اسواہ کامل

جس طرح ہم کو ان تمام امور کے متعلق جو ہمارے مختلف افعال جسمانی سے تعلق رکھتے ہیں، عملی نمونوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح وہ افعال جن کا تعلق دل و دماغ سے ہے جن کو ہم اعمالِ قلب یا احساسات و جذبات سے تعبیر کرتے ہیں، ان سب کے لئے ہم کو ایک عملی سیرت کی حاجت ہوتی ہے۔


ایک ایسی شخصی زندگی جو ہر طائفہ انسانی اور ہر حالتِ انسانی کے مختلف مظاہر اور ہر قسم کے صحیح جذبات اور کامل اخلاق کا مجموعہ ہو، صرف محمد رسول اﷲ ﷺ کی سیرت ہے۔
  • اگر تم دولت مند ہو تو مکہ کے تاجر اور بحرین کے خزینہ دار کی تقلید کرو، اگر تم غریب ہو تو شعبِ ابی طالب کے قیدی اور مدینہ کے مہمان کی کیفیت سنو
  • اگر تم بادشاہ ہو تو بدر و حنین کے سپہ سالار پر نگاہ دوڑاؤ، اگر تم نے شکست کھائی ہے تو معرکہ احد سے عبرت حاصل کرو
  • اگر تم استاد ہو تو صفہ کی درس گاہ کے معلم قدسؐ کو دیکھو، اگر تم واعظ و ناصح ہو تو مسجدِ مدینہ کے منبر پر کھڑے ہونے والے کی باتیں سنو
  • اگر تم تنہائی اور بے کسی کے عالم میں حق کے منادی کا فرض سر انجام دینا چاہتے ہو تو طائف والے کی باتیں سنو، اگر تم تنہائی اور بے کسی کے عالم میں حق کے منادی کا فرض سر انجام دینا چاہتے ہو تو مکہ کے بے یار و مددگار نبیؐ کا اسوۂ حسنہ تمہارے سامنے ہے۔
  • اگر تم حق کی نصرت کے بعد اپنے دشمنوں کو زیر اور اپنے مخالفوں کو کم زور بنا چکے ہو تو فاتحِ مکہ کا نظارہ کرو
  • اگر تم اپنے کاروبار اور دنیاوی جدوجہد کا نظم و نسق درست کرنا چاہتے ہو تو بنی نضیر، خیبر اور فدک کی زمینوں کے مالک کے کاروبار اور نظم و نسق کو دیکھو
  • اگر یتیم ہو تو آمنہ اور عبداﷲ کے جگر گوشہ کو نہ بھولو
  • اگر بچے ہو تو حلیمہ سعدیہ کے لاڈلے کو دیکھو، اگر تم جوان ہو تو مکہ کے ایک چرواہے کی سیرت پڑھو
  • اگر تم سفری کاروبار میں ہو تو کاروان سالار کی مثالیں ڈھونڈو
  • اگر تم عدالت کے قاضی ہو تو اور پنچایتوں کے ثالث ہو تو کعبہ میں نورِ آفتاب سے پہلے داخل ہونے والے ثالث کو دیکھو جو حجرِ اسود کو کعبہ کے ایک گوشہ میں کھڑا کر رہا ہے۔ مدینہ کی کچی مسجد کی صحن میں بیٹھنے والے منصف کو دیکھو جس کی نظرِ اوصاف میں شاہ و گدا اور امیر و غریب سب برابر ہیں
  • اگر تم بیویوں کے شوہر ہو تو خدیجہؓ اور عائشہؓ کے مقدس شوہرؐ کی حیاتِ پاک کا مطالعہ کرو
  • اگر تم اولاد والے ہو تو فاطمہؓ کے باپؐ اور حسنؓ و حسینؓ کے نانا کا حال پوچھو
غرض تم کچھ بھی ہو اور کسی حال میں بھی ہو تمہاری زندگی کے لیے نمونہ، تمہاری سیرت و اخلاق کی درستی و اصلاح کے لیے سامان، تمہارے ظلمت خانے کے لیے ہدایت کا چراغ اور راہ نمائی کا نُور محمد ﷺ کی جامعیتِ کبری کے خزانے میں ہر وقت اور ہمہ دم مل سکتا ہے، اس لیے طبقاتِ انسانی کے ہر طالبِ علم اور نُورِ ایمانی کے ہر متلاشی کے لیے صرف محمّد رسول اﷲ ﷺ کی سیرت ہی ہدایت کا نمونہ اور نجات کا ذریعہ ہے۔
آپکی زندگی میں بیک وقت اس قدر مختلف اوصاف نظر آتے ہیں جو کسی انسان میں چشم تاریخ نے کبھی یکجا نہیں دیکھا۔ بادشاہ ایسا کہ ایک پورا ملک اسکی مٹھی میں ہو اور بے بس ایسا کہ خود اپنے آپ کو اپنے قبضہ میں نہ جانتا ہو بلکہ خدا کے قبضہ میں، دولتمند ایسا کہ خزانے کے خزانے اونٹوں پہ لدے پھندے اسکے دارالحکومت میں آتے ہوں اور محتاج ایسا کہ مہینوں اسکے گھر چولہا نہ جلتا ہو اور کئ کئ وقت اس پر فاقے کے گزر جاتے ہوں، سپہ سالار ایسا ہو کہ مٹھی بھر نہتے آدمیوں کو لیکر ہزاروں غرق آہن فوجوں سے کامیاب لڑائی لڑا ہو اور صلح پسند ایسا کہ ہزاروں پر جوش جاں نثاروں کی ہمرکابی کے باوجود صلح کے کاغز پر بے چوں چراں دستخط کر دیتا ہو، با تعلق ایسا ہو کہ عرب کے ذرہ ذرہ کی اسکو فکر، بیوی بچوں کی پرواہ، غریب مفلس مسلمانوں کا اسکو خیال، خدا کو بھولی ہوئی دُنیا سدھارنے کی ہمہ وقت اک دُھن غرض سارے سنسار کی اسکو چِنتا ہو اور بے تعلق ایسا کہ اپنے خدا کے سوا اسکو کسی اور کی یاد نہ ہو، اسنے کبھی اپنی ذات کے لۓ خود کو برا کہنے والوں سے بدلہ نہ لیا اور اپنے ذاتی دشمنوں کے حق میں دعائے خیر کی اور انکا بھلا چاہا لیکن خدا کے دشمنوں کو اور حق کے راستہ میں روڑا اٹکانے والوں کو ہمیشہ جھنم کی دھمکیاں دی اور عذاب الٰہی سے ڈراتا رہا، عین اس وقت جب اس پر کشور کشا فاتح کا شبہ ہو وہ پیغمبرانہ معصومیت کے ساتھ ہمارے سامنے آ جاتا ہے، عین اس وقت جب ہم اس کو شاہ عرب کہ کر پکارنا چاہتے ہوں وہ کھجور کی چھال کا تکیہ لگاۓ کھردری چٹائ پر بیٹھا درویش نظر آتا ہو، عین اس وقت جس دن عرب کے اطراف سے آ آ کر اسکے صحنِ مسجد میں مال و دولت کا انبار لگا ہوتا ہے اسکے گھر میں فاقہ کی تیاری ہو رہی ہوتی ہے، عین اس وقت جب لڑائی کے قیدی مسلمانوں کے گھروں میں لونڈی و غلام کی صورت بھیجے جاتے ہوں اور فاطمہ بنت رسول جاکر اپنے ہاتھوں کے چھالے اور سینہ کے داغ باپ کو دکھاتی ہیں جو چکی پیستے پیستے اور مشکیزہ بھرتے بھرتے ہاتھ اور سینہ پر پڑ گئے تھے، عین اس وقت جب آدھا عرب اسکے زیر نگیں ہوتا ہے حضرتِ عمر حاضرِ دربار ہوتے ہیں اور ادھر ادھر نظر اٹھا کر کاشانۂ نبوی کے سامان کا جائزہ لیتے ہیں، دیکھتے ہیں کہ آپ ایک چٹائی پر آرام فرما ہیں جسمِ اطہر پر بدھیوں اور بانوں کے نشان پڑے ہیں اک طرف مٹھی بھر جو رکھی ہے سرور کائنات کے گھر کی یہ کل کائنات دیکھ کر عمر رو پڑتے ہیں، آپ سبب دریافت کرتے ہیں کہ عمر روتے کیوں ہو؟ عمر عرض کرتے ہیں کہ اس سے بڑھ کر رونے کا اور کونسا موقع ہوگا کہ قیصر و کسریٰ باغ و بہار کے مزے لوٹتے ہیں اور آپ اس حالت میں ہیں ارشاد ہوتا ہے عمر! کیا تم اس پر راضی نہیں کہ قیصر و کسریٰ دنیا کے مزے لوٹیں اور ہم آخرت کے۔

(ماخذ: خطباتِ ؐمدراس ازسید سلیمان ندوی)