ایلی:
اس کا نام الیاس تھا-لیکن گھر میں سبھی اسے ایلی کہا کرتے تھے-“ایلی-------“ اس کے ابا آواز دیتے- ابا کی آواز سن کر اس کا دل دھک سے رہ جاتا-“ایلی-حقہ بھر دو“ وہ چپ چاپ اٹھ بیٹھتا -ابا کے کمرے کا دروازہ بند دیکھ کرایک ساعت کے لیے ہچکچاتا محسوس کرتا کہ اس بند کمرے میں داخل ہونا ٹھیک نہیں-دبی آواز میں کھانسنے کی کوشش کرتا تاکہ کمرے میں موجود لوگ اس کی آمد سے مطلع ہو جا ئیں-لیکن اس کی آواز حلق میں سوکھ جاتی-پھر وہ بڑی کوشش سے چلاتا “ابا جی“ اور جراءت کرکے دروازہ کھولتا لیکن دروازہ کھولنے سے پہلے اپنی نگاہیں جھکا لیتا اور ایسا انداز اختیار کرلیتا- جس سے ظاہر ہو کی حقہ کے علاوہ اسے کمرے کی کسی چیز سے دلچسپی نہیں-کمرے میں ابا کو اکیلے دیکھ کر اس کے دل سے بوجھ اتر جاتا اور وہ بے فکری سے حقہ کی طرف بڑہتا۔اس کے ابا عام طور پر چٹائی پر بیٹھے ڈیسک پر رکھے ہوئے رجسٹر میں لکھنے میں مصروف رہتے تھے-وہ قمیض اتار کر بیٹھا کرتے تھے-ان کی دھوتی میلی ہونے کے علاوہ پھٹی ہوئی تھی اور اس کے پلوؤں کو ادھر ادھر سرکے رہنے کی بری عادت تھی-جو ایلی پر بے حد گراں گزرتی-“ہوں---کیاہے“- ابا گھور کراس کی طرف یوں دیکھتے جیسے وہ خواہ مخواہ کمرے میں آ گھسا ہو-“جی-جی --- چلم“-ایلی ان کی دھوتی کی طرف نہ دیکھنے کی شدید کوشش کرتے ہوئے جواب دیتا اور پھر چلم اٹھا کر دروازے کی طرف بھاگتا-“ ایلی-----“اس کی سوتیلی ماں صفیہ اسے آواز دیتی -“بازار سے سودا لا دے ایلی“-صفیہ کی آواز سن کر اس کے دل میں غصے کی لہر اٹھتی لیکن اس کے باوجود وہ چلاتا “آیا جی--“-ابا کا ڈیسک خالی دیکھ کر اس کا انداز دفعتاً “بدل جاتا“- “جی“--اس کی آواز میں لجاجت نہ رہتی لیکن اس کے با وجود اس کی نگاہ جھکی جھکی رہتی-“یہ لو پیسے--“ صفیہ کے دو حنا مالیدہ ھاتھ اس کی طرف بڑھتے-جن میں زرد میلی انگوٹھیاں ان کا منہ چڑاتیں اور پھر انگلیوں سے نکل کر وہ گھومتے ہوئے میلے چکر ایلی کی طرف یورش کرتے-وہ ڈر کر گھبرا کر پیچھے ہٹ جاتا-اس کی طبیعت مالش کرنے لگتی نہ جانے کیوں اسے مہندی لگے ہاتھوں اور انگوٹھی سے سخت نفرت تھی- کھولتی ہوئی نفرت وہ اپنی نگاہیں ان ہاتھوں سے ہٹانے کی کوشش کرتا-لیکن سارا کمرہ مہندی والے ہاتھوں سے بھر جاتا اور وہ انگوٹھیاں تمام جگہ پرچھا جاتیں-مہندی کی بو چاروں طرف سے اسے گھیر لیتی-چاروں طرف غلاظت کے ڈھیر اور ان کے درمیان صفیہ کا سرخ و سپید باوقار چہرہ!ایلی کو اس منظر سے بے حد نفرت تھی نہ جانے اس کے دل کی گہرائیوں میں طوفان سا کیوں آجا تا تھا-خوفناک طوفان----ڈر کر وہ صفیہ سے پرے ہٹتا لیکن صفیہ اس کے قریب تر ہو جاتی-“اب لو بھی--“ صفیہ زبردستی چند پیسے اس کے ہاتھ میں تھما دیتی -مہندی کی بو سے رچے ہوئے پیسے ایلی کے ہاتھ کو کاٹتے-ہتھیلی میں جلتی انگوٹھیوں سے بچنے کے لیے وہ نگاہ اوپر اٹھاتا-----صفیہ کا اتنا بڑا گورا چٹا چہرہ دیکھ کر وہ پھر نگاہیں جھکا لینے پر مجبور ہو جاتا-پھر اس کی نگاہیں صفیہ کی ململ کی قمیص پر پھسل آتیں شرم سے اس کی پیشانی پر پسینے کے قطرے ابھر آتے-“توبہ ہے-توبہ ہے“---اس کا دل دھک دھک کرنے لگتا-“ایک سیر آلو اور دو پیسے کی پیاز “۔۔وہ با آواز بلند دہراتا-جیسے وہ مشکل کشائی کا اسم اعظم ہو۔۔۔۔۔جس کا ورد کرنے سے وہ اس طوفان سے مخلصی پا سکتا ہو-اس غلاظت سے خود کو محفوظ کر سکتا ہو-پھر وہ بھاگ لیتا۔۔“ایک سیر آلو---دو پیسے کی پیاز --ایک سیر آلو دو پیسے کی پیاز“--آلو ابھرتے پیاز کے چھلکے کھل جاتے اور ململ کی شکل اختیار کر لیتے-“ایلی“-- اس کی اپنی ماں ہاجرہ اسے آواز دیتی-“ڈونگے میں پانی لا دے“وہ باورچی خانے میں داخل ہوتا-ہاجرہ برتن مانجھنے آٹا گوندھنے یا آلو چھیلنے میں مصروف ہوتی-“اماں“وہ ماں کے قریب تر ہو جاتا-“تم ہر وقت ان کا کام کیوں کرتی ہو۔۔“؟“گھر کا کام جو ہوا- گھر کا کام کرنا ہی پڑتا ہے نا“-“گھر تو ان کا ہے اماں- پھر تم کیوں کام کرتی ہو؟“نہ بیٹا ایسی باتیں ایسی باتیں نہیں کرتے-“اماں مجھے بھوک لگی ہے“-“کام ختم کر کے اپنا چولہا جاؤن گی نا““اتنی رات تو ہو چکی ہے“-“بس ابھی ختم ہو جائے گا کام ““اماں ہمارا چولہا الگ کیوں ہے“-“اپنا چولہا الگ ہی ہونا چاہیئے بیٹا-““تو پھر تم دوسروں کا چولہا کیوں جلاتی ہو؟“-“فضول باتیں نہ کر“ ماں چڑ جاتی-“جا آرام سے بیٹھ فرحت کے پاس ابھی آتی ہوں میں“-ایلی کو فرحت سے چڑ تھی-وہ مگن بیٹھی رہتی تھی-جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو-وہ اس گھر کے ماحول سے قطعی بے پروا معلوم ہوتی تھی-اس کے لیے کوئی بات انوکھی نہ تھی-دو دو چولہے دو گھروں کا کام کرنے والی ماں-وہ خونیں ہاتھوں والی صفیہ-اس کی ابھری ہوئی قمیص-سرکی ہوئی ابا کی دھوتی-اور ان کا وہ بند کمرا-فرحت اس گھر میں یوں گھومتی پھرتی تھی جیسے کوئی بات ہی نہ ہو-جیسے وہ گھر اور اس کے افراد اس کی اپنی دنیا سے کوئی تعلق ہی نہ رکھتے ہوں-ابا کے بند کمرے سے عجیب و غریب آوازیں سنائی دیتیں تو وہ چپ چاپ یوں اپنے کام میں مصروف رہتی جیسے بہری ہو-گھر میں فرحت کی طرف کوئی متوجہ نہ ہوتا تھا نہ ابا اسے بلاتے اور نہ صفیہ پوچھتی-البتہ اماں جب بھی فارغ ہوتیں فرحت کے شانے سے شانہ جوڑ کر بیٹھ رہتی-دونوں باتیں بھی نہیں کیا کرتیں تھیں چپ چاپ بیٹھ رہتیں یوں جیسے بن بولے باتیں کر رہی ہوں-اس پر ایلی کو اور بھی غصہ آتا-اس قدر قریب کیوں بیٹھتی ہیں بات کیے بغیر ایک دوسرے کے ساتھ یوں چپکی رہتی ہیں جیسے گوند سے جوڑ رکھا ہو-اماں کے قرب کی وجہ سے وہ فرحت سے جلتا تھا-اور اپنے آپ کو فرحت سے بہتر سمجھتا تھا-فرحت کی اس گھر میں حیثیت ہی کیا تھی نہ توابا نے اسے کبھی بلایا تھا نہ اسے چلم بھرنے کے لیے کہا تھا-ایلی کو تو وہ اکثر بلاتے تھے-وہ جب کھانا کھانے لگتے تو ایلی کو آواز دیتے “ایلی“--اور جب ایلی جاتا تو دو انگلیوں سے بوٹی اٹھا کر اس کی طرف بڑھا دیتے- “ایلی بوٹی----“اور ایلی اسے ہاتھ میں اٹھائے یوں کمرے میں داخل ہوتا جیسے کوئی تمغہ ہو-وہ فخریہ انداز میں فرحت کی طرف دیکھتا-لیکن فرحت یوں ناک چڑھا کر منہ پھیر لیتی جیسے ایلی کے ہاتھ میں گوشت کی بوٹی نہیں بلکہ مرا ہوا چوہا ہو-ہونہہ ایلی غصے سے پھنکارتا-“بڑی آئی ہے جیسے بوٹیاں کھا کھا کر اکتا چکی ہو-“پھر جب صفیہ پھلوں کی ٹوکری نکال کرانہیں چھانٹتی اور گلے سڑے پھل الگ کرتی تو ابا ایلی کو آواز دیتے اور جب وہ ان میں سے کم گلا سڑا کیلا یا سیب ایلی کی طرف بڑھاتے تو صفیہ بول اٹھتی-“ لو یہ تو ابھی اچھا بھلا ہے “ یہ کہہ کر وہ عجیب سی مسکراہٹ‘ مسکراتی اس مسکراہٹ سے سارا کمرا بھر جاتا اور ایلی خود محسوس کرتا جیسے واقعی وہ پھل ابھی اچھا بھلا ہو- اور اس قابل نہ ہو کہ کسی کو دیا جائے- علی احمد حیرت سے صفیہ کی طرف دیکھتے اور پھر کھسیانی ہنسی ہنس کر دوسرے گلے سڑے پھلوں سے چناؤ کرنے میں مصروف ہو جاتے-اگر کبھی ابا کوئی پھل فرحت کو دیتے تو وہ یوں اے ایک طرف رکھ دیتی جیسے وہ کھانے کی چیز ہی نہ ہو-بڑا بنتی تھی فرحت اور اماں اس کی ان حرکتوں پر خفا ہونے کے بجائے فخر اور مسرت سے اس کی طرف دیکھ دیکھ کر مسکراتی- اماں کی اس مسکراہٹ پر ایلی محسوس کرتا کہ جیسے فرحت اور اماں نے چوری چوری آپس میں سمجھوتا کر رکھا ہو-اسے غصہ آتا کہ اماں اس سے سمجھوتہ کیوں نہ کرتی تھی-اول تو ایلی اپنے حصے کا پھل رکھ دینے کے قائل ہی نہ تھا اور کبھی رکھ دیتا تو اماں پنجے جھاڑ کر اس کے پیچھے پڑ جاتی-“ اے اب کھا بھی لے ایسے پڑا رہے گا تو خراب ہو جائے گا- “ اماں یہ بات فرحت سے کیوں نہ کہتی وہ سوچتا- وہ ہم سے ایک سا برتاؤ کیوں نہیں کرتی-فرحت کی بات چھوڑیئے خود صفیہ سے اماں کا برتاؤ عجیب سا تھا- صفیہ گردن اٹھا کر اماں کے سر پر آ کھڑی ہوتی-“ ہاجرہ یہ کرو وہ کرو اور یہ تو تم نے ابھی تک کیا ہی نہیں اور وہ کام جہ میں نے کل تمہیں دیا تھا وہ- “ صفیہ کی باتیں سنتے ہوئے اماں کی عجیب حالت ہوتی- اس کی نگاہیں صفیہ کے چہرے پر لگی ہوتیں- جسم میں گویا جان نہ ہوتی- نس نس حاضر ہوتی - ایلی کو تو شک پڑتا تھا کی اماں اس پر قربان ہوئی جا رہی ہے-اور اس کے منہ سے نکلے ہوئے ہر لفظ کو یوں اٹھاتی جیسے قرآن شریف کا ورق ہو-آصفی محلے والیاں سب یک زبان ہو کر کہا کرتی تھیں- الٹا وہ تو سرخ و سفید تھا-نہ صفیہ سوکن تھی نہ اماں مظلوم- اس الجھن کو بھولنے کے لیے ایلی نیچے محلے کے احاطے میں اتر جاتا-اس کا اپنا گھر ایک معمہ تھا- وہ مہندی لگے ململ کے ابھاروں والی صفیہ- سوکن کو محبت بھری نظروں سے دیکھنے والی ہاجرہ- سنتی بہری اور بولتی گونگی فرحت اور بند کمرے میں بیٹھنے کے شوقین ابا-آصفی محلے کی چوکان میں پہنچ کر وہ اپنے گھر کو بھول جاتا- حتٰی کہ چوکان میں کھیلتے ہوئے اسے ابا کی آواز سنائی دیتی - ایلی-------ایلی-----ابا کا حقہ بھرنے کے بعد وہ ان کاموں سے بچنے کے لیے احاطہ چھوڑ کر علی پور کے بازاروں یا کھیتوں میں چلا جاتا اور کھیل کھیل کر تھک جاتا تو کسی درخت تلے بیٹھ کر سوچنے لگتا- ان کا گھر ایسا کیوں ہے- ابا ایسے کیوں ہیں- صفیہ کون ہے- کہاں سے آئی ہے-
علی پور:
علی پور چھوٹا اور بے حد پرانا قصبہ تھا-اس کی وضع قطع وہاں رہنے والوں کی نفسیات کی آئینہ دار تھی- قصبہ کے ارد گرد چاروں طرف نانک چندی اینٹوں کی فصیل بنی ہوئی تھی-جو اب جگہ جگہ سے گری جا رہی تھی- جس میں جگہ جگہ بڑے بڑے شگاف پڑ چکے تھے- فصیل میں آٹھ دروازے اور دو موریاں تھیں- اس چار دیواری کے باہر گول سڑک بنی ہوئی تھی- جو قصبہ کے گرد گھومتی تھی- جس کے پرے سر سبز کھیتوں میں یہاں وہاں قدیم باغات کے شکستہ مگر واضح آثار پھیلے ہوئے تھے- کچی پگڈنڈیاں قرب و جوار کے گاؤں کی طرف نکل گئی تھیں- جہاں سے علی پور کا شہر یوں دکھائی دیتا تھا جیسے قدیم عمارتوں کاایک ڈھیر ہو-شہر کے اندر نانک چندی اینٹوں کی بنی ہوئی سڑکیں ،گلیاں اور عمارتیں تھیں- بازاروں میں تنگ سڑکوں کے ارد گرد دکانوں میں تھیلیاں لٹکی تھیں- مٹی کی ہنڈیاں نیچے اوپر رکھی تھی- حکیم کی دکان میں سیاہ رنگ کی بوتلوں پر زنگ آلود ٹین کے ڈھکنے چڑھے تھے- جن پر مکھیاں بھنبھناتیں- بازاروں سے تنگ گلیاں گھومتی ہوئی نکل جاتیں- جن کے دونوں طرف چھوٹی اینٹوں کی دیواریں ایستادہ تھیں- ان بوسیدہ دیواروں میں کہیں کہیں اکا دکا کھڑکی کھلتی- تنگ و تاریک کھڑکی- ان اونچے ترچھے نانک چندی مکانات کو دیکھ کر دل پر ایک بوجھ سا پڑ جاتا- دیواروں پر بد رنگ نانک چندی اینٹوں کو دیکھ کر سر میں درد ہونے لگتا- طبیعت پر ان جانی اداسی چھا جاتی- یہاں وہاں اندھیری ڈیوڑھیوں سے ویرانی جھانکتی- منڈیروں اور چھتوں پر سائے حرکت کرتے- جیسے بھوت پریت چل پھر رہے ہوں- گلیاں گھومتے گھومتے دفعتًا آگے سے بند ہو جاتیں یا گلی کے اختتام پر محلے کا احاطہ شروع ہو جاتا- جہاں بچے فرش پر رینگتے- عورتیں چرخہ کاتنے یا ازار بند بننے میں مصروف نظر آتیں-یا کھڑکیوں سے سر نکال کر ایک دوسرے سے لڑتیں ہاتھ چلا چلا کر کوسنے دیتیں- قدیم شہروں کی طرھ علی پور بھی ایک ٹیلے پر آباد تھا- جس کے عین وسط میں ٹیلے کی چوٹی تھی- جس پو ایک مسمار شدہ قلعے کے آثار تھے- جو شاید کسی زمانے میں شہر کی حفاظت کے لیے بنایا گیا تھا- اس اونچے مقام کو ٹبہ کہتے تھے- ٹبے کے پاس ہی قصبہ کی عالیشان جامع مسجد تھی- جس کے قریب بڑا بازار تھا- جس میں کپڑے اور منیاری کی دکانیں تھیں- بڑے بازار کے چاروں طرف گہری تاریک گلیوں کا جال بچھا ہوا تھا- اور ان سے پرے شہر کی فصیل اور دروازے اور اس سے پرے گول سر سبز کھیت اور پرانے باغات کے مسمار شدہ آثار-علی پور کے بازاروں میں لوگ دکانوں میں بیٹھ کر حقہ پیا کرتے- دنیاوی اور مذھبی مسائل پر تبادلئہ خیال کرتے- کوئی اس اہم بات پر روشنی ڈالتا کہ شیخ عظمت کے گھر اولاد کیوں نہیں ہوتی- کوئی یہ نقظہ سمجھاتا کہ آصف علی کی بیگم دراصل کس خاندان سے ہے- کوئی اس امر کی وضاحت کرتا کہ نورے حجام کے پاس کونسا بے نظیر نسخہ ہے- ایک یہ راز فاش کرتا کہ بابو سمیع کے لڑکے اعظم بیگ کی بیوی کی آنکھیں اتنی متکلم کیوں ہیں-نتھو تمباکو کی دکان پر چوپٹ کا کھیل چلتا- بہلے حکیم کی دکان پر شریعت کے متعلقہ مسائل پر گرما گرم بحث ہوتی- معراج لنگڑے کی دکان پر ترپ کی بازی کھیلی جاتی اور چاند حلوائی کے تخت پوش پر آنے والے سیاسی دور کا تذکرہ رہتا-ہر دوکان پر ایک نہ ایک خصوصی قسم کا مجمع لگا رہتا- یہ لوگ ہر آنے جانے والے کو غور سے دیکھتے- کہاں سے آیا ہے کہاں جا رہا ہے- کیوں آیا ہے کس لیے جا رہا ہے اور اس کے گزر جانے کے بعد دیر تک ان تفاصیل پر اپنی رائے کا اظہار کرتے رہتے- اجنبی کی آمد پر پہلے تو ان کی نگاہیں اس پر مرکوز ہو جاتیں - اور اس کا احاطہ کر لیتیں پھر اس کا تعاقب کرتیں- ایک گروپ کی نگاہوں کی زد سے نکلنے کے بعد وہ دوسرے گروہ کی نگاہوں پر چڑھ جاتا- اس کے خذوخال ،لباس، انداز، چال، گفتگو اور سرسری حرکات کا مفصل جائزہ لیا جاتا- پھر ان جملہ تفصیلات پر اظہار خیال کیا جاتا- اور پھر تنقید و تبصرہ کے بعد اس کی شخصیت اور طور و اطوار پر آخری فیصلہ سنا دیا جاتا- جس کے خلاف اپیل کرنے کی گنجائش نہ ہوتی اور جس کو بدلنے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا-
آصفی محلہ:
علی پور کے جنوب مغرب میں ہاتھی دروازے کے قریب بڑی ڈیوڑھی کے عقب میں آصفی محلہ تھا- جس میں ایلی کے عزیز و اقربا رہتے تھے- بڑی ڈیوڑھی کے پٹ زنگ آلود ہو چکے تھے- اور چولیں بے کار- ڈیوڑھی کی پیشانی پر دھندھلے حروف میں کچھ لکھا ہوا تھا-اندر ڈیوڑھی کے پہلو میں آصفیہ مسجد تھی جس کے قریب شاہ ولی کا مزار تھا-مزار کے آگے آصفی محلہ تھا- چاروں طرف چہار منزلہ مکانات ایستادہ تھے- جن کے درمیاں ایک وسیع احاطہ تھا- جس میں کمیٹی کی ایک خمیدہ لالٹین لگی ہوئی تھی- احاطہ کے ایک طرف رنگ محل تھا- جس کے چانے لگی دیواروں پر رنگ کے نقش و نگار کے بجائے میل جما ہوا تھا-دوسری طرف شیش محل تھا- جس میں نہ تو کوئی شیشہ لگا ہوا تھا اور نہ تو کوئی بلور- دونوں کی وضع قطعی طور پر محل کی سی نہ تھی- اس کے باوجود محلے والے انہیں رنگ محل اور شیش محل کہتے تھے- شیش محل کے نیچے ایک فراخ تھہ خانہ تھا- جس میں ایک مسجد اور ایک کنواں تھا- اس تہہ خانے کے متعلق مختلف قسم کی روایات مشہور تھیں- کہا جاتا تھا کہ یہ تہہ خانہ بندے کے حملوں سے بچنے کے لیے تعمیر کیا گیاتھا- جب سکھ لٹیرے شہر پر ہلا بولتے تو اصفی محلے کےمردعورتیں اور بچے تہہ خانے میں پناہ لیتے- مسجد میں نماز پڑھتے اپنی اپنی سلامتی کی دعائیں مانگتے اور کنوئیں کا ٹھنڈا پانی کر اللّہ کا شکر بجا لاتے-محلے میں کئی ایک ڈیوڑھیاں اور کمرے ایسے تھے- جن میں کبھی سورج کی روشنی داخل نہ ہوئی تھی- دوپہر کے وقت بھی محلے والے ہاتھوں سے ٹٹول کر یا دیا سلائی جلا کر ان کمرون یا ڈیوڑھیوں سے گزرا کرتے- ان پرانے محلات میں چونے گچے کمرے تھے- جن کی کھڑکیاں ایک زمانے سے بند پڑی تھیں- چھجے خمیدہ ہو چکے تھے- کمروں میں جالے تنے ہوئے تھے- چھتوں میں چمگادڑیں رہتی تھیں - اور خمیدہ دیواروں میں شگاف پڑ چکے تھے- ان مکانات میں نت نئے انکشافات ہوتے رہتے تھے- کسی اندھیرے کمرے میں کسی بوسیدہ صندوق سے کوئی قلمی مسودہ برآمد ہو جاتا کسی چونے گچی دیوار پر کسی پرانے کتبے کا از سر نو انکشاف ہوتا یا کسی طاق کے اندر مزید چھپے ہوئے طاق کا پتا چلتا- شاید اسی وجہ سے ہر آصفی کے دل میں ایک پرائیویٹ خیال جاگزیں رہتا کہ محلے کے کسی نہ کسی کونے میں کہیں دبا ہوا خزانہ موجود ہے- لیکن ہر آصفی نے اس امید افزا خیال کو دل میں چھپا رکھا تھا- وہاں کسی دبے ہوئے خزانے کا ہونا بعید از قیاس نہیں تھا- کیونکہ سب جانتے تھے کہ شہنشاہوں کے زمانے میں جب آصفی بر سر اقتدار تھے تو ان کی تنخواہ سرکاری خزانے سے گدھوں پر لد کر آتی تھی-پرانے زمانے میں آصفیوں کی عظمت مسلم تھی- لیکن اب وہ باتیں محض قصے تھے- خوش کن تھے- اب آصفی اور ان کے رنگ محل اور شیش محل اور ان کے ارد گرد بسنے والے خدمتگار اور مکین سب خلط ملط ہو چکے تھے- سارے محلے میں صرف چند افراد ایسے تھے جو مکتب یا تحصیل یافتہ تھے- اس لئے زیادہ تر آصفیوں کا شغل دوکانداری ، مزدوری اور بےکاری پر مشتمل تھا- یہ آصفیوں کے انحطاط کا زمانہ تھا- اس لئے وہ اپنی عظمت کا احساس پدرم سلطان بود سے اخذ کرتے تھے - گزشتہ جاہ و حشمت کی کہانیاں ان کے نزدیک حالیہ فارغ البالی سے زیادہ وقعت رکھتی تھیں- جنہیں سنانے میں آصفی محلے کی بوڑھیاں بخل سے کام نہ لیتی تھیں-
علی احمد:
ایلی کے والد علی احمد کا گھر محلے بھر میں بڑے گھرانوں میں گنا جاتا تھا- بڑی وجہ یہ تھی کہ محلے بھر میں احمد واحد شخص تھے جنہوں نے چودہ جماعتوں تک تعلیم پائی تھی- اگرچہ وہ بی-اے کی ڈگری حاصل نہ کر سکے تھے لیکن اس زمانے میں بی-اے فیل ہونا بڑی بات تھی- بی-اے میں فیل ہونے کے بعد علی احمد کو ایک معقول آسامی مل گئی تھی اور اس آسامی کی وجہ سے محلے بھر میں ان کی عزت تھی-اپنے والد کی طرح علی احمد کی طبیعت میں بھی عاشقانہ چمک کا اثر تھا-لیکن ان کی طبعی رنگین مزاجی اور جراءت رندانہ عاشقانہ عنصر پر حاوی رہتی- جو انہیں آہیں بھرنے اور فراق میں تڑپنے کے بجائے جینے کی طرف مائل رکھتی- دراصل علی احمد کو افراد کے بجائے زندگی سے عشق تھا-علی احمد کا قد درمیانہ تھا، بدن چھریرا، رنگ سانولا اور ان کی پیشانی فراخ تھی- خذوخال میں کوئی خصوصی جاذبیت نہ تھی- مگر اس کے باوجود نہ جانے اس فراخ پیشانی میں ان سادہ سیاہ آنکھوں میں یا جانے کہاں وہ بے نام سا اثر تھا جسے محسوس کر کے راہ چلتی عورت راستے سے بھٹک جاتی- اس کے پاؤں آپ ہی آپ تھمکنے لگتے - پلو سر سے سرک کر شانوں پر جا پڑتا پھر برقعے کے پٹ کھلتے اور درز سے ایک بڑی سی چمکیلی آنکھ طلوع ہو جاتی-علی احمد کی چال میں خصوصی جاذبیت تھی- ان کے شانے کبھی غم سے آشنا نہ ہوئے تھے- ان کی چھاتی تنی رہتی- نگاہیں ہمیشہ اوپر کو اٹھی رہتیں- وہ دیکھ کر راہ چلنے کے عادی نہ تھے- بلکہ انہیں راہ چلتے ہوئے دیکھنے میں دلچسپی تھی- علی احمد کے انداز میں ایک وقار تھا- ان کی طبیعت میں ملنساری کے علاوہ ایک رنگینی تھی- گفتار میں شوخی اور شرارت تھی اور ان کی نگاہوں میں نصرت اور کامرانی کا پیغام جھلکتا تھا-بیویوں کے متعلق علی احمد کے خیالات نہ تو محدود تھے اور نہ ہی رسمی- انہیں بیویوں سے یہ گلہ تھا کہ انہیں جلدی ہی عام ہوجانے کی عادت ہوتی ہے- چاہےکتنے ہی چاؤ چونچلوں سے بیاہ کر لاؤ کتنے ہی رکھ رکھاؤ سے رکھو- لیکن جلد ہی وہ باورچی خانے میں بیٹھی آلو چھیل رہی ہوگی یا راکھ بھرے چولہے میں پھونکیں مار رہی ہوگی- اس طرح چند ہی روز میں وہ بیوی سے باورچن بن کر رہ جائے گی- بیوی کی اس بری عادت کے خلاف انہیں بہت شکایت تھی-والدین نے چھوٹی عمر میں ہی علی احمد کو ہاجرہ سے بیاہ دیا تھا- وہ ابھی جوان ہی تھے کہ ان کے گھر دو بچے بھی ہو گئے- بڑی لڑکی فرحت اور چھوٹا ایلی- ایلی کی پیدائش کے کچھ عرصے بعد ہی علی احمد کے سر سے ان کے دادا اولاد علی کا سایہ اٹھ گیا-اس وقت علی احمد نوجوان تھے بر سر اقتدار تھے- اور اپنی پیشانی اور رنگین نگاہوں کے سحر سے بخوبی واقف تھے- ان کے گرد و پیش ایک حسین دنیا پھیلی ہوئی تھی- اور دل میں تسخیر کا بے پناہ جذبہ موجیں مار رہا تھا-علی احمد کو ہاجرہ سے چنداں دلچسپی نہ تھی، اس کی کءی ایک وجوہات تھیں اول تو ہاجرہ کے نام میں اتنی تقدیس تھی۔ ایسے مقدس نام کی لڑکی کے ساتھ کوءی شوخ یا رنگین قسم کی حرکت کرنا ممکن ہی نہیں تھا۔ دوسرے اعمال کے لحاظ سے بھی وہ ہاجرہ ہی تھی۔ اس لیے ہاجرہ کا نام ہی علی احمد کے رنگین مزاج پر بار تھا۔ جسمانی طور پر بھی وہ چنداں قابل قبول نہ تھی قد چھوٹا بناوٹ میں نزاکت کا عنصر قطعی طور پر مفقود۔ہاجرہ ان بیویوں میں سے تھی جو خاوند کی آمد پر تسلیم و رضا کی شدت سے بے جان ہو کر رہ جاتی ہیں۔ اس کے برعکس علی احمد کو عمل تسخیر سے عشق تھا اور تسخیر جبھی ممکن ہے جب سرکشی کا عنصر غالب دکھاءی دے۔ چاہے وہ فریب نظر ہی کیوں نہ ہو جو تسخیر کے جذبے کو ابھارے تسخیر کرنے والے کو ماءل بہ عمل کرے اور پھر مطمین کرنے چل نکلے۔ وہ اپنی ایستادہ چال، ابھری ہوءی چھاتی، فراغ پیشانی اور رنگین متبسم نگاہوں سے مردانہ وار تسخیر کرتے پھر تخلیے میں ڈان کوہٹے کی سی پرجوش لڑاءی لڑنے کے بعد اس میدان کارزار کی دہلیز پر بچے کی طرح اس امید پر گر پڑتے کہ انہیں کوءی شفقت بھرا ہاتھ تھپک تھپک کر سلا دے۔ اس لحاظ سے ان کی شخصیت کے جملہ پہلووں پر حاوی تھا اس لیے یہ آمیزش درحقیقت ان کے تمام تر زندگی کا تاروپود تھا۔ بچہ ٹین کا سپاہی۔ جنگجو سورماجنسی پہلو کے علاوہ بھی علی احمد میں مجلسی زندگی کی جملہ صلاحیتیں موجود تھیں۔ ان کی گفتگو میں طنز اور مزاح کی شیرنی تھی۔ لطاءف اور روایات بیان کرنے کے علاوہ انہیں شجرہ نسب اور دیگر تاریخی واقعات کو بیان کرنے میں بے حد مہارت تھی۔ محفل میں وہ اپنے تاریخی علم کا اظہار کچھ اس انداز سے کرتے کہ ذرا کوفت نہ ہوتی۔ اس کے علاوہ انہیں لکھنے سے تو انہیں عشق تھا عشق۔ اپنا بیشتر وقت وہ لکھنے میں صرف کرتے تھے۔ شاید یہ آصفیوں کی بد قسمتی تھی یاشاید خوش قسمتی ہو کہ ان کی توجہ تصنیف و تالیف کی طرف ماءل نہ ہوءی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ علی احمد کی یہ قابلیت گھر کا حساب اور پیداءش و موت کی تاریخوں کے نوٹ کرنے پر محدود ہو کر رہ گءی۔ لیکن نظر انصاف سے دیکھا جاءے تو یہ کام بھی ایک بہت بڑی مصروفیت تھا۔ علی احمد کے ڈیسک پر بڑے بڑے ضخیم رجسٹر پڑے رہتے۔ جن کے ساتھ المونیم کی تھالی میں ایک دوات اور دو موٹی نبوں کے قلم رکھے رہتے۔ اپنی مخصوص میلی اور پھٹی ہوءی دھوتی پہن کر قمیض اتار کر کمبل یا چٹاءی پر اکڑوں بیٹھ کر وہ فرصت کے اوقات میں ان بھاری بھرکم رجسٹروں میں مختلف نوعیت کے اندراجات کرنے میں شدت سے مصروف رہا کرتے تھے۔علی احمد کے کردار میں روپے پیسے کی احتیاط کا پہلو بے حد اہم تھا۔ وہ پیسوں کو احتیاط سے رکھتے تھے اور ہر قسم کے خرچ کو فضول خرچی کے مترادف سمجھتے تھے حتٰی کہ عورت پر بھی روپیہ خرچ کرنے کے قاءل نہ تھے۔ ان کا خیال تھا کہ عورت کو تسخیر کرنے کے لیے سب سے ضروری چیز وعدے ہیں۔ روپے کا تصرف نہیں۔ ان کا ایمان تھا کہ عورت کی خوشی حقیقت سے تعلق نہیں رکھتی بلکہ محض تخیل سے وابستہ ہے اور اسے روپے پیسے جیسی مادی چیزوں سے کوءی تعلق نہیں۔نوجوانی ہی میں علی احمد عظیم الشان کامیابیوں سے ہمکنار ہو چکے تھے۔ ابتدائی دور میں چانناں کے التفات نے ان میں خود اعتمادی کی بنا ڈالی تھی۔ پھر صفیہ کی ڈرامائی شکست نے تو انہیں ہیرو بنا دیا تھا۔
صفیہ
صفیہ شام کوٹ کی ایک مٹیار تھی۔ اس کے سرخ و سپید چہرے پر عجب وقار تھا۔ اس کا لانبا قد کشادہ پیشانی اور ایستادہ چال دیکھ کر محسوس ہوتا تھا جیسے قدرت نے شام کوٹ میں ایک قلو پطرہ پیدا کردی ہو۔ صفیہ کو دیکھ کر علاقہ کا پولیس انسپکٹر شہاب الدین اپنے اوسان کھو بیٹھا تھا۔ لیکن پولیس کا افسر اعلٰی ہونے کے باوجود وہ شام کوٹ کی اس مٹیار حسینہ کو اپنی جانب متوجہ نہ کر سکا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شہاب الدین کے دل میں صفیہ کی آرزو نے عشق کا رنگ اختیار کر لیا اور عالم مجبوری میں وہ صفیہ کو اغوا کرنے پر مجبور ہو گیا۔ چونکہ شہاب الدین کے ذراءع وسیع تھے اس لیے وہ صفیہ کو لے کر امرتسر پہنچ گیا اور اسے اپنے موروثی مکان کے دیوان خانے میں بٹھا کر خود والدین کی رضامندی حاصل کرنے کے لیے اندر گیا تاکہ صفیہ کے لیے اپنے مکان میں داءمی جگہ پیدا کر سکے۔علی احمد اسی وقت اپنے دوست شہاب الدین سے ملنے اس کے مکان پر جا پہنچے۔ صفیہ کو دیکھ کر وہ بھونچکے رہ گءے۔ صفیہ کی بے پروا اور بھرپور جوانی نے ان کی قوت تسخیر کو للکارا۔ نہ جانے اس مختصر وقفے میں شہاب الدین کے دیوان خانے میں ٹین کے سپاہی نے اس سرخ و سپید مٹیار کو کیا جوہر دکھائے کہ شہاب الدین کی آمد سے پہلے ہی صفیہ علی احمد کی ہو کر رہ گئی اور ایک بچے کی طرح علی احمد کی انگلی پکڑے دیوان خانے سے باہر نکل آئی۔آصفی محلے میں صفیہ کو چھپاءے رکھنا مشکل کام نہ تھا اور لیے پولیس کی صفیہ کو ڈھونڈ نکالنے کی کوششیں اکارت گئیں اور صفیہ چپکے سے علی احمد کی بیوی بن گئی۔صفیہ کے آنے پر محلے میں کافی ہلچل پیدا ہوئی مگر بیچارے محلے والے معمولی احتجاج کے سوا اور کر ہی کیا سکتے تھے۔ ہاجرہ اس نئی آمد پر سٹپٹائی۔ روئی پیٹی لیکن ہاجرہ کی سنتا ہی کون تھا۔ اس کے علاوہ وہ خوب جانتی تھی کہ علی احمد کے گھر میں اس کی حیثیت ایک نوکرانی سے زیادہ نہیں۔ چاہے صفیہ آتی یا نہ آتی۔ اس لیے وہ جلد ہی خاموش ہوگءی۔ علی احمد کی والدہ جانتی تھی کہ بیٹا اپنے باپ کی طرح جذباتی واقع ہوا ہے۔ خاوند کے جذبہ محب کی وجہ سے اس نے عمر بھر رنڈاپے میں بسر کی تھی۔ وہ ڈرتی تھی کہ کہیں بیٹا بھی اسی جذبہ کے تحت اسے داغ مفارقت نہ دے جاءے، اس لیے وہ بھی چپ چپ ہو رہی کہ چلو بیٹے کے صدمے کی نسبت دوسری بہو کا گھر میں آنا برا نہیں۔ محلے والے بھی خاموش ہو رہے کیونکہ صداءے احتجاج بلند کرنا تو آسان ہے مگر اسے قاءم رکھنا محنت طلب بات ہے۔ انہیں صرف یہ گلہ تھا کہ صفیہ شام کوٹ کی ترکھانی تھی۔ ایک ترکھانی کا آصفیوں میں آشامل ہونا تکلیف دہ امر تھا مگر اس کا کیا کیا جاتا کہ شریعت اس بات کی اجازتدیتی تھی اور کھلے بندوں شریعت کے خلاف آواز اٹھانا مناسب نہ تھا۔صفیہ کے آنے پر ہاجرہ کی حیثیت محض ایک نوکرانی کی رہ گئی۔ اس وقت ہاجرہ کی گود میں ایلی تھا وہ ایک نحیف و نزار بچہ تھا۔ اکثر بیمار رہتا۔ ہاجرہ کے لیے یہ بھی بہت تھا کہ اس کے پاس فرحت اور ایلی تھے جن کے سہارے وہ زندگی بسر کر سکتی۔ اس لیے اس کی تمام تر توجہ ایلی کے علاج معالجے کی طرف مبذول ہو گءی۔ ایلی زندہ رہے۔ ایلی صحت مند ہو جاءے، چاہے گھر میں بیسیوں صفیاءیں آجاءیں۔ پڑی ایں۔ اپنے نصیب میں بہن۔ مقدر کے خلاف کیا شکوہ۔ ہاجرہ کے آنسو خشک ہو گءے۔ اس کے بالوں اور دوپٹے سے عطر کی خوشبو آنے کی بجاءے ہسپتال کی آیوڈین اور پنساری کے کسٹر آءل کی بو آنے لگی۔ اس کے خیالات میں اپنے گھر کی بجائے ایلی کو گھر بس گیا۔ جب ایلی جوان ہوگا۔ جب ایلی کی بیوی آئے گی۔ جب اجڑا ہوا گھر پھر سے آباد ہوگا۔ جب لٹا ہوا سہاگ واپس آئے گا۔ ہاجرہ نے بستر پر پڑے ہوئے بیمار ایلی کی طرف دیکھا اور فرط محبت سے اس کے قریب تر ہوگئی۔ ننھی فرحت حیران کھوئی کھوئی نگاہوں سے ماں کی طرف دیکھنے لگی۔ ہاجرہ فرحت اور ایلی یہ ان کی دنیا تھی۔ ہاجرہ ایلی کی طرف دیکھتی فرحت ہاجرہ کا سہارہ ڈھونڈتی رہی اور ایلی بے بس نگاہوں سے چھت کی طرف دیکھا کیا اور ساتھ والے کمرے میں روغنی گجری اور ٹین کا سپاہی محب کا میدان جنگ گرمانے میں مصروف رہے اور علی احمد کی بوڑھی ماں جاءے نماز پر یوں بیٹھی رہی جیسے کچھ نہ سن رہی ہو
انوکھا انتقام
ایلی جیے گیا بچپن کی لمبی بیماری کے چنگل میں پڑا وہ آخری سانس لیتا رہا۔ مگر لیتا رہا۔ اس کی لاغری اور ناتوانی کی وجہ سے بیماری اسے ہلاک نہ کر سکی اور بالآخر چھوڑ گئی۔ وہ روبصحت ہونے لگا۔ہاجرہ نے اسے روبہ صحت ہوتے دیکھا تو اس کے دل سے ایک بوجھ اتر گیا۔ ایلی زندہ رہے گا۔ ایلی کی طرف سے مطمءین ہونے کے بعد پھر ہاجرہ کی توجہ اپنے لٹے ہوئے سہاگ کی طرف مبذول ہو گئی۔ خاوند کے لیے جو دبی چھپی محبت اس کے دل میں تھی، وہ پھر سے ابھر آءی لیکن اظہار کو کون روک سکتا ہے۔ اصلی روپ نہ سہی، کسی بہروپ میں سہی۔ ہاجرہ کے دل میں بھڑکتی ہوئی پیار کی آگ نے نفرت کا روپ دھار لیا تاکہ اظہار تو ہو سکے۔ لیکن نفرت جتانے کا بھی کوءی ذریعہ نہ تھا وہ تو خود علی احمد کی محتاج تھی۔ اس کی نفرت یا محبت کو کون خاطر میں لاتا تھا۔ وہ بیچاری کر ہی کیا سکتی تھی اور اظہار تو جبھی اظہار ہوتا ہے جب دوسرے اسے محسوس کریں۔ ہاجرہ نے اسی اظہار محب یا نفرت کا ایک انوکھا طریقہ ایجاد کر لیا۔ ایسا انوکھا طریقہ جو صرف عورت ہی کو سوجھ سکتا ہے جسے عمل میں لانے کی جرآت صرف عورت ہی کر کستی ہے۔ اس نے اپنی سوکن صفیہ سے عشق لگا لیا۔ اس لیے کہ اسی طرح وہ علی احمد کی حریف بن سکتی تھی اسے رقابت کی آگ میں جلا سکتی تھی۔نتیجہ یہ ہوا کہ علی احمد کے گھر کی نوکرانی ہاجرہ اب علی احمد کی نوکرانی نہیں تھی بلکہ اس کی حریف بھی تھی۔ وہ صفیہ کی نوکرانی بھی نہ تھی۔ عشاق نوکر نہیں ہوتے۔ اگر صفیہ کے دل میں ہم جنسی کا ذرا سا بھی پہلو ہوتا تو ہاجرہ کی کامیابی یقینی ہو جاتی اور علی احمد ہاجرہ کے وجود کو ماننے پر مجبور ہو جاتے لیکن ایسا ہونا تھا کہ ہوا۔ صفیہ اپنے فطری مردانہ جاہ و جلال کے باوجود اپنی سرشت میں ہم جنسی کا پہلو نہ رکھتی تھی۔ اس لیے ہاجرہ کے اس انوکھے تسلیم و رضا کے جذبے کو دیکھ کر حیران رہ گءی۔ اس کے ہونٹوں پر طنز بھری مسکراہٹ جھلکنے لگی۔ اچھا تو میں آزما دیکھوں۔ اس نے سوچا اور وہ ہاجرہ کو آزمانے کے دلچسپ مشغلے میں کھو گئی۔ہاجرہ قدم آگے اٹھا چکی تھی اب وہ پیچھے نہ ہٹ سکتی تھی۔ صفیہ کیا کہے گی کہ وہ اظہار محبت محض ایک دکھلاوا تھا۔ اس خیال سے ہاجرہ کے احساس خود داری پر ٹھیس لگتی تھی اس لیے وہ اندھا دھند اس راہ پر آگے بڑھنے لگی۔ ایک قدم اور اور شاید اب صفیہ کو یقین آجائے اور شاید اب صفیہ قائل ہو جائے۔ وہ آگے بڑھتی گئی، صفیہ کی جانب قدم اٹھاتی گئی اور فرحت اور ایلی پیچھے رہتے گئے۔ پیچھے رہتے گئے۔ صفیہ۔ صفیہ۔ ہاجرہ کی آواز میں وہ للکار تھی جو صرف احساس شکست ہی پیدا کرسکتا ہے۔ صفیہ۔ آزما دیکھو۔ صفیہ۔ دور ایلی پڑا چارپائی پر رو رہا تھا۔ فرحت گڑیا کھیلتے کھیلتے اکتا گئی تھی۔ گھر کے اس چھوٹے سے ویران کمرے میں جو ہاجرہ کے لیے مخصوص تھا۔ فرحت اور ایلی تنہا رہ گئے۔
نرالا امتحان
باروچی خانے میں ہاجرہ صبح شام صفیہ کی خوشنودی کے لءے مصروف کار رہتی۔ صفیہ پھولدار پلنگ پوش پر بظاہر بےنیاز بیٹھی علی احمد کا انتظار کرتی اور علی احمد گھر سے باہر اپنی قوت تسخیر کے امتحان میں مصروف رہتے۔ ہاجرہ کے کمرے میں ایلی اور فرحت رو رو کر بھوکے سوجاتے۔ پھولدار پلنگ پر بیٹھے بیٹھے صفیہ انتظار سے اکتاکر چلاتی۔ ہاجرہ جب تک وہ نہ آءیں، تم باورچی خانے سے نہیں جانا۔ سونا نہیں۔ اور ہاجرہ چوکی پر بیٹھی انتظار کرتی کہ کب علی احمد آءیں اور وہ انہیں کھانا کھلانے سے فارغ ہو کر اپنا چولہا جلائے۔ ایلی اور فرحت کے لیے چاول پکائے۔علی احمد واپس آتے تو چپکے سے دبے پاوں اپنے کمرے میں داخل ہو جاتے تاکہ صفیہ کو معلوم نہ ہو کہ وہ اتنی دیر سے لوٹے ہیں۔ لیکن ان کی آہٹ پا کر صفیہ جاگ اٹھتی۔ وہ علی احمد سے بگڑتی۔ علی احمد اسے مناتے لیکن وہ بگڑے جاتی۔ پھر کمرے سے دھینگا مشتی کی آوازیں آنے لگتیں چونکہ معاملے کی نزاکت کو دیکھ کر ڈان کوہٹے میدان میں آنکلتا۔ ٹین کا سپاہی اپنے داو دکھاتا بالآخر شام کوٹ کا وہ مضبوط مگر حسین قلعہ سر ہو جاتا اور صفیہ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل جاتی۔ علی احمد خوب جانتے تھے کہ ٹین کا سپاہی اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ لا سکتا ہے اور ہونٹوں پر مسکراہٹ آجاءے تو تھیک ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد ہاجرہ کو آواز دی جاتی۔ ہاجرہ کھانا کھلاو۔ کھاناکھانے کے بعد ٹین کا سپاہی تازہ دم ہو کر پھر سے میدان کارزار میں شام کوٹ کے قلعے کو للکارتا اور ہاجرہ چپکے سے اپنا چولہا جلا کر سوئے ہوئے بچوں کے لیے کھانے پینے کاسامان تیار کرنا شروع کردیتی۔پھر صفیہ کو ایک نئی بات سوجھی ایک نیا امتحان۔ ہاجرہ۔ صفیہ بولی۔ دیکھو تو میری بانہوں میں سونے کے کڑے ہوں تو کیسارہے؟ وہ آنکھ بچا کر مسکراءی۔ اسی دن ہاجرہ کی زندگی میں ایک نئی بات پیدا ہوگئی روپیہ بچانا۔ صفیہ کے کڑوں کے لیے روپیہ بچانا۔صفیہ کے لیے ریشمیں کپڑے مہیا کرنا۔ لیکن وہ ان تمام باتوں کے باوجودہاجرہ صفیہ کو اپنا نہ سکی۔علی احمد کبھی کبھار حیرانی سے ان دو بچوں کی طرف دیکھتے جیسےان کے وجود سے پہلی مرتبہ واقف ہو رہے ہوں۔ انہیں یاد آتے کہ وہ ان کےاپنے بچے ہیں اور پھر وہ بچے خوامخواہ ان کو اچھے لگتے اور وہ کھانا کھاتے ہوءے آواز دیتے۔ ایلی۔ یہاں۔ یہاں آو ایلی۔ یہ لو بوٹی۔ جسے ہاتھ میں پکڑ کر ایلی وہ بے حد مسرور ہوتا اور یوں فخر سے اٹھاءے پھرتا جیسے وہ تمغہ ہو۔