صفحات

تلاش کریں

10-فرار

 پسپائی

جب وہ واپس گھر پہنچا تو وہ تھکا ہارا محروم و ناکام ایلی تھا۔ چپکے سے چور کی طرح وہ اندر داخل ہوا اور دبے پاؤں چلتا ہوا اپنی چارپائی پر گر گیا۔ اس نے اپنا منہ تکیے میں گاڑ دیا اور مایوسی کے اتھاہ سمندر میں ڈوب گیا۔
اگر ایلی اس پہلی کوشش میں کامیاب ہو جاتا تو ممکن ہے کہ اس کی تمام تر زندگی کا رخ ہی بدل جاتا۔ ممکن ہے محبت اور عورت کے متعلق اس کے خیالات از سر نو ترتیب پاتے۔ جذبات میں توازن پیدا ہو جاتا لیکن ایسا نہ ہونا تھا نہ ہوا۔ ایلی کا احساس کمتری اور بھی شدید ہو گیا۔ دل میں جسم کی نفرت اور بھی شدید ہو گئی۔ عورت کا ڈر اس کی روح پر خوفناک پراسرار سائے کی طرح مسلط ہو گیا۔ اور محبت کے تخیل میں چھوٹی روحانیت کی ایک اور کلی لگ گئی۔
نہ جانے کب تک ایلی اسی طرح تکیئے میں منہ گاڑے پڑا رہا۔
وہ سوچ رہا تھا۔ اس پر ثابت ہو چکا تھا کہ اس میں آرزوئیں پوری کرنے کی صلاحیت سرے سے ہی مفقود ہے اب شہزاد کا انتقام اور بھی یقینی ہو چکا ہے۔ اب وہ کس منہ سے شہزاد کے سامنے جا سکتا تھا۔ کس برتے پر اس سے محبت جتا سکتا تھا۔
"نہیں نہیں میں اس کے روبرو نہیں جاؤں گا کبھی نہیں جاؤں گا۔"
"مجھے محبت کرنے کا کوئی حق نہیں مجھ میں کوئی ایسی خوبی نہیں جو محبت کا حق دار بنا سکے۔میری تمام تر زندگی ہی بیکار ہے۔"
آصف نے لٹھے کی سفید چادر کو منہ سے ہٹا کر ایلی کی طرف دیکھا اور مسکرایا۔ معنی خیز مسکراہٹ جیسے اس کی ہاں میں ہاں ملا رہا ہو۔ اسے بلا رہا ہو۔ "آجاؤ ایلی آجاؤ۔"
وہ ڈر کر اٹھ بیٹھا۔ اور گھبرا کر گھر سے باہر نکل گیا۔
اس روز وہ پہلی مرتبہ باہر نکلا تھا۔ اب حالات بدل چکے تھے اس کے لیے اس کے سوا کوئی اور چارہ نہ تھا کہ وہ بھاگ جائے کہیں دور بھاگ جائے۔ شہزاد کے چوبارے سے دور اس بیٹھک سے دور جہاں وہ شکست کھا کر منہ میں گھاس پکڑے سکندر کے روبرو حاضر ہوا۔ اور اس نے سر جھکا کر کہا تھا۔ حضور مجھ سے ایسا سلوک کیا جائے جو بادشاہ بھکاریوں سے کرتے ہیں۔
اسے چوگان سے گزرتے دیکھ کر محلے والیاں چلانے لگیں۔
"کون ایلی ہے بسم اللہ۔"
"شکر ہے تو بھی گھر سے باہر نکلا۔"
"نہ بیٹا۔" ایک بولی "اپنے باپ کے قدموں پر نہ چلنا۔ اسے ہی گھر میں بیٹھے رہنے کی عادت ہے۔"
دوسری بولی "لو ماں تم بھی حد کرتی ہو یہ آج کل کی لڑکیاں تو راہ چلتے کو بلاتی ہیں۔ جادو کر دیتی ہیں اس بیچارے کا کیا دوش ہے، بس پتھر بنا کر چولہے پر رکھ لیتی ہیں۔"
"نہ بیٹا تو نہ پڑنا ان کے فریب میں۔"
"اللہ تعالٰی کا فضل ہے بہن ابھی اس محلے کی لڑکیوں پر اللہ اپنا فضل ہی رکھے۔"
ایلی چوگان سے نکلا ہی تھا کہ سامنے رضا لاٹھی ٹیکتا ہوا آ نکلا۔
"نکل آئے تہہ خانے سے۔" وہ مسکرا کر بولا۔ "کیسے آنے دی ۔ اماں نے گود کے پٹ بند کر لئے کیا۔"
"بکو نہیں۔" وہ بناوٹی غصے میں چلایا۔
"بیٹا کچھ دن اور یونہی اندر رہے تو لاٹھی کےسہارے چلنا پڑے گا۔ تجربے کی بات کر رہا ہوں۔" رضا نے قہقہہ لگایا۔
"شرم تو نہیں آتی تمہیں۔" ایلی نے کھسیانے ہو کر کہا۔
"انہوں۔" رضا چلایا "شرم شروع شروع میں آتی ہے، جب لکڑی اٹھاؤ گے تو شرم نہیں آئے گی۔"
"جا کہاں رہے ہو؟۔" ایلی نے بات بدلنے کی کوشش کی۔
"ابھی آتا ہوں۔ تمہیں فرصت ہو تو بیٹھنا ذرا دوکان پر۔" رضا بولا۔

رسوائی

رضا کی دوکان تک پہنچے پہنچے کئی ایک لوگ اسے ملے وہ سب درپردہ اسے مشکوک نگاہوں سے دیکھ رہے تھے اور باتوں ہی باتوں میں سبھی شہزاد کا طعنہ دے رہے تھے۔ اس نے اس روز پہلی دفعہ محسوس کیا کہ وہ راز جو وہ اپنے دل میں چھپائے بیٹھا تھا تمام محلے میں زبان زد خلق ہو چکا تھا۔ اس بات کو محسوس کر کے وہ لرز گیا لیکن اب کیا ہوگا اب تو سب ختم ہو چکا تھا۔ اب وہ شہزاد کے رو برو نہیں جا سکتا تھا۔ اس خیال پر اس کے دل کو ڈھارس سی ہو گئی۔
کیپ کی کھڑکی کی طرف دیکھ کر اسے ارجمند یاد آگیا جو نہ جانے اس تیل کے کارخانے میں کیسے دن گزار رہا تھا۔ کھڑکی میں کیپ کھڑی نہ جانے کس سے باتیں کر رہی تھی۔ وہ رک گیا اور کیپ کو دیکھنے لگا۔ کیپ نے اسے دیکھتے ہی کھڑکی کے پٹ زناٹے سے بند کر دیئے۔
"اوہ۔" اس نے سوچا۔ "تو بات اس حد تک پہنچ چکی ہے۔"
کنوئیں کے قریب ہی دو منزلہ مکان کے دروازے میں اپنی منگیتر کو کھڑے دیکھ کر ایلی چونکا۔
"جوان ہو گئی ہے پچھلی مرتبہ جب دیکھا تو بچی سی تھی۔ لڑکیاں کتنی جلدی جوان ہو جاتی ہیں۔ رنگ کتنا نکھر گیا ہے اور اعضا میں نم جانے کیا بھر گیا ہے جیسے آٹے میں خمیر اٹھ گیا ہو۔ "ارے۔" وہ تعجب سے چلایا۔ اسے دیکھ لینے کے باوجود ثمرہ اسی طرح بازو اوپر اٹھائے ہوئے کھڑکی میں کھڑی رہی جیسے وہ ایلی کی حیثیت سے منکر ہونے کا اظہار کر رہی ہو۔ اس نے ایلی کی طرف دیکھ کر ناک سکوڑی۔ اس کے ہونٹوں کے کونوں میں طنز دبی ہوئی تھی ایلی کھڑا اسے دیکھتا رہا۔ پھر وہ گویا اکتا گئی۔ اس نے بے پروائی سے مگر بامعنی انداز سے تھوک دیا اور پھر اندر چلی گئی۔
"ہوں۔" ۔۔۔ ایلی نے مسکرانے کی کوشش کی "ہوں تو اب بات یہاں تک آ پہنچی۔"
اگرچہ ایلی نے بار بار چلا کر لوگوں سے کہا تھا کہ منگنی محض ایک بچوں کا کھیل ہے جو اماں نے صرف اس لیے رچایا تھا کہ اس کے دل کا چاؤ پورا ہو جائے۔ اور اعلان کیا تھا کہ وہ وہاں بیاہ نہیں کرے گامگراس وقت اپنی منگیترکی بے پروائی اور
اظہارتحقیرکودیکھ کراسے تکلیف محسوس ہوئی اس نے محسوس کیاجیسے اس کی توہین کی گئی ہو۔اس خیال پراس کاوہاں رکنامشکل ہوگیااوروہ سیدھارضاکی دوکان پرپہنچااورچپکے سے دوکان کے عقب میں پڑی ہوئی چوکی پربیٹھ کرسوچنے لگا۔
اس روزوہ محسوس کررہاتھاکہ محلے کے سبھی لوگ اس سے شاکی تھے۔شہزادکی بات دوردورتک پہنچ چکی تھی۔نہ جانے بات کیوں نگل گئی تھی۔اس کاصرف یہی قصورتھاکہ ناکہ وہ سارادن گھرپربیٹھارہتاتھاکیااتنی سی بات پروہ سب اس سے بدظن ہوچکے تھے کیااتنی سی بات سے انہوں نے وہ سب کچھ اخذکرلیاتھا۔حیرانی کی بات تھی۔پھرا س کے دل میں شکوک پیداہونے لگتے نہیں نہیں اتنی سی بات سے سب کچھ اخذکرناممکن نہیں۔شایدکسی نے انہیں دیکھ لیاہو---توکیابیٹھک---؟اس خیال پراسے پسینہ آجاتا۔محبت کے رازکاکھل جانااوربات تھی۔مگراس کی شکست کی بات کاکھل جانا۔۔۔۔؟
”ارے ایلی تویہاں؟۔“۔۔۔کسی کی آوازسنائی دی۔
گھبراکی اس نے سراٹھایا۔سامنے صفدربازوپھیلائے کھڑاتھا۔اس کی آنکھوں میں وہی رم جھم کاعالم تھااورہونٹوں پرطنزتھی۔
”گھبراونہیں۔“وہ بولا۔”میں ہوں لیکن تم نے کبھی ہمیں جانابھی ہو،سمجھابھی ہو۔تمہاری آوازتواکثرسن لیتے ہیں بھئی لیکن ملناکبھی کبھارہوتاہے۔“
”جی۔جی۔“ایلی سمجھ میں نہیں آتاتھاکہ کیاکہے۔
”میں آج کل نچلی بیٹھک میں ہوتاہوں نا۔“صفدربولا”اس کے چوبارے کے عین نیچے تمہاری آوازیں آتی رہتی ہیں ہم توبھئی آوازوں کے سہارے جی رہے ہیں۔“
اس کی آوازمیں مایوسی اورحسرت محسوس کرکے ایلی اوربھی گھبرایا۔
”مل لیاکروایلی۔“وہ بولا“کبھی ہم سے بھی مل لیاکرو۔ماناکہ آج کل اونچی فضاوں میں اڑتے ہو۔”اس کی آوازنمناک ہوگئی۔“خداقسم کی قسم مجھے خوشی ہوتی ہے اس بات پرمگرہم سے اتنااجتناب بھی ٹھیک نہیں۔ آیاکروگے نا۔“یہ کہہ کروہ بازوہلاتاہوایوں دوکان سے باہرنکل گیاجیسے سٹیج پراپناپارٹ اداکرکے جارہاہو۔
ابھی ایلی سنبھلنے نہ پایاتھاکہ رضالاٹھی ٹیکتاہوا آپہنچا۔”بیٹھے ہو۔“وہ باہرسے چلایا” آج تو ہم پرکرم ہورہاہے یااس نے مارکرگھرسے نکال دیاہے۔ آخرکب تک خاکسارسے بات چھپاوگے ارے وائی سے پیٹ چھپانا---اس مٹیارکے دام میں پھنسے ہوبیٹاجس کاکاٹاپانی نہیں مانگتا۔“
ایلی کوسمجھ میں نہ آتاتھاکہ کیاجواب دے۔ان دنوں اسے یہ معلوم نہ تھاکہ رازکومحفوظ کرنے کابہترین طریقہ یہ ہے کہ اسے اہمیت نہ دی جائے جھٹلایانہ جائے۔وہ توسمجھتاتھاکہ رازکومحفوظ کرنے کے لیے شک کرنے والے کے روبروقسمیں کھاناضروری ہوتاہے اس لیے اس نے قسمیں کھاناشروع کردیا۔
”ایمان سے ایسی توکوئی بات نہیں تم سے کیاچھپاناہے۔“وہ کھسیانی ہنسی ہنسنے لگا۔
”اچھاتویہ بات ہے۔“رضانے لنگڑی تانگ جھلاکرکہا۔“پریارچاہے کتناہی رنگ وروغن کیوں نہ ہواندھیرے میں سب مٹیالی دکھائی دیتی ہیں اورسب سے پسینے کی بو آتی ہے۔“
”بکونہیں۔“ایلی نے بات مذاق میں ٹالنے کی کوشش کی۔
”جوجی چاہے کہوپربات سوچنے کی ہے پلے باندھ کیایادکروگے کہ رضانے نسخہ بتایاتھاپریارکسی اورچھوکری سے لگاتے توہم بھی ساتھ دیتے تم کہتے توسالی کواٹھاکرلے آتے یہ کیاگڑبڑڈال دی تم نے ہماری پروازاتنی اونچی نہیں اورپھربعدمیں نہ حاصل نہ حصول وہ توبڑوں بڑوں کے کان کترتی ہے توبہ اک قیامت ہے سمٹی ہوئی۔“اس نے کہا”بڑااونچاہاتھ ماراہے میرے یارنے۔“
ایلی خاموش ہوگیا۔رضاکے سامنے قسمیں کھانابے کارتھا۔بالکل بے کار۔رضاکے پاس وہ دو ایک گھنٹے بیٹھاوہ بھی بادل ناخواستہ،پھروہ واپس گھر آگیا۔کئی مرتبہ اسے خیال آیاکہ رضاسے ساری بات کہہ دے لیکن شہزادکی عزت کاسوال تھا۔اگروہ شادی شدہ نہ ہوتی توہ رضاسے دل کی بات کہہ سکتاتھایااگراس کامقصدمحض تفریح ہوتاتوبھی تھا۔محبت کی بات کرناتواس قدردشوارنہ تھالیکن وہ اس خفت کاتذکرہ کیسے کرسکتاتھاجس کی وجہ سے ایلی تباہ حال محسوس کررہاتھا۔انہیں وجوہات کی بناپرایلی نے رضاسے بات نہ کی۔اس کے باوجوداس کاجی چاہتاتھاکہ وہ رضاسے ساری بات کہہ دے اوردل کارازکہہ کراس گھٹن سے نجات حاصل کرے جس کی وجہ سے وہ مضطرب تھا۔جواس کے بندبندمیں رچی ہوئی تھی۔وہ رازاس کے دل میں پھوڑابن چکاتھا۔
اس کشمکش سے مخلصی پانے کے لیے وہ اٹھ بیٹھا۔”میں اب جاتاہوں۔“
”ہاں بھائی۔“رضانے مسکراکرکہا”اب تومیرے پاس کیوں بیٹھنے لگا۔“
”رضاخداکے لیے ایسی باتیں نہ کرو۔“ایلی نے منت سے کہا۔“تیرے منہ سے ایسی بات مجھے اچھی نہیں لگتی۔“
”میرے منہ سے تجھے کوئی بات اب اچھی لگے گی گیا۔“رضانے بناوٹی سنجیدگی سے کہا۔
”پھروہی بات۔“ایلی چلایا۔”تم سے توبات کرنابھی مشکل ہوگیاہے ۔اچھامیں جاتاہوں۔“یہ کہہ کروہ چل پڑا۔
”جانے کے لیے بہانہ مل گیانا۔“رضانے چلاکرکہا۔لیکن ایلی نے اس کی بات کی کچھ پروانہ کی---

ماں اوربیٹا

بڑی ڈیوڑھی میں ارجمندکودیکھ کروہ خوشی سے چلایا۔”ارے تم کب آئے؟“
لیکن ارجمندکودیکھ کراسے تعجب ہوا۔اس کارنگ زردہورہاتھا۔گال پچکے ہوئے تھے چہرے پرمرونی چھائی ہوئی تھی۔
ایلی کی آوازسن کرارجمند نے شورمچانے کی کوشش کی۔”اماں کیاسمجھاہے تم نے ۔“لیکن کھانسی کی وجہ سے وہ پوری بات نہ کرسکا۔
چھاتی لزررہی تھی۔ آنکھیں سرخ ہورہی تھیں۔ایلی اسے دیکھ کرگھبراگیا۔”کیابات ہے؟“اس نے سنجیدگی سے پوچھا۔“بیمارتونہیں ہو؟“
ارجمندکی آنکھیں پرنم تھیں۔اس نے مسکرانے کی شدیدکوشش کی ”اپن کھانسی وانسی کی پروانئیں کرتے ۔“وہ بولاکھانسی کاکیاہے۔اوربیماری ۔نہ بھئی اس خاکسارکولگ بھی جائے توسالی کوحاصل کیاہوگا۔واہ یار۔“
لیکن ایلی نے اس کی بات کاٹ کرکہا۔”تمہاری یہ حالت کیاہورہی ہے۔“
”ہاں بھئی یہ توہے۔“ارجمندبولا۔”وہ بولا۔“وہ کہاہے نااستادنے ہمارے متلچ کہتاہے۔فراق یارمیں گھل گھل کے بن گئے ہاتھی۔استادکی بات عین صادق آتی ہے اپن پر۔پرتم فکرنہ کروایلی۔
چاہے دق کیوں نہ ہوجائے۔مرنے کے ہم بھی نہیں۔ہمارامرناکچھ ایسا آسان بھی نہیں۔کہوکپ کیپ کیاحال ہے۔رپورٹ دو۔ساری کیس ہسٹری سنیں گے اپن توکس حال میں ہیں یاران وطن--مثلاً اس نے اشارہ کیا۔لیکن کھانسی کادورہ پھرشروع ہوگیا۔پہلے تووہ دیوارکاسہارالے کرکھڑارہالیکن دورے کی شدت کی وجہ سے اسے بیٹھناپڑاجب دورہ ختم ہواتوارجمندنے ایک بارپھرمسکرانے کی شدیدکوشش کی۔
”یہ کھانسی بھی اپن سے مذاق کرتی ہے۔اپناساراکھیل غارت کرکے رکھ دیاسالی نے۔ادھرہم نے پریم سندیس سے لڑکی پرجادوکیاادھراس کمبخت نے سرنکالا۔اپناجادوٹونے کاکھیل مکمل کریں یابیٹھ کرکھانسیں۔۔۔سب ملیامیٹ کردیا۔اپنے گاوں میں ایک ایسی مٹیار آئی ہے ارے رے کیابتاوں کیاچیزہے۔سمجھ لوگھی کی مٹکی ہے اورگھی بھی وہ جیسے کچی گری ہو۔کچی گری کیاپھبن ہے کیابانکپن ہے۔اورپھرچال ۔یوں چلتی ہے جیسے ناگ رانی ہو۔“اس کی آنکھوں میں پھرسے وہی چمک لہرانے لگی چہرے پروہی انبساط دہکنے لگی۔
دفعتاً گلی سے ارجمندکی ماں نے سرنکلاجیسے وہ وہاں کھڑی اس کی راہ دیکھ رہی ہو۔ماں کودیکھ کرارجمندنے پنتیرابدلا۔”ارے یار۔“وہ بولا”سنائیں گے کسی وقت تمہیں یہ قصہ ارے کبھی وہاں آوتودکھائیں تمہیں سارے گاوں کومریدبنارکھاہے۔تمہارے اس خاکسارنے۔نام جپتے ہیں لوگ۔“پھروہ ماں کی طرف متوجہ ہوکربولا۔”اماں توکیوںیہاں کھڑی ہے۔کوئی کام ہے توحکم کرکسی سے ملناہے تومیں ڈھونڈکرلے آوں۔“
”میں توتجھے دیکھ رہی تھی۔“ماں نے کہا۔اس کی آوازبھرائی ہوئی تھی۔ آنکھیں پرنم تھیں۔
”مجھے دیکھ رہی تھی۔کیوں۔میرے لائق کیاحکم ہے ماں۔“وہ چلانے لگا۔
”کام توکوئی نہیں۔“وہ بولی“ویسے ہی دیکھ رہی تھی تجھے ۔“
”اچھاتوصرف دیکھناہے۔تودیکھ لو۔دیکھ لو۔ادھرسے اورادھرسے بھی۔“اس نے اپناچہرہ گھماتے ہوئے کہا۔
ماں ہنس پڑی۔”توتومذاخ کررہاہے۔“وہ بولی۔”چل اب گھرچل آرام سے لیٹ تیری طبعیت اچھی نہیں۔“”لوماں۔“وہ ہنسنے لگا۔”ہٹاکٹاتوہوں۔دیکھ تومیری طرف ۔“یہ کہتے ہوئے ارجمندکوپھرکھانسی کادورہ پڑگیا۔اس نے اسے روکنے کی شدیدکوشش کی لیکن بے سودوہ بے بس ہوکردیوارکاسہارالے کرکھانسنے لگا۔اس کی حالت دیکھ کرماں کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسوگرنے لگے۔
”کسی کادوش نہیں۔“وہ بولی۔”میرے نصیب ؟“اس نے ماتھے پرزورسے ہاتھ مارا۔
”میرے نصیب وہ اس سے بڑالڑکاتھانا۔“اس نے ایلی سے مخاطب ہوکرکہا۔”کیسی بھرپورجوانی آئی تھی اس پربیٹے آنکھ نئیں ٹکتی تھی۔اورقدیوں نکلاتھاجیسے سرسوں کابوٹانکلتاہے بس نظرکھاگئی اسے۔کہتے تھے دق ہوگیاہے۔اونہوں دق نہیںاسے تونظرکھاگئی۔اوراب یہ۔“اس نے ارجمندکی طرف اشارہ کی اوردوپٹے کے پلوسے آنکھیں پونچھنے لگی۔
ارجمندکودورہ ختم ہواتواس نے بڑھ کرماں کو آغوش میں لے لیا۔”اونہوں ماں مجھے نظرنہیں لگے گی۔میں تونظربٹوہوں۔اوردق میں توسینکڑوں دق ہضم کرجاوں۔اپن مرنے والے نہیں۔موت کی کیامجال ہے جوادھرہماری اور آنکھ اٹھاکردیکھ۔تم توویسی ہی جی براکررہی ہواپنا۔“ارجمندنے یہ کہہ کرماں کو آغوش میں اٹھالیااورایلی سے بولا۔”ملوگے ناشام کوباہر سیرکرنے چلیں گے۔“اورخودگھرکی طرف چل پڑا۔
اس کی ماں چیخ رہی تھی ”اب مجھے چھوڑدے۔چھوڑبھی دے۔“اوروہ ہنسے جارہاتھا۔
”کیسے چھوڑدوں بڑی مشکل سے قابومیں آئی ہے تو۔“

یہ دن وہ دن

ارجمندکے جانے کے بعدایلی نے محسوس کیاجیسے وہ محلہ ایک ویرانہ ہو۔ایک بھیانک ویرانہ ہو۔ایک بھیانک ویرانہ۔سمجھ میں نہیں آتاتھاکہ کہاں جائے کیاکرے۔گھرجاناتواس کے لیے قطعی طورپرناممکن ہوچکاتھا۔فرحت اورہاجرہ کیاکہیں گی شہزادتواب خیراب ان کے ہاں کبھی نہ آئے گی۔لیکن اس کانہ آنابھی توبذات خودایک واضح اشارہ ہوگا۔اورفرحت کوطعنے دینے کی عادت ہوئی۔بڑی معصومیت سے کہے گی۔
”نہ جانے اب شہزادکیوں نہیں آتی ادھر۔کیوں ایلی کیابات ہے؟“اوراس کے اندازمیں بلاکاتمسخرہوگا۔شہزادکے گھرجانے کاسوال ہی پیدانہیں ہوتاتھااس کی نگاہ میں کس قدرتحقیرہوگی۔” آگئے تم۔بڑی مردانگی کازعم لئے پھرتے تھے۔میری بات ہی نہیں سنتے تھے اتنی منتیں کیں میںنے کہ نہ یہ خیال نکال دواپنے دل سے لیکن سرپھربھوت سوارتھا۔“
ایلی نے جھرجھری لی ۔”توبہ ہے۔“وہ بولااورپھرسوچنے لگا۔”کہاں جاوں میں کیاکروں؟“
”ارے تم یہاں ایلی۔“صفدرکی آوازسن کرایلی چونکا۔“یہاں کیاکررہے ہوتم،تمہیں باہرنکلنے کی فرصت مل گئی کیا۔لیکن یار۔”اس نے پنتیرابدلا“بڑے خوش نصیب ہوتم،خداکی قسم تمہیں دیکھ کرمجھے بے حدخوشی ہوتی ہے۔بس صرف یہ التجاہے کہ کبھی ہمیں بھی ملاقات کاشرف حاصل ہوجائے۔تمہیں نہیں معلوم ایلی۔“صفدراپنے مخصوص اندازمیں یوں کہنے لگاجیسے سٹیج پرڈرامہ کھیل رہاہو۔“زندگی میں مجھے بڑے بڑے موقعے ملے ہیں۔ایسے موقعے کہ لوگ میری طرف دیکھاکرتے تھے۔سراٹھااٹھاکردیکھاکرتے تھے جیسے آج میں تمہاری طرف دیکھ رہاہوںلیکن ان دنوں ہم ہوکے گھوڑے پرسوارتھے۔ایک عجیب شان تھی اپنی کسی کی آنھ کاتارابننے میں عجیب شان ہوتی ہے۔اورپھراس کی آنکھ کاتاراجوخودزمانے بھرکی آنکھ کاتاراہو،جسے دنیا آنکھوں پربٹھائے،اس کی آنکھوں کاتاراتم جانتے ہی ہولیکن اس زمانے میں مجھے یہ معلوم نہ تھاکبھی آنکھ سے گرکردنیاکے پاوں میں رونداجاوں۔سو آج ہم توپاوں میں روندے جانے کے قابل رہ گئے ہیں۔تم بھی روندلو۔”لیکن بھائی ہرکسی کو۔“صفدر آہ بھرکربولا”وہ دن بھی میسر آتے ہیں اوریہ دن بھی دیکھنے پڑے ہیں۔“اس نے پرمعنی اندازسے کہا۔
پھردفعتاً چونک کربولا۔”یہاں کیوں کھڑے ہو۔انتظارکررہے ہوکیا۔فرصت ملے تو آجاناکبھی میرے پاس اسی چوبارے کے قدموں میں پڑارہتاہوں۔“یہ کہہ کروہ یوں چل پڑاجیسے مکالمہ اداکرکے سٹیج سے جارہاہو۔
صفدرکے جانے کے بعددنیاایلی کی نگاہ میں اوربھی تاریک ہوگئی۔
وہ چپ چاپ محلے سے باہرنکل گیااورشہرکی فصیل سے نکل کرکھیتوں کی طرف چل پڑا۔اسے سمجھ میں نہیں آرہاتھاکہ کہاں جارہاہے۔کس مقصدکے لئے جارہاہے۔اسے صرف ایک دھن تھی کہ شہزادسے دوراس محلے سے دورکہیں جنگل میں چلاجائے لیکن وہاں جاکرکیاکرے یہ اسے معلوم نہ تھا۔
کوٹلی پہنچ کروہ ایک پتھرپربیٹھ گیااورکنکراٹھاکرتالاب میں پھینکنے لگا۔دیرتک وہ وہاں بیٹھارہا۔حتیٰ کہ سائے ڈھل گے اور آسمان پرشفق کی سرخ دھاریاں دوڑگئیں۔پھربھی اس میں گھرجانے کی ہمت نہیں پڑی تھی۔گلی کی عورتیں اسے دیکھ کرکیاکہیں گی۔وہ اس سے پوچھیں گی ”ہے ایلی آج توسارادن باہرکیسے رہا۔“

کاش کہ---

پھرجب شفق کی شنگرنی دھاریاں سیاہی مائل ہوگئیں تووہ اٹھااورمحلے کی طرف چل پڑا۔چھتی گلی کے پاس جاکروہ رک گیا۔شایدوہ چھتی گلی میں بیٹھی ہوں۔لیکن چھتی گلی ویران پڑی تھی۔شہزادکے مکان کی نچلی منزل سے آوازیں آرہی تھیں۔وہ رک کرسننے لگا۔
دفعتاً اسے خیال آیاکہ کہیں وہ باہرنہ نکل آئیں اس خیال پروہ ڈرکربھاگا۔
اندھیری ڈیوڑھی میں وہ دھم سے کسی چیزسے ٹکرایا۔
”ہائے۔“کسی نے چیخ سی ماری۔
اس کادل ڈوب گیا۔
”کون ہے کون؟“اس نے چلاکرکہا مگراس اندھیری ڈیوڑھی پرخاموشی طاری رہی ۔پھراس نے محسوس کیاجیسے کوئی دھندلی شکل اس کے قریب ہی کھڑی ہو۔
”کون ہے کون ہے۔“وہ پھرچلایا۔اس نے اپنے آپ کومحفوظ کرنے کے لیے ہاتھ چلایا۔نرم وگرم لمس سے گھبراکراس نے وہ لٹکی ہوئی چیزتھام لی۔اس کے سامنے شہزادکی ڈولتی ہوئی کشتی نما آنکھیںابھر آئیں۔
”اوہ۔“---اس نے گھبراکرشہزادکابازوچھوڑدیا۔اوربھاگنے لگا۔
”ایلی ۔“----شہزادکی آوازمیں منت تھی۔”ایلی افسوس ہے تم پر۔“اس نے اس کاکوٹ پکڑلیاوہ تڑپ کرمڑااورسمجھے سوچے بغیروہ اس کے قدموں میں ڈھیرہوگیا۔وہ ہچکیاں لینے لگا۔“میں نے جرم کیاہے شہزاد۔میں نے چاندپر---وہ بات پوری نہ کرسکاشہزادخاموشی سے بت بنی کھڑی رہی۔”میں تمہارے قابل نہیں ہوں شہزادنہیں ہوں۔کاش کہ میں تم سے کبھی نہ ملتا۔میری نگاہ تم پرکبھی نہ پڑتی۔مجھے زمین جگہ دے دیتی اورمیں اس میں سماجاتا۔“
”ایلی ۔“وہ چلائی”یہ کیاکہہ رہاہے تو؟“
لیکن ایلی اس کی بات سنے بغیربچے کی طرف روتااورچلاتارہا۔”شہزادتم اپنے دل میں کیاکہتی ہوگی۔تم کیاسمجھتی ہوگی۔کاش میں اس قابل ہوتاکہ کہ تمہیں اپنی بناسکتا۔میں نے تمہیں اپنی ملکہ بنایاتھا۔میں نے تمہیں اپنی دیوی بنایاتھامگرمیں تمہاری پوجانہ کرسکا۔میرے پاس ہے ہی کیاجوتمہیں اپنی دیوی بنایاتھامگرمیں تمہاری پوجانہ کرسکا۔میرے پاس ہے ہی کیاجوتمہیں ملکہ بناوں ۔مجھے معاف کردوشہزادشہزاد۔“
”ایلی ۔“وہ مسکرائی اس کی آنکھیں گویاجھیلوں میں تیررہی تھیں۔”یہ تمہیں کیاہوگیاہے؟“
”نہیں نہیں۔“وہ چلانے لگا۔”میں۔میں تمہیںکبھی تنگ نہیں کروں گا۔میرے غلیظ ہاتھ تمہارے پاکیزہ جسم کوچھونے کے قابل نہیں۔“ایلی نے شہزادکاہاتھ ہٹاتے ہوئے کہا۔”میں اپنے وجودسے تمہاری زندگی کوویران نہیں کروں گا۔صرف ایک بار،ایک بارمجھے معاف کردو۔میری حماقت کومعاف کردواکی بارکہہ دو کہ تم نے مجھے معاف کردیاپھرمیں چپ چاپ چلاجاوں گا۔چپ چاپ اورچاہے میری زندگی تاریک ہی کیوں نہ ہوجائے میں کبھی بھول کر بھی---“
”ایلی ۔“وہ چلائی ۔”تم نے مجھے کیاسمجھاہے۔“
”نہیں نہیں۔“وہ ازسرنومنتیں کرنے لگا۔”مجھ سے غلطی ہوئی میں تسلیم کرتاہوں۔“
”یہ تم کیاکہہ رہے ہو۔“وہ بولی۔”ایلی میری طرف دیکھو۔“اس کی آنکھوں میں آنسوتیررہے تھے۔
”تم مجھے کیاسمجھتے ہو۔کس قسم کی عورت سمجھتے ہومجھے کیامیں ---؟“
”نہیں نہیںمجھ سے غلطی ہوئی۔“وہ ازسرنوگھبراگیا۔
شہزادنے بڑھ کراس کے بازوپکڑلیے۔”تم سمجھتے ہوکہ مجھے تمہاری ضرورت ہے۔مجھے خواہش ۔“وہ رک گئی اوراس کی آنکھوں سے آنسوگرا۔وہ گھبراگیا۔وہ کیوں رو رہی تھی۔کیوں رو رہی تھی وہ۔
”کاش تم اس قسم کی غلطی نہ کرتے۔“وہ بولی۔”کاش تم میرے لیے صرف ایلی ہی رہتے پھرتمہیں معلوم ہوتاکہ مجھے صرف تم پیارے ہومجھے تم سے کوئی غرض نہیں۔“وہ پھررونے لگی۔
اگرچہ ایلی نے کبھی اس بات کوواضح طورپرتسلیم نہ کیاتھاکہ اسے شہزادکے جسم کی ہوس تھی۔اگرچہ وہ اس کی خوبصورتی سے بے حدمتاثرہواتھامگریہ تاثراس قسم کانہ تھاجسے عشق کہاجاسکتا۔خوب صورت عورتیں تواس نے کئی دیکھی تھیں لیکن اسے ان سے عشق پیدانہ ہواتھا۔یہ تاثرعملی طورپراس حدتک صرف اس لیے بڑھ گیاتھاکیونکہ اسے شہزادکاقرب حاصل تھاکیونکہ اسے شہزادکے قریب رہنے کے موقع حاصل تھے۔شایددل ہی دل میں سوچاہوکہ وہ شہزادسے تفریح کے چندلمحات حاصل کرسکتاتھاکیونکہ ایک توشہزادمحلے والیوں کی طرح پتھردل نہ تھی۔اوراس لیے اس سے دل کی بات کہی جاسکتی تھی اوردوسرے چونکہ وہ محلے کے تمام نوجوانوں کی نگاہوں کامرکزتھی شایداس کاخیال ہوکہ شہزاداس کی جرات اورجسارت کابرانہ مانے گی۔
”کاش کہ تم مجھے سمجھ سکتے۔“شہزادنے بمشکل کہا۔”کاش کہ تم جاتنے۔“یہ کہہ کروہ چل پڑی اوروہ چپ چاپ حیران وہیں کھڑارہا۔
دیرتک وہ وہیں کھڑارہا۔وہ محسوس کررہاتھاجیسے اس کی بے عزتی کی گئی ہو۔شایداس کاخیال تھاجب وہ شہزادسے معافی مانگے گاتوشہزاداسے تھپک کرکہے گی اب تومعاف کرتی ہوں مگر آئندہ سے کبھی ایسی حرکت نہ کرنااوربات آئی گئی ہوجائے گی۔مگرشہزادکے برتاوسے توظاہرہوتاتھاجیسے وہ کسی بات پردکھ محسوس کررہی ہو۔
کچھ دیرتک وہ وہاں اس اعتبارپرکھڑارہاکہ وہ دونوں اس اندھیری ڈیوڑھی میں بچوں کی طرح آنکھ مچولی کھیل رہے تھے اس کاخیال تھاکہ شہزادوہیں کہیں چھپی کھڑی ہے اورچوری چوری اسے دیکھ رہی ہے۔اس صورت میں تواسے فوراً جانانہیں چاہئے آخروہ کیاسمجھے گی کہ ایلی کاجذبہ اس قدرکمزورہے کہ گرنے کہ بعدفوراًہی سنبھل جاتاہے۔اس میں اورکوئی خوبی نہ تھی بس ایک محبت ہی تھی ناصرف محبت اس لیے اس کے محبت کے جذبے میں تواس قدرکمزوری نہیں ہوناچاہئے۔
لیکن جلدہی اسے احساس ہواکہ اندھیری ڈیوڑھی میں اندھیرے کے سوااورکچھ نہیں اوراندھیرابھی وہ جس میں نہ جانے کیسے کیسے کیڑے مکوڑے رینگ رہے تھے اس خیال کے آتے ہی وہ گھبراگیااور آخری مرتبہ ڈیوڑھی کاجائزہ لے کرسیڑھیاں چڑھنے لگا۔
گھرجاکردیرتک وہ چارپائی پرپڑاسوچتارہا۔کیاواقعی شہزادکواس سے شکایت تھی۔مگراس کے اندازمیں غصے کی نسبت دکھ کی جھلک تھی۔اس نے اسے دکھ تونہیں پہنچایاتھا۔پھراس کی آنکھوں میں آنسوکیوں تھے،وہ رو کیوں رہی تھی کیاوہ ایلی کی خفت پررورہی تھی مگرایلی کی خفت پراسے رونے کی کیاضرورت تھی۔کیاوہ اس لیے رو رہی تھی کہ ایلی سے اسے وہ بات میسرنہ ہوسکتی تھی۔
دراصل شہزادکے متعلق ایلی کے خیالات اورجذبات متضادقسم کے تھے ایک طرف تو وہ اسے ایک بلندوبالاہستی سمجھتاتھا۔ایسی ہستی جواس قابل تھی کہ اسے دیوی بناکرپوجاجائے۔دوسری طرف وہ سمجھتاتھاکہ وہ ایک مشتاق کھلاڑی تھی ورنہ وہ کبھی اس رات اس کاہاتھ تھامنے کی جرات نہ کرتااگرچہ اس خیال کواس نے شعوری طورپرکبھی نہ اپنایاتھاوہ سمجھتاتھاکہ شہزادکاتبسم دیکھنے والے شہہ دینے کی غرض سے ہونٹوں پر آتاہے اس کی چال اس کاہراندازاس کی گفتاراس کی ہرچھوٹی جنبش دعوت تھی،صدائے عام تھی۔اسے کبھی یہ خیال بھی نہ آیاتھاکہ شہزادکسی کی ایسی لغزش پردکھ محسوس کرسکتی ہے۔اس کاواضح ثبوت یہ تھاکہ محلے کے تمام نوجوان شہزادکے گردپروانوں کی طرح گھوماکرتے تھے اوروہ ہرایک سے ہنس ہنس کربات کرنے کی عادی تھی۔رفیق ریشمیں رومال ہلاتاہوااورجھجھکتاہواپوچھتا۔”میں نے کہاپوچھ آوں شایدکوئی سودامنگواناہومیں نے کہاپوچھ آوں۔“
”ہوں تو آگئے تم۔میں بھی کہتی تھی۔“میں نے کہاپوچھ آوں ”صج سے نہیں آیا۔اچھاتو۔“میں نے کہاپوچھ آوں۔”ذرابیٹھ جاو۔“پھروہ اپنی سیاہ آنکھیں گھماگھماکراس کی طرف دیکھتی اورمسکراتی۔اس وقت ایلی محسوس کرتاجیسے اس کے پوچھنے کی عادت پرمذاق اڑارہی ہو۔اوراسے تلقین کررہی ہوکہ پوچھنے کی عادت چھوڑدے اوربناپوچھنے کی جرات پیداکرے۔
یاجب کبھی صفدراس کی نظرپڑجاتا۔تووہ کھڑکی میں کھڑی ہوکرچلاتی۔
”میں نے کہاکس خیال میں کھڑاہے تو۔وہ پارسن نہیں بھولی ابھی تک لیکن میں کہتی ہوں اب آہیں بھرنے سے کیاحاصل ہے۔جب موقعہ تھاتب کھودیانا۔“
جب شہزاداس قسم کی بے تکلف باتیں کرتی توایلی محسوس کرتاجیسے وہ لوگوں کواکسارہی ہو--متوجہ کررہی ہو۔اس وقت وہ محسوس کرتاکہ وہ ایک کھلاڑی ہے۔لیکن جب وہ پرنم آنکھوں سے ایلی کی طرف دیکھتی اورکہتی ”ہے ایلی تم کیاکہہ رہے ہو۔تم نے مجھے کیاسمجھاہے۔“اس وقت وہ محسوس کرتاکہ اس کی بظاہرشوخی محض ایک دکھلاواہے اوردرحقیقت وہ ایک عظیم شخصیت کی مالکہ ہے۔
شہزادکے دل کی گہرائیوں کومحسوس کرکے ایلی اس سے محبت کرتاتھا۔ایسی محبت جس میں دیوانگی کاعنصرتھا۔اس وقت ایلی کی نگاہ میںشہزاددیوی کاروپ دھارلیتی تھی وہ پجاری بن کراس کے قدموں میں گرجاتا۔
لیکن جب شہزادمیں شوخی کاعنصربیدارہوتااوروہ دوسروں سے چمک کربات کرتی توایلی آتش رقابت میں جلتا۔اس کادل یوں سلگنے لگتاجیسے کسی نے بھس میں آگ لگادی ہو۔اورشہزاداس کی نگاہ میں قلوپطرہ کی حیثیت اختیارکرلیتی اوروہ سمجھتاکہ شہزادکواس سے کوئی لگاونہیں وہ صرف اس سے کھیل رہی ہے جیسے وہ اک کھلوناہو۔وقتی تفریح کاسامان۔
اس روزاندھیری گلی میں شہزادکابرتاودیکھ کرایلی کوبے حدتعجب ہوا آخرایلی کے رویے پراس قدرپریشان کیوں تھی۔اسے دکھ کیوں ہورہاتھا۔ایلی کے خیال کے مطابق اول تواسے فرحت کے گھر آناہی نہیں چاہئے تھا۔اوراگر آتی بھی تواس کے اندازمیں تمسخراورتحقیرکاعنصرہوناچاہئے تھا۔
ایلی گھر پہنچاتوفرحت نے اسے دیکھ کرکہا۔”تم کہاں رہا آج سارادن ایلی شہزادسارا دن تجھے تلاش کرتی رہی آج۔توبہ ہے صبح سے اب تک بیسیوں مرتبہ آئی ہوگی ادھر۔“
”کہاں چلاگیاتھاتو۔“ہاجرہ دبی زبان سے بولی ۔”میں توڈرگئی۔”کیوں خیرتوہے ۔“اس نے پوچھا۔”بولتاکیوں نہیں۔“
”ویسے ہی باہرچلاگیاتھا۔“ایلی نے بات ٹالنے کی کوشش کی۔
”توتوکبھی نہیں نکلاباہر۔“فرحت نے کہا۔”ہروقت وہیں گھسارہتاہے شہزادکے پاس۔“
”اے ہے کیاکہہ رہی ہے تو۔“ہاجرہ نے فرحت کوٹوکا۔”چاہے کہیں رہ بیٹالیکن یوں گھرسے باہرنکل جانابتائے بغیر۔تیری توعادت ایسی تونہیں۔“
”لڑائی تونہیں ہوگی تمہاری آپس میں۔“فرحت بولی”بیچاری صبح سے سرگردان پھررہی تھی۔“
”جاجاکراسے مل آ۔اسے معلوم ہوکہ تو آگیاہے۔“ہاجرہ نے کہا۔
”نہ اس وقت میں تھکاہواہوں۔“ایلی نے کہا۔”میں نہیں جاوں گا۔“
”اے ہے وہ بیچاری۔“ہاجرہ نے اس کی منت کی ۔
”چھوڑبھی ماں۔“فرحت بات کاٹ کربولی۔”زبردستی کیوں کرتی ہے۔اس کاجی نہیںچاہتاتونہ سہی ۔خواہ مخواہ ایسابھی کیاہے صبح ہو آئے گا۔“
رات کودیرتک وہ چارپائی پرپڑاسوچتارہا۔”نہیں نہیں وہ مجھے کبھی اچھانہیں سمجھ سکتی۔اورمحبت محبت کس برتے پرکی جاتی ہے زبانی دعوے کون خاطرمیں لاتاہے۔بے کارکی باتیں۔“اس وقت رات کے اندھیرے میں دورنگیں بازواس کی طرف بڑھتے۔”ایلی۔“قریب سے آواز آتی۔”یہ توکیاکہہ رہاہے۔“ایلی کوپسینہ آجاتااوروہ چونک کراٹھ بیٹھتا۔وہ پھرسے سوچنے لگا۔” آخروہ عورت ہے اورعورت کوصرف مردسے محبت ہوسکتی ہے ۔مردسے۔“پھردوڈولتی ہوئی پرنم آنکھیں اس کی طرف تمسخربھری نگاہوں سے دیکھتیں۔”ایلی تم مجھے کیاسمجھتے ہو۔کیاسمجھاہے تم نے مجھے۔“نہ جانے کب تک وہ یونہی پڑاسوچتارہا۔پھراس کی آنکھ لگ گئی۔

جادوکاکھیل

صبح سویرے ناشتہ کیے بغیروہ باہر نکل گیاتاکہ ہاجرہ یافرحت اسے کچھ کہہ نہ سکیں۔ وہ سیدھاارجمندکے ہاں پہنچا۔
”ارے تم۔اتنی سویرے۔“ارجمنداسے دیکھ کرچلایا۔”کہیں تم نمازی تونہیں بن گئے اپنے اپدیش کاالٹااثرتونہیں ہوگیا۔ آو آواماں رک کیوں گئے۔بیٹھ جاو آج وہ چیزدکھائیں گے تمہیں کہ قسم ہے عمربھرنہ دیکھی ہوکبھی۔کیایادکروگے کوئی دوست تھااپنا۔یہ کھڑکی کھولناذرا۔یہ جوسرہانے کی طرف ہے۔“
”ارے رے رے۔“وہ چلایا۔”تم نے بالکل ہی کھول دی۔“اس نے ہاتھ بڑھاکرکھڑکی کے پٹ بندکرتے ہوئے کہا۔”اماں کوئی ہواتھوڑی کھانی ہے کہ پٹ کھول دیں۔اپن نے تومحض دیوی درشن کرتے ہیں اورچوپٹ کھلی ہوتودیویاں چوکنی ہوجاتی ہیں اورپھردرشن میں وہ بات نہیں رہتی۔یہ اتنی درزکافی ہے اب دیکھو۔اونہوں گھبراونہیں۔“ارجمندبولا۔
”ماں ادھرنمازکے بعدوظیفہ پڑھ رہی ہے اورباقی سب سورہے ہیں بے تکلف دیکھو۔سامنے چوبارے میں ساری ہکوریاں اورڈکورے باری باری جاگیں گے اورپھرجاگتے ہی ہرکوئی پہلے آئینے کے سامنے آکھڑی ہوگی یہ ان کی ریت ہے ۔جاگتے ہی پہلے آئینے میں اپنا آپ دیکھتی ہیں۔کہ جوبن رات کوچوری تونہیں کرلیاکسی نے آنکھیں ملیں گی۔انگڑائیاں لیں گی۔ آہاہا۔“وہ چلایا۔”عورت کودیکھناہوتوصبح سویرے دیکھو۔ آہاہاہاہا۔کیاجوبن ہوتاہے۔جب وہ سوکراٹھتی ہے ۔ آنکھوں میں خماربال الجھے ہوئے۔جسم گدرایاہوا۔اورپھرانگڑائیاں۔وہ کہاہے نااستادنے ہاتھ انگڑائی کی صورت آنکھ شرمائی ہوئی۔ آہاہاکیاکیفیت ہوئی ہے۔واہ واہ واہ---ارے۔“ارجمندچلایا۔”وہ گئی۔ارے دیکھوبھی۔میرے منہ کی طرف کیادیکھتاہے یار۔یہاں توکچھ نہیںوہ توادھرہے سامنے چوبارے میں آیا۔کیاچال ہے کیااندازہے۔ہے میری جان میں تجھ پرقربان۔بولو۔وہ انگڑائی شروع ہوئی واہ واہ واہ۔کیاانگڑائی لینے کاسلیقہ آتاہے ان کوجسم کی بوٹی بوٹی تھرک جاتی ہے سبحان اللہ۔“
اوروہ دیرتک کھڑکی کی درزسے مقابل کے چوبارے کی عورتوں اورلڑکیوں کودیکھتے رہے۔حتی ٰ کہ سورج چڑھ آیاگھرکے سب لوگ بیدارہوگئے۔لیکن ارجمندان باتوں میں بہت تاک تھا۔وہ کب آڑے آنے والاتھا۔اس نے اٹھ کرکمرے کادروازہ اندرسے بندکرلیااورچلاکرکہنے لگا۔”ماں ادھرکوئی نہ آئے۔میں ایلی کوجادوکاکھیل دکھانے لگاہوں۔“پھروہ دبی آوازمیں بولا۔”ابے دیکھ بے جادوکاکھیل واہ واہ کیاجادوگرنی ہے موسیٰ کوپاگل نہ بنادے تواپناذمہ۔“اورپھربا آوازبلندکہنے لگا۔”دیکھو بھئی ایلی انڈاہے انڈا۔عام مرغی کاانڈااس میں نہ توبجلی لگی ہے اورنہ اس کے اندرکوئی گیس چھپاہے اب میں اس کو روشن کرتاہوں۔انڈایوں چمکنے لگے گاجیسے اندھیرے میں جگنوچمکتاہے۔ہے ہے۔“پھروہ زیرلب چلایا۔”ارے ادھردیکھونا آہاہاہاہاکیاجگنوچمک رہے ہیں اندھیرے میں۔“

مرلیاباجی رے

”چاچی۔“۔۔۔نیچے سے شہزادکی آوازسن کرایلی کادل ڈوب گیا۔”میں نے کہاچاچی گھرپرہی ناتو۔“وہ پھرچلائی۔
وہی ہے ایلی کے دل میںکسی نے کہا۔شہزادکی آوازمحلے بھرسے الگ تھی اس میں لوچ تھا۔ایک شوخی تھی۔
”ارے ۔“ارجمندچلایا۔”مرلیاکہاں باجی رے۔“
باہرارجمندکی ماں کہہ رہی تھی۔”توشہزاد۔توادھرکیسے آنکلی ۔کہیں راستہ تونہیں بھول گئی۔شکرہے کہ تومیرے گھر آئی ہے کتنی خوشی ہوئی ہے مجھے ۔“
”ویسے ہی جارہی تھی ادھرغفورکی طرف تومیں نے کہاچاچی کودیکھ آوں۔سناہے ارجمند آیاہواہے۔“
”رام رام رام رام۔“ارجمندبولا۔”دیوی کے منہ پرداس کانام آیا۔ارے بے وقوف بھاگ کردروازے کی کنڈی کھل دے کیامعلوم نام جواپنالیاہے توشایددرشن بھی ہوجائے۔
ارے دیکھتاکیاہے۔“ایلی کوچپ بیٹھے دیکھ کرارجمندنے چھلانگ لگائی اوردروازہ کھول کرپھربسترکی طرف لپکا۔اس نے کھڑکی بندکردی۔”یہ مٹی کے دیئے جھاڑفانوس کے روبروکیاحیثیت رکھتے ہیں۔“
ایلی چپ چاپ بیٹھاتھا۔وہ جانتاتھاکہ شہزاداس کے لیے وہاں آئی ہے۔لیکن اسے یقین نہیں آتاتھا۔اس کے لئے شہزاداتنی دورچل کرارجمندکے گھر آئے۔جہاں پہلے وہ کبھی نہ آئی تھی۔نہیں نہیں یہ کیسے ہوسکتاہے وہ اس کشمکش میں کھویاہواتھا۔
”ارے اوتجھے کیاہوگیاہے۔زبان کیوں بندہو گئی تیری۔دیکھتانہیں باہرگوگل کے کنہیا آئے ہیں واہ واہ اس کنہیاکی ہربات نیاری ہے۔بولتے میں جیسے تان اڑی ہو،چلنے میں جیسے راس رچائی ہواوربات ۔ہے ہے کیابات کرتے ہیں۔“
شہزادکودروازے میں کھڑی دیکھ کروہ خاموش ہوگیااورگویابھیڑئے کی کھال اتارکربھیڑکے روپ میں آگیا۔”سلام کہتاہوں۔“وہ ادب سے بولا۔
”کب آیاتو۔“شہزادنے ایلی پرایک اچٹتی ہوئی نگاہ ڈال کرکہا۔
”چارروزکی چھٹی پر آیاہوں جی۔“وہ بولا۔
”تویہاں ہے ایلی۔“وہ ایلی کے قریب آکھڑی ہوئی۔“اوروہاں گھرمیں تیری تلاش ہورہی ہے میں نے توکہاتھاڈھنڈوراپٹوادوایسے نہیں ملے گا۔“
شہزادکے کمرے میں داخل ہوتے ہی خوشبوکاایک ریلا آیااورایلی اسے محسوس کرکے مدہوش ہوگیا۔نہ جانے شہزادسے وہ خصوصی خوشبوکیوں وابستہ تھ۔حالانکہ اس نے کبھی خوشبواستعمال نہ کی تھی۔اوروہ خوشبوبھی عجیب سی تھی جیسے سحرکے وقت فضاسے باس آتی ہے جسے نہ توبوکہاجاسکتاہے اورنہ خوشبو۔
پھردفعتاً شہزادنے بڑھ کرایلی کامنہ اپنے ہاتھوں میں تھام لیا۔”کیاہے تجھے جواب کیوں نہیں دیتا۔“وہ بولی دباہوا آتش فشاں پھٹ گیا۔ایلی کاسرہوائی بن کراڑگیا۔اوروہ خودلٹو کی طرف گھومنے لگااس نے جھپٹ کرشہزادکے بازوپکڑلیے۔اورپھرمڑکرشہزادکی طرف دیکھااس کیاابلی ہوئی آنکھوں میں منت تھی، آہ وزاری تھی۔
شہزادنے ایک رنگین قہقہہ لگایا۔”اوہو۔“وہ بولی“یہاں توحالات بہت بگڑے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔“وہ ہنستی ہوئی باہر نکل گئی۔
کمرے پرکچھ دیرتک خاموشی چھائی رہی۔
پھرسیڑھیوں میں وہی چوکڑی بھرنے کی آوازسنائی دی چھن چھن چھن کوئی سیڑھیاں اتررہاتھا۔
”ارے ارے۔“ارجمندچلایا۔”ہاہاہا۔مندرمیں گھنٹیاں بجیں دیوی آئی اورچلی گئی اورتوابے اوحرامی تجھ سے کہہ رہاہوں۔سالے تواندھاہے۔بدنصیب ہے۔گدھاہے قسم ہے اگرایک باروہ اپن کامنہ سہلادے تودنیاتیاگ کریوگی بن جاوں۔ارے دیوی سی دیوی ہے۔اس کے روبروسب ہیچ ہیں۔ایساچاندہے جوچمک کرسب تاروں کوماندکردیتاہے ۔واہ واکیاچیزہے۔اورتو۔تووہاں رہتاہے اس کے پڑوس میں۔اوروہ تیرے منہ کوہاتھو ں سے سہلاتی ہے۔اورتجھ سے اشاروں میں باتیں کرتی ہے۔اورپھراتنی قریب۔رام رام رام۔ارے یارہمیں دھوکے ہی میں رکھا آج تک۔“
”کیافضول بک رہاہے تو۔“ایلی نے چیخ کرکہا۔”چھوڑ---“ارے کس طرح چھوڑوں بھنورپھول کوچھوڑدے چکورچاندکوچھوڑدے پراپن دیوی پوجانہیں چھوڑسکتے۔اورپھردیوی بھی وہ جس کے چرنوں میں سکھ ہے شانتی ہے۔گودنہیں چرنوں میں۔گودوالی دیویاں توبیسیوں پھرتی ہیں۔ان کی بات اورہے۔“
شہزادکوگئے ابھی زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ ہاجرہ آگئی ۔“ہے ایلی تویہاں بیٹھاہے اورہم سب وہاں ڈھونڈکرپاگل ہورہے ہیں۔“وہ چلانے لگی۔”کسی کوبتاکر آیاہوتایہاں۔لو ہم نے کوئی بندش لگارکھی ہے تیرے آنے جانے پر۔نہ کھایانہ پیانہ کسی کوبتایاکہ میں ارجمندکی طرف جارہاہوں۔یہ بھی کوئی بات ہے بہن ناحق پریشان ہورہی ہے وہ تواللہ بھلاکرے شہزادکاکہ اس نے ڈھونڈنکالاتجھے۔“
”ارے۔“ارجمند زیرلب بولا۔”توتجھے ڈھونڈنے آئی تھی۔اپن سمجھے اپن کی تقدیرجاگ پڑی ۔“
”اوردیکھ بہن ویسے تویہ اپناہی گھرہے جس وقت چاہے آئے جائے لیکن بہن بتاکرتو آتا۔“پھرکمرے میں آو داخل ہوئی۔”کیاکررہاہے توچل اب گھرچل پھر آجائے گاتیرے پاس ارجمند۔“
”سلام عرض کرتاہوں۔“ارجمنداٹھ بیٹھا۔
”کب آیاہے تو۔نوکری کامعاملہ توٹھیک ہے نا۔“ہاجرہ نے پوچھااورجواب سنے بغیرایلی سے مخاطب ہوکربولی۔چل بھی نافرحت تیراانتظارکررہی ہے تیراچل اٹھ پھر آجانا۔“

مہادیو

جب وہ گھرپہنچاتوچھن سے شہزاداس کے روبرو آکھڑی ہوئی۔”ماں کے کہنے پر آگیاتو۔اورجب میں گئی تھی اس وقت تویوں چپ چاپ بیٹھارہاتھاجیسے منہ میں زبان ہی نہ ہو۔جیسے جسم میں جان نہ ہو۔“
” آگیاایلی۔“فرحت اسے دیکھ کربھاگی آئی۔“اے ہے۔چائے توپی کرجاتا۔کب سے رکھی ہے اب توٹھنڈی بھی ہوگئی ہوگی۔گرم کردوں یاپھرسے بنادوں۔“
”مجھے توبھوک نہیں۔“ایلی نے بے پروائی سے کہا۔
”توچائے ہی پی لے ۔“ہاجرہ بولی۔
”میراجی نہیں چاہتا۔“وہ روکھی آوازمیں بولا۔
شہزادنے بڑھ کراس کی کلائی پکڑلی۔اوراسے کھینچتے ہوئے بولی۔”چل جوتیراجی چاہتاہے وہ کھلاوں تجھے چل۔“
فرحت نے شرارت بھری مسکراہٹ سے ان کی طرف دیکھا۔“تم ہی جانوکیاجی چاہتاہے اس کا۔اپنے بس کی بات تونہیں۔“
”جبھی تولیے جارہی ہوں اسے۔“شہزادنے ہنس کرکہا۔”تم بیچاری کیاجانو۔“
”ہاں ہاں۔“ہاجرہ بولی۔”لے جااسے لے جابس خوش رہے میں تویہی چاہتی ہوں۔تیری بڑی مہربانی ہوگی۔“
پہلے توایلی نے بازوچھڑانے کی خفیف سی کوشش کی لیکن شہزادسے بازوچھڑانایہ اس کے بس کی بات نہ تھی۔پھروہ اس کے پیچھے پیچھے گیندکی طرح لڑھکتاچل پڑا۔
”توبہ ہے۔“وہ اکیلے میں کہنے لگی”بڑے نخرے آگئے ہیں تجھے ۔مانتاہی نہیں کسی صورت۔دوروزسے پاگل کررکھاہے مجھے ۔“
”لے بیٹھ یہاں۔“شہزادنے اپنے کمرے میں پہنچ کراسی کرسی پربٹھاتے ہوئے کہا۔”توبہ ہے دوروزسے کیاحال کردیاہے ۔میری طرف دیکھ۔“اس نے ایلی کاسراپنے ہاتھوں میں تھام لیاشہزادکی آنکھوں میں آنسوتھے۔”میں نے تیراکیابگاڑاتھاایلی۔“اس نے پوچھا۔
شہزادکی آنکھوں میں آنسودیکھ کرایلی کاضبط پاش پاش ہوگیا۔وہ دھم سے اس کے پاوں پرگرپڑا۔“میں تمہارے قابل نہیں ہوں شہزاد۔“وہ بولا۔”میں تمہارے قابل نہیں ہوں۔میں نااہل ہوں نیچ ہوں نیچ۔“اس کی گھگھی بندھ گئی۔شہزادنے اس کاسراپنے جسم سے لگالیااورتھپکنے لگی۔
”ایسی باتیں نہیں کرتے ۔تم کیاہو یہ مجھ سے پوچھو۔یہ حالت میری ہوئی ہے تمہارے بغیرمیں ہی جانتی ہوں۔“
”میں کچھ کھاکرمرجاوں گا۔“زندگی بے کارہے اب۔“ایلی نے کہا۔
”چپ ایسی باتیں نہیں کیاکرتے۔تم مرجاوگے تومیراکیاہوگا۔مجھے تمہاری ضرورت ہے ایلی۔مجھے تمہاری لگن ہے صر ف تمہاری تم سے کچھ نہیںچاہئے۔بس تم میرے پاس رہو۔میرے سامنے رہواورکچھ نہیں مانگتی میں۔“
”نہیں نہیں۔“وہ چلایا“میں اپنی زندگی ختم کروں گا۔اگرتم سے محبت نہیں کرسکتاتودنیاہیچ ہے ہیچ ہے۔“
”محبت اسے نہیں کہتے پگلے۔“وہ بولی۔”مجھے اس کی پروانہیں۔مجھے کسی چیز کی پروانہیں مجھے صرف ایلی چاہئے۔صرف ایلی۔“اس کی آنکھوں سے ایک آنسوگرا۔
ایلی سسکیاں بھرنے لگا۔”تم اتنی حسین ہوتم اتنی پیاری ہو۔دنیاتمہارے روبروہیچ ہے۔
شہزادتم اتنی رنگین ہو کہ تمہیں دیکھ کرمیں نشے میں جھومنے لگتاہوں۔تمہیں محسوس کرکے میری کائنات بدل جاتی ہے اورمیںایک ذلیل نااہل شخص ہوں۔ہیچ ہوں۔“
”تمہیں کیامعلوم۔“وہ بولی۔“تم کیاہو۔چھوڑواب ۔معاف کردومجھے۔“وہ ہاتھ جوڑکرسامنے کھڑی ہوگئی۔اسے یوں ہاتھ جوڑے دیکھ کروہ دیوانہ واراٹھااورشہزادکابندبندچومنے لگا۔جانوکے پاوں کی چاپ سن کروہ الگ ہوگئی۔اورکھڑکی میں یوں کھڑی ہوگئی جیسے روزازل سے وہاں کھڑی ہو۔پھرجانو آئی توشہزادبولی۔”کیاکررہی ہے توجانوکچھ خبربھی ہے تجھے کتنی محنت سے ایلی کوتلاش کرکے لائی ہوں اب اگرتونے اس مہادیوکی خاطرتواضح نہ کی تویہ پھرروٹھ کرچلاجائے گا۔“
”بڑامہادیوہے منہ تودیکھو۔“جانونے کہا۔“نخرے کرتاپھرتاہے اول توگھرسے باہرنہیں نکلتاباہرنکل جائے توپھراس کاپتہ ہی نہیں چلتا۔دیکھ توچوہے کی صورت۔“
”اونہوں ایسی باتیں نہ کر۔“شہزادنے جانوسے کہا۔“تیری ایسی باتوں کی وجہ سے ناراض ہواتھایہ۔“
”ہونہہ میری باتوں سے۔“جانوچلائی“میری باتوں سے جوناراض ہوتاہے توپڑاہومیں توسچی بات کرنے سے نہیں چوکوں گی۔“
”اچھاباباتونہ چوک سچی بات کرنے پراب توجاکرچائے بنالاساتھ کچھ کھلابھی دے۔کیایادکریں گے تجھے ۔کیاکھائے گاایلی۔ آج جومانگے گاملے گا۔پرچیزکھانے والی ہو۔“اس نے اعلانیہ طورپر آنکھیں مٹکاکرکہا۔”کیوں جانو۔ہے نا۔“شہزادہنسی۔
نہ میں نہیں سمجھتی تمہارے یہ اشارے ماری آنکھوں آنکھوں میں بات کہہ جاتی ہومجھے نہیں پتہ چلتاکچھ۔توجانے اورتیراایلی جانے۔“
”کیوں ایلی کیاجانے ہے تو۔“شہزادنے اس سے پوچھا۔“اورجانومیں توکچھ جانتی ہی نہیں جانتی توتوہے۔جبھی توتیرانام جانوہے۔“وہ قہقہہ مارکرہنسنے لگی۔
جانوہنستی اورچلاتی ہوئی سیڑھیاں اترنے لگی۔
جانوکے جانے کے بعدشہزادپھراسی طرح ایلی سے دوربے نیازبے خبرہوکربیٹھ گئی اورسلائیوں کے کام میں مصروف ہوگئی۔اورایلی دیوانوں کی طرح اس کی طرف ٹکٹکی باندھ کردیکھنے لگا۔

جوش رقابت

اگلے روزجب وہ دونوں بظاہر ایک دوسرے کے قریب لیکن حقیتاً ایک دوسرے سے بہت دوربیٹھے تھے توشریف آگیا۔شریف کودیکھ کرایلی کے ہاتھ پاوں پھول گئے اس نے یوں محسوس کیاجیسے وہ پکڑاگیاہواوروہ گھبراکراٹھا۔بات کرنے کے لیے الفاظ نہیں ملتے تھے زبان میں گویاقوت گویائی مفقودہوچکی تھی۔سمجھ میں نہیں آتاتھاکہ اپنے بازووں کوکیسے سنبھالے جولٹک لٹک کرگویازمین سے جالگے تھے اس نے خوشی کااظہارکرنے کے لیے ہنسنے کی کوشش کی لیکن اس کی باچھوں پرگویاتالے لگے ہوئے تھے۔ آنکھیں اس حدتک کھل گئی تھیں کہ کوشش کے باوجودوہ انہیں قابومیں نہیں رکھ سکتاتھا۔
”میں میں ایں۔ آپ آپ ۔یعنی میں۔“اس نے شریف کے آنے پرخوشی کااظہارکرنے کے لیے کچھ کہناچاہا۔
شہزاداطمینان سے بیٹھی اپنی کام میں یوں مصروف رہی جیسے کچھ ہواہی نہ ہو۔جیسے شریف کا آنایانہ آنا۔ایلی کااس قدرقریب بیٹھے ہونایانہ ہوناسب برابرہو۔
”کیوں ایلی۔“شریف نے کہا۔”خوش ہوتم بڑی مشکل سے چھٹی ملی ہے مجھے۔جانوذراحقہ توبھرنا۔“
”چائے بھی بنادوجانو۔“شہزادبولی۔“اورکھانابھی توکھائیں گے۔“
شریف بیک وقت متبسم اورمغموم نگاہوں سے شہزادکی طرف دیکھا۔لیکن شہزاداپنے کام میں مصروف تھی ۔ایلی نے محسوس کیااسے وہاں سے کھسک جاناچاہئے اس نے پہلی مرتبہ شہزادکے گھر میں محسوس کیاجیسے اس کی حیثیت جملہ معترضہ کی ہو۔کچھ دیروہ وہاں بادل ناخواستہ بیٹھارہاپھراٹھا۔”ابھی آوں گا۔“وہ وبولا“ذراگھرسے ہو آوں۔“
”اچھا۔“شریف نے جواب دیا۔”لیکن آناضرورتم سے بہت سی باتیں کرنی ہیں۔“ایلی نے سوچا۔اس نے محسوس کیاجیسے شریف صورت حالات سے پورے طورپرواقف ہے جیسے اسے علم ہے کہ ایلی وہاں کیوں آتاہے اوراس نے اسی بارے میں باتیں کرنی ہیں۔
گھرپہنچ کروہ دھڑام سے چارپائی پرگرپڑا۔
”کیوں کیاہوا؟“ہاجرہ دوڑتی ہوئی آئی۔“خیرتوہے ۔پھرکوئی بات تونہیں ہوگئی۔“
”بات کیاہوئی ہے۔“فرحت نے ہنس کرکہا۔”گھر والے اپنے گھر آگئے اورکیا۔“
”کیامطلب ہے تیرافرحت؟“ہاجرہ نے پوچھا۔
”شریف چھٹی لے کر آیاہے اورکیا۔“فرحت بولی۔
”ہائیں شریف آیاہے۔“ہاجرہ نے حیرانی سے دہرایا۔“لیکن اس میں کیاہے۔“
”پوچھوایلی سے۔“وہ بولی۔” آخراس نے توگھر آناہی ہوا۔“
اس وقت ایلی اس قدرگھبرایاہواتھاکہ اس نے فرحت کی بات کابرانہ مانااس وقت کی عجیب کیفیت تھی۔اسے سمجھ میں نہیں آرہاتھاکہ شریف کی آمدپراسے دکھ کیوں محسوس ہورہاہے۔شریف کوتووہ بہت اچھاسمجھتاتھاوہ ایلی کاپیارادوست تھاپھراس کی آمداس قدرناگوارکیوں ہورہی تھی خواہ مخواہ غصہ کیوں آرہاتھا۔وہ رنگین دنیادفعتاً ویران کیوں ہوگئی تھی۔
دیرتک وہ چارپائی پرپڑاکروٹیں لیتارہا۔پھرسیڑھیوں میں چھن چھن کی آوازسن کرچونکا۔
”ایلی کہاں ہے۔“شہزادمجسم تبسم بنی ہوئی سامنے کھڑی تھی۔
اسے اکیلادیکھ کروہ بولی”تم بھاگ کیوں آئے۔خواہ مخواہ چلے آئے۔واہ یوں کسی کواکیلانہیں چھوڑاکرتے۔چل اٹھ۔“
”میں نہیں جاتا۔“وہ منہ بناکربولا۔
”کیسے نہیں جاتے۔“اس نے اس کے گال سہلاتے ہوئے کہا۔
”نہیںجاتا۔“وہ غصے میں اس کاہاتھ جھٹک کربولا۔”تم جاواپنے میاں کے کادل بہلاوجاکرمیں آوں یانہ آوں تمہیں کیاپڑی ہے۔“
”اوہو۔“وہ اس کے قریب بیٹھتے ہوئے بولی۔“تم نہ جاوگے تومیں بھی نہیں جاوں گی۔میراوہاں کیاکام۔کوئی آئے یاجائے مجھے کیا۔“
”پاگل ہوگئی ہو۔“وہ تڑپ کراٹھ بیٹھا۔”یہ سب لوگ کیاکہیں گے۔“
”پڑے کہیں۔“وہ بولی“مجھے نہیں پروا۔“
”میاں سے پٹوگی تم۔“ایلی نے مصنوعی غصے سے کہااگرچہ شہزادکی باتیں سن کراسے ایک ان جانی خوشی محسوس ہورہی تھی۔اس کی خاطرشہزادسبھی کچھ کرنے کے لیے تیارتھی۔دنیابھرسے جنگ کرنے کے لیے تیارتھی۔
”پٹونگی۔“وہ چلائی۔“مجھے کون پیٹ سکتاہے جی۔“وہ تمسخرسے بولی۔”وہ بیچاراکیاکرے گا۔اس کی کیامجال ہے۔چلواٹھو---ورنہ ----“
”ورنہ کیا؟“ایلی نے پوچھا۔
”ورنہ میں بھی لیٹ جاوں گی تمہارے ساتھ۔“
ایلی گھبراکراٹھ بیٹھا۔”پاگل ہوگئی ہو۔“ایلی نے کہا۔
”ہاں ہوگئی ہوں۔“وہ بولی۔
”کون ہوگیاہے پاگل۔“فرحت نے داخل ہوتے ہوئے پوچھا۔
”میں اورکون۔“شہزادنے جواب دیا۔”تم سب توسیانیاں ہو۔پاگل توایک میں ہی ہوں نا۔“
”کیوں ہوتی ہوپاگل۔“فرحت بولی”حکیم نے کہاہے کیا۔“
”حکیم نے تونہیں کہا۔“وہ اٹھ کربولی۔البتہ تم ایسے سیانوں کودیکھ کرجی چاہتاہے پاگل ہوکرکہیں نکل جاوں۔“
شہزادکے اندازتکلم میں غضب کی دھارتھی۔لیکن اس کے ہونٹوں پرایک معصوم تبسم تھا۔”اب آوگے بھی یانہیں۔“وہ ایلی سے مخاطب ہوکربولی۔”اب آبھی جاو۔وہ انتظارکررہے ہیں چائے سامنے رکھی ہے ٹھنڈی ہوجائے گی۔“
ایلی وہاں پہنچاتوشریف چائے کاپیالہ سامنے رکھے اسی طرح چھت کی طرف ٹکٹکی باندھے بیٹھاتھا۔ایلی کودیکھ کراس نے اپنی مخصوص حسرت زدہ مسکراہٹ سے کہا۔”نہ جانے کیابات ہے جسے چاہووہی دوربھاگتاہے۔اب یہ ایلی بھی محبوب سے نخرے کرنے لگا۔اپنی قسمت ہی ایسی ہے۔“
”نہیں نہیں۔ایلی چلایا”میں تووہاں---“

انوکھے اظہار

”اب چھوڑوان بہانوں کو۔“شریف نے کہا۔”یہ بہانے اپنے لیے نئی چیزنہیں تم سے کچھ طبیعت ملی تھی سوچاتھاخوب گزرے گی جومل بیٹھیں گے لیکن اب تم بھی کنی کترانے لگے۔ہاں یاد آیا۔یہ توبتاوامرتسروالی کاکیاحال ہے کچھ بات بنی یانہیں۔اسے علم ہوایانہیں۔کیوں نہ ہوگاعلم محبت اثرکیے بغیررہ سکتی ہے کیایہ نہیں ہوسکتا۔محبت میں بڑی طاقت ہے۔اس بڑھ کراورکوئی طاقت نہیں۔توبتاوناہمیں۔کیاوہ بھی مضطرب ہے۔کیااسے بھی خیال ہے۔ضرورہوگا۔لیکن اس کااظہاربھی ہوایانہیں۔تمہارے جذبے کی آزمائش ہے ایلی۔دیکھیں تمہارے جذبے میں کتنااثرہے۔“ایلی کوخاموش دیکھ کرشریف نے کبوترکی سی آنکھیں بناتے ہوئے کہا۔”کیوں تمہیں تومعلوم ہے کچھ۔“اس نے شہزادسے مخاطب ہوکرپوچھا۔
”سارے محلے میں چرچاہے۔“شہزادبولی”سناہے حسن میں بھی جواب نہیں اس کاجبھی تواس کی یہ حالت ہورہی ہے۔دیکھوتواس کی طرف مجھ سے کہتاتھا۔“وہ ہنسی بے تحاشہ ہنستی چلی گئی۔”مجھ سے کہتاتھاکہ کہ زہرکھالوں گا۔“ایلی نے غصے سے شہزادکی طرف دیکھا۔
”اب دیکھ لیجئے دیکھ رہاہے میری طرف پرایمان سے کہناایلی تم نے کہانہیں تھامجھ سے میں زہرکھالوں گا۔
ایلی حیرانی سے شہزادکی طرف دیکھ رہاتھا۔اس کی شوخی اوربے باکی دیکھ کروہ گویاسکتے میں آگیاتھا۔
”اونہوں۔“شریف مسکرایا۔”زہرکھانامردوں کاکام نہیں۔“
”یہی میں نے اس سے کہاتھا۔“شہزادقہقہہ مارکر--ہنسی ”لیکن یہ کہتاہے میں مردنہیں۔کوئی پوچھے کیسے نہیں۔میں تومردسمجھتی ہوں اسے۔“
”زہرکھانایامرجانامردکاکام نہیں۔“شریف بولا۔”میری طرف دیکھوجی رہاہوں۔اتناکچھ جھیل کربھی جی رہاہوں ۔تم یہ بتاواس کوبھی خیال ہے تمہارایانہیں۔“
شہزادنے پھرقہقہہ لگایا۔”وہ تومرتی ہے۔“وہ بولی ”اسی کویقین نہیں آتایہ سمجھتاہے کہ اسے ذرابھی پروانہیں ۔اب وہ بیچاری کیاکرے۔“
”کیوں ایلی۔“شریف نے پوچھا۔
ایلی شہزادکی دودھاری باتوں پرطیش میں آرہاتھا۔لیکن ان باتوں میں جوکنایہ کی مددسے ایلی سے کی جارہی تھیں ایک عجیب سی لذت تھی۔
”کیوں مذاق کررہی ہیں آپ ۔“ایلی نے شہزادکوگھورا۔
”مذاق ۔“وہ بولی۔”اب میں تمہیں کیسے یقین دلاوں کہ میں نے زندگی بھرمیں کبھی اس قدرسنجیدگی سے بات نہیں کی۔مشکل تویہ ہے کہ تمہیں یقین نہیں آتااب میں کیاکروں۔“
شہزادکی آنکھوںمیں آنسوبھرے تھے۔ایلی گھبراگیا۔وہ شریف کی موجودگی میں براہ راست اس سے وہ وہ باتیں کررہی تھیں جو اس نے ایلی سے کبھی تخلیئے میں بھی نہ کی تھی۔
اورشریف بھولابھالاشریف مسکرارہاتھا۔”ٹھیک کہتی ہے یہ۔“شہزادکی طرف اشارہ کرکے کہہ رہاتھا۔”ابتداءمیں ایساہی ہوتاہے۔دوسرے کی بات کایقین نہیں آتا۔”بس ایلی کویقین ہی نہیں آتا۔“شہزادبولی ”اب میںکیسے یقین دلاوں اسے۔“
”ہاں ہاں۔“شریف نے کہا---پھرا س نے آہ بھری لیکن بولا”جب عشق پراناہوجاتاہے توپھردنیاہی بدل جاتی ہے نہ شکوک نہ گلہ نہ بے یقینی ۔“
”نہ جانے وہ دن کب آئے گا۔“شہزادنے حسرت ناک آوازمیں کہا۔
”کب آئے گا؟“شریف چونک پڑا۔پھر آپ ہی آپ ہنس کربولا۔”اچھاتوتم ایلی کے متعلق کہہ رہی ہو۔میں سمجھا--“وہ خاموش ہوگیا۔
”اورکیا آپ کے متعلق کہہ رہی ہوں۔“شہزادقہقہہ مارکربولی۔اس کی بات اوراندازدونوں میں بلاکی تحقیرتھی۔ایلی کانپ گیا۔
شہزاداس کے نزدیک ایک معمہ تھی۔اس میں بلاکی جرات تھی اوروہ بات اعلانیہ کرنے سے ہچکچاتی نہ تھی اورسب سے عجیب ترین بات یہ تھی کہ کسی تیسرے آدمی کی موجودگی میں وہ ایلی سے اس قدرقریب ہوجاتی تھی جیسے اس کی گودمیں بیٹھی ہو۔اس کے اشارات کس قدرواضح اوررنگین ہوتے تھے اس کی حرکات سے محبت آمیزشرارت یاشرارت آمیزمحبت ٹپکتی تھی لیکن تنہائی میں اس کااندازاقطعی طورپربدل جاتا




























رکھو۔پتر کھلاڑی بنو پرواہ نہیں
اپنے پرنہ جلاؤ

ورنہ کیا

ارجمند کو یکے میں بٹھانے کے بعد ایلی سوچنے لگا  اب کیا کروں۔ کہاں جاؤں۔اس کا جی نہیں چاہتا تھا کہ شریف اور
شریف کی طرف جائے۔
فرحت کے پاس جانا بھی اسے ہسند نہ تھا۔ فرحت کی محبت بھری باتوں میں طنز کا عنصر شامل ہوتا تھا اور وہ بات بات پر شہزاد کا طعنہ دیتی تھی۔ رضا یا صفدر کے پاس جانا بے کار تھا۔ وہ بھی گفتگو کی ابتدا شہزاد سے ہی کرتے تھے۔
    جب وہ واپس آرہ تھا تو راستے میں اسے رضا ملا۔
    "ایلی" رضا نے اسے للکارا
دیکھ میری طرف،

جب تک میرا دم میں دم میں دم ہے تو چاہے کسی سے محبت لگا اور اگر کوئی تیری طرف نظر بھر کر دیکھے تو بس مجھے بتا دینا۔ سمھجے!
وہ پاگل لمبا وہی تیرا دوست، گسے ابھی یکے میں بٹھایا ہے!
اگر اس نے کوئی گڑ بڑ کی تواس ہاکی سے اس کی کھوپڑی توڑ دوں گا!
اس نے اپنی لنگڑی ٹانگ کو یوں چلایا جیسے وہ ہاکی سٹک ہو۔
سمجھے!
لیکن یار
وہ اس کے قریب ہو کر بولا:
ایک بار ہمارے سامنے تسلیم تو کر لے تو اسے پیار کرتا ہے
بڑی اونچی جگہ ہاتھ مارا ہے
دوست اپنے کو تو ان باتوں میں دلچسپی نہیں!
مگر تو نے بڑے بڑوں کے دانت کھٹے کر دئیے ہیں۔خدا کی قسم جی چاہتا ہے تججے جھنڈا بنا کر لہراتا پھروں!
ہاں تو پھر کیسے رام کر لیا تُو نے اسے اور صرف اسے ہی نہیں ساتھ ہی اس کے مالک کو بھی پچھاڑ دیا ہے۔ سالا بول نہیں سکتا!
بول بول !
بتادے یار!
 اچھا یار نہیں بتاتا تو نہ سہی!
رضا نے ایلی کو خاموش کھڑے دیکھ کر کہا:
پھر بھی ہم تیرے ساتھ ہیں۔
ہاں!
یہ کہ کر وہ آگے چل پڑا۔
ایلی کا جی چاہتا تھا کہ مُڑ کر اِس ہاکی والے کو پکڑ لے اوراس کے سامنے رو کر سارا حال کہہ سنائے۔
اس کاجی چاہتاتھاکہ دل کی بات چیخ جیخ کرلوگوں کوسنائے اوراس طرح دل کابوجھ ہلکاکرلے۔مگرجب بھی وہ بات کہہ دینے کاارادہ کرتاتوچھن سے شہزاداس کے سامنے آکھڑی ہوتی دوناؤسی آنکھیں ڈولتیں اس کے ہونٹ عجیب ساخم کھاکرکچھ کہتے اوروہ مسکراتی۔“نہیں نہیں۔”ایلی چلاتا“میں کسی سے نہ کہوں گامیں تم سے بے وفائی نہ کروں گامیں تمہارارازفاش نہیں کروں گا۔“اورایلی کے دل کابوجھ اوربھی بڑھ جاتا۔
”ایک ناایک روزتم ضروربتاؤگے۔“شہزادآنسوبھری آنکھوں سے اس کی طرف دیکھتی۔”تم اپنے دوستوں سے بات کیے بغیرنہیں رہ سکتے۔اچھاتمہاری خوشی۔میری بدنامی میں ہی تم خوش ہوتوایساہی سہی۔“شہزادیہ کیفیت دیکھ کروہ بھاگتااس ہاکی والے سے دوربازاروالوں سے دوراوردور۔کہیں وہ کسی سے کہہ نہ دے کہیں اس کے دل کی بات زبان پرنہ آجائے۔
جب وہ شہزادکے پاس پہنچاتووہ مسکرارہی تھی عین اسی طرح جس طرح بازارمیں وہ چھن سے اس کے سامنے آکرمسکرانے لگی تھی۔”وہ کہاں ہے؟“ایلی نے پوچھا۔
شہزادنے منہ بنایااوراوپرکی طرف اشارہ کیا۔”کہاں بھاگ گئے تھے تم ۔“وہ بولی۔
”کہاں جاؤں گا۔جاسکتاہوں کیا؟“
وہ ازسرنومسکرانے لگی۔”بھاگ جاؤ۔“وہ ہنستے ہوئی چلائی ”دور۔بہت دور۔ورنہ۔“
”ورنہ کیا۔“ایلی نے پوچھا۔
”ورنہ۔“شہزادنے اپنے سڈول بازوا س کی طرف بڑھاکراسے تھام لیا”ورنہ تم پکڑے جاؤ گے ۔قیدکرلیے جاؤگے۔“اس کے بال اڑکرایلی کے منہ پرآپڑے دم رک گیا”بس “وہ تالی پیٹ کربولی۔”بات کرنے سے بھی گئے بولو۔بولتے نہیں۔“ایلی کی آنکھیں گویاابلنے لگیں اس نے شہزادکواپنی گرفت میں لیناچاہامگروہ بازوچھڑاکربھاگ گئی۔”اونہوں۔“وہ دیوانہ وارپیچھے بھاگتے ہوئے دیکھ کربولی“وہ اوپرہیں اگر--۔“پھرمگ پرکھڑی ہوکررابعہ سے باتیں کرنے میں یوں مشغول ہوگئی جیسے آن کی آن میں ایلی کے وجودکوقطعی طورپربھول چکی ہوجیسے احساس ہی نہ ہوکہ قریب ہی ایلی انگڑائیاں لے لے کراپنی ہڈیاں توڑرہاہے۔آنکھیں سرخ ہوکرابلی جارہی ہیں۔
ابھی وہ کھڑاسوچ ہی رہاتھاکہ شریف کے پاس جائے نہ جائے۔کہ محلے کی ایک بوڑھی عورت نیچے شورمچاتی ہوئی بولی۔

نئی یاپرانی 

”اے ہے ہاجرہ کہاں گئی میں کہتی ہوں رابعہ، شہزادتم کہاں ہو۔“دفعتاً مگ سے اس کی نگاہ ایلی پرپڑی۔اسے دیکھ کروہ چلانے لگی۔”اے تویہاں کھڑاہے ایلی۔لڑکے جاجاکراپنے باپ کولا۔تواسے سٹیشن پرملنے نہیںگیا۔سناہے علی احمدآرہاہے۔“ایلی اس کی بات سن کربھونچکارہ گیا۔نہ جانے وہ بڑھیاکیاکہہ رہی تھی۔شایدوہ علی احمدکوقطعی طورپربھول چکاتھا۔
”میں نے کہاماں بات توسن۔“وہ شورمچاتاہوااس کے پیچھے بھاگامگروہ توآندھی کی طرح چلاتی ہوئی جارہی تھی۔ابھی ابھی سٹیشن سے آیاہے کہتاہے میں اپنی آنکھوں سے دیکھ کرآیاہوں۔اب کی مرتبہ ایک اورساتھ ہے۔“
”کون آیاہے ماں برکتے“جانوکھڑکی سے چلانے لگی۔
”اے ہے اپناعلی احمدآیاہے۔“
”ساتھ کون ہے۔“جانونے پوچھا۔
”کہتے ہیں اب کی بارکوئی نئی نویلی ساتھ ہے۔“برکتے نے شورمچایا۔
”اے بہن“مائی حاجاں دوڑی دوڑی چھتی گلی سے باہرنکلی۔“اس کے ساتھ توہمیشہ کوئی نہ کوئی ہوتی ہے بہن۔نئی ہویاپرانی تمیزنہیں بس ساتھ ہو۔“
”ہوں نئی“بی بی فاطاں کھڑکی سے سرنکال کربولی۔”نہ جانے کہاں سے گلی سڑی ہوئی اٹھالایاہے۔اسے آج تک مالم نہیں ہواکہ نئی کیاہوتی ہے اورپرانی کیا۔“
”اے ہے اپنی طرف سے تونئی ہی لاتاہے۔پرکیاکرے نصیب ہی میں پرانی لکھی ہیں۔“
مائی حاجاں بولی۔
”پربہن“برکتے نے کہا“حمادکہتاہے کہ اب کے توحدکردی علی احمدنے ۔“
”کیاکیاماں برکتے۔بات بھی توکرناماں۔وہ توہرمرتبہ ہی حدکرتاہے۔“چاروں طرف شورمچ گیا۔“
”پرلڑکی کیابتاؤں میں۔“ماں برکتے نے ہاتھ مل کرکہا۔”اب کی مرتبہ جسے لایاہے اس کی گودمیں بچہ ہے۔ہاں بچہ۔لوکرلوبات۔“
”ہائیں بچہ“کیاکہاں ماں۔بچہ گودمیں ہے۔“چاروں طرف سے قہقہے بلندہوئے۔
”چلویہ بھی اچھاہوا۔آج تک بچے والی نہ آئی تھی۔“
”ابھی تودیکھوبہن۔وہ کشمیرکاسیب ایک سال تک نہ چل سکاتویہ بیچاری کب تک چلے گی۔“
”میں نے کہاماں برکتے۔“شہزادکھڑکی میں آکرچیخنے لگی۔”کیاواقعی بچے والی لایاہے علی احمدیامذاق کررہی ہو۔“
”لومیں کیاتم سے مجاک کروں گی۔“ماں برکتے بولی۔”اسے ہے حمادنے بتایاہے۔“
”اے لو۔“بی بی نتھوبولی۔”قافلہ توآبھی پہنچا۔“اس نے کچی حویلی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
لے اب اپنی آنکھوں سے دیکھ لے لڑکی۔“ماں حاجاں شہزادسے کہنے لگی۔”سانچ کوکیاآنچ ابھی دودھ کادودھ اورپانی کاپانی ہوجائے گا۔“
حاجاں نے ابھی بات ختم نہ کی تھی کہ علی احمدسینہ تانے چوگان میں داخل ہوئے۔
”علی احمدمبار ک ہو۔“ایک بولی۔
”میں نے کہاباقی قافلہ کہاں ہے تیرا۔“
”اے چٹی پرآیاہے کیا۔اچھاکیاجوآگیا۔تیرے بغیریہاں رونق نہیں ہوتی۔“
”اے علی احمداب کی بارسناہے نئی لایاہے تو۔“
علی احمدچوگان میں ہیروکی طرح کھڑے مسکرارہے تھے جیسے ہیروئین کودیوکے چنگل سے چھڑاکرلائے ہوں۔
”لوماں“وہ بولے”کون کہتاہے نئی ہے ماں ہم توپرانی کے پجاری ہیں وہ کہتے ہیں نانئی نودن پرانی سودن اوراگراکیلاآتاتوسواگت کے لئے تم سب یہاں نہ ہوتیں۔کسی کوپتہ بھی نہ چلتاکہ میں آیاہوں۔“
”اے ہے لڑکے۔“حاجاں مائی بولی“توکیاہمیں پتہ دینے کے لئے لاتاہے تو۔“
”اورتوکیااپنے لئے لاتاہوں۔“وہ قہقہہ مارکربولے“تم بھی کتنی بھولی ہوبی بی نتھو۔اپناشوق تومدت سے ختم ہوچکااب تومحلے کی نفری بڑھانے کے لئے لے آتاہوں۔“
”جبھی اب کے بچے والی لایاہے“جانوکھڑکی سے چیخنے لگی۔
”اورکیاجانو“علی احمدہنسے۔“توتوآپ سیانی ہے۔“
پرعلی احمد“مائی حاجاں کہنے لگی”تجھے کوئی لڑکی نہیں ملتی کیا۔“
”لڑکی “علی احمدہنسے“لڑکی کوکیاکرناہے مائی حاجاں کام کی وہ ہوتی ہے جوتجربہ کارہو۔“
”پرعلی احمد“نتھوبی بی نے ہنستے ہوئے کہا”کام کی توتولایانہیں کبھی۔کباڑخانہ ہی اکٹھاکررکھاہے۔لے ماں برکتے ایمان سے کہنادیکھنے میں ہے کوئی کام کی۔“
”لوسن لوبی بی کی بات“علی احمدہنسے۔”میں کیادیکھنے کے لئے لاتاہوں بی بی میں کیابچہ ہوں کہ دیکھ کرریجھ جاؤں وہ دن گئے بی بی۔اورہاتھی کے دانت لانے کافائدہ۔تمہاری آنکھیں چکاچوندہوجائیں تواپناکیافائد ہ ہوااس میں۔کیوں بی بی ۔“وہ چوگان میں کھڑے ہوکرہیروکی طرح ہنسنے لگے۔
”ہائے علی احمد“ایک نے ہونٹوں پرانگلی رکھ رکھ کرکہا۔
”توبہ ہے علی احمد“دوسری ہنستے ہوئے چلائی۔
”کچھ شرم کیاکربات کرتے ہوئے۔“تیسری قہقہہ مارکربولی۔چوگان ان کے قہقہوں سے گونجنے لگا۔اورعلی احمدفاتح کی حیثیت سے گھرکی طرف چل پڑے جیسے سیٹج پرایک خوب صورت جملہ کہہ کرایکٹرباہرنکل جاتاہے۔اورتماشائی تالیاں پیٹتے رہ جاتے ہیں۔
علی احمدکے پیچھے پیچھے وہی پرانی راجونیابرقعہ لئے آرہی تھی گودمیں دوسال کابچہ تھااوروہ یوں چل رہی تھی جیسے مشکل سے اپنے آپ کوگھسیٹ رہی ہو۔
”اے ہے“ماں برکتے بولی۔”ہم سے بھی پردہ ہے کیا۔لڑکی برقعہ تواٹھالے۔“
”ماں ہمیں سے توپردہ ہے۔“نتھوبی بی نے کہا۔”یہ نیازمانہ ہے اپنوں سے پردہ غیروں سے ---تم جانتی ہی ہو ماں۔“
جانوبولی۔”اے بی بی ڈرتی ہے کہیں نظرنہ لگ جائے ہماری۔“
اس کے پیچھے پیچھے تانگے والے کے ہاتھ میں سامان تھااورآخرمیں شمیم ایک لڑکی اٹھائے اوردوسری انگلی لگائے آرہی تھی۔
شمیم کاچہرہ غصے سے سرخ ہورہاتھا۔بھوئیں تنی ہوئی تھیں اورآنکھ کافرق بے حدنمایاں ہورہاتھا۔اس نے محلے والیوں کودیکھتے ہی پیٹناشروع کردیا۔
”اے ماں برکتے دیکھ لے میرے تونصیب ہی پھوٹ گئے۔میری طرف کیادیکھ رہی ہومیں تودلالہ بن کررہ گئی ہوں اپنے ہی گھرمیں۔“
اے تم کیوں دلالہ بنو۔“تم تواللہ کے فضل وکرم سے سہروں سے بیاہی ہوئی ہواوران فصلی بٹیروں کاکیاہے یہ تو آتی جاتی رہتی ہیں۔“
”نہ ماں یہ نہ کہواس کھیت میں توخالی فصلی بٹیرے ہی پلتے ہیں۔“شمیم بولی“یہاں توآنے جانے والیاں ہی چلتی ہیں۔تم اس گھرکوکیاجانو۔“
”غم نہ کرو“بی بی نتھونے کہا”یہ دوربھی گزرجائے گا۔“
”یہ چاہے گزرجائے۔اپنادورنہیں آئے گایہاں ہاں۔“وہ بولی۔”لکھ لومیری بات یہاں توسوکنیں ہی آئیں گی۔اپنے نصیب میں سکھ نہیں۔“
”اب توایلی پربھی سوکن آگئی “شہزاداپنی کھڑکی سے چلائی۔
اے ہے ایلی پرکیوں سوکن آنے لگی۔“ماں برکتے نے کہا۔
”اب توایک ننھاایلی بھی آگیا۔“وہ ہنسی۔
”لویہ بھی کوئی بات ہے۔“بی بی نتھونے کہا۔”نہ بہن ‘ایلی ایلی ہی ہے۔جومرتبہ ایلی کاہے وہ کسی اورکانہیں ہوسکتامیں توسچ کہوں گی۔“
”نہ جانے ایلی جوان ہوکرکیاگل کھلائے گا۔“برکتے نے کہا۔
”آخربیٹاکس کاہے۔“حاجاں بولی۔
”وہ کہتے نا۔“نتھوچلائی۔”ہونہاربرواکے چکنے چکنے پات۔ابھی تولڑکے نے ابتداہی کی ہے۔کیوں شہزادٹھیک کہتی ہوں نامیں۔“نتھونے اسے طعنہ دیا۔
”توجوکہتی ہے بی بی توٹھیک ہی کہتی ہوگی۔“شہزادبولی۔”تجھ سے بڑھ کرتجربہ کسے ہے ان باتوں کا۔“
یہ سن کرچوگان میں قہقہہ گونجا۔”تونہ اس سے نپٹ سکے گی۔“ماں حاجاں نے کہا۔
مائی برکتے کہنے لگی”نہ مائی اس سے کون نپٹے ایسی تیج کہ قینچی کی طرح چلتی ہے۔“
”پرماں“ایک نے مدہم آوازسے سرگوشی کی ”بری نہیں محبت سے ملتی ہے کھاترتواجوکرتی ہے۔بیچاری بڑی اچھی ہے۔بس صرف یہی اللہ مارااک شوق ہے۔“
ماں حاجاں قریب ترہوگئی“ہوگاشایدتم ٹھیک کہتی ہولیکن سچی بات تویہ ہے کہ محلے والے بھی توجینے نہیں دیتے۔“
”اے ہے“بی بی نے کہا”مجھے کیوں دیتے ہیں جینے۔“
”تواپنی بات چھوڑ“بی بی نتھو۔”اوروہ ایک دوسری کے قریب ترہوگئیں۔

ہے ہمت

محلے والیوں کی باتیں سن کرایلی کوغصہ آرہاتھا۔وہ شہزادکے خلاف بات کرنے سے بھی نہ چوکتی تھیں حالانکہ شہزادکے تعلقات محلے والیوں سے بے حداچھے تھے وہ انکی عزت کیاکرتی تھی اوران سب کی حد سے زیادہ خاطرومدارت کیاکرتی۔کسی نہ کسی بہانے وہ انہیں گھربلالیتی۔جھوٹ موٹ مشورع لینے کے لئے یاکوئی دواداروپوچھنے کے لئے یاکوئی اوربات نہ سوجھتی توکہتی ”ماں چل توذرامجھے بتاکہ میٹھی سویاں کیسے پکاتے ہیں۔ہائے مجھ سے توہربارخراب ہوجاتی ہیں اصل میں مجھے یہ نہیں معلوم کہ میٹھاکتناہوناچاہیے اورسوئیاں کتنی۔“گھرلے جاکروہ جانوسے کہتی”لے جانوذرالاتوایک پلیٹ ماں کے لئے۔“اورپھرماں سے مخاطب ہوکرکہتی ”دیکھ توکھاکے اسے تاکہ معلوم ہوکیاخرابی ہے۔نہ جانے کیانقص رہ جاتاہے۔“
حالانکہ شہزادپکانے میں بے حدماہرتھی۔اورپکانے کے معاملے میں محلے والیاں توبالکل جاہل تھیں۔جب میاں ہی کھانے کے شوقین نہ ہوں توبیویاں بھلاکیسے اچھاپکاسکتی ہیں۔لیکن اس کے باوجودشہزادنے کبھی اپنی چیزکی تعریف نہ کی تھی۔ایلی نے محسوس کیاکہ شہزادکی بڑھتی ہوئی بدنامی کاذمہ داروہ خودہے۔اس کے شہزادکے ہاں رہنے کی وجہ سے سب اس سے بدظن ہوچکے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ شہزادکارنگ انوکھاتھا۔اس میں عجیب سابانکپن تھاایک شوخی تھی رنگینی تھی اس لئے وہ محلے میں آتے ہی محلے والیوں کی نگاہ پرچڑھ گئی تھی---لیکن اس کی اس خصوصیت نے بدظنی کی فضاپیداکی تھی۔بدنامی کی نہیں اوراب ایلی کی وجہ سے وہ بدنام ہوئی جارہی تھی۔
اس خیال سے ایلی نے محسوس کیاکہ وہ مجرم ہے۔اوراپنے جرم کی شدت کوکم کرنے کے لئے وہ چپ چاپ اوپرچوبارے کی طرف چل پڑا۔
”آگئے تم“شریف اس کی طرف دیکھ کربولا”ہم توکب سے انتظارکررہے تھے۔“
نیچے کھڑاعلی احمدکوکوئی نہیں پوچھتامحلے میں یہ جتنے جلوس چاہے نکالے جسے چاہے لے آئے جائزہویاناجائز۔“شریف نے آہ بھری”ہمیں توظالموں نے کچھ بھی نہ کرنے دیا۔“
”جس میں جرات ہواسے کوئی نہیں پوچھتا۔“شہزادبولی اوراس نے ایک جرات مندانہ نگاہ ایلی پرڈالی۔”کیوں ایلی“وہ بولی ٹھیک ہے نا۔“
”مجھے کیامعلوم۔“ایلی نے جواب دیا۔
توپھرتمہاراحشربھی ایسے ہی ہوگاجیساان کاہواہے۔“شہزادنے شریف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
”سچ کہتی ہوتم“شریف نے آہ بھری”دراصل وہی ڈرتے ہیں جن کی محبت سچی اورپاکیزہ ہو۔“
ہونہہ سچی اورپاکیزہ ”شہزادنے کہا۔”بزدلی کوسچائی کے پردے میں چھپایانہیں جاسکتا۔“
”اب یہ نئی کون ہے‘جیسے علی احمدنے اپنے گھرکباڑی کی دوکان کھولی ہوئی ہے۔نئی کہاں سے لائے گا۔وہ کشمیروالی نئی لایاتھابالکل بے کارپھولی ہوئی روٹی کی طرح۔دودن میں پچک کررہ گئی۔“
”میرے خیال میں“ایلی بولا”وہی راجوہے دولت پوروالی۔دولت پورمیں اسے پٹاخہ کہتے تھے۔“
”پٹاخہ“شہزادہنسی ۔”چلاہوانا۔“
”کون ہے وہ۔“شریف نے پوچھا۔
”نام ہی سے پتہ چل رہاہے۔پوچھنے کی ضرورت باقی ہے کیا۔“شہزادنے کہا۔
تمہاری نگاہ میں توکوئی جچتی ہی نہیں۔“شریف مسکراکربولا۔”سوائے اپنے“اس نے اپنی نگاہیں جونک کی طرح شہزادپرگاڑدیں۔
”جھوٹ ہے کیا“وہ قہقہہ مارکربولی۔”میری برابری کون کرسکتاہے۔اورپھراس محلے میں جہاں سب کاٹھ کباڑبھراہے۔کیوں ایلی کیایہ جھوٹ ہے۔“وہ ایلی کی طرف دیکھ کرشرارت سے مسکرائی۔
کھاناکھاکرایلی علی احمدسے ملنے کے بہانے وہاں سے چلاآیا۔نہ جانے کیوں شریف کی موجودگی میں وہاں بیٹھنامشکل ہوجاتاتھاحالانکہ شریف کی موجودگی میں شہزادکاالتفات نمایاں ہوجاتاتھاوہ ہربات پرکوئی نہ کوئی اشارہ کرتی۔کبھی ہاتھ بڑھادیتی جیسے کہہ رہی ہواگرہمت ہے توپکڑلو۔کبھی اپنابلوری پاؤں ننگاکرکے دکھاتی اورکبھی یوں بازوپھیلادیتی جیسے اسے آغوش میں لینے کے لئے بے تاب ہے۔
شایدانہی اشارات کی وجہ سے اس کے صبرکاپیمانہ چھلک جاتااوروہ وہاں سے اٹھ کرچلے جانے پرمجبورہوجاتا۔یاشایداس کی وجہ یہ ہوکہ وہ شریف کی موجودگی میں باربارمحسوس کرتاتھاکہ وہ مل کراسے دھوکادے رہے تھے اوراحساس جرم اس قدرشدیدہوجاتاتھاکہ اس کے لئے وہاں بیٹھنامشکل ہوجاتا۔

اجلے کی راجپوتنی

جب وہ گھرپہنچاتوعلی احمدقہقہہ پرقہقہہ لگارہے تھے”دیکھوناسیدہ“وہ کہہ رہے تھے”پہلے بھی آئی تھی راجوپرپہلے وہ شمیم کی مہمان تھی ناپرانی سہیلیاں ہیں یہ دونوں“
”ہونہہ“شمیم چلائی “جان نہ پہنچان خالہ جی سلام۔“
علی احمدنے شمیم کی بات گویاسنی ہی نہیں۔”اوراب اب توبہنیں بن گئی ہیں۔“
”اونہہ بہن“شمیم چلائی۔
”تواس کی باتیں نہ سن“علی احمدنے ہنس کرشمیم کی بات کاٹ دی”ایسے مذاق یہ راجوسے کیاہی کرتی ہے بے تکلفی جوہوئی۔میں نے سوچاکہ اگریہ دونوں بہنیں بنی ہوئی ہیں توانہیں اکٹھاہی کردوسومیں نے راجوسے نکاح پڑھوالیا۔پوچھ لوشمیم سے غلط بات نہیں کررہامیں“اورپیشتراس کے شمیم کوئی بات کرے وہ معاً ایلی کی طرف متوجہ ہوگئے۔”ہائیں ایلی تم یہاں۔“پھرخودہی بولے”اورٹھیک توہے تواب امتحان سے فارغ ہوچکاہوگا۔لیکن تم نے اپنی امی کوسلام نہیں کیا۔توتواچھی طرف واقف ہے راجوسے ۔ ان کی بڑی دوستی ہے ایک دوسرے سے جب یہ دولت پورمیں تھاتواکثرجایاکرتاتھاراجوکے ہاں“وہ ہنسنے لگے۔”راجوساجوآجوسبھی سے واقف ہے ایلی مکیمن کوبھی جانتاہے کیوں ایلی۔“وہ ہنسنے لگے۔”اورایلی توبہت خوش ہوگا۔مفت کابھائی مل گیاہے اسے۔تم نے شیروکونہیں دیکھاایلی آ۔مجھے شیروسے ملائیں۔لابھئی لاناذراشیروکو۔جاؤبھئی تم دونوں کھیلوچوگان میں لے جااسے ایلی سیرکرالاذرا۔“
ایلی کوچپ چاپ کھڑے دیکھ کروہ حمیدہ رشیدہ کوبلانے لگے۔”لو بھئی تم لے جاؤ اسے ایلی توشرماتاہے۔شرماناتوہوا۔کبھی چھوٹابچہ اٹھایابھی ہو۔“
اتنے میں محلے والیاں اکٹھی ہوگئیں۔”کیالایاہے اب کی باردکھاتو“ایک نے کہا۔
”اے ہے یہ تووہی پرانی راجوہے سمجھی پہلے کشمیرکاسیب لایاتھااب نہ جانے کہاں کالایاہوگا۔“
”سیب ہی توہے “علی احمدبولے۔”وہ کشمیرکاتھایہ کلوکاہے۔وہ دکھانے کاہوتاہے‘یہ کھانے کا‘ذراترشی ہوتی ہے اس میں ماں‘بلکہ ترشی کی وجہ سے اچھاہوتاہے یہ۔“
”میں نے کہایہ دلہن چھپی ہوئی کیوں بیٹھی ہے۔“دوسری بولی۔
”دلہنیں چھپی ہوئی ہی اچھی لگتی ہیں بی بی۔“
”کیاشرماتی ہے ہم سے “شہزادداخل ہوکربولی۔
”شرماتی توہے“وہ بولے”تمہارے مقابلے کی ہوتومیدان میں آئے۔“
وہ سب ہنسنے لگیں ”اب کربات”ایک چلائی“ہم سے ہی باتیں کرلیاکرتی ہے تو“شہزادہنسنے لگی۔”اس بیچاری کاکیاقصورہے یہ تولانے والے کی سوجھ بوجھ ہوتی ہے۔“
”سناہے شہزادوہ تیراسوجھ بوجھ والاشریف آیاہواہے۔“
محلے والیوں نے پھرقہقہہ لگایا۔”باہرکیو ں نہیں نکلتامیدان میں۔“علی احمدنے قہقہہ لگاکرکہا”لیکن وہ بھی سچاہے گھرمیں دھن دولت کے انبارلگے ہوں توباہرکافائدہ۔“یہ کہہ کروہ اندرداخل ہوگئے اورراجوسے ہی ہی کرنے لگے۔“
”اے ہے بہن“نتھوبی بی داخل ہوتے ہوئے بولی”ابھی تک اپنے علی احمدکاچاؤنہیں اتراکیا؟
وہ ہربارنئی لے آتاہے۔
”اونہوںنئی۔“شمیم نے ہونٹ نکالے۔”وہی پرانی توہے۔“
”میں نے کہادیکھوں تواب کی بارکیاگل کھلایاہے اپنے علی احمدنے۔“نتھوبی بی یہ کہتے ہوئے علی احمدکے کمرے کی طرف بڑھی۔
”اندرکیسے جائے گی بی بی۔“شمیم بولی۔”اندرتودونوںمیں دھینگامشتی ہورہی ہے۔“
”ہاہاہاہا“علی احمدکی آوازآئی۔”ہم سے زورآزمائی کرے گی توراجپوتنی جوہوئی اجلے کی راجپوتنی ۔ہاہاہاہالیکن ہم بھی علی پورکے ہیں ہاں۔“
”تواندرجاکرکیاکرے گی بی بی نتھو۔“سیدہ بولی”تو بھی کیااجلے کی راجپوتنی ہے جو اندرجائے گی۔“
”میں کیوں ہونے لگی اجلے کی راجپوتنی۔“نتھوبی بی جوش میں بولی۔”پرمیں کیاعلی احمدسے ڈرتی ہوں جویہاں کھڑی رہوں گی۔“یہ کہہ کرنتھوبی بی شورمچاتی ہوئی اندرداخل ہوگئی۔
”اے ہے علی احمدیہ کیادھینگامشتی شروع کررکھی ہے تونے۔“
یہ صورت حالات دیکھ کرایلی چپکے سے باہرنکل آیا۔اندرعلی احمدقہقہے لگارہے تھے۔”ہی ہی ہی بی بی نتھوتم ہو۔کہو کیاحال چال ہے۔ہاہاہاہاہا۔“

بول کیاچاہتاہے

جب وہ چوگان میں پہنچاتورضالاٹھی ٹیکتاہواچھتی ڈیوڑھی سے نکلا”کیوں بابو“وہ بولا
”مفت کابھائی ہاتھ لگاہے۔سیدھے ہاتھ سے کھلادومٹھائی ورنہ۔“
”بکونہیں“ایلی چلایا۔”خواہ مخواہ میری بے عزتی کرتے ہو۔“
”ابھی توبے عزتی نہیں کی میں نے۔ابھی توعزت کررہاہوں بابو۔جب بے عزتی کرنے پرآؤں گاتورودوگے تم۔چلوسیدھے چلومیرے ساتھ۔ادھرکارخ کیاتویہ ہاکی سٹک چلاؤں گایارمیراچت پڑاہوگامیدان کے بیچ۔ارے بابوکے بچے۔لاکھ بارتجھے سمجھایاکہ چھوڑدے ہم سے چالاکی مگرتوسنتاہی نہیں لاتوں کے بھوت بھلاباتوں سے مانتاہے ابھی۔چل تجھے گھرلے کرجاؤں گا۔اماں نے مکی کی میٹھی روٹی پکائی ہوئی ہے۔دونوں کھائیں گے۔“
رضاکے گھرپہنچ کروہ دونوں ایک طرف اکیلے میں جابیٹھے۔
”دیکھ بھائی۔“رضانے بات شروع کی”پہلے تم اورارجمندکیپ اورکپ کوپھانسنے میں لگے رہے اورہم دیکھتے رہے۔یہ کھیل اپنے بس کانہیں۔تم تماشہ کرتے رہے اورہم دیکھتے رہے پھرتجھے امرتسروالی کاچکرپڑا۔اورتواس کے عشق میں گھلتارہا۔اورتونے آکرہم سے ساری بات کہہ دی۔وہ تو ٹھیک ہے ۔ہم سے کہ دوگے یارتوہم ٹوکیں گے کیا۔الٹاہماری مددتمہارے ساتھ ہوگی۔کہوتواٹھاکرلے آئیں اس امرتسروالی کو۔کیاہے دو سال کی سزاہوجائے گی ناجھیل لیں گے تمہیں تووہ سالی مل جائے گی۔تم مزے کروگے نا۔کیایادکروگے کہ ہاکی سٹک والایارملاتھا۔
”لیکن یہ جس معاملے میں اب پھنسے ہوتم یہ ہمیں پسندنہیں۔اول تووہ بچوں والی ہے دوسرے اس کامیاں تمہارا دوست ہے اور---پھرچلو یہ بھی مانے لیتے ہیں لیکن بشرطیکہ تم اپنے منہ سے کہ دواپنی زبان سے مانواورکہوبھئی مجبورہوں پھنس گیاہوں۔پھرہم مددکے لئے تیارہوں گے ایسے نہیں۔چالاکی سے کام نہیںچلے گاایلی۔ہمارے ساتھ جس نے بھی چالاکی کی سالہ منہ کے بل گرا۔
”یہ تم کیابک رہے ہو۔“ایلی نے منہ پکاکرکے کہا۔
”تمہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ کون بک رہاہے۔“رضابولا”سارے محلے میں شورمچاہواہے ہرجگہ یہی بات ہورہی ہے۔“
”کون سی بات؟“ایلی نے پوچھا
”تم جوساراسارادن اورآدھی آدھی رات تک اس کے گھرمیں گھسے رہتے ہو۔تمہارے لیے وہاں چائے بنتی ہے۔کھانے پکتے ہیں مٹھائیاں خریدی جاتی ہیں۔ لوگ اندھے نہیں۔یہاں علی پورمیں بات چھپی نہیں ۔یہ محلے والیاں توتیورپہنچانتی ہیں۔“
”تمہیں مجھ پر یقین نہیں کیا۔”ایلی نے غصے میں کہا۔”اچھے دوست ہو تم۔مجھے دوست بھی سمجھتے ہومگریقین نہیں کرتے میری بات پر۔“
”ایمان سے کہتاہوں میرادل گواہی دے رہاہے کہ تم مجھ سے بات چھپارہے ہو۔اے نہ چھپامجھ سے نہ چھپا۔ظالم اس کانتیجہ اچھانہیں ہوگا۔تجھے یارنہ کہاہوتاتواب تک آگ لگادی ہوتی میں نے۔“
”رضا۔“ایلی آنکھوں میں آنسوچھلکاکربولا”میں نے تم سے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔تم سے میں جھوٹ نہیں بول سکتا۔“
رضاکے اندازکی درشتی یک قلم مفقودہوگئی۔”دیکھ ایلی۔“وہ بولا”میرا تیرادوست ہوں۔بول کیاچاہتاہے توچاہے جائزہوناجائزہو۔روپیہ چاہئے تومجھ سے لے چاہے چوری کرکے لاؤں لیکن تیرے سامنے ڈھیرکردوں گا۔کسی سے دشمنی ہے توبلاخوف کہ دے۔اسے ایک ایسی ہاکی سٹک نہ دلادوں تومیراذمہ۔کسی سے محبت ہوگئی ہے تجھے توبتا۔کیسے نہیں مانے گی وہ کس کی جان ہے جوہمارے یارکی بات ردکرے جینامشکل کردوں گا۔اورنہ مانے گی تو---اورطریقے بھی ہیں۔توکسی طرح خوش رہ اپناتوصرف یہی ایک مقصدہے کہ تجھے تکلیف نہ ہو۔“
رضاکی آنکھیں بھرآئیں۔اس کے چہرے پرحسرت جھلک رہی تھی۔”مجھے معلوم نہیں۔“وہ بولا“میں نے کبھی کسی دوست کے لیے اتنی محبت محسوس نہیں کی۔پتہ نہیں تم سے مجھے اس قدرلگاؤکیوںہے۔تمہاراخیال کیوں رہتاہے مجھے۔“وہ خاموش ہوگیا۔
ایلی کے دل میں ایک بھیڑلگ گئی۔رضاکے اظہارمحبت پراسے شدت سے احساس ہورہاتھاکہ وہ اس کے سامنے جھوٹ بول رہاہے۔اس کاجی چاہتاتھاکہ رضاکے گلے لگ کرروپڑے اوراسے ساری بات بتادے لیکن جب وہ بات کرنے کے لیے منہ کھولتاتوشہزادسامنے آکھڑی ہوتی۔مجھے بدنام نہ کرناایلی۔کھلونابناکرمجھ سے کھیلنانہیں۔اس وقت شہزادکی تمام تررنگینی اورشوخی غم وحسرت میں بدل جاتی اورایلی بات کہتے کہتے رک جاتا۔نہیں میں تمہیں بدنام نہیں کروں گا۔تم کھلونانہیں ہوشہزادتم تورانی ہوملکہ ہو۔تم سے بھلاکون کھیل سکتاہے۔لیکن اس کے باوجودایلی محسوس کررہاتھاکہ وہ مجرم ہے جواپنے عزیزدوست رضاکودھوکادے رہاہے۔

مہارانی یامہترانی

دیرتک وہ دونوں خاموشی سے مکی کی میٹھی روٹی کھاتے رہے پھردفعتاً ساتھ والے مکان سے شہزادکی حسین آوازیوں گونجی جیسے کوئی کوئل تان اڑارہی ہو۔اس آوازکوسن کرایلی چونک پڑااس کے جسم کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔
”ہاں وہی تو ہے“رضاہنسنے لگا۔”اس کی آوازسن کرتمہاری کیاحالت ہوجاتی ہے۔“
”کیاحالت ہوجاتی ہے؟“ایلی نے پوچھا۔
”اب میں تمہیں کیابتاؤں۔“وہ بولا”سنوسنوفضول باتیں نہ کرو۔“
شہزادکاقہقہہ پھرسنائی دیا۔اس کے ساتھ بھدی سی آوازمیں کوئی ہنس رہاتھا۔
”اس محلے کے جوہڑمیںیہ اکیلی ہی راج ہنس ہے۔چلتی ہے توجیسے پانی کی لہر اٹھ رہی ہوبولتی ہے توجیسے کوئل کوک رہی ہو۔بات کرتی ہے تومنہ سے پھول جھڑتے ہیں۔مگرایلی ”رضابولا“میرادل کہتاہے یاتویہ مہارانی ہے یا---یامہترانی۔“
”کیامطلب ؟“ایلی نے پوچھا۔
”بس یاتوبہت اونچی چیزہے یانیچ ہے بے حدنیچ۔یاتوواقعی پرستش کے لائق ہے ۔اوریا---“
”ہردوسرے چوتھے روزیہ اس گھرمیں آتی ہے جہاں اس وقت ہنس رہی ہے۔رضانے سلسلہ کلام جاری رکھااورغفوریاظفرکے ساتھ وہ مذاق کرتی ہے وہ قہقہے لگاتی ہے اورپھرباآوازبلند ذرانہیں جھجکتی ڈرتی نہیں۔یاتوبڑے صاف دل والی ہے اوریابڑی چالاک عورت ہے ۔اللہ کرے رانی ہی ثابت ہوورنہ تمہاری خیرنہیں۔“
”ہونہہ“شہزادکی آوازسنائی دی۔”ان کاکیاہے وہ توکبوترکی طرح آنکھیں موندکرحقے کی نے منہ میں دباکربیٹھ رہتے ہیں۔وہ کہاں آتے جاتے ہیں۔ان کایہاں چھٹی پرآنانہ آنابرابرہے“وہ قہقہہ مارکرہنسنے لگی۔
”سن لیا“رضابولا“وہ گدھ کہاں اس لائق تھاکہ اسے مورنی مل جائے۔ہے واقعی مورنی۔لیکن تم کیا۔تم مجھ سے جھوٹ توبولتے ہی نہیں۔“
رضاکے گھرسے نکل کروہ چپ چاپ فرحت کی طرف چلاآیا۔اس کاجی چاہتاتھاکہ گھر جاکرچارپائی پرلیٹ جائے۔رضاکی بات اس کے دل میں کانٹے کی چبھ گئی تھی۔اورشہزادکی باتوں اورقہقہے نے ان شبہات کوہوادی تھی شہزادکے رویے اوررضاکی باتوں کی وجہ سے ایلی کے دل میں شکوک پیداہورہے تھے۔
ایلی کوغفورسے خداواسطے کی نفرت تھی۔اسے انکے سارے خاندان سے نفرت تھی۔غفورکے چاربھائی تھے۔ان کاتمام کنبہ محلے والوں سے الگ تھلگ رہاکرتاتھا۔ان کی روایات ہی مختلف تھیں۔وہ محلے کی آصفیوں سے زیادہ تعلقات نہیں رکھتے تھے چونکہ ان کے والدباہر سے آکروہاں مقیم ہوئے تھے البتہ ان کی والدہ محلے ہی کی لڑکی تھی جورشتے میں ایلی کی دادی کی ہمیشرہ تھی۔
غفورایلی سے عمرمیں چارسال ایک سال بڑاتھا۔غفورکودیکھ کرایلی محسوس کرتاجیسے وہ محض گوشت کالوتھڑاہو۔اس کی شخصیت میں جسم کاعنصربے حدغالب تھا۔نگاہوں سے محسوس تھاجیسے وہ روح کی روشنی سے محروم ہو۔جب وہ کھجاتاتواس کی آنکھوں میں گرسناجھلک واضح دکھائی دیتی تھی اوروہ اکثرنامناسب مقامات پرکھجایاکرتاتھا۔
اس کے علاوہ اس کی نگاہیں تندی سے بھری ہوتی تھیں۔بات کرتاتواس میں جارحیت کاعنصرجھلکتاایلی کی غفورسے نفرت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ایلی میں کمتری کااحساس تھااورغفورکارویہ جھوٹی عظمت اورزعم کاحامل تھاتمام بھائیوں میں صرف غفورکی شخصیت میںیہ عنصرتھاباقی بھائی الگ رہنے کی باوجودشوکت نفس سے بھرے ہوئے نہیں تھے۔وہ سب خودغفورسے نالاں تھے۔اوربوڑھاباپ تواس کی وجہ سے سراسرزچ تھا۔
شہزادکاغفورسے ملناایلی کو قطعی طورپرناپسندتھالیکن شریف کی سگی ہمشیرہ غفورکے بھائی الطاف سے بیاہی ہوئی تھی لہٰذاشہزادکووہاں جانے سے روکناممکن نہ تھا۔
شہزادکودوسروں سے بے تکلفانہ بات کرتے ہوئے سن کرایلی محسوس کرتاتھاجیسے اس کی باتوں میں وہی دودھاری مفہوم ہوجس کااظہاروہ ایلی سے کیاکرتی تھی اوراس کے اشارات اورکنایات اسی رنگ میں رنگے ہوئے ہوں وہ محسوس کرتاتھاجیسے شہزادہرکسی سے وعدے کرتی ہے اوراپنے خصوصی اندازمیں اپنی محبت کایقین دلاتی ہے اس خیال پروہ ایک عجیب وحشت میں مبتلاہوجاتا۔اس کااپنااحساس کمتری شکوک کوہوادیتااورآتش رقابت میں جلتا۔

صحرانوردی

شہزادکی باتیں سننے کے بعداس کے لیے رضاکے پاس بیٹھے رہناناممکن ہوگیاتھااوروہ اٹھ کربھاگا۔اسے قطعی طورپرمعلوم نہ تھاکہ اسے کہاں جاناہے۔جانے کے لیے کوئی جگہ بھی تونہ تھی۔علی احمدکے گھرمیں ٹین کاسپاہی ربڑکی گڑیاسے کھیلنے میں مصروف تھاباہرشمیم آنسوبہارہی تھی۔ہاجرہ چپکے سے کونے میں کھڑی تھی جیسے اس گھرکے تمام افرادکی زرخریدغلام ہو۔سیدہ چپ چاپ جائے نمازپربیٹھی تھی۔وہ یاتونمازپڑھتی یاگھٹنوں میں سردے کرآلوچھیلنے میں مصروف رہتی۔بڑے سے بڑاہنگامہ بھی اس پرکوئی اثرنہ رکھتاتھاجیسے آندھی میں کوئی چھوٹاساپوداجھک کرزمین پرلیٹ جاتاہے چمٹ جاتاہے حتیٰ کہ آندھی کازورکم ہوجاتااوروہ پھرسیدھاکھڑاہوجاتاہے۔سیدہ کودیکھ کرایلی محسوس کیاکرتاتھاجیسے کسی بہت زوردارآندھی نے اسے ہمیشہ کے لیے ہموارکردیاہواوراب یہ چھوٹے چھوٹے ہنگامے اس کے لیے بے معنی ہوچکے ہوں۔
علی احمدکے گھرمیں وہی ایک چھوٹاساکمرہ تھاجوایلی کے لیے جاذب توجہ تھا۔وہ کمراجس میں دادی اماں رہاکرتی تھی۔دادی اماں کے بعدوہ کمرہ جوں کاتوں پڑاتھا۔اس میں کوئی تبدیلی واقع نہ ہوئی تھی۔تخت ویسے ہی کونے میں بچھاہواتھاجہاں وہ نمازپڑھاکرتی تھی اوراس کے پاس ہی وہ کھوکھاتھاجس میں وہ ایلی کاگیندیادوسری چیزیں سنبھال کررکھاکرتی تھی۔
چارپائیاں اسی طرح پائے ستون پرلگی ہوئی تھیں جن کے نیچے مٹی کے برتنوں کی قطاریں تھیں اورٹوٹے پھوٹے صندوق رکھے ہوئے تھے۔
ان چیزوں کودیکھ کرایلی کادل بھرآتاتھااس کمرے میں جاناایلی کے لیے تکلیف دہ تھاپھرفرحت کاگھرتھا۔وہاں فرحت کے علاوہ اجمل کے والدفیروزمقیم تھے۔نیچے فرحت اورہاجرہ رہتی تھیں اورچوبارے میں فیروزرہاکرتے تھے۔فیروزکووقت پرنہانے وقت چائے پینے کھاناکھانے اوروقت پرسیرکرنے کے علاوہ کوئی کام نہ تھا۔ان مقررہ کاموں کے علاوہ یاتووہ سارادن چارپائی پرپڑے رہتے اوریارمل اورنجوم کی جنتریوں کامطالعہ کیاکرتے ۔نیچے فرحت بیٹھی کپڑے دھونے یاسینے یاکھاناپکانامیں مصروف رہاکرتی تھی۔ایلی کے لیے وہاں بیٹھنابے مشکل تھا۔اول تووہ کمرے بے حداداس تھے۔دوسرے فرحت جوش محبت کی وجہ سے ہربات میں ایلی کی بھلائی اوربہتری کاتذکرہ کرنے کی عادی تھی۔اورایلی کی بھلائی اوربہتری کے متعلق فرحت کے خیالات سے ایلی کوقطعی طورپراتفاق نہ تھا۔فرحت ایلی کی لاتعلقی کومحسوس کرکے شہزادکاقصہ چھیڑدیتی تھی اورطنزمیں فرحت کاجواب نہ تھا۔
محلے میں وہ کسی کے ہاں جانے کی عادی نہ تھی۔اسے دوسرے کے گھرمیں جاتے ہوئے وحشت ہوتی تھی محلے والیاں اگرچہ بڑی محبت اورہمدردی سے اسے ملاکرتی تھیں۔لیکن ان کی ہمدردی میں ترس کاعنصرشامل ہوتاتھا۔اس کے علاوہ فطری طورپروہ لوگوں کی نگاہوں سے گریزکرتاتھا۔چاہے ان میں ہمدردی ہویاتحسین اس کے لیے باہرنکلنابھی مشکل تھاچونکہ آصفی محلے کے ڈیوڑھیوں میں عورتوں کاجمگھٹاضرورہوتاتھا۔چوگان میں بیٹھ کرعورتیں اپنے کام کاج کیاکرتی تھیں جیسے وہ گھرکاصحن ہو۔
عورتیں بالے کے مکان کی ڈیوڑھی میں بیٹھی رہتی تھیں یاتووہ اپنے اپنے کام میں منہمک ہوتیں اوریاخالی بیٹھ کرباتوں میں مصروف رہتیں۔محلے میں آزادبندبنناسب سے بڑامشغلہ تھا۔اورآزاربندبننے میں محلے کی عورتوں کی اس قدرمہارت ہوچکی تھی ان کی انگلیوں پرتاگے کھیلتے تھے۔نگاہیں آوارہ رہتی تھیںاورزبانیں یوں چلتی تھیں جسے قینچیاں ہوں۔اندرکسی اندھیرے کمرے میں بالاتخت پراپنی چیزیں رکھے بیٹھاآپ ہی آپ باتیں کرتارہتا۔
اس روزایلی نے سوچاچلوبالاکے ہاں جابیٹھوکچھ وقت گزرجائے گا۔جب وہ چوگان میں پہنچاتوشہزادکے چوبارے کی کھڑکی میں کسی نے اشارے سے اسے بلایا۔نہ جانے کون ہے‘ایلی نے سوچا۔شایدجانوہو۔پھراس نے شریف کی آوازپہنچان لی کھڑکی میں شریف کھڑااسے بلارہاتھا۔نہ جانے کیابات ہے وہ سوچنے لگا۔بہرصورت شریف سے انکارکرنے کی اس میں ہمت نہ تھی ۔
چوبارے میں شریف اکیلابیٹھاتھا۔”وہ تومحض اتفاق سے میری نگاہ پڑگئی۔“شریف نے کہا”ورنہ تم توشایدآتے ہی نہ۔کیابات ہے ایلی۔“شریف نے ملتجی نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا“تم ہم سے اس قدرگریزکیوں کرتے ہو۔میں نے تمہیں اس لیے بلایاہے کہ تنہائی میں شایدتم مجھے اپنی نیم کاقصہ سناسکوشہزادکے سامنے توہچکچاتے ہونا۔بتاؤکبھی ملی بھی ہے تم سے۔“
ایلی مسکرادیا۔
”ڈرونہیں ۔میں کسی سے نہیں کہوں گا“وہ بولا”گھبراؤنہیں۔“
ایلی کی سمجھ میں نہیں آتاتھاکہ کیاکہے”ملے نہ ملے“وہ بولا’‘مطلب توجذبے سے ہے نا۔“
”بالکل بالکل“شریف کاچہرہ مسرت سے جگمگااٹھااگرجذبے میں خلوص ہے توسمجھ لوبیڑاپارہے سچ کہتے ہوسچ کہتے ہو“شریف نے ٹھنڈی آہ بھری ”چاہے تباہ ہوجاؤ۔لیکن جذبہ میں خلوص اورشدت قائم رہے۔ایسی تباہی پرسینکڑوں آبادیاں قربان ہیں۔اچھااس کے عزیزوں کوعلم ہے کیا؟“
”معلوم نہیں۔“ایلی نے کہا”شایدعلم ہو۔لیکن کیسے معلوم ہوسکتاہے انہیں۔میں نے توکبھی کسی سے بات نہیں کی اوراباکوتوابھی اپنے چاؤسے فرصت نہیں۔“
شریف ہنسنے لگا۔
”اسے اپنے چاؤسے فرصت کیسے ملے“شہزادداخل ہوکربولی”سارامحلہ چھان مارامیں نے لیکن تمہاراپتہ نہ چلا۔پہلے بالے کے ہاں گئی پھرارجمندکے گھرگئی ادھرغفورکی طرف جاپہنچی وہاں نہ ملاتومیں نے کہاشایداپنے اباکے پاس بیٹھاہو۔آخراپنی نئی اماں کوبھی توسلام کرناتھا۔“
”دیکھ لے ہم نے بیٹھے بیٹھے تلاش کرلیا“شریف نے کہا”کچے دھاگے سے بندھاآیاہے۔چاہے پوچھ لے اس سے خودنہیں آیایہ۔“
شہزادنے آہ بھری”ہمیں یہ کچادھاگانصیب نہ ہوا۔ہم نے اپنی زندگی ویسے ہی کھودی۔ہمیں اللہ نے عشق نصیب ہی نہ کیا۔اپنے اپنے نصیب ہیں جس کے ساتھ ہماری سنجوگ ملے وہ پہلے ہی کسی اورکے ہوچکے تھے----“
”اچھا---“شریف بولااس کے اندازمیں احتجاج تھا۔
”غلط کہہ رہی ہوں کیا“شہزادچمک کربولی۔”میاں اپنی دھن مین بیٹھے رہتے ہیں ایلی اپنی دھن میں آوارہ رہتاہے۔ایک میں ہوں جوبغیرکسی دھن کے کوے کی طرح یہاں سے اڑایاوہاں جابیٹھی ۔“
”اب پنچھیوں کوبھی کوے---بننے کاشوق چرایا“ایلی بولا۔
”پنچھی ۔“شہزادنے غصے سے ایلی کی طرف دیکھا”کبھی تھے ہی پنچھی۔“
”کیاکہہ رےہ ہوتم۔تمہاری باتیں میری سمجھ میں نہیں آتیں“شریف بولا۔
”نہ ہی آئیں توبہترہے۔“شہزادہنسنے لگی۔”محسوسات کی دنیامیں رہنے والوں کوسمجھنے کی کیاضرورت۔“
”اچھابھئی تم جوکہتی ہوتوٹھیک ہوگا۔“شریف آہ بھرکربولا۔اورپھرخاموش ہوگیا۔

کروٹیں اورقہقہے

رات کے وقت جب ایلی چارپائی پرلیٹاتواس کے دل میں متضادقسم کے احساسات تھے۔شہزاداورشریف کے پاس بیٹھے ہوئے اسے شریف پرترس آتاتھا۔اس وقت شریف کی حیثیت ہیچ ہوکررہ جاتی تھی۔اورشہزادکی باتیں اوراس کے اشارات ایلی کے دل میں پختہ یقین پیداکردیتے تھے کہ وہ اس سے کھیل نہیں رہی بلکہ اس کی لگن میں بری طرح سے سرشارہے۔لیکن جونہی وہ اکیلے میں لیٹتاتوشہزادکی باتیں دھندلی پڑتی جاتیں اورارجمنداوررضاکی آوازیں بلندہوتیں۔میں بتاؤں ایلی یاتووہ مہارانی ہے اوریامہترانی۔مہترانی مہترانی۔دورکوئی چلاتاپھرغفورکی بھدی آوازابھرتی اورشہزادچیخ کر کہتی ان کاکیاہے ان کایہاں چھٹی پرآنایانہ آنابرابرہے۔کیافرق پڑتاہے۔کھلاڑی!محلے کی مسجدکے گنبدسے کوئی الوچیختاکھلاڑی دورکوئی چمگادڑاس کامنہ چڑاتی۔
پھرایک رنگین اورشوخ کھلاڑی اس کے روبروآکرکھڑی ہوجاتی اوروہ شریف کواشارے کرتی۔اپنی طرف بلاتی۔اوراس کاجسم ابھرتاسمٹتاجیسے شدیدخواہش اسے بلوارہی ہو۔پھراس کے کپڑے دھجیاں بن کراڑجاتے اوروہ برہنہ رہ جاتی۔اس وقت ایلی محسوس کرتاجیسے وہ ڈائن ہو۔اس خیال پراس پردیوانگی طاری ہوجاتی۔اس کے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے ایک کرب اٹھتااورجسم کے روئیں روئیں کویوں دھنکتاجیسے روئی کاگالاہو۔وہ دیوانہ وارچارپائی پرکروٹیں بدلتا۔
ساری رات وہ چارپائی پرتڑپتارہتاحتیٰ کہ صبح کاذب کاوقت ہوجاتااورپھرتھک کراس کی آنکھ لگ جاتی۔پھربھی سونے کونیندسے تعلق نہ ہوتا۔جیسے کوئی مریض کسی خوف ناک تکلیف کے تحت کچھ عرصے کے لیے تھک ہارکربے جان ہوکرپڑجاتاہے۔
اسی لیے صبح جب وہ جاگتاتووہ تازگی محسوس نہ ہوتی۔جونیندکے بعدانسان محسوس کرتاہے۔بندبنددردکی اینٹھن کی وجہ سے اعصاب دکھتے۔اورچہرے پرپژمردگی چھائی ہوتی۔ابھی وہ رات کی واردات کی تعلق سوچ رہاہوتاکہ سیڑھیوں میں کسی کے پاؤں کے رقص کی آوازگونجتی اورچھن سے شہزاداس کے روبروآکھڑی ہوتی۔
”چل اٹھ وہ چائے کے لیے کب سے تیراانتظارکررہے ہیں۔ابھی لاٹ صاحب جاگے بھی نہیں۔کیازندگی ہے جیسے کوئی نواب زادہ ہو۔“وہ ہنستی۔
شہزادکی باتیں سن کراس کی تمام ترتھکن فروہوجاتی۔اس کے ہربات محبت کاپیغام ہوتی اوریہ پیغامات ایسی شوخی اوررنگینی سے ایلی کی تک پہنچائے جاتے کہ اس پرنشے کی سی کیفیت طاری ہوجاتی اوررات کے شکوک اوربے خوابی گویااسے یادہی نہ رہتے۔اگرکسی وقت اسے رات کے کرب کاخیال آتابھی توہنس دیتا۔میں بھی کیساپاگل ہوں وہ سوچتاجوخوامخواہ کے شکوک پال لیتاہوں۔
لیکن اس کے باوجودپھرجب رات پڑتی تودن کے وہ لطیف اوررنگین پیغامات اس کے ذہن سے مٹ جاتے اوراس کی آنکھوں کے سامنے وہی بھیانک تصاویرمتحرک ہوجاتیں اوروہ شدت کرب سے تڑپتااورکروٹیں لیتا۔تڑپتااورکروٹیں لیتاحتیٰ کہ صبح کاذب کے وقت تھک کربے ہوش ہوجاتا۔
اس طرح اس کی زندگی دوزخی حیثیت اختیارکرگئی اس کے ساتھ ہی شہزادکی شخصیت اس کے نزدیک رادھااورراہودونوں کی خصوصیات سے مزین ہوگئی ۔وہ بیک وقت اسے پاکیزہ ترین معصوم محبوبہ اورچالبازکھلاڑی دکھائی دیتی تھی۔ایک ساعت میں ایلی اسے خلوس بھرے سجدے کرتاتھا۔دوسری ساعت میں ناگن سمجھ کراس سے دوربھاگنے کی کوشش کرتا۔
یہ کیفیت ایک دیوانگی کی حیثیت اختیارکرکئی حتیٰ کہ اس کے لیے جاننامشکل ہوگیاکہ آیاوہ اس حسین اورپاکیزہ دیوی کی وجہ سے وہاں سیس نوانے پرمجبورتھایااس دلکش ناگن سے ڈسے جانے کے شوق نے اسے وہاں رہنے پرمجبورکررکھاتھا۔یہ بھی ممکن ہے کہ اس کرب کی شدیدلذت جووہ رات کے وقت محسوس کیاکرتاتھااسے شہزادسے محبت کرنے پرمجبورکررہی ہواورایذاپرستی کاجنون اس کے سرپرسوارہو۔
بہرحال یہ توایک مسلم امرہے کہ اگرشہزادصرف حسین وجمیل عورت ہوتی توشایدایلی کے دل میں اس کے لیے اس قدرعظیم جذبہ پیدانہ ہوتااورہوتابھی تواسے اس قدردوام حاصل نہ ہوتا۔

جرگہ

کچھ دن کے بعدایلی کانتیجہ نکل آیاوہ ایف ۔اے میں پاس ہوگیا۔علی احمدنے اس تھرڈائیرمیں داخل کرانے کے لیے لاہوربھیجنے کافیصلہ کردیا۔ساتھ ہی انہوں نے ایلی کوبہت لمباچوڑالکچردیا۔
ایلی ان کی باتیں بڑے غورسے سنتارہاجب وہ سب داؤاورگربتاچکے توایلی نے کہا”دیکھئے اباجان آپ کے فرمان بالکل درست ہیں لیکن آپ مجھے اسلامیہ کالج میں داخل نہ کرائیں چونکہ وہاں کاماحول ایساہے کہ وہاں میں اطمینان سے نہیں رہ سکتا۔اگرآپ واقعی چاہتے ہیں کہ ان بے ضابطگیوں کااعادہ نہ ہوجوپہلے سرزدہوئی ہیں تومہربانی سے مجھے گورنمنٹ یامشن کالج میں داخل کرادیجئے۔“
”ہاں ہاں“وہ بولے”ہمیں اس میں کیااعتراض ہوسکتاہے۔ہمارامقصدتوصرف یہ ہے کہ تمہاری تعلیم مکمل ہوجائے۔“
اس کے بعدانہوں نے مختلف لڑکوں کوادھرادھربھیجاتاکہ وہ تینوں کالجوں کی پراسپکٹس لے آئیں۔پراسپکٹس مہیاکرنے کے بعدوہ اپنے بڑے بڑے رجسٹرلے کرچٹائی پربیٹھ گئے اورسارادن مختلف کالجوں کی فیس اوردیگراخراجات جوڑتے رہے انہوں نے رقمیں باربارلکھیں باربارانہیں جمع کیاایک میزان کودوسرے میزانوں سے ملایا۔اورکئی گھنٹوں کے بعداطمینان سے سراٹھاکربولے”ٹھیک توہے تم کل ہی لاہورروانہ ہوجاؤاورجاکراسلامیہ کالج میں داخل ہوجاؤ۔“
”لیکن آپ نے توکہاتھا“ایلی بولا”کہ آپ مجھے کسی اورکالج میں داخل کریں گے۔“
”یہ کیسے ہوسکتاہے۔یہ کیسے ممکن ہے۔“وہ ننگے پیٹ کوکھجاتے ہوئے بولے”سیدہ اورسیدہ۔ذراادھرآنا۔آناذراایک منٹ کے لیے“اورجب سیدہ آئی توکہنے لگے”بھلابتاؤتوکیایہ ممکن ہوسکتاہے کہ ہم ایلی کومشن کالج میں داخل کرائیں۔جب اپنااسلامی کالج موجودہوتوعیسائیوں کے کالج میں کیسے داخل کرائیں کیوں سیدہ ایمان سے کہنا۔“
”ہے“سیدہ ہاتھ ملتے ہوئے بولی”اس عیسائی کالج میں جہاں اپنے محسن کالڑکاپرویزایساگیاکہ پھرلو ٹ کرنہ آیا۔بس عیسائی ہوگیااورنتیجہ کیاہواماں نے اسی غم میں جان دے دی اورباپ کاجوحال ہورہاہے وہ کس سے چھپاہے۔“
”دیکھوسیدہ“وہ بڑی سنجیدگی سے بولے”مجھے کوئی فرق نہیں پڑتاچاہے گورنمنٹ کے کالج میں داخل ہوجائے یاعیسائیوں کے کالج میں دس ایک روپے کافرق پڑجائے توکیاہوا۔مطلب تویہ ہے کہ تعلیم اچھی ہوجائے لڑکے کی۔بس صرف یہ خیال آتاہے کہ اگراپنااسلامی کالج موجودہے توپھرکیاہمیں ایلی کوعیسائیوں کے کالج میں داخل کراناچاہیے یانہیں۔اس کافیصلہ تم پررہا۔جوتم کہووہی کروں گامیں ذراشمیم کوبلالوں نااس کی مرضی بھی پوچھ لیں۔اورہاں ہاجرہ کہاں ہے اس کاموجودہونابھی ضروری ہے۔کیوںسیدہ۔“
سیدہ شمیم کوبلانے گئی تووہ اٹھ کرجنگلے میں جاکھڑے ہوئے اورچلاچلاکرمحلے والیوں کوبلانے لگے۔”میں نے کہامائی برکتے ذراآناتوایک منٹ کے لیے اے بی بی نتھوتوکیاکررہی ہے۔ہروقت آزاربندہی بنتی رہتی ہے کبھی اللہ اوررسول کاکام بھی کرلیاکر۔آذرایہاں تیرامشورہ لیناہے ۔بہت ضروری بات ہے۔“
علی احمدنے شورمچاکرمحلے والیوں کواکٹھاکرلیااورپھراس جرگے کے سامنے ایلی کے داخلے کامقدمہ نہایت خوب صورتی سے پیش کردیا۔محلے والیاں یک زبان ہوکرعلی احمدکی رائے پرعش عش کررہی تھیں۔اوروہ باربارچلارہے تھے“دیکھ ماں برکتے میراکیاہے مجھے تولڑکے کوداخل ہی کرناہے نایہاں نہ کیاوہاں کردیا۔کیافرق پڑتاہے اول تواخراجات میں کمی زیادتی ہوتی نہیں اوراگرہوبھی توبی بی نتھوتوکیاہے اپنے بیٹے سے بڑھ کرکون ہوتاہے۔انہیں کے لیے محت مزدوری کرتے ہیں ہم اورپھرجہاں سووہاں سواسو۔کیافرق پڑتاہے۔اب سوچ لوتم ایک توعیسائیوں کاکالج ہے جہاں عیسیٰ مسیح کی بائبل پڑھتے ہیں اوردوسرااپنااسلامی کالج جہاں اللہ اوررسول کے احکامات اوراسلام کے ارکان کی تعلیم دیتے ہیں۔اب تم ہی فیصلہ کرلوہاں۔“
ججوں کے فیصلے کے بعدعلی احمدنے ایک بارپھررجسٹرمیں اندراج شدہ رقوم کے میزان دیکھے۔ایک بارپھررقمیں جمع کیں اورپھریوں فاتحانہ اندازسے مسکرانے لگے جیسے کوئی سوداگربہت بڑے منافع کاسودانپٹاکرگردوپیش پرنگاہ ڈال رہاہو۔
اگلے روزسیڑھیو ں میں دھماچوکڑی کی آوازکے بغیرچھن چھنانن کیے بغیرشہزادچپکے سے داخل ہوئی۔”توجارہاہے“وہ بولی”سناہے کالج میں داخل ہونے کے لیے جارہاہے۔“
”ہاں“ایلی نے کہا۔”تمہارے لیے کیافرق پڑتاہے۔“
”پڑتاہے۔“وہ بولی”صرف ساٹھ میل کافرق ہے۔چارگھنٹے کافرق سمجھ لو۔“
”اچھا۔“وہ ہنسا۔”میں توسمجھاتھاکہ----“
”یہ سمجھ کی بات نہیں ہاں“وہ بولی”یہ احساس کی بات ہے۔چلووہ چائے پربلارہے ہیں۔“
ایلی بگڑگیا”میں نہیں جاتا۔وہ بلانے والے کون ہیں۔“
”بلانے والے کاخیال نہ کرو۔بلاوی کاخیال کرو۔میری طرف دیکھو۔“وہ بولی۔
”نہ میں نہیں دیکھتا۔“وہ منہ پھیرکربولا۔
”دیکھے بغیررہ بھی سکوگے۔“وہ ہنسی۔
فرحت چپکے سے داخل ہوکرجھٹ سے بولی”کون کسے دیکھے بغیرنہیں رہ سکے گا۔“
”میں دیکھے بغیرنہیں رہ سکتی۔“شہزادہنستے ہوئے کہنے لگی۔
”کسے دیکھے بغیر“اس نے پوچھا۔
”تمہیں اورکسے“شہزادہنسے چلی گئی۔
”مجھے؟“
اورکیاایلی کودیکھے بغیرنہیں رہ سکتی۔اس ایلی کے۔ذراپنے بھائی کی صورت تودیکھ نہ جانے بھائیوں کے متعلق بہنیں غلط فہمیاں کیوں پال رکھتی ہیں۔“
”چلوبھی نااب کہ مجھے فرحت سے پٹواکررہو گے“وہ ایلی سے مخاطب ہوکربولی”چلوبھی نا“اورایلی چپکے سے اٹھ کراس کے ساتھ ہولیا۔
ایلی کاخیال تھاکہ شریف کے رخصت ہوجانے کے بعدوہ لاہورجائے گاتاکہ ایک روزشہزادسے اکیلے میں مل سکے مگرشریف نے چپکے سے اپنی چھٹی بڑھالی تھی اس لیے کہ یہ آرزوپوری نہ ہوسکی۔ادھرعلی احمدتقاضاکررہے تھے کہ جلدجائے لہٰذااسے اپنے مرضی کے خلاف لاہورجاناہی پڑا۔جاتے وقت اس نے ان بہے آنسوؤں سے شہزادکی طرف دیکھااورہونٹ ہلائے بغیراشاروں کی مدد سے شہزادسے اظہاردرددل کیااوررخصت ہوگیا۔
٭٭٭