ناؤ گھر
ان کا نیا لاج ایک عظیم تکون نما بلڈنگ کے کونے کا ایک حصہ تھا۔ جبھی انہوں نے اس کا نام ناؤ گھر رکھ دیا تھا۔ بلڈنگ کی پہلی منزل میں گودام اور دکانیں تھیں۔ کونے کے قریب تنگ سی سیڑھیاں دوسری منزل میں چلی گئی تھیں۔ جہاں غسل خانہ، باورچی خانہ، ایک دالان اور دو کمرے تھے۔ جن کے ایک طرف جدھر سڑک واقعہ تھی لکڑی کا جنگلا بنا ہوا تھا۔ جو اب بوسیدہ ہو چکا تھا۔ باورچی خانے اور غسل خانے کے اوپر ایک تیم چھتی تھی۔ جس کا دروازہ اوپر کی سیڑھیوں کے درمیان کھلتا تھا اور اوپر تیسری منزل میں ایک کمرا ایک وسیع برساتی اور کچھ کھلی چھت تھی۔
ناؤ گھر میں پہنچتے ہی جاہ نے اعلان کر دیا کہ وہ دوسری منزل میں قیام کرئے گا۔ “ یہ کمرہ “ وہ بولا “ہمارا بیڈ روم رہے گا، دوسرا کمرا سٹنگ روم اور اس دالان کو ہم کھانے کا کمرہ بنا سکتے ہیں۔“
“ کیوں۔“ بھا جی نے پوچھا۔
بھا نے دالان سے ملحقہ جنگلے کی طرف دیکھا “ بالکل “ وہ بولا “ یہ جنگلہ نماز کے لیے کتنا موزوں ہے۔ ہے نا پال۔“
وہ سب جی کے کو پیار سے پال کہا کرتے تھے۔
“ بالکل۔“ پال چلایا “ اور جنگلے میں یہاں حمام رکھ دیا جائے تو وضو کی جگہ تھی بن جائے گی۔“ اور ایلی “ جاہ بولا “ تم چاہو تو یہیں ہمارے ساتھ رہو۔ ہاں اور اگر وہ تمہارا دوست بخوشی آنا چاہے تو آ جائے ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ تم کہتے ہو نا وہ اچھا لڑکا ہے۔ تو اچھا ہی ہو گا اور اگر ایسا ہی ہے تو آ جائے۔ کیا حرج ہے اوپر کا کمرہ ہم اس کے لیے مخصوص کر دیں گے۔ کیا نام ہے اس کا ہاں ۔ جمال ۔ جمال۔“
“ آ جائے تو بہتر ہے۔“ بھا بولا۔ “ پانچ ہو جائیں گے تو کفایت رہے گی اور تم ایلی تم کہاں رہو گے۔“
“ میں میں۔“ ایلی نے کہا “ میں تو نیم چھتی میں رہوں گا۔“
“ نیم چھتی؟“ جاہ کے ہونٹ حقارت سے کھلے “ ہوں نیم چھتی “ وہ انگلیاں چلاتے ہوئے کہنے لگا۔ “ اسے نیم چھتیوں سے دلچسپی ہے۔ کھلے کمروں سے نہیں۔ بس ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔ جو ذہنی طور پر خود نیم چھتی ہو وہ ۔۔۔۔۔“ وہ خاموش ہو گیا۔
جاہ کے منہ سے ایسی بات سن کر ایلی نے کبھی برا نہ مانا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ایلی نے جاہ کی ذہنی عظمت کو سچے دل سے تسلیم کر رکھا تھا۔ اس کے دل میں جاہ کے لیے محبت بھی تھی اور احترام بھی مگر جذبہ احترام اس حد تک حاوی ہو چکا تھا کہ اس کے بوجھ تلے محبت دب کر رہ گئی تھی۔ وہ جاہ کی بات سے ڈرتا تھا۔ تمسخر سے ڈرتا تھا۔ لیکن اس ڈر میں نفرت کا عنصر نہ تھا۔ ایلی جاہ کے قریب رہنے کی خواہش کے باوجود اس سے ذرا ہٹ کر رہنا پسند کرتا تھا۔ اس لیے ناؤ گھر کو دیکھتے ہی اس نے نیم چھتی میں رہنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ وہ ڈرتا تھا کہیں جاہ اسے اپنے کمرے میں رہنے پر مجبور نہ کر دے۔ اس لیے جاہ کی بات سننے کے بعد ایلی نے اطمینان کا سانس لیا کہ شکر ہے طوفان نکل گیا۔ مطلع صاف ہو گیا اور اب وہ اطمینان سے نیم چھتی میں اکیلا رہے گا اور شہزاد چھن سے سیڑھیوں سے اترے گی اور نیم چھتی میں جھانک کر کہے گی۔ چلو نا چائے ٹھنڈی ہو رہی ہے۔“
جمال تیسری منزل کے کمرے کو دیکھ کر ان تین کھڑکیوں کی طرف لپکا جو سڑک کی طرف کھلتی تھیں۔ کھڑکیوں کو کھول کر وہ خوشی سے چلایا۔
“ ارے یہاں سے تو سامنے محلے کے سارے مکانات نظر آتے ہیں۔ کتنے خوبصورت مکانات ہیں۔ کھاتے پیتے فیشن ایبل لوگ رہتے ہوں گے، کیوں ایلی۔“
ایلی کو یہ بات نہ سوجھی تھی۔ “ ظاہر ہے۔“ وہ بولا۔
“لیکن“ جمال نے ہاتھ سے بال سنوارتے ہوئے کہا “ ذرا دور ہیں “
پھر وہ برساتی کی کھڑکیوں میں جا کھڑا ہوا۔ “ یہاں سے تو اور بھی اچھا ہے۔“ اس نے ایک بھر پور مسرت بھری نگاہ ایلی پر ڈالی۔ “ ذرا غور سے دیکھو نا۔“ وہ چلایا اور جسم کھجانے لگا۔
پھر وہ مکان کی عقبی دیوار کے پردے پر جا کھڑا ہوا اور چاروں طرف دیکھتے ہوئے بولا۔
“ اونہوں اس جانب تو امید کی کوئی صورت نہیں۔“ “زردہ سے پھر ملاقات نہیں ہوئی کیا۔“ ایلی نے پوچھا۔
“ زردہ “ جمال نے قہقہہ لگایا۔ “ توبہ ہے یار “ اس نے ہنستے ہوئے اپنا کان پکڑ لیا۔
“ توبہ ہے یار۔ اتنی تکلیف ہوئی کہ جس کی انتہا نہیں۔ ایسی ظالم بیماری ہے یہ کہ توبہ ہے۔ بیوی کے سامنے سارا بھانڈا پھوٹ گیا اور معلوم ہے ڈاکٹر کیا کہتا تھا۔ کہتا تھا یہ بیماری کبھی نہیں جاتی۔ کبھی نہیں۔ اب میں نے توبہ کر لی ہے۔“ اس نے پھر قہقہہ لگایا “ بالکل توبہ کر لی ہے۔ لیکن یار، تم کتنے اچھے ہو۔“ وہ خاموش ہو گیا۔
“ تمہارا جواب نہیں ایلی دوست ہو تو ایسا ہو۔“ اس نے ہنستے ہوئے ایلی کے دونوں ہاتھ پکڑ لیے۔ “ ایسا اچھا کمرہ میرے لیے مخصوص رکھا۔ جس کا جواب نہیں۔ ایمان سے اور پھر محلہ کے عین مقابل اور محلہ بھی فیشن ایبل لوگوں کا۔ بھئی واہ خوب گزرے گی۔ جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو۔“ جمال نے پھر قہقہہ لگایا۔ “ تم نیم چھتی میں اور میں چوبارے میں۔ واہ واہ واہ اور وہ نچلی منزل والے دور۔ یار وہ تو کتابوں میں جیتے ہیں۔ کتابیں ہی کتابیں - حد ہو گئی یار۔“
بانورہ ہوشمند
ابھی وہ نیم چھتی میں چیزیں لگانے میں مصروف تھا کہ کریسنٹ ہوسٹل کا باورچی دتہ آ گیا۔
“ بابو جی۔“ وہ بولا “ آپ کو نیچے بلا رہے ہیں۔“
نیچے بیڈ روم میں جاہ، بھا اور پال بیٹھے ایلی کا انتظار کر رہے تھے۔
“ ہاں بھئی “ اسے دیکھ کر جاہ نے کہا “ بیٹھ جاؤ۔ اچھا ہوا کہ جمال نے یہاں آنا پسند کر لیا۔ اچھا ہوا۔ اچھا آدمی معلوم ہوتا ہے۔ خاصہ ہے خاصہ میرا مطلب ہے۔“ اس نے مسکراتے ہوئے کہا “ گوارا قسم کا ہے۔ بشرطیکہ ناگوار ہونا نہ شروع کر دے۔ کیوں پال۔“ جاہ کا مزاح اس حد تک سبک ہوتا تھا کہ اس کا ادراک مشکل سے ہوتا تھا۔ لیکن ایلی نے جاہ کی خصوصی مسکراہٹ سے بھانپ لیا کہ وہ اپنے مزاج کی داد کا طالب ہے۔ ایلی نے قہقہہ لگایا۔
“ ہے نا۔“ وہ ایلی سے مخاطب ہوا۔ “ لیکن اس وقت مسئلہ درپیش یہ ہے کہ اپنا نوکر دتہ اپنے ہمراہ ایک نوکر لایا ہے۔ نوکر تو ہمیں یہاں رکھنا ہی ہو گا۔ اس سے کہا تھا کہ بھئی کوئی جانا پہچانا نوکر لا دو۔“
“ بالکل۔“ پال نے کہا “ نوکر کے بغیر کیسے ہو گا۔“
“ لیکن دقت یہ ہے“ جاہ نے کہا “ کہ یہ نوکر جو وہ لایا ہے اس کا جانا پہچانا نہیں اور بندہ تو جاننے پہچاننے کے معاملے میں بیوقوف ہے۔“ جاہ اس روز مزاح کے موڈ میں تھا۔
“ جوڑنے یا نفی کرنے کی بات ہو تو میں حاضر ہوں۔“ پال نے کہا۔
“ یہ تو کھانا پکانے کی بات ہے۔“ بھا نے کہا۔
“ اچھا۔“ جاہ تعجب سے بولا۔
“ معلوم تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ پال کی ناک اور بھی لمبی ہو گئی۔
“ کھانے کے متعلق میں صرف اتنا جانتا ہوں۔“ جاہ نے کہا “ کہ نمک اور مرچ ہو تو کھانا ٹھیک ہوتا ہے اور نمک مرچ کی مجھے خوب پہچان ہے۔ وہاں کریسنٹ میں کھانے کی میز پر جب کوئی چلاتا۔ دتے نمک بھیجو تو دفعتاً مجھے احساس ہوتا کہ میں بھی سوچ رہا تھا کہ آخر کھانے میں کس بات کی کمی محسوس ہو رہی ہے۔“ ایلی نے قہقہہ لگایا۔ اس پر جاہ نے بڑے التفات سے ایلی کو مخاطب کر کے کہا “ کیوں میاں ہے نا یہی بات۔“
لیکن بھا نے کہا۔ “ معاملہ تو یہ ہے کہ نوکر کی تنخواہ مقرر کی جائے۔“
“ پنچ اجازت دیں۔“ جاہ مسکرایا۔ “ تو بندہ کتاب پڑھنے کا کام کرے۔ چونکہ اس معاملے میں اپنا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ الٹا اپنا دخل دینا نقصان دہ ہو گا۔ کیوں پال۔“ “ لو جی یہ گیا غفار۔“ دتہ چلا کر بولا۔
غفار پتلا دبلا سانولا نوجوان تھا۔ اس کے نقش تیکھے تھے اور بشرے پر ذہانت کے آثار تھے۔
“ سلام علیکم۔“ اس نے بے پروائی سے ان کی طرف دیکھ کر کہا۔ پھر خود ہی بات شروع کی۔ “ دیکھئے صاحب۔“ وہ بولا “ میرا نام گفار ہے۔“
“ ذرا ٹھہریئے۔“ جاہ نے اس کی بات کاٹی “ کیا آپ اپنا نام نہیں بدل سکتے؟“ غفار نے غور سے جاہ کی طرف دیکھا۔
“ آپ کا نام خاصہ بوجھل ہے۔“ جاہ بولا “ سارے حلق کو تکلیف ہوتی ہے۔ میرے لیے تو آپ کو بلانا مشکل ہو گا۔“
“ جی صاحب۔“ غفار نے مسکرا کر کہا۔ “ نام تو گفار ہی ہے اگرچہ گھر کے لوگ مجھے پیار سے بانورہ کہتے تھے۔“
“ اگر ہم بھی بانورہ کہیں تو آپ کو اعتراض تو نہ ہو گا۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ کہیں گے محبت سے۔“ جاہ مسکرانے لگا۔
“ اجی محبت سے پکاریئے تو جو جی میں آئے کہیے“ غفار بولا۔
“ اچھا بھئی بانورے۔“ بھا نے بمشکل مطلب کی بات شروع کی۔ “ تمہیں پانچ آدمیوں کا کھانا پکانا ہو گا۔ سودا بھی خود ہی لانا ہو گا۔ تو یہ بتاؤ کہ تم لو گے کیا۔“ بانورہ مسکرایا، بولا “ حضور ابھی پودا لگا نہیں اور پہلے ہی پھل پھول کی بات کرنا مناسب نہیں۔“
“ کیا مطلب “ پال چلایا۔
“ معلوم ہوتا ہے “ جاہ بولا “ یہ بانورہ پوئٹری کا طالبعلم ہے۔“
“ مطلب یہ ہے حضور۔“ بانورہ چمک کر بولا۔ “ پہلے کام پھر دام۔“
“ بھئی واہ۔“ جاہ چلایا۔ “ معقول بات ہے۔ جیسے آسکروائلڈ کی لائن ہو۔“
“ یعنی۔----“ بھا نے کچھ کہنے کی کوشش کی۔
“ واہ بھا۔“ جاہ نے کہا “ تم بھی حد ہو میاں۔ پہلے بات اپریشیٹ کرو پھر سمجھنے کی کوشش کرو۔ جو طریقہ ہوتا ہے۔“
“ جی میرا مطلب ہے۔“ بانورہ بولا “ طریخے کے مطابق تو مناسب ہے کہ ایک روز کے لیے آپ میرا کام دیکھیں اور پھر اگر آپ کو میرا کام پسند ہو تو مجھ سے تنخواہ کی بات کریں۔ اگر میری مانگ آپ کو منظور ہو تو میں کام شروع کر دوں اور نہ ہو تو اللہ حافظ کہہ کر رخصت ہو جاؤں۔“
“ بات تو معقول ہے۔“ پال نے ناک کو گھورتے ہوئے کہا۔
“ کچھ زیادہ ہی معقول ہے۔“ جاہ بولا۔
“ اچھا میاں۔“ بھا نے کہا “ تو کل صبح آ جاؤ۔“
“ بہت اچھا صاحب۔“ بانورہ مسکرایا۔ “ اب مجھے ازازت ہے کیا۔ السلام علیکم۔“ یہ کہہ کر وہ رخصت ہو گیا۔
“ عجیب نوکر ہے۔“ بھا نے کہا۔
پال ہنسنے لگا “ کہتا ہے ابھی پودہ لگا نہیں تو پھل پھول کی بات کیسی۔“
“ جبھی تو میں نے کہا تھا۔“ جاہ بولا “ کہ پوئیٹری کا طالب علم معلوم ہوتا ہے۔ جیسے کل اس کا نہیں بلکہ ہمارا امتحان ہو گا اور نتیجے کا اعلان وہ کرئے گا۔ بانورہ۔ یار اس کا نام ہوشمند ہونا چاہیے۔“
اگلے روز بانورہ آیا تو وہ سبھی جاہ کے کمرے میں اکٹھے ہو گئے۔
“ ہاں بھئی بانورے کیا پکائے گا تو۔“
“ جو آپ چاہیں۔“ بانورے نے جواب دیا۔
“ بھئی مجھے تو بُھنا ہوا گوشت پسند ہے۔“ جاہ نے کہا۔
“ وہ تو جی۔“ بانورہ بولا “ کھانے میں پسند ہے نا، آپ تو پکانے کے لیے پکوا رہے ہیں۔“
“ ہائیں۔“ ایک نگاہ جاہ نے بانورے کی طرف دیکھا اور پھر یوں سر ہلانے لگا جیسے روئی کا باوا ہو۔
“ چلو بھئی کریلے گوشت بناؤ آج۔“
“ کریلے کھا کھا کر تو تھک گئے بھا۔ پالک نہ ہو جائے۔“ پال نے کہا۔
“ ہو جائے۔“ بھا بولا
“ ایک گجارس میں بھی کروں۔“ بانورہ نے کہا۔
“ ہاں ہاں۔“ بھا نے کہا۔
“ ویسے پکانے کے لیے جو بھی چاہیں تیار کر دوں گا لیکن ایسے موخہ پر مناسب رہتا ہے۔ کوئی ایس چیز آج نمونے کے طور پر پکوائی جائے جسے پکانا مشکل ہو۔“
“ اچھا بھائی تو کیا کیا چیز پکانی مشکل ہوتی ہے۔“ پال نے پوچھا۔
“ ہاں ہاں۔“ جاہ بولا “ ذرا لگے ہاتھوں یہ بھی بتا دیجیئے۔“
بانورہ نے کہا “ صاحب گوشت تو سبھی بنا لیتے ہیں لیکن کام پرکھنا ہو تو دال پکوائیے اور وہ بھی اس کی جو ایک زائد آنچ سے ڈھل جاتی ہے اور ایک آنچ کم ہو تو کھڑی رہتی ہے۔ ویسے جو آپ چاہیں۔ اپنا کیا ہے۔“
“ اچھا بھئی دال ہی پکاؤ۔“ پال بولا۔
“ ہاں۔“ بھا نے کہا۔
جب ہنڈیا میں گھی ڈالنے کو وقت آیا تو بانورہ نے آ کر کیا۔ “ صاحب ایک گجارس ہے ہنڈیا میں ڈالنے کے لیے گھی دیا جائے۔“
“ واہ میاں۔“ بھا نے جواب دیا۔ “ گھی وہاں الماری میں پڑا ہے، ڈال لو۔“
“ یہ تو درست بات نہیں صاحب۔“ بانورہ بولا
“ کیوں۔“ پال نے پوچھا۔
“ ہجور کھانے میں گھی ڈال کر اسے مجیدار بنانا تو مشکل نہیں اور جو پرکھنا ہو تو جروری ہے کہ کم گھی دیا جائے۔“
“ ارے بھائی۔“ جاہ کتاب رکھتے ہوئے بولا “ بانورے کی بات رد کرنے کا خیال دل سے نکال دو۔ پال کی حساب دانی یہاں کام نہ آئے گی۔“
روٹی پکانے سے پہلے بانورہ پھر آ گیا بولا “ حضور کھانا تیار ہے۔ تشریف لائیے۔“
“ اچھا بھئی۔“ بھا نے جواب دیا اور اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔
“ میں تو میاں کچھ دیر کے بعد کھاؤں گا۔“ جاہ نے کہا۔
“ ہجور گجارس ہے کہ ایسے وقت یوں ہونا چاہیے کہ آپ سب باورچی خانے میں میرے پاس آ بیٹھیں۔ ادھر آپ سب کھانا شروع کریں ادھر میں پھلکے اتارنا شروع کروں۔“
“ ہوں۔“ جاہ بولا۔
“ دیکھنا تو یہ ہے صاحب کہ میں اس تیزی سے پھلکے اتار سکتا ہوں کہ پانچ آدمی کھاتے جائیں اور پھلکا کم نہ ہو۔ تار نہ ٹوٹے پھر پھلکے کچے نہ اتریں پھول کر اتریں اور کھانے میں اچھے ہوں۔ ہی ہی ہی ہی ------ “ وہ ہنسنے لگا۔
“ کہو بھئی اس کے جواب میں کیا کہتے ہو۔“ جاہ نے پوچھا۔
“ بات تو معقول ہے۔“ ایلی نے جواب دیا۔
“ اچھا بھئی ہم آتے ہیں۔“ بھا نے کہا۔
جب بانورہ چلا گیا تو جاہ بولا “ میاں میں محسوس کرتا ہوں جیسے یہ بانورہ ہمیں کھانا پکا کر کھلانے کے لیے نہیں آیا بلکہ عقلِ سلیم سکھانے آیا ہے۔ اونہوں، یہ بات نہ نبھے گی۔“ وہ بولا “ یہ ہر وقت کی معقولیت اور بات بات پر طریقے سلیقے، مہنگا سودا ہے دوستو۔ آگے آپ مالک ہیں۔ اپنی تو صرف ایک گجارس ہے۔“
اگلے روز جب ایک نیا نوکر گاما آیا تو اس کو حواس باختہ شکل کو دیکھ کر جاہ خوشی سے چلانے لگا “ یہ ہوئی نہ بات۔“ وہ بولا “ یہ تو اپنا بھائی بند معلوم ہوتا ہے۔ دیکھنے سے ہی تسلی ہو گئی۔
“ جی گوس روٹی پکا لیتا ہوں۔“ پوچھنے پر نئے نوکر نے مختصر جواب دیا۔
“ ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔“ جاہ نے قہقہہ لگایا۔ “ آ ہا گوس روٹی سے بڑھ کر کیا چیز ہو گی۔ میاں بات ہوئی نا ایسا معلوم ہوتا ہے
جیسے بطخ جوہڑ میں پہنچ گئی ہو۔“ ----- اور گامے کو نوکر رکھ لیا گیا۔
گوریاں
ناؤ گھر میں ایلی کی مصروفیت کریسنٹ ہوسٹل سے چنداں مختلف نہ تھیں۔ کالج سے واپس آ کر وہ چپکے سے جاہ کی ایک کتاب اٹھا کر نیم چھتی میں بیٹھ کر اس کا مطالعہ کرتا جب تک جاہ کے واپس آنے کا وقت نہ ہو جاتا۔ جاہ کے آنے سے پہلے ہی ایلی وہ کتاب واپس اپنی جگہ پر رکھ دیتا۔ پھر کچھ دیر تک جاہ کے پاس بیٹھ کر اس کی ترش مگر بصیرت افروز باتیں سنتا اور پھر شام کے وقت وہ اور جمال دونوں سیر کو نکل جاتے اور جمال اسے تفصیلاً بتاتا کہ سفید منزل میں ایک کالی کلوٹی مگر جوان دوشیزہ رہتی ہے۔ جس کی آنکھوں میں بلا کی مستی ہے۔ پہلے مکان میں دو ادھیڑ عمر کی عورتیں ہیں جو سوکنیں معلوم ہوتی ہیں اور سامنے منزل میں دو چٹی سفید گوریاں رہتی ہیں جو اتنی گوری ہیں کہ توبہ ہے اور ہر وقت ہنستی ہیں، ہنسے ہی جاتی ہیں۔
جمال گوریوں کا تذکرہ کرتے ہوئے قہقہہ لگا کر ہنسا۔ اس کے گالوں پر سرخی جھلکتی، آنکھوں میں مستی چھلکتی اور وہ بار بار جوش میں کھجاتا پھر فرطِ جوش میں جمال ایلی کو اپنی آغوش میں لے لیتا۔
“ یار ایلی “ وہ کہتا “ تم بڑے اچھے ہو۔ کیا جگہ دلوائی ہے مجھے واہ واہ۔ ناؤ گھر لاجواب گھر ہے۔ بس اگر ذرا سا چپو چلا دو بھائی تو اپنی زندگی میں بھی حرکت پیدا ہو جائے۔ لیکن ایلی۔“ وہ دونوں ہاتھوں سے ایلی کے شانے پکڑ لیتا اور پھر مست آنکھیں بنا کر اس کی طرف دیکھ کر پوچھتا۔ “ ایلی وہ اتنی گوری کیوں ہیں۔ بتاؤ نا۔ حد ہو گئی یار اتنی سفید جیسے کھوئے کی بنی ہوئی ہوں۔“
“ مجھے کیا معلوم۔“ ایلی جواب دیتا۔
“ پھر بھی --- بتاؤ تو سہی۔“
“ یہ ہوتی ہی ایسی ہیں۔“ ایلی کہتا۔ “ اگر گوری نہ ہوں تو مرچیلی ہوتی ہیں اور مرچیلی نہ ہوں۔ تو میٹھی رس بھری۔“
“ ہے نا۔“ جمال قہقہہ مار کر ہنستا۔ “ اور وہ زردہ تھی۔ وہ زرد ہو گئی تھی کتنی زرد تھی وہ۔“
“ ہاں شکر کرو گلابی نہ تھی۔“
“ گلابی تو یہ ہیں۔“ جمال کہتا۔ ضرور گلابی ہوں گی۔ جو دور سے خالی سفید دکھے وہ قریب سے گلابی ہوتی ہے۔ لیکن یار۔۔۔“ وہ پھر ایلی کو شانوں سے پکڑ لیتا۔ “ یار وہ اس قدر ہنستی کیوں ہیں۔ دیکھتی ہیں اور ہنستی ہیں۔ ہنستی ہیں اور دیکھتی ہیں۔ دیکھ دیکھ کر ہنستی ہیں۔“
“ تو کیا تم چاہتے ہو کہ دیکھ کر رو دیں۔“ ایلی پوچھتا۔
“ ارے نہیں ۔۔۔۔۔۔ “ جمال رک کر سوچنے لگتا۔
“ شکر کرو بھائی روتی نہیں وہ۔ جو رو دیں تو تمہاری زندگی حرام ہو جائے۔“ ایلی جواب دیتا۔
“ یار ایلی۔“ جمال چلاتا “ کوئی ملنے کو صورت بتاؤ۔ پھر چاہے ہنسیں یا روئیں۔“
“ کیوں پھر کیا ہو گا۔“ ایلی اسے چھیڑتا۔
“ پھر۔۔۔۔۔“ وہ قہقہہ مار کر ہنستا اور سر کھجاتا۔“ پھر بہت کچھ ہو جایا کرتا ہے۔“ ہنستے ہنستے دفعتاً وہ خاموش ہو جاتا۔ پھر سنجیدگی سے کہتا “ یار دقت یہ ہے کہ وہ دور رہیں اور مجھے دور سے پتہ نہیں چلتا کہ کون کون سی ہے اور کونسی۔ کون بڑی ہے اور کوں چھوٹی، بڑی مشکل ہے۔“
“ بڑی چھوٹی ہو یا چھوٹی بڑی کیا فرق پڑتا ہے۔“ ایلی فلسفیانہ انداز سے بولا۔
“ بڑا فرق پڑتا ہے۔“ جمال کہتا۔ “ چھوٹی چھوٹی ہی ہوتی ہے تمہیں کیا خبر۔“
“ یہ تو ٹھیک ہے۔“
“ نہیں یار۔“ وہ اس کا ہاتھ جھٹک کر کہتا۔ “ تجھے سب خبر ہے۔“
نہ جانے جمال کو یہ خیال کیسے پیدا ہو گیا تھا کہ لڑکیوں کے معاملے میں ایلی ہر راز سے کماحقہ واقف ہے۔ جمال سچے دل سے سمجھتا تھا کہ اس معاملے میں ایلی بڑا سیانہ ہے۔ ایلی بھی اس کی موجودگی میں سیانوں کا رویہ اختیار کر لیتا۔ اس وقت وہ بھول جاتا کہ شہزاد کے روبرو اس کی اپنی کیا حثیت ہوتی ہے۔ اس یہ بھی یاد نہ رہتا کہ وہ بند بیٹھک سے کس شان سے باہر نکلا تھا۔
ہر روز شام کے وقت کسی نہ کسی بہانے جمال اسے آ ملتا۔ اگر ایلی جاہ کے پاس بیٹھا ہوتا تو وہ کوئی نہ کوئی بہانہ بناتا۔ “ ایلی اگر فراغت ہو تو مجھے پوئیٹری کا خلاصہ خرید دو۔“
“ خلاصہ۔“ جاہ چونک کر اس کی طرف دیکھتا اور پھر جمال کے چہرے کا جائزہ لے کر کہتا ---- “ ٹھیک ہے، خلاصہ ہاں۔ بھئی تو لے دو انہیں خلاصہ۔ خود بھی خلاصہ پڑھ لو تو کیا حرج ہے۔ خلاصے کے بغیر امتحان پاس کرنا --- اونہوں، خلاصے کے بغیر کیا ہوتا ہے جی۔“
جاہ کے انداز میں بلا کی طنز ہوتی۔ لیکن جمال نے اس کی بات کی دھار کو کبھی محسوس نہ کیا تھا۔ ایلی کر طرح وہ بھی جاہ سے ڈرتا تھا۔ جاہ سے سبھی ڈرتے تھے اور سبھی اس کی عزت کرتے تھے۔ جاہ کو خود بھی اس بات کا احساس تھا۔ شاید اسی لیے ناؤ گھر میں اس کی حثیت لاڈلے اور بگڑے ہوئے بچے کی سی تھی اور کبھی کبھار تو ایلی کو محسوس ہوتا کہ جاہ صرف اس لیے علم حاصل کر رہا ہے کہ فوقیت حاصل کر کے دوسروں پر رعب جما سکے۔
لیکن پال کی بات مختلف تھی۔ وہ کبھی جاہ کی بات سن کر اس قدر متاثر نہ ہوا تھا کہ اپنی حیثیت کھو دے۔ وہ مضبوط انفرادیت کا مالک تھا اور اپنی غلط رائے پر اڑ جانے کا عادی تھا۔ پال کو اپنی قابلیت پر ناز تھا۔ اسے اپنے اصول فرد سے زیادہ پیارے تھے۔ دوسرے کی بات کو رد کرنا اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ ناؤ گھر میں ایلی بھا اور جمال تینوں جاہ اور پال کی بات کی عظمت کو تسلیم کرنے کے لیے ہر وقت کمربستہ معلوم ہوتے تھے۔ بھا تو محض رواداری کے خیال سے۔ “ ہوں تو یہ بات ہے“ کہہ کر خاموش ہو جاتا۔ جمال طبعی طور پر خاموش آدمی تھا۔ بلکہ وہ ایسی معمولی باتوں کو اہمیت ہی نہ دیتا تھا۔ ایلی جی جی کہہ تو دیتا لیکن بعد میں اسے غصہ آتا۔ اس بات پر کڑھتا کہ لوگ دوسروں پر اپنی بات ٹھونسنے کے عادی کیوں تھے۔ ایلی کو خود پسند لوگوں سے بے حد نفرت تھی۔
بہرحال کسی نہ کسی بہانے جمال اسے وہاں سے نکال کر لے جاتا اور جونہی وہ اکیلے ہوتے وہ اپنے مخصوص معصوم انداز میں وہی بات چھیڑ لیتا۔
“ یار ایلی “ وہ چلاتا۔ “ وہ اتنی شوخ ہیں اتنی نڈر کہ حد ہو گئی۔ اعلانیہ سامنے آ کھڑی ہوتی ہیں۔ سلام کرو تو اعلانیہ جواب دیتی ہیں حالانکہ اس وقت اور لوگ بھی موجود ہوتے ہیں۔ حد ہو گئی یار۔ آج تو دونوں نے بال کھول رکھے تھے۔ اتنے لمبے بال جیسے کسی بال تیل کا اشتہار ہوں۔ یہاں سے وہاں تک اور پھر اتنے کالے اتنے کالے اور ان کالی زلفوں میں اتنے گورے چہرے حد ہو گئی ایلی بالکل جیسے کچی گری کی بنی ہوئی ہوں۔ یار ایلی“ وہ اس کے شانے پکڑ کر کہتا۔ “ اب میں کیا کروں۔“
ایلی کو بھی جمال کی یہ باتیں بے حد پسند تھیں۔ سارے ناؤ گھر میں صرف جمال ہی واحد ہستی تھی۔ جس کے روبرو ایلی کی حیثیت پیدا ہو جاتی تھی۔ جمال کے پاس جا کر دفعتاً وہ احمق سے سیانا بن جاتا اور ان پڑھ سے عالم ہو جاتا۔ ایسی صورت میں اسے جمال کی باتیں کیوں نہ پسند ہوتیں اور جمال کا بار بار کہنا یار ایلی تم ہی کچھ کرو گے تو بات بنے گی۔ تمہارے بغیر یہ بیل منڈھے نہیں چڑھے گی۔ کچھ کرونا ایلی۔ کچھ ہو جائے۔ اب تو یہ دوری مجھ سے برداشت نہیں ہو سکتی۔ کیا کروں میں کیا کروں۔
جمال کو یہ معلوم نہیں تھا کہ رات کو جب وہ ایلی کو نیم چھتی میں چھوڑ کر اپنے چوبارے میں چڑھ جاتا ہے تو سیڑھیوں میں سے چھن چھنانن کی آواز آتی ہے اور پھر چھن سے کوئی ایلی کے روبرو آ کھڑی ہوتی ہے اور ایلی کے حواس باختہ ہو جاتے ہیں۔ اور وہ حواس گم قیاس گم کے مصداق یوں اٹھ کر کھڑا ہو جاتا ہے جیسے دیوی کی آمد پر باندیاں عزت اور احترام سے کھڑی ہو جاتی ہیں اور پھر وہ حسرت بھری نگاہ سے ان کے بلوری پاؤں کی طرف دیکھتا ہے دیکھے جاتا ہے۔ اسے ہمت نہیں پڑتی کہ نگاہ اٹھا کر اوپر دیکھے جہاں گلابی چاند جگمگا رہا ہوتا ہے۔ اس کا جی چاہتا ہے کہ بلوری قدموں پر اپنا سر رکھ کر رو دے۔ آنکھیں ملے اور کہے “ دیوی میں تمہارے لائق نہیں ہوں۔ لیکن کیا کروں۔ کیا کروں۔“
جمال کو معلوم نہیں تھا کہ گوریوں سے قرب حاصل کرنے کے لیے جس پر اس نے تمام امیدیں استوار کر رکھی تھیں، اس میں اتنی حرارت نہ تھی اتنی سوجھ بوجھ نہ تھی کہ تخلیئے میں بھی قرب حاصل کر سکتا۔ الٹا تخلیئے میں وہ اور تھی دور ہو جاتا اور کوششوں اور تدابیر کے باوجود گوری کو اپنا نہ بنا سکا تھا جو اعلانیہ اس کی ہو چکی تھی۔
جمال کی موجودگی میں ایلی کو بھی یہ تفاصیل بھول جاتی تھیں۔ گھڑی کی جھوٹی عظمت حاصل کرنے کے لیے وہ شہزاد کو بھی بھول جاتا۔ وہ شہزاد جو اس کے لیے زندگی تھی۔ سبھی کچھ تھی۔ جس کے بغیر اس کی کوئی حیثیت نہ تھی۔
جمال کی وہ بات بتنگڑ کی حیثیت اختیار کرتی گئی۔ اس کا اشتیاق بڑھتا گیا۔ اس کے قہقہے اور کھجانا شدت اختیار کرتا چلا گیا۔ وہ گوریاں جو اتنی دور رہتی تھیں اور جن کی حیثیت محض ایک قصہ کہانی کی سی تھی قریب آتی گئیں اور قریب اور قریب حتٰی کہ وہ نیم چھتی اور چوبارے پر مسلط و محیط ہر کر رہ گئیں۔ بن دیکھے بن جانے ایلی ان سے اس حد تک مانوس ہو گیا جیسے وہ بھی اس کے ساتھ ناؤ گھر میں رہتی ہوں۔ مثلاً ایلی کو معلوم تھا کہ ان کی چال کیسی ہے، ان کے بال کس طرح گردن پر لٹکتے ہیں، انکی چوٹیاں کیسے بل کھاتی ہیں۔ ان کے دوپٹے کس رنگ کے ہوتے ہیں اور وہ ہوا میں کس طرح لہراتے ہیں اور ان کی آنکھیں کن کن زاویوں سے دیکھتی ہیں۔ ان میں کیسی کیسی چمک لہراتی ہے۔ ان کی ناکیں کتنی لمبی ہیں اور دہن کتنے چھوٹے۔ ان کے متعلق کوئی بات بھی تو نہ تھی جو جمال نے تفصیل سے ایلی کو نہ بتائی تھی۔ صرف ایک عقدہ باقی تھا جو جمال حل نہ کر سکا تھا۔ اسے یہ معلوم نہ تھا کہ کون کونسی ہے اور اس بارے میں ایلی بھی اس کی مدد نہ کر سکتا تھا۔
میل کرانی
ایلی تو اس معاملے میں جمال کی مدد نہ کر سکتا تھا لیکن نہ جانے کیوں جمال اس بات پر مصر تھا کہ ایلی کے بغیر اسے گوریوں سے قرب حاصل نہیں ہو سکتا اور وہ اس خلوص اور یقین کے ساتھ بار بار یہ بات دہراتا رہا کہ ایلی کی بے تعلقی کے باوجود اس کے احساس کمتری کے باوجود ایلی سنجیدگی سے سوچنے لگا کہ کس طریقے سے وہ جمال کی آرزو پوری کر سکتا ہے۔ کئی ایک روز وہ سوچتا رہا لیکن کوئی بات اس کے ذہن میں نہ آئی۔ آخر ایک روز جب وہ نیم چھتی میں پڑا سلیمانی ٹوپی کے متعلق سوچ رہا تھا کیونکہ انہیں ایام میں اس نے ایچ جی ویلز کا ناول “ دی ان وزیبل مین “ ختم کیا تھا کہ دفعتاً اس نے آنکھ اٹھائی تو کھڑکی میں ارجمند کھڑا تھا۔ اس کے ایک ہاتھ میں پریم پتر تھا اور ہونٹوں سے پریم سندیس لگی ہوئی تھی۔ چند ایک ساعت تو وہ کرشن کنہیا کی طرح مسکاتی آنکھوں سے کھڑا مرلی بجاتا رہا پھر مرلی کو ہونٹوں سے الگ کر کے بولا۔
“ ارے نام روشن کرو نہ کرو پرنتو اپنے گرو کی لاج تو رکھ لو۔ ایک کلی میں کھو جائے بیٹا تو بھنورے کا کلیان نہیں ہوتا۔ دھرم پالن نہیں ہوتا۔“ نروان نہیں ملتا۔ کلی کلی پتر کلی کلی اور بیٹا کنہیا کے پردے کا دوار کھٹکھٹانا ہو تو ------“ ارجمند مسکرایا اور اس نے پتر والا ہاتھ آگے بڑھا دیا۔ “ پریم پتر۔ پریم پتر سے کواڑ کھل جاتے ہیں۔ مندر میں دیوتا براجمان ہو جاتا ہے اور پتر پہنچانا کیا مشکل ہے۔ تم نے تو اپنے گرو کا اپمان کر رکھا ہے۔“
ایلی اٹھ بیٹھا۔ پریم پتر وہ سوچنے لگا۔ پھر وہ کھڑکی میں جا کھڑا ہوا اور اس مکان کی طرف دیکھنے لگا جہاں گوریاں رہتی تھیں۔ اس نے اس مکان کی طرف کئی بار غور سے دیکھا لیکن اسے وہاں کوئی بھی تو جگہ نظر نہ آتی تھی جس کی راہ مکینوں کو دیکھا جا سکتا تھا۔ اس کی بیرونی دیواریں حصار کی طرح کھڑی تھیں۔ کھڑکیاں بند تھیں۔ وہ کھڑکیاں ہمیشہ ہی بند رہتی تھیں۔ کیونکہ اس جانب مکان کا پچھواڑا تھا۔ گلی سنسان پڑی تھی۔ نہ جانے وہ کتنی دیر تک وہاں کھڑا سنسان گلی کی طرف دیکھتا رہا۔ پھر مکان کا عقبی دروازہ کھلتے دیکھ کر وہ چونکا۔ نہ جانے کون ہے۔ ایک سیاہ فام ادھیڑ عمر کی عورت کو باہر نکلتے دیکھ کر اسے حیرت ہوئی۔ وہ کولہے مٹکاتی ہوئی ناؤ گھر کی جانب آ رہی تھی۔ ارے اس کے ہاتھ میں تو جھاڑو تھا۔ مہترانی ہے۔ بڑی مٹک مٹک کر چلتی ہے۔ ہائیں حیرت سے اس کا منھ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ مہترانی ناؤ گھر میں داخل ہو چکی تھی۔ ارے مہترانی ---- اسے یہ بات کیوں نہ سوجھی۔
“ ہوں “ سامنے درخت کے پتوں سے ارجمند جھانکنے لگا۔ “ بیٹا یہ تو انکرانیڈی کا پہلا سبق ہے۔ اسے مہترانی نہ سمجھو۔ اینٹ البحر میں اس کا نام “ میل کرانی“ ہے۔ جب تک اپنی جنم بھومی میں میل کرانی موجود ہے۔ بھنوروں کو غم کس بات کا۔“ پھر اس نے مرلی ہونٹوں سے لگا لی اور پریم ودیا میں کھو گیا۔
ایلی جانتا تھا کہ چند ایک منٹ بعد مہترانی نچلی منزل میں صفائی کرنے کے بعد اوپر آئے گی۔ چونکہ بیت الخلا اوپر ہی تھا۔ لیکن اس سے بات کرنا، ایلی میں اتنی جرات نہ تھی۔ اگر اس نے جواب میں الٹی سی بات کہہ دی، اگر اس نے شور مچا دیا تو جاہ کیا کہے گا، بھا لاحول پڑھے گا اور پھر اس سے کس انداز سے بات کی جائے، اونہوں یہ ایلی کے بس کا روگ نہ تھا۔ لیکن اسے خیال آیا بات کرنے میں تو جمال کا جواب نہ تھا، خصوصاً اس قسم کی بات۔ اس نے جلدی جلدی سلیپر پہنے اور چوبارے کی طرف بھاگا۔
“ میں نے کہا۔“ وہ چلایا “ وہ آ رہی ہے۔“
“ آ رہی ہے؟“ جمال نے حیرت سے اس کر طرف دیکھا۔ “ کون آ رہی ہے؟“
“ بھئی وہی۔“ ایلی نے کہا “ مہترانی۔“
“ مہترانی ----- ؟“ جمال نے پوچھا۔
“ ہاں ہاں ہماری مہترانی۔“
“ اچھا۔“ جمال کی باچھیں کھل گئیں۔ “ کیا وہ نوجوان ہے؟“
“ ارے نہیں یار۔“ ایلی نے غصے سے کہا۔
“ تو پھر“ جمال نے حیرانی سے پوچھا۔
“ ارے بھائی یہی مہترانی ان کے گھر کام کرتی ہے۔“
“ ان کے گھر؟“ جمال نے حیرت سے ایلی کرطرف دیکھا۔
“ گوریوں کے گھر۔“ وہ بولا۔
“ اچھا۔“ جمال نے خوشی سے تالی بجائی۔ “ کیا واقعی؟“
“ ہاں ہاں “ ایلی نے کہا۔
“ میں نے تو اسے کبھی دیکھا بھی نہیں۔“
“ تو دیکھ لو نا اور بات بھی کر لو۔“
“ بات؟ کیا بات کروں میں اس سے پوچھوں میں کون کونسی ہے۔“
“ تم بھی بیوقوف ہو۔“ ایلی نے سیانے کا پارٹ ادا کرنا شروع کر دیا۔
“ پہلے اس سے ادھر ادھر کی بات کرو، ویسے ہی گپ شپ اور اگر دیکھو کہ بات چیت کرنے والی ہے تو ----“ ایلی خاموش ہو گیا۔
“ تو کیا؟“
“ تو اسے کہو کہ تمہارا خط پہنچا دے ان تک۔“
“ خط؟“ جمال چلایا۔ اس کا چہرہ یوں چمکنے لگا جیسے کسی بچے کو نیا کھلونا مل جاتا ہے لیکن ایلی نے سیانوں کی طرح احتیاطی تدبیروں کی وضاحت شروع کر دی۔
“ لیکن آج ہی بھانڈہ نہ پھوڑ دینا۔ آج تو ٹٹولو اسے۔“
عین اس وقت سیڑھیوں میں مہترانی کے پاؤں کی چاپ سنائی دی۔
“ اچھا تو میں باہر کوٹھے پر جاتا ہوں۔ تم یہیں بیٹھے رہنا۔“
“ یہیں بیٹھا رہوں ----- “ ایلی کا دل ڈوب گیا۔ نہیں نہیں میں چلتا ہوں۔“
“ ارے نہیں۔“ جمال نے کہا “ مجھے اکیلا نہ چھوڑو۔“
“ اونہوں۔“ ایلی نے کہا “ ایسی باتیں اکیلے میں کی جاتی ہیں۔ اگر اسے معلوم ہو گیا کہ اندر کوئی سن رہا ہے تو اس پر لازم ہر جائے گا کہ اپنی پاکبازی کا ڈھونگ رچا بیٹھے۔“
“ سچ۔“ جمال نے کہا “بات تو ٹھیک ہے۔“
“ ہاں ہاں۔“ ایلی بولا۔ یہ کہہ کر وہ سیڑھیاں اترنے لگا۔ نیم چھتی کے دروازے کے قریب مہترانی آ رہی تھی۔ ایلی نے اسے دیکھ کر بظاہر آنکھیں جھکا لیں اور کنکھیوں سے دیکھنے لگا۔ ادھیڑ عمر کی عورت ہونے کے باوجود اس کا بانکپن واضح تھا۔ اس میں مرچیلا پن تھا اور نگاہ میں بےباکی کی جھلک تھی۔ گھبرا کر وہ نیم چھتی میں داخل ہو گیا۔ اس کا دل دھک دھک کر رہا تھا۔ نہ جانے کیا ہو گا اگر اس نے جمال کو تھپڑ مار دیا تو اگر۔۔۔ جاہ کیا کہے گا۔ جاہ کے ہونٹ حقارت سے کھل جائیں گے اور پال کی ناک سوج کر پکوڑہ ہو جائے گی اور وہ دونوں مل کر کہیں گے ہاں بھئی ایلی کا دوست تھا نہ وہ۔ ایسی حرکت کر دی تو کیا تعجب ہے۔
جب مہترانی چلی گئی تو جمال بھاگا بھاگا ایلی کے پاس آیا۔
“ یار “ وہ بولا “ وہ تو سمجھو پہلے سے ہی گرم ہے۔ محنت کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ تم تو مجھے خواہ مخواہ ڈرا رہے تھے۔“
“ کس طرح بات کی تھی تم نے“ ایلی پھر سے سیانا بن کر بیٹھ گیا۔
“ کچھ بھی نہیں، میں نے کہا تھا، جمعدارن اگر جو چوبارے کے سامنے کا کوٹھا بھی صاف کر دیا کرو تو کیا حرج ہے۔ تمہارا تو کچھ نہیں بگڑے گا اپنی بات بن جائے گی۔“
اس پر وہ تنک کر کہنے لگی “ دیتے تو کل دو روپے ہیں اور کہتے ہیں سارا گھر صاف کرو۔ واہ جی۔“
“ چلو کر دیا کرو۔“ میں نے ہنس کر کہا۔
“ نہ جی۔“ وہ بولی۔ “ اتنا سارا کام ہوتا ہے۔ زائد کام کرنے لگیں تو کھائیں کیا۔“
“ اچھا “ میں نے برا سا منہ بنا لیا “ تو مجھ سے بھی ایک روپیہ لے لیا کرو۔“ یہ کہہ کر میں نے ایک روپیہ جیب سے نکال کر دیوار پر رکھ دیا۔ میں نے سوچا جو ہتھیلی پر رکھا تو بدک نہ جائے۔ اس نے برا سا منہ بنایا اور چوبارے کے سامنے جھاڑو دینے لگی۔ پھر وہ آپ ہی آپ کہنے لگی۔ “ لو یہ تو چوبارہ بھی صاف نہین کیا کسی نے کبھی۔“
“ تو کیا میں خود جھاڑو دیا کروں۔“ میں نے ہنس کر پوچھا۔
اس پر ذرا مسکرائی، بولی “ اچھا تو میں کر دیتی ہوں صاف۔“ اس پر میں نے دہائی مچا دی۔
“ نہ نہ بابا۔“ میں بولا “ میں تو غریب آدمی ہوں ایک روپیہ اور کہاں سے دوں گا۔“ اس پر وہ بالکل ہی ہنس دی، بولی “ نہیں میں اور نہیں مانگتی۔“ لیکن میں نے اسے ایک اور روپیہ دے ہی دیا۔ میں نے کہا “ نہ بھئی تمہارا حق تو میں دے کر رہوں گا۔“ اور، اور ایلی میں نے دل میں کہا سالی اب تو رام ہو جائے گی نا۔ وہی ہوا۔ ہو ہنس ہنس کر مجھ سے باتیں کرتی رہی۔ اس کا نام گجری ہے۔ بچہ وچہ کوئی نہیں۔ میں سمجھتا ہوں بڑی گرم ہے۔ ایمان سے اور ہے بھی تو اچھی خاصی۔“ جمال کھجاتے ہوئے بولا۔
“ کیا گوریوں کی بات کی۔“ ایلی نے پوچھا۔
“ خود ہی تو منع کیا تھا تم نے اور اب خود ہی پوچھتے ہو مجھ سے۔“
“ اچھا کیا تم نے “ ایلی بولا۔
جمال ہنسنے لگا “ یار میرا خیال ہے کام بن جائے گا۔“
دوسرے روز ہی جمال ہنستا ہوا ایلی کے پاس آیا۔ “ میں نے کہا یار۔“ وہ بولا۔
“ مجھے ایک خط لکھ دو نا۔“
“ خط۔“ ایلی نے پوچھا۔ “ کیسا خط“
“ وہی خط۔“ جمال نے کہا۔ “ گجری مان گئی ہے۔“ وہ ہنستے ہوئے بولا۔
“ گجری؟“
“ وہی مہترانی۔ اس کا نام گجری ہے۔ کیا نام ہے، ہے نا۔“
“ مان گئی ہے۔“ ایلی نے دہرایا۔
خواہ مخواہ کا منشی
“ یہ سب تمہاری وجہ سے ہے۔“ جمال نے کہا۔ “ اگر تم یہ راستہ نہ سمجھاتے تو مجھے کبھی خیال ہی نہ آتا۔ مجھے معلوم تھا تم کچھ نہ کچھ کرو گے۔ تمہاری مدد کے بغیر یہ بیل منڈھے نہیں چڑھے گی ایمان سے۔“ اس نے ایلی کے شانے پکڑ لیے اور فرطِ محبت سے اس کی طرف دیکھنے لگا۔ “ اب لکھ دو نا ایک خط کل بھیجنا ہے۔“
“ میں لکھوں۔“ ایلی چلایا۔
“ اور کون لکھے گا۔“
“ تم خود لکھو نا۔“
“ نہیں یار میں اناپ شناپ لکھ دوں گا۔ پڑھ کر وہ کیا کہیں گی۔“
“ میں نے تو کبھی نہیں لکھا محبت کا خط۔“
“ نہیں یار۔“ جمال اس کی منتیں کرنے لگا۔ “ تم لکھ سکتے ہو۔ ایسی ایسی باتیں لکھو کہ وہ حیرت سے میری طرف دیکھنے لگیں۔“
اس روز سارا دن جمال ایلی کے گلے کا ہار بنا رہا۔ “ یار لکھ دو نا، لکھ دو نا یار۔“ ایلی کو سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا لکھے۔ اس نے زندگی میں صرف ایک محبت نامہ لکھا تھا۔ وہ بھی ارجمند کی مدد سے جو انہوں نے صبورہ کے جوتے میں رکھ دیا تھا۔ توبہ کتنا ہنگامہ ہوا تھا۔ جب بھی اس کا خیال آتا تو ایلی کو پسینہ آ جاتا تھا اور وہ خط تھا بھی تو بے حد واہیات۔ اس خط کے خیال سے ایلی کو بے حد شرمندگی محسوس ہوتی تھی۔ نہیں نہیں وہ سوچتا میں نہیں لکھوں گا۔ میں کیوں لکھوں؟ جسے کبھی دیکھا تک نہ ہو کیا اسے محبت نامہ لکھا جا سکتا ہے۔ نہ جانے وہ کون ہیں، کیسی ہیں اور پھر کیسی بھی ہوں، مجھے ان سے کیا لینا دینا۔ میں خواہ مخواہ میں کیا منشی ہوں ان کا۔ واہ۔ خواہ مخواہ کا منشی سمجھ رکھا ہے کای۔ لیکن ایلی کے دل کے کسی عمیق ترین کونے میں یہ آرزو چھپی بیٹھی تھی کہ وہ ان پُراسرار گوریوں کو خط لکھے۔ جو اتنی چٹی سفید تھیں۔ جو ہنسے جاتی تھیں، جن میں اس قدر جرات تھی۔ ایسا خط لکھے یہ وہ پاگل ہو کر باہر نکل آئیں۔ گلی کی کھڑکیاں کھول کر ان میں آ کھڑی ہوں اور، لیکن اس کے ذہن میں کوئی بات نہ آتی تھی۔
جمال مسلسل اصرار کئے جا رہا تھا “ لکھو نا یار۔“ ایلی کو لکھنے سے ڈر آتا تھا۔ چونکہ لکھنے کے لیےاس کے ذہن میں کچھ بھی تو نہ تھا۔ اس زمانے میں اس نے کئی ایک نظمیں اور غزلیں تو پڑھی تھیں اور کئی ایک تو اسے حفظ تھیں۔ مثلاً وہ تھی اکثر شبِ تنہائی میں کچھ دیر پہلے نیند سے، لیکن وہ تو گزری ہوئی دلچسپی کی یاد تھی۔ پھر وہ تھی مجھے تجھ سے عشق نہیں، نہیں لیکن یہاں تو عشق ہے، ہے کی ضرورت تھی۔ پھر وہ نظم تھی۔ ابھی تو میں جوان ہوں یا فرصت کی تمنا میں اور یا وہ خوبصورت نقش ماتھے پہ بندی آنکھ میں جادو۔
وہ سب موقعہ کی چیزیں نہ تھیں۔ اس روز اسے احساس ہو رہا تھا کہ شاعر کتنی بے موقعہ چیزیں لکھتے ہیں۔ نہیں، اس نے فیصلہ کیا۔ کیوں لکھوں۔ خود ہی لکھے وہ۔ وہ تو ہر ہفتے اپنی بیوی کو محبت نامہ لکھا کرتا ہے۔
“ نہیں نہیں۔“ جمال کہنے لگا۔ “ بیوی کو خط لکھنا اور ہوتا ہے۔ وہ چیز ہی اور ہے یار، تمہیں معلوم نہیں۔“ جمال پھر اس کی منتیں کرنے لگا۔
رات بھر ایلی سوچتا رہا لیکن اسے کوئی بات نہیں سوجھی۔ آخر تھک کر اس نے ایک پرزے پر ایک جملہ اور ایک شعر لکھا اور پھر سو گیا۔
صبح سویرے ہی جمال نے اسے آ جگایا۔ “ لکھ لیا یار۔“ وہ بولا۔
“ ہاں “ ایلی نے وہ پرزہ سرہانے سے نکال کر اسے دے دیا۔
“ ارے “ جمال چلایا۔ “ بس اتنا۔“
دفعتاً سیانا بیدار ہوا۔ “ اور کیا۔ “ ایلی نے کہا‘ “ بھی پہلی مرتبہ تو لمبے قصے نہیں چلتے۔“
“ واہ “ جمال نے کہا “ پہلی مرتبہ ہی تو اثر ڈالنے کی ضرورت ہوتی ہے۔“
“ تم تو پاگل ہو۔ پہلی مرتبہ تو صرف دیا سلائی دکھائی جاتی ہے۔ آگ تو بعد میں لگانی چاہیے۔ تمہیں کیا معلوم۔“
“ اچھا یار۔“ جمال کا جوش ٹھنڈا پڑ گیا۔ “ تم جو کہتے ہو تو ٹھیک ہی ہو گا۔“
“ تم پڑھو تو سہی۔“ ایلی نے کہا۔ جمال اسے پڑھنے لگا۔
“ گوریو کچھ کہو کچھ سنو۔ یوں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھی ہو۔ واہ۔“
“ ارے۔“ جمال چلایا، “ اس میں تو شعر بھی لکھا ہے تم نے۔
یہ ہے دامن یہ گریباں آؤ کوئی کام کریںموسم کا منہ تکتے رہنا کام نہیں دیوانوں کا
جمال نے کہا۔ “ اس مطلب کیا ہوا؟“
“ تم چھوڑو مطلب وطلب کو۔ “ ایلی نے کہا “ تمہیں آم کھانے ہیں، پیڑ گننے سے کیا کام۔“
“ اچھا۔“ وہ جوش میں کھجانے لگا اور پھر بولا “ اچھا یار میں یہ نقل کر کے بھیج دوں گا۔ تو سچ کہتے ہو پہلے خط میں لمبی بات نہیں ہونی چاہیے۔ یار ایلی اگر تم نہ ہو تو یہ باتیں مجھے کون بتائے۔“ جمال نے فرطِ محبت اور انبساط سے ایلی کے شانے پکڑ کر جھنجھوڑا۔ “ اچھا میں اب جا کر لکھتا ہوں۔ ایسا اچھا کاغذ اور لفافہ خرید کر لایا ہوں میں کہ دیکھ کر طبیعت خوش ہو جائے اور پھر سینٹ کی شیشی بھی۔ معطر کر کے بھیجوں گا۔“
“ ارے رے رے ایسا نہ کرنا۔“ ایلی چلایا۔
“ کیوں “ جمال گھبرا گیا۔
“ میرے یار تو پٹوا کر رہے گا اپنی گوریوں کو۔“
“ کیوں “
“ ایک تو پرزے پر لکھنا۔ معمولی سے پرزے پر اور وہ کٹا ہوا نہ ہو بلکہ پھٹا ہوا ہو۔ اور دوسرے لفافے میں نہ ڈالنا۔“
“ وہ کیوں “
“ بھئی اگر کسی کے ہاتھ بھی لگ جائے تو خط معلوم نہ ہو۔“
“ اچھا ----- “ جمال کے چہرے پر مایوسی چھا گئی۔ “ اور وہ سینٹ اور لفافے۔“
“ جب بات چل نکلے گی۔ تب، اب کی بار تو پرزہ ہی تھما دو۔“
“ اچھا یار “ کہہ کر جمال چلا گیا۔ لیکن اسے ایلی کی یہ بات اچھی نہ لگی۔
اگلے روز جمال فاتحانہ انداز سے داخل ہوا۔ اس کے ہاتھ میں ایک رنگین لفافہ تھا۔ “ یہ دیکھو “ اس نے گلابی لفافہ دکھایا۔ جس پر سنہری لکیر لگی ہوئی تھی۔ پھر جھٹ سے چھپا لیا۔
“ دیکھا “ وہ بولا۔
“ ہوں “ ایلی نے بے تعلقی سے کہا۔ “ اب تو خوش ہو نا۔“
“ اور کیا تم نہیں۔“ اس نے مضطربانہ انداز سے پوچھا۔
“ مجھے اس میں نہ گھسیٹو۔“ ایلی نے کہا۔
“ کیوں “
“ اونہوں “
“ میں نے کہا “ جمال چمک کر بولا “ وہ دو ہیں اور اگر تم بھی میدان مٰن آ جاؤ تو۔ اگرچہ میرا دل نہیں چاہتا کہ کسی کو بھی ہاتھ سے جانے دوں ایمان سے کہتا ہوں ایلی۔ نہ جانے کیا ہے مجھے۔ میرا جی چاہتا ہے کہ دونوں سے عشق لڑاؤں۔“
“ تو لڑاؤ۔“ ایلی نے ہنس کر کہا۔
“ تم نے برا تو نہیں مانا ---“
“ نہیں تو۔“
“ لیکن یار تمہارا درمیان میں ہونا ضروری ہے۔“
“ وہ تو میں ہوں ہی۔“ ایلی نے کہا۔ “ ہے نا۔“
“ ہاں ہو تا سہی لیکن اس ہونے اور اس ہونے میں بڑا فرق ہے۔“
“ وہ ہونا مجھ سے نہ ہو سکے گا۔“
“ لیکن کیوں۔“ جمال تڑپ کر بولا۔
“ مجھے کوئی دلچسپی نہیں۔“
“ آخر کیوں نہیں؟“
“ معلوم نہیں۔“ ایلی نے آہ بھر کر کہا۔ اس وقت اس کے سامنے شہزاد کھڑی تھی۔
“ عجب آدمی ہو تم بھی۔“
“ جو ہے حاضر ہے کیا کیا جائے۔“
“ یہ دیکھو کیا لکھا ہے انہوں نے۔ یار بڑی جرات ہے ان میں اور پھر ایلی ----- “ وہ رک گیا۔
“ ہوں “
“ وہ تو بڑی اونچی باتیں کرنے والی معلوم پڑتی ہیں۔ اپنے لیے بڑی مشکل ہو جائے گی۔“
“ تو کیا میں نے کہا تھا کہ اونچی باتیں کرنے والیوں سے عشق لگا لو۔ اب جو لگایا ہے تو نبھاؤ۔“
“ لیکن خط تو تمہیں ہی لکھنا ہو گا نا۔“
“ نہ بھئی یہ بات مشکل ہے۔“ ایلی نے کہا۔
جمال نے برا سا منہ بنا کر لفافہ ایلی کے سامنے رکھ دیا۔ لفافے کے اوپر لکھا تھا “ سنہرے بالون اور شریر آنکھوں کے نام
“ کیوں بھئی سنہرے بال۔“ ایلی نے جمال سے کہا۔ “ آنکھوں سے شرارتیں کرتا ہے اور قلم اٹھانے سے ڈرتا ہے۔ “ ایلی نے یہ کہتے ہوئے لفافے مین سے کاغذ نکالا۔ لکھا تھا “ ہم سنتی ہیں، آپ کہیں، موسم تو الٹا موزوں ہے۔“
“ ارے “ ایلی تعجب سے چلایا۔ “ بڑا چست جواب دیا ہے۔“
“ ہو گا ہمیں تو یار سست کر دیا اس جملے نے۔ اب اس کا جواب کون لکھے گا۔ مجھے تو سمجھ میں نہیں آتا کچھ اور تم پلو چھڑا رہے ہو۔“ جمال بولا۔
“ ہاں بھئی “ ایلی نے جواب دیا۔ “ یہ تو بڑی مشکل پڑ گئی۔ میرا خیال تھا کوئی سیدھی سادی بات لکھیں گی۔“
“ تم نے شروع میں بات الٹی چلائی ہے۔ اب تم ہی سنبھالو گے تو سنبھلے گی۔ اپنا کام تو بھائی اس وقت شروع ہو گا جب آمنے سامنے کھڑے ہوں گے۔“
“ اس کے جواب میں تو عام محبت نامہ نہیں لکھا جا سکتا۔“ ایلی نے کہا۔
“ تو بھائی لکھو جو جی میں آئے لکھو۔“ جمال بولا۔
“ لیکن مختصر ہی ہو سکتا ہے۔“
“ مختصر ہی سہی یار، تم لکھو تو۔ بات رک نہ جائے۔“
“ اچھا “ ایلی نے کہا “ لکھ دوں گا۔“
جمال کے چہرے پر بشاشت دوڑ گئی۔
اس کے بعد اس کا معمول ہو گیا۔ ایلی سوچ سوچ کر دو ایک چست اور چمکیلے جملے گڑ کر جمال کو دے دیتا۔ جمال رنگین معطر کاغذ پر انہیں نقل کر دیتا اور پھر گجری کے انتظار میں بیٹھ جاتا۔ جب دوپہر ڈھلنے لگتی تو جمال چوبارے سے نکل کر برساتی میں جا بیٹھتا چونکہ برساتی سے وہ انہیں دیکھ سکتا تھا۔ پھر شام تک وہ ایک دوسرے سے اشارے کرتے رہتے۔ اگلے روز صبح سویرے ہی وہ دونوں جمال اور ایلی بے صبری سے جواب کا انتظار کرتے اور پھر اسے پڑتے، سمجھنے کی کوشش کرتے۔
“ ارے یہ تو فارسی کے شعر لکھتی ہیں۔“ ایلی نے دوسرے خط پر شور مچا دیا۔ وہ فارسی میں کورا تھا۔ “ اب بتاؤ “ وہ بولا “ اب تو کسی مولانا کو ساتھ ملانا پڑے گا ورنہ نہ ہماری سمجھ میں آئے گا نہ جواب سوجھے گا۔“
“ میں بتاؤں۔“ جمال کہنے لگا۔“ ایک لغت کیوں نہ خرید لیں۔“
“ تو کیا میں سارا دن معانی دیکھتا رہوں گا۔“
“ بھا سے پوچھ لیا کرنا۔ اسے کیا معلوم کہ خط میں لکھا آیا ہے شعر۔“
تیسرے خط میں گوریوں نے سنہرے بالوں شریر آنکھوں تانک جھانک اور ان اشاروں کے متعلق جو جمال کیا کرتا تھا، ایک نظم لکھ بھیجی۔
“ ارے “ ایلی چلایا “ یہ تو شاعر بھی ہیں۔ اب بولو۔“ لیکن اس کے باوجود ایلی کو ان کے خطوط کے جواب لکھنے میں مزا آنے لگا تھا۔ وہ ہر بات میں نکتہ پیدا کرتی تھیں اور ہر لطیف سے لطیف اشارے کو خوب سمجھتی تھیں۔
“ نہیں یار۔“ جمال گھبر گیا۔ “ تمارا ان سے تعارف کرائے بغیر کام نہ چلے گا۔ یہ تو اب کرنا ہی ہوگا۔ آج ہی سہی۔“
کال کلوٹا
ایلی نے دو ایک بار تو انکار کیا۔ پھر خاموش ہو گیا۔ دراصل دل ہی دل میں وہ چاہتا تھا کہ ان کو دیکھے۔ ان کے قریب تر ہو جائے۔ وہ چاہتا تھا کہ جمال زبردستی اسے کھینچ کر ان کے سامنے لے جائے۔
اس لیے اس روز دوپہر ڈھلنے کے وقت جمال ایلی کے انکار کے باوجود اسے کھینچتا ہوا برساتی میں لے گیا تو اس نے سرسری ضد کرنے کے علاوہ کچھ نہ کیا۔ حتٰی کہ وہ ان کھڑکیوں کے سامنے کھڑا ہو گیا۔
“ وہ سامنے مکان کی عقبی دیوار ہے نا۔“ جمال اسے سمجھانے لگا۔ “ اس میں اینٹوں کی جالی بنی ہے۔ یہ جالی ان کی سیڑھیوں میں ہے۔ جالی کے عین سامنے دروازہ ہے۔ جس کے پرے ان کیا کوٹھا ہے۔ دروازہ کھلا ہو تو جالی میں سے صاف دکھائی دیتا ہے اور اگر بند ہو تو جالی اندھی ہو جاتی ہے۔ لو دیکھو۔“ اس نے ایلی سے کہا۔ “ وہ سامنے کھڑی ہے ایک حرامزادی مارک ٹائیم کر رہی ہے۔ بڑی شریر ہیں یہ۔“ جمال ہنسنے لگا۔
پھر جمال نے عجیب سے اشارے کرنے شروع کر دیئے۔ ایلی کے کندھوں پر بازو رکھ کر اسے اپنے قریب تر کھینچ لیا۔ وہ اشاروں کی مدد سے گوریوں کو سمجھانے لگا۔ یہ میرا عزیز ترین دوست ہے۔ اس میں اور مجھ میں کوئی فرق نہیں۔
ایلی کو بھی دھندلی دھندلی اشکال دکھائی دینے لگی تھیں۔ جیسے فضا میں دھبے سے تیر رہے ہوں۔
دفعتاً جمال چلایا۔ “ ارے انہوں نے دروازہ بند کر لیا۔“
ایلی نے دیوار کی جالی کی طرف دیکھا۔ وہاں تو مسلسل دیوار کھڑی تھی۔ “ یہ کیا حماقت ہے۔ جمال چلایا۔
“ چھوڑو یار“ ایلی بولا ------ وہ ہاتھ چھڑا کر نیم چھتی میں جا بیٹھا۔
اگلے روز غیر متوقع طور پر گجری گوریوں کا خط لائی۔ حالانکہ اس روز جمال نے خط بھیجنا تھا۔ لکھا تھا۔
“ کل آپ ایک کال کلوٹے کو کھینچ کھینچ کر ہمارے سامنے لا رہے تھے۔ یہ کیا حماقت ہے۔ آپ نے ہمیں سمجھا کیا ہے۔ آئندہ سے ایسی حرکت نہ فرمائیے گا۔“
ایلی خط پڑھ کر قہقہہ مار کر ہنسا “ دیکھا “ وہ غصے میں چلانے لگا “ تم کہتے تھے میں تمہارا تعارف کرا کے رہوں گا۔ ہونہہ ہو گیا نا تعارف۔“ اس نے جمال کو ڈانٹا اور پھر ہنسنے لگا۔ لیکن دو ایک قہقہے لگانے کے بعد دفعتاً اس نے محسوس کیا کہ اس کا دل بیٹھ رہا ہے۔ آنکھوں تلے اندھیرا چھا رہا ہے۔
رات کو جب وہ نیم چھتی میں لیٹا ہوا تھا تو سیڑھیوں میں شہزاد کھڑی تھی۔ وہ مسکرا رہی تھی۔ “ یوں گہری سوچ میں ڈوبنے سے فائدہ؟ فکر کرنے یا غم کھانے سے تم گورے تو نہ ہو جاؤ گے۔“
“ تمہیں کیا“ ایلی نے کھڑکی کی طرف منہ موڑ لیا۔ لیکن اسے احساس تھا کہ وہ وہیں کھڑی ہے، ویسے ہی مسکرا رہی ہے۔
کھڑکیوں کے عین مقابل میں سہ منزلہ بلڈنگ میں گوریاں قہقہے لگا رہی تھیں۔ “ کال کلوٹا“ ایک قہقہہ مار کر ہنسی “ اونہوں “ دوسری نے برا سا منہ بنایا۔ “ نہیں چاہیے نہیں چاہیے۔“
“ انہیں کیا معلوم “ سیڑھیوں میں شہزاد بولی۔
“ سنہرے بال، شربتی آنکھیں۔“ سہ منزلہ بلڈنگ سے کوئی چلائی۔
“ تم ان کی باتیں نہ سنو ایلی۔“ سیڑھیوں میں کسی نے آہ بھری۔ “ ابھی میلے پر جانے کا چاہ ہے۔ رنگ روپ کا دور ہے نا۔“
ایلی نے تڑپ کر سیڑھیوں کی طرف دیکھا “ کیا تم رنگ روپ میں مدہوش نہیں ہو۔ کیا تم میلے پر جانے جے لیے بیتاب نہیں ہو۔ بھول گئیں جب گانے کے لیے جاتی تھیں۔ یہ بری دیکھنے کے لیے بلاوہ آیا تھا۔“
“ تمہارا غصہ نہیں گیا ابھی “ وہ بولی۔ “ اچھا “ اس نے سر جھکا کر کہا۔ “ آخر آؤ گے ہی نا۔ کب تک بھاگے بھاگے پھرو گے۔ کب تک۔“ یہ کہہ کر وہ چل پڑی۔
ایلی تڑپ کر اٹھ بیٹھا۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ شہزاد کا پلو کھینچ لے، چلا چلا کر کہے “ نہیں نہیں مجھے ساتھ لے جاؤ۔ شہزاد میں بھاگ بھاگ کر اکتا چکا ہوں۔ بھگوڑے کو گھر لے چلو۔“ مگر وہ جا چکی تھی۔
اگلے روز صبح سویرے ایلی اپنے سوٹ کیس میں کپڑے لگا رہا تھا۔ ساماں اکٹھا کر رہا تھا۔ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے بھا نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا۔ “ کہیں جا رہے ہو ایلی ----؟ بھا نے پوچھا۔
“ نہیں تو۔“ ایلی چونک کر بولا۔
“ اچھا۔“ بھا نے کہا۔ “ چیزیں جو اس طرح سنبھال رہے تھے میں سمجھا۔۔۔۔“ یہ کہہ کر بھا اوپر چلا گیا۔ دفعتاً ایلی کو خیال آیا جیسے اسے کوئی بھولی ہوئی بات یاد آ گئی ہو۔ “ ہاں۔“ وہ بولا “ میں جاؤں گا۔ میں جاؤں گا۔ مجھے جانا ہی ہو گا۔ وہ میر انتظار کر رہی ہے۔ وہ مجھ سے مایوس ہو جائے گی تو ------ وہ کیا کہے گی۔ کیا کہے گی وہ نہیں نہیں میں جاؤں گا۔“ ۔۔۔۔۔۔ “ کہاں جاؤ گے۔؟ جمال نے داخل ہو کر پوچھا۔
“ علی پور جاؤں گا۔“ ایلی نے جواب دیا۔
“ ارے ارے نہ بھائی۔“ جمال چلایا۔ “ تم چلے گئے تو سارا معاملہ چوپٹ ہو جائے گا۔“
“ کون سا معاملہ؟“
“ وہی معاملہ اور کون سا۔ بڑی مشکل سے چالو ہوا ہے۔ یار اب اسے آدھے رستے چھوڑ کر نہ چلے جانا۔“
“ آدھے رستے کیوں۔“ ایلی نے غصے میں کہا۔ “ اب تو بات چل پڑی ہے۔“
“ نہ بھئی۔“ جمال نے اسے فرطِ محبت سے آغوش میں لے لیا۔ “ ابھی تو بات شروع ہوئی ہے۔“
“ تو کیا میں اسے چلانے کا ذمہ دار ہوں۔“
“ نہیں بھئی۔“ جمال ہنسنے لگا۔ “ ذمہ دار تو نہیں لیکن یار اگر نیا پار لگا دو تو یاد کروں گا ساری عمر۔ بس ایک مرتبہ ملاقات ہو جائے پھر میں سنبھال لوں گا۔ پھر چاہے چلے جانا۔“
نہیں بھئی۔ ایلی چلایا۔ جب انہیں دخل اندازی نا پسند ہے تو۔۔۔۔۔۔۔۔
اونہوں۔جمال بولا۔ انہیں کیا پتہ کہ یہ دخل اندازی نہیں وہ تمہارے قدر کیا جانیں مجھ سے پوچھو یار۔ اپنی قدر و منزلت مجھ سے پوچھو۔
ایلی خاموش ہو گیا۔
نہ جانا۔ خدا کے لئے۔ جمال نے اس کی منتیں کرنا شروع کر دیں۔ کچھ دن ٹھہر جاؤ پھر چلے جانا۔ میں تمہیں نہیں روکوں گا۔
سیڑھیوں میں شہزاد امید بھری نگاہوں سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ وہ چپ چاپ کھڑی تھی۔ چپ چاپ۔ اس کی نگاہ میں حسرت کی جھلک تھی۔ ہونٹوں میں گویا سسکی دبی ہوئی تھی۔
جمال کی نگاہ میں منت تھی۔ عین اس وقت بھا اوپر سے آگیا۔ کیا ہو رہا ہے؟ اس نے سرسری طور پر جمال سے پوچھا۔
ایلی گھر جانے کی تیاری کر رہا ہے۔ وہ بولا۔ میں کہتا ہوں نہ جا۔
بھا ہنسنے لگا۔ مجھے بھی یہی خیال پیدا ہوا تھا۔ میں سمجھا ایلی جا رہا ہے۔ لیکن وہ نہیں جا رہا۔ چاہے توپوچھ لو۔
ارے۔ جمال چلایا۔تم نہیں جا رہے۔
نہیں۔ ایلی نے کہا۔
اچھا یار؟۔ جمال نے فرط انبساط سے ایلی کے شانے پر زور سے ہاتھ مارا۔ تم تو کہ رہے تھے۔ جا رہا ہوں۔
ویسے مذاق میں کہا ہوگا۔ بھا مسکرایا اور سیڑھیاں اترنے لگا۔
تمہارا بھی کوئی پتہ نہیں چلتا، جمال خوشی سے چلانے لگا۔ تم بڑے ہی پیارے ہو لیکن مجھے تنگ کرتے ہو۔ یار بہت تنگ کرتے ہو۔ میں پہلے ہی تنگ ہوں۔ وہ کھجانے لگا۔ تم جلتی پر تیل چھڑک کر تماشہ دیکھتے ہو۔ ہے نا۔ اس نے قہقہہ لگایا۔ بڑے تماش بین ہو۔
ارے۔ وہ دفعتا چلایا۔ ہمیں تو ان کے خط کا جواب دینا ہے۔
تو دو نا۔ ایلی نے کہا۔ اب میں کال کلوٹے کے بارے میں کیا لکھوں۔
یار تم اپنی طرف سے ایک خط کیوں نہیں لکھتے۔
کیا فائدہ۔۔
بڑا مزہ رہے گا اور پھر تم بھی ہمارے ساتھ شامل ہو جاؤ گے۔
مجھے کوئی دلچسپی نہیں۔ ایلی نے کہا۔ پھر کس حیثیت سے لکھوں۔
برادرانہ طور پر لکھ دو۔
کیوں؟ ایلی نے غصے سے کہا جیسے جمال نے اس کی توہین کر دی ہو۔
میں بھی لکھتا ہوں۔ تمہارے متعلق وضاحت کر دوں گا۔ لیکن یار تم میرا لکھا صحیح کر دینا مجھے نہیں آتا خط لکھنا۔ ٹھیک ٹھاک کر دینا۔ بے عزتی نہ ہو جائے کہیں۔
اگرچہ بظاہر ایلی خط لکھنے پر آمادہ نہ تھا لیکن دل میں شاید اسے بہت خوشی ہو رہی تھی کہ اپنی طرف سے خط لکھنے کا موقعہ ملا۔ رومانی خط تو وہ لکھ نہیں سکتا تھا چلو مزاحیہ ہی سہی۔ کسی نہ کسی طور پر وہ اپنی شخصیت کا اظہار تو کر سکے گا۔ شاید اس کے دل کی گہرائیوں میں کال کلوٹا کا کانٹا لگا ہوا تھا اور وہ چاہتا تھا کہ ان پر اس حد تک اثر انداز ہو کہ اس کانٹے کا گھاؤ بھر جائے یا شاید یہ کہ انہیں بھی کانٹا لگ جائے۔
بہر حال پہلا خط جو ایلی نے لکھا بے حد مختصر تھا گوری سانورے کنائی توری سدھ بسرائی۔
جمال نے اپنے خط میں ایلی کی عظمت کے گن گائے ہوئے تھے۔ ایلی کے بغیر میں ادھورا ہوں اس کی مدد کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا۔ خدا کے لئے اس سے ایسا سلوک نہ کرو۔ وہ میرا دوست ہے۔ بہت گہرا دوست۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایلی کو گوارا کر لیا گیا اور گوارا بھی نہیں بلکہ ہر بار دو چھٹیاں موصول ہوتیں۔ ایک سنہرے بالوں کے نام اور دوسری میں کال کلوٹے سے مذاق کیے جارے اور آج کی فلموں کی طرح اس پریم کتھا میں جو چوباروں اور چھتوں پر کھیلی جا رہی تھی۔ ہیرو کے ساتھ ایک مسخرا بھی شامل کر لیا گیا۔ لیکن ادھر وہ دونوں گوریاں ہیروئن ہی رہیں۔ بلکہ جمال اور ایلی پر یہ عقدہ نہ کھلا کہ ان کو خطوط کون لکھتی ہے اور وہ خطوط دونوں کی جانب سے لکھے جاتے تھے یا ایک کی۔
البتہ اتنا ضرور ہوا کہ جمال کو معلوم ہو گیا کہ کون کون سی ہے۔ اسے یہ بھی علم ہو گیا کہ چھوٹی بے حد شریر ہے۔ اس کا چہرہ ہنستا چہرا ہے اور بڑی کی شکل کتابی ہے اور اس کے انداز میں غم کی جھلک ہے۔
کوٹھے پر ان کے روبرو آزادانہ آنے جانے کے باوجود ایلی کے لئے وہ دونوں دھندلے سے دھبوں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی تھیں۔ کوشش کے باوجود وہ ان کے خدوخال نہ دیکھ سکا تھا نہ ہی اسے معلوم تھا کہ کون کونسی ہے نہ ہی اسے اس میں کوئی دلچسپی تھی۔ کئی مرتبہ جب ایلی یہ سمجھتا کہ ان میں سے ایک سامنے آئی ہے تو جمال شور مچا دیتا۔
اونہوں مت دیکھو۔ ہٹ جاؤ۔ یہ تو کوئی اور ہے۔ شاید ان کا بھائی ہے۔ اس پر ایلی گھبرا جاتا اور کئی بار جب وہ سامنے آتیں تو ایلی سمجھتا کہ ان کا بھائی آگیا ہے۔ غالبا اسی وجہ سے وہ سامنے کھرا نہ ہوتا تھا کہ اپنی کوتاہ نظری کی وجہ سے ان جانے میں کوئی فتنہ نہ کھڑا کردے اور ویسے بھی اس کی حیثیت کال کلوٹے کے سوا کیا تھی۔
شاید اس ایک لقب یعنی کال کلوٹے کی بنا پر۔ گوریوں کو روزانہ محبت بھرے خطوط لکھنے کے باوجود اور ان کے رنگین اور رومان بھرے خطوط موصول کرنے کے باوجود وہ ان سے کوئی خاص دلچسپی محسوس نہ کر سکا۔
وہ مالم نہیں
پھر دفعتا ایک عجیب واقعہ رونما ہوا جس کی وجہ سے ناؤ گھر میں ہلچل مچ گئی۔ ایک روز جب وہ کالج سے لوٹنے کے بعد کھانا کھانے میں مصروف تھے تو ان کا نوکر گاما اندر داخل ہوا۔ حسب معمول اس کی باچھیں کھلی ہوئی تھیں آنکھوں میں وہی خصوصی بے بسی تھی۔
جی جی۔ وہ بولا۔
جی جی۔ جاہ نے ازراہ مذاق دہرایا۔
یعنی۔ پال بولا۔ یہ تمہید ہے اور گاما میاں بات کرنے کے موڈ میں ہیں۔
جی جی۔۔۔۔۔۔گاما نے دانت نکالے جیسے پال کی بات پر خوشی کی لہر دوڑ گئ ہو۔ اسے دیکھ کر مجھے ڈکنز یاد آتا ہے۔ جاہ نے کہا۔
کیوں گامے کیا بات ہے۔۔؟ بھا نے پوچھا
جی۔۔۔۔۔گاما کی باچھیں از سر نو کھل گئیں۔
اتنی جلدی بات بتانے کا قائل نہیں ہے یہ۔ بھا ہنسنے لگا۔ سسپنس پیدا کرنے میں صاحب کمال ہے۔ گویا دور حاضر کا شیکسپئر ہے۔
جی۔ گاما پھر ہنسا۔
اسے بات بھی کرنے دو۔ بھا نے کہا۔ ہاں گامے۔
جی وہ آئے تھے۔ جی ہاں۔۔
کون آئے تھے۔۔؟ بھا نے پوچھا۔
وہ، اور کون۔۔پال بولا۔
کون آئے تھے؟ بھا نے اپنا سوال دہرایا۔
جی مالم نہیں کون۔ گاما نے کہا۔
ہے اس کا کوئی جواب۔ جاہ ہنسنے لگا۔
کس سے ملنے آئے تھے۔؟بھا نے پوچھا۔
جی۔ گاما شرما کر بولا۔ جی مالم نہیں۔
حد ہوگئی۔ بھا ہنسی ضبط نہ کر سکا۔
سیدھی سی بات تو ہے معلوم نہیں آئے تھے معلوم نہیں کس سے ملنے آئے تھے۔
وہ کہتے تھے۔ گامے نے کہا۔ ہمیں اس سے ملنا ہے۔
کس سے۔؟بھا نےپوچھا۔
سنہرے بالوں سے۔گاما نے جواب دیا۔
سنہرے بالوں سے۔ بھا کے منہ کا نوالہ اڑ کر باہر نکل آیا۔
جی وہ کہتے تھے۔ گاما نے بات کی وضاحت کی۔ جن کے بال سنہرے ہیں، ان سے ملنا ہے۔ ایلی کا منہ فق ہوگیا۔
کیوں بھئی کس کے بال سنہرے ہیں؟ جاہ نے حاضرین کو مخاطب کرکے کہا۔ میرے تو بھئی گہرے بھورے ہیں پال کے سیاہ ہیں اور ایلی تمہارے۔اونہوں تمہارے بھی سنہرے نہیں اور وہ جمال۔
ہاں۔ بھا نے کہا۔ اس کے شاید سنہرے ہوں۔
وہ آیا نہیں آج۔ جاہ نے ایلی سے پوچھا۔
میٹنگ میں بیٹھا تھا۔ ابھی آجائے گا۔ ایلی نے جواب دیا۔
اچھا بھئی۔ جاہ پھر ہنسنے لگا۔ اگر اس کے بال سنہرے ہوں تو اسے بتا دینا کہ معلوم نہیں اس سے ملنے آئے تھے۔
جی وہ پھر آئیں گے۔ گاما بولا۔ کہتے تھے ہم پھر آئیں گے۔
اس معلوم آنے والے کا واقعہ سن کر جمال بے حد مضطرب ہو گیا۔
کیا واقعی۔ وہ چلایا۔ یار حد ہو گئی۔ مگر وہ تھا کون؟
مجھے کیا معلوم۔ ایلی نے کہا۔
شاید انہوں نے بھیجا ہو۔ جمال نے کھجاتے ہوئے کہا۔
سنہرے بالوں سے تو یہی معلوم ہوتا ہے۔
لیکن یار۔ جمال مضطربانہ انداز سے کہنے لگا۔ یہ لوگ کیا کہیں گے۔ انہیں شک نہ پر گیا ہو۔ تمہارے جاہ سے تو ڈر لگتا ہے۔ تو کیا وہ پھر آئے گا۔
ہاں۔ا یلی نے جواب دیا۔گاما نے تو یہی کہا تھا۔
تو پھر کیا کریں ایلی۔ جوش میں جمال اس سے لپٹ گیا۔
اس روز شام کو برساتی میں کھڑے ہو کر جمال نے گوریوں سے پوچھنے کی کوشش کی کہ کیا انہوں نے کسی کو بھیجا تھا۔ لیکن اشارہ کرنے میں جمال اس قدر بھونڈا دکھائی دیتا تھا کہ ہاتھ ہلاتے وقت وہ سرکس کا جوکر معلوم ہوتا۔ وہ دیوانہ وار اشارے کرتا رہا اور ساتھ ہی ایلی سے پوچھتا تھا۔
ارے یار یہ اشارہ تو بہت مشکل معلوم ہوت اہے۔ کیسے پوچھوں ان سے۔ ادھر گوریاں اس کے اضطراب پر ہنسے جا رہی تھیں، مسلسل ہنسے جا رہی تھیں۔
مغرب کے وقت نیچے دروازے پر دستک سن کر ایلی چونک کر اٹھ بیٹھا۔ کبھی کسی نے ناؤ گھر کے دورازے پر دستک نہ دی تھی۔ دستک نہ دی تھی۔ دستک دینے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ وہاں کیا پردہ دار لوگ بستے تھے۔ وہ تو ایک لاج تھا۔ جو بھی آتا دستک دیئے بغیر سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آجاتا۔
ایلی نے کھڑکی سے نیچے جھانکا۔ دروازے پر کوئی کھڑا تھا۔ پھر وہ دیوانہ وار سیڑھیاں اترنے لگا۔ کہیں گاما نہ جا پہنچے اور سنہری بالوں کا بھید نہ کھل جائے ایلی جاہ سے ڈرتا تھا۔ اس کی طنز آمیز بات سے ڈرتا تھا۔ جاہ کہے گا۔ ہوں تو کوتھے پر پریم ودیا کھلی پری ہے۔ سنہرے بالوں اور گوریوں کا میل ہوتا ہے اور ایلی تم مسخرے کا پارٹ ادا کر رہے ہو۔ رازداں مسخرا بھئی واہ کیا رول ہے۔ بھئی ہمیں تو کھیل کھیلنا نہ آیا کبھی۔ بہتیرا سر پٹخا۔ اونہوں اپنے دماغ میں یہ خانہ سرے سے خالی ہے۔ یہ تو صبر اور تحمل کا کھیل ہے کنڈی پر کینچوا لگایا اور ڈوری پھینک کر بیٹھ رہے۔ نہ بھئی اپنے میں اتنا صبر کہاں۔ اونہوں۔
شام کے دھندلکے میں ایلی اچھی طرح سے اجنبی کا جائزہ نہ لے سکا جو ناؤ گھر کے دروازے پر کھڑا تھا۔ سر پر ٹوپی تھی۔ ایک بے ڈھب کا کوٹ پہن رکھا تھا اور ساتھ شلوار۔ انداز سے ظاہر تھا جیسے وہ کھو گیا ہو۔ اس لئے مضطرب ہو۔ جی فرمائیے۔ ایلی نے کہا۔
اجنبی نے ماتھے پر ٹوپی سرکا لی اور پھر دونوں ہاتھ کولہوں ہو رکھ کر کھڑا ہوگیا اور ایلی کی طرف دیکھے بغیر خالی سیڑھیوں کی طرف گھورنے لگا۔
آپ کس سے ملیں گے۔ ایلی نے پوچھا۔
جواب میں وہ دیر تک خاموش رہا۔ پھر دفعتا بولا۔ ہم ملیں گے۔
کس سے ملئے گا۔۔؟ ایلی نے دوبارہ پوچھا۔
وہ۔ وہ۔ گھبرا کر وہ ٹہلنے لگا۔ وہ اسی گھر میں رہتے ہیں۔ پھر اس نے ایک نظر چوبارے کی طرف دیکھا اور بولا۔ ہاں یہیں تو رہتے ہیں۔
یہاں تو کئی ایک لوگ رہتے ہیں۔ ایلی نے کہا۔
ہاں ہاں۔ وہ بولا۔ وہ کئی ایک لوگوں کے ساتھ رہتے ہیں۔
مگر وہ ہیں کون؟۔
وہ۔ وہ۔ اجنبی رک گیا۔ اپنے عزیز ہی ہیں۔ قریبی رشتہ ہے۔
کیا رشتہ ہے؟
رشتہ؟۔ وہ چونکا۔۔ کہا جو ہے قریبی رشتہ ہے۔ وہ رک گیا۔
وہ جو سنہرے بالوں والے ہیں۔ وہ۔ اس نے چوبارے کی طرف اشارہ کیا۔
ہاں ہاں وہی۔ دفعتا وہ جوش میں بولا۔
دیکھئے۔ ایلی نے کہا۔ آپ ذرا ادھر آجائیے۔ دروازہ سے ہٹ کر۔ یہاں انتظار کیجئے میں ابھی بھیجتا ہوں انہیں۔
ہاں ہاں بھیج دیجئے۔ کہنا تمہارے رشتہ دار آئے ہیں ملنے کے لیئے۔ پیغام دینا ہے ایک۔
جمال کو نیچے بھیج کر ایلی خود جاہ کے کمرے کی جانب چل پڑا تاکہ جاہ بھا اور پال کو باتوں میں مصروف کر لے اور وہ نیچے نہ اترنے پائیں۔ لیکن جب وہ کمرے میں داخل ہوا تو کمرہ خالی تھا۔ بھا جاہ اور پال تینوں سینما دیکھنے گئے ہوئے تھے۔ یہ دیکھ کر ایلی نے اطمینان کا سانس لیا اور پھر مطمئن ہو کر نیم چھتی میں جا بیٹھا اور جمال کا انتظا رکرنے لگا۔
پون گھنٹے بعد جمال فاتح کی طرح نیم چھتی میں داخل ہوا۔
کیوں کیا ہوا۔ کون تھا وہ۔؟ ایلی نے چلایا۔
ہوں ہوں ہوں۔ جمال گنگنایا اور پھر سیڑھیوں میں منہ ڈال کر باآواز بلند چلایا۔ بھئی یہیں لے آؤ اوپر۔ ہاں ہاں۔ یہاں نیم چھتی میں۔
اتنے سارے پھل
اس پر گاما ایک بڑا سا ٹوکرا اٹھائے ہوئے داخل ہوا۔
یہیں رکھ دو۔ جمال نے کہا اور پھر ٹوکرا اتارنے میں اس کی مدد کرنے لگا۔ گامے کے جانے کے بعد ایلی نے پھر سے سوالوں کی بوچھاڑ کردی۔
اس ٹوکرے میں کیا ہے۔؟
پھل ہیں۔ جمال نے کہا۔
اتنے سارے پھل۔
ہاں۔ انہوں نے بھیجے ہیں۔ جمال نے ہنستے ہوئے کہا۔
ہائیں۔
جمال قہقہہ ما رکر ہنسنے لگا۔ وہ تو مسخریاں معلوم ہوتی ہیں۔ اتنا بڑا ٹوکرا بھیج دیا جیسے ہم نے پھلوں کی دوکان کھولنی ہو۔
لیکن وہ رومی ٹوپی والا کیا ہوا۔
وہی تو لایا ہے۔ اس نے کہا۔ ذرا ٹھہریئے میں ابھی آیا۔ میں انتظار کرتا رہا پھر جب وہ لوٹا تو اس کے ساتھ ایک مزدور نے یہ ٹوکرا اٹھایا ہوا تھا۔
ارے اور وہ تھا کون رومی ٹوپی والا۔
جمال نے ہنستے ہوئے تالی بجائی۔ یار اس کا کچھ پتہ ہی نہیں چلا۔ عجیب باتیں کرتا تھا۔ پہلے تو بہت دیر تک میرے بالوں کی طرف دیکھتا رہا۔ تم ہی ہو نا۔ وہ بولا۔ ہمارے رشتہ دار جو چوبارے میں رہتا ہے۔ وہ وہاں اوپر۔ سنہرے بالوں والا۔ عجیب باتیں کرتا رہا۔ جمال نے قہقہہ مارا۔ لیکن یہ معلوم نہ ہو سکا کہ وہ ہے کون۔
لیکن کیا وہ انہیں کی طرف سے آیا تھا۔
ہاں ہاں۔
لیکن یار۔ شاید۔۔۔۔۔
ارے۔ جمال چلایا۔ ان کا خط بھی تو لایا تھا۔ میں تو بھول ہی گیا۔
خط۔۔۔۔
ہاں۔ یہ کہ کر جمال نے وہ خط ایلی کے ہاتھ میں تھما دیا۔ رنگین کاغذ پر دو مختصر سے فقرے لکھے ہوئے تھے۔ آپ بھی کیا کہیں گے کہ اپنے جنم دن پر کچھ کھلایا ہی نہیں۔ خوب کھائیے۔ بے فکر ہو کر کھائیے۔ ڈاکٹر کی ضرورت پڑی تو وہ بھی بھجوا دیں گے۔
ارے۔ا یلی ہنسنے لگا۔ کیا شے ہیں یہ اور کیا دونوں کا جنم دن ایک ہی ہے۔
کچھ پتہ نہیں چلتا یار۔ لیکن چھوڑو اس بات کو۔ جمال نے ٹوکرے میں ہاتھ ڈالا۔
پہلے پھل تو کھا لیں۔
ارے۔ پھل کھاتے ہوئے ایلی چلایا۔ یہ تم نے غحب کر دیا۔
کیا۔
یہ ٹوکرا گاما سے اٹھوایا تھا نا۔
ہاں ہاں۔
اور اس وقت وہ رومی ٹوپی والا وہیں تھا نا۔
ہاں۔
بس غضب کر دیا۔
کیوں۔
گاما انہیں بتا دے گا کہ وہی معلوم نہیں پھل کا ٹوکرا دے گیا تھا۔
اگلے روز جب ایلی کالج سے لوٹا تو وہ سب دالان میں بیٹھے پھل کھا رہے تھے اور پھلوں کا ٹوکرا ان کے سامنے پڑا تھا۔
ارے بھئی جلدی آؤ۔ جاہ ایلی کو دیکھ کر کہنے لگا۔ تمہیں بھی آج ہی لیٹ آنا تھا کیا، قسم ہے اگر مجھے اس ٹوکرے کے وجود کا علم ہوتا تو آج سرے سے کالج جاتا ہی نہ۔ آجاؤ آجاؤ روٹی ووٹی کا خیال چھوڑو۔ بس اسی پر گزارا کر لو۔
اتنا سارا پھل۔ ایلی نے بناؤٹی تعجب سے کہا۔
جمال نے چچا معلوم نہیں کو دعائیں دو۔ جاہ بولا۔ اگر وہ گاؤں سے چل کر شہر میں نہ آتا تو ہم اس کا کیا بگاڑ لیتے۔ کیوں بھئی۔ اس نے جملہ لوگوں کو مخاطب ہو کر کہا۔
کون چچا۔ ایلی نے پوچھا۔
یہ تو نہ بھتیجے کو معلوم ہے اور نہ خود چچا کو اور ہم بیچارے کس شمار میں ہیں۔ میاں ہمیں پیڑ گننے سے واسطہ۔ چچا معلوم ہو یا معلوم نہ ہو۔ کوئی بھی ہو۔ بہرحال یہ حقیقت جھٹلائی نہیں جا سکتی کہ ہم پھل کھا رہے ہیں۔
اور پیٹ بھر کر کھا رہے ہیں۔
ویسے۔ بھا نے ہنس کر کہا۔ معاملہ گڑ بڑ معلوم ہوتا ہے۔
کوئی تعجب نہیں ہوگا۔ پال نے کہا۔ اگر ابھی ناؤ گھر کا دروازہ بجے اور وہ میاں نامالم آکر کہیں کہ بھئی اب جو ہمیں یاد آیا تو ہمارے بھتیجے کے بال سنہرے نہیں بلکہ کالے ہیں۔ کچھ پروا نہ کرو اگر ایسا ہوا۔ جاہ بولا۔ تو ظاہر ہے کہ جمال نہیں بلکہ تم اس کے بھتیجے ہو۔ چونکہ تمھارے بال کالے ہیں۔
بھئی جمال۔ بھا نے کہا۔ تم نے ان سے نہیں پوچھا نہیں کہ وہ پھر کب شہر میں آئیں گے۔۔۔
پوچھنے کی کیا بات ہے۔ پال بولا۔ مہینے میں دو مرتبہ تو آئیں گے ہی۔۔۔۔
چونکہ ہر معقول چچا کو ایسا کرنا چاہیئے۔ جاہ ہنسنے لگا۔
پھر وہ سب دیر تک پھل کھانے میں مصروف رہے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے۔ جاہ نے کہا۔ جیسے یہ گھر اپنا گھر نہ ہو۔
کیوں۔۔۔؟پال نےپوچھا۔
یہاں عجیب سے واقعات ہونے لگے ہیں۔ جو اپنے گھر میں نہیں ہو سکتے۔
مثلا۔ بھا نے پوچھا۔
مثلا۔ جاہ بولا۔ یہ پھل ہی لو اتنا پھل ہمارے گھر میں دکھائی دے سکتا ہے کیا۔ یعنی۔ جاہ قہقہہ مار کر ہنسنے لگا۔ گویا پھل نہ ہوا کتابیں ہو گئیں۔
بات تو درست ہے۔ پال نے کہا۔
مثلا اور۔ ایلی نے پوچھا۔
وہ میں سوچ رہا تھا آج۔ جاہ نے مخصوص انداز میں کہا۔ سوچ رہا تھا کہ یا تو یہ اپنا گھر نہیں اور یا یہ عورت جو سیڑھیاں چڑھ رہی ہے وہ عورت نہیں جو پہلے یہی سیڑھیاں اترا کرتی تھی۔
عورت؟۔
ہاں ہاں بھئی۔ جاہ بولا۔ تم چاہے اسے جمعدارن کہ لو لیکن ہے تو عورت وہ عورت۔
کیا مطلب ہے۔ پال نے کہا۔
مطلب۔ جاہ بولا۔ وضاحت سے مجھے خود بھی نہیں معلوم لیکن کچھ ہے ضرور پہلے وہ آیا کرتی تھی تو جیسے تھکی ہوئی اکتائی ہوئی ہو اور ماتھے پر یوں کڑی تیوریاں ہوتی کہ کچھ کہا تو نتائج کی ذمہ داری تم پر ہوگی۔ وہ ہنسنے لگا۔ لیکن اب آتی ہے تو اک تازگی سے ہوتی ہے۔ دلچسپی سی۔ یعنی جیسے کہ رہی ہو جو جی چاہے کہ لو جی چاہے۔
مطلب یہ ہوا کہ گھر سے تازگی لاتی ہے۔ ایلی نے نکتہ پیدا کیا۔
شاید گھر سے ہی لاتی ہو۔ جاہ بولا۔ لیکن شاید اوپر سے لاتی ہو۔ جاہ ہنسا۔
میاں الزام نہیں دھر رہا میں ویسے ہی بات کر رہا ہوں اور پھر مجھے ایلی اور جمال بھی کچھ کچھ بدلے دکھائی دیتے ہیں۔
میں۔ جمال ہنس کر بولا۔
تم تو خیر پہلے ہی سے بدلے ہوئے تھے لیکن ایلی۔
یہ کچھ ٹھیک ہی معلوم ہوتا ہے۔ ایلی نے جواب دیا۔ میں خود محسوس کر رہا ہوں۔
اگرچہ مجھے خود نہیں معلوم کہ اس کی وجہ کیا ہے۔ دنیا بدلی بدلی سی دکھنے لگی ہے۔ ایلی نے بات کی اہمیت کو کم کرنے کے لئے کہا۔
ہاں بھئی اس عمر میں ایسے حادثات ہو جاتے ہیں۔ جاہ نے کہا۔
رات کے وقت جب وہ دونوں اکیلے ہوئے تو جمال کہنے لگا۔ یار ایلی ان گوریوں میں اس قدر جرآت ہے۔ مجھے تو ڈر آنے لگا ہے۔
اس میں ڈر کی کیا بات ہے۔ ایلی نے پوچھا۔
لیکن یار اس قدر جرآت۔ آخر وہ ٹوکرا گھر منگوایا گیا ہوگا۔ پھر اسے بھجوا دینا اور ایک معمر آدمی کے ہاتھ۔ مجھے تو وہ گھر کا آدمی معلوم ہوتا تھا۔
شاید وہ گھر اکیلی ہوں اس وقت۔ ایلی نے کہا۔
نہیں تو۔ جمال بولا۔ گھر میں میں نے ان کی والدہ اور ایک ضعیف عورت کو دیکھا ہے۔
اچھا۔ ایلی سوچ میں پڑ گیا۔
جبھی تو میں سوچتا ہوں اپنے بس کا روگ نہیں معلوم ہوتا اور پھر ان کے خطوط۔ خط کیا لکھتی ہیں پورے جواب مضمون ہوتے ہیں۔ جمال ہنسنے لگا۔
یہ تو ٹھیک ہے۔ ایلی نے کہا۔ لیکن الٹا یہ بات تو تمھارے حق میں ہے۔
وہ کیسے۔ جمال نے پوچھا۔
اگر ان میں اس قدر جرآت ہے تو خود ہی ملاقات کی صورت پیدا کریں گی۔
اچھا یار؟ جمال نے تعجب آمیز مسرت سے ایلی کے شانے پر ایک بھرپور ہاتھ مارا۔ تو لکھ دو یار۔ اب کی بار خط میں لکھ دو۔
کیا لکھ دوں۔۔؟
لکھدو کہ ہم ملنا چاہتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی لکھ دو۔
گوریوں کا جواب پڑھ کر وہ دونوں بھونچکے رہ گئے۔ لکھا تھا۔ جسے ملاقات کا شوق ہے وہ کرے کوشش اللہ کار ساز ہے۔ ہمیں تو ملاقات سے کوئی دلچسپی نہیں۔
بھئی بڑی تیز ہیں۔ جمال قہقہہ مار کر ہنسا۔
ایلی چپ چاپ بیٹھا سوچتا رہا۔
دیر تک وہ دونوں خاموش رہے۔
باقی ملاقات پر
اس چند منٹ کی خاموشی کے بعد گویا ایک طوفان امڈ آیا۔ ایلی نے اعلان کر دیا کہ ہڑتال کر دی جائے اور گوریوں کو کوئی خط نہ لکھا جائے جب تک وہ ملاقات پر آمادہ نہ ہو جائیں۔ اس کا تو بلکہ یہ خیال تھا کہ احتجاج کے تحت جمال کوٹھے پر ان کے روبرو کھڑا ہونا بھی موقوف کر دے۔ جمال کو ایلی کے خیال سے اتفاق نہ تھا۔
نہیں یار ایسا نہ کرو۔ وہ بار بار چلا رہا تھا۔ کہیں اس ضد میں بات ہی نہ ٹوٹ جائے۔ جمال اس کی منتیں کر رہا تھا ہاتھ جوڑ رہا تھا مگر ایلی اپنی بات پر اڑا ہوا تھا۔
یہ میرا فیصلہ ہے اٹل فیصلہ۔ وہ کہ رہا تھا۔ اگر تمھیں میرا فیصلہ منظور نہیں تو ملاقات کرنے کی میری ذمہ داری نہیں۔ وہ جمال پر یوں دھونس جما رہا تھا۔ جیسے اس کی ذمہ داری ختم ہو جانے کے بعد گوریوں سے رسم وراہ ختم ہوجانا ایک طے شدہ امر تھا۔
ایلی کے فیصلے کی کئی وجوہات تھیں۔ سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ چاہتا تھا کہ جلد از جلد اس معاملے سے کنارہ کش ہو جائے۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ وہ اس پتلیوں کے کھیل کو چھوڑ کر اپنی دیوی کے پاس چلا جائے۔ اسے وہ یار آرہا تھا جو کرسی سے لٹکا کرتا تھا۔ وہ پیشانی جس کے عین درمیان میں تلک لگا ہوا تھا۔ وہ آنکھیں جو کشتیوں کی طرح ڈولتی تھیں۔
چونکہ ایلی جذباتی طور پر اس رومان سے بے تعلق تھا۔ اس لئے وہ اس معاملے میں بڑی سے بڑی جرآت کر سکتا تھا اور اب وہ محسوس کرنے لگا تھا کہ محبت میں ذہنی لاتعلقی کامیابی کی ضامن ہوتی ہے اور انسان جس قدر متائثر ہوتا ہے اسی قدر ناکام رہتا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ عورت فطری طور پر اس مرد کی تسخیر پر شدت سے آمادہ ہوتی ہے جو ناقابل تسخیر نطر آئے اور جو جی جان سے اس کا ہو چکا ہو اس میں کوئی دلچپسی محسوس نہیں کرتی۔
اسی وجہ سے جمال ہرایسے اقدام سے ڈرتا تھا چونکہ اسے ان کے قرب کی آرزو تھی۔ وہ ڈرتا تھا کہ گوریاں بگڑ نہ جائیں۔ اس کے برعکس چونکہ ایلی آرزو سے مبرا تھا اسے کوئی خدشہ نہ تھا اس لئے وہ چاہتا تھا کہ ان کو مجبور کر دے ان پر چھا جائے۔
اس روز رات گئے تک وہ دونوں لڑتے جھگڑتے رہے کئی مرتبہ جمال طیش کھا کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔ اچھا تو میں خود خط لکھوں گا انہیں۔ میں خود با ت چلاؤں گا۔۔۔۔لیکن جلدی ہی وہ واپس آجاتا اور ایلی کی منتیں کرنے لگتا۔
آخر جمال ہار گیا۔ اچھا بھئی۔ وہ بولا۔ جو جی میں آئے کرو لیکن یار میرے ان کے روبرو جانے پر کوئی بندش نہ ڈالو یہ مجھے سے نہ ہو سکے گا۔
اس روز کے بعد ایلی ان کے ہر خط کے جواب میں باقی ملاقات پر لکھ بھیج دیتا۔ پہلے تو وہ یہ الفاظ دیکھ کر ہنسیں انہوں نے مذاق اڑانے کی کوشش کی۔ باقی ملاقات پر صاحب کوئی بات کیجئے کچھ کہیئے کچھ سنیئے۔ آپ تو گریمو فون کی اٹکی ہوئی سوئی بن کر رہ گئے۔ پھر انہوں نے روٹھ جانے کی دھمکیاں دینا شروع کر دیں لیکن ایلی نے جواب میں اسی جملے کی رٹ لگائے رکھی۔ دھمکیوں سے اکتا کر وہ پھر مذاق اڑانے لگیں۔ میاں مٹھو دریں چہ شک کے علاوہ بھی کوئی آتی ہے کیا۔ اور آخر میں وہ ملاقات پر رضامند ہو گئیں۔
اس روز جمال کی خوشی کی انتہا نہ تھی۔ وہ بات بات پر قہقہہ لگاتا اور جوش مسرت میں دوسروں سے بغل گیر ہوتا اور پیار سے دھول مارتا اور پھر بے اختیار کھجاتا۔ کھجاتا ہی چلا جاتا۔ جمال کے اس جوش انبساط کو سب سے پہلے بھا نے محسوس کیا کیونکہ بھا اکثر اوپر نیم چھتی اور چوبارے میں آیا کرتا تھا۔
کیوں بھئی کیا بات ہے۔ ؟ بھا نے پن کا نب ٹھیک کرتے ہوئے جمال کی طرف دیکھے بغیر پوچھا۔ کیا تمھارے چچا پھر تونہیں آرہے شہر۔۔؟
نہیں تو۔ ایلی ہنسا۔
میں سمجھا شاید۔ بھا مسکراتے ہوئے بولا۔ بہرحال کوئی بات ضرور ہے۔
گھر سے خط آیا ہے۔ ایلی نے بات ٹالنے کی کوشش کی۔
لیکن جاہ کے سامنے ایلی کو کوئی بات نہ سوجھی۔ جاہ نے ایک ساعت کے لئے غور سے جمال کی طرف دیکھا اور کہنے لگا۔ آج تو جمال یوں مسکرا رہا ہے جیسے جمعدارن مسکراتے ہوئے سیڑھیاں اترا کرتی ہے۔ اب تو کایا پلٹ گئی ہے اس کی۔
ہوں۔ جاہ نے کہا۔ ان عورتوں کی کایا پلٹ ہوتے دیر نہیں لگتی۔ ایک نگاہ ایک جملہ کتنی مغرور اور محتاج ہے یہ مخلوق جس کی ایک نگاہ سے کایا پلٹ ہو جاتی ہے۔
کیوں ایلی۔ پال نے چمک کر پوچھا۔ تمھاری ہی نظر تو نہیں۔
ہاں۔ ایلی ہنسنے لگا۔ میری ہی تو ہے۔
جاہ نے غور سے ایلی کی طرف دیکھا اور شانے جھٹک کر کہا۔ بہرحال اپنی نہیں اپنی نظر تو الٹا اثر کرتی ہے۔ وہ ہنسا۔ اگر کبھی ڈال دوں ایک نظر، تو جھاڑو نہ اٹھائے تو اپنا ذمہ۔
اس روز تو جمال فرط انبساط سے بات بات پر قہقہے لگاتا رہا لیکن اگلے روز صبح سویرے اتنا لمبا چہرہ لئے نیم چھتی میں آگیا۔
یار ایلی۔ وہ بولا۔ مجھے ساری رات نیند نہیں ائی۔
کیسے آتی۔ ایلی نے کہا۔
مذاق نہیں کر رہا۔ جمال سنجیدگی سے بولا۔
میں کب کہتا ہوں کہ۔۔۔۔
یار ساری رات کروٹیں بدلتے بدلتے پہلو چھل گئے ہیں۔
عشق و محبت میں ایسا ہوتا ہی ہے۔ ایلی نے چھیڑا۔
لیکن یار میں سوچتا رہا ہوں۔
کیا۔؟
خالی یہ کہ دینے سے اچھا ملاقات ہوگی ملاقات ہو تو نہیں جاتی۔
بھئی بور آیا ہے تو پھل بھی لگے گا۔ ایلی نے فلسفہ بگھارنا شروع کیا۔
لیکن ملاقات ہوگی کیسے؟ جمال نے پوچھا
جب ہوگی تو کوائف خود بخود معلوم ہو جائیں گے۔
شاید ان کا مطلب ہو کہ ہم انتظام کریں۔ جمال نے کہا۔
بیوقوف نیہں ہیں وہ۔ ایلی بولا۔
شاید وہ انتظام نہ کر سکیں۔
جو اتنا بڑا ٹوکرا بھیجنے کا انتظام کر سکتی ہیں وہ۔۔۔۔ایلی ہنسنے لگا۔
لیکن یار یہ ٹوکرا بھیجنے کی بات تو نہیں اور شاید انہوں نے بات ٹالنے کے لئے کہ دیا ہو۔
سارا دن جمال نے اپنے شکوک و شبہات اور وہم سے ایلی کا سر کھا لیا۔ ہر آدھ گھنٹے بعد وہ نیم چھتی میں آموجود ہوتا۔ یار ایلی اگر انہوں نے دفعتا بلا لیا تو ہمیں تیار رہنا چاہیئے۔ دیکھو تو یہ رومال کیسا رہے گا۔ یار یہ کچھ اچھا نہیں اور یہ خوشبو میں نے بھائیوں کی دوکان سے لی تھی۔ لیکن یار بہت ہی مدھم ہے۔
پھر آہستہ آہستہ جمال بات کا رخ بدلتا۔ یار ایلی اگر ہم یہاں تیار بیٹھے رہیں اور کوئی ہمیں بلائے ہی نہیں تو کیا ہوگا۔۔
جمال کی باتوں سے ایلی چڑ گیا۔ شام کے وقت جب جمال نے آکر اپنے شکوک کوہوا دی تو ایلی نے اس کے شکوک کو رفع کرنے کی بجائے انہیں تقویت دینے کی کوشش۔
شاید وہ مذاق کر رہی ہوں۔ جمال نے کہا۔ ہیں تو وہ بلا کی مسخریاں۔
ہاں یار۔ ایلی نے جواب دیا۔ میں سمجھتا ہوں مذاق کیا ہے انہوں نے۔
سچ۔؟ جمال کی آنکھیں ابل آئیں۔
ہاں۔ ایلی نے کہا۔
لیکن تم تو کہتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔
بکواس کرتا تھا میں۔ ایلی نے سنجیدگی سے کہا۔
نہیں۔ جمال بولا۔ اب بکواس کر رہے ہو تم۔ وہ ملیں گی ضرور ملیں گی جو اتنا بڑا ٹوکرا بھیج سکتی ہیں وہ ضرور کوئی انتظام کریں گی۔
ایلی کی ہنسی نکل گئی۔ جمال نے بڑھ کر اسے اپنی آغوش میں لے لیا۔ یار تم نے تومیری جان ہی نکال لی یہ کہ کر۔
تو کیا کہوں؟ ایلی چلایا۔ یہ کہوں تو وم بحث کرنے لگتے ہو وہ کہوں تو تم چیختے ہوں۔
یار میں پاگل ہو رہا ہوں۔ جمال ہنسا۔
وہ تو ظاہر ہے۔ ایلی بھی ہنسنے لگا۔
جمال کا یہ پگلا پن تین دن جوں کا توں قائم رہا چوتھے روز گوریوں کا بلاوا آگیا اور ایک بار پھر جمال کی باچھیں کھل گئیں۔
سفید منزل
گوریوں کے سہ منزلہ مکان کا نام سفید منزل تھا۔ سفید منزل کا پچھواڑا ناؤ گھر کی جانب تھا ناؤ گھر کے عین مقابل ایک مختصر سی مگر فراغ گلی تھی۔ جس کے بائیں بازو میں چار مکانات اور دائیں بازو میں صرف سفید منزل تھی جو گلی کے پرلے سرے پر واقعی تھی۔ اسے سے پرے ایک مختصر سے قبرستان سے ملحقہ کچھ زمین خالی تھی اور بازاقر میں دو ایک ایک منزلہ دکانیں تھیں۔ اسی وجہ سے سفید منزل کا پچھواڑہ ناؤ گھر کے چوبارے اور نیم چھتی سے پورے طور پر دکھائی دیتا تھا۔ سفید منقزل کے پچھواڑے میں صرف دو کھڑکیاں تھیں۔ پہلی منزل میں کھلتی تھیں باقی دونوں منزلوں میں ان اینٹوں کے سوراخوں کے سوا جو سفید منزل کی سیڑھیوں میں بنے ہوئے تھے۔ کوئی کھڑکی یا روشن دان نہ تھا۔ گوریوں نے جمال کو ان دونوں میں سے ایک کھڑکی میں آنے کی دعوت دی تھی۔ یہ کھڑکی گلی کے عین قریب تھی۔ انہوں نے وضاحت سے لکھا تھا کہ مغرب کے وقت آپ اس کھڑکی کی طرف دیکھتے رہیں۔ جب کھڑکی میں روشنی دکھائی دے تو گلی سے ہوتے ہوئے کھڑکی تک پہنچ جائیں۔ لیکن آپ کی آمد پر کھڑکی کی روشنی بجھ جائے گی۔
اس روز سارا دن جمال تیاری میں مصروف رہا اس نے دو ایک ریشمیں رومال خریدے دو ایک عطر کی شیشیاں حاصل کیں پھر وہ اپنے لباس کی طرف متوجہ ہو گیا۔ بار بار ایک جوڑا نکالتا پھر اسے رد کر دیتا اور دوسرا نکال کر بیٹھ جاتا شام کے قریب وہ بن ٹھن کر ایلی کے پاس آبیٹھا۔ یار ایلی۔ وہ کہنے لگا۔ کوئی مجھے وہاں کھڑا دیکھ نہ لے۔ تم چوکس رہنا اگر کوئی ایسی ویسی بات ہوئی تو میری امداد کو آنا کہیں میں اکیلا ہی نہ پٹ جاؤں۔
عین مغرب کی نماز کے وقت کھڑکی میں بجلی سے چمکتی۔ ارے۔ ایلی چلایا۔ دیکھا۔ ہاں۔ جمال نے کہا۔ عجیب سی روشنی تھی۔ چکا چوند کر دینے والی روشنی۔ اچھا تو میں جاتا ہوں۔
نیچے والوں سے خبردار رہنا۔ ایلی بولا۔ اگر انہوں نے دیکھ لیا تجھے تو خیر نہ ہوگی۔
جمال نے مسکرانے کی کوشش کی لیکن اس کے چہرے پر فکر اور پریشانی کے آثار تھے جیسے وہ گوریوں سے ملنے نہیں بلکہ دیوار پر چڑھنے کے لئے جا رہا ہو۔
جمال کے جانے کے بعد فورا ہی سیڑھیوں میں شہزاد آکھڑی ہوئی۔ اس کا چہرہ ستا ہوا تھا بال کھلے تھے۔ ایلی اسے دیکھ کر چونکا۔ وہ واقعی شہزاد کو بھولا ہوا تھا۔
یہ کیا حال بنایا ہے۔ ایلی نے پوچھا۔
دیکھ لو۔ وہ بولی۔ اس کی آنکھ سے ایک آنسو ڈھلک کر گال پر بہہ گیا۔
ایلی کے دل پر ٹھیس لگی۔ لیکن وہ چپ چاپ بیٹھا رہا۔
وعدہ تو پورا ہو گیا۔ وہ بولی۔
وعدہ؟۔
جو تم نے کیا تھا۔ اب تو ملاقات ہوگی نا۔ یہ کہ کر وہ مڑی اور آہستہ آہستہ سیڑھیاں چڑھنے لگی۔
شہزاد شہزاد۔ ایلی تڑپ کر اٹھا لیکن وہ جا چکی تھی۔
ہاں وہ اپنے آپ سے کہنے لگا اب تو ملاقات ہوگی۔ وعدہ پورا ہو گیا۔ چلو جان چھٹی۔ مجھے کیا لینا دینا ہے۔ خوامخواہ مجھے تو کوئی دلچسپی نہیں۔ اب میں علی پور جا سکتا ہوں۔ وہ اٹھ بیٹھا سوٹ کیس سے ٹائم ٹیبل نکالا۔ ارے۔ وہ چلایا۔ نو بجے بھی تو جاتی ہے ایک گاڑی۔ اس وقت سات بجے تھے۔ ایلی نے جلدی میں سوٹ کیس میں چیزیں رکھیں۔ پھر ایک رقعہ جمال کے نام لکھا۔ میں علی پور جا رہا ہوں۔ ملاقات مبارک ہو۔ یہ رقعہ چوبارے میں رکھ کر ایلی نے سوٹ کیس اٹھایا اور نیچے اتر گیا۔
بے معنی بے مصرف
سٹیشن کی طرف جاتے ہوئے اس کے چاروں طرف دھندلے دھندلے نقوش خلا میں تیر رہے تھے۔ جیسے اداس آسمان پر بادل تیر رہے ہوں گردوپیش ان دھندلے دھبوں سے بھرا ہوا تھا۔ بے معنی بے مصرف دھبے جیسے وہ خواب دیکھ رہا ہو گردوپیش کی ہر چیز مفہوم سے خالی تھی وہ خود محسوس کر رہا تھا۔ جیسے کھو گیا ہو اور اپنے آپ کو ڈھونڈنے کے لئے سرگرداں ہو۔
پھر وہ ریلوے سٹیشن میں نہ جانے کہاں سے کہاں جا رہا تھا۔ اس کے ہاتھ میں علی پور کا ٹکٹ تھا مگر وہ سمجھ رہا تھا۔ جیسے علی پور کروڑوں میل دور آسمان پر چمکتے ہوئے ستاروں سے دور ثریا کی دودھیا سفیدی سے دور۔
ایلی۔ ایلی۔
اپنا نام سن کر وہ چونکا اور ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ ایک بڑا سا دھبہ تیرتا ہوا اس کے قریب آیا۔ ایلی تم ہو۔ اس نے ایک جانی پہچانی آواز سنی۔ پھر اس میلے سے دھبے نے واضح شکل اختیار کر لی۔ اپنے روبرو چچا عماد کو دیکھ کر وہ ٹھٹھکا۔ آپ ہیں چچا۔ وہ بولا۔
میں نے اتنی آوازیں دیں۔ چچا نے کہا۔ لیکن تم تو قدرے اپنے آپ میں مگن تھے۔
میں میں۔ ایلی گھبرا گیا۔ دراصل میں جلدی میں تھا مجھے گاڑی میں سوار ہونا تھا۔
گاڑی میں۔ چچا عماد نے دوہرایا۔
علی پور جا رہا ہوں۔ ایلی نے جواب دیا۔
اوہ۔ چچا بولے۔ خیر تو ہے۔
ایک ضروری کام ہے۔ ایلی نے کہا۔
اچھا۔ چچا عماد نے کہا۔ میں تو اسی گاڑی سے آیا ہوں علی پور سے۔
اسی گاڑی سے۔ ایلی نے پوچھا۔
ہاں ہاں۔
محلے کا کیا حال ہے چچا۔ ایلی نے پوچھا۔
ویران پڑا ہے۔ چچا بولے۔ شادیوں کے بعد سب لوگ چلے گئے اور محلہ سنسان ہوگیا۔
اوہ۔ ایلی بولا۔
ادھر علی احمد کا مکان ویران پڑا ہے۔ ادھر تیری ماں اور بہن ابھی کابل سے نہیں آئیں پھر شریف بیوی بچوں کو ساتھ لے گیا ہے۔ اب کی بار۔
ایلی کا دل دھک سے رہ گیا۔ لیکن وہ مصلحت کی وجہ سے خاموش رہا۔
شریف آیا تھا نا۔ اس کی گھر والی کہتی تھی۔ میں ساتھ نہیں جاؤں گی مگر اسے کھانے کی تکلیف تھی۔ اس لئے منتیں ونتیں کرکے وہ بیوی بچوں کو ساتھ لے گیا۔
ابھی وہ پل پر کھڑے بات کر رہے تھے کہ نیچے سے گاڑی کی کوک سنائی دی۔ ارے۔ چچا بولے۔ تمھاری تو گاڑی چھوٹ جائے گی۔
اچھا چچا۔ وہ بولا۔ تو پھر ملوں گا۔ یہ کہ کر ایلی بھاگا۔
پل سے نیچے اترے ہی جب وہ پلیٹ فارم کی طرف مڑا تو اس کے روبرو سٹیشن کی گھڑی تھی۔ ارے سوا آٹھ۔۔۔۔ وہ رک گیا۔ ابھی تو پون گھنٹہ باقی ہے۔ وہ ایک خالی بینچ پر بیٹھ گیا۔ سامنے گاڑی میں لوگ اور سامان گڈ مڈ ہو رہے تھے۔ قلی بھاگ رہے تھے۔ بابو سلو مارچ کر رہے تھے۔ دیر تک وہ وہاں اس خیال میں بیٹھا رہا کہ اسے علی پور جانا ہے۔ چچا کی بات اس کے ذہن سے یوں نکل چکی تھی۔ جیسے کسی نے کہی ہی نہ ہو۔ وقت رینگ رہا تھا۔ گھڑی کی سوئیاں رکی ہوئی تھیں۔ وہ یہ بھول چکا تھا کہ ناؤ گھر سے بھاگ کر آیا ہے کہ جمال قبرستان کے عقب میں گوریوں کی کھڑکی کے سامنے کھڑا شدت سے کھجا رہا ہے۔ وہ یہ بھی بھول چکا ہے کہ وہ کھو گیا ہے اور اپنے آپ کو تلاش کرنے علی پور جا رہا ہے۔ وہ علی پور جا رہا ہے اور وہ علی پور جہاں شہزاد رہتی ہے۔ جس کا بازو کھڑکی سے نیچے لٹکتا ہے آنکھیں ڈولتی ہیں اور ماتھے کی بندی گرگٹ کی طرح رنگ بدلتی ہے۔
ایلی نے سر اٹھایا۔ سامنے دیوار پر سائن بورڈ لگا ہوا تھا۔ شہزاد سنو۔ا رے وہ چونکا۔ شہزاد سنو۔ محلہ ویران پڑا ہے۔ شریف بیوی بچے لے کر چلا گیا ہے۔ چچا عماد چلانے لگا۔ ایلی یوں تڑپ کر اٹھ بیٹھا جیسے کسی نے اسے تھپڑ مار دیا ہو۔ شہزاد چلی گئی شہزاد چلی گئی۔ انجن نے کوک ماری۔ محلہ ویران پڑا ہے۔ ویران پڑا ہے۔ ویران پڑا ہے۔ گاڑی چلنے لگی۔ ایلی نے ان جانے میں سوٹ کیس اٹھالیا اور نہ جانے کس طرف چل دیا۔
کچھ دیر بعد اسے ہوش آیا تو وہ ٹی سٹال پر کھڑا چائے پی رہا تھا۔
سٹیشن کے باہر پہنچ کر وہ بکنگ آفس کے سامنے رک گیا۔ ایک ٹکٹ علی پور۔ ایک شخص چلا رہا تھا۔ ایک ٹکٹ علی پور۔ ایلی نے مٹھی کھولی۔ ٹکٹ پر حسرت بھری نظر ڈالی پھر اس نے چپکے سے ٹکٹ اس آدمی کی مٹھی میں تھما دی اور باہر نکل گیا۔
تانگوں کے اڈے کے قریب وہ سٹیشن کے چھوٹے سے باغیچے میں پہنچ کر بیٹھ گیا اردگرد طرف اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ جس میں بتیاں ٹمٹمانے کی کوشش کر رہی تھیں۔ قریب ہی دو اونچے لمبے درخت اداس کھڑے تھے۔ سامنے ایک ویران مسجد کے مینار گویا محو حیرت کھڑے تھے۔ دور کوئی چکی ہونک رہی تھی۔
دیر تک وہ وہیں بیٹھا رہا۔ آہستہ آہستہ سڑک ویران ہو گئی۔ دوکانیں بند ہو گئیں سٹیشن بھیڑ سے خالی ہو گیا۔ کتے بھونکنے لگے۔
بابو جی چلو گے؟ ایک تانگے والا اس کے قریب آکر کہنے لگا۔ کہاں جاؤ گے بابوجی۔؟ وہ چونکا۔ کہاں جاؤ گے بابوجی۔ ؟کتا رو رہا تھا۔ دفعتا اسے خیال آیا کہ اسے جانا ہے۔ کہیں نہ کہیں جانا ہی ہوگا۔
ہاں۔ اس نے تانے والے سے کہا۔ تانگے والے نے بڑھ کر اس کا سوٹ کیس اٹھا لیا اور وہ اس کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔
ملاقاتیں
اگلے روز جب ایلی بیدار ہوا تو جمال اس کے سرہانے بیٹھا تھا۔
مارلے یار تم نے حد کر دی۔ وہ چلا رہا تھا۔ تم کہاں چلے گئے تھے۔ شکر ہے تم علی پور نہیں گئے یار مجھے منجدھار میں چھوڑ کر تو نہ جاؤ۔ وہ چلائے جا رہا تھا۔ تم بولتے کیوں نہیں۔ کیا ہوا ہے تمھیں۔
جمال مسلسل چلائے جا رہا تھا لیکن ایلی خاموش تھا۔ ایلی محسوس کر رہا تھا جیسے اسے سنہری بالوں اور گوریوں سے کوئی تعلق نہ ہو۔ جیسے زندگی میں اسے کوئی دلچسپی باقی نہ رہی ہو۔ اس کے روبرو آصف کھڑا مسکرا رہا تھا۔۔۔۔۔آجاؤ آجاؤ ایلی۔ وہ اسے اپنے مخصوص انداز میں بلا رہا تھا۔
اس روز کئی مرتبہ جمال اس کے پاس آیا۔کئی مرتبہ ایلی جمال نے کوشش کی کہ ایلی اس سے کہ ملاقات کیس رہی۔ لیکن ایلی نے ہر بار اسے یہ کہ کر ٹال دیا۔ یار میری طبیعت اچھی نیہں۔ لیکن رات کے وقت جب ایلی چارپائی پر لیٹا ہوا تھا تو جمال نے آکر خودبخود قصہ چھیڑ دیا۔
یار ایسی ملاقات کا کیا فائدہ۔ وہ سلاخ دار کھڑکی کے اندر رہیں اور میں باہر اور پھر ہر آہٹ پر یہ خطرہ کہ کوئی دیکھ نہ لے پوچھ نہ بیٹھے کہ میاں یہاں کھڑے کیا کر رہے ہو۔ادھر وہ اندھیرے میں کھڑی تھیں۔ اندر بتی بھی نہیں تھی۔ گھپ اندھیرا کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا۔ لیکن یار ان کی آوازیں اتنی پیاری ہیں اور ان کی باتیں اتنی رنگین ہیں کہ میں تمھیں کیا بتاؤں۔ بڑی تیز ہیں وہ اور بڑی نڈر اور یار انہوں نے مجھے سیگرٹ پلائے پان کھلائے میں نے بہتیری کوشش کی کہ سیگرٹ دیتے وقت ہاتھ سیخوں سے باہر نکالیں۔ لیکن وہ بڑی چالاک ہیں فورا بھانپ لیتیں اور قہقہہ مار کر ہنستیں۔ ہم سے یہ چالاکی نہیں چلے گی صاحب۔ وہ مسلسل باتیں کیے جا رہی تھیں۔ اور میں حیران کھڑا تھا۔ بت بنا کھڑا تھا۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا کہوں اور وہ کہہ رہی تھیں کہ آپ گونگے ہیں یا بات کیجئے کوئی یوں تصویر بن کر کھڑے رہنے سے کیا فائدہ۔ ہاں یار۔ جمال چلانے لگا۔ انہوں نے کئی بار مجھ سے کہا ہاں صاحب تو وہ باقی ملاقات پر جو لکھتے تھے آپ بار بار اب بتائیے نا وہ باقی کیا ہے اب کیا ہو گیا ہے آپ کو۔
چار روز بعد پھر بلاوا آیا اور جمال نئی امیدیں لے کر نئے جوش اور نئی تیاریوں کے بعد کھڑکی پر جا کھڑا ہوا۔
جب وہ واپس آیا تو اس کے شانے اندر دھنسے ہوئے تھے۔ گردن لٹکی ہوئی تھی۔ اس روز وہ چپ چاپ آکر بیٹھ گیا اور گہری فکر میں کھو گیا۔ یار وہ طعنے دیتی ہیں۔ وہ کچھ دیر بعد بولا۔ کہتی ہیں خطوں میں تو بڑی باتیں بگھارتے ہیں آپ۔ برے نکتے پیدا کرتے ہیں لیکن سامنے آکر کیا ہو جاتا ہے منہ سے بات نہیں نکلتی۔
اور یار۔ کچھ دیر بعد وہ پھر جوش میں کہنے لگا۔ اب تو سارا راز فاش ہو گیا۔ اس سے تو بہتر تھا کہ ملاقات ہی نہ ہوتی۔
ایلی خاموش بیٹھا رہا۔
چار روز بعد جب پھر بلاوا آیا تو جمال خوش ہونے کی بجائے برا سا منہ بنا کر کہنے لگا۔میں نہیں جاؤں گا۔ جانے کاکیا فائدہ۔ البتہ تم ساتھ چلو تو ٹھیک ہے چلو گے۔
اونہوں۔ ایلی نے جواب دیا۔ میرا وہاں کیا کام اور پھر جس کو بلایا جاتا ہے وہی جاتا ہے نا۔
لیکن میں ان سے کہ دوں گا کہ میں اسے زبردستی لایا ہوں۔ جمال نے کہا۔
اگر وہ پوچھیں کہ زبردستی لانے کا مطلب۔ ایلی نے پوچھا۔
کہ دوں گا کہ باتیں کرنے کے لئے۔
ایلی کی ہنسی نکل گئی۔ بھئی واہ۔ وہ بولا۔ خط میں لکھوں۔ باتیں میں کروں۔ پھر تم کیا کرو گے۔
ہاں یار بات تو درست ہے۔
میں بتاؤں۔ ایلی بولا۔
بتاؤ۔
تمھارا مطلب ہے کہ سودا خرید کر ہنڈیا پکا کر برتن میں ڈال کر میں تمھارے سامنے رکھوں اور پھر تم اسے کھاؤ۔
جمال نے قہقہہ لگا کر کھجانا شروع کر دیا۔ یار بات تو کچھ ایسی ہی ہے۔
ایلی دفعتا سنجیدہ ہوگیا۔ دیکھو جمال اس کھیل میں سودا لانے اور ہنڈیا پکانے کی ہی دلچسپی ہوتی ہے کھانا اہم نہیں ہوتا۔
لیکن یار۔ جمال بولا۔ میں کیا کروں میرا دل جو چاہتا ہے۔
اس وقت ایک ساعت کے لئے ایلی نے جمال سے نفرت کا جذبہ محسوس کیا۔ لیکن خاموش رہا۔ شام کے وقت جب کھڑکی میں چمکدار روشنی نظر آئی تو ایلی نے زبردستی جمال کو اٹھایا اور پھر دھکیل کر نیچے لے گیا تاکہ ان سے ملے نیچے جا کر جمال نے ایلی کی منتیں شروع کر دیں۔
اب آبھی جاؤ یار۔ دس قدم تو ہے یہاں سے تیرا کیا بگڑ جائے گا۔ اپنی بات بن جائے گی۔ جمال کو ابھی تک احساس نہیں ہوا تھا کہ ایلی کو اپنے معاملے میں ڈال کر وہ بات بگاڑ رہا ہے۔ لیکن ایلی کو پورے طور پر احساس ہو چکا تھا کہ جمال بات بنانے کا خواہشمند نہیں وہ صرف ملاپ کا متمنی ہے۔ خصوصی ملاپ ایسا ملاپ جس میں لوہے کی سلاخیں حائل نہ ہوں۔ اسے یہ بھی معلوم ہو چکا تھا کہ گوریاں اس کی اس خواہش سے کما حقہ واقف ہو چکی ہیں۔
اس کے باوجود نہ جانے کیوں ایلی نے جمال کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا۔
اس روز ان کی ملاقات کافی مختصر رہی۔ واپس آکر نہ تو جمال نے کوئی بات کی اور نہ ہی خوشی یا تعجب کا اظہار کیا۔
اگلے روز گوریوں کا جو خط موصول ہوا وہ سارا کال کلوٹے کے نام تھا۔ جس میں اسے بار بار تاکید کی گئی تھی کہ ان سے ملنے کے لئے سنہری بالوں کے ہمراہ آئے اور اس سے پہلے وہ کیوں نہ آیا تھا اور کال کلوٹا ہونے پر جلتا کیوں ہے۔ منہ کیوں چھپائے پھرتا ہے۔ روتا کیوں ہے اور نہیں روتا تو شکل ایسی کیون ہے۔
اس خط پر ایلی حیران ہوا اتنا لمبا چوڑا خط اسے کبھی موصول نہ ہوا تھا اور پھر سارے کا سارا اسی کے نام اس سے پہلے تو کبھی کبھار اس کے نام کا رقعہ ملفوف ہوتا تھا اور اس رقعے کی حیثیت ضمنی ہوتی تھی۔ حیرت کی بات تھی۔
ایلی سارا دن اس بارے میں سوچتا رہا پھر اسے قرائن سے معلوم ہوا کہ یہ سب کچھ جمال کے کہنے پر ہوا ہے۔ پچھلی ملاقات میں اس نے اس کے سوا کوئی اور بات ہی نہ کی تھی۔
شام کے وقت جمال اس کے پاس آبیٹھا اور سفید منزل کی طرف منتظر نگاہوں سے دیکھنے لگا۔ مغرب کے وقت کھڑکی میں تیز روشنی دیکھ کر وہ اچھلا۔
لو وہ بلا رہی ہیں۔ اس نے ایلی سے کہا۔
ابھی تو تم کل ہی مل کر آئے ہو۔ ایلی نے کہا اور آج کے خط میں تو اس ملاقات کا کوئی تذکرہ نہ تھا۔
انہوں نے زبانی بتایا تھا مجھے۔ جمال بولا۔ کہ شام کو اگر روشنی جلے تو آجانا ورنہ نہیں۔ پھر وہ ایلی کی منتیں کرنے لگا۔ ایلی حقیقتا وہاں جانا نہیں چاہتا تھا۔ غالبا وہ کال کلوٹے نے اس کی انا کو صدمہ پہنچایا تھا۔ اس واسطے ایلی ان میں کوئی دلچسپی محسوس نہ کرتا تھا۔ یا شاید اس کی کوئی اور وجہ ہو بہرحال اس نے ہر ممکن کوشش کی کہ جمال اس کے بغیر اکیلا ہی چلا جائے لیکن جمال گویا اسے ساتھ لے کر جانے کی قسم کھائے ہوئے تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایلی کو جمال کے ساتھ جانا پڑا۔
انڈر کانسیڈریشن
گلی سنسان تھی۔ قبرستان کے پیچھے کھڑکی کے پاس کھڑے ہونا خصوصی طور پر خطرناک نہ تھا۔ اول تو اس گلی میں آمدورفت بہت کم تھی دوسرے گلی میں گزرتا ہوا شخص اگر ادھر دیکھتا بھی تو اسے اندھیرے کی وجہ سے وضاحت سے کچھ دکھائی نہ دیتا۔
وہ دونوں چپ چاپ قبرستان میں داخل ہو گئے اور پھر کھڑکی کے پاس جا کھڑے ہوئے۔ ایلی نے دو ایک مرتبہ کھڑکی کی طرف دیکھا لیکن وہاں گھپ اندھیرا تھا۔ جگہ سنسان معلوم ہوتی تھی۔ اس نے سمجھا ابھی گوریاں نہیں آئیں اس لیے وہ جمال سے کہنے لگا۔
میں نہیں سمجھتا آخر مجھے یہاں لانے سے کیا فائدہ۔
حرج بھی کیا ہے۔ جمال نے کہا۔
واہ۔ ایلی چمک کر بولا۔ تم تو بھلا عشق لڑاؤ گے۔ میں کیا کروں گا۔
آپ دیکھئے عشق کس طرح سے لڑایا جاتا ہے۔ کھڑکی سے آواز آئی۔
ارے۔۔۔۔ایلی چونکا۔ یہ تو اندر ہی ہیں۔
اندر سے کسی کے ہنسنے کی آواز آئی۔
یہ تو بڑی بے انصافی ہے۔ ایلی نے کہا۔ کہ آپ تو سلیمانی ٹوپی ہنے رہیں اور ہم دونوں سر سے پاؤں تک بیوقوف بنے کھڑے رہیں۔
تو کیا آپ یہاں انصاف کے لئے آئے ہیں یہ کیا جہانگیر کا مقبرہ ہے۔ آواز آئی۔
نورجہاں بھی تو دکھائی نہیں دیتی۔ ایلی نے کہا۔
آپ ملنے آئے ہیں یا لڑنے کے لیے۔ اندر کوئی ہنسی۔
ہاں پہلے یہ طے کر دیجئے کہ مجھے کس حیثیت سے بلایا گیا ہے۔ کیا اس لیے کہ میں ہیرو اور ہیروئین کا تماشا دیکھوں۔ یا مسخرے کی طرح آپ لوگوں کو محظوظ کریں یا گورے کے لئے نظر بٹو کا کام دوں؟
چلئے ہم نے آپ کو بھائی کا مرتبہ بخشا۔ آواز آئی۔
سوچ لیجئے۔ ایلی نے کہا۔
سوچ لیا۔ آواز آئی۔
تو بھئی دونوں اپنی اپنے کان ننگے کرو اور میرے ہاتھ میں دے دو۔
کیوں۔ کوئی ہنسی۔
تاکہ میں انہیں کھینچوں اور کہوں کہ تم دونوں یہاں کھڑی کیا کر رہی ہو چلو کوٹھے پر گھر کی عزت کا خیال ہے یا نہیں اور یہ سنہری بالوں والے ہمیشہ معصوم بچیوں کو پہلے ورغلاتے ہین اور پھر دھوکا دیتے ہیں۔
ارے۔ وہ ہنسنے لگی۔ نہ صاحب ہم آپ کو بھائی نہیں بتاتے۔
تو پھر پہلے یہ فیصلہ کیجئے کہ میں کس حیثیت سے بلایا گیا ہوں۔
کچھ دیر وہ دونوں کھی کھی کر کے ہنستی رہیں۔
پھر ایک بولی۔ چلئے آپ انڈر کانسیڈریشن سہی۔ یہ سن کر ایلی کو پسینہ آگیا اور اسے کوئی جواب نہ سوجھا۔
معلوم ہوتا ہے کہ اب مطمئن ہو گئے ہیں۔ کوئی ہنسی۔
دیکھئے۔ غصے میں ایلی نہ جانے کیا کہنے لگا۔
ٹھہریئے جی۔ وہ بولی۔ انہیں بھی کوئی بات کرنے دیجئے اب۔۔۔۔۔یہ نہیں کہ آپ ہی چہکتے رہیں باری باری موقعہ دیا جائے گا۔ ایلی کا غصہ یخ ہو گیا۔
انہیں باتوں سے دلچسپی ہوتی۔ ایلی نے کہا۔ تو مجھے نہ بلایا جاتا۔
اب آپ اس کا ناجائز فائدہ حاصل نہ کیجئے۔ اندر سے آواز آئی۔
ایلی خاموش ہو گیا محفل پر کچھ دیر کے لیے خاموشی طاری رہی۔
کرونا کوئی بات بھئی۔ ایلی نے جمال سے کہا۔
لیجئے اب تو سفارش کردی آپ کے دوست نے۔ کوئی ہنسی۔
میں تو جدائی کا مارا ہوں۔ میں کیا بات کروں۔ جمال کھجانے لگا۔
دیکھ لیجئے۔ وہ بولی۔ یہ پاس آکر بھی جدائی کے مارے رہتے ہیں۔
یہ کیا ملاقات ہے۔ جمال نے آہ بھری۔ اور ملاقات کسے کہتے ہیں جی۔ وہ بولی۔
جمال لاجواب ہو کر خاموش ہو گیا۔
میں نے کہا۔ ایلی نے بات شروع کی۔ اس کمرے کا دروازہ باہر گلی میں بھی تو کھلتا ہے یہ والا۔ جس کے باہر تالا پڑا ہے۔
تو پھر اسے کھول لیجئے نا۔ وہ ہنسیں
سچ۔ ایلی نے پوچھا۔
ہاں ہاں۔
لیکن اندر کی چٹخنی۔ ایلی نے پوچھا۔
وہ نہیں کھل سکتی۔
کیوں؟۔
بس نہیں کھل سکتی۔ لیجئے سگرٹ۔ انہوں نے ایک سگرٹ سلاخون سے باہر نکالی۔
اونہوں۔ ایلی چلایا۔ ہاتھ اندر کیجئے ہاتھ اندر کیجئے ورنہ نظر آجائے گا۔
وہ ہنسنے لگیں۔
جمال نے سگرٹ پکڑ لیا۔
پھر جب انہوں نے دوسرا سگرٹ باہر نکالا تو ایلی نے انکار کر دیا۔ میں نہیں پیتا۔
جھوٹ کیوں بولتا ہے۔ جمال بولا۔
وہ تو کبھی کبھار تفریحا پیتا ہوں۔
یہ بھی تو تفریحا دیا جا رہا ہے۔ وہ بولی۔ دوا کے طور پر نہیں۔
اچھا۔ ایلی بولا۔ ضرور ہی پلانا ہے تو سلگا کر دیجئے۔
وہ ہنسنے لگی۔ جی نہیں۔ وہ بولی۔ خود ہی تکلیف فرمائیے۔
ہم نہیں پیتے۔ ایلی کہنے لگا۔ ایک تو تمھارے کہنے پر سیگرٹ بھی پیوں اور دوسرے سلگاؤں بھی خود ہی یہ مہنگا سودا ہے۔
ارے۔ وہ چلائیں۔ یہ باتوں کے دھنی معلوم ہوتے ہیں۔
خالی باتوں کا ہی ہوں۔ ڈریئے مت۔ ایلی نے کہا۔
دیکھا میں نے کہا نہ تھا۔ جمال ہنسنے لگا کہ اسے ضرور بلائیے۔
آپ نہ جانیں کیا کیا کروائیں گے ہم سے۔ انہوں نے جمال سے کہا۔ لیجئے پان کھایئے۔
جمال نے لپک کر پان لے لیا۔ ایلی نے انکار کر دیا۔
اب آپ کہیں گے کہ پان بھی چبا کر دیجئے۔
اگر تم انڈر کانسیڈریشن ہوتیں تو ضرور کہتا۔
یعنی آپ انتقام لے رہے ہیں۔ چھی چھی۔ وہ ہنسیں۔
لیکن آپ ہیں کتنی۔ ایلی نے بات کا رخ بدلا ایک ہیں دو ہیں تین ہیں کتنی ہیں آپ۔ یہ راز نہیں بتایا کرتے۔ وہ بولی۔
بولتی تو ایک ہی ہے۔ ایلی نے کہا۔
لیکن ہیں دو۔جمال نے کہا۔
دوسری کہاں ہے۔
دوسری ہی تو بولتی ہے۔ کسی نے ہنس کر کہا۔
یوں نہیں، دونوں ایک ساتھ بولو تو یقین آئے۔ ایلی بولا۔
عین اس وقت سڑک پر قریب ہی موٹر سائیکل کی آواز آئی۔
بھائی جان۔ اندر کوئی زیرلب چلائی۔ اچھا اب آپ جائیے۔۔۔۔۔کھڑکی کے پٹ بند ہوگئے۔ اگلے روز جمال بے حد خوش تھا۔ یار تم نے تو حد کردی۔ جبھی تو میں کہتا تھا کہ ضرور چلو تھمارے جانے کے بغیر وہاں کوئی بات نہیں چلے گی۔
یار۔ ایلی نے کہا۔ وہ تو بے حد تیز ہیں۔ وہاں تو اپنی دال بھی نہیں گلتی۔
دیکھا نا۔ جمال نے کہا۔ جبھی تو میں وہاں اکیلا جانے سے گھبرایا کرتا تھا۔
لیکن جمال۔ ایلی نے کہا۔ میرا وہاں جانا ٹھیک نہیں۔
کیوں۔
آخر کیوں۔ مجھے کوئی دلچسپی نہیں۔
اس روز سارا دن اسی بات پر ان کا جھگڑا ہوتا رہا۔ جمال اسے کہ رہا تھا کہ اب تو جانا ہی پڑے گا۔ لیکن ایلی جانے پر تیار ہی نہیں ہوتا تھا۔
دن میں چار ایک بار جمال نے ایلی نے بحث کرنے کی کوشش کی لیکن ایلی نے اسے روک دیا۔ نہیں جمال میں نہیں جاؤں گا۔ اس میں بحث کی کوئی بات نہیں۔
شام کے وقت ایلی چپکے سے نیچے اتر گیا اور جمال کے پاس جا بیٹھا۔ جمال نے باہر کھڑے ہو کر اشارات کئے لیکن ایلی نے سر ہلا کر انکار کر دیا۔ اس لیے جمال کو اکیلے ہی جانا پڑا۔
باتیں ہی باتیں
اگلے روز جمال کی حالت غیر تھی۔ اس کا رنگ زرد ہو رہا تھا۔ دوپہر تک وہ ایلی کے پاس نہ آیا تو ایلی چوبارے میں گیا۔ کیوں بھئی کیا ہوا کل۔ اس نے پوچھا۔
کچھ نہیں۔ وہ بولا۔
کچھ نہیں کا کیا مطلب۔۔۔ایلی نے پوچھا۔
انہوں نے مجھے دیکھتے ہی کھڑکی بند کر لی اور کہنے لگیں جب تک اسے ساتھ نہیں لائیں گے۔ اب کھڑکی نہیں کھلے گی۔ یہ کہہ کر وہ چلی گئیں اور میں حیران کھڑا کا کھڑا رہ گیا۔
ایلی یہ سن کر حیران رہ گیا اس نے محسوس کیا جیسے اس کا رنگ دھل کر گورا ہو گیا ہو۔ اب تم کیوں جانے لگے۔ جمال نے کہا۔ نہ جانے جمال کی حالت دیکھ کر یا اس لئے کہ اس کا رنگ گورا ہو چکا تھا۔ اس نے جمال کا ہاتھ تھام لیا۔ مجھے معلوم نہ تھا جمال۔ وہ بولا۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ وہ ایسا کریں گی۔
میں جاؤں گا ضرور جاؤں گا۔ تم دل برا نہ کرو۔ ایلی نے کہا۔
جمال کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ اچھا۔ وہ بولا۔ تو تم جاؤ گے نا۔
ہاں۔ ایلی نے کہا۔
پھر کبھی انکار نہ کرو گے نا۔
نہیں۔
شام کو وہ جب دونوں کھڑکی کےقریب پہنچے تو آواز آئی۔ آپ کس حیثیت سے آئے ہیں جی۔
انڈر کانسیڈریشن کی حیثیت سے۔ ایلی نے جواب دیا۔
اوہ۔ اور کل کیوں نہیں آئے تھے جی۔
اس لیے کہ کل میں اپنے آپ کو ابھی کانسیڈریشن سمجھتا تھا۔
تو کیا سزا ملنی چاہئے آپ کو۔ وہ بولی۔
سزا تو ضرور ملنی چاہئے۔ ایلی نے کہا۔ ایک تھپڑ کافی ہوگا کیا۔
ہاں۔ وہ بولی اور پھر جمال سے مخاطب ہو کر کہنے لگی۔ آپ انہیں ایک تھپڑ ماریئے۔
جی نہیں۔ ایلی نے کہا۔ آپ کو خود تکلیف کرنی ہوگی۔
کیوں کیا اس لئے کہ ہمارے ہاتھ سے چوٹ نہیں لگےگی۔ بتائیے۔
اونہوں۔ ایلی نے سر ہلایا۔
تو پھر۔
بازو تو منظر عام پر آئے گا۔ ایلی نے کہا۔
ارے۔ وہ ہنسی۔ انہیں بازو دیکھنے کا شوق ہے۔ بچوں کی سی بات کرتے ہیں۔
جی ہاں۔ ایلی نے جواب دیا۔
کیا آپ بچہ ہیں؟۔وہ بولی۔
ہوں تو نہیں لیکن بننے کی کوشش کر رہا ہوں۔ ایلی نے کہا۔
کیوں۔ وہ بولی۔
کہ شاید آپ میں مامتا جاگ اٹھے۔
ارے۔ وہ قہقہہ مار کر ہنسی اور اندر کسی سے کہنے لگی۔ یہ بھی انہی کے ہم خیال معلوم دیتے ہیں۔
کن کے۔؟ ایلی نے پوچھا۔
اپنے دوست کے اور کن کے آپ کے دوست کا خیال ہے کہ درمیان میں لوہے کی سلاخیں ہوں تو ملاقات نہیں ہو سکتی اور ہمیں معلوم ہے کہ اگر سلاخیں ہٹا دی جائیں تو یہ کیا مطالبہ کریں گے۔
پھر تو میں اپنے دوست کا ہم خیال نہیں ہوں۔
کیوں۔
میں تو کہتا ہوں کہ ان سلاخوں کو ڈبل کر دیا جائے تاکہ میں اپنے آپ کو زیادہ محفوظ سمجھوں اور آپ کی قسم، اگر یہ سلاخیں نہ ہوں تو مجھ سے بات بھی نہ ہو سکے۔
کیا مطلب۔ انہوں نے پوچھا۔
آپ نے وہ قصہ سنا۔ ایلی کو معا ایسپ کی کہانی یاد آگئی۔
کونسا۔
ایلی نے کہانی سنانی شروع کر دی۔ بھیڑیا گھوم رہا تھا۔ ایک سو فٹ اونچی دیوار کے قریب پہنچا تو دیکھا کہ دیوار کے اوپر ایک بھیڑ کا بچہ بیٹھا ہے۔ بھیڑ کے بچے نے چلا کر کہا چچا جان سلام عرض کرتا ہوں۔ بھیڑیئے نے جواب دیا بیٹا یہ تو نہیں بول رہا یہ سو فٹ اونچی دیوار بول رہی ہے۔ ایلی نے کہا۔ محترمہ یہ میں نہیں بول رہا۔ بلکہ لوہے کی سلاخیں بول رہی ہیں۔
یہ تو بکواس کر رہا ہے۔ جمال نے کہا۔
تو پھر آپ بات کیجئے نا۔ وہ ہنس کر بولی۔
انہیں بکواس کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ ایلی نے کہا۔ یہ تو انڈر کانسیڈریشن نہیں ہیں۔ وہ ہنسیں۔ یہ آپ کو بات نہیں کرنے دیں گے۔ انہوں نے جمال کو مخاطب کرکے کہا۔ نہ جانے آپ انہیں ساتھ کیوں لے آتے ہیں۔
آپ نے تو خود ہی کھڑکی بند کر دی تھی کل۔ جمال نے کہا۔ اور کہا تھا جب تک اسے ساتھ نہیں لائیں گے کھڑکی نہیں کھلے گی۔
وہ تو اس لئے کہا تھا کہ آپ پر صرف ایک دھن سوار ہے۔ چونکہ آپ کے عزائم خطرناک ہیں۔ اس لئے تیسرے آدمی کا ہونا ضروری ہے۔
نہیں نہیں خدا کے لئے ایسا مت کہئے۔ جمال کھڑکی کے قریب تر ہو گیا۔
اندر ہاتھ نہ ڈالئے۔ وہ بولی۔ منہ زبانی بات کیجئے آپ کو تو کشتی کا شوق معلوم ہوتا ہے۔ ذرا انہیں پیچھے ہٹا دیجئے نا۔ انہوں نے ایلی سے اپیل کی۔
ایلی خاموش کھڑا رہا۔
خدا کے لئے ذرا دیا سلائی تو جلائیے۔ جمال نے منت کی۔
کیوں۔؟
یہاں بہت اندھیرا ہے۔ وہ بولا۔
بس ان کو یہی ایک بات کہنی آتی ہے۔ وہ ایلی سے کہنے لگی۔
خدا کے لیے۔ جمال نے اپنا بازو سلاخوں کے اندر ڈال دیا اور ٹارچ جلا دی جو وہ چھپا کر ساتھ لایا تھا۔ کمرے سے دو ایک ہلکی ہلکی چیخوں کی آوازیں آئیں اور دو ملفوف سی اشکال چلاتی ہوئی بھاگیں اور پھر خاموشی چھا گئی۔
دیر تک وہ دونوں وہاں چپ چاپ کھڑے رہے۔
بھاگ گئیں آخر۔ جمال بولا۔ وہ یونہی بھاگ جایا کرتی ہیں۔
لیکن یہ ٹارچ تم کیسے لے آئے تھے۔ ایلی نے پوچھا۔
چھپا کر لایا تھا۔ وہ ہنسنے لگا۔ یار اتنی دیر ہو گئی ہے ابھی تک ان کی شکلیں بھی نہیں دیکھیں۔ میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔
اس کے بعد ان کا معمول ہو گیا کہ شام کے وقت جب کھڑکی میں تیز روشنی دکھائی دیتی وہ دونوں قبرستان کی طرف چل پڑتے۔ ان کی آمد پر وہ پوچھتیں آپ کے پاس ٹارچ ہے تو اسے رکھ دیجئے ورنہ کھڑکی نہیں کھلے گی۔ یقین دہانی پر کھڑکی کھل جاتی اور کوئی نہ کوئی بات چل نکلتی اور وہ ہنستے ہنستے باتیں کرتے حتٰی کہ ان کے جانے کا وقت ہو جاتا اور وہ شب بخیر کہ کر کھڑکی بند کر لیتیں۔
ان ملاقاتوں میں ایلی باتوں میں پیش پیش رہتا اور اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ ابھی تک وہ جذباتی طور پر ان گوریوں سے وابستہ نہ ہوا تھا۔ اس لئے جو جی میں آئے کہ سکتا تھا اس کے علاوہ اسے مزید قرب کی آرزو نہ تھی۔ حتٰی کہ اسے یہ بھی خواہش نہ تھی کہ ان کو روشنی میں دیکھے۔ لیکن اس کا مطلب نہیں کہ ایلی ان کی شخصیتوں سے متائثر نہ ہوا تھا۔
وہ ان کی ذہانت، جرآت اور علم پر حیران تھا۔ ان کی باتیں رنگین ہونے کے علاوہ پر معنی ہوتیں۔ ان کی زبان شستہ تھی۔ مذاق لطیف اور خیالات بلند تھے۔
ایلی نے اچھی طرح جان لیا تھا کہ وہ صرف باتوں کی دلدادہ ہیں اور ان ملاقاتوں کا مقصد محفل آرائی کے سوا کچھ نہیں۔ وہ رنگین باتیں کرنے اور سننے کی شوقین تھیں اور انہیں بھونڈی باتوں سے نفرتی تھی۔
ماہ رمضان کی آمد پر ملاقات کا وقت بدل گیا۔ اب شام کی بجائے وہ سحری کے وقت ملنے لگے۔ رات کے دو بجے کے قریب سفید منزل کے چوبارے میں روشنی چمکتی۔ جسے دیکھ کر دونوں گوریوں سے ملنے کے لئے چل پڑتے۔ اس تبدیلئی اوقات پر جمال چلا اٹھا۔
یار یہ بہت مشکل کام ہے رات کے دو بجے کون جاگے۔
چونکہ ناؤ گھر کے رہنے والے سب کے سب امتحان کی تیاری میں مصروف تھے۔ بھا کے سوا ان میں سے کوئی روزہ نہ رکھتا تھا اس لئے سحری کے وقت ناؤ گھر میں کوئی نہیں جاگتا تھا۔ بھا نے بھی خصوصی انتظام کر رکھا تھا۔ شام کے وقت وہ دو انڈے بنوا لیتا جو صبح ڈبل روٹی کے ساتھ کھا کر روزہ رکھ لیتا تھا۔ بھا سے یہ کہنا کہ ہمیں دو بجے جگا دینا مناسب معلوم نہیں ہوتا تھا۔ گھڑی کو دو بجے کا الارم لگانے سے بھی وہ ڈرتے تھے۔ تاکہ گھر والوں کو شک نہ پڑے۔ رات کے دو بجے آپ ہی آپ جاگنا بہت بڑی مشکل تھی۔
ان دنوں کالج امتحان کی تیاری کی چھٹیوں کی وجہ سے بند ہو چکا تھا اور بی اے کے امتحانمیں صرف ڈیڑھ مہینہ باقی تھا۔ ان حالات میں گوریوں کے سگنل کو دیکھنے کے لیے لازم تھا کہ جمال یا ایلی ان میں سے کوئی دو بجے تک جاگے۔ چونکہ جمال جاگنے کے لیے تیار نہ تھا۔ اس لیے یہ ذمہ داری ایلی کو اپنے سر لینی پڑی۔ وہ دو بجے تک مطالعہ میں مصروف رہتا اور پھر روشنی کر دیکھ کر جمال کو جگاتا اور پھر دونوں مخصوص مقام پر پہنچتے اور وہاں اندھیرے میں ادھر ادھر کی بات چل نکلتی اور ایلی بے تکی ہانکتا۔ گوریاں فقرے چست کرتیں اور ہنستیں اور جمال کبوتر سی آنکھیں بنا کر گوریوں کی طرف دیکھتا۔ ان جانے میں کھجاتا اور جب ضبط کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جاتا تو بھکاری کی حیثیت سے سلاخوں کے قریب جا کھڑا ہوتا۔ “ خدا کے لیے، خدا کے لیے۔“ وہ چلاتا اور گوریوں کے ماتھے پر شکن پڑ جاتے۔
دروازہ
دراصل جمال کا پیمانہ صبر لبریز ہو چکا تھا۔ وہ ان ملاقاتوں اور بیکار کی باتوں سے اکتا چکا تھا۔ اسے سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ گھنٹوں کھڑے ہو کر باتیں کرتے رہنے کا مطلب کیا تھا۔ اسی وجہ سے وہ بار بار ایلی کو کہتا رہا۔
“ ایلی یار کچھ کرنا چاہیے۔ اگر ہم کسی طرح اس دروازے کو کھول لیں جو باہر گلی میں کھلتا ہے تو اندر جا سکیں گے۔“ ایلی کو یہ تجویز ناپسند نہ تھی۔ لیکن وہ اس کے لیے بیتاب بھی نہ تھا۔ درحقیقت دل ہی دل میں ایلی ان لڑکیوں کے قرب سے ڈرتا تھا۔ اس کی وجہ غالباً اس کا جذبہ کمتری تھی جو عورت سے متعلق اس کے دل کی گہرائیوں میں جا گزین ہو چکا تھا۔ شاید اسی وجہ سے وہ جمال کے اس مطالبے کو ٹالتا رہا۔ لیکن آخر کار اسے جمال کی بات ماننا ہی پڑی۔
ایک روز گوریوں سے ملاقات کے اختتام پر وہ دونوں وہاں رک گئے۔ انہوں نے ٹارچ جلا کر تالے کی ساخت کو بغور دیکھا اور لیوروں کی تعداد معلوم کی اور بالاخر موم کے ایک گولے پر جو وہ جاتے ہوئے ہمراہ لے گئے تھے تالے کے سوراخ کا نقش حاصل کر لیا۔
اس روز وہ دونوں بازار میں تالوں کی دکانوں پر گھومتے رہے اور انجام کار ویسے ہی چار تالے خرید کر لے آئے۔ اگلے روز ملاقات کے بعد انہوں نے وہ چاروں چابیاں اس تالے پر آزمائیں۔ خوش نصیبی سے ایک چابی لگ گئی اور تالہ کھل گیا۔ انہوں نے کنڈی کھولی اور دروازے کو کھولنے کی کوشش کی مگر اندر سے چٹخنی لگی ہوئی تھی۔
“ اب کیا ہو گا۔“ جمال کہنے لگا۔ “ ساری محنت اکارت گئی۔ اگر ہم نے تالہ کھول بھی لیا تو وہ اندر سے چٹخنی نہیں کھولیں گی۔“
“ جلدی نہ کرو۔“ ایلی نے جواب دیا۔ “ یہ بات مجھ پر چھوڑ دو۔“
“ یار کچھ کرو۔“ جمال نے منتیں کرنا شروع کر دیں۔ “ ایسی چالاکی کرو کہ بات بن جائے۔“
اگلی رات وہ دو بجے سے پہلے ہی وہاں جا پہنچے۔ انہوں نے تالہ اور کنڈی کھول دی۔
پھر وہ گوریوں کا انتظار کرنے لگے۔ اس دوران میں ایلی نے اچھی طرح جمال کو تاکید کر دی کہ دروازہ کھولنے کے بارے میں گوریوں کا انتظار نہ کرئے۔ جب وہ دونوں کھڑکی میں ائیں تو ایلی نے حسبِ معمول ادھر ادھر کی بات چھیڑ دی اور دیر تک وہ یوں باتوں میں محو رہا جیسے دروازے کی تفصیل بھول چکا ہو۔ پھر دفعتاً وہ زمین پر بیٹھ گیا۔
“ ہائیں آپ بیٹھ کیوں گئے۔“ وہ بولی
“ ہوا لگتی ہے۔“ ایلی نے جواب دیا۔
“ ہوا تو بلکہ اچھی لگتی ہے۔“ وہ بولی۔
“ اسے کل سے بخار آتا ہے۔“ جمال نے کہا۔
“ ارے۔“ وہ بولی۔ “ تو آپ نے بتایا کیوں نہیں۔“
“ بتا دیتا تو کیا کرتیں آپ؟ کیا دروازہ کھول کر اندر بلا لیتیں۔“
“ ہاں ہاں کیوں نہیں۔“ وہ ہنسی۔
“ جبھی تو بتایا نہیں۔ ڈر تھا کہ مجھے اندر نہ بلا لو۔“
“ اگر باہر تالہ نہ پڑا ہوتا تو میں ابھی آپ کو اندر لے آتی۔“
ایلی نے قہقہہ لگایا۔ “ آپ میں اتنی جرات کہاں۔ آپ ------۔“
“ کیوں۔“ اندر سے آواز آئی۔
“ بس - قرائن سے یہی ظاہر ہوتا ہے۔ آپ شاید اس خوش فہمی میں ہیں۔“ وہ بولا۔ “ کہ آپ لڈو ہیں اور ہم بھوکے جاٹ۔“ وہ ہنسنے لگی۔ “ بھوکے جاٹ نہیں البتہ بھکاریوں سے سابقہ ضرور پڑا ہے ہمیں۔“
“ تو بھکاریوں سے ڈرتی ہیں آپ۔“ ایلی نے قہقہہ لگایا۔
“ ہم تو کسی سے نہیں ڈرتے۔“ وہ بولی۔
“ تو پھر اندر کی چٹخنی کھول دکھائیے۔“ اس گفتگو کے دوران میں جمال تھوکنے کے بہانے گلی کی طرف نکل گیا تھا۔ لیکن ایلی اپنی جگہ پر جما رہا۔
“ لو اس میں کیا ہے۔“ اندر کوئی بولی اور پھر چٹخنی کھولنے کی آواز سنائی دی اور پیشتر اس کے کہ وہ اسےپھر سے بند کر لیتیں، جمال نے دروازے کو دھکیل کر کھول دیا۔ دروازہ کھلتا دیکھ کر وہ دونوں چیخیں مار کر بھاگیں اور ایک دوسری پر گرتی پڑتی نظر سے غائب ہو گئیں۔ سلاخ دار کھڑکی کے پیچھے وہ جگہ جسے وہ کمرہ سمجھتے تھے درحقیقت زینے کا نچلا حصہ تھا۔
سامنے ایک دروازہ عمارت کے اندر کھلتا تھا۔ دوسری طرف زینہ تھا۔ جس میں گھر کا کاٹھ کباڑ بھرا ہوا تھا۔ ٹوٹی ہوئی میزیں کرسیاں کھوکھے اور جانے کیا کیا۔ دوسرے کونے میں اندرونی دروازے کے پاس دو پاٹ رکھے ہوئے تھے۔ کمرے کی چوڑائی زیادہ نہ تھی۔
اگلے روز دروازہ کھولنے کا جھگڑا از سر نو شروع ہو گیا۔ آخر میں وہ جلال میں آ گئیں۔ “ دیکھیے صاحب۔“ ایک بولی، “ ہمیں دروازہ کھولنے میں کوئی عذر نہیں۔ آپ شوق سے تشریف لائیں لیکن ------ “ ایلی نے اس کی بات کاٹ کر کہا، “ اگر اس لیکن کی وضاحت ہمیں اندر بلانے کے بعد کی جائے تو بہتر ہو گا۔“
جب دروازہ کھلا اور وہ اندر داخل ہو گئے تو وہ نہایت سنجیدگی سے کہنے لگی۔ “ دیکھیے ممکن ہے آپ ہمارے متعلق کسی غلط فہمی میں مبتلا ہوں۔ شاید آپ سمجھے بیٹھے ہیں کہ آپ کو ملاقات کی دعوت دینے سے ہمارا کچھ مقصد ہے۔ یہ خوش فہمیاں دل سے نکال دیجیئے تو بہتر ہو گا اور اگر آپ نے کوئی نامناسب حرکت کی تو ہمیں بے حد دکھ ہو گا۔“
“ ذرا پیچھے ہٹ جائیے محترمہ مجھے بُو آتی ہے۔“ ایلی نے کہا۔ یہ کہہ کر وہ زمین پر بیٹھ گیا۔
“ بُو۔“ وہ بولی، “ نہیں یہ پاٹ تو خالی پڑے ہیں۔“
“ نہیں پاٹ والی بُو نہیں۔“ ایلی نے کہا۔ “ لیکن ہم نے کوئی خوشبو تو لگائی ہوئی نہیں۔“
“ لگائی ہو یا نہ بہر صورت آتی ہے۔“ ایلی نے کہا۔ “ آپ کی ساری قوم سے آتی ہے۔“
“ بڑے بدتمیز ہیں آپ۔“ وہ ہنسی۔
“ یہ تو ٹھیک ہے۔“ ایلی نے جواب دیا۔ “ الٹا مجھے آپ سے شکایت ہے کہ آپ ضرورت سے زیادہ باتمیز ہیں۔“
عین اس وقت جمال نے دیا سلائی سے موم بتی جلائی جو وہ اپنے ساتھ لایا تھا اور پھر اسےکمرے کے پرلے کونے میں رکھدیا۔
“ ارے۔“ وہ چلائیں۔ لیکن جلد ہی سنبھل گئیں۔
“ تو آپ شکل و صورت دیکھنا چاہتے ہیں ------ “ کچھ دیر تک وہ خاموش روشنی میں کھڑی رہیں۔ پھر ایک بولی۔
“ کیوں پسند ہے آپ کو۔“
اس کے انداز میں اتنی طنز تھی کہ ایلی پر گھڑوں پانی پڑ گیا۔ لیکن جمال ہنسے جا رہا تھا۔
“ اونہوں بالکل پسند نہیں۔“ ایلی بولا۔ “ معصوم اور پاکیزہ چٹ کپڑیاں بڑی خطرناک ہوتی ہیں۔ ان سے کہیں بہتر ہیں جو آنکھیں مٹکاتی ہیں، لجاتی ہیں، شرماتی ہیں اور کولھے ------ “
“ کیا مطلب ہے آپ کا۔“ وہ بولی۔
“ مطلب یہ ہے محترمہ کہ کم از کم مجھے باہر نکال دیا جائے۔ میرا تو یہ خیال تھا کہ اندر میری پوزیشن باہر کی نسبت بہتر ہو جائے گی۔ لیکن یہاں آ کر تو اپنی کوئی حیثیت ہی نہیں رہی۔ صورت حال خطرناک ہو گئی ہے۔“
“ تو خود ہی باہر نکل جائیے۔“ وہ جلال میں بولی۔
خود نکلنے کو جی نہیں چاہتا۔ ایلی نے کہا۔
“ اچھا۔“ کہہ کر وہ آگے بڑھی۔
“ نہیں نہیں نہیں نہیں۔“ ایلی نے شور مچا دیا۔ “ خدا کے لیے مجھے چھونا نہیں۔ میرا دل پہلے ہی کمزور ہے۔“
وہ ہنس پڑی۔ “ آپ بھی عجیب ہیں۔ لیکن آپ انہیں تو بات کرنے دیتے ہی نہیں۔ آپ بھی کوئی بات کیجیئے نا۔“ اس نے جمال کو مخاطب کر کے کہا۔
“ جانِ من میں تو ------ “ جمال نے آگے بڑھتے ہوئے کچھ کہنے کی کوشش کی۔
“ وہیں سے بات کیجیئے۔“ وہ بولی اور خود پیچھے ہٹ گئی۔
چھوٹی بڑی
اس روز روشنی میں ایلی نے پہلی مرتبہ انہیں دیکھا۔ شکل و صورت طبیعت اور انداز میں وہ دونوں ایک دوسری سے مختلف تھیں۔ بڑی کا چہرہ کتابی تھا نقوش ستواں تھے۔ جسم دبلا پتلا، موٹی موٹی سیاہ آنکھوں میں غم کی جھلک، ہونٹ پتلے اور یوں بھنچے ہوئے تھے جیسے کراہ دبائے ہوئے ہوں۔ چھوٹی کا چہرہ متبسم اور زندگی سے بھرپور تھا۔ اس کا جسم بھرا بھرا تھا۔ ہونٹ یوں کھلے ہوئے تھے جیسے کوئی لطیفہ سن کے بیٹھی ہو۔ بڑی خاموش تھی۔ نہ تو کھیل کی متمنی تھی نہ اس میں احتجاج کی صلاحیت تھی۔ چھوٹی میں جلال اور جمال کی عجیب آمیزش تھی۔ دفعتاً ------ ہنستے ہنستے وہ سنجیدگی اختیار کر لیتی اور پھر جلد ہی آپ ہی آپ ہنسنے لگتی۔ ان دونوں کا لباس سادہ تھے اور بظاہر سنگار سے عاری تھیں۔
“ آپ بیٹھ کیوں گئے۔“ چھوٹی نے کہا، “ اٹھ کر کوئی بات کیجیئے نا۔“
“ اونہوں۔“ ایلی نے جواب دیا۔ “ اب جمال کی باری ہے۔“
“ انہیں تو صرف ایک بات آتی ہے۔“ چھوٹی نے کہا۔
“ وہ بھی سن لیجیئے کیا حرج ہے۔ جب تک میری باچھیں ٹھیک ہو جائیں گی۔“
“ باچھیں ٹھیک ہونے کا مطلب؟“
“ محترمہ۔“ وہ بولا، “ بول بول کر میری باچھیں دکھنے لگی ہیں۔“
“ ارے۔“ وہ دونوں ہنسنے لگیں۔
“ میں گاؤں کا رہنے والا ہوں محترمہ۔“ وہ بولا۔ “ ہم تو کبھی کبھار عید شبرات کو اردو بولتے ہیں۔ یا جب کبھی غصہ آ جائے۔ آپ سی اہل زبان کو ملنے کا مجھے موقعہ نہیں ملا کبھی۔“ پھر ازراہ مذاق وہ پنجابی میں کہنے لگا۔
“ ہن مینوں ساہ لے لین دیو۔“
“ لے لو جی ساہ ڈھڈ بھر کے۔“ وہ ٹھیٹھ پنجابی میں بولتے ہوئے ہنسی۔
“ ارے۔“ ایلی اٹھ کر حیرت سے اس کی طرف دیکھنے لگا۔ “ پنجابی؟“
“ ٹھیٹھ ------ پنجابی۔“ وہ بولی۔
“ پنجابی، فارسی، اردو، انگریزی ------ یا اللہ۔“ ایلی مسخروں کی طرح منہ بنا کر چلایا۔
“ یہ آپ کیا کر رہے ہیں۔“ دفعتاً وہ غصے سے چلائی۔ جمال صاحب ایسی فضول حرکتیں نہ کیجیئے۔“
“ میری جان۔“ جمال بولا، “ میں کیا کروں میں مجبور ہوں۔“
“ چلو باجی چلیں۔“ اس نے بڑی بہن سے کہا، “ چلو۔“
“ خدا کے لیے۔“ جمال چلایا، “ میں تباہ ہو جاؤں گا ------۔“ اور پھر دھڑام سے فرش پر گر پڑا۔
“ ارے۔“ ایلی اس کی طرف لپکا۔ “ یہ کیا کر رہے ہو؟“
“ دیکھیئے۔“ چھوٹی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے بولی، “ جب یہ ہوش میں آ جائیں تو انہیں یہاں سے اٹھا کر لے جائیے گا۔ خدا حافظ۔“
واپس جاتے ہوئے ایلی نے جمال سے کہا، “ یہ کیا کیا تم نے۔ سارا کیا کرایا تباہ کر دیا۔“
جمال قہقہہ مار کر ہنسا۔ “ یار ایلی یہ لڑکیاں یونہی کیا کرتی ہیں۔ تمہیں کیا خبر۔“
“ نہیں یار۔“ ایلی نے چڑ کر کہا۔ “ وہ ایسی باتیں پسند نہیں کرتیں۔“
“ وہ یہی ظاہر کیا کرتی ہیں۔“ جمال نے پہلی مرتبہ ایلی کے خیال سے اتفاق نہ کیا۔ “ تم اس معاملے کو نہیں سمجھتے۔ دو ایک بار احتجاج کریں گی پھر۔“ وہ معنی خیز انداز میں ہنسنے لگا۔
ایلی کو غصہ آ رہا تھا لیکن وہ خاموش رہا۔
“ تمہاری مرضی۔“ وہ بولا۔ “ آخر یہ ساری رچنا تمہاری ہی رچائی ہوئی ہے۔“
“ بس تو۔“ جمال بولا۔ “ اس معاملے میں تم دخل نہ دو۔ بس دیکھتے جاؤ۔“
تین دن گزر گئے۔ نہ تو گوریوں نے خط لکھا اور نہ انہوں نے رات کے وقت انہیں بلایا۔ اس پر جمال گھبرا گیا اور اس نے از سرِ نو برساتی سے انہیں دیوانہ وار اشارے کرنے شروع کر دیئے۔ جمال کو دیکھ کر وہ ہنسے جاتیں اور جب وہ رات کی ملاقات کے لیے اشارہ کرتا تو نفی میں سر ہلا دیتیں۔
تیسرے روز ان کا ایک لمبا چوڑا خط موصول ہوا۔ جس کا لبِ لباب یہ تھا کہ جب تک آپ یہ یقین نہ دلائیں گے کہ بھونڈی اور قبیح حرکات کے مرتکب نہ ہوں گے ملاقات نہیں ہو گی۔ البتہ آپ کے دوست آ سکتے ہیں۔ بشرطیکہ وہ ہمیں یقین دلائیں کہ وہ آپ کو ساتھ نہیں لائیں گے۔“
“ ایلی۔“ جمال نیم چھتی میں بیٹھ کر کہنے لگا۔ “ یار تم مجھے چھپا کر ساتھ لے چلو۔ میں صرف ایک بار ان سے ملنا چاہتا ہوں۔“
“ انہیں یقین کیوں نہیں دلا دیتے کہ تم ایسی حرکت نہ کرو گے۔“
“ ایسی حرکت نہ کرنی ہو تو پھر راتوں کی نیند حرام کرنے کا فائدہ۔“ وہ بولا۔
وہ دونوں سارا دن اس موضوع پر بحث کرتے رہے۔ جمال چاہتا تھا کہ ایلی اکیلا آنے کا یقین دلا کر ساتھ اسے لے جائے۔ لیکن ایلی کو یہ بات منظور نہ تھی۔ آخر جمال کر ایلی کی بات ماننا پڑی اور انہوں نے ایک مختصر خط میں انہیں یقین دلانے کی کوشش کی کہ کوئی ایسی حرکت نہ ہو گی جو انہیں ناپسند ہو۔
ورنہ
اس روز پہلی مرتبہ ایلی کا جی چاہا، وہ اپنی طرف سے ایک رقعہ لکھے۔ نہ جانے کیوں اس کا جی چاہتا تھا کہ وہ کچھ کہے۔ ایسی بات کہے جو تاروں کو چھیڑ دے۔ ایسی بات جو کچھ بھی نہ کہہ رہی ہو اور سبھی کچھ کہہ دے۔ اس اس بات کا شعور نہین تھا کہ کہ کیا کہنا چاہتا ہے۔
ایلی نے پہلی مرتبہ یہ خواہش محسوس کی کہ وہ جمال کو نہ بتائے بلکہ چپکے سے رقعہ ملفوف کر دے اور جمال کو علم بھی نہ ہو۔ چونکہ شعوری طور پر اس کا کوئی خاص مقصد نہ تھا اس لیے ایلی نے یہ سوچ کر اپنے آپ کو مطمئن کر لیا کہ یہ تو محض چھیڑ چھاڑ ہے۔ لیکن دراصل اس رنگین چھیڑ چھاڑ کے بہانے وہ اس محفل میں اپنے لیے ایک مقام پیدا کر رہا تھا۔ اس جان بوجھ کر ایسی بات کرتا تھا۔ ایسا انداز اپناتا تھا۔ جس سے جمال اور ایلی کا فرق نمایاں ہو۔ دونوں کا موازنہ ہو جائے۔ ایلی نے کبھی اپنے آپ کو اس سلسلے میں موردِ الزام نہ ٹھہرایا تھا۔ نہ ہی اس نے سوچا تھا کہ وہ چالاکی سے اپنے دوست کو بھونڈی شکل میں پیش کر رہا ہے۔ اس کی ایسی حرکات اور ایسی باتوں کا مقصد کیا تھا۔ یہ اسے خود بھی معلوم نہ تھا۔ شاید وہ گوریوں سے انتقام لے رہا تھا۔ جنہوں نے اس پر ناقابلِ التفات کا لیبل لگایا تھا۔ جو تمسخر سے اس پر ہنستی رہی تھیں یا شاید اس کی یہ وجہ ہو کہ ان کی رنگین باتیں سن کر ان کی خودداری اور ذہنی عظمت کو محسوس کر کے وہ درپردہ ان سے محبت کرنے لگا تھا۔
جب جمال خط نقل کر کے چوبارے میں چلا گیا تو ایلی اپنا رقعہ لکھنے کے لیے بیٹھ گیا۔ اس نے چار ایک سطور لکھیں۔ لیکن دوبارہ پڑھنے پر اس نے محسوس کیا کہ وہ سطور بے معنی تھیں۔ اس نے وہ وہ ورق پھاڑ دیا اور پھر سے لکھنے لگا۔ لیکن سات آٹھ الفاظ لکھنے کے بعد اس نے پھر محسوس کیا کہ مضمون تاثر سے خالی ہے۔
گھڑی نے ایک بجا دیا اور ابھی وہ اپنا رقعہ مکمل نہ کر پایا تھا۔ یہ پہلا دن تھا جب ایلی کے لیے انہیں خط لکھنا مشکل ہو رہا تھا۔ حالانکہ وہ انہین سوچے سمجھے بغیر بیسوں خط لکھ چکا تھا۔ ان خطوں پر اسے سوچنا ضرور پڑتا تھا۔ لیکن اس نے کبھی لکھے ہوئے خط کو پھاڑا نہ تھا۔ کبھی محسوس نہ کیا تھا کہ خط کا مضمون تاثر سے خالی ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ پہلا دن تھا۔ جب کہ ایلی گوریوں سے لگاؤ محسوس کر رہا تھا۔ اگرچہ اسے اس لگاؤ کی شعوری احساس نہ تھا۔
ڈیڑھ بجے کے قریب ایلی نے محسوس کیا کہ جو کچھ بھی وہ کہنا چاہتا ہے اسے لفظوں میں نہیں لایا جا سکتا اس لیے اس نے صرف ایک سطر لکھ کر ایک چھوٹا سا پرزہ جمال کے خط میں ڈال دیا۔ لکھا تھا۔
“ اب نہ ملیے محترمہ۔ اب ملاقات کی ہمت نہیں رہی۔ جب سے آپ سے متعارف ہوا ہوں، دعائیں مانگتا ہوں کہ ملاقات کا سلسلہ مسدود ہو جائے ورنہ ------ “
ایلی کا ورنہ رنگ لایا۔ اگلے روز دورانِ ملاقات جب ایلی نے کہا۔ “ اللہ کرئے اب کی بار تم اس قدر ناراض ہو جاؤ کہ ملاقاتوں کا امکان ہی ختم ہو جائے۔“
“ کیوں؟“ بڑی نے پوچھا۔ “ آپ کو کیا تکلیف ہے؟“
“ بڑی تکلیف ہے۔“ ایلی نے کہا۔ “ کتنے سادہ لوح ہیں ہم کہ آگ سے کھیلنے کے لیے گھر سے چل کر آتے ہیں۔“
“ کہاں ہے آگ؟“ چھوٹی ہنسی۔
“ اب ملاقات کی ہمت نہیں رہی۔“ ایلی نے کہا۔ “ اور ------ “
عین اس وقت ایلی نے اپنے ہاتھ پر نرم سا دباؤ محسوس کیا۔
ایلی سمجھتا تھا کہ اس دباؤ کا مطلب اسے خاموش کرنا ہے۔ لیکن نہ جانے اسی دباؤ کی وجہ سے اس خاموش یقین دہانی کی وجہ سے جو اس دباؤ میں پنہاں تھی۔
اس کو اپنانے کے جذبہ کی وجہ سے جو اس دباؤ سے ظاہر ہوتا تھا۔ ایلی جوش میں آ گیا۔
“ یہ کس نے مجھے چھیڑا۔ کون چھیڑ رہا ہے مجھے؟“ اس نے دہائی مچا دی۔
“ کون چھیڑ رہا ہے بھئی۔ مت چھیڑو انہیں؟“ چھوٹی ہنس کر بولی۔ ساتھ ہی ایلی نے دباؤ پھر محسوس کیا۔
دفعتاً اس نے بات کا رخ بدلا۔ “ ساز نہ چھیڑو۔“ وہ بولا۔ “ مجھ میں تو پہلے سے ہی نغمے بے قرار ہیں۔ مجھے کوئی نہ چھیڑے۔“
“ اچھا۔“ بڑی بولی۔“ بڑا زعم ہے آپ کو اپنے آپ پر۔“
“ زعم تو نہیں، اگر میں گِر کر بے ہوش ہو گیا تو پھر ہوش میں نہ آؤں گا اور لاش ------ “
اندھیرے میں کسی نے ایلی کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔
ایلی پر ایک نشہ سا طاری ہو گیا اور وہ گھبرا کر بیٹھ گیا۔
دیر تک کمرے پر خاموشی طاری رہی۔ جمال ادھر دوسرے کونے میں باجی کے پاس چپ چاپ کھڑا تھا۔ ایلی کے قریب چھوٹی کھڑی تھی۔
“ آپا یہ خاموش کیوں ہو گئے؟“ بڑی نے چھوٹی سے پوچھا۔
“ پتہ نہیں۔“ وہ ہنسنے لگی۔
“ ہر مظلوم آدمی پہلے چلاتا ہے پھر خاموش ہو جاتا ہے۔“ ایلی نے کہا۔ ہلکی سی ہنسی کی آواز آئی پھر خاموشی طاری ہو گئی۔ ایلی کے سر پر کسی نے ہاتھ رکھ دیا۔
پھر اس نے محسوس کیا کہ اس کے قریب ہی سلیپروں میں نیم چھپے پاؤں رکھے ہوئے ہیں۔ وہ جھک کر پاؤں دیکھنے لگا۔ اس نے پاؤں کو چھوا۔
“ یہ کیا کر رہے ہیں آپ؟“ آپا چلائی۔
“ مجھے خزانہ مل گیا ہے اسے کھود کر نکال رہا ہوں۔“ وہ بولا۔
وہ ہنسی۔ “ یہ زمین پر بیٹھنے کا کیا مطلب ہے؟“ وہ بولی۔ “ آپ تو سراسر جاٹ ہیں۔“
ایلی نے اس کی بات کا جواب نہ دیا بلکہ پاؤں سلیپر سے نکال کر ہاتھوں میں تھام لیا۔
“ میرا پیر تو چھوڑیئے۔“ آپا چلائی۔
“ اوہ ------ میں سمجھا میرا پاؤں ہے۔“ وہ بولا۔
“ آپ کی زبان قابل قطع ہے۔“ وہ ہنسنے لگی۔
“ ٹھیک ہے رنگ روپ اللہ نے نہیں دیا۔ رہی سہی ایک زبان ہے وہ آپ کاٹ لیجیئے۔“
وہ ہنسی۔ پھر خاموشی چھا گئی۔
“ آج جمال صاحب نے اپنی بات نہیں دہرائی۔“ آپا نے کہا۔
“ دہرا رہے ہیں۔“ ایلی نے کہا۔
“ کیا مطلب؟ وہ بولی۔
“ دہرا رہے ہیں مگر منہ زبانی نہیں۔ آج انہیں اپنا مقام مل گیا ہے۔“
آپا قہقہہ مار کر ہنسی۔ “ ابھی تو انڈر کانسیڈریشن ہوں۔“
اس روز کمرے کی خاموشی بے حد متکلم تھی۔ اس خاموشی میں نہ جانے کیا کیا ہو رہا تھا۔ کوئی ہاتھ ایلی کے بالوں کو تھپک رہا تھا۔ منہ کو سہلا رہا تھا۔ کمرے کے دوسرے سرے پر عجیب سی آوازیں پیدا ہو رہی تھیں۔ عجیب سی گھٹن محسوس ہو رہی تھی۔ وہ محسوس کر رہا تھا جیسے کسی کے ہاتھ کا جھنجھنا ہو اور اس اضطراب سے نجات پانے کے لیے جی چاہتا تھا کہ دروازہ کھول کر باہر نکل جائے اور جاتے ہوئے کہے، “ محترمہ ظلم کی حد ہوتی ہے۔“
اس روز جب وہ ناؤ گھر لوٹ رہا تھا تو پہلی مرتبہ اس کے دل میں کچھ ہو رہا تھا۔ اس رات پہلی مرتبہ وہ بے تعلق فاتح کی حیثیت سے نہیں لوٹ رہا تھا۔ بلکہ جیسے اس کا کچھ حصہ وہیں اس زینے میں رہ گیا ہو۔ دل میں کچھ کچھ ہو رہا تھا۔ دل کے تاروں کو کوئی چٹا سفید گدگدا ہاتھ چھیڑ رہا تھا اور جسم کے تار بج رہے تھے۔ اس روز اسے یہ بھی یاد نہ رہا تھا کہ اسے جمال کے برتاؤ کی کسی تفصیل پر بحث کرنا ہے۔ جیسے واپسی پر وہ روز کیا کرتے تھے۔ بلکہ اس روز وہ محسوس کر رہا تھا جیسے وہ اکیلا ہو۔ جب جمال نے بات چھیڑی تو ایلی تو وہ یہ بھی بھول چکا تھا کہ اس کھیل کا ہیرو جمال ہے اور اس کی اپنی حیثیت کوئی نہیں۔
“ یار میں تو بھولا ہی رہا۔“ جمال نے ایلی کے شانے پر ہاتھ مار کر کہا۔
“ ہوں ------ “ ایلی نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔
“ بڑی والی تو بہت ہی اچھی ہے۔ کیا کہتے ہیں اسے ہاں باجی؟ اور وہ آپا وہ تو ظالم کچھ کرنے ہی نہیں دیتی تھی اور میں بھی ایسا بیوقوف ہوں کہ میں نے کبھی باجی کی طرف توجہ ہی نہیں کی تھی۔“
“ ہوں۔“ ایلی اپنے خیال میں مگن تھا۔
“ وہ اتنی تیز نہیں اور وہ چھوٹی آپا تو پولیس کی افسر معلوم ہوتی ہے۔“
“ ہاں۔“ ایلی نے کہا۔
“ تم نے ٹھیک کہا تھا۔“ جمال نے ہنستے ہوئے کہا۔
“ کیا؟“
“ کہا تھا نا میرے بارے میں کہ آج اسے اپنا مقام مل گیا ہے۔ یار تم بات دیکھے بغیر بھانپ لیتے ہو۔“
“ میں نے تو ویسے ہی بکواس کی تھی۔“
“ لیکن یار۔“ جمال بولا۔ “ خدا کے لیے وہاں ایسی بات نہ کیا کرو۔“
“ کیوں؟“
“ تمہاری بات سن کر وہ پیچھے ہٹ گئی اور پھر دیر تک ------ “ وہ ہنسنے لگا۔
“ تو مبارک ہو۔“ ایلی نے کہا۔ “ تمہاری بات بن گئی ناں؟“
“ بات تو نہیں بنی۔“ وہ بولا۔ “ یار یہ دونوں عجیب لڑکیاں ہیں۔ کسی کو قریب آنے نہیں دیتیں۔ میں نے ایسی لڑکیاں آج تک نہیں دیکھیں۔“
“ کیسی دیکھی ہیں؟“ ایلی نے بے توجہی سے پوچھا۔
جمال نے قہقہہ مار کر ایک بھر پور ہاتھ ایلی کے شانے پر مارا۔ “ یار لڑکیاں تو چمٹ جایا کرتی ہیں، جھینپتی بھی ہیں، لجاتی بھی ہیں، نہ نہ بھی کرتی ہیں، لیکن ساتھ ہی چمٹی بھی جاتی ہیں۔“ وہ قہقہہ مار کر ہنسنے لگا۔
“ اچھا۔“ ایلی بولا۔ “ ہمیں بھی پتہ بتاؤ کسی ایسی لڑکی کا۔“
“ مذاق نہ کرو یار۔“ جمال بولا۔ “ یہ باجی بھی خاموش لڑکی ہے اور نہ نہ کرتے ہوئے بھی بہت کچھ برداشت کر لیتی ہے۔“
“ تو یار۔“ ایلی نے نجانے کس خیال سے کہا۔ “ کل ہم اپنی جگہ بدل نہ لیں۔“
“ نہ نہ نہ۔“ وہ شور مچانے لگا۔ “ آپا تو مجھے ڈانٹے گی۔“
“ مجھے تو نہیں ڈانٹتی۔“ ایلی نے کہا۔
“ تمہاری بات اور ہے۔“ وہ بولا۔
“ وہ کیسے؟“
جمال ہنسنے لگا۔ “ برا نہ ماننا۔ تمہیں دونوں ہی پسند نہیں کرتیں اس لیے۔
“ چلو یہ بھی اچھا ہے۔“ ایلی بولا۔ “ جان بچی لاکھوں پائے۔“
یہ باتیں ایلی شاید اس لیے کر رہا تھا کہ وہ بات کو راز بنا کر محفوظ کر لینا چاہتا تھا۔ اس کا اسے راز بنانا بذات خود اس بات کا شاہد تھا کہ وہ آپا سے تعلق محسوس کرنے لگا تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ جمال کے روبرو کوئی ایسی بات کرئے جس سے آپا پر حرف آئے۔
اس روز ایلی سارا دن مضطرب رہا۔ وہ پہلا دن تھا جب اس نے اس کھیل کو اہمیت دی تھی۔ ان کیفیات کے متعلق سوچ رہا تھا۔ جو اس نے سفید منزل کے زینے میں محسوس کی تھیں۔ اس روز وہ ایک لفظ بھی نہ پڑھ سکا۔
شام کو جب وہ دونوں نیم چھتی میں بیٹھے تھے تو نیچے سے بھا آیا۔ “ یہ تمہارا تار ہے۔“ بھا نے تار جمال کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ “ تمہاری بیوی بیمار ہے تمہیں بلایا ہے۔ لیکن یار۔“ بھا نے حیرت سے کہا۔ “ تم شادی شدہ ہو جمال یہ مجھے آج ہی معلوم ہوا؟“
“ کئی لوگوں کو اب تک معلوم نہیں۔“ ایلی نے بامعنی انداز سے کہا۔
جمال تار پڑھ کر اٹھ بیٹھا۔ اس کے چہرے کی حالت بدل گئی۔ “ یار مجھے جانا ہو گا۔ ابھی۔ بھا کوئی گاڑی جاتی ہے اس وقت؟“
“ لیکن گھبرانے کی کوئی بات نہیں، بیماری عام سی معلوم ہوتی ہے۔“
“ نہیں یار۔“ جمال بولا۔ “ مجھے اپنی بیوی سے بڑی محبت ہے۔“ اس کی آنکھیں پرنم تھیں۔
گاڑی میں بیٹھ کر پہلی مرتبہ جمال کو خیال آیا۔ کہنے لگا۔ “ یار ایلی تم تو شاید اب ان سے ملنے نہ جاؤ گے۔ لیکن ایک مرتبہ تو جانا ہی پڑے گا۔ ضرور جانا کہیں ان سے یہ نہ کہہ دینا یار کہ بیوی بیمار ہے۔ بلکہ کہنا والدہ کی بیماری کا تار آیا تھا یار انہیں یہ معلوم نہ ہو کہ میں شادی شدہ ہوں۔“
ہولڈ اپ
رات کو جب گوریوں نے دیکھا کہ ایلی اکیلا ہی آیا ہے تو باجی بولی۔ “ وہ کہاں ہیں؟“
“ اسے گاؤں جانا پڑا۔“ ایلی نے انہیں تار کے متعلق بتایا۔ پھر وہ باتوں میں مصروف ہو گئے۔ دونوں اس کے دائیں بائیں آ کھڑی ہوئیں۔
“ یہ بات تو غلط ہے۔“ اس نے شور مچا دیا۔ “ آپ دو اور میں اکیلا۔“ دونوں نے اس کے شانوں پر ہاتھ رکھدیئے۔
“ ہاتھ لگانا فاؤل ہے۔“ وہ چیخنے لگا۔ پھر اسے دفعتاً “سوجی“ دیکھیئے جی۔“ وہ بولا۔ “ شاید آپ نے میرے متعلق کوئی خوش فہمی پال رکھی ہو۔ شاید آپ سمجھے بیٹھی ہوں کہ ملاقات سے میرا کوئی خاص مقصد ہے۔ مہربانی یہ خیال دل سے نکال دیں۔“
“ انتقام لینے میں تو آپ کا جواب نہیں۔“ آپا ہنسنے لگی۔
“ نہیں نہیں انتقام کی بات نہیں۔ ابھی کل کی مصیبت سر سے نہیں ٹلی۔“
“ کل کی مصیبت کیا؟“ انہوں نے پوچھا۔
“ کل رات کسی کی لاپرواہی سے ایک خوشبودار رنگین ہاتھ میرے چہرے سے چھو گیا تھا یا شاید کسی نے شرارت کی ہو۔ ایمان سے ابھی تک جھنجھنا بنا ہوا ہوں۔ اصل میں میرا دل بہت کمزور ہے اور محترمہ شاید آپ کو معلوم نہیں میں اپنی ماں کا اکلوتا بیٹا ہوں۔“ یہ کہہ کر وہ زمین پر بیٹھ گیا۔
“ یہ کیا کرتے ہیں آپ؟“ وہ چلائیں۔ “ زمین پر بیٹھ جاتے ہیں اس طرح۔“
“ آپ نے بندوقیں جو اٹھا رکھی ہیں۔ کھڑا رہوں تو زد میں رہتا ہوں۔“
“ بندوقیں۔ کون سی بندوقیں؟“ بڑی نے پوچھا۔
“ جو آپ نے بغلوں میں دبا رکھی ------- “ ایلی رک گیا۔
“ چپ چپ۔“ چھوٹی چلائی۔ “ آپ بھی غضب کرتے ہیں۔“
“ لیکن ------ “ ایلی نے کچھ کہنا چاہا۔
اندھیرے میں پھر وہی ہاتھ اس کے منہ پر آ ٹکا۔
“ جھن جھن جھن جھن۔“ وہ شور مچانے لگا۔
“ کیا ہوا۔“ باجی نے پوچھا۔ آپا نے چپکے سے ہاتھ اٹھا لیا۔
“ جھنجھنا بن گیا ہوں۔ مجھے بچائیے۔ خدا کے لیے مجھے کوئی بچائے۔“
دیر تک وہ ہنستی رہیں۔ پھر کسی نے چپکے سے اسے چٹکی بھری۔
“ تمہارے گھر میں آیا ہوں جو جی میں آئے کر لیجئے اور پھر آج ہی کا تو دن ہے۔“
“ کیوں؟“ آپا بولی۔
“ میں تو صرف یہ پیغام دینے آیا تھا کہ جمال نہیں آ سکے گا کچھ روز کے لیے۔“
“ لیکن آپ تو آئیں گے نا؟“ چھوٹی نے کہا۔
“ آنے کا مطلب؟“ ایلی نے کہا۔
“ تو کیا آنے کا کوئی مطلب نہیں؟“ آپا بولی۔
آپا نے چٹکی بھری اور بولی۔ “ آپ ہی بتائیے۔“
“ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ میری حیثیت کھانے میں نمک کی سی ہے۔ کھانا نہ ہو تو خالی نمک پھانکنا ہے۔“
وہ خاموش ہو گئیں۔ “ اب آپ سے کون بحث کرئے لیکن آنا پڑے گا۔ روز آنا پڑے گا۔ سمجھے آپ ورنہ۔“
“ ورنہ کیا؟“ ایلی نے پوچھا۔
“ ورنہ کیا بتایا نہیں جاتا عمل میں لایا جاتا ہے۔“ آپا ہنسی۔
اس وقت اوپر سے ایسی آواز آئی جیسے کسی نے بڑا سا برتن دیوار سے دے مارا ہو۔
“ یہ کیا تھا باجی؟“ آپا نے پوچھا۔
“ معلوم نہیں۔“ باجی نے کہا۔ “ میں دیکھتی ہوں ابھی آئی۔ “ کہہ کر وہ دبے پاؤں سیڑھیاں چڑھنے لگی۔
ایلی باہر کھڑکی سے جھانک رہا تھا کہ باہر تو کوئی نہیں۔
دفعتاً آپا نے پیچھے سے اسے اپنی آغوش میں لے لیا۔
“ ارے۔“ ایلی چلایا۔
“ خاموش کھڑے رہیے۔“ آپا ہنس کر بولی۔
“ لیکن یہ کیا ہے“ ایلی نے بھولے بن کر کہا۔
“ کچھ نہیں صرف آپ کو آنے کا مطلب سمجھا رہی ہوں۔“
“ لیکن میں تو کچھ بھی نہیں سمجھ رہا۔“ ایلی نے کہا۔
“ یہ تو اور بھی اچھا ہے۔“ وہ بولی۔
“ مجھے تو ایسے معلوم ہو رہا ہے جیسے اپنا ہولڈ اپ ہو گیا ہو۔ لیکن میری کمر میں دو پستول کی نالیاں رکھنے کا مطلب؟“
“ خاموش۔“ وہ ہنستے ہوئے بولی اور اس نے اپنے دونوں ہاتھ ایلی کے منہ پر رکھ دیئے۔
دیر تک وہ دونوں خاموش کھڑے رہے۔
پھر سیڑھیوں سے باجی کی آواز سنائی دی۔ “ آپا جلدی آؤ۔ جلدی۔“
اس نے ایلی کو زور سے بھینچا۔
“ کل ضرور آئیے گا۔“ وہ بولی۔ “ ضرور۔“
“ اور اگر نہ آؤں تو؟“ ایلی نے کہا۔
“ کیسے نہ آئیں گے آپ۔“ وہ بولی۔ “ نہ آئے تو میں خود ناؤ گھر آؤں گی۔“
“ اتنی جرات۔“ ایلی نے کہا۔
“ اس سے بھی زیادہ۔“ وہ بولی۔ “ آپ نے سمجھا کیا ہے؟“
“ میں تو صرف یہ سمجھتا ہوں کہ ایک خوبصورت شوخ رنگین اور دست دراز لڑکی ------ “
“ دست دراز۔ اچھا تو یہ لیجیئے۔“ اس نے پیار سے ایلی کے منہ پر چپت ماری۔ “ضرور آئیے گا۔“ اور پھر سیڑھیاں چڑھنے لگی۔ ایلی نے لپک کر اس کا دوپٹہ کھینچ لیا۔
“ یہ کیا بدتمیزی ہے؟“ وہ بولی۔
“ بدتمیزی نہیں ضرورت ہے میں اس کے رومال بنواؤں گا۔“
“ اچھا۔“ وہ ہنسی۔ “ تو بنوا لیجیئے۔“ اور سیڑھیوں میں گم ہو گئی۔
سارا دن ایلی سوچتا رہا اسے سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ رومان کا کھیل جو تفریحاً شروع ہوا تھا۔ یکدم کیسی کروٹ لے گیا تھا۔ اسے یہ بھی معلوم نہ تھا کہ وہ کون تھیں وہ تو ان کے ناموں سے بھی واقف نہ تھا۔ اس نے کئی مرتبہ ان سے پوچھا تھا۔
“ اپنا نام تو بتا دیجیئے۔“ اور جواب میں انہوں نے کہا تھا۔
“ نام سے کیا فرق پڑتا ہے، جی کچھ سمجھ لو۔“
“ صرف یہ سمجھا ہوں کہ تم میں ایک ہاں جی ہے اور ایک نہ جی۔ اب یہ تم خود فیصلہ کر لو کہ ہاں جی کون ہے اور نہ جی کون۔“
سارا دن وہ سوچتا رہا تھا کہ اس ڈرامے میں جو سفید منزل کے زینے میں کھیلا جا رہا تھا اس کا کردار کیا تھا۔ وہ ان گوریوں کے کردار کا معترف تھا ان کی جرات ان کی علمیت اور رنگینی ان کے ادبی ذوق پر متعجب تھا لیکن ------ ؟
ایلی اس لیکن کا جواب نہ دے سکتا تھا۔
نیم چھتی میں لیٹے ہوئے اس طرف کھڑکی میں سے چھوٹی جھانکتی۔ “ لیجیئے میں آ گئی ناؤ گھر میں آ گئی۔ آپ سے ملنے کے لیے نہیں ویسے ہی۔“ اس کے چہرے سے عجیب سی مسرت تازگی اور زندگی کا اظہار ہوتا تھا۔ “ اٹھیئے اٹھیئے آپ اداس کیوں ہیں؟ یوں لیٹے ہوئے ہیں جیسے سبھی کچھ ہار کر آئے ہوں۔ آپ نے کچھ بھی نہیں ہارا۔ جنہوں نے ہارا ہے ان سے پوچھیئے۔“
اس طرف زینے میں شہزاد آ کھڑی ہوئی۔ اس کا چہرہ مغموم تھا۔ میں جانتی تھی۔ یہی انجام ہو گا اور ہو بھی کیا سکتا تھا۔ ہماری کہانی ہی ایسی تھی۔ جس کا انجام نہیں ہو سکتا چلو اچھا ہوا۔ تمہیں مناسب ساتھ مل گیا۔“
ایلی گھبرا کر اٹھ بیٹھتا اور پھر سوچ میں پڑ جاتا۔
گھڑی نے نو بجائے تو وہ چونکا اور پھر سوچے سمجھے بغیر اس نے پہلی بار محبت بھرا خط لکھا اور اسے پڑھتے وقت پہلی مرتبہ شدت سے محسوس کیا کہ اس کے دل میں کس قدر جذبات ابل رہے تھے۔ خط لکھ کر اس نے اس کا گولہ سا بنا کر اپنی جیب میں ڈال لیا اور پھر لیٹ گیا۔
اس رات جب وہ سفید منزل میں داخل ہوا تو اکیلی چھوٹی موجود تھی۔
“ تم اکیلی ہو کیا“ ایلی نے پوچھا۔
“ ہاں۔“ وہ بولی۔ “ باجی کی طبیعت اچھی نہیں۔“
نہ جانے کیوں یہ سن کر ایلی گھبرا گیا۔
“کیوں آپ ڈرتے ہیں۔“ وہ بولی۔
“ ہاں۔“ ایلی نے کہا۔ “ تم نہیں جانتی کہ میں تم سے کتنا ڈرتا ہوں۔ میں تمہارے حسن سے نہیں ڈرتا، تمہارے جسم سے نہیں ڈرتا۔“ ایلی کی آواز بھرا گئی۔ “ میں تمہاری نگاہِ کرم سے ڈرتا ہوں۔ میں تمہاری رنگینی سے ڈرتا ہوں، میں تمہاری جرات سے ڈرتا ہوں۔“
“ آپ عجیب باتیں کرتے ہیں۔“ وہ ہنسنے لگی۔
“ ہاں۔“ وہ بولا۔ “ سچی باتیں عجیب معلوم ہوتی ہیں۔ ہم سچ سے اس قدر بیگانہ ہو چکے ہیں۔“
“ چھوڑیئے ان فلسفوں کو۔“ وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر بولی۔ “ کوئی ہنسی خوشی کی بات کیجیئے۔“
“ آج مجھے سچی باتیں کہہ لینے دو پھر شاید کبھی موقعہ نہ ملے۔“ ایلی کے انداز میں اس قدر تاثر تھا کہ وہ خاموش بت بنے کھڑی رہی۔
“ تم سمجھتی ہو کہ میں مسخرا ہوں۔“ وہ بولا۔ “ مسخرا پن تو خفت مٹانے کے لیے تھا۔ میرے بال سنہرے نہیں نا اس لیے۔ میرا رنگ ------ “
“ خاموش ہو جائیے۔“ وہ چیخ کر بولی۔ “ خاموش ورنہ میں منہ پر ہاتھ رکھ دوں گی۔“
“ منہ پر ہاتھ رکھنے سے دل کی بات تو نہیں کٹتی۔“ ایلی نے کہا۔
“ ہم نہیں سنتے آپ کے دل کی بات۔“ وہ بولی۔
ایلی نے اپنے دونوں ہاتھ اس کے شانوں پر رکھ دیئے۔
“ اچھا نہ سنو۔“
دیر تک وہ دونوں خاموش کھڑے رہے۔
“ کوئی بات کیجیئے نا۔“ وہ چلائی۔
“ کر تو رہا ہوں۔“ ایلی نے کہا۔
“ کہاں آپ تو خاموش کھڑے ہیں۔“ وہ بولی۔
“ یہ خاموشی بھی تو اک اظہار ہے۔“ وہ بولا۔ میرا منہ بند کر دو گی تو میرے ہاتھ بولیں گے۔“
“ یہ تو ساکت پڑے ہیں۔“ اس نے ایلی کے دونوں ہاتھوں پر اپنے ہاتھ رکھ دیئے۔
“ یہ اپنے ہاتھ اٹھا لو۔“ وہ بولا۔
“ کیوں؟“
“ یہ مجھ سے باتیں کرتے ہیں اور پھر سارا دن گھر بیٹھے ہوئے مجھے ان کی باتیں یاد آتی ہیں۔“
“ آج آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں۔“ وہ چلائی۔ اس کی آواز میں بلا کا اضطراب تھا۔ “ تم کہو گی تم پر بھی ایک ہی دھن سوار ہے۔“
“ نہیں۔ نہیں۔“ وہ چلائی۔
“ جیسے سنہرے بالوں کے بارے میں کہتی تھی۔“ ایلی نے کہا۔ “ مجھ کو بھی ڈانٹ ڈپٹ کرو نا۔“
“ نہیں تو۔“ وہ تڑپ کر بولی۔ “ آپ تو بڑے اچھے ہیں۔ جمال صاحب کی بات اور ہے۔“
“ وہ تو مجھے معلوم ہے۔“ ایلی نے طنز بھرا تیر چلایا۔
“ ہائے اللہ کیا اب آپ مجھے کبھی معاف نہ کریں گے۔ جمال تو یہ سمجھتے ہیں۔ جیسے ہم دو لڈو ہوں۔“ وہ ہنسنے لگی۔ “ اور وہ سوچتے ہیں کہ کس طرح منہ میں ڈال لوں۔ سگرٹ پئیں گے آپ۔“ غالباً وہ بات بدلنے کے لیے کہنے لگی۔
سلگا سگریٹ
“ ہاں۔“ ایلی نے کہا۔ “ پیوں گا بشرطیکہ تم سلگا کر دو۔“
“ یہ کیا ضد ہے۔ آپ ہر مرتبہ یہی کہتے ہیں۔“
“ ضد تو نہیں۔“ ایلی نے کہا۔ “ درخواست ہے۔“
“ یہ کبھی ہو سکتا ہے کیا؟
“ کیا نہیں ہو سکتا۔“ وہ بولا۔
“ بہت زعم ہے آپ کو۔“
“ جی ہے۔“
“ تو پی کر دکھایئے وہ سگریٹ جو میں نے سلگایا ہو۔“ وہ ہنسنے لگی۔
“ مجھ سے ضد نہ کیجیئے۔ میں بہت ضدی ہوں۔“ ایلی نے کہا۔
“دیکھیں۔“ وہ بولی۔
“ اچھا۔“ وہ بیٹھ گیا۔ “ اب یہاں سے اس وقت اٹھوں گا جب آپ کا سلگایا ہوا سگرٹ میرے ہاتھ میں ہو گا۔“
“ چلئے یونہی سہی۔“ وہ جوش میں آ گئی۔ “ تو لیجیئے میں چلی خدا حافظ۔“ یہ کہہ کر وہ سیڑھیاں چڑھنے لگی۔ “ اب بھی مان جاؤ ضد چھوڑ دو۔“ وہ سیڑھیوں سے بولی۔
“ سگرٹ سلگا دیجیئے۔“ ایلی نے کہا۔
کچھ دیر تک اس کے قدموں کی چاپ سنائی دیتی رہی پھر خاموشی چھا گئی۔ ایلی چپ چاپ بیٹھا رہا۔
پہلے تو اسے امید تھی کہ وہ ابھی لوٹ آئے گی۔ آخر وہ ان کے مکان میں بیٹھا تھا اور اس کا تحفظ ان کی ذمہ داری تھی۔ اس لیے وہ اطمینان سے بیٹھا رہا۔ پھر آہستہ آہستہ اس کے دل میں شکوک پیدا ہونا شروع ہو گئے۔ اگر وہ نہ آئی تو ------ اگر کوئی پاٹ استعمال کرنے کے لیے اس کمرے میں آ گیا تو ------۔
ایلی بنیادی طور پر بے حد ڈرپوک واقع ہوا تھا۔ لیکن کبھی اس کی زندگی میں ایسے موقعے بھی آئے تھے۔ جب وہ نتائج سے لاپرواہ ہو کر اسی حد تک نڈر ہو جاتا تھا۔ جس حد تک بنیادی طور پر وہ ڈرپوک تھا۔
کچھ دیر تک وہ بے حد متذبذب رہا۔ پھر اس نے اپنا دل کڑا کر لیا۔ وہ جانتا تھا کہ اگر اس روز وہ اپنی بات منوانے میں ناکام رہا تو اس کے دل میں اس کے لیے تحقیر کا جذبہ پیدا ہو جائے گا اور اس رنگین لڑکی کے دل میں اپنے لیے تحقیر کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے وہ تیار نہ تھا۔ وہ اس بات سے خائف تھا کہ وہ کیا کہے گی۔ آہستہ آہستہ یہ ڈر حاوی ہوتا گیا۔ فوراً کسی کے آ جانے کا خوف مدھم پڑتا گیا۔ حتٰی کہ وہ وہاں یوں بیٹھا تھا جیسے سفید منزل نہیں بلکہ نیم چھتی ہو۔
ایک گھنٹہ گزر گیا دو گھنٹے گزر گئے دور کسی مسجد سے پہلی اذان کی آواز سن کر وہ ٹھٹھکا۔ ارے وہ سوچنے لگا صبح ہو گئی۔ پھر چاروں طرف سے مؤذنوں کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ گلی میں دروازے کھلنے لگے۔ نمازیوں کے قدموں کی چاپ سنائی دے رہی تھی۔
دفعتاً قریب ہی پاؤں کی چاپ سنائی دی وہ ٹھٹھکا۔ پھر کسی نے دیا سلائی جلائی۔ باجی کو قریب کھڑے دیکھ کر وہ مطمئن ہو گیا۔
“ یہ کیا حماقت ہے؟“ باجی نے کہا۔ “ آپ جاتے کیوں نہیں؟ اگر کوئی آ گیا تو۔“ اس کا چہرہ خوف زدہ ہو رہا تھا۔
“ ابھی چلا جاتا ہوں۔“ وہ بولا۔
“ تو پھر جائیں نا۔ آپ کو ہماری عزت کا خیال نہیں کیا؟“ وہ بولی۔
“ سلگا کر سگرٹ پلا دیجیئے تو ابھی چلا جاؤں گا۔“ ایلی نے کہا۔
“ یہ کیا فضول سی ضد ہے؟“ وہ غصے میں بولی۔
“ ہے کیا کیا جائے؟“
“ لیجیئے میں سلگائے دیتی ہوں سگرٹ۔“ باجی نے کہا۔
“ اونہوں۔“ ایلی نے نفی میں سر ہلا دیا۔
“ کیوں میری سلگی ہوئی پسند نہیں؟“ اس نے عجیب انداز سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔
“ تم نے ہمارا اپمان نہیں کیا۔“ وہ یوں بولا جیسے جتی ستی یوگی ہو۔
“ ہئے میں کیا کروں؟“ وہ چلائی۔ “ اوپر سادی ضد کیئے بیٹھی ہے۔“
“ سادی۔“ ایلی نے دہرایا۔
“ ہاں گھر والے اسے سادی کہتے ہیں۔“ باجی نے کہا۔
“ اور آپ کو مرصع کہتے ہوں گے؟“
“ نہیں تو۔“ وہ ہنسی۔ “ مجھے تو باجی ہی کہتے ہیں۔ لیکن اب آپ جائیں گے بھی یا نہیں۔ یہ کیا بچوں کی سی ضد ہے۔“
“ بچے کبھی نہیں سمجھا کرتے۔“ ایلی نے کہا۔
“ تو پٹتے بھی ہیں۔“ وہ بولی۔
“ پیٹنے کے لیے کوئی اور آئے گا۔“ وہ بولی۔ “ ہئے کوئی آ گیا تو سمجھے گا چور ہے۔“
“ تو کہہ دینا ڈاکو ہے چور نہیں۔“ ایلی بولا۔
“ خدا کے لیے چلے جائیں۔“ وہ منتیں کرنے لگی۔
“ سلگا ہوا سگریٹ، سلگا ہوا سگریٹ۔“ ایلی نے رٹ لگا دی۔
“ مان جائیے۔“ باجی نے منت کی۔
“ سلگا ہوا سگریٹ۔“ ایلی گویا وظیفے میں مشغول ہو گیا۔
تنگ آ کر وہ چلی گئی اور ایلی تنہا رہ گیا۔
اتفاقاً اس کی نگاہ کھڑکی کی طرف پڑی۔ باہر صبح کی سپیدی پھیلی ہوئی تھی۔
اب اس کا ڈر قطعی مفقود ہو گیا تھا۔ چونکہ اب عزت کا معاملہ تھا اور وہ بھی ایک گوری کے دل میں۔ اس وقت وہ محسوس کر رہا تھا کہ وہ ہر خطرے کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ سفید منزل میں داخل ہو کر چلا چلا کر کہہ سکتا ہے میں چور ہوں مجھے پکڑ لو۔ میں چور ہوں۔
قریب ہی کسی گھڑی نے چھ بجائے۔ دفعتاً اسے یاد آیا کہ اس کی جیب میں محبت نامہ تھا جو وہ لکھ کر گھر سے لایا تھا۔ جب وہ اس کی تلاشی لیں گے تو خط برآمد ہو جائے گا اور راز کھل جائے گا۔ اس میں گوریوں کی عزت کا سوال ہے۔ نہیں نہیں میں ان کی عزت پر آنچ نہ آنے دوں گا۔ اس نے خط کا وہ گولہ جیب سے نکالا اور قریب پڑے کاٹھ کباڑ میں اسے چھپا دیا اور پھر مطمئن ہو کر بیٹھ گیا۔
گھڑی نے سات بجائے۔ وہ اٹھ بیٹھا۔ کھڑکی سے سورج کی شعائیں اندر داخل ہو رہی تھیں۔ اس نے کھڑکی بند کر دی اور درز سے باہر دیکھنے لگا۔ قبرستان سنسان پڑا تھا۔ گلی میں چند بچے کھیل رہے تھے۔ پرلے بازار میں اکا دکا لوگ چل پھر رہے تھے۔ دیر تک وہ وہاں کھڑا دیکھتا رہا۔ پاؤں کی آہٹ سن کر وہ مڑا۔ زینے میں کوئی آ رہا تھا۔ وہ جھٹ آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا۔
اس کے روبرو سادی کھڑی مسکرا رہی تھی۔ “ آپ بڑے ہٹ دھرم ہیں۔“ وہ بولی۔
“ جو کچھ بھی ہوں۔ حاضر ہوں۔“ اس نے جواب دیا۔
“ اب آپ جائیں گے کس طرح؟“ سادی نے پوچھا۔
“ جانے کا سامان ہو جائے گوری تو بھکاری چلے جائیں گے۔“ ایلی نے کہا۔
“ اگر کسی نے دیکھ لیا تو؟ سادی بولی۔
“ سمجھے گا بھکاری ہے بھکشا لے کر جا رہا ہے۔“ ایلی نے جواب دیا۔
“ شکل سے تو بھکاری نہیں دکھتے۔“ وہ ہنسی۔
“ ہاں شکل سے تو چور دکھتا ہوں۔ لیکن شکل کون دیکھتا ہے۔“
“ آپ بڑے نڈر نکلے۔“ سادی کی نگاہ میں تحسین جھلک رہی تھی۔
“ اونہوں۔“ ایلی نے کہا۔ “ مقابلہ ایسے مہادیو سے تھا کہ اسے دیکھ کر اپنے میں بھی کچھ کچھ جرات پیدا ہو گئی۔“
“ آپ کی باتوں نے مجھے ------۔“ وہ رک گئی۔ اس کی آواز آبدیدہ ہو گئی تھی۔
“ آپ کے انداز نے مجھے ------“ وہ بھی رک گیا۔
“ کیا؟“ وہ بولی، “ پوری بات کیجیئے نا۔“
“ مجھے کیا سے کیا کر دیا۔“ اس نے کہا۔
“ سگریٹ کہاں ہیں؟“ وہ بولی۔
“ مجھے کیا معلوم۔“
“ میں سارا پیکٹ سلگا کر دوں گی۔“ وہ سگریٹ سلگانے لگی۔
“ دان کرنے والے ایسے ہی ہوتے ہیں۔“ ایلی نے کہا۔
“ چپ کرو جی۔“ وہ غصے میں بولی۔ اس کا غصہ پیار سے بھیگا ہوا تھا۔
“ سادی۔“ وہ کچھ دیر کے بعد کہنے لگا۔
وہ چونکی ------ “ سادی، اپ کو کیسے معلوم ہوا؟“
“ تمہاری اس دیا کے عوض میں ایک تحفہ پیش کروں۔“
“ دیا۔“ وہ ہنسی۔ “ ہم تو ہر گئے۔“
“ ہاں۔“ ایلی نے کہا۔ “ کچھ لوگ ہار کر جیت جاتے ہیں اور کچھ۔“ اس نے آہ بھری۔ “ کچھ جیت کر بھی ہار جاتے ہیں۔ تمہارا ہاتھ کہاں ہے؟ دکھاؤ۔“
سادی نے اپنا ہاتھ پھیلا دیا۔ ایلی نے وہی کاغذ کا گولا اٹھا کر اس کے ہاتھ میں رکھا اور پھر مٹھی بند کر دی۔ “ برگ سبز است ------ “ وہ بولا۔
“ یہ لیجیئے اپنے سگریٹ۔“ وہ بولی۔ “ اب آپ جائیں۔ لیکن آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ پھر نہ ایسا کیجیئے گا کبھی وعدہ کرو۔“
“ کیوں؟“ وہ بولا۔
“ میں بہت ضدی ہوں۔“ سادی نے کہا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ “ مجھے ڈر ہے کہ ------ “ اس نے مسکرانے کی کوشش کی۔ “ وعدہ کیجیئے۔“
“ وعدہ کرتا ہوں۔“ وہ بولا۔
“ تو خدا حافظ۔“
“نہیں۔“ ایلی نے کہا، “ تم جاؤ پھر میں باہر نکلوں گا۔“
“ نہیں۔“ سادی نے کہا۔ “ اگر کچھ ہو گیا تو میں قریب تو ہوں گی۔“
“ نہیں۔“ ایلی نے کہا۔ “ تم اوپر جنگلے میں جا کر کھڑی ہو جاؤ۔“
“ نہیں۔“ وہ چلائی۔ “ پھر وہی ضد۔“
“ اچھا۔“ وہ اٹھ بیٹھا۔ وہ اس کے قریب تر ہو گئی۔
ایلی چپ چاپ باہر نکلا۔ کچھ دیر دروازے میں رکا۔ وہ وہاں سے یوں اطمینان سے نکلا جیسے اس کا اپنا گھر ہو۔ پھر خراماں خراماں گلی میں چل پڑا۔ دروازے کی درز میں سے ایک پرنم آنکھ اسے دیکھ رہی تھی۔
رنگی سادی
اس سلگے ہوئے سگریٹ نے گویا آگ لگا دی اور اس گولے خط نے اس پر بارود چھڑک دیا۔ اگلے روز ایلی کے سامنے سادی کا خط پڑا تھا۔ ایسا خط پہلے انہیں کبھی موصول نہ ہوا تھا۔ وہ خط سولہ صفحات پر مشتمل تھا۔ جس میں سادی نے سبھی کچھ شامل کر دیا تھا۔ کونسی بات تھی جو رہ گئی تھی۔ کبھی وہ اسے چھیڑتی، مذاق کرتی، کبھی بہلاتی پھسلاتی، کبھی جرات دلاتی، کبھی تعریف کرتی کبھی ہنستی ہنساتی کبھی روتی رلاتی۔ وہ خط ایک کائنات تھی جسے پڑھ کر ایلی ساکت و جامد رہ گیا تھا۔ وہ محسوس کر رہا تھا۔ جیسے ایک طوفانی رو بہہ رہی تھی۔ لیکن جھولا جھلا رہی تھیں، تھپیڑے مارتی تھیں بڑھتی تھیں۔ سمٹتی تھیں ساکن ہو جاتی تھیں۔
خط پڑھ کر وہ شرابور ہو گیا۔ تحریر کس قدر برجستہ اور بے تکان تھی۔ اشعار کس قدر موزوں اور بلند پایہ تھے۔ اشارے کسی قدر رنگین اور لطیف تھے۔ بات سے بات نکلتی تھی اور ہر بات کی اوٹ میں وہ ان کہی بات چھپی تھی جو ان کے نئے تعلق کی مظہر تھی۔ بات بات میں وہ ان کہی بات عیاں تھی واضح تھی اجاگر تھی۔ اس حد تک واضح ہو جاتی تھی کہ کہی بات پس پشت پڑ جاتی۔
سارا دن وہ اس خط کے سمندر میں ڈبکیاں کھاتا رہتا۔ رات کو وہ اس شوخ مگر خوددار شخصیت میں ڈوبا رہتا اور اگلے روز ایک نیا خط اس کے سامنے پڑا ہوتا۔
رات کو جب باجی اور سادی دونوں موجود ہوتیں تو وہ باجی کے شانوں پر ہاتھ رکھ کر کھڑا ہو جاتا اور باجی سے مخاطب ہو کر کنایہ کی مدد سے سادی سے باتیں کرتا۔ وہ مزاح کے پردے میں آنسو بہاتا۔ حاضر جوابی کی اوٹ میں اپنے گنگے پن کا دکھڑا روتا اور سادی اس کی ہر بات کو پا جاتی اور اس کے قریب ہوتے ہوئے تڑپتی۔ ماہئی بے آب کی طرح تڑپتی اور پھر چیخ کر کہتی آپ باتیں نہ کریں نہ کریں۔ لیکن اس کے اضطراب کا باجی پر کوئی اثر نہ ہوتا۔ وہ محسوس کرتا کہ اس کے ہاتھوں تلے باجی پگھل کر چھلک رہی ہے۔ اس کی اس چھلکن کی وجہ سے ایلی پر چھینٹے پڑتے جو اس کے لیے مشکلات پیدا کر دیتے، آسانیاں نہیں۔ باجی چھلک چھلک کر ہار جاتی اور اس پر جھاگ آ جاتا اور پھر وہ محروم نگاہوں سے ان دونوں کی طرف دیکھتی اور اس کی نگاہیں اور بھی اداس ہو جاتیں۔
“ آپ میری باجی کو تنگ کر رہے ہیں“ سادی قریب تر آ جاتی۔ “ چھوڑ دیجیئے باجی کو۔ یہ بہت برے ہیں باجی ان کی باتوں میں نہ آؤ۔ ان کی باتیں نہ سنو۔ ورنہ تم پانی ہو کر بہہ جاؤ گی۔ یہ وہ تیراک ہیں جو اس پانی میں تیر کر نکل جائیں گے۔ یہ ڈوبتے نہیں۔“
“ ہاں۔ “ ایلی نے کہا۔ “ میں ڈوبتا نہیں بلکہ ڈوبے جاتا ہوں۔ ڈوبے جاتا ہوں۔ ڈوب جاؤں تو کتنا اچھا ہو۔“
“ پھر وہی باتیں۔“ سادی چلاتی اور پھر بات کو رخ بدلنے کے لیے کچھ نہ کچھ کہہ دیتی۔
“ باجی آپ نے انہیں میرا نام کیوں بتایا؟“
ایلی جواب دیتا۔ “ ہاں تم بھی انتقام لو باجی سے۔ تم اس کا نام بتا دو مجھے۔“
سادی ہنستی۔ “ کتنے چالاک ہیں آپ۔“
“ سادی کیا نام ہے ------ ؟ ایلی چلایا۔
“ مجھے بہت پسند ہے۔“ سادی ہنس کر کہتی۔
“ مجھے نہیں۔“ ایلی منہ بنا دیتا۔
“ کیوں؟“
“ غلط نام ہے۔“
“ غلط کیسے؟“
“ رنگی ہونا چاہیے۔ رنگی کو سادی کہیں دیکھ کبیرا ہنسے۔“ ایلی قہقہہ مار کر کہتا۔
اس طرح وہ بچوں کی طرح باتیں کرتے رہتے۔
اور اگر سادی اکیلی آتی تو ایلی کو پسینہ آ جاتا۔ سمجھ میں نہ آتا کہ کیا کہے۔
اس کی آواز میں وہ بے پروائی بے نیازی ختم ہو جاتی اور وہ بھیگی گھیگی آواز میں یوں ادھورے جملے بولے جاتا جیسے لکنت کا مریض ہو۔
“ سادی جمال آئے گا تو۔“
“ تو کیا؟“
“ کیا ہو گا؟“
“ کچھ بھی نہیں۔ باجی بڑی بیتابی سے اس کا انتبظار کر رہی ہیں۔“
“ تم اور باجی اس قدر مختلف کیوں ہو؟“
“ کیسے؟“
“ تم نہ جی ہو وہ ہاں جی۔“
“ میری باجی ایسی نہیں۔“ وہ غصے میں بولی۔ “ میں آپ کی سب باتیں سمجھتی ہوں۔“
“ چلو کوئی ہمدرد تو ملا۔“
“ ہمدرد۔“ وہ چلاتی۔
“ تو کیا ہو تم؟“
“ آپ ہمیں نہیں جانتے۔ آپ نہیں سمجھتے۔ نہیں سمجھ سکتے؟“ سادی چیختی۔
“ معمہ ہو۔“ ایلی پوچھتا۔
“ نہیں۔“
“ تو پھر۔“
“ بس کہہ جو دیا آپ ہمیں نہیں سمجھے۔“
“ تو سمجھا دیجیئے۔“
“ اس گھر کی ہر موم بتی دونوں سروں پر جلتی ہے۔“ سادی مسکرا کر کہتی۔
“ تو کیا یہاں دیوالی ہے؟“
“ ہاں ہر سمے دیوالی ہے۔ میرے ہنستے چہرے پر نہ بھولیئے۔“
“ تو کیا آپ روتی ہیں؟“
“ مجھے ٹسوے بہانا نہیں آتا۔ آنسو بہانا نہیں آتا۔“
“ تو پھر۔“
“ بند کیجیئے اس موضوع کو۔ آپ نہیں سمجھ سکیں گے۔“
“ تو سمجھ کر کرنا ہی کیا ہے؟“ ایلی کہتا۔ “ تم تم ہو اور یہی کافی ہے۔“
پھر وہ اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیتی اور ایلی چلاتا جھن جھن جھن جھن ------۔
واپسی
آٹھ روز کے بعد جب ایک روز ایلی نیم چھتی میں بیٹھا سادی کا تازہ خط پڑھ رہا تھا، دفعتاً اس نے نگاہ اٹھائی، زینے میں جمال کھڑا تھا۔ جمال کو دیکھ کر وہ بھونچکا رہ گیا۔ وہ آٹھ دنوں میں جمال کے وجود ہی کو بھول چکا تھا۔
جمال نے آتے ہی کئی ایک سوالات کر دیئے۔
“ بتاؤ یار ان کا حال کیا ہے۔ لیکن تم تو صرف ایک بار اطلاع دینے گئے ہو گے۔
انتظار کر رہی ہوں گی۔ کوٹھے پر ٹہلتی ہوں گی دیکھنے کے لیے کہ آیا ہے یا نہیں اور تم تو برساتی میں جاتے ہی نہیں۔، تمہیں کیا معلوم کوئی چٹھی آئی ہے کیا۔ لیکن چٹھی کیسے آتی میں تو گیا ہوا تھا۔ یار میرا جی تو چاہتا تھا کہ جلدی لوٹ آؤں لیکن کیا کرتا وہ مجھے آنے نہیں دیتی تھی میری بیوی اور تم جانتے ہو مجھے اپنی بیوی سے عشق ہے۔ ایمان سے۔“
جمال کی باتیں سن کر ایلی محسوس کر رہا تھا جیسے وہ مجرم ہو۔ جیسے ان نے ایک بچے کو دھوکہ دیا ہو۔ وہ چپ چاپ اس کی باتیں سنتا رہا اور مختصر جواب دیتا رہا۔
“ آؤ نا، آؤ نا۔“ جمال چلانے لگا۔ “ وہاں برساتی میں بیٹھ کر باتیں کریں گے۔ ذرا دیکھوں تو شاید وہ سامنے ہی ہوں۔ انہیں تسلی ہو جائے گی کہ میں آ گیا ہوں۔“
برساتی میں پہنچ پر جمال کھڑکیوں کے سامنے کھڑا ہو گیا اور ایلی ایک کونے میں چارپائی پر بیٹھ گیا۔ ایلی کبھی کھڑکیوں میں نہ کھڑا ہوا تھا۔ دو ایک بار انہوں نے کہا بھی تھا، “ آپ سامنے کیوں نہیں آتے اپنی برساتی میں۔“ اس نے کہا تھا “ ایک بار جو آیا تھا۔“ “ ہائے اللہ“ اس پر سادی یوں تڑپی تھی۔ جیسے آتش بازی کو آگ دکھا دی گئی ہو۔ درحقیقت ایلی وہاں کھڑے ہو کر اشارے کرنے کے خلاف تھا۔ اس لیے کہ اسے ڈر تھا کہ کہیں ناؤ گھر کا کوئی لڑکا دیکھ نہ لے۔ وہ جاہ سے ڈرتا تھا۔ جاہ کو معلوم ہو گیا تو وہ کہے گا۔ “ ہاں بھئی یہ بھی ایک فن ہے۔ اور اگر ایلی کو یہ فن پسند ہے تو ہم کیا کہہ سکتے ہیں۔ ذرا یہ سستا کام ہے میرا مطلب ہے چیپ ہے۔“ ایلی اس جملے اور نگاہ سے ڈرتا تھا۔ اس کے علاوہ جب روز ملاقات ہوتی تھی اور وہ باتوں کے ذریعے اپنی نمائش کر سکتا تھا تو دور کھڑے ہو کر بے کار اشارے کرنے سے اسے کیا دلچسپی ہو سکتی تھی۔ اس کے برعکس جمال کو یہ شغل اس لیے پسند تھا کہ وہاں کھڑے ہو کر اسے بات کرنے کی ضرورت نہ ہوتی تھی اس لیے وہ روز بلا ناغہ برساتی میں حاضری دیا کرتا تھا۔
“ اونہوں اس دھوپ میں بھلا کون آتا ہے کوٹھے پر۔“ وہ چلایا۔ “ اور یار اب پھر دھندلکے کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔ پہلے تو مشق ہو گئی تھی نا اب آٹھ روز کے وقفے کے بعد پھر وہی روز اول والی بات ہے۔“
تین بچے کے قریب جمال دوڑتا ہوا نیم چھتی میں داخل ہوا۔ اس کی باچھیں کھلی ہوئی تھیں، منہ پر سرخی پھیلی ہوئی تھی۔
“ یار ایلی انہیں معلوم ہو گیا ہے کہ میں آ گیاہوں۔ ایک کو پتہ چلا تو وہ بھاگی دوسری کو خبر دینے کے لیے اور پھر وہ دونوں آ گئیں۔ میں نے سلام کیا بہت خوش ہوئیں مجھے دیکھ کر۔ آج رات کو بڑا مزہ رہے گا۔ میں پھر جاتا ہوں وہاں شاید وہ پھر آئیں۔“
مسدود راہیں
آدھ گھنٹے کے بعد وہ پھر نیم چھتی میں آیا۔ اس کا رنگ زرد تھا۔ بازو لٹک رہے تھے۔
“ یار ایلی غضب ہو گیا۔ میں وہاں گیا تو سامنے کوئی بیٹھی تھی۔ میں نے سمجھا انہیں میں سے ایک ہو گی۔ میں نے اشارے کرنے شروع کر دیئے وہ بھی اشارے کرتی رہی۔ پھر دفعتاً اس نے دوپٹہ اتار کر رکھ دیا اور نیچے سے سوٹ والا ایک نوجوان نکل آیا۔ غالباً ان کا بھائی ہو گا۔ اب کیا ہو گا یار -------- ایلی بتاؤ نا۔؟“
“ مجھے کیا معلوم۔“
رات کو وہ دونوں نیم چھتی میں بیٹھے روشنی کا انتظار کرتے رہے۔ تین بجے کے قریب ان پر مایوسی چھانے لگی اور ساڑھے تین بجے جمال کرسی میں بیٹھا بیٹھا سو گیا۔ لیکن ایلی چپ چاپ سفید منزل کی طرف ٹکٹکی باندھے بیٹھا رہا۔ وہ غم یا مایوسی محسوس نہیں کر رہا تھا۔ کچھ بھی محسوس نہ کر رہا تھا۔ اس کا ذہن قطعی طور پر خالی تھا -------- کھڑکی میں سادی ہنس رہی تھی۔ “ کوئی بات کیجیئے نا۔ آپ تو اتنی باتیں کیا کرتے ہیں۔“ زینے میں شہزاد کھڑی کہہ رہی تھی۔ “ نہیں میں تو کچھ نہیں کہتی۔“ درمیان میں جمال آرام کرسی پر پڑا خراٹے لے رہا تھا۔
اگلے روز سفید منزل کے چوبارے میں مزدور کام کر رہے تھے۔ سیڑھیوں والی دیوار میں جو اینٹوں کے جنگلے بنے ہوئے تھے۔ جن کی وجہ سے سیڑھیوں کا دروازہ کھلنے پر ناؤ گھر سے سفید منزل کے چوبارے کا ایک حصہ دکھائی دیتا تھا انہیں سیمنٹ سے پُر کیا جا رہا تھا۔
“ ایلی ایلی۔“ جمال چلانے لگا۔ “ یہ دیکھا تم نے انہوں نے وہ جنگلے بند کر دیئے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے معاملہ دور تک پہنچ گیا ہے۔“
“ ہوں۔“ ایلی نے کھڑکی کی درز سے دیکھتے ہوئے کہا۔ پھر وہ دونوں دیر تک خاموش کھڑے رہے۔ پھر جمال بولا۔
“ لیکن شاید ملاقات پر پابندی نہ لگے۔ گھر والوں کو اس کا علم تو نہیں ہوا ہو گا۔ اور ایلی خط تو وہ بھیجیں گی۔ ضرور بھیجیں گی۔“
جب جمعدارن آئی تو ایلی نے دیکھا کہ اس کے چہرے پر مسکراہٹ نہیں بلکہ ماتھے پر رہی پرانی والی شکن پڑی تھی۔ اس نے فوراً محسوس کر لیا کہ اب خط و کتابت ممکن نہ ہو گی۔ کچھ دیر کے بعد جمال آیا۔
“ یار وہ جمعدارن تو بات ہی نہیں کرتی۔ کہتی تھی نہ بابو جی وہاں ان کے گھر مین تو فساد پڑا ہوا ہے۔ لڑکی کو دورے پڑ رہے ہیں۔ دورے میں لڑکی کے ہاتھ پاؤں مڑ جاتے ہیں۔ اب بتاؤ؟“ جمال نے پوچھا۔
ان حالات کے باوجود وہ دل ہی دل میں امید رچائے بیٹھے رہے کہ شاید کوئی صورت پیدا ہو جائے۔ شاید وہ کوئی ترکیب لڑائیں۔ ایک ہفتہ گزر گیا۔ عید آ گئی لیکن گوریوں کی طرف سے نہ کوئی پیغام موصول ہوا اور نہ ہی سفید منزل میں کسی جگہ ان کی جھلک دکھائی دی۔
جمال کو اس بات کا قلق ضرور تھا کہ ایک دلچسپی کی صورت ختم ہو گئی۔ اس کے علاوہ اسے کوئی دکھ نہ ہوا۔
جس روز وہ واقعہ رونما ہوا تھا جس کی وجہ سے ان کا سلسلہ ملاقات ٹوٹ گیا تھا۔ اس روز ایلی نے محسوس کیا تھا۔ جیسے وہ خالی الذہن ہو پھر حسبِ عادت دکھ بوند بوند اس کے دل میں بھرتا گیا۔ دنیا ویران ہوتی گئی۔ چیزیں مفہوم سے خالی ہوتی گئیں۔ مناظر دھندلے پڑتے گئے اور لوگ یوں گھومتے پھرتے دکھائی دینے لگے۔ جیسے ویرانے میں بھوت پریت چل پھر رہے ہوں۔
وہ محسوس کر رہا تھا جیسے اس نے کوئی نعمت عظمٰی کھو دی ہو۔ جیسے امید کی کرن گم ہو گئی ہو۔ تعجب کی بات تھی کہ ایلی کو سادی سے وہ محبت پیدا نہ ہوئی تھی جس میں آرزو کا عنصر ہوتا ہے۔ اسے اس کی شخصیت کا بے پناہ احساس تھا۔ اس کی رنگین باتیں اس کا ادبی ذوق اس کی بے پناہ جرات سادی سے محروم ہو جانے پر وہ محسوس کر رہا تھا۔ جیسے وہ دنیا کی تمام اچھی چیزوں سے محروم کر دیا گیا ہو۔ جیسے لطافت ختم ہو گئی ہو اور صرف دھندلی کثافت باقی رہ گئی ہو۔ ایلی نے کبھی یہ آرزو محسوس نہ کی تھی کہ وہ سادی کو آغوش میں لے یا اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھام لے یا اس سے حسن کی بھیک مانگے یا ملاپ کی خواہش کرئے۔
ایلی روز سادی کے خط نکال لیتا اور انہیں پڑھتا۔ بار بار پڑھتا اور پھر حیرت میں ڈوب جاتا۔ یہ جانے یہ لڑکی کون ہے۔ نہ جانے وہ لوگ کتنے اونچے ہوں گے نہ جانے --------- پھر وہ شدت سے کمتری کا جذبہ محسوس کرتا۔ نہیں کہ کیسے ہو سکتا ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ہمارا میل ہو سکے اور ہو بھی جائے تو وہ جلد مجھ سے اکتا جائے گی۔ مجھ میں ہے ہی کیا جو اتنی بڑی شخصیت کو جذب کر سکوں۔ ایلی نے سادی کو کبھی عورت کی حیثیت سے نہ دیکھا تھا اور نہ ہی اس کی آرزو کی تھی۔
اس لیے ایلی کا غم عجیب سا تھا۔ ایسا غم جو اس نے پہلے کبھی محسوس نہیں کیا تھا۔ وہ یہ محسوس نہیں کرتا تھا جیسے کھو گیا ہو بلکہ جیسے کچھ کھو دیا ہو۔ جیسے روشنی کی کرن بجھ گئی تھی۔ جیسے رنگ ختم ہو گئے تھے اور محض ایک خاکستری دھندلکا باقی رہ گیا تھا۔
دس روز کے بعد جمال کے نام پھر ایک تار آ گیا۔ لکھا تھا، “ فوراً پہنچیئے۔“
“ کیا بات ہے؟“ ایلی نے جمال سے پوچھا۔ “ یہ کیسا بلاوا ہے؟“
“ بچہ ہونے والا ہے۔“ جمال ہنسنے لگا۔ “ میں کہہ آیا تھا مجھے تار دے دینا۔“
جمال کے جانے کےایک دن بعد ایلی کو ڈاک سے ایک خط موصول ہوا۔
اس نے اس لیے خط کو کچھ اہمیت نہ دی۔ پتہ نامانوس خط میں لکھا ہوا تھا۔ نہ جانے کس کا خط ہے اس نے سوچا۔ طرزِ تحریر جانی پہچانی سی تھی لیکن -----------
دراصل اسے یہ خیال بھی نہ آیا تھا کہ سادی اسے ڈاک کے ذریعے بھی خط لکھ سکتی ہے۔ لفافہ چاک کر کے اس نے کط باہر نکالا تو دفعتاً حیرت سے اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ ارے سادی کا خط۔ لکھا تھا :
“ گھر والوں کو پتہ چل گیا ہے۔ ملاقات کے تمام راستے مسدود کر دیئے گئے ہیں۔ اب میں یہاں نہیں رہ سکتی۔ سوموار کو رات دو بجے اسی جگہ میرا انتظار کیجیئے اور مجھے ساتھ لے جائیے۔ اگر آپ نہ آئے تو ----- ضرور آئیے گا ضرور ورنہ ---“
ایک کونے میں جلدی مین چند الفاظ لکھے تھے :
“ جس روز آپ کو یہ خط ملے اس روز رات کو بارہ سے ایک بجے تک اپنی برساتی کی بتی جلائے رکھیئے تاکہ مجھے علم ہو جائے کہ آپ کو میرا خط مل گیا ہے۔ وہ بتی ہمارے سبز جنگلے سے دکھائی دیتی ہے۔“
خط پڑھ کر ایلی سن رہ گیا۔ اس کا ذہن پھر سے ایک خلا میں تبدیل ہو گیا۔ وہ اٹھ بیٹھا اور پھر برساتی میں ادھر سے ادھر، ادھر سے ادھر گھومنے لگا۔ پھر وہ باہر نکل گیا۔
سارا دن وہ آوارہ گھومتا رہا۔ اسے معلوم نہ تھا کہ وہ کون ہے کہاں جا رہا ہے۔ کس وجہ سے سرگرداں ہے۔ اسے سادی کا بھی خیال نہ رہا تھا۔ وہ بھول چکا تھا کہ سوموار کو رات کے دو بجے اسے بلایا گیا ہے اور اسے کسی کو ساتھ لے کر چلے جانا ہے۔ نہ جانے کہاں چلے جانا ہے۔ کیسے چلے جانا ہے مگر چلے جانا ہے ورنہ ۔
اس کے ذہن میں کوئی بات نہ تھی کوئی فکر نہ تھا کوئی پریشانی نہ تھی۔ البتہ وہ بذات خود پریشان تھا۔ اس کی شخصیت گویا بکھر گئی تھی۔ شعور شل ہو چکا تھا۔ وہ دیکھتا تھا لیکن سمجھتا نہ تھا۔ بلکہ اس کے دیکھنے کی قوت دھندلائی ہوئی تھی۔ کان بند ہو چکے تھے۔ وہ ایک مدھم مگر مسلسل شور سن رہا تھا۔ جیسے مکھیاں بھنبھنا رہی ہوں۔ جیسے ساری کائنات مکھیوں کے ایک عظیم چھتے میں تبدیل ہو گئی ہو۔
دوپہر کے وقت وہ ایک ویران سڑک پر چل رہا تھا۔ پھر شام کو اس نے دیکھا کہ وہ باغ میں ایک بینچ پر بیٹھا ہے۔ پھر وہ سڑک کے عین درمیان میں کھڑا تھا۔ ایک موٹر کے قریب کھڑا تھا اور ارد گرد چند لوگ کھڑے تھے۔
بخشی بخاری
پھر دو شخص اس سے کچھ پوچھ رہے تھے۔ اور چوک میں کھڑا سپاہی اس کی طرف دیکھ دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔
لمبا شخص اس کے اوپر جھکا ہوا تھا۔
“ تم الیاس ہو؟“ وہ پوچھ رہا تھا۔
الیاس ------- ایلی کو وہ لفظ کچھ مانوس سا معلوم ہو رہا تھا۔ ہاں الیاس ایلی ۔ علی پور کا ایلی - وہ اپنے آپ سے کہہ رہا تھا۔
“ چلو۔“ ٹھگنا شخص بولا۔ “ سامنے چائے کی دوکان میں بیٹھ کر بات کریں گے۔“
وہ تینوں چل پڑے۔
ایلی نے غور سے لمبے آدمی کی طرف دیکھا۔ ہاں یہ شخص، اس نے محسوس کیا جیسے اسے کہیں دیکھا ہو۔ لیکن کوشش کے باوجود وہ سمجھ نہ سکا کہ وہ کون تھا۔
“ مجھے جانتے ہو نا۔“ لمبے آدمی نے مسکرا کر کہا۔
“ ہاں۔“ ایلی نے سر ہلایا۔ لیکن اس کا ذہن سر کے اشارے سے بیگانہ رہا۔ “ میں ناؤ گھر میںکئی بار گیا ہوں۔“
“ ناؤ گھر --------- “ ایلی کے ذہن میں روشنی کی ایک اور کرن جھلملائی۔
“ میں جاہ کا دوست ہوں۔“ لمبا آدمی بولا۔
جاہ --------- ایک اور کرن۔
“ مجھے جانتے ہو نا۔“ لمبے آدمی نے دہرایا۔
“ ہاں۔“ ایلی نے کہا۔ “ جانتا ہوں -------- “ لیکن اس کی نگاہیں اسےجھٹلا رہی تھیں۔
“ نہیں نہیں۔“ چھوٹے آدمی نے اشارہ کیا۔ “ ابھی نہیں۔ معلوم ہوتا ہے۔ ابھی ہوش میں نہیں۔“
“ تم نے کچھ استعمال تو نہیں کیا؟“ لمبے آدمی نے ایلی سے پوچھا۔
“ استعمال۔“ ایلی نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھا۔
“ اونہوں۔“ چھوٹے آدمی نے اشارہ کیا۔ “ یہ بات نہیں۔“
“ تمہاری طبیعت تو اچھی ہے؟“ لمبے آدمی نے چائے کی میز پر بیٹھتے ہوئے ایلی سے پوچھا۔
“ ہاں نہیں مجھے توکچھ بھی نہیں کچھ بھی تو نہیں۔“ ایلی نے اپنے آپ کو جھنجھوڑ کر بات کرنے کی کوشش کی۔
“ ہم تمہارے دوست ہیں۔“ چھوٹا بولا۔ “ میرا نام بخشی ہے اور یہ بخاری ہیں۔“
“ ہاں ہاں۔“ ایلی نے سر ہلایا۔ “ اور یہ کیا ہے؟“ بخشی نے پوچھا۔
یہ ------‘‘ایلی نے پہلی مرتبہ اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھا۔۔اس کے ہاتھوں میں ایک کاغذ تھا جسے وہ انجانے میں مڑور رہا تھا۔۔‘‘یہ۔۔‘‘ ایلی نے کہا۔۔‘‘یہ تو کاغذ ہے۔۔اس نے وہ کاغذ بخاری کو دیتے ہوئے کچھ اس انداز میں کہا جیسے انہیں دکھانا چاہتا ہو کہ واقعی وہ کاغذ ہے اور ان پر ثابت کرنا چاہتا ہو کہ اسے کچھ بھی نہیں وہ قطعی طور پر بھول چکا تھا کہ وہ کاغذ سادی کا کاغذ تھا۔۔
بخاری نے وہ کاغذ ایلی کے ہاتھ سے لے لیا اور اسے دیکھنے لگا۔۔
‘‘چائے پئیو۔۔‘بخشی مسکرایا۔۔
ایلی چائے پینے لگا۔۔
‘‘اب کیا گھر جاؤ گے۔۔؟‘‘بخشی نے پوچھا۔۔
‘‘ہاں۔۔‘‘
‘‘تمہیں چھوڑ آئیں۔۔؟‘‘
‘‘نہیں میں چلا جاؤں گا۔۔‘‘ایلی بولا
‘‘اچھی بات ہے۔۔‘‘بخشی نے کہا۔۔
‘‘تم ذرا بیٹھو میں بل دے دوں۔۔‘‘بخاری نے کہا۔۔
‘‘میرے پاس ہیں۔۔‘‘ایلی نے اپنی جیب کی طرف اشارہ کیا۔۔‘‘میرے پاس ہیں۔۔‘‘
‘‘نہیں میں دوں گا۔۔‘‘بخاری نے مسکرا کر کہا۔۔
پھر بخاری نے بخشی کو اشارہ کیا۔۔‘‘ذرا ادھر آنا‘‘۔۔اور وہ دونوں اٹھ کر چلے گئے۔۔
ایلی کی نگاہوں میں اب چیزیں اور ان کا مفہوم ابھر رہا تھا اور وہ شرمندگی سی محسوس کرنے لگا تھا۔۔وہ سوچ رہا تھا۔۔سوچ رہا تھا۔۔
کچھ دیر بعد بخشی اور بخاری دونوں واپس آ گئے۔۔‘‘چلو ہم بھی تمہارے ساتھ چلیں گے۔۔‘‘بخاری نے کہا۔۔
‘‘نہیں نہیں۔۔‘‘ایلی نے کہا۔۔‘‘آپ تکلیف نہ کریں۔۔‘‘
‘‘نہیں۔۔‘‘ بخاری نے کہا۔۔‘‘ہم ادھر ہی جا رہے ہیں۔۔‘‘
‘‘اچھا۔۔‘‘ایلی لاجواب ہو گیا اور تینوں چل پڑے۔۔
جب وہ ناؤ گھر کے مقابل میں پہنچے تو دفتعاً ایلی کو یاد آیا اور وہ دیوانہ وار اپنی جیبیں ٹٹولنے لگا۔۔
‘‘کچھ کھو گیا ہے کیا؟۔۔‘‘بخاری نے پوچھا۔۔
ہوٹل میں تم نے ایک کاغذ اس جیب میں ڈالا تھا۔۔‘‘بخاری نے یہ کہتے ہوئے ایلی کے کوٹ کی اوپر والی جیب میں ہاتھ ڈال کر ایک کاغذ نکالا۔۔
‘‘یہی ہے نا؟۔۔‘‘بخاری نے ایلی سے پوچھا۔۔
ایلی نے دیوانہ وار اسے کھولا۔۔دیکھا اور پھر اسے کہنے لگا۔۔‘‘ہاں یہی ہے۔۔‘‘ اس کی آنکھیں جذبہ شکر گزاری سے پر نم ہو گئیں۔۔
‘‘اچھا تو ہم کل صبح آئیں گے۔۔‘‘بخاری نے کہا۔۔‘‘کہیں چلے نہ جانا ہمارے آنے سے پہلے۔۔‘‘
‘‘نہیں تو۔۔‘‘وہ بولا۔۔‘‘میں کہاں جاؤں گا۔۔‘‘
اگلے روز صبح سویرے ہی بخشی اور بخاری آ گئے۔۔
‘‘آج تو طبعیت اچھی معلوم ہوتی ہے۔۔‘‘بخاری نے بات شروع کی۔۔
‘‘جی ہاں۔۔‘‘ایلی نے جواب دیا۔۔
‘‘کل کیا ہوا تھا؟‘‘ بخاری نے پوچھا۔۔
‘‘کچھ بھی تو نہیں ہوا تھا۔۔‘‘ایلی نے جواب دیا۔۔
‘‘تو کہاں گھوم رہے تھے تم؟‘‘
‘‘بس گھوم رہا تھا۔۔‘‘
‘‘کسی کام سے نکلے تھے کیا؟‘‘
‘‘نہیں تو ویسے ہی یہاں بیٹھے بیٹھے طبیعت گھبرا گئی تھی۔۔جدھر منہ اٹھایا چل پڑا۔۔‘‘ ایلی نے ہنسنے کی کوشش کی۔۔
‘‘آج تو نہیں گھبرا رہی طبیعت؟‘‘
‘‘نہیں تو۔۔‘‘وہ ہنسنے لگا۔۔‘‘آج تو ایسی کوئی بات نہیں۔۔‘‘
‘‘کل کیا بات تھی؟‘‘ بخشی نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا۔۔
شاید ہم کچھ مدد کر سکیں۔۔بخاری نے کہا۔۔
‘‘بات تو کوئی نہیں۔۔‘‘ایلی نے جواب دیا۔۔
‘‘تو اس بات کے متعلق کیا فیصلہ کیا ہے؟۔۔‘‘
کس بات کے متعلق؟ ‘‘ ایلی نے پوچھا۔۔
‘‘سوموار کو دو بجے۔۔‘‘ اس نے حیرت سے بخاری کی طرف دیکھا پھر دفتعاً اسے یاد آیا۔۔
‘‘ارے یعنی میرا مطلب ہے یعنی میرا۔۔۔۔۔‘‘ ایلی گھبرا گیا۔۔
‘‘دیکھو بھائی الیاس!۔۔‘‘بخشی مسکرایا اس کی مسکراہٹ بڑی تسلی بخش تھی۔۔‘‘بات یہ کہ ہم نے وہ خط پڑھ لیا ہے۔۔‘‘
‘‘خط؟ ‘‘
‘‘تم نے خود ہی تو دیا تھا ہمیں چائے کی دکان میں۔۔‘‘ بخاری مسکرانے لگا۔۔
‘‘میں نے ؟ ‘‘
‘‘گھبراؤ نہیں تمہارا راز ہمارے پاس محفوظ رہے گا۔۔‘‘ بخاری نے اسے تسلے دی۔۔
ایلی سر جھکائے خاموش بیٹھا رہا۔۔دیر تک کمرے میں خاموشی چھائی رہی۔۔
‘‘تمہیں اس لڑکی سے محبت ہے کیا ؟ ‘‘ بخاری نے پوچھا۔۔
‘‘محبت ؟ مجھے معلوم نہیں۔۔‘‘ ایلی نے جواب دیا۔۔
‘‘ہوں۔۔‘‘
‘‘تو کیا تم دو بجے وہاں جاؤ گے ؟ ‘‘
‘‘ہاں۔۔۔۔۔مجھے جانا ہی ہوگا۔۔‘‘
‘‘کیوں کوئی مجبوری ہے کیا۔۔‘‘ بخشی نے پوچھا۔۔
‘‘نہیں تو۔۔‘‘ ایلی نے جواب دیا۔۔
‘‘تو پھر جانا ہی ہو گا کیوں ؟‘‘ بخاری نے غور سے اس کی طرف دیکھا۔۔
‘‘میں اسے دھوکا نہیں دے سکتا۔۔‘‘ ایلی نے جواب دیا ۔۔‘‘ اور اگر میں نہ گیا تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟‘‘
‘‘تو کیا؟ ‘‘ بخاری نے پوچھا۔۔
‘‘تو وہ ورنہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ایلی نے وضاحت کرنے کی کوشش کی۔۔
‘‘ورنہ؟ ‘‘
‘‘ہاں۔۔‘‘ اس نے لکھا ہے ضرور آنا ورنہ۔۔۔۔۔۔‘‘
‘‘ورنہ تو یہ ہمیشہ ہی لکھتی ہیں۔۔‘‘ بخاری ہنسنے لگا۔۔
‘‘نہیں۔۔‘‘ ایلی بولا۔۔‘‘ تم اسے نہیں جانتے میں اسے جانتا ہوں اور اس کے ورنہ کو بھی۔۔‘‘
‘‘ہوں۔۔‘‘ وہ خوموش ہو گئے۔۔
‘‘الیاس اگر برا نہ مانو تو میں پوچھوں کہ وہ کون ہے ؟ ‘‘ بخاری نے پوچھا۔۔
‘‘کون ہے۔۔۔۔۔۔۔؟‘‘مجھے نہیں معلوم کہ وہ کون ہے ؟‘‘ ‘‘ایلی نے جواب دیا۔۔
‘‘میرا مطلب ہے کہ کس گھرانے سے ہے ؟ ‘‘ بخاری نے پوچھا۔۔
‘‘میں نہیں جانتا۔۔مجھے اس کا علم نہیں۔۔‘‘ ایلی نے جواب دیا۔۔
بخشی اور بخاری نے حیرت سے ایلی کی طرف دیکھا۔۔‘‘اس کے رشتہ داروں کے متعلق۔۔۔۔۔۔۔‘‘بخشی نے پوچھا۔۔
‘‘مجھے نہیں معلوم ؟‘‘ ایلی نے بخشی کی بات کاٹ دی۔۔
‘‘اچھا۔۔‘‘ وہ سوچ میں پڑ گئے۔۔‘‘تعجب کی بات ہے۔۔‘‘کچھ دیر تک وہ دونوں خاموش رہے۔۔
‘‘تو کیا تمہارا فیصلہ اٹل ہے ؟ ‘‘ بخاری نے پوچھا۔۔
‘‘ہاں میں جاؤں گا۔۔‘‘ ایلی نے جواب دیا۔۔‘‘مجھے جانا ہی ہو گا۔۔‘‘
‘‘اس کے نتائج سوچے ہیں تم نے ؟ ‘‘
‘‘نہیں ۔۔مجھے نتائج کی پرواہ نہیں۔۔‘‘
‘‘اوہ۔۔۔۔۔‘‘
‘‘تمہارے پاس کوئی جگہ ہے جہاں اسے لے جا سکو ؟ ‘‘
‘‘نہیں۔۔‘‘
‘‘کوئی بھی نہیں۔۔‘‘
‘‘اونہوں۔۔‘‘
‘‘روپے کا انتظام ہے ؟ ‘‘
ایلی ہنس پڑا۔۔‘‘میرے پاس روپیہ کہاں۔۔‘‘
‘‘کوئی دوست ہے ؟ ‘‘
‘‘اونہوں۔۔‘‘
کچھ دیر تک وہ خاموش رہے بخشی کی آنکھوں میں غم کی گٹائیں چھا رہی تھیں۔۔بخاری کے ہونٹوں پر عجیب سا تبسم تھا۔۔
‘‘اور اگر تم پکڑے گئے تو ؟ ‘‘
‘پکڑا جاؤں گا اور کیا۔۔‘‘ ایلی نے کہا۔۔
‘‘اور اگر لڑکی نے تمہارے خلاف بیان دے دیا پھر ؟ ‘‘
‘‘نہیں۔۔‘‘ ایلی بولا۔۔
‘‘نہیں کیا۔۔۔۔۔۔۔؟ ‘‘
‘‘وہ میرا ساتھ دے گی۔۔‘‘
‘‘تمہیں یقین ہے؟ ‘‘
‘‘ہاں۔۔‘‘
‘‘اور اگر۔۔۔۔۔‘‘
‘‘اونہوں۔۔‘‘ایلی نے بخاری کی بات کاٹ دی۔۔‘‘کوئی اگر مگر نہیں۔۔‘‘ کمرے پر پھر خاموشی چھا گئی۔۔ کچھ دیر کے بعد بخاری نے کہا۔۔‘‘ بھائی الیاس مجھے تم سے مل کر بہت خوشی ہو رہی ہے۔۔‘‘
‘‘کیوں ؟‘‘ ایلی نے پوچھا۔۔
‘‘تم ان سوالات کا برا تو نہیں مان رہے۔۔‘‘
‘‘نہیں اب کیا ہے ؟ ‘‘ وہ بولا۔۔
‘‘اور اگر تم ہار گئے ؟ ‘‘
‘‘تو کیا ہوا۔۔۔۔۔۔؟ ‘‘ ایلی نے کہا۔۔
‘‘اس کا مطلب ہے کہ تم اس سے محبت کرتے ہو۔۔‘‘
‘‘مجھے نہیں معلوم۔۔‘‘ایلی نے کہا۔۔‘‘ اگر مجھے وہ نہیں ملی تو میں محسوس کروں گا جیسے میں نے کچھ کھو دیا ہو۔۔‘‘
‘‘اچھا۔۔‘‘ بخشی نے کہا۔۔‘‘ ابھی تو دو دن باقی ہیں۔۔آج ہفتہ ہے نا۔۔‘‘
‘‘اچھا۔۔‘‘ایلی نے پہلی مرتبہ یہ محسوس کیا کہ ابھی دو دن باقی ہیں۔۔
‘‘اگر تم ہمیں سارا قصہ سنا دو تو کوئی حرج ہے ؟ ‘‘بخاری نے پوچھا۔۔
‘‘اب کیا ہے۔۔؟ ‘‘ ایلی نے کہا۔۔‘‘لیکن جاہ کو پتا نہ چلے‘‘۔۔
‘‘اچھا تو کل ہم پھر آئیں گے۔۔شاید کچھ ہو سکے۔۔‘‘
‘‘بھگوان کرے۔۔‘‘ بخشی بولا اور وہ دونوں رخصت ہو گئے۔۔
اگلے روز وہ دونوں اسے باغ لے گئے اور وہاں بیٹھ کر ایلی نے مختصر طور پر موٹے موٹے واقعات انہیں سنا دئیے اور ان کی واپسی پر سفید منزل انہیں دکھا دی۔۔
اللہ ہو اکبر
بخشی اور بخاری سے مل کر ایلی کو ایک ان جانی تسلی ہو گئی۔۔حالانکہ انہوں نے اس کی امداد کرنے کا وعدہ نہیں کیا تھا۔۔لیکن بخشی اور بخاری دو عجیب شخصیتیں تھیں۔۔ان کے پاس بیٹھ کر محسوس ہوتا تھا۔۔جیسے اپنوں کے پاس ہو۔۔بخاری کی باتیں تلخ تھیں۔۔لیکن اس کے خشک رویہ سے محبت اور ہمدردی گویا رستی تھی۔۔بخشی کی باتیں مٹھاس بھری تھیں اور وہ یوں جذبات سے سرشار رہنے کا عادی تھا۔۔جیسے بھیگا ہوا کبوتر ایلی نے عجیب سی تسلی محسوس کی تھی۔۔نہ جانے کیسے ایلی کو یقین ہو چکا تھا کہ وہ دوستوں سے گھرا ہوا ہے۔۔پکڑے جانے یا قید ہو جانے کی فکر سے تو ایلی آزاد تھا۔۔بلکہ ویسے ہی جیسے اس روز سلگے ہوئے سگریٹ کے لیے وہ سادی کے زینے میں پنچ گھنٹے بیٹھا رہا تھا۔۔البتہ اسے ایک ڈر تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ سوموار کو رات کے دو بجے مقررہ جگہ پہنچ نہ سکے۔۔گویا اس وقت اس کا مقصد حیات صرف یہ تھا کہ رات کے دو بجے وہاں پہنچ جائے اس کے بعد کیا ہو گا۔۔کیسے ہو گا اس کے متعلق اس نے کچھ نہ سوچا تھا۔۔وہ اس کے متعلق سوچنا نہیں چاہتا تھا۔۔اس کے بعد چاہے کچھ ہو جائے پڑا ہو۔۔
سوموار کے روز بخشی اور بخاری دونوں بار بار ایلی کے پاس آئے اور اسے موہوم سی تسلی دے کر پھر چلے گئے۔۔ان کے انداز سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ انتظام میں مصروف ہیں۔۔ایلی کے پاس آ کر بھی وہ الگ ہو کر آپس میں بحث کرتے لڑتے جھگڑتے اور پھر کہیں چلے جاتے۔۔
شام کے وقت وہ دونوں ایلی کو باہر لے گئے۔۔
پارک میں پہنچ کر وہ ایک بینچ پر بیٹھ گئے بخاری نے ایلی کے دونوں شانے پکڑ لیے۔۔
‘‘دیکھو بھائی جو کچھ ہم سے ہو سکا ہم نے کر دیا ہے۔۔اب غور سے سن لو اور اچھی طرح سمجھ لو۔۔
رات کو تم اکیلے جاؤ گے لیکن ہم تمہارے بلکل قریب ہوں گے۔۔فکر نہ کرنا۔۔اگر کوئی مشکل پڑی تو۔۔۔۔۔۔۔
اگر بات بن گئی تو تم ۔۔۔۔۔۔اسے لے کر ناؤ گھر کی طرف نہ آنا بلکہ اس سے متضاد سمت کی گلی سے ہوتے ہوئے سڑک پر پہنچ جانا۔۔سڑک وہاں سے چالیس پچاس قدم دور ہے ۔۔وہاں تمہارے لیے ایک موٹر کھڑی ہو گی یہ موٹر تمہیں سیدھی کراچی لے جائے گی۔۔اگر تم کراچی بخیر و عافیت پہنچ گئے تو پھر اللہ مالک ہے۔۔‘‘
عین اس وقت قریب کی مسجد سے مؤذن للکارا۔۔‘‘اللہ اکبر۔۔‘‘
ایلی کی نس نس میں ایک برقی رو سی دوڑ گئی۔۔اس نے پہلی مرتبہ حیرت سے بخشی بخاری کی طرف دیکھا اور محسوس کیا۔۔جیسے وہ اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتے ہوں جو اللہ واسطے اس کی امداد کر رہے ہوں بے مقصد بے لاگ امداد۔۔اللہ۔۔۔۔۔۔۔ اس کے دل میں پہلی مرتبہ ایک گونج سی پیدا ہوئی۔۔اس کی آنکھوں میں شدت تاثر سے آنسو آ گئے۔۔
‘‘میں میں ‘‘ایلی نے شکر گزاری سے ان کی طرف دیکھا۔۔‘‘یعنی۔۔‘‘ وہ بولا۔۔اس کی آواز بھرائی ہوئی تھی۔۔بخاری ہنس پڑا۔۔‘‘ ہم یہ کام تمہارے لیے نہیں کر رہے۔۔‘‘ اس نے کہا۔۔‘‘ اس میں احسان مندی یا شکر گزاری کا کوئی موقعہ محل نہیں۔۔‘‘بخاری نے ایک دبی دبی آہ بھری اور پھر گلو گیر آواز میں بولا۔۔‘‘جو خود روشنی سے محروم کر دیے گئے ہوں وہ دوسروں کو راہ دکھانے میں مسرت محسوس کرتے ہیں۔۔‘‘
ایلی نے حیرت سے بخاری کی طرف دیکھا اس نے محسوس کیا جیسے اس کے پہلوؤں ایک لامتنائی خلا ہو جیسے دنیا کی تمام نعمتیں اور مسرتیں پر نہ کر سکتی ہوں۔۔اللہ ہو اکبر مؤذن اذان ختم کر رہا تھا۔۔
اللہ ہو اکبر ایلی کے دل کی گہرائیوں سے آواز آئی۔۔سامنے بخاری مسکرانے کی شدید کوشش کر رہا تھا۔۔قریب ہی بخشی کی آنکھوں میں بوندا باندی ہو رہی تھی۔۔
تمام تفصیلات سمجھا کر وہ دونوں ایلی کو سفید منزل کی طرف لے گئے اور عملی طور پر اسے سمجھانے لگے۔۔‘‘یہ گلی ہے۔۔ادھر سے تمہیں آنا ہے۔۔اس طرف کو۔۔یہاں موٹر کھڑی ہو گی عین اس جگہ اور ہم تمہارے ساتھ ساتھ رہیں گے۔۔پاس نہیں بلکہ قریب یہ نہ سمجھنا کہ تم اکیلے ہو۔۔‘‘
تمام تفصیلات سمجھانے کے بعد جب وہ ناؤ گھر پہنچے تو ساڑھے نو بجے تھے۔۔وہ سیدھے اوپر نیم چھتی کی طرف چل دئیے تا کہ جاہ بھا اور پال کو ان کی آمد کا علم نہ ہو۔۔
حد ہو گئی
جب وہ نیم چھتی میں پہنچے تو دروازے میں جمال کھڑا مسکرا رہا تھا۔۔جمال کو دیکھ کر ایلی کا دل بیٹھ گیا۔۔جمال کو دیکھتے ہی یہ احساس اس کے رگ و پے میں سرایت کر گیا کہ وہ مجرم ہے۔۔اس نے جمال کو دھوکا دیا ہے۔۔احساس گناہ سے اس کی گردن لٹک گئی۔۔
ایلی نے اس احساس سے مخلصی پانے کی شدید کوشش کی مگر ناکام۔۔وہ احساس اس شدت سے اس پر طاری ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہ اس دہاڑے میں اس کی شخصیت بہہ گئی۔۔۔۔۔۔۔وہ جمال کے روبرو کھڑا نہیں ہو سکتا تھا۔۔اس کی طرف نگاہ بھر کر دیکھ نہیں سکتا تھا۔۔
پھر اس نے اپنا دل کڑا کر لیا۔۔اور پتھر بن کر کھڑا ہو گیا اس ڈر کے مارے کہیں جمال کے قدموں میں گر کر معافی مانگنے کے لیے منتیں کرنا نہ شروع کر دے۔۔
جمال ایلی کی طرف بڑھا۔۔‘‘ایلی سب ٹھیک ہے نا؟ ‘‘
ایلی نے اثبات میں سر ہلایا۔۔
‘‘بخشی بخاری جی کیا حال ہے جاہ سے ملنے آئے تھے کیا۔۔‘‘جمال نے ان سے بات کی۔۔
‘‘ہاں۔۔‘‘بخشی نے کہا پھر وہ دونوں خاموش ہو گئے۔۔
‘‘ان کا حال سناؤ ایلی۔۔‘‘اس نے اشارتاً پوچھا۔۔
‘‘ٹھیک ہیں۔۔‘‘ایلی نے کہا۔۔
‘‘کوئی آیا تھا ؟ ‘‘
‘‘نہیں۔۔‘‘
‘‘خط بھی نہیں ؟‘‘
‘‘نہیں۔۔‘‘
‘‘پیغام ؟‘‘
‘‘نہیں۔۔‘‘
‘‘تو بات ختم ہو گئی۔۔‘‘
‘‘ہاں۔۔‘‘
جمال مایوس ہو گیا اور برساتی کے باہر کوٹھے پہ ٹہلنے لگا۔۔
بخاری ایلی کے قریب تر ہو گیا۔۔‘‘یہ تمہارا ساتھی تھا ؟‘‘
‘‘ہاں۔۔‘‘ایلی بولا۔۔
‘‘ساتھی کو اپنے خلاف کر لینا دانشمندی نہیں۔۔‘‘
ایلی خاموش رہا۔۔
‘‘اسے بتا دینا چاہیے۔۔‘‘بخاری نے کہا۔۔
‘‘لیکن میں۔۔۔۔۔۔کیسے بتاؤں۔۔‘‘
‘‘اس سے بات چھپی نہ رہ سکے گی۔۔‘‘بخاری بولا۔۔
‘‘ہوں۔۔‘‘ایلی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔۔اس میں اتنی جرات نہیں تھی کہ جمال کے روبرو اقبال جرم کرے۔۔کچھ دیر کے بعد جمال مڑا۔۔‘‘ایلی انہوں نے بلایا تو نہیں تھا ؟‘‘
‘‘ہاں۔۔‘‘
‘‘بلایا تھا ؟ ‘‘جمال نے دہرایا۔۔
‘‘بلایا ہے۔۔‘‘ایلی نے جواب دیا۔۔
‘‘کب ؟ ‘‘
‘‘آج رات کے دو بجے۔۔‘‘
‘‘آج۔۔‘‘ جمال کا چہرہ سرخ ہو گیا۔۔‘‘دو بجے ؟‘‘ حیرت سے اس کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔۔
‘‘ہاں دو بجے۔۔‘‘
‘‘دفتعاً جمال نے محسوس کیا کہ وہ بخشی کے سامنے ہی باتیں کیے جا رہا ہے۔۔‘‘اوہ۔۔‘‘اس نے اس کی طرف دیکھ کر مسکرانے کی کوشش کی۔۔
‘‘جمال بھئی۔۔‘‘ بخاری نے پہلی مرتبہ جمال سے بات کی۔۔‘‘الیاس آج جا رہا ہے۔۔‘‘
‘‘جا رہا ہے۔۔‘‘کہاں۔۔؟‘‘
‘‘اس لڑکی کو ساتھ لے کر جا رہا ہے۔۔‘‘
‘‘کیا مطلب۔۔تم جا رہے ہو ایلی ؟ ‘‘ وہ ایلی سے مخاطب ہوا۔۔
‘‘ہاں۔۔‘‘ایلی نے سر ہلا دیا۔۔
‘‘کس کے ساتھ ؟‘‘
‘‘چھوٹی کے ساتھ۔۔‘‘
‘‘چھوٹی کے ساتھ۔۔‘‘وہ حیرت سے سر کھجانے لگا۔۔‘‘حد ہو گئی۔۔‘‘ اس نے صحن میں ایک چکر کاٹا۔۔
‘‘چھوٹی نے بلایا ہے کیا ؟‘‘ جمال نے پوچھا۔۔
‘‘ہاں۔۔‘‘
‘‘حد ہو گئی‘ حد ہو گئی۔۔‘‘ وہ دیوانہ وار صحن میں گھومنے لگا۔۔
‘‘کہاں جاؤ گے ؟‘‘ جمال پھر رک کر پوچھنے لگا۔۔
‘‘پتہ نہیں۔۔حد ہو گئی۔۔‘‘جمال چلایا۔۔
بخشی اور بخاری چپ چاپ دیوار کے قریب کھڑے تھے ایلی زینے کے پاس تیوری چڑھائے جمال کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔
جمال کوٹھے پر دیوانہ وار گھوم رہا تھا۔۔‘‘حد ہو گئی۔۔‘‘ وہ اپنے آپ چلا رہا تھا۔۔‘‘ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔۔عجیب بات ہے۔۔کیسے ہو سکتا ہے ؟۔۔‘‘
دفتعاً جمال رکا۔۔‘‘خط آیا تھا کیا ؟‘‘
‘‘ہاں۔۔‘‘ایلی نے کہا۔۔
‘‘اسی نے ہاتھ ؟ ‘‘
‘‘نہیں۔۔‘‘
‘‘رومی ٹوپی والا لایا تھا ؟ ‘‘
‘‘نہیں ؟ ‘‘
‘‘تو پھر ؟‘‘
‘‘ڈاک سے۔۔‘‘
‘‘اوہ۔۔ڈاک سے۔۔‘‘ جمال پھر مضطربانہ طور پر ٹہلنے لگا۔۔پھر رکا۔۔‘‘ اگر اگر میں میں یعنی۔۔‘‘ اس نے ملتجی نگاہوں سے ایلی کی طرف دیکھا۔۔
‘‘ہاں۔۔‘‘ ایلی نے جواب دیا اور لفافے سمیت سادی کا خط جمال کی طرف بڑھا دیا۔۔
جمال نے لپک کر وہ خط ایلی کے ہاتھ سے لے لیا۔۔پتہ دیکھا پھر بے صبری سے رقعہ نکالا اور روشنی تلے کھڑا ہو کر اسے پڑھنے لگا۔۔
دیر تک وہ وہاں کھڑا رہا۔۔نہ جانے کتنی مرتبہ خط پڑھا ہو گا۔۔پھر گویا اس کے جسم کا تناؤ ٹوٹ گیا ہاتھ لٹکنے لگے گال ڈھلک گئے۔۔‘‘حد ہو گئی۔۔‘‘ اب اس نے اور انداز سے کہا۔۔‘‘اچھا بھائی۔۔‘‘ وہ ایلی کے قریب آ گیا۔۔‘‘تمہیں مبارک ہو۔۔‘‘ اس نے خط واپس دیتے ہوئے کہا۔۔
‘‘جمال صاحب۔۔‘‘بخاری نے کہا۔۔‘‘ آپ تو انہیں جانتے ہیں۔۔کیا وہ آئی گی ؟ ‘‘
‘‘آئے گی ؟‘‘ جمال نے دھرایا۔۔
مطلب ہے کیا وہ بات کی پکی ہے۔۔‘‘بخاری نے پوچھا۔۔
‘‘مجھے نہیں معلوم۔۔‘‘جمال بولا۔۔‘‘ ایلی کو معلوم ہے۔۔میں تو اسی کے سہارے۔۔‘‘ اس نے ایلی کی طرف اشارہ کیا۔۔اس کی آنکھیں پر نم ہو گئیں۔۔بخشی گھبرا کر سی سی کرنے لگا جیسے اسے بہت کچھ برداشت کرنا پڑ رہا ہو۔۔
‘‘مجھے تو کچھ علم نہیں۔۔میں تو میں تو۔۔‘‘جمال بولا۔۔‘‘ میں تو حیران ہوں۔۔مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔۔‘‘
بخاری بت بنا کھڑا تھا۔۔
ایلی احساس ندامت سے بھیگا ہوا تھا۔۔
بخشی چپ چاپ ظلم سہے جا رہا تھا۔۔
جمال کبھی سوچ میں پڑ جاتا۔۔کبھی سر لٹکا دیتا کبھی مسکرانے کی کوشش کرتا کبھی سر کھجاتا اور اپنے آپ سے کہا۔۔‘‘حد ہو گئی۔۔‘‘ پھر دفتعاً ایلی کو دیکھ کر اسے نجانے کیا ہوا بھاگ کر وہ ایلی سے لپٹ گیا۔۔
‘‘ایلی تم کمال ہو۔۔‘‘تمہارا جواب نہیں تم نے حد کر دی۔۔تم ہمیشہ حد کرتے ہو۔۔لیکن یار تم نے یہ کیسے کر دیا۔۔مجھے بڑی خوشی ہے ایلی۔۔بڑی خوشی ہے۔۔مجھے تم پر یہی امید تھی۔۔‘‘جذبات کی شدت کی وجہ سے وہ رک گیا۔۔ایلی کی گردن لٹک گئی۔۔اس نے محسوس کیا جیسے وہ واقعی مجرم ہو۔۔
‘‘آپ کو نہیں معلوم۔۔‘‘وہ بخشی بخاری سے مخاطب ہو کر کہنے لگا۔۔‘‘ایلی نے شیر مارا ہے۔۔شیر ببر۔۔آسمان کا تارا توڑ لایا ہے۔۔یہ جادوگر ہے۔۔جادوگر۔۔اس کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔۔میں اس کے جادو سے واقف ہوں۔۔‘‘
بخشی۔۔بخاری حیرت سے جمال کی طرف دیکھ رہے تھے۔۔
‘‘اور وہ۔۔‘‘ جمال ہنسنے لگا۔۔‘‘وہ پیچھے ہٹنے والی نہیں۔۔وہ معمولی لڑکی نہیں۔۔
اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دے سکتا۔۔کون ہے جو اسے روک سکے کون ہے جو اس کی طرف اپنا ہاتھ بڑھا سکے۔۔‘‘جمال ہنسنے لگا اس کی ہنسی میں ہسٹیریا کا عنصر تھا بخشی بخاری چپ چاپ کھڑے اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔۔
گھڑی نے بارہ بجا دئیے۔۔
‘‘اچھا تو۔۔‘‘ جمال چلایا۔۔‘‘ میرا دوست آج جا رہا ہے وہ کہتے ہیں نا کیا کہتے ہیں وہ۔۔باسلامت روی۔۔مجھے یاد نہیں رہا۔۔‘‘ وہ بولا۔۔
‘‘اچھا۔۔‘‘بخاری نے کہا۔۔‘‘وقت کم ہے۔۔ ہم ذرا موٹر والے کو دیکھ آئیں جب تک تم تیاری کرو ایلی۔۔۔‘‘
‘‘تیاری۔۔‘‘ ایلی نے دہرایا۔۔‘‘ میں کیا تیاری کروں گا ؟ ‘‘
‘‘کوئی چیز ویز۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
‘‘میرے پاس کچھ بھی نہیں۔۔‘‘
‘‘جمال صاحب آپ ایلی کے ساتھ جائیں گے۔۔میرا مطلب ہے صرف اسے لانے کے لیے۔۔‘‘بخاری نے کہا۔۔
‘‘ہاں ہاں۔۔‘‘ جمال چلانے لگا۔۔‘‘میں ساتھ جاؤں گا۔۔میں اس کا ساتھی ہوں۔۔ اس نے میرا ساتھ دیا تھا۔۔اب میں اس کا ساتھ دوں گا۔۔میں انہیں خود موٹر میں بٹھاؤں گا۔۔کیوں ایلی مجھے ساتھ لے چلو گے نا ؟ ‘‘
ایلی ڈرتا تھا کہ بخشی بخاری کے جانے ک بعد وہ جمال کے ساتھ اکیلا نہ رہ جائے اس لئے وہ نیچے اتر گیا۔۔
‘‘میں ذرا جاہ اور پال سے مل لوں۔۔‘‘وہ بولا۔۔
جاہ اپنی چارپائی پر پڑا سو رہا تھا۔۔ایک ساعت کے لیے ایلی ہچکچایا۔۔پھر اسے خیال آیا کہ شاید پھر کبھی ملاقات نہ ہو۔۔
‘‘جاہ جاہ۔۔‘‘ ایلی نے اسے جھنجھوڑا۔۔
جاہ نے کروٹ لی۔۔‘‘جاہ۔۔‘‘ وہ چلایا۔۔‘‘ جاہ نے سر اٹھایا۔۔‘‘ہوں؟ ‘‘
‘‘میں جا رہا ہوں۔۔‘‘ایلی بولا۔۔
‘‘اچھا۔۔‘‘ وہ نیند میں بولا اور اپنا دایاں ہاتھ بڑھا دیا۔۔‘‘ خدا حافظ۔۔‘‘
ایلی نے جاہ کا ہاتھ پکڑ لیا اور بے پناہ پیار سے اسے سہلانے لگا۔۔لیکن جاہ پھر سو گیا تھا۔۔
پال ابھی پورے طور پر نہیں سویا تھا۔۔‘‘ کہاں جا رہے ہو ؟‘‘ اس نے پوچھا۔۔
‘‘گھر جا رہا ہوں۔۔‘‘
‘‘تو جاؤ۔۔میں سمجھا شاید سات سمندر پار جا رہے ہو۔۔‘‘پال بولا۔۔
‘‘ہاں۔۔‘‘ ایلی نے کہا۔۔‘‘سات سمندر پار جا رہا ہوں۔۔وہیں گھر بناؤں گا۔۔‘‘پال اٹھ بیٹھا اور پھر مذاق میں ایلی سے لپٹ گیا۔۔
‘‘اس وقت کون سی گاڑی جائی گی ؟ ‘‘ بھا نے پوچھا۔۔
‘‘جائے گی۔۔‘‘ایلی نے جواب دیا۔۔
‘‘کوئی سپیشل ہی ہو سکتی ہے۔۔‘‘ بھا نے کہا۔۔
‘‘ہاں سپیشل ہی ہے۔۔‘‘
‘‘اب یہ بھی پوچھو بھا کہ سپیشل کے کون سے ڈبے میں بیٹھو گے ؟ ‘‘ پال بولا۔۔
‘‘اس سے پہلے توکبھی ایلی یوں مل کر نہیں گیا۔۔‘‘بھا نے کہا۔۔
ایلی نے محسوس کیا کہ اگر کچھ دیر کے لیے وہاں رکا تو وہ سب جاگ پڑیں گے اور باتیں شروع ہو گئیں تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘اچھا تو خدا حافظ۔۔‘‘ وہ اٹھا اس کی آواز گلوگیر تھی۔۔
اٹیچی
عین پونے دو بجے جمال اور ایلی اس کھڑکی کے پاس جا کھڑے ہوئے وہ دونوں چپ چاپ کھڑے تھے۔۔گلی ویران تھی۔۔قبرستان کے پرلے سرے پر کوئی فقیر گدڑی میں لپٹا پڑا تھا۔۔۔۔۔ایلی کا دل دھک دھک کر رہا تھا دیر تک وہ کھڑے رہے۔۔وہ پندرہ منٹ پندرہ گھنٹوں سے زیادہ طویل ہو گئے تھے۔۔
قریب ہی کسی گھڑی نے دو بجائے جمال بولا۔۔‘‘ کیا دو بج گئے‘ واقعی دو بج گئے۔۔کیوں ایلی سنا تم نے‘‘۔۔
‘‘ایلی دو ہی بجے ہیں کیا ؟ ‘‘ ایلی نے کوئی جواب نہ دیا۔۔
دیر تک وہ دونوں چپ چاپ کھڑے رہے۔۔
پھر سفید منزل سے یوں آواز سی آئی جیسے کوئی ٹرنک کھینچ رہا ہو۔۔وہ چوکنے ہو گئے۔۔
پھر خاموشی چھا گئی۔۔
پھر زینے میں پاؤں کی چاپ سنائی دی۔۔
‘‘وہ۔۔وہ۔۔‘‘جمال بولا۔۔
ایلی نے آہستہ سے کھڑکی کو انگلی سے بجایا۔۔
اندر سے دروازے کی چٹخنی کھلنے کی آواز آئی۔۔
وہ دونوں لپک کر دروازے کے مقابل جا کھڑے ہوئے۔۔دروازے میں کوئی سیاہ نقاب میں ملبوس کھڑا تھا۔۔
‘‘سادی ؟ ‘‘ ایلی نے پوچھا۔۔
‘‘جواب میں اس نے لوہے کا ایک اٹیچی آگے بڑھا دیا۔۔
‘‘یہ کیا ہے ؟ ‘‘ایلی نے دبی زبان میں پوچھا۔۔
‘‘میرا زیور ہے۔۔‘‘ سادی نے جواب دیا۔۔
‘‘اونہوں۔۔‘‘ ایلی بولا۔۔‘‘اسے واپس رکھ آؤ۔۔‘‘
‘‘کیوں ؟۔۔‘‘
‘‘یہ میں ساتھ نہیں لے جاؤں گا۔۔‘‘
‘‘یہ تو پاگل ہے۔۔‘‘جمال بولا۔۔‘‘لاؤ مجھے دو۔۔‘‘یہ کہتے ہوئے اس نے اٹیچی اٹھا لیا۔۔
‘‘نہیں سادی۔۔‘‘ ایلی دروازے کے سامنے کھڑا ہو گیا۔۔‘‘یہ ہمارے ساتھ نہیں جائے گا۔۔
دھڑ اڑ اڑا۔۔۔۔ڑام
سفید منزل سے ایسی آواز آئی جیسے کوئی بڑا سا ٹرنک کسی نے اٹھا کر فرش پر دے مارا ہو۔۔
‘‘ہائے اللہ۔۔‘‘ سادی نے ہاتھ سینے پر رکھ لیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘باجی۔۔‘‘۔۔۔۔۔وہ بولی۔۔۔
پھر سفید منزل میں کہرام محچ گیا۔۔
چار ایک مردان کی طرف لپکے۔۔وہ ایلی کے قریب آئے اور پھر نہ جانے کیوں اسے چھوڑ کر انہوں نے جمال کو دبوچ لیا۔۔سادی نے چیخ ماری اور بیہوش ہو ک اندر گر پڑی۔۔
ایلی کو سمجھ نہیں آ رہا تھا۔۔کہ کیا ہو رہا ہے۔۔نیچے گلی میں وہ جمال کو پیٹ رہے تھے اوپر کوئی کراہ رہی تھی‘ کوئی بین کر رہی تھی۔۔بند کھڑکیاں کھل رہی تھیں۔۔پھر ایلی چلانے لگا۔۔
‘‘میں ہوں میں میں ہوں میں‘ ادھر دیکھو ادھر دیکھو میں ادھر ہوں۔۔‘‘لیکن وہ اس کی طرف متوجہ نہ ہوئے باری باری اس نے ہر شخص کو شانے سے جھنجھوڑا۔۔‘‘یہ نہیں میں ہوں۔۔اسے چھوڑ دو۔۔میں ہوں میں۔۔‘‘ لیکن کسی نے اس کی طرف توجہ نہ دی وہ سب دیوانہ وار جمال سے کشتی لڑنے میں مصروف تھے۔۔
‘‘کون ہے کون ہے۔۔کیا ہوا۔۔‘‘وہ شخص ایلی کی طرف لپکے۔۔
‘‘میں ہوں میں۔۔‘‘وہ چلایا۔۔
اچھا تو تم ہو۔۔‘‘ان دونوں نے اسے بازؤوں سے پکڑ کر گھسیٹنا شروع کر دیا۔۔
پھر وہ دونوں ایلی کو کسی تنگ جگہ میں ٹھونس رہے تھے۔۔
ہوا کے چار ایک جھونکے لگے تو ایلی نے دیکھا کہ وہ موٹر پر سوار ہے اور اس کے پاس بخشی اور بخاری بیٹھے ہیں۔۔
‘‘نہیں نہیں۔۔‘‘ وہ انہیں دیکھ کر چلایا۔۔‘‘ مجھے جانے دو۔۔مجھے جانا ہے۔۔‘‘ وہ چلاتا گیا لیکن گاڑی فراٹے بھرتی چلتی رہی۔۔
‘‘یہ تم کیا کر رہے ہو۔۔‘‘ ‘‘نہیں نہیں میں نہیں جاؤں گا۔۔مجھے جانا ہے۔۔مجھے چھوڑ دو۔۔‘‘
‘‘ روک لو۔۔روک لو۔۔‘‘ ایلی چیخ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دیر تک وہ چلاتا رہا پھر دفتعاً بخاری بولا۔۔۔‘‘ گاڑی روک لو۔۔‘‘
گاڑی رک گئی۔۔
‘مجھے جانا ہے بخاری جی مجھے جانا چاہیے مجھے جانا ہو گا۔۔‘‘ ایلی کے سر پر گویا جنون سوار تھا۔۔
‘‘لیکن۔۔‘‘ بخشی بولا۔۔
‘‘لیکن ویکن کچھ نہیں۔۔ اگر میں نہ گیا تو زندگی بھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘وہ رک گیا۔۔۔۔۔۔
‘‘زندگی بھر۔۔۔۔۔‘‘ اس نے پھر ناکام کوشش کی۔۔
‘‘موڑ لو۔۔‘‘ بخاری نے ڈرائیور سے کہا۔۔
موٹر واپس جا رہی تھی۔۔وہ تینوں خاموش تھے۔۔
ایلی کو کچھ احساس نہ تھا کہ وہ کیا کر رہا ہے۔۔اسے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کیوں واپس جا رہا ہے۔۔واپس جا کر اسے کیا کرنا ہے۔۔اسے اس وقت یہ بھی خیال نہ آیا کہ سادی خطرے میں تھی۔۔اسے یہ بھی احساس نہ تھا کہ جمال کو چھڑانا اس کا اخلاقی فرض تھا۔۔اس وقت فرض اور اخلاق ایلی کے لیے دو مہمل لفظ تھے۔۔اسے صرف ایک خیال تھا کہ سادی کیا کہے گی کہ ایلی بھاگ گیا سفید منزل سے دور ہی انہوں نے اسے موٹر سے اتار دیا۔۔
‘‘اچھا بھائی۔۔‘‘بخاری نے کہا‘‘ خدا حافظ۔۔‘‘
ایلی نے اس کی بات نہ سنی اور دیوانہ وار سفید منزل کی طرف بھاگا۔۔
گلی میں کوئی نہیں تھا لیکن سفید منزل کے اردگرد کے سبھی مکانات میں بتیاں جل رہی تھیں اور زیر لبی باتیں سنائی دے رہی تھیں۔۔
سفید منزل کا پھاٹک نما صدر دروازہ بند تھا۔۔ اندر سے آوازیں آ رہی تھیں کوئی کسی کو ڈانٹ رہا تھا۔۔ایلی نے دونوں ہاتھوں سے پھاٹک بجانا شروع کر دیا۔۔
‘‘دروازہ کھولو۔۔ دروازہ کھولو۔۔‘‘ وہ رعب سے نہ جانے کسے ڈانٹ رہا تھا۔۔جیسے کوئی سورما سردار فاتح کی حیثیت سے قلعے میں واپس آیا ہو۔۔
اس کی دستک کا کسی نے جواب نہیں دیا۔۔
اس نے دروازے پر دو ہٹر مارنے شروع کر دئیے اندر باتوں کا سلسلہ یوں کا توں جاری تھا۔۔
‘‘میں ہوں میں‘‘ اس نے پھر دستک دی۔۔میں ہوں میں۔۔الیاس ہوں۔۔ایلی میں واپس آ گیا ہوں۔۔مجھ سے بات کرو۔۔دروازہ کھولو۔۔‘‘
اس وقت اسے معلوم نہ تھا کہ وہ کیا کر رہا ہے کیا کہہ رہا ہے۔۔اسے یہ بھی احساس نہ ہوا کہ اردگرد کے مکانات کے لوگ کھڑکیاں کھول کھول کر باہر جھانک رہے تھے۔۔اندر سے کنڈی کھلنے کی آواز آئی۔۔
‘‘کون ہے ؟ ‘‘ ایک دبلے پتلے شخص نے پورا دروازہ کھولے بغیر درز سے باہر جھانکا۔۔
‘‘میں ہوں میں ‘‘ ایلی بولا۔۔‘‘ ایلی جسے تم تلاش کر رہے ہو۔۔وہ ایلی۔۔‘‘
‘‘کون ہے ؟ ‘‘ اندر سے کسی اور شخص کی غصے بھری آواز آئی۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘پکڑ لاؤ اس بدمعاش کو‘‘ وہ گرجا۔۔
دبلے پتلے آدمی نے ایلی کا بازو پکڑ کر اسے یوں اندر گھسیٹ لیا جیسے تمباکو کی بوری ہو۔۔
‘‘بدمعاش‘‘ وہ دانت پیسنے لگا اور پھر اسے ایک کمرے میں دھکا دے کر باہر سے کنڈی لگا دی۔۔
چور
چند ہی ساعت میں کسی نے کنڈی کھولی ایک اجنبی نوجوان اندر داخل ہوتے ہوئے چلایا۔۔۔
کون ہے تو ؟ ‘‘
میں الیاس ہوں ؟‘‘
جسے تم تلاش کو رہے ہو۔۔میں واپس آ گیا ہوں۔۔وہ غلط آدمی ہے جسے تم نے پکڑا ہوا ہے۔۔مجھ سے بات کرو۔۔‘‘
نووارد نے غصے سے ہاتھ اٹھایا۔۔میں تمہاری ہڈی پسلی توڑ دوں گا۔۔‘‘
ایلی چپ چاپ کھڑا رہا۔۔‘‘توڑ دیجئے۔۔‘‘وہ بولا۔۔
تم نے کوئی دھوکا یا فریب کیا تو یاد رکھو میرے سرہانے تلے پستول پڑا ہے۔۔‘‘
‘‘میں کب کہتا ہوں کہ میں نے احسان کیا ہے آپ پر۔۔‘‘ایلی نے غصے سے بچھڑ کر کہا۔۔
‘‘تو کس پر احسان کیا ہے۔۔‘‘نوجوان چلایا۔۔
‘‘کسی پر بھی نہیں‘‘۔۔
‘‘تم پہلے کبھی آئے اس گھر میں ؟ ‘‘
‘‘نہیں۔۔‘‘
‘‘کیا تمہیں معلوم ہے یہ گھر کس کا ہے مجھے جانتے ہو ؟‘‘
‘‘نہیں۔۔‘‘
نوجوان خاموش ہو گیا اور ایک سگریٹ سلگا کر پینے لگا۔۔
ایلی غور سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔
وہ ایک خوبصورت جوان تھا۔۔درمیانہ قد بھرا بھرا جسم گدے سے ہاتھ پاؤں۔۔۔سفید رنگ۔۔فراخ ماتھے پر تیوری تھی۔۔خمدار ہونٹوں پر مسکراہٹ دبی ہوئی تھی۔۔اس نے انگریزی طرز کا سوٹ پہن رکھا تھا۔۔
وہ کمرا نہایت مختصر تھا۔۔دیواروں پر ہلکا گلابی پینٹ کیا ہوا تھا۔۔پلنگ پر جدید طرز کی چادر بچھی ہوئی تھی۔۔سرہانے کا غلاف ہم رنگ تھا۔۔تپائی پر ایک دو کتابیں پڑی تھیں۔۔پانی کے لیے ایک کانچ کی صراحی تھی۔۔کارنس پر دو ایک چیزیں بکھری ہوئی تھیں۔۔
پلنگ پر لیٹے ہوئے سگریٹ کے کس لگاتے ہوئے نوجوان کبھی کبھی آنکھ بچا کر ایلی کی طرف دیکھتا اور پھر یوں چھت کو کھورنے لگتا جیسے خوفناک ارادے قائم کرنے میں شدت سے مصروف ہو۔۔
دفتعاً اوپر سے چیخوں کی آواز سنائی دی کوئی چلا رہی تھی۔۔کوئی ٹین کے ڈبے بجا رہا تھا۔۔کوئی کراہ رہی تھی۔۔پھر کوئی قہقہ مار کر ہنس رہی تھی۔۔
نوجوان چھلانگ مار کر اٹھا۔۔دروازے میں کھڑے ہو کر اس نے اوپر جنگلے کے طرف دیکھا اور پھر رعب سے للکارا۔۔؛؛کیا ہو رہا ہے۔۔‘‘
آوازیں بدستور جاری رہیں۔۔
پھر وہ ایلی کی طرف مڑا خبردار ‘‘نوجوان چلایا۔۔‘‘ اگر بھاگنے کی کوشش کی۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ اور پھر قریب ہی زینے میں داخل ہو گیا۔۔
بن باس
ایلی اکیلا رہ گیا صدر دروازے سے ملحقہ کمرے میں سے چار ایک شخص باہر نکل کر ڈیوڑھی میں کھڑے ہو گئے۔۔ایلی غور سے ان آوازوں کو سن رہا تھا۔۔جو اوپر سے آ رہی تھیں۔۔لیکن نہ تو باجی اور نہ سادی کی آوازیں سنائی دے رہی تھی۔۔وہ حیران ہو رہا تھا کہ اوپر صورت حال کیا ہے۔۔بہرحال صورت حال تسلی بخش نہیں معلوم ہوتی تھی۔۔نہ جانے کیوں وہ اس صورت حال پر خوشی محسوس کر رہا تھا کہ اوپر حالات تسلی بخش نہیں معلوم ہوتے تھے۔۔
خیال آیا وہ مڑا اوپر والے زینے کے مقابل میں ایک دروازہ تھا۔۔ہوں اس نے سوچا تو یہ ہے وہ کمرہ جس میں ہم ملا کرتے تھے۔۔دروازہ بند تھا۔۔لیکن وہ محسوس کر رہا تھا۔۔جیسے کھلا ہو۔۔سامنے دو پاٹ پڑے تھے۔۔اس کے قریب ہی کاٹھ کباڑ والا زینہ تھا۔۔سلاخوں والی کھڑکی کے قریب ایک ان سلگا سگریٹ پڑا تھا۔۔
پھر باجی دبے پاؤں زینے سے اتر رہی تھی۔۔‘‘خدا کے لئے۔۔‘‘وہ بولی۔۔‘‘آپ اب جائیں یہاں سے۔۔‘‘
‘‘چلا جاؤں گا چلا جاؤں گا۔۔گھبراتی کیوں ہیں آپ اب جانا ہی ہے نا۔۔‘‘
‘‘نہیں نہیں۔۔‘‘ اوپر کوئی چیخ کر بولی۔۔
وہ چونکا۔۔اوپر دیکھنے لگا۔۔
کوئی رو رہی تھی۔۔
پھر دفتعاً نوجوان سیڑھیوں سے نکل کر اندر داخل ہوا۔۔‘‘ آپ ؟‘‘ اس نے ایلی کی طرف دیکھ کر کہا اور رک گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
‘‘تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘کچھ دیر کے بعد نوجوان نے غصے سے ایلی کی طرف دیکھا۔۔تم نے میری زندگی حرام کر دی ہے۔۔‘‘اس نے زور سے دروازے پر لات ماری۔۔‘‘ تم نے وہ جرم کیا ہے کہ میں اگر تم کو قتل بھی کر دوں تو کم ہے‘‘
‘‘ہاں ‘‘ ایلی نے کہا۔۔‘‘میں نے چوری کرنے کی کوشش کی ہے۔۔‘‘
‘‘بکو نہیں۔۔‘‘ نوجوان کی آنکھیں انگاروں کی طرح روشن ہو گئیں۔۔‘‘میں تمہاری ہڈی پسلی توڑ کر رکھ دوں گا۔۔‘‘ وہ جوش میں ایلی کی طرف لپکا۔۔اس نے دونوں ہاتھ اٹھا رکھے تھے۔۔ایلی چپ چاپ کھڑا ہو گیا۔۔قریب آ کر نوجوان نے اپنی باہیں ایلی کے گرد حمائل کر دیں اور اس کے کندھے پر سر رکھ کر بچوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگا۔۔نوجوان کی کراہیں سن کر اوپر خاموشی طاری ہو گئی۔۔
پہلے تو ایلی حیران کھڑا رہا۔۔پھر اسے وہی خشبو سی محسوس ہوئی جو سادی کے لباس میں ہوتی تھی اور کمرے کی فضا میں اڑا کرتی تھی۔۔وہ نوجوان کے قریب تر ہو گیا۔۔اس کا جی چاہا اس کا دامن پکڑے اور اسے اپنی آنکھوں پر ملے۔۔
دیر تک وہ دونوں بغل گیر رہے۔۔
خوش شکل جوان نے آنکھیں پونچھیں اپنا آپ قابو کر کے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو پلنگ پر بیٹھ گیا۔۔
‘‘مجھے ساری بات بتا دیجئے۔۔‘‘اس نے ایلی سے کہا۔۔اس کا انداز بلکل بدلا ہوا تھا۔۔
‘‘ساری بات؟ ‘‘ ایلی نے مصنوعی حیرت کا اظہار کیا۔۔
‘‘مجھ سے کوئی بات نہ چھپائیے۔۔‘‘نوجوان نے منت کی۔۔
‘‘لیکن۔۔‘‘ ایلی بولا‘‘ میں تو چور ہوں چوری کے لئے آیا تھا۔۔‘‘
نوجوان خاموش ہو گیا۔۔
‘‘ایک بات پوچھوں۔۔‘‘کچھ دیر بعد نوجوان نے بات کی۔۔
‘‘فرمائیے۔۔‘‘
‘‘اگر ہم پولیس بلوا دیتے تو آپ وہی بیان دیتے۔۔‘‘
‘‘بے شک۔۔‘‘ ایلی نے کہا۔۔
نوجوان پھر سوچ میں پڑ گیا۔۔
‘‘آپ نے اغوا کا فیصلہ کیسے کیا۔۔‘‘نوجوان نے پوچھا۔۔
ایلی خاموش رہا۔۔
کیا یہ تجویز آپ کی طرف سے تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘نوجوان رک گیا۔۔
میری طرف سے۔۔‘‘ ایلی نے جواب دیا۔۔
‘‘سچ کہہ رہے ہیں آپ‘‘ نوجوان نے پوچھا۔۔
‘‘ہاں۔۔‘‘ ایلی بولا۔۔
آپ کا مقصد اسے گمراہ کر کے خراب کرنا تھا۔۔‘‘
‘‘یہ غلط ہے۔۔‘‘ ایلی نے غصے سے نوجوان کی طرف دیکھا۔۔
‘‘تو کیا مقصد تھا۔۔‘‘نوجوان نے پوچھا۔۔
‘‘ظاہر ہے۔۔‘‘ایلی نے جواب دیا۔۔
‘‘ہمیں بلیک میل کرنا۔۔ہوں۔۔‘‘ نوجوان کو پھر سے غصہ آ گیا۔۔
‘‘یہ الزام ہے۔۔‘‘ایلی نے دانت پیسے۔۔
‘‘اوہ‘‘ نوجوان پھر جلال میں آ گیا۔۔‘‘دور ہو جائیے میری نگاہوں سے میں آپ کی شکل دیکھنا نہیں چاہتا۔۔ہماری زندگی میں آپ کے لیے کوئی جگہ نہیں۔۔جائیے جائیے۔۔‘‘
ایلی جوں کا توں بیٹھا رہا۔۔
‘‘آپ نے ہمیں وہ دکھ پہنچایا ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘نوجوان کی آنکھیں چھلکنے لگیں۔۔لیکن یاد رکھئے اگر آپ نے پھر کسی قسم کا رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘جاؤ۔۔‘‘
ایلی پھر بھی بیٹھا رہا۔۔
کچھ دیر بعد نوجوان پھر لپک کر باہر نکلا‘‘ محمد علی۔۔‘‘ اس نے کسی کو آواز دی۔۔‘‘باہر نکال دو اسے۔۔‘‘
پتلا دبلا شخص صدر دروازے سے نکل کر لپک کر آیا اور ایلی کا ہاتھ کھینچنے لگا۔۔پھر اس نے صدر دروازے کی بھاری چٹخنی کھولی اور ایلی کو باہر دھکیل کر اندر سے کنڈی لگا دی۔۔
باہر صبح کی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔۔
کھڑکیوں سے لوگ سر نکال کر دیکھ رہے تھے۔۔وہ اس کی طرف اشارے کر رہے تھے۔۔
‘‘کون ہے ؟ ‘‘
‘‘کدھر ہے ؟ ‘‘
ایلی چپ چاپ سر جھکائے یوں چل رہا تھا۔۔ جیسے رام باس کو جا رہے ہوں۔۔
٭٭٭٭٭٭