صفحات

تلاش کریں

طنز و مزاح- مسکراہٹیں(شفیق الرحمٰن)

فہرست

  • زنانہ اُردو خط و کتابت​ 
  • کون کیا ہے؟​ 
  • استفسارات و جوابات
  • بچے
  • دجلہ
  • انسانی ناک
  • تعویذ
  • تربیت اطفال
  • اِقتباس

زنانہ اُردو خط و کتابت

امّی جان کے نام ​
مری پیاری امی، مری جان امی!
بعد ادائے ادب کے عرض یہ ہے کہ یہاں ہر طرح سے خیریت ہے اور خیر و عافیت آپ کی خداوند کریم سے نیک مطلوب ہے۔ صورت احوال یہ ہے کہ یہاں سب خیریت سے ہیں۔ والا نامہ آپ کا صادر ہوا۔ دل کو از حد خوشی ہوئی۔ چچا جان کے خسر صاحب کے انتقالِ پُر ملال کی خبر سن کر دل کو از حد قلق ہوا۔ جب سے یہ خبر سنی ہے چچی جان دھاروں رو رہی ہیں۔ خلیفہ جی یہ سناؤنی لے کر پہنچے تو کسی سے اتنا نہ ہوا کہ ان کی دعوت ہی کر دیتا۔ میں نے سوچا کہ اگر ذرا سی الکسی ہو گئی تو خاندان بھر میں تھڑی تھڑی ہو جائے گی۔فوراً خادمہ کو لے کر باورچی خانے پہنچی۔ اس نے جھپاک جھپاک آٹا گوندھا لیکن سالن قدرے تیز آنچ پر پک گئے، چنانچہ پھل پھلواری سے خلیفہ جی کی تواضع کی۔ بہت خوش ہوا۔ تائی صاحبہ نے خوان بھجوا کر حاتم کو شرمندہ کرنے کی کوشش کی۔ دوسرے روز ناشتے پر بھی بلوایا۔ اوچھے کے ہوئے تیتر باہر باندھوں کت بھیتر۔ تائی صاحبہ بھی ہمیشہ اسی طرح کرتی رہتی ہیں، رنگ میں بھنگ ڈال دیتی ہیں۔
الفت بیا آئی تھیں۔ تائی صاحبہ کا فرمانا ہے کہ یہ بچپن سے بہری ہیں۔ بہری وہری کچھ نہیں۔ وہ فقط سنتی نہیں ہیں۔ کیا مجال جو آگے سے کوئی ایک لفظ بول جائے۔
گو دل نہیں چاہ رہا تھا لیکن آپ کے ارشاد کے مطابق ہم سب ممانی جان سے ملنے گئے۔ وہاں پہنچے تو سارا کنبہ کہیں گیا ہوا تھا، چنانچہ چڑیا گھر دیکھنے چلے گئے۔ ایک نیا جانور آیا ہے، زیبرا کہلاتا ہے۔ بالکل گدھے کا سپورٹس ماڈل معلوم ہوتا ہے۔ اچھا ہی ہوا کہ دیکھ لیا ورنہ ممانی جان کی طعن آمیز گفتگو سننی پڑتی۔
پڑھائی زوروں سے ہو رہی ہے۔ پچھلے ہفتے ہمارے کالج میں مس سید آئی تھیں جنہیں ولایت سے کئی ڈگریاں ملی ہیںً۔ بڑی قابل عورت ہیں۔ انہوں نے " مشرقی عورت اور پردہ " پر لیکچر دیا۔ ہال میں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی مس سید نے شنائل کا ہلکا گلابی جوڑا پہن رکھا تھا۔ قمیض پر کلیوں کے سادہ نقش اچھے لگ رہے تھے۔ گلے میں گہرا سرخ پھول نہایت خوبصورتی سے ٹانکا گیا تھا۔ شیفون کے آبی دوپٹے کا کام مجھے بڑا پسند آیا۔ بیضوی بوٹے جوڑوں میں کاڑھے ہوئے تھے۔ ہر دوسری قطار کلیوں کی تھی۔ ہر چوتھی قطار میں دو پھول کے بعد ایک کلی کم ہو جاتی تھی۔ دوپٹے کا پلو سادہ تھا لیکن بھلا معلوم ہو رہا تھا۔ مس سید نے بھاری سینڈل کی جگہ لفٹی پہن رکھی تھی۔ کانوں میں ایک ایک نگ کے ہلکے پھلکے آویزے تھے۔ تراشیدہ بال بڑی استادی سے پرم کئے ہوئے تھے۔ جب آئیں تو کوٹی کی خوشبو سے سب کچھ معطر ہو گیا۔ لیکن مجھے ان کی شکل پسند نہیں آئی۔ ایک آنکھ دوسری سے کچھ چھوٹی ہے۔ مسکراتی ہیں تو دانت برے معلوم ہوتے ہیں۔ ویسے بھی عمر رسیدہ ہیں۔ ہوں گی ہم لڑکیوں سے کم از کم پانچ سال بڑی۔ ان کا لیکچر نہایت مقبول ہوا۔
آپ یہ سن کر پھولی نہ سمائیں گی کہ آپ کی پیاری بیٹی امورِ خانہ داری پر کتاب لکھ رہی ہوں۔ مجھے بڑا غصہ آتا تھا جب لوگوں کو یہ کہتے سنتی تھی کہ پڑھی لکھی لڑکیاں گھر کا کام کاج نہیں کر سکتیں چنانچہ میں نے آزمودہ ترکیبیں لکھی ہیں۔ جو ملک کے مشہور زنانہ رسالوں میں چھپیں گی۔ نمونے کے طور پر چند ترکیبیں نقل کرتی ہوں۔

لذیذ آرنج سکواش تیار کرنا

آرنج سکواش کی بوتل لو۔ یہ دیکھ لو کہ بوتل آرنج سکواش ہی کی ہے کسی اور چیز کی تو نہیں، ورنہ نتائج خاطر خواہ برآمد نہ ہوں گے۔ دوسری ضروری بات یہ ہے کہ مہمانوں اور گلاسوں کی تعداد ایک ہونی چاہئے۔ گلاسوں کو پہلے صابن سے دھلوا لینا اشد ضروری ہے۔ بعد ازیں سکواش کو بڑی حفاظت سے گلاس میں انڈیلو اور پانی کی موزوں مقدار کا اضافہ کرو۔ مرکب کو چمچے سے تقریباً نصف منٹ ہلائیں۔ نہایت روح افزا آرنج سکواش تیار ہو گا۔
موسم کے مطابق برف بھی استعمال کیا جا سکتا ہے ( لیکن برف کو صابن سے دھلوا لینا نہایت ضروری ہے)

مزیدار فروٹ سلاد تیار کرنا

مہمانوں کے یک لخت آ جانے پر ایک ملازم کو جلدی سے بازار بھیج کر کچھ بالائی اور ایک ٹین پھلوں کا منگاؤ۔ اس کے آنے سے قبل ایک بڑی قاب کو صابن سے دھلوا لینا چاہئے۔ بعض اوقات فروٹ سلاد میں اور طرح کی خوشبو آنے لگتی ہے۔ اب ٹین کھولنے کا اوزار لے کر ٹین کا ڈھکنا کھولنا شروع کرو اور خیال رکھو کہ کہیں انگلی نہ کٹنے پائے۔ بہتر ہو گا کہ ٹین اور اوزار نوکر کو دے دو۔ اب پھلوں کو ڈبے سے نکال کر حفاظت سے قاب میں ڈالو اور بالائی کی ہلکی ہلکی تہہ جما لو۔ نہایت مزیدار اور مفرح فروٹ سلاد تیار ہے۔ نوش جان کیجئے۔

میز پوش سینا

جس میز کے لئے پوش درکار ہوں، اس کا ناپ لو۔ بہتر ہو گا کہ کپڑے کو میز پر پھیلا کر لمبائی چوڑائی کے مطابق وہیں قینچی سے قطع کر لیا جائے۔ اب ہاتھ یا پاؤں سے چلنے والی سلائی کی مشین منگاؤ۔ سوئی میں دھاگہ پرو کر میز پوش کے ایک کونے سے سلائی شروع کرو اور سیتی چلی جاؤ حتیٰ کہ وہی کونا آ جائے جہاں سے بخیہ شروع کیا تھا۔ اب میز پوش کو استعمال کیلئے تیار سمجھو۔ اگر سیتے وقت سارے کپڑے کے دو چکر لگ جائیں تو دگنا پائیدار میز پوش تیار ہو گا۔ ضرورت کے مطابق بعد میں کسی سے بیل بوٹے کڑھوائے جا سکتے ہیں۔

کپڑے ڈرائی کلین کرنا

مناسب کپڑے چن کر ایک سمجھدار ملازم کے ہاتھ ڈرائی کلین کی دکان پر بھجوا دو۔ بھیجنے سے پہلے بہتر ہو گا کہ صرف وہی کپڑے بھیجو جنہیں بعد میں پہچان سکو۔ یہ معلوم کرنے کیلئے کہ کپڑے واقعی ڈرائی کلین کئے گئے ہیں ایک بڑی آزمودہ ترکیب ہے۔ کپڑوں کو سونگھ کر دیکھو، اگر پٹرول کی بو آ رہی ہو تو سمجھ لو ٹھیک ہے۔ اب کپڑے ڈرائی کلین ہو چکے ہیں اور انہیں فوراً استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔
سچ بتانا اچھی امی جان! آپ کو یہ ترکیبیں پسند آئیں؟ ایسے اور بہت سے نسخے بھی میرے پاس محفوظ ہیں جنہیں اگلے خط میں بھیجوں گی۔
میں علی الصبح اٹھتی ہوں۔ آپ کا ارسال شدہ ٹائم پیس اتنے زور سے بجتا ہے کہ رات کو اسے رضائی میں لپیٹ کر ایک کونے میں رکھنا پڑتا ہے۔ عید پر جو خالہ جان نے موٹاپے کا طعنہ دیا تھا، اس کے لئے بڑی کوشش کر رہی ہوں۔ فالتو چیزوں کا استعمال آہستہ آہستہ بند کر رہی ہوں۔ نشاستے سے پرہیز کرتی ہوں۔ کپڑوں تک میں سٹارچ نہیں لگنے دیتی۔
ایک خوشخبری دینا تو بھول ہی گئی آپ کی پیاری بیٹی اس سال فارسی میں کالج میں دوم آئی ہے۔ یہ سب آپ کی دعاؤں کا نتیجہ ہے ورنہ لونڈی کس لائق ہے۔ یہ آپ سے کس نے کہا کہ میں کلاس میں دیر سے پہنچتی تھی۔ پہلا گھنٹہ فارسی کا ہوتا تھا اور فارسی میں صرف دو لڑکیاں تھیں نجمہ اور میں۔ شاید یہ اطلاع میری سہیلیوں میں سے نہیں بلکہ رشتہ داروں میں سے کسی نے پہنچائی ہے۔
اب خط ختم کرتی ہوں۔ میری طرف سے بزرگوں کی خدمت میں آداب۔ بچوں کو بہت بہت پیار۔ ہم عمروں کو سلام علیک۔
دیکھئے وہ کون سا مبارک دن ہوتا ہے کہ میں اپنی امی کو جھک کر آداب کروں اور امی جان مجھے کلیجے سے لگا لیں اور سدا لگائے رکھیں۔ آمین، ثمَ آمین۔ فقط
ناچیز
آپ کی بیٹی ​

شوہر کو​

سرتاج من سلامت!
کورنش بجا لا کر عرض کرتی ہوں کہ منی آرڈر ملا۔ یہ پڑھ کر کہ طبیعت اچھی نہیں ہے از حد تشویش ہے۔ لکھنے کی بات تو نہیں مگر مجھے بھی تقریباً دو ماہ سے ہر رات بے خوابی ہوتی ہے۔ آپ کے متعلق برے برے خواب نظر آتے ہیں۔ خدا خیر کرے۔ صبح کو صدقے کی قربانی دے دی جاتی ہے اس پر کافی خرچہ ہو رہا ہے۔
آپ نے پوچھا ہے کہ میں رات کو کیا کھاتی ہوں۔ بھلا اس کا تعلق خوابوں سے کیا ہو سکتا ہے۔ وہی معمولی کھانا البتہ سوتے وقت ایک سیر گاڑھا دودھ، کچھ خشک میوہ جات اور آپ کا ارسال کردہ سوہن حلوہ۔ حلوہ اگر زیادہ دیر رکھا رہا تو خراب ہو جائے گا۔
سب سے پہلے آپ کے بتائے ہوئے ضروری کام کے متعلق لکھ دوں کہ کہیں باتوں میں یاد نہ رہے۔ آپ نے تاکید فرمائی ہے کہ میں فوراً بیگم فرید سے مل کر مکان کی خرید کے سلسلے میں ان کا آخری جواب آپ کو لکھ دوں۔ کل ان سے ملی تھی۔ شام کو تیار ہوئی تو ڈرائیور غائب تھا۔ یہ غفور دن بدن سست ہوتا جا رہا ہے۔ عمر کے ساتھ ساتھ اس کی بینائی بھی کمزور ہونے لگی ہے۔ اس مرتبہ آتے وقت اس کیلئے ایک اچھی سے عینک لیتے آئیں۔ گھنٹوں بعد آیا تو بہانے تراشنے لگا کہ تین دن سے کار مرمت کے لئے گئی ہوئی ہے۔ چاروں ٹائر بیکار ہو چکے ہیں۔ ٹیوب پہلے سے چھلنی ہیں۔ یہ کار بھی جواب دیتی جا رہی ہے۔ آپ کے آنے پر نئی کار لیں گے۔ اگر آپ کو ضرورت ہو تو اس کار کو منگا لیں۔ خیر تانگہ منگایا۔ راستےمیں ایک جلوس ملا۔ بڑا غُل غپاڑہ مچا ہوا تھا، ایک گھنٹے ٹریفک بند رہا۔ معلوم ہوا کہ خان بہادر رحیم خان کے صاحبزادے کی برات جا رہی ہے۔ برات نہایت شاندار تھی۔ تین آدمی اور دو گھوڑے زخمی ہوئے۔
راستے میں زینت بوا مل گئیں۔ یہ ہماری دور کی رشتہ دار ہوتی ہیں۔ احمد چچا کے سسرال میں جو ٹھیکیدار ہیں نا ان کی سوتیلی ماں کی سگی بھانجی ہیں۔ آپ ہمیشہ زینت بوا اور رحمت بوا کو ملا دیتے ہیں۔
رحمت بوا میری ننھیال سے ہیں اور ماموں عابد کے ہم زلف کے تائے کی نواسی ہیں۔ رحمت بوا بھی ملی تھیں۔ میں نے ان سے کہا کہ کبھی قدسیہ باجی کو ساتھ لا کر ہمارے ہاں چند مہینے رہ جائیں۔ انہوں نے وعدہ کیا ہے۔ یہ وہی ہیں جو تایا نعیم کےساتھ ہماری شادی پر آئی تھیں۔ تایا نعیم کی ساس ان کی دادی کی منہ بولی بہن تھیں۔ بلکہ ایک دوسرے سے دوپٹے بدل چکی تھیں۔ یہ سب اس لئے لکھ رہی ہوں کہ آپ کو اپنے عزیز و اقارب یاد نہیں رہتے۔ کیا عرض کروں آج کل زمانہ ایسا آ گیا ہے کہ رشتہ دار کی خبر نہیں۔ میں نے زیب بوا کو کو گھر آنے کیلئے کہا، تو وہ اسی شام آ گئیں۔ میں نے بڑی خاطر کی۔ خواہش ظاہر کرنے پر آپ کے ارسال شدہ روپوں میں سے دو سو انہیں ادھار دیئے۔
ہاں تو میں بیگم فرید کے ہاں پہنچی۔ بڑے تپاک سے ملیں۔ بہت بدل چکی ہیں۔ جوانی میں مسز فرید کہلاتی تھیں، اب تو بالکل ہی رہ گئی ہیں۔ ایک تو بے چاری پہلے ہی اکہرے بدن کی ہیں، اس پر اس طرح طرح کی فکر۔ گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر اٹھتی ہیں۔ کہنے لگیں اگلے ہفتے برخوردار نعیم کا عقیقہ ہے اور اس سے اگلی جمعرات کو نورِ چشمی بتول سلمہا کی رخصت ہو گی، ضرور آنا۔
میں نے ہامی بھر لی اور مکان کے متعلق ان سے آخری جواب مانگا۔ پہلے کی طرح چٹاخ پٹاخ باتیں نہیں کرتیں۔ آواز میں بھی وہ کرارا پن نہیں رہا۔ انہیں تو یہ بتول لے کر بیٹھ گئی۔ عمر کا بھی تقاضا ہے۔ سوچ رہی ہوں جاؤں یا نہ جاؤں۔ دو ڈھائی سو خرچ ہو جائیں گے۔ نیا جوڑا سلوانا ہو گا۔ ویسے تو سردیوں کے لئے سارے کپڑے نئے بنوانے پڑیں گے۔ پچھلے سال کے کپڑے اتنے تنگ ہو چکے ہیں کہ بالکل نہیں آتے۔ آپ بار بار سیر اور ورزش کو کہتے ہیں بھلا اس عمر میں مستانوں کی طرح سیر کرتی ہوئی اچھی لگوں گی۔ ورزش سے مجھے نفرت ہے۔ خواہ مخواہ جسم کو تھکانا اور پھر پسینہ الگ۔ نہ آج تک کی ہے نہ خدا کرائے۔ کبھی کبھی کار میں زنانہ کلب چلی جاتی ہوں، وہاں ہم سب بیٹھ کر نٹنگ کرتی ہیں۔ واپس آتے آتے اس قدر نکان ہو جاتی ہے کہ بس۔
آپ ہنسا کرتے ہیں کہ نٹنگ کرتے وقت عورتیں باتیں کیوں کرتی ہیں۔ اس لئے کہ کسی دھیان میں لگی رہیں۔
آپ نے جگہ جگہ شاعری کی ہے اور الٹی سیدھی باتیں لکھی ہیں۔ ذرا سوچ تو لیا ہوتا کہ بچوں والے گھر میں خط جا رہا ہے۔ اب ہمارے وہ دن نہیں رہے کہ عشق وشق کی باتیں ایک دوسرے کو لکھیں۔ شادی کو پورے سات برس گزر چکے ہیں، خدارا ایسی باتیں آئندہ مت لکھئے۔ توبہ توبہ اگر کوئی پڑھ لے تو کیا کہے۔
ان دنوں میں فرسٹ ایڈ سیکھنے نہیں جاتی۔ ٹریننگ کے بعد کلاس کا امتحان ہوا تھا، آپ سن کر خوش ہوں گے کہ میں پاس ہو گئی۔
پچھلے ہفتے ایک عجیب واقعہ ہوا۔ بنو کے لڑکے کو بخار چڑھا۔ یوں تپ رہا تھا کہ چنے رکھو اور بھون لو۔ میں نے تھرما میٹر لگایا تو نارمل سے بھی نیچے چلا گیا۔ پتہ نہیں کیا وجہ تھی۔ پھر گھڑی لے کر نبض گننے لگی۔ دفعتاً یوں محسوس ہوا جیسے لڑکے کا دل ٹھہر گیا ہو کیونکہ نبض رک گئی تھی۔ بعد میں پتہ چلا کہ دراصل گھڑی بند ہو گئی تھی۔ یہ فرسٹ ایڈ بھی یونہی ہے۔ خوامخواہ وقت ضائع کیا۔
ڈاکٹر میری سٹوپس کی کتاب ارسال ہے۔ اگر دکاندار واپس لے لے تو لوٹا دیجئے۔ یہ باتیں بھلا ہم مشرق کے رہنے والوں کے لئے تھوڑی ہیں۔ اس کی جگہ بہشتی زیور کی ساری جلدیں بھجوا دیجئے۔ ایک کتاب گھر کا حکیم کی بڑی تعریف سنی ہے۔ یہ بھی بھیج دیجئے۔
چند نئی فلمیں دیکھیں، کافی پسند آئیں۔ ہیرو کا انتخاب بہت موزوں تھا۔ موٹا تازہ، لمبے لمبے بال، کھوئی کھوئی نگاہیں، کھلے گلے کا کرتہ، گانے کا شوق، کسی کام کی بھی جلدی نہیں، فرصت ہی فرصت۔ آپ بہت یاد آئے۔ شادی سے پہلے میں آپ کو اسی روپ میں دیکھا کرتی تھی۔ کاش کہ آپ کے بھی لمبے لمبے بال ہوتے، ہر وقت کھوئی ہوئی نگاہوں سے خلا میں تکتے رہتے، کھلے گلے کا کرتہ پہن کر گلشن میں گانے گایا کرتے۔ نہ یہ کم بخت دفتر کا کام ہوتا اور نہ ہر وقت کی مصروفیت لیکن خواب کہاں پورے ہوئے ہیں۔
ان فلموں میں ایک بات کھٹکتی ہے، ان میں عورتوں کی قوالی نہیں ہے۔ یہ فلم بناتے وقت نہ جانے ایسی اہم بات کو کیوں نظر انداز کر دیتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ گیت بے حد معمولی ہیں۔ مثلاً ایک گانا بھی ایسا نہیں ہے جس میں راجہ جی، مورے راجہ یا ہو راجہ، آتا ہو۔ یہ سادہ الفاظ گیت میں جان ڈال دیتے ہیں۔
ایک بہت ضروری بات آپ سے پوچھنا تھی۔ زینت بوا نے شبہ میں ڈال دیا ہے کہ آپ کے لفافوں پر پتہ زنانہ تحریر میں لکھا ہوا ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ آپ کے دفتر میں کوئی سیکرٹری یا سٹینو وغیرہ آ گئی ہو اور آپ مصروفیت کی بنا پر اس سے پتہ لکھواتے ہوں۔ یہ لڑکی کس عمر کی ہے؟ شکل و صورت کیسی ہے؟ غالباً ً کنواری ہو گی؟ اس کے متعلق مفصل طور پر لکھئے۔ اگر ہو سکے تو اس کی تصویر بھی بھیجئے۔
باقی سب خیریت ہے اور کیا لکھوں۔ بس بچے ہر وقت آپ کو یاد کرتے رہتے ہیں۔ اصغر پوچھتا ہے کہ ابا میری سائیکل کب بھیجیں گے۔ آپ نے آنے کے متعلق کچھ نہیں لکھا۔ اب تو ننھی کی بسم اللہ بھی قریب آ چکی ہے۔ میری مانیے تو واپس یہیں تبادلہ کرا لیجئے۔ بھاڑ میں جائے یہ ترقی اور ایسا مستقبل۔ تھوڑی سی اور ترقی دے کر محکمے والے کہیں آپ کو اور دور نہ بھیج دیں۔
آپ بہت یاد آتے ہیں۔ ننھے کی جرابیں پھٹ چکی ہیں۔ ننھی کے پاس ایک بھی نیا فراک نہیں رہا۔ برا ہو پردیس کا۔ صورت دیکھنے کو ترس گئے ہیں۔ امی جان کی اونی چادر اور کمبلوں کا انتظار ہے۔
ہر وقت آپ انتظار رہتا ہے۔ آنکھیں دروازے پر لگی رہتی ہیں۔ صحن کا فرش جگہ جگہ سے اکھڑ رہا رہا ہے۔ مالی کام نہیں کرتا۔ اس کی لڑکی اپنے خاوند کے ساتھ بھاگ گئی ہے۔
آتے وقت چند چیزیں ساتھ لائیں۔ بچوں کے جوتے اور گرم کوٹ، ننھے کی جرابیں اور کنٹوپ، ننھی کی فراک، دو چمڑے کے صندوق، زینب بوا کے لئے اچھا سا تحفہ، بلی کے گلے میں باندھنے کیلئے ربن اور کتے کا خوبصورت سا کالر، کچھ سوہن حلوہ اور ننھی کا سویٹر۔ ننھی کے کان میں پھنسی تھی چچا جان سول سرجن کو بلانے کو کہتے تھے، میں نے منع کر دیا کیونکہ کل تعویذ آ جائے گا۔
یہاں کی تازہ خبریں یہ ہیں کہ پھوپھی جان کی بھینس اللہ کو پیاری ہوئی۔ سب کو بڑا افسوس ہوا۔ اچھی بھلی تھی۔ دیکھتے دیکھتے ہی دم توڑ دیا۔ میں پرسہ دینے گئی تھی۔ تایا عظیم کا لڑکا کہیں بھاگ گیا ہے۔ احمد چچا کا جس بینک میں حساب تھا وہ بینک فیل ہو گیا ہے اور ہاں پھوپھا جان کی ساس جو اکثر بہکی بہکی باتیں کیا کرتی تھیں اب وہ بالکل باؤلی ہو گئی ہیں۔ بقیہ خبریں اگلے خط میں لکھوں گی۔
سرتاج کو کنیز کا آداب۔ فقط
(ایک بات بھول گئی۔ منی آرڈر پر مکان نمبر ضرور لکھا کیجئے۔ اس طرح ڈاک جلدی مل جاتی ہے۔)

منگیتر کو

جناب بھائی صاحب!
آپ کا خط ملا۔ میں آپ کو ہر گز خط نہ لکھتی لیکن پھر خیال آیا کہ آپ کی بہن میری سہیلی ہیں اور کہیں وہ برا نہ مان جائیں۔ وہم و گمان میں بھی نہ آ سکتا تھا کہ کبھی کسی غیر مرد کو خط بھیجوں گی۔
امید کرتی ہوں کہ آئندہ لکھتے وقت اس بات کا خیال رکھیں گے کہ آپ ایک شریف گھرانے کی ایشیائی لڑکی سے مخاطب ہیں۔ احتیاطاً تحریر ہے کہ میرا آپ کو خط لکھنا اس امر کا شاہد ہے کہ ہم لوگ کس قدر وسیع خیالات کے ہیں۔
مجھے بتایا گیا تھا کہ آپ رشیدہ اور حمیدہ کو جانتے ہیں۔ کلثوم اور رفعت سے بھی واقفیت رہ چکی ہے۔ ثریا اور اختر کو خط لکھا کرتے تھے۔ آپ کو کلب میں‌ناچتے بھی دیکھا گیا ہے اور ایک شام کو آپ چمکیلی سی پیلے رنگ کی چیز چھوٹے سے گلاس میں پی رہے تھے اور خوب قہقہے لگا رہے تھے۔ خدا کا شکر ہے کہ ہم ماڈرن نہیں ہیں۔ ہمیں یہ ہوا نہیں لگی۔ نہ اس روش پر چلنے کا ارادہ ہے۔ ہمارے ہاں جہاں مذہب، شرافت اور خاندانی روایات کا خیال ملحوظ ہے وہاں اعلیٰ تربیت اور بلند خیالی بھی ہے۔
میں بی اے (آنرز) میں پڑھتی ہوں۔ شام کو مولوی صاحب بھی پڑھانے آتے ہیں۔ آپ نے لکھا ہے کہ آپ نے مجھے تانگے میں کالج سے نکلتے دیکھا تھا اور میں نے برقعے کا نقاب الٹ رکھا تھا۔ آپ نے کسی اور کو دیکھ لیا ہو گا۔ اول تو میں ہمیشہ کالج کار میں جاتی ہوں، دوسرے یہ کہ میں نقاب نہیں الٹا کرتی۔ ہمیشہ برقعہ میرے ہاتھوں میں کتابوں کے ساتھ ہوا کرتا ہے۔
جی ہاں مجھے ٹھوس مطالعے کا شوق ہے۔ ابا جان کی لائبریری میں فرائیڈ، مارکس، گراؤ چو مارکس، ڈکنز، آگاتھا کرسٹی، پیٹر چینی، تھورن سمتھ اور دیگر مشہور مفکروں کی کتابیں موجود ہیں۔میں نے سائیکا لوجی پڑھنا شروع کی تو یوں معلوم ہوتا تھا جیسے یہ سب کچھ تو مجھے پہلے سے معلوم ہے۔ فلاسفی پڑھی تو محسوس ہوا جیسے یہ سب درست ہے۔ سوشل سائنس پڑھی تو لگا کہ واقعی یونہی ہونا چاہئے تھا۔ آخر ہمیں ایک نہ ایک روز تو جدید تہذیب کے دائرے میں آنا تھا۔ زمانے کو بیسویں صدی تک بھی تو پہنچنا ہی تھا۔ میرے خیال میں میں کافی مطالعہ کر چکی ہوں۔ چنانچہ آج کل زیادہ نہیں پڑھتی۔
آپ نے پوچھا ہے کہ موجودہ ادیبوں میں سے مجھے کون پسند ہیں۔ سو ڈپٹی نذیر احمد، مولانا راشد الخیری اور پنڈت رتن ناتھ سرشار میرے محبوب مصنفین ہیں۔ شاعروں میں نظیر اکبر آبادی مرغوب ہیں۔ خواتین میں ایک صاحبہ بہت پسند ہیں۔ انہوں نے صرف دو ناول لکھے ہیں جن میں جدید اور قدیم زیورات و پارچہ جات، بیاہ شادی کی ساری رسوم اور طرح طرح کے کھانوں کے ذکر کو اس خوبصورتی سے سمو دیا ہے کہ یہ پتہ چلانا مشکل ہے کہ ناول کہاں ہے اور یہ چیزیں کہاں؟
ایک اور خاتون ہیں، جو باوجود ماڈرن ہونے کے ترقی پسند نہیں ہیں۔ ان کے افسانے، ان کی امنگیں، ان کی دنیا، سب کچھ صرف اپنے گھر کی فضا اور اپنے خاوند تک محدود ہے۔ مبارک ہیں ایسی ہستیاں۔ ان کی تصویریں دیکھ دیکھ کر ان سے ملنے کا بڑا اشتیاق تھا۔ پھر پتہ چلا کہ ان کا رنگ مشکی ہے اور عینک لگاتی ہیں۔
آپ کی جن کزن کا کہنا ہے کہ انہوں نے مجھے کلب میں دیکھا تھا ذرا ان سے پوچھیے کہ وہ خود وہاں کیا کر رہی تھیں۔
یہ جن حمید صاحب کا آپ نے ذکر کیا ہے، وہی تو نہیں جو گورے سے ہیں۔ جن کے بال گھنگھریالے ہیں اور داہنے ابرو پر چھوٹا سا تل ہے۔ گاتے اچھا ہیں۔ روٹھتے بہت جلد ہیں۔ جی نہیں۔ میں انہیں نہیں جانتی۔ نہ کبھی ان سے ملی ہوں۔
میری حقیر رائے میں آپ نے آرٹس پڑھ کر بڑا وقت ضائع کیا ہے۔ آپ کی بہن نے لکھا ہے کہ اب آپ کا ارادہ بزنس کرنے کا ہے۔ اگر یہی ارادہ تھا تو پھر پڑھنے کی کیا ضرورت تھی۔ عمر میں گنجائش ہو تو ضرور کسی مقابلے کے امتحان میں بیٹھ جائیے اور ملازمت کی کوشش کیجئے کیونکہ ملازمت ہر صورت میں بہتر ہے۔ اس کے بغیر نہ پوزیشن ہے نہ مستقبل۔ یہاں ڈپٹی کمشنر کی بیوی ساری زنانہ انجمنوں کی سیکرٹری ہیں اور تقریباً ہر زنانہ جلسے کی صدارت وہی کرتی ہیں۔ دوسرا فائدہ ملازمت کا یہ ہے کہ انگلستان یا امریکہ جانے کے بڑے موقعے ملتے ہیں۔ مجھے دونوں ملک دیکھنے کا ازحد شوق ہے۔
آپ نے موسیقی کا ذکر کیا ہے اور مختلف راگ راگنیوں کے متعلق میری رائے پوچھی ہے۔ جی ہاں مجھے تھوڑا بہت شوق ہے۔ جے جے ونتی سے آپ کو زیادہ دلچسپی نہیں۔ آپ کو تعجب ہو گا کہ جب دلی سے بٹھنڈہ آتے وقت میں نے جے جے ونتی سٹیشن دیکھا تو مجھے بھی پسند نہیں آیا۔ میاں کی ملہار سے آپ کی مراد غالباً خاوند کی ملہار ہے۔ جی نہیں میں نے یہ نہیں سنی۔ ویسے ایک خاندان کے افراد بھی میاں کہلاتے ہیں۔ شاید یہ ان کی ملہار ہو۔ آپ کا فرمان ہے کہ ٹو ڈی صبح کی چیز ہے لیکن میں نے لوگوں کو صبح شام ہر وقت" ٹو ڈی بچہ ہائے ہائے" کے نعرے لگاتے سنا ہے۔
بھوپالی کے متعلق میں زیادہ عرض نہیں کر سکتی، کیونکہ مجھے بھوپال جانے کا اتفاق نہیں ہوا۔ البتہ جوگ اور بہاگ کے بارے میں اتنا جانتی ہوں کہ جب یہ ملتے ہیں تو سوزِ عشق جاگ اٹھتا ہے (ملاحظہ ہو وہ گرامو فون ریکارڈ "جاگ سوزِ عشق جاگ)
جی ہاں مجھے فنونِ لطیفہ سے بھی دلچسپی ہے۔ مصوری، بت تراشی، موسیقی، فوٹوگرافی اور کروشیے کی بہت سی کتابیں ابا جان کی لائبریری میں رکھی ہیں۔ میں اچھی فلمیں کبھی نہیں چھوڑتی۔ ریڈیو پر اچھا موسیقی کا پروگرام ہو تو ضرور سنتی ہو، خصوصاً دوپہر کے کھانے پر۔
سیاست پر جو کچھ آپ کے لکھا ہے اس کے متعلق اپنی رائے اگلے خط میں لکھوں گی۔
آپ کی بہن مجھ سے خفا ہے اور خط نہیں لکھتی۔ شکایت تو الٹی مجھے ان سے ہونی چاہئے۔ انہوں نے رفی کو وہ بات بتا دی جو میں نے انہیں بتائی تھی کہ اسے نہ بتانا۔ خیر بتانے میں تو اتنا حرج نہ تھا لیکن میں نے ان سے تاکیداً کہا تھا کہ اس سے نہ کہنا کہ میں نے ان سے کہا تھا کہ اس سے نہ کہنا۔
پتہ نہیں یہ کزن والی کون سی بات ہے جس پر انہوں نے مجھ سے قسم لی تھی کہ رفی تک نہ پہنچے۔ مجھے تو یاد نہیں۔ ویسے میری عادت نہیں کہ دانستہ طور پر کوئی بات کسی اور کو بتاؤں۔ اگر بھولے میں منہ سے نکل جائے تو اور بات ہے۔
خط گھر کے بجائے کالج کے پتے پر بھیجا کیجئے اور اپنے نام کی جگہ کوئی فرضی نام لکھا کیجئے تاکہ یوں معلوم ہو جیسے کوئی سہیلی مجھے خط لکھ رہی ہے۔
باقی سب خیریت ہے۔
فقط
آپ کی بہن کی سہیلی​
( اور اس خط کا ذکر کسی سے بھی مت کیجئے۔ تاکیداً عرض ہے۔ )

کون کیا ہے؟

"کون کیا ہے" (who Is Who) کے عنوان سے مشہور ہستیوں کے حالاتِ زندگی اکثر چھپتے ہیں، جنہیں بیشتر لوگ زیادہ شوق سے نہیں پڑھتے اور اکثر شکایت کرتے ہیں کہ کچھ تشنگی سی رہ جاتی ہے۔ شاید اس لئے کہ فقط اُن ہستیوں کا ذکر کیا جاتا ہے جنہیں پبلک پہلے سے جانتی ہے، یا اس لئے کہ ان ہستیوں کی فقط تعریفیں ہی تعریفیں کی جاتی ہیں۔
زمانہ بدل چکا ہے۔ قدریں بھی بدل چکی ہیں۔ غالباً ان دنوں پڑھنے والے سوانح عمری کی سرخیاں ہی نہیں جاننا چاہتے۔ وہ کچھ اور باتیں بھی معلوم کرنا چاہتے ہیں اور یہ کہ ان کی رائے میں غیر معروف ہستیاں بھی توجہ کی مستحق ہیں۔
چنانچہ نئے تقاضوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے "کون کیا ہے" کچھ یوں بھی مرتب کیا جا سکتا ہے:۔
ذکی الحِس۔ نئی دہلوی
اوائلِ جوانی میں (لگاتار سگریٹ اور چاء نوشی سے) کافی بیزار رہے پھر آہستہ آہستہ عادت پڑ گئی۔
60ء میں ایک دن اچھے بھلے بیٹھے تھے۔ پتہ نہیں کیا ہوا کہ یکایک نقاد بن گئے۔ تب سے نقاد ہیں اور کافی ہاؤس یا چاء خانوں میں رہتے ہیں۔ کبھی کبھار حجامت کے سلسلے میں اپنے گھر چلے جاتے ہیں۔
ادبی رسائل کے شروع شروع کے پچیس تیس صفحات آپ کی تنقیدوں کے لئے مخصوص ہو چکے ہیں۔ (جنہیں ایم۔ اے اردو کے طلباء کو مجبوراً پڑھنا پڑتا ہے)۔
67ء میں کسی نے کہا کہ اردو ادب پر ان کی تنقیدوں کے صفحات تلوائے جائیں اور پھر سارے ادب کا وزن کیا جائے تو تنقیدیں کہیں بھاری نکلیں گی۔ آپ اسے شاباش سمجھ کر بہت خوش ہوئے اور رفتار دُگنی کر دی۔
یہ اردو نثر کی خوش قسمتی ہے کہ آپ اسے زیادہ نہیں چھیڑتے۔ آپ کا بیشتر وقت اردو شاعری کی خبر لینے میں گزرتا ہے۔
ان دنوں پی ایچ ڈٰی کے لئے مقالہ لکھ رہے ہیں جس کا لُبِ لباب یہ ہے کہ غالب کی شاعری پر رنگین کا اثر غالب ہے۔ رنگین نے بیشتر موضوع مصحفی سے اخذ کئے۔ مصحفی کی شاعری کا ماخذ میر کا تخیل ہے جنہوں نے بہت کچھ سراج دکنی سے لیا۔ سراج دکنی نے ولی دکنی سے اور ولی دکنی نے سب کچھ دکن سے چُرایا۔ (چونکہ مقالہ رسائل کے لئے نہیں، یونیورسٹی کے لئے ہے، اس لئے آپ نے شعراء کو اتنا بُرا بھلا نہیں کہا جتنا کہ اکثر کہا کرتے ہیں)۔
اگر چاء اور سگرٹوں میں غذائیت ہوتی تو آپ کبھی کے پہلوان بن چکے ہوتے مگر حقیقت یہ ہے کہ آپ کی صحت کو دیکھ کر بڑی آسانی سے عبرت حاصل کی جا سکتی ہے۔
دراصل آپ کے رویے (اور تنقید) کا دارومدار سگرٹوں اور چاء کی پیالیوں کی تعداد پر ہے۔ روزانہ پچاس سگرٹوں اور پچیس پیالیوں تک تو آپ شاعری کے گناہ معاف کر سکتے ہیں، لیکن اس کے بعد آزاد شاعری تک کو نہیں بخشتے۔
68ء میں آپ کو یونہی وہم سا ہو گیا تھا کہ آپ عوام میں مقبول نہیں ہیں۔۔۔ لیکن چھان بین کرنے کے بعد 69ء میں معلوم ہوا کہ وہم بے بنیاد تھا۔ فقط وہ جو انہیں اچھی طرح نہیں جانتے انہیں نظر انداز کرتے ہیں۔ لیکن جو جانتے ہیں وہ باقاعدہ ناپسند کرتے ہیں۔
اپنے آپ کو (پتہ نہیں کیوں) مظلوم اور ستایا ہوا سمجھتے ہیں اور اکثر زندگی کی محرومیوں کی داستان(کافی ہاؤس میں) سنایا کرتے ہیں۔۔۔ جس کا خلاصہ کچھ یوں ہے :۔ پہلے ان کے خواب تمام ہوئے۔ پھر دانت تمام ہوئے۔ پھر دوست تمام ہوئے (کم از کم آپ کا یہی خیال تھا کہ وہ دوست تھے)۔ اکثر کہا کرتے ہیں کہ آپ کو بنی نوعِ انسان سے قطعاً نفرت نہیں۔۔ فقط انسان اچھے نہیں لگتے۔
کھیل کُود کو انٹلکچوئل پنے کا دشمن سمجھتے ہیں۔ یہاں تک کہ لمبے لمبے سانس لینے سے بھی نفرت ہے۔
69ء میں وزن کرتے وقت مشین سے کارڈ نکلا جس پر وزن پونے اُنتالیس سیر کے علاوہ یہ لکھا تھا۔۔ " ابھی کچھ امید باقی ہے۔ غیر صحت مند حرکتیں چھوڑ کر ورزش کیجئے۔ صحیح غذا اور اچھی صحبت کی عادت ڈالئے اور قدرت کو موقع دیجئے کہ آپ کی مدد کر سکے۔"
آپ نے کارڈ پھاڑ کر پھینک دیا۔ حالانکہ اگر کسی مشین نے کبھی سچ بولا ہے تو اُس وزن کی مشین نے 69ء میں بولا تھا۔
صحیح رقم خوش نویس
پہلے کچھ اور کیا کرتے تھے۔ ایک دن جھنجھلا کر کاتب بن گئے۔
آپ کی لکھی ہوئی تحریر پر پروئے ہوئے موتیوں کا گماں گزرتا ہے۔
زبان کے پکے ہیں۔ جب وعدہ کرتے ہیں تو اُسی سال کام مکمل کر کے رہتے ہیں۔
لکھتے وقت موقعے (اور اپنے موڈ کے مطابق) عبارت میں ترمیم کرتے جاتے ہیں۔ عالمِ دلسوزی کو عالمِ ڈلہوزی، بِچھڑا عاشق کو بَچھڑا عاشق، سہروردی کو سردردی، سماجی بہبودی کو سماجی بیہودگی، وادیء نیل کو وادیء بیل بنا دینے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے۔
کسی غلام حسن کے نواسے نے اپنے آپ کو نبیرہء غلام حسن لکھا جو آپ کو نامانوس سا معلوم ہُوا۔ چنانچہ آپ نے کچھ دیر سوچ کر اسے بٹیرہء غلام حسن تحریر فرمایا۔
ایک رومانی افسانے میں حُور شمائل نازنین کو چور شمائل نازنین لکھ کر کہانی کو چار چاند لگا دیئے۔ اسی طرح قہقہے کو قمقمے، موٹے موٹے انجیروں کو موٹے موٹے انجینیئروں، اپنا حصّہ کو اپنا حقّہ، پھُلواری کو پٹواری بنا دیتے ہیں۔
پروازِ تخیل کی انتہا ہے کہ جہاں شبلی عفی عنہ لکھنا چاہئیے تھا وہاں لکھا۔ ستلی کئی عدد۔
اس وقت ملک میں آپ سے بہتر کاتب ملنا محال ہے۔

استفسارات و جوابات

سوال:
میں لٹریچر کی طالبہ ہوں۔ عمر تقریباً انیس سال ہے اور مجھے تھامس ہارڈی، ترگنیف اور کیپلینگ کی مسحور کن اور دلکش تحریروں سے اس قدر الفت ہے کہ بیان نہیں کر سکتی۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ کہیں یہ حضرات شادی شدہ تو نہیں؟
جواب:
یہ حضرات شادی شدہ ہی نہیں بلکہ ان کا انتقال بھی ہو چکا ہے۔
سوال:
میرا خیال ہے کہ قدرت ایسی اشیائے مدرکہ سے مل کر بنی ہے جو ایک دوسرے کے کُل اور جزو کی حیثیت سے شامل ہیں جہاں اضدادی اسلوبِ تفکر تمام اشیائے مدرکہ کو سمجھنے کے لئے کیا گیا ہے وہاں فلسفیانہ دقیقہ رسی، توازنِ اتصال اور اضدادی مادیت کو قوتیاتی رتبہ حاصل ہے۔ کائنات کی حیاتِ مادی ہی مقدم ہے۔ اس کی حیاتِ روحانی ثانوی اور استخراجی ہے۔ اعصابی کیفیتیں اور نا آسودہ جبلتیں در اصل خارجی چیزوں اور ان کے ارتقا کا عکس نہیں ہیں بلکہ خارجی چیزیں ہیں اور ان کا ارتقا حقیقت کی شکل میں او تصور کا محض عکس ہیں جو وجودِ کائنات سے قبل تھا۔ مفکروں کے نزدیک کائنات اور جملہ نظامات ابدی اور استقراری ہیں اور خیالِ نفسِ ناطقہ پر عالمِ بالا لے ترشحات کا نتیجہ ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کائنات کا ارتقا تجویز اور تردید کے تصادم سے عبارت ہو گا تو پھر تدریجی وقفے کے بعد نقطۂ تغیر کب ظہور پذیر ہو گا؟ وہ کون سی تردید ہو گی جو تجویز سے متصادم ہو کر نئی ترکیب کو وجود میں لائے گی؟
جواب:
اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
سوال:
مجھے تین کہاوتیں بہت پسند ہیں:
زر، زمین، زن فساد کی جڑ ہیں
اصل دوست وہ ہے جو ضرورت کے وقت کام آئے۔
دوسروں سے وہی سلوک کرو جس کی توقع تمہیں ان سے ہو سکتی ہو۔
یہی سوچتا رہتا ہوں کہ اگر سب لوگ ان پر عمل کرنے لگیں تو دنیا کتنی بہتر جگہ بن سکتی ہے۔ آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب:
غالباً آپ نہیں جانتے کہ بدلی ہوئی قدروں کے ساتھ پرانی کہاوتیں بھی بدل چکی ہیں، فی زمانہ انہیں یوں پڑھنا چاہیئے۔
زر، زمین، زن کی کمی ہی فساد کی جڑ ہیں۔
اصلی دوست وہ ہے جسے کوئی ضرورت نہ ہو
دوسرے کے ساتھ فوراً وہی سلوک کرو، بیشتر اس کے کہ وہ تم سے وہی سلوک کر سکیں
سوال:
مجھے جس لڑکی سے محبت ہے وہ حسین ہونے کے علاوہ انٹیلیکچول بھی ہے۔ میں "ڈاکٹر " ہوں اس لیے علم و ادب میں دلچسپی رکھنے کی قطعاً فرصت نہیں۔ ابھی تک پیغام نہیں بھجوایا کیوں کہ میرے خیال میں وہ ولی دکنی، ہربٹ سپینسر، ابو نواس اور بھرتری ہری کے جانب مائل ہے، جب کبھی اس سے ملتا ہوں، یہی نام سننے میں آتے ہیں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کروں؟ آپ کے مشورے کا منتظر ہوں۔
جواب:
ہمارے خیال آپ کو فوراً پیغام بھیجنا چاہئے، اتنے حضرات کے موجودگی میں ذرا سی دیر بھی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔
سوال:
ان اشعار کا کیا مطلب ہے؟
لیا جس نے مجھ سے عداوت کا پنجا
"سنلقی علیہم عذاباً ثقیلاً
نکل اس کی زلفوں کے کوچے سے اے دل
تو پڑھنا " قم الیلِ الا قلیلاً
جواب:
ان کا مطلب یہ ہے کہ شاعر کو عربی بھی آتی ہے
سوال:
میں ہائی سکول میں پڑھتا ہوں لیکن کورس کی کتابوں کے علاوہ لائبریری کے رسالوں اور کتب کے مطالعے کا بھی شوق ہے۔ آپ سے پوچھنا ہے کہ ایک طرف تو خودی کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے ادھر ایک بڑے مشہور شاعر نے "اک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہئے" کی خواہش ظاہر کی ہے، بھلا کس پر عمل کیا جائے؟
جواب:
ہم نے آپ کے سوال کے سلسلے میں تین شاعروں، چار نقادوں اور پانچ پروفیسروں سے رابطہ قائم کیا، لیکن وہ اب تک خاموش ہیں۔ جوں ہی ہمیں کوئی تسلی بخش جواب ملا، فوراً شایع کر دیں گے۔ مطمئن رہیں۔

بچے

ایک صاحب جو غالباً شکاری تھے اپنی آپ بیتی سنا رہے تھے کہ کس طرح وہ جنگل میں چھُپتے پھر رہے تھے اور ایک شیر ان کا تعاقب کر رہا تھا۔ بچے طرح طرح کے سوال پوچھ رہے تھے۔ شیر کا رنگ کیسا تھا؟ آپ کی شیر سے دشمنی تھی کیا؟ شیر دُبلا تھا یا موٹا؟ آپ نے شیر کی کمر پر لٹھ کیوں نہیں مارا؟ کیا آپ ڈرپوک تھے جو شیر سے ڈر رہے تھے؟۔۔۔۔ وہ تھوڑی سی بات کرتے اور سب بچے چلّا کر پوچھتے، پھر کیا ہوا؟ اور ساتھ ہی بے تُکے سوالات کی بوچھاڑ ہو جاتی۔ وہ بالکل تنگ آ چکے تھے۔ ایک مرتبہ بچوں نے پھر پوچھا کہ پھر کیا ہُوا؟
" پھر کیا ہونا تھا۔" وہ اپنے بال نوچ کر بولے۔ " پھر شیر نے مجھے کھا لیا۔"
اور بچوں نے تالیاں بجائیں۔ ہپ ہپ ہرے کیا۔ ایک ننھا اپنا ڈھول اٹھا لایا اور ساتھ ہی لکڑی کا نصف گھوڑا، جسے آری سے کاٹا گیا تھا۔ اس گھوڑے کا نام لوئی ساڑھے تین تھا۔ انہوں نے وجہ بتائی کہ پہلے انہوں نے اُسے کسی دوست کے ساتھ مل کر خریدا تھا۔ تب اس کا نام لوئی ہفتم تھا۔ دونوں‌دوستوں کی لڑائی ہوئی تو گھوڑے کو آری سے آدھا آدھا تقسیم کیا گیا۔ چنانچہ اس کا نام لوئی ساڑھے تین رکھ دیا گیا۔
۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
اُدھر بچوں نے ہمیں پریشان کر دیا۔ ایک پوچھتا تھا، بھائی جان چڑیا گھر کو چڑیا گھر کیوں کہتے ہیں؟ دوسرا یہ معلوم کرنا چاہتا تھا کہ یہ چیتے اور شیر وغیرہ سرکس سے پہلے کیا کیا کرتے تھے؟ ایک کا غبارہ اُڑ گیا۔ وہ یہ دریافت فرما رہے تھے کہ کششِ ثقل نے غبارے کو روکا کیوں نہیں؟ کششِ ثقل سے اُن کا اعتبار اُٹھ چلا تھا۔
ایک بچے نے بتایا کہ اس نے ایک شخص دیکھا تھا جس کا نصف چہرہ بالکل سیاہ تھا۔
"یہ کیسے ہو سکتا ہے؟" روفی نے پوچھا۔
"اس کا بقیہ نصف چہرہ بھی سیاہ تھا۔"
ایک بزرگ فرما رہے تھے۔ " جب میں چھوٹا سا تھا تو اس قدر نحیف تھا، اتنا کمزور تھا کہ میرا وزن چار پونڈ تھا۔ مجھے دنیا کی بیماریوں نے گھیرے رکھا۔"
"تو کیا آپ زندہ رہے تھے؟" ایک ننھے نے دریافت کیا۔
ایک خاتون فرما رہی تھیں۔" اس وقت اپنے ملک میں ہم جاگ رہے ہیں، لیکن امریکہ کے بعض حصوں میں لوگ سو رہے ہوں گے۔"
" سُست الوجود کہیں کے۔" ایک ننھے نے بات کاٹی۔
۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
دوسرے کمرے سے ایک بچے نے صدائے احتجاج بلند کی اور نعرہ لگایا۔ ہم بھاگ کر پہنچے تو دیکھا کہ دو بچے لڑ رہے ہیں۔
بڑا چھوٹے کی خوب تواضع کر رہا تھا۔ مشکل سے دونوں کو علیحدہ کیا۔ دادی جان کے سامنے مقدمہ پیش ہوا۔ لڑائی کی تفصیل بیان کی جا رہی تھی۔ چھوٹا بچہ ڈینگیں مار رہا تھا کہ میں نے یہ کیا، میں نے وہ کیا۔ وہ کہہ رہا تھا۔ " میں نے اس کو پکڑ کر اپنے اوپر گرا لیا اور اپنی ناک اس کے دانتوں میں دے دی۔ پھر میں نے اس کی کُہنی اپنی پسلیوں میں چبھو دی اور دھڑام سے اس کا مُکہ اپنی کمر میں رسید کیا۔ پھر زور سے اس کا تھپڑ اپنے منہ پر مارا۔ پھر میں نے اس کی ٹھوکر جو اپنے سینے میں لگائی ہے تو بس۔۔"

دجلہ

اقتباس
خبردار یہ پہلی دفعہ ہے
اگلے روز منصور نے پوچھا کہ اب ایک صحرا نشیں شیخ سے ملو گے، میں نے بدوں کی مہمان نوازی کی کہانیاں سنی تھیں کہ جو بدو شہروں سے دور صحرا میں رہتے ہیں وہ واقعی مہمانوں کو سرآنکھوں پر لیتے ہیں۔ کوئی آ جائے تو یہ کبھی نہیں کہا جاتا کہ صاحب گھر میں نہیں ہیں،یا نہا رہے ہیں بلکہ یہ شعر پڑھا جاتا ہے اے ہمارے معزز مہمان آپ دور سے تشریف لائے، ہماری عزت افزائی ہوئی۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم مہمان ہیں اور آپ صاحب خانہ۔ (مہمان بھی شرافت سے کام لیتا ہے اور اگلی صبح کو روانہ ہو جاتا ہے:))ایسے موقعوں پر میزبان کی بیوی کا نام نہیں لیا جاتا (اگر وہ ڈنر میں شامل نہ ہو تواسے دقیانوسی نہیں سمجھا جاتا;))اتفاقااس کا ذکر آ جائے تو مہمان ادب سے اسے العیال کہتے ہیں۔
یہ بھی سنا تھا کہ بدو کی دعوت ہمیشہ قبول کر لینی چاہئے۔ایک مرتبہ کسی شیخ نے ایک غیر ملکی کو شادی کی تقریب پر مدعو کیا اس نے معذوری ظاہر کی اور معافی مانگ لی۔چنانچہ صحیح تاریخ پر اسے اغوا کر لیا گیا اور دعوت میں شامل کر کے بعد میں واپس بھیج دیا گیا۔اگلے روز اسے شیخ کا خط ملا ج سمیں شمولیت کا شکریہ ادا کیا گیا تھا۔
شیخ کا دعوت نامہ آیا تو ہم سبب بھول گئے۔ کئی گھنٹوں کی مسافت کے بعد نخلستان آیا،شیخ ہمارا منتظرتھا۔ اسی کے لگ بھگ عمر،تانبے جیسارنگ،کشادہ سینہ مسکراتاہواچہرہ،بتیس دانتوں میں سے ایک بھی مصنوعی نہیں تھا اس جوان بوڑھے کو دیکھ کر ہم جوانوں پر بڑھاپا طاری ہو گیا۔کئی مودب ملازم کھڑے تھے لیکن وہ کسی کو ہمارے قریب نہ آنے دیتا، خود سگریٹ پیش کرتا، سلگاتا،راکھدانی سامنے رکھتا،شربت بنا کر دیتا۔ پھر ہم سب کو دوسرے کمرے میں لے گیا دروازہ بند کر کے الماری کھولی"میں خود تواس سے محروم ہوں لیکن معزز مہمان شوق فرمائیں"،اس نے انگریزی میں مخاطب ہو کر کہا۔ الماری میں وہسکی اورسوڈے کی بوتلیں تھیں جن پر گرد جمع تھی۔ طشت میں برف کی ڈالیاں تھیں سب خاموش ہو گئے، کسی نے ہاتھ تک نہ لگایا۔
ضیافت بے حد پر تکلف تھی لیکن اس نے ایک لقمہ نہ چکھا مہمانوں کے سامنے چیزیں رکھتا رہا اور اتنی دیر تک کھڑا رہا۔
"اس عمر میں ایسی قابل رشک صحت کا راز کیا ہے"برٹن نے پوچھا۔ (جس کے آدھے حصے سے زیادہ دانت مصنوعی تھے)
"نخلستان میں کئی ایسے ہیں جو مجھ سے بڑے اور مجھ سے زیادہ تندرست ہیں"
"منصور کہتا ہے کہ آپ کی ازدواجی زندگی بے حد خوشگوار رہی ہے۔ شادی ہوئے ساٹھ برس گزر گئے لیکن کبھی ام العیال سے لڑائی نہیں ہوئی۔ آپ نے یہ معرکہ کیسے مارا؟"برٹن نے پوچھا۔
میں اپنے کام میں مصروف رہتا ہوں وہ اپنے کام میں‌لگی رہتی ہے۔اس کی نوبت ہی نہیں آتی۔
"آپ چھپا رہے ہیں کوئی وجہ تو ضرور ہو گی"۔
"مدتیں گزری ایک معمولی ساواقعہ پیش آیا تھا میں بے حد مفلس تھا۔ کسی سے اونٹنی مانگ کر شادی کرنے گیا۔ سادہ سی رسم کے بعد بیوی کو اونٹنی پر بٹھا کر واپس روانہ ہوا ایک جگہ اونٹنی بلاکسی وجہ کے مچلنے لگے بہتیرا پیار سے تھپتھپایا لیکن قابو میں نہ آئی۔نیچے اتر کر مہار کھینچی۔ بڑی مشکل سے سیدھی ہوئی۔ تواسے تنبیہ کی۔ اونٹنی!یہ حرکت پہلی دفعہ کی ہے۔ پھر مت کرنا۔ ہم روانہ ہوئے بمشکل آدھ میل گئے ہوں گے کہ جھاڑیوں سے چند پرندے اڑے اور وہ بدک کر کودنے لگے میں چھلانگ لگا کر نیچے اترا، بڑی مصیبتوں سے اسے رام کیا۔اوراس کے سامنے کھڑے ہو کر کہا خبردار اونٹنی!یہ دوسری دفعہ ہے۔ آگے ایک کھیت میں ذرا ذرا پانی کھڑا تھا وہ پھر مستیاں کرنے لگی میں نے کندھے سے بندوق اتار کر وہیں ہلاک کر دیا۔ بیوی یا تو اب تک بالکل گونگی تھی یا یکلخت بر س پڑی۔ مجھے خر دماغ، ظالم اور بیوقوف کہا کہ طیش میں آ کر اپنا نقصان کر لیا۔ میں نے سب کچھ سن کر اسے تنبیہ کی۔ خبردار بیوی!یہ پہلی دفعہ ہے۔ حضرات ساٹھ برس گزر گئے اوردوسری مرتبہ خبردار کرنے کی ضرورت نہیں پڑی:)۔

انسانی ناک

انسانی ناک پر ایک تقریر۔( ولیم سروین کے ناول دی ہیومن کامیڈی سے ایک باب۔ ترجمہ کرنل شفیق الرحمٰن)
‘‘ تھوڑے ہی دنوں کی بات ہے کہ ایشیائے کوچک میں کھدائی ہوئی تو ایک عظیم الشان سلطنت کے آثار برآمد ہوئے۔۔۔ ’’
ہومر غنودگی میں تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ یہ عظیم الشان سلطنت کہاں تھی؟ اتھاکا میں؟ کیلیفورنیا میں؟ پھر کیا ہوئی؟ اب نہ اس میں عظیم انسان ہیں، نہ ایجادیں نہ دھوپ گھڑیاں، نہ اعداد و شمار نہ رات منڈل نہ کوئی راگ رنگ، نہ کچھ اور۔ اور کہاں ہے یہ عظیم الشان سلطنت؟
وہ ہڑ بڑا کر اٹھا اور ادھر ادھر جھانکنے لگا۔ جدھر نگاہیں جاتیں، ہیلن کا چہرہ سامنے آ جاتا۔ سب سے بڑی سلطنت تو یہ چہرہ تھا۔
’’ حطیطی مصر کے ساحل پر جا پہنچے اور ملک بھر میں پھیل گئے۔ عبرانی خون میں آمیزش کر کے انہوں نے عبرانیوں کو حطیطیوں جیسی ناک عطا کی۔‘‘
ہیلن خاموش ہو گئی۔سبق ختم ہو گیا تھا۔
‘‘ شاباش ہیلن!۔۔۔ ’’ استانی نے کہا۔
ہیلن اپنی جگہ پر بیٹھ گئی۔ استانی نے پوچھا۔‘‘ بچو! آج کے سبق سے کیا سیکھا؟’’
‘‘یہی کہ دنیا میں ہر شخص کے ناک ہوتی ہے۔’’ ہومر نے جواب دیا۔
‘‘ اور کیا سیکھا؟’’
‘‘ اور یہ کہ ناک صرف صاف کرنے یا زکام کروانے کے لیے ہی نہیں ہے بلکہ تاریخ قدیم کے سلسلے میں بھی کام آتی ہے۔’’
‘‘ کوئی اور بچہ جواب دے۔’’ استانی نے جماعت کی طرف دیکھا۔
‘‘ جی میں تو سبق کی باتیں بتا رہا ہوں۔ ناک اتنی اہم چیز نہ ہوتی تو اس کا ذکر کیوں کیا جاتا۔۔’’ ہومر بولا۔
‘‘ تو پھر اٹھو اور انسانی ناک پر تقریر کرو۔’’ استانی نے کہا۔
تقریر تو کیا کرسکتا ہوں لیکن تاریخ کے مطالعے سے اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ زمانہ ماضی سے لے کر آج تک چہروں پر ہمیشہ ناک رہی ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ کلاس میں ہر چہرے کے ساتھ ایک ناک ہے۔ چاروں طرف ناکیں ہی ناکیں ہیں۔ ناک انسانی چہرے کا غالباً مہمل ترین حصہ ہے۔ بنی نوع انسان کو جتنا ناک نے پریشان کیا کسی اور چیز نے نہیں کیا۔ حطیطیوں کی اور بات ہے، ان کی ناک بے حد نفیس اور عام ناکوں سے مختلف تھی۔ لیکن دھوپ گھڑی کی کی ایجاد کو زیادہ اہمیت نہیں دی جا سکتی کیونکہ بعد میں کسی نے اصل گھڑی بنادی۔ اگر اہم ہے تو بس ایک چیز۔۔۔ ناک۔۔۔ ’’
مسخرہ جوزف بڑے شوق سے سن رہا تھا۔ اسے ہومر کی یہ باتیں بہت اچھی معلوم ہوئیں۔
کچھ لوگ بالکل ناک میں بولتے ہیں۔ کئی ناک کے ذریعے خراٹے لیتے ہیں۔ کچھ ہمیشہ ناک کی سیدھ میں چلتے ہیں۔ کیئوں کو ناک میں نکیل ڈال کر مطیع کیا جا سکتا ہے۔ انسان ناک گھس کر منتیں کرتا ہے۔ توبہ کرتے وقت ناک رگڑتا ہے۔ ناک میں دم آ جائے تو ناک سے تین سیدھی لکیریں کھینچتا ہے۔ خاندان کی ناک بنا رہتا ہے۔ اپنی ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتا۔ کسی کی بیہودہ حرکت سے خاندان کی ناک کٹ جاتی ہے۔ موم کی ناک کو جدھر چاہو موڑ لو۔ ناک کا بال ناک سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے۔ بعض لوگ دوسروں کے معاملے میں خواہ مخواہ اپنی ناک ٹھونس دیتے ہیں۔ ناک ساکن ہے لیکن چہرہ متحرک ہے۔ اس لیے جہاں چہرہ جاتا ہے ناک کو بھی جاتا پڑتا ہے۔ ناک صرف سونگھنے کے لیے ہے۔ بہت سے لوگ اپنی ناک سے ہی بہت کچھ تاڑ جاتے ہیں۔’’
ہومر نے ہیوبرٹ کی طرف دیکھا، پھر ہیلن کی طرف، جس کی ناک میں ذرا سا خم تھا۔
ایسے لوگوں کی ناکوں کا رخ آسمان کی طرف رہتا ہے، جیسے ناک کے رخ ہی تو بہشت جائیں گے۔ ایک دو جانوں کو چھوڑ کر سب کے نتھنے ہوتے ہیں۔ مکمل ناک فقط انسان کے حصے میں آئی ہے۔ پھر بھی حیوانوں کی قوت شامہ ہم سے تیز ہے۔ میں اس بات پر زور دینا چاہتا ہوں کہ ناک ہی فساد کی جڑ ہے۔ اسی سے دوستی ٹوٹتی ہے، لڑائیاں ہوتی ہیں، کنبوں میں پھوٹ پڑتی ہے۔ جنگوں کی اصل وجہ ناک ہے۔ مس ہکس ! میں دوڑ میں چلا جاؤں؟’’
استانی خوش تھی کہ چھوٹی سی بات کو ہومر نے کس طرح بڑھا چڑھا کر بیان کیا، لیکن بچوں کو قابو میں رکھنا بھی ضروری تھا۔ اس نے سر ہلا کر کہا‘‘ نہیں ہومر، تم یہیں رہو گے، اور ہیوبرٹ تم بھی۔ اچھا، اب ناک کو دفع کرو اور جو کچھ پڑھا ہے اس کے متعلق بتاؤ۔’’
کلاس خاموش تھی۔‘‘ کچھ تو کہو۔’’
مسخرے جوزف نے اٹھ کر ایک رباعی پڑھی۔
‘‘ ناکیں لال لال ہیں
بنفشہ نیلا نیلا ہے
جماعت نیم مردہ ہے
آپ کا رنگ پیلا ہے۔’’
‘‘ کچھ اور۔۔۔ ؟’’ استانی نے پوچھا۔
‘‘جہاز راں اور سیاح لوگوں کی ناکیں پکوڑے جیسی ہوتی ہیں۔’’ ایک لڑکی بولی۔
‘‘جڑواں بچوں کی دو ناکیں ہوتی ہیں۔’’ جوزف بولا۔
‘‘ ناک ہمیشہ آگے ہوتی ہے، سر کے پیچھے کبھی نہیں ہوتی۔’’ جوزف کا ایک ساتھی بولا۔
‘‘ کچھ اور۔۔؟؟’’ استانی برابر یہی کہے جا رہی تھی۔‘‘ اچھا تم بتاؤ ہنری’’
‘‘ جی میں ناکوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔’’
‘‘ حضرت موسیٰ کے متعلق تو جانتے ہو؟’’ جوزف نے ہنری سے پوچھا۔
‘‘ ہاں! انجیل میں ان کا ذکر ہے۔’’
‘‘ ان کے ناک تھی یا نہیں؟’’
‘‘ تھی۔’’
‘‘تو کہہ دو کہ حضرتِ موسیٰ صاحبِ ناک تھے۔۔ تمہیں معلوم نہیں کہ ہم تاریخِ قدیم پڑھ رہے ہیں۔ تم لوگ علم حاصل کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔’’
‘‘کچھ اور۔۔’’ استانی نے پھر پوچھا۔
‘‘ خیالات اڑتے ہیں، قدم چلتے ہیں اور ناک بہتی ہے۔’’ جوزف بولا۔
‘‘ مس ہکس، دوڑ میں جانے کی اجازت دے دیجیے۔’’ ہومر نے عاجزی سے کہا۔
‘‘ مجھے کسی دوڑ ووڑ کی خبر نہیں۔ اچھا کوئی اور۔۔؟’’
‘‘ جی میں نے اتنا کچھ تو کہا ہے ناکوں کے متعلق۔’’ ہومر بولا۔
‘‘ وہ سب مہمل تھا۔’’
اتنے میں گھنٹی بجی، بچے منتشر ہو گئے۔ صرف ہومر اور ہیوبرٹ رہ گئے۔

تعویذ

چار بجے شیطان چائے پینے آئے۔ جب ہم پی کر باہر نکلے تو دفعتاً انہیں محسوس ہوا کہ چائے ٹھنڈی تھی، ۔ چناچہ ہم ان کے ہوسٹل گئے وہاں کھولتی ہوئی چائے پی گئی، لیکن وہ مطمئن نہ ہوئے۔ منہ بنا کر بولے کہ یہ چائے بھی نامکمل رہی، کیونکہ اس کے ساتھ لوازمات نہیں تھے۔ طے ہوا کہ کسی کیفے میں جا کر باقاعدہ چائے پی جائے، ۔۔
مصیبت یہ ہے کہ شیطان کو ہر وقت چہاس لگی رہتی ہے اور وہ ان لوگوں میں سے ہیں، جنہیں دن میں دو مرتبہ قیامت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک تو جب علی الصبح نو دس بجے اٹھتے ہیں، تو ان کے سامنے دنیا اندھیر ہوتی ہے اور وہ سوچتے ہیں کہ، ۔۔ع۔ منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید۔ ۔۔ لیکن چائے کی چند پیالیوں کے بعد انہیں یکایک پتا چلتا ہے کہ ع ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔ ۔۔۔ یہی تماشا چار بجے چائے کے وقت ہوتا ہے۔ ساڑھے تین بجے سے بیزار ہوتے ہیں اور ساڑھے چار بجے ان جیسا مسخرہ ملنا محال ہے۔ اگر وہ چائے کی دریافت سے پہلے اس دنیا میں ہوتے تو خدا جانے ان کا کیا حال ہوتا۔ ۔
ہم سائکلوں پر ٹہلتے ٹہلتے کیفے میں پہنچے جہاں ہمیں اکثر بڈی (BUDDY) ملا کرتا تھا۔ اندر جا کر دیکھا تو سب کچھ سنسان پڑا تھا، فقط ایک کونے میں ایک نحیف و نزار نوجوان بیٹھا چائے پی رہا تھا۔ ہم اس کے قریب جا بیٹھے۔ ہماری پشت اس کی پشت کی طرف تھی۔
سسکیوں کی آواز نے ہمیں چونکا دیا وہ سُبڑ سُبڑ رو رہا تھا۔ چہرے سے پھسلتے ہوئے آنسو سینڈوچز، کیک کے ٹکڑوں اور چائے کی پیالی میں ٹپ ٹپ گر رہے تھے۔ غور سے دیکھتے ہیں تو یہ امجد تھا۔ امجد ہمارا پرانا دوست تھا، جو مدت سے لاپتہ تھا۔ ہم اس کی میز پر جا بیٹھے۔ بسُور بسُور کر اس نے علیک سلیک کی اور پھر رونے میں مصروف ہو گیا۔ شیطان بولے۔ دیکھئے مولانا، اگر آپ سینڈوچز یا چائے کے سلسلے میں رو رہے ہیں تو بہتر یہی ہو گا کہ کم از کم یہاں سب کے سامنے نہ روئیں۔ کیونکہ جس شخص نے یہ چیزیں تیار کی ہیں وہ سامنے کھڑا دیکھ رہا ہے اور بیحد حساس اور جذباتی ہے۔ اسے شدید اذیت پہنچے گی۔ لیکن امجد بدستور مصروف رہا۔ ۔
شیطان نے پوچھا۔ "خان بہادر صاحب کا کیا حال ہے ؟"
"کون سے خان بہادر صاحب کا؟" امجد نے برا منہ بنایا۔
"کوئی سے خان بہادر صاحب کاً
"اوہ!"
ہم نے بہتیری کوشش کی کہ اس نالائق سے باتیں کریں، لیکن کچھ نہ بنا۔ اتنے میں بڈی آ گیا۔ ہم نے لگاتار روتے ہوئے امجد کا تعارف لگاتار ہنستے ہوئے بڈی سے کرایا۔ اب بڑی سنجیدگی سے وجہ پوچھی گئی اور امجد نے بتایا کہ اس کی صحت روز بروز گرتی جا رہی ہے بلکہ بالکل ہی گر گئی ہے۔ اس کی آنکھوں کے سامنے کبھی تارے ناچتے ہیں اور اندھیرا چھا جایا رہتا ہے۔ وہ اپنے آخری امتحان میں مدت سے فیل ہو رہا ہے۔ لگاتار فیل ہو رہا ہے۔ اگر محنت کرے اور پرچے اچھے ہو جائیں، تب بھی وہ فیل ہو جاتا ہے۔ اور اگر پرچے خراب ہو جائیں، تب بھی۔ اس کی قسمت ہمیشہ اسے دھوکہ دیتی ہے۔ وہ کسی پر عاشق بھی ہے۔ محبوب نے پہلے تو سب کچھ کہہ سن لیا اور بعد میں بڑے مزے سے اسے ڈبل کراس کر دیا۔ آج کل محبوب بالکل خاموش ہے۔ ان کے ہاں آنا جانا بھی مدت سے بند ہے۔ کیونکہ ان کے ہاں ایک بےحد بھاری بھرکم اور خونخوار کتا کہیں سے منگایا گیا ہے۔ جو امجد کو بالکل پسند نہیں کرتا۔ بلکہ اس سے خفا رہتا ہے۔ محبوب کے ہاں ایک اور صاحب کی آمد و رفت بھی شروع ہو گئی ہے جو شاید رقیب رو سیاہ بننے والے ہیں۔ محبوب کے ابا امجد کو یونہی سا بیکار لڑکا سمجھتے ہیں اور انھوں نے شادی سے انکار کر دیا ہے۔ کیونکہ امجد کچھ نہیں کماتا۔ ۔۔ شیطان اور مقصود گھوڑے کی شہزادہ ہے۔ لیکن سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ اس کا کسی چیز کو دل ہی نہیں کرتا۔ بالکل جی نہیں چاہتا۔ یہاں تک کہ چائے سامنے رکھی ہے اور پینے کو جی نہیں چاہتا۔
گفتگو کے موضوع بدلتے رہے اور ہم نے امجد سے لیکر امجد تک گفتگو کی۔ شیطان بولے، ۔ " بھئی تمھاری مصیبتیں تو اتنی ہیں کہ ایک GUADIAN ANGEL تمہارا کام نہیں کر سکتا۔ تمہارے لئے تو فرشتوں کا سنڈیکیٹ بیٹھے گا۔ "
بڈی نے کہا، ۔"تم آج سے ورزش شروع کر دو۔ ہلکی پھلکی اور مقوی غذا کھاؤ۔ علی الصبح اٹھ کر لمبے لمبے سانس لیا کرو۔ قوت ارادی پیدا کرو۔ خوب محنت کر کے امتحان پاس کر لو۔ ملازمت ضرور مل جائے گی اور سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ " ادھر امجد نے اور زیادہ رونا شروع کر دیا۔ اب تو وہ باقاعدہ بھوں بھوں رو رہا تھا۔ آخر طے ہوا کہ امجد کی مدد کی جائے اور کل پھر یہیں ملاقات ہو۔
اگلے روز ہم سب وہیں ملے۔ اتفاق سے کالج کی چند لڑکیاں بھی وہاں بیٹھی تھیں۔ ایسے موقعوں پر میں ہمیشہ ظاہر کیا کرتا ہوں جیسے شیطان کے ساتھ نہیں ہوں کیونکہ ہمارے کالج کی لڑکیاں شیطان کو پسند نہیں کرتیں۔ جتنی دیر وہ ہماری دیکھتی رہیں، میں کسی اور طرف دیکھتا رہا۔ ان کے جانے پر گفتگو شروع ہوئی۔
"امجد! تم موسیقی پر فدا ہو جاؤ۔ " شیطان بولے۔ " یہ پیازی ساڑھی والی لڑکی بڑا اچھا ستار بجاتی ہے۔ تمہیں کوئی ساز بجانا آتا ہے ؟ "
"ہاں!"
"کون سا؟ "
"گراموفون۔"
"تب تم موسیقی کو پسند نہیں کرو گے۔ اچھا یہ بتاؤ کہ تم آخری مرتبہ اس لڑکی سے ملے تو کیا باتیں ہوئی تھیں ؟"
"میں نے اسے شادی کے لیے کہا تھا۔ ۔۔۔ ۔۔۔ اور یہ کہ میں کچھ بھی نہیں ہوں۔ نہ کچھ کما سکتا ہوں۔ نہ کسی قابل ہوں۔ نہ کچھ کر سکتا ہوں۔ اور نہ کچھ کر سکوں گا۔ "
"پھر؟"
"پھر اس نے کچھ نہیں کہا اور آج تک خاموش ہے۔ "
"تمھارے ہونے والے خسر اچھے خاصے قبر رسیدہ بزرگ ہیں۔ میں انہیں بالکل پسند نہیں کرتا۔ لیکن لڑکی بہت اچھی ہے۔ جتنے تم شکل و صورت میں بخشے ہوئے ہو، اتنی ہی وہ حسین ہے۔ تمہیں احساس کمتری ہو جائے گا بھلا کبھی تمھاری خط و کتابت بھی ہوئی تھی ؟"
"ہوئی تھی !" کہہ کر امجد نے خطوط کا پلندہ میز پر رکھ دیا۔ شیطان نے جلدی سے خطوط کو سونگھا اور بولے " جلدی ہے اس لیے ساری باتیں تو کبھی فرصت میں پڑھیں گے، البتہ خطوط کو ترتیب وار رکھ کر صرف القاب پڑھ کر سناتا ہوں۔ "
ترتیب وار القاب یہ تھے، ۔ "۔ ۔۔۔ ۔جناب امجد صاحب"۔ ۔۔۔ ۔"امجد صاحب"۔ ۔۔۔ ۔۔ "امجد"۔۔۔۔ ۔۔ "پیارے امجد"۔۔۔۔ ۔۔۔ "امجد"۔۔۔۔ ۔۔ "امجد صاحب"۔۔۔۔ ۔"جناب امجد صاحب"
ادھر امجد نے پھر رونا شروع کر دیا۔ شیطان بولے " میں رات بھر سوچتا رہا ہوں کہ تمہارے لیے کیا کیا جائے۔ یہاں سے بہت دور جنگلوں میں ایک پہنچے ہوئے بزرگ رہتے ہیں۔ ان تک میری رسائی ہو سکتی ہے۔ اچھا تعویذ گنڈوں پر کس کس کا اعتقاد ہے ؟"
سوائے بڈی کے ہم سب معتقد تھے۔ بڈی نے پوچھا،۔ "تعویذ گنڈے کیا ہوتے ہیں ؟"
"کیا امریکہ میں تعویذ وغیرہ نہیں ہوتے ؟"
"نہیں تو۔"
جب بڈی کو سب بتایا گیا تو وہ بولا، ۔ " ہمارے ہاں Good luck کے لیے شگون ہوتے ہیں۔ مثلاً سیاہ بلی کا دیکھنا یا سڑک پر گھوڑے کی نعل مل جانا۔ ۔۔۔ ۔ یہ تعویذ وغیرہ نہیں ہوتے۔ ۔۔۔ ۔ لیکن مجھے شگونوں پر اعتقاد نہیں ہے۔ کیونکہ ایک مرتبہ میں ایک لڑکی سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ نجومی نے مجھے بتایا کہ اگر مجھے اگلے اتوار کو غروب آفتاب سے پہلے سڑک پر گھوڑے کی نعل مل گئی، تو بہت اچھا شگون ہو گا اور غالباً اس لڑکی سے میری شادی ہو جائے گی۔ اگلے اتوار کو میں نے منہ اندھیرے اٹھ کر سڑکیں ناپنا شروع کر دیں۔ دوپہر ہوئی، سہ پہر آئی۔ گھوڑے کی نعل تو کیا گدھے کی نعل بھی نہ ملی۔ آخر میں نے دو اصطبلوں کا رک کیا۔ وہاں بھی ناکامی ہوئی۔ شام ہونے پر میں بہت گھبرایا۔ ہمارے پڑوس میں ایک گھوڑا رہتا تھا۔ میں نے چند اوزار اٹھائے، اور اپنے بھائی کو ساتھ لیا۔ اور چپکے سے اس گھوڑے کو باندھ بوندھ کر رکھ دیا گھوڑا ہرگز رضامند نہیں تھا، لیکن ہم نے زبردستی اس کی نعل اتار لی۔ باہر نکل کر جو دیکھا تو سورج غروب ہو رہا تھا اگلے روز میں نے اس لڑکی سے شادی کیلئے کہہ دیا اور اس نے کسی اور سے شادی کر لی۔ تب سے گھوڑے کی نعل سے میرا اعتقاد اٹھ گیا ہے۔ کیا لغویت ہے۔ اگر گھوڑے کی نعل اتنی ہی مبارک چیز ہے، تو گھوڑوں کو بےحد خوش نصیب ہونا چاہئیے۔ "
"لیکن تمہارا واسطہ مشرق کت عاملوں سے نہیں پڑا۔ یہاں تو ایسے ایسے عمل کیے جاتے ہیں کہ سن کر یقین نہیں آتا۔ شکلیں بدل جاتی ہیں۔ تقدیریں بدل جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ دنیا بدل جاتی ہے۔ "
"ہاں ! تم نے پیروں، فقیروں اور سنیاسیوں کے متعلق نہیں پڑھا؟"
"میں نے فلموں میں دیکھا ہے کہ ہندوستاں میں بڑی بڑی پراسرار باتیں ہوتی ہیں۔ یہاں کے فقیر کچھ پڑھ کر ایک رسے پر پھونک دیتے ہیں، رسہ سیدھا کھڑا ہو جاتا ہے اور وہ رسے پر چڑھ جاتے ہیں۔ رات کو وہ میخوں کے بستر پر سوتے ہیں۔ "
"یقیناً! تم خود دیکھ لو گے۔ میں کوشش کر رہا ہوں کہ امجد کیلئے ان بزرگ سے تعویذ حاصل کروں اگرچہ یہ بہت مشکل کام ہے۔ اول تو وہ بزرگ کسی کو تعویذ دیتے ہی نہیں۔ اگر کبھی خوش ہو کر دیتے ہیں تو صرف سال میں ایک آدھ مرتبہ۔ لیکن میں اپنی ساری کوشش صرف کر دوں گا۔ ان کا تعویذ جادو سے کم اثر نہیں رکھتا ناممکن سے ناممکن باتیں ممکن ہو جاتی ہیں۔ اگر مل گیا تو امجد کی تقدیر بدل جائے گی۔ اور امجد تمہیں میری ہدایات پر عمل کرنا ہو گا۔ اب تمہارے لئے صرف دو باتیں رہ گئی ہیں یا تو میری ہدایات پر عمل کرو اور یا۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ پھر ان پر عمل کرو۔ "
شیطان نے ایک لمبی چوڑی فہرست بنائی۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ امجد دو دن بھوکا رہے گا، صرف اسے بکری کا دودھ اور چھوہارے ملیں گے۔ وہ کسی سے بات نہیں کرے گا۔ دوسرے روز شام کو حجامت کرائے گا، پھر سفید لباس پہن کر عطر لگا کر رات بھر ایک وظیفہ پڑھے گا۔ اگلے روز تالاب میں کھڑا ہو کر دعا مانگے گا اور سورج کی پہلی شعاع کیساتھ اس کے بازو پر تعویذ باندھ دیا جائے گا۔ ۔۔ وغیرہ وغیرہ، ۔۔
امجد نے فقط ایک اعتراض کیا۔ وہ یہ کہ وہ سر پر استرا ہرگز نہیں پھروائے گا۔ البتہ قینچی سے حجامت کرا لے گا، ۔
شیطان ایک ہفتے تک غائب رہے۔ پھر یکایک تعویذ لے کر نازل ہوئے۔ پہلے تو ان بزرگ کے متعلق باتیں سنائیں کہ انہوں نے اپنی ساری عمر جنگلوں میں گزاری ہے۔ بہت کم کھاتے ہیں۔ بولتے تو بالکل بھی نہیں۔ کوئی شخص ان کے پاس تک نہیں پھٹک سکتا۔ ان کے کمالات معجزوں سے کم نہیں۔ ان سے تعویذ حاصل کرنا بالکل ناممکن ہے۔ لیکن شیطان اپنی خوش قسمتی اور محض اتفاق سے کامیاب ہوئے ہیں ہم ان کی باتوں سے بہت متاثر ہوئے۔
شیطان نے رومال کھول کر ہمیں تعویذ کی زیارت کرائی۔ تعویذ موم جامے میں لپٹا ہوا تھا اور اس سے عنبر کی ہلکی ہلکی مہک آ رہی تھی۔ میں نے اور امجد نے اسے بوسہ دیا اور آنکھوں سے لگایا۔ بڈی نے بھی ہماری تقلید کی۔، ۔
امجد دو روز شیطان کیساتھ رہا۔ تیسرے روز اس کے داہنے بازو پر تعویذ باندھا گیا۔ شیطان ایک فاتحانہ انداز میں بولے "لو بھیا! سمجھ لو کہ آج تمہاری قسمت جاگ اٹھی۔ اب اس مقدس طاقت کے کرشمے دیکھو۔ "
ہم نے چند روز بعد امجد کو دیکھا۔ بسورتے ہائے چہرے پر اب مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔ لباس بھی پہلے سے بہتر تھا۔ آہستہ آہستہ تعویذ کی برکت سے تبدیلیاں آنی شروع ہو گئیں۔ اب ہر کام کیلئے امجد کا جی کرنے لگا۔ وہ چست ہو گیا ابیا تو وہ نہایت شوخ ٹائی لگاتا اور یا رنگین سکارف پہنتا۔ ہمیشہ اس کے کوٹ کے کاج میں ایک مسکراتا پھول اٹکا ہوتا۔
امجد کے امتحان میں ایک ہفتہ رہ گیا تھا۔ میں اور شیطان اس کے ہاں گئے اس کی دو تین من پختہ کتابوں کو دیکھا۔ شیطان کہنے لگے کہ کتابیں بہت زیادہ ہیں اور وقت بہت تھوڑا ہے۔ میرے خیال میں کچھ ہم پڑھتے ہیں، کچھ تم پڑھو۔ باقی کتابیں بڈی پڑھے گا۔ امجد نے کہا مذاق مت کرو کوئی تدبیر بتاؤ۔
شیطان نے مشورہ دیا کہ کتابوں کے خلاصے، نوٹ اور ایسی ویسی چیزیں امتحان میں ساتھ لے جاؤ اور دل کھول کر نکل کرو۔ امجد نہ مانا۔ شیطان بولے۔
ارے میاں !ایسا تعویذ بازو پر باندھا ہے کہ نقل تو نقل اگر کوئی سنگین جرم ترین جرم بھی کرآؤ تب بھی پتہ نہ چلے۔ اس کا سایہ ہمیشہ تمہارے سر پر رہے گا۔ غرضیکہ امجد کی خوب ہمت بندھائی گئی اور اس میں امتحان میں خوب نقل کی۔ لہذا پرچے نہایت اچھے ہوئے۔ نتیجہ نکلا تو امجد اول آیا۔ اب تعویذ پر ریشمی غلاف چڑھایا گیا۔ بڈی نے تعویذ کو کئی بار چوما۔ میرا جی بری طرح چاہ رہا تھا کہ ایک ایسا ہی تعویذ مجھے بھی مل جائے۔
اب سوال ملازمت کا تھا۔ ایک جگہ درخواست تو دے دی گئی، لیکن امید کسی کو بھی نہ تھی کچھ دنوں بعد بورڈ کے سامنے انٹرویو تھا۔ بورڈ کے صدر نزدیک ہی رہتے تھے۔ شیطان نے امجد کو مشورہ دیا کہ اگر تم صدر صاحب کے سامنے کئی بار جاؤ تو تعویذ کی برکت سے وہ اس قدر متاثر ہوں گے کہ فوراً منتخب کر لیں گے۔ امجد نے اگلے روز سے ان کا تعاقب شروع کر دیا۔ ان کے گھر گیا۔ انہوں نے صاف کہہ دیا کہ وہ ملازمت کے سلسلے میں کوئی گفتگو نہیں کرنا چاہتے، جو کچھ گو گا انٹرویو کے وقت سنادیا جائے گا۔ امجد منہ لٹکائے واپس آیا۔ شیطان نے ڈانٹا کہ پھر یہ تعویذ کس واسطے باندھے پھر رہے ہو۔ پیچھا مت چھوڑو ان کا۔ اگلے روز امجد پھر ان کی کوٹھی پر جا کھڑا ہوا۔ دس بجے وہ دفتر گئے، یہ ساتھ ساتھ گیا۔ چار بجے واپس آئے، یہ ساتھ واپس آیا کلب گئے، رات کو پکچر گئے، امجد سائے کی طرح ساتھ رہا، اگلے روز شاپنگ کیلئے گئے۔ امجد بھی شاپنگ کیلئے گیا۔ وہ سٹیشن پر کسی سے ملنے۔ امجد بھی گیا۔ غرضیکہ بازار، ڈاک خانہ، کیفے، سینما، باغ، اور جہاں بھی وہ جاتے یہ ساتھ رہتا۔ یہاں تک کہ وہ پچاس ساٹھ دور ایک جگہ گئے۔ امجد بھی پچاس ساٹھ میل دور اسی جگہ گیا۔ انہوں نے بہتیرا کہا کہ میں وعدہ کرتا ہوں کہ انٹرویو میں تمھارا خیال رکھوں گا۔ لیکن شیطان کی ہدایت کے مطابق امجد بولا کہ وعدہ نہیں ابھی لے لیجئے۔ ۔ انہوں نے اسے دھمکایا چمکایا بھی، لیکن اس پر کوئی اثر نہ ہوا۔ کہنے لگا میں ساری عمر اسی طرح آپ کیساتھ ساتھ رہوں گا۔ آخر وہ اس قدر تنگ آئے کہ انہوں نے امجد کو منتخب کر لیا۔ اس کامیابی پر ایک زبردست دعوت ہوئی۔ تعویذ پر اب پیتل کا خول چڑھایا گیا اور ہر وقت اسے معطر رکھا جاتا تھا۔ شیطان کی معرفت اس بزرگ کیلئے کچھ نذرانہ بھی بھیجا گیا۔
جسے انہوں نے بمشکل قبول کیا۔ میں نے مصمم ارادہ کر لیا کہ میں بھی ایک تعویذ اپنے لیے بنواؤں گا۔ مڈی نے بھی شیطان سے یہی خواہش ظاہر کی۔
اب اس لڑکی کی باری آئی۔ سب سے پہلے تو وہاں رسائی کا سوال تھا۔ ان کا نیا کتا نہایت ہی ہیبت ناک اور آدم خور قسم کا تھا۔ اسے دیکھ کر ہی امجد کی روح قفس عنصری سے پرواز کر جاتی تھی۔ بڈی نے مشورہ دیا کہ کچھ کھلا پلا دیا جائے، جس سے وہ انا للہ ہو جائے۔ لیکن وہ کتا کچھ ایسا بورژوا ذہنیت کا واقع ہوا تھا کہ ایسی ویسی چیزوں کو سونگھتا تک نہیں تھا۔ شیطان نے تعویذ چھو کر کہا۔ ۔۔۔ ۔۔ جانتے بھی ہو یہ کیا چیز ہے، تمہارے بازو پر ؟ یہ تعویذ ہے ہمیشہ تمھاری حفاظت کرے گا۔ خواہ تم شیروں سے دل لگی کرتے پھرو، بال تک بیکا نہ ہو گا۔ کافی لمبی بحث کے بعد امجد مانا۔ اگلے روز علی الصبح امجد نے کتے کی ایسی مرمت کی کہ طبعیت صاف کر دی۔ اسی دن سے امجد اور کتا بڑے گہرے دوست بن گئے۔ امجد کو دیکھ کر وہ نہ صرف دم ہلاتا، بلکہ باقاعدہ مزاج پرسی کر کے ساتھ ساتھ چلتا۔
وہ صاحب جو گھر آیا کرتے تھے ان کیلئے بھی یہی نسخہ پیش کیا گیا۔ لیکن بڈی نہ مانا، بولا کہ کتے اور انسان میں کشھ تو فرق ہونا چاہئیے۔ بہتر ہو گا کہ پہلے انہیں دھمکایا چدمکایا جائے۔ وہ صاحب قد میں امجد سے دگنے تھے۔ امجد پہلے تو بہت ڈرا لیکن جب شیطان نے ڈانٹ کر کہا کہ اس طرح وہ اپنی نہیں بلکہ تعویذ کی توہین کر رہا ہے، اور سے کوئی چھو تک نہیں سکتا، تو امجد ان صاحب سے ملا اور انہیں صاف صاف بتا دیا کہ خبردار جو آئندہ سے اس گھر میں قدم رکھا۔ انھوں نے حیران ہو کر پوچھا کہ میاں تم ہو کون ؟ یہ بولا کہ میں کوئی بھی ہوں، لیکن واضح رہے کہ میں نے آپ جیسے بہت سوں کو سیدھا کیا ہے۔ بس خیریت اسی میں ہے کہ آئندہ آپ اس گھر کا رخ نہ کریں۔ امجد نے کچھ اس طرح گفتگو کی کہ وہ صاحب واقعی سہم گئے۔ امجد نے چلتے وقت کہا کہ میرا ارادہ تو کچھ اور تھا۔ لیکن فی الحال صرف انتباہ کرنے پر اکتفا کرتا ہوں۔ آپ سمجھدار ہیں تو سمجھ جائیں گے۔ اس دن کے بعد وہ صاحب ایسے غائب ہوئے جیسے گدھے کے سر سے سینگھ۔
امجد لڑکی سے ملا۔ خدا جانے کیا باتیں ہوئیں، لیکن سنیچر کو ان دونوں کو میٹنی پر دیکھا گیا۔ لڑکی واقعی نہایت پیاری تھی۔ امجد اس کے سامنے بالکل حکم کا غلام معلوم ہو رہا تھا۔ لیکن خوب اکڑ اکڑ کر چل رہا تھا۔
بڈی تو اب تعویذ پر باقاعدہ ایمان لے آیا تھا۔ بولا کہ میں یہ سب کچھ لکھ کر امریکہ کے سب سے مشہور سائنس کے رسالے میں بھیجوں گا میں نے اس قدر زود اثر اور کارآمد عمل آج تک نہیں دیکھا۔ یہ کسی جادو سے کم نہیں۔ معجزے ابھی ختم نہیں ہوئے۔ مشرق واقعی نہایت پراسرار جگہ ہے۔
تعویذ پر چاندی کا خول چڑھایا گیا۔ ہر دوسرے تیسرے ہم سب اسے چومتے اور آنکھوں سے لگاتے
اب امجد کی تمام مشکلیں حل ہو چکی تھیں، صرف اس کی شادی باقی تھی۔ لیکن یہ مشکل سب سے کڑی تھی، کیونکہ اس کے ہونے والے خسر واقعی نہایت گرم خشک انسان تھے۔ امجد نے کئی مرتبہ پیغام بھجوایا، لیکن ہر مرتبہ پیغام واپس لوٹا دیا گیا۔
شیطان نے امجد کو یقین دلایا کہ اس تعویذ کے سامنے وہ بزرگ تو کیا ان کے فرشتے بھی سر جھکائیں گے۔ تم آج ہی ان سے ملو اور بغیر کسی تمہید کے ان سے سب کہہ ڈالو۔ امجد نے یہی کیا۔ بزرگ نے ملاقات کی وجہ پوچھی۔ امجد نے صاف صاف کہہ دیا کہ قبلہ میں آپ کا آنریری فرزند بننا چاہتا ہوں اور آُ کی دختر نیک اختر سے عقد کا خواہش مند ہوں۔ اس مرتبہ آپ ہرگز انکار نہیں کر سکتے۔ اگر آپ بحث کرنا چاہتے ہیں، تو بسمہ اللہ۔ ۔ پہلے آپ کو میرے شہزادے پن پر اعتراض تھا، سو اب یہ خاکسار باقاعدہ ملازم ہے۔ اگرچہ تنخواہ صرف ڈھائی سو روپے ماہوار ہے۔ لیکن اوپر کی آمدنی کافی ہے۔ مانا کہ یہ بہت زیادہ نہیں، لیکن گستاخی معاف جب آپ کی شادی ہوئی تھی تب آپ کیا کماتے تھے اور تب آپ کے خیالات کیا تھے ؟ خصوصاً اپنے خسر صاحب کے متعلق۔ یقیناً آپ بالکل میری طرح ہوں گے۔ اور پھر شروع شروع میں ڈھائی سو روپے اتنی بری تنخواہ نہیں جبکہ اوپر کی آمدنی بھی شامل ہو۔ شاید آپ یہ فرمائیں گے کہ آپ اپنے رشتہ داروں سے اس سلسلے میں دریافت کرنا چاہتے ہیں۔ سو یہ بالکل غلط ہے۔ میں نے اپنے کسی رشتہ دار سے نہیں پوچھا اور پھر رشتہ دار بالکل الٹے سیدھے مشورے دیں گے۔ یہ ایک ذاتی معاملہ ہے اس میں کسی اور کا دخل نہیں ہونا چاہئیے۔ آج آپ کو ہاں کرنی ہی ہو گی۔ اس طرح امجد نے وہ داہنے اور بائیں ہاتھ دیے کہ ان بزرگ کو ہتھیار ڈالنے پڑے اور ہاں کرنی پڑی۔
اسی شام کو ایک بھاری جشن منعقد ہوا۔ تعویذ پر سونے کا خول چڑھایا گیا۔ شیطان کی معرفت ان پہنچے ہوئے بزرگ کو نذرانہ بھیجا گیا۔ میں نے اور بڈی نے شیطان کی بہت منتیں کیں کہ کسی طرح ایک ایک تعویذ ہمارے لیے بھی لادو، تاکہ ہمارے بھی دن پھر جائیں۔ شیطان نے وعدہ کیا کہ وہ کوشش کریں گے۔ ھم تقریباً ہر روز تعویذ کو آنکھوں سے اور دل سے لگاتے۔
میں اور بڈی کیفے میں بیٹھے امجد اور مسز امجد کا انتظار کر رہے تھے۔ ہم بڑے مسرور تھے کیونکہ شام کو شیطان نے تعویذ لانے کا وعدہ کیا تھا۔ ہم دونوں دل ہی دل میں اپنے مستقبل کے متعلق پروگرام بنا رہے تھے کہ امجد اور مسز امجد پہنچے۔ آج امجد ایک ایسا دلیر اور بے پرواہ نوجوان نظر آ رہا تھا، جس کی آنکھوں میں چمک تھی، جس کے دل میں امنگیں تھیں اور جس نے ایک بہت اچھا سوٹ پہن رکھا تھا باتوں باتوں میں اس شام کا بھی ذکر ہوا جب امجد کو ہم نے اسی جگہ روتے پیٹتے دیکھا تھا۔ مسز امجد کے فراق مین۔ صرف چند مہینوں میں کیا سے کیا ہو گیا۔ صرف ایک مقدس عمل کی بدولت۔ اس تعویذ کی برکت سے جو امجد کے بازو پر بندھا ہوا تھا۔ شیطان نے بھی دوستی کا حق ادا کر دیا تھا۔ نہ جانے کن کن مصیبتوں کے بعد یہ تعویذ دستیاب ہوا ہو گا۔ اگر آج امجد کے پاس یہ تعویذ نہ ہوتا، تو غالباً وہ پھر یہیں بیٹھا سینڈوچز اور کیک کے ٹکڑوں پر آنسو بکھیر رہا ہوتا۔ اور اب ہمیں بھی ایسے تعویذ ملیں گے، ہمیں اپنے اوپر رشک آنے لگا۔ بار بار ہم دروازے کی طرف دیکھ رہے تھے، شیطان کے انتظار میں۔
بڈی نے تعویذ کی زیارت کرنا چاہی۔ امجد نے نہایت حفاظت سے تعویذ اتارا اور بڈی کی ہتھیلی پر رکھ دیا۔ بڈی نے اسے چوما، آنکھوں سے لگایا اور پوچھا۔ "بھلا تعویذوں میں کیا لکھا ہوتا ہے ؟" ہم نے کہا کہ عبارت ہوتی ہے۔ بڈی سمجھ نہ سکا۔ اسے بتایا گیا کہ مقدس الفاظ ہوتے ہیں اور ایک خاص ترتیب سے لکھے جاتے ہیں۔ اس نے پوچھا کہ بھلا اس تعویذ میں کون سے الفاظ ہیں ؟ ہم نے لاعلمی ظاہر کی۔ بڈی کہنے لگا کیوں نہ اسے کھول کر دیکھیں۔
امجد بولا۔ ہرگز نہیں، اس طرح بے ادبی ہوتی ہے۔ میں نے بھی کہا کہ گناہ ہو گا۔ لیکن بڈی نہ مانا۔ بولا، مجھے بڑا اشتیاق ہے سارا گناہ میرے ذمے رہا۔ میں نہایت ادب سے کھولوں گا اور الفاظ دیکھ کر بالکل اسی طرح بند کر دوں گا، پھر تم اسے اپنے بازو پر باندھ لینا۔
میں بھی سوچنے لگا کہ بھلا دیکھیں تو سہی وہ کون سے الفاظ ہیں، جنہوں نے جادو کی طرح اثر دکھایا۔ میں نے بھی بڈی کا ساتھ دیا۔ امجد کہنے لگا کہ کھولنے سے تعویذ کی تاثیر جاتی رہے گی۔ بڈی بولا، بھئی سچ پوچھو تو اب اس تعویذ نے اپنا کام کر دیا ہے، اب تمہیں کسی مزید تاثیر کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم نے مسز امجد سے پوچھا۔ انھوں نے اجازت دے دی۔ آخر امجد بھی مان گیا۔ اس شرط پر کہ اگر کوئی گناہ ہوا تو بڈی کے سر پر ہو گا۔
بڈی نے بڑی حفاظت سے خول کھولا اور تعویذ نکالا۔ پھر آہستہ آہستی موم جامہ کھولنے لگا۔ میری آںکھوں کے سامنے پہنچے ہوئے بزرگوں کے نورانی چہرے، فقیروں کے مزار، سبز غلاف، پھولوں کے ہار، چلتے ہوئے چراغ، مزاروں کے گنبد اور خانقاہیں پھرنے لگیں۔ جیسے عنبر اور لوبان کی خوشبو سے سب مہک اٹھا اور پاکیزہ روحیں ہمارے گرد منڈلانے لگیں۔ فرشتوں کے پروں کی پھرپھڑاہٹ سنائی دینے لگی۔ ماحول کچھ ایسا مقدس سا ہو گیا تھا کہ میرا دل دھڑکنے لگا۔ ہونٹ خشک ہو گئے۔
بڈی نے تعویذ کھولا اور پڑھنے لگا۔ میں رہ نہ سکا۔ بڑی بےصبری سے کاغذ چھین لیا۔ کاغذ پر شیطان کی مخصوص طرزِ تحریر میں یہ مصرعہ لکھا تھا۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
" آیا کرو اِدھر بھی مری جاں کبھی کبھی "، ۔

تربیت اطفال

بچوں سے کبھی کبھی نرمی سے بھی پیش آئیے۔
بچے سوال پوچھیں تو جواب دیجیے مگر اس انداز میں کہ دوبارہ سوال نہ کر سکیں۔اگر زیادہ تنگ کریں تو کہہ دیجیے جب بڑے ہو گے سب پتا چل جائے گا۔
بچوں کو بھوتوں سے ڈراتے رہیے۔شاید وہ بزرگوں کا ادب کرنے لگیں۔ بچوں کو دلچسپ کتابیں مت پڑھنے دیجیے کیونکہ کورس کی کتابیں کافی ہیں۔
اگر بچے بیوقوف ہیں تو پروا نہ کیجیے۔بڑے ہو کر یا تو جینیئس بنیں گے یا اپنے آپ کو جینیئس سمجھنے لگیں گے۔ بچے کو سب کے سامنے مت ڈانٹئے۔اس کے تحت الشعور پر برا اثر پڑے گا۔ایک طرف لے جا کر تنہائی میں اس کی خوب تواضع کیجیے۔
بچوں کو پالتے وقت احتیاط کیجیے کہ ضرورت سے زیادہ نہ پل جائیں،ورنہ وہ بہت موٹے ہو جائیں گے اور والدین اور پبلک کے لیے خطرے کا باعث ہوں گے۔
اگر بچے ضد کرتے ہیں تو آپ بھی ضد کرنا شروع کر دیجیے۔ وہ شرمندہ ہو جائیں گے۔
ماہرین کا اصرار ہے کہ موزوں تربیت کے لیے بچوں کا تجزیۂ نفسی کرانا ضروری ہے۔لیکن اس سے پہلے والدین اور ماہرین کا تجزیۂ نفسی کرا لینا زیادہ مناسب ہو گا۔دیکھا گیا ہے کہ کنبے میں صرف دو تین بچے ہوں تو وہ لاڈلے بنا دئیے جاتے ہیں لہذا بچے صرف دس بارہ ہونے چاہئیں، تا کہ ایک بھی لاڈلا نہ بن سکے۔
اسی طرح آخری بچہ سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے بگاڑ دیا جاتا ہے،چنانچہ آخری بچہ نہیں ہونا چاہئیے۔

اِقتباس

جو کچھ کہنے کا ارادہ ہو ضرور کہیے۔۔دورانِ گفتگو خاموش رہنے کی صرف ایک وجہ ہونی چاہیے۔۔وہ یہ کہ آپ کے پاس کہنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔۔۔ ورنہ جتنی دیر چاہے، باتیں کیجئے۔۔۔ اگر کسی اور نے بولنا شروع کر دیا تو موقع ہاتھ سے نکل جائے گا اور کوئی دوسرا آپ کو بور کرنے لگے گا۔۔۔ چنانچہ جب بولتے بولتے سانس لینے کے لیے رُکیں تو ہاتھ کے اشارے سے واضح کر دیں کہ ابھی بات ختم نہیں ہوئی یا قطع کلامی معاف کہہ کر پھر سے شروع کر دیجئے۔۔اگر کوئی دوسرا اپنی طویل گُفتگو ختم نہیں کر رہا تو بے شک جمائیاں لیجئے، کھانسیئے، بار بار گھڑی دیکھیئے۔۔۔ ابھی آیا۔ ۔۔ کہہ کر باہر چلے جائیں یا پھر وہیں سو جایئے۔
یہ بالکل غلط ہے کہ آپ لگاتار بول کر بحث نہیں جیت سکتے۔۔اگر آپ ہار گئے تو مُخالف کو آپ کی ذہانت پر شبہ ہو جائے گا۔۔البتہ لڑیئے مت، کیونکہ اس سے بحث میں خلل آ سکتا ہے۔۔۔ کوئی غلطی سر زد ہو جائے تو اسے بھی مت مانیے۔۔لوگ ٹوکیں، تو اُلٹے سیدھے دلائل بلند آواز میں پیش کر کے اُنہیں خاموش کرا دیجئے،ورنہ خوامخواہ سر پر چڑھ جائیں گے۔۔۔ دورانِ گفتگو لفظ آپ کا استعمال دو یا تین مرتبہ سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔۔اصل چیز میں ہے۔ ۔۔ اگر آپ نے اپنے متعلق کچھ نہ کہا تو دوسرے اپنے متعلق کہنے لگیں گے۔۔۔ تعریفی جملوں کے استعمال سے پرہیز کریں۔۔۔ کبھی کسی کی تعریف مت کریں۔۔ورنہ سننے والے کو شبہ ہو جائے گا کہ آپ کو اُس سے کوئی کام ہے۔۔۔ اگر کسی شخص سے کچھ پوچھنا ہو تو، جسے وہ چھُپا رہا ہو،تو بار بار اُس کی بات کاٹ کر اُسے چڑایئے۔۔۔ وکیل بھی اسی طرح مقدّمے جیتتے ہیں۔ ۔۔
٭٭٭