اردو کیوں بولتے تھے اور پھر ان کا لہجہ ایل زبان کا سا تھا اور زبان نہایت مہذب اور شستہ تھی۔
ان حالات میں ظاہر تھا کہ سادی کو دیکھنے یا ملنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ ایلی کی خواہش تھی کہ سادی سے ملے اسے یاد دلائے کہ دوپٹہ چھیننے کی شرط جیتنے کی وجہ سے اس کی حیثیت فاتح کی ہے اور جو حکم وہ دے گا سادی کو اسے ماننا پڑے گا۔ سادی نے خود ہی کہا تھا جو مانگو گے ملے گا۔ کئی ایک دن وہ سوچتا رہا کہ کیا مانگوں دوپٹہ تو لے چکا اب قمیض لینے کا فائدہ؟ ایلی نے کئی بار سادی کا دوپٹہ سونگھا تھا لیکن اس میں سادی کے جسم کی بو نہ تھی۔ اس میں سینٹ کی بو آتی تھی۔ حالانکہ وہ کئی ایک بار سادی سے ملا تا لیکن اس نے کبھی سادی کے جسم کو بو محسوس نہ کی تھی۔ شہزاد کے جسم کی بو کو محسوس کر کے نہ جانے ایلی کو کیا ہو جاتا تھا اس کی آنکھیں ابل آتی تھیں۔
نہیں نہیں قمیض مانگنا بے کار ہے تو پھر کیا مانگوں؟ اس نے بہت سوچا تھا کئی ایک دن کے بعد دفعتاً اسے خیال آیا تھا۔ ہاں وہ خوشی سے اچھل پڑا تھا۔ سادی سے کہوں گا کہ مجھ سے ملے اکیلی ملے۔ گھر سے باہر مقبرے یا شالیمار میں اور کم از کم دو گھنٹے میرے ساتھ رہے۔
ہاجرہ فرحت رابعہ شہزاد اور بیگم کو کوٹھے پر جاتے ہوئے اس نے حسرت سے دیکھا تھا کاش کہ وہ بھی اوپر جا سکتا۔ شاید اماں اسے بلائیں۔ لیکن اتنے رشتہ داروں کی موجودگی میں وہ اسے کس طرح بلا سکتی تھیں۔ اماں کو تو شاید اپنا ہوش بھی نہ تھا چونکہ وہ انتظامات میں مصروف تھیں۔
ادھر منصر کو اتنی فرصت نہ تھی کہ ایلی کے پاس بیٹھے اب کی بار وہ بالکل ہی محروم رہا تھا۔
رانا واحد شخص تھا جو مصروف دکھائی نہیں دیتا تھا۔ یہ اس کی طبعی خصوصی تھی۔ انتظامات میں تو شاید برابر کا حصہ لے رہا تھا لیکن اس کے رویے سے یوں معلوم ہوتا تھا جیسے فارغ ہو۔ بے کار ہو۔ جیسے ازل سے ہی اسے کوئی کام نہ ہو۔ دراصل اس کی طبیعت میں گھبراہٹ اور پریشانی کا عنصر نہ تھا لٰہذا وہ کام میں مصروف ہونے کے باوجود مطمئن اور فارغ دکھائی دیتا تھا۔
اماں بھی ان کے ساتھ انتظامات میں مصروف تھا۔ اب کی بار امان نے ایلی کو دیکھ کر وہ پرانا انداز اختیار نہیں کیا تھا بلکہ جیسے اس نے ایلی کو برداشت کر لیا ہو جیسے اس کے وجود کو تسلیم کرنے کے بعد اب اسے ایلی سے کوئی شکایت نہ ہو۔
منتظموں میں وہ معلوم نہیں رومی ٹوپی کو دیکھ کر ایلی ٹھٹھکا “ارے“ وہ چلایا “ان صاحب کو تو میں نے کہیں دیکھا ہے۔“ وہ دیر تک سوچتا رہا۔ پھر اسے یاد آیا۔ آخاہ یہی صاحب تو اس روز پھل کا ٹوکرا لائے تھے۔ اب بھی رومی ٹوپی کا وہی پرسرار انداز تھا جیسے کہیں سے پھل کا ٹوکرا لائے ہوں اور انہیں وہ ٹوکرا نہ جانے کسے دینا ہو۔
منصر کے باقی بھائیوں میں صرف انور ایلی کے لیے باعث دلچسپی تھا۔ اس کی آنکھوں سے بیک وقت شرارت ذہانت اور تبسم کی پھوار سی پڑتی تھی اب تو ایلی کو علم ہو چکا تھا کہ انور ہی نے سر پر دوپٹہ لے کر سفید منزل کے چوبارے سے جمال کو اشارے کیے تھے اور اس طرح ناؤ گھر اور سفید منزل کے باہمی رابطے کا راز فاش ہو گیا تھا جس کے نتیجے میں سفید منزل کے اوپر زینے میں اینٹوں کے جنگلے بند کر دئیے گئے تھے۔ انور جب بھی ایلی کے قریب آتا تو اس کے چہرے پر عجیب سی مسکراہٹ پھیل جاتی تھی۔

شکریہ شکریہ

شادی سے ایک دن پہلے رانا ایلی کے پاس آ بیٹھا۔ کہنے لگا “الیاس صاحب کل برات میں کیا آپ شہ بالا بنیں گے۔“
“شہہ بالا“ ایلی نے رانا کی طرف استفسار بھری نگاہ سے دیکھا۔
“شہہ بالا کا مطلب“ بیسٹ مین ہے۔“ وہ بولا۔
“آپ کا مطلب ہے۔“ ایلی ہنسنے لگا۔ “کہ سہرے لگا کر میرا کارٹون بنایا جائے۔“
نہیں تو رانا نے کہا “ہمارے ہاں نہ سہرے ہوتے ہیں اور نہ گھوڑے پر سواری۔
“تو پھر“ ایلی نے پوچھا۔
“برات سفید منزل سے چلے گی اور موتی محلًہ پر جا کر رکی جائے گی جہاں ہماری ہونے والی بیگم رہتی ہیں۔ برات کے آگے بینڈ باجا ہو گا۔ بینڈ کے پیچھے دولہا اور شہہ بالا ہوں گے اور اس کے پیچھے براتی نہ کوئی یار ہو گا نہ سہرا۔ اور سبھی پیدل ہوں گے۔“
“اچھا ---------- “ الیاس سوچنے لگا۔
“یہ تو آپ کی مرضی پر موقوف ہے کہ شہہ بالا بنیں یا نہ بنیں۔ میں نے بھئی تمھارے بھلے کی کہی ہے اگر تمھیں منظور نہیں تو نہ سہی۔“
“میرے بھلے کی؟“ ایلی نے حیرت سے پوچھا۔
“ہاں ہاں۔“
“وہ کیسے؟“
“ایک سنہرا موقعہ ہے اگر فائدہ اٹھانا چاہو تو ----------- “ رانا نے شرارت بھری مسکراہٹ سے جملہ مکمل کر دیا۔
“میں نہیں سمجھا۔“ایلی نے کہا۔
“ویسے بات معمولی سی ہے لیکن صاحب ذوق کے لیے بڑی بات ہے۔“ وہ کہنے لگا۔ دیکھو نا راستے میں جتنی کھڑکیاں اور جھروکے ہیں برات گزرے گی تو وہ سب کھلیں گی جو کھڑکی کبھی نہیں کھلی۔ وہ بھی کھل جائے گی اس وقت اور جو کبھی کھڑکی میں نہیں آئی وہ بھی کھڑکی میں آ کھڑی ہو گی اور دولہا اور شہہ بالا کو دیکھے گی رنگ رنگ کی آنکھیں طرح طرح کی نگاہیں دولہا اور شہہ بالا پر مرکوز ہو جائیں گی۔ صرف یہی نہیں۔ ہو کوئی کوشش کرے گی کہ ان کو صرف دیکھے ہی نہیں بلکہ اپنا آپ دکھائے بھی اور وہ جب خود اپنا آپ دکھاتی ہیں تو کیا کیا پوز بنتے ہیں کیا کیا پوز“ رانا ہنسنے لگا “اپنا خوب صورت ترین حصہ دکھاتی ہیں خوب صورت ترین انداز اگر شہہ بالا بن کر ہمارے ساتھ چلو گے تو لاہور کی ساری پدمنیاں اور نہ جانے کون کون تمھاری نگاہوں کے سامنے ایستادہ ہوں گی اور تمھیں اندازہ ہو گا کہ یہاں کیا کیا چیز چھپی پڑی ہے۔ ارے صاحب۔ اف اف “ رانا نے اس ڈرامائی انداز سے جھرجھری لی کہ ایلی کے جسم میں ابھی ایک لہر دوڑ گئی۔
“اگر تم صاحب ذوق ہو تو شاید تمھارے لیے کوئی دروازہ مستقل طور پر کھل جائے اللہ بڑا کارساز ہے
اور اگر ذوق نہیں تو علمی دلچسپی ہی سہی۔ پنڈت کو کاکی کتاب کی تفسیر لکھ سکیں گے آپ۔“
یہ کہہ کر رانا یوں کسی کام میں مصروف ہو گیا جیسے ایلی کے فیصلے سے اسے خاص دلچسپی نہ ہو۔
وہ اپنی ایک مصروفیت سے ایک ساعت کے لیے فارغ ہوتا اور آ کر ایلی سے سرسری طور پوچھتا۔
“کیوں الیاس صاحب کیا فیصلہ کیا فیصلہ کیا آپ نے؟“ اور پھر جواب کا انتظار کیے بغیر۔ ادھر ادھر چلا جاتا اور ادھر سے فارغ ہو کر ادھر آتے ہوئے ایلی کو کہنی مار کر پوچھتا۔ “کیا فیصلہ کیا؟“
نتیجہ یہ ہوا کہ اگلے روز برات کے جلوس میں ایلی رانا کے ساتھ ساتھ شہہ بالا کی حیثیت سے چل رہا تھا۔ اور قدم قدم پر رانا اسے دبی آواز میں کہہ رہا تھا۔ “ ادھر بھئی ادھر دائیں ہاتھ۔
واہ واہ کیا چیز تھی۔ سبحان اللہ۔ تم نے موقعہ کھو دیا۔ ہئے ہئے حد تھی حد تھی۔ ذرا چوکس رہو بھائی ------ “
“بھئی واہ ادھر تو چاند چڑھا ہوا ہے ----- وہی بات ہے وقت تنگ است و کار ہائے بسیار ----- او ہو۔ تم تو بھئی اپنے آپ میں کھوئے ہوئے ہو۔“
الیاس کے روبرو کھڑکیاں کھل رہی تھیں چقیں سرک رہی تھیں انگلیاں بڑھ رہی تھیں سیاہ نشیلی آنکھیں طلوع ہو رہی تھیں۔ تبسم لہرا رہے تھے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ سادی چل رہی تھی وہ مسکرائے جا رہی تھی ہنس کر کہہ رہی تھی۔ دیکھ سکتے سکتے ہیں تو دیکھ لیجیئے۔ اور وہ محسوس کر رہا تھا جیسے دیکھنے کی قوت سلب ہو چکی ہو۔ دیکھنے کے باوجود اسے دکھتا نہیں تھا۔ چاروں چرف سادی ہی سادی نظر آ رہی تھی۔ سارے لاہور پو مسلط تھی۔
جب وہ موتی محلے کی گلی میں پہنچے تو سفید بازوؤں لہراتی انگلیوں متبسم چہروں اور شوخ نگاہوں کا گویا ایک طوفان امڈ آیا۔
بینڈ رک گیا۔ جلوس تھم گیا۔ رانا کی نگاہیں پھلجڑیاں چلا رہی تھیں۔ ایلی میں نہ جانے کیوں گھبراہٹ سی پیدا ہوئی جا رہی تھی۔
سامنے کی ایک کھڑکی میں سادی کی جھلک دکھائی دی وہ مسکرا رہی تھی لیکن اس کی مسکراہٹ پھیکی اور بے جان تھی جیسے کوئی کھائی ہوئی ہو سادی تو ایسی نہ تھی۔ ایلی نے کوشش کی کہ وہ جلوس سے نکل کر سامنے کمرے میں جا بیٹھے لیکن رانا نے اس کا بازو پکڑ لیا۔
“واہ“ وہ بولا “یہی تو نقطہ عروج ہے اور نقطہ عروج کو چھوڑ کر جانا -------------- واہ صاحب“ رانا نے مضبوطی سے اسے پکڑے رکھا اور آنکھوں سے اوپر کی کھڑکیوں کی طرف آتش بازی چھوڑتا رہا۔
“یہاں تو قیامتیں چھپی ہوئی ہیں۔ طوفان ہیں فتنے ہیں۔ رانا مسکراتے ہوئے بولا۔
پھر بینڈ نے سلامی کی آخری سریں فضا میں پھیلا کر باجے ہونٹوں سے الگ کر دئیے اور وہ سحر ٹوٹ گیا۔ اس پر سب کمروں کی طرف بڑھے اور رانا اور ایلی کا ساتھ چھوٹ گیا۔
جب وہ کھانا کھا رہے تھے تو رانا نے ایک لڑکے کو بھیج کر الیاس کو بلا بھیجا۔ الیاس نے سمجھا کہ شاید رسم کے مطابق اسے دولہا کے پاس بیٹھنا چاہیے اس لیے وہ بادل نخواستہ وہاں چلا گیا اگرچہ مزید نگاہوں پر چڑھنے سے وہ گھبرا رہا تھا۔
“الیاس صاحب“ رانا اس کی طرف جھک کر بولا۔ “شکریہ شکریہ الیاس صاحب“
“کیوں۔“ ایلی نے پوچھا۔
“آج بھئی تم نے مجھ پر اتنا بڑا احسان کیا ہے جسے میں ہمیشہ یاد رکھوں گا۔“
“احسان کیا شہ بالا بننے کی بات کر رہے ہیں آپ“ ایلی نے پوچھا۔
“ہاں ہاں۔“
“لیکن اس میں احسان کی کیا بات تھی۔؟!
“تھی“ رانا مسکرایا۔
“آپ تو کہتے تھے الٹا اس میں میرا فائدہ ہے۔“
“اور کیا کہتے بھائی۔“ رانا نے شرارت بھری نظر ایلی پر ڈالی۔
“ میں نہیں سمجھتا۔“ ایلی بوکھلا گیا۔
“بات یہ ہے بھئی کہ تم شہ بالا نہ بنتے تو ظاہر ہے کہ میرے کسی بھائی کو بنا دیا جاتا اور میرے بھائی تم جانتے ہو سبھی خوبصورت ہیں کم از کم مجھ سے زیادہ خوب صورت ہیں۔ اور جب ان میں سے کوئی برات میں میرے ساتھ ساتھ ہوتا۔ اور دیکھنے والے اس دیکھتے تو ظاہر ہے کہ اپنی حیثیت تو ختم ہو جاتی۔ لوگ کہتے “اے ہے دولہا تو بس اللہ کا فضل ہی سمجھ لو۔“
“لیکن تم ساتھ تھے تو اپنی وہ حیثیت پیدا ہوئی جو شاید کبھی نہ ہو سکتی کبھی نہ ہو سکے۔
تمھارے ساتھ ہونے نے مجھے خوب صورت بنا دیا۔ آج وہ دھوم مچی ہے کہ اپنی کہ حد ہے اور یہ سب تمھاری وجہ سے ہوا۔2 رانا ہنسنے لگا۔
“کال کلوٹا ------ “سادی سامنے کھڑی ہنس رہی تھی۔
“ اور میں سانوری سے کہتی تھی ہے تجھے ایلی میں کیا دکھائی دیا جو تو اس پر ریجھ گئی۔“
شہزاد آنسو بھری آنکھوں سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔
“تو یہ ہے وہ لڑکا جس کا تم نے انتخاب کیا ہے۔“ موتی محلے کی کھڑکیوں سے آوازیں آ رہی تھیں۔ “یہ؟“ کوئی ہونٹ نکال رہی تھی۔ “ارے“ کسی کی نگاہ میں تحقیر جھلک رہی تھی۔ “توبہ ہے توبہ ہے۔“ ڈھولک سر پیٹ رہی تھی۔
خوفناک موڑ
علی پور واپس جانے کے لیے جب وہ سٹیشن پر پہنچے تو ایلی نے دیکھا کہ بیگم کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی۔ بیگم نے تحقیر بھری نگاہ ایلی پر ڈالی اور پھر ہنس کر بولی۔ “تم بھی کیا یاد کرو گے کہ مجھے ساتھ لائے تھے۔“
ایلی اس کی بات سن کر گھبرا گیا۔
“میں نے ان لوگوں پر وہ سکہ بٹھایا ہے کہ یاد کریں گے۔ دھاک جما دی ہے آصفیوں کی۔“ وہ ہنسی۔
ایلی کو معلوم نہ تھا کہ بیگم کا وار چل گیا ہے دراصل اس کے ذہن میں یہ بات آ ہی نہ سکتی تھی کہ بیگم اس نئے تعلق کو توڑنے کی کوشش کرے گی اس کا تو یہ خیال تھا کہ بیگم کی کوشش ہو گی کہ ایلی ان کے سر سے ٹل جائے اور اسے سر سے ٹالنے کا اس سے بہتر موقع کیا ہو سکتا تھا۔ ان سب افراد میں جو برات پر گئے تھے اگر کسی کا مفاد اس تعلق کو توڑنے سے وابستہ تھا تو وہ صرف شہزاد ہو سکتی تھی لیکن بیگم ---------
ایلی کو معلوم نہ تھا کہ بیگم نے موقعہ پا کر سادی کی والدی سے ایسے موقع پر بات کی تھی جب سادی قریب ہی موجود تھی۔ اس نے کہا “ایلی لڑکا تو اچھا خاصہ ہے لیکن یہ بیل منڈھے چڑھتی دکھتی نہیں بہن میں تو سچ کہوں گی لڑکے کو میری اپنی بیٹی سے محبت ہے۔ اس بات کو سبھی جانتے ہیں۔ توبہ کتنی بدنامی ہے بہن میری بیٹی شادی شدہ ہے یہی جو میرے ساتھ آئی ہے۔ دراصل خون کا اثر نہیں جاتا ایلی کے باپ کو اب تک عورتوں کا شوق ہے چار بیویاں کر چکا ہے۔“
ایلی کو خبر نہ تھی کہ اتنی سی سرسری بات کر کے بیگم نے حالات کا دھارا ہی بدل دیا تھا۔ اس کی زندگی کا رخ ایک ایسے موڑ کی طرف بدل دیا گیا تھا جس طرح بدنامی، رسوائی اور بے عزتی کی مہیب چٹانیں کھڑی تھیں۔
دراصل بیگم کی اپنی زندگی تباہ ہو چکی تھی اور اس کی تباہی کا باعث اس کی اپنی جنسی سرد مہری تھی۔ اسی وجہ سے جنس سے اسے نفرت تھی براہ راست یا بالواسطہ ہر جنسی تعلق کو توڑنے میں در پردہ خوشی محسوس کرتی تھی۔
علی پور واپس جاتے ہوئے بیگم ایک سکندر تھی اور ایلی اور شہزاد شریف اور سادی تباہ و تاراج شدہ ریاستیں تھیں جو اس کے قدموں میں پھیلی ہوئی تھیں اس کا دل فخر سے دھڑک رہا تھا۔ کہ کیا یاد کرو گے کیا یاد کرو گے۔ گاڑی سبک رفتاری سے علی پور کو چلی جا رہی تھی۔
ہاجرہ کے چہرے پر مسکراہٹوں کے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔ وہ بار بار اپنی ناک کی طرف دیکھتی اور مسکراتی اور پھر ناک کی طرف دیکھنے لگتی۔ فرحت مسرور تھی لیکن اس کی مسرت میں پریشانی اور فکر کا عنصر نمایاں تھا غالباً وہ سوچ رہی تھی کہ بیگم اور رابعہ خود اپنے دکھ میں گم تھی۔ اسی طرح ایک روز اس کی اپنی شادی ہوئی تھی۔ اس کا خاوند محلے میں سب سے زیادہ خوب صورت اور لائق تھا لیکن ----------- وہ عیسائی ہو چکا تھا اور اب وہیں لاہور میں ایک میم کے ساتھ زندگی بسر کر رہا تھا اور رابعہ کی گود میں اس کا اکلوتا بیٹا امی تھا۔جس کے پیدا ہوتے ہی رابعہ کے سہاگ کا سورج غروب ہو چکا تھا اسے گھر میں پیار سے سب ا می کہتے تھے۔ کب امی بڑا ہو گا۔ دولہن بیاہ کر لائے گا اور رابعہ کی زندگی کا اندھیرا دور ہو گا۔ کبھی کبھی رابعہ سر اٹھا کر ہاجرہ کی طرف دیکھتی تو معاً اسے یاد آتا کہ وہ کہاں ہے اور پھر اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل جاتی اور اس کا حسین سرخی سے جھلکتا اور وہ کہتی “ ہے کتنے اچھے لوگ تھے کتنے سادہ اور پیار کرنے والے اور لڑکی توبہ اتنی پیاری ہے کہ خواہ مخواہ اسے اپنانے کو جی چاہتا ہے۔“ شہزاد اس روز مغموم سی تھی اور خلاف معمول سوچ میں کھوئی ہوئی تھی۔
فرحت اسے کہتی۔ “اے آج سوچ میں کیوں پڑ گئی۔“ لیکن شہزاد اس کی بات کا جواب دینا نہ چاہتی تھی۔ وہ پہلا دن تھا جب شہزاد خاموش بیٹھی تھی جو اب تو خیر وہ بیسیوں دے سکتی تھی۔
لیکن نہ جانے کیوں وہ خاموش تھی۔ سر اٹھاتی اور کھسیانی مسکراہٹ کے بعد پھر سر جھکا کر سوچنے لگتی۔
دراصل بیگم کا انداز دیکھ کر اسے شک پڑ گیا تھا کہ بیگم کچھ کر کے آئی ہے۔ وہ اپنی ماں کی طبیعت سے واقف تھی وہ سوچ رہی تھی اگر بیگم نے کچھ کہہ دیا اور بات بگڑ گئی تو وہ سب اس پر شک کریں گے۔
ایلی اپنے خیالات میں کھویا ہوا تھا۔ اس نے بڑی شدت سے کوشش کی تھی کہ سادی کو پیغام بھیجے اور آخری روز وہ کامیاب ہو گیا تھا۔ کسی مہمان کا بچہ جو ایلی سے خاصہ مانوس ہو گیا تھا اس کے ہاتھ اس نے یہ پیغام بھیجا تھا۔ یاد ہے تم شرط ہار گئی تھی اور جواب میں سادی جنگلے کے قریب کھڑی ہوئی با آواز بلند چلائی تھی۔ “جاؤ ان سے کہہ دو ہمیں یاد ہے۔ اور ------------------ نہیں اور کچھ نہیں۔“ سادی کی آواز تو وہی تھی۔ لیکن بات کا ناداز بدلا بدلا سا تھا۔ ایلی سوچ رہا تھا نہ جانے کیا بات ہے برات کے دن کھڑکی میں بھی غمگین کھڑی تھی اور اس وقت بھی اس کی آواز میں وہ مسرت نہ تھی جس کے چشمے ابلا کرتے تھے سادی کی ہر بات میں ہر حرکت میں۔
ایلی کو خبر نہ تھی کہ سادی کی اداسی کا راز اس وقت بیگم کے ہونٹوں پر فاتحانہ مسکراہٹ کی صورت میں ظاہر تھا۔ گاڑی کے پہیوں میں گونج رہا تھا “کیا یاد کرو گے کیا یاد کرو گے۔“ دور سبز کھیتوں سے پرے کانگڑے کی سلاخی چٹانیں کھڑی تھیں۔ اور گاڑی ایلی کو اس مہیب اور خطرناک موڑ کی طرف لیے جا رہی تھی جس کی طرف حالات اسے دھکیل رہے تھے بیگم کی وہ فاتحانہ مسکراہٹ بھی تو حالات کا ایک جزو تھی بے حد اہم جزو اور ایلی اس سے بالکل بے خبر تھا وہ سمجھتا تھا کسی نہ کسی صورت وہ منصر کے گھرانے سے منسلک ہو جائے گا اور اس طرح زندگی کا ایک نیا ورق الٹا جائے گا۔

ہی ہی ہی ہی ہی --------------- !


علی پور واپس آ کر ایلی نے دو خط سادی کو لکھے اور غیر از معمولی دونوں سے ایک کا جواب بھی موصول نہ ہوا۔ اس کے باوجود یہ بات اس کے ذہن میں نہ آیہ کہ بیاہ سے متعلقہ مصروفیت کے علاوہ بھی کوئی وجہ ہو سکتی ہے۔ ان دونوں خطوط میں اس نے مطالبہ کیا تھا کہ عہدو پیمان کے مطابق شرط جیتنے کی وجہ سے سادی اسے ملے اور مقبرہ یا شالامار میں چند ایک گھنٹے اس کے ساتھ رہے۔
وہ سمجھتا تھا کہ شاید وہ خط سادی تک نہ پہنچے ہوں شاید اس سہیلی نے جس کی معرفت وہ خط بھیجتا تھا خطوں کا راز فاش کر دیا ہو۔ شاید وہ لوگ کہیں چلے گئے ہوں شاید -------------- اسے کئی ایک خیال آتے لیکن یہ خیال کبھی نہ آیا تھا کہ شاید بیگم نے سادی کو ایلی سے متنفر کر دیا ہو نہ جانے کیوں اسے سادی پر مکمل اعتماد تھا۔ وہ اپنی نسبت شک کر سکتا تھا لیکن سادی ---------- اونہوں جس عظیم کردار کا سادی نے مظاہرہ کیا تھا اس کی وجہ سے ایلی کو کبھی شک نہیں پڑ سکتا تھا کہ کوئی سادی کو ورغلا سکتا ہے۔
پھر سادی کا خط دیکھ کر ایلی حیران رہ گیا۔ مضمون پڑھ کر اسے یقین نہ آ رہا تھا کہ وہ خط سادی نے لکھا تھا۔ پہلے چند ایک جملے نہایت سنجیدہ اور خشک اناد میں تحریر کیے گئے تھے۔ اس کے نیچے پانچ چھ لائنیں لکھ کر انہیں کاٹ دیا گیا تھا اور اس قدر احتیاط سے ایک ایک لفظ کاٹا گیا تھا کہ یہ اندازہ لگانا ممکن نہ تھا کہ کٹا ہوا حصہ کس بات کے متعلق ہے۔ کٹے ہوئے مضمون تلے تحریر تھا “خیر چھوڑیے اس بات کو۔“
اوپر لکھا تھا۔
مورخہ 4 ماہ حال کو اس بات کا امکان ہو گا کہ میں آپ سے مل سکوں۔ اس روز شام کے تین بجے سے پانچ بجے تک آپ بوڑھے دریا کے پل پر میرا انتظار کریں۔ امید تو ہے کہ میں ضرور آؤں گی لیکن پانچ بجے تک نہ آئی تو سمجھ لیجئے کہ مجبوری کی وجہ سے رکنا پڑا اس صورت میں پھر اطلاع دوں گی۔
ایلی حیران تھا۔ ایسا خط تو سادی نے کبھی نہ لکھا تھا۔ مضمون کا انداز ہی نیا تھا۔ اس کے علاوہ سادی نے تو کبھی اپنے خط کا ایک لفظ بھی نہ کاٹا تھا۔ وہ بت تکلف اور بے تکان لکھا کرتی تھی اور اس کے خطوط اتنے لمبے ہوتے تھے کہ دیکھنے میں اخبار معلوم ہوتے تھے، آخر کیا بات تھی جو اس نے لکھ کر کاٹ دی تھی۔ ایلی دیر تک سوچتا رہا لیکن کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکا۔ پھر شاید‘ اس نے سوچا‘ کہ ملاقات پر ساری بات معلوم ہو جائے گی اس لیے وہ تیاری میں مصروف ہو گیا۔
لاہور جا کر اس نے سوچا کہ شاید اسے دیر تک پل پر انتظار کرنا پڑے اس لیے اس نے اپنے ایک عزیز کا سائیکل مستعار لے لیا اور پل پر جا پہنچا۔
بوڑھے دریا کے پل پر چند منٹ انتظار کے بعد سادی کا تانگا اس کے قریب آ کھڑا ہوا۔
تانگے میں وہ اکیلی تھی۔
سادی کا چہرہ انبساط کی وجہ سے گلاب کے پھول کی طرح کھلا ہوا تھا۔ ایلی کو دیکھتے ہی وہ چلانے لگی۔
“ارے آپ تو پہلے ہی سے موجود ہیں اور میں سمجھی میں پہلے پہنچوں گی۔“
پہلے پہنچ جاتی تو یہاں کیا کرتی تم۔“ ایلی نے کہا۔
“انتظار اور کیا۔“
“انتظار کرنے کا بہت شوہے کیا۔“ ایلی بولا۔
“شوق کیا کر رہی ہوں انتظار نہ جانے کب تک کرنا ہو گا۔ اب تو عادت سی ہو گئی ہے۔“
یہ کہتے ہوئے اس نے تانگے والے کو پیسے دئیے اور تانگے سے نیچے اتر آئی۔
“ارے“ ایلی چلایا “تانگا کیوں چھوڑ دیا۔“
“ہائیں“ وہ بولی “مجھے خیال ہی نہیں آیا۔“
“اور بن سوچے ہی کرایہ چکا دیا۔“ایلی نے پوچھا۔
“آپ کو بھی تو یاد نہیں آیا جو چپکے سے کھڑے رہے۔“ وہ ہنسی۔
“میں تو خیر مصروف تھا۔“
“مصروف -----------------“
“ہاں شدت سے۔“
“تو میں بھی مصروف ہی ہوں گی۔“ وہ ہنسنے لگی۔
“اب کیا کریں گے ہم نہ جانے کب کوئی خالی تانگہ آئے ادھر۔“
سائیکل جو ہے۔“ وہ چلائی۔ “مجھے آگے بٹھا لیجئے۔“
“ہائیں“ ایلی کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔
اس زمانے میں لاہور میں عورتیں خیمہ نما نقاب کے بغیر دکھائی نہیں دیتی تھیں بے نقاب عورتیں اول تو نظر نہیں آتی تھیں اور آتی بھی تو میمیں اینگلو انڈین یا ہندو عورتیں۔ پردے کے رواج کی پابندی سختی سے کی جاتی تھی اس حد تک کہ نقاب اٹھا کر چلنا بھی معیوب سمجھا جاتا۔
اس دور کے لاہور میں زیادہ تو رونق شہر کی فصیل کے اندر والے علاقوں میں پائی جاتی تھی ٹکسالی اور موتی بازار میں شوقین مزاج لوگ شام کے وقت جمع ہو جاتے چونکہ عورت کی بہار دیکھنا کسی اور جگہ ممکن نہ تھا۔
ویسے تو شہر سے باہر انار کلی میں خاصی رونق ہوتی تھی لیکن وہاں سیر و تفریح یا خرید و فروخت کرنے والے صرف مرد ہوتے تھے۔ عورتوں کے لیے اندرون شہر ڈبی بازار اور اس کے ملحقہ علاقوں میں زیورات اور پارچہ جات کے چند ایک بازار مخصوص تھے۔ انار کلی سے باہر کے علاقے آباد تھے۔ مال روڈ پر سارا دن الو بولتا تھا شام کو چند ایک گاڑیاں آتی جاتی دکھائی دیتیں یہ علاقے صرف گوروں اینگلو انڈین اور صاحبو کے لیے مخصوص تھے۔
اس زمانے میں کسی لڑکی کو سائیکل پر بٹھا کر چلنا آسان کام نہ تھا۔ سائیکل پر آگے بٹھانے کی بات چھوڑئیے ان دنوں تو اگر کوئی اینگلو انڈین لڑکی سائیکل پر سوار دکھائی دیتی تو لاگ آواز کستے نعرے لگاتے۔
سادی کی بات سن کر ایلی چونکا لیکن سادی ہنس رہی تھی ہنسے جا رہی تھی۔
“بس ڈر گئے؟“ وہ چلائی۔
“لیکن یہ کیسے ہو سکتا ہے۔“ ایلی نے کہا۔
“میں بتاتی ہوں۔“ وہ بولی۔ “ اور پھر پھدک کر ایلی کی سائیکل کے آگے بیٹھ گئی۔“ دیکھا یوں ہوتا ہے۔ اب آپ چلائیے۔“
“لیکن اگر گر گئی تو؟“
“تو اٹھ بیٹھوں گی اور پھر سے سوار ہو جاؤں گی۔ دونوں اکھٹے ہی گریں گے نا۔“
ایلی حیرت سے سادی کی طرف دیکھ رہا تھا۔
راہ گیر انہیں دیکھ کر رک گئے تھے۔ ان کے گرد بھیڑ لگی جا رہی تھی۔“ہی ہی ہی ہی ہی“
وہ ہنس رہے تھے لیکن سادی راہ گیروں کی نگاہوں سے گویا بے خبر تھی بے نیاز تھی۔
“چلئے بابو جی میں پہنچا آؤں۔“ ایک تانگے والا رک کر بولا۔
ایلی نے ملتجی نگاہوں سے سادی کی طرف دیکھا۔
“نہیں۔“ سادی نے با رعب آواز سے کہا۔ “ہم سائیکل پر جائیں گے۔“
راہ گیروں نے قہقہ لگایا۔ ہی ہی ہی سڑک گونجنے لگی دور کھڑے پولیس مین نے انہیں مشکوک نگاہوں سے دیکھا۔ ایلی گھبرا گیا۔ اس بھیڑ میں خصوصاً سپاہی سے بچنے کے لیے اس کی سائیکل ڈول رہی تھی سادی ایک ساتھ چیخیں مار رہی تھی قہقہے لگا رہی تھی۔ سڑک پر آتے جاتے لوگ ان کی طرف حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ کوئی ہنس رہا تھا۔ “ ہی ہی ہی ہی“ کوئی فقرے کس رہا تھا “بچ کے بابو“ لیکن سائیکل ڈولتی ہوئی چلے جا رہی تھی۔
ایلی کو اس وقت قطعی طور پر احساس نہیں تھا کہ سادی کا جسم گویا اس کی آغوش میں تھا اس کے بازو سادی کے گرد حمائل تھے۔ سادی کی پیٹھ اس کی چھاتی سے چھو رہی تھی۔ اور سادی سے سینٹ کی ہلکی ہلکی خوشبو آ رہی تھی۔ ایلی کی تمام تر توجہ راہ گیروں پر مرکوز تھی اسے اتنی فرصت نہ تھی کہ سادی کے جسمانی لمس کو محسوس کرے۔ سادی کو بھی یہ احساس نہ تھا کہ اس کا جسم ایلی سے مس ہو رہا ہے۔ اور وہ اس کے آغوش میں بیٹھی ہے۔ اسے صرف اس قرب کا احساس تھا اور وہ اس میں اس حد تک کھوئی ہوئی تھی کہ اسے راہ گیروں کا خیال ہی نہ تھا۔ اسے قطعی طور پر معلوم نہ تھا کہ لوگ ان کی طرف حیرت سے دیکھ رہے ہیں یا تمسخر سے ہنس رہے ہیں۔ وہ محسوس کر رہی تھی جیسے دو بچے ایک انوکھا کھیل کھیل رہے ہوں ایک نئے کھلونے کو آزما رہے ہوں۔ وہ مسرت سے جھلک رہی تھی، چیخ رہی تھی۔ چلا رہی تھی قہقہے لگا رہی تھی۔
ان دنوں وکالت کا فائنل امتحان قریب تھا اور مقبرہ وکالت کے طالب علموں سے بھرا ہوا تھا۔ ہر جگہ ہر پلاٹ میں ہر بینچ پر ہر پودے تلے طالب علم قانون کی موٹی موتی کتابیں کھولے مطالعے میں مصروف تھے۔ ان کی آنکھیں پڑھ پڑھ کر چندھیائی ہوئی تھیں۔ چہرے بے خوابی کی وجہ سے سوجے سوجے سے دکھائی دے رہے تھے۔ جیبیں فکر کی وجہ سے پر شکن تھیں۔ قانونی نکات پر بحثیں کرتے کرتے ان کی آوازیں بیٹھ چکی تھیں۔
لیکن سادی اور ایلی کو ان کے وجود کا احساس نہ تھا۔ جب وہ باغ میں داخل ہوئے تو ایلی نے غور سے چاروں طرف دیکھا دو چار ایک پلاٹوں میں چند ایک لڑکے دکھائی دیتے۔ ایلی نے اطمینان کا سانس کیا اور سڑک کے جھمیلے سے نکل کر یوں محسوس کیا جیسے باغ صرف سادی اور ایلی کے لیے مخصوص ہو۔ ان چند ایک لڑکوں کا کیا تھا جو دور اپنی کتابوں میں کھوئے ہوئے تھے۔ ایلی کو یہ معلوم نہ ہوا کہ قریب کے پودوں جھاڑیوں اور پھولوں کے تختوں کی اوٹ میں جگہ جگہ استفسار بھری آنکھیں انہیں دیکھ رہی ہیں۔
باغ کے ایک ویران کونے میں پہنچ کر ایلی نے کلیوں سے لدی ہوئی چنبیلی کی جھاڑی کی طرف اشارہ کر کے کیا “یہ تم ہو سادی۔“
سادی نے حسب عادت قہقہ لگایا۔ “کیوں“ وہ بولی “میں کیا جھاڑی ہوں۔“
“چنبیلی پھولوں میں چٹ کپڑی ہے۔“ ایلی نے کہا “اور تم عورتوں میں۔“
لیکن راہ چلتے کا ہاتھ پکڑتی ہے یہ تو۔“ سادی مسکرائی۔
“اور تم پگڑی اچھالتی ہو۔“ایلی نے کہا۔
سادی نے قہقہ لگایا۔ “جبھی آپ ننگے سر رہتے ہیں۔“ وہ خوشی سے تالی بجانے لگی۔
چنبیلی کی جھاڑی میں حرکت ہوئی۔ اور ٹہنیوں سے ایک سر باہر نکل آیا۔ ایک لمبا ککڑی نما چہرہ چار ایک سفید دانت۔
ایلی گھبرا گیا۔
“ارے“ سادی نے قہقہ لگایا “سبحان اللہ“ وہ چلائی “ ذرا کیمرا تو نکالیے“ سر نے غوطہ کھایا اور سبز ٹہنیوں میں گم ہو گیا۔
“کون تھا یہ۔“ ایلی نے گھبرا کر پوچھا۔

لڈو


“کیا معلوم۔“ وہ ہنسے جا رہی تھی۔
“ارے۔“ وہ پھر چلائی۔
ایلی نے مڑ کر دیکھا۔ ان کی پشت کی طرف آنکھوں کے چار جوڑے ان کی طرف گھور رہے تھے۔ “یہ تو نین جھاڑی معلوم ہوتی ہے۔“ وہ ہنسی۔ ایلی نے اس کا بازو پکڑ کر گھسیٹنا شروع کر دیا۔
“تم مجھے پٹواؤ گی۔“ وہ بولی۔
“کیا مزا رہے گا۔“ وہ ہنسی۔
“تماشہ دیکھتی ہو۔“
“دیکھتی ہوں۔ کرتی نہیں۔“
“لیکن وہ تو تمہیں تماشہ سمجھتے ہیں۔“
“پڑے سمجھیں۔ اس سے کیا ہوتا ہے۔“
“سادی۔“ ایلی نے سنجیدگی سے پوچھا “تم ان کی نگاہوں سے گھبراتی نہیں۔“
“نہیں تو“ وہ بولی۔ گنوار پن سے کیوں گھبراؤں۔“
“مجھے تو ڈر آتا ہے۔“ ایلی نے کہا۔
“آپ کا کیا ہے۔“ وہ ہنسی “آپ تو یوں ہیں جیسے گھبراہٹ میں جان پڑ گئی۔ لیکن ہم سے نہیں گھبراتے آپ۔“
“تو کیا تم سے بھی گھبراؤں۔“
“کیوں نہیں۔“ وہ بولی۔ “گوری چٹی لڑکی کو دیکھ کر لوگوں کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں۔“
“اونہوں ان کی بات نہ کیجئے“ “کیوں“ ایلی نے پوچھا۔
“نہیں“ وہ ہنسی “جلنے کی کوئی بات نہیں۔ اخلاق مانع ہے۔“
“وہ کیا ہوتا ہے۔؟“
“وہ بھی ہوتا ہے۔“ سمجھ لیجئے مجھے کوفت ہوتی ہے۔“
“اور ان کی گنوار نگاہوں سے کوفت نہیں ہوتی۔“
“اونہوں۔“ وہ ہنسنے لگتی۔
“یہ تو یوں دیکھتے ہیں جیسے تم لڈو ہو۔“
“ہوں؟“ وہ ہنسی۔
“ہاں۔ ہو“ وہ بولا۔
“تو ہاتھ کیوں نہیں بڑھاتے آپ۔“
“اونہوں مجھے لڈو سے دلچسپی نہیں۔“
“جھوٹ“ وہ چلائی “سفید جھوٹ۔“
“کیوں“ ایلی نے پوچھا “وہ کیسے۔“
“آپ کے منہ سے تو کسی اور لڈو کی بو آتی ہے۔“
“کیا مطلب؟“ وہ بوکھلا گیا۔
“ہر بات کا مطلب نہیں بتایا کرتے۔“
“کیوں؟“
“بس سمجھ لیجئے خود بخود۔“
“بتا تو دو۔“ اس نے منت کی۔
“نہیں بتاؤں گی نہیں بتاؤں گی۔“ وہ بولی۔
“بھاڑ میں جاؤ بھاڑ میں جاؤ۔“ وہ بولا۔
“بھاڑ میں گئے تو کئی دن ہو گئے۔“
“اور جلی نہیں۔“ اس نے پوچھا۔
“ پر بل نہیں گیا۔“ وہ بولی۔
“نہ جانے کیا کہہ رہی ہو۔“
“جاگتے کو کون جگائے۔“
دفعتاً ایلی نے محسوس کیا کہ وہ سنجیدگی سے بات کر رہی تھی۔ لیکن ایلی کو سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ شہزاد کی طرف اشارہ کر رہی تھی۔ اسے یہ بات کیسے سمجھ میں آ سکتی تھی۔ اسے یہ خیال بھی نہیں آ سکتا کہ بیگم ماں ہو کر اپنی بیٹی کے خلاف بات کر سکتی ہے۔ دفعتاً ان کے قریب ہی سے چار ایک آدمی مل کر گانے لگے۔
“ہمیں لڈو کھلاؤ ہمیں لڈو کھلاؤ۔“
“وہ سب مل کر یوں گا رہے تھے جیسے قوال گاتے ہیں۔ ان کی آوازوں میں تمسخر تھا لیکن تمسخر کی حیثیت ایسی تھی جیسے آرزو کے تھال پر حرص کے پستے چھڑکے ہوئے ہوں۔
“ارے“ سادی حسب عادت قہقہہ مار کر بولی۔“ہم تو قوالوں میں آ گئے۔“
ایلی نے ادھر ادھر دیکھا سادی کے پیچھے پودوں کے جھنڈ میں بیٹھے ہوئے پانچ سات لڑکوں کی ٹولی سادی کی طرف دیکھ رہی تھی۔
“الیاس صاحب آپ بھی لگائیے آواز۔“سادی ہنسی۔
ایلی گھبرا گیا۔
“خدا کے لیے نہ بولو۔“ اس نے اشارہ کیا۔
“کیوں نہ بولوں۔“
“چلو یہاں سے چلیں۔“
“ان بزرگوں کے درشن تو کر لوں۔“ وہ ہنستے ہوئے بولی۔
قوال قریب تر آ گئے۔ “ہمیں لڈو کھلاؤ ہمیں لڈو کھلاؤ۔“
“ارے“ وہ مڑی۔
قوال اور قریب آ گئے۔ “ ہمیں لڈو کھلاؤ، ہمیں لڈو کھلاؤ۔“
“ اپنی ماں سے مانگو اپنی ماں سے مانگو۔“ سادی تالی بجاتے ہوئے گانے لگی۔
ایلی گھبرا کر چل پڑا۔
ابھی دو چار ایک قدم ہی چلا تھا کہ قوالی کی آوازیں بند ہو گئیں۔
“ الیاس صاحب الیاس صاحب“ سادی کی آواز سنائی دی۔ “ یہاں آئیے۔“
جب ایلی قریب پہنچا تو وہ کہنے لگی۔ “ یہ بھائی صاحب آم دے رہے ہیں تحفتاً۔ کھائیں گے آپ۔“
“ آم دے رہے ہیں۔“
“ لڈو مانگنے سے بات شروع ہوئی تھی آم کھلانے پر ختم ہو رہی ہے۔ اچھے رہے نا۔“ وہ ہنسی۔
“ معاف کیجیئے وہ تو ویسے مذاق تھا۔“ ایک نوجوان جھینپتے ہوئے بولا۔
“ کہیں یہ آم والی بات بھی مذاق نہ ہو۔“ سادی نے کہا۔
وہ سب ہنسنے لگے۔

حور اور لنگور​


پھر وہ دونوں آم چوستے ہوئے باغ میں یوں گھومنے لگے جیسے میلے پر آئے ہوئے ہوں۔ اور بالاخر ایک بڑے سے پلاٹ میں بیٹھ کر گپیں مارنے لگے۔ سادی بات بات پر ہنستی، قہقہہ لگاتی، تالی بجا بجا کر ہنستی۔ وہ اپنے آپ میں اس قدر گم تھے کہ انہیں گردوپیش کا احساس ہی نہیں تھا۔ انہیں معلوم ہی نہ تھا کہ دور دور سے طلباء اس پلاٹ کے گرد جمع ہو رہے تھے۔ وہ چپکے سے پودوں کی اوٹ میں بیٹھ جاتے اور پھر دور بیٹھے ہوئے ساتھیوں کو اشارے سے بلاتے۔ حتٰی کہ ان کی تعداد بیس پچیس تک پہنچ گئی۔ پھر وہ چپکے سے پودوں کی اوٹ سے نکل کر آئے اور انہوں نے سادی اور ایلی کے گرد چاروں طرف حلقہ بنا لیا اور گانے لگے۔
“ پہلوئے حور میں‌ لنگور خدا کی قدرت۔“
ایلی نے گھبرا کر ادھر دیکھا۔ اس کا دل ڈوب گیا۔
وہ جھوم جھوم کر گا رہے تھے۔ تالی پیٹ رہے تھے، آنکھیں مٹکا رہے تھے۔
“ ارے۔“ سادی نے مسکرا کر ایلی کر طرف دیکھا۔
“ یہ کیا بدتمیزی ہے۔“ ایلی نے زیرِ لب کہا۔
“ وہ تو ہے۔“ سادی نے کہا۔ “ لیکن سچ کہتے ہیں۔“
لڑکے سادی کی بات سن کر تالیاں پیٹنے لگے۔ “ ہیر ہیر۔“
پھر سادی نے دونوں بازو اونچے کر دیئے۔ “دیکھئے بھائی صاحب“ وہ یوں چلانے لگی جیسے بس میں مٹھائی فروش بات شروع کرنے سے پہلے لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے چلاتا ہے۔ “ سنئے بھائی صاحب۔“ اس نے دہرایا اور پھر رک گئی۔
“ یہ بتا دیجیئے۔“ وہ بولی۔ “ کہ حور کون ہے اور لنگور کون؟“
لڑکوں نے دلچسپی اور تعجب سے سادی کی طرف دیکھا اور قہقہے مارنے لگے۔
“ اپنے ان سے پوچھیئے۔“ ایک شوخ نوجوان ایلی کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگا۔
“ کیوں میرے ان صاحب۔“ سادی ایلی سے مخاطب ہو کر بولی۔ “ آپ کے لیے نام تو اچھا تجویز کیا ہے۔ ان لوگوں نے۔“
“ لنگور، لنگور، لنگور“ چاروں طرف سے آوازیں آنے لگیں۔ ایلی نے محسوس کیا کہ سادی کے مقابل میں وہ واقعی لنگور تھا۔ اس کی ٹانگوں میں دُم لٹکنے لگی۔
“ لیکن لنگور ہے کون۔“ سادی نے پوچھا۔
لڑکوں نے دایاں ہاتھ اٹھایا، جس طرف سادی کھڑی تھی اور چلائے “ حور حور“ پھر بایاں اوپر اٹھایا اور چلانے لگے “ لنگور لنگور۔“ پھر وہ ایک ساتھ بار بار اپنے ہاتھ اٹھا کر چلاتے۔ “ لنگور“ دیر تک وہ شور مچاتے رہے۔ اور سادی قہقہے لگاتی رہی۔
پھر سادی ان کے ساتھ شامل ہر گئی۔ ان کے حلقے سے ذرا ہٹ کر ایلی کی طرف اشارہ کر کے گانے لگی۔
“ پہلوئے حور میں لنگور خدا کی قدرت۔“
لڑکے جوش میں اس کے ساتھ چلانے لگے۔ ایلی چپ چاپ گھاس پر بیٹھا ہوا دانتوں میں تنکا چلائے جا رہا تھا۔ اس نے دو ایک مرتبہ بھاگنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن اس کے تیور دیکھ کر لڑکوں نے حلقہ اور بھی تنگ کر دیا تھا۔ اس لیے بیٹھ رہنے کے سوا اس کے لیے چارہ کار نہ تھا۔
کچھ دیر کے بعد جب سادی رخصت ہو رہی تھی وہ بھول گئے تھے کہ سادی ایک لڑکی تھی، نوجوان اور خوب صورت لڑکی۔ ان کی آنکھیں پرنم تھیں۔
“ تو آپ جا رہے ہیں۔“ ایک نے حسرت بھری نگاہ ڈال کر کہا۔
“ ہاں دونوں حور اور لنگور۔“
وہ ہنسنے لگے۔ “ خدا حافظ۔“ سادی نے کہا۔
پلٹن نے جواب میں سلوٹ مارا اور تانگہ چل پڑا۔ لنگور پائیدان پر رکھے ہوئے سائیکل سے چمٹا ہوا تھا۔
اور وہ -------​
تانگے میں وہ دیر تک چپ چاپ بیٹھی رہی۔ اس نے دونوں ہاتھوں کا پیالہ بنا کر ان میں ٹھوڑی ٹیک رکھی تھی اور سڑک پر نگاہیں جمائے ہوئے تھی۔
“ کس سوچ میں پڑی ہو۔“ ایلی نے پوچھا۔
“ کچھ نہیں۔“ اس نے مسکرانے کی کوشش کی۔
“ آخر بات کیا ہے؟“
“ کچھ بھی تو نہیں۔“
“ ڈرتی ہو کہ بھائی جان کو پتہ نہ چل جائے۔“
وہ ہنسی۔ “ کیا فرق پڑتا ہے۔“
“ پھر سوچ کیسی؟“
“ سوچ کے سوا اب ہے ہی کیا۔“ وہ بولی۔
“ کیوں؟“
“ خود کردہ راحلاجے نیست۔“
“ پشیمانی ہو رہی ہے۔“
“ اونہوں۔ پریشان ہوں۔“
“ کیوں؟“
“ بس ہوں۔“ وہ ہنسی۔
“ تم تو بات کہہ دیا کرتی تھی۔“ ایلی نے گھبرا کر اسکی طرف دیکھا۔
“ نہ کہنے والی بات حائل ہو جائے تو۔“ اس نے حسرت بھری نگاہ سے ایلی کی طرف دیکھا۔
“ نہ حائل ہونے دو۔“ ایلی بولا۔
“ اگر آپ نے حائل کر رکھی ہو تو۔“
“ میں نے۔“ ایلی کی کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا۔
دیر تک دونوں خاموش رہے۔
ایلی سوچ رہا تھا۔ نا جانے دفعتاً وہ اس قدر سنجیدہ کیوں ہو گئی تھی۔ ایسی تو اس کی عادت نہ تھی۔ وہ تو ایک انبساط کا دھارا تھی جو کبھی رکا نہ تھا۔
“ ضرور کوئی بات ہوئی ہے۔“ ایلی نے کہا۔
“ ہوئی تو نہیں“ وہ بولی “ پہلے ہی سے تھی ------ چلو چھوڑو۔“ دفعتاً وہ ہنسی۔ “ جاؤ معاف کیا۔“
“ ارے تو کیا یہ مذاق تھا۔“
“ ہاں “ وہ ہنسی۔ لیکن اس کی ہنسی میں خوشی کا عنصر نہ تھا۔
“ آپ نے اپنے والد صاحب سے بات کی؟“ سادی نے پوچھا۔
“ نہیں تو۔“ ایلی نے جواب دیا۔
“ کیا وہ مان جائیں گے؟“
“ پتہ نہیں۔“ وہ بولا۔ “ مجھے ڈر آتا ہے۔“
“ اچھا۔“ سادی نے آہ بھری۔
“ کیا یہ ضروری ہے۔“ ایلی نے پوچھا۔
“ ہاں“ وہ بولی۔ “ ان کی طرف سے رسمی پیغام کا آنا ضروری ہے۔“
“ کیوں؟“
“ بڑے خاندانوں کے بڑے بکھیڑے ہوتے ہیں۔ اس بات پر لوگ بضد ہیں۔“
“ اچھا۔“ ایلی نے کہا۔ “ اور ------ “
سادی نے اس کی بات کاٹ کر کہا۔ “ میں نے غلطی کی۔“
“ کیا؟ “
“ میں نے ان سے وعدہ کر لیا کہ اس معاملے میں انہیں مجبور نہ کروں گی۔“
“ کیا دیواریں ہی کھڑی ہوتی جائیں گی؟“
“ اونہوں۔ یہ تو دیواریں نہیں۔“ وہ ہنسی “ دیوار تو ------ “ وہ رک گئی۔
“ کہو نا۔“
“ زبردستی ہے کیا۔“
“ ہاں “ ایلی جلال میں آ گیا۔
سادی نہ قہقہہ لگایا۔
“ تمہیں بتانا پڑے گا۔“ وہ غرایا۔
“ نہیں بتاؤں گی، نہیں بتاؤں گی۔“ سادی نے قہقہہ لگایا۔
“ تو جملہ ہی مکمل کر دو۔“
“ اونہوں۔“
“ تمہیں میری قسم“ ایلی نے منت کی۔ “ کیا کوئی دیوار ہے۔“
“ ہاں۔“ وہ ہنسی۔ “ ہے، آپ کی جانب سے۔“
“ میری جانب سے۔“
“ ہاں۔“
“ جھوٹ بکواس۔ کوئی دیوار نہیں۔“
“ اور وہ ------ “ سادی نے قہقہہ لگایا۔
“ وہ ------ “ ایلی سوچنے لگا۔ “ وہ کون؟ بتاؤ نا۔“ جوش میں وہ بھول گیا کہ اس نے دونوں ہاتھوں میں سائیکل تھام رکھا تھا۔ اس نے سادی کا بازو پکڑنے کے لیے ہاتھ بڑھائے۔ دھڑام سے سائیکل تانگے سے گر پڑی۔ ایلی تانگے سے اتر آیا۔
سادی نے ایک اور قہقہہ لگایا۔ اور پھر چلا کر بولی “ خدا حافظ۔“ اور تانگا چل پڑا۔ ایلی نے سائیکل سنبھالی اور تانگے کو جا لینے کے خیال سے اس پر سوار ہو گیا لیکن گرنے کی وجہ سے پیڈل خراب ہو گیا تھا۔ اور زنجیر جام ہو چکی تھی۔ وہ سائیکل سے اتر آیا۔ اور پیدل چلتے ہوئے سادی کی طرف دیکھنے لگا۔ وہ الوداعی انداز میں ہاتھ ہلا رہی تھی۔ “ خدا حافظ، خدا حافظ۔“ اس کے ہونٹ ہل رہے تھے۔

تنکا تنکا​


علی پور آتے ہوئے گاڑی میں ایلی مسلسل سوچتا رہا لیکن اسے سمجھ میں نہ آیا کہ کونسی دیوار اس کی اپنی جانب سے حائل تھی۔ “ وہ ------ “ سے سادی کا کیا مطلب ہو سکتا ہے۔ وہی ایک دیوار تھی جا سادی اور ایلی کے درمیان حائل تھی لیکن نہ جانے کیوں اس جذباتی تعلق کے باوجود جو وہ شہزاد کے متعلق محسوس کرتا تھا وہ اسے دیوار نہیں سمجھتا تھا۔ اگر وہ اس موضوع پر غور سے سوچتا تو محسوس کرتا کہ الٹا سادی تو بذاتِ خود شہزاد اور ایلی کے درمیان ایک دیوار بن چکی تھی۔ ایک ایسی دیوار جو راستے کی مشکل نہیں تھی بلکہ ایلی کے تحفظ سکون اطمینان اور خوشی کی دیوار تھی۔ یہ صحیح تھا کہ ایلی کو شہزاد سے بے حد وابستگی تھی لیکن ایلی محسوس کرنے لگا تھا کہ شہزاد کے شادی شدہ ہونے کی وجہ سے ان کے تعلقات صحت مند نہیں رہ سکتے تھے۔
بہرحال وہ سادی کے اس اشارے کو نہ سمجھ سکا۔ اسے خیال بھی نہ آیا کہ کسی نے سادی سے شہزاد کی بات کہہ دی تھی۔ اور پھر بیگم کہے یہ خیال اس کے دل میں نہ آیا۔ اگر وہ سادی کے اس اشارے کو سمجھ پاتا تو یقیناً وہ سادی سے مل کر اسے تمام روئیداد سنا دیتا اور سادی اپنی خلوص پسندی اور سادگی کی وجہ سے اس پھانس کو اپنے دل سے نکال دیتی جو بیگم نے انتقام کے جذبے کی وجہ سے اس کے دل میں پیدا کر دی تھی۔
لیکن حالات کا تقاضہ کچھ اور تھا۔ مستقبل کے بطن کے واقعات کا رخ کسی اور جانب متعین تھا۔ ہونے والے واقعات مستقبل کے بطن میں چلا رہے تھے، اپنی نمو کے لیے بلک رہے تھے۔
علی پور پہنچ کر جب ایلی شہزاد کے چوبارے میں پہنچا تو اس نے دیکھا کہ صفدر اور شہزاد ایک جگہ بیٹھے باتیں کر رہے ہیں۔ لیکن اس وقت وہ سادی کی باتوں کی وجہ سے اس قدر پریشان تھا کہ اسے خیال ہی نہ آیا تھا۔ اس نے صفدر کی آنکھ میں گرسنہ چمک کر طرف توجہ نہ دی اور اس نے بھی نہ دیکھا کہ شہزاد اس کی آمد پر گھبرا کر پیچھے ہٹ گئی ہے۔
“ ایلی کو دیکھ کر بیگم قریب آ گئی۔ “ تو آ بھی گیا۔“ وہ بولی۔
“ ہاں “ ایلی نے جواب دیا۔
“ دو ایک روز بھی باہر نہ رہ سکا۔“ بیگم کی مسکراہٹ میں طنز کی دھار تھی۔
ایلی نے غصے سے بیگم کی طرف دیکھا۔
صفدر کے چہرے پر چمک ابھری۔
شہزاد جوں کی توں بیٹھی رہی۔
ایلی بیگم کی بات کو جواب دیئے بغیر فرحت کی طرف چل پڑا۔
علی پور آنے کے بعد ایلی پر صرف ایک دھن سوار بھی کہ جس قدر ممکن ہو وہ علی احمد سے رضامندی حاصل کر لے۔ اس کا خیال تھا کہ ابا اس معاملے میں ضد نہین کریں گے۔ اسے معلوم تھا کہ علی احمد ہر اس بات کے خلاف ہیں جس میں روپیہ خرچ ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے ------ ایلی کی شادی کی بات ان کے لیے ایک مصیبت تھی۔ زبانی بات چیت بھی ناگوار تھی۔ لیکن اخراجات سے ہٹ کر انہیں قطعی طور پر اس بات میں کوئی دلچسپی نہ تھی کہ ایلی کی شادی کہاں ہوتی ہے یا وہ خاندان کیسا ہے یا لڑکی کی ناک اونچی ہے یا بیٹھی ہوئی۔
اگر ایلی علی احمد سے کہتا ابا جان میرے شادی کر دیجیئے تو علی احمد اس بات پر ذرا بھی چیں بہ چیں نہ ہوتے۔ وہ ان بزرگوں کی طرح نہ تھے جو ایسی بات پر مشتعل ہو جاتے ہیں اور کھنکار کر خاموش ہو جاتے ہیں یا آنکھیں نکال کرکہتے ہیں “ شرم کرو بیٹا اپنے منہ سے ایسی بات کہتے ہوئے تمہیں شرم آنی چاہیے۔“
ایسے وقت ان کا رویہ ایک تماش بین سا ہو جاتا۔
“ بہت اچھا۔“ بہت اچھا وہ نہایت خوش اخلاقی سے کہتے۔ اور پھر اپنی بیویوں کو مخاطب کر کے کہتے۔ “ لو بھئی راجو شمیم سنا تم نے ایلی کہتا ہے میری شادی کر دو۔ ہی ہی ہی ہی۔ سن لیا تم نے۔“ وہ قہقہہ مار کر کہتے۔ اس قہقہہ میں تمسخر کا عنصر نمایاں ہوتا۔ پھر دفعتاً وہ سنجیدہ ہو جاتے۔ “ لیکن راجو بھئی کہتا ٹھیک ہے۔ اب اس کی شادی کی فکر کرنا ہی چاہیے۔ اب تو جوان ہوگیا ہے۔ اور ایلی سچ پوچھو تو شادی کیا ہے اک روگ ہے۔ راجو سن رہی ہے تو کیا کہہ رہا ہوں میں۔ لیکن تیرے سننے نہ سننے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ سن بھی لے ت کیا سمجھ لے گی میری بات۔ ہی ہی ہی ہی۔ وہ ہنستے۔ لیکن واہ واہ کیا روگ ہے۔ ہزار روگ سے بچانے والا، ہزار بری عادتوں سے محفوظ رکھنے والا۔ بس ایک روگ لگا لو ہزار مصیبتوں سے محفوظ ہو جاؤ۔ سن رہی ہو راجو مثلاً تمہارا روگ لگا کر میں ہزار مصیبتوں سے بچا ہوا ہوں۔ ہی ہی ہی ہی۔“ وہ ہنستے۔ “ ہاں بھئی۔“ وہ ایلی سے مخاطب ہو کر کہتے۔ “ ٹھیک کہتے ہو تم۔ تمہاری شادی فوراً ہو جانی چاہیے۔ لو بھئی راجو شمیم کر دو شروع تیاری ہم بھی کوئی مناسب لڑکی دیکھتے ہیں۔ ہی ہی ہی ہی۔“ وہ ہنستے۔ “ راجو اب میں کوئی اپنے لیے تھوڑے دیکھتا ہوں۔ اب تو مجھے مجبوراً ایلی کے لیے لڑکیوں کو دیکھنا ہی پڑتا ہے۔ ہی ہی ہی ہی۔اور دیکھو نا ایلی شادی کوئی کھیل نہیں کہ آج تم کہو اور کل ہو جائے۔ بھئ یہ تو بہت بڑا بکھیڑا ہے۔ پہلے تنکا تنکا اکٹھا کریں۔ اتنے امیر تو ہم ہیں نہیں کہ ایک دم سب کچھ خرید لیں۔ کوئی زمانہ آیا ہے۔ دال روٹی نہیں چلتی۔ بس تنکا تنکا اکٹھا ہو گا پھر تمہارا آشیانہ بنے گا اور پھر کوئی فاختہ آ بیٹھے گی اللہ اللہ خیر سلا۔ لو بھئی راجو تو شروع کر دو آج ہی تنکا تنکا جمع کرنا۔ ہی ہی ہی ہی۔“ وہ ہنستے اور بات طاق پر دھری کی دھری رہ جاتی۔
ایلی سوچ رہا تھا کہ ابا سے اس انداز سے بات کی جائے کہ انہیں واضح طور پر محسوس ہو کہ اخراجات کا انتظام ہو چکا ہے۔ تنکا تنکا اکٹھا ہو چکاہے۔ فاختہ بھی موجود ہے اور ان سے صرف یہ توقع کی جا رہی ہے کہ رسم کے مطابق فاختہ کو اپنی انگلی پر بٹھا کر لے آئیں اور بنے بنائے گھونسلے میں بٹھا دیں۔ اس صورت میں شاید وہ اعتراض نہ کریں۔
ایلی نے یہ کبھی نہ سوچا تھا کہ اخراجات کون پورے کرئے گا، روپیہ کہاں سے آئے گا، رسومات کیسے ادا ہوں گی۔ رکھ رکھاؤ کیسے قائم رہے گا۔ یہ باتیں بے حد تکلیف دے تھیں اور ایس ناخوشگوار اور تکلیف دہ باتوں پر سوچنا ایلی کو ناپسند تھا۔ طبعی طور پر وہ ذہنی فرار کا قائل تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ کسی طریقے سے ابا سے رضامندی حاصل کر لے اور وہ ایک بار سادی کے اقربا سے مل کر رسمی طور پر پیغام پیش کر دیں۔ پھر چاہے کچھ ہو یا نہ ہو۔ پھر کے متعلق سوچنے سے ایلی گریز کرتا تھا۔ غالباً وہ سمجھتا تھا کہ اس دوران میں اسے الٰہ دین کا چراغ مل جائے گا اور جملہ ضروریات پوری ہو جائیں گی۔ یا ایسا نہ ہو سکا تو شائد منصر اسے ان رسمی اخراجات سے آزاد کر سکے یا شاید اماں اس کی مدد کرئے۔ آخر اس نے ایلی کی منگنی بھی تو کی بھی اور کی بھی بڑی دھوم دھام سے تھی۔ کچھ نہ کچھ ہو ہی جائے گا۔ بشرطیکہ ابا رضا مندی دے دیں۔
ماں کے متعلق ایلی نے سوچا ہی نہ تھا۔ اس کی دانست میں اماں تو اس بات پر بے حد مسرور بھی۔ وہ تو خوش تھی کہ اس کا بیٹا ایک بیاہتا عورت کے دام سے نکل رہا ہے۔ اور اماں تو سادی کے ہاں دو تین مرتبہ ہو آئی تھی۔ اگر وہ اس بات پر خوش نہ ہوتی تو بھلا وہاں جاتی ہی کیوں۔ لٰہذا یہ بات تو طے شدہ تھی کہ اماں اس امر میں اس کا ساتھ دے گی۔
لیکن جب ایلی نے ماں سے بات کی تو وہ حیران رہ گیا۔
“ نہ بھئی۔“ وہ بولی۔ “ میں اس معاملے میں نہیں آؤں گی۔“
“ کیا مطلب “ ایلی نے حیرت سے پوچھا۔
“ مجھے بڑی خوشی ہے کہ تیری شادی ہو لیکن میں اس معاملے میں کیسے آ سکتی ہوں۔“
“ کیوں “ وہ غصے میں غرایا۔
“ دیکھو نا۔ میں نے کتنے چاؤ سے تمہاری منگنی کی تھی۔ اب اگر اس رشتے کو چھوڑ کر میں دوسری جگہ جا ناطہ جوڑوں تو لوگ کیا کہیں گے۔ میرے عزیز کیا سمجھیں گے۔“ پھر وہ رونے لگی۔ “ ہئے ایلی تو نے تو میری ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ کتنے چاؤ سے میں نے تجھے نامزد کیا تھا اور پھر بالا بالا ہی نہیں تجھے پوچھ کر میں نے بات پکی کی تھی۔ یاد ہے تجھے تو نے کس خوشی سے ہاں کہا تھا۔ لیکن اب۔“ وہ خاموش ہو گئی۔ اس کے گالوں پر آنسو یوں بہنے لگے جیسے جھڑی لگی ہو۔
“ تو کیوں جی برا کرتی ہے اماں۔“ فرحت بولی۔
“ جی برا۔“ وہ رونے لگی۔ “ میرا دل تو اس نے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ ایک اس کی امید رچائے بیٹھی تھی۔ اس کو دیکھ کر جیتی رہی۔ خاوند کی بےرخی برداشت کی، سوکنوں کی خدمت میں لگی رہی۔ زندگی بھر محنت مزدوری کر کے اسے پالا۔“ ہاجرہ کی ہچکی بندھ گئی۔
ایلی نے محسوس کیا جیسے ہاجرہ کے آنسو اس کے آشیاں کے تنکے ہوں جو بہے جا رہے ہوں۔
گھبرا کر وہ اٹھا اور اپنا غصہ اور اضطراب چھپانے کے لیے سوچے سمجھے بغیر زینہ چڑھنے لگا۔
شہزاد کے چوبارے میں پہنچ کر وہ ٹھٹھکا۔ شہزاد کھڑکی میں تھی جس کے قریب ہی صفدر کے چوبارے کی کھڑکی تھی۔ اور وہ دونوں ہنس رہے تھے۔ چپ چاپ وہ کھڑا انہیں دیکھتا رہا۔
دفعتاً صفدر کی نگاہ ایلی پر پڑی۔ آئیے آئیے۔“ وہ چلایا۔ “ الیاس صاحب آئے ہیں۔“ شہزاد نے مڑ کر ایلی کی طرف دیکھا اور پھر منہ موڑ کر صفدر سے باتیں کرنے میں مصروف ہو گئی۔
“ نہ “ وہ بولی۔ “ مجھے اس ڈیزائن کے بندے پسند نہیں۔ مجھے تو کوئی نئے فیشن کا نمونہ دکھاؤ۔ اتنے روپے بھی خرچوں اور پھر وہی دقیانوسی چیز۔ کام کرنا ہے تو دل سے کرو ورنہ کیا فائدہ۔“ وہ وہنسنے لگی۔
“ بہت اچھا۔“ صفدر نے دونوں بازو اٹھا کر یوں کہا جیسے حافظ خدا تمہارا گاتے ہوئے سٹیج سے باہر جا رہا ہو اور وہ چلا گیا۔
شہزاد فارغ ہو کر چوبارے میں ادھر ادھر گھومنے لگی جیسے کچھ تلاش کر رہی ہو۔ دودھ پیتی بچی پر کپڑا دیا۔ کارنس پر پڑی سرمے دانی کو ایک طرف رکھا۔ صندوق کھول کر تکیے کا غلاف نکالا۔ اسے سرہانے پر چڑھایا اور پھر تیل کی کپی اٹھا کر مشین کو تیل دینے لگی۔
ایلی چپ چاپ اسے دیکھتا رہا اور پھر مایوس ہو کر نیچے اتر آیا۔

مسٹر گپتا​


جن دنوں ایلی نے بے اے پاس کیا وہ مالی بحران کے دن تھے۔ دوسری جنگِ عظیم کے سانپ کو گزرے سالہا سال گزر چکے تھے۔ لیکن لکیریں اب ابھر رہی تھیں۔ ہر محکمے میں تخفیف کا کلہاڑا چل رہا تھا۔ نوکری حاصل کرنا ناممکن تھا۔
مجبوری میں ایلی نے ایک شارٹ ہینڈ کالج میں داخلہ لے لیا تھا۔ کہ کالج علی پور کے لاہوری دروازے کے قریب ایک چوبارے میں واقع تھا جس کے ملحقہ مکان میں مسٹر گپتا کالج کے مالک اور واحد انسٹرکٹر کی رہائش تھی۔ مسٹر گپتا پرانی وضع کے باعزت لالہ جی تھے۔
وہ صبح سویرے جاگتے اور چھڑی لے کر باہر چہل قدمی کے لیے نکل جاتے۔ مسٹر گپتا چھڑی سہارے کے لیے استعمال نہیں کرتے تھے۔ ان کی چال اس قدر چست اور تیز تھی کہ چھڑی معاون ثابت ہونے کی بجائے الٹا رکاوٹ معلوم ہوتی۔ لیکن مسٹر گپتا چھڑی یا چھتری کے بغیر باہر نکلنے کے قائل نہ تھے۔ وہ ایک پرانے باعزت خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور ان کے آباؤ اجداد میں کسی شخص نے چھڑی یا چھتری کے بغیر باہر نکلنے کی حماقت نہ کی تھی۔ سیر کرنے کے بعد وہ مندر سے ہوتے ہوئے سیدھے اپنے کالج میں پہنچتے۔ اپنے شاگردوں کو دونوں ہاتھ جوڑ کر پرنام کرتے اور پھر انہیں پڑھانے میں مصروف ہو جاتے۔
مسٹر گپتا اس بات پر ناز کرتے تھے کہ ہندوستان میں صوتی شارٹ ہینڈ کو چلانے کے لیے انہوں نے ساری عمر جدوجہد کی تھی۔
جب کوئی نیا لڑکا کالج میں معلومات حاصل کرنے کے لیے آتا تو مسٹر گپتا اپنی ساری مصروفیات چھوڑ کر اس کے پاس بہ کمال شفقت آ بیٹھتے اور اسے سمجھاتے کہ شارٹ ہینڈ کا مروجہ سسٹم جسے پِٹ مین کہا جاتا تھا بالکل بیکار ہے اور ان کے نئے سسٹم کا مقابلہ نہیں کر سکتا چونکہ ان کا سسٹم جائنٹ واول سسٹم ہے۔
مسٹر گپتا بڑی محنت سے نئے لڑکوں کو سمجھاتے کہ جائنٹ واول سسٹم کا کیا مطلب ہے اور فونٹیک سسٹم سے کیا مراد ہے۔ اور پھر جب لڑکا داخل ہو جاتا تو پھر بات بات پر اسے تاکید کرتے کہ لکھتے وقت وہ سپیلنگ کا خیال رکھے۔
ایلی ان کی اس بات پر بے حد محظوط ہوتا اور بڑی سنجیدگی سے پوچھتا۔
“ کیوں مسٹر گپتا یہ سسٹم صوتی ہے نا یعنی اس میں صرف آواز کا خیال رکھا جاتا ہے۔“
“ بالکل بالکل الیاس صاحب بس اس نکتے کو آپ ہی نے سمجھا ہے۔ لڑکے توجہ سے بات نہیں سنتے۔“
“ درست“ ایلی کہتا۔ لیکن ہمیں سپیلنگ کا خیال رکھنا چاہیے۔“ وہ طنزاً کہتا۔
“ بالکل“ وہ خوشی سے چلاتے۔ “ بس یہی ایک نکتہ ہے۔“ اور پھر وہ فوراً مثال دیتے صبح جو آپ نے جے او لکھا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ نے لفظ کے سپیلنگ کی طرف خیال نہ کیا۔ آپ کو خیال نہ رہا تھا کہ یہ لفظ جے او سے لکھا جاتا ہے۔ آپ نے یوں لکھا جیسے یہ لفظ جے سے لکھا جاتا ہو۔“
مسٹر گپتا سے باتیں کرنے میں ایلی کو بہت لطف آتا تھا۔ لٰہذا وہ اکثر مسٹر گپتا کے ہاں جا بیٹھتا۔ بلکہ سبق لیتے ہوئے بھی وہ مسٹر گپتا سے گپ بازی کیا کرتا۔ کالج میں ایلی واحد طالبعلم تھا جس سے مسٹر گپتا نے دوستانہ مراسم پیدا کر رکھے تھے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ایلی بی اے تھا اور مسٹر گپتا کے کالج میں تمام طلباء میٹرک پاس تھے۔
دفعتاً محلے میں شور اٹھا کہ ایلی کی منگیتر ثمرہ کی شادی ہو رہی ہے۔ ہاجرہ یہ سنکر حیران رہ گئی۔ وہ بھاگی گئی، پوچھ گچھ کی۔ بات کی تصدیق ہو گئی تو ٹھنڈی ہو کر بستر پر آ پڑی۔
اس پر ایلی اماں کے پاس آ بیٹھا، بولا ماں اب تو تمہارا یہ اعتراض بھی دور ہو گیا۔ چل اٹھ اب میرے ساتھ چل کہ مظفر آباد ابا سے ملیں۔ شاید وہ مان جائیں۔
ہاجرہ نے جب ایلی کی بات سنی تو پہلے تو وہ ادھر ادھر کے بہانے بناتی رہی لیکن ایلی نے بار بار اماں کی منتیں کیں۔ حتٰی کہ ایک روز اماں ایلی کے ساتھ مظفر آباد جانے کے لیے مان گئیں۔
ماں اور بیٹا ملتان پہنچے تو انہیں معلوم ہوا کہ سیلاب کی وجہ سے مظفر آباد کی لائن ٹوٹی ہوئی ہے اور وہ آگے نہیں جا سکتے۔ مجبوراً وہ ملتان ایک رشتہ دار کے ہاں ٹھہر گئے اور انتظار کرنے لگے کہ کب راستہ صاف ہو اور وہ منزل مقصود پر پہنچیں۔ ملتان کے قیام کے دوران میں ایلی روز ماں کو باہر لے جاتا اور کسی باغ یا میدان میں پہنچ کر دونوں کسی ویران کونے میں بیٹھ جاتے اور ایلی ماں کو سمجھاتا کہ علی احمد سے کس طرح بات کی جائے۔
“ دیکھو نا اماں۔“ وہ کہتا۔ “ اگر ابا نے محسوس کیا کہ شادی پر بہت خرچ اٹھے گا تو وہ کسی نہ کسی بہانے یہ رشتہ نامنظور کر دیں گے اور اگر یہ موقعہ ہاتھ سے نکل گیا تو پھر شاید کبھی ایسا موقع نہ ملے اور اماں سادی ایک ایسی ناؤ ہے جو مجھے اس بھنور سے باہر نکال سکتی ہے جس میں میں غوطے کھا رہا ہوں اور اگر یہ ناؤ بھی نہ رہی تو پھر ------ پھر تم جانتی ہو۔“‌ ایلی وضاحت سے ہاجرہ کو سمجھا رہا تھا کہ اگر وہ ناکام رہا تو پھر وہ اپنے آپ کو از سرِ نو اسی بھنور کے حوالے کر دے گا جس میں وہ عرصہ دراز سے ڈبکیاں کھا رہا تھا۔
اس روز پہلی مرتبہ ایلی نے اپنے منہ سے یہ تسلیم کیا تھا کہ شہزاد ایک بھنور تھی اور وہ اس بھنور میں ڈبکیاں کھا رہا تھا۔ درحقیقت وہ اس حقیقت کو تسلیم نہیں کر رہا تھا بلکہ اسے استعمال کر رہا تھا اور دھمکی کے طور پر بوڑھی ماں کا سامنے پیش کر رہا تھا۔
لیکن ہاجرہ بار بار کہتی اگر تمہارے ابا نے شادی پر خرچ نہ کیا تو کرئے گا کون اور بات کیسے بنے گی۔
“ تم اس بات کی پرواہ نہ کرو اماں۔ یہ بعد کی بات ہے۔ فی الحال ضروری بات یہ ہے کہ ابا جان چلیں اور ہمیں ان کی صرف اس قدر امداد حاصل ہو جائے کہ وہ سادی کے ابا سے ملکر پیغام پیش کر دیں۔ اس لیے بات اس انداز سے کرنا چاہیے کہ وہ سمجھیں خرچ ورچ کا سلسلہ نہ ہو گا۔“
“ لیکن پھر شادی کیسے ہو گی۔ کیا وہ تمہیں خانہ داماد بنا لیں گے۔“
“ نہیں اماں ------ “
“ ایسی بات ہے تو میں تو جیتے ہی مر جاؤں گی۔“ ہاجرہ چلاتی ------ اور بات جوں کی توں ادھوری رہ جاتی۔
چار ایک روز کے بعد بصد مشکل گھٹنے گھٹنے پانی سے گزر کر وہ مظفر آباد میں علی احمد کے مکان تک پہنچے۔ انہیں اس حالت میں دیکھ کر علی احمد کے گھر میں شور مچ گیا۔ راجو اور شمیم ہونٹوں پر انگلیاں رکھے حیرت سے ان کی طرف دیکھنے لگیں۔ شمیم کے دونوں بیٹیاں اور راجو کے پہلے خاوند کا بیٹا سب شور مچانے لگے۔
“ ہے آپ ہیں۔ یا میری انکھوں کو دھوکہ ہو رہا ہے۔“
“ خیر تو ہے۔“ راجو بولی۔
“ توبہ کیا حالت ہو رہی ہے تمہاری۔“ شمیم نے ایلی کی طرف دیکھ کر کہا۔
“ اے سنا آپ نے۔“ راجو نے علی احمد کو مخاطب کر کے کہا۔ “ سنتے ہیں کیا کہہ رہی ہوں میں۔ ہے آگ لگے اس حساب کے رجسٹر کو، ہر وقت اسی میں کھوئے رہتے ہیں آپ۔ نہ آئے کا پتہ نہ گئے کا ہوش۔ میں نے کہا اپ سے کہہ رہی ہوں۔“
“ مجھ سے کہہ رہی ہو کچھ راجو۔“ اندر سے علی احمد کی آواز سنائی دی۔
“ شکر ہے سن لیا آپ نے۔“ وہ بولی۔
“ ہی ہی ہی ہی۔“ وہ ہنسے۔ “ دیکھو نا راجو یا تو بیوی گونگی ہو اور یا خاوند بہرہ ہو جبھی نبھتی ہے ورنہ نہیں۔ تم تو طوطے کی طرح ٹیں ٹیں کرتی رہتی ہو اب میں بھی بہرہ نہ بنوں تو نبھے کیسے۔ ہی ہی ہی ہی۔“ وہ ہنسنے لگے۔ “ کیا کہتی ہے۔“
“ میں کہتی ہوں۔“ راجو چلائی۔ “ ذرا باہر تو دیکھو لو کون آیا ہے۔“
“ کوئی آیا ہے کیا؟“ وہ بولے۔
“ ہاں ہاں کہہ جو رہی ہوں۔“
علی احمد نے جلدی سے ٹنگی ہوئی قمیض کو اتارا اور اسے پہننے لگے۔ ان کی عادت تھی کہ ہمیشہ قمیض اتار کر بیٹھا کرتے اور جب کوئی آتا تو فوراً قمیض پہن لیتے۔
انہیں قمیض پہنتے دیکھ کر راجو ہنسی۔ “ اے ہے کوئی باہر سے تو نہیں آئی کہ قمیض پہننے لگے۔ ہاجرہ آئی ہے۔“
“ ایلی کی ماں ------ “ انہوں نے حیرت سے کہا۔
“ ساتھ ایلی بھی ہے۔ اچھا کیا۔ بہت اچھا کیا جو آ گئے۔ بھئی راجو انہیں بٹھاؤ نا کوئی چائے وائے پلاؤ، بسکٹ وسکٹ منگوا دو کالے کی دکان سے۔ لیکن بھئی تم نے پہلے اطلاع کیوں نہ دی۔ اور یہ سیلاب، کیسے پہنچے تم۔ سنا ہے ریل کی لائن ٹوٹی ہوئی ہے اور سارا شہر تو پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔ دو دو فٹ پانی کھڑا ہے۔ پہلے اطلاع دیتے تو ہم کوئی انتظام کر دیتے ------ خیر خیر اچھا کیا تم نے جو آ گئے۔ راجو راجو ------ یہ دیکھا تم نے ایلی کی ماں کو۔ ذرا غور سے دیکھو۔ اب تو بالکل بوڑھی ہو گئی ہے۔ اور راجو تمہیں معلوم ہے۔ ہی ہی ہی ہی۔ ایک مرتبہ ہماری پڑوسن نے کیا کہا تھا۔“ وہ ہنسنے لگے۔ ایلی کی ماں سے اللہ رکھے کل کتنے لڑکے ہیں تمہارے اور یہ بلوٹھی کا ہے۔ ہی ہی ہی ہی۔“ وہ ہنسنے لگے۔ پھر میرے طرف اشارہ کر کے بولی اللہ رکھے۔ “ کیوں ایلی کی ماں یاد ہے تجھے۔ ہی ہی ہی ہی حد ہو گئی سنا تم نے راجو۔ ہی ہی ہی ہی۔“
جب علی احمد کو معلوم ہوا کہ وہ ان سے ایک اہم بات کرنے آئے ہیں تو دفعتاً وہ سنجیدہ ہو گئے۔ یہ علی احمد کی پرانی عادت تھی۔ اگر انہیں کسی بات میں خاص اہمیت دی جاتی تو وہ اس بات کو خاص اہمیت دینا شروع کر دیتے اور خود اپنی رائے کو اہمیت دینے لگتے۔ اور اس کے برعکس کسی مسئلے میں انہیں نظر انداز کر دیا جاتا تو وہ اس مسئلے کو قطعی طور پر اہمیت نہ دیتے اور اس نظر اندازی کو درخورِ اعتنا نہ سمجھتے جیسے کوئی بات ہی نہ ہو۔
علی احمد نے سوچا کہ یہ لوگ اتنی دور سے چل کر آئے ہیں۔ تاکہ مجھ سے بات کریں۔ ظاہر ہے کہ مجھ سے بات کرنے کو بہت اہمیت دی جا رہی ہے تو بات اتنی آسانی سے طے نہیں ہو جانی چاہیے۔
“ ہاں ہاں ہاں ہاں۔“ وہ ہنسنے لگے “ بھئی اب جو تم یہاں آ پہنچے ہو تو اب باتیں ہی ہوں گی نا۔ باتوں کے سوا اور کیا ہوتا ہے اپنوں کے درمیان۔ ہی ہی ہی ہی۔ اب دیکھ لو راجو ہے تو سارا دن راجو سے باتیں کرتے ہیں ہم۔ کیوں راجو ٹھیک ہے نا۔ ہی ہی ہی ہی۔ یہ اور بات ہے کہ راجو کبھی جواب نہیں دے سکی۔ لیکن کمال یہ ہے کہ لاجواب بھی نہیں ہوتی۔ کیوں راجو۔ ہی ہی ہی ہی۔“
“ آپ میری بات چھوڑیں۔“ راجو بولی۔ “ ان سے بات کریں اتنی دور سے آئے ہیں یہ بات کرنے کے لیے۔“
“ ان سے بھی کریں گے، ان سے بھی کریں گے۔ لیکن ابھی یہ لوگ سفر کر کے آئے ہیں اور پھر اتنی تکلیف جھیل کے۔ انہیں چار ایک دن آرام کرنا چاہیے۔ آرام کرو، کھاؤ پیو پھر بات بھی ہو جائے گی ------ کیوں راجو تم نے چائے بنائی اور کیا کالے سے بسکٹ منگوائے پھر کوئی خاطر تواضع کرو ان کی تمہارے مہمان آئے ہیں۔“ یہ کہہ کر انہوں نے اپنی صندوقچی سے ایک چونی نکالی اور راجو کو چیتے ہوئے بولے۔ “ منگواؤ بسکٹ۔ ذرا جلدی کرو نا بھئی ایلی کی ماں بیٹھ جاؤ نا۔ اچھا تو علی پور کا کیا حال ہے۔“
مسلسل چار روز ہاجرہ اور ایلی نے متعدد بار کوشش کی کہ علی احمد سے بات کی جائے لیکن وہ بات کی اہمیت سے اس حد تک واقف ہو چکے تھے کہ انہوں نے کسی نہ کسی بہانے بات ٹال دی۔ ایلی بات شروع کرتا تو علی احمد کہتے۔ “او ہو۔ میں بھول ہی گیا۔ دیکھو نا اتنے بکھیڑے ہیں کہ میں بھول جاتا ہوں۔ ہی ہی ہی ہی۔ سب سے بڑا بکھیڑا تو یہ راجو ہی ہے۔ کیوں راجو سنا تم نے کیا کہہ رہا ہوں میں۔ ہو نا تم بکھیڑا۔ بکھیڑے درد سر ہوتے ہیں اور درد دل والے بکھیڑے بھی ہوتے ہیں۔ اور راجو تم تو درد دل والا بکھیڑا ہو۔ ہی ہی ہی ہی۔ سنا تم نے کیا کہہ رہا ہوں میں۔ لیکن اب تم درد سر والا بکھیڑا بنی جا رہی ہو۔ پہلے خالص درد دل والا تھی۔ تمہیں درد دل والے بکھیڑے کا تجربہ نہیں ایلی۔ بڑا عظیم بکھیڑا ہوتا ہے یہ۔ توبہ ہے ------ اچھا اچھا ہے۔ ابھی یہ درد دل والا بکھیڑا نہ ہی ہو۔ ابھی ساری عمر پڑی ہے۔ کچھ دن اور سکھ کے گزار لو تو تمہاری خوش نصیبی ہو گی۔ یہ بیماری کچھ اور دیر نہ لگے تو بہتر ہے۔ کیوں راجو سنا تم نے ہی ہی ہی ہی۔“
اس طرح وہ مسلسل باتیں کیئے جاتے اور ایلی کی بات پسِ پشت پڑ جاتی۔
کسی وقت وہ جواب دیتے “ ہاں ہاں بھئی آج تو بات ضرور کرنی چاہیے۔ اتنے دن ہو گئے ہیں تمہیں آئے ہوئے لیکن بھئی میں تو جا رہا ہوں ڈپٹی صاحب کو ملنے کے لیے۔ انہوں نے بلایا ہے۔ بے چارے بڑا خیال رکھتے ہیں۔ بات بات پر مشورہ کرتے ہیں۔ ان سے مل آؤں میں پھر اطمینان سے بات کریں گے۔“
اس کے بعد دیر تک وہ جوں کے توں بیٹھ رہتے۔ وہ ڈپٹی صاحب کی طرف جاتے ہی نہ تھے۔ اس لیے بات کرنے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا۔ اور اگر ایلی انہیں یاد دلاتا کہ آپ تو جا رہے تھے ڈپٹی صاحب کی طرف تو وہ ہنس کر کہتے ہاں ہاں بھئی جا رہا ہوں۔ اور پھر بیٹھے رہتے۔ اس طرح ایلی اور ہاجرہ کو وہاں رہتے آٹھ روز ہو گئے۔ اور ان آٹھ روز میں ایلی کا صبر و سکون ریزہ ریزہ ہو کر رہ گیا۔ ایلی طبعی طور پر مزاح اور مزاحیہ صورتِ حال کو محسوس کرنے سے کورا تھا۔ وہ علی احمد کی رنگین شخصیت، ان کے انوکھے انداز اور پرکیف انداز گفتگو سے محفوظ نہیں ہوتا تھا۔ وہ انہیں بیٹے کی حیثیت سے دیکھتا اور اپنے مقاصد کے زاویے سے ان کی باتوں پر غور کرتا اس لیے یہ تمام رنگینی اس کی نگاہ میں دنیاداری مکر فریب چالاکی کے مترادف نظر آتی۔ اسے ان کی ہر بات پر غصہ آتا تھا۔ نتیجہ یہ ہوتا کہ بات کی لڑائی ہو جاتی تھی۔
مظفر آباد میں ایلی نے مسلسل طور پر کوشش کی کہ جھگڑا نہ ہو اس لیے وہ بڑے صبرو تحمل سے کام لیتا رہا۔ علی احمد ایلی کی اس خصوصیت سے واقف تھے اور اکثر جان بوجھ کر ایسی باتیں کیا کرتے تھے۔ جنہیں سن کر وہ اکتا جائے اور جھگڑ کر اٹھ بیٹھے تاکہ انہیں بات سے مخلصی حاصل ہو جائے لیکن ایسے حالات علی احمد ایسے وقت پیدا کرتے تھے جب انہیں بات کی نوعیت کا علم ہوتا۔ اور بات کے متعلق کچھ کرنے کا ان کا اپنا ارادہ نہ ہوتا اس طرح بات کے ٹوٹنے کی تمام تر ذمہ داری ایلی پر عائد ہو جاتی اور علی احمد پر کوئی حرف نہ آتا۔
ان دنوں مظفر آباد میں بھی وہ اسی بات سے ڈرتا تھا اسی وجہ سے اس نے ہاجرہ کو باربار تاکید کی تھی کہ راجو یا شمیم سے بات نہ کرے کیونکہ اکثر مرتبہ ایسے حالات میں وہ راجو اور شمیم کو کہا کرتے بھئی کیا معاملہ ہے کچھ پتہ تو لگاؤ یہ کیا بات کرنا چاہتے ہیں۔ اور بات کی نوعیت سمجھ کر وہ یوں ظاہر کرتے جیسے انہیں کچھ علم ہی نہ ہو اور پھر معاملے کی نوعیت کے مطابق عمل کرتے۔ بہر حال نویں روز بصد مشکل بات شروع ہوئی۔

حق و انصاف

“ہوں۔“ علی احمد بولے “تو ایلی شادی کرنا چاہتا ہے۔ ٹھیک ہے بالکل ٹھیک ہے۔ بی اے کر چکا ہے۔ دال روٹی کما سکتا ہے۔ لٰہذا ضرور کرنی چاہیے اسے شادی۔ اور ایلی کی ماں سنا تھا تم نے تو ایلی کی منگنی کر رکھی تھی۔ وہ کیا ہوئی۔ بھئی ہم نے تو سنا تھا۔ شاید غلط ہو لیکن سنا ضرور تھا۔ اچھا تو کیا سچ تھا۔“ انہوں نے ہاجرہ کے اثبات میں سر ہلانے کے بعد کہا۔ “بہر صورت بہت اچھا کیا تھا تم نے۔ اور اگر تم اب شادی کرنا چاہتی ہو ایلی کی تو ضرور کرو۔ فوراً کر دو ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے بھئی جیسے میرا بیٹا ہے ویسے ہی تمھارا ہے میں شادی کروں یا تم کرو بات کرے یا ماں کرے کیا فرق پڑتا ہے۔ تو اتنی سی بات کے لیے تم دونوں اتنا لمبا سفر کر کے آئے ہو کیا۔ میں سمجھا نہ جانے کیا ہوا ہے۔ آسمان ٹوٹ پڑا ہے یا زمین ڈوب گئی ہے حد ہو گئی۔ ہی ہی ہی ہی کیوں راجو۔“
“نہیں نہیں۔“ ہاجرہ بولی “ایلی وہاں شادی کرنا نہیں چاہتا“۔
“وہاں نہیں کرنا چاہتا۔ کیوں؟“ کچھ دیر تک وہ ایلی کی طرف دیکھتے رہے پھر خود بولے۔ خیر خیر خیر یہ تو اپنی طبیعت کی بات ہے لیکن اس سے نہیں تو کسی اور سے سہی محلے میں اتنی ساری لڑکیاں ہیں آخر ان کا کرنا کیا ہے اچار ڈالنا ہے کیا۔ وقت پر کام نہ آئیں تو فائدہ کیا ہوا ہی ہی ہی ہی کیوں راجو۔ ہے نا ٹھیک بات۔“
“آپ مجھے کیوں درمیان میں گھسیٹ لیتے ہیں۔“ راجو غصے میں بولی۔
“لو“ وہ مسکرائے۔ “خواہ مخواہ بگڑ رہی ہے بھئی تو میری بیوی جو ہوئی۔“
“وہ بھی تو بیوی ہی ہے نا۔“ راجو نے شمیم کی طرف اشارہ کیا۔
“ ہاں ہاں بالکل ہے بے شک وہ بھی بیوی ہے۔ لیکن درمیان میں گھسیٹنے والی نہیں وہ صرف تم ہو ہی ہی ہی ہی۔ وہ ہنسے۔
راجو کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی۔
“ہاں بھئی تو میں کہہ رہا تھا ایلی کی ماں اتنی لڑکیاں جو پڑی ہیں محلے میں کسی ایک کو پکڑ لو اور یہ کار خیر سر انجام سے دو اللہ اللہ خیر بھلا ہمیں بھی اطلاع کر دینا۔ ایسا نہ کرنا جیسے منگنی پر کیا تھا ہمیں خبر ہی نہ بھیجی۔ اور ہمیں اطلاع کرو گی ایلی کی ماں تو اگر چھٹی تو انشاءاللہ ضرور پہنچوں گا اور ان دونوں کو تو چاہے آج ہی لے جاؤ“ انہوں نے راجو اور شمیم کی طرف اشارہ کیا۔

“اے ہے۔“ راجو بولی۔ “محلے میں کونسی لڑکی ہے کام کی۔“
“لو“ علی احمد بولے۔ “یہ سمجھتی ہے بس یہی ایک کام کی تھی اور اس کے چلے آنے کے بعد دولت پور میں کوئی کام کی لڑکی باقی نہیں رہی۔“
“آپ میری بات نہ کیا کریں۔“ راجو غصے میں بولی۔
“اچھا“ علی احمد بولے۔ “سوچ لو۔ شمیم بھی یہی کہا کرتی تھی۔ اور میں نے شمیم کی بات مان لی تو اب خود ہی ناراض بیٹھی ہے۔ کہتی ہے مجھ سے بات نہیں کرتے۔“
“بس میرے زخموں پر نمک نہ چھڑکے کوئی۔“ شمیم بولی۔
“اے ہے آپ خواہ مخواہ دوسری بات چھیڑ بیٹھے۔“ راجو نے کہا “یہ ایلی کی بات تو ختم کرو۔ میں کہتی ہوں محلے میں کوئی کام کی لڑکی ہو بھی۔“
“اوہو۔“ علی احمد بولے۔ “بابا سب کام کی ہوتیں ہیں۔ چاہے ناک اونچی ہو یا بیٹھی ہوئی رنگ گندمی ہو یا سانولا۔ آنکھ موٹی ہو یا چھوٹی۔ کوئی فرق نہیں پڑتا۔“
“ہوں فرق نہیں پڑتا۔“ شمیم چلائی۔ “فرق نہیں پڑتا تو خود اتنی شادیاں کرنے کی کیا ضرورت تھی۔“
“ہائیں۔“ وہ ایک ساعت کے لیے رکے۔ پھر ہنسنے لگے “بھئی اتنی شادیاں نہ کرتا تو اس نکتہ کا پتہ کیسے چلتا۔ اتنی شادیاں کرنے کے بعد تو یہ تجربہ ہوا۔ ہی ہی ہی ہی۔ ایلی کو تو اس بات کا تجربہ نہیں جبھی اسے بتا رہا ہوں۔ ہی ہی ہی ہی ہی۔۔۔۔۔۔“
“لیکن۔“ ہاجرہ بولی “ایلی محلے میں کسی سے شادی کرنا نہیں چاہتا۔“
“ہائیں۔“ دفعتاً علی احمد خاموش ہو گئے۔ “محلے میں نہیں کرے گا تو باہر اسے کون لڑکی دے گا۔“
“کیوں اسے کیا ہے۔“ راجو بولی۔
“بھئی آخر باہر والے کسی بات پر لڑکی دیتے ہیں۔ یا دولت ہو یا پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔خیر خیر۔ نہ یہاں دولت ہے نہ عہدہ۔“
“وہ تو دینے کو تیار ہیں۔“ ہاجرہ نے بات کاٹتے ہوئے کہا۔
“وہ۔۔۔۔۔۔۔“علی احمد بولے “کون ہیں وہ؟“
“بڑے اونچے کھاتے پیتے ہیں باعزت خاندان سے ہیں۔ باپ ریاست میں وزیر ہے بھائی بڑے عہدوں پر فایز ہیں لڑکی کو ہم دیکھ آئے ہیں۔ بڑے اچھے لوگ ہیں۔“
“اوہ۔۔۔۔۔۔“علی احمد بھونچکے رہ گئے۔
“بس آپ کی رضامندی اور صرف آشیرباد کی ضرورت ہے۔“ ایلی بولا۔
“ہوں۔۔۔۔۔۔“علی احمد دفعتاً سنجیدہ ہو گئے۔ “تو یہ بات ہے۔“
“آپ کے شامل ہوئے بغیر۔۔۔۔۔“ ایلی نے کچھ کہنے کی کوشش کی۔
“دیکھو نا ایلی کی ماں“ علی احمد نہایت سنجیدگی سے بولے۔ “ایلی کی شادی کا براہ راست دو پارٹیوں سے تعلق ہے۔ ایک تو ایلی خود ہے جس نے شادی کرنی ہے اور دوسرے ہم سب تم ایلی کی ماں۔ راجو شمیم اور میں جنہوں نے لڑکی کے ساتھ رہنا ہے تو ایلی کی شادی دونوں پارٹیوں کے باہمی مشورے سے ہونی چاہیے۔“
“ٹھیک ہے۔“ ہاجرہ نے کہا۔
“کیوں راجو یہ بات حق و انصاف کی ہے یا نہیں۔“
“ہاں ہے تو مناسب“ راجو نے جواب دیا۔
“تو اس کی صورت یہ ہو سکتی ہے۔“ علی احمد نے کہا “یا تو ہم لڑکی کا چاؤ کریں اور ایلی اسے پسند کرے اور یا یہ کہ ایلی چناؤ کرے اور ہم اسے پسند کریں۔ کیوں راجہ۔ ہے نا حق و انصاف کی بات۔“
“اور اگر آپ چناؤ ہی نہ کریں تو ۔۔۔۔۔“ راجو بولی۔
“بھئی ہمیں موقع دو نا۔ آج بات کی ہے ایلی کی ماں نے۔ ہمیں چھ مہینے کی مہلت دی جائے چھ مہینے میں ہم لڑکی کا چناؤ کریں گے۔ اسے آزمائیں گے۔“
“اور اگر وہ ایلی کو پسند نہ آئی تو۔“ شمیم نے کہا۔
“تو پھر موقعہ دیا جائے تاکہ کوئی اور پسند کریں۔ انصاف کی بات ہے نا۔“
“بس آپ پسند کرتے رہیں۔۔۔۔۔حتٰی کہ ایلی بوڑھا ہو جائے۔“ راجو بولی۔ “اچھا تو ایک اور صورت ہے۔“ علی احمد بولے “ایلی ہمیں چار پانچ لڑکیوں کے نام دے دے جن سے وہ شادی کرنے کے لیے تیار ہے ان میں سے ہم ایک چن لیں گے۔“
ایلی ہنسنے لگا چار پانچ نام “۔۔۔۔۔۔۔وہ بولا “ آپ بھی کمال کرتے ہیں۔“
“اچھی لڑکی تو بڑی مشکل سے ملتی ہے۔“ راجو بولی۔
“یہ ایک لڑکی ہے جو بڑی مشکل سے تلاش کی ہے۔“ ہاجرہ نے کہا۔ “ایسی لڑکی کہاں ملتی ہے آجکل۔“
علی احمد خاموش ہو گئے۔
“اب جواب کیوں نہیں دیتے۔“ راجو نے کہا۔
“ہاں“ ہاجرہ بولی “وہ رشتہ جو ہم نے چنا ہے۔“
“یہ رشتہ ۔۔۔۔۔۔“ علی احمد رک گئے۔“
“ہاں ہاں یہ رشتہ“ ہاجرہ نے دہرایا۔
“اس سے اچھا رشتہ نہیں ملے گا۔“ راجو بولی۔
“جو جو کچھ بتایا ہے ایلی کی ماں نے اس کے مطابق تو بڑا اچھا رشتہ ہے۔“ شمیم نے کہا۔
“بات کیجئے نا“ راجو علی احمد کو خاموش دیکھ کر غصے میں چیخنے لگی۔
“یہ رشتہ مجھے پسند نہیں“ علی احمد نے کیا۔
ایلی کا دل ڈوب گیا۔
“لیکن وجہ؟“ ہاجرہ غصے میں بولی۔
“وہ بہت اونچے لوگ ہیں۔“ علی احمد نے سنجیدگی سے کہا۔
“یہ تو الٹا اچھا ہے۔“ راجو دب زبان سے بولی۔
“میں بہت چھوٹا شخص ہوں۔“ علی احمد کہنے لگے “اور میں اعلٰی اور اونچے خاندانوں سے رشتہ نہیں کروں گا۔ میں تو اپنے بچوں کا وہاں رشتہ کروں گا جہاں میری ایک حیثیت ہو جہاں میری بات کو اہم سمجھا جائے جہاں میری عزت ہو۔ جہاں۔۔۔۔۔“
“اے ہے وہ تو بڑی عزت کرنے والے لوگ ہیں۔“ ہاجرہ بولی۔
“نہیں یہاں نہیں ہو گا۔“ علی احمد نے کہا۔ “اگر میری رضا مندی کوئی حیثیت رکھتی ہے تو یہاں نہیں ہو گا۔“ یہ کہہ کر وہ اٹھ بیٹھے اور اپنی ڈسک پر بیٹھ کر حساب کے رجسٹر میں لکھنے میں مصروف ہوگئے۔
مظفر آباد سے واپسی پر ایلی کے سامنے چاروں طرف پانی ہی پانی کھڑا تھا اور پانی کے اس پھیلاؤ میں گاڑی ہونک رہی تھی وہ محسوس کر رہا تھا کہ وہ پھیلا ہوا پانی علی احمد کا انکار تھا۔ انکار ہی انکار اور اس پر چاروں طرف اداس آسمان میحط و مسلط۔
گاڑی کراہ رہی تھی۔ ہوا شائیں شائیں کر رہی تھی۔ ہاجرہ گھٹنوں میں سر دئیے بیٹھی تھی۔ ایلی کھڑکی سے باہر ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہا تھا۔
“دور دور“ سادی یہ کہتے ہوئے بھاگی جا رہی تھی۔ “نہیں میں وعدہ کر چکی ہوں اس معاملے میں میں مجبور ہوں۔ میں مجبور ہوں میں مجبور ہوں۔“۔۔۔۔۔۔۔
چاروں طرف ٹھہرا ہوا پانی ابھر رہا تھا۔ پانی ہی پانی ہی پانی ہی پانی۔ آسمان پانی میں گر کر ڈوب چکا تھا۔کہیں کہیں اس کے ٹکڑے ٹکڑے دکھائی دے رہے تھے۔
دفعتاً باہر کوئی چیخنے لگا۔ “گاڑی آگے نہیں جائے گی۔ گاڑی آگے نہیں جائے گی۔“